Tarikh-eAhmadiyyat V04

Tarikh-eAhmadiyyat V04

تاریخ احمدیت (جلد 4)

1914ء تا 1927ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ کے سوانح حیات قبل از خلافت اور خلافت ثانیہ کے عظیم الشان تبلیغی، تربیتی اور علمی کارہائے نمایاں اور زریں اسلامی خدمات۔(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 5)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد چهارم سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی اصلح الموعود ید اللہ تعالی کے سوانح حیات قبل از خلافت اور خلافت ثانیہ کے عظیم الشان تبلیغی اتر بیتی اور علمی کار ہائے نمایاں اور زریں اسلامی خدمات ۱۹۱۴ء تا ۱۹۲۷ء مؤلفہ دوست محمد مشاہد

Page 2

نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تاریخ احمدیت جلد چهارم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : : ISBN-181-7912-111-9 تعداد شائع کردہ مطبع TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-4 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-111-9

Page 3

اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ از قلم حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبه مدظلها العالی بر اورم مکرم دوست محمد صاحب شاہد نے تاریخ احمدیت جلد چہارم نیا ایڈیشن جو خلافت ثانیہ کے حالات پر مشتمل ہے اس سال لکھ کر ایک اور کار عظیم و مبارک ثواب حاصل کیا ہے.خدا تعالیٰ اجر نیک بخشے اور اس کتاب کو بہت مقبول و موثر بنائے اور ان کے قلم میں برکت بخشے.اور خاص نصرت فرمائے آمین.۱۴ مارچ ۱۹۱۴ ء کا دن ایک خاص دن تھا.دل دھڑک رہے تھے.لبوں پر دعا ئیں تھیں کہ خدا تعالیٰ جماعت کو فتنہ سے بچالے اور خلافت کا قیام ہو جائے.وہ خلافت جو مبارک ہو اور کوئی پیج ایسا شامل نہ ہو کہ بنیادی عقائد احمدیت کو کمزور کر نیوالا ہو.گو اول دعا قیام خلافت کی تھی اور کسی بھی خاص فرد کا خیال ہمارے دلوں میں نہ تھا مگر یہ ضرور تھا کہ پچھلے چھ سالہ حالات سے جو بعض عناصر کے متعلق علم ہوا تھا.اس سے بہت خوف تھا کیونکہ حضرت سید ناخلیفہ اسیح الثانی کی تو یہی تڑپ ظاہر تھی کہ خلافت قائم رہ جائے.یہ لوگ جس کو بھی منظور کریں ہم بیعت کریں گے مگر اس وقت جماعت اس خطر ناک اقدام سے بچ جائے.شام ہو چکی تھی.باہر سے کوئی خبر نہ آسکتی تھی.حضرت اماں جان اور میں کوٹھی دار السلام کے برآمدے میں خاموش منتظر بیٹھے تھے کہ باہر سے آواز آئی.مبارک ہو خلیفہ کا انتخاب ہو گیا.حضرت میاں صاحب کی بیعت ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ کا ہزار شکر کیا.وہ وقت مسرت اور خوشی کا بھی تھا مگر ساتھ غم بھی تھا.ایک تو وہ جو پہلے ہی تھا یعنی حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا.دوسراغم چند پرانے لوگوں کے محض تعصب اور ضد اور بغض وکینہ کی وجہ سے سلسلہ سے الگ ہو جانے کا تھا.(ان میں سے دو چار تو اصل جڑ تھے فتنہ کی اور کچھ محض دوستی کی وجہ سے گھٹتے چلے گئے تھے ) کہ آخر یہ ان کو ہو کیا گیا ؟ آنکھوں والے جان بوجھ کر اندھے کیوں بن گئے.مگر خدا تعالیٰ کا منشاء اسی صورت میں پورا ہونا تھا اور "محمود" کی خلافت مقدر تھی.ایسی پٹی بندھی ایسی

Page 4

زبان اڑ گئی اپنی ایک اسی بات پر کہ خلافت کی جانب نہ آنا تھا نہ آئے اور جماعت نے گوہر درخشاں چن لیا.الحمد للہ.خود حضرت خلیفہ المسح الثانی کو ان لوگوں کے جانے کا رنج بہت تھا.ان کی گمراہی کا صدمہ تھا.اور جو واپس آیا اس کی بیحد خوشی آپ کو ہوئی.میر حامد شاہ مرحوم جو دور بیٹھے غلط فہمی میں پہلے پہل مبتلا کر دیئے گئے تھے جس دن ان کا خط بیعت خلافت کے لئے آیا.آپ نے سیدھے باہر سے آن کر پہلے حضرت اماں جان کو مبارکباد دے کر یہ بشارت سنائی اور خود فورا بیت الدعا میں جا کر سجدہ شکر ادا کیا اور نفل بھی پڑھے.میں خود وہاں موجود تھی دیر تک نماز و دعا کے بعد آپ باہر نکلے تھے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کو کبھی بھی خلافت کی آرزو نہ تھی.یہ ضلعت محض نصرت الہی سے اور اس کی رضاء سے ان کو پہنایا گیا.میں نے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ سے ہی جب فتنوں کے دھوئیں اٹھنے شروع ہو گئے تھے آپ کی باتیں سنیں.آپ کی تڑپ دیکھی تو یہی کہ جماعت فتنہ سے اور عقا ئد تزلزل سے بچ جائیں.وہ سال خصوصا حضرت خلیفہ اول کی علالت کا بہت سخت تھا.آپ بے حد متفکر رہتے اور دعاؤں میں مصروف رہتے اور گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتا.ہر وقت ایک کرب کی حالت رہتی تھی.میرے میاں مرحوم کے ساتھ میں نے متواتر گھنٹوں آپ کو بڑے درد کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا ہے اور اسی طرح گھر میں بھی اکثر.یہ سخت ظالمانہ الزام تھا کہ یہ اپنی خلافت چاہتے ہیں.میرا تو دل کانپ جاتا ہے آپ کے اندرونی خیالات جانتے ہوئے ایسے سخت افترا این کر.خواہ مخواہ کی عداوت ہو گئی تھی ایک بے گناہ نے.اگر خدا تعالیٰ نے ان کو علم بخشا تھا، فراست عطا فرمائی تھی ، خدمت دین کی بچی تڑپ دل میں بھر دی تھی تو یہ اس مولا کریم کا احسان اور اس کا فعل تھا دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ بالائے سرش زهوش مندی جدید می تافت ستاره بلندی صاف قلوب والے محبان صادق خوش ہوتے تھے مگر حاسد ناحق جل کر الزام تراشیوں اور سازشوں پر اتر آئے تھے.آپ خلیفہ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو بشارت پسر موعود کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملی تھی اس کا لفظ بلفظ پورا ہوتے ایک عالم نے دیکھ لیا.آپ کے ہاتھوں سے عظیم الشان کام

Page 5

ج سر انجام پائے.جو عہد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد مبارک کے سامنے کیا تھا وہ ایسا نبھایا کہ جیسا نبھانے کا حق ہے.قدم قدم پر نصرت الہی اپنی پوری شان سے شامل حال ہو کر جلوہ گر نظر آئی.آپ کی تفسیریں.درس قرآن، تحریریں اور تقریریں، آپ کے خطبات ایک بیش بہا اور بہت بڑا ذخیرہ ہیں.اس پر آپ کی قوت عمل ، قوت فیصلہ، عزم راسخ ، جماعت کی ہر موقع پر رہنمائی ، دنیا کے ہر گوشہ میں احمدیت کے اسلامی مشن کے قیام، غرض ہر بات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وجود میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص روح پھونک دی تھی.اور اس کا خاص فضل اور رحم آپ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے.آپ کے کارناموں سے دشمن بھی منکر نہیں ہو سکتا.ایک کمزور صحت کا لڑکا جس کو خدائے قادر ومقتدر نے میدان میں اتارا بڑے بڑوں سے بازی لے گیا.جو کام عالم اسلام علم ، دولت اور زبانی دعوی کے باوجو دل کر نہ کر سکا تھا وہ اس نے کر دکھایا.حاسد اور معاند بھی محض لغو باتیں بنانے کے سوا اور کچھ نہ کر سکے اور ہر قوم کے افراد، کم سمجھ نادان بھی اور عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی ، ایمان نہ لانے والے تک سبھی ایک بار انگشت بدنداں ضرور رہ گئے.اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ اپنی مزید رحمت کا سایہ بنا کرتا دیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور آپ کو اپنی قدرت سے شفا بخش دے.آمین مبارکہ

Page 6

احباب جماعت کا فرض رقم فرموده جناب چوهدری محمد ظفر الله خان صاحب جج عالمی عدالت انصاف هیگ ہالینڈ " تاریخ احمدیت کی چوتھی جلد نیا ایڈیشن سے خلافت ثانیہ کی تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے.یعنی اس دور کی جس کی خبر پہلے سے وحی الہی میں ان پر شوکت الفاظ میں دی گئی ہے:.مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ خلافت ثانیہ کی تاریخ ایک لحاظ سے سبز اشتہار کی پیشگوئی کے ظہور کی تفصیل ہوگی لیکن یہ یادرکھنا چاہئے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہوتا ہے اور صرف ایک دور تک محدود نہیں رہتا بلکہ لمبے عرصہ تک چلتا ہے.جو نشان اس کے ظہور کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں وہ صرف ایک ملک یا ایک نسل کی ہدایت کا موجب اور ذریعہ نہیں بنتے ان کا حلقہ اثر بہت وسیع اور ممتد ہوتا ہے.خود پیشگوئی کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کا موعود دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور بہتوں کی ہدایت کا موجب ہو گا.اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ سلسلہ کی تاریخ کی حفاظت کے علاوہ پیشگوئی کی تائید میں ظاہر ہونے والے نشانوں کی تاریخ اور تفصیل کو نہایت احتیاط سے محفوظ کر لیا جائے.یہ ذمہ داری اگر موجودہ نسل کے ہاتھوں سے پوری طرح سر انجام نہ دی گئی تو آنیوالی نسلوں کو شکوے کا حق بجاطور پر ہو گا کہ ہم نے غفلت سے کام لیا اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بھی جواب دہ ہوں گے اس ذمہ داری کے پیش نظر حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز متعـنـا الـلـه بطول حياتہ نے ارشاد فر مایا تھا کہ سلسلہ کی تاریخ کومحفوظ کرنے کا انتظام ہونا چاہئے.ادارۃ المصنفین کی طرف سے اس ارشاد کی تعمیل میں تین جلدیں نیا ایڈیشن تاریخ احمدیت کی شائع ہو چکی ہیں اور اب پنجم جلد شائع ہو رہی ہے.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اپنی مدت کے لحاظ سے تین چوتھائی صدی سے تجاوز کر رہی ہے.موجودہ وقت میں خال خال وہ بزرگ اور مقدس ہستیاں اب نظر آتی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.جن کی آنکھوں نے اس نور کا جلوہ اپنی آنکھوں سے

Page 7

دیکھا.جن کے خوش نصیب ہاتھوں نے ان مبارک ہاتھوں کو چھوا بلکہ وہ بزرگ بھی اب تھوڑے رہ گئے ہیں جنہوں نے حضرت خلیفہ اسح الاول کا زمانہ پایا.آپ کی مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کی اور قرآن کریم کے معارف اور نکات آپ سے سیکھے یا آپ کی زبان معجز بیان سے سنے.موجودہ نسل اور آئندہ نسلوں کے لئے سلسلہ کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے اور اس ذریعہ سے ایمان کو تازہ اور محکم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تاریخ احمدیت میں مہیا کیا جارہا ہے.تاریخ احمدیت کی چوتھی جلد نیا ایڈیشن میں خلافت ثانیہ کے دور اول یعنی ابتدائی چودہ سال کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے یا یوں اندازہ کر لیجئے کہ یہ جلد ان واقعات پر مشتمل ہے جو موجودہ نسل کے چالیس سالہ اصحاب کی پیدائش سے پہلے یا ان کی طفولیت کے زمانہ میں ظہور پذیر ہوئے تھے.ان کے لئے یہ جلد زمانے کے لحاظ سے بھی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم سب کے لئے ہدایت کا چشمہ اور روح اور دل کی غذا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے ان تمام بزرگوں کی سعی کو مشکور فرمائے جنہوں نے اس کی تالیف اور اشاعت میں مخلصانہ محنت کی ہے اور انہیں وافر اجر سے نوازے.اور ان کی محنت کے اس شیر میں شمر کو قبولیت سے نوازے اور ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اس نعمت کی پوری قدر کریں اور اس سے پورا فائدہ اٹھا ئیں.تاہم لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَازِ يُدَنَّكُمْ کے انعام کے مستحق ٹھہریں.آمین محمد ظفر اللہ خان لنڈن ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۴ء

Page 8

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود اظہار تشکر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانہ کی تاریخ اور عہد خلافت اولی کے عظیم الشان اور زندہ جاوید کارناموں کو پیش کرنے کے بعد اب ہم سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کی چالیس سالہ مقدس زندگی اور آپ کے شاندار عہد خلافت کی ابتدائی چودہ سالہ دینی تنظیمی اور علمی خدمات پر مشتمل پہلی جلد پیش کر رہے ہیں.یہ جلد ۱۹۲۷ ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں تاریخ احمدیت جیسی اہم جماعتی ضرورت کو بہت حد تک پورا کرنے کی توفیق دی ہے.اندازہ یہ ہے کہ ۱۹۶۴ء تک کی تاریخ کو مکمل کرنے کے لئے مزید دو جلدیں شائع کرنی پڑیں گی.مولف " تاریخ احمدیت مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد اور ادارة المصنفین کے کام کرنے والوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالی گذشتہ کام کو نوازے اور آئندہ ہونے والے کام کے لئے فرشتوں سے ہماری مدد فرمائے تا ہم جلد اس اہم کام سے عہدہ برآ ہوسکیں جس کی ذمہ داری سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۵۷ء میں ہم پر ڈالی تھی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی مصلح موعود ید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا زمانہ در حقیقت برکات کے لحاظ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ وعدے جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے غلبہ اسلام کے متعلق کئے تھے ان کو پورا کرنے کے لئے نہایت تفصیل کے ساتھ آپ کو یہ خبر دی تھی کہ آپ ہی کی ذریت اور آپ کی ہی نسل کا ایک عظیم الشان انسان اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.آپ کے مبارک زمانہ کے متعلق نہ صرف سید نا حضرت مسیح

Page 9

موعود عليه الصلوة والسلام کو بشارات دی گئیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ اور اولیائے امت محمدیہ کو بھی خبر دی گئی.چنانچہ مختلف رنگوں میں یہ خبریں ہمارے زمانہ تک پہنچیں اور ہم نے ان سب کو سید نا حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک میں پورا ہوتے دیکھ لیا.فــالـحـمـد لـلـه على ذلك حمداً كثيراً لا يعد ولا يحطى - مکرم مولوی دوست محمد صاحب فاضل نے مسودہ کی تیاری کے لئے قادیان اور دیگر مقامات کا سفر کیا اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں دن رات ایک کر کے ساڑھے چھ صد صفحات پر مشتمل کتاب کے مسودے کو مرتب کیا.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے اور بہترین رنگ میں جزائے خیر دے.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری.چوہدری محمد شریف صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیه، مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب مرحوم قابل شکر یہ ہیں کہ انہوں نے کتاب کے مسودہ پر نظر ڈال کر بیش قیمت مشورے دئیے.فجزاهم الله احسن الجزاء اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خاکسار کو بھی توفیق بخشی کہ اول سے آخر تک کتاب کے مسودے پر ایک نظر ڈال سکا.اور اس بات کو مد نظر رکھا کہ کتاب میں کسی بات کی کمی باقی نہ رہ جائے.کتاب کی تیاری میں جن احباب کی طرف سے تعاون حاصل رہا.ان سب کا ادارہ شکر یہ ادا کرتا ہے.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے از راہ شفقت بیرونی مراکز تبلیغ کو معلومات بھجوانے کے لئے سرکلر بھجوایا اور اس طرح بہت سی معلومات حاصل ہو گئیں.مراکز تبلیغ کے حالات پر نظر ثانی کے لئے مکرم حسن محمد خان صاحب عارف.مکرم نورالدین صاحب منیر ایم.اے ، مکرم محمد شفیق صاحب قیصر نے بھی اپنے قیمتی اوقات کو وقف کیا.مکرم صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب نے قادیان میں مضمون کے لئے مواد کی فراہمی اور مقامات مقدسہ کی تصاویر کے لئے بہت کوشش فرمائی فجزاهم الله احسن الجزاء مکرم ڈاکٹر شاہ نواز صاحب، مکرم، ڈاکٹر احسان علی صاحب اور جناب قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی بھی قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے مختلف اہم تصاویر اور بلا کس ادارہ کو مہیا کئے.مکرم شیخ محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ مختار عام، مکرم بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر.جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم.مکرم

Page 10

ح بابو فضل احمد صاحب بٹالوی نے بھی مسودے کے لئے مواد مہیا کرنے کی طرف توجہ فرمائی.مکرم سید محمد باقر صاحب خوشنویس بھی قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے نہایت محنت اور ہمت سے کتابت کی.اسی طرح مکرم مولوی نور احمد صاحب نے پروف ریڈنگ میں بہت محنت سے کام کیا.مکرم عبد الرحمن صاحب مشین مین بھی قابل شکر یہ ہیں کہ انہوں نے باوجود جنگی وقت کے اس جلد کی طباعت کو جلد از جلد مکمل کرنے کی توجہ فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء بالاخر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائے اور محض اپنے فضل سے ہماری کوششوں کو قبول فرمائے.اور آئندہ جد و جہد کے لئے قوت عطا فرماۓ.ولا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم والسلام

Page 11

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی تو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب تھے.بہت کی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 12

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلدنمبر ۵ کوجلد نمبر ۴ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد چہارم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 13

28 " 29 عنوان فہرست مضامین تاریخ احمدیت جلد۴ پیش لفظ از حضرت سیده نواب مبار که بیگم صاحبه " تاریخ احمدیت اور جماعت احمدیہ کا فرض" از حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ا صفحه پہلا باب (فصل اول) تعلیم قرآن (۱۸۹۴۲۶۱۸۸۹ء) (۱۳۱۲۲۵۱۳۰۶ھ ) عنوان فصل دوم (۱۸۹۵ء تا ۱۹۰۴ء) (۱۳۱۲ ۱۳۲۲۳ھ) انجام آتھم میں ذکر سراج منیر میں ذکر مقدمه مارٹن کلارک سے بریت کی بشارت سفرملتان حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے سوانح قبل از محمود کی آمین خارفت آسمانی نوشتوں کے مطابق ولادت 6 اشتہار تحمیل تبلیغ میں اطلاع عقیقہ بچپن کے بعض سفر اور انکے دلچسپ واقعات بچپن میں سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی حالات کا مشاہدہ حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی شفقت 7 تعلیم الاسلام سکول میں داخلہ ہم مکتب 9 10 12 اساتذہ کرام د تعلیم سے متعلق حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ دور صاحب کے تاثرات حضرت مولانا شیر علی صاحب کے تاثرات حضرت مسیح موعود اور حضرت اماں جان کی صحت کی خرابی کا اثر زمانہ تعلیم پر آغوش میں خاص تربیت 15 حضرت اماں جان کی تربیت کے شہری اصول | 16 پاکیزہ بچپن پر ایک عمومی نوٹ 17 مدرسہ کے امتحانات میں ناکامی اور اس کی حکمت انجمن : مد روان اسلام 30 23 31 32 = 33 مومی 36 38 39 & S.حضرت مسیح موعود کی بعض ابتدائی کتابوں میں حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت 40 41 حضرت مسیح موعود کے ساتھ پہلا فوٹو 26

Page 14

ا صفحه 54 الامه الامه امین 53 55 " 56 " 57 58 عنوان فصل سوم (جنوری ۱۹۰۵ ء تا مئی ۱۹۰۸ ء ) شوال ۱۳۲۲ھ تاربیع الآخر۱۳۲۶ھ ) میٹرک کے امتحان کے لئے سفر امرتسر حضرت خلیفہ اول کی شاگردی ایک بشارت پہلا الهام باغ میں قیام اور الہام حضرت مسیح موعود کے الہام کی خبر رویا میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات اور آپ کی زندگی میں تغیر عظیم سفر دیلی.لدھیانہ.امرتسر الوصیت میں آپ کی نسبت اہم پیشگوئی مدرسہ تعلیم الاسلام کے بقاء کی کامیاب کوشش 59 # مجلس معتمدین صدرانجمن احمدیہ کے ارکان میں 59 خلافت سید نا محمود کی نسبت حضرت مسیح موعود پر ミ "I 60 60 61 63 2 صفحہ 41 42 43 " " 44 " " 45 " " " 46 47 عنوان تریاق القلوب میں ذکر احکام اسلامی کی طرف تحریک کا یادگار سال انجمن تشحید الا ذبان خطبہ الہامیہ میں شرکت بیماری اور دعا سے شفایابی مقدمہ دیوار کے فیصلہ کی قبل از وقت خبر سیدنا کے بارے میں بشارت بارہ تیرہ برس کی عمر میں پہلا روزہ ندل کا امتحان اور خدائی الہام تحفہ گولڑویہ میں ذکر نزول المسیح میں ذکر پہلی شادی حضرت مسیح موعود کا مکتوب مبارک ( بنام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب) مواہب الرحمن میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب مبارک شمولیت بنام حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب) شعر و سخن کا آغاز 48 49 مولانا الطاف حسین حالی کو خط اور ان کا جواب ار جناب جلال لکھنوی سے اصلاح سخن گورداسپور میں قیام سفر لا ہورو سیالکوٹ ایک غیر مطبوعہ قلمی نوٹ 50 50 50 51 انکشاف مجلس تشحید الاذہان کا احیاء حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب کی شادی پر دعائية نظم رسالہ تشحید الا زبان کا اجراء پہلے فرزند کی ولادت

Page 15

3 عنوان سالانہ جلسہ ۱۹۰۶ ء پر پہلی پبلک تقریر حضرت مسیح موعود کا اپنے قلم سے آپ کی بعض رویا اور الہام لکھنا تشخیف الا ذبان میں مضامین حقیقۃ الوحی میں ذکر جلسہ قیام امن کی صدارت سفر شمله صفحہ 63 64 " 99 65 " عنوان پہلی تصنیف ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا صفحہ سفر بیگوال سفر کا ٹھ گڑھ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ ء پر تقریر 72 NR 73 "1 74 مدرسہ احمدیہ کی بقا کے لئے فیصلہ کن جد و جہد 75 66 | ۱۹۰۸ء کی دوسری خدمات حضرت مسیح موعود کی زندگی کا آخری سالانہ تشحید الا ذہان میں بلند پایہ مضامین " 76 " 77 78 " 79 80 80 81 82 " 82 80 83 ミ آپ کے خلاف منصوبے آپ کی نگرانی " "1 جلسه فرشتہ کا سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھانا تعلیم الاسلام ہائی سکول کا امرتسر میں میچ اور خلافت سے غیر متزلزل وابستگی آپ کی تقریر پادری بر سخٹ صاحب کے لیکچر کا جواب سفر گورو ہر سہائے اپریل ۱۹۰۸ء کا سفر لاہور آنے والے حادثہ کی قبل از وقت اطلاع 67 68 نہندوستان کے پایہ تخت دہلی میں پیغام حق پہنچانا 68 سفر کشمیر 69 انگریزی مضامین لکھنے کی مشق " ڈپٹی فقیر اللہ صاحب کے نام خط حضرت مسیح موعود کا وصال اور نخش مبارک کے مشنری کالج کے پرنسپل سے گفتگو سامنے اولوالعزم کا عہد فصل چهارم مئی ۱۹۰۸ء تا مارچ ۱۹۱۴ء) (۱۳۲۶ تا ۵۱۳۳۲) حضرت خلیفہ اول کی بیعت 70 ایک سندھی مولوی صاحب کی ملاقات 72 تشحید الاذہان میں بلند پایہ مضامین ۱۹۰۹ ء کی دوسری خدمات خلافت سے متعلق ایک نزاع اور آپ کی اولوالعزمی درس قرآن

Page 16

عنوان سالانہ جلسہ منعقدہ مارچ ۱۹۱۰ء میں تقریر احمدیہ کا نفرنس میں صدارت نو جوانوں کی تربیتی کلاس امیر مقامی قادیان کی حیثیت میں سب سے پہلا خطبہ جمعہ صفحہ 83 17 گرم 84 " مدارج تقوی عنوان تقسیم اسناد کے جلسہ میں تقریر سفر مدارس اور سفر مصر و عرب ۱۹۱۲ ء کی دوسری خدمات ایک غیر احمدی صحافی کی ملاقات حضرت خلیفہ اول کی آپ کی اقتداء میں نماز اخبار الفضل“ کی ادارت مدرسہ احمدیہ کے منتظم کی حیثیت میں فتویٰ کفر کا جواب خلافت کی پیشکش اور آپ کا مومنانہ جواب تشخید الاذہان میں بلند پایہ مضامین 84 حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے " موجه 85 نام خط ۱۹۱۳ء کی دوسری جلیل القدر خدمات اوائل ۱۹۱۴ ء میں آپ کی مساعی جمیلہ حضرت خلیفہ اول کا وصال ، دعا اور روزہ کی صفحہ 89 " 90 9." 90 90 92 " 93 94 96 98 111 112 113 حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب کی شہادت 85 تحریک اور مفاہمت کی آخری کوشش حضرت خلیفہ اول کی طرف سے آپ کی حضرت خلیفہ ثانی کا انتخاب خلافت کی وصیت مجلس انصار اللہ کا قیام خاتم النبیین پر لطیف مضمون ایک پرائیویٹ کلاس لیکچر بٹالہ پادری ینگسن سے مذہبی گفتگو جلسه تاجپوشی پر تقریر صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ کی آمین خطبہ عید الفطر تشیذ الاذہان میں بلند پایہ مضامین 86 " 87 " گویم 88 " 88 89 حواشی خلافت ثانیہ کا عہد مبارک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا پر شوکت اعلان دوسرا باب (فصل اول) خلافت ثانیہ کا پہلا سال ( ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء تا ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء) ( جمادی الاولی ۱۳۳۲ ہے تا صفر ۱۳۳۳ھ ) بیعت کے بعد پہلا خطاب حضرت خلیفہ اول کا جنازہ وتدفین 115

Page 17

5 عنوان صفحہ عنوان بیعت لینے کے بعد نازک ذمہ داری کا شدید حضرت خلیفہ اسیح کی ملاقات اور ڈاک کا احساس 115 انتظام خلافت ثانیہ کی تائید میں رویا والہامات کا وسیع ایمان افروز خطبات جمعہ سلسلہ صفحه 136 138 116 اوائل خلافت ثانیہ کے تین ممتاز مجاہد مرحم بیرونی جماعتوں کی بیعت کے بعض خاص کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے واقعات 117 مظفر و منصور ہو نے کی الہامی بشارت ابتدائی کشمکش اور جماعت کی اکثریت کا ایک ضروری اعلان خلافت کے جھنڈے تلے اجتماع تحریک انکارِ خلافت کا انجام خود ساختہ خلافتوں کا خاتمہ 122 خلافت ثانیہ کے عہد میں صدر انجمن احمد یہ کا 125 پہلا اجلاس 126 عہد خلافت ثانیہ کی پہلی شوری جناب مولوی محمد علی صاحب کے خلاف بغاوت انجمن ترقی اسلام کی بنیاد نظام الوصیت سے قطع تعلق کثرت کا قلت میں بدلنا لا مرکزیت کا شکار " 127 تبلیغ اسلام کے لئے عالمگیر نظام قائم کرنے کا 128 " اعلان مولوی محمد علی صاحب کو قادیان چھوڑنے سے عقائد و نظریات میں حیرت انگیز تبدیلی 129 باز رکھنے کی کوشش 139 140 141] موجو 143 " 145 بنیادی نظریہ میں شکست غیروں میں رشتہ ناطہ کے نتائج لاہوری تحریک دوسروں کی نظر میں تاریک مستقبل اختلافات سلسلہ پر ملکی پریس کا تبصرہ درس القران کا آغاز حضور کی مصروفیات 131 ایک فاضل مسیحی سے گفتگو اور اس کا قبول اسلام | 132 جماعتی انتظام چلانے کے لئے نئے کارکنوں کا "1 تقرر 133 ایک پر شوکت مکتوب " احمد یہ دار التبلیغ لندن 134 بلاد اسلامیہ کے لئے عربی ٹریکٹ 135 شکریہ اور اعلان ضروری بیماری میں خدمت دین کی دیوانہ وار جد و جہد 136 تبلیغی کلاسوں کا اجراء " 146 " 147 153 154 "

Page 18

صفحه 172 173 174 " 174 175 174 176 ترسم 176 177 گرم 178 6 تحفة الملوك عنوان صفحه حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا دوسر انکاح بنگالی ٹریکٹ 155 عنوان حضرت میر سید محمد اسحاق صاحب کا درس بخاری شریف 156 حقيقة السبوة " كل تليف پہلی عالمگیر جنگ سے متعلق حضرت مسیح موعود چند غلط فہمیوں کا ازالہ کی خبر ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب پہلی عالمگیر جنگ مسلمانان ہند اور جماعت ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغ احمدی والیہ بھوپال کے نام تبلیغی خط خلیفتہ المسلمین ترکی کو انتباہ 157 161 "I حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح سفر لاہور آسٹریلیا سے بیعت خلافت کا خط منارة امسیح کی تحمیل " خواجہ کمال الدین صاحب کی واپسی 162 | ایک والئے ریاست کو جواب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی فہم و فراست کا کنانور (مال) بار) کے قریب احمدیوں پر را عجیب واقعہ 163 صاحب کے مظالم 164 حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب مبلغ انگلستان کو برکات خلافت پر تقریر ۱۹۱۴ ء کے دیگر اہم واقعات 165 حضور کی نصائح فصل دوم سندھی: یکٹ خلافت ثانیہ کا دوسرا سال فاروق کا اجراء مولوی عبدالحی صاحب کی خدمت میں ! ہوری F1910 (۵۱۳۳۴ ۳ ۵۱۳۳۳) مبلغین کی اعلیٰ کلاس کے لئے لیکچروں کا سلسلہ 167 ایک خبر کی تردید رسالہ " القول الفصل" کی تصنیف احمد یہ دار التبلیغ ماریشس 11 168 169 وقد جماعت احمدیہ کی طرف سے اہم میموریل مولوی عبدالحی صاحب کی وفات احمد یہ ہوسٹل !! ہور کا قیام " 179 " 180 پہلے پارو کی نادر تغییر ( اردو اور انگریزی میں ) 184

Page 19

صفحہ 192 193 کو گھر " " 194 195 " " 7 محلہ دار الفضل عنوان سرزمین سندھ سے متعلق ایک اہم خبر انوار خلافت" ۱۹۱۵ء کے دیگر اہم واقعات فصل سوم خلافت ثانیہ کا تیسر اسال +1914 (۱۳۳۴ تا ۱۳۳۵ھ تک) مسٹر والٹر قادیان میں دار البیعت کا افتتاح تائی صاحبہ کی بیعت دار السلطنت دہلی میں عظیم الشان جلسہ مبلغین کو نصائح نجات کی حقیقت صفحہ 185 " " عنوان پیغام صلح کے چند الزامات کا جواب عملی تعزیت نامه حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا تقرر 186 مغربی افریقہ میں احمدیت کا پیغام سیرت مسیح موعود 188 189 " 190 " " آنریری مبلغین کے لئے تحریک بہار ہائیکورٹ کا فیصلہ پروفیسر مارگولیتی حضرت حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں صادق لائحریری کا قیام خواتین کے لئے تبلیغی فنڈ کی پہلی تحریک ذکر الہی" ۱۹۱۶ء کے دیگر اہم واقعات فصل چهارم خلافت ثانیہ کا چوتھا سال (۱۳۳۵ھ تا ۱۳۳۶ھ) زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت 197 الحجة البالغه “ مرمر نور ہسپتال کی بنیاد 197 198 حضرت خلیفہ اسی کا ایک پر حکمت جواب 191 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کامیابی اور " 191 191 192 " اخبار صادق کا اجراء قبولیت دعا کے طریق حضرت خلیفۃ المسیح کا فرمان سنگ بنیاد حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے لئے بمبئی میں مبلغین کا وفد درس مسلم شریف 192

Page 20

8 عنوان امر تسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ سفر شمله صفحه عنوان 198 حضرت خلیفہ ثانی کی تشویشناک علالت اور " وصیت صفحه 209 خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و غریب فتح کا جشن مسلمانان ہند اور جماعت احمدیہ 211 دعوت مباہلہ اور اس کا جواب 199 مسلمان بچوں کے لئے پانچ ہزار روپیہ مٹر مانٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت کے تحفظ ۱۹۱۸ء کے دیگر اہم واقعات کے لئے نئی جد و جہد کا آغاز 201 لائیبیریا (مغربی افریقہ ) میں احمدیت 204 " تصديق أصبح والمهدی" تحریک وقف زندگی ”حقيقة الرويا “ ۱۹۱۷ء کے دیگر اہم واقعات فصل پنجم خلافت ثانیہ کا پانچواں سال +191A (۱۳۳۶ تا ۱۳۳۷ھ) " " 205 " فصل ششم خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ١٩١٩ء (۱۳۳۷ھ تا ۱۳۳۸ھ) جماعت کے مرکزی نظم ونسق میں اصلاح اور نظارتوں کا قیام اسلام اور تعلقات بین الاقوام و اسلام میں اختلافات کا آغاز شرائط مناظرہ سے متعلق اہم اعلان "عرفان النبي" 207 | نیا قبرستان 212 " 215 217 کو کو 218 219 219 219 221 222 " احمدیان کشک پر مظالم سفر بیتی سفر ڈلہوزی اظہار حق اور حقیقت الامر 207 (متحدہ) ہندوستان میں زبردست سیاسی مہیجان 208 اور جماعت احمدیہ 208 علماء دیوبند کا مباہلہ سے گریز انفلوئنزا کی عالمگیر وہا میں جماعت کی بے لوث تحریک خلافت کا آغاز اور حضرت خلیفہ ثانی کی 208 | بر وقت رہنمائی گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس خدمت

Page 21

9." تقدیر الهی عنوان ۱۹۱۹ء کے دیگر اہم واقعات حواشی تیسرا باب (فصل اول) خلافت ثانیہ کا ساتواں سال ۱۹۲۰ء (۵۱۳۳۹ ۳۵۱۳۳۸ صفح 223 225 صفحه عنوان : فصل دوم ۱۹۲۱ء خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال (۱۳۳۹ھ تا ۱۳۴۰ھ) ہندو مسلم اتحاد کے لئے ایک اہم تجویز 266 ہدایات زرین برائے احمدی مبلغین " دار التبلیغ گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائیجیریا کا قیام 266 دار التبلیغ امریکہ کی بنیاد 249 دار التبليغ نائیجیریا مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک 253 | لٹریچر نائیجیر یا مشن غیروں کی نظر میں 1 ہور اور امرتسر میں عظیم الشان لیکچر سیالکوٹ اور امرتسر میں لیکچر مبلغین کلاس کا اجراء معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ 255 270 272 دار تبلیغ ان کی خدمات غیروں کی نظر میں 275 256 حضرت خلیفہ اس کا تیسرا نکاح 257 سکھوں کے ایک گور و صاحب قادیان میں سفر لا ہور و مالیہ کوٹلہ حضرت خلیفہ اسیح کا پیغام احمد کی قوم کے نام 258 مسجد لندن کے لئے زمین کی خرید پر خوشی کی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ایک تقریب پر جلال و پر شوکت تقریر الواح الهدی نونهالان احمدیت کو درد انگیز ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت خطاب 259 | کشمیر سیرت خاتم النبیین“ کی اشاعت 260 " آئینہ صداقت" 277 !! 278 283 284 284 ترک موالات و احکام اسلام ملائكة الله “ ۱۹۲۰ء کے دیگر اہم واقعات 261 " بستی باری تعالٰی 264 ۱۹۲۱ کے دیگر اہم واقعات 264

Page 22

صفحه 324 326 328 329 330 10 عنوان فصل سوم خلافت ثانیہ کا نواں سال ١٩٢٢ء (۱۳۴۰ تا ۱۳۴۱ھ) دار التبلیغ مصر کا قیام احمد یہ ٹیریٹوریل کمپنی مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) کو ہدایات زرین تحفه شهزاده ویلیز سفر لاہور ناظر اعلیٰ کا تقرر علماء کو تبلیغ اسلام میں مقابلہ کی دعوت مجلس شوری کا قیام صفحہ عنوان چوتھا باب (فصل اول) خلافت ثانیہ کا دسواں سال ١٩٢٣ء (۱۳۴۱ تا ۵۱۳۴۲) 286 شدھی تحریک کا پس منظر 292 مسلمان علماء کا افسوس ناک طریق عمل بھر کو شردھانند کی طرف سے ہندوؤں کو میدان عمل میں آنے کی کھلم کھلا دعوت 295 مہاراجہ کشمیر کی پشت پناہی " " مسلمانان ہند کے لئے نازک ترین دور شدھی کے پیچھے ہندوراج کے منصوبے 296 | مسلمان پریس کا شور وفغاں 299 حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کور مسلمانان ہند کو متحد ہو کر کام کرنے کی دعوت 332 300 اچھوت اقوام میں تبلیغ حفظ قرآن کریم کی تحریک درس القران مدراس ہائیکورٹ کا فیصلہ 302 احمد یہ جماعت کی طرف سے والہانہ رنگ میں لبیک (333 غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات کی تلقین قواعد انتظام انسداد فتنه ارتداد تبلیغ هدایت لجنہ اماءاللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج نجات ۱۹۲۲ء کے دیگر اہم واقعات حواشی " 303 ہدایات برائے مبلغین اسلام کویر تصمیم 334 340 351 مجاہدین احمدیت شدھی کے علاقہ میں 310 آریوں کی طرف سے شدھی کے مختلف ذرائع 352 354 311 مجاہدین احمدیت کی ابتدائی سرگرمیاں 313 میدان ارتداد میں تبلیغی جنگ کا ابتدائی نقشہ 356

Page 23

396 398 " 400 405 " 409 410 " 411 412 414 422 11 عنوان صفحہ عنوان حضرت مولوی محمد حسین صاحب کے نہایت جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی خصوصیت کا ایمان افروز چشم دید اور خود نوشت حالات 358 عام چه چا فصل دوم مبلغ امریکہ کو زریں ہدایات احمدی خواتین کا اخلاص 373 374 ایک اہم سر کلر سند اظهار خوشنودی مسلمان اور ہندو اخبارات کی طرف سے خراج حمين تحریک شدھی اور تحریک خلافت کے لیڈر شدھی اور شیعہ اصحاب شدھی اور دوسرے مسلمان علماء 375 378 " 378 جمعیتہ العلماء دہلی کی طرف سے احمدیوں کو دھمکی 381 ،، انجمن نمائندگان تبلیغ کی مزاحمت اور ہندو مسلم امور میں جماعت احمدیہ کا سیاسی موقف بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ قادیان میں احمد یہ ٹورنامنٹ کا اجراء ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم مشکلات کا صحیح حل حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی احمدی مصنفوں اور لیکچراروں کے لئے غیر تو دینی مجاہدین احمدیت پر ظلم و تشدد مجاہد بین احمدیت کا بے مثال استقلال کامیاب مدافعت اور شاندار پیش قدمی شردھانند کی طرف سے تحریک شدھی.382 385 386 387 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اہم ہدایت سیرت المہدی“ کی تالیف جماعت احمدیہ کا پہلا شہید مبلغ دار التبلیغ جرمنی کا قیام ۱۹۲۳ء کے دیگر اہم واقعات حواشی دست برداری کا اعلان دہلی کی اتحاد کانفرنس 388 390 پانچواں باب (فصل اول) اتحاد کمیٹی میں نمائندگان جماعت کی شمولیت 391 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال علاقہ ارتداد میں مستقل مبلغین کا تقرر آریوں کی طرف سے احمدیت کی زبر دست طاقت کا اقرار 393 ۱۹۲۴ء (۱۳۴۲ھ تا ۱۳۴۳ھ) 394 ویمبلے کا نفرنس کے لئے تحریک

Page 24

12 عنوان صفحہ سفر یورپ کے لئے مشورہ عنوان صفحه 423 قیام لنڈن کا پانچواں ہفتہ کانفرنس کے لئے کتاب "احمدیت یعنی حقیقی کانفرنس میں حضور کے مضمون کی شاندار اسلام کی تصنیف جماعت احمدیہ کے لئے نیابتی انتظام 429 کامیابی 430 قیام لنڈن کا چھٹا ہفتہ 451 " 454 455 " " 456 Il 461 426 463 466 470 471 473 431 قیام لنڈن کا ساتواں ہفتہ V قیام لنڈن کا آٹھواں ہفتہ سفر یورپ کے لئے تیاری ا جولائی ۱۹۲۴ء کا مصروف ترین دن روانگی سے قبل مزار مسیح موعود پر آخری دعا 432 قیام لنڈن کا آخری ہفتہ ۱۷ تا ۲۴ اکتوبر قادیان سے روانگی کا نظارہ بٹالہ سے دہلی تنک وہلی سے بمبئی تک 433 مسجد فضل کے سنگ بنیاد کایادگاردن 434 (۱۹ اکتوبر ۱۹۲۴ء) لنڈن سے روانگی اور بمبئی میں ورود بمبئی سے بذریعہ جہاز روانگی اور عدن میں ورود 435 بمبئی سے بٹالہ تک 438 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا آگرہ میں ورود مدن سے پورٹ سعید تک پورٹ سعید سے قاہرہ قاہرہ سے بیت المقدس تک بیت المقدس سے دمشق نیک 440 قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت 441 شاندار پر جوش اور پر اخلاص استقبال 442 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے اپنے 444 رفقاء سفر اور جناب عبد الرحیم صاحب نیر کا دمشق سے پورٹ سعید تک پورٹ سعید سے برنڈ زی تک 444 شکر یہ اور تحریک دعاء برنڈ زی سے لنڈن برطانوی پریس میں چرچا قیام لنڈن کا پہلا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸ را گست ۱۹۲۴ء 445 446 فصل دوم حادثہ بھیرہ دار التبلیغ ایران قیام لنڈن کا دوسرا ہفتہ قیام لنڈن کا تیسرا ہفتہ قیام لنڈن کا چوتھا ہفتہ 449 450 451 مبلغ احمدیت مولوی ظہور حسین صاحب پر روق حکومت کے درد ناک مظالم

Page 25

صفحه 509 510 511 514 515 516 517 518 519 " 522 534 535 537 545 13 عنوان صفحه عنوان مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی درد ناک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے مظالم شہادت انصاف پسند دنیا کا زبردست احتجاج 478 پر صبر و سکون کی تلقین 480 مسالہ قتل مرتد اور ہند و اصحاب جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے امیر امان الله مسئله قتل مرتد.جماعت احمدیہ اور دوسرے خان کو مبارکباد جماعت احمدیہ کے نام حضرت خلیفہ اسی کا پیغام فصل سوم دو بزرگ ہستیوں کا انتقال لا ہور میں مسلم لیگ کا اجلاس اور 485 روشن خیال علماء ترجم 489 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی سیاسی راہنمائی 490 دعوۃ الامیر" کی اشاعت دعوۃ الامیر" کا اثر احمدیہ مسجد لاہور کی تعمیر سالانہ جلسہ پر تقریریں ۱۹۲۴ء کے دیگر اہم واقعات حواشی چھٹا باب خلافت ثانیہ کا بارھواں سال ۱۹۲۵ء 492 493 494 495 495 498 قتل مرتد اور اسلام پر سلسلہ مضامین تحریک چنده خاص اشاعت احمدیت کے لئے خاص تحریک فرقہ وارانہ نیابت کے سوال کامل مدرسہ خواتین کا اجراء اور آپ کی مصروفیات میں اضافہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے متعلق اہم اعلان حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا چوتھا نکاح سرز مین حجاز کی خانہ جنگی اور جماعت احمد یہ فصل دوم مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کی شہادت 508 دار التبليغ شائم وفلسطين معارف قرآنیہ میں مقابلہ کا چیلنج آل پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر فصل سوم دار التبلیغ سائراد جادا کا قیام مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر احتجاج

Page 26

14 عنوان صفحہ عنوان معاملات حجاز میں جماعت احمدیہ کا موقف 546 انگریزی اخبار " سن رائز“ کا اجراء شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ 548 | رسالہ مصباح“ کا اجراء منہاج الطالبین ۱۹۲۵ء کے دیگر اہم واقعات فصل چهارم خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال ١٩٢٦ء (۱۳۴۴ تا ۱۳۴۵ھ) دنیا کی چو ہیں زبانوں میں تقریریں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا پانچواں نکاح 549 سوامی شردھانند صاحب کا قتل اور حضرت مسیح 550 موعود کی ایک پیشگوئی کا ظہور سوامی شردھانند کے قتل پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تبصرہ حق الیقین کی تصنیف و اشاعت ہندو مسلم اتحاد سے متعلق وائسرائے ہند کے نام مکتوب 553 ملک عبدالرحمن صاحب خادم میدان مناظرہ میں 554 دو بزرگ ہستیوں کا انتقال حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کے ۱۹۲۶ء کے دیگر اہم واقعات 566 " 567 568 " 569 مرمر 570 571 خاندان کی کابل سے ہجرت دار الشیوخ کا قیام قصر خلافت کی بنیاد احمد یہ گزٹ کا اجراء احمدیان بنگال کے نام حضرت امام جماعت کا پیغام حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا سفر ڈلہوزی " 555 557 557 " 558 فصل پایم خلافت ثانیہ کا چودھواں سال (۱۳۴۵ تا ۵۱۳۴۶) جماعت احمدیہ کو تبلیغی جنگ کے لئے تیار ہونے کا ارشاد مشته که اعلانات حضرت خلیفہ ثانی اور مولوی محمد علی صاحب کے مسلمانوں کو اشتراک عمل کی دعوت 560 جدا گانہ نیابت کی تائید مسجد فضل لنڈن کا افتتاح 562 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا سفر لاہور انجمن انصار اللہ کا قیام 565 573 574 575 575

Page 27

صفحه 600 602] 603] !! 604 مراسم 605 606 607 609 612 612 15 3 عنوان صفحہ عنوان ہندو مسلم فسادات ، ان کا علاج اور مسلمانوں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کا آئندہ طریق عمل ’ذہب اور سائنس پر لیکچر تبلیغ اسلام سے متعلق جماعت احمد یہ ہے عہد کی تجدید 576 فاضلانہ بحث 577 عدالت کی طرف سے سزا کا فیصلہ تحفظ ناموس رسول کیلئے مسلمانان ہند کی 578 راہنمائی اور ملک گیر تحریک کا آغاز فسادات لاہور اور جماعت احمدیہ کی طرف ۲۲ جولائی ۱۹۴۷ء کے دان جلسوں کی تجویز سے مظلوم مسلمانوں کی امداد فصل ششم مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے وسیع پیمانہ پر جد و جہد کا آغاز حواشی 578 محضر نامہ کی تجویز 580 584 مقررہ تاریخ کو جلسے اور قومی و ملی اتحاد کا شاندار لنڈن میں مسلم پولیٹیکل لیگ کا قیام ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ساتواں باب (فصل اول) مقدمہ در تمان کا فیصلہ آنحضرت ﷺ پر آریہ مصنفوں کے حملے 596 مقدمہ در تمان کے فیصلہ پر حضرت خلیفہ اسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ولولہ انگیز بیان اور الثانی کے جذبات اس کا زبردست رد عمل کتاب ”رنگیلا رسول“ سے متعلق عدالت پنجاب کا فیصلہ اخبار مسلم آؤٹ لک Muslim) 596 حضرت امام جماعت احمدیہ کی مساعی پر مسلم 599 (UOutlookاہور کا عدالتی فیصلہ کے خلاف رز احتجاج حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف سے سید دلاور شاہ بخاری کو مشورہ مقدمہ کی سماعت اور سید دلا اور شاہ کا بیان " 600 اخبارات کا اظہار تشکر تحفظ ناموس پیشوایان مذاہب کیلئے مکمل قانون کا مطالبہ فصل دوم سفر شمله ناموس پیشوایان مذاہب کے تحفظ کے لئے نیا قانون

Page 28

عنوان صفحہ 16 عنوان صفحہ ہند و مسلم اتحاد کا نفرنس میں شرکت 613 سائمن کمیشن کی آمد سے پہلے مسلمانوں کی 614 بروقت را ہنمائی 629 اتحاد کانفرنس کا پہلا مشتر کہ اجلاس اتحاد کانفرنس کا دوسرا اجلاس اور ہندو مسلم اتحاد حضرت خلیفہ ثانی کی سالانہ جلسہ پر تقریریں ے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تجاویز حضرت خلیفہ ثانی پر حملہ کی سازش اور سالانہ 631 اتحاد کانفرنس کا تیسرا اجلاس گورنر صاحب پنجاب سے ملاقات لیکچر شملہ جدا گانہ انتخاب کے مسئلہ پر ( قائد اعظم محمد علی جناح سے تبادلہ خیالات سفر شملہ کے تاثرات 617 جلسه ۱۹۲۷ ، پر پہرے کا خاص انتظام ۱۹۲۷ء کے بعض دیگر اہم واقعات 619 حواشی " 620 مسلمانوں کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اعتراف 621 632 634 جماعت احمدیہ کی مساعی کا آریوں پر اثر فصل سوم.ا وارث عورتوں اور بچوں کی خبر گیری کیلئے تحریک مسلم پارٹیز کانفرنس کیلئے تجاویز علاقہ تیراہ کاسنی شیعہ فساد اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دردمندانہ اپیل مصیبت زدگان گجرات کی امداد الور کے اسلامی مدارس کی بقاء کے لئے جد و جہد خالفین احمد یت کی سازش اوراس کا انجام 623 624 " 625 626 627 "

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد ۴ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے سوانح قبل از خلافت

Page 30

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 2 سید نا حضرت خلیقہ امسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت پہلا باب (فصل اول) آسمانی نوشتوں کے مطابق ولادت پاکیزہ بچپن ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت میں ابتدائی سفر اور بعض دوسرے دلچسپ واقعات (۱۳۰۶ھ ۱۳۱۲۰ھ) (جنوری ۱۸۸۹ء سے دسمبر ۱۸۹۴ء تک) سید نا وامامنا و مرشدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدخلیفة المسح الثاني المصلح الموعود (ایده الله تعالى بنصرہ العزیز و اطال اللہ بقاء ہ) کا دور خلافت سلسلہ خلفاء کی تاریخ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے.اللہ تعالٰی نے جس رنگ میں اس خلافت کو نوازا ہے اور اس کے ہر پہلو کو اپنی برکت کے ہاتھ سے ممسوح کیا ہے اور اس کے ساتھ غیر معمولی برکتوں اور حیرت انگیز ترقیوں اور مافوق العادت کامیابیوں کو وابستہ فرمایا ہے.وہ اپنی نظیر آپ ہیں !!! جہاں تک خلافت ثانیہ کے روحانی رند ہی اثر و نفوذ کی وسعت کا تعلق ہے اسے ایک عالمگیر حیثیت حاصل ہے.چنانچہ حضور خودہی فرماتے ہیں.میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے عرب ایران، چین، جاپان یو رپ ، امریکہ افریقہ ساڑا جاوا اور خود انگلستان کے لئے غرضکہ کل جہان کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہوں.اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں.دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں ".اس ”عالمگیر خلافت اور مذہبی حکومت" کے ساتھ ہی حال و مستقبل میں اسلام کی ترقی اور سربلندی وابستہ ہے جیسا کہ حضور نے لکھا ہے کہ -;

Page 31

تاریخ احمدیت جلد ۴ 3 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت اس وقت اسلام کی ترقی خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے.پس جو میری سنے گا وہ جیتے گا.اور جو میری نہیں سنے گاوہ ہارے گا جو میرے پیچھے چلے گا خد اتعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر مکمل کھولے جائیں گے.اور جو میرے راستہ سے الگ ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر بند کر دئے جائیں گے ".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور دوسرے خلفاء میں ایک بھاری فرق ہے.یہ فرق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں یہ ہے کہ :- جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں.ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے.ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے پس میرے لئے خدا تعالٰی کے تازہ تازہ نشانات اور اس کے زندہ منجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے".ان آسمانی نشانات و معجزات میں خدائی تائید و نصرت کا نشان ایسا کھلا اور واضح نشان ہے جو آج تک حضور کی زندگی کے ہر گوشہ میں ہمیشہ جلوہ فرما نظر آتا ہے.خلافت ثانیہ کی تاریخ ابتداء ہی سے مخالفتوں کے ہجوم میں گھری ہوئی ہے مگر اس مقدس سالار کی قیادت میں احمدیت کا قافلہ فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور آئندہ سے متعلق بھی خدائی فیصلہ یہی ہے کہ حضور کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.چنانچہ حضور نے ایک عرصہ ہوا یہ ارشاد فرمایا تھا."میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا.اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو.شور مچائے.گالیاں دے یا برا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا.یہ تقدیر مبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا.جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ زمین و آسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہر حال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا.میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہو گا.مگر بہر حال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی.خلافت ثانیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خلافت موعودہ ہے جس کے قیام کی بشارتیں

Page 32

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت اور پیشنگوئیاں صدیوں اور قرنوں سے ہوتی چلی آرہی تھیں چنانچہ (یہود کی قدیم روایات کی کتاب) ظالمود (جوزف بارکلے) میں لکھا ہے."It is also said that he (The Massiah) shall die and his kinkdom descend to his son and grandson." طالمو دبائی جوزف بار کلے باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن ۶۱۸۷۸) ترجمہ :.یہ بھی روایت ہے کہ مسیح (موعود) وفات پا جائیں گے اور ان کی بادشاہت ان کے بیٹے اور پوتے کو ملے گی.ازاں بعد جہاں خدا تعالٰی نے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ خبر دی کہ آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان روحانی مصلح مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہو گا ہاں آپ ہی کے ذریعہ سے اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ یتزوج و يولد له B یعنی (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریح فرمائی) آنے والا مصلح اکیلا اور تنہا نہیں آئے گا.بلکہ خدائی منشاء کے مطابق اس کی ایک خاص شادی ہو گی.اور اس شادی سے خدا اسے اولاد عطا کرے گا.جن میں سے ایک بیٹا ایک خاص شان کا نکلے گا.اس کے کام کو بہت ترقی حاصل ہو گی.اس طرح گویا خدا نے مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ہی آپ کے ایک موعود فرزند کی روحانی خلافت کی بھی داغ بیل ڈال دی.آنحضرت کے بعد امت محمدیہ کے بعض اولیاء و صلحاء مثلاً حضرت نعمت اللہ ولی اور حضرت امام یحی بن عقب رحمتہ اللہ علیہما پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ مسیح موعود کے بعد اس کا ایک صاحب عظمت و شوکت فرزند تخت خلافت پر متمکن ہو گا.ان اولیاء کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اس موعود فرزند کے ظہور کا وقت بھی قریب آپہنچا تو خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود پر اس پیشگوئی کی مزید تفصیلات ظاہر فرمائیں چنانچہ دعوئی ماموریت کے چوتھے سال ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کو پیدائش مصلح موعود کی بڑی صراحت سے بشارت دی گئی اور پسر موعود کی پوری زندگی اور اس کے عہد خلافت کی تاریخ کا نہایت جامع و مانع کے عہد خلافت تاریخ نقشہ کھینچ دیا گیا.یہ بشارت ان لفظوں میں تھی." تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے.اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گاوہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت

Page 33

تاریخ احمدیت جلد ۴ 5 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گاوہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و ٹیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.(اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبه فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والأخر مظهر الحق والعلاء كان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے.اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا.اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گاو كان ا مر ا مقضيا " اس پیشگوئی کے بارے میں جناب اللی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو مزید انکشافات ہوئے.اول یہ کہ ایسا موعود فرزند نو برس کے اندر اندر ضرور پیدا ہو جائے گا.چنانچہ حضور نے اشتہار ۲۲ / مارچ ۱۸۸۷ء میں تحریر فرمایا.اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۸...میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو صفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا.ایسا لڑ کا بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک.......ضرور پیدا ہو گا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا".دوم - حضرت اقدس نے "سبز اشتہار " میں تحریر فرمایا کہ.اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی.اور اس عبارت تک کہ ”مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے " پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دو سرے بشیر کی نسبت ہے ".نیز فرمایا.بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پر متوفی بشیر اول- ناقل) کے حق میں ہیں.اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ "اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا." پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے.اور ایک الہام میں اس کا نام

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد ۴ فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ان تصریحات کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے " سبز اشتہار ہی میں یہ پر شوکت اعلان فرمایا:.الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.دیکھو اشتهار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء د اشتهار ۱۰/ جولائی ۱۸۸۸ء.سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا.اور فوت بھی ہو گیا.اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا.جس کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا.مگر خدا تعالٰی کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین آسمان مل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے.کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے".آنحضرت صلحائے امت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پاک بشارتوں ولادت کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم کے بطن مبارک سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء ( مطابق ۹/ جمادی الاول ۱۳۰۶ھ ) کو بروز ہفتہ بوقت دس گیارہ بجے شب پیدا ہوئے - الدار میں آپ کی ولادت کا کمرہ الدار کے کنوئیں کے جنوبی جانب زیر سقف کمرہ بیت الفکر نمبرا کے ساتھ واقع ہے اور اس کو چہ سے متصل ہے جس پر مسجد مبارک تعمیر شدہ ہے.اس کمرہ کے حدود نقشہ ذیل سے واضح ہو سکتے ہیں.الدار کا کنواں کمره ولادت کمره سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی زیر سقف بيت الفكر اید و اللہ تعالٰی گول کمرہ کو چہ جس پر سجد مبارک کی کوچه بطرف مسجد اقصی عمارت ہے مشرق.زیر سقف بیت الفكر 1 شمال

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 7 ات خلیفتہ اسیح قبر یح الثانی کے سواتی قبل از خلافته گو پیشگوئی مصلح موعود کی آخری میعاد نو سال مقرر تھی مگر سید نا حضرت محمود احمد (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بشیر اول (متوفی ۴/ نومبر ۱۸۸۸ء) کی وفات کے بعد بہت جلد پیدا ہو گئے.جو حضرت ام المومنین کے صبر و رضا کا نتیجہ تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار فرمایا." ہمارے گھر میں اس قدر التزام نماز کا ہے کہ جب پہلا بشیر پیدا ہوا تھا اس کی شکل مبارک سے بہت ملتی تھی.وہ بیمار ہوا.اور شدت سے اس کو بخار چڑھا ہوا تھا.یہاں تک کہ اس کی حالت نازک ہو گئی.اس وقت نماز کا وقت ہو گیا.تو انہوں نے کہا میں نماز پڑھ لوں.ابھی نماز ہی پڑھتے تھے کہ بچہ فوت ہو گیا.نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے میں نے کہا اس کا تو انتقال ہو گیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ انہوں نے بڑی شرح صدر کے ساتھ کیا.انا للہ وانا الیه راجعون.اسی وقت میرے دل میں ڈالا گیا کہ اللہ تعالٰی ان کو نہیں اٹھائے گا جب تک اس بچہ کا بدلہ نہ دے لے.چنانچہ اس کے فوت ہونے کے قریباً چالیس دن بعد محمود پیدا ہوا".سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت پر حضرت اشتهار " "تحمیل تبلیغ امین اطلاع مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تو اپنے بعض مخلص احباب مثلاً چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کو اپنے قلم مبارک سے بطور اطلاع خطوط لکھے.دوسرے ”تحمیل تبلیغ کا اشتہار شائع فرمایا جس میں بیعت کی دس شرائط تحریر کر کے پہلی مرتبہ بیعت کی دعوت عام دی.اس طرح سید نا حضرت محمود المصلح الموعود کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.اسی اشتہار میں حضور نے نو مولود کی بشارت بھی دی اور تحریر فرمایا.خدائے عزو جل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء د اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہو گا.اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آج ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق ۹/ جمادی الاوٹی ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالی ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے.جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہو گا اور اگر

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 8 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عزو جل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے.مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا.اے فخر رسل قرب تو معلومم شد آمده ز راه رور آمده یس اگر حضرت باری جل شانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پر کے پیدا ہوتے میں جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو.ورنہ وہ بفضلہ تعالٰی دوسرے وقت پر آئے گا " عقیقہ سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کا عقیقہ ۱۸/ جنوری ۱۸۸۹ء بروز جمعہ ہوا.جیسا کہ حضور علیہ السلام کے ایک خط سے پتہ چلتا ہے.عقیقہ کے سلسلہ میں جو حجام بلایا گیا اس کا نام دینا تھا.اس تقریب پر لاہور سے بعض دوست بھی شریک ہوئے جن میں حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور بھی شامل تھے.خادمہ کا تقرر اور آپ کی صحت کا بگڑنا قدیم خاندانوں کے دستور کے مطابق ابتدائی سے ایک کھلائی مقرر ہوئی.یہ کھلائی دراصل بیمار تھی.اس کی بیماری کے اثرات کس طرح سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی کے جسم میں ظاہر ہوئے.اس کا تذکرہ خود حضور کے قلم سے لکھتا ہوں آپ اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.۱۸۸۹ء میں پیشگوئی کے مطابق آپ (یعنی مسیح موعود ناقل) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا.جس کا نام آپ نے تفاول کے طور پر (کیونکہ آپ نے لکھا کہ ابھی مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے) محمود رکھا.کیونکہ اس بیٹے کا ایک نام اللہ تعالی کی طرف سے محمود بتایا گیا تھا اور چونکہ الہام میں اس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا.اس لئے اس کا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.خدا کی قدرت ہے.اتفاقاً اس لڑکے کی جو کھلائی مقرر کی گئی وہ شدید امراض میں مبتلا تھی.ایسے شدید امراض میں کہ اس کے سات آٹھ بلکہ نو بچے کچھ بچپن میں اور کچھ بڑے ہو کر سل اور دق سے مر گئے تھے.اس عورت نے بغیر اس کے کہ لڑکے کے والدین سے اجازت حاصل کرتی اس کو دودھ پلا دیا اور اس طرح دق اور سل اور خنازیر کے جراثیم اس بچے کے اندرچلے گئے چنانچہ جب وہ دو سال کا ہوا تو پہلے اسے کھانسی ہوئی اور پھر وہ شدید خنازیرہ میں مبتلا ہو گیا اور کئی سال تک مدقوق و مسلول رہا.مگر چونکہ اللہ تعالٰی نے اس کے ذریعہ ایک بہت بڑا نشان ظاہر کرنا تھا اس لئے خدا نے اس کو بچا لیا.ל

Page 37

9 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت لیکن خنازیر کا مرض برابر اسے رہا بلکہ بعض دفعہ خنازیر کی گلٹیاں پھول کر گیند کے برابر برابر ہو جاتیں تاریخ احمدیت شد اور مسلسل بارہ تیرہ سال تک ایسا ہی ہوتا رہا.ڈاکٹر اور طبیب مختلف ادویہ کی اسے مالش کراتے اور کھانے کے لئے بھی کئی قسم کی دوائیں دیتے.جب وہ لڑکا جوان ہوا تو اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی اور اسے سات آٹھ مہینے متواتر بخار آتا رہا.اطباء کہتے تھے کہ اس کا بچنا مخدوش ہے اور اب شاید ہی یہ جانبر ہو سکے ".بچپن کے بعض سفر اور ان کے دلچسپ واقعات زندگی کے چھ ابتدائی سالوں میں علیہ السلام کے ساتھ کئی سفروں میں رفاقت میسر آئی.مثلاً.-1 سیدنا محمود کو حضرت مسیح موعود ۱۸۸۹ء کی پہلی سہ ماہی کا سفر لدھیانہ جس میں بیعت اوٹی ہوئی.آخر اکتوبر ۱۸۸۹ء کا سفر لدھیانہ جو حضور نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے اہل خانہ کی عیادت کے سلسلہ میں اختیار فرمایا.دعوئی مسیحیت کے بعد پہلا سفر لدھیانہ (۳/ مارچ ۱۸۹۱ء تا اگست ۱۸۹۱ء) TO حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے "سیرت مسیح موعود" میں اس سفر کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ لکھا ہے جو آپ کا چشم دید ہے.لکھتے ہیں :- محمود کوئی تین برس کا ہو گا.آپ لدھیانہ میں تھے.میں بھی وہیں تھا.گرمی کا موسم تھا مردانہ اور زنانہ میں ایک دیوار حائل تھی.آدھی رات کا وقت ہو گا جو میں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت کے ادھر ادھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی.حضرت اسے گود میں لئے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چپ نہیں ہو تا تھا.آخر آپ نے کہا.دیکھ محمود وہ کیسا تارا ہے.بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہوا.پھر وہی رونا اور چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا " ابا تارے جانا کیا مجھے مزہ آیا اور پیارا معلوم ہوا.آپ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا.یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکالی.آخر بچہ رو تا رو تا خود ہی جب تھک گیا چپ ہو گیا.مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپ کی زبان سے نہ نکلا " " - سفر دہلی (ستمبر ۱۸۹۱ء) دہلی میں نواب لوہارو کی دو منزلہ کو بھی واقع محلہ بیمار ان میں قیام ہوا ۱۸۹۲ء کے ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے لاہور پھر سیالکوٹ کا سفر اختیار فرمایا جس میں حضرت ام المومنین اور سید نا محمود بھی ہمراہ سفر تھے.۲- وسط ۱۸۹۳ء جنگ مقدس (امرتسر) کے سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 10 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت بھی اپنے مقدس والدین کے ہمراہ سفر تھے.سفر فیروزپور (نومبر دسمبر ۱۸۹۳ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر بچپن میں سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی حالات کا مشاہدہ الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی چشم دید حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.(1) " جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا اس وقت میں بچہ تھا.دو پونے دو سال کی عمر ہو گی پس اس وقت کے حالات تو میں بتا نہیں سکتا.مگر مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب ہمیں اپنے گھروں سے نکلنے نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ خطرہ تھا کہ دشمن کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا ئیں.اس زمانہ میں ہمیں گھروں میں یوں بند رکھا جاتا جیسے کہتے ہیں پرانے زمانوں میں بعضوں کو بھورے میں سالہا سال تک رکھا جاتا تھا.ہمیں نہایت سختی سے کہا جاتا کہ کہیں سے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ لینا مبادا اس میں کسی دشمن کی شرارت ہو ".(۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ داروں نے اعلان کر دیا.بلکہ بعض اخبارات میں یہ اعلان چھوا بھی دیا.کہ اس شخص نے دوکانداری چلائی ہے اس کی طرف کسی کو توجہ نہیں کرنی چاہئے.اور اسی طرح ساری دنیا کو انہوں نے بد گمان کرنے کی کوشش کی.پھر یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ بہت سے کام کرنے والے لوگوں نے جو زمیندارہ انتظام میں کمیں کہلاتے ہیں آپ کے گھر کے کاموں سے انکار کر دیا اس کے محرک دراصل ہمارے رشتہ دار ہی تھے ".(۳) " میری عمر تو چھوٹی تھی لیکن وہ نظارہ اب بھی یاد ہے.جہاں اب مدرسہ (احمدیہ ) ہے وہاں ڈھاب ہوتی تھی.ور لا حصہ جہاں اب بازار پڑا ہے وہاں میلے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جایا کرتے تھے کہ اس جگہ آسیب ہو جاتا ہے.قادیان کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ آسیب زدہ جگہ ہے اول تو وہاں کوئی جاتا نہیں تھا اور جو جاتا بھی تو اکیلا کوئی نہ جاتا.بلکہ دو تین مل کر جاتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.جن چڑھتا تھا یا نہیں بہر حال یہ جگہ دیران تھی.....مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا حضرت صاحب مسیر کو جایا کرتے تھے میں بھی کبھی کبھی اصرار کرتا تو حضرت صاحب مجھے ساتھ لے جاتے.مجھے یاد ہے برسات کا موسم تھا ایک چھوٹے سے گڑھے میں پانی کھڑا تھا.میں اسے پھلانگ نہ سکا.تو مجھے خود اٹھا کے آگے کیا گیا پھر کبھی شیخ حامد علی صاحب اور کبھی حضرت صاحب خود مجھے اٹھا لیتے.اس وقت نہ کوئی مہمان تھا اور نہ یہ مکان تھا.کوئی ترقی نہ تھی مگر ایک رنگ میں یہ بھی ترقی کا زمانہ تھا.کیونکہ اس وقت حافظ حامد علی صاحب آچکے

Page 39

تاریخ احمدیت.جلد " ۴ 11 حضرت خلیفه استان الثانی کے سوا نه قبل از خلافت (۴) مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطریں ہوتی تھیں اس ٹکڑہ میں تین دیوار میں ہوتی تھیں.ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میں جہاں آج کل پہرہ دار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہوا کرتا تھا.پھر جہاں اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا.اس حصہ میں صرف دو قطار میں نمازیوں کی کھڑی ہو سکتی تھیں.اور فی قطار غالبا پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی اور کبھی دو ہوتی تھیں.مجھے یاد ہے جب اس حصہ مسجد میں نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی.گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں.....؟ (۵) مجھے یاد ہے.ہمارا ایک کچا کوٹھا ہو تا تھا.اور بچپن میں کبھی کھیلنے کے لئے ہم اس پر چڑھ جایا کرتے تھے.اس پر چڑھنے کے لئے جن سیڑھیوں پر ہمیں پڑھنا پڑتا تھا.وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں اس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہو گئیں مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ " جیہو جیما کاں اوہو جیسی کو کو " میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں.اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہو تا.اس پنجابی فقرہ کے معنی نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جیسے کو ا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں.کوے سے مراد (نعوذ باللہ ) تمہارے ابا ہیں اور کو کو سے مراد تم ہو.مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ رہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں میرے لئے گدا بچھاتیں اور احترام سے بٹھاتیں.اور ادب سے متوجہ ہوتیں.اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور اور ضعیف ہیں ہمیں نہیں.کوئی تکلیف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تو میرے پیر ہیں گویادہ زمانہ بھی دیکھا جب میں " کو کو تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا " - (1) اس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں.ایک ٹوٹی ہوئی فصیل ہوا کرتی تھی.ہمارے آباؤ و اجداد کے زمانے میں قادیان کی حفاظت کے لئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی جو خاصی چوڑی تھی.اور ایک گڈا اس پر چل سکتا تھا.پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تڑوا کر نیلام کر دیا.تو اس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہمان خانہ کی نیت سے لے لیا تھا.وہ ایک -

Page 40

تاریخ احمدیت جلد ۴ 12 سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی کے سوانح قبل از خلافت زمین بی سی چلی جاتی تھی میں نہیں کہہ سکتا اس وقت ۱۸۹۳ء تھا یا ۱۸۹۴ء یا ۱۸۹۵ء قریباً قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا.یہی دن تھے.یہی موسم تھا.یہی مہینہ (یعنی دسمبر ناقل تھا.میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا.مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے ارد گرد دوڑتا اور کھیلیں پھرتا تھا.میرے لئے اس زمانہ کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں اس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے اور ارد گرد وہ دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے.ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو رو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے.ایک ہی دری تھی.اس ایک ہی دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے ڈیڑھ سو ہوں گے یا دو سو اور بچے ملا کر ان کی فہرست اڑھائی سو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی.وہ لوگ جمع ہوئے تھے اس نیت اور اس ارادہ سے کہ اسلام دنیا میں نہایت ہی کمزور حالت میں کر دیا گیا ہے اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہو سکتی اسے بجھانے کے لئے لوگ اپنا پورا زور لگارہے ہیں اور ظلمت اور تاریکی کے فرزند ا سے مٹا دینا چاہتے ہیں اس ایک ارب اور ۳۰۰۲۵ کروڈ آدمیوں کی دنیا میں دو اڑھائی سو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے.جن میں بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی متوسط درجہ کے کہلا سکیں جمع ہوئے تھے.اس ارادہ اور اس نیت سے کہ محمد رسول اللہ کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے.بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے.اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگر اسے نیچا نہ ہونے دیں گے.-73" المسیح حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی نظر شفقت سید ناپر حضرت علیہ السبع الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ابتدا ہی سے بے مثال شفقت و محبت تھی اور حضور آپ کی دلداری اور دلجوئی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ فرماتے تھے اور آپ کا یہ غیر معمولی پیار دیکھ کر آپ کے خدام بھی حیران رہ جاتے تھے.چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی دو اہم چشم دید روایات اس پر کافی روشنی ڈالتی ہیں.حضرت منشی صاحب کا بیان ہے کہ.(1) " حضرت صاحب اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے بلکہ کنڈا لگا کر بیٹھتے تھے.حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد آکر کہتے.ابا کنڈا کھول اور حضور اٹھ کر کھول دیتے.

Page 41

تاریخ احمد بیری، جلد ۳ 13 سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت (۲) ایک دفعہ حضور لیٹے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پیر داب رہے تھے.حضرت صاحب کسی قدر سو گئے.شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے.میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی - تو حضور کی آنکھ کھل گئی.آدھی ٹوٹے ہوئے گھڑے کی ایک چینی تھی.اور دو ایک ٹھیکرے.میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا.یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیئے آپ پھینکیں نہیں میری جیب میں ہی ڈال دیں کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے.وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے.پھر وہ جیب میں ہی ڈال لئے.یہ واقعہ اگر چه مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے سوانح میں لکھا ہے مگر میرے سامنے کا یہ واقعہ ہے ".اس ضمن میں ایک تیسری روایت بھی ہے.یہ روایت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنے قلم سے لکھی ہے جو نہایت درجہ عجیب ہے آپ لکھتے ہیں کہ.محمود چار ایک برس کا تھا.حضرت مضمون اندر بیٹھے لکھ رہے تھے میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا.پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی.ان مسودات کو آگ لگادی.اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجائے.اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے.اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی.اس سے پوچھتے ہیں خاموش.اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے.آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے.عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہو گا اور در حقیقت عادتا ان سب کو علی قدر مراتب بری حالت اور مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہئے تھا.مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں.خوب ہوا اس میں اللہ تعالی کی کوئی بڑی مصلحت ہو گی.اور اب خدا تعالی چاہتا ہے.کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ کے لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز صندوق وغیرہ میں ضرور رکھتے تھے.حضرت اقدس تصنیف کے کام میں مصروف ہوتے اور آپ کھانے کی کوئی چیز طلب فرماتے تو حضور اسی وقت یہ مطالبہ پورا فرما دیتے.ای طرح حضور گول کمرہ میں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے - آپ کا دل بہلانے کے لئے کہانیاں سناتے چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہو تا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 14 سیدنا حضرت خدیقہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت بھی ان کی دلداری نہیں بلکہ تربیت کے خیال سے کہانیاں سننے کی اور دوسروں کو سنانے کی اجازت ہی نہ دیتے تھے بلکہ خود بھی بعض اوقات سنا دیا کرتے تھے ".ابھی آپ گود میں کھلتے تھے آپ کو حضور نے سیر کے لئے اپنے ساتھ لے جانا شروع کیا.چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ سیر میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی) بھی ساتھ گئے نانا جان نے اٹھایا ہوا تھا رستہ میں حضور نے فرط محبت و شفقت سے آپ کو چوما.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اپنے خطبات میں بچپن کی ایک ابتدائی سیر کالوں ذکر فرمایا ہے."میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت چلتی ہے اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا اس وقت کئی سال تبلیغ پر گزر چکے تھے.لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانہ میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ ہوتے.ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس طرف سیر کے لئے آنا یاد ہے.میں اس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا.اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی میر کے لئے چلوں گا.اس زمانے میں یہاں جھاؤ کے پورے ہوا کرتے تھے.اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول بورڈنگ اور مسجد وغیرہ ہے ایک جنگل تھا اور اس میں جھاؤ کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اسی طرف میر کو تشریف لائے اور میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا.مگر تھوڑی دیر چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میں تھک گیا ہوں اس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب.اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے ".حضرت سید فضل شاہ صاحب کہتے ہیں کہ جب کبھی حضرت میاں محمود احمد صاحب سامنے آتے اور اس وقت جب آپ بالکل بچے تھے.میں نے حضرت صاحب کا یہ دستور دیکھا کہ جب ان کو کوئی لاتا یا خود آتے حضرت صاحب ان کو السلام علیکم فرمایا کرتے.یہ تو بچپن کی بات ہے جوں جوں سیدنا حضرت محمود کی عمر زیادہ ہوتی گئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے اعزاز و اکرام میں نمایاں اضافہ ہوتا چلا گیا.آخر عمر میں تو حضور کو حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور آرام کا خاص طور پر فکر رہتا تھا.ماں کی مامتا اور محبت تو مشہور ہے مگر حضرت ام المومنین جیسی مازر مہربان نے سید نا محمود کو جس ناز و نعمت سے پالا وہ آپ ہی کا حصہ تھا.حضرت ام المومنین کو گو سب صاحبزادوں سے پیار تھا مگر سید نا حضرت محمود پر تو آپ ہزار جان سے فدا تھیں.

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 15 یدنی مسرت سہ سے خلیفہ آسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت حضرت مسیح موعود اور حضرت ام سیدنا حضرت محمود سلمہ الودود اپنے مقدس والدین کے جتنے لاڈلے بچے تھے اتنا ہی زیادہ المومنین کی آغوش میں خاص تربیت آپ کی تربیت کا خیال رکھا جاتا تھا.اس سلسلہ میں سب سے موثر ذریعہ تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین کی پاک اور مطہر اور خدا نما زندگی تھی جس کے آئینہ میں دنیا کے مربی اعظم رسول خدا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی کی تصویر پوری طرح نمایاں اور ہویدا تھی.اور آفتاب نبوت کی تیز شعاعین اس سے منعکس ہو کر کاشانہ مسیحیت و مہدویت کو منور کرتی رہتی تھیں.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین دونوں شروع ہی سے خاص اہتمام فرماتے تھے کہ ان کے پیارے محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی تربیت خالص اسلامی و روحانی ماحول میں ہو اور خدائی وعدوں کے مطابق آپ کا وجود عصر حاضر کے لئے ایک مثالی وجود ثابت ہو.آپ کے لئے درد و سوز سے دعاؤں کا سلسلہ تو آخر دم تک جاری رہا.اس کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس کو شش فرماتے رہے کہ آپ کے اخلاق و عادات پر ہمیشہ نیکی ، تقویٰ اور پر ہیز گاری کا رنگ ہی غالب رہے اور چونکہ آپ کی ولادت خدائی بشارتوں کے ماتحت ہوئی تھی.اور آپ کا وجود مشیت خداوندی سے انوار سماوی کا حامل ہونے والا تھا.اس لئے اگر آپ کے عہد طفولیت میں کوئی ایسی بات ہوتی جو اگرچہ صغرسنی کے اعتبار سے تو قابل التفات نہیں ہو سکتی تھی لیکن حضور اسے آپ کی عالی دبلند شان کے منافی سمجھتے.تو آپ کو بلا تامل توجہ دلا دیتے.چنانچہ آپ نے اس امر کی ایک لطیف مثال خود بیان فرمائی ہے." مجھے بچپن ہی میں یہ سبق سکھایا گیا تھا.میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ایسے دیکھ کر کہا.محمود ! اس کا گوشت حرام تو نہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا.بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں.بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذت حاصل کریں ".اس ضمن میں حضور کے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ " البدر" میں یہ لکھا ہے کہ."مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے مجمع شعید الاذہان میں ایک دفعہ یہ....مضمون طلباء کو دیا گیا کہ علم اور دولت کا مقابلہ کرو." صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس پر بہت غور و فکر کی اور بعض ہم مکتب اور ہم جماعتوں سے بھی بحث کی.مگر جب آپ کے قلب مطہر نے علم اور دولت میں سے کسی کو کافی اور یقینی طور پر بہتر ہونے کا فتویٰ نہ دیا تو آپ اپنے ابا جان امام الوقت کے ساتھ کھانا کھاتے

Page 44

تاریخ احمد بیت.جلد ۴ 16 سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ہوئے میاں بشیر احمد صاحب سے یوں مخاطب ہوئے.محمود احمد بشیر تم بتلا سکتے ہو کہ علم اچھا ہے یا دولت؟ میاں بشیر احمد صاحب نے تو کیا جواب دینا تھا.امام الوقت سن کر فرمانے لگے....بیٹا محمود اتو بہ کرد تو بہ کرو نہ علم اچھا ہے نہ دولت خدا کا فضل اچھا ہے".حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے لکھا ہے کہ ”ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا.”میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے.جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں؟ مرزا محمد اسمعیل بیگ صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مع اصحاب..سیر کو تشریف لے گئے.راستہ کے ایک طرف کیکر کا ایک درخت گرا پڑا تھا.بعض دوستوں نے اس کی شاخوں سے مسواکیں بنالیں.حضور کے ساتھ غالبا حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے.چھوٹی عمر تھی ایک مسواک کسی نے آپ کو بھی دے دی اور انہوں نے بے تکلفی سے بچپن کی وجہ سے ایک دو دفعہ یہ بھی کہ دیا کہ ابا مسواک لے لیں مگر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ پہلے ہمیں یہ بتلاؤ کہ کس کی اجازت سے یہ مسواکیں حاصل کی گئی ہیں.یہ بات سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں" حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو سنت نبوی کے مطابق خاص طور پر ہدایت کر رکھی تھی کہ گھر سے باہر نکلنے کے وقت ہاتھ میں چھڑی رکھا کریں.اسی طرح مغرب کے بعد آپ کو گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی.جس کی ایک وجہ سید نا حضرت محمود خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے یہ بھی بیان فرمائی ہے.اپنے بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کے بعد کبھی باہر نہیں نکلنے دیتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے لوگ دشمن ہیں ممکن ہے وہ بچوں پر حملہ کر دیں اور انہیں نقصان پہنچا ئیں مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے کبھی بھی مغرب کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیا اور اس کے بعد بھی آپ کی وفات تک میں اجازت لے کر مغرب کے بعد گھر سے جاتا " حضرت ام المومنین کی تربیت کے سنہری اصول اب رہا حضرت ام المومنین کے تربیت کرنے کا معاملہ سو آپ کے زریں اور قیمتی اصول اخلاق و تربیت پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ظلمها العالی کا مندرجہ

Page 45

تاریخ احمدیت جلد ۴ 17 سید نا حضرت خلیفہ آسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ذیل اہم بیان کافی روشنی ڈالتا ہے.حضرت سیدہ موصوفہ تحریر فرماتی ہیں.”اصولی تربیت میں میں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ (ام المومنین رضی اللہ عنہا.ناقل) سے بہتر کسی کو نہیں پایا.آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی (بجز معمولی اردو خواندگی کے) مگر جو آپ کے اصول اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟ بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے.جھوٹ سے نفرت اور غیرت رغنا آپ کا اول سبق ہو تا تھا.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے.پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.جس وقت بھی روکا جائے گا باز آجائے گا.اور اصلاح ہو جائے گی.فرمائیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی.تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا.اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں.حضرت ام المومنین ہمیشہ فرماتی تھیں کہ ”میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے." اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچا تا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا.مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں.پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت و قدر کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی.بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ ” پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ.دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے".پاکیزہ بچپن پر ایک عمومی نوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے حسن تربیت ہی کا فیض تھا کہ حضرت صاجزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جو فطرنا آسمانی نوروں سے حصہ وافر لے کر آئے تھے ابتدا ہی سے نہایت درجہ پاک و مطہر تھے اور آپ کا بچپن اپنے ہم عمر تمام بچوں سے بالکل نرالا رنگ رکھتا تھا.

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 18 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ میں شروع ہی سے اولوالعزمی اور جلال کا رنگ بہت نمایاں تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت قدیمی اور مخلص صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری اپنا ایک چشم دید واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ.اپریل یا مئی ۱۸۹۳ء کا ذکر ہے کہ میں ایک روز نماز عصر کے لئے مسجد کی طرف جا رہا تھا.جب اس جگہ پہنچا جہاں حضرت سید احمد نور کابلی رضی اللہ عنہ کی دکان تھی.تو میں نے دیکھا.کہ اس سے شمال کی طرف چند قدم کے فاصلہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اس زمانہ میں میاں صاحب یا میاں محمود کہلاتے تھے چند بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں.میں آپ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ سیدنار مولانا حضرت مولوی نور الدین بھی تشریف لے آئے اگر چہ آنجناب زمین پر اکڑو بیٹھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے تاہم میاں صاحب کے قریب پہنچ کر اکثر و زمین پر بیٹھ گئے.اور آپ کو اپنے ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا.اور بڑی محبت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے ہوئے پیار کے لہجہ میں فرمایا."میاں آپ کھیل رہے ہیں." میاں نے معصومانہ نظروں سے حضرت مولوی صاحب کی طرف دیکھا اور جس لہجہ میں آپ سے سوال کیا گیا تھا بالکل اسی لہجہ میں بڑی تیزی سے جواب دیا کہ " بڑے ہوں گے تو ہم بھی کام کریں گے." سید نا حضرت مولوی صاحب نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ ”خیال تو تمہارے پیو کا بھی یہی ہے.اور نور الدین کا بھی واللہ اعلم بالصواب " مجھے " پیو" کے معنے معلوم نہیں تھے اس لئے میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ سید نا حضرت مولوی صاحب کسی امر میں کس سے متحد الخیال ہیں.جب سید نا حضرت مولوی صاحب مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہمراہیوں میں سے کسی سے پوچھا کہ پیو کسے کہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ باپ کو مگر یہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی متحد الخیال ہونے والی بات میں اس وقت نہیں دو سمجھا تھاوہ سیدنا حضرت مولانا نور الدین کے زمانہ خلافت میں مجھے معلوم ہوئی.فالحمد لله جس زمانے کی یہ بات ہے اس زمانے میں حضرت امیر المومنین کی عمر چار سال یا اس سے کچھ تھوڑی ہی زیادہ معلوم ہوتی تھی.مجھے آج بھی جب اس واقعہ کا خیال آتا ہے تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے اتنی چھوٹی عمر میں حضرت مولوی صاحب کا سوال کیسے سمجھا اور اس کا اتنا چیده و سنجیدہ اور پسندیده و برجستہ جواب کس طرح دیا تھا".ہمارے ملک کے بچوں میں ایک دلچسپ کھیل رائج ہے.کہ ایک لڑکا بیٹھ جاتا ہے اور باقی سب لڑکے اس کے سر پر اوپر نیچے مٹھیاں بند کر کے رکھتے چلے جاتے ہیں آپ بھی بچپن میں یہ کھیل کھیلا کرتے تھے - مگر یہ بالکل ابتدائی عمر کی بات ہے ورنہ تعلیمی دور اور اس کے بعد آپ کی پسندیدہ کھیل بیڈ مٹن اور فٹ بال تھی.جو اپنے زمانہ خلافت سے قبل آپ ایک عرصہ تک کھیلتے رہے.or or

Page 47

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 19 سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری دنوں میں تو آپ نے موگریاں بھی رکھی ہو ئیں تھیں.ان ورزشی کھیلوں کے علاوہ شکار سے بھی آپ کو رغبت تھی جس کی وجہ خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں کہ ” میں ابتدائی ایام سے بندوق چلانے کا شائق رہا ہوں.بچپن میں ہی مجھے شکار کھیلنے کا شوق تھا.میں شکار خود نہیں کھاتا تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لا کر دے دیتا تھا.آپ چونکہ دماغی کام کرتے تھے اس لئے شکار کا گوشت آپ کے لئے مفید ہو تا.اور آپ اسے پسند بھی فرماتے تھے.اس وقت مجھے اتنی مشق تھی کہ میں پانچ چھ چھرے لے جاتا اور ہوائی بندوق سے چار پانچ پرندے مار لاتا تھا.حالانکہ وہ بندوق بھی معمولی قسم کی ہوائی بندوق ہوتی تھی.re آپ کشتی رانی اور تیرا کی بھی کرتے تھے.چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک چھوٹی کشتی بھی جہلم سے منگوا کر دی تھی اور آپ کو تیرنا سکھانے کے لئے ابو سعید عرب مقرر ہوئے تھے.اس زمانہ میں ڈھاب بڑی وسیع تھی مگر بعد میں ڈھاب پر کر کے اکثر جگہ مکانات بن گئے - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو پہلی مرتبہ ۱۹۰۵ء میں قادیان آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے حضور کو ڈھاب میں کشتی چلاتے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنی حیات طیبہ کے آخری زمانہ میں غالبا ۱۹۰۶ء کے قریب آپ کی سواری کے لئے ایک گھوڑی بھی خریدی جو نہایت عمدہ نسل اور عمدہ قد کی جو ان بچھیری تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خان عبد المجید خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ فرزند اکبر حضرت منشی محمد خان صاحب) کو خط لکھا کہ یہ چالاک گھوڑی ہے اس کی بجائے کوئی اور گھوڑی بھجوائی جائے یا اس کو بیچ کر کوئی اور عمدہ گھوڑی بھجوا دیں.حضرت شیخ عرفانی الکبیر نے مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم میں حضور کا پورا خط نقل کرنے کے بعد لکھا ہے.اس مکتوب سے ظاہر ہے....کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے.خصوصیت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی.اور حضرت امیرالمومنین ایک عمدہ شاہسوار ہیں ".سید نا حضرت محمود بچپن میں ٹوپی پہنا کرتے تھے لیکن ایک دفعہ عید کے روز آپ نے ٹوپی پہن رکھی تھی کہ حضور نے آپ کو دیکھ کر فرمایا.میاں تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہے آپ نے اسی وقت ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی اور کچھ عرصہ بعد ٹوپی کا استعمال ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا.

Page 48

تاریخ احمدیت جلد ۴ 20 سید نا حضرت خلیفہ السیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت آپ کا لباس ابتداء ہی سے نہایت سادہ رہا ہے.شروع شروع میں آپ پرانے دستور کے مطابق پاجامہ پہنا کرتے تھے.جو شلوار کے رواج سے پہلے عام طور پر سکولوں میں رائج تھا.اور شرعی پاجامہ کہلا تا تھا.لیکن طالب علمی کی زندگی میں آپ نے شلوار کا استعمال شروع کر دیا.اس تبدیلی کی بھی ایک بڑی پُر لطف سرگزشت ہے جس کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں درج کرنا زیادہ مناسب ہو گا.فرماتے ہیں.و بعض لڑکوں نے مجھے کہا میں شلوار پہنا کروں.چنانچہ میں نے شلوار بنائی.مجھے خوب یاد ہے جب پہن کر میں گھر سے باہر آیا.تو میں نہیں سمجھتا کوئی چور یا ڈا کو بھی کوئی واردات کر کے اتنی ندامت اور شرمساری محسوس کرتا ہو گا جتنی کہ مجھے اس وقت شلوار پہننے سے محسوس ہوئی.میں آنکھیں نیچی کئے ہوئے بمشکل اس مکان تک جو پہلے شفا خانہ تھا اور جس میں اس وقت ڈاکٹر عبد اللہ صاحب بیٹھا کرتے تھے آیا.بھائی عبدالرحیم صاحب اور بعض دوسرے استادوں نے اس بات کی تائید بھی کی کہ شلوار اچھی لگتی ہے.مگر مجھے اتنی شرم آئی کہ واپس جا کر میں نے اسے اتار دیا.ایک خاص اور نمایاں وصف جو ابتدائے عمر سے آپ میں پوری شان کے ساتھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زبر دست محبت و عقیدت تھی کہ حد بیان سے باہر ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت صحن میں سو رہے تھے کہ بادل زور شور سے گھر آئے اور بجلی نہایت زور سے کڑکی.وہ کڑک اس قدر شدید تھی کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ گویا بالکل اس کے پاس گری ہے...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو صحن میں سورہے تھے چار پائی سے اٹھ کر کمرہ کی طرف جانے لگے دروازہ کے قریب پہنچے کہ بجلی زور سے کڑکی.میں اس وقت آپ کے پیچھے تھا.میں نے اسی وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دئے اس خیال سے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے آپ پر نہ گرے.اب یہ ایک جہالت کی بات تھی بجلیاں جس خدا کے ہاتھ میں ہیں اس کا تعلق میری نسبت آپ سے زیادہ تھا.بلکہ آپ کے طفیل میں بھی بجلی سے بچ سکتا تھا.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہاتھوں سے بجلی کو نہیں روکا جاسکتا.مگر عشق کی وجہ سے مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی.محبت کے وفور کی وجہ سے یہ سب باتیں میری نظر سے اوجھل ہو گئیں اور میں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا".آپ کا جذ بہ عقیدت و فدائیت اور ادب و اطاعت محض اس لئے نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے والد ماجد تھے.بلکہ اس لئے کہ حضور اللہ تعالی کے مامور ہیں اور اس نے اپنے حکم

Page 49

سید نا محمود بچپن میں کمرہ ولادت سید نا محمود

Page 50

دائیں سے بائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد مصلح الموعود ۲- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احم صاحب ۳.حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب ۴.صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ -۵ صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ

Page 51

سید نا محمود المصلح الموعود ۱ یہ تصویر 1904 ء کے وسط آخر کی ہے جبکہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں مولوی کرم دین کے مقدمہ کے دوران مقیم تھے.سید نامحمود اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کی دسویں جماعت میں پڑھتے تھے.

Page 52

سید نالمصلح الموعود کی نو جوانی کی ایک تصویر

Page 53

شبیه مبارک سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( قریباً 1915ء)

Page 54

قیام لندن کے دوران میں حضرت علیہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی کا ایک یادگاری فوٹو

Page 55

عکس مکتوب مبارک سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب لله شناسه اسمان بھیجی و خونم رشته سنت کے نسبت بر کو آنے کو ایک کی کی لڑکے کی بات چیور سیدہ واستن درشته می گروپ راضی معلم را به شاد احمدی مخالف 1 باست ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م با رایان کر

Page 56

و و و و و و و وقت و در همه محکم کند مور تائی دیا مریت کو اگر مور تائی کے یہ مرضی میر اور کہیں آگئیں تو ایسی صورت میں اور این شرارت اور ریه ای یا در مسدود است کہ جب آپ کو فوری طورم نکاح کے لئے لکھا کہا مسلمات وری اسلامی طرح این استاد را در صدارت اور محروم اس نظام سرت نہ کریں بلکر ر ہے سری ساخت پارک بنية

Page 57

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 21 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت سے آپ کو بھیجا ہے چنانچہ سید نا حضرت امیر المومنین نے بچپن کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے.میری عمر جب 9 یا دس برس کی تھی میں اور ایک اور طالب علم ہمارے گھر میں کھیل رہے تھے و ہیں ایک الماری میں ایک کتاب پڑی تھی جس پر نیلا جزدان تھا.وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی نئے نئے ہم پڑھنے لگے تھے اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرئیل نازل نہیں ہو تا.میں نے کہا یہ غلط ہے میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے مگر اس لڑکے نے کہا کہ جبرئیل نہیں آتا کیونکہ اس کتاب میں لکھا ہے ہم میں بحث ہو گئی.آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ کتاب میں غلط لکھا ہے جبرائیل اب بھی آتا ہے.آپ کا ایک اور واقعہ بھی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.۱۶۲ ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے.اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جاسکے.میں اس وقت بالغ نہیں تھا.کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں.تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا.کہ ایک شخص مجھے ملا.اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی.مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے.محمد بخش ان کا نام ہے.میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں کیا نماز ہو گئی ہے ؟ انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی.میں واپس آگیا.میں یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا.مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہو تا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے.لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی.کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے ؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی.کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا.معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے.میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں.مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا.کہ میں نے جھوٹ بولا.مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا.ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 22 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت دی یا فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے ".حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کے دل میں جس قدر ادب و احترام تھا اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی ضرورت کے لئے حضور سے کبھی کوئی مطالبہ اپنی زبان سے نہیں کیا.چنانچہ فرماتے ہیں.کہ.ذاتی ضرورت کے لئے میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کچھ نہیں مانگا مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی میں خاموش پاس کھڑا ہو جایا کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھ جاتے کہ اسے کوئی ضرورت ہے چنانچہ آپ ہماری والدہ صاحبہ سے کہتے کہ اسے کوئی ضرورت معلوم ہوتی ہے.پتہ لویہ کیا چاہتا ہے.اسی ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں."میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باجود یکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی جب سے ہوش سنبھالا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی بات کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کے شایاں نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے......حالا نکہ میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ نہ مانگتا تھا.والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں.باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی.مثلا خدا کے کسی فضل کا ذکر ہو تا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا.میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا تھا.لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے.کیونکہ وہ برکت اس الہام کے ماتحت ہوئی کہ یادم اسکن انت وزوجک "- آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر حکم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کیا کرتے تھے اور آپ کے اشاروں کو بھی ابتدا ہی سے خوب سمجھتے.چنانچہ حضرت سید فضل شاہ صاحب کا واقعہ ہے کہ.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور بادام آگے رکھے تھے...میں بادام توڑ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت میاں بشیر الدین جن کی عمر اس وقت چار یا پانچ سال کی ہو گی.

Page 59

تاریخ احمدیت جلد ۴ 23 سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت تشریف لائے اور سب بادام اٹھا کر جھولی میں ڈال لئے.حضرت اقدس نے یہ دیکھ کر فرمایا یہ میاں بہت اچھا ہے یہ زیادہ نہیں لے گا.صرف ایک یا دو لے گا.باقی سب ڈال دے گا جب حضرت صاحب نے یہ فرمایا.میاں نے جھٹ بادام میرے آگے رکھ دئے اور صرف ایک یا دو بادام لے کر چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زندہ ایمان ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی حضور کی ہر بات صدق دل سے تسلیم کرتے تھے.اور اس کی تلقین دو سروں کو بھی فرماتے.چنانچہ بطور مثال آپ کے قلم سے لکھا ہوا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا.کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کہتے ہیں تو ایک ہی دفعہ کی تسبیح پر ہمیں خدا تعالٰی کا اس قدر قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرا انسان ہزاروں ہزار ویسی تسبیح کر کے بھی اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.میں اس مجلس میں نہیں تھا کسی ہمارے ہم عمر نے یہ بات سن لی.وہ مجھے ملے تو انہوں نے تعجب سے کہا.پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معلوم نہیں کسی تسبیح کا ذکر کیا.اس نے مجھ سے ذکر کیا تو یہ بات فوراً میرے ذہن میں آگئی کہ ایک تسبیح دل سے نکلتی ہے اور ایک تسبیح زبان سے نکلتی ہے.جب تسبیح دل سے نکلتی ہے تو یکدم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے اور جو تسبیح زبان سے نکلتی ہے وہ خواہ کوئی انسان ہزاروں دفعہ دہرائے وہ وہیں کارہیں بیٹھا رہتا ہے میں نے اسے کہا میں سمجھ گیا ہوں جو تسبیح دل سے نکلتی ہے اس کا اثر فورا ظاہر ہو جاتا ہے اور جو صرف زبان سے نکلتی ہے اس کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا" 12 وہ بزرگ جنہوں نے آپ کو انتہائی بچپن کے زمانہ سے دیکھا ہے بالاتفاق یہ گواہی دیتے ہیں کہ چھوٹی عمر سے ہی آپ کو دینی باتوں سے خاص شغف اور دلچسپی رہی ہے اور اگر چہ آپ ابتداء سے بہت کمزور اور دبلے پتلے ہوتے تھے اور اکثر صحت خراب رہتی تھی مگر اس زمانہ میں بھی مذہبی باتوں میں آپ ہمیشہ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے.اگر چہ وہ باتیں شروع شروع میں آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور نہ آسکتی تھیں تاہم آپ کو ان سے طبعاً ایک دلی لگاؤ اور گہرا تعلق تھا اسی تعلق کے باعث آپ نے بالکل چھوٹی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جانا شروع کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کو نہایت محبت کے ساتھ اپنے شہ نشین پر دائیں طرف بٹھاتے تھے.چنانچہ خود فرماتے ہیں." - صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح

Page 60

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 24 سید تا حضرت خلیق لمسیح الثانی کے سواغ قبل از خلافت ۷۹ موعود علیہ الصلوة والسلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا.ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشا اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں ".حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل سے مروی ہے کہ حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کر کے واپس گھر تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب ( خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے جن کی عمر اس وقت ۱۰- ۲ سال کی ہوگی پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی.میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا.تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یا درکھا ہے ".آپ کے عہد طفولیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ آپ کو چھوٹی عمر سے ہی نماز پڑھنے اور لمبی لمبی دعائیں کرنے کا بے حد شوق تھا.دراصل آپ روزانہ اپنی آنکھوں سے قبولیت دعا کے تازہ تازہ نشانات اور معجزات مشاہدہ کرتے تھے جنہوں نے آپ کو رفتہ رفتہ معرفت بصیرت اور یقین و ایمان کی مستحکم چٹان پر کھڑا کر دیا تھا.خود فرماتے ہیں.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے ایسے نشان دیکھے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے بعد خد اتعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.پھر خود اپنی ذات میں بھی اس نشان کا مشاہدہ کیا ہے اور بارہا حیرت انگیز ذرائع سے دعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے".اس سلسلہ میں بطور نمونہ بچپن کے تین واقعات ذیل میں لکھے جاتے ہیں.حضرت مفتی محمد صادق کی چشم دید شہادت ہے کہ.چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت ۱۸۹۰ء کے اخیر میں کرلی تھی.اور اس وقت سے ہمیشہ آمد و رفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا.میں حضرت اولو العزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعود کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے.ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قریب ہو گی آپ مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 61

تاریخ احمدیت جلد ۴ 25 سیدنا حضرت خدیمہ ناسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے بچپن سے ہی آپ کو فطر تا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا".اسی نوعیت کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت شیخ غلام احمد واعظ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ.ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا.اور تنہائی میں اپنے مولی سے جو چاہوں گا مانگوں گا.مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاج سے دعا کر رہا ہے.اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا.اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا.اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے یہ دعا کی کہ یا الہی یہ شخص جو تیرے حضور سے جو کچھ مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا.کہ یہ شخص سراٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے.مگر جب آپ نے سر اٹھایا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں.میں نے اسلام علیکم کی اور مصافحہ کیا.اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا.تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الہی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا.اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے " حضرت شیخ محمد اسمعیل سرساوی کا بیان ہے کہ.ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کے بچپن کو دیکھا اور پھر اسی بچپن میں آپ کے ایثار اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو خوب دیکھا.ہم نے دیکھا کہ آپ کے قلب میں دین کا ایک جوش موجزن تھا.اور بچپن ہی سے آپ دعاؤں میں اس قدر محو اور غرق ہوتے تھے کہ ہم تعجب سے دیکھا کرتے تھے کہ یہ جوش ہم میں کیوں نہیں.آپ بعض وقت دعا میں ایسے محو ہوتے تھے کہ ہم ہاتھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتے تھے لیکن آپ کو اپنی محویت میں اس قدر بھی معلوم نہ رہتا کہ کس قدر وقت گزر گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سورج گرہن کی نماز پڑھنے کے لئے ہم مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے نماز مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے پڑھائی اور نماز کے بعد مولوی صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ ”میاں آپ دعا شروع کریں." آپ نے دعا شروع فرمائی.مگر آپ اس دعا میں ایسے محو ہوئے کہ آپ کو یہ خبر ہی نہ رہی کہ میرے ساتھ اور لوگ بھی دعا میں شریک ہیں دعا میں جس قدر لوگ شامل تھے ان کے ہاتھ اٹھے اٹھے اس قدر تھک گئے کہ وہ شل ہونے کے قریب ہو گئے.اور کئی کمزور صحت کے لوگ تو پریشان ہو گئے.تب مولوی محمد احسن صاحب نے جو خود بھی تھک چکے تھے دعا کے خاتمہ کے الفاظ بلند

Page 62

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 26 سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت آواز میں کتنے شروع کئے جسے سن کر آپ نے دعا ختم فرمائی.حضرت شیخ محمد اسمعیل نے اپنے اس بیان میں مزید یہ لکھا ہے کہ.سیدنا محمود ایده ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہے.ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشنگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ”میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں".حضرت مسیح موعود کی بعض ابتدائی کتابوں میں آپ کا ذکر مبارک اللہ تعالی کی عمر بمشکل دو سال کی ہوگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء کے آغاز میں دعوئی مسیحیت کا اعلان فرمایا.حضور نے اسی سال سے جہاں اپنے دعاوی کے ثبوت میں دوسرے زبر دست نشانات پبلک کے سامنے رکھنے شروع کئے وہاں آپ نے التزام کے ساتھ پیشگوئی متعلقہ پسر موعود کی بھی بار بار منادی کرنا شروع کر دی.اور اپنی کتابوں میں بڑے زور شور سے تمام لوگوں کو توجہ دلانے لگے کہ پسر موعود سے متعلق آسمانی نشان کو بھی یاد رکھیں کہ یہ آپ کی سچائی اسلام کی سچائی اور محمد رسول اللہ کی سچائی پر ایک عظیم الشان برہان ہے.چنانچہ ۱۸۹۱ ء سے ۱۸۹۴ء تک کے زمانے میں آپ نے جو کتابیں تصنیف فرما ئیں ان میں سے ازالہ اوہام "- " نشان آسمانی"- "آئینہ کمالات اسلام" اور "سر الخلافہ " میں پسر موعود کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے." چنانچہ ازالہ اوہام میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو مئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہو گی.وہ آسمان سے اترے گا.اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا.وہ امیروں کو رستگاری بخشے گا.اور ان کو جو شبہات کے زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الحق و العلاء كان الله نزل من السماء لیکن یہ عاجز ایک خاص پیشگوئی کے مطابق جو خدا تعالیٰ کی مقدس کتابوں میں پائی جاتی ہے مسیح موعود کے نام پر آیا ہے.واللہ اعلم و علمها حكم "- نشان آسمانی" میں حضرت نعمت اللہ ولی کے قصیدہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا.دور او چون پرش یادگار بینم شود تمام بکام یعنی جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑ ک یاد گار رہ جائے گا

Page 63

تاریخ احمدیت جلد ۴ 27 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت یعنی مقدر یوں ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک لڑکا پار سادے گا جو اس کے نمونہ پر ہو گا اور اس کے رنگ سے رنگین ہو جائے گا.اور وہ اس کے بعد اس کا یاد گار ہو گا.یہ در حقیقت اس عاجز کی اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو ایک لڑکے کے بارے میں کی گئی ہے "."آئینہ کمالات اسلام" (تصنیف (۱۸۹۲ء) میں حضور نے نہ صرف ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کا مکمل اشتہار شامل کر دیا بلکہ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود کا عربی ترجمہ بھی شائع فرمایا تا دنیائے عرب تک بھی اصل پیشگوئی کے الفاظ پہنچ جائیں.اور اتمام حجت ہو.چنانچہ حضور نے اس کتاب میں عربی میں پیشگوئی کے الفاظ لکھنے کے بعد تحریر فرمایا.قد اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان المسيح الموعود يتزوج ويولد له ففى هذا اشارة الى ان الله يعطيه ولدا صالحا يشابه اباه ولا يا باه و يكون من عباد الله المكرمين والسر في ذلك ان الله لا يبشر الانبياء والاولياء بذرية الا اذا قدر توليد الصالحين وهذه هى البشارة التى قد بشرت بها من سنين و من قبل هذه الدعوى ليعر فنى الله بهذا العلم فى اعين الذين يستشر فون و كانوا للمسيح كالمجلوذين " ترجمہ: رسول اللہ ا نے خبر دی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک لڑکا عطا کرے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہو گا.اور (کسی بات میں) اس کی نافرمانی نہیں کرے گا.اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہو گا.اور اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو بشارت نہیں دیتا مگر جبکہ اس نے نیکیوں کو پیدا کرنا مقدر کیا ہو.اور یہ وہ بشارت ہے جو مجھے اس دعوئی سے کئی سال پہلے دی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس علم کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے (جو انتظار کرتے تھے اور مسیح کے جلدی ظہور کے لئے چشم براہ تھے) متعارف کرا دے.AL

Page 64

تاریخ احمدیت جلد ۴ پہلا باب (فصل دوم) 28 سید تا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے سواغ قبل از خلافت تعلیم قرآن اور آمین مدرسہ تعلیم الاسلام میں ظاہری تعلیم ، پہلی شادی انجمن ہمدردان اسلام" " تشحید الاذہان اور شعر و سخن کا آغاز (۱۳۲۲۰۵۱۳۱۲ھ) (۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۴ء تک) سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تعلیم قرآن کی ابتدا ۱۸۹۵ء میں تعلیم قرآن ۱۸۹۵ء ہوئی - حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری کو یہ سعادت حاصل ہوئی.کہ Ar انہوں نے آپ کو (ساده) قرآن شریف پڑھایا.میں ذکر ، حضرت مسیح انجام آتھم میں ذکر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ۱۸۹۷ء میں انجام آتھم بھی شائع فرمائی تو اس کے ضمیمہ میں امیر المومنین حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی کی پیدائش کو سبز اشتہار کی پیشگوئی کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے نشان قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا.» محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے ".۸۴ "سراج منیر میں ذکر اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " سراج منیر" میں بھی سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو سبز اشتہار کا موعود قرار دیا.اور علماء و خواص مسلم و غیر مسلم دنیا کو توجہ دلائی.

Page 65

29 سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا.اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا.اور اب نویں سال میں ہے ".اور حاشیہ میں تحریر فرمایا.ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہو گیا.کس قدریہ پیشگوئی عظیم الشان ہے.اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو." A ۲۲ ۷ / جون ۱۸۹۷ء کا دن نہ صرف سید نا محمود کی زندگی میں بلکہ جماعت احمد یہ " محمود کی آمین کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے کیونکہ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے ختم قرآن مجید کی فرحت خیز و مسرت انگیز تقریب بڑے وقار اور دعاؤں کے ماحول میں منائی اس اجتماع میں جماعت کے بہت سے دوستوں نے شرکت کی چنانچہ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے.دوسرا جلسہ حضور کے لخت جگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد |AA| سلمہ اللہ کے ختم قرآن کی تقریب پر ہوا.اس جلسہ پر بھی بہت سے احباب تشریف لائے " حضرت حافظ احمد اللہ خان صاحب ناگپوری فرماتے تھے کہ ختم قرآن کی تقریب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈیڑھ سو روپیہ عنایت فرمایا تھا.اس موقعہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک منظوم " آمین" لکھی جس میں اپنی تمام مبشر اولاد کے لئے عموماً اور حضرت محمود ایدہ اللہ تعالٰی کے لئے خصوصا نہایت در دو سوز اور الحاح و زاری سے دعائیں کیں اور اس فضل ربانی پر جو ختم قرآن کی صورت میں ظاہر ہوا.اپنے آسمانی آقا کا تہ دل سے شکر ادا کیا اور اس کی حمد وثنا کے خوب گیت گائے.جیسا کہ محمود کی آمین کے مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے.کیونکر ہو شکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا تو نے یہ دن دکھایا محمود کے آیا صد ہو شکر شکر تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی دل دیکھ کر یہ احسان تیری شائیں گایا ہے خدایا یہ روز کر مبارک سبحان من برانی تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور تو نے مجھے دیئے ہیں یہ تین تیرے چاکر ہے خدایا صد پڑھ شکر

Page 66

تاریخ احمدیت جلد ۴ 30 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سواغ قبل از خلافت تیرا ہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر روز کر مبارک سبحان من برانی من میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری اپنی پسند میں رکھیو سن کر یہ میری زاری روز کر مبارک سبحان من برانی اے واحد و یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بناتا یہ روز کر مبارک سبحان من برانی فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے ہر غم سے دور رکھنا تو رب عالمیں ہے یہ روز کر مبارک سبحان من برانی D تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر ان سے دور یا رب دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سبحان من برانی انے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے فضل کہ کہ ہوویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سبحان من برانی اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سبحان من برانی میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے داری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پر آئے لے کر امید بھاری یہ روز کر مبارک سبحان من برانی لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا روز کر مبارک سبحان من برانی مقدمہ مارٹن کلارک سے بریت کی بشارت سیدنا حضرت محمود فرماتے ہیں."جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا.....حضرت مسیح موعود نے جب اوروں کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد پہرے لگے ہوئے ہیں.میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ ہو تا تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے اپنے چن دیئے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگادیں.مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی.وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر کامیاب نہیں ہوتے.میں اس سے بہت گھبرایا.لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ” جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی.

Page 67

تاریخ احمدیت جلد ۴ 31 ید تا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ۹۳ چنانچہ اس خواب کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف بری کر دئے گئے.آخر ۱۸۹۷ء میں سیدنا حضرت محمود سلمہ الودود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملتان کا سفر فرمایا.اس سفر کے صرف دو واقعات آپ کو یاد ہیں جن کی تفصیل خود سفر ملتان آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے.وہاں ان دنوں مومی تصویر میں دکھائی جارہی تھیں.جن سے مختلف بادشاہوں اور ان کے درباروں کے حالات بتائے جاتے تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش دیر ہاؤس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ یہ ایک علمی چیز ہے آپ اسے دیکھنے کے لئے تشریف لے چلیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انکار کر دیا.اس کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا.کہ میں چل کر وہ مومی مجتمے دیکھوں.میں چونکہ بچہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے پڑ گیا.کہ مجھے یہ مجتھے دکھائے جائیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے اصرار پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے.مختلف بادشاہوں کے حالات تصویروں کے ذریعہ دکھائے گئے تھے...اور دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لاہور کے اندر کسی نے دعوت کی اور آپ اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے گئے.کچھ اثر میرے دل پر یہ بھی ہے کہ دعوت نہیں تھی.بلکہ مفتی محمد صادق یا ان کا کوئی بچہ بیمار تھا.اور آپ انہیں دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے.بہر حال شہر کے اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واپس آرہے تھے کہ سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے پاس میں نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا جو گالیاں دے رہا تھا ایک شخص ان کے درمیان کھڑا تھا.....جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گاڑی پاس سے گزری.تو ہجوم کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی میلہ ہے چنانچہ میں نے نظارہ دیکھنے کے لئے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا.اس وقت کا یہ واقعہ مجھے آج تک نہیں بھولا.کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور جس پر ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں.بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا جا رہا تھا.” مرزا دو ڑ گیا.مرزا دو ڑ گیا.اب دیکھو ایک شخص زخمی ہے اس کے ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں.مگر وہ مخالفت کے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے ٹنڈے ہاتھ سے ہی نعوذ باللہ ۱۹۴ " احمدیت کو دفن کر آؤں گا".40]

Page 68

i احمدیت.جلد ۴ 32 سید نا نفرت خلیفۃالمسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت تعلیم الاسلام سکول میں داخلہ ۱۸۹۹ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا افتح ہوا.اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.آپ بھی اس مدرسہ میں داخل ہو گئے.اس سے پہلے آپ کچھ عرصہ تک ڈسٹرکٹ بورڈ کے لوئر پرائمری سکول میں بھی پڑھتے رہے تھے.یہ سکول غالباً ۴۱-۱۹۴۰ء تک قائم رہا پھر توڑ دیا گیا.مگر اس کی شکستہ عمارت جس کی چار دیواری گر چکی ہے ابھی تک ریتی پھلہ کے قریب موجود ہے.اس سکول میں ابتداء حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی بھی مدرس رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد تھا کہ ”میاں کو بھی سکول لے جایا کرو".اور حضرت پیر صاحب اس ارشاد کی تعمیل میں آپ کو اسکول لے جایا کرتے تھے.تعلیم الاسلام سکول کا افتتاح کس رنگ سے ہوا.اور اس کی ابتدائی حالت کیا تھی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں." مجھے یاد ہے ہمارا وہ ہائی سکول جس کی اب ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے کہ معائنہ کرنے والے انسپکٹر کہتے ہیں پنجاب بلکہ ہندوستان میں کسی سکول کی ایسی عمارت نہیں اس کا جب پہلے دن افتتاح ہوا.تو مرزا نظام الدین صاحب کے کوئیں کے پاس ٹاٹ بچھا کر لڑکے بٹھائے گئے.پھر کچھ دنوں تک لڑکے مہمان خانہ میں بٹھائے گئے.پھر ایک کچا مکان بنایا گیا تھا" 1 | 4A | سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالی کے بعض ہم مکتب یہ ہیں.- حافظ عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلہ.قاضی نور محمد صاحب محمد علی صاحب اشرف (حکیم) - دین محمد صاحب پشنز ا کاؤشٹ.شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹی.(وفات کے جون ۱۹۷۶ء ) اساتذہ کرام "مدرسہ تعلیم الاسلام" کے زمانہ تعلیم میں آپ نے جن اساتذہ سے پڑھا.ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.1 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی - (۲) حضرت قاضی سید امیر حسین - (۳) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ - (۴) حضرت مولانا شیر علی - (۵) حضرت ماسٹر عبدالرحمن نو مسلم - (۲) مفتی محمد صادق - (۷) ماسٹر فقیر اللہ صاحب - (۸) قاضی یار محمد صاحب پلیڈر 10

Page 69

تاریخ احمدیت جلد ۴ رور 33 سید نا حضرت خلیفہ السیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت تعلیم سے متعلق حضرت مولانا آپ کا دور تعلیم کی پاکیزہ اور اخلاق و روحانیت سے کتنا معمور تھا؟ یہ معلوم کرنے کے لئے آپ سید محمد سرور شاہ صاحب کے تاثرات کے بعض اساتذہ کے تاثرات معلوم ہوتا ضروری امر ہے.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی مجھ سے پڑھا کرتے تھے.تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خواہیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب اخوا ہیں تو بہت آتی ہیں.اور میں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر حریف کا مقابلہ کر رہا ہوں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی.تو سر کنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں میں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا.اور میں نے اسی وجہ سے کلاس میں کرسی پر بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا.آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا اور میں نے خواب سن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ ”میاں آپ بڑے ہو کر مجھے بھلا نہ دیں.اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں".( بروایت حضرت حافظ مختار احمد صاحب) حضرت مولانا شیر علی کے تاثرات اس سلسلہ میں حضرت مولانا مولوی شیر علی نے کے تاثرات جو آپ نے ایک مفصل مضمون کی شکل میں شائع فرمائے تھے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالی کی سیرت و شمائل اور اخلاق و عادات پر گہری روشنی پڑتی ہے یہ تاثرات ایسے مقدس بزرگ و حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی کے ہیں جنہیں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالی کے بچپن اور جوانی کے اکثر حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ و ملاحظہ کرنے اور بہت قریب سے آپ کی عظیم شخصیت کے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا تھا.حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں.ومئی ۱۸۹۹ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا چارج لینے کے بعد جلدی ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے اس وقت جبکہ آپ کی عمر 1

Page 70

تاریخ احمدیت جلد ۴ 34 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت سال کی تھی بندہ کے پاس انگریزی پڑھنی شروع کی پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکان میں جو دار المسیح الموعود کے متصل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل نواب صاحب کا مکان ہے رہتا تھا جب تک میں اس مکان میں رہا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ اس مکان میں پڑھنے کے لئے تشریف لاتے رہے اس کے بعد میں خود حضور کی خدمت میں حاضر ہو تا رہا اور یہ خدمت بندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دس سال میں برابر ادا کر تا رہا.اور حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد یہ سلسلہ حضرت خلیفتہ المسیح اول ﷺ کے شش سالہ دور خلافت میں بھی جاری رہا...گویا حضور کا سارا بڑھتا اور پھولنا اور بابرگ و بار ہونا میری آنکھوں کے سامنے ہوا.آپ ایک نازک پتیوں والے چھوٹے پودے کی طرح تھے جبکہ میں نے پہلی دفعہ حضور کو دیکھا اور یہ پودا میرے دیکھتے دیکھتے جلد جلد بڑھا اور پھول پھل لایا.اور وہ حیرت انگیز ترقی کی جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی اور انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے اگر کوئی قابل انشاء پرداز ہو تا تو وہ شاید اس حیرت انگیز ترقی کا نقشہ کھینچنے کی کچھ کوشش کرتا.لیکن میں تو اس سے زیادہ نہیں کر سکتا.کہ اس بات کی شہادت دوں کہ جو کچھ خدا تعالی کے پاک کلام میں آپ کی نسبت پہلے سے خبر دی گئی تھی.اس کو میں نے اپنی آنکھوں سے لفظ بلفظ پورا ہو تا دیکھ لیا مجھے اپنی زبان کی کمزوری اور قلم کی ناتوانی پر افسوس آتا ہے جو صحیح نقشہ ناظرین کے سامنے پیش کرنے سے عاجز ہوں لیکن میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا.و هو الموفق ” میں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا.ابتداء میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے.جو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نمایاں ہوتے گئے.ممکن ہے کہ کوئی شخص میرے اس بیان کو خوش اعتقادی پر محمول کرے اس لئے میں آپ کے بچپن کی ایک بات کا ذکر کرتا ہوں جس سے ناظرین خود حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں.آپ کو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا.یہ ایک ہدایت تھی جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بچہ کو دی.اب دیکھئے کہ وہ خورد سال بچہ حضرت اقدس کی اس ہدایت کی کس طرح تعمیل کرتا ہے.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتداء میں حضور بندہ کے مکان پر پڑھنے کے لئے تشریف لاتے تھے اور وہ مکان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کاہی مکان تھا جو حضور کے رہائشی مکان کے بالکل متصل بلکہ حضور کے گھر کے ساتھ ملحق تھا.ہم غالبا ۳ سال اس مکان میں رہے اور اس تمام عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بندہ کے پاس پڑھنے کے لئے تشریف لاتے اور جب کبھی آپ کو پیاس لگتی.تو آپ اٹھ

Page 71

جلد 35 سید نا حضرت خلیفتہ اہسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور اپنے گھر سے پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے.خواہ کیسا ہی مصفا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپ اسے نہ پیتے.صرف اس لئے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے آپ کو ہدایت تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا اب بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے.لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں ہمیں حضور کی اس وقت کی شکل صحیح رنگ میں نظر آسکتی ہے.اول دیکھئے کہ حضور اس بچپن کے زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کیسی کامل اطاعت کرتے اور کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے.دوسرے دیکھئے کہ وہ اس اطاعت میں کس درجہ کی احتیاط سے کام لیتے.بظاہر حضرت اقدس نے جب فرمایا کہ کسی کے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز نہ لینا.تو حضرت اقدس کی مراد ایسی چیزوں سے تھی جو لوگ بچوں کو اپنی محبت اور پیار کے اظہار کے لئے دیتے ہیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ کسی کے برتن سے پانی بھی نہ پینا.مگر آپ کی احتیاط اس درجہ کی تھی کہ آپ اپنے گھر کے سوا قادیان میں کسی اور گھر سے کسی گھڑے یا صراحی سے پانی لے کر پینا بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی ہی سمجھتے تھے.یہی حد درجہ کی احتیاط ہے.جسے دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں.پس آپ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے.کہ آپ بچپن میں ہی اطاعت اور تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن تھے.اور یہی بیج تھا جو آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا اور زیادہ واضح اور زیادہ نمایاں شکل میں کمال کے آخری مرتبہ تک پہنچ گیا.یہ پانی کا واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوا.اور حضور ہمیشہ اطاعت کے اصول پر مضبوطی سے قائم رہے.ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ شاید حجاب کی وجہ سے آپ ہمارے گھر سے پانی پینے سے اجتناب فرماتے مگر ایسا نہیں تھا.آپ بے تکلفی سے ہمارے گھر میں رہتے اور حضور کی خوش خلقی اور خوش طبعی کی باتیں اس وقت تک بندہ کے گھر سے نہایت محبت کے ساتھ یاد کرتی ہیں.اور جب حضور کے منصب خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد بندہ کے گھر سے بیعت کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اس وقت کے بچپن کے واقعات ان کو یاد دلائے.کیونکہ حضور کا حافظہ بہت مضبوط ہے ".PA حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طالب علمی کا ایک اور واقعہ لکھتا ہوں اس سے بھی آپ کی قلبی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے.ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی.مگر زیادہ نہ تھی.بندہ وقت مقررہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا.حضور نے دروازہ کھولا بندہ اندر آکر بر آمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا.آپ کمرہ میں تشریف لے گئے میں نے

Page 72

تاریخ احمدیت جلد ۴ 36 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت سمجھا کہ کتاب لے کر با ہر بر آمدہ میں تشریف لائیں گے.مگر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہو گئی.تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لئے دعا کی تحریک ہوئی ہے اور آپ بندہ کے لئے دعا فرما ر ہے ہیں.آپ بہت دیر تک سجدہ میں پڑے رہے اور دعا فرماتے رہے ".اس اہتمام کے باوجود جو آپ کی ابتدائی دنیوی تعلیم صحت کی خرابی کا اثر زمانہ تعلیم پر کے لئے کیا کا وہ مکہ آپ کی صحت شروع ہی سے بہت چونکہ کمزور تھی اور آپ بچپن ہی سے بہار چلے آرہے تھے.اس لئے آپ اپنے اساتذہ کی توجہ اور شفقت کے باوجود کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکے.چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں.میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا.بچپن میں میری آنکھ میں سخت گرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں.اور ایسی شدید تکلیف نکروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری صحت کے متعلق خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں.اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے بھی شروع کر دیئے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے.جب آخری روزے کی آپ انکاری کرنے لگے.اور روزہ کھولنے کے لئے مونہہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے.لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی.چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا.دو چارفٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی.صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے.مگر اس میں بھی کرے پڑ گئے.اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ اس کی پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی.یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے.کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لیا کرو.اس کے علاوہ آپ نے مجھے کچھ اور پڑھنے کے لئے کبھی کچھ

Page 73

تاریخ احمدیت جلد ۴ 37 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت نہیں کہا.ہاں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو.کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالٰی نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.وہ ہمارے حساب کے استاد تھے.اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے.لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے ہیںکیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی.اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.کیونکہ نظر تھک جاتی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی جی چاہتا.تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ پڑھتا نہیں.کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا.آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدد سے چلا جاتا ہے.ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے کہ اس سے ہم نے آٹے دال کی دوکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے.حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم یا آپ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا.اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے درنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے.یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے.میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا.اور پھر مدرسہ میں جاناہی چھوڑ دیا.کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی.غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی.اور میں در حقیقت مجبور بھی تھا.کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا.چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا.پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی.ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکزی کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی.اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی.کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی.غرض آنکھوں میں ککرے.جگر کی خرابی.عظم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا یہ فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے.ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے میرا اردو کا امتحان لیا.میں اب بھی بہت بد خط ہوں.مگر اس زمانہ میں تو میرا انتقاید خط تھا.کہ پڑھا ہی نہیں جا تا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے.

Page 74

تاریخ احمدیت جلد ۴ 38 سید تا کو ی حضرت خدیقه لمسیح الثانی کے سواتی قبل از خار است انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگا ئیں کہ میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا.میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں.ان (حضرت میر ناصر نواب صاحب کی طبیعت بڑی تیز تھی.غصہ میں فورا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقا اس وقت گھر میں ہی تھا.ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نہ معلوم کیا ہو.خیر میر صاحب گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں.میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا.آپ ذرا اپرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا.پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا.بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو.جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اول ان کو بلا لیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول اس کو مجھ سے بڑی محبت تھی.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.مولوی صاحب میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب میرے پاس آئے ہیں.اور کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا بالکل پڑھا نہیں جاتا.میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے.یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو.بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیا.میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا.اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے.اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا.الف اور باوغیرہ احتیاط سے ڈالے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے.مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا.مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے.فرمانے لگے.حضور میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا.ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے ".مدرسہ کے امتحانات میں ناکامی اور اس کی حکمت یہ وہ حالات تھے جن میں آپ کو زمانہ تعلیم میں گزرنا پڑا.صرف اس وجہ سے آپ اگلی جماعت میں بٹھادئے جاتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کے فرزند ارجمند تھے.مگر چونکہ سرکاری امتحانوں میں یہ عقیدت مندی قائم نہیں رہ سکتی تھی.اس لئے آپ مڈل اور

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 39 حضرت خدین اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت انٹرنس دونوں امتحانوں میں فیل ہو گئے تا دنیا پر یہ کھل جائے کہ آپ کا معلم حقیقی تو عرش کا خدا ہے.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں.دنیوی لحاظ سے میں پرائمری لیل ہوں مگر چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دے دی جاتی تھی.پھر مڈل میں فیل ہوا.مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دے دی گئی.آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کھل گئی اور میں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا.اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی.گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں.مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو.اور پھر اسے شرمندگی نہ ہوئی ہو.بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے اور اب بھی میرا دعوی ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو وہ اگر قرآن کریم کے خلاف میرے سامنے کوئی اعتراض کرے گا تو اسے ضرور شکست کھانی پڑے گی اور وہ شرمندہ اور لاجواب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا".پھر فرماتے ہیں.اگر کچھ پاس کر لیتا تو ممکن ہے مجھے خیال ہو تاکہ میں یہ ہوں.وہ ہوں.لیکن اب تو اس حقیقت کا انکار نہیں ہو سکتا کہ جو مجھے آتا ہے یہ اللہ کا ہی فضل ہے میری اس میں کوئی خوبی نہیں.کچھ عرصہ ہوا لا ہور میں دو مولوی صاحبان مجھ سے ملنے آئے اور بطور تمسخر ایک نے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کہاں تک ہے میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں.کہنے لگے آخر کچھ تو ہو گی." میں نے کہا صرف قرآن جانتا ہوں.کہنے لگے بس قرآن مجھے ان پر تعجب کہ ان کے نزدیک قرآن جانا کوئی چیز ہی نہیں اور انہیں اس پر خوشی کہ ان کی تعلیم کچھ نہیں ".۱۸۹۷ء میں جبکہ آپ کی عمر آٹھ نو سال کی تھی.قادیان کے احمدی انجمن ہمدردان اسلام نوجوانوں کی انجمن قائم ہوئی جس کے سرپرست (حضرت خلیفتہ المسیح اول) مولانا مولوی نور الدین تھے اول اول اس کے اجلاس پرانے اور قدیم مہمان خانے میں ہوا کرتے تھے.اور اس وقت زیادہ سے زیادہ چھ سات ممبر تھے جن میں ایک سرگرم ممبر آپ بھی تھے.حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی تحریر فرماتے ہیں.شہید الاذہان کا پہلا اور ابتدائی نام انجمن ہمدردان اسلام تھا.جو بالکل ابتدائی ایام اور پرانے زمانہ کی یاد گار ہے.جبکہ سیدنا محمود بمشکل آٹھ نو برس کے تھے آپ کے دینی شعف اور روحانی ارتقاء کی یہ پہلی سیڑھی تھی.جو حقیقتاً آپ ہی کی تحریک خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی.کھیل کو د اور بچپنے کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت اسلام کا ایسا جوش اور جذبہ نظر

Page 76

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 40 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت آیا کرتا تھا.جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذ ہی ہوتی آپ کی ہر ادا میں اس کا جلوہ اور ہر حرکت میں اس کا رنگ غالب و نمایاں ہے جسے آپ کی کھیلوں کے دیکھنے اور مشاغل کو جانچنے کا اکثر موقعہ ملتا تھا.گھنٹوں آپ مطلب میں تشریف لا کر ہم میں بیٹھا کرتے کبھی ٹیمیں بنا کرتیں اور کھیلوں کے مقابلوں کی تجاویز ہو ا کر تیں کبھی فوجیں بنا کر مصنوعی جنگوں کا انتظام ہوتا.کبھی ڈاکو اور چوروں کا تعاقب ہو تا ان کی گرفتاری کے سامان ہوتے اور مقدمات سن کر فیصلے کئے جاتے سزائیں دی جاتیں اور کار ہائے نمایاں کرنے والوں کو انعام و اکرام ملتے تو کبھی بحث مباحثات اور علمی مقابلوں کا رنگ جما کر تا گرماگرم بحث ہوتی.حجز مقرر ہوتے اور فاتح و مفتوح کا فیصلہ ہوتا.الغرض ایسے ہی مشاغل اور مصروفیتوں کے نتائج میں سے ایک انجمن ہمدردان اسلام کا قیام بھی ہے جو آپ کی خواہش ، مرضی اور منشاء کے ماتحت قائم کی گئی"." حضرت مولانا نور الدین".سید نافضل عمر کی ذات والا صفات کی وجہ سے ہماری طرف خاص توجہ فرماتے.ہماری انجمن کے اکثر اجلاسوں میں شریک ہو کر ہدایات دیتے......اس ہماری انجمن میں ایک مرتبہ سید نا حضرت نور الدین الله شریک تھے.ہمارے آقائے نامدار سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نور نظر لخت جگر نے تقریر فرمائی.تقریر کیا تھی علم و معرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا.تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نور الدین کھڑے ہوئے.اور آپ نے...آپ کی تقریر کی بے حد تعریف کی.قوت بیان اور روانی کی داد دی نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے نہایت اکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا ".اس انجمن کے پہلے صدر بھی مدرسہ کے ایک استاد تھے اور سیکرٹری بھی استاد (یعنی منشی خادم حسین صاحب بھیروی) لیکن جب دوبارہ انتخاب ہوا تو صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قرار پائے - آپ کی صدارت میں انجمن کا پہلا اجلاس ۳/ مارچ ۱۸۹۹ء کو ہوا.آپ نے اس سال حضرت مسیح حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت ۱۸۹۸ء کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.چنانچہ فرماتے ہیں.۱۸۹۸ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی گو بوجہ احمدیت کی

Page 77

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 41 سید نا حضرت خلیفہ ربیع الثانی کے سوانح قبل از خلافت پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا کرنے کی علامت تھی".وسط ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پہلا فوٹو موعود علیہ السلام کا جو پہلا گروپ فوٹو لیا گیا اس میں آپ بھی صحابہ حضرت مسیح موعود اور اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ موجود تھے.اس پہلے فوٹو کے بعد اگلے سال خطبہ الہامیہ کی تقریب پر ا/ اپریل ۱۹۰۰ء میں عصر کے وقت دوسرا گروپ فوٹو لیا گیا تھا جس میں آپ بھی شامل تھے.ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ حیات ہی میں آپ کا ایک اور فوٹو لیا گیا.جس میں آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد - حضرت مرزا شریف احمد حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا اور حضرت مرز ا مبارک احمد بھی شامل ہیں اور آپ کی ایک اور تصویر بھی ملتی ہے جو ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور لی گئی تھی جس میں آپ ترکی ٹوپی پہنے اور چھڑی ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آتے ہیں." تریاق القلوب" میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " تریاق القلوب" میں تحریر فرمایا.الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور ایک کو ان میں سے ایک مرد خدا صحیح صفت الہام نے بیان کیا ہے سو خدا تعالٰی کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے ".” میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر....خبردی کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ انا نبشرک بغلام حسین یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کر نیکی خوشخبری دیتے ہیں.دہلی میں میری شادی ہوئی.اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا اور تین اور عطا کئے ".میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہو ا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی.اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود - تب میں نے م پایا اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا " حضور نے یہ پیشگوئی دوبارہ پیش کرتے ہوئے " تریاق القلوب" ہی میں لکھا." محمود جو میرا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز ا اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا.پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے

Page 78

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 42 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا.....پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو.تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے محمود پیدا ہوا.اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تحمیل تبلیغ موئی علم سے لکھا ہوا ہے.جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں اور اس کے صفحہ ۴ میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے.اے فخر رسل قرب تو معلومم شد دیر آمده ز راه رور آمد احکام اسلامی کی طرف تحریک ۱۹۰۰ء ک یاد گار رسال چیسوی صدی کا آغاز آپ کی زندگی میں ایک نئے روحانی ۱۲۴ انقلاب کے آغاز پر ہوا.اس نہایت اہم اجمال کی تفصیل آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے.۱۹۰۰ ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا تھا میں نے آپ سے وہ جبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے.میں اسے پہن نہیں سکتا تھا.کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے.جب میں گیارہ سال کا ہوا اور ۱۹۰۰ ء نے دنیا میں قدم رکھا.تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالٰی پر کیوں ایمان لاتا ہوں.اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے.میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا.آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی.جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے.تو اسے خوشی ہوتی ہے اس طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں ساتا تھا.میں نے اس وقت اللہ تعالٰی سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.....مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو.ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہو ئیں.جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے

Page 79

تاریخ احمدیت جلد ۴ 43 سیدنا حضرت نابیته لمسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا.اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود کا ہے اور متبرک ہے.یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا پہن لیا.تب میں نے اس کو ٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا.دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا.خوب رویا - خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا.اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی.گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کے ابھی باقی تھے.میرا دہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے.مجھے نہیں معلوم میں کیوں رویا - فلسفی کے گا اعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے مذہبی کہے گا تقویٰ کا جذبہ تھا.مگر میں جس سے یہ واقعہ گزرا کہتا ہوں مجھے معلوم نہیں.میں کیوں رویا ؟ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت میں اس امر کا اقرار کرتا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اور وہ رونا کیسا با برکت ہوا.وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی جب اس کا خیال کرتا ہوں.تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے پھر وہ کیا تھے ؟ میرا خیال ہے وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے.وہ مسیح موعود کے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ تھے.گر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے " انجمن تشخیز الا زبان ۱۹۰۰ ء میں آپ نے ایک نئی انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مسیح الاذہان موعود علیہ السلام نے "شحمید الاذہان" رکھا.اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانان احمدیت کو تبلیغ اسلام کے لئے تیار کرے خطبہ الہامیہ میں شرکت / اپریل ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عید الاضحیہ کے بعد عربی میں خطبہ الہامیہ پڑھا تھا.حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد ایدہ اللہ کو بھی اس میں شرکت کا فخر حاصل ہوا.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ.مجھے خوب یاد ہے گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا.مگر آپ کی ایسی خوبصورتی اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی.کہ میں اول سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا.حالانکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا " " مجھے یاد ہے.ہمیں اس تقریر کے کئی فقرے یاد ہو گئے تھے." IPA نومبر ۱۹۰۰ء میں آپ کو سخت بخار ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ بیماری اور دعا سے شفایابی السلام کو آپ کی شفایابی کی الہامی بشارت ملی - چنانچہ بخار اتر -

Page 80

تاریخ احمدیت جلد ۴ گیا.44 سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ۱۳۰ تاریخ احمدیت جلد سوم میں مقدمہ مقدمہ دیوار کے فیصلہ کی قبل از وقت خبر دیوار کا واقعہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے کہ کس طرح آپ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کو تکلیف دینے کی خاطر ایک دیوار کھینچ دی تھی.حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ الودود کو اس بارے میں بذریعہ خواب دیوار کے گرائے جانے کا نظارہ دکھایا گیا.حضور فرماتے ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش ہو چکی ہے اس حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفتہ اول ان تشریف لا رہے ہیں.جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی میں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا.میاں دیکھو.آج تمہارا خواب پورا ہو گیا - ۱۳۱ tt سید نا کے بارے میں بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۰ / نومبر ۱۹۰۱ ء میں "بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ بیگم کی آمین" لکھی تو نہ صرف اپنے سب بچوں کے لئے بارگاہ الہی میں نہایت خشوع خضوع سے دعائیں ہی کیں بلکہ اپنی کل اولاد خصوصاً اپنے لخت جگر سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی کی بابت دنیا کو ان دعاؤں کے شرف قبولیت پانے کی بشارت بھی سنادی.جیسا کہ حضور فرماتے ہیں.خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہو شمشاد خبر تو نے مجھ کو بارہا دی؟ فسبحان الذي أخزى الاعادي بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا اک دن محبوب میرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا سے اندھیرا کروں گا دور اس مہ بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسبحان الذي اخزى الاعادی (در ثمین) آپ نے پہلا روزہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں رکھا چنانچہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں پہلا روزہ خود ہی فرماتے ہیں.” مجھے جہاں تک یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی...مجھے

Page 81

45 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ۱۳۲ پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی ".مڈل کا امتحان اور خدائی الہام جنوری ۱۹۰۲ء میں آپ مڈل کے امتحان کے لئے بٹالہ کو جانے والے تھے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا." ليحمله رجل یعنی یہ کمزور ہے اس کے سہارے کے لئے کوئی آدمی ساتھ جانا چاہئے چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب آپ کے ساتھ کئے گئے.تحفہ گولڑویہ " میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں " " تحفہ گولڑویہ" شائع فرمائی تو اس میں دنیا کو پسر موعود سے متعلق نشان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا.” خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا.جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گاوہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا.اور مظہر الحق و العلاء ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ۱۳۵ et نزول المسیح میں ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے ای سال نزول المسیح " تالیف فرمائی " اور اس میں بھی سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی کا ذکر فرمایا کہ - " مجھے اللہ تعالٰی نے ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی- چنانچه قبل ولادت بذریعہ اشتهار کے وہ پیشگوئی شائع ہوئی پھر بعد اس کے وہ لڑکا پیدا ہو ا جس کا نام بھی رؤیا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا اور یہ پہلا لڑکا ہے جو سب سے بڑا ہے ".اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کی دختر نیک اختر پہلی شادی (حضرت) سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ سے رڑکی میں ہوا اور وسط اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شادی ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ڈاکٹر صاحب کو قبل از میں رشتہ کی تحریک فرمائی تو لکھا که اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گو ابھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں مگر محمود کی رضامندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالبا ء اللہ اعلم جناب اٹلی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہو گا ".

Page 82

تاریخ احمدیت جلد ۴ 46 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت عکس مکتوب مبارک سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب) درستش لله طفا با درس کی انجدا از هم اسم من اصل کہ جب آپ کو حضرون طور ہے نکاح ہے لفظ می رقوم دو اگر مطلع میشید اسلامی ار کر آنے کو را اشته اند کے اس میں آپ کی رفت و ده ملی ایتا با اسلام } در شده روس رشته مه گروی راضی منظم مریم ناکوئی کام انا مرضی ان کے مخالفت نہ ہو کر خود ما اخترت 1 الله دیک دلیل ایسی بات کی امریکی اور الی الله علی ماری ) ا ا ا ا ا ا و ر ا ن کے سی برای مرد کیوں ہوں مخالفت نہ مری کیا جس کے قائل ہے سب از بیانی کا نام د همان منی لا مدت دوره انش اسم 12ene

Page 83

تاریخ احمدیت جلد ۴ 47 سید: ت خلیفتہ اسیح الثانی کے سوات قبل از خلافت حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب نے حضور کی شادی پر بمبئی سے ایک ٹوپی اور اوڑھنی کا تحفہ حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا تھا.ٹوپی پر مصلح موعود سے متعلق یہ الہام درج تھا.فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والآخر مظهر الحق والمعلاء كأن الله نزل من السماء اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیٹھ صاحب دوسرے اکابر صحابہ کی طرح اس وقت بھی حضرت خلیفہ ثانی کے مصلح موعود ہونے کا یقین رکھتے تھے Han حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تحفہ کے شکریہ میں ۳۰/ اکتو بر ۱۹۰۲ء کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل خط تحریہ زرمایا.بسم الله الرحمن الرحیم -:- نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ۲۰/ اکتوبر ۱۹۵۲ء مجی عزیز کی اخویم سیٹھ اسمعیل آدم صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبر کاتہ.آپ کا محبت اور اخلاص کا تحفہ جو آپ نے برخوردار محمود اور بشیر کی شادی کی تقریب پر بھیجا ہے یعنی ایک ٹوپی اور ایک اوڑھنی پہنچ گیا ہے.میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی آپ کو دین اور دنیا میں اس کا اجر بخشے آمین باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ "مواہب الرحمن" میں ذکر "مواہب الرحمن " میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمايا - الحمد لله الذي وهب لى على الكبر اربعة من البنين و انجز وعده من الاحسان " یعنی اللہ تعالی ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے جس نے بڑھاپے کے باوجود چار فرزند عطا کئے اور بطور احسان اپنا وعدہ پورا فرما دیا.

Page 84

48 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلاف تاریخ احمدیت جلد ۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب مبارک بنام حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب) بم اسلام تواریجی سے عالند مچی عورتیب با خویم سید تقریب رہیا ہے تے ایک بولی اور ایک اور پنی 6 اور ان حق مین ہے ا ا ا ا ایرانیان این است که داریم خالد عند عم احمد

Page 85

تاریخ احمد برد، جلد ۲ سید با حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت شعر و سخن کا آغاز ۱۹۰۳ ء میں آپ نے شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو ابتداء آپ شاد متخصص فرماتے تھے آپ کی پہلی (مطبوعہ نظم کے چند اشعار یہ ہیں..- اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے نمار حق ہوں ترا دے تو شفا مجھے جب تک کہ دم میں دم ہے اس دین پر رہوں اسلام کو بھی آئے جب آئے قضا مجھے تیری رضا کا ہوں میں طلبگار ہر گھڑی گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالی کی تمام منظومات "کلام محمود" میں تاریخی ترتیب کے ساتھ طبع شدہ ہیں اور آپ کی سیرت کا صاف و شفاف آئینہ ہیں.جس میں عشق الہی.عشق رسول اور عشق اسلام کی شان اپنی پوری آن بان سے درخشان و تاباں ہے.آپ نے اپنے کلام کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے کہ میرے نزدیک شعر اس لئے کرنا کہ لوگ پسند کریں اور داد دیں درست نہیں.میں بھی شعر کہتا ہوں.لیکن جب میں شعر کہتا ہوں تو نہیں معلوم ہو تاکہ کیا لکھ رہا ہوں.جب قلم ایک جگہ جا کر رک جاتا ہے تو پھر خواہ کتنا ہی زور لگاؤں آگے شعر نہیں کیا جاسکتا..وہ شعر جس کو انسان تلاش کر کے........لاتا ہے وہ نا پسند ہے مگر جب طبیعت میں جوش اور بغیر خوض اور غور کے مضامین جاری ہوں تو وہ ایک قسم کا القاء اور الہام ہوتے ہیں " نیز فرماتے ہیں.در حقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک چوتھائی یا ایک ٹکٹ حصہ ایسا نکلے گا جو در حقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تغییر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا.شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہو تا یا اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے سکتہ میں حل کیا گیا ہے " حضرت سیدنا محمود ایده مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط اور ان کا جوار اللہ تعالٰی نے جب شعر کہنے شروع کئے تو آپ نے مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو محط لکھا کہ میں شاعری میں آپ کا شاگرد بنا چاہتا ہوں اگر آپ منظور فرما ئیں تو آپ کو اپنا کلام اصلاح کے لئے بھیج دیا کروں.کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا جواب آیا کہ ”میاں صاحبزادے اپنی قیمتی عمر کو اس فضول مشغلے میں ضائع نہ کرو یہ عمر تحصیل علم کی ہے.پس دل لگا کر علم حاصل کرد - جب بڑے ہو گئے اور تحصیل علم کر چکو گے اور

Page 86

تاریخ احمدیت جلد ۴ 50 نسید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت فراغت بھی میسر ہو گی اس وقت شاعری بھی کر لینا " مولانا حالی سے مندرجہ بالا جواب ملنے کے بعد جناب جلال لکھنوی سے اصلاح سخن آپ نے کسی اور استاد کی طرف رجوع کرنا چاہا.اس دور کے بکثرت اساتذہ میں سے تین حضرات بہت بلند پایہ اور عالمگیر شہرت رکھنے والے تھے.منشی مفتی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنوی - فصیح الملک نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی اور جناب سید ضامن علی صاحب جلال لکھنوی.مگر اول الذکر حضرات تو اس وقت وفات پاچکے تھے آخر الذکر ہی باقی تھے آپ نے اصلاح سخن کے لئے انہی کی طرف توجہ فرمائی.کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ مشق سخن کا یہ سلسلہ جو خط و کتابت ہی کے ذریعہ سے سرانجام پاتا تھا.جناب جلال لکھنوی کی وفات تک جاری رہا یا ۱۹۰۹ء سے پیشتری کسی وقت ختم ہو گیا.جو ان کے انتقال کا سنہ ہے.وسط اگست ۱۹۰۴ء سے اکتوبر ۱۹۰۴ء تک آپ حضرت مسیح موعود علیہ گورداسپور میں قیام اسلام کے ساتھ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور میں رہے.حضرت مسیح موعود علیه السلام اگست ۱۹۰۴ء میں لاہور پھر اکتوبر سفر لا ہو روسیا لکوٹ مار میں سیالکوٹ تشریف لے گئے ان دونوں سفروں میں بھی آپ کو ۱۹۰۴ء حضرت اقدس کی معیت حاصل ہوئی سفر سیالکوٹ کے بارے میں حضور کا ایک بیان خاص اہمیت رکھتا ہے.فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام.....سیالکوٹ تشریف لے گئے تو غیر احمدیوں میں سے بعض نے شورش کرنے کا ارادہ کیا.مگر اللہ تعالیٰ کا غشاء تھا.کہ وہاں حضور کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے اس نے یہ انتظام کر دیا کہ شہر کے ایک رئیس آنا با قرجو قادیان برائے علاج آچکے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے.ڈپٹی کمشنر نے انتظام کے لئے ان سے مشورہ کیا انہوں نے اپنی خدمات انتظام کے لئے پیش کر دیں اور اپنے ساتھ مسٹر یٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لگائے جانے کی خواہش کی اور ڈپٹی کمشنر نے اسے منظور کر لیا.چنانچہ ان دونوں نے مل کر ایسا عمدہ انتظام کیا کہ کسی قسم کی شورش نہ ہوئی لوگ پتھروں کو لے کر مکانوں پر چڑھے ہوئے تھے.مگر ان دونوں نے کہہ دیا کہ اگر کسی نے شرارت کی تو ہم اس قدر سزا دیں گے کہ وہ یاد رکھے گا یہ سن کر سب دشمن ڈر گئے.مجھے یاد ہے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلتے وہ ساتھ رہتے.اس سفر میں ایک لیکچر

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 51 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اور کچھ لوگوں نے اس میں شورش کرنی چاہی اور بعض آنے والوں پر پتھر پھینکے مسٹریٹی نے ان لوگوں کو ڈانٹ کر ہٹا دیا.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ہو چکا تو باد از بلند کہا کہ مجھے ان مسلمانوں پر افسوس آتا ہے کہ غصہ تو ہم کو آنا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں ہمارے خدا کو مردہ ثابت کیا اور ہمارے خلاف اور بہت سی باتیں کی ہیں لیکن مسلمانوں کے نبی کی بہت تعریف کی ہے اور وہ پھر بھی فساد کرتے ہیں غرض اللہ تعالٰی نے آپ کو سیالکوٹ میں ہر شر سے محفوظ رکھا اور اس سے دشمن اور بھی زیادہ غصہ میں بھر گئے.چنانچہ انہوں نے آخر تجویز کی کہ آپ کی واپسی پر ٹرین پر پتھر برسائے جائیں اور جو لوگ چھوڑنے جائیں واپسی کے وقت ان کو دکھ دیا جائے چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہوئے تو آپ کی گاڑی پر پتھر برسائے گئے اور جو لوگ وداع کے لئے گئے تھے واپسی پر ان پر حملہ کیا گیا ان لوگوں میں مولوی برہان الدین صاحب ( علمی) مرحوم بھی شامل تھے لوگ بری طرح ان کے پیچھے پڑگئے.ستر یا بہتر سال ان کی عمر تھی اور نہایت کمزور تھے مگر خندہ پیشانی سے مار کھائی حتی کہ ایک شخص نے گوبر اٹھایا اور ان کے منہ میں ڈال دیا.بعض دوستوں نے سنایا کہ مولوی صاحب اس وقت بالکل غمگین نہ تھے بلکہ بہت خوش تھے اور بار بار کہتے تھے.ایہ نعمتاں کتھوں ایسہ نعمتاں کتھوں" یعنی "یہ نعمتیں ہم کو پھر کب میسر آسکتی ہیں.ایک غیر مطبوعہ قلمی نوٹ حضرت خلیفتہ اصبح اول مولانا نور الدین کی معرکتہ الآراء كتاب "نور الدین " کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۰۴ء میں طبع ہوا.کتاب کے اس دوسرے ایڈیشن کے شروع میں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالی نے یہ قلمی نوٹ لکھا →.اس تمام علم میں مہکو ایک نظام نظر آتا ہے ہر اک چیز جیسی کسی چیز کو اس کی بقا کے لیے صوت ہے وہ مہیا ہے.مثلاً انسانی کے لیے پھیپھڑا.جگر گردے دل داغ وغیرہ وغیرہ کے قیام کے لیے ہوا.پانی.آگ وغیرہ وغیرہ.آدمی کے لیے رزق متفرق رکھا تو ایسے پاکن رکے اور درخت کے لیے زمین میں رزق تھا ایسے جڑ دیں.درندوں پر نداده است بر نداری

Page 88

52 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت کو بلائیں تو دیئے گر جو کہ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ی ی ی ی ی طریقہ ہے ائے تا کہ ہو نہ ہوتی اور اتنا پیٹر اور نہیں جاتا یاد بہت کیا ایس پی افراتا فرماتا ہے نا تری ان خلق الرحمن مین تفاوت روج تور اور ہے اور فردی تغیر نہیں بحریہ ناپاک اور راک مطرح ہوتی ہے آریہ جواب دیں ؟؟ - ویر مانو انتخابات میں تو شریک نہیں سرگ لوگ مجھے صرف روح جاتی ہے.پھر دنیا کے عذابوں میں یہ بھی شریک ہے.معلوم ہوا کہ روح اور گو از او یافتنے کار کو پہلے نتظام عالم کے دوست رکھنے کے لیے بنایا اور نہ فرد و یا اعمال آپ یا آپ کھرے ہوئے تو یکا کے بال ایک معنی کیا فریب کے اس پید اہو تو میر غریب ہیں رہے اگر مشاہد کچھ اور ہی کہتا ہے.آپ کے تاریخ غلط کا بہت ہوا

Page 89

تاریخ اور میری جلد ۳ 53 سید نا حضرت خلیفتہ انسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت پہلا باب (فصل سوم) درسی تعلیم کا تعلیم کا اختتام ، حضرت مولانا حافظ نور الدین (خلیفۃ المسیح اول) کی شاگردی ، تشعید الاذہان کا اجراء- فرشتہ کی سورۃ فاتحہ سکھانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر آپ کا عزم صمیم شوال ۱۳۲۲ھ تاریخ الآخر ۵۱۳۲۹) جنوری ۱۹۰۵ ء سے مئی ۱۹۰۸ء تک) ۱۸ جنوری ۱۹۰۵ء کو آپ کا نام میٹرک کے میٹرک کے امتحان کے لئے سفرامر تسر اللہ کے لئے بھجوایا گیا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جو ان دنوں ہیڈ ماسٹر تھے.فارم پُر کرنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ "اس میں ایک خانہ ہے اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے میں نے لفظ نبوت لکھا ہے ".حضور نے جواب دیا." نبوت کوئی کام نہیں.یہ لکھ دیں کہ فرقہ احمد یہ جو تین لاکھ کے قریب ہے اس کے پیشوا اور امام ہیں اصلاح قوم کام ہے " حضرت صاجزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالی مارچ ۱۹۰۵ء کے تیسرے ہفتہ میں بغرض امتحان امر تسر تشریف لے گئے.(حکیم دین محمد صاحب پیشنر اکو فٹ کی شہادت کے مطابق) امتحان کا سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر تھا جو ہال بازار کے آخر میں واقع تھا.اور قادیان سے جانے والے سب طلباء حضور ایدہ اللہ تعالی کے سمیت مسجد خیر الدین سے متصل ایک سرائے میں ٹھہرے تھے ایک استاد

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 54 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے سوارخ قبل از خلافت er غالبا ماسٹر عبد الحق صاحب بھی ہمراہ تھے اور ایک باورچی بھی !! حضرت میاں صاحب امتحان دے کر قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں کسی نے کہا میاں صاحب بہت دبلے ہو گئے ہیں ایک اور صاحب نے یہ رائے دی کہ ان کو اپنی کمزوری کے خیال سے سخت فکر لاحق ہے.کہ ایسا نہ ہو فیل ہو جائیں اس پر کسی بزرگ نے حضرت میاں صاحب سے ہی کہا کہ آپ دعا کریں.یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا.” ہمیں تو ایسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے کراہت پیدا ہوتی ہے.ہم ایسی باتوں کے لئے دعا نہیں کرتے.ہم کو نہ تو نوکریوں کی ضرورت ہے اور نہ ہمارا یہ منشا ہے کہ امتحان اس غرض سے پاس کئے جائیں ہاں اتنی بات ہے کہ یہ علوم متعارفہ میں کسی قدر دستگاه پیدا کر لیں جو خدمت دین میں کام آئے.پاس فیل سے تعلق نہیں اور نہ کوئی غرض ".علاوہ ازیں ایک مشہور روایت یہ بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے ۱۱۵۴ فرمایا کہ اگر تم وہی محمود ہو جس کی خدا نے مجھے خبر دی ہے تو تمہیں اللہ تعالی خود سکھائے گا.بہر کیف جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.آپ مڈل کی طرح میٹرک میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے.اس لئے پیسہ اخبار کے ایڈیٹر منشی محبوب عالم صاحب نے ایک بار طنز الکھا.بڑا لڑکا باوجودیکہ صاحب اولاد ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ مڈل میں فیل ہو چکا ہے اگر مرزا جی کے.بعد یہی لڑکے ان کی گدی کے وارث بنے تو خوب مذہب چلا ئیں گے ".۱۵۵ حضرت خلیفہ اول کی شاگردی دری تعلیم کے بعد حضرت خلیفہ اول نے آپ کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالٰی فرماتے ہیں.” میری تعلیم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفتہ المسیح اول کا ہے آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ.چنانچہ انہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھادی.یہ نہیں کہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا اس کے بعد پھر کچھ نانے ہونے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے پھر مجھے کہا کہ میاں

Page 91

تاریخ احمدیت جلد ۴ 55 سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت.........مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو.دراصل میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لوچنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی میں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی.گونانے ہوتے رہے اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی.طب کا سبق میں نے اور میر محمد اسحق صاحب نے ایک ہی دن شروع کیا تھا.غرض میں نے آپ سے طلب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تغییر بھی.بخاری آپ نے دو تین مہینہ میں مجھے ختم کرا دی ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی شریک ہو گیا.چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا " - استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے.قرآن انہوں نے ہی مجھے پڑھایا تھا.اللہ تعالی نے اب مجھے بہت علم بخشا ہے بلکہ وہ خود فرماتے تھے کہ میں نے تم سے ایسے ایسے معارف قرآن کے سنے ہیں جو نہ مجھے معلوم تھے اور نہ پہلی کتب میں درج ہیں لیکن اس کتاب کی چاٹ انہوں نے ہی مجھے لگائی اور اس کی تفسیر کے متعلق صحیح راستہ پر ڈالا اور وہ بنیاد ڈالی جس پر عمارت تعمیر کر سکا.اس لئے دل ہمیشہ ان کے لئے دعا گو رہتا ہے ".ایک بشارت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یکم فروری ۱۹۰۵ء کو الہاما بشارت ملی - "انی لا جد ريح يوسف لولا ان تفندون" یعنی اگر ایسا نہ ہو کہ تم مجھے جھٹلانے آمده لگو تو میں ضرور کہوں گا کہ مجھے یقینا یوسف کی خوشبو آرہی ہے.یہ بشارت مصلح موعود کی آمد سے متعلق اس الهامی شعر کی تشریح سے معلوم ہوتی ہے کہ.اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده از راه رور پندرہ سولہ سال کی عمر میں حضرت سیدنا محمود احمد صاحب پر الہام ہوا." ان الذین پہلا الهام اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيمة".یعنی وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے - آپ اس الہام کی نسبت فرماتے ہیں کہ.میں نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بتا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اپنے الہامات کی کاپی میں لکھ لیا...پہلے میں اسے صرف خلافت کے متعلق سمجھتا تھا لیکن اب میرا ذ ہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ اس الہام میں میرے اس منصب کی طرف اشارہ تھا جو اللہ تعالٰی کی طرف سے مجھے ملنے والا تھا " - ( یعنی مصلح موعود کا منصب) ۱۵۹

Page 92

56 سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی کے سوارخ قبل از خلافت زلزلہ کانگڑہ کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت پانچ میں قیام اور الہام میں ام را بریل ۱۹۹۵ء سے ۱۲ جولائی ۱۹۰۵ء تک باغ میںقیام کرنا پڑا پانچ میں اگر آپ اور حضرت میر محمد اسحق صاحب بہار ہو گئے الہام ہوا." سلام قولا من رب رحیم " اس پر دونوں کو شفا ہو گئی.حضرت مسیح موعود کے الہام کی خبر رویا میں ۲۸/ اپریل ۱۹۰۵ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام وا الى مع الافواج اتيک ہفتہ مجیب بات ہے کہ ادھر حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا اویر حضور کے فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الحق والعلاء کو خواب میں یہ بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود کو پھ الہام ہوا ہے.آپ کے قلم سے اس اہم واقعہ کی پوری تفصیل یہ ہے کہ:.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ انبي مع الانواع اتيك بفته میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا.جس رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضربت صحیح موعود علیہ الصلوة و السلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ انى مع الافواج اتيک ہفتہ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے یکھو الاؤ.مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا.اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لا کر دے دیا کر تا تھا تاکہ وہ انہیں اشتہار میں شائع کر دیں اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب البوابات لکھ کر دئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ انی مع الافواج اتیک بغتة میں نے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کر سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بارے میں کچھ عرض کروں.اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو کچھ مجھے بتایا گیا تھا.اسے غلط سمجھ لوں.اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کے لئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آنا پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا.آخر میں نے جرات سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے.اني مع الافواج أتيك بفتہ مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا.یہ الہام ہو ا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا چنانچہ کالی کھولی تو اس میں وہ الہام درج ا"

Page 93

تاریخ احمدیت جلد ۲ 57 سیدنا حضرت خدیہ اسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت حضر ت مولوی عبد الکریم صاحب کی سیدنا حضرت محمود ایده الله الودود تحریر فرماتے وفلت اور آپ کی زندگی میں تغیر عظیم ہیں."مولوی عبدالکریم صاحب بہار ہوئے......ایک دفعہ یخنی لے کر میں مولوی صاحب 19 کے لئے گیا تھا اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی گیا ہوں.اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب نو ہی نہیں ہو سکتے....مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی ایک دو سبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دیے.اس سے زائد ان سے تعلق نہ تھا.ہاں ان دنوں میں یہ بخشیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کونسا ہے اور بایاں کونسا؟ بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب رائیں ہیں بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت نہ تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسی محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نورالدینوں میں سے تھا.ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی.غرض مولوی عبد الکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا.سوائے اس کے کہ میں ان کے پُر زور خطبوں کا مداح تھا.اور ان کی محبت اور ان کی حب مسیح موعود کا معتقد تھا مگر جو نہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہو گیا.وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزر گئی جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی.دوڑ کر اپنے کمرہ میں گھس گیا اور دروازہ بند کر لیا.پھر ایک بے جان لاش کی طرح چار پائی پر گر گیا.اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا.دنیا کی بے ثباتی ، مولوی صاحب کی محبت مسیح اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بٹاتے تھے.اب آپ کو بہت تکلیف ہو گی اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جاتا تھا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگتا تھا.اس دن نہ میں کھانا کھا سکانہ میرے آنسو تھے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا.اور آپ نے حیرت سے فرمایا کہ محمود کو کیا ہو گیا ہے اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا یہ تو بہار ہو جائے گا.خیر مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات نے میری زندگی کے ایک نئے دور کو شروع کیا.اسی دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں اور سلسلہ کی ضروریات میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا ہی چلا گیا.سچ یہی ہے کہ کوئی دنیاوی سبب حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب ان کی

Page 94

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 58 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سوارخ قبل از خلافت زندگی اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات سے زیادہ میری زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات پر مجھے یوں معلوم ہوا گویا ان کی روح مجھ پر آپڑی " - 110 سفرد پلی ولدھیانہ و امرتسر اکتوبر ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے کہ حضرت صاجزادہ صاحب (اپنے تاتا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اور ڈاکٹر محمد اسمعیل کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے واپسی پر جب امرتسر پہنچے تو علم ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام دہلی کی طرف روانہ ہو چکے ہیں.اس پر وہیں سے واپس ہو کر رات کو دہلی پہنچ گئے اور الف خاں صاحب روشنائی والے کے مکان پر جا کر جو چتکی قبر مسجد رفاعی سے قریب واقع ہے حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہو گئے.قیام دہلی کے دوران میں جب حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام مزار مبارک حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے تو اور اصحاب کے علاوہ صاحبزادہ حضرت محمود ایدہ اللہ الودود بھی حضور کے ہمراہ تھے.جیسا کہ خواجہ نظامی صاحب نے اپنے رسالہ " منادی" میں لکھا ہے کہ ”جب پہلے ملاقات ہوئی تھی تو ان کی داڑھی نہیں نکلی تھی.اور یہ اپنے والد کے ساتھ درگاہ میں آئے تھے ".۱۴ نومبر ۱۹۰۵ء کو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ واپس عازم قادیان ہوئے راستہ میں پہلے لدھیانہ میں حضور علیہ السلام کا لیکچر ہوا.پھر امر تسر میں.امرتسر کے جلسہ میں بڑا ہنگامہ ہوا اور لیکچر کے بعد آپ حضور علیہ السلام کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تو چاروں طرف سے پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی.گاڑی کی کھڑکیاں بند تھیں ان پر پتھر کرتے تھے تو وہ کھل جاتی تھیں آپ انہیں پکڑ کر سنبھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ سے چھوٹ چھوٹ کر وہ گر جاتی تھیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة الوصیت" میں آپ کی نسبت اہم پیشگوئی والسلام نے آخر ۱۹۰۵ء میں رسالہ الوصیت تحریر فرمایا.جس میں آپ کی نسبت ایک اہم پیشگوئی فرمائی جو اپنے وقت پر کھلی.فرمایا.”خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا.اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا.اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے.سو ان دنوں کے منتظر رہو.اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اس کے وقت میں ہوتی ہے.اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکہ دینے والے خیالات کی وجہ سے قابل اعتراض ٹھرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل

Page 95

تاریخ احمدیت جلد ۳ 59 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوائع تحمل از خلافت انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا حلقہ ہوتا ہے " mm گا.یہ پیشگوئی خلافت ثانیہ کے قیام پر پوری شان سے پوری ہوئی جیسا کہ آئندہ صفحات سے معلوم ہو مدرسه ۱۹۰۵ء میں جب آپ کی عمر ۱۶ تعلیم الاسلام کے بقاء کی کامیاب کوشش سال کی تھی اور شباب کا ابھی آغاز ہی تھا کہ ایک نہایت ضروری مسئلہ پیش آگیا.اور وہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو قائم رکھنے کا مسئلہ تھا حضرت مسیح موعود چاہتے تھے.کہ مدرسہ تعلیم الاسلام سے ایسے لوگ تیار ہو کر نکلیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر کے اشاعت اسلام کا کام کرنے والے ہوں.مگر درسہ تعلیم الاسلام کی مجلس منتظمہ کے تمام ممبرید چاہتے تھے کہ مدرسہ بند کر دیا جائے.اور ان کی اس رائے سے گویا کل تعلیم یافتہ جوانوں اور اہل الرائے حضرات کا اتفاق تھا صرف دو وجود باجود اس رائے سے متفق نہیں تھے.سیدنا حضرت مولوی حاجی نورالدین صاحب اور سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور بفضلہ تعالی یہی حضرات کامیاب ہوئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مدرسہ کو قائم رکھنے اور اس میں دینیات کی ایک شاخ کھولنے کا فیصلہ صادر فرما دیا یہ دسمبر ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے.12+ مجلس معتمدین صد را انجمن احمدیہ کے ارکان میں شمولیت جنوری 1907ء میں جب نظام الوصیت کے نظم و نسق چلانے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجلس معتمدین کے ارکان میں سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کو بھی بطور ممبر نامزد فرمایا.نواب مبارکه خلافت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی نسبت حضرت مسیح موعود پر انکشاف حضرت سیدہ بیگم صاحبہ ، اللہ ظلما تحریر فرماتی ہیں." جب انجمن کا قیام ہو رہا تھا.ان دنوں کا ذکر ہے کہ باہر کوئی میٹنگ انجمن کے ارکان کے انتخاب کی یا مقرر شدہ لوگوں کی قوانین وغیرہ کے متعلق ہو رہی تھی.(کیونکہ انجمن بن رہی تھی یا بن چکی تھی یہ مجھے علم نہیں نہ ٹھیک یاد ہے) حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب باہر سے آکر آپ کو رپورٹ کرتے اور باتیں بتا کر جاتے تھے.آپ حضرت اماں جان والے صحن میں مل رہے تھے.جب حضرت سیدا بھائی صاحب آخری بار کچھ باتیں کر کے چلے گئے تو آپ دار البرکات کے صحن کی جانب آئے اور وہاں

Page 96

60 سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع حمل ال خلافت حجرہ میں جانے کے لئے دروازہ کی جانب اترنے والی سیڑھی کے پاس اگر کھڑے ہو گئے.حضرت اماں جان پہلے سے وہاں کھڑی تھیں.میں حضرت مسیح موعود کے پیچھے ساتھ ساتھ چلی آئی تھی اور پیچھے کھڑی ہو گئی آپ کی پیٹھ کی جانب بالکل قریب.اس وقت آپ نے جیسے سیدھے کھڑے تھے اسی طرح بغیر گردن موڑے کلام کیا.مگر ظا ہر حضرت اماں جان سے ہی مخاطب معلوم ہوتے تھے.فرمایا.کبھی تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ محمود کی خلافت کی بابت ان لوگوں کو بتا دیں پھر میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالی کا نشاء اپنے وقت میں خود ہی ظاہر ہو جائے گا.اسی ترتیب سے پہلے فقرہ میں ”ہمارا کیا دوسرے میں " میں " فرمایا اور غیر محسوس وقفہ سے یہ دوسرا فقرہ ادا فرمایا.مجھے قسم ہے اپنے مالک و خالق ازلی و ابدی خدا کی جس کے حضور میں نے بھی اور سب نے حاضر ہوتا ہے اور وہی میرا شاہد ہے.میرا حاضر و ناظر خدا جس کے پاس اب میرے جانے کا وقت قریب ہے کہ یہ سچ اور بالکل حق ہے کہ ان الفاظ میں ذرا بھی فرق نہیں.مجھے ایک ایک لفظ ٹھیک یاد رہا.اور ایسا کچھ خدا تعالی کے تصرف سے میرے دماغ پر نقش ہوا اور دل پر رکھا گیا کہ میں بھول نہیں سکی.اس وقت بھی وہاں آپ کا کھڑا ہونا پیش نظر ہے.آپ کی آواز اسی طرح میرے کانوں میں آرہی ہے.اسی طرح گویا میری چشم تصور آپ کو دیکھ رہی ہے.جیسے آج کی بلکہ ابھی کی بات ہو.پہلے یہ بھی مجھے خیال رہتا تھا کہ میں آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے جو چلی آئی تو شاید آپ کو علم نہ ہو کہ میں سن رہی ہوں مگر ممکن ہے اور بہت ممکن ہے کہ آپ نے میری آہٹ پالی ہو.میری چاپ پہچان لی ہو.کیونکہ اکثر آپ کے ساتھ ساتھ چل پڑا کرتی تھی.اور یوں بھی میں قریباً آپ کی پشت مبارک کے ساتھ ہی تو لگی کھڑی تھی.آپ کی آواز یہ الفاظ.یہ دونوں مندرجہ بالا فقرے بولتے ہوئے سرسری سی نہ تھے بلکہ بڑے ٹھراؤ سے بڑے وقار و سنجیدگی سے آپ نے یہ بات کی.اور خصوصا دو سرا فقرہ جب آپ نے بولا تو معلوم ہو تا تھا بہت دور کہیں دیکھ کر ایک عجیب سے رنگ میں یہ الفاظ آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں.اس طرح آپ نے یہ فقرے ادا کئے جیسے اپنے آپ سے کوئی بات کر رہا ہو.مگر ویسے میں یہی سمجھ رہی تھی کہ حضرت اماں جان سے آپ مخاطب ہیں.اس بات کی بناء پر مجھے ہمیشہ سے یقین رہا اور ہے کہ خلافت محمود کے متعلق آپ کو خداتعالی کی طرف سے علم ہو چکا تھا " 2 مجلس " تشعیذ الاذہان کا احیاء مجلس " شمعید الاذہان کی سرگرمیاں ایک عرصہ تک تیزی سے جاری رہنے کے بعد رفتہ رفتہ کم ہوتی گئیں یہاں تک کہ انجمن قریباً معطل ہو کر رہ گئی تھی.کہ دسمبر ۱۹۰۵ء میں بفضلہ تعالٰی حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد

Page 97

تاریخ احمدیت جلد ۴ 61 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت صاحب کے ذریعہ سے اس میں دوبارہ جان پڑ گئی.باقاعدہ قواعد بنے اور ۷ / ستمبر 1990ء کو مدرسہ کے احاطہ میں اس کے دور ثانی کا پہلا جلسہ بڑی آب و تاب سے منعقد ہوا.جس میں پہلی تقریر حضرت مولانا مولوی حکیم نور الدین (خلیفتہ المسیح اول م نے فرمائی اور دوسری سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ الورور نے کی.اور آپ نے انجمن " تشمعید الاذہان " کے فرائض کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے ایک مجلس ارشاد بھی قائم فرمائی.جس کے اجلاس اردو اور انگریزی دو حصوں میں منقسم تھے.انگریزی مجلس ارشاد کی صدارت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے کی اور حضرت مولوی شیر علی پہی یادداشت کے مطابق) مولوی صدر الدین صاحب کا بھی لیکچر ہوا تھا.حضرت سید محمد الحق صاحب کی شادی پر دعائیہ نظم ۷ / فروری ۱۹۲۶ء کو آپ نے اپنے ماموں حضرت سید محمد الحق صاحب کی شادی پر ایک فی البدیہہ دعائیہ نظم کی.مولوی محمد علی صاحب نے اس نظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا.میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے چنانچہ ابھی میر محمد اسحق کے نکاح کی تقریب پر چند اشعار انہوں نے لکھے تو ان میں یہی دعا ہے کہ اے خدا تو ان دونوں اور ان کی اولاد کو خادم دین بنا برخوردار عبدالحی کی آمین کی تقریب پر اشعار لکھے تو ان میں یہی دعا بار بار کی ہے کہ اسے قرآن کا سچا خادم بنا.ایک اٹھارہ برس کے نوجوان کے دل میں اس جوش اور ان امنگوں کا بھر جانا معمولی امر نہیں.کیونکہ یہ زمانہ سب سے بڑھ کر کھیل کود کا زمانہ ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افترا ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا " - رسالہ " شعید الاذہان " کا اجراء مارچ ۱۹۰۶ء سے آپ کی ادارت میں رسالہ " شعیذ الاذہان " نکالنا شروع ہوا.جس نے صحافت احمدیہ میں ایک جدید طرز کی بنیاد رکھی.اور اسلام کا درد رکھنے والے نوجوانوں میں خدمت اسلام اور اشاعت اسلام کی ایک نئی روح پھونک دی.آپ نے اس رسالہ میں ابتداء ہی سے بعض مستقل عنوان قائم کر دیئے.جس سے اس کی افادیت اور بھی بڑھ گئی مثلاً ڈائری حضرت امام الزمان - مسائل شرعیہ - عربی سیکھنے کے لئے آسان طریقہ - حضرت اقدس کے رو یاد الہامات - رسالہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کا غیر مطبوعہ کلام اور ملفوظات بھی چھپتے تھے.اور مکتوبات امام بھی بلکہ کتابی شکل میں ان مکتوبات کو شائع کرنے کا خیال بھی پہلی بار آپ ہی کے دل میں آیا.آپ نے اس کا اظہار بھی انہیں دنوں میں کر دیا تھا.

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد ۴ [IZA¦-.62 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلاف یہ رساله در اصل انجمن شحمید الا زبان کا آرگن تھا.اور یہ نام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھا تھا.شعید کے پہلے شمارہ میں آپ نے ۱۴ صفحات کا ایک شاندار انٹروڈکشن لکھا جسے پڑھ کر (حضرت خلیفہ اول) مولانا حافظ نور الدین نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور مبارک باد دی.نیز خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو خصوصیت سے اس کے پڑھنے کی ہدایت کی.مولوی محمد علی صاحب نے ریویو آف ریلیجہ اردو میں اس پر ریویو کیا اور مضمون کا آخری حصہ درج کر کے لکھا کہ.اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی خیال ان کے دلوں میں ہو گا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.....جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو یہ چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیری نہیں ملتی.غور کروا کہ جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھل ہے وہ کا ذب ہو سکتا ہے ؟ اگر وہ کاذب ہے تو پھر دنیا میں صادق کا کیا نشان ہے ؟ حضرت صاحبزادہ میرزا محمود احمد صاحب کے اسی مضمون پر بس نہیں جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجز نے مندرجہ بالا تبصرہ کیا.اور جسے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت اور نشان قرار دے کر تمام عالم کے سامنے پیش کیا ہے بلکہ شعیذ الاذہان کے زمانہ ادارت میں بڑے بڑے معرکتہ الآراء مضامین آپ کے قلم حقیقت رقم سے نکلے ہیں.ان دنوں آپ کے دل میں خدمت دین کا اتنا ز بر دست جوش موجزن تھا کہ اپنی نو عمری کی حالت میں تربیتی اصلاحی مضامین لکھنے کے علاوہ مخالفین اسلام کے ساتھ گویا چومکھی جنگ جاری کر رکھی تھی.رسالہ " تشمیذ الاذہان " ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھا کہ ایک مسلمان گریجوایٹ کے ارتداد پر آمادہ ہونے کی خبر شائع ہوئی.آپ نے اسے خط لکھا جو ابا اس نے کچھ سوالات کئے اسی اثناء میں آپ کو آنکھوں کے اپریشن کے لئے لاہور جانا پڑا اور آپ وہ خط جواب دینے کے لئے حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ایڈیٹر " تعلیم الاسلام" قادیان کو دے گئے اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت مولانا صاحب کی آنکھیں بھی رکھنے آگئیں.اور وہ جواب نہ دے سکے.اس لئے آپ نے اپریشن سے پہلے خود ہی ان سوالات کے مفصل جوابات تحریر فرمادے.IA

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 63 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موائع قبل از خلافت نا پہلے فرزند کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی الہامی بشارت کے مطابق ۲۶/ مئی ۱۹۰۶ ء کو صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب کی پیدائش ہوئی.١٨ صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے پوتے تھے.افسوس ان کی زندگی نے وفا نہ کی.اور جلد ہی وفات پاگئے.اور لاہور میں سپرد خاک کئے گئے.چنانچہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا تحریر فرماتی ہیں." بڑی بھا بھی جان (سیدہ ام ناصر مرحومہ) کے بطن سے جو پہلا لڑ کا نصیر احمد تولد ہو ا تھا.وہ لاہو رہی میں دفن ہے".سالانہ جلسہ ۱۹۰۶ء پر پہلی پبلک تقریر سالانہ جلسہ ۱۹۰۶ء پر آپ نے پہلی مرتبہ تقریر فرمائی.یہ پُر معارف تقریر جو آپ نے صرف سترہ برس کی عمر میں فرمائی تھی تو شرک میں تھی.پہلے احکم میں چھپی پھر " چشمہ توحید" کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی.تقریر کیا ہے نکات و حقائق قرآنی کا ایک خزینہ ہے.تقریر کے پہلے حصہ میں آپ نے عیسائیت کے زوال اور اسلام کی ترقی کی خبر دیتے ہوئے فرمایا.اب وہ وقت ہے کہ عیسائیت کا بلند اور مضبوط منار گرادیا جائے.یہ مذہب عیسوی کا قلعہ جس کی دیوار میں لوہے کی تھیں اب کرنے کو ہے کیونکہ اس کو زنگ لگ گیا ہے...اب یہ عیسائی سلطنتیں خود بخود اسلام کی طرف رجوع کریں گی.اور وہ یورپ جو عیسائیت کا گھر ہے اسلام کا مرکز ہوگا..احمدی جماعت.....ایک دن آنے والا ہے کہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی.خدا ہمارے امام سے فرماتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.تقریر کے دوسرے حصہ میں آپ نے سورہ لقمان کے رکوع ثانی کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی.اس پہلی تقریر کے وقت آپ کی کیا کیفیت تھی؟ آپ نے اس کی تفصیل ایک باریوں بیان فرمائی کہ.IAC]......سب سے پہلی تقریر پر جو میں نے عام مجلس میں کی اس رکوع کو پڑھ کر اسی مسجد اقصیٰ) میں کی تھی.اب مسجد د سیع ہو گئی ہے اور اس کی پہلی شکل نہیں رہی لیکن اس وقت میں جہاں کھڑا ہوں مین اس کے سامنے کے دروازہ میں کھڑے ہو کر میں نے تقریر کی تھی.اگر چہ اب علم میں بہت ترقی ہو گئی ہے حالات اور افکار میں بہت تغیر ہو گیا ہے لیکن اب بھی میں اس تقریر کو پڑھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ وہ باتیں کس طرح میرے منہ سے نکلیں اور اگر اب بھی وہ باتیں بیان کروں گا تو یہی سمجھوں گا.کہ خدا تعالٰی نے اپنے خاص فضل سے سمجھائی ہیں اس وقت مجھ پر ایسی حالت تھی کہ چھوٹی عمر....اور مجمع عام میں پہلی دفعہ بولنے کی وجہ سے میرے اعصاب پر ایسا اثر پڑا ہوا تھا کہ مجھے لوگوں کے چہرے نظر

Page 100

تاریخ احمدیت جلد ۴ 64 ید ناحضرت علیتہ المسیح الثانی کے بنوانع حمل از خلافت نہ آتے تھے.اندھیرا سا معلوم ہوتا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.بعد میں اخبار میں میں نے تقریر پڑھی تو معلوم ہوا کہ میں نے کیا کہا تھا، یہ رکوع میرے لئے تبلیغ اسلام کرنے میں بچ کا کام دے گیا.اور میں نے اس سے بڑا لا ئدہ اٹھایا " حضرت مسیح موعود کا اپنے قلم ۸۸ مارچ 1906ء کی بات ہے کہ آپ کو رویا نہیں سے آپ کے بعض رویا و الهام لکھنا الساسوں کی ایک کاپی دکھائی تھی جس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الناموں کی کاپی ہے اور اس میں جلی حروف میں لکھا ہے عسى ان تكر هو اهيا و هو خير لكم یعنی کچھ بھید میں گہ تم ایک بات کو نا پسند کرو.لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو، اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور آپنے جئے ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے ساتھ طوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.جب صبح ہوئی.آپ نے یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا تو حضور بہے مشکور ہونے اور فرمایا مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے.شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالف سے کریں.یہ رویا مجھے لکھوا دو.چنانچہ حضور اقدس نے اپنے الہاموں کی کاپی میں نوٹ فرمالیا - تشمیذ الاذہان میں مضامین (1) سراج الاخبار جہلم میں کبھی سرحدی مولوی صاحب " نے آپ کے ایک مضمون پر انتقاد کیا.جس کا مفصل جواب آپ نے " شعید الاذہان " میں "احمدیوں کے قتل کا فتوی " کے عنوان سے شائع فرمایا.(۲) آپ نے انہیں دنوں " محبت الہی" کے عنوان پر ایک لطیف اور مبسوط مضمون شائع کیا جو بعد کو کتابی شکل میں بھی چھپ گیا.اس اہم مضمون کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا.محبت الہی کے لفظ پر جس قدر سوچتا ہوں اس قدر ایک خاص لذت اور وجد دل میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیارا ہے مذہب اسلام جس نے ہم کو ایسی نعمت کی طرف ہدایت کی ہے جس سے ہمارے دل روشن اور ہمارے دماغ منور ہوتے ہیں".(۳) اگلے ماہ آپ کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں آپ نے شہدائے کابل کی فدائیت اور جاں شماری کے واقعات بیان کئے ہیں.(۴) ۱۹۰۶-۷ء کے سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ثبوت میں پے در پے قمری نشانوں کا ظہور ہوا.مثلاً چراغ دین جمونی کے مباہلہ کا نشان - اخبار شبھ پنتک کے عملہ کی تباہی کا نشان - ڈوئی کی ہلاکت کا نشان - حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے شہید :

Page 101

تاریخ احمدیت جلد ۴ 65 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع حمل از خلافت الاذہان میں بڑی صراحت سے ان کا ذکر فرمایا."حقیقتہ الوحی" میں ذکر حقیقت الوحی " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ کی سب سے مبسوط اور مفصل کتاب ہے حضور علیہ السلام نے اس کتاب میں خدائی نشانوں کا خصوصیت سے تذکرہ فرماتے ہوئے آپ کی پیدائش کے نشان کا ذکر دو مقام پر فرمایا.(1) " چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ ان کی عادت ہے اس لڑکے کے مرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی.تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمود ہو گا.اور اس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا.تب میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزار ہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی.اور ابھی ستر دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہو گیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا " (۲) ” جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تو نادان مولویوں اور ان کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی.اور بار بار ان کو کہا گیا کہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے.پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خوردسالی میں فوت ہو جاتا تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے تب خدا تعالٰی نے ایک دو سرے لڑکے کی مجھے بشارت دی.چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے.دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم ستمبر ۱۸۸۸ ء ہے پیدا نہیں ہوا.مگر خدا تعالٰی کے وعدہ کے موافق اپنی معیاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں.پر اس کے وعدوں کا ملنا ممکن نہیں یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور ستر ہویں سال میں ہے؟ 140.جلسہ قیام امن کی صدارت ۱۲/ مئی ۱۹۰۷ء کو ۵ بجے شام قادیان میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے ارشاد سے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے قیام امن کے لئے ایک اہم جلسہ منعقد ہوا.جس کی صدارت آپ نے فرمائی اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایت کے مطابق آپ نے بدر کے لئے ایک مفصل مضمون بھی لکھا.١٩

Page 102

تاریخ احمدیت.جلد ۴ سفر شمله 66 سیدنا سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت وسط ۱۹۰۷ ء میں آپ تبدیل آب و ہوا کی غرض سے شملہ تشریف لے گئے.۱۱۹۸ حضرت مسیح موعود کی زندگی کا آخری سالانہ جلسہ حضرت صاجزادہ مرزا محمود احمد فرماتے ہیں." مجھے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی زندگی کا آخری جلسہ یاد ہے.میں سیر میں ساتھ تو نہیں تھا مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر سے واپس گھر آئے تو فرمایا.اب تو جلسہ پر اتنے آدمی آتے ہیں کہ آئندہ جلسہ پر سیر کے لئے جانا بالکل مشکل ہو جائے گا.آج ہم تھوڑی دور گئے مگر اس قدر گرد و غبار اٹھا کہ آگے جانا مشکل ہو گیا.اس مسجد کے صحن میں جو قبر ہے اس سے درے مسجد کے فرش کی منڈیر تھی اس وقت مسجد کا صحن موجودہ صحن سے بہت چھوٹا تھا.مسجد کے درمیانے در میں کرسی پر بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر فرمائی تھی.ہم منڈیر پر بیٹھے تھے اور اس وقت کی مسجد بالکل پر تھی اور تمام احباب اس ذوق شوق سے لبریز تھے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت جماعت اب بہت پھیل گئی ہے " نہ کا سورۃ فاتحہ سکھانا آپ کی عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی اور حضرت خلیفہ اول مولانا حاجی نور الدین صاحب کے زیر تعلیم تھے کہ خواب میں آپ پر ایک فرشتہ ظاہر ہوا.جس نے آپ کو سورۃ فاتحہ کی تغییر سکھائی اس طرح آپ پر علوم قرآنی کے انکشافات کا دروازہ کھولا گیا.اس لطیف خواب کی تفصیلات خود حضور کے قلم سے یہ ہیں.فرشتہ میں ابھی چھوٹا سا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ جیسے کوئی کٹورہ ہوتا ہے.اس میں سے ٹن کی آواز آئی پھر وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی پھر جسم ہوئی پھر وہ ایک فریم بن گئی.پھر اس میں ایک تصویر پنی.پھر وہ تصویر متحرک ہو گئی اور اس میں سے ایک وجود نکل کر میرے سامنے آیا اور اس نے کہا.میں خدا تعالی کا فرشتہ ہوں اور میں آپ کو سورۃ فاتحہ کی تغییر سکھانے کے لئے آیا ہوں.میں نے کہا سکھاؤ.اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھانی شروع کی.جب وہ ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنی تفسیریں لکھی ہیں وہ اس آیت سے آگے نہیں بڑھیں کیا میں آپ کو آگے بھی سکھاؤں میں نے کہا ہاں.چنانچہ اس نے مجھے اگلی آیات کی بھی تغییر سکھادی.” جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں مگر میں نے ان کو نوٹ نہ کیا.دوسرے دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے اس رویا کا ذکر کیا.اور یہ بھی کہا کہ مجھے کچھ باتیں یاد تھیں مگر میں نے ان کو نوٹ نہ کیا اور اب وہ میرے ذہن سے اتر گئی ہیں.حضرت خلیفہ اول نے پیار سے فرمانے لگے کہ آپ ہی تمام علم لے لیا کچھ یاد رکھتے تو ہمیں بھی

Page 103

تاریخ احمدیت جلد ۴ 67 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت سناتے.یہ رویا اصل میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا.کہ اللہ تعالٰی نے بینچ کے طور پر میرے دل اور دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا کبھی کسی ایک موقعہ پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اس کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالٰی کی طرف سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں".Fr تعلیم الاسلام ہائی سکول کا امرتسر میں میچ اور آپ کی تقریر ۱۲ مارچ ۱۹۰۸ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کا امر تسر خالصہ کالج سے فٹ بال کا فائنل میچ مقرر تھا.آپ میچ دیکھنے امر تسر تشریف لے گئے چنانچہ الحکم " کا نامہ نگار میچ کے ابتدائی حالات بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے.”حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب جو اس وقت بیچ میں شریک تھے سجدہ شکر کے بعد اٹھے اور فرمایا ہم نے تو صرف یہ دعا کی ہے کہ غیر المغضوب عليهم ان کا یہ فرمانا تھا کہ بجلی کی طرح میرے دل میں وہ سارا ماں بندھ گیا.اور ساری حقیقت اس دعا کی میرے دل میں بھر گئی.اور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی نکتہ رس طبیعت اور انتقال ذہن پر عش عش کر گیا.اور پھر میں نے بھی اسی رنگ میں دعا کرنی شروع کر دی.واقعی یہی دعا اس وقت کے مناسب حال تھی.کیونکہ ابھی دس پندرہ منٹ باقی رہتے ہیں مقابل کے لوگ بہت تیز - چالاک تجربہ کار اور خوب آراستہ تھے اور ان کا گول کر لینا ایک دو نہیں بلکہ اپنی طاقت کی طرف دیکھنے سے تو کئی گول کر لینا ممکن تھا.غرض مناسب حال یہی ایک دعا تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور انجام بخیر ہوا.اور مقابل کے لوگ کوئی گول نہ کر سکے اور اس طرح سے خدا نے محض اپنے فضل سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کو فتح عطا کی جو کہ لڑکوں کے لئے خصوصاً موجب ازدیاد ایمان ہوئی اور قبولیت دعا کا ایک تازہ نمونہ ان کو خدا نے ان کے اپنے وجود میں عطا کر دیا اس طرح تعلیم الاسلام ہائی سکول ۱۹۰۸ ء کا امرتسر کے سرکل میں فٹ بال چیمپئن سکول تسلیم کر لیا گیا ساڑھے پانچ بجے فارغ ہو کر کل لڑکے بلند آواز سے تکبیریں کہتے ہوئے واپس اپنے مکان پہنچے.اس وقت چونکہ بہت سے غیر احمدی احباب بھی ہمدردی اور محبت کے تقاضا سے ساتھ ساتھ مکان تک تشریف لائے تھے لہذا مناسب سمجھا گیا کہ ایک مختصری دعوت ان کو دی جائے.چنانچہ بعض احمدی احباب امر تسرنے ہی کچھ شیرینی ان کے واسطے منگائی اور دعوت روحانی کے واسطے اول سیکرٹری صاحب انجمن تشحید الاذہان ماسٹر عبدالرحیم صاحب اور پھر پریذیڈنٹ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مختصر اور لطیف تقریریں کیں اور جلسہ برخاست ہوا ".اس موقعہ پر آپ نے کیا تقریر فرمائی؟ اس کی تفصیل خود آپ ہی کے قلم سے درج ذیل ہے.

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 68 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوائع تحمل از خلافت پارٹی کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کوئی تقریر کریں.میں نے اس سے پہلے عام مجلس میں کبھی تقریر نہیں کی تھی.مدرسہ میں تقریریں کی تھیں مگر وہاں بڑے بڑے لوگ بیٹھے تھے اور شہر کے رؤساء موجود تھے اس لئے میں نے عذر کیا اور کہا کہ اس وقت میں تیار نہیں.انہوں نے کہا کچھ بھی ہو آپ کسی موضوع پر تقریر کر دیں.میں نے دعا کی کہ خدایا تو نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے سورہ فاتحہ کی تغییر سکھائی ہے......اب امتحان کا وقت ہے تو مجھے اپنے فضل سے کوئی ایسا مضمون سمجھا جو اس سے پہلے کسی کے ذہن میں نہ آیا ہو اس دعا کے بعد میں نے تقریر شروع کی اور یکدم خدا تعالٰی نے میرے دماغ میں ایک ایسا مضمون ڈالا جو آج تک کسی تفسیر میں بیان نہیں ہوا.میں نے کہا خداتعالی ہمیں سورہ فاتحہ میں ایک دعا سکھاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اے خدانہ ہم مغضوب نہیں اور نہ ضال بنہیں احادیث سے ثابت ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہودی اور ضالین سے مراد نصاری ہیں.دوسری طرف اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق...ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی ہے.اب یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس وقت نہ یہودی آپ کے مخالف تھے نہ عیسائی.آپ کے مخالف صرف مکہ کے مشرکین تھے.اس میں کیا راز اور کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے مشرکین کا تو ذکر نہ کیا جن کی مخالفت کا مکہ میں شدید زور تھا اور یہود و نصاریٰ کا ذکر کر دیا.جو وہاں آٹے میں نمک کے برابر تھے.اس میں یہ راز ہے کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اس کی تقدیر کے ماتحت مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جانے والا تھا اس سے بچنے کی دعا سکھانے کی ضرورت ہی نہ تھی.جو مذ ہب ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جانے والا تھا اور آئندہ....اس کا نام و نشان تک نہ ملنا تھا پس جو مذہب ہی مٹ جانے والا تھا اس سے بچنے کی دعا سکھانے کی ضرورت ہی نہ تھی.جو مذاہب بچے رہنے تھے اور جن سے روحانی یا مادی رنگ میں اسلام کا ٹکراؤ ہونا تھا ان کے بارہ میں دعا سکھا دی گئی " پادری بر سخٹ صاحب کے لیکچر کا جواب ایک پادری ڈاکٹر ایچ رائٹ بر ملت نے اسلام کے خلاف قاہرہ (مصر) کی ایک مشنری کانفرنس میں لیکچر دیا.صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالٰی نے اس کے رد میں ایک پر زور مضمون لکھا.سفر گورو ہر سہائے اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت بابا نانک صاحب کے تبرکات دیکھنے کے لئے ایک وند گورو ہر سہائے بھجوایا گیا تھا جس کے سات ممبروں میں ایک صاحبزادہ حضرت میرزا محمود احمد صاحب بھی تھے.

Page 105

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 69 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع تحمل از خلافت اپریل ۱۹۰۸ ء کا سفر لاھور ۱۲۷ اپریل ۱۹۰۸ء کو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ قادیان سے لاہور تشریف لائے اور حضور کے ہمراہ احمد یہ بلڈ مگس میں مقیم ہوئے.یہی وہ سفر ہے جس میں حضور علیہ السلام کا ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء کو وصال ہو گیا.مفتی فضل الرحمن صاحب کا بیان ہے کہ "جب حضور لاہور تشریف لے گئے تو میں حضور کے کام امر تسر گیا ہوا تھا مجھے آپ نہر کے پل پر ملے تو فرمایا کہ ہمارا ارادہ لاہور جانے کا ہو گیا ہے یہ پھل اور سبزی جو تم لائے ہو اپنے بچوں کو دے دو اور خود محمود کی گھوڑی لے کر آجاؤ.ہم کل کا دن بٹالہ ٹھہریں گے اور گھوڑی آپ نے لاہور لے جانی ہے.خیر میں گھوڑی لے کر بٹالہ پہنچا.رات کو فرمایا کہ ہم صبح سوار ہو جائیں گے آپ گھوڑی لے آنا میں بھی علی الصبح سوار ہو کر ۱۲ بجے گاڑی کے لاہور پہنچنے تک اسٹیشن لاہور پہنچ گیا".ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت کے بہت مواقع حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو میسر آئے.آپ کا زیادہ تر وقت حضور ہی کی خدمت میں گزرتا تھا اور جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو آپ بھی گھوڑی پر سوار ہو کر ساتھ ہو جاتے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.ملک مبارک علی صاحب تاجر لاہور روز شام کو اس مکان پر آجاتے جس میں حضرت صاحب ٹھرے ہوئے تھے.اور جب حضرت صاحب باہر سیر کو جاتے تو وہ اپنی بگھی میں بیٹھ کر ساتھ ہو جاتے تھے مجھے حضرت صاحب نے سیر کے لئے ایک گھوڑی منگوا دی ہوئی تھی میں بھی اس پر سوار ہو کر جایا کرتا تھا اور سواری کی سڑک پر (حضور کی گاڑی کے ساتھ ساتھ گھوڑی دوڑاتا چلا جاتا تھا اور باتیں بھی کرتا جاتا تھا".انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ دونوں کی طبیعت مضمحل ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے جو ( کسی ہندو پنشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے کو آئے تھے) ارشاد فرمایا کہ ” میں بیمار ہوں مگر محمود بھی بیمار ہے.مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے آپ اس کا توجہ سے علاج کریں ".آنے والے حادثہ کی قبل از وقت اطلاع ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کو جب حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام حسب معمول میر کو تشریف لے گئے تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی پر خدائی تصرف کے تحت غم

Page 106

i تاریخ احمدیت.جلد ۴ 70 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت و اندوہ کی زبر دست کیفیت طاری ہو گئی اور آپ کی زبان پر یہ مصرعہ جاری ہوا.ع راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو جو دراصل حضرت مسیح موعود کے پیش آنے والے حادثہ وفات کی آسمانی اطلاع تھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.دو جس رات کو حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہوتا تھا.اس لئے میں گھوڑی پر سوار نہ ہوا.ملک صاحب ( ملک مبارک علی صاحب تاجر لاہور) نے کہا میری گاڑی میں ہی آجائیں.چنانچہ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا.لیکن بیٹھتے ہی میر اول افسردگی کی ایک گہرے گڑھے میں گر گیا.اور یہ مصرع میری زبان پر جاری ہو گیا کہ ع راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو ملک صاحب مجھے اپنی باتیں سنائیں.میں کسی ایک آدھ بات کا جواب دے دیتا.تو پھر اسی یال میں مشغول ہو جاتا.رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یکدم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے.یہ بھی ایک تقدیر خاص تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے اس نا قابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے کے لئے تیار کر دیا ".حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال اور آپ فرماتے ہیں.۱۹۰۸ء کا ذکر میرے لئے تکلیف دہ ہے وہ میری کیا سب احمدیوں کی زندگی نعش مبارک کے سامنے اولوالعزم کا عہد میں ایک نئے دور کے شروع کرنے کا موجب ہوا.اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لئے بمنزلہ روح تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لئے بمنزلہ روشنی کے تھی ہم سے جدا ہو گئی یہ جدائی نہ تھی ایک قیامت تھی.پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آسمان اپنی جگہ سے ہل گیا دنیا میں ہر ایک شخص کے ماں باپ فوت ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات بھی ہوئی مگر ہمارے لئے مشکل یہ تھی کہ ہم سمجھتے ہی نہ تھے کہ آپ وفات پا جائیں گے - لوگوں کو اس کا احساس ہوتا ہے اس لئے کوئی روپیہ جمع کرتا ہے کوئی بہھے کراتا ہے اور کوئی اور انتظام کرتا ہے مگر ہم تو سمجھتے ہی نہیں تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو جائیں گے ہم میں سے ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ میں پہلے فوت ہوں گا اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا جنازہ پڑھا ئیں.نوجوان احباب یہ درخواستیں کرتے تھے کہ حضور دعا کریں کہ ہم آپ کے ہاتھوں میں فوت ہوں اور آپ جنازہ پڑھا ئیں آپ پر اللہ تعالٰی کے فضلوں اور انعامات کو دیکھ کر ہر شخص یہی

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد ہم 71 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت خیال کرتا تھا کہ آپ کو زندہ رہنا چاہئے اور قلوب کی اس کیفیت کی وجہ سے نہ ہمیں اس کا خیال تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری تھی کہ آپ فوت ہو گئے " 2 ۲۱۵ ۲۱۴ نیز فرماتے ہیں."جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب لوگ آپ پر طرح طرح کے اعتراض کریں گے اور بڑے زور کی مخالفت شروع ہو جائے گی.اس وقت میں نے سب سے پہلا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا وہ یہ عہد تھا کہ اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پروا نہیں کروں گا".اس عظیم الشان عمد پر آج چھپن سال کا طویل عرصہ بیت رہا ہے.سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے مخالفتوں، شورشوں اور فتنوں کے باوجود اپنے عہد کو آج تک جس حسن و خوبی سے نباہا ہے تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.نظریات و معتقدات سے اختلاف دو سرا امر ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ نے اپنے عہد کو نباہنے کا حق جیسا کہ چاہیے تھا فی الحقیقت ادا کر دیا ہے.یہ مقدس عمد گویا ایک روحانی پیج تھا جو خدائے تدرس و مقتدر نے آپ کے دل میں بویا.خلافت اولی کے زمانہ میں یہ بیج بڑھا پھولا اور پھلا اور بالآخر خلافت ثانیہ میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک تناور درخت بن گیا.

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد پہلا باب (فصل چهارم) 72 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع حمل از خلافت خلافت اولی میں آپ کی دینی و علمی سرگرمیوں پر ایک نظر تا 24 (۱۳۲۶ھ ۱۳۳۲ھ) رمئی ۱۹۰۸ء سے مارچ ۱۹۱۴ء تک) حضرت خلیفہ اول کی بیعت بیعت خلافت اولی کے وقت آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کی اور خلوص دل سے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد باندھا اور آخر دم تک اس پر قائم رہے.پہلی تصنیف ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالفین سلسلہ نے بہت زہر اگلا اور طرح طرح کے اعتراضات کئے.آپ نے ان کے مدلل مفصل اور دندان شکن جوابات اپنی تصنیف ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے " میں شائع فرمائے جو آپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے اور ۱۲۴ صفحات پر مشتمل ہے.اس کے تمہیدی الفاظ دیکھتے ہی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کس شان کی کتاب ہوگی.فرماتے ہیں." خدا تعالی کے پاک کلام كل من عليها فان ويبقى وجه ر بک ذوالجلال والاکرام کے مطابق جو کوئی پیدا ہوا وہ فوت ہوا.اور جو آئندہ پیدا ہو گاوہ بھی فوت ہو گا سوائے خدا کی ذات واحد کے اور کوئی نہیں جو ہمیشہ ہو اور ہمیشہ رہے.آج سے تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے نبی کریم ا کو وفات دے کر اس بات کو اس طرح سے ثابت کر دیا کہ کوئی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں رہی اور آج تیرہ سو سال آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود کی وفات نے خداتعالی کے کلام کی سچائی کو دنیا پر ظاہر کیا اور ثابت کر دیا کہ کوئی شخص خوا، خداتعالی کا کیساہی پیارا ہو اور کتنی ہی بڑی شان i

Page 109

تاریخ احمدیت جلد ۴ 73 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت کا ہو.آخر بشر ہے اور مخلوق ہے اور ایک دن اس کے لئے مرنا ضروری ہے مگر مبارک وہ جو ان باتوں سے نصیحت پکڑے اور اپنے نفس کو شرک کی ملونی سے پاک رکھے ".FIA سفر بیگووال حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلو حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ نے تبلیغ و اشاعت حق کا جہاد قلمی و لسانی دونوں صورتوں میں شروع کر دیا اور بیرونی مقامات میں جاکر تبلیغی لیکچر بھی دینے لگے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کا سب سے پہلا سفر جو بیگووال (ریاست کپور تھلہ) کی طرف کیا تھا.جہاں آپ حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے ایک شادی کے موقعہ پر گئے اور لیکچر دیا.وسط و تمبر ۱۹۰۸ء میں آپ نے حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ کاٹھ گڑھ کا سفر کا ٹھ گڑھ PRO سفر اختیار فرمایا جو آپ کا دوسرا تبلیغی سفر تھا.آپ بٹالہ سے پھگواڑہ تک ریل میں گئے پھگواڑہ اسٹیشن پر حضرت حاجی حبیب الر حمن صاحب حاجی پورہ استقبال کے لئے موجود تھے آپ حاجی صاحب کی درخواست پر حاجی پورہ تشریف لے گئے اور مختصر سے قیام کے بعد وہاں سے میاں چانن صاحب احمدی برادر خورد میاں شیر محمد صاحب یکه بان کے ٹانگہ پر ہنگہ پہنچے اور میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ کے مکان میں جو کو تو الی سے متصل تھا مقیم ہوئے.شہر میں آپ کی آمد کا عام چرچا ہو گیا تھا لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آنے لگے.زائرین میں غیر مسلم بھی شامل تھے.حضور کا بنگہ میں ایک دن دورات قیام رہا.پھر آپ ٹانگے میں نواں شہر اور وہاں سے گھوڑی پر کاٹھ گڑھ پہنچ گئے.بنگہ سے نواں شہر تک کے سفر میں جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے (مولف اصحاب احمد) کے والد بزرگوار جناب ملک نیاز محمد صاحب ( چپکے.ڈی.آر / ۱۹ ضلع منٹگمری) کو بھی ہمرکاب ہونے کا شرف حاصل ہوا.ملک نیاز محمد صاحب کا بیان ہے کہ " راہوں ضلع جالندھر میں ہمیں اطلاع ملی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب بنگہ میں بھی قیام فرما ئیں گے میں بنگہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کا ٹھ گڑھ جانے کے لئے بالکل تیار ہیں.چنانچہ احباب جماعت بنگہ کی معیت میں آپ اور حضرت میر محمد الحق صاحب سیکوں کے اڈہ پر تشریف لے گئے.یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ وہاں حضرت بابا شیر محمد صاحب مرحوم (یکه بان) ایک نیا یکہ لے کر کھڑے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب اور میر صاحب جب دوستوں سے مصافحہ کر کے ٹانگہ پر سوار ہونے لگے.تو بابا جی نے عرض کی کہ میرا ایک خواب ہے حضور اسے پورا فرما ئیں اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود تشریف لائے ہیں اور میں نے حضور کو اپنے ٹانگہ میں سوار ہونے کے لئے عرض کی لیکن اس یکہ کا پائیدان نہیں تھا.میں نے عرض کی کہ حضور میری پیٹھ پر پاؤں

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 74 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت رکھ کر سوار ہو جائیں چنانچہ حضور نے میری عرض قبول فرمائی اور اسی طریق سے یکہ پر سوار ہو گئے.اس خواب کے ماتحت میں نے یہ ٹانگہ بنوایا ہے اور دانستہ اس میں پائیدان نہیں لگوایا اب میں جھکتا ہوں اور حضور میری پیٹھ پر پاؤں رکھ کر سوار ہو جائیں تاکہ میرا خواب پورا ہو جائے.محض بابا شیر محمد صاحب کی اس رویا کی بناء پر آپ نے ان کی پشت پر قدم رکھا اور سوار ہو گئے.اور میں بھی شریک سفر ہو گیا.باقی سب دوست واپس ہو گئے.اس یکہ میں ہم تین سواریاں اور چوتھے بابا شیر محمد صاحب یکہ چلانے والے تھے.بنگہ سے نواں شہر تک سفر میں دونوں بزرگوں کا یہ شغل رہا کہ پہلے حضرت صاحبزادہ صاحب سورہ ق تلاوت کر کے حضرت میر صاحب کو سناتے پھر حضرت میر صاحب یہی سورۃ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سناتے.اسی طرح سارے سفر میں ایک دوسرے کو سناتے رہے.یہاں تک کہ نواں شہر پہنچ گئے وہاں کا ٹھ گڑھ کی جماعت کے دوست گھوڑیاں لے کر آئے ہوئے تھے.وہاں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے یہ دونوں بزرگ کا ٹھ گڑھ کے لئے روانہ ہو گئے اور میں واپس را ہوں چلا گیا "aa حضرت صاحبزادہ سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی کاٹھ گڑھ میں چند روز ٹھہرنے کے بعد واپسی پر کریام.لنگڑوعہ اور راہوں میں دوستوں کے اصرار پر تھوڑا تھوڑا وقت ٹھرتے ہوئے دوبارہ بنگہ میں وارد ہوئے - بنگہ میں مختصر قیام فرمایا پھر قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.۲۲ سالانہ جلسه ۱۹۰۸ء پر تقریر خلافت اوٹی کے پہلے سالانہ جلسہ منعقدہ دسمبر ۱۹۰۸ء) پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک پر معارف تقریر فرمائی جس کا عنوان تھا ” ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں ".حضرت مولوی شیر علی صاحب اپنے ایک مضمون میں اس تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.یه جلسه مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح اول حضور کے ذائیں جانب اسٹیج پر رونق افروز تھے اسٹیج کا رخ شمال کی جانب تھا.اس تقریر سے متعلق دو باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں.اول عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت آپ کی آواز اور آپ کی ادا اور آپ کا لہجہ اور طرز تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اور طرز تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ اس وقت سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ہم سے جدا ہوئے تھے یاد تازہ ہو گئی.اور سامعین میں بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس آواز کی وجہ سے جو ان کے پسر موعود کے ہونٹوں سے اس وقت اس طرح پہنچ رہی تھی جس طرح گراموفون سے ایک نظروں سے غائب انسان کی پہنچتی ہے آنسو جاری ہو گئے اور آنسو بہانے والوں میں ایک خاکسار بھی تھا.اگر یہ کہنا درست ہے کہ انسان کی

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 75 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موائع قبل از خلافت روح دوسرے پر اترتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح آپ پر اُتر رہی تھی اور اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ یہ ہے میرا پیارا بیٹا جو مجھے بطور رحمت کے نشان کے دیا گیا تھا اور جس کی نسبت یہ کہا گیا تھا کہ وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہو گا.دوسری بات جو اس تقریر کے متعلق قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جب تقریر ختم ہو چکی تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے جن کی ساری عمر قرآن شریف پر تدبر کرنے میں صرف ہوئی تھی اور قرآن کریم جن کی روح کی غذا تھی فرمایا کہ میاں نے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی نئی تھی.یہ آپ کی پہلی پبلک تقریر تھی.جو آپ نے جماعت کے سامنے کی اور اس پہلی تقریر میں قرآن شریف کے وہ معارف بیان فرمائے ہیں جن کی نسبت حضرت خلیفتہ المسیح اول جیسے عالم قرآن نے یہ اقرار فرمایا ہے کہ یہ ان کے لئے بھی جدید معارف ہیں.پس یہ معارف اس نوجوان کو کس نے سکھائے یہ حکمت اور یہ علم آپ کو زمانہ نو جوانی میں کس نے دیا اس نے جو قرآن شریف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے.فلما بلغ اشده اتينه حکما و علما و كذلك نجزی المحسنین.آپ نے صرف عام طور پر دانائی اور حکمت کی باتیں بیان نہ فرما ئیں بلکہ قرآن شریف کے اچھوتے معارف بیان فرمائے اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف کے متعلق فرماتا ہے- لا يمسه الا المطهرون.پس لڑکپن کی خلوت سے نکلتے ہی آپ کا لوگوں کے سامنے قرآن شریف کے جدید اور لطیف معارف بیان فرمانا اس بات کی ایک بین شہادت ہے کہ آپ نے اپنا لٹر کمین اللہ تعالیٰ کی خاص تربیت میں گزارا اور آپ بچپن میں ہی مطہرین کی جماعت میں داخل تھے ".۲۲۵ ۱۹۰۸ء کے جلسہ پر ایک کانفرنس مدرسہ احمدیہ کی بقاء کے لئے فیصلہ کن جدوجہد بھی ہوئی جس میں انجمن کے بعض ارباب حل و عقد نے مدرسہ احمدیہ کو ختم کر دینے کا فیصلہ کیا.مگر آپ نے ایسی زبردست تقریر فرمائی کہ ان کا سحر پاش پاش ہو گیا.اگر آپ اس مقابلے میں سینہ سپر نہ ہوتے تو سلسلہ احمدیہ کی آئندہ تاریخ بالکل مختلف ہوتی.(1) آپ کی کوشش سے قادیان میں پہلی پبلک لائبریری قائم ۱۹۰۸ء کی دوسری خدمات ہوئی.جس کا ۲۵ دسمبر ۱۹۰۸ء کو افتتاح ہوا.(۲) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی وفات پر اخبارات کی آراء آپ نے " شعیذ الا زبان میں محفوظ کر دیں.(۳) حضور کی وفات کے بعد لنگر خانہ کا انتظام آپ کے سپرد ہوا.

Page 112

تاریخ احمدیت جلد ۴ تشھید الاذہان میں بلند پایہ مضمون 76 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت (۱) خواجہ غلام الثقلین ب نے "عصر جدید" کے ایک مضمون میں سلسلہ پر حملہ کیا جس کا آپ نے پر زور دفاع کیا.(۲) ایک مسلمان نے اخبار "پایونیر" میں جو از سود پر مضمون لکھا جس کا جواب ) آپ نے شمیذ الاذہان میں شائع فرمایا ) - (۳) پادری اکبر مسیح نے رسالہ ”پیغام صلح " پر اعتراضات کئے جس کا جواب بھی آپ کے قلم سے نکلا - جیسا کہ گزشتہ جلد میں با تفصیل بتایا جا چکا ہے انجمن کے حامی آپ کے خلاف منصوبے سلسلہ احمدیہ میں چونکہ نظام خلافت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے پر ย تلے ہوئے تھے اس لئے ان کی مخالفت کا اول نشانہ حضرت مولانا حافظ نور الدین خلیفتہ المسیح اول - ثانيا حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے.حضرت خلیفہ اول کے خلاف محاذ کی وجہ ظاہر تھی کہ اس وقت آپ ہی مسند خلافت پر متمکن تھے اور حضرت میاں صاحب سے عداوت و دشمنی کا باعث یہ تھا کہ قیام خلافت کے آغاز ہی سے آپ حضرت خلیفہ اول کے دست و بازو اور زبر دست موید تھے اور آئندہ خلافت کے لئے جماعت کی نظریں ان پر پڑتی تھیں.بلکہ خود حضرت خلیفتہ المسیح اول پوری جماعت میں باوجود نو عمری کے آپ کا سب سے زیادہ احترام فرماتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی طرف سے جوں جوں یہ اعزاز و اکرام بڑھتا گیا.منکرین خلافت زیادہ سے زیادہ مشتعل ہوتے چلے گئے اور آپ کا وجود خار کی طرح کھٹکنے لگا اور آپ کی ہر ممکن صورت سے تحقیر کی جاتی.چنانچہ صاحبزادہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب فرماتے ہیں.”حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب وفات پاگئے تو صد را مجمن احمدیہ نے میرے سپرد لنگر خانہ کا کام کر دیا.خواجہ کمال الدین صاحب عام طور پر میرے کاموں کو پسند نہیں کیا کرتے تھے.لیکن اگر میں کام نہ کرتا.تو حضرت خلیفہ اول سے یہ شکایت کر دیتے کہ میاں ہماری مدد نہیں کرتے.بہر حال جب یہ کام میرے سپرد ہوا.تو خواجہ صاحب نے حقارت کے طور پر میرے متعلق لانگری کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا.چنانچہ جب بھی میں ان سے ملتا.کہتے آگئے لانگری صاحب وہ سمجھتے کہ اس طرح میری خوب ہتک ہوتی ہے.مگر میں پروا بھی نہ کرتا.آخر چند دن کے بعد وہ خود ہی تھک گئے اور انہوں نے اس لفظ کا استعمال ترک کر دیا م یہی نہیں ایک بار مدرسہ احمدیہ کی ایک میٹنگ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے برملا کہہ دیا کہ آپ کو میاں میاں کہہ کر سر پر چڑھا لیا ہے.ہم آپ کو میاں کہہ کر پکارنا چھوڑ دیں گے پھر دیکھیں گے کون آپ کی عزت کرتا ہے.ان حضرات کی عادت تھی کہ اگر حضرت میاں صاحب سلسلہ کا کوئی کام

Page 113

تاریخ احمدیت جلد ۴ 77 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت کرتے تو پراپیگنڈا کرتے کہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے اور اگر علیحدگی اختیار کرتے تو فرماتے کہ انہیں تو سلسلہ کا کوئی درد ہی نہیں ہے.ایک بہت بڑا خطرہ انہیں اس وقت محسوس ہو ا جب بعض بیرونی جماعتوں کی درخواستوں پر سیدنا حضرت خلیفہ اول نے آپ کو باہر بھیجنا شروع فرمایا.یہ حضرات سخت پریشان ہوئے اور انہوں نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے ایک طرف تو یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ یہ سب کچھ اپنی خلافت کی راہ ہموار کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے.دوسری طرف حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ حضور کو معلوم ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو کس قدر مخلوق آپ کی خدمت میں ہوتی اور ایک شان نظر آتی تھی.اور اب ان کے صاحبزادے ہیں اور ہم ان کو بھی اس نظر سے دیکھتے ہیں اور حضور معمولی لوگوں کی درخواست پر بھی اکیلا باہر بھیج دیتے ہیں.جو بالکل ان کے خلاف شان ہو تا ہے.اور اس سے طبیعت پر بہت صدمہ ہوتا ہے اور اس پر بس نہ کرتے ہوئے حضرت ام المومنین تک یہ بات پہنچائی گئی.کہ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے.مولوی صاحب بے پروا ہیں.ساری دنیا دشمنوں سے بھری پڑی ہے جو بڑے سے بڑے ارادے رکھتے ہیں اور مولوی صاحب میاں صاحب کو اکیلا باہر بھیج دیتے ہیں جب تک واپس نہ آجا ئیں ہمیں آرام نہیں آتا.مگر جب اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو آپ کے مقابلہ کے لئے خود لیکچروں کے دورے شروع کئے اور ہر جگہ حضرت میاں صاحب کی نسبت طرح طرح کے خیالات پھیلانے لگے.جب اس پر بھی کام نہ چلا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ صلح کرلی جائے.آپ نے انہیں جواب دیا کہ صلح بہت اچھی چیز ہے اور اگر جھگڑا مٹ جائے تو مجھے بہت خوشی ہوگی.اگر کسی دنیوی امر کے بارہ میں ہے تو خواجہ صاحب جو کچھ بھی لکھ دیں گے میں اس پر دستخط کر دوں گا اور مان لوں گا.مگر اختلاف مذہبی عقائد کا ہے تو چاہے زمین و آسمان ٹل جائیں.میں جب تک ایک عقیدہ کو درست سمجھتا ہوں اسے ہرگز چھوڑنے کو تیار نہ ہوں گا.آپ کی نگرانی انجمن کے ممالک حضرت میاں صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پرائیوٹ عمائد مجالس پر کڑی نگرانی رکھتے اور مختلف ذرائع سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ وہاں کیا کچھ کیا اور کہا جاتا ہے چنانچہ میر شفیع احمد صاحب دہلوی کا بیان ہے کہ " حضرت میاں محمود احمد صاحب مغرب کے بعد اکمل صاحب کی کوٹھڑی میں آکر بیٹھا کرتے تھے.....شعر و شاعری اور مختلف باتیں ہوتی تھیں.مگر میں نے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ دیکھی بلکہ ان کی ہر بات حیرت انگیز اخلاق والی ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب پیغام پارٹی خصوصا شیخ رحمت اللہ

Page 114

تاریخ احمدیت جلد ۴ 78 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت صاحب نے مجھے کہا کہ میر صاحب! آپ میاں صاحب یعنی میرزا محمود احمد ایدہ اللہ تعالی) اور اکمل کی پارٹی میں بہت بیٹھا کرتے ہیں.ذرا پتہ لگا ئیں کہ یہ بدر میں آج کل کو کل بلبل اور فاختہ کیسی اڑتی ہیں اس زمانے میں قاضی اکمل صاحب کی اس قسم کی اکثر نظمیں شائع ہوتی تھیں.چنانچہ میں رات دن اس امر کی تلاش میں رہتا کہ مجھے کوئی بات مل جائے.تو میں پیغام پارٹی کو اطلاع دوں.مگر میں جس قدر حضرت میاں صاحب کی صحبت میں رہا.کو نوامع الصادقین کا کرشمہ مجھے پر اثر کرتا چلا گیا.ان لوگوں کا خیال تھا کہ میاں محمود احمد صاحب ، میاں محمد الحق صاحب اور قاضی اکمل مل کر کوئی خاص ایجی ٹیشن پھیلا رہے ہیں.کیونکہ ان دنوں میں میاں محمد اسحق صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا خلیفہ انجمن کے ماتحت ہے یا انجمن خلیفہ کے ماتحت ہے گو میاں محمد اسحق صاحب کم عمر تھے مگر ان کا دماغ اور ذہن بڑے غضب کا تھا.غرضیکہ حضرت مسیح موعود.یہ السلام کے مصاحب اور رشتہ دار اور اولاد ہر ایک اس قدر گہرے طور پر حضرت صاحب کے رنگ میں رنگین ہو گئے تھے کہ بے انتہاء جستجو کے بعد بھی کوئی آدمی ان میں کوئی عیب نہ نکال سکتا تھا " " خلافت سے غیر متزلزل وابستگی آپ کا سب سے بڑا جرم صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ خلافت سے آپ کی وابستگی غیر متزلزل تھی اور نہ صرف تنہا ہونے کے باوجود آپ انجمن کے ممبروں کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہ رہتے تھے بلکہ اگر خلیفہ وقت کے خلاف کوئی خاص بات آپ کے علم میں آتی تو آپ حضرت خلیفہ اول کو اس سے ضرو ر با خبر کر دیتے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح اول ان کے چھ سالہ عہد خلافت میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب انجمن پر قابض تھے یہ بسا اوقات حضرت خلیفتہ اصبح اول یہ کے خلاف باتیں کرتے اور جب وہ آپ کے لئے اور سلسلہ کے لئے نقصان دہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا دیتا.اس پر میگوئیاں بھی ہو تیں میرے خلاف منصوبے بھی ہوتے پھر میں اکیلا تھا اور ان کا ایک جبتہ تھا.مگر اس چھ سال کے عرصہ میں کبھی ایک منٹ کے لئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں ان باتوں کو چھپاؤں پھر میں اگر وہ باتیں بتاتا تھا.تو اس لئے نہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول ان پر احسان جتاؤں بلکہ اس لئے کہ میں اخلاق اور روحانیت کے قیام کے لئے ان باتوں کے انسداد کی ضرورت سمجھتا تھا" چه اپریل ۱۹۰۹ء میں آپ حضرت ہندوستان کے پائے تخت دہلی میں پیغام حق پہنچانا ام المومنین اور اپنے دو سرے

Page 115

تاریخ احمدیت جلد ۴ 79 مید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت بھائی بہنوں سمیت دہلی تشریف لے گئے اور دریا گنج میں مقیم ہوئے Hang - آپ نے اپنے اس تبلیغی سفر کے حالات انہی دنوں الحکم (۷/۱۴ مئی ۱۹۰۹ء) میں شائع کر دیئے تھے جو نہایت دلچسپ معلومات افزا اور قابل دید ہیں.اسی سفر میں (۹/ اپریل کو) آپ کا اسلام اور آریہ مذہب پر پہلا لیکچر بھی ہوا.چھ سات سو آدمی لیکچر سننے آئے جن میں دہلی کے رو سا بھی تھے.دہلی میں آپ نے دوسرا لیکچر اسلام اور عیسائیت " پر دیا.یہ لیکچر ۱۶ / اپریل کو ہوا.(چوہدری غلام قادر صاحب نمبردار اوکاڑہ کی روایت کے مطابق ایک جلسہ کی صدارت دلی کے مشہور صوفی وادیب جناب خواجہ حسن نظامی نے کی تھی 1 اس سفر میں آپ نے اپنے نہیال کو بھی احمدیت سے متعارف کرایا.آپ نے دہلی سے روانگی کے وقت ان الفاظ میں دعا کی کہ خداوہ دن لائے کہ اس شہر کو بھی خدا ہدایت دے اور اس مٹی سے پھر کسی دن اس قسم کے برگزیدہ لوگ پیدا ہوں جن کے مزار بکثرت وہاں پائے جاتے ہیں".سفر دہلی کے دوران میں آپ کپور تھلہ ، لاہور، قصور اور فیروز پور بھی تشریف لے گئے اور کامیاب لیکچر دیئے.آپ نے کشمیر کی طرف پہلا سفر جولائی 1999ء میں فرمایا.اس سفر میں ایک واقعہ ایسا ۱۴۴۴ سفر کشمیر پیش آیا جس نے آپ کے دل میں اہل کشمیر کی درد ناک اور قابل رحم حالت کا نقش ایسا گہر ا جما دیا جسے آپ آج تک فراموش نہیں کر سکے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.1909ء میں میں کشمیر گیا.تو ایک مقام سے چلتے وقت میں نے تحصیلدار سے کہا کہ ہمارے لئے کسی مزدور کا انتظام کر دیا جائے اس نے رستہ میں سے ایک شخص کو پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دیا کہ اس کے سر پر اسباب رکھوا دیں.ہم نے اسے سامان دے دیا مگر ہم نے دیکھا کہ وہ راستہ میں بار بار ہائے ہائے کرتا ہے.آخر ایک جگہ پہنچ کر اس نے تھک کر ٹرنک نیچے رکھ دیا میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے اس سے کہا کہ کشمیری تو بہت بوجھ اٹھانے والے ہوتے ہیں تم سے یہ معمولی ٹرنک بھی نہیں اٹھایا جاتا وہ کہنے لگا میں مزدور نہیں ہوں میں تو زمیندار ہوں.اپنے گاؤں کا معزز شخص ہوں اور دولہا ہوں جو برات میں جارہا تھا کہ مجھے راستہ میں تحصیلدار نے پکڑ لیا اور اسباب اٹھانے کے لئے آپ کے پاس بھیج دیا.میں نے اس وقت اسے چھوڑ دیا کہ تم جاؤ ہم کوئی اور انتظام کرلیں گے میں نے خود کشمیر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سو دو سو کے قریب مسلمان جمع ہیں اور ایک ہندو انہیں ڈانٹ رہا ہے اور وہ بھی کوئی افسر نہیں تھا.بلکہ معمولی تاجر تھا اور وہ سارے کے سارے مسلمان

Page 116

تاریخ احمدیت جلد ۴ 80 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت اس کے خوف سے کانپ رہے تھے انگریزی مضامین لکھنے کی مشق نومبر ۱۹۰۹ء میں آ نومبر ۱۹۰۹ء میں آپ نے محض دینی خدمت کی غرض سے انگریزی میں مضامین لکھنے کی مشق شروع کی.ان مضامین پر نظر ثانی حضرت مولانا شیر علی صاحب فرمایا کرتے تھے.یہ سلسلہ لمبے لمبے وقفوں کے ساتھ قریباً اگست ۱۹۱۱ء تک جاری رہا یہ مضامین آپ کی کاپی میں اب تک محفوظ ہیں.اس سلسلہ میں ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے کاپی کے پہلے صفحہ پر مضامین لکھنے سے قبل مندرجہ ذیل عربی لکھی جو آپ کے جوش دینی وند ہی کی آئینہ دار ہے.بسم الله الرحمر و پر حجم تحدة و تصلى على دوله الكريم المهم ايدني في تحصيل منذ اللسان وبارك في كل تعظیم اتعلم من الاستاذ - الرحم علی علی الاني وانصرنا في التكسير الديب وتنقل الخنازير - این سی ای او را برای این نفرین شد که ترجمہ : اے خدا اس زبان کے سیکھنے میں میری تائید فرما اور ہر اس لفظ میں جو میں اپنے استاد سے سیکھوں برکت ڈال اور مجھ پر اور میرے استاد پر رحم فرما اور کسر صلیب اور قتل خنزیر کرنے میں ہماری نصرت کر کیونکہ تیری مدد کے بغیر کوئی انسان کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا.ڈپٹی فقیر اللہ صاحب کے نام خط اسی ماہ نومبر۱۹۰۹ء میں آپ نے ڈپٹی فقیر اللہ صاحب کے نام جبکہ وہ علی گڑھ کالج میں پڑھتے تھے.مندرجہ ذیل خط لکھا جس سے آپ کی مصروفیات کا کسی قدر پتہ چلتا ہے.

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 81 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت badhan بسم اللہ الرحمن الرحیم 6th War 1909.و اسلام خاصی برادرم کرم السلام علیکم.آپکے تین خطه دو تو براه راست او را یک به شراکت حضرت خلیفه ہے.الحمد للہ کہ آپ بخیریت ہے.رات اللہ آپکے لئے دعا کرو گا.بائیں خطہ کی جواب لکھتے یہ اس لئیے دیر ہوئی کہ آج کی ایک کا چوڑا مضمون بھر رہا ہوں دن اور رات اکھی نہمک رہا یہ ہیں ہے.مضمون وہ پر ہے اس لئے اس مادی دنیا ایک ایک حدتک انقطاع لازم و کمان کے دوستو یکی خدمت میں السلام علیکم عرض کر دیے دنیا مشنری کالج کے پرنسپل سے گفتگو آپ فرماتے ہیں.میری عمر کوئی میں سال کی تھی اور میں ان دنوں لاہور میں تھا کہ میاں محمد شریف صاحب ای.اے سی جن سے میرے دوستانہ تعلقات تھے مجھے ایک پادری مسٹروڈ کے پاس لے گئے جو مشنری کالج کا پر نسل تھا.میں نے اس سے یہ سوال کیا.ابراہیم اور موسی کی نجات کس طرح ہوئی ہے جس ذریعہ سے ان کی نجات ہو گئی ہے اس ذریعہ سے اب بھی لوگوں کی نجات ہو سکتی ہے اس نے کہا

Page 118

تاریخ احمدیت جلد ۴ 82 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت ابراہیم اور موسی حضرت مسیح پر ایمان لا چکے تھے.میں نے کہا وہ ایمان کس طرح لاچکے تھے وہ تو حضرت مسیح سے پہلے ہوئے ہیں.اگر حضرت مسیح پر ان کے ایمان لانے کا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اسے پیش کریں.اس نے کہا داؤد نے پیشگوئی کی تھی کہ اس کی اولاد سے ایک ایسا شخص ہو گا جو خدا کا بیٹا ہو گا.میں نے کہا حضرت مسیح تو داؤد کی اولاد میں سے تھے ہی نہیں.الخ ایک سندھی مولوی صاحب کی ملاقات حضور ایدہ اللہ تعالی ایک سندھی مولوی ہیں.صاحب کی ملاقات کا واقعہ ان الفاظ میں لکھتے ایک سندھ کے مولوی صاحب غالبا مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو اکثر قادیان آتے رہتے تھے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول ان کو ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے.....آيت الو كان فيهما الهة الا الله لفسد تا الخ سورہ انبیاء) آپ کے سامنے رکھی کہ آپ اس کو حل کر دیں.....استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول نے ان کو کئی جواب دیے مگر ان کی تسلی نہ ہوئی جب بحث لمبی ہو گئی تو استاذی المکرم حضرت نور الدین صاحب نے بڑے جوش سے کہا کہ آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں جواب نہیں دے سکتا.ذرا اس بچہ سے جو میرا شاگرد ہے بحث کر کے دیکھ لیں.مولوی عبید اللہ صاحب کو معلوم تھا کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں.....استاذی المکرم کی بات سن کر کہنے لگے ان سے میں بحث نہیں کروں گا ".۱۹۰۹ء میں آپ کے قلم سے شعید الاذہان میں مندرجہ تشخیذ الاذہان میں بلند پایہ مضامین ذیل مضامین شائع ہوئے.قمری نشان" (زلزلہ در گور نظامی نگند کا ظہور ) " تازہ نشان" (سلطان روم کی سلطنت کے متعلق) " ایک عجیب واقعہ "." مسیحی نبیہ" "عورتوں سے پردہ " " تبلیغ اسلام " "ماہ رمضان"." جزاء الاحسان"- "دین حق"."نجات" بجواب لیکچرپادری میکملن ) ۱۹۰۹ء کی دوسری خدمات ا لاہور کی احمدیہ انجمن " مجمع الاخوان " کے سالانہ جلسہ پر لیکچر دیا ۲۴۹ ۱۲۵۰ - پادری جو الا سنگھ کے اعتراضات کے جواب میں آپ کا لاہور میں لیکچر ہوا.ہم اور ہمارے فرائض" کے عنوان پر آپ نے یکم اکتوبر ۱۹۰۹ء کو " شعید الاذہان" کے سہ ماہی اجلاس میں ایک پر جوش تقریر فرمائی.۲۵۱

Page 119

تاریخ احمد 83 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت حضرت شیخ یعقوب علی خلافت سے متعلق ایک نزاع اور آپ کی اولوالعزمی عرفانی فرماتے ہیں." ۱۹۱۰ء کے اوائل میں خلیفہ اور انجمن کے تعلقات پر ایک بحث جماعت میں پیدا ہو گئی اس موقعہ پر صدرانجمن کے بعض عہدیدار اور ان کے اتباع ہے دوسرے لوگ خلیفتہ المسیح کی پوزیشن ایک میر مجلس سے زیادہ نہ سمجھتے تھے.اور ایک جماعت خلیفتہ المسیح کو خلافت راشدہ کا مظہر اور قدرت ثانی کا مظہر اول یقین کرتی تھی یہ خصوصیت سے صاحبزادہ صاحب کے امتحان کا وقت تھا.مگر صاحبزادہ صاحب نے نہایت اخلاص اور وفاداری کے ساتھ اپنے مقام کو نہ چھوڑا اور اپنے طرز عمل سے دکھا دیا کہ قوم کے شیرازہ کارھا گا صرف خلیفہ ہی ہے اور یہی ایک پاک وجود ہے جو ہمیشہ اسلام کی شیرازہ بندی کا موجب رہا ہے" فروری ۱۹۱۰ ء سے آپ نے قادیان میں نماز مغرب کے بعد قرآن مجید کا درس دیتا درس قرآن شروع فرمایا - مخدوم محمد ایوب صاحب کا بیان ہے.” مجھے اس درس میں صرف چند روز ہی شامل ہونے کا موقعہ ملا.حضور نے قرآن کریم کے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے معارف و حقائق بیان فرما کر ایک طرف تو لا یمسه الا المطهرون کے مطابق نوجوانی میں اپنی پاکیزہ زندگی کا ثبوت دیا.اور دوسری طرف کسی مشکل مقام قرآن مجید کے معنے معلوم کرنے کے لئے کوشش کرنے اور پھر سمجھنے کے لئے دعائیں کرنے اور پھر اس کا حل پانے کا ذکر فرما کر اپنے عشق قرآن شریف اور تعلق باللہ کا ثبوت دیا.الغرض اس قلیل عرصہ میں مجھ پر حضور کے عشق و نهم قرآن کریم ، طهارت و تقومی تعلق بالله اجابت دعا اور مطہر زندگی کا گہرا اثر ہوا اور یہی اثر تھا جو کہ بفضلہ تعالیٰ حضور کو خلیفہ بر حق مانے میں کام آیا.سالانہ جلسہ منعقدہ مارچ ۱۹۱۰ ء میں تقریر ۱۹۰۹ء کا سالانہ جلسہ مارچ ۱۹۱۰ء کو منعقد ہوا.جس میں آپ کا بھی لیکچر ہوا.جلسہ کے دوران میں بورڈنگ ہاؤس کے ایک کمرہ میں احمدید احمد یہ کانفرنس کی صدارت کانفرنس ہوئی جس کی صدارت کے فرائض آپ نے انجام نوجوانوں کے لئے تربیتی کلاس احمدی طلباء کی تربیت و اصلاح کے لئے آپ نے وسط ۱۹۱۰ء میں ایک تربیتی کلاس جاری فرمائی.۲۵۸

Page 120

تاریخ احمد بیت - جلد - 84 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ۲۴ جولائی ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح اول ملتان امیر مقامی قادیان کی حیثیت میں تشریف لے گئے تو صاحبزادہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو جماعت احمدیہ قادیان کا امیر مقرر فرمایا.۲۹ / جولائی ۱۹۱۰ ء کو آپ نے پہلی مرتبہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا - سب سے پہلا خطبہ جمعہ ۲۶ اگست ۱۹۱۰ء کو حضرت حضرت خلیفہ اول کی نماز جمعہ آپ کی اقتداء میں خلیفہ اول نے آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا فرمائی.مدرسہ احمدیہ کے منتظم کی حیثیت میں تمبر 1912ء سے مارچ ۱۹۱۳ء تک مدرسہ احمدیہ کے منتظم رہے اور اس قومی درسگاہ کی ترقی و بہبود کے لئے ہر ممکن جدوجہد فرمائی.احمدیوں کے خلاف ایک فتویٰ کفر شائع ہوا جس پر آپ نے اخبار میں ایک فتوی کفر کا جواب مضمون شائع فرمایا جس کا عنوان تھا." کمفرین کے اشتہار کا جواب " - ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ اول خلافت کی پیشکش اور آپ کا مومنانہ جواب گھوڑے سے گر پڑے تو آپ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو امام الصلوۃ مقرر فرما دیا.حضرت خلیفہ اول کی بیماری نازک صورت پکڑ گئی تو انجمن والوں نے آپ کو خلافت کی پیش کش کی.مگر آپ نے انتہائی جرأت اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اسے فور ارد کر دیا.چنانچہ فرماتے ہیں.1910ء کے آخری مہینوں میں حضرت خلیفتہ المسیح گھوڑے سے گر گئے اور کچھ دن آپ کی حالت بہت نازک رہی.حتی کہ آپ نے (ڈاکٹر) مرزا یعقوب بیگ صاحب سے جو اس وقت آپ کے معالج تھے دریافت کیا کہ میں موت سے نہیں گھبرا تا آپ بے دھڑک طبی طور پر بتادیں کہ اگر میری حالت نازک ہے تو میں کچھ ہدایات وغیرہ لکھوا دوں مگر چونکہ یہ لوگ حضرت مولوی صاحب کا ہدایات لکھوانا اپنے لئے مضر سمجھتے تھے آپ کو کہا گیا کہ حالت خراب نہیں ہے اور اگر ایسا وقت ہوا تو وہ خود بتادیں گے مگر وہاں سے نکلتے ہی ایک مشورہ کیا گیا اور دوپہر کے وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ میرے پاس آئے.کہ ایک مشورہ کرتا ہے آپ ذرا مولوی محمد علی صاحب کے مکان پر تشریف لے چلیں.میرے نانا جناب میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلوایا گیا تھا.جب میں وہاں پہنچا تو مولوی محمد علی صاحب.خواجہ صاحب مولوی صدر الدین صاحب اور ایک یا دو آدمی وہاں پہلے سے موجود تھے خواجہ صاحب نے !

Page 121

تاریخ ا 85 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت ذکر شروع کیا کہ آپ کو اس لئے بلوایا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کی طبیعت بہت بیمار اور کمزور ہے ہم لوگ یہاں ٹھر تو سکتے نہیں لاہور واپس جانا ہمارے لئے ضروری ہے پس اس وقت دوپہر کو جو آپ کو تکلیف دی ہے تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ کوئی ایسی بات طے ہو جائے کہ فتنہ نہ ہو اور ہم لوگ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو خلافت کی خواہش نہیں ہے کم سے کم میں اپنی ذات کی نسبت تو کہہ سکتا ہوں کہ مجھے خلافت کی خواہش نہیں ہے اور مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کو یہی یقین دلاتے ہیں.اس پر مولوی محمد علی صاحب بولے کہ مجھے بھی ہرگز خواہش نہیں.اس کے بعد خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم بھی آپ کے سوا خلافت کے قابل کسی کو نہیں دیکھتے.اور ہم نے اس امر کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن آپ ایک بات کریں کہ خلافت کا فیصلہ اس وقت تک نہ ہونے دیں جب تک ہم لاہور سے نہ آجادیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص جلد بازی کرے اور پیچھے فساد ہو - ہمارا انتظار ضرور کر لیا جاوے میر صاحب نے تو ان کو یہ جواب دیا کہ ہاں جماعت میں فساد مٹانے کے لئے کوئی تجویز ضرور کرنی چاہئے مگر میں نے اس وقت کی ذمہ داری کو محسوس کر لیا.اور صحابہ کا طریق میرے سامنے آگیا.کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کے متعلق تجویز خواہ وہ اس کی وفات کے بعد کے لئے ہی کیوں نہ ہو نا جائز ہے پس میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں اس کے جانشین کے متعلق محسین کر دینی اور فیصلہ کر دیتا کہ اس کے بعد فلاں شخص خلیفہ ہو گناہ ہے.میں تو اس امر میں کلام کرنے کو ہی گناہ سمجھتا ہوں " 1910ء میں آپ کے قلم سے " تشمیذ الا زبان میں " تشخیز الاذہان میں بلند پایہ مضمون مندرجہ ذیل مضامین نکلے." انبیاء اور جمین میں فرق " - " نجات کا فلسفہ " - (کئی قسطوں میں) " نشان آسمانی" (حضرت خلیفہ اول کے گھوڑے ۲۶۵ سے گرنے سے متعلق) دین کو دنیا پر مقدم کرو".حضرت مولوی سید محمد احسن کی شہادت جنوری 1911ء کا ذکر ہے کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے مسجد اقصیٰ میں خطبہ جمعہ کے دوران آپ کا ذکر کر کے بڑے زور دار الفاظ اور پُر جوش لہجہ میں فرمایا کہ.حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے ہماری جماعت کے وہ امام ہیں اور انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے جیسے کہ الہام میں تھی.اور میں نے تو ارہاص کے طور پر یہ سب آثار مشاہدہ کئے ہیں اس لئے میں مان چکا ہوں کہ یہی وہ فرزند ارجمند ہیں جن کا نام محمود احمد سبز اشتہار میں موجود

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 86 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت ۲۰/ ۱۹ جنوری حضرت خلیفہ اول کی طرف سے آپ کی خلافت کی وصیت 1911ء کو حضرت خلیفہ اول نے آپ کو اپنے بعد خلیفہ نامزد فرمایا.یہ نامزدگی ایک مخفی وصیت کی صورت میں تھی جو ایک بند لفافہ میں آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھی جو بعد کو آپ نے خود چاک کردی تھی.جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنی مولفہ کتاب "حقیقت اختلاف میں بھی اس اہم وصیت کا ذکر کیا ہے.1911 ء کے اوائل میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے " مجلس انصار اللہ " کا قیام تبلیغ و تربیت اور باہمی رابطہ اتحاد و محبت کی غرض سے ایک انجمن انصار اللہ قائم فرمائی جس کے ممبروں کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ خدمت دین کے لئے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً دیں اور لوگوں کے لئے پاک نمونہ نہیں.چنانچہ جماعت کے بہت سے احباب نے اس انجمن کی ممبری قبول کی اور ان کے ذریعہ سے تبلیغ و تربیت کے کام میں ایک خاص ولولہ پیدا ہو گیا.انصار اللہ میں شمولیت کے لئے آپ نے سات مرتبہ استخارہ کی شرط لازمی قرار دی ED - بعض احمدیوں کو تو استخارہ کرنے سے پہلے ہی اس میں شمولیت کی الہانا تحریک ہوئی.چنانچہ خان محمد عجب خاں ( ہری پور ضلع ہزارہ) نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں لکھا.” دربارہ انجمن انصار اللہ عرض ہے کہ میں نے وحی اللہ سے اس انجمن کی برکات معلوم کرلی ہیں استخارہ کی حاجت نہیں اور خصوصا جبکہ حضرت خلیفتہ المسیح نے بھی اس کو منظور اور پسند فرمایا ہے پھر تو نور علی نور ہے.درباره روی اونهارو په عرض دها کر نے وحی الہ کر رای اکین در رکات معلوم که برایش پاره کا چت نہیں کرخ سے کار حصر منظور در نه یا تا سوار خود را عملی 3 به - اور اس کی ہر وقت اور بڑی ضرورت ہے بلکہ میں تو خود اس میں یہاں کو شاں رہا اور میری رائے میں احمدی جماعت کی علت نمائی یہی ہے...اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر و اجر عظیم عطا فرمادے کہ ہمارے ارادوں کی تکمیل کے اسباب آپ نے بہم پہنچائے.کیونکہ یہ احمدی جماعت کے اغراض کی

Page 123

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 87 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت تحمیل و تشہیر میں سستی تباہی کی علامت ہے ".وہلی کے رسالہ ” نظام المشائخ " (مارچ ۱۹۱۱ء) میں آپ کا ” خاتم النبین " پر لطیف مضمون ایک لطیف مضمون شائع ہوا.جس میں آپ نے نہایت جامعیت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے مقام ختم نبوت پر اچھوتے انداز میں روشنی ڈالی.اوائل 1911ء میں حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کالج ایک پرائیویٹ کلاس سے آئے تو آپ نے ان کی تعلیم کے لئے ایک پرائیوٹ کلاس جاری فرمائی جس میں آپ نے خطبہ الہامیہ دروس النحویہ حصہ دوم وغیرہ پڑھایا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی شامل ہوتے تھے.لیکچر بٹالہ / مئی 1911ء کو احمدیہ انجمن بٹالہ کا پہلا سالانہ جلسہ تھا جس میں آپ کے دو لیکچر ہوئے (1) " حقیقی مذہب کونسا ہے؟" (۲) " ضرورت امام " یہ مضمون آپ نے ایسے موثر اور پر جوش طریق سے بیان فرمایا کہ بعض آنکھیں بے اختیار پر نم ہو گئیں.پادری ینگسن سے مذہبی گفتگو حضرت خلیفہ اول کے ارشاد اور مشورہ کے ماتحت آپ جون 1911ء میں ڈلہوزی تشریف لے گئے جہاں آپ کی ایک پادری ینگسن نامی سے ملاقات ہوئی آپ نے دو گھنٹہ تک مسئلہ تثلیث پر گفتگو فرمائی.پادری صاحب آپ کے سوالات و استدلال کے سامنے دم بخود رہ گئے.اس گفتگو کی تفصیل آپ نے ڈلہوزی سے واپس آکر پہاڑی وعظ " کے نام سے شائع کرادی تھی.بطور نمونہ اس گفتگو کا آخری حصہ ذیل میں لکھا جاتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب.انجیل کو انسان تب مانے جب اصول مسیحیت ثابت ہو جائیں ان مسائل کے حل ہونے سے پہلے انسان انجیل کو کب مان سکتا ہے.پادری صاحب جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے انجیل کے ماننے سے پہلے ان مسائل کا سمجھنا مشکل ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب بہت اچھا آپ اس مسئلہ کو تو عقلی طور پر حل نہیں کر سکتے.یہی فرمائیے موجودہ زمانے میں اس تمام دنیا کا نظام کس کے سپرد ہے خدا باپ کے یا خدا بیٹے کے؟ پادری صاحب - انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات کا انتظام مسیح یعنی بیٹے کے سپرد ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب تو کیا خدا باپ دنیا کو کلمہ کی معرفت پیدا کرنے کے بعد خالی بیٹھا ہے.پادری صاحب نہیں صفات الہیہ کا تعطل تو جائز نہیں تمام جہان کا انتظام وہی کرتا ہے.

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 88 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت حضرت صاحبزادہ صاحب پادری صاحب ! ابھی تو آپ نے فرمایا کہ بیٹا انتظام کرتا ہے.اب اس بات کے تین پہلو ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایک معطل ہے اور ایک کام میں لگا ہوا ہے.اس صورت میں ایک خدا کی صفات پر تعطل لازم آئے گا.جو جائز نہیں.دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں بانٹ کر کام ا کرتے ہیں.اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ ایک خدا سارا کام نہیں کر سکتا.بلکہ دونوں خدا اپنے اپنے حصہ کا کام نپٹاتے ہیں.اس صورت میں خدا تعالیٰ پر نعوذ باللہ محدودیت کا الزام ثابت آتا ہے.اور اگر یہ نہ مانا جائے کہ دونوں ملے جلے سارا کام کر رہے ہیں تو اس صورت میں بھی یہ الزام آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ بیہودہ کام میں لگا ہوا ہے.پادری صاحب.میں آپ کو ابھی بتا چکا ہوں کہ یہ مسائل عقل میں نہیں آسکتے.بلکہ خدا کے کلام انجیل پر ایمان لانے کے بعد سمجھ میں آسکتے ہیں - جون 1911ء میں جارج پنجم کی تاجپوشی پر قادیان میں جو جلسہ ہوا اس میں جلسه تاجپوشی پر تقریر آپ نے بھی تقریر فرمائی اور دعا کی کہ جیسے اس شہنشاہ کے سر پر آج دنیاوی تاج رکھا ہے وہ دن بھی آدے کہ اسلام کا تاج اس کے سر پر ہو جولائی 1911ء میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے قرآن مجید ختم "امتہ الحفیظ کی آمین" کیا جس پر آپ نے آمین لکھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے مطابق " فسبحان الذى او فى الامانی " کو مصرعہ آمین رکھا.قرآن مجید کی شان اور فضیلت کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے آمین میں لکھا.حفیظہ جو مری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہفت مسالہ تو خدا نے پہنایا اس کو بھی یہ تاج زرین ہوئی جب الله کلام سب اس کو پڑھایا بنایا گلشن قرآن کا گل چیں زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت ہوئیں آنکھیں بھی اس سے نور آگیں نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگیں ہوئے چھوٹے بڑے ہیں آج شاداں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فسبحان خطبہ عید الفطر الذي اوفي الاماني ۲۵ ستمبر 1911ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے خطبہ ارشاد فرمایا.جس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح اول نے نہایت جوش اور جلال کے ساتھ تقریر فرمائی اور آغاز تقریر میں فرمایا.”میاں صاحب نے جمعہ کے دن لطیف سے لطیف خطبہ سنایا.وہ اور بھی الطف ہو گا اگر تم اس پر

Page 125

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 89 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوائع قبل از خلافت غور کرو گے.میں اس خطبہ کی بہت ہی قدر کرتا ہوں اور میں یقینا کہتا ہوں کہ وہ خطبہ جمعہ کا عجیب سے عجیب نکات معرفت اپنے اندر رکھتا ہے.بہت سے شریف الطبع لوگوں کو اس سے بہت فائدے ہوں گے مگر بعض پلید الطبع گندے اور شریر ہوتے ہیں جو ایسی پاک باتوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے.تم نے سنا ہے کہ میں نے کیسے سخت لفظ بولے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ابھی میاں صاحب کے خطبہ جمعہ کی خوشی سے فرصت نہیں پاچکا کہ ایک شخص نے ایک لمبار قعہ دو سرے کی شکایت کا پیش کیا جس کو پڑھ کر میں نے کہا ہے کہ خبیث الطبع لوگ ہیں جو ایسے پاک کلام کی قدر نہیں کرتے ہیں.کیا ایسے گندے اور بد بخت لوگ خدا کے کلام کی خوبیوں پر بھی غور نہیں کر سکتے.وہ بد بخت گندے بیمار کی طرح ہیں جن کو عمدہ اور لطیف غذا بھی گندی نظر آتی ہے ".1911ء میں آپ کے قلم سے شعید الاذہان میں تشحید الاذہان میں بلند پایہ مضامین مندرجہ ذیل عنوانات پر مضامین شائع ہوئے.فرعون موسی" " "مسلمان وہی ہے جو خدا کے سب ماموروں کو مانے".گوشت خوری".ستیار تھے پر کاش پر ایک مختصر ریویو "." ایفاء عمد " " ہم مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہیں "." بڑے دن یا کرسمس ڈیز".- سالانہ جلسہ ۱۹۱۱ء پر آپ نے " مدارج تقویٰ " پر لیکچر دیا جسے حقائق و "مدارج تقوی" معارف کا ایک خزینہ کہنا چاہئے.تقسیم اسناد کے جلسہ میں تقریر کیم اپریل ۱۹۱۲ء کو آپ نے مدرسہ احمدیہ کی تقسیم اسناد کے موقعہ پر ایک ایمان افروز تقریر فرمائی.۲۸۲ ۱۹۱۲ء میں آپ نے دو نہایت مبارک اور طویل سفر کئے.سفر مدارس اور سفر مصر و عرب پہلا سفر (۳/ اپریل تا ۲۹/ اپریل) مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے ہندوستان کی مشہور اسلامی درسگاہوں کے نظام تعلیم کے قریبی مطالعہ کی غرض سے فرمایا اور آپ کے یہ تجربات آگے چل کر مدرسہ احمدیہ میں ایک نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوئے.دوسرے مبارک سفر میں آپ پہلے مصر پھر عرب میں تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے.آپ نے شریف مکہ سے بھی ملاقات فرمائی.اور انہیں ارض حرم میں صفائی کے انتظام کی طرف توجہ دلائی - ان سفروں کی مفصل روداد پچھلی جلد میں درج ہو چکی ہے اور قارئین اسے پڑھ چکے ہوں گے اس لئے اس موقعہ پر اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی.TAF FAC

Page 126

¡ تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 90 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت ان سفروں کے علاوہ آپ اسی سال حضرت خلیفتہ المسیح اول کے ۱۹۱۲ء کی دوسری خدمات ساتھ لاہور بھی گئے جہاں شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویر ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھنے کے علاوہ احمد یہ بلڈ نگس میں لیکچر بھی دیا.نوجوانوں میں عربی زبان کا TAY PAO شوق پھیلانے کی طرف بھی توجہ فرمائی.نیز ایک ٹریکٹ ”جواب اشتہار جناب غلام سرور صاحب کانپوری" کے نام سے شائع فرمایا.اس سال کی ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولوی محمد الدین صاحب فوق مؤرخ کشمیر نے " اخبار نویسوں کے حالات " پر ایک کتاب شائع کی.جس میں اور مشہور اخبار نویسوں کے علاوہ آپ کے حالات بھی درج کئے.ایک غیر احمدی صحافی کی ملاقات امرتسر کے ایک غیر احمد ی صحافی جناب محمد اسلم صاحب قادیان آئے اور آپ سے بھی ملاقات کی.اور اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے." صاجزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں از حد مسرت ہوئی.صاحبزادہ صاحب نہایت ہی خلیق اور سادگی پسند انسان ہیں علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدبر بھی ہیں.علاوہ دیگر باتوں کے جو گفتگو صاجزادہ صاحب موصوف کے اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پر ہوئی اس کے متعلق صاجزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بناء پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زبر دست مدیرانہ پہلو لئے ہوئے تھی.صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے از راہ نوازش بہت کچھ ہی مخلصانہ پیرائے میں یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میں کم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں اگر چہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہا.مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظرانہ مہربانی و شفقت کا از حد مشکور ہوں صاحبزادہ صاحب کا زہد و تقویٰ ادران کی وسعت الخیالانہ سادگی ہمیشہ یاد رہے گی " 12- اخبار " الفضل " کی ادارت آپ نے سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر وسط جون ۱۹۱۳ء میں قادیان سے ایک نیا اخبار الفضل جاری فرمایا.جس کے TAZ پہلے نمبر کے لئے حضرت خلیفہ اول نے بھی اسلامی اخبارات کے لئے دستور العمل" کے عنوان سے ایک خاص مضمون لکھا.الفضل میں حضرت خلیفہ اول کے خطبات و تحریرات اور سلسلہ احمدیہ کی خبروں کے علاوہ "سیرت النبی» "الاسلام" تصدیق المسيح"."امر بالمعروف"."مذاکرات"." عالم اسلامی"." ممالک غیر میں تبلیغ اسلام "." الاخبار و الآراء".اور تادیب النساء کے مستقل عنوان کے تحت علمی تاریخی تبلیغی اور تربیتی مضامین شائع ہوتے تھے."سیرت النبی" کے موضوع پر

Page 127

تاریخ احمد نت - جلد ۴ 91 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت آپ نے نئے اور اچھوتے انداز سے قلم اٹھایا تھا.یہ مضمون بعد کو کتابی شکل میں بھی شائع کر دیا گیا ہے.تازہ ملکی حالات پر شذرات لکھنا بھی الفضل کی مستقل پالیسی میں شامل تھا.اسی طرح آپ کے زمانہ ادارت میں جو اہم تحریکات اٹھیں یا قومی و ملی مسائل پیدا ہوئے ان سب میں آپ نے کمال فراست اور بالغ نظری سے مسلمانان ہند کی رہنمائی فرمائی.اس تعلق میں آپ کے بعض قیمتی اداریے حسب ذیل ہیں.گور نمنٹ اور حجاج".اپنے مشاہدات کی بناء پر حجاج کی مشکلات پر تبصرہ اور اس کا حل) السنہ شرقہ کی بے قدری - (علمائے السنہ شرقیہ کے گریڈ میں اضافہ کی اپیل).مسجد کانپور.(حضرت خلیفہ اول نے اس مضمون کی نسبت فرمایا." جزاک اللہ احسن الجزاء خوب لکھا ہے کچھ زائد شائع کردو") -A الد اصطلاحات شرعیہ کی ہتک.(مجاہد غازی مهدی ولی د عالم اور شہید کی شرعی اصطلاحات کے غلط استعمال پر نقد و تبصرہ) بین الاقوامی طبی کانفرنس" (لندن کی ایک طبی کانفرنس کی خدمت خلق سرگرمیوں پر اظہار مسرت اور مسلمان ممبر کی عدم موجودگی پر اظہار تاسف) " مسلمانوں کی سیاست" - قرون اولیٰ کے مسلمان سیاست دانوں کا بیسویں صدی کے شورش پسندوں سے مقابلہ ) " دہلی میں امن کا نفرنس“.(مسلم زعماء کی قیام امن کانفرنس کے مقاصد کی پر زور تائید اور راہ اعتدال اختیار کرنے کی تحریک) یونیورسٹی احتیاط کرے".بی.اے کے کورس میں مسلم آزار فقرات کے خلاف احتجاج) گائے کی قربانی" - ( آنحضرت ﷺ کی طرف گائے کے گوشت کو مضر ثابت کرنے کے لئے ایک جعلی حدیث منسوب کرنے کی مخالفت) " انتہا پسند اور اعتدال پسند گروہ.(ہندوستانی مسلمانوں کی سیاست پر بے لاگ تبصرہ) میڈیکل کالج کے طلباء کی سٹرائیک".(احمدی طلبہ کو سڑا ئیک سے الگ رہنے کا مشورہ اور پرنسپل کے ناروا رویہ پر حکومت کو دخل دینے کی اپیل) ان مضامین کے علاوہ خلافت اولی" کے عہد میں آپ کے قلم سے الفضل میں اور بھی بہت سے مضامین شائع ہوئے یہ سب مضامین بھی نہایت قیمتی اور نئے تقاضوں کے مطابق بڑے ہی ضروری اور شہرت دوام کے حامل ہیں.مگر ہم طوالت کے خوف سے صرف چند عنوانات ہی درج کرنے پر اکتفا

Page 128

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ کرتے ہیں.92 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع تحمل از خلافت "میرا محمد ".ایک اور عظیم الشان نشان ( ترکی سے یمن و نجد کی علیحدگی) " کانپور کی مسجد کے معاملہ میں احمدی جماعت کی پوزیشن"."ایڈیٹر زمیندار کی کارروائی"." ترقی کا وہی بت سرنگوں ہو گیا"." طریق تبلیغ "."اے احمدی جماعت تجھے مبارک ہو"." قابل توجہ حکام صوبہ سرحدی"." et جلسہ سالانہ " - " لارڈ ہیڈلے "."من انصاری الی اللہ " " دعوت الی الخیر فنڈ " "زمیندار پریس " "کشش قلم پریس ایکٹ" "الفضل کا خطاب اپنے ناظرین سے " - "مولوی محمد حسین بٹالوی کا رجوع " " پیغام حق پہنچانے کے لئے ایک عظیم الشان جد وجہد کی ضرورت ہے "." زمانہ نازک ہے "."ہم میں سے کس کا حق ہے کہ ست ہو "." جماعت کو ایک نصیحت."چھ مارچ " - " وطن نے رجوع کر لیا.ایسی باتوں سے کیا فائدہ ؟ " TAA tt.حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کے نام خط آپ نے (ستمبر ۱۹۱۳ء میں) مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کو ایک خط تحریر فرمایا جس سے اس زمانہ کے حالات پر تیز روشنی پڑتی ہے.آپ نے لکھا کہ لاہوری فتنہ بیدار ہو رہا ہے اور آگے سے بہت زیادہ سختی سے گویا کوشش کی جاتی ہے کہ اس کام کو ملیا میٹ کر دیا جائے جو حضرت صاحب نے شروع کیا تھا.آہ آہ آہ - اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور فضل کرے اب کے جماعت کا کثیر حصہ ان کے ساتھ ہے.میری نسبت طرح طرح کی افواہیں مشہور کی جاتی ہیں کہتے ہیں سلسلہ کا سب سے بڑا دشمن ہے.کم سے کم انی معک و مع اهلک کا الہام ہی یاد رکھتے پیغام صلح" نے الفضل پر اعتراض بھی شروع کر دیئے ہیں خلیفتہ المسیح کے حکم سے ان سے جو اب بھی مانگا ہے مداہنت اور ملمع سازی کو کام میں لایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ رحم کرے.میں ایک کمزور انسان ہوں اس قدر فساد کا روکنا میرے اختیار سے باہر ہے خدا کا ہی فضل ہو تو فتنہ دور ہو یہ وقت ہے کہ جماعت کے مخلص دعاؤں سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہوں " 季 ۱۹۱۳ء کی دوسری جلیل القدر خدمات ا.رسالہ "عید الاذہان" میں " ولا ئل ہستی باری تعالٰی " اور "عظمت صحیح از روئے قرآن“ کے عنوان سے آپ کے مضامین شائع ہوئے.مقدم الذکر مضمون کتابی شکل میں شائع ہوا.مؤخر الذکر مضمون پادری غلام مسیح کے ایک لیکچر کے جواب میں تھا.انصار اللہ کے ایک جلسہ منعقدہ ۱۸/ جولائی ۱۹۱۳ء) سے خطاب فرمایا اور تبلیغ احمدیت کے سلسلہ میں نوجوانوں کے سامنے متعدد اہم تجاویز رکھیں

Page 129

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ٣.93 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت شملہ گوجرانوالہ اور ملتان میں لیکچر دیئے اور پیغام حق پہنچایا.۱۷۴ دسمبر ۱۹۱۳ء سے مکرم عبد الرحمن خاں (ابن حضرت مولوی غلام حسن خان کو بوقت صبح درس دینا شروع کیا.۵ سالانہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت میں منہمک رہے اور حصول تقویٰ کے ذرائع کے موضوع پر ایک پر از معارف و حقائق تقریر بھی فرمائی.۲۹۳ اب ہم آپ کے سوانح بیان کرتے ہوئے اوائل ۱۹۱۴ء میں آپ کی مساعی جمیلہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت حقہ کے آخری حصہ میں پہنچ گئے ہیں.اگر چہ وہ زمانہ دلوں کو غم و فکر سے مضطرب اور دماغوں کو پریشان کر دینے والا زمانہ تھا.لیکن آپ نے ایسے خطرات کے دنوں میں ایسی اولوالعزمی اور مضبوط قوت ارادی و قوت روحانی کا ثبوت دیا.کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.الفضل کی ادارت نمازوں کی امامت - جمعوں کے خطبات کا سلسلہ تو پہلے سے جاری تھا ہی اسی زمانہ میں آپ نے بہت سی دعاؤں اور خلیفہ وقت کی اجازت سے سارے ملک میں تبلیغ احمدیت کا سلسلہ پھیلا دینے کے لئے ایک سکیم بھی بنائی.اور اس کی تکمیل کے لئے دعوۃ الی الخیر کے نام سے ایک لنڈ کھولا.اور لودی ننگل.چکوال اور وزیر آباد کے سفر بھی کئے.مؤخر الذکر سفر میں مسجد احمد یہ وزیر آباد کا افتتاح بھی فرمایا.اور آپ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ خدمت سلسلہ میں گزارتے رہے.740 جب حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بیماری لمبی ہو گئی اور حضور کی طبیعت خطرے کی طرف بڑھتی ہوئی معلوم ہونے لگی تو آپ نے ان تمام خدمات سلسلہ پر جو آپ انجام دے رہے تھے حضور کی خدمت کو مقدم گردانا اور اسی میں زیادہ وقت حاضر رہنے لگے.اور جب حضرت خلیفہ اول حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی درخواست پر ان کی کوٹھی دار السلام میں تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے محترم و شفیق استاد اور خلیفہ وقت کے قریب رہنے کی غرض سے وہیں رہنا اختیار فرمالیا.اور پوری توجہ سے حضور کی خدمت میں مصروف ہو گئے.۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ اول نے اپنے جانشین کے لئے آخری وصیت لکھی تو آپ نے بھی اس پر دستخط کئے.انکار خلافت کا وہ فتنہ جو حضرت خلیفہ اول کی عظیم شخصیت کی وجہ سے اپنے پھیلنے کا موقع نہ پا کر وقتی طور پر دب گیا تھا حضور کی اس نازک حالت کو دیکھ کر پھر ابھرنا شروع ہو گیا.مرکز سے باہر بھی افتراق و انتشار پیدا کر دینے کی سرگرم کوششیں ہونے لگیں.اور ایسا رنگ ہو گیا کہ گویا جماعت دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی اور انجمن والوں کی تمام تر قوت اس جدوجہد میں صرف ہونے لگی کہ حضرت

Page 130

تاریخ احمدیت جلد ۴ 94 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت خلیفہ اول کے بعد کوئی خلیفہ نہ ہو.تا سارے اختیارات مطلق العنانی کے ساتھ اُنہیں کے قبضہ میں رہیں.تاہم آپ اصلاح احوال میں مصروف رہے.اور آپ نے ایک طرف یہ کوشش فرمائی کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اگر انکار خلافت سے باز آجا ئیں تو انہی میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.اور دوسری طرف اپنے رفقاء کو نصیحتیں کیں کہ خلافت کا پرچم قائم اور جماعتی اتحاد بر قرار رکھنے کے لئے کسی ایک ہاتھ پر جمع ہونے کا فیصلہ کر لیں.خواہ وہ کسی فریق سے تعلق رکھتا ہو اور اپنے خطبات میں سب کو دعاؤں میں برابر مصروف رہنے کی تلقین و تاکید فرمائی.چنانچہ ۱۳/ مارچ ۱۹۱۴ء کو آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں جو زمانہ خلافت اوٹی میں آپ کا آخری خط به ثابت ہوا.آخری نصیحت یہ فرمائی.خدائی تعالٰی عجیب عجیب نازک وقتوں میں انسان کی دستگیری کرتا اور مدد دیتا ہے اگر مشکلات کے وقت مدد دینے والی اور مصائب سے بچانے والی کوئی ہستی ہے تو وہ اللہ تعالی کی ہستی ہے وہ بڑی بڑی مشکلات کو حل کر سکتا ہے تم اگر اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف جاؤ گے تو تم یاد رکھو کہ تم مشرک ہو پس تم اس کی طرف جھک جاؤ اور اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ.تاکہ وہ اس مشکل میں تمہاری مدد کرے.دعا کرنے کی توفیق بھی اس کی طرف سے ملتی ہے.وہ ہمیں قبول ہونے والی دعا کرنے کی توفیق عنایت فرما دے اور وہ ہمیں رشد و ہدایت کا راستہ دکھلا دے EI- حضرت خلیفہ اول کا وصال دعا اور روزہ کی ۱۳/ مارچ ۱۹۱۴ء کو نماز جمعہ پڑھانے کے بعد تحریک اور مفاہمت کی آخری کوشش آپ مسجد اقصیٰ سے تھوڑی دیر کے لئے گھر تشریف لے گئے.حضرت خان محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ کا ایک ملازم آپ کو لے جانے کے لئے گاڑی لایا.اور آپ فورا روانہ ہو گئے مگر ابھی راستہ میں ہی تھے کہ حضرت خلیفہ اول کے فوت ہو جانے کی اطلاع ملی - انا للہ و انا الیه راجعون یہ خبر اس وقت کی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک نہایت ہی متوحش خبر تھی.ایک تو آپ کو اپنے استاد معظم حضرت خلیفہ اول کی وفات پا جانے کا صدمہ عظیم اور دوسرے انکار خلافت کرنے والوں کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہو جانے کا خوف! آپ غم سے نڈھال ہو کر حضرت خلیفہ اول کی نعش مبارک تک پہنچے اور کچھ وقت بعد نماز عصر کے لئے مسجد نور میں آگئے اور ایک درد انگیز تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ " حضرت خلیفہ اول کی وفات کے ساتھ ہم پر ایک ذمہ داری رکھی گئی ہے.جسن کے پورا کرنے کے لئے سب جماعت کو تیار ہو جانا چاہئے اور آج سے ہر ایک شخص نمازوں میں اور [

Page 131

تاریخ احمدیت جلد ۴ 95 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت نمازوں سے باہر دعا میں لگ جاوے اور رات کو اٹھ کر بھی دعا کرے.اور جن کو طاقت ہو روزہ رکھیں اس تقریر کے بعد سب لوگوں کے ساتھ مل کر آپ نے دعا کی.تقریر کے بعد آپ کو رستہ میں مولوی محمد علی صاحب مل گئے انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے بعد بجلدی سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ اختلاف ہے اس لئے چار پانچ ماہ تک جماعت غور کرے مبادلہ خیالات کے بعد جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جائے مگر آپ نے فرمایا.اس قدر عرصہ میں بغیر کسی رہنما کے جماعت میں فساد پڑا تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی وفات کے موقع پر بھی اسی طرح ہوا تھا کہ جو لوگ جمع ہو گئے تھے.انہوں نے مشورہ کر لیا تھا اور یہی طریق پہلے زمانے میں بھی تھا.حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت اس بات کا فیصلہ کر چکی ہے کہ اس میں سلسلہ خلفاء چلے گا.اس پر دوبارہ مشورہ کی ضرورت نہیں.پس مشورہ صرف اس امر کے متعلق ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو ؟ مولوی محمد علی صاحب خود لکھتے ہیں کہ ”میاں صاحب نے میری باتوں کا جواب یہ دیا کہ ایک خلیفہ منتخب کر لیا جائے.جس کے ہاتھ پر دونوں فریق بیعت کرلیں.اور جو وہ کے وہ مانیں اس صورت میں اتحاد رہ سکتا ہے ".اس فیصلہ کن اور اصولی بات کا جو جواب مولوی محمد علی صاحب نے دیا وہ انہی کے الفاظ میں یہ تھا کہ دونوں فریق ایک آدمی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے.اس لئے کہ میں کم از کم ایسے شخص کو اپنا مرشد نہیں مان سکتا.جو اہل اسلام کی تکفیر کا فتوی دیتا ہو " F44 مگر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے جواب دیا کہ اول تو ان امور اختلافیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا اختلاف ہمیں ایک دوسرے کی بیعت سے روکے.لیکن ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ آپ میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.اس کے بعد مولوی صاحب کا لکھا ہوا خفیہ ٹریکٹ بھی رات کے وقت قادیان میں پہنچ گیا.جسے دیکھ کر آپ نے اور بھی درد دل سے رات کو بہت دعائیں کیں.اور صبح روزہ بھی رکھا.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں سے گفت و شنید کا اب سرے سے کوئی فائدہ نہیں تھا مگر آپ نے سمجھوتہ کے لئے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں اور دوسرے دن ظہر کے بعد خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ افراد کو جمع کیا اور کافی اصرار کے بعد اس فیصلہ پر متفق کر لیا کہ اگر دو سرا فریق خلافت کو اصولاً تسلیم کرلے تو رائے عامہ سے خلیفہ کا انتخاب کر لیا جائے.اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے.مولوی محمد علی صاحب نے مصالحت کا یہ سب سے آسان طریق ماننے سے بھی انکار کر دیا اور کہا آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ یعنی وہ آپ ہی کو خلیفہ مقرر کریں گے.اس طرح جب مصالحت کے

Page 132

تاریخ احمدیت جلد ۴ 96 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے موانع قبل از خلافت تمام راستے خود مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے بند کر دیئے.تو آپ نے مولوی صاحب سے کہا کہ چونکہ ہمارے نزدیک خلیفہ ہونا ضروری ہے اور آپ کے نزدیک خلیفہ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں اور یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اس لئے آپ کی جو مرضی ہو کریں.ہم لوگ جو خلافت کے قائل ہیں اپنے طور پر اکٹھے ہو کر مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں خلیفہ ثانی کا انتخاب جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد دوم نیا ایڈیشن میں بالتفصیل لکھا جا چکا ہے کہ تمام احمدی مسجد نور میں جمع ہوئے اور نماز عصر کے بعد حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے حضرت خلیفہ اول کے وصی ہونے کی حیثیت سے حضور کی وصیت پڑھ کر سنائی اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ آپ کی وصیت کے مطابق کسی شخص کو جانشین تجویز کریں.اس پر حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی کا نام پیش کیا.مگر آپ نے تامل فرمایا اور لوگوں کے اصرار کے باوجود انکار کرتے رہے.احمدیوں کے جوش کا یہ عالم تھا.کہ وہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے.بعض لوگوں نے تو آپ کا ہاتھ پکڑ لیا کہ بیعت لیں لیکن آپ نے اس نازک ترین ذمہ داری اور بوجھ کا احساس کر کے پھر بھی پس و پیش کیا تو قریب بیٹھنے والے لوگوں نے شدید اصرار کیا کہ جماعت کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے آپ ضرور بیعت لیں.آپ نے دیکھا کہ لوگ بیعت کے جوش سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں اور آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ آپ مجمع میں بالکل چھپ گئے آپ کو بیعت کے الفاظ یاد نہ تھے اور آپ نے اسے بھی عذر بنانا چاہا.مگر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں الفاظ بیعت دہراتا جاؤں گا آپ بیعت لیں.تب آپ نے یہ سمجھ کر کہ مشیت ایزدی یہی ہے بیعت لے لی.اور جو ازل سے مقدر تھا باوجود آپ کی پہلو تہی کرنے کے ظہور میں آیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و تبیین و ائمه و اولیاء وخلفاء ہے تا ان کی اقتدا و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں....سوخدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ یہ دونوں شق ظہور میں آجا ہیں.دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالٰی دوسرا بشیر بھیجے گا اور خدا تعالٰی نے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولو العزم ہو گا " دو ڈھائی ہزار کے مجمع میں سے صرف پچاس کے قریب آدمی بیعت میں شامل نہ ہوئے باقی سب نے بیعت کر لی جو خدائی تصرف اور خدائی قدرت کا زبر دست ثبوت ہے چنانچہ ایڈیٹر صاحب اخبار "نور" ( قادیان) نے لکھا." پیسہ اخبار کا یہ لکھنا ٹھیک نہیں ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہاتھ پر

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 97 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت کم لوگوں نے بیعت کی.اگر پیسہ اخبار کا ایڈیٹر بیعت کے وقت قادیان میں ہو تا تو وہ قدرت الہی کا نمونہ دیکھتا کہ بیعت کے لئے لوگ کس طرح انڈے چلے جاتے تھے.بیعت کے لئے اس وقت لوگوں کی عقیدت اور جوش کی روانی اس قدر تیزی پر تھی کہ شاید دریا کی موجوں اور سمندروں کی ٹھاٹھوں میں بھی وہ زور نہ ہو گا.نصرت الہی اور تائید ربی کا اس وقت عجیب نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا تھا اور بیساختہ منہ سے یہ نکل جاتا تھا.ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء.آخر جماعت کے ایک کثیر حصہ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے دست مبارک پر بیعت کرلی "1

Page 134

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 98 حواشی حواشی ا الفضل یکم نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۴ کالم ۳.۴.اس وقت جبکہ حضور لیے عرصہ سے بہار ہیں یہ دعوئی ایک حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے.چنانچہ طویل بیماری کے باوجود دنیا بھر میں آپ کے لئے دعاؤں اور صدقات کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے جو ایک فقید المثال چیز ہے اور اس کا کوئی نمونہ موجودہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتوں کے سربراہوں اور وزیروں یا دوسرے سیاسی و مذہبی لیڈروں کی زندگی میں نہیں پایا جاتا.الفضل ۱۲۵ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۴ کالم ۲- خلافت را شده صفحه ۲۶۶ تقریر جلسه سالانه ۱۲۹٬۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء ( از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی طبع اول شائع کرده اوال الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ.ربوہ تقریر فرموده ۲۸/ دسمبر ۱۹۴۵ء مطبوعه الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۴.۵ مشکوة کتاب الفتن باب نزول عیسی علیہ السلام الفصل الثالث) - اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء مشموله آئینه کمالات اسلام در آخر کتاب اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء بحوالہ تذکره صفحه ۱۴۸ طبع دوم - سبز اشتهار صفحہ کے احاشیه (مورخہ یکم دسمبر ۶۱۸۸۸) - سبز اشتهار صفحه ۲۱ حاشیه (مورخہ یکم دسمبر ۶۱۸۸۸) - سبز اشتہار صفحہ کے حاشیہ (مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء) سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۵۰ ملاحظہ ہو ضمیمہ اصحاب احمد جلد اول صفحه ۵۰۴ از جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) ۱۳ لملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چهارم صفحه ۵۱- ناشر الشركته الاسلامیہ ربوہ مطبوعہ جولائی ۱۹۶۲ء.۱۴ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۹۲-۱۹۳ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۶۳) مرتبہ حضرت عرفانی کبیر ایڈیٹر و مؤسس الحمام ۱۵ بعض نا واقف اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کسی شخص کے لئے " تحرر بل " کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں.مگر یہ خیال صحیح نہیں ہے چنانچہ حضرت مولانا روم حضرت علی کی شان میں فرماتے ہیں ارنیو انداخت روئے علی پر افتخار ہرنی و ہر ولی (مثنوی دفتر اول) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کو فخر الاسلام والمرسلین " کے لقب سے یاد فرمایا ہے.ملاحظہ ہو سر الخلافہ صفحہ ۳۱ مطبوعہ محرم ۱۳۱۲ء طبع اول ریاض ہند پریس.امرتسر اشتہار تحمیل تبلیغ مشموله تبلیغ رسالت حصہ اول صفحه ۱۴۷ تا ۱۴۹ حاشیه ۱۷ مئی ۱۸۸۹ء میں جبکہ سید نا محمود عالم وجود میں آچکے تھے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو خواب میں حضرت عمر فاروق ان کی زیارت ہوئی.جس کی ایک تعبیر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے نزدیک یہ تھی کہ " اس میں حضرت منشی صاحب کو قبل از وقت بشارت دی گئی تھی کہ وہ اس عصر سعادت کے فاروق فضل عمر کو دیکھ لیں گے".(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر۵ صفحہ ۶۲.۱۳) حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو تو پیشگوئی ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء سے بھی قبل خوشخبری مل چکی تھی چنانچہ مولوی صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آفتاب جن کے درمیان کچھ تھوڑا سا فاصلہ تھا.مغرب کی طرف سے پڑھے اور نصف النہار تک پہنچے ہیں.سو جب حضور نے اس خواب کی تعبیر کی تو اس میں اکابر دین جن سے فائدہ دین کو پہنچے "

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 99 حواشی کے الفاظ سے میں اسی وقت یہ بات سمجھا کہ ایک آفتاب تو خود حضور ہیں اور دو سرے آفتاب کے لئے منتظر تھا جب حضور نے ہوشیار پور سے پسر موعود کا اشتہار دیا تو اس وقت مجھے کو بہت خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ دو سرا آفتاب یہی ہے اور اس کو میں بخوبی دیکھوں گا.سوالحمد للہ کہ میں نے یہ دوسرا آفتاب بھی دیکھ لیا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہیں".(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۵۰ حاشیه) ۱۸ مکتوبات احمد یہ جلد ۵ صفحه ۱۶۳ روایات صحابه غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۸ صفحه ۲۰۴ الفضل ۶/ اگست ۱۹۵۲ء صفحه ۳ کالم - الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۵۶ء صفحہ سے کالم ۱-۲- ۲۲ سیرت المہدی حصہ اول طبع ثانی صفحہ ۱۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے اہل بیت بھی ساتھ تھے پس لا محالہ سید نا محمود کا بھی ہونا ضروری ہے.۲۳ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۹۹- ۲۴- تذكرة المهدی حصہ اول (مولفه حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی) صفحہ 190 سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ان دنوں مع اہل و عیال مقیم تھے.19° ۲۵- حضور اس سفر کے بارے میں جو صرف دو اڑھائی برس کی عمر میں تھا اپنی یادداشت کے مطابق لکھتے ہیں." مجھے یاد ہے بچپن میں کچھ عرصہ میں بھی یہاں لدھیانہ میں.ناقل ) رہا ہوں.میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اس زمانہ کی یاد نہیں ہیں کیونکہ اس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی.صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے کر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی میں اپنے مکان سے باہر آیا.تو ایک چھوٹا سائز کا دوسری طرف سے آرہا تھا.اس نے میرے پاس آکر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی میں اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہوا گھر کی طرف بھاگا ".(الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۴-۵) یا در ہے حضرت اقدس ان دنوں شہزادہ حیدر کے مکان واقعہ اقبال گنج لدھیانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.سیرت مسیح موعود صفحه ۱۳۶۰۳۵ از حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی مصنفہ ۱۹۰۰ء) ۲۷ تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحه ۲۳۲ -۲۶ ۲۸ سیرت ام المومنین حصہ اول صفحه ۱۳۱۵ از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم) ۲۹ نور احمد " صفحه ۲۹ ۳۰- حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی روایت ہے کہ.۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چند روز کے لئے ہمارے ہاں بمعہ اہل و عیال فیروز پور چھاؤنی تشریف لائے ایک دن وہاں ایک شیخ صاحب کی کوٹھی پر گئے جو انگریزی اشیاء کے تاجر تھے.شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی حضور کو یہ دکان دکھانے لے گئے.وہاں مالک وکان نے ایک کھلونا کھایا.جس میں ایک ہلی ایک چو ہاتھا.اسے دیکھ کر کچھ دیر تو مسیح ناصری کے پرندوں کا ذکر ہو تا رہا.پھر آپ چلے آئے.حضرت خلیفہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی جن کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی ہمراہ تھے اور کسی دوست یا ملازم کی گود میں تھے.جب کچھ راستہ چلے آئے.تو میاں صاحب نے رونا شروع کر دیا.بہت پوچھا مگر کچھ نہ بتایا آخر میاں صاحب روتے روتے بیچ کر کہنے لگے.کہ میں نے بلی چو پالیتا ہے.اس پر حضرت صاحب سب جماعت کے ہمراہ واپس آئے شیخ محمد جان اندر جا کر وہ کھلونا لے آئے.حضرت صاحب نے کہا اس کی قیمت کیا ہے مگر شیخ محمد جان صاحب نے کہا کہ اس کو ٹھی کے مالک ہمارے دوست اور ملنے والے ہیں اور یہ ایک حقیر چیز ہے وہ حضور سے ہرگز قیمت نہیں لیں گے.اس پر آپ نے وہ کھلونا میاں صاحب کو دے دیا اور سب لوگ گھر واپس آئے".شخص از سیرت المهدی حصہ سوم صفحہ ۲۷۸ طبع اول اپریل ۱۹۳۹ء (از قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ) الفضل ۱۲ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۳۴۱ - الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۳ کالم -

Page 136

تاریخ احمد بیت - جلد - الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحا، کالم ۳ الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۳۸ء صفحه ۹ کالم ۳۴۲۴۱ ۳۵ الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۱ تام اصحاب احمد جلد چهارم صفحہ ۲۰ طبع اول - ۲۷- بیرت مسیح موعود صفحه ۲۰-۰۲۱ 100 ۳۸- روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۴ صفحه ۵۷ یہی دستور حضور کا اپنے دوسرے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے لئے تھا.) ۹ روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۱۳ صفحه ۴۵۵ جوائی ۴۰ سیرت مسیح موعود (از حضرت عرفانی) صفحه ۳۵۷۰۳۵۶ مطبوعہ مئی ۱۹۲۴ء و الفضل جلد ۲۷ نمبراے صفحہ ۳ کالم و الفضل جلد ۲۷ نمبر ۵۸ صفحہ ۴۲ کالم ہے.روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۲ صفحہ ۳۰ ۲۲ بحوالہ الحکم ۲۱/۲۸ مئی ۴۲۳ - صفحہ ان کالم ۳ ۴۳ سیرت احمد از مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری صفحہ ہے.۴۴ تفسیر کبیر حصہ سوم صفحہ ۷۵۹ کالم ۲ مطبوعہ ۱۹۳۰ء الہند را ۳ ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ اکالم ۲ سیرت مسیح موعود صفحه ۳۴۲ مطبوعہ مکی ۹۴ ۴۷.روایات صحابه غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۱۳ صفحه ۴۴۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۷۹ الفضل ۱۵ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۴ کالم ۳ ھ سیرت ام المومنین حصہ اول صفحه ۳۹۳ تا ۳۹۸ یہ واقعہ حضرت حافظ صاحب مد ظلہ العالی نے مؤلف کتاب کو اپنے قلم سے لکھ کر مرحمت فرمایا ہے.وجزاء اللہ تعالیٰ تغیر کبیر الانشراح) صفحه ۴۹ ۱۵۰ مطبوع ۶۱۹۴۶ ۵۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۷ ۲۳-۲۳۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۵۹ - جناب مولوی صدر الدین صاحب مجاهد ایران کا کہنا ہے کہ ابتدائے زمانہ خلافت میں حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادر آباد میں ٹینس کے لئے فیلڈ بھی بنوائی تھی.جس میں حضور اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب اور حضرت میاں شریف احمد صاحب حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب اور حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب ورد حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نیک محمد خان صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب وغیرہ بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے.-۵۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء صفحه ۸۰ ۵۲ روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۱۳ صفحه ۱۶۳ ۵۷ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۸ صفحه ۹۰ ۵۸ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۷۷-۶۷- -۵۹ برکات خلافت صفحه ۶۹ طبع اول اپریل ۱۹۷۴ء الفضل ۲۱/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۵ کالم ۲۴۶- الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۹ کالم ۲-۳- الفضل ١٠ / اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۶ کالم ۳ الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۵ء صفحہ کے کالم ۲-۳- الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۶ء صفحه ۵ کالم -

Page 137

تاریخ احمدیت جلد ۴ الفضل ۷ / مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ 101 سیرت احمد صفحه ۷۳ اطبع اول دسمبر ۱۹۶۲ء ( مرتبہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری) عد الفضل الر جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ کالم ہے.الفضل ۱۹ / جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۳ کالم ۴ الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۱۶ کالم ۳-۴ ۷۰ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۲ مطبوعہ اپریل ۶۹۳۹ اے ہستی باری تعالٰی صفحه ۶۳ - ۷۰ طبع اول (و سمبر ۴۱۹۲۵) ۷۲ - الفضل ۲۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳ الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۰ کالم ۲.حواشی ۷۴.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں لمبے عرصہ تک تعلیمی خدمات بجا لاتے رہے ۲۵/ جون ۱۹۴۴ء کو انتقال فرمایا اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.۷۵- احکم جوبلی نمبر صفحه ۸۰ کالم ۱-۲- خود حضرت کی صحت شروع سے نہایت کمزور رہی ہے جیسا کہ گزر چکا ہے مگر یہ کمزوری دعاؤں کے شغف میں مزاحم نہیں ہو سکی.الحکم جوبلی نمبر نمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۰ کالم ۳..تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت حصہ دوم صفحه ۷ ۱۰ طبع دوم اکتوبر ۶۱۹۷۰ ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۱۵۶۴۱۵۵ مطبوعہ ذی الحجہ ۱۳۰۸ھ مطبع ریاض ہند امر تسر -۸۰ نشان آسمانی طبع دوم جنوری ۱۸۹۷ و صفحه ۱۲ مطبع ضیاء الاسلام تلویان آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۷۹٬۵۷۸ مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ مطبع ریاض ہند - امرتسر ۸۲- مرکز احمدیت قادیان از محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم ) صفحه ۳۱۷ ۸۳ تاریخ احمدیت جلد دوم قیمہ انجام آتھم صفحه ۱۵ مطبوعہ ۶۱۸۹۷ ۸۴٬۸۵ سراج منیر صفحه ۳۴ و حاشیه مطبوعه ۱۸۹۷ء ۸۷ رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۳۱ مرتبہ حضرت طبع یعقوب علی صاحب عرفانی ) طبع اول جنوری ۱۸۹۹ء الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه ۶ کالم ۳ ۸۹ محمود کی آمین مطبوعہ ۱۳۱۹ھ صفحہ ۴ مطبع بشیر بند ہال بازار - امر تسر (بارثانی) ۹۰ محمود کی آمین مطبوعہ ۱۳۱۹ھ صفحه ۷۵ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۹ء صفحہ ۸ کالم ۳ تفصیلی حالات تاریخ احمدیت جلد دوم میں گزر چکے ہیں.۹۳- حضرت مفتی محمد صادق صاحب محلہ تھاں لاہور میں رہتے تھے اور خود ہی بیمار تھے حضور علیہ السلام آپ کی عیادت ہی کے لئے تشریف لے گئے تھے.الحکم ۲۱/۲۸ جون ۱۹۴۳ء صفحہ ۷ حاشیہ ۹۵ الفضل ۱۲۲ جنوری ۱۹۴۳ء صفحه ۳ کالم ۴۰۳ الفضل ۳/ اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۵ کالم ۲- یہ عمارت موجودہ مسجد دار الفتوح کے بالکل قریب واقع ہے.۹۷ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلدے صفحہ ۵- ۹۸ الازهار لذوات الخمار صفحہ ۷۶ مرتبہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ) مطبوعہ ۱۹۴۶ ء بار اول الفضل ۱۷ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۱۰ کالم ۲ و روایات صحابہ (غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۸ صفحہ ۷۷ و دیوان اشرف صفحه ۴ مطبوعہ ۱۹۵۲ء.چوہدری ضیاء الدین صاحب جگر اؤں.سید محمد اسمعیل صاحب پر اور خور و ڈاکٹر غلام غوث صاحب صوفی عبدالرحمن صاحب

Page 138

تاریخ احمدیت جلد ۴ 102 حواشی مالیر کوٹلہ.محمد علی صاحب ضرب دیال.صوفی فضل الہی صاحب اور شاہ چراغ ( غیر احمدی) بھی کلاس فیلو تھے.( بروایت حکیم دین محمد صاحب) ۱۰۰ سیرت مسیح موعود ( از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی) صفحه ۳۵۷ 101 اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم صفحه ۲۰۴-۲۰۵- ۱۰۲- اصحاب احمد جلد تایم حصہ دوم صفحه ۲۰۴-۲۰۵ و صفحه ۱۵۰-۱۵۱- ١٠- الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۳ کالم ۲- ۱۰۴- اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۱۵۴ ۱۰۵- الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ کالم - 104 الموعود محمد ال ۱۰۷- ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ میں نے آپ کی موجودگی میں کبھی بیٹھ کر نہ پڑھایا بلکہ ہمیشہ کھڑے ہو کرہی پڑھاتا رہا ہوں.(سیرت سروری غیر مطبوعه از مولوی صدر الدین صاحب سابق مبلغ (ایران) الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴۴۳ 109 الفضل ۵/ نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ کالم یعنی تلی کا بڑھ جاتا.- منقول از الموعود تقریر جلسہ سالانہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بصرہ العزیز فرموده ۲۸/ د سمبر ۱۹۴۴ء بمقام قادیان صفحه ۷ تا ۸۲ حضرت مفتی محمد صادق کا بیان ہے." آپ (حضرت میاں محمود احمد صاحب) اسکول میں پڑھتے تھے مگر ہر جماعت میں فیل ہوتے تھے لیکن ہم پھر بھی اٹلی جماعت میں چڑھا دیتے تھے اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود کے فرزند ہیں".(الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ کالم ) تفسیر کبیر (سورۃ الکوثر ) صفحه ۴۷۵ کالم ۲- تبلیغ حق صفحه ۱۹۳۸ تقریر لائلپور سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایه الله تعالی نصرہ العزیز مورخ ۱/۸ اپریل ۱۹۳۳) -۱۵ احکام ۷ - ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحه ۴ کالم ۴۴۳۴۲.-HY -IIA -114 احکام جوبلی نمبر صفحہ ۶۳ کالم ۴.الحکم جوبلی نمبر د نمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۷۴ کالم - الحاکم جوبلی نمبر (۱۹۳۹ء) صفحہ ۹ کالم.گروپ فوٹو اور آپ کی تما تصویر تاریخ احمدیت حصہ دوم و سوم میں چھپ چکی ہے.۱۲۰ تریاق القلوب مطبوعہ ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴.تریاق القلوب مطبوعه ۱۹۰۲ صفحه ۳۴ ۱۲۲ تریاق القلوب مطبوعه ۱۹۰۲ء صفحه ۴۰ ۱۲۳- تریاق القلوب صفحہ ۴۲.۱۲۴ حضرت عرفانی لکھتے ہیں یہ جسبہ زر در جنگ کا تھا.۱۲۵ الحکم جوبلی نمبر د نمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۹ ۱۳۶ تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۱۷۷۶-۱۷۷ مطبوعہ دسمبر ۶۱۹۶۲ ۱۲۷ حقیقته الرویا - طبع ثانی صفحه ۶۳ جون ۱۹۵۶ء تقریر جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ۱۹۱۷ء ۱۲۸- الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحه ۰۴ ۱۳۹ تذکرہ صفحہ ے ے سے طبع ثانی اکتوبر ۱۹۵۶ء

Page 139

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ ۳۰ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۷ ۷ تا ۹۰ ۱۳۱ الفضل ۵/ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۳ ۱۳۲ 103 تفسیر کبیر (میٹول) صفحه ۱۳۸۵ کالم ۲۱ - شائع کردہ الشركته الاسلامیہ ۱۳۳- تذکره طبع دوم صفحه ۷۸۰ - - الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲ کالم ۱- ۱۳۵- تحفہ گولڑویہ صفحه ۵۶ مطبوعه ۱۹۰۲ء- ۱۳۶ نزول المسیح صفحه ۱۹۲ مطبوعہ اگست ۱۹۰۹ء طبع اول- ۱۳۷- شادی کے تفصیلی حالات تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۲۳۱ تا ۲۳۳ میں گزر چکے ہیں.۱۳۸ مکتوبات احمد یہ جلد نم نمبر پنجم صفحه ۳۱۸ مطبوعه ۰۶۱۹۴۴ ۱۳۹ مواہب الر حمن صفحه ۱۳۹ مطبوعہ جنوری ۱۹۰۳ء.حواشی ۱۳۰ حکیم دین محمد صاحب پیشنر کو ٹسٹ فرماتے ہیں کہ حضور نے اس سے پہلے ایک غزل بھی کسی تھی جس کا ایک مصرعہ یہ تھا.ع ور دہم سے کبھی جدا نہ ہوا.حضور نے حدائق البلاغہ کی کتاب حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بہل سے پڑھی اور ان سے علم سے جدا.عروض سیکھا.الفضل ۱۰/ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۶ کالم - ۱۴۲ - الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۴ کالم ۱-۲- ۱۴۳- تذکره حالی جلد اول صفحه ۱۸۹-۱۹۰ مولفہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی شائع کردہ حالی بکڈ پر پانی پت (اکتوبر ۱۹۳۵ بار اول ۱۴۴.اس ضمن میں ایک مفصل واقعہ کا تذکرہ بھی ضروری ہے.جس کے چشم دید گواہ بر صغیر پاک و ہند کے مشہور ادیب جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ہیں آپ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں.۱۹۲۸ء کی بات ہے.جبکہ استاذی المحترم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اللہ کی دعوت پر شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کے فرزند اصغر جناب خواجہ سجاد حسین صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر تعلیمات صوبہ پنجاب ہمارے سالانہ جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.جناب خواجہ صاحب کے ساتھ میں بھی پانی پت سے آیا تھا.جب سالانہ جلسہ کے افسر حضرت مولانا میر محمد الحق ان کو پتہ لگا.تو انہوں نے فوراہم دونوں کے قیام و طعام کا نہایت عمدہ انتظام بطور خاص کر دیا.قادیان پہنچنے کے تیسرے دن خواجہ سجاد حسین صاحب وقت مقرر شده پر حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے قصر خلافت تشریف لے چلے تو میں بھی آپ کے ہمراہ تھا.حضرت صاحب نے دروازے تک تشریف لا کر حضرت خواجہ صاحب کا خیر مقدم کیا اور نہایت عزت و احترام سے لا کر اپنے پاس ایک نرم گدیلے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے کہ آپ نے بڑی تکلیف کی جو اس ضعیفی میں سفر کی تکلیف اٹھا کر یہاں تشریف لائے یہاں آرام سے تو ہیں اور کہاں ٹھہرے؟ خواجہ صاحب نے فرمایا.الحمد للہ میں بہت آرام سے ہوں کسی قسم کی تکلیف نہیں.اور یہاں مجھے گھر کا سا آرام مل رہا ہے.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب نے اس مرتبہ بہت اصرار سے مجھے لکھا کہ جلسہ سالانہ میں ضرور آئیں اس لئے آگیا ہوں.اور الحمد للہ جلسہ میں شامل ہو کر مجھے خوشی ہوئی اور یہاں کا ماحول میں نے بہت دین دارانہ پایا.گفتگو کے دوران میں حضرت صاحب نے فرمایا.خواجہ صاحب ! میں آپ کے والد مولوی الطاف حسین حالی کا نہایت ممنون ہوں انہوں نے مجھے ایک نصیحت میرے بچپن میں کی تھی جو مجھے آج تک یاد ہے.خواجہ سجاد حسین صاحب نے نہایت تعجب کے ساتھ پوچھا کہ والد مرحوم کے ساتھ آپ کا کیا واقعہ ہو ا تھا؟ اور وہ کب اور کہاں آپ سے ملے تھے ؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ واقعہ یہ ہوا تھا کہ بچپن میں مجھے شاعری کا شوق پیدا ہوا.جس پر میں سوچنے لگا کہ شاعری میں استاد کے بناؤں؟ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ مولوی الطاف حسین حالی کو استاد بنانا چاہئے وہ بڑے اچھے قومی شاعر ہیں یہ خیال آتے ہی میں نے انہیں پانی بہت ایک خط لکھا کہ میں اگر چہ ابھی چھوٹا بچہ ہوں مگرمجھے شعر کہنے کا بڑا شوق ہے اگر میں آپ کو یہاں سے اپنے اشعار اور نظمیں لا کر بھیج دیا کروں اور آپ ان کی اصلاح کر کے انہیں واپس بھیج دیا کریں تو اس عنایت پر میں آپ کا نہایت

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد ۴ شکر گزار ہوں گا.104 حواشی مولوی حالی صاحب نے میرے خط کا فور اجواب دیا.جس میں لکھا تھا کہ صاحبزادے ! تمہار الخط پہنچا.شاعری بیکاری کا دھندا ہے.میری نصیحت تم کو یہ ہے کہ اس فضول جھنجھٹ میں نہ پڑو یہ وقت اور یہ عمر شاعری کی نہیں تحصیل علم کی ہے.پس جہاں تک ممکن ہو دل لگا کر علم حاصل کرو.اور جو محنت شاعری جیسے بیکار شغل میں اٹھاتے ہو وہ تحصیل علم میں اٹھاؤ اور کسی اور طرف دھیان نہ دو.جب لکھ پڑھ کر بڑے ہو جاؤ گے اور فکر معاش سے بھی فراغت ہوگی اس وقت شاعری بھی کر لیتا.کونسی بھائی جارہی ہے.یہ واقعہ بیان کر کے حضرت صاحب فرمانے لگے."خواجہ صاحب اجب میں نے یہ خط آپ کے والد صاحب کو لکھا تھا اس وقت میں بچہ تھا اور اب میری عمر بڑھاپے کے قریب پہنچ گئی ہے مگر آج بھی جب کبھی مجھے آپ کے والد کی قابل قدر نصیحت یاد آتی ہے.تو میں محسوس کرتا ہوں کہ مولانا حالی نے مجھے بہت ہی عمدہ اور نہایت ہی نیک مشورہ دیا تھا.اور مجھے ہمیشہ اس نصیحت میں مولوی صاب کا خلوص چھلکتا ہوا نظر آتا ہے.اور بے انتیار ان کی نیکی اور شرافت کی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے ".یہ واقعہ سن کر خواجہ سجاد حسین صاحب نے حضرت صاحب سے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا.والد صاحب مرحوم کا قاعدہ تھا کہ دہ اوگوں کو شاعری سے روکتے اور اپنا شاگر دینے سے منع کیا کرتے تھے کیونکہ لوگوں نے شاعری کو عام طور پر ایک تفریح کا ذریعہ اور فضول شغل پیالیا ہے اور اس سے وہ کام نہیں لیتے جو لینا چاہئے.اس کے بعد کچھ متفرقی باتیں ہوتی رہیں اور قریباً آدھ گھنٹے کی دلچسپ ملاقات کے بعد خواجہ صاحب حضرت صاحب سے رخصت ہو کر واپس آگئے ".منہ ۳۵ ولادت ۱۸۳۴ ء وفات ۲۰ اکتوبر ۶۱۹۰۹ مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ کا بیان ہے کہ " حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۹۴۸ ء میں جب موسم گرما بسر کرنے کے لئے کوئٹہ تشریف لے گئے اور وہاں درس القرآن بھی حضور نے جاری فرما دیا تو ان دنوں حضور عصر کی نماز کے بعد خصوصیت کے ساتھ اس شامیانہ کے نیچے ہی تشریف رکھتے تھے جہاں نمازیں ادا کی جاتی تھیں اور جماعت احمدیہ کوئٹہ کے دوست حضور کے کلمات طیبات سے مستفیض ہوتے تھے.ان دنوں حضور نے ایک مجلس میں ذکر فرمایا کہ بچپن میں جب میں نے شعر کہنے شروع کئے تو مجھے کسی نامور استاد کی تلاش ہوئی جس سے میں اصلاح لے سکوں.چنانچہ اس غرض کے لئے میں نے جلال لکھنوی کا انتخاب کیا اور خط و کتابت کے ذریعہ ہی ان سے اصلاح لیتارہا.حضور نے جلال لکھنوی کی بہت تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وہ داغ سے بھی اچھے شعر کہتے ہیں".روایات سروری (غیر مطبوعہ مرتبہ مولانا صدر الدین صاحب فاضل سابق مبلغ ایران سے معلوم ہوتا ہے کہ گورداسپور میں قیام کے دوران حضرت خلیفہ اول نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مسئلہ قصر دریافت کرنے کے لئے بھی بھجوایا تھا حضور نے جو ارشاد فرمایا اس کا شخص یہ تھا کہ پندرہ دن ٹھہرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی چاہئے.۱۳۸ حکیم دین محمد صاحب ہٹنر کوئٹسٹ کا بیان ہے کہ میں بھی اس سفر میں گیا تھا.اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مقبرہ جہانگیر کو دیکھنے کے لئے بھی تشریف لے گئے تھے.الفضل و اگست ۱۹۳۶ء صفحه ۶ کالم ۳۴۲ 400 یہ نوٹ ۱۹۰۴ء میں ہی لکھا گیا یا بعد میں اس کی بابت قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے.اس مقام پر یہ واقعہ صرف طبع دوم کے سنہ کی مناسبت سے درج کیا گیا ہے.ا ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۲۴۴-۲۴۵( اس کتاب میں سمو ا میٹرک کی بجائے مڈل لکھا گیا ہے.الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۳- ۱۵۳- حکیم صاحب نے یہ روایت براہ راست مؤلف کتاب ہذا کو سنائی ہے.سیرت مسیح موعود صفحه ۱۳۵۴ از حضرت عرفانی) هم پیر اخبار / جولائی ۱۹۰۶ء صفحے کالم ۲ بحوالہ احکم ۷ ۱ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم ہے.الموعود صفحه ۷۷ تا ۸۴

Page 141

ت جلد ۱۵۷- تفسیر کبیر سوم صفحه ۸۳۴- ۱۵۸ تذکره طبع دوم صفحه ۵۲۴ 105 حواشی ۱۵۹ روح پر در خطاب صفحہ ۱۷- از سید نا حضرت المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی (جلسه سلانه ۲۸ دسمبر ۱۶۱۹۸۷) شائع کرده مهتم نشرد اشاعت نظارت اصلاح دار شاد - صد را مجمن احمد یہ ربوہ ١٧٠ الفضل ۷ / مارچ ۱۹۴۴ء صفحہ ۲ کالم -۲- تفصیل کے لیئے تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۳۹۶.۱۹۲ بدر / مئی ۱۹۰۵ء صفحه اکالم ۲- ۴۷۳- الحکم ۳۰ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ۳ وبدر ۲۷ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحه اکالم از ۱۷۴ تغییر کبیر (سورہ زلزال صفحه ۴۴۷ کالم ۲ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو اطلاع دینے میں غالبا ایک بھاری حکمت یہ بھی تھی.کہ اس الہام کا آپ کے زمانہ خلافت میں ایک خاص ظہور مقدر تھا جیسا کہ مارچ ۱۹۵۳ء میں ہوا.۱۲۵- الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ ء صفحه ۱۱۰ ۱۲۶ حضرت ملک غلام حسن رہتاسی کی ایک روایت کے مطابق حضرت صاجزادہ صاحب ایک اور سفر میں دہلی بلکہ سکندر راؤ ضلع علی گڑھ تک گئے تھے.حضرت ام المومنین کے رشتہ داروں میں جو سکندر راؤ میں رہتے تھے شادی کی تقریب تھی حضرت ام المومنین حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب وہاں تشریف لے گئے تھے اور صاحبزادگان کی حفاظت کے لئے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے ملک غلام حسن رہتا ہی ساتھ گئے تھے یہ بزرگ پہلے تو دہلی گئے پھر سکندر راؤ وہاں سے برات آگرہ گئی تھی.(ملخص از روایات صحابه غیر مطبوعہ جلد ۱۰ صفحه ۳۳۲) ۹۷ اخبار منادی سالنامه ۱۹۳۶ء صفحه ۱۳۲۷ یه پرچه قادیان دار الامان کی لائبریری میں موجود ہے) سیرت مسیح موعود از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی صفحه ۵۸ طبع چہارم) الوصیت صفحه حاشیہ مطبوعہ دسمبر ۱۹۰۵ء ۱۷۰ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۴۲۶-۴۲۷.مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۲ء.ایا.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۴۵۴ ۱۷ الفضل ۱۹/ مارچ ۱۹۶۴ء صفحہ ۳.۱۷ اس نوعیت کا ایک اور واقعہ جو غالباً اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی ایک گونہ تائید کرتا ہے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی بیان فرمایا کرتی تھیں.سیرت المہدی حصہ اول (طبع دوم) صفحہ ۱۳-۱۴ پر طبع شدہ ہے.۱۷۴- رسالہ تعلیم الاسلام جلد اول نمبر ۳ صفحه ۱۲۸- ۱۷۵ الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۳ کالم ۲-۳- ریویوار و د مارچ ۱۹۰۶ء صفحه ۱۱۸ - الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳.۱۷۸- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۴۶۷ ۴۶۹ ۱۷۹ ریویو آف ریلیجز اردو مارچ ۱۹۰۶ء صفحه ۱۱۸-۱۹ ۱۸۰ تشید الا زبان ۱۹۰۶ ء صفحه ۹۳ ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۴۷۹.صاحبزادہ مرزا نصیر احمد مرحوم نے ولادت کے بعد دو تین دن تک دودھ نہیں پیا تھا مگر حسب احضرت مولا تا سید سرور شاہ صاحب کی اہلیہ محترمہ نے دودھ پلانا شروع کیا تو پی لیا.روایات سروری غیر مطبوعہ صفحہ ۱۳۱- از مولوی صدر الدین صاحب فاصل) ۱۸۲ اقتباس از مکتوب حضرت سیده مد ظلها بنام مؤلف تاریخ احمدیت (مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۷۴ء از لاہور)

Page 142

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 106 حواشی ۱۸۳- اس تقریر سے ایک روز قبل آپ نے ۲۶/ دسمبر ۱۹۰۶ء کو شحمید الاذہان کے جلسہ سے ہمارے اغراض اور وہ کس طرح پورے ہونے چاہئیں کے موضوع پر خطاب فرمایا.(بدر ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۶ء صفحہ ۶ کالم ۲) ۱۸- چشمه توحید صفحه ۳۰-۲۱- ۱۸۵ احکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۲- ۱۸۷ قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے اس پر مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات شائع کئے.میں ان کی تقریر ایک خاص توجہ سے سنتا رہا.کیا بتاؤں فصاحت کا ایک سیلاب تھا جو اپنے پورے زور سے بہہ رہا تھا.میرے خیال میں یہ بھی حضور علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے اور اس سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ مسیحیت آپ کی تربیت کا جو ہر کس ورچہ کمال پر پہنچا ہوا ہے.آپ نے روحانی کمالات پر عجیب طرز سے بحث کی " (الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ کالم ۳) ۱۸۷- برکات خلافت صفحه ۳۴ تا ۳۷ ۱۸۸- شهید الاذہان جلد ۲ نمبر ۲ - ۳ صفحه ۱۰۵-۱۰۲- ۱۸۹ تمجید الازبان جلد ۲ نمبر ۳۰۲ صفحه ۱۰۴ 190 شعید الازبان جلد ۲ نمبر ۱۰۰۴ / اپریل ۱۹۰۷ 141 مشحمید الا زبان جلد نمبر ۲ صفحہ ۷۷.۱۹۲ شہید الازبان جلد ۲ نمبر ۴ صفحه ۱۳۸ ۱۹۳ عید الازبان جلد ۲ نمبر ۵ صفحه ۱۳۹ تا ۱۶۴ ۱۹۴ حقیقت الوحی صفحہ ۲۱۷ طبع اول اپریل ۱۹۰۷ ء.۱۹۵ حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۳۶۰- کتاب کے تمہ صفحہ ۷ ۵ پر ایک نشان کے گواہوں میں آپ کا نام شامل ہے.۱۹۹- بدر ۲۳/ مکی ۱۹۰۷ء صفحه ۵ تا ۰۸ ۱۹۷ بدر ۱۷/ متق ۱۹۰۷ء صفحه ۰۸۴۷ ۱۹۸ شعید الا زبان جلد ۲ نمبر ۷ سرورق صفحه د ۱۹۹ الفضل ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۵.اس جلسہ کے موقعہ پر آپ نے انجمن تمیز الاذہان کے ممبروں کو بھی خطاب فرمایا.(بدر ۱۹ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم ۲) ۲۰۰ - ۱۹۰۷ء میں آپ نے جاہ وچھو والی میں بھی شرکت فرمائی ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۵۰۷) ۲۰۱ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اپنی تقریر ملائکہ اللہ میں اسے سترہ اٹھارہ سال کا واقعہ لکھا ہے اور اس کو ہم نے اختیار کیا ہے کیونکہ یہ اصل واقعہ سے قریبی زمانہ کی تقریر ہے باقی بعد کے اندازے ہیں.۲۰- تفسیر کبیر (سورہ الکوثر صفحه ۴۷۶ ۲۰۳- الموعود صفحه ۰۸۵ ۲۰۴.احکام ۲۲ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۰۵ ۲۰۵- تفسیر کبیر (سورۃ الکوثر ) جلد ششم جر و چهارم حصہ سوم صفحه ۳۷۶-۴۷۷ ۲۰۶ شہید الاذہان اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۱۲۵ تا ۱۴۴ ۲۰۷- چشمه معرفت صفحه ۳۳۸ مطبوعه ۱۵/ مئی ۱۹۰۸ء- ۲۰۸ روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبری صفحه ۳۵۸ ۲۰۹ تقدیر الی صفحه ۱۸۹ طبع اول ۲۱۰ ملا کا یہ اللہ صفی ۲۶ ( تقریر سالانہ جلسه ۱۹۲۰ء) - تقدیر الہی صفحہ ۱۸۹-۱۹۰ حضرت مسیح موعود کے انتقال کے وقت آپ کی عمر صرف انیس سال کی تھی اس چھوٹی سی عمر میں آپ نے صبر اور رضا با القتنا کا جو نمونہ دکھایا وہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اسٹنٹ سرجن لاہور کے الفاظ میں یہ ہے." صاحبزادہ

Page 143

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 107 حواشی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنا پورا امبر اور استقلال کا نمونہ دکھایا اور ہر طرف سے سوائے حی و قیوم کے الفاظ کے اور کوئی آواز نہ آتی تھی یہ سارا نقشہ حضرت اقدس کی قوت قدسی کا اندازہ کرنے کے لئے ایک انصاف پسند آدمی کے لئے کافی ہے اس سے میرے اور دیگر حاضرین کے ایمان کو ازحد تقویت پہنچی " (بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم ۲-۳) حکام جوبلی نمبرد سمبر ۱۹۳۹ء صفحہ 1 کالم.۲۱۳ حضرت صاحبزادہ صاحب کے دل میں حضور کی محبت و فدائیت کا جو بے پناہ جذبہ موجود تھاوہ حضور علیہ السلام کے نزع کے وقت اور زیادہ ابھر آیا اور آپ نے اس وقت یہ دعائیں کرنا شروع کر دی تھیں کہ اے خدا ہماری عمریں بھی آپ کو دیدے آپ نے اس وقت یہ الفاظ بار بار فرمائے.(روایات صحابہ رجسٹر نمبر ۴ صفحه ۹۰) مگر آه مرسل یزدانی و مامور ربانی کی واپسی کا اٹل فیصلہ ہو چکا ۲- الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ سے کالم ۲.۲۱۵- احکام جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ا کالم ۲.-M تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم میں گزر چکی ہے اس فصل میں صرف بعض اہم خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان میں بھی زیادہ ترنئی معلومات کا بیان ہے تا ہے وجہ تکرار نہ ہو.۲۱۷- روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۳ صفحه ۲۳۹- ۲۱۸ صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے.صفحہ ۳-۴- ۲۱۹ شعید الا زبان جلد ۴ نمبر ۴ صفحه ۱۶۲ ۲۲۰ ان دنوں بنگہ تک ریل نہیں آئی تھی.۲۲۱ ملخصاً از روایت میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ روایات صحابه غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۵۶ تا۵۹ ۲۲۲- بروایت جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے (مورخہ ۶ / جون ۱۹۷۴ء) ۲۲۳- بروایت میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ ( روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۵۸) -۲۲۴ تمجید الا زبان جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۲۱ ۲۲۵- الفضل ۲۲ / جولائی ۱۹۷۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۱.۲۲۶- تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۲۲۰ شهید الازبان جلد ۳ نمبر ۱۲ صفحه ب- ۲۲۷.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶.۲۲۸- شمعید الازبان جلد ۳ نمبر ۸ صفحه ۳۳۵-۳۲۸ و نمبر صفحه ۳۷۹۰۳۷۰ ۲۲۹ شهید الازبان جلد ۳ نمبر ۱۳ صفحه ۷ ۴۹۰۰۴۸ ۲۳۰ شعید الازبان، جلد ۳ نمبر ۱۳ صفحه ۵۱۷۰۴۹۰ ۲۳۱.جنوری ۱۹۰۹ء میں حضرت خلیفہ اول کے خلاف ارباب انجمن کی شورش کے مفصل واقعات ذکر ہو چکے ہیں.۲۳۲.رپورٹ تجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحه ۳۶.۲۳۳ اصحاب احمد جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۱۳۵-۱۳۶ ۲۳۴ کشف الاختلاف ( از حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ) صفحه ۳۴-۰۳۵ ۲۳۵ خطبه جمعه فرموده ۱۲ جنوری ۱۹۴۵ء ( مطبوعہ الفضل جنوری ۱۹۴۵ء) صفحه ۵ کالم ۲-۳- ۲۳۶- سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۲۳۸ طبع اول ۲۳۷ الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۹ کالم ۲۳۸.سیرت ام المومنین صفحه ۱۳۹۶ از محموداحمد عرفانی مرحوم) تاریخ اشاعت کیم دسمبر ۱۹۳۳ء طبع اول.۲۳۹- الحکم ہے.۱۴ مئی ۱۹۰۹ تو.۲۴۰- شهید الا زبان جلد ۴ نمبر ۴ صفحه ۱۶۳- سیرت ام المومنین حصہ اول صفحه ۱۳۹۶ مرتبہ شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم) طبع اول-

Page 144

108 حواشی ۲۴۱- تفسیر کبیر جلد ۵ حصہ دوم صفحه ۴۷۴ ۲۴۲ احکم ۷ - ۱۱۲ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۹ ۲۲۳.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۰۵ تحصیل کے لئے تاریخی حمد سے جلد چہارم ملے اسد یکھیں.KAND فصل گفتگو کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر (سورة انتظار صفحه ۲۷۵۳۷۴ - تفسیر کبیر (الانبیاء) صفحه ۵۰۲-۵۰۳ ۲۴۸ ملا حظہ ہو شہید الازبان ۱۹۰۹ء.۴ مجید الا زبان جلد ۴ نمبر ۴ صفحه ۱۶۲- ۱۷۳ ۲۵۰- اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۱۰۹-۱۰- ۲۵- محمد الا زبان جلد نمبر الحکم جوبلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳.تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۳۳ الفشل ۳/دسمبر ۵۸۳۸ صفحه ۲۰ کال ۲۴۶ ۲۵۰ تاریخی خواحمدیت جلد چهارم صفر۳۳۵ ۲۵- اس جلسہ پر مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے (جو بعد میں غیر مبایعین کی رو میں بہہ گئے) آپ کی شان میں ایک قصیدہ بھی فرز پر حلا الحمام ۱۴ / اپریل ۱۹۱۰ ء صفہ 9 جس کے دو شعر یہ تھے.ارجمند - از عالیت حق برگزیده از مچائے t توئی J پھر استقامت میر آفریده یادگار حضرت احمد رسیده اپنی اے عنایت حق سے برگزیدہ کئے ہوئے وجود تو صبر و استقامت کے لئے پیدا ہوا ہے تو ہی ھارے مسیح کا فرزند ارجمند ہے اور احمد کا یاد گار بن کر آیا ہے.۵۷ تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۳۵ ۲۵۸ تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۳۹ تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۴۱ تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۴۵ لام تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۳۴۵ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۲۹۷ پدر ۱۰۰۳/ نومبر ۱۹۹۰ء صفحه ۴۰۳ آمینه صداقت از حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی صنفی ۱۳۷۱۳۶ مطبوع دسمبر ۶۱۹۲۳ ۲۷۵- حمید الازمان ۶۱۹۱۰ الحکم / جنوری اللہ ء صفحہ ۸ کالم ۲.۲۶.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۶۷ ۲۷۸ تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم میں گزر چکی ہے.-٢ الفضل ۷ ام جون ۱۹۱۵ء صفحه ۴-۵- افسوس یہ صاحب بعد کو غیر مبایعین میں چلے گئے اور انصار اللہ کو محض ایک سازشی کو اور انصاراللہ

Page 145

تاریخ احمدیت - جلد ۴ تحریک قرار دینے لگے.۲۷۰- الحکم ۱۴/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ، اپر چھپ چکا ہے.109 ۲۷۱.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۳۹۹۳۹۸ ۲۷۲- احکم ۱۴/ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۱۲ ۲۷ الحکم ۷.۱۴ / جون ۱۹۱۱ء صفحہ ۷ اکالم ۳.۷۴ تفسیر کبیر (سوره انبیاء) صفحه ۵۰۳ کالم ۲۷۵.ملاحظہ ہو عید الازبان جلد ۱ صفحہ ۲۸۸-۲۹۸- ۲۷۶- شعید الا زبان جلد ۶ نمبر ۸ صفحه ۲۹۷ ۲۷۷ مفصل تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۹۹ میں.۲۷۸- مکمل آمین کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ہے.۱۴ / جولائی 1911 و صفحہ ہی کالم ۲۷۹.ضمیمہ احکام مشموله الحکم ۱۴/۲۱ستمبر ۶۱۹۷۱ ۲۸۰ حمید الاذہان ۱۹۱۱ء تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۴۱۴ ۲۸- الحکم ۷ / اگست ۱۹۱۴ء صفحه ۹۷ ۲۸۳ الفضل ۹/ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۴.۲۸۴- دیکھو تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۴۱۶-۴۴۱۴۴۲۲-۴۵۸- شیخ عبد القیوم صاحب چنیوٹی مقیم لائلپور کا بیان ہے کہ میری وادی صاحبہ بتاتی تھیں کہ جس سال حضور حج کے لئے تشریف لے گئے تھے ایک غیر احمد کی عورت نے ہمیں بتایا کہ تمہارے مرزا صاحب کے بیٹے کو ہم نے حج میں دیکھا ہے ان کے چہرہ پر نور برستا تھا.۲۸۵- بدر یکم اگست ۱۹۱۲ ء - ۲۸۶- یہ مفصل حالات الحکم جوبلی نمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۵-۱۶ میں چھپ چکے ہیں.۲۸۷ بدر ۱۳/ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۸ کالم - ۲۸۸ - ملا حظہ ہو الفضل ۱۴ - ۱۹۱۳ء.۲۸۹- حیات قدی از حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی) حصہ چہارم صفحه ۲۷/۲۸ طبع اول مطبوعہ را ما آرٹ پریس امرتسر.۲۹۰ شعید الا زبان جلد ۸ نمبر ۳-۰۵ ٩- الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۳.۲۹۲- اسکی تفصیل تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۴۹۹-۵۰۴-۵۲۲- ۲۹۳- الفضل ۷ ار د سمبر ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۱- ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱- یہ تقریر پیغام صلح 11 جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ میں شائع ہو گئی ) ۲۹۴.تفصیل کے لئے دیکھئے تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۷ ۵۲-۵۲۸- ۲۹۵- تاریخ احمد جلد چهارم صفحه ۵۳۲ ٢٩٦ - الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵ کالم ۳- ۲۹۷- آئینہ صداقت صفحہ ۱۷۹-۱۸۰) آپ کی ایک پرانی رویا بھی تھی کہ میں ایک گاڑی میں بیٹا یا ہر جارہا ہوں کہ راستہ میں مجھے حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات پانے کی اطلاع ملی ہے) ۲۹۸- حقیقت اختلاف صفحه ۷۰ از مولوی محمد علی مرحوم امیرانجمن اشاعت اسلام لاہور مطبوعہ دین محمد سٹیم پریس لاہور.۲۹۹- حقیقت اختلاف صفحه ۷۰ -۳۰۰ آئینه صداقت صفحه ۱۸۰-۱۹۰- اس فقرہ سے یہ حقیقت کھل گئی کہ جناب مولوی محمد علی صاحب کو مسئلہ خلافت سے انکار صرف اور صرف اس لئے تھا کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے.)

Page 146

تاریخ احمدیت جلد ۴ أوسم آئینه صداقت صفحه ۱۹۰-۱۹۱ ۳۰۲- سبز اشتهار صفحه ۱۷- حاشیہ - 110 حواشی ۳۰۳ اخبار نور ۷/۲۴ امارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳.یہ رائے ایک ایسے انسان کی ہے جس کے دل میں مولوی محمد علی صاحب کی بھی غایت درجہ عقیدت تھی اور اس کا واضح ثبوت اس بیان سے ملتا ہے جن کا حوالہ مصنفان مجاہد کبیر نے اپنی کتاب کے صفحہ ۰۸ اپر دیا ہے.

Page 147

تاریخ احمدیت جلد ۳ 111 خلافت ثانیہ کاعہد مبارک خلافت ثانیہ کا پہلا سال

Page 148

112 خلافت ثانیہ کا پہلا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایہ اللہ تعالی کا پر پوست اعلان ایده اگر کوئی شخص واقعہ میں یہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسلام کے غلبہ اور اس کی اشاعت کے لئے جس قدر کام کئے ہیں وہ نعوذ باللہ لغو ہیں اور اسلام کو ان کی بجائے کسی اور رنگ میں کام کرنے سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم میدان میں آؤ.اور کام کر کے دکھاؤ اگر تمہارا کام اچھا ہوا تو دنیا خود بخود تمہارے پیچھے چلنے لگ جائے گی لیکن اگر ایک جماعت ایسی ہو جو صرف اعتراض کرنا ہی جانتی ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا لا وارث نہیں ہے.اس دنیا کا ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے وہ مجھ پر اعتراض کر سکتے ہیں.وہ میرے خلاف ہر قسم کے منصوبے کر سکتے ہیں.وہ مجھے لوگوں کی نگاہ سے گرانے اور ذلیل کرنے کے لئے جھوٹے الزام لگا سکتے ہیں.مگر وہ ان حملوں کے نتیجہ میں میرے خدا کے زبر دست ہاتھ سے نہیں بیچ سکتے.لیکن میں اس خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا.اور گو میں مرجاؤں گا اللہم متعنا بطون حیاتہ ، مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہو گا.وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا.....خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں مجھے کتنا بھی برا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ سو سال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا وہ صحیح کہا تھا یا غلط میں بے شک اس وقت موجود نہیں ہوں گا.مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مورخ اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہ اس تاریخ میں میرا ذکر بھی کرے.اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا ایک بہت بڑا خلاء واقع ہو جائے گا.جس کو پُر کرنے والا ا سے کوئی نہیں ملے گا".از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) تقریر فرموده سالانه جلسه ۲۸/ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحه ۱۳ تا ۱۸) شائع کردہ نظارت اصلاح وارشاد صد را منجمن احمدیه - ربوه

Page 149

د جلد ۴ 113 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال دو سرا باب (فصل اول) آغاز خلافت سے لے کر نظارتوں کے قیام تک خلافت ثانیہ کا پہلا سال (جمادی الاولی ۱۳۳۲ھ تا صفر ۵۱۳۳۳) (۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء سے ۳۱ / د سمبر ۱۹۱۴ء تک) حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایده الله بیعت کے بعد پہلا خطاب عام تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسند خلافت پر رونق افروز ہوتے ہی جو ایمان افروز تقریر فرمائی اس نے مبایعین کے قلوب سکینت سے بھر دیئے.آپ نے تقریر کی ابتداءان الفاظ میں فرمائی.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسوله سنو! دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.میرے پیارو پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ الی اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.میرا یقین ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص نہیں آسکتا جو آپ کی دی ہوئی شریعت میں سے ایک شوشہ بھی منسوخ کر سکے میرے پیارو ! میرادہ محبوب آقاسید الانبیاء ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت ﷺ ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی کچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے.یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت پر نازل ہوئی ہے اور وہ خاتم الکتب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین کامل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی میں کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا.صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کے اعمال کی اقتدا کرد وہ نبی کریم اللہ کی دعاؤں اور کامل تربیت کا نمونہ تھے.آنحضرت

Page 150

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 114 خلافت ثانیہ کا پہلا سال کے بعد دوسرا جو اجماع ہوا وہ وہی خلافت حقہ راشدہ کا سلسلہ ہے خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کی خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہوئی جب وہ خلافت محض حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی.یہاں تک کہ اب جو اسلام اور اہل اسلام کی حالت ہے تم دیکھتے ہو تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالی نے اسی منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کے وعدوں کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفہ اسیج مولانا مولوی نورالدین صاحب ( ان کا درجہ اعلیٰ علیین میں ہو.اللہ تعالٰی کروڑوں کروڑ رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل کرے جس طرح پر آنحضرت ا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ان کے دل میں بھری ہوئی اور ان کے رگ وریشہ میں جاری تھی جنت میں بھی اللہ تعالی انہیں پاک وجودوں اور پیاروں کے قرب میں آپ کو اکٹھا کرے) اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے اور ہم سب نے اسی عقیدہ کے ساتھ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں.حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے غلام کو وہ کام مت بتاؤ جو وہ کر نہیں سکتا تم نے مجھے اس وقت غلام بنانا چاہا ہے.تو وہ کام مجھے نہ بتانا جو میں نہ کر سکوں.میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گنہگار ہوں میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ دنیا کی ہدایت کر سکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہاء ہیں تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے تو سنو اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالی کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرو میں انسان ہوں اور کمزور انسان مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا تم سے غلطیاں ہوں گی تو میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگزر کروں گا اور میرا اور تمہار ا متحد کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض و غایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے پس اب جو تم نے میرے ساتھ ایک تعلق پیدا کیا ہے اس کو وفاداری سے پورا کرو تم مجھ سے اور میں تم سے چشم پوشی خدا کے فضل سے کرتا رہوں گا.تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی ہاں میں پھر کہتا ہوں.اور پھر کہتا ہوں کہ امر معروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالٰی کا فضل ہماری دستگیری کرے گا اور ہماری متحد دعا ئیں کامیاب ہوں گی جس کام کو مسیح.

Page 151

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 115 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال موعود نے جاری کیا تھا اپنے موقع پر وہ امانت میرے سپرد ہوئی ہے پس دعائیں کرو اور تعلقات بڑھاؤ اور قادیان آنے کی کوشش کرو اور بار بار آؤ.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا اور بار بار سنا ہے کہ جو یہاں بار بار نہیں آتا اندیشہ ہے کہ اس کے ایمان میں نقص ہو.اسلام کا پھیلانا ہمارا پہلا کام ہے.مل کر کوشش کرد ما کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور فضلوں کی بارش ہو.میں پھر تمہیں کہتا ہوں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں اب جو تم نے بیعت کی ہے اور میرے ساتھ ایک تعلق حضرت مسیح موعود کے بعد قائم کیا ہے اس تعلق میں وفاداری کا نمونہ دکھاؤ اور مجھے اپنی دعاؤں میں یا درکھو میں ضرور تمہیں یاد رکھوں گا.ہاں یا د رکھتا بھی رہا ہوں.کوئی دعا میں نے آج تک ایسی نہیں کی جس میں میں نے سلسلہ کے افراد کے لئے دعانہ کی ہو.مگر اب آگے سے بھی زیادہ یاد رکھوں گا مجھے کبھی پہلے بھی دعا کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں آیا جس میں احمدی قوم کے لئے دعانہ کی ہو.پھر سنو کہ کوئی کام ایسا نہ کرو جو اللہ تعالی کے عہد شکن کیا کرتے ہیں.ہماری دعائیں یہی ہوں کہ ہم مسلمان جیں اور مسلمان مریں.آمین ".حضرت خلیفہ اول کا جنازه و تدفین حضرت علیه السلم الان ایده الله تعالى بمصر العزیز نے تقریر اور لمبی دعا اور سلسلہ مصافحہ سے فارغ ہو کر پونے پانچ بجے کے قریب دو ہزار مردوں اور کئی سو عورتوں کے مجمع میں ہائی سکول کے شمالی میدان میں حضرت خلیفہ اولاد کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر حضور جنازہ کے ساتھ مقبرہ بہشتی کی طرف روانہ ہوئے.الحکم میں لکھا ہے.کہ " یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نواب صاحب کی کوٹھی سے لے کر شہر تک برابر دو رویہ آدمیوں کی ایک دیوار تھی.ایک میل تک آدمی ہی آدمی معلوم ہوتے تھے “.اور بالآخر سوا چھ بجے کے قریب حضرت خلیفہ اول کا جسد اطہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلو میں دائیں جانب دفن کر دیا گیا - اللهم نور مرقدهما.حضور فرماتے ہیں.”جس بیعت لینے کے بعد نازک ذمہ داری کا شدید احساس وقت بیعت ہو چکی تو...میں نے اپنے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا اس وقت مجھے خیال آیا کہ آیا اب کوئی ایسا طریق بھی ہے کہ میں اس بات سے لوٹ سکوں میں نے بہت غور کی....اس کے بعد بھی کئی دن میں اس فکر میں رہا.تو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا کہ میں ایک پہاڑی پر چل رہا ہوں دشوار گزار راستہ دیکھ کر میں گھبرا گیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا.جب میں نے لوٹنے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پچھلی طرف میں نے دیکھا کہ پہاڑ ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے اور لوٹنے کی کوئی صورت نہیں اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ

Page 152

تاریخ احمد بیت ، جلد ۴ 116 اللہ تعالٰی نے مجھے بتایا ہے کہ اب تم آگے ہی آگے چل سکتے ہو پیچھے نہیں ہٹ سکتے " خلافت ثانیہ کا پہلا سال اللہ تعالی کی آسمانی خلافت ثانیہ کی تائید میں رویا والہامات کا وسیع سلسلہ بادشاہت میں یہ دستور نظر آتا ہے کہ جب انبیاء و خلفاء کی وفات قریب ہوتی ہے تو فرشتوں کی آسمانی فوجیں دلوں پر نازل ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور لوگوں کو نئے ہادی و راہبر کی بشارتیں دیتی اور اس سے تعلق پیدا کرنے کی تحریک کرتی ہیں اور ایسا ہی خلافت سیدنا محمود ایدہ اللہ الودود کے وقت بھی ہوا کہ جماعت کے ہر طبقہ میں رویا و الہامات کا سلسلہ جاری ہو گیا اور وسط اپریل ۱۹۱۴ء تک تین سو کے قریب خوابیں اور کشوف جمع ہو گئے تھے.خلافت ثانیہ کی تائید میں اکثر آسمانی شہادتیں انہی دنوں الفضل میں شائع کر دی گئی تھیں جو کئی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنیں.احمدیوں کے علاوہ غیر احمد یوں بلکہ بعض غیر مذاہب والوں نے بھی خواب میں حضور کا خلیفہ ہو جانا دیکھا تھا.A جن احمدیوں پر یہ انکشاف ہوا ان میں سے بعض یہ ہیں.حضرت مولوی عبد الستار صاحب (عرف بزرگ صاحب) ساکن خوست (شاگرد خاص حضرت مولانا سید عبد اللطیف صاحب شہید جو اپنے زہدو ورع کی وجہ سے مشہور و معروف تھے اور جن کو حضرت مسیح موعود بھی مہمات امور میں دعا کے لئے تحریر فرمایا کرتے تھے ) سید عبدالمی عرب.حضرت مولانا قاضی امیر حسین صاحب - حضرت میاں محمد شریف صاحب پلیڈر پنجاب لاہور - حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک - حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب لاہور - حضرت سید ناصر شاہ صاحب سب ڈویژنل آفیسر محکمہ پبلک ورکس جموں - محمد حسین صاحب طبیب بھیرہ (حضرت خلیفہ اول کے رشتہ داروں میں سے ایک بزرگ تھے ) - پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ایم.اے راجشاہی کالج بنگال - حافظ محمد حسین صاحب قریشی مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری - حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور (والد حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی فضل الرحمن صاحب قادیان - شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور قادیان - حضرت شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی قادیان - میاں محمد مراد صاحب پنڈی بھٹیاں منشی عبدالحی صاحب سنوری - ملک کے باہر بھی بعض اصحاب کو خلافت ثانیہ کی بابت خبر دی گئی.مثلاً حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان میں 22 - جناب قاری غلام مجتبی صاحب کو ہانگ کانگ (چین میں) - بعض حضرات خواہیں دیکھنے کے باوجود ٹھو کر کھا گئے.مثلاً ڈاکٹر بشارت احمد صاحب.منشی عمرالدین شملوی.اور اسد اللہ شاہ صاحب - مؤخر الذکر بزرگ کو تو صاف لفظوں میں بتایا گیا کہ صاحب

Page 153

تاریخ احمدیت جلد ۴ 117 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال دوسرے خلیفہ "بشیر الدین محمود " ہوں گے.بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کے بالمقابل کسی شخص کو خواب میں یا بذریعہ الہام ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اصل جانشین اور خلیفہ انجمن ہے !! بیرونی جماعتوں میں سب سے بیرونی جماعتوں کی بیعت کے بعض خاص واقعات پہلے شاہ جہانپور کی جماعت نے بیعت کی اور اس وقت کی جبکہ ابھی حضرت خلیفہ اول کی وفات کی کوئی اطلاع وہاں نہیں پہنچی تھی.یہ امر خالصتہ اللی تصرف کے تحت ہو ا جس کی تفصیل حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاه جهانپوری مد ظله کے الفاظ میں یہ ہے.چو "سید ناد استاذنا حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کی طبیعت ناساز تو پہلے سے چلی آتی تھی مگر آخر فروری ۱۹۱۴ء میں جو ناسازی بڑھی تو بڑھتی ہی چلی گئی.اور حضور کی حالت سے متعلق قادیان سے آنے والی ہر خبر پہلے سے آئی ہوئی خبر سے زیادہ حسرت خیز و درد انگیز آنے لگی.یونکہ حضور کی طرف سے بذریعہ اعلان یہ خبر شاہ جہان پور پہنچ گئی تھی کہ عیادت کی غرض سے قادیان آنے کا ارادہ رکھنے والے اپنے اپنے مقام پر ہی دعائیں کرتے رہیں تو زیادہ مناسب ہو گا اس لئے جس طرح اپنے مقام پر دعا جاری تھی.اسی طرح جاری رکھی گئی.فردا فردا بھی.اور اوقات نماز کے بعد مجموعی طور پر بھی.جب نظر و الله غالب علی امرہ کی طرف جاتی تو امید میں بڑی وسعت پیدا ہو جاتی اور جب قادیان سے آئی ہوئی خبروں کی طرف آتی تو بڑی کوفت اٹھاتی.اسی کشاکش خیالات اور کشمکش امیدو ہیم کی حالت میں وقت گزرتا گیا.حتی کہ مارچ کی بارہ تاریخ اور جمعرات کا دن آگیا.یہ دن میری پریشانی کو بہت بڑھا دینے والا تھا کیونکہ قادیان کے جو خطوط دو پہر سے پہلے پہنچے تھے وہ بھی تشویش انگیز تھے اور جو دوپہر کے بعد پہنچے وہ بھی.اب میری گھبراہٹ اور بے چینی اتنی بڑھ گئی کہ ایک گھنٹہ بھی کسی جگہ گزارنا مشکل ہو گیا.کبھی پائیں باغ میں چلا جاتا.کبھی مسجد میں اور کبھی پھر مکان میں آجاتا.رات بھی مکان اور مسجد میں جاتے آتے گزری دعا ہر جگہ جاری رہی لیکن تسکین کہیں بھی حاصل نہ ہو سکی.نماز فجر میں اور اس کے بعد بھی دعاء صحت کی گئی.یہ جمعہ کا دن تھا جب احباب رخصت ہو گئے تو میں نے مکان میں آکر ڈاک خانہ سے خطوط منگوائے.آج کے خطوط میں بھی کوئی بات تسلی بخش نہ تھی بلکہ کل کے خطوط سے زیادہ دل شکن مگر نہ ایسی جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات میں اب چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے ہیں.خطوط میں تو دو روز پہلے کا حال تھا اور حالت دم بدم نازک ہوتی جارہی تھی.میں

Page 154

تاریخ احمدیت جلد ۴ 118 خلافت ثانیہ کا پہلا سال چاہتا تھا کہ نماز جمعہ یا تو حضرت والد ماجد پڑھا دیں یا عزیزی حافظ سخاوت علی.مگر مجھی کو پڑھانی پڑی اور اس نماز میں مجھ پر ایک ایسی حالت وارد ہوئی جو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی.میں اب تک نمازوں میں حضور کی صحت کے لئے جو دعائیں کرتا رہا تھا ان میں دل میری زبان کا ساتھ دیتا تھا.فجر کی نماز میں بھی یہی ہوا تھا.مگر نماز جمعہ کی دعا میں دل نے میری زبان کا ساتھ نہ دیا.اس نامانوس حالت نے جو غالباً اسی وجہ سے مجھ پر وارد کی گئی تھی مجھے یقین دلا دیا کہ مرشدی و مولائی مطاعی و ملاذی حضرت خلیفہ اول اس دنیا میں موجود نہیں.اعلیٰ ملین کی طرف رحلت فرما ہو چکے ہیں.نماز ختم کرتے ہی یہ اعلان کر دیا کہ سنت و نفل پڑھنے کے بعد کوئی صاحب تشریف نہ لے جائیں.سب مسجد میں ہی موجود رہیں.میں نے باقی نماز پڑھنے کے بعد مکان سے قلم و دوات اور کاغذ منگوا کر اور کف دست کے برابر بہت سے ٹکڑے کر کے سامنے رکھ لئے.میں اس وقت مسجد کے جنوبی دیوار سے ملا ہوا شمال کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھا تھا.اسی جگہ کھڑے ہو کر میں نے احباب کو خطاب شروع کر دیا.ابھی چند ہی لفظ زبان سے نکلے ہوں گے کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کا انتخاب درست نہیں.میں بیٹھ گیا.اور میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت کسی کے انتخاب یا کسی کی بیعت کے لئے احباب سے کچھ کہنا نہیں چاہتا.بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کبھی ان کی رائے کی ضرورت پیش آئے تو اس وقت ان کی رائے کیا ہوگی؟ میں چاہتا ہوں کہ احباب میں سے کسی ایک دوست کی رائے بھی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خلیفہ برحق مولوی نور الدین صاحب کے مسلک سے خلاف نہ ہو اور میں اس وقت اس کارروائی پر خود بخود آمادہ نہیں ہوا بلکہ اس حالت نے جو نماز جمعہ میں حضرت خلیفتہ المسیح کے لئے دعائے صحت کرتے ہوئے مجھ پر وارد ہوئی اور جسے اس وقت ظاہر کرنا مناسب نہیں.مجھے آمادہ کیا تھا.میری اس گزارش پر حضرت والد صاحب نے یہ فرمایا کہ یہ بات ہے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں.مجھے بولنے کی اجازت دے دی اور میں نے احباب کو خطاب کیا کہ اس وقت نہ تو کسی کا نام پیش کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس وقت کے لئے آپ سے کوئی رائے چاہتا ہوں میرا مقصود یہ ہے کہ آپ کی آراء اس وقت کے لئے محفوظ ہو جائیں.جس وقت کہ ان کی ضرورت پیش آئے.اور اس کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ آپ جس کے لئے رائے دینا چاہتے ہوں کاغذ کے پرچوں کی گڈی میں سے جو سامنے رکھی ہے.ایک پرچہ پر اس کا نام لکھ دیں.اس احتیاط سے کہ دو سرا آپ کے لکھے ہوئے نام سے واقف نہ ہو سکے.پھر آپ اس پرچہ کو الٹا کر کے میرے سامنے رکھے ہوئے کاغذ کے بڑے اوراق پر رکھتے جائیں اور نام اس شخص کا لکھیں جس کو آپ کا دل بھر لحاظ اس منصب عالی کا اہل اور مستحق قرار دیتا ہو.ہر شخص کی رائے ذاتی ہو اور کسی دوسرے کے زیر اثر ہونے

Page 155

119 خلافت نمائید کا پہلا سال جلد ۴ کی وجہ سے نہ ہو اور نام لکھتے وقت اعوذ اور بسم اللہ ضرور پڑھ لی جائے.یہ امور اچھی طرح واضح کر دینے کے بعد میں نے کاغذ کے پرچوں کی گڈی سب سے پہلے اپنے والد ماجد صاحب کی خدمت میں پیش کی اور آپ نے پرچہ میں نام لکھ کر الٹ کر رکھ دیا.پھر اسی طرح ہو تا رہا یہاں تک کہ سب پر چوں پر نام لکھے جاچکے تو میں نے گڈی اٹھا کر الٹی اور حضرت والد ماجد کا پرچہ سامنے آیا.اس پر آپ نے لکھا تھا.صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.اس کے بعد میں ہر پرچہ کو دیکھتا ہوا آخر پرچہ تک پہنچ گیا.نام کے لکھنے میں الفاظ کا فرق تو تھا.کسی نے حضرت میاں محمود احمد صاحب لکھا تھا.کسی نے حضرت میاں صاحب اور کسی نے حضرت صاحبزادہ صاحب مگر تمام لکھنے والوں میں سے ایسا ایک بھی نہ تھا.جس نے حضرت خلیفہ ثانی کے سوا کسی اور کا نام لکھا ہو.میں نے اس وقت یہ تو ظاہر نہ کیا کہ دوستوں نے کس کا نام لکھا ہے.صرف اتنا کہہ دیا کہ سب دوستوں نے ایک ہی نام لکھا ہے.میں نے اس موقع پر کھلے الفاظ میں تو یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ میرے خیال میں حضرت خلیفہ اول وفات پاچکے ہیں.لیکن جیسا کہ اس تحریر میں ظاہر کر چکا ہوں مجھے یہی یقین تھا اور نام لکھوانے کی کارروائی اسی یقین کی وجہ سے کی تھی اور حضرت والد ماجد بھی میری ان مصروفیات سے جس پر آپ نے دوبارہ مجھے بولنے کی اجازت دی تھی.یہ سمجھ گئے تھے کہ اس کے خیال میں حضرت خلیفہ اول زندہ نہیں ہیں.اسی بنا پر میں نے نام لکھوانے کی کوشش کی اور اسی بناء پر مجھے یہ ضرورت معلوم ہوئی کہ نام لکھے ہوئے کاغذ کے پرچے آج ہی قادیان بھیج بھی دیئے جائیں.اس کام کے لئے میں نے بابو محمد علی خان صاحب شاہجہانپوری کو تجویز کیا.اگر چہ انہوں نے بھی کاغذ کے پرچے پر تو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کا نام مبارک ہی لکھا تھا.تاہم چونکہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے اس لئے مجھے انہیں کا بھیجنا زیادہ ضروری معلوم ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ قادیان جانے کے لئے تیار ہو کر آئیں.اور اسٹیشن کو اسی سڑک سے جائیں.میں مسجد ہی میں آپ کا منتظر رہوں گا.وہ مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے یکے میں پہنچے میں انہیں دیکھتے ہی مسجد سے ان کے پاس پہنچا.اور ان سے کہا کہ میں مریض ہونے کی وجہ سے سفر کے لائق نہیں ورنہ میں بھی آپ کے ساتھ ہی روانہ ہو جاتا اور یہ نام لکھے ہوئے پرچے اپنے ساتھ لے جائیں اور ضرورت پیش آنے پر ان سے کام لیں.آپ کو سہارنپور کے اسٹیشن پر پہنچ کر یہ معلوم ہو جائے گا کہ میں نے کس غرض سے آپ کو قادیان بھیجا ہے یہ کہہ کر نام لکھے ہوئے پرچوں کا لفافہ میں نے ان کے حوالے کر دیا.وہ ہفتہ کے روز دو پھر سے پہلے قادیان پہنچ گئے.اس وقت سے لے کر بیعت (خلافت ثانیہ ) تک ساری کارروائیاں ان کے سامنے ہو ئیں انہیں یہ علم تو تھا کہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے

Page 156

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 120 خلافت ثانیہ کا پہلا س اختلاف رکھتے ہیں مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ جناب مولوی صاحب تو سرے سے مسئلہ خلافت ہی سے رو گردان ہو چکے ہیں ان سے ان کو بڑی کوفت ہوئی اور وہ اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے ".شاہ جہانپور کے بعد دہلی کی جماعت جس نے حضرت خلیفہ اول کی وفات کا تار ملتے ہی علم و فضل اور تقومی و روحانیت کے اس مقام کی وجہ سے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کو جماعت میں حاصل تھا.اپنی بیعت کی درخواستیں آپ کی خدمت میں بھیج دیں.علیحدہ علیحدہ یا مجموعی طور پر کہا گیا ہے اور بار بار کہا گیا ہے کہ انصار اللہ کی سازش کے نتیجہ میں بیعت خلافت ہوتی ہے.ان دونوں جماعتوں کا اور جماعتوں سے پہلے بیعت کر لینا قدرتی جواب ہے الزام مذکورہ بالا کا.کیونکہ ان دونوں شہروں میں انصار اللہ کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا.ڈیرہ غازی خاں شہر میں مولوی محمد علی صاحب کے بڑے بھائی مولوی عزیز بخش رہتے تھے او روہی امام الصلوۃ تھے.حضرت خلیفہ اول کے وصال کی اطلاع پر وہ قادیان چلے گئے دوسرے تیسرے دن ڈیرہ غازی خاں میں مرکز سے خبر پہنچی کہ حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح منتخب ہو گئے ہیں.یہ مغرب کے قریب کا وقت تھا اور دوست مسجد میں بیٹھے انتخاب خلافت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے که مولوی عزیز بخش صاحب کے لڑکے میاں اللہ بخش صاحب د رحیم بخش صاحب اس کھڑکی سے جو مسجد کی شمالی جانب مغرب کو ان کے گھر میں کھلتی تھی مسجد میں آئے اور آتے ہی پوچھنے لگے کہ کیا چچا (مولوی محمد علی صاحب) خلیفہ ہو گئے ہیں.جواب نفی میں پاکر ان پر اداسی چھا گئی اور وہ مبہوت سے ہو گئے.چند روز بعد مولوی عزیز بخش صاحب بھی قادیان سے لوٹ آئے اور انہوں نے جماعت کو خلافت سے برگشتہ کرنے کی بہت کوشش کی.مگر اخوند محمد اکبر خاں صاحب نے جو سلسلہ کے لٹریچر سے خوب واقف تھے.مولوی صاحب کو دندان شکن جواب دیئے.کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو تا گیا.اور بالآخر ایک مسجد میں دو جماعتیں ہونے لگیں.اسی اثناء میں ایک دن مولوی صاحب جماعتی لائبریری سے اپنی کتابیں بھی اٹھا کر لے گئے کہ یہ میرا حق ہے پھر دونوں فریق الگ الگ جگہ نماز پڑھنے لگے.رفتہ رفتہ ڈیرہ غازی خاں کے ماحول کی جماعتیں بھی خلیفہ وقت کی بیعت میں داخل ہو گئیں اور گنتی کے چند افراد کے سوا اس فتنے کا کسی پر کوئی اثر باقی نہ رہا.انگلستان میں ان دنوں جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جناب خواجہ کمال الدین صاحب شیخ نور احمد صاحب، جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال، مسٹر محمد عبد اللہ صحیح نو مسلم انگریز ) میاں عبد العزیز - سید عبد الحمی عرب اور جناب ملک عبدالرحمن صاحب مقیم تھے.جب خلافت ثانیہ کا قیام ہوا تو خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے ایجنٹ شیخ نور احمد صاحب کے سوا باقی سب نے بیعت کرلی.

Page 157

تاریخ احمدیت جلد ۴ 121 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ایسٹر کی تعطیلات کے سلسلہ میں انگلستان سے باہر گئے ہوئے تھے.واپسی پر ہندوستان کی ڈاک اور الفضل کے پرچوں سے قیام خلافت کا علم ہوا تو آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں فورا بیت کا خط لکھا کہ ” خلیفہ بنانا اللہ تعالٰی کی سنت ہے ولن تجد لسنة الله تبدیلا اور چونکہ حضور کو اللہ تعالٰی نے اس منصب کے لئے چن لیا ہے اس لئے ہمارا فرض امنا و صدقنا ہے حضور غلام کی بیعت قبول فرما دیں.اور اللہ تعالی کے حضور دعا کریں.کہ غلام اس عہد پر اخلاص کے ساتھ قائم رہے اور اسے پورا کرنے کی توفیق دے".قدرت خداوندی ملاحظہ ہو کہ خواجہ کمال الدین صاحب آپ کو ہم خیال بنانے کے لئے اکثر متنازعہ مسائل پر گفتگو کرتے رہتے تھے مگریہی گفتگو چوہدری صاحب کو دامن خلافت سے وابستہ کرنے کا موجب بن گئی.چنانچہ چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں.”میرے انگلستان جانے کے ایک سال بعد خواجہ کمال الدین صاحب بھی انگلستان تشریف لے گئے اور مجھے متواتر خواجہ صاحب کی صحبت میسر آتی رہی.۱۳ - ۱۹۱۲ء کی سردیوں کا کچھ عرصہ تو خواجہ صاحب اسی مکان میں مقیم رہے جس میں میری رہائش تھی.اس دوران میں خواجہ صاحب بعض دفعہ خلافت کا تذکرہ بھی چھیڑ دیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ خواجہ صاحب نے فرمایا.....خلافت کا بھی (حضرت) مولوی (صاحب) کے بعد تنازعہ ہی ہو گا.آخر اس منصب کے اہل ہیں کون ؟ محمود ہے لیکن وہ بچہ ہے.محمد علی ہے وہ بہت حساس ہے.ذرا ذرا سی بات پر رو پڑتا ہے.اور میں ہوں لیکن مجھ میں یہ نقص ہے کہ میں بچی بات منہ پر کہ دیتا ہوں جس سے لوگ مجھ سے خفا ہو جاتے ہیں.میں نے کہا.ایک خلیفہ موجود ہے اس کے بعد جسے خدا چاہے گا.کھڑا کر دے گا.آپ اس فکر میں کیوں پڑتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح نے لاہور والی تقریر میں وضاحت فرما دی کہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اختلاف کا علم ہونے پر میں نے خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کیا.کہ اگر خلیفہ کی ضرورت نہیں تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کیوں کی تھی؟ انہوں نے کہا غلطی ہو گئی تھی.میں نے کہا پہلی بار کی غلطی کے بعد پھر آپ نے دوبارہ غلطی کیوں کی ؟ خواجہ صاحب نے کچھ جھنجھلا کر کہا جھک ماری تھی.بعد انہوں نے غلطی کو بیعت تو بہ " اور جھک " کو بیعت ارشاد سے تعبیر کیا.خواجہ صاحب کے ساتھ...جو گفتگو ان مسائل کے متعلق ہوتی رہی وہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر میرے لئے جماعت کے اختلاف کے معاملہ میں بہت راہنمائی کا موجب ہوئی اور اختلاف کی تفصیل کا علم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیعت کی توفیق مل گئی.فالحمد لله على ذلك "."

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 122 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حضرت خليفة ابتدائی کشمکش اور جماعت کی اکثریت کا خلافت کے جھنڈے تلے اجتماع المسیح الثانی ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ بعد نماز عصر مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے اس وقت قادیان میں قریب دو ہزار مردوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اس تعداد میں ایک حصہ ان لوگوں کا بھی شامل تھا.جو حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے آخری ایام میں آپ کی وفات کی خبر سن کر باہر سے آئے ہوئے تھے.مگر دوسری طرف اس وقت قادیان میں ہی ایک حصہ ایسا بھی موجود تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بیعت سے منحرف رہا.اس حصہ میں زعماء منکرین خلافت اور ان کے رفقاء ہر دو شامل تھے.ہر چند کہ ان لوگوں کی تعداد 2 بہت قلیل تھی.یعنی اس وقت قادیان میں ان کی مجموعی تعد اد دو تین فی صدی سے زیادہ نہیں تھی مگر چونکہ ان میں بعض ذی اثر اصحاب شامل تھے مثلا مولوی محمد علی صاحب ایم.اے جو صدر انجمن احمدیہ کے مستقل سیکرٹری اور ریویو آف ریلیجز کے ایڈیٹر تھے.اور جماعت میں اچھا اثر رکھتے تھے اور مولوی صدر الدین صاحب بی.اے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مستقل ہیڈ ماسٹر اور صدر انجمن احمدیہ کے قائم مقام سیکرٹری تھے اور اسی طرح بعض اور لوگ جو صدر انجمن احمدیہ کے مختلف صیغہ جات میں کام کرتے تھے اس گروہ میں شریک تھے اس لئے باوجود تعداد کی کمی کے ان لوگوں کے اثر کا دائرہ کافی وسیع تھا.مگر سب سے زیادہ فکر جماعت کے اس سواد اعظم کے متعلق تھی جو قادیان سے باہر پنجاب وہندوستان کے مختلف حصوں میں بالکل تاریکی کی حالت میں پڑا تھا.پس خلافت کے انتخاب کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ جماعت کے ان منتشر دھاگوں کو سمیٹ کر پھر ایک رسی کی صورت میں جمع کر لیا جاوے.چنانچہ اس کی طرف فوری توجہ دی گئی اور اخباروں اور رسالوں اور اشتہاروں کی غیر معمولی اشاعت a کے علاوہ جماعت کے اہل علم لوگوں کو ملک کے چاروں اطراف میں پھیلا دیا گیا.تاکہ وہ بیرونی جماعتوں کو حالات سمجھا کر اور اختلافی امور کی تشریح کر کے اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم بنا کر خلافت کے ہاتھ پر جمع کرنے کی کوشش کریں.اور گو خدا کے فضل اور رحم سے جماعت کی کثرت نے ایک غیر معمولی سنبھالا لیکر مرکز کی اپیل پر مخلصانہ لبیک کہا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بیعت فورا قبول کر لی.مگر چونکہ منکرین خلافت کی طرف سے بھی پُر زور پراپیگنڈا جاری تھا اس لئے جماعت کا ایک معتدبہ حصہ ایسا بھی تھا جسے سخت کوشش اور انتہائی جدوجہد کے ساتھ راہ راست پر لانا پڑا.یہ ایک ہولناک نظارہ تھا اور گویا ایک قسم کی طولانی رسہ کشی تھی.جس میں کئی موقعے خطرے کے پیدا ہوتے رہے مگر بالآخر چپہ چپہ اور بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ خدائی فوج دشمن کے کیمپ میں دھنستی چلی گئی اور چند ماہ کی شب و روز کی جنگ کے بعد خدا نے اپنے روحانی خلیفہ !

Page 159

123 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال کو فتح عطا کی اور جماعت کا زائد از پچانوے فیصدی حصہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا.یہ دن بڑے عجیب و غریب تھے جن کی یاد دیکھنے والوں کو کبھی بھول نہیں سکتی.ہر مخلص احمدی جوش سے بھرا ہوا تھا اور ہر فرد اپنے علم اور اپنی استعداد کے مطابق تبلیغ کے کام میں دن رات مصروف تھا اور صحیح معنوں میں ایک پوری پوری جنگی کیفیت نظر آتی تھی.اس عرصہ میں منکرین خلافت نے بھی اپنی جدوجہد کو انتہا تک پہنچا دیا اور اصول کی بحث کے علاوہ ذاتیات BI کے میدان میں بھی قدم رکھ کر ایسا نازیبا پراپیگنڈا کیا کہ جس نے جماعت کی اخلاقی فضا کو وقتی طور پر مکدر کر دیا.مگر فرشتوں کی مخفی فوج کے سامنے سب کو ششیں بیکار تھیں اور آہستہ آہستہ حریف کا ہر مورچہ مغلوب ہو کر ہتھیار ڈالتا گیا اور سوائے ایک نہایت قلیل حصہ کے ساری جماعت دامن خلافت کے ساتھ وابستہ ہو گئی.دو سری طرف منکرین خلافت کا جو حصہ قادیان میں تھا اور جس کے ہاتھ میں صدرانجمن احمدیہ کے بعض محکمہ جات کی باگ ڈور تھی اس پر اللہ تعالٰی نے ایسا رعب طاری کیا.کہ وہ قادیان کو چھوڑ کر خود بخود لاہور چلا گیا اور اللہ تعالٰی نے مرکز سلسلہ کو فتنے کے شراروں سے بہت جلد پاک کر دیا.ان لوگوں کا قادیان کو چھوڑنا گو جماعت کے لئے ایک بڑی رحمت ثابت ہوا.مگر خود ان کے مفاد کے لحاظ سے ایک خطرناک غلطی تھی.جسے انہوں نے خود بھی بعد میں محسوس کیا.کیونکہ اول تو اس کے بعد ان کے لئے مرکز میں اڑا جمانے کا موقعہ نہ رہا.دوسرے چونکہ دنیا کی نظروں میں قادیان ہی سلسلہ احمدیہ کا مرکز تھا اس لئے اپنوں اور بیگانوں کی نظر قادیان ہی کی طرف لگی رہی.اور ان لوگوں کے متعلق : ہر سمجھنے والے نے یہی سمجھا کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں.مگر بہر حال ان کا قادیان سے خود بخود نکل جانا ایک خدائی تصرف تھا جس نے جماعت کے حق میں ایک بھاری ہتھیار کا کام دیا.اس اختلاف کے دوران میں صدر انجمن احمدیہ کا یہ حال تھا کہ گو اس کے ممبروں میں سے ایک معتد بہ حصہ خلافت کا منکر ہو چکا تھا مگر اب تک بھی ممبروں کی اکثریت خلافت کے حق میں تھی جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہو گا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلافت کے حق میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب خلافت کے حق میں حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب خلافت کے حق میں یہ بزرگ شروع میں حضرت خلیفتہ ام امردی الثانی کی بیعت میں داخل ہوئے مگر بعد میں منکرین خلافت کے اثر سے بعض امور میں

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 124 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب خلافت کے حق میں - حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب خلافت کے حق میں حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی خلافت کے حق میں حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب خلافت کے حق میں قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد خلافت کے حق میں خلافت ثانیہ کا پہلا سال خلاف ہو گئے گھر وفات کے قریب پھر مائل ہو گئے تھے.صاحب - مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مرحوم خلافت کے خلاف خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم خلافت کے خلاف خواجہ صاحب کی قائم مقامی میں حضرت خلیفہ دل کی وفات کے وقت مولوی صدر الدین صاحب عارضی طور پر ممبر تھے اور وہ بھی خلافت کے خلاف تھے.اکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم خلافت کے خلاف ۱۳ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مرحوم خلافت کے خلاف خلافت کے خلاف ۱- شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم -۱۴ حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری خلافت کے خلاف یه بزرگ خدا کے فضل سے ۲۲ جنوری ۱۹۴۰ء میں سبایعین میں شامل ہو گئے اور پھر بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت پائی.۱۵- حضرت میر حامد شاہ صاحب خلافت کے خلاف یہ بزرگ شروع میں کچھ وقت تک معلوم منکرین کے ساتھ رہے مگر بعد میں جلد ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بیعت سے مشرف گئے.مندرجہ بالا نقشے میں جن ممبران صدر انجمن احمدیہ کا ذکر ہے یہ سب حضرت مسیح موعود کے مقرر کردہ تھے سوائے اس کے مولانا مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد کو حضرت خلیفہ المسیح اول نے مقرر فرمایا تھا اور مولوی صدرالدین صاحب کو صدر انجمن احمدیہ نے خود بخود خواجہ کمال الدین صاحب

Page 161

جلد ۴ 125 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال کے سفر ولایت کے ایام میں عارضی ممبر مقرر کر لیا تھا.بہر حال اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت بھی صدر انجمن احمدیہ کی اکثریت خلافت کی مؤید تھی.یہی وجہ ہے کہ منکرین خلافت اس بات پر مجبور ہوئے کہ صدرا انجمن احمدیہ سے......ہاں وہی صد را انجمن احمدیہ جو ان کی اس قدر منظور نظر تھی....قطع تعلق کر کے اس کی جگہ لاہور میں ایک علیحدہ انجمن قائم کرلی.گویا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد ان اصحاب کا صرف خلافت سے ہی قطع تعلق نہیں ہوا.بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے بھی قطع تعلق ہو گیا اور وہ مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے.اور وہاں اپنی ایک جداگانہ انجمن بنالی جس کا نام انجمن احمد یہ اشاعت اسلام ہے.جس وقت یہ اصحاب قادیان کو چھوڑ کر جارہے تھے اس وقت ان کے تعمیراتی پروگرام نے صدر انجمن احمدیہ کے خزانے کو بالکل خالی کر رکھا تھا اور صرف چند آنوں کے پیسے باقی تھے اور دوسری طرف یہ لوگ اس قدر خود بینی میں مبتلا تھے کہ سمجھتے تھے کہ ہمارے چلے جانے سے یہ سار انتظام درہم بر اہم ہو جائے گا.اور ہمارے بعد کوئی شخص اس نظام کو چلا نہیں سکے گا.چنانچہ ان کے ایک معزز رکن نے قادیان سے جاتے ہوئے سلسلہ کی عمارات کی طرف اشارہ کر کے کہا.کہ اب یہاں الو بولیں گے.یہ کلمہ اس انتہائی نخوت کا ایک گندہ ابال تھا جو ان لوگوں کے دماغوں میں غلبہ پائے ہوئے تھی.اور اس سے اس بے قمیتی پر بھی روشنی پڑتی تھی جس کا یہ لوگ شکار ہو رہے تھے.کیونکہ خواہ وہ قادیان سے جارہے تھے مگر بہر حال قادیان ان کے روحانی پیشوا اور سلسلہ احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود کا مولدی مسکن و مدفن تھا.اور سلسلہ کی تمام روایات قادیان سے وابستہ تھیں.پس اگر ان لوگوں کے دل میں مرکز سلسلہ کی ذرا بھی محبت ہوتی تو ان کے منہ سے قادیان کے متعلق اس قسم کے الفاظ ہر گز نہ نکلتے.کہتے ہیں کہ محبوب کی ملی کا کتا بھی پیارا ہوتا ہے مگر ان لوگوں نے اپنے محبوب کے مکانوں اور ہزاروں خدائی نشانوں کی جلوہ گاہ عمارتوں اور بیسیوں شعائر اللہ کو محبوب کی گلی کے کتے کے برابر بھی حیثیت نہیں دی.مگر اس کا کیا پھل پایا ؟ آہ یہ ایک نہایت تلخ خیال ہے جس کے تصور سے بھی دل میں درد اٹھتا ہے آخری الفاظ میں نہایت درد دل سے جس تلخ اور المناک تحریک انکار خلافت کا انجام حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ہم غیر معمولی اختصار کے ساتھ اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں.کیونکہ ہم اس سنہری دور میں سے گزر رہے ہیں جس کا ہر آنے والا دن نئی سے نئی برکات و فتوحات کو لے کر طلوع کر رہا ہے.تحریک انکار خلافت کی پوری تاریخ عبرتوں کا مرقع ہے بطور نمونہ چند ضروری حقائق و شواہد کا

Page 162

تاریخ احمدیت.جلد ۴ تذکرہ کیا جاتا ہے.126 خلافت ثانیہ کا پہلا سال خود ساختہ خلافتوں کا خاتمہ غیر مبایعین نے حضرت خلیفہ اول کی وفات پر سلسلہ خلافت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے پورا زور لگایا.اور اس امر کے لئے کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا کہ حضرت خلیفہ اول نے مطابق الوصیت سلسلہ خلافت کو قائم رکھنے کے ۵۱ لئے اپنی بار بار کی تشریحات پر بس نہ کر کے اپنے ایک جانشین کی جو وصیت فرمائی ہے اس کی تکمیل نہ ہو سکے مگر جب تقدیر الہی کے سامنے ان کی کچھ نہ چلی اور بفضلہ تعالی خلافت قائم ہو کر رہی تو اپنے اس پروپیگنڈا کو حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اول) کے بعد کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے بالائے طاق رکھ کر اپنی طرف سے تین خلفاء مقرر کر دیئے.(۱) مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری (۲) سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۳) خواجہ کمال الدین صاحب - مقدم الذکر بزرگ بعد میں خلافت ثانیہ کی بیعت میں آگئے.اور خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنا مشن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے منقطع کر لیا.خواجہ صاحب مرحوم کو آخری عمر میں ایک خواب دکھایا گیا.کہ تخت کے سامنے ملزموں کے کھڑا کرنے کی جگہ تھی میرے ہمراہ حضرت مولوی (محمد علی) صاحب تھے....ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ہم پر کوئی مقدمہ ہے اور اس عدالت عالیہ میں ہم بحیثیت ملزم کھڑے ہیں......میں نے سمجھا کہ صاحب عرش نے کوئی حکم دے دیا ہے جس کے سنانے کے لئے حضرت مرزا صاحب اٹھے.وہ گو خود خوف کی حالت میں تھے.مگر انہوں نے نہایت غضب ناک آواز میں حکم سنایا.خواجہ صاحب نے اپنی کتاب "مسجد و کامل " میں یہ خواب شائع کی.اور المجمن اشاعت اسلام کے تبلیغی طریق کار پر اعتراضات کئے.جس کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب کو ایک لمبا چوڑا مضمون لکھنا پڑا.جناب مولوی محمد علی صاحب کے خلاف بغاوت مولوی محمد علی صاحب کا (جن کے لئے "مجد والدین" کا الهام ۵۴ اختراع کیا گیا) کہنا ہے کہ "جس وقت ہم علیحدہ ہوئے ہیں مجھے بھی الہام ہو ا تھا و للاخرة خير لك من الاولى " - یعنی آئندہ زندگی پہلے سے بہتر ہو گی.لیکن اس کے برخلاف ہوا یہ کہ ان کی آخری زندگی نہایت پریشانیوں تلخیوں اور مصیبتوں میں گزری.جس کی تفصیل انہوں نے "میری زندگی کا ایک دردناک ورق میں بیان فرمائی.اور پھر اپنی ایک چٹھی (مطبوعہ ۲۵/ جولائی ۱۹۵۱ء) میں یہ لکھا کہ " جب سے میں گزشتہ بیماری کے حملہ سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ ( ڈاکٹر غلام محمد صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب ناقل) اور شیخ عبد الرحمن صاحب مصری میرے خلاف پراپیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا ۵۶

Page 163

احمدیت جلد.127 خلافت ثانیہ کا پہلا سال کرنا شروع کیا ہوا ہے.یہ نوٹس جاری کر کے جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی اور امیر جماعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا ہے ".اسی طرح ان کی بیگم صاحبہ نے بھی ایک خط میں لکھا کہ مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا اور طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے.یہاں تک بکواس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے." ان تفکرات نے آپ کی جان لے لی.سب ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی".ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیج دی کہ یہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں...اور جن کا سرغنہ مولوی صدر الدین ہے میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھا ئیں چنانچہ اس پر عمل ہوا.مگر اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب کی وصیت پس پشت ڈال کر مولوی صدر الدین صاحب ہی امیر قوم " منتخب کر لئے گئے.بحالیکہ انجمن اشاعت اسلام کے بعض چیدہ ممبران کھلے طور پر یہ رائے ظاہر کر چکے تھے.کہ مولوی صدر الدین صاحب کو ” حکومت کا شوق ہے سوائے اس کے کسی بات پر رضامند نہیں ہو سکتے کہ تمام اختیارات ان کو دے دیئے جائیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی بھر ہر ایک سے بر سر پیکار رہے وہ اقتدار کے بھوکے ہیں.جب تک وہ اسے حاصل نہ کر لیں گے جماعت میں فتنہ و فساد ختم نہیں ہو سکتا.مگر جس روز جماعت نے یہ قدم اٹھایا تو وہ دن جماعت اور تحریک احمدیت ( یعنی لاہوری تحریک - ناقل) کے خاتمہ کا دن ہو گا".نظام "الوصیت" سے قطع تعلق غیر مبائع اصحاب نے قادیان سے نکل جانے کے بعد نظام "الوصیت" سے جو خدائی بشارتوں کے مطابق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا تھا ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی.پہلے تو انہوں نے اپنی وصیتیں منسوخ کر دیں.پھر بہشتی مقبرہ کے ساتھ ایک علیحدہ قبرستان بنانے کی تجویز کر کے یہ اعلان کیا کہ " صاحبزادے صاحب نے ہمارے خلاف بہت سخت فتاری شائع کئے ہیں اور زندگی میں موجودہ حالات میں ہمارا قادیان میں رہنا نا ممکن ہے اور وفات کے بعد بھی مقبرہ بہشتی میں جگہ ملنے کی ان کی طرف سے امید منقطع ہے...حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) نے الوصیت میں مقبرہ کی زمین کی توسیع کی ہدایت فرمائی ہے اور خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے.....خاص طور پر مشکور ہیں کہ انہوں نے ہم کو اپنے حصہ میں سے مقبرہ بہشتی کے متصل زمین اس غرض کے لئے عنایت کر دی ہے کہ ہم مرنے کے بعد تو قادیان میں جگہ پاسکیں.غیر مبائع اصحاب نے اسے محض " خاندانی قبرستان " قرار دینا شروع کر دیا اور یہ مسلک اختیار کیا کہ اصل مقصود تو

Page 164

تاریخ احمدیت جلد ۴ 128 خلافت ثانیہ کا پہلا سال محض " اشاعت اسلام" کے لئے فنڈ کا جمع کرتا ہے.جو نئی وصایا کی شکل میں اکٹھا کیا جائے گا.مگر یہ تحریک بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکی.چنانچہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا.”جماعت (غیر مبایعین) نے الوصیت کے عملی حصہ کو اختیار کرنے میں کمزوری دکھلائی اور اس کی وجہ سے خود کمزور ہو گئی اس بارے میں سب سے زیادہ قصور داردہ شخص ہے جو اس وقت تمہارے سامنے کھڑا ہے.گناہ کے اس احساس کے ساتھ جو کہ ایک بد ترین گناہگار کو ہو سکتا ہے.میں اس قصور اور کو تاہی کا اقرار کرتا ہوں کہ سب سے زیادہ کمزوری میں نے دکھلائی ہے.لا مرکزیت کا شکار منکرین خلافت کے ایک سابق صدر نے کہا.”لاہور میں کام شروع کئے ہوئے ہمیں ۳۷ سال گزر چکے ہیں اور ہم اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلے بحثیں ہوتی ہیں کہ ہماری ترقی میں کیا روک ہے بعض کہتے ہیں جماعت قادیان نے دعوئی نبوت کو حضرت امام زمان کی طرف منسوب کر کے اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر کہکر ایک بہت بڑی روک پیدا کر دی ہے.لیکن ان اعتقادات کے باوجود ان کی اپنی ترقی تو بد ستور ہو رہی ہے.....میرے خیال میں ہماری ترقی کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مرکز دلکش نہیں...بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ داد ا سلسلہ پر عاشق تھے لیکن ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے" کثرت کا قلت میں بدلنا ادا ئل میں غیر مبایعین پراپیگنڈا کیا کرتے تھے کہ " ابھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے ".بلکہ وہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ افسوس مؤیدین خلافت کی تعداد کتنے کو دو ہزار بتائی جاتی ہے لیکن دراصل ایسے مؤیدین کی تعداد جو موجودہ خلافت کے مضرات سے باخبر ہوں اس قدر کم ہے کہ جن کی تعداد چالیس مومن تو ایک طرف رہے اس کے ہندسہ تک بھی نہیں پہنچ سکتی.اور وہ بھی اپنے ہی گھر کے آدمی بجز.....دو چار اصحاب کے ".الخ ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ ۱۹۱۴ء کے شروع میں غیر مبائع اصحاب مبایعین کو اس لئے حق پر نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ان کی توقعات کے سراسر خلاف ان کی کثرت اقلیت میں بدل گئی.چنانچہ " عصر جدید " نے لکھا.” وہ گروہ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے ہم خیال ہو کر دوسرے مسلمانوں سے بظاہر مل کر کام کرنا چاہتا ہے اور جس میں بہت سے تعلیم یافتہ احمدی لاہور وغیرہ کے شامل ہیں.ان کو صاحبزادہ بشیر محمود کے فریق نے تقریباً ہر جگہ شکست

Page 165

تاریخ احمدیت جلد ۴ 129 خلافت ثانیہ کا پہلا سال NA فاش دے دی ہے " II - اس انقلاب کے بعد جمہوریت کے دعویداروں نے یہ کہنا شروع کر دیا."کثرت کوئی چیز نہیں " بحالیکہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی موجود ہے.کہ " میں تیرے خالص اور ولی محبوں کا گردہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا".عقائد و نظریات میں حیرت انگیز تبدیلی خلافت سے انحراف کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ رونما ہوا کہ غیر مبایعین کے عقائد و نظریات میں ایک طوفان اٹھا جو جماعت کے اجماعی ملک کو (جس کا اقرار وہ خود بھی وقتا فوقتا کرتے آرہے تھے) بہالے جانے کا باعث ہوا.مثلاً ا اختلاف کے نمودار ہونے تک انہیں مسلم تھا کہ "ہم ایک نبی کے سلسلہ کے ممبر ہیں ".بلکہ اختلاف کے بعد بھی وہ یہ نظریہ رکھتے تھے.کہ "میرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نبی ہو گا.مگر بعد میں خود حضرت مسیح موعود کی نبوت سے یکسر انکار کر دیا.بلکہ جہاں اپنے لیڈروں کو ” اولیاء اللہ " اور مجدد" قرار دیا.وہاں حضرت مسیح موعود کا مقام یہ تجویز کیا کہ حضرت صاحب از روئے الہام حدیث کے مخصوص علماء کی صف میں کھڑے ہیں "." حضرت مسیح موعود کے اہل بیت کے بارے میں شروع میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ”اس میں کسی ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب خدا کے مامور اور برگزیدہ کے فرزند صاحب علم " صاحب عفت ، صالح اور نہایت نیک اطوار اور ائمہ الہدی ہونے کے ہر طرح قابل ہیں اور یہ سب فرزند بلاشبہ روحانی اور جسمانی دونوں معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود کی آل ہیں.اور ان الله معک و مع اهلک کے الہام کے پورے مصداق ہیں.لیکن بعد کو پورے خاندان مسیح موعود کو گمراہ قرار دینے لگے.شروع شروع میں خصوصاً حضرت سید نا محمود کی بزرگی اور پاکیزگی روح پر غیر مبایعین شہادت دیتے تھے.”پیارے ناظرین! ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنا ایک بزرگ اور امیر اور لمجاو مادٹی سمجھتے ہیں.اور ان کی پاکیزگی روح اور بلندی فطرت اور علو استعداد اور روشن جو ہری اور سعادت جیلی کو مانتے ہیں اور دل سے ان سے محبت کرتے ہیں...صرف اعتقاد میں فرق ہونے کی وجہ سے ہم ان سے بیعت نہیں کر سکتے " خود مولوی محمد علی صاحب شروع میں لکھتے ہیں کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ میں صاحبزادہ صاحب کی عزت کرتا ہوں وہ میرے آقا کے صاحبزادے ہیں اگر میں ان کی عزت و احترام کو ملحوظ نہ رکھوں تو نمک LL

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ZA 130 اسال حرامی ہو گی.مگر جلد ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر اس بے باکی سے حملے کئے گئے کہ انکار خلافت کی پوری تحریک آپ کی مخالفت کے لئے وقف ہو گئی." پغام صلح" کے مضامین پڑھئے ان میں حضرت خلیفہ ثانی کو نعوذ باللہ "یزید"."حسن بن صباح " اور " ڈوئی " تک سے شیعہ دی گئی ہے.آہ! ابتداء کیا تھی اور انتہاء کیا ہے فانالله وانا اليه راجعون.پہلے تسلیم کیا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی موجودہ اولاد میں سے ہی ایک فرزند مصلح موعود ہو گا مگر پھر یہ عقیدہ بنالیا گیا کہ وہ تیسری چوتھی صدی میں آئے گا.اور اس خیال کی بنیاد اپنے اجتہاد پر رکھی بحالیکہ " حجت صرف الہام ہو سکتا ہے "- - قیاس و خیال نہیں.۵ امیر غیر مبایعین جناب مولوی محمد علی صاحب کا پہلا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح کی پیدائش ایک ایسے اعجازی رنگ میں ظاہر ہوئی کہ جس میں باپ کا دخل نہ ہوا.اب جو اختلاف ہوا تو خود مولوی صاحب موصوف نے اپنی انگریزی دارد و تغیر میں مسیح کی بن باپ ولادت سے انکار کر دیا.- قادیان کو چھوڑنے کے بعد ایک عرصہ تک یہ یقین دلاتے رہے کہ ”ہمارا تعلق نہ تو سلسلہ سے منقطع ہو سکتا ہے اور نہ قادیان سے اور نہ ہی اس مقدس انسان کے خاندان سے جس کے ہم خادم ہیں.لیکن جلد ہی یہ صورت بھی بدل گئی اور قادیان کی عظمت کی بجائے احمد یہ بللہ نگس " کے تقدس نے جگہ لے لی.اور کہا جانے لگا." جب قادیان میں حضرت مولانا نور الدین صاحب کی وفات کا حادثہ پیش آیا جس کے ساتھ ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا علم و حکمت کے تمام سوتے وہاں خشک ہو کے رہ گئے.حضرت امیر ایدہ اللہ تمام خزانوں کو سمیٹ کر لاہور تشریف لے آئے اور احمد یہ بلڈ نگس کی سرزمین کو آبسایا " - یہ کھلا مذاق حضرت مسیح موعود کے اس کلام سے تھا کہ.زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے ہاں یہ وہی قادیان تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بابرکت مقام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ " خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے ".ے.جناب مولوی محمد علی صاحب قادیان میں کئی آیتوں کے جو معنے کیا کرتے تھے لاہور میں آکر اس کے خلاف کرنے لگے.مثلاً قادیانی زندگی میں وہ آیت اهدنا الصراط المستقیم کی یہ تغییر فرماتے تھے که..." مخالف خواہ کوئی ہی معنے کرے مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے...مگر چاہئے مانگنے والا" مگر لاہوری زندگی میں یہ نظریہ قائم کیا کہ "اگر اهدنا الصراط المستقیم) کو حصول نبوت کی دعا مانا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کی دعا قبول نہ ہوئی.پھر یہ لکھا." مقام نبوت

Page 167

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 131 خلافت ثانیہ کا پہلا کے لئے دعا کرنا ایک بے معنی فقرہ ہے اور اسی شخص کے منہ سے نکل سکتا ہے جو اصول دین سے ناواقف ہے".ANAL بنیادی نظریہ میں شکست کفر و اسلام کا مسئلہ تو محض غیروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے اٹھایا گیا تھا.ورنہ اصل بنیادی اختلاف تو ان حضرات کا یہ تھا کہ یہ انجمن پر کسی خلیفہ مطاع کی بالا دستی کے قائل نہ تھے اور اسی کا نام ان کے نزدیک جمہوریت تھا لیکن ایک لمبے تجربہ کے بعد خود مولوی محمد علی صاحب کو محسوس ہو گیا کہ جمہوریت کے علمبرداروں میں " آزادی حد سے گزری ہوئی " ہے.جب قدم قدم پر اس نام نہاد جمہوریت کے تلخ نتائج سامنے آنے لگے.تو صاف صاف کہنا پڑا.” نظام کی بنیاد ایک ہی بات پر ہے کہ اسمعو و اطیعوا سنو اور اطاعت کرو جب تک یہ روح نہ پیدا ہو جائے.جب تک تمام افراد جماعت ایک آواز پر حرکت میں نہ آجا ئیں جب تک تمام اطاعت کی ایک سطح پر نہ آجا ئیں ترقی محال ہے ".اسی طرح " پیغام صلح" نے لکھا."یہ (ترقی) تبھی ممکن ہے.جب ایک واجب الاطاعت امیر کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور ہو.تمام افراد اس کے اشارے پر حرکت کریں.سب کی نگاہیں اس کے ہونٹوں کی جنبش پر ہوں اور ونسی اس کی زبان فیض ترجمان سے کوئی حکم مترشح ہو سب بلا حیل و حجت اس پر عمل پیرا ہوں".اور لکھا.” ضروری ہے کہ ایک مرکزی شخصیت موجود ہو جس کا ہر حکم اس قانون یعنی قانون شریعت" کے ماتحت واجب التعمیل ہو اور کوئی فرد جماعت اس کی بجا آوری میں چون و چرا نہ کرے.اس امارت کی بہترین مثال زمانہ امارت ابو بکر و عمر ہے وہ قرآن کے تابع تھے.لیکن کیا مجال کہ کوئی ان کے احکام سے سرمو انحراف کر سکے " جو مولوی محمد علی صاحب نے خلافت احمدیہ کا انکار صرف اس بناء پر کیا تھا کہ وہ انجمن کے مقابل خلافت کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے تھے.دوسری طرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا عقیدہ و مسلک یہ تھا کہ خلافت بنیادی و مرکزی چیز ہے.باقی سب امور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.اس واقعہ پر ابھی آٹھ دس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مولوی محمد علی صاحب جو مسیح موعود کی خلافت سے انکار کر چکے تھے خلیفتہ المسلمین ترکی کی خلافت کے پُرجوش علمبرداروں میں شامل ہو گئے اور اس کی تائید میں "خلافت اسلامیہ " کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا اور اس میں اقرار کیا کہ "خلافت ایک مذہبی معاملہ ہے اور وہ بھی اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ اس کے سامنے فرقہ بندیوں کے جملہ اختلافات مٹ گئے.....اسلامی خلافت معمولی بات نہیں بلکہ قرآن کریم کے صریح الفاظ کے ماتحت قائم ہے خلافت کا زوال خود قلب اسلامی پر صدمہ ہے."

Page 168

احمدیت.جلد ۴ 132 خلافت ثانیہ کا پہلا سال غیروں میں رشتہ ناطہ کے نتائج غیر احمدی حلقوں میں ہر دلعزیزی اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ان کو رشتے دینے کا سلسلہ جاری کیا گیا.جس کے اتنے ہولناک اثرات سامنے آئے کہ ”پیغام صلح" میں لکھنا پڑا کہ ” عہد کر لو کہ احمدی کا رشتہ احمدی گھرانے میں ہو گا.احمدی بچیوں کی شادیوں میں ایک احمدی مزدور کو غیر احمدی نواب سے زیادہ اچھا نہ سمجھیں تو اس کا نام قومیت نہیں.اور اسے تنظیم کرنا گناہ ہے.اسی طرح اگر ہم لڑکوں کی شادی کے وقت ایک غریب اور بے کس احمدی لڑکی کو ایک کروڑ پتی غیر احمدی کی لڑکی پر ترجیح نہ دیں تو ہمارا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا دعویٰ فضول اور بے معنی ہے.لاہوری تحریک دوسروں کی نظر میں انجمن اشاعت اسلام لاہور کے بانیوں نے محض عامتہ المسلمین میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے اصول و نظریات تک کو قربان کرنا گوارا کر لیا.لیکن اتنی بڑی قربانی کے باوجود غیر احمدی حلقوں میں ہر دلعزیزی کا ذکر تو رہا ایک طرف وہ از حد مشکوک سمجھے جاتے ہیں.اس امر کے ثبوت میں صرف چند اقتباسات کافی ہوں گے.پروفیسر الیاس برنی نے لکھا." ہی دوسری جماعت لاہور....اس نے قادیانی تعلیم میں اس مصلحت آمیز ترمیم کر کے مسلمانوں کو ملتفت کرنے کی راہ نکالی.اور اس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی لیکن اصل حالات منکشف ہونے پر مسلمان چونک پڑے " مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار نے اپنی رائے یہ دی کہ ”قادیانی جس عقیدے کی تشہیر کر رہے ہیں.لاہوری اس پر خفیہ طور پر عمل پیرا ہیں اصولی طور پر دونوں کا عقیدہ ایک ہی ہے.دوکانیں مختلف ہیں لیکن جنس ایک ہے ".مولا نا عبد الماجد نے صدق" لکھنو میں تحریر کیا.قادیانی امت کے بعض افراد نے اس مضر عمل کا احساس کیا اور انہوں نے تاویل در تاویل اور بعض صورتوں میں انکار تک کر کے امت کے قریب آنے کی سعی کی.اور لاہوری قادیانی کے نام سے مشہور ہو گئے لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ امت کے حصار سے جس شخص کے اثر کے ماتحت وہ نکلے تھے جب تک اس کے اثر کا قاطبتہ وہ انکار نہ کریں.امت کے وسیع دائرہ میں آنے کا ان کے لئے امکان نہیں ".یہ تو پاک و ہند کے بعض مسلمان لیڈروں کے خیالات ہیں.اب یورپ کے مشہور مستشرق ایچ اے آر گب (پروفیسر آکسفورڈ یونیورسٹی) کی رائے ملاحظہ ہو.جماعت احمدیہ اور مسلمانوں کے سواد اعظم سے کٹ جانے کا کیا عبر تاک نقشہ پیش کیا ہے.لکھتے ہیں.44

Page 169

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 133 خلافت ثانیہ کا پہلا سال ۱۹۱۴ ء میں پہلے خلیفہ کی وفات کے بعد جماعت احمد یہ دو حصوں میں بٹ گئی جماعت کا اصل حصہ یعنی قاریانی شاخ تو بانی سلسلہ کے دعوی نبوت اور ان کے بعد اجرائے خلافت پر قائم رہی لیکن الگ ہونے والے لاہوری فریق نے ان دونوں کا انکار کر دیا اور ایک نئے امیر کی قیادت میں "انجمن اشاعت اسلام" کی بنیاد ڈالی.لاہوری فریق نے بعد میں اہلسنت و الجماعت کے ساتھ مل جانے کی کوشش کی.لیکن علماء اب بھی ان کو شبہ کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں".(ترجمہ) تاریک مستقبل منکرین خلافت کی تحریک کے ماضی و حال کے خدو خال تو نمایاں ہو چکے اب مستقبل کی بابت بھی سنیئے کہ غیر مبایعین کا ایک حصہ کس درجہ مایوسی اور قنوطیت میں ڈوبا ہوا ہے.”پیغام صلح لکھتا ہے.بعض کو تاہ نہم یہ خیال بھی دل میں لئے ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں.کہ چونکہ یہ صدی اب ختم ہونے والی ہے اس لئے اس صدی کے مجدد کی تحریک بھی اب زندگی کے آخری مرحلوں میں ہے اور اب نیا مجدد ہی آکر اس کو دوبارہ زندہ کرے گا.اس میں زندگی کی روح پیدا کرنا ہمارا کام نہیں ".te غیر مبائع اصحاب کا کہنا ہے کہ ”جماعت کو دو ملکی پریس کا اختلافات سلسلہ پر تبصرہ حصوں میں تقسیم کر دینا ایک ایسا قدم تھا جس پر ان بزرگان (یعنی جناب محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال ممبروں نے بعد میں بہت سوچ سمجھ کر اور جبراً قدم اٹھایا.یہ خدا کے مسیح کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کا یہ عذر کہاں تک درست ہے ؟ اس پر کچھ کہنے کی تو چنداں ضرورت نہیں ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس "جبری قدم " پر غیروں نے خوشی کے شادیانے بجائے اوریقین کرنے لگے کہ اب سلسلہ احمدیہ کی تباہی قطعی ویقینی ہے.اس موقع پر ملکی پریس نے اختلافات سلسلہ کی خبریں بڑے اہتمام سے شائع کیں اور ان پر تبصرہ بھی کیا مسلمان اخبارات کا رد عمل ملے جلے خیالات پر مبنی تھا بعض اخبارات کھلے طور پر غیر مبایعین کی تائید کرتے تھے اور بعض خلافت کے اصول پر جماعت قادیان کے نظریہ کو معقول قرار دیتے تھے چنانچہ محض "مسئلہ کفر و اسلام کی بنا پر (جو غیر مبایعین کے پراپیگنڈا کا اہم ترین حربہ تھا) اخبار "الحلال" نے مولوی محمد علی صاحب کے رویہ کو بہت سراہا اور لکھا.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے اس بارے میں جو تحریر شائع کی ہے.اور جس عجیب و غریب دلاوری کے ساتھ قادیان میں رہ کر اظہار رائے کیا ہے.وہ فی الحقیقت ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ اس سال کا ایک یادگار واقعہ سمجھا جائے گا.اخبار "وکیل" (امرتسر) اور اخبار مدینہ "بجنور " بھی اس کی تائید میں تھے.1+0

Page 170

" تاریخ احمدیت جلد ۴ 134 خلافت ثانیہ کا پہلا سال ان کے مقابل اخبار "کر زن گزٹ " (دہلی) " اہلحدیث " امرتسر اخبار "لمت " لاہور اور اخبار سرمۂ روزگار (آگرہ) نے مبایعین سے اتفاق رائے کا اظہار کیا."کر زن گزٹ " نے یہ لکھا کہ " I - " محمود احمد بجائے خود جوان صالح، واعظ.پڑھے لکھے اور وجیہہ شخص ہیں ان کی قابلیت کا ان کے مخالف بھی اعتراف کرتے ہیں اگر کوئی اعتراض ان پر ہے تو یہ ہے کہ سوائے مرزا غلام اللہ صاحب کے مریدوں کے یہ صاحبزادے دوسرے مسلمانوں کو کافر جانتے ہیں وہ جانا کریں.اس خیال سے ان کی جانشینی کو کوئی تعلق نہیں ہے.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حکیم نور الدین صاحب نے اپنی وصیت میں کوئی شرط ایسی لکھ دی ہے کہ وہ شخص مرزا صاحب کا جانشین ہو سکتا ہے جو اور مسلمانوں کو کا فرتونہ سمجھے بلکہ گمراہ خیال کرے.مرحوم نے تو صرف یہ بڑی شرط لگائی ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب کے دوستوں سے اخلاق اور رواداری کا برتاؤ کرے مرد صالح ہو اور لکھا پڑھا ہو " - اخبار اہلحدیث" نے لکھا.(۱) ابھی کل کا واقعہ ہے کہ قادیانی اخبار لکھا کرتے تھے کہ ہم ہی اہلسنت والجماعت ہیں.کیونکہ ہماری جماعت ایک امام کے ماتحت ہے سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی ان کے اس دعوے کی قدر بلکہ ضبط کرتے تھے.(۲) ہماری رائے مسئلہ خلافت کے متعلق یہ ہے کہ قوم کا امیر ہونا ضروری ہے جس قدر قانون اجازت دے اسی قدر میں امیر انتظام کا مجاز ہو.اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ امیر اہم معاملات میں مقطع بحث ہوا کرتا ہے.چنانچہ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد باوجود صدر انجمن احمدیہ کے مولوی نور الدین صاحب کا انتخاب اسی اصول سے ہوا تھا.رہا مسئلہ تکفیر مسلمانان - سو یہ بھی کوئی معقول وجہ نہیں.مولوی نور الدین صاحب کا نتوئی ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء کے الحام میں چھپا تھا.جس کا مطلب یہ تھا کہ مرزا صاحب کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سابقہ نبی کا انکار کرنا.اس دعوئی پر آیت قرآنی لا نفرق بین احد من رسلہ لکھی تھی.اس وقت کسی نے بھی اس فتوے کا مقابلہ نہ کیا نہ اس کو غلط کہا رہا مسئلہ کا اختلاف سو یہ بھی کوئی معقول بات نہیں.خلیفہ اور ماتحتوں کا اختلاف خلافت راشدہ میں بھی ہوتا تھا.حضرت ابو ذر ا کا قصہ مشہور ہے کہ باوجود زکوۃ دینے کے مال جمع کرنے والوں کو کافر کہتے تھے.حالانکہ تمام صحابہ خصوصاً خلفاء ان کے خلاف تھے.یہاں تک کہ ایک دفعہ حضرت عثمان کے سامنے ان کی سخت لڑائی ہوئی آخر کار خلیفہ نے ان کو شہر سے باہر چلے جانے کا حکم دیا.تو وہ با ہر دیہات میں جار ہے مگر اپنا مذ ہب نہیں چھوڑا.اس قسم کی صد ہا مثالیں ملتی ہیں.درس القرآن کا آغاز اب ہم اختلافات کی ابتدائی تاریخ سے فارغ ہو کر اس زمانے کے دوسرے اہم واقعات کی طرف آتے ہیں جہاں سے ہماری تاریخ ایک مستقل راستہ پر گامزن ہوتی ہے.۱۰۸

Page 171

تاریخ احمدیت جلد ۴ 135 خلافت ثانیہ کا پہلا ۱۷ مارچ ۱۹۱۴ء کا دن اس لحاظ سے نہایت مبارک ہے کہ اس روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے درس القرآن کا آغاز فرمایا.یہ درس جو مسجد اقصیٰ میں ہوتا تھا.سورہ مجادلہ سے شروع ہوا اور ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء میں الفضل میں بالاقساط چھپنے لگا.اور پھر " حقائق القرآن" کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو گیا اس درس کے بعد حضور نے سورہ فاتحہ سے درس دینا شروع کیا.جس کا ایک مکمل دور جون ۱۹۳۰ء میں ختم ہوا.اس کے علاوہ حضور نے بیرونی احباب کے لئے بعض خاص درس بھی ارشاد فرمائے.مثلاً (۱) جون ۱۹۱۷ ء میں قرآن کریم کے ابتدائی دس پاروں کا درس دیا.یہ درس ظہر سے عصر تک ہو تا تھا.۲۲ جون کو شروع ہوا اور ایک ماہ تک جاری رہا.(۲) یکم اگست ۱۹۲۲ء کو دوبارہ ابتدائی دس پاروں کا درس شروع فرمایا جو مہینہ بھر جاری رہا یہ درس بھی ظہر سے مغرب تک ہو تا تھا درس میں شامل ہونے والوں کے نام رجسٹر میں باقاعدہ درج ہوتے تھے.اور روزانہ ان کی حاضری ہوتی تھی درس قلمبند کرنے والے مجلین کہلاتے تھے.(۳) ۱۹۲۸ء میں حضور نے سورہ یونس سے سورہ کہف تک کا درس دیا.اس کا آغاز ۸/ اگست کو ہوا اور انتقام ۱۸ ستمبر کو.یہ درس بھی ظہر سے مغرب تک چار گھنٹہ روزانہ ہوا کرتا تھا.اس کے لئے بھی مجلین کی جماعت موجود رہتی.جسے درس کے وقت حضور کے قریب جگہ دی جاتی اور روزانہ ان کا امتحان بھی لیا جاتا تھا - (۴) ۱۹۳۸ء میں سورہ مریم سے سبا تک کا درس پہلے عورتوں میں پھر مردوں میں جاری ہوا.(۵) جولائی ۱۹۴۴ء میں حضور نے تیسویں پارے کا آغاز فرمایا اور پہلے ڈلہوزی میں سورہ النبا سے سورہ طارق تک پھر جنوری ۱۹۴۵ء میں قادیان میں سورہ اعلیٰ سے سورہ قدر تک اس کے بعد اگست ۱۹۴۵ء بمقام ڈلہوزی سورۃ البینہ سے سورہ الھمزہ تک اور ۱۹۴۸ ء میں بمقام کو ئٹہ سورہ الفیل سے سورہ کو ٹر تک کا درس دیا.(۶) ۱۹۴۹ء میں حضور نے کوئٹہ میں سورہ مریم کے ابتداء سے درس دینا شروع کیا اور اس کی تحمیل مسجد مبارک ربوہ میں فروری.مارچ ۱۹۵۳ء میں فرمائی.حضور کی مصروفیات حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی معمور الاوقات زندگی میں خلیفہ بننے کے بعد مصروفیات کا زبردست اضافہ ہو گیا تھا.آپ اول وقت نماز صبح پڑھاتے.پھر درس دیتے پھر بارہ بجے تک ڈاک دیکھتے.اور جوابات وغیرہ کے لئے ہدایات دیتے اور دیگر مہمات خلافت انجام دیتے عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں حقائق و معارف سے لبریز درس عام ہو تا شام کے وقت مجلس عرفان ہوتی.جس میں عجیب عجیب نکات معرفت بیان فرماتے.حضور نے اپنی ایک ابتدائی مجلس میں یہ نکتہ بیان فرمایا کہ غیر مبالغ بار بار " شاورهم فی الامر " کی طرف توجہ دلاتے ہیں میں مشورہ تو کرتا ہوں.مگر اس مشورہ کا لازمی طور سے پابند ہونا تو کہیں نہیں لکھا.بلکہ اس

Page 172

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 136 خلافت ثانیہ کا پہلا سال آیت کے ساتھ فاذا عزمت فتوكل على الله لکھا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ مشورہ لو پھر جو مناسب ہو اس پر کار بند ہونے کا عزم کر لو اور اللہ تعالٰی پر بھروسہ رکھو.اس پر غور کرنے سے نماز میں مجھے توجہ دلائی گئی کہ میرا نام خدا نے اولو العزم رکھا ہے اور معترضین کو پہلے ہی جواب دے دیا ہے.حضور عشاء کے بعد بھی دیر تک دینی کاموں میں مصروف رہتے.پھر آرام فرماتے اور تجد کے وقت اٹھ کر اپنے مولیٰ کے حضور اسلام اور جماعت کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے چنانچہ فرماتے ہیں.تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے.مگر ان (غیر مبایعین - ناقل) کے لئے نہیں ہے ".الله اگر چہ حضور خلیفہ بنے سے پہلے بھی بیماری میں خدمت دین کی دیوانہ وار جد و جہد اکثر بیمار رہتے تھے لیکن اس بلند مبایعین منصب پر فائز ہونے کے بعد تو صحت پر بہت زیادہ اثر پڑا.ان دنوں آپ اتنے دبلے پتلے تھے کہ غیر کا ایک اعتراض یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ خلیفہ تو کوئی موٹا فربہ شخص ہونا چاہئے.لیکن چونکہ آپ کے لئے اولوالعزمی سے آگے ہی آگے بڑھنا مقدر ہو چکا تھا اس لئے اس وقت بیماریاں آپ کی تیز روی میں روک نہیں ہو سکیں.آپ " منصب خلافت میں فرماتے ہیں.جب کل میں نے درس میں ان دوستوں کو دیکھا تو میرا دل خداتعالی کی حمد اور شکر سے بھر گیا کہ یہ لوگ ایسے شخص کے لئے آئے ہیں جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ چالباز ہے اور پھر میرے دل میں اور بھی جوش پیدا ہوا.جب میں نے دیکھا کہ وہ میرے دوستوں کے بلانے ہی پر جمع ہو گئے ہیں.اس لئے آج رات کو میں نے بہت دعائیں کیں اور اپنے رب سے یہ عرض کیا کہ الہی میں تو غریب ہوں میں ان لوگوں کو کیا دے سکتا ہوں.حضور آپ ہی اپنے خزانوں کو کھول دیجئے".الخ ( صفحہ ۲-۳) حضور کے زمانہ خلافت کی حضرت امیرالمومنین کی ملاقات اور ڈاک کا انتظام ابتداء میں ملاقات کی غرض سے آنے والوں کے لئے کوئی مخصوص و مستقل عمارت نہیں تھی نمازوں اور درس کے مواقع پر بھی شرف ملاقات حاصل کیا جاتا تھا اور اس بالا خانے پر بھی جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی موجودہ بیٹھک کے اوپر تھا جہاں لکڑی کی سیڑھیاں رکھی ہوتی تھیں اس کے علاوہ گول کمرہ میں جہاں کئی سال تک آپ کا دفتر بھی رہا اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں - ۱۹۲۶۲۷ء کے قریب آپ کے مکان سے متصل قصر خلافت تعمیر کیا گیا.جس میں آنے والوں سے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں اور آپ کا دفتر بھی

Page 173

تاریخ احمد بیت ، جلد ۴ 137 خلافت ثانیہ کا پہلا سال اس میں منتقل کر دیا گیا جو ۷ ۱۹۴ء کی ہجرت تک برابر قائم رہا.اسی طرح شروع میں دفتر پرائیوٹ سیکرٹری کے نام سے کوئی الگ شعبہ بھی موجود نہیں تھا تا ہم حضور کی ڈاک اور ملاقات کے انتظام کے لئے حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلال پوری " افسر ڈاک " مقرر ہوئے آپ کی اعانت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بھی فرماتے تھے.حضرت پیر افتخار احمد صاحب بطور محرر کام کرتے تھے.حضرت پیر صاحب امیر المومنین کی ڈاک کی خدمت جولائی ۱۹۲۶ء تک انجام دیتے رہے اور ساٹھ سال کی عمر میں اس سے ریٹائر ہوئے.دفتر ڈاک میں مخط و کتابت پر جو اخراجات ہوتے وہ میزان کے بعد صیغہ بیت المال سے ادا کئے جاتے.بالفاظ دیگر دفتر ڈاک بیت المال کی ایک مد میں شامل تھا.لیکن جب کام بڑھ گیا تو یکم مارچ ۱۹۱۸ء سے دفتر ڈاک کا مستقل صیغہ قائم کیا گیا.اس نئے انتظام میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیز افسر ڈاک مقرر ہوئے اور حضرت پیر صاحب کے ساتھ امیر احمد صاحب قریشی بطور دفتری لگائے گئے.حضرت ماسٹر عبد الرحیم صاحب نیر کی بیماری کے باعث ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء میں ماسٹر علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی افسر ڈاک مقرر ہوئے.فروری ۱۹۲۰ء میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو (جو اس وقت مولوی رحیم بخش صاحب کے نام سے یاد کئے جاتے تھے ) یہ ذمہ داری سپرد ہوئی اور انسی کے زمانہ سے افسر ڈاک کو پرائیوٹ سیکرٹری کے نام سے موسوم کیا جانے لگا.مولانا عبد الرحیم صاحب درد ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۴ء تک اس عمدہ پر ممتاز رہے ان کے بعد جن اصحاب نے یہ خدمت انجام دی ان کے نام یہ ہیں.صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے (۱۹۲۵ء تا ۱۹۲۶ء) شیخ یوسف علی صاحب بی.اے (۱۹۲۷ء تا ۱۹۳۴ء) حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۳۵ (۱۹۳۵ء تا ۱۹۳۶ء) شیخ یوسف علی صاحب بی.اے (۱۹۳۷ء تا ۱۹۳۸ء) ملک صلاح الدین صاحب ایم اے (فروری ۶۱۹۳۸ تا ۱۵ / اپریل ۱۹۴۰ء) مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے (اپریل ۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۳ء) چوہدری مظفر الدین صاحب بی.اے (۱۹۴۴ء تا ۱۹۴۶ء) خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب لاہور ( از مارچ ۱۹۴۷ء تا ۱۸ / جولائی ۱۹۵۱ء) مولوی عبدالرحمن صاحب انور (۱۸/ جولائی ۱۹۵۱ء تا ۲ / فروری ۱۹۵۷ء) کیپٹن ملک خادم حسین صاحب (۲) فروری ۱۹۵۷ء تا ۱۵/ جنوری ۱۹۵۸ء) شیخ مبارک احمد صاحب (۱۶/ جنوری ۱۹۵۸ء تا ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۸ء)

Page 174

اریخ احمدیت.جلد ۴ 138 میاں محمد شریف صاحب اشرف (۲۴/ ستمبر ۶۱۹۵۸ تا ۸ / جنوری ۱۹۶۲ء) خلافت امید کا پہلا سال جنوری ۱۹۶۲ء سے اس وقت تک جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیوٹ سیکرٹری کے منصب پر فائز ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ حضرت خلیفہ ثانی کے ایمان افروز خطبات جمعہ تعالٰی نے اپنے زمانہ خلافت میں پہلا خطبه ۲۰ مارچ ۱۵ ۱۹۱۴ ء کو ارشاد فرمایا.اس مبارک دن سے لے کر ۱۴ / اپریل ۱۹۵۹ء تک (جو موجودہ بیماری کے پر ابتلاء دور کا آخری خطبہ جمعہ ہے) حضور کے خطبات کا عظیم الشان سلسلہ جاری رہا ہے.ولعل الله يحدث بعد ذالک امراء یہ خطبات جو اپنے مضامین کی وسعت اور ہمہ گیری کے اعتبار سے زندگی کے ہراہم شعبہ پر حاوی ہیں.زبر دست روحانی اور تربیتی درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں.ان خطبات نے قدم قدم پر جماعت کی رہنمائی کی ہے اور جماعت کی موجودہ علمی و عملی ترقی میں اس کا بھاری عمل دخل ہے اور ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ آج سلسلہ کی کوئی قابل ذکر تحریک ایسی نہیں جس کے لئے حضور کے خطبات میں معین ، مفصل اور واضح ہدایات موجود نہ ہوں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہ خطبات جو حضور نے قادیان یا ربوہ میں دئے.ان کا معتدبہ حصہ ضبط تحریر میں آچکا ہے اور قریباً چھپ بھی چکا ہے.اس قیمتی خزانے کے محفوظ کرنے میں جناب خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی سابق ایڈیٹر الفضل) اور مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مولوی فاضل انچارج شعبہ زود نویسی) کی خدمات جلیلہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں.ابتداء زمانہ خلافت کے اکثر و بیشتر خطبات (بلکہ تقاریر بھی) جناب خواجہ غلام نبی صاحب کے مرتب کئے ہوئے ہیں.ان کے بعد مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مولوی فاضل نے ۱۹۳۱ء سے خطبے اور تقاریر لکھنا شروع کیں اور اپنے فن میں ترقی کرتے کرتے اتنا کمال پیدا کیا کہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا." عملی طور پر صرف مولوی محمد یعقوب صاحب ہی اس وقت سب کام کر رہے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے قدرتی طور پر زور نویسی کا ملکہ عطا کیا ہوا ہے اور جو اکثر خطبات اور ڈائریاں وغیرہ صحیح لکھتے ہیں ان کے لکھے ہوئے مضمون کے متعلق میراز ہن یہ تو تسلیم کر سکتا تھا کہ کسی بات کے بیان کرنے میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہے مگر میرا ذہن یہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا کہ انہوں نے کسی بات کو غلط طور پر تحریر کیا ہے" خلافت ثانیہ کے اوائل میں تقریر و تحریر کے اوائل خلافت ثانیہ کے تین ممتاز مجاہد اریہ سے احمدیت کی حقیقی شکل ظاہر کرنے

Page 175

تاریخ احمد بیت.جلد ۴ 139 خلافت ثانیہ کا پہلا سال کے لئے جن بزرگوں نے تبلیغی جہاد کیا ان میں حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت میر محمد اسحق صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل سر فہرست ہیں.چنانچہ سید نا حضرت امام ہمام ایده اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.حافظ روشن علی صاحب مرحوم - میر محمد الحق صاحب اور مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم ان میں سے ایک (یعنی حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب) کتابوں کے حوالے یاد رکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد الحق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اول ان کی زندگی میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی.میر محمد الحق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب کو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے.مگر لوگ زیادہ تریبی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آجاتا ہے.مگر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا " - ۱۹۱۴ء کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے ۰ ۲۱ / مارچ مو جبکہ قیام خلافت پر صرف ایک ہی ہفتہ گزرا تھا.آپ نے روح القدس کی تائید سے ایک زبر دست اشتہار جس کا عنوان تھا.”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.شائع فرمایا.یہ بارہ صفحوں کا اشتہار کیا تھا گویا صور اسرافیل تھا جس کی آواز نے مردہ دلوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی.جماعتوں کی طرف سے بیعت کے تاروں اور خطوط کا تانتا لگ گیا.اس اشتہار میں منکرین خلافت کے اہم اعتراضوں اور وسوسوں کی حقیقت اچھی طرح کھول دی گئی تھی.سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا تھا کہ آپ نے ایک بہت بڑی سازش کے ذریعہ خلافت حاصل کی ہے.حضور نے اس کے جواب میں حلفا لکھا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی انسان سے خلافت کی تمنا نہیں کی اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ وہ مجھے خلیفہ بنادے یہ اس کا اپنا فضل ہے یہ میری درخواست نہ تھی.میری درخواست کے بغیر یہ کام میرے بسپرد کیا گیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں...میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کیونکر پسند آ گیا.لیکن جو کچھ بھی ہو اس نے مجھے پسند کر لیا.اور اب کوئی انسان اس کر تہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا.جو اس نے مجھے پہنایا ہے ".

Page 176

تاریخ احمدیت جلد ۴ 140 خلافت ثانیہ کا پہلا سال اس کے علاوہ مذکورہ بالا اشتہار میں حضور نے اللہ مظفرہ منصور ہونے کی الہامی بشارت تعالی سے الہانا خبر پا کر مخالفوں کے مقابلہ میں اپنے کامیاب و کامران ہونے کا اعلان بھی فرمایا.جیسا کہ فرماتے ہیں.فتنے ہیں اور ضرور ہیں مگر تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رسی میں جکڑ چکے ہو خوش ہو جاؤ کہ انجام تمہارے لئے بہتر ہو گا.تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہو گئے اور اس کے فضل کی بارشیں انشاء اللہ تعالٰی تم پر اس زور سے برسیں گی کہ تم میران ہو جاؤ گے.میں جب اس فتنہ سے گھبرایا اور اپنے رب کے حضور میں گرا تو اس نے میرے قلب پر یہ مصرعہ نازل فرمایا.ع شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعل ہے بدل" اتنے میں مجھے ایک شخص نے جگادیا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا.مگر پھر مجھے غنودگی آئی اور میں اس غنودگی میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے."کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ دوسرا مصرعہ الہامی تھا یا بطور تفہیم تھا.پھر کل بھی میں نے اپنے رب کے حضور میں نہایت گھبرا کر شکایت کی کہ مولیٰ میں ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں.جو میرے برخلاف کی جاتی ہیں اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضور ہی کے اختیار میں ہے.اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کر سکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی نسبت بتایا گیا کہ یمز قنهم یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلا ہیں لیکن انجام بخیر ہو گا.مگر یہ شرط ہے کہ تم اپنی دعاؤں میں کو تاہی نہ کرو.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ بعض " بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے".پس خدا کے حضور میں گر جاؤ تاکہ تم ان چھوٹوں میں داخل کئے جاؤ جنہوں نے بڑا ہوتا ہے".بہت سے احباب خطوط کے ذریعے پوچھتے تھے کہ انجمن کو چندہ بھیجیں یا ایک ضروری اعلان نہیں؟ حضور نے ان کی اطلاع کے لئے اپریل ۱۹۱۴ء کے پہلے ہفتہ میں اعلان فرمایا کہ چندے برابر صدر انجمن میں آنے چاہئیں.ہاں چونکہ ابھی تک مجھے اطمینان نہیں کہ انجمن اس موجودہ فتنہ میں کیا حصہ لے گی.اس لئے مناسب خیال کرتا ہوں کہ انجمن کے سب چندے میری معرفت ارسال ہوں میں انہیں خزانہ انجمن داخل کر کے انجمن کی رسید بھجوادوں گا.دوسری بات آپ نے یہ لکھی کہ آئندہ انجمن کے چندوں کے علاوہ کوئی چندہ آپ اس وقت تک نہ دیں جب تک کہ میری طرف سے اجازت شائع نہ ہو.یہ تجویز ایک رڈیا کی بناء پر تھی جو آپ نے ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء کو دیکھی تھی.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے لکھ لی تھی.چند ماہ بعد جب جماعت کا اکثر

Page 177

تاریخ احمدیت جلد ۴ 141 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حصہ ایک مسلک میں منسلک ہو گیا.تو آپ نے ایک دوسرے اعلان کے ذریعہ سے احباب کو اطلاع دی کہ وہ اپنے چندے حسب دستور براہ راست صد را مجمن احمدیہ کو بھیج سکتے ہیں.خلافت ثانیہ کے عمد میں صدرانجمن احمدیہ کا پہلا اجلاس / اپریل ۱۹۱۳ء کو ۱۰ عهد خلافت ثانیه میں صدر انجمن احمدیہ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا.صدارت کے فرائض حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے انجام دیئے.دوسرے شامل ہونے والے ممبروں کے نام یہ ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب ، حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہوی ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب جناب شیخ رحمت اللہ صاحب، جناب مولوی صدرالدین صاحب (سیکرٹری مجلس) اس اجلاس میں مختلف نوعیت کے بتیس معاملات پیش ہوئے جن میں سے بعض اہم امور کا ذکر کیا جاتا ہے.(۱) جناب مولوی محمد علی صاحب افسر اشاعت اسلام کی رپورٹ پر ترجمتہ القرآن کے ٹائپ کئے ہوئے مسودہ کو اصل سے مقابلہ کرنے کے لئے اسٹنٹ مینیجر اشاعت اسلام کو دفتر میگزین سے فارغ کیا گیا اور اس کی جگہ ایک نئے محرر کی منظوری دی گئی (۲) ایک انگریز نومسلم ( شیخ عبدالرحمن ) کے لئے جو ان دنوں قادیان میں تھا، وظیفہ مقرر کیا گیا.(۳) نئے وصایا کے ٹیفکیٹ جاری کرنے کی منظوری دی گئی.(۴) حضرت مولوی شیر علی صاحب نے از خود ولایت جانے کے لئے چھٹی کی درخواست دے رکھی تھی جو منظور ہو چکی تھی مگر مرکزی ضرورت کے پیش نظر کثرت رائے سے ان کی رخصت منسوخ کر دی گئی اور فیصلہ ہوا کہ انجمن کا کوئی ریزولیوشن نہیں ہے جس میں اس نے مولوی شیر علی صاحب کو ولایت جانے کے لئے حکم دیا ہو.یہ ان کا پرائیویٹ معاملہ ہے اسی اجلاس میں حضرت خلیفۃ ایج اول مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی بیماری کے اخراجات کی بھی منظوری ہوئی اور آپ کے اہل بیت IT اور دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے وظائف مقرر ہوئے.DAND عہد خلافت ثانیہ کی پہلی شوری ۱۲/ اپریل ۱۹۱۴ء کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کے ارشاد پر تبلیغ و اشاعت اسلام کے معاملہ پر غور کرنے کے لئے مسجد مبارک میں ملک بھر کے احمدی نمائندوں کی مجلس شوری ہوئی.باہر سے شامل ہوتے والے نمائندوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد تھی.منتظم خلیفہ رشید الدین صاحب تھے.سات بجے صبح شوری کا پہلا اجلاس شروع ہوا پہلے میر قاسم علی صاحب نے پیر منظور محمد صاحب کا ایک مضمون (جو تشعید الا زبان مئی ۱۹۱۴ء میں بھی شائع ہو گیا ہے ) سنایا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح

Page 178

تاریخ احمد بیست - جلد ۴ 142 خلافت میانیہ کا پہلا سال الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہی مصلح موعود ہیں اس کے بعد حضرت امیر المومنین بیت الدعاء میں دعا کرنے کے بعد تشریف لائے اور پونے نو بجے سے سوا گیارہ بجے تک ایک پُر معارف خطاب فرمایا.(اس کا مفصل ذکر آگے آرہا ہے) نماز ظہر کے بعد حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی کی صدارت میں دو سرا اجلاس ہوا جس میں مندرجہ ذیل قرار دادیں پاس ہو ئیں.| ICA (۱) ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کے لئے واعظ بھجوائے جائیں.اور ان کے اخراجات صدرانجمن کی مد اشاعت اسلام سے دیئے جائیں.(۲) صدر انجمن احمدیہ کا قاعدہ نمبر ۱۸ یہ تھا کہ " ہر معاملہ میں مجلس معتمدین اور اس کے ماتحت مجلس یا مجالس اگر کوئی ہوں اور صدرانجمن احمد یہ اور اس کی کل شاخہائے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم قطعی اور ناطق ہو گا ".دوسری قرار داد میں پاس ہوا کہ اس میں ترمیم کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بجائے حضرت خلیفتہ الصحیح مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی کے الفاظ درج کئے جائیں.نیز قرار پایا کہ یہ ریزولیوشن حضرت نواب محمد علی خان صاحب ، حضرت سید محمد احسن صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ذریعہ سے پیش ہو.بعد میں بیرونی جماعتوں کے قریباً چوتھائی اصحاب نے بھی اس کی پر زور تائید کی اور اپنے دستخطوں سے درخواستیں بھجوائیں کہ انجمن بھی اسے منظور کرے.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ نے ۲/ اپریل ۱۹۱۴ء کے اجلاس میں کثرت رائے سے اس ترمیم کی منظوری دے دی.۱۵۰-۱۳۹ (۳) ہر ضلع میں سے چند طلباء مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پانے کے لئے بھیجے جائیں.(۴) واعظین کا خرچ براہ راست انجمن معتمدین کے ذریعہ سے دیا جائے نہ کہ بیرونی جماعتوں کے ہاتھ سے.(۵) زکوۃ کی وصولی کے لئے جماعت کے سیکرٹری اصحاب نصاب کی فہرست مرتب کریں اور وصولی کی فکر کریں.اس مد کار و پیه نیز اشاعت اسلام کا روپیه حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں براہ راست آنا چاہئے.(۲) تعلیم عامہ کی اشاعت کے لئے جہاں جہاں ممکن ہو مدارس اور احمد یہ ہوسٹل کھولے جائیں اس سلسلہ میں حتی الوسع سرکاری امداد قبول نہ کی جائے.

Page 179

تاریخ احمدیت ، جلد ۴ 143 کا پہلا سال (۷) دار الامان میں کالج کے قیام کی تجویز ایک بورڈ کے سپرد کی جائے جس کے ممبر زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قدیم طلباء اور ماہر تعلیم اصحاب ہوں.اس اجلاس کے وقت حضرت اقدس کے حکم سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب سیکرٹری تھے.یہ اجلاس نماز عصر تک جاری رہا.اور اس پر شوری کی کارروائی ختم ہوئی 121 ۱۲ / اپریل کی شورٹی میں زیر غور آنے والی تجاویز کو عملی جامہ انجمن ترقی اسلام کی بنیاد بنانے کے لئے حضور نے ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام اپنے ایک رڈیا کی بناء پر انجمن ترقی اسلام" رکھا اور اس کے لئے یہ ممبر نامزد فرمائے.قمر الانبیاء حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب.حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب.حضرت سید حامد شاہ صاحب - حضرت مولانا شیر علی صاحب.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن - حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدرای ۱۵۳ - اس انجمن کے سیکرٹری حضرت مولوی شیر علی صاحب تھے.دعوت الی الخیر فنڈ کا روپیہ بھی اس انجمن کے نام منتقل کر دیا گیا.یہ انجمن اپنے نام کی طرح خدا کے فضل سے اسلام کی ترقی اشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی بر صغیر پاک وہند کی اسلامی تاریخ میں اس انجمن کا نام ہمیشہ قائم رہے گا.یہی وہ بابرکت ادارہ تھا.جس نے ایک عرصہ تک دنیا میں تبلیغ اسلام کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھی.یہاں تک کہ پہلے صد را انجمن احمدیہ اور پھر ۱۹۴۵ ء میں تحریک جدید نے بین الا قوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا.حضرت فضل عمر خلیفہ ثانی ایده تبلیغ اسلام کے لئے عالمگیر نظام قائم کرنے کا اعلان اللہ تعالی نے شوری کے سامنے منصب خلافت" کے موضوع پر معرکتہ الآراء تقریر فرمائی.اور ابراہیمی دعا و ابعث فيهم رسولا الخ کی روشنی میں نہایت لطیف پیرائے میں مقام خلافت، فرائض خلافت اور تزکیہ نفوس کے طریق پر روشنی ڈالی.اور خلافت اور انجمن سے متعلق مسائل پر سیر حاصل بحث کی اور فرمایا." پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے.اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں

Page 180

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 144 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اسی جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں.میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش انس اسلام کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پرانا رہا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں.آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے جو اس نے مجھے دکھایا.اس کو دیکھ کر میں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھا دے گا اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے.کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے.وہ میرا ہی کام ہو گا ".پھر اپنی تبلیغی سکیم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا.میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں.تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کر سکیں اور اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے.غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں.میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا......پس میرے دوستو اروپیہ کے معاملے میں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں وہ آپ سامان کرے گا.آپ ان سعادت مند روحوں کو میرے پاس لائے گا.جو ان کاموں میں میری مدد گار ہوں گی.میں خیالی طور پر نہیں کامل یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ ان کاموں کی تکمیل و اجراء کے لئے کسی محاسب کی تحریکیں کام نہیں دیں گی.کیونکہ اللہ تعالٰی نے مسیح موعود سے خود وعدہ کیا ہے کہ ینصرک رجال نوحی اليهم.تیری مدوده لوگ کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے.....پس خدا آپ ہی ہمارا محاسب اور محصل ہو گا اس کے پاس ہمارے سب خزانے ہیں.پھر ہمیں کیا فکر ہے ہاں ثواب کا ایک موقعہ ہے مبارک وہ جو اس سے فائدہ اٹھاتا ہے"

Page 181

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 145 خلافت ثانیہ کا پہلا سال مولوی محمد علی صاحب کو قادیان چھوڑنے سے باز رکھنے کی کوشش حضرت بہ خليفة المسيح الثانی ایدہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں.”قادیان کی جماعت میں سے سب کے سب سوائے چار پانچ آدمیوں کے میری بیعت میں شامل تھے اور اب قادیان میں کسی کامیابی کی امید یہ لوگ دل سے نکال بیٹھے تھے...مولوی محمد علی صاحب کے قادیان سے جانے کے لئے عذر تلاش کئے جانے لگے اور آخر ایک دن مجھے اطلاع دی گئی کہ مولوی صاحب جمعہ کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے کہ تین چار بچوں نے (جو پانچ سات سال کی عمر کے تھے) ان پر کنکر پھینکنے کے ارادہ کا اظہار کیا.میں نے اس پر درس کے وقت سب جماعت کو سمجھایا کہ گو بچوں نے ایسا ارادہ ظاہر کیا ہے.مگر پھر ایسی بات سنی گئی.تو میں ان کے والدین کو ذمہ دار قرار دوں گا اور سختی سے سزا دوں گا.بعد میں میں نے سنا کہ مولوی محمد علی صاحب کو یہاں خوف ہے اس لئے وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں.میں نے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو ایک خط لکھ کر دیا کہ آپ مولوی محمد علی صاحب کے پاس جاویں اور ان کو تسلی دیں کہ آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں.میں آپ کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور آپ قادیان نہ چھوڑیں.خط میں بھی اسی قسم کا مضمون تھا.خط کا جواب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ یہ کب ہو سکتا ہے کہ میں قادیان چھوڑ دوں.میں تو صرف گرمی کے سبب پہاڑ پر ترجمہ قرآن کا کام کرنے کے لئے جاتا ہوں.اور اس کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی زندگی ہی میں میں نے انجمن سے رخصت لے رکھی تھی.اور میرا شکریہ بھی ادا کیا کہ میں نے ان کی ہمدردی کی میں نے صرف اس قدر کافی نہ سمجھا.بلکہ اس کے بعد ان سے اس مضمون کے متعلق زبانی گفتگو کرنے کے لئے خود ان کے گھر پر گیا.میرے ہمراہ خان محمد علی خاں صاحب اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب تھے جب ہم وہاں پہنچے تو ابتد اگر کچھ ذکر ترجمہ قرآن کے متعلق ہوا.اس کے بعد میں نے اس امر کے متعلق کلام کا رخ پھیرا جس کے لئے میں آیا تھا.کہ فورا مولوی محمد علی صاحب نے ایک شخص...میاں بگا کو آواز دی کہ ادھر آؤ اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں.جب میں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب میاں بگا سے کلام ختم نہیں کرتے تو ناچار اٹھ کر چلا آیا.اس کے بعد مولوی صاحب قادیان سے چلے گئے اور قریباً تین ہزار روپیہ کا سامان کتب و ٹائپ رائٹر وغیرہ کی صورت میں ترجمہ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے " - الخ (یہ ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ ء کا واقعہ ہے).....to ۱۳/ اپریل ۱۹۱۴ء کو پشاور مشن ایک فاضل مسیحی سے گفتگو اور اس کا قبول اسلام کے ایک فاضل سیمی رجنہیں

Page 182

تاریخ احمدیت جلد ۴ لیا.یہ 146 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال بائبل پر حیرت انگیز دستگاہ تھی اور لاطینی اور عبرانی کے بھی خوب واقف تھے) قادیان آئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کئی روز تک ان سے تبادلہ خیالات فرماتے رہے.حضور نے ان کے سوالوں کے ایسے تسلی بخش جوابات دیئے کہ بالآخر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر -- یہ صاحب شیخ عبد الخالق صاحب تھے جنہوں نے بعد کو تقریری اور تحریری طور پر عیسائیت کے رو اور اسلام کی تائید میں خوب کام کیا.آخری عمر میں سالہا سال تک دار الواقفین اور جامعتہ المبشرین کے طلباء کو پڑھاتے بھی رہے.عیسائی ہونے کے ایام میں ان کی زندگی نہایت آرام میں گزرتی تھی.کیونکہ ان کو اچھی تنخواہ ملتی تھی.لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد باوجود اس کے کہ عیسائیوں کی طرف سے ان کو بہت کچھ لالچ دیا گیا وہ واپس نہیں گئے اور قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ گئے اور استقامت کا ایک بے نظیر نمونہ دکھایا.جماعتی انتظام چلانے کے لئے نئے کارکنوں کا تقرر انجمن کے کچھ نمبروں کی خلافت سے علیحدگی اور بعض دو سرے وجوہ کی بناء پر جماعتی نظم و نسق چلانے کے لئے بھاری تبدیلی کرنی پڑی.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹرکی اور افسر اشاعت اسلام مولوی شیر علی صاحب لمقرر ہوئے.حضرت مولوی محمد الدین صاحب ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بنا لئے گئے.بیت المال اور لنگر خانہ کا انتظام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے سپرد ہوا.مدرسہ احمدیہ کی نظامت اور اخبار " الفضل " کی ادارت قمر الا نبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو سونپی گئی.آپ ہائی سکول کے سٹاف میں بھی شامل کئے گئے اور پھر جلد ہی ریویو آف ریلیجز کی ادارت کے فرائض بھی انجام دینے لگے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب ( بحیثیت علماء سلسلہ) اور چوہدری نصر اللہ خان صاحب (مشیر قانونی کی حیثیت سے) مجلس معتمدین کے ممبر نامزد ہوئے اور حضرت میر ناصر نواب صاحب سب کمیٹی تعمیر کے سیکرٹری !! ایک پُر شوکت مکتوب انہی دنوں حضور نے اپنے قلم سے بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر کے نام سیالکوٹ کے پتہ پر ایک پُر شوکت مکتوب تحریر فرمایا جس میں آپ نے اس وقت کے پیش آمدہ حالات کو نہایت درد انگیز الفاظ میں لکھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت پر رحم فرمائے یہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں.خدا کے کام کوئی نہیں روک سکتا.اور کوئی نہیں روک سکتا.اگر میرا قیام خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے.اور مجھے اس کے فضل سے یقین ہے کہ ایسا ہی ہے تو یہ لوگ خواہ کس قدر ہی مخالفت کریں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناکام و نامراد

Page 183

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 147 خلافت ثانیہ کا پہلا سال رہیں گے.خود ارایه کام کوئی نہیں روک سنگا ان کو گی نہیں رکے اردک ملنا اگر میرا نام امد ما خد ا ا ا ا ا ا ا ایرانی است ہے اور یو ای کے نام سے یقینی ہے کہ یہ یہی ہے تو یہ اور خدا و تقدیر و یا افت کریں اللہ تھی لے لیا فصل لیے ناکام ونامزاور نیلے افسوس کہ وہ تلوار جو غیروں پر چلنی تھی اپنوں پر چلانی پڑی.اور وہ زور جو غیروں کے مقابلہ پر خرچ کرنا تھا اپنوں پر خرچ کرنا پڑا.بہتر ہو تا اگر یہ نہ ہوتا.مگر اللہ تعالیٰ کے نشانات کیونکر ظاہر ہوتے.کس طرح ہو سکتا تھا کہ سوئی ہوئی جماعت پھر جاگتی.اگر اس طرح شور نہ پڑتا...سب احباب کو تاکید کریں کہ دعاؤں سے کام لیں اور نفسانیت کو ترک کر دیں ایسا نہ ہو کہ ہماری غلطیوں سے خدا کے فضل کے دروازے بند ہو جائیں جس قدر جانیں ہو سکیں بچانے کی کوشش کریں.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے ساتھ ہو.خاکسار مرزا محمود احمد" احمدیہ دار التبلیغ لنڈن حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اس پہلے بیرونی مشن کی بنیاد گو جولائی ۱۹۱۳ء میں رکھ چکے تھے لیکن اس کا مستقل اور ممتاز صورت میں قیام دراصل اپریل ۱۹۱۴ میں ہوا.جب کہ آپ دو کنگ چھوڑ کر لندن تشریف لے آئے.اور یہاں کرائے کے ایک مکان کو مرکز بنا کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا.پہلا شخص جو آپ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوا ایک صحافی کو ریو (MR.CORIO نامی تھا.چودھری صاحب کی واپسی تک

Page 184

تاریخ احمدیت جلد ۴ 148 خلافت ثانیہ کا پہلا سال (جو مارچ ۱۹۱۶ ء میں ہوئی) قریباً ایک درجن انگریز مسلمان ہو چکے تھے.مشن کے اس ابتدائی دور میں آپ کی تبلیغ زیادہ تر لیکچروں کے ذریعہ ہوئی.جو انہوں نے مختلف کلبوں اور سوسائٹیوں میں دیئے.۶ ستمبر ۱۹۱۵ء کو حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی ٹی انگلستان تشریف لے گئے حضرت قاضی صاحب پورے چار سال تک وہاں اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہے.پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے آپ کو کئی پریشانیوں اور تکالیف کا سامان بھی کرنا پڑا.مگر آپ نے لٹریچر اور خطوط کے ذریعہ سے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں.آپ ابھی انگلستان ہی میں تھے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ۱۰ مارچ ۱۹۱۷ء کو روانہ ہو کر اپریل ۱۹۱۷ ء میں ساحل انگلستان پر قدم رکھا.حضرت مفتی صاحب یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے اور حضرت قاضی صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد ۱۹۲۰ء کے شروع میں امریکہ تشریف لے گئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چودھری فتح محمد صاحب سیال حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے ساتھ دوبارہ ۱۵/ جولائی ۱۹۱۹ء کو عازم انگلستان ہوئے اور ۶ / اگست ۱۹۱۹ء کو لندن پہنچے.چودھری صاحب نے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبلیغ کے کام میں اور زیادہ وسعت دی اور مسجد کے لئے بڑی جدوجہد کے بعد لندن کے محلہ پیٹی ساؤتھ فیلڈ میں ایک یہودی سے زمین کا ایک قطعہ مع مکان بائیس سو تئیس پونڈ میں خرید لیا.یہ اگست ۱۹۲۰ء کا واقعہ ہے اسی ماہ مولوی مبارک علی صاحب بی.اے بنگالی قادیان سے انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.اور ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۰ء کو لندن پہنچے.چند ماہ بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر فروری ۱۹۲۱ء میں نائجیر یا روانہ ہو گئے اور چوہدری صاحب مولوی مبارک علی صاحب کو چارج دے کر ستمبر ۱۹۲۱ء میں قادیان واپس آگئے.اس کے جلد بعد ہی مولوی مبارک علی صاحب برلن چلے گئے.آپ کے بعد سردار مصباح الدین صاحب (حضرت مولانا نیر صاحب کی واپسی انگلستان تک) مشن کے انچارج رہے اور قریباً سوا دو سال کے بعد ۲۴ / نومبر ۱۹۲۴ء کو حضرت مصلح موعود کے مقدس قافلہ کے ساتھ قادیان آئے آپ قادیان سے اگست ۱۹۲۲ء میں ولایت گئے تھے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے میرالیون گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائجیریا مشن قائم کرنے کے بعد واپس آکر لندن مشن کا چارج لے لیا.11 مئی ۱۹۲۴ء کو جناب ملک غلام فرید صاحب ایم اے (جو د سمبر ۱۹۲۳ء میں برلن روانہ کئے گئے تھے ) لندن آگئے اور حضرت نیر صاحب کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے دور میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے اور اپنے دست مبارک سے ۹ار

Page 185

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 149 خلافت ثانیہ کا پہلا سال اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا.حضرت اقدس کے وجود باجود سے لندن مشن کو عالمگیر شہرت حاصل ہو گئی اور لندن کی مذہبی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا.حضرت اقدس نومبر ۱۹۲۴ء کو اپنے قافلہ کے خدام نیز حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو ساتھ لے کر واپس تشریف لے آئے اور مشن کے انچارج حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب (سابق رحیم بخش صاحب) در داوران کے نائب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے مقرر ہوئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے تقرر کے ساتھ ہی رسالہ ” ریویو آف ریلیجر " قادیان کی بجائے لندن سے نکلنے لگا اور تبلیغ کے ساتھ آپ کی ادارتی ذمہ داریوں کا بھی اضافہ ہو گیا مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا تھا.مولانا درد صاحب نے اس کی تکمیل کی طرف توجہ دی.چنانچہ آپ نے ۱۹۲۵ء میں چند دوستوں کے ساتھ دعائیں کیں اور مسجد کی بنیاد میں کھودی گئیں اور اس کی تعمیر ایک انجینئر نگ کمپنی کو سپرد کر دی گئی.مسجد کی تکمیل ۱۹۲۶ء میں ہوئی اور اس کا افتتاح ۳ور اکتوبر ۱۹۲۶ء کو خان بهادر شیخ عبد القادر صاحب عبد القادر صاحب بی.اے بیرسٹرایٹ لاء کے ہاتھوں ہوا.اس موقعہ پر پہلی اذان مسجد کے مینار کے پاس مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے دی اور مسجد کے پہلے برطانوی موزن ہونے کا شرف ایک نومسلم بلال دانیال ہو کر محل (Mr.Billal Danial Hawker Nuttal) کو حاصل ہوا.جو حضرت مولانا درد کے زمانہ میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے.مسجد کے افتتاح پر دنیا کے اخباروں نے عموماً اور لندن پریس نے خصوصاً بڑے بڑے آرٹیکل لکھے اور چار دانگ عالم میں اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی تبلیغی مساعی کی بہت شہرت ہوئی.۲۲ اپریل ۱۹۲۸ء کو خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب انگلستان کے لئے روانہ ہوئے اور ملک غلام فرید صاحب جولائی ۱۹۲۸ء میں واپس آگئے.اور ۳/ اگست ۱۹۲۸ء کو ان کی بجائے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے بھجوائے گئے دو ماہ بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد حضرت خان صاحب فرزند علی صاحب کو چارج دے کر ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو قادیان آگئے.۲۵؍ جولائی ۱۹۳۱ء کو مولوی محمد یار صاحب عارف لندن روانہ ہوئے اور صوفی عبد القدیر صاحب ۱۶/ اگست ۱۹۳۱ء کو واپس آئے.ان کے بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب د ر د ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو دوباره ولایت بھیجے گئے.اور حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب آپ کو چارج دے کر ۱۰ / اپریل ۱۹۳۴ء کو قادیان تشریف لے آئے.حضرت خان صاحب فرزند علی صاحب اور مولانا درد صاحب کے دوران قیام کی نمایاں خصوصیت ی تھی کہ ان کے زمانہ میں نہ صرف تبلیغی دائرہ میں وسعت ہوئی.بلکہ مشن نے مسلمانان عالم کی |INA |

Page 186

تاریخ احمدیت جلد ۴ 150 خلافت ثانیہ کا پہلا سال عموماً اور ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی خصوصاً موثر نمائندگی کا حق ادا کر دیا اور تحریک آزادی کشمیر کے حق میں برطانوی عوام اور برطانوی پارلیمینٹ میں آواز بلند کی.اس زمانہ میں مسجد فضل لنڈن بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان زعماء کا ایک خصوصی مرکز بن گئی تھی اور مسلمان لیڈر اپنے موقف کو کامیاب بنانے کے لئے مشن سے رابطہ پیدا کرنا ضروری سمجھتے تھے.چنانچہ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے لیڈر مسجد فضل لنڈن میں جاتے تھے.قائد اعظم محمد علی جناح جو گول میز کانفرنس کے بعد ہندو لیڈروں کی روش سے مایوس ہو کر لندن ہی میں بود و باش رکھنے کا فیصلہ کر چکے تھے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی خواہش اور مولانا عبد الرحیم صاحب درد کی کوشش سے احمد یہ مسجد پٹنی میں آئے.”ہندوستان کا مستقبل" (Future of India) کے مضمون پر لیکچر دیا اور ہندوستان جا کر پھر سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ ہو گئے.حضرت مولانا درد صاحب کے زمانہ ہی میں خاندان مسیح موعود کے صاحبزادگان یعنی حضرت 120 صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صاجزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب مرحوم وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئے.اسی زمانے میں (صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام) " الاسلام" کے نام سے ایک رسالہ نکالتے رہے.اس رسالہ کی ادارت کے فرائض حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ہی انجام دیتے رہے.یکم فروری ۱۹۳۶ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس اور ۲۶ / فروری ۱۹۳۶ء کو حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی ترجمتہ القرآن کے سلسلہ میں لنڈن روانہ ہوئے.ان بزرگوں کی بدولت مشن میں نئی زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے.۹/ نومبر ۱۹۳۸ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد.حضرت مولوی شیر علی صاحب اور تمام صاحبزادگان قادیان آگئے اور مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج مشن کے فرائض انجام دینے لگے.مولانا شمس صاحب کے زمانہ میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی.اور انگلستان پر بمباری ہونے لگی جس کی وجہ سے لاکھوں بچے اور عورتیں لنڈن چھوڑ کر دوسرے دیہات میں چلے گئے اور بمباری وغیرہ کی وجہ سے کئی دفعہ لیکچروں کا سلسلہ بند کرنا پڑا.مگر ان نامساعد حالات میں بھی آپ نے اپنا کام جاری رکھا.دارا تبلیغ میں مذہبی مسائل پر لیکچر دیئے.ملک کی مشہور سوسائٹیوں میں شمولیت کی.بیرونی ممالک سے آنے والی اہم شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں اور پیغام حق پہنچایا.”ہندوستان میں قبر صحیح" کے نام سے ایک اشتہار لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا.ایک اہم کتاب -? WHERE DID JESUS DIE - ( حضرت مسیح کہاں فوت ہوئے؟) تصنیف کی جسے عیسائی

Page 187

تاریخ احمدیت جلد ۴ 151 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حنتوں نے عیسائیت پر زبر دست حملہ قرار دیا.بشپ آف گلاسٹر کو دعوت متقدمعہ دی.جارج ششم، کنگ پیٹر یوگوسلاویہ وغیہ کو تبلیغ کی.مسٹرگرین سے ایک سال تک ہائیڈ پارک میں مناظرے کئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی نگرانی میں قرآن مجید کے ڈچ ، روسی، اٹالین ، فرانسیسی ، پولش، جرمن اور پینش تراجم ہوئے جن میں سے جرمن اور ڈچ تراجم چھپ بھی چکے ہیں.مولانا جلال الدین صاحب شمس ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قادیان تشریف لے آئے اور آپ کی جگہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لندن بنے.آپ کے عہد میں بھی لندن سے کافی لٹریچر شائع ہوا.دسمبر ۱۹۴۵ء میں حضرت اقدس نے چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کو لنڈن بھیجوایا جو ناب امام کی حیثیت میں کام کرنے کے بعد ۱۴ / اپریل ۱۹۴۹ء کو دارد پاکستان ہوئے اگلے سال ۳۰/ جون ۱۹۵۰ء کو آپ دوبارہ لندن روانہ ہوئے اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ آپ کو مشن کا چارج دے کر ۱۴ اگست ۱۹۵۰ء میں واپس آگئے.اس زمانہ میں قریشی مقبول احمد صاحب (۲۴/ جنوری ۱۹۴۸ء تا ۹ ۱ دسمبر ۱۹۵۱ء) مشن کے سیکرٹری کی خدمت بجالاتے رہے.مکرم سید محمود احمد صاحب ناصر.(۱۱/ نومبر ۱۹۵۴ء تا ۴ / جولائی ۱۹۵۷ء) مشن کے سیکرٹری اور نائب امام کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے.اس کے علاوہ ۱۶ / جولائی ۱۹۵۱ء کو چوہدری عبد الرحمن صاحب لنڈن مشن کے مالی مشیر کی حیثیت سے روانہ ہوئے.چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ۱۴/ اپریل ۱۹۵۵ء کو واپس آگئے.باجوہ صاحب کے دوران قیام میں مولود احمد خاں دہلوی ار ستمبر ۱۹۵۳ء کو لنڈن بھجوائے گئے.جنہوں نے باجوہ صاحب کی واپسی کے بعد آٹھ سال تک کام کیا.اپریل ۱۹۵۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دوسری بار بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.تو حضور کی صدارت میں ۲۲ تا ۲۴ / جولائی ۱۹۵۵ء کو بیرونی ممالک کے مبلغین کی ایک اہم کانفرنس ہوئی جس میں تبلیغی نظام کو زیادہ عمدگی سے چلانے کے لئے کئی تجاویز زیر غور آئیں اور اہم فیصلے ہوئے.۱۸/ جنوری ۱۹۵۹ء کو خان بشیر احمد خان صاحب رفیق انگلستان روانہ ہوئے.اور اس وقت آپ ہی مشن میں بطور مبلغ کام کر رہے ہیں.۱۹۶۰ء سے آپ کی ادارت میں ایک رسالہ (The Muslim Herald شائع ہوتا ہے.اسی طرح مکرم چوہدری رحمت خاں (اکتوبر ۱۹۶۰ء سے مارچ ۱۹۷۴ء تک) امام مسجد لنڈن کے فرائض انجام دیتے رہے.ان مستقل کے علاوہ لنڈن میں باہر سے آکر آباد ہونے والے بعض احمدیوں مثلاً میر عبد السلام صاحب سیالکوٹی مرحوم حضرت با بوعبد العزیز صاحب مرحوم اور قریشی صلاح الدین صاحب مرحوم نے بھی ایک عرصہ

Page 188

تاریخ احمدیت جلد ۴ 152 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال تک مشن کی آنریری خدمات انجام دی ہیں.مشن کے نو مسلم احمدی جن میں سے مسٹر ناصر احمد، مسز علیمہ بلال اور مسٹر بلال نعل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اسلامی تبلیغ و اشاعت میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اب خدا کے فضل سے نصف صدی کے اندر اندر انگلستان میں لندن، برائٹن ، بریڈ فورڈ ، بلیک برن لیڈ ز، گلاسگو، پرشین ، ہڈرزفیلڈ ، آکسفورڈ، برمنگھم، شیفیلڈ ، ساؤتھ آل، مانچسٹر وغیرہ مقامات پر جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.لنڈن مشن نے انگریز نو مسلموں میں کتنا عظیم انقلاب برپا کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ایک انگریز نو مسلم نے بتایا کہ " مجھے اسلام سے اتنی عداوت تھی کہ میں جب رات کو سوتا تھا.تو محمد رسول اللہ اس کو گالیاں دے کر سوتا تھا مگر اب کسی رات مجھے نیند نہیں آتی.جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیج دوں یہ تو اسلام لانے والے انگریزوں کے قلبی تغیر اور تبدیلی کا ایک نمونہ ہے جہاں تک برطانوی مدیروں اور مفکروں کی رائے اور تاثر کا تعلق ہے وہ احمدی مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں اسلام کا مستقبل مغربی ممالک میں نہایت درجہ روشن اور تابندہ قرار دے رہے ہیں چنانچہ مشہور برطانوی مدبر جارج برنارڈ شاہ (۱۸۵۶ء-۱۹۵۰ء) نے لکھا ہے."The medieval ecclesiastics, either through ignorance or bigotry painted Muhammadanism in the darkest colours.They were, in fact, trained to hate both the man Mohammad and his religion.To them Muhammad was anti-Christ.I have studied him, the wonderful man, and in my opinion, far from being an anti-Christ, he must be called the saviour of humanity.I believe if a man like him wer to assume dictatorship of the modern worlk, he would succeed in solving its problems in a way that would bring in the much meeded peace and happiness.Europe is beginning th be enamoured of the creedf Muhammad.In the next centry it may go still further in recognising the Utility of that creed in solving its problems and it is in this sense that you must understand my prediction.Already, even athe present time, many of my oun people and of Europe as well have come over to the faith of Muhammad.And the Islamisation of Europe may be said th have begun.A: ” قرون وسطی کے پادریوں نے یا تو جہالت کی وجہ سے یا تعصب کی بناء پر محمد کے دین کی نہایت تار یک تصویر کھینچی تھی.فی الحقیقت انہیں محمد ( ﷺ ) اور اس کے مذہب سے نفرت کرنے کی ٹرینینگ دی گئی تھی ان کے نزدیک محمد کیسوع کے دشمن تھے.لیکن میں نے اس عظیم الشان شخصیت کا مطالعہ کیا

Page 189

تاریخ احمدیت جلد ۴ 153 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال ہے میری رائے میں وہ نہ صرف یہ کہ دشمن مسیح نہ تھے بلکہ انسانیت کے نجات دہندہ تھے میرا ایمان ہے کہ اگر موجودہ زمانہ میں محمد جیسا انسان دنیا کا آمر بن جائے تو وہ ہمارے زمانہ کی مشکلات کا ایسا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.جس کے نتیجہ میں حقیقی مسرت اور امن حاصل ہو جائے اب یورپ محمد" کے مذہب کے اصولوں کو سمجھنے لگا ہے اور آئندہ صدی میں یورپ اس بات کو اور زیادہ تسلیم کرے گا کہ اسلام کے اصول اس کی الجھنوں کا حل کر سکتے ہیں.میری پیشگوئی کو ان حقائق کے ماتحت سمجھنا چاہئے موجودہ وقت میں بھی میری قوم اور یورپ کے کئی لوگ اسلام اختیار کر چکے ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ یورپ کے اسلامی بننے کا آغاز ہو چکا ہے." ای طرح مشہور مورخ پروفیسر ٹائن بی Professor Toynbee) لکھتا ہے.(ترجمہ) مغرب سے ٹکراؤ کے نتیجہ میں اب اسلام میں پھر جوش پیدا ہو رہا ہے اور اس میں ایسی روحانی تحریکات جنم لے رہی ہیں.جو ممکن ہے آئندہ جا کر عالمگیر مذہب اور تہذیب کی بنیاد بن جائیں مثلاً احمد یہ تحریک ہے (ملخص) یادر ہے یہ انگلستان کے دانشمندوں کا بیان ہے جہاں آج سے قریبا ستر برس پہلے میڈیکل مشن فنڈ کر چین مشنری سوسائٹی لندن کے ڈاکٹر ہربرٹ (Dr.Herbert) نے عیسائی پادریوں کی ایک کا نفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا." فرض کرو لنڈن کے کسی علاقے میں کوئی مسلمان آوارہ ہو جو اجنبی کپڑوں میں ملبوس ہو.ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا ہو.اور وہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرے کہ محمد خدا کا سچا رسول ہے اور یہ کہ اب ہم یسوع مسیح کی بجائے اس پر ایمان لائیں.ذرا سوچو تو سہی اس مسلمان کا کیا حشر ہو گا.یہی کہ چھوٹے چھوٹے بچے اس پر کیچڑ اچھالتے پھریں گے.HAP tt حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بلاد اسلامیہ کے لئے عربی ٹریکٹ ایک عربی الہام میں خبر دی گئی تھی کہ رومی سلطنت کسی IAM وقت بیرونی دشمنوں سے مغلوب ہو جائے گی مگر اللہ تعالٰی کے فضل سے پھر غلبہ پائے گی - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے بلاد اسلامیہ میں اس کی اشاعت کرنے کے لئے " الدین الحی" (زندہ مذہب) کے نام سے عربی زبان میں ایک ٹریکٹ لکھا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے ظہور پر روشنی ڈالی اور تمام عالم اسلام کو حضور علیہ السلام کے دعوے پر ایمان لانے کی پر زور دعوت دی اور اعلان فرمایا کہ جو اصحاب مامور وقت کی صداقت سے متعلق تحقیق کرنا چاہیں.وہ خط و کتابت کے ذریعہ سے بھی کر سکتے ہیں.

Page 190

تاریخ احمدیت جو 154 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حضور نے اپریل ۱۹۱۴ء کے آخری ہفتہ میں "شکریہ اور شکریہ اور اعلان ضروری" اعلان ضروری" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا.جس میں ۱۸۵ کثیر حصہ جماعت کے ایک مرکز پر جمع ہو جانے کا شکریہ ادا کیا.اور "انجمن ترقی اسلام" کے مقاصد پورے کرنے کے لئے اللی تحریک سے جماعت سے بارہ ہزار روپیہ کی اپیل فرمائی اور جماعت کو زور دار و دل نشین الفاظ میں یقین دلایا.کہ " اس وقت دشمن کہہ رہا ہے کہ اب احمدیت گئی لیکن اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ آگے سے بھی زیادہ اسے ترقی دے اور اسلام کے شید ا خوش ہو جائیں کہ اب خزاں کے بعد بہار آنے والی ہے اور مسیح موعود کے وعدوں کے پورے ہونے کے دن آگئے ہیں " حضور نے یہ اعلان شکریہ " کاتب کو دینے سے پہلے جب درس قرآن کے وقت سنایا تو اللہ تعالٰی نے جماعت قادیان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کر دیا کہ اس نے دو سرے ہی دن عام جلسہ کر کے تین ہزار کے قریب و عدے لکھوائے اور اعلان کی اشاعت سے پہلے ہی پانچ سو روپے سے زائد وصول بھی ہو گئے.بعض مخلصین نے اپنی ساری زمین تبلیغ اسلام کے لئے وقف کر دی.بعض نے اپنا کل اندوختہ نذر کر دیا.کئی دوستوں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ پیش کر دی.عورتوں نے بھی اس مالی قربانی کی پہلی تحریک میں مردوں کی طرح حصہ لیا.حضرت ام المومنین نے ایک سو روپیہ دیا.بعض مستورات نے اپنے زیور تک پیش کر دیئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کو اہل قادیان کی اس شاندار قربانی سے پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا کہ " ایک شخص عبد الصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں LAY یا برکتیں نازل ہوتی ہیں.۱۸۹ تبلیغی کلاسوں کا اجراء IAA ایک طرف تو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائے ہوئے مبلغین کے میدان عمل میں آنے کے لئے ابھی کچھ وقت درکار تھا.کیونکہ اس سال صرف مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (حال امیر جماعت احمدیہ قادیان) اور مولوی احمد بخش صاحب ہی عالم ہو کر نکلے تھے.دوسری طرف جماعتی حالات کا تقاضا تھا کہ ملک میں تبلیغ کا کام جلد سے جلد تیز سے تیز تر کر دیا جائے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تبلیغی کلاسیں جاری کئے جانے کی ہدایت فرمائی جس کا کورس ترجمہ قرآن شریف، مشکوۃ اور قدوری تھا.یہ کلاسیں مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں دو وقت کھلتی تھیں.اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب - حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب پڑھاتے تھے - | 44×

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 155 خلافت ثانیہ کا پہلا سال "تحفتہ الملوک" حضرت خلیفتہ النبی الثانی ایدہ اللہ تعالی کو ایک خواب میں تحریک ہوئی کہ شاہ دکن کو تبلیغ فرمائیں.اس پر آپ نے جون ۱۹۱۴ء میں کتاب " تحفہ 141 الملوک " تصنیف فرمائی اور نہایت خوبصورت و دلکش رنگ میں چھپوا کر شاہ دکن کو ارسال فرمائی اور بعض اراکین سلطنت کو بھی بھیجی گئی اور اس کی سینکڑوں کا پیاں وہاں کے مختلف طبقوں میں بھی تقسیم کی گئیں اس کام کے لئے پہلے تو حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری اور بعد کو حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب حیدر آباد بھیجے گئے جو تین ماہ تک وہاں تبلیغ کرتے رہے.اس کے بعد حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت مولانا حافظ روشن علی صاحب گوروانہ فرمایا "تحفۃ الملوک کی روحانی تاثیرات و برکات ہی کا نتیجہ تھا کہ سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کو ۹/ اپریل ۱۹۱۵ ء کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی.حضرت سیٹھ صاحب اپنی صورت و سیرت اور اوصاف گوناگوں کے لحاظ سے نہایت دلکش بزرگ تھے.آپ نے مختلف زبانوں میں سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر بہت کثرت سے شائع فرمایا جس سے انگریزی دان طبقہ میں خوب تبلیغ ہوئی.آپ کے قبول حق سے پہلے حضور ایدہ اللہ تعالٰی کو ایک رویا میں دکھایا گیا.کہ آپ ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور آسمان سے ایک نور ان کے دل پر گر رہا ہے اور وہ ذکر الہی میں مصروف ہیں ۱۹۲ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کادوسرا نکاح ۱۳۱ مئی ۱۹۱۴ء کا دن نہایت مبارک دن تھا.کیونکہ اس روز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی کا نکاح حضرت خلیفہ اول کی دختر نیک اختر امتہ الحی صاحبہ سے ہوا.خطبہ نکاح حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے پڑھا.مہر ایک ہزار روپیہ قرار پایا.میاں عبدالحی صاحب صاجزادی صاحبہ کے ولی تھے جب آپ سے نکاح کی منظوری کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے مختصر الفاظ میں تقریر فرمائی جسے سن کر بعض اصحاب کے آنسو نکل آئے.آپ نے کہا." میں آپ صاحبان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول وہ انسان تھے جنہوں نے اپنی عمر اپنامال اپنی جان آپ لوگوں کے لئے قربان کر دی.ان کی چیزیں تمہاری چیزیں ان کا مال تمہار ا مال ان کی جائداد تمہاری جائداد ہے اس لئے پہلے اس کے کہ ان کی ایک امانت کو کسی کے سپرد کروں آپ سے یہ (پوچھنا) چاہتا ہوں کہ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس امانت کو سپرد کروں یہ بات کہنے پر چاروں طرف سے آواز میں آئیں کہ بے شک آپ کو اجازت ہے.بہت بابر کت بات ہے اس پر میاں عبدالحی صاحب نے کہا کہ جب آپ سے مجھے اجازت ہے تو میں کمال خوشی سے یہ بات قبول کر کے ہاں کہتا ہوں ".

Page 192

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 156 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نکاح ثانی کی نسبت تحریر فرمایا کہ میں نے آپ (حضرت خلیفہ اول - ناقل) کے ابتدائی زمانہ خلافت میں دوسری شادی کی اجازت طلب کی تھی.لیکن ان دنوں میری صحت ایسی خراب تھی کہ آپ نے فرمایا میں ابھی پسند نہیں کرتا.اس کے بعد وفات سے چند ماہ پہلے آپ نے ایک شخص کی درخواست مجھ کو بھیجی کہ وہ اپنی لڑکی (کی) شادی مجھ سے کرنا چاہتا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے دریافت کیا.چونکہ وہ جگہ مجھے پسند نہ تھی اس لئے اس موقعہ پر میں نے چاہا کہ امتہ الحی آپ کی لڑکی کے لئے درخواست نکاح کروں.لیکن یہ وہ دن تھے جب ایک شخص نے چند گمنام ٹریکٹ میرے خلاف شائع کئے تھے کہ مجھے خلافت کی تمنا ہے.ان ٹریکٹوں کے بعد مجھ کو یہ امر پیش کرنے کی جرات نہ ہوئی.آپ کی بیماری کے دنوں میں مجھے رویا میں بتایا گیا کہ یہاں میرا رشتہ ہو گا.اس پر میں نے چاہا کہ خواہ کچھ بھی ہو.آپ کے سامنے یہ معاملہ پیش کر دوں لیکن وہی جماعت کے ابتلاء کا خوف مجھ پر غالب رہا اور تیسرے دن آپ فوت ہو گئے.میں نے اپنی رویاء کی بھی تعبیر کر لی.لیکن بعد میں چند اور لوگوں کو اسی قسم کی رویاء آنے پر میں سمجھا کہ یہ منشاء الہی ہے اور اس امر کو لڑکی کے جائز ولیوں کے سامنے پیش کر دیا.مگر میرا ارادہ تھا کہ دیر سے یہ رشتہ ہو تا کہ لوگوں کو کوئی ابتلاء نہ آئے.مگر پھر مجھے اللہ تعالی کا خوف پیدا ہوا کہ (دوسروں کا.ناقل) خوف بھی ایک شرک ہے اور میں نے اپنے نفس کی مخالفت کے لئے جلد یہ رشتہ کر لیا " - بنگالی ٹریکٹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اہل بنگال کے لئے ایک رسالہ تحریر فرمایا جو بنگالی زبان میں ترجمہ ہو کر جولائی ۱۹۱۴ ء میں کلکتہ سے شائع کیا گیا.اس ٹریکٹ سے انگریزی خوان طبقہ میں بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے حالات معلوم کرنے کا شوق پیدا ہو گیا اور دوسرے طبقہ میں بھی.۱۹۵ حضرت مسیح موعود کی خبر پہلی عالمگیر جنگ سے متعلق ۲۸/ جون ۱۹۱۴ء کو آسٹریا کا ولی عہد پستول سے قتل کر دیا گیا.آسٹردی پولیس نے انکشاف کیا کہ شہزادے کے قتل کی سازش میں سردیا کے بعض افسر بھی شامل ہیں اس پر آسٹریا نے الٹی میٹم کے بعد ۲۸/ جولائی ۱۹۱۴ء کو سرویا پر چڑھائی کر دی.یکم اگست ۱۹۱۴ء کو روس نے آسٹریا کے خلاف اور جرمنی نے روس کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا.۴/ اگست ۱۹۱۴ء کو برطانیہ جرمنی کے خلاف میدان جنگ میں کو دپڑا اور ۲۹/ اکتوبر ۱۹۱۴ء کو ترکی نے جرمنی کے حلیف بن کر روس، برطانیہ اور فرانس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا - ۱۹۱۸ء میں امریکن بھی جرمنوں سے نبرد آزما ہو گئے.۴/ نومبر ۱۹۱۸ء کو جرمنی میں حکومتی انقلاب برپا ہو گیا.اور قیصر ولیم 142]

Page 193

تاریخ احمد بیت.جلد ۴ 144] 157 ۱۹۸ خلافت ماشیہ کا پہلا سال بھاگ کر ہالینڈ چلا گیا.جرمنی کی نئی حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے اور جرمنی کے نمائندوں نے 11 نومبر ۱۹۱۸ء کو دن کے گیارہ بجے مارشل فاش کی ریل گاڑی کے ڈبہ میں عارضی صلح کی شرطوں پر دستخط کر دیئے اس طرح چار سال کی خونریز اور تباہ کن جنگ بند ہو گئی.جس کے نتیجہ میں ایک کروڑ کے قریب آدمی ہلاک اور اتنے ہی مجروح ہو چکے تھے اور دنیا نے امن کا سانس لیا.اور جیسا کہ ہم تاریخ احمد بیت کی دوسری جلد نیا ایڈیشن میں ذکر کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری شان کے ساتھ پوری ہو گئی جو حضور نے اس عالمگیر زلزلہ اور تباہ کن جنگ سے برسوں پہلے ۱۹۰۵ء میں شائع فرمائی تھی.اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس عالمگیر جنگ کی جو دنیا میں زلزلہ پیدا کرنے والی تھی صرف خبری دینے پر بس نہیں فرمایا بلکہ اس محیر العقول بات کا علم بھی دے دیا تھا کہ وہ جنگ میرے موعود فرزند کے زمانہ میں ہو گی.چنانچہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا." خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا.اور فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہو جائیں گے.پھر خد اتعالیٰ اس تفرقہ کو مٹادے گا.باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرداز ہیں وہ کٹ جائیں گے.اور دنیا میں ایک حشر برپا ہو گا وہ اول المحشر ہو گا اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہو گا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہو گا.صاحبزادہ صاحب ( خاکسار را قم کو فرمایا ) اس وقت میرالڑ کا موعود ہو گا.خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے.ان واقعات کے بعد سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تم اس موعود کو پہچان لینا یہ ایک بہت بڑا نشان پسر موعود کی شناخت کا ہے ".انگریزی مملکت کی رعایا ہونے کی پہلی عالمگیر جنگ مسلمانان ہند اور جماعت احمدیہ وجہ سے مسلمانان ہند نے اتحادیوں کا ساتھ دیا.اور ہزاروں مسلمانوں نے فوج میں شامل ہو کر شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے.خصوصاً ہندوستان کی سب سے بڑی اسلامی ریاست حیدر آباد نے انگریزوں کی امداد و اعانت میں اپنی پوری قوت صرف کر دی چنانچہ مولوی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اپنی کتاب "دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ " میں لکھا ہے کہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں بہادر مسند آرائے سلطنت ہوئے آپ کے زمام امو ر ہاتھ میں لینے کے تین ہی سال بعد وہ جنگ عظیم برپا ہوئی کہ جس میں انگریزی

Page 194

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 158 خلافت ثانیہ کا پہلا سال حکومت کے لئے زندگی و موت کا سوال در پیش تھا.اس نازک وقت میں مسلمانوں کے لئے سلطنت برطانیہ کا وفادار رہنا سب سے زیادہ مشکل تھا.کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت جس کے بادشاہ کو تمام مسلمان اپنا امام (یعنی خلیفتہ المسلمین - ناقل) سمجھتے تھے.برطانیہ کے خلاف بر سر پیکار تھی اور وہ ممالک اعمال جنگ کی زد میں تھے.جن کی تعظیم و تکریم ہر مسلمان کا جزو ایمان تھی.لیکن اس موقع پر اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان بہادر نے سلطنت برطانیہ کے ساتھ وہ وفادری برتی جو اس سلطنت کے تمام دوستوں کی وفاداری سے زیادہ قیمتی اور خود اعلیٰ حضرت کے پیشروؤں کی وفاداریوں پر بھی فائق تھی.ایک طرح حضور ممدوح نے اپنے اس اخلاقی و روحانی اثر کو استعمال کیا جو انہیں ہندوستان کے مسلمانوں پر حاصل تھا اور مسلمانوں کو پورے زور کے ساتھ تلقین کی کہ وہ سلطنت برطانیہ کے مواعید پر بھروسہ کر کے اس کی وفاداری پر ثابت قدم رہیں.یہ اخلاقی امداد اس قدر موثر ہوئی کہ خود انگریزی سلطنت کے ارباب حل و عقد کو اعتراف ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جن اثرات کے ماتحت جنگ میں سلطنت کی امداد کی ان میں سب سے زیادہ حصہ اعلیٰ حضرت نظام دکن کا تھا سری طرف اعلیٰ حضرت نے اپنی سلطنت کے تمام ذرائع دولت برطانیہ کے لئے وقف کر دیئے اس سلسلہ میں جو انہوں نے خالص مالی امداد دی.اس کی کیفیت ذیل کے اعداد سے ہوتی ہے (اس کے آگے تفصیلی اعداد و شمار دے کر جن کی مالیت کروڑوں روپے تک جا پہنچتی ہے لکھا ہے) کہ دوران جنگ میں سرکار عالی کے تمام کار خانے سامان حرب کی تیاری کے لئے وقف رہے اور چار سال کی مدت میں انہوں نے 9 لاکھ روپیہ کا سامان سلطنت برطانیہ کے لئے مہیا کیا.اعلیٰ حضرت نے اپنی عزیز رعایا کو ہزاروں کی تعداد میں بھرتی کر کے میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے کے لئے بھیجا.آغاز جنگ سے اختتام تک دولت آصفیہ کی باضابطہ فوج جنگ کی عملی خدمات سرانجام دیتی رہیں.اور اس کا خرچ سرکار نظام نے اپنے خزانہ سے دیا.حکومت ہند کی شدید مشکلات کے زمانے میں ۵۰ لاکھ روپے کی چاندی کی اینٹیں مستعار دے کر اس کی مالی ساکھ کو بحال کیا.اور اسی طرح کی بیش قیمت اور مخلصانہ امانتوں کی بدولت یہ سخت وقت سلطنت برطانیہ سے مل گیا.جس میں اس کا برباد ہو جانا کوئی مشتبہ نہ رو ۲۰۲ ریاست حیدر آباد کے علاوہ بھوپال، لوہارو ، بلوچستان کے نوابوں نے بھی کافی امداد کی شیعان ہند کے بعض زعماء نے اعلان کیا کہ " آج کل جو جنگ یورپ میں ہو رہی ہے.اس میں ہماری گورنمنٹ انگریزی کے مقابلہ میں سلطان لڑکی نے بھی خواہ مخواہ جرمنی کی حمایت کی ہے.حضور ملک معظم کی گورنمنٹ نے ہر چند کوشش کی کہ سلطان لڑکی اس جنگ میں شریک نہ ہوں.مگر تمام کوششیں

Page 195

جلد ۴ 159 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال بے سود ثابت ہو ئیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ گورنمنٹ برطانیہ اور سلطان ٹرکی کے درمیان اعلان جنگ ہو گیا.جہاں تک مجھے علم ہے ہندوستان کے مسلمانوں نے عام طور پر لڑکی کے شرکت جنگ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا تمام شیعوں کو اس موقع پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہمارے مذہب میں آج کل جہار جائز ہے اور نہ شیعہ سلطان کو امیر المومنین مانتے ہیں اور نہ وہ ہمارے دینی بادشاہ ہیں اور نہ ان کا کوئی فعل ہمارے لئے قابل تقلید ہے.گورنمنٹ انگریزی کی سلطنت تمام مذاہب خصوصاً شیعوں کے لئے سایہ رحمت ہے اور جو آزادی اس فرقہ کو اس سلطنت میں ہے وہ دنیا کی کسی سلطنت میں میسر نہیں ہے.یہاں تک کہ سلطنت ایران میں (بھی) جو شیعہ سلطنت ہے.ہم کو وہ حقوق حاصل نہیں جو آج ہندوستان میں بمقابلہ دیگر مذاہب کے حاصل ہیں.لہذا اس نازک موقع پر تمام مسلمانوں خصوصاً شیعوں کو گورنمنٹ انگریزی کی وفاداری اور خیر خواہی پر اسی طرح ثابت قدم رہنا چاہئے.جس طرح کہ اب تک وہ قائم ہیں" اسی طرح ڈاکٹر سر محمد اقبال نے دہلی کی جنگی کا نفرنس کے لئے ایک مسدس لکھی جس کے نو بند te تھے.بطور نمونہ تین بند ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.یہ نظم یو نیو ر سٹی ہال لاہور میں پڑھی گئی.اے تاجدار خطہ جنت نشان ہند روشن تجلیوں سے ترکی خاوران ہند محکم ترے قلم نظام جہان ہند تیغ جگر شگاف تری پاسبان ہند ہنگامہ ونا میں مرا سر قبول اہل وفا کی نذر محتقر قبول ہو ہو اخلاص بے غرض ہے صداقت بھی بے غرض خدمت بھی بے غرض ہے اطاعت بھی بے غرض عہد وفا و مهر و محبت بھی بے غرض تخت منشی سے عقیدت بھی بے غرض لیکن خیال فطرت انسان ضرور ہے ہندوستاں لطف نمایاں ضرور ہے جب تک فروغ لالہ احمد لباس ہے تک کلی کو قطرہ شبنم کی پیاس ہے جب تک چمن کی جلوہ گل پر اساس ہے جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے جب قائم رہے حکومت آئیں اسی طرح ۱۲۰۵ دیتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح 2 اگر چہ جماعت احمد یہ اپنے محدود ذرائع اور قلت تعداد کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں کے مقابل میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی تھی تاہم اس نے بھی اپنی بساط کے مطابق اپنا فرض ادا کرنے میں

Page 196

تاریخ احمدیت جلد ۴ 1 160 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال کوئی کمی نہیں کی اپنے مقدس بانی کی تعلیم کے ماتحت ایک وفادار شہری کا پورا پورا حق ادا کیا اور حکومت وقت کو اپنی طاقت سے بڑھ کر جان و مال سے مدد پہنچائی اور سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالٰی نے بھی انڈین امپیریل ریلیف فنڈ کے لئے مفصل اپیل فرمائی جس پر قادیان سے بارہ سو روپیہ کے قریب چندہ ہوا یہ سب امداد ایک اصول کے ماتحت تھی اور اگر انگریزوں کے سوا کسی اور کی حکومت ہوتی تو اس کے ساتھ بھی یہی وفاداری کا سلوک کیا جاتا.کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم ہے جسے احمدیت نے بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے کہ حکومت وقت کے ساتھ اور خصوصاً ایسی حکومت کے ساتھ جس کے ذریعہ ملک میں امن قائم ہو تعاون اور وفاداری کا سلوک ہونا چاہئے.جماعت احمدیہ کے لئے تو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہی مذہب اور اشاعت مذہب اور تبدیلی مذہب کی آزادی ہے.پس جو حکومت جماعت احمدیہ کو یہ چیز دیتی ہے وہ خواہ کوئی ہو اور کسی ملک میں ہو وہ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ مخلص اور وفادار پائے گی.یہاں ہم اس حقیقت کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انگریزی عہد حکومت میں فوج میں احمدی سپاہیوں کا ایک حصہ اپنی قلت تعداد کی وجہ سے دوسرے سپاہیوں کے ظلم و ستم کا بری طرح نشانہ بنتا رہا ا ہے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بار ۱۹۱۷ء کا یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ” میں نے شملہ یا دہلی میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ایڈ جو ٹینٹ جنرل یا ایسے ہی کسی اور بڑے افسر کے پاس ایک کیس کے سلسلہ میں بھیجا.کیس یہ تھا کہ ایک احمدی پر فوج میں سختی کی گئی اور پھر باوجود یہ تسلیم کرلینے کے کہ قصور اس کا نہیں اسے فوج سے بلاوجہ نکال دیا گیا تھا.فوجی افسر ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا.کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت ملک کی خدمت کی خاطر فوج میں کام کرتی ہے...لیکن ایک بات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ اس کا جواب دیں.کہ ہندوستان کی حفاظت کے لئے اس وقت اڑھائی تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے اگر ہم آپ کے ایک آدمی کی خاطر اور اس کے حق بجانب ہونے کی بنا پر دوسروں کو خفا کر لیں اور وہ ناراض ہو کر کہہ دیں کہ ہم فوج میں کام نہیں کرتے ہمیں فارغ کر دیں.تو کیا آپ کی جماعت اڑھائی تین لاکھ فوج ملک کی حفاظت کے لئے مہیا کر کے دے سکتی ہے.اگر یہ ممکن ہے تو پھر آپ کی بات پر غور کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی ممکن نہیں تو بتائیے ہم آپ کی جماعت کی دلداری کی خاطر سارے ہندوستان کی حفاظت کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں.اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک احمدی دوست فوج میں ملازم تھے باجو دیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے لیکن اس سکھ

Page 197

161 خلافت ثانیہ کا پہلا سال کو اوپر کر دیا گیا.جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا.تو انگریز کمانڈر نے کہا.واقعی تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے تم درخواست لکھ کر لاؤ.لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کر افسر کے پاس گیا تو اس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھیجوایا کئی دن کے بعد دفتر والوں نے بتایا کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس کے خلاف او پر نہ بھجوائی جائے.والیہ بھوپال کے نام تبلیغی خط حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۴ء کو نواب سلطان جہاں بیگم والیہ بھوپال کے نام ایک تبلیغی خط لکھ کر حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کے ہاتھ بھیجا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس نشان کا خاص طور پر تذکرہ کیا جو بھوپال میں نواب صدیق حسن خاں کی ذات سے پورا ہوا اور یہ پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو علماء سلسلہ کو چند روز کے لئے بھوپال بھجوا دیا جائے تاوہ سلسلہ کے مفصل حالات سامنے رکھ سکیں.خلیفتہ المسلمین ترکی کو انتباہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے 19 نومبر ۱۹۱۴ء کو ایک مضمون میں ترکی کے شامل جنگ ہونے کو ” بے سبب" اور "بے وجہ " قرار دیتے ہوئے خلیفتہ المسلمین ترکی کی نام نہاد خلافت کے خاتمہ سے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا پر زور اعلان فرمایا 1 منارۃ المسیح کی تکمیل ۲۱۳ ۲۱۲ منارة المسیح کی تعمیر اخراجات کی وجہ سے اب تک رکی ہوئی تھی حضور ایدہ اللہ تعالی نے ۲۷/ نومبر ۱۹۱۴ء کے خطبہ میں مخلصین کو تحریک فرمائی کہ وہ منار کی تکمیل میں حصہ لیں.حضرت مسیح موعود نے اس کی تکمیل سے بہت سی برکات کے نزول کی پیشگوئی فرمائی ہے ممکن ہے اللہ تعالٰی اس کی بدولت ہمارے موجودہ ابتلاؤں کو دور کر دے خطبہ جمعہ کے بعد حضور نے منار کی اس عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھی جو نا تمام تھی بظاہر حالات بہت مخدوش تھے.مگر اللہ تعالٰی کے فضل سے حضرت خلیفہ المسح الثانی کی توجہ اور مخلصین کی قربانیوں سے دسمبر ۱۹۱۵ ء میں منار قریباً مکمل ہو گیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت خاص سے حضرت چوہدری مولا بخش صاحب (والد بزرگوار ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب) کی طرف سے یادگاری پتھر نصب کیا گیا.فروری ۱۹۲۳ء میں اس پر گیس کے ہنڈے نصب ہوئے.۱۹۲۹ء میں منارۃ المسیح پر گھڑیاں لگانے کے لئے ویسٹ اینڈ واچ کمپنی سے خط و کتابت کی گئی.۱۹۳۰ء میں منار پر لمپ لگائے گئے اور ۱۹۳۱ء میں ٹاور کلاک آیا - اکتوبر ۱۹۳۵ء میں منارة المسیح پر بجلی کے لئے وائرنگ کی منظوری دی گئی 2 ۲۲۰ KIA

Page 198

ت جلد ۴ 162 خلافت ثانیہ کا پہلا سال "منارة المسیح" کی تکمیل سے وہ تمام اغراض و مقاصد پورے ہوئے جو اس کی بنیاد کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش نظر تھے اور جیسا کہ حضور نے خبر دی تھی، اس کی تعمیر کے بعد اسلام کی روشنی دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی اور تبلیغ اسلام کے ایک جدید اور انقلابی دور کا آغاز ہوا جیسا کہ آئندہ صفحات سے معلوم ہو گا) حضرت مسیح موعود نے فیصلہ فرمایا تھا کہ منارۃ المسیح کے لئے کم از کم سو روپیہ دینے والوں کے نام متار پر بطور یادگار کندہ کرائے جائیں گے چنانچہ منار کی تکمیل کے بعد اس پر قریباً ۱۹۲۹ء میں دو سو گیارہ مخلصین کے نام لکھوا دیئے گئے خواجہ کمال الدین صاحب کی واپسی خواجہ کمال الدین صاحب حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت لندن میں تھے.آپ نومبر ۱۹۱۴ء میں حج بیت اللہ کر کے بھی پہنچے واپسی پر خان بہادر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی ان کے ساتھ تھے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ( ہوتی مردمان (جو ابھی تک مبایعین میں شامل نہیں ہوئے تھے) خواجہ صاحب کے استقبال کے لئے بمبئی گئے.یہ تینوں حضرات شاہ جہان ہوٹل میں قیام کر کے بمبئی سے لاہور روانہ ہوئے.راستہ میں خواجہ صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب سے دو بڑی غلطیاں ہوئی ہیں پہلی غلطی یہ کہ خود حضرت مسیح موعود کی وفات پر حضرت نور الدین کو خلیفہ منتخب کیا اور ان کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی اور چھ سال تک خلیفتہ المسیح اور مطاع کہتے رہے اب یہ سوال پیدا کرنا کہ حضرت مسیح موعود کے بعد نہ کوئی خلافت ہے اور نہ کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے یہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل اور شرمندہ کرتا ہے.دوسری غلطی یہ کی کہ اگر وہ حضرت میاں صاحب کی بیعت کر لیتے تو ہم قادیان کے ساتھ ہی وابستہ رہتے اور سلسلہ کا سیاہ و سپید ہمارے ہاتھ میں ہو تا.مگر مولوی محمد علی صاحب خود بھی قادیان سے آگئے اور ہمیں بھی چھڑوا دیا اور ہم قادیان سے ہمیشہ کے لئے کٹ گئے.گاڑی جب آگرہ کے قریب پہنچی تو خواجہ صاحب نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے عرض کیا.کہ در حقیقت حضرت مسیح موعود کی جانشینی اور خلافت کے حقدار تو آپ ہیں.آپ ہمارے ساتھ لاہور چلیں اور خلافت کا اعلان فرما ئیں اور ہم سب آپ کی بیعت کریں گے.حضرت مرز اسلطان احمد صاحب نے ہنس کر جواب دیا کہ میں تو ابھی احمدی بھی نہیں.میرا خلافت کا کیا حق ہے؟ آگرہ پہنچے تھے کہ مرزا یعقوب بیگ صاحب کا تار آیا کہ خواجہ صاحب سیدھے لاہور تشریف لائیں.اسٹیشن پر بہت سے لوگ ان کے استقبال کے لئے موجود ہوں گے.اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب کا اپنا ارادہ یہ تھا کہ میں تو قادیان سے ہی لندن گیا تھا اور قادیان جا کر ہی پھر لاہور جاؤں گا.مگر تار

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 163 خلافت ثانیہ کا پہلا سال نے ان کا ارادہ بدل دیا اور وہ ۲۸/ نومبر کو سیدھے لاہور آگئے - لاہور پہنچے تو خواجہ صاحب قاضی محمد یوسف صاحب کو ساتھ لے کر حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر گئے وہاں حضرت مولانا غلام رسول را جنیکی درس دے رہے تھے اور احمدی احباب کثرت سے جمع تھے خواجہ صاحب سب سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ میں جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر لیکچر دوں گا آپ ضرور شریک ہوں چنانچہ خواجہ صاحب کا لیکچر ہوا جس کا خلاصہ وہی تھا.جو وہ رستہ میں کہہ چکے تھے خواجہ صاحب کی تقریر پر جیسا کہ بعد کو خواجہ صاحب کی زبانی پتہ چلا مولوی محمد علی صاحب سخت رنج اور غصہ سے بھرے ہوئے تھے.انہوں نے کہا.آپ ہی نے تو مجھے قادیان کے خلاف کھڑا کیا.اور اب خود ہی ملامت کرنے لگے کہ خلافت کا کیوں انکار کیا.اگر آپ میرے اس فعل سے ایسے ہی بیزار ہیں تو میں احمد یہ بللہ ٹنگس چھوڑ کر جہاں مناسب سمجھوں گا چلا جاؤں گا.اس پر خواجہ صاحب نے ان کی دلجوئی کی اور نتیجہ اس کا خواجہ صاحب کا وہ لیکچر تھا.جو اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب " کی شکل میں ہل لاہور کے پہلے سالانہ جلسہ پر سنایا گیا قاضی صاحب موصوف لاہور کے اس پہلے سالانہ جلسہ پر موجود تھے اور وہ خواجہ صاحب کے یکچر سے بہت حیران ہوئے اور وہاں سے دل برداشتہ ہو کر سیدھے قادیان پہنچے اور ۳۰ / د سمبر ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ ثانی کے دست مبارک پر تجدید بیعت کرلی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی فہم و فراست کا عجیب واقعہ جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ مولوی عمرالدین شملوی سے اخراج از جماعت سے قبل میرے نہایت گہرے تعلقات تھے.ان میں تبلیغ کا جذبہ بے انتہا اور مباحثہ کا شوق بے حد تھا.انہوں نے ایک دفعہ مجھے ایک واقعہ سنایا کہ حضور ایدہ اللہ تعالی کے خلیفہ ہونے کے چند ماہ بعد امریکہ کا ایک بڑا پادری قادیان آیا جو بڑا عالم فاضل بھی تھا اور اپنے علم و فضل پر نازاں بھی.قادیان پہنچ کر اس نے ہم لوگوں کے سامنے چند مذہبی سوالات پیش کئے جو نہایت وقیع اور بڑے اہم تھے.اور ساتھ ہی کہا کہ میں امریکہ سے چل کر یہاں تک آیا ہوں.اور میں نے مسلمانوں کی ہر مجلس میں بیٹھ کر ان سوالات کو دہرایا ہے.مگر آج تک مجھے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا عالم اور فاضل ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا.میں یہاں ان سوالوں کو آپ کے خلیفہ صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لئے خاص طور پر آیا ہوں.دیکھئے خلیفہ صاحب ان سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ سوالات اتنے پیچیدہ اور عجیب قسم کے تھے کہ انہیں سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت صاحب ابھی

Page 200

تاریخ احمدیت جلد ۴ 164 خلافت ثانیہ کا پہلا سال بالکل نوجوان ہیں.اور الہیات کی کوئی باقاعدہ تعلیم بھی انہوں نے نہیں پائی.عمر بھی چھوٹی ہے اور واقفیت بھی بہت تھوڑی ہے.وہ ان سوالوں کا جواب ہرگز نہیں دے سکیں گے اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بڑی بدنامی اور سکی ساری دنیا میں ہو گی.کیونکہ جب حضرت صاحب اس کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو یہ امریکن پادری واپس جا کر ساری دنیا میں اس امر کا پراپیگنڈا کرے گا کہ احمدیوں کا خلیفہ کچھ بھی نہیں جانتا اور عیسائیت کے مقابلہ میں ہرگز نہیں ٹھہر سکتا.وہ صرف نام کا خلیفہ ہے ورنہ علمیت خاک بھی نہیں رکھتا.اس صورت حال سے میں کافی پریشان ہوا.اور میں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ امریکن پادری حضرت صاحب سے نہ ملے.اور ویسے ہی واپس چلا جائے.مگر مجھے اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی.وہ امریکن اس بات پر مصر رہا کہ میں ضرور خلیفہ صاحب سے مل کر جاؤں گانا چار میں گیا اور میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ایک امریکن پادری آیا ہے اور آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہے.اب کیا کریں؟ اس پر حضرت صاحب نے بغیر توقف کے اور بلا تامل فرمایا کہ "بلالو".ناچار میں اسے لے کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.دونوں کے درمیان ترجمان میں ہی تھا.امریکن پادری نے کچھ رسمی گفتگو کے بعد اپنے سوالات حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کئے.جن کا ترجمہ میں نے آپ کو سنا دیا.حضرت صاحب نے نہایت سکون کے ساتھ ان سب سوالوں کو سنا اور پھر فورا ان کے ایسے تسلی بخش جوابات دیئے کہ میں سن کر حیران ہو گیا.مجھے ہرگز بھی یقین نہ تھا کہ ان سوالوں کے حضرت صاحب ایسے پر معارف اور بے نظیر جواب دے سکیں گے.جب میں نے یہ جوابات انگریزی میں امریکن پادری کو سنائے تو وہ بھی حیران رہ گیا.اور کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسی معقول گفتگو اور ایسی ملل تقریر کسی مسلمان کے منہ سے نہیں سنی.معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا خلیفہ بہت بڑا سکالر ہے اور مذاہب عالم پر اس کی نظر بڑی گہری ہے.یہ کہہ کر اس نے بڑے ادب سے حضرت صاحب کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور واپس چلا آیا.اس دن کی گفتگو سے مجھے یقین ہو گیا.کہ حضرت صاحب کو آسمان سے علوم ملتے ہیں اور روح القدس سے ان کی تائید ہوتی ہے." خلافت ثانیہ کا پہلا سالانہ جلسہ جو مسجد نور میں ہوا چار دن (۲۶) تا "بركات خلافت پر تقریر ۲۹ دسمبر (۱۹۱۴ء) جاری رہا.اسی جلسہ میں حضور کی چار تقریریں ہوئیں.پہلی تقریر میں حضور نے مسئلہ خلافت سے متعلق بعض اہم آسمانی شہادتیں بیان فرما ئیں.دوسری تقریر میں بعض اہم نصیحتیں فرمائیں.مثلا سیاست سے کنارہ کشی.رشتہ ناطہ میں کفو کی

Page 201

تاریخ احمدیت جلد ۴ 165 خلافت ثانیہ کا پہلا سال تلاش.نماز باجماعت ادائیگی زکوۃ، حفاظت سوانح حضرت مسیح موعود با ترجمه تلاوت قرآن و غیره تیسری تقریر میں حضور نے آیت الکرسی کی لطیف تفسیر فرمائی یہ تینوں تقریریں "برکات خلافت" کے نام سے چھپ چکی ہیں (کل صفحات (۱۳۸) چوتھی تقریر ۲۹/ د سمبر ۱۹۱۴ء کو خواتین کے جلسہ میں ہوئی ا خاندان حضرت مسیح موعود میں ترقی.حضرت خلیفتہ ۱۹۱۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے مشکوئے معلی میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا د او و احمد صاحب پیدا ہوئے.الحکم کا انتظام ایک بورڈ کے سپرد کیا گیا جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور ایڈیٹر الحکم پر مشتمل تھا.جماعت کی علمی ترقی و بہبود کے لئے ایک تعلیمی سب کمیٹی قائم ہوئی جس کے ممبروں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے.چنانچہ اس سال کے وسط میں ضلع گورداسپور کے مختلف دیہات میں اسکول جاری ہونے کے علاوہ مانگٹ اونچے اور بنگہ میں بھی احمد یہ پرائمری سکول جاری ہو گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صدارت میں نو مسلموں کے انتظام کی غرض سے ایک دوسری کمیٹی کی تشکیل ہوئی.کمیٹی کے ممبران یہ تھے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب.حضرت میر محمد اسحق صاحب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے نومبر ۱۹۱۴ء میں سیدھے قادیان تشریف لائے اور حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.۱۲۳۲ آپ نے پہلے دو سال سیالکوٹ میں قیام رکھا.پھر آخر اگست ۱۹۱۶ء میں لاہور منتقل ہو گئے ad اس سال کے مشہور مباحثے مباحثہ پشاور (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور قاضی محمد یوسف صاحب کے مابین مباحثہ مونگھیر (مکرم حکیم خلیل احمد صاحب نے آریہ سماج سے دوبار کیا) Haa علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات "نشان رحمت" (از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب) فضل " پسر موعود"." قدرت ثانیہ" (از حضرت پیر منظور محمد صاحب) "خلافت - "نشان

Page 202

تاریخ احمدیت جلد ۴ 166 خلافت عثمانیہ کا پہلا سال محمود" (از حضرت میر قاسم علی صاحب " ظهور المهدی" (از حضرت ۳اضی محمد ظهور الدین صاحب اکمل ترجمته القرآن پاره سترھواں (از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) انگریزی نماز " (از انجمن ترقی اسلام قادیان) ۱۲۳۴ ممتاز نو مبایعین.اس سال مالا بار اور بنگال میں خصوصاً اور پنجاب میں عموماً کثرت سے بیعتیں ہو ئیں - نو مبایعین میں چوہدری ابو الہاشم خان صاحب بنگالی انسپکٹر مدارس 1 - شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.

Page 203

تاریخ احمدیت جلد ۴ 167 خلافت ثانیه کادو سرا سال دو سرا باب (فصل دوم) خلافت ثانیہ کا دوسرا سال (۱۳۳۳ھ تا ۵۱۳۳۴) جنوری ۱۹۱۵ ء سے دسمبر ۱۹۱۵ء تک) مبلغین کی اعلیٰ کلاس کے لئے لیکچروں کا سلسلہ مبلغین کی ال کلاس کیلئے جو روانیا.محققانه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر تربیت ترقی کر رہی تھی دو انتظامات کئے گئے.اول ان کے لئے الگ بورڈنگ اور الگ سپرنٹنڈنٹ تجویز کیا گیا.دوم مفید لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا.اور ابتدا میں مندرجہ ذیل حضرات نے طلبہ سے خطاب فرمایا.حضرت میر محمد الحق صاحب ( مضمون " ہستی باری تعالی".ثبوت ملائکہ" ) حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( " مضمون کفر و اسلام " ) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی (مسئله دعا و تقدیر ) شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور - ( مضمون قدامت وید دسکھ ازم ) چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ( مضمون عورتوں کے حقوق.حضرت قمر الانبیاء کا مضمون کلمة الفصل" کے نام سے انہیں نوں چھپ گیا تھا.۱۹۴۱ء میں اس.دوسرا ایڈیشن "مسئلہ کفرو اسلام کی حقیقت" کے نام سے شائع ہوا.تو آپ نے اس میں صراحتاً تحریر فرمایا.یقینا دو سرے منکرین کی نسبت غیر احمدی ہمارے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہمارا کلمہ اور ہمار ا شارع رسول ایک ہے.پس اگر غیر احمدیوں سے دوسرے منکرین کی نسبت بعض امور میں امتیازی سلوک روا ر کھا جائے تو یہ بالکل جائز اور معقول ہو گا ".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے متعلق غیر مبایعین اصحاب نے یہ خبر مشہور کر رکھی تھی کہ آپ نے اپنے خلیفتہ المسلمین تعلیم کئے جانے کے لئے حکومت انگریزی سے درخواست کی ہے.حضور نے اس غلط بیانی کے جواب میں ایک خبر کی تردید ایک رسالہ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا." اللہ تعالٰی کی مدد صرف صادقوں کے ساتھ ہے ".

Page 204

تاریخ احمدیت جلد ۴ تھی.168 خلافت ثانیه کادو سرا سال اس رسالہ میں ان لوگوں کی شہادتیں درج فرمائیں جن کی طرف یہ بے بنیاد خبر منسوب کی گئی رسالہ القول الفصل " کی تصنیف پہلے سال کے واقعات میں بتایا جا چکا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب پر لیکچر دیا تھا جو اسی نام سے شائع ہوا.اس کے جواب میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱ جنوری ۱۹۱۵ء کو القول الفصل" تصنیف فرمائی.یہ رسالہ جو ۷۸ ر مشتمل تھا.صرف ایک دن میں لکھا گیا تھا.حضور نے انہی دنوں قاضی محمد یوسف صاحب صفحات : مرد ان کے نام ایک خط میں اس لاجواب رسالہ کی نسبت تحریر فرمایا کہ.خواجہ صاحب کے رسالہ کا جواب آخر میں نے خود ہی لکھنا پسند کیا.پہلے مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد کیا تھا انہوں نے بھی لکھا ہے لیکن اکیس جنوری کو میں نے جب (خواجہ صاحب کا ) وہ رسالہ پڑھا تو حیران ہو گیا.خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ خلافت کے عقیدہ (میں) مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول.ناقل ) بھی ان کے ساتھ تھے.اور شخصی حکومت (خلافت کا نام رکھا ہے) کے قائل نہ تھے جس شخص نے مولوی صاحب کی زندگی میں ان کی چھ سالہ تقریریں.خطبے.درس وغیرہ سنے ہوں اسے تو اس بات کو معلوم کر کے حیرت ہی ہوتی ہے میں تو حیران ہوں اس جرأت کو کیا کہوں بھول چوک اس کا نام نہیں رکھا جا سکتا.غلطی اسے نہیں کہہ سکتے گھنٹوں اس بارہ میں مجھ سے حضرت (خلیفہ اول) نے گفتگو فرمائی ہے.ہر درس میں جہاں کوئی بھی خلافت (کا) ذکر آجاتا تو خلافت کے منکرین پر لے دے کرتے.مگر آج وہ کہا جاتا ہے.جو کہا جاتا ہے.....خواجہ صاحب کے رسالہ کے جواب میں جو مضمون میں نے لکھا ہے اس میں ظلی نبوت پر کافی بحث ہے.اصل یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے تو ہماری طرح ہی ظلی نبی ہیں لیکن اس کے معنی ایسے کر دیتے ہیں کہ اس سے نبی صرف نام رہ جاتا ہے، کام نہیں رہتا.میرا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبی تھے لیکن امتی نبی ، ظلی نبی، بروزی نبی.نبی سے مراد یہ ہے کہ آپ کو وہ درجہ ملا جو نبیوں کو ملا.وہ کام ملا جو نبیوں کے سپرد ہوا.امتی کے معنی ہیں کہ آپ پر شریعت اسلام کی اتباغ فرض تھی اور آپ ساری عمر قرآن کریم کے پابند رہے.ظلی بروزی سے یہ مطلب ہے کہ آپ کو جو کچھ ماوہ آنحضرت ﷺ کے طفیل اور آپ کی اتباع سے ملا.آپ کی نبوت بلاواسطہ نہیں تھی.بلکہ آنحضرت ﷺ کی غلامی کا نتیجہ تھی.اور آپ آنحضرت ا کے بروز تھے کیونکہ قرآن کریم میں و آخرین منہم کی آیت میں ہمارے آنحضرت ا کے دو بعث لکھے ہیں اور حضرت صاحب لکھ گئے ہیں کہ ہر ایک مسلمان پر جس طرح اور ایمانیات کا ماننا فرض ہے ال

Page 205

تاریخ احمدیت جلد ۴ 169 خلافت ثانیه کاری سرا سال ان دو بعثوں کا ماننا بھی فرض ہے.لیکن باوجود اس کے ہم کہتے ہیں کہ کل اپنے اصل سے جدا نہیں ہوتا اور اس میں جو کچھ ہے اصل کا ہی ہے لیکن ہم ایسے الفاظ کبھی استعمال نہیں کر سکتے.جن سے حضرت مسیح (موعود) کی ہتک ہو جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کل کیا شے ہے کل کو تو نعوذ باللہ جوتیاں مارنی جائز ہیں عزت تو اصل انسان کی ہوتی ہے نہ اس کے سائے کی.ان لوگوں نے کل کا مطلب ہی نہیں سمجھا.جو شخص تصویر کا نقص نکالتا ہے.وہ دراصل اس انسان کا نقص نکالتا ہے جس کی وہ تصویر ہے میں نے اس پر اس مضمون پر بحث کی ہے ".احمدیہ دار التبلیغ ماریشس خلافت ثانیہ کے دوسرے سال جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن ماریشس میں قائم کیا گیا.اور اس کی تحریک خود ماریشس سے ہوئی اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ (روزال) ماریشس میں ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نور محمد نور دیا صاحب فرانسیسی زبان میں ایک اخبار دی اسلامزم " شائع کرتے تھے اور لور پول میں ایک معزز انگریز مسٹر عبد اللہ کو علم کی ادارت میں ایک اسلامی اخبار "دی کر لینٹ " نکلتا تھا یہ دونوں اخبارات تبادلہ میں ایک دوسرے کو پہنچتے تھے.”دی کرلینٹ " کے پرچوں میں "اسلامزم " کا ذکر پڑھ کر ایڈیٹر "رسالہ ریویو آف ریلیجر " نے نور محمد صاحب کو اپنے رسالہ کے چند پرچے بھیجے اس طرح ۱۹۰۵ء میں احمدیت کا با قاعدہ پیغام اس جزیرہ تک پہنچا (جو دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے ) نور محمد صاحب نے بڑی تحقیقات کے بعد ۱۹۱۲ء میں احمدیت قبول کرلی اور کھلے طور پر احمدیت کا پیغام پہنچانے لگے.ان کے ذریعہ سے ماسٹر حاجی عظیم سلطان غوث صاحب آف فونکس بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور آخر دم تک جماعتی خدمات انجام دینے میں پیش پیش رہے.۱۹۱۳ ء میں قصبہ فونکس (Phonencs) کے مسجد کے امام جناب سبحان محمد صاحب نے بھی احمدی ہونے کا اعلان کر دیا جس پر مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کو قتل کرنے کے منصوبے ہونے لگے مگر سبحان محمد صاحب بہت زور سے تبلیغ میں مصروف رہے.۱۹۱۴ء میں ہندوستان کی ایک فوجی پلٹن ماریشس پہنچی جس میں چار احمدی بھی تھے.جن کے نام یہ ہیں.ڈاکٹر لعل محمد صاحب - اسمعیل صاحب ، عبد المجید صاحب - منظور علی صاحب جناب سبحان محمد صاحب اکثر ان احمدیوں سے ملاقات کے لئے چھاؤنی کو جایا کرتے تھے اور وہ بھی گاہے بگاہے ان کے ہاں آجاتے اسی دوران میں کئی لوگ احمدیت کی طرف مائل ہونے لگے.اس مرحلہ پر ان لوگوں کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک انگریزی دان مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی.اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی نظر انتخاب حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحب بی.اے پر پڑی.حضرت صوفی صاحب ۲۰/ فروری ۱۹۱۵ء کو قادیان سے

Page 206

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 170 خلافت ثانیه کادر سراس روانہ ہو کر حیدر آباد ید راس ہوتے ہوئے ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء کو کولمبو پہنچے.یہاں آپ نے تین ماہ قیام فرمایا.اور شبانہ روز تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں معمر اور تعلیم یافتہ اشخاص پر مشتمل جماعت قائم کرلی.اور کولمبو اس کا مرکز بنا اور آپ اس کے پہلے آنریری پریذیڈنٹ مقرر ہوئے TORE حضرت صوفی صاحب ۱۵ جون ۱۹۱۵ء کو ماریشس کی بندرگاہ پورٹ لو کیس پہنچے ابھی آپ جہاز ہی میں تھے کہ ماریشس کے ایک اخبار (LE PETIT JOURNAL) نے حکومت سے آپ کی واپسی کا مطالبہ کر دیا.مگر یہ کوشش ناکام ہوئی.مکرم ماسٹر نور محمد صاحب نے جہاز پر آپ کا استقبال کیا اور اپنے مکان پر لے آئے.چند ماہ تک اسی مکان میں جمعہ اور اجتماعات ہوتے رہے اور یہیں سے حضرت صوفی صاحب کی تبلیغ سے احمدیت کی شعائیں تمام جزیرہ میں پھیلنی شروع ہو گئیں.ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان سے متصل غیر احمدیوں کی ایک بڑی مسجد تھی جہاں حضرت صوفی صاحب اور ماسٹر صاحب صبح کی نماز پڑھا کرتے تھے ۴ فروری ۱۹۱۶ء کو آپ قریبا دس بارہ احمدیوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے اس مسجد میں گئے.پہلے غیر احمدیوں نے نماز پڑھی پھر آپ نے نماز پڑھائی.نماز مغرب سے فارغ ہو کر آپ نے عشاء کی نماز تک تقریر فرمائی جو سامعین کو بہت پسند آئی.تقریر سننے والوں میں مسجد کے پریذیڈنٹ جناب احمد حاجی سلیمان اچھا صاحب بھی تھے جو اس درجہ متاثر ہوئے کہ عشاء کی نماز انہوں نے حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں ادا کی.اس کے بعد حضرت صوفی صاحب اور دوسرے احمدی احباب پانچوں وقت کی نمازیں اور نماز جمعہ بھی اسی مسجد میں ادا کرنے لگے.غیر احمدی اصحاب نماز جمعہ پہلے پڑھ لیتے تھے.پھر حضرت صوفی صاحب خطبہ دیتے اور نماز جمعہ پڑھاتے تھے چار پانچ ہفتے کے بعد اس مسجد کے امام جناب میاں جی احمد صاحب نے یہ دیکھ کر کہ حضرت صوفی صاحب کی تقریر میں اسلامی تعلیم کے بالکل مطابق ہوتی ہیں خود بھی حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں نمازیں پڑھنی شروع کر دیں.قریبا تین ماہ گزرنے کے بعد غیر احمدیوں نے یکا یک مسجد میں آنا ترک کر دیا.اور دوسری جگہ نمازیں پڑھنے لگے.اور نو ماہ بعد (۶/ ستمبر ۱۹۱۸ء کو) عدالت عالیہ میں یہ دعوی دائر کر دیا کہ احمدی مشرک ہیں ان کو اسلامی تعلیم کی رو سے مسجد میں داخلہ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.یہ مقدمہ قریبا دو سال تک چلتا رہا اور اس کی ستر کے قریب نشستوں میں متنازعہ فیہ مسائل پر پوری اور سیر حاصل بحث ہوئی اور احمدیت کا خوب چرچا ہوا.آخر نومبر ۱۹۲۰ء کو عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ احمدی مسلمان ہیں.لیکن چونکہ غیر احمدی بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور اکثریت بھی انہیں کی ہے اس لئے احمدیوں کو اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.کہ اس میں فساد کا اندیشہ ہے 404-

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 171 اگر چہ اس فیصلہ میں نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت تو احمدیوں کو نہیں دی گئی.لیکن چونکہ اجازت کا نہ دیا جانا اس وجہ سے نہیں تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں بلکہ احمدیوں کو مسلمان تسلیم کر کے فساد ہو جانے کے خدشے کی وجہ سے تھا اس لئے احمدیوں کی بات کو اس فیصلہ سے ذرا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کی ہمت زیادہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا.اور باوجودیکہ وہ اس موقعہ پر قریبا پندرہ ہزار کی رقم کثیر خرچ کر چکے تھے جس میں نمایاں حصہ محمد صدر علی صاحب ما زور صاحب اور بھنوں براور ز نے لیا تھا انہوں نے ۱۹۲۳ء میں نئی مسجد بنائی - ۲۲-۱۹۶۱ء میں خود احمدیوں نے اپنے ہاتھوں اس کی دوبارہ تعمیر کی اور اب یہ ماریشس کی دو منزلہ خوبصورت ترین مسجد شمار کی جاتی ہے.حالات مقدمہ بیان کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ ماریشس مشن کے ابتدائی واقعات کی طرف آتے ہیں.یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت صوفی صاحب نے ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان میں احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی.روزبل سے پانچ میل کے فاصلہ پر سینٹ پیٹر (St.Pierre) ہے جہاں معزز اور متمول بھنو خاندان آباد تھا.حضرت صوفی صاحب اس خاندان کی دعوت پر دوبارہ سینٹ پیئر تشریف لے گئے.جہاں آپ نے قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر سے ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ ایک دن میں اس خاندان کے سب افراد بیعت میں داخل ہو گئے اس واقعہ سے جزیزہ بھر میں ایک شور عظیم برپا ہو گیا.اور روزہال کے کئی مسلمانوں نے بھی بیعت کرلی.بھنو خاندان نے خواہش ظاہر کی کہ قادیان سے ایک عالم خاص ان کے خاندان کی ضروریات کے لئے انہی کے اخراجات پر بلایا جائے.چنانچہ مرکز سے حضرت مولوی حافظ عبید اللہ صاحب ۴ اراسته به ۱۹۱۷ء کو روانہ ہوئے.اور مع اہل بیت کے ماریشس تشریف لے گئے اور بہت اخلاص اور جانفشانی سے نوجوانوں کو پڑھانے لگے.روزانہ رات کو درس دیتے.ہفت روزہ اجلاس کر کے ان کو تقریر کی مشق کراتے اس کے علاوہ عام تبلیغی کاموں میں حضرت صوفی صاحب کا ہاتھ بٹاتے.افسوس دسمبر ۱۹۲۳ء میں ان کا انتقال ہو گیا.اور ان کو ماریشس ہی میں پائی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا.حضرت مولانا عبید اللہ صاحب عہد خلافت ثانیہ کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے اعلائے کلمتہ اللہ کرتے ہوئے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جام شہادت نوش فرمایا.مئی ۱۹۱۷ ء میں حضرت صوفی صاحب نے چار نوجوانوں کو تحصیل علم کے لئے قادیان بھیجوایا جن میں سے دو ( پیر محمد صاحب اور الیاس اکبر علی صاحب) قادیان میں رحلت کر کے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.۲۸/ اپریل ۱۹۱۸ء کو آپ کا پورٹ لوئیس کے امام جامع کے ساتھ ایک کامیاب مناظرہ ہوا 1

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 172 خلافت ثانیه کادو سرا سال ۱۹۲۶ء میں آپ دو ہفتہ کے لئے مڈغاسکر تشریف لے گئے اور وہاں پیغام حق پہنچایا.حضرت صوفی صاحب قریباً تیرہ سال تک ماریشس میں رہے.اس عرصہ میں آپ نے جزیرہ میں احمدیت کا سکہ بٹھا دیا.آپ کو تبلیغ کا جنون تھا اور دشمن تک آپ کی قابلیت کے معترف تھے.آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے ۳/۴ مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ احمد حسن صاحب 1 سوکیہ کے ہمراہ ماریشس سے چل کر ۱۹ مارچ ۱۹۲۷ء میں وارد قادیان ہوئے.آپ کی واپسی کے بعد حضرت اقدس نے حافظ جمال احمد صاحب کو بھیجوایا.جو ۲۷/ جولائی ۱۹۲۸ء کو ماریشس پہنچے.اور اکیس (۲۱) برس تک نہایت درجہ اخلاص و فدائیت سے تبلیغ کا کام کرتے ہوئے ماریشس ہی میں ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو انتقال فرما گئے."سینٹ پیٹر " میں آپ کا مزار مبارک ہے.حافظ جمال احمد صاحب کے سانحہ شہادت کے بعد حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے بالترتیب مندرجہ ذیل مبلغین کو ماریشس روانہ فرمایا.-۱- حافظ بشیر الدین صاحب (ابن مولوی عبید اللہ صاحب) آپ ۳/ جولائی ۱۹۵۱ء کو ماریشس پہنچے.اور ۱۳/ اپریل ۱۹۵۵ء کو واپس تشریف لائے.(۲) مولوی فضل الہی صاحب بشیر.آپ نے پہلی بار ۱۲ فروری ۱۹۵۵ء کو ماریشس میں قدم رکھا.(اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے) اب تک فریضہ تبلیغ بجالا رہے ہیں.-1 (۳) مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر ۸/ دسمبر ۱۹۶۰ ء ماریشس پہنچے اور تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۸ / ستمبر ۱۹۶۲ء کو مرکز میں آئے.ماریشس مشن نے فرانسیسی زبان میں اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی بکثرت اشاعت کی ہے.حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بعض تصانیف کا فرانسیسی ترجمہ بھی ہو چکا ہے.قرآن کریم کا فریح ترجمہ بھی اس مشن کے زیر انتظام چھپ رہا ہے.روزہل میں ۱۶ / جنوری ۱۹۶۲ء کو فضل عمر کالج کا اجراء ہوا.مئی ۱۹۶۲ء میں Le Manage نامی اخبار کا اجراء ہوا.اور جزیرہ کے چھ مقامات روزال فونکس سینٹ پیٹر - موتین بلانش - تریولے اور پائی میں احمدی مساجد موجود ہیں.جماعت احمدیہ ماریشس کے بعض ممتاز احمدیوں کے نام یہ ہیں.احمدید اللہ بھنو - عبد الستار سوکیہ.مسٹر حنیف جواہر.عباس کالو اسی سال حضرت میر محمد اسحق حضرت میر محمد اسحق صاحب کا درس بخاری شریف صاحب نے درس بخاری

Page 209

تاریخ احمدیت جلد ۴ 173 خلافت ثانیه کار و سرا سال شریف دینا شروع کیا.یہ درس ایک خاص رنگ اور امتیازی شان رکھتا تھا.ارشادات نبوی کی ظلمتیں اور باریک در بار یک معارف و نکات ایسے پاکیزه و پسندیدہ و دل نشین و روح افزا انداز میں بیان فرماتے کہ سننے والوں کے دل آنحضرت ﷺ کی عظمت و محبت سے معمور ہو جاتے اور ہر شخص یہی چاہتا کہ آپ بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں درس کے دوران ربودگی اور وجد کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی.آپ کا ایک ایک لفظ محبت رسول میں ڈوبا ہوا ہوتا اور ایک ایک بات سے درد و سوز ٹپکتا تھا.خصوصاً آنحضرت ا کا نام مبارک زبان پر آتے ہی آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آواز بھرا جاتی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے.آپ درس حدیث کے دوران میں آنحضرت ﷺ کو حضور کے مختلف ناموں اور مختلف تصبوں سے یاد فرمایا کرتے تھے اور حضور کا جو نام یا لقب آپ کی زبان سے نکلتا تھا وہ اس جوش اخلاص و محبت میں نکھتا تھا کہ سننے والوں کے دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے خاص کر رسول مقبول" کے الفاظ تو اس رنگ میں آپ کی زبان سے نکلتے کہ گویا دلوں پر نقش ہو جاتے اور پھر حضرت رسول مقبول (فداہ ابی و امی و روحی و جستانی) کا ذکر مبارک اس جذبہ سے فرماتے کہ ہر سننے والا محسوس کرنا کہ گویا میں آنحضرت ﷺ کی پاک مجلس میں بیٹھا ہوا اپنے کانوں سے احادیث رسول سن رہا ہوں.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک دفعہ تحریر فرمایا.”درس تدریس کا بھی حضرت میر صاحب کو بے حد شوق بلکہ عشق تھا ان کا حدیث کا درس اب تک سننے والوں کے کانوں میں گونج پیدا کر کے ان کے دلوں کو گرما رہا ہے.اور ان کی نگاہیں اس ذوق و شوق اور محبت سے درس دینے والے کو بے تابی سے ڈھونڈتی ہیں مگر نہیں پاتیں ".در اصل حدیث شریف حضرت میر صاحب کی غذائے روح اور راحت جان تھی.جس کے بغیر آپ کو تسکین ہی نہ ہوتی تھی.یہی وجہ ہے کہ بے شمار علمی و عملی مصروفیات کے باوجود آپ نے اپنی وفات تک (جو ۱۷ مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی) باقاعدہ درس جاری رکھا اور حتی الوسع کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا." حقیقۃ النبوة“ کی تالیف حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تالیف منیت مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کا جواب ہے جس کا نام انہوں نے "القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار " رکھا تھا.حضور نے یہ معرکتہ الآراء کتاب جو تقریباً تین سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے میں روز کے اندر اندر تالیف فرما کر مارچ ۱۹۱۵ ء میں شائع فرما دی جس میں مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود کے تمام پہلوؤں پر نہایت جامعیت سے بڑی سیر کن اور تسلی بخش بحث کی گئی ہے.اس موضوع پر اسے حرف آخر کا رتبہ حاصل ہے.اس کا فقرہ فقرہ بلکہ لفظ لفظ لا ئق

Page 210

تاریخ احمدیت جلد ۴ "1 174 خلافت ثانیه کار و سرا سال مطالعہ ہے ہم اس کا صرف ایک اقتباس بطور نمونہ درج کرتے ہیں.حضور فرماتے ہیں.نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت ا کی ہتک کرتے ہیں.اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد ال کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد ا کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے.وہ میری جان ہے میرا دل ہے.میری مراد ہے.میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم بیچ ہے وہ خدا تعالی کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں.وہ اللہ تعالی کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں.میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے که بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدے کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں اس میں آنحضرت ا کی ہتک ہے " اس کتاب کے مطالعہ سے بہتوں پر حقیقت نبوت منکشف ہو گئی اور کئی اصحاب کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے یا بیعت خلافت کی سعادت حاصل ہوئی - " چند غلط فہمیوں کا ازالہ " حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے "حقیقتہ النبوۃ " کی اشاعت کے بعد ہی ا/ مارچ ۱۹۱۵ء کو مسئلہ نبوت ہی سے متعلق سولہ صفحات کا ایک پمفلٹ بھی شائع فرمایا.جس میں مولوی محمد علی صاحب کی چند غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا گیا ہے.et ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب ایک غیراحمدی دوست نے اپنے ایک خط میں پانچ سوالات پیش کئے اور درخواست کی کہ خود آپ کی طرف سے ان کا جواب دیا جائے.چنانچہ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب " کے عنوان سے حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جو پمفلٹ کی شکل میں بھی شائع کر دیا گیا - ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغ حضور نے ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغی خط لکھا تھا.جس پر اس نے دریافت کیا کہ حضرت مرزا صاحب کا مقام کیا تھا؟ اس اہم سوال کے جواب میں حضور نے مفصل خط لکھنے کے علاوہ " تحفۃ الملوک" اور

Page 211

تاریخ احمدیت جلد ۴ 175 خلافت ثانیہ کا دی "حقیقتہ النبوة " بھی بھیجوائیں.حضور کا حضور کا یہ خط " ریویو" ف ریلیجز "اردو مئی ۱۹۱۵ء ( صفحه ۱۹۹ تا ۲۰۶) میں چھپا ہوا ہے.جون ۱۹۱۵ء کو سید نا حضرت حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دختر نیک اختر صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت حجتہ اللہ محمد علی خاں صاحب کے فرزند ارجمند حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوا - خطبہ نکاح حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر سوا سات بجے شام مسجد اقصیٰ میں پڑھا.آپ اس تقریب سعید پر لاہور سے بلوائے گئے تھے.حضرت ام المومنین نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اس رشتہ کی بابت خواب دیکھا تھا - ۲/ فروری ۱۹۱۷ء کو نہایت سادگی کے ماحول میں رخصتانہ عمل میں آیا.چنانچہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ "میری شادی کے روز شام کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے بلا بھیجا.چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے.اس لئے شہر پہنچا ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا بھیجا.اور میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے واپس چلا گیا.اور بعد میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بو زینب بیگم صاحبہ دامن کو دار المسیح سے دار السلام لے گئیں " - ۲۳-۲۴ / فروری کو کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے دعوت ولیمہ دی.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے یہ اولاد ہوئی.طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۸ / مارچ ۱۹۱۹ ء ) نواب میاں عباس احمد خان صاحب ولادت ۲ جوان ۱۹۲۰ء) طاہرہ بیگم صاحبه (ولادت ۳/ جون ۱۹۲۱ باز کیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۳/ نومبر ۱۹۲۳ء) قدسیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۰/ جون ۱۹۲۷ء) شاہدہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳۱ / اکتوبر ۱۹۳۴ء) میاں شاہد احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ اکتوبر ۱۹۳۵ء) فوزیہ بیگم صاحبہ (دراوت ۲۲ نومبر ۱۹۴۱ء) میاں مصطفی احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ جولائی ۱۹۴۳ء) سفر لاہور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی مع اہل بیت ۷ / جولائی ۱۹۱۵ء کولا ہور تشریف لے گئے اور ۱۲ / جولائی ۱۹۱۵ء کو رونق افروز قاریان ہوئے 110 جولائی ۱۹۱۵ء کو بعد نماز مغرب میاں معراج الدین صاحب کے احاطہ میں حضور کا معرکتہ الآراء لیکچر ہوا.یہ لیکچر جو بعد کو (۲۶ صفحات میں " پیغام مسیح کے نام سے چھپ بھی گیا.یہ ایک نہایت ہی محمدہ و پسندیدہ لیکچر تھا جس کی عمدگی کالاہور کے غیر مسلموں نے تین اقرار کیا.

Page 212

176' خلافت ماشیه کادو سرا سال آسٹریلیا سے بیعت خلافت کا خط آسٹریلیا میں سالہا سال سے ایک بزرگ صوفی حسن موسیٰ خان صاحب رہتے تھے.جو صحابی تھے اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان بھی آچکے تھے خلافت ثانیہ کے قیام پر بعض وجوہ سے آپ متامل رہے.مگر بالآخر 1/ جولائی ۱۹۱۵ء کو بذریعہ خط بیعت کرلی.اور آخر دم تک اس براعظم میں آنریری طور پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے.آپ بڑے مخلص و پُر جوش بزرگ تھے.ضعیف العمری کے باوجود بڑی محنت و جانفشانی سے کام کرتے.زبانی بھی تبلیغ کرتے اور تبلیغی خطوط بھی بکھرت لکھتے آپ ہی کی کوشش سے وہاں ” بیرسن بین " اور " آڈ میئر میں جماعتیں قائم ہو ئیں اور جزیرہ نجی میں احمد یہ لٹریچر پہنچا.۱۸/ اگست ۱۹۴۵ء کو آپ کی وفات ہوئی اللہ تعالی آپ کو مدارج عالیہ عطا فرمائے.آپ کے بعد تبلیغ کا کام پر تھ کے ایک مخلص احمدی جناب شیر محمد صاحب نے سنبھال لیا ایک والئے ریاست کو جواب حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالی پر ایک والی ریاست نے اپنے معتمد کے ذریعہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور ہمارے یہاں تشریف لائیں ہم سلسلہ احمدیہ کے متعلق کچھ سننا چاہتے ہیں حضور نے جواب دیا کہ پیاسا کنوئیں کے پاس آتا ہے.کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا.ہاں اگر آپ کو واقعی حق کی تلاش ہے.تو علمائے سلسلہ بھیجے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی حفاظت کے آپ ذمہ دار ہوں.۱۹۱۵ء کے وسط آخر کنانور (مالا بار) کے قریب احمدیوں پر راجہ صاحب کے مظالم میں مالا باری احمدیوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ایک احمدی کو مسجد میں نماز پڑھنے کی وجہ سے زدو کوب کر کے نیم جان کر دیا.جس پر مقدمہ چلا.غیر احمدیوں نے مقدمہ کے لئے ایک فنڈ کھول دیا.چند روز کے بعد ایک احمدی کے ایس.حسن صاحب کا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا.راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ احمدی کا فر ہیں کسی مقبرے میں ان کا مردہ دفن نہیں کیا جا سکتا.آخر دو سرے دن بڑی کوشش کے بعد کنانور سے دو میل دور ایک قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت ملی.چار پانچ ہزار لوگ شرارت کے لئے جمع ہو گئے.احمدی صرف نو تھے آخر مسلح پولیس کی حفاظت میں نعش لے جائی گئی.اور شام کے قریب بچہ دفن کرنے کی نوبت آسکی.اس واقعہ کے کچھ دن بعد راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ کوئی دکاندار کسی احمدی کے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہ کرے.ورنہ وہ بھی قادیانی قرار دے کر مساجد سے روک دیا جائے گا.اس سے پہلے کئی احمدیوں کی بیویاں بھی چھینی جاچکی تھیں.اب اس حکم سے لوگوں کو اور شد مل گئی.

Page 213

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 177 خلافت حتی کہ زبانوں سے گزر کر ان حالات کا ذکر اخباروں میں بھی آنا شروع ہو گیا.اور ان کے مظالم کی رفتار بہت تیز ہو گئی.چنانچہ ایک اخبار "کیر لاپتر کا" نے لکھا." احمدیوں پر تکالیف کی بوچھاڑ پہلے کی نسبت بہت زیادہ پڑنے لگی ہے.بیچارے اپنے گھر کے صحن سے بھی باہر نہیں نکلتے جن کے پاس کچھ مال تھا وہ اندر بیٹھے کھا رہے ہیں اور جو غریب ہیں وہ فاقے کاٹ رہے ہیں.جب یہ حالات منظر عام پر آگئے تو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے گورنر مدراس کو توجہ دلائی اور تحقیقات کے بعد احمدیوں کو اپنی مسجد اور اپنا قبرستان بنانے کے لئے الگ زمین دے دی گئی.مگر چند ہی روز کے بعد کنانور کے قاضی صاحب کی رپورٹ پر راجہ صاحب نے احمدیوں کے نام نوٹس جاری کر دیا کہ کیوں نہ تمہیں کافر قرار دیا جائے اس حکمنامہ نے اور آگ بھڑکا دی.لیکن بالآخر مظلوم احمدیوں کی فریاد سنی گئی.اور ۱۷/ نومبر ۱۹۱۵ء کو راجہ صاحب انگریزی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور احمدیوں کو ان کے مظالم سے نجات ملی 2 الارشاد | حضور کے نصائح حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب مبلغ انگلستان کو حسب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی ٹی ۶/ ستمبر ۱۹۱۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہوئے حضور نے ان کو جو تفصیلی ہدایات و نصائح اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر دیں.ان کا شخص یہ ہے.اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یو رپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے.یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں.بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں.خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں.کھانے پینے پہنے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں- اخلاص سے سمجھا ئیں اور محبت سے کلام کریں.ہر ہفتہ مفصل خط لکھتے رہیں.اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالٰی سے دعا کریں.اگر کسی فوری جواب کی ضرورت ہو.خط لکھ کر ڈال دیں.اور خاص طور پر دعا کریں تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے خدا کی قدر میں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے.اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں کم خوردن کم گفتن کم خفتن عمدہ نسخہ ہے.اور تجد ایک بڑا ہتھیار سندھی ٹریکٹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے سندھ کو پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ۱۹۱۵ء کے آخر میں ٹریکٹ لکھا جو سندھی زبان میں بعنوان " ایک عظیم الشان بشارت " شائع کیا گیا TAY

Page 214

تاریخ احمدیت جلد ۴ 178 خلافت مهمانیه کادو سرا سال "فاروق" کا اجراء خلافت ثانیہ کے عہد میں مرکز سے پہلا اخبار " فاروق " حضرت میر قاسم على صاحب کی ادارت میں ۷ / اکتوبر ۱۹۱۵ء کو جاری ہوا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے اس کے پہلے پرچہ میں بعنوان "فاروق کے فرائض " ایک نہایت قیمتی مضمون لکھا - حضرت میر قاسم علی صاحب فاروق کی ابتدا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں.خاکسار ایڈیٹر فاروق ۱۹۱۵ء میں دہلی سے ہجرت کر کے دارالامان میں آگیا.بعض ذمہ دار احباب نے مجھے انجمن کی طرف سے ہیڈ مبلغ بننے کی صلاح دی.جس کے لئے میں نے اپنے آپ کو نا قابل سمجھا.اور اس تجویز کو منظور نہ کیا.میرے پیارے مقتدا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے میری حالت کا اندازہ فرما کر مجھے یہی حکم دیا کہ میں جس طرح دہلی سے "الحق" اخبار نکالتا تھا اسی طرح دار الامان سے اخبار جاری کروں اور اس کا نام خلافت ثانیہ کے لحاظ سے فاروق تجویز ہوا" - "فاروق" مخالفین اسلام و احمدیت کے لئے شمشیر برہنہ تھا جن کے دلائل سے ان کے اعتراضات پارہ پارہ ہو جاتے تھے.افسوس اپریل ۱۹۴۲ء میں حضرت میر قاسم علی صاحب کی وفات کے بعد یہ بند ہو گیا.مولوی عبدالحی صاحب کی خدمت میں لاہوری وفد حضرت صغری بیگم صاحبہ.FAC TAA (حرم حضرت خلیفہ اول) اور مولوی عبدالحی صاحب نے ابتدا ہی میں بیعت خلافت ثانیہ کرلی تھی.مگر غیر مبایعین برابر اس کوشش میں لگے رہے کہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کر کے انہیں اپنے اندر جذب کر لیں.چنانچہ جناب میاں عبد الوہاب صاحب عمر کا بیان ہے کہ ”مولوی عبد الباقی صاحب بہاری ایم اے نے بتایا کہ حضرت خلیفتہ اصحیح اولاد کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانے میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے ان کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے انہوں نے فرمایا.” یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتاتب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے.اطاعت کرنا آسان کام نہیں.میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو.اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں.پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں.یا نہیں.مولوی عبدالحی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعوئی میں بچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفتہ المسیح کی بیعت کر لو.یہ بات سن کر وہ لوگ......کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہو "CI

Page 215

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 179 خلافت ثانیه کارد سرا سال ابتداء میں جب انگریزی حکومت نے جماعت احمدیہ کی طرف سے اہم میموریل مسلمانوں سے دریافت کیا.کہ تمہارے مقدمات وراثت کا فیصلہ رواج پر ہو یا شریعت پر.تو بعض نے رواج لکھوایا اور بعض نے شریعت.ہر قوم کے رواج الگ الگ تھے.اس لئے مقدمات بہت طول کھینچنے لگے.کیونکہ ہر شخص اپنے آپ کو کسی ذاتی فائدے کے لئے ایک خاص رواج کا پابند قرار دیتا جس پر بالآخر حکومت نے تجویز کی کہ تمام قوموں کے رواج کی ایک کتاب لکھی جائے اور جو رواج اس میں درج ہوں وہی قانون قرار دیئے جائیں.اور ان کے سوا کچھ مسلم نہ ہو.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اکتوبر ۱۹۱۵ء میں جماعت احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ انہیں حکومت کو میموریل بھیجنے چاہئیں.کہ ہم خواہ کسی قسم یا ذات یا خاندان سے ہوں ہم احمدی ہیں اور شریعت کے تابع ہیں اور ہمارا عمل در آمد شریعت اسلامیہ ہے پس ہمارے مقدمات شرع کے مطابق فیصل ہوا کریں.جو مسئله اسلامی فرقوں میں متنازعہ فیہ ہو اس میں احمدی علماء کی رائے معتبر مانی جائے.چنانچہ جماعت نے اس کی پوری پوری تعمیل کی اور کو جماعت احمدیہ کا اکثر و بیشتر حصہ پہلے ہی رواج پنجاب کی بندھنوں سے آزاد اور احکام اسلامی کا پابند تھا مگر میموریل کے ذریعہ سے انگریزی حکومت پر بھی واضح ہو گیا کہ یہ جماعت رواج کی بجائے اسلامی شریعت کو اپنا آئین سمجھتی ہے لیکن اس کے مقابل (ایک قلیل طبقہ کے سوا) مسلمانوں کے سواد اعظم نے شریعت پر رواج کو ترجیح دی.ڈبلیو ایچ رینگین نے رواج عام پنجاب کی مشہور اور مستند ترین کتاب The digest of" "Customary law میں لکھا ہے کہ "The family of the Mughal Barlas of Qadian Tehsil Batala is governed - by Muhammdan Law" M یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواج زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانون شریعت کا پابند ہے.۱۱/ نومبر ۱۹۱۵ء کو مولوی عبدالحی صاحب (ابن مولوی عبدالحی صاحب کی وفات حضرت خلیفہ اول) کا انتقال ہوا.آپ کی وفات پر کثیر التعداد تعزیت ناموں کے علاوہ کئی احباب بیرون سے تعزیت کے لئے آئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چودھری فتح محمد صاحب سیال مبلغ انگلستان کو مولوی صاحب کی وفات کی نسبت اطلاع دیتے ہوئے لکھا.”عزیز میاں عبدالحی کو دو ہفتہ بخار رہا.اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی.مگر پچھلی جمعرات کو یک لخت حالت بگڑ گئی.اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بیہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے.اناللہ وانا اليه راجعون...قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ

Page 216

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 180 خلافت ثانید چکے تھے اور اب کے فتحہ ہائی کا امتحان دینا تھا.سال ڈیڑھ سال سے شبانہ روز جسم و علم میں ترقی تھی.اور اب خاصہ جوان آدمی معلوم ہوتے تھے.ذہن نہایت تیز اور رسا تھا مگر منشاء الہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا.اور اس کے ہر فعل میں حکمت ہوتی ہے اور جیسا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا.یہ واقعہ بھی اللہ تعالی ہی کی حکمتوں کے ماتحت تھا.ورنہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا.مرحوم بوجہ کمسن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آجاتا تھا.میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی ان کو لے آیا تھا.(ان کی بہن امتہ الحی کی خواہش سے ) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر سا تھا اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں مجھے اس سے تسلی ہوتی ہے معلوم ہوتا ہے وفات سے پہلے اس کے دل کے دروازے اللہ تعالٰی نے کھول دیئے تھے اور ایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالٰی سے جاملا.مجھے اس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہئے.اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحب اللہ کا اس سے محبت رکھنا تھا.بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اسے خود بھی مجھ سے محبت تھی 1......۲۹۷۴۹۵ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگاہ احمد یہ ہوسٹل لاہور کا قیام دوربین تبلیغ کی راہوں اور طریقوں سے گزر کر نو نهالان جماعت کی ابتدائی تعلیمی و تربیتی ضرورتوں تک بھی جا پہنچی.قادیان میں ان دنوں کوئی کالج نہیں تھا.اس وجہ سے یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو لاہو ر یا دو سرے شہروں کے کالجوں میں داخل ہونا پڑتا تھا.یہ صورت حال تربیتی نقطہ نگاہ سے بڑی خطرناک تھی.کیونکہ جماعتی ماحول سے نکل کر دنیا کے زہر آلو د مادی ماحول میں داخل ہو جانا خام طبیعتوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.حضور نے جماعت کی نئی پود کو اس خطرہ سے محفوظ کر دینے کے لئے تجویز فرمائی کہ لاہور میں احمدی نوجوانوں کے لئے ایک ہوسٹل قائم کیا جائے.جہاں جماعت کے نوجوان طلبہ جماعت کے تربیتی نظام کے ماتحت رہیں.یہ ہوسٹل ۱۹۱۵ء کے آخر میں جاری ہوا.اور اس کے پہلے سپرنٹنڈنٹ مکرم بابو عبد الحمید صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لاہور مقرر کئے گئے.اور درس و تدریس کا فرض حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ادا فرمانے لگے I حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا شروع شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو احمد یہ ہوسٹل میں ہی قیام فرماتے.کہ طلباء میں دینی روح پیدا ہو.اور وہ احمدیت سے اخلاص میں ترقی کریں.اور یہ حضور کی اس خاص توجہ کا نتیجہ تھا کہ احمد یہ ہوسٹل کے طلباء نہایت اخلاص و جوش رکھنے اور خدمات سلسلہ میں پورا حصہ لینے والے تھے.چنانچہ مسجد لندن کی تحریک پر صرف احمد یہ ہوسٹل کا چندہ دو ہزار کے قریب تھا.امتحان کے دنوں میں بھی طلباء TAA

Page 217

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 181 خلافت ثانیہ کا دو سرا سال احمدیت کی تبلیغ کے جوش میں سائیکلوں پر سوار تمام شہروں میں اشتہار بانٹتے پھرتے.ایک دفعہ حضور امتحان کے دنوں میں لاہور تشریف فرما ہوئے.تو لڑکوں نے امتحان کا کام چھوڑ دیا.مگر خدا کے فضل سے پھر بھی ان کے نتائج بہت عمدہ رہے.اسی طرح جب ۱۹۱۷ء میں غیر احمد یوں نے قادیان میں پہلا جلسہ منعقد کیا تو احمد یہ ہوسٹل کے طلباء بھی قادیان پہنچ گئے.وہ بھی امتحان کے دن تھے لیکن بفضلہ تعالٰی سب کے سب پاس ہو گئے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپریل ۱۹۲۷ء میں جب کہ آپ ناظر تعلیم و تربیت تھے.احمد یہ ہوسٹل کے مفصل قواعد و ضوابط مرتب فرمائے.کل چالیس قواعد تھے جن میں سے چند یہ تھے.(1) کسی بورڈر کے پاس رات کو کوئی مہمان نہیں ٹھہر سکے گا.(۲) ہر بور ڈ ر اسلامی تعلیمات کا پابند ہو گا.اور سپرنٹنڈنٹ کے احکام کی اطاعت کرے گا.(۳) پانچوں نمازیں ادا کرنی ہوں گی.اور رمضان کے روزے رکھنے ہوں گے.(۴) سگریٹ نوشی ممنوع ہو گی.(۵) ہوسٹل کے ملازمین سے طلباء قرضہ نہیں لے سکیں گے وغیرہ وغیرہ.احمد یہ ہوسٹل کو لاہور میں ایک عرصہ تک نوجوانان احمدیت کے دینی و علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی.یہ گویا اسلامی ماحول میں پرورش پانے والا ایک شجر تھا جس نے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب - ملک غلام فرید صاحب ملک عبدالرحمن صاحب خادم- ڈاکٹر بدر الدین صاحب - حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے.شیخ یوسف علی صاحب بی.اے سید عزیز اللہ شاہ صاحب سید محمود اللہ شاہ صاحب جناب شیخ بشیر احمد صاحب جناب مرزا عبد الحق صاحب جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر.جناب میاں عطاء اللہ صاحب.صوفی محمد ابراہیم صاحب اخوند عبد القادر صاحب مرحوم اور چوہدری علی اکبر صاحب جیسے اثمار شیریں پیدا کئے.رپورٹ مجلس مشاورت 1928 ء (صفحہ 244 تا 246 ) میں احمد یہ ہوسٹل کے قدیم طلبہ کی حسب ذیل فہرست شائع شدہ ہے.(۱) میاں عبداللہ خان صاحب (۲) ملک غلام فرید صاحب (۳) ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب (۴) صوفی محمد ابراہیم صاحب (۵) چود بری محمد لطیف صاحب (۶) ڈاکٹر غلام قادر صاحب (۷) شیخ احمد الدین صاحب * 1916-1915 (۸) ڈاکٹر غلام علی صاحب (۹) ڈاکٹر غلام محمد صاحب (۱۰) ڈاکٹر ایل الدین صاحب (۱۱) میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد (۱۲) چودہری غلام حسین صاحب (۱۳) چود بری ظفر اللہ خان صاحب نائب تحصیلدار

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 182 +1917 (1) شیخ یوسف علی صاحب (۲) سید محمود اللہ شاہ صاحب (۵) ڈاکٹر محمد رمضان صاحب (۶) سید عزیز اللہ شاہ صاحب (۷) میاں عطاء اللہ صاحب (۳) خلیفہ تقی الدین صاحب (۴) چودہری علی اکبر صاحب (۸) حشمت علیخان صاحب +1918 (۱) چودہری عصمت اللہ صاحب وکیل (۲) محمد حسن صاحب (۳) غلام محمد +1919 خلافت ثانیہ کا در سرا سال (1) عطاء اللہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ (۴) غلام حسین (۲) سید عنایت اللہ شاہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ (۵) سید فضل الرحمان (۳) ہارون رشید (۱) صوفی عبد القدیر صاحب (۲) شیخ فضل کریم صاحب (۱) عبدالقدیر کاٹھ گڑہی (۲) عبدالجلیل صاحب کا ٹھ گڑہی (۳) سید عبدالرزاق +1920 +1921 (1) سید عبدالحی (۳) عبد الغفار مرحوم (۴) محمد انور پسر قاضی عبد الحق مرحوم (۴) چودہری ولی محمد (۵) عبد الرحمان رانجه

Page 219

تاریخ احمدیت جلد ۴ (۱) رشید احمد (۲) عبید الاسلام (۳) حمید الله (۴) محمد اسمعیل (۱) کرامت الله (۲) حبیب اللہ (۳) برکت الله 183 *1923-22 +1924 خلافت ثانیه کارد سرا سال (۵) عبد المنان (1) نذیر احمد (۷) نذیر احمد (۸) صلاح الدین (۴) محمد صادق (۵) عبدالرحیم مالا باری *1925 (۱) مرزا محمد یعقوب (۲) شیخ محمد یعقوب (۳) محمد شریف (۴) میر عنایت اللہ (۵) اسد اللہ خان (1) عبد الغفور $1926 (1) مشتاق احمد (۲) ناصر الدین (۳) احمد الدین (۴) محمد یوسف (۵) محمد داؤد (۶) شریف احمد (۷) غیور احمد (۸) غلام احمد (۹) فیض قادر (۱۰) مولوی عبد السلام (۱۱) محمد اسمعیل رام پوری (۱۳) اختر احمد (۱۳) محمد زاہد +1927 (1) عبدالرحمن جنید (۲) افتخار الحق (۳) ضیاء اللہ (۴) عبدالحمید خان

Page 220

تاریخ احمدیت جلد " 184 خلافت ثانیه کار و سرا سال فہرست طلباء بیرون از قادیان (1915ء تا 1921ء) (1) چود ہری محمد حسین صاحب ہیڈ کلرک.جھنگ (۲) میاں محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ (۳) مرزا عبد الحق صاحب وکیل گورداسپور (۴) شیخ سردار علی صاحب سٹوڈنٹ ایم.بی.بی.ایس (۵) شیخ بشیر احمد صاحب وکیل گوجر انوالہ (1) اخوند غلام حسن صاحب پروفیسر بہاول پور کالج (۷) چودہری فضل احمد صاحب اے.ڈی.آئی.گوجرات (۸) میاں ناصر علی صاحب تمیم (۹) چودہر کی غلام احمد صاحب (۱۰) ملک غلام نبی (۱۱) چودہری غلام احمد (۱۲) مرزا غلام حیدر وکیل (۱۳) میر عطاء اللہ خان احمد یہ ہوسٹل میں مدت تک احمدیہ فیلوشپ آف یو تھ " کے نام سے ایک مجلس قائم رہی.جس کے روح رواں جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم تھے اس مجلس نے یوم التبلیغ اور دوسرے موقعوں پر کئی پمفلٹ شائع کئے ایک پمفلٹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی تحریر فرما کر اسی انجمن کو چھاپنے کے لئے عنایت فرمایا پہلے پارہ کی نادر تغییر (اردو اور انگریزی میں) حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت و سمبر ۱۹۱۵ء کے آخر میں قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تغییر اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں میں شائع ہوئی.یہ تفسیر خود حضور کی لکھی ہوئی تھی مگر آپ کے نام سے شائع نہیں ہوئی.کیونکہ آپ نے جماعت کے ذمہ دار اصحاب سے فرما دیا تھا کہ میں صرف ایک نمونہ تیار کرتا ہوں.اور آگے اسے مکمل کرنا آپ لوگوں کا کام ہو گا.اس تفسیر کے لئے حضور نے علماء کی ایک کمیٹی بھی تجویز فرمائی جس کے ممبر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل تھے.اس تفسیر کا انگریزی ترجمہ احمدی علماء کے ایک بورڈ نے کیا تھا.جس میں قاضی عبد الحق صاحب مرحوم پیش پیش تھے.اور اس کی اشاعت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خرچ پر ہوئی.جو جائداد کا ایک حصہ فروخت کر کے مہیا کیا گیا تھا.

Page 221

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 185 خلافت ثانیه کادو سرا سال اس نادر تفسیر نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ کے حلقوں میں بھی بڑی ہلچل پیدا کر دی تھی حتی کہ امریکہ کے مسیحی اخبار "مسلم ورلڈ " نے لکھا.احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی اس بات کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ مذاہب کی موجودہ جنگ میں اسلام اور مسیحیت میں سے کون غالب آنے والا ہے.ایسٹ اینڈ ویسٹ " (لندن) نے لکھا.یہ قرآن مجید کا بے نظیر ترجمہ ہے.جس سے مطالب قرآن پر خوب روشنی پڑتی ہے." سول اینڈ ملٹری گزٹ " لاہور نے یہ رائے دی کہ اس ترجمہ سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قرآن سرا سر مربوط کلام ہے جس کی ہر آیت اپنی جگہ ٹھیک نکے ہوئے موتی کی طرح ہے.ہندوستان کے مشہور فاضل ڈاکٹر عبد الله المامون السر وردی ایم.اے نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ ترجمہ کتاب مجید کا ایک شاندار ایڈیشن ہے تشریحی نوٹ سبق آموز اور روشنی پیدا کرنے والے ہیں یہ نئی علمی کوشش اس امر کی مستحق ہے کہ مذاہب عالم کا غیر جانبداری سے مطالعہ کرنے والے تمام لوگ اس کی اعانت و تائید کریں ۲۱۰ محلہ دار الفضل قادیان کے شمال مشرق میں احمد آباد اور کھارا کے درمیان آخر ۱۹۱۵ء میں ایک نیا محلہ آباد ہونا شروع ہوا.جس کا نام " دار الفضل " رکھا گیا.یہ محله ای سرزمین پر آباد ہوا جو انگریزی پارہ کے اخراجات مہیا کرنے کے لئے فروخت کی گئی تھی.اس محلہ میں ابتداء حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل - حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ ) حضرت میر قاسم علی صاحب اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری و غیرہ بزرگوں نے مکانات بنائے تھے.سرزمین سندھ سے متعلق ایک اہم خبر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے ۱۹۱۵ء میں خواب میں دیکھا کہ آپ نہر میں بہہ رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں ia - یہ خواب ایک عرصہ کے بعد غیر معمولی نشان بن کر پوری ہوئی.اور اب اس علاقہ میں حضور اور حضور کے خاندان اور سلسلہ کی ہزاروں ایکٹر کی جائداد موجود ہے.اور محمد آباد - احمد آباد - محمود آباد - ناصر آباد اسٹیٹس قائم ہیں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد کے دو سرے سالانہ جلسہ انوار خلافت" دسمبر ۱۹۱۵ء کی مختلف تاریخوں میں نہایت حقیقت نما اور معلومات افزا چار تقریر میں فرمائیں.حضور نے ان تقریروں میں مسئلہ اسمہ احمد "" مسئلہ نبوت وغیرہ پر بڑی شرح و سط سے کلام فرمایا ہے اور کتب معتبرہ کی رو سے عبد اللہ بن سبا کے فتنہ کی پوری تاریخ بیان فرما دینے کے بعد جماعت کے دوستوں کو یہ دل ہلا دینے والی وصیت فرمائی کہ.آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں.اور تیار رہیں فتنے ہوں گے اور بڑے سخت

Page 222

تاریخ احمدیت جلد ۴ 186 خلافت تانیه کادو سرا سال ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے خدا تعالی تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے.کیونکہ ان کے مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گے.دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ.اس وقت حضرت مسیح موعود کے صحابہ بہت کم ہوں گے.ا خاندان مسیح موعود میں ترقی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے فرزند متفرق مگر اہم واقعات اور جند مرزا حمید احمد صاحب کی ولادت ہوئی.1 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے لاہور اور مالیر کوٹلہ کا سفر کیا حضرت ام المومنین علی تشریف لے گئیں 20 FIA مولوی عبدالحی صاحب کی وفات پر ۴/ نومبر ۱۹۱۵ء کو مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب مرزا خدا بخش صاحب وغیرہ حضرات قادیان آئے اور خاندان حضرت خلیفہ اول سے تعزیت کرنے کے بعد مزار حضرت مسیح موعود پر فاتحہ پڑھنے چلے گئے.حضرت امیر المومنین کی طرف سے انہیں چائے کی دعوت بھی دی گئی تھی مگر وہ مقبرہ بہشتی ہی سے لاہور واپس ہو گئے 7749 حضرت سید میر محمد الحق صاحب کے فرزند میر محد نا صر صاحب.میاں نجم الدین صاحب اور حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلہ کا انتقال ہوا.غیر مبایعین حضرات نے اپنے سالانہ جلسہ میں کچھ وقت سوال وجواب کے لئے رکھا تھا.حضرت امیرالمومنین کے حکم سے حضرت میر محمد الحق صاحب اور حضرت میر قاسم علی صاحب سوال و جواب میں شریک ہونے کے لئے لاہور تشریف لے گئے.حضرت مسیح موعود کے دعوئی ماموریت سے پہلے کا فارسی کلام " در مکنون" کے نام سے شائع ہوا.- حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ ) گورنمنٹ ہائی سکول پورٹ بلیر (انڈیمان) میں ہیڈ ماسٹر بن کر گئے.اور جلد ہی اپنے فرائص کے ساتھ ساتھ دیوانہ دار تبلیغ کر کے جماعت قائم کر دی اور کولمبو کانڈی وغیرہ شہروں میں لیکچر دیئے.اور لارڈ بشپ اور بدھ لیڈروں کو مقابلہ پر بلایا.جس کا مقامی پولیس میں خوب چرچا ہوا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پیراکبر علی

Page 223

ت - جلد ۴ 187 خلافت عالیه کادو سرا سال صاحب فیروزپور - خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب ( قادیان) کے خطبات نکاح پڑھے.۱۰ مشهور مباے مباحثہ ڈیرہ غازی خان - حضرت میر محمد الحق صاحب اور مولوی عزیز بخش صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب کے درمیان مباحثہ گوجرانوالہ Baa - (احمدی مناظرین حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب - حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی) مباحثہ شملہ (جو مولوی عمر دین صاحب شملوی نے منشی عبدالحق صاحب اور حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی سے نبوت مسیح موعود کے موضوع پر کیا مباحثہ موضع کھیر ضلع گجرات - احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی) مباحثہ چٹا گانگ +11 ۱۳۲۴| Ba - مباحثہ سٹروعہ شیخ محمد یوسف صاحب نے ایک سکھ سے مناظرہ کیا ) علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات "حیات النبی " جلد اول از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) تذكرة المهدی حصہ اول ) از حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی) "صداقت مریمه " ( از حضرت میاں معراج دین صاحب عمر بابا نانک کی سوانح عمری " از شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) " تذكرة الذاكرين " ( حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیروی) -۱۲ حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب (حیدر آباد (دکن) ماشہ فضل حسین صاحب (لاہور) اور پروفیسر یک کلیمنٹ (انگلستان) احمدیت میں داخل ہوئے.

Page 224

تاریخ احمدیت جلد ۴ 188 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال دو سرا باب (فصل سوم) خلافت ثانیہ کا تیسرا سال جنوری ۱۹۱۶ء تا دسمبر ۱۹۱۶ء بمطابق ۱۳۳۴ھ تا ۱۳۳۵ھ تک) جنوری ۱۹۱۶ء کے پہلے ہفتہ میں مسٹر والٹر (سیکرٹری کریچن سنگ مین مسٹر والٹر قادیان میں ایسوسی ایشن لاہور) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئے.مسٹر ہیوم (ایجو کیشنل سیکرٹری) اور مسٹر یوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچن کالج لاہور ) بھی ان کے ہمراہ تھے.ان سب صاحبوں نے دوبارہ حضور سے ملاقات کر کے بعض مذہبی امور دریافت کئے اور حضور نے بڑی تفصیل سے ان کے جواب دیئے.اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا.گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبد الحق صاحب ترجمان تھے.اسی دوران میں مسٹر والٹر حضرت منشی اروڑے خاں صاحب تحصیلدار کپور تھلہ سے بھی ملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم صحابی اور معمر بزرگ تھے.انہوں نے حضرت منشی صاحب سے چند رسمی باتوں کے بعد دریافت کیا کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا.حضرت منشی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا.مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا.انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا.کہ یہ شخص جھوٹا ہے.باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں یہ فرما کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں.اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا مسٹرو الٹرنے بعد کو " احمد یہ موومنٹ " کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے کہ ” میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے

Page 225

تاریخ احمدیت جلد ۴ 189 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا.میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جاکر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے ) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا.جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے.قادیان میں جاکر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی " rrt اسی طرح مسٹر لیو کس نے سیلون میں جا کر تقریر کی تو کہا کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہو گا.بلکہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہو گا جس کا rrr نام قادیان ہے ".لدھیانہ کا دار البیعت جہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دار البیعت کا افتتاح نے پہلی بیعت لی تھی اب تک ایک مکان کی شکل میں تھا.انجمن احمدیہ لدھیانہ نے ۱۹۱۶ ء میں اس کی مرمت کرائی اور اس کی بیرونی صورت میں تبدیلی کر کے جانب شمال ایک لمبا اور ہوادار پختہ کمرہ تعمیر کرا دیا.اس کی شمالی دیوار کے بیرونی رخ پر دار البیعت کا نام اور تاریخ بیعت ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کا کتبہ ثبت کرا دیا.اور صحن میں پختہ اینٹوں کا بالشت بھر اونچا ایک چبوترہ اور ایک محراب بنوا کر نماز کے لئے مخصوص کر لیا.rro اس ترمیم شدہ عمارت کا افتتاح کرنے کے لئے مرکز سے حافظ روشن علی صاحب تشریف لے گئے اور آپ نے دو دن تک وہاں لیکچر دیئے 0 ۱۹۳۹ء کے قریب دار البیعت یادگار کے طور پر پختہ بنا دیا گیا جس کی نگرانی میں حافظ سید عبد الوحید صاحب آف کمرشل ہاؤس کوہ منصوری اور مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی نے نمایاں حصہ لیا.تائی صاحبہ کی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 1900 ء میں الہام ہو ا تھا." تائی آئی " اس الہام میں تین زبر دست پیشگوئیاں تھیں.(۱) حضرت مسیح موعود کی اولاد میں سے خلیفہ ہو گا.(۲) اس وقت اس کی تائی صاحبہ جماعت احمدیہ میں آجائیں گی.(۳) بیعت کرنے تک آپ بہر حال زندہ رہیں گی.اور ایسا ہی ہوا کہ تائی صاحبہ کا نام حرمت بی بی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیوہ تھیں.اور جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی اور نہ حضرت خلیفہ اول کی اور سخت مخالف رہی

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 190 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال تھیں.مارچ 1914ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاتھ پر بیعت کرلی.ایک احمدی شاعر جناب حسن رہتاسی نے اس پر یہ قطعہ کہا.تیرے وعدے کے مطابق ترے مامور کے پاس چل کے دنیا کے کناروں سے خدائی آئی جس کے آنے کی خبر عہد نبوت میں ملی تائی والے کی خلافت میں وہ تائی آئی مارچ ۱۹۱۶ء میں دار السلطنت دہلی میں جماعت دار السلطنت دہلی میں عظیم الشان جلسہ احمدیہ کا عظیم الشان جلسہ منعقدہ ہوا.جو ۳/ مارچ ۱۹۱۶ء سے شروع ہو کر ۶ / مارچ ۱۹۱۶ء تک چار دن برابر منعقد ہو تا رہا تھا.اپنی نوعیت کا پہلا اور عظیم الشان تبلیغی جلسہ تھا.جلسہ کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام اہل دہلی کے نام جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھ کر سنایا.حضرت حافظ روشن علی صاحب - حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب، چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب، چوہدری ابوالہاشم صاحب، مولوی محمد الدین صاحب اور شیخ عبد الخالق صاحب ماہر بائیبل کے لیکچر ہوئے.لیکن اس جلسہ کی جان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کا وہ معرکتہ الآراء مضمون تھا جو حضور نے "اسلام اور دیگر مذاہب" کے عنوان سے قلم برداشتہ رقم فرما کر بھجوایا تھا.حضور کا یہ نہایت اہم مضمون جس نے اہل دہلی پر باحسن طریق اتمام حجت کر دیا بعد کو کتابی صورت میں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی میں بھی شائع کیا گیا تھا."نصائح مبلغین" ۲) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ء کو نماز ظہر کے بعد مبلغین کے لئے ایک اہم لیکچر دیا.جس میں بہت قیمتی نصیحتیں فرما ئیں.مثلاً تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ رہیں.کتابیں اپنی خرید ہیں.سوال اور خوشامد سے بچیں.اللہ پر توکل کریں دعاؤں میں مصروف رہیں.بدی کے رد میں پوری جرات سے لیکچر دیں.اپنے کام کا محاسبہ کرتے رہیں.استقلال سے کام لیں.مسائل پر غور کرنے کی عادت ڈالیں اور لوگوں کو مرکز میں بار بار آنے کی تاکید کرتے رہیں maal یہ لیکچر "نصائح مبلغین " کے نام سے چھپ چکا ہے."نجات کی حقیقت" حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ۲۵ مارچ ۱۹۱۷ء کو ایک عیسائی کی درخواست پر مسئلہ نجات سے متعلق فلسفہ عیسائیت اور فلسفہ اسلام کا مقابلہ کر کے اسلام کی برتری ثابت فرمائی ہے.

Page 227

تاریخ احمدیت جلد ۴ 191 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال حضرت خلیفتہ اصبح کا ایک پُر حکمت جو اس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں جواب ایک غیر مبائع صاحب کا خط پہنچا.کہ اختلاف عقائد کے باوجود حضور کی مستجاب دعاؤں سے استفادہ کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس نے جواب لکھوایا.اگر آپ صرف دعا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو میں دعا ئیں تو ہر مذ ہب اور ملت کے آدمیوں کے لئے کرتا ہوں اس کے لئے احمدی ہونا اور احمدیوں میں مبائع ہونا شرط نہیں.ہندو اور عیسائی بھی مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں اور میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں.پس اگر یہی غرض آپ کی بیعت کرنے کی ہے.تو یہ غرض مبارک ہے آپ اپنی اصلی حالت میں رہیں اور مجھے کبھی کبھی علم کے لئے یاد دلاتے رہیں.اور اگر بیعت کی غرض اتحاد جماعت کا قائم رکھنا ہے تو پھر اس شرط پر میں آپ کی بیعت منظور کر سکتا ہوں کہ انتظام جماعت کے متعلق آپ کو میرے تمام احکام ماننے پڑیں گے.مسائل اختلافیہ میں نہ میں آپ کے عقائد کا ذمہ دار اور نہ آپ میرے عقائد کے ذمہ دار نہ آج تک کوئی خلیفہ عقائد میں جماعت کا ذمہ دار ہوا ہے لیکن عقائد کے متعلق اتنی احتیاط ضروری ہو گی.کہ جب میں کسی مسئلہ پر بحث کو جماعت کے اختلاف کا باعث قرار دوں تو اس پر بحث کرنے سے کنارہ کشی کرنی ہو گی اگر ان شرائط پر آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں.تو آپ کی بیعت منظور ہے ".۳۴۵ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کامیابی اور شکریہ اس سال ایم.اے کا امتحان دیا تھا.جس میں آپ کامیاب ہو گئے.احباب نے کثرت سے مبارکباد کے خطوط بھیجے جس پر آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر فرمایا.” میری یہ کامیابی اللہ تعالی کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے.کیونکہ ظاہر سامان بالکل مایوس کن تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مجھے ایم.اے تک پڑھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا.سو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس قول کو پورا کرنے کے لئے ہی اللہ تعالیٰ باوجود میری کمزوریوں کے تمام یونیورسٹی کے امتحانوں میں مجھے کامیاب فرما تا رہا.اخبار " صادق " کا اجراء حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جون ۱۹۱۶ء میں رد عیسائیت کے لئے اخبار " صادق " جاری کیا.جو چند اشاعتوں کے بعد بند ہو گیا." حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دعاؤں کی طرف قبولیت دعا کے طریق" توجہ دلانے کے لئے ۲۱ / جولائی اور ۲۸ جولائی ۱۹۱۶ء کو ” قبولیت دعا کے طریق پر نہایت پر معارف خطبات ارشاد فرمائے - جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے

Page 228

تاریخ احمد بیت جلد ۴ ہیں.192 خلافت عثمانیہ کا تیسرا سال حضرت خلیفتہ المسیح کا فرمان بعض لوگ کرتا ہیں یا اشتہارات شائع کر کے احباب جماعت کے نام بغیر ان کی تحریری اجازت یا زبانی درخواست کے دی.پی کر دیتے تھے.جس سے انجمن کے عام چندوں پر اثر پڑتا تھا.اس لئے حضور نے ایک فرمان کے ذریعہ اس کی سختی سے ممانعت کر دی.اور حکم دے دیا کہ اگر کسی صاحب کے نام کوئی ایسادی - پی آجائے تو وہ اسے واپس کر کے مجھے اطلاع دیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے شروع اگست ۱۹۱۶ء میں مسجد اقصیٰ کے قریب جانب غرب و جنوب جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کے مکان کا سنگ بنیاد رکھا سنگ بنیاد.حضرت امیر حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے لئے درس مسلم شریف المومنین ایده اللہ تعالیٰ نے اسی ماہ درس قرآن مجید کے علاوہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب کے لئے صحیح مسلم شریف کا ایک درس عام بھی جاری فرمایا.پیغام صلح" کے چند الزامات کے جواب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی ذات بابرکات کے خلاف "پیغام صلح" کے ایک مضمون میں نہایت ناروا اور بے جا الزامات لگائے گئے جن کے رت میں آپ کے قلم حقیقت رقم سے الفضل ١٦ / ستمبر ۱۹۱۷ء کو ایک مفصل مضمون شائع ہوا.عملی تعزیت نامہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے شیخ حمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کی پہلی بی بی کی ایک بچی چھوڑ کر ۲۲ / ستمبر ۱۹۱۷ء کو فوت ہو جانے پر اپنے دست مبارک سے ایک خط لکھا کہ " آج آپ کا خط ملا تھا اس وقت سے عورت تلاش کرائی گئی لیکن بوجہ بیماریوں کے کوئی نہ مل سکی......چھوٹی بچی کا فکر ہے..میرا خیال ہے کہ جب تک آپ کا گھر خدا تعالیٰ پھر آباد کرے بچی کو ہمارے گھر میں بھیج دیں.اس غرض کے لئے ایک عورت کو بھیجتا ہوں Bol حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کئی ماہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب کا تقرر سے آنریری طور پر افسر مدرسہ احمدیہ کے فرائض انجام دے رہے تھے.مگر اس سال آپ نے ہائی سکول کی پانچویں جماعت کو جغرافیہ پڑھانا بھی

Page 229

تاریخ احمدیت جلد ۴ 193 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال شروع کر دیا.اور مدرسہ احمدیہ کی نگرانی کے لئے حضرت میاں شریف احمد صاحب کا تقرر بطور اسسٹنٹ عمل میں آیا.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے بیرونی ممالک مغربی افریقہ میں احمدیت کا پیغام سے تبلیغی خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا تھا.جس کے نتیجہ میں ۱۹۱۶ء میں نائیجیریا اور سیرالیون میں کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے."سیرت مسیح موعود » حضرت خلیفہ الہی نے یہ اندازہ فرما کر کہ جماعت احمدیہ کی روز افزوں اصحیح ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو صاحب سلسلہ احمدیہ کے حالات سے آگاہی کا خیال پیدا ہو رہا ہے اور ابتدائی حالت میں مفصل و مبسوط کتب کا مطالعہ ان کے کے لئے مشکل ہو گا.نومبر ۱۹۱۶ء میں "سیرت مسیح موعود" کے نام سے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایا جس میں بہت اختصار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت ، دعوئی دلائل مشکلات اور حضور کی چند پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا.یہ رسالہ چھپ چکا ہے اور جاوی و انگریزی زبان میں اس کے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں.آنریری مبلغین کے لئے تحریک حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے تبلیغ کے کام کو ملک کے طول و عرض میں زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لئے نومبر ۱۹۱۶ء میں آنریری مبلغین کے تقرر کی تحریک ہوئی.جس پر کئی احمدیوں نے لبیک کہا 00 بہا رہا ئیکورٹ کا فیصلہ مونگیر کے احمدیوں نے سب بیج مونگیر کی عدالت میں غیر احمدیوں کے نام یہ درخواست دی تھی کہ وہ احمدیوں کے مساجد میں آکر نماز پڑھنے میں مزاحم نہ ہوں.غیر احمدیوں کی طرف سے کہا گیا کہ احمدی کافر ہیں اس لئے انہیں مسجدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.سب حج اور ڈسٹرکٹ جج نے دعوئی خارج کر دیا اور قرار دیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ مسلمان تو ہیں البتہ ان کی بعض رسوم و عقائد دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں اس لئے وہ اس رعایت کے مستحق نہیں.اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی.جس کی سماعت ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۶ء کو شروع ہوئی جماعت احمدیہ کی طرف سے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بیر سٹرایٹ لاء پیش ہوئے.آپ نے کہا کہ عدالت ماتحت نے قانون محمدی کے تحت میرے موکلوں کو مسلمان قرار دیا ہے اس لئے احمدی اس رعایت کے مستحق ہیں.مدعا علیم کی طرف سے مسٹر مظہر حق پیش ہوئے.اپیل کی سماعت ختم ہوئی تو خاتمہ پر چیف جج نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ہائیکورٹ کے جج ان کے بہت شکر گزار ہیں.مگر ہائیکورٹ نے عدالت ماتحت

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 194 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال کے فیصلہ کو بحال رکھا.اور اپیل نا منظور کر دی.فریق ثانی کی طرف سے بھی اپیل کی گئی وہ بھی خارج ہو گئی.حضرت خلیفتہ المسیح ایده پرو فیسر مارگولیتھ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں اللہ تعالی بصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے ۱۶ دسمبر ۱۹۱۶ء کو مشہور مستشرق اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر قادیان آئے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ملاقات کے وقت ترجمان تھے حضور نے ایک مختصر مگر نہایت مفید گفتگو فرمائی اس علمی مذاکرہ میں معجزہ شق القمر بھی زیر بحث آیا.حضور نے ان کو الوادع کہتے ہوئے مغربی حلقوں میں پہنچا دینے کے لئے ایک پیغام بھی دیا جو یہ تھا کہ اگر یورپین لوگ محبت سے اسلامی مسائل کے متعلق تحقیقات کریں تو اس سے انہیں فائدہ بھی ہو گا اور آپس میں محبت بھی بڑھے گی اور حضور نے ان کو بطور تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند عربی مطبوعات دیں اور پروفیسر صاحب عازم لاہو ر ہو گئے.۲۵۸ دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی تمام بیش "صادق لائبریری " کا قیام بہا کتابوں کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا 700 - ۳۵۹ اور صدرانجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کا کتب خانہ اور شہید اور ریونیو کی لائبریری میں اسے مدغم کر کے ایک مستقل مرکزی لائبریری " صادق لائبریری" کے نام پر قائم کر دی.جس کے ناظم افسر مدرسہ احمدیہ تھے.اور ۲۴/ جولائی ۱۹۱۷ء سے حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی اس کے لائبریرین مقرر ہوئے - ۱۹۲۴ء میں یہ لائبریری نظارت تألیف و تصنیف کے زیر انتظام کردی گئی اور حضرت امیر المومنین کی خاص ہدایت پر مخالفین اسلام و احمدیت کی کتب خصوصیت سے جمع کی جانے لگی.۱۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو حکیم غلام حسین صاحب نے اس کا چارج لیا.اور اپنی وفات تک جو ۱۳ / جون ۱۹۵۰ء کو ہوئی یہ خدمت نہایت محنت سے بجا لاتے رہے.نومبر ۱۹۲۹ء میں لائبریری کے قواعد و ضوابط تجویز ہوئے Ba - جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی ۱ لائبریری بھی اس میں شامل کر دی ۱۹۴۷ء میں اس کا بیشتر حصہ قادیان میں رہ گیا.تاہم جو کتابیں بھی لائی جاسکیں وہ از سر نو مرتب کی گئیں.اور دوبارہ ربوہ میں اس کا قیام عمل میں آیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مئی ۱۹۵۲ء کو یہ مرکزی لائبریری اور حضور کی ذاتی لائبریری دونوں ملا کر ایک کر دی گئیں.اور اس مجموعہ کا نام خلافت لائبریری رکھا گیا.اور جون ۱۹۵۲ء میں اس کے پہلے انچارج جناب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل شاہد ڈی.ایل.ایس واقف زندگی مقرر ہوئے

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 195 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال خواتین کے لئے تبلیغی فنڈ کی پہلی تحریک حضرت خلیفتہ البیع الثانی نے آخر ۱۹۱۷ ء میں احمدی عورتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ ولایت میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک تبلیغی فنڈ قائم کریں.اور اس کی صورت حضور نے یہ تجویز فرمائی کہ مستورات آٹے کی ایک مٹھی ایک خاص برتن میں ڈال دیا کریں اور آٹا ہر ہفتہ فروخت کر کے اس کی قیمت قادیان میں بھیجوا دی جائے.ابتداء یہ تحریک قادیان میں شروع ہوئی.سب سے پہلے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی المیہ نے ( جو حضرت خلیفہ اول کی نواسی تھیں) اس میں حصہ لیا."ذکر الهی" حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب سابق ۱۹۱۶ء کے سالانہ جلسہ پر بھی تین تقریر میں فرما ئیں.پہلی تقریر میں وقتی حالات کے مطابق متفرق امور پر روشنی ڈالی.دوسری تقریر میں جماعت کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.་་ تیسری روحانیت سے لبریز تقریر جسے تصوف اسلام کا بہترین خلاصہ اور عطر کہنا چاہئے." ذکر الہی" کے عنوان پر فرمائی جس میں ذکر کی اہمیت اس کی اقسام اس کے آداب و اوقات بتانے کے علاوہ تہجد کے لئے اٹھنے اور نماز میں توجہ قائم رکھنے کے ایسے ایسے عملی طریق بتائے کہ سننے والے وجد میں آگئے.دوران تقریر میں ایک غیر احمد ی صوفی صاحب نے رقعہ بھیجا کہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں اس قسم کا ایک نکتہ صوفیاء کرام دس دس سال خدمت لے کر بتایا کرتے تھے.آپ ایک ہی مجلس میں سب رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں.یہ تینوں تقریریں " ذکر الہی" کے نام سے چھپ چکی ہیں اور ۱۴۶ صفحات پر مشتمل ہیں.۱۹۱۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں امتہ الحمید بیگم صاحبہ پیدا ہو ئیں.- حضرت قمرجان صاحبہ اہلیہ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی ،ماسٹر عبد الحق صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب کی زوجہ (ملکہ جان صاحبہ) اور ہمشیرہ (مختار بیگم صاحبہ) کی وفات - ہوئی.حضرت ام المومنین " دہلی.پانی پت ، مالیر کوٹلہ اور پٹیالہ تشریف لے گئیں حضرت مرزا شریف احمد صاحب سالانہ جلسہ کی انتظامیہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے.اور آپ نے بڑی توجہ اور جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیے - مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی اور منارۃ المسیح کی سفیدی کا کام ختم ہو ا.

Page 232

-q جلد ۴ 196 خلافت ثانیہ کا تیسرا سال حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالی نے مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری (شاگرد خاص حضرت خلیفہ اول) کا نکاح پڑھا.مشہور مباحثات مباحثه امرتسر ( ما بین حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی و مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مباحثہ سرگودھا (حضرت مولانا میر محمد الحق صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان مباحثہ شنگر (مابین حضرت مولانا محمد الحق صاحب اور مولوی عصمت اللہ صاحب مبلغ انجمن حمایت اسلام لاہور ) مباحثہ کو لو تارڑ - (احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ) مباحثہ اجنالہ R - (احمدی مناظر 1 حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری و شیخ عبد الرحمن صاحب مصری) مباحثہ نواں کوٹ احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) مباحثہ بنگہ (احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب ) مباحثہ لکھنو (سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو نے غیر مبایعین سے مناظرہ کیا ) علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: "الفارق " "القول الحمود في شان مصلح الموعود" (از حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب) ممتاز نو مبایعین : ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب کیپ ٹاؤن ) نواب اکبر یار جنگ صاحب سابق ہوم سیکرٹری نظام حیدر آباد حافظ سید عبدالوحید صاحب آف کمرشل ہاؤس منصوری - مولوی عبد اللطیف صاحب (پروفیسر چانگام کالج (2)

Page 233

تاریخ احمدیت جلد ۴ دو سرا باب (فصل چهارم) 197 خلافت ثانیہ کا چوتھا سال ربیع الاول ۱۳۳۵ھ تا ربیع الاول ۵۱۳۳۷) (جنوری ۱۹۱۷ء سے دسمبر ۱۹۱۷ء تک) خلافت ثانیہ کا چوتھا سال سیدنا حضرت مسیح موعود زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت علیہ الصلوۃ والسلام نے A پیشگوئی فرمائی تھی کہ ع "زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار اس کے مطابق ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ ء کو بالشویک انقلاب نے زار کی مطلق العنان اور آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا.اور پھر اسے اور اس کے بیوی اور بچوں کو محبوس کرکے طرح طرح کی سختیوں عقوبتوں اور شرمناک مظالم کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر ۱۴ اپریل ۱۹۱۷ء کو زندہ خدا کے زیر دست نشان " نامی ٹریکٹ لکھا اور دنیا پر اتمام حجت کر دیا اس ٹریکٹ پر بعض اشتہارات میں زار والی پیشگوئی پر کچھ اعتراض کئے گئے.جن کا جواب حضور نے ”خدا کے قتری نشان " کے نام سے شائع فرمایا.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جون ۱۹۱۷ء میں مسئلہ وفات الحجية البالغة" مسیح علیہ السلام پر ایک معرکتہ الآراء کتاب تصنیف فرمائی جو "الحب" البالغہ " کے نام سے شائع ہوئی.FAA نور ہسپتال " کی بنیاد مخدوم و معظم حضرت میر ناصر نواب صاحب کی کوششوں سے یکم رمضان ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۲۱ جون ۱۹۱۷ء کو ”نور ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی.اور ستمبر ۱۹۱۷ء میں اس کی تکمیل ہوئی.ابتداء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 198 خلافت ثانیہ کا چوتھا سال صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور ۲ فروری 1919 ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا 1 حضرت میر محمد الحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے.آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا زنانہ وارڈ قائم ہوا.اپریشن روم میں ترقی ہوئی - ۱۹۳۰ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کئے گئے - نور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا.جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلا تمیز تمام مذہب وملت خدمت کی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اس سال بیٹئی میں تبلیغ مبلغین کا وفد بمبئی میں شروع کرنے گویا ہندوستان کے دروازہ کا تبلیغی محاصرہ کرنے کے لئے / اگست ۱۹۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد بھیجوایا جس کے ممبر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی اکتیس ہدایتیں بھی انکو دیں اور بارش کی حالت میں قادیان سے باہر تک انہیں الوداع کہنے کے لئے بھی تشریف لے گئے - وفد نے قریبا دو ڈھائی ماہ قیام کر کے مسلمانوں کے مختلف فرقوں (خوبے بو ہرے ، میمن ، اسمعیلی وغیرہ) میں اشتہاروں ، لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی اور مخالفتوں کے باوجود خدا کے فضل سے عموماً اچھا اثر رہا.حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بھیتی میں دو ٹریکٹ لکھے.عمومی تبلیغ ادو ٹریکٹ زیادہ تر حضرت مولوی میر محمد اسحق صاحب کی مساعی کا نتیجہ تھی.امر تسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ اس سال احمدیوں کے خلاف امرتسری A (PAA) اور شادیوال میں دو اہم مقدمات کا فیصلہ ہوا.دونوں مقدمات میں وکالت کے فرائض چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کئے.اور سفر شمله دونوں کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ علیل ہو جانے کی وجہ سے طبی مشورہ پر ۳۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو رونق افروز قادیان ہوئے 2 اس سفر میں جو محض تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کیا گیا تھا.حضور کی دینی مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی پورا سفر شروع سے آخر تک نہایت درجہ مشغولیت میں گزرا.حضور نے شملہ میں اپنے وعظ و تلقین کا

Page 235

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 199 خلافت عثمانیہ کا چوتھا سال سلسلہ جاری رکھا.ترقی اسلام میں حصہ لینے سے متعلق جماعت احمدیہ کے نام چھ صفحات کا پیغام بھیجا ۳۰ / دسمبر ۱۹۱۷ء کو حضور کا جماعت شملہ کے سالانہ جلسہ پر "زندہ مذہب" کے عنوان سے زبر دست اور پُر عظمت لیکچر ہوا.جس میں حضور نے قبولیت دعا کے معاملہ میں مذاہب عالم کے لیڈروں کو فیصلہ کن چیلنج دیا.شملہ سے واپسی پر حضور راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے اور پھر حضرت مجدد الف 1 ۴۰۲ ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے پھر راجپورہ واپس آکر پہلے سنور پھر پٹیالہ پہنچے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک نہایت زور دار الفاظ میں دلوں کو ہلا دینے والا لیکچر دیا - خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی دہلوی نهایت شریف مگر ہوشیار غریب دعوت مباہلہ اور اس کا جواب صوفیوں اور صاحب طرز ادیبوں اور انشاء پردازوں میں سے تھے.خواجہ صاحب کے مراسم جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ سے سے قائم تھے مگر یکا یک خدا جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے (رسالہ نظام المشائخ میں) سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو مباہلہ کا یہ عجیب و غریب چیلنج دے دیا کہ وہ اجمیر شریف میں آئیں میں بھی وہاں حاضر ہو جاؤں گا.آستانہ خواجہ غریب نواز کی مسجد میں میرزا صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی باطنی قوت کے تمام حربے مجھ پر آزمائیں.اور جب وہ اپنی ساری کرامت آزما چکیں تو مجھ کو اجازت دی جائے کہ میں صرف یہ کہوں.اے خدا طفیل اس صاحب مزار کی حقانیت کے اپنی صداقت کو ظاہر کر اور ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو اس کو اسی وقت اور اسی لمحہ میں ہلاک کر دے اور اس کے بعد میرزا محمود احمد کو اجازت دی جائے.کہ وہ اپنے الفاظ میں جو جی چاہیں کریں.میعاد صرف ایک گھنٹہ مقرر کی جائے.یعنی دونوں آدمیوں میں سے ایک پر ایک گھنٹہ کے اندر اس دعا کا اثر ہونا چاہئے."اگر تم کو یہ مباہلہ منظور ہو تو ربیع الاول ۱۳۳۷ھ کی چھٹی تاریخ کو اپنے حواریوں کو لے کر اجمیر شریف آجاؤ.......جب تم اس ارادہ سے اجمیر شریف آؤ تو اپنی والدہ صاحبہ سے دودھ بخشوا کر آنا اور ریلوے کمپنی سے ایک گاڑی کا بندوبست کرالینا جس میں تمہاری لاش قادیان روانہ ہو سکے.اور نیز اپنی اہلیہ صاحبہ سے مہر بھی معاف کر الیتا اور قادیان کو والد ماجد کی قبر سمیت ذرا غور سے دیکھ کر آنا کہ پھر تم کو زندگی میں وہ در و دیوار دیکھنے نصیب نہ ہوں گے اور جانشینی کے مسئلہ کو بھی طے کر کے آنا".سید نا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جب خواجہ صاحب کے اس چیلنج کا علم ہوا تو حضور نے مفصل اعلان فرمایا کہ مباہلہ کے مسنون طریق کے مطابق حضرت مسیح موعود کی سچائی کے

Page 236

تاریخ احمدیت جلد ۴ 200 خلافت ثانیہ کا چوتھا سال بارے میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں.آیت مباہلہ سے ثابت ہے کہ دلائل کے اظہار کے بعد مباہلہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہو گا کہ مباہلہ سے پہلے دونوں اپنے اپنے عقائد پر تقریر کر لیں.مباہلہ میں شرط ہو گی کہ عذاب انسانی دخل سے پاک ہو گا.اس مباہلہ کا ظاہر ہونا یوم مباہلہ سے ایک سال کے عرصہ میں ضروری ہو گا ہاں خواجہ صاحب کو اجازت ہوگی کہ آپ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کا وقت مقرر کرلیں.آیت قرآنی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اور سنت رسول" کے مطابق ضروری ہو گا کہ کم سے کم سرگروہ اپنے بیوی اور بچوں کو مباہلہ میں شامل کریں.ان بنیادی شرائط کے علاوہ آپ نے مباہلہ کا اثر وسیع کرنے اور فریقین کے لئے منحرف ہونے کی راہ مسدود کرنے کے لئے ایک شرط یہ رکھی کہ دونوں طرف سے ایک ایک ہزار آدمی شامل مباہلہ ہوں.دوسرے پانچ پانچ ہزار روپیہ بطور ضمانت کسی ثالث کے پاس رکھ دیا جائے.حضرت خلیفہ ثانی نے خواجہ صاحب کو ان کے طریق مباہلہ کی طرف توجہ دلائی کہ "یہ طریق فیصلہ کہاں سے ایجاد کیا گیا ہے.اس قسم کا مقابلہ کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے طریق عمل سے ثابت نہیں خواجہ صاحب فیصلہ کا طریق مخفی طاقتوں اور غیبی تصرفوں کا استعمال اور باطنی قوت کے حربوں کے دار بتاتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم میں بار بار یہی لکھا پاتے ہیں کہ عذاب کا لانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں پس جب کسی انسان کے اختیار میں یہ بات ہی نہیں تو اپنی طرف سے اس کے قواعد بنانے اور غیبی تصرفات کا دعویٰ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے".خواجہ صاحب کا چیلنج اور حضرت اقدس کا جواب پلک کے سامنے آیا تو مولوی ظفر علی خاں نے بچوں کا کھیل اور اسلام سے تمسخر کے دہرے عنوان سے لکھا.” جناب طریقت ماب تقدس انتساب خواجہ حسن نظامی قدس سرہ کو اگر جد امجد کا...طریق کار بھی پسند نہ تھا.تو قرآن کریم کی وہ عام ہدایت کیا ان کے لئے بہترین معیار عمل نہ تھی.کہ اذا تنازعتم في شئ فردوه الى الله و الرسول جب کسی چیز میں مشکل منازعت نکل آئے اور تم میں نزاع ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ و رسول (ﷺ) کی جانب لوٹاؤ.یعنی قرآن کریم اور سنت حسنہ نبویہ پر اس کو پیش کرو کہ تم مسلمان ہو تو کتاب و سنت سے اچھا حج تمہیں کون سا ملے گا.مگر ہمارا ہندوستان کا بادا آدم ہی نرالا..........یہاں ایک گروہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ایک دوسرے گروہ کو کہ اسے بھی قائل اسلام ہونے کا ادعا ہے.مباہلہ کی لعنت آفرین دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ فلاں پیر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر ہم تم ایک دوسرے کو بد دعائیں دیں اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر ملاء اعلیٰ سے عزرائیل کو بلا کر اپنی جبل الورید اس کے نشتر کے حوالہ کر دیں خلیفہ قادیان جناب میرزا بشیر الدین محمود سلمہ کے عقائد سے

Page 237

تاریخ احمدیت جلد ۴ 201 خلافت عثمانیہ کا چوتھا سال کامل اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس قدر کہنے پر صداقت ہم کو مجبور کرتی ہے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کے مباہلہ کا جواب نہایت معقولیت سے دیا ہے ".اب خواجہ صاحب کی سنئے.حضرت کے جواب پر انہوں نے گو ابتداء میں مسنون مباہلہ کی اکثر و بیشتر شرائط پر بظاہر آمادگی ظاہر کی.مگر بالآخر یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ ”چند ماہ کا ذکر ہے میری اہل قادیان سے کچھ مخاطبت ہوئی تھی.میں لگا تار تضیع اوقات نہیں کر سکتا تھا قادیان کی علانیہ گریز دیکھ لی اور سمجھ لی تو اس گفتگو کو ختم کر دیا.اب وہ مذکورہ مباہلہ کی نسبت کچھ ہی لکھتے رہیں مطلق جواب نہ دیا جائے گا.حالانکہ انہوں نے شروع میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”اہل قادیان سے میری خانہ جنگی نہیں بلکہ جہانہ جنگی ہے سارے جہان کو جس قوت مریبی و فنائیہ کا خوف لگا ہوا ہے میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں پروشیا کے قوائے تربیہ کا خاتمہ ہو جائے گا تو دنیا کو امن نہیں ملے گا جتنا کہ قادیان کی طاقت زیر و زبر ہونے سے مل سکتا ہے".(دیش ۲۴/ جنوری ۱۹۱۸ء) مسٹر انٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت مسٹرمائیگو وزیر ہند نے ۲۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو کے تحفظ کے لئے نئی جدوجہد کا آغاز اعلان کیا کہ حکومت کا منشاء ہندوستانیوں کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا ہی نہیں بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالآخر ہندوستانیوں کو سونپ دیا جائے گا اس اہم اعلان سے ملکی سیاست میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہوا.جس کے بعد کانگرس کی تحریک جہاں اور زور پکڑ گئی وہاں مسلمان اقلیت کو اپنے مستقبل سے متعلق ایک صہیب خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس کے تحفظ حقوق کے بغیر آزادی ان کی مستقل قومی ہستی کو ختم کر دے گی اور انگریز کے بعد ملک کی بھاری ہندو اکثریت کے ابدی غلام بن جائیں گے گیارہ سال قبل کا واقعہ ہے کہ نواب محسن الملک کی کوشش سے مسلمانوں کا ایک وفد یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو شملہ میں لارڈ منٹو وائسرائے وگورنر جنرل کی خدمت باریاب ہوا اور اس نے ایک مفصل عرضداشت پیش کی اور کہا.” جو طریقہ نیابت و قائم مقامی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہل ہند کے لئے بالکل نیا ہے.ہماری قوم کے بعض دور اندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور تمدنی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے نہایت حزم احتیاط و مال اندیشی سے کام لینا پڑے گا ورنہ) منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالہ ہو جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے نیز کہا.”قومی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی ایک

Page 238

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 202 خلافت عثمانیہ کا چوتھا سال tt جدا گانہ جماعت ہے جو ہندوؤں سے بالکل الگ ہے ".حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کو سیاست سے الگ رہنے کی پر زور تلقین فرماتے اور بتاتے آرہے تھے کہ ہم مذہبی جماعت ہیں ہمیں سیاست کے دھندوں سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف رہنا چاہئے.لیکن اب جو برطانوی حکومت کی طرف سے نئی پالسی کا اعلان ہوا اور مسلم اقلیت کے حقوق خطرے میں پڑنے لگے.تو حضور محض اسلامی ہمدردی کی بناء پر مسلمانوں کی ترجمانی اور ان کے مفاد کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آگئے.اور آپ نے مصم فیصلہ کر لیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے.اور تمام ممکن اخلاقی اور آئینی ذرائع سے مسلم اقلیت کے جدا گانہ وجود کو قائم و بر قرار رکھنے کی کوشش کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کریں گے اور جیسا کہ آنے والے واقعات سے پتہ چلے گا حضور نے ہرا ہم قدم پر مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کر دیا.اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم مسٹرما نمیگو وزیر ہند کے ہندوستان آنے پر اٹھایا جب کہ انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دہلی میں آکر ریفارم سکیم گورنمنٹ کے سلسلہ میں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا تھا تا آزادی سے متعلق برطانوی سکیم کو بروئے کار لایا جاسکے.حضور اس موقعہ پر بنفس نفیس ۱۳/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی تشریف لے گئے اور جماعت احمدیہ کے بعض سر بر آوردہ ممبر بھی دہلی میں بلوا لئے.حضور کی ہدایت کے مطابق ۱۵/ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک احمد یہ وفد B نے مسٹرما نمیگو سے ملاقات کی.اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.جس میں ملکی شورش کے مختلف اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالنے کے بعد اور آئندہ سیلف گورنمنٹ " کے طریق انتقال سے متعلق مشورہ دیا کہ " انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں ایسے تمام صوبوں میں جہاں کوئی قلیل التعداد جماعت خاص اہمیت رکھتی ہو اور اس کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس جماعت کو اس تعداد سے زیادہ ممبروں کے انتخاب کا حق دیا جائے جس قدر کہ بلحاظ تعداد کے اس کے حصوں میں آتے ہیں.جیسا کہ پنجاب دبنگال کے سوا باقی صوبوں میں مسلمان اور پنجاب میں سکھ اور بمبئی میں پارسی اور مدراس میں عیسائی ہیں اور سرحدی صوبہ میں اگر کبھی اس کو آئینی حکومت ملی تو ہندو ہیں مگر یہ حق ایسی قلیل التعداد جماعتوں کو جو زیادہ قلیل نہیں ہیں ہرگز نہیں ملنا چاہئے.کیونکہ اس حق سے ان جماعتوں کو جو قلیل کثرت رکھتی ہیں سخت نقصان پہنچائے گا مثلا اگر بڑی تعداد والی قلیل التعداد جماعتوں کو بھی یہ حق دیا جاوے.تو ہندوؤں کو تو جن کی میجارٹی جہاں ہے بہت زیادہ کوئی نقصان

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد ۴ لداة -1 203 خلافت ثانیہ کا چو تھا سال نہ ہو گا.مگر مسلمانوں کو جن کی میجارٹی (کثرت) صرف بنگال اور پنجاب دو صوبوں میں ہے اور بہت ہی کم ہے سخت نقصان پہنچے گا اور ان کی میجارٹی (کثرت) کہیں بھی نہ رہے گی.نیز بتایا ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعوئی اسلام رکھتے ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے بھی اپنی رائے دیں " - اخبار پانیئر (الہ آباد) نے اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ "اجمد یہ وقد عصر کے وقت پیش ہوا.سیکرٹری وفد نے اصلاحات کی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورو چین اور ہندوستانی میں جو تفریق کی جاتی ہے یہ موجودہ باعث بے اطمینانی کا ہے ایسی کوئی اصلاحات نافذ نہ ہوں جو چھوٹی جماعتوں کے حقوق کے لئے ضرر رساں ہوں آخر میں بیان کیا ہندوستان کے واسطے دو قسم کی اصلاحیں ضروری ہیں.اول وہ اصلاحیں جو سارے ملک کی مجموعی حالت کا خیال کر کے پیش کی جاتی ہیں.دوئم وہ اصلاحیں جو تعلیم یافتہ اصحاب کی اکثریت چاہتی ہے دونوں قسم کی اصلاحیں بہت ضروری ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اصلاحوں کو جاری کیا جائے لیکن آخری فیصلہ کرتے وقت مفصلہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے.کوئی ایسی اصلاح نہ ہو جس سے قلیل التعداد اقوام کے حقوق کو نقصان پہنچے جو اصلاحیں اس ملک کی مختلف اقوام کی بہبودی کے لئے ضروری نظر آ رہی ہیں.اور ان سے جائز حقوق پورے ہوتے ہیں ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے.احمدیہ وفد کے موقف کی مزید وضاحت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح بھی اسی دن 4 بجے شام مسٹر مانٹیگو سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور ۳۵ منٹ تک گفتگو فرمائی.ترجمان کے فرائض چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انجام دیئے.اور حضور ۲۶ / نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی سے قادیان واپس IA تشریف لائے.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور کے اس نئے اقدام پر بعض حلقوں کا تاثر کیا تھا ؟ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالی خود فرماتے ہیں.” جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے.بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا.میں نے دیکھا کہ جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا.تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے.مجھے یاد ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق (وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں.لیکن اس وقت غیر احمدی تھے ) بیان کیا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ریل سے بارہ میل فاصلہ پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو ا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ تھی لیکن اللہ تعالٰی کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت سکتا.

Page 240

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 204 خلافت ثانیہ کا چوتھا سال آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں.اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو.یا سیاسیات ہوں میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نقطہ پر پہنچوں گا اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں.اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا ۱۳۱۹ : ریاست لائبیریا (مغربی افریقہ) میں احمدیت اسی سال مغربی افریقہ کی ریاست لائبیریا کے ایک پروفیسر نے احمدیت کا لٹریچر منگوایا اس طرح پہلی بار کبیر میں احمدیت کاپیغام پہنچا.۲۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو زمانہ قیام بمبئی میں " تصدیق امسیح والمهدی" تحریک ہوئی کہ حضرت مسیح موعود کے مناقب پر ایک مختصر سا ایک رسالہ لکھنا چاہیے.چنانچہ آپ نے ہمیئی سے واپس آکر د سمبر ۱۹۱۷ ء میں ” تصدیق المسیح المهدی" تصنیف فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کو آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت فرمایا.تحریک وقف زندگی سلسلہ کی تبلیغی سرگرمیاں روز بروز وسعت پکڑ رہی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اشاعت اسلام کے لئے ۷ / دسمبر ۱۹۱۷ء کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب ایم.اے شیخ یوسف علی صاحب بی.اے صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی ظهور حسین صاحب مولوی غلام احمد صاحب مولوی ابوبکر صاحب سماٹری.مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی - خان بهادر مولوی ابوالهاشم خان صاحب ایم.اے اسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال مولوی مبارک علی صاحب بنگالی شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے.ان واقفین کو تین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا.(۱) رابطین جو واقفین کے استاد تھے.(۲) مجاہدین جو عملاً تبلیغی جہاد میں مصروف عمل تھے.(۳) منتظرین جو مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں تعلیم پا رہے تھے

Page 241

تاریخ احمدیت جلد ۴ علمهم 205 خلافت ثانیہ کا چوتھا سال "حقیقته الرؤيا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۸٬۲۷/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر تین نگار یہ فرما ئیں جو " حقیقتہ الرویاء" کے نام سے شائع ہو ئیں.ان تقریروں میں حضور نے علم دین کے طریق بتائے.الہام کشف رویاء اور خواب کے فلسفہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی اور الہام خصوصاً ما موروں کے الہام کی علامات بیان فرما ئیں.۱۹۱۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات - حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے ختم قرآن پر ۱۲۳ فروری ۱۹۱۷ء کو آمین ہوئی.-r حضرت ام المومنین حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب جناب نشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی ہمشیرہ کے رخصتانہ کی تقریب پر سنور (ریاست پٹیالہ) تشریف لے گئے..حضرت خلیفہ المسح الاول کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی نگرانی میں ایک انجمن ارشاد " قائم ہوئی جس کا مقصد جوانوں کو تبلیغی ٹریننگ دینا تھا.اس کے علاوہ حضور کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی انجمن شبان الاسلام M ee کی بنیاد رکھی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا نکاح ثانی جناب مرزا محمد شفیع صاحب کی دختر نیک اختر سے پڑھا.۷ ۱۹-۸-۷ اپریل ۱۹۱۷ء کو قادیان میں احمد یہ کانفرنس ہوئی.کانفرنس کا پہلا اجلاس الاسلام ہائی سکول کے ہال میں.دوسرا مسجد اقصیٰ میں اور تیسرا مسجد مبارک میں ہوا.وسطی اجلاس کی صدارت قمر الا نبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے کی.حضرت خلیفتہ المسیح اول کی یادگار میں شفاخانہ نور کا اجراء ہوا.اور اس کے پہلے انچارج مفتی فضل الرحمٰن صاحب بنے.شفاخانہ حضرت خلیفتہ اول کے مطب والے مکان میں ہی کھولا گیا حضرت خلیفتہ المسح ثانی کے حکم سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم

Page 242

تاریخ احمدیت جلد ۴ 206 خلافت عثمانیہ کا چوتھا سال -E1 کے لئے بھیجے گئے آپ کے ہمراہ محمد سعید صاحب سعدی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے.یہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے.قادیان میں ایک نیا محلہ ” دار الرحمت" کے نام سے آباد ہو نا شروع ہوا جس کے ابتدائی مکینوں میں بابو عبد الرحیم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک غلام حسین صاحب رہتاہی بھی تھے - مشهور مباحثات مباحثہ کاٹھ گڑھ ( آریوں سے.احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب ) مباحثہ نواں شہر - ( آریوں سے) مباحثہ حملہ ضلع گجرات (احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب (HD) مباحثہ ہمیئی (حضرت میر محمد الحق صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی سے بھی اور پادری جو الا سنگھ کے ساتھ مباحثے کئے) مباحثہ ظفر وال (حضرت میر قاسم علی صاحب کا آریوں سے - مباحثہ کلا سوالہ - (شیخ محمد یوسف صاحب کا نماشہ چرنجی لعل پریم کے ساتھ ) مباحثہ سیکھواں ( شیخ محمد یوسف صاحب کا سکھوں سے ان کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے) موضع پیواں (ضلع گورداسپور) میں ایک آریہ پنڈت اور مولوی ابو تراب عبد الحق صاحب سے مباحثہ کیا.۱۲ مرزا گا محمد صاحب (ابن مرز انظام الدین صاحب) داخل احمدیت ہوئے.۴۴۰

Page 243

تاریخ احمدیت جلد ۴ 207 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال دو سرا باب (فصل پنجم) خلافت ثانیہ کا پانچواں سال ربیع الاول ۱۳۳۶ھ تاربیع الاول ۱۳۳۷ھ) جنوری ۱۹۱۸ء سے دسمبر ۱۹۱۸ء تک) احمدیان کٹک پر مظالم حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی خلافت کے پانچویں سال (۱۹۱۸ء) کے شروع میں کٹک (صوبہ بہار) کے احمدیوں پر ایسے ایسے ستم توڑے گئے جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے.چنانچہ اخبار " اہلحدیث " امرت سر جیسا معاند احمدیت اخبار بھی ان مظالم کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے.” قادیانیوں کا قافیہ ایسا تنگ کر دیا ہے کہ بیچارے مکان سے باہر تک نہیں نکل سکتے.مرزائیوں کی میت کا پوچھئے مت - شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستان میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے.کسی کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہے کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے.میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے.تابوت نہیں ملتی.بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں.بانس اور لکڑی کی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے......ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کر گاڑ دیں.تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں وہ آکر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کی طبیعت ۱۹۱۸ ء میں زیادہ مضمحل ہو گئی اور ڈاکٹروں نے بمبئی جانے کا مشورہ دیا.حضور ۳ / مئی ۱۹۱۸ ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.اور لاہور میں ناک و حلق کا بجلی کے ذریعہ علاج کئے جانے کے بعد یمینی تشریف لے گئے.اور خدا کے فضل سے بمبئی میں مرض سے افاقہ ہو گیا اور حضور ۱۵ / جون ۱۹۱۸ ء کو قادیان پہنچ گئے.اس سفر میں حضور کی ایک بچی امتہ العزیز صاحبہ نے (جو حضرت ام ناصر کے بطن سے تھیں) ڈیڑھ سال کی عمر میں وفات پائی اور بمبئی میں دفن ہو ئیں.سفر بمبئی ۴۵ 22

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد ۴ سفرڈلہوزی 208 خلافت عثمانیہ کا پانچواں سال حضور ایدہ اللہ تعالٰی ڈلہوزی تشریف لے گئے اور ۲۲ / جون ۱۹۱۸ء سے ۱۷/ اگست ۱۹۱۸ء تک قیام فرمایا اور ایک آزاد خیال عیسائی کی خواہش پر اس سے گفتگو فرمائی اس دن حضور کی طبیعت ناساز تھی مگر جب دوران گفتگو میں اس نے سید نا نبی کریم ﷺ کی نیت پر حملہ کیا تو حضور نے جلالی رنگ میں ایسا مسکت جواب دیا کہ اسے بہت ہی ندامت سے خاموش سلام سلام ہو جانا پڑا پڑا.اظہار حق اور حقیقت الامر " حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے قلم سے مولوی حضرت محمد علی صاحب کے بعض وساوس و اوبام کے ازالہ میں اظہار حقیقت " اور " حقیقت الامر" کے نام سے بالترتیب جولائی ۱۹۱۸ ء اور ستمبر ۱۹۱۸ء میں دو اہم رسائل شائع ہوئے.۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم کا انفلوئنزا کی عالمگیر و با میں جماعت کی بے لوث خدمت ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا.اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی.جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی.ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا.اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی.لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہو گیا.ان ایام میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں.اور مذہب وملت کی تیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا.احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آخریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی.اور عام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورد و نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والسیر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے ) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہو گئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہو گئے.انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دو سروں کے علاج کو مقدم کیا.یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا.اور تقریر و تحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 209 تندہی و جانفشانی سے کام کر کے بہت اچھا نمونہ قائم کر دیا ہے.خلافت ثانیہ کا پانچواں سال حضرت خلیفہ ثانی کی تشویشناک علالت اور وصیت حضرت امیر المومنین پر آخر ۱۹۱۸ء میں انفلوانزا کا اتنا شدید حملہ ہوا کہ حضور نے ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھ دی جس میں اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نامزد فرما دی.اس اہم وصیت کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.۴۵۰ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کاغذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں.تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام میں اس جگہ تحریر کرتا ہوں ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہو سکیں (گو اگر حد امکان میں ہو تو میرا حکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپس کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر کریں پہلے صدر جلسہ سب کے رو برو باد از بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا.اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا.پھر وہ ہر ایک نامزد شدہ سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صدر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھا ئیں کہ وہ اس معالمہ کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے.حتی کہ وہ شرائط پوری ہو جا ئیں جو میں نے اس تحریر میں لکھی ہیں اس قسم کے بعد یہ سب لوگ فردا فردا اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے.تاکہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیرالمومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو.اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو سب لوگ جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدایا تو ہم پر حق کھول دے.دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھا ئیں اور پھر اسی طرح رائے دیں.اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کر سکیں تو ۳/۵ را ئیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں.اس کی خلافت کا اعلان کیا

Page 246

تاریخ احمدیت.جلد ۴ قفص 210 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہو گا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جو صدر ہو اس مضمون کی بیعت لیں.کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالا اتفاق ہو.بشرطیکہ وہ ان ممبروں میں سے جو صد ر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کرے.( جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا.بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی امور سب سے زیادہ میرے مد نظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا.اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مد نظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں.کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے نیٹوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں.پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے.میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولاد انشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی.بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہو ان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کر لیں بچوں کو اس وقت تک جبکہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں.اور اور وہ ہو بچوں کو دینوی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جاوے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کر سکیں.جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جاوے.باقی حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح اول کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یاد دلاتا ہوں.جو کام حضرت مسیح موعود نے جاری کئے ہیں کسی صورت میں ان کو بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہو تو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے.اللہ تعالی اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہو اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعاؤں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت پہلے سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہو گا؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کس قدر ہی اس کو ناراضگی ہو.اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے.ان

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 211 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال لوگوں کے اسماء جن کو میں خلیفہ کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے مقرر کرتا ہوں.یہ ہیں.(1) نواب محمد علی خان صاحب (۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۳) مولوی شیر علی صاحب (۴) مولوی سید سرور شاہ صاحب (۵) قاضی سید امیر حسین صاحب (۲) چوہدری فتح محمد صاحب سیال (۷) حافظ روشن علی صاحب (۸) سید حامد شاہ صاحب (۹) میاں چراغ دین صاحب (۱۰) ذو الفقار علی خاں صاحب اگر بیرونی لوگ شامل نہ ہو سکیں تو پھر یہیں کے لوگ فیصلہ کریں.خلیفہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو قادیان میں رہے جو خود نمازیں پڑھائے.یہ ضرور کی ہدایت یاد رکھی جائے کہ یہ لوگ اس بات کا اختیار رکھیں گے کہ اپنے میں سے کسی شخص کو انتخاب کریں یا کسی ایسے شخص کو جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ایک نام اس میں اور زیادہ کر دیا جاوے.میاں بشیر احمد صاحب بھی اس میں شامل ہیں.والسلام اگر صد ر جلسه خود خلیفہ تجویز ہو تو جو الفاظ خلیفہ کی بیعت کے لئے رکھے گئے ہیں ان کا وہ خود حلفیہ طور پر مجلس میں اقرار کرے.خدا کے فضلوں کا انکار کوئی نہیں کر سکتا.خلیفہ خدا بناتا ہے.پس اس شخص کو جس کے لئے لوگ متفق ہوں خلافت سے انکار نہیں کرنا چاہئے.ہاں مشورہ دینے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے شخص کو منتخب کریں کہ وہ قادیان کا ہی ہو کر رہ سکے.اور جماعت کرا سکتا ہو.والسلام وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین (دستخط) خاکسار مرزا محمود احمد دستخط خاکسار شیر علی عفی عنہ بقلم خود کاتب تحریر ہذا ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء - دستخط فتح محمد سیال بقلم خود- دستخط خاکسار مرزا بشیر احمد بقلم خود ۱۰/۱۸ ۱۹- دستخط محمد سرور شاه بقلم خود ۱۹ / اکتوبر ۱۹۱۸ء - دستخط خلیفہ رشید الدین ایل ایم ایس بقلم خود ۱۹ / اکتوبر ۱۹۱۸ء - (نوٹ) یہ کاغذ مولوی شیر علی صاحب کی ☐ تحویل میں رکھا جاوے اور اس کی نقل فور ا شائع کر دی جاوے.(دستخط ) مرزا محمود احمد ".حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دوسرے ہی روز یہ وصیت دفتر ترقی اسلام کے میگزین پریس قادیان سے شائع کر دی گئی لم 10 جرمنی نے 11/ نومبر ۱۹۱۸ء کو معاہدہ صلح پر فتح کا جشن مسلمانان ہند اور جماعت احمدیہ دستخط کئے اور دنیا نے جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پانے پر اطمینان کا سانس لیا ۱۲/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی منائی گئی.چنانچہ شیخ عبد القادر صاحب بی.اے (ایڈیٹر "مخزن") نے لکھا.”ماہ نومبر کی بارھویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں وہ مدتوں تک یاد رہیں گی.اور ایک دن کی

Page 248

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 212 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت سی کلفتوں کو دھوڈالا...خدا نے برطانیہ اور اس کے حلیف دول کو بڑی شاندار کامیابی دی ہے...ظلم پر عدل کی فتح ہے خود مختاری پر جمہوریت کی فتح ہے.دنیا کی تاریخ ایک نیا ورق الٹتی ہے.خدا کرے کہ امن و آزادی کا ایک دور جدید دنیا بھر میں اس فتح سے و شروع ہو - ۲۷/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ملک بھر میں جشن فتح منایا گیا.اس تقریب پر مسلمان شعراء نے دل کھول کر نظمیں کہیں مثلاً میر غلام بھیک بی.اے نیرنگ (صدر انجمن دعوت و تبلیغ اسلام انبالہ) نے لکھا.دکھایا اوج طالع نے نگاہوں کو عجب منظر جسے دیکھو خوشی کے جوش میں آپے سے ہے باہر مبارکباد کا اک شور ہے مشرق سے مغرب تک ترانوں سے طرب کے گونجتا ہے گنبد خضر ملی برطانیہ کو فتح کامل ایسے دشمن پر تصور میں نہیں آتا ہے دشمن جس سے قاتل تر شہنشہ جارج کو آخر خدا نے فتح کامل دی که خود فتح و ظفر کو ناز ہے اس شہ کی نسبت پر Cor ایک اور مسلمان شاعر خان احمد حسین خاں (مدیر "شباب اردو ) نے لکھا.فتح شاندار مبارک ہو شہریار تم کو نصیب خضر کی ہو عمر تاجدار تیرا راج راحت اہل قلوب ہو اور اس یہ آفتاب نہ ہر گز غروب ہو RE دوسرے مسلمانوں کی طرح جماعت احمدیہ نے بھی اس جشن میں حصہ لیا.کھیلوں کے مقابلے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا گیا.چراغماں کیا گیا.اور اس تمام تر خوشی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغرور اور متکبر سلطنت جرمنی جو آج سے چند سال پیشتر تمام دنیا کو اپنی ظلم و استبداد کی حکومت کے ماتحت لانے کے خواب دیکھ رہی تھی اس پر برطانیہ اور اس کی اتحادی طاقتوں نے کامل غلبہ اور فتح اور اقتدار حاصل کر لیا.۴۵۵ حضور نے پانچ ہزار روپیہ جنگ عظیم میں کام مسلمان بچوں کے لئے پانچ ہزار روپیہ آنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے لفظ میں عطا فرمایا.مگر فنڈ 1 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہاں (حضرت ام ناصر کے متفرق مگر اہم واقعات بطن سے) صاجزادہ بطن سے ) صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور حضرت سیدہ امتہ الحی کے بطن سے صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی ولادت ہوئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب پیدا ہوئے.

Page 249

تاریخ احمد بیت - جلد به 213 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال -2 -A صد را منجمن احمدیہ نے اپنے کارکنوں کے لئے پراویڈنٹ فنڈ کا سٹم جاری کیا ۱۹۱۸ء کا سالانہ جلسہ ملتوی کر دیا گیا.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ۱۹۱۴ ء میں ولایت سے واپسی کے بعد سیالکوٹ میں وکالت شروع کی تھی مگر اپریل ۱۹۱۸ء کے قریب آپ لاہور میں قیام پذیر ہو گئے.اور امارت لاہور کی نازک زمہ داری بھی آپ کے سپرد کر دی گئی.فرائض امارت کے علاوہ آپ صد را مجمن احمدیہ کے مشیر قانونی بھی تھے - اور جماعتی مقدمات میں بھی اکثر جایا کرتے تھے.اس سال (۱۹۱۸ء میں) حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوئی انے اور حضرت سید محمد علی شاہ صاحب نے انتقال فرمایا.۱۹۱۸ء میں غیر احمدیوں کے دائر کردہ دو اہم مقدمات خارج ہوئے.(۱) ایک مقدمہ مولوی قاضی فضل احمد لدھیانوی نے شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری انجمن لدھیانہ کے خلاف ایک اشتہار کی بناء پر دائر کر رکھا تھا جو خارج ہو گیا.(۲) کٹک کے احمدیوں پر مسجد سے ممانعت کے تعلق میں ایک فوجداری مقدمہ تھا جو عدالت نے خارج کر دیا - عہد خلافت ثانیہ کی پہلی سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ) پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کا مجموعہ ” تبلیغ رسالت " کے نام سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے شائع کرنا شروع کیا.- اس سال کے مشہور مباحثات مباحثہ ہوشیار پور O (مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور مولوی ثناء اللہ کے درمیان) مباحثہ فتح گڑھ چوڑیاں - شیخ محمد یوسف صاحب ( کا آریوں سے ) مباحثہ گوجرانوالہ ( مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا عیسائیوں سے) مباحثہ شملہ (مولوی عمر دین صاحب شملوی اور مولوی عبدالحق صاحب غیر مبائع) مباحثه گجرات - حضرت حافظ روشن علی صاحب کا آریہ پنڈت پور نند سے) مباحثہ ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا دہلوی علماء سے) مباحثہ کپور تھلہ -1+ |GNA] - شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبد الحق صاحب کے درمیان) علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات " میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعود " (مولفہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل حلال پوری حق الیقین " ( حضرت مولوی حکیم عبید اللہ صاحب بسل) 11- اس سال سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی (کلکتہ) احمدیت میں داخل ہوئے جنہوں نے آگے

Page 250

تاریخ احمدی احمدیت جلد ۴ 214 خلافت ثانیہ کا پانچواں سال چل کر حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی طرح سلسلہ کی ہراہم تحریک میں بڑھ چڑھ کر لیا.اور قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی.خصوصاً تقسیم ملک کے بعد قادیان- درویشان قادیان اور احمدیت کے لئے ان کی مالی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع اور قابل رشک حصہ ہے.

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد ۴ دو سرا باب (فصل ششم) 215 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ربیع الاول ۱۳۳۷ھ تاربیع الاول ۱۳۳۸ھ ) (جنوری ۱۹۱۹ء سے دسمبر ۱۹۱۹ء تک) خلافت مانیہ کا چھٹا سال حضرت خلیفتہ جماعت کے مرکزی نظم و نسق میں اصلاح اور نظار توں کا قیام المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ نے 1919 ء میں اس وقت کے نظام سلسلہ احمدیہ کی مناسب اصلاح و ترمیم فرما کر اسے نہایت مفید بنا دیا سلسلہ احمدیہ کا پہلا مرکزی نظام (خلافت کی نگرانی میں ) صدر انجمن احمدیہ پر مشتمل تھا.جو اپنی تفصیل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تجویز فرمودہ نظام نہیں بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ نظام تھا.اس نظام میں مختلف صیغے ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع تھے کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں ہوتی تھی.حتی کہ صدرانجمن احمدیہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا دخل نہیں ہو تا تھا.بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصت ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے تھے.جن کے ہاتھوں میں کسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈور نہیں تھی.پھر مجلس کے قواعد کی بنیاد ایسی طرز پر رکھی گئی تھی کہ جماعت کی نمائندگی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا بحالیکہ حکومت کی سب سے خطرناک صورت یہی سمجھی گئی ہے کہ اول تو چند آدمی تمام لوگوں کے نمائندے قرار دے دیئے جائیں مگر دراصل وہ نمائندے نہ ہوں.دوسرے انہیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ خود ہی اپنے قائم مقام تجویز کر دیا کریں.حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی نظر اس امر تک پہنچ تو شروع میں ہی گئی تھی.مگر اس خیال سے کہ کسی اور قسم کے نقصانات پیدا نہ ہو جا ئیں قائم شدہ نظام کو یک دفعہ بدل دینا پسند نہیں فرمایا.بلکہ حضور نے کافی غور و فکر اور مقامی و بیرونی اہل الرائے احباب کے مشورہ کے بعد یکم جنوری ۱۹۱۹ء کو ایک متوازی نظام جاری فرمایا.جس میں ہر شخص خلیفہ وقت کی براہ راست نگرانی و ہدایات کے تحت ایک مستقل صیغہ کا انچارج اور زمہ دار تھا اور پھر یہ سب انچارج

Page 252

216 خلافت ثانیہ کا چھنا سال ره باہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے.ان افسروں کا نام حضور نے ناظر تجویز فرمایا.اور ان کی انجمن کا نام محکمہ نظارت رکھا.اور مختلف ناظروں کے اوپر ایک صدر ناظر مقرر فرمایا جس کا نام ناظر اعلیٰ رکھا گیا.چنانچہ حضور نے ایک فرمان مبارک کے ذریعہ سے اعلان فرمایا کہ - تمام احباب جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریات سلسلہ کے پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونجات کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے سر انجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ ہ حسب موقع اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں.اور جماعت کی تمام ضروریات کے پورا کرنے میں کوشاں رہیں.فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ ایک ناظر تألیف و اشاعت ایک ناظر تعلیم و تربیت ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا اور ان عہدوں پر سر دست ان احباب کو مقرر کیا جاتا ہے ، ناظر اعلیٰ مکر می مولوی شیر علی صاحب.ناظر تألیف و اشاعت مکر می مولوی شیر علی صاحب، ناظر تعلیم و تربیت مکرمی مولوی سید سرور شاہ صاحب، ناظر امور عامه عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب ناظر بیت المال مکرمی ماسٹر عبد المغنی صاحب ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتاء اور قضاء کو مد نظر رکھ کر افتاء کے لئے مولوی سید سرور شاہ صاحب مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب اور قضا کے لئے مکرمی قاضی امیر حسین صاحب مکرمی مولوی فضل دین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحاق صاحب کو مقرر کیا ہے.آئندہ جو تغیرات ہوں گے ان سے احباب کو اطلاع دی جاتی رہے گی میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے اور سلسلہ کی کسی خدمت سے دریغ نہ کریں گے اور ان کی تحریرات کو میری ہی تحریرات سمجھیں گے ".اس جداگانہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور بالآخر اکتوبر ۱۹۲۵ء میں صدر انجمن احمد یہ اور اس کے جدید نظام کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جس میں صدرانجمن احمد یہ کا نظام اور اس کی اصولی صورت تو بدستور قائم رہی مگر صیغوں کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن بھی جدید نظام عمل کے مطابق قائم ہو گئی اور جماعت کو صحیح معنوں میں موثر نمائندگی بھی میسر آگئی.اور قواعد اس رنگ میں ڈھال دیئے گئے کہ مجلس معتمدین کا براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق و رابطہ ہو گیا.اور اسے خلیفہ وقت کو اطلاع اور مجلس شوریٰ کے غور کے بغیر کوئی بجٹ پاس یا تبدیل کرنے کا اختیار نہ رہا.حضرت خلیفہ ثانی نے اس جدید نظام عمل کے مطابق مندرجہ ذیل نظار تیں قائم فرما ئیں.(1)

Page 253

تاریخ احمدیت جلد ۴ 217 خلافت تانیہ کا چھٹا سال نظارت علیا.(حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب) (۲) دعوت و تبلیغ ( حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) (۳) تعلیم و تربیت ) حضرت مرزا شریف احمد صاحب) (۴) بیت المال (حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب) (۵) امور عامه (حضرت خان صاحب ذو الفقار علی خان صاحب) (۶) امور خارجہ (حضرت مفتی محمد صادق صاحب) (۷) ضیافت (حضرت میر محمد اسحاقی صاحب) (۸) بهشتی مقبرہ (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب) حضور نے ان ناظروں کے علاوہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا.اور گو نا ظمروں اور مجلس معتمدین کے ممبروں کی تبدیلی حسب ضرورت ہمیشہ ہوتی رہی ہے.مگر اب تک میں مخلوط نظام سلسلہ میں رائج ہے اور بفضلہ تعالی روز افزوں ترقی پر ہے.حضرت خلیفہ ثانی ۱۲ / فروری ۱۹۱۹ء کو لاہور تشریف اسلام اور تعلقات بین الاقوام" لے گئے اور ۲۷ فروری ۱۹۱۹ء کو دارالامان رونق افروز ہوئے.یہ سفر بغرض علاج کیا گیا تھا.مگر حضور نے اس کے دوران میں دو معرکتہ 2 الآراء تقریریں بھی فرمائیں.پہلی تقریر ۲۳/ فروری کو بریڈ لا ہال میں "اسلام اور تعلقات بین الاقوام" کے موضوع پر.اس جلسہ کے صدر جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تھے ملک کے مختلف اخبارات روزانہ قومی رپورٹ " (مدراس) روزانہ اخوت" (لکھنو) روزانہ " ہمدم" (لکھنو) "وکیل" (امرتسر) نے مختصر اور سول اینڈ ملٹری گزٹ " (لاہور) نے اس کی مفصل خبر شائع کی CAF "1 حضور نے دوسری تقریر مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی ” اسلام میں اختلافات کا آغاز " اسلامیہ کالج لاہور کے زیر اہتمام ۲۶/ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال میں فرمائی.اس تقریر کا عنوان تھا ” اسلام میں اختلافات کا آغاز.اس جلسہ کے صدر مورخ اسلام جناب سید عبد القادر صاحب ایم.اے تھے.سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا." آج کے لیکچرار اس عزت اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید میں کوئی صاحب نا واقف ہوں.آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا.افتتاحی تقریر کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دوران خلافت میں عبداللہ ابن سبا اور اس کے باغی اور مفسد ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ

Page 254

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 218 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال انگیزیوں پر اتنی تفصیلی روشنی ڈالی اور تاریخ اسلام کی گمشده...کٹڑیوں کو اس طرح منکشف و مربوط فرما کر سامنے رکھ دیا کہ بڑے بڑے صاحبان علم و فہم بھی حیران رہ گئے.خاتمہ تقریر پر صدر مجلس جناب سید عبد القادر صاحب ایم.اے نے فرمایا.حضرات ! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے.اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں.اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس (میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف اشارہ کر کے) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ (جو اوپر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر) کی روشنی سے ہے حضرات جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے ".یہ اہم تقریر اگلے سال شائع ہوئی تو اس کے ابتداء میں سید عبد القادر صاحب نے تمہید الکھا.فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شد بد ہے اور میں دعوئی سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں اور اس ملک اور پہلی خانہ جنگی کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا.میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچپسی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا ".شرائط مناظرہ سے متعلق اہم اعلان حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے شرائط مباحثہ میں بعض خلاف شریعت شرائط بھی منظور کر لینے پر تحریر فرمایا کہ " قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فیصلہ خدا کا منظور ہو سکتا ہے نہ کسی اور کا.فروعات میں تو غیر شخص بھی فیصلہ کر سکتا ہے لیکن ایمانی اور اصولی معاملات میں کسی شخص کا فیصلہ ہر گز مانا نہیں جاسکتا.نہ میں ایک منٹ کے لئے کسی ایسے مباحثہ کا خیال اپنے دل میں آنے دے سکتا ہوں.......اگر سب کی سب جماعت احمد یہ دنیا کے ہر ایک گوشہ کی ایسے امر پر مرتد ہونے کے لئے تیار ہو (خدانخواستہ) تو میں اس کے ارتداد کو نہایت فراخدلی اور خوشی سے قبول کروں گا.مگر مسیح موعود

Page 255

تاریخ احمدیت جلد ۴ 219 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال کی صداقت یا اسلام کی حقانیت کے متعلق زید اور بکر کی رائے کو حکم بنانے کے لئے تیار نہیں ہوں گا.اور ہر گز نہیں ہوں گا آپ لوگوں نے گناہ کیا ہے اور سخت گناہ کیا ہے.بلکہ اپنے ایمانوں پر اپنے ہاتھوں سے تبر چلایا ہے "."عرفان الهی" حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا پہلے سالوں میں یہ معمول رہا تھا کہ جلسہ کے موقع پر اپنی پہلی تقریر میں تو عام نصائح فرماتے اور دوسری تقریر علمی مسئلہ پر ہوا کرتی تھی مگر دسمبر ۱۹۱۸ء کا جلسہ جو مارچ ۱۹۱۹ ء میں منعقد ہوا تھا.اس میں پہلے دن تو حضور نے عرفان الهی" جیسے دقیق مضمون کو بڑی شرح وبسط سے بیان فرمایا.اور عرفان الہی اور تزکیہ نفوس کے ذرائع بتاتے ہوئے نکات و معارف کا دریا بہا دیا.اور دوسرے دن کی تقریر میں متفرق امور پر روشنی ڈالی پہلے دن کی تقریر ” عرفان اللی " کے نام سے چھپ چکی ہے.نیا قبرستان احمدی بچوں اور غیر موصی احمدیوں کی تدفین کے لئے کوئی الگ قبرستان موجود نہیں تھا حضرت میر ناصر نواب صاحب نے جو ہمیشہ رفاہی کاموں میں دلچسپی رکھنے والے بزرگ تھے.اس طرف توجہ فرمائی اور اس کے لئے دور الضعفاء ( ناصر آباد) سے متصل ایک قطعہ زمین کا انتظام کر دیا BAI - (متحدہ) ہندوستان میں زبر دست سیاسی ہیجان اور جماعت احمدیہ کا رویہ (متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں 1919ء کا سال اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اس میں ایسے طویل و عریض ہیجان کا آغاز ہوا جس کی نظیر اس سے پہلے گزرے ہوئے کسی سال میں نظر نہیں آتی.جنگ کے اختام نے دنیا میں ایک عام بیداری پیدا کر دی تھی.اور چونکہ اس قسم کی بیداری کے ابتدائی مراحل میں بعض جو شیلی طبیعتیں حد اعتدال سے آگے نکل جاتی ہیں اس لئے اس کے انسداد کی غرض سے حکومت نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور 1919 ء کی ابتداء میں ایک " رولٹ بل " بھی پاس کرنے کی تجویز کی.جس کے ذریعہ سے پریس پر خاص پابندیاں عائد کی گئی تھیں.حکومت کے اس اقدام پر ملک کے بیدار شدہ حصہ میں سخت ہیجان پیدا ہوا.امپیریل پچھا یہ کونسل میں جن دنوں یہ بل پیش تھا ملکی اخباروں اور سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف زبر دست احتجاج کیا اور کونسل کے تمام ہندوستانی ممبروں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے لیکن حکومت نے سرکاری اور نامزد عناصر کی مدد سے یہ بل پاس کر کے رولٹ ایکٹ " بنا دیا.تمام ملک میں شدید ناراضگی کی لہر دوڑ گئی.مسٹر گاندھی کی تحریک پر (جسے ستیہ گرہ کا نام دیا گیا) دودن (۳۰/ مارچ اور ۶ / اپریل ۱۹۱۹ء) ملک کے گوشے گوشے میں

Page 256

تاریخ احمدیت جلد ۴ 220 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ہڑتال منائی گئی.نام کو تو یہ "سول نافرمانی کی پر امن تحریک تھی مگر اس کے نتیجہ میں دہلی.احمد آباد اور دو سرے مقامات پر فسادات رونما ہو گئے پنجاب میں سب سے زیادہ شورش برپا ہوئی چند مقامی لیڈروں کی گرفتاری پر امرتسر میں کوئی آٹھ نو افسر قتل کر دیئے گئے.بنک لوٹے گئے سرکاری عمارتیں جلادی گئیں.گوجرانوالہ کا ریلوے اسٹیشن نذر آتش کر دیا گیا.اور کئی جگہ ریل کی پٹڑی اکھاڑ دی گئی.اور تار کاٹ دیئے گئے اس پر اپریل ۱۹۱۹ء میں لاہور.امرتسر- حجرات - گوجرانوالہ اور لائل پور کے اضلاع میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا.یعنی صوبہ کا انتظام فوجی افسروں کو سونپ دیا گیا.اور فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں.مارشل لاء کے تحت ہر قسم کے جلسے اور جلوس بند کر دیئے گئے تھے.لیکن اہل امر تسر نے یہ قانون ٹھکرار را دیا اور ۱۳/ اپریل ۱۹۱۹ ء کو جلیانوالہ باغ میں ایک پبلک جلسہ کیا جس میں ہزاروں آدمیوں نے شرکت کی.امرتسر کے فوجی افسر جنرل ڈائر نے لوگوں کو منتشر ہونے کی کافی مہلت دیئے بغیر گولی چلا دی جس سے سینکڑوں آدمی قتل اور زخمی ہو گئے.اس انتہائی غیر دانشمندانہ کارروائی کے خلاف پورا ملک کوہ آتش فشاں بن گیا.حکومت نے ایک کمیٹی جلیانوالہ باغ کی خونی داستان سے متعلق تحقیق کے لئے مقرر کر دی جس کے نتیجہ میں حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ جنرل ڈائر نے گولی چلانے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے حکومت نے پنجاب کے گورنر سرمائیکل اوڈوائر کو واپس انگلستان بلالیا.اور جنرل ڈائر کو ملازمت سے بر طرف کر دیا چونکہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ابتداء سے یہی رہا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملکی امن کو برباد کرنے والی ہو اس لئے حضرت خلیفہ ثانی نے اس زمانے میں اپنی جماعت کو پے در پے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہے چنانچہ جماعت احمدیہ نے ان خطرناک ایام میں قیام امن کے لئے ہر ممکن جدوجہد سے کام لیا.حتی کہ حکومت کے ایک پریس کمیونک میں کھلے طور پر تسلیم کیا گیا کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے.جہاں تک فوجی حکومت کی تشدد آمیز پالیسی کا تعلق ہے حضرت خلیفہ ثانی نے اسے وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے فرمایا.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینگ کر چلنے کا حکم ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ ہے کہ کوئی شخص بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا.اور اس کے خلاف اگر ہندوستان کو غصہ پیدا ہو تو یہ کوئی تعجب کا مقام نہیں.اسی طرح جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں بھی جس سختی سے کام لیا گیا ہے.وہ نہایت ہی قابل افسوس ہے اور جنرل ڈائر کا یہ قول کہ وہ اس لئے گولیاں چلاتے گئے تا ملک کے ۴۹۱ |14

Page 257

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 221 خلافت عثمانیہ کا چھٹا سال دو سرے حصہ پر اور ہو اور بغاوت فرو ہو جائے.ان کے مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں.یہ بیان کہ جنرل ڈائر کا فعل اجتہادی غلطی ہے درست نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی رہ ہوتی ہے کہ جس کا وقوع ایسے حالات میں ہو کہ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کے دلا کل موجود ہوں لیکن اس جماعت پر گولیاں چلانا جو ہتھیار ڈال چکی ہو اور اپنے عمل سے اپنی غلطی کا اقرار کر رہی ہو خود میدان جنگ میں بھی جائز نہیں ".حضور نے اس کے ساتھ ہی ہندوستانیوں کو بھی نصیحت فرمائی کہ اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کیا آئندہ جب ہندوستان کو حکومت خود اختیاری ملے گی تو ہم میں سے بعض کا یہ فعل اس حکومت کے انتظام میں خلل ڈالنے والا نہ ہو گا اور آئندہ نسلیں یہ نہیں سمجھیں گی کہ حکومت کے قوانین کو توڑنے میں کوئی حرج نہیں ؟ یا د ر کھیں وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو.مگر افسوس مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے جو اس تحریک کے علمبردار تھے اس وقت اس اہم نصیحت کو لائق التفات خیال نہیں کیا.لیکن ملکی آزادی کے بعد وہی ہوا جو حضور نے فرمایا تھا اور بر صغیر پاک و ہند کو جس رنگ میں مسلسل اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور پڑ رہا ہے اور آئے دن ایک ہی ملک کے باشندے اپنے ہم وطنوں اور اپنی ملکی حکومتوں کے خلاف قانون شکنی کے مظاہرے کرتے آرہے ہیں وہ تاریخ کا ایک کھلا ورق ہے.یہ واقعات جو یکے بعد دیگرے آتے چلے جا رہے ہیں.اتفاقی حادثات نہیں بلکہ قانون شکنی کی اس باقاعدہ ٹریننگ کے ہولناک نتائج ہیں.جو یہ اصحاب غیر ملکی حکومت کے زمانے میں برابر دیتے آرہے تھے.علماء دیوبند کا مباہلہ سے گریز حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو دعوت مباہلہ کے موقعہ پر یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ "اگر علمائے دیو بند یا علمائے فرنگی محل مباہلہ کے لئے تیار ہوں تو میں صرف ان کی تحریر پر ان سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں ".اس کے بعد قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی نے علماء کو توجہ دلائی کہ حضرت خلیفتہ امسیح کی دعوت کیوں قبول نہیں کرتے اور ساتھ ہی حضور کی طرف سے شرائط مباہلہ کا بھی اعلان کر دیا.اور انتہائی کوشش کی کہ وہ اس آخری فیصلہ کی طرف رجوع کریں.علمائے دیو بند نے پوچھا کہ مباہلہ کا نتیجہ کس رنگ میں ظاہر ہو گا.اس طرف سے لکھا گیا کہ ”ہمارے نزدیک مباہلہ کے نتیجہ میں سنت رسول کریم اسے کسی خاص قسم کے عذاب کی تعیین نہیں ہوتی.ہاں وہ عذاب ایسا ہو گا جس میں فریق مخالف کے کسی منصو بہ کا اجل نہ ہو گا

Page 258

تاریخ احمدیت جلد ۴ 222 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال اب علمائے دیوبند کا فرض ہے کہ جو کچھ آثار مباہلہ سمجھتے ہیں ان کی تعیین کر دیں.اس جواہ ر و بندی علماء کے لبوں پر مہر سکوت لگ گئی.پہلی جنگ تحریک خلافت کا آغاز اور حضرت خلیفہ ثانی کی بروقت رہنمائی عظیم میں اتحادیوں نے ترکی کی شان و شوکت خاک میں ملا دی تھی.گو ابھی صلح کے شرائط طے نہیں ہوئے تھے مگر اس کا مستقبل صاف صاف مخدوش نظر آ رہا تھا.جس سے مسلمانان ہند کو از حد تشویش تھی.چنانچہ اسی سلسلہ میں ۳۱ / ستمبر ۱۹۱۹ء کو لکھنو میں ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا.جس میں حکومت کے خلاف منظم طریقہ سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی تجویز زیر غور آئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو بھی اس کا نفرنس میں خاص طور پر دعوت دی گئی.گو حضور اپنی نا سازی طبیعت اور بعض دوسری وجوہ کی بناء پر تشریف نہ لے جا سکے.مگر آپ نے اپنے قلم سے مسئلہ ترکی کے بارے میں ایک مفصل مضمون کا نفرنس میں بھجوایا جو " ٹرکی کے مستقبل اور مسلمانوں کا فرض " کے نام سے کتابی صورت میں چھپ گیا اس مضمون میں حضور نے اس موقعہ کو نازک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرے میں ہے اور پورا یقین دلایا کہ جماعت احمد یہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے اور پھر اسی پر اکتفانہ کر کے ترکی کے مستقبل کو آئندہ خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے نہایت مدبرانہ رنگ میں ایک متواز اقابل عمل اور ٹھوس اور موثر سیکیم تجویز فرمائی.اس سکیم میں خاص طور پر آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ترکوں کے مستقبل کے بارے میں جن طاقتوں کو فیصلہ کرنا ہے ان میں صرف برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اگر چہ مسلمان نہیں کہ وہ مذ ہبا ترکوں کی ہمدرد ہو لیکن وہ اپنی مسلمان رعایا کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کسی حد تک مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہے جیسا کہ حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار " قبلہ کئی دفعہ اقرار کر چکا ہے.پس ہمیں برطانیہ پر اور زیادہ زور دینا چاہئے کہ ترکی کو دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے سر ایڈورڈ میکلیگن گورنر پنجاب کی خدمت گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس میں ان کی لاہور میں آمد پر مختلف مسلمان فرقوں کی طرف سے دسمبر 1919 ء کو خوش آمدید کے ایڈریس پیش کئے گئے.حضرت خلیفہ ثانی کی زیر ہدایت اسی دن صوبہ پنجاب کے احمدیوں کی طرف سے اکاون سر بر آوردہ اصحاب پر مشتمل ایک وفد

Page 259

تاریخ احمدیت جلد ۴ 223 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال گورنر پنجاب کی خدمت میں پہنچا اور ان کی طرف سے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے خیر مقدم کا ایڈریس پیش کیا جس میں علاوہ اور امور کے یہ بھی کہا کہ ”جناب عالی ! ہم سے پہلے مسلمانوں کے دو سرے فرقوں کا ایڈریس بھی جناب کی خدمت میں پڑھا گیا ہے اور ان میں دو امور کی طرف جناب کو توجہ دلائی گئی ہے.ایک مسئلہ مستقبل لڑکی اور ایک مسلمانوں کی تعلیم کا سوال ہم اس موقع پر ان دونوں سوالات کے متعلق کہنا چاہتے ہیں ہم آخر الذکر مسئلہ کے متعلق تو ان کے خیالات سے بکلی متفق ہیں لیکن اول الذکر مسئلہ کے متعلق ہمارے اور ان کے نقطہ خیال میں کچھ فرق ہے...ہم اپنے مذہبی نقطہ خیال سے اس امر کے پابند ہیں کہ اس شخص کو اپنا مذ ہبی پیشوا سمجھیں جو حضرت مسیح موعود کا جانشین ہو اور دنیاوی لحاظ سے اسی کو اپنا سلطان و بادشاہ یقین کریں جس کی حکومت کے نیچے ہم رہتے ہوں...ترکی حکومت سے ہماری ہمدردی اس بناء پر ہے کہ وہ اسلام کے نام میں ہمارے شریک ہیں.اور ان کی حکومت کا زوال اسلام کی ظاہری شان و شوکت کے لئے ایک صدمہ ہے " " حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے اس زمانے میں بعض جوانوں کو خاص خاص مذاہب کی ریسرچ کے لئے ارشاد فرمایا.مثلاً ہندو مذہب کے لئے (ماشہ ) ملک فضل حسین صاحب.چوہدری عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی کو سکھ مذہب کے لئے.مولوی رحمت علی صاحب ( مبلغ انڈونیشیا) شیخ مود احمد صاحب عرفانی اور عیسائی مذہب کی تحقیق کے لئے شیخ (حکیم) فضل الرحمن صاحب مقرر ہوئے ان حضرات میں سے مولوی رحمت علی صاحب اور شیخ فضل الرحمن صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے آگے چل کر بالترتیب انڈو نیشیا - افریقہ اور مصر میں سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بڑی قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور ملک فضل حسین صاحب نے اندرون ملک میں ہندو مذہب کے رڈ اور اسلام کی تائید میں شاندار لٹریچر پیدا کیا.چوہدری عبد السلام صاحب کاٹھ گڑھی نے تحریک شدھی ملکانہ میں ہندو دھرم کے رد میں سرگرم حصہ لیا." " تقدیر الهی" حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے 1919 ء کے سالانہ جلسہ میں تین تقریریں فرما ئیں جن میں ایک تقریر " تقدیر الہی" کے اہم اور نازک موضوع پر تھی.امسئلہ تقدیر " پر ایمان کی ضرورت و حقیقت - تقدیر و تدبر - تقدیر عام اور تقدیر خاص کے پہلوؤں پر سیر حاصل روشنی ڈالی.اور تقدیر سے متعلق شبہات کا پوری طرح ازالہ فرمایا.یہ علم و معرفت سے لبریز تقریر بعد کو "تقدیر الہی " ہی کے نام سے شائع ہو گئی.| 100 ۱- حضرت خان عبد اللہ خان صاحب کے مشکوئے معلیٰ ۱۹۱ء کے متفرق مگر اہم واقعات میں طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ تولد ہو ئیں.

Page 260

تاریخ احمدیت جلد ۴ 224 خلافت عثمانیہ کا چھٹا سال بزرگوں کی وفات مندرجہ ذیل بزرگ صحابہ داغ مفارفت دے گئے.حافظ معین الدین صاحب.حضرت شیخ حامد علی صاحب - حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب کپور تھلوی.حضرت مولوی عظیم اللہ صاحب نامہ - ۵۰۵ اس سال قادیان سے دو نئے رسائل جاری ہوئے.(1) اتالیق " (بچوں کا رسالہ ایڈیٹر ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی) (۲) رفیق حیات " (طبی رسالہ - ایڈیٹر حکیم عطا محمد صاحب مرحوم) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں احمدی یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے وسط ۱۹۱۹ء میں احمدیہ یتیم خانہ قائم کیا گیا اور اس کے افسر حضرت میر قاسم علی صاحب مقرر ہوئے.1 ۵۰۸ مشهور مباحثہ مباحثہ بمبئی (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مہاشہ رام چندر کے درمیان) مباحثہ قادیان حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت میر محمد اسحق صاحب اور غیر مبائع میر محمد مدثر شاہ صاحب کے مابین ) مباحثہ شموگہ میسور (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مولوی سید عبدالکریم صاحب کے مابین ) مباحثہ ڈیریانوالہ ضلع 0-4 ۵۱۰ سیالکوٹ ( حضرت حافظ روشن علی صاحب اور پیر جماعت علی شاہ صاحب کے خلیفہ مولوی غلام احمد صاحب اخگر کے مابین ) - علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات براہین العقائد" مضامین حضرت میر محمد الحق صاحہ حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب (اکمل " تنویر الابصار " از حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل بابا نانک کا مذ ہب " ( از شیخ محمد یوسف صاحب) نعم الوکیل " جماعت مبایعین کے عقائد صحیحہ " ( از مولوی فضل الدین صاحب وکیل )

Page 261

تاریخ احمد تولید ۴ 225 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال -1 حواشی الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ ء صفحه ۲- ۳ بعنوان کلمات طیبات ا حکم ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳- الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ ء صفحہ اکالم ۳ برکات خلافت طبع اول صفحہ ۶ - م الفضل ا / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶- حقیقته الرویاء صفحه ۹۶-۹۷) (از حضرت خلیفہ ثانی) ه الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۵ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ ء کالم ۰۲ -1 - الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳ و صفحه ۶ کالم : حضرت قاضی صاحب کو تو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں حضرت خلیفہ ثانی کی خلافت کا علم دیا گیا.الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۲-۳- الفضل ۳۰ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲-۳- الفضل ۳۰ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۱۲ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۱۲ انہیں تو جنگ مقدس کے دوران میں حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی کے خلیفہ ہونے کے بارے میں خواب آیا تھا.الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۴ کالم ۱-۲-) الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۶ - -۱۴- بشارات رحمانیہ حصہ اول صفحه ۲۵۵ ۱۵- آپ کے لطیف کشف کے لئے ملاحظہ ہو فاروق یکم فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ہے.رساله فرقان قادیان مئی و جون ۱۹۴۴ء صفحه ۲۰۱۹- حکیم مرہم عیسی صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود کی قبر شق ہو کر حضرت امام آخر الزمان اس میں سے باہر سینے تک کھڑے ہو گئے ہیں مگر مشکل حضور مسیح موعود کی اس وقت بالکل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تھی.یہ خواب والدم بزرگوار نے حضرت خلیفتہ اصحیح اول کے سامنے قادیان میں ایک مجلس میں سنائی تھی اور اس کی تعبیر بھی پوچھی تھی تو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے کہی جواب دیا تھا کہ اللہ تعالٰی علوم ظاہری و باطنی کی جامعیت حضرت فضل عمر بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہی عطا فرمائے گا.الفضل ۲۳ مش ۱۹۱۳، صفحہ ۷-۸ آپکی خواب کی تعبیر میں حضرت خلیفہ اول نے تحریر فرمایا.خواب بہت عمدہ ہے اور تعبیر بھی صحیح ہے اور انشاء اللہ اسی طرح پوری ہوگی".۱۸ اخبار نور ۷/۲۴ امارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳ ۱۹ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۶ صفحه ۷۵ و مرکز احمدیت قادیان صفحه ۳۳۱ ( از محمود احمد عرفانی مرحوم) تابعین اصحاب احمد حصہ اول صفحہ 19- آپ کو خلافت محمود کی آٹھ روز پہلے ہی کشفاً اطلاع مل گئی تھی.نشی صاحب مرحوم کی بیٹی صادقہ بیگم صاحبہ المیہ برکت علی صاحب پریذیڈنٹ راجن پور ضلع ڈیرہ غازی خاں) کا بیان ہے کہ ہم نے اپنے ابا جان سے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ پیغامی عمائدین سے آپ کے گہرے تعلقات تھے پھر آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت کیسے کرلی؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے خلیفہ اول کے اوائل زمانہ خلافت میں یہ رویا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما ہیں حضور کے اور بھی خدام کافی تعداد میں موجود ہیں حضور نے فرمایا کہ بیعت کر لو.میں نے دوسرے دوستوں کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد عرض کیا کہ حضور یہ تو ایک بچے کا ہاتھ ہے حضور نے فرمایا کہ یہ محمود ہے " ابا جان فرمایا کرتے تھے کہ

Page 262

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 226 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال میں نے حضور کے فرمان پر اس وقت سے بیعت کرلی تھی.جب محمود بچہ تھے پھر جب خدا نے ان کو خلیفہ بنا دیا تو میں کیسے پیغامی دوستوں کے ساتھ رہ سکتا تھا.(ملخص از مکتوب چوہدری برکت علی صاحب بنام مولف کتاب مورخه ۱۱/۴/۱۴ ۲۲- روند او جلسه جوبلی صفحه ۰۹ الفضل ۱۶ / مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۸ کالم ۱-۲- الفضل یکم اگست ۱۹۱۵ء صفحہ سے کالم ۳ الفضل ۲۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ میں ان کی خواب درج ہے افسوس اپنی عمر کے آخر میں یہ غیر مبایعین میں شامل ہو گئے.۲۵ - انجمن اشاعت اسلام لاہور کے آرگن روج اسلام جلد ۲ نمبرے صفحہ ۵۵ پر لکھا ہے کہ ۲۷/ مئی ۱۹۰۸ء کی شب کو تسجد میں دعا کر رہے تھے تو خیال آیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے بعد کون خلیفہ ہو گا اور آواز آئی بشیر الدین محمود اس خواب سے تین باتیں بالکل واضح ہیں.اول حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا یہی عقیدہ تھا کہ خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا ورنہ اگر انجمن ہی اصل جانشین ہے تو اس دعا کی انہیں ضرورت ہی کیا تھی.دوم خدا تعالی کی نگاہ میں شخصی خلافت کا سلسلہ انجمن کے باوجود جاری رہنا مقدر ہے.سوم دوسرے خلیفہ بشیر الدین محمود ہوں گے.افسوس ان واضح حقائق کے منکشف ہونے پر بھی شاہ صاحب نے انجمن والوں سے وابستگی اختیار کرلی اور وجہ یہ بتائی کہ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مگر وہ آتے ہی مرتدع ہو جائے گا ہمیں کہتا ہوں یہ فقرہ خود حضرت خلیفہ ثانی کی تائید میں ہے.کیونکہ لغت میں مرتدع کے معنے ممسوح ہونے اور نشانہ ٹھیک نہ لگنے کے ہیں.پہلے معنے کی روسے بتایا گیا تھا.کہ حضور رضائے الہی کے عطر سے آتے ہی ممسوح ہوں گے.یعنی مصلح موعود کی صفات کے حامل ہوں گے.دوسرے معنی کے اعتبار سے اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ باوجودیکہ آپ رات کے تیروں (یعنی دعاؤں) سے جماعت کو متحد رکھنے کی کوشش کریں گے.مگر آپ کو اس میں کامیابی نہ ہوگی.اس کے مقابل پر شاہ صاحب نے یہ توجیہہ کی کہ عقائد میں فتور آجائے گا.حالانکہ آتے ہی کا لفظ بتاتا ہے.کہ مرتدع ہونے کی صورت قیام خلافت کے بعد ہوگی.مگر مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کا تو کتا یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب کے عقائد خلیفہ بنے سے پہلے ہی بگڑ چکے تھے.اس لئے بیعت سے کنارہ کش ہو گئے.پھر یہ بات عقل بھی قابل تسلیم نہیں کہ کوئی خلیفہ آتے ہی گمراہ ہو جائے.۲۶ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۴ ء صفحہ ا کالم ۳.ایضا الحق دیلی ۱۹۱۴ء ۲۷ پیغام صلح ۱۰ جون ۱۹۱۵ء صفحه ۴ -۲۸ بیان مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم - ۳۰ مسٹر محمد عبد اللہ کا حضرت خلیفہ اول کے نام مکتوب بدر ۲۳/ اکتوبر ۱۹۱۳ء میں شائع شدہ ہے.الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۳ کا کالم ۳ ۳۱ فرقان سالانہ نمبر نومبر دسمبر ۱۹۴۴ء صفحه ۴۴-۴۵- ۳۲- بیعت کے علاوہ بھی ہر نماز کے بعد اور دوسرے وقتوں میں بھی کئی دن تک بیعتیں ہوتی رہیں.پہلے روز ۳۶۰ عورتوں کی بیعت ہوئی جن میں حضرت ام المومنین اور حضرت اماں جی بھی شامل تھیں.(الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ا کالم ۳) ۳۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے اندازہ کی رو سے صرف پچاس کے قریب آدمی ہوں گے جو بیعت سے باز رہے ( آئینہ صداقت صفحہ (19) جناب مولوی محمد علی صاحب نے انحراف خلافت کی یہ عجیب توجیہ فرمانی که "حضرت مولوی صاحب مرحوم مراد خلیفہ اول ناقل) وصیت کی رو سے نہیں بلکہ قوم کے اتفاق سے خلیفتہ امسحیح کہلائے.اب جب قوم کا اتفاق نہیں رہا تو خلافت کا خاتمہ ہو گیا".(الوصیت شائع کردہ مولوی محمد علی صاحب اگست ۱۹۱۴ء صفحه ج) علاوہ ازیں پیغام صلح میں شائع ہوا.اب آئندہ کے واسطے اس سلسلہ خلافت کا رواج دینا ہی ایک بہت خطرناک ہے.(پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۴) ۳۴.انہی کی نسبت جناب مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب نے ابتداء میں ہی لکھا تھا.فی الحقیقت حضرت مولوی محمد علی صاحب سے بڑھ کر منصب صدارت و خلافت کے لئے اور کوئی موزوں نام نہ تھا.(سالانہ رپورٹ انجمن اشاعت اسلام لاہو ر حصہ اول.دوم صفحہ (۴) اور دعویٰ کیا کہ حضرت مولانا محمد علی صاحب کی آواز گویا کہ خدا کی آواز ہے اور اس کے رسول کی آواز ہے اور اس کے

Page 263

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 227 خلافت ثانیہ کا چھٹا س خلیفه برحق حضرت مسیح موعود کی آواز ہے.یہ ضرور کامیاب ہو کر رہے گا اور جماعت احمدیہ کا بہترین حصہ جو اپنے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل اور دل میں تقویٰ اللہ اور خشیت اللہ رکھتا ہے ضرور اس مرد میدان کے ساتھ ہو جاوے گا اور آخر کار یہ مخص کامیاب ہو کر رہے گا".(ایضا صفحہ ۱۳) ۳۵.ابتدائے خلافت میں فتنہ کو فرد کرنے کے لئے قلمی خدمات سرانجام دینے والے ممتاز بزرگ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت میر محمد اسمعیل صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت مولانا شیر علی صاحب حضرت پیر منظور محمد صاحب حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلاپوری.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب - حضرت میر قاسم علی صاحب حضرت میاں محمد سعید سعدی - حضرت محمد حسن صاحب آسان دہلوی رضی اللہ عنہم اور حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ۳۶.اس سلسلہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کو پشاور لدھیانہ سیالکوٹ اور شملہ وغیرہ مقامات کی طرف بھجوایا گیا.ان رات کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب - حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب میسٹر مبارک اسمعیل صاحب نے بھی وعظ و تلقین کے لئے سفر کئے مؤخر الذکر دو حضرات سیالکوٹ گئے تھے.(الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ سے کالم ۳ و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ الالم ۲ و الفضل ۱/۸ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہا لاہور میں جو اس فتنے کا اصل مرکز تھا حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بھجوائے گئے.(الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۳ار انہوں نے مبارک منزل احاطہ چراغ دین میں اپنا مرکز قائم کر لیا.(یاد رہے کہ خلافت ثانیہ کے شروع سے ہی غیر مبائع زلاند نے ملک میں طوفانی دورے کرنے شروع کر دیتے تھے.(مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۵) ایضا الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) ۳۷.چنانچہ ان حضرات کو سر توڑ کوشش کے بعد بالآخر اقرار کرنا پڑا ٹوائے معد دوے چند اشخاص کے میاں صاحب کے ساتھ ساری جماعت تھی.اپیغام صلح ۲۳ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم (۳) اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بھی لکھا کہ میاں صاحب اگر حضرت مسیح موعود کے بیٹے نہ ہوتے اور قادیان مرکز نہ ہوتا اور کوئی میسم پیشگوئی اور انصار اللہ پارٹی ان کی پشت پر نہ ہوتی تو پھر ہم دیکھ لیتے کہ میاں صاحب اپنے عقا کہ باطلہ کے ساتھ کس طرح کامیاب ہو جاتے ( ایضا) بن بنایا کام بنی بنائی جماعت بنی بنائی قومی جائیدادیں اسکول بورڈنگ روپیہ خزانہ سبھی کچھ بنا بنا یا مل گیا.قادیان کا مرکز اور مسیح موعود کا بیٹا ہونا کام بنا گیا قادیان کی گدی نہ ہوتی مسیح موعود کا بیٹا نہ ہوتے اور کہیں باہر جا کر میاں محمود احمد صاحب اپنے عقیدہ کو پھیلا کر دکھاتے اور پھر نئے سرے سے جماعت بنتی.اور ترقی کرتی تو کچھ بات تھی.(پیغام صلح ۱۵/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۹ کالم (۳) خدا کی شان سے ۱۹۴ء کی ہجرت کے بعد حضرت امیر المومنین نے ربوہ میں عظیم الشان شهر بسا کرتا دیا کہ خلافت ثانیہ کا قیام محض خداتعالی کی ازلی مشیت کے تحت عمل میں آیا تھا نہ کہ کسی سازش یا قادیان کے بنے بنائے انتظام کے بل بوتے پر !!.مثلا پٹیالہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب دوالمیال میں مولوی کرم داد صاحب لکھنو میں مرزا کبیر الدین صاحب اور سرگودھا و لائلپور کے علاقہ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے فتنہ کے اثرات زائل کرنے میں خوب کام کیا..اس حقیقت کے ثبوت میں صرف چند اقتباسات ملاحظہ ہوں.” ایک غیر معصوم انسان کو جو اپنی رشد کی عمر کو بھی نہیں پہنچا اپنا پیر اور رہبر بنا لیا " (المندی نمبر ۲ صفحه ۳۵) " اب وہ پچیس سال کے نو عمر جو ان کے غلام ہیں.کیونکہ وہ موجودہ خلیفہ صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کامل اطاعت کی بیعت کر چکے ہیں پس وہ ایک گونہ ایک بچے کے دائگی غلام بن گئے.(پیغام صلح ۱۶ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲) یہ ہے وہ ہٹ کا پکا اولو السٹ جس کو غلطی سے اولو العزم پکارا جاتا ہے".(رسالہ انکشاف حقیقت صفحه ۴۹) ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کے خاندان اور ان کے بعض معلقداروں کا گزارہ اسی قسم کا ہے کہ ان کی جائداد کی آمدنی اس کے واسطے کافی نہیں ہے اور نوکری وغیرہ تو انہوں نے نہیں کی ہے کہ باہر سے کوئی اور سبیل گزارہ کا نکال دیوے پس لاچارا ای آمدنی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے.جو سلسلہ کی طرف سے جاری ہے اور یہ ساری ضروریات اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں تاوقتیکہ حضرت صاحب کے مرید ان کو نذرانہ مقررہ طور پر نہ دیویں.پس اگر صاجزادہ صاحب ان کفر و فسق کے فتووں سے باز آجادیں تو ہم ان کے گزارے کے واسطے ایک مستقل صورت قائم کرنے کے واسطے تیار ہیں".(ٹریکٹ احمدی

Page 264

تاریخ احمدیت جلد ۴ 228 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال قوم کی خدمت میں اپیل صفحہ ۷۰۶- از عجب خان صاحب پاڑا چتار) اس ضمن میں پیغام صلح ۱۶ / مئی ۱۹۱۵ء صفحہ ۴ کالم کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو.صاحبزادہ صاحب کے مریدین کو حضرت مولوی محمد علی صاحب کو خلیفتہ اصحیح مانے میں کیا عذر ہے جہاں تک ہم خیال کر سکتے ہیں صاحبزادہ صاحب کو فقط میں فوقیت ہے کہ وہ جسمانی طور پر ولد مسیح موعود ہیں ورنہ حضرت مولوی صاحب ممدوح حضرت مسیح موعود کے سلسلہ مبارکہ کی خدمت اس وقت سے کر رہے ہیں جب کہ صاحبزادہ صاحب کے دودھ کے دانت بھی ابھی نہ نکلے تھے ".چنانچہ جناب مولوی صدر الدین صاحب ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء کو اور جناب مولوی محمد علی صاحب ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان چھوڑ کر چلے آئے.(پیغام صلح ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اور مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۴) الفضل میں ان کے جانے پر یہ خبر شائع ہوئی." صدر المجمن کے اجلاس میں مولوی محمد علی صاحب کو ۱/۲ ۴ماہ کی رخصت با تنخواہ بحساب دو سو سولہ روپے ماہوار ملی ماسٹر صدر الدین صاحب کو ایک ماہ کی رخصت ملی با تنخواه حساب ایک سو پچھتر روپیہ ماہوار اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب آپ پھر آنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو رخصت یا تنخواہ لینے کے کیا معنے ".(الفضل ۲۹ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ا کالم ۱-۲) ام لکھا ہے "ہمارے دوستوں نے ملزم کیا کہ تم نے یہ بھاری غلطی کی جو قادیان کو چھوڑ کر آئے ہم نے اس کی ہمیشہ کی وجہ پیش کی کہ فساد سے بچنے کے لئے ہم نے قادیان کو چھوڑ دیا.(پیغام صلح یکم نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲) -۴۲- جناب مولوی محمد علی صاحب نے انہی دنوں اقرار کیا تھا.سیکرٹری ان کا مرید محاسب ان کا مرید ناظران کا مرید خود وہ اس کے میر مجلس پندرہ ممبروں میں سے تو ان کے مرید وہ جس طرح چاہتے اس انجمن سے کام لے سکتے تھے.(پیغام صلح ۵ / مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ).آپ نے بیعت خلافت پر ایک مفصل مکتوب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں بھی لکھا تھا.جو الفضل ۱/۸ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۴ پر طبع شدہ ہے.۴۴.اس تعلق میں پیغام صلح (۲۱ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۳) کا یہ اعلان ملاحظہ ہو.انجمن برائے نام ایک چیز رہ گئی ہے جو پیر کے ہر ایک حکم کی تعمیل کرنے والی ہو گی ہمارے نزدیک یہ تمام کارروائیاں سلسلہ کے انتظام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے والی ہیں اور تھوڑے دنوں میں یہ مردہ انجمن جو اب پیر کے ہاتھ میں کام کرانے کا ایک آلہ ہو گا خود بخود مرجائے گی لہذا ہم اپنے احباب کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی قسم کا روپیہ قادیان نہ بھیجیں.۴۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر الوصیت میں تحریر فرمایا تھا کہ یہ ضروری ہو گا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان کر ہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے.مگر ان لوگوں نے اس بابرکت مقام سے ابدی انقطاع کر لیا.اور لاہور کو مدینہ المسیح لکھنا شروع کر دیا.(پیغام صلح ۲۸/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۲) چیسہ اخبار لاہور نے لکھا.میں کسی کا طرفدار نہیں لاہور کی جماعت نے جواب اختلاف خلافت کے بعد لاہور کو کھینچ تان کر مدینہ صحیح بنایا ہے.اگر ان کا لاہور کے مدینہ المسیح ہونے کی نسبت پہلے سے اعتقاد تھاتو پیغام صلح بھی اب بہت عرصہ سے نکلتا ہے اس میں اس سے پہلے اس امر کو کیوں ظاہر نہ کیا گیا.(پیسہ اخبار بحواله الفضل ۲۳ / مئی ۱۹۱۳ء صفحه ۲ کالم ۲-۳-) ۴۶ جناب مولوی محمد علی صاحب ابھی قادیان میں ہی تھے کہ انہوں نے صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ملازم ہونے کے باوجود اس نئی انجمن کی تشکیل میں سب سے نمایاں حصہ لیا.اور پیغام صلح ۲ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ پر اس کا اعلان بھی کر دیا.۴۷ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوتی ہے کہ فروری ۱۹۱۴ء کے گوشوارہ کے مطابق انجمن کے تمام ضروری شعبے مثلا مد رسه مقبره، بهشتی ، تعمیر اور بیت المال وغیرہ سب مقروض ہو چکے تھے.سید محمد حسین شاہ صاحب نے پیغام صلح (۱۶/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم (۳) پر خزانہ کے خالی ہونے کا بایں الفاظ اقرار کیا.میاں صاحب نے چندوں کی تحریک اپنے متعلق ما صاحب نے کر کے انجمن کو ان مشکلات میں ڈالا ہوا ہے کہ اس کا خزانہ خالی ہے.الخ.-۲۸ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۴۷۰۳۴۲ سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ (مؤلفہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اجنبي -۴۹ پیغام صلح ۱۶ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم -

Page 265

تاریخ احمدیت ، جلد ۴ 229 خلافت ثمانیہ کا چھٹا سال ۵۰ پیغام صلح ۲۴/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ج کالم - ۵۱ پیغام صبح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم -۲ ۵۳ مجد و کامل از خواجه کمال الدین صاحب) مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۱۲۵ ۵۳ پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ ء مولوی محمد علی صاحب کے مضمون کے چند فقرات یہ تھے." جو چند دوستوں میں تبلیغ کے طریق کار کے متعلق اختلاف تھا.اسے کتاب میں لانا اور پھر بعض جگہ نا مناسب الفاظ میں انجمن اور اس کے کاموں کی طرف اشارہ کرنا بہت احباب کے لئے رنج کا موجب ہوا ہے.(صفحہ 1 کالم) ۵۴ پیغام صلح ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ، مجاہد کبیر صفحه ۴۱۱.۵۵ مجاہد کبیر صفحه ۱۳۳ بحواله رسالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تمہ از ناظر اصلاح وارشاد ربوہ) ۵۶ بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تمہ - صفحہ ۱۵-۱۷.۵۷- بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تمہ صفحہ ۱۷۰۱۶ ۵۸ ایضا صفحہ ۲۶-۲۸ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مجاہد کبیر صفحہ ۳۴۶-۳۴۸.۵۹ یہ الفاظ ڈاکٹر غلام محمد ( احمد یہ اللہ نکس لاہور) کے ایک سرکلر سے لئے گئے ہیں جو انہوں نے اپنے دستخط سے ۲۵ / مارچ ۱۹۵۹ء کو ارسال کیا اور جس کی ایک کاپی مؤلف کتاب کے پاس موجود ہے.ان حضرات میں دوسرے اکابر غیر مبایعین کے علاوہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی تھے.جنہوں نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ "اگر میرے مرنے کے بعد میری اولاد ذکورواناث نابالغ رہ جائیں تو ان کی تعلیم و تربیت و تزویح وغیرہ کا انتظام بطور گارڈین کے خلیفہ وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سرپرستی میں کیا جائے "- المرقوم ۲۹/ جنوری ۱۹۰۹ء ( بحوالہ فرقان نومبر ۱۹۴۲ء صفحه ۱۲) انہی دنوں کسی نے مولوی صدر الدین صاحب سے پوچھا کہ یہ کیوں بنایا گیا ہے جو اب دیا.الوؤں کی تسلی بھی تو چاہیئے." الحق متی ۹۱۴ عوم -- پیغام صلح ۵ مکی ۱۹۱۴ء صفحه ۳ کالم ۲.۱۳ مجدد اعظم حصہ دوم صفحه ۱۰۷۹ پھر نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ لوگ بہشتی مقبرہ کے لفظوں پر خفا ہونے لگے.(ملاحظہ ہو پیغام صلح ۱۸ مئی ۱۹۲۹ء صفحه ۵) ۶۴ ۴/ پیغام صلح / جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۳.۶۵ تقریر الحاج شیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح ۱ / فروری ۱۹۵۲ء صفحہ سے کالم - پیغام صلح ۵ / مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ا کالم ۳ ۶۷ پیغام صلح ۱۹ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۳ کالم ۲- بحوالہ الحق دہلی ۱۲۲ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم - پیغام صلح ۲۴/ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ اکالم ۳.۷- اشتهار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء ا پیغام صلح ۲۲ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۳ ۷۲ کلید کلام الامام صفحه ۱۳۷ شائع کرده دار الکتب اسلامیہ احمد یہ اللہ نکس لاہور.۷۳- ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اولیاء اللہ میں سے تھے.(پیغام صلح ۲۸/ / اپریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳ کالم ۲) ۷۴ مولوی محمد علی صاحب احمدیت کے پہلے مجدد تھے.(پیغام صلح ۲۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۹ از میاں محمد صاحب) حیرت یہ ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب نے ۱۹۱۴ء میں مصلح موعود کے جلد آنے سے صرف اس بناء پر انکار فرمایا تھا کہ " اب تو سو سال کے بعد ہی کوئی مجدد آئے گا".(ایک نہایت ضروری اعلان صفحه (۱۳) ۷۵- پیغام صلح ۱۲ / مئی ۱۹۴۰ء صفحہ ۸ کالم - - ۷۶- پیغام صلح ۲۹ / مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳ -

Page 266

تاریخ احمدیت جلد ۴ 230 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۷۷- پیغام صلح ۲۹ / مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳ ۷۸- پیغام صلح ۲۴ / مارچ ۱۹۱۴ء- -۷۹ چنانچہ مرزاخد ابخش صاحب نے 1901 ء میں اپنی کتاب ( عسل مصفی بار دوم) میں لکھا." اس وقت تک چار ہی لڑکے موجود ہیں جن میں سے ایک وہ موعود بھی ہے جو اپنے وقت پر اپنے کمالات ظاہر کرے گا اور جو حضرت اقدس کا جانشین ہو گا".صفحہ ۸۰۰۰۷۹۹ -A+ طبع اول) مجد و اعظم حصہ اول صفحه ۱۵۹ از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) اپنے اس نئے نظریہ کے باوجود کہ مصلح موعود کا زمانہ تیسری چوتھی صدی ہے ان دنوں پیغام صلح والوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی نسبت ایک خواب کی بناء پر یہ امید وابستہ کر دی.خداوند تعالٰی کے دربار میں ممکن ہے کہ تین کو چار کرنے والا آخر مرزا سلطان احمد خان صاحب ہی ہوں.(پیغام صلح سور فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم (۳) خدا کی قدرت حضرت صاحبزادہ صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی اور یہ خواب حضور ایدہ اللہ تعالٰی کی سچائی کا ثبوت بن گیا.الوصیت صفحه اب شائع کردہ اشاعت اسلام بار چهارم اگست ۶۱۹۱۴ ۸۲- ریویو جاندے نمبر ا صفحه ۱۴ ۸۳- پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۲- پیغام صلح کے ا/ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۸ کالم ۲.۸۵ دافع البلاء ( طبع اول صفحہ ۱۰ ۸۶- انجام ۱۸/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲- ۸۷- بیان القرآن اردو صفحه ۱۰ ۸۸ مزید.4.-41 ۹۲ ید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب ( از حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری) نو مولوی محمد علی اور اس کی تفسیر بیان القرآن نوشته جناب قاضی محمد یوسف صاحب مردان) یہی وجہ ہے کہ ۲۲ / مارچ ۱۹۱۴ ء کی شوری میں اہل پیغام نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر میاں محمود احمد صاحب انجمن کے فیصلوں کو قطعی قرار دیں اور پرانے احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینا لازم تصور نہ کریں تو ان کو صدرانجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اور کل جماعت کا امیر تسلیم کیا جائے.(مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۹) اس ضمن میں ان حضرات کا دلی عقیدہ معلوم کرنے کے لئے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی یہ عبارت ملاحظہ ہو.خاتم النبین کے بعد نبی لانے کے مجرم جیسے کہ ہمارے قادیانی بھائی ہیں ویسے ہی غیر احمدی علماء ہم دونوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں کسی نے یا پرانے نبی کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کو مستلزم کفر سمجھتے ہیں (پیغام صلح ۲۲/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم ۲۱) دوسری طرف انہوں نے صاف لفظوں میں اپنا یہ فتوئی شائع کیا.بے شک ختم نبوت کے منکر کو میں بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.(پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ کالم 1) اس فتوی میں جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنی پارٹی کے سوا باقی سب کلمہ گوؤں کو بے دین کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے.مجاہد کبیر صفحه ۱۶۴ پیغام صلح ۲۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱ کالم ۳.پیغام صلح ۷ / فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم.پیغام صلح ۷ / فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳.۹۴ رسالہ خلافت اسلامیہ برائے قرآن وحدیث صفحہ ۱۸٬۵.-۹۵ پیغام صلح ۳/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۲.۹۷ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مولوی دوست محمد صاحب (غیر مبائع) کا ایک خط (محرر و ۶ / فروری ۱۹۳۷ء) حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں پہنچا جس میں لکھا تھا کہ آپ نے ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں ایک احمدی کے مقابل غیر احمدی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے یہ حکم منسوخ کیا جائے یہ خط جو دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں محفوظ ہے اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ غیر مبائع

Page 267

تاریخ احمدیت جلد ۴ 231 حضرات کے نزدیک صرف رشتہ ناطہ ہی نہیں دونوں کے سلسلہ میں بھی احمدیت ہی کو مقدم رکھنا چاہیئے.۹۷ قادیانی مذہب بار پنجم صفحه ۵۹) مؤلفہ صلاح الدین محمد الیاس برنی) ۹۸ زمیندار۱۷ ستمبر ۱۹۴۴ء بحواله فرقان تمبر و اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحه ۲۰- ۹۹ بحواله فرقان ( قادیان) فروری ۱۹۴۶ء صفحه ۶ - Mohammadaniam طبع دوم مطبوعہ ۱۹۵۰ء صفحہ ۷ ۱۸ از ایچ.اے آر - گب) خلافت مانیہ کا چھٹا سال اسی خیال کا اظہار انہوں نے اپنی دوسری کتاب ISLAM MODERN TRENDS IN) کے صفحہ ۶۱ ۶۲ پر بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کے باوجود وہ مشکوک ہی رہے ہیں.- پیغام صلح ۱۵/ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۳ کالم -۱۰۲ مجاہد کبیر صفحه ۱۱۸ ( مولفہ ممتاز احمد صاحب فاروقی بی.ایں - ہی - ای - ای و محمد احمد ایم اے خلف مولانا محمد علی مرحوم) مطبوعہ دسمبر ۰۶۱۹۶۲ ۱۰۳- مجاہد کبیر صفحه 1 ۱۰۴ بحوالہ پیغام صلح ۲۲ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۴ کالم -۲ ۱۰۵ بحوالہ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۳ ۱۰۶ بحواله الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳- ۱۰۷- بحواله الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۲۴ کالم ۳ -۱۰۸ بحواله الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۱۳ء صفحه ۱۰ کالم ۲-۳- ١٩ الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ کے کالم ۳.اس درس کے بعد حضور نے حضرت خلیفہ اول کی وصیت کے مطابق مستورات میں بھی درس شروع فرما دیا.حضرت خلیفہ اول سوره نساء تک درس دے چکے تھے اس لئے حضور نے سورہ مائدہ سے درس کی ابتداء فرمائی درس قرآن کے علاوہ حضور نے ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء سے بخاری شریف کا درس بھی جاری کر دیا.(الفضل ۲۹ / ابریل ۱۹۱۴ء -41+ صفحہ ا کالم ۳) ۱۸ ستمبر ۱۹۲۸ء کو حضور نے درس کے سب امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والوں کو اپنے دست مبارک سے انعامات عطا فرمائے.انعام حاصل کرنے والے.حافظ عبد السلام صاحب شملوی.صوفی صالح محمد صاحب قصوری نذیر احمد صاحب سٹوڈنٹ ہی.ایس.ہی.چوہدری فقیر محمد صاحب کو رٹ انسپکٹر اور شیخ عبد القادر صاحب (سابق سود اگر مل) حال مربی سلسلہ احمدیہ لاہور.الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم..ابتدائی مجالس کے نوٹوں کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الحکم ۲۱ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۳-۲۸٫۴/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۷۴ / مئی ۱۹۱۴ء صفحه الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۱-۲- ۱۱۴.برکات خلافت طبع اول صفحه ۵ برکات خلافت طبع اول صفحہ ے.الحق ۲۹/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱ ے.سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۷ ریکار ڈ صد را انجمن احمدیہ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۲۶.119.الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ 1.۱۲۰- ریکار ڈ صد را مجمن احمد یہ ۱۹۲۶ء- ۱۲۱.ریکار ڈ صد را انجمن احمدیہ ۱۸ ۱۹۱۷ء ۱۲۲ ریکارڈ صدر انجمن احمدیه ۱۹۱۸ء ماسٹر عبد الرحیم صاحب نیر ڈاک کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ مدرسہ احمدیہ میں بھی

Page 268

تاریخ احمدیت جلد ۴ پڑھاتے تھے.۱۳۳ ریکارڈ صد را انجمن احمد یہ ۱۹۱۸ء 232 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۱۳.ریکارڈ صد را انجمن احمد یہ ۱۹۲۰ء- ۱۲۵.حضرت مفتی صاحب فرماتے تھے.” جب میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے دفتر میں آپ کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا تو میں اس امر کو مشاہدہ کرتا رہا کہ مختلف علوم و فنون کے ماہر جو باہر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے گفتگو کرتے تو ہر ایک علم کا ماہر آپ کی ملاقات کے بعد اس امر کا اقرار کرنا کہ اگر چہ ہم اپنے علم کے ماہر دا ایکسپرٹ ہیں مگر حضرت صاحب سے گفتگو کے بعد ہم پر یہ اثر ہوا ہے کہ اس علم میں وہ ہم سے بھی زیادہ واقف ہیں ".(الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳ کامرام ۱۲۶ مطبوعہ الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵-۱۶- ۱۳۷ مطبوعہ الفضل ۱۰ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲.یاد رہے کہ یہ خطبہ بیماری کے دوران میں دیا گیا اور نہ زمانہ صحت میں آپ کا آخری خطبہ ۲۰ فروری ۱۹۵۹ء کا ہے.(مطبوعہ الفضل ۱۳۰ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲ تا ۴) ان دونوں خطبوں کے بعد حضور نے ۲۹/ مارچ ۱۹۶۰ء کو خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا.جو حضو نے پہلے سے املا کروالیا تھا.اس کے بعد آج تک حضور مجلس میں رونق افروز نہیں ہوئے (خطبہ عید الفطر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵/ اپریل ۱۹۹۰ء صفحه ۴۱۳) ۱۲۸ ۱۹۴۴ء تک حضور ایدہ اللہ تعالی کے سفروں کے خطبوں کو قلمبند کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہو تا تھا حضور کے مسفر خدام میں سے جن کو خیال آتا اپنے لفظوں میں خطبات کا مخص الفضل کو بھجوا دیتے تھے.لیکن فروری ۱۹۳۵ء میں جب شعبہ زود نویسی کا قیام عمل میں آیا تو مستقل طور پر سفر و حضر میں حضور کے ملفوظات لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا.۱۳۹ ولادت ۲۷/ جنوری ۱۹۰۸ء مولوی فاضل کا امتحان جولائی ۱۹۲۹ء میں پاس کیا مئی ۱۹۳۰ء میں ادارہ الفضل میں شامل ہوئے اور ۱۹۴۵ء میں شعبہ زود نویسی کے انچارج مقرر ہوئے.۱۳۰.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحه ۸۷- ۱۳۱ خطبات لکھنے والے دوسرے اصحاب شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر چوہدری عبد المجید صاحب بی.اے.مولوی محمد اسمعیل صاحب دیاں گڑھی.مولوی سید احمد علی صاحب مولوی عبد العزیز صاحب چک سکندر چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی.مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی.عبد الکریم صاحب ۱۳۲ الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۴ کالم ۴ ۱۳۳- روح پرور خطاب صفحہ ۴.اس پہلے اشتہار کے شائع کرنے کے لئے آپ کے پاس روپے نہیں تھے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے پانچ سو روپیہ کی ایک تھیلی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیر مساجد کی رقم ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس مصرف میں لانا جائز ہے اس لئے یہ رقم خرچ کرلی جائے.چنانچہ اس رقم سے خلافت ثانیہ کا یہ پہلا اشتہار بھی شائع ہوا.ارپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۷) اور بیرونی جماعتوں میں واعظ بھی بھجوائے گئے.(سیرت سروری صفحہ ۳۸ غیر مطبوعہ از مولوی صدرالدین صاحب فاضل) ۱۳۴ اشتہار کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے.صفحہ ۶-۷ (مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء) ۱۳۵.یہ پورا شعر حضرت مسیح موعود کا ہے جو درثمین میں طبع شدہ موجود ہے.مولوی محمد علی صاحب اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں." اس شعر کو اپنے لئے ہی سمجھتا ہوں ہاں وہ لعل بے بدل صداقت ہے " ضمیمہ پیغام صلح ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم ۲۰۱) ۱۳۶.حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں تفریق اعداء کے ایک معنے ان پر اتمام حجت کا ہونا بھی ہے (انوار الاسلام صفحہ ۱۵) ۱۳۷.اشتہار کون ہے جو خدا کے کلام کو روک سکے صفحہ ۱۲ مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء نوشته ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء) ۱۳۸ - الفضل ۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۱۶ ۱۳۹.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منصب خلافت طبع اول صفحہ 21.

Page 269

تاریخ احمدیت جلد ۴ 233 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۱۰.الفضل ۲/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰.۱۴۱- ریزولیوش نمبر ۱۶۰ -۱۴۲ ریزولیوشن نمبر ۱۲۶ اس ریزولیوشن کی بحث کے دوران مولوی محمد علی صاحب اور ان کے تینوں رفقاء (مولوی صدر الدین صاحب کے علاوہ) اجلاس سے تشریف لے گئے جس کی وجہ مجاہد کبیر میں لکھی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ وہ امور جو ایجنڈا پر بھی نہ تھے اس مجلس میں تحکمانہ طور پر پاس ہونے لگے " (صفحہ ۱۱۹) مگر صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ اس ادعاء کی تغلیط کے لئے کافی ہے.پھر لکھا ہے کہ مولوی نور الدین صاحب کے وقت میں پکا فیصلہ ہو چکا تھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو ولایت بھجوایا جائے.مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۰) ہمارا دعویٰ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر انجمن نے کوئی ایسا پکا فیصلہ کیا ہو تا تو اسے ایجنڈا میں ضرور ہونا چاہئے تھا.لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے.۱۴۳.ریزولیوشن نمبر ۱۷.۱۴۴ ریزولیوشن نمبر ۱۷۳ ۱۴۵.اس اجلاس کی کارروائی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور مولوی صدرالدین صاحب (سیکرٹری) کے دستخط ہیں.۱۴۶.الحکم ۱۳/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۳.نمائندگان کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۲۱ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ ۸ و الفضل ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۱۵-۱۲- ۷ ۱۴.منصب خلافت صفحہ ۳۱.۱۴۸.منصب خلافت سرورق صفحه ۲ ( طبع اول) ۱۴۹.منصب خلافت سرورق صفحه ۱۲ صفحه ۵۵-۵۶ ۱۵۰.یہ ترمیم عملی اعتبار سے ہر گز کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اسی اعلان کی دستوری و آئینی تعبیر تھی جو صد را انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت خلافت پر ان الفاظ میں کیا تھا کہ " حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.(بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲) اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہے کہ انجمن کی نگاہ میں حضرت خلیفہ اول کا فرمان قطعی اور ناطق رہا چنانچہ انجمن کو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی تعمیل میں اپنے فیصلوں کی ترمیم ہی نہیں تنسیخ بھی کرنا پڑی.(ملاحظہ ہو ریزولیوشن نمبر ۱۲۳۱ مورخہ ۲۶ / مارچ ۱۹۱۰ء) مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے اکابر نے ۱۹۱۳ء میں ایک اور اعلان کیا کہ " ساری قوم کے آپ مطاع ہیں اور سب ممبران مجلس معتمدین آپ کی بیعت میں داخل اور آپ کے فرمانبردار ہیں".(پیغام صلح ۴ / د سمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ) پس یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اس ترمیم سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑا ہاں اس سے ان لوگوں کی ضرور قلعی کھل گئی جنہوں نے انجمن کے اجتہاد کو جنت قرار دینے کے باوجود اس کثرت رائے سے کیا ہوا فیصلہ قبول کرنے سے بالکل انکار کر دیا حالانکہ حضرت مسیح موعود سلسلہ کے ان معاملات کے بارے میں جو انجمن کے ہاتھ میں ہیں یہ تحریر فرما چکے ہیں." میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہئے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہئے اور وہی قطعی ہونا چاہئے.اس پر بس نہیں حضور نے ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلاف منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی.غیر مبایعین کی کی رائے میں یہ سب کارروائی حضرت مسیح موعود کے منشاء کے خلاف تھی.اور انجمن کا ترمیم سے متعلق فیصلہ قابل تسلیم نہیں تھا اور اس لئے اس پر انہوں نے بہت شور بھی اٹھایا کیونکہ ان کے نزدیک صرف ان کے ہم خیال ممبروں ہی کا دوسرا نام انجمن تھا.وہ اسی انجمن کی مجموعی رائے کو ناطق و قطعی سمجھتے تھے.۱۵۱.منصب خلافت طبع اول صفحه ۵۵-۵۲- ۱۵۲.جن مقامات کی جماعتوں کے نمائندے اس اجلاس میں موجود تھے ان کے نام یہ ہیں.لاہور یا کپٹن کریام ضلع جالندھر.راہوں.کلکتہ - امرتسر بھنگالہ ضلع ہوشیار پور مردان ضلع پشاور صوابی سہارن پور جموں، سیالکوٹ گوجرانوالہ - ملتان - علی پور.لائل پور بٹالہ - سار چور ھڈیار - کو کھووال- تلونڈی راه والی، جالندھر چھاؤنی - گوجرہ اہل پور - کوٹ رادھا کشن کراچی.بھریا.سرگودھا، دوالمیال کپور تھلہ - لودھراں - جوڑہ سیکھواں - محلا نوالہ - اہرانہ - صریح مانگٹ اونچے گوجر انوالہ - ڈیرہ غازی

Page 270

تاریخ احمد 234 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال خاں.دو جو وال (اجتالہ) گجرات - شاہ جہان پور - دیلی.(احکم ۱۴ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰) ۱۵۳.منصب خلافت سرورق صفحه ۲ ۱۵۴.شکریہ اور اعلان ضروری مشمولہ ضمیمہ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۸ ۱۵۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحه ۳۳- ۱۵۶.منصب خلافت صفحه ۱۶ تا۱۹ ( طبع اول) ۱۵۷.اس لیکچر میں حضور نے غیر مبایعین کے اعتراضوں کی حقیقت کھول کھول کرتائی کہا جاتا تھا کہ عمر چھوٹی ہے.حضور نے اس کے جواب میں حضرت ابن ابی لیلی کا واقعہ بیان فرمایا جنہیں حضرت عمر نے انیس سال کی عمر میں کوفہ کا گور نر بنا کر بھیجا تھا.کوفہ والوں نے از راہ مذاق ان سے عمر ہو تبھی تو انہوں نے جواب دیا.آنحضرت ﷺ نے اسامہ کو جس عمر میں کبار صحابہ کا افسر بنا کر محاذ شام پر بھیجا تھا میں اس سے دو سال بڑا ہوں.حضور نے فرمایا.میں بھی اس رنگ میں جواب دیتا ہوں کہ میری عمر تو ابن ابی لیلی سے بھی سات برس زیادہ ہے".(منصب خلافت صفحه ۴۴-۴۵) - صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ میں مولوی محمد علی صاحب کی اس اطلاع کا ذکر ہمیں ملتا ہے کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر جاتا ہوں میری غیر حاضری میں افسر اشاعت اسلام کا مناسب انتظام کیا جائے.( روند اد اجلاس ۲۶/ اپریل ۱۹۱۳ء) ۱۵۹- آئینه صداقت صفحه ۱۹۹٬۱۹۸) طبع اول اخبار نور (۱۷/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۳) نے مولوی صاحب کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلامت روی اور صلح جوئی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ آپ عین اس جھگڑے اور اس شدید جنگ میں بنفس نفیس جناب مولوی محمد علی صاحب کے ہاں تشریف لے گئے.١٦٠ الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۹۴ / جون ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم اپر ان کا ذکر ہے.وفات ۲/ جنور کی ۱۹۶۱ء - -۱۲۲ ریکارڈ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۱۴ء سے ماخوذ تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۹۱-۳۹۴ پر گزر چکی ہے.۱۲۴.جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۱ از چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے ) طبع اول و سمبر ۱۹۲۷ء.۱۲۵.لندن سے مکرم درد صاحب کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار مسلم ٹائمز کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا.(الفضل ۲۸/ دسمبر (61959 ۱۲۶.الفضل ۲۸/ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۴.اب ان کی عمر 20 برس کی ہوگی.جب ان کے سامنے حضور کا ذکر آتا ہے.تو چشم پر آب ہو جاتے ہیں.۱۹۷.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ مسجد فضل لندن از حضرت میر محمد اسمعیل صاحب) مطبوعہ دسمبر۷ ۱۹۲ء قادیان.۱۲۸.آپ کی واپسی ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہوئی.۱۲۹.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ا حمدیہ مشن لنڈن کی ایک سالانہ رپورٹ (مطبوعہ الفضل ۲۴/۲۷ مئی ۱۹۳۴ء) ۱۷۰.رسالہ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۵۴ میں خود قائد اعظم کے الفاظ میں اس فیصلہ کا تذکرہ موجود ہے.ا.حضرت مولانا درد صاحب کی زبان سے اس اہم واقعہ کی تفصیل سنئے فرماتے ہیں." یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائد اعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اور اس طرح بالآخر ۷ ۱۹۴ ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا.جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائد اعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے.وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا.مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی.میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جبکہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہوگی چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمد یہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.اس کے بعد قائد اعظم

Page 271

تاریخ احمدیت جلد ۴ 235 خلافت عثمانیہ کا چھٹا سال انگلستان کو خیرباد کہ کر ہندوستان واپس آئے.مسلم لیگ کو منظم کیا اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا " الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۸) قائد اعظم کی یہ تقریر / اپریل ۱۹۳۳ء کو عید الاضحیہ کی تقریب پر ہوئی تھی اور جلسہ کے صدر کرسٹیوارٹ سنڈیمن (Sir Stewart Sandaman) تھے.قائد اعظم نے تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا.The eloquent persuation of the Imam left me no escape (ترجمہ) امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی.(انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات نمبر ۲ صفحه ۱۹ از حضرت سید ولی الله شاه صاحب) مسجد فضل پنی میں ایک سیاسی نوعیت کی تقریر پر مختلف حلقوں میں بڑے تعجب کا اظہار کیا گیا.اور پریس نے اس کی اشاعت میں سرگرم حصہ لیا.چنانچہ " دی ایونگ سٹینڈرڈ (لندن) ہندو" (کلکتہ) دی سیمین " (کلکتہ) " مدراس میل" ویسٹ افریقہ " (افریقہ) ایجپیشن گزٹ " (اسکندریه) " پایونیر" (الہ آباد) وغیرہ اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہو گئی تھیں جن کے تراشے مولانا در وصاحب کی ایک فائل میں محفوظ ہیں.۱۷۲.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہور پورٹ سالانہ صد را انجمن احمد یه ۴۱-۱۹۴۰ء صفحه ۱۶ ۴۲-۱۹۴۱ء صفحه ۱۳-۱۷- ایضار پورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیه ۱۹۴۴۰۴۵ء صفحه ۸۴-۰۸۵ ۱۷۳.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۹۳۸ء کے آخر سے مارچ ۱۹۴۰ء تک لندن کے احمد یہ مسلم مشن میں کام کرتے رہے.۱۷۴.آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۴۵ء کو تشریف لے گئے.۱۷۵.الفضل ۲۴/۲۷ جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۱ ۱۷.پہلی بار روانگی کے بعد آپ ۷ / مارچ ۱۹۶۰ء کو ایک ماہ کے لئے واپس آئے اور ۲/ اپریل ۱۹۹۰ء کو پھر لنڈن چلے گئے تھے اس کے بعد آپ کا قیام لندن مشن میں ہی ہے.آپ سے ۱۷۷.آپ صحابی تھے اور انگلستان آنے سے قبل سیالکوٹ کے امیر تھے کرکٹ ٹیم کے ساتھ ۱۹۳۸ء کے قریب انگلستان گئے اور وہیں انتقال کیا.۱۷۸.آپ بھی صحابی تھے جو اس صدی کے شروع میں انگلستان گئے.آپ باقائدگی سے ہائیڈ پارک میں تقاریر فرماتے تھے.ان کے ایک فرزند جن کا نام عزیز دین ہے اب بھی لندن میں مقیم ہیں اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے ہیں.۱۷۹ مبلغ انگلستان بشیر احمد صاحب رفیق کی ایک رپورٹ (مورخہ ۲۴۲/۶۴) سے ماخوذ - ۱۸۰ خطبه جمعه سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی مطبوع الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۴ کالم ۴ THE GENUINE ISLAM VOL.I, NORAI بحوالہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۶۲ ، صفحہ ۳۳ Civilization on trail-lAr ۱۸۳.ترجمہ رپورٹ آف دی مشنری کا نفرنس ۱۸۹۴ء منه قده لندن صفحه ۴۱۹- بحوالہ انصار اللہ دسمبر ۱۹۶۱ء.۱۸- تذکره ( طبع دوم) صفحه ۵۰۹ ۱۸۵- ضمیمہ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۸ و الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۱ ۱۸۶ ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۱ الفضل ۷ ۱۲ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم.۱۸۸ - الفضلی ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۲.۱۸۹.منصب خلافت صفحه ۳۳ طبع اول ۱۹۱۴ء- ۱۹۰ الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ ء صفحہ ۱ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ - الحکم ۱۴/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ، کالم - ۱۹۱.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی خواہش کے مطابق حضرت منشی عبد الحق صاحب کا تب نے اس کتاب کی نہایت عمد و اور نفیس کتابت کی.۱۹۲.بشارات رحمانیہ جلد اول صفحه ۱۷۶۰۱۷۴ از مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر فاضل) الفضل ا/ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷.۱۹۳.الفضل ۳/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۲- ۲۳-

Page 272

تاریخ احمدیت جلد ۴ 236 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۱۹۴ پیغام صلح ۶ / اگست ۱۹۱۴ء صفحه ب - ج - ۱۹۵ - الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ٣ الفضل ۴ / اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم او الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۲-۳- ۱۹۶.یادر ہے اس سے قبل ترکی کے سلطنت برطانیہ سے نہایت گہرے تعلقات تھے.چنانچہ شیخ عبد القادر صاحب بی.اے بیر سٹرایٹ لاء سیکرٹری خلافت کمیٹی سیالکوٹ لکھتے ہیں." حضور سلطان المعظم خلیفتہ المسلمین نے سلطان ٹیپو کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا اور اس دین کے پکے مسلمان نے خلیفتہ المسلمین کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھا اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا.۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں غدر مچا اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت حضور خلیفتہ المسلمین سلطان المعظم نے دی تھی جنوبی افریقہ میں جنگ بوئر ہوئی.ترکی نے انگلستان کا ساتھ دیا.ہزار ہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.مساجد میں انگریزوں کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں.ترکی کے ار مینوں پر فرضی مظالم صفحه ۲۳ شائع کرده مجلس خلافت پنجاب) مطبوعہ ۱۹۲۰ء- ۱۹۷ تاریخ اقوام عالم صفحه ۶۷۶۶۷۴ ( از مرتضی احمد خاں میکش) شائع کردہ مجلس ترقی اردو کلب روڈ لاہور.۱۹۸ تاریخ اقوام عالم صفحه ۷۸۵-۶۸۲ 199.ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۳۹۹-۴۰۵- ۲۰۰ تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحه ۱۳ از حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق نعمانی ) طبع اول ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۱ ء و تذکره طبع دوم صفحه ۷۹۵ - ۲۰۱ اس سلسلہ میں مولانا سید میاں محمد صاحب ناظم جمعیتہ العلماء ہند نے اپنی کتاب علماء حق کے کارنا ہے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان کے یہی غیور مسلمان جو علماء ملت پر ہندو پرستی کا الزام لگاتے ہیں گزشتہ جنگ جرمنی کے زمانہ میں انہوں نے عراق شام ایران وغیرہ وغیرہ اسلامی ممالک کو انگریزوں کے لئے کیوں تباہ کیا.خاص قبلہ ایمان اور کعبہ اسلام پر کیوں گولیاں برسائیں اس کا سب بھوک اور فاقہ بے روزگاری اور قید ستی تھی؟ یا ان کے دلوں میں اسلام اور ایمان سے مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ سے عربوں اور ترکوں سے کوئی بغض بھرا ہوا تھا".(صفحہ ۲۸۴) ۲۰۲.دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ صفحہ ۱۶۱-۱۶۳- از سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی) طبع اول ۲۰ الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحه ۵-۶- ۲۰۴ - اخبار سرمه روزگار آگرہ یکم دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۷.۲۰۵ پوری مسدس اخبار وکیل (امرتس) مورخہ / مئی ۹۸ اور ستاره صبح مورخہ 1 مئی ۱۹۱۸ء اور کتاب یادگار جنگ (پنجاب پلیٹی کمیٹی لاہور ) صفحہ ۱۷-۱۸- پر موجود ہے.ایضا ذ کر اقبال (از عبد المجید سالک) صفحه ۸۷ ٢٠ - الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۹- ۲۰۷.حضرت اقدس کی ایک تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسٹرما تیگو وزیر ہند تھے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۳۸۰۳۷) ٢٠٨- الفضل ۵/ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحه ۳ ٢٠٩- الفضل ۲۱/مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۴.۲۱۰ مکمل خط ملک فضل حسین صاحب مہاجر نے ریویو آف ریلیجہ اردو مئی ۱۹۳۱ء صفحہ ۷ - ۳ پر چھپوا دیا تھا.۲۱- اس تبلیغی مہم کی تفصیلات خود حضرت حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل نے مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کو لکھوادی تھی.مگر افسوس وہ شائع ہونے سے پہلے ہی ایک خادمہ کے ہاتھوں ضائع ہو گئے.۲۱۲- ریویو آف ریلیجز اردو جلد ۱۳ صفحه ۴۲۱-۴۲۷- ۲۱۳.انہی دنوں ترکی کے شامل جنگ ہونے پر دوسرے مسلمانان ہند نے بھی انتباہ کیا تھا چنانچہ قاضی سراج الدین احمد صاحب بیر سٹرایٹ لاء راولپنڈی نے حقیقت خلافت اور مسلمانوں کا فرض میں لکھا یورپ میں اس لڑائی کے شروع ہونے کے بعد مسلمانان ہندوستان نے ترکوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس لڑائی میں غیر جانبداری کی وضع اختیار کریں.لیکن آخر کار ترکوں نے اس مشورہ کو نهایت حقارت کے ساتھ رد کر دیا اور جرمنی کی جانبداری اختیار کرنے سے انگلستان فرانس اور روس کی رعایا کو ایک غیر مطبوع اور تشویشناک حالت میں ڈال دیا.در حقیقت ترکوں نے اس موقع پر مسلمانان عالم کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر برائی کی

Page 273

تاریخ احمدیت جلد ۴ 237 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ہے.جرمنی نے ترکوں کو اپنے دام تزویر میں صرف اس غرض سے نہیں پھنسایا تھا کہ ان سے براہ راست امداد حاصل کرے بلکہ اس غرض سے بھی کہ سلطان ترکی کا جو اقتدار اسلامی دنیا میں مانا جاتا ہے اس کو استعمال کر کے قریب قریب تمام دنیا کے مسلمانوں سے ان سلطنتوں کے خلاف جن سے وہ رابستہ ہیں ندر اور فساد برپا کر دیا جائے یہ ایسی کوشش تھی کہ اگر اس میں کامیابی ہو جاتی.تو صرف ایک ہی نتیجہ ہو سکتا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان خدا کے نزدیک اور اپنی اپنی سلطنتوں کی نگاہ میں مردود ہو جاتے اور دین درنیا میں ان کا کہیں ٹھکانہ باقی نہ رہتا.خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ جرمنی اور ترکوں کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور خدا نے مسلمانان عالم کی عزت و آبرو رکھ لی.اس میں شک نہیں کہ ایک وجہ ایسی موجود تھی جس سے تمام اسلامی دنیا کو ترکی سلطنت کا احترام واجب تھا اور یہ ای احساس کا معاوضہ تھا جو ترکی حکومت کے حرمین الشریفین کی حفاظت کو اپنے ذمہ لینے سے پیدا ہو تا تھا.لیکن ترکوں نے اپنے اس حق کو بھی اپنے ہاتھوں سے تلف کر دیا ہے.اگر ترکوں کو ارض مقدس اور حرمین الشریفین کی حفاظت کی کچھ بھی پروا ہوتی تو وہ دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت یعنی انگلستان کے برخلاف کبھی جنگ کا نام نہ لیتے بلکہ صرف اپنے اس فرض کی ادائیگی کی خاطر اس زبر دست سلطنت کے ساتھ ہمیشہ مستحکم دوستی رکھتے " ( صفحه ۸۶-۸۹) ۲۱۴- الفضل ۳/دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ سے کالم ۲۱۵ الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۲۱۶ - الفضل ۲۸ / دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.۲۱۷ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ کالم -۲۱۸ ریکارڈ رو که او اجلاس صد ر انجمن احمد یہ نومبر ۱۹۲۹ء صفحه ۳۸۰ ۲۱۹- ریکار ڈ۳۱-۱۹۳۰ء- -۲۲۰ ایضا ریکار ڈرو کار اجلاس صد را انجمن احمدیه ۱۹۳۵ء ۲۲۱ مکمل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو احمد کی جنتری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۸-۳۹- ۲۲۲- پیغام صلح یکم دسمبر ۱۹۱۴ء صفحه ۱- ۲۲۳.خواجہ صاحب نے اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب میں خود لکھا ہے میرا ارادہ تھا کہ میں فوراہی قادیان جاؤں صفحہ ۱۸ مگر فور نہ جاسکنے کی وجہ الفضل کا ایک مضمون بتایا ہے جو ان کے لاہور پہنچنے کے چھ دن بعد شائع ہوا.۲۲۴- یه مفصل واقعه قاضی محمد یوسف صاحب کی روایت الفضل ۱۵/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۵ پر چھپ چکا ہے.۲۲۵ - الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم.-٢٢٦ الفضل ۱۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۱.۱۲۷۷ حکم اور مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ کالم سم و الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۱۴ء صفحه ۱ ۳ ۱.۱۲۱ ۲۲۸ اقام ۱۲۸ مبنی ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۲ ۲۲۹ - الفضل ۴ / مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶ ۱۰/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۱-۲- ۲۳۰ ریکار و صد را نجمن احمدیه ۱۹۱۴ء صفحه ۲۷۸ ٢٣١ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحه اکالم - ۲۳۲.الفرقان - قمرالانبیاء نمبر اپریل مئی ۱۹۶۴ء صفحہ 1.۲۳۳ الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۱۴ء ۲۵/ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحه ۵٬۶۰۵ / نومبر ۱۹۱۴ء صفحه ۰۸ ۲۳۴ - یہ نماز ہزاروں کی تعداد میں یورپ امریکہ اور آسٹریلیا میں بھیجی گئی.(الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۱۴ء) صفحہ ۱۰ کالم ۲۰۱(نوٹ) اس عنوان کے تحت مصنفین سلسلہ کی صرف خاص خاص کتابوں کا تذکرہ ہو گا.۲۳۵- الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۹۰۱/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ سے کالم - ۲۳۶- آپ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۸( حاشیه )

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 238 خلافت ثانیہ کا چھٹا سائیں ۲۳۷ الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحه حواشی ۲۳۸ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحه ۱ ۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۳۹ الفضل ۹ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ اکالم.یہ مضمون بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہو گیا.-۲۳۰ الفضل ۱۶۰ / فروری ۱۹۱۵ء صفحہ اوالفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء ۲۳۱ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ ۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.۲۴۲ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.۲۴۳.مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت.مطبوعہ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۱۸ ۲۴۴.ضمیمه الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحه ۱-۴ ۲۴۵ القول الفصل سرورق (مطبوعہ ۳۰/ جنوری ۱۹۱۵ء) ۲۳۶ عزیز الواعطین حضرت مولانا غلام امام صاحب شاہجہانپوری ثم اسامی کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے سلسلہ کے نہایت خدائی اور بذلہ سنج بزرگ تھے.۱۹۷۴ء میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کے لائق فرزند جناب محمود الحسن صاحب (ریونیو مبر حکومت مشرقی پاکستان ڈھاکہ سے آپ کی نعش ربوہ لے آئے اور آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.۲۴۷- ریویو آف رینجرز اردو اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحه ۲۶۲۴ ۲۴۸.جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم ( طبع اول) میں با تفصیل ذکر آچکا ہے.حضرت صوفی صاحب نے نے 190 ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کے تحریک فرمانے پر اپنی زندگی وقف کی تھی ۱۹۱۲ء میں آپ بی.اے کا امتحان پاس کر کے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضرت نے قرآن مجید حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا.آپ نے بفضلہ تعالی چھ ماہ میں قرآن مجید حفظ کر لیا.ان دنوں دربار خلافت میں نیروبی سے ایک مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی ہوئی تھی.حضرت خلیفہ اول نے آپ کو کینیا کا ونی کا اس چارٹ لینے کا حکم دیا.مگر افریقہ کا پاسپورٹ نہ مل سکا اور حضرت خلیفہ اول کا وصال ہو گیا.پھر حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایت پر آپ نے ماریشس کے لئے پاسپورٹ کی درخواست دی.دسمبر ۱۹۱۴ء میں آپ کو پاسپورٹ مل گیا.(یہ حالات خود حضرت صوفی صاحب کے قلم سے روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلدے صفحہ ۲۸۵ پر موجود ہیں) ٢٤٩- الفضل ۲۲ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳.۲۵۰- روایات صحابہ جلدی صفحہ ۲۸۵ - ایضا الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ و الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳.۲۵۱ سیلون میں با قاعدہ مشن اگست ۱۹۵۱ء کو قائم ہوا.جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا.۲۵۲- اس مقدمہ کی پوری عدالتی کارروائی ۲۷۳ صفحات میں طبع شدہ ہے.۲۵۳ - الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۱۷ء ۲۵۴- ریویو آف ریلیجنز اردو - اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحه ۳۷ و الفضل ۱۵/۱۹ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ اکالم.۲۵۵، ردا نداد مباحثه در باره حیات ووفات عیسی بن مریم علیهم السلام کے نام سے یہ مناظرہ چھپ گیا تھا.۲۵۶- روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد کے صفحہ ۲۸۲۰۲۸۵- ایضار افضل ۲۲ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۳ ۲۵۷.آپ قریباً دو سال تک قادیان میں علم دین حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے اور اب تک جماعت کے لٹریچر کی فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے میں اہم خدمات بجا لا رہے ہیں.۲۵۸ حضرت حافظ صاحب صحابی تھے مئی ۱۹۰۸ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود کے آخری سفرلاہور کے دوران زیارت کی جس کے قریب دو ہفتہ کے بعد حضور علیہ السلام وصال فرما گئے.روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلدے صفحہ ۲۴۸-۱۹۱۶ء میں آپ نے مبلغین کلاس

Page 275

ریت - جلد ۳ 239 خلافت ثانیہ کا ۲۵۹ پاس کی.(الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ 1) -۲- وكالت تبشیر کے ریکار ڈ اور جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی تقاریر سے ماخوذ !! جماعت احمد یہ ماریشس کی مطبوعات Le Massage ( پہلا سالنامہ مئی ۱۹۶۳ء) اور Victory for Khilaafat" سے بھی مدد لی گئی.الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ا کالم الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ.۲۶۲- الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۵۳ مضمون جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور) ۲۶۳- حقیقته النبوة صفحه ۱۸۵-۱۸۶-.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے " حقیقتہ النبوۃ کی نسبت ۱۳/ نومبر ۱۹۱۵ء کو ایڈیٹر پیغام صلح کے نام خط لکھا کہ میں نے کتاب حقیقتہ النبوة کی تعریف کی تھی.مگر اس کے دلائل پر رائے دینے کا حق مجھے حاصل نہیں.کیونکہ اختلاف سلسلہ احمدیہ کے متعلق وہی شخص رائے دے سکتا ہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں ".پیغام صلح ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحه ۸ ۳۶۵ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۱۶ء صفحه ۲ کالم - خالد - اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۶ - الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ء صفحه ۰۸ ٣٦٦- الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحه ۲ تا ۸- ۲۶۸٬۲۶۷ الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۵ ء صفحہ ۲۰۱) حضرت مولانا کا خطبہ نکاح الفضل نے ارجون ۱۹۱۵ء میں شائع شدہ ہے) ۲۶۹.اصحاب احمد حصہ دوم صفحه ۲۷۸ ۲۷۰- الفضل ۲۴ فروری ۱۹۱۷ ء صفحہ ۱.۲۷۱.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۹۸- ۲۷۲- حضرت ام المومنین کے وصال کے بعد ان کا نام ایک رویاء کی بناء پر نصرت جہاں بیگم رکھ دیا گیا.۲۷۳ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۳۰۳ ۲۷۴ - الفضل ۸ / جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ا کالم.۲۷۵- الفضل ۱۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ اکالم - ۲۷- الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۳.۲۷۷الفضل ۲۶/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحه ۵ ۲۷۸ ماؤنٹ گراوٹ متصل شهر بر زین ضلع کوئینز لینڈ ( آسٹریلیا ) ۲۷۹- الفضل ۲/ تمبر ۱۹۱۵ء صفحه ۵ ٢٨٠- الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۸۵- الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ اکالم ۲.۲۸۲- تاریخ مالابار ( از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی) میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں.۲۸۳- الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۱۵ء- ۲۸۴ مفصل نصائح الفضل ۱۴۰/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۰۴ میں طبع شدہ ہے.۲۸۵ حضرت قاضی صاحب ۲۸/ نومبر ۱۹۱۹ ء کو قادیان میں واپس پہنچے.(الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ 1) ۲۸۶ - پیغام صلح ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۱۱۸۰۷/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸- ۲۸۷- ملاحظہ ہو فاروق ۷ / اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۳-۴- ۲۸۸- فاروق ۶ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ی ۲۸۹.اس کی تفصیل حضرت خلیفتہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالی کے پیکچر نظام آسمانی کا پس منظر میں موجود ہے.(اس واقعہ کی تعین نہیں ہو سکی انداز ا اس سال کے واقعات میں اسے درج کیا جا رہا ہے)

Page 276

تاریخ احمدیت جلد ۴ ٢٩٠ الفضل ۱۴ اگست ۱۹۳۷ء صفحه ۴ ۲۹۱ الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۴۱۶۱۹۱۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحه ۲- 240 ۲۹۲- گیارھواں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸( بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۲۴ بار ششم ۲۹۳ الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.۲۹۴- الفضل ۳۱/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ)." ہے گی ت تانیہ کا چھٹا سال ۲۹۵ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر صفحہ ۳۸-۴۰ از سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده الله تعالی) ۲۹۶.مرحوم کی بیماری وغیرہ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو.(الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۱-۱۲ ۲۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحه ۳-۷ و اخبار فاروق ۱۸/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱- ۱۲ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے تعزیت نامہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں فاروق ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفح.۲۹۷- ابتداء اس کے لئے اسلامیہ کالج کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا گیا.پھر اسے گوالمنڈی میں منتقل کیا گیا الفضل 11 دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ) کچھ عرصہ لارنس روڈ اینگو نگو پر رہا.(الفضل مئی ۱۹۱۶ء) اور پھر شاہ ابو العالی روڈ دیال سنگھ کالج لاہور کے پاس بھی رہا.(الفضل ۱۰/۲۰ ستمبر ۱۹۲۰ء ) اسی طرح ایمپرس روڈ کو بھی نمبر ۴۰ میں بھی.٢٩٩۴٢٩٨ - الفضل ا/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸ (بابو صاحب کے بعد متعدد سپر نٹنڈنٹ بنے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں.چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر ضلع ملتان و سیکرٹری تعلیم و تربیت لندن سید دلاور شاہ صاحب بخاری شیخ فضل کریم صاحب پراچہ - ملک عبدالرحمن صاحب خادم ماسٹر نذیر خان صاحب - ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب چوہدری غلام احمد صاحب ایم.اے.-۳۰۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحه ۱۳۲-۱۳۴ انگریزی قواعد و ضوابط کی ایک کاپی صدر انجمن احمدیہ کے ریکار ڈے ۱۹۲ ء میں محفوظ ہے.۳۰۲.رپورٹ مجلس مشاورت ۳۰۳ الفرقان: نوری ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۸ و الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳۸ و الفرقان اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۳۳ ۳۰۴- ایک یوم التبلیغ پر دو ہزار انگریزی ٹریکٹ شائع کرنے کا ذکر سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۷-۱۹۳۶ء صفحہ ۲۰۰ پر ہے یہ ہوسٹل ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بند ہو گیا تھا اب ستمبر ۱۹۶۴ء سے دوبارہ جاری ہوا.۳۰۵- سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۵۴-۱۳۵۵ از حضرت قمر الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۳۰۶ الفضل ۲۲ / اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۶ کالم ۱-۲- انگریزی پاره کا عربی متن حضرت پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی نے لکھا الفضل ١٦ / ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ اکالم ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اس کی چھپوائی کے لئے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اس کی پروف ریڈنگ کے لئے مدر اس تشریف لے گئے (الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۱ کالم ۲) اردو تغییر اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں اور انگریزی تفسیر ایڈ سن پریس مدر اس میں طبع ہوئی.۳۰۷.مسلم در لذبابت اپریل ۱۹۱۹ء ( بحوالہ ریویو آف ریلیجز، اردو ا گست ۱۹۱۶ء صفحه ۳۰۵ ۳۰۸ ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲.۳۰۹ ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲- ٣١٠ الفضل ۱/۲۴ اکتوبر ۱۹۱۶ء صفحه ۴ کالم ۳ ۳۱۲٬۳۱۱- قادیان گائیڈ صفحه ۱۰۰ از محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان) صفحه ۱۰۰ ۱۰۱ ۳۱۳ - الفضل ۷ / اپریل ۱۹۴۴ء صفحہے.۳۱۴.تفصیل کے لئے دیکھیں المصلح ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۳ء.۳۱۵- انوار خلافت صفحه ۱۵۳-۱۵۴ ۳۲ الفضل ۵/ جنوری ۱۹۱۵ء ۳۱۷ الفضل ۵۰۳/اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۳۱۸ الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحه) ۳۱۹ - الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۱۵ ء صفحہ اکالم - جہاد کبیر صفحہ ۱۳۵ ٣٣٠- الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱.۳۲۱- اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۹۶-۱۰۲- ۳۲۲ الفضل ۱۷۳ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ا کالم ۳ ٣٢٣ الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحه ۱-۲- 241 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۳۲۴- الفضل ۱۶ / جون 1940ء صفحہ اکالم ۲.اس مباحثہ کا فیصلہ جو شیخ محمد معمر صاحب بی.اے ایل ایل بی وکیل چیف کورٹ ( ثالث فریقین نے کیا.قول فیصل کے ہام سے طبع شدہ ہے.۳۲۵- الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۵-۷- ٣٣٦- الفضل ۱۰ لر د سمبر ۱۹۱۵ء صفحه ۰۵ ۱۳۲۷ اخبار نور۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحه ۲ ۳۲۸ - دوسرا حصہ ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا.۳۲۹- حضرت مسیح موعود سے پروفیسر صاحب کی ملاقات کا تفصیلی ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۳۵-۵۳۶ پر گزر چکا ہے.٣٣٠ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ 1- مفصل گفتگو الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۴۷ صفحه ۶۳ اور فاروق ۳/ جنوری ۱۹۷۷ء صفحہ ۲ میں چھپ گئی تھی.ان مہمانوں کے قیام اور ملاقات کا انتظام حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے سپرد تھا.(اصحاب احمد جلد نہم حاشیہ صفحه ۱۱۳) ۳۳۱ اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۶۵۰۷۳ ۳۳۲ - احمد یہ موومنٹ ۳۳۲ تغير كبير(سورۃ الکوثر صفحه ۱۳۷۶ از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) ۳۳۴ ریویو آف ریلیجز جون جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶۰.۳۳۵ الفضل ۱۵ / فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱ ۳۳۶- تذکره طبع دوم صفحه ۰۷۷۸ ۱۳۷ الفضل ۹/ دسمبر۷ ۱۹۲ء صفحه ۸ ۳۳۸ الفضل ۴ / مارچ ۱۹۱۶ء صفحه ۳۳۹.کلام حسن صفحه ۶۷ ۳۴۰.یہ جلسہ را ما تھیٹر ہال میں ہو ا تھا.۳۴۱- حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب نے عربی میں لیکچر دیا تھا.اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب مولوی محمد الدین صاحب اور چوہدری ابو الہاشم خان صاحب نے انگریزی میں حضرت میر صاحب نے ایک لیکچر اردو میں بھی دیا تھا.۳۴۲ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۲- ۱۳.حضور نے جس مصروفیت اور جوش کے عالم میں اس مضمون کی تکمیل فرمائی.اس کی نسبت الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ اپر لکھا ہے کہ آپ نے ایک حصہ تو ظہر تک لکھ کر امیر قافلہ مولوی محمد الدین صاحب بی.اے کے سپرد کیا.دوسراحصہ ۲ بجے رات کے منشی فخرالدین کے ہاتھ بھجوایا پھر جمعہ کی نماز کے بعد شیخ عبد الخالق صاحب دہلی جا رہے تھے چند اوراق انہیں دیئے اور ایک حصہ دو گھنٹے کے بعد ماسٹر عبد العزیز صاحب نے سائیکل سے جاکر اسٹیشن بٹالہ پر شیخ عبد الخالق صاحب کو پہنچایا اور باقی مضمون تین بجے رات کو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لے کر دلی کو روانہ ہوئے.الفضل ۲۲/ اپریل ۱۹۱۹ء صفحه ۱۲- ۱۳۴۴ الفضل ۲۷/مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۳.۳۴۵ الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۶ء صفحه ۱۲

Page 278

تاریخ احمدیت جلد ۴ - الفضل ۱۸ جون ۱۹۱۶ء صفحه ۴ 242 ۱۳۴۷ الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۷۶ء صفحہے.والفضل ۸/ اگست ۶۲۹۹ صفحه ۱ - ۲ ۳۴۸ الفضل ۸/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲- ۳۴۹- الفضل ۸ / اگست ۱۹۷۷ء صفحه ۱- خلافت امید کا چھٹا سال ۳۵۰- الفضل ۲۹/ اگست ۱۹۱۶ء صفحه ۱ ۳۵۱ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۶۷ء ضمیمہ (ب) ۳۵۲- ریکارڈ صد را انجمن احمد یہ ۱۹۷۶ء صفحه ۱۹۵-۲۸۵- جغرافیہ پڑھانے کے دوران کا ایک واقعہ الفضل سالانہ جلسہ نمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۳۳ پر ملاحظہ ہو.۳۵۳ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحه ۳ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۷۶ء صفحه ۷/۸ ۳۵۴ بالفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحه ۸ ۳۵۵.الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحه ۲ ۳۵۶ الفضل ۱۹/۲۲دسمبر ۱۹۱۶ء صفحه ۱-۲- ۳۵۷ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۷ء صفحہ ۱-۲- ۱۳۵۸ الفضل ۱۲/۱۹دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱- والفضل ۹/۲۲ و سمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۸-۲۰- ۳۵۹ ۳۶۰ ریکار ڈ صد را انجمن احمد یه ۱۹۱۷ء صفحه ۴۷۴ و قاریان گائیڈ صفحہ ہے.حضرت خلیفہ اول کاکتب خانہ اس وقت تک آپ کے گھر میں رکھا تھا.۳۷ ریکار و صد را مجمن احمدیه ۱۹۱۷ء صفحه ۳۶۶ ایضا سالانہ رپورٹ صد را انجمن احمدیه ۳۳-۱۹۹۳۲ء صفحه ۷ ۱۳ ۳۶۲.ریکار ڈ صد را منجمن احمد یہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۳.۳۶۳ ریکار ڈ صد را انجمن احمد یه ۱۹۲۹ء صفحه ۷ ۳۵-۳۵۹ ۳۶۴- ریکار ڈ صد را انجمن احمدیه ۱۹۳۲ء صفحه ۱۸۴ ۳۶۵ رپورٹ سالانه صد را انجمن احمدیه ۵۳-۱۹۵۲ء صفحه ۳۲ ۳۶۶- ضمیمه الفضل ۱۶ دسمبر 19، صفحہ ۵/۶ اس ضمیمہ میں حضور نے اسلام کے عنوان سے مستوارت کے لئے ایک مضمون بھی شائع کیا.۳۷۷- اس سال مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بچارے اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث غیر مبایعین سے متاثر ہو گئے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میں میاں محمود احمد صاحب کو خلافت سے معزول کرتا ہوں حضرت اقدس نے پہلی تقریر میں اس امر کا بھی ذکر فرما کر پورے جلال کے ساتھ اعلان فرمایا." خلیفہ اگر خدا بناتا ہے اور واقعہ میں خدا ہی بناتا ہے تو مولوی محمد احسن کی دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اسے معزول کر سکتے ہوں ہاں اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی نے ان کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر میری بیعت کی تھی وہ اپنی بیعت قسم کرنے میں آزاد ہے.ذکر الہی طبع اول صفحہ ۱۳- ۱۴) حضرت مولوی محمد احسن صاحب بعد کو حضور کی خدمت میں قادیان تشریف لائے اور صاف اقرار کیا کہ حق قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے کہ میں بڑھاپے میں اپنی بیوی کا محتاج ہوں مگر بیوی کو لاہوریوں نے لالچ دیا ہوا ہے اس لئے میں بھی ان کے ساتھ جانے پر مجبور ہوں.(الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۳) ۳۶۸- تفسیر کبیر (سوره التطفيف) صفحه ۱۳۱۵ از حضرت خلیفہ ثانی) ٣٦٩ الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحه 1 ۳۷۰- الفضل ۳-۸-۱۸ / اپریل ۲۴/ اکتوبر ۶۱۹۱۶ ۳۷۱- الفضل ۲/۵ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ ۳۷ الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱.

Page 279

تاریخ احمد نیت، جلد ۴ ۳۷۳الفضل ۱۶ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ 1.243 ۷۴ ا تبادشہ احمدیاں و غیر احمد یاں کے نام سے کتابی صورت میں طبع شدہ ہے.۳۷۵ یہ مباحثہ بھی مباحثہ سرگودھا کے نام سے شائع ہو گیا تھا.۳۷۶ الفضل ۴/ جولائی ۱۹۷۹ ء صفحہ ۲.۱۳۷۷الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۹ء صفحہ ۲ ۱۳۷۸الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۴۷ء صفحه ۱ ۳۷۹ فتح مبین کے نام سے چھپا ہوا ہے.۳۸۰ - اخبار نور۱۷/ اپریل ۱۹۹ ء صفحه ۰۳ ۳۸ الفضل ۲/۵ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۰۲ ۳۸۲ الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۴۶ء صفحه ۲ ۳۸۳ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۳ الفضل ۷ / مارچ ۱۹۷۴ء صفحہ ۵- ٣٨٥ الفضل ۱۸۰۴ اپریل ۱۹۱۷ء صفحه ۰۲۰ ۳۸۶.انسائیکلو پیڈیا بر شینکا زیر لفظ "RURRIA- خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۳۸۷ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ احمدیت جلد سوم ( طبع اول صفحه ۴۰۵٬۲۰۳.ایضا ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین مطبوعه ریویو آف ریجن اردو جنوری فروری ۱۹۳۵ء بعد ۳۸۸ جناب مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے خدائے قادیان اور زار روس " کے عنوان سے ایک نظم بھی کسی جس کے چند شعر یہ تھے.زار کی لفظی رعایت نے سمجھایا تھا قول زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار مردن اتفاقاً چھڑ گئی جنگ فرنگ رنگ لائی مدتوں میں گردش لیل و نہار زار سے چھوا دیا قسمت نے اس کا تخت و تاج کیونکہ قسمت کا نہیں دنیا میں کچھ بھی اعتبار حال اس کو غیب کے اسرار کا معلوم ہے بادشاہی اور گہرائی پر ہے جس کا اختیار (ارمغان قادیان صفحه ۱۹ - ۲۰) ۳۸۹ ریویو آف ریلیجی اردو ۱۵/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۹۶ 20- الفضل ۱۴ / جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۸ ۳۹۱ حضرت ڈاکٹر صاحب ان دنوں ریاست پٹیالہ میں ملازم تھے اور ریاست سے فارغ ہونا مشکل تھا اور شروع میں حضرت ڈاکٹر صاحب بلا تنخواہ رخصت پر قادیان آئے تھے ( ریکارڈ صدرانجمن احمد یہ ۱۹۱۹ء) ۳۹۲.ایضار یکارڈ۱۹۲۱ء.۳۹۳.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه - ۳۹۴.ریکارڈ صدرانجمن احمدیہ ۱۹۳۰ء ( نور ہسپتال کا ایک کمرہ ملک صاحب خان صاحب نون کے خرچ پر تعمیر ہوا) ریکارڈ ۱۹۲۸ء.۳۹۵ الفضضل ۱۴ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ او الحکم ۲۸/ نومبر ۱۹۲۱ء صفحه ۳-۰۴ ۳۹۶- سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۵۸ ۳۹۷ الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱.٣٩٨ الفضل ۱۹/ ۱۵مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰-۱۱-

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ٣٩٩- الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۷ ۲۰۰ الفضل یکم ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ او ۱۳ / اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ.۲۰۱ ملاحظہ ہو ضمیمہ الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۷ء.۴۰۲- زنده ند هب صفحه ۲۹ - ( از حضرت خلیفہ ثانی).244 خلافت عثمانیہ کا چھٹا سال ۴۰۳.سنور میں حضور حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، منشی محمد تقی صاحب اور مولوی قدرت اللہ صاحب کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے.۴۰۴ - الفضل ۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳ لیکچر کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۱۵/ د سمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳-۱۵) ۴۰۵.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود کی ۱۹۰۵ء میں درگاہ میں ملاقات اور حضور کی خط و کتابت کا ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع سوم) صفحه ۲۳۷ پر گزر چکا ہے ہم یہاں یہ مزید بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یکم اکتوبر ۱۹۰۷ء کو ریاست مانگرول (کاٹھیا واڑ) سے مندرجہ ذیل تعزیت نامہ لکھا.قدی صفات سراپا نوازش و الطاف مرزا صاحب السلام علیکم ورحمه الله وبرکاته احکم آیا اور عزیز مبارک احمد کی وفات معلوم ہوئی.جس کے پڑھنے سے اس قدر غم واندوہ ہوا ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا.زمانہ قیام دہلی میں عزیز مرحوم کو دیکھا تھا کیا پیارا بچہ تھا اگر چہ آپ کو صبرو رضا کی تلقین لقمان کو حکمت سکھانا ہے تاہم رسمی طور پر اس نیت سے یہ نامہ ارسال ہے گو آپ کو اور آپ کی جماعت کو اس ابتلا میں قلبی اطمینان میسر ہو گیا ہو گا مگر افسوس کہ میں بسبب اس محبت کے جو مجھ کو آپ اور آپ کی جماعت سے ہے عزیزم مرحوم کی ناگہانی وفات کو برداشت نہیں کر سکتا.اور تخت حلق میں ہوں.خواجہ حسن نظامی خواہر زادہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی دہلی " ۴۰۶- رساله نظام المشائخ و علی محرم ۱۳۳۶ھ صفحہ ۵۲-۵۳- بعنو ان اجمیر شریف میں بلاوا ۴۰۷ الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۹۸ ۴۰۸ ستاره صبح ۳۱/دسمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۲ جلد نمبر ۱۰۰ ۴۰۹- رساله مرشد نمبر بحوالہ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۵ -۱۰ بحواله الفضل ۱۵/۱۸مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۱۴ ۴۱۱ " تاریخ ہند و پاک صفحه ۲۳۸ مطبوعہ حجازی پریس لاہور- ۴۱۲- حیات محمد علی جناح صفحه 1 ( از سید رئیس احمد جعفری ) طبع دوم ۴۱۳- بركات خلافت صفحه ۵۳-۷۴) تقریر سید نا حضرت خلیفہ ثانی بر سالانہ جلسه ۶۱۹۸۵ ) رپورٹ سالانہ صدرا انجمن احمد یہ ۱۸-۱۹۱۷ء صفحہ ۵ والفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ 1.' ۴۱۵- ممبر حضرت نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب خان بہادر راجہ پائنده خلاص جنجوعه جعلم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب عبد اللہ بھائی الہ دین صاحب سکندر آباد دکن.مولوی غلام اکبر خان صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن.حضرت موادی شیر علی صاحب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۴۱۶ ریویو آف ریلیجز اردود سمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۴۵۳-۴۵۷-۴۵۸- ۴۱۷- بحوالہ الفضل ۲۰ / تو میر۱۹۱۷ء صفحہ 1 ۴۱۸ - الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱-۲- ٤١٩ الفضل ۷ / جولائی ۱۹۳۳ء صفحہ ۹۰۸ ۴۲۰ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحه ۲ ۴۲۱ - الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۵- ۴۲۲.رپورٹ محکمہ نظارت جماعت احمدیہ صفحہ ۱۰.۴۲۳- الحکم کے مئی ۱۹۲۱ء صفحہ ۵ - الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۵

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 245 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۴۲۴ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۴۱/ ۱۰ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ 1 ۴۲۵.الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۴۴۶ - فاروق ۶/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳.۴۲۷ الفضل ۱۳۰ تمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۴.۳۲۸- فاروق ۱۲ اپریل ۱۹۱۷ء صفحه ۱ ۴۲۹ - الفضل ۱۳/ ۱۰ اپریل ۱۹۱۷ ء صفحہ ۱۰۴۳ / اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰.۴۳۰- ریکار ڈ صدر انجمن احمد یه ۶۱۹۱۷ ۴۳۱- ریکار ڈ صد رانجمن احمد یہ ۱۹۱۷ء.۴۳۲- قادیان گائیڈ صفحہ ۱۰۲ ۴۳۳ اخبار نور۳/۱۷ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱.۴۳۴ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ- ۴۳۵) بالفضل ۷ ار مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۳.۴۳۶ - الفضل ۱۱۸ اگست ۱۹۱۷ء صفحه او سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸ ۳۳۷ الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۹ ۴۳۸ اخبار نور۱۷ اگست ۱۹۱۷ء صفحه ۰۸ ۴۳۹- فاروق ۱۶ ستمبر صفحه ۱۲۷۱۴۰۳ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحه ۳-۸- ۴۴۰- الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱.۴۴۱ بحواله الفضل ۹/ فروری ۱۹۱۸ء صفحه ۳ ۴۴۲ - الفضل ۴ / مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱.۴۴۳ الفضل / مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱.۴۴۴ الفضل ۱۸ جون ۱۹۱۸ء صفحه ا ۴۴۵ مکتوب حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه بنام مولف کتاب محرر و ۳۱/ جولائی ۱۹۷۴ء.۲۴۹.الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۱۸ء صفحه ۱ ۴۴ حکم سے جولائی ۱۹۱۸ء صفحہ ۴.۴۳۸ سلسله احمد یه صفحه ۳۵۹۰۳۵۸.(از حضرت میرزا بشیر احمد صاحب ) ۴۴۹ حضرت امیر المومنین کو انفلوائنزا کی وجہ سے ہر وقت حرارت رہتی تھی.اور ضعف قلب کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا حضور کی بیماری پر حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تار دے کر بلوائے گئے.حضرت میر صاحب تو قادیان پہنچنے کے دوسرے تیسرے روز خود انفلوائنزا میں جتلا ہو گئے.مگر حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو قریباً سوا تین ماہ حضور کی خدمت میں رہ کر تیمار داری اور علاج کا موقعہ ملا.رات کو حضور کے پاس صرف حضرت ڈاکٹر صاحب ہی ہوتے.اکثر کھانا بھی حضور کے ساتھ کھاتے تھے.حضور نے انہیں پہلا حکم یہ دیا کہ میری اجازت کے بغیر کمرہ سے باہر نہ جائیں.ڈاکٹر صاحب نے حضور کابول وبراز ٹسٹ کرانے کے لئے لاہور کے پتھالوجیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھجوایا جہاں ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑک کام کرتے تھے.تشخیص کا نتیجہ سامنے آنے پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے ایک نئی ایجاد شدہ دوا کے چھ ٹیکے منگوائے اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ نئی قسم کا ٹیکہ حضور کے لگایا بھی جائے یا نہیں.اس بارے میں بعض احباب متامل تھے کہ مبادا کوئی بری علامت پیدا ہو جائے مگر حضرت ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ یہ علاج انشاء اللہ ضرور کارگر ہو گا.اس لئے آپ نے پسند کیا کہ بطور تجربہ ایک ٹیکہ آپ کے لگا کر نتیجہ دیکھ لیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جو میں گھنٹے گزرنے کے بعد جب کوئی بری علامت ظاہر نہ ہوئی.پھر تو حضور کے بھی نیکہ لگایا گیا.دوسرے نیکہ کے بعد حضور کی بیماری ختم ہو گئی اور تیسرے ٹیکہ کی ضرورت نہ رہی.نیز ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ہشتم

Page 282

تاریخ احمد بیت.جلد ۴ صفحه - ) ۴۵۰ یعنی حضرت مولانا شیر علی صاحب ناقل 246 ۲۵۱ حضرت مولانا شیر علی صاحب کے قلم سے لکھی ہوئی اصل وصیت خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.۴۵۲- اخبار حق لاہور ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحه ۴۰۳ ۴۵۳ یاد گار جنگ صفحه ۱۳۸۰۳۷ شائع کردہ پنجاب پلیسی کمیٹی لاہور) ۴۵۴ اخبار حق لاہور ۲۳ / نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱.۴۵۵.الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحه ۲- ۴۵۶ ۴ - الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۱ ۳۵۷ الفضل ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۳ ۴۵۸ ریکار ڈ صدر المجمن احمد یہ اکتوبر ۱۹۸۸ء ۴۵۹ - الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۴ م الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحه ۱-۲- م الحکم ۷/۱۴ دسمبر ۱۹۸۸ء صفحه ۰۸ م الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۸ء صفحه ۲ ۳۶۳- الفضل ۲۲ جون ۱۹۱۸ء صفحه ۲ م ریکار و صد را انجمن احمدیه ۱۹۱۸ء ۴۶۵.الفضل ۱۲ / فروری ۱۹۱۸ء صفحه ۱۰- ۴۶۶.اخبار نور ۳/ فروری ۱۹۱۸ء صفحه ۷-۱۵ ۴۷: الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۱۸ء صفحه ۲ ۴۷۸ فیصلہ حکم " کے نام سے چھپ گیا تھا.م الفضل یکم جون ۱۹۱۸ء صفحه 1 ۴۷۰ الفضل ۱۲۸ مئی ۱۹۱۸ء صفحه ۲ ۴۷۱.شعید الازبان دسمبر ۱۹۱۸ء صفحه ۹-۰۲۶ خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۴۷۲.سیٹھ صاحب کا وطن مالوف چنیوٹ ضلع جھنگ ہے آپ کے والد ماجد میاں حاجی سلطان محمود صاحب نے چنیوٹ میں اسلامیہ ہائی سکول جاری کیا.جس کی وجہ سے اپنی برادری میں بانی خطاب پایا حاجی تاج محمود صاحب مرحوم جن کا انتقال جولائی ۱۹۷۴ء میں جاری وجہ سےاپنی پایا حمود مرحوم جن ۱۹۷۳ء میں ہوا آپ کے سگے چاتھے.(الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۱۴ ۲۷۳ مسلسلہ احمدیہ صفحه ۳۳-۱۳۷۳ الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۲۵ء صفحه ۱۳ تقریر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) ۴۷۴.رپورٹ محکمہ نظارت (از یکم جنوری ۱۹۱۹ء تا مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۱۲ شائع کردہ حضرت مولانا شیر علی صاحب ناظر اعلی و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۹ء صفحه ۰۸۰۷ ۷۵ الفضل ۳/ جنوری ۱۹۷۹ء صفحہ ۱-۲- نظارتوں کی پہلی.ماہی کی رپورٹ طبع شدہ ہے.۴۷۶ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه ۳٬۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحه ۳ ۴۷۷ الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۲۵ء صفحه ۳ ۴۷۹۱۳۷۸ - ۱۲۹ نومبر ۱۹۹۵ء کو نظارت دعوت و تبلیغ ختم کردی گئی اور فیصلہ ہوا کہ جماعت بہت بڑھ چکی ہے اور جماعتی تربیت کی طرف بہت ضرورت ہے اس لئے نظارت تعلیم و تربیت دو نظارتوں میں تقسیم کی جاتی ہے.اول نظارت تعلیم دوم نظارت رشد و اصلاح نظارت رشد و اصلاح کے کارکن اپنے گریڈ کے لحاظ سے علی الترتیب (۱) مربی (۳) معلم کے نام سے موسوم ہوں گے.اس فیصلہ کے مطابق نظارت تعلیم و تربیت کا تربیتی حصہ عمله و بحث سمیت نظارت رشد و اصلاح کی طرف منتقل کر دیا گیا.

Page 283

تاریخ احمدیت جلد ۴ 247 خلافت ثانیہ کا چھٹا سال ۴۸۰ - الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ( یکم مئی ۱۹۳۶ء کو حضور نے نظارت تجارت کا اضافہ کیا اور اس کے پہلے (آنریری) ناظر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقرر فرما کر ارشاد فرمایا کہ شاہ صاحب ہر تجارتی معاہدہ مرزا شریف احمد صاحب کے مشورہ سے کریں گے ریکارڈ صد را مجمن احمد یہ ۱۹۳۶ء) تقسیم ملک کے بعد نظامت خدمت درویشاں نظامت دیوان اور نظامت زراعت کا بھی قیام عمل میں آیا.۴۸۱- الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۴۸۳ - الفضل ۴ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۱-۲- ۴۸۳- اس تقریر کا مخص ریویو آف ریجہ اردو ستمبر اکتوبر 1919ء میں شائع ہوا.۴۸۴ الفضل ۸ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۱ ۴۸۵ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۳ ” ۴۸۶ - الفضل ۸ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحہہ غیر مبائع اخبار پیغام صلح نے ٢ / مارچ 1949ء کی اشاعت میں ”میاں صاحب کا ایک قابل قدر لیکچر کے عنوان سے لکھا.علانیہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ۲۶/ فروری 1914 ء کو جبیبیہ ہال لاہور میں خلافت اسلامیہ کے اندرونی اختلافات پر جو لیکچر انہوں نے دیا وہ نہایت ہی قابل قدر اور لائق تحسین تھا جس محنت اور جس قابلیت کے ساتھ میاں صاحب نے تاریخ کی ورق گردانی کر کے ان اسباب کو معلوم کیا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنم کے باہمی اختلافات اور آپس کی نزاعات اور جنگوں کا باعث تھے اور جس خوبی کے ساتھ اس الزام کو کہ صحابہ رضی اللہ عنم در اصل ان فتنوں کے موجب تھے ان خیر القرون کے بزرگوں سے اتارنے کی کوشش کی ہے.وہ دار دینے کے قابل ہے.۴۸۷ " اسلام میں اختلافات کا آغاز "باردم سرورق صفحہ ۲.٣٨٨ الفضل ۲۹ / مارچ ۱۹۷۹ء صفحه ۱-۲- ۴۸۹.قادیان گائیکہ صفحہ ۸۶.اس نے قبرستان میں سب سے پہلے امتہ الرشید بنت محمد امین صاحب تاجر کتب آف قادیان حال (ربوه) دفن ہوئی.۴۹۰.سلسله احمدیه صفحه ۱۳۶۰۰۳۵۹ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) سرگزشت صفحه ۱۳:۲۰ از عبدالمجید سالک) تاریخ ہند حصہ دوم صفحه ۲۴۴-۲۴۵ (مطبوعہ مجازی پریس لاہور).ملاحظہ ہو الفضل 10 مئی 1914ء - ۴۹۲.سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/مئی ۱۹۸۹ء ( بحواله الفضل ۱۰ مئی ۱۹۱۹ء صفحه ۳) ۲۹۳ ترک موالات اور احکام اسلام صفحه ۱۳۲ از حضرت خلیفتہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالی) ۴۹۴ ترک موالات اور احکام اسلام صفحه ۵۰۴ ( ملخصا) دهم الفضل ۲۲ فروری ۱۹۷۸ء صفحه ۳ م الفضل ۲۲ فروری ۱۹۷۹ء صفحه ۳ ۴۹۷ - الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۹ء ۴۹۸- الفضل ۱۲ فروری ۱۹۲۰ء صفحه ۵ ۴۹۹.اس کا انگریزی ایڈیشن The Future of Turkey-- کے نام سے شائع شدہ ہے.۰۵۰۰ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۹ء.الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۳ ۵۰۳ رپورٹ محکمہ انظارت جماعت احمد یہ صفحہ ۱۰ ۵۰۳.جمعدار فضل دین صاحب کا تحریری بیان ہے کہ اس تقریر کے دوران میرے پاس ایک بزرگ عبد اللہ نامی بیٹھے تھے انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنا نام لکھے بغیر یہ سوال لکھ بھیجا کہ اللہ تعالٰی کے علم کی وجہ سے انسان تقدیر کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہے.عجیب بات ہے کہ ابھی سوال کا کائنڈ حضور تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضور نے از خود عبد اللہ کا نام بطور مثال لے کر اس

Page 284

248 اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا.جو تقدیر الہی طبع اول ( صفحہ 109 10) پر موجود ہے.۵۰۴- اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۳۰۳ ٥٠٥ الفضل ۱۷ مئی ۱۹۷۹ء صفحہ ٥٠٢ الفضل ١٦/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحه ۸ ے ۵۰ الفضل ۲۱ / جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۴ کالم ۳ ٥٠٨ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۹۹ و صفحه ۹-۱۰- ٥٠٩ الفضل ٢٩ / مارچ ۱۹۱۹ء صفحه ۹ الفضل ۳۶/ جولائی ۱۹۱۹ء صفحہ ۰۸ الفضل ۳۰ ستمبر 1948ء صفحه خلافت ثانیہ کا چھٹا سال

Page 285

تاریخ احمدیت جلد ۴ 2490 خلافت عثمانیہ کا ساتواں سال تیسرا باب (فصل اول) دار التبلیغ امریکہ کی بنیاد سے لے کر لجنہ اماء اللہ" کے قیام تک خلافت ثانیہ کا ساتواں سال جنوری ۱۹۲۰ء تا دسمبر ۱۹۲۰ء بمطابق ربیع الآخر ۱۳۳۸ھ تاربیع الآخر ۱۳۳۹ھ ) دار التبلیغ امریکہ کی بنیاد ۱۹۲۰ء کے سال کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی باقاعدہ تبلیغی مہم پرانی دنیا کی حدود سے نکل کرنتی دنیا میں جا پہنچی اور امریکہ میں مستقل مرکز کی بنیاد پڑی.یہ وہی امریکہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی فالج زدہ ہو کر کچھ دنوں کے بعد 9 مارچ ۱۹۰۷ء کو بڑی حسرت و اندوہ کی حالت میں ختم ہو گیا.ڈوئی اس عداوت و دشمنی کا بد ترین نمونہ تھا.جو امریکن پادریوں کو اسلام اور بانی اسلام حضرت رسول خد امحمد مصطفی ﷺ سے رہی ہے.در اصل امریکہ کے پادری گذشتہ صدی سے تمام عالم اسلام حتی کہ مرکز اسلام مکہ معظمہ پر بھی صلیب کے جھنڈے لہرانے کے خواب دیکھ رہے تھے.چنانچہ مسٹر جان ہنری بیروز (John Henry Berose) نے گزشتہ صدی کے نصف آخر میں کہا تھا کہ صلیب کی چمکار آن ایک طرف لبنان پر ضو افگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمک سے جگمگا رہا ہے یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا جب قاہرہ دمشق اور تہران کے شہر خداوند یسوع کے خدام سے آباد نظر آئیں گے.حتی کہ صلیب کی چکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی.اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گا

Page 286

.جلد 250 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال یہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو اس وقت انگستان میں تھے امریکہ چلے جانے کا حکم صادر فرمایا.آپ ۲۶ جنوری ۱۹۲۰ء کو انگلستان کی بندر گاہ لور پول سے روانہ ہوئے.اور ۱۵ فروری ۱۹۲۰ کو امریکہ کی بندرگاہ فلاڈلفیا پر اترے لیکن شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے کیونکہ راہداری کے انسپکڑنے کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد صرف اس وجہ سے کہ آپ ایک ایسے مذہب کے داعی و مبلغ تھے جو تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے آپ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی.اور فیصلہ کیا کہ آپ جس جہاز میں آئے ہیں اس میں واپس چلے جائیں.حضرت مفتی صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف محکمہ آباد کاری (واشنگٹن) میں اپیل کی.اپیل کے فیصلہ تک آپ کو سمندر کے کنارے ایک مکان میں بند کر دیا گیا.جس سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی مگر چھت پر مل سکتے تھے.اس کا دروازہ دن میں صرف دو مرتبہ کھلتا تھا جبکہ کھانا کھلایا جاتا تھا.اس مکان میں کچھ یور چین بھی نظر بند تھے جو عموما نوجوان تھے اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کے لئے یہاں نظر بند کر دیئے گئے تھے جب تک حکام کی طرف سے ان کے متعلق کوئی فیصلہ ہو.یہ لوگ حضرت مفتی صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے.اور ان کی ضرویات کا خیال رکھتے تھے.ان کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ بھی انہوں نے بنادی تھی.اور برابر خدمت کرتے رہتے تھے.حضرت مفتی صاحب نے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ان نوجوانوں ہی کو تبلیغ کرنا شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوماہ کے اندر پندرہ آدمی اسی مکان میں مسلمان ہوئے.ادھر یہ صورت ہوئی ادھر آپ کی شہرت کا غیبی سامان یہ ہوا کہ امریکن پریس نے آپ کی آمد اور ملک میں داخلے کی ممانعت کا بہت چرچا کیا.اور بعض مشہور ملکی اخبارات مثلاً " فلاڈلفیا ریکارڈ".پلک ریکارڈ".نارتھ امریکن بلیٹین " ایوننگ بلیٹین " پبلک لیجر ".دی پریس " نے نہ صرف آپ کی آمد کے بارے میں خبر دی.بلکہ جماعت احمد یہ کے حالات بھی شائع کئے.سید نا حضرت خلفته المسیح ایدہ اللہ تعالٰی نے امریکی حکومت کے اس رویہ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.امریکہ جسے طاقتور ہونے کا دعوی ہے اس وقت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہو گی.روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا.اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں وہ ہر گز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم امریکہ کے ارد گرد علاقوں میں تبلیغ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن الا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 251 خلافت ثانیہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی آخر شروع مئی ۱۹۲۰ء میں امریکی حکومت کی طرف سے حضرت مفتی صاحب سے پابندی اٹھائی گئی.جس کی فوری وجہ یہ ہوئی کہ حضرت مفتی صاحب کی تبلیغات کئی انگریزوں کے مسلمان : ونے کی خبر جب متعلقہ محکمہ کے افسر کو پہنچی تو وہ بہت گھبرایا اور سوچنے لگا کہ اس طرح تو یہ آہستہ آہستہ سارے نظر بند نوجوانوں کو مسلمان کرلیں گے.اور جب شہر کے پادری صاحبان کو اس کا علم ہو گا تو وہ سخت ناراض ہوں گے.اور شہر کی پبلک میرے خلاف ہو جائے گی اس پر اس نے اعلیٰ افسروں کو تار دیئے کہ جس قدر جلد سے جلد ممکن ہو ہندوستانی مشنری کو اندرونِ ملک میں داخلے کی اجازت دے دی جائے.چنانچہ حکام نے بھی آپ کو امریکہ داخل ہونے کا فیصلہ کر دیا.اور حضرت مفتی صاحب نے نیو یارک میں داخل ہو کر ایک مکان کا حصہ لیکچروں اور دفتر کیلئے کرایہ پر لیکر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا اور سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہو نے لکھیں.اس کے بعد آپ نے ڈیٹرائٹ میں چند ماہ قیام فرمایا اور عرب آبادی میں خاص طور پر پیغام حق پہنچایا پھر ۱۹۲۱ء میں آپ شکاگو منتقل ہو گئے وہاں آپ نے ایک عمارت خرید کر امریکہ مشن کا مرکز قائم کیا.اور دی مسلم سن رائز" کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا.حضرت مفتی صاحب ( جو امریکہ میں آج تک ڈاکٹر صادق کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ) ۴نبه ۱۹۲۳ ، کو قادیان وائیس آ گئے ہا اور امریکہ کا چارج حضرت مولوی محمد الدین صاحب سے لیا.حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے اپنے عہد میں امریکہ کے طول و عرض میں تبلیغی حدود کو اور زیادہ وسعت دی اور کئی امریکنوں کو مسلمان کیا.آپ جنوری ۱۹۲۳ء میں قادیان سے تشریف لے گئے اور ۳۰ جون ۱۹۲۵ء کو واپس تشریف لے آئے.۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو مکرم صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مشن کے باقاعدہ انچارج بنا کر بھیجے گئے جو ۱۸ اگست ۱۹۲۸ء کو شکاگو پہنچے.ملک میں ان دنوں گورے اور کالے کا سوال بہت شدت سے اٹھ.کھڑا ہوا تھا.اور شکاگو مشن کالے باشندوں کی آبادی میں ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں کی آمد و رفت بہت کم تھی.اس لئے صوفی صاحب نے ۱۹۲۹ء میں شہر کے مرکز میں ایک اور مکان کرایہ پر لے لیا.جو شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے لوگوں کے لئے با آسانی تبلیغی سنٹر بن گیا..H مکرم صوفی صاحب ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو واپس قادیان آئے اور دوبارہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو امریکہ بھیجے گئے.جہاں آپ بارہ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے بعد ۱۹۴۸ء میں واپس آئے.

Page 288

تاریخ احمدیت جلد ۴ 252 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال آپ نے اپنے زمانہ قیام میں رسالہ "مسلم سن رائز" کی اشاعت کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی سیرت اور قبر مسیح پر شاندار تصانیف شائع کیں.علاوہ ازیں آپ نے متعدد پمفلٹ اور ٹریکٹ صداقت اسلام پر شائع کئے.آپ کے ذریعہ امریکہ میں متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں.صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین نے امریکہ میں تبلیغ کا فریضہ ادا کیا.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصرایم.اے ( شکاگو - داشنگٹن) چوہدری غلام نین صاحب بی.اے ( نیویارک داشنگٹن) مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل مرحوم (جو پٹس برگ میں ہی شہید ہوئے) چوہدری شکرانہی صاحب (سینٹ لوئیس) عبدالقادر صاحب ضیغم مولوی فاضل (پٹس برگ) مولوی نور الحق صاحب انور مولوی فاضل ( نیو یارک) سید جواد علی صاحب بی.اے ( ڈیٹرائٹ ) امین اللہ خان سالک شاہد بی.اے (شکا گو) صوفی عبد الغفور صاحب بی.اے (واشنگن نیو یارک) عبد الرحمان خان صاحب بنگالی بی.اے (واشنگٹن پٹس برگ) راجہ عبد الحمید صاحب (ڈبیٹن) ۱۹۵۰ سے امریکہ کا مرکزی دار التبلیغ شکاگو کی بجائے واشنگٹن مقرر کیا گیا ہے اور اس کے حلقہ میں شکاگو، واشنگتن، بوسٹن، فلاڈلفی، نیویارک، بالٹی ،مور، پنس برگ، نیکس ٹاؤن، کلیولینڈ، ڈیٹن، اند یا نا پولس ملوا کی ، سینٹ لوئیس اور کینس سٹی، ولیا ایک اور ڈیٹرائٹ میں مشہور جماعتیں قائم ہیں.امریکہ کے بعض نہایت مخلص اور ایثار پیشہ احمدیوں کے نام یہ ہیں:- ولی کریم - لطیفہ کریم.امته اللطيف.مرسل شفیق (ڈ میٹن) احمد شهید علیه شهید - ابو صالح ابو الکلام- رشیدہ کلام.(پنس برگ) علیہ علی (انڈیانا پولس) نور الاسلام محمد بشیر ( شکاگو) زینب عثمان - عبد اللہ علی (سینٹ لوئیس) عبد الحکیم ، امتہ الحفیظ (کلیولینڈ) کریما کریم عبد الرحمان (باشیمور) رشیده طه (واشنگٹن) بشیر افضل مصطفے دلیل نیویارک) خلیل محمود ایم اے (باسٹن) امریکہ مشن کی طرف سے اس وقت تک تیس سے زائد کتب درسائل شائع ہو چکے ہیں مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے انگریزی تراجم.اسلام اینڈ ڈیما گریسی (از حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالٰی) حیات احمد Ahmad (The Tomb of Jesus) (مؤلفہ جناب صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم) اسلام کا تعارف (An Intepretation of Islam) (اطالوی پروفیسر واگ لیری) موخر الذکر کتاب کا دیباچہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (سابق حج عالمی اسمبلی حال حج عالمی عدالت ہیگ) کا لکھا ہوا ہے.مشن کی طرف سے اس وقت تبلیغ اسلام کے لئے دی مسلم من رائز" اور تربیتی اغراض کے لئے احمدیہ گزٹ" کے نام سے دو رسالے بھی جاری ہیں.۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب منیر نے of Life) قبر مسیح

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 253 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال جماعت کو فضل عمر پر لیس بطور عطیہ دیا - 1 امریکہ میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کے کام میں جو بھاری کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتخانہ کا ترجمان پنوراما" لکھتا ہے کہ American 1,000 converts to Islam by Ahmadiyya یعنی امریکہ میں ایک ہزار نو مسلم جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں داخل اسلام ہوئے ہیں.دوسری طرف ایک امریکن پادری نارمن ونسنٹ پیل (Norman vincent peal) خود امریکہ میں عیسائیت کی ناکامی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں.گذشتہ سال موسم بہار میں عوامی رجحانات کا جائزہ لینے کا ایک خاص اہتمام کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ گرجوں میں حاضری روز بروز گر رہی ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب (عیسائیت) کا اثر روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے ان کی تعداد پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے.ایک اور جدید رجحان یہ ہے کہ بائبل کو خدا کا مستند الهامی کلام تسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جارہا ہے.یہ اب محض ایک دینی کتاب کے طور پر استعمال کی جاتی ہے.اور اس منہ بولتی تصدیق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی.کہ خداوند کا فرمان یہ ہے ”یقینا خداوند کا فرمان اور انجیل وہ بنیادیں ہیں جن پر پروٹسٹنٹ ازم قائم ہے جب یہ بنیاد ہی کمزور ہو جائے.تو پھر پوری عمارت کا متزلزل ہونا لازمی ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے سے جنوری ۱۹۲۰ء کو مسجد مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی.جس پر جماعت نے ایسے رنگ میں لبیک کہا کہ ایک دنیا ورطہ حیرت میں آگئی.چنانچہ عبدالمجید قرشی ایڈیٹر اخبار " تنظیم " امرت سرنے لکھا ” تعمیر مسجد کی تحریک ۹ جنوری ۱۹۲۰ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع و اطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ۱۰ جون تک ساڑھے اٹھتر ہزار روپیہ نقد اس کارخیر کے لئے جمع ہو گیا تھا کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثار و فدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں 0 لا ہو ر او را مرت سرمیں عظیم الشان لیکچر فورت لی ایم اینا یا اللہ تعالی نعرہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ العزيز ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء ۵ - ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء تک لاہور او را مرت سر کے سفر میں رہے حضور نے اس سفر میں چھ عظیم الشان لیکچر دیے.ا پہلا لیکچر ۱۵ فروری کو بصدارت خان ذوالفقار علی خان صاحب بریڈ لا ہال لاہور میں ہوا جس میں

Page 290

254 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال حضور نے مسٹر لاکڈ جارج وزیر اعظم انگلستان کے اس اعلان کی عقلی و نقلی دلائل سے دھجیاں اڑادیں.کہ آئندہ دنیا کا امن عیسائیت سے وابستہ ہے حضور نے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا کہ مستقبل میں امن وامان کا قیام صرف اسلام ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے.حضور کا دوسرا اہم لیکچر "واقعات خلافت علوی" کے موضوع پر لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائی کے زیر انتظام کالج کے حبیبیہ ہال میں ہوا.اور حضور کے مشہور و مقبول لیکچر اسلام میں اختلافا مے کا آغاز" کی طرح یہ تاریخی تقریر بھی نہایت مقبول ہوئی اور صاحب صدر جناب خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب بی.اے نے انتقامی تقریر میں فرمایا." حضرات میں آپ سب صاحبان کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اس پر زور اور پُر از معلومات تقریر کے لئے جو آپ نے اس وقت ہمارے سامنے کی ہے میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نے قریبا تین گھنٹے تقریر کی ہے اور آپ صاحبان نے ہمہ تن گوش ہو کر سنی ہے اس تقریر سے جو وسیع معلومات اسلامی تاریخ کے متعلق معلوم ہوئے ہیں.ان میں سے بعض بالکل غیر معمولی ہیں.حضرت ا تیز اوج بصاحب سے ان کی تلاش اور تجسس کے لئے کسی وقت بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہو گا.مگر میں باد تامل کہہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں محض مطالعہ سے حاصل نہیں ہو سکتیں بلکہ این سعادت خشد بازو نیست بخشنده میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کو مسلسل بیان کیا ہو اور پھر کسی تاریخی مضمون میں ایسا لطف آیا ہو جو کسی داستان گو کی داستان میں بھی نہ آسکے.اس کے لئے میں پھر شکریہ ادا کر تا ہوں.حضور کا تیر الیکچر " مذہب اور اس کی ضرورت " پر ۱۸ فروری ۱۹۲۰ء کو احمدیہ ہوٹل لاہور میں ہوا جس میں حضور نے انگریزی خوانوں کے اعتراضات اور موجودہ علمی تحقیقات کو مد نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ایسی خوبی و خوش اسلوبی سے پیش کیا کہ دل وجد کرنے لگے.یہ لیکچر اپنی شان اور اپنے رنگ میں بالکل اچھوتا تھا.نہایت مشکل وارق مسائل بڑی صفائی و برجستگی سے بیان فرمائے گئے تھے.۴.حضور نے ۱۹ فروری ۱۹۲۰ء کو بیرون دیلی دروازہ ایک نہایت عمدہ تبلیغی لیکچر دیا یہ لیکچر ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا.اکثر احباب چشم پر آب تھے.اور غیر از جماعت دوست بھی بہت متاثر ہوئے..اس کے بعد حضور لاہور سے امرت سر تشریف لے گئے اور ۲۲ فروری ۱۹۲۰ء کو بندے ماترم

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 255 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال ہال میں (جہاں ۱۹۰۵ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیکچر دیا تھا اور حضور علیہ السلام پر پتھر برسائے گئے تھے ) صداقت اسلام و ذرائع ترقی اسلام پر لیکچر دیا اور باوجود مولویوں کی اشتعال انگیزی کے یہ پیچر بخیر وخوبی ختم اور حضور رات کی گاڑی میں لاہور واپس ہو گئے.حضور نے ۲۴ فروری ۱۹۲۰ء کو جماعت لاہور سے ایک اہم خطاب فرمایا کو بظاہر تو احباب لاہور ہی اس کے مخاطب تھے لیکن فی الحقیقت یہ خطاب تمام جماعت ہائے احمدیہ کے لئے تھا.حضور ے اپریل ۱۹۲۰ء کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف سیالکوٹ اور امرتسر میں لیکچر لے گئے اور ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء کو قادیان واپس آئے.سفر لاہور کی طرح اس سفر میں بھی حضور نے کئی تقریریں فرما ئیں چنانچہ ۱۰ اپریل ۱۹۲۰ء کو احمد یہ ہال کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے خطاب فرمایا.دوسرے روزا اپریل ۱۹۲۰ء کو اس عنوان پر کہ " دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہو گا".لیکچر دیا.اس لیکچر کے وقت آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آسمان سے یکا یک ایک نور اترا ہے اور میرے اندر داخل ہو گیا ہے اور میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکلنے لگی ہیں.کہ میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ہے.اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.اور بفضلہ تعالٰی یہ تقریر بہت کامیاب ہوئی تیسرے روز ۱۲ اپریل ۱۹۲۰ء کو حضور نے پنجابی زبان میں ایک گھنٹہ تک عورتوں کو لیکچر دیا.جو فرائض مستورات کے نام سے چھپ چکا ہے حضور سیالکوٹ سے واپسی پر ۱۳ اپریل کو لاہو ر رونق افروز ہوئے.اور ۱۴ اپریل کو امرت سر پہنچے اور اس موضوع پر کہ کیا دنیا کے امن وامان کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے " بندے ماترم ہال میں لیکچر دیا.اور مسٹر لاکڈ جارج وزیر اعظم کے اعلان کے مقابل اسلام کو ذریعہ امن ثابت فرمایا.اس لیکچر کے دوران میں جب حضور نے اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں خدا تعالیٰ کا ماں سے بھی زیادہ شفیق ہو نا ظاہر کیا گیا ہے.(ملاحظہ ہو مشکوۃ مطبع مجتبائی دہلی صفحہ ۲۰۷) یہ سنتے ہی امر تسر کی مسجد خیرالدین کے امام جناب مولوی سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت جوش و خروش سے حوالہ صفحہ ، سطر، مطبع ، سنہ کا مطالبہ کرنے لگے.حضور نے جو انا فرمایا.اس وقت آپ تقریر سنیں اگر حوالہ کی ضرورت ہو تو مکان پر تشریف لے آئیں.جناب بخاری صاحب خوب جانتے تھے کہ یہ میدان مناظرہ نہیں ہے کہ کتابیں ساتھ لائی گئی ہوں اور نہ یہ لیکچر کسی اسلامی فرقہ کے خلاف ہو رہا تھا کہ کسی غیر احمدی کو اعتراض ہو سکتا مگر چونکہ ان کی نیت اور تھی.اس لئے انہوں نے معقول جواب کی طرف کچھ توجہ نہ کی.اور جو شور وغل شروع کر چکے تھے اس میں ترقی کرتے گئے اسی دوران میں بعض دوست یہ اندازہ کر کے کہ غوغائی لوگ خشت باری کا ارادہ کر رہے ہیں.حضور کے آگے کھڑے ہو گئے تا حضور کو تکلیف نہ پہنچے مگر حضور نے ان کو حکماً بٹھا دیا.بعض نے خطرہ بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ بھی

Page 292

عریت - جلد ۴ 256 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال عرض کیا کہ لیکچر بند کر دیا جائے.مگر حضور نے بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا.کہ کیا تم مجھے بزدل بناتے ہو.اور لیکچر بند نہیں فرمایا.آخر پولیس نے یہ دیکھ کر کہ حالت خراب سے خراب تر ہوا چاہتی مداخلت کی اور مولوی سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے جلسہ کا ہال چھوڑ دینے کے لئے کہا اس پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت شور و غل مچاتے جلسہ کی جگہ سے نکل کر باہر دروازہ پر کھڑے ہو گئے.ادھر ہال میں تو حضور کا لیکچر ہو رہا تھا.اور ادھر ہال کے باہر مولوی بخاری صاحب احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھے کہ شرافت سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والا انسان انہیں زبان پر لانے کا خیال بھی نہیں کر سکتا.انہوں نے غیظ و غضب کے عالم میں یہاں تک کہہ ڈالا آج میں مصروف جہاد ہوں اور مرنے مارنے پر تیار ہوں نماز نہیں پڑھوں گا بلکہ اس کو جو خلیفہ بنا ہوا ہے زندہ نہیں نکلنے دوں گا.آخر کچھ وقت کے بعد حضور لیکچر ختم کر کے اس مشتعل ہجوم میں سے ہوتے ہوئے خدا کے فضل سے بخیریت اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے.اور قادیان واپس تشریف لانے پر جناب بخاری صاحب کی مطلوبہ حدیث کا مکمل متن مع حوالہ شائع کر دیا.مبلغین کلاس کا اجراء- حضرت امیر المومنین کی ہدایت پر ۲۱ جون ۱۹۲۰ ، کو پہلی یادگار مبلغین کلاس جاری ہوئی اور اس کے استاد علامه زمان حضرت حافظ روشن علی + صاحب جیسے مثالی عالم ربانی مقرر ہوئے.مولانا جلال الدین صاحب شمس، مولانا غلام احمد صاحب بدوماہیوں، مولانا ظہور حسین صاحب اور مولانا شہزادہ خانصاحب مرحوم جیسے نامور علماء و فضا ، اس پہلی کلاس کے ابتدائی طلبہ ہیں اس کلاس میں بعد کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی شامل ہو گئے.تین سال بعد ۱۹۲۴ء میں کریہہ ضلع جالندھر کے ایک نہایت ذہین و طباع طالب علم کو بھی خوش قسمتی سے اس کلاس میں داخل ہو کر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا یہ طالب علم اب علمی دنیا میں مولانا ابو العطاء I کے نام سے مشہور ہیں.ان کے علاوہ سلسلہ کے مبلغین میں سے ابو البشارت مولانا عبد الغفور صاحب - مولوی قمرالدین صاحب سیکھوانی جناب قریشی محمد نذیر صاحب اور دوسرے متعدد طلباء تھے جنہیں آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت حافظ صاحب اپنے فرائض تعلیم و تربیت اور جہاد تبلیغ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے آپ نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی کہ میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں..اور حق یہ ہے کہ آپ کے تمام شاگردوں نے آپ کی وصیت پر عمل کرنے کا اپنی اپنی حالت کے مطابق پورا پورا خیال رکھا ہے اور رکھتے ہیں لیکن آپ کے فیض یافتہ تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے سامنے بھی بہت تبلیغ کی تھی اور آپ کے بعد تو پوری قوت سے تبلیغ کے

Page 293

تاریخ احمدیت جلد ۴ 257 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال لئے کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہیں ان کے متعلق خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کا ارشاد پیش کر دینا زیادہ انسب و اوٹی ہے حضور نے فرمایا ” حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو اس وقت اللہ تعالی نے فورا مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں".پھر ۱۹۵۶ء میں فرمایا.” یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں چنانچہ (مولوی جلال الدین صاحب ناقل) شمس صاحب ہیں.مولوی ابو العطاء صاحب ہیں.عبد الرحمان صاحب خادم ہیں"." فاتح اتحادی ملکوں نے ترکی سے جو معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ " شرائط صلح طے کیں وہ انتہا درجہ کی ذلت آمیز تھیں.ترکی سلطنت کے حصے بخرے کر دیئے گئے فلسطین، عراق ، عرب اور شام کو آزاد و خود مختار سلطنتیں قرار دے کر ان پر برطانیہ کی عملداری قائم کر دی گئی اور حجاز پر شریف حسین مکہ کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی اور مصر کی کے حقوق و اختیارات سے آزاد کر دیا گیا.شرائط نامہ میں لڑکی کی بحری اور بری اور ہوائی افواج بھی نہایت درجہ محدود کر دی گئیں.اس کے علاوہ اور بھی سخت شرائط اور پابندیاں لگادی گئیں.اس معاہدہ کے سلسلہ میں آئندہ طریق عمل سوچنے کے لئے کم و ۲ جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت 3 کا نفرنس منعقد کی گئی.جمعیتہ العلماء ہند BI کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محل کی دعوت پر حضور نے ایک مضمون معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ کے عنوان سے ایک دن میں رقم فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ بھیجوا دیا.ان کے ساتھ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے.اس مضمون میں حضور نے اپنا نقطہ نگاہ بدلائل واضح فرمایا کہ ”میرے نزدیک اس معاہدہ کی کئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہوا ہے اس کے بعد لکھا کہ مسلمانوں کے سامنے کئی آراء پیش کی جارہی ہیں.بعض نے ہجرت کی تجویز پیش کی ہے بعض نے جہاد عام کو پسند کیا ہے بعض نے قطع تعلقی عدم موالات کی پالیسی کو سراہا ہے.مگر میرے نزدیک یہ سب تجاویز نادرست اور نا قابل عمل ہیں چنانچہ حضور نے تینوں تجاویز کا مفصل جائزہ لیا.ا.ہجرت کے بارے میں بتایا کہ شرعاً ہجرت کا یہ کوئی موقعہ نہیں ہے اور ہندوستان کے سات کروڑ

Page 294

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 258 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال • مسلمان ہندوستان کو چھوڑ کر کہیں جاسکتے ہیں؟ - جہاد کی نسبت وضاحت فرمائی کہ ایک حکومت کو با قاعدہ تسلیم کر کے اس میں رہنے کے بعد اس کے خلاف علم جہاد بلند نہیں کیا جاسکتا.- تحریک عدم موالات کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے صاف اور واضح لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہو جائیں اور اپنے حقوق کو جو بوجہ مسلمانوں کے سرکاری ملازمتوں میں کم ہونے کے پہلے ہی تلف ہو رہے ہیں.اور زیادہ خطرہ میں ڈال دیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا".مضمون کے دوسرے حصہ میں حضور نے مسلمانوں کو مستقبل کے لئے ایک عملی پروگرام بنانے کی طرف توجہ دلائی اور تجویز پیش کی کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لئے بلا تاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ (یعنی موتمر اسلامی) قائم ہو جانی چاہئے.آخر میں مسلمانوں کو اسلام کے درخشندہ اور روشن مستقبل کی خبر دیتے ہوئے تحریر فرمایا یہ آخری صدمہ واقعہ میں آخری صدمہ ہے اب اسلام کے بڑھنے کے دن شروع ہوتے ہیں اور اب ہم دیکھیں گے کہ مسیحی کیونکر اس کی بڑھتی ہوئی رد کو روکتے ہیں خدا کی غیرت اس کے مامور کے ذریعہ ظاہر ہو چکی ہے.اور اب سب دنیا دیکھ لے گی.کہ آئندہ اسلام مسیحیت کو کھانا شروع کر دے گا.اور دنیا کا آئندہ مذہب وہی مذہب ہو گا جو اس وقت سب سے کمزور مذہب سمجھا جاتا ہے.خلیفہ المسیح جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح حضرت خلیفہ المسیح کا پیغام احمدی قوم کے نام انسانی نے جماعت احمدیہ کو اپنے پیغام میں مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے اپنے بچے بھجوانے اور مالی اعانت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا.مدرسہ احمدیہ تمہاری عملی جدوجہد کا نقطہ مرکزی ہے اور اس کی کامیابی پر اس امر کا فیصلہ ٹھہرا ہے کہ آئندہ سلسلہ کی تبلیغ جاری رکھی جاسکے گی یا نہیں.اس پیغام پر کئی مخلصین جماعت نے اپنے نو نہال اس اہم درسگاہ میں داخل کرا دیئے اور مدرسہ کے طلبہ میں نمایاں اضافہ ہو گیا.مسجد لندن کے لئے زمین کی خرید پر خوشی کی تقریب حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالی ۳۱ جولائی ۱۹۲۰ء کو دھرم سالہ تشریف لے گئے اور ۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء کو واپس قادیان آئے اس سفر کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد احمد یہ لنڈن کے لئے قطعہ زمین کی اطلاع ملنے پر 9 ستمبر کو ایک پُر مسرت تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفہ مسیح کے حکم سے قریباً تمام رفقاء سفر ( مثال صاحبزادہ مرزا بشیر احمد

Page 295

259 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب، حضرت مولوی : عبدالرحیم صاحب در دایم اے ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب) نے باری باری مسجد لنڈن کے بارے میں اشعار پڑھے اور سب کے بعد خود حضور ایدہ اللہ تعالی نے یہ قطعہ سنایا.مرکز شرک سے آوازه توحید اٹھا دیکھنا دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اٹھا نور کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی جان لو جلد ہی اب ظلم منا ديد اس قطعہ کے علاوہ حضور کی ایک نظم بھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے پڑھ کر سنائی.نظموں کا پروگرام ختم ہونے پر دعا ہوئی اور نماز عصر پڑھنے کے بعد دستر خوان دعوت بچھایا گیا جس میں آقاد خدام سب خوشی خوشی شامل ہوئے.اٹھا الواح الهدی نونهالان احمدیت کو دردانگیز خطاب ای سال جبکه حضور دهرم سالہ میں مقیم تھے نوجوانان احمدیت کو نہایت قیمتی نصائح کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے ایک درد انگیز نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ تھا.نونهالان جماعت مجھے کچھ کہتا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو اس نظم کی یہ خصوصیت تھی کہ حضور نے نہ صرف قریباً ہر شعر کی وضاحت نثر میں بھی حاشیہ کے ذریعہ سے فرمائی.بلکہ نظم لکھنے سے قبل اس کا پس منظر بھی اپنے قلم سے تحریر فرمایا جس میں لکھا."اے نوجوانان جماعت احمدیہ اہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے.گو ہمار ا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی اٹھی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا.پس...آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.تاخد اتعالے کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے.اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کر دی ہیں جس پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے...خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں.مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں پس اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.تھوڑے ہی دنوں میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے.جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے یہ بھی یادر کھو کہ تمہارا ایسی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرد بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کی بھی

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد به 260 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال اصلاح کی فکر رکھو.اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں.اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہو تا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خداتعالی کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آدم اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.اللهم آمین.”سیرت خاتم النبین " کی اشاعت اس سال کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی معرکتہ الآرا کتاب "سیرت خاتم النبین " کی پہلی جلد جو آنحضرت ﷺ کی کمی زندگی کے بصیرت افروز حالات پر مشتمل ہے.شائع ہوئی.ابتداء میہ کتاب ۱۹۱۹ء کے ریویو میں ماہوار چھپتی رہی تھی پھر نظر ثانی کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئی اس محققانہ تالیف نے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے سیرت النبی ال کے چودہ سو سال کے اسلامی لٹریچر میں ایک شاندار اضافہ کیا ہے اور ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت رسول مقبول کی شان تمام نبیوں میں ارفع و اعلیٰ ہے اسی طرح سیرت خاتم النبین سیرت کی دوسری تمام کتابوں سے اعلیٰ و افضل ہے.چنانچہ اس کے پہلے ایڈیشن پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے علاوہ سر محمد شفیع صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور ، مولوی الف دین صاحب وکیل ہائیکورٹ پنجاب اور "آگرہ اخبار " (آگرہ) " میونسپل گزٹ " لاہور نے بہت عمدہ تبصرے کئے ہیں.سیرت خاتم النبین " کا دوسرا حصہ اگست ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا جو ابتدائے ہجرت سے ۵ ہجری کے آخر تک کے واقعات پر مشتمل تھا اور اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں کے لحاظ سے ایک زبردست علمی کارنامہ تھا.حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا ”میں سمجھتا ہوں رسول کریم ﷺ کی جتنی سیر تیں شائع ہو چکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پر تو ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں اس کے ذریعہ انشاء اللہ اسلام کی تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہو گی".اس حصہ پر نواب سر سکندر حیات خان ، سیٹھ عبد اللہ ہارون ایم ایل اے کراچی ، ڈاکٹر سر محمد اقبال مولوی الف دین ایڈووکیٹ ضلع سیالکوٹ، نواب اکبر یار جنگ حج ہائیکورٹ حیدر آباد د کن ، مولانا سید سلیمان ندوی، رسالہ معارف (اعظم گڑھ) اور اخبار "سچ " لکھنو نے بھی بے حد خراج تحسین ادا کیا.سیرت کا تیسرا حصہ جس میں غزوہ بنو قرینہ کے بعد سے لے کر آنحضرت ا کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج تھے.اپریل ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا.

Page 297

261 خلافت ثانیہ کا سان حضرت خلیفتہ اصیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رسالہ ترک موالات و احکام اسلام « معاہدہ ترکیہ اورمسلمانوں کا آئندہ رویہ میں مسلمانوں کو تحریک عدم موالات اور ہجرت کے نقصانات سے بروقت اختباہ فرما دیا تھا.مگر مسلمان لیڈروں نے مسٹر گاندھی کی قیادت میں یکم اگست ۱۹۲۰ ء ا سے عدم تعاون کا منتظم پروگرام شروع کر کے ملک میں ایسی آگ لگادی کہ کوئی صوبہ اور کوئی ضلع محفوظ نہ رہا.بلکہ قصبوں اور دیہات تک اس کی لپیٹ میں آگئے ہر طرف سیاسی جلسوں اور جو شیلی تقریروں کا بازار گرم اور مسلمانوں کی ہجرت کا تانتا لگا ہوا تھا.لوگ اپنا گھر بار اور وطن عزیز چھوڑ ا عزاواقرباء سے منہ موڑ کر افغانستان کی طرف چلے جارہے تھے.اس لئے حضور نے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں مختصرا جن خیالات کا اظہار فرمایا تھا ان کو ایک اپنی کتاب ترک موالات و احکام اسلام (مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۰ء) میں از روئے آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ بڑی شرح دوسط سے ثابت فرما دیا.اس لاجواب تصنیف نے جو ۹۲ صفحات پر مشتمل ہے جہاں حامیان "عدم موالات " و " ہجرت " کے خیالات و دلائل کی بے بنیادی ظاہر کر دی.وہاں سنجیدگی سے غور کرنے والوں کے لئے کامیابی کا ایک نیا رستہ کھول دیا.انہیں دعوت دی کہ یہ وقت اس مجرب نسخہ موالات کو استعمال کرنے کا ہے جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے ہلاکو خاں کے پوتے کو اسلام کی غلامی میں داخل کر دیا تھا.اور جو خدائے واحد لاشریک کے عبادت گزاروں میں شامل ہو کر ایک نئی اسلامی حکومت کا بانی ہو ا تھا.اس کتاب لاجواب میں حضور نے نہایت غیرت دلانے والے لفظوں میں لکھا کہ "اگر یہ درست ہے کہ ترک موالات سے ایک دو سال میں تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاؤ گے تو اسلام کی دوبارہ زندگی یقینا مسنہ گاندھی کے ہاتھوں ہوگی اور نعوذ باللہ من ذالک، ابد الآباد تک محمد رسول الله 6 سر مبارک بار احسان سے ان کے سامنے جھکا رہے گا.حضرت مسیح تو خیر ایک نبی تھے.اب جس شخص کو تم نے اپنا مذ ہبی راہ نما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں پس محمد رسول اللہ ﷺ کی اس ہتک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مسٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی جتنی کہ حضرت مسیح کی امت کی غلامی تم کہتے ہو کہ ہمیں کرنی پڑی ہے ".افسوس کہ حضور کی یہ آواز بہرے کانوں سے سنی گئی.عوام تو رہے ایک طرف مسلمانوں کے قومی لیڈروں نے اس امید خام کی وجہ سے کہ اتحادیوں کے ہاتھوں ترکی حکومت کو جو مشکل پیش آگئی ہے وہ حل ہو جائے گی.اور ہم انگریز کی غلامی سے بھی آزاد ہو جائیں گے مسٹر گاندھی اور کانگریس کے

Page 298

جلد ۳ 262 خلافت ثانیہ کا ساتھ آگے گھٹنے ٹیک دیئے.اور بعض بعض ممتاز لیڈروں نے تو ان کے لئے وہ کچھ کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح کہا گیا.چنانچہ ظفرالملک صاحب علوی نے کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ خاتم النبین نہ ہوتے تو میں ضرور کہتا کہ اس زمانے کے نبی مہاتما گاندھی ہیں.جناب ڈاکٹر آصف علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ” میں صدق دل سے یقین کرتا ہوں کہ اس صدی کے مجدد مہاتما گاندھی ہیں.مولانا شوکت علی نے کہا.میں کہتا ہوں امام مہدی گاندھی جی ہیں.مولانا محمد علی جو ہر کامریڈ نے جیل سے پیغام بھیجا کہ میں آنحضرت ا کے بعد بے سوچے سمجھے مہاتما گاندھی کی پیروی کرتا ہوں.(امیر شریعت احرار ) جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بھاری نے مسجد خیر الدین امرت سر میں کہا کہ میں مسٹر گاندھی کو نبی بالقوة مانتا ہوں ".جناب ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے راولپنڈی میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کے دوران میں کہا کہ میں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو تلک اور گاندھی بتا رہے ہیں یہ اخلاقی قوت ان بزرگوں کی ہی کام کر رہی ہے.یہ آسمانی قوت ہے.ہندوؤں نے اور مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کئے ہیں ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے.ہمارے پاس زر نہیں ہے جب جان چاہیں ہم حاضر ہیں.راولپنڈی کے بعد انہوں نے کلکتہ میں کہا.انڈین نیشنل کانگریس نے کلکتہ کی تاریخی سرزمین پر ایک اجلاس خاص منعقد کیا اور اس مشترک پلیٹ فارم پر سے جس کی تعمیر خود خدائے قادر و قیوم کے مقدس ہاتھوں کی رہین منت ہے.اس آواز کی ایک قرنا پھونکی گئی ہے اس وقت برطانیہ اقتدار کے جو اس درست کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ " عدم تعاون " ہے - لیکن آوا جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قبل از وقت انتباہ فرما دیا تھا.اس تحریک نے مسلمانوں کا رہا سہاد قار خاک میں ملا دیا.اور انہیں تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا.اور مسلمانان ہند کی ملی زسیاسی زندگی کا یہ خونچکاں حادثہ آج بھی ایک غیور - درد مند مسلمان کو تڑپا دینے کے لئے کافی ہے.چنانچہ سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :- اٹھارہ ہزار مسلمان اپنا گھر بار جائداد اسباب غیر منقولہ اونے پونے بیچ کر خریدنے والے زیادہ تر ہندو تھے.افغانستان ہجرت کر گئے وہاں جگہ نہ ملی واپس کئے گئے کچھ مرکھپ گئے جو واپس آئے تباہ حال ، خسته درمانده مفلس ، قلاش، تہی دست بے نوائے یار و مددگار.اگر اسے ہلاکت نہیں کہتے تو کیا or کہتے ہیں" ".میاں محمد مرزا صاحب دہلوی لکھتے ہیں.کچھ دنوں بعد جب مورخ کا بے رحم قلم اس ایجی ٹیشن کے جذبی اثر سے آزاد ہو کر اس کا جائزہ لے گا.اور خالص سیاسی نقطہ نظر سے اسے جانچے گا.تو

Page 299

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 263 خلافت کانسی کا ساتواں سال ایجی ٹیشن کا یہ سارا د و ر اپنی ہنگامہ خیزیوں کے باوجود اسے ایک ایسا بے نتیجہ سیاسی بحران نظر آئیگا جس نے مسلمانوں کی قومی خود داری کا خاتمہ کر کے رکھ دیا.(یہ) ہندوؤں کا پروگرام تھا ہندو ہی اس کے رہنما تھے.مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھی.اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہو گئی".جناب عبدالمجید صاحب سالک لکھتے ہیں.یہ مخلص اور جوشیلے مسلمان کس جوش و خروش سے ایک دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کو ترک کر رہے تھے.اور پھر چند ماہ بعد جب امیر امان اللہ خان کی حکومت نے اس لشکر جرار کی آباد کاری سے عاجز آکر اس کو جواب دے دیا تو ان مہاجرین کی عظیم اکثریت بادل بریاں و بادیدہ گریاں واپس آگئی.اور اس تحریک کا جو محض ہنگامی جذبات پر مبنی تھی نہایت شرمناک انجام ہوا.لیکن یہ شرمناک انجام دراصل تحریک خلافت کے ہولناک اثرات کا ابھی آغاز تھا کیونکہ چند سال بعد ۱۹۲۴ء میں خود ترکی کی قومی اسمبلی نے ترکی خلیفتہ المسلمین کو معزول اور ان کے عثمانی شاہی خاندان کو جلا وطن کر کے ترکی خلافت کا خاتمہ کر دیا اور محمد مصطفیٰ کمال پاشا کی صدارت میں ترکی میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی.دد اس واقعہ کی خبر ہندوستان میں پہنچی تو عامتہ المسلمین اور ان کے خلافتی لیڈروں پر کیا بیتی.اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے خود مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں.”ادھر فیصلہ خلافت کی پہلی خبر رپورٹر ایجینسی نے بھیجی اور اتنی بات کان میں پڑ گئی کہ خلیفہ معزول اور خلافت موقوف! ادھر دماغی رد فعل ( ری ایکشن) کی ایک طوفانی لہر سب کے دماغوں میں دوڑ گئی.افسوس یہ پینو اص بھی اپنی دماغی حالت عوام سے بلند تر ثابت نہ کر سکے.بلکہ کہنا چاہئے کہ عوام کی بدحواسی و خیرہ دماغی کی رہنمائی انہی نے کی.جس طرح اب سے پہلے دنیا کی ہر خوبی انگورہ والوں میں تھی اس طرح ایک لمحہ کے اندر دنیا جہان کی برائیاں ان میں سمند آئیں.شاید ہی کوئی بے محل اور بد حو اسانہ بات ایسی ہو گی جو نہ کی گئی ہو اس ایک جوش تھا جو مصطفے کمال پاشا کے خلاف اٹڈ رہا تھا.کا فر بے دین دشمن خلافت چنگیزی بد تر از ہلا کو.ہم مسلمانان ہند نے پانچ سال سے قومی زندگی کی نئی کروٹ لی تھی اور یہ پہلا واقعہ تھا کہ ہماری دماغی قوت اور قومی نظام کے لئے ایک آزمائش پیش آئی.میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم آزمائش میں فیل ہو گئے.گذشتہ دو ماہ نے ثابت کر دیا کہ ہم میں اب تک کوئی نظام و جمعیت نہیں ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم میں نازک وقتوں کے لئے حالات پر قابو پانیوالے دماغ مفقود ہیں".

Page 300

تاریخ احمدیت جلد ۴ 264 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال مولوی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران سیرت گاندھی تصنیف کی تھی.تحریک کے انجام پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں.مسلمانوں میں ایسا انتشار پیدا ہو گیا تھا کہ ان کا کوئی حقیقی رہنما یا لیڈر ایسا نہ تھا جس پر وہ پوری طرح اعتماد کر سکیں.دوسری طرف ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے تھے.ان کے مفادات کی نمائندگی گاندھی جی کر رہے تھے.مسلمان ان پر اعتماد رکھتے تھے حالانکہ وہ ان کے بالکل کام کے نہ تھے اور فائدہ کی بجائے نقصان ہی پہنچا سکتے تھے.اور پہنچایا.تحریک خلافت کے علمبردار حضرات خلیفہ کی معزولی پر پہلے تو مصطفے کمال پاشا کو گالیاں دیتے تھے.مگر جب کچھ وقت گذر گیا.تو معزول شدہ خلیفہ کو سخت ست کہنے لگے چنانچہ خود مولانا آزاد صاحب نے بھی جو مسلمانوں میں خلافت ترکی کے سب سے زیادہ سرگرم مبلغ تھے.خلیفتہ المسلمین کے خلاف یہاں تک لکھا کہ خلیفہ قطعا بے کار تھا.وہ قسطنطنیہ کے ایک قصر میں رہتا تھا.دس ہزار پونڈ اس کا وظیفہ تھا.اور اگر کوئی مشغولیت تھی تو صرف یہ کہ جمعہ کے دن جلوس سلاملق کے ساتھ ادائے نماز کے لئے مسجد چلا جائے گویا یہ خلافت محض نام اور تنخواہ کی خلافت تھی جس کو دس ہزار پاؤنڈ ملیں اور جمعہ کے دن سلا ملق کے ساتھ نکلے وہی خلیفہ ہے - EI ملائکہ ملا ئک اللہ حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۹۲۰ء کے سالانہ جلسہ میں جو ایمان افروز تقریریں فرما ئیں.وہ ملا ئکتہ اللہ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں.ان تقریروں میں جماعت کو نہایت قیمتی اور اہم ہدایات دینے کے علاوہ ملائکۃ اللہ کے دقیق و لطیف مضمون پر ایسی صاف و شفاف اور ایسی بصیرت افروز و تسکین بخش روشنی ڈالی کہ دل عش عش اور روح وجد کرنے لگی ملائکہ کی حقیقت ، ضرورت.ان کے فرائض و خدمات بیان فرمائے ان کے وجود پر ہو سکنے والے شبہات و اعتراضات کے کافی و شافی جوابات دیئے.اور آخر میں ان سے تعلق پیدا کرنے کے متعدد ذرائع بتائے.۱۹۲۰ء کے متفرق مگر اہم واقعات (1) حضرت خلیفتہ امسیح ثانی کے حرم اول میں صاجزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں چوتھے فرزند مرزا مبشر احمد (اول) پیدا ہوئے.۲ خان محمد عبد الرحیم خان صاحب ابن) حضرت نواب محمد علی خانصاحب) بیرسٹری کے لئے انگلستان روانہ ہوئے.الفضل نے حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام کے سوانح اور حالات زندگی محفوظ کرنے کی پہلی تحریک کی.!

Page 301

تاریخ احمدیت جلد 265 خلافت ثانیہ کا ساتواں سال ۴ میلیون ماریشس اور نائیجیریا کے طلبہ کے لئے باقاعدہ غیر ملکی کلاس کھولی گئی جس میں حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی کچھ وقت دیتے رہے.-۵- حضرت مسیح موعود نے 1991 میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری فرمایا تھا یہ سلسلہ ایک سال جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا.اور اس سال ۲۲ جنوری ۱۹۲۰ء کو پھر جاری ہوا.جبکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ضرورت مذہب کے عنوان پر پہلا لیکچر دیا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ صاحب کا نکاح پڑھا اور خطبہ ارشاد فرمایا..حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور - حضرت مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹ جگہ ، حضرت مولوی عبد الغفار صاحب افغان ، حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بھینی شرقپور ، حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتای- حضرت میرزا امیر احمد خان صاحب عرائض نویس (مردان) اور حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی جیسے اکابر صحابہ کا وصال ہوا.مشہور بہائے.مباحثہ فیروز پور ( حضرت منشی فرزند علی خان صاحب اور سید مدثر شاہ صاحب غیر مبالع کے درمیان) مباحثہ قادیان (شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور مرحوم اور سردار گنگا سنگھ کے درمیان) مباحثہ جہلم ( حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے درمیان) مباحثہ ڈوگری ضلع سیالکوٹ (احمدی منا ظر حافظ جمال احمد صاحب مرحوم) مباحثہ عالم پور کوٹلہ - مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد امین صاحب اہلحدیث کے مابین ) مباحثہ چنیوٹ (حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی) مباحثہ سار چور (مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبد اللہ صاحب کے درمیان) - خان اوصاف علی خاں صاحب کی.آئی.اسی کمانڈ ر نا معہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے.14 الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۲۰ صفحه ۱۰ فہرست نومبائعین نمبر ۵۵۶)

Page 302

فصل دوم 266 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال (جنوری ۱۹۲۱ء تا دسمبر ۱۹۲۱ء بمطابق ربیع الآخر ۱۳۳۹ھ تا جمادی الاول ۱۳۲۰ھ ) حضرت علیہ السیح ثانی ایدہ اللہ نے ۲۳ ہندو مسلم اتحاد کے لئے ایک اہم تجویز جنوری ۱۹۶۱ء کو ہندومسلم اتحاد کے سلسلہ میں پہلی بار یہ تجویز فرمائی کہ آریہ صاحبان اپنے ہیں (۲۰) طلبہ یا کم و بیش جتنے مناسب سمجھیں ہمارے پاس بھیج دیں ان کا خرچ ہم برداشت کریں گے اور ان کو قرآن شریف پڑھائیں گے اس کے مقابلہ میں آریہ صاحبان ہمارے صرف دو آدمیوں کو سنسکرت پڑھا دیں.اور دیدوں کا ماہر بنا دیں اور ان کا خرچ بھی ہمارے ذمہ ہو گا.مگر افسوس آریہ صاحبان سے آجتک اس طرف توجہ نہیں ہو سکی.حضور نے اگلے سال ۱۹۲۲ء میں گورو کل کا نگری کے بعض ہندو طلباء کے سامنے یہ تجویز بیان فرمائی تو ایک ہندو طالب علم جو گند ریال) اس کی معقولیت سے متاثر ہو کر خود بخود قادیان آگئے اور بالآخر مشرف باسلام ہوئے جن کا اسلامی نام محمد عمر ر کھا گیا.۲۶ جنوری ۱۹۲۱ء کو حضور نے بورڈنگ مدرسه ہدایات زریں برائے احمدی مبلغین" احمدیہ میں جماعت کے مبلغین اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے سامنے تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات دیں پوری تقریر حضرت میر قاسم علی صاحب نے ہدایات زریں" کے نام سے شائع کر دی تھی.حضور کی ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا کہ مبلغ کو بے غرض دلیر ہمد رد خلائق، وسیع المعلومات نظافت پسند - با اخلاق - تهجد گذار - دعا گو بے نفس ، غیر جانبدار ، منتظم، سوشل تعلقات میں ماہر اور ایثار و قناعت کا مجسمہ ہونا چاہئے.دار التبلیغ گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائیجیریا کا قیام اس سال افریقہ میں پہلے مستقل دار التبلیغ کا قیام عمل میں آیا.اور یہ

Page 303

تاریخ احمدیت جلد ۴ 267 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال تاریک بر اعظم اسلام و احمدیت کے نیر اعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا.حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالے کو افریقہ میں تبلیغ کی تحریک کیسے ہوئی؟ یہ ایک نہایت ایمان افروز بات ہے جس کی تفصیل خود حضرت اقدس کے قلم سے درج کرتا ہوں فرماتے ہیں." مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک در حقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں بڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا.اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا.جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رویاء آتا ہے تو ہم فورا صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ مل جاتی ہے.اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں مل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے.نہ مل سکے.چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے.اسی بنا پرا فریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں بے شک خدا تعالے نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہو تا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی ہیں ، بہٹ تھی کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کو شش کرے گا.(نعوذ باللہ ) میں نے اللہ تعالٰی پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں بچاہا کہ پیشتر اس کے کہ :ہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں." حضرت خلیفتہ المسیح نے افریقہ میں پہلا مشن قائم کرنے کے لئے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر کا انتخاب فرمایا.جو ان دنوں لندن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے.چنانچہ مولانا نیر صاحب ۱۹ فروری ۱۹۲۱ ، کولندن سے روانہ ہوئے اور 19 فروری ۱۹۲۱ء کو سیرالیون پہ ہے.تختہ جہاز پرمست نیر الدین افسر تعلیم سیرالیون نے آپ کا استقبال کیا.۲۰ فروری ۱۹۲۱ء کو مسلمانوں کے متقائی مدارس اور مسجد میں آپ نے چار لیکچر دیئے.آخری تقریر کے بعد جو عیسائیوں کے لئے مخصوص تھی سوال و جواب بھی ہوئے ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کی صبح کو آپ نے سرکاری حکام سے ملاقات کر کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف توجہ دلائی اور اسی روز تیرے پر جہاز پر سوار ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء کو ساڑھے

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 268 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال چار بجے شام گولڈ کوسٹ (غانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر اترے اور مسٹر عبد الرحمان پیڈرو کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا.جہاں شمالی اور جنوبی نائیجیریا اور وسط افریقہ کے کچھ لوگ آباد ہو گئے تھے.اور اصل باشندوں میں صرف نینٹی قوم مسلمان تھی جس کے چیف (امیر) کا نام مہدی تھا.جس رات حضرت نیر صاحب سالٹ پانڈ پہنچے اسی رات مہدی نے خواب میں دیکھا کہ میرے کمرے میں رسول خدا ان تشریف لائے ہیں.چیف مهدی ۴۵ برس سے مسلمان تھے.اور اس وقت سے برابر تبلیغ اسلام میں مصروف تھے انہیں یہ از حد غم تھا کہ میری آنکھیں بند ہوتے ہی کہیں اس علاقہ کے مسلمان سفید عیسائی مشنریوں کے رعب میں آکر اسلام کو خیر باد نہ کہہ دیں.چیف مہدی نے جو نہایت خدا پرست بزرگ تھے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ معلوم کیا.اور کچھ روپیہ جمع کر کے ان کو لنڈن بھجوایا تا مسلمانوں کا کوئی سفید فام مبلغ گولڈ کوسٹ آئے اور تبلیغ کا کام شروع کرے مگر دو سال تک کوئی مبلغ افریقہ کی طرف نہ بھجوایا جاسکا.نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں یہاں تک سخت بد گمانی پیدا ہو گئی حتی کہ وہ کہنے لگے کہ سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے.2 حضرت نیر صاحب نے میرالیون اور سکنڈی سے اپنی آمد کے تار دیئے تو اسی وجہ سے ان پر بھی چنداں اعتبار نہ کیا گیا.البتہ آپ کے سالٹ پانڈ پہنچنے پر پہلے بعض آدمی مختلف دیہات سے خبر کی تصدیق کے لئے پہنچے.پھر چیف مہدی صاحب کا نقیب آپ سے آکر ملا اورا امارچ ۱۹۲۱ء کو اکر افول میں فیٹی مسلمانوں کا جلسہ مقرر ہوا.مولانا نیر صاحب ترجمان کے ساتھ بذریعہ موٹر وہاں پہنچے چیف مہدی کے مکان کے سامنے پانچصد افراد کا مجمع تھا.چیف مہدی اپنے قومی لباس پہنے حلقہ امراء میں بیٹھے تھے.مولانا نیر صاحب کے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا.آپ کا ترجمان اور ائمہ مساجد آپ کے ارد گرد تھے.نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر چیف اور اس کے ممبروں کی طرف سے خوش آمدید کہا.پھر خود چیف مہدی نے تقریر کی.کہ ۴۵ برس ہوئے میں مسلمان ہوا.مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا.اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے.ہو سا قوم اور لیگوس کے لوگ بعد میں آئے اور ہمیں اسلام سکھایا.ہم جاہل ہیں.اسلام کا پورا علم نہیں.سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں.میں بوڑھا ہوں مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے.ACT اور اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے اور دین سکھایا جائے.اس کے بعد مولا نا نیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دستگیری کی اور اس

Page 305

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 269 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال جماعت کی طرف سے مبلغ آیا جو زندہ اسلام پیش کرتی ہے.میری آنکھوں نے مسیح موعود کو دیکھا.میرے کانوں نے اس کے مقدس منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سنے.میرے ہاتھوں نے اس برگزیدہ پہلوان اسلام کے پاؤں کو چھوا.پس تم کو مبارک ہو کہ خدا نے تمہاری مدد کی.اب انشاء اللہ فینٹی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا کام احمدی جماعت کرے گی.۱۸ مارچ ۱۹۲۱ء کو اکر انوں میں دوسرا جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے دو گھنٹہ تقریر فرمائی.اور نینٹی قوم اور ان کے چیف کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور گذشتہ رسوم و رواج کو ترک کر کے بچے اور مخلص مسلمان بننے کی تلقین فرمائی.چنانچہ دوسرے ہی دن ان کی مجلس اکابر نے فیصلہ کیا کہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.اس طرح ایک ہی دن میں ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے اور یدخلون فی دین اللہ افواجا کانظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا.AL A1 فینٹی قوم کے احمدی ہونے کے بعد حضرت مولانا نیر صاحب نے نائیجیریا کی طرف توجہ مبذول فرمائی چنانچہ پہلی بار آپ بذریعہ جہاز ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء که نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس میں پہنچے.لیگوس میں ان دنوں ۳۵ ہزار کے قریب مسلمان تھے.اور ۲۰ ہزار کے قریب عیسائی مگر علم دولت تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے.اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک (محمدن اسکول) تھا.ان حالات میں حضرت مولانا نیر نے لیگوس میں قدم رکھا اور پہنچتے ہی مختلف مساجد میں لیکچر دیئے.پھر پبلک لیکچروں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا جس سے سعید رد میں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں.ماحول کے اثر سے لیگوس کے مسلمانوں میں یہ رسم قائم ہو چکی تھی.کہ وہ دوسرے کا ادب و احترام کرنے کی خاطر فور اگھٹنوں کے بل ہو جاتے تھے حضرت مولانا نیر صاحب نے اس کے خلاف زبردست وعظ کی جس پر بہت سے مسلمانوں نے یہ رسم چھوڑ دی لیگوس میں ایک فرقہ اہل قرآن بھی تھا.اس کے بارہ اکابر نے حضرت مولانا نیر صاحب سے ملاقات کی اور بتایا کہ بارہ برس ہوئے ہمارے سابق امام جماعت نے مرنے ت پہلے یہ خوشخبری دی تھی کہ ایک سفید رنگ کا آدمی (White man) آئے گا جو مسیح موعود کی خبر لائے گا.اور اہل قرآن کی تصدیق کرے گا یہ پیشگوئی آپ کے وجود سے پوری ہوئی ہم آپ کے ساتھ ہیں.چنانچہ ان اکابر میں تے جنہوں نے مولانا نیر کے ہاتھ پر بیعت کی.الفا عبد القادر بھی ایک بزرگ تھے افسوس چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا.مولانا نیر نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو ان کے |47 محل میں جاکر تبلیغ کی.||

Page 306

تاریخ احمدیت جلد ۴ 270 هداشت آپ چار ماہ لیگوس میں ٹھہرے اور دن رات دیوانہ دار تبلیغ کرتے رہے اور بالآخر ۸ اگست ۶۱۹۲۱ کو واپس سالٹ پانڈ پہنچے سالٹ پانڈ میں آکر شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دو منزل مکان کرایہ پر لے کر مشن ہاؤس قائم کیا.اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا.اور ایک مبلغین کلاس AY جاری کی جس میں عربی میں قرآن وحدیث ،فقہ اور عقائد احمدیہ کی تعلیم دینے لگے.اسی طرح گولڈ کوسٹ (غانا) جماعت کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ان میں عہدیدار مقرر کئے.انتظامی تقسیم کے مکمل ہونے کے بعد آپ دوبارہ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۱ء کو نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس میں تشریف لے گئے.اور تبلیغ شروع کر دی.اسی دوران میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے ۲۳ جنوری ۱۹۲۲- C کو گولڈ کوسٹ مشن سنبھالنے کے لئے مولوی حکیم فضل الرحمان صاحب کو روانہ فرمایا - جوا امارچ کو لنڈن اور کار اپریل کو لیگوس پہنچے اور حضرت نیر کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو سائٹ پانڈ پہنچ گئے.اس طرح نائیجیریا اور نانا مشن جو ایک ہی مبلغ کے مشن کے تحت تھے دو مستقل مشنوں کی صورت اختیار کر گئے گولڈ کوسٹ کے انچارج حکیم فضل الرحمان صاحب اور نائیبیریا مشن کے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر دار التبليغ نائیجیریا واقعات کے تسلسل کے لحاظ سے سب سے پہلے نائیجیریا مشن کے بقیہ حالات لکھے جاتے ہیں.حضرت مولانا نیر صاحب نے جو نائیجیریا مشن کے مستقل انچارج کی حیثیت سے لیگوں کے باہر بھی تبلیغ کو وسعت دینی شروع کی اور پہلے شمالی تا کیجیے یا کے ایک اہم شہر زادیہ کے امیر اور امیر کانو تک پیغام حق پہنچایا.پھر واپس لیگوس آکر ا ستمبر ۱۹۲۲ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا جو صحیح معنوں میں ائیوس میں پہلا اسلامی مدرسہ تھا.نیز ارد گرد کے علاقوں میں مقامی احمد ہوا یا کے وفود بھجوائے حضرت مولانا نیر صاحب کو مغربی افریقہ میں بڑی جد و جہد کرنا پڑی اور آپ شمالی نائیجیریا کے دورہ سے واپس آئر کم و بیش ۴ ماہ تک بیمار رہے.اور گورنمسٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے.پھر آپ ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیل آب و ہوا کے لئے تاریخ ۲۱ جنوری ۱۹۲۳ ء لندن بھیجوا دیئے گئے.حضرت مولانا نیر کے بعد مالی مشکلات a کی وجہ سے سالہا سال تک کوئی مرکزی مبلغ نہیں بھجوایا جا.کا.آخر حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد سے الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے ستمبر ۱۹۲۹ء کے فریب گولڈ کوسٹ (غانا) سے واپسی سے پہلے نایجیریا کا دورہ کیا.پھر دہ مرکز میں تشریف لے آئے حکیم صاحب فروری ۱۹۳۳ء کو قادیان سے روانہ ہو کر لنڈن سیرالیون اور گولڈ کو بٹ میں قیام کرتے ہوئے جولائی ۱۹۳۴ء میں نائیجیر یا پہنچے آپ وہاں پہنچتے ہی ایک خطر ناک اندرونی کشمکش سے

Page 307

تاریخ احمدیت جلد ۴ 271 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال دو چار ہو گئے.جو بعض لوگوں نے ایک خود ساختہ قانون کی بناء پر پیدا کر دی تھی.معاملہ آخر کردی عدالت تک پہنچا.۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو اس کا فیصلہ ہوا.لیکن فیصلہ ہونے کے باوجو د ۱۹۳۹ء تک حالات مخدوش رہے ۱۹۴۰ء میں حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد پر جماعت کی دوبارہ تشکیل کی گئی.جس کے بعد مکرم حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی ترقی و استحکام کی طرف پوری توجہ دینی شروع کر دی.اور اپنی مسلسل جدوجہد اور قابل رشک اخلاص سے مشن کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا چنانچہ انہوں نے جماعت نائیجیریا کی تربیت و اصلاح کے لئے متعد د اقدامات کئے تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی نئی جماعتیں قائم کیں.لیگوس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد در مشن ہاؤس تعمیر کیا.آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ " دی لائف آف محمد " کے نام سے تصنیف کی.جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور آج تک مغربی افریقہ کے تمام سکولوں کے نصاب میں شامل ہے جنوری ۱۹۴۵ء میں جناب مولوی نور محمد صاحب نیم سیفی نائیجیریا بھجوائے گئے جنہوں نے حکیم صاحب کی واپسی کے بعد جو ۱۹۴۷ء میں ہوئی مشن کا چارج لیا.اور (چند ماہ کے وقفہ کے ساتھ قریباً انیس سال تک اہم تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.آپ ہی نے دی ٹرتھ (The Truth) کے نام سے نائیجریا مشن کا پہلا ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو نائیجیریا میں مسلمانوں کا واحد اخبار ہے.اور عیسائیت کے حملوں کے سامنے ایک آہنی دیوار کا کام دے رہا ہے.اور تبلیغ اسلام کو احمدیت کا نہایت کامیاب اور مؤثر ذریعہ ہے محترم سیفی صاحب نے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب (Qadiani Movement ( قادیانی مذہب) کا جواب "Our Movement"(ہماری تحریک) کے نام سے لکھا جو ہالینڈ سے شائع ہوا.۶۰-۱۹۵۹ء میں مشہور ہو سا قبیلہ کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں داخل احمدیت ہوئے.آپ جولائی ۱۹۶۴ ء میں واپس ربوہ تشریف لائے اور اب مولوی شیخ نصیر الدین احمد صاحب دار التبلیغ نائیجیریا کے انچارج مبلغ ہیں.جناب نسیم سیفی صاحب کے زمانہ سے لے کر اب تک جن مبلغین کو نائی غیر یا کی سرزمین میں املائے کلمہ اسلام کی توفیق ملی یا جو سرگرم عمل ہیں ان کے نام یہ ہیں.قریشی محمد افضل صاحب سید احمد شاہ حب، مولوی مبارک احمد صاحب ساقی شیخ نصیر الدین احمد صاحب، مولوی بشارت احمد صاحب ، شیر ، مهدوی محمد بشیر صاحب شاد - مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل - عبد المجید صاحب بھٹی.ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب قریشی مقبول احمد صاحب چوہدری رشید الدین صاحب کرنل محمد یوسف شاہ صاحب - حاجی فیض الحق صاحب قریشی فیرد ز محی الدین صاحب بشیر احمد صاحب شمس.

Page 308

272 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال لٹریچر دار التبلیغ نائیجیریا کی طرف سے بڑی کثرت سے لڑیچر چھپ چکا ہے جس میں یو ر با زبان میں ترجمه قرآن پاره اول) An outline of Islam (اسلام کا اجمالی خاکہ) Muhammad and Christ ( حضرت محمدؐ اور یسوع ) Our Movement ( ہماری تحریک) Ahmad of Qadian احمد قادیانی) Islam and Christianity(اسلام اور عیسائیت) وغیرہ (جو جناب نسیم سیفی صاحب کی تالیفات ہیں، خاص طور پر قابل ذکر ہیں.نائیجیریا کے وزیر اعظم الحاج ابو بکر نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا کہ مجھے جب بھی عیسائیوں سے بحث کے دوران کوئی بات پیش کرنی ہوتی ہے تو ہمیشہ احمد یہ لٹریچر میری رہنمائی کرتا ہے میں اس کے علاوہ کسی اور مذہبی لٹریچر پر اعتماد نہیں کرتا جتنا احمد یہ جماعت کے لٹریچر پر کرتا ہوں".نائیجیریا میں اس وقت مرکزی مبلغوں کے علاوہ متعدد مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں ۳۵ جماعتیں قائم ہیں اور مشن اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ وہ خود کفیل ہے اور اس کے ماتحت دس سکول اور دو ہسپتال کھولے جاچکے اور انہیں مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں.اور احمد یہ مشن کی طرف سے ہرماہ تقریباً آٹھ دفعہ ریڈیو پر تقاریر اور ایک مرتبہ خطبہ جمعہ نشر کیا جاتا ہے.نائیجیریا مشن غیروں کی نظر میں اخبار مسلم ورلڈ نے لکھا (1) "سنوسیہ اور اس جیسے مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین طاقت سے کھلے کھلے جنگ کے حامی تھے.ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ گئے ہیں.اور ان کی جگہ فرقہ احمد یہ لے رہا ہے جس نے لیگوس کے مرکز سے پھیل کر تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جمالیا ہے".(۲) اسی طرح دنی نائیجیے یا سوئیٹ یو لیکوس نے لکھا.معلوم ہوتا.ہے کہ احمدیوں کے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ نائیجیریا کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کر دیں چند ہی سال گذرے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور اب یہ سلسلہ نہ صرف لیگوس میں بلکہ تمام نائیجیریا کے مسلمان نو جوانوں کی زندگی میں ایک بھاری تبدیلی پیدا کر رہا ہے ".تمام نائیجیر یا اور خصوصا اس کے مرکز لیگوس میں زیادہ افراد حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں.| 110 یہی حال ابادان کا ہے جو ملک کا تعلیمی مرکز ہے " نائیجیریا کے لاٹ پادری بشپ ہاولز کی رپورٹ) ۴." آج اسلام کو مغربی نائیجیریا میں بہت زیادہ غلبہ حاصل ہو رہا ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک کے مقابل پر اسلام میں میں داخل ہونے والے ہوتے ہیں ".(دی لائٹریکم نومبر ۱۹۵۳ء از اینگلیکن مشنری) ہ ہم چرچ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے اگر ہماری اس تنبیہ کی طرف توجہ نہ

Page 309

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 273 خلافت کانسی کا آٹھواں سال کی گئی تو عین ممکن ہے کہ اسلام فاتحانہ انداز میں جنوبی نائیجیریا کے آخری سرے تک پہنچ جائے.ویسٹ افری متقن پائلٹ نائیجیر یا ۲۱ مئی ۱۹۵۷ء) " میتھوڈسٹ کے چرچ نے اپنی سالانہ کانفرنس کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلام مغربی افریقہ اور خود برطانیہ میں ایک زبر دست تبلیغی مہم سر کر رہا ہے ".(ڈیلی سروس (نائیجیریا) ۱۲ جون ۱۹۵۷ء) ابادان ( نائیجیریا) کے انچارج بشپ اے، بی، آکیس پہلے نے کہا.”اسلام اس امر کا بڑے زور سے تقاضا کر رہا ہے کہ اسے مغربی افریقہ کا مسلمہ مذہب قرار دیا جائے اور اس نے ایک سے زیادہ صوبائی پادریوں سے یہ سنا ہے کہ اسلام بہت زیادہ ترقی کی طرف گامزن ہے.- (افریقہ میں لاکھوں لاکھ افریقن جن کی تعداد وہاں کی اصل آبادی کے پانچویں حصے کے برابر ہوگی.اسلام قبول کر چکے ہیں.بعض علاقوں میں جہاں آجکل عیسائی مشنری اور مسلمان مبلغ ایک دو سرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کر نیوالے ایک شخص کے مقابلے میں دس افر متن اسلام قبول کرتے ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر افری مقنوں کا مذ ہب قرار دیا جاتا ہے.جبکہ عیسائیت وہاں صرف اور صرف سفید لوگوں (یورپین) کا مذہب بن کر رہ گیا ہے." آج سے تیس سال قبل وہ (یعنی مسلمان) سب سے زیادہ پسماندہ قوم تھے لیکن جب سے احمدیہ جماعت نے اپنے ترقیاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا ہے مسلمانوں میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہو گئی ہے ".( کیتھولک ہیرلڈ ۱۹ اگست ۱۹۵۵ء) 10- ابادان کے بشپ نے نانا میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جہاں عیسائیت کو سخت ناکامی ہوئی ہے وہاں مسلمانوں نے میدان جیت لیا ہے".نائیجیرین ٹریبیون ۲۴ فروری ۱۹۵۵ء) نائیجیریا کے بشپ ایس- او - روڈ وٹون نے کل افریقہ چرچ کا نفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا عیسائی چرچ نائیجیریا میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بہت تشویش میں ہے (ڈیلی ٹائمز ۱۴ جنوری ۱۹۵۸ء) ۱۲.مسٹر ریمزے نے افریقہ کے تیرہ ممالک کا دورہ کرنے کے بعد اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت افریقہ میں اسلام سے شکست کھا رہی ہے.(ویسٹ افریقن پائلٹ ۲۱ مارچ ۱۹۶۰ء) ۱۳- جیو فرے ہیرلڈ (ایک مشہور عیسائی مصنف) نے ویسٹ افریقن ریویو (لنڈن) کی دسمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا ہے احمد یہ جماعت اگر چہ قلیل التعداد ہے لیکن یہ بہت زیادہ کام کرنے والے

Page 310

274 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال ہیں.اور اپنی آواز کو خوب دوسروں تک پہنچاتے ہیں.مغربی افریقہ میں ان کے متعدد مدارس ہیں جو مغربی خطوط پر چلائے جاتے ہیں.ان کے اخبارات بھی ہیں.گولڈ کوسٹ (غانا) مشن II اوپر بتایا جاچکا ہے کہ الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو انچارج مشن کی حیثیت میں یہاں پہنچے آپ آخر تمبر ۱۹۲۹ء تک گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف عمل رہے.محترم حکیم صاحب کے عہد میں مشن کو بہت فروغ ہوا.سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری کیا.اور جماعت کے امراء سے چندہ خاص کر کے سکول کی عمارت تعمیر کی اپریل ۱۹۲۸ء میں شہر کماسی میں آپ کا غیر احمدیوں سے مناظرہ ہوا.جس میں اللہ تعالٰی نے احمدیت کو نمایاں فتح بخشی.اس مناظرہ میں حکومت کے اعلیٰ افسروں کے علاوہ پراونشل کمشنر بھی موجود تھے.حکیم صاحب ابھی گولڈ کوسٹ ہی میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم پر مولوی نذیر احمد (علی) صاحب (ابن حضرت بابو فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر) ۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو قادیان سے گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے.اور وہاں کچھ عرصہ حکیم صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء سے مشن کے انچارج مقرر کئے گئے.اور کامیاب جرنیل ثابت ہوئے.مولوی نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں گولڈ کوسٹ (حال غانا) کی جماعت نے خوب ترقی کی کو افیا ٹا- اسیام - کیپ مقامات میں نئے سکول کھلے اور متعدد نئی جماعتیں قائم ہو ئیں.مئی ۱۹۳۳ء میں آپ واپس تشریف لے آئے.اور مشن کا کام الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے انجام دینا شروع کر دیا - D آپ کے دور میں یہاں مشن ہاؤس بھی تعمیر ہو گیا.۲ فروری ۱۹۳۶ء کو مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوئی مولوی فاضل گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے.اور ۲۳ اپریل ۱۹۳۶ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے.اور یکم مئی ۱۹۳۶ء کو اس مشن کا چارج لیا.اور کماسی میں جو اشانی کا مرکز ہے احمدیہ پرائمری سکول کی بنیاد رکھی.اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مولوی نذیر احمد علی صاحب حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد کے تحت سیرالیون میں نیا دار التبلیغ کھولنے کے لئے تشریف لے گئے اور گولڈ کوسٹ مشن مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی امارت میں جلد جلد ترقیات کی منزلیں طے کرنے لگا اور خدا کے فضل سے یہ آپ ہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج غانا کی جماعت ممالک بیرون پاکستان کی عظیم ترین جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جس میں اڑھائی سو سے زیادہ جماعتیں ہیں.پونے آٹھ لاکھ روپیہ کا بجٹ ہے ایک سو باسٹھ کے قریب مساجد اور سولہ کے قریب سکول قائم ہیں.اور میں کے لگ بھگ (مرکزی مبلغین کے علاوہ) مقامی مبلغ کام کر رہے ہیں جن کے لئے الگ الگ

Page 311

تاریخ احمد بیت - جلد ۴۲) 275 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال مشن ہاؤس موجود ہیں.حضرت خلیفہ ثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالٰی نے مولوی صاحب کی نسبت فرمایا تھا.افریقی اقوام میں بیداری کے جو سامان پیدا ہوئے ہیں ان میں مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بنے کی سعادت حاصل ہوئی.II حضرت اقدس کے حکم سے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر تین بار اس ملک میں بھجوائے گئے اور آپ کو یہاں ( آمد و رفت کے عرصہ کو مستی کر کے) ۱۹۳۶ء سے لیکر ۱۹۶۱ء تک تبلیغی جہاد کرنے کا موقعہ ملا.اس عرصہ میں تعداد.تعلیم اور جائیداد غرضکہ ہر جہت سے مشن نے حیرت انگیز ترقی کی چنانچہ مسٹر جان مفری نشر Mr.John) (Humphrey Fisher نے جو جماعت کی تبلیغی مساعی پر تحقیقات کے لئے خود مغربی افریقہ گئے تھے.اپنی کتاب Ahmdiyya میں آپ کی خدمات کو سراہا ہے.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے بعد اب مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج مشن کے فرائض انجام دے رہے ہیں.اور سالٹ پانڈ سے ایک ماہوار اخبار دی گائیڈنس " (The Guidance) بھی آپ کی ادارت میں ۱۹۶۲ء سے شائع ہوتا ہے.اب ذیل میں ان مجاہدین کے نام لکھے جاتے ہیں جنہوں نے مندرجہ بالا مبلغین کے علاوہ اس مشن میں کام کیا ہے.یا ابھی تک مصروف جہاد ہیں ملک احسان اللہ صاحب مولوی عبد الخالق صاحب - مولوی بشارت احمد صاحب نیم امرو ہوئی.مولوی صالح محمد صاحب مولوی عبدالحق صاحب انور - چوہدری عطاء اللہ صاحب مولوی بشارت احمد صاحب بشیر صوفی محمد اسحاق صاحب مولوی ر اللطیف صاحب شاہد - مولوی عبد القدیر صاحب شاہد - مولوی محمد افضل صاحب قریشی - ملک خلیل عبد احمد صاحب اختر مولوی فضل اللى صاحب انوری مولوی عبدالرشید صاحب رازی مسعود احمد صاحب دہلوی - سید سفیر الدین احمد صاحب قریشی فیروز محی الدین صاحب مرزا لطف الرحمان صاحب جناب مولوی عبد المالک خان صاحب صاحبزادہ مرزا امجید احمد صاحب سید داؤ د احمد صاحب انور - مولوی عبد الحمید صاحب منیر احمد صاحب رشید پروفیسر محمد لطیف صاحب سید محمد ہاشم صاحب بخاری، نذیر احمد صاحب ایم ایس سی.ان مرکزی مبلغین کے علاوہ دو درجن کے قریب مقامی مبلغین بھی کام کر رہے ہیں جن میں سے مسٹر عبدا لاو باب بن آدم اور مسٹر ابراہیم مانور بوہ میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں.لٹریچر.اس مشن کی طرف سے فینٹی، اشائی اور انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چھپ چکا ہے.بالآخر غانا دار التبلیغ سے متعلق غیروں کے غانادار التبلیغ کی خدمات غیروں کی نظر میں چند تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس مشن کی فتوحات کا کسی قدر اندازہ ہو گا.

Page 312

276 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال - نانا یونیورسٹی کالج کے مشہور پروفیسر مسٹر ایس جی ایم سن لکھتے ہیں غانا کے شمالی حصہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد کے پیروؤں کے لئے میدان خالی کر دیا ہے اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصیت سے ساحل کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کو عظیم فتوحات حاصل ہو رہی ہیں.یہ خوشکن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے.کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کچھی چلی جارہی ہے.اور یہ یقیناً صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے.کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہو گا یا صلیب کا.( ترجمہ ) - ورلڈ کر کچن ڈائجسٹ (جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۹-۴۰) میں لکھا ہے "کیا اسلام کی روز افزوں ترقی - اور اس سارے علاقہ کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہمارے پاس کوئی موثر و موزوں جواب ہے.نانا میں بھی جماعت احمد یہ سرگرم عمل ہے.نانا کے شمالی علاقہ کے لوگ مذہبی ہیں.مرگ اس لئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کی وسیع پیمانہ پر پھیلانے کا موجب ہو سکتی ہے".۳ ماہنامہ " مجلة الازہر " (بابت جولائی ۱۹۵۸ء) نے " الا سلام فی غانا" کے عنوان سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا ان الفاظ میں ذکر کیا." ولهم نشاط بارز في كافة النوا مي ومدارسهم ناجحة بالرغم ان تلاميذها لا يدينون بمذهبهم جميعا".یعنی فرزندان احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں اور ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں.بحالیکہ ان مدارس کے سبھی طلبہ ان کی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں.4 غانا کے ڈپٹی سپیکر الحاج یعقوب طالع نے بیان دیا کہ یہ امر ہمارے مشاہدہ میں آیا ہے کہ اگر احمد یہ جماعت اسلام کے احیاء اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی جدوجہد نہ کرتی تو اسلام مادیات کے تھپیڑوں میں کبھی کا دب چکا ہوتا.میں چشم دید گواہ ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں سربلندی حاصل کر رہا ہے.اور یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگا.کہ اس دور کی انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے.۵ نانا یونیورسٹی کے ایک لیکچرار JA Price نے مانچسٹر گارڈین کی ایک اشاعت میں لکھا مالکیوں کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جماعت احمد یہ بھی ہے جو اپنی تبلیغی مساعی کے لحاظ سے مشہور ہے اس کا مرکز پاکستان میں ہے....یہ جماعت تیزی کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن ہے عیسائی اور مشرکین دونوں میں سے لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہو رہے ہیں.اس جماعت کی ترقی

Page 313

تاریخ احمدیت جلد ۴ 277 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال کی رفتار کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے.کہ ۱۹۳۱ ء میں اس کے ممبروں کی تعداد تین ہزار ایک سودس تھی جبکہ ۱۹۴۸ء میں یہ تعداد بائیس ہزار پانچ سو بہتر تک پہنچ چکی ہے احمد یہ مشن کی نمایاں کامیابی میں اس کی تعلیمی سرگرمیوں کا بھی دخل ہے.جس میں ثانوی تعلیم بھی شامل ہے ان کی مساعی کو مغربی افریقہ کے تمام علاقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے.نے فروری ۱۹۲۱ کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے حضرت مسیح حضرت خلیفہ المسیح کا تیرا نکاح موعود کے مخلص اور قدیم صحابی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کو اپنی زوجیت کا فخر بخشا.خطبہ نکاح حضرت سید سرور شاہ صاحب نے پڑھا مر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا.۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی ۲۳ فروری ۱۹۲۱ء کو بوقت صبح دعوت ولیمہ ہوئی.حضور کو اس نکاح کی تحریک اس لئے ہوئی کہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مسیح موعود کے فرزند مرزا مبارک احمد سے ہوا تھا.مگر جب صاحبزادہ صاحب وفات پاگئے تو حضور نے گھر میں اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ یہ رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہو تو اچھا ہے.۱۳۵ کرتار پور ضلع جالندھر میں سکھوں کی سکھوں کے ایک گورو صاحب قادیان میں مشهور گدی ہے.۲۵ فروری ۱۹۲۱ء کو وہاں کے گورو ضلع گورداسپور کا دورہ کرتے ہوئے قادیان آئے.حضرت اقدس نے ان کی پیشوائی کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شہر سے باہر بھجوایا.گورو صاحب گھوڑے پر اور انکے مصاحب رتھ اور گاڑیوں میں سوار تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے صحن میں اتارا گیا.حضرت خلیفہ ثانی نے مزاج پرسی کے بعد ان سے مسلمانوں اور سکھوں کے ان باہمی خوشگوار تعلقات کا تذکرہ فرمایا.جو شاہان مغلیہ کے زمانہ میں تھے.کوئی پون گھنٹہ کی ملاقات کے بعد گورد صاحب نے رخصت کی اجازت چاہی.حضرت اقدس نے اپنے گھر سے میووں کی ایک سینی لگوا کر حضرت میر قاسم علی صاحب کے ہاتھ بھجوائی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.سفر لا ہو رومالیر کوٹلہ ۴ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایک مقدمہ میں شہادت کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے لاہور میں حضور کی دو تقریر میں ہو ئیں جن کے عنوان یہ تھے "مذہب کی ضرورت " اور " حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے طریق ".۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور مالیر کوٹلہ روانہ ہوئے.مالیر کوٹلہ کے اسٹیشن پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب ، حضرت

Page 314

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 278 خلافت عثمانیہ کا آٹھواں سال نواب محمد عبد اللہ خانصاحب وغیرہ اصحاب استقبال کے لئے موجود تھے.حضور بذریعہ موٹر شیروانی کوٹ تشریف لے گئے.9 مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان میں صداقت اسلام" کے موضوع پر لیکچر دیا.۱۰ مارچ کو حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب ( والد ماجد حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد) کی درخواست پر لدھیانہ میں قیام فرمایا.حضرت ماسٹر صاحب نے حضور کے اعزاز میں ایک بڑی دعوت کا انتظام کیا.حضور لدھیانہ سے امارچ ۱۹۲۱ء کو قادیان واپس تشریف PA-28 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ایک پر جلال و شوکت تقریر ۱۹ تا ۲۱ مارچ ۱۹۲۱ ۰ میں قادیان کے غیر احمدیوں کا بڑی دھوم دھام سے جلسہ ہو ا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اہلحدیث مولوی محمد علی صاحب رو پڑی.مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوئی.مولوی انور شاہ صاحب کا شمیری مدرس اعلیٰ دیو بند اور مرتضی حسن صاحب در بھنگوی وغیرہ نے دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں کیں.جن کے جواب میں ۲۱-۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ایک پر جلال و شوکت تقریر فرمائی.چونکہ علماء صاحبان کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کی بے حرمتی کرنے اور کھودنے کی افواہیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں جن کی تصدیق خود اس جلسہ کی تقاریر سے بھی ہو گئی تھی.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے پہلی بار قادیان کی آبادی اور احمدی مساجد اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے اقدامات کرنے پڑے.جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ کا تحریری بیان ہے کہ : جس سال احراریوں نے اپنے بدارا دے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے متعلق اور بہشتی مقبرہ کے متعلق ظاہر کئے تھے اور قادیان میں ایک بہت بڑے جلسہ کے انعقاد کا اعلان کر دیا تھا.میں ان دنوں مہینہ کی رخصت پر اپنے گاؤں ہمزہ آیا ہوا تھا.مجھے جسب احراریوں کے جلسہ قادیان کی اطلاع ملی تو میں (نے) اپنے والد صاحب سے اجازت لی اور قادیان کی طرف روانہ ہو گیا.چونکہ ان دنوں قادیان کی طرف ریل نہیں جاتی تھی میں بٹالہ سے ٹانگہ پر سوار ہو کر قادیان پہنچا اور بہشتی مقبرہ کے قریب ٹانگہ سے اتر کر دعا کے لئے بہشتی مقبرہ گیا.( مزار) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد چہار دیوار ڈال کر چھت ڈالی ہوئی تھی.دعا کے بعد میں مسجد مبارک قادیان میں گیا.سب سے پہلے میں وہاں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ملا اور رات مہمان خانہ میں گزاری.دوسرے دن صبح کے وقت میں ابھی

Page 315

تاریخ احمدیت جلد ۴ 279 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال بیت مبارک میں ہی تھا کہ حضرت صاحب زادہ مرزا شریف احمد صاحب سے ملاقات ہوئی.آپ نے مجھے سے علیحدگی میں فرمایا کہ عبد الکریم لوہار جو ان دنوں سیویوں کی مشین بنایا کرتے تھے ان کو بلالا ئیں.وہ اپنے ساتھ ایسا سامان لے آئیں جس سے بیت مبارک چھلی طرف کی کھڑکیوں کی سیخیں کائی جاسکیں تاکہ اگر مخالفین دار مسیح پر کسی قسم کا حملہ کریں تو ان کھڑکیوں کے ذریعہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں بچوں اور عورتوں کو حفاظت کے لئے بھیجا جا سکے.آپ کے حکم پر میں مذکورہ لوہار کی دکان پر پہنچا تو اس نے میرے ساتھ آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے بہت کام ہے.میں وہاں نہیں جا سکتا.جب میں نے اس سے اوزار مانگے کہ میں خود ہی سیٹیں کاٹ کر اوزار واپس کردوں گا تو اس نے اوزار دینے سے بھی انکار کر دیا اس پر میں مایوس ہو کر واپس آیا تو بیت مبارک میں مجھے کوئی شخص نہ ملا.اسی روز احرار گاڑی میں متواتر پہنچ رہے تھے اور یوں معلوم ہو تا تھا کہ تمام ہندوستان کے احرار آرہے ہیں.بٹالہ سے ان کے قافلے پیدل اور ٹانگوں پر قادیان روانہ ہوئے.مولوی ثناء اللہ وغیرہ بھی ان میں تھے.تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے بد ارادوں کی خبریں جو وہ اپنی باتوں میں بیان کرتے تھے قادیان پہنچتی رہیں ہمارے نوجوانوں نے ایسی سکیم تیار کرلی تھی جس کے تحت وہ بٹالہ میں بہت جمع ہو چکے تھے وہ ہر قافلہ میں دو دو تین تین شامل ہو جاتے اور چونکہ گرمی کے دن تھے وہ ہاتھوں میں پنکھے لے کر آگے بڑھ جاتے اور ہر قافلہ میں جو مولوی ہوتے ان کو پنکھا کرتے اور ان کی باتیں سن لیتے اور پھر پنکھا اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کر کے واپس قادیان جا کر بیان کرتے.اس طرح ان کی تمام باتیں قادیان میں قبل از وقت پہنچتی رہیں.اس دن انہوں نے پہنچ کر ہندوؤں کے ایک مکان میں تقریریں کیں.وہاں بھی ہمارے خاص خاص نوجوانوں کو ہی جانے کا حکم تھا جو وہاں سے رپورٹیں لے کر آتے تھے.دو سرے دن ان کا اس قدر ہجوم تھا کہ حضرت صاحب کے حکم سے ایک فوٹو گرافر کو منارۃ المسیح کے اوپر جا کر کیمرہ سے فوٹو لینے کو کہا گیا.کیوں کہ وہ دن اور دھوپ کا وقت تھا اور احراریوں کی نظریں منارة المسیح پر بدنیتی سے پڑ رہی تھیں جب فوٹو گرافر نے وہاں جا کر کیمرہ نصب کیا تو ان لوگوں نے دیکھا اور بعض نے تو ان میں سے یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو وہ منارۃ المسیح پر مشین گن لگ گئی.اسی دن حضرت میر محمد اسماعیل (صاحب) سول سرجن نے مجھے جب مسجد مبارک میں دیکھا تو فرمایا کہ آپ چونکہ ملٹری کے آدمی ہیں آپ سے کچھ سوالات کرتا ہوں.آپ اس کا جواب دے دیں.اس کے بعد میں کوئی کام آپ کے حوالے کردوں گا.جو آپ کو کرنا ہو گا.میں نے لبیک کہا تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے فرسٹ ایڈ کی تعلیم حاصل کی ہے.میں نے جواب اثبات میں دیا.پھر آپ نے سوال کیا کہ آپ فیلڈ ایمبولنس کی ٹریننگ بھی رکھتے ہیں جس میں زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے کی ٹریننگ ہوتی ہے.رنے وہاں سے

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 280 خلافت مهمانیه که میں نے کہا جی ہاں.پھر آپ نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے آگ بجھانے کی فائر بریگیڈ کی ٹریننگ بھی حاصل کی ہے میں نے جوابا کہا ہاں صاحب.پھر میں نے کہا کہ حضور کچھ اور بھی پوچھنا چاہتے ہیں تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اب میں آپ کا امتحان لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر آپ کو ہمیں آدمی فائر بریگیڈ کے لئے دے دیئے جائیں تو ان کے لئے آپ کو کس سامان کی ضرورت ہوگی.میں نے جو ا با عرض کیا کہ تمہیں چالیس خالی ٹینوں کی ضرورت ہوگی.میں کے سرکٹے ہوئے ہوں جن میں ہم مٹی یا ریت ڈالیں گے اور ہیں کے آدھے سر کٹے ہوئے ہوں جس میں پانی ڈالا جائے تاکہ ضرورت کے وقت کام آسکے.اس کے علاوہ ہیں آدمیوں کے پاس نہیں لاٹھیاں ہوں تاکہ اس سے ضرورت کے وقت کام لیا جا سکے.اور گیتیاں اور بیلچے دس دس ہوں آپ نے کہا کہ آپ اس میں پاس ہو گئے.پھر آپ نے فرمایا فیلڈ ایمبولینس میں اگر زخمیوں کو اٹھانے کا کام دیا جائے تو آپ کو کس سامان کی ضرورت ہے میں نے ابھی سٹریچر کا نام ہی لیا تھا تو آپ نے کہا یہ تو فیلڈ ہے یہاں سٹریچر کہاں سے آئیں گے اس پر میں نے کہا کہ حضور ہیں آدمیوں کے لئے ہیں بانس کی لاٹھیاں چاہیئں اور میں خالی بوریاں چاہئیں تاکہ چاقوؤں سے بوریوں میں سوراخ کر کے ان میں بانس دے کر سٹریچر کا کام لیا جا سکے.اس پر آپ نے کہا کہ چاقو کہاں سے آئے گا تو میں نے اپنی جیب سے چاقو نکال کر دکھلا دیا کہ یہ تو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ بیت مبارک کے سامنے الفضل کا دفتر ہے اس پر آپ چالیس آدمی لے کر شام مغرب کی نماز کے بعد صبح تک اپنے انتظام کو مکمل رکھیں گے اور دیکھنا کہ جو آدمی آپ کو دیئے جاتے ہیں یہ پنجابی زمیندار ہیں انہیں حقہ پینے کی عادت ہے کہیں یہ آپ کو وقت پر جواب نہ دے دیں حضرت صاحب کی طرف سے قادیان کے گردا گر د دس دس میل تک کے لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ایک ایک آدمی ہر گھر سے قادیان آجائے اس طرح کافی احمدی جمع ہو چکے تھے مغرب کی نماز کے بعد میں اپنے چالیس منتخب آدمیوں کو لے کر حضرت نواب محمد علی خان کے مکان کی چھت پر جو مسجد مبارک سے متصل ہے چلا گیا وہ چالیس آدمی کچھ اس چھت پر کچھ دوسری چھت پر بھیج دیئے گئے اور ٹینوں میں پانی اور مٹی ڈال کر مسجد مبارک کے سامنے والے مکانوں کی چھتوں پر ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر رکھوا دیے گئے اور میں ان دوستوں کو آہستہ آہستہ ان کے فرائض بتانے لگا کہ کس چیز کو کس طرح استعمال کرنا ہے.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے فرسٹ ایڈ کے لئے پٹیاں بھی پہنچا دی تھیں.عشاء کی نماز ہم نے چھتوں پر ہی ادا کی تو زمیندار دوست حقے کی خواہش پر مجھ سے اجازت لینے آئے کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم حقہ پی آئیں.میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اب آپ نے میرے ساتھ کام کرنا ہے اور میرا کہا مانتا ہے ورنہ ہم اپنے مقصد میں ناکام ہو کر بجائے حضور سے دعا لینے کے ان کی ناراضگی کا باعث بن جائیں

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 281 خلافت ثانیہ کا آٹھواں.گے اس لئے صرف ایک شخص سیڑھی سے اترے اور جاکر حقہ پی آئے اور اس کے آنے کے بعد دو سرا جائے.اس طرح سے میں نے خیال کیا کہ ایک ہی آدمی ایک وقت میں غیر حاضر رہ سکتا ہے اور اپنا بستر سیڑھی کے پاس لگا لیا.حضور کی طرف سے ان دنوں جو ہدایات جماعت کو دی جاتی تھیں تعمیل کے لئے پھیلا دی جاتی تھیں.عشاء کے بعد ابھی دو گھنٹے گزرے تھے کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب دو تین دوستوں کے ہمراہ مکان کے اوپر تشریف لائے اور مجھے او پر بلایا اور فرمایا کہ دیکھو آج رات قادیان میں ہر طرح کا خطرہ ہے اس لئے اپنے آدمیوں کو چوکس رکھنا.میں نے اپنے تمام آدمیوں کو چوکس رہنے کے لئے ہدایت کردی.اور کہا کہ ایک آواز آنے کے بعد دوسری کا انتظار نہ کریں اور فورا اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آجائیں یہ ایک عجب رات تھی مگر خدائی وعدوں پر ایمان تھا.رات کے دو بجے کے قریب جب احرار اپنے خیالات کو دماغوں میں لے کر محو خواب تھے اور ہر اک احمدی اللہ تعالٰی کے آگے دعا میں مصروف تھا منارة المسیح سے بگل کی آواز ایسے رنگ میں سنائی دی کہ گویا دہ صور اسرائیل تھی اور قیامت کا دن تھا.ہر احمدی اپنی آرام گاہ سے فور اکھڑا ہو گیا اور بعض گھروں میں اس آواز سے بچوں کی چیچنیں سنائی دیں.میں نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ کہیں کچھ احمدی زخمی ہو گئے ہیں اور کہیں آگ لگ گئی ہے فورا چوک میں اپنے سامان کو لے کر کھڑے ہوں میں آگے آگے تھا میرے ہاتھ میں ایک بیلچہ تھا اور ایک خالی ٹین اور میں نے اپنے آدمیوں کو وہاں کھڑا کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے احمد یہ اسکول کالج کے لڑکے چند منٹ کے اندر باہر کے محلوں کے احمدی دوست رات کے وقت مسجد مبارک کی طرف بھاگے اور جہاں جہاں جگہ ملی گلی کوچوں میں کھڑے ہو گئے اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا آپ نے اس بگل سے کیا سمجھا میں نے عرض کیا کہ دشمن نے ہمارے آدمیوں کو زخمی کر دیا ہے اور ہمارے گھروں کو آگ لگادی ہے یہی خیال لئے میں یہاں آیا ہوں کہ پتہ چلے تو اپنے فرض کو ادا کروں.میر صاحب نے کہا کہ بس آپ لوگ جاکر آرام کریں کوئی بات نہیں.ادھر تو یہ حالت تھی اور ادھر لشکر احرار کی یہ حالت تھی کہ وہ بگل کی آواز سن کر انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم پر آسمانی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے اور ہم ہر طرح سے بے دست و پا ہیں.ان میں سے کئی ایک کی چیچنیں بھی نکل گئیں.جو کہ ہمارے رپورٹروں نے بتایا اور ہم نے احراریوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھی.صبح کو ایک دوست نے مسجد مبارک کے چوک میں تقریر کی جس میں انہوں نے گورو گوبند سنگھ کے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ سکھوں میں جو پانچ پیارے ہیں ان کا کس طرح امتحان لیا گیا اور وہ اس طرح کے گوبند سنگھ کے لنگر میں بے شمار سکھ حلوہ پوری کھانے والے موجود ہیں.اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کچھ کام بھی کر سکتے ہیں تو اس نے رات کے وقت

Page 318

تاریخ احمدیت جلد ۴ 282 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال ایک میدان میں ایک تنبولگا کر اس میں بکرے باندھ دیئے آپ سکھوں کا امتحان کرنا چاہتے تھے صبح کو کڑاہ پر شاد کھانے والے سکھوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج ہمیں چند سکھوں کے سرور کار ہیں آؤ کون ہمیں اپنا سر دیتا ہے.ان میں سے ایک شخص اٹھ کر آگے بڑھا اور تنبو سے باہر گورو صاحب تلوار لے کر کھڑے ہو گئے وہ آگے بڑھا تو وہ تنبو میں لے گئے اور اسے ایک طرف بٹھا کر تلوار سے ایک بکرے کو مار دیا.جب تلوار کی آواز باہر سکھوں نے سنی تو ان میں ہلچل مچ گئی پھر گوبند سنگھ صاحب خون آلود تلوار لے کر باہر آئے اور کہا کہ مجھے ایک اور سر کی ضرورت ہے.پھر ایک دوسرا سکھ آپ کے ساتھ اندر گیا تو آپ نے اس کو پہلے سکھ کے ساتھ بٹھا دیا اور پھر تلوار ایک بکرے کی گردن پر ماری.اب تو خون بھی تنبو سے باہر دکھائی دینے لگا.سکھ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے اسی طرح آپ تیسری چوتھی اور پانچویں مرتبہ آئے اور صرف پانچ آدمی آپ کے ساتھ تنبو میں داخل ہوئے باقی سب بھاگ گئے ان پانچ سکھوں کو جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا وعدہ کیا تھا پانچ پیارے کہتے ہیں اور سکھوں کی ہر بات پانچ باتوں پر ہی مقرر ہے.پانچ پیارے ہیں پانچ لگتے ہیں اس احمدی مقرر نے کہا کہ لو ادھر تو صرف پانچ پیارے تھے آج تمہارا بھی امتحان ہو گیا کہ تم نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا.وہ تو پانچ پیارے تھے.احمدی جماعت کا ہر فرد پیارا ہے.یہ تو صرف میرے دیکھے ہوئے حالات ہیں باقی انتظامات کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا.اسی روز شام کے وقت اعلان کیا گیا کہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں عشاء کے بعد جلسہ منعقد ہو گا اور اس میں حضور بھی تشریف لائیں گے اور اس میں غیر احمدیوں کے لئے داخلہ کے ٹکٹ دیئے جائیں گے اور احمدیوں کی شناخت پر اندر آسکیں گے.عشاء کے بعد جلسہ کا انتظام شروع ہوا.حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے پولیس کے افسروں اور مجسٹریٹ وغیرہ کو جو احراریوں کے جلسہ میں آئے ہوئے تھے جلسہ میں شمولیت کے لئے دعوت دی جب یہ افسران جلسہ گاہ میں تشریف لاکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو حضرت میر صاحب نے ان کو کچھ مٹھائی اور چائے پیش کی.انہوں نے ابھی چائے پینی شروع کی ہی تھی کہ حضور تشریف لے آئے تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر حضور کا استقبال کیا.حضور السلام علیکم کہہ کر اپنی کرسی پر تشریف لے گئے.بیٹھنے کے بعد حضور نور اکھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کر دی.تقریر اس موضوع پر تھی کہ گورنمنٹ نے پولیس اور باقی محکمے مظلوموں کی مدد اور ان کی دادرسی کے لئے بنائے ہیں مگر افسوس ہے کہ محکمے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتے بلکہ بر عکس اس کے ظالموں کی مدد کرتے ہیں حضور کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حاضرین پر ایک سکتے کا عالم تھا.اور ان کے سامنے پڑی ہوئی چائے اور مٹھائی انہیں ایسا ز ہر دکھائی دے رہا تھا کہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا.چائے اور مٹھائی کی طرح پڑی رہ گئی حضور مختصری تقریر کے بعد

Page 319

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 283 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال تشریف لے گئے اور افسر بھی اٹھ کر جلسہ گاہ سے چلے گئے مگر احمدی اور غیر احمدی پبلک جم کر بیٹھی رہی حضور کے بعد میر محمد الحق صاحب نے ان اعتراضات کے جواب دینے شرون کئے جو احراریوں نے اپنے اسٹیج پر کئے تھے.آپ قرآن اور احادیث سے ان کے جوابات دیتے تو غیر احمدی پبلک سے حوالہ حوالہ کے آوازے اٹھتے ادھر بنو احمدی احباب حوالے تلاش کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے وہ فورا کتاب میر صاحب کے آگے رکھ دیتے اور حضرت میر صاحب حوالہ پیش کر دیتے.کئی غیر احمدیوں کی طرف سے یہ سنا گیا کہ آج تک ہم نے ایسے عالم نہیں دیکھے تھے کہ جو حوصلہ مندی سے اس طرح حوالے پیش کرتے ہوں اور مخالفین کی باتیں توجہ اور حوصلہ سے سنتے ہوں".(غیر مطبوعہ) ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت ۲۳ جون ۱۹۲۱ء کو جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت نواب محمد علی خان صاحب.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور بعض دوسرے سر بر آوردہ حضرات شامل تھے.شملہ میں وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ سے ملاقات کی.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کا خیر مقدم کیا.اور سلسلہ احمدیہ کے حالات بیان کرنے کے بعد وائسرائے ہند کی توجہ خاص طور پر تین باتوں کی طرف مبذول کرائی.اول حکام میں یہ روح پیدا کی جائے کہ ان کا سلوک ہندوستانیوں سے برادرانہ ہو اور اقوام کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو.دوم ترکی حکومت کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے اگر پچاس سال کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے انس لورین فرانس کو واپس مل سکتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ سمرنا اور تھریں ترکوں کو واپس نہ دلائے جائیں.سوم ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے.مسٹر چہ چل وزیر نو آبادیات نے ایک سکیم میں ذکر کیا ہے کہ اگر حکومت مجاز اپنے بیرونی تعلقات برطانوی حکومت کی نگرانی میں دیدے اور اندرونی امن کی ذمہ داری اٹھالے تو انگریزی حکومت اسے سالانہ مالی امداد دے گی.یہ سکیم آزادی حجاز کے سراسر منافی ہے اگر حکومت حجاز واقعہ میں ملکی حفاظت نہیں کر سکتی تو حجاز ترکوں کو انہی شرائط پر واپس کر دینا چاہئے جن شرائط پر مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں.

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 284 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال ۱۴۵۰ اس سال حضور ایدہ اللہ تعالی نے طبی مشورہ کے مطابق کشمیر کا سفر فرمایا.آپ ۲۵ جون ۱۹۲۱ء کو روانہ ہوئے اور تین ماہ بعد ۲۹ ستمبر ۱۹۲۱ء کو واپس تشریف لائے.حضور دوران سفر اسلام آباد - گاند ھربل - چشمہ اچھابل - چشمه ویری ناگ اور آسنور یاڑی پور وغیرہ کی طرف بھی تشریف لے گئے مگر قیام اکثر و بیشتر سری نگر میں رہا.ماحول کی کشمیری جماعتوں نے حضور کی آمد سے خوب فائدہ اٹھایا.اور نوے کے قریب پیتیں ہوئیں.۲۲ اگست ۱۹۲۱ء کو حضور تمام اہل بیت کے ساتھ محلہ خان یار میں تشریف لے گئے.اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مزار مبارک پر بہت دیر تک دعا کی.اور روضہ کے محافظ کو اس کی مرمت کے لئے کچھ رقم بھی دی.اس کے بعد حضور جامع مسجد دیکھنے گئے.۲۶-۲۷ اگست کو حضرت اقدس کے ارشاد پر آسنور میں احمدیان کشمیر کا جلسہ ہوا.جس میں حضور نے تربیتی امور پر لیکچر دیئے.آسنور کے احمدیوں نے اس موقع پر جلسہ کے انتظام اور مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا.دسمبر ۱۹۲۱ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے قلم سے ایک معرکتہ آئینه صداقت الآراء کتاب " آئینہ صداقت " شائع ہوئی.جس میں حضور نے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی انگریزی کتاب "دی سپلٹ " (The Split) سے پیدا ہو سکنے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے علاوہ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی.اس عظیم الشان تصنیف کا (جو ۲۰۳ صفحات پر مشتمل ہے) اختام ان الفاظ پر ہوا کہ احمدیت.خدا کا قائم کیا ہوا پودہ ہے اس کو کوئی اکھاڑ نہیں سکتا.خلافت اس کا لگایا ہو ا درخت ہے اس کو کوئی نہیں کاٹ سکتا.اس عاجز اور ناتوان وجود کو اسی نے اپنے فضل اور احسان سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے اس کے کام میں کوئی روک نہیں ہو سکتا.اس زبردست تصنیف کا انگریزی ترجمہ " The Truth about the split" کے نام سے کلکتہ میں چھپ کر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا.سالانہ جلسہ ۱۹۲۱ء میں حضرت اقدس نے ہستی باری تعالٰی کے موضوع پر تقریر ہستی باری تعالیٰ دلپذیر فرمائی جو اسی نام سے شائع ہوئی اس معرکۃ الآراء تقریر میں حضور نے ہستی باری تعالی کے دلائل اس کی صفات شرک اور اس کی باریک در بار یک اقسام رویت الهی اور اس کے مدارج اور اس کے طریق حصول پر ایسی زبر دست روشنی ڈالی ہے کہ گویا دن ہی چڑھا دیا ہے.ا حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مسجد مبارک ۱۹۲۱ء کے متفرق مگر اہم واقعات اور مری (قادیان) سے مہمان خانہ تک احمدیہ بازار میں فرش

Page 321

تاریخ احمد بیت - جلد " 285 خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال ۲- قادیان میں شرقی جانب واقع ڈھاب کے پر کرنے کا کام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں ہوا.۱۱۵۰ ۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنرل خان اوصاف علی خان صاحب ہی.آئی - ای کمانڈر انچیف افواج نابھہ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے نکاح پڑھے.- حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر صحابی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو ڈیانی نے وفات ۱۵۲ پائی.-۵- جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ان کے چند رفقاء حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوئی کو لاہور لے جانے کے لئے قادیان آئے جماعت کی طرف سے خانصاحب ذو الفقار علی خان نے ناشتہ کرنے کے لئے کہا.مگر انہوں نے معذرت کر دی.واپسی پر ٹمٹم میں کھانا کھو دیا گیا لیکن مولوی محمد علی صاحب نے کھانا اتروا دیا.مشہور مباے.مباحثہ قادیان ( حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت پور مانند صاحب کے درمیان) مباحثہ مالیر کوٹلہ I شیخ عبد الرحمان صاحب مصری حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان) مباحثہ قادیان TO (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور مہاشہ دھرم بھکشو صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور ( حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور منشی پیر بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ " تائید الاسلام " لاہور کے درمیان).علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات التشریح الصحیح لالهامات المهدی والمسیح از مولوی فضل دین صاحب وكيل) تذكرة المهدی حصہ دوم از پیر سراج الحق صاحب نعمانی) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات (از سید احمد نور صاحب کابلی) تاریخ مالابار ( از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی).۱۵۴

Page 322

تاریخ احمدیت جلد ۴ 286 فصل سوم خلافت ثانیہ کانواں سال خلافت ثانیہ کا نواں سال (جنوری ۱۹۲۲ء تا دسمبر ۱۹۲۲ء بمطابق جماد الاول ۱۳۴۰ھ تا جمار الآخر ۱۳۴۱ھ ) ۱۹۲۲ء کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف دار التبلیغ مصر کا قیام سے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو مصر جانے کا حکم ہوا حضور نے آپ کو روانہ کرتے ہوئے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر دیں." آپ مصر جاتے ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سرزمین دنیا کی تباہی اور ترقی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہے.اس سرزمین سے اسلام کو بہت سا نقصان بھی پہنچا ہے اور فائدہ بھی اور آئندہ اور بھی حوادث ہیں جو اس سے تعلق رکھتے ہیں.اور ہم امید کرتے ہیں کہ انجام کار وہ اسلام کے لئے مفید ہو نگے.پس اس سرزمین میں بہت ہی ڈرتے ڈرتے قدم رکھیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ر ہیں کہ وہ آپ کا قدم ادھر ادھر پڑنے سے آپ کو محفوظ رکھے.آپ کا اول کام عربی زبان کا سیکھنا ہے اس لئے ہندوستانیوں سے رابطہ پیدا نہ کریں کیونکہ انسان غیر ملک میں اپنے اہل ملک سے جب ملتا ہے ان کی طرف بہت کھنچ جاتا ہے.پس جہاں تک ہو سکے عربوں سے ہی میل ملاقات رکھیں تاکہ زبان صاف ہونے کا موقع ملے.اور یہ بھی احتیاط رہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں سے تعلق ہو.کیونکہ جہال کی زبان بہت خراب ہوتی ہے سیاسیات میں نہ پڑیں.اور نہ سیاسی لوگوں سے تعلق رکھیں.کیونکہ سیاسی لوگوں میں اگر تبلیغ ہوئی بھی تو ان کو اپنے راستہ سے ہٹا کر دین کی طرف لاناد گنی محنت چاہتا ہے.اور اس قدر کام آپ موجودہ اغراض کو پورا کرتے ہوئے نہیں کر سکتے.اپنے اخلاق کا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں کیونکہ غیر جگہ انسان جاتا ہے تو لوگ اس کی حرکات سکنات کیطرف زیادہ توجہ کرتے ہیں.ہر ایک بات پر اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد ۴ " 287 خلافت ثانیه کانواں سال جب کوئی ایسی بات پیش کرے جس پر رائے کا اظہار نا مناسب ہے یا ایسی بحثوں کی طرف لے جائے جو سفر کے مقصد کے خلاف ہے تو بہتر ہے کہ کہدیں کہ مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے نہ میں نے اس پر کافی غور کیا ہے.اور نہ اس پر میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں ہر قوم میں کچھ عیوب ہوتے ہیں کچھ خوبیاں.پس مصریوں کی خوبیاں سکھنے کی کوشش کریں مگران کے عیوب سیکھنے کی کوشش نہ کریں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے گردو پیش ایک قسم کے حالات دیکھتا ہے تو بری باتیں بھی اسے اچھی نظر آنے لگ جاتی ہیں اور وہ اسے بطور فیشن اختیار کرلیتا ہے.مومن کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیئے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ۱۸ فروری ۱۹۲۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور سکندر آباد سے ہوتے ہوئے بمبئی پہنچے جہاں سے بذریعہ جہاز قاہرہ (مصر) میں وارد ہوئے آپ نے حضور کی ہدایات کی روشنی میں وہاں اس رنگ سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا کہ خدا کے فضل سے پہلے سال ہی ایک جماعت پیدا کر لی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ء پر فرمایا.اس سال بیرونی ممالک میں.تبلیغ کے سلسلہ میں ایک نیا مشن مصر میں جاری کیا گیا ہے جہاں خدا تعالی کے فضل سے ایک طالب علم کے ذریعہ جماعت پیدا کر دی ہے.دسمبر ۱۹۲۳ء سے آپ کی ادارت میں " قصر النیل" کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا.عرفانی صاحب نے ۱۹۲۶ء تک مصر میں کام کیا.اور اعلیٰ طبقہ کے سرکاری ملازمین آپ کے ذریعہ داخل جماعت ہو ئے.جن میں سے الاستاذ احمد علمی آفندی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آپ کے زمانہ میں تبلیغ اسلام و احمدیت کا کام تمام تر انفرادی ملاقات یا لٹریچر کے ذریعہ سے ہوا.مگر آپ کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابو العطاء صاحب کے مصر کے علماء اور مسیحی پادریوں سے مناظرے ہوئے.چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ازہر کے تعلیم یافتہ ایک مرتد پادری کامل منصور سے " حد مقته الاز یکیہ " کے گرجا میں اناجیل کی حقیقت کے بارے میں ایک معرکتہ الآراء مباحثہ ہوا.جو بعد کو تحقیق الادیان کے نام سے رمضان ۱۳۴۸ھ بمطابق فروری ۱۹۳۰ء میں شائع کیا گیا.اس مباحثہ سے عیسائیت کا نمائندہ لاجواب ہو گیا.مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کے اوہام کا شکار ہو رہے تھے.پھر سے اسلام پر پختہ ہو گئے.انہی نوجوانوں میں عبد الحمید خورشید آفندی بھی تھے جو اس مباحثہ میں آپ کے دلائل وبراہین سے اتنے متاثر ہوئے کہ احمدی ہو کر عیسائیوں کا مقابلہ کرنے لگے مولانا شمس صاحب نے قاہرہ میں قیام کے دوران میں ایک بہائی محی الدین الکردی سے بھی پرائیویٹ مناظرے کئے اور بار بار تحدی کی کہ بہائی شریعت سے کوئی

Page 324

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 288 خلافت ثانیه کانواں سال ایک ہی ایسا مسئلہ دکھایا جائے جو اسلامی شریعت میں موجود نہیں.اور ضروری ہو.مگر وہ کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ کر سکے.۱۹۳۳ء میں مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے مشہور عیسائی پادری ڈاکٹر فلپس (Philips) سے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر مناظرہ کیا جس میں اسلام کو نمایاں فتح اور عیسائیت کو شکست فاش نصیب ہوئی.مولانا ابو العطاء صاحب نے مباحثہ کی پوری روداد فلسطین کے عربی رسالہ البشارة الاسلامیتہ الاحمدیہ میں شائع کرتے ہوئے بلاد عربیہ کے تمام پادریوں کو چیلنج دیا کہ اگر ان میں طاقت ہے.تو اس کا جواب دیں.بعد ازاں اردو میں بھی "مباحثہ مصر" اسی چیلنج کے ساتھ شائع کیا گیا مگر آج تک نہ بلاد عربیہ میں نہ بر صغیر پاک وہند میں کیسی پادری کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں ہو سکی.۱۶۵ ۱۶۴ مولانا ابو العطاء صاحب کے بعد مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے جولائی ۱۹۳۷ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک مصر میں قیام کیا.آپ مصر سے حج پر روانہ ہو کر ۱۰ مارچ ۱۹۳۸ کو قادیان میں واپس آئے.اسی زمانہ میں ایک مشہور عیسائی عالم انستاس ماری کرملی نے نشوء اللغة العربية ونموها و اكتناء ھا کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں حضرت مسیح موعود کے اس نظریہ کی تائید کی کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے.۱۹۴۰ء کے قریب مولوی محمد دین صاحب مرحوم فاضل مجاہد تحریک جدید البانیہ سے مصر تشریف لائے اور دار التبلیغ کی سرگرمیاں با قاعدہ صورت میں ہونے لگیں.ابھی آپ مصربی میں مقیم تھے کہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل فلسطین سے مصر تشریف لے گئے اور جماعت کی از سرنو تنظیم کی.اور کئی اصحاب کو سلسلہ میں شامل کیا.اور وقتا فوقتا آپ اپنے زمانہ اقامت بلاد عربیہ میں مصر جاتے رہے.اسی زمانہ میں البانیہ کے دو طالب علم جامع ازہر میں بغرض حصول تعلیم داخل ہوئے جن کے متعلق از ہر کے حلقوں میں یہ شور اٹھا کہ یہ احمدی ہیں اس لئے ان کو اس اسلامی درسگاہ سے نکال دیا جائے علامہ مصطفیٰ المراقی شیخ الجامع الازہر نے ازہر کے نامور علماء کی ایک کمیٹی بنائی تاوہ پوری تحقیقات کر کے رپورٹ کرے کہ کیا جماعت احمد یہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے یا نہیں ؟ اور اگر اختلاف ہے تو کس قدر ؟ اس کمیٹی کی تشکیل پر چوہدری محمد شریف صاحب انچارج مبلغ بلاد عربیہ نے عربی رسالہ (البشری اور مصری اخبارات کے ذریعہ اس کا خیر مقدم کیا اور شیخ الجامع الازہر (علامہ مصطفے المراغی) کی معرفت کمیٹی کو سلسلہ احمدیہ کا ضروری لٹریچر بھیجا.اور لکھا کہ میں خود بھی حاضر ہو کر جماعت احمدیہ سے

Page 325

تاریخ احمد بیت - جل 289 خلافت ثانیہ کا نواں سال متعلق مستند معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں.اسی دوران ۱۹۴۲ء میں بابو عبد الکریم صاحب : سف زئی پوسٹ ماسٹر ( آف پونچھ) مرحوم نے لیبیا میں اقامت کے وقت از ہر (مصر) سے یہ دریافت کیا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں ؟ اور جو شخص وفات مسیح کا قائل ہے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے تو شیخ الازہر نے یہ استفسار علماء از ہر اپنی کمیٹی کبار علماء الاز ہیں یعنی ازہر کے بڑے بڑے علماء کے ایک نامور ممبر اللاستاذ محمود شلتوت کو جواب لکھنے کے لئے دیا.الشیخ محمود شلتوت نے پوری تحقیق کے بعد حضرت مسیح کی وفات کا فتوی دیا حسب دستور علماء از ہر کی کمیٹی میں پیش ہوا.سب علماء از ہر نے اس جواب پر اتفاق کیا اور یہ فتویٰ مصر کے ایک کثیر الاشاعت ہفتہ وار اخبار الرساله والروایہ " میں "رفع عیسی " کے عنوان سے شائع کر دیا گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد خود الاستاذ محمود شلتوت شیخ الازہر (RECTOR) کے از ہر یونیورسٹی کی طرف سے آپ کے تمام اہم فاوٹی دسمبر ۱۹۵۹ء میں "الفتاوی " کے نام سے شائع کر دیئے گئے "الفتاوی میں وفات مسیح" سے متعلق ان کا سابقہ فتوی بھی شامل کیا گیا جس کا خلاصہ خود الاستاذ IMA 174 شلتوت کے الفاظ میں یہ ہے.(1) انه ليس فى القرآن الكريم ولا فى السنة المطهرة مستند يصلح لتكوين عقيدة يطمئن اليها القلب بان عيسى رفع بجسمه الى السماء وانه حى الى الآن فيها و انه ينزل منها اخر الزمان الى الارض.(۲) ان كل ماتفيده الايات الواردة فى هذه الشان هو وعد الله عيسى بانه متوفيه اجله و رافعه اليه و عاصمه من الذين كفروا وان هذا الوعد قد تحقق فلم يقتله اعداءه ولم يصلبوه ولكن وفاء الله اجله و رفعه اليه." ترجمہ (۱) قرآن کریم اور سنت مطہرہ سے ہر گز کوئی ایسی سند نہیں ملتی جس کی بناء پر اس عقیدہ پر دلی اطمینان ہو سکے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے مادی جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور یہ کہ وہ اب تک آسمان پر زندہ ہیں اور وہ آخری زمانہ میں زمین پر اتریں گے.(۲) قرآنی آیات یہ بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ انہیں وفات دے گا.ان کا رفع فرمائے گا.اور کافروں کے شرسے بچائے گا.یہ وعدہ یقینا پورا ہو چکا ہے.حضرت عیسی کے دشمن نہ انہیں قتل کر سکے اور نہ صلیب پر مار سکے.اللہ تعالی نے ان کی زندگی کے دن پورے کر کے انہیں وفات دے دی اور ان کا اپنی طرف رفع فرمایا.

Page 326

تاریخ احمدیت جلد ۴ 290 خلافت عثمانیہ کا نواں سال عالم اسلامی کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی درسگاہ (یونیورسٹی) کے اس فتویٰ نے ممالک اسلامیہ میں زبردست ہلچل پیدا کر دی.اور اس پر سب قدامت پسند علماء نے سخت نکتہ چینی کی اور آجتک کر رہے ہیں.مصر کے ایک عالم الشیخ عبد اللہ محمد صدیق الغماری نے اپنی کتاب "اقامة البرهان على نزول عيسى فى آخر الزمان " میں اس کے خلاف زبردست احتجاج اور اسے مصیبت عظمیٰ اور اہم واقعہ قرار دے کر علامہ شلتوت کو اپنے ہندی بھائیوں کی دلداری اور حمایت کی خاطر یہ اپنا فتویٰ واپس لے لینے کا مشورہ دیا.مگر علامہ الشیخ شلتوت برابر آخر دم تک اپنے موقف پر قائم رہے.اور صاف صاف کہا." انا ابدیت رائی و لا يضرنیان اوافق القاديانية او غيرهم" یعنی میں نے اپنی رائے ظاہر کر دی ہے اور مجھے قادیانی جماعت یا کسی اور کی تائید و موافقت نقصان نہیں پہنچا سکتی.الاستاذ شلتوت نے ۲ نومبر ۱۹۶۰ء کو شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ سے ملاقات کی اور دوران ملاقات مسئلہ اجرائے نبوت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ " ظاہری طور پر لفظ نبوت طبائع میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے.اس لئے عوام اس اصطلاح سے مشتعل ہو جاتے ہیں.مگر جو تاویل اور توضیح جماعت احمد یہ کرتی ہے اس قسم کی نبوت غیر تشریعی کی یقیناً گنجائش موجود ہے اور دوسری طرف بانی احمدیت کا لٹریچر اور اسلامی خدمات اس تاویل اور گنجائش کو قبول کرنے میں محمد ہیں".افسوس تین سال بعد علامه الاستاذ محمود شلتوت د سمبر ۱۹۶۳ء میں انتقال فرما گئے اور دنیائے اسلام ایک عالم متبحر سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئی.الشیخ الاکبر علامہ محمود شلتوت کے علاوہ اور بھی کئی مقتدر علماء مسیح کی وفات کا فتوی دے چکے ہیں مثلاً الاستاذ مصطفى المراغی (از ہر یونیورسٹی) علامہ عبد الکریم شریف.ڈاکٹر احمد ذکی ابو شادی الاستاذ عباس محمود العقاد - a مصری علماء مسئلہ ام الالسنہ اور مسئلہ وفات مسیح وغیرہ میں احمدیت کے علم کلام کی تصدیق کرنے کے بعد اب مسئلہ شیخ فی القرآن کے بارے میں بھی جماعت احمدیہ کا مسلک اختیار کر رہے ہیں چنانچہ الاستاذ عبد المتعال محمد الجبری نے ۱۹۶۱ء میں النسخ فى الشريعة الاسلامية كما افهمه شائع کی ہے جس میں قرآنی نسخ کے عقیدہ کا ابطال کیا گیا ہے.مصری پریس پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں نے کہاں تک اثر ڈالا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے مصر کے با اثر اور مشہور رسالہ الفتح کے دو اقتباس کافی ہوں گے.اخبار الفتح نے لکھا.نظرت فاذا حركتهم امر مدهش فانهم رفعوا أصواتهم و اجر و ا اقلامهم باللغات

Page 327

291 تاریخ احمدیت جلد ۴ خلافت ثانیه کانواں سال المختلفه وايد وادعوتهم ببذل المال فى المشرقين والمغر بين في مختلف الاقطار و الشعوب ونظموا جمعياتهم وصدقوا الحمله حتى استفحل أمرهم وصارت لهم مراكز دعايته في اسياء واوربا وامريكا وافريقيه تساوی علما وعملا جمعيات النصارى وأما في التأثير والنجاح فلامنا سبته بينهم وبين النصارى فلقاديانيون اعظم نجاحالما معهم من حقائق الاسلام و حكمه ".یعنی میں نے جماعت احمدیہ کا بغور مطالعہ کیا ہے اس جماعت کے کام حیرت انگیز ہیں احمدیوں نے اپنا قلم اور آواز مختلف زبانوں میں احیائے اسلام کے لئے استعمال کی ہے.اور مشرق و مغرب میں اپنے اموال خرچ کر کے اپنے عقائد پھیلائے ہیں.چنانچہ یہ جماعت بہت اہمیت حاصل کر چکی ہے ایشیا یورپ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں.یہ مراکز علمی و عملی رنگ میں تو عیسائیوں کے مراکز کے ہم پلہ نہیں لیکن اپنے اثرات اور کامیابی کے لحاظ سے عیسائیوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں ہے.یہ جماعت سب سے زیادہ کامیاب ہے کیونکہ اس کے پاس اسلام کے حقائق و معارف ہیں.جو شخص ان کے حیرت انگیز کارناموں کو بغور دیکھتا ہے اور سب باتوں کا موازنہ کرتا ہے وہ اس بات پر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس چھوٹی سے جماعت نے تبلیغ واشاعت اسلام کے لئے جو عظیم الشان کام کیا ہے وہ دوسرے کروڑوں مسلمانوں سے نہیں ہو سکا.(۲) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے.اس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن، مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہو جائے گا کہ سچا اور مخلص مومن کون ہے.جماعت احمد یہ مصر کی طرف سے آپ تک مندرجہ ذیل لٹریچر شائع ہو چکا ہے حمامتہ البشری (حصہ اول تألیف سید نا حضرت مسیح موعود) (۲) التبلیغ، تألیف سید نا حضرت مسیح موعود - (۳) الخطاب الجلیل اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمه از السید زین العابدین ولی اللہ صاحب) از تالیفات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۴) الصلوۃ فی الاسلام ترجمہ نماز از عبد المجيد الرحالته (۵) تنویر الالباب لابطال دعوة البهاء والباب - (۶) النور المین (۷) کشف اللثام اور (۸) جواہر الکلام (از مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ) " بشائر التوراة والانجيل في حق سليل سيدنا ابراہیم الخلیل‘ ( از مکرم مولا تا ابوالعطاء صاحب جالندھری) بالا خر یہ بتانا بھی مناسب ہو گا کہ مصر کے مندرجہ ذیل مخلص احمدی احباب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی زیادت اور مرکز سے استفادہ کے لئے آچکے ہیں.(۱) عبد الحمید خورشید آفندی

Page 328

تاریخ احمدیت جلد ۴ 292 خلافت ثانیہ کا نواں سال (۲) الاستاذ احمد علمی آفندی (۳) الشیخ عبد الحمید ابراهیم آفندی (۴) ابراہیم عباس فضل الله از خرطوم سوڈان مصر (۵) رضوان عبد اللہ - ( آپ ربوہ میں حصول تعلیم کے لئے آئے اور ۲۶ اگست ۱۹۵۳ کو ربوہ میں وفات پائی اور یہیں دفن کئے گئے.122 احمد یہ ٹیریٹوریل کمپنی ۱۹۲۲ء کے آغاز میں دوسری ملکی جماعتوں اور قوموں کی طرح IZA ٹیریٹوریل فورس میں جماعت احمدیہ کی بھی ایک کمپنی جالندھر میں قائم کی گئی.احضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۹۳۹ ء تک اس کمپنی کی کمان کرتے رہے.کمپنی کے جوانوں کے لئے آپ کی برگزیدہ شخصیت تنظیم و اخلاق اور فوجی روح کے اعتبار سے ایک مثالی شان رکھتی تھی.جن دنوں آپ ٹیریٹوریل فورس میں لیفٹینٹ کے عہدہ پر فائز تھے، قادیان کے " تعلیم الاسلام میگزین نے آپ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا." آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے اختراع کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہے چنانچہ آپ نے بندوق کی ایسی گولی ایجاد کی ہے جو بڑے بڑے جانور کے پار نکل جاتی ہے.اور اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے..آپ کے اخلاق فاضلہ کا بڑے بڑے افسروں کو بھی اقرار ہے.فوجی کام میں خاص دلچسپی لیتے ہیں آپ کا نشانہ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے نشانہ بازی میں بھی ایک ایسا آلہ ایجاد کر رہے ہیں جس کے ذریعہ سے دور فاصلے کی چیز بہت قریب نظر آنے لگے گی.اور نشانہ کبھی خطا نہ جائے گا".۱۸۰ ۲۳ / جنوری ۱۹۲۲ء کی صبح کو حکیم فضل مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) کو ہدایات زریں الرحمن صاحب مغربی افریقہ روانہ ہونے والے تھے.حضور نے ان کو تحریری اور زبانی ہر دو طرح ہدایات دیں جن کا ملخص یہ تھا: (1) وہاں کی زبان سیکھیں (۲) نہایت محبت اور حکمت سے کام لیں (۳) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معالمہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بُری لگے.جب ان کو نصیحت کریں.تو علیحدگی میں کریں (۴) ان کی دماغی قابلیت کے لحاظ سے تدریجاً علم دین سکھائیں.(۵) ہمیشہ چست رہیں (۲) اپنا کام کرتے وقت دوسروں پر نگاہ مت رکھیں.(۷) اخلاق کا خاص خیال رکھیں اور حکام سے معاملہ کرتے وقت مناسب ادب سے پیش آئیں.(۸) افر- قنوں کا تاثر ہے کہ دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے مگر آپ ان سے محبت کا معاملہ کریں.(۹) عادات ، لباس اور کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مد نظر رہے.HAI " تحفه شہزادہ ویلیز شہزادہ ریلیز (جو بعد کو ایڈورڈ ہشتم بنے اور ۱۹۳۶ء میں انگلینڈ چرچ سے اختلاف کر کے تخت سے دستبردار ہو گئے اور ڈیوک آف ونڈسر کہلائے)

Page 329

تاریخ احمدیت جلد ۴ 293 خلافت ثانیه کانواں سال دسمبر ۱۹۲۱ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے برطانیہ کے ولی عہد کو اسلام کا بے نظیر تحفہ پیش کیا.یعنی " تحفہ شہزادہ ویلز" کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی.جسے آپ کی تجویز کے مطابق جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار سے زائد افراد نے ایک ایک آنہ فی کس جمع کر کے شائع کیا اور ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء کو لاہور میں احمدیہ وفد کے ذریعہ ایک مرصع رو پہلی کشتی میں شہزادہ معظم کے سامنے پیش کیا.IAF AC حضور نے اس کتاب میں ولی عہد برطانیہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے تحریر فرمایا : | ۱۸۵ - " ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی برکات ہمیشہ کے لئے جاری ہیں اور ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اب بھی مسیحی دنیا اسلام اور مسیحیت کا اثر دیکھنے کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالی اچھے درخت میں اچھے پھل لگا کر دکھا دے گا....آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں.جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لئے بعض مشکل امور کے لئے دعا مانگیں اور بعض دیسے ہی مشکل امور کے لئے جماعت احمد یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرے.مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لئے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کر لیا جائے پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے.اور اگر وہ ایسانہ کر سکیں اور ہر گز نہ کریں گے کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں.تو پھر اے شہزادہ آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کر دی ہیں.شہزادہ ویلز نے اس لاثانی تحفہ کو نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ ادا کیا.بلکہ یکم مارچ ۱۹۲۲ء کو لاہور سے جموں تک کے سفر میں اسے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے اور جیسا کہ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا.اسی طرح ان کے ایڈی کانگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے.چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتا عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا.اخبار "ذوالفقار " ( ۲۴/ اپریل ۱۹۲۲ء) نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ ” ہم خلیفہ ثانی کی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرو ر رشک کریں گے یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں.اس واسطے اس تحفہ کو دیکھ کر ہم عش عش کر اٹھے.اس تحفہ میں فاضل مصنف نے سنت رسول پر پورا پورا | IAA

Page 330

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 294 خلافت اما شبه عمل کیا ہے.دعوت اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے.یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے کسی فرقہ کا کوئی فرد یا موجودہ زمانے کا کوئی شورش پسند اخبار حسد اور بغض کی راہ سے اس تحفہ پر کوئی حملہ کرے ہمیں اس تحفہ میں کوئی ایسا مقام دکھائی نہیں دیا کہ جس میں خوشامد سے کام لیا گیا ہو.ہاں بعض مقامات ایسے ہیں جس میں مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے ابتداء سے آخر تک مختصر سے حالات لکھے ہیں لیکن وہ واقعات امن پسندی اور حکومت کی وفاداری کا اظہار ہیں.یہ ظاہر ہے کہ بد امن اور شورش پسند فرقہ کو کبھی خدا دوست نہیں رکھتا اور تباہ اور برباد کر دیتا ہے".اسی طرح پنجاب کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ۱۸ / اپریل ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں اس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ "یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے.خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں.اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدرو قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہو سکتی.جو مذہب میں اور خاصکر ہندوستان اور برطانیہ کے بے شمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں.بیرونی دنیا پر بھی اس کتاب نے گہرا اثر ڈالا.اور مغربی ممالک میں تو اس نے تبلیغ اسلام کا ایک نیا راستہ کھول دیا.چنانچہ وی آنا (دار الخلافہ آسٹریا) کے ایک پروفیسر نے جو تین زبانوں کا ماہر تھا اسے پڑھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا.اور افسوس کیا کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے ورنہ دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرتا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے امریکہ سے لکھا کہ اس کتاب نے امریکہ کو بہت متاثر کیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امریکہ کے علمی تقاضوں کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے.مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ میں بھی اس کا اثر ہوا.چنانچہ نیروبی کے اخبار "لیڈر" (۲۳ نومبر ۱۹۲۲ء) نے کہا.”گو میں عیسائی نہیں مگر عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور ان کے لٹریچر کو خوب سمجھتا ہوں لیکن جو کچھ مجھے اس کتاب سے حاصل ہوا ہے اور جو میں نے حظ اٹھایا ہے اسے بیان نہیں کر سکتا.اس کتاب کا لکھنے والا گو مسلمان ہے لیکن شبہ غالب ہے کہ وہ عیسائیوں میں سالہا سال تک رہا ہے اور ان کے لٹریچر کو اس نے غور سے پڑھا ہے ورنہ یہ بہت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کو ایسی پتہ کی باتیں اس دھڑلے سے سنائے آجتک کوئی ایسی کتاب میری نظر سے نہیں گزری جو مذ ہبی بنیاد پر لکھی گئی ہو اور تعصب سے مبرا ر ہی ہو اس شان کی یہ پہلی کتاب ہے.۱۹۲

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۱۹۴ 295 خلافت ثانیه کانواں سال ۲۳ فروری ۱۹۲۲ء III کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی لاہور تشریف لے گئے سفر لاہور اور ۲ مارچ ۱۹۲۲ء کو واپس قادیان آئے یہ سفر بظا ہر شہزادہ ویلز کے استقبال کی غرض سے تھا.جو ارشاد نبوی اذا جاء کریم قوم فاکر موہ کی تعمیل میں تھا.لیکن اس کے پیچھے اور بھی اہم دینی مقاصد کار فرما تھے.جن کی تفصیل اخبار الفضل کے الفاظ میں یہ ہے کہ حضور خلیفتہ المسیح نے لاہور کے قیام کا ایک ہفتہ وعظ و نصیحت اور ارشاد و ہدایت میں صرف کیا.کہیں جماعت کے نو نہال طلباء کو وعظ کرتے تھے کہیں عام لوگوں کو سمجھاتے تھے کہیں ایک جلسہ کی صورت میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مذ ہبی اور روحانی لذت کا شوق دلاتے تھے کہیں دہریت اور مادیت کی رگ پر نشتر رکھتے تھے کہیں عیسویت کا سحر باطل کرتے تھے کہیں منکرین الهام و نبوت کو قائل کرتے تھے.غرض ایک کیفیت تھی ایک حال تھا ایک ولولہ تھا جو چلتا پھرتا اور کام کرتا اور لوگوں کو کام کرنے پر آمادہ کرتا نظر آتا تھا.اس سفر میں بہت سے لوگوں کے شکوک مذہب کے متعلق دور ہوئے بہت سے اوہام باطل ہوئے اور قریباً میں پچیس شخصوں نے بیعت بھی کی.اس سفر کے دوران حضور ۲۶ فروری ۱۹۲۲ء کو گنج مغلپورہ کی احمد یہ مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں دو نفل نماز پڑھائی.یہ مسجد مستری محمد موسیٰ صاحب (نیلہ گنبد لاہور) نے تعمیر کرائی تھی.۲۷ فروری کو احمدیہ انٹر کالجیٹ کے اجلاس میں روح کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر تقریر فرمائی - ۲۸ فروری کو دیال سنگھ کالج لاہور کے پرنسپل آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.[148] 146- ناظر اول کا تقرر مارچ ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نظارت کے صیغوں کی مزید نگرانی خصوصاً محکمہ تجارت کی نگرانی کے لئے ناظر اعلیٰ کے علاوہ ایک نیا عہدہ ناظر اول کا تجویز فرمایا.اور اس کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نامزد کئے گئے.قادیان کے غیر احمدی مسلمانوں نے گذشتہ سال علماء کو تبلیغ اسلام میں مقابلہ کی دعوت کی طرح مارچ ۱۹۲۲ء میں بھی اپنا سالانہ جلسہ کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جلسہ پر تشریف لانے والے غیر احمدی علماء کو تحقیق حق کے لئے تبادلہ 144 خیالات اور بالآخر مباہلہ کی بار بار دعوت دی.جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اپنی ایک تقریر میں یہ جواب دیا کہ میں بڑی حیثیت کا مالک ہوں اور آپ سے مخاطب ہونا بھی اپنی ہتک سمجھتا ہوں اور اس کے ثبوت میں کہا کہ کلکتہ تک آپ میرے ساتھ چلیں تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ پھول کس پر نچھاور ہوتے ہیں اور پتھروں کی بارش کس پر ہوتی ہے؟ حضرت خلیفہ ثانی نے اس کے جواب میں اشتہار دیا کہ اگر مولوی صاحب نے اپنی حیثیت کا پتہ لگانا

Page 332

تاریخ احمدیت جلد ۴ 296 خلافت ثانیہ کا نواں ما ہے تو اس کا یہ ذریعہ ہے کہ مولوی صاحب بھی اعلان کریں اور میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک سو آدمی جو کم سے کم پچاس روپیہ ماہوار کے ملازم ہوں یا علم دین کے واقف ہوں تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اور اشاعت اسلام کے لئے چین یا جاپان یا امریکہ کی طرف نکل جائیں پھر دیکھیں کہ مولوی صاحب کی تحریک پر کس قدر آدمی اپنی نوکروں یا اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور میری تحریک پر کس قدر.ابھی اسی جگہ مولوی صاحب بھی اعلان کر دیں اور میں بھی ابھی اعلان کرتا ہوں ابھی اس کا امتحان کر لیا جائے.کہ اس وقت جو ان کے ہزاروں ہم خیال جمع ہیں ان میں سے کس قدر ان کی بات مانتے ہیں اور میرے چند سو مبائع جو اس وقت موجود ہیں ان میں سے کس قدر میری بات کو مانتے ہیں.پتھر کھانے سے گویا ثابت ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہ ا کا سچا قائم مقام کون ہے مگر اسلام کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا.مگر اس تجویز سے جو میں پیش کرتا ہوں اسلام کو بھی فائدہ ہوگا.شیر اسلام کی یہ للکار سن کر شیر پنجاب کہلانے والے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خاموشی مناسب کبھی.مجلس شوری کا قیام حضرت خلیفہ السیح الثانی نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا.وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ اہم ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور زیادہ منتظم صورت ہونی چاہئے.چنانچہ حضور نے وسط اپریل ۱۹۲۲ء میں مستقل طور پر مجلس شوری کی بنیاد رکھی.مجلس شوری کے قیام سے گویا جماعتی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہو گیا یعنی سب سے اوپر خلیفہ وقت ہے جو گویا پورے نظام کا مرکزی نقطہ ہے.اس سے نیچے ایک طرف مجلس شوری ہے اور اہم اور ضروری امور میں خلیفہ وقت کے حضور اپنا مشورہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی صد را انجمن احمد ید ہے جسے نظارتوں کے انتظامی صیغہ جات چلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شوری ۱۵-۱۶ اپریل ۱۹۲۲ ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ( قادیان) کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں ۵۲ بیرونی اور ۳۰ مرکزی نمائندوں نے شرکت کی.ہال کی شمالی جانب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی میز اور کرسی تھی اور سامنے نصف دائرہ کی شکل میں نمائندے کرسیوں پر بیٹھے تھے ساڑھے نو بجے صبح کے قریب حضور نے افتاحی تقریر فرمائی جو بارہ بجے تک جاری رہی یہ چونکہ اپنی نوعیت کی پہلی مجلس شورای تھی.اس لئے حضور نے تفصیل کے ساتھ اس کی ضرورت و اہمیت اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور نمائندگان کو متعدد اہم ہدایات دیں جو ہمیشہ

Page 333

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 297 خلافت ثانیه کانواں سال کے لئے مشعل راہ ہیں ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا.ا ہر شخص دعا کرے کہ الہی میں تیرے لئے آیا ہوں تو میری راہ نمائی کر کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے.میری نیست درست اور رائے درست اور تیری منشاء کے ماتحت ہو.۲- رائے دیتے وقت صرف یہ امرید نظر رہے کہ جو سوال در پیش ہے اس کے لئے کونسی بات مفید ہے.جذبات کی بجائے ہمیشہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہئے.یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ غیروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ موثر ہوں.۵- کوئی شخص پہلی بات کے محض دہرانے کے لئے کھڑا نہ ہونا چاہئے.ہر شخص اپنا وقت بھی بچائے اور دو سروں کا وقت بھی ضائع نہ کرے.ان قیمتی ہدایات کے بعد حضور نے مشورہ طلب امور کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.میر کی طبیعت خدا نے ایسی بنائی ہے کہ میں بھی سوچتا رہتا ہوں کہ کونسا کام کریں جس سے دنیا میں ہدایت پھیلے اور بعض دفعہ کوئی تجویز ایسی خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہوں اور وہ دن یادہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لئے دیکھنا مشکل ہوتا ہے.میں یہی چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام نیا جاری ہو...میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے.دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کر کے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کر دو.مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو.پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیاد میں رکھیں جس کی نظر وسیع نہیں اسے تکلیف نظر آرہی ہے مگر اس کی آئندہ نسل ان لوگوں پر جو بنیادیں رکھیں گے درود پڑھیں گی وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کر دے گا کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہے.اس تقریر کے بعد حضور نے سلسلہ کے ہر ایک صیفہ کے معاملات پر غور کرنے اور تجاویز مرتب کرنے کے لئے سات سب کمیٹیاں مقرر فرما ئیں اور پہلے دن کا اجلاس ختم ہوا.دوسرے دن مشاورت کی کارروائی (نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے علاوہ) صبح سات بجے سے لے کر سوا دو بجے شب تک جاری رہی جس میں منتخب کمیٹیوں کی تجاویز اور احباب کی آراء پیش

Page 334

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 298 خلافت ثانیه کانواں سال ہوئیں.اور حضور نے متعدد اہم فیصلے فرمائے.مثلاً.غیر ممالک میں نئے مشن قائم کئے جائیں لیکن پہلے اسلامی بلاد اور جادا اور فلپائن وغیرہ کی طرف توجہ کی جائے اور ایسے لوگ وہاں بھیجے جائیں جو اپنا گزارہ بھی کریں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی.۲.ہر جماعت میں امور عامہ کے لئے علیحدہ سیکرٹری مقرر ہو اور رشتہ ناطہ کے لئے ایک باقاعدہ رجسٹر رکھا جاوے.چندہ کی وصولی کے نظام کو باقاعدہ کرنے اور نگرانی کرنے کے لئے انسپکٹر مقرر کئے جائیں.- جس طرح مبلغین تبلیغ کے لئے جاتے ہیں اسی طرح واعظین بھی جائیں اور جماعت کو اخلاقی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ عام دینی مسائل سے بھی آگاہ کریں.۵ جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک ہو.مرکز سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا جائے.ے.جو شخص کوئی نماز مسجد میں آکر باجماعت ادا نہ کر سکے اور کسی مجبوری کی وجہ سے رہ جائے وہ مسجد میں ہی آکر نماز پڑھے تاکہ آئندہ کے لئے اس کی سستی دور ہو.- والدین اپنے بچوں کو نماز با جماعت ادا کرانے میں ذمہ دار ہوں اسی طرح مستورات کو پابندی نماز کی عادت ڈالی جائے.۹- دو دو یا اس سے زائد افراد کی جماعتیں بنادی جائیں جو باہمی رشتہ اخوت و محبت استوار کر کے ایک دوسرے کی اصلاح میں محمد ہوں.۱۰- مرکز سے مستورات کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۰ء تک مجلس شوری میں ٢١٠ بنفس نفیس شریک ہوتے رہے ہیں اور اس عرصہ میں حضور نے جس طرح قدم قدم پر ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں جماعت کی رہنمائی فرمائی ہے اور بے نظیر فراست و ذہانت ، حیرت انگیز قوت فیصلہ اور زیر دست مدبرانه قابلیت کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور مجلس شوری کی شائع شدہ رپورٹیں جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے ایک اہم حصہ کی حامل ہیں اس امر پر شاہد ہیں اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۲ء کی شوری میں بتایا تھا شوری کے فیصلے اور تمام تر کار روائی مستقبل میں قائم ہونے والی عالمگیر اسلامی نظام کے لئے سنگ بنیاد بننے والی ہے.جس پر دنیا کا آئندہ نظام استوار ہونے والا ہے.اسی لئے حضور نے ۱۹۲۸ء میں نمائندگان شوری کے سامنے ارشاد فرمایا :- -

Page 335

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 299 خلافت ثانیه کانواں سال آج بے شک ہماری مجلس شوری دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور re ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہو گا.کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی.پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے." یہ عظیم الشان پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہونے والی ہے اس پر تو مستقبل کا مورخ ہی لکھ سکے گا.مگر ہم یہاں ایک نشان کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اور وہ یہ کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مدتوں تک مجلس مشاورت میں حضور کے ساتھ بیٹھتے اور اس کی کارروائی چلانے میں مدد کرتے رہے.خدا کی شان دیکھو وہ فرزند احمدیت جو مجلس مشاورت میں امیر المومنین کے پہلو میں خادمانہ حیثیت سے سلسلہ کی خدمات بجالا تا رہا.خدا نے اسے عالمی اسمبلی کا ۱۹۶۲ء میں صدر بنا دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان اچھوت اقوام میں تبلیغ کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے.تبلیغ کے عام فریضہ کے علاوہ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنا بنائے بیٹھے ہیں.پس اگر ان قوموں میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو اور وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ سکتا ہے.چنانچہ آپ نے اپریل ۱۹۲۲ء کے آغاز میں ایک سکیم کے مطابق پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرما دی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا.آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا.اور تھوڑے عرصہ میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھنچ آئے اور بہت سے مذہبی سکھ بالیکی اور دو سرے اچھوت اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے اس رو کا سب سے بڑا زور ۲۴ - ۱۹۲۳ء میں تھا.جبکہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ یہ قومیں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھا ئیں گی.مگر اس وقت بعض خطرات محسوس کر کے یہ سلسلہ دانستہ مدہم کر دیا گیا اور انفرادی تبلیغ پر زور دیا جانے لگا.اور خدا کے فضل سے اس کے اچھے نتائج پیدا ہوئے.ابتداء میں یہ کام شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم کے ذریعہ سے مختصر پیمانہ پر قادیان سے شروع کیا گیا.دو ڈھائی سال میں جو اچھوت حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کے ذریعہ سے ارد گرد کے دیہات میں تبلیغی جد وجہد جاری کی گئی اور پھر پورے ملک میں ان سرگرمیوں کا آغاز ہوا.۱۹۲۸ء سے مکرم جناب ۲۱۵

Page 336

یخ احمد بیت - مجلد " tt 300 خلافت ما گیانی واحد حسین صاحب l ( سابق شیر سنگھ حال مربی سلسلہ احمدیہ) اچھوت اقوام کے طلباء کی تعلیم و تدریس کے لئے مقرر ہوئے ان کے بعد مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خاص ہدایات کے ماتحت عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا جس سے اچھوتوں کو بیدار کرنے اور انہیں اسلام کے قریب لانے میں بھاری مدد ملی اس سلسلہ میں اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں اچھوتوں کی حالت زار - دید شاستر اور اچھوت ادھار اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہندو اقتدار کے منصوبے" (حصہ اول) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آخری کتاب مشہور اچھوت لیڈر ڈاکٹر امید کار کی فرمائش پر لکھی گئی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر دیا گیا.ڈاکٹر امید کار اس لٹریچر سے بہت متاثر تھے.کہتے ہیں کہ انہوں نے چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے لندن میں ایک ملاقات کے دوران میں کہا کہ اگر میں کبھی مسلمان ہو ا تو احمدی جماعت میں ہی داخل ہوں گا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ہندوستان میں صوبہ پنجاب کے بعد بنگال کی طرف بھی توجہ فرمائی اور صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی اے کو ابتدائی سروے کے لئے بھجوایا.جنہوں نے بڑی حکمت عملی سے کام لے کر ایک مفصل سکیم پیش کی.جس پر وہاں بھی یہ کام ہونے لگا.- TIA حفظ قرآن کریم کی تحریک اپریل مئی ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفہ ثانی نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم از کم تیس آدمی |ru| قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی اصحاب نے لبیک کہا.سید نا حضرت مصلح موعود نے ماہ اگست ۱۹۲۲ء میں درس القرآن دیا تھا اس درس القرآن تاریخی درس میں جن خوش نصیب اصحاب کو شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں یہ فہرست الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۱ سے منقول ہے.احباب قادیان ا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ۲- چوہدری فضل احمد صاحب.ایوب خان صاحب طالب علم ہائی سکول قادیان ۸- چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے - مولوی حافظ ابو عبید اللہ غلام رسول صاحب وزیر - مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل و آبادی م مولوی عبد الصمد صاحب پٹیالوی ۵ مولوی غلام نبی صاحب مولوی فاضل مصری - شیخ عبد الرحمان صاحب مولوی فاضل مصری منشی فاضل ۱۰- مولوی عبد المغنی صاحب تا ظر بیت المال مولوی ارجمند خان صاحب مولوی فاضل م مدرسه احمد میہ قادیان

Page 337

تاریخ احمدیت ، جلد ۴ 301 خلافت ثانیہ کا نواں سال ۱۳ ناصر الدین صاحب طالب علم مدرسه احمد یہ قادیان ۱- قاضی عبداللہ صاحب بی.اے بی ٹی ۱۴ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۱۵- محمد اسماعیل صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل سکول -10 ۲۴.ماسٹر محمد دین صاحب بی.اے ۳۴- مولوی فضل الهی صاحب بھیروی ۶- سید عنایت اللہ شاہ صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل کالج ۴۴- ڈاکٹر عطر دین صاحب ۱۷.چوہدری بدرالدین صاحب قادیان ۱۸- ماسٹر موٹی بخش صاحب قادیان ۴۵- مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے ۱۹- میاں عبد الغفار صاحب ابن ماسٹر مولی بخش بیرونی احباب صاحب قادیان ۲۰ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۲۱ - مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل ۲۲ مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل ۱- حاجی غلام احمد صاحب کریام - مبارک اسماعیل صاحب بی.اے ڈیرہ غازیخان میاں سعد الدین صاحب کھاریاں میاں قدرت اللہ صاحب سنور -۲۳ مولوی ظهور حسین صاحب مولوی فاضل -۵- سید عبد السلام صاحب بی.اے.سیالکوٹ ۲۴ مولوی زین العابدین صاحب مارشی ۲۵- مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی ۲۶- مولوی مبارک احمد صاحب مولوی فاضل ۲۷ مولوی محمد شہزادہ صاحب مولوی فاضل -۲۸ مسٹر محمد ابراہیم صاحب بی.ایس.سہی ۲۹.مسٹر غلام محمد صاحب ۳۰.مسٹر عبد القدیر صاحب - نشی محمد عبد اللہ صاحب ریڈر سیالکوٹ ے.مسٹر عطاء اللہ صاحب امرتسر V- مستری غلام نبی صاحب سیالکوٹ محمد حسن خاں صاحب لد ہیانہ ۱۰ ملک حسن محمد صاحب سمبڑیال 11.میاں غلام مصطفے صاحب کھاریاں ۱۲- مولوی محمد اعظم صاحب تھہ غلام نبی -۳۱ مسٹر مطیع الرحمان صاحب سٹوڈنٹ بی.اے ۱۳- میاں محمد امیر صاحب فیروز پور کلاس ۳۲- مولوی شیر علی صاحب بی.اے ۳۳.میر محمد اسحاق صاحب مولوی فاضل ۳۴- محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان ۳۵ ممتاز علی خان صاحب ۳۶.مولوی قمر دین صاحب مولوی فاضل ۳۷.رسائیدار خداداد خان صاحب ۳۸- ماسٹر عبد الرحمان صاحب بی.اے ۱۴- میاں بدر دین صاحب میڈیکل کالج ۱۵- مولوی محمد علی صاحب شیخو پوره ۱۶.مسٹر عبد الواحد صاحب امرتسر ۱۷.مسٹر عبد المغنی صاحب علمی ۱۸- شیخ محمد حسین صاحب انسپکٹر ڈاکخانہ جات امرتسر ۱۹ ظهور الحسن صاحب مردان -19 ۲۰ میاں غلام محمد صاحب طالب پور ۲۱ - عالمگیر خان صاحب مردان ۳۹.مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل ۲۲ مولوی معین الدین صاحب مردان ۴۰- حکیم مولوی غلام محمد صاحب ۲۳ میاں عبداللہ صاحب گولیکی

Page 338

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۲۴.مولوی فضل دین صاحب مانگٹ اونچے ۲۵- نیاز احمد صاحب گولیکی ۲۶ - محمد دین صاحب میڈیکل سکول امرتسر ۲۷- حافظ راج علی کھاریاں ۲۸- نعمت اللہ صاحب کو ہر لائلپور ۲۹- احمد یار صاحب بنگه ۳۰ مهدی شاه صاحب بیگم پوره ۳۱.میاں خدا بخش صاحب میانوالی ۳۲ عبد الرحمان صاحب کھیر انوالی ۳۳.مسٹر فضل کریم صاحب -۲ مخدوم محمد صدیق صاحب شاہ پور ۳۵.مسٹر حبیب اللہ صاحب سٹوڈنٹ لاہور ۳۶ شیخ بشیر احمد صاحب بی.اے.پٹیالہ 312 خلافت ثانیه کانواں سال ۴۰ ملک موٹی بخش صاحب گورداسپور ۴۱ پروفیسر مولوی عبد اللطیف صاحب چٹا گانگ ۴۲.ابو احمد خان صاحب بی.اے کلکتہ ۴۳- عبد السلام صاحب شمله ۴۴ - تقی الدین صاحب طالبعالم لاہور ۴۵ سید محمود اللہ شاہ صاحب طالب علم ۴۶ فشی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ ۴۷.مولوی عبد الخالق صاحب مظفر نگر ۴۸.مسٹر لعل دین صاحب طالبعلم لاہور ۴۹ بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ ۵۰- دوست محمد صاحب لاہور ۵۱- غلام فرید صاحب لاہور ۵۲ - احمد دین صاحب طالب علم امرتسر ۳۷ مولوی غلام مرتضی صاحب ضلع گورداسپور -۵۳ چوہدری عصمت اللہ صاحب طالبعلم لاہور ۳۸.ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب نمازی آباد ۵۴- سید سردار شاہ صاحب ۳۹- عبد الرشید صاحب ۵۵- چوہدری کرم الہی صاحب کرم پوره ضلع شیخوپوره رخ ۱۰ است ۱۹۳۲ ، - صفحه ۱-۲ ) مدراس ہائیکورٹ کا فیصلہ مالا بار میں غیر احمدی مسلمانوں نے ایک احمدی کی بیوی کا نکاح دوسری جگہ پڑھا دیا تھا.مقدمہ دائر کیا گیا تو ماتحت عدالت نے انہیں بری کر دیا اس پر ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کی گئی اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اہور سے مقدمہ کی پیروی کے لئے مدر اس تشریف لے گئے اور اپنی بحث میں ثابت کیا کہ (1) برطانوی عدالتوں کے مسلمہ اصول کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۲) کوئی بھی تعریف اسلام کی مستند کتب سے پیش کی جائے اس کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۳) احمدیوں کے تمام عقائد قرآن کریم کے عین مطابق ہیں (۴) احمدیوں کے متعلق یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ انہوں نے کوئی عقیدہ ایسا ترک کیا ہے جو مسلمہ طور پر جزو اسلام ہے ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ احمدیہ جماعت اسلام ہی کا ایک اصلاح شدہ فرقہ ہے جو قرآن کریم کو اپنی الہامی کتاب مانتا ہے.غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات کی تلقین حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ نومبر ۱۹۲۲ء کو جماعت

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 303 خلافت ثانیه کانوان سال احمدیہ کو یہ تلقین فرمائی کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں سے میل جول رکھیں اوران سے ہمدردی اور عمدہ برتاؤ کریں.اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں.ان تعلقات کی وجہ سے دین میں خلل نہ آنے دیں.اور نہ اپنے مذہبی عقائد ان کی خاطر قربان کریں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تبلیغ ہدایت کے نام سے دسمبر ۱۹۲۲ء تبلیغ ہدایت میں ایک اہم کتاب شائع فرمائی جس میں آپ نے مخصوص اور دلکش اور زور دار انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ماموریت کو دلائل نقلیہ سے ثابت فرمایا.اگر چہ اس کتاب میں انہی مسائل پر آپ نے قلم اٹھایا جن پر احمد یہ لٹریچر میں بہت کچھ لکھا جاچکا تھا.لیکن آپ نے ہر بات اور مسئلہ میں خاص رنگ پیدا کیا.اور ترتیب اور طرز بیان دونوں بالکل نئے اور اچھوتے تھے.اللہ تعالی نے تبلیغ ہدایت کو اپنے فضل سے بہت مقبولیت عطا فرمائی کئی لوگوں نے اس کے ذریعہ ہدایت پائی اور عموماً اپنوں اور بیگانوں دونوں میں اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور آپ کی زندگی میں ہی اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے.CIA سندھی زبان والا ایڈیشن اس کے علاوہ تھا.لجنہ اماءاللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج سید نا حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں جو ۲۲۵ مجالس قائم ہو ئیں وہ سب مردوں کی تھیں.مثلاً " اشاعت اسلام- صد را مجمن احمدید - شعید الاذہان- مجلس احباب - مجمع الاخوان - مجلس ارشاد " وغیرہ لیکن مستورات کی کوئی علمی دینی اور تمدنی انجمن اس وقت تک موجود نہ تھی.لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حرم دوم امتہ الحی صاحب کی تحریک پر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی.جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امتہ الحی صاحبہ تھیں.حضرت امتہ الحی صاحبہ کے بعد یہ اہم خدمت آپ کے حرم حضرت سارہ بیگم صاحبہ اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنما کے سپرد ہوئی.جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی مبرات نے حضرت ام المومنین کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیں اور غالبا پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا.لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت ام ناصر کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لئے نامزد فرما دیا.چنانچہ حضرت ام ناصر اپنی وفات تک جو ا ۳ جولائی ۱۹۵۸ء کو ہوئی یہ فرض نهایت خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں.اگست ۱۹۵۸ء سے حضرت ام متین صاحبہ کی صدارت میں یہ مجلس کام کر رہی ہے.لجنہ اماءاللہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵دسمبر ۱۹۲۲ء

Page 340

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 304 خلافت ثانیه کانواں سال کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام مندرجہ ذیل مضمون تحریر فرمایا.اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہئے.جس سے ہم اللہ تعالی کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکیں.اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں.دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بد گمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی تو ڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے.پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے.چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہو تا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں.اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے.ان امور کو مد نظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں.اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو -1 جلد شروع کر دیا جائے.اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں.اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے.۴- اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو.اس امر کی ضروت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں محمد ہوں.

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 305 خلافت ثانیه کانواں سال اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو.- اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں.-9 اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کار روائیاں ہوں.اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے.اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو.اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہنے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو.اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئیے.اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور ست بنانے کی بجائے چست ہوشیار - تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ.اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا - رسول مسیح موعود اور خلفاء کی محبت اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کر و.اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو.اس لئے اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل در آمد کرد.اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے.نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے.چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پر بنتے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی نسیں اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ منوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری

Page 342

تاریخ احمدیت جلد ۴ 306 خلافت ثانیه کانواں سال بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو.اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائی جائیں.اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہو اپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی.۱۴ اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ -10 رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے.چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں چھوٹے بڑے.غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو.بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجو د مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں.اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے.۱۷ اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے.ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں -- جو ہماری پیدائش میں اس نے مد نظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے.آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے جاری رہے.یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے.اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کر کے پاس کئے جارہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہربانی کر کے اس کاغذ پر دستخط کرا رہیں.بعد میں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے".

Page 343

307 خلافت ثانیه کانواں سال اس ابتدائی تحریک پر (جو محض رضا کارانہ رنگ کی تھی) قادیان کی تیرہ خواتین نے دستخط کئے.حضور کے فرمان پر ۲۵دسمبر ۱۹۲۲ء کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت ام المومنین کے گھر میں جمع ہو ئیں حضور نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی اور لجنہ کا قیام عمل میں آیا.اس تقریر میں حضور نے لجات کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کر کے کئی مشورے دیئے.اور نصائح فرمائیں.اس اجلاس ادل کے بعد لجنہ اماء اللہ کے مفصل قواعد رسالہ تادیب النساء میں (جو قادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں شائع ہو تا تھا) شائع کر دیئے گئے.اور اس طرح با قاعدہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے لجنہ کے اغراض و مقاصد جلد سے جلد پورا کرنے کے لئے اور احمدی مستورات کی اصلاح و تنظیم کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ لجنات کے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور فروری اور مارچ ۱۹۲۳ء کے تین اجلاسوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کی تفصیلات بیان فرما ئیں.اس کے ساتھ ساتھ حضور نے خدمت دین کا عملی جوش پیدا کرنے کے لئے تعمیر مسجد برلن کی ذمہ داری بھی احمدی مستورات پر ڈالی.اور اس کے لئے چندہ کی فراہمی کا کام لجنہ اماءاللہ کے سپرد فرمایا " - II (الجنہ اماءاللہ نے اس عظیم الشان تحریک کے کامیاب بنانے میں جس جذبہ ایثار و فدائیت کا ثبوت دیا اس کی تفصیل ایک مستقل عنوان کے تحت اگلے صفحات میں آرہی ہے).دو سال بعد حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی نے خواتین میں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے کے امارچ ۱۹۲۵ء کو مدرستہ الخواتین جاری فرمایا.جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس اور دوسرے اصحاب کے علاوہ خود حضور دیتے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب اس مدرسہ کے نگران تھے.اس مدرسہ نے خواتین کے علمی و تنظیمی خلاء کو پر کرنے میں بڑا کام کیا.اور خواتین کے مرکزی اداروں اور درسگاہوں کے لئے معلمات اور کارکنات پیدا ہو گئیں.۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ " مصباح" جاری ہوا جس سے احمدی خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پہنچی.ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے مگر مئی ۱۹۴۷ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی لجنہ اماءاللہ " کو سونپ دیا گیا جس سے رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا.اور اب یہ جماعت کی مستورات کے واحد ترجمان کی حیثیت سے سلسلہ کی خدمت بجا لا رہا ہے.

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد 308 خلافت ثانیه کانواں سا ۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء کو حضرت امتہ الحی صاحبہ کی یاد میں " امتہ الحی لائبریری " کا افتتاح ہوا اور اس کی نگرانی حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو تفویض ہوئی.جنہوں نے اپنی پوری زندگی لجنہ کے کام کے لئے وقف رکھی.افتتاح پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت ام المومنین اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد نے کتابیں عنایت فرما ئیں.یہ لائبریری حضرت خلیفہ ثانی کی اجازت خاص سے گول کمرہ میں قائم ہوئی.۱۹۴۷ء کے بعد اس لائبریری کا احیاء جنوری ۱۹۶۰ء کو ربوہ میں ہوا.Bad جولائی ۱۹۲۸ء میں صاحبزادی امتہ الحمید صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کی کوشش سے چھوٹی بچیوں کی لجنہ قائم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد صاجزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی.اسی سال احمدی مستوارات نے "سیرت النبی " کی تحریک کو بھی کامیاب بنانے میں حصہ لینا شروع کیا.چوہدری خلیل احمد صاحب نا صر سابق انچارج احمد یہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ ”میری شادی سے قبل جو ۱۹۳۹ء میں ہوئی میری المیہ امتہ الحفیظ صاحبہ اور ان کی چھوٹی بہن امتہ الحی صاحبہ کئی مہینے تک حضرت سیدہ ام طاہر ( خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو) کے ہاں مقیم رہیں.صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالٰی نے اپنی حقیقی والدہ کی وفات کے بعد اسی گھر میں پرورش پائی.میری اہلیہ صاحبہ اور امتہ الحی صاحبہ کے علی الترتیب دونوں صاحبزادیوں کے ساتھ بہنوں کی طرح کے تعلقات تھے جس کا ذکر حضرت امام جماعت نے میرے نکاح میں بھی فرمایا ان کے ہاں میرا آنا جانا پردہ کے اسلامی احکام کی پوری پابندی کے ساتھ اکثر ہو تا رہتا تھا.مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں صاحبزادی سیدہ امتہ الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ ذکر فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی بنیادوں پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہئے.چنانچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ ایسی تنظیم کا اعلان فرمانے کے لئے صاحبزادی موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور کی خدمت میں درخواست کریں اور یہ بھی گذارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرما ئیں.اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقعہ ملا.مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ اور خاکسار نے کچھ قیاس آرائی بھی کی کہ حضور اس تنظیم کا کیا نام تجویز فرمائیں گے.حسن اتفاق سے ایک نام " ناصرات الاحمدیہ " بھی ذہن میں آیا بہر کیف صاحبزادی موصوفہ کے حضور کی خدمت میں درخواست کے جلد بعد ہی حضور نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اسکا نام "ناصرات الاحمدیہ " تحریر فرمایا اور اس طرح اس تنظیم کی ابتداء ہوئی.صاحبزادی سیدہ امته الرشید صاحبہ سلمها الله تعالی مستحق صد مبارک ہیں کہ خدا تعالی نے ان کے

Page 345

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 309 خلافت مانید که دل میں یہ مبارک تحریک ڈالی اور ان کی کوششیں مثمر ہو ئیں فالحمد للہ علی ذالک.۱۹۳۰ء میں لجنہ کو مجلس شوری میں نمائندگی کا حق ملا جولائی ۱۹۳۱ء میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو الجنہ نے اسے کامیاب بنانے کے لئے چندہ دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یکم اپریل ۱۹۳۸ء کو حکم دیا کہ جہاں جہاں لجنہ ابھی قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والٹیرز ۲۳۵ مجھیں.ماہ اپریل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو الہام ہوا.اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.Bal اس خدائی تحریک پر حضور لجنہ اماء اللہ کی تربیت و تنظیم کی طرف اور زیادہ گہری توجہ فرمانے لگے.۱۹۴۶ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے سلسلہ میں قادیان کی احمدی خواتین نے اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر حضور نے فرمایا کہ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے.اور بار بار جماعت کے سامنے لایا جائے انہوں نے بے نظیر قربانی اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل آئی ہیں.۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم معطل سی رہی.مگر جونہی حالات کچھ سدھرنے لگے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھوں جماعت کا نیا مرکز ربوہ تعمیر ہونا شروع ہوا تو لجنہ کی دینی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں.چنانچہ ۱۹۵۰ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی تحریک وقف زندگی پر مستورات نے لبیک کہا.۱۹۵۱ء میں لجنہ اماءاللہ مرکز بیہ کا دفتر بنا.۱۹۵۵ء میں ان کے چندوں سے ہالینڈ کی مسجد تعمیر ہوئی.9 دسمبر ۱۹۵۷ء کو فضل عمر جونیئر ماڈل سکول کا اجراء ہوا جو حضرت سیدہ امتہ المتین کی ذاتی نگرانی اور دلچپسی کے باعث آٹھویں جماعت تک ترقی کر گیا ہے.اس سکول کے علاوہ گھٹیالیاں ، ہلال پور اور چک منگلا میں بھی سکول جاری ہو چکے ہیں.یہ اجمالی خاکہ ہے ان خدمات کا جو لجنہ اماء اللہ نے انجام دی ہیں.لجنہ کی تحریک اب عالمگیر تنظیم بن چکی ہے.جس کی شاخیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں ہیں بلکہ کینیا یوگنڈا ٹانگا نیکا- نمانا.نائیجیریا.ماریشس - ساؤتھ افریقہ - امریکہ.لنڈن اور انڈونیشیا تک بھی پھیلی ہوئی ہیں.اور اس کے کام کی وسعت روز بروز بڑھتی جارہی ہے لجنہ اماء اللہ نے غیروں پر بھی اپنی غیر معمولی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا

Page 346

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 310 خلافت دیا ہے اس سلسلہ میں ہم دو اقتباسات تحریر کر کے آگے چلیں گے.- مولوی عبد المجید صاحب قرشی ایڈیٹر اخبار تنظیم امرت سرنے لکھا ” لجنہ اماءاللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام احمد یہ خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے عورتوں کا ایمان احمدیہ مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں.لجنہ اماءاللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہو نگی اور احمد یہ عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا." ایک کٹر آریہ سماجی اخبار ” تیج" (۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء) نے رسالہ مصباح پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ” میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے اس کے مطالعہ سے انہیں احمد کی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط نہی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں اور ان میں مذہبی احساس اور تبلیغی جوش کس قدر ہے ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ با قاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ احمدی عورتیں ہندوستان افریقہ عرب مصر یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں.ان کا مذ ہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید نگاری کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع کر دیا." ۲۴۰ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ ء کی تقاریر میں جماعت احمدیہ کو نجات اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد مسئلہ نجات پر روشنی ڈالی اور اس کے مختلف اہم پہلوؤں کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا اگلے سال ۱۹۲۳ء کے سالانہ جلسہ پر بھی حضور نے اسی مضمون کا دوسرا حصہ بیان فرمایا جس میں مسئلہ کفارہ کے دلائل اور تفصیلات غیر معمولی وسعت اور

Page 347

تاریخ احمد بیت - جلد - 311 خلافت عثمانیہ کا نواں سال انتہائی باریک نظری سے پیش فرمائے ان کا تجزیہ کر کے اس مسئلہ کا بے بنیاد ہونا ثابت کیا.پہلا نجات " ہی کے نام سے چھپ چکا ہے مگر دوسرا ابھی تک غیر مطبوعہ ہے.1ء کے متفرق مگر اہم واقعات از حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا ۱۹۲۲ء مبشرا م صاحب پیدا ہوئے.۲ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حفظ قرآن کی تکمیل کرلی.آپ کے حفظ قرآن کی تاریخ " حافظ قرآن " نکلی.مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی ، مولوی ظهور حسین صاحب مولوی محمد شهزاده خان صاحب اور مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی نے مبلغین کلاس کا امتحان فزیالوجی.ہدایات زریں " پاس کیا.-۴- حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوائی اور حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کا ۱۲۴۴ انتقال ہوا.۵- پشاور کے علاقہ جہانگیر پورہ محلہ گل بادشاہ میں احمدیہ مسجد تعمیر ہوئی.جس میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب (مردان) کی کو ششوں کا بہت دخل تھا.- قادیان سے ایک انگریزی اخبار " البشری " کے نام سے ۲۰ مئی ۱۹۲۲ء کو جاری ہوا.جس کے ایڈیٹر اور مینجر چودھری غلام محمد صاحب بی.اے سیالکوئی مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول تھے.البشری جو دستی پریس پر چھپتا تھا کچھ مدت چل کر بند ہو گیا.۷- وسط ۱۹۲۲ء میں ذوالفقار علی خان صاحب (ایڈیشنل سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) نے وائسرائے ہند کی خدمت میں لکھا کہ رمضان میں مسلمان قیدیوں کو مشقت سے مستثنیٰ کیا جائے یا برائے نام مشقت لی جائے اور نماز تراویح کے لئے قرآن مہیا کئے جائیں.اس درخواست پر سب سے پہلے جس صوبہ نے مسلمان قیدیوں کے لئے اس نوع کی سہولت مہیا کرنے کا اعلان کیا وہ صوبہ بہار تھا.TMA حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے میاں عبد السلام صاحب عمر کا نکاح چودھری ابو الہاشم خاں صاحب ایم.اے کی دختر محمودہ صاحبہ کے ہمراہ پڑھا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں تقاریر کی مشق کے لئے ایک انجمن قائم ہوئی جس کے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور سیکرٹری سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مقرر ہوئے.

Page 348

تاریخ احمدیت جلد ۴ 312 خلافت ثانیہ کار ۱۰- مدرسہ احمدیہ میں حافظ کلاس کھولی گئی.مشہور مبائے مباحثہ نوشہرہ ( مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ گیان بھکشو کے For درمیان ہوا.مباحثہ دہلی ( حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری اور پادری احمد مسیح کے ! For From درمیان) مباحثہ لاہور O (بابو عبید اللہ صاحب احمدی اور پادری چنن خاں کے درمیان) مباحثہ امرت سر ( آریوں سے ہوا.احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب اور مولانا جلال الدین شمس تھے )

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 313 خلافت ثانیہ کانواں سال حواشی فصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم ( طبع سوم) صفحه ۷ ۲۴-۲۵۰ ۲ پیروز لیکچرز صفحه ۴۲ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۰ صفحه ۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی صفحہ ۱۰ مرتبہ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی مطبوعہ ۱۹۴۶ء طبع اول الفضل مئی ۱۹۲۰ء صفحه ۱۲ ۲۸ جون ۱۹۲۰ء صفحه ۱-۲- ه الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱۲ -16 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی.صفحہ اہ الفضل ۱۴ جون ۱۹۲۰ء صفحه ۴ اس عمارت کو بعد میں مسجد کی شکل دے دی گئی اور اب یہ مسجد شکاگو کے نام سے مشہور ہے.الفضل ۱۴/۷ سمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۷۴ رپورٹ سالانه ۱۹۳۲۰۳۵ء صفحه ۴۵۰۴۴ ۱ - الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۴ ۱۳ پنور ا ما ۳ جنوری ۱۹۵۲ء صفحه ۸ ۱۴ ریڈرزڈائجسٹ امریکن ایڈیشن) ستمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۲-۵۳ بحوالہ انصار الله د سمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۲-۴۳ جوال انصارالله میر۱۹۲۳ صلح -۱۵ تنظیم ۲۸ دسمبر ۱۹۲۶ صفحه ۵-۶ بحواله تاثرات قادیان الفضل ۱۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحه ۱۷ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحه ! الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحه ۴۰۳ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۵-۶ ۲۰ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۷ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحه ۸ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۳.قیام لاہور کے دوران میں حضور نے کئی لوگوں مثلا مسٹر رچرڈ پر نسپل اسلامیہ کالج لاہور کو ملاقات کا موقع دیا اور دینی مسائل پر ان سے گفتگو فرمائی (الفضل ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء صفحه ۲) ۲۳- الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱ ۲۴ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱ ۲۵ - الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۲ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱۰۸ الفضل ۱/۱۴ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲.ان میں سے ایک حضرت مولوی عبد المغنی صاحب اور دوسرے بابو عبد الحمید صاحب آیا بینم ریلوے.۳۸ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱۱-۱۳ ۲۹ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۷ء صفحه ۱۲

Page 350

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۳۰ الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۰ء صفحه) الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۲۶ 314 خلافت ماشیه کانواں سال ۳۲ حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے کے لئے خود قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب الله (جو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے) کی خدمت میں آپ کو لیکر حاضر ہوئے چنانچہ آپ نے ان کو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل کر دیا.۳۳- الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ج ۳۴ الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء صفحه ۴ ۳۵ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۴ ۳۶ مفصل معاہدہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۰ء صفحہ ۸-۹ ۳۷- الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحه ا ۳۸.یہ دونوں جماعتیں 1919ء میں معرض وجود میں آئی تھیں ان کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مرزا محمد دہلوی اپنی کتاب مسلمانان ہند کی حیات سیاسی میں مفصل لکھتے ہیں.ہندوؤں کو نئی حکومت کے زیر سایہ اپنی مضبوط قومی تعمیر کے لئے ملک پر زیادہ سے زیادہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش تھی اور اسی کے لئے انہوں نے جدوجہد شروع کر دی مسلمانوں کا پر جوش طبقہ جو پہلے ہی جذبات سے مغلوب ہو رہا تھا.یہ سمجھا کہ یہ آزادی کی جنگ ہے بلا کسی شرط کے اس جدوجہد میں ہندوؤں کے ساتھ ہو گیا.ہندوؤں نے اس نئی طاقت کا خیر مقدم کیا اور بڑے سلیقہ سے اپنے مقصد کے آلہ کار بنالیا.خلافت کمیٹی کا نگریس کا ایک جزو بن گئی تھی اور جمعیۃ العلماء کی حیثیت ان دونوں جماعتوں کے مذہبی نقیب کی سی تھی کا جگریں کوئی نئی تحریک وضع کرتی خلافت کمیٹی اس پر عمل کرنے کو میدان میں اتر آتی اور جمعیتہ العلماء اس تحریک کو قرآن و احادیث کے مطابق ثابت کر کے نا تات کیا کرتی ( صفحه ۱۰۴، ۱۱۴۱۰۵) اس حقیقت کی روشنی میں یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ تحریک خلافت کے اصل خدو خال کیا تھے ؟ جناب ابو الکلام آزاد جو خلافتی لیڈروں کے سرخیل تھے.خودہی انکشاف فرماتے ہیں کہ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگلا قدم کیا ہو.ایک میٹنگ ہوئی جس میں مسٹر شوکت علی.حکیم اجمل خاں اور مولوی عبد الباری فرنگی محل بھی شریک تھے گاندھی جی نے اپنا پروگرام ترک موالات سے متعلق پیش کیا.انہوں نے کہا کہ اب وفود اور عرضد اشتوں کے دن ختم ہو گئے.ہم کو حکومت کے ساتھ نصرت و اعانت کے تمام تعلقات منقطع کر دینے چاہیں.گاندھی جی نے میری طرف دیکھا میں نے ایک لمحے کی جھجک کے بغیر کہا کہ مجھے یہ پروگرام منظور ہے اگر لوگ واقعی ترکی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو گاندھی جی کے پروگرام کے علاوہ اور کوئی دوسرار استہ نہیں ہے کچھ ہفتوں کے بعد خلافت کانفرنس میرٹھ میں منعقد ہوئی اس کا نفرنس میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور سے گاندھی جی نے اعلانیہ پلک پلیٹ فارم سے ترک موالات کا پروگرام پیش کیا ان کی تقریر کے بعد میں نے ان کی مکمل تائید کی (انڈیا ونس فریڈم - صفحہ ۹ ۱۰ بحوالہ تقسیم ہند از عبدالوحید خاں صفحہ ۵۰-۵۲ ) نیز لکھتے ہیں جہاں تک اس تحریک کا تعلق ایک ملکی مسئلہ سے وہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کے خرک چند رفقا ، تھے.میں نام لوں گا مہاتما گاندھی کا.وہ تحریک کے اولین اور سب سے بڑے بزرگ تھے جنہوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا تھا.ایضاً صفحہ ۵۵.۳۹ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحه ا الفضل سے جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۳-۸ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر دیا گیا تھا.ام الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۲۰ء صفحه ۸ ۴۲ الفضل ۲ اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۲۷۱ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحه) ۴۳ - الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحه ۲ ۴۴- الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰، اس نمبر میں سب حضرات کی نظمیں چھپ گئی تھیں.۴۵ الواح الله منی (شائع کردہ مولوی محمد عنایت الله صاحب تاجر کتب قادیان)

Page 351

تاریخ احمدیت جلد ۴ 315 خلافت ثانیه کانواں سال ملاحظہ ہو سرورق ۴ سیرت خاتم النبین حصہ دوم طبع اول ۴۷ سیرت خاتم النبیین حصہ اول طبع دوم ( سرورق) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا عبد المجید صاحب سالک کی کتاب سرگزشت صفحہ ۱۶-۱۱۷ ۴۹ ترک موالات اور احکام اسلام طبع اول صفحه ۸۵-۸۷ ۵۰ اخبار اتفاق و ذو الفقار بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۳۹-۱۴۰ ( از سید طفیل محمد شاہ صاحب) بخاری صاحب اور دوسرے خلافتی لیڈروں نے جیل میں کیا کیا کارنامے انجام دیئے ان کی تفصیل سرگزشت صفحہ ۱۲۰-۱۶۷( از مولانا سالک) سوانح سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری (از شورش) صفحه ۶۵-۷۳ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ اے مظہ ہو بخاری صاحب نے بیرونی سنسر شپ سے بچنے کے لئے اپنا نام پنڈت کر پارام پر ہماری لکھنا شروع کر دیا تھا ( سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از شورش) صفحه ۷۳ مولوی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نظر بند تو نہیں ہوئے البتہ انہوں نے سیرت گاندھی پر ایک کتاب لکھی جو ضبط کرلی گئی.(نقوش آپ بیتی نمبر صفحه ۱۳۸۹) ال تقاریر مولانا ظفر علی خاں - صفحہ ۵۹-۷۱ ۵۲ تقاریر مولانا ظفر علی خاں صفحہ ۷۴ ۵۳ حیات محمد علی جناح صفحه ۱۰۸ دو سرا ایڈیشن صفحہ ۱۰۸ ۵۴ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۰۹ ۵۵ سرگزشت صفحہ 116 عامتہ المسلمین نے تو یوں اپنے ہاتھوں اپنا گھر بار تباہ و برباد کیا.مگر خلافتی لیڈروں نے یہ قربانی کی کہ وہ لاکھوں روپے جو مسلمانوں نے خلافت کی بحالی کے لئے چندہ میں دیئے تھے ہضم کر گئے چنانچہ جب مولانا محمد علی صاحب جیل سے رہا ہوئے تو خلافت کا خزانہ خالی ہو چکا تھا.(سیرت محمد علی صفحه ۴۷۹۰۳۷۸- از سید رئیس احمد صاحب جعفری ) طبع دوم ۱۹۵۰ء ۵۶ - تبرکات آزاد صفحه ۲۲۶-۲۲۷-(مولانا آزاد کے مکاتیب و مقالات کا مجموعہ مرتبہ جناب غلام رسول صاحب مهرا ۵۷ خود نوشت سوانح عمری مشمولہ " مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں صفحہ ۴۳.۵۸ بحوالہ تحریک اسلامی صفحه ۸۶- مرتبه خورشید احمد شائع کرده اداره چراغ راه کراچی ۵۹ ایضا صفحہ ۲۴۷ -Y+ الفضل ۱۹۰۵ اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۱ الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۰ء صفحه ۱ الفضل ۸/۹ فروری ۱۹۲۰ء صفحه ا ۶۲ - الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحه ۱ ریویو آف ش اردو - مارچ ۱۹۲۰ ، صفحه ۱۱۳ الحکم ۲۸ : نوری ۱۹۲۰ء صفحه ۳ ۱۵ - الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحه ۸ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۴۰ء صفحه ۱۱ ۶۷ - الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۸ ۱۸ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحه ۷ ۶۹ - الحکم ۱۴ اکتوبر ۶۱۹۲۰ صفحه ۲-۳- ۷۰ الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۲۰ء صفحه ۳ ا مطبوعہ ہے.۷۲ الفضل ۳۱ جون ۱۹۲۱ء صفحه ۶ ۷۳ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالی نے مشاورت ۱۹۴۲ء میں اپنی جماعت کے ہندومت اور سکھ مذہب کے فاضلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ماشہ محمد عمر صاحب کے قادیان آنے کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا " ہند و علوم اور لٹریچر کے کئی لوگ ہمارے پاس موجود

Page 352

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 316 خلافت ثانیه کانواں سال ہیں.مولوی عبد اللہ ناصر الدین صاحب ہیں جو دید بھی پڑھے ہوئے اور اعلیٰ ڈگری حاصل کر چکے ہیں.سکھوں کے متعلق واقفیت رکھنے والے کئی لوگ ہیں گیانی عباداللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب اور ان کے علاوہ سردار محمد یوسف صاحب جو سکھوں کی کتب اور لٹریچر کے پرانے ماہر ہیں اور خداتعالی کے فضل سے دیر سے بہت مفید کام کر رہے ہیں غالب ۱۹۲۲ء کی بات ہے کہ مہاشہ محمد عمر صاحب ہندو طالبعلموں کی ایک پارٹی کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے گورو کل کانگڑی کے ایک پروفیسر صاحب یہاں ایک جلسہ پر آئے تھے اور اپنی بہادری دکھانے کے لئے آئے کہ دیکھو میں کیسی اچھی تقریر کرتا ہوں طالب علموں کی ایک پارٹی کو بھی ساتھ لے آئے.انہوں نے طلبہ کو مجھ سے ملنے کو بھی بھیجا.اس وقت مہاشہ محمد عمر بھی ان کے ساتھ تھے میں نے طالب علموں سے کہا پروفیسر صاحب سے کہو کہ آپ اپنے چند طالب علم یہاں بھیج دیں میں خود ان کو قرآن پڑھاؤں گا اسی طرح میں چند طالبعلم بھیجتا ہوں جن کو وہ دید پڑھائیں.خرچ اپنے طالب علموں کا بھی اور ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کا بھی میں ہی دونگا.اگر قرآن کریم میں تاثیر ہوگی تو ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کو میں مسلمان کر لوں گا اور اگر دیدوں میں تاثیر ہوگی تو ہمارے طالب علموں کو وہ ہندو کر سکیں گے.اور یہ ہم دونوں کا انعام ہو گا.مگر انہوں نے اس تجویز کو نہ مانا.ماشہ محمد عمر صاحب بھی اس پارٹی میں تھے ان کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ چند دنوں کے بعد بھاگ کر یہاں آگئے انہوں نے گو جوانی یہاں گزاری ہے مگر بچپن میں وہ ہندوؤں میں رہے ہیں اور وہیں پڑھتے رہے ہیں اس لئے ان کا لب ولہجہ ہندوانہ ہے ان کے علاوہ معاشہ فضل حسین صاحب ہیں وہ شاید سنسکرت تو نہیں جانتے مگر ہندو لٹریچر سے اچھے واقف ہیں".(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صفحہ ۷۴.تفصیل کے لئے دیکھیں "ہدایات زریں" ۷۵- حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرب الكعبة ذو السويقتين من الحبشة ( صحيح مسلم جلد دوم مصری صفحه ۳۱۹) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحه ۴-۵ ۷۷.الفضل سے مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ؟ ۷۸ - الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحه ۲ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۳۱ء صفحہ ۷۰۶.مسٹر خیر الدین صاحب عرصہ سے سلسلہ کانٹریچر مطالعہ کر رہے تھے اب حضرت نیر صاحب کی آمد پر انہوں نے بیعت کرلی اس طرح سیرالیون میں احمدیت کا بیج بویا گیا.سیرالیون کا سولہ سال بعد مستقل دار التبلیغ ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا جس کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں.۰۸۰ الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحه ۱-۲ الفضل ۱۹ متی ۱۹۲۱ء ابتداء میں جب مغربی افریقہ کے بعض مسلمانوں نے حضرت نیر صاحب سے ملاقات کی تو کہا کہ آج تک لوگ ہم پر ہنتے تھے کہ سفید آدمی مسلمان نہیں ہوتے الحمد للہ کہ اب سفید آدمی مبلغ اسلام ہو کر یہاں آگیا ہے (الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ ۲ ۰۸ بیست مہدی کی جائے رہائش کا مقام ۸۴- نائیجیریا کی دو قومیں اول اسلام میں داخل ہو کہیں ہو سا جو عرب مخلوط نسل سے ہیں.یو رہا جو حبشی النسل ہیں ہو ساتھ امت پسند مسلمان ہیں اور یو رہا مہذب اور تجارت سے مشغل رکھتے ہیں.۸۵- اس زمانہ میں سیرالیون گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ایک بھی مسلمانوں کا ایسا مدرسہ نہیں تھا جس میں جدید طرز کی تعلیم دی جاتی ہو.مسلمانوں کے جو بچے ذرا انگریزی پڑھ لیتے وہ عیسائی ہو جاتے تھے.الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۱ صفحه ۲۰۳ ۸۷- افریقہ میں جماعت احمدیہ کو عیسائیت کے مقابل شاندار فتوحات کی خبر پڑھ کر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضرت خلیفہ مانی کی خدمت میں مخط لکھا کہ بے اختیار زبان سے الحمد للہ نکلا.افریقہ میں عیسائیت کے مقابلہ میں مرزائیت کی فتح یقینا ہر مسلمان کو اچھی معلوم ہوگی بشر طیکہ وہ حاصل مقصد کو سمجھتا ہو میں آپ کے عقیدہ کا اب تک دل سے مخالف ہوں مگر امریکہ یورپ i

Page 353

317 تاریخ احمدیت.جلد ۴ خلافت مهمانیه کانواں سال اور افریقہ میں آپ کے آدمیوں کے ذریعہ جو کچھ کام ہو رہا ہے اس کا اعتراف کرنا اور اس کے نتائج سے مسرور ہونالازمی سمجھتا ہوں اللہ تعالی جل شانہ اپنے دین کا اس سے زیادہ بول بالا کرے.(الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۹) ۸۸ - الفضل ۱۲/۹ جون ۱۹۲۱ء صفحه ۵- ۸۹ - الفضل ۸ اگست ۱۹۲۱ء صفحه ۳-.4.یہ لوگ پنجاب کے چکڑالوی نہیں ان کا دوسرے مقامی مسلمانوں سے اختلاف صرف یہ تھا کہ تفسیر جلالین قرآن پر مقدم نہیں ہے.الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۷ ۹۲- حضرت خلیفہ ثانی نے نیر صاحب کو افریقہ میں بیعت لینے کی اجازت دی تھی (الفضل ۲۳ جون ۱۹۳۱ء صفحه ۷) الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۹۴ - الفضل ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء صفحه ۴ ۹۵ - الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۹۶- الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۹۷- الفضل ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۹۸- الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۲ء صفحه ۷۲ ۹۹ - الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۱-۲ ۱۰۰- الفضل ۶ نومبر ۱۹۲۲ء صفحه ۲ ۱۶ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹-۱۲ اس مدرسہ کی مستقل عمارت کا افتتاح ۱۹۲۸ ء میں ہوا.اس تقریب پر مسٹر ہنری کار MR HENRY CARR پہلے نائیجیرین ریذیڈنٹ نے نائیجیریا میں مسلمانوں کی تعلیم کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا نائیجیریا کے مسلمانوں نے ڈاکٹر ای.ڈبلیو بلائڈن کے مشورہ پر ۱۸۹۶ء میں لیگوس محمڈن سکول جاری کیا جسے نائیجیرین مسلمان حکومت کی امداد اور سر پرستی کے باوجود زیادہ لیے عرصہ تک قائم نہ رکھ سکے.اور بالآخر حکومت کو کلی طور پر اپنی تحویل میں لینا پڑا تحویل میں لینے سے قبل حکومت نے مسلمانوں کو بار بار توجہ دلائی کہ وہ اسلامی سکول کھولنے کی کوشش کریں لیکن کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی حتی کہ ۱۹۲۲ء میں مسلمانوں کے احمدیہ فرقہ نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی تحریک پر تعلیم الاسلام سکول قائم کیا اس طرح صحیح معنوں میں یہاں سب سے پہلا مسلم سکول کھولنے کا فخر جماعت احمدیہ کو حاصل ہوا (ترجمہ) ( ریویو آف ریلیجز، انگریزی ۱۹۲۸ء صفحه ۲۱-۲۵) الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲ الفضل ۵ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۲۰۱ -۱۰۴ رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه ۳۲ ۱۹۳۳ء صفحه ۱۵۷ ۱۰۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۵۳-۱۵۳ ۱۰ رپورٹ سالانہ ۳۳-۱۹۳۲ء صفحه ۱۵۶ ۱۰۷ رپورٹ سالانه صد را انجمن احمدیه ۳۹-۱۹۳۸ء صفحه ۷۸ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہور پورٹ سالانہ ۳۷-۱۹۳۶ء صفحہ ۳۴-۳۶- رپورٹ سالانہ ۳۹-۱۹۳۸ء صفحه ۷۸-۸۶- 109 رپورٹ سالانہ ۳۸-۱۹۳۷ء صفحہ ۳۳ اس کی بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رکھی تھی.یہ لوگ جناب محمد بشیر صاحب شاد کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.۱۲- یہ تقریر آپ نے لیگوس کی احمد یہ مسجد میں کی تھی؟ جبکہ شمالی علاقہ کے لوکل چیف پہلی دفعہ نامی حصیرین پارلیمنٹ کے اجلاس میں شمولیت کے لئے لیگوس تشریف لائے تھے اور جماعت احمدیہ نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ اجلاس منعقد کیا تھا.

Page 354

تاریخ احمدیت جلد ۴ 318 خلافت ثانیه کانواں سال ۱۱۳ بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۳۶۷ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) ۱۱۴ بحوالہ اسلام کا نطلبه ( از مولانا جلال الدین صاحب شمس صفحه ۵۳۰۵۳ ايضا ۱۱۲ بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۱۳ از جناب صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوه) روزنامه ڈلی ٹائمز ۲۳ فروری ۱۹۵۵ء (ترجمه) رسالہ لائف امریکہ ۱۸ اگست ۱۹۵۵ء ( ترجمه) ۱۱۸ اہل گولڈ کوسٹ نے ۱۹۶۰ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد اپنے ملک کا نام (غانا) رکھ لیا.11 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۵۱ ۲۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۷.۱۳۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء صفحه ۱۸۲-۱۸۳ ۱۳۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۸۲-۱۸۳ ۱۲۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۵۱ ۱۲۴ رپورٹ سالانه ۳۲-۱۹۳۳ء صفحه ۱۵۵-۱۵۷ ۱۳۵ رپورٹ سالانہ ۳۵-۱۹۳۶ء صفحہ ۳۵ ۱۲۹ رپورٹ سالانہ ۳۶-۱۹۳۷ء صفحہ ۴۱ - ۴۳ اسکی تکمیل مولوی نذیر احمد صاحب مہتر کے زمانہ میں ہوئی اور افتتاح ۲۷ جنوری ۱۹۴۱ء کو عمل میں آیا.۱۲۷- ايضا ۱۲۸ رپورٹ سالانه ۱۹۳۷۰۳۸ء صفحه ۳۴ الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۱ ۳۰.ملاحظہ ہو صفحہ ۱۳۱-۱۷۷ ۱۳۱ کرائسٹ آر محمد مؤلفہ ایس جی ولیم سن پر و فیسر یونیورسٹی کالج نانا، مطبوعہ غانا بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں.صفحہ ے ۱۳۲- افتتاحی ایڈریس تبلیغی نمائش بر موقع سالانہ کانفرنس کا نا۱۹۶۲ء ۱۳۴- کوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۱۲۲ از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اتبشیر تحریک جدید (ربوہ) ۱۳۴ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ ۱.خطبہ نکاح کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء ۳۵ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۱ ۱- الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۴-۵- زیادہ تفصیل کے لئے دیکھیں تابعین اصحاب احمد جلد سوم مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.قادیان ۱۳۷- الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۱۳۸ الفضل ۷ - ۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء (والد صاحب (صفحہ ۵۳-۵۴) از مولانا عبد الرحیم صاحب درد) ۱۳۹ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۲۱ء صفحه ۱-۱۴ اپریل ۱۹۲۱ء صفحه ۳ ۱۴۰ مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴-۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲ ۱۴۱ ۱۴۲- مولویوں نے اپنے جلسہ میں یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر مرزا صاحب بچے ہیں تو ان کی قبر کھود کر دکھائی جائے اگر وہ نبی ہیں تو ان کی لاش محفوظ ہوگی.حضور نے جواب دیا کہ قرآن وحدیث سے نبوت کے اس معیار کی تائید میں کوئی دلیل پیش کریں پھر ہزا رہا نبیوں کی قبریں دکھا کر اس کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیں اس کے بعد ہم ان کا مطالبہ پورا کر کے حضور کی سچائی ثابت کر دکھائیں گے.۱۳۳- الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۱ء صفحہ ۶ ۱۳۴- الفضل ۷ ۲ جوان ۱۹۲۱ء صفحه ا

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۱۳۵ الفضل ۳اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحه) ۱۳۹ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء صفحه ۱ ۱۴۷- الفضل ۵ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۰۱ ۱۳۸ آئینه صداقت صفحه ۲۰۳ ۱۴۹- الفضل ۱۰مارچ ۱۹۲۱ء صفحه ا ۱۵۰- ا حکم ۱۴فروری ۱۹۳۱ء صفحه ۲۰۱ ۱۵۱ الفضل سے جنوری ۱۹۲۱ء ۱۵۲- الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۱۵۳ الفضل ۳ فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۱ ۱۵۴- الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحه ۱ 319 خلافت ثانیه کانواں سال ۱۵۵- الفضل ۱۷ اکتو برا ۱۹۲ء صفحه ا ۱۵۶ مطبوعہ ہے (الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۳ ۱۵۷- آپ واقف زندگی تھے اور عہد یہ تھا کہ کوئی خرچ سلسلہ سے نہیں لیں گے اسلئے آپ کے والد حضرت شیخ یعقوب علی صاحبہ عرفانی نے ایک ہزار روپیہ نظارت دعوت و تبلیغ کو بھجوا دیا.( قادیان صفحه ۲۸۴ از شیخ محمود احمد عرفانی) ۱۵۸ - الحکم کے دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۶ ۱۵۹ ايضا ۱۲۰ نجات صفحه 1 ( لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سالانہ جلسه ۱۹۲۲ء اس اخبار کا پہلا پرچہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.۱۲- قادیان صفحه ۱۲۸۴ از محمود احمد صاحب غرقانی) آپ دوبارہ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۲ء تک مصر میں مقیم رہے اور "العالم الاسلامی" کے نام سے اخبار شائع کرتے رہے.۶۳.آپ نے ۱۹۶۳ء میں وفات پائی.۱۱۴ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مباحثہ پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا تھا مناظرہ تو خیر کا سر صلیب کے شاگرد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہونا ہی تھا مگر مجھے اس مناظرہ کی روداد پڑھنے سے حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس مختصر سے مناظرہ میں کتنا مواد بھر دی ہے یہ مناظرہ یقینا ان احمدی مبلغوں کے بہت کام آسکتا ہے جن کا مسیحی مشنریوں کے ساتھ سابقہ پڑتا ہے.(الفرقان دسمبر ۱۹۶۱ء) ۱۶۵ مکرم مولانا ابو العطاء صاحب کی روانگی از قاریان ۱۳ اگست واپسی قادیان ۲۴ فروری ۱۹۳۶ء) ۱۷۶ یه کتاب در اصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو الاستاذ کر بلی نے ۱۹۳۵ء میں مقتطف الہلال اور لغت العرب و غیرہ مصری اخبارات میں تحریر کیئے.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۳.۱۲.طلبہ کے نام ایوب ملی قرانیا اور میں امیشنی تھی.ملاحظہ : ورسالة الاحمدية كما عرفناها ۱۹۸ ہفتہ وار رسالہ (الرسانته والرواية ) نمبر ۳۶۲ بابت ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۶۱ھ مطابق ۱۹۴۲ جلد ۱۰ نمبر ۳۶۳ یہ رسالہ مصر کے مسلمہ اديب الاستاذ احمد حسن الریات کی ادارت میں لکھتا تھا.۱۹۹ الفتاوی کی اشاعت کے بعد علامہ شلتوت نے جامعہ ازہر کے علمی ترجمان "مجمعہ الازہر فروری ۱۹۶۰ء کے انگریزی حصہ میں دوبارہ عقیدہ وفات مسیح کا اعلان کیا.۱۷۰- الفتاوی صفحه ۵۸ ( شائع کرده الادارة العامة للثقافة الاسلامیہ بالازہر مطبوعہ جمادی الآخر ۱۳۷۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۹ء نشر و اشاعت نظارت اصلاح دار شاد نے اس صفحہ کا عکس پمفلٹ کی صورت میں الگ بھی شائع کر دیا ہے.۱۷۱.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مقدمتہ اصلی والتبصرة لمن برای صفحه ۲۲ تا ۲۷ مطبوعہ فلسطین شائع کردہ چوہدری محمد شریف صاحب

Page 356

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 320 خلافت ثانیہ کا نواں سال سابق مبلغ بلاد عربیہ ایضا "رسالہ " کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں - صفحہ ۱۳-۱۴ مرتبه شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلاد عربیه) ۱۷- الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۶۱ء صفحه ۳-۴ اس موقعہ پر علامہ شکوت نے شیخ نور احمد صاحب منیر کو اپنی تین اہم تصانیف بطور ہدیہ دیں جن کے نام یہ ہیں.تو جیمات الاسلام عقیدۃ وشریعہ - الفتاوی.شیخ الجامعہ نے ان میں سے ہر کتاب پر اپنے دستخط سے عبارت لکھی هدية دينية علمية الى اخر فى الله السيد نور احمد منير من اء باكستان مع خالص التحيات.۱۷- علماء مصر و عرب کے فتاوی کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں مرتبہ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیه ۱۷۴- طبع اول ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۱ء مطبوعہ مطبع دار الجهاد ۴ شارع الجمهوریه ناشر مکتبہ دار العمرد به شارع الجمهوريه القاهره ۱۷۵ - الفتح قاہرہ (مصری) صفحه ۳۱۵-۲۰ جمادی الآخر و ۱۳۵۱ ( بحوالہ الفرقان فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ۱۷ اخبار الفتح سے اجمادی الآخر ۱۳۵۸ھ مطابق اگست ۱۹۳۹ء بحوالہ (البشرئی) فلسطین جلده ۷۷ مقدم الذکر دو اصحاب قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے آئے تھے اور باقی ربوہ میں.-۱۷۸ الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے علاوہ سردار نذر حسین صاحب ، مرزا گل محمد صاحب اور چوہدری فضل احمد صاحب بھی افسر تھے جن کا درجہ سیکنڈ لفٹنٹ کا تھا مرزا گل محمد صاحب اسٹنٹ ایجوٹنٹ بٹالین بھی تھے (الفضل ۸ مارچ ۱۹۲۳ء صلحه ۲ رپورٹ سالانه ۳۸-۱۹۳۸م مسلح ۳۳۸ ۱۸۰ تعلیم الاسلام میگزین جلد ۲ نمبر ۳ صفحه ۱۰- سالنامه (۱۹۳۱م) صوبیدار عبد المنان صاحب (حال افسر حفاظت خاص ربوہ) کا بیان ہے کہ ۱۹۲۵ ء کے قریب اس کمپنی کا الحاق انبالہ چھاؤنی کی ۱۵ پنجاب رجمنٹ سے ہو گیا او را ۱۱-۱۵ پنجاب رجمنٹ کا نمبر دیا گیا حضرت میاں صاحب جوانوں کی اعلیٰ ٹریننگ اور نشانہ بازی کے مقابلوں میں شرکت کے لئے میرٹھ چھاؤنی تشریف لے جاتے اور ہمیشہ اول آیا کرتے تھے اس طرح آپ کی حسن تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ احمد یہ ٹریٹوریل کمپنی نے ٹالین اور بریگیڈ کی سالانہ کھیلوں کے مقابلہ میں کثرت سے انعام جیت کر انبالہ چھاؤنی میں ایک ریکارڈ قائم کر دیا تھا.Al - الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ سے ۱۸۲- اس کتاب کا انگریزی ترجمہ آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحب اسے چھپوانے کے لئے خود بھی تشریف لے گئے (الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۰) چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے ۱۹۴۳ء میں اس کا عربی ترجمہ بھی کہا پی ( فلسطین) سے شائع کیا.۱۸۳- الفضل ۹ جنوری ۱۹۲۲ء صفحه ۹ ۱۸۴- ملاحظہ ہو تحفہ شہزاد و ریلیز ۱۸۵ تحفه شهزاده ویلز - اردو صفحه ۱۴۲-۱۴۳ ( طبع اول) ۱۸۶.ملاحظہ ہو تحفه شهزاده و بیزار دو انگریزی طبع دوم ۱۸۷- ذو الفقار ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء ( بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷).۱۸۸.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۲۷ ۱۸۹ بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۰۷ 140 بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۳۸۳ از سید طفیل محمد شاہ صاحب مرحوم) 191 - الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۵ ۱۹۲ نجات صفحه ۵ لیکچر حضرت خلیفہ ثانی ۱۹۲۳ء) ١٩٣ الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۸ ۱۹- الفضل ۲۷۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحه ۱ -۱۹۵ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۳.اس سفر میں حضور کا قیام چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کی کوٹھی پر تھا الفضل

Page 357

تاریخ احمدیت جلد ۴ 321 ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ) اور چوہدری صاحب ہی نے حضور اور حضور کے خدام کی مہمان نوازی کا انتظام کیا الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحه ۲) ١٩٦ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۳۲ء صفحه ۱۵ ۱۹۷- الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۲ -192 ۱۹۸ - الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحه ا ۱۹۹ الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۲۳ء و الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۳ ۲۰۰ - الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۵ ۲۰۱ ۱۹۴۷ء تک مجلس مشاورت کا انعقاد اسی ہال میں ہو تا رہا.اس کے بعد ۱۹۴۸ء کی مجلس شوری رتن باغ لاہور میں ہوئی ۱۹۴۹ء میں اس کا اجر اور بوہ میں ہوا.ربوہ کی یہ پہلی شوری چند گھنٹوں کے لئے منعقد ہوئی اور اس میں صرف بجٹ پیش ہوا.۵۱-۱۹۵۰ء کی شوری جامعہ المبشرین کی خام عمارت کے احاطہ میں ہوئی ۱۹۵۳ء سے اس کے اجلاس دفتر لجنہ اماءاللہ کے ہال میں ہونے لگے.۲۰۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۳۰۸- ان بنیادی ہدایات کے علاوہ حضور نے نمائندوں کی راہنمائی کے لئے بکثرت اور ارشادات فرمائے جو مشاورت کی رپورٹوں میں محفوظ ہیں.۲۰۳.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۲۰- ۲۰۴، ايضا صفحه ۲۸۰۴۷ ۲۰۵.ایضا صفحه ۵۴۰۵۳ ۲۰۶- ایضا صفحه ۵۹ ۲۰۷.رپورٹ مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۶۰ ۲۰۸ - ایضاً صفحه ۶۰ ۲۰۹ ایضا صفحه ۶۲ ۲۱۰.یاد رہے کہ ۱۹۵۴ ء اور ۱۹۵۵ء میں حضور نے اپنی بیماری کے باعث مرزا عبد الحق صاحب ایڈوکیٹ (امیر صوبائی) کو صدارت کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.۱۹۶۰ء کے وسطی اجلاس کی صدارت حضور کی ہدایت پر شیخ بشیر احمد صاحب (سابق حج ہائیکورٹ لاہور) نے کی.اسی طرح ۱۹۶۱ء ۱۹۶۳ء اور ۱۹۶۳ء میں حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مجلس شوری کے لئے صدر نامزد فرمایا.اور ۱۹۶۴ میں حضور کے حکم سے شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور کی صدارت میں شوری کا انعقاد ہوا.۱۹۴۶ سے ۱۹۴۹ء تک کی رپورٹیں غیر مطبوعہ میں چھپی ہوئی رپورٹوں کے ضبط تحریر میں لانے کا کام جن اصحاب نے کیا ہے ان میں خواجہ غلام نبی صاحب بلا نوی ایڈیٹر الفضل اور مولانامحمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۰۲۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۵- ۲۱۲.یہاں شوری کے متفرق کو ائف درج کرنا ضروری ہے.(۱) ۱۹۲۶ء کی شوری کے ساتھ ایک تبلیغی نمائش بھی منعقد ہوئی.(۲) ابتداء میں صدر انجمن کی نظارتوں کی رپورٹیں بھی مشاورت میں بنائی جاتی تھیں.مگر کار روائی کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے ۱۹۳۰ء میں یہ سلسلہ بند کر دیا گیا.(۳) ۱۹۳۰ء میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے حضور نے یہ فیصلہ فرمایا کہ لبنات اپنی آراء پرائیویٹ سیکرٹری کو بھجوا دیا کریں میں ان امور کا فیصلہ دیتے ہوئے ان کو بھی مد نظر رکھ لوں گا.(۴)۱۹۴۱ء میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ شوری میں لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ایک نمائندہ شامل ہوا کرے چنانچہ آج تک اس پر عمل ہوتا ہے بجہ کے سب سے پہلے نمائندے جو ۱۹۴۲ء میں مقرر ہوئے بابو عبد الحمید صاحب آؤیٹر تھے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر ۱۹۴۷ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے انکے بعد میاں غلام مهم ماحب اختر مولوی غلام باری صاحب سیف اور مولوی محمد احمد صاحب جلیل کو بھی شوری میں نمائندگی کا موقعہ ملا.۲۱۳.ملاحظہ ہو ر پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۵.

Page 358

تاریخ احمدیت جلد ۴ 322 خلافت ثانیه کانواں سال ۲۱۴ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۳-۱۳۷۴ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے) ۲۱۵ - الفضل 11 جنوری ۱۹۲۴ء صفحه ۹ ۲۱۶- گیائی صاحب موصوف جو ۱۹۲۸ء سے اس وقت تک سلسلہ کی تقریری و تحریری خدمات میں مصروف ہیں.۱۹۲۶ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے.۲۱۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۲۰۱-۲۰۴ ۲۱۸- "جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صلح ۵۲ از حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) ۱۹ - الفضل ۲ مئی ۱۹۲۲ء صفحه ۱ -۲۲۰ الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۲۸٬۲/ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۰۵ ۲۲۱ الفضل ۶ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۰۸۰۶ -۲۲۲ - وکالت تبشیر تحریک جدید کی طرف سے تبلیغ ہدایت کا فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور مناسب وقت میں شائع کر دیا جائے گا.۲۲۳.بعد کے ایڈیشنوں میں کئی مقامات پر آپ کے قلم سے اضافہ و ترمیم ہوئی.۲۲۴.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۷.۲۲۵ الفضلی اجنوری ۱۹۲۳ء صفحہ 4 لجنہ کا نام حضوری کا تجویز فرمودہ ہے (الفضل ۸ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۶) ۲۲۶ الازبار لذوات الخمار صفحه ۶۸-۷۲ ) مرتبہ حضرت سیده ام متین صاحبه من اشاعت اپریل ۱۹۴۶ء ۲۲۷- الفضل الجنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹ ۲۲۸.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۸- ٢٢٩ الفضل ۸ فروری ۱۹۶۳ء صفحه ۶ ۲۳۰ الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۹۵ء صفحہ ۳- ایضاً مصباح یکم جون ۷ ۱۹۲ء صفحہ ۱.اس مدرسہ میں مولوی ارجمند خاں صاحب کو منطق پڑھانے اور ماسٹر محمد طفیل خان صاحب کو تاریخ و جغرافیہ پڑھانے اور ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب کو حفظان صحت پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا.ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان ہے کہ پردہ کے پیچھے کھڑے ہو کر ہم لیکچر دیا کرتے تھے.مکان غالبا حضرت سارہ بیگم صاحبہ والا چوبارہ تھا.جو مسجد مبارک کی گلی کے اوپر چھت پر ہے.اس مدرسہ میں حضور کی بیگمات بھی طالبات کی حیثیت سے شامل ہوتی تھیں.-۲۳۱ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۶ مصباح ابتداء حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی ادارت میں نکلتا تھا.ان کے بعد مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر ایک عرصہ تک ایڈیٹر رہے.۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۱ء تک امتہ اللہ خورشید صاحبہ (بنت مولانا ابو العطاء صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ) کی زیر ادارت نکلتا رہا.اور اب ان کی وفات کے بعد امتہ الرشید شوکت صاحبہ (الملیه جناب ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ ) اس کی مدیرہ ہیں.۲۳۲- لائبریری کی تجویز ۱۹۲۴ء میں حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات کے بعد ہوئی.۱۹۲۵ء میں لجنہ اماءاللہ کی پر جوش کار کن حضرت ام و اور صاحبہ کی تحریک پر لائبریری کی مستمہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ تجویز ہو ئیں.اور حضرت ام المومنین نے کتا بیں رکھنے کے لئے ایک الماری مستعار عنایت فرمائی.۱۳۰ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو مرکزی لجنہ نے فیصلہ کیا کہ لائبریری کے جمع شدہ فنڈ سے کتابیں خریدی جائیں.ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی.(ملاحظہ ہو حضرت ام طاہر صاحبہ کا مضمون مطبوعہ " مصباح ۱۵ فروری ۱۹۳۰ء صفحه ۱۷۰۱۶) ۲۳۳- رپورٹ کارگزاری لجنہ اماء الله مرکزیه از یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء تا ستمبر ۱۹۶۱ء صفحه 11 ۲۳۴- مصباح یکم اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۲- ۲۳۵- مصباح ۱۵- اپریل ۱۹۳۸ء صفحه ۳- -٢٣٦- الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۴۴ء صفحه ۳ ۲۳۷- مصباح مارچ ۱۹۴۶ء صفحه ۱۷

Page 359

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 323 خلافت عثمانیہ کا نواں سال ۲۳۸.رپورٹ کارگزاری لجنات اماءاللہ یکم اکتوبر ۶۱۹۶۲ تا ۳۰ ستمبر ۱۹۹۳ء صفحه ۱۲-۰۲۵ ۲۳۹ - اخبار " تنظیم " امرتسر ۲۸- دسمبر ۱۹۲۶ء صفحه ۱۰۵ بحوالہ " تاثرات قادیان " صفحه ۱۷۳ ( از ملک فضل حسین صاحب طبع اول) ۲۲۰ بحوالہ تاثرات قادیان صفحه ۲۳۰-۲۳۱ ۲۳۱ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ ۲۴۲- الفضل -۲۴- اگست ۱۹۲۲ء صفحه ۱- ۲۴۳.الفضل ۲۰۱۷ اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۱ ۲۴۴- افضل ۹ فروری ۱۹۲۲ء صفحه ۲ ۲۴۵- الفضل -۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۸ ۲۴- الفضل -۲۲ مئی ۱۹۲۲ء صفحه ۱ ۲۴۷- الفضل ۱۳- جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۴.۲۴۸- چیر اخبار بحواله الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۲ء صفحه ۴ -۲۴۹ الفضل ۲ نومبر ۱۹۲۳ء میاں صاحب کی برات (جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب وغیرہ اکابر سلسلہ بھی شامل تھے ) ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء کلکتہ گئی تھی (الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱) ۲۵۰- الفضل ۱۳ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۱.۲۵ - الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء صفحه ۱ ۲۵۲ - الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۲.۲۵۲۳ - الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۲ء صفحه ۲- ۲۵۴.اسی سال ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کا دہلی میں ایک اہم مباحثہ مولوی عبد الحق صاحب ودیار تھی ( مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام) سے ہوا.(الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۸) ۲۵۵ - الفضل ۲۵/۲۸ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۱۲ ( یہ مباحثہ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی میں ہوا) ایضا الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحه ۴ ۲۵۶ الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۲۲ء صفحه ۱۰-۳دسمبر ۱۹۳۲ء صفحه ۰۸۰۷

Page 360

تاریخ احمدیت جلد ۴ 324 خلافت ثانیہ کا دسواں سال چوتھا باب (فصل اول) تحریک شدھی کے خلاف محاذ جنگ.مجاہدین احمدیت کے کار ہائے نمایاں اور اسلام کی شاندار فتوحات خلافت ثانیہ کا دسواں سال ) جنوری ۱۹۲۳ء تا دسمبر ۱۹۲۳ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۱ء تا جمادی الآخر ۱۳۴۲ ) شدھی تحریک کاپس منظر ہندوستان I میں اسلامی حکومت کی بنیاد تو فاتح سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں ۷۱۲ ء میں رکھی گئی.مگر اسلام کا پیغام اس برصغیر میں عرب تاجر اور سیاح برسوں پہلے پہنچا چکے تھے اور اس کی وسیع تبلیغ و اشاعت اکابر اولیاء و صوفیاء د صلحائے امت نے کی.ان بزرگوں کی اخلاقی قوت ان کے خوارق و کرامات اور ان کے زبر دست روحانی اثرات کی وجہ سے ہندوستان کی کئی بت پرست قومیں راجپوت جاٹ میواتی وغیرہ اس کثرت سے اسلام میں داخل ہو ئیں کہ ہر طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آنے لگے.مگر جیسا عظیم الشان یہ داخلہ تھا ویسے وسیع پیمانے پر اس کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا انتظام نہ ہو سکا.اور بعض ہندو قو میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بالکل ہی محروم رہیں.چونکہ وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوئی تھیں اس لئے اپنے آپ کو سمجھتی اور کہتی تو مسلمان ہی رہیں اور ہندو بھی انہیں مسلمان ہی خیال کرتے رہے لیکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان کہلانے کے سوا ان کا رہنا سہنا ، کھانا پینا بول چال، پہناوا پر تاؤ اور رسم و رواج سب ہندوانہ تھے.یہاں تک کہ نام بھی ہندوانہ کام بھی ہندوانہ اور ماحول بھی ہندوانہ.ان کے ہاں شادی کے موقعہ پر قاضی جی بھی بلائے جاتے تھے اور پنڈت جی بھی یہی حالت غمی کے موقع پر تھی.ان قوموں کے مردے دفن بھی کئے جاتے تھے اور جلائے بھی جاتے تھے.ان کے کئی دور اسی حالت میں گزر چکے تھے.وہ تو نا واقفی کی وجہ سے اپنی اس غیر اسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھیں.اور مسلمان اپنی غفلت و بے پروائی کے باعث اور ان قوموں کا

Page 361

شد - جمعه ۳ 325 خلافت ثانیہ کا دسواں سال ک تہائے مدید سے اس حالت پر قائم و برقرار رہنا بھی صرف اس لئے ہو سکا کہ یہ جہاں کہیں بھی تھیں سناتنی ہندوؤں میں گھری ہوئی تھیں.اور سناتی ہندو کسی غیر مذ ہب کو اپنے مذہب میں داخل و شامل کرنا خودند ہی احکام کی رو سے جائز نہیں سمجھتے.اور اس کے سخت مخالف تھے.اس لئے انہوں نے سودی کاروبار کے ذریعہ سے ان قوموں کا خون تو جہاں تک چوس ملا خوب چوسا.لیکن مذہبی لحاظ سے ان کے معاملات میں نہ کوئی مداخلت کر سکتے تھے اور نہ انہوں نے کوئی مداخلت کی.ہاں جب انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پنڈت دیانند سرسوتی کی کوشش سے سناتنی ہندوؤں کے خلاف ایک نیا فرقہ آریہ ظہور میں آیا تو وہ غیر مذاہب والوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لینے کا قائل اور اس کے لئے بڑا جوش و خروش رکھنے والا تھا.چنانچہ اس نے قوت پاتے ہی شدھی یعنی غیر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا.ایسے نئے تازہ دم اور جوشیلے فرقہ کی متجسس نظروں سے صدیوں پرانی ملکانہ راجپوت کہلانے والی قومیں کہاں مخفی رہ سکتی تھیں.جو یو - پی کے متعدد شہروں اور ان کے نواحی علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی تھیں.اس فرقہ نے کام تو ملکانے راجپوتوں میں بھی شروع کر دیا تھا.مگر بہت احتیاط بڑی ہوشیاری اور نہایت آہستہ روی سے وہ ان قوموں کو قابو میں لانے کے لئے سالہا سال تک دو حربے ان پر چلاتا رہا.پہلا یہ کہ مسلمان بادشاہوں نے اب سے صدیوں پہلے تمہارے دادون پر دادوں کو زبردستی ہندو دھرم سے الگ کر کے مسلمان بنا لیا تھا.لیکن اب تو کوئی زبر دستی کرنے والا نہیں ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جن کے بزرگوں سے جبرا ان کا دھرم چھڑوایا گیا تھا وہ اپنے بزرگوں کے دھرم میں نہ آجا ئیں؟ دو سرا حربہ مذہب اسلام کو بری سے بری اور بھیانک شکل میں دکھانا اور اس پر زیادہ سے زیادہ نفرت دلانے والے گھناؤنے الزام لگا نا تھا.یہ خطرناک حربے جن قوموں پر چلائے جا رہے تھے اسلامی تعلیم و تربیت تو ان کے ان بزرگوں کو بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی.جو اب سے پہلے کسی زمانے میں مسلمان ہوئے تھے.انہیں صرف اسلام قبول کرنے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان سمجھے جانے کا احساس تھا اور یہ ان کا سچا اور گھرا احساس ہی تھا جس نے باوجود اسلامی تعلیم حاصل نہ ہو سکنے کے انہیں بھی آخر دم تک اپنے حال پر قائم رکھا اور اس کے اثر سے ان کی کئی نسلیں بھی اپنے حال پر قائم و بر قرار رہتی ہوئی گزر گئیں.لیکن مرور زمانہ کے ساتھ یہ احساس بھی کم ہوتے ہوتے بہت کم رہ گیا اور انیسویں صدی کے آخر میں جب بالکل مٹ گیا یا مٹنے کے قریب ہو گیا.تو اب کون سی چیز ملکانہ راجپوتوں کو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں کی طرح اپنے حال پر قائم رکھ سکتی تھی ؟

Page 362

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 326 خلافت ماشیه کار سواں سال مسلمانوں نے نہ تو کبھی پہلے ان کی طرف توجہ کی تھی.اور نہ وہ اب اس کی ضرورت سمجھتے تھے آریوں نے میدان بالکل خالی پایا.اور اسلام کے خلاف برسوں زہریلا اثر ان میں پھیلایا.اور جب تمام علاقوں کی اچھی طرح دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کر کے اطمینان کر لیا.کہ ان کے دونوں حربے کارگر ثابت ہوئے ہیں.اور تمام مختلف علاقوں کے چھوٹے بڑے سارے میدان ہموار و صاف ہو چکے ہیں تو انہوں نے اپنے کام کو اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر پہنچانے کا پورا پورا عزم کر لیا اور صوبہ یو.پی کے اضلاع ہردوئی.شاہ جہان پور، فرخ آباد ، بدایوں، متھرا ایٹہ ، اٹاوہ، آگرہ، مین پوری، علی گڑھ اور ریاست ہائے جیسور اور بھرت پور اور ترداد غیرہ سب ان کے عزم بالجزم کی زد میں آگئے.اور شدھی کا سلسلہ بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام سے جاری ہو گیا.مسلمان علماء کا افسوسناک طریق عمل ان اضلاع اور ان کے ماحول میں بسنے والے علماء اور مسلمانوں کے مشہور ادارہ ندوۃ العلماء نے شدھی کی اس تحریک شدید کے مقابلہ و تدارک اور انسداد کی کوشش سے متعلق جس مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا.اس کی تفضیل علامہ شبلی کے شاگرد رشید و سیرت نگار مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہے.آپ اپنی کتاب ”حیات شبلی " میں رقم طراز ہیں.۱۹۰۸ء میں یک به یک یہ راز طشت از بام ہوا...ندوۃ العلماء نے اگر چہ ابتداء ہی سے اشاعت اسلام کو اپنے مقاصد میں داخل کیا تھا.تاہم اب تک اس نے عملی طور پر اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی.لیکن اب وہ حالت پیش آگئی کہ خاموش رہنا مشکل تھا.ندوہ کی مجلس اشاعت اسلام کے معتمد جناب مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی تھے.اور مولانا (شیلی) کے خیال میں وہ کام نہیں کر رہے تھے.اس لئے مولانا دو برس تک عجیب شش و پنج میں رہے...اس زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا.جن سے وہ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اس آگ میں کود پڑے.انہیں اطلاع ملی کہ شاہ جہانپور کے قریب ایک مسلمان زمیندار راجپوت مرتد ہوا چاہتا ہے یہ سننا تھا کہ وہ بے قرار ہو گئے مولانا (شیلی) نے اس واقعہ کا ذکر خود کیا ہے....فرماتے ہیں دو سال ہوئے کہ شاہ جہانپور سے ایک خط میرے نام سفید خاں سوداگر کا آیا کہ شاہ جہانپور سے آنٹھ کوس پر ایک گاؤں جمال پور ہے وہاں کے رئیس راجپوت جو مسلمان ہیں وہ ہندو ہونا چاہتے ہیں آریہ وہاں پہنچ گئے ہیں.ان کو ہندو کرنا چاہتے ہیں آپ جلد آئیے اور مدد کیجئے.انہوں نے اس کے ساتھ ہی دہلی کی انجمن ہدایت الاسلام کے مولانا عبد الحق حقانی کو لکھا وہ وہاں سے تشریف لائے تھے اور میں ندوہ سے گیا.جس

Page 363

تاریخ احمدیت جلد ۴ 327 خلافت ثانیہ کا دسواں سالی وقت میں یہاں سے چلاہوں میری جو حالت تھی یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں جئے کہ میں نے اس وقت کوئی گالی نہیں اٹھا رکھی تھی جو میں نے ان ندوہ والوں کو نہ سنائی ہوگی کہ اے بے حیاؤ اور اے کم بختو ! ڈوب مرد یہ واقعات پیش آئے ہیں.ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو یہی الفاظ میں نے اس وقت کے تھے اور آج بھی کہتا ہوں.اس وقت نہایت افسوس میں میں یہاں سے گیا تھا.وہاں جا کر میں نے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے لوگوں نے یہ بیان کیا کہ آریہ اس گاؤں میں آئے ہوئے ہیں اور وہ گاؤں کے نو مسلم راجپوتوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں.مسلمان علماء کو بلوایا گیا ہے ایک کوس پر خیمہ کھڑا کیا گیا ہے تین سو روپے کھانے میں صرف ہوئے ہیں.چندہ وغیرہ کیا گیا ہے.وہ نو مسلم بیچارے یہ کہتے تھے کہ مناظرہ جانتے نہیں.پڑھے لکھے نہیں.آپ ہمارے اس گاؤں میں آئے اور یہاں آکر ہم کو سمجھائیے جو باتیں ہمارے دل میں ہوں گی ہم آپ سے کہیں گے.آپ ان کا جواب دیجئے...اس پر ایک شخص بھی راضی نہ ہوا کہ گاؤں میں جائے.اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ لوگ خدانخواستہ فوجداری کریں گے یا ماریں گے کیونکہ پولیس اور تحصیل دار وہاں موجود تھے کہ امن و امان قائم رہے.میں نے بالآخر یہ کہا کہ بھائیو! مجھے تو پالکی میں ڈال کر وہاں لے چلو میں چلتا ہوں لیکن کوئی شخص نہیں لے گیا.غرض تین دن تک میں وہاں پڑا رہا.بالآخر ان لوگوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم ہندو ہیں.اس افسوس ناک واقعہ کے دو سال بعد علامہ شبلی نے " شدھی کے مقابلہ " اور اشاعت اسلام کی تجویز کے لئے ۶-۱۸۰۷ اپریل ۱۹۱۲ ء کا اجلاس لکھنو میں منعقد کیا.اس اجلاس میں علامہ شبلی کی دعوت پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ایدہ اللہ تعالیٰ اور خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی شرکت فرمائی.مگر علمائے کرام نے انسداد شدھی کے بارے میں کوئی عملی کارروائی کرنے اور تدابیر سوچنے کی بجائے اپنا سارا زور اس مخالفت میں لگا دیا کہ قادیانی کیوں بلوائے گئے ہیں ؟ چنانچہ جناب سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں.مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں.اس لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) جو اب خلیفہ قادیان ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا؟ اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی.مگر مولانا شروانی کی ثالثی سے یہ بلا ٹل گئی".جناب سید سلیمان صاحب ندوی کی تحریر کے مطابق علامہ شبلی کے مد نظر " اشاعت و حفاظت اسلام " کی ایک اہم تجویز تھی.جس پر وہ اجلاس لکھنو کے بعد کار روائی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن عملاً اگر کچھ ہوا تو صرف یہی کہ چند ماہ بعد وہ ندوہ سے مستعفی ہو گئے.چنانچہ سید سلیمان صاحب خود لکھتے

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 328 خلافت ثانیہ کا دسواں سال ہیں کہ اس تجویز پر عمل کا وقت آیا ہی تھا کہ مولانا بیمار اور پراگندہ خاطر ہو کر مولوی عبد السلام صاحب اور سیرت کو لے کر بمبئی روانہ ہو گئے اور دو چار ماہ کے غور و فکر کے بعد جولائی ۱۹۱۲ء کو ندوہ سے مستعفی ہو کر سبکدوش ہو گئے اور کام کی ساری تجویز میں درہم برہم ہو کر رہ گئیں.انا للہ وانا اليه راجعون".مختصریه که علامہ شبلی اور ان کے ساتھی برسوں سے ارتداد کے مقابلہ کی جو تجویز کر رہے تھے وہ محض خواب و خیال بن چکی تھی اور ان کے علاوہ دوسرے علماء کو اپنے فرضی مشاغل سے فرصت نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ شدھی کی آگ ۱۹۲۳ء کے آغاز میں پوری شدت سے بھڑک اٹھی اور علی گڑھ سے آگرہ تک اور فرخ آباد سے ریاست الور تک کے علاقے اس کی زد میں آگئے.چوہدری افضل حق صاحب ( مفکر احرار نے علماء کی غفلت و بے حسی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا." آج سے پہلے اسلام کو تبلیغی جماعت سمجھا جاتا تھا.مسلمان علماء اپنی خدمات کو جابجا ہر جگہ بیان کرتے تھے حالانکہ ان کی تمام کوششیں مسلمانوں کو کافر بنانے میں صرف ہوتی رہیں جہاں.........اسلام کے سب سے بڑے دعویدار موجود تھے.ان ہی کے دروازوں پر مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور ان کے بنائے کچھ نہیں بنتی.جن کے ہندوستان بھر میں کفر کے فتوے کام کرتے تھے ان کا اپنا عمل قریب کے مسلمانوں پر کچھ اثر نہ ڈال سکا تین چار سو برس سے ایک قوم اسلام کے دروازے کے اندر داخل ہوئی مسلمانوں کو متوجہ نہ پاکر آج پھر واپس چلی گئی ایک مسخرہ نے سچ کہا کہ ”علماء کا کام ہی مسلمانوں کو کا فر بنانا ہے“.سو انہوں نے ملکانہ راجپوتوں میں اپنی کامیاب تبلیغ کر دی ہے حضرات فرنگی محل، حضرات دیوبند حضرات دہلوی کی صد سالہ اسلامی تبلیغ کا نتیجہ دیکھو کہ ان ہی اضلاع کے گرد و نواح میں ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں.ہمارے علماء کے لئے اس میں عبرت ہے ان کے لئے ندامت سے گردن جھکا لینے کا وقت ہے اس فتنہ و ارتداد کی تاریخ اغیار کے لئے دلچسپ اور مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے." شردھانند کی طرف سے ہندوؤں کو میدان مسلمانان ہند خدا جانے کب تک خواب غفلت عمل میں آنے کی کھلم کھلا دعوت میں پڑے رہتے کہ وسط مارچ ۱۹۲۳ء میں مشہور آریہ سماجی لیڈر شردھانند نے جو اس تحریک کے پُر جوش علمبردار تھے اور سب سے بڑے لیڈر تھے اور جنہیں اس سے پہلے مسلمان علماء نے ” ہندو مسلم اتحاد" کے خیال سے نہ صرف "خلافت کانفرنس" کے نائب صدر ہونے کا موقعہ دیا تھا.بلکہ

Page 365

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 329 خلافت هانیه کا دسواں سال جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا کر تقریر کرائی تھی (C) ہندوؤں سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدہ کیا جا رہا ہے اور اب تک قریباً چار ہزار تین سو راجپوت ملکا نے گو جر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں.نیز کہا ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں.یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندو سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہو گا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے ".مہاراجہ کشمیر کی پشت پناہی شردھانند کے اس اعلان کے ساتھ آریہ اخبار کیسری (۱۲) مارچ ۱۹۲۳ء) میں یہ خبر چھپی کہ مہاراجہ جموں و کشمیر نے ساڑھے چار لاکھ ملکانہ راجپوتوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے مسئلہ پر کامل غور و خوض کے بعد پنجاب کے سناتن دھرمی پنڈتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس مسئلہ پر کشمیری پنڈتوں سے گفت و شنید کریں ".ان خبروں کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ ہندوستان مسلمانان ہند کے لئے نازک ترین دور کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمانوں میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی اور ان کے دل پاش پاش ہو گئے اور جو اس پراگندہ اور انہیں یقین ہو گیا.کہ ہندو قوم شدھی کے بل بوتے پر ان کا نام مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے.اور ہندوستان میں ان کی قومی زندگی اور قومی ہستی یقینی طور پر خطرہ میں ہے.اس خطرناک حملہ کی شدت کا اندازہ لگانے شدی کے پیچھے ہندو راج کے منصوبے کے لئے آریہ کے وہ بیانات بھی کافی رہنمائی کرتے ہیں.جو بعد کو ان کی زبانوں سے خود بخود جاری ہو گئے اور جن میں انہوں نے کھلا اعتراف کیا کہ شدھی کی تحریک صرف ملکانہ کے مسلم راجپوتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ہندو دھرم کی چوکھٹ پر لاڈالنے کے لئے اٹھائی گئی ہے.چنانچہ ایک آریہ سماجی راجکمار ایٹھی نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا " باشد ھی ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) نہیں ہو سکتی.جس وقت سب مسلمان شدھ ہو کر ہندو ہو جائیں گے تو سب ہندو ہی ہندو نظر آئیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو آزادی سے نہیں روک سکتی " سوامی و چهارانند نے گورو کل کانگڑی کی سلور جوبلی کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا."سب دھرموں سے ہمارا دھرم پر انا ہے تو ہمارے دھرم کے سامنے کسی کو ادھیکار (حق) نہیں کہ وہ شدہ کرے.سوراج کے لئے ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) ضروری ہے لیکن ہم بچی ایکتا شدھی میں مانتے ہیں.........جب تک بھارت ورش کے مسلمان اور عیسائی شدھ نہیں ہو جائیں گے اس وقت تک تم کو

Page 366

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 330 خلافت همانیه کادسواں سال سوراج نہیں مل سکتا.اسی موقعہ پر پنڈت لوک ناتھ جی نے کہا.اگر اس چھری کو جو گٹو کی گردن پر چل رہی ہے.بند کرنا چاہتے ہو تو اس کا علاج شدھی ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری.اگر آپ ہمیشہ کے لئے کانٹے دار درخت کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کی جڑ نکال دو " - اسی طرح ایک ہندو شاعر نے اپنے قومی نصب العین کو ان لفظوں میں دہرایا.کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں ہندو کا تم میں ہے گر جذبہ ایماں باقی رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی المختصر شدھی کی خوفناک تحریک نے مسلمانان ہند کو زندگی اور مسلمان پریس کاشور و فغاں موت کی کشمکش میں جتلا کر دیا.اور اسی لئے مسلمان پریس کو سوامی شردھانند اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کو دیکھ کر بالاتفاق لکھنا پڑا کہ ملک کے تمام مسلمان فرقے اگر اس نازک موقعہ پر متحد ہو کر اس کے انسداد کی فوری جدوجہد نہ کریں گے تو ان کا تباہ ہونا قطعی اور یقینی ہے.خصوصاً اخبار "وکیل" امرتسر کے ایڈیٹر مولوی عبد اللہ منہاس صاحب نے ۸/ مارچ ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں " علمائے اسلام کہاں ہیں ؟" کے عنوان سے ایک پُر زور مضمون لکھا.جس میں حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اس نازک موقعہ پر کیوں خاموش ہیں.حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان مسلم پریس نے شدھی کے خلاف آواز تو مارچ ۱۹۲۳ء میں بلند کی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ہی اس فتنہ کی طرف توجہ فرمائی اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ ایک قوم کی قوم ارتداد کے لئے تیار ہے.فورا دفتر کو ہدایت فرمائی کہ پوری تحقیق کریں.چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق پہلے مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی.ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد دو سرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ فروری ۱۹۲۳ء میں صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے اور ایک اور احمدی کو علاقہ ملکانہ میں ابتدائی سروے اور فراہمی معلومات کے لئے بھیجوا دیا.صوفی عبد القدیر صاحب نے واپس آکر مفصل بتایا کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے.اس رپورٹ پر حضور نے شدھی کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کے لئے ایک زبر دست سکیم تیار کی اور جیسا کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کا بیان ہے اس اولو العزم امام نے یہاں تک تہیہ کر لیا کہ میری کل جماعت کی جائداد تخمینا دو کروڑ روپیہ کی ہوگی اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک و اموال

Page 367

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 331 خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے." A خلافت ثانیہ کا دسواں سال......چنانچہ حضور نے بے / مارچ ۱۹۲۳ء کو اعلان فرمایا کہ جماعت احمد یہ فتنہ ارتداد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کی غرض سے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے.اس کے بعد ۹ / مارچ ۱۹۲۳ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لئے فی الحال ڈیڑھ سو احمد کی سرفروشوں کی ضرورت ہے.جو اپنے اور اپنے لواحقین کی معاش کا فکر کر کے میدان عمل میں آجا ئیں چنانچہ آپ نے فتنہ ارتداد کی وسعت بیان کرتے اور جماعت کو اپنی سکیم کے ایک حصہ سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.و ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا یہ طریق ہو کہ اس ڈیڑھ سو کو تھیں تھیں کی جماعتوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصہ ہیں ہیں کے بنائے جائیں.اور تمیں آدمیوں کو ریز رو ر کھا جائے.کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو.اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو فی الحال تین مہمینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہو گی.....ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے.اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہوگا....سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم خود انتظام کرنے کے لئے بھیجیں گے.ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجہ کا ہو گا.چاہے وہ کسی درجہ اور کسی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے.ان لوگوں کے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے.اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے.البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہو گا.تو ہم دیں گے.......اس کے لئے جماعت کو پچاس ہزار روپیہ دینا ہو گا.ایسے کاموں کے لئے جو تبلیغ وغیرہ کے ہوں گے.باقی مبلغین اسی رنگ میں جائیں گے وہاں اپنے اخراجات خود اٹھا ئیں گے.....جو لوگ ملازمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا خود انتظام کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں.....وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ وہ چار سہ ماہیوں میں سے کسی سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں...اس انتظام کے ماتحت ہم سخت انتظام کریں گے اور جو ہیڈ بنائے جائیں گے ان کی پوری اطاعت کرنی ہوگی.ممکن ہے کہ بعض اوقات افسر سختی بھی کر بیٹھیں اور مار بھی بیٹھیں لیکن جو ماتحت ہو کے جائیں گے ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر جائیں.اور تمام سختیوں کے مقابلے میں کام کریں اور افسر نے اگر ناواجب تکلیف دی ہو گی تو کام کے ختم ہونے کے بعد رپورٹ کر سکتے ہیں مگر اس وقت کام کرنا ہو گا.ماتحتوں کو بہر حال افسروں کی اطاعت کرنی اور ان کا حکم ماننا ہو گا.اگر وہ زیادتی کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کو سزا دے گا صبر کا اجر ملے گا اور بعد میں رپورٹ کر سکتے ہیں.اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں کو ہر ایک اپنا کام آپ کرنا ہو گا.اگر کھانا آپ

Page 368

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 332 خلافت ثانیہ کا دسواں سال پکانا پڑے گا تو پکا ئیں گے اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں وہ آئیں.ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی.ننگے پیروں چلیں گے.جنگلوں میں سوئیں گے.خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا.اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پاؤں میں جو سختی پیدا ہو جائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہو گا ان کے کام آئے گی مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گاوہ راحت و آرام کا مقام ہو گا.اور یہ وہ مقام ہو گا جہاں رہنے والے نہ بھوکے رہیں گے نہ پیا سے یہ چند دن کی بھوک اور چند دن کی پیاس اس انعام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک طرف مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت جماعت کو میدان جہاد میں آنے کی ہدایت دی تو دوسری طرف مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا.جب تک ایک لمبی اور باقاعدہ جنگ نہ کی جائے گی (سعی اور تبلیغ کی نہ تلوار کی) اس وقت تک ان علاقوں میں کامیابی کی امید رکھنا فضول ہے.اس کام پر روپیہ بھی کثرت سے خرچ ہو گا.ہندو اپنی پرانی کوششوں کے باوجود دس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں مسلمانوں کو نیا کام کرتا ہے ان کے لئے ہیں لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے پیشکش فرمائی کہ اگر دوسرے لوگ بقیہ رقم مہیا کر لیں تو ہم پچاس ہزار روپیہ یعنی کل رقم کا چالیسواں حصہ اس کام کے لئے جمع کریں گے.علاوہ ازیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی توفیق کے ماتحت ہماری جماعت تمھیں آدمی تبلیغ کا کام کرنے کے لئے دی گی.جن کے اخراجات وہ موعودہ رقم میں سے خود برداشت کرے گی.اور اگر اس سے زیادہ خرچ ہو گا تو بھی وہ خود اپنے مبلغوں کا کل خرچ ادا کرے گی اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوئی.تو ہماری جماعت انشاء اللہ سینکڑوں تک ایسے آدمی مہیا کر دے گی.جو تبلیغ کا عمر بھر کا تجربہ رکھتے ہوں گے".حضور نے یہ دعوت دیتے ہوئے دوسری مسلمان کہلانے والی تمام جماعتوں (اہلحدیث - حنفی.شیعہ وغیرہ) کے سر بر آوردہ اصحاب کو توجہ دلائی کہ وہ اس موقعہ کی نزاکت کو سمجھیں اور اسی نسبت سے اپنے لوگوں کی طرف سے مطلوبہ رقم کا فورا اعلان کر کے ایک مقام پر جمع ہوں تاکام کی تفصیل اور م پر غور کر لیا جائے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کا وقت نہیں کام کا وقت ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس دعوت اور فراخ دلانہ پیشکش پر اخبار ”ہمدم " نے لکھا.

Page 369

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 333 " جماعت احمدیہ کے جوش و ایثار کو دیکھتے ہوئے ان کی طرف سے پچاس ہزار بلکہ اس سے زیادہ روپیہ اس غرض یعنی انسدادار تداد کے لئے فراہم ہو سکتے کا قریب قریب یقین و اعتماد ہے.لیکن افسوس ہے کہ دیگر مسلمانوں سے ساڑھے انیس لاکھ تو کجا ایک لاکھ روپیہ بھی حالات موجودہ میں چند ہفتہ کے اندر جمع ہو جانے کی قومی تو کیا معمولی امید بھی ان طریقوں سے نہیں باندھ سکتے “.(" ہمدم ۱۸ / مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ " جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۳) اسی طرح اخبار "مشرق " نے لکھا."جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی.( " مشرق " ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ ”جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات" صفحه ۴۳) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده احمدیہ جماعت کی طرف سے والہانہ رنگ میں لبیک اللہ تعالٰی نے کے اور ۹ / مارچ ۱۹۲۳ء کو جماعت سے جس عظیم الشان جانی ومالی قربانی کا مطالبہ فرمایا اس پر جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں لبیک کہا اور ڈیڑھ ہزار احمدیوں نے اپنی آنریری خدمات حضور کی خدمت میں پیش کر دیں.اس قربانی کے لئے آگے آنے والے ملازم رؤسا، وکلاء، تاجر، زمیندار صناع ، پیشه در ، مزدور استاد طالبعلم ، انگریزی خواں عربی داں ، بوڑھے اور جو ان غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ تھے.حتی کہ مستورات اور بچوں تک نے اس جہاد کے لئے اپنا نام پیش کیا.چنانچہ مجنہ اماء اللہ نے حضور کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہمیں راہ نمائی فرمائی جائے کہ ہم اس تبلیغی جہاد میں کیا خدمت سرانجام دے سکتی ہیں؟ خواتین نے ملکانہ عورتوں میں تبلیغ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا.اس موقعہ پر احمدی بچوں میں بھی اشاعت اسلام کا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا.چنانچہ مرزا منور احمد صاحب جو اس وقت ۵ سال کے تھے ملکا نہ علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند محمد احمد صاحب نے جن کی عمر اس وقت بارہ سال ہو گی اپنی والدہ ماجدہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو لکھا کہ تبلیغ اسلام کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے.اس لئے جب آپ تبلیغ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں.اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں.جہاں تک انسداد ارتداد کے لئے پچاس ہزار روپیہ چندہ کا تعلق تھا یہ بہت جلد جمع ہو گیا.اور

Page 370

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 334 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال جماعت کے مخیر بزرگوں نے بالخصوص اس میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا.جن میں سر فہرست حضرت نواب محمد علی خان صاحب تھے جنہوں نے ایک ہزار روپیہ اور جن کی حرم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے دو سو روپیہ چندہ دیا.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب جنرل اوصاف علی خاں صاحب نامجه ، میر مرید احمد صاحب خیر پور سندھ، شیخ محمد حسین صاحب کلکتہ اور حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی نے پانچ پانچ سو کی رقمیں پیش کیں.ڈاکٹر فضل کریم صاحب کابل - حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بالترتیب چار سو تیرہ رو پہیہ.تین سو اور ڈھائی سو روپیہ چندہ دیا.ان کے علاوہ باب فضل احمد صاحب راولپنڈی ، خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب، چوہدری عبدالله صاحب، چوہدری نذیر احمد صاحب طالب ،پوری شیخ مشتاق حسین صاحب گوجرانوالہ اور منشی محمد دین صاحب کھاریاں نے بقدر طاقت ڈیڑھ سو سے سوا دو سو روپیہ چندہ پیش کیا.سونسو رو پیہ دینے والے تو متعدد اصحاب تھے.چندہ میں شرکت کے لئے ابتداء یہ شرط تھی.کہ کم از کم ایک سو روپیہ چندہ دینے والے لوگ آگئے آئیں.لیکن بعد کو غریب احمدیوں کی درخواست پر حضور نے یہ شرط اڑا دی اور غریبوں کو بھی اس ثواب میں حصہ لینے کا موقعہ میسر آگیا.چندے کے علاوہ احمدی احباب نے مجاہدین کے لئے سائیکل دیے خصوصا لاہور کی جماعت نے ڈاکٹر محمد منیر صاحب آف امر تسر نے دھوپ سے بچانے والے پروٹیکٹر دیئے.بعض نے ستو کی بوریاں ڈاکٹرمحمد ستو بھیج دیں عید الاضحیہ کا موقعہ آیا تو ہزاروں روپے میدان ارتداد میں ملکانہ قوم کے لئے جانور ذبح کرنے کے لئے بھجوا دیئے.بعض غریبوں نے جن کے پاس کچھ نقد اثاثہ نہ تھا.اپنا مکان یا زمین یا جانور بیچ کر اس میں حصہ لیا.کہتے ہیں کہ مشہور پنجابی شاعر ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی نے اپنی بھینس بیچ ڈالی اور میدان ارتداد میں جاپہنچے.بھینس اگر چہ خسارے پر بکی.مگر ڈاکٹر نے اس گھاٹے کے سودے پر بھی خوشی منائی.مردوں کے علاوہ احمدی عورتوں نے بھی ایثار و قربانی کا ثبوت دیا.چنانچہ لجنہ اماءاللہ نے ہمیں بڑے دوپٹے ان ملکانہ عورتوں کے لئے بھیجے جو ارتداد کے وقت اسلام پر ثابت قدم رہیں.حضرت اقدس کی صاحبزادی امتہ القیوم نے جن کی عمر اس وقت چھ سال کی ہوگی.اپنا ایک چھوٹا دوپٹہ دیا اور کہا کہ یہ کسی چھوٹی ملکائی کو دیا جائے.اعد انتظام انسداد فتنه ارتداد سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس قواعد مرحلہ پر اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل ہیں قواعد مقرر

Page 371

-6 تاریخ احمد بیت - جلد ۴ فرمائے..9 -1° 335 خلافت ثانیہ کا دسواں سال اس انتظام کو با قاعدہ چلانے کے لئے ایک افسر ہو گا جو سب کام کی نگرانی کرے گا.یہ افسر اپنے کام کی بہتری کے لئے اپنے کام کے کئی حلقے تجویز کرے گا.جن میں سے ہر ایک حلقہ کا ایک نگران ہو گا.ہر ایک حلقہ میں جس قدر لوگ کام کر رہے ہوں گے وہ حلقہ افسر کے ماتحت ہوں گے اور افسر کو چاہئے کہ ایک وقت مقررہ پر ان سے رپورٹ طلب کرے یعنی ان کو مقررہ عرصہ کے بعد اپنے کام کی رپورٹ کرنے کی ہدایت کرے اور اگر کسی کی رپورٹ نہ پہنچے تو اس کی رپورٹ طلب کرے ، کارکنان کو چاہئے کہ علاوہ مقررہ رپورٹ کے ہراہم بات کی اس کو رپورٹ کریں..حلقہ کے افسر کا فرض ہوگا کہ ایک وقت مقررہ پر جس کی تعیین افسر اعلیٰ کرے گا افسر اعلیٰ کو اپنے کام کی رپورٹ دیتا رہے.اور درمیان میں بھی جب کوئی اہم امر ہو اس کی رپورٹ کرتا رہے.افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ ہر روز اپنے تمام صیغہ کی رپورٹ جس میں اہم امور کو خاص طور پر پیش کیا جائے میرے پاس بھیجتا رہے.افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ وقتا فوقتا خود دورہ کر کے تمام حلقہ کے افسروں اور کارکنوں کے کام کو دیکھتار ہے اور جب وہ دورہ پر جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے ایک ہو شیار نائب کو اپنا قائم مقام تو مرکز میں بھی بنا جائے.افسر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ اس امر کا کوئی مناسب انتظام کرے کہ صدر اور حلقوں کے مرکزوں میں ان لوگوں کے کھانے کے متعلق مناسب انتظام رہے جو بطور مہمان کے آدمیں یا جن کو کام کی مدد کے لئے بلوایا جائے.لیکن نہایت درجہ کی کفایت شعاری کو مد نظر ر کھا جائے کیونکہ تھوڑی تھوڑی بے احتیاطی سے بڑے بڑے نقصانات پہنچ جاتے ہیں.حلقہ کے افسروں کو بھی چاہئے کہ دورہ کر کے اپنے ماتحتوں کے کام کو دیکھتے رہیں اور ان کو مناسب ہدایتیں دیتے رہیں.صدر مقام میں ایک مکمل ذخیرہ ان کتب اور اخبارات و رسائل کا رہنا چاہئے جو آریوں کے خلاف کام کرنے کے لئے ضروری ہے.صدر مقام میں ایک واقف آریہ مذہب اور ہندی کا رہنا چاہئے جو نو آمدوں کو ہندی کے الفاظ سکھائے اور حوالہ نکال نکال کر ان کو دے اور ایسی باتیں آریہ لٹریچر سے نکالتا ر ہے جس سے دوسری اقوام کو وہ اپنی اصل شکل میں نظر آسکیں.

Page 372

احمدیت.جلد ۴ 336 خلافت ؟ جو لوگ کام پر لگائے جاویں ان کو ایک کاپی مطبوعہ ہدایات کی رجسٹری رسید لے کر دی جائے اور اس پر ایک نمبر لکھ دیا جائے جب وہ شخص واپس جائے تو اس سے وہ کاپی لے کر دو سرے کو دے دی جائے نمبر وہی رہنے دیا جائے مگر دستخط دو سرے آدمی کے جسے دوبارہ دی گئی ہے کے لے لئے جاویں اس سے کاپیاں محفوظ رکھنے کا خیال لوگوں کے دل میں رہے گا.-۱۲ چاہئے کہ سب کارکنوں کو آریہ مذہب کے خلاف مسائل مختصر اعمدگی سے سمجھا دیے جاویں اور ان کے موٹے موٹے اعتراضات کے جواب بھی تاکہ اگر کوئی ان کا مبلغ مل جائے اور اس سے مجبور ابات کرنی پڑے تو سیکی اور شرمندگی.....افسروں کو خاص توجہ رکھنی چاہئے کہ جن کے جو کام سپرد کیا گیا ہے وہی کام کرتے رہے ہیں ایسا تو نہیں کہ جسے مثلاً خفیہ خبر رسانی پر لگایا گیا تھا وہ بحث میں لگ گیا ہے اور بحث والا خفیہ خبر رسانی پر.بے شک زائد وقت میں اگر ان کو اجازت مل جاوے تو دو سرا کام بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میلان طبیعت کے ماتحت وہ اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ جاویں.افسروں کو چاہئے کہ خاص طور پر طبائع کے میلان کا خیال رکھیں میلان طبع کا خیال نہ رکھنے سے بہت دفعہ کام خراب ہو جاتا ہے.جو شخص جس کام کے اہل ہو اسے وہی کام سپرد کیا جائے دو سرا کام سپرد نہ کیا جائے.اور اگر بعد کے تجربہ سے پہلا خیال غلط معلوم ہو تو پھر مناسب تبدیلی کردی جائے.-۱۵ چاہئے کہ حلقوں کے افسردہ ایسے لوگوں کو مقرر کرے کہ جنہوں نے مستقل طور پر کام کرتا ہے.دوسرے لوگ خواہ درجہ میں بڑے ہوں علم میں زیادہ ہوں ان کو مستقل کام کرنے والوں کے ماتحت رکھنا چاہئے ورنہ کام خراب ہو جائے گا.کام کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے.افسر اعلیٰ افسران حلقه ایسے لوگ مقرر ہوں جو ہندی اور آریہ مذہب کا علم رکھتے ہوں اگر نہ ہوں تو صرف مرکز میں رکھے جاویں درنہ ہو سکے تو فی حلقہ ایک آدمی مقرر کر دیا جائے یا ضروری حلقوں میں ایک آدمی رکھا جائے.یہ لوگ آریوں کے خلاف سامان بہم پہنچادیں.۲.آریوں سناتنیوں ، جینیوں اور سکھوں میں جو اختلاف عقیدہ اور عمل میں ہے اس کو جمع کر کے مبلغوں کو سکھاویں.۳.تاریخی طور پر برہمنوں نے راجپوتوں پر جو ظلم کئے ہیں ان کو جمع کریں خواہ عملاً ظلم کیا ہو خواہ ایسے

Page 373

تاریخ احمدیت جلد ۴ 337 خلافت عقائد کی تعلیم دے کر جن میں ان کا درجہ گھٹایا ہو.۴.تاریخی طور پر ایسی مثالیں جمع کی جائیں جن سے معلوم ہو کہ مسلم راجپوتوں نے ہندو راجپوتوں کو شکست دی ہے اور پھر اس قوم کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ یہ لوگ جو فاتح ہیں ایسے بزدل تھے کہ ڈر کر مسلمان ہو گئے اور ہندو راجپوت جو ان سے ماریں کھاتے تھے ایسے بہادر تھے کہ یہ اپنے دھرم پر قائم رہے.۵.بھرت پور - الور - بیکانیر اور دوسری راجپوتانہ کی ریاستوں کی تاریخوں سے یہ امر معلوم کیا جائے کہ وہ کب سے قائم ہیں اور اگر معلوم ہو کہ یہ قدیم سے چلی آتی ہیں مسلمان کی بنائی ہوئی نہیں ہیں یا یہ کہ ان کے علاقے کبھی مسلمانوں کے براہ راست انتظام کے نیچے نہیں آئے تو پھر ان قوموں کے سر کردوں سے دریافت کی جائے کہ ان کی قومی روایتوں کے رو سے وہ ان علاقوں میں کب سے بس رہی ہیں جب ان کی روایتوں سے ثابت ہو جائے کہ وہ باہر سے آکر نہیں ہیں بلکہ اسی علاقہ کی رہنے والی ہیں تو پھر یہ بات ان کے سامنے پیش کی جائے اور آریوں سے بحث میں بھی یہ حربہ استعمال کیا جائے کہ جب ان علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ کبھی ہوا نہیں اور جب یہ قومیں باہر سے نہیں آئیں تو پھر ان ریاستوں میں جاکر مسلمانوں نے ان لوگوں کو جبراً مسلمان کیوں کر بنا لیا.اور اگر ان ریاستوں میں یہ لوگ بلا جبر کے مسلمان ہو گئے تو باہر کے اس قسم کے لوگوں کی نسبت کیوں نہ یقین کیا جائے کہ وہ بھی اسی طرح مسلمان ہو گئے تھے.- ان لوگوں کے مسلمان ہونے کی تاریخ دریافت کی جائے پھر ہندو مصنفین کی کتب سے معلوم کیا جائے کہ وہ کس کس زمانہ میں مسلمانوں کے جبر کے متعلق مضامین لکھ چکے ہیں کن زمانوں کو ایسی کوششوں سے پاک بتاتے ہیں اور کن بادشاہوں کو غیر متعصب قرار دیتے ہیں پھر دونوں کا مقابلہ کر کے دیکھا جائے کہ جس وقت یہ لوگ مسلمان ہوئے تھے.اس وقت کون سی حکومت اور کون بادشاہ تھا اگر یہ ثابت ہو جائے اور یہی بات اند از امعلوم ہوتی ہے کہ اس وقت اسلامی حکومت کمزور تھی اور ہندو راجاؤں کا زور تھا یا یہ کہ وہ اکبر اور جہانگیر کا زمانہ تھاتو پھر بتایا جائے کہ اس زمانہ میں اگر اس قدر کثرت سے لوگ جبراً مسلمان بنائے جاتے تو اس کا تاریخ میں ثبوت ہونا چاہئے تھا بر خلاف اس کے اس وقت یا تو مسلمانوں کا زور تھا ہی نہیں بلکہ وہ کمزور تھے یا یہ کہ اس وقت کے بادشاہوں کو بھی جابر نہیں کہتے پھر کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد ان کے زمانہ میں جبرا مسلمان بنائی گئی جو دوسرے بقول تمہارے جابر بادشاہوں کے زمانہ میں بھی نہیں بنائی گئی.

Page 374

تاریخ احمدیت جلد ۴ 338 ت ثانیہ کا دسوان سال بادا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کے متعلق اور سکھ گروؤں میں ہندوؤں کے ظلم اور مسلمانوں کا ان سے نیک سلوک اور اس مضمون پر سکھ اخباروں کی آراء جمع کی جاویں اور ان کو مبلغین کو یاد کرایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں سکھ پولیس میں زیادہ ملیں گے بعض تعلقہ دار بھی ہیں ان پر اس ذریعہ سے اثر ڈالنا چاہئے.عام طور پر ان لوگوں کو آریہ دھوکہ دے کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ اور مسلمان تمہارے دشمن ہیں حالانکہ معاملہ بالکل بر عکس ہے.ام یہی ہو کہ - آریوں کی کتاب مصنفہ سے جس میں راجپوتوں کو ترکوں کی اولا د قرار دیا گیا ہے اور جس پر راجپوت انجمنوں نے سخت شورش برپا کیا تھا خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے مفید حوالے اور ان کے استعمال کا موقع اور طریق مبلغوں کو سکھایا جائے.کچھ لوگ جو بحث کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام آریوں کو بحثوں میں الجھانا ہو تاکہ لوگوں پر ان کی کمزوری اور شکست ظاہر ہو.کچھ لوگ جو مضمون نگاری کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام مطلوبہ وفد کی کوششوں اور کامیابیوں کو پبلک کے سامنے لاتا رہے تاکہ لوگوں کو سلسلہ کے کام سے دلچسپی پیدا ہو اور جماعت میں جوش پیدا ہو اور دوسرے لوگوں میں زندگی اور ہمدردی پیدا ہو.ان کو مختلف اخبارات سلسلہ اور دوسرے انگریزی اور اردو اخبارات میں برابر اور متواتر مضمون لکھتے رہنا چاہئے لیکن یاد رہے کہ (۱) مضمون نہایت مختصر ہوں ایک یا ڈیڑھ کالم سے زیادہ نہ ہوں.(۲) دلچسپ پیرایہ میں بیان ہوں یوں نہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اپنی مدح کر رہا ہے.(۳) جوش دلانے والے ہوں.(۴) خاص دلچسپ واقعات مثلا کسی مبلغ کی خاص قربانی (خواہ احمدی ہو خواہ غیر احمدی) کو بیان کیا جائے.آریوں کی خفیہ تدابیر کو طشت از بام کیا جائے.ان لوگوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا جائے.ان کی روایات اور رسوم کو بیان کیا جائے.خاص کامیابیوں کو بیان کیا جائے.اپنے مبلغوں کے ایثار پر روشنی ڈالی جائے.ہر دفعہ نئے واقعات ہوں نئے پیرا یہ میں ہوں.(۵) چونکہ اخبارات بہت سے ہیں اور ایک ہی مضمون کو بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے اس لئے خاص مضامین کو چھوڑ کر باقی مضامین اس طرح لکھے جاویں کہ گو سب واقعات سب اخباروں کو جائیں لیکن ایک اخبار میں باقی واقعات مختصر ہوں اور ایک واقعہ کو خاص طور پر نمایاں کیا جائے.دوسرے میں اس کو مختصر اور ایک دوسرے امر کو نمایاں کر کے بیان کیا جائے اس طرح سب واقعات بہ صورت اجتمال سب اخباروں میں شائع ہو جائیں گے اور تفصیل

Page 375

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۱۲ ۱۳ ۱۴ -10 -14 339 خلافت ماسید کار سوال سا سب میں مجموعی طور پر مل جاوے گی اس تفصیل کی خاطر اجمال کو شوق سے لوگ اخبار سے لیں گے.(4) جو مضمون چھپے اس میں لکھنے والے کا نام اس طرح آدے کہ احمد یہ وفد قادیان کا علم لوگوں کو ہو تا رہے.مختلف ایسے لوگوں کے نام پر یہ مضمون چھپیں جو ڈگری یافتہ ہوں خواہ ایم اے بی اے خواہ مولوی فاضل منشی فاضل ڈاکٹر پلیڈ ر بیرسٹر وغیرہ - (۸) سب ایسے مضامین جو چھپیں وہ صدر دفتر سے جاویں تا یہ دیکھ لیا جائے کہ سب مضامین کی روح ایک ہی ہے اور کہیں اس میں تضاد تو نہیں ہو گیا بلا دفتر کے معائنہ کسی شخص کو اجازت نہ ہو کہ اپنے طور پر مضمون لکھ کر شائع کرے.(9) اگر کوئی کارکن دوسری جماعت کا بچے اخلاص سے کام کر رہا ہے یا یہ کہ ہمارے کام میں مدد دے رہا ہے تو اس کا ذکر بھی کیا جائے مگر ایسی طرز پر کہ دوسرے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے مقابلہ میں اس کو اچھا قرار دیا گیا ہے.رقابت پیدا نہ ہونے دی جائے.(۱۰) خواہ کسی افسر کا کسی کارکن سے کوئی اختلاف ہو اس کے اچھے کام کو ظاہر کرنے میں ہر گز کمی نہ کریں.ایک شخص ایسا مرکز میں رہے جو دستی پریس (چھوٹا نقلوں کا پریس) کا کام اچھی طرح کر سکے تاکہ جہاں نقلیں بھیجنے کی ضرورت پیش آوے وہاں نقلیں فورا بھیجی جا سکیں.کچھ ایسے لوگ ہوں جو حکام کو ملنے ملانے کا کام اچھی طرح کر سکیں اور اس بات کی نگہداشت رکھیں کہ ہندو لوگ غلط شکایتوں کے ذریعہ حکام کو بد ظن کر کے کام میں روک تو نہیں ڈالنی چاہتے.ایک آدمی کم سے کم زیادہ ہوں تو اچھے ہیں فوٹو کا کام اچھی طرح کر سکنے کی قابلیت رکھنے والا وفد میں ہو اگر کوئی موجودہ وفد میں سے اس کام کو نہیں جانتا تو کسی ہو شیار آدمی کو یہ کام سکھالیا جائے مگر چست رہنے والا ہو آہستہ فوٹو لینے کا یہ موقع نہیں ہو گا.ہر حلقہ کے مرکز میں افسر کے ساتھ ایک مددگار بھی رکھا جائے جو چلنے پھرنے میں ہوشیار ہوتا ادھر سے ادھر خبر پہنچا سکے.وفد کے ساتھ دین اسلام سے واقف ایک عالم کی ضرورت ہے جو علماء کی مجالس میں اپنے علم سے اثر ڈال سکے یا مباحثات میں اسلامی نقطہ خیال کی خوبی کی وضاحت کر سکے.کچھ ایسے لوگ ہوں جو شعرا چھی طرح پڑھ سکیں.کوئی آدمی متحرک تصاویر یا با سکوپ دکھانے کی قابلیت رکھنے والا بھی ہونا چاہئے تا اگر ضرورت پڑے تو آریوں کی لٹھ بند جماعتوں کی تصویر میں ان کو دکھاتا پھرے اور اس طرح ہو سکے تو پرانے

Page 376

340 خلافت مانیہ کا دسواں سال براہمن بادشاہوں کے مظالم کا نقشہ.جہاں تک ہو سکے ایک قانون دان آدمی بھی ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی بیچ ڈال کر روکیں ڈالی جائیں تو فوری اور معتبر مشورہ ہو سکے.-19 کچھ آدمی دفتری کام کرنے کی قابلیت رکھنے والے بھی چاہئیں تا اس کام کو اچھی طرح سنبھال سکیں.کچھ آدمی آریوں کے ارادوں کا پتہ لگانے کے لئے مقرر ہونے چاہئیں.کام کرنے والوں کو چاہئے کہ مناسب مقامات کو دیکھ کر اسے حلقہ تجویز کریں جہاں سے آسانی سے ایک حلقہ کی نگرانی ہو سکے.یہ مقام ان تمام جنات سے جو ہدایات نمبر اول میں درج ہیں مناسب ہو.چاہئیے کہ کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے.ایک حصہ جماعت کا ان لوگوں میں کام کرے جن میں آریہ اپنا جال پھیلا چکے ہیں دوسرا حصہ ان لوگوں میں کام کرے جن میں ابھی تک انہوں نے قطعا جال نہیں پھیلایا یا پھیلایا ہے تو اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے.رد پید چاہئے کہ بنک میں جمع رہے.مگر سو دو سو روپیہ ہر حلقہ کے افسر کے نام سے اس جگہ کے سیونگ بنگ میں جمع کر دیا جائے جس سے بوقت اشد ضرورت اسے روپیہ نکالنے کی اجازت ہو.۲۲ روپیہ کے خرچ میں کفایت کو مد نظر رکھنا چاہئے اگر کسی افسر سے بے احتیاطی ہوئی تو اس کا اسے ذمہ دار قرار دیا جائے گا مگر یاد رہے کہ ذمہ داری سے ڈر کر کام میں سستی نہیں کرنی چاہئے ذمہ داری اٹھائے بغیر انسان تعریف اور ثواب کا مستحق نہیں بنتا.حدایات برائے مبلغین اسلام (سیدنا حضر خلیفتہ المی الثانی کی رقم فرمودہ اہم ہدایات مطبوعہ ٹریکٹ کی صورت میں دی جاتی تھیں) جو انسداد وارتداد کے جہاد میں شامل ہونے والے ہر مجاہد کو اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر

Page 377

-١ جلد ٤ 341 خلافت هانیه کا دسواں سال مکرمی - السلام علیکم و رحمة الله و بركاته.چونکہ حدایات برائے مبلغین اسلام آپ نے اپنی زندگی کا اک حصہ انسداد فتہ ارتداد کے لئے وقف کیا ہے.میں چند ہدایات اس کام کے متعلق آپ کو دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے افسروں کے احکام کے ماتحت پوری طرح ان ہدایات پر عمل کریں گے.وہ ہدایات یہ ہیں.اللہ تعالی کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے نیک نیت اور محض ابتغاء لوجہ اللہ اس کام کا ارادہ کریں.گھر سے نکلیں تو دعا کرتے ہوئے اور رب ادخلني مدخل صدق و اخر جنی مخرج صدق و اجعل لي من لدنک سلطانا نصیر ا کہتے ہوئے نکلیں.اور بہت استغفار کرتے جائیں.کہ خدا تعالی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر خدمت دین کا کوئی حقیقی کام لے لے.سورہ فاتحہ اور درود کا بہت درد رکھیں.نمازوں کے بعد تشبیح - تحمید اور تکبیر ضرور کریں.اور کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ذکر الہی کریں کہ ایسے اوقات میں یہ نسخہ نور قلب پیدا کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے.ا بھاشا کے الفاظ سیکھنے اور ان کے استعمال کرنے کی طرف خاص توجہ کریں کہ تبلیغ کا آلہ زبان ہے.زبان نہ آتی ہو تو تبلیغ بے اثر ہو جاتی ہے.پس بھاشا جو ان لوگوں کی زبان ہے.اس کے سیکھنے کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے.اس میں جس قدر کوشش کریں گے.اسی قدر تبلیغ زیادہ موثر ہوگی.اور جس قدر تبلیغ زیادہ مؤثر ہوگی اسی قدر ثواب کا زیادہ موقع ملے گا.(ب) اسی طرح جس قوم سے مقابلہ ہو.اس کے مذہب اور طریق سے پوری واقفیت نہ ہو تو نے مقابلہ مشکل ہوتا ہے.پس اگر آریوں کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو مرکز سے ان کے متعلق ضروری معلومات اور حوالوں کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرلیں.اور اسلام پر ان کے اعتراضوں کے جواب بھی.اور ان کو بار بار پڑھ کر یاد کرتے رہا کریں.راستہ میں لوگوں سے ہرگز فخریہ طور پر باتیں نہ کرتے جاویں.فخر انسان کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے اور سیاست بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے.دشمن کی توجہ اس طرف پھر جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتا ہے.اگر پہلے سے آپ کی جگہ مقرر ہے.تو جو جگہ مقرر ہے.اس جگہ جاکر مبلغ سے چارج با قاعدہ لے لیں.اور اس سے سب علوم ضرور یہ حاصل کرلیں.اور اگر جگہ مقرر نہیں تو پھر مرکز میں جاکر افسر اعلیٰ سے ہدایات حاصل کریں.

Page 378

تاریخ احمدیت جلد ۴ -4 342 خلافت ثانیہ کا دسواں سال جس قصبہ میں داخل ہوں.جس وقت وہ نظر آوے.مندرجہ بالا مسنون دعا کم سے کم تین دفعہ خشوع اور خضوع سے پڑھیں.نہایت مجرب اور مفید ہے.اللهم رب السموات السبع وما اظللن و رب الارضين السبع و ما اقلان ورب الشياطين و ما اظللن ورب الرياح و ما ذرين فانا نسالك خير هذه القرية وخير اهلها وخير ما فيها و نعوذ بک من شر هذه القرية و شر اهلها وشر ما فيها.اللهم بارك لنا فيها و ارزقنا جناها وحببنا الى اهلها وحبب صالحی اهلها الينا آمین کم سے کم تین دفعہ سمجھ کر یہ دعا مانگو رسول کریم ﷺ سے یہ مروی ہے اور میرا اس کے متعلق وسیع تجربہ ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.اے اللہ جو سات آسمانوں کا رب ہے.اور ان کا بھی جن پر یہ سایہ کئے ہوئے ہیں.اور جو ساتوں زمینوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن کو یہ اٹھائے ہوئے ہیں.اور شیطانوں کا بھی اور ان کا بھی جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں.اور ہواؤں کا بھی.اور ان چیزوں کا بھی جن کو وہ اڑاتی ہیں.ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی طلب کرتے ہیں اور اس کے باشندوں کی بھلائی بھی طلب کرتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی بھی جو اس میں پائی جاتی ہے.اور ہم اس بستی کی ہر ایک برائی سے پناہ مانگتے ہیں.اور اس بستی میں رہنے والوں کی برائی سے بھی پناہ مانگتے ہیں.اور اس بستی کی ہر ایک بری شے سے پناہ مانگتے ہیں.اے خدا اس بستی میں ہمارے قیام کو بابرکت کر.اور اس کی نعمتوں اور بارشوں سے ہمیں متمتع کر.اور ہماری محبت اس جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈال اور ہمارے دل میں اس جگہ کے نیک لوگوں کی محبت پیدا کر.سفر سے نکلتے ہی اپنے پاس ایک پاکٹ بک رکھیں.جس میں سب ضروری امور لکھتے چلے جاویں.کم سے کم دو کارڈ اور ایک لفافہ اور پنسل و چاقو بھی ہر وقت ساتھ رہیں.جس حلقہ میں کام کرتا ہے.وہاں پہنچتے ہی ان امور کو دریافت کریں (1) وہ کس ضلع میں ہے.(۲) کسی تحصیل میں ہے.(۳) وہ کس تھانہ میں ہے.(۴) اس کا ڈاک خانہ کہاں ہے.(۵) اس میں کوئی مدرسہ بھی ہے یا نہیں.(۶) اس میں کوئی شفا خانہ بھی ہے یا نہیں.(۷) اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کون ہیں اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیسا ہے ؟ (۸) اس تحصیل کے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کون ہیں اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں؟ (۹) اس تھانہ میں تھانیدار اور اس کے اوپر انسپکٹر کون ہے اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں.(۱۰) اس گاؤں میں اگر پولیس مین مقرر ہے تو وہ کون ہے اور اس کے اخلاق اور اس کا معالمہ کیسا ہے.(11) اس کے پوسٹ آفس کا انچارج کون ہے اور چٹھی رساں کون ہے اور ان کا طریق

Page 379

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 343 خلافت ثانیه کار سوال سال اس تحریک شدھی میں کیسا ہے.(۱۲) ڈاک وہاں کتنی دفعہ دن یا ہفتہ میں آتی ہے.(۱۳) مدرس کون لوگ ہیں اور وہ اس تحریک میں کیسا حصہ لیتے ہیں.(۱۴) ڈاکٹر کون ہے اور اس تحریک میں کیا حصہ لیتا ہے.(۱۵) اس میں کوئی مسجد ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو امام ہے یا نہیں اگر ہے تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ حلقہ کا افسر ڈپٹی کمشنر سے تحصیل کا انچارج تحصیلدار سے.تھانہ کا انچارج تھانہ دار سے ملنے کی کوشش کرے اور بغیر اپنے کام کی تفصیل بتائے اس کی دوستی اور ہمدردی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.ذکورہ بالا دو سرے لوگوں سے بھی اپنے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کرے.یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر نقصان یا فائدہ چھوٹے لوگوں سے جیسے پولیس مین چٹھی رسان وغیرہ سے پہنچ سکتا ہے اس قدر بڑے لوگوں سے نہیں پہنچ سکتا.جس گاؤں میں جائے اس کے مالک اور نمبردار اور پنواری کا پتہ لے.اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے.اور ان سے مدد کی درخواست کرے مگر یہ بات صاف صاف کہہ دے کہ مدد سے مراد میری چندہ نہیں بلکہ اخلاقی اور مشورہ کی مدد ہے تاکہ وہ پہلے ہی ڈر نہ جائے.اگر کوئی شخص مالی مدد دیتا بھی چاہے تو شروع میں مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ابھی آپ مجھ سے اور ہمارے کام سے واقف نہیں.جب واقف ہو کر اسے مفید سمجھیں گے اور ہم لوگوں کو دیانتدار پاویں گے تب جو مدد اس کام کے لئے آپ دیں گے اسے ہم خوشی سے قبول کریں گے.اگر وہ غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے تعلقات دنیاوی پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ میل ملاقات کا بھی ایک لحاظ ہو تا ہے.۱۲ کوئی مالی مدد دے تو اسے اپنی ذات پر نہ خرچ کرے بلکہ اس کی رسید با قاعدہ دے اور پھر اصل رسید مرکزی حلقہ سے لا کر دے تالوگوں پر انتظام کی خوبی اور کارکنوں کی دیانتداری کا اثر ہو.۱۳ سیاره زندگی بسر کرے اور اگر کوئی دعوت کرے تو شرم اور حیا سے کھانا کھا دے.کوئی چیز خود نہ مانگے اور جہاں تک ہو سکے دعوت کرنے والے کو تکلف سے منع کرے اور سمجھا دے کہ میری اصل دعوت تو میرے کام میں مدد کرنا ہے مگر مستقل طور پر کسی کے ہاں بلا قیمت ادا کرنے کے نہ کھاوے.-۱۴ دورہ کرتے وقت جو جو لوگ اسے شریف نظر آدیں اور جن سے اس کے کام میں کوئی مدد مل سکتی ہے ان کا نام اور پتہ احتیاط سے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کرے تابعد ے.تابعد میں آنے والے

Page 380

خلافت ثانیہ کا دسواں سال 344 تاریخ احمد بیت - جلد ۴ مبلغوں کے لئے آسانی پیدا ہو.۱۵ جن لوگوں سے اسے واسطہ پڑتا ہے.خصوصاً افسروں.بڑے زمینداروں یا اور دلچسپی لینے والوں کے متعلق غور کرے کہ ان سے کام لینے کا کیا ڈھب ہے اور خصوصیت سے اس امر کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرے کہ کس کس میں کون کون سے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں جن کے ابھارنے سے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.جن لوگوں سے کام لینا ہے ان میں سے دو ایسے شخصوں کو کبھی جمع نہ ہونے دو.جن میں آپس میں نقار ہو.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ہوشیاری سے دریافت کرلو کہ ان معززین کی آپس میں مخالفت تو نہیں.اگر ہے تو کس کس سے ہے جن دو آدمیوں میں مقابلہ اور نقار ہو ان کو اپنے کام کے لئے کبھی جمع نہ کرو بلکہ ان سے الگ الگ کام لو اور کبھی ان کو محسوس نہ ہونے دو کہ تم ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ تعلق رکھتے ہو.تمہاری نظر میں وہ سب برابر ہونے چاہیں اور کوشش کرو کہ جس طرح ہو سکے انکا نقار دور کر کے ان کو کلمہ واحد پر اسلام کی خدمت کے لئے جمع کر دو.۱۷.جس جگہ جاؤ وہاں کے لوگوں کی قوم ان کی قومی تاریخ اور ان کی قومی خصوصیات ان کی تعلیمی حالت ان کی مالی حالت اور ان کی رسومات کا خوب اچھی طرح پتہ لو اور پاکٹ بک میں لکھ لو اور جہاں تک ہو سکے ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھو کہ جن باتوں کو وہ نا پسند کرتے ہیں وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہ آدیں.۱۸- جس قوم میں تبلیغ کے لئے جاؤ اس کے متعلق دریافت کر لو کہ اس میں سب سے زیادہ مناسب آدمی کونسا ہے جو جلد حق کو قبول کر لے گا.اس سے پہلے لو پھر اس سے رئیس کا پتہ لو جس کا لوگوں پر سب سے زیادہ اثر ہے پھر اس سے ملو اور اسی کی معہ میں پہلے قوم کو درست کرنے کی -19 کوشش کرو.جب کسی قوم میں جاؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ اس قوم کو ہندو مذہب سے کون کونسی مشارکت ہے اور اسلام سے کون کونسی مشارکت ہے اور ان کو اپنی کاپی میں نوٹ کر لو.پھر ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر جو ان میں اسلام کی ہیں.ان میں اسلام کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان اسلامی مسائل کی خوبی پر خاص طور پر زور دو جن پر وہ پہلے سے کاربند ہیں اور جن کے وہ عادی ہو چکے ہیں.جب ایسی جگہ پر جاؤ جہاں کے لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جو اسلام کی کھلی تبلیغ کو : i |

Page 381

345 خلافت ثانیہ کا دسواں سال ۲۲.بھی سنا پسند نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو جاتے ہی کھلے طور پر تبلیغ نہ کرنے لگو بلکہ مناسب ہو تو اپنا مقصد پہلے ان پر ظاہر ہی نہ کرو.اگر کوئی پوچھے تو بے شک تا دو.مگر خود اپنی طرف سے کوئی چر چانہ کرو کیونکہ اس طرح ایسے لوگوں میں ضد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.-۲۱ ارد گرد کے مسلمانوں کو یہ باتیں سمجھانے کی کوشش کرو کہ مسلمانوں کی عدم ہمدردی اور سختی سے یہ لوگ تنگ آکر اسلام کو چھوڑ رہے ہیں.اسلام کی خاطر آپ اب ان سے اچھی طرح معاملہ کریں اور خوش اخلاقی اور احسان سے پیش آویں اور سمجھا دیں کہ ان کا ہندو ہونا نہ صرف ہمارے دین کے لئے مضر ہو گا بلکہ اس کا یہ نتیجہ بھی ہو گا کہ ہندو آگے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا ئیں گے.(ب) یہ بھی سمجھا ئیں کہ اس فتنہ کو سختی سے نہیں روکا جا سکتا اور سختی سے روکنے کا فائدہ بھی کچھ نہیں.پس چاہئے کہ محبت کی دھار سے ان کی نفرت کی کھال کو چیرا جائے اور پیار کی رسی سے ان کو اپنی طرف کھینچا جائے.وہ لوگ جو غیر تعلیم یافتہ ہیں.کبھی ان سے معلمی بحثیں نہ کرو.بالکل مدائی موٹی باتیں ان ت کرو.موٹی موٹی باتیں یہ ہیں.آریہ مذہب کے بانی نے کرشن جی کی (جن کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں اور ان سے شدید تعلق رکھتے ہیں) جو بڑے بزرگ تھے.ہتک کی ہے.نیوگ کا مسئلہ خوب یاد رکھو اور ان کو سمجھاؤ کہ تم راجپوت ہو کر ایسی تعلیم کے پیچھے جاسکتے ہو.مرکز میں ستیارتھ پر کاش رہے گی اگر حوالہ ما نگیں تو دکھا سکتے ہو.ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد کو زبر دستی مسلمان کر لیا گیا تھا.ان سے کہو کہ راجپوت تو کسی سے ڈرتا نہیں.یہ بالکل جھوٹ ہے اس بات کو ماننے کے تو یہ معنے ہوں گے کہ تمہارے باپ دادا راجپوت ہی نہ تھے.کیا اس قدر قوم راجپوتوں کی اس طرح دھرم کو خوف یا لالچ سے چھوڑ سکتی تھی.کہو کہ یہ بات برہمنوں نے راجپوتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بنائی ہے.پہلے ان لوگوں نے تمہاری زمینوں کو سود سے تباہ کیا اب یہ لوگ تمہاری قومی خصوصیت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں.یہ بنئے تو اپنے ایمان پر قائم رہے اور تم راجپوت بہادر ہو کر بادشاہوں سے ڈر گئے.یہ جھوٹ ہے تمہارے باپ دادوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا تھا.ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی قوم سے آلو.ان کو سمجھاؤ کہ لاکھوں راجپوت مسلمان ہو چکے ہیں.

Page 382

تاریخ احمدیت جلد ۴ 346 خلافت هانیه کا دسواں - پس اگر ملنا ہے تو یہ ہندو مسلمان ہو کر تم سے مل جاویں اور یہ ملاپ کیسا ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر دور سے تعلق والوں سے جاملو.ان کو بتاؤ کہ کرشن جی کی ہم مسلمان تو مہما کرتے ہیں اور ان کو او تار مانتے ہیں لیکن آریہ ان کی ہتک کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں.تمہارے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور الگ کچھ اور کہتے ہیں.ان کو بتاؤ کہ ہندو تو تم کو ہندو کر کے بھی چھوت چھات کرتے ہیں اور کریں گے.چند لوگ لالچ دلانے کو تمہارے ساتھ کھا پی لیتے ہیں ورنہ باقی قوم تم سے برتاؤ نہیں کرے گی چاہو تو چل کر اس کا تجربہ کرلو لیکن مسلمان تم کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں.ان کو بتاؤ کہ آریہ جو آج تم کو چھوت چھات کی تعلیم دیتے ہیں دوسری جگہوں میں جا کر نیچ قوموں میں شدھی کرتے اور چماروں کو ساتھ ملاتے ہیں.اس کے حوالے یاد رکھو.(جیسے جموں میں شدھی ہو رہی ہے لیکن ایسی طرز پر بات نہ کرو کہ گویا تم چھوت چھات کے قائل ہو بلکہ اس بات کا اظہار کرو کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں.ان کو بتاؤ کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں.اس کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ سود کی شرح محدود کر دی جائے اور قانون انتقال اراضی پاس کیا جائے مگر ہندو اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں (ان دونوں قانونوں کو اچھی طرح سمجھ لو) ان باتوں کا ان کو فائدہ سمجھاؤ اور کہو کہ ان کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو آریہ یا ہندو آئے اسے کہو کہ اگر تم سچ سچ ہمارے خیر خواہ ہو تو یہ دونوں قانون پاس کراؤ.پھر ہم سمجھیں گے کہ تم ہمارے خیر خواہ ہو.۲۳- اپنے دل کو پاک کر کے اور ہر ایک تکبر سے خالی کر کے بیماروں اور مسکینوں کے لئے دعا کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور سنے گا انشاء اللہ میں بھی انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا تاخد اتعالٰی تمہاری دعاؤں میں برکت دے.۲۴- اپنی زبان کو اس بات کا عادی بناؤ کہ ان بزرگوں کو جن کو فی الواقع ہم بھی بزرگ ہی سمجھتے ہیں ایسے طریق پر یاد کرو جو ادب اور اخلاص کا ہو.کھانے پینے پہننے میں ایسی باتوں سے پر ہیز کرو جن سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے.الگ جو چاہو کرو لیکن ان کے سامنے ان کے دل کو تکلیف دینے والی بات نہ کرو کہ علاوہ تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے یہ بد اخلاقی بھی ہے.

Page 383

347 - ہر ایک کام تدریجی طور پر ہوتا ہے یہ مت خیال کرو کہ وہ ایک دن میں پکے مسلمان ہو جائیں گے جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے.وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوں گے پس یک دم ان پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں.تین چار ماہ میں خود ہی درست ہو جائیں گے.پہلے تو صرف اسلام سے محبت پیدا کرو اور نام کے مسلمان بناؤ.مگر یہ بھی نہ کرو کہ اسلام کی کوئی تعلیم ان سے چھپاؤ کیونکہ اس سے بعد میں ان کو ابتلاء آوے گا.اور یادہ ایک نیا ہی دین بنالیں گے.۲۷ لباس وغیرہ ان کے جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دو اور ابھی چوٹیاں منڈوانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.یہ باتیں ادنیٰ درجہ کی ہیں.جب وہ پکے مسلمان ہو جائیں گے خود بخود ان سب باتوں پر عمل کرنے لگیں گے.۲۸.جس جگہ پر جاؤ.وہاں خوش خلقی سے پیش آؤ اور بے کسوں کی مدد کرو اور دکھیاروں کی ہمدردی کرد کہ اچھے اخلاق سو وعظ سے بڑھ کر ہوتے ہیں.-۲۹ جس جگہ کی نسبت معلوم ہو کہ وہاں کسی شخص کو مناسب مدد دے کر باقی قوم کو سنبھالا جا سکتا ہے.تو اس کی اطلاع افسر حلقہ کو کرد.مگر یاد رکھو کہ اس طرف نہایت مجبوری میں توجہ کرنی چاہئے.جب کوئی چارہ ہو ہی نہیں.اسی صورت میں یہ طریق درست ہو سکتا ہے.مگر خود کوئی وعدہ نہ کرو نہ کوئی امید دلاؤ امداد کس رنگ میں دی جاسکے گی.یہ افسروں کی ہدایت میں درج ہو گا.اس معاملہ کو افسر حلقہ کے سپر د ر ہنے دو.کھانے پینے پہننے میں بالکل سادہ رہیں اور جس جگہ افسر حلقہ مناسب سمجھے وہاں کا مقامی لباس پہن لیں اور جس جگہ وہ مناسب سمجھے ایک چادر ہی پہن لو اگر ضرورت ہو تو گیر دار نگ دلوالو.یاد رکھو کہ لباس کا تغیر اصل نہیں.لباس کا تغیر اسی وقت برا ہو تا ہے جب انسان ریا کے لئے یا کسی قوم سے مشابہت کی غرض سے پہنتا ہے.تمہارا تغیر لباس تو عارضی ہو گا اور جنگ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہو گا.پس تمہارا طریق قابل اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ تم سادھو یا فقیر یا صوفی کہلانے کے لئے ایسا طریق اختیار نہیں کرو گے اور چند دن کے بعد پھر اپنا لباس اختیار کر لو گے.اس لباس کی غرض تو صرف دشمن اسلام کے حملہ کا جواب دینا ہوگی.ا کبھی اپنے کام کی رپورٹ لکھنے اور پھر اس کو دفتر حلقہ میں بھیجنے میں سستی نہ کرو.یاد رکھو کہ یہ کام تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے.جب تک کام لینے والوں کو پورے حالات معلوم نہ ہوں وہ زکام کو اچھی طرح نہیں چلا سکتے.پس جو شخص اس کام میں سستی کرتا ہے وہ کام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے.

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۳۲ و 348 خلافت ثانیہ کا دسواں سال دشمن تمہارے کام کو یہ نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کی تدابیر کو اختیار کرے گا.تمہاری ذرا ی بے احتیاطی کام کو صدمہ پہنچا سکتی ہے.پس فتنہ کے مقام سے دور رہو اور ایسی مجلس میں نہ جاؤ جس میں کوئی تہمت لگا سکے.کسی شخص کے گھر میں نہ جاؤ.جب تک تجربہ کے بعد ثابت نہ ہو جائے کہ وہ دشمن نہیں دوست ہے.کھلے میدان میں لوگوں سے باتیں کرو.۳۳.غصہ کی عادت ہمیشہ ہی بُری ہے مگر کم سے کم اس سفر میں اس کو بالکل بھول جاؤ کسی وقت غصہ میں آکر اگر ایک لفظ بھی سخت تمہارے منہ سے نکل گیا یا تم کسی کو دھمکی دے بیٹھے یا کسی کو مار بیٹھے تو اس کا فا ئدہ تو کچھ بھی نہیں ہو گا.مگر آریہ لوگ اس کو اس قدر شہرت دیں گے کہ ہمارے مبلغوں کو ان کے حملوں کے جواب دینے سے فرصت نہ ملے گی اور سلسلہ کی سخت بد نامی ہوگی.پس گالیاں سن کر دعا دو اور عملا دی.اور جوش دلانے والی بات کو سن کر سنجیدگی سے کہہ دو کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم تمہیں اس کا جواب دینے سے مانع ہے.تم پھر بھی اس کے خیر خواہ ہی رہو.اپنے مخالف سے بھی کہو کہ تم اس کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم باوجود اس کی عداوت کے اس کے خیرہ خواہ ہو کیونکہ تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر کیا ہے.اگر کوئی مار بھی بیٹھے تو اس کی پرواہ نہ کرو.یاد رکھو کہ لوگ بزدل کو حقیر جانتے ہیں اور وہ فی الواقعہ حقیر ہے لیکن تکلیف اٹھا کر صبر کرنے والا اور اپنے کام سے ایک بال کے برابر نہ ہٹنے والا بزدل نہیں وہ بہادر ہے.بزدل وہ ہے جو میدان سے بھاگ جاتا ہے یا اپنی کوششوں کوست کر دیتا ہے جو مار کھاتا ہے اور صبر کرتا اور اپنے کام کو جاری رکھتا ہے.وہی در حقیقت بہادر ہے کیونکہ بہادری کا پتہ تو اسی وقت لگتا ہے جب اپنے سے طاقتور کا مقابلہ ہو اور پھر بھی انسان نہ گھبرائے.۳۴.میں نے بار بار آہستگی کی تعلیم دی ہے.اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مہینوں اور برسوں میں کام کرو.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم بقدم چلو.جب قدم مضبوط جسم جائے تو پھر دوسرے قدم کے اٹھانے میں دیر کرنا اپنے وقت کا خون کرنا اور اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے.اگر گھنٹوں میں کام ہو تا ہے تو گھنٹوں میں کرو.اگر منٹوں میں کام ہوتا ہے تو منٹوں میں کرو.صرف یہ خیال کر لو کہ اس کی رفتار ایسی تیز نہ ہو کہ خود کام ہی خراب ہو جائے یا آئندہ کام پر اس کا بد اثر پڑے.ایسے علاقوں میں رات نہ گزارو جہاں فتنہ کا ڈر ہو.اگر وہاں رات بسر کرنی ضروری ہے تو شہر میں نہ رہو.شہر سے باہر کسی پرانے مکان یا کسی جھونپڑے میں یا پاس کے کسی گاؤں میں رہو صبح پھر ہیں آجاؤ.یہ بزدلی نہیں حکمت عملی ہے.۳۰.اس عرصہ میں اگر میرا نے ہندوؤں کو تبلیغ کر سکو تو اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دوں مگر سوائے

Page 385

تاریخ احمد بہت جلد ۴ 349 ان لوگوں کے جن کا کام بحث کرنا مقرر کیا گیا ہے.دوسرے لوگ بحث کے کام میں حصہ نہ لیں.بلکہ فرد افرد اور الگ الگ تبلیغ کریں.۳۷.اردگرد کے ہندوؤں کے خیال معلوم کر کے جو شدھی کے برخلاف ہوں ان میں بھی غیر معلوم طور پر اس تحریک کے خلاف جوش پیدا کرنے کی کوشش کرو.۳۸ یہ کوشش کرد که شدھی ہونے والے راجپوتوں پر ثابت ہو جائے کہ ہندو قوم بحیثیت قوم ان کے ساتھ اپنے لوگوں والا برتاؤ کرنے کے لئے تیار نہیں اور کسی تدبیر سے ایسے لوگوں کو جو اس بات کو دیکھ کر شدھی کی بے ہودگی کو سمجھ سکیں ان لوگوں سے ملاؤ.جو شدھی شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار نہیں.۳۹ ان فلموں اور شرارتوں کی یا جبر کی خوب خبر رکھو جو آریہ لوگ شدھی کے لئے کرتے ہیں اور جہاں جہاں ایسی مثالیں معلوم ہوں ان کا پورا حال معلوم کر کے گواہوں اور مخبروں کے نام سمیت اپنے حلقہ کے دفتر میں ضرور اطلاع دو.اس سے اس کام میں بہت مدد مل سکتی ہے اگر کسی جگہ کے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہاں آریوں نے بندوقیں اور تلواریں لے کر جمع ہونا ہے اور طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کی اطلاع ضرور قبل از دقت دفتر کو دو - تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے.۴۰ راجپوت یا دیگر اقوام جن میں شدھی ہو رہی ہے ان میں سے اسلام کا درد، لکھنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ ان سے دوستی اور تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے رہو.محنت سے کام کرو اور وقت کو ضائع نہ ہونے دو دن میں کئی کئی گاؤں کی خبر لے لینی چاہئے.چلنے پھرنے کی عادت ڈالو اور کم ہمتی کو پاس نہ آنے دو.ہدایت زریں میرا لیکچر تبلیغ کے طریق پر ہے.وہ حلقوں میں اور صدر میں رکھا ہوا ہو گا اس کو خوب اچھی طرح پڑھ لو.کیونکہ اس میں تبلیغ کے متعلق بعض عمدہ گر جو اس جگہ درج نہیں ہیں لمیں گے.۴۳.بعض شعر جن میں آریہ مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی اور بعض نظمیں مسائل کے متعلق اپنے پاس رکھو اور گاؤں کے چند نوجوان لوگوں کو یاد کرا دو پھر بار بار ان سے بلند آواز سے پڑھوا کر وہ سنو.اس سے ان میں جوش پیدا ہو گا.۴۴ اصل چیز جو ارتداد سے روک سکتی ہے وہ روحانیت ہے.پس سنجیدگی اور قناعت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرد کہ اس کے بغیر سب کو ششیں رائیگاں ہیں.

Page 386

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 350 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال ۴۵.جہاں تک ہو سکے ان کو زائد وقت میں تعلیم دینے کی کوشش کرو.لفظ لفظ پڑھ کر بھی انسان کچھ عرصہ میں پڑھ جاتا ہے.وہ اردو جاننے لگیں تو اس سے بھی اس فتنہ کا بہت حد تک ازالہ ہو جائے گا.ایسے تمام علاج جو مقامی واقفیت سے ذہن میں آویں ان سے اپنے حلقہ کے افسر کو اطلاع دو تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.۴۷.ایسے نوجوان جو زمین ہوں اور تعلیم کا شوق رکھتے ہوں اور تعلیم کی خاطر چند دنوں کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہوں ان کی تلاش رکھو اور پتہ لگنے پر انکے نام اور پستہ اور جملہ حالات سے افسر حلقہ کو اطلاع دو - ۴۸.جس بات کو مخفی رکھنے کے لئے کہا جائے.اس کو پوری طرح مخفی رکھو.حتی کہ بلا اجازت اپنے آدمیوں پر بھی ظاہر نہ کرو کہ ایسا کرنا بدیانتی اور سلسلہ کی خیانت ہے.۴۹ آریوں کے طریق عمل اور ان کے مبلغوں کی نقل و حرکت اور ان کے انتظام کا نہایت ہوشیاری اور غور سے مطالعہ کرو اور جب کوئی بات اس کے متعلق معلوم ہو تو فورا اس کے متعلق افسر حلقہ کو اطلاع دو.اس امر میں ستی تبلیغ کے لئے مضر اور اس میں کوشش تبلیغ کے لئے بہت مفید ہو گی.مجھے خط براہ راست آپ لکھ سکتے ہیں.مگر یہ خط رپورٹ نہیں سمجھا جائے گا.رپورٹ وہی سمجھی جائے گی جو افسروں کے توسط سے مجھ تک آئے گی.-0° ۵۱ ۵۲ اس عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت کیا تھا یا اب اس تحریک کے وقت کیا ہے اور ان ہدایات کو بار بار پڑھتے رہیں اور پوری طرح بلا سر مو کے فرق کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالٰی اس میں آپ کا مددگار ہو.جب دو سرے بھائی کو چارج دیں تو ان تمام لوگوں سے اس کو ملا دیں جو واقف ہو چکے ہیں اور جن سے کام میں مدد ملنے کی امید ہے اور ان لوگوں سے آگاہ کر دیں.جن سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور سارے علاقہ کی پوری خبر اس کو دیں اور اپنی نوٹ بک سے وہ سب باتیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں.اس کو نقل کروا دیں تاکہ وہ بغیر محنت کے کام کو آگے چلا سکے اور ایک دفعہ ساتھ مل کر اس کو دورہ کرا دیں.پھر دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا.واپس آجادیں اور آنے سے پہلے اپنے حلقہ کے مرکز میں آکر رپورٹ کریں کہ میں فلان شخص کو چارج دے چکا ہوں اور جو معلومات وہ چاہیں ان کو بہم پہنچا

Page 387

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 351 خلافت نمائید کار سواں سال کر اور ان کی اجازت سے مع الخیر واپس ہوں.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام - خاکسار: میرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی قادیان دارالامان - ضلع گورداسپور ۲۱ / اپریل ۱۹۲۳ء حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی شدھی مجاہدین احمدیت شدھی کے علاقہ میں کے خلاف اپنی سکیم یکم اپریل ۱۹۲۳ء سے جاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.مگر حالات کی نزاکت کے پیش نظر حضور نے وسط مارچ ۱۹۲۳ ء ہی سے اس کا آغاز فرما دیا.چنانچہ آپ کی ہدایت پر صیغہ انسدادار مداد مکان" کے نام سے ایک نیا دفتر کھولا گیا اور اس کے افسر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور نائب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب تجویز ہوئے.اس مرکزی ادارہ کے قیام کے ساتھ آپ نے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو امیر المجاہدین مقرر فرمایا.اور ان کی سرکردگی میں ۱۲ / مارچ ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کا پہلا دفد روانہ فرمایا- اس پہلے وفد کے مجاہدین مندرجہ ذیل تھے.(1) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے (امیر المجاہدین) (۲) حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے.بی.ٹی.(۳) شیخ یوسف علی صاحب بی.اے (۴) صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے (۵) صوفی محمد ابراہیم صاحب بی.ایس.سی.(۲) ڈاکٹر نور احمد اسٹنٹ سرجن (۷) حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب ( نو مسلم ، قادیانی) (۸) ماشہ محمد عمر صاحب نو مسلم (۹) ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (۱۰) چوہدری بدر الدین صاحب (۱۱) مولوی ظفر اسلام صاحب (۱۲) میان عبدالسمیع صاحب (۱۳) محمد ابراہیم صاحب نا تک (۱۴) فتح محمد صاحب ملتانی سپاہی (۱۵) عزیز احمد صاحب (۱۶) عبد اللطیف صاحب گجراتی (۱۷) میاں خدا بخش صاحب (مومن پٹیالوی) (۱۸) حبيب الرحمن صاحب افغان (۱۹) سید صادق حسین صاحب اٹارہ (جن کو اٹاوہ سے شامل وفد ہونے کی ہدایت دی گئی.اس دفد کی روانگی کے چند دن بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی آگرہ اور اس کے ماحول میں مناظرات اور تقاریر کے لئے بھجوائے گئے.چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی قیادت میں دستہ ۱۲ / مارچ ۱۹۲۳ء کو روانہ ہو کر ۱۴/ مارچ ۱۹۲۳ء کو بمقام اچھنیرہ ضلع آگرہ میں پہنچا.یہاں چوہدری نذیر احمد خاں صاحب وکیل ریاست جے پور اور نیاز محمد خان صاحب جے پور اور محبوب خاں صاحب جو اپنے علاقہ کے سرکردہ غیر احمدی راجپوتوں میں سے تھے اور اسلام کے لئے

Page 388

تاریخ احمدیت جلد ۳ 352 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال درد مند دل رکھتے تھے چوہدری صاحب کی ملاقات کے لئے آئے اور جماعت کا قافلہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ ہی لوگوں کے منتظر تھے.یہ کام بہت نازک ہے اور آپ ہی کی کوشش اور تندہی سے خاطر خواہ طور پر انجام پاسکے گا.اچھنیرہ میں مجلس " نمائندگان تبلیغ " کے نمائندوں میں شدید اختلاف رونما ہو چکے تھے اور ان کے دور ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی.تاہم حضرت چوہدری صاحب نے ان تینوں اصحاب کی معرفت کہلا بھیجا کہ ہم اس انجمن سے ہر طرح ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر باہمی چپقلش کے انتہا تک پہنچنے کی وجہ سے ان نمائندوں میں اتفاق نہ ہو سکا.لہذا انجمن کی طرف سے چوہدری صاحب کو اطلاع آئی کہ آپ لوگ اپنا کام الگ شروع کر دیں اور ساتھ ہی احمدیوں کے لئے آگرہ کے ماحول کا ایک ایسا علاقہ مقرر کر دیا گیا.جہاں ارتداد پورے زوروں پر تھا یعنی اس علاقہ کا ایک حصہ تو مرتد ہو چکا تھا اور باقی علاقہ ارتداد سے خطر ناک طور پر متاثر تھا.اس علاقہ کے راجپوتوں اور مولوی صاحبان نے متفق ہو کر کہا کہ اس علاقہ میں خطرہ بہت سخت ہے اس لئے ہم یہ کام آپ ہی کے سپرد کرتے ہیں.آریوں کی طرف سے شدھی کے مختلف ذرائع وہ علاقہ جو جماعت احمدیہ کے لئے مقرر کیا گیا بلاشبہ سب سے اہم میدان جنگ تھا اور جیسا کہ احمدی مجاہدین کو یہاں پہنچ کر معلوم ہوا.یہاں آریہ چپہ چپہ پر شدھی میں مصروف تھے اور اس غرض کے لئے اس پراپیگنڈہ کے علاوہ جس کا ذکر اوپر آچکا ہے.ہر قسم کے ناروا طریقے استعمال میں لاز ہے تھے.کہیں روپے کا لالچ دے رہے تھے اور کہیں ظلم و تشدد کر کے انہیں اپنی زمین اور مکان سے بے دخل کر رہے تھے.اور یہ سب ہندو راجوں اور ہندو افسروں کی پشت پناہی میں ہو رہا تھا.مثلاً ضلع فرخ آباد کی ایک چھوٹی سی ریاست تر وانامی تھی.جس کا راجہ شدھی کا بڑا زبر دست حامی تھا.وہ خود دیہات میں جاتا.سائبان لگ جاتے حلوہ پوری پکنی شروع ہو جاتی.راجہ غریب ملکانوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا.ان کے قرضے اتارتا.اس طرح بھولے بھالے مالکانے شدھ : ونے کے لئے تیار ہو جاتے.ایک اور طریق یہ دیکھنے میں آیا کہ گاؤں کے چند شوریدہ سر آوارہ طبع لوگوں کو چن لیتے اور ان پر اپنا اثر جما کر باقی لوگوں کو بھی شدھ کر لیتے.جس گاؤں کو شدھ کرنا ہو تا تھا وہاں کی ملکانہ آبادی سے کئی گنا آدمی لے کر موٹروں ، گاڑیوں اونٹوں ، رتھوں ، بندوقوں اور تلواروں کے ساتھ پہنچتے اور اس نمائش سے مرعوب کر کے مسلمانوں کو شدھ کر لیتے.ضلع آگرہ کے ایک گاؤں (فتح پور میں جب آریہ گئے تو بعض مسلمان عورتوں نے جو شدھی کے خلاف تھیں تنگ آکر کنویں میں

Page 389

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 353 خلافت مانید کار سواں سال ڈوب مرنے کی کوشش کی جنہیں بڑی مشکل سے بچایا گیا.جہاں جہاں آریوں کا زور بڑھتا جاتا تھا شدھ سے انکار کرنے والوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا تاوہ بھی ارتداد اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں.اس سلسلہ میں ایک اہم واقعہ جو ترتیب کے لحاظ سے آگے آنا چاہئے.مگر آریوں کی تشدد آمیز کارروائیوں کا نمونہ بتانے کے لئے ضروری ہے.یہیں درج کئے دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ فرخ آباد کے گاؤں بھڑا میں ایک نوجوان شہزادہ نامی نے اپنی بہادر مسلمان بیوی "بسم اللہ " کو شدھ ہونے کے لئے کہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا جس پر شہزادہ نے اسے لاٹھی سے مار مار کر نیم جان کر دیا وہ بے چاری آخر دم تک مرغ بسمل کی طرح تڑپتی رہی اور یہ کہتے ہی دم تو ڑ دیا کہ میں مرجاؤں گی مگر شدھ نہیں ہوں گی اس حادثہ کے بعد آریوں نے اس مظلومہ کی لاش دفن کر دی اور مشہور کر دیا کہ وفات ہیضہ سے ہوئی ہے بسم اللہ کا باپ نور خان ایک غریب اور بے کسی آدمی تھا.بھاگا بھاگا اپنے مولویوں کے پاس گیا مگر کسی نے پروانہ کی.آخر وہ فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے پاس گیا.انہوں نے آگرہ کے مرکز میں اطلاع دی اور شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ جو آگرہ میں مصروف جہاد تھے.فرخ آباد آئے اور نور خاں کی طرف سے عدالت میں درخواست دلوائی اور خاص توجہ سے مقدمہ کی پیروی کی.قصہ کو تاہ لاش نکلوائی گئی.اور ڈاکٹری معائنہ بھی ہوا.مگر اوپر سے نیچے تک تمام کارروائی ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم صاف بری ہو گیا - یہ تمام تر حربے اتنے ناروا اور خلاف اخلاق تھے کہ مشہور ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی کھلا اعتراف کرنا پڑا کہ."جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں تحریک شدھی کی بنیاد مختلف اسباب پر ہے اور نا پسندیدہ طریق پر اسے چلایا جا رہا ہے.بجائے امن و یکجہتی کے اس کی وجہ سے نفرت و حقارت بے اعتمادی اور تلخی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں.رواداری کا قطعی فقدان ہو گیا ہے.اور ہم میں سے اچھے اچھے اشخاص بھی قابل شرم شکوک وشبہات سے بری نہیں ہیں ".پھر ان ہی دنوں مسٹر گاندھی نے شدھی کے علمبردار سوامی شردھانند اور آریوں کی نسبت اپنی یہ واضح رائے دی کہ." آپ جہاں کہیں بھی آریہ سماجیوں کو پائیں گے وہاں ہی زندگی اور سرگرمی موجود ہوگی تنگ نظری اور لڑائی کی عادت کی وجہ سے وہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں.شردھا نند جی....کو بھی اس سپرٹ کا حصہ وافر ملا ہے......آریہ سماجی اپریشک (مبلغ) کو اتنی خوشی

Page 390

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 354 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال کبھی نہیں ہوئی جتنی کہ دیگر مذاہب کی بد گوئی کرنے کے وقت ہوتی ہے ".مجاہدین احمدیت کی ابتدائی سرگرمیاں یہ دہ حالات تھے جن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے علاقہ ارتداد میں قدم رکھا.حضرت چوہدری صاحب نے اپنا مرکز شہر آگرہ میں قائم کر کے مجاہدین کو مین پوری ایٹہ ، فرخ آباد علی گڑھ کرنال اور مظفر نگر کے اضلاع سے صحیح صحیح حالات کی رپورٹ کے لئے بھیجا اور دس دن میں لوٹنے کی تاکید کردی - جن علاقوں میں شدھی ہو چکی تھی.یا ہونے کی افواہ تھی وہاں بھی مبلغ بھجوا دیئے.خصوصاً ریاست بھرت پور کے اکرن نامی مشہور گاؤں میں جہاں جمیا نامی ایک بہادر راجپوت بڑھیا پورے گاؤں کے شدہ ہونے کے باوجود اسلام پر قائم تھی.جمیا کے بیٹوں نے آریوں کے دھمکانے پر اس سے بار بار کہا کہ شدہ ہو جاؤ تمام آریہ اور ریاست کے حاکم کہہ رہے ہیں مگر یہ نیک بخت عورت نہ مانی.اسے بہت دکھ دیئے گئے اور اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا لیکن وہ یہی کہتی رہی کہ ”بیٹا میں اسلام کو نا ہیں چھوڑ سکت چاہے گردن کٹ جائے ".اسی طرح ملکانہ کے مشہور قصبہ نو گاؤں میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ مقرر ہوئے.جو اصحاب علاقہ کا ابتدائی دورہ کرنے کے لئے بھجوائے گئے تھے وہ جلد ہی پورے محاذ کا دورہ کر کے نہایت اہم معلومات لے کر واپس آئے.اس سلسلہ میں انہیں سخت مجاہدہ کرنا پڑا.چنانچہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے.ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم شیخ یوسف علی صاحب بی.اے اور دو سرے مجاہدین نے تیز اور چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کیا.بعض اوقات کھانا تو الگ رہا ان کو پانی بھی نہ مل سکا.کھانے کے وقت یا تو اپنا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے دانے کھا کر پانی پی لیتے اور اگر سامان میسر آسکتا تو آٹے میں نمک ڈال کر اپنے ہاتھوں روٹی پکا کر کھالیتے.رات کو جہاں جگہ ملتی سو جاتے.مکانوں نے ان کی خاطر تواضع دودھ سے کرنا چاہی.مگر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے واپس کر دیا.بعض رؤسانے مبلغین کے بستر اور سامان کے لئے مزدور دینا چاہے مگر یہ جانباز سپاہی اپنا سامان اٹھائے پیدل سفر کرتے رہے اور ایک گاؤں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پروا کئے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گاؤں کتنے فاصلے پر ہے فورا آگے روانہ ہو جاتے انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پُر خطر راستوں سے سفر کیا.جہاں جنگلی سور اور بھیڑیئے بکثرت پائے جاتے تھے.یہ مجاہد ملکانوں پر پانی تک کا بھی بوجھ نہ ڈالتے.اور یہ کہتے کہ آپ لوگوں کو دین سکھانے کے لئے ہمارے آدمی آئیں گے.جو آپ سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچ بھی آپ برداشت کریں گے.یہ لوگ چونکہ اپنے مولوی صاحبان کی شکم پروریوں کی وجہ سے

Page 391

تاریخ احمدیت جلد ۴ 355 یه کار سوار بدظن ہو چکے تھے.اس لئے ان کے نزدیک یہ بات بڑی حیرت انگیز تھی کہ ایسے خادم دین بھی موجود ہیں جو رضا کارانہ طور پر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کا بیٹرہ اٹھائے ہوئے ہیں.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے نہ صرف تین دن کے اندر اندر ضلع ایٹہ کے اکثر دیہات کا دورہ مکمل کر لیا اور ہر گاؤں سے متعلق ایسے تفصیلی کو ائف مہیا کئے گویا مدت سے ان دیہات میں ان کی آمد و رفت تھی.ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم اور خدا بخش صاحب " مومن جی" پٹیالوی نے ضلع فرخ آباد کا وسیع دورہ کیا.جناب ماسٹر صاحب نے جوگیوں کے لباس میں بھگوے کپڑے پہنے ننگے سر اور ننگے پاؤں دورہ کرتے رہے جس کا مسلمانوں پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے مولوی نہیں دیکھے جو اس طرح رات دن تبلیغ میں بھاگے پھریں اور کسی پر کھانے پینے کا بوجھ نہ ڈالیں.جناب شیخ یوسف علی صاحب بی.اے ریاست بھرت پور اور علاقہ تنسی میں گئے اور بہت سے گاؤں میں پہنچ کر معزز لوگوں کو پیش آمدہ خطرہ سے آگاہ کیا.اسی دوران میں شیخ صاحب ریاست بھرت پور کے گاؤں اکرن کی جواں ہمت ستر سالہ بڑھیا جمیا سے بھی ملے جو آریوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود مذہب اسلام پر قائم تھی.مائی جمیا نے بتایا کہ مرتد مسلمانوں نے تعصب اور ضد کی وجہ سے اس کی فصل کاٹنے سے بالکل انکار کر دیا ہے.یہ خبر آگرہ کے دارالتبلیغ میں پہنچی تو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیرو فد المجاہدین نے اسی وقت جناب قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی.ٹی کو (جو اس علاقہ کے انچارج تھے) حکم دیا کہ سب کام چھوڑ کر فورا اپنے آدمیوں کو ساتھ لے کر فصل کاٹنا شروع کر دیں.اور اس مائی کی حفاظت کا پورا پورا سامان کریں.چنانچہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی.اے بی.ٹی اور دو سرے مجاہدین نے ہاتھوں میں درانتیاں پکڑ کر بڑھیا کی ساری فصل کاٹ دی.صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے نے ضلع مین پوری اور متھرا کا دورہ کر کے قریباً چالیس دیہات میں چکر لگایا.اور سولہ میل روزانہ کی اوسط سے پیدل سفر کرتے رہے.ایک بار کھانے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا اور متواتر انیس گھنٹہ تک بھوکے رہے اور اسی حالت میں سفر جاری رکھا.غرض کہ اس پہلے ہر اول دستہ کے مجاہدین دس دن تک آگرہ متھرا بھرت پور ایٹہ انادہ مین پوری، فرخ آباد کے اضلاع میں طوفانی دورہ کر کے نہ صرف آئندہ کی مورچہ بندی کے لئے مکمل رپورٹ اور سکیم ساتھ لائے بلکہ شدھی سے متاثر مقامات کے مسلمان مالکانوں کے حوصلے بلند کر دیئے اور ان کو آریوں کے عزائم سے چوکس اور ہوشیار کر دیا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے ۲۴ مارچ کو تار دیا کہ میں مبلغین کی فوری ضرورت ہے

Page 392

تاریخ احمدیت جلد ۴ 356 خلافت ثانیہ کا دسواں سال چنانچہ ادھر یہ مجاہدین حالات کا جائزہ لے کر آگرہ میں پہنچے ادھر ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے ہیں کی بجائے بائیں مجاہدین کا در سراوند آگیا.اس وفد کے بعض افراد کے نام یہ ہیں.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی - چوہدری عبد السلام صاحب کاٹھ گڑھی.جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل، جناب مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی منشی عبد الخالق صاحب کپور تھلوی.منشی محمد الدین صاحب ملتانی (والد ماجد جناب شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ) ہادی علی خان صاحب (برادر زادہ مولانا محمد علی شوکت علی شیخ محمد ابراہیم علی صاحب پسر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) اور حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی - حضرت چوہدری صاحب رات کے ایک بجے تک اس وفد کو صورت حال سے آگاہ کرتے اور ہدایات دیتے رہے اور دوسرے ہی دن ۲۷ / مارچ ۱۹۲۳ء کو مختلف انسپکٹڑوں کی سرکردگی میں نئے مجاہدین کو مختلف اضلاع میں روانہ کر کے ہر طرف پھیلا دیا.چنانچہ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی بھوپت پور (ضلع ایٹہ) میں چوہدری عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی متھرا کے گاؤں بھائی ہیں.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب متھرا کے دوسرے گاؤں آنور میں اور سید عزیز الرحمن صاحب ضلع فرخ آباد میں بھجوائے گئے.میدان ارتداد میں تبلیغی جنگ کا ابتدائی نقشہ اس دوسرے وند کے پہنچے پر میدان ارتداد میں مدافعت کا ابتدائی نقشہ یہ ہو گیا امیر المجاہدین کے ساتھ صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی اور خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے آگرہ میں کام شروع کیا.مولانا جلال الدین صاحب شمس آگرہ اور دوسرے علاقوں میں مانوں اور تقریروں کے لئے مقرر ہوئے.ضلع آگرہ کے موضع کھڈوائی میں مولوی ظفر اسلام صاحب موضع سکرار میں منشی محمد دین صاحب اور ان کی نگرانی اور نئے حالات سے تبلیغی مرکز میں اطلاع دینے کی خدمت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سپرد ہوئی.ضلع متھرا میں (جو اس وقت آریوں کا بھاری مرکز تھا) حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب ، حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ ، میاں خدا بخش صاحب مومن ، چوہدری بدر الدین صاحب چوھدری عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی ، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز حضرت قاضی محمد عبد اللہ بی.اے بی ٹی اور شیخ یوسف علی صاحب بی.اے پہلے ہی نو گاؤں پر کھم، موضع بھائی موضع ہاتھی ، موضع تیرہ اور موضع بیری وغیرہ میں کام کر رہے تھے.ضلع فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم تھے اور ان کے تحت حضرت سید عزیز الر حمن صاحب

Page 393

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 357 خلافت ماشیہ کا دسواں سال اور دو سرے متعدد مجاہدین قائم گنج علی گڑھ و قنوج برون ، چھٹر مئو محمد آباد اور منگھوالی میں مصروف جہاد تھے.ضلع ایٹہ کے قصبات و مواضع (دھو مری ، بھوپت پور اور کاس گنج میں مولوی عبد الخالق صاحب اور مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی فاضل وغیرہ نے مورچے سنبھالے.ریاست بھرت پور ضلع علی گڑھ ، ضلع مظفر گڑھ اور ضلع اٹاوہ میں بالترتیب مولوی عبد الصمد صاحب پٹیالوی - شیخ ابراہیم علی صاحب منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی اور ہادی علی خان صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے مجاہدین کا تقرر ہوا.۴/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے مجاہدین کا تیسرا وفد بھی جو بائیس افراد پر مشتمل تھا راتوں رات ہدایات لے کرے / اپریل کو میدان عمل میں پہنچ گیا.اس وفد میں دوسرے احباب کے علاوہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب، حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکر ، حضرت مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری ، قریشی محمد حنیف صاحب میر پوری اور عبد اللہ خانصاحب (خلف حضرت خان صاحب ذو الفقار علی صاحب بھی شامل تھے.اس وفد کی آمد پر زور شور سے تبلیغی جنگ لڑی جانے لگی.اسی دوران میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے افسر صیغہ انسداد ارتداد ملکانہ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ آگرہ تشریف لے گئے E اور بچشم خود اصل حالات کا مشاہدہ کر کے اور مبلغین کو ضروری اور مناسب ہدایات دے کر ۲۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو واپس تشریف لائے.آپ کے تاثرات یہ تھے کہ یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی.جس کا محاذ قریباً ایک سو میل کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دو سرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں "." ۵۰ آگرہ متھرا کے اضلاع اور ریاست بھرت پور میں شدھی کا حملہ بہت سخت تھا.مگر امیر دند المجاہدین نے دور اندیشی کی کہ جن علاقوں میں آریہ ابھی پہنچے نہیں تھے یا ان کا زور کم تھا وہاں مجاہدین کو پیش قدمی کا حکم دے کر قبضہ کر لیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے گاؤں ارتداد سے بچ گئے.۱۶ / اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے انیس مجاہدین کا چوتھا وفد جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی امارت میں روانہ ہوا جو حضرت شیخ صاحب موصوف حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی ، مرزا مہتاب بیگ صاحب مولوی محمد اسماعیل صاحب (برادر اکبر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری) اور حضرت منشی قاسم علی خاں صاحب رامپوری وغیرہ اصحاب پر مشتمل تھا - ۱۸/ اپریل ۱۹۲۳ء کو آگرہ پہنچا.اس وفد کے پہنچنے پر میدان جہاد میں کام کرنے والوں کی مجموعی تعداد سو کے قریب ہو گئی.اس کے بعد ایسا انتظام کیا گیا کہ بیک وقت ایک ایک سو آنریری مبلغ اس علاقہ میں کام کرتے تھے ایک

Page 394

یخ احمدیت جلد ۴ 358 خلافت ثانیه کا دسواں سال دستہ فارغ ہو تا تھا تو اس کی جگہ دوسرادند پہنچ جاتا تھا.اگلے وفدوں میں آنے والے بعض اصحاب کے نام بالترتیب یہ ہیں.چوہدری غلام احمد صاحب کر یام.شیخ فضل احمد صاحب ہیڈ کلرک راولپنڈی (حال ربوہ ) محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ( سابق حج ہائی کورٹ مغربی پاکستان)، جناب میاں عطاء اللہ صاحب (بی اے ایل ایل بی لاہور سابق امیر جماعت راولپنڈی میتیم کینیڈا، چوہدری احمد دین صاحب (وکیل گجرات)، میاں فضل کریم صاحب بی.ائے ( مرزا) عبد الحق صاحب لاہور (حال امیر صوبائی و صدر نگران بورڈ) ، شیخ محمد احمد صاحب پلیڈر کپور تھلہ ، بابو غلام رسول صاحب ریڈر سیشن کورٹ پشاور سید فضل الرحمن صاحب فیضی کمرشل ہاؤس منصوری، حضرت میر مهدی حسین صاحب، حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی ، حضرت منشی فرزند علی خان صاحب ملک عزیز محمد صاحب پلیڈر ڈیرہ غازی خان ، حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مولوی محمد حسین صاحب کے حضرت مولوی محمد حسین صاحب وہ خوش نصیب نهایت ایمان افروز چشم دید اور بزرگ ہیں جنہیں پہلی بار ۴.اپریل ۱۹۲۳ء کو خود نوشت حالات مجاہدین کے تیسرے وفد میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ بعد ازاں کچھ عرصہ مربی ملکانہ کی حیثیت سے شاندار خدمات کی توفیق ملی آپ اپنی کتاب ” میری یا میں " میں تحریر فرماتے ہیں: " شردھانند آریہ نے آگرہ سے غالبا یہ اشتہار دیا کہ اگر آریہ سماج چار لاکھ روپیہ اکٹھا کر کے مجھے بھیج دیں تو میں ساڑھے چار لاکھ ملکانہ مرد و زن بچوں کو آریہ بنا سکتا ہوں.جب یہ اشتہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں پہنچا تو حضور کو سخت قلق ہوا اور آپ نے وہ اشتہار خطبہ جمعہ میں پڑھ کر سنایا اور اعلان کیا کہ ہماری جماعت اب میدان میں نکلے اور تین ماہ خدا تعالی کی خاطر وقف کرے اور اپنے نی کرایہ اور کھانے کے بندوبست پر یوپی کے علاقہ جہاں بھی اس کا تعین کیا جائے رہ کر ان لوگوں کو دین

Page 395

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 359 خلافت ماسید کار سوال سال حق سے اچھی طرح وابستہ کرے.چنانچہ جو لوگ اس کام کے لئے تیار ہوں وہ بہت جلد اپنی درخواستیں بھیج کر جانے کے لئے تیار رہیں.حضور کا یہ اعلان سنتے ہی سینکڑوں مخلصین نے درخواستیں دیں.میں نے بھی والد صاحب سے اجازت لے کر درخواست دے دی.میری اس درخواست کا سن کر والدہ صاحبہ بہت گھبرائیں کیونکہ کسی عورت نے بتا دیا تھا کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں ہندوؤں سے جھگڑے ہوں گے اور وہاں ہندو کثرت سے ہیں.نا معلوم یہ کہاں مارے جائیں.عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں.اسی لئے آپ بھی گھبرا گئیں.میں نے آپ کو بڑی محبت سے سمجھایا کہ خدا نے اس جگہ سے ہمیں بچائے رکھا جہاں ہم گورنمنٹ کی نوکری میں صرف جنگ کرنے کے لئے ہی گئے تھے اور یہ تو خداتعالی کا کام ہے وہ خود ہی ہماری حفاظت کرے گا.آپ بالکل فکر نہ کریں اور ہر نماز میں دوسری دعاؤں کے ساتھ دین حق کی فتح کی دعا بھی کرنا شروع کر دیں.قادیان سے ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو پہلا وفد برائے سروے حضور نے روانہ فرمایا.حضور اور دیگر احباب کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک وفد کو روانہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں ایک کنویں کے نزدیک تمام احباب اکٹھے ہو گئے.حضور نے مختلف نصیحتیں کرنے کے بعد ایک لمبی دعا کروا کر وفد کو روانہ کیا اور اس وقت تک وہیں کھڑے رہے جب تک وفد کے احباب جاتے ہوئے دکھائی دیتے رہے.جب یہ وفد آنکھوں سے اوجھل ہوا تو حضور نے واپسی کا سفر شروع کیا.ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آگئے.اس وقت میرے دل میں بہت جوش اٹھا کہ کاش میں بھی اس جانے والے وفد کے ہمراہ ہوتا.واپس قادیان اگر غمگین دل کے ساتھ دوبارہ کام شروع کر دیا.بالآخر ۲۴ مارچ ۱۹۲۳ء کو دوسرا وفد جانے کی افواہ سنی - بڑی خوشی ہوئی کہ اب میرا نام بھی اس وفد میں ضرور آجائے گا.میں نے فہرست میں اپنے نام کی تسلی کرنے کے لئے کوشش کی تو جواب ملا کہ آپ تسلی سے اپنا کام جاری رکھیں.جب آپ کا نام آئے گا تو روانگی سے ایک دن قبل آپ کو اطلاع کر دی جائے گی.۲۳ مارچ کا دن بھی آگیا مگر شام تک مجھے کوئی اطلاع نہ ملی اور اگلے دن صبح یہ اعلان ہو گیا کہ آج بعد دو پر دو سرا وفد روانہ ہو گا.چنانچہ پہلے وفد کی روانگی کی طرح اب بھی ہم حضور کے ہمراہ اسی جگہ تک گئے اور نصائح کے بعد دعا کے ساتھ وفد کو روانہ کیا.میرا نام وفد میں نہ آنے کی وجہ سے سخت اضطراب کی حالت میں رہا اور پھر تنگ آکر میں نے حضور کی خدمت میں ایک درخواست لکھی کہ اگر حضور نے مجھے تیرے وفد میں بھی نہ بھیجا تو میں بیمار ہو جاؤں گا.آخر اللہ تعالیٰ نے میری التجا سن لی اور مجھے اطلاع ملی کہ کل مورخہ ۱۴اپریل ۱۹۲۳ء کو تیسرے وفد کے ہمراہ جانے کے لئے تیار رہیں اور کل دس بجے اپنا مختصر سامان کھانا اور کپڑے وغیرہ ہمراہ لیکر دفتر تشریف لے آئیں.یہ سن کر میری خوشی کی کوئی انتہانہ رہی.اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا اور اگلے دن مع سامان اور ساٹھ روپے نقد لے کر

Page 396

تاریخ احمدیت جلد ۴ 360 دفتر پہنچ گیا.وہاں سے سرٹیفکیٹ ملا کہ حامل سرٹیفکیٹ جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کا ہو نا فائڈ مشنری ہے.اسے ہر جگہ جانا پڑے گا اور ضرورت کے مطابق لباس بھی تبدیل کرنا پڑے گا.اس لئے گورنمنٹ اسے مشتبہ نظر سے نہ دیکھے وغیرہ وغیرہ.مورخه ۴- اپریل ۱۹۲۳ء کو دفتر سے فارغ ہونے کے بعد دفد کے سب اصحاب جو تعداد میں پچیس کے قریب تھے اکٹھے ہوئے اور ہمیں حضور اور دیگر افراد جماعت کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک الوادع کرنے گئے.حضور نے حسب معمول نصائح فرمائیں اور اعلان کیا کہ جس کو نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا یاد ہے وہ گاڑی میں ہی سب احباب کو حفظ کرا دے مجھے اور عبدالرحیم صاحب کو یہ دعایاد تھی چنانچہ ہم نے سب کو یاد کروانے کا اقرار کیا.حضور نے بعد دعا و معانقہ ہمیں رخصت کیا.ہم پیدل ہی جارہے تھے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ لیتے تھے.حضور بھی اس وقت تک کھڑے ہمیں دیکھتے رہے جب تک ہم انہیں دکھائی دیتے رہے.ہم تیزی کے ساتھ چلتے رہے.عصر کی نماز قصر کر کے ہم نے نہر کے کنارہ پر نماز باجماعت ادا کی اور مغرب کے بعد بٹالہ پہنچے.رات کو بٹالہ سے بذریعہ گاڑی روانہ ہوئے اور اگلے دن بعد دو پر آگرہ پہنچے.وہاں چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر تھے.انہوں نے ہمارے لئے حلقوں کا انتخاب کیا.جو لوگ مجھ سے واقف تھے وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے.آخر بابو جمال الدین صاحب جو ایڈیٹر نور محمد یوسف صاحب کے سر تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ میں عمر رسیدہ ہوں اس لئے آپ مولوی محمد حسین کو میرے ہمراہ کر دیں.چوہدری صاحب نے منظور کر لیا.ہمیں ضلع ایٹہ ملا اور عبد الرحمان صاحب قادیانی ہمیں ہمارے حلقہ میں پہنچانے کے لئے ہمراہ چل دیئے.کاس گنج پہنچنے کے بعد بذریعہ لاری ایٹہ پہنچے.چونکہ ہم رات کے وقت اللہ پہنچے تھے اس لئے رہائش کے لئے سرائے تلاش کرنے لگے.ایک آدمی سے بھرائے کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ آپ آباد سرائے میں جائیں گے یا غیر آباد میں ؟ ہم نے کہا آباد سرائے میں تو وہ بیچارہ ہمیں راستہ بتا کر کہنے لگا کہ وہاں روشنی ہو رہی ہو گی اور آپ آسانی سے وہاں پہنچ جائیں گے.جب ہم چند قدم ہی آگے بڑھے تو مجھے خیال آیا کہ اس آباد اور غیر آباد سرائے کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے.چنانچہ واپس آکر دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آباد سرائے میں ہر قسم کی بازاری عورت مل جائے گی اور غیر آباد میں نہیں ملے گی.میں نے لاحول پڑھا اور ہنستے بنتے عبدالرحمان صاحب کو آواز دی کہ ذرا ٹھر جائیں اور انہیں سارا حال سنایا.وہ بھی لاحول پڑھ کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ شکر ہے کہ آپ کو یہ بات بروقت سوجھ گئی ورنہ صبح کو ہماری بڑی بدنامی ہوتی.غرضیکہ ہم غیر آباد سرائے میں چلے گئے.صبح اٹھ کر نماز وغیرہ پڑھی اور بعد دعا بذریعہ یکہ ڈھمری روانہ

Page 397

تاریخ احمدیت جلد ۳ 361 رو ہو گئے.ظہر کے وقت علی گنج کی تحصیل میں ایک گاؤں گڑھی تھا جو پختہ سڑک کے کنارہ پر تھا وہاں پہنچے.بھائی عبد الرحمان صاحب نے ہمیں سڑک پر ہی اتار دیا کہ آپ اس گاؤں میں جہاں چاہیں ڈیرہ لگا لیس میں اب واپس جاتا ہوں.خدا حافظ کہہ کر ای یکہ پر واپس روانہ ہو گئے.ہم اپنا سامان اٹھا کر اسی گاؤں کی ایک چھوٹی سی پختہ بیت میں پہنچے.چھوٹے چھوٹے بچے جن کی زبان سے ہم واقف نہ تھے ایک سرے کو کہہ رہے تھے.”ارے یہ کوہ ہے ؟ یعنی یہ کون ہے ؟ تھوڑی دیر کے بعد ایک معمر آدمی جس کا نام ممتاز علی خان تھا آیا.اس نے بڑی عمدہ سلیس اردو میں ہمارے ساتھ مہذبانہ طریق سے بات کی.ہمیں اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی.وہ تعلیم یافتہ آدمی تھا.ہم نے اسے اس ملک میں آنے کی غرض بتائی.وہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں پہلے آپ کے کھانے کا انتظام کر آؤں پھر بیٹھ کر باتیں کریں گے.بابو صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں تو اب نہیں رہوں گا آپ کوئی اور گاؤں قریب ہی تلاش کرلیں.میں نے کہا بہت اچھا.انشاء اللہ تعالی میں بھی کوئی گاؤں تلاش کرلوں گا.آپ بے فکر رہیں.رات کو کافی دوست اکٹھے ہو گئے.میں نے ان سے ارد گرد کے دیہات کا پتہ لیا.ان سے قسم قسم کی باتیں کر کے ان سے تعلقات پیدا کئے.وہ لوگ مجھ سے زیادہ مانوس ہو گئے کیونکہ بابو صاحب کم گو تھے اور مجھے باتیں کرنے کا شوق پرانا تھا.رات کے بارہ بجے مجلس برخواست ہوئی.میں نے کچھ طالب علم بھی بابو صاحب کو مہیا کر دیئے.صبح کے وقت میں نے نماز پڑھائی جس میں دو تین مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی.دن کے دس بجے میں اپنا بستر اور دیگر سامان اٹھا کر وہاں سے روانہ ہوا.ابھی دو میل کے قریب ہی سفر کیا تھا ایک گاؤں میں بیت نما بوسیدہ سامکان دیکھا.میں نے ایک مقامی دوست سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ملکانہ مسلمانوں کا گاؤں ہے.اور اس کا نام نگلہ گھنو ہے.میں اس بوسیدہ سے مکان میں پہنچا.اس میں محراب بھی بنا ہوا تھا اور فرش پر گھاس اگا ہوا تھا.وہیں میں نے اپنا ڈیرہ جمالیا.وہاں پانی کا کوئی انتظام نہ تھا.میں اکیلا ہی بیٹھا رہا.کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہ تھی.تھوڑی دیر کے بعد ایک معمرسی عورت آئی.میں نے السلام علیکم کہا.اس نے کہا بیٹے جیتے رہو.تم کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے.میں نے اپنی آمد کی غرض بتائی کہ آریوں سے اس قوم کو بچانے کے لئے ہمارے پیارے امام نے ہمیں قادیان سے بھجوایا ہے.تفصیل سے باتیں بتا ئیں تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ یہاں کے لوگ بہت جاہل ہیں ان سے گھبرا نہ جاتا.میں نے کہا اماں جی اگر یہ لوگ ہمارے بھائی جاہل نہ ہوتے تو آریہ ان پر حملہ کیوں کرتے.وہ یہ کہتے ہوئے چلنے لگی کہ میں آپ کے لئے " ستوا" یعنی ستو لاتی ہوں.میں نے کہا اماں جی آپ کا شکریہ.میرے پاس ستو بھی ہے اور بھنے ہوئے چنے اور جو موجود ہیں آپ کوئی تکلیف نہ کریں.ہمیں حضرت صاحب کا حکم ہے کہ اپنا ہی کھانا ہے کسی کو اس کی تکلیف

Page 398

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 362 خلافت ثانیہ کا دسواں سال نہیں پہنچانا.وہ بڑے اصرار کے بعد لے ہی آئی اور کہنے لگی بیٹا تین دن تک تو مہمان رہ کر حق رکھتے ہیں پھر جو تھے دن خود انتظام کر لیتا.اس معمر خاتون کا نام ممتاز بیگم تھا اور یہی اس گاؤں میں نماز و روزہ سے واقف تھی.باقی سب اسلام کی تعلیم سے ناواقف تھے.اس کی زرعی زمین کافی تھی لیکن بوجہ بیوہ ہونے کے مزار عان بد دیانتی کر لیا کرتے تھے.اس کی دو شادی شدہ بیٹیاں تھیں اور ایک لڑ کا نصیر الدین خان تھا جو مڈل پاس تھا.میرا پہلے دن ہی ان سے تعارف ہو گیا تھا.میں نے ظہر کی اذان کہی.بعض لوگ اذان سن کر آئے اور مجھے مل کر چلے گئے.رات کے وقت مائی جی ہی کھانا لے آئی اور میں نے اپنا سامان ان ہی کے گھر رکھ دیا.خود میں چوپال یعنی ایک مشترکہ مکان ہوتا ہے جس میں ہر گھر کی ایک چارپائی موجود رہتی ہے اور سب گھروں کے مہمان کھانا وغیرہ کھا کر رات وہیں آکر بسر کرتے ہیں.اگر کوئی مسافر ہو تو اس کا کھانا بھی چوپال میں ہی آجاتا ہے.رات کو یہ سب لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے.نمبردار بھیجو خان اور وہاں کا رئیس مظفر خان اس کا والد جان محمد خان ، دلاور خان ، خیراتی خاں ، میاں خاں، منشی خاں ، عثمان خاں ، نتھو خاں ، نور محمد خاں اور افضل خاں وغیرہ وغیرہ.یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے.میں نے ان سے تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایک دلچسپ کہانی سنائی کیونکہ وہ لوگ کہانیوں کے بہت شوقین تھے.صبح کے وقت گاؤں میں چرچا ہو گیا کہ " ارے پنجابی مولبی صاحب تو عجب کی کہانی کا بت ہیں یعنی پنجابی مولوی صاحب تو غضب کی کہانی کہتے ہیں.میں بھی دن بھر اس قسم کی کہانیاں گھڑ تا رہتا تھا جس سے دین حق کے ساتھ محبت بھی پیدا ہو اور دلچسپ بھی ہو.غرضیکہ تین چار دنوں میں وہ لوگ میرے ساتھ مانوس ہو گئے.میں نے آہستہ آہستہ ارد گرد کے دیہات کا دورہ کرنا شروع کر دیا اور آریوں کے تعلقات اور آمد و رفت کا پتہ رکھا.مجھے نگہ گھنو میں رہتے ہوئے پانچواں ہی دن تھا کہ ٹھا کر گردند ر سنگھ آریہ اپدیشک وہاں آگیا.اس گاؤں میں ہندو ٹھاکروں کے دو ہی گھر تھے اور ایک گھر بنئے کا تھا مگر یہ سب لوگ میرے واقف ہو چکے تھے.اس آر یہ ٹھاکر نے آکر ان لوگوں کو آریہ بن جانے کی پر زور تحریک کی اور ان کے جذبات کو بہت بھڑ کایا اور ان میں ایک خون ایک تمدن اور ایک لباس اور ایک ہی قسم کی زبان ہونے اور اعتقاد میں ذرا سا اختلاف ہونے پر انہیں متحد ہونے کی ہدایت کی.میں خاموشی سے ان کی ساری باتیں سنتا رہا.جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو میں نے کہا تھا کر صاحب آپ نے متحد ہونے کی تحریک کی ہے میں نے اس سے بہت اچھا اثر لیا ہے اور ہم سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک ہی خون ہے ایک ہی خوراک ہے ایک ہی آنے کا راستہ ہے اور ایک ہی جانے کا راستہ ہے لباس بھی سب پہنتے ہیں اور غذا بھی سب کھاتے ہیں.زمین بھی سب کی ایک ہے اور آسمان بھی سب کا ایک ہی لیکن جس طرح

Page 399

تاریخ احمدیت - جلد ۴ - 363 ہم سب کی شکلیں جداگانہ را گانہ ، عقلیں جداگانہ علم جداگانہ اور اعتقاد بھی جدا گانہ ہیں لیکن بعض باتوں میں ہم سب ایک جیسے ہیں اور بعض میں مختلف ہیں اسی طرح نباتات، جمادات اور حیوانات کا حال ہے.درخت کا لفظ تو سب کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی کیکر ہے تو کوئی ڈھاک ہے ، کوئی شہتوت یا آم ہے تو کوئی نیم ہے غرضیکہ نام کا اشتراک ہے مگر تاثیرات اور فوائد سب ایک نہیں مگر ہم سب کے اعتقادات جو الگ الگ قائم ہو چکے ہیں اگر ہم کوشش کریں تو یہ ایک ہو سکتے ہیں اور یہ کو شش اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے آریہ عقائد بیان کریں ہم سن کر ان پر غور کرتے ہیں.اگر وہ ہمارے دین حق سے اچھے ہوئے تو ہم ان کو قبول کرلیں گے.پھر میں اپنے ناقص علم کے ساتھ اسلامی عقائد و اخلاق بیان کروں گا.پھر آپ ان پر غور کریں پھر ان دونوں میں جو اچھے ہوں گے ان پر ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں گے.سارے مجمع نے اس بات کو بہت پسند کیا مگر ٹھاکر صاحب نے کہا کہ آپ سے ہماری کوئی بات نہیں ہے.آپ پنجابی ہیں.میں تو اپنی برادری کو اپنے ساتھ ملا کر جاؤں گا.میں نے کہا ہم سب مہادیو یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اس وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں.اس لئے سب برادری ہیں.جب خدا کا بنایا ہوا سورج ساری دنیا کے کام آتا ہے، اس کی ہوا، پانی، آگ ، چاند ستارے آسمان اور زمین غرضیکہ اس کی بنائی ہوئی ہر چیز دنیا کے کام آتی ہے تو خدا کا دین بھی ایک ہونا چاہئے اور اس وقت ضرورت بھی ساری دنیا میں ایک ہی دین کی ہے تاکہ جس طرح سب کے جسم ایک جیسے ہیں ، اعتقاد بھی ایک جیسا ہو اور آپس میں مستقل اتحاد پیدا ہو جائے.اگر ہر برادری کا مذ ہب علیحدہ علیحدہ ہو تو پھر دن رات جھگڑے ہی ہوتے رہیں گے.ٹھاکر صاحب بولے کہ دنیا میں جس طرح پہلے دن سے ایک ہی سورج چلا آ رہا ہے اسی طرح دنیا میں ابتدائی کتاب وید مقدس چلی آرہی ہے اگر اس پر تمام دنیا ایمان لے آئے تو سب جھگڑے آج ہی ختم ہو جاتے ہیں.میں نے ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ آخر آپ نے بھی محسوس کر ہی لیا کہ میرا بیان کرنا صحیح تھا مگر ٹھاکر صاحب آپ نے میرے پہلے بیان پر غور نہیں کیا کہ بعض باتیں تو سب کی مشترک ہیں لیکن بعض میں تبدیلی ضروری ہے.مثلا بارش بھی ابتدائے زمانہ سے چلی آ رہی ہے.مگر ہمیں اس کی ہر وقت ضرورت نہیں ہوتی.اگر ہمیں کسی وقت اس کی ضرورت ہے تو کسی وقت دھوپ کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ پہلی جماعت کا قاعدہ صرف پہلی جماعت کے لئے ہی ہوتا ہے.لیکن اس کے حروف ساری کتابوں میں استعمال ہوتے ہیں اور طالب علم کی استعداد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کتابیں بھی بدلتی جاتی ہیں.اسی طرح بچپن میں بھی ہمیں لباس ہی پہنایا جاتا تھا مگر اب جوانی میں ہم وہ لباس نہیں پہن سکتے کیونکہ ہم بڑے ہو چکے ہیں.اسی طرح اگر ابتداء میں دید تھا تو وہ ابتدائی قاعدہ کی طرح تھا.اب جب کہ دنیا کی استعداد بڑھ چکی ہے تو

Page 400

7 تاریخ احمد بات - جلد ۴ 364 خلافت ثانیہ کا دسواں سال انہیں اب مکمل کتاب کی ضرورت تھی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کتاب قرآن کریم ہے.جیسے جو ان آدمی کے ناپ کے کپڑے بڑھاپے تک کام میں آتے ہیں اسی طرح قرآن کریم اب قیامت تک کام دینے کا دعویدار ہے مگروید میں ایسا کوئی دعوی نہیں ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے کامل کتاب ہوں.جب دید دعویدار ہی نہیں تو مدعی است گواہ چست و الا معالمہ آپ نہ کریں.ٹھاکر صاحب بولے آپ ہماری باتوں میں دخل نہ دیں.یہ پنجاب نہیں کہ دھنیا ، جولاھا لوہار ترکھان سب ایک ہی ہوں.ہم راجپوت ہیں اور مسلمان بادشاہوں نے ان ہمارے بھائیوں کے بزرگوں کو پتاشے کھلا کر مسلمان کر لیا تھا اور ہم لوگوں نے بھی ستی کی کہ انہیں منہ نہ لگایا.اب ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہم انہیں اپنے ساتھ ملا کر رہیں گے خواہ ان کے پاؤں پکڑنا پڑیں یا ان کے آگے ہاتھ جوڑنا پڑیں.میں نے کہا ٹھا کر صاحب میں بھی آپ کا خونی رشتہ دار ہوں اور پنجابی ہونا کوئی جرم نہیں ہے.پنجاب میں گاؤں کے گاؤں راجپوتوں کے آباد ہیں اور میں خود بھی راجپوت کھو کھر ہوں.کوئی بھٹی ہیں کوئی چوہان راٹھور ہیں.رھا دھنیا ، جو لاہا، تیلی و موچی وغیرہ تو یہ سب ہندوؤں سے ہی ہمارے ہاں مسلمان ہوئے ہیں اور ادھر بھی موجود ہیں.مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی.فرق صرف یہ ہے کہ آپ ان ہندوؤں کو جو چمار بھنگی ، تیلی و لوہار ہیں کمی (کمین) جان کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہم لوگ ان کے مسلمان ہو جانے پر اور صاف رہنے کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتے کیونکہ یہ سب پیشوں کے نام ہیں اور پیشوں کے بغیر دنیا کا کام چل ہی نہیں سکتا.اس لئے وہ لوگ ہمارے مددگار ہیں.کسی بات میں ہم ان کے اور کسی بات میں وہ ہمارے محتاج ہیں.اناج حاصل کرنے کے لئے اگر وہ ہمارے محتاج ہیں تو جو تا تیل اور صفائی رضائی کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ دید ابتدائی قاعدہ ہے.یہ ساری دنیا میں محبت و اتحاد نہیں پیدا کر سکتا اور اسلام ہی ایسا نہ ہب ہے جو اس کی شرن میں آجائے اس کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے.ٹھاکر صاحب بولے ہماری مقدس گائے کھانے والے لوگوں نے ہمارا اتحاد نہیں ہو سکتا اور یہ کہ ہم گائے کھانے والوں کو چیر کر رکھ دیں گے.ہمارا راجپوتی خون اب جوش میں ہے.جو ہمیں ماں کی طرح میٹھا میٹھا دودھ پلاتی ہے یہ ڈشٹ مسلمان اس کو ذبح کر دیتے ہیں اور اس کا سرتن سے جدا کر دیتے ہیں.چونکہ وہ راجپوت مسلمان بھی گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے ٹھا کر صاحب نے ان کے جذبات بھڑ کانے کی کوشش کی.جب وہ ذرا خاموش ہوا تو میں نے کہا تھا کر صاحب آپ تو غصہ میں آگئے.حالانکہ اپدیشک کا یہ فرض ہے کہ اپنے علم سے محبت کے ساتھ برے فعل کی برائی اور بھلے کام کی بھلائی بیان کرے پبلک کو سوچ بچار کا موقع دے.اس جگہ کس نے گائے کو تکلیف دی ہے کہ آپ خواہ مخواہ اپنے اور دیگر دوستوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے

Page 401

تاریخ ام جلد ۴ 365 خلافت ثانیہ کا دسوا ہیں.آپ کے اس رویے سے مجھ پر کوئی اچھا اثر نہیں ہوا بلکہ یہی معلوم ہوا کہ آپ اپنے مذہب کی کوئی خوبی بیان نہیں کر سکتے بلکہ ایک ایسی طرح ڈالنا چاہتے ہیں جس سے آپ کی کمزوری پر پردہ پڑا رہے.میں بھی جذبات کو بھڑکا کر لڑائی کرا سکتا ہوں مگر ہمارا دین حق سلامتی کا مذہب ہے.یہ جنگ کو روکنا اور صلح کو قائم کرنا چاہتا ہے.ٹھاکر صاحب بولے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.اسلام تو پھیلا ہی جنگ سے ہے.مسلمان چور اور ڈاکو بن کر لوگوں کو لوٹتے رہے ہیں میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس ساری کتابیں موجود ہیں آپ کی کیا طاقت ہے کہ میری باتوں کا جواب دے سکو اور اگر کھجلی ہو رہی ہو تو میں ابھی اتارنے کے لئے تیار ہوں.بتاؤ کیا مرضی ہے.اس کی یہ باتیں سن کر تین چار آدمیوں نے ارادہ کیا کہ اس ٹھا کر کو دو چار رسید کر کے مزا چکھایا جائے اور بعض ٹھا کر صاحب سے لڑنے بھی لگے.میں نے بڑی محبت سے انہیں روکا اور کہا کہ جس طرح میں آپ کا مہمان ہوں بھائیو اسی طرح ٹھا کر صاحب ہمارے مہمان ہیں.ہمارا دین حق ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی تمہارا مہمان بھی غلطی کرے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اسے معاف کر دو اور اکرام ضیف کو ملحوظ رکھو.میری یہ بات سن کر ٹھاکر صاحب بھی شرمندہ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس پنجابی کی ان لوگوں میں مجھ سے زیادہ عزت ہے.خیر اب وہ صحیح راستے پر آ گیا تھا.میں نے کہا تھا کر صاحب نے یہ دو الگ الگ سوال کئے ہیں.پہلا گائے کے متعلق ہے کہ مسلمانوں نے گائے پر ظلم کیا ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے.میں ان دونوں سوالات کے جوابات علیحدہ علیحدہ دیتا ہوں.(۱) ہم سب مسلمان دودھ دینے والے سب جانوروں کی خدمت کرتے ہیں.چاہے گائے ہو یا بکری، بھینس ہو یا اونٹنی ہم سب کو چارہ بھی ڈالتے ہیں اور راتب بھی کھلاتے ہیں.اس کی بچپن ہی سے نگہداشت کرتے ہیں مگر ہم ان تمام جانوروں کو اپنا خادم سمجھتے ہیں نہ کہ بزرگ.ان میں سے جو دودھ نہ دے یا بانجھ ہو جائے تو اسے ہندو اور مسلمان دونوں قصابوں کے پاس فروخت کر آتے ہیں تو یہ کوئی انجو بہ نہیں.اب رہا یہ سوال کہ میٹھا دودھ دینے کی وجہ سے وہ ماں ہے تو پھر ٹھاکر صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا بھینس، اونٹنی اور بکری وغیرہ کا دودھ کڑوا ہوتا ہے؟ جب ان کا دودھ بھی میٹھا ہے تو گائے اگر ماں ہے تو بھینس نانی ہوئی اور بکری بہن ہوئی تو پھر ان کی عزت ہندوؤں کے دلوں میں کیوں نہیں ہے ؟ اس کی وجہ اب ٹھا کر صاحب ہی بتا ئیں گے کہ ایسا کیوں نہیں ہے؟ (۲) ہر مذہب میں ماں باپ کی ایک جیسی عزت کرنے کا حکم ہے تو پھر ہمارے یہ ہندو بھائی کیا ظلم کرتے ہیں کہ گائے ماں کو مقدس جان کر اتنی زیادہ عزت کرتے ہیں کہ ایسی عزت نہ کرنے والوں کو چیر کر رکھ دینے کو تیار ہیں مگر اپنے باپ بیل کو ہل میں جو تا یا ان کی مدد سے کنواں چلانا ، گاڑی کھینچتا کو لہو چلانا اس پر بوجھ لاد نا اور ذراسی کو تاہی پر مار مار گرفتا

Page 402

تاریخ احمد د - جلد ۴ 366 خلافت ثانیه کار سوال سال کر دینا اور ہر وقت اس پر مصیبت کھڑی رکھنا اور ذرا بھی عزت نہ کرنا حالانکہ اس باپ کی کوشش سے ہی گائے دودھ دینے کے قابل اور ماں بنی تھی.(۳) اگر گائے ماں کا ہی مقام رکھتی ہے جو انہیں بچپن میں دودھ پلاتی ہے تو پھر اس کے مرنے پر وہ کیوں چماروں کے حوالے کر کے اس کی کھال اترواتے ہیں اور اس کے گوبر او پلے اور پیشاب سے چنا متر بناتے ہیں اور اس کی کھال کے جوتے پہنتے ہیں.یہ سب تقدیس کے دعوے ان کی ان حرکات سے باطل ہو جاتے ہیں.انہوں نے صرف ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لئے یہ ایک جذباتی طریق اختیار کیا ہوا ہے.(۴) اگر ناکارہ بھینس بکری اونٹنی بھیٹر و غیرہ ذبح کئے جائیں اور ان کے مرنے پر ہی چمڑہ میسر آتا ہو تو پھر پانچ صد روپے کا بھی جو تا نہیں مل سکتا اور لوگ دھوپ اور سردی میں ننگے پاؤں ہی چلیں اور ہر وقت کانٹے ہی نکالتے رہیں.(1) دو سرا سوال کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے.ٹھا کر صاحب نے کر کے راجپوتوں کی سخت توہین کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار سے ڈر کر اپنا آبائی مذہب جھٹ تبدیل کر لیا مگر چمار ، بھنگی ، تیلی وغیرہ تلوار سے نہ ڈرے اور انہوں نے اپنا مذ ہب تبدیل نہ کیا.کیا آپ راجپوتوں کی یہی بہادری ظاہر کرتے پھر رہے ہیں کہ راجپوت اتنے ڈرپوک اور بھوکے تھے کہ جب انہیں تلوار اور پاشے دکھائے گئے تو جھٹ ڈر کر اور میٹھی چیز دیکھ کر مسلمان ہو گئے.ٹھاکر صاحب آپ نے تو تاریخ دان ہونے کا دعوی کیا تھا.اب آپ جائیں کہ جب حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اس ہندوستان میں درویشی کی حالت میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں کون سی تلوار تھی اور ان کے ہمراہ کون سی فوج تھی؟ ہاں بزرگی، نیکی، تقوی، طہارت، خوش اخلاقی، دلائل عبادت، ریاضت شرافت اور تبلیغ کی تلوار تھی جس نے راجہ اور پر جا کو ان کے سامنے جھکا دیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے ورنہ جب مسلمان بادشاہ اکبر تخت نشین ہوئے تو ان کی بیوی جو دہ بائی تھی اور دہ تمام عمر بت پرستی کرتی رہی اور ہندو ہی رہی.اور اسے جبرا مسلمان نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین حق میں جبر نہیں ہے.بلکہ "لا اکراه فی الدین " کا سبق دیا جاتا ہے.دین حق ہمیشہ اپنی صداقت اور خوبیوں سے پھیلا ہے.آپ آج بھی قادیان جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ہندو اور سکھ مسلمان ہو چکے ہیں.اب تو مسلمانوں کے ہاتھ میں دین حق پھیلانے کے لئے تلوار نہیں ہے اور نہ اس سے قبل ہی دین حق تلوار سے پھیلا.البتہ اتنا ضروری ہے کہ جس نے تلوار سے دین حق کو مٹانے کی کوشش کی اسے تلوار ہی سے روکا گیا.اب آپ دلائل سے بات کریں انشاء اللہ دلائل سے ہی جواب دیئے جائیں گے.اس وقت کافی رات گزر چکی تھی مگر مرد بدستور چوپال میں اور عورتیں مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی تھیں اور

Page 403

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 367 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال سب میرے جواب کے منتظر رہتے تھے.ٹھاکر صاحب بولے کہ آپ کے عرب والے نبی نے نو (۹) عورتوں کے ساتھ شادی کیوں کی ؟ جب کہ امت کے لئے چارہی جائز قرار دیں.اس کی کیا حکمت ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ عرب کے لوگ بھی ہندوؤں کی طرح بت پرست تھے اس وقت نہ تو کوئی اصول اور نہ کوئی شریعت تھی.جس طرح آج پٹیالہ کے ہندو راجہ نے دو سو سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں اسی طرح عرب کے لوگ اس وقت سو سو بیویاں رکھ لیتے تھے.جب حضرت نبی کریم ﷺ نے نویں شادی کی تو خدا تعالی کی طرف سے حکم آیا کہ اور شادی نہیں کرنا اور نہ ان میں سے ہی کسی کو چھوڑنا ہے.چونکہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے کسی کو بھی علیحدہ نہیں کرنا اور ساتھ ہی مومنوں کے لئے حکم دے دیا کہ تم چار تک اپنے خیالات کے مطابق شادیاں کر سکتے ہو اور اگر تمہیں لڑائی جھگڑے کا خوف ہو تو ایک ہی شادی رہنے دو.اگر رسول پاک ﷺ کسی بیوی کو چھوڑ دیتے تو وہ ماں کی صورت میں کہاں جاتی جب کہ منو شاستری میں بھی یہی لکھا ہے کہ گرد کی بیوی ماں ہوتی ہے.ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیا ہوں.میں نے کہا کہ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے آقا نے تو تو شادیاں کر کے اپنے حسن و اخلاق اور سلوک کا یہ نمونہ دکھایا کہ کسی ایک بیوی کو بھی کسی جگہ نا انصاف کہنے کا موقع نہیں ملا.حضور کے نیک سلوک کا ان کے دلوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ حضور ا کے پاس مال غنیمت بکثرت پہنچا.یہ دیکھ کر بعض بیویوں کے دلوں میں خیال پیدا ہوا کہ اب موقع ہے کہ ہم آپ سے اچھے لباس اور زیورات کا مطالبہ کریں.چنانچہ انہوں نے آپ کے سامنے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا.حضور ﷺ کو اللہ تعالٰی نے جواب میں بتایا کہ اے نبی اپنی ان بیویوں سے کہہ دو کہ میں تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق زیورات اور لباس بنوا دیتا ہوں مگر پھر تم میرے پاس نہیں رہ سکتیں یعنی علیحدہ ہونا پڑے گا.اور اگر تم اللہ تعالی کو اور مجھے پسند کرتی ہو تو پھر تم اس خواہش کو ترک کر دو.یہ سن کر سب نے یہ جواب دیا کہ ہم اپنی اس خواہش کو قربان کرتی ہیں ہمیں صرف آپ کی اور اللہ تعالی کی ضرورت ہے.بظا ہر یہ الفاظ معمولی نظر آتے ہیں مگر جب مستورات کی حالت اور خواہشات کو سامنے رکھ کر غور کیا جاتا ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی بیویوں کے ایسا کہنے سے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ان کے قلوب پر کتنا گہرا اثر تھا حالانکہ ان کا مطالبہ بھی جائز تھا لیکن انہوں نے کسی قسم کی بحث نہیں کی اور اپنے مطالبہ کے مقابل پر اپنے خدا اور اس کے رسول کا ساتھ نہ چھوڑا.مگر یہ اعتراض کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں.کہ ان کی ایک بیوی بھی جسے اولاد نہ ہو گیارہ مردوں سے نیوگ کر سکتی ہے.کتنی شرم کی بات ہے.پس معلوم ہوا کہ عرب کا ایک آدمی نو یا گیارہ بیویاں سنبھال سکتا تھا نگران آریوں کی ایک بیوی گیارہ مردوں کو

Page 404

تاریخ احمدیت جلد ۴ 368 خلافت ثانیه کار مواں سال سنبھال سکتی ہے.اگر یہ لوگ اس قسم کے اعتراض نہ کریں تو اور کیا کریں کیونکہ یہ کام ان کی طاقت سے باہر ہے.ٹھاکر صاحب یہ الفاظ سن کر چیخ اٹھے کہ یہ ہندو دھرم کی توہین کی ہے.میرے پاس حوالہ موجود تھا میں نے فوراً ستیارتھ پرکاش " نکال کر اسے دکھادی.وہ بہت شرمندہ ہوا.رات کا پچھلا پہر تھا.مباحثہ ٹھاکر صاحب کے ان الفاظ پر ختم ہوا کہ صبح دس بجے اب میں اعتراض کروں گا یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ قادیانی تلوار سے ہی قابو آئیں گے یہ علم سے قابو میں نہیں آسکتے.میں نے کہا اس شعر کا جواب آپ کو انشاء اللہ کل ہی دیا جائے گا.غرضیکہ سب مردو زن اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے.میں اکیلا ہی دیا جلا کر بیٹھ گیا اور خیال کیا کہ اس کے بے تکے شعروں کا جواب بھی اگر بے تکے اشعار میں ہی دیا جائے تو اثر اچھا رہے گا اور خدا کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گیا.فجر کی نماز تک میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق ستر (۷۰) اشعار بنائے.جو شعر مجھے اس وقت یاد ہیں تحریر کر دوں گا باقی سب ریکارڈ قادیان میں رہ گیا تھا.خیر فجر کی نماز کے لئے بہت پہنچا.وہاں ایک فقیر طبع آدمی جسے ہم میاں صاحب کہا کرتے تھے اسد علی نامی تھا.وہ میرا بہت گردیدہ ہو چکا تھا.وہ بھی رات کو گفتگو کے اختتام پر ہی سویا تھا.اسے بیدار کیا اور اذان کہلوائی.بعدہ دونوں نے نماز با جماعت ادا کی.باقی لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا ہو ا تھا کہ ہم جمعہ سے نمازیں پڑھنا شروع کر دیں گے.نماز کے بعد دعا اور قرآن کریم پڑھ کر سو گیا جب حضور ہمیں الوداع کہنے کے لئے ڈلہ موڑ تک تشریف لائے تھے تو اس وقت یہی نصیحت کی تھی کہ کثرت سے دعائیں کرنا نماز کے بعد تسبیح و تحمید کرنا اور خدا کو ہی قادر مطلق جاننا اور صرف اور صرف اس کی ذات پر بھروسہ کرنا.کیسی بھی مخالفت ہو گھبرانا نہیں بلکہ میدان میں شیر بنا.مخالف چاہے کتنا بڑا عالم ہو اسے معمولی سمجھنا اور نڈر ہو کر اسے جواب دینا.اپنے علم اور عقل پر بھروسہ نہ کرنا.ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا.تلاوت قرآن پاک با قاعدہ کرنا.ہر ایک کو دوست بنانے کی کوشش کرنا.خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنانا تہجد پڑھنے کی کوشش کرنا.مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا.ملکانو کی اچھی طرح سے تربیت کرنا اور دین حق کا پابند کرنے کی کوشش کرنا.دین حق کی انہیں خوبیاں بتاتے رہنا اور خود بھی کتب کا مطالعہ کرتے رہنا.سب سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دل و جان سے سب کا ہمدرد بنتا.جاؤ خدا تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.آمین ثم آمین " میں بیدار ہو کر دوبارہ بیت پہنچا.لوگ بھی بصد شوق آئے ہوئے تھے اور مختلف قسم کی باتوں میں مصروف تھے کوئی کہتا کہ ” مولبی کا بہت مجہ آیو.ٹھا کر سسر کو بھی کوئی آیسو مولی نہ ملو تھو کوئی کہتا کہ "ہم جو جانت رہے کہ جوہ مولبی سید ھو سا دھو معلوم ہوت ہے پر رات کو تو عجب کر د یو تھو، غرضیکہ قسم قسم کی باتیں ہو رہی تھیں.رات والی بڑھیا پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ مولوی بیٹا اللہ آپ کو بہت عمر دے یہ ٹھا کر بڑا آریہ تھا.اس کی خوب رات کو خبر لی ہے.

Page 405

تاریخ احمدیت جلد ۴ 369 خلافت هانیه کاروان سال گاؤں کے سب مرد اور عورتیں کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں اتنا بڑا اور کوئی مولوی نہیں ہے.ہم تو اب اپنے بچوں کو اس سے پڑھوائیں گے.میں نے اپنے پیارے خدا کا شکر ادا کیا.ادھر ملکانہ لڑ کے مقامی ہندو ٹھا کروں کو بتا رہے تھے کہ کیوں بھئی رات کو آریہ کا تماشا دیکھا کہ ایک جور و اور گیارہ مرد وہ ٹھا کر یہ سن کر کہتے کہ یہ آریہ بہت گندے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد ٹھا کر گردندر سنگھ اور بہت سالوگوں کا ہجوم پہنچ گیا.سارا میدان شائقین سے بھر گیا.میں نے سب بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رات کو ٹھا کر صاحب نے کسی گمنام آریہ کے دو شعر سنائے تھے کہ ان قادیانیوں کو قتل کر دو.باتوں میں کامیابی مشکل ہے.میں نے ان کے شعروں کا جواب اشعار میں ہی دینے کا وعدہ کیا تھا.کیا وہ پہلے بنالوں یا پہلے دوسری باتیں ہونی چاہئیں.ان میں مسئلہ نینوگ، جو نہیں بدلنا وغیرہ سب کچھ بیان کر دیا.اس کے ابتدائی شعر یہاں سے شروع ہوتے تھے." کیا ڈراتے ہو ہمیں کہ مار دیں گے جان سے کیا ڈرا کرتے ہیں وہ جو عبد ہیں رحمان کے ہم تو مراس دن گئے تھے جب بھی گھر سے چل پڑے اے سفیہ کیا ہے تو واقف احمدی ایمان سے مرنا بہتر ہے ہمارا زندہ رہتا اور بھی گرچہ تم نے دیکھنا ہو مار دو تم جان سے عورتوں میں بیٹھ کر للکارنا اچھا نہیں سامنے مردوں D کے آ اور جیت کے میدان سے تم, نیوگ کا مسئلہ لئے پھرتے ہو آفریں اس دید پر اور اس کی اعلیٰ شان کے کتے کتیا کھیلتے تھے ایک دن مندر کے پاس آریہ ان کو بلاتے تھے بڑوں کے نام سے ہیں بزرگ یہ سب ہمارے آج قسمت سے ملے ہم کھلائیں گے انہیں بھوجن بڑے آرام یہ صرف چودہ مصرعے ہیں کل ستر مصرعے تھے جن میں پورا مضمون تاریخ جون بدلنا اور پھر کسی بھی عبادت یا عمل سے بخشش نہ ہو نا درج تھا.میں کوئی شاعر نہیں نہ قابلیت ہی ہے مگر ملکانوں نے خوب مزے لے لے کر بار بار انہیں سنا تھا.ٹھاکر صاحب نے یہ اشعار سن کر جھٹ کہہ دیا کہ میں اس قسم کا آریہ نہیں ہوں.میں نے کہا کہ پھر آریوں کی قسمیں ہو ئیں.کوئی پنڈت دیا نند کو سچا جانے والا جبکہ

Page 406

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 370 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال آپ اسے جھوٹا بتا رہے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب نے تاکید کی ہوئی ہے کہ جس طرح شادی بیاہ ہے اسی طرح نیوگ ہے مگر جو بیاہ سے پیدا ہوں ان کا اظہار تو بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے مگر جو نیوگ سے پیدا ہوتے ہیں آپ ان کی کوئی فہرست نہیں دکھا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ معیوب چیز ہی ہے.ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ مسلمانوں میں بھی عیب ہیں.ان کے ہاں بھی بہت بازاری عورتیں موجود ہیں.میں نے کہا ٹھا کر صاحب یہ کوئی قومی یا ن ہی اعتراض نہیں ہے.ہم نے تو مذ ہبی گفتگو کرتا ہے.ہمارا دعویٰ ہے کہ دین حق ایک عالمگیر مذہب ہے.اس کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ایسا فعل کیا جائے بلکہ ایسا نعل کرنے والے کی دین حق نے بہت سخت سزار کھی ہوئی ہے.یعنی سو ۱۰۰ کوڑوں کی سزا.کسی شخص کا یہ فعل کرنا شخصی جرم ہے مذہبی نہیں.دوسرا ایسی بد کار عورتوں کا ہندوؤں کے بازار میں بیٹھنا بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ایسی بد کار عورتوں کو اپنے محلے میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ ایسی عورتیں ہندوؤں کے بازار میں آ جاتی ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں بھی نیوگ کی تعلیم ہے اس لئے یہ بازار میں بھی برا نہیں منائیں گے.میں نے سوال کیا کہ ٹھاکر صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلے جنم میں آپ کیا تھے اور پھر کیا آپ اچھے کام کر کے اپریشک آدمی بنے ہیں.ٹھاکر صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں کسی بڑے پنڈت کو لیکر کسی وقت اسی جگہ آؤں گا اور پھر آپ کی تسلی ہو جائے گی.میں نے کہا کہ آپ نے اپنے ذمہ بہت سا قرض چڑھا لیا ہے.کیا آپ پنڈت کو لے کر آنے کی کوئی تاریخ بتا سکتے ہیں تاکہ میں بھی اس دن اسی گاؤں میں موجود رہوں.ٹھا کر صاحب بولے میں آپ کو بذریعہ چٹھی (خط) اطلاع دے دوں گا.میں نے کہا آپ کا شکریہ تھا کر صاحب جان چھڑا کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ بعد میں نہ تو کوئی خط ہی ملا اور نہ خود ہی کبھی دکھائی دیئے.مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ ہمارے ملک نے بھائیوں کو کئی باتوں کا علم ہو گیا اور ان کو مجھ سے اور زیادہ محبت پیدا ہو گئی.بعدہ وہاں کے نوجوانوں نے مجھ سے پڑھنے کا اصرار کیا.میں نے ہاتھ نے ادب لکھ کر پڑھانا شروع کر دیا.پھر قادیان چٹھی لکھی کہ دو درجن قاعدے میسر نا القرآن بھجوادیں.چنانچہ میں شاگردوں کو قاعدہ پڑھانا شروع کیا.آہستہ آہستہ چھوٹی بچیوں نے بھی آنا شروع کیا اور میں نے ان کو بھی قرآن پڑھایا.نگلہ گھنو میں جے پور کے رہنے والے ایک غیر احمدی دوست چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ میرے کام کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تھے.جو اکثر احمدیوں کا کام دیکھ کر یہی کہا کرتے تھے کہ دین حق تو صرف احمدیوں ہی کے پاس ہے اور یہی آریوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں ان کے بر عکس دیو بندی وغیرہ سب کھلی تو ڑ" ہیں یعنی کوئی کام نہیں کر سکتے.ایک دن بعد نماز فجریبی وکیل صاحب اچانک بذریعہ یکہ چوپال پہنچ گئے.میں اس وقت بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا اور سب بچے بڑے زور شور سے پڑھ

Page 407

تاریخ احمدیت جلد ۴ 371 خلافت ثانیه کا دسواں سال رہے تھے.میں نے ان سے ملاقات کی.وہ جان محمد خان صاحب رئیس اور بھیجو خان صاحب نمبردار کو لیکر علیحدہ چلے گئے اور ان سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر واپس آکر میرے ساتھ باتیں کرنے لگے.کہنے لگے مجھے از حد خوشی ہوئی ہے.میں آپ کے کام اور اخلاق کے بارے میں آپ کی عدم موجودگی میں بھی اچھی تحقیق کر چکا ہوں اور آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.اور پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس کیا کوئی کاپی ہے؟ میں نے انہیں کا پی دی.انہوں نے اس پر لکھ دیا کہ میں فلاں تاریخ کو نگلہ گھنو میں اچانک پہنچا اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب کا کام دیکھ کر اور اہل دیہہ سے حالات دریافت کر کے مجھے اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے.اس علاقہ کے لئے مولوی صاحب نہایت موزوں ہیں اگر کچھ عرصہ یہ ان لوگوں میں مزید رہیں تو یہاں کے رہنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.اہل دیہہ ان سے بہت خوش ہیں.میں مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد دیتا ہوں.اگر اسی طرح مستعدی سے کام ہو تا رہا تو بچے تعلیم حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے ".والسلام نذیر احمد وکیل جے پور ۵/۲۳ / ۲۱ حال نگہ گھنو.میں نے اس سرٹیفکیٹ کی ایک نقل آگرہ روانہ کردی.بعدہ ارد گرد کے دیہات لوہاری گومیٹہ ہیکہ ھوڑا مجمولہ نگلہ امر سنگھ گڑھی، دھروی، علی گنج ، رانی کا رامپور بوپارہ وغیرہ کا دورہ کرنا شروع کر دیا.لوہاری گاؤں میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبد الخالق صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے تھے.وہ ان دنوں احمد نگر ضلع جھنگ کے صدر ہیں.انہوں نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر دیو بندیوں سے مناظرہ مقرر کر لیا.مقررہ تاریخ پر کافی مولوی صاحبان لوہاری پہنچ گئے اور ہماری طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس ، مولوی غلام احمد صاحب بد و ملی، سیٹھ خیر الدین صاحب آف لکھنو ، قاضی عبدالرحیم صاحب اور اسلم صاحب آف فرخ آباد - غرضیکہ کافی احباب پہنچ گئے.مجھے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے بھیجا گیا.میری واپسی پر مناظرہ کا آغاز ہوا.حیات و ممات مسیح پر دیوبندیوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ ان قادیانیوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور کسی طریق سے ان کا علاج نہیں ہو سکتا.میرے گاؤں کے لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر علم کی بحث کرتا ہے تو مولویوں سے کرو اور اگر کسی سرے نے ڈنڈا چلاتا ہے تو ہم پر چلائے.غرضیکہ مناظرہ اسی شور میں بخیر و خوبی ختم ہو گیا.فریقین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے.جب اس بات کی اطلاع حضور کو قادیان پہنچی کہ دیو بندیوں نے ہمیں ڈنڈے سے ڈرایا ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کے گاؤں والوں نے انہیں ایسا جواب دیا ہے تو حضور بہت خوش ہوئے کہ یہ ہمارے مبلغ کے تعلقات کا نتیجہ ہے اور مبلغین کو ہر جگہ ایسا ہی نمونہ اختیار کرنا چاہئے.غرضیکہ حضور نے یہ خوشنودی کا اظہار فرمایا میرے وہاں دورے کا تین ماہ کا عرصہ

Page 408

I تاریخ احمدیت.جلد ۴ 372 خلافت ثانیه کار سو پورا ہو چکا تھا اور منشی عبد الخالق صاحب رخصت پر قادیان جارہے تھے تو بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی مجھ سے کہنے لگے کہ آپ خدا کے لئے دس دن اور وقف کر دیں ورنہ یہ حلقہ خالی رہ جائے گا اور دشمن اپنا پروپیگنڈا کر کے لوگوں کو ہمارے خلاف کردے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مراکز سے ہمیں جواب مل جائے.میں نے ان کے کہنے پر دس دن اور وقف کر دیے اور مزید دس دن وہاں گزارے.اسی اثناء میں منشی عبد الخالق صاحب قادیان سے میرے پاس نگلہ پہنچے اور کہا آپ واپس جانے کے لئے تیار نہ ہوں.حضور کی طرف سے آپ کو کوئی خاص حکم آئے گا.کیونکہ آپ کے کام کے متعلق خفیہ خفیہ کچھ درخواستیں حضور کی خدمت میں پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کا کام اور اثر بہت اچھا ہے لہذا انہیں ابھی واپس نہ بلایا جائے.مجھے آگرہ سنٹر سے بھی چٹھی موصول ہوئی کہ آپ بہت جلد آگرہ پہنچ جائیں تا آپ کو قادیان واپس بھیجوایا جا سکے.ایک طرف مجھے قادیان جانے کی بہت خوشی تھی اور دوسری طرف ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں سے علیحدہ ہونے کا غم.گاؤں کے سب مرد اور عورتیں مع میرے شاگردوں کے مجھے رخصت کرنے کے لئے جمع تھے اور رورہے تھے کہ معلوم نہیں کہ کب ملاقات ہو....." " میری یاد میں " صفحه ۴۵ تا ۱۷ اشاعت ۱۹۹۴ء)

Page 409

تاریخ احمدیت جلد ۴ ایک اہم سر کلر 373 خلافت ثانیه دسواں سال حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نائب ناظر انسداد راجپوتانه قادیان کے ایک سرکلر کی نقل جو آپ نے ۱۴ جون ۱۹۲۳ء کو جاری فرمایا.اس سرکلر سے مجاہدین احمدیت کی مشکلات پر روشنی پڑتی ہے.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مکرمی، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.دار الامان سے روانہ ہونے والے آخری وفد کو بالخصوص دار الامان سے روانہ ہونے والے خطوط میں متعدد بار حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی گاؤں میں ہمارے مبلغ وارد ہوتے ہیں تو مالکانوں میں سب سے پہلے جو لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں اور آریوں سے اپنی بیزاری کا تذکرہ کرتے ہیں وہی آریوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں (الا ما شاء اللہ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ آنے والے مبلغ کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھیں اور اس کو یقین دلاتے رہیں کہ تم بے فکر رہو یہاں کوئی شد ھی نہیں ہو گا اور کیا مجال ہے جو آریہ یہاں آسکیں.ان کی اس قسم کی باتوں کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مبلغ اپنے علاقہ کو ارتداد کے فتنہ سے محفوظ خیال کر لیتا ہے.جس سے اس کی عملی طاقتیں ست ہو جاتی ہیں اور وہ گاؤں کے سب لوگوں سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا اور وہ لوگ جو اس فتنہ سے متاثر ہوتے ہیں احمدی مبلغ سے دور رہتے ہیں.اس لئے آریوں کا زہر ان پر سے نہیں اتر سکتا.اور آریوں کا ایجنٹ مبلغ کو اپنے ساتھ الجھائے رکھتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اشد ھی کا وقت آتا ہے تو اشدہ ہونے کے لئے سب سے آگے وہی اشخاص ہوتے ہیں جو کہ ہمارے مبلغ سے زیادہ ملنے والے اور ظاہرا اسلام کے حامی نظر آتے ہیں.اس فتنہ کے متعلق حضور نے بار بار اب تک لکھوایا ہے.مگر اب تک بہتوں نے آریوں کی اس چالا کی کو نہیں سمجھا اور وہ اب تک آریوں کے ایجنٹ کے قریب سے آگاہ نہیں ہوئے.تازہ واقعہ یہ ہے کہ علادل پور کا ایک شخص جس کے باپ کا نام ملمان خان ہے اور اس کا نام ملائم خان آریوں کا ایجنٹ ہے.جس کو دہ ۱۵ روپے ماہوار دیتے ہیں.اپنے گاؤں کے احمدی مبلغ سے اس کے اچھے تعلقات ہیں.پہلے آنے والی رپورٹیں بتاتی رہی ہیں کہ اس شخص کو اسلام سے محبت ہے مگر آج ذہلیہ سے اطلاع ملتی ہے کہ یہی ملائم خان ساکن علاول پور ذہبیہ میں گیا اور اپنا نام ملائم سنگھ بتایا اور ہمارے اس جگہ کے مبلغ کی سخت مخالفت کرنے لگا.اسنے وہاں کے لوگوں کو سخت جوش دلایا اور آریہ ہو جانے کے لئے بڑا زور لگایا اور ان لوگوں پر زور ڈالا کہ ہمارے مبلغ کو اپنے گاؤں سے نکال دیں.دوسری مثال یہ ہے کہ چارلی گنج جو بحجم اللہ احمدی مبلغوں کے ذریعہ سارے کا سارا ارتداد سے واپس داخل اسلام ہوا ہے.جب یہ گاؤں مرتد ہوا تھا.تو اس وقت چار گھر ظاہر امسلمان ہی رہے تھے.

Page 410

تاریخ احمدیت جلد ۴ 374 خلافت ماشیه دسواں سال لیکن اب جب چارلی گیج والے دوبارہ داخل اسلام ہوئے تو یہی چاروں گھر جو شدھی سے بچے ہوئے بتائے جاتے تھے اپنے گاؤں کو دوبارہ مسلمان ہونے سے روکنے کے لئے لاٹھیاں لے کر باہر نکل آئے.یہ واقعہ صاف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آریہ لوگوں نے بہت سے ملکان کو اپنا ایجنٹ بنایا ہوا ہے.جو بظاہر مسلمان ہی رہتے ہیں اور اشدہ نہیں ہوتے.مگر اندر ہی اندر لوگوں کو ارتداد کے لئے تیار کرتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.پس ہمارے مبلغین کا فرض ہے کہ اپنے اپنے گاؤں میں جو لوگ ملکانہ ان کو اپنے گاؤں کی حالت سے مطمئن کرانا چاہتے ہوں.ان کی باتوں سے خوش ہو کر مطمئن نہ ہو بیٹھیں.یہ گاؤں کے ہر ایک فرد تک پہنچیں اور اس کا عندیہ معلوم کریں.اس کو اسلام پاک سے آگاہ کریں.اور محبت اسلام ان کے دلوں میں ڈالیں.جب تک ہر ایک فرد سے آپ ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں کریں گے برخلاف اس کے ایک ہی شخص کو جو آپ سے ملتا ہے اپنے گاؤں کی زبان سمجھتے رہیں گے.آپ خطرہ سے خالی نہیں.ایسے لوگ جو چاہیں آپ کو اطمینان دلا ئیں.مگر آپ لوگ ایک دم کے لئے بھی ان سے غافل نہ ہوں.اور کام میں سرگرمی جاری رکھیں : اللہ تعالٰی دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے کی آپ کو توفیق دے.آمین ثم آمین.۴/ جون ۶۱۹۲۳ خند خوشنودی خاکسار: مرزا شریف احمد نائب نا ظر انسدادار تداد راجپوتانه - قادیان د نوشته سید عبدالرحیم لدھیانوی ) والسلام ( سند اظہار خوشنودی کا متقن جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تحریک شدھی کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والے مبلغین کو واپسی پر عطا کی جاتی تھی.نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بسم الله الرحمن الرحیم سند اظهار خوشنودی مکرمی - السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکات.اللہ تعالٰی کے فضل اور کرم کے ساتھ اپنا وقف کردہ وقت پورا کر کے آپ واپس آرہے ہیں.یہ موقعہ جو خدمت کا اللہ تعالی نے آپ کو دیا ہے.اس پر آپ جس

Page 411

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 375 خلافت همانید و سواں سال قدر خوش ہوں کم ہے اور جس قدر اللہ تعالی کا شکریہ ادا کریں تھوڑا ہے.ایسی سخت قوم اور ایسے نامناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں.اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے.آپ لوگوں کے کام کی دشمن بھی تعریف کر رہا ہے اور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے.اور میری خوشی اور مسرت کا موجب اللہ تعالٰی آپ کے اس کام کو قبول فرمائے.میں آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.اور انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا.امید ہے آپ لوگ اس کام کو بھی یاد رکھیں گے.جو واپسی پر آپ کے زمہ ہے.اور جو ملکانہ کی تبلیغ سے کم نہیں.یعنی اپنے ملنے والوں اور دوستوں میں اس کام کے لئے جوش پیدا کرتے رہنا کیونکہ اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری.کسی کمی کے سبب سے برباد ہو جائے.مومن کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اسے اس کے لئے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے.خدا تعالٰی آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام- (نوشه سید عبد الرحیم لدھیانوی) خاکسار (حضرت) مرزا محمود احمد (خلیفتہ المسیح ثانی) از قادیان- دار الامان - پنجاب مسلمان اور ہندو اخبارات کی طرف سے خراج تحسین اگرچه مورچہ بندی کا ابھی یہ ابتدائی دور تھا مگر اس میں بھی مجاہدین احمدیت نے سرفروشی، جاں بازی اور فداکاری کاوه شاندار نمونہ دکھایا کہ مسلمان ہی نہیں.ہندو بھی عش عش کر اٹھے.چنانچہ اخبار "زمیندار" لاہور (۸/ اپریل ۱۹۲۲ء) نے لکھا." احمدی بھائیوں نے جس خلوص جس ایثار ، جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے".اخبار " ہمدم لکھنو (۶ را پریل ۱۹۲۳ء) نے لکھا." قادیانی جماعت کی مساعی حسنہ اس معاملہ میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسری اسلامی جماعتوں کو بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے".- اخبار مشرق "گورکھپور نے لکھا."جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتار تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑتا ہے اور اس جہاد میں اس وقت سب کے آگے یہی

Page 412

تاریخ احمدیت جلد ۴ 376 خلافت عمنا فرقہ نظر آتا ہے اور باوجود اس بات کے احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس فرقہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا.اس لئے اس کی شرم سے امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں.اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ احمد یہ جماعت اپنے عقائد کی تعلیم دے گی.تو وہ اپنی متفقہ جماعت میں.ایسا خلوص پیدا کر کے آگے بڑھیں کہ ستو کھا ئیں اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں.جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں.دیانت ایفاء عہد.اپنے امام کی اطاعت.پس یہ جماعت فرد ہے.جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں.دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں.جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود آمدن کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر رہے ہیں.مسلمانوں کی مذہبی حمیت اور جوش مذہبی کا اندازہ یہ ہے کہ صرف قادیانی جماعت کے ڈیڑھ سو مبلغین تین ماہ تک بغیر کسی معاوضہ کے اور اپنے ذاتی خرچہ پر کام کر رہے ہیں اور دو سو مبلغ آمادہ کار ہیں.ان مجاہدین میں زمیندار - علماء- گریجوایٹ - اخبار نویس اور بیج شامل ہیں " ه نذیر احمد خان صاحب وکیل جے پور نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا.قادیان کی احمد یہ جماعت کے ۷۲ مبلغین کام کر رہے ہیں.چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے امیروند ایک نہایت ہی زیرک، فہیم ، بردبار مدبر اور تبلیغ میں سالہا سال کا تجربہ رکھنے والے انسان ہیں.ان کا انتظام اور نظام ایسے اعلیٰ پیمانہ اور طریق پر ہے کہ تمام مبلغین بھیجنے والوں کو انکا اتباع کرنا چاہئے اور حق یہ ہے کہ جب تک اس جماعت کے قواعد و ضوابط اور ہدایات پر جوان کو مرکز سلسلہ سے ملتی رہتی ہیں سب مبلغین کار بند نہ ہوں گے کامیابی محال ہے ان احمدی مبلغین کو ہدایت ہے کہ وہ اپنے افسر کی اطاعت ایسی کریں کہ اگر جان جانے کا خطرہ بھی ہو تو بھی حکم بجالائیں...میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس جماعت کے سوا اور کسی فرد کی ایسی اعلیٰ تربیت نہیں.نہ سنیوں میں نہ شیعوں میں نہ کسی اور جماعت میں.پس میں بچے دل سے مشورہ دیتا ہوں کہ اس اعلیٰ نمونہ کی تقلید سب بھائی کریں اور فائدہ اٹھاویں کہ بغیر اس کے کامیابی

Page 413

تاریخ احمدیت جلد ۴ محال ہے " 377 خلافت ثانیه دسواں سال - اخبار "وکیل" (امرتسر) ۳ / مئی ۱۹۲۳ء نے اپنے اداریہ میں لکھا.احمد کی جماعت کا طرز عمل اس بات میں نہایت قابل تعریف ہے جو باوجود چھیڑ چھاڑ کے محض اس خیال سے کہ اسلام چشم زخم سے محفوظ رکھا جائے.ان خانہ جنگیوں کے انسداد کی طرف خود مسلمانوں کے لیڈروں کو توجہ دلاتے ہیں اور ہر طرح کام کرنے کو تیار ہیں.ہم علی وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ قادیان کی احمدی جماعت بہترین کام کر رہی ہے " et اخبار " نور " علی گڑھ (۳/ مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا.اب تک جتنی انجمنوں نے اس کار خیر میں قدم رکھا ہے ان میں سے اعلیٰ کام قادیانی جماعت کا → e اب ہندو اخبارات کی رائے پڑھئے.1- " آریہ پتر کا" (بریلی) نے یکم اپریل ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا." اس وقت ملکا نے راجپوتوں کو...اپنی پرانی راجپوتوں کی برادری میں جانے سے باز رکھنے کے لئے (یعنی مرتد ہونے سے بچانے کے لئے.ناقل ) جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے احمد یہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل داد ہے.-۲- دیو سماجی اخبار ” جیون نت " (لاہور) نے لکھا.ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی مت کا پرچار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں.چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کے لئے ملکانوں میں جاکر مفت کام کرنے کے لئے تیار ہوں.جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا وہاں کے کرایہ وغیرہ کا کل خرچہ خود برداشت کر سکیں.اور انتظام میں جس لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کے لئے تیار ہوں.بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں ان شرائط پر کام کرنے کے لئے موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں ۹۰ احمد ی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچ چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پر چار کر رہے ہیں.اس نئے علاقہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجویٹ نوجوان بھی شامل تھے.اپنے بسترے کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کر کے سارے علاقہ کا دورہ کیا ہے.اپنے مت کے پر چار کرنے کے لئے ان کا جوش اور ایثار تعریف کے قابل ہے "

Page 414

تاریخ احمدیت جلد ۴ 378 خلافت ثانیه و سوال سال تحریک شدھی اور تحریک خلافت کے لیڈر جماعت احمدیہ کے تبلغی جہاد کی ان مہمات کے مقابل تحریک خلافت کے لیڈروں کی بے حسی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی اور انہوں نے اس اہم ترین مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں فرمائی.چنانچہ اخبار " روزگار " آگرہ (یکم مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا.اس میں شک نہیں کہ جتنے وفد اور جس قدر واعظ اور ہمدردان اسلام کو شاں ہیں ان میں سب سے بڑھا ہوا نمبر جماعت قادیان کا ہے.جس کے واعظ ہر قسم کے مصائب اور مصارف برداشت کر کے مصروف کار ہیں بے حد قابل شکر گزاری کے ہیں.لیکن افسوس یہ کیسا برتاؤ ہے کہ فرضی یا اصلی خلافت کے حامیان کی جماعت جو ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کی گہری پسینے کی کمائی سے بادن لاکھ وصول کر کے ٹھکانے لگا چکی ہے وہ واقعات فتنہ ارتداد دیکھتے ہیں اور خاموش ہیں ".شیعہ اصحاب فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کو کہاں تک اہمیت دیتے شدھی اور شیعہ اصحاب تھے اس کا اندازہ شیعہ اخبار " در نجف " (یکم جولائی ۱۹۲۳ء) کے مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے.ملکانہ راجپوت کے فتنہ ارتداد کو روکنا عبث اور بے فائدہ کوشش ہے.ہزاروں روپے کا مفت برباد کرنا ہے ".اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ " فرض کرو اگر وہ مسلمان بھی ہو گئے تو کون مسلمان ہوں گے سنی مسلمان ، پیر پرست گور پرست اوہام پرست، تقلید پرست یا غلام احمدی که مرزا غلام احمد قادیانی کونی اللہ جری اللہ مانیں گے یا اہلحدیث جو خداتعالی کو مجسم قرار دے کر عرش پر بٹھائیں گے اور پنڈلی کا سجدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ (کے) قدم دوزخ میں ڈالیں گے.نیز اللہ تعالی سے بالمشافہ گفتگو کر کے اس سے مصافحہ و معانقہ وغیرہ کریں گے.ملکانہ راجپوت سے زیادہ خطرناک وہ مسلمان ہیں جو دائرہ اسلام میں رہ کر صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں.شدھی اور دوسرے مسلمان علماء خلافقی لیڈر وغیرہ تو خیر خاموش رہے مگر دوسرے مسلمان علماء نے کس طرح اپنی مخالفانہ سرگرمیوں نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کی تفصیل چوہدری نذیر احمد خاں وکیل جے پوری نے ۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو دہلی کی جامع مسجد میں بیان فرمائی اور کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو بتایا کہ." حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے آریوں کے بطلان میں وہ مصالحہ جمع کر دیا ہے اگر اس کو اب استعمال کیا جائے تو یہ لوگ بیخ و بن سے اکھڑ سکتے ہیں.لیکن تعجب اور افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے مسلمان علماء ان کی اور ان کی جماعت کی خواہ مخواہ مخالفت کرتے ہیں.حالانکہ وہ لوگ " دشمنان

Page 415

احمدیت جلد ۴ 379 خلافت ثانیه دسواں سال اسلام" کے مقابلہ پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں.میں نہ تو خود احمدی ہوں اور نہ میرا کوئی رشتہ دار احمدی ہے نہ اس ملک کا رہنے والا ہوں جہاں احمدیوں کی آبادی ہے لیکن ان کے کام کے طریق ان کی سرگرمی ان کے اخلاص ، ان کی تندہی اور جفاکشی سے کام کرنے کی حالت کا اندازہ کر کے مجبور ہوں کہ تمام اہل اسلام سے کہہ دوں کہ وہ ان حضرات کی مخالفت کو چھوڑ دیں.ان ہی لوگوں کے اخلاق ایسے ہیں جو جاہل اور اکھڑ ملکانوں کو آریہ ہونے سے باز رکھ سکتے ہیں اس کے برخلاف ہماری انجمنوں کے مبلغین ۵۵ کی تعداد میں وہاں گئے تھے جن میں سے اکثر شب برات کے حلوے کھانے اور عرس کرنے کے لئے واپس آچکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ رمضان میں واپس گھر پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں.ایسی صورت میں آپ لوگ خیال کریں ان لوگوں سے کیا امید ہو سکتی ہے ؟ اس لئے جو جماعت کام کرتی ہے اس کے رستے سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں" رمضان گزرنے کے بعد علمائے کرام پھر میدان ارتداد میں آموجود ہوئے اور آریہ کی بجائے ایک دوسرے سے پھر الجھنے لگے اور خصوصاً احمدیوں کے خلاف تو محاذ قائم کر لیا.جس پر اخبار "زمیندار" (۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء) نے " مجلس نمائندگان تبلیغ" اور دوسری جماعتوں کو شرم دلائی کہ.اگر چه سوامی شردھانند آریہ سماجی ہیں لیکن آریہ سماج کی جماعتوں کے علاوہ سناتن دھرم اور جینی وغیرہ بھی ان کے شریک کار ہیں اور آج تک ان لوگوں میں اختلاف کی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی.سناتن دھرم والوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ سوامی شردھانند مکانوں کو آریہ بنارہے ہیں.پر تاپ کیسری اور تیج کے فائل اٹھا کر دیکھئے.ہم دعوئی سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایک تحریر ایک خبر ایک اطلاع ایک مراسلہ بھی ایسا نہ ملے گا جس سے ہندو مبلغین کا ذرہ برابر باہمی اختلاف ظاہر ہو لیکن "زمیندار"."سیاست"."وکیل" اور دوسرے اسلامی اخبارات کی جلد میں پڑھئے تو آپ پر بار بار اس افسوسناک حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ ایک انجمن دوسری انجمن کو حلقہ ارتداد میں کام کرتے دیکھنا گوارا نہیں کرتی.خدا کا کام ہے لیکن بندوں نے اسے ذاتی اختلاف اور ذاتی شہرت پسندی کی جولانگاہ بنا رکھا ہے.کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں؟ ہم مجلس نمائندگان تبلیغ “ اور دوسری تمام تبلیغی انجمنوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر احمدی مبلغین ملکانوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو مڑنے کا کوئی حق نہیں.جس طرح آپ ان کو منفی و اہلحدیث بنانے کا حق رکھتے ہیں احمدی مبلغین ان لوگوں پر اپنا کیش دن جب پیش کرنے میں آزاد ہیں اور ہندو ہو جانے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ ایک مسلمان احمدی ہو جائے سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھ لیجئے.اگر چھ لاکھ ملکانے مسلمانوں

Page 416

تاریخ احمدیت جلد ۴ 380 خلانت هانی دسواں سال کی کسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو مسلمان شمار کئے جائیں گے.لیکن اگر ہندو ہو گئے تو فریق ثانی کی طاقت میں اضافہ کا باعث ہوں گے.مسلمانوں کے مقاصد سیاسی کی حفاظت کے دعویدار بتائیں کہ ۶۵ صواب کی راہ کون سی ہے ؟ اس بر وقت انتہاہ کے باوجود ان حضرات کے طرز عمل میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا.بلکہ احمدیوں کی کامیابی پر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوئے.دراصل یہ بھی آریہ اخبارات کی ایک چال تھی کہ انہوں نے غیر احمدی علماء کو اکسایا کہ قادیانی تو مکانوں کو احمدی بنالیں گے.دوسرے علماء سے احمد کی جماعت کے خلاف فتویٰ کفر طلب کر کے شائع کئے گئے اور ملکانوں سے کہا گیا کہ احمدی تو خود بھی مسلمان نہیں تمہیں کیا اسلام سکھائیں گے؟ اس وقت احمدیوں کے علاوہ جمعیتہ العلماء" - "رضائے مصطفیٰ " " خدام الصوفیه " وغیرہ تبلیغ کے لئے پہنچی ہوئی تھیں.آریوں کا جادو چل گیا.اور یہ سب جماعتیں الا ما شاء اللہ اپنی طاقت و قوت احمدیوں کے خلاف استعمال کرنے لگیں.اگر کوئی احمد کی مجاہدین کی کوششوں کے نتیجہ میں شدھی سے تائب ہو کر واپس اسلام میں داخل ہو تا تو یہ اصحاب وہاں جا کر ملکان سے کہتے کہ قادیانی تو آریوں سے بھی بد تر ہیں.ان کے ذریعہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟ " پھر یہ اصحاب اس قدر بے بنیاد الزام لگاتے کہ خدا کی پناہ.یہ کہا گیا کہ قادیان میں ایک جھنڈا ہے اس کی پوجا کی جاتی ہے.مرزا صاحب نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے تئیں (نعوذ باللہ ) رسول اللہ سے افضل سمجھتے ہیں.قادیانی پانچ نمازیں نہیں پڑھتے ان کا حج قادیان میں ہوتا ہے.یہ گورنمنٹ کے ایجنٹ ہیں اور اس سے روپیہ لیتے ہیں ان کے پاس روپیہ بنانے کی مشین ہے.یہ مکانوں کو روپیہ دے کر اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں.یہ لڑکوں کو بھگا لے جائیں گے.اب تو بچوں کو پڑھاتے ہیں پھر ان کے اخراجات کا دعویٰ دائر کر دیں گے.غرض کہ اس قسم کے مغالطے مکانوں کو دیئے کہ بس حد ہو گئی.اب احمدی مجاہدین کو بیک وقت دو زبر دست طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا.آگے آریہ صاحبان اور پیچھے علماء کرام !! - یہ افسوسناک صورت حال معلوم کر کے مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار " تہذیب نسواں" (لاہور) نے لکھا.میں نے سنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کے لئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں.مناسب جانا کہ میں جس گروہ کے مبلغین کو سب سے زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کرلوں.تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں

Page 417

تاریخ احمدیت جلد ۴ 381 خلافت ثانیہ دسواں سال کو ہوئی ہے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں.مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کا فر ہیں اور ان کا کفر مکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے.اس زمانہ میں علماء کا یہ کام مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے.مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان نہ ہو گا.جس کے متعلق سب علماء دین بالاتفاق یہ کہہ سکیں کہ واقعی یہ ٹھیک مسلمان ہیں.ہمارے علماء سے جسے چاہو کا فربنو الو.وہابی کافر بدعتی کا فر رافضی کا فر خارجی کافر.لیکن اگر ان سے چاہو کہ چند کافروں کو مسلمان بنادر - تو یہ کام ان سے نہیں ہو سکتا".اس کی تائید میں جناب عبد المجید صاحب سالک اپنی کتاب " سرگزشت " میں لکھتے ہیں کہ.ملکانہ راجپوتوں میں انسداد ارتداد اور تبلیغ اسلام کا کام شروع ہوا.بریلوی دیوبندی ، شیعہ احمدی لاہوری احمدی - میر نیرنگ کی جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے مبلغ غرض ہر فرقے اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے.چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر اسلام کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا.صرف احمدی مبلغین تو کچھ کام کرتے تھے اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں مصروف پیکار تھے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے " 14 اسی کے اکتفا نہ کرتے ہوئے جمعیتہ العلماء دہلی کی طرف سے احمدیوں کو دھمکی " جمعیتہ العلماء" دہلی نے احمدیوں کو تباہ کرنے کی بھی دھمکی دے دی.چنانچہ شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کا چشم دید بیان ہے کہ ” جب میں ملکانہ میں کام کرتا تھا تو چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے مجھے حکم دیا کہ دہلی جائیں اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب وغیرہ جمعیتہ العلماء کے علماء سے ملیں.اور اطلاع دیں کہ آپ کے فلاں مبلغ ملکانوں کو تبلیغ اسلام کرنے کی بجائے ان کو ہمارے خلاف بہکا رہا ہے.میں ان کی خدمت میں پہنچا تو غالبا مولوی احمد سعید صاحب نے میری عرض داشت پر جو کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں مدد کرتا ہوں.مگر میں ایک بات سنائے دیتا ہوں کہ جب یہ ملکانہ کا قضیہ ختم ہو جائے گا تو پھر ہم آپ کی جماعت کا مقابلہ کریں گے اور پیس کر رکھ دیں گے.یہ کہہ کر ساتھ ایک آدمی کر دیا کہ فلاں مولوی صاحب کے پاس لے جائیں یہ مولوی صاحب جو نوجوان تھے اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے.مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں.ہم اپنے آدمیوں کو تنخواہیں ہی نہیں سفر خرچ بھی دیتے ہیں اور

Page 418

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 382 خلافت همانید دسواں سال بھی ان کی خاطر مدارت کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ بھاگ آتے ہیں.مگر آپ نے کیا روح پھونک دی ہے کہ ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں " " انجمن نمائندگان تبلیغ کی مزاحمت جیسا کہ او پر جمعیتہ العلماء کا بطور مثال ذکر کیا گیا ہے بعض مستثنیات کے سوا علماء کے سب طبقے اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب اجتماعی صورت میں احمدیوں کی مخالفت کر رہے تھے.حتی کہ "انجمن نمائندگان تبلیغ بھی جسے سیال کی غیرت دینی بالکل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے تھاوہ بھی مزاحمت کرنے لگی چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب (ایڈووکیٹ لائلپور) اس صورت حال کا تذکرہ کرتے اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی غیرت دینی کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- تمام علاقے میں ہنگامے برپا تھے.ہر طرف رواروی اور ہما ہمی تھی.اگر آج چوہدری صاحب موضع پر کھم میں ایک مسجد کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو کل موضع اسپار میں مرتد ملکانوں کی اسلام میں واپسی کی تقریب پر شاداں و فرحاں احباب سمیت جا رہے ہیں.اور اس طرح شب و روز فرائض منصبی میں بشاشت سے منہمک ہیں اور اس مشکل ترین فرائض کا ایک پہاڑ سر پر اٹھایا ہوا ہے اور امام کے اشارات و ہدایات کے مطابق چلے جا رہے ہیں اور الا مام جنة يقاتل من ورانہ کا منظر ہے.بعض اور انجمنیں بھی علاقہ ارتداد میں کام کر رہی تھیں یا کام بگاڑ رہی تھیں اور کبھی کبھی بلا وجہ محض حسد کی راہ سے ہمارے کام میں روک بن جاتی تھیں.اسی قسم کا ایک واقعہ خاکسار کے روبرو پیش آیا." انجمن نمائندگان تبلیغ " نے بذریعہ ایک کار کن ہمارے کام میں دراندازی کی.چوہدری صاحب مرحوم کو علم ہوا تو بھرے ہوئے شیر کی مانند اس انجمن کے دفتر میں آئے.خاکسار ہمراہ تھا پھر وہاں جو واقعہ پیش آیا سنے اور سمجھنے کے قابل ہے اور میرے روزنامچے میں یہ الفاظ ذیل درج ہے.۲۳/ اگست ۱۹۲۳ء - امیر صاحب کی معیت میں نمائندگان تبلیغ کے دفتر میں گئے قریب سوا آٹھ بجے (شب) ان کے دفتر میں پہنچے.نذیر احمد خاں وکیل جے پوری جو فتنہ ارتداد کے دوران میں معروف ہو چکے ہیں.وہانی موجود تھے اور آج ہی مہاسبھا بنارس سے واپس آئے تھے.اس کے متعلق اپنے دفتر کے کلرک کو کچھ مضمون وہاں کی کارروائی کے متعلق لکھوا رہے تھے.بدیں پیرا یہ کہ والیان ریاست کی طرف سے ایک ہزار نمائندے شریک تھے.پنڈت مالویہ نے پر زور تحریک شدھی کے حق میں کی کہ خواہ کھان پان نہ ہو.

Page 419

383 خلافت ثانیه و سوار لیکن بھنگیوں چماروں تک کو کنوؤں سے پانی بھرنے ، مندروں میں درشن وغیرہ کی اجازت ضرور دی جائے پنڈت لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن مالویہ کے آگے ان کی پیش نہ گئی اور بالآخر یہ پاس ہو گیا.مارواڑی کروڑپتی اور دور دراز کے نمائندے شریک تھے راجہ بھرت پور کی حسن کارکردگی کا خصوصاً اعتراف کیا گیا.اس کے بعد وکیل صاحب موصوف نے نوٹ لکھوایا کہ میرا یہ خیال ہے کہ اگر ہندوستان کی کل جماعتیں ایک شخص کے ماتحت ہو کر کام نہ کریں گی تو ۱۹۲۳ء میں دو کروڑ نفوس مرتد ہو جائیں گے اور ہمیں مخاطب کر کے کہا کہ اگر میرے بس میں ہو تا تو اجمل خاں محمد علی شوکت ، کچلو د غیرہ تمام مسلمان لیڈروں کو کہتا کہ لیڈری کو چھوڑو.شکاری شکار کھیلتا ہے اور تم لوگ اس کی بندوق و تیر اٹھائے پھرتے ہو.وغیرہ.اتنا عرصہ ہم خاموش بیٹھے رہے اور مضمون کے ختم ہونے پر امیر صاحب نے حرف مطلب یوں شروع کیا.ہمیں نمائندگان تبلیغ سے سخت شکایت ہے ہم چھ ماہ سے یہاں پڑے ہیں.ہماری جماعت کے بہترین آدمی بر سرکار ہیں.ہم دوماہ میں شدھی وغیرہ سب کو پورے طور پر رفع دفع کر گئے ہوتے لیکن یہ مولوی لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے.ہم جان تو ڑ کر مسلسل کوشش سے ایک دیمہ کو فتح کرنے والے ہوتے ہیں کہ آپ کا آدمی پہنچتا ہے اور کام خراب کر دیتا ہے.نہیں کافر ٹھہرا کر مالکانوں کو پہلا پھسلا کر کنور عبد الوہاب صاحب وغیرہ یہاں نہیں رہتے.ہم شکایت ان سے کیسے کریں.دین میں اعزازی عہدے نہیں ہوا کرتے کام کرتا ہو تا ہے.ہم اب یہ برداشت نہیں کر سکتے یا تو مولوی کو.....ورون کے اندر نکال دیا جائے.ورنہ ہم اس انجمن کے خلاف جو چاہیں گے کریں گے.آریہ مسلمانوں سے بڑی قوم ہے.انگریز اتنی بڑی قوم ہے ہم نے ان سے مقابلہ کھانا ہوا ہے تو پھر یہ مولوی وغیرہ کیا چیز ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تمام جماعت احمد یہ کہہ رہی ہے.نذیر احمد خاں آپ پندرہ دن اور گھر جائیں.یہ مولوی ملانے بوریا بستر باندھ کر خود چل دیں گے.امیر صاحب: ہم نے چھ مہینے انتظار کیا ہے لیکن کوئی اصلاح نہیں ہوئی.کنور عبد الوہاب صاحب کے سامنے مکانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے ایک مولوی نے احمدیوں کو ان کے گاؤں میں نہ رہنے دیا ورنہ وہ لوگ ان کے زیر اثر پنجو کہ نماز پڑھنے لگ گئے تھے حتی کہ بعض تجد بھی پڑھتے تھے نمائندگان کا آدمی

Page 420

تاریخ احمدیت جلد ۴ 384 خلافت ثانیه و موان سال گیا انہیں ورغلایا اور احمدیوں کو کافر قرار دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ احمد کی وہاں سے لوٹ آئے اور وہ مولوی ٹ آئے ایک دن بھی نہ ٹھہرا.سب نے نماز چھوڑ دی اور ویسے کے ویسے رہ گئے.امیر صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تحریر میرے پاس موجود ہے اور انہوں نے کہا ہم قادیان بیعت کرتے ہیں.لیکن ہم خاموش رہے.اب بتاؤ ہم نے انہیں کہا تھا کہ بیعت کرو.اسی طرح آئے دن واقعات پیش آتے رہتے ہیں.مولوی چاہتے ہیں کہ کام نہ خود کریں نہ کرنے دیں.آنور ایک بڑا گاؤں ہے چھ سو ملکا نے وہاں آباد ہیں.اگر وہ واپس ہو تو بھرت پور پر اس کا اثر پڑتا ہے.دیگر دیہات متھرا پر بھی اس کا اثر ضرور پڑتا ہے.وہاں ہمارے تین آدمی مقرر ہیں.شیخ فضل صاحب جو بٹالہ کے رئیس ہیں اور دو اور تعلیم یافتہ آدمی اب چوتھا آدمی نمائندگان کا وہاں کیوں جائے.لیکن نواب خاں وہاں گیا کہ عبدالحی صاحب نے اسے حکم دیا کہ تم نوکر ہو وہاں ضرور جانا ہو گا.اس نے جا کر انہیں بگاڑا.ورنہ وہ واپسی کے لئے آمادہ تھے.اس شرط پر کہ آریوں سے جو دو سو روپیہ مرمت چاہ کے لئے وہ لے چکے ہیں انہیں واپس دے کر رسید ہم لے لیں اور اگر وہ کوئی مقدمہ کریں تو ہم ان کی امداد کریں.ہم تیار تھے کہ یہ آدمی پہنچا.ملکا نے ایک ہوشیار قوم ہے انہوں نے جب دیکھا کہ دو خریدار ہیں.تو اب کہتے ہیں کہ ۸۰۰ دلاؤ ہمارا اچندہ صرف ہندوستان پر ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ممالک یورپ امریکہ افریقہ پر بھی صرف ہوتا ہے.میں بجٹ سے ایک پیسہ زیادہ نہیں کر سکتا.اگر ہمار امقابلہ ہی کرنا ہے تو جاؤ پنجاب میں بنگال میں تمام ہندوستان میں ہمارا مقابلہ کرو.یہ علاقہ اسلام پر ایک مصیبت ہے یہاں ہی ہمارے ساتھ دشمنی کرنی ہے.اگر اتحاد نہیں ہو سکتا تو دشمنی تو نہ ہو اگر ہم آپ کے خیال میں مسلمان نہیں تو ہم ہر دو کم از کم تعلیم یافتہ تو ہیں ملکانے ہم دونوں کو پریشان کر رہے ہیں.اس کا تو خیال ہو.اگر آپ کہیں تو ہم آپ کے حسب مرضی جو جو گاؤں آپ چاہیں چھوڑ دیں لیکن باقیوں پر ہمارا کامل تسلط ہو گا اور آپ کی طرف سے کوئی دراندازی نہ ہوگی اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن ایک سو چالیس گاؤں ہیں ان میں کم از کم دو سو اسی آدمی مبلغ در کار ہوں گے آپ کو ان کا انتظام کرنا ہو گا غرض کوئی معاہدہ بھی ہو لیکن استوار ہو.خدا جانتا ہے کہ ہمیں یہاں آنے سے کوئی خاص غرض نہیں اور یہ شکایت محض جانبین کی بہتری کے لئے ہے انتهى كلامه یه تمام گفتگو نذیر احمد خاں صاحب اور عبدالحی صاحب نائب ناظم مجلس نمائندگان کے روبرو ہوئی.آخر نذیر احمد خاں صاحب عبدالحی صاحب کو اٹھا کر ایک طرف لے گئے اور واپس آکر عبدالحی صاحب نے کہا کہ آپ اپنے دیہات کی ایک فہرست ہمارے پاس بھیج دیں.اس کے بعد ہم ان نامزدہ دیہات

Page 421

تاریخ احمدیت علی 385 خلافت ثانیه دسواں سال میں کوئی مداخلت نہ کریں گے.کہا گیا کہ چھ ماہ ہوتے ہیں آپ کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں کہاں ہیں.بہر حال فہرست مطلوبہ ارسال کر دی جائے گی.یہ تقریر میں نے واپسی پر رات کو ہی قلمبند کرلی تھی".مجاہدین احمدیت پر ظلم و تشدد میدان ارتداد میں احمدی مجاہدین کو آریوں اور علماء کی طرف سے ظلم و تشدد کا تختہ مشق بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا گیا.چنانچہ فرخ آباد میں آریوں نے ایک بار ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے مکان کا مسلح محاصرہ کر لیا.مگر اس دوران میں اچانک پولیس کا ایک مسلمان سپاہی آگیا اور ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اسی طرح ایک مولوی آل نبی صاحب نے کئی سو آدمی لے کر ان کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا اور ماسٹر صاحب اور ان کی اہلیہ اور بوڑھی والدہ اور ننھے بچے یونس احمد کو (جو اب قادیان میں درویشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) جبر امکان سے نکال دیا اور ساتھ ہی دفتر بھی خالی کروالیا.ان ہی مولوی صاحب کے رفقاء نے ایک دوسرے احمدی مبلغ عبد الرشید صاحب کو فحش گالیاں دیں اور قتل کی دھمکیاں دینے سے بھی قطعا دریغ نہ کیا - موضع اسمار میں آریوں اور مرتد ملکانوں نے مرزا غلام رسول صاحب ( ریڈر سیشن جج پشاور) پر لاٹھیوں سے مسلح حملہ کر کے ان کی جھونپڑی نیچے گرادی اور وہ نیچے دب گئے.بازوؤں سے کھینچ کر باہر نکالا گیا.ظالم و سفاک انہیں گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور دھکے دے کر گاؤں سے نکال دیا.جس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مقدمہ دائر کیا گیا اور شیخ محمد احمد صاحب وکیل کپور حملہ نے اس کی پیروی کی.20.اکرن میں ہندو تھانیدار نے احمدی مبلغین کو علاقہ سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا.پھر مہاراجہ بھرت پور نے پوری ریاست میں یہ ظالمانہ حکم دے دیا کہ کوئی غیر ریاستی پر چارک (مبلغ) ریاست کی حدود میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہ رہے.تب مجاہدین نے حدود ریاست سے باہر کیمپ لگا لیا.ایک مجاہد ریاست میں جاتا اور موضع اکران میں ۲۴ گھنٹے ٹھر کر واپس آجاتا.اس کے بعد دوسرا مجاہد پہنچ جاتا اور اس طرح باری باری اکرن میں شدھی کے خلاف مورچہ کی نگرانی ہوتی رہی.ریاستی حکام نے جب یہ صورت دیکھی تو بڑے سٹ پٹائے.آخر مہاراجہ بھرت پور نے احمدی مبلغین کے داخلہ ریاست پر قطعی پابندی عائد کردی.ریاست کی اس مذہبی دست درازی پر مسلم پریس مثلاً " پیسہ اخبار "."سیاست" اور "وکیل" نے پر زور احتجاج کیا.جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ( جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی

Page 422

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 386 خلافت ثانیہ دسواں سال حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل پر مشتمل تھا) ناظم ریاست سے ملاقات کی اور یہ ظالمانہ حکم واپس لینے کی اپیل کی.مگر ریاستی حکام ٹس سے مس نہ ہوئے اور مجاہدین کو ریاست سے باہر ملحقہ دیہات میں قیام پذیر ہو کر ریاست کے مرتد مسلمانوں سے رابطہ قائم کرنے کے مختلف ذرائع اختیار کرنے پڑے.مجاہدین احمدیت کا بے مثال استقلال احمدیت کے رستہ میں قدم قدم پر مشکلات و مصائب کے پہاڑ کھڑے کئے گئے مگر اسلام کے A جانباز سپاہی بڑے وسیع حو صلہ اور استقلال اور مضبوط ارادے کے ساتھ شدھی کا قلعہ توڑنے میں دیوانہ وار مصروف ہو گئے.اسلام کی تائید میں لٹریچر پھیلایا.ملکانہ بچوں کے لئے سائد ھن پر کھم صالح نگر کھڑوائی وغیرہ متعدد مقامات پر مدارس قائم کئے.ہسپتال کھولے ، پرانی مسجد میں مرمت کر کے آباد کیں اور نئی مسجد میں تعمیر کیں مجالس اور پبلک جلسوں کے ذریعہ اسلام کی منادی کی اور جب اور جہاں بھی آریوں نے مناظرے کی طرح ڈالی چیلنج دیئے احمدی اپنی جان کو جو کھوں میں ڈالتے ہوئے میدان مناظرہ میں کو دپڑے اور آریوں کے پیش کردہ دلائل کی دھجیاں بکھیر ڈالیں.چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بھونگاؤں ، ہموری، متھرا، آگرہ، ساند ھن ، مین پوری اور دہلی میں کامیاب مناظرے کر کے کئی اہم ممیں سر کیں.یہ مجاہدانہ سرگرمیاں دیکھ کر مشہور مسلم اخبار "زمیندار" جو پہلے ہی جماعت کے تبلیغی کارناموں کو دیکھ کر رطب اللسان تھا اور زیادہ تعریف کرنے لگا.چنانچہ اخبار "زمیندار" نے لکھا.جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے که مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.جو ایثار اور کمر بستگی ، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں.اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھادی ہے ".قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کر رہے ہیں.ان کا قریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے.ان لوگوں نے نمایاں کام کیا ہے.جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں.ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے.اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے

Page 423

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 387 خلافت ثانیه دسواں سال مشکل سے ملتا ہے.ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے.شدت کی گرمی اور لوؤں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں" Ar احمدی مبلغ جس جوش اور ولولہ سے فتنہ ارتداد کے انسداد میں مصروف ہیں ان کی تعریف و توصیف کرنے سے ہم باز نہیں رہ سکتے " AF الحمد للہ کہ احمدی مبلغوں کی کوششیں بار آور کامیاب مدافعت اور شاندار پیش قدمی ہو ئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے شدھی کی رو میں زبردست کمی آگئی اور شدہ کئے ہوئے خاندان بڑی کثرت سے دوبارہ اسلام میں آنے لگے.شورش انگیز اور تشدد آمیز کارروائیوں اور چیرہ دستیوں اور مخالف طاقتوں کی زبر دست شورش کے باوجود ہر طرف اسلام کی فتوحات کے دروازے کھل گئے.ریاست بھرت پور کے کئی گاؤں شدھی سے تائب ہو کر پھر سے اسلامی لشکر میں آشامل ہوئے.آنور کا قصبہ جس کے قریب سری کرشن جی کی پیدائش ہوئی اکثر و بیشتر مسلمان ہو گیا.اسپار کے ایک بڑے حصہ نے اسلام قبول کر لیا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں.AP AO دوران جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض خطرے کے موقعے بھی پیش آئے جن میں بعض اوقات نعیم نے نازک حالات پیدا کر دیئے.اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والٹیر اپنی کوشش سے ایک شدھ شدہ گاؤں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کر کے اسے پھلا دیا.مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کر کے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا.بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکانہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا.مگر بالآخر ایک ایک کر کے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے پلٹا کھا کر اپنا راستہ بدل لیا.بلکہ اس جدوجہد میں ایک حد تک ملکانہ راجپوتوں کی دینی تربیت بھی ہو گئی اور ان میں سے کم از کم ایک حصہ خدا کے فضل سے صرف نام کا مسلمان نہیں رہا.بلکہ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والا اور اسلام کے احکام پر چلنے والا بن گیا".مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار ہندوؤں اور سکھوں دونوں کی طرف سے برملا کیا گیا.چنانچہ لالہ سنت رام بی.اے سیکرٹری جات پات تو ڑک منڈل لاہور نے بیان دیا " الفاظ بہت کڑے ہیں اور سخت مایوسی سے بھرے ہوئے ہیں مگر یہ سچائی ہے چاہے کڑوی ہو.بہت سے بھائی پوچھیں گے ہم اخباروں میں روز شدھی اور اچھوت ادھار

Page 424

تاریخ احمدیت.جلد ۴ خلافت ثانیه دسواں سال کی خبریں پڑھتے ہیں.پھر تم کیسے کہتے ہو کہ شدھی اور اچھوت ادھار کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی.اس کے جواب میں میری عرض یہ ہے کہ کسی کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں.پر میشور نے آپ کو آنکھیں دی ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں دوسرے دھرموں سے کتنے لوگ شدھ ہو کر آئے ہیں جن کی شدھی کی خبریں اخباروں میں جلی الفاظ میں چھپتی ہیں ان کی تعداد کم سے کم پانچ سو تو ہو گی مگر ان میں سے مجھے ہیں کے نام تو گن دیجئے.جو آج بھی ہندو ہوں..ملکانوں کی شدھی پر بڑا فخر کیا جاتا ہے.تھی بھی وہ بڑی فخر کی بات مگر جو لوگ سچائی کو جانتے ہیں وہ بڑے متفکر ہیں.مکانوں کی شدھی کی جو رپورٹ وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتی رہی ہے اس کے بموجب شدھ ہونے والوں کی گنتی ڈھائی لاکھ سے کم نہیں پہنچی مگر ان لوگوں میں بہت سے تو اپنی پہلی حالت میں واپس چلے گئے اور باقی بیچ میں لٹکے ہوئے کسی ٹھو کر کی راہ دیکھ رہے ہیں ".پروفیسر ریتم سنگھ ایم.اے اپنی کتاب ”ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں " میں لکھتے ہیں.آریہ سماج نے شدھی یعنی ناپاک کو پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا.ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقہ سے تصادم ہو گیا.آریہ سماج کہتی تھی کہ دید الہامی ہیں اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہیں.اور مکمل گیان میں قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں.اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں شامل نہیں ہو تا مذہب کی تبدیلی بے معنی سی ہو گئی ہے آریہ سماج کا تعلیمی کام اب تک جاری ہے..مگر سماج کا تبلیغی کام تقریباً بند ہے...آریہ سماج کی تحریک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکی.پرانے ہندو جو بت پرست اور مقلد تھے وہ ویسے کے ویسے ہی رہے اور کچھ انگریزی پڑھے لکھے لوگ جو سماج میں داخل ہوئے وہ مادیات میں پھنس کر د ہر یہ ہو گئے.ان کی تو وہی حالت ہے.ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم " AA شردھانند کی طرف سے تحریک شدھی سے دست برداری کا اعلان جب آریوں کو کئی مقامات پر پسپا ہونا پڑا تو شدھی کے بانی شردھانند نے ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو تمام مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دیا.مقصد یہ تھا کہ مسلمان عملی میدان سے ہٹ کر براہ راست ان کی طرف متوجہ ہوں اور جہاں ہندو ان کی شخصیت و عظمت کے قائل ہوں وہان بھولی بھالی ملکانہ قوم پر رعب طاری ہو.اس چیلنج میں انہوں نے گو احمد یہ جماعت کا نام نہیں لیا تھا مگر چونکہ اس دعوت میں سب مسلمانوں ہی کو خطاب تھا اس لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے ناظر تالیف واشاعت نے فور امناظرہ کی

Page 425

تاریخ ا احمدیت.جلد ۴ 389 خلافت نامیه و مواں سال AS منظوری بذریعه تار بھیج دی اور ساتھ ہی مسلمان اور ہندو اخبارات کو بھی اس کی اطلاع کر دی.انصاف و اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے فریق مخالف کی اطلاع کا جواب دیتے مگر شردھانند صاحب نے اس تار کا تو کوئی جواب نہ دیا البتہ ”ہندوستان کے سب مسلمانوں کو کھلا چیلنج" کے نام سے ایک نیا اعلان دے دیا.جس میں پبلک پر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ گویا خود مسلمانوں نے مجھے دعوت مباحثہ دی ہے.تحریر کیا کہ :- کچھ عرصہ سے مسلمان اصحاب نے میری معرفت مباحثہ کرنا زیادہ تر مناسب سمجھا ہے اس لئے ان کی خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے سب کا فردا فردا جواب نہ دیتے ہوئے ہندوستان کے جملہ مسلمان بھائیوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ آریہ سماج ہر وقت مباحثہ کے لئے تیار ہے.۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء تک اسلام کے ہر فرقہ کی طرف سے (جو مباحثہ کرنا چاہیں) میرے پاس درخواست آجانی چاہیئے ".اس اعلان میں انہوں نے ایک تو مسلمانوں کی درخواست " کے لئے ایسی قلیل مدت مقرر کی جو کسی لحاظ سے معقول نہیں تھی کیونکہ اس دوران میں ہر جگہ سے جواب کا بروقت پہنچنا بالکل ناممکن تھا.دوسرے ایسی بعض شرائط بھی لگا دیں جو دوسرا فریق منظور ہی نہ کر سکے.مثلاً مناظرہ کے وقت پریذیڈنٹ آریہ سماج کی طرف سے ہو گا.تیسرے اس تحکمانہ لہجہ میں اعلان لکھا کہ گویا آپ مہاراجہ ہیں اور اپنی رعایا کے نام احکام جاری فرما ر ہے ہیں لیکن اس کے باوجو د احمدی جماعت نے جواب دیا کہ ہمیں ہر شرط منظور ہے.میدان میں نکلیں." چنانچہ ناظر صاحب تالیف و اشاعت قادیان نے شردھانند جی کو للکارتے اور پبلک پر ان کی شکست خوردہ ذہنیت کو آشکار کرتے ہوئے لکھا :- " ہم سب شرائط منظور کرتے ہیں جو آپ نے تجویز کی لیکن ہم تمام پبلک خصوصاً انصاف پسندوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی غیر منصفانہ طریق ہے کہ ایک فریق اپنے ہی قبضہ میں سب اختیارات رکھتا ہے.اگر آریہ سماج اس طرح مجبور کر کے اپنی پیش کردہ شرائط کو منظور کرانا چاہتی ہے تو یہ اس کا رویہ خود اقرار شکست ہے بحث ایک جنگ ہے اور جب کہ شکست خوردہ دشمن کا بھی یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو فاتح کی پیش کردہ شرائط کے مقابلہ میں پیش کرے.تو یہ بات نہایت خلاف عقل ہے کہ ایک فریق بحث سے بھی پہلے اپنی طرف سے سب پیش کردہ شرائط کو بلا چون و چرا مانے پر زور دے.میں امید کرتا ہوں کہ آریہ سماج کی طرف سے جلد سے جلد مجھے اس امر کی اطلاع دی جائے گی کہ ان کو ہمارے ساتھ مباحثہ کرنا منظور ہے یا نہیں".اب شردھانند صاحب کے لئے گریز کی کوئی راہ باقی نہ تھی.شرائط اگر چہ یکطرفہ تھیں اور وقت

Page 426

تاریخ احمدیت جلد ۴ 390 خلافت ثانید دسواں سال نهایت تنگ مگر جماعت احمدیہ نے اتمام حجت کے لئے مباحثہ منظور کر لیا.جماعت بڑی بے تابی سے اس وقت کے انتظار میں تھی کہ کب "سوامی جی " میدان مباحثہ قبول کرتے ہیں اور ہندو دھرم کے مقابل اسلام اور ویدوں کے مقابل قرآن مجید کی فتح کے نقارے بجتے ہیں.لیکن شردھانند تو اس مناظرے سے اپنا پیچھا چھڑانے کی فکر میں تھے اور کسی بہانہ کی تلاش میں تھے.دہلی کی اتحاد کانفرنس حسن اتفاق سے ان ہی دنوں دہلی میں آل انڈیا نیشنل کانگرس نے ایک خاص اجلاس شدھی اور سنگھٹن کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلا رکھا تھا اس اجلاس میں جناب ابو الکلام صاحب آزاد صدر کانگریس نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ موجودہ ملکی حالت یہ ہے کہ سوراج اور خلافت کی جگہ شدھی سنگھٹن کی تحریک اور اس کی مدافعت نے لے لی ہے ہمیں متحدہ قومیت کی ضرورت ہے میں تمام ہندو مسلمانوں سے وطن کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ان تمام سرگرمیوں کو بند کر دیں جو شدھی تحریک اور اس کی مدافعت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں.خطبہ صدارت کے بعد ہندو مسلم لیڈروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور جناب آزاد کی تجویز پر ایک اتحاد کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.جس کی غرض کانگریس کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرنا تھا یہ اتحاد کمیٹی حسب ذیل ممبروں پر مشتمل تھی.پنڈت شردھانند ، پنڈت مالویہ جی، جناب ابو الکلام صاحب آزاد، ڈاکٹر انصاری ، ڈاکٹر کچلو ، حکیم اجمل خاں ، مولوی شبیر حسین ، مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی پنڈت موتی لال نہرو ی.آرداس ، مسٹر کینڈا مسز سروجنی نائیڈو اور ڈاکٹر ستیہ پال - اتحاد کمیٹی کے ممبر ہونے کی وجہ سے شردھانند جی کو مباحثہ سے انکار کرنے کا ایک موقعہ ہاتھ آ گیا.اور اگر چہ کمیٹی کی تجاویز میں مباحثہ کے اعلان کی واپسی کا چنداں ذکر نہیں تھا.مگر انہوں نے فورا اعلان شائع کر دیا کہ.کمیٹی صالح کے بن جانے سے ہر دو مذاہب کے درمیان پھر سے اتحاد کی بنیاد قائم ہو گئی.اب میں اس بنی ہوئی فضا کے راستے کو مکدر کرنا نہیں چاہتا اس لئے مباحثہ کو اپنی طرف سے بند کرتا ہوں".اس اعلان پر دنیا نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ آریوں کے مشہور لیڈر اور شدھی کے بانی نے احمدیوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست پر اپنے ہاتھوں دستخط کر دیئے ہیں.یہ بات اتنی واضح اور کھلی تھی کہ ہندو اخبار " پر تاپ " لاہور نے لکھا.ممکن ہے فساد بھی ہو جاتا لیکن جو بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ یہ حالات تو پہلے بھی موجود تھے جبکہ سوامی جی نے مناظرہ کا اعلان کیا تھا.اس کے بعد تو کوئی اور فساد بھی نہیں ہوا.اس کے

Page 427

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 391 خلافت ثانیه دسواں سال بعد کونسی ایسی بات ہوئی ہے جس نے سوامی جی کو مناظرہ کے بند کرنے پر مائل کیا ہے......انہوں نے ده خود ہی مناظرہ کا اعلان کیا.خود ہی اسے منسوخ کر دیا " مناظرہ کی منسوخی سے آریہ سماج کو ایسی ضرب کاری لگی کہ چند دن بعد شردهانند تحریک شد می سے ہی دستبردار ہو گئے اور اپنی علیحدگی کی وجہ یہ بیان کی کہ "میری صحت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ شدھی جیسے اہم اور ضروری کام کو اسی شوق سے کئے جاؤں میرا دل ہمیشہ کارکنوں کے ساتھ رہے گا".اتحاد کمیٹی میں نمائندگان جماعت کی شمولیت اب اتحاد کمیٹی کی طرف آئیے.جس کی بناء پر شردھا نند جی نے پہلے میدان مناظرہ سے گریز اختیار کیا اور پھر شد ھی سے دستکش ہو گئے.ہم او پر یہ ذکر کر آئے ہیں کہ جناب ابو الکلام صاحب آزاد صدر آل انڈیا نیشنل کانگرس نے ہندو مسلمان لیڈروں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ شدھی کی تحریک بھی اور اس کی مدافعت کا کام بھی بالکل بند کر دیا جائے.چنانچہ اتحاد کمیٹی کے ارکان سوامی شردھانند سے یہ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو گئے کہ بیرونی آریہ اپدیشک بھی تحریک شدھی سے الگ ہو جائیں اور دوسری جگہ سے آنے والے مسلمان بھی میدان ارتداد سے ہٹ جائیں اور خود ملکان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ آپس میں کوئی فیصلہ کر ہیں.یہ اطلاع قادیان میں پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے ناظر صیغہ انسدادار تداد ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) نے حکیم اجمل خاں صاحب ڈاکٹر انصاری صاحب اور ڈاکٹر کچلو کے نام (جو اتحاد کمیٹی کے ممبر تھے ) اس سمجھوتہ کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہوئے مفصل تار دیا.کہ ”ہمارے نزدیک یہ سمجھو تہ سخت خلاف دانش اور خلاف مصالح اسلامیہ ہے.آریہ لوگ ایک عرصہ سے وہاں کام کر رہے ہیں اور کئی ہزار آدمی کو آریہ بنا چکے ہیں.اب پیچھے ہٹ جانے کے یہ معنی ہیں کہ ان لوگوں کو آریہ رہنے دیا جاوے.جو قوم پہلے قبضہ کر چکی ہے اس کے لئے آئندہ جنگ بند کر دینا کوئی حرج نہیں ہے.نقصان اس کا ہے جس نے اپنے اہل مذہب کو واپس لانا ہے.......پس ہم بڑے زور سے اس سمجھوتہ کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہیں اس وقت تک کہ اس علاقہ کے لوگ واپس اسلام میں آجائیں ہم صبر نہیں کریں گے اور اسلام کی عزت کے مقابلے میں کسی سمجھوتہ کی پروا نہیں کریں گے.ہماری جماعت امید رکھتی ہے کہ آپ اس وقت اسلام کی طرف سے جو ذمہ داری آپ پر عائد ہے.اس کو محسوس کرتے ہوئے کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے جو اسلام کی تبلیغی روح

Page 428

تاریخ احمد بیت جلد ۴ کے خلاف ہو " 392 خلافت ثانیہ کا دسواں سال تار پہنچنے تک اتحاد کمیٹی کے ہندو اور مسلمان لیڈروں میں قطعی فیصلہ ہو چکا تھا کہ دونوں قومیں اپنے اپنے آدمی علاقہ ارتداد سے واپس بلا لیں.اور صرف یہ سوال باقی رہ گیا کہ آریہ پہلے علاقہ خالی کریں یا مسلمان ، مسلمان لیڈروں نے مان لیا کہ ہمارے آدمی پہلے واپس آجا ئیں گے لیکن اب یہ اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ احمدیوں کا کیا ہو گا.اس پر شردھانند جی نے مسلمان لیڈروں سے کہا.جناب! آپ لوگ کس خیال میں ہیں یہ تو سارا کھیل ہی احمدیوں کا ہے پس آپ انہیں الگ رکھ کر کس حیثیت میں سمجھوتہ کریں گے اور کیا سمجھوتہ کریں گے ؟ بعض مسلمان لیڈر اس سے پہلے نخوت کے رنگ میں احمدیوں کو دانستہ اس کمیٹی سے الگ کر کے اپنے طور پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے.مگر اس مرحلہ پر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں مجبور احضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں درخواست کرنا پڑی کہ وہ اپنے نمائندے بھجوائیں چنانچہ سمجھوتہ کے خلاف احتجاجی تار ڈاک خانہ میں دینے کے معابعد حکیم اجمل خان صاحب، جناب محمد علی صاحب (جو ہیں اور ڈاکٹر انصاری صاحب کی طرف سے تار پہنچا کہ.- " حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ.ہماری پر زور درخواست ہے کہ آپ اپنے ذمہ دار قائم مقام کو جو آپ کے خیالات سے واقف ہو بھیجیں تاکہ شدھی اور اشدھی کی تحریکات کی وجہ سے جو فسادات پیدا ہو رہے ہیں ان کو روکنے کے لئے مشورہ کیا جائے " چنانچہ حضور کے حکم پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم- چودھری فتح محمد صاحب سیال امیر وفد المجاہدین اور حضرت خان صاحب ذو الفقار علی صاحب (علی برادران کے بڑے بھائی) ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء کو دہلی پہنچے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیڈروں کے نام اپنے نمائندوں کے ہاتھ ایک خط بھی بھیجوایا جس میں تحریر فرمایا." جہاں تک میں آپ کے تار سے مطلب سمجھ سکا ہوں ہدایات دے دی ہیں اگر کوئی ایسا سوال پیدا ہوا.جس کے متعلق ان کو میری رائے معلوم نہ ہوئی تو مجھ سے دریافت کر کے آپ کو اطلاع دیں گے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہندو مسلم اتحادی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اتحاد کے لئے ہماری جماعت بے چین ہے اور ہمارے عظیم مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا میں سے تفرقہ اور اشتقاق مٹ جائے.لیکن ہمارے نزدیک اس بات کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ موجب اختلاف کو معلوم کر کے ایسے اسباب مہیا کئے جائیں جن سے دائی صلح اور آشتی پیدا ہو کر تمام اقوام عالم میں امن قائم

Page 429

تاریخ احمد بیت جلد ۴ 393 خلافت ثانیہ کا دسواں سال ہو سکے.نہ یہ کہ ایسی صلح کی جائے جو دیر پا نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں کسی اور جنگ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں ".11 ان نمائندوں کے دہلی پہنچنے پر حکیم اجمل خاں صاحب نے دوبارہ تار دیا کہ.حضرت مرزا محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ - مخط اور فوری توجہ کا تہ دل سے شکریہ - آپ کا مشورہ ہمارے لئے بڑی مدد کا موجب ہو گا.اجمل خاں ".احمدی نمائندوں نے کمیٹی کے سامنے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ موقف پوری وضاحت سے پیش کیا کہ جب تک شدہ شدہ مسلمانوں میں سے ایک فرد واحد بھی باقی ہے ہم یہ مہم ہرگز نہیں چھوڑیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ سمجھوتہ نہ ہو سکا اور شردھانند اور دوسرے کانگریسی ہندوؤں کی یہ سیاسی تدبیر جو انہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم پر کی تھی.کامیاب نہ ہو سکی.علاقہ ارتداد میں مستقل مبلغین کا تقرر گو ہندو مسلم لیڈروں کا کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا.مگر غیر احمدی علماء اور آریہ پر چارک تھک ہار کر تیزی کے ساتھ واپس آنے لگے.اس کے مقابل جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اعلان فرمایا تھا.احمدی مجاہدین آخر دم تک میدان عمل میں مصروف جہاد رہے چنانچہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے یہ علاقہ آگرہ ، فرخ آباد اور مین پوری تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن کے الگ الگ امیر تبلیغ تمرر کئے گئے.اور چھ چھ سات سات مبلغ ان کے ماتحت لگا دیئے گئے.اس سلسلہ میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم مولوی محمد حسین صاحب قریشی افضال احمد صاحب - مولوی عبدالحی صاحب بھاگلپوری.مولوی جلال الدین صاحب وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جنہوں نے اس علاقہ میں لمبا عرصہ تک اسلام کا جھنڈا بلند رکھا اور خدا کے فضل سے اب بھی وہاں احمد یہ جماعت اور اس کی مساجد موجود ہیں اور ان گری ہوئی قوموں کو اٹھانے اور پختہ مسلمان بنانے کا کام جاری ہے.تحریک شدھی کے ہنگامی دور کے بعد جماعت احمدیہ کا مستقل مزاجی سے ان علاقوں میں تبلیغی جد و جہد جاری رکھنے پر بھی مسلم پریس نے جماعت کی بہت تعریف کی.چنانچہ اخبار اہلسنت (امرتسر) نے لکھا."جب فتنہ ارتداد کی ابتدا تھی تو بہت سی انجمنیں وہاں کام کرنے کے لئے پہنچ گئی تھیں.مگر تھوڑے ہی دنوں میں وہ انجمنیں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں.باوجودیکہ ان کے مقابل میں قادیانی بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں.سورج پور میں قادیانیوں کا قبضہ ہو گیا ہے.محمد اسمعیل کا آگرہ سے مخط آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ شدھی کا زور بہت کم ہے.لیکن قادیانیوں کا زور زیادہ ہے تمام انجمنیں کنارہ کشی کر

Page 430

تاریخ احمدیت جلد ۴ 394 هانیه کا دسواں سال گئیں.کوئی مدرسہ مسلمانوں کا نہیں رہا.تمام گاؤں پر قادیانی قبضہ کر رہے ہیں.صالح نگر اور ساندھن میں بھی قادیانی ہیں ".اس معرکہ حق و آریوں کی طرف سے احمدیت کی زبر دست طاقت کا اقرار پاگل نے آریوں کو باطل جماعت احمدیہ کی زبر دست اور بے پناہ تبلیغی و تنظیمی طاقت و قوت کا پورا پورا احساس کرا دیا چنانچہ اخبار " پر تاپ " لاہور نے لکھا.مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں کو اپنے ہی ہم وطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ ان کے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے وہ خطرہ ہے تنظیم و تبلیغ کا.مسلمانوں کی طرف سے یہ کام اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہندوؤں کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں ان کی تعداد سال بہ سال کم ہو رہی ہے اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے جبکہ آرید دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے "..اس سے بڑھ کر ایک متعصب آریہ سماجی نے لکھا : " میں نے اسلام کے اندر رہ کر اور اسلام کے ترک کرنے کے بعد مسلمانوں کے تبلیغی نظام کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا.میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس موثر اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت احمد یہ جماعت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.اگر کی ہے تو فی الحال ہم اسے سمجھ نہیں سکے اگر ہم نے اس کی طرف کبھی دیکھا بھی تو ہماری نگاہیں اس کے بیرونی خط و خال کو دیکھ کر پلٹ آئیں اور اس کے اندرونی حالات ابھی تک ہمارے لئے ایک بھید اور سر مخفی ہیں.بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہو تا لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقعہ پا کر ہمیں بالکل جھلس دے گی.آریہ سماج اور تحریک احمدیت کے جو تعلقات رہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی طرف سے بالکل غافل نہ ہوتے.خاص کر پنڈت لیکھرام جی کی شہادت تو ایک ایسا سبق تھا جس کو ہمیں بالکل نہ بھولنا چاہئے تھا.مگر افسوس ہم نے ہمیشہ غفلت برتی اور آج تک غافل ہیں.بظا ہر خواہ معلوم نہ ہو لیکن در حقیقت ہندوستان اور دوسرے ممالک میں شدھی کی تحریک کے لئے سب سے بڑی روک احمدیہ جماعت ہے اور اس روک کو دور کئے بغیر ہمارے لئے پوری پوری کامیابی حاصل کرنا

Page 431

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 395 خلافت ثانیه کار سواں سال بالکل محال ہے.آج شائد میری اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہو گا.لیکن زمانہ خود بتادے گا کہ میرا کہنا کس قدر صداقت پر مبنی ہے.آج سے تھیں چالیس سال پیچھے ہٹ جائیے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی.اور دیکھئے اس زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے.ہندو تو ایک طرف رہے خود مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا اور اس پر لعنت و ملامت کے تیر برسائے اس جماعت نے اپنی ابتدائی حالت میں جن جن کاموں کے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا.آج ان میں سے اکثر انجام کو پہنچ چکے ہیں.اس زمانہ میں جب احمدیوں نے ان کاموں کی ابتدا کی تھی ان کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور ان کی حماقت پر ہنسی اڑائی جاتی تھی.مگر واقعات یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر ہنسی اڑانے والے خود بے عقل اور احمق تھے.اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عظمندی سے کام لیا.انہوں نے اس وقت سے جب احمد یہ جماعت نے جنم ہی لیا تھا کہ اس کی طرف صرف توجہ ہی نہ کی بلکہ ہمیشہ نہایت گہری نظر سے اس کا مطالعہ کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اور ہندوؤں سے زیادہ امریکہ اور یورپ کے پادری احمد یہ تحریک سے زیادہ واقف ہیں ان کے پاس اس جماعت کے متعلق درجنوں کتابیں موجود ہیں.ان کی ہوشیاری اور باخبری کا یہ عالم ہے کہ احمدیوں نے ابھی یورپ و امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری ان کے مقابلے کے لئے تیار ہو گئے ہیں.دوسری طرف ہم ہیں کہ نصف صدی سے یہ جماعت اپنا خوفناک کام ہمارے مقدس ملک میں کر رہی ہے.مگر ہمارا متوجہ ہوتا اور انسدادی تدابیر اختیار کرنا تو ایک طرف رہا ہم اس سے اچھی طرح واقف بھی نہیں | 1-A ہیں ".نیز لکھا."احمدی جماعت کا اثر ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہے.یورپ امریکہ افریقہ ، آسٹریلیا، عرب، ایشیا کے تمام حصے غرضیکہ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جہاں احمدیہ جماعت کی شاخ یا کم از کم کوئی احمدی کام نہ کر رہا ہو.یورپ کے تمام ممالک انگلستان، فرانس، جرمنی وغیرہ میں ان کے باقاعدہ مشن موجود ہیں امریکہ میں بھی تبلیغ ہو رہی ہے.افریقہ اور عرب کے پتے ہوئے صحراؤں ، مصر ، ایران کے زرخیز متمدن ممالک ترکستان ، شام ، افغانستان کی خوشنما وادیوں میں غرضیکہ ہر جگہ ان کی کوششیں جاری ہیں اور دن بدن ترقی کر رہی ہیں.اگر آج ہم نے ہندوستان میں احمدیوں کا مقابلہ نہ کیا اور ان کی طرف سے غافل رہے تو کل کو ہمارے لئے ممالک اسلامیہ یورپ اور امریکہ میں شدھی کا کام کرنا نا ممکن ہو جائے گا....ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ ہمیں ذرا عقل مندی سے کام لے کر اپنے طریق کار کو بدلنا چاہئے.ہماری قیمتی طاقتیں بالکل

Page 432

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 396 خلافت ثانیہ کا دسواں سال رائیگاں جا رہی ہیں ہم ایسے حریفوں سے ابھی بالکل ناواقف ہیں.اب آئندہ کے لئے ہمیں اس تاریکی میں نہ رہنا چاہئے اور جلد سے جلد احمدیہ جماعت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.اگر ہم چند سال اور اس خوفناک جماعت کی طرف سے غافل رہے تو اس کے نتائج نہایت افسوسناک اور نقصان دہ ہوں گے.آج تک احمدی جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ان کی ذاتی کوششیں ہی تھیں.دوسرے مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ان کی مخالفت کی...لیکن اب یہ حالت نہیں ہے آج کل سوائے پرانے خیال کے مولویوں کے باقی تمام مسلمان ان کے مددگار اور ان کے کام کے مداح ہیں یہ تبدیلی ایسی ہے جس میں ہمارے لئے بہت سے خطرے پوشیدہ ہیں جن سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بند و بست نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا".میدان ارتداد میں جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی خصوصیت کا عام چه چا مجماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارناموں نے جہاں آریوں کو لرزہ بر اندام کر دیا.وہاں مسلمانوں پر بھی ظاہر ہو گیا کہ اس زمانہ میں اگر دنیا کے پر وہ پر اسلام کا سچادر د ر کھنے والی اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف احمد یہ جماعت ہے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب نے (جو بعد کو مفکر احرار کے نام سے یاد کئے گئے ) تحریک شدھی کے دوران میں لکھا تھا.مسلمان پبلک کو چاہئے کہ فتوی بازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ غیر اقوام میں تبلیغ کر کے غیروں کو اپنا سچا ہم خیال مسلمان بنا ئیں تاکہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمانوں کو کا فر بتانا کتنا آسان اور کافر کو مسلمان بنانا کس قدر دشوار ہے.مگر مسلمان فتوی باز کسی کے روکے نہیں رکتے تو انہیں اجازت دی جائے کہ جہاں وہ مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں وہاں کبھی کبھی غیر قوموں میں تبلیغ بھی کریں تاکہ ان کا مزاج اعتدال پر آجائے.سینکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذ بہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی ایک فرقے کا تبلیغی نظام موجود نہیں...آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا.مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصری جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ بھی

Page 433

تاریخ احمدیت جلد ۴ 307 خلافت ثانیه کار سواں سال مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے".

Page 434

تاریخ احمدیت - جلد " 398 خلافت ثانیہ کا دسواں سا (فصل دوم) مبلغ امریکہ کو زرین ہدایات تحریک شدھی کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ۱۹۲۳ء کے دوسرے حالات کی طرف آتے ہیں ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ۷ / جنوری ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آپ کو مفصل ہدایات و نصائح لکھ کر دیں.جن کا خلاصہ یہ تھا کہ نو مسلموں کو اسلامی اخلاق کا پابند بنائیں.ان کا مرکز اور خلیفہ وقت سے عاشقانہ تعلق اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں دعا پر زور دیں.سیاہ اور سفید نسل والوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں.سیاست سے الگ رہیں قرآن مجید پر تدبر کریں.ایسی تمام مجالس سے بچیں جو لغو کاموں پر مشتمل ہوں.اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف بنا ئیں.پہلے مبلغین کی خدمات کا دل زبان اور قلم سے اعتراف کریں.یہ امر خوب یادرکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں.اسی سلسلہ میں حضور نے ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ خلیفہ وقت کی فرمانبرداری اپنا شعار بنا ئیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایک عرصہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کے احمدی خواتین کا اخلاص لئے جدوجہد فرما ر ہے تھے.آخر ستمبر ۱۹۲۲ء میں مولوی مبارک علی صاحب لنڈن سے برلن بھیجے گئے.انہوں نے حضور کی ہدایت پر وہاں زمین کا انتظام کر لیا.جس پر حضور نے ۲/ فروری ۱۹۲۳ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر خواتین کے چندہ ہے ہو.اس تحریک نے احمدی خواتین کا مطمح نظر بلند کر کے ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت و للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا کر دیا کہ (متحدہ) ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو صرف اور صرف قرون اولیٰ کی صحابیات میں 11 چنانچہ حضرت ام المومنین کو ایک جائیداد میں سے پانچ سو روپے کا حصہ ملا تھا جو آپ نے سب کا سب چندہ میں دے دیا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت ام داؤد (المیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور بیگم صاحبہ خان بہادر حضرت صاجزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مقدور بھر حصہ لیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہل بیت بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری

Page 435

تاریخ احمدیت جلد ۴ 399 خلافت ثانیہ کا دسواں سال مبارک خواتین سے اپنی قربانی میں پیچھے نہیں رہے.حضرت ام ناصر کو حضور کی طرف سے ایک رقم ملی تھی جس کا نصف آپ نے وصیت میں اور باقی اس تحریک میں دے دیا.حضرت امتہ الحی صاحبہ نے ایک سو روپیہ پیش کیا.حضرت ام طاہر نے اپنا ایک گلو بند بھی دیا اور کچھ نقدی بھی.قادیان کی دوسری احمد کی خواتین میں سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ (دختر حضرت پیر منظور محمد صاحب) نے نمایاں حصہ لیا.ایک نہایت غریب و ضعیف ہیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھی اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دو روپے پیش کر دیئے.یہ عورت بہت غریب تھی اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھی.باقی دفتر کی امداد پر اس کا گزارہ چلتا تھا.ایک پنجابی بیوہ عورت نے جس کے پاس زیور کے سوا کچھ نہ تھا اپنا ایک زیور مسجد کے لئے دے دیا.ایک اور بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور اور مال میں سے کچھ بھی پیش کرنے کے لئے موجود نہ تھے اپنے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے.ایک خاتون نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا تھا دوبارہ گھر گئی کہ بعض برتن بھی لا کر حاضر کر دوں.اس کے خاوند نے کہا کہ تو زیور دے چکی ہے اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہو رہا ہے کہ اگر خدا اس کے دین اور اس کے رسول کے لئے ضرورت پیش آئے (اور ایسا ممکن اور جائز ہو) تو میں تجھے بھی فروخت کر کے چندہ میں دے دوں یہ الفاظ کو ہرگز قابل تعریف نہ تھے نہ شرعانہ اخلا قا مگر ان سے اس جوش کا ضرور اندازہ ہو سکتا ہے.جس نے ایک غیر تعلیم یافتہ عورت کا جذ بہ فدائیت ان الفاظ میں ظاہر کر دیا.ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لئے الدار میں پہنچی اور کہا کہ ہمارے گھر میں ان کے سوا کوئی چیز نہیں.یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں.قادیان کے باہر کی مستورات نے بھی قربانی کے قابل رشک اور قابل فخر نمونے دکھائے چنانچہ المیہ صاحبہ کپتان عبد الکریم صاحب ( سابق کمانڈر انچیف ریاست خیر پور) نے اپنا کل زیور اور اعلی کپڑا چندے میں دے دیا.اس قسم کے اخلاص کا نمونہ چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانونگو سیالکوٹ.سیٹھ ابراہیم صاحب خان بہادر محمد علی خاں صاحب اسٹنٹ پولٹیکل افسر چکدرہ (بنوں) حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، ڈاکٹر اعظم علی صاحب جالندھری، خان بهادر صاحب خان نون اکسترا اسٹنٹ کمشنر ، حضرت ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امیر جماعت امرتسر ( والد ماجد قاضی محمد اسلم صاحب) میاں محمد دین صاحب واصل باقی نویس کے خاندان کی مستورات نے بھی دکھایا ma افسوس جرمنی کی غیر مستقل سیاسی صورت حال اور بعض دوسری ناگزیر مشکلات کی وجہ سے

Page 436

تاریخ احمدیت جلد ۳ 400 خلافت ثانیه کار سواں سال جرمنی میں تعمیر مسجد کا کام بند کر دینا پڑا.مگر احمدی خواتین کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.بلکہ ان کے چندہ سے لندن میں مسجد تعمیر ہوئی.جو یورپ میں جماعت احمدیہ کی سب سے پہلی مسجد ہے.کو نسلوں میں انتخابات ہونے ہندو مسلم امور میں جماعت احمدیہ کا سیاسی موقف والے تھے اس مرحلہ پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ۷ / اگست ۱۹۲۳ء کو ایک مفصل اعلان میں بتایا گیا کہ کو نسلوں میں جماعت احمدیہ کا کون نمائندہ ہو سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں بعض بنیادی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر جماعت احمدیہ کی سیاسی پالیسی واضح کی گئی کہ ہم یہ امر ہرگز تسلیم نہیں کرتے کہ ہندو مسلم اتحاد کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان اپنی جداگانہ ہستی مٹا کر ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے ہر ایک حق اپنا چھوڑ دیں.ہمارے نزدیک مسلمانوں کی قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس لئے جائیں اور مسلمانوں کو کونسلوں اور محکمہ جات میں ان کے تناسب آبادی کے مطابق حصہ ملے.مثلاً پنجاب میں مسلمان زیادہ ہیں تو ان کو کونسلوں اور محکموں میں زیادہ آسامیاں ملنی چاہیں یہ حق اس وقت تک غصب کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ایک ایک منٹ جو اس نقص کی اصلاح کے بغیر گزر رہا ہے اس سے مسلمانوں کی قومی موت قریب سے قریب تر آرہی ہے" بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ سید نا ضرت علینہ اسی الثانی المصلح الموعود کے قلم مبارک سے اخبار الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو حسب ذیل مضمون سپر د اشاعت ہوا.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ الله الحمد ہر آن چیز که خاطر میخواست آخر آمد از پس پردہ تقدیر پدید ۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے جسے میں پہلے بھی بعض مجالس میں بیا نکر چکا ہوں کہ ایک احمدی دوست اللہ تعالٰی ان کو غریق رحمت کرے جو انگریزی فوج میں ملازم تھے اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے.وہاں سے

Page 437

تاریخ احمدیت جلد ۴ 401 خلافت ثانیہ کا دسواں سال بولشو یکی فتنہ کی روک تھام کے لئے حکام بالا کے حکم سے انکی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئے اور کچھ عرصہ تک وہیں رہی.یہ واقعات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں.کیونکہ اس وقت کے مصالح یہی چاہتے تھے کہ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو مخفی رکھا جائے.ان دوست کا نام فتح محمد تھا اور یہ فوج میں نائک تھے.ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقع پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت کے معلوم کرنے لئے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھی.وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ پھرتے پھراتے ایک جگہ پر گئے جہاں کچھ لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلغ ہیں اور چونکہ روی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں.وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے.اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں.نماز کے وقت اٹھا دیتے ہیں.ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں.اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں میں ان کو تبلیغ کروں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو گئے.انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں.اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.انہوں نے کہا کہ ہاں اس امت میں سے ایک شخص آجائے گا.اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے.اس کا ہے.اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی انہی کے ماننے والے ہیں.فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نواحمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں.اتفاقا کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا اور وہ روسی عشق آباد میں گئے.وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگ ہیں.لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں.جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ مانے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کا پوچھتے ہو وہ تو یہاں ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتہ بتایا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دوکان ہے یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کئے.اس نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں.یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں.جس طرح رسول کریم ﷺ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی

Page 438

تاریخ احمدیت جلد ۴ 402 خلافت ثانیه کا دسواں کہتے تھے.انہوں نے وجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہو گیا ہے.اس لئے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کئے گئے لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں.تو ہمیں چھوڑ دیا گیا.اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے.زیادہ مخالفت کرتے ہیں.جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا.سلسلہ کی ابتداء کا ذکر اس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا.وہاں اسے حضرت مسیح موعود کی کتب میں وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آگریزد کے علاقہ میں جو اس کا وطن تھا.اس نے تبلیغ کی کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لئے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لائے اور اس طرح جماعت بڑھنے تھی.یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر مجھے بھیجے.چونکہ عرصہ زیادہ ہو گیا ہے اب اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ واقعات اسی ترتیب سے ہیں یا نہیں لیکن خلاصہ ان واقعات کا یہی ہے گو ممکن ہے کہ بوجہ مدت گزر جانے کے واقعات آگے پیچھے بیان ہو گئے ہوں.جس وقت یہ خط مجھے ملا.میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ بخارا کے امیر کی کہان آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے.اسی رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لئے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گولی لگنے سے فوت ہو گئے ہیں.اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سر دست اس ارادہ کو ملتوی کر دینا پڑا.مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے پیدا ہوتی رہی اور آخر ۲۱ ء میں میں نے ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبر لینی چاہئے.چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بد گمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لئے تو غالبا بندہی تھا.یہ دقت درمیان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو اس کام کو کرنا چاہئے اور ان احباب

Page 439

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 403 میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتادیں اور کہہ دیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے.اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لئے تیار ہو جائیں.جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے آپ کو اپنا قوت خود کمانا ہو گا.اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا.اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے بلا زاد راہ فورا نکل کھڑے ہوئے.کوئٹہ تک تو ریل میں سفر کیا سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا.مگر سب تکالیف برداشت کر کے بلا کافی سامان کے دوماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لئے چل پڑے.آخری خط ان کا مارچ ۱۹۲۲ء کا لکھا ہوا پہنچا تھا اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے نہ پہنچ سکتا تھا.مگر الحمد للہ کہ آج ۹/ اگست کو ان کا اٹھارہ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا ہے.جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہو گئی ہے اور باقاعدہ انجمن بن گئی ہے.اس دوست کو روسی علاقہ میں داخل ہو کر جو سنسنی خیز حالات پیش آئے وہ نہایت اختصار سے انہوں نے لکھے ہیں لیکن اس اختصار میں بھی ایک صاحب بصیرت کے لئے کافی تفصیل موجود ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تجربات سے دوسرے بھائی فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاص میں ترقی کریں گے.اور اسلام کے لئے ہر ایک قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ حقیقی کامیابی خدا کی راہ میں فتا ہونے میں ہی ہے.چونکہ برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا.اس لئے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی روس کے پہلے ریلوے سٹیشن قمنہ پر انگریزی جاسوس قرار دئے جا کر گر فتار کئے گئے.کپڑے اور کتابیں اور جو کچھ پاس تھا.وہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا اس کے بعد آپ کو عشق آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا.وہاں سے مسلم روی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمرقند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید خانہ میں تبدیل کیا گیا.اور بار بار آپ سے بیانات لئے گئے تا یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلا تو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لئے گئے تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعد گوشکی سرحد افغانستان لے جایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کر کے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے.اس نے واپس آنے کو اپنے لئے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا

Page 440

404 خلافت ثانیہ کا دسواں سال اور بھاگ کر بخارا جا پہنچا.دوہ ماہ تک آپ وہاں آزاد رہے لیکن دو ماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کئے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کئے گئے اور قید میں رکھا گیا اور بخارا سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیجا گیا.اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقویٰ میں برکت دے.چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی اس لئے پھر کا کان کے ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا.اور پا پیادہ بخارا پہنچا.بخار میں ایک ہفتہ کے بعد پھر انکو گرفتار کیا گیا اور بدستور سابق پھر کا کان کی طرف لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا.وہاں سے آپ پھر چھوٹ کر بھاگے اور بخار ا پہنچے اور ۱۳/ مارچ ۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت کے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے اور حسب میری ہدایات کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا ایک جگہ اکٹھا کر کے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدیہ انجمن بنائی گئی اور با جماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا.وہاں کی جماعت کے دو مخلص بھائی ہمارے عزیز بھائی کے ساتھ آنے کے لئے تیار تھے.لیکن پاسپورٹ نہ مل سکنے کے سبب سے سر دست رہ گئے.اس وقت محمد امین خان صاحب واپس ہندوستان کو آرہے ہیں اور ایران سے ان کا خط پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے واپس لائے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از پیش خدمات کرنے کا موقع دے.میں ان واقعات کو پیش کر کے اپنی جماعت کے مخلصوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تکالیف جن کو ہمارے اس بھائی نے برداشت کیا ہے.ان کے مقابلہ میں وہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں.پھر کتنے ہیں جنہوں نے ان ادنی تکالیف کے برداشت کرنے کی جرأت کی ہے.اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے.کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی.آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخار میں قائم ہوئی ہے.یونہی نہیں چھوڑ سکتے.پس آپ میں سے کوئی رشید روح ہے جو اس ریوڑ سے دور بھیڑوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو.اور اس وقت تک ان کی چوپانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ اللہ تعالی کھول رے.وأخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين.خاکسار میرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ۹/ اگست ۱۹۲۳ء

Page 441

احمدیت.جلد ہم 405 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ کا اجراء جماعت میں جسمانی ورزش کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے نومبر ۱۹۲۳ء سے قادیان میں احمد یہ ٹورنامنٹ کا اجراء ہوا.اور ہر سال قادیان میں کھیل کے باقاعدہ مقابلے ہونے لگے.ٹورنامنٹ کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اور سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد مقرر ہوئے.یہ ٹورنامنٹ سالہا سال تک کامیابی سے جاری رہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس ٹورنامنٹ میں ہمیشہ بے حد دلچسپی لیتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اول آنے والوں کو انعامات عطا فرمایا کرتے تھے.حضور نے پہلے ٹورنامنٹ کے تقسیم انعامات کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے کہا.ترقی کرنے والی قوم کے لئے ورزش ضروری ہے نیز فرمایا.” جب میری خلافت کا زمانہ آیا تو میں نے ابتداء کام کے باعث ورزش کرنا چھوڑ دیا.جس سے میری جسمانی حالت پر بہت برا اثر پڑا.اس وقت میں نے ایک خواب دیکھی جس میں میں ایک شخص کو درزش کی ضرورت سمجھا رہا ہوں اس کو میں نے کہا بعض کھیل بعض لوگوں کے لئے جائز ہوتے ہیں.مگر وہ لوگ جن کے ذمہ بڑے بڑے ذمہ داری کے کام ہوتے ہیں اگر وہ ورزشوں میں حصہ نہ لیں اور صحت جسمانی کا خیال نہ رکھیں تو ان پر گناہ ہوتا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے....سمجھا یہ مجھے ہی سمجھایا گیا ہے اس کے بعد میں نے ورزشوں میں حصہ لینا شروع کیا جس سے میری جسمانی صحت اچھی ہو گئی اور میں پہلے سے زیادہ کام کرنے کے قابل ہو گیا - ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم مشکلات کا صحیح حل پڑھی اور سنگنٹن کی تحریکوں نے ملک کا امن برباد کر دیا تھا.اس سے پہلے مسلمانوں اور ہندوؤں میں محبت کی بظاہر ایک زبر دست پر پھیلی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہتے تھے مگر اب یہ بھائی بھائی آپس میں لڑنے لگے تھے اور جن کو ایک دوسرے سے مل کر ملک و قوم کی ترقی و بہبود کے لئے کوشش کرنا چاہئے تھی.ایک دوسرے کے خون کے پیاسے معلوم ہونے لگے.ہندو مسلم فسادات روزانہ کے معمولی واقعات تھے.بھلا جہاں جلوس نکالنے اذان دینے ، گاؤ کشی کرنے اور مسجد کے سامنے باجہ بجانے پر جنگ و جدل کا بازار گرم ہو جائے وہاں اتفاق کا امکان ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے ؟ اس نازک ترین مرحلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی صورت حال سے مضطرب ہو کر میدان عمل میں آئے اور آپ نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ملک بھر کی قوموں کے نام صلح کا پیغام دیتے ہوئے قومی اور ملکی مشکلات کا صحیح حل اہل وطن کے سامنے رکھا.یہ حل آپ نے ۱۴/ نومبر

Page 442

406 ۱۹۲۳ء کو بریڈ لا ہال (لاہور) کے ایک پبلک لیکچر میں جہاں تعلیم یافتہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی.بڑی وضاحت و صراحت سے پیش فرمایا.چنانچہ حضور نے ہندو مسلم اتحاد قائم نہ رہنے کی وجوہ بتائیں کہ کس طرح ہندوؤں نے مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹادینے کی کوشش کی ہے.یہ حقیقت واضح کرنے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی طرف توجہ دلائی کیونکہ جیسا کہ سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب "حیات محمد لی جناح " میں لکھا ہے.” شدھی اور سنگھٹن کے طوفان نے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف ایک تلخی اور بد مزگی پیدا کر دی تھی.لیکن وہ جوابی طور پر آمادہ عمل نہ ہوئے اس کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی جائے پھر یہ باہمی اور خانگی تنازعات طے کر لئے جائیں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے اور ہندو اپنا کام کئے جا رہے تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو صرف خود حفاظتی کی طرف محض توجہ ہی نہیں دلائی بلکہ ان کو اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کی عملی اور موثر تجاویز بھی بتا ئیں جن کا لب لباب یہ تھا.پہلی تجویز: مسلمان اپنے تئیں مضبوط کریں.جس کے لئے مسلم لیگ جیسی تنظیموں کا زندہ و قائم رکھنا ضروری ہے.تا مسلمانوں کے قومی حقوق کا تحفظ ہو.دوسری تجویز: مسلمانوں نے اپنی قومی زندگی کے سارے ذرائع دو سروں کو سپرد کر دیئے ہیں.اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے اور تمدنی طور پر آپ کو آزاد کر لیتا چاہئے.چھوت چھات کی وجہ سے ہندوؤں نے بالخصوص ملکانوں کے علاقہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے.حضور نے فرمایا کہ مجھے بائیکاٹ نا پسند ہے مگر جب ہندو چھوت چھات کے باجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو مسلمانوں کو بھی چھوت چھات کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ موجودہ حالات میں ضروری ہے.چھوت چھات کے علاوہ مسلمانوں کو صنعت و حرفت - ڈاکٹری اور وکالت کی طرف توجہ دینی چاہئے.ہندوستان کی داخلی اور خارجی تجارت کلی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اس طرف بھی مسلمان متوجہ ہوں.تیسری تجویز مسلمانان ہند سیاسی اور مذہبی اختلافات نظر انداز کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے کسی فرقہ کو جدا نہ کریں.اسی طرح سیاسی اختلاف کی وجہ سے بھی علیحدہ ہونے کی پالیسی چھوڑ دیں.مثلا الیکشن کا معاملہ ہے اس میں ایسا موقع بھی آیا ہے کہ ہماری جماعت کا ایک آدمی ایک حلقہ سے کھڑا ہو انگر در سرا شخص اس سے زیادہ لائق اور موزوں کھڑا ہوا تو

Page 443

تاریخ احمدیت جلد ۴ 407 خلافت ثانیه کا دسواں سال ہم نے اپنا آدمی بٹھا دیا اور دوسرے مسلمان کو ووٹ دیئے.اگر ایسی ہی رواداری سب مسلمانوں میں پائی جائے تو بہت سے فوائد کا موجب ہو سکتی ہے.چوتھی تجویز: مسلمان مذہب سے بہت دور جا رہے ہیں.چاہئے کہ مسلمان خود بھی مذہبی جذبات پیدا کریں اور اپنے بچوں میں بھی نہ ہی روح پیدا کریں.پانچویں تجویز: مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تبلیغ کریں اور دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کریں.قرآن کریم نے تبلیغ دین ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے.چھٹی تجویز: مسلمان امراء...ایسی انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کریں جو غرباء کو کام سکھائیں اور ان کے لئے روزگار کا سامان کریں.ساتویں تجویز: مسلمان اپنی قوم کے اپانچ لولے اور لنگڑے لوگوں کا خاص انتظام کریں اور یتیم بچوں کی تربیت اور پڑھائی کی طرف خاص توجہ دیں.حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی یہ اہم تجاویز بتانے کے بعد ہندو مسلم صلح کے مندرجہ ذیل سنہری اصول بیان فرمائے.پہلا اصول: اگر حقیقت میں صلح کی خواہش ہے تو سب فرقوں بلکہ گورنمنٹ سے بھی صلح ہونی چاہئے.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ جو کچھ کرتی ہے سب ٹھیک کرتی ہے میرے نزدیک بعض اوقات گورنمنٹ سخت غلطیاں کرتی ہے اور ایسے موقع پر خود میں نے ایسے ایسے سخت الفاظ میں گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے کہ جو ضروری تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بالعموم ان باتوں کو منظور کر لیا.پس میں خوشامدیوں میں سے نہیں ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ لوگ گورنمنٹ کی خوشامد کریں کیونکہ میرے نزدیک خوشامدی انسان ہی نہیں ہوتا.حیوان ہوتا ہے.بلکہ اس سے بھی گرا ہوا ہے.اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ گورنمنٹ غلطیوں سے پاک ہوتی ہے.ہاں چونکہ وہ ہمارے ملک کا حصہ ہے اس لئے ایسے رنگ میں حقوق قائم کرنے چاہئیں کہ اسے علیحدہ نہ کریں ور نہ وہ اتحاد ختم کرنے کی کوشش کرے گی.دوسرا اصول: مستقل صلح کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی رنگ میں صلح ہو.مگر ز ہی صلح سے یہ مراد نہیں کہ سب ایک مذہب میں شامل ہو جائیں بلکہ فقط یہ ہے کہ سب مذاہب والے ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں اور پیشواؤں کا احترام کریں.بلاشبہ ہندوستان ہمیں جمع کر سکتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں محمد ﷺ کی ذات والا صفات سے بڑھ کر ہمارے نزدیک ہندوستان کی ہرگز پوزیشن نہیں.رسول کریم ﷺ سے ہمیں جو تعلق ہے وہ ہندوستان سے بہت بڑھ کر ہے اگر آپ کا ادب

Page 444

تاریخ احمد میمت - جلد ۴ 408 خلافت ثانیہ کا دسواں سال اور احترام قائم نہ رکھا جائے تو مسلمانوں کو کوئی چیز جمع نہیں کر سکتی.ہندوستانی اگر دوسرے بزرگوں کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں.اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے پر ہی اکتفا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو یہ بھی اتحاد کے لئے کافی ہے.جیسا کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے بہت پہلے فرمایا تھا.مگر افسوس ملک نے توجہ نہ کی نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اتحاد نہیں ہو سکا.تیسرا اصول: اگر کوئی شخص کہے کہ ایسا ممکن نہیں تب بھی ہم اتفاق و اتحاد کے لئے تیار ہیں رطیکہ یہ اقرار کیا جائے کہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں نہ دی جائیں اور خدا اور اس کے رسول اللہ کے خلاف بد زبانی کا سلسلہ بند کر دیا جائے.اس صورت میں ضروری ہو گا کہ صرف مسلمہ اصولوں کی بناء پر اعتراض کیا جائے.چوتھا اصول مذہبی لوگوں سے ان کا کوئی مسلمہ مذہبی اصل ترک کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے مثلاً ہندو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو مگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوؤں کے نزدیک ہے مسلمان اس کا گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیں جب کہ ان کا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے.پانچواں اصول: ہر قوم دوسری قوم کے حقوق تسلیم کرے.عجیب بات ہے کہ ہندو یہ تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو سوراج لے کر دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق نہیں دینا چاہتے.میرے نزدیک مسلم لیگ اور کانگریس نے ہندو مسلم حقوق کے متعلق جو سمجھوتہ کیا تھا وہ بھی ٹھیک نہ تھا جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں تو ان کو کم حقوق دیئے ہی گئے ہیں لیکن جہاں ان کی آبادی نسبتا زیادہ ہے وہاں بھی آبادی کے تناسب سے پورے حقوق نہیں دیئے گئے.اس لئے سب سے ضروری چیز حقوق کا صحیح تعین ہے.چھٹا اصول: صلح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب مجرموں کو بلا تمیز مذہب و ملت سزادی جائے اور جو فریق بھی قصور دار ہو اسے پکڑا جائے.ساتواں اصول: آل انڈیا نیشنل کانگریس تب ہی سارے ملک کی نمائندہ بن سکتی ہے جبکہ خیالات کے اختلاف سے بے نیاز ہو کر ہر نقطہ نظر کے لوگوں کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے ورنہ جب تک یہ کانگریس موجودہ شکل میں ہے اور اختلاف والوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے اس وقت تک یہ پورے ملک کی کانگریس ہرگز نہیں کہلا سکتی.لیکچر کے اختتام پر صدر جلسہ خان بہادر عبد القادر صاحب نے کہا." میں جناب مرزا صاحب کا

Page 445

409 خلافت همانیه کا دسواں سال شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی جامع اور پُر مغز تقریر فرمائی ہے.انہوں نے فرمایا ہے کہ میں اپنا سارا وقت دینیات کے مطالعہ میں صرف کرتا ہوں مگر اس وقت آپ نے سیاسیات پر ایسی وسعت سے روشنی ڈالی ہے کہ زبان اور دل سے تحسین نکلتی ہے...جناب مرزا صاحب نے اتفاق و اتحاد کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالی ہے.جس کی سیاسی لیڈروں سے توقع نہیں ہو سکتی نہ وہ اس طرح نگاہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی (سیاسی) پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے آپ نے نہایت آزادی اور وسعت سے ہر ۱۲۵ پہلو کو بیان فرمایا ہے ".افسوس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ان اہم اور بر وقت ہدایات پر اہل وطن نے کوئی توجہ نہ دی " بلکہ پیسہ اخبار " (لاہور) کے سوا ملک کے مسلمان پریس نے اس کا ذکر تک کر نا گوارا نہ کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی اہم ہدایت ملکی شورش کی وجہ سے انگریزی حکومت قابل احمدی مصنفوں اور لیکچراروں کے لئے اعتراض تقریروں یا تحریروں پر نوٹس لے رہی تھی اور ہر جگہ مقدمات چلائے جارہے تھے اور ایک عصر مقدمہ میں گرفتار ہو کر جھٹ معافی مانگنا شروع کر دیتا تھا.یہ حالات دیکھ کر حضور نے اپنی جماعت کے تمام مصنفوں اور لیکچراروں کے نام ایک خاص ہدایت جاری فرمائی.کہ اول تو وہ اپنی تحریروں یا تقریروں میں ایسا رنگ ہی اختیار نہ کریں جس سے ملک میں فساد ہویا شورش پیدا ہو لیکن اگر باوجود ان کی احتیاط کے گورنمنٹ ان میں سے کسی پر کسی مصلحت سے کوئی مقدمہ چلائے تو میں ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ مومنانہ غیرت کو کام میں لائیں گے اور بزدلی سے اجتناب کریں گے.ہم گورنمنٹ کے لئے ہر ایک جائز بات کو اختیار کر سکتے ہیں لیکن بد اخلاقی کو نہیں اور بزدلی اور جھوٹ دو زبر دست بد اخلاقیاں ہیں پس جو شخص مقدمہ سے ڈر کر معافی مانگتا ہے جب کہ اس کا نفس یہ کہتا ہے کہ اس نے غلطی نہیں کی اور اپنے اس فعل سے اسلام کی ہتک کرتا ہے وہ دو گناہ کرتا ہے.وہ بزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے پھر لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا جو شخص دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے اس میں ہر گز کوئی بات خلاف واقعه یا خلاف تهذیب یا خلاف قانون یا بد نیتی سے نہیں کی تو اسے گورنمنٹ کے غضب سے بچنے کے لئے خدا کے غضب کو اپنے اوپر نہیں بھڑکانا چاہئے ".اس کے ساتھ ہی حضور نے یقین دلایا کہ.اگر کوئی شخص خدانخواستہ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور وہ بہادری سے اپنے ایمان اور اپنی ضمیر کی پیروی کرے تو میں اور میرے ساتھ اخلاص رکھنے والی تمام

Page 446

تاریخ احمدیت جلد ۴ 410 خلافت ثانیه کار جماعت اس کی ہر ممکن اور جائز مدد کرے گی اور قانونی طور پر جس قدر بھی اس کی تائید کر سکے گی اس کی تائید کرے گی.اس شخص کا غم ہمارا غم ہو گا اور اس کی مصیبت ہماری مصیبت.لیکن جو شخص بزدلی سے کام لے گا اور اپنی ضمیر کے خلاف جھوٹ سے اپنی مصیبت کو ٹلانا چاہے گا وہ ہم میں جگہ نہیں پائے گا اور خدا کی پاک جماعت اسے اپنی آغوش میں نہیں لے گی".(متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں صرف یہی ایک مثال ملتی ہے کہ کسی جماعت کے لیڈر نے اس طرح کھلے الفاظ میں اپنے پیروؤں کو محتاط اور پُر امن اور حق و صداقت کی خاطر مومنانہ غیرت و شجاعت کا نمونہ دکھانے کی پر زور تلقین کی ہو.جماعت احمدیہ کے مصنفوں اور لیکچراروں نے اس ہدایت کے ایک ایک لفظ کی پابندی کر کے دکھا دی اور کسی قسم کی آزمائش ان کے ثبات و استقلال میں تزلزل پیدا نہ کر سکی."سیرت المہدی " کی تالیف سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال مبارک پر کئی سال گزر چکے تھے اور حضور کے قدیم صحابہ کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی.اس لئے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق جتنی بھی روایات جمع ہو سکیں ان کو جلد از جلد محفوظ کر لیا جائے اور ترتیب استنباط و استدلال اور علم روایت و درایت کے نقطہ نگاہ سے واقعات کی تحقیق و تفتیش کا کام مستقبل پر چھوڑ دیا جائے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اس اہم ترین ضرورت کے پیش نظر "سیرت المہدی " کے نام سے روایات کا ایک ایمان افروز مجموعہ مرتب کرنا شروع فرمایا اور خاص طور پر یہ اہتمام فرمایا کہ ایسے صحابہ سے روایات جمع کر لی جائیں جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اٹھائی اور سلسلہ بیعت سے پہلے تعلق رکھنے والے تھے."سیرت المہدی " کا پہلا حصہ جس میں دوسرے اکابر صحابہ کے علاوہ خاص طور پر حضرت ام المومنین اور حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی روایات خاص طور پر درج کی گئی تھیں.اس سال دسمبر ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا.دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب ۱۹۲۷ء اور اپریل ۱۹۳۹ء میں چھپ گیا.چوتھے حصے کا مواد آپ نے قادیان ہی میں جمع کر لیا تھا جس میں بعض قدیم صحابہ (خصوصاً حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی نہایت ایمان پرور روایات شامل تھیں مگر اس کی اشاعت اب تک نہیں ہو سکی.| AFA جماعت احمدیہ کے لئے دسمبر ۱۹۲۳ء کا پہلا ہفتہ خوشی اور جماعت احمدیہ کا پہلا شہید مبلغ غم کے مخلوط جذبات پیدا کرنے کا موجب تھا خوشی اس لئے

Page 447

تاریخ احمد بیت ، جلد ۴ 411 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکه ۱۴ دسمبر ۱۹۲۳ء کو کامیاب و کامران ہو کر وارد قادیان ہوئے اور غم اس لئے کہ ۷ / دسمبر ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی حافظ عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشس کے انتقال کی المناک اطلاع ملی.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے آپ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا.”ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں اور پھر ایسے بہت کم ہیں.جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں.....مگر مولوی عبید اللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا.ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبد اللطیف تھے یا دو سرے کہ ان سے پہلے ان کے ایک شاگر د شہید ہوئے تھے مگر وہ ہندو ستان کے نہ تھے بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے.ہندوستان میں شہادت کا پہلا موقع عبید اللہ کو ملا " 1 اس سال کے آخر میں مولوی مبارک علی صاحب بی.اے بنگالی اور دار التبلیغ جرمنی کا قیام ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کی کوشش سے یورپ میں دو سرا اسلامی مشن جرمنی میں قائم ہوا.مولوی مبارک علی صاحب جو ۱۹۲۰ء سے لنڈن میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے.لنڈن سے سیدھے برلن بھجوائے گئے اور ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قادیان سے تاریخ ۲۶/ نومبر ۱۹۲۳ء کو روانہ فرمایا.جو ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو صبح دس بجے برلن پہنچے.جرمنی میں سب سے پہلے پروفیسر فرنیزی 1 ایل ایل ڈی اور ڈاکٹر او سکا aa جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کے دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسر اور طلباء میں بھی تحقیق سلسلہ کی جستجو پیدا ہو گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ارادہ یہاں شاندار اسلامی مرکز قائم کرنے کا تھا اور اسی لئے مسجد برلن کی تحریک بھی آپ نے فرمائی مگر جر منی کے حالات یکا یک بدل گئے.کاغذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سونے کا سکہ جاری کیا گیا.جس کی وجہ سے قیمتوں میں دو تین سو گنا اضافہ ہو گیا.ایک طرف مبلغ کا خرچ ۶ پونڈ کی بجائے کم از کم ۲۵ پونڈ تک جا پہنچا.دوسری طرف مسجد برلن کی تعمیر کے لئے جس کا پہلے تیس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات بتائے جانے لگے.ان حالات کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دار التبلیغ لنڈن ہی مضبوط کیا جائے اور اسی سے

Page 448

تاریخ احمدیت جلد ۴ 412 خلافت عثمانیہ کا دسواں سال وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو.یہ فیصلہ مارچ ۱۹۲۴ ء میں ہوا.اور مئی ۱۹۲۲ء میں یہ دار التبلیغ بند کر دیا گیا اور جرمنی کے مبلغ ملک غلام فرید صاحب ایم اے انگلستان چلے گئے مگر بالآخر ربع صدی کے بعد ۱۹۴۹ء میں چوہدری عبد اللطیف صاحب بی.اے کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی.۱۹۲۳ء کے متفرق مگر اہم واقعات و حضرت خلیفہ المسیح الثانی یہ اللہ تعالی کے حرم ایده ۲.ثالث میں مرزا طاہر احمد صاحب (اول) کی ولادت ہوئی اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے ہاں صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ پیدا ہو ئیں.حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (والد ماجد حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد () اور المیہ صاحبہ حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار صاحب نے وفات پائی.حضرت ام المومنین نے یکم اگست ۱۹۲۳ء کو نور ہسپتال قادیان کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد رکھا - قادیان میں پہلی بار سماٹرا کے طلباء تحصیل علم کے لئے آئے میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی ادارت میں دہلی سے ” دعوت الاسلام" کے نام سے ایک روزنامہ جاری ہوا.- ایک اردو افریقی اخبار ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر ( ابن ملک غلام حسین صاحب رہتاسی) کی زیر ادارت نیروبی سے نکلنا شروع ہوا.ادارہ " یغام صلح" پر ایک مضمون بعنوان " دید کا بھید " کی بناء پر مقدمہ دائر تھا جس کی پیروی چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رضا کارانہ طور پر کی.اخبار "الفضل " نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا.- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سالانہ جلسہ پر کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی“ کے موضوع پر تقریر کی.آپ کی سالانہ جلسہ کے موقعہ پر یہ سب سے پہلی تقریر تھی جسے نے نہایت روانی اور تسلسل کے ساتھ نباہا.اجلاس کے صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس تقریر کے بعد فرمایا کہ " صاحبزادہ صاحب نے اسی لحن میں قرآن کریم پڑھا ہے کہ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ہیں کیونکہ میں نے اس لحن میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی آواز سنی ہے " مشهور مباحثے مباحثہ جلال پور جناں ( حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیعہ مناظر پ tt ۱۳

Page 449

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 413 خلافت ثانیہ کا دسواں سال سیف علی صاحب کے درمیان) مباحثہ فیروز پور ( حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت رام چندر دہلوی اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ لائلپور ( حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور پادری عبدالحق کے درمیان) مباحثہ بھونگاؤں ضلع مین پوری (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ رام چندر دہلوی کے درمیان) مباحثہ اور ھم پور (مولوی ظهور حسین صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ اسمعیلہ گجرات حضرت حافظ روشن علی صاحب اور ایک غیر احمدی مولوی محمد حسین صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور ( حضرت حافظ روشن علی صاحب کا پنڈت دھرم بھکشو اور پنڈت رام چندر دہلوی سے) مباحثہ سیالکوٹ (حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بالترتیب پادری عبد الحق صاحب اور پادری احمد مسیح سے مباحثہ کیا ) مباحثہ دھار یوال (شیخ عبد الخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبد الحق صاحب کے درمیان) علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: " فقہ احمدیہ حصہ اول (مؤلفہ حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب) " آریہ پنتھ کا فوٹو" (جناب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) " محقق" (سید ابو البرکات صاحب محقق دہلوی) ۱۵۰ نواب اکبر یار جنگ صاحب ہوم سیکرٹی حیدر آباد دکن کے بڑے بھائی عبد الغفار صاحب (جنہوں نے تحریک شدھی میں احمدی مجاہدین سے ہر طرح تعاون کیا تھا) داخل احمدیت ہوئے.میر محمد بخش صاحب (بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ آف گوجرانوالہ) نے اس سال قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.۱۵۳

Page 450

تاریخ احمدیت جلد ۴ 414 حواشی خراج قسمت هانیه کار سواں سال متحدہ ہندوستان مراد ہے." حیات شبلی صفحه ۵۵۳ تا ۵۵۸- لکھنو میں تو علمائے ندوہ نے مولانا شیلی کو اس وجہ سے کہ آپ نے احمدیوں کو جلسہ میں شرکت کی دعوت اور تقریر کرنے کا موقعہ دیا تھا جس طرح چاہا ہدف اعتراضات و الزامات بنایا.لیکن اس کے برخلاف مولانا مسیح الزمان خان صاحب رئیس اعظم شاہجہانپور استاد نظام دکن نے احمدیوں کی شمولیت سے کام کئے جانے میں ذرا بھی تامل نہ فرمایا.چنانچہ جب حاجی محمد سعید خاں صاحب سوداگر رئیس شاہ جہانپور کے پاس (جن کو حیات تیلی میں غلطی سے سفید خاں لکھ دیا ہے.یہ اطلاع پہنچی کی قصبہ جلال آباد سے چند کوس کے فاصلہ پر موضع موہن پور میں چھ سات سر بر آوردہ ملکا نے راجپوت اپنے گھرانوں سمیت آریہ ہونے والے ہیں ان کو آریہ بنانے کے لئے بھرت پور وغیرہ راجواڑوں کی طرف سے بڑے اعلیٰ پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں اس تقریب پر بہت بڑا ازدحام ہو گا بڑے بڑے مقرر تقریریں کریں گے اگر آپ اس کی روک تھام کے لئے کچھ کر سکتے ہیں تو کریں.اس اطلاع پر حاجی صاحب موصوف الصدر نے ایک مجلس مشاورت منتقد فرمائی.جس کی صدارت کے فرائض مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن نے انجام دیئے اور باتفاق رائے یہ قرار پایا کہ دیوبندی عالم تو موجود ہیں دلی سے احمدی مناظر مولوی میر قاسم علی صاحب بلو الئے جائیں اور پھر موہن پور میں جلسہ کیا جائے.میر قاسم علی صاحب کو بلوانے کی تجویز بھی ایک دیوبندی مولوی صاحب کی طرف سے تھی اور جو صاحب دلی جا کر انہیں ساتھ لائے وہ بھی دیوبندی مکتب خیال سے تعلق رکھنے والے مولانا سید نور احمد میاں صاحب فائز شاہ جہانپوری تھے.کچھ لوگ تو پہلے ہی سے موہن پور پہنچ گئے تھے شیر اسلام میر قاسم علی صاحب کے تشریف لے آنے پر باقی جانے والے بھی موہن پور پہنچ گئے کئی روز وہاں دن رات جلسے کئے علماء نے تقریریں کیں اور وہاں کے لوگوں سے ان کے مکان پر جا کر بھی باتیں کی گئیں اور انہیں اپنے پاس بلا کر بھی نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک ملکانہ را چپوستہ تھا کر موہن سنگھ تو آریہ ہو گئے باقی سب بفضلہ تعالٰی محفوظ رہے یہ سب کار روائی حاجی محمد سعید خاں سود اگر شاہجہانپور اور مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن کی منشاء کے مطابق سیکرٹری انجمن احمد یہ شاہجہانپور ( حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب) کے ذریعہ سے انجام تک پہنچی.۴ حیات شیلی صفحه ۵۲۹ ه حیات شیلی صفحه ۰۵۷۳۰۵۷۲ - فتنه ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں مشموله رفتار زمانہ لاہور۷ / جون ۱۹۵۰ء صفحه ۵-۷- ے نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۳۶۹ -A سیرت محمد علی صفحه ۳۹۵ از رئیس احمد جعفری) - اخبار پر تاپ لاہور ۱۶ / مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۴.- بحوالہ اخبار زمیندار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۲- -A تیج دیلی ۲۰ مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۶ بحوالہ ہندو راج کے منصوبے ( از ملک فضل حسین صاحب) بار ششم ستمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۱۳۸ ۱۲ ۳ پیغام صلح بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۳۸-۱۳۹ - اخبار تیج ویلی ۱۳/ جنوری ۱۹۲۵ء بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۴۴ ۱۵ ملاحظہ ہو چیسہ اخبار ۱۶ / مارچ ۱۹۳۳ء و زمیندار ۱۹/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۰۲ کو الہ الفضل ۱۳/ مارچ ۶۹۲۳ صفحه ۷.ع الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.

Page 451

تاریخ احمدیت جلد ۴ خالد - اگست ۱۹۵۶ء صفحہ ۷- 14 الفضل ۱۲ / مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۳ الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۵-۶- الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۸-۱۲- 415 ۲۲ ملاحظہ ہو ر پورت مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحه ۵۵ ۲۳ فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۰۱ ۲۴ کارزار شد هی صفحه ۴۳-۲۵ (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) خلافت نامید کا دسواں سال ۲۵ حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۳ ء پر حضرت چوہدری صاحب موصوف کو کمانڈر انچیف کے خطاب سے بھی یاد فرمایا تھا.(الفضل اار جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷) ۲۶ الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ صفحه ۱-۳- جناب ملک فضل حسین صاحب کا نام بھی اس وفد میں شامل تھا مگر جب آپ وفد کے ساتھ قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کی تجویز پر انہیں قادیان میں رہ کر میدان ارتداد کے لئے یعنی علمی اسلحہ تیار کر کے بھجوانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ نے آریہ دھرم کے خلاف ان ہی دنوں دس ٹریکٹ چالیس ہزار کی تعداد میں شائع کر دیئے.۲۷ کارزار شد هی صفحه ۳۹ ۲۸ الفضل ۱۵ اپریل ۶۱۹۲۳ ۲ ریویو آف ریلیجز اردو جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۵-۱۶- ایضا الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹- ایک سناتنی اخبار جا گرت نے ۱۳/ اپریل ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا.دولت کا جھو ٹالالچ دے کر ایرے غیرے کسی کو مونڈھ لینا شد ھی نہیں.(بحوالہ وکیل امر تسر لا ر مئی (۱۹۲۷ الفضل ۵ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۶-۰۸ الفضل ۱۷ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۵- ایضا تبرکات آزاد ( مرتبہ غلام رسول مهر) ۳۲ الفضل ۱۸/ تمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- میری کہانی (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم غیر مطبوعه والفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲ دم مورخه ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ پر تاپ (لاہور) ۱۴ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ بحوالہ محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی.صفحہ ۵- (مؤلفه ماشه فضل حسین صاحب احمدی مهاجر ) طبع اول ۱۹۲۳ء ۳۵ کارزار شد هی صفحه ۴۲ - الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۴ -14 الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۵- ۳۷.جمیا کو احمد کی مجاہدین سے بہت محبت تھی اپنے بچوں سے زیادہ الفت کرتی تھی اور بہت ہمدرد تھی.اس کے بیٹوں نے چونکہ اسے باہر جانے سے روک رکھا تھا اس لئے اکثر رات کو چھپ کر احمدی مبلغین کے پاس آتی اور اپنا دکھ درد سناتی تھی.(کارزار شدھی صفحہ ۷۷) - الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۷- ۳۹ چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں میں لکھتے ہیں " انجمن ہدایت الاسلام کی زیر نگرانی رودک تمام شروع ہوئی ایک جگہ سے یک صدرو پسیہ کی گرانقدر رقم بھی ماہانہ امداد کے طور پر ملی تنخواہ دار مبلغ رکھے گئے لیکن نہ اوپر سے عمرانی ہوئی نہ دل میں بچی تبلیغ کا جذبہ تھا.مولوی صاحبان جس گاؤں میں جاتے وہاں وعظ فرماتے اور وعظ کے بعد باوجود تنخواہ دار ہونے کے اپنے ذاتی مصارف کے لئے بھیک مانگتے.علاوہ ازیں سنا گیا ہے کہ بعض بد اخلاقی کی حرکتیں بھی کر بیٹھتے جس سے ان لوگوں کے دل میں اسلام کے متعلق نہایت ذلیل خیال بیٹھ گیا.“ جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا بیان ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ اس علاقے میں سادھوؤں کی بے حد تعظیم اور مولویوں سے "

Page 452

تاریخ احمدیت جلد ۴ 416 خلافت ثانیہ کا دسواں سال از حد نفرت کی جاتی ہے اس لئے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اجازت طلب کی کہ مجھے سادھو بن کر تبلیغ کا کام کرنے کی اجازت دی جائے.حضور نے مجھے اجازت تو دے دی مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا عارضی اجازت ہے مستقل نہیں.بہر حال میں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا.جو گیانہ دھوتی پہن لی.چمٹا گڈری اور جھولا و غیرہ سادھو کے لوازمات مہیا کئے اور اپنا کام شروع کر دیا.اس لباس میں جو بھیجن میں نے وقتا فوقتنا کھے اور گائے ان سے تبلیغ اسلام کے کام میں بڑی مدد لی.اور ملکانہ قوم اور ہندوؤں میں میرا بڑا احترام ہو گیا.وہ مجھے پر بھروسہ کرتے.میری باتوں کو سنتے.مجھے دور سے نمسکار (سلام) کرتے.کرشن جی را نچند رجی کی باتیں مجھ سے سنتے اور واہ واہ کرتے جس گاؤں میں کوئی مولوی صاحب نہ جائے میں چلا جاتا.میں نے علاقے کی پوربی زبان بہت جلد سیکھ لی ہندی اور سنسکرت کے بعض الفاظ اور اصطلاحات بھی یاد کر لیں.اور ہندو رشیوں اور مہاپرشوں کے قول اور صیحتیں بھی ازبر کیں.میں نے اس قوم کی زبان میں جو بھیجن کے رو ماکانہ من لگن بھیجن کے نام سے ۱۹۲۴ء کے سالانہ جلسہ پر شائع ہوئے اور خدا کے فضل سے بہت مقبول ہوئے.اس جلسہ پر میں نے شدھی کے خلاف جماعت احمدیہ کی خدمات پر بھی تقریر کی (میری کہانی غیر مطبوع صفحه ۲۰۶-۲۱۰) کارزار شد هی صفحه ۷ ۷۸۰۷ الفضل ۹ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۴-۶- ۴۳ - الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحه ۲-۱۱- ۴۴- - الفضل ۵ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ - ۴۵- الفضل ۱۲ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۹۸ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱۰ الفضل ۹ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- کے.۴۸ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه او ۱۹ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۷.۲۹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ حضرت نواب صاحب حضرت شیخ محمد حسین صاحب ریٹائر ڈ سب حجج علی گڑھ اور خاکسار عرفانی کو ایک خاص مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم یو.پی کے ان اضلاع کے حکام سے میں اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہونے دیں اور بنجارہ قوم کے جرائم پیشہ سے نکلوانے کی کوشش کریں.ہم تینوں سفر کرتے تھے اور اخراجات خوردنوش و قیام و سفر نواب صاحب ہی اپنی جیب سے کرتے تھے.الخ ( اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۴۲۹) حضرت نواب صاحب اور حضرت عرفانی صاحب مسلسل کئی روز گرمی میں دورہ کرنے اور پیدل چلنے کے بعد مئی ۱۹۲۳ء کے وسط میں واپس آئے.(الفضل سے اس مئی ۱۹۳۳ء) ۵۰ سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۷۱ اد الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه او کارزار شد هی صفحہ ۴۲.(مؤلفہ جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- ۵۳- سلسله احمدیه صفحه ۰۳۷۰ ۵۴ بحواله الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲- ۵۵- مشرق ۲۹ / مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۳-۱۴۴ ایڈیٹر حکیم بر هم) ۵۲ اخبار نجات (بجنور) ۲۷/ اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۷ ۴ حاشیہ - ۵۷ بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۵ حاشیہ ۵۸- بحواله کار زار شدهی (مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم صفحہ 119 ۵۹ ايضا صفحه ۱۱۹ -4° الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲ اخبار جیون نت - ۲۴ / اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۲۴ حاشیہ

Page 453

417 لافت ثانیہ کار سواں سال تاریخ احمدیت.جلد ۴ -۲ بحواله کارزار شدھی صفحہ ۱۱۹-۱۲۰- اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ۷۰۶ / اپریل ۱۹۲۳ء کو اگرہ میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دو تین مسلمان لیڈر شامل ہوئے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا ذکر نہایت معمولی واقعہ کی طرح کیا.مولوی آزاد سبحانی صاحب نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہمارا اصل مقصد سوراج حاصل کرتا ہے جب سوراج حاصل ہو جائے گا تو پھر ہم فیصلہ کرلیں گے کہ ہمیں اسلام پر قائم رہنا چاہئے یا ہندو ہو جانا چاہئے.اس لئے سوامی شردھانند سے عرض کروں گا اور مسلمان دوسرے ہندوؤں سے عاجزی کے ساتھ درخواست کریں کہ وہ چند دن کے لئے شدھی کی تحریک روک دیں.(الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) مولوی ابو الکلام صاحب آزاد نے ۱۵ / اپریل ۱۹۲۳ء کے زمیندار میں ایک بیان دینے پر اکتفا کی جس میں کہا.میں پورے وثوق کے ساتھ رائے رکھتا ہوں کہ جن لوگوں نے موجودہ وقت میں یہ تحریک شروع کی انہوں نے ملک کا عام مفاد نظر انداز کر دیا.مسلمانوں کو نہ چاہئے کہ شکوہ و شکایت کریں یا اپنے لئے کوئی ایساپوزیشن (رویہ اختیار کریں جس سے توقع اور خواہش نکلتی ہو.یہ کام شروع نہ کیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب شروع کر دیا گیا ہے تو مسلمانوں کے لئے صرف ایک ہی چارہ کار رہ گیا ہے یعنی وہ بھی اپنا فرض سکون اور خاموشی کے ساتھ انجام دیں دوسروں کے لئے یہ نیا قدم ہے لیکن ان کے لئے ان کا اصلی اور دائگی فرض ہے اگر انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہو تا تو آج یہ نتائج پیش نہ آتے " تبرکات آزاد صفحه ۲۰۹-۲۱۰- مرتبه غلام رسول صاحب مهر شائع کردہ "کتاب منزل لاہور طبع اول جولائی ۱۹۵۹ء) علی برادران نے اس زمانہ میں عجیب عجیب تقریریں کیں.مثلاً مولوی محمد علی نے کہا.مسلمان شدھی کی وجہ سے ہندوؤں سے کیوں لڑتے ہیں جب کہ خود عرب میں مسلمانوں کو دوسرے مذہب والے اپنے اندر داخل کرنے کو کوشاں ہیں.(وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء کحواله الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۳) مولوی شوکت علی خادم کعبہ نے کہا.مسلمانوں کو ہندوؤں کا احسان ماننا چاہئے کہ تم ذرا سی باجہ بجانے کی بات پر ہی ان سے لڑ پڑتے ہو.میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہندو بھائی تمہاری کسی مسجد کو بھی گرا دیں تو بھی تمہیں برداشت کرنا چاہئے.(اخبار کیسری ۱/ نومبر ۱۹۲۳ء) نیز کہا.میں اور بھائی محمد علی نے اور محترمہ بی اماں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خواہ کوئی ہندو ہماری ماں بہن بہو بیٹی کی بے عزتی ہی کیوں نہ کرے ہم کبھی کسی ہندو کے بر خلاف کچھ نہیں کہیں گے.امید ہے اس طرح آپس میں محبت اور ہمدردی پیدا ہو جائے گی.(وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء کواله الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۳) بحوالہ الفضل ۷ الجولائی ۱۹۲۳ء صفحه ۴ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۵ ۶۵ زمیندار بحواله الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲ الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحه ۸ کارزار شد هی صفحه ۱۱۲-۱۱۵ اخبار تہذیب نسواں (لاہور) ۲/ مئی ۱۹۲۵ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵-۱۲۲- (مؤلفه سید طفیل محمد صاحب کو کھودال) - سرگزشت صفحه ۲۲۰ طبع اول جنوری ۱۹۵۵ ء از جناب عبد المجید صاحب سالک.یہ صاحب ناظم عمومی شعبہ تبلیغ جمعیتہ علمائے ہند تھے.سیاست لاہور (۱۲/ اگست ۱۹۳۵ء) نے جمعیتہ علماء ہند کی نسبت لکھا.جمعیتہ کے شعبہ تبلیغ نے فتنہ ارتداد کے سلسلہ میں روپیہ جمع کرنے کے لئے اپلیں کرنے کے علاوہ کوئی عملی خدمت انجام نہیں دی ہے.(بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵) اے خالد اگست ۱۹۶۰ء صفحہ ۷ تا ۹.۷۲ - میری کہانی (غیر مطبوعه از جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ملخصاً ۷ - الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۲.الفضل ۱۳ اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۲ ۷۵ الفضل ۴ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۲.الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۲-

Page 454

تاریخ احمدیت جلد ۴ الفضل ۱۱۴ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- 418 خلافت عثمانیہ کار ۷۸ اس بارے میں جماعت کے جن اہل قلم اصحاب نے خدمات سرانجام دیں ان میں حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور مولانا قاضی محمد نذیر فاضل اور ملک فضل حسین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.(کارزار شد هی صفحه ۴۴) -A⭑ الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷-۸- قریشی محمد حنیف صاحب میرپوری نے موضع پیری میں ایک پرانی مسجد کی مرمت کی اور اپنے شاگردوں سے مل کر کنواں کھودا.یہ گاؤں شدھ ہو چکا تھا.مساجد کی تعمیر میں مجاہدین کو خود مسلمان مکانوں کی طرف سے بھی بہت مشکلات پیش آئیں.چنانچہ ایک غیر احمدی دوست ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ( مراد آبادی) نے یہ چشم دید واقعہ لکھا ہے کہ دوسرے مہینے میں اپنی نتھیال میں گیا یہ تحصیل ہا تھرس کا ایک گاؤں ہے یہاں میں نے دیکھا کہ میرے نانا کی چوپال پر قادیانی مولویوں نے مدرسہ کھول رکھا ہے اور بچے قرآن پڑھ رہے ہیں.مولوی صاحب مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مجھے قادیانیوں سے کوئی تعصب نہیں ہے تو علیحدہ جاکر فرمانے لگے کہ اب تم اپنے نانا سے سفارش کر دو کہ اس چوپال پر جہاں مدرسہ ہے اور روزانہ یا جماعت نماز ہوتی ہے مسجد بنانے کی اجازت دے دیں.بالآخر میں نے نانا صاحب سے مولوی صاحب کی خواہش بیان کردی اور اپنی طرف سے حمایت کے الفاظ بھی کہہ دیئے.شام کو میں اور قادیانی مولوی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ میرے نانا آگئے اور خالص برج بھاشا میں فرمانے لگے کہ مولوی اب تک تو میں خاموش تھا مگر آج آپ نے مسجد کی بات شروع کی ہے تو میں بھی کہہ ڈالوں.دیکھئے جس ہفتہ آپ نے نماز پڑھنا شروع کی.میری گائے مرگئی.پھر دوسرے مہینے جب آپ نے باجماعت نماز پڑھنا شروع کر دیا تو میری بڑی لڑکی بیمار ہو گئی اور وہ اب تک بیار چلی جاتی ہے اب آپ ہی سوچئے کہ جب خدا ہم سے ذرا دور ہے تو یہ مصیبیں نازل ہوتی ہیں اور اگر اس کا گھر ہی یہاں بن گیا یعنی مسجد ) تو پھر وہ سب کو مار ڈالے گا.ایک بھی ہم میں سے زندہ نہیں بچے گا.اب مولوی صاحب پریشان تھے کہ ٹھاکر صاحب کو کیسے سمجھا ئیں بالآخر انہوں نے نماز چوپال پر پڑھنا بند کر دی اور باہمی صلح ہو گئی مسجد اس گاؤں میں اب تک نہیں ہے.(نقوش آپ بیتی نمبر جون ۱۹۶۴ء) باقی نمبر ۳ مشتکار او پٹی ( الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) اکبر پور اور واحد پور (ضلع فرخ آباد) الفضل ۱ جولائی ۱۹۲۴ و صفحه ۲- صالح نگر (الفضل ،۱۳ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۲) - بیان شیخ نیاز علی صاحب وکیل ہائیکورٹ لاہور - زمیندار ۲۳ جون ۱۹۲۳ء حوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۶ بیان شیخ غلام حسن صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول جہلم (زمیندار ۲۹ جون ۱۹۲۳ء) بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۴۶.-Ar ۸۳ زمیندار ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۶۶- الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۳- الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۶ ۸۶ سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۷۱ ۸۷ تازیانہ (لاہور) ۱۹/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰ (ایڈیٹر یوسف حسن) ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں صفحہ ۴۲-۴۴ (مصنفہ پروفیسر پریتم سنگھ ایم.اے) طبع اول ۱۹۴۱ء مطبوعہ امرت الیکڑک پریس ریلوے روڈ لاہور الفضل ۲۴/ اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- 20 بحواله الفضل / تمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲- الفضل / ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- ۹۲ بحواله الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲ ۹۳ باپ (لاہور) بحوالہ کار زار شد هی صفحه ۹۶ ۹۴ شرادهانند پر حجت تمام کرنے کے لئے جماعت احمدیہ دہلی نے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو ایک جلسہ عام منعقد کیا جس میں مولانا

Page 455

تاریخ احمدیت جلد ۴ 419 خلافت ثانیہ کا دسواں سال جلال الدین صاحب شمس نے شردھانند کو مقابلہ پر بلایا اور اس غرض کے لئے اپنی تقریروں کے بعد وقت بھی رکھا مگر شردھانند کو سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی.(الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷) ۹۵ بحواله الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۶ -42 بحواله الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۰۱ ۹۸ ریویو آف ریلیجر اردو جون ۱۹۲۳ء صفحہ کے او سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۳.و الفضل ۱۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ صفحه ۲- الفضل ۲۵/ تمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- ١ol- الفضل ۱۲۱ تمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲ 10 الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- ١٠٣ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ ۱۰۴ قریشی صاحب موصوف ۱۹۳۲ء میں ملکانہ نو مسلموں کا ایک پیدل قافلہ جو ایک درجن افراد پر مشتمل تھا ساند ھن سے قادیان کے سالانہ جلسہ پر لائے تھے.(احکم ہمارے مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۰) ۱۰۵ - آپ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے اسی سرزمین میں فوت ہوئے اور یہیں دفن کئے گئے.اخبار المنت (امرتسر یکم جون ۱۹۲۵ء ( ایڈیٹر مولوی عبد الحق تراب) بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۲۶ ۱۰۷- پرتاپ (لاہور) ۲۷/ اکتوبر ۱۹۲۹ء ایڈیٹر ماشہ کرشن بی.اے (بحوالہ راہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۷) ۱۰۸ اخبار تیج دعلی ۳۵/ جولائی ۱۹۲۷ء (ایڈیٹر لالہ دیش بند ھو) بحوالہ تاثرات قادیان صفحه ۲۲۱ ۱۲۲۳ مولفه جناب مهاشه فضل حسین صاحب) طبع اول 109- اخبار تیج (دہلی) ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء - بحواله تاثرات قادیان صفحه ۲۲۱- ۲۳۳- فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلابازیاں (مطبوعہ اخبار رفتار زمانہ لاہورے / جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۲-۲۴) چوہدری افضل حق صاحب اپنے رفقاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خدا نے مجلس احرار کو زباں اور لوگ دیتے ہیں.جن کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی تقریریں قلوب کو گرمادیتی ہیں لیکن میں نے سینکٹروں تقریروں میں اسلام کے محاسن اور خوبیاں بیان ہوتے سنی ہیں مگر کسی احراری لیڈر کو یہ کہتے نہیں سنا کہ مسلما نو ا تم بھی اپنے دینی اور تبلیغی فرض کو ادا کرو اور غیر مسلموں میں اسلام کا تحفہ پیش کرو احرارہی ہیں جن کے متعلق عام گمان ہے کہ وہ اسلام کے بہترین مبلغ اور جادو بیان ہیں جب ان کا یہ حال ہے تو دوسروں سے کیا توقع خطبات احرار صفحه ۷۴ مرتبه جناب آغا شورش کاشمیری) طبع اول مارچ ۱۹۴۴ء الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۳-۶- ۱ - الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه او الفضل ۸ فرور کی ۱۹۲۳ء صفحہ ۶ - ۱۱۳- الحکم ۲۱ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.۱۱- الحکم ۱۴ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.الفضل یکم مارچ ۱۹۳۳ء صفحه ۱-۲- مسجد برلن کے لئے چندہ دینے والوں کی ایک فہرست ضمیمہ الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۳ء میں شائع کی گئی تھی.الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ - - الفصل 9 نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲ الفضل ۷۰۴ / دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۹ الفضل ا/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۸ ٹورنامنٹ سے متعلق تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کی تھیلین از ماسٹر لی محمد صاحب بی.اے بی ٹی)

Page 456

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 420 خلافت ثانیہ کا دسواں سال ۱۲۱- یہ لیکچر خان بهادر (سر) عبد القادر صاحب کی صدارت میں ہوا.جنہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا " جناب مرزا صاحب کو جو موقع اس مسئلہ اور اسی طرح اور بہت سے اہم مسائل پر غور فرمانے کا حاصل ہے وہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے کیونکہ آپ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے مذہبی پیشوا ہیں اور آپ نے اپنی زندگی ندہی معاملات پر غور و فکر کرنے کے لئے وقف کی ہوئی ہے.(الفضل ۲۰/۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷) ۱۲۲- حیات محمد علی جناح طبع دوم صفحه ۱۷۹ فروری ۱۹۴۶ء ( شائع کرده کتب خانه تاج آفس نیپیر روڈ کراچی (پاکستان) ۱۲۳- میثاق لکھنو (۱۹۱۶ء) کی طرف اشارہ ہے جس میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو پچاس فیصدی.بنگال میں چالیس فیصدی بہار میں ۲۹ فیصدی در اس اور سی پی میں پندرہ فیصد ہی اور بمبئی میں تیس فیصدی نشستیں مخصوص کی جائیں.(حیات محمد علی جناح صفحه ۷۴ ۷۵ طبع دوم از سید رئیس احمد جعفری) ۱۲۲ ریویو آف ریلی اردو جون ۱۹۲۴ء صفحه ۳۰۰۱ ۱۳۵ - الفضل ۲۰/۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹.قیام لاہور کے دوران میں حضور نے آزیبل میاں سر فضل حسین صاحب وزیر تعلیم کے زیر صدارت اسلامیہ کالج کے ہال میں بھی لیکچر دیا.جو ۱۵/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ہوا.جس کا عنوان تھا اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی.الفضل ۲۰/۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۰-۱۱) ١٣٩ الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱-۲- ۱۲۷: اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں (مع اضافہ ) شائع ہوا.۱۲۸- اس غیر مطبوعہ حصہ کا مسودہ حضرت مؤلف نے اپنی زندگی میں میر مسعود احمد صاحب (خلف حضرت میر محمد الحق صاحب کے سپرد فرما دیا تھا.تاریخ احمدیت اور کتاب شمائل احمد ( شائع کرده شعبه اطفال خدام الاحمدیه مرکز یه قادیان.مطبوعہ ۱۹۴۳ء میں اس کی بعض روایات درج ہو چکی ہیں.۱۲۹- الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹- ولادت ۱۸۹۲ء پیدائشی صحابی تھے.آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسول و زیر آبادی نے آپ کو بچپن میں ہی وقف کر دیا تھا.الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱.-١٣١ الفضل ۲۵/۲۸ مارچ ۱۹۲۴ء صفحه ۱۴-۱۵- ۱۳۲- یہ وہی صاحب ہیں جو وسط یورپ کی طرف سے دربار تاجپوشی شاہ جارج پنجم پر دہلی میں شاہی مہمان تھے.۱۳ مسیحی دینیات کے مسلمہ جرمن عالم ۱۳۴ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحه ۴۶-۴۸- ۱۳۵ - الفضل ۱۴ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۱ الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱- ۱۳ - الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲- الفضل ۲۰/۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه - ۱۳۷- الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱- ۱۳۸- الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۱ ١٣٩ الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه) ۱۳۰- الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۷- ۱۳۱ الفضل ۱۳/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۹۱۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱.۱۴۲- الفضل یکم جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۳ و الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ۱۴۳- یہ مناظرہ کلمتہ الحق کے نام سے شائع شدہ ہے.(ناشر مکتبہ الفرقان- ربوہ) ۱۴۴- الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۲- ۱۴۵ الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۳ء صفحه الحکم ۱۴/۲۱ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۹-۱۱-

Page 457

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۱۴۷- الفضل (۲/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱ ۱۳۸- الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱.١٩- الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱.۱۵۰- الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲- ۱۵ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱ ۱۵۳ کار زار شد هی صفحه ۱۲۲-۱۲۳ الفضل ۲۱ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ہے.421 خلافت ثانیہ کار سواں سال

Page 458

تاریخ احمدیت.جلد ۴ پانچواں باب (فصل اول) 422 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا پہلا سفر یورپ اور مغرب میں فتح اسلام کی بنیاد خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ) جنوری ۱۹۲۴ء تا دسمبر ۱۹۲۴ ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۲ھ تا جمادی الاخر ۱۳۴۳ھ ) ۱۹۲۴ء کا سال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک انقلاب انگیز سال کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے یورپ کا پہلا سفر فرمایا.جس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی.ویمبلے کا نفرنس کے لئے تحریک شروع ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹر ولیم لائٹس ہیر (Mr.William Loftus Hare) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد کی جائے جس میں برطانوی مملکت کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اس کا نفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں.نمائش سے منتظمین جن میں مستشرقین بھی شامل تھے نے اس خیال سے اتفاق کیا اور لنڈن یونیورسٹی کے مدرسہ علوم شرقیہ (The School of Oriental Studies) کے زیر انتظام کا نفرنس کے وسیع پیمانہ پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی.کانفرنس کا مقام امپیریل انسٹی ٹیوٹ لنڈن مقرر کیا گیا اور ۲۲ ستمبر ۱۹۲۴ء سے ۳ اکتوبر ۱۹۲۴ء تک کی تاریخیں اس کے لئے تجویز کی گئیں.کمیٹی نے مندرجہ ذیل مذاہب کے مقررین کا انتخاب کیا.ہندومت اسلام ، بدھ ازم پارسی مذہب ، جینی مذہب ، سکھ ازم ، تصوف ، برہمو سماج آریہ سماج کنفیوشس ازم و غیره اگر چه حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ۱۹۲۳ء کے آغاز ہی سے لنڈن میں تھے مگر آپ کو اس

Page 459

تاریخ احمدیت جلد ۴ 423 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال عظیم الشان کانفرنس کی تجویز کا مطلق علم نہ ہو سکا.مگر جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہو چکے اور ۱۹۲۴ء کا بھی کچھ حصہ گزر چکا تو ایک سو سائٹی میں برسبیل تذکرہ کسی نے اس کا تذکرہ کیا جس پر آپ کمیٹی کے جائنٹ سیکرٹری ایم.ایم شمار پلز سے ملے.انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام سے متعلق احمدی جماعت کا نقطہ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے.کمیٹی میں ذکر آیا تو کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ (مصنف Preaching of Islam) نے کمیٹی کو توجہ دلائی کہ انتخاب مقررین میں نیر صاحب سے ضرور مشورہ لیا جائے.چنانچہ حضرت نیر صاحب کے ساتھ مجوزہ پروگرام پر نظر ثانی ہوئی.آپ نے ہندومت اور بدھ کے نمائندوں کے نام تجویز کرنے کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب کا نام لکھایا.مگر ساتھ ہی بتایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی اجازت سے ہی حافظ صاحب آسکیں گے.کمیٹی میں جو نہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ نے اور کمیٹی کے دوسرے تمام ممبروں نے نہایت خلوص و محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے اس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں انگلستان کے سر بر آوردہ مستشرقین کی طرف سے دعوت نامہ پہنچا.سفر یورپ کے لئے مشورہ یہ دعوت قاریان پنچی تو حضور ایدہ اللہ تعالی ن ۱۷ مئی ۱۹۲۳ء کو بعد نماز عصر ایک مجلس شوری بلائی.جس میں دوستوں سے مشورہ طلب فرمایا کہ کسے کانفرنس میں شمولیت کے لئے لندن بھیجا جائے.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عرض کیا کہ یہ تبلیغ اسلام کا ایک خاص موقعہ ہے اگر حضور خود بنفس نفیس تشریف لے جاسکیں تو مناسب ہو گا ن - دوسرے احباب نے بھی بھاری اکثریت سے اس کی تائید کی.اس کے بعد حضور نے بیرونی جماعت سے استصواب فرمایا - چنانچہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۴ / مئی ۱۹۲۴ء کو احباب جماعت کے نام حسب ذیل مکتوب رقم فرمایا تھا.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته آپ لوگوں کو شاید معلوم ہو گا کہ ولایت میں دو سال سے ایک تجارتی نمائش کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں انگریزی حکومت کے تمام علاقوں کی ہر قسم کی پیداوار اور صنعت کی چیزیں رکھی جائیں گی

Page 460

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 424 خلافت ماشیہ کا گیارھواں سال یہ نمائش اب کھل گئی ہے اور ایسے بڑے پیمانے پر ہے کہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ تجارت کی ترقی کو مد نظر رکھ کر اور ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے دو کروڑ آدمی کے قریب اس کو دیکھنے آئے گا.غرض ان دنوں میں دنیا کے ہر گوشے کے تعلیم یافتہ آدمی انگلستان میں جمع ہوں گے اور گویا تمام دنیا چھوٹے پیمانے پر اس جگہ جمع ہو جائے گی.چینی، جاپانی، امریکن ، روی، فرانسیسی، جرمن، ترک عرب مصری امیرانی افغانی ہندوستانی اور دوسری چھوٹی بڑی قوموں کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ کے لوگ وہاں جمع ہوں گے اور چھ ماہ تک ایسا ہی جھمگٹا وہاں رہے گا.اس اجتماع سے فائدہ اٹھا کر انگلستان کے مذہبی مذاق کے لوگوں نے تجویز کی ہے کہ ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں وہاں ایک مذہبی جلسہ کیا جائے.جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی حقیقت کو کھول کر بیان کریں اور ساری دنیا کو ان کے اصل عقیدہ اور غرض کا علم ہو جائے.اس انجمن نے اپنے جلسہ میں تقریر پڑھنے کی مجھے بھی دعوت دی ہے اور درخواست کی ہے کہ میں خود وہاں جا کر اپنے سلسلہ کے متعلق ان کو علم اور واقفیت بہم پہنچاؤں.ایسے عظیم الشان موقع سے تبلیغ کا فائدہ اٹھانا تو ہمارا فرض ہے کیونکہ ایسا موقعہ کہ اس کثرت سے ساری دنیا کے ملکوں کے اعلیٰ طبقوں کے لوگ جمع ہوں اور گویا ساری دنیا ایک ہی وقت میں اکٹھی ہو جائے.روز بروز نہیں ملتا اس نمائش کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ سو سال تک ایسی بڑی نمائش پھر انگریزوں کے لئے کرنی مشکل ہو گی.اس وقت گویا انگلستان میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو خدا کا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور کروڑوں آدمیوں کو سلسلہ کی حقیقت سے واقف کر سکتے ہیں اور دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہ سکتا جو اس ذریعہ سے سلسلہ سے واقف نہ ہو جائے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام کیا کس طرح جائے؟ میں نے اس مذہبی کانفرنس کی دعوت پر قادیان کے احباب کو جمع کر کے مشورہ لیا تھا.سولہ احباب میں سے گیارہ کا مشورہ یہ تھا کہ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور آپ کو خود جانا چاہئے.اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقعہ دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کو کھینچیں.ان لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہر مذہب اور ہر علم کے جانے والے لوگ وہاں جمع ہوں گے اس لئے اس موقعہ پر صرف میرے ہی جانے سے ان لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اور دوسروں کے جانے سے ان کی توجہ نہ اس طرف منعطف ہوگی نہ دوسروں کی باتوں سے ان کو ایسی تسلی ہوگی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ساری دنیا کو خبر دار کر دینے سے تمام دنیا کی حق کی طالب رد میں سلسلہ کی تحقیق میں لگ جائیں گی اور شاید بعض ملک آپ ہی اپنے ملک میں مشن قائم کرنے کی درخواست کریں.

Page 461

تاریخ ام احمدیت.جلد ۴ 425 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ اس وقت جب کہ ہم مغربی ممالک میں مشن قائم کر رہے ہیں سلسلہ کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو دیکھ کر اپنی آنکھوں سے وہاں کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کے لئے ایسی سکیم تیار ہو سکے جو مکمل ہو اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہو جائے.تیسری دلیل یہ لوگ یہ دیتے ہیں کہ امام جماعت کے ساتھ جو ایک جماعت کارکنوں کی جائے گی وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ مل کر اور واقفیت حاصل کر کے زیادہ عمدگی سے کام کر سکے گی.اور اس کا نقطہ نگاہ وسیع ہو کر اسے معلوم ہو جائے گا کہ باہر جانے والے مبلغین کے لئے کیا وقتیں ہیں اور دنیا کیا کر رہی ہے اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے.دوسرا فریق جو مخالف ہے اس کے دلائل یہ ہیں کہ اس وقت تک ان ممالک میں سلسلہ کی عظمت پوری طرح قائم نہیں اس لئے خلیفہ کا ایسے وقت میں جانا سلسلہ کی شان کے خلاف ہے.دوسرے یہ کہ مرکز سے خلیفہ وقت کا باہر جانا گو عارضی ہو مگر موجب فتنہ ہو سکتا ہے.تیسرے یہ کہ جو غرض خلیفہ کے جانے سے ہے وہ دوسری طرح پوری ہو سکتی ہے.چند عالم بھیج دیئے جاویں جو وہاں جا کر تبلیغ کریں.جب وہ ممالک تیار ہو جائیں تو پھر خلیفہ وقت کا باہر جانا بھی درست ہو سکتا ہے جو لوگ میرے جانے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں.مفتی محمد صادق صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب، عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب ذو الفقار علی خان صاحب سید ولی اللہ شاہ صاحب مولوی رحیم بخش صاحب میر قاسم علی صاحب قاضی ظہور الدین صاحب ، ماسٹر عبد المغنی صاحب حافظ روشن علی صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری - جو لوگ میرے جانے کے خلاف مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں.مولوی شیر علی صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب میر محمد اسحاق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کو یا گیارہ رائیں تو میرے جانے کی تائید میں تھیں اور پانچ اس امر کے حق میں تھیں کہ میرا جانا ٹھیک نہیں کوئی اور آدمی بھیجے جاویں.اس مشورہ کے بعد میری رائے اس طرف مائل تھی کہ میرے جانے کے بعد ان ملکوں کے مشنوں کو اور زیادہ مضبوط کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک کر کے خاموش ہو جانا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے زیادہ نقصان ہو گا اور اگر مضبوط کیا جاوے تو روپیہ زیادہ خرچ کرنا پڑے گا.پھر اگر میں گیا تو چونکہ ساتھ زیادہ آدمی ہوں گے اس لئے روپیہ زیادہ خرچ ہو گا اور جماعت پر بوجھ پہلے ہی زیادہ ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب اور حافظ روشن علی صاحب کو بھیج دیا جاوے.

Page 462

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 426 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال دو تین ( روز) (متن میں یہ لفظ سوارہ گیا ہے.ناقل) کے بعد عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے جانے کے متعلق کچھ عذر پیش کیا اور ادھر ولایت سے دوبارہ تار آئی کہ مذہبی کا نفرنس چاہتی ہے کہ میں خود شامل ہوں.اس پر دوبارہ مشورہ لیا گیا تو میر محمد الحق صاحب نے بھی جانے والوں کی تائید میں رائے دی لیکن میں نے بعد مشورہ یہ مناسب سمجھا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا ملک سے باہر جانا گو ساڑھے تین ماہ کے لئے ہو.ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کا سب جماعت پر اثر پڑتا ہے.اس لئے سب جماعت کو مشورہ میں شامل کیا جاوے اور اس رائے کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ آپ کی انجمن اس معاملہ کے متعلق مشورہ دے کہ آیا اس کے نزدیک کونسا پہلو اختیار کیا جاوے.میرا خود جانا زیادہ مناسب ہو گا یا بعض دوسرے دوستوں کو بھیجنا.مشورہ کے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس امر سے میں متفق ہوں کہ اگر مغربی ممالک میں تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ امام جماعت کسی وقت اپنی آنکھوں سے ان ممالک کی حالت کو دیکھے تاکہ صحیح تجویز تبلیغ کے متعلق کر سکے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ موقع ٹھیک ہے یا ابھی انتظار کرنا چاہئے؟ خرچ کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ اگر آپ لوگ اس امر کو پسند کریں کہ مجھے جانا چاہئے تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گو میں اس وقت سخت مقروض ہوں مگر خزانہ پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا.بلکہ اپنا خرچ خود کروں گا گو کہ قرض ہی لینا پڑے مگر جو لوگ دوسرے ساتھ ہوں گے یعنی انگریزی لیکچرار اور علماء اور رپورٹ.ان کا خرچ اور تبلیغ کا خرچ بتیس ہزار کے قریب ہو گا.اس میں سے پندرہ سولہ ہزار تو وہ ہے جو خالص تبلیغ پر ہو گا اور پندرہ سولہ ہزار وہ ہے جو ان لوگوں کے آمد و رفت کے کرایہ اور مکان اور خوارک وغیرہ پر خرچ ہو گا.جو لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ اس وقت مجھے ضرور جانا چاہئے ان کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کا خاص بوجھ جماعت پر نہیں پڑے گا.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مسجد برلن کے لئے جو زمین کی تھی اور جسے عمارت کھڑی کرتے ہوئے پیشتر اس کے کہ مسجد بنتی اس لئے روکنا پڑا تھا کہ جرمن کی مالی حالت بدل جانے کے سبب اس پر چھ سات لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے.(جس کا ذکر میں سالانہ جلسہ کے موقع پر کر چکا ہوں) اس جگہ کو مجلس شوری کے مشورہ کے بعد فروخت کیا گیا ہے اور اس پر چالیس ہزار روپیہ نفع آیا ہے.یعنی ہمارے خرچ سے اتنی رقم زیادہ مل گئی ہے اس روپیہ سے جو نفع کے طور پر آیا ہے.روپیہ قرض لے لیا جائے کیونکہ یہ روپیہ خدا تعالی کی طرف سے بطور انعام ملا ہے اور پھر تین چار سال میں آہستہ آہستہ کر کے جماعت اس رقم کو واپس کر دے اس طرح فوری بو جھ کوئی نہیں پڑے گا.باقی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس رقم کو ہمیں بالکل نہیں چھیڑنا چاہئے...اور اگر ضرورت ہو تو اسی وقت سفر کرنا چاہئے کہ جب پہلے روپیہ جمع ہو.اب ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ میں کون سا طریق اختیار کروں.

Page 463

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 427 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال اگر آپ مجھے جانے کا مشورہ دیں تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ میں اسلام کی ترقی کی خاطر روپیہ قرض لے کر بھی جانے کی کوشش کروں گا.اور اپنی ذات کا بوجھ سلسلہ پر نہیں ڈالوں گا.لیکن اگر آپ کے نزدیک میرا جانا مناسب نہ ہو تو دو سرا وفد بھیجنے کی صورت کی جائے گی.جس میں چونکہ آدمی کم ہوں گے.اس پر خرچ کم ہو گا.گو دس گیارہ ہزار پھر بھی خرچ ہو جائے گا.چونکہ فیصلہ فورا ضروری ہے اس لئے جو جماعتیں دور ہیں ان کو چاہیئے کہ اپنی رائے سے بذریعہ تار کے اطلاع دیں.کل وقت سفر کا ساڑھے تین ماہ ہو گا.۲۵/ مئی تک جواب پہنچ جانا چاہئے.خاکسار مرزا محمود احمد قادیان ۱۴/ مئی ۱۹۲۴ء نوٹ: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال اس خط کا مضمون اپنی جماعت کے دوستوں تک ہی محدود رہے.خاکسار رحیم بخش ایم.اے.افسر ڈاک نوے فیصدی جماعتوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضور ہی بنفس نفیس تشریف لے جائیں.پھر حضور نے بھی اور چالیس کے قریب دوستوں نے استخارے بھی کئے جن سے اس مشیت الہی کا علم ہوا کہ خود آپ ہی کو تشریف لے جانا چاہئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی طرف مزید توجہ فرمائی تو آپ پر یہ حقیقت بالکل منکشف ہو گئی کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین ( مسیح موعود) یا اس کے نائب کے سفریورپ کی اور حدیث شریف میں سفرد مشق کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں.ذوالقرنین کے سفر سے متعلق واقعہ پر مزید غور کرتے ہوئے حضور نے معلوم کیا کہ یہ سفر ( بنیادی اغراض کے اعتبار سے) تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں اسلامی انقلاب کی تبلیغی سکیم تیار کرنے کے لئے کیا جائے گا.اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویاء بھی آپ کے سامنے آیا کہ ” میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے.....اس کے علاوہ خود حضور کو ایک عرصہ قبل رویا میں سفر یورپ کا نظارہ دکھایا جا چکا تھا.چنانچہ ایک ردیاء میں آپ نے دیکھا.آپ لنڈن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپ شامل ہیں.مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیر اعظم) اس جلسہ میں تقریر کر رہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور انہوں گونا

Page 464

تاریخ احمدیت جلد ۴.428 نے دہشت زدہ ہو کر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ " مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے "..دوسری رویا میں (جو کانفرنس کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی تھی) آپ نے دیکھا کہ ” میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازہ وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں...اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدبر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہئے.اتنے میں ایک آواز آئی William the Conqueror ولیم دی کنگر ریعنی ولیم (اولو العزم فاتح 1 ان امور پر غور و فکر اور مسلسل دعاؤں اور استخاروں کے بعد حضور نے ویمبلے کا نفرنس کی دعوت ایک اللی تحریک سمجھی اور بار جو دیکہ اتنے لمبے سفر پر جانے کے رستہ میں آپ کے لئے ذاتی طور پر بہت سے مشکلات حائل تھیں اور اس بوجھ کا اٹھانا آپ کے لئے بہت مشکل تھا.حضور نے اپنے فرائض دینی کو مقدم رکھتے ہوئے پورے انشراح صدر سے سفریورپ پر جانے کا فیصلہ فرمالیا.اور روانگی کی تاریخ ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء معین کر دی.چنانچہ حضور نے ۱۲۴ جون ۱۹۲۴ء کو اپنے فیصلہ کی اطلاع دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ "ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اور چونکہ ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا ہمارا فرض ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں....اس نظام کے مقرر کرنے کے لئے ضروری ہے خلیفہ مغربی ممالک کی حالت کو وہاں جا کر دیکھے...پس مغربی ممالک میں تبلیغ کے کام کو اگر ہم نے جاری رکھنا ہے اور اگر اس پر جو روپیہ خرچ ہو تا ہے اس کی خدا تعالیٰ کو جوابدہی سے عہدہ برآ ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ خود خلیفہ وقت ان علاقوں میں جا کر ان کی مشکلات کو دیکھے.اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کرے....پس ان ضروریات کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کانفرنس کی تحریک کو ایک خدا کی تحریک سمجھ کر اس وقت باوجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں.مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کی تبلیغ کے لئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لئے کیونکہ وہ ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا توڑنا ہمارا مقدم فرض ہے".

Page 465

بہت جلد ۴ 429 خلافت کانفرنس کے لئے کتاب " احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تصنیف سفر یورپ کے فیصلہ کا اعلان تو 12 ۲۴ جون ۱۹۲۲ء میں ہوا.مگر معالمہ کی اہمیت کے پیش نظر حضور نے ٹھیک ایک ماہ قبل ۲۴ مئی ۱۹۲۴ء کو کانفرنس کے لئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام" کے عنوان سے مضمون لکھنا شروع فرما دیا.حضور کو سخت گرمی اور تپش میں صبح سے لے کر آدھی رات تک مصروف رہنا پڑتا تھا.چنانچہ خود فرماتے ہیں." مضمون کے لکھنے کے دنوں میں مجھے بسا اوقات رات کے بارہ بارہ بجے تک اور بعض دفعہ تو دو دو بجے تک بیٹھنا پڑتا تھا.اس شدید گرمی کے موسم میں جبکہ دن کو کام بھی مشکل ہوتا ہے رات کے وقت لیمپ کی روشنی میں بارہ بارہ بجے تک کام کرنا سخت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کمزور صحت کے آدمی کے لئے تو نا ممکن معلوم ہوتا ہے ".re اس کے دوران میں دو روز آپ بیمار ہو گئے مگر بالآ خر شبانہ روز محنت و جدو جہد کے بعد محض روح القدس کی تائید سے 4 جون ۱۹۲۴ء تک مضمون ختم ہو گیا.اس کے بعد مضمون پر نظر ثانی اور پھر انگریزی ترجمہ کے مقابلہ اور اصلاح کا کٹھن مرحلہ شروع ہوا.چونکہ مضمون کے لکھنے کے دنوں میں آپ نے ملاقاتوں اور ڈاک کا کام مجبور آکم کر دیا تھا.اس لئے اب وہ کام بھی جمع ہو گیا اس لئے آدھا دن ڈاک اور ملاقات وغیرہ میں صرف ہوتا اور آدھا مضمون کے لئے.یہ دن حضور کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مصروفیت کے تھے.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں ” مجھے ان دنوں میں بالکل معلوم نہ ہو تا تھا کہ دن کب ہوتا ہے اور رات کب کیونکہ میرے لئے یہ دونوں چیزیں برابر تھیں " نظر ثانی اور ترجمہ اور اس کی اصلاح کا کام حضور نے مکرم و محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے سپرد فرما رکھا تھا اور انگریزی مسودہ کے ٹائپ کرانے اور مقابلہ کی ذمہ داری حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد پر تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ساتھ ان سب اصحاب نے دن رات ایک کر کے ۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو مضمون کا انگریزی ترجمہ مکمل کر دیا اور ۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کو اس کی ایک نقل مذاہب کا نفرنس کے منتظموں کو بھجوادی گئی.اسی اثناء میں حضور نے یہ دیکھ کر کہ لکھا ہوا مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے جسے کا نفرنس میں پڑھا نہیں جا سکے گا.یہ فیصلہ فرمایا کہ " احمدیت یعنی حقیقی اسلام" کے مطالب کا خلاصہ کر کے ایک نیا مضمون لکھتا چاہئے چنانچہ حضور ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو "احمدیت یعنی حقیقی اسلام" کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی ہے.فارغ ہوتے ہی نئے مضمون کی تصنیف میں مشغول ہو گئے اور ۹ / جولائی ۱۹۲۴ء کو قریب گیارہ بجے رات

Page 466

430 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تاریخ احمدیت.جلد ۴ یہ نیا مضمون جو " سلسلہ احمدیہ " (Ahmadiyya Movement) کے عنوان سے تھا پایہ تکمیل کو پہنچا.اور پھر اسی کا خلاصہ کا نفرنس میں پڑھا گیا."احمدیت یعنی حقیقی اسلام " کو چند دنوں میں تصنیف ہوئی.مگر اس میں حضور نے خدا کے فضل سے احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کی دلکش اور جامع تصویر رکھی اور مکمل نقشہ مغربی دنیا کے سامنے کھینچ دیا اور اللہ تعالٰی سے تعلق سے متعلق اسلامی نظریہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے پہلے یہ بتایا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے عظیم خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور وہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالی سے تعلق پیدا کر سکتا ہے ".پھر حضور نے اسلام کے نظام اخلاق نظام تمدن اور نظام ملکی پر قلم اٹھانے کے بعد یہ عظیم الشان انکشاف فرمایا کہ قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے جبکہ لیگ آف نیشنز کا کوئی خیال بھی نہیں پایا جاتا تھا.بین الا قوامی سطح پر ایک اسلامی جمعیتہ الا قوام کا خاکہ پیش کر رکھا ہے اور جب تک اس کے مطابق لیگ کی تشکیل نہیں ہو گی دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا.حضور کی یہ پیشگوئی کس طرح آج تک حرف بحرف پوری ہو رہی ہے.اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام" اور "سلسلہ جماعت احمدیہ کے لئے نیابتی انتظام " کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوتے ہی حضور نے احمدی فوری طور پر جس اہم امر کی طرف توجہ فرمائی.وہ قادیان میں نیابتی انتظام کا قیام تھا.چنانچہ حضور نے اپنے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کو ان کا نائب مقرر فرمایا.ان کے علاوہ ایک مجلس شوری مقرر فرمائی جس کے چودہ ممبر یہ قرار دیئے.حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت قاضی امیر حسین صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت ماسٹر عبد المغنی خان صاحب حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل.حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل - حضرت میر قاسم علی صاحب حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل - شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر" نور ".خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر " الفضل " حضور نے ان تمام اصحاب کے تقرر پر ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کو ایک خطبہ بھی دیا.جس میں ہر ایک کا نام لے کر ان کی مخلصانہ خدمات کا نہایت تعریفی کلمات میں ذکر کر کے بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ لوگ میرے نزدیک بہترین مشیر ہیں.

Page 467

تاریخ احمدیت جلد ۴ 431 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال علمی کام جاری رکھنے کے لئے حضور نے ہدایت جاری فرمائی کہ مکرم مولوی شیر علی صاحب درس قرآن اور مولوی سید سرور شاہ صاحب درس بخاری دیں اور یہ دونوں درس مسجد اقصیٰ میں باری باری ہوں.حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں کام کر رہے تھے.اب جدید انتظام کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کی حج سے واپسی تک) ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا گیا.حضور نے ڈاک کا یہ انتظام فرمایا کہ آپ کے نام خطوط قادیان کے پتہ پر لکھے جائیں اور مرکز سے ہفتہ کی ڈاک کا اکٹھا پارسل بنا کر حضور کے نام بھیج دیا جائے.جتنی جلدی اس عظیم الشان سفر کی تیاری ہوئی شائد اس کی مثال سفریورپ کے لئے تیاری پہلے دنیا میں ہمت ہو چھ ہزار میل کاسفر اور صدیوں کی تبلیغ کے لئے سکیم بنانے کی تجویز اور حالت یہ کہ سفر کے شروع ہونے تک حضور کو کسی امر کے سوچنے کے لئے یکسوئی کے لمحات میسر نہیں آسکے.۹-۱۰ جولائی ۱۹۲۴ء کی رات کے گیارہ بجے کا نفرنس والا مضمون ہی ہمشکل ختم ہوا.اور ۱۲ جولائی حضور کی روانگی کی تاریخ تھی.اس لحاظ سے 10 او ر ا / جولائی کے صرف دودن فراغت کے مل سکے.جن میں حضور نے اپنے بعد قادیان میں انتظام کا فیصلہ کیا.لائبریری میں سے ضروری کتابیں نکلوائیں اور دوسرے لوگوں کی مستعار کتابیں واپس کیس - 11 جولائی ۱۹۲۴ء کے دن حضور کی مصروفیت جولائی ۱۹۲۴ء کا مصروف ترین دن انتہاء تک پہنچ گئی.حضور صبح کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے مزار کے مشرقی دروازہ میں کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی پھر جنوب کی طرف موضع ننگل میں سے ہوتے ہوئے موضع کا ہلواں کے پاس سڑک تک گئے اور دوسرے رستہ پر لوٹ کر دوبارہ مقبرہ بہشتی میں پہنچے اور مزار اقدس پر دوبارہ دعا فرمائی اس وقت بھی حضور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چلتے چلتے ایک مجاہد کو جو حضور کے ساتھ ہی دور دراز ملک کے لئے روانہ ہو رہے تھے نہایت اہم اور ضروری امور کے متعلق نوٹ اور ہدایات لکھواتے رہے.مقبرہ بہشتی سے واپسی کے بعد حضور گھر تشریف لے گئے اور پھر جمعہ پڑھایا جس میں مقامی انتظام کی تفصیل بیان فرمائی.نماز جمعہ کے بعد دیر تک بیرونی احباب سے مصافحہ فرماتے رہے.عصر کی نماز حضور نے مسجد مبارک میں پڑھائی اور پھر مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں ایک

Page 468

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 432 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال بہت بڑے مجمع میں حضور کا ان اصحاب کے ساتھ جو حضور کے ہمراہ تشریف لے جارہے تھے.(اور جو سبز پگڑیاں، بند گلے کے سیاہ کوٹ اور پاجامہ میں ملبوس تھے ) فوٹو لیا گیا.ان اصحاب میں حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب - مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین صاحب بھی کھڑے کئے گئے جو ایران اور بخار میں تبلیغ کے لئے روانہ ہونے والے تھے.حضور انور کے سر پر سفید پگڑی تھی اور آپ کرسی پر رونق افروز تھے.حضور نے اپنے معمولی لباس ململ کی سفید چڑی پکھلے گلے کا لمبا کوٹ اور سفید لٹھے کی شلوار میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی.الله اس موقعہ پر حضور نے دو نکاحوں کا بھی اعلان فرمایا اور دعا کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی ایک الوداعی نظم ملک عبد العزیز صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ نے ایسے رقت انگیز لہجہ میں پڑھی کہ حضور آبدیدہ ہو گئے اور اخیر تک اپنا چہرہ مبارک رومال سے ڈھانچے رہے.اس تقریب کے بعد حضور رات کے ایک بجے تک اپنے بعد کام چلانے کے متعلق ہدایات دیتے رہے.روانگی سے قبل مزار مسیح موعود پر آخری دعا / جولائی ۱۹۲۴ء کو روانگی کا دن تھا " اس دن حضور صبح صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر آخری بار دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے اس دعا کے وقت حضور کے قلبی جذبات کیا تھے ؟ حضور خود ہی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.صبح....اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لئے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا.یعنی آقائی و سیدی و راحتی و سردری و حبیبی و مرادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے مگر آہ وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی.یہ جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا صالح کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا.میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کر کے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا.ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مرجاؤں (اللهم متعنا بطول حياته و اطلع شموس طالعه مولف) تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جن کی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کر دیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولی مجھ پر بھی رحم فرما دے.ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریز دل لے کر اس مزار پر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ع اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی"

Page 469

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 433 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے.جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کو تاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپالے.آہ 1 اس کی غنا میرے دل کو کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیث میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کر دیتی ہے.پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے.میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے.وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کر دے ادھر ایک تکلیف دہ سفر در پیش تھا.جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈر تا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو.شاید وہ امید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو.سمندر پار کے مردوں کو کون لا سکتا ہے ان کی قبر یا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی.اس روز (۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو صبح کی نماز کے بعد سے ہی لوگ قادیان سے روانگی کا نظارہ مسجد مبارک کے قریب جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے خدام کا بھاری ہجوم ہو گیا.۸ بجے کے قریب حضور نے بیت الدعا میں لمبی دعا کرائی پھر باہر تشریف لائے.اصحاب مصافحہ کے لئے بے تابی کے ساتھ آگے بڑھے لیکن حکم ہوا کہ مصافحے سڑک کے موڑ پر ہوں گے.اگر چہ منتظمین نے انتظام کیا تھا کہ حضور کو حلقہ کے اندر لے کر ہجوم کو پیچھے پیچھے رکھا جائے لیکن ہجوم کا ریلہ سنبھالے نہ سنبھلتا تھا.کئی لوگ ایک دوسرے پر گرتے مگر کسی قسم کے ملال کے بغیر فورا اٹھ کر آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے.منتظموں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہجوم کے گردو غبار سے حضور کو تکلیف ہوگی.سب لوگوں کو قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر حضور نے حکم دیا کہ کسی کو روکا نہ جائے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوں آپ لوگ بھی آہستہ چلیں تا زیادہ گرد نہ اڑے.موڑ کے قریب پہنچ کر حضور نے سارے خدام سمیت پھر لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد حضور مردوں کے ہجوم سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت ام المومنین نے دیر تک حضور کو گلے لگا کر دعاؤں سے رخصت فرمایا.حضرت ام المومنین سے الوداع ہونے کے بعد حضور نے خدام کو جو موڑ پر دو رویہ قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا.سب اصحاب سے مصافحہ کر لینے کے بعد حضور اور حضور کے ہمراہ جانے

Page 470

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 434 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال والے اصحاب موٹروں میں سوار ہوئے اور یہ مقدس قافلہ آسمانی " ولیم دی کنکر ر" کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہو گیا - اس سفر میں حسب ذیل اصحاب ہمرکاب تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب - حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال - حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد - - حضرت خان صاحب ذو الفقار علی صاحب - حضرت حافظ روشن علی صاحب - حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی - حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب - حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی - شیخ عبدالرحمن صاحب مصری - چوہدری علی محمد صاحب - میاں رحم دین صاحب - ان کے علاوہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو حضور کے ترجمان خصوصی کی حیثیت سے جا رہے تھے پہلے ہی انگلستان روانہ ہو چکے تھے.اسی طرح چوہدری محمد شریف صاحب وکیل بھی اپنے خرچ پر حضور کے ہمراہ گئے.بٹالہ سے دہلی تک حضور مع خدام قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے.جہاں آپ کی انتظار میں خلقت کا بے پناہ اثر دھام تھا.بٹالہ سے چل کر دہلی تک مختلف مقامات کی جماعتوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہا.امرتسر، بیاس، جالندھر چھاؤنی ، پھگواڑہ اور دہلی میں آپ کے اور آپ کے رفقاء سفر کے فوٹو لئے گئے.لدھیانہ سے آگے جاکر حضور نے قادیان کی یاد میں وہ مشہور نظم کی.جس کا پہلا شعریہ تھا.۵۳۵۲ -1 ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں معات حق تعالٰی دعائے قادیاں قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف فرما تھے جو سہارنپور سے واپس ہوئے.دہلی اسٹیشن پر دہلی ، بریلی، شاہ جہانپور، قائم گنج اور علی گڑھ کی جماعتوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا.امرتسر میں مستری محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے برف کا انتظام تھا.جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے.دہلی سے بمبئی تک دہلی سے آگے متھرا اسٹیشن پر آگرہ کی جماعت کے علاوہ میدان ارتداد ملکانہ کے بعض مجاہدین مثلا ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم اور ماسٹر غلام محمد صاحب بھی حاضر تھے.متھرا کے پلیٹ فارم پر بھی حضور کا فوٹو لیا گیا.مجاہدین میدان ارتداد ملکانہ نے آگرہ تک حضور کی معیت کا فخر حاصل کیا.متھرا اور آگرہ کے درمیان ملکانوں کے راستے میں جو

Page 471

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 435 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال گاؤں پڑتے تھے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے وہ حضور کو گاڑی میں دکھائے اور وہ جگہ بھی جہاں ہندو ٹھاکروں نے اشدھی کے خلاف پنچایت کی تھی.عین اس وقت جب حضور ملکانہ کے علاقہ سے گزر رہے تھے علاقہ ملکانہ اور دوسرے اہم معاملات کے لئے دعا فرمائی اور اپنی جیب خاص سے ایک قربانی کے لئے روپئے مرحمت فرمائے.اسی دوران میں گاڑی آگرہ پہنچ گئی 23 حضور آگرہ سے چل کر گوالیار اور جھانسی سے ہوتے ہوئے آدھی رات کے وقت بھوپال پہنچے جہاں حضرت حکیم عبید اللہ صاحب بل اور بعض دوسرے دوست موجود تھے.۱۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے اپنے رفقاء کو ارشاد فرمایا کہ وہ باہم صرف انگریزی یا عربی میں کلام کریں چنانچہ بمبئی اسٹیشن تک اس پر پورے طور پر عمل ہو تا رہا.۱۴/ جولائی ۱۹۲۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی.حضور نے عید منماڑ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پڑھائی اور مختصر سا خطبہ پڑھا.گاڑی اسی روز پانچ بجے شام کے بعد عیسی کے وکٹوریہ اسٹیشن پر پہنچی.اسٹیشن پر حیدر آباد سکندر آباد سورت ایلیچ پور، مالا بار اور بمبئی کی جماعتیں موجود تھیں جس اخلاص و عقیدت کے ساتھ ان جماعتوں نے حضور کا خیر مقدم کیا اس کا اظہار الفاظ نہیں کر سکتے.مصافحہ کے بعد حضور کا فوٹو لیا گیا.جس کے معابعد حضور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ، خان صاحب ذو الفقار علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو لے کر تھا مس تک کے دفتر میں تشریف لے گئے پھر انجمن احمد یہ بمبئی کی سیمن بلڈنگ میں آکر قیام پذیر ہوئے یہاں پہنچ کر بمبئی کے دو ایک سیٹھ آپ سے ملاقات کے لئے آئے اور حضور تبلیغ فرماتے رہے پھر ساڑھے بارہ بجے تک تحریرہ میں مصروف رہے.دو سرے دن ۱۵/ جو ٹائی ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے بذریعہ جہاز روانگی اور عدن میں ورود قریباً سات بجے حضور اپنے رفقاء سمیت بمبئی کی بندرگاہ پر تشریف لے گئے اور عرشہ جہاز سے جماعت کے نام ایک محبت بھرا برقی پیغام دیا جس میں فرمایا.تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ مجھے کس قدر محبت تم سے ہے لیکن یہ جدائی صرف جسمانی ہے میری روح ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور رہے گی میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں ".بندرگاہ پر جماعت کے دوست بڑی کثرت سے الوداع کہنے کے لئے حاضر تھے.حضور نے اس موقعہ پر ایک لمبی اور رقت انگیز اجتماعی دعا کرائی.یہاں تک کہ جہاز کی روانگی کا وقت گزرنے لگا مگر جہاز کے افسروں پر بھی ایسی محویت طاری تھی کہ وہ نہ دعا ختم کرنے کے لئے کہہ سکتے تھے اور نہ جہاز روانہ کر سکتے تھے.آخر حضور نے دعا ختم کی اور دعا کے ساتھ آسمان سے ترشح ہو ا حضور نے دعاؤں کے ساتھ

Page 472

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 436 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال جماعت کو رخصت کیا اور السلام علیکم اور خدا حافظ کے نعروں سے فضا گونجی.جہاز ایک چھوٹی دخانی کشتی کے ذریعہ حرکت دیا جارہا تھا.جماعت کے دوست کنارے پر کھڑے تھے اور حضور دل میں دعا کر رہے تھے.پھر یکا یک آپ کو جوش آیا اور پر نم آنکھوں کے ساتھ آپ نے پھر جماعت کے لئے نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ لمبی دعا کی.اب جہاز حرکت میں آچکا تھا اور دوست بڑی تیزی سے نظر سے اوجھل ہو رہے تھے مگر حضور کی شفقت و محبت کا ایک عجیب عالم دیکھنے میں آیا یعنی جہاز کا جو حصہ بھی دوستوں کے قریب ہو تا حضور بھی دوڑ کر اسی طرف تشریف لے جاتے کبھی اس سرے کبھی دوسرے اور کبھی وسط میں اور دوستوں کے لئے قریب جاکر پھر دعا شروع کر دیتے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور آپ کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے مگر اپنے خدام سے دلی الفت و محبت کی چنگاری آپ کو بے قرار کئے ہوئے تھی.غرض کہ حضور اسی طرح جہاز کے چاروں طرف نہایت بے تابی سے گھومتے رہے حتی کہ سب دوست آنکھوں سے بالکل غائب ہو گئے جہاز کا یہ پہلا دن تھا اسی دن سے حضور اور حضور کے رفقاء کی طبیعت سمندری مرض (Sea Sickness) سے سخت ہونے لگی.پھر کئی روز تک سمندر میں ایسا شدت کا تلاطم بر پا رہا کہ اس نے حالت اور زیادہ تشویشناک کر دی.سمندر کی طوفانی حالت ایسی مخدوش تھی کہ جہاز کی رفتار بہت ہی کم کر دینی پڑی اور عملہ جہاز بھی بیمار ہو گیا.خود حضور پر جہازی بیماری کے اثر کے ساتھ سردرد اور بخار کا حملہ ہوا اور متلی کی شکایت بھی تھی لیکن حضور اپنی تکلیف بھولے ہوئے تھے اور اپنے خدام ہی کے فکر میں تھے.حضور ہر ایک کی عیادت فرماتے اور ہر طرح تسلی دیتے اور دلجوئی فرماتے تھے اور کبھی کبھی احباب کا دل بہلانے اور غم غلط کرنے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب درد، خان صاحب ذو الفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے نظمیں سنتے.خاص طور پر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی الوادعی نظم تو بار بار پڑھی گئی.اس موقعہ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب نے ایثار نفس کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا اور اپنا آرام قربان کر کے اپنے بیمار بھائیوں کو آرام پہنچایا.وگر نہ جہاز میں تو ہر جگہ نفسی نفسی کا معاملہ تھا.دوسروں کی خدمت کا جذ بہ صرف انہی بزرگوں میں نظر آتا تھا.حضرت خلیفتہ ا فة المسیح الثانی کو اس سفر میں سب سے بڑی فکر اور تشویش جس نے آپ کو دن رات متفکر کر رکھا تھا صرف یہ تھی کہ یورپ کے تمدن اور اس کی دماغی ترقی کا مقابلہ کیسے کیا جائے.چنانچہ

Page 473

سفر ولایت کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنے ساتھیوں اور رفقاء کے ساتھ کرسیوں پر دائیں سے بائیں: 1.مولوی عبد الرحمن صاحب مصری -۲ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال - ۳.حضرت خلیفہ امسیح الثانی المصلح الموعود ۴.حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہر.۵.حضرت حافظ روشن علی صاحب.کھڑے ہوئے دائیں سے بائیں: 1.میاں رحم دین صاحب ( باور چھا) ۲- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بانی ومدیر الحکم.۳.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ( معالج خصوصی ) ۴.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی -۵ حضرت چوہدری محمد شریف صاحب وکیل ساہیوال (نظری) - - حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب

Page 474

انگلستان روانگی سے قبل حضرت خلیفہ امسیح الثانی قادیان کے احباب کے ساتھ (11 جولائی 1924 ء)

Page 475

12 جولائی 1924ء کوسفر ولایت کے موقعہ پر حضرت خلیفہ السیح الثانی مع خدام لا ہور اور امرتسر کے احمدی احباب کے ساتھ امرتسر ریلوے سٹیشن پر

Page 476

ICE سفر ولایت کے دوران بمبئی کی جماعت کے ساتھ

Page 477

WAY IS BOOKING OFFICE 1º CLASS BILLETS 1 CLASSE مخلص تذاكر اللحمة الاولي یورپ جاتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الثانی قاہرہ کے ریلوے سٹیشن پر

Page 478

یورپ جاتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی یروشلم (بیت المقدس) کی مسجد عمر میں

Page 479

سفر یورپ کے دوران حضرت خلیفہ مسیح الثانی پیرس (فرانس) کی مسجد میں

Page 480

سفر کو رپ کے دوران حضرت ماریہ ربیع الثانی پیرس کی مسجد سے باہر لکھتے ہوئے

Page 481

ISLAM'S PART IN LIVING RELIGIONS OF THE EMPIRE His Holiness the Khalifa-Tul-Masih leading Moslems in prayer at Chesham Place on their arrival from the East.They will represent Islam at the Wembley Conference on "Living Religions in the Empire." حضرت خلیفہ اسی نماز پڑھارہے ہیں دورہ انگلستان کے موقعہ CHESHAM PLACE میں حضرت خلیفۃ ا

Page 482

حضرت خلیفہ المسیح الثانی رائل پارک انگلستان میں اپنے خدام کے ہمراہ نماز ادا کرتے ہوئے

Page 483

alifat al-Messiah with the offus HarPRcentre ویمبلے کا نفرنس کے موقعہ پر -delegates of The Ahmadiga Movement India ایستاده! چوہدری فتح محمد سیال صاحب.چوہدری علی محمد صاحب.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نایجیریا.بابو عزیز دین صاحب.حضرت خلیفہ اسیح الثانی.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.کرنل تقی الدین صاحب.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب.سردار مصباح الدین صاحب.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی.مولوی عبد الرحیم صاحب نیر.چوہدری محمد شریف صاحب.ملک غلام فرید صاحب ( مبلغ جرمنی و انگلستان ).ملک نواب الدین صاحب.غلام حسین صاحب بھنو.ماریشس مولوی مبارک علی صاحب بنگالی.کرسیوں پر ! مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری.لافٹس ہیر سیکرٹری ویمبلے کا نفرنس.حافظ روشن علی صاحب مولوی محمد دین صاحب ( مبلغ امریکہ) حضرت مرزا شریف احمد صاحب.مولوی عبد الرحیم صاحب درد.

Page 484

سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے دست مبارک سے مسجد فضل لنڈن کی بنیاد

Page 485

19 اکتوبر 1924 ، حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ۶۲ میلر وز روڈ (Metrose Road) لنڈن میں مسجد فضل کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے

Page 486

مسجد فضل لنڈن

Page 487

مولانا عبد الرحیم درد مبلغ انگلستان کی طرف سے شہزادہ امیر فیصل کا استقبال

Page 488

مسجد فضل لنڈن کا افتتاح

Page 489

یخ احمدیت.جلد ۴ 437 خلافت عامیہ کا گیارھواں سال اپنے رفقاء سے فرمایا.” یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ اس کا مذہب کیونکر فتح کیا جائے گا.مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلد سر نگوں ہو گی مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ ہے کہ یورپ کا تمدن اور یورپ کی ترقی اور دماغی ترقی کا کیونکر مقابلہ کیا جائے یہی دو باتیں ایسی ہیں جن پر غور و فکر کرتے ہوئے میں راتیں گزار دیتا ہوں اور گھنٹوں اسی سوچ میں پڑا رہتا ہوں".پھر فرمایا." انگریزی لباس سے مجھے سخت چڑ ہے اگر ہمارے بچوں میں سے کوئی پتلون اور ہیٹ کا استعمال کرے تو اس کو سزا دینی چاہئے.جس قوم کے پاس لباس بھی اپنا نہیں اور دو سرے کے لباس کو اپنے لباس سے اچھا سمجھ کر اسے اختیار کر لینا چاہتی ہے.اس قوم نے اس کا مقابلہ کیا کرنا ہے.آنحضرت نے عربوں کی آنکھ کھلتے ہی اصل کو معلوم کر لیا تھا.اس لئے آپ نے ارشاد فرمایا.خالفوا اليهود والنصارى.الخ نيز من تشبه بقوم فهو منهم " اور حقیقت یہی ہے کہ جو کسی قوم کے لباس کو اور تمدن کو قبول کر لیتا ہے وہ دل سے ان ہی میں سے ہوتا ہے کیونکہ دل اس کا ان کی عظمت اور بڑائی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے ".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے طوفانی کیفیت میں بھی عموماً نماز با جماعت کا التزام رکھا اور اپنے رفقاء سفر اور جماعت کے لئے بہت دعائیں کیں.آخر پانچویں روز (۱۹/ جولائی) سے طوفان کی حالت بدلنے لگی اور چھٹے روز (۲۰/ جولائی) کو بہت حد تک طوفان تھم گیا.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ اس روز حضور نے جب نماز عصر جملہ احباب سمیت جہاز کے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے صحن میں ادا کی اور بعد نماز حضور مصلے پر تشریف فرما ہوئے اور تمام رفقائے سفر حضور کی خدمت میں حاضر تھے تو جہاز کے ڈاکٹر نے (جس کا نام مینگلی تھا اور اٹلی کا باشندہ تھا حضور کی طرف اشارہ کر کے آہستہ سے کہنے لگا.Jesus Christ and "twelve Disciples یعنی یسوع مسیح اور بارہ حواری.یہ سن کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی کہ خداتعالی کیسا قادر ہے کہ پوپ کی بستی کا رہنے والا ایک نہایت کچی اور عارفانہ بات کہہ رہا ہے ".ساتویں روز ۲۱ جولائی ۱۹۲۴ء کو حضور اپنے خدام میں قریباً ڈیڑھ بجے رات تک رونق افروز رہے.ناگپور کا ایک ہندو نوجوان مسٹر جوشی بی ایس سی جو مکینکل انجینرنگ کی تعلیم کے لئے جر منی جارہا تھا حضور کی خدمت میں حاضر تھا.حضور نے حقیقی مذہب کی شناخت اور زندہ خدا پر ایمان کے صحیح طریق پر بہت لطیف تقریر فرمائی جس سے مسٹر جوشی بہت متاثر ہوا اور کہا کہ حقیقت میں آج مجھے نیا علم ملا ہے ۶۳ آٹھویں دن (۲۲ جولائی جہاز عدن کے اور قریب آیا تو حضور نے آدھی رات کے وقت اپنے "

Page 490

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ قلم سے جماعت کے نام ایک مفصل خط میں لکھا.438 خلافت عثمانیہ کا گیار هوان سال " آج جہاز عدن کے قریب ہو رہا ہے صبح چار بجے خشکی پر جہاز لگے گا.طوفان کے علاقہ سے جہاز خدا کے فضل سے نکل آیا ہے...رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گزر گئی ہے.مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوئے تھے اب سو جائیے مگر مدن قریب آرہا ہے.....اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے کا موقعہ ملے گا.اس لئے میں ان دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے......یہی کہتا ہوں کہ خط نصف ملاقات ہوتی ہے.میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اٹھانے دو.مجھے چھوڑ دو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہ شاید فون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت - دوستوں کی جماعت رہتی ہے.ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑے دیر کے لئے خالص اس سرزمین کی طرف پرواز کر کے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں ".خط کے آخر میں جماعت کو نصیحت فرمائی." اپنے آپ کو صاف رکھو.تا قدوس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے اتحاد محبت ، ایثار، قربانی اطاعت ہمدردی بنی نوع انسان، عفو ، شکر ، احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بناؤ.یاد رکھو تمہاری سلامتی سے آج دین کی سلامتی ہے ".جہاز ۲۳ / جولائی ۱۹۲۴ء کو ( ۹ بجے صبح کے قریب) بخیریت عدن پہنچا اور حضور نے بذریعہ تار اپنی خیریت کی اطلاع ارسال فرما دی.عدن سے پورٹ سعید تک ان جہاز بدن سے پورٹ سعید کی طرف چلا اور حضرت خلیفتہ اب المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کا وقت پہلے سے زیادہ دعا اور اس اہم سفر کے متعلق عملی پروگرام پر غور میں صرف ہونے لگا.چنانچہ ۲۴ / جولائی ۱۹۲۴ء کو آپ نے شام و مصر میں تبلیغ سلسلہ پر کئی گھنٹے دوستوں سے مشورہ لیا اور ایک سکیم تجویز فرمائی اور دوستوں کو تاکید فرمائی کہ سفر کی اہمیت، مقصد کی عظمت اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام وقت اس کی تیاری میں صرف ہونا چاہئے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے تا ہمیں ہر قسم کے برکات حاصل ہوں.غرضیکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کے پیش نظر یہی ایک امر تھا کہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو اسی تاریخ (۲۴/ جولائی)

Page 491

تاریخ احمدیت جلد ۴ 439 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال کو حضور دیر تک اسلامی عالم میں اتحاد عمومی پیدا کرنے کی ایک موثر تحریک کے قیام پر گفتگو فرماتے پر رہے.۲۵ جولائی کو گیارہ اور ۱۲ بجے کے درمیان جہاز جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گزرنے والا تھا.حضور نے ارادہ فرمایا کہ خاص طور پر دعا کی جائے چنانچہ حضور نے دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں بہت رقت انگیز دعائیں کیں - ۲۶/ جولائی کو حضور دن بھر مضمون لکھنے میں مصروف رہے.NA ۲۸-۲۷ جولائی کو حضور نے اپنے قلم سے جماعت کے نام دوسرا مکتوب لکھا.جو آپ کے اس اندرونی فکر و تشویش کا آئینہ دار تھا اور جو اس تصور سے آپ کو ہو رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یورپ اسلام کو تو قبول کرے مگر اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے.اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسلام کی بدلی ہوئی صورت پہلے یورپ میں پھر مار کی دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائے گا.حضور نے اس خط میں اپنی جماعت کو اس زبر دست خطرہ سے متنبہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا " ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھا ئیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو.پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے.اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا.اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم میں ایک نذیر عریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دیتا.جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا.پس کوشش نہ چھوڑنا.نہ چھوڑنا نہ چھوڑنا.آہ نہ چھوڑنا میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم نا قابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے.کاش وہ پیدا نہ ہوتا.یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے.وہ مانے یا نہ مانے تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ کہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہئے اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل و حرکت کو دیکھتے رہو اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کس کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا.یورپ کے لئے اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے "

Page 492

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 440 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال حضور مع خدام پورٹ سعید سے اسی دن ایکسپریس گاڑی سے قاہرہ پورٹ سعید سے قاہرہ تشریف لے گئے اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے مکان پر فروکش ہوئے.قاہرہ میں حضور کا قیام صرف دو دن رہا.مگر آپ کی برکت و توجہ سے دو دنوں میں ہی قاہرہ کے اندر سلسلہ کی تائید میں ایک نئی رو پیدا ہو گئی.حضور قیام مصر کی نسبت اپنے تاثرات و حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھرے...میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے.مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بناء پر کہتا ہوں.....مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسیٰ فرعون کی تباہی میں.بے شک اس وقت یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے میں نے قاہرہ پہنچتے ہی....اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصہ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا اور دو سرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا.تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کو مہیا کرنے میں...یہ علاقے تبلیغ کے لئے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی کچھ مل سکتی ہے میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات کے ایڈیٹروں کے پاس ملنے کے لئے بھیجا تھا جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئندہ ہر طرح مدد دینے کا وعدہ کیا.حتی کہ وطنی اخباروں نے بھی.علاوہ مذکورہ بالا لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے.بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے.چنانچہ جامع ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے....اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے.....اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابو العزائم صاحب ملنے کے لئے آئے یہ صاحب بہت بڑے پیر ہیں کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں.علاوہ ان لوگوں کے دو اور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے.لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقعہ نہ ملا ان میں سے ایک تو ترکی رئیس تھے.....دو سرے صاحب ایک وکیل تھے ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا انہوں نے......مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں

Page 493

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 441 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال احمدیہ مشن کو مضبوط کیا جائے.....چونکہ گرمی کا موسم ہے تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقعہ نہیں مل سکتا تھا.مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے دو ازہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست- متینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا.تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے.قاہرہ سے بیت المقدس تک حضور فرماتے ہیں.” دو دن کے قیام کے بعد ہم دمشق کی طرف روانہ ہوئے.مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا.مقامات انبیاء کے دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لئے وہاں ٹھہر گئے یہودی قوم کی قابل رحم حالت جو یہاں نظر آتی ہے.کہیں اور نظر نہیں آتی.بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین.....کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دو دن برابر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں جس دن ہم جگہ کو دیکھنے کے لئے گئے.وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا.عورتوں اور مردوں اور بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر بائبل کی دعائیں پڑھ پڑھ کر اظہار عجز کرنا ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا.....بیت المقدس میں سے مندرجہ ذیل مقامات قابل ذکر ہیں.ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی قبور اور وہ مقام جس پر حضرت عمر نے نماز پڑھی اور بعد میں اس کو مسجد بنادیا گیا اور حضرت عیسی کی پیدائش کے مقامات (بیت لحم وغیرہ.مؤلف ) وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں.میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے.مگر میرے نزدیک ان کی رائے غلط ہے یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے...قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے...پس میرے نزدیک مسلمان رؤساء کا یہ اطمینان بالاخر ان کی تباہی کا موجب ہو گا.فلسطین کے گورنرہائی کمشنر کہلاتے ہیں.اصل ہائی کمشنر آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں ان کی جگہ سر گلبرٹ کلین کام کر رہے ہیں.میں ان سے ملا تھا ایک گھنٹہ تک ان سے ملکی معاملات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.....مسلمانوں کو عام طور پر شکایت تھی کہ تعلیمی معاملات میں ہمیں آزادی نہیں.میں نے اس امر کے متعلق ان سے

Page 494

تاریخ احمدیت جلد ۴ 442 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال گفتگو کی اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے مجھے بتایا کہ ایک دن پہلے ہی انہوں نے ایک تجویز وزارت برطانیہ کے غور کے لئے بھیجی ہے....سمر کلیٹین صاحب کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت دلچسپی ہو گئی اور گو ہم نے دوسرے دن روانہ ہو نا تھا.مگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دو سرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہو ئیں.بیت المقدس سے دمشق تک فلسطین سے چل کر ہم حیفا آئے جہاں سے کہ دمشق کے لئے گاڑی بدلتی ہے.رات حیفا میں ٹھرنا پڑا.چونکہ دس بجے صبح سے پہلے کوئی گاڑی نہ جاتی تھی.صبح گاڑی لے کر میں سیر کے لئے گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ بہائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی مکہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں...ہم ایک سڑک پر آرہے تھے.ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عرف عبد البہاء کا مکان ہے...مولوی رحیم بخش صاحب - ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب مکان دیکھنے کو چلے گئے.شوقی آفندی تو رہاں موجود نہ تھے.ان کے چھوٹے بھائی اور بعض دوسرے رشتہ دار (اور) بچے موجود تھے...نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا...حضور ۴/ اگست ۱۹۲۴ء کی صبح کو حیفا سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر اسی شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دمشق پہنچے اور ۹/ اگست تک یہاں مقیم رہے.اللہ تعالی نے آپ کو مخالف حالات کے باوجود دمشق میں غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت عطا فرمائی.جس کی تفصیل خود حضور کے قلم سے لکھی جاتی ہے.فرماتے ہیں : " جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی.مشکل سے انتظام ہو مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی اے اللہ ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہوگی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں.تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما.جب میں دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے.عبد مکرم یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی.چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آئے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے.پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا.فساد کا خطرہ ہے.میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے.مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا.چند ایک نے

Page 495

د - جلد ۴ 443 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور هذا ابن المہدی کہتے اور سلام کرتے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں.ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا.اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا..اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے...غرض عجیب رنگ تھا کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے.کا پہیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہرئیے.یہ لفظ رہ گیا ہے.گویا انجیل کاوہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کر کے حضرت مسیح کو مخاطب کرنے کا ذکر ہے اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہا تو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا.اس نے ذرا نا واجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو.ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے اس پر وہ چلا گیا اور رؤسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بے وقوف تھا.اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں یہ ایک غیر معمولی بات تھی.پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا.ایک مولوی عبد القادر صاحب (المغربی- ناقل) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسی نے اترنا ہے کہنے لگے.مسجد امویہ کا ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے ایک اور نے کہا حضرت عیسی آکر خود بنائیں گے.اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے.دیکھ تو چلیں صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذو الفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے.جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منارہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے.میں نے کہا یہی وہ منارہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے.یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا.مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دوہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی " - "دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی...اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کئے.دمشق کے تعلیم یافتہ طبقے نے نہایت گہری دلچسپی لی.تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے کثرت سے فورا فروخت ہو جاتے تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اوپر شیخ عبد القادر مغربی کا ذکر فرمایا ہے.ان کا ایک خاص واقعہ بھی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے.ان صاحب نے جو دمشق کے ادیب شہیر تھے حضور سے کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں.مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی......tt A-

Page 496

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 444 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن وحدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں.مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر دمشق میں دار التبلیغ قائم کرنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو بھجوا دیا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا.دمشق سے پورٹ سعید تک حضور ۱۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے.اور پھر سکہ میں بہائیوں کا مرکز دیکھنے تشریف لے گئے.مگر وہاں جا کر آپ کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب آپ کو معلوم ہوا کہ بلکہ میں کوئی بھائی نہیں ہے بلکہ مکہ سے تین چار میل پرے ایک گاؤں ہے جس کا نام منشیہ ہے.اس میں یہ لوگ رہتے ہیں.بڑی مشکل سے موٹروں پر وہاں پہنچے.بہجہ میں مرزا محمد علی صاحب سے جو مرزا عباس علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.معلوم ہوا کہ یہ گمنام سی جگہ ہے کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا ہے تو مکان کے ایک گوشہ میں ٹھہر جاتا ہے.جب بہائیوں کی تعداد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ صحیح تعداد تو نہیں بتائی جاسکتی مگر جو کچھ بہائی ہیں ایران ہی میں ہیں پھر کچھ امریکہ میں ہیں باقی ملکوں میں یونہی تھوڑے ہیں.حضور بجہ میں دو گھنٹے تک ٹھرے مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ اس جگہ کوئی اور بھی آباد ہے.یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنے قافلہ سمیت واپس حیفا پہنچے اور دوسرے دن صبح پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے حنا Ar پورٹ سعید سے برنڈ زی تک ۱۳ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ کا جہاز جس کا نام پلنا تھا پورٹ سعید سے برنڈزی کے لئے روانہ ہوا.حضور کی طبیعت متواتر سفروں شب بیداریوں اور غذا کی بے ترتیبیوں اور خصوصاً د مشق کی متواتر لمبی لمبی تقریروں کی وجہ سے پہلے ہی ناساز تھی کہ بیروت پہنچ کر بیماری کا سخت حملہ ہوا.بیروت سے حیفا تک کا سفر موٹر کے ذریعہ کرنا پڑا اور اس دن حضور کو دس بارہ اسہال ہوئے.مکہ پہنچ کر حضور نے پھر اپنی تکلیف کا کچھ خیال نہ کیا اور گیارہ بجے رات تک بہائیوں سے گفتگو فرماتے رہے.۱۲ بجے شب حیفا میں پہنچے اور پھر بیماری کی حالت میں حیفا سے پورٹ سعید تک آئے.صحت کی خرابی کی یہ حالت دیکھ کر جہاز

Page 497

ت جلد ۴ 445 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال کے ڈاکٹر نے سفر جاری رکھنے کی بجائے کسی صحت افزا مقام پر آرام کرنے کا مشورہ دیا مگر حضور نے سفر منقطع کرنا پسند نہ فرمایا.حضور کو پورٹ سعید میں قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کے خطوط سے معلوم ہوا کہ اخبار "پیغام صلح " آپ کے سفریورپ کے خلاف بہت زہر اگل رہا ہے.اس پر حضور نے ۱۵/ اگست ۱۹۲۴ء کو تھوڑی دیر میں اہل پیغام سے خطاب کرتے ہوئے ایک نظم کہی جس کے تین شعر یہ تھے.- پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البحث ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ماننے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے قضا وہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیروں سے حضور نے اس نظم کی تشریح میں ایک نوٹ سپرد قلم کر کے پوری نظم الفضل کو اشاعت کے لئے بھجوادی -۱۲ / اگست ۱۹۲۴ء کو ساڑھے نو بجے صبح آپ کا جہاز اٹلی کی بندرگاہ برنڈ زی پر پہنچا.برنڈزی سے لنڈن حضور مع خدام برنڈزی سے ساڑھے چھ بجے شام کی گاڑی سے سوار ہو کر پوپ کا مرکز ہے.۷ ا مر ا گست ۱۹۲۴ء کو ساڑھے نو بجے روما میں داخل ہوئے جو عیسائیت کے روما میں حضور کا قیام چار روز رہا.اس عرصہ میں حضور برابر اشاعت سلسلہ کے کام میں مصروف رہے.اخبارات کے نمائندوں اور فوٹوگرافروں نے آپ سے انٹرویو کئے.حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے بھی ملاقات کی اور اسے سلسلہ احمدیہ کے اغراض و مقاصد بتائے.مسولینی نہایت AA اکرام سے پیش آیا.حضور کا ارادہ پوپ سے ملنے اور ان کو تبلیغ اسلام کرنے کا بھی تھا.مگر پوپ نے آپ کی آمد پر ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دیا.تاہم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ان تک جو پیغام حق پہنچانا چاہتے تھے وہ خدا تعالیٰ نے دوسرے طریق پر پہنچا دیا.یعنی روما کے سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار لاٹر بیونا" نے حضور کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا.حضور سے سوال کیا گیا کہ آپ پوپ کو ملتے تو کیا کہتے ؟ حضور نے جواب دیا.” میں جب پوپ سے ملتا تو سب سے بہترین تحفہ جو میرے پاس ہے میں اسے پیش کرتا اور وہ یہ ہے کہ میں اسے دعوت اسلام دیتا اور اس نور کی طرف بلاتا جو انسانوں کو خدا تک پہنچا دیتا ہے اور یہ لفظ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے نشانات اس میں پائے جاتے ہیں......بڑے بڑے آدمی عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں جن کو بڑا نیک اور متقی کہا جاتا ہے.مگر وہ کوئی نشان اپنی

Page 498

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 446 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال صداقت میں نہیں دکھا سکتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کا یہ راہ نہیں.اور یہ سچ ہے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ دنیا پر ثابت کر دے کہ یہ قوت اور طاقت اب اسلام میں ہے....پس میں پوپ کو اس اسلام کی بشارت دیتا اور اس کو سنا تا کہ ہم کو دہ نشان دیئے گئے ہیں جو خدا کے برگزیدہ کو ملتے ہیں".روما میں حضور نے اصحاب کہف کی نمازیں بھی دیکھیں جس کی تفصیل حضور نے اپنی تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۹۲۱-۹۲۲ پر درج فرمائی ہے.روما سے ۲۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو بوقت شام روانگی ہوئی اور گاڑی دو سرے دن صبح (۲۱/ اگست کو) و بجے کے قریب پیرس فرانس پہنچی.پیرس سے کیلے آئے اور بذریعہ جہاز رود بار انگلستان عبور کر کے ڈوور آئے اور ڈوور سے گاڑی لے کر ۲۲ / اگست ۱۹۲۴ء کو بجے کے قریب لنڈن کے مشہور وکٹوریہ سٹیشن پہنچے.جہاں مبلغ اسلام اور دوسرے اصحاب استقبال کے لئے حاضر تھے.حضور نے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی اپنے قافلہ سمیت دعا کی.اس نظارہ کا فوٹو لنڈن کے اخبارات میں بھی شائع ہوا.اسٹیشن سے حضور لڈکیٹ (باب اللہ ) پہنچے اور سینٹ پال کے گر جا کے دروازہ کے پاس صحن میں آپ نے اسلام کی کامیابی اور کسر صلیب کے لئے دعا کی.یہ نظارہ لنڈن نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس لئے چاروں طرف خلقت کا اثر د حام ہو گیا.حضور ایک لمبی دعا کرنے کے بعد اپنے خدام سمیت اپنی قیام گاہ (واقع پیشم پیلس نمبر 1) میں تشریف لے گئے اور دعا کے بعد قیام فرما ہو گئے.؟ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جس دن سفر یورپ کے لئے برطانوی پریس میں چرچا ردانہ ہوئے تھے.برطانوی پریس میں آپ کی آمد کی خبریں شائع ہو نا شروع ہو گئی تھیں.مگر لندن میں درود کے بعد تو مصور اور غیر مصور اخبارات نے اتنی کثرت سے آپ کے فوٹو اور حالات وغیرہ شائع کئے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے.اور کئی لوگوں نے بر ملا اظہار کیا کہ پریس نے اتنی اہمیت اور شہرت لنڈن میں آنے والے کسی بڑے سے بڑے لارڈ کو بھی نہیں دی جتنی آپ کی تشریف آوری پر پریس کے علاوہ فلموں میں آپ کے اور آپ کے رفقاء کے مناظر دکھائے گئے اس طرح خدا نے انگلستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کی شہرت کا خود ہی سامان فرما دیا.قیام لنڈن کا پہلا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء حضور نے یہاں پہنچ کر سب سے پہلا اہم کام یہ کیا کہ اپنے رفقاء کو مختلف

Page 499

447 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں فرائض سپرد کر کے ایک انتظامیہ کمیٹی قائم کر دی جس کے پریذیڈنٹ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور سیکرٹری مولوی محمد الدین صاحب کو تجویز فرمایا.ملک غلام فرید صاحب مکرمی مولوی محمد الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو پریس سے رابطہ کے لئے مقرر فرمایا.ہندوستان میں سفر کی مفصل رپورٹ بھیجوانے کا کام ابتداہی سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذمہ تھا جو وہ برابر سرانجام دے رہے تھے.ڈاک کی خدمت حافظ روشن علی صاحب ، چوہدری محمد شریف صاحب وکیل شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو اور ملاقات کی خدمت ذو الفقار علی خان صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے سپرد ہوئی.اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور چوہدری علی محمد صاحب کو خوردنوش کے انتظامات پر لگایا گیا.چوہدری علی محمد صاحب کو چونکہ اکثر حضور کی خدمت میں بھی حاضر رہنا پڑتا تھا اس لئے زیادہ ذمہ داری حضرت بھائی صاحب پر تھی.جو اپنی اصل ڈیوٹی کے علاوہ گاہے گاہے جماعت ہندوستان کو حالات سے باخبر رکھنے کے لئے خطوط بھی لکھتے تھے اور حضور کی ڈاک کے لئے بھی وقت دیتے تھے.انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ حضور نے قیام لندن کے پہلے ہفتہ میں ایوننگ سٹینڈرڈ اور اخبار ”سٹار " کے نمائندوں کو انٹرویو دیا.ڈاکٹر عبدالمجید شاہ صاحب لاہوری اور مسٹر عبد اللہ کو (انگریز) کو شرف ملاقات بخشا اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال فرمایا.حضرت حافظ روشن علی صاحب کے تصوف " کے مضمون پر نظر ثانی فرمائی اور ضروری ہدایات کے ساتھ مولوی محمد دین صاحب کو ترجمہ کے لئے دیا.یہ مضمون ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو مولوی محمد دین صاحب ہی نے پانچ بجے شام سر پیٹرک نگن کی صدارت میں سنایا اور بہت مقبول ہوا.اس ہفتہ حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہمراہ ویمبلے اور انڈیا آفس میں تشریف لے گئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ انگلستان نے اخبارات کے نمائندوں کو دعوت دی.جس میں مذاہب کانفرنس کی انتظامیہ کے بعض ممبر ( کرنل سینگ ہینڈ اور مس شارپلز) بھی شریک ہوئے.اس دعوت میں حضور نے اہل انگلستان کے نام ایک مفصل پیغام دیا.جس کا فصیح و بلیغ انگریزی زبان میں فی البدیہ انگریزی ترجمہ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا - فرمایا.میں اس محبت اور اس اخلاص کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے رکھتا ہوں اور جو میں سمجھتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی صحبت اور اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے انگلستان آیا ہوں.میں ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے کیں اس امر پر یقین رکھتا ہوں کہ مغرب جلد ان صداقتوں کو قبول کرے گا جو بانی سلسلہ احمدیہ جن کا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی اور کل مذاہب کے موعود ہونے کا تھا

Page 500

تاریخ احمدیت جلد ۴ 448 خلافت ثانیہ کا گیار لائے تھے.جب وہ صرف اکیلے تھے اور انکے ساتھ کوئی نہ تھا بلکہ علاوہ ہندوؤں مسلمانوں اور مسیحیوں کے جو طبعا ان کے مخالف تھے گورنمنٹ بھی ان پر مہدی کے دعوی کی وجہ سے شک کرتی تھی اس وقت انہوں نے یہ خبر دی تھی کہ خدا تعالیٰ ان کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور انگلستان میں خصوصاً اور دوسرے مغربی ممالک میں عموماً لوگ ان کے دعوئی کو قبول کر کے اسلام میں جس کے زندہ کرنے اور ان غلطیوں سے پاک کرنے کے لئے جو اسے لوگوں کے اجتہاد کی وجہ سے اس میں پیدا ہو گئی تھیں جو خدا کے الہام سے مدد پا کر اس کو پیش نہیں کرتے تھے داخل ہو جائیں گے اس دعویٰ کو چونتیس سال گزرے اور آج دنیا کے پر وہ پر ایک ملین کے قریب آدمی ان کو مانتا ہے اور یوروپین ممالک میں اور امریکہ میں بھی کئی لوگ ان پر ایمان لاچکے ہیں.پس ماضی پر نظر کرتے ہوئے میں یقین کرتا ہوں کہ بقیہ حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو کر رہے گا.اسلام یعنی وہ اسلام جسے مسیح موعود نے زندہ کیا ہے اور جو انسانی اجتہادوں سے پاک ہے آخر پھلے گا اور انگلستان اس طرح ایک ایسے شخص سے نور پائے گا جو اس کے ماتحت ملک میں رہتا تھا جس طرح روم نے انہیں سو سال پہلے اپنے ایک ماتحت ملک کے نبی سے نور پایا ہے.یہ امر مشکل معلوم ہوتا ہے مگر کون خیال کرتا تھا کہ ناصرہ کا مصلح دنیا پر غالب ہو گا.خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیتا ہے.جن کو دنیا ادنیٰ اور کمزور سمجھتی ہے تا اس کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اس کو انسانی مدد کا محتاج نہ سمجھ لیں میں اہل انگلستان سے امید کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے اس شخص کے دعویٰ پر غور کرے جو یہ کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سے اسی طرح بولتا تھا جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں سے بولا اور ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کی طرف توجہ کریں گے تو وہ اسی طرح خدا کا جلال اپنے اندر پائیں گے اور اس کا کلام سنیں گے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواریوں نے محسوس کیا اور سنا.مسیح موعود کا دعویٰ تھا کہ وہ صلح کے شہزادے ہیں اور یہ کہ ان کے ہاتھ پر دنیا اکٹھی کی جائے گی اور امن قائم ہو گا پس ہر اک امن پسند کا فرض ہے کہ وہ ان کے دعوئی پر غور کرے تا اس کی سستی اس مقصد کو پیچھے نہ ڈال دے جس کے حصول کے لئے وہ کوشاں ہے.کوئی کچی اخوت قائم نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد خدا کے ساتھ تعلق پر نہ ہو کیونکہ بھائیوں کا رشتہ باپ کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو باپ کو پہچانتا ہے وہ باپ کے حق کو پہچان سکتا ہے اور اس زمانہ میں صرف مسیح موعود ہی ایک ایسا شخص ہے جو دعوی کرتا ہے کہ وہ باپ سے اسی دنیا میں انسان کو ملا دیتا ہے اور نہ صرف دعوی کرتا ہے بلکہ ہزاروں جنہوں نے اس کی تعلیم پر عمل کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی طرح سنا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواری سنتے تھے چنانچہ راقم مضمون بھی ان میں سے ایک ہے.میں امید کرتا ہوں کہ انگلستان ہمارے مشن کی ہمدردانہ طور پر مدد کرے گا اور تمام وہ لوگ جو بچے طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کے مشتاق

Page 501

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 449 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ہیں ملامت اور طعن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس طرف متوجہ ہوں گے اور انگلستان کا پریس جو آزادی کا حامل ہے اس حقیقی آزادی کے حصول میں جس کے بغیر بچے اپنے باپ سے نہیں مل سکتے ہماری مدد کریں گے.جو لوگ خیالات میں ہمارے مخالف ہیں کم سے کم ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا اور ان کا مقصد ایک ہے یعنی دنیا میں نیکی کو قائم کرنا اور خدا تعالٰی سے انسان کا تعلق قائم کر کے بھی اخوت کو پیدا کرنا جس کا نتیجہ امن ہوتا ہے.جب ہم مقصد کی یگانگت پر غور کر کے اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں گے تو یقینا یہ یگانگت ایک ذرائع کے اختیار کرنے پر بھی ہمیں مجبور کر دے گی.چونکہ ہمارا مقصد خدا اور بندوں کے درمیان اور بندوں اور بندوں کے درمیان نیک تعلق قائم کرنا ہے میں اہل انگلستان سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مشرقی سوال کی طرف زیادہ توجہ کریں.مشرق و مغرب باوجود کوشش کے روز بروز ایک دوسرے سے جدا ہو رہا ہے اور اگر جلد اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ دنیا کے لئے اچھا نہ ہو گا.عقمندوں کو واقعات کی موجودہ صورت کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسے حالات جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں آخر کار کیا نتیجہ پیدا کیا کرتے ہیں قوموں کی زندگی محدود نہیں ہوتی اس لئے ان کو اپنے مستقبل قریب پر نہیں بلکہ مستقبل بعید پر نظر ڈالنی چاہئے.دنیا اپنی موجودہ حالت پر ہرگز نہیں رہ سکتی.اگر اس میں تبدیلی نہ ہوئی تو یا دونوں تہذیبیں نئی اور پرانی تباہ ہو جائیں گی یا ان میں سے ایک ممر کیوں نہ دونوں ہی قائم رہیں؟ ہمدردی اور دور اندیشی اس بعد کو دور کر سکتے ہیں مگر یہ کام حکومتوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ جب تک قومیں اس طرف توجہ نہ کریں گی یہ کام نہ ہو گا.وہ لوگ کو تہ اندیش ہیں جو اس کام کے لئے حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں حکومتیں خود نہیں ہلا کرتیں بلکہ قومیں ان کو ہلایا کرتی ہیں.ایک زبر دست طاقت نے دنیا میں کام شروع کیا ہوا ہے کیوں نہ ہم اسے اپنے مفید مطلب استعمال کرلیں ایک دریا جب اس کے پانی کو استعمال کیا جائے لاکھوں ایکٹر کو سیراب کر دیتا ہے لیکن جب اس کو اپنا کام کرنے دیا جائے ہزاروں گاؤں اور سینکٹروں جانوں کو ہلاک کر دیتا ہے.سو آؤ ہم سب مل کر بہتری کے لئے کوشش کریں اور بجائے اجاڑنے والوں کے آباد کرنے والے بنیں.قیام لنڈن کا دوسرا ہفتہ ۲۹/ اگست سے ۱۴ ستمبر ۱۹۲۴ء تک دوسرے ہفتہ میں حضور کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا.جس کی بڑی وجہ کابل میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی سنگساری کا المناک حادثہ تھا.اس حادثہ کی اطلاع ملنے پر حضور نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری اور مناسب اقدامات فرمائے.اور اس کے لئے

Page 502

تاریخ احمدیت جلد ۴ 450 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال دن رات ایک کر دیا اور یہ سلسلہ لنڈن میں قیام کے آخر تک برابر جاری رہا.اس کے علاوہ اس دوسرے ہفتہ میں حضور برائٹن کے قصبہ میں تشریف لے گئے اور جنگ عظیم میں جان دینے والے سپاہیوں کی یادگار میں چھتری میں دعا کی کہ جس طرح یہ ایک نشان ہے ان لوگوں کا جو ایک دنیاوی غرض کے لئے متحد ہوئے.اسی طرح اللہ تعالٰی حضرت مسیح موعود کی عظیم الشان چھتری کے نیچے مشرق و مغرب کو جمع کر دے.حضور نے دعا سے پہلے ایک تقریر بھی فرمائی.سینما والوں نے اس نظارہ کی تصویریں سینما میں دکھا ئیں اور اخبارات نے مفصل خبریں شائع کیں.حضور چھتری میں دعا کے بعد ایوان شاہی کو گئے اور اس کے دروازہ پر ایک ہجوم کے سامنے اپنا پیغام سنایا جس کا ترجمہ مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا.اسی ہفتہ آپ نے مسئلہ تبلیغ پر مجلس مشاورت منعقد فرمائی." سپر چولزم سوسائٹی" کے ایک جلسہ میں شمولیت فرمائی اور مختلف اخبارات اور مذہبی کانفرنس کے نمائندوں سے گفتگو کی.اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ برائٹن کی یادگار تقریب کے فلمی نظارے دنیا بھر کے سینما گھروں میں دکھلائے گئے چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی رپورٹ میں ہے کہ خدا تعالی کی قدرتیں بھی عجیب در عجیب ہیں ساری دنیا میں سلسلہ احمدیہ کا ذکر پہنچانے کے لئے یہ سامان کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کو برائٹن میں دعوت دی گئی.حضور تشریف لے گئے اور سارا قافلہ ہمرکاب تھا ادھر فوٹوگرافروں کے دل میں تحریک ہوئی اور وہ وہاں جاپہنچے.انہوں نے وہ نظارے فلموں میں بھر کر سینما میں بھیج دیئے.اب وہ فلمیں ہیں جو عراق میں ، عرب میں ہمصہ میں شام میں امریکہ وافریقہ میں غرض تمام دنیا میں چکر لگا رہی ہیں " - - " حضور نے تیسرے ہفتہ میں بھی تبلیغ قیام لنڈن کا تیسرا ہفتہ ۵ / ستمبر تا ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء سلسلہ کی مہم اور تیز کر دی.چنانچہ نے ا ستمبر ۱۹۲۴ء کو بہت سے انگریز مردوں، عورتوں ہندوستانی طالب علموں اور سفارت ترکیہ اور دوسرے معزز مسلمانوں کو دعوت پر بلایا گیا.جس میں حضور ایدہ اللہ تعالی کا ایک اور پیغام محبت حسب سابق مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت قابلیت سے پڑھ کر سنایا ۹۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین " کے اجلاس منعقدہ گلڈ ہاؤس) میں پہلا انگریزی لیکچر دیا جو بہت پسند کیا گیا.پھر 1 ستمبر ۱۹۲۴ء کو قیام امن کے مسئلہ پر لیگ آف نیشنز کے شعبہ مذہب و اخلاق کے سیکرٹری مسٹر ایل سن اور مسٹررین سے تفصیلی گفتگو فرمائی اور حکیمانہ انداز میں بتایا کہ جب تک اسلامی اصولوں پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد قائم نہیں ہوگی یہ اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی - 1.0

Page 503

451 ثانیہ کا گیارھواں سال چوتھے ہفتہ کا آغاز جمعہ سے ہوا.قیام لنڈن کا چوتھا ہفتہ ۱۲/ ستمبر تا ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء جو حضور نے پڑھایا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ اسے شہید افغانستان کی طرح ہر وقت شہادت کے لئے تیار رہنا چاہئے - ۱۳/ تمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے پورٹ سمتھ میں دو لیکچر دیئے ایک " مسیح کی آمد ثانی " اور دوسرا " پیغام آسمانی " پر ۱۵ ستمبر کو حضور نے ہندوستانی طلبہ سے خطاب فرمایا ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے کانفرنس کے لئے مجوزہ مضمون کا خلاصہ لکھا.۱۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شهید کابل کی شہادت سے متعلق ایک احتجاجی جلسہ میں تقریر فرمائی.A قیام لندن کاپانچواں ہفتہ ۱۹ سے ۲۵/ ستمبر تک ۱۹ ستمبر۱۹۲۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قومی اخلاق مضبوط کرنے پر زور دیا.جمعہ کے بعد وہ میلے کا نفرنس کے پریذیڈنٹ سرای.ڈی راس سے ملاقات کی.آپ کا شمار انگلستان کے نامور مستشرقین میں ہوتا ہے.مزاج پرسی کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کی تشریف آوری پر انگلستان کا پریس بہت دلچسپی لے رہا ہے.اسی شام آپ نے سینٹ لوکس ہال میں "حیات بعد الموت" پر شاندار لیکچر دیا -۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لیگوس ( نائجیریا) کے دو حاجی صاحبان (جن میں سے ایک احمدی تھے) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.۲۱ ستمبر ۱۹۲۲ء کی شام کو حضور کی کرنل ڈگلس سے ملاقات ہوئی.یہ وہی ڈگلس تھے جنہوں نے ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ بے بنیاد پا کر خارج کر دیا تھا اور عدل و انصاف کا بہترین نمونہ دکھایا تھا.۲۲ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ریملے کا نفرنس کا افتتاح ہوا اور حضور معہ رفقاء اس کے اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے.۲۳/ تمبر ۱۹۲۴ء کا دن سفر کانفرنس میں حضور کے مضمون کی شاندار کامیابی یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے.کیونکہ اس دن ویمبلے کا نفرنس میں حضور کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا.جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا رڈیا پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا.حضور کے مضمون کا وقت ۵ بجے شام مقرر تھا جب کہ لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام متعلق مضامین سن رہے تھے.انگلستان کے باشندے زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں مگر جو نہی آپ کی تقریر کا وقت آیا وہ نہ صرف وہیں اپنی اپنی جگہ پورے شوق و ذوق سے بیٹھ گئے بلکہ دیکھتے

Page 504

452 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے بھر گیا.کسی اور لیکچر کے وقت حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوئی.اجلاس کے صدر سر تھیوڈر مار سن نے حضور کا سامعین سے تعارف کرانے کے بعد نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محظوظ فرما ئیں.اس پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی جو اپنے رفقاء کے ساتھ سٹیج پرہی تشریف فرماتھے کھڑے ہوئے اور انگریزی میں فرمایا.مسٹر پریذیڈنٹ بہنو اور بھائیو میں سب سے پہلے خداتعالی کا شکریہ ادا کر تا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے.اس کے بعد میں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنا ئیں.میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پرچہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں.کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں.مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جا تا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے.اس کے بعد حضور نے مکرم چودھری صاحب کے کان میں کہا کہ گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا".چنانچہ مکرم چودھری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک گھنٹہ میں نہایت بلند اور نہایت موثر اور نہایت پر شوکت لہجہ میں یہ مضمون پڑھ کر سنایا.چودھری صاحب ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اللہ تعالٰی نے روح القدس سے ان کی تائید فرمائی.حضرت امیر المومنین کا مضمون اور مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی زبان نے (جسے حضور نے ایک مجمع میں میری زبان کہا تھا ) حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی.ایسا معلوم ہو تا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہیں.تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے.جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو ان کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے.غلامی سود اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا.اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا.تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تک تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ ( سر تھیوڈر ماریسن) کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ انتظار کرنا پڑا.پریذیڈنٹ نے کہا.مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں.مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرالیا ہے میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب خوبی

Page 505

تاریخ احمد بہت جلد ۴ 453 خلافت ثانیہ کا گیار عوان سال خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں.اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں.پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے.کیا آپ کا خیال نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لئے جو آج آپ کو حاصل ہوئی ہے آپ یہاں تشریف لائے.اجلاس ختم ہونے پر سر تھیوڈر مار مسن دیر تک سٹیج پر کھڑے کھڑے مختلف باتیں کرتے رہے.اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے.مضمون کے پڑھنے پر لوگوں نے مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی بہت مبارکباد دی.چنانچہ (فری چرچ کے ہیڈ) ڈاکٹر والٹر واش نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا.میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سنے کا موقعہ ملا.قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے پھر کہا اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے.ایک پادری منش نے کہا تین سال ہوئے مجھے خواب میں رکھا یا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا ہے.مس شارپلز کانفرنس کی سیکرٹری نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے ہز ہولی نس (خلیفتہ المسیح الثانی) کے متعلق کہا یہ اس زمانہ کالو تھر معلوم ہوتا ہے بعض نے کہا ان کے سینہ میں ایک آگ ہے.ایک نے کہا یہ تمام پر چوں سے بہتر پرچہ تھا.ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے.یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے.مسٹرلین نے جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدیدار تھے تسلیم کیا کہ خلیفتہ المسح کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا.پریس نے بھی اس عظیم الشان لیکچر کی نمایاں خبریں شائع کیں اور اس کی عظمت کا اقرار کیا.چنانچہ

Page 506

تاریخ احمدیت جلد ۴ 454 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال مانچسٹر گارڈین " نے (۲۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں) لکھا.اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا.نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے تھے.اس فرقہ کی بنا ان کے قول کے بموجب آج سے چونتیس سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے اس سلسلہ کا یہ دعوی ہے کہ خدا تعالٰی نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالی تک پہنچائے.ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب ہر ہولی نس خلیفتہ المسیح الحاج میرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصار اخلیفتہ المسیح ہے مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی.جس کا عنوان ہے اسلام میں احمدیہ تحریک آپ کے ایک اور شاگر دنے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا.آپ آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی.ایک پُر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا.جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور اس نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا.اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئر ز کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا".( ترجمہ ) قیام لنڈن کا چھٹ ہفتہ ۲۶/ ستمبر سے ۲/ اکتوبر تک ۱۲۶ تمبر کو حضور نے کنز رویڈ کی HA درخواست پر ڈچ ہال لنڈن میں ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع پر ایک معلومات افزا لیکچر دیا - ۲۸/ ستمبر کو آپ کا ایک اہم مضمون "رسول کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیم سے نوجوان بچے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں " کے موضوع پر لنڈن فیلڈ میں پڑھا گیا ۲۹/ ستمبر کو حضور کا بہت سا وقت ہندوستان کی ڈاک 1 - میں صرف ہوا.اسی ہفتہ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ " ریویو آف ریلیجر " کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لنڈن سے شائع ہوا کرے.۲ اکتوبر کو حضور "ولیم دی کنگر" والی خواب کو پورا کرنے کے لئے خلیج میونسی پر پہنچے اور ایک کشتی لے کر اس مقام کی طرف تشریف لے گئے.جہاں ولیم دی کنکر ر " اترا تھا.حضور کشتی چھوڑ کر قریب ہی ایک مقام پر جس کا نام الیکرسی (لنگر گاہ) ہے.کھڑے ہوئے اور خواب کی طرح اسی شکل و ہیئت میں ایک لکڑی پر دایاں پاؤں رکھ کر ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کی.حضرت بھائی

Page 507

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 455 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال عبد الرحمن صاحب قادیانی کا بیان ہے کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی اور اس کے ساتھ ایک ربود گی بھی تھی.اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آپ نے دعا فرمائی.اس مقام کے پاس ہی ویلنٹائن نام ایک برج سا ہے جس پر ایک توپ رکھی ہوئی تھی.حضور نے نماز قصر کر کے پڑھی اور اس میں بھی لمبی دعا کی اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں اور فرمایا.کسری کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو صحابی نے مبارک فال لیا کہ کسری کا ملک ملی گیا اور لے کر رخصت ہوا.شہنشاہ ایران نے آدمی بھیجے کہ وہ مٹی لے آئیں.مگر صحابی نے واپس نہ کی اور خدا نے بھی اس مبارک فال پر وہ سرزمین صحابہ کو دے دی.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور درد صاحب نے ان سنگریزوں کی دو دو مٹھیاں بھر کر اپنی جیبوں میں ڈال لیں.یہاں سے فارغ ہوتے ہی بھائی جی کے دل میں ایک پُرزور تحریک ہوئی اور آپ نے باآواز بلند مبارک باد دی اور بہت جوش سے حضرت مسیح موعود کا یہ مصرع پڑھا.ع تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں ؟ ۳ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے قیام لنڈن کا ساتواں ہفتہ ۳/ اکتوبر سے ۹/اکتوبر تک خطبہ جمعہ پڑھا اور کانفرنس مذاہب عالم کے آخری اجلاس سے اردو میں خطاب فرمایا.جس پر نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا گیا.لیکچر ہال بالکل پر تھا.نیز شام کو حضور نے " ریویو آف ریلیجز " لنڈن کی ترتیب مضامین اور دیگر امور پر مجلس شوری منعقد فرمائی - ۴/اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور مع رفقاء انگلستان کے نئے مبلغ مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو لے کر پٹنی کے اس مکان کے دروازہ پر تشریف لے گئے.جو مجوزہ مسجد میں کھلنے والا تھا.اس مقام پر کھڑے ہو کر حضور نے تعمیر مسجد کی سکیم کا مختصر ذکر فرمایا.پھر مکان کے اس کمرہ میں تشریف لے گئے.جہاں ان دنوں نمازیں ہوتی تھیں اور بہت لمبی دعا فرمائی اور اس کے بعد اپنے دست مبارک سے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو اس مکان کی چابی عطا فرمائی اور پھر مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ان کے نائب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو مفصل ہدایات دیں ۷۰ اکتوبر کو حضور نے دار الامراء (House of Lords) کا اجلاس دیکھا اور 8 اور 9 اکتوبر کو دار العوام House of commons) کا اجلاس دیکھنے تشریف لے گئے.قیام لنڈن کا آٹھواں ہفتہ ۱۰/ اکتوبر سے ۱۶/ اکتوبر تک یہ ہفتہ حضور کی گوناگوں مصروفیت کا ہفتہ تھا.چنانچہ حضور نے ۱۰ را کتوبر کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.ایک ڈاکٹر سے مشورہ کے لئے

Page 508

تاریخ احمدیت جلد ۴ 456 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تشریف لے گئے.۱۲/ اکتوبر کو نو مسلموں کو پانچ گھنٹہ تک تبلیغ و ہدایت فرمانے میں مصروف رہے نیز انگریز مردوں اور عورتوں سے مختلف مسائل سے متعلق دلچسپ مذہبی گفتگو فرمائی.چونکہ ۱۴/ اکتوبر کو سامان سفر تھا مس لک اینڈ سنز (Thomas cook and sons) کے سپرد کیا جانے والا تھا اس لئے ۱۳ اکتوبر کا دن سامان کی تیاری میں گزرا - ۱۵/ اکتوبر کو حضور نے " اور منینل سکول آف سٹڈیز " دیکھا.قیام لنڈن کا آخری ہفتہ کے ار اکتوبر سے ۲۴ اکتوبر تک اب ہم قیام انگلستان کے حالات بیان کرتے ہوئے اس کے آخری مگر ا ہم ہفتہ میں پہنچ گئے ہیں.اس ہفتہ کا آغاز "مسجد فضل " کی بنیاد کے ابتدائی انتظامات سے ہوا.اور اختام رخت سفر باندھنے پر.اس طرح وہ دن آپہنچا جس کے انتظار میں آپ فرماتے ہیں.آہ کیسی خوش گھڑی ہو گی کہ بانیل و مرام باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں اس ہفتہ کا یادگار دن ۱۹ "مسجد فضل" کے سنگ بنیاد کایاد گاردن (۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) اکتوبر ۱۹۲۴ء ثابت ہوا.جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالی نے نہ بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں "مسجد فضل " (۶۳ میلروز روڈ - لنڈن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا.اس تقریب پر سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لنڈن مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے خوش آمدید کا مختصر ایڈریس پڑھا.جس کے بعد تمام حاضرین مقام بنیاد کی طرف گئے.جہاں پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحب نے تلاوت فرمائی.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض وغایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا." پیشتر اس کے کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالی کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے.تاکہ دنیا میں خداتعالی کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف (جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں) متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خداتعالی کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشر طیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ

Page 509

تاریخ احمدیت جلد ۴ 457 خلافت حاشیہ کا گیارھواں سال ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی.دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی.اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کر کے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے".اس مضمون کے بعد (جس کا حاضرین پر ایک گہرا اثر تھا) حضرت خلیفتہ المسیح نے بنیادی پتھر رکھا جس پر انگریزی میں ایک مضمون درج تھا.جس کے الفاظ ہم حضرت خلیفتہ المسیح ہی کے خط کے عکس کی صورت میں اگلے صفحہ پر درج کرنے کے علاوہ ذیل میں بھی نقل کر دیتے ہیں.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر.قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمين.میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے.خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالٰی کا ذکر انگلستان میں بلند ہو.اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاریں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے.اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لئے اس مسجد کو نیکی ، تقوی، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفی خاتم النبین الا اور حضرت احمد مسیح موعود نبي الله بروز و نائب محمد علیهما الصلوۃ و السلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خدا تو ایسا ہی کر.۱۹ اکتوبر ۶۱۹۲۴

Page 510

تاریخ احمد بات - جلد ۴ 458 اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر صر قال ان صلواتی د تشکی و همیایی و مماتي لله رب العالمین خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ہیں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ جسکا مرکز قادریان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کیے لیے اور اس غرض سے کہ خدا تعالے کا ذکر انگلستان میں طبیع ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پا دیں جو نہیں ملی ہے آج ہو ربیع الاول سان سرو کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی رس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائیے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کر رہے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی تقوی ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلا نی کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد میں موجود نہیں اللہ بروز و نائب محمد علیم الصلوۃ و السلام کی نورانی کرنوں کو اس تک اور دوسرے ملکوں میں پھیلا نے کے لیے روحانی سورج کا کام دیے ایسے خدا تو آپ ہی کر ور اکتوبر ۶۱۹۲۴

Page 511

تاریخ احمدیت جلد ۴ 459 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال لندن میں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تو مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بلند آواز سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک تار پڑھ کر سنایا جو انہوں نے جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اس تقریب پر مبارک باد کا بھیجا تھا.اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کی.پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضور نے اعلان فرمایا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا با قاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا.اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب فوٹو گرافروں اور سینما والوں نے لئے.نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی اور مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا.اس کے بعد پورا مجمع خیمہ کی طرف چائے نوشی کے لئے آیا.اس مجمع میں مختلف قوموں کے ممتاز آدمی شامل تھے.مثلا انگریز، جرمن، سروین، ہنگری، زیکوسلواکیا، لیتھونیا، مصری، اٹالین، جاپانی اور ہندوستان کے رہنے والے نیز مختلف مذاہب کے لوگ عیسائی ، مسلمان ، پارسی اور یہود بھی تھے.اگر چہ بارش کا دن تھا پھر بھی دو سو سے زیادہ معززین اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں جرمن سفیر، لیتھونیا اور سردیا کے وزیر، زنیکو سلوا کیا کا نمائندہ، ترکی، البانیہ اور فن لینڈ کے وزراء نے بذریعہ خطوط اچھی خواہشوں کا اظہار کیا.وزیر اعظم انگلستان نے امام مسجد لنڈن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا.افسوس میں اس دن لنڈن میں نہیں ہوں گا.اس تقریب پر آنے والے مہمانوں کو ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ وہ بہت دیر تک اس جگہ ٹھرے رہے اور سلسلہ کے متعلق اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے.ورڈزورتھ کے میٹر نے کہا کہ کوئی مذہب جسے اس تقریر کے کسی حصہ پر بھی اعتراض ہو.مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اور لکھنے والا فرشتہ اس کو دوام کی سیاہی میں ڈبوئی ہوئی قلمون کے ساتھ لکھے گا.زیکو سلوا کیا کے نمائندہ نے کہا کہ مجھے نہایت ہی خوشی ہے کہ مجھے ایسے خیالات پہلی دفعہ سننے کا موقعہ ملا ہے.مسجد کے سنگ بنیاد پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف دو بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.”ڈیلی کرانیکل " نے لکھا."ہر ولی نس (یعنی تقدس مآب - ناقل ) خلیفہ المسیح نے جو اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں.کل ۱۹ اکتوبر کو میلروز روڈ ساؤتھ فیلڈ ز میں لنڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اس اصلاحی تحریک کے پیرو لندن میں ایک سوا در مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں.فی الحال یہ ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو F

Page 512

تاریخ احمدیت جلد ۴ 460 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال چکا ہے.اس تقریب پر جاپان اور جرمنی کے سفیر ڈینڈ زور تھ کے رئیس استھونیا کا وزیر اور ترکی اور البانیہ کے نمائندے بھی شامل تھے.( ترجمہ ) ویسٹ منسٹر گزٹ " نے لکھا." ایک مسجد جو لنڈن میں پہلی مسجد ہو گی.سو تھ فیلڈ ز میں تعمیر کی جائے گی.جس کا مینار سترفٹ بلند ہو گا.جہاں سے ایک موذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا.سنگ بنیاد کل ایک باغیچہ میں رکھا گیا.پھلدار درختوں میں خوشبو کا نیلا نیلا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا.گیلی زمین پر قالین بچھائے گئے.اور اس مجمع میں مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے.ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح نے یہ رسم ادا کی.آپ نے قرمزی رنگ کے کفوں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا اور ہاتھ میں ایک عصا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی تھی.انہوں نے فرمایا کہ " میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کا امام جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان میں ہے.آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھتا ہوں کہ لنڈن میں اس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور تاکہ اس ملک کے لوگ بھی ان برکات سے حصہ لیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ تقریب تو انسان کی اخوت اور وحدت کا ایک نشان ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف رائے سے تفرقہ پیدا ہو.عرب کا مقدس نبی فرماتا ہے کہ اختلاف رائے رحمت کا ایک سرچشمہ ہے کیونکہ اس سے علم اور حکمت کی ترقی میں مدد ملتی ہے رواداری اور عالی حو صلگی صرف اختلاف رائے کے مدرسہ میں سیکھی جاسکتی ہے.ہر ہولی نس کی رائے میں وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ جنگ کے خیالات کو ترک کر دیں گے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک ہی خالق کے بندہ ہو کر اتفاق سے زندگی بسر کریں گ...امام مسجد مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جا دیں گے.....یہ سلسلہ جو کہ اسلام میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے.انگلستان کو ایشیا سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا.انگلستان میں یہ پہلی مسجد ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے مسٹری اپیچ روشر مسجد کے انجینئر نے ہمارے نامہ نگار سے بیان کیا کہ وہ ایک وقت سلطان مراکش کے انجینئر تھے اس کی عمارت اپنی شکل میں شرقی طرز کی ہوگی یہ سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی جن کا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.وہ مذہبی جنگوں کے خلاف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ ہمار ا سلسلہ دنیا کو نبی عربی ( ) کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے.

Page 513

تاریخ احمدیت جلد ۳ 461 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال لنڈن سے روانگی اور بمبئی میں ورود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لنڈن میں پہلا جمعہ پڑھایا.اور لنڈن سے روانگی سے پہلے حضور نے فرمایا.میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا.دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعوئی تو ہر ایک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو دیکھ نہیں سکتا.حضور ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو لندن سے روانہ ہوئے.واٹر لو اسٹیشن پر (جہاں سے حضور مع خدام گاڑی پر سوار ہوئے) بہت سے یورپین مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہندوستانی اور افریقن لوگ بھی الوداع کرنے کے لئے موجود تھے.نہایت محبت آمیز مصافحوں کے بعد ہر ایک نے خدا حافظ کہا اور فوٹوگرافروں نے فوٹو لئے.لنڈن سے گاڑی ساؤتھ ٹین پہنچی.جہاں سے حضور معہ رفقاء نے رات کے بارہ بجے بحری جہاز سے رودبار انگلستان عبور کی اور ۲۶/ اکتوبر کو ساڑھے آٹھ بجے کی گاڑی سے سوار ہو کر پیرس پہنچے.پیرس میں حضور کا قیام بہت مختصر تھا جو بہت کامیاب رہا.روزانہ اخبارات کے نمائندے ملاقات کے لئے آئے.پیرس کی سرکاری نو تعمیر مسجد میں پہلی نماز حضور نے پڑھائی.پریس کے نمائندوں اور سینما کی کمپنیوں نے فوٹو لئے جو روزانہ اخبارات میں شائع ہوئے.حضور ۳۱ اکتوبر کو پیرس سے روانہ ہوئے.۲/ نومبر کی رات کو دنیس (اٹلی) سے جہاز پر سوار ہو کر ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء کو ہیٹی کے ساحل پر اترے.جماعت احمدیہ کے قریب دو سو نمائندوں نے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے تشریف لائے تھے.حضور کا نہایت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور پریس کے نمائندوں نے فوٹو لئے.ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے تمام جماعت احمد یہ ہندوستان کی طرف سے حضور کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا.یہاں سے حضور لیاقت منزل میں پہنچے اور جناب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں فروکش ہوئے.بمبئی کے تمام اخبارات کے نمائندوں نے حضور سے سفریورپ کے حالات دریافت کرنے کے لئے ملاقات اور گفتگو کی.سمیٹی میں بخیر و عافیت پہنچنے پر حضور نے جماعت احمدیہ کے نام برقی پیغام ارسال فرمایا کہ - میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء سفر کی طرف سے تمام احباب جماعت کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے دعائیں کیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز کامیابی جو ہمیں اس سفر کے دوران میں حاصل ہوئی محض اللہ تعالی کے فضل و کرم کی وجہ سے تھی.

Page 514

تاریخ احمدیت جلد ۴ 462 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال اس نے ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی اور ہمارے لئے ایسے اوقات میں دروازے کھولے جب کہ ہمیں کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا.میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے آقا و مولی کے اس خاص فضل کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو ان بڑی قربانیوں کے لئے تیار کریں جو انہیں ان اثمار کے حاصل کرنے کے لئے کرنی پڑیں گی.جو گزشتہ چار ماہ کے کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ہیں.اللہ تعالٰی ہم سب پر اپنی برکات نازل فرمائے.et بمبئی سے بٹالہ تک حضور ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے بی بی اینڈ سی آئی ریلوے کے ذریعہ روانہ ہو کر اگلے دن ۲۱ نومبر ۱۹۲۴ء کو آگرہ پہنچے.آگرہ آتے ہوئے / آپ نے اکران کا مشہور مقام دیکھا جو مائی جمیا کا گاؤں اور جماعت احمدیہ کے معرکہ جہاد کا اہم میدان رہا ہے.آگرہ اسٹیشن پر آپ کا مخلصانہ استقبال کیا گیا.مرزا عرفان علی بیگ صاحب نے آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے.صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی امیر المجاہدین آگرہ کی طرف سے اخبار الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ے پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا و رود آگرہ میں ۱۲۱ نومبر بوقت ۱۸ بجے شام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مع خدام آگرہ فورٹ پر گاڑی سے اترے جہاں سلسلہ احمدیہ کے قریباً ایک سو قائمقاموں نے جو یوپی کے مختلف مقامات سے جمع ہوئے تھے مع چند رؤساء قریباً چالیس غیر احمدی پنجابی تاجروں کے استقبال کیا.حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے.حضور نے سب لوگوں کو مصافحہ سے مشرف کیا.پھر مع خدام الاحمدیہ دار التبلیغ میں تشریف لائے.آتے ہی حضور نے نمازیں ادا کیں اور علاقہ مین پوری کے چند مہمانوں کی بیعت لی.پھر کھانا تناول فرمایا اور مجاہدین و جماعت احمدیہ آگرہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے اپنی کامیابی کو محض فضل الہی سے ثابت کرتے ہوئے جماعت کو آئندہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی اور مزید قربانیوں کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا.اگلی صبح حضور کا مع خدام فوٹو لیا گیا اور موٹر پر تاج محل کو دیکھتے ہوئے موضع ساند ھن تشریف لے گئے ".۲۲ نومبر کو حضور ملکانہ تبلیغ کا بہت بڑا مرکز ساند ھن دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہاں کل انتظام ملکانوں نے کیا تھا.بڑے شاندار دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے ایک پر "غلام احمد کی جے "کا فقرہ لکھا ہوا تھا.حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا.جس کا حضور نے جواب دیا.

Page 515

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 463 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال پھر بہت سے لوگوں نے بیعت کی.ساند ھن سے روانہ ہو کر حضور اچھنیرہ اسٹیشن سے سوار ہوئے اور اسی رات دہلی پہنچے.دہلی اسٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا.یہاں تک کہ چلنا مشکل ہو گیا.دہلی اور شملہ کی جماعتوں نے ایڈریس پیش کیا.جس کا حضور نے جواب دیا اور ۲۳/ نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہو کر انبالہ پہنچے اور انبالہ سے بٹالہ روانہ ہوئے.تمام درمیانی اسٹیشنوں پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی.مختلف مقامات کی جماعتوں نے آکر شرف ملاقات حاصل کیا.انبالہ کے اسٹیشن پر جماعت انبالہ کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا.راجپورہ کے اسٹیشن پر ریاست پٹیالہ سرہند ، نابھہ اور بی وغیرہ کی جماعتیں موجود تھیں.چاوا اور دوراہا کے اسٹیشنوں پر غوث گڑھ کی جماعت موجود تھی چار پر گاڑی اسٹیشن سے آگے نکل آئی تھی مگر اسٹیشن پر جماعت دکھائی دی.اس لئے گاڑی رکوائی گئی اور حضور نے کچھ دور پیدل چل کر اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا.لدھیانہ اسٹیشن پر قابل دید منظر تھا.تمام جماعتیں جو ضلع لدھیانہ اور فیروز پور اور مالیر کوٹلہ سے آئی ہوئی تھیں.ایک خاص ترتیب سے صف بستہ کھڑی تھیں.شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری جماعت لدھیانہ نے ایڈریس پڑھا.جس کا حضور نے جواب دیا.لدھیانہ کے بعد گاڑی جالندھر چھاؤنی پر ٹھری.جہاں ضلع جالندھر ہوشیار پور اور کپور تھلہ کی جماعت کے نمائندے کثیر تعداد میں موجود تھے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ نے ایڈریس پڑھا پھر گاڑی جالندھر اور بیاس اسٹیشنوں پر مختصر قیام کرتی ہوئی امر تسر پہنچی جہاں پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی.جماعت احمدیہ کا مبارکباد اور خیر مقدم کا بلند جھنڈا لہرا رہا تھا.قریشی محمد حسین صاحب (موجد مفرح عنبری) قائم مقام امیر جماعت احمد یہ لاہور نے ایڈریس پڑھا اور حضور نے اس کا جواب دیا.جماعت امر تسر کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا گاڑی ابجے بٹالہ پہنچی.جماعت قادیان کی طرف سے بٹالہ میں حضور کے استقبال وقیام کے انتظام کے لئے احباب موجود تھے.حضور نے رات بٹالہ میں قیام فرمایا اور ۲۴/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بروز دوشنبه مبارک دو شنبه " بٹالہ سے بذریعہ موٹر قادیان کے لئے روانہ ہوئے.قادیان میں درود مسعود اور آپ کا نہایت ادھر حضور روانہ ہوئے ادھر قادیان کے سب چھوٹے بڑے اس مقام کی طرف جانے شروع شاندار پُر جوش اور پر اخلاص استقبال ہو گئے جو استقبالیہ کمیٹی نے قادیان اور بٹالہ کی سڑکوں کے مقام اتصال پر کنوئیں کے پاس مقرر کیا تھا.یہ جگہ شامیانے لگا کر قطعات اور رنگ

Page 516

تاریخ احمدیت جلد ۴ 464 خلافت ثانیہ کا گیار جوان سال گیارھواں برنگ جھنڈیوں سے سجا کر نہایت خوبصورت بنائی گئی تھی.بیٹھنے کے لئے پہنچ رکھے گئے تھے اور سڑک پر بہت خوبصورت دروازہ بنایا گیا جس پر اھلا و سهلا و مرحبا کے علاوہ دوسرے قطعات بھی آویزاں تھے.حضور کی تشریف آوری سے قبل بہت بڑا مجمع ہو گیا جس میں قادیان اور بیرونی جماعت کے احمدیوں کے علاوہ قادیان کے غیر احمدی آریہ اور سکھ اصحاب بھی تھے.منتظمین نے نہایت عمدگی سے تمام اصحاب ایک ترتیب کے ساتھ سڑک سے لے کر شامیانے تک کھڑے کر دیئے سب سے آگے حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت میر محمد الحق صاحب اور خاندان مسیح موعود کے افراد کھڑے تھے.اس وقت ہر فرد ہمہ تن چشم انتظار بن کر سڑک کی طرف ممنکی لگائے ہوئے تھا کہ دور سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی موٹر نظر آئی اور سب کے چہرے خوشی اور مسرت سے کھل گئے.ہر ایک کا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر سب سے پہلے اپنے محبوب آقا کے پاس پہنچے اور زیارت کرے.لیکن انتظام کی پابندی کی وجہ سے مجبور تھے.حضور بھی اپنے خدام کے وفور شوق کو جانتے تھے.اس لئے حضور نے می انتظام کی پابندی کرانے کے لئے کہلا بھیجا کہ ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ کھڑا رہے.اپنی جگہ چھوڑ دینے والے سے مصافحہ نہیں کیا جائے گا.یہ ارشاد پہنچ جانے کے بعد حضور کی موٹر آہستہ آہستہ آگے بڑھی.موٹر پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا جو چودھری علی محمد صاحب پکڑے ہوئے تھے.جب حضور دروازہ کے پاس پہنچے تو پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے مصافحہ و معانقہ کیا اس کے بعد حضور نے بہت دیر تک باری باری تمام مجمع سے مصافحہ کیا جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو حضور نے آگے بڑھ کر حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کو گلے لگالیا اور دیر تک معانقہ فرمایا.اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے.آپ کے بعد حضور نے حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سے معانقہ فرمایا اور پھر تمام مجمع کے ساتھ دعا فرمائی اور اپنے رفقاء سمیت قادیان کی طرف پیدل ہی چل دیئے.اس وقت ایک عظیم الشان ہجوم ساتھ تھا.حضور قصبہ میں داخل ہونے سے پہلے باغ میں پہنچے.اس وقت پھولوں کے بہت سے ہار حضور کے گلے میں تھے.حضور نے اس موقعہ پر فرمایا اگر یہ جائز ہوتا.تو میں سارے پھول حضرت مسیح موعود کے مزار مبارک پر چڑھا دیتا کیونکہ یہ فتوحات کا نشان آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کے ذریعہ حاصل ہوا ہے.اس کے بعد حضور نے مقبرہ بہشتی کے پاس پہنچ کر مٹی کے لوٹے سے پانی پیا.پھر وضو کیا اور مزار مسیح موعود پر اکیلے دعا کرنے کو تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد حضور نے اپنے رفقاء سفر بھی پاس

Page 517

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 465 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سا بلائے.پھر سب نے مل کر دعا کی.دعا کرنے کے بعد حضور نے اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کی قبر پر کھڑے ہو کر (جو آپ کے اس سفر کے دوران انتقال فرما گئے تھے نماز جنازہ پڑھی.مقبرہ بہشتی سے قصبہ میں داخل ہونے لگے تو حضور نے فرمایا.حافظ روشن علی صاحب داخلہ شہر کی دعا پڑھیں گے.سب دوست اسے بلند آواز سے دہراتے جائیں.اس پر حافظ صاحب دعا کا لفظ لفظ بلند آواز سے پڑھتے اور سارا مجمع اسے دہراتا - دعایہ تھی.آئبون تائبون عابدون لربنا حامدون صدق الله وعده و نصر عبده و هزم الاحزاب وحده." حضور میاں محمد اسمعیل صاحب ومیاں محمد عبد اللہ صاحب جلد سازان کے مکان سے متصل راستے میں سے گزرتے ہوئے مہمان خانہ کے قریب پہنچے.جہاں حضرت میر محمد اسحق صاحب نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے خیر مقدم کیا.یہاں نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے فرزند میاں عباس احمد صاحب اونچے چبوترے پر بٹھائے گئے تھے.جن کی طرف سے حضرت میر محمد اسحق صاحب نے ایک نان حضور کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ ” یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے ".حضور نے نان لیا اور اپنے رفقاء میں تقسیم کر دیا.اس کے بعد جلوس پھر بلند آواز سے محمد کا یہ ترانہ پڑھتا ہوا آگے بڑھا.مدرسہ احمدیہ کی طرف سے سکول کے دروازوں کے قریب خیر مقدم اور خوش آمدید کے رنگین اور سنہری قطعے آویزاں تھے.احمد یہ چوک میں پہنچ کر حضور نے سارے مجمع سمیت واپسی کی دُعا پڑھی.اس وقت کا نظارہ نہایت ہی رقت آمیز اور موثر تھا خود حضور کی آواز میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور حاضرین بھی فرط مسرت سے رو رہے تھے اور بعض کی چیچنیں بھی نکل گئیں.اس رقت انگیز حالت میں حضور نے ڈبڈبائی آنکھوں اور دردناک لہجہ میں فرمایا.”دیکھو رسول کریم ﷺ کی یہ دعا کیسی لطیف ہے جس کا نظارہ ہم آج دیکھ رہے ہیں.یہی جگہ یہی مقام اور یہی گھر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو آپ اکیلے اور تنہا تھے.کوئی ساتھی اور مددگار نہ تھا.اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ نعوذ باللہ یہ فریبی ہے یہ جھوٹا ہے.دغا باز ہے اور دشمن کہتے کہ ہم اسے کیڑے کی طرح مسل دیں گے.لیکن خدا تعالٰی نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی تائید اور نصرت کی اور آج اسی کمند میں جکڑے ہوئے ہم اس قدر لوگ یہاں جمع ہیں آپ ہی کے طفیل ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی.اس کے ذریعہ اور اسی کے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عزتیں دیں جو در حقیقت اس کے لئے آئیں اور خدا

Page 518

جلد ۴ 466 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تعالٰی نے ہمیں ان انعامات کا وارث بنایا جن کا وعدہ آپ سے کیا گیا اور اگر حقیقت اور سچائی کو مد نظر رکھا جائے تو سچ ہے کہ ساری بڑائیاں حضرت مسیح موعود کے لئے ہیں.محمد ال کے لئے ہیں اور خدا تعالی کے لئے ہیں".یہ الفاظ فرمانے کے بعد حضور اس دروازہ میں سے گزر کر جو مسجد مبارک کے نیچے نہایت خوبصورتی کے ساتھ بنایا اور بیل بوٹوں سے سجایا گیا تھا.مسقف گلی میں سے ہو کر سیڑھیوں سے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے اور مسجد کے اس حصہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسجد تھی.حضور نے باجماعت دو رکعت نفل اپنے رفقاء سمیت ادا فرمائے.نماز کے بعد حضور مجمع کو السلام علیکم کہہ کر اپنے گھر دار المسیح میں تشریف لے گئے - اس طرح حضور کا یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً چار ماہ پہلے ۱۲ / جولائی ۱۹۲۴ء کو شروع ہوا تھا ۲۴ نومبر ۱۹۲۳ء کو بخیر وخوبی ختم ہوا اور آپ یورپ کے لمبے اور طویل سفر سے کامیاب و کامران فتح مندی کامرانی کا جھونڈ الہراتے ہوئے قادیان کی مقدس سرزمین میں رونق افروز ہوئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف اسی روز حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اہل سے اپنے رفقاء سفر اور ماسٹر عبد الرحیم قادیان کی طرف سے نماز عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں سپاسنامہ پیش کیا.جس کے جواب میں حضور صاحب نیر کا شکریہ اور تحریک دعا نے سفر میں خدا تعالیٰ کی بے نظیر تائیدات پر روشنی ڈالی اور آخر میں اپنے رفقاء سفر اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا."آخر میں مضمون ختم کرنے سے پہلے میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے کام کیا.انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوئی ہیں.میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی سی ہے جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پُر جوش بنانے کے لئے ہوتی ہے.مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں خصوصاً اس لئے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا.جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے نہ اپنے آرام کا اسے خیال آئے نہ وقت بے وقت دیکھے.جب اس طرح کام کیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کے ہاتھ پاؤں بھی پھول جاتے ہیں.مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی

Page 519

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 467 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال جائیں پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر خصوصیت سے جماعت کی دعاؤں اور شکریہ کے مستحق ہیں واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے....ان کی وجہ سے بھی سلسلہ کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ برادرانہ حسن سلوک کے خلاف ہو گا اگر میں اس پہلے موقعہ پر جو مجھے اظہار خیالات کا اس سفر کے بعد ملا ہے ان کی خدمات کا اظہار نہ کروں "..حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب حضرت مصلح موعود نے ۱۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو کے نام حسب ذیل مکتوب سپرد قلم فرمایا.۱۸/اکتوبر ۱۹۲۴ء مکرمی شیخ صاحب خان بهادر آصف زمان صاحب آف پیلی بھیت السلام علیکم.آپ کا خط مورخہ گیارہ ستمبر ملا.سفر کے حالات پر ہندوستان کے اخبار ہی حواس باختہ نہیں ، خود ہمارے لوگ جو اس ملک کے حالات سے واقف ہیں حیران ہیں.پرانے رہنے والے اقرار کرتے ہیں کہ جس قدر ملک میں ہماری آمد پر شور ہوا ہے کسی بادشاہ کے آنے پر بھی پریس نے اس قدر نوٹس نہیں لیا.یہاں کا پریس اپنے آپ کو سب سے اوپر خیال کرتا ہے اور پھر اس قدر بدلنے والا ہے کہ ایک دن لکھ کر دوسرے دن لکھنا اپنی ہتک خیال کرتا ہے مگر ہمارے متعلق کوئی ساتھ ستر اخبارات نے نوٹس لیا ہے اور بعض نے چھ چھ سات سات دفع لکھا ہے.لیکچر اللہ تعالٰی کے فضل سے نہایت کامیاب رہا آخری دن برکت دینے کی درخواست بھی مجھی سے کی گئی.لوگ کثرت سے سلسلہ کے حالات سے واقفیت کی طرف متوجہ ہیں آج ہی ایک شخص انگلستان کے ایک اور علاقے سے ملنے آیا ہوا تھا ایک مشہور سوسائٹی کا سیکرٹری ہے صرف ملنے کے لئے آیا تھا.اس سوسائٹی کی مختلف ممالک میں شاخیں ہیں اور کئی ممبر پارلیمنٹ اس میں شامل ہیں، جنگ کے خلاف سوسائٹی ہے.لڑکے کی پیدائش مبارک ہو.خدا تعالیٰ اسے خاندان کے لئے بھی با برکت کرے اور خود سے بھی صاحب فضل بنائے نام حمید زمان رکھیں اور اگر یہ نام پہلے کسی لڑکے یا اور رشتہ دار کا ہو تو نا صر زمان.میری صحت بالکل خراب ہو گئی ہے آنکھیں بہت کمزور ہو گئی ہیں بظاہر پچھلے چھ ماہ سے متواتر کام نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے.ڈاکٹر لمبے اور فوری آرام کا مشورہ دیتے ہیں مگر سر دست یہ میسر ہوتا نظر نہیں آتا.و على الله التوكل خاکسار مرزا محمود احمد

Page 520

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 468 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال " میلے کانفرنس لندن" کی مفصل رپورٹ جس میں ویمبلے کا نفرنس لندن کی رپورٹ دو سرے مضامین کے علاوہ حضور کا مضمون بھی شامل تھا ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی جس کے دیباچہ میں صدر انتظامیہ کانفرنس مذاہب لنڈن ڈینی سن راس (Denison Ross) نے لکھا.جیسا کہ ہمیں پہلے ہی علم تھا کہ لنڈن میں ان تمام مدعو دین کی حاضری ممکن نہیں تھی جنہیں ہم نے کانفرنس میں مضمون پڑھنے کے لئے دعوت دے رکھی تھی لیکن بیرون سے اس کا جواب حوصلہ افزاء تھا.چنانچہ ہم خلیفتہ صحیح امام جماعت احمدیہ کے خاص طور پر ممنون ہیں کہ آپ نے اپنے ارادہ سے فورا آگاہ فرما دیا کہ آپ اپنے چند رفقاء سمیت خاص طور پر کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لا رہے ہیں.آپ کی اس قابل ذکر مستعدی کی اخبارات میں کافی اشاعت ہوئی اور آپ کا یہ کار عظیم ہماری کانفرنس کے لئے خاص دلچسپی کے پیدا کرنے کا موجب ہوا.کانفرنس کے دوران بہت سی استقبالیہ دعوتیں منعقد ہو ئیں.ایک تو لیڈی بلام فیلڈ (Blom field) کی طرف سے (Claridgen) ہوٹل میں وقوع پذیر ہوئی اور دوسری رنز (Ritz) ہوٹل میں مکرم اے آر درد کی طرف سے.تاکہ احمدیہ جماعت کے امام سے ملاقات اور تعارف ہو سکے.جو گروپ فوٹو وہاں لئے گئے وہ اپنے اندر ان اجتماعات کے وسیع المشرب اور صلح کل ہونے پر واقعاتی شہادت ہیں.کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مضمون پڑھنے والوں میں سے خاص تعداد کو پلیٹ فارم پر بلایا گیا.چند مختصر لیکچر دیئے گئے.جن میں کانفرنس کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا.ان میں سے ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح کا نہایت شاندار لیکچرار دو زبان میں تھا.قرآن مجید کی آیات کی تلاوت بھی کی گئی جو کہ دو کنگ مسجد کے مفتی اور ہمارے مہمان صوفی روشن علی صاحب آف رنمل نے کی.( ترجمہ انگریزی) ریویو آف ریلیجز " آف دی ایمپائر صفحه ۵-۲) حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات پر ویمبلے سیکرٹری و میلے کا نفرنس کے نام مکتوب کانفرنس کی سیکرزی مس شارپار (MM Sharples) نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں تعزیت نامہ لکھا جس کے جواب میں حضور نے وسط ۱۹۲۵ء میں ایک اہم مکتوب لکھا.جس کا وہ حصہ جو حضور کی مقدس زندگی پر روشنی ڈالتا ہے.درج ذیل کیا جاتا ہے)

Page 521

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 469 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال مکرمہ ا مجھے افسوس ہے کہ بوجہ ماہ رمضان کے آجانے کے میں آپ کے خط کا جلد جواب نہ دے سکا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا اور میرے ساتھیوں کا دل اس محبت اور ہمدردی کے شکریہ سے لبریز ہے جس سے آپ ہماری پارٹی سے پیش آئیں اور ہم اسے ہمیشہ یادر کھیں گے.میں اس ہمدردی کا بھی شکر گزار ہوں جس کا اظہار آپ نے میری پیاری بیوی کی وفات کے متعلق کیا ہے.میری مرحومہ بیوی ایسا علمی مذاق رکھتی تھیں اور میری تسلی کا ایسا موجب تھیں کہ ان کی وفات میرے لئے نہایت تکلیف کا موجب تھی اور اس وجہ سے میں آپ کی ہمدردی کا اور بھی زیادہ ممنون ہوں.گو مجھے اللہ تعالی نے میرے ولایت کے سفر سے پہلے ہی اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی اور میں نے شائع بھی کر دیا تھا کہ میرے اہل کے متعلق ایک سخت حادثہ پیش آنے والا ہے مگر میرے قومی فرائض مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں اپنے ذاتی احساسات کو سلسلہ کے مفاد پر قربان کردوں.لیکن باوجود اس کے کہ اس حادثے کے متعلق ایک حد تک پہلے سے علم تھا پھر بھی یہ واقعہ میرے سفر سے واپسی کے اس قدر قریب ہوا کہ قدرتنا اس کی تکلیف زیادہ محسوس ہوئی لیکن میں اللہ تعالیٰ کی قضا پر خوش ہوں اور کوئی تکلیف مجھے اس کے دین کی خدمت سے غافل نہیں کر سکتی.(انشاء اللہ) ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ میں مرحومہ کو یاد نہ کرتا ہوں اور اس کے لئے دعانہ کرتا ہوں.لیکن میں اللہ تعالٰی کے فضل سے دیکھتا ہوں کہ میرا دل خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ تیار ہے میں مرحومہ کو بھولنا پسند نہیں کر تا گویا درفتگان ہمیشہ غمگین رہنے والی ہوتی ہے کیونکہ میرے نزدیک ایک وفادار بیوی سے ادنیٰ وفاداری ہم یہ کر سکتے ہیں کہ باوجود تکلیف کے ہم اس کی یاد کو تازہ رکھیں تا اس کے لئے دعا کرتے رہیں ".

Page 522

تاریخ احمدیت جلد منه پانچواں باب (فصل دوم) 470 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال سفریورپ کے تفصیلی حالات فصل اول میں بیان ہو چکے ہیں.اب ۱۹۲۴ء کے بقیہ واقعات فصل دوم میں درج کئے جاتے ہیں.امریکہ کے مشہور و معروف مستشرق امریکہ کے مستشرق پادری زدیمر قادیان میں زویمر مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے ۲۸/ مئی ۱۹۲۴ء کو قادیان آئے.آپ نے مرکزی ادارے دیکھنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر لینے کے بعد رخصت ہوئے.اور امریکہ پہنچ کر ایک سرکلر خط شائع کیا.جس میں عیسائی دنیا سے اپیل کی کہ اسے جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے خاص تیاری کرنی چاہئے.کیونکہ " جدید اسلام " جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ و امریکہ میں ۱۴ مضبوط ہو رہا ہے.پادری زدیمر نے چرچ مشنری ریویو لنڈن میں ”ہندوستان میں اسلام" کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا اور اس میں اپنی آمد قادیان کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا.ہمارا استقبال نہایت گرم جوشی کے ساتھ کیا گیا.در حقیقت انہوں نے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن پر ہمیں لانے کے لئے آدمی بھیجا مگر ہم دوسرے رستہ آگئے اور ہمیں گھنٹوں کی بجائے دنوں تک قادیان میں ٹھرنے کی دعوت دی......یہاں سے نہ صرف رسالہ " ریویو آف ریلیجنز " شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور رسائل بھی نکلتے ہیں اور لندن، پیرس، برلن ، شکاگو ، سنگا پور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے.چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان - مختلف قسم کی انسائیکلو پیڈیا ڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لڑ پچر سے بھرے پڑے ہیں یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ایک زبر دست عقیدہ ہے.جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے " - (ترجمہ) وسط جولائی ۱۹۲۴ء میں جماعت احمد یہ بھیرہ ایک خطرناک ابتلا میں مبتلا ہو گئی.واقعہ یہ ہوا کہ ایک غیر احمد کی مولوی صاحب نے احمدیت کے خلاف مسلسل اشتعال پھیلا کر شہر کی فضا مکدر کردی.نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدیوں نے احمدیوں کے خلاف بلوہ کر دیا.جس میں خود غیر احمدی اصحاب کے ہاتھوں ان ہی کے ایک ساتھی مارے گئے.جس پر بائیں بے گناہ احمدی حوالات میں حادثہ بھیرہ et.

Page 523

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 471 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں.دے دیئے گئے." حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اس حادثہ کا علم ہوا تو حضور نے بذریعہ تار مولوی شیر علی صاحب کو ہدایت فرمائی کہ یہ حادثہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہم ہے سلسلہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے اپنے طور پر تحقیقات کریں اگر اس میں احمدیوں کا قصور نکلے تو ان کو تنبیہہ کی جانی چاہئے اور جو شخص یا اشخاص اس فساد کے اصل بانی ہوں ان کا مقاطعہ کرنے کے متعلق میرے پاس رپورٹ آنی چاہئے.لیکن اگر وہ مظلوم ہوں تو انہیں اپنے سلسلہ کا احترام قائم رکھنے کے لئے ہر طرح سے پوری امداد دینی چاہئے بھیرہ کے احمدیوں کو ہدایت کر دی جائے کہ وہ اپنے تمام بیانات وغیرہ میں صداقت اور محض صداقت کو اختیار کریں " اس ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی فضل اللہی صاحب نے نہایت محنت سے تحقیقات کر کے مفصل رپورٹ دی کہ بھیرہ کے احمدی مدتوں کی دشمنی اور ایک مولوی صاحب کے اشتعال کا شکار ہوئے ہیں.دار التبلیغ ایران حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو شہزادہ عبد المجید صاحب لدھیانوی کو ایران میں احمد یہ مرکز قائم کرنے کے لئے روانہ فرمایا.آپ کے ہمراہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے.جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا.حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر تھے اپنے دو سرے ساتھیوں سمیت ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد میں پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے طہران (دار الخلافہ ایران) میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دار التبلیغ قائم کیا.حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے.مگر اخراجات یہاں آکر ختم ہو گئے.پیچھے کوئی جائیداد تھی نہیں.مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو دی نہیں جاتی تھی.اس لئے آخر عمر میں بعض اوقات اپنے زائد کپڑے فروخت کر کے گزارہ کرتے تھے.اور جیسا کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے آپ معمولی سی صف اور نہایت مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے.یہاں تک نوبت آجاتی کہ کپڑے دھونے کے لئے خرچ باقی نہ رہتا.بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنا عہد نبھایا اور اپنی بے نفس خدمات سے با قاعدہ جماعت قائم کر دی ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں انتقال فرما گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کی وفات پر فرمایا."شہزادہ عبد المجید صاحب.......افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے

Page 524

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 472 خلافت ثانیہ کا گیار جواب سال تھے.آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا.اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا.انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا.رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا.وہ ان کے پاس تھا.اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا.اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے.مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے.وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے.ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی.مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نہ معلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے پھر مجھے اتفاقا پتہ لگا.ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا.اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا.اس وقت پوچھ لیا جاتا کہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں.پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی.وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں.ابھی پرسوں اترسوں اطلاع ملی ہے کہ آپ یکم رمضان (۱۳۴۶ھ ) کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا.آخری دن بہت تیز بخار ہو گیا.جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو.دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے.سحری کے وقت آپ نے ایک دو دفعہ پانی مانگا تیماردار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے.جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوب انصاری دفن ہوئے...اس طرح یہ ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی." حضرت شہزادہ عبد المجید صاحب تهران کے جنوبی طرف شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں دفن کئے گئے.۱۹۵۳ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد یہ قبرستان ہموار کر کے اس پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں اور اس کا ظاہری نشان بھی مٹ گیا.۱۵۵ حضرت شہزادہ عبد المجید خان صاحب کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین ایران تشریف لے گئے.(۱) حضرت میر مهدی حسین صاحب (۲) حضرت بابو فقیر علی صاحب (۳) شیخ عبد الواحد صاحب (۴)

Page 525

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 473 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال مولوی صدر الدین صاحب (۵) مولوی عبد الخالق صاحب اول الذکر دونوں بزرگ آنریری مبلغ تھے اور مؤخر الذکر تحریک جدید کے مبلغ جو ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۵ء کے عرصہ میں بالترتیب ایران گئے اور مصروف تبلیغ رہے.دار التبلیغ ایران کی طرف سے مندرجہ ذیل فارسی لٹریچر اب تک شائع ہو چکا ہے.فلسفه اصول اسلام " "اسلامی اصول کی فلاسفی " کا ترجمہ (از حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل و چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات) ترجمہ براہین احمدیہ جلد اول- (از مولوی صدر دین صاحب فاضل گلدستہ بہار.(حضرت مسیح موعود کے کلام فارسی و عربی کا انتخاب - شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل " حقیقت اسلام " ترجمہ لیکچر حضرت مسیح موعود جلسه ۱۹۰۶ء - شائع کرده مولوی صدر الدین صاحب فاضل) "پیغام احمدیت" (حضرت خلیفتہ) ) " پیغام احمدیت" (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا لیکچر - مترجم شیخ عبد الواحد صاحب فاضل) " شمشیر براں " - " افضل الانبياء" "نعمت الهام وباب و بها" اولین مسجد اسلامی در لندن" تالیف مولوی صدر الدین صاحب فاضل) حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء اور دوسرے مصنفین کا لٹریچر تہران کے "کتاب خانہ ملی" پبلک لائبریری) کتاب خانه شوری ملی" (قومی اسمبلی کی لائبریری) ” دانش گاه تهران" (یونیورسٹی) اور " دانشکده ادبیات " ( آرٹس کالج) میں موجود ہے اور ایران کے مذہبی حلقے خصوصا عیسائیت اور بہائیت کے رد کے لئے جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑی دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اسلام کی خدمت قرار دیتے ہیں ۱۵۸ مبلغ احمدیت مولوی ظهور حسین صاحب جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے بخارا کا تبلیغی وند (جو مولونی ظهور حسین صاحب اور مولوی محمد امین پر روسی حکومت کے دردناک مظالم خان صاحب پر مشتمل تھا) ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے شہر مشہد میں پہنچا.یہاں مولوی ظہور حسین صاحب تپ محرقہ میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے مگر مولوی محمد امین خان صاحب جو ۱۹۲۱ء میں بھی بخار ا کا سفر کر چکے تھے.۶/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور کچھ عرصہ تک تبلیغی کام کرنے کے بعد حاجی مردان قل ساکن بخارا کو لے کر واپس قادیان آگئے.اب مولوی ظهور حسین صاحب کی سنئے.مولوی صاحب موصوف نے اپنی بیماری سے شفایاب ہوتے ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ میں بیماری سے اٹھا ہوں اور سخت کمزور ہوں.سردی بھی سخت پڑنے لگی ہے اور برفباری بھی شروع ہو گئی ہے.پھر میں نہ روسی زبان سے واقف 104

Page 526

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 474 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ہوں نہ رستہ کا علم ہے.ویزا بھی نہیں ملا.خرچ بھی کم ہے.مگران مایوس کن حالات کے باجود میں بخارا جانے سے رک نہیں سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعائیں مجھے نا کام نہ ہونے دیں گی.مولوی صاحب یہ اطلاع دینے کے بعد اکیلے ہی ۱۸ دسمبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور ڈیڑھ دن کے بعد رات روسی ترکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے مگرار تھک اسٹیشن سے بخارا کا ٹکٹ لے کر گاڑی پر سوار ہو رہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور آپ کو جاسوس سمجھ کر پہلے ار تھک، پھر عشق آباد ، تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھ کر بہت تکلیفیں پہنچائی گئیں.مگر ان مصائب کے باوجود آپ نے قید خانہ میں بھی برابر تبلیغ جاری رکھی چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کر کے روس میں احمدیت کا بیج بو دیا.مولوی ظهور حسین صاحب نے اپنی " آپ بیتی " میں بڑی تفصیل سے اپنے درد ناک حالات شائع کر دیئے ہیں.ہم " آپ بیتی " کا ایک اقتباس ذیل میں درج کرتے ہیں.الغرض جب حکومت کے اکثر افراد نے جو میرے سخت مخالف ہو گئے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بیان میں قابو نہیں آتا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کاغذ خود ہی فارسی زبان میں لکھ کر اس جگہ پر اس طرح پھینکا جائے کہ اسے علم نہ ہو میرے کمرے میں دو روشندان تھے وہاں سپاہی مقرر کر دیئے گئے تا کہ جب مجھے سوتا ہوا دیکھیں روشند ان کے ذریعہ سے کاغذ پھینک دیں اور ادھر دروازہ پر جو سپاہی ہے.وہ فورا دروازہ کھول کر تلاشی لے کر کاغذ پکڑے اور مجھ کو ملزم ثابت کر دے....پس میں نہ رات کو سوتا نہ دن کو اسی طرح کئی دن تک میرا حال رہا کہ نہ میں رات کو سوتا نہ دن کو.نہ کھانا صبح کھاتا نہ شام کو.جب مجھ کو سخت بھوک لگتی تو نہایت کم ایک دو حلقے کھا تا ادھر.....دوماہ سے متواتر سٹور کا گوشٹ قید میں دیتے تھے اور روی یا مسلمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی میں بجائے گوشت کے گرم پانی سے روٹی بھگو کر کھایا کر تا تھا کئی کئی وقت پانی نہ پینے اور کھانا نہ کھانے کے باعث اور بہت کم سونے کے باعث....سخت لاغر اور کمزور ہو گیا.....ایک بار رات کے آٹھ نو بجے کا وقت تھا ایک حاکم جو سپاہی سے بڑا عہدہ رکھتا تھا اس نے دروازہ کھول کر مجھے پکڑ لیا اور اوپر سے روشندان کی طرف سپاہی کو دیکھ کر روسی زبان میں کہا کہ جلدی کاغذ پھینک.جب میں نے سپاہی کو روشندان سے دیکھا تو اس وقت بے اختیار میں اونچی آواز سے بڑے حاکم (یعنی اس کے عبدہ کا نام لے کر پکارا تو پانچ چار اور سپاہی میرے کمرے میں آئے اور مجھ کو پکڑ کر دوسرے تاریک دسیاہ کمرے میں لے گئے.پھر ایک لکڑی کا اچھا لمبا اور چوڑا تختہ لائے جس پر مجھ کو اس قدر سخت جکڑا کہ میری بے اختیار چیخیں نکل گئیں.میں ساری رات.....

Page 527

تاریخ احمد بیست - جلد ۴ 475 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال 444444 شدت درد کے باعث جو میرے بازوؤں کو بوجہ سختی سے پیچھے کی طرف باندھنے کے ہوتی تھی جاگتا رہا جس وقت مجھ کو پیشاب آیا تو میں نے اسی طرح کہ جس طرح لیٹا ہوا تھا اوپر ہی کیا کیونکہ باندھنے اور پھر تختے کے ساتھ جکڑنے کے باعث میں ادھر ادھر بل نہیں سکتا تھا...اس رات اپنی سخت کلیف دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا یہ کی کہ اے خدا تو میرے آقا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کو خبر دے دے کہ میں قید میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں.....اللہ تعالیٰ نے....دوسرے تیسرے دن مجھ کو بذریعہ خواب بتایا کہ حضور میرے لئے کوشش فرما رہے ہیں جس پر مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب درست ہے.چنانچہ جب عاجز آزاد ہو کر قادیان آیا تو میرے استاذ محترم حضرت حافظ روشن علی صاحب اللہ نے مجھے کو واضح الفاظ میں فرمایا کہ حضور کو خوابوں کے ذریعہ تیرے قید ہونے اور تکالیف برداشت کرنے کی خبر دی گئی تھی.چنانچہ اس بناء پر حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ان کو جو ان دنوں ناظر امور خارجہ تھے حکم دیا کہ آپ فورا ماسکو میں انگریز سفیر کو اس مضمون کا خط لکھیں کہ ہم نے ایک سال سے اپنا مبلغ بخارا کی طرف بھیجا ہوا ہے جس کا ہم کو کچھ علم نہیں ہو سکا ".المختصر روسی حکام نے ڈیڑھ پونے دو سال تک آپ کو قید رکھنے کے بعد ہنزلی (ایران کی بندرگاہ) پر چھوڑ دیا.جہاں سے آپ تهران - بغداد - بصرہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۶ء کی صبح کو قادیان پہنچ گئے.مولوی صاحب کی واپسی پر "کشمیر اخبار " لاہور نے " ایک احمدی کا قابل تقلید مذہبی جوش" کے عنوان سے لکھا " مولوی ظہور حسین مبلغ احمدیت جو دو سال سے بالکل لا پتہ تھے پھر ہندوستان واپس آگئے ہیں اس دوران میں آپ کو بہت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا.وہ اپنے ایک خط میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں بغیر پاسپورٹ کے بے کسی اور بے بسی کی حالت میں مشہد سے بخارا کی طرف جانا پڑا اور وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا.راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے.جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے.قتل کی دھمکیاں دی گئیں.بے رحمی سے مارا گیا.تاریک کمروں میں رکھا گیا.کئی کئی دن سور کا گوشت کھانے کے لئے ان کے سامنے رکھا گیا.لیکن وہ سر فروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا.وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا.ان کی تعلیمات کی بدولت احمد کی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا.اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے.جو باتیں آج مولوی ظہور حسین سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر ظہور میں آئی ہیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اشاعت مذہب کے لئے ایسی ہی تڑپ ہوا کرتی تھی.کیا ہمارے ناظرین کو معلوم نہیں ہے

Page 528

تاریخ احمدیت جلد 476 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال کہ امام ابو حنیفہ جیل کے اندر بھی لوگوں کو درس دیتے رہے احمدی مسلمانوں کے عقائد اور عام مسلمانوں کے عقائد میں بوجہ احمدیت اور محمدیت بہت کچھ اختلاف ہے تا ہم اس امر کو بلا خوف تردید تمجید لینا چاہئے کہ ہمارے اندر وہ اخلاص و عزم اور وہ تڑپ اپنے مذہب کی حمایت و اشاعت کے لئے نہیں جو ایک معمولی احمدی بھی اپنے دل کے اندر رکھتا ہے.کاش ! اسلام کے دوسرے فرقے بھی کفر سازی و کفر پروری کی بجائے ایسے ہی مجاہد پیدا کر سکیں " NP مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی دردناک شہادت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالی ابھی لنڈن میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ یہ درد ناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان صاحب ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو ۳۴ سال کی عمر میں محض احمد ی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیے گئے - اناللہ وانا اليه راجعون) مولوی نعمت اللہ خاں صاحب (ابن امان اللہ ) کابل کے پاس ایک گاؤں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیر کے رہنے والے تھے احمدی ہونے کے بعد وہ سلسلہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان چلے گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.1919ء میں جبکہ وہ ابھی تعلیم پارہے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کو کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے افغانستان بھجوا دیا اور چونکہ احمدیوں کے لئے وہاں امن نہیں تھا.اس لئے آپ نے انفرادی رنگ میں اپنے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا.اسی دوران میں ۲۰/ فروری ۱۹۱۹ء کو امیر حبیب اللہ خاں شاہ افغانستان قتل ہو گئے تو امیر امان اللہ خاں نے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد اپنی سلطنت میں کامل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا.بیٹھنے میں - اس اعلان پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اگست 1919ء میں نیک محمد خاں صاحب غزنوی (سابق گور نر غزنی امیر احمد خاں کے فرزند) اور بعض دوسرے اصحاب کو افغانستان سے آمدہ ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کے لئے منصوری بھیجوایا.جو محمود طرزی صاحب (وزیر خارجہ افغانستان) کی قیادت میں انگریزوں سے معاہدہ صلح طے کرنے کے لئے آیا تھا.حضور کا مقصد یہ تھا کہ افغان حکومت کی موجودہ پالیسی کا علم ہو جائے کہ کیا احمدیوں کے لئے بھی مذہبی آزادی ہے اور وہ احمدی افغان جو مذہب میں مداخلت کی وجہ سے اپنے وطن سے ہجرت کرک قادیان آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو جاسکتے ہیں.اس افغان وفد میں ایک ہندو وزیر خزانہ افغانستان بھی شامل تھے انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ میراحمد خاں (رئیس و سابق گورنر غزنی) کا لڑکا ہے اور چودہ سال کی عمر میں احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پاکر

Page 529

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 477 [NA] خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال قادیان آگیا ہے تو انہوں نے روتے ہوئے گلے لگالیا اور کہا کہ تمہارا باپ تو میرا بھائی تھا.تم اپنے وطن میں واپس آجاؤ.میں تمہاری حفاظت کروں گا.یہی وعدہ محمود طرزی صاحب نے کیا.اور یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان میں کسی احمدی کو قطعا کوئی تکلیف نہ ہوگی.کیونکہ ظلم کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.وفد کے دو کمرے ممبروں کے دل پر بھی نیک محمد خاں صاحب کی حالت زار دیکھ کر بہت اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندان کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں.موجودہ شاہ افغانستان امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہو گا.احمدی وفد اپنے نزدیک بہت کامیاب واپس آیا.مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مزید احتیاط کرتے ہوئے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے احمدیوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ کریں اور شاہ کاہل کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں.محمود طرزی صاحب نے ملاقات کے بعد ان احمدیوں کی تکلیف کا ازالہ کر دیا.لیکن چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہو رہا ہے.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے وزیر خارجہ افغانستان اور مشہور ترکی جنرل جمال پاشا ( مقیم افغانستان کو بذریعہ خط توجہ دلائی گئی.اس کے جواب میں کابلی کی وزارت خارجہ کی طرف سے سردار محمود طرزی صاحب نے لکھا." رو قطعه مکتوب شما تاریخ ۳۰/ ماه اپریل ۱۹۲۱ء عیسوی بعنوان جناب جلالت ، آب جمال پاشاد بنام این خدمتگار عالم اسلام رسیده - مضامین و مطالب آنرا مطالعه کرده الی آخرہ دانسته شدیم - جوا جوابا ہے نگاریم که در سلطنت اعلیٰ حضرت غازی پادشاه معظم افغانستان هیچ یک زحمت یا تکلیفی از طرف حکومت درباره تابعین و متعلقین شما در خاک افغانستان ابراز نیافته ".اگر سیا ہ اشخاص تابعین خود را که در خاک افغانستان سکونت دارند برائے ما بفرستید ممکن است اگر تکلیفی درباره شان وارد شده باشد رفع شود".یعنی آپ کے دو خط مورخه ۳۰/ اپریل ۱۹۲۱ء جناب جلالت آب جمال پاشا اور عالم اسلام کے اس خدمت گار کے نام پہنچے جن کے تمام مطالب و مضامین سے آگاہی ہوئی.جو ابا لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی امان اللہ خاں) کے عہد حکومت میں کابل کی سرزمین میں رہنے والے آپ کے متبعین اور متعلقین کو کسی قسم کی زحمت یا تکلیف حکومت کی طرف سے نہیں پہنچائی گئی اور اگر ملک افغانستان میں سکونت رکھنے والے احمدیوں کی فہرست ہمارے پاس بھیج دیں تو ممکن ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کر دیا جائے.זו

Page 530

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 478 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال اس مراسلہ کے کچھ عرصہ بعد علاقہ خوست کے بعض احمدیوں کو پھر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.تو جماعت احمدیہ شملہ نے سفیر افغانستان (متعین ہندوستان) کی معرفت حکومت افغانستان کو ایک درخواست بھیجی - ۲۴/ مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر افغانستان کی معرفت جواب ملا کہ احمدی امن کے ساتھ حکومت کے ماتحت رہ سکتے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا.باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی.جواب میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ معاملہ حضرت شاہ معظم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور آپ کے مشورہ سے لکھا جا رہا ہے.اب جماعت احمدیہ پوری طرح مطمئن تھی کہ افغانستان میں مذہبی آزادی کا دور دورہ ہے مگر ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو حکومت افغانستان نے قید کر لیا ہے.اس اطلاع کے چند ماہ بعد شروع جولائی ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ پہلے تو ان کو یہ صحیح بیان دینے پر کہ وہ احمدی ہیں.رہا کر دیا گیا.مگر پھر جلدی ہی آپ جیل میں ڈال دیئے گئے."" ۲۸/ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ (مطابق یکم اگست ۱۹۲۴ء) کو مولوی نعمت اللہ صاحب نے قید خانہ سے فضل کریم صاحب بھیر دی ( مقیم کابل) کے نام ایک مفصل خط لکھا.جس میں اپنے حالات ان الفاظ میں بتائے کہ یہ کمینہ داعی اسلام میں روز سے ایسے قید خانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشندان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے کسی کے ساتھ بات کرنے کی بھی ممانعت ہے جب میں وضو وغیرہ کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ ہوتا ہے خادم کو قید خانہ میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کو ٹھڑیوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خدا تعالی کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے.یہ خط لے کر حضرت خلیفتہ المسیح کے حضور بھیج دیں.علاوہ ازیں بذریعہ تاریا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دے دیں تادہ دعا فرما دیں کہ خدا تعالٰی مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے.میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کر تا ہوں کہ الٹی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے بلکہ میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ الٹی اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر " - ( ترجمه از فارسی) الغرض مولوی نعمت اللہ خاں محکمہ شرعیہ ابتدائیہ 17 میں پیش کئے گئے.جس نے 11/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا.۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ عدالت مرافعہ کابل کے سامنے پیش کئے گئے.جس نے آپ کے دوبارہ بیانات لئے اور ارتداد سے متعلق پہلے

Page 531

احمد بیت - جلد ۴ 479 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے مزید حکم یہ دیا کہ نعمت اللہ خان کو قتل کرنے کی بجائے ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے.اس فیصلہ کے مطابق ۳۱ / اگست ۱۹۲۴ء کو پولیس نے مولوی صاحب کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھر ایا اور ہر جگہ منادی کی کہ یہ شخص آج ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقعہ پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں.دیکھنے والوں کی شہادت ہے جس وقت آپ کو گلیوں میں پھرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جارہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے.گویا آپ کی موت کا فتویٰ نہیں دیا جارہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جارہی تھی.آخر عصر کے وقت ان کو کابل کی چھاؤنی کے میدان میں (جسے شیر پور کہا جاتا ہے ) سنگسار کرنے کے لئے لے جایا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقعہ دیا جائے حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو.چنانچہ آپ کمر تک گاڑ دیئے گئے اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے پھینکا اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہو گئی.یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خدا تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو گئے.انا للہ وانا الیه راجعون مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے شہادت کے وقت جس جذ به فدائیت اور ایمانی جرأت کا نمونہ دکھایا.اس کا اقرار کرتے ہوئے کابل کے ایک نیم سرکاری اخبار نے ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا." مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی سے مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی اپنے عقیدہ کو باد از بلند ظاہر کرتا رہا.اخبار ڈیلی میل" کے کابلی نامہ نگار نے بتایا.ایک بہت بڑا مجمع یہ فتوی عمل میں لانے کا نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا تھا مگر اپنے نہایت ہی خوفناک انجام کے باوجو د (جو اس کا انتظار کر رہا تھا) وہ شخص نہایت مضبوط اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقیدہ پر قائم رہا.اسی حالت میں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر رہا تھا اس کثرت سے پتھروں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہو گئی کہ چند لمحوں میں اس کا جسم کلی طور پر پتھروں کے بہت بڑے تو دے کے نیچے دب گیا - ( ترجمہ ) اسی طرح ایک آریہ اخبار "پر کاش" نے ۲۱ / ستمبر ۱۹۲۴ ء کے پرچہ میں لکھا.”ہمارا احمدیوں سے سخت اختلاف ہے.لیکن باوجود اس کے ہم انہیں مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ایک

Page 532

تاریخ احمدیت جلد نم 480 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال فرد نے اپنے مذہب کے لئے شہید ہونا منظور کیا ہے.اگر چہ کابل کی عدالت نے کہہ دیا تھا کہ مولوی نعمت اللہ کے لئے بروئے شرع تو یہ بھی نہیں ہے تاہم ان کے باعث فخر ہے کہ انہوں نے آخری وقت تک تو بہ نہیں کی پتھر کھا کھا کر مرنا کوئی معمولی بات نہیں.یہ ایک انتہائی ایڈا کی موت ہے باوجود اس کے انہوں نے اسے منظور کیا لیکن احمدی ہونے سے انکار نہیں کیا.حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے بعد ان کی لاش پر پہرہ لگا دیا گیا.ان کے بوڑھے غیر احمد کی باپ نے حکام سے لاش لینے کی درخواست کی مگر حکومت نے صاف انکار کر دیا.انصاف پسند دنیا کا زبردست احتجاج اس دردناک حادثہ کی خبر شائع ہونے پر ہر ملک میں شہید کی مظلومیت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا گیا اور تمام متمدن اور انصاف پسند دنیا نے اس کارروائی کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا چنانچہ جہاں یورپ کے اخباروں مثلاً " ٹائمز " - " آبزرور " " فنانشل ٹائمز " " نیئر ایسٹ"."ڈیلی ٹیلیگراف"."مارننگ پوسٹ" "ڈیلی نیوز"- "ڈیلی میل" نے " اس کے خلاف سخت احتجاج کیا اور نوٹ لکھے وہاں ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم پریس نے بھی اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی چنانچہ بطور نمونہ چند اخباروں کے اقتباس درج ذیل کئے جاتے ہیں.- مشهور شیعہ اخبار " ذو الفقار " نے ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا :- ” نہایت افسوس ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ایک احمدی مسلمان تھے.قرآن ایک ہے.خدا ایک ہے.رسول ایک کعبہ ایک پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور روزے رکھتا تھا صرف اس کا یہ جرم تھا کہ وہ امیر افغانستان کے مذہب کا مسلمان نہیں تھا.جو پہلے گرفتار کر لیا گیا اور اس کو اپنے مذہب پر پھیرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر اس نے قبول نہیں کیا.اس لئے ظالمانہ سزا سے ایک غریب الوطن کو قتل کر دیا گیا.خدا مرحوم کو غریق رحمت کرے.اس رنج میں ہمیں احمد کی صاحبان سے دلی ہمدردی ہے اور امیر کے اس فعل ظالمانہ سے سخت نفرت ہے جس حکومت میں یہ ظلم اور ستم روا رکھا گیا ہے اس کا کا منہ عمر جلد ٹوٹ جائے گا.ایسی حکومت دیر پا نہیں رہتی "- ۲.صوبہ بنگال کے بااثر ہندو اخبار "بنگالی (کلکتہ) نے ۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا." یہ ہر رنگ میں بالکل خلاف انسانیت اور وحشیانہ ہے مگر اس معاملہ میں جو دھوکہ دہی اور بد عہدی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے ضمیر کی کامل آزادی کا اعلان کیا تھا".اخبار " سول اینڈ ملٹری گزٹ " لاہور (۱۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا."افغان عدالتوں کا.....سارا فیصلہ ایک ایسے جاہلانہ مذہبی تعصب سے لبریز نظر آتا ہے کہ جس IA

Page 533

تاریخ احمدیت جلد ۴ 481 خلافت ثانیہ کا گیار جواں سال کے امکان کا تصور بھی بیسویں صدی میں مشکل سے ہو سکتا ہے یہ بات بے شک باور کی جاسکتی ہے کہ اس مقدمہ کی تہہ میں ایک پولیٹکل تحریک تھی یعنی در حقیقت اس کا موجب وہ عصر ہوا جس کو خوش کرنے اور جس کی مخالفت کو موافقت سے بدلنے کا امیر کو خاص فکر ہے کیونکہ اس کی اصلاحات پر ان بے حد متعصب لوگوں کی طرف سے خلاف شرع اسلام ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر امیر کا فٹا اپنی سلطنت کے ان بڑھتے ہوئے متعصب لوگوں کو خوش کرنا ہی تھا تو یہ بات اس نے اس نیک نامی پر قربان کر کے حاصل کی ہے جو اس کی گورنمنٹ کو ترقی یافتہ ہونے اور مذہبی رواداری کے لئے حاصل ہو سکتی تھی " اخبار مسلم " لاہور نے ۱۷/ تمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا.حکومت افغانستان کا یہ فعل کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو محض مرزا صاحب کا پیرو ہونے کی وجہ سے مرتد قرار دیا اور پھر اس خام خیالی پر سنگسار کر دیا مسلمان کہلانے والوں کے لئے باعث شرم ہے.AP 22 ۵- پیسہ اخبار " لاہور (۱۸) تمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا.گو ابھی تک اس واقعہ کی مزید تفصیل دستیاب نہیں ہوئی.لیکن اب پاؤنیر سے معلوم ہوا ہے کہ متعصب عقیدہ کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سزا کی اجازت دے دی ہو گی.چونکہ افغانستان میں اسلام سلطنت کا مذہب ہے اور اس کے استحکام پر سلطنت کے استحکام کا مدار ہے.اس لئے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن احمدی صاحبان کا یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ امیر صاحب نے سال گزشتہ میں نہ ہی حریت کا اعلان کر دیا تھا....حضرت خلیفتہ المسلمین معزول سلطان عبد المجید خاں نے بھی سوئٹر رلینڈ سے کابل کے اس مذہبی قتل پر سخت صدائے احتجاج بلند کی ہے اور دول یورپ کو اس پر توجہ دلائی ہے.معلوم نہیں وول یورپ افغانستان کے اس مذہبی معاملہ میں کیا مداخلت کر سکتی ہے بہر حال واقعہ افسوسناک ہے".آریہ پتر " (۲۴/ نمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا." غیر مسلم مذہب کے لوگ اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا انحصار زیادہ تر جبر و تشدد اور تلوار پر ہے.لیکن مسلم اصحاب اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعوئی یہ ہے کہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور اس کے عقائد کی خوبیاں ہی اس کی اشاعت کا خاص سبب ہیں.جو ہو ابھی حال میں کامل کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ہر میجسٹی امیر کابل نے ایک احمدی بھائی نعمت اللہ خاں کو اس لئے نہایت بے رحمانہ اور وحشیانہ طریق پر ہلاک کر دیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتا تھا.اس ایک واقعہ سے مذہبی معاملات میں اسلامی اسپرٹ کا اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے".

Page 534

تاریخ احمدیت جلد ۴ 482 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ے.الہ آباد کے انگریزی اخبار "لیڈر" نے ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا نعمت اللہ خان کی ہلاکت کے لئے جو خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا سفاکانہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ یقینا ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل کو ہلا دے گا ایک احمدی نامہ نگار کا بیان ہے کہ اس غریب کو کابل کی تمام گلیوں میں پھر ایا گیا.اور پولیس اس کے ساتھ ساتھ اعلان کرتی گئی کہ اسے کفر کے جرم میں سنگسار کیا جائے گالوگ اکٹھے ہو کر اس کی خوفناک ہلاکت کا مشاہدہ کریں.پھر اسے کابل چھاؤنی میں ایک کھلی جگہ لے جا کر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا.تب کامل کے مفتی نے اس پر پہلا پتھر پھینکا.اس کے بعد چاروں طرف سے اس بے چارے پر پتھروں کی بارش ہونے لگی جو اس وقت تک برابر جاری رہی جب تک وہ پتھروں کے ایک بڑے ڈھیر کے نیچے دب نہ گیا.قتل کا یہ وحشیانہ طریقہ کابل کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم سے عمل میں لایا گیا جس نے حکم دیا تھا کہ عوام الناس کی موجودگی میں اسے سنگساری سے ہلاک کیا جائے ".IAD - کلکتہ کے انگریزی اخبار "مسلمان" نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا.گورنمنٹ کابل نے مولوی نعمت اللہ خاں کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے فتویٰ موت صادر کرنے میں جس بے جا تعصب کا اظہار کیا ہے اور جس وحشیانہ طریق سے ان کا قتل عمل میں لایا گیا ہے ہماری حقیر رائے میں اسلام اور انسانیت کے لئے باعث ننگ و عار ہے.ہم مسلمان ہیں اور فرقہ حنفیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی والی افغانستان کا مذ ہب ہے.ہم احمدی فرقہ کے بعض عقائد سے متفق نہیں اور گو ہم مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ہماری شریعت میں ایسی نارواداری ہے کہ محض اختلاف عقائد کی وجہ سے حکومت ہونے کی صورت میں قتل کو ردار کھتی ہو.عیسائی اور یہودی تو رسول ﷺ کی نبوت کے ہی قائل نہیں کیا انہیں بھی سنگسار کرنا چاہئے.اگر ایسا ہی ہے تو کیوں عدالت ہائے افغانستان نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف جو مملکت افغانستان میں بستے ہیں فتوئی موت صادر نہیں کیا.....ہم یہ ضرور کہیں گے کہ نعمت اللہ خاں پر فتویٰ اور اس پر طریق عمل نے ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے.......یہ اسلام کے خوبصورت چہرہ پر ایک بد نما دھبہ ہے.مہذب دنیا میں یہ فعل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدہ خیالات پیدا کرے گا.ہم امید رکھتے ہیں کہ اس غلطی کا اعادہ نہ ہو گا اور آئندہ افغانستان اس امر کو گوارا نہ کرے گا کہ اسے تعصب اور نارواداری کا مجسمہ سمجھا جائے " ۹ اخبار ” وکیل امر تسر نے اپنی ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا.یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ افغانستان کے اس فیصلے سے پہلے ہمارے مسلم معاصرین فرقہ احمدیہ HAY

Page 535

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 483 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال کو ایک اسلامی فرقہ تسلیم کرتے تھے اور فتنہ ارتداد کے متعلق اس کے افراد کی مساعی حسنہ کو اپنے کالموں میں انتہائی استحسان کے ساتھ درج کیا کرتے تھے.ممالک غیر میں اشاعت اسلام کے متعلق ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو فروعی قرار دیتے تھے جو احمدی و غیر احمدی مسلمانوں کے عقائد میں موجود ہیں.پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کونسا نیا تغیر فرقہ احمدیہ کے عقائد میں رونما ہو گیا ہے کہ وہ ایک احمدی کو مرتد قرار دینے لگے ہیں.اگر حکومت افغانستان نے کسی سیاسی امر کی بناء پر ایک احمدی کا قتل مناسب خیال کیا تھا تو اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے تھا.وہ اپنے فیصلہ میں صاف لکھ سکتی تھی کہ اس شخص کو کسی سیاسی امر کی بناء پر قتل یا سنگسار کیا جاتا ہے.اس نے محض ارتداد کو موجب رجم قرار دینے میں غلطی کی اور شریعت سے منسوب کر کے اس غلطی کو اور بھی غلیظ بنا دیا.ہمارے بعض علماء و معاصرین نے اس غلطی کی تائید کرنے میں اسلام کی نہیں بلکہ اپنے معاندانہ جذبات کی ترجمانی کی ہے." ۱۸۷ " لکھنو کے مشہور روزانہ اخبار " اودھ " (۵ / اکتوبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا.یہ معاملہ محض ایک قادیانی کی سنگساری کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل کی سلطنت میں کوئی شخص ایسے اعتقادات و خیالات رکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا.جو وہاں کے با اقتدار علماء و حکام کے خلاف ہوں.ہمیں یقین ہے کہ تمام متمدن دنیا اب اس تاریک حد سے بہت دور چلی گئی ہے.جبکہ آزادی رائے و خیال پر بھی پابندیاں عائد تھیں.اب کسی متمدن ملک میں دلوں پر حکومت کرنے کی کوشش ویسی نہیں ہو رہی ہے جیسی کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتی ہو گی.اس وجہ سے اس متمدن دنیا میں اور اس آزادی کے دور میں کابل کا واقعہ تمام دنیا کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے - - اخبار تہذیب نسواں " (لاہور) نے ۱۴ / اکتوبر ۱۹۲۴ء میں لکھا.اعلیٰ حضرت امیر کابل نے تخت نشینی کے موقع پر اپنی سلطنت میں ہر قوم کو پوری نمذہبی آزادی دینے کا بڑے زور سے اعلان فرمایا تھا.ایسے اعلان کے بعد اس قسم کے دردناک واقعہ کا ظہور میں آنا بے انتہا افسوس کی بات ہے.احمدی فرقے کے مسلمان بالعموم دیندار امن پسند مربج مرنجان لوگ ہیں.عقائد میں ان کا ہم سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو.مگر اسلام کی خدمت جو یہ لوگ کر رہے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ وہ خدمت ہم مسلمانوں کے کسی اور فرقہ سے نہیں ہو سکتی.ملکانہ راجپوتوں میں فرائض تبلیغ جس خوبی سے ان خادمان دین نے ادا کئے ہیں وہ اب تک کسی دوسرے فرقے سے ادا نہیں ہو سکے.پھر ان خدمات کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں احمدی فرقے کے مبلغین خدمات اشاعت اسلام کے باب میں بالکل منفرد ہیں.یہ خدمات مسلمانوں کے اور کسی فرقے سے نہیں ہو سکیں اور اب کوئی کرے گا تو

Page 536

تاریخ احمدیت جلد ۴ خلافت ثانیہ کا گیار جوان سال انہیں کی تقلید کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالٰی کے ہاں جو ٹو اب ان نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کے لئے لکھا گیا ہو گا وہ اب دوسروں کو ملنا مشکل ہو گا.حریفاں باده با خوردند رفتند فی خانه با کردند و رفتند ایسے مفید و نیک دل گروہ کے مبلغ کو یوں بے دردی سے پتھراؤ کر کے ہلاک کر دیا جائے کتنے شدید اور خوفناک ظلم کی بات ہے.اس واقعہ جانکاہ کا ذرا تصور دل میں لاؤ کہ جس وقت ایسے بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کر کے اس پر پتھر مارنے شروع کئے ہوں گے اور وہ اس کے منہ سر اور آنکھوں پر لگے ہوں گے اور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کر ہر طرف خون کی دھاریں چل رہی ہوں گی.اس وقت اس عاجز بے بس و بے کس کا کیا حال ہوا ہو گا.لکھا ہے کہ اس شدید عذاب سے ان کی روح جسم سے مفارقت کر گئی اور ان کے دلفگار رفیقوں نے پتھروں میں سے ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیاء نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی " AS ۱۲ " آل انڈیا مسلم لیگ" کے صدر آرییل سید رضا علی صاحب نے مولوی نعمت اللہ خان کی نگاری کے دلخراش واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا.اگر کسی سیاسی جرم میں انہیں سزادی گئی ہوتی تو ہمیں کوئی سروکار نہ ہوتا.لیکن اخباروں میں جو فیصلے شائع ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بعلت ارتداد سنگسار کیا گیا اور یہی باعث ہے جو مسلمان بے تعلق نہیں رہ سکتے.مذہبی اختلافات پر بحث کرنے کی مجھ میں اہمیت نہیں.یہ کہہ سکتا ہوں کہ کسی اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں کہ محض کسی روحانی عقیدہ کے لئے وہ اپنی کسی رعایا کو قتل کرے.اگر یہ خیال پھیلا کہ اسلامی حکومتیں رواداری نہیں برت سکیں تو اسلام کی اخلاقی قوت بہت کمزور ہو جائے گی".۱۳- اخبار "ذوالفقار " نے ۱/۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں دوبارہ لکھا.ہمیں احمد ی صاحبان سے مذہبا کوئی اتفاق رائے نہیں ہے.مگر انسانی ہمدردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم امیر افغانستان کے اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل پر اظہار رنج و نفرین کریں اور اس کو متعصب اور مذہبی دیوانہ اور نا قابل حکومت اور سلطنت کہیں.کسی والی ملک کا یہ فرض منصبی نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب سے اختلاف رائے رکھنے والے کمزور کسی فرقہ یا شخص کو موت کے کھاٹ اتارتا جائے اور زیر دست قوم کے دباؤ سے دیتا ر ہے ".

Page 537

تاریخ احمدیت جلد ۴ 485 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال متمدن اور مہذب دنیا کے جمعیتہ العلماء ہند کی طرف سے امان اللہ خاں کو مبارکباد اس احتجاج عام کے مقابل ہندوستان کے متعصب اور سنگدل علماء نے اس خبر پر خوشی کے شادیانے بجائے چنانچہ ” جمعیتہ العلماء ہند کی طرف سے مولوی حبیب اللہ صاحب ناظم دارالعلوم دیو بند نے امیر امان اللہ خاں کو مبارکباد کا تار دیا اور لکھا کہ."" مرکزی جماعت دار العلوم دیو بند ولی مسرت و اطمینان کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ اعلیٰ حضرت امیر غازی نے ایک مرد پر حسب قواعد شرعیه حدد تعزیر جاری کر کے امیر شہید رحمتہ اللہ علیہ کے اسوہ حسنہ پر عمل اور خلفاء راشدین کے مبارک عہد اور ملوک عادلہ اسلام کے طریق کو زندہ کیا ہے.یہ ایک فیصلہ ہے جس نے ہندوستان کی فضا میں ایسے وقت جبکہ قادیانی رہزن نام نہاد نہ ہبی آزادی کی آڑ لے کر غارتگری میں مصروف تھے.سکون واطمینان پیدا کر دیا ہے اور جو نہایت قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اعلیٰ حضرت امیر غازی اپنے اس غیر متزلزل اتباع شریعت پر صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں.اور یہی وہ امر ہے جو ہم کو دولت خداداد کی ترقی و استحکام اور ملت افغانیہ کے عروج کی غیبی بشارت سناتا ہے.۱۹۲۰ حضرت خلیفتہ امسیح کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام حضرت خلیفہ البیع الثانی نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے سانحہ شہادت پر ۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ "برادران ! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلانا چاہئے.جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے.جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربانی کر دی ہے اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرتا ہے آؤ ہم اس لمحہ سے یہ معم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے (یعنی وہاں احمدیت نہیں پھیلالیں گے) صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب نعمت اللہ خان صاحب اور عبد الرحمن صاحب کی رو میں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلا رہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی.اس پیغام پر جماعت کے بہت سے مخلصین نے حضور کی خدمت میں اپنے نام پیش کئے کہ وہ کابل میں جاکر تبلیغ کرنے اور مولوی نعمت اللہ خان کی طرح جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا.سید نا و امامنا

Page 538

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 486 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاته میری زندگی اب تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں.میں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ملے اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے.آج جو ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہو وہاں یہ بھی تحریک ہوئی کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کو کسی کام میں لاؤ اور اپنے تئیں افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لئے پیش کرد.پھر میں اچانک رکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا اپنے تئیں پیش کرتا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کر دیا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو.حضور انور میں کمزور ہوں ، ست ہوں ، آرام طلب ہوں لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں فوری شہادت کے لئے نہیں ، دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے تو بہ کا موقعہ میر کرنے کے لئے اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں اگر مجھ جیسے نا بکار گنھگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ تو فیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں.حضور میں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یاری دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کیا ہے.a بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو پھر ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں اس لئے اس پر بس کرتا ہوں کہ میں جس وقت حضور حکم فرما دیں افغانستان کے لئے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فقط حضور کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہوں.رسالہ "خالد" دسمبر ۱۹۸۵ ء د جنوری ۱۹۸۶ ، صفحه ۱۸۱ تا ۱۸۴) والسلام حضور کا ادنی ترین خادم خاکسار ظفر اللہ

Page 539

تاریخ احمدیت جلد ۴ 487 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا."میرا نام بھی ان مجاہدین کی فہرست میں داخل فرمائیں.جو جام شہادت کے پینے کے لئے تیار ہو رہے ہیں".مولوی عبد المغنی خان صاحب نے درخواست دی کہ حضرت نعمت اللہ خاں شہید کے واقعہ پر اگر حضور پسند فرما ئیں تو میں اس امر کے لئے تیار ہوں کہ کابل جا کر شہید موصوف کے قدم بقدم چل کر سنگسار کیا جاؤں".مولوی ابو العطاء صاحب فاضل نے درخواست پیش کی کہ حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ گناہگار کو اس خدمت کے لئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالٰی کامل ایمان استقامت اور ثبات عطا فرمائے ".منشی عبد الخالق صاحب کپور تھلوی نے لکھا." خادم کو مکرم برادرم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے شہادت پانے سے جدائی کا سخت صدمہ پہنچا ہے..اب وہ جگہ شہید کی کابل میں خالی ہے.لہذا امیدوار ہوں کہ اس جگہ پر کمترین کی پرورش فرمائی جائے اور کابل بھیج دیا جائے.شاید اسی راستہ سے اس نابکار کو وصال الہی ہو.خادم حضور انور نے فارسی کی مشق شروع کر دی ہے اور قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں دیکھنا شروع کر دیا ہے".- ان کے علاوہ کئی اور مخلصین نے اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کیا.مثلاً مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) ملک صلاح الدین صاحب - نذیر احمد علی صاحب چوہدری بدرالدین صاحب مبلغ ملکانه - غلام رسول صاحب افغان - احمد نور صاحب کاہلی.میاں عطاء اللہ صاحب (بی.اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ) مولوی غلام احمد صاحب فاضل بد و طهوی- سید لال شاہ صاحب (اول) مدرس لوئر مڈل سکول شرقپور ضلع شیخوپورہ) ماسٹر نذیر احمد صاحب چغتائی.مولوی محمد شہزادہ خاں صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس کراچی- حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیان- مولوی محمد حسین صاحب مبلغ ملکانہ -

Page 540

تاریخ احمدیت جلد ۴ پانچواں باب (فصل سوم) 199 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال دو بزرگ ہستیوں کا انتقال اس سال کے نہایت اہم اور دردناک واقعات میں سے یہ ہے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت امتہ الحی صاحبہ (حرم ثانی حضرت خلیفہ المسیح الثانی) جیسی بزرگ ہستیاں بھی داغ مفارقت دے گئیں.انا الله وانا اليه راجعون حضرت میر ناصر نواب صاحب کا وصال ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق اور عظیم الشان خدمات دینیہ کے باعث سلسلہ احمدیہ میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا.اکل حلال جرأت ایمانی، محنت و مشقت استقلال، سخاوت، ہمدردی خلق اور احکام شریعت کا کمال اہتمام آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکا تھا.پوری عمر قال اللہ اور قال الرسول پر سختی سے کار بند رہے.سلسلہ کی خدمت کا ہر کام اعزازی کیا.اور آنریری کام کرنے کے باوجود تنخواہ لینے والوں سے زیادہ محنت و استقلال کا ثبوت دیا ( آپ کی خدمات کا تذکرہ) " تاریخ احمدیت " جلد سوم میں کیا جا چکا ہے) حضرت میر صاحب کی وفات کے دو ماہ بعد ۱۰ دسمبر ۱۹۲۴ء کو (ام خلیل) حضرت امتہ الھی صاحبہ بھی اپنے مولا سے جاملیں.حضرت خلیفتہ المسیح نے آپ کی وفات پر فرمایا.عورتوں پر خصوصیت سے میری اس بیوی کا احسان ہے.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد میرا منشا نہیں تھا کہ میں عورتوں میں درس دیا کروں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان والد کی وفات کے تیسرے روز ہی امتہ الحی نے مجھے کو رقعہ لکھا ( اس وقت میری ان سے شادی نہیں ہوئی تھی) کہ مولوی صاحب مرحوم اپنی زندگی میں ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے.حضرت مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے وصیت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں.اس لئے میں اپنے والد صاحب کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں.وہ کام جو میرے والد صاحب کیا کرتے تھے.اب آپ اس کو جاری رکھیں وہ رقعہ ہی تھا جس کی بناء پر میں نے عورتوں میں درس دینا شروع کیا اور وہ رقعہ ہی تھا جس کی وجہ سے میرے دل میں ان سے نکاح کا خیال پیدا ہوا.پس اگر اس درس کی وجہ سے کوئی فائدہ عورتوں کو پہنچا ہو تو یقینا اس کے ثواب کی مستحق بھی مرحومہ ہی ہے......بلکہ حق تو یہ

Page 541

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 490 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ہے کہ عورتوں میں خطبہ.لیکچرز سوسائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہو سکتا ہے اس کی محرک وہی ہیں ".لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس اور حضرت خلیفہ ثانی کی سیاسی راہنمائی ملک میں دو -192 مشهور سیاسی ۱۹۸ پارٹیاں قائم تھیں آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز مسٹر ہیوم نے ۱۸۸۵ء میں رکھی.اور ابتد اور اس کے بنیادی مقاصد میں انگریزی حکومت اور ہندوستانیوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا جو رفتہ رفتہ مکمل آزادی کے مطالبہ میں تبدیل ہو گیا.مسلم لیگ کی تاسیس ۳۰ ستمبر ۱۹۰۶ء کو وقار الملک نواب مولوی مشتاق حسین صاحب کی زیر صدارت عمل میں آئی اور اس کا نصب العین یہ تجویز ہوا کہ ”ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی محافظت و ترقی اور حکومت (برطانیہ) کی وفاداری کے ساتھ ہمسایہ اقوام سے اتفاق و اتحاد بڑھانے کی کوشش ".کانگریس میں گو مسلمان زعماء کی ایک خاصی جماعت شامل تھی مگر عملاً اس پر ہندوؤں کا قبضہ تھا.اس کے بر عکس مسلم لیگ خالص مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی جس میں مسٹر محمد علی جناح جیسے مشہور لیڈر شامل تھے.جو ۱۹۲۱ ء میں کانگریس سے علیحدہ ہو چکے تھے اور مسلم مفاد کی ترجمانی کا فریضہ انتہائی خلوص سے ادا کر رہے تھے.اور گو اس ابتدائی دور میں مسلمانوں نے ان کی سیاسی عظمت کو نہیں سمجھا.مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اسی وقت سے ان کی قومی خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ حضور نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو بریڈ لا ہال میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسٹر جناح اور راجہ صاحب محمود آباد سے بے التفاتی پر سخت اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا تھا.ایک زمانہ تھا جب مسلمان ان کی بہت بڑی قدر کرتے اور ان کو اپنا لیڈر سمجھتے تھے.مگر اب یہ حالت ہے کہ ان کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے...اس طرح مسلمان نقصان اٹھا رہے ہیں.اسی طرح شملہ میں لیکچر دیتے ہوئے فرمایا.جناح صاحب اس وقت سے مسلمانوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کہ محمد علی صاحب (جو ہر.ناقل) ابھی میدان میں نہ آئے تھے...میں صاف صاف کہتا ہوں کہ جناح صاحب میرے لیڈر نہیں.میں اپنی قوم کا آپ لیڈر ہوں لیکن میں ان کی خدمات کے باعث ان کو قابل عزت اور قائم ادب سمجھتا ہوں جب تک مسلمانوں میں یہ احساس نہ ہو کہ خدمت کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کریں اور ان کا ادب کریں اس وقت تک ان میں قومی و قار پیدا نہ ہو گا ".مسٹر محمد علی جناح کی خدمات ہی کا اثر تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو نہ صرف ان کی

Page 542

احمدیت.جلد ۴ 491 ی کا گیار هوار ذات سے بلکہ مسلم لیگ " سے بھی گہری ہمدردی پیدا ہو چکی تھی.خصوصاً اس لئے کہ یہ واحد سیاسی ادارہ تھا جو مسلمانان ہند کے سیاسی تحفظ کو پیش کر رہا تھا اور حضور کی از حد خواہش تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم بنانا چاہئے.چنانچہ اسی خیال سے آپ نے مسلم لیگ کے اجلاس لاہور ( منعقدہ ۲۳ مئی ۱۹۲۲ء) کے لئے اساس الاتحاد" کے نام سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا.جسے اجلاس کے موقعہ پر مفت تقسیم کیا گیا.مسلم لیگ کی استقبالیہ کمیٹی نے حضور کو اجلاس میں شرکت کی خاص طور پر دعوت دی تھی جو اس رسالہ کی وجہ تصنیف بنی.یہ اور مسلم لیگ کی تاریخ میں انتہائی نازک دور تھا.اس وقت مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ کر اپنا اثر و نفوذ ختم کر چکی تھی.مگر آپ نے " اساس الاتحاد" کے ذریعہ اس میں زندگی کے نئے آثار پیدا کرنے کے لئے نہایت اہم اور مفید مشورے دیئے.اس سلسلہ میں سب سے اہم نکتہ مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد کے سامنے مندرجہ ذیل الفاظ میں رکھا.مسلم کی تعبیر مذ ہبی نقطہ خیال سے اور ہے اور سیاسی نقطہ خیال سے اور مذہبی نقطہ خیال سے تو مختلف فرق اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نزدیک بنائے اسلام رکھتے ہیں متفق ہوں.اور سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے لفظ منظم کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے....پس ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کے لئے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقوں کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کا فری سمجھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی صریں ثبت ہوں ".۲۰۴ حضور نے اساس الاتحاد میں ان اہم نکات کو بھی دو ہرایا جو آپ نے ملکی قوموں میں اتحاد کے لئے ۱۹۲۳ء میں پیش فرمائے تھے اور ایسی تدابیر تائیں جن پر آپ کے نزدیک ملکی جماعتوں میں مستقل اور پائیدار صلح و امن کی اساس رکھی جاسکتی تھی.مسلم لیگ نے بالآخر یہ عظیم الشان نکتہ تسلیم کر کے اعلان کیا کہ اس کا دروازہ ہر مدعی اسلام کے لئے کھلا ہے.چنانچہ مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے مسلم لیگ کانفرنس میرٹھ میں کہا."اس (مسلم لیگ.ناقل ) نے اپنے دستور میں اعلان کر دیا ہے کہ ہماری مراد مسلم کے لفظ سے صرف اس قدر ہے کہ اس میں شریک ہونے والا اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو اور اس کا کلمہ پڑھتا ہو کیونکہ مسلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت نہیں.علماء کے فتاوی اپنی جگہ پر قائم رہیں گے صرف غیر کلمہ گویوں کے مقابلہ میں قدرے

Page 543

تاریخ احمدیت جلد ۴ تو سیع کیا گیا ہے" 107 خلافت تائید کا گیارھواں سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کے لئے صرف مشوروں اور تجاویز بتلانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر ممکن اخلاقی، آئینی اور مالی ذرائع سے اس کی اعانت بھی کرنے لگے.چنانچہ یہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی خود فرماتے ہیں.جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے منعقد کرنے کے لئے بھی روپیہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا.مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنو کے ایک وکیل ملے انہوں نے کہا میں قریباً نو سال مولانا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہو تا تھا آپ کو اس میں بلایا جاتا تھا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا.....اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکتا تھا تو آپ سے مالی امداد لی جاتی تھی ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں ".یہ بات ایسی کھلی تھی کہ غیر مسلم بھی اسے جانتے تھے چنانچہ ارجن سنگھ صاحب عاجز (ایڈیٹر اخبار "رنگین " امر تسر نے ) اپنی کتاب "سیر قادیان " میں جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک بیان کرتے ہوئے لکھا.مسلمانوں کی کئی سیاسی جماعتیں ہیں اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ احمدی جماعت مسلم لیگ کے طرز عمل کی حامی ہے چنانچہ ذمہ دار احمدیوں سے تبادلہ خیالات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے مسلم لیگ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہزارہا روپیہ خرچ کرنے کے علاوہ اپنی تمام کوششیں مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے وقف رکھی ہوئی ہیں" " دعوۃ الامیر" کی اشاعت حضرت خلیفہ المسع الانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کو اوائل خلافت ہی سے والیان ریاست تک پیغام احمدیت پہنچانے کا از حد خیال رہا ہے جیسا کہ نظام حیدر آباد دکن والی ریاست رامپور اور والیہ ریاست بھوپال کے نام تبلیغی خطوط بھیجوانے کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے اس سال (۱۹۲۴ء میں) حضور نے امیر امان اللہ خان بادشاه افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لئے "دعوۃ الامیر" کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع فرمائی.جس کا فارسی ترجمہ حضرت حکیم مولانا عبید اللہ صاحب بہل نے کیا.حضور نے اس بے نظیر کتاب میں (جس کا ایک حصہ خدا تعالٰی کے القاء کا نتیجہ ہے ) نہایت جامعیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ماموریت کے بارہ میں ۲۰۹

Page 544

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 493 خلافت ثانیہ کا گیار هوان سال ولا ئل بیان فرمائے اور حضور علیہ السلام کی پوری ہونے والی بارہ اہم پیشگوئیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.اس شاندار تحفہ کا انتقام مندرجہ ذیل الفاظ پر کیا ہے.اللہ تعالی کے مامور پر ایمان لائے تاخد اتعالٰی کی طرف سے آپ کو امن دیا جائے اور اسلام کی آواز کو قبول کیجئے تا سلامتی سے آپ کو حصہ ملے میں آج اس فرض کو ادا کر چکا ہوں جو مجھ پر تھا.خدا تعالی کا پیغام میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے.اب مانتا نہ ماننا آپ کا کام ہے ".افسوس امیر امان اللہ خان نے نہ صرف یہ آسمانی تحفہ قبول کر کے خدا کی امان کے نیچے آنے سے انکار کر دیا بلکہ انتہائی شوخی اور بے باکی سے مظلوم اور بے کس احمدیوں کو پے در پے اپنے مظالم کا نشانہ بنایا جس کا خمیازہ انہیں عبرتناک رنگ میں بھگتنا پڑا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا.یعنی ۱۹۲۹ء میں ایک ڈاکو بچہ سقہ نے تخت کامل پر قبضہ کر لیا.اور انہیں بھاگ کر پہلے قندھار اور پھر قندھار سے بیٹی کے رستہ جا کر اٹلی میں پناہ گزین ہونا پڑا.جہاں وہ کئی سال تک نہایت کسمپرسی اور گمنامی کی م في زندگی بسر کرنے کے بعد ۳/ اپریل ۱۹۹۰ء کو راہی ملک عدم ہو گئے فاعتبروا یا اولی الابصار - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا بیان ہے کہ جب وہ یورپ روانہ ہوئے تو خود ان کے ایک درباری نے آپ کی خدمت میں خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ جو کچھ ہماری ذلت ہوئی وہ اسی ظلم کی وجہ سے ہوئی جو ہم نے احمدیوں پر کیا تھا امید ہے کہ اب جبکہ ہمیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے " لئے بد دعا نہ کریں گے.2 " دعوة الامیر کو گو امیر امان اللہ نے کوئی اہمیت نہ دی مگر دعوۃ الامیر کا اثر سعید روحوں کو یہ کتاب بہت سی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنی اور بن رہی ہے.یہی وہ عظیم الشان کتاب ہے جو خان فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر ( سابق صوبہ سرحد) کو احمدیت میں لانے کافوری باعث ہوئی.$1 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں.سرحد کے ایک رئیس چوہدری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر تھے.وہ ایک دفعہ دہلی میں مجھے ملے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم چار بھائی ہیں جن میں سے دو بھائی غیر احمد کی ہیں اور دو بھائی احمدی ہیں.اپنے متعلق انہوں نے کہا کہ میں ابھی تک آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوا.ہم پورا پورا انصاف کرنے کے عادی ہیں روپیہ میں سے اٹھنی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی دوسرے مسلمانوں کو دے دی ہے.میں نے بھی ان سے مذاقاً کہا کہ خان صاحب ! ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے.ہم تو پورا لے کر چھوڑا کرتے ہیں.وہ اس وقت معہ اہل و عیال انگلستان کی سیر کو جار ہے

Page 545

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 494 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تھے.میری اس بات کو سن کر انہوں نے کہا کہ خان محمد اکرم خان صاحب چار سدہ والے میرے بھائی ہیں انہوں نے آپ کی بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ ولایت چلے گئے.ابھی تین مہینے ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک چٹھی پہنچی اس کے شروع میں ہی یہ لکھا تھا....کہ میں وہ ہوں جو آج سے تین ماہ پہلے دہلی کے شاہی قلعہ میں آپ سے ملا تھا.اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم نے پورا پورا انصاف کیا ہے اٹھنی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی غیر احمدیوں کو دے دی ہے جس پر آپ نے کہا تھا کہ ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں.سو آپ کے حکم کے مطابق اب ایک چوٹی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرتا ہوں...اور لکھا کہ جب میں ولایت میں آیا اور میں نے مختلف مقامات کی سیر کی تو گو میں پٹھان ہوں اور مذہبی جوش میرے دل میں موجود ہے مگر کفر کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر میرا دل پڑ مردہ ہو تا چلا گیا.مجھے یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آسکتا.ایک دن میرے دل پر اس خیال کا بے انتہا اثر ہوا.اور حالت مایوسی میں میں نے کہا آؤ ان کتب کو پڑھ کر دیکھو جو میرے بھائی نے میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں.چنانچہ پہلے " اسلامی اصولی کی فلاسفی " نکلی اور اسے میں نے پڑھا اس کے بعد آپ کی کتاب ”دعوۃ الا میر" نکلی اور اسے میں نے پڑھنا شروع کیا.پڑھتے پڑھتے اس کتاب میں وہی ذکر آگیا جس نے میرے دل میں انتہائی طور پر مایوسی پیدا کر دی تھی یعنی اسلام کے تنزل اور اس کے ادبار کا اس میں ذکر تھا.مگر ساتھ ہی بتایا گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے اسلام کے تنزل کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی جو پوری ہو گئی.غرضیکہ بعد دیگرے اسلامی تنزل کے متعلق کئی پیشنگوئیاں تھیں جو پڑھنے میں آئیں اور جو واقعہ میں پوری ہو چکی تھیں.اس کے بعد آپ نے اسلام کی ترقی کے متعلق رسول کریم ان کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب رسول کریم ہے کی وہ پیشگوئیاں پوری ہو گئیں جو اسلام کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں.تو وہ پیشگوئیاں کیوں پوری نہیں ہوں گی.جو اسلام کے دوبارہ غلبہ کے متعلق ہیں.میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا....اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس وقت تک سونے کے لئے اپنے بستر پر نہیں جاؤں گا جب تک آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں.چنانچہ سونے سے پہلے میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں میری بیعت کو قبول کیا جائے ".احمدیہ مسجد لاہور کی تعمیر خلافت ثانیہ کے آغاز سے لے کر ۱۹۲۳ء تک جماعت احمدیہ TIA لاہور کے احباب حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے گھر واقع بیرون دہلی دروازہ) پر نمازیں پڑھتے تھے اور یہی جگہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتی تھی مگر ۱۹۲۴ء میں حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت میاں سراج دین صاحب کے مشترکہ

Page 546

تاریخ احمدیت جلد ۴ 495 خلافت ثمانیہ کا گیار هوار ا- احاطہ میں جماعت احمد یہ لاہور کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو ۱۹۲۵ء کے قریب پایہ تکمیل تک پہنچی مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور نے تعمیر مسجد کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر اور سیکرٹری سید دلاور شاہ صاحب بخاری تھے.مسجد کا نقشہ میاں محمد صاحب نے تیار کیا جو سکول آف آرٹس لاہور میں درک اوور سیر تھے.اور اس کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری) کے سر ہے چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں " حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے ".سالانہ جلسہ پر تقریریں حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۴ء کے موقعہ پر تین تقریر میں فرما ئیں.افتتاحی تقریر جس میں استغفار و دعا کی طرف توجہ دلائی.دوسری تقریر ” بہائی ازم کی تاریخ و عقائد" کے موضوع پر ہوئی.جس سے دنیا پر پہلی بار واضح طور پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ بہائیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ بہاء اللہ صاحب کا دعوی خدا ہونے کا تھا.حضور نے اپنی آخری اور تیسری تقریر میں پہلے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا ذکر کر کے قرآن و احادیث سے ثابت فرمایا کہ اسلام میں محض ارتداد کی سزا ہر گز رجم و قتل نہیں ہے.اس کے بعد حضور نے اپنے سفر بلاد اسلامیہ ویورپ کے واقعات اور اس سفر کے تئیس عظیم الشان برکات و فوائد بیان فرمائے اور جماعت احمد یہ کوان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم ثانی میں مرزا ۱۹۲۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات خلیل احمد صاحب، حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا مجید احمد صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ہاں سید داؤ د احمد صاحب کی ولادت ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۲۴ء کو تعلیم الاسلام مڈل سکول کاٹھ گڑھ کا سنگ بنیاد رکھا.صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (اول) (فرزند حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) مولوی الحاج میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی حضرت سید فضل شاہ صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب - (مالک ۲۲۳

Page 547

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 496 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال انگلش ویر ہاؤس لاہور) عابد علی شاہ صاحب سیالکوئی.مولوی محمد اسمعیل صاحب ( ترگڑی والے سردار امام بخش خان صاحب تمندار قیصرانی - پیر برکت علی صاحب (برادر اکبر حافظ روشن علی صاحب اور مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی کا انتقال ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ مارچ ۱۹۲۴ء کو محفوظ الحق علمی- صر محمد خاں شہاب اور ماسٹر اللہ دتہ کو جماعت میں در پردہ اور خفیہ بہائی خیالات کی اشاعت کرنے پر جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا.ان لوگوں نے حضور کے مقرر کردہ کمیشن کے سامنے اپنے بہائی ہونے کا خود اعتراف کیا تھا.حضور نے ان کے اخراج کے بعد بہائی مذہب کی حقیقت سے متعلق لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری فرمایا.علاوہ ازیں مولوی فضل الدین صاحب پلیڈ ر نے بڑی محنت اور عرقریزی سے بہائیت کی کتابیں خصوصاً بہاء اللہ کی کتاب "اقدس " حاصل کی اور بہائی ازم کے ابطال میں بنیادی اور اہم لٹریچر شائع کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے مرزار شید احمد صاحب (خلف حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کا نکاح حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کی دختر امتہ السلام صاحبہ کے ساتھ پڑھا" مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مولوی فاضل میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے.آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مجھے یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی کی تکمیل کے لئے نہیں روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے اگر حضور کا ارشاد ہو تو وہاں داخل ہو جاؤں مگر حضور نے فرمایا." جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اسے نہیں روپے میں گرفتار کرانے کے لئے تیار نہیں ".چنانچہ آپ نے مبلغین کلاس میں داخلہ لے لیا.مولانا ابو العطاء صاحب کے ہم مکتبوں میں سے ابو البشارت مولوی عبد الغفور صاحب مولوی تاج دین صاحب لائلپوری اور مولوی عبد اللہ صاحب مالا باری نے بھی اسی سال مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اور مزید ٹرینینگ لینے کے بعد سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے.موخر الذکر تین اصحاب میں سے خصوصاً (ابوالبشارت) مولوی عبد الغفور صاحب فاضل نے آگے چل کر اپنی تقریروں اور مباحثوں سے جماعت میں بڑا نام پیدا کیا اور مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے مالا بار کے طول و عرض میں احمدیت کا پیغام پہنچایا اور سلسلہ کی حمدہ خدمات کیں.ے.اس سال سے سالانہ جلسہ مسجد نور کی بجائے قریب ہی ہائی سکول کی گراؤنڈ میں منعقد ہونا شروع ہوا.

Page 548

تاریخ احمدیت جلد ۴ 497 خلافت ماشیہ کا گیارھواں سال - حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر مبلغ بلاد یورپ و مغربی افریقہ نے ۲۰/۲۱ دسمبر ۱۹۲۴ء کو سلسلہ احمدیہ میں پہلی بار میجک لینڈن کے ذریعہ تبلیغی تصاویر دکھانے کا طریق جاری فرمایا.حضرت نیر صاحب کے بعد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے بھی اس طریق سے تبلیغ احمدیت کا بہت کام لیا ہے.علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: (۱) قرآن مجید کا گور مکھی ترجمہ (از جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور ) (۲) احکام القرآن" (از حکیم محمد الدین صاحب گوجرانواله ) (۳) " برگزیده رسول غیروں میں مقبول" (۴) " محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی".(از مهاشه فضل حسین صاحب) (۵) سیرت مسیح موعود ".(از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) (۲) ” فقہ احمدیہ " حصہ اول (از حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب) (۷) " کارزار شدھی" (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) ۱۲۳۵ ۱۰ مشهور مباحثات مباحثه مظفر نگر (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبد اللطیف صاحب مصطفی آبادی کے مابین مباحثہ بانکی پورپٹنہ (مولوی سید وزارت حسین صاحب رئیس موضع اورین ضلع مونگیر اور آریہ سماج کے درمیان) مباحثہ گلانوالی ضلع امرتسر (مولوی ظہور حسین صاحب فاضل اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کے درمیان ) مباحثہ مونگیر ( حضرت حافظ روشن علی صاحب اور اجودھیا پر شادست دیو اور مراری -11 ۲۳۸ ا.لال تین آریہ مناظروں کے ساتھ ) مباحثہ میانی (مولانا جلال الدین صاحب شمس کا مفتی غلام مرتضی صاحب میانوی کے ساتھ ) مباحثہ کھاریاں ( مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تار روی مباحثہ اٹاوہ (مابین جناب سید صادق حسین صاحب مختار عدالت سیکرٹری انجمن احمد یہ اتاوه و حکیم مرزا محمود احمد صاحب زرقانی و سید محفوظ الحق صاحب علمی بھائی ) (میجر جنرل ) احیاء الدین صاحب (خلف خان بہا در میاں وسیع الدین صاحب سرخ ڈھیری ضلع مردان صوبہ سرحد) داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.

Page 549

تاریخ احمدیت جلد ۳ 498 خلافت ثانیہ کا گیار حواشی ریلے لنڈن کے ایک پارک کا نام ہے جہاں اس نمائش کا انعقاد ہو ا تھا.اس کمیٹی کے ممبر یہ تھے.(۱) سرای دینی سن راس (صدر) (۲) سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ اور مسٹرو کٹر پر ٹینفورڈ(نائب صدر) مسٹرایف ی چیننگ.مسٹری رائس ڈیوڈ - پارسی مثل ڈیوس - پادری اے ایس گیڈن.پروفیسر مارگولیته - پروفیسر ایلا ئکس در نر- پادری ڈبلیو سٹن بیچ.سر فرانس بینگ سینڈ (یہ سب انتظامیہ کمیٹی کے ممبر تھے) مسٹر ایل سی ساپر (خزانچی مسٹرڈ بلیوں انٹس ہیئر (سیکرٹری) مس ایم ایم شار پلیو (سیکرٹری) الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۷۵ - ام الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۱ تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۳ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳- -4 -A - -10 الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۲ء صفحه ۸ الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۳.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ اس سفر کے متعلق استخارہ کرنے کا تحریری ارشاد خاکسار کو بھی پہنچا تھا.ابھی دو تین دن ہی دعا کی تھی کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ مولوی فضل الدین صاحب (وکیل) اسباب سفرباندھ رہے ہیں اور میں بطور مددگار پاس کھڑا ہوں میں نے یہ رویا حضور کو لکھ کر بھیج دی تھی.حضرت مسیح موعود نے لیکچر لاہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم پر تحریر فرمایا ہے کہ ذوالقرنین کے قرآنی واقعہ میں میرے متعلق پیشگوئی ہے اور میرا نام ذوالقرنین رکھا گیا ہے اب ذوالقرنین کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اس نے مغربی ممالک کی طرف سفر کیا.ثابت ہوا کہ مسیح موعود یا اس کے کسی جانشین کو ان ممالک کی طرف ضرور سفر کرنا پڑے گا.حضرت مسیح موعود نے حدیث نزول عیسی کی تشریح میں فرمایا يسافر المسيح الموعود او خليفة من خلفاء ، الى ارض دمشق حمامتہ البشرئی صفحہ ۳۷) طبع اول یعنی مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کا سفر اختیار کرے گا.الفضل ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۸ ازالہ اوہام طبع اول صفحه ۵۱۵-۵۱۷ ملخصاً از الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۵ ملخصاً از الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۴ء صفحه ۵- ان کی تفصیل حضور ہی کے قلم مبارک سے لکھتا ہوں فرمایا.” میری مالی مشکلات جن کی موجودگی اور بوجھ کا اٹھانا طبیعت پر ایک حد تک گراں گزرتا ہے دوسرے میری صحبت بہت خراب رہتی ہے اور اتنے لیے سفر اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرنا میرے لئے شاید ایک بار گراں ثابت ہو کیونکہ اس قدر کثیر اخراجات کے برداشت کرنے کے بعد اگر وقت کو پوری طرح استعمال نہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ کام نہ کیا جائے تو یہ ایک اسراف ہو گا.جس کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی.تیسرے قادیان سے اس قدر عرصہ تک اتنے فاصلے پر رہنا کہ گویا ایک نئی دنیا ہے مجھے ناپسند ہے چوتھے اپنی صحت کی خرابی اور عمر کی ناپائیداری کا خیال کر کے طبیعت ایک تکلیف محسوس کرتی ہے.پانچویں میری دو بیویاں اس وقت حاملہ ہیں اور ان دونوں کو اسقاط کا مرض ہے اور بچے ان کو سخت تکلیف سے ہوتے ہیں یہاں تک کہ جان کی فکر پڑ جاتی ہے اور ان کے وضع حمل کا زمانہ وہی ہے جو اس سفر میں خرچ ہو گا.میری غیر حاضری کا خیال ان کی طبائع پر ایک قدر نا بوجھ ہے".(الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۳) الفضل ۲۴ جون ۱۹۳۴ء صفحه ۶ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳

Page 550

خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تاریخ احمدیت جلد ۴ ١٩١٨- الفضل ۱۹/ اگست ۶۱۹۲۴ صفحه ۴ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۱۲۲۲۱الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳ - الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳- ۲۴- فاروق ۱۶ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۲- 499 ۲۵ مفصل ملاحظہ ہو ریویو آف ریلی اردود نمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳۰۰۱۷ ۲۶ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اردو صفحہ ۱۰ ۲۷- ایضا صفحه ۲۲۸-۲۲۹- ۲۸.اس کتاب کا انگریزی ترجمہ سفر یورپ کے دوران میں ولنگٹن سکوائر کلکتہ سے چھپوا کر لندن بھیجوا دیا گیا تھا.- الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۰۷۰۵ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ا الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷.۳۲ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴- یہ فوٹوسید ناصر شاہ صاحب نے لیا تھا.پوری نظم الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ پر چھپی ہوئی ہے.۳۵- الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱.الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۴ الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۴ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱-۲- الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱-۲- ۴۰ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۴.۴۱ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی طرح حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے ذاتی خرچ پر تشریف لے گئے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ مصر میں عربی ادب کا مطالعہ کرنے کے لئے قیام پذیر رہے.۴۲.سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت ہے.۴۳.پرائیوٹ سیکرٹری ۴۴- جنرل سیکرٹری ۴۵ بحیثیت عالم ۴۶ بحیثیت پریس رپورٹر ۴۷.مشیر طبی کی حیثیت سے.۴۸ خادم خاص ۴۹ بحیثیت عالم ۵۰ خادم ۵۱ باورچی ۵۲ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کی قلمی یادداشت سے ماخوذ پوری نظم الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۲۴ء کے علاوہ کلام محمود میں بھی موجود ہے.۵۳.یہ وہی تاریخی نظم ہے جس کی اشاعت پر حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بھی حضور کو مخاطب کر کے اسی ردیف و قافیہ میں

Page 551

------ --- تاریخ احمد بیت ، جلد ۴ 500 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال اپنے دلی خیالات کا اظہار فرمایا تھا.ملاحظہ ہو در عدن صفحہ ۱۳۰۹- دراصل آپ کی مقدس شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے.۵۴ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے ایک خط سے ماخوذ ایضا الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۷ ۵۵ الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۱۲- الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۵- خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب سے ماخوذ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۵۷.اس جہاز کا نام افریقہ تھا.اٹالین کمپنی کا جہاز ہونے کی وجہ سے دو ایک ہندوستانی گورکھوں کے سوا اس کے سب ملازم اٹالین تھے.افسروں کا سلوک دوران سفر حضور اور حضور کے رفقاء کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا.(الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶) ۵۸ الفضل ۱۱۸ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱-۲- ۵۹ الفضل ۹ / اگست ۱۹۲۴ء صفحه ایضاً خط حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ۲۰ الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۱۷ ۱۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۷ الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۸-۹- الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ ء صفحه ۷ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۱-۵-۲- ۶۴ الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۲۵ - الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۴- الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۲۴ ء و الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۷ الفضل ۱۹ / اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۷ الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۸ الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۶-۷ - الفضل ۶/ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۱ ا الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۸ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحها.اس سلسلہ میں اخبار المنظم قاہرہ مورخ ۱۲ اگست ۱۹۲۴ء کے ایک نوٹ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ۸- الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۵- ۷۴.بعد کے واقعات نے حضور کے الفاظ کی لفظا لفظاً تصدیق کردی.۷۵ الفضل ۱۳/ تمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۶- -۷۶ یعنی مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۷۷.الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶ - الفض ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵- و الفضل ۴/ د سمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۶-۰۷ الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۸۱ سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۳۷۶۳۷۵ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ایضا الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحه ۱۳ الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۸ الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۷ - عکاشہر کی آبادی سے چار میل دور کھیتوں میں جس جگہ بہا اللہ کی قبر ہے بہائی اس کا نام جہ رکھتے ہیں.۸۵ خط حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی.الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱-۲-

Page 552

سالانہ جلسہ قادیان کا ایک منظر

Page 553

جلسہ سالانہ قادیان 1927 ء ( توسیع جلسہ گاہ کے لئے وقار عمل )

Page 554

جلسه سالانه قادیان 1928 ء کا ایک منظر

Page 555

29 جنوری 1926ء چالیس زبانوں میں جلسہ کے مقررین حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ

Page 556

حضرت خلیفہ مسیح الثانی مسجد اقصی قادیان میں جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف لا رہے ہیں

Page 557

حضرت خلیفہ اسی الثانی کے ساتھ انڈونیشیاکے مولوی ابوبکرایوب ابوبکر بیڈ مہاراجوں راتو پوتی ڈنگ اور مولانا رحمت علی صاحب

Page 558

مدرسه احمد سید قادیان

Page 559

مدرسہ احمدیہ قادیان کے اساتذہ اور سٹاف کے ارکان کرسیوں پر دائیں سے بائیں ! حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ.حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری.حضرت قاری غلام بین صاحب.نعمت اللہ خانصاحب.انور بدایونی صاحب کلرک بورڈنگ مدرسہ احمدیہ.قاضی عطاء اللہ صاحب انگریزی ٹیچر.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ - حضرت میر محمد الحق صاحب شیخ عبد الرحمن صاحب نو مسلم مصری.حضرت مولوی ارجمند خانصاحب.حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب.حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم مبشر بلاد اسلامیه و مدیر الحکم ( دور جدید ) پیچھے کھڑے ہوئے دائیں سے بائیں ! سید محمد ہاشم صاحب بخاری.( قاضی عطاء اللہ صاحب کے بائیں کندھے پر ہاتھ رکھنے والے ) پیر حبیب احمد صاحب مرحوم.مولوی عزیز بخش صاحب مرحوم.مولوی ناصرالدین صاحب - حمید اللہ خان صاحب ( برا در حضرت خان ارجمند خانصاحب ) میاں شیخ محمد صاحب پوسٹ مین قادیان.مولوی عنایت اللہ صاحب قادیانی مرحوم.مولا نا قمر الدین صاحب فاضل.مولوی تاج الدین صاحب المعروف فاضل گر ) مولوی عبداللہ صاحب بدوملہی.مولوی علی احمد صاحب چکڑالوی.

Page 560

قصر خلافت قادیان

Page 561

جماعت احمد یہ کہا بیر - حیفا - فلسطین حضرت مولانا جلال الدین نشس کے ساتھ

Page 562

1819 حضرت حافظ جمال احمد اور مولوی عبید اللہ ماریشس کی جماعت کے ہمراہ سپریم کورٹ ماریشس میں اپنے فاضل بیرسٹر کے ساتھ

Page 563

DAR-US-SACAM * حضرت حافظ جمال احمد ماریشس کی جماعت احمدیہ کے ساتھ مسجد احمد یہ دار السلام میں عید الفطر کے موقعہ پر

Page 564

تاریخ احمدیت جلد ۴ 501 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال الفضل ۱۲۳ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴ ۸۹ خط سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی بنام حضرت مولوی شیر علی صاحب (الفضل ۲۳/ تمبر صفحه ۴۰۳) الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۰۴ -۹۱ خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ماخوذ ٩٢ الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۱- الفضل ۳۳/ تمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵- الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۶۶ چند اخبارات کے نام بطور نمونہ یہ ہیں.ٹائمز آف لندن.ڈیلی میل لنڈن - ڈیلی مرر- ڈیلی نیوز- ایونگ سٹینڈرڈ ڈیلی سکیچ.ڈیلی گرافک ڈیلی ٹیلیگراف مانچسٹر گارڈین ۹۵ الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۹۶ - سفریورپ کے حالات کی قلمی ڈائری ( از حضرت شیخ یعقوب به علی صاحب عرفانی اصل ڈائری جو پنسل سے لکھی ہوئی ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.۹۷.ان خطوط کی نقل خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.الفضل ۱/۲۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ 99 قلمی ڈائری حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے ماخوذ (مکمل پیغام کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۴-۵).اس کا مفصل ذکر آگے آرہا ہے.مثلالیگ آف نیشنز اور دنیا کے مختلف ممالک کو تار دیئے پریس کو اطلاعات بہم پہنچانے کا انتظام فرمایا لندن میں احتجاجی جلسے منعقد کرائے ایک مضمون میں شہید افغانستان کے مفصل حالات شائع کئے.۱۰ - الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحه ۷۰۵ - الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ۱۰۳ الفضل ۷ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴-۵ پر پیغام کا متن موجود ہے.مکمل لیکچر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۷ / اکتوبر ۱۹۲۴ء.۱۰۵ الفضل ۱۴ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴- ۱۰۶ - مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵-۶- الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ -۱۰۸ الفضل ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴.تفصیل آگے آرہی ہے.۱۰۹- ۲۳/ ستمبر کو اسلام پر تین مضمون پڑھے گئے پہلا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب بانی رو کنگ مشن نے اہلسنت و الجماعت کی طرف سے دوسرا شیخ خادم و جیلی نے اہل تشیع کی طرف سے اور تیسرا اور آخری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تھا.جو تحریک احمدیت کے نقطہ خیال سے اسلام کی ترجمانی کرتا تھا.-11+ الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۸- الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۰۵ الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحه ۴ الفضل ۳۰/ تمبر ۱۹۲۴ء صفحه 4 الف الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵۰۴ ۱۵ بحوالہ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- - -HA یہ لیکچر ایک سیاسی لیکچر کے نام سے چھپا ہوا ہے.یہ مضمون پیارا رسول کے نام سے چھپا ہوا ہے.بیا ہوا الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۴

Page 565

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 502 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ۱۳۱- الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶٫۳ / نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳- ۱۲۲- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل / نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳-۵- ۱۲۳- الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ ۱۲- الفضل ۲۲ / نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵- ۱۲۵ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۰۸۰۳ ١٣٦ الفضل ۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ - الفضل ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۳۸ الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۴ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲ ۱۳۱- ڈیلی کرانیکل لندن ۲۰/ اکتوبر ۶۱۹۲۴ ( بحوالہ سلسلہ احمد به صفحه ۳۷۹) ۱۳۲- ویسٹ منسٹر گزٹ (۲۰/ اکتوبر ۱۹۲۴م) بحوالہ تواریخی مسجد فضل لندن صفحه ۳۶-۳۸ ۱۳۳.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۱۳۴ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۳- ایضا صالحی ۳-۶- ۱۳۵ الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۴-۶- ١- الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱ ۱۳۷ الفضل ۶/ دسمبر ۰۶۱۹۲۴ ۱۳۸- مثلا تا ئمز آف انڈیا نے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۴ء کو لکھا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے (جو کل اپنے لمبے سفر یورپ سے واپس آئے ہیں) ہمارے اخبار ٹائمز آف انڈیا) کے ایک نمائندہ نے ان کے بھی پہنچنے سے تھوڑی دیر بعد ملاقات کی یہ ملاقات نہایت دلچسپ اور نئی روشنی دینے والی ثابت ہوئی.اس نئی اسلامی جماعت کے امام ایک ذی علم اور روشن دماغ نوجوان ہیں اور انگریزی خوب روانی کے ساتھ بولتے ہیں.(بحوالہ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۹) ۳۹ اسی طرح حضور نے ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء کو گاندھی جی کے ساتھ علی برادران اور جناب ابو الکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ کانگریس اس وقت تک صحیح معنوں میں قومی جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک اس میں تمام قسم کے خیال کے لوگ شامل نہ کئے جائیں.اب کانگریس اپنے آپ کو قومی جماعت کہتی ہے لیکن وہ ایک خاص پارٹی کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے گاندھی جی نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور حضور سے کانگریس میں شامل ہونے کے لئے بہت اصرار کیا حضور نے جواب دیا کہ چونکہ میں کلی طور پر حامی تعاون ہوں اور آئینی اور ارتقائی ترقی کا حامی ہوں اس لئے موجودہ صورت میں انڈین کانگریس میں شامل نہیں ہو سکتا.(الفضل ۶ دسمبر ۱۹۲۴ء) صفحہ ۱-۲- ۱۴۰ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲۰۱ ۱۳۱- ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ جب حضور ریلوے اسٹیشن آگرہ سے گھوڑا گاڑی پر سوار شہر میں جائے نے جائے قیام کے تشریف لے جارہے تھے کہ ایک احمدی دوست نے حضور کی خدمت میں قادیان سے آمدہ تازہ تار پیش کیا.جس میں یہ اطلاع تھی کہ امتہ الحی صاحبہ سخت بیمار ہیں حضور جلد از جلد قادیان تشریف لائیں.یعنی اگرہ کا ایک روزہ قیام منسوخ فرما دیں.مگر حضور نے فرمایا کہ یہ دینی کام جو مقررہ پروگرام کے مطابق ہے چھوڑ نہیں سکتا اور ساتھ ہی اپنے اس طبی خادم حشمت اللہ کو فور آقا دیان روانہ کر دیا چنانچہ میں حضور کے درود قادیان سے اس گھنٹے پہلے قادیان پیچ گیا حضرت امتہ الحی صاحبہ کو میرے پہنچنے سے خوشی ہوئی.

Page 566

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 503 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال ۱۴۲.یادر ہے کہ دراصل ایک خوبصورت بچہ کی طرف سے بن پیش کئے جانے کا ذکر حضرت مسیح موعود کے ایک کشف میں آتا ہے جو تریاق القلوب میں درج ہے اور اس موقعہ پر بھی اسے پورا کر دیا گیا.١٤٣ الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱ تا ۸ ۱۴۴ الفضل ۴ / دسمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۰۹ ۱۳۵- الفضل ۳/ جون ۱۹۲۴ء صفحه ۱-۲- بحواله الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۵- ۱۳۷ بٹالہ مراد ہے کیو نکہ اس وقت تک قادیان میں ریل نہیں آئی تھی.۱۳۸ بحواله الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ.١٣٩ الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۱۵۰ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲.۱۵۱ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحه ۳ -۱۵۲- آپ بیتی صفحه ۷ ۱۸ از مولوی ظهور حسین صاحب) طبع دوم ۶۱۹۶۳ ۱۵۳.رپورٹ مجلس مشاورت کے ۱۹۲ء صفحہ ۴۱ اور پورٹ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۹.۱۵۴- یہ خطبہ ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء کا ہے.۱۵۵- الفضل ۲۷-۳۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹.حضرت شہزادہ صاحب کی تیمارداری اور تجیزہ معین کرنے والے محمد خان صاحب گجراتی متوطن پنجن کسانہ تحصیل کھاریاں) تھے.۱۵۶ ۱۵۷- یہ دونوں کتابیں، رو بہائیت میں ہیں جن کو ایران کے علماء و فضلاء نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے.چنانچہ آقائی عبد الحسین آیتی (سابق مبلغ بهائیاں) آقائی عطاء اللہ شہاب پور (انجمن تبلیغات اسلامی کے بانی اور رسالہ نور دانش کے آقائی حسن نیکو ( سابق مبلغ بہائیاں) اور شیخ مصطفی رہنما صاحب (ایڈیٹر رسالہ حیات مسلمین (تهران) نے ان پر عمدہ تبصرے لکھے جو دنیائے اسلام.نور دانش آئین اسلام اور اصلاحات ایران، آئین برادری حیات مسلمین و غیره ایرانی اخبارات میں چھپ چکے ہیں.(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰ / مئی ۱۹۵۶ء) ۱۵۸- تحریک جدید کے بیرونی مشن صفحه ۱۳۸ از جناب صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ) ۱۵۹- الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه) ۱۶۰ - آپ بیتی از مولوی ظهور حسین صاحب مجاہد بخار او روس صفحه ۱۰۹۹۵ آپ بیتی صفحه ۱۸۴-۱۹۰ طبع دوم ۱۹۶۳ء- الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه - ۱۶۲ اخبار کشمیری مورخه ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۶ء ( بحواله الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحه ۳-۴) ۱۶۳ ۱۶۴ - الفضل / ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۰۵ ۱۲۵- الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۶ء صفحه ۳ ١٩٨- الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳- ۱۷۹ - الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳ ۱۷۰ اصل خط جو فارسی زبان میں ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور اس کا عکس الفضل 11 ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ آ پر چھپ چکا ہے.11- الفضل / ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ ۱۷۲ یعنی پہلی شرعی عدالت

Page 567

504 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۱۷۳- اخبار حقیقت کائل (جلد اشماره صفحه ۴) بحواله الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵- عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ ملزم چونکہ اہل السنت و الجماعت کے ان علماء کو جنہوں نے مسئلہ نزول مسیح کو جسمانی صورت میں بتایا ہے غلطی خوردہ سمجھتا ہے اس لئے یہ خادم شرع شریف اس فیصلہ کا حکم درست سمجھتا ہوا اس کی تصدیق کرتا ہے".(ترجمہ) ۱۷۴ - الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱.۱۷۵ بحوالہ الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱.١٧٦- بحواله الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.۷۷- سید نا حضرت خلیفہ ثانی کے ایک مفصل مضمون مطبوعه الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴ سے ماخوذ ۱۷۸ بحواله الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحه ۲ ۱۷۹.بعض متعصب اخباروں نے اس فعل پر پردہ ڈالنے کے لئے شہید احمدیت مولوی نعمت اللہ خاں کو سیاسی مجرم گرداننے کی کوشش کی.مگر افغان عدالت کے فیصلہ نے اس کی تغلیط کردی.اخبار ڈیلی میل کے نامہ نگار نے کابل سے اطلاع دی کہ مولوی نعمت اللہ کی سنگساری کے عدالتی فیصلہ کے بعد امیر نے ملکی دستور کے مطابق اس فیصلہ کی بذات خود تصدیق کی جس کے بعد یہ عمل میں لایا گیا.(الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) ١٠- الفضل ۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷.۱۸۱ بحواله الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۵ -۱۸۳ بحواله الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء صفح ۰۷ ۱۸۳- الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۱۸۴- الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.۸۵ الفضل ۷ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۰۸ ۱۸۶ بحواله الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۸ ۱۸۷ الفضل ۷ / اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۸ ۱۸۸- بحوالہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۰ الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۹ -190 بحواله الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۴ 19- الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- زمیندار ۲۱ ستمبر ۰۶۱۹۲۴ ۱۹۳ - الفضل / ستمبر ۱۹۲۳ء- ۱۹۴.یا ر ہے یہ متولف اصحاب احمد نہیں.کوئی اور صاحب تھے.۱۹۵- الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۰۱) تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو حیات ناصر مؤلفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) - الفضل ۲۰/ د سمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۶ - ۱۹۷ اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۳۱ شائع کردہ فیروز سنز لا ہور.۱۹۸ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحه ۵۲ از محمد مرزا د لوی طبع اول مارچ ۱۹۴۰ء ۱۹۹ ولادت ۲۵ دسمبر ۱۸۷۷ء بمقام کراچی ۱۸۹۶ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ہے ۱۸۹ء میں بمبئی ہائیکورٹ میں مقدمات کی پیروی شروع کی ۱۹۰۵ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۱۹۲۱ ء میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کی ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان کی تجویز منظور کرائی ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک حصول پاکستان کے لئے شب و روز کوشاں رہے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے اور گیارہ تمبر ۱۹۴۸ء کو کراچی میں وفات پائی.

Page 568

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۲۰۰ ریویو آف ریلیجره اردو جون ۱۹۲۴ء صفحه ۲۲ ۲۰۱ ۱۹۲۷ء کے حالات میں اس کا ذکر آرہا ہے.۲۰۲.لیکچر شمله صفحه ۱۹-۲۰ ۲۰۳ اساس الاتحاد صفحه ۳-۴ ۲۰- اساس الاتحاد صفحه ۲۴-۰۲۵ ۲۰۵ خطبہ صدارت صفحہ ۱۵-۱۲- ٢٠ الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۶ء صفحه ۴- ۲۰۷- سیر قادیان صفحه ۲۵-۲۶- 505 خلافت ثانیہ کا گیار ۲۰۸.اس ضمن میں تفصیلات تو آئندہ اپنے اپنے مقام پر آئیں گی ہم یہاں صرف مالی اعانت سے متعلق بطور مثال دو شہادتیں صدر انجمن احمدیہ کے پرانے ریکارڈ سے درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ کا مسلم لیگ سے رابطہ و تعلق کتنا پرانا اور کتنا گہرا ہے.(1) صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ متعلقہ ۱۹۲۷ء میں ناظر اعلیٰ کی طرف سے یہ رپورٹ درج ہے کہ شملہ کا نفرنس کے موقعہ پر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سیف الدین کچلو بیر سٹرایٹ لاء حضرت خلیفتہ صحیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلم لیگ کی مالی کمزوری کا اظہار کر کے حضرت سے امداد کی درخواست کی حضور نے ترقی اسلام کے سلسلہ میں دوسو روپیہ دینا منظور فرمانیا اور اسی وقت اپنے پاس سے ادا فرما دیئے.(۲)۱۹۲۹ء کے ریکارڈ میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس ( دیلی منعقدہ ۳۱/۳۰ مارچ ۱۹۲۹ء) کے لئے ایک سوری پید چندہ دیا گیا.ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۷۶) یہ اجلاس روشن تھیٹر دہلی اجمیر دروازہ میں ہوا تھا اس میں مسٹر محمد علی جناح.حاجی عبد اللہ بارون صاحب مولوی شفیع صاحب داؤدی مولوی ظفر علی خان صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت ذو الفقار علی خان صاحب اور دوسرے مقتدر حضرات شامل تھے.اس جلسہ کا اشتہار جو سید شمس الحسن صاحب سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ ہمیماراں دہلی کا لکھا ہوا اور اقبال پر تنگ پریس دہلی کا چھپا ہوا ہے قادیان کی احمد یہ لائبریری میں محفوظ ہے.۲۰۹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے ایک محط محرره کیم جون ۱۹۲۲ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۲۲ء میں تصنیف ہو چکی تھی چنانچہ فرماتے ہیں " حضرت خلیفتہ اصیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے امیر کے نام ایک لطیف تحفہ لکھا ہے اور عبد الاحد خاں افغان کو سر دست ایک مخط دے کر بھیجا ہے".(جان پدر صفحه ۳۵) ۲۱۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء صفحه ۲۸ الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۲۴ء صفحہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں امیر کامل کو یہ کتاب بذریعہ ڈاک بھجوانے کی تجویز کی گئی تھی.لیکن عبد الاحد صاحب افغان کا بیان ہے کہ حضرت سید ولی اللہ شاہ اور نیک محمد خاں غزنوی ہمیں گئے اور سردار محمود طرازی وزیر خارجہ کو دعوۃ الامیر دی کہ وہ شاہ کامل تک اسے پہنچادیں.۲۱۲ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں احمدیت اور دعوۃ الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدا تعالٰی کے القا کردہ الفاظ ہو گئے ہیں".الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۶) ۲۱- دعوة الامیر صفحه ۲۸۳ ۲۱۴- تفصیل آگے آرہی ہے.۲۱۵.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو زوال غمازی ( از عزیز ہندی) ۲۱۹- سید احمد محمود غزنوی (جنہوں نے عرشہ جہاز پر شاہ سے آخری ملاقات بھی کی تھی امان اللہ خان کی ہمیں سے روانگی کے وقت کا درد ناک منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.” عام مسافروں کے ساتھ ان کی کرسیاں بچھی ہوئی تھیں.یورپ کو جانے والے مسافر بڑے اعلیٰ لباس میں پورے فیشن کے ساتھ دوڑتے نظر آتے تھے اور اگر کوئی شخص سب سے سادہ معمولی قمیص میں اور پتلون

Page 569

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 506 خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال بغیر کورٹ کے پہنے ہوئے تھا تو وہ افغانستان کا سابق بے کسی بادشاہ تھا میں مبالغہ نہیں کرتا.قمیض بھی صاف نہ تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ کئی روز سے پہنی جارہی ہے.۱۹۲۷ء کے زمانہ کو یاد کرو بھٹی میں کس زور سے استقبال کیا گیا تھا.جہاز کا ایک حصہ مخصوص طور پر سجایا گیا تھا.بڑی بڑی شاہی کرسیاں مزین تھیں جہاز کے اوپر ہوائی جہاز پرواز کر رہے تھے آج کیا ہے امان اللہ عام مسافروں کے ساتھ ہے وہ جب گزرتا ہے تو عام مسافروں کے ساتھ کھو اچھالتا ہے اگر اس دن زر بیعت کی پوشاک اور سر پر تاج تھا تو آج جسم پر کوٹ تک نہیں سرسے مجھے نظر آرہے تھے اور یاس وحزن کی ایک حرکت کرتی ہوئی تصویر دکھائی دیتی تھی.وہ حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر نگاہ اٹھاتا اور اپنی اس حالت پر خون کے آنسو رو رہا تھا.ملکہ ثریا جو یورپ کی عورتوں میں اپنے فیشن اور اعلیٰ لباس کے باعث محبوب تھی.آج معمولی لباس میں بال پریشان کئے عرشہ جہاز پر اپنے کیبن کے سامنے کھڑی تھیں پڑمردگی افسردگی ان کے چہرہ پر نمایاں تھی معلوم ہو تا تھا کہ اپنی سابقہ جاہ و حشمت کو یاد کر کے اور موجودہ حالت کا مقابلہ کرکے بے ہوشی کے عالم میں کھڑی ہجوم خلق کو جو بڑی بے توجہی کے ساتھ اس کے پاس کھڑا ہے دیکھ رہی ہے اس کا چھوٹا بچہ جسے ولی محمد سلطنت افغانستان شہزادہ ہدایت اللہ خان کہتے تھے اس کے پاس ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ لپیٹ کر پوچھتا ہے "مادر جان ما کجا میبردیم - کون دل ہے جو ان الفاظ کو سن کر ٹوٹ نہ جاتا ہو ہمارے سوا شاہ نے اور کسی کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا.سیڑھی اٹھائی گئی اور جہاز نے لنگر اٹھانے کے لئے گھنٹی بجائی.اب ہم نیچے اترے.مولانا ظفر علی خان سے ملے اور ان کی جماعت میں شامل ہو گئے نیچے بہت سے لوگ جمع تھے جنہیں جہاز پر جانے کا موقعہ نہیں ملا جہاز کنارہ سے جدا ہوا اور صدائے اللہ اکبر امان اللہ خاں کو سنائی گئی اور اس کو یاد دلایا گیا کہ ایک سب سے بڑا بادشاہ ہے جسے چاہے تخت دے جیسے چاہے اس حالت میں وطن سے نکالے.یہ خیال میرے دل میں تھا آنسو میری آنکھوں سے جاری تھے اور زبان پڑھ رہی تھی اللہم توتى الملك من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء وتعز من تشاء و تذل من تشاء امان اللہ خال و ثریا اور اس کے بچے سامنے کھڑے دیکھ رہے تھے اور نعروں کو سن رہے تھے اچانک مولانا ظفر علی خاں نے بلند آواز سے کہا.".سلامت روی و باز آئی.اس مصرعہ نے برقی کا کام کیا اور اس کو سنتے ہی امان اللہ خاں جو پہلے ہی مضموم و محزون تھے بے اختیار ہو گئے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور دیر تک خاموش کھڑے رہے پھر معا شاہ و ثریا دونوں اپنے کیبن میں چلے گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس مصرعہ نے ان پر تیر کا کام کیا دو بجے کے قریب جہاز.ساحل سے دور چلا گیا اور ہم لوگ واپس آئے وفيها عبرة لاولی الابصار - انقلاب لاہو ر ۲۹ جون ۱۹۲۹ء صفحه ۳) ۲۱۷- الفضل ۲۱/مئی ۱۹۴۷ء صفحه ۰۵ ۲۱۸- تفسير كبير (سورۃ التکویر ) صفحه ۱۹۶-۱۹۷ طبع اول (خان فقیر محمد صاحب نے ۱۹۳۱ء میں بیعت کی تھی) ۲۱۹ والد ماجد جناب ڈپٹی محمد شریف صاحب ۲۲۰ الفضل ۱۳۱ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحه ۲- مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں پہلے چمڑے کا گودام ہوا کرتا تھا یہ زمین ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ میں خرید کی گئی تھی رپورٹ صد را مجمن احمد یه ۱۸-۱۹۱۷ء صفحه ۴۸) ۲۲۱- الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۱۲ سفر یورپ کے برکات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ ء و الفضل ۱۴ دسمبر ۰۶۱۹۲۴ ۲۲۲ الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۲۴ء صفحه ۱-۲- ۲۲۳.شیخ صاحب مرض زیا بیطس میں مبتلا ہو کر ۲ / مارچ ۱۹۲۴ء کو فوت ہوئے.حضرت خلیفتہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے شیخ صاحب کی بیماری کی خبر سنتے ہیں ۲۸ فروری ۱۹۲۴ء کو ذو الفقار علی خان صاحب کے ہاتھ اپنا ایک پر درد خط عیادت نامہ کے رنگ میں.....بھجوایا.جس میں تحریر فرمایا میں نے بارہا حضرت مسیح موعود کو ر دیا میں دیکھا ہے اور یہ معلوم کیا ہے کہ جہاں دو سرے بعض لوگوں پر ناراض ہیں آپ سے کم ناراض ہیں یا صرف دوستانہ گلہ آپ سے رکھتے ہیں.مجھے بعض اور خوابوں میں بھی آپ کے دل کی حالت بعض دوسرے لوگوں کی نسبت اچھی دکھائی گئی ہے.اس لئے بھی اور ان متواتر خدمات کو یاد کرتے ہوئے جو آپ نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کیس میرا دل آپ کی جدائی پر کڑھتا ہے".(الفضل ۱۱/ ۱۴ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۳-۲) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے مولوی محمد اسماعیل صاحب تر گڑی والے جنہوں نے چینی مسیح لکھی تھی.ان کی ایک بات مجھے بڑی اچھی لگتی ہے وہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے بعد مجھے ملے وہ چونکہ بڑھے تھے اس لئے

Page 570

تاریخ احمدیت ، جلد ۴ 507 خلافت عثمانیہ کا گیارھواں سال انہیں بار بار پیشاب آنے کا مرض تھاوہ مجھے کہنے لگے.آپ ہمارے جیسے پڑھوں کا بھی کچھ خیال رکھا کریں.میں نے کہا کیا بات ہے.کہنے لگے آپ کا لیکچر ہو جاتا ہے لمبا اور مجھے ہے بار بار پیشاب آنے کا مرض تھوڑی دیر کے بعد ہی مجھے ضرورت ہوتی ہے کہ میں اٹھوں اور جاکر پیشاب کر آؤں مگر جب پیشاب آتا ہے تو مجھ سے اٹھا نہیں جاتا.میں کہتا ہوں یہ بات جو بیان کر رہے ہیں اسے ذرا پوری طرح سن لوں یہ ختم ہو گئی تو پیشاب کر آؤں گا مگر جب وہ بات ختم ہوتی ہے تو ایک اور بات شروع ہو جاتی ہے اور وہ بھی بڑی مزیدار ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے بھی سن کر جاؤں.غرض ادھر پیشاب سے برا حال ہو رہا ہو تا ہے اور ادھر باتیں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ اٹھ کر جانے کو جی نہیں چاہتا.آخر انتظار کرتے کرتے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ شدت پیشاب کی وجہ سے مثانہ پھٹنے لگتا ہے.یہ ان کی محبت کی ایک علامت تھی کہ انہوں نے ایک طرف اپنی تکلیف کا بھی اظہار کر دیا اور دوسری طرف اپنی محبت کا بھی اظہار کر دیا - سیر روحانی طبع اول صفحہ ۴.لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی جلسه ۱۹۳۸ء) -۲۲۵ ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک نہایت معزز احمدی رئیس جن کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے انتہائی مخلصانہ تعلق تھا.آپ حکومت میں پیش ہونے والے احمدی دفتروں کے ممبر ہوتے تھے.٢٢٦ الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۲۴ء صفحه ۲ ۲۲۷- الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱.۲۲۸- اقدس کا نسخہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے بہائیوں کو بطور ضمانت ایک ہزار روپیہ تک کی پیشکش کی گئی کہ اس کی نقل کرنے کی اجازت دے دیں مگر وہ آنوں بہانوں سے ٹال دیتے تھے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء) ٢٢٩- الفضل ۶/ جون ۱۹۲۴ء صفحه ۶-۹- ۲۳۰- الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵-۶- ۲۳۱- آپ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ابتد اء مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے.پھر ناظم قضا جیسے اہم عہدہ پر فائز ہوئے.۲۳۲- الفضل ۲۲ / جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱.۲۳۳ الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۱ ۲۳۴ الفضل ۶/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷ ۲۳۵ سنه اشاعت حصہ اول ۶۲۴ حصہ دوم ۶۲۵ حصہ سوم ۶۲۷ حصہ چہارم مالیا ہے ۱۹۲ء ۲۳۶ - الفضل ۲۲/ فرری ۱۹۲۴ء صفحه ۹- ۲۳۷) الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۲۴ء صفحه ۷-۸- ۲۳۸- الفضل ۲۹ فروری ۱۹۳۴ء صفحه ۲ ٢٣٩ الفضل ۲۰ جون ۱۹۲۲ء صفحه ۸-۹- ۲۴۰ الفضل ۸ / نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱.طبع شدہ ہے.۲۳۱ الفضل ۱۶/دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷ ۲۴۲ - اخبار انوارالاسلام لکھنو ۲۶ / ۲ فروری ۱۹۲۵ ء مدیر حسام الدین صاحب لکھنوی.

Page 571

508 خلافت ثانیہ کا بارھواں سا چھٹا باب (فصل اول) شہدائے کابل کی شہادت سے لے کر مسلمانان ہند کی ترقی و بهبود سے متعلق منظم جدوجهد خلافت ثانیہ کا بارھواں سال جنوری ۱۹۲۵ء تاد سمبر ۱۹۲۵ء ممطابق رجب ۱۳۴۳ھ تا جمادی الآخر ۱۳۴۴ھ) مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کی شہادت امیر امان اللہ خان صاحب کی حکومت جس نے ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو محض اختلاف عقیدہ کی بناء پر سنگسار کرا دیا تھا عا لمگیر احتجاج پر اور بھی مشتعل ہو گئی اور اس نے ۵/ فروری ۱۹۲۵ء کو درد او ر احمدی مولوی عبد الحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی صاحب ساکن کابل سنگسار کر دیئے man سرزمین کابل میں چند ماہ کے اندر ہونے والے اس دوسرے المناک حادثہ پر جس میں دو بے گناہوں کا خون بہایا گیا تھا.دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے پہلے سے زیادہ زور اور شدت سے اس کے خلاف احتجاج کیا.احتجاج کرنے والوں میں دنیا بھر کے مشہور علمی دماغ شامل تھے.مثلاً (برطانوی مؤرخ) ایچ جی ویلز ( نامور افسانہ نگار) سر آرتھر کونن - سرالیور لاج.کرنل سر فرانس بینگ ہسبنڈ.تصوف اسلامی کے ماہر پروفیسر نکلسن - جناب محمد علی جو ہر جناب عبد الماجد دریا آبادی.مسٹر گاندھی ہندوستان کے ہندو مسلم پریس نے اس واقعہ کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی چنانچہ بطور نمونه چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں." انڈین ڈیلی میل" (بمبئی) نے ۱۴ / فروری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا.یہ خبر کہ کابل کے دو اور احمدی.....سنگسار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں.امیر افغانستان کی شہرت کو سوائے چند متعصب ہندوستانی ملانوں کے حلقے کے اور کسی قوم میں نہیں

Page 572

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 509 خلافت میانیہ کا بارھواں سا م بڑھائے گی"." سول اینڈ ملٹری گزٹ " لا ہو ر نے ۱۷ / فروری ۱۹۲۵ء کے پرچہ میں لکھا.اس بیسویں صدی میں ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب قوموں میں شمار کرے ایسے دل سوز منظر کا واقعہ دل میں افسوسناک خیالات پیدا کرتا ہے ".اخبار "ریاست " دیلی نے ۲۱ / فروری ۱۹۲۵ء کو لکھا.افغان گورنمنٹ کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی صدائے احتجاج بلند کریں کم ہے....دنیا میں کسی شخص کا مذہبی عقائد کی صورت میں حکومت کی طرف سے ظلم کیا جاتا اور بے رحمی کے ساتھ قتل کیا جانا باعث شہادت ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ نعمت اللہ اور اس کے دو شجاع اور بہادر قادیانی بھی شہید کہلائے جانے کے مستحق ہیں.جنہوں نے اپنے عقائد کے مقابلہ پر دنیاوی لالچ اور راحت و آرام کی پروانہ کی اور اپنے فانی جسم کو پتھروں، اینٹوں اور دوسری بے جان چیزوں کے حوالے کر دیا.ع " ثبت است بر جریده عالم دوام ما"." ہم جہاں افغان حکومت کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت اور انتہائی حقارت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان شہداء کے خاندان اور قادیانی فرقہ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر دنیا میں ظاہر کر دیا کہ ہندوستان اب بھی اپنے عقائد کے مقابلہ پر بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہے " مدر اس کے مشہور اخبار مدراس میل " نے کلکتہ کے اخبار سٹیٹسمین کے حوالہ سے لکھا.یه نهایت ظالمانہ فعل جو نیم سرکاری افسروں کی ہدایات کے بموجب عمل میں لایا گیا....یہ ظاہر کرتا ہے کہ امیر جس نے بلند ارادوں اور مصلحانہ روح کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا.....قدامت پسند اور متعصب اثرات کے نیچے دب گیا ہے "a حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف شہدائے کابل کے حادثہ کی قادیان میں اطلاع سے مظالم پر صبر و سکون کی تلقین جب پہنچی تو حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اي وقت بيت الدعا میں تشریف لے گئے اور دعا کی کہ ابھی تو اس حکومت پر رحم فرما اور ان کو ہدایت دے.دعا کے بعد حضور نے ایک تقریر کی جس میں پوری جماعت کو صبر و سکون سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو نصیحت فرمائی.کہ

Page 573

تاریخ احمدیت جلد ۴ 510 ثانیہ کا بارھواں سال " مجھے اس بات کا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ افغان نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کر دیا ہے مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان مظالم کو پڑھیں گی.اس وقت ان کا جوش اور ان کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے...اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالی ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں.مسئلہ "قتل مرتد اور ہندو اصحاب مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے واقعہ شہادت کی طرح اس موقعہ پر بھی ہندوستان کے بعض متعصب اور تنگ نظر علماء نے امان اللہ خان کا یہ فعل مستحسن قرار دیا اور اسے " شریعت حقہ اسلامیہ " کی اہم ترین دفعہ ثابت کرنے کی کوشش کی.اس موقف نے دشمنان اسلام کے ہاتھ اسلام اور آنحضرت کو بد نام کرنے کا ایک اور ہتھیار دے دیا اور ان کو پورا پورا یقین ہو گیا کہ اسلام واقعی جبرو تشدد کا علمبردار ہے.چنانچہ مسٹر گاندھی نے کہا "میرا خیال ہے کہ سنگساری کی سزا کی قرآن میں صرف خاص حالات میں اجازت ہے.جن کے تحت میں یہ واقعات تو آسکتے ہیں لیکن....اس قسم کی سزا کو اخلاق پر دھبہ قرار دوں گا....یہ اس قسم کی سزا ہے جو انسانی جذبات کو ٹھیس لگاتی ہے خواہ جرم کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو دل اور دماغ قبول نہیں کرتے کہ کسی بھی جرم کے لئے سنگساری کی وحشیانہ سزا کو مناسب قرار دیا جائے " " پنڈت شردھانند نے بیان دیا کہ حال کی سنگساری کے بارہ میں وزیر داخلہ کابل نے جو اعلان نکالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے یہ سنگساریاں مذہبی اختلاف کی بناء پر عمل میں آئی تھیں.جہاں کہیں بھی اسلامی بادشاہت قائم ہوگی وہاں قتل مرتد بذریعہ سنگساری کا قانون جاری ہو گا.....اس لئے ہندوستان کے ہندو اس امر سے واقفیت رکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے...میں نے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیتہ علمائے ہند سے پوچھا تھا کہ اگر قتل مرتد کا مسئلہ صحیح ہے تو ہندو مطمئن ہوں گے ؟ مولانا مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کہ قتل مرتد کی اجازت اسی حالت میں ہے جبکہ مسلمان بادشاہ ہو.کیونکہ بادشاہ ہی ایسا حکم دے سکتا ہے.میں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں جمہوری سلطنت قائم ہو جائے اور اس کا صدر مسلمان چنا جائے.اس وقت ان ہندوؤں اور

Page 574

.جلد 511 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال عیسائیوں کی حالت کیا ہو گی.جو ایک بار مسلمان ہو کر پھر اپنے پرانے مذہب میں واپس آنا چاہیں گے.....اگر ایسے وحشیانہ قانون کے برخلاف یک زبان ہو کر ساری دنیا آواز نہ اٹھائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انصاف کا خیال دنیا سے معدوم ہو گیا ہے ".جماعت احمدیہ قتل مسئلہ قتل مرتد اور جماعت احمد یہ اور دو سرے روشن خیال علماء مرتد کے مسئلہ ہی کو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی و مخالف سمجھتی ہے اس لئے وہ دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے شروع ہی سے یہ واضح کرتی آرہی تھی کہ امان اللہ خان کی حکومت اور اس کے مؤیدین نے احمدیوں ہی کا نہیں اسلام کا بھی خون کیا ہے جماعت احمدیہ کے اس مؤقف کی تائید و موافقت بعض دوسرے روشن خیال علماء نے بھی کی اور جرات اور دلیری سے قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ نہ تو اسلام میں ارتداد کے لئے کوئی سزا مقرر ہے اور نہ احمدی مرتد ہیں.چنانچہ جناب مولانا محمد علی جو ہر نے اس موضوع پر اپنے اخبار ہمدرد میں کئی اقساط میں ایک مفصل مقالہ سپرد قلم کیا جس میں مسئلہ قتل مرتد پر قرآن وحدیث سے بحث کرنے کے بعد لکھا.اس وقت احمدیوں کی دو جماعتیں ہیں.لاہوری جماعت کے عقائد تو بالکل عام مسلمانوں کے سے ہیں.اب رہے قادیانی احمدی یعنی مرزا بشیر الدین صاحب کے حلقہ کے لوگ بے شک ان کے عقائد عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ہم ان لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے مگر باوجود ان کے غلط عقائد کے ان کو کا فرد مرتد کہنا صریح ظلم ہے کیونکہ وہ اہل کعبہ ہیں ، توحید، رسالت، قرآن اور حدیث کو ماننے اور عبادت و معاملات میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں.صوم و صلوۃ اور حج و زکوۃ کو فرض تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں قرآن کو کلام الہی اور رسول اللہ کو افضل الرسل و انبیاء مانتے ہیں.باقی مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو خیال انہوں نے قائم کر لیا ہے وہ ہر اک لحاظ سے غلط و باطل ہے مگر بہر صورت وہ قصور علم و کوتاہی فہم کی وجہ سے ہے.وہ آیات و احادیث میں تاویل کرتے ہیں اور مؤول کو آج تک کسی نے مرتد و کافر نہیں کہا.مرتد کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا.کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ مرتد و کافر قرار دے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو.قرآن میں یہاں تک ہے کہ ولا تقولوا لمن القى اليكم السلام لست مومناط جو تم کو سلام کرے اس سے یہ مت کہو کہ تو مومن نہیں.اگر قصور نہم و تاویلات بعیدہ کی بناء پر کفر و ارتداد کے فتوے نکلنے اور احکام جاری ہونے لگیں تو کوئی فرقہ بھی کفرو ارتداد کی زد سے نہیں بچ سکتا.

Page 575

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 512 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال واقعہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جو کچھ بھی عقائد ہیں وہ آیات و احادیث کے سوء فهم و قصور علم کی بناء پر ہیں.ایک آیت کے معنے جو ہم سمجھے ہوئے ہیں وہ اس کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں.مگر ہماری طرح وہ بھی اپنے عقائد کے ثبوت میں آیات و احادیث کے معنی و مفہوم کو اپنے طور پر اپنے فہم و ادارک کے مطابق پیش کرتے ہیں اور یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ مؤدل کو مرتد یا کافر نہیں قرار دیا جا سکتا.اس کے علاوہ مرتد کی سزا قتل جتلائی جاتی ہے نہ کہ رجم - مگر افغانستان میں ان کو رحم کیا جا رہا ہے جو ایک نئی اختراع ہے.اگر مناظرانہ الزامات کفر وارتداد کو معتبر قرار دیا جائے تو پھر تمام فرقے ایک دو سرے کے نزدیک واجب القتل ٹھرتے ہیں.بہت سے غالی اور منتقشف علمائے احناف شیعوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں.بالخصوص قائلین ایک عائشہ کو.اسی طرح شیعہ خوارج کو کافر کہتے ہیں اور مناظرانہ حیثیت میں تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کو باطل ٹھہراتے اور کفر و ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں.بریلی کے دارالکفر سے سینکڑوں علماء حق کی نسبت کفر کے فتوے صادر ہوئے.خصوصاً مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر حضرت شیخ الہند قدس سرہ العزیز تک تمام علمائے دیو بند ان کے نزدیک بالکل ہی مرتد و کافر تھے.کیا یہ سب واجب القتل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طریقہ پر ایک ایسے فتنہ ا....دروازہ نہیں کھل جاتا.جولا انتهاء تباہی اور بربادی کا باعث ہو گا".سید رئیس احمد صاحب جعفری نے مولانا محمد علی جو ہر کے ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے.انہوں نے ان دونوں جماعتوں کے افکار و آراء کا مطالعہ کیا.اور پھر اپنا نظریہ یہ پیش کیا کہ اسلام میں قتل مرتد جائز نہیں....اس مسئلہ پر انہوں نے آیات قرآنی احادیث رسول اقوال فقهاء ، خیالات آئمہ افکار مجتہدین کا اتنا نادر ذخیرہ جمع کر لیا کہ ایک شخص پوری بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ پر ریسرچ کر سکتا ہے.اس ذخیرہ سے متمتع ہونے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق ایک رائے قائم کی اور اس پر آخر وقت تک مصرر ہے ".مسلم زعماء میں سے دوسرے اہل قلم جنہوں نے اس موقعہ پر مسئلہ قتل مرتد پر محققانہ انداز میں قلم اٹھایا جناب عبد المساجد صاحب بی.اے دریا آبادی ہیں جنہوں نے لکھا.کابل کے واقعہ رجم کی تائید و تحسین میں بعض اخبارات کی پُر جوش تحریر میں اور علمائے حنفیہ کے مضامین میری نظر سے گزرے میں نے انہیں بغور پڑھا.لیکن افسوس ہے کہ ان سے متفق و مطمئن نہ ہو سکا اور باوجود غیر احمدی ہونے کے اس باب خاص میں میری ہمدردی گروہ احمدی کے ساتھ ہے.میں کسی معنی میں بھی ہر گز نہ ہی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا.تا ہم ایک عام مسلم بھی اپنے فہم و

Page 576

-f تاریخ احمدیت.جلد ۴ 513 ادارک کے موافق ہر اسلامی مسئلہ میں لب کشائی کر سکتا ہے.اس لئے امید ہے کہ میری یہ مبادرت قابل عفو خیال کی جائے گی.میرے پیش نظر سوالات ذیل ہیں.کیا اسلام نے ارتداد کی سزا قتل رکھی ہے؟ کیا قتل و رجم مترادف ہیں؟ کیا احمدیت ارتداد ہے؟ (اس کے بعد آپ نے اس مسئلہ پر جو موافق و مخالف دلائل کا تجزیہ کیا اور آخر میں لکھا.) "رجم مرتد کی تائید میں تو کوئی سند بھی موجود نہیں."قتل" مرتد کے باب میں کتاب و سنت خاموش ہیں بلکہ قرآن کریم میں جو رواداری عقائد کا اعلان عام کیا جا چکا ہے وہ فتویٰ جواز قتل مرتد کی گویا تردید کر رہا ہے.صحابہ کرام کے طرز عمل سے باغیوں کے ساتھ قتال ثابت ہوتا ہے نہ کہ محض مرتدون سے.آخر میں تیسرا مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ آیا مرتد کا اطلاق احمدیوں پر صحیح ہے.قرآن کریم کی اصطلاح میں مرتد تو شاید صرف اسے کہہ سکتے ہیں جو احکام خدایا احکام رسول سے منحرف ہو گیا ہو.پھر کیا احمدیت کو کتاب و سنت کے کسی جزئیہ سے بھی انکار ہے جہاں تک میری نظر سے خود بانی سلسلہ احمدیہ جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی تصانیف گزری ہیں ان میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی.بلکہ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ احمدیت کے بیعت نامہ میں ایک مستقل دفعہ حضرت رسول خدا ان کے خاتم النبین ہونے کی موجود ہے.مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے تھے تو اس معنی میں جس میں ہر مسلمان ایک آنے والے مسیح کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں.1 پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود مرزا صاحب مرحوم بانی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے "ارتداد " سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے ان کی تحریروں سے تو محض اتنا ہی نہیں معلوم ہو تاکہ وہ توحید و رسالت کے پوری طرح قائل ہیں قرآن پر حرفاً حرفاً ایمان رکھتے ہیں کعبہ مومنین کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں بلکہ سردار کو نین اللہ کی ذات مبارک کے ساتھ محبت و شیفتگی بھی ٹپکتی ہے.ان سے ہمارا جو کچھ اختلاف ہے وہ بعض احکام و ہدایات کی سوء تعبیر کی بناء پر ہے نہ کہ اغراض و انکار کی بناء پر.اور سوء تعبیر ایسی شے نہیں جس کی بناء پر ارتداد و تکفیر کا حکم لگایا جا سکے ".بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلحدیث نے بھی مسئلہ "قتل مرتد " کے بارے میں جماعت احمدیہ کے

Page 577

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 514 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال مسلک کی تائید کرتے ہوئے لکھا.ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے تو ہمیں اس پر بحث نہیں“.اس کے بعد آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور لکھا.نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو کسی مرزائی کو محض مرزائی ہونے کی وجہ سے (اگر یہ صحیح ہے) سنگسار کیا گیا ہے تو قرآن، حدیث اور کتب فقہ میں اس کا ثبوت نہیں اس لئے یہ سزا نہ حد ہے نہ تعزیز ہاں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو باصطلاح افاغنہ سیاسی حکم ہے دگر بیچ " جماعت احمدیہ کی بار بار وضاحتوں اور مسئله وقتل مرتد اور اسلام پر سلسلہ مضامین جناب محمد علی صاحب جو ہر اور جناب عبد الماجد صاحب د ریا آبادی کے قابل قدر علمی مضامین کے باوجود غیر مسلموں کی طرف سے اسلام کو برابر بد نام کیا جا رہا تھا.چنانچہ آریوں کے با اثر اخبار " پر کاش " لاہور (۷ / مارچ ۱۹۲۵ء) نے لکھا.قادیانیوں کا تعصب مذہبی ملاحظہ ہو.کہ عین اسی وقت جبکہ وہ حکومت افغانستان کے اس سنگدلانہ فعل کے برخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اس عنوان سے اپنے اخبار میں مضامین کی اشاعت میں بھی مشغول ہیں کہ اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی.کوئی ان بھلے آدمیوں سے پوچھے کہ اگر اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی تو کیا نعمت اللہ پر پھول برسائے گئے تھے.یا اس کی اور اس کے بعد دو اور احمدیوں کی لاشیں ابھی تک پھولوں کے ڈھیر میں دبی پڑی ہیں...ضرور ہے کہ نعمت اللہ اور دیگر احمدیوں کو تلوار نہیں پتھروں کی مار سے مارا گیا ہے.لیکن پتھر کی مار تلوار کی مار سے بلاشبہ زیادہ سنگدلانہ ہے ".اس خطر ناک طعن و تشنیع کا دروازہ بند کرنے کی واحد صورت یہی تھی کہ سابقہ مضامین پر اکتفانہ کرتے ہوئے مسئلہ قتل مرتد پر اسلامی نقطہ نگاہ سے میر حاصل روشنی ڈالی جائے تا اسلام کا مقدس چہرہ اس بد نما داغ سے پوری طرح صاف و شفاف ہو کر غیر مسلموں کے سامنے آجائے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس اہم خدمت کے لئے مقرر فرمایا.جنہوں نے حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مکرم مولوی فضل الدین صاحب وکیل مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مکرم مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی کی اعانت سے اس مسئلہ کے ہر پہلو پر زبر دست تحقیق کی اور اس سلسلہ میں قرآن مجید احادیث نبوی اور اقوال فقہاء پر نہایت گہری اور باریک نظر ڈال کر ایسے مدلل

Page 578

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 515 خلافت متین اور زور دار رنگ میں اس نازک مسئلہ پر قلم اٹھایا کہ اپنوں اور بے گانوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں ہی کا ازالہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کا مذہب امن و صلح ہونا بھی پورے طور پر عیاں ہو گیا.یہ مضمون الفضل ۱۹۲۵ء میں پہلے باقساط چھپا پھر اگلے سال ”قتل مرتد اور اسلام" کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا.یہ اسی عظیم الشان تصنیف کا اثر ہے کہ مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر اخبار ”زمیندار کو ( جنہوں نے اس مسئلہ کی تائید میں اہل دیو بند کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ مضامین شائع کئے تھے ) بالآخر اپنے اخبار ”زمیندار“ میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس دین کی اصل محکم جس کا نام اسلام ہے یہ دین کمال کو پہنچا اور نعمت پوری ہو چکی اس قرآن کریم میں مجرم ارتداد کی کوئی جسمانی سزا نہیں بتائی گئی".تحریک چندہ خاص حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۰/ فروری ۱۹۲۵ء کو "$ مخلصین جماعت کو ایک لاکھ روپیہ کی خاص چندہ کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا پس منظر حضور کے الفاظ میں یہ تھا.میری صحت متواتر بیماریوں سے جو تبلیغ ولایت کے متعلق تصانیف اور دوران سفر کے متواتر کام کے نتیجہ میں پیدا ہو ئیں بالکل ٹوٹ چکی ہے.اور غموں اور صدموں نے میرے جسم کو ذکریا علیہ السلام کی طرح کھو کھلا کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر کبھی بھی میرا جسم راحت اور آرام کا مستحق اور میرا دل اطمینان کا محتاج تھا تو وہ یہ وقت ہے لیکن صحت کی کمزوری ، جانی اور مالی ابتلاؤں کے باوجود بجائے آرام ملنے کے میری جان اور بھی زیادہ بوجھوں کے نیچے دبی جارہی ہے.کیونکہ سفر مغرب کی وجہ سے اور اشاعت کتب کی غرض سے جو روپیہ قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی کا وقت سر پر ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے اور بیت المال کا یہ حال ہے کہ قرضہ کی ادائیگی تو الگ رہی کارکنوں کی تنخواہیں ہی تین تین ماہ کی واجب الادا ہیں.پس یہ غم مجھ پر مزید بر آں پڑ گیا ہے کہ قرضہ ادانہ ہونے کی صورت میں ہم پر نادہندگی اور وعدہ خلافی کا الزام نہ آئے اور اسی طرح وہ لوگ جو باہر کی اچھی ملازمتوں کو ترک کر کے قادیان میں خدمت دین کے لئے بیٹھے ہیں ان کو فاقہ کشی کی حالت میں دیکھنا اور ان کو ان کی ان تھک خدمات کے بعد قوت لایموت کے لئے بھی روپیہ نہ دے سکتا کوئی معمولی صدمہ نہیں ہے تیسرا صدمہ مجھے یہ ہے کہ اس قدر تکالیف برداشت کر کے جو سفر اختیار کیا گیا تھا اس کے اثرات کو دیر پا اور وسیع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ فورا تجربہ کے ماتحت شام اور انگلستان میں تبلیغ کا راستہ کھولا جاتا.مگر مالی تنگی کی وجہ سے اس کام کو شروع نہیں کیا جا سکتا اور سب محنت کے برباد ہونے کا خطرہ ہے.ان صدمات کے بعد جو میری صحت اور جسم کو پہنچے ہیں اور جو اپنی ذات میں ہی ایک انسان کو

Page 579

ر نیت - جلد ۴ 516 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہیں اس قدر صدمات کا بوجھ میرے لئے نا قابل برداشت ہو ا جا رہا ہے.پس میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وعدہ کے مطابق جو احباب نے سفر ولایت کے متعلق مشورہ لیتے وقت کیا تھا ایک خاص چندہ کی اپیل کروں.سفر ولایت پر پچاس ہزار روپیہ خرچ آیا ہے.اور اس خاص لٹریچر کی اشاعت پر جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوایا گیا.ہمیں ہزار روپیہ.موجودہ مالی تنگی کو رفع کرنے اور سفر سے جو تحریک اسلامی اور مغربی بلاد میں پیدا کی گئی تھی اس کے چلانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.یہ کل ایک لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور میں اس کے لئے اب جماعت سے اپیل کرتا ہوں اور اس کے پورا کرنے کے لئے یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے.اس غرض کے لئے اپنی ایک مہینہ کی آمد تین ماہ میں یعنی ۱۵ فروری سے ۱۵ مئی تک علاوہ ماہوار چندہ کے جو وہ دیتا ہے اس خاص تحریک میں ادا کرے.زمیندار لوگ دونوں فصلوں کے موقعہ پر علاوہ مقررہ چندہ کے دو سیرفی من پیداوار پر ادا کریں اور اس جماعت کی عزت اور سلسلہ کے کام کو برباد ہونے سے بچایا جائے ".جماعت احمدیہ نے اپنے پیارے امام کے ارشاد پر تین ماہ کے اندراندر ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دیا.چنانچہ حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ۱۲ جولائی ۱۹۲۵ء کو اعلان فرمایا." الحمد لله کہ میں آج اس امر کا اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ معیاد مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک لاکھ کی تحریک کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی مجھے نہایت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مخالفوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اعتراض کر رہے تھے کہ احمد فی چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں اس نے جماعت کو اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچانے کا موقعہ دے دیا ہے کہ وہ چندے دیتے دیتے تھکی نہیں بلکہ وہ اسی طرح تازہ دم ہے جس طرح کہ پہلے دن تھی.بلکہ مومنانہ شان کے مطابق اس کا جوش پہلے سے بھی بڑھا ہوا ہے اور وہ ۲۵ دین اسلام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہے اور ہر ایک بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ !" اشاعت احمدیت کے لئے خاص تحریک حضرت خلیفہ المی الثانی ایدہ اللہ تعالی بصره العزیز نے ۱۳/ فروری ۱۹۲۵ء کو تحریک فرمائی کہ ہر ایک احمدی دل میں عہد کرے کہ اشاعت سلسلہ میں ہمہ تن لگ جائے گا.نیز فرمایا."میرے نزدیک موجودہ ترقی کی رفتار بہت کم ہے.جب تک ایک لاکھ سالانہ سلسلہ میں لوگ داخل نہ ہوں ہماری ترقی خطرہ میں ہے.ہمیں جلد سے جلد اس بات پر قادر ہونا چاہئے.ایک لاکھ سالانہ

Page 580

تاریخ احمدیت.جلد ) 517 کی رفتار سے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ جو اس کام کو جاری رکھ سکیں گے.موجودہ حالت میں تو ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے.پس جس طرح احباب سب چندہ دیتے ہیں.اسی طرح ایک دو سال بھی اگر وہ سب اشاعت سلسلہ اور اخلاق کی درستی کی کوشش میں لگ جائیں جس کے ساتھ جماعت کے اندر ایک رو پیدا ہو جائے تو اس طرح ایسی تعداد پیدا ہو سکتی ہے کہ جو کام کو سنبھال سکیں".ان دنوں ملک میں فرقہ وارانہ نیابت کا سوال بہت فرقہ وارانہ نیابت کے سوال کا حل پیچیدہ صورت اختیار کر گیا تھا.اس کے تصفیہ کے لئے سیاسی زعماء نے دہلی میں آل انڈیا پارٹی کا نفرنس بھی منعقد کی.مگر کچھ فیصلہ نہ ہو سکا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ مسلمان اپنا یہ مطالبہ کہ ان کو بعض صوبوں میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت دیا جائے چھوڑ دیں.مدر اس یا بہار میں اگر وہ چند ممبریاں زیادہ بھی حاصل کر لیں گے تو اس سے ان کو اتنا فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جتنا کہ بعض صوبوں میں کثرت سے ہو سکتا ہے.اور آئندہ نظام اس طریق پر قائم کیا جائے کہ ہر ایک قوم کو اس کی آبادی کے مطابق حق نیابت ملے.صرف یہ رعایت ہو کہ جہاں قلیل التعداد اقوام کو نصف ممبری کا حق ملتا ہے وہاں ان کو ایک پوری ممبری کا حق دیا جائے بشر طیکہ آبادی کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے.اس ضمن میں دوسری اہم تجویز آپ نے یہ فرمائی کہ ہر قوم کا انتخاب اس کی اپنی قوم کے افراد کے ذریعہ سے کیا جاوے یعنی نہ صرف یہ شرط ہو کہ ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق نیابت دی جائے بلکہ یہ بھی شرط ہو کہ ہر قوم کے نمائندے صرف اس کے ووٹوں سے منتخب کئے جائیں ورنہ طاقتور اور ہوشیار قومیں دوسری اقوام کے ایسے ممبروں کے منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گی.جو اپنی قوم کا نمائندہ کہلانے کی بجائے دوسرے زبر دست یا زیادہ تعلیم یافتہ قوم کا نمائندہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہو گا.تیسری بات حضور نے سیاسی لیڈروں کے سامنے یہ پیش کی کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں جن کی موجودگی میں کثیر التعداد قو میں اقلیتوں پر ظلم نہ کر سکیں.پس آئندہ سمجھوتہ کی بنیاد ان شرائط پر ہونی چاہئے کہ (الف) ایک قوم دوسری قوم کے مخصوص تمدنی قوانین کے خلاف بھی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ ان امور کے متعلق جو مابہ النزاع ہوں.(ب) ایسے امور میں نہ صرف مذاہب کے کثیر التعداد فرقوں کے خیالات کا احترام کیا جائے گا بلکہ

Page 581

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 518 خلافت ثانیہ کا اگر قلیل التعداد فرقہ کثیر التعداد کے خلاف ہو تو اس کے لئے کوئی قانون اس کی مرضی کے خلاف نہیں بنایا جائے گا.حضرت خلیفتہ المسیح مدرستہ الخواتین کا اجراء اور آپ کی مصروفیات میں اضافہ الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کی علمی ترقی سے متعلق سفر یورپ کے دوران میں جو سکیم بنائی تھی.اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے حضور نے ۱۷ / مارچ ۱۹۲۵ء کو ” مدرستہ الخواتین " کی بنیاد رکھی.چونکہ قابل معلمات اس وقت موجود نہیں تھیں اس لئے خود حضور بھی طالبات کو پڑھاتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی مصروفیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۲۵ء میں فرمایا.میں صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ خواتین میں پڑھاتا ہوں یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے.جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے ان میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چکیں ڈال کر عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں.آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں.مولوی شیر علی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ - سوا گھنٹہ تک میں انہیں پڑھاتا ہوں.اصل وقت تو ۴۵ منٹ مقرر ہے مگر سارے استاد اپنا کچھ نہ کچھ وقت بڑھا لیتے ہیں کیونکہ مقررہ وقت کم ہے اور تعلیم زیادہ اس کے بعد اس کمرہ میں جہاں کل دوست ملاقات کرتے ہیں جاتا ہوں......وہاں آکر میرا دفتری کام شروع ہوتا ہے...اس وقت میں سلسلہ کے انتظامی کاموں اور کاغذات اور سکیموں کا مطالعہ کرتا ہوں اسی دوران میں دس بجے کے قریب ڈاک آجاتی ہے جن میں روزانہ.....سوسواسو خطوط ہوتے ہیں جو کم از کم دو اڑھائی گھنٹہ کا کام ہوتا ہے.اس کے بعد میں کھانا کھانے جاتا ہوں پھر نماز ظہر کے لئے جاتا ہوں نماز پڑھانے کے بعد آکر سلسلہ کے کام جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں یا دفاتر کے کاغذات پڑھنے یا تدابیر سوچنے یا بعض علمی مضامین کے لئے مطالعہ کرتا ہوں....اس کے بعد پھر عصر کی نماز پڑھانے کے بعد وہاں کچھ دیر دوستوں کے لئے بیٹھتا ہوں اور اگر درس ہو تو درس کے لئے چلا جاتا ہوں یا بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھاتا ہوں کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے.وہ پڑھاتا ہوں اور اس کے بعد کھانا کھا کر عشاء کی نماز تک مطالعہ کرتا ہوں اور پھر عشا کی نماز کے بعد کام کے لئے اسی کمرہ میں چلا جاتا ہوں جہاں ابجے اور ۱۲ بجے تک ترجمہ قرآن کریم کا کام کرتا ہوں پھر علمی شوق کے لئے ذاتی مطالعہ کرتا ہوں.....ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے تک یہ مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد جب بستر پر لیٹتا ہوں تو تھکان کی وجہ سے نیند نہیں آتی.آنکھوں کے سامنے چیزیں ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں.کیونکہ

Page 582

تاریخ احمدیت جلد " 519 تھکان کی وجہ سے اعصاب کانپ رہے ہوتے ہیں اسی حالت میں نیند آجاتی ہے پھر صبح کی نماز کے بعد کام کا یہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح حضرت مسیح موعود کی تحریرات کے متعلق اہم اعلان انانی اید اللہ تعالی بصرہ العزیز نے مجلس شوری ( منعقدہ ۱۹۲۵ء) کے موقعہ پر یہ اہم اعلان فرمایا." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالی کی طرف سے آئے تھے.محمد اس کا بروز ہو کر آئے تھے.اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں ؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا.مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دوں گا " حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا چوتھا نکاح (حرم ثانی حضرت خلیفہ المسیح الثانی) حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات سے جماعت میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا.جس کی وجہ یہ تھی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مد نظر احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک اہم سکیم تھی جو ان کی وفات سے درمیان میں ہی رہ گئی.اگر آپ لاکھوں کی جماعت کے امام نہ ہوتے اور احمدی مستورات کی ترقی و بہبود اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ پر عائد نہ ہوتی تو آپ کے لئے کسی اور نکاح کا خیال ہی دکھے ہوئے دل کو نھیں لگانے کے لئے کافی تھا کیونکہ جسمانی و مالی پہلو دونوں مخدوش اور سقیم تھے اور دو بیویاں اور بچے موجود تھے.لیکن آپ محض مفاد سلسلہ کی خاطر تیسرے نکاح کے لئے آمادہ ہو گئے اور مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری سے ان کی دختر نیک اختر ساره بیگم صاحبہ کے لئے کم از کم تین سو مرتبہ استخارہ کر کے سلسلہ جنبانی شروع کیا.آخر جب فریقین کی طرف سے معالمہ طے پا گیا تو ۱۲- ۱۳/ اپریل ۱۹۲۵ء کو مسجد اقصیٰ میں حضور کے اس مبارک نکاح کی تقریب عمل میں آئی.حضور نے اپنا خطبہ نکاح خود پڑھا اور اس کے اغراض و مقاصد پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی.جنگ عظیم کے خاتمہ پر تمام عرب ممالک سرزمین حجاز کی خانہ جنگی اور جماعت احمدیہ کی ایک وسیع مملکت بنانے کا جو وعدہ

Page 583

تاریخ احمدیت جلد ۴ 520 خلافت ثانیہ کا بار ھو انگریزوں نے کیا تھا.وہ تو پورا نہ کیا.البتہ عربوں کے لیڈر شریف حسین (شریف مکہ) کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کر لیا شریف حسین اس وعدہ خلافی پر بہت تلملائے.نجد کے سلطان امیر عبد العزیز ابن سعود نے حجاز پر چڑھائی کر دی اس لڑائی میں جیسا کہ بعد کو انکشاف ہوا.ابن سعود اور شریف حسین دونوں کو برطانیہ کی خفیہ امداد حاصل تھی.ہندوستان کی برطانوی حکومت امیر عبد العزیز ابن سعود کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور مصر کے برطانوی حکمران شریف حسین کو امداد دے رہے تھے BI - امیر عبد العزیز ابن سعود کی فوجیں تجربہ کار تھیں شریف حسین کو شکست پر شکست ہونے لگی اور طائف بھی ہاتھ سے نکل گیا.مگر ابھی تک شریف حسین میں تاب مقابلہ تھی.لیکن جو نبی مکہ مکرمہ پر سعودی لشکر نے حملہ کیا تو انہوں نے اس خیال سے کہ اہل مکہ ہی اس کے خلاف کہیں بغاوت نہ کر دیں اور ان کے لئے بھاگنے کا رستہ نہ رہے خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی اور ان کے بڑے لڑکے شریف علی نے ان کی جگہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنی فوج ترتیب دے کر جدہ کو اپنا صدر مقام بنا لیا اور کھلے میدان میں جنگ کرنے کی بجائے ساحل سمندر کے پاس شہروں میں محصور ہو گئے.اور اس طرح وسط ۱۹۲۵ء میں حجاز کی صورت یہ تھی کہ امیرابن سعود کا مکہ مکرمہ پر اقتدار ہو چکا تھا.مگر جدہ کی مشہور بندرگاہ جو ہندوستانی حجاج کا صرف ایک ہی راستہ تھی شریف حسین کے قبضہ میں تھی.مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈر برابر زور دے کر حج کے لئے جہاز روانہ کردار ہے تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک مضمون میں (جو الفضل ۱۹۲۵ء کی تین اشاعتوں میں شائع ہوا) مسلمانوں کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ فتنہ کے ان ایام میں حج کا ارادہ ملتوی کر دیں.کیونکہ حج کی شرائط میں ایک اہم شرط امن کا وجود ہے جو موجودہ حالات میں مفقود ہے اس مشورہ کے ساتھ ہی حضور نے (امیرابن سعود اور شریف مکہ کی کشمکش اور عرب پر اس کے سیاسی اور تمدنی اثرات کا جائزہ لینے کے علاوہ بتایا کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں جبکہ اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھارہی تھیں " خدا تعالیٰ کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا کئے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے عرب میں خدا تعالٰی نے محمد بن عبد الوہاب کو چنا.اس تفصیل کے بعد سعودی خاندان کی پوری تاریخ پر روشنی ڈالی اور سعودی حکومت کی نسبت یہ رائے دی کہ ہمارا پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ احمدیت میں جس قدر جلد وہابی داخل ہوتے ہیں اس قدر جلد کوئی دوسرا فرقہ مسلمانوں کا داخل نہیں ہوتا.پس جماعت احمدیہ کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حجاز پر وہابیوں کی حکومت ہمارے لئے گو مشکلات بھی پیدا "

Page 584

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 521 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال کرے گی.....مگر انجام کار انشاء اللہ ہمارے سلسلہ کے لئے مفید ہوگی " اس کے چند ماہ بعد امیر عبد العزیز ابن سعود نے شریف علی کو مکمل شکست دے دی اور نجد و حجاز کو ملحق کر کے مملکت سعودیہ عربیہ کے نام سے اپنی حکومت قائم کرلی جسے آہستہ آہستہ سب حکومتوں نے تسلیم کر لیا.

Page 585

تاریخ احمدیت.احمدیت جلد ۴ 522 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال چھٹا باب (فصل دوم) وفلسطين دار التبلیغ شام و فا ابھی جماعت احمدیہ کا باقاعدہ قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ۶/ اپریل ۱۸۸۵ء کو الہام نازل فرمایا کہ " يدعون لك ابدال الشام و عباد الله من العرب العني تیرے لئے ابدال شام اور عرب کے نیک بندے دعا کرتے ہیں.اس آسمانی خبر کے قریباً چار سال بعد لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی.اور ۱۰/ جولائی ۱۸۹۱ء کو مکہ مکرمہ کے ایک بزرگ محمد بن شیخ احمد ( ساکن محله شعب عامر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے.بلاد عربیہ کے دو سرے بزرگ جنہوں نے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی.السید محمد سعید النشار الحمیدانی الطر البسی تھے ان کے علاوہ طائف میں عثمان صاحب اسکندریہ (مصر) میں السید احمد زہری بدرالدین اور یمن میں الحاج محمد المغربی 1 حضور علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان لائے.| CA¦ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعوئی مسیحیت کے بعد بلاد عربیہ تک اپنی دعوت پہنچانے کے لئے نصیح و بلیغ عربی میں متعدد تالیفات فرما ئیں.یہ مبارک لٹریچر بلاد عربیہ اور دوسرے عربی سمجھنے والے ممالک میں پھیلا دیا.اس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے زمانہ میں احمدیت کا پیغام ان ممالک تک پہنچ گیا.اسی زمانہ میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصر میں تشریف لے گئے اور احمدیت کی دعوت پہنچاتے رہے.خلافت اولیٰ کے آخری دور میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری نو مسلم مصر میں بغرض تعلیم گئے.اور اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تبلیغ سلسلہ میں بھی مصروف رہے.ان کے بعد ۱۹۲۲ء میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا احمدید دار التبلیغ مصر میں قائم ہوا.اب اس سال (۱۹۲۵ء میں) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے شام میں نیا دار التبلیغ کھولنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو روانہ فرمایا اور انہیں الوداع کرتے ہوئے جہاں اور کئی نصائح فرما ئیں وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا.کہ اہل عرب کے ہم پر بہت بڑے احسان ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم تک اسلام پہنچا ہا ر ار و نگٹا

Page 586

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 523 خلافت عثمانیہ کا بار رونگٹا ان کے احسان کے نیچے رہا ہوا ہے.ان کا بدلہ دینے کے لئے ہمارے یہ مبلغ وہاں جا رہے ہیں.ان میں سے سید ولی اللہ شاہ صاحب پر دوہری ذمہ داری ہے.کیونکہ انہوں نے علم بھی اس ملک سے حاصل کیا ہے.اب ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کو روحانی علم دیں.مگر ساتھ ہی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ مبلغ کی حیثیت سے نہیں جارہے بلکہ مدیر کی حیثیت سے جارہے ہیں ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے مبلغ کی حیثیت سے مولوی جلال الدین صاحب جار ہے ہیں ان کو اسی مقصد کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چاہئے تاکہ ان کے جانے کا مقصد فوت نہ ہو جائے.ان کا یہ کام ہے کہ ان کے ذریعہ جو جماعت خدا تعالیٰ پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ترقی ہی موجب تنزل ہوگی...پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے.اگر شامی احمدی ہوں تو انہیں یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ ہم "شامی احمدی " ہیں اسی طرح جو مصری احمدی ہوں.ان کے دل میں یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ ہم "مصری احمد ی ہیں.....کیونکہ مذہب اسلام وطنیت کو مٹانے کے لئے آیا ہے.اس لئے نہیں کہ حب وطن کو مٹانا چاہتا ہے اسلام تو خود کہتا ہے حب الوطن ایمان کی علامت ہے مگر وہ وطن کو ادنیٰ قرار دیتا ہے اور اس سے اعلیٰ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو وطن سمجھو دنیا سے مراد تو وہ انسان ہوتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں مگر انسانیت سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو پہلے گزر چکے اور جو آئندہ آئیں گے ایک مسلمان کا کام جہاں پہلوں کی نیکیوں کو قائم کرنا اور ان کے الزامات کو مٹانا ہو تا ہے وہاں آئندہ نسلوں کے لئے سامان رشد پیدا کرنا بھی ہوتا ہے اس کے لئے انسانیت ہی مطح نظر ہو سکتی ہے پس ہمارے مبلغوں کو یہ مقصد مد نظر رکھ کر کھڑا ہونا چاہئے اور ہمیشہ اسی کو مد نظر رکھنا چاہئے " AM حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس ۲۷/ جون ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ جولائی ۱۹۲۵ء کو دمشق پہنچے.حضرت شاہ صاحب کے دوستوں اور شاگردوں کا حلقہ بیت المقدس اور شام میں وسیع تھا.جس سے انہوں نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تعارف کرایا.قیام دمشق کے دوران میں آپ نے "کشتی نوح کا ترجمہ کیا.ایک ٹریکٹ "الحقائق عن الاحمدیہ " چھپوایا اور ایک مبسوط کتاب "حیات المسیح دوفاتہ " کے نام سے شائع کی.جس کا عیسائیوں کے علاوہ بڑے بڑے مسلمان عالموں اور فلاسفروں پر بھی بہت اثر پڑا.چنانچہ مصر

Page 587

524 ٥٥ کے مشہور مفکر احمد زکی پاشا نے تسلیم کیا کہ وفات مسیح کے متعلق جو تحقیق احمدیوں نے کی ہے اور جس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی اور عیسائیت پر کاری ضرب لگتی ہے.ان کے علاوہ محسن البرازی بیک نے (جو پہلے حکومت شام کے سابق وزیر اور پھر القصر الجمہوری معتمد اول منتخب ہوئے) کہا کہ افسوس اگر میرے دنیوی مشاغل مانع نہ ہوتے تو سب سے بہترین کام جس کے اختیار کرنے میں فخر کر تا وہ تبلیغ اسلام تھا جسے احمدی انجام دے رہے ہیں.ان دنوں عراق میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا.ہندوستانی احمدی انفرادی طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے.حکومت عراق نے انہیں تبلیغ احمدیت کی ممانعت کر دی اور ان کے پرائیوٹ اجتماعات پر بھی پابندی لگادی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے راستہ سے آئیں اور کوشش کریں کہ یہ ناروا پابندیاں اٹھا دی جائیں چنانچہ شاہ صاحب شروع ۱۹۲۶ء میں بغداد پہنچے اور امیر فیصل سے ملاقات کی اور خوبی اور عمدگی سے پورا معاملہ ان کے سامنے رکھا جس پر حکومت عراق نے سب پابندیاں اٹھا دیں.حضرت شاہ صاحب موصوف سفارت عراق میں کامیاب ہو کر ۱۰/ مئی ۱۹۲۶ء کو قادیان تشریف لائے تو سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا.1026 ON ” میرے نزدیک شاہ صاحب نے اس سفر میں ایک بڑا کام کیا ہے وہ عراق کے متعلق ہے.سیاست یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو دور تک اثر رکھتا ہے....ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ کوشش کر چکے تھے.مگر پھر بھی اجازت نہ حاصل ہوئی تھی.وہاں سے ہمارے کئی آدمی اس لئے نکالے جاچکے تھے کہ وہ تبلیغ کرتے تھے.اپنے گھر میں جلسہ کرنا بھی منع تھا.ان حالات میں کوشش کر کے کلی طور پر روک اٹھا دیتا بلکنہ وہاں ایسے خیالات پیدا ہو جانا جو ان کے دل میں ہمدردی اور محبت ثابت کرتے ہیں بہت بڑا کام ہے.یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں....اس سے سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے.....پس شاہ صاحب نے یہ بہت بڑی خدمت کی ہے".شاہ صاحب کی خصوصی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم پھر دار التبلیغ شام و فلسطین کے ابتدائی حالات کی طرف واپس آتے ہیں.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.شام و فلسطین میں بحیثیت مبلغ مولانا جلال الدین صاحب شمس تشریف لے گئے تھے.آپ نے شاہ صاحب کی معیت میں وہاں پہنچتے ہی تبلیغ شروع کردی اسی دوران میں نومبر ۱۹۲۵ء میں دروزیوں نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا جس پر شام

Page 588

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 525 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر مسلسل بمباری کر کے تباہی مچادی مگر ان ناموافق حالات میں بھی آپ شاہ صاحب کے ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہے اور یکم اپریل ۱۹۲۶ء تک دمشق میں ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا.ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ...تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا.الخ ۱۹۲۷ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دمشق میں ایک تحریری مناظرہ ڈنمارک کے ایک مشہور پادری الفریڈ نلسن سے کیا جو میں سال سے شام کے علاقہ میں عیسائیت کا کام کر رہے تھے اور شام کے عیسائی مشنوں کے انچارج تھے.موضوع مناظرہ یہ تھا کہ کیا حضرت مسیح ناصری فی الواقعہ صلیب پر فوت ہوئے ؟ مناظرہ کے محرک السید منیر المعنی صاحب تھے جو احمدی مناظر کے دلائل سن کر احمدیت میں شامل ہو گئے اور اخلاص میں اتنی ترقی کی کہ جماعت شام کے امیرو مبلغ بنے.چنانچہ آپ خود لکھتے ہیں.” میرے قبول احمدیت کا سب سے بڑا سبب یہی مناظرہ تھا.کیونکہ میں نے دیکھا کہ احمدی مبلغ کے دلائل و براہین لاجواب تھے.مسیحی مناظر سے ان کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور عزت و غلبہ اسلام نصف النہار کی طرح ظاہر ہو گیا.عیسائی پادری اور مولانا شمس صاحب میں مناظرہ سے پہلے یہ معاہدہ ہو ا تھا کہ اختتام مناظرہ پر پوری روئداد مناظرہ فریقین کے خرچ پر طبع کرائی جائے گی.لیکن جب مناظرہ ہو چکا تو وہ اپنے عہد سے پھر گیا.اس مناظرہ کے بعد اللہ تعالٰی نے میرا سینہ قبول احمدیت کے لئے کھول دیا اور مجھے مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہو ا " - یہ مناظرہ "اعجب الاعاجيب في نفي الاناجيل لموت المسيح على الصلیب" کے نام سے شائع ہو چکا ہے.عیسائیت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے علاوہ آپ نے علماء و مشائخ کا بھی مقابلہ کیا.مگر آپ کے دلائل و براہین کا وہی جواب دیا گیا جو ہمیشہ مخالفین حق دیا کرتے ہیں.یعنی دسمبر۷ ۱۹۲ء میں آپ پر خنجر سے قاتلانہ حملہ کرا کے سخت زخمی کر دیا گیا.آپ کے زخم مندمل ہوئے تو علماء کی ا نکیحت پر فرانسیسی حکومت نے ۹ مارچ ۱۹۲۸ء کو حکم دیا کہ آپ شام کا ملک چھوڑ دیں.جس کی اطلاع آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں بذریعہ تار دی.حضور نے آپ کو فلسطین کی بندرگاہ حیفا میں جانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ السید منیر المعنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام امیر مقرر کر کے ۷ار مارچ ۱۹۲۸ء کو حیفا پہنچ گئے اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی.شروع شروع میں یہاں بھی آپ کی سخت مخالفت ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ حیفا میں

Page 589

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 526 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال بھی جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.جب مشائخ نے دیکھا کہ یہاں لوگ احمدیت کو بنظر استحسان دیکھنے لگے ہیں تو انہوں نے سخت مخالفت شروع کر دی آخر ایک عالم شیخ کامل قصاب سے آپ کا دودن مباحثہ ہوا.شیخ مذکور نے اپنی شکست محسوس کر کے عوام کو آپ کے خلاف بھڑکایا.ان مخدوش حالات کے باوجود آپ برابر تبلیغی کوششوں میں مصروف رہے.چنانچہ اپریل ۱۹۲۸ء سے فروری ۱۹۲۹ء تک آپ کے آٹھ پرائیویٹ مناظرے علماء سے دو بھائیوں اور سات عیسائیوں سے ہوئے.عیسائیوں کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان کا اثر مسلمانوں پر بہت اچھا ہوا اور مشائخ کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان میں سے پہلے مناظرہ میں مد مقابل عالم نے اپنی شکست محسوس کرلی.اس لئے دوسرے مناظرہ میں شرائط مناظرہ کی خلاف ورزی کی جس کا نتیجہ فوری طور پر یہ ہوا کہ جو صاحب محرک مناظرہ تھے وہ احمدی ہو گئے ان کی بیعت پر مشائخ اور بھی زیادہ مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور تمام مساجد میں جمعہ کے دن جبکہ دیہات سے بھی سینکڑوں لوگ حیفا میں آئے ہوئے تھے سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلاف تقریریں کیں.اس کا رد عمل یہ ہوا کہ سلسلہ سے ناواقف لوگ واقف ہو گئے اور جو واقف تھے وہ قریب تر ہو کر سلسلہ کے حالات کا مزید مطالعہ کرنے لگے.۳/ جون ۱۹۲۸ء کو آپ بعض دوستوں کے ہمراہ سیر کرتے ہوئے (کہا بیر کے نیچے واقع) دادی اسیاح میں پہنچے جہاں ان کی ملاقات الحاج محمد المغربي الطرابلسی سے ہوئی.معلوم ہوا کہ یہ بزرگ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا چکے ہیں.اور ان کے ایمان کا باعث حضرت اقدس کی بعض تالیفات تھیں جو کسی طرح یمن میں امام محمد بن ادریس کے پاس پہنچی تھیں.یہ بزرگ پہلے ایمان چھپائے ہوئے تھے.مگر اب اپنے دو شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ۱۹۳۰۰ء میں جبکہ کہا بیر میں الحاج صالح عبد القادر عودہ نے اپنے خاندان سمیت احمدیت قبول کرلی.المحاج مغربی بھی کہا بیر میں آگئے اور کہا بیر کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا اور مدرسہ کہا بیر قائم ہونے تک با قاعده یه خدمت بجالاتے رہے.وسط ۱۹۲۹ء میں علماء نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر مخالفت تیز کر دی چنانچہ انہوں نے فلسطین کی "المجلس الاسلامی الا علی" سے ایک مبلغ آپ کے مقابلہ کے لئے بلوایا جس نے " جمعیتہ الشبان المسلمین اور دوسرے مقامی علماء کے ساتھ مل کر احمدیوں پر جبر و تشد د کرنا شروع کیا.اس شور د شر کے تھوڑے عرصہ کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں میں جھگڑا شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کے خلاف مظاہرات کرنے لگے اور قتل کی وارداتیں شروع ہو گئیں اور معلوم ہو گیا کہ فسادی عصر آپ کے مکان پر حملہ کرنا چاہتا ہے.چنانچہ آپ کو فساد کے اندیشہ سے مجبور ادد سرے مکان میں منتقل ہو نا پڑا ۶۴

Page 590

تاریخ احمدیت جلد ۴ 527 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال / اپریل ۱ ۱۹۳۱ء (بمطابق (۱۶ ذو القعدہ (۱۳۴۹ھ) کو آپ نے کہا بیر میں جامع سیدنا محمود کی بنیاد رکھی جو بلاد عربیہ میں پہلی احمدیہ مسجد ہے مسجد کی صرف چھت ڈالنا باقی رہ گئی تھی کہ آپ واپسی کے لئے مصر روانہ ہو گئے.اس مسجد کی تعمیر میں کہا بیر کے سب احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں نے حصہ لیا.آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء تک فلسطین میں رہے آپ کے زمانہ قیام میں حیفا اور طیرہ میں دو مستقل جماعتیں قائم ہو ئیں اور بلاد عربیہ کے اہم مقامات مثلا بغداد ، موصل، بیروت ، حمص حماة لاذقیہ اور عمان وغیرہ میں تبلیغی خطوط کے ذریعہ پیغام احمدیت پہنچا.شام و فلسطین میں آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف شائع ہو ئیں.ا عجب الاعا حبیب فی نفی الاناجيل لموت المسيح على الصليب" البرهان الصريح فى ابطال الوهيه المسيح".الهديه السنيه لفئه المبشرة المسيحية"."حكمة الصيام" "ميزان الاقوال".توضيح المرام في الرد على علماء حمص و طرابلس الشام".دليل المسلمين في الرد على فتاوى المفتين".آپ ابھی حیفا میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے مولانا ابو العطاء صاحب ۱۳/ اگست ۱۹۳۱ء کو قادیان سے روانہ ہو کر ۱۴ ستمبر ۱۹۳۱ء کو حیفا پہنچے.مولانا شمس صاحب نے آپ کو مشن کا چارج دیا اور ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء کو قادیان مراجعت پذیر ہوئے.آپ کی واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو توفیق دی ہے کہ انہوں نے سچائی کی خاطر جانیں دیں جیسا کہ افغان ہیں.ہندوستانیوں کو ابھی تک ایسا موقعہ نہیں ملا.اور ایسا تو بالکل نہیں ملا کہ وہ جانتے ہوں کہ ان کی جان لی جائے گی اور پھر جان لی گئی ہو.مگر ایسا بھی موقعہ نہیں ملا کہ بے جانے حملہ کر کے جان لی گئی ہو.اس قسم کا پہلا موقعہ مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے مولوی جلال الدین صاحب کو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل ستمبر ۱۹۳۱ء سے آخر جنوری ۱۹۳۶ء تک قیام پذیر رہے.آپ کے زمانہ میں دار التبلیغ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا.آپ نے کہا بیر میں "مسجد جامع سید نا محمود " کی تکمیل کرائی.مولانا شمس صاحب نے ۱۹۳۰ء میں

Page 591

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 528 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال ایک مکتب جاری کیا تھا.جس میں الشیخ محمد المغربی لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے اس کا با قاعدہ مدرسہ احمدیہ کی صورت میں افتتاح اب مولوی ابو العطاء صاحب کے ذریعہ سے یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو ہوا.آپ اس مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے اور الشیخ سلیم محمد الربانی الشیخ ابو حسین مصطفیٰ العمادی، الحاج عبد اللہ العراقی السید منیر الحعنی اور محمد سعید بخت ولی اس کے ابتدائی اساتذہ !! اس کے علاوہ آپ نے " المطبعة الاحمدية" کے نام سے کہا بیر میں پہلا احمد یہ پریس جاری کیا جس کا افتتاح ۶ / مارچ ۱۹۳۵ء کو ہوا اور سب سے پہلے اس پر حضرت مسیح موعود کے اشتہار " دعوت حق " کا عربی ترجمہ شائع کیا.آپ کے زمانہ میں بھی علماء اور مسیحی مناروں سے زبر دست مقابلہ جاری رہا اور متعدد تحریری و تقریری مناظرے ہوئے جن میں اللہ تعالٰی نے اسلام و احمدیت کو غلبہ عطا فرمایا اور بہت سے لوگوں تک پیغام حق پہنچا.اس دوران میں آپ قاہرہ ، راس البر دمیاط اور اسکندریہ بھی تشریف لے گئے.عیسائیوں کے علاوہ آپ نے یہودیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی اور عبرانی زبان میں بھی ان کے لئے ایک ٹریکٹ شائع کیا.یہودیوں کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ انہیں عبرانی زبان میں مسلمانوں کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا اور انہیں حیرت ہوئی کہ اب ہمیں عبرانی میں بھی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے.آپ کے زمانہ قیام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے گاہے گا ہے کوئی ٹریکٹ یا رسالہ شائع کرنے کی بجائے با قاعدہ مقررہ وقت پر شائع ہونے والے رسالہ کی بنیاد رکھی اور پہلے شروع میں ایک سہ ماہی رسالہ " البشارة الاسلامیة الاحمدية" کے نام سے جاری کیا.جسے بعد میں جنوری ۱۹۳۵ء میں "البشری " کے نام سے ماہوار کر دیا جو آئندہ چل کر بلاد عربیہ کے طول و عرض میں اسلام و احمدیت کا پیغام پھیلانے میں مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہوا.آپ نے با قاعدہ سہ ماہی یا ماہوار رسالہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لٹریچر شائع کیا.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز ا صحیح ایک مبسوط دیباچہ کے ساتھ.(۲) نبراس المومنین (سواحادیث نبویہ کا مجموعہ) یہ کتاب مدرسہ احمدیہ کہا بیر کے نصاب میں داخل تھی.(۳) عین الضياء (۳) القول المتين في بيان معنى خاتم النبيّن (٥) عشرون دليلا على بطلان لا هوت المسيح (1) الدين الحي الخالد (4) دعوة عامة الى المناظرة (۸) رسالة اخلاص الى كل مسيـ متدين " آپ کے زمانہ میں ام النعم اور موضع عارہ میں نئی جماعتیں قائم ہو ئیں اور کہا پیر حیف اور بر جائیں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا 0 1

Page 592

529 خلافت ثانیہ کا بار AL مولانا ابو العطاء صاحب مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کو چارج دے کر شام اور عراق کے راستہ ۲۴ فروری ۱۹۳۶ ء کو قادیان پہنچ گئے ! مولوی محمد سلیم صاحب ۱۴ جنوری ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۷/ جنوری ۱۹۳۶ء کو حیفا پہنچے ہی تھے کہ آپ کے چارج لینے کے چند ہفتے بعد فلسطین بھر میں عربوں اور یہودیوں کی باہمی کشمکش کی وجہ سے عام ہڑتال شروع ہو گئی.جو چھ ماہ تک جاری رہی.جس نے جلدی شورش کی شکل اختیار کرلی.تاہم آپ نے دار التبلیغ کے مرکز کبابیر میں درس و تدریس کا سلسلہ با قاعدہ جاری رکھا." البشری " کی ادارت کا کام خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھا مدرسہ کہا بیر کی ترقی و بہبود میں دلچسپی لی اور فلسطین، شرق اردن اور مصر میں علماء از ہر نیز عیسائی پادریوں سے مناظرے کئے جن میں سچائی کو فتح نصیب ہوئی.آپ کے وقت میں بھی کئی سعید رو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہو ئیں.آپ نے اپنے زمانہ قیام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب " الاستفتاء " شائع کی.اور رسالہ اسئله واجوبہ (پہلا حصہ) بھی لکھا.Ar مولوی محمد سلیم صاحب فاضل قریباً دو سال تک فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۰/ مارچ ۱۹۳۸ء کو واپس آگئے.تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری محمد شریف صاحب فاضل کو فلسطین روانہ فرمایا تم - AQ AC آپ ۷ / ستمبر ۱۹۳۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو حیفا پہنچے آپ بلاد عربیہ میں قریباً ۱۸ سال تک تبلیغ احمدیت میں مصروف رہنے کے بعد ۱۵/ دسمبر ۱۹۵۵ء کو ربوہ میں واپس آئے.آپ کا دور تبلیغ بڑے صبر آزما حالات میں گزرا.عربوں اور یہودیوں کی کشمکش پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کر گئی.اسی دوران میں آپ کے قتل کا منصوبہ بھی کیا گیا جو نا کام ہو گیا.فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی خانہ جنگی جب انتہاء کو پہنچ گئی تو تو میرے ۱۹۴ ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلہ کا اعلان ہو ا اور ۱۵/ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل حکومت قائم ہو گئی اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا.جہاں ہزاروں بے گناہ عرب مارے گئے اور لاکھوں بے خانماں ہوئے حیفا اور کہا بیر باقی ملک سے کٹ گیا اور متعد د احمدی جماعتیں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئیں.ابھی تقسیم فلسطین کا آخری فیصلہ نہیں : وا تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے حکم سے شیخ نور احمد صاحب منیر اور مولوی رشید احمد صاحب چغتائی بالترتیب ۱۳/ اکتوبر ۱۹۴۵ء اور ۲۳/ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بلاد عربیہ میں تبلیغ کے لئے فلسطین روانہ ہوئے.

Page 593

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 530 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال شیخ نور احمد صاحب منیر چند ماہ فلسطین میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۷ ستمبر ۱۹۴۶ء کو شام میں آگئے.اور جماعت احمد یہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اس ملک کے اونچے طبقہ تک پیغام احمدیت پہنچایا اور ملکی پریس کے ذریعہ عوامی حلقوں کو بھی جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں سے روشناس کرایا.پھر آپ ہی کے دواران قیام میں فلسطینی احمدی نہایت بے سر و سامانی سے دمشق میں پناہ گزین ہوئے جن کی آباد کاری کا انتظام بھی آپ نے السید منیر احصنی صاحب سے مل کر کیا.اس سلسلہ میں جماعت احمد یہ دمشق نے بہت اخلاص اور ہمدردی کا نمونہ دکھایا اور احمدی مہاجرین کی خصوصاً اور دوسرے مہاجرین کی عموماً ہر ممکن امداد کی.آپ ۷ اردسمبر ۱۹۴۹ء کو واپس مرکز (ربوہ) میں آگئے.|AS.سرو AA مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے فلسطین میں پہنچنے کے ایک سال بعد چونکہ فلسطین کی صورت حال بہت زیادہ نازک ہو گئی تھی اس لئے چوہدری محمد شریف صاحب نے انہیں ۳ / مارچ ۱۹۴۸ء کو شرق اردن میں نیا مشن قائم کرنے کے لئے بھجوا دیا.جہاں آپ ۱۷/ جولائی ۱۹۴۹ء تک تبلیغی فرائض ادا کرنے کے بعد دمشق میں آگئے اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد لبنان مشن کی بنیاد رکھی اور ۲۲/ دسمبر ۱۹۵ ء کو مرکز (ربوہ) میں پہنچے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ انچارج کے اس بروقت اقدام کی تعریف کرتے اور السید منیر الحصنی اور شیخ نور احمد صاحب منیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- "مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے اور خطرناک جگہ وہی تھی جہاں ہماری جماعت تھی.حیفا کی جماعت کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی دمشق چلا گیا تھا.باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی.چوہدری محمد شریف صاحب نے جو وہاں کے مشنری انچارج تھے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرق اردن بھجوا دیا اور اسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کرو.گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی اور اپنا ایک ساتھی شرق اردن میں بھجوا دیا.شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا.تحریک جدید کے ماتحت شیخ نور احمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے وہاں کے دوست منیر ا ععنی صاحب مقامی احمدی ہیں جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں.انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے.وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں ان کے چھوٹے بھائی دمشق کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور ان کے ایک بھائی کی قاہرہ (مصر) میں

Page 594

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 531 خلافت مانید کاباره ایک بڑی دکان ہے ان کے خاندان کے سب افراد احمد می ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں.ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادرم منیر المحصنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالی کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے ".چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے اپنے زمانہ قیام فلسطین میں مندرجہ ذیل اہم خدمات انجام دیں.-2 احمدیہ پریس (کبابیر) متروک الاستعمال اور مقفل ہو چکا تھا.جسے آپ نے نومبر ۱۹۳۸ء میں درست کرا کے اس سے رسالہ (البشری) شائع کرنا شروع کیا.جو آپ کے زمانہ قیام تک با قاعدگی سے آپ کی ادارت میں نکلتا رہا.احمدیہ پریس اور احمدیہ کتب خانہ عارضی طور پر بنائے گئے تھے جو آپ نے از سر نو پختہ تعمیر کرائے.مدرسہ احمدیہ کیا بیر کو ترقی دی.حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع کیں.تحفہ بغداد"."حمامتہ البشرئی"." نجم الدی"."لجنة النور" - "حقیقته المهدی" - "مکتوب احمد الی علماء الهند و غيرها من البلاد الاسلامیہ " - ( عربی حصہ "انجام آتھم " "الهدی والتبصرة لمن ير مئی".حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مندرجہ ذیل اردو کتب کے تراجم شائع کئے." تجلیات الیه "." لیکچر سیالکوٹ "." الوصیت" " تحفہ شہزادہ ویلیز"."نظام نو " - " اسلام اور دیگر مذاہب" (مؤخر الذکر دو کتابوں کے مترجم جماعت احمدیہ مصر کے پریذیڈنٹ الاستاذ بسیونی ہیں) مندرجہ ذیل تالیفات کر کے شائع کیں " التاويل الصحيح لنزول المسيح"." اسئلة و اجوبة".(آخری حصہ) "كشف الغطاء عن وجه شريعة البهاء "." محمد رسول الله خاتم النبین و مفتى الديار المصرية "نداء المنادی".(چارحصے) ان کے علاوہ بڑی تعداد میں عربی اور عبرانی تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے.حیفا کی اسلامی لاء کورٹ نے احمدیوں کی نکاح خوانی سے انکار کر دیا تھا.آپ نے یہ معاملہ المجلس الاسلامی الاعلیٰ (بیت المقدس) تک پہنچایا.جس نے تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے.

Page 595

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 532 آپ نے جنوری ۱۹۴۷ء میں پیٹری آرک آف انطاکیہ کو خصوصا اور فلسطین و شام کے پیٹری آرکوں اور بیٹیوں کو عموماً چیلنج دیا کہ وہ بیت المقدس میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان اختلافی مسائل کی نسبت تقریری اور تحریری مناظرہ کرلیں.یہ چیلنج عراق، مصر، شام ، لبنان وغیرہ کے اخبارات میں شائع ہوا.مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی.بہائیوں کے لیڈر شوقی آفندی پر بھی اتمام حجت کیا.-1 مصر، شام، اردن، لبنان اور عراق کے دورے کئے.آپ کے ذریعہ جہاں بلاد عربیہ کی پہلی احمد یہ جماعتوں میں اضافہ ہوا.وہاں سوڈان ، حبشہ RII مدن، کویت، بحرین اور شمالی افریقہ میں نئی جماعتیں قائم ہو ئیں.آپ کی واپسی پر صدر انجمن احمد یہ قادیان کے ماتحت فلسطین مشن میں مولوی جلال الدین صاحب قمر انچارج مبلغ مقرر ہوئے جو آج تک (یعنی دسمبر ۱۹۷۴ء) تک فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں.و فلسطین سے شائع ہونے والے لٹریچر کا گو مفصل ذکر کیا جا چکا ہے مگر اسے مکمل نہیں قرار دیا جا سکتا.کیونکہ اس دار التبلیغ کی اور بھی کئی مطبوعات میں مثلا الکفر ملة واحدة (ٹریکٹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) - دعوة الاحمدية و غرضها "." احمدیت کا پیغام ".تألیف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ترجمہ ) " المودودی فی المیزان".( قادیانی مسئلہ کے جواب کا عربی ترجمہ ( از السید منیر الحسنی صاحب) دار التبلیغ شام و فلسطین کے حالات بیان کرنے کے بعد ہم بالآخر سلسلہ احمدیہ کی مساعی کے سلسلہ -t شام و میں بلاد عر بیہ کے چند فضلاء و ادباء کے افکار و آراء درج کرنا چاہتے ہیں.رساله " التمدن الاسلامی" (دمشق) الجزء السابع ۱۳۵۷ھ نے لکھا :- اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے اس فرقہ کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہو جائے گا کہ سچا اور مخلص مومن کون ہے اور کاذب کون ؟ ( ترجمہ ) رسالہ "العرفان" (لبنان) (بابت ذو القعده و ذو الحجہ ۱۳۵۸ھ) نے ۱۹۳۹ء میں لکھا.” تبلیغ و اشاعت اسلام سے متعلق جماعت احمدیہ کی جدوجہد کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اعلائے کلمہ اسلام کا عظیم الشان کام کر رہی ہے ".( ترجمہ ) 42 - احمد درویش زقزق شام نے ۱۹۴۲ء میں احمدیہ مبلغین کی تبلیغی مساعی کے بارے میں لکھا."خدا

Page 596

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 533 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں موجودہ زمانہ میں وہ پہلوان پاتا ہوں جو اسلامی شریعت کے احیاء کے لئے کمر بستہ ہیں اور محمد ا کے لائے ہوئے دین کی نصرت کر رہے ہیں ".( ترجمہ ) الصراط المستقيم نمبر ۲۶ (بغداد) نے لکھا." مسلمانان عالم آج تک کسی یورپین زبان میں ایک اخبار بھی جو دین اسلام کے حقائق بیان کرے شائع نہیں کر سکے.انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یورپ کے کسی شہر میں مسجد یا مشن کی بنیاد رکھیں.لیکن قادیانی احمدیوں نے امریکہ اور یورپ میں بہت سی مساجد تعمیر کی ہیں ان ممالک میں ان کے کئی مشن ہیں انگریزی اور دیگر کئی زبانوں میں ان کے اخبارات بھی جاری ہیں".( ترجمہ ) ۵ اخبار " آخر دقیقه " دمشق (بابت ۱۸/ ربیع الاول ۱۳۶۲ھ) نے لکھا کہ " احمدیوں کی نسبت سب کو معلوم ہے کہ وہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں احمدی ہمیشہ مذہبی گفتگو کرنے کے لئے تیار اور مخالفین اسلام کو ساکت کرنے اور ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کو کمر بستہ رہتے ہیں ".( ترجمہ ) ) 4 اخبار " الجزيرة " عمان (اردن) مورخہ ۱۲/ جون ۱۹۴۹ء لکھتا ہے." ہم اس بات کا اعتراف کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مبلغین بڑی ہمت اور تندہی سے اپنا کام کرتے ہیں اور اسلام کے پھیلانے کے لئے بہت جدوجہد کر رہے ہیں.افریقہ کے غیر آباد علاقوں اور وسط افریقہ اور امریکہ میں تو ان کی یہ کوششیں اور بھی زیادہ ہیں".( ترجمہ ) رساله ها فو عيلها تصعير " تل ابیب " نے ۲۵/ مارچ ۱۹۵۳ء کو لکھا."لا شك ان للا حمدية في تاريخ الاسلام فضل " یعنی بلاشبہ تحریک احمدیت کو.تاریخ اسلام میں خصوصی مقام حاصل ہے.الحاج عبد الوہاب عسکری (بغداد کے صحافی) لکھتے ہیں." جماعت احمدیہ نے دین اسلام کی جو خدمات سرانجام دی ہیں.ان میں تبلیغی لحاظ سے وہ ساری دنیا پر فوقیت حاصل کر چکے ہیں...یہ لوگ اعلائے کلمتہ الدین کے لئے ہر قسم کے ممکن ذرائع اختیار کرتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے کارناموں میں سے محکمہ تبشیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے نیز وہ مسجدیں ہیں جو انہوں نے امریکہ افریقہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں بنائی ہیں اور یہی وہ سنت ناطقہ ہے جس کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے ذریعہ اسلامی خدمات بجالا رہے ہیں.بلا شبہ جماعت احمدیہ کے ہاتھوں اسلام کا مستقبل اب روشن ہو گیا ہے".( ترجمہ

Page 597

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 534 ت ثمانیہ کا بارھواں سال معارف قرآنیہ میں مقابلہ کا چیلنج قادیان میں اس سال غیر احمدی مسلمانوں کا سالانہ جلسہ ہوا.جس میں ایک دیو بندی عالم نے اپنی تقریر میں کہا 2 ہمیں معلوم نہیں کہ وہ معارف قرآنیہ کیا ہیں جو مرزا صاحب نے قرآن مجید سے استنباط کئے ہیں - اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جولائی ۱۹۲۵ء میں علمائے دیو بند کو چیلنج دیا کہ " میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کرلیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اس عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسریا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے.اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق ہے".دیوبندی علماء نے دعوت مقابلہ قبول کرنے کی بجائے لکھا کہ " صاحبزادہ صاحب! آپ کو دین و ایمان اسلام و قرآن معارف اللہ اور حقائق و عرفان سے کیا تعلق.آپ تو آپ آپ کے تو ابا جان بھی ان تمام باتوں سے محروم تھے " - مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اہلحدیث (۲۱/ اگست ۱۹۲۵ء) میں بظاہر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا.گو ہماری اس میں بنک ہے کہ ہم ایک ایسے شخص کے سامنے بیٹھیں جو نہ علوم ظاہری کے عالم ہیں نہ کسی باطنی درجہ کے مدعی تا ہم بلا تکلف ہم کو یہ صورت منظور ہے پس آپ اسی میدان میں تشریف لے آئیے جس میں مرزا صاحب نے امرتسر میں مباہلہ کیا تھا " قادیان سے جواب دیا گیا کہ تفسیر نویسی کے مقابلہ کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے قادیان سے باہر تشریف لے جانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ مناسب انتظام کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بیٹھے بھی یہ مقابلہ ہو سکتا ہے امرتسر میں قرعہ اندازی ہو اور ہر دو جانب سے قرعہ سے منتخب ہونے والے تین رکوع کی تفسیر لکھیں اور پھر یہ دونوں تفسیریں مساوی خرچ پر یکجا شائع کر دی جائیں.ہاں اگر مولوی ناء اللہ صاحب بالمشافہ تفسیر نویسی ضروری سمجھتے ہیں تو وہ قادیان تشریف لے آئیں ان کے تمام مناسب اخراجات ہم ادا کریں گے اور ہر قسم کی جانی اور مالی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی.جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مقابلہ کی کوئی صورت بھی قبول نہ کی.البتہ ایک عرصہ

Page 598

تاریخ احمدیت جلد ۴ 535 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال بعد دیوبندی اصحاب کے ساکت رہ جانے کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ضرور لکھا کہ.ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں قادیان سے دیوبندی علماء کے لئے تفسیر نویسی کا چیلنج شائع ہوا.دیو بندیوں کے ساکت رہنے پر میں سینہ ٹھونک کر میدان میں آنکلا کہ میں دیوبندی ہوں مجھ سے مقابلہ کر لو " ۱۷-۱ جولائی ۱۹۲۵ء کو امر تسر میں ایک آل سل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر " مسلم پارٹیز کانفرنس نواب اسمعیل خان صاحب بیرسٹر (ممبر لیجسلیٹو اسمبلی) کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مسلمانان ہند کے کئی سیاسی لیڈر مثلاً مولوی محمد علی صاحب جو ہر مولوی شوکت علی صاحب ، مولوی عبد الباری صاحب سید غلام بھیک صاحب اور خلیفہ شجاع الدین صاحب نے شرکت کی.کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے حضور کی خدمت میں دعوت شرکت موصول ہوئی جس پر حضور نے " آل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر" کے نام سے ایک ٹریکٹ لکھا.کانفرنس کے ایجنڈا میں مندرجہ ذیل اہم مسائل درج ہیں.(1) ملک میں تبلیغی نظام کا قیام.(۲) تنظیم مسلمانان ہند (۳) مسلم بنک (۴) قیام بیت المال (۵) اصلاح رسوم و بدعات و رفع تنازعات (۲) تحفظ مساجد و اوقاف و قیام مکاتب (۷) ہندو مسلم مناقشات (۸) سیاست ہند سے متعلق مسلمانوں کا روید (۹) مسلمانوں کی تعلیم و تجارت و صنعت و حرفت کی ترقی کا مسئلہ - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ٹریکٹ کے آغاز میں مسلمان کی سیاسی اور مذہبی تعریف کی ضرورت و اہمیت واضح کرنے کے بعد ہر ایک مسئلہ کا حل پیش فرمایا.اور مسلمان لیڈروں کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں.عدم تعاون سے ۴ نہیں مسلمانوں کو اپنا مطالبہ حق نیابت اور اپنے دوسرے ضروری مطالبات نهایت درجه مدلل و معقول صورت میں پیش کرنے چاہئیں تا انگلستان کی رائے عامہ ان کے حق میں ہو جائے.مسلمان دینی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں.اسلامی تمدن پر تاریخی کتابیں لکھی جائیں اور اس سلسلہ میں تعلیم نسواں پر خاص طور پر زور دیا جائے.مسلمان اپنے بچوں کو مغربی تمدن سے آزاد کرا ئیں.کیونکہ تمدنی غلطی سیاسی غلامی سے بھی بہت بڑھ کر ہے.

Page 599

تاریخ احمدیت جلد ۴ 536 خلافت ثانیہ کا بار ھوا مسلمانوں کی تجارتی ترقی کے لئے " مسلم چیمبر آف کامرس " اور " بورڈ آف انڈسٹریز - قائم | مکه کان کئے جائیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنا یہ ٹریکٹ دے کر میر محمد اسحاق صاحب مفتی محمد صادق صاحب ذو الفقار علی خان صاحب چوہدری فتح محمد صاحب سیال، حافظ روشن علی صاحب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو امر تسر بھجوایا.ان اصحاب نے یہ ٹریکٹ کانفرنس میں تقسیم کیا.جو بہت دلچسپی سے پڑھا گیا.اس موقعہ پر علمائے دیوبند جمعیتہ العلماء اور امرتسری علماء نے کانفرنس میں احمدیوں کی شرکت پر سخت مخالفت کی.اور مسجد جامع خیر الدین میں تقریر میں ئیں اور اشتہار دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کافر ہیں.اس لئے اگر وہ کانفرنس میں شامل ہوں گے.ہم کا نفرنس کا بائیکاٹ کریں گے.لیکن ان کی یہ جد وجہد کامیاب نہ ہوئی اور احمدی وفد نے کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اس کے ارکان سبجیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی منتخب کر لئے گئے.علماء کی روش پر مولوی محمد بشیر الدین صاحب ایڈیٹر اخبار "البشیر " (اٹادہ - یو پی) نے اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا.اس اجلاس کی مخالفت جمعیتہ العلماء اور علماء دیوبند کی جانب سے اس بنیاد پر ہوئی کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں.لہذا اگر ان کو آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں شریک کیا جاوے گا تو ہم اس کانفرنس میں شریک نہ ہوں گے اپنی عدم شرکت پر ان اصحاب نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ شہر امرتسر میں بہ زمانہ کا نفرنس بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے.جن میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شرکت کانفرنس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی.خواہ قادیانی جماعت کی نسبت ہمارے کچھ بھی خیال ہوں.اور اگر چہ ہم اس کو پسند نہیں کرتے کہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ نذہبی حیثیت سے دوسرے فرقہ کو کافر سمجھے لیکن آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا مقصد زیادہ ترسیاسی یا مسلمانوں کی قوم کی اندرونی اصلاح اور وسائل معاش پر فکر کرنا تھا لہذا محض اختلافی مسائل مذہبی کی بنیاد پر مسلمانوں کو کسی جماعت کو کافر سمجھ کر اس امر پر اصرار کرنا کہ اگر فلاں جماعت کے اصحاب اس میں شریک ہوں گے تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے نہایت تنگ نظری اور کو نہ اندیشی کی دلیل ہے اور ہم کو افسوس ہے کہ باوجودیکہ زمانہ مسلمانوں کو تھپڑ ا رہا ہے اور ہندوستان میں بلا خیال سنی و شیعه و مقلد و غیر مقلد دیو بندی اور بریلوی یا قادیانی کے تمام ان لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری قوم کے علماء آج بھی انہیں خیالات میں مبتلا ہیں جو پچاس سال قبل تھے.2

Page 600

537 خلافت ثانیہ کا بار حواں سال چھٹا باب (فصل سوم) ۱۹۲۵ء میں سلسلہ احمدیہ کا ایک اور بیرونی مشن جزائر شرق السند دار التبلیغ سماٹر او جادو کا قیام (یعنی انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں قائم کیا گیا.اس دار التبلیغ کی داغ بیل اتفاقا پڑی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان جزائر میں سے تین نوجوان مولوی ابو بکر ایوب صاحب مولوی احمد نور الدین صاحب اور مولوی زینی دحلان صاحب حصول علم دین کے لئے لکھنو پہنچے اور وہاں ایک عالم سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی جہاں ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کا استاد اپنے کسی استاد یا پیر کی قبر پر سجدہ کر رہا ہے یہ نظارہ دیکھ کر تینوں لکھنو سے لاہور آگئے اور چند ماہ تک احمد یہ بلڈ نگس میں قیام کیا.مگر ان کی تعلیم کا کوئی تسلی بخش انتظام نہ ہو سکا.اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان قادیان میں مقیم ہے.چنانچہ یہ مینوں اصحاب اگست ۱۹۲۳ء میں قادیان تشریف لے گئے اور حضور کی خدمت میں حاضر ہو کرتا یا کہ ہم دینی تعلیم کے لئے آئے تھے.مگر ہمارا کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا.حضور نے فرمایا میں دینی تعلیم کا انتظام کر سکتا ہوں مگر شرط یہ ہوگی کہ آپ چھ ماہ تک صرف اردو زبان پڑھیں چنانچہ انہوں نے پہلے اردو سیکھی اور پھر دینیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے.اور جلد ہی احمدیت میں داخل ہو گئے.کچھ عرصہ بعد ان کی مساعی سے کئی اور سماٹری اور جاری طلباء قادیان میں پہنچ گئے.ساتھ ہی ان لوگوں نے اپنے رشتہ داروں سے تبلیغی خط و کتابت شروع کی.جس کے نتیجہ میں بعض لوگ تو حضرت مسیح موعود پر اسی عرصہ میں ایمان لے آئے بعض مستعد ہو گئے اور بعض نے مخالفت کا رنگ اختیار کیا اور بحث شروع کر دی.ان حالات نے ان طلبہ کو تبلیغ کی طرف اور بھی متوجہ کر دیا.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب سفر یورپ سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء کو حضور کے اعزاز میں ایک دعوت دی اور مخلصانہ ایڈریس پیش کر کے استدعا کی کہ حضور مغرب کی طرف تشریف لے گئے ہیں اب از راہ شفقت مشرق کی طرف بھی تشریف لے چلیں حضور نے وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ میں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا.چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جزائر شرق الہند کے لئے مولوی رحمت علی صاحب فاضل کو پہلا مبلغ احمدیت مقرر فرمایا.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی مشہور کتاب "سلسلہ احمدیہ " میں

Page 601

ت جلد ۳ 538 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال تحریر فرماتے ہیں." اس قسم کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کی مردم شناس آنکھ نے مولوی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا.مولوی صاحب مولوی فاضل تھے.مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر خدا تعالی کے فضل سے اور حضرت خلیفتہ المسیح کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دو سرے سب مشنوں کو مات کر گیا ".مولوی رحمت علی صاحب ۱۷/ اگست ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.حضور نے آپ کو رخصت کرتے ہوئے کئی نصیحتیں فرما ئیں.مثلاً علم کا گھمنڈ رکھنے والوں اور علماء سے خلوت میں گفتگو کریں.تبلیغ کا کام بتدریج ہو.جہاں جہاں جماعتیں قائم ہوں وہاں انجمن بھی قائم کریں اور انجمن کو با قاعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے احمدیوں میں تبلیغ کی عادت بھی پیدا کریں اور عمدہ نمونہ ہیں.تالوگ احمدیت کی حقیقت سمجھ سکیں.مولوی رحمت علی صاحب احمدیت کا پیغام لے کر ستمبر ۱۹۲۵ء میں اس ملک میں پہنچے اور سب سے پہلے سماٹرا کے قصبہ " تاپک تو ان میں فروری ۱۹۲۷ء تک قیام کیا.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک جماعت پیدا کر دی." تاپک تو ان میں احمدیت کا بیج بو دینے کے بعد آپ مارچ ۱۹۲۷ء میں پاڑانگ گئے.اور وہاں اپنا مرکز قائم کر کے ایک رسالہ " اقبال " نامی جاری کیا.اور پبلک لیکچروں ، اخبارات اور انفرادی ملاقاتوں سے عوام اور حکومت دونوں حلقوں میں تبلیغ شروع کر دی.علماء نے احمدیت کا اثر و نفوذ دیکھا تو وہ متفقہ طور پر آپ کو ملک سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے.لیکن حکام نے مذہبی معاملات میں دست اندازی کرنے سے انکار کر دیا.اسی دوارن میں قادیان سے حاجی محمود احمد صاحب بھی علم دین حاصل کرکے پہنچ گئے اور آپ کا ہاتھ بٹانے لگے.مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ عیسائیت کے خلاف بھی محاذ قائم کیا گیا اور عیسائی پادریوں سے متعدد مذاکرات و مباحثات ہوئے.دسمبر ۱۹۲۷ء کے آخر میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء سے آپ کا ایک عظیم الشان مباحثہ ہوا یہ مناظرہ مولوی رحمت علی صاحب کے الفاظ میں احمدیت کی حیات و موت اور ترقی و تنزل کا سوال تھا.بڑے بڑے علماء مشائخ ایڈیٹر اور عہدیداران حکومت اس میں موجود تھے.علماء کو مناظرہ میں سخت ناکامی اٹھانا پڑی اور تحقیق پسند طبائع پر سلسلہ کی حقانیت کھل گئی.اور گو اس کے نتیجہ میں ایک کثیر طبقہ احمدیت کا دل سے قائل ہو گیا.مگر علماء کی سختیوں کی وجہ سے علی الاعلان صداقت کا اظہار نہ کر سکا.

Page 602

تاریخ احمد بیت.جند ۴ 539 خلافت ماسید کا بار تاہم احمدیت میں ان کے داخلہ کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی.اور " تاپک تو ان " اور پاڑانگ کے بعد ڈو کو میں بھی جماعت قائم ہو گئی.اور تبلیغ کو مزید وسعت دینے کے لئے مئی ۱۹۲۸ء میں کرائے کے ایک مکان میں با قاعدہ مشن ہاؤس قائم کر دیا گیا اس وقت تک جماعت سماٹرا میں ہی قائم ہوئی تھیں اور جاوا کا جزیرہ خالی پڑا تھا.مگر ۳۰-۱۹۲۹ء میں سماٹرا کے ایک احمدی ابو بکر بگنڈو مہارا جو تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں وہاں گئے اور جاوا میں بھی ایک مختصر جماعت پیدا ہو گئی.irr ۱۳۴ چار سال کی محنت شاقہ کے بعد مولوی رحمت علی صاحب مرکز کی ہدایت پر ۱۹/ اکتو بر ۱۹۲۹ء کو واپس تشریف لائے آپ کے ساتھ ابوبکر صاحب ( پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پاڈ انگ) اور ایک معزز دوست ڈمنگ دا تو ہوتی بھی تھے.مولوی رحمت علی صاحب حضور ایدہ اللہ تعالٰی کے حکم سے دوبارہ ۶ / نومبر ۱۹۳۰ء کو روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ مولوی محمد صادق صاحب بھی تھے.جنہیں حضور نے سماٹرا کی تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا تھا.یہ دونوں مبلغ ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء کو پاڈ انگ پہنچے.جہاں مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مولوی محمد صادق صاحب کے ساتھ رہنے کے بعد اپریل ۱۹۳۱ء میں جاوا روانہ ہو گئے.اور وہاں نئے دار التبلیغ کی بنیاد رکھی.جاوا میں آپ کے رستہ میں بہت مشکلات تھیں.مگر آپ نے استقلال سے مقابلہ کیا اور پہلے سال چپو بنادی (جاکر تا) اور بو گور میں جماعتیں قائم ہو گئیں - اور آپ کا مرکز بٹاوی میں تھا.IRA جنوری ۱۹۳۵ء میں مولوی رحمت علی صاحب گارت اور تا سکما یا کے شہروں میں گئے اور مختلف انجمنوں میں تقریریں کرنے کے علاوہ عیسائیوں سے مباحثے کئے اس سے پہلے عام مسلمان عیسائیوں کے اعتراضات سے سخت پریشان تھے.لیکن اب جو انہوں نے دیکھا کہ عیسائی احمدی مبلغ کے سامنے نہیں ٹھر سکتے.تو انہوں نے مولوی صاحب کو بہت مبارکباد دی.مگر علماء نے مخالفت شروع کر دی اور عوام کو بھڑکا یا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں مگریہی مخالفت بعض سعید روحوں کو احمد بیت میں لانے کا موجب بن گئی.مولوی رحمت علی صاحب جادا جانے سے پہلے جو تبلیغی میدان قائم کر چکے تھے اسے مولوی محمد صادق صاحب نے اور وسیع کرنے کی طرف توجہ دی.چنانچہ آپ نے پاڈانگ میں ایک پندرہ روزہ اخبار "اسلام" (مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری کی ادارت میں) نامی جاری کیا.جو بعد کو ماہنامہ میں تبدیل کر دیا گیا.اس رسالہ کے اجراء پر عیسائی اخبارات احمدیت کے مقابلہ میں آگئے.اس کے علاوہ عیسائیوں سے عام مخط وکتابت کے ذریعہ بھی بحث ہونے لگی.مئی ۱۹۳۴ء میں آپ نے سماٹرا کے دارالحکومت میڈان میں جاکر کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک جماعت قائم

Page 603

تاریخ احمدیت جلد ۴ ہو گئی.540 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال ۱۹۳۴-۳۵ء کا زمانہ تا ہو تو ان اور لہو سوکن کی جماعت کے لئے بھاری ابتلا کا زمانہ تھا کیونکہ اس میں جماعت کو تبلیغ بلکہ با قاعدہ نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا.اسی طرح لہو سوکن کی جماعت کو وہاں کے راجہ نے اپنے مظالم کا تختہ مشق بنایا.تاہم حق و صداقت کی اشاعت کا سلسلہ خطوط و مضامین اشتہارات و اخبارات اور مستقل کتابوں کی تصنیف کے ذریعہ بھی جاری رہا اور مباحثات کے ذریعہ بھی چنانچہ پاڑانگ میں ایک اور میڈان میں تین نہایت کامیاب مناظرے ہوئے پہلا مناظرہ مولوی محمد صادق صاحب نے پاڑانگ میں ایک عیسائی سے کیا.جس نے دلائل سے عاجز آکر مولوی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ " یہ شخص جنوں کو استعمال کرتا ہے ".دوسرا مباحثہ مولوی ابو بکر ایوب سائری کا ایک عرب فاضل سے ہوا.میڈان میں یہ پہلا نہ ہی مناظرہ تھا جس میں خدا کے فضل سے اس قدر کامیابی ہوئی کہ غیر احمدی اخباروں نے بھی احمدیت کی فتح کا کھلا کھلا اقرار کیا.تیسرا اور چوتھا مباحثہ مولوی صادق صاحب اور مولوی ابو بکر ایوب صاحب نے ایک مجلس شرعی کے صدر سے کیا.ان کے علاوہ انہی دنوں چھ اور مناظروں میں بھی اللہ تعالی نے کامیابی بخشی اور غیر احمدی علماء جو پہلے احمدیت کی مخالفت میں پوری قوت صرف کر رہے تھے اب احمدی مبالغوں کے مقابل پر آنے سے جھجھکنے لگے.اب جاوا اور سماٹرا میں سلسلہ کی تبلیغ کا کام روز بروز وسیع ہو رہا تھا.اس لئے حضور نے کیم فروری (الفضل ۴ فروری ۱۹۳۶ صفحه ) کو ملک عزیز احمد خانصاحب اور مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری کو قادیان سے اور سید شاہ محمد صاحب کو سنگا پور سے وہاں بھجوایا.۱۹۳۶۰۳۷ء میں مولوی ابو بکر ایوب صاحب نے سماٹرا میں قریبا دو ہزار میل کا تبلیغی سفر کیا.اسی زمانہ میں کاروت (جاوا) میں احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی.ایک پولیس خریدا گیا.مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مرکز میں تشریف لے گئے اور دوبارہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں واپس جاوا آئے اور تبلیغ سلسلہ میں مصروف ہو گئے.ان دنوں گاروت میں مولوی الواحد صاحب ساری سورا بایا میں ملک عزیز احمد صاحب بھروا کر تو میں سید شاہ محمد صاحب اور تا سکما یہ میں محمد طیب صاحب فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے.ان مبلغین کی کوششوں سے احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا.ایک خاص اثر یہ بھی ہوا کہ دو جماعتوں کے سوا جو ظاہر امخالفت کرتی تھیں باقی مخالف جماعتیں ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ گئیں.نومبر ۱۹۴۰ء کے تیسرے ہفتہ میں مولوی رحمت علی صاحب بنادیہ (جاوا) سے سماٹرا میں آئے ۱۴ دن میڈان میں اور تین ماہ پاڈانگ میں رہ کر مارچ ۱۹۴۱ء میں واپس جاوا تشریف لے گئے قیام کے دوران میں آپ نے جماعت کو ر حفظ و نصیحت سے متمتع کیا.آپ کی آمد پر پاڑانگ میں چار جلسے ہوئے

Page 604

541 جن میں مولوی محمد صادق صاحب اور مولوی ابو بکر صاحب کے علاوہ آپ نے بھی لیکچر دئیے سماٹرا میں ایک مبلغ نا کافی تھا.اس لئے مولوی ابو بکر صاحب جو پہلے جاوا میں کام کر رہے تھے سارا میں فریضہ تبلیغ انجام دینے لگے.اسی اثناء میں ۸ مارچ ۱۹۴۲ء کو جاپانیوں نے جزائر شرق الہند پر قبضہ کر لیا اور مشکلات اور تکالیف کا ایک نہایت المناک سلسلہ شروع ہوا.قبضہ کے دوران جاپانیوں نے ملکی باشندوں پر جو وحشیانہ مظالم تو ڑے وہ نہایت ہی درد ناک تھے.ایک جماعت کے سوا جسے حکومت نے اپنی سیاسی اغراض کے لئے قائم کیا تھا باقی سب سیاسی اور مذہبی تنظمیں حکما بند کردیں.تاہم انفرادی تبلیغ جاری رہی اور اس عرصہ میں جماعت کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا.اس زمانہ میں احمدی مبلغین نے جن میں مولوی رحمت علی صاحب اور ملک عزیز احمد خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں مختلف کتابوں کے تراجم کئے جو بعد کو شائع ہوئے.جاوا اور کاٹرا کے علماء نے جنوب مشرقی ایشیا کی اس جاپانی لڑائی کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا اور مخبری کی کہ احمدی انگریزوں کے جاسوس ہیں.چنانچہ جاپانی حکام نے مولوی محمد صادق صاحب کی بارہا پوچھ کچھ کی اور بالآخر تبلیغ کی ممانعت کر دی.اس پر مولوی محمد صادق صاحب نے حکومت جاپان کو مفصل خط لکھا جس میں احمدیت کی غرض وغایت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ جاپان حکومت کی لڑائی ہرگز جہاد فی سبیل اللہ نہیں اس کی علمبردار صرف مسلمان قوم ہو سکتی ہے اور آپ مسلمان نہیں.جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں مولوی محمد صادق صاحب بھی شامل تھے جاپانی حکومت کے گورنر آف سکاٹرا کے سامنے یہ خط پیش کیا.جاپانی حکومت نے اس سے سخت برافروختہ ہو کر مولوی محمد صادق صاحب کو سزائے موت کا حکم صادر کر دیا.اس کے بالمقابل جاوا کے احمدی مبلغین جاپانی حکومت نے قید میں ڈال دیئے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ ۱۹۴۴ ء میں مغربی جاوا کے ایک مقام پر بغاوت ہوئی.بعض مقامی علماء نے جاپانی حکام سے کہا کہ بغاوت میں احمدیوں کا ہاتھ ہے اس شکایت پر بعض دوسرے احمدیوں کے علاوہ ملک عزیز احمد خاں، مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری اور سید شاہ محمد صاحب گرفتار کر لئے گئے.غرض کہ جاوا اور سماٹرا زونوں جگہ صرف احمدی جماعتیں اور احمدی مبلغین جاپانی مظالم کا نشانہ بنائے گئے اور بظا ہر نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہی.مگر اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے اس ظالم حکومت کا تختہ الٹ گیا.اور قدرت اللی کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس انقلاب کی نسبت احمدی

Page 605

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 542 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سال مبلغوں کو قبل از وقت اطلاع دے دی گئی تھی.۱۴۵ جاپانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ڈاکٹر سکارنو نے ۱۷/ اگست ۱۹۴۵ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ولندیزیوں کے خلاف سارے ملک میں تحریک آزادی لڑی جانے لگی.اس موقعہ پر مبلغین احمدیت اور دوسرے احمدیوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تحریک آزادی میں بھی سرگرم حصہ لیا.چنانچہ مولوی عبد الواحد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب نے تقریبادو تین ماہ ریڈیو پر اردو پروگرام نشر کیا.اور سید شاہ محمد صاحب تو تحریک میں اس جوش و خروش سے شامل رہے کہ انڈونیشیا کے ایک سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم سید شاہ محمد صاحب کو اپنی قوم کا ہی فرد سمجھتے ہیں چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جس روز صدر ڈاکٹر سکار نو ڈچ حکومت سے چارج لینے کے لئے جن چودہ آدمیوں کے ہمراہ دارالحکومت میں پہنچے تو ان میں سید شاہ محمد صاحب بھی تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۹۴۸ء میں جبکہ انڈو نیشیا کی جنگ آزادی جاری تھی.مولوی محمد سعید صاحب انصاری کو سماٹرا بھیجوایا.نومبر ۱۹۴۹ء میں جماعت کی از سرنو تنظیم کرنے کے لئے مولوی رحمت علی صاحب کی صدارت میں تمام مبلغین کا پہلا اجتماع منعقد ہوا.اس اجتماع میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ممبر سید شاہ محمد صاحب مولوی عبد الواحد صاحب سماٹری اور ملک عزیز احمد صاحب تھے اور معاون مسٹر راڈین ہدایت.انڈونیشین زبان میں قواعد مرتب ہوئے تو 9-10-11/ دسمبر کو جماعت ہائے انڈو نیشیا کی پہلی سالانہ کانفرنس جا کر تا میں منعقد ہوئی.جس کا سلسلہ (ایک سال کے وقفہ کے ساتھ) اب تک خدا کے فضل سے جاری ہے.مولوی رحمت علی صاحب ۳۰/ اپریل ۱۹۵۰ء کو واپس تشریف لائے اسی سال مولوی امام الدین صاحب، مولوی عبدالحی صاحب مولوی محمد زیدی صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب اور دو سال بعد حکیم عبدالرشید صاحب ارشد بھی ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجے گئے.ان کے بعد حضور نے ۶/ جون ۱۹۵۴ء کو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کو مع اہل و عیال انڈو نیشیا روانہ فرمایا.صاحبزادہ صاحب نے وہاں ملک میں پھیلی ہوئی جماعتوں کا دورہ کر کے ان میں غیر معمولی بیداری پیدا کی اور ۲۲/ مارچ ۱۹۵۶ء کو واپس تشریف لائے.۱۹۵۴ء کے سالانہ جلسہ میں شمولیت کے لئے جماعت ہائے انڈونیشیا کے وائس پریذیڈنٹ راڈین ہدایت صاحب ربوہ آئے تو واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے انڈو نیشیا کی جماعتوں کے اخلاص اور قربانی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک کی لکھی ہوئی ایک تحریر جو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور "حقیقتہ الوحی" کے مسودہ کا IA

Page 606

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 543 خلافت ثانیہ کا بار ایک حصہ ہے بطور تبرک بھجوائی.۱۹۶۲ء میں ملک عزیز احمد صاحب انتقال فرما گئے اور اسی سرزمین میں دفن کئے گئے.جولائی ۱۹۶۳ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشیر تحریک جدید ) مشرق بعید کے مشنوں کا جائزہ لینے کے لئے انڈو نیشیا بھی تشریف لے گئے اور بانڈو جنگ انڈونیشیا کی چودھویں سالانہ کانفرنس منعقدہ بانڈ ونگ (۲۶ تا ۲۸ / جولائی ۱۹۶۳ء) میں شمولیت کی.اس کانفرنس میں ساتھ احمد یہ جماعتوں کے قریباً دو ہزار نمائندے شامل ہوئے کانفرنس کے دوران قریباً نوے افراد داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.دار التبلیغ سماٹرا اور جاوا جس کا آغاز محض اتفاقی رنگ میں ہوا.اللہ تعالٰی کے فضل سے غیر معمولی 10° ترقی کر چکا ہے ابتد اور اس کے اخراجات مرکز برداشت کرتا تھا مگر۷ ۱۹۴ء کے بعد سے انڈو نیشیا مشن خود کفیل مشن بن چکا ہے.جاوا اور سماٹرا میں مندرجہ ذیل مقامات پر مشہور احمدی جماعتیں قائم ہیں.( جاوا غربی) جا کرتا ، بوگور، چیسالا ڈا، سو کا بومی ، چہانجور، چپارائے ، بانڈ نگ ، چکالونگ ، گاردت ، دانا سگرا، سنگا پرنا، تا سکھلایا، چہارنگ، بو جنگ، پینگلاں ، تجر انگ، کرادنگ، لاوی مانگو، بونی جایا، سوکا تابی، تو جنگ ، جماعت کڈنگ ہالنگ ، گونڈ رنگ ، چیری بون، مانس لور.(جاوار سطی) پورو کر تو.جو گجا کرتا.پابو دارن کڈنگ مالنگ.(جاوا شرقی) سورابایا ( سماٹر شمالی) میڈان - تابنگ تنگی- تنجو تنگ بالائی (سماٹر اوسطی) پاڈنگ - تالنگ.یکن بارو - بوکیت.تینگی ڈو کو.(سماٹرا جنوبی) لاہت.۱۹۶۲ء کی رپورٹ کے مطابق جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی اکاون مساجد اور تیرہ مشن ہاؤس قائم ہیں.جاوا اور سماٹرا کے مبلغین کی طرف سے اسلام اور احمدیت کی تائید میں شام و فلسطین کے بعد سب مشنوں سے زیادہ لٹریچر شائع ہوا ہے چنانچہ چند اہم کتابوں کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.(1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک تصانیف کے تراجم.اسلامی اصول کی فلاسفی - کشتی نوح.ایک غلطی کا ازالہ - احمدی اور غیر احمدی میں فرق.لیکچر سیالکوٹ- الوصیت - (کتب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تراجم) حضرت مسیح موعود کے کارنا ہے.سیرت مسیح موعود - دعوت الامیر- نظام نو." اسلام کا اقتصادی نظام " ( تصانیف مولوی رحمت علی صاحب) اسرار ارکان اسلام - صداقت حضرت مسیح موعود اسلام میں جہاد - معراج النبی ﷺ.حقیقت بائیبل - سیرت النبی ا - مسئلہ تقدیر ملائکہ اللہ.قبر مسیح اسرائیلی المسیح الاسرائیل اور صلیب.حقیقت امنیت عیسی - مشارکت و تهران اسلامیہ.اسلام اور دنیا کے علوم کا منبع.دنیا کا آئندہ نظام - صداقت رسول کریم از روئے بائیبل.میں

Page 607

تاریخ جلد ۴ 544 خلافت ثانیہ کا بارھواں نے اسلام کو کیوں چنا.قیامت - جہاد - لائحہ عمل احمدیہ (تصانیف مولوی محمد صادق صاحب )(۱) بائیل کا یسوع - (۲) محمد ال از روئے بائبل (۳) تصدیق اسبیح.(تصانیف ملک عزیز احمد خان صاحب) ترقی اسلام کی راہ مبایعین اور غیر مبایعین میں فرق - پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود- (تصانیف میاں عبدالحی صاحب) "کفاره" (تصانیف مولوی ابو بکر صاحب) مکمل تردید (جماعت کے خلاف اعتراضات کارد) شفاعت ارحم الراحمین.(تصانیف صالح الشبيبي صاحب الهندی) وادی قمران کے صحیفے.احمدیت پر ایک طائرانہ نظر - نماز مترجم - جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی طرف سے اس وقت تک کئی ماہواریا سہ ماہی رسائل نکل چکے ہیں مثلاً رسالہ " اسلام " (ماہوار) رسالہ "البشری " (ماہور) رسالہ " نو جوک جاسن " (ماہوار) رساله الهدی (ماہوار) رسالہ "Bale bat " (ماہوار رسالہ " آواز مجلس خدام الاحمدیہ " ( سہ ماہی) رسالہ " آواز مجلس انصار الله" (سہ ماہی) رسالہ "آواز مجلس ناصرات الاحمدیہ " (سہ ماہی) آج کل رساله سمینار اسلام اور ہفتہ وار ” ہلٹن یا احمد یہ گزٹ " با قاعدہ جاری ہے." انڈو نیشیا میں اس وقت مندرجہ ذیل مبلغین اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف ہیں.سید شاہ محمد صاحب (رئیس (تبلیغ) مولوی ابوبکر ایوب صاحب مرکزی مبلغ مولوی عبدالحی صاحب مرکزی مبلغ مولوی امام الدین صاحب مرکزی مبلغ مولوی صالح شبیبی صاحب مرکزی مبلغ مولوی عبد الواحد صاحب مرکزی مبلغ مولوی محمد ایوب صاحب لوکل مبلغ مولوی زینی دحلان صاحب مولوی منصور احمد صاحب را زین احمد نور صاحب مولوی احمد رشدی صاحب مولوی سلیمان عباس صاحب مولوی محی الدین صاحب حاجی بصری صاحب دیہاتی مبلغ محمد شتری صاحب دیہاتی مبلغ.سلیمان صاحب دیہاتی مبلغ - عبد الرحمن صاحب دیہاتی مبلغ.اس دار التبلیغ کی اسلامی خدمات کی نسبت دوسروں کی چند آراء بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں.• ا سفیر انڈو نیشیا الحاج محمد رشید صاحب نے تمرے ۱۹۵ ء میں ایک پبلک جلسہ میں جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا میں اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انڈو نیشین قوم جو عیسائیت کے سیلاب کے آگے بہہ جارہی تھی اس کو جماعت احمدیہ کے مبلغین نے اس خطرہ سے بچالیا 21 سلسلہ احمدیہ کے ایک شدید مخالف ڈاکٹر حاجی عبدالکریم امر اللہ نے اپنی کتاب القول الصحيح" میں لکھا کہ "ہم روئے زمین کے مسلمانوں کی طرف سے جماعت احمد یہ قادیان کا اس بارہ میں شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر یورپین ممالک میں کئی

Page 608

تاریخ امر جلد 545 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال عیسائیوں کو اسلام کی طرف کھینچا ہے ".ایم اے آر کب اپنی کتاب (Mohammadanism) ایڈیشن جولائی ۱۹۵۵ء آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے صفحہ ۱۴۲ پر لکھتے ہیں." جماعت احمدیہ قادیان- انڈونیشیا جنوبی - مشرقی اور مغربی افریقہ میں عیسائی مشنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے ".جسٹس دان ڈیر کو دوف دی مسلم ورلڈ " (جنوری ۱۹۶۲ء) کی اشاعت میں لکھتے ہیں.انڈونیشیا کے ایک مشہور پبلشر نے مجھے بتایا کہ انڈونیشیا کا نوجوان علمی طبقہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑے شوق کے ساتھ خریدتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ انڈونیشیا کے بڑے جزائر میں احمدی موجود ہیں بلکہ دور افتادہ علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں.اگر چہ غالب اکثریت قادیانی احمدیوں کی ہے تاہم ان دونوں احمد یہ فرقوں کا وجود مغربی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احیاء اسلام کا زبردست محرک ہے.جماعت احمدیہ کا اثر ہندوستان سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل رہا ہے.اس کی شاخیں اور اس کا لٹریچر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکا ہے یورپ اور امریکہ کے لوگ اس کا مطالعہ کرتے ہیں.اس کے ساتھ ساتھ ان کے مبلغ بھی تمام ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں یورپ اور باقی علمی دنیا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں اور اپنے اس امتیاز کے باعث ہم اس کے معترف اور ممنون ہیں.(نیشنل فرنٹ نیوز آف انڈونیشیا ۲۰/ دسمبر ۱۹۶۲ء) ہندوستان میں یہ دلخراش خبر پہنچی کہ (حضرت) مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر احتجاج محمد بن عبد الوہاب " کے معتقدین کی گولہ باری سے رسول کریم ا کے روضہ اطہر کے گنبد کو نقصان پہنچا جس سے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ساتھ ہی یروشلم کی مسلم کو نسل کے صدراعلیٰ کی طرف سے تار آیا کہ صحیح خبر یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے روضہ اطہر پر گولہ باری نہیں کی گئی البتہ اس کے گنبد پر گولیاں لگی ہیں.اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۴ / ستمبر ۱۹۲۵ء کو رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا.یہ تو مانا نہیں جا سکتا کہ نجدیوں نے جان بوجھ کر روضہ مبارک مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ پر گولے مارے ہوں گے کیونکہ آخر وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور آپ کی عزت و توقیر کا بھی دم بھرتے ہیں لیکن باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ ہوا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ گو انہوں نے دیدہ دانستہ مقامات مقدسہ کو

Page 609

تاریخ احمد بیت، جلد ۴ 546 خلافت ثانیہ کا بارھواں نقصان نہ پہنچایا ہو مگر ان کی بے احتیاطی سے نقصان ضرور پہنچا.پھر فرمایا.گو میں سمجھتا ہوں تبے بنانے ناجائز ہیں.مگر ہر جگہ نہیں بلکہ ضرورت کے وقت جائز ہیں.اگر ان سے مراد قبر کی حفاظت نہیں تو نا جائز ہیں یا ان کے لئے ناجائز ہیں جو ہر حال میں ناجائز سمجھتے ہیں مگر خواہ کچھ ہی ہو ان کا یہ کام نہیں کہ ان کو توڑیں.اس معاملے میں ہم نجدیوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ قبے بلا ضرورت بنانے ناجائز ہیں اور شرک میں داخل ہیں لیکن اس معاملہ میں ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے کہ ان کو توڑنا اور گرانا بھی درست ہے.ہماری ان باتوں کو دیکھ کر نجدیوں کے حامی کہیں گے کہ یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں لیکن اگر رسول اللہ ﷺ کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے شریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں ہم تو رسول اللہ ا کی خاطر سب سے محبت رکھتے ہیں.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اگر کوئی محبت رکھتے ہیں تو صرف اس لئے کہ وہ رسول کریم اللہ کے غلام تھے اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا اس غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا...بے شک ہم قبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے لیکن رسول کریم ﷺ کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں.ہاں ہمارے پاس سہام الکیل ہیں.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے مزار مقدس اور مسجد نبوی اور دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں.ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو انھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے عمارتیں گرتی ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ان عمارتوں کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں.پس ہمیں دن کو بھی رات کو بھی ، سوتے بھی اور جاگتے بھی دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے......ددا معاملات حجاز میں جماعت احمدیہ کا موقف اس خطبہ کے کچھ عرصہ بعد ایک احمدی دوست نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ مجھ سے بعض اہل حدیث اصحاب نے شکایت کی کہ توحید کے مسئلہ میں ہمارے عقائد ایک دوسرے سے ملتے ہیں.مگر ابن سعود کے معاملہ میں تم لوگ ہماری مخالفت اور حنفیوں کی تائید کرتے ہو.نیز دھمکی دی کہ آپ لوگ اپنا رویہ نہیں بدلیں گے تو خلافت کمیٹیاں جو اس وقت تک آپ کے لیکچروں کی مؤید ہو رہی ہیں تائید کرنا چھوڑ دیں گی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس پر ۲۷/ نومبر ۱۹۲۵ء کو ایک مفصل خطبہ دیا.جس میں معاملات حجاز کی نسبت جماعت احمدیہ کے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :-

Page 610

تاریخ احمدیت 547 خلافت عثمانیہ کا بارھواں سا "میرے نزدیک کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں زبردستی کرے یا زبر دستی کسی قوم کے قابل احترام مقامات کو گرائے یا ان پر قبضہ کرے.پس ہر ایک اسلامی حکومت کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے علاقہ کے مسلمانوں کی عبادت گاہوں یا قابل احترام مقامات کو گراکر ملک میں فتنہ پیدا کرے.لیکن ہاں میرے نزدیک دو مقام ایسے ہیں جن میں اگر کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہے تو اسلامی حکومت کے لئے جائز ہے کہ جبرا اس میں دست اندازی کرے اور ان مقامات کو اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے ان مقامات مقدسہ میں سے ایک تو خانہ کعبہ ہے اور دوسرا مسجد نبوی ایک اسلامی حکومت کا حق ہے کہ ان پر اپنا قبضہ رکھے وہ بہر حال اسلامی حکومت کے قبضے میں رہنے چاہئیں اور اس قبضہ کی غرض صرف حفاظت ہونی چاہئے نہ کہ ان کے استعمال میں کسی قسم کی مشکل پیدا کرنا.پس ان دونوں مقامات پر اسلامی حکومت کا قبضہ رہنا چاہئے جو یہ دیکھتی رہے کہ ان کی حفاظت کما حقہ ہو رہی ہے یا نہیں اور ان میں کوئی فعل شریعت کے خلاف تو نہیں کیا جاتا.اگر کیا جاتا ہو تو اسے جبرا روک دے مثلاً اگر خانہ کعبہ میں بت پرستی ہو یا قبریں پوجی جاتی ہوں اور اسی طرح مسجد نبوی میں بھی کوئی مشرکانہ فعل ہو تا ہو تو میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور اس حکومت کا کہ جس کے قبضہ میں یہ دونوں مقام ہوں حق ہے کہ لوگوں کو وہاں ایسا کرنے سے جبرا روک دے".اس اصولی بات کے بعد حضور نے روضہ رسول عربی کی نسبت فرمایا کہ.بعض لوگ جب دوسری قبروں کے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شرک کا منبع بن رہی ہیں تو انہیں آنحضرت ا کے مقبرہ کے متعلق بھی یہی خیال گزرتا ہے کہ اس سے بھی شرک پیدا ہوتا ہے.مگر اس کے متعلق ان کا یہ خیال کرنا غلطی ہے.کیونکہ رسول کریم اے کے مزار مبارک پر جو گنبد بنایا گیا ہے.وہ اس لئے نہیں کہ اس سے روضہ کی شان بڑی بنا کر پرستش کی جائے بلکہ وہ اس لئے بنایا گیا کہ شرک نہ ہو رسول کریم ﷺ کی قبر کو چھپانے کے لئے اس پر گنبد بنایا گیا تھا پس اس گنبد سے یہ قیاس کرنا غلطی ہے....پس میں پھر کہتا ہوں کہ کسی اعزاز کے لئے رسول کریم ﷺ کی قبر پر گنبد نہیں بنایا گیا.بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا.اور اس غرض کے لئے بنایا گیا کہ تا آپ کی قبر چھپی رہے کسی اعزاز کے لئے رسول کریم ﷺ کی قبر گنبد کی محتاج نہیں.اعزاز اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ بجائے خود ہے اور کسی بیرونی کوشش سے نہیں ہو سکتا.پس اس کے لئے کسی گنبد کی یا کسی اور شے کی ضرورت نہ تھی.آنحضرت ا جب زندہ تھے اس وقت صحابہ آپ کی حفاظت کرتے تھے.پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد دشمنوں سے بچانے کے لئے آپ کے جسم مبارک کی

Page 611

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 548 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال حفاظت مسلمان نہ کریں.یہاں تو ایک گنبد کے لئے شور برپا ہے مگر میں کہتا ہوں حفاظت کے لئے اگر ایک سے زائد گنبد بھی بنانے پڑیں تو بنانے چاہئیں.آج کل ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں اور دیگر اسی قسم کی ایجادوں سے پل بھر میں ایک عالم کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے اس لئے آپ کی قبر کی حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے ".خطبہ کے آخر میں حضور نے اہلحدیث اصحاب کو قیام توحید و استیصال شرک کے تعلق میں پورے پورے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ." میں کہتا ہوں کہ شرک کو مٹاؤ لیکن شرک کو مٹاتے ہوئے رسول کریم اللہ کے نشانات اور شعائر اللہ نہ گراؤ اور ان مقامات کو ملیا میٹ نہ کرو جن کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں توحید کی لہر پیدا ہوتی ہے.پس وہ قوم جو اہلحدیث کہلاتی ہے اور جس کا بڑا دعویٰ شرک کی بیٹھکنی ہے وہ بالضرور شرک کے مٹانے میں کوشش کرے اور ہم اس کوشش میں اس کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہ کرے کہ شعائر اللہ پر ہی کلہاڑا رکھ دے یا ان مقامات کی بنیادوں میں ہی پانی پھیر دے جن سے روایات اسلامی وابستہ ہیں....." ۱۵۶ جنگ عظیم کے بعد شام پر فرانس نے قبضہ کر شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ لیا.شامیوں نے یہ قبضہ ختم کرنے کا تہیہ کر ۱۱۵۸۱ لیا.چنانچہ ۱۹۲۵ کے آخر میں لبنان کی ایک جنگجو مسلمان پہاڑی قوم (دروز) نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا.شام کی فرانسیسی حکومت نے ستاون گھنٹے بلکہ بعض خبروں کے مطابق اس سے بھی زیادہ عرصہ تک دمشق پر گولہ باری کی جس سے یہ بارونق شہر تباہ و ویران ہو گیا اور ایسی تباہی آئی کہ تین ہزار سال سے ایسی تباہی اس شہر میں نہیں آئی تھی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام (مورخہ ۱۹ اپریل ۱۹۰۷ء) پلائے دمشق " میں خبر دی گئی تھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳/ نومبر ۱۹۲۵ء کو دمشق کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اور اس کے عملی ظہور کی دردناک تفصیلات سنانے کے بعد اہل شام کی تحریک آزادی کی تائید کرتے ہوئے فرمایا." میں اس اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے.یہ بھاری ظلم کیا گیا ہے.ان لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں ملک ان کا ہے حکمران بھی وہی ہونے چاہیں.ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی

Page 612

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 549 چاہئے.یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی دی جائے گی.پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے.وہ ملک جو تلوار کے ذریعہ زیر نہ کئے جائیں بلکہ معاہدات کی رو سے سیاست اور علم کا چر چانہ ہونے کے سبب جن کی تربیت کرنے کا ذمہ لیا جائے.کیا ان کی یہی حالت ہونی چاہئے کہ انہیں بالکل غلام بلکہ غلاموں سے بھی بد تر بنانے کی کوشش کی جائے انہیں ہر طرح تکلیف دی جائے اور بجائے مدد کرنے کے ان کو نقصان پہنچایا جائے پس نہ انگریزوں کا اور نہ کسی اور سلطنت کا حق ہے کہ وہ شامیوں کے ملک پر حکومت کریں اور نہ ہی فرانسیسیوں کا حق ہے کہ وہ ملک پر جبرا قبضہ رکھیں.شامیوں نے اتحادیوں کی مدد کی اور انہیں فتح دلائی جس کا بدلہ یہ ملا کہ فرانسیسیوں نے ان کے ملک کو تباہ اور ان کے گھروں کو ویران کر دیا.اس سے زیادہ غداری کیا ہو سکتی ہے کہ جس نے ان کو فتح دلائی اسے ہی غلامی کا حلقہ پہنایا جاتا ہے".نیز اہل شام سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا."شام والے مظلوم ہیں اور ان کی وفاداریوں اور جانبازیوں کا اچھا صلہ ان کو نہیں دیا گیا.انہوں نے اپنی جانیں دے کر اتحادیوں کو فتح دلانے کی کوشش کی.مگر جب ان کی باری آئی تو بجائے حسن سلوک کے ان پر ظلم کیا گیا.ان کی جائیں تباہ کی گئیں ان کا ملک ویران کیا گیا.ان کے مال برباد کئے گئے.پس وہ مظلوم ہیں اور میں ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں....میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے قوم کی حریت اور آزادی کے لئے کوشش کی.اور اس کے لئے مارے گئے.پھر میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جو زندہ ہیں اور اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ تباہی سے بچیں اور کامیاب ہوں ".الحمد للہ کہ حضور کی یہ دعا جناب الٹی میں قبول ہوئی اور بالآخر فرانسیسی تسلط ختم ہوا اور ۱۷/ ستمبر ۱۹۴۱ء کو شام میں مسلمانوں کی آزاد حکومت قائم ہوئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۵ء پر گناہوں سے پاک ہونے ۱۵۹ منهاج الطالبین" اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے طریق پر دو دن تک علمی لیکچر دیا.حضور نے اس مضمون کا عنوان اپنی ایک بہت پرانی رویا کی بناء پر ”منہاج الطالین" رکھا - " منہاج الطالبین " اسلامی اخلاق و تصوف کے لطیف اور باریک مسائل کا انسائیکلو پیڈیا اور روحانی بیماریوں کے علاج کی بیاض ہے جس میں امراض روح و قلب کی تشخیص اس کے اسباب اور اس کے علاج کے علاوہ صحت روحانی میں ترقی کرنے کے مجرب علمی و عملی نسخے درج ہیں.اس لیکچر کے مطالعہ سے یہ حقیقت

Page 613

تاریخ احمدیت جلد ۴ 550 خلافت انسان پر کھلتی ہے کہ وہ آسمانی طب جو انسانوں کو گناہوں سے نجات دے کر نیکیوں کی طرف مائل کرتی اور پھر ان پر دوام بخشتی ہے صرف اور صرف خدا کے انبیاء و خلفاء ہی کو عطا ہوتی ہے کیونکہ وہی آسمانی حکم کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے صحیح معنوں میں مزکی و معلم ہوتے ہیں.حضور نے اپنے لیکچر کے خاتمہ پر جماعت احمدیہ کو نصیحت فرمائی.کہ اگر ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اولیاء اللہ میں سے نہ ہو تو دنیا کو نجات نہیں دلائی جاسکتی.اور ہم دنیا میں کوئی تغیر نہیں پیدا کر سکتے یاد رکھو ہمارا مقابلہ دنیا کی موجودہ بدیوں سے نہیں بلکہ ہمارا فرض خیالات بد کی رو سے مقابلہ کرنا بھی ہے اور ہمیں خیالات کے اس دریا کا مقابلہ کرنا ہے جو ہر طرف لہریں مار رہا ہے.بہت ہی نازک ہے".۱۹۲۵ء کے متفرق مگر اہم واقعات ! - حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حرم اول میں مرزا حفیظ احمد صاحب پیدا ہوئے.ڈنمارک کی دو خواتین (ڈاکٹر کا زنند اور مس پالی) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئیں - حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے لنڈن سے واپسی پر مصر ٹھر گئے تھے ۱۹/ جنوری ۱۹۲۵ء کو بخیریت قادیان تشریف لے آئے.- سیدنا حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت منشی ہاشم علی صاحب ۲۸ مارچ ۱۹۲۵ء کو اور حضرت مولوی نظام الدین صاحب ( والد حضرت مولوی شیر علی صاحب) ۱۲۳ جون ۱۹۲۵ء کو 197 رحلت فرما گئے.مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے یکم مارچ ۱۹۲۵ء کو انجمن احمد یہ خدام الاسلام" قائم کی جس کا مقصد اشاعت اسلام و احمدیت تھا.اس انجمن نے تبلیغی ٹریکٹوں کا مفید سلسلہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک جاری رہا.لنکا کے گمپولا نام قصبہ میں ایک احمدی عورت کا انتقال ہو گیا.غیر احمدی مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن کئے جانے کی مخالفت کی جس پر پولیس کی نگرانی میں میت دفن کی گئی.ایک عرب سیاح محمد سعد الدین صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی ملاقات کے لئے قادیان آئے - اکتوبر ۱۹۲۵ء میں مزار حضرت مسیح موعود کے ارد گرد پختہ چار دیواری تعمیر ہوئی اور اس کے چاروں طرف دروازے رکھے گئے.چار دیواری بنانے کے لئے ملک صاحب خان صاحب نون

Page 614

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 551 خلافت ثانیہ کا بارھواں سا (ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر) نے ڈیڑھ ہزار روپیہ دیا تھا.120 ایک ماہوار رسالہ (بنگلہ زبان میں) احمدی" کے نام سے کلکتہ (بنگال) میں جاری ہوا.جو خدا کے فضل سے اب پندرہ روزہ ہے اسی طرح رنگون (برما) سے عبد الکریم صاحب غنی نے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا جس کا نام The Universal Peace تھا." ۱۰ اگست ۱۹۲۵ء میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کے صیغہ امانت " کا اجراء ہوا.قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے منصوری میں کئی ماہ قیام پذیر رہنے کے بعد ۱۵/ ستمبر ۱۹۲۵ء کو قادیان تشریف لائے.-11 -۱۲ ۱۴ 140 حضرت ام المومنین اور حضرت میر محمد اسحق صاحب نے شملہ کا سفر کیا.۱۳ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سالانہ جلسہ پر " تربیت جماعت احمدیہ کے متعلق ضروری امور " کے موضوع پر تقریر فرمائی - مشهور مباحثے مباحثہ دہلی (ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی اور دھرم بھکشو کے درمیان مباحثہ دلاور چیمہ ضلع گوجرانوالہ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تار ژوی کے درمیان DI) مباحثہ نادون (ماسٹر محمد علی صاحب اشرف اور بابو حبیب الله کلرک امرتسری کے درمیان ) مباحثہ گوجرانوالہ (مولوی غلام احمد صاحب بدو ملهوی اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی کے درمیان مباحثہ شیخوپورہ (مولوی غلام احمد صاحب بدو مهوئی اور ایک اہل حدیث عالم کے درمیان مباحثہ گجرات (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی کے درمیان ! بد و ملی (مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی اور ڈاکٹر براؤن اور پادری عبدالحق صاحب کے در میان ) مباحثه جالندهر (مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی اور مولوی عبدالحق صاحب کے درمیان ) مباحثہ دہلی (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبدالرحمن صاحب DIAM TA مباحثہ اہلحدیث عالم کے درمیان (0) -۱۵ علمائے سلسلہ احمدیہ کی نئی مطبوعات ترجمہ قرآن مجید (از حضرت مولاناسید سرور شاه صاحب " حدوث روح و مادہ " ( حضرت میر محمد الحق صاحب بہائی مذہب کی حقیقت" (از مولوی فضل الدین صاحب وکیل ) " آئینہ احمدیت (از مرزا محمد صادق صاحب لاہور) " انداری پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ و غیره ( از مولوی غلام احمد صاحب فاضل بد و طهوی)

Page 615

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 552 خلافت ثانیہ کا بارھواں سال جناب شیخ عبد القادر (سابق سوداگر مل حال مربی سلسلہ احمدیہ) اسلام قبول کر کے داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے.آپ کو میاں محمد مراد صاحب (ساکن پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ) کے ذریعہ سے متاع ایمان نصیب ہوئی.IAA -.- -

Page 616

تاریخ احمدیت جلد ۴ چھٹا باب(فصل چهارم) 553 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال جنوری ۱۹۲۶ء تا دسمبر ۱۹۲۶ء بمطابق رجب ۱۳۴۴ھ تا جمادی الآخر ۱۳۴۵ھ) دنیا کی چو میں زبانوں میں تقریریں 19 جنو ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو (حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے زیر انتظام) پہلی بار ایک جلسہ ہوا جس میں دنیا کی چو میں زبانوں میں تقریریں ہوئیں.اس جلسہ کے مقررین یہ تھے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی (عربی)، فخر الدین صاحب مالا باری (ملیالم)، حضرت میر قاسم علی صاحب (اردو) جناب صاحب (جاوی)، عبد الواحد صاحب (کشمیری)، شیخ محمد یوسف صاحب (گورمکھی) حسن خان صاحب (اڈیا) حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل علالپوری (فارسی) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (عبرانی) محمد نور صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ (مایا، خواجہ میاں صاحب ( مرہٹی)، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر (انگریزی)، میاں شاہ ولی صاحب (گوجری مولوی ارجمند خان صاحب (پشتو) مباشہ محمد عمر صاحب (سنسکرت)، علی قاسم صاحب ابن مولوی ابوالہاشم صاحب (بنگالی) ابراہیم صاحب سیلونی (سیلونی)، حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب نو مسلم (پنجابی) ، ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (پوربی) احمد سریڈ و صاحب (ڈچ) احسان الحق صاحب (ریاستی)، ضیاء اللہ صاحب (سندھی)، ملک احمد حسین صاحب نیروبی (سواحیلی ) احمد حسین صاحب وکیل (کنٹری) ان تقاریر کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تقریر فرمائی کہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے کہ ان کے حواریوں کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ غیر زبانوں میں تقریر کریں گے.چنانچہ انہوں نے یہودیوں کے مختلف قبیلوں کی زبانوں میں ان کو تبلیغ کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام العود احمد کے مطابق پہلے مسیح سے افضل تھے اس لئے آپ کی جماعت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ اس میں غیر زبانیں بولنے والے پیدا ہو گئے.بے شک اب عیسائیت میں مختلف ممالک کے لوگ داخل ہیں.عمر حضرت مسیح کے زمانہ میں اور پھر ان کے بعد تین سو سال تک تین چار ممالک میں ہی عیسائیت پھیلی

Page 617

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 554 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال تھی.پس یہ سب تقریریں ( جو مختلف زبانوں میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوئی ہیں) اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی مستقل دلیل ہیں - حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا پانچواں نکاح یکم فروری ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا نکاح حضرت سیٹھ ابو بکر یوسف صاحب آف جدہ کی دختر فرخندہ اختر حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ سے ہوا.نکاح کا اعلان ایک ہزار رو پسید مہر پر حضرت سید سرور شاہ صاحب نے کیا.حضرت مولوی صاحب نے خطبہ نکاح میں بتایا.اس نکاح کے متعلق میں نے الہام کشوف اور رویا اور خوابین وغیرہ بیان کرنے کی اجازت نہیں لی.اس لئے میں ان کو بیان نہیں کرتا.البتہ یہ بیان کر دیتا ہوں کہ میں اور حافظ صاحب اس نکاح کے واقعات سے واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نکاح کن حالات کے ماتحت ہو رہا ہے.جس لڑکی کے ساتھ اب نکاح ہونے لگا ہے اس کے متعلق حضرت صاحب اپنا ارادہ نسخ کر چکے تھے چنانچہ اس کے رشتے کے متعلق آپ نے کسی دوسری جگہ اجازت بھی دے دی تھی.لڑکی اور لڑکے کے والدین تیار بھی ہو چکے تھے مگر ایک ہی رات میں خدا نے یہ سب کچھ بدل دیا.اور صبح ہوتے ہی لڑکے کے باپ نے کہہ دیا ہم نہیں کر سکتے اور ادھر خود حضرت صاحب کو حضر ہے.ام المومنین پر اور دوسرے احباب پر خداوند تعالٰی نے اپنے منشاء اور قضا و قدر کو بار بار ظاہر فرمایا اور علاوہ اس کے خداوند تعالیٰ کا فعل بھی اس کا مؤید تھا.خلیفہ بے شک ہمارا آتا ہے مگر خدا کا قبضہ ان کے دل پر بھی ہے.جس طرح اس نے سید عبد القادر جیلانی سے کہا کہ کھا تو اس نے کھایا اور کہا پہن تو اس نے پہنا اسی طرح اس نے یہاں بھی کیا اور کہا کرو ".حضرت صاحبزادہ صاحب سید عبد اللطیف جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم میں بتایا جا چکا ہے صاحب شہید کے خاندان کی کابل سے حضرت صاجزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد آپ کا خاندان ایک لمبے ہجرت اور قادیان میں آمد عرصہ تک ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہا.اور آخر 140 ۱۹۲ | 147 نہایت بے کسی کے عالم میں ۲/ فروری ۱۹۲۶ء کو سرائے نورنگ (ضلع بنوں) میں ہجرت کر کے آگیا.جہاں اس کی پہلے سے جاگیر موجود تھی.سید ابوالحسن صاحب قدسی اور سید محمد طیب صاحب فرزندان شهید مرحوم) کا ارادہ سرائے نورنگ پہنچ کر جلد ہی قادیان کی زیارت کرنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہونا تھا کہ اس دوران میں خود حضور نے از راہ شفقت نیک محمد خان صاحب غزنوی کو سرائے نورنگ بھیج

Page 618

تاریخ احمد بہت - جلد ۴ 555 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال دیا.چنانچہ یہ دونوں اصحاب غزنوی صاحب کے ہمراہ وسط مارچ ۱۹۲۶ء میں پہلی بار قادیان آئے.حضور نے نماز ظہر کے بعد مسجد مبارک میں ان کو شرف ملاقات بخشا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا.سید محمد طیب صاحب پندرہ ہیں روز قادیان میں مقیم رہنے کے بعد سرائے نورنگ چلے گئے اور سید ابوالحسن صاحب قدسی نے جنہیں بچپن سے عربی و فارسی پڑھنے کا شوق تھا.مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخلہ لے لیا.۱۹۳۱ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پہلے مدرسہ احمدیہ میں اور پھر جامعہ احمدیہ میں ۱۹۶۲ء تک تعلیمی خدمات بجالاتے رہے.جماعت احمدیہ کے مرکز میں جماعت کے غریب و یتیم بچوں اور دوسرے "دار الشیوخ کا قیام محتاجوں اور معذوروں کے لئے کوئی تسلی بخش انتظام نہیں تھا.حضرت ۱۹۵ میر محمد الحق صاحب نے اس اہم جماعتی ضرورت کی طرف توجہ فرمائی اور یکم مئی ۱۹۲۶ء سے دار الشیوخ " کے نام سے ایک اہم ادارہ قائم کیا 10 - جس میں غریب اور معذور بچے بلکہ بعض بوڑھے بھی کافی تعداد میں رہتے تھے اور حضرت میر صاحب اپنی پرائیوٹ کو شش کے ذریعہ ان کے اخراجات وغیرہ مہیا کر کے انہیں تعلیم دلاتے تھے اور اپنے عزیزوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور نابینا بچوں کو قرآن مجید کے حفظ کرانے کا انتظام کرتے تھے.دار الشیوخ میں پرورش پانے والے متعدد بچے مدرسہ احمدیہ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھے.حضرت میر محمد اسحق صاحب نے "دار الشیوخ " کا جس رنگ میں انتظام فرمایا.وہ بلا مبالغہ عدیم المثال تھا.بتائی و مساکین اور بے سہارا لوگوں کے لئے آپ کی شفقت اور ہمدردی سے متعلق متعدد واقعات شائع شدہ ہیں.جن میں سے بطور نمونہ صرف تین کا تذکرہ کیا جاتا ہے.حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد ( گوالمنڈی لاہور) کا بیان ہے کہ ”میری دار الشیوخ میں تین سال تک بطور مہتمم تقرری کے زمانہ میں بیسیوں طالب علم قاریان بغرض تعلیم آئے جب خاکسار آپ کی خدمت میں ایسے کسی طالب علم یا غریب آدمی کو داخلہ کے لئے پیش کرتا تو تین سال کے لیے عرصہ میں مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کسی کے داخلہ میں کبھی لیت و لعل فرمایا ہو.دار الشیوخ میں کسی فرد کے داخلہ کے بعد آپ نہ صرف اس کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے بلکہ اس کو بریکار بھی نہ رہنے دیتے.اور اگر کوئی شخص طلب علم کی خواہش کرتا تو اسے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں داخل فرما دیتے اور اگر کوئی درزی وغیرہ کا کام سیکھنا چاہتا تو اسے وہاں پر انچارج درزی خانہ مرزا مہتاب بیگ صاحب کے سپرد کر دية".- منشی محمد یسین صاحب سابق محرر نظارت ضیافت بیان کرتے ہیں کہ "دار الشیوخ میں ۱۷۵ کے

Page 619

یخ احمدیت جلد ۴ 556 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال قریب افراد کے کھانے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی تھی.اور اس کائنڈ بڑا کمزور تھا.ایک دفعہ قاضی نور محمد صاحب مرحوم ہیڈ کلرک نظارت ضیافت نے عرض کیا کہ اب دار الشیوخ پر دو ہزار قرض ہو گیا ہے.فرمایا کہ کل عصر کے بعد ٹانگہ لانا اور میرے ہمراہ چلنا دار الشیوخ کے لئے چندہ کی تحریک کرتا ہے.دو سرے دن میں تانگہ لایا.ہم دونوں سوار ہو گئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیر مرحوم کے گھر کے پاس حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب ملے اور مصافحہ کیا.نواب صاحب نے مصافحہ کے بعد فرمایا کہ ماموں جان آپ کو بخار ہے.فرمانے لگے ہاں کچھ بخار تو ہے.مگر دار الشیوخ پر کچھ قرضہ ہو گیا ہے اس کے لئے چندہ کرنے کو محلہ دار الرحمت جا رہا ہوں.انہوں نے پچاس روپے جیب سے نکال کر دیئے.مجھے فرمایا جیب میں رکھتے جاؤ.جب نواب صاحب کچھ آگے نکل گئے تو فرمایا." بو ہنی " (ابتداء) تو اچھی ہو گئی.غرض محلہ دار الرحمت میں پہنچے.مغرب کی نماز کے بعد تحریک کی گئی مولانا ابو العطاء صاحب نے بھی تقریر کی تھی.اہل محلہ نے کافی چندہ دیا اور کچھ غلہ بھی دیا.دوسرے دن محلہ دار الفضل بھی گئے.پھر دوسرے محلہ جات میں گئے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر اڑھائی ہزار روپیہ چندہ جمع ہو گیا.غلہ اس کے علاوہ تھا.قاضی صاحب سے فرمانے لگے کہ جب کمی ہو جائے تو پھر بتانا " -۳- حافظ عبد العزیز صاحب موذن مسجد اقصیٰ قادیان کا بیان ہے کہ " ایک دفعہ ایک معزز احمد کی (192) قادیان تشریف لائے وہ بوجہ عدیم الفرصتی کے ایک گھنٹہ کے لئے حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالٰی کی ملاقات کو آئے تھے.حضرت میر صاحب نے فور ابھائی احمد الدین صاحب ڈنگوی کی دکان سے ان کے لئے کسی اور ناشتے کا انتظام کیا اور ان کو ساتھ لے کر دار الشیوخ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جماعت کے یہ یتیم اور مسکین بچے ہیں یہ میرا باغ ہے جو میں نے اللہ تعالی کی خاطر لگایا ہے.اس کی آبیاری میں آپ بھی حصہ لیں.وہ احمدی دوست چند منٹ میں آپ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ مبلغ پانچ نورہ روپے کی رقم ان بیانی کی اعانت کے لئے پیش کر دی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۴۳ء میں دار الشیوخ سے متعلق حضرت میر صاحب کی ان خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.میں سمجھتا ہوں جہاں ہماری جماعت مشترکہ طور پر یتانی د مساکین کی خبرگیری میں ناکام رہی ہے وہاں میر محمد اسحق صاحب نے اس میں کامیابی حاصل کرلی اور انہوں نے سوڈیڑھ سو ایسے غرباء اور تائی و مساکین کو جن کے کھانے پینے اور لباس اور رہائش وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا اپنی نگرانی میں رکھ کر ایسے رنگ میں ان کی تربیت اور تعلیم کا کام کیا.جو نہایت قابل تعریف ہے.میر صاحب نے جن جن مشکلات میں یہ کام کیا ہے ان کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.وہ مشکلات یقیناً ایسی ہیں

Page 620

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 557 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال جو ان کے کام کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں.میں سمجھتا ہوں انہوں نے اتنے سال کام کر کے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا کر دی ہے کہ اب جماعت کے افراد کو بھی محسوس ہونے لگ گیا ہے...یتیم کی خدمت اور اس کی صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت اتنا اہم کام ہے کہ کوئی جماعت جو زندہ رہنا چاہتی ہے وہ کسی صورت میں بھی اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی لی...حضرت میر صاحب کی وفات کے بعد جو (۱۷/ مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی) جہاں سلسلہ کے دوسرے علمی اور انتظامی معاملات میں زبر دست خلا پیدا ہو گیا وہاں دار الشیوخ کے انتظام کو بھی سخت دھکا لگا.اور اگر چہ صدر انجمن احمدیہ کا مستقل صیغہ قرار دے کر اس کے اخراجات کی ذمہ داری براہ راست real مرکزی نظم و نسق کے سپرد ہو گئی.مگر یہ ادارہ قادیان میں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکا.قصر خلافت کی بنیاد ۱۲۲ مئی ۱۹۲۹ء کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی نشستگاہ اور سید ناصر شاہ صاحب کے مکان کے درمیان قطعہ زمین پر) قصر خلافت کی بنیاد رکھی.اور مجمع سمیت دعا فرمائی.اس کے بعد احباب حضرت صاحبزادہ صاحب کے دیوان خانے میں جمع ہوئے جہاں شیرینی تقسیم کی گئی اور یہ مبارک تقریب ختم ہوئی - قصر خلافت کی عمارت اکتوبر ۱۹۲۶ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی جس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی سے ملاقات اور آپ کی ڈاک کا پہلے سے زیادہ عمدہ اور محفوظ انتظام ہو گیا.احمدیہ گزٹ کا اجراء جماعت احمدیہ کی مختلف انجمنوں اور افراد سلسلہ کو ایک باقاعدہ صورت میں سلسلہ کے مرکزی صیغوں کی کارگزاری اور اعلانات سے باخبر رکھنے کے لئے ۲۶/ مئی ۱۹۲۶ء سے "احمدیہ گزٹ " کا اجراء ہوا.اس اہم پرچہ کی عنان ادارت حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کے سپرد ہوئی."احمدیہ گزٹ " چند سال کے بعد بند کر دیا گیا اور یہ کام بھی حسب سابق الفضل ہی بجالانے لگا.بنگالی احمدیوں نے بنگلہ زبان میں ”احمدی" حضرت امام کا پیغام احمدیان بنگال کے نام کے نام سے ایک رسالہ جاری کر رکھا تھا.حضرت خلیفتہ ا خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے اس پرچہ کے نئے سال کے پہلے نمبر کے لئے "جماعت احمدیہ بنگال کے نام ایک پیغام ارسال کیا.جس میں تحریر فرمایا کہ."سنو اے فرزندان بنگال اخد اتعالیٰ کا مسیح مغرب ہند میں نازل ہوا اور وہ شوق محبت سے آپ لوگوں کی طرف جو مشرق ہند کے بسنے والے ہیں بڑھا اور اس نے زندگی کا پانی چھڑک کر آپ لوگوں میں

Page 621

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 558 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال سے بعض کو زندہ کیا اور عرفان کی روشنی ڈال کر بعض سوتوں کو جگایا.اب پنجاب بنگال سے ملنے کے لئے بے تاب ہے.مگر اس کے راستے میں سد سکندری حائل ہے.ہاں کفر کی دیوار اس کے اور بنگال کے درمیان کھڑی ہے وہ دیوار جسے پٹھانوں اور مغلوں کی چھ سو سالہ حکومت بھی تو ڑ نہیں سکی.اسلام نے اپنی نشوو نما کے لئے پنجاب اور بنگال کو چنا تھا.اسی طرح احمدیت نے بھی پنجاب اور بنگال کو چنا ہے مگر درمیانی علاقے خالی ہیں بادشاہتیں اس دیوار کو توڑ نہیں سکیں.لیکن دو محبت کرنے والے دل اس روک کو اٹھانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے.اٹھو اے بھائیو ! محبت سے پر دلوں کو لے کر اٹھو.بادلوں کی طرح اٹھو جو سب ملک کو ایک آن میں سیراب کر جاتے ہیں.آندھیوں کی طرح اٹھو جو سب خس و خاشاک کو ایک منٹ میں اڑا دیتی ہیں.سیلاب کی طرح اٹھو جو مکانوں، قصبوں اور شہروں کو اپنے آگے بہا کر لے جاتا ہے.ہاں.ہاں.سورج کی طرح بلند ہو جس کی روشنی تمام تاریکیوں کو مٹادیتی ہے اور خدا تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ملک میں پھیلاتے ہوئے دریائے گنگا کے کنارے کنارے اس علاقہ کی طرف آجاؤ.جہاں ہے کہ آپ لوگوں کے آباء نے مشرق کا رخ کیا تھا".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر ڈلہوزی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی شبانہ روز مصروفیات نے آپ کی صحت پر بہت اثر ڈالا اور سالانہ جلسہ ۱۹۲۵ء کے بعد آپ روز بروز کمزور ہو رہے تھے.اس لئے ڈاکٹری مشورہ کے ۲۰۵ مطابق آپ تبدیلی آب و ہوا کے لئے ۲۹/ جولائی ۱۹۲۶ء کو مع اہل و عیال ڈلہوزی تشریف لے گئے اور / اکتوبر ۱۹۲۶ء کو وارد قادیان ہوئے.اس سفر میں حضور نے ترجمہ قرآن شریف اور ڈاک کا کام بدستور جاری رکھا اور اس غرض کے لئے حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب حلالپوری صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے (پرائیوٹ سیکرٹری) اور سینی خان صاحب ہمراہ گئے.نیز طبی مشورہ کے لئے ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بھی جنہیں ہمیشہ آپ کے اکثر سفروں میں ہمرکاب رہنے کا شرف حاصل رہا ہے.سفر ڈلہوزی کے حالات میں اس امر کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ حضور اپنے زمانہ خلافت کے آغاز سے لے کر اب تک ڈاک اور دوسری دفتری ضرورتوں پر سفر کرنے پر کارکنان سلسلہ کے اخراجات اپنے پاس سے ادا فرماتے آرہے تھے.مگر اب اپنی کمزور مالی حالت کے پیش نظر آپ نے پہلی بار صدر انجمن احمدیہ کو لکھا کہ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ میں آب و ہوا کی تبدیلی کروں.اب تک تو میں بوجہ مالی کمزوری کے اس کو ٹلاتا رہا ہوں مگر اب چونکہ کمزوری زیادہ ہوتی جارہی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس کا تجربہ بھی کرلوں.چونکہ اس حالت میں میں اکیلا سفر نہیں کر سکتا.کیونکہ یہ میرے لئے بھی

Page 622

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 559 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال تکلیف دہ ہے اور گھر کے لوگوں کے لئے موجب تشویش.اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ سب اہل خانہ کو ساتھ لے کر جاؤں کیونکہ مکان بہر حال لینا ہو گا.اور دو جگہ کے اخراجات بھی تکلیف دہ ہوں گے.میں نے اندازہ کیا ہے.۲ ہزار کے قریب زائد خرچ ہو گا.اس میں سے ایک ہزار روپیہ کا مد متفرق غیر معمولی سے انتظام کر دیا جائے.ایک ہزار کا میں انشاء اللہ بعض دوستو! یا سے انتظام کرلوں گا.یہ روپیہ میں انشاء اللہ بجٹ کے خاتمہ سے پہلے ادا کر دوں گا.تا سلسلہ کے کام کو نقصان نہ ہو چو نکہ اس سفر میں ترجمہ قرآن شریف اور ڈاک کا کام بھی ہو گا.اس لئے مولوی محمد اسماعیل صاحب، صوفی عبد القدیر صاحب اور یحییٰ خان صاحب کے جانے کے متعلق بھی انتظام کیا جائے مکان تو میں نے لے ہی لیا ہے.ان کے جانے اور آنے اور کھانے کے اخراجات اور کتب جو لے جانی پڑیں گی.ان کے کرایہ کے انتظام کی ضرورت ہوگی.میں نے اس سے پہلے کبھی یہ اخراجات اپنے سفروں میں نہیں لئے تھے.بمبئی اور کشمیر میں مہمان نوازی اور اس قسم کی دوسری دفتری ضرورتوں پر ہمراہ سفر کرنے والوں پر میرا تین چار ہزار روپیہ سے زائد خرچ ہو ا تھا.لیکن میں اب مقروض ہوں".اس تحریر پر صدرانجمن احمدیہ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا.کہ ”یہ بار بحیثیت امام جماعت ہونے کے حضور کو اٹھانا پڑتا ہے اس لئے مجلس کا حق ہے کہ حضور سے درخواست کرے کہ یہ بار حقیقتاً مجلس کے اٹھانے کا ابتداء ہی سے ہے.اس لئے اس کے اٹھانے کی اجازت بخشی جائے".مگر حضور نے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا او را ا/ جولائی ۱۹۲۶ء کو تحریر فرمایا." میں آپ لوگوں کی محبت کا ممنون ہوں.مگر اول تو آپ لوگ خود میرے مقرر کردہ نمبر ہیں اور ہماری کانسٹی چیوشن کے لحاظ سے خلیفہ کو کوئی رقم دینے کا فیصلہ بذریعہ شوری کر سکتی ہے نہ کہ صدر المجمن احمدیہ.اور یہ اصول کے خلاف ہے کہ ایک اپنی ہی قائم کردہ انجمن کسی شخص کی مالی امداد کا فیصلہ کرے.دوسرے اس وقت تک قرض لے کر ادھار اٹھا کر گزارہ کرتا رہا ہوں.دل میں یہی نیت ہے کہ خدا تعالٰی نے توفیق دی تو خود ادا کر دوں گا.ورنہ جائیداد سے وصیت کر جاؤں گا صحت کی حالت بتاتی ہے کہ بہت گزر گئی اور تھوڑی رہ گئی.اب اپنا طریق کیا بدلوں...اور کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب کیوں بنوں.میری طبیعت اس قدر حساس ہے.خصوصا مالی معاملات میں ایک حرف اعتراض کا خواہ اشد ترین منافق کی زبان سے کیوں نہ نکلا ہو کہ میرے قلب کو نا قابل تلافی صدمہ پہنچتا ہے.اس وقت میری یہ حالت ہے کہ تمہیں آدمی کے قریب ہیں جن کا خرچ مجھے اٹھانا پڑتا ہے.اور دو سو رد پیہ ماہوار کے قریب لائبریری اور امداد و غیرہ کا خرچ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ چار پانچ وقت کے کھانے میں سے ایک وقت کے سوا باقی سب قرض پر ہمارا گزارہ ہوتا ہے.اپنی عمر کے لئے میں اپنی جائداد کی قیمت کی وسعت

Page 623

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 560 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال کا اندازہ کیا کرتا ہوں کہ اس وقت تک زندہ رہنا میرے لئے جائز ہو سکتا ہے جب تک کہ قرض کی رقم کو جائداد بہ سہولت ادا کر سکے.آگے اللہ تعالیٰ کے کام کا بندہ کو وہم و گمان بھی نہیں ہو تا.غرض با وجود اس حالت کے اور اس رات اور دن کی پریشانی کے یہ روز مرہ کا دکھ مجھے زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے یہ نسبت اس کے کہ میں کوئی رقم بیت المال سے بغیر قرضہ کے لوں اور کسی طرف سے میرے کان میں یہ آواز آئے کہ ان کو اس قدر رقم ملتی ہے.اب بھی جبکہ میں کبھی کچھ نہیں لیتا میرے کانوں میں یہ آواز میں پڑی ہیں کہ خلیفہ کی اس قدر بیویاں ہیں.اب ان کا خرچ جماعت پر پڑے گا.اگر میں کوئی رقم لوں گا تو یہ آواز میرے لئے بالکل نا قابل برداشت ہوگی.مومنوں کے نفوس خدا کے لئے قربانیاں ہیں.کوئی کسی طرح قربان ہو جاتا ہے کوئی کسی طرح قربان ہو جاتا ہے".خاکسار مرزا محمود احمد - حضرت خلیفتہ امسیح الثانی اور مولوی حضرت خلیفه اسمی الثانی ایده الله تعالی و لوری میں ہی قیام فرما تھے کہ (حضرت) مولوی غلام محمد علی صاحب کے مشترکہ اعلانات حسن خان صاحب پشاوری، خان بہادر دلاور خاں صاحب اسٹنٹ کمشنر ) اور قاضی محمد شفیق صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جماعت احمدیہ کے دو فریقوں میں مصالحت کے لئے تبادلہ خیالات کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس تحریک مصالحت پر مولوی محمد علی صاحب مولوی غلام حسن خان صاحب خان بهادر محمد دلاور خاں وغیرہ کو اپنی کو ٹھی پر دعوت دی اور بالآخر طے پایا کہ اخبارات اور رسائل میں ایک دوسرے کے خلاف سب و شتم اور ذاتی حملوں کا سلسلہ بند کر دیا جائے.ہاں اختلافی مسائل پر متانت و شائستگی سے مضامین کا سلسلہ جاری رہے چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ۱۷/ جولائی ۱۹۲۶ء کو مندرجہ ذیل اعلان فرمایا.برادران! السلام علیکم.میں اس اعلان کے ذریعہ تمام ایڈیٹران ، نامه نگاران و مصنفین سلسله احمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو اختلافات سلسلہ میں کسی نہ کسی سبب سے پیدا ہوتے ہیں.ان کی وجہ سے بعض دفعہ مبایعین بھی گو جوابا ہی کیوں نہ ہو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں.جن سے مسئلہ کی تحقیق پر کچھ اثر نہیں پڑتا.صرف دوسرے کی دلا زاری ہوتی ہے.گو جوا با بعض دفعہ سختی کرنا ایک قسم کا علاج ہی ہوتا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں جبکہ دنیا کی نگاہیں خاص طور پر ہماری طرف لگی ہوئی "

Page 624

تاریخ احمدیت جلد ۴ 561 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال ہیں لوگوں میں یہ امر جماعت کی سیکی کا موجب ہو جاتا ہے اور یہ میں بار ہا تا چکا ہوں کہ دنیا اخلاق سے فتح ہو سکتی ہے نہ کہ ہمارے زور دار الفاظ سے.اس لئے آئندہ کے لئے میں اپنے تمام احباب کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ جوابا بھی کوئی ایسا کلمہ اپنی تحریرات میں درج نہ کریں جس سے کسی پر ان سے ادنی ذاتی حملہ بھی ہوتا ہو بلکہ صرف مسائل کی تحقیق سے کام لیں.چونکہ کسی فریق کے حد سے بڑھ جانے پر بعض دفعہ الزامی جواب کی ضرورت بھی پیش آتی ہے.اس لئے میں سر دست اس اعلان کو تین ماہ کی مدت سے مشروط کرتا ہوں اس تین ماہ کے عرصہ میں تو خواہ کوئی حالات بھی پیش آئیں اور الزامی جواب نہ دینے سے نقصان بھی ہو تب بھی اس اعلان کو قائم رکھا جائے گا.لیکن تین ماہ کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ آیا دوسرے فریق نے کوئی اصلاح کی ہے یا نہیں.اگر اس کا رویہ درست ہو ایا ایسا اشتعال انگیز نہ ہوا کہ جس کی وجہ سے الزامی جوابات کی ضرورت پیش آئے تو پھر اس اعلان کی مدت کو لمبا کر دیا جائے گا.ورنہ دوبارہ اعلان کر کے مجبوری کی وجہ سے اس اعلان کو منسوخ کر دیا جائے گا.میں دوستوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی مصنف یا مؤلف یا مضمون نویس یا ایڈیٹر نے اس کے خلاف عمل کیا اور اس کے اس فعل کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تو میں تحقیقات کے بعد ایسے شخص کے خلاف اظہار نفرت کرنے پر مجبور ہوں گا.پس میری محبت اور میری رائے کی قدر کرنے والے دوستوں کو اپنی تحریرات میں خود ہوشیار رہنا چاہئے.میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہمیں آئندہ کبھی اس اعلان کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے.مرزا محمود احمد اسی طرح مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے بھی اپنے رفقاء کے نام یہ اعلان شائع کیا کہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتدائے اختلاف کا زمانہ ایک جوش کا زمانہ تھا.جس میں زیادتی کے مقابل پر زیادتی کا بھی عذر ہو سکتا تھا لیکن اب وہ زمانہ باقی نہیں رہا اور اگر اب اختلاف باقی بھی ہے اور یہ اللہ تعالی کو علم ہے کہ کب تک باقی رہے گا.تو مسائل پر بحث اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم دوسرے غلط عقائد پر بحث کرتے ہیں کسی عقیدہ کی غلطی کے اظہار کے لئے نہ کسی خاص شخص کو برا کہنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ اس پر کوئی ذاتی حملہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس اعلان کے ذریعہ سے میں اپنے تمام احباب کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ہماری تحریرات کی روش خواہ وہ اخبار میں ہوں یا رسالوں میں اس کے مطابق ہونی چاہئیں اور اس امر پر کہ کسی دوسرے پر کوئی حملہ نہ ہو یا اس کی دل آزاری نہ ہو.ایک نیکی کا کام سمجھ کر اس خلق کو جو فی الحقیقت انبیاء کا خلق ہے.اپنے اندر لینے کی کوشش کرنی چاہئے.مسائل اور عقائد پر بحث ضرور رہے گی.لیکن اس میں کسی شخص کی

Page 625

تاریخ احمدیت جلد ۴ 562 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال ذات پر بھی کوئی حملہ نہ ہو نہ کسی کے متعلق کسی قسم کے دل آزار کلمات ہوں مجھے امید ہے کہ یہ طرز تحریر جس میں نرمی کا پہلو غالب ہو بالآخر زیادہ مفید نتائج پیدا کرنے والی ہوگی.افسوس جہاں جماعت احمد یہ قادیان نے اس معاہدہ کی پوری پوری پابندی کی وہاں ”پیغام صلح" اپنے گزشتہ طریق کے مطابق پھر ذاتی حملوں پر اتر آیا.حتی کہ "سیرت النبی" کے جلسوں کی محض اس وجہ سے مخالفت کی کہ اس کی تحریک قادیان سے اٹھی تھی.نیز لکھا کہ ان ( مراد حضرت خلیفہ ثانی.ناقل) کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں.صلح کریں یا جنگ کریں.ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطر ناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں.ہر حال میں جنگ کریں گے ".معاہدہ کی خلاف ورزی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس بات کی تحقیق کے لئے کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کس فریق نے کی ہے ایک ثالثی بورڈ کی تجویز فرمائی اور اعلان کیا کہ اگر یہ بورڈ فیصلہ کر دے کہ میری طرف سے زیادتی ہوئی ہے تو میں علی الاعلان معافی مانگوں گا.اور اگر یہ فیصلہ ہو کہ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ اقرار کریں کہ معافی مانگیں گے.اسی طرح اگر بورڈ کا فیصلہ یہ ہو کہ ہماری اخباروں نے معاہدہ توڑا.تو ہماری اخباریں بھی معافی مانگیں گی.اور اگر " پیغام صلح" کا قصور ثابت ہو تو پیغام صلح کو معافی طلب کرنا پڑے گی.مگر مولوی محمد علی صاحب نے یہ آسان طریق قبول نہ کیا.مسجد فضل لنڈن کا افتتاح یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۴ء میں اپنے سفر ولایت کے دوارن میں مسجد لنڈن کی بنیاد رکھی تھی.مگر چونکہ اس وقت بعض ضروری سامان مہیا نہ ہو سکے تھے.اس لئے مسجد کی بقیہ تعمیر کچھ عرصہ تک ملتوی رہی.بالآخر ۱۹۲۵ء میں اس کا کام شروع کیا گیا اور ۱۹۲۶ء میں یہ خدا کا گھر اپنی تکمیل کو پہنچا.اس وقت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے نے (جو دار التبلیغ لنڈن کے انچارج تھے) حضرت خلیفتہ المسیح کی ہدایت کے ماتحت بادشاہ فیصل ملک عراق سے درخواست کی وہ اپنے لڑکے شہزادہ زید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں اور جب اس کے جلد بعد شاہ عراق خود یورپ گئے تو ان سے تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لاویں.مگر انہوں نے اس درخواست کو ٹال دیا اس کے بعد سلطان ابن سعود ملک حجاز کی خدمت میں تار دی گئی کہ وہ اپنے کی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقرر فرما ئیں اور انہوں نے تار کے ذریعہ اس درخواست کو منظور کیا اور اپنے ایک فرزند شہزادہ فیصل (موجودہ شاہ حجاز) کو اس غرض کے لئے ولایت روانہ کر دیا.جب شہزادہ موصوف لندن پہنچے تو جماعت احمدیہ لنڈن کے انتظام کے ماتحت ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور

Page 626

تاریخ احمدیت جلد ۴ 563 خلافت عثمانیہ کا تیرھواں سال اخباروں میں دھوم مچ گئی کہ وہ مسجد لنڈن کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیں.مگر اس کے بعد ایسے پر اسرار حالات پیدا ہونے لگے کہ شہزادہ فیصل بر ملا انکار کرنے کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے.اور گو آخر وقت تک انہوں نے انکار نہیں کیا.مگر عملاً تشریف بھی نہیں لائے.ان کو متامل دیکھ کر درد صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے بذریعہ تارا جازت لے رکھی تھی کہ اگر وہ نہ آئیں تو سرشیخ عبد القادر صاحب مسجد کا افتتاح کر دیں.چنانچہ جب شہزادہ فیصل صاحب نہ پہنچے تو سر عبد القادر صاحب نے ۳ ، اکتوبر ۱۹۲۶ء کو مسجد کا افتتاح کر دیا.جو ان ایام میں لیگ آف نیشنز میں شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت میں ولایت گئے ہوئے تھے.مگر شہزادہ فیصل کی آمد آمد کا ولایت کے اخباروں میں اس قدر کثرت کے ساتھ چرچا ہو چکا تھا کہ لوگوں نے ان کے نہ آنے کو بہت اچنبھا سمجھا.اور واقف کار لوگ تاڑ گئے کہ اس عملی انکار کے پیچھے اصل راز کیا مخفی ہے.یہ راز یہی تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں نے یہ بات دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے سلطان ابن سعود کو بہ کا دیا تھا کہ ان کے صاحبزادہ صاحب مسجد احمدیہ کی افتتاحی رسم سے مجتنب رہیں اور ان کے دل میں یہ خیال بھی پیدا کر دیا تھا کہ چونکہ مسلمان علماء کا ایک معتد بہ حصہ جماعت احمدیہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اس لئے احمدیہ مسجد کے افتتاح میں شہزادہ فیصل کی شرکت سے اسلامی ممالک میں سلطان کے متعلق برا اثر پیدا ہو گا.بہر حال خواہ اصل وجہ کچھ بھی ہو.شہزادہ فیصل کی شرکت سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو سکتا تھا.وہ پھر بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ ولایت کے اخباروں میں نہایت کثرت کے ساتھ مسجد احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی شہرت ہو گئی.بلکہ ابتدائی اقرار اور بعد کے انکار نے اس شہرت کو اور بھی نمایاں کر دیا Ra مسجد لنڈن کے افتتاح کی تقریب پر انگلستان، مصر اور ہندوستان کے پریس نے نمایاں خبریں شائع کیں.بطور نمونہ صرف برطانوی اخبارات کے چند اقتباسات درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے.- "ڈیلی کرانیکل " مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ ء نے لکھا.مشرق و مغرب کا ایسا عجیب اور دلفریب ملاپ شاذ و نادر کبھی ہوا ہو.جیسا کہ دیکھنے میں آیا.جبکہ لنڈن کی لمبی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اذان سوتھ فیلڈ کے چمکدار مناروں سے سنائی دی.....عربی شہزادہ کی غیر حاضری میں لنڈن کی پہلی مسجد کا افتتاح شیخ عبد القادر صاحب سابق وزیر پنجاب اور حال نمائنده لیگ آف نیشنز نے کیا.تقریروں کے ختم ہوتے ہی مناروں سے مؤذن کی دل سوز آواز مومنین کو نماز کے بلانے کے لئے سنائی دی.-۲- " سوتھ ویلز نیوز مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ ء نے لکھا.

Page 627

تاریخ احمدیت.جلد 564 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال لنڈن نے کل ایک ایسے نظارہ کو دیکھا جسے اس نے اپنی طویل تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا.سوتھ فیلڈ واقع لنڈن میں مسلمانوں کی پہلی مسجد رحیم خدا کے نام کے ساتھ کھولی گئی...مسجد کے افتتاح سے پہلے امام مسجد نے احمدیہ فرقہ کے امام کی طرف سے ایک پیغام سنایا جس میں ہر ہولی نس نے یہ فرمایا کہ مسجد کا وجود اس عظیم الشان نیکی کا معاوضہ ہے جو مغرب نے ہماری گہری نیند کے زمانہ میں ہمارے لئے علوم کی مشعل کو روشن کرنے سے کی ہے انہوں نے عیسائیوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اسلام کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ اسلام عیسائیت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا.ہم حضرت عیسی السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں.مجمع میں بہت سے اکابرین شامل تھے " " ناردن ایکو " مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ ء نے لکھا." آنریبل شیخ نے اپنے ایڈریس کے دوران میں کہا کہ وہ ظاہری رسومات کے مؤید نہیں لیکن چونکہ ظاہری رسومات سے اشاعت و شہرت ہوتی ہے لہذا ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے.مسجد چونکہ اسلامی تحریک کا آغاز ہے.اس لئے اگر اس کی شہرت نہ ہوئی تو یہ محض گمنامی میں رہے گی.یہ شہرت افتتاحی رسومات کی اشاعت سے حاصل ہو گی.میں احمدیہ فرقہ کا نمبر نہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام کے بعض بڑے اور پرانے فرقے اس فرقہ کو پسند نہیں کرتے اور امیر کی ممانعت کی بھی یہی وجہ ہے اس مسجد کے کام کو فرقہ وارانہ نظر سے نہیں جانچنا چاہئے.اسلام کو مغربی قوموں کے سامنے اصلی معنوں میں پیش کرنے کے کام کے سامنے فرقہ بندی پیچ ہے اس رائے کو لے کر میں اس مجمع میں شامل ہوا ہوں ".FIA برطانوی اخبارات کی آراء کے بعد انگلستان کے بعض پادریوں کا رد عمل بھی بتانا ضروری ہے.جنہوں نے نہ صرف تقریب افتتاح پر شامل ہونے سے انکار کیا بلکہ مسجد کی مخالفت کی.چنانچہ آرچ بشپ آف کنٹربری (انگلستان کے سب سے بڑے پروٹسٹنٹ پادری) نے دعوتی رقعہ کے جواب میں لکھا." آپ آسانی سے یہ بات سمجھ لیں گے کہ میرے لئے مسلمانوں کی کسی تقریب میں شامل ہونا موزوں نہ ہو گا " اس طرح رومن کیتھولک کے سب سے بڑے پادری نے جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم کسی اور مذہب کی عبادت میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ایمان عبادت پر مقدم ہے.لاٹ پادری صاحب کی خدمت میں لکھا گیا کہ ہم نے آپ کو عبادت میں شریک کرنے کے لئے

Page 628

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 565 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال نہیں بلایا بلکہ تقریب افتتاح میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے.مگر انہوں نے آنے سے معذوری ظاہر کردی.مسیحیوں کے ایک فرقہ کے اخبار ” بیٹیسٹ ٹائمز“ نے لکھا." اس مسجد کی تعمیر ایک چیلنج سمجھنا چاہئے مغرب اب تک مشرق کو مذہباً اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا رہا ہے.مگر افسوس کہ اس نے اپنی طاقت کو اپنے گھر میں ہی کمزور کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مشرق بھی مغرب کی طرف دیکھنے لگا ہے.اب مسلمانوں کی اذان کا نعرہ اس سرزمین میں سنایا جانے والا ہے.اس کے بعد اس اخبار نے پادریوں پر اعتراض کیا جو افتتاح میں شریک ہوئے تھے اور متنبہ کیا کہ اگر عیسائیت کا کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ اسلام ہی ہے.ای طرح مسٹرلارنس نے کلکٹن میں ایک بحث کے دوران میں اس امر پر بہت حیرت کا اظہار کیا کہ انگلستان کی تمام مسیحی جماعتوں نے کیوں متحد ہو کر ایسا مقابلہ نہ کیا کہ اس سرزمین پر یہ مسجد تعمیری نہ ہو سکتی" F14 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی به رۃ العزیز نے نومبر انجمن انصار اللہ " کا قیام ۱۹۲۶ء میں احمدی بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے " انصار اللہ " کے نام سے ایک نئی انجمن قائم فرمائی.اس انجمن میں زیادہ تر طالب علم شامل تھے.مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء مع اساتذہ مختلف گروپوں کی صورت میں عصر کی نماز کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں اکٹھے ہوتے اور حضور ممبروں کو خود ہدایات دیتے تھے.اس انجمن کا پہلا اجلاس ۵/ نومبر ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا.جس میں حضور نے انصار اللہ " کے ہر ممبر کا فرض قرار دیا کہ اسے آیتہ الکرسی اور تین آخری سورتیں یاد ہونی چاہئیں اور اس کے پاس تین کتابیں ضرور ہونی چاہئیں.(۱) قرآن مجید (۲) کشتی نوح (۳) ریاض الصالحين - انجمن کے ممبروں کو حضور نے وقتا فوقتا جو نصائح فرما ئیں ان میں تجد ، خوش اخلاقی استقلال یکسوئی ، السلام علیکم کی ترویج پر آپ نے خاص طور پر زور دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر دونوں سکولوں کے طلباء نے اپنے اپنے نمائندوں کا بھی انتخاب کیا.چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے بچوں نے پہلے سال کے لئے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مرزا منصور احمد صاحب کو اپنا نمائندہ منتخب کیا - اس انجمن نے اپنے ممبروں میں بہت تھوڑے عرصہ میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی اور ان میں سے tr

Page 629

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 566 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال اکثر تہجد پڑھنے لگے - انجمن انصار اللہ کے طالب علموں میں ان کا ایک اسلامی سیونگ بینک " بھی قائم فرمایا.جس کی مثال پیش کرتے ہوئے حضور نے مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار " لاہور کو ملاقات میں بتایا کہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ایسے مسلم بینک کھولے جائیں جن میں سود کا شائبہ تک نہ ہو.انگریزی اخبار ”سن رائز " کا اجراء خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت بیرونی ممالک میں روز بروز بڑھ رہی تھی اور تربیتی اور تبلیغی ضروریات کا تقاضا تھا کہ مرکز سے ایک ایسا انگریزی اخبار جاری کیا جائے جو ایک طرف دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایات و خطبات اور مرکزی تحریکات سے آگاہ رکھے.اور دوسری طرف غیروں میں اسلام و احمدیت کی اشاعت کرے.ان اغراض و مقاصد کے پیش نظر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک پندرہ روزہ انگریزی اخبار جاری کرنے کی ہدایت فرمائی اور اس کا نام "سن رائز" رکھا 100 - • اخبار "سن رائز" مولوی محمد الدین صاحب بی.اے ( مبلغ امریکہ) کی زیر ادارت و سمبر ۱۹۲۶ء میں جاری ہوا - وسط ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم.اے اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے آپ کے دور میں اخبار کا علمی معیار بھی بلند ہوا اور اس کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوا.یکم ستمبر ۱۹۳۰ء سے اسے ہفتہ وار کر دیا گیا.مارچ ۱۹۳۲ء میں اخبار لاہور ( فلیمنگ روڈ) میں منتقل ہو کر مسٹر مجید ملک ایم.اے.ایل ایل بی کی ادارت میں نکانا شروع ہوا.مگر جلد ہی بند ہو گیا اور اس کا دوبارہ اجراء قاضی عبدالمجید صاحب بی.اے.ایل ایل بی کے ذریعہ ہوا اور آپ نے عرصہ تک بڑی محنت اور توجہ سے یہ کام انجام دیا.تقسیم ملک کے بعد یہ اخبار بعض واقفین کے زیر ادارت شائع ہو تا رہا.۱۹۵۰ء کے شروع میں مکرم نیم سیفی صاحب اس کے انچارج مقرر ہوئے.اور ماہ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں ان کے نائیجیریا تبلیغ اسلام کے لئے جانے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ " ریویو آف ریلیج " انگریزی کی موجودگی میں اس کی ضرورت نہیں لہذا اسے بند کر دیا جائے.سن رائز" نے قریباً ربع صدی تک نہ صرف جماعت احمدیہ کی تربیتی اور تبلیغی ضروریات پوری کی ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کی سیاسی تحریکات میں بھی نمایاں حصہ لیا ہے.احمدی خواتین کے لئے ۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو اخبار "مصباح" اخبار " مصباح" کا اجراء جاری ہوا.جس کے پہلے ایڈیٹر حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مقرر ہوئے اس کا ذکر "لجنہ اماءاللہ" کے حالات (۱۹۲۳ء) میں آچکا ہے.اس کے اعادہ کی

Page 630

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ضرورت نہیں.567 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال سوامی شردھانند صاحب کا قتل اور حضرت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲ اپریل ۱۸۹۳ء کو کشف دیکھا کہ ”میں ایک مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کا ظہور وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل صہیب شکل گویا اس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملا ئک شداد غلاظ میں سے ہے.اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکر ام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اس وقت سمجھ لیا کہ یہ شخص لیکھرام اور دوسرے شخص کی سزاد ہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ؟ اس کشف کی وضاحت میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب "حقیقتہ الوحی" میں تحریر فرمایا.اب تک مجھے معلوم نہیں کہ وہ اور شخص کون ہے اس فرشتہ خونی نے اس کا نام تو لیا مگر مجھے یاد نہ رہا.کاش اگر مجھے یاد ہو تا تو اسے میں متنبہ کرتا.تا اگر ہو سکتا تو میں اسے وعظ و نصیحت سے تو بہ کی طرف مائل کرتا لیکن قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی لیکھرام کا روپ یا یوں کہو کہ اس کا بروز ہے اور تو نہین اور گالیاں دینے میں اس کا مثیل ہے.واللہ اعلم " یہ عظیم الشان پیشگوئی ۲۳/ دسمبر ۱۹۲۶ء کو پوری ہوئی جب کہ شدھی تحریک کے علمبردار اور رام کے مثیل (منشی رام) سوامی شردھانند صاحب ایک مسلمان عبدالرشید خوشنویس کے ہاتھوں دہلی میں قتل ہو گئے.سوامی شردھانند کا لیکھرام ثانی ہو نا خود آریہ سماجی حلقوں نے تسلیم کیا.چنانچہ روزنامه تیج (۲۵/ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۲) نے لکھا.ہمیں وہ نظارہ نہیں بھولتا.جب پنڈت لیکھرام کے بلید ان کے سماچار سنتے ہی شریمان مهاتما نشی رام جی جالندھر سے لاہور آئے اور پنڈت لیکھرام کی شہادت کے متعلق سب کام اپنے ہاتھ میں لے کر آریہ بنا کو دھرم پر در ڑ (پختہ ) رہنے کا اپدیش دیا - " اسی اخبار نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۲۶ء کو شائع کیا کہ.سوامی جی لیکھرام ثانی تھے...سوامی شردھانند جی ایک افضل اور برگزیدہ ترین آریہ سماجی نیتا تھے.لاہور میں سورگیہ پنڈت لیکھرام جی آریہ مسافر کی شہادت کے پورے ہیں، سال، بعد دہلی میں......

Page 631

تاریخ احمدیت جلد ۴ 568 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال بزدل نمذہبی دیوانے سفاک مسلمانوں کے ہاتھوں سوامی جی کا اس طرح جام شہادت پینا ایک دلدوز روح فرسا حادثہ ہے ".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا تبصرہ سوامی شردھانند کے قتل پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے سوامی شردھانند کے واقعہ قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا.” یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہم ہے ایک تو شردھانند صاحب آریوں اور پولٹیکل جماعتوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے دوسرے وہ ایک ہی ہندو تھے جن کو مسجد میں منبر پر چڑھا کر جہاں خدا کا کلام پڑھا جاتا اور سنایا جاتا ہے مسلمانوں نے ان کی تقریر کرائی اور جس کو اس لئے مسجد میں منبر پر کھڑا کیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے ہندو مسلمانوں میں اتحاد ہو پانچ سال بعد اسی قوم کا فردا سے قتل کرتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس قتل کے نتیجہ میں وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا.......تیرے اس لحاظ سے یہ واقعہ اپنے اندر اہمیت رکھتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے.(آگے حضور نے اس کی تفصیل پر روشنی ڈالنے کے بعد فرمایا) گو یہ پیشگوئی کے مطابق ہوا لیکن یہ صحیح نہیں کہ جو بات پیشگوئی کے مطابق ہو وہ ضرو ر ا چھی ہوتی ہے.مثلا یہ پیشگوئی ہے کہ نبی کی مخالفت ہو گی.اس پر استہزاء کیا جائے گا لیکن باوجود اس کے اس کی مخالفت اور استہزاء اچھی بات نہیں.پھر یہ بھی پیشگوئی ہوتی ہے کہ فلاں شخص دین کی راہ میں مارا جائے گا اور ایک شخص کے ناحق مارے جانے کی خبر دی جاتی ہے.بہر حال اس فعل کے اندر بعض بھیانک باتیں جن کے باعث ہم اظہار نفرت کئے بغیر نہیں رہ سکتے جو قوم اس لئے مارتی ہے کہ اس کے مذہب پر لوگ حملہ کرتے ہیں وہ گویا ثابت کرتی ہے کہ اس کا مذہب تلوار کا محتاج ہے....لیکن اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں ہوئی ہے جو شخص اسلام کے لئے تلوار اٹھاتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.اس لئے ہم اس فعل کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے نہایت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس نے قوم اور ملک کے امن کو برباد کر دیا ہے اور دین اسلام کو بد نام کر دیا ہے ".پنڈت شردھانند کے قتل سے اسلام جیسے پر امن اور صلح و آشتی کے علمبردار مذہب کو کتنا بد نام کیا گیا اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہ بتانا کافی ہے کہ مسٹر گاندھی نے جو "ہندو مسلم اتحاد" کے سب سے زبر دست حامی لیڈر سمجھے جاتے تھے کہا." اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے ".۱۲۳۴ حق الیقین کی تصنیف و اشاعت اس سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے " حق الیقین " کے نام سے ایک اہم تصنیف شائع فرمائی جو ہفوات

Page 632

تاریخ احمد بیت جلد ۴ 569 خلافت عثمانیہ کا تیرھواں سال المسلمین " کتاب کے جواب میں تھی.اس کتاب میں حضور نے مخالفین اسلام کے احادیث پر اعتراضات کے جواب اور احادیث کے فوائد میں نہایت مفید معلومات جمع کر دی ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح ہندو مسلم اتحاد سے متعلق وائسرائے ہند کے نام مکتوب الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے دسمبر ۱۹۲۶ ء میں وائسرائے ہند لارڈارون کے نام ایک طویل مکتوب لکھا.جس میں ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندو مسلم کشیدگی اور منافرت کے ازالہ کے بارے میں نہایت اہم تجاویز رکھیں یہ خط " مسلم آؤٹ لک ( دسمبر ۱۹۲۶ء) کی متعدد قسطوں میں چھپنے کے علاوہ رسالہ کی صورت میں بھی شائع ہو گیا.جسے لنڈن کے سیاسی حلقوں اور ہندوستان سے دلچسپی رکھنے والے مدبروں نے بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھا اور ہندو مسلم اتحاد کی گتھی سلجھانے کے لئے اسے ایک اہم اور مفید دستاویز قرار دیا.اس سال ایک پرجوش احمدی ملک عبدالرحمن صاحب خادم میدان مناظرہ میں طالب علم نے میدان مناظرہ میں قدم رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان کا شہسوار بن گیا اور اپنی علمی خدمات کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے خالد کا لقب پایا.ہماری مراد ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی سے ہے جنہوں نے ۱۹۲۶ء میں (جبکہ آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی اور آپ میٹرک میں تعلیم پاتے تھے) سیالکوٹ کے ایک غیر احمدی عالم سے پہلا مناظرہ کیا.ملک عبد الرحمن صاحب خادم اپنی وفات تک (جو ۳۱ دسمبر۱۹۵۷ء کو ہمقام لاہور ہوئی) لسانی و قلمی جہاد میں مصروف رہے.اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں جیسا کہ آئندہ اپنے اپنے مقام پر ذکر آئے گا.مگر یہ حقیقت ہے کہ ابتدا میں آپ کی شہرت مناظروں سے ہی ہوئی.حالانکہ آپ نے کسی دینی درسگاہ میں کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ان کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا کہ." خادم صاحب مرحوم گجرات صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اور کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے.جس میں علمی تجر اور تبلیغی ذوق و شوق کی کوئی خاص روایات پائی جاتی ہیں.بلکہ خود ملک صاحب مرحوم نے بھی کسی دینی درسگاہ میں تعلیم نہیں پائی اور نہ کسی عالم دین کی باقاعدہ شاگردی اختیار کر کے دین کا علم سیکھا ان کی درسی اور عرفی تحصیل علم صرف اس قدر تھی کہ انگریزی کالجوں کی فضا میں بی.اے پاس کر کے وکالت کا امتحان دیا اور پھر بظا ہر ساری عمر عدالتوں میں گشت لگا کر اپنی

Page 633

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 570 خلافت تانیہ کا تیرھواں سال روزی کماتے رہے مگر باوجود اس کے خادم صاحب مرحوم نے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ کمال پیدا کیا کہ جہاں تک مذہبی مباحثہ اور اس میدان کے علمی حوالہ جات کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے کسی موجودہ عالم سے کم نہیں تھے بلکہ مناظرات میں جوابوں کی فراوانی اور برجستگی میں انہیں گویا ایک جیتی جاگتی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے.ہر اعتراض کا جواب ان کی زبان پر تیار کھڑا ہوتا تھا.ہر ضروری حوالہ ان کے منہ سے اس طرح نکلتا تھا جس طرح ٹکسال کی مشین سے سکے بن بن کر نکلتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ سب کچھ کسی درسی تعلیم کا نتیجہ نہیں تھا.بلکہ محض ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کا نتیجہ تھا.جس نے ان کو مذہبی مناظرین کی صف اول میں لا کھڑا کیا تھا - جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے اس سال کئی بزرگ انتقال فرما گئے دو بزرگ ہستیوں کا انتقال جن میں سے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۶ء کے موقعہ پر حضرت ڈاکٹر صاحب اور حضرت چودھری صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہو گئے جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں.ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے زمانہ میں قبول کیا جبکہ چاروں طرف مخالفت زوروں پر تھی اور پھر طالب علمی کے زمانہ میں قبول کیا اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا....جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعوئی کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں".دوسرے دوست چودھری نصر اللہ خان صاحب تھے جو گو اتنے پرانے نہ تھے لیکن سلسلہ کی خدمات میں بہت آگے نکل گئے تھے میں نے جب ایک دفعہ اعلان کیا کہ سلسلہ کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے اوقات کو وقف کریں تو سب سے پہلے لبیک کہنے والے چودھری صاحب ہی تھے جو ادب اور احترام ان میں تھاوہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے کامیاب وکیل تھے.صاحب جائیداد تھے زمین کافی تھی.اس لئے یہاں آزادی سے گزارہ کرتے تھے مگر ان کی

Page 634

571 خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال فرمانبرداری کو دیکھا ہے کہ گزارہ لینے والوں میں بھی وہ فرمانبرداری نہیں نظر آتی...ایک پرانا خادم سلسلہ ہم سے اٹھ گیا.آئندہ نسلوں کی یاد کے لئے اور انہیں بتانے کے لئے کہ ہم میں ایسے مخلص موجود ہیں.یہ چند کلمات کہے ہیں تا دو سروں کو بھی تحریک ہو اور کام کر کے دکھا ئیں.دینی خدمات میں tt ان کی طرح حصہ لیں ".-- ۱۹۲۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات ا حضرت خلیفتہ المسح الثانی کے حرم ثالث (حضرت سیده مریم بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب) کے بطن سے صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ پیدا ہو ئیں.۲ جنوری ۱۹۲۶ء کے آغاز میں قادیان کے تار گھر کا افتتاح ہوا.تار برقی کے آلات نصب ہونے کے بعد سب سے پہلا تار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا.جو ہندوستان کی بعض مشہور جماعتوں کے نام تھا.تار کے الفاظ یہ تھے." خدا تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مرکز قادیان میں تار برقی آجانے کے سبب قادیان کا تعلق بیرونی دنیا کے ساتھ قائم ہو گیا ہے.تار کا یہاں آنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان پیشگوئیوں کا پورا ہوتا ہے.جو آپ نے قادیان کی ترقی اور معموری کے لئے فرما ئیں.میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا تا ہوا تمام ان شخصوں کو جو احمدی کہلاتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلانے اور اس مقصد وحید کو بہت جلدی پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں اور ہمتوں کو صرف کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ جس کے لئے خد اتعالیٰ نے حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا ".خلیفتہ اصبح.سیالکوٹ میں احمدیوں کی جامع مسجد کبوتراں والی مسجد کے نام سے مشہور ہے غیر احمدی اصحاب نے اس سے احمدیوں کو بے دخل کرنا چاہا.آخر عدالت میں چارہ جوئی کی گئی.عدالت نے ۲۲ - فروری ۱۹۲۶ء کو فیصلہ سنایا جس میں مسجد پر احمدیوں کا قبضہ تسلیم کیا گیا.۱۸۴ جون ۱۹۲۶ء کو سونگھڑہ (کٹک) کی مسجد کا افتتاح ہوا.جو بنگال، بہار اور اڑیسہ میں پہلی احمدیہ مسجد تھی.۵ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کو سیاسی رنگ میں بھی ایک عظمت اور قوت حاصل ہوئی وہ یہ کہ پنجاب کو نسل کے انتخابات کے سلسلہ میں بعض بڑے بڑے مسلمان لیڈر خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدا کے فضل سے ایک مسلمان ممبر کے سوا باقی سب مسلمان جن کی تعدادہ تھی اور جن کی جماعت احمدیہ نے تائید کی تھی انتخاب میں

Page 635

افت عثمانیہ کا تیرھواں سال 572 تاریخ احمدیت جلد ۴ جیت گئے.کامیاب ہونے والے مسلمانوں میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پیر سٹرایٹ لاء لاہور - پیراکبر علی صاحب وکیل فیروز پورا در نواب سر ذوالفقار خان صاحب (برادر حضرت نواب محمد علی خان صاحب بھی تھے.۱۹۲۶ء میں پہلی بار سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے گئے.جن میں سالانہ جلسہ کا اعلان اور پروگرام درج تھا.جلسہ ۱۹۲۶ء کو یہ بھی خصوصیت حاصل ہوئی کہ مہمانوں کو بٹالہ سے قادیان تک پہنچانے کے لئے پہلی بار موٹروں کا انتظام کیا گیا.اس سال حضرت مولوی زین الدین صاحب آف بمبئی.حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب بنگالی، حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوئی.حضرت حاجی احمد اللہ صاحب اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب نقل نویس امرتسری انتقال فرما گئے.مرکز کی طرف سے شائع ہونے والے رسالوں اور اخباروں کا سلسلہ خدا کے فضل سے وسیع ہو رہا تھا اس لئے ایک نئے صیغہ "طبع و اشاعت " کا قیام ہوا.جس کے سب سے پہلے مہتمم طبع و اشاعت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مقرر کئے گئے.مشهور مباحثے: مناظرہ گوجرانوالہ ) ( مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی اور ثناء اللہ صاحب کے درمیان) مناظرہ ماہل پور (مولوی غلام احمد صاحب بد و طہوی اور مولوی محمد شیث صاحب جودت رام پوری کے درمیان مناظرہ پٹی ضلع لاہور (مولانا ابو العطاء صاحب اور اہلحدیث عالم مولوی عبدالرحیم صاحب لکھو والے) مناظرہ لائل پور (قاضی محمد نذیر صاحب فاضل اور راج نرائن صاحب گھسٹ شاستری کے درمیان (1) مناظرہ سٹھیالی ضلع گورداسپور (مولوی قمر الدین صاحب فاضل اور بابو حبیب اللہ صاحب امرتسری کلرک محکمہ انہار) مناظرہ بٹالہ R ( حضرت میر قاسم علی صاحب و مولانا ابو العطاء صاحب نے آریہ دھرم بھکشو صاحب سے کیا) مناظرہ قصور I ( حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور پادری عبد الحق صاحب کے درمیان مناظرہ کمال ڈیرہ علاقہ سندھ (حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور چار حنفی علماء صاحبان کے درمیان) علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات: " الواح الہدی " " ترجمہ ریاض الصالحین " ( از حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب (اکمل اسوه حسنه " از حضرت میر محمد اسحق صاحب " مجاہد بخارا کی آپ بیتی حصہ اول از مولوی ظهور حسین صاحب) دیدوں کا سربستہ راز" ( از مهاشه فضل حسین صاحب) -2 -9

Page 636

تاریخ احمدیت.جلد ۴ چھٹا باب (فصل پنجمی) 573 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال خلافت ثانیہ کا چودھواں سال جنوری ۷ ۱۹۲ء سے دسمبر۷ ۱۹۲ء تک ممطابق جمادی الآخر ۱۳۴۵ھ تا رجب ۱۳۴۶ھ) ۱۹۲۷ء یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ اس سال حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے آنحضرت اللہ کی ناموس و عزت کے تحفظ اور مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے ایک زبر دست تحریک شروع کی جس نے دوسرے مسلمانوں میں بھی نئی زندگی نیا جوش اور نیا ولولہ ان میں پیدا کر دیا اور وہ بھی متحد ہو کر جماعت احمدیہ کے دوش بدوش اسلام کی حفاظت کے لئے تیار ہوئے.ایک جھنڈے تلے جمع ہونے لگے.اس لحاظ سے یہ زمانہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانان ہند کی مذہبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل کہلانے کا مستحق ہے.جماعت احمدیہ کو تبلیغی جنگ کیلئے تیار ہونے کا ارشاد بوت شردھانند صاحب کے قتل نے ہندو قوم میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زیر دست آگ لگادی.اور پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے تمام ہندوؤں نے عزم کر لیا کہ وہ پنڈت شردھانند کا کام بہر کیف جاری رکھیں گے اور اپنی جان اور اپنا مال تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.اس غرض کے لئے ایک " شردھانند میموریل فنڈ قائم کیا گیا اور ہندو شدھی سبھا نے اپنی سرگرمیاں اور زیادہ تیز کر دیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے جماعت کے سامنے یہ تشویشناک صورت رکھتے ہوئے بتایا کہ اب اسلام پر جو حملہ ہو گا.اس کا دفاع ہمیں کرنا ہو گا.چنانچہ حضور نے فرمایا."ہندوستان میں سپین کی طرح کا مشکل وقت اسلام کے لئے آیا ہوا ہے......یہ جو ہندوؤں کی طرف سے چیلنج دیا گیا ہے اگر احمدی جماعت اس کے جواب کے لئے میدان میں نکل کھڑی ہو تو یقیناً اسلام کی فتح ہے پس میں احمدی دوستوں سے کہتا ہوں.اگر وہ اس جنگ کے لئے تیار ہوں تو دو ایک جان ہو کر مضبوط عزم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور ایسی بلند آواز اٹھائیں کہ ہر ہندو

Page 637

تاریخ احمدیت جلد ۴ 574 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال کے کان میں وہ پہنچے اور کوئی شخص اس آواز کو دبا نہ سکے ".مسلمانوں کو اشتراک عمل کی دعوت اپنی جماعت کو مخاطب کرنے کے بعد حضور نے خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو آنے والے عظیم خطرہ سے ہوشیار اور بیدار کرتے ہوئے اشتراک عمل کی دعوت دی اور فرمایا.وہ آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعوئی رکھتے ہیں.اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے ہونٹوں سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی محبت ان کے اندر ہے اور پھر ان میں سے بعض تو اسلام کا درد بھی رکھتے ہیں.پس جب یہ بات ان میں پائی جاتی ہے تو میں ان الفاظ کاہی واسطہ دے کر انہیں کہتا ہوں کہ وہ جو آنحضرت ا کی محبت کے الفاظ بولتے ہیں.ان کا لحاظ کر کے ہی وہ اس نازک وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یقینا وہی براہین اور دلائل کارگر ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر کی لڑائی چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے".اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانان ہند سے تین باتوں کی خواہش کی.دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مددگار بنیں.۲ مسلمان اپنے ماحول کے حالات سے باخبر رہیں اور جس جگہ وہ ہندوؤں کے حملہ کا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمیں اطلاع دیں.ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے.جہاں جہاں آریوں اور عیسائیوں کا زور ہو.وہاں مسلمان تبلیغی جلسے کر کے ہمارے واعظ بلوائیں.اس اعلان پر اسلام کا درد رکھنے والا طبقہ احمدی واعظوں کو اپنے جلسوں میں بھی بلانے لگا اور احمدی مسلمان اور غیر احمدی مسلمان دونوں ایک پلیٹ فارم پر اسلام کا دفاع کرنے لگے چنانچہ اس زمانہ کے اخبارات میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو جہاں بھی اور جس وقت بھی آریوں یا عیسائیوں کے خلاف جلسہ کرنے یا مناظرے کرنے کی ضرورت پیش آئی احمدی مبلغ دعوت ملتے ہی وہاں بلا تامل پہنچے اور انہوں نے مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنی کتاب "مسلمان مہارانا" میں اقرار کیا کہ.اگرچہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے.لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت اسلام کے حریفوں کے مقابلہ میں بہت مؤثر اور پر زور کام کر رہی ہے.

Page 638

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 575 خلافت عثمانیہ کا چودھواں سال سید کشفی شاہ نظامی صاحب سیکرٹری پراونشل تنظیم کمیٹی برمانے (حضور کی خدمت میں) لکھا.اس وقت جبکہ اسلام پر ہر طور سے نرغہ ہے اور ہمارے مخالفین نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اسلام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے.مسلمانوں کو ایسی حالت میں زیر کر لینا آسان امر ہے اور گورنمنٹ کو شاید یہ خیال تھا کہ ہر حالت میں جماعت احمدیہ گورنمنٹ کے فعل پر صاد کرے گی.یہ دیکھ کر مجھے کس قدر مسرت حاصل ہوئی ہے کہ آپ نہایت غیرت کے ساتھ اس حملہ کے روکنے میں آگے بڑھے ہیں اور میں مسلمانان برما کی طرف سے بغیر مبارکبادی دیئے ہوئے نہ رہوں گا کہ یقینا آپ پر جوش مقابلہ کے لئے آمادہ ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے مرید بھی آپ کے صحیح جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے آپ کے اس کار خیر میں اسی اخلاص کے ساتھ کار بند ہوں گے، اللهم آمین - والسلام - ۲۵/ فروری ۱۹۲۷ء کو جماعت احمدیہ کا ایک وفد وائسرائے ہند کو ملا.جداگانه نیابت کی تائید ۲۵ مرد یہ وفد ۲۶ اصحاب پر مشتمل تھا.اور اس میں حضرت صاحبزادہ شریف احمد صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت ذو الفقار علی خان صاحب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب (سکندر آباد دکن) پیراکبر علی صاحب ایڈووکیٹ فیروز پور ، مرزا ناصر علی صاحب ایڈووکیٹ فیروز پور مولوی عبد الماجد صاحب بھا گلپوری اور سید بشارت احمد صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن وغیرہ حضرات شامل تھے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب بیر سٹرایٹ لاء نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.جس میں دوسرے اہم امور کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں وائسرائے ہند کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا." یہ ضروری ہے کہ جب تک کہ قلیل التعداد جماعتیں خود اپنے اس حق کو نہ چھوڑیں.انتخابات کو نسلها علیحدہ نیابت اور جداگانہ منتخب کندگان کے کے گا طریق پر جاری رہے.اس سال حضور نے مسلمانان ہند کی راہ نمائی اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفرلاہور میں اسلامی مصالح کی غرض سے دو اہم سفر کے (1) سفر لاہور (۲۶/ فروری ۱۹۲۷ء ۳ تا ۵ / مارچ ۱۹۲۷ء ) (۲) سفر شمله (۱۳/ اگست ۶۱۹۲۷ A.تا ۱۲ اکتو بر ۱۹۲۷ء ) سفر لاہور میں لاہور کے متعدد مشہور مسلمان اخبار نویس اور لیڈر ملاقات کے لئے آئے اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے سلسلہ میں گفتگو فرماتے رہے.آنے والوں میں مولوی سید ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار تہذیب نسواں - مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ” پیسہ اخبار " سید عبد القادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری وکیل - بشیر احمد

Page 639

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 576 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال صاحب پروفیسر فارمین کر چن کالج خاص طور پر قابل ذکر ہیں.سر شہاب الدین صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری نے حضور کے اعزاز میں دعوت بھی دی.۲۸؍ فروری کے ۱۹۲ء کو حضور نے لیجسلیٹو کونسل پنجاب کے اجلاس میں اور یکم مارچ ۱۹۲۷ء کو اسلامی کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت فرمائی - ۴/ مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ ملک غلام محمد صاحب کی فلور لمز دیکھنے کے لئے قصور تشریف لے گئے جہاں آپ کی ایک تقریر بھی ہوئی.”ہندو مسلم فسادات، ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل " لاہور میں حضور کے دو لیکچر بھی ہوئے.پہلا لیکچر خان بہادر سر محمد شفیع کے.سی.ایس آئی کی صدارت میں ۲ مارچ ۱۹۲۷ء کو بریڈ لاء ہال میں ہوا.جس کا عنوان تھا.”ہندو مسلم فسادات ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل.اس لیکچر نے پورے ہندوستان کو ہلا دیا اس تقریر کا چرچاہندو اور مسلم پریس میں خوب ہوا.مثلاً اخبار " تنظیم" نے لکھا.امیر جماعت احمد یہ قادیان نے بریڈ لاء ہال لاہور میں ہندو مسلم فسادات کے اسباب و علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طرز عمل پر ایک اہم تقریر کی ہے...آپ نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے مذہبی اور سیاسی رواداری اور احترام باہمی کی اپیل کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد ہو جانا چاہئے.ورنہ ان کے لئے اپنا وجود قائم رکھنا بھی دشوار ہو جائے گا.آپ کی تجویز ہے کہ مسلمان سیاسی معاملات میں سیاسی اتحاد کو پیش نظر رکھیں اور ان تمام فرقوں کو مسلمان سمجھ لیں جو اسلام کے دعوی دار ہیں اور جنہیں غیر مسلم مسلمان کہتے ہیں.کیونکہ غیر مسلم کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تمام فرقوں کے حقوق کا لحاظ رکھیں اور اپنے بچوں کے لئے اس قسم کی تاریخیں لکھیں جن میں سلاطین اسلام کے متعلق صحیح واقعات پیش کئے جائیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان کا ماضی کس قدر شاندار تھا ".لاہور کے ہندو اخبارات میں سے "ملاپ " پر تاپ - "سوراجیہ " اور " بندے ماتر." نے بھی (اپنی ۴ / مارچ بے ۱۹۲ ء کی اشاعتوں میں) اس تقریر کا خلاصہ نمایاں طور پر شائع کیا اور جہاں مسلمانوں نے اس تقریر کو سراہا وہاں ہندو اخبار " ملاپ " نے اس پر تنقید کی.چنانچہ ملاپ (۴) / مارچ ۱۹۲۷ء) نے خاص طور پر " میرزا محمود احمد صاحب کا تازہ لیکچر“ کے عنوان سے لکھا.۲ مارچ ۱۹۲۷ء کو میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے بریڈ لاء ہال لاہور میں ہندو مسلم فسادات کا علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طریق عمل " کے موضوع پر جن خیالات کا وو

Page 640

تاریخ 577 خلافت عثمانیہ کا چودھواں سال اظہار کیا وہ اسی پرچہ میں آپ کسی دوسری جگہ پڑھیں گے.یہ سچ ہے کہ میرزا صاحب کا طرز تقریر معقول اور متین تھا.لیکن آپ نے جس طریقہ سے اپنے مضمون کو نبھایا وہ مسلمانوں کے ایک سیاسی مبلغ کی حیثیت سے تھا نہ کہ ایک مذہبی امام کی حیثیت سے گو اصولی طور پر تو مرزا صاحب نے فرقہ دارانہ نیابت کے مسئلہ کو لیاقت پر قربان کرنا ہی مناسب سمجھا.لیکن جب آپ اپنی تقریر کے اندر تفاصیل میں داخل ہوئے تو آپ نے اس اصول کی بناء پر حمایت کی کہ پیس افتادہ اور کمزو را قوام کی ترقی کے لئے یہ امر ضروری ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ پس افتادہ اقوام کے لئے تربیت اور درسی تعلیم کی سہولتیں ہی مفید ہو سکتی ہیں لیکن سیاست میں پیس افتادہ اقوام کے ہاتھوں عنان اقتدار دینا گاڑی کے پیچھے گھوڑا لگانے کے مترادف ہے.ہم پس افتادہ قوم کے بچوں کے لئے تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانے کو تو کسی حاد احد تک حق بجانب قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پسند کر سکتے کہ سروسز پیچیپلچروں اور لوکل باڈیوں میں نااہل اور نیم خواندہ آدمیوں کی قسمتوں کو خراب ہو تا دیکھیں...اس کے سوائے جس خطر ناک پہلو پر میرزا صاحب نے مسلمانوں کو نرالی انکیحت کی وہ ان ہندو تاجروں اور دکانداروں کا بائیکاٹ کرنا تھا جو کہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں.کاش میرزا صاحب اتنا تو سوچتے کہ اس طرح وہ ہندو تجاروں کا بائیکاٹ کر کے افتراق کی خلیج کو محض وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہ کہ فساد کو روکنے کی کوئی سبیل بیان فرما رہے ہیں.وہ جمہوریہ اسلام کے اندر ایک ایسا نفرت کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں.جس سے ہندو قدر تا ناراض ہوں اور یہ سمجھنے لگ پڑیں کہ آنریبل میاں فضل حسین نے سیاسی میدان میں ہندوؤں کو جو ضعف پہنچایا ہے وہی اب میرزا صاحب تجارتی پہلو میں ہندوؤں کو پہچانا چاہتے ہیں".حضور کا دوسرا لیکچر ۱۳ مارچ ۱۹۲۷ء کو ”ذہب اور ”مذہب اور سائنس" پر لیکچر سائنس" کے موضوع پر جیبیہ ہال میں شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ہوا.حضور نے ڈھائی گھنٹہ تک تقریر فرمائی اور قرآن و حدیث کو سائنس اور علوم جدیدہ کی بعض نئی تحقیقاتوں کے بالمقابل رکھ کر کئی مثالوں سے واضح فرمایا کہ سائنس نے جو باتیں آج دریافت کی ہیں ان کا انکشاف تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید اور آنحضرت ا فرما چکے ہیں.یہ علمی لیکچر نہایت کامیاب لیکچر تھا.چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا :- ایسی پر از معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ نہایت عمدہ ہے...میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر ۷۴

Page 641

تاریخ احمدیت جلد ۴ 578 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال تک جاری نہیں رکھ سکتا.تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے.وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں ".جماعت احمدیہ سے تبلیغ اسلام سے متعلق عہد کی تجدید مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کے دوران جماعت کے سامنے کئی اہم امور زیر بحث آئے جن میں ایک بہت بڑا مسئلہ اچھوت اقوام میں تبلیغ کا تھا.جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے جماعت کے نمائندوں سے تبلیغ اسلام کی مہم جاری رکھنے کا عہد لیا کہ اگر ہمارے جسموں کا ذرہ ذرہ بھی اشاعت اسلام میں لگ جائے گا تو ہم تبلیغ اسلام بند نہ کریں گے - نیز پر شوکت الفاظ میں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض ! آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے ان میں سونے کا کام کریں گے.یہ کام ان کے لئے رہنے دو - آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں.پس اگر ہمیں ان عمارتوں کو فروخت کرنا پڑے ، ان زمینوں کو بیچ ڈالنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں.یہ سارا نظام اسی وقت تک ہے جب تک ہم اصل فرض اور مقصد کو پورا کر سکتے ہیں.جب ہم سمجھیں گے کہ اسلام کی عزت اس کی محتاج ہے تو ہمیں ان کے بیچ ڈالنے میں ایک منٹ کے لئے بھی دریغ نہ ہو گا.مگر کوئی غیرت مند آدمی پسند نہ کرے گا کہ اس کا مکان تو باقی رہے اور قوم کی عمارتیں بک جائیں.اس کی زمین تو باقی رہے لیکن اسلام کی زمین فروخت ہو جائے......اگر صرف آپ لوگ جنہوں نے آج اقرار کیا ہے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جا ئیں تو میں سمجھوں گا اسلام کی فتح کا زمانہ آگیا اور میں دشمن پر فتح پا گیا ہے.فسادات لاہور اور جماعت احمدیہ کی مئی ۱۹۲۷ء کے پہلے ہفتہ کا آغاز فسادات لاہور طرف سے مظلوم مسلمانوں کی امداد سے ہوا جس میں لاہور کے مظلوم اور بے کس مسلمانوں کا خون دو تین دن تک نهایت بے دردی سے بہایا جاتا رہا.قادیان میں اس دردناک حادثہ کی اطلاع پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو سخت قلق و کرب ہوا اور آپ نے ذوالفقار علی خان صاحب (ناظر اعلیٰ) اور مفتی محمد صادق صاحب (ناظر امور عامہ) کو فورا قیام امن ، خدمت خلق اور امداد مظلومین کی غرض سے اور مسلمانوں کی قانونی امداد کے لئے مولوی فضل الدین صاحب وکیل کو لاہور روانہ فرمایا.اس کے بعد حضور کی ہدایات لے کر بھائی عبدالرحمن

Page 642

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 579 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال صاحب قادیانی بھی لاہور تشریف لے آئے اور مسجد احمد یہ لاہور میں انفرمیشن بیورو (شعبہ اطلاعات) قائم کر دیا گیا.شعبہ اطلاعات کے قیام کے بعد حضرت ذو الفقار علی خان صاحب اور حضرت مفتی صاحب نے سے پہلے مقتولین اور مجروحین اور ان کے پسماندگان سے متعلق ضروری اور مفصل معلومات حاصل کرنے کے لئے ایک مفصل اشتہار دیا.جس پر صبح 4 بجے سے لے کر و بجے شام تک لاہور کے مختلف حصوں سے بکثرت اطلاعات آنا شروع ہو ئیں اور جہاں جہاں بھی فوری امداد کی ضرورت محسوس ہوئی ان بزرگوں نے امداد پہنچائی اور خود کو توائی میں جاکر زیر حراست مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی.مرنے والوں کے لواحقین اور متعلقین کی ڈھارس بندھائی اور مناسب ضروریات کا FA بندو بست کیا اور لاہور کے احمد کی ڈاکٹروں کو ہسپتال میں جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے بھیجوایا چنانچہ لاہور کے ہفت روزہ " ترجمان نے ۶ / جون ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا.مرزائی مسلمانوں نے بڑے وسیع پیمانے پر لاہور کے مصیبت زدہ مسلمانوں کی ہر صورت میں یعنی قانونی اور نقدی کی امداد بہم پہنچانا شروع کر دی ہے ".ذو الفقار علی خاں صاحب ( ناظر اعلی)، ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب (ناظر امور خارجه)، موادی فضل الدین صاحب وکیل اور بھائی عبدالر حمن صاحب قادیانی مہینوں تک مسلمانان لاہور کی خدمت کرتے رہے.TAP.PAP

Page 643

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ چھٹاباب (فصل ششم) 580 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے لاہور کے مسلمانوں کا کشت و خون محض ایک مقامی فرقہ وارانہ کشمکش نہیں تھی بلکہ اس کے وسیع پیمانہ پر جدوجہد کا آغاز TAC مسلمانوں کو ختم کرنے کی زبر دست PAO روح کام کر رہی تھی.اس لئے حضور نے صرف مظلومین لاہور کو امداد دینے کے علاوہ مسلمانان ہند کی اقتصادی، معاشی، سیاسی اور مذہبی ترقی کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا.اس سلسلہ میں حضور نے سب سے پہلے قادیان کے ناظروں ، مبلغوں ایڈیٹروں ، مصنفوں ، طالب علموں اور استادوں کو دفتر ڈاک میں بلایا اور ملکی حالات پر مفصل تقریر فرمائی اور انہیں اپنی تحریک سے متعلق نہایت اہم ہدایات دیں.جماعت احمدیہ کو اپنی اہم تحریک سے روشناس کرانے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو ان خطرناک حالات کے مقابلہ میں متحد کرنے کے لئے پے در پے مضامین، پوسٹر اور اشتہارات شائع فرمائے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کے قلم سے پہلا مضمون " امام جماعت احمدیہ کا فسادات لاہو ر پر تبصرہ " کے عنوان سے شائع ہوا.جس میں آپ نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ فسادات لاہور سے سبق لیں اور اشاعت اسلام کی طرف توجہ دیں.دوسری اہم بات جس کی طرف آپ نے اس مضمون میں مسلمانوں کو توجہ دلائی یہ تھی کہ :." مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھا ئیں اور اس شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز نہ کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندوؤں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں.ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذراسی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.خصوصاً جب کہ ان کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے کیونکہ ہندوؤں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعدادی رہے لیکن مسلمانوں سے مل کر دہ ایک زبر دست پارٹی بنا سکتے ہیں.جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید ہو سکتی ہے - اس مضمون کے ساتھ حضور نے ایک مفصل ٹریکٹ بھی شائع فرمایا.جس کا عنوان تھا." آپ PAY

Page 644

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 581 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟؟ -f اس ٹریکٹ میں حضور نے اسلامی اتحاد کی تحریک کے اکتیس اہم نکات مسلمانوں کے سامنے رکھے جن میں انجمن ترقی اسلام سے تعاون کی اپیل فرمائی.یہ نکات حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں.آپ آج سے اقرار کر لیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہو گا.آپ جائز طور پر مسلمانوں کی بے کاری کو دور کرنے میں مدد دیں گے".٣ - -4 -1• -It " " آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہے، جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں"." آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بنے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے"." آپ کو ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے.جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بیکار ہیں تو ایسے نوجوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں".آپ آج سے ارادہ کرلیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لئے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے"."اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہو گی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں".آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذکورہ کو تفصیلی علم دیں"."اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہے جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہیں."اگر مسلمانوں کی کسی ضرورت کے لئے کسی ڈیپوٹیشن کی ضرورت ہو تو آپ اس میں شامل ہونے کے لئے بشر طیکہ آپ کے حالات اجازت دیں تیار رہیں ".اگر آپ پروفیسر ہیں یا تعلیم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں تو ایسے تعلیمی شعبوں سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہا کریں.جن میں مسلمان کم ہیں".اندھا دھند پرانی لکیر پر چل کر ایک ہی لائن پر اپنے بچوں کو نہ چلا ئیں.بلکہ اپنے بچہ کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے پہلے اپنے احباب سے مشورہ کر لیں کہ کسی تعلیم سے نہ صرف بچہ ترقی کر سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے".

Page 645

٠١٢ -1 ه - جلد 582 خلافت خود بھی سادہ زندگی کو اختیار کریں اور اپنے بچوں کو بھی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک کریں".اگر آپ کو خدا تعالیٰ نے عزت دی ہے تو غرباء سے اور اگر آپ شہری ہیں تو قصباتیوں سے تعلق بڑھائیں".تعاون باہمی کی انجمنیں اپنے علاقوں میں قائم کریں"." آپ آج سے عہد کرلیں کہ کسی ہندو کی پکی ہوئی یا اس کے ہاتھ کی چھوٹی ہوئی چیز کا استعمال نہیں کرنا.جب تک کہ ہندو اپنی روش کو بدل کر مسلمانوں سے خریدنا اور ان کے ہاتھوں کا کھانا نہ شروع کر دیں".فساد سے بچنے اور مستقل ارادہ سے کام کرنے کی طرف آپ اپنے گردو پیش کے لوگوں کو تحریک کرتے رہیں"." آپ کے محلہ اور آپ کے گاؤں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ہندو تہذیب نے ہزاروں سالوں سے غلام بنار کھا ہے......ان کی ہدایت کی طرف توجہ کریں".آپ مرسلہ اشتہار کو مناسب موقعوں پر اپنے شہر یا محلہ میں لگا دیں گے تو یہ بھی ایک دینی خدمت ہے".19 اس لٹریچر کو منگوا کر جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق شائع کرایا جائے گا اپنے علاقہ میں فروخت کریں".اگر آپ کے قصبہ اور شہر میں کوئی اسلامی انجمن ایسی نہیں جو تبلیغی کام میں حصہ لے رہی ہو تو آپ ایسی انجمن کو قائم کر کے دینی خدمت کر سکتے ہیں ".۲۱ ہندو لوگ ہر علاقہ میں خفیہ خفیہ شدھی کی تحریک جاری کر رہے ہیں.آپ ایک بہت بڑی خدمت اسلامی کریں گے اگر آپ ان کی حرکات کو تاڑتے رہیں.۲۲ بیواؤں مظلوم عورتوں اور قیموں کو آریہ اور مسیحی خصوصاً بہکا رہے ہیں.آپ ایک بڑی خدمت اسلام کریں گے اگر ان کے حالات پر نگاہ رکھیں اور ان کی مدد اور ہمدردی کریں ".۲۳- اگر آپ کو شوق تبلیغ ہے اور آپ عربی کی تعلیم رکھتے ہیں یا کم سے کم انٹرفیس تک تعلیم یافتہ ہیں تو ہم بڑی خوشی سے آپ کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں ".۲۴- اگر آپ کے ہاں پہلے سے انجمن قائم ہے تو آپ تبلیغی لیکچروں یا مباحثوں کا انتظام کر کے خدمت اسلام کر سکتے ہیں".

Page 646

583 " آپ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لئے ایسے لیکچروں کا انتظام کر کے بھی جن میں اسلامی تعلیم کی خوبیاں بیان کی جائیں اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں"." آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے اموال میں سے ایک حصہ الگ کر کے دین اسلام کی مدد کر سکتے ہیں".۲۷ " آپ مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر کے کہ آپس میں گو ہمارے کس قدر اختلاف ہوں.لیکن دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہمیں ایک ہو جانا چاہئے.بہت بڑی خدمت اسلام کر سکتے ہیں".۲۸- " آپ مسلمان زمینداروں نا یہ خیال پیدا کر کے کہ وہ اپنے علاقہ کی ادنیٰ اقوام کو مسلمان بنانے میں مبلغین اسلام کی مدد کریں.خدمت اسلام میں حصہ لے سکتے ہیں ".۲۹ مسلمانوں کو ہر موقعہ پر اس خطرہ سے آگاہ کرتے رہیں جو اس وقت اسلام کو پیش آ رہا ہے "." آپ کی خدمت اور بھی بڑھ جائے گی اگر آپ ایسے لوگوں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیتے رہا کریں جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت اسلام میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں ".۱ اگر آپ ان امور میں سے کسی امر کی تعین نہ کر سکتے ہوں تو آپ کم سے کم اس قدر ضرور کریں کہ اپنی زندگی کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں.اس طرح آپ اسلام کو اعتراض سے بچانے میں ہماری مدد کریں گے.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی اس بروقت اور پر زور تحریک کی کامیابی کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی ناظروں ، مبلغوں، کارکنوں اور دوسرے احمدیوں نے اپنے اوقات وقف کر دیئے اور ایسی غیر معمولی جدوجہد سے کام لیا کہ خصوصاً مسلمانان پنجاب میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو گیا اور مسلمان نہ صرف اتحاد ملت اور تبلیغ اسلام سے متعلق اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہو گئے بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی ہزاروں نئی دکانیں کھل گئیں.ہندوؤں نے مسلمان دکانداروں کو ناکام کرنے کے لئے کئی صورتیں اختیار کیں.مثلا جن چیزوں کی تجارت مسلمانوں نے شروع کی ان کی قیمتیں قیمت خرید سے بھی گرا دیں.مگر مسلمانوں کو تجارت کے میدان سے بے دخل کرنے کی یہ تدبیریں کارگر نہ ہو سکیں اور ان کا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتا گیا.

Page 647

تاریخ احمدیت.جلد " 584 حواش حواشی الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱.ان شہداء کو پتھر مارنے والوں میں بھیرہ کے صوفی عبد الرحیم صاحب پر اچہ بھی تھے جنہوں نے اس حادثہ سے متاثر ہو کر بعد ازاں احمدیت قبول کرلی.ولادت غالبا ۱۹۰۲ ء وفات ۷ / فروری ۱۹۵۸ء بھیرہ میں دفن کئے گئے.امان اللہ خاں کی حکومت نے اعلان کیا کہ کابل کے دو اشخاص ملا عبد الحلیم چهار آسیانی ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں صلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے.جمہوریہ نے ان کی اس حرکت سے مشتعل ہو کر ان کے خلاف دعوی دائر کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم ثابت ہو کر عوام کے ہاتھوں پنجشنبه / رجب ۱۳۴۳ھ کو عدم آباد پہنچائے گئے.ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعوی دائر ہو چکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضہ سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے.اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی.(اخبار امان افغان بحواله الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱) اس اعلان میں سازشی خطوط کا جو الزام عائد کیا گیا وہ امان اللہ خان کی حکومت اپنے عہد اقتدار کے آخری دن تک ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی.دراصل جس حکومت میں محض مذہبی اور نظریاتی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کر ناروا ہو وہاں چند سازشی خطوط کا مرحومین کے مجھے مڑھ دینے میں کیا مضائقہ سمجھا جا سکتا تھا پھر عجیب تر بات یہ تھی کہ مزید تفتیش تو ابھی ہونے والی تھی.مگر سزا پہلے دے دی گئی.الجمعیتہ (دیلی ۱۰ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۹ بحواله الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء والفضل ۱۱ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱-۲- م الفضل ۳ / مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۱۱- بحوالہ اخبار الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۱ -۵- بحواله الفضل ۳۶/ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۵ اخبار ریاست دیلی ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء.دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ریاست نے اپنی مشہور کتاب ”نا قابل فراموش" کے صفحہ ۴۲۴۱ پر بھی اپنے اس احتجاج کا ذکر کیا ہے.الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۶ - الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۲۵ء صفی ۶-۷- "سیرت محمد علی صفحه ۵۱ ( از سید رئیس احمد صاحب جعفری) طبع دوم ۱۹۵۰ء.۱۲ بحواله الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۱ ۱۳- بحواله الفضل ۱۰/ مارچ ۱۹۲۵ء- -۱۴ اصل مضمون میں الدین کی بجائے احمد کا لفظ لکھا گیا ہے جو سمو کتابت ہے.(ناقل) ۱۵ روزنامه " ہمد رد " دیلی ۲۱ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۳ اس سلسلہ میں جناب محمد علی جوہر کی ایک تحریر کا عکس الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۵۲ء میں شائع ہو چکا ہے) ۱۶ سیرت محمد علی از رئیس احمد صاحب جعفری صفحه ۵۱ ۱۷ منقول از الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۶-۷ - ۱۸ اخبار اہلحدیث امر تسر ۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحه ۳-۴- 19 بحواله الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۳ ۲۰ زمیندار ۱۱۹ فروری ۱۹۲۵ء بعنوان احقاق حق بحواله الفضل ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء صفحه ۴ ۲۱ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت امتہ الحی صاحبہ وغیرہ کی وفات کے صدمات کی طرف اشارہ ہے.۲۲- جیسا کہ پچھلے سال کے حالات میں ذکر کیا جاچکا ہے حضرت خلیفہ ثانی نے سفر یورپ کے ذاتی اخراجات خود برداشت کئے اور اس

Page 648

تاریخ احمدیت جلد " 585 حواش سلسلہ میں آپ کو سیٹھ شیخ حسن یاد گیر اور بعض دوسرے اصحاب سے قرض لینا پڑا تھا.ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول صفحه ۲۳۰ ۲۳۲ ٢٣ الفضل ۱۷ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۵- دراصل اس تحریک پر اخبار سیاست نے نہایت معتبر ذرائع کی بناء پر لکھا تھا کہ آئے دن چندے دیتے دیتے قادیانی مرید بھی کچھ تھک سے گئے ہیں اور اپیل کا اثر تاحال حوصلہ افزا نہیں.مگر اس کے بعد خودی ۱۳/ مئی ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا معتقدین قادیان اپنے خلیفہ کے ایماء پر بھوکے رہ کر محنت کر کے بال بچوں کو بھوکا رکھ کر روپیہ دے رہے ہیں.(بحوالہ الفضل 19 مئی ۱۹۲۵ء صفحه ۳) ۲۵ الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۲۵ء صفحه ۱-۲- الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۷ ۲۷ منعقده ۲۳-۲۴/ جنوری ۱۹۲۵ء بمقام ویلی (الفضل ۵/ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۲) الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۳-۴ ٢٩ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۱-۲- ۳۰.منهاج الطالبین صفحه ۳-۱۴ از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی طبع اول و سمبر ۱۹۲۶ء.۳۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۵ء صفحه ۳۹.الفضل ۳/ نوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷.الفضل ۱۸ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۳-۶- الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۵ الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۳ تا ۶- ۳۶ تاریخ اقوام عالم صفحہ ۷۰۹۰۷۰۸ - اس امر کا پہلی بار انکشاف برطانوی پالیسی کے بہت بڑے ماہر لفٹنٹ کمانڈر ہے.ایم کین ممبر پارلیمینٹ اسٹنٹ چیف آف سٹاف جبرالٹر نے کیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں جنگ کے اسباب و علل پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب مذہب کی بنا پر جنگ نہیں ہوتے.ہاں عرب کے مختلف قبائل میں مذہب ابھی تک باعث مخاصمت ہے واقعہ یہ ہے کہ خود انگلستان نے عربوں کے مذہبی تعصب سے فائدہ اٹھانا چاہا اور شریف حسین کو جو شاہ حجاز بن چکا تھا اس بات پر اکسایا که خلیفتہ المسلمین کی خالی جگہ پر متمکن ہو جائے یہ محکمہ خارجہ کی سازش تھی اور اس کے ذمہ دار قاہرہ کے عرب بیورو کے ارکان تھے لیکن یہ تجویز بالکل ناکامیاب رہی.اس ناکامی کی وجہ نادانستہ طور پر حکومت ہند بن گئی حکومت ہند اپنی خفیہ حکمت عملی پر کار بند ہوتے ہوئے شریف مکہ کے زبر دست دشمن ابن سعود کو اشرفیاں اور بندوقیں پہنچاتی رہی.یہ وہابی لوگ اہل مکہ کے خلاف پچھلی صدی سے نبرد آزما ہیں.ادھر برطانوی محکمہ خارجہ کا عرب بیورو شریف مکہ کو بندوقیں اور اشرفیاں دے رہا تھا حکومت ہند نے تاڑ لیا تھا کہ ابن سعود طاقتور آدمی ہے اس لئے اسے پھانسنا چاہئے اور برطانوی محکمہ خارجہ خلیفتہ المسلمین بنانے کی سازش میں لگا ہوا تھا.غرض حکومت برطانیہ کا اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے بے خبر تھا اس طرح ابن سعود اور شریف مکہ کی جنگ در اصل حکومت ہند اور برطانیہ کی جنگ تھی اور اس راز کا انکشاف اس وقت ہوا جب صلح کا نفرنس کے موقعہ پر حکومت ہند اور محکمہ خارجہ نے اپنی الگ الگ یادداشتیں برطانوی وزارت کے آگے پیش کیں.(بحوالہ اخبار تازیانہ (لاہور) ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۸) الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۳- الفضل ۴ جون ۱۹۲۵ء صفحه ۳-۴- ۳۹.حضور نے اپنے اس مضمون میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ محمد بن عبد الوہاب کے پیروؤں کا نام آہستہ آہستہ وہابی پڑ گیا.اس لئے میں نے وہی نام لکھا ورنہ یہ لوگ اس نام کو استدال نہیں کرتے.(الفضل ۱۲۰ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۴ الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۶-

Page 649

- ولادت ۱۸۸۲ء- وفات ۱۹۵۳ء- 586 ۴۲ مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحه ۱۸۶ مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مورخہ ۶/ اپریل ۶۱۸۸۵) ۴۳ ۳۱۳- اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۹۸ نمبر پر درج ہے (ملاحظہ ہو ضمیمہ انجام آتھم) ۴۴ ۳۱۳ کی فہرست میں ۵۵ نمبر پر.۴۵ الاستفتاء ( از حضرت مسیح موعود صفحه ۳۲- تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تابعین اصحاب احمد حصہ اول صفحه ۸۰ تا ۹۴ (وفات ۱۸ / دسمبر ۶۱۹۹۰ ) حواش ۴۷.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دوم و سوم ۴۸ خرم سلفور جباره ( ایک دمشقی فاضل) نے اپنی کتاب خلاصتہ الادیان و زبدۃ الادیان کے صفحہ ۲۴ میں آپ کی تالیف تمامتہ البشری سے چند سطور نقل کر کے آپ کی نسبت لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک ہندی فاضل کی ہے جو تمام ملک ہند میں مشہور ہے.حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب کے ضمیمہ س میں اس کا ذکر فرمایا ہے.- تاریخ احمدیت جلد دوم (طبع دوم) صفحه ۲۸ حاشیه -0° ۵۰ تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۴۹۷ ۵۱ - تفصیل پہلے گزر چکی ہے ملاحظہ ہو صفحه ۲۹۳ بعنوان دار التبلیغ مصر کا قیام.۵۲ الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحه ۵-۶- الفضل ۳۰/ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۱.الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۲- ۵۵ مضمون السید منیر الحسنی صاحب امیر جماعت احمد یہ شام ( مطبوعه ریویو آف ریلیجن، اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۴۶۰۴۵) ۵۶ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحه ۲ ه الفضل ۳۰/اپریل ۱۹۲۶ء صفحه ۲ ۰۲ الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱ ۵۹ الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۶ء صفحه ۵-۶- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحه ۳۴-۳۵.-Y+ -41 الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۶ء صفحه ۴ ریویو آف ریلیجرز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ اس اس مناظرہ کا حصہ دوم جس میں حیاۃ وفات مسیح پر بحث تھی فریقین کے مساوی خرچ پر شائع ہوا.مگر اس کے علاوہ دیگر مسائل شائع نہ ہوئے.مولانا شمس صاحب کی یادداشت کے مطابق یہ ۲۰/ دسمبر۷ ۱۹۲ء کا دن تھا.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۷۸۴۷۵- ۶۵ تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحه ۸۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۹-۱۶۰ رپورٹ سالانہ ۳۱-۱۹۳۲ء صفحه ۱۲- کیا بیرا ایک گاؤں ہے جو حیفا شہر سے تین میل کے فاصلہ پر جبل الکریمل کی چوٹی پر سمندر کے کنارہ پر واقعہ ہے اور ۱۹۴۲ء سے حیفا کا ایک حصہ بن چکا ہے.رپورت مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۸۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۱۵۸ ال الفضل ۱۵ / اگست ۱۹۳۱ء صفحه 1 الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱.

Page 650

587 حواشی ۰۷ الفضل ۲۲/دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۲- الفضل ۱۹/ نوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ کالم.۷۵ آپ کو تبلیغ احمدیت کی وجہ سے شام کی فرانسیسی حکومت نے ملک سے نکال دیا تھا اس لئے آپ ان دنوں حیفا میں تشریف لے تے تھے.رپورٹ سالانہ صد را نجمن احمدیه ۳۵-۱۹۳۴ء صفحه ۸۳- ۷۷.مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر پورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۱۹۳۲۰۳۳ء صفحه ۱۵۲- ۱۵۳- ۷۸ رساله الفرقان فروری ۱۹۵۶ ء ور پورٹ سالانہ ۳۴-۱۹۳۵ء صفحه ۸۳۰۸۱- ۷۹ رپورٹ سالانه ۳۲-۱۹۳۳ء صفحه ۱۵۱-۱۵۲- -A+ الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۲ افضل ۷ / جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ.الفضل ۲۳ فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۵- ۸۳ رپورٹ سالانه ۳۷-۱۹۳۸ء صفحه ۱۴۸ تا۰۱۵۴ ۸۴ - الفضل ۱۲ مارچ ۰۶۱۹۳۸ ۵.قادیان سے آپ اپنی المیہ صاحبہ افضل بی بی بنت میاں خیر الدین صاحب کے ساتھ روانہ ہوئے تھے جو ۲۷ / فروری ۱۹۴۳ء کو اس سرزمین میں انتقال کر گئیں اور جیل انکر مل کباب ہیں میں دفن کی گئیں.(الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۲) -AY رپورٹ سالانہ ۳۸-۱۹۳۹ء صفحہ ۷۷.انقلاب ۱۹۴۸ء سے پہلے فلسطین کے مندرجہ ذیل مقامات پر احمدی موجود تھے.کہا بیر دینا.عکا بیت المقدس ناصرہ نابلس.- طیرہ ام الم - مین نذال جمع بر جا طول کرم کفر لام - تخ- بیسان- طبریا - ترشیجا صفد - لد- رمله : یا فا- ۸۸ آپ کچھ عرصہ بعد لبنان میں بھیجے گئے مگر اس کی تفصیل لبنان مشن کے حالات میں آرہی ہے.۸۹ مزید تفصیلات اردن اور لبنان مشن کے کوائف میں آئیں گی.-91 و الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۳- رپورٹ سالانه ۱۹۳۹۰۳۸ء- ۹۲ الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸ و البشر مئی ۱۹۴۷ء.تفصیل کے لئے دیکھیں البشری جلد ۱۵ نمبر ۱۹۴۹۰۲ء ۹۴ اس وقت حبشہ کے مندرجہ ذیل مقامات پر جماعت احمدیہ موجود ہے.ادیس آبابا- ہر ر - اسبا تفری- شر شر دری دوا - اداماد البشری جلد ۷ اصفحہ ۱۳۹ ۱۹۵۱ء حبشہ میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب (ابن حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ نے بھی آنریری مبلغ کی حیثیت سے کام کیا ہے.۹۵ حکومت اسرائیل کے پریذیڈنٹ (استحق بن صفی) نے آپ کو پیغام بھیجا کہ اپنے وطن روانہ ہونے سے پہلے مجھے مل کر جائیں.چنانچہ آپ نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ۲۸/ نومبر ۱۹۵۵ء کو ان سے ملاقات کی.اور انہیں (جماعت احمدیہ کا شائع کردہ) جرمن کا ترجمہ قرآن مجید بطور تحفہ دیا.جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.اس تقریب کا فوٹو بھی لیا گیا.جو دنیا کے مختلف ممالک میں شائع ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ ۵/ ستمبر ۱۹۵۸ء ۱ مطبوعہ الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۵۸ء) میں بھی فرمایا ہے.مولا نا مناسب ندارد تمبر ۱۹۵۵ء کروائیں درود شریف ان الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۵۵، صفحه 1) الجزء السابع ۱۳۵۷ بحوالہ رساله البشرنی (معین) صفحه ۹۰ جلد ۵ ۹۷ بحوالہ البشری جلد ۵ صفحه ۳۰۶ ۹۸ بحوالہ البشر مئی (فلسطین) جلدے.حواله البشر کی جلد ۱۳ صفحه ۴۰

Page 651

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 100 بحوالہ البشری ( فلسطین) جلد ۱۳ صفحه ۱۲۴ 10 بحواله البشری جلد ۱۵ صفحه ۲۴۰ ۱۰۲ بحوالہ البشرعی صفحه ۱۳۸ جلد ۲۰ ۱۰۳.مشاہداتی فی سماء الشرق صفحه ۴۳ تا ۴۵- اہالحدیث ۲۱ / اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۱- ۱۰۵- الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحه ۳-۴- بحواله الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵- ے اہاند بیش ۲۱ / اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۳- ۱- الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳.-1+9 -||* -HP 588 حواش المند یث ۱۹ جون ۱۹۴۴ء (مولوی شاء اللہ صاحب کے اس ادعا کے جواب میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مفصل مضمون کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۱/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۳-۵- الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱-۲- مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی جانشین شیخ الہند مولوی محمود الحسن صاحب نے صوبہ جمعیتہ العلماء اسلام کا نفرنس لاہور (منعقدہ ۲۷-۲۶-۲۵/ جنوری ۱۹۴۶ء) کے خطبہ صدارت میں تسلیم کیا کہ ہندوستان کو کامل یا نیم آزادی اگر ملنے والی ہے تو وہ انگریزوں کے دینے سے لے گی.(خطبہ صدارت صفحہ ۳۲) الفضل (۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء) الفضل ۱۸ / جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱.الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲.۱۵ مثلا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری ، مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی ، مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲) الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱-۲- الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱.الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۰۵ 119 مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تقریر سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا مطبوعہ خالد مارچ ۱۹۵۴ء صفحہ ۵.۷.یادر ہے کہ ہم نے اس عنوان کے تحت انڈونیشیا کے جزائر میں سے صرف سائرا اور جاوا کے تبلیغی حالات کا تذکرہ کیا ہے بورنیو اور دوسرے جزائر کے مشنوں کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا.۱۲۰ تقریر سید شاه محمد صاحب مطبوعه خالد اپریل ۱۹۵۴ء صفحه ۲۱-۲۲- ۱۲۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۲۵- ۱۲۲- سب سے اول مولوی ذینی دحلان نے بیعت کا شرف حاصل کیا.۱۳۳ ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۵۲۰۵۵ ۱۲۴- الفضل ۴/ د سمبر ۱۹۲۴ء صفحه ۲- ۱۲۵ خالد اپریل ۱۹۵۴ء صفحه ۲۲ ۱۳۹- سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۸۳ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۱- ۲۸ ملخصاً از الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحه ۷۰۵ ۱۳۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۸۳-

Page 652

تاریخ احمدیت.جلد ۳۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۵ ۱۳۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۱۸۳-۱۸۲ ۱۳۲.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۸۵ تا ۱۸۷- ۱۳۳ الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء- ۱۳۴- ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۵۸- ۱۳۵ رپورٹ سالانہ ۳۲-۱۹۳۱ء صفحه ۵-۶- ۱۳۹ رپورٹ سالانه ۱۹۳۴:۳۵ء صفحه ۰۹۹۰۹۸ ۱۳۷- ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۱۵۸ ۱۴- ۱۳۸ رپورٹ سالانه ۳۵-۱۹۳۴ء صفحه ۹۱ ۱۳۹ رپورت سالانه ۳۵-۱۹۳۴ء صفحه ۹۰ تا ۹۷ ۱۴۰ رپورٹ سالانه ۱۹۳۶ء صفحه ۱۴۰-۱۴۱- ۱۴۱ سالانہ رپورٹ ۳۸-۱۹۳۷ء صفحه ۱۳۹-۰۱۴۴ ۱۴۲ رپورٹ سالانه ۴۱ ۱۹۴۰ء صفحه ۳۰-۰۳۱ ۱۳۳ خالد ابریل ۱۹۵۳ء صفحه ۲۴۰۲۳ ۱۴۴ ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۶۴-۶۶- 589 حواش ۱۴۵- چنانچہ مولوی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کی جنگ کے ختم ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ایک روز ایک شخص ہمارے ایک احمدی دوست کے پاس آیا اور کہا کہ مولوی محمد صادق صاحب کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ جس وقت اتحادی فوجیں سائٹر ایا جاوا کے کسی حصہ پر چڑھ آئیں گی اسی وقت ان کو گر فتار کر لیا جائے گا.یہ خبر سنتے ہی میں نے جماعت کو تحریک کی کہ وہ ہمیں دن متواتر تجد کی نماز ادا کریں.اور ہر سوموار اور جمعرات کو روزے رکھیں.جب تیسری رات تہجد کی نماز پڑھ کر صبح سے قبل میں تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا.تو مجھے خواب میں بڑے موٹے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا کہ کتاب دانیال کی پانچویں فصل پڑھو مغرب کی نماز پڑھ کر میں نے بائیل کا مذکورہ حوالہ پڑھا جس میں بیش مرنی بخت نصر کے متعلق ذکر ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ خدا نے اسے ایک خواب دکھایا جس کے متعلق دانیال نبی نے خدا سے پوچھا اور اس کی تعبیر بیان کی اس خواب کے الفاظ یہ ہیں کہ باشہ مر کی حکومت کا خاتمہ قریب آپہنچا ہے خدا نے اسے تو لا.وہ ملکی نکلی اب اسے منا کر فارسی حکومت کو اس کی جگہ قائم کر دیا جائے گا.میں نے یہ خواب بعض ہندو اور سکھ دوستوں کے سامنے بھی بیان کیا اور بعض چیدہ چیدہ احمد کی دوستوں کو بھی بتایا.اس کے بعد خدا تعالی نے حالات کو ایسے پلٹا دیا کہ چند ماہ میں حکومت جاپان تباہ ہو گئی.دراصل جاپانی حکومت نے ۱۴/ اگست ۱۹۴۵ ء ہی کو شکست مان لی تھی.مگر اس نے سماٹرا اور جادا میں ۲۲/ اگست کو یہ شائع کیا کہ ہمارے بادشاہ نے رعایا پر شفقت کی نظر کرتے ہوئے انگریز اور امریکہ سے صلح کرلی ہے.جس دن یہ پمفلٹ شائع ہوا.اسی دن میں سردار جوگندر سنگھ صاحب.ہری برادر زیاد نگ کی دکان پر گیا وہاں ایک عالم حسن فواد بھی تھے.انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر کہا "مبارک ہو " میں نے کہا خیر مبارک " مرتا ہے تو سنی یہ مبارک باد کیسی " انہوں نے کہا آپ کے متعلق فیصلہ ہو چکا تھا کہ آپ کو ۲۴/۴۳/ اگست ۱۹۴۵ء کی رات کو سزائے موت دی جائے گی مگر اللہ تعالی نے آپ کو بچالیا.کیونکہ بلیک لسٹ میں آپ کا نام بھی درج ہے پھر دوسرے غیر احمد یوں نے بھی ہمارے بعض دوستوں کو خود بخود بتایا کہ میرے متعلق سزائے موت کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ میں جاپانی جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ نہ مانتا تھا بلکہ اس کے خلاف تبلیغ کرتا تھا.اس طرح خدا تعالٰی نے اپنی قدرت کا ایک کرشمہ ظاہر فرمایا.ریویو آف ریلیج اردو شوری ۱۹۴۷ء صفحه ۶۶-۶۷) اسی طرح جاوا میں جو مبلغین گرفتار تھے ان کی رہائی کے لئے خدا تعالٰی نے نشان دکھایا اور جاپانی حکومت کی تباہی کی معین تاریخیں تک بتادیں.چنانچہ جناب سید شاہ محمد صاحب فرماتے ہیں." ایک دفعہ ہمارے بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ استخارہ اور دعا کے ذریعہ معلوم کیا جائے کہ کیا ہم زندہ قیدت

Page 653

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 590 چھٹکارا حاصل کرلیں گے یا ہمارے گلے کانے جائیں گے.اس خواہش کی بنا پر میں نے بھی استخارہ کیا.مجھے رویا میں بتایا گیا.پندرہ دن اور ساتھ ہی ایک گھڑی دکھائی گئی جس پر بارہ بج کر اٹھاون منٹ کا وقت تھا اور تقسیم یہ ہوئی کہ ہم پند رودن کے بعد بارہ بج کر اٹھاون منٹ پر قیدت رہا ہو جائیں گے ایک دوست محمد طیب نامی کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کے کاغذات پر حضرت خلیفتہ المسیح نے دستخط ثبت نہیں کئے اس لئے وہ ہمارے ساتھ قید سے رہا نہیں ہوں گے.وہ ہمارے بعد رہا ہوں گے.یہ پندرہ دن مہینہ کی ۲۷ تاریخ کو ختم ہوئے تھے یہ رویا سب دوستوں کو سنادی گئی اور ہم سب منتظر تھے کہ وہ دن کب آتا ہے جب ہم رہا ہوں گے.اتفاق ایسا ہوا کہ جب ہم لوگ سونے لگے تو میرا ہاتھ مکرم مولوی عبد الواحد صاحب ساری مبلغ (جو قید میں میرے ساتھ تھے) کے سرپر لگا.ان کے علاقہ میں جسے میں نے افریدیوں کا علاقہ قرار دیا ہے یہ معیوب سمجھا جاتا تھا کہ کوئی شخص کسی کے سر پر ہاتھ لگا دے.لیکن میرا ہاتھ ان کے سر پر اتفاقی طور پر لگ گیا.مولوی صاحب کی طبیعت پر یہ ناگوار گزرا اور آپ نے مجھ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور ہم میں بحث کی صورت پیدا ہو گئی رات کو ساڑھے تین بجے کے قریب میں نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالی کو ہم دونوں کی کل کی حرکت نہایت نا پسند ہے اور اس تکرار کے نتیجہ میں جو ہم دونوں میں ہوئی ہم سب کو تین دن مزید قید کی سزادی جائے گی.میں نے انہیں اسی وقت جگایا.میری آنکھوں میں آنسو تھے میں ان کے گلے لگ گیا.اور ان سے معافی مانگنی شروع کی انہوں نے کہا پاگل تو نہیں ہو گئے جاپانی سنیں گے تو ہمیں مارنا شروع کر دیں گے.میں نے انہیں رویا کے متعلق بتایا تو وہ بھی رونے لگ گئے المختصر ہم تمہیں مئی کو رہا ہوئے اور رویا کے مطابق جب قید خانہ کے دروازہ سے باہر نکلے تو گھڑی پر ایک بجنے میں دو منٹ باقی تھے.محمد طیب صاحب کو کمرہ سے باہر لا کر تھوڑی دیر بعد پھر انہیں کمرہ میں بند کر دیا گیا.قید میں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی.ایک دن ہم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے مولوی عبد الواحد صاحب امام تھے اور ہم دو مبلغ مقتدی تھے ڈیوٹی پر جو سپاہی تھا اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور کھڑکی کھول کر اندر آگیا.اس سپاہی کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا.اس نے ہمیں زور سے ایک ایک کو ڈا مارا اور کہا یہ کیا کر رہے ہو.جاپانی خدا تعالی کی توحید پر ایمان نہیں رکھتے وہ دیوتاؤں کے پجاری ہیں.طبعاً ہمیں یہ بات ناگوار گزری کہ اب ہمیں عبادت کی بھی اجازت نہیں دی جاتی.ہم نے دعا کی اور اسی رات ہم میں سے اکثر کو خدا تعالٰی نے رویا میں دکھایا کہ جاپانی عنقریب تباہ ہو جائیں گے.مجھے بھی دس سے زیادہ مرتبہ رویا میں بتایا گیا.لفمز قنهم یعنی ہم انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے.ہم کی ضمیر کا اشارہ جاپانیوں کی طرف تھا اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ ۱۲ اگست سے ۲۲/ اگست کے درمیان جاپانی تباہ ہوں گے اس کے دوسرے سال یعنی ۱۹۴۵ء میں ۱۲/ اگست کو جاپانی علاقہ میں ایٹم بم گرایا گیا.اور ۲۲/ اگست کو جار میں جاپانیوں نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے".( خالد مئی ۱۹۵۴ء صفحہ (۳۲-۳۰ ۱۶ الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۴۶ء میں حضور کا مفصل ارشاد شائع ہوا تھا جس کا متن ۱۹۴۶ ء کے واقعات میں درج کیا جائے گا.۱۴۷- رساله خالد جون ۱۹۵۴ء صفحہ ۱۸۰۱۷ ۱۴۸- تفصیل اپنے مقام پر آئے گی.۱۴۹.اس دورہ کی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی.یہاں صرف اجمالا تذکرہ کیا گیا ہے.سانبہ ارد صاحب.امر و جناب کمال یوسف صاحب سابق مبلغ سکنڈے نیویا سیکر ٹری کی حیثیت سے گئے تھے.۵۰ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو انگریزی کتابچه تحریک جدید مرتبه جناب ، دادی نور الدین صاحب منیر ایم اے (نائب وکیل التصنیف تحریک جدید) شائع کرده و کالت تبشیر ربوه ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۳ سید شاہ محمد صاحب رئیس انتبلیغ انڈو نیشیا کی رپورٹ متحربه ۱۸/۱/۱۲ سے ماخوز- ۱۵۴- بحوالہ الفضل ۸/ تمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱ ۱۵۵- الفضل ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحه ۵ تا ۹- ۱۵۶ الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۷ تا ۱ ۱۵۷ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵ ۱۵۸- بدر / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۴ الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ و تذکرہ طبع دوم صفحہ.اے.

Page 654

ریخ احمدیت جلد ۴ 591 حواشی ۱۵۹- الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۲۵ء صفحه ۸ تا ۱۰- ١٠- الفضل میں اس لیکچر کی رپورٹ میں لکھا ہے.یہ تقریر چار گھنٹہ تک جاری رہی بوجہ رات ہو جانے کے جلسہ گاہ میں گیس کے لیمپ جلا دیئے گئے اور موم بتیاں بھی تقسیم کر دی گئیں نا کہ جو اصحاب تقریر کے نوٹ لے رہے تھے انہیں آسانی ہو آخر بوجہ دیر ہو جانے کے سات بجے کے بعد حضور نے بقیہ تقریر دوسرے دن کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئے بند فرمائی.(الفضل کی وہ / جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲) پھر اگلے دن کی روداد میں لکھا ہے حضور نے بقیہ تقریر شروع فرمائی یہ تقریر بھی چار گھنٹہ سے زیادہ عرصہ تک مسلسل جاری رہی اور آخر ساڑھے سات بجے کے قریب ختم ہوئی.-NI ( ایضاً صفحه منهاج الطالبین صفحه ۲۲- الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ 1 الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱.۱۹۴- ایضا ۳۲/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۱ ۱۹۵ الفضل ۲۱/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۲ - الفضل ۳۰/ جون ۱۹۳۵ء صفحه ۲- ۱۷- انجمن کے شائع کردہ اہم ٹریکٹوں کے عنوان مسلمانوں کو بشارت اسلام کی زندگی مسیح ناصری کی موت میں ہے.خاتم النبیین اور اجرائے نبوت.معیار صداقت اور حضرت مسیح موعود امکان نبوت در خیر است.فرقہ ناجیہ کی علامات صداقت اسلام اور واقعہ لیکھرام صداقت مسیح موعود از روئے بائبل بچے اور جھوٹے مدعی رسالت میں مابہ الامتیاز - صحابہ کرام کے دو عظیم الشان اجتماع.حضرت مسیح موعود کا زمانہ بعثت حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک اور نشین ظاہر ہوا.عقائد احمد یہ دلائل صداقت انبیاء اور حضرت مسیح موعود الحکم ۱۴ جون ۱۹۲۵ء صفحه ۵- اخبار سیلیون ڈیلی نیوز بحواله الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۲- الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۲۵ء صفحه ۱ انا الفضل ۲۷/ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱.۱۷۲ الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه ۵ و الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۲.رسالہ احمدی کے پہلے ایڈیٹر مولوی نظام میدانی صاحب بی.اے جائنٹ ایڈیٹر مولوی دولت احمد خاں بی.اے اور معاون مدیر مولوی محمد عبد الحافظ صاحب تھے.(الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱) ۱۷۳ الفضل ۱۵ / ۱۳ اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۸-۹ -۱۷۲ - الفضل ۱۹/ نمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ /19 ۷۵ ریکار دهد را بین احمد به ۶۱۹۲۵ الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲.الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۵ء صفحه ۷ ۱۷ الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۱ ۱۷- الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحه ۲- ۱۸۰ - الفضل ۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲.۱۸۱ - الفضل ۱۱۹ مئی ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ۱۸ الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ١٨٣- الفضل / اگست ۱۹۲۵ء صفحه ۲ ۱۸۴- الفضل ۲۸/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحه ۱۸۵ الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۲۵ء صفحه ۲

Page 655

تاریخ احمدیت جلد ۴ 592 حواش ۱۸۶ لکھنو کے مشہور اہل قلم اور فسانہ نگار مولوی عبدالعلیم صاحب شرر نے اپنے رسالہ دلگر از ماہ جون ۱۹۲۶ء میں کتاب بہائی مذہب کی حقیقت پر مفصل تبصرہ کیا.جس میں لکھا یا بیت اسلام کے مثانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے.اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ والے اسلام کی جیسی کچی اور پر جوش خدمت ادا کرتے ہیں.دوسرے مسلمان نہیں کرتے اس سلسلے میں مولوی فضل الدین صاحب احمدی نے جو قادیان کے ایک قابل پلیڈر ہیں.سید رسالہ بابی اور بہائی مذہبوں کی تردید میں شائع کیا ہے مولوی فضل الدین صاحب نے یہ کتاب نہایت قابلیت سے لکھی ہے.زبان نہایت پاکیزہ اور شستہ ہے.جن حضرات کو مذہب بابی و بہائی کی تاریخ اور اس نئے دین کے عقائد و احکام معلوم کرنے کا شوق ہو.اس رسالہ کو منگوا کر ضرور ملاحظہ فرمائیں.۱۸۷ مؤلف کتاب سید الانبیاء حیات نور اور حیات طیبہ آپ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تابعین اصحاب جلد اول صفحہ ۲۷ تا ۷۹ راز ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان) ۱۸۸- آپ کے مفصل حالات بھی تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۸ تا ۲۶ پر موجود ہیں.۱۸۹- اعمال باب ۲- ١٩٠ ملخصاً از الفضل ۱۲ فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۲ الفضل ۵/۹ فروری ۱۹۳۶ء صفحه ۱۴ ١٩٣ الفضل ۵/۹ فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۱۳- ۱۹۳ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا شجرہ حضرت داتا گنج بخش تک پہنچتا ہے آپ کے جد امجد شہنشاہ اور نگ زیب کے زمانے میں سہارنپور سے آئے تھے.خاندانی شجرہ نسب درج ذیل ہے.حضرت سید احمد سعید صاحب سید ماده عبد الرشید سایت سی امیر مسعود مالی حافظ شتاب ستید قاری الشراعيت صاحب سید احمدانی صاحب سید محمد صاحب تاج سید محمد شریف صاحب سید محمد حنیف صاحب حضرت سید عبداللطيف اناشيد سيد عبدالعزیز مهاب سید محمد سعید صاب سيد عبد السلام قنات سید محمد عمر صاحب سیدابوالحسن صاحب قدسی سید محمد طیب حنان الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء صفحه ۴- ۱۹۵ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۲۲.سالہا سال تک دار الشیوخ میں حضرت مسیح موعود کے باغ اور بہشتی مقبرہ سے متصل مکان میں رہا.اس کے بعد مدرسہ احمدیہ سے ملاعق عمارت میں بھی (جہاں الفضل کا دفتر رہا ہے ) دار الشیوخ کے طلبہ مقیم رہے.۱۹۶ - الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۲-۱- ۱۰۳ ۱۹۷- الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۱۱۹-۱۲۰ ۱۹۸ ایضا الفرقان صفحه ۶۰ 194 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحه ۴۱۰۳۷ ۲۰۰ ربوہ میں اس اہم ادارہ کا احیاء دار الیتائی کے نام سے ہو چکا ہے جس کے نگران میردار د احمد صاحب (خلف میر محمد الحق صاحب ) ہیں.

Page 656

تاریخ احمدیت جلد ۴ 593 حواش ۲۰۱ الفضل ۲۵/مئی ۱۹۲۶ء صفحہ ۱.۲۰۲ - الفضل ٨/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه ۱ ۲۰۳.الفضل یکم جون ۱۹۳۶ء صفحه ۴ ۲۰۴.الفضل ۱۸ جون ۱۹۳۶ء صفحه ۲- ۲۰۵ الفضل ۱۰/ اگست ۱۹۲۶ء صفحه ۱- ٢٠ الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحه :- ۲۰۷ ریکار ڈ صدر انجمن احمدیه ۱۹۲۶ء ۲۰۸ ریکارڈ صدرانجمن احمدیه ۱۹۳۶ء ۲۰۹ - مقدم الذکر دو اصحاب اس وقت غیر مبائع تھے یادر ہے اس سے پہلے سید عبد الجبار صاحب (سابق والی سوات بھی اس سلسلہ میں قادیان تشریف لا کر گفتگو کر چکے تھے (الفضل ۱۷/ تمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۶) ۲۱۰ - میری داستان ( از خان بهادر محمد دلاور خان) صفحه ۵۲-۵۳- ۲۱۱ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء ۲۱۲- الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء- ۰۲۱۳ پیغام صلح ۱۷/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحه ۵- ۲۱۴ الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحه ۰۹۰۸ ۳۱۵- سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۸۶۰۳۸۴.افتتاح مسجد لنڈن کے مفصل حالات کے لئے دیکھو کتاب تاریخ مسجد فضل لندن مصنفہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ۲۱۲ تاریخ مسجد فضل لندن صفحه ۹۹-۱۰۰ ۲۱۷ تاریخ مسجد فضل لندن صفحه ۱۰۲ ۳۱۸ تاریخ مسجد فضل لندن صفحه ۱۰۱-۱۰۲ ۲۱۹ تاریخ مسجد فضل لندن صفحه ۱۰۵-۱۰۲ ۲۲۰ خود نوشت ڈائری مولوی عبد الرحمن صاحب انور مطبوعه خالد اپریل ۱۹۵۹ء صفحه ۳-۴- د خالد مارچ ۱۹۵۹ء صفحہ نیز ملاحظہ ہو خالد مئی تا ستمبر ۱۹۵۹ء- ۲۲۱- ايضاً صفحه ۱۴ ۲۲۲ - الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۶ ۲۲۳- الفضل ۸ / مارچ ۱۹۳۷ء - ۲۲۴ ایضاً خالد ماهجون ۱۹۵۹ء صفحہ ۶ ۲۲۵ - الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۲۶ء -۲۲۶- مولوی محمد الدین صاحب کے نائب مولوی عبد الرحیم صاحب نیر مقرر ہوئے.۲۲۷.رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمدیہ ۳۰-۱۹۳۱ء صفحہ ۱۷ ۲۲۸ مثلاً تحریک آزادی کشمیر ( تفصیل اگلی جلد میں آرہی ہے) ۲۲۹ تریاق القلوب (صفحه ۲۸۱ بار دوم) ۲۳۰- حقیقته الوحی طبع اول صفحه ۲۸۴ حاشیه ٣٣١ بحواله الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴.۰۲۳۲ حواله الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴.۲۳۳ الفضل / جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴-۵- شردھانند کے قتل پر اخبار ایمان افغان نے لکھا.شردھانند ایک بہت بڑے راہنما اور صاحب

Page 657

ریت جلد * 594 تواش عزم بزرگ تھے اور اس قسم کے لوگ خواہ وہ کسی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جمہور اقوام کے عقلاء کے نزدیک واجب الاحترام ہوا کرتے ہیں چنانچہ ایسی محترم شخصیت کی وفات ہمارے دل کو صدمہ پہنچا رہی ہے.نیز لکھا شردھانند کو ایک مسلمان نے قتل کیا لیکن یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کا حکم اسلام نے نہیں دیا.( بحوالہ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء صفی ۹) ۲۳۴ ما احظہ ہو دیباچہ کتاب الجہاد فی الاسلام ( از سید ابو الا علی صاحب مودودی) ۲۳۵- الفضل ۱۶/ ستمبر۷ ۱۹۲ء صفحه ۱ ۲۳۹- الفرقان ۱۹۵۷ء صفحه ۲۹ ۲۳۷- الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء صفحه ۴.۲۳۸- (الف) تاریخ وفات کیم جولائی ۲۳۸٬۶۱۹۳۶.(ب) تاریخ وفات ۲/ ستمبر ۰۶۱۹۲۶ ٣٣٩ الفضل / جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۴۰۳ -- الفضل ۲/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحه ۲۰۱ ۲۳۱ الفضل ۱۳/ نوری ۱۹۲۶ء صفحه ۲ ۲۴۲- الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۲- ۲۴۳- الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۲- -۲۴۴ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۳- ایضا الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۹۰۱/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱.۲۴۵- الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۱.۲۴۶- ریکارڈ صد را انجمن احمدیه ۱۹۲۶ء- ۲۴۷- الفضل ۱/۲۱ سمبر ۱۹۲۶ء صفحه ۱ ۲۴۸ - الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۱۸ ۱۳/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحه ۱۹ ۳/ اگست ۱۹۲۶ء صفحه ۱۱۰ ۲۶/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه ۶-۲۱/ دسمبر ۶۱۹۲۶ صفحہ.۲۴۹- ریکار ڈ صد را انجمن احمد یه ۱۹۳۱ء- ۲۵۰ الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۶ء صفحه ۲ ۲۵۱ - الفضل یکم جون ۱۹۲۶ء صفحه ۲.۲۵۲.الفضل ۱۱ جون ۱۹۲۶ء صفحه ۲ ۲۵۳- الفضل ۱۸ جون ۱۹۲۶ء صفحه ۲- ۲۵۴ - الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۲.۲۵۵ الفضل ۱۷/ اگست ۱۹۲۶ء صفحه ۹ ۲۵۶.الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحه ۹ ۲۵۷ - الفضل الر مئی ۱۹۳۶ء صفحہ ۰۲ ۲۵۸- حدیث کی کتاب ۲۵۹ پر تاپ ۵/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۰ بحوالہ الفضل / جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۰ ۲۲۰ خطبه فرموده ۲۲/ اپریل ۱۹۲۷، مطبوعہ الفضل ۶/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷ الفضل ۶/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۹۰۷ ۲۶۲ بحوالہ افضل ۳۱ مکی ۱۹۲۷ء صفحہ ۵- ۲۶۳ بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۵۴ - الفضل ۸ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۵- ۲۶۵ - الفضل ۴ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۱.

Page 658

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۲۶- الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۲.٣٦٧ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۷ء صفحه - ۲۶۸.الفضل / اکتوبر۷ ۱۹۲ء صفحه ۱ ٢٣٦٩- الفضل ۸ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۲ 595 حواش ۲۷۰.الفضل / مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۶ - ۲۷۱- الفضل ۱۸ مارچ ۶۱۹۳۷ ۲۷۲.الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۷.۲۷۳ - اخبار تنظیم امر تسر ۱۴ / مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۱۲- ۲۷۴- الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ہے.اس لیکچر کا اپنے لفظوں میں خلاصہ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب نے ریویو آف ریلیجنز اردو، جنوری ۱۹۳۰ء میں شائع کر دیا تھا.۷۵ ۲- ایضا ۱۵ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه ۹ ۲۷۶.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۸۳-۱۸۴- ۲۷۷.رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۸۶- ۲۷۸ جناب عبد الحمید صاحب سالک کا بیان ہے.ہم رمئی ۱۹۲۷ء کو رات کے وقت حویلی کابلی مل کی مسجد سے چند مسلمان نماز پڑھ کر نکلے تو سکھوں نے ڈبی بازار والے گوردوارے سے نکل کر ان پر حملہ کیا اور تین نمازی شہید ہو گئے حکام شہر اور بزرگان شہر نے انتہائی تدابیر اختیار کیں تاکہ فساد پھیلنے نہ پائے.مسلمانوں نے نہایت صبر و شکیب سے کام لیا اور دوسرے دن شہداء کی میتیں ہزار ہا مسلمانوں کے جلوس کے ساتھ اٹھیں جب یہ جلوس لوہاری دروازہ کے باہر پہنچا تو ہندوؤں کے ایک کان سے جنازہ پر کنکر پھینکے گئے.مسلمان پھر گئے لیکن پھر بڑوں کے سمجھانے بجھانے پر خاموش ہو گئے.تاکہ جنازوں کی توہین نہ ہو لیکن جب ہزار ہا مسلمان میتوں کو دفن کرنے کے بعد واپس آئے تو ہندوؤں سے ان کا تصادم ہو گیا اور شہر کے مختلف حصوں میں چھرا چلنے لگا.اگر چہ اس فساد کا آغاز سکھوں کی طرف سے ہوا تھا لیکن حویلی کا ملی مل کے حادثہ کے بعد سکھ خدا جانے کہاں غائب ہو گئے اور خونریزی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے لگی.ایسی حالت میں سکھوں کا طریقہ یہی ہو تا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ ہم بہت قلیل اقلیت میں ہیں.اگر ہم میں ست دو تین آدمیوں نے فساد شروع کر دیا ہے تو باقی سکھوں کو اس فساد کے نتائج سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.نتیجہ یہ ہو تا تھا کہ طیش کھائے ہوئے مسلمان ہندوؤں پر حملہ آور ہو جاتے تھے اور پھر ہندو بھی اپنے اپنے حلقوں میں مسلمانوں کا قتل کرنا شروع کر دیتے تھے.غرض دو تین دن لاہور میں کشت و خون کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی دو سو ہلاک اور تین سوت زیادہ زخمی ہوئے ، سرگزشت از جناب عبد المجید صاحب سالک صفحه ۲۳۶ ۲۳۷) ۲۷۹- الانسل ۲۰ مئی ۱۹۲۷ء صفحه ۱۲ ۷ار منفی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲.۲۸۰ - اخبار سیاست لاہور ۱۵ / مئی ۱۹۲۷ء اور الفضل / مئی ۱۹۲۷ء صفحہ آپر یہ مکمل اشتہار چھپا ہوا ہے.۲۸۱ الفضل ۱۲۰ گی ۱۹۲۷ء صفحہ ۳ و الفضل ۲۴/ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۲.۲۸۲- هفت روزه ترجمان لاہور / جوان ۱۹۲۷ء صفحہ ہے.۲۸۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحه ۱۹ ۲۸۴.الفضل ۱۰ مگی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱.۲۸۵ الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء.۴۸۶ - الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲- ۲۸۷ آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟ صفحہ ۷ تا ۱۵- ۲۸۸ تقریر دلند بر صفحه ۰۴۳ ۱۹۲۷ء ( از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی)

Page 659

تاریخ احمدیت ، جلد ۳." 596 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال ساتواں باب (فصل اول) خلافت ثانیہ کا چودھواں سال کتاب ”رنگیلا رسول اور رسالہ ”ورتمان کافتنہ جماعت احمدیہ کا زبر دست دفاع اور تحفظ ناموس رسول کے لئے ملک گیر تحریک کا آغاز آنحضرت ا پر آریہ مصنفوں کے حملے اس دور میں بعض بد زبان اور دریدہ دہن آریہ مصنف آنحضرت کی ذات بابرکات پر خاص طور پر حملے کر رہے تھے چنانچہ ایک آریہ سماجی راجپال نے "ر نمیلا رسول " نامی کتاب شائع کی اور اس میں مقدس بانی اسلام اس کی نسبت نہایت درجہ دلحزاش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں جس پر حکومت کی طرف سے مقدمہ چلا.یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ امرتسر کے ہندو رسالہ "ورتمان " نے مئی ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں ایک بے حد دل آزار مضمون شائع کیا جس میں ایک آریہ دیوی شرن شرمانے افسانوی صورت میں آنحضرت ﷺ کے خلاف یہ دکھانے کی کوشش کی کہ (معاذ اللہ ) مبتلائے عذاب ہیں اور اس کی وجہ (خاکش بد ہن) شہوت رانی ہے اس شرمناک فسانہ میں حضور علیہ التحیتہ والسلام اور حضور کے مقدس اہل بیت کے نام بھی بگاڑ کر پیش کئے گئے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا ولولہ انگیز حضر علیہ السی الثانی ایدہ اللہ تعلی نے یہ بیان اور اس کا زبردست رد عمل اشتعال انگیز مضمون دیکھتے ہی ایک پوسٹر شائع دعوی کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے " فرمایا جس کا عنوان تھا." رسول کریم کی محبت کا

Page 660

تاریخ احمدیت جلد ۴ 597 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال اس پوسٹر میں حضور نے نہایت پر شوکت اور پر خلال انداز میں تحریر فرمایا :- " کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آسکتا ہے ؟ کیا اس سے زیادہ ہماری پیکس کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ فداہ نفسی واہلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی خدا ہے اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے.کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو وئی اور راستہ نہیں ملتا ہماری جانیں حاضر ہیں ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار کی بنگ کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم اے کو گالیاں دے لیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بنابر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا نہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا".پھر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- "اے بھائیو ! میں درد مند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں بنتا.پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کر لو.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے دو سرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی

Page 661

تاریخ احمد بیت ، جلد ۴ 598 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں اور جب آپ یہ عہد کرلیں تو پھر ساتھ ہی اس کیمطابق اپنی زندگی بسر کرنے لگیں.یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہندو مصنفین کی طرف سے رسول کریم احمد سے فداہ نفسی واہلی کو دیجاتی ہیں اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسروں کے کام کے اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی؟ کیا کوئی درد مند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو".اس پوسٹر نے جو پورے ہندوستان میں ایک ہی تاریخ کو راتوں رات چسپاں کر دیا گیا تھا.ملک بھر میں زبردست ہیجان کی صورت پیدا کر دی اور حکومت کو انتہائی جدوجہد کے ساتھ امن قائم رکھنا پڑا.اگرچہ پوسٹر ضبط کر لیا گیا مگر یہ ضبطی غیرت رسول اور عشق رسول کے طوفان کو بھلا کیا روکتی اس سے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد ال کے لئے قربانی اور فدائیت کے جذبات پہلے سے بھی زیادہ شدت سے موجزن ہونے لگے اور خود حکومت کو بھی " در تمان " کا ناپاک اور گندہ پرچہ ضبط کرنے اور اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگار پر مقدمہ چلانے کی فوری توجہ پیدا ہوئی.ہندوؤں نے یہ صورت دیکھی تو سر میلکم ہیلی (STR MALCOLM HAILEY) گورنر پنجاب کے نام کھلی چھٹی لکھی." اس رسالہ ” در تمان " میں جو مضمون قابل اعتراض سمجھا گیا ہے اس کے جواب میں ایک نہایت گنده دل آزار اور اشتعال دلانے والا پوسٹر مرزا بشیر....قادیان کی طرف سے شائع کیا گیا اور اس کی ہزار ہا کا پیاں چھاپ کر ملک کے ہر حصہ میں تقسیم اور چسپاں کرائی گئیں.رسالہ در تمان کا وہ پرچہ جس پر قابل اعتراض مضمون چھپا چند سو سے زیادہ نہ چھپا ہو گا اور اسے ایک آدھ مسلمان کے سوا اور کسی مسلمان نے نہیں پڑھا ہو گا لیکن مرزا کا پوسٹر جہاں لاکھوں مسلمانوں نے پڑھا وہاں لاکھوں ہندوؤں کی بھی نظر سے گذرا.اور اس طرح پر اس کے ذریعہ زیادہ زہر پھیلایا گیا.مگر سرکار نے مرزا کی اس شرارت کا اس کے سوا اور کوئی نوٹس نہ لیا کہ اس کا پوسٹر ضبط کر لیا گیا کیا اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ

Page 662

تاریخ احمدیت جلد ۴ 599 جس طرح لاله گیان چند (ابڈ میٹرو ر تمان ناقل) کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے اسی طرح مرزا کے خلاف بھی قانون کو حرکت دی جاتی.کتاب ”رنگیلا رسول" سے متعلق عدالت پنجاب کا فیصلہ اوپر کتاب ”رنگیلا رسول " کا ذکر آچکا ہے اس ناپاک کتاب کے مقدمہ میں راجپال کو زیر دفعہ ۱۵۳- الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید بامشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید مزید کی سزا ہوئی تھی.راجپال نے پنجاب ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور اس کے حج کنور دلیپ سنگھ نے فیصلہ دیا کہ.” میری رائے میں دفعہ ۱۵۳- الف اس قدر وسیع معانی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا.میرے خیال میں اس دفعہ کے وضع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کسی ایسی قوم پر حملہ کرنے سے روکا جائے جو موجود ہو نہ کہ اس سے گذشتہ مذہبی رہنماؤں کے خلاف اعتراضات اور حملوں کو روکنا مقصود تھا.جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس امر پر اظہار افسوس کرتا ہوں کہ ایسی دفعہ کی تعزیرات میں کمی ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مقدمہ دفعہ ۱۵۳ - الف کی زد میں آتا ہے اس لئے میں نظر ثانی کو بادل ناخواستہ منظور کرتا ہوں.اور مرافعہ گزار کو بری کرتا ہوں".فیصلہ کے خلاف اخبار "مسلم آؤٹ لک لاہور کا عدالتی فیصلہ کے خلاف احتجاج اخبار مسلم آؤٹ تک (Muslim Out Look) کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے ۱۴ جون ۱۹۲۷ء کو " مستعفی ہو جاؤ " کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس پر پنجاب ہائیکورٹ کی طرف سے اخبار کے ایڈیٹر اور اس کے مالک و طابع (مولوی نور الحق صاحب کے نام توہین عدالت کے جرم میں ہائیکورٹ کی طرف سے نوٹس پہنچ گیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سید دلاور شاہ صاحب بخاری ہائیکورٹ کا نوٹس سے سید دلاور شاہ بخاری کو مشورہ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور " عرض کیا کہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ مضمون پرا سهار افسوس کر دینا چاہئے مگر حضور نے مشورہ دیا کہ.ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن جبکہ ایک مضمون آپ نے دیانتداری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں

Page 663

600 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال اور کیا ہو سکتا ہے یہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اٹھائے نہیں رہ سکتے ہیں میں قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں مگر میری طرف سے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں لکھوادیں کہ اگر ہائیکورٹ کے بچوں کے نزدیک کنور دلیپ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے نے نے تیار ہوں.اس مقدمہ کی سماعت ۲۲ جون ۱۹۲۷ء کو مقدمہ کی سماعت اور سید دلاور شاہ کا بیان ہائیکورٹ کے فل بنچ نے کی جس میں سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے مومنانہ غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت ایمان افروز بیان دیا کہ.و مسلمان کا سب سے زیادہ محبوب اور مطلوب جذبہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے پیغمبر پاک سے عقیدت و افراد ر ارادت کامل رکھتا ہے.مسلمان کے لئے خواہ وہ کسی طبقہ یا درجہ سے تعلق رکھتا ہو عام اس سے کہ وہ امیر ہو یا غریب و نادار یہ ناممکن ہے کہ پیغمبر پاک اللہ کی ذات پاک یا آنحضرت کی سیرت مبارکہ پر کسی قسم کا حملہ گوارا کر کے یہی وجہ ہے کہ رنگیلا رسول کی اشاعت سے ہر ایک قلب مسلم پر یاس و ہیجان مستولی ہو گیا.ہر مسلمان مضطرب نظر آنے لگا.لیکن اس اشتعال انگیز کتاب کی اشاعت سے مشتعل شدہ جذبات کو ملت اسلامیہ کے ہر فرد نے دبائے رکھا.اور اس امید سے دل کو تسلی دے لی کہ اس کی اشاعت کے ذمہ دار کو قانون کے ماتحت واجب اور منصفانہ سزادی جائے گی اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا.آنریل مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ نے امیدوں کے قصر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اس وسیع ملک کے طول و عرض میں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو نہایت سخت صدمہ پہنچا ".اس مقدمہ میں وکالت کے لئے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی فاضلانہ بحث مسلمان وکلاء نے متفق طور پر چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا اور آپ ہی مقدمہ میں پیش ہوئے اور ایسی قابلیت اور عمدگی سے وکالت کی کہ سب مسلمانوں نے آپ کو خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ اخبار " دور جدید لاہور نے لکھا:.” مسلم آؤٹ لک کے اس کیس کے سلسلہ میں جو در حقیقت راجپال کے مقدمہ تحقیر نبی کریم کا ایک شاخسانہ تھا.شفیع مرحوم و مغفور کی کوٹھی پر پنجاب کے بہترین وکلاء اس غرض کے لئے جمع

Page 664

60J خلافت ثانیہ کا چودھواں سال ہوئے تھے کہ اس مقدمہ کو ہائیکورٹ میں جوں کے سامنے کون پیش کرے تو ان چوٹی کے آٹھ دس وکلاء نے ( جو سب کے سب لیڈر اور قومی رہنما اور سردار سمجھے جاتے ہیں ) متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ اس کام کو چوہدری ظفر اللہ خان کے علاوہ اور کوئی شخص کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا.چودھری صاحب موصوف نے اگر چہ اس بات پر بہت زور دیا اور فرمایا کہ آپ حضرات تجربہ ، قابلیت شہرت اور استعداد میں مجھ سے بڑھ کر ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار کارکن آپ میں سے کوئی بزرگ ہو جائے اور میں بطور اسسٹنٹ ممکن خدمت اور مدد کرتا رہوں لیکن اس کو کسی ایک نے بھی منظور نہ کیا.چودھری صاحب نے ہائیکورٹ میں یہ کیسی بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا اور اپنی سحر بیان تقریر کے آخری فقروں میں فرمایا کہ حضرت محمد الیں جن کے احکام کے سامنے دنیا کی چالیس کروڑ آبادی کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ عظیم الشان وزراء مشهور عالم جرنیل اور کرسی عدالت پر رونق افروز ہونے والے بج (جنگی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے) فخر کرتے ہیں ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی ذلیل تحریر کو کسی حج کا یہ قرار دینا کہ اس سے نبی کریم کی کوئی ہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آؤٹ لک کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی صاحب الرائے ٹھرتے ہیں.اس موقعہ پر مولانا ظفر علی خان صاحب جو اس وقت موجود تھے فرط جوش میں آبدیدہ ہو گئے.اور ان سے رہا نہ گیاوہ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چودھری صاحب کا ہاتھ چوم کر ان کو گلے سے لگالیا نیز نهایت پر زور طریق سے یہ بات کہی کہ جو ھے صاحب کی اس تقریر نے واضح طور پر غلط ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں مقرر نہیں.ان واقعات ہیں صرف نظر کرتے ہوئے چودھری صاحب کو ایک زمانہ میں انجمن حمایت اسلام کی نمبری کے لئے مینیجنگ کمیٹی کا بھی ممبر بنایا گیا اور آپ نے مسلمانوں کے مختلف ڈیپوٹیشنز کی ممبری کے فرائض سرانجام " اخبار سیاست (لاہور) ۲۳ جوان کے ۱۹۲ ، نے لکھا:- اس سوال پر کہ عدالت کو اس مقدمہ کی سماعت کا حق حاصل ہے یا نہیں چودھری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ممبر پنجاب کو نسل نے زبردست تقریر کی اور متعدد حوالے دیگر ثابت کرنا چاہا کہ عدالت ہائے برطانیہ کو ولایت کے قانون عامہ کی رو سے ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار حاصل ہے یہ اختیار پرانی عدالت ہائے ہند کو حاصل تھا جو ہمیئی، مدراس اور کلکتہ میں موجود تھیں ان کے بعد انہی شہروں میں عدالت ہائے عالیہ مقرر ہو ئیں ان کو یہ حق خاص طور پر تفویض : والن کے سوا کسی عدالت

Page 665

تمر نت - جلد ۴ 602 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال کو یہ حق حاصل نہیں سرکاری وکیل نے جواب میں کہا کہ اللہ آباد ہائیکورٹ اور پنجاب ہائیکورٹ کی حیثیت ایک ہی ہے اور دونوں کو یہ حق حاصل ہے غرضیکہ پُر لطف بحث ہوئی اور ساڑھے بارہ بجے عدالت نے فیصلہ کیا کہ نہیں سماعت مقدمہ کا حق حاصل ہے اگرچہ فیصلہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف ہوا تاہم ان کی قابلیت اور ان کے فاضلانہ خطاب کا ہر شخص معترف تھا اور اپنے اور بیگانے وکلاء نے بھی ان کو ان کی تیاری اور قابلانہ تقریر پر مبارک باد دی.اس کے بعد اصل الزام زیر بحث آیا مسٹر کارڈن بیرسٹر نے سرکار کی طرف سے تقریر کی اور کہا کہ جس مضمون پر اعتراض ہے وہ ۱۴ جون کو شائع ہوا اس کا عنوان ہے "مستعفی ہو جاؤ" ایک حج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا ہی اس کی سخت ہتک کرنا ہے دوسرے اس مضمون میں لکھا ہے کہ جن حالات میں یہ فیصلہ ہوا ہے جو غیر معمولی فیصلہ ہے ان کی تحقیقات ہونا چاہئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مضمون میں الزام لگایا گیا ہے کہ فاضل جج نے ایمانداری سے فیصلہ نہیں کیا......آپ کے بعد....مسٹر ظفر اللہ نے ثابت کیا کہ کسی حج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا اس کی ہتک کرنا نہیں ہے اس کو عدالت نے تسلیم کیا آپ نے کہا کہ ملزمین نے نہایت دلیرانہ جواب دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے نہیں ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہ تھا کہ حج کی نیت پر حملہ کریں تو ہمیں ان کے بیان پر اعتماد کرنا چاہئے وہ اس امر کی تحقیقات چاہتے تھے کہ آیا اس مقدمہ میں سرکاری وکیل نے خوب بحث کی پانہ کی اور جج نے اس کو دو جوں کے سپرد کیوں نہ کر دیا اکیلے کیوں فیصلہ کیا وغیرہ وغیرہ آپ نے کہا کہ ایک فقرہ کے بھلے اور برے دو معنی ہو سکتے ہیں اس کے جو بھلے معنی ہیں عدالت ان کو اختیار کرے".مولوی نور الحق صاحب کی جانب سے مسٹر نیاز محمد نے کہا کہ وہ محض نا شرو طالع ہیں اور انگریزی نہیں جانتے لہذا ان کی ذمہ داری کم ہے آپ نے کئی حوالے پیش کئے مگر مولوی نور الحق صاحب نے خود اٹھ کر کہہ دیا میں تمام الزام قبول کو کرتا ہوں".عدالت کی طرف سے سزا کا فیصلہ جنس براڈوے نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری، مولوی نورالحق صاحب کے بیانات اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی بحث سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ :- میں سید بخاری کو چھ ماہ قید محض اور ساڑھے سات سو روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ ہفتہ مزید قید محض کی سزا دیتا ہوں اور مولوی نور الحق کو ۳ ماہ قید محض ہزار روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی مزید ایک ماہ قید محض کا حکم سناتا ہوں.تمام ججوں نے اس سزا سے اتفاق کیا.فور اپولیس کے "

Page 666

جلد ۴ 603 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال افسروں نے ملزمین کو گھیر لیا.وارنٹ تیار تھے.انہیں موٹر میں بٹھا کر سنٹر جیل کو لے گئے.تحفظ ناموس رسول کیلئے مسلمانان ہند عدالتی فیصلہ پر مسلمانان ہند کا قومی دماغ سخت کی راہنمائی اور ملک گیر تحریک کا آغاز پریشان ہو گیا اور مسلمان اس وقت متفق طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اب انہیں کیا اقدام کرنا چاہئے ایک فریق نے یہ علاج سوچا کہ عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے.دوسرے فریق نے کہا کہ مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر کی طرح دوسرے مسلمان بھی توہین عدالت کے جرم کا تکرار کریں آخر کتنے مسلمانوں کو جیل خانہ میں ڈالا جا سکے گا.تیسرے فریق نے یہ تجویز بتائی کہ ملک میں سول نافرمانی شروع کر دی جائے.مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان سب تدبیروں کو پُر زور دلائل سے بے فائدہ بلکہ مسلم مفادات کے اعتبار سے انتہائی نقصان دہ اور ضرر رسان ثابت کیا.اور اس نازک ترین وقت میں جبکہ مسلمانوں اور اسلام کی زندگی اور موت کا سوال در پیس تھا مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور تحفظ ناموس رسول الی کے لئے ایک پر امن مگر مئوثر عملی تحریک کا آغاز کر دیا.۲۲ جولائی سے ۱۹۲ء کے دن جلسوں کی تجویز اس سلسلہ میں حضور نے ابتدائی مرحلہ پر فوری رنگ میں یہ تجویز کی کہ "مسلم آؤٹ لک" کے مدیر و مالک کی قید کے پورے ایک ماہ بعد یعنی ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو جمعہ کے دن ہر مقام پر جلسے کئے جائیں جن میں مسلمانوں کو اقتصادی اور تمدنی آزادی سے متعلق آگاہ کیا جائے اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کا کام جاری کریں گے.اور ہندوؤں سے ان امور میں چھوت چھات کریں گے جن میں ہندو چھوت چھات کرتے ہیں اپنے قومی حقوقی قوانین حکومت کے ماتحت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اس دن ہر مقام پر ایک مشترکہ انجمن بنائی جائے جو مشترکہ فوائد کا کام اپنے ہاتھ میں لے.اسی طرح تمام مسلمان حکومت سے درخواست کریں کہ ہائی کورٹ کی موجوہ صورت مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اور ان کی بہتک کا موجب ہے ( پنجاب میں) پچپن فیصد آبادی والی قوم کے کل دو جج ہیں اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کم سے کم ایک مسلمان حج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے اور مقرر کیا جائے اور اسے نہ صرف مستقل کیا جائے بلکہ دوسرے ججوں سے اسے اس طرح سینئر کیا جائے کہ موجودہ چیف جسٹس سر شادی لال) کے بعد وہی چیف حج ہو.حضور نے مزید فرمایا کہ ۲۲ جولائی کے جلسوں میں مسلمانوں سے دستخط لے کر محضر نامہ کی تجویز ایک محضر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک "مسلم آؤٹ لک " کے ایڈیٹر

Page 667

تاریخ احمد بیت - جلد " 604 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال اور مالک نے ہر گز عدالت عالیہ کی ہتک نہیں کی بلکہ جائز نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نزدیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد جسٹس کنور دلیپ سنگھ کا فیصلہ مسترد کر کے مسلمانوں کی دلجوئی کیجائے.انگریزی حکومت نے چاہا کہ آپ یہ مہم جاری نہ کریں.لیکن حضور نے حکومت کو صاف صاف کہہ دیا کہ - مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنمنٹ کی خاطر قوم کو قربان کردوں اس وقت قوم کی حفاظت کا سوال ہے ".۲۲ جولائی ۱۹۴۷ء کو جلسے کاشاندار منظر اور قومی وملی اتحاد حضرت علیہ السیح الثانی کی اس آواز پر جو آپ نے قادیان سے بلند کی تھی پورا ہندوستان گونج اٹھا اور جیسا کہ آپ نے تحریک پیش کی تھی ۲۲ جولائی کو مسلمانان ہند نے ہر جگہ کامیاب جلسے کئے اور ایک متحدہ پلیٹ فارم سے نہ صرف مسلم آوٹ لک کے مالک اور مدیر کی گرفتاری پر احتجاج کیا گیا.بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی سکیم کے مطابق مسلمانوں نے مشترکہ انجمنیں قائم کر کے دوکانیں کھلوائیں تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دی اور اپنے سیاسی حقوق کے لئے اپنی جدوجہد تیز تر کردی اور ایک محضر نامہ تیار کیا جس پر پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط تھے." جماعت احمدیہ کے علماء مصنفین اور دوسرے احمد کی اپنے محبوب امام کی ہدایات کے مطابق اس تحریک کو کامیاب کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے.لنڈن میں مسلم پولیٹیکل لیگ کا قیام جماعت احمدیہ کی کوششوں کا دائرہ بیرونی ممالک تک ممتد تھا.چنانچہ جماعت احمدیہ کی کوشش سے لندن میں مسلم حقوق کی تائید کے لئے ایک مسلم پولیٹیکل لیگ قائم کی گئی.انہی دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر مسلمانان پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے لندن تشریف لے گئے آپ نے دار العوام اور دار الامرا کے ممبروں انڈیا آفس کے عہدیداروں سابق وائسرائے ، گورنروں، مارلیمنٹ کے کارکنوں اور پریس کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں.کنی مجالس کو خطاب کیا اور مارننگ ٹائمز" "مانچسٹر گارڈین " " ڈیلی کرانیکل"." سنڈے ٹائمز“ وغیرہ مشہور برطانوی اخبارات میں مضمون لکھے جن کے نتیجہ میں پبلک حلقوں میں مسلمانوں کے حقوق کی نسبت اور زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی.چنانچہ اخبار "دور جدید " نے چودھری صاحب کی قومی و ملی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا.

Page 668

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 605 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال پنجاب کو نسل کے تمام مسلمانوں نے (جو یقینا مسلمانان پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائز حق رکھتے ہیں) جبکہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستند نمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہئے.تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خاں ہی کی ذات ستودہ صفات تھی جس پر ان کی نظر انتخاب پڑی چنانچہ چودھری صاحب اپنا روپیہ صرف کر کے اور اپنے قیمتی وقت اور آمدنی کو نظر انداز کر کے انگلستان تشریف لے گئے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومت برطانیہ اور سیاسین انگلستان کے رو برو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانان پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حد تک متاثر ہوئی یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کر سکتا".ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہندوؤں نے جب دیکھا کہ قادیان سے بلند ہو نیوالی تحریک نے مسلمانوں میں زبر دست اثر پیدا کر دیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف اکسانا شروع کیا.چنانچہ ایک ہندو اخبار نے لکھا." ”مرزائیوں یا احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں اس قدر اختلاف رائے ہے کہ مرزائی مسلمانوں کو اور مسلمان مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہیں ابھی کل کا ذکر ہے کہ ایک مسلمان نے مولوی کفایت اللہ صدر جمعیت علماء دہلی سے مرزائیوں کے متعلق فتویٰ طلب کیا تھا آپ نے جو فتوی دیا.وہ جمعیت علماء کے آرگن ”الجمعیتہ " دہلی کے کالموں میں شائع ہوا ہے اس میں مولانا کفایت اللہ نے مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ زیادہ میل جول بڑہانے کو برا قرار دیا ہے مگر مرزائیوں کی چالاکی ہوشیاری اور خوش قسمتی ملاحظہ ہو جو مسلمان ان کو کافر قرار دیتے ہیں ان کے ہی لیڈر مرزائی بنے ہوئے ہیں.اس وقت لاہور کے بد نام اخبار مسلم آؤٹ لک" کے ایڈیٹر اور پر نٹر پبلشر کے قید ہونے پر تمام ہندوستان کے مسلمان ایک غیر معمولی مگر فرضی جوش کا اظہار کر رہے ہیں اور مسلم آؤٹ لک کی پیروی کے لئے بے قرار ہوئے پھرتے ہیں اخبار مسلم آؤٹ لک کے متعلق ہمیں یہ معلوم کر کے از حد حیرت ہوئی ہے کہ اس کے ایڈیٹر مسٹر دلاور شاہ بخاری احمدی تھے اور جب ہائیکورٹ کا نوٹس ان کے نام آیا تو وہ مرزا قادیان کے پاس گئے تاکہ اپنے ڈیفنس یا طرز عمل کے متعلق اس کی رائے لیں.مرزا نے انہیں مشورہ دیا کہ معافی مانگنے کے بجائے قید ہو جانا بہتر ہے غرضیکہ ہر پہلو سے یہ ایک احمدی تحریک ہے اور احمدیوں کی چالاکی پر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنے آگے لگایا ہوا ہے اور تو اور جو مسلمان لیڈر انہیں کافر قرار دیتے تھے وہ بھی اس وقت

Page 669

تاریخ احمد نات ، جلد ۴ 606 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا اسلام کی بہت بڑی خدمت خیال کرتے ہیں.مقدمہ در تمان کا فیصلہ رنگیلا رسول " سے متعلق عدالتی فیصلہ اور اس کے رد عمل کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ مقدمہ درحمان کی طرف آتے ہیں.قبل ازیں ذکر آچکا ہے کہ رسالہ " در تمان " کی ضبطی اور اس کے طابع و ناشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر ہندوؤں نے حکومت انگریزی پر زور دیا کہ وہ امام جماعت احمد یہ (ایدہ اللہ تعالیٰ) پر بھی مقدمہ چلائے مگر حکومت ہندوؤں سے مرعوب نہ ہوئی.اور چیف جسٹس نے یہ مقدمہ ایک حج کے سپرد کر دیا.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کو بذریعہ تار توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ ججوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے تا رفعہ ۱۵۳ - الف سے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تحقیق ہو جائے.یہ معقول مطالبہ حکومت نے منظور کر لیا اور چیف جسٹس صاحب جو رخصت پر جا رہے تھے بمبئی سے واپس آگئے اور مقدمہ در تمان ڈویژن بینچ کے سپرد ہو گیا.جس نے 4 اگست ۱۹۲۷ء کو فیصلہ سنایا کہ مذہبی پیشواؤں کے خلاف بد زبانی ۱۵۳.الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور بنابریں ڈویژن بینچ نے ورتمان کے مضمون نگار کو ایک سال قید بامشقت اور پانچسو روپیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید سخت اور اڑھائی سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی.مقدمہ در تمان کے فیصلہ پر حضرت مقدمہ در تمان کا فیصلہ ہوگیا اور سیر دوزخ کا خلیفتہ المسیح الثانی کے جذبات مضمون لکھنے والا اور اس کا چھاپنے والا ایک سال اور چھ ماہ کے لئے دنیا کے دوزخ میں ڈال دیا گیا.مسلمان خوش ہو گئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو بہت سے لوگوں نے مبارکباد کے تار بھی دیئے مگر آپ نے فرمایا." میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا.اپنے سردار حضرت محمد ﷺ کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا.میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ علی کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.میں دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.بلکہ میں اگلے پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا.کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے"." کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جلانے کے لئے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لئے وہ لوگوں کو

Page 670

احمد نت - جلد ۴ 607 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال زندگی بخشنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے غرض محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ اس کی موت میں پس میں اپنے نفس میں شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بد بختی کی مہرانہوں نے اپنے ماتھوں پر لگائی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ اللہ کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پا کر ابدی زندگی نہ پاتے اور اس صداقت کا ار تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش در حقیقت مسلمانوں کی تبلیغی ستی کا نتیجہ ہے.قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا اور میرے لئے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ ﷺ کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت قائم نہ ہو جائے".حضرت امام جماعت احمدیہ کی مسافی ناموس رسول عربی ﷺ کی حفاظت اور پر مسلم اخبارات کا اظہار تشکر دشمنان اسلام کے فتنہ کی سرکوبی کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جو عظیم الشان جہاد کیا وہ اس دور کے اسلامی کارناموں میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا.چنانچہ اخبار مشرق گورکھپور) نے حضرت امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات کے عنوان پر مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا." جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں آپ ہی کی تحریک سے ور تمان " پر مقدمہ چلایا گیا.آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا.سرفروشی کی اور جیل خانہ جانے سے خوف نہیں کھایا آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو انصاف و عدل کی طرف مائل کیا.آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا.اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے اور اس کا تدارک نہایت ہی عادلانہ فیصلہ سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں.سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولے کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے مسلم پولیٹیکل جماعت جو لنڈن میں بنائی گئی ہے یہ مسلم لیگ کی طرح مٹ جانے والی اور تباہ ہو جانے والی چیز نہ ہوگی کہ مسلمانان ہند نے لیگ کا اثر ولایت تک بڑھایا لیکن جب ہندوستان کی نیشنل کانگریس میں لیگ جذب ہو گئی تو آنریبل سید امیر علی کو دودھ کی مکھی کی طرح الگ

Page 671

تاریخ احمدیت جلد ۴ 608 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال کر دیا.اس اخبار نے ایک دوسری اشاعت میں لکھا: یہ واقعہ ہے اس پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے صرف احمدی جماعت ہی اس بات کا دعوی کر سکتی ہے کہ اس نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ بر حیثیت اچھا کیا اور خوب کیا اور اس سے زیادہ بہتر اور صحیح طریق پر ناموس رسول کریم صلعم کی حفاظت کے لئے جہاد اکبر بھی کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا فردا من الافراد کا ذکر نہیں.کیونکہ حضرت خواجہ حسن نظامی اپنی ذات خاص سے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں.یورپ اور افریقہ اور امریکہ میں جو خدمات اسلام یہ جماعتیں کر رہی ہیں ان کا ذکر بے سود ہے ہندوستان میں بھی جو کام ہو رہا ہے اور جیسا ایثار اور ہمت بلکہ اولوالعزمی یہ لوگ دکھا رہے ہیں باعث صد ہزار ممنونیت قوم مسلمہ ہے.حال میں صوبہ متوسط کے دارالصدر ناگپور میں اس جماعت کے ایک فرد واحد نے جو ثبوت اپنی ہمت دایثار کا دیا ہے اس کی مفصل کیفیت الفضل قادیان نے کے الاگست کو لکھی ہے ایک صاحب ایثار کی کوششیں اور ہمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلسہ ہوا اور بارش بہت زور و شور سے ہوتی رہی.پانی میں سب بھیگتے رہے جن کے پاس چھتریاں تھیں.چھتریاں اتار دیں اور ریزولیوشن پیش کئے پاس کئے تقریریں کیں اور ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنے پیشوا اور اپنے امام جماعت کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ کر سکتا ہے اور اس موقعہ پر قابل تحسین تمام فرقوں کے مسلمان ہیں جنہوں نے اختلاف کو چھوڑ کر خدا کے حکم پر تمسک کیا اور رہنمائے اسلام امین کامل صادق پاک باز حضرت محمد رسول اللہ کے ناموس کی حفاظت کے لئے ایک مرکز پر جمع ہو گئے اور یہی خدا کا حکم ہے قرآن پاک میں برابر اس کی تاکید مسلمانوں کو ہے کہ تفرقہ نہ پیدا کرد.فرقہ بندی کو چھوڑ دو اور سب ایک ہو جاؤ گے تو غیر مسلم فرقے تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.ہم جماعت احمدیہ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ سچا کام خدمت اسلام کا انجام دے رہی ہے اور اس وقت ہندوستان میں کوئی جماعت اتنا اچھا اور ٹھوس کام نہیں کرتی کہ وہ ہر موقعہ پر مسلمانوں کو حفاظت اسلام اور بقائے اسلام کے لئے توجہ دلاتی رہتی ہو.باوجود اختلاف عقائد کے ہمارے دل پر اس جماعت کی خدمات کا گہرا اثر ہے.اور آج سے نہیں.جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے زمانہ سے اس وقت تک ہم نے کبھی اس کے خلاف کوئی حرف زبان اور قلم سے نہیں نکالا“ اخبار مشرق یکم ستمبر۷ ۱۹۲ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۵۷-۵۸) لکھا.اسی طرح اخبار انقلاب " لاہور نے احمدیوں کی قابل قدر خدمات اسلامی کے عنوان پر کا احمدی فرقے سے بر اعتبار عقائد ہمیں جو اختلاف ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.علاوہ بریں مطالبات اسلامی کی تکمیل کے طریقہ ہائے کار میں بھی ہمارے اور ان کے درمیان بڑی حد تک فرق

Page 672

609 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال و تفاوت موجود ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود ہم اس فرقہ کی بعض قابل قدر خدمات اسلامی کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہیں.امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مقدمہ راجپال کے فیصلہ کے متعلق نہ صرف ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی ہم آہنگی اختیار کی بلکہ مسجد لنڈن کے امام مولوی عبدالرحیم درد کو اس قسم کی ہدایات بھی بھیج دیں کہ جہاں تک ہو سکے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی شکایات کو پارلیمنٹ تک پہنچادو اور انگلستان میں بھی اس جدوجہد کی بنیاد رکھ دو.جس نے آج مسلمانان ہند کو آتش زیر پا کر رکھا ہے ان ہدایات کا نتیجہ یہ ہوا کہ درد صاحب نے نہایت ہی دردمندی اور انہماک سے کام شروع کر دیا اور اب تک جو اطلاعات موصول ہو چکی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض معززین انگلستان اور مسلمانان مقیم برطانیہ کے دستخطوں سے وزیر ہند کو بھیجنے کے لئے ایک محضر نامہ تیار ہو رہا ہے جس پر دو سو سے زائد دستخط کرنے والوں میں چینی ، ہندوستانی ایرانی افغانی اور برطانوی مسلمانوں کے علاوہ سر آتھر کانن ڈائل اور سرولیم سمپسن جیسے معزز اور نامور انگریز بھی شامل ہیں اس محضر نامہ میں راجپال کی کتاب اور مقدمہ راجپال کے خلاف شدید نفرت اور حقارت کا اظہار کیا گیا.اس کے علاوہ مانچسٹر گارڈین نے اس مسئلہ پر ایک افتتاحیہ لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ حالات موجودہ میں اس قسم کی قابل اعتراض تحریروں کی اشاعت سخت خطرناک فسادات کا باعث ہو سکتی ہے یہ بھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور سردار اقبال علی شاہ صاحب احمدی کی کوششوں کا نتیجہ ہے.تازہ خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی رکن نے راجپال کے مقدمہ کے متعلق ایک سوال بھی کر دیا ہے جس کے جواب میں ارل ونٹرٹن نے اعلان کیا ہے کہ عدالت عالیہ اس قسم کے مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے اگر اس کا فیصلہ خاطر خواہ نہ ہوا تو اس قسم کی مطبوعات کے انسداد کے لئے قانون میں ترمیم کیجائینگی ہمیں یقین ہے کہ احمدیوں کی مساعی جمیلہ جاری رہیں گی اور دوسرے مسلمان بھی اس کام میں احمدیوں کی اعانت کریں گے.یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ایک ایسی قوی جماعت پیدا ہو جائے جو مسلمانوں کے مطالبات کی پورے زور سے حمایت کر سکے ہم ان بروقت خدمات کے لئے امام جماعت احمدیہ اور مولوی عبدالرحیم در د صاحب کے بہت شکر گزار ہیں".مقدمہ " ورتمان" کے تحفظ ناموس پیشوایان مذاہب کے لئے مکمل قانون کا مطالبہ فیصلہ + ثابت ہو جانے کے بعد کہ جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے دفعہ ۱۵۳- الف کی جو تشریح کی ہے بالکل غلط ہے اس امر کی فوری ضرورت تھی کہ بزرگان مذاہب کی توہین کے انسداد کے لئے پہلے سے زیادہ واضح اور زیادہ مکمل قانون کا مطالبہ حکومت سے کیا جاتا.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے 10 اگست

Page 673

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ 610 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال ۱۹۲۷ء کو فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس کے ابتداء میں یہ بتایا کہ جماعت احمد یہ اس قانون کے نامکمل ہونے کی دیر سے شاکی ہے چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا کہ:- ۱۸۹۷ء میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فتن کو دور کرنے کے لئے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہئے لیکن افسوس کہ لارڈالجن نے جو اس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی.اس کے بعد سب سے اول ۱۹۱۴ء میں میں نے سراڈ وائر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فتن کے دور کرنے کے لئے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے ملک میں امن قائم نہ ہو گا.انہوں نے مجھے اس بارہ میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دو دن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب امام جماعت احمد یہ فوت ہو گئے.اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا.چنانچہ وہ جماعت کے لئے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا.میں سراڈ وائر سے مل نہ سکا اور بات یونہی رہ گئی.اس کے بعد ۱۹۲۳ء میں میں میکلیگن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں انہوں نے یہ معذرت کر دی کہ اس امر کا تعلق گور نمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس کے بعد میں نے پچھلے سال ہز ایکسیلینسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا اور باوجو د وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غم بر نخور کریں گے غور نہیں کیا میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا اور تمام حکام اعلے سیاسی لیڈروں اخباروں پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سر بر آوردہ لوگوں کو جاچکا ہے اور کلکتہ کے مشہور اخبار " بنگالی" نے جو ایک متعصب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کردہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے سرمائیکل اڈوائر اور ٹائمز آف لنڈن کے مسٹر براؤن نے ان تجاویز کو نہایت ہی ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سر بر آوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا.لیکن افسوس کہ ان حکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی جس کا نتیجہ وہ ہوا جو نظر آرہا ہے ملک کا امن برباد ہو گیا اور فتنہ کی و فساد کی آگ بھڑک اٹھی.یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد حضور نے حکومت اور مسلمانوں کو مروجہ قانون (۱۵۳- الف) کی

Page 674

611 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال چار واضح خامیوں کی طرف توجہ دلائی.- موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم گردانتا ہے جو فسادات کی نیت سے کوئی مضمون لکھے.براه راست تو ہین انبیاء کو جرم نہیں قرار دیتا.اس قانون کے تحت صرف حکومت ہی مقدمہ چلا سکتی ہے.اس قانون میں یہ اصلاح کرنا ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک قانونی کارروائی نہ کی جائے جب تک کہ اصل مؤلف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بشر طیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو.یہ قانون صوبائی ہے لہذا اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبائی حکومت ضبط کرلے تو باقی تمام صوبائی حکومتیں بھی قانونا پابند ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں اس کتاب کی طباعت یا اشاعت بند کر دیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی حکومت کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کر دے جس کا سب صوبوں پر اثر ہو.ہندوستان سے یہ آواز بلند کرنے کے بعد حضور نے لندن کے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے کے ذریعہ انگلستان میں بھی کوشش کر کے وہاں کے پریس میں یہ سوال اٹھا دیا کہ موجودہ قانون ناقص ہے اور اسے جلد بدلنا چاہئے اور پارلیمنٹ میں بھی بعض ممبروں نے یہ معاملہ رکھا.

Page 675

تاریخ احمدیت جلد ۴ 612 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال ساتواں باب (فصل دوم) سفر شمله حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی تحفظ ناموس رسول اور مسلمانوں کے ملکی و قومی حقوق کی نگہداشت کے لئے جو جدوجہد فرما رہے تھے.اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ہندوستان کے مشہور مسلم و غیر مسلم زعماء سے تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ حکومت کے حلقوں سے رابطہ پیدا کرنا بھی ضروری تھا.چنانچہ بنفس نفیس اس مقصد کی تکمیل کے لئے ۱۳ اگست ۱۹۲۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور قریباً ڈیڑھ ماہ تک دن رات مصروف رہنے کے بعد ۲ اکتو بر ۱۹۲۷ء کو دار الامان میں واپس تشریف لائے - 1 اس مبارک سفر میں جو اول سے آخر تک دینی، قومی اور ملکی سرگرمیوں کے لئے وقف تھا آپ کی مصروفیات عروج تک پہنچ گئیں.۲۴ ناموس پیشوایان مذاہب کے تحفظ کے لئے نیا قانون گورنر صاحب پنجاب نے مقدمہ " در تمان " کے فیصلہ سے قبل ایک تقریر میں کہا کہ اس مقدمہ (در تمان) کا نتیجہ یہ فیصلہ کر دیگا کہ آیا ہمارے لئے موجودہ قانون ہی کافی ہے یا نہیں اس میں ترمیم کرنے کے لئے مجلس واضع قوانین تک جانا پڑیگا.یعنی در تمان کا بھی اگر وہی فیصلہ ہوا جو راجپال کا ہوا تھا تب حکومت قانون کی ترمیم کے لئے اسمبلی میں سوال رکھے گی.لیکن حضور نے شملہ تشریف لے جا کر نہ صرف حکومت کو ملکی اور جدید قانون کی ضرورت کا قائل کرنے کی کوشش کی بلکہ اسمبلی کے مسلمان ممبروں سے تبادلہ خیالات کے علاوہ ہندو لیڈروں سے بھی اپنے مجوزہ مسودہ قانون پر گفتگو فرمائی چنانچہ مسلمانوں کے مشہور لیڈر جناب محمد علی جناح ( قائد اعظم) مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریزیڈنٹ اسمبلی سر عبد القیوم صاحب خان محمد نواز خان صاحب ، مولوی محمد شفیع صاحب داؤدی اور مولوی محمد عرفان صاحب گاہے گاہے آپ کی فرودگاہ پر تشریف لائے اور انہوں نے اس کے تمام پہلوؤں پر گھنٹوں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا اور آپ کے مسودہ کی نہ صرف تائید کی بلکہ تعریف بھی.BI یہ مسودہ شائع ہوا تو ہندوستان ٹائمز نے اسے نہایت اہم اور ضروری قرار دیا اور پنڈت مدن موہن مالویہ نے اپنی ایک پرائیویٹ ملاقات میں اصولی طور پر اس سے اتفاق کیا.اسی طرح مہاراشٹر پارٹی کے لیڈر مسٹر کلکر اور مسٹر پہلوی خود حضور کی قیامگاہ پر آئے اور آپ کی رائے سے اظہار اتفاق کیا.

Page 676

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 613 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال حضور کی اس شبانہ روز جد وجہد کا اثر یہ ہوا کہ قیام شملہ کے صرف نو دن بعد حکومت ہند نیا قانون اسمبلی میں پیش کرنے پر رضامند ہو گئی.چنانچہ ۲۲ اگست ۱۹۲۷ء کو شملہ سے یہ سرکاری اعلان ہوا کہ.مذاہب کی توہین یا دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے شرانگیز مضامین کی افسوس ناک اشاعت کے پیش نظر حکومت ہند نے موجودہ قانون کی دفعات کو محض اس لئے بنظر امعان ملاحظہ کیا کہ ان میں سے کسی کو قوی بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن قانون پر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس قسم کی تحریرات تعزیرات ہند کے باب پانزدہم کی گرفت میں نہیں آتی ہیں.کیونکہ یہ باب محض ان جرائم پر حاوی ہے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں.البتہ یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی تمام تحریرات دفعه ۱۵۳- الف تعزیرات ہند کے رو سے قابل مواخذہ ہیں کیونکہ ایسا تو بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے کہ اس سے دو مختلف جماعتوں کے درمیان نفرت و حقارت کے جذبات کو ترقی دینے کی کوشش کا اظہار نہ ہوتا ہو.لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ طریقہ ایسے افعال کو قابل مواخذہ قرار دینے کے لئے ایک ٹیڑھا سا طریقہ ہے جنہیں خود ہی مورد تعزیر ہونا چاہئے عام اس سے کہ ان افعال سے مختلف جماعتوں کے درمیان منافرت و مغایرت کے جذبات کو ترقی ہوتی ہے یا نہیں.لہذا حکومت ہند نے فیصلہ کر لیا ہے کہ لیجسلیٹو اسمبلی میں فورا ایک مسودہ قانون پیش کر دیا جائے تاکہ تعزیرات ہند کے باب پانزدہم میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ ہو جائے جس کے رو سے کسی مذہب کی عمد اتوہین یا توہین کی کوشش یا ملک معظم کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا مجروح کرنے کی کوشش کو بذات خود ایک جرم قرار دیا جا سکے.اس دفعہ کو کتاب الآئین پر لانے کے لئے ضابطہ فوجداری میں بھی بعض ترمیمات کی جائیں گی جو اس اجلاس میں پیش ہوں گی".چنانچہ اسمبلی نے اس معاملے کے پیش ہونے پر ایک نئی دفعہ کا اضافہ منظور کر لیا اور پیشوایان مذاہب کی عزت کے تحفظ کا قانون پہلے سے بھی زیادہ معین صورت اختیار کر گیا.ہندو مسلم اتحاد کانفرنس میں شرکت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہندو مسلم مناقشات دور کرنے کی جدوجہد کبھی ترک نہیں کی اور باوجودیکہ آپ کے سامنے تبلیغ اسلام اور تربیت جماعت اور تنظیم قوم کا ایک عظیم الشان مقصد تھا.آپ نے ملک میں امن و صلح کی فضا پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا.چنانچہ پچھلی سطور میں یہ ذکر آچکا ہے کہ حضور نے وائسرائے ہند کے نام ایک مفصل مکتوب لکھا جس میں ہندو مسلم فسادات کی روک تھام اور باہمی مفاہمت کے لئے نہایت قیمتی مشورے دیئے اس خط میں

Page 677

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 614 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال آپ نے ملکی سطح پر ایک ہندو مسلم اتحاد کانفرنس کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا.وائسرائے نے ابتداء میں تو غیر ضروری خیال کی لیکن ۲۹ اگست ۱۹۲۷ء کو کونسل آف سٹیٹ اور مجلس واضع قوانین کے ممبروں میں تقریر کی کہ.ایک سال گذرا ہے کہ بعض مقتدر اصحاب نے مجھ کو توجہ دلائی تھی کہ میں ایسی کانفرنس منعقد کروں جو ان اسباب پر غور کرے جو امن کے کفیل ہو سکیں.بعض وجوہ کی بناہ پر جو اس وقت مجھ کو یقینی معلوم ہوتی تھی.میں نے اس وقت کوئی کارروائی کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن اس عرصہ میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے میں مجبور ہو گیا کہ اپنے سابقہ فیصلہ پر نظر ثانی کروں".اس تقریر کے دوسرے روز شملہ میں ہندو مسلم اتحاد کی کانفرنس شروع ہو گئی.۳۰ اگست ۱۹۲۷ء کو اس کانفرنس کا پہلا مشترکہ (مگر اتحاد کانفرنس کا پہلا مشترکہ اجلاس غیر ضابطہ ) اجلاس کو نسل چیمبر میں ہوا.اس اجلاس میں جناب محمد علی صاحب جناح ( قائد اعظم) سر عبد القیوم صاحب سر عمر حیات خان صاحب ٹوانہ سر ذو الفقار علی خان صاحب، مولانا شوکت علی صاحب و جناب محمد علی صاحب جو ہر مولوی ظفر علی خان صاحب پنڈت مدن موہن مالویہ - ڈاکٹر مونجے لالہ لاجپت رائے ، مسٹر سری نواس آئینگہ وغیرہ لیڈر شامل ہوئے اور سمجھوتے کے طریق پر گرما گرم تقریریں اور بحثیں ہوئیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی تقریر میں اتحاد کے صحیح طریق پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کے اقتصادی حقوق کی حفاظت پر زور دیا.اتحاد کے اصول کو مفصل غور کے لئے ے تمبر۱۹۲۷ء کا دوسرا اجلاس مقرر ہوا.محمد حضرت خلیفتہ اصحیح کی تجاویز ہندو مسلم فیصلہ کے مطابق سے ستمبر۷ ۱۹۲ء کو دو سرا اجلاس ۲ منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اتحاد سے متعلق کانفرنس کے دوسرے ہندو مسلم اتحاد سے متعلق مندرجہ ذیل میں اہم تجاویز پیش فرمائی.اجلاس میں ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرنے اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے.کسی کے مذہب پر کسی ایسے عقیدہ یا دستور کی وجہ سے جسے وہ اپنے مذہب کا جزو نہ سمجھتی ہو کوئی اعتراض نہ کیا جائے.ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کر سکے اور ان کو کاروبار کرنے یاد کانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سرپرستی کی تحریک کرے.

Page 678

خلافت ثانیہ کا چودھواں سال 615 اپنی دکانیں کھولنے کی تحریک مسلم قوم کے لئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک انڈا اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کسی انتقام یادشمنی کی بنا پر نہ سمجھی جائیں.کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعرض نہ ہونا چاہئے اگر مسلمان گائے ذبح کرنا چاہیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے.اسی طرح عیسائیوں سکھوں ہندوؤں کو سٹوریا نے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو.مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور یہ اصل ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزء قرار دینا چاہئے.ہندوؤں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی رو سے پرائیویٹ ساہوکارہ باضابطہ ہو سکے.ہماری مدد کرنی چاہئے.اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقبوں میں مسلمانوں کے فائدے کے لئے کو آپریٹو بینک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں، فرقہ وارانہ منافرت کا رنگ نہیں دینا چاہئے.جس طرح ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے.اسی طرح مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے ملازمتوں میں بھی ان کی نیابت منظور کی جائے.اور ہر صوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہونی چاہئے.یہ امر بطور اصل تسلیم کیا جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کو نسل میں قلیل تعداد نہ رکھے.اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خالص مراعات دیتا ہوں.تو مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے.یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبے کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو.صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہونا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ملے ہیں اور اس صوبہ میں ہندوؤں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں.جہاں وہ اقلیت میں ہیں.سندھ اور بلوچستان مستقل صوبے بنا دیے جائیں اور یہاں ہندوؤں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں.جہاں وہ قلیل التعداد ہیں.چونکہ دیسی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہونا چاہئے.اس لئے یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کس ریاست میں وہاں کی حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے -41

Page 679

616 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال جائیں اور اس کو فوقیت ہونی چاہئے.-۱۴ مختلف صوبجات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کرنا چاہئے کہ ایسے صوبجات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قواعد و آئین کے اندر رہیں گے.۱۵ مخلوط انتخاب کا طریقہ اصول صحیح ہے مگر ہندوستان کی موجودہ حالت کے مطابق نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطر ناک ہے بہر حال جماعت احمد یہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فی الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چاہئے.اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں.مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جس پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے.اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے.۱۷ اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری کو پیش دستی کا الزام دیتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کا نفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہو جائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے؟ یا پھر یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجدہ واقعہ ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی ورنہ فطر تأیہ خیال پیدا ہو گا.کہ ذمہ داری کے اظہار کے ڈر سے صلح کی جارہی ہے.ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں.اور جب کبھی کوئی فرقہ دارانہ مخاصمت پیدا ہو تو لو کل بورڈ کے نمبروں کو فور آ جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنا چاہئے.اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈر کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہر ممکن طریق سے مدد دینی چاہئے.انڈین.ن نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف وفاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہتے کہ میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو مد نظر رکھوں گا اس کے سوا ممبر کے لئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں.-19 ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تاوہ اپنے مفاد کی

Page 680

تاریخ احمدیت.جلد ۴ حفاظت کر سکے.617 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال اسی دن شام کے پانچ بجے برہم مندر کے ہال میں ہندو مسلم اتحاد کانفرنس کا تیسرا اجلاس اتحاد کانفرنس کا تیسرا اجلاس جناب محمد علی صاحب جناح قائد اعظم) کی صدارت میں منعقد ہو ا جس میں یہ قرار پایا.کہ ایک مشترکہ سب کمیٹی مقرر کی جائے جو اس کا نفرنس کے لئے ایجنڈا تیار کرے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی اسی کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے.اسی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ دوسرے دن ۸ ستمبر ۱۹۲۷ء کی صبح کو سب کمیٹی کا اجلاس ہو اور شام ۵ بجے اس ایجنڈا پر غور کرنے کے لئے اتحاد کانفرنس کا اجلاس ہو.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی قرار داد کے مطابق مقررہ وقت پر تشریف لے گئے لیکن کوئی اجا اس نہ ہو سکا.الغرض کئی روز تک یہ کانفرنس جاری رہی اور سب کمیٹی کے اجلاسوں کی طرح کا نفرنس میں بھی تعطل کی صورتیں پیدا ہو ئیں.مگر حضرت خلیفتہ المسیح کی کوشش سے فضا سازگار ہو گئی.چنانچہ پنڈت مدن موہن مالویہ جی نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے (جو شملہ میں نامہ نگار کی حیثیت سے گئے تھے ) کہا کہ کل حضرت نے بہت ہی معقول تقریر کی اور صحیح راستہ دکھایا.افسوس حضور کی انتہائی جدوجہد کے باوجود ملکی لیڈروں میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا.جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران میں ہندو اخبارات نے اپنے لیڈروں پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ اگر وہ سنجیدگی سے کسی مسئلہ میں مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھنے کے لئے تیار بھی ہو جاتے تو ہندو ان کی قطعا پروانہ کرتے.قیام شملہ کے دوران میں حضور کی گورنر صاحب گور نر صاحب پنجاب سے ملاقات پنجاب سے بھی ملاقات ہوئی جس کی تفصیل خود حضور کے الفاظ میں یہ ہے : گور نر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکر ٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں میں جب ان سے ملنے کے لئے گیا تو انہوں نے چھوٹتے ہی تحریک چھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے.میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط می ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا اور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی.ہم نے جو کہا ، و صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گور نر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں اور اس تحریک میں کوئی ہرج نہیں.

Page 681

618 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال تاریخ احمد بیت - جلد ۴ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک اہم مکتوب ( جو حضور نے بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر لاہور کے نام آخر ۱۹۲۷ء میں تحریر فرمایا تھا) مکرمی با بو عبد الحمید صاحب السلام علیکم.گورنر صاحب سے چھوت چھات پر گفتگو ہوئی تھی معلوم ہوا کہ ہندوؤں کی طرف سے جو تحریکات اس کے متعلق ہو رہی ہیں وہ ان سے ناواقف ہیں.آپ جلد سے جلد کوشش کر کے ہندو اخبارات میں جہاں جہاں مسلمانوں کے بائیکاٹ کے متعلق جو تحریرات نکل چکی ہیں.ان کے کننگ مع اخبار کے نام اور تاریخ کے ارسال کریں تاکہ ان کے پاس پیش کیا جاسکے.کرمی یا یو عبد الحمید مناسب و السلام خاکسار مرزا محمود احمد کیا اللہ گفتگو علیکم.گورنر صاحب کے چھوت چهاست ورك ہوگا تھی انہوں نے بتایا.معلوم ہوا کہ ہندو کی طرح کے جو شربات اس کے متعلق ہو رہی ہے وہ ان کے ناواقت سے آپ جلد کے جلد کوشش کیر کا بند و اخبارات کی خیار جہاں کود مسلمانوں انکے کسنگ لا یا مکان کے مسلق جو تحریرات نکل چکی میرا し منابع اخبار کے نام اور تاریخ 20 ارسال کریں تا که این که پاس پیش کیا جائی نے وز والیدم قاصد من المراد

Page 682

در بیت - جلد ۱۴ لیکچر شمله 619 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال استمبر کا دن سفر شملہ میں ایک خاص دن تھا کیونکہ اس روز حضور نے الفنسٹن ہال میں نواب سر ذو الفقار علی خان کی صدارت میں ایک بصیرت افروز لیکچر دیا سب سے پہلے تلاوت قرآن مجید کے بعد صدر سر ذو الفقار علی خان نے آپ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا " حضرات ہمارے معزز محترم مرزا صاحب کی ہستی اس بات کی محتاج نہیں کہ آپ سے انٹروڈیوس کراؤں آپ کو زمانہ جانتا ہے آپ کی ذات سے جو فیض پہنچ رہا ہے اور مسلمانوں کی اصلاح حالت کے لئے جو سعی آپ کر رہے ہیں کہ سب کو معلوم ہے اس لئے میں کسی لمبی تقریر کی حاجت نہیں سمجھتا بلکہ حضرت سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنے ارشادات سے مستفیض فرما ئیں.اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تین گھنٹہ تک ایک عظیم الشان لیکچر دیا.جس میں نہایت مدلل اور موثر انداز میں مسلمانوں کو ان کی انفرادی اور قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور انہیں حقیقی مسلمان بننے اور اپنے اندر استقلال ادب خدمت خلق خواہش مقابلہ صفائی ، پابندی وقت ، جفاکشی ، رواداری نظام ، قومی آزادی اور تبلیغی روح پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور ایک بار پھر اپنا یہ قومی نعرہ بلند کیا کہ قومی ترقی چاہتے ہو.تو مشترک اسلامی امور میں ایک ہو جاؤ.چنانچہ حضور نے اختلاف امتی رحمۃ کا فلسفہ بیان کرنے کے بعد فرمایا." میری بات کو اچھی طرح سمجھ لو.میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو فرقہ اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے اور قرآن مجید کی شریعت کو منسوخ قرار نہیں دیتا اس سے اتحاد کر لو قومی برکات اور انعام قومی اتحاد کی روح سے وابستہ ہیں ".جداگانہ انتخاب کے مسئلہ پر مسٹر محمد علی شملہ کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ آپ نے جناب محمد علی صاحب جناح ( قائد اعظم) سے جداگانہ جناح ( قائد اعظم) سے تبادلہ خیالات انتخاب کے مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا اور " ان پر اس کی معقولیت واضح کر دی.چنانچہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کا بیان ہے کہ.یہ موسم گرما ۱۹۲۷ء کا واقعہ ہے ستمبر کا مہینہ تھا تمام صوبوں کے لیڈر شملہ میں اکٹھے ہوئے.ضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رائے جداگانہ انتخاب کے حق میں تھی...مرحوم قائد اعظم اس وقت کانگرس کے ممبر اور مسٹر محمد علی جناح کہلاتے تھے آپ کو بھی کنگلے میں دعوت چائے دی گئی تھی.میں اس وقت اس دعوت میں موجود تھا..آپ نے تبادلہ خیال کے آخر میں فرمایا.مرزا صاحب! میں نہیں مان سکتا کہ نصب العین ہمارا یہ ہو کہ ہندوستانی قوم بلند مقام تک جاپہنچے اور اس کا ذریعہ یہ جداگانہ انتخاب ہو ؟ قومیت صرف مشترکہ انتخاب کے ذریعہ سے ہی بن سکتی ہے حضور نے فرمایا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جہاں تک

Page 683

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 620 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال آئیڈیل (غایہ کمالیہ یعنی مقصد اعلے) کا تعلق ہے مشترکہ انتخاب قومیت کے لئے ضروری ہے مگر اس کا وقت نہیں مسلمان حد درجہ کمزور ہیں.وہ مشترکہ انتخاب میں ہندو سرمایہ اور ہندو چالوں کا مقابلہ ہرگز نہیں کر سکیں گے مگر مسٹر محمد علی جناح نہ مانے اور اپنی رائے پر قائم رہے.چنانچہ شملہ میں جب آپ کے زیر صدارت آخری اجلاس ہوا اور اس میں مقررین کی مخالف و موافق دونوں طرح کی تقریریں ہو ئیں اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے بھی تقریر فرمائی.تو اکثر حضرات جدا گانہ انتخاب کے حق میں تھے.مگر جب رائے حاصل کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو صد رجلسہ نے بدیں عذر رائے حاصل کرنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ یہ اجلاس با قاعدہ نہیں حاضرین میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلم لیگ کے ممبر نہیں غرض مرحوم قائد اعظم کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت کس طریق انتخاب کے حق میں ہے اور جب انہوں نے اجلاس کے خاتمہ پر آخری تقریر کی تو ان کا اٹھنا اور مسکراتے ہوئے یہ کہنا میں کبھی نہیں بھولا کہ مجھے ان تقریروں سے قوم کی اکثریت کا جداگانہ انتخاب کے حق میں ہو نا معلوم ہو گیا ہے جب ہندوؤں کے ساتھ فیصلہ کرنے کا موقع آئے گا تو میں ان کی اس رائے کا خیال رکھوں گا".سفر شملہ کے تاثرات سفر شملہ کے اہم واقعات بیان ہو چکے ہیں.بالآخر مناسب ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اس سفر سے متعلق بیان فرمودہ تاثرات درج کر دیئے جائیں حضور فرماتے ہیں:- اس سال میں نے شملہ کا سفر اختیار کیا جس کے دو بہت بڑے فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ مذہبی لحاظ سے اس مسودہ میں مشورہ دینے کا موقعہ میسر آیا جو گورنمنٹ نے مذاہب کے بزرگوں کی ہتک کے انسداد کے متعلق پیش کیا اسمبلی کے ممبروں کو اس کے متعلق کئی باتیں میں نے بتا ئیں چنانچہ مسودہ میں بعض تبدیلیاں میرے مشورہ کے مطابق ہو گئیں بعض نہ بھی ہو ئیں.مگر بہت بڑی کامیابی یہ تھی کہ بڑے بڑے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ اسلام کے لئے احمدی جماعت سب کچھ قربان کر کے کام کرنے کے لئے تیار ہے.مسٹر نیڈو جو مشہور عورت لیڈر ہیں انہوں نے ذکر کیا میں ایک موقعہ پر مسٹر محمد علی جناح سے ملی تو انہوں نے کہا احمدی جماعت میں کام کرنے کی عجیب روح ہے اسمبلی کے ممبروں کو اتنی فکر نہیں جتنی ان لوگوں کو ہے ان کے آدمی نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن ہر وقت ہمارے پاس پہنچ جاتے اور اپنا مشورہ پیش کرتے ہیں بات یہ ہے کہ جب مجھے مسودہ ملا تو میں نے راتوں رات آدمیوں کو اسمبلی کے بعض ممبروں کے پاس بھیجا کہ جا کر انہیں اس کے متعلق ضروری باتیں بتاؤ.اس اثنا میں شملہ میں اتحاد کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مجھے بھی ممبر بنایا گیا اس طرح مجھے ہندو

Page 684

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 621 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال مسلمان لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑا جس سے کئی فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ ہندو مسلمان لیڈروں سے واقفیت پیدا ہو گئی.جس سے آئندہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے دوسرے ان کی شخصیتوں کا علم ہو گیا.میں کانفرنس میں بولتا بہت کم تھا.اور ہر ایک کے کیریکٹر کو دیکھتا رہتا تھا.اور اب میں ان میں سے ہر ایک کے کیریکٹر سے خدا تعالیٰ کے فضل سے واقف ہوں کہ ان میں سے بعض اخلاص سے کام کرنے والے بھی ہیں گو بعض نمائشی بھی ہیں مگر خوشی اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی سمجھ کے مطابق مسلمانوں کے فائدے کے لئے اخلاص سے کام کرنے والے ہیں.مجھے یہ افسوس ہے کہ کانفرنس میں بعض مسلمانوں کی طرف سے ایسی باتیں بھی پیش ہو ئیں.جو مناسب نہ تھیں.مگر میں نے یہی طریق رکھا کہ ان کو اپنی مجلس میں اپنے طور پر سمجھا لیا جائے تاکہ مجلس میں مسلمان ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں اور خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ ہندو لیڈروں میں تو آپس میں تفرقہ ہو جاتا.مگر مسلمانوں میں اتحاد رہا.اور ہندوؤں کی ایک پارٹی بھی ٹوٹ کر مسلمانوں سے مل گئی.اگر چہ شملہ میں کوئی بات طے نہ ہو سکی.مگر یہ اسی کا اثر تھا کہ کلکتہ میں ہندو مسلمان لیڈروں میں گائے اور با جا کے مسئلہ پر اتحاد ہو گیا.پھر فرماتے ہیں:.مسٹر جناح اور مولانا محمد علی سے پچھلے دنوں شملہ میں مجھے شناسائی ہو چکی ہے اور یونٹی کا نفرنس اور قانون حفاظت مذاہب کے متعلق گھنٹوں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.میں مسٹر جناح کو ایک بہت زیرک قابل اور مخلص خادم قوم سمجھتا ہوں اور ان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی میرے نزدیک وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنے ذاتی عروج کا اس قدر خیال نہیں جس قدر کہ قومی ترقی کا ہے.مولانا محمد علی صاحب کو بھی میں نے اس سے بہت اچھا پایا جیسا کہ سنا تھا وہ ایک دردمند دل رکھنے والے اور محنت سے کام کرنے والے انسان ہیں.اور جن مخالف حالات میں وہ کام کر رہے ہیں وہ اس بات کا انہیں مستحق بناتا ہے کہ مسلمان ان کی قدر کریں.اور ان کی رائے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں مجھے ان سے کئی باتوں میں اختلاف رہا ہے لیکن میں ہمیشہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہوں ".مسلمانوں کے روشن خیال طبقہ کی طرف قیام شملہ میں آپ کی بے حد مصروفیات نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا.لیکن اسلام کے سے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا اقرار وقار اور عظمت کا سکہ دنوں پر بیٹھ گیا.جماعت احمد یہ جو اسلامی خدمات بجالا رہی تھی اب مسلمانوں کے روشن خیال گروہ اس حقیقت کا اور بھی زیادہ

Page 685

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 622 خلافت عثمانیہ کا چودھواں سال قوت و شدت سے اقرار کرنے پر مجبور ہوئے کہ مسلمانوں کی خدمت اور بھلائی کے لئے تنہا یہی جماعت مصروف جہاد ہے.چنانچہ مولانا محمد علی صاحب جو ہر حضور کی خدمت اسلام کے لئے مصروفیت اور درد دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے اخبار ”ہمدرد دہلی (۲۶ نمبر ۱۹۲۷ء) میں لکھی :." نا شکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم ، تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں.اور وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منتظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمات اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعادی کے خوگر میں مشعل راہ ثابت ہو گا.جن اصحاب کو جماعت قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مرزا صاحب موصوف نے اپنے عزائم و طریق کار پر اظہار خیالات فرمایا - شرکت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ ہمارے خیال کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکتے".اخبار در نجف (سیالکوٹ) نے اپنی ۱۸ اکتو بر ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا.احمدی جماعت قادیان کے بہت سے اشتہارات و نوٹس دفتر میں بغرض اندراج در نجف موصول ہوئے جنہیں بوجہ عدم گنجائش درج نہیں کیا گیا ہمیں اس فرو گذاشت پر افسوس ہے جماعت مذکورہ کی خالص اسلامی خدمات کا اعتراف نہ کرنا پرلے درجے کی بے حیائی ہے امرت سر کے ایک ڈھیٹ اخبار نے ان کی نیت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بے جا جھک ماری ہے تعجب ہے کہ جو لوگ باعث ایجاد خلق فخر موجودات سرور کائنات ﷺ کو کسی رنگ میں بھی عالم خفیات وغیب نہیں مانتے وہ قادیانیوں کی نیت اور ارادہ سے کس طرح آشنا ہو سکتے ہیں اگر قادیانی جماعت کا نصب العین اس سے احمدیہ تبلیغ ہے اور وہ دین خدا کی خدمت کر کے مسلمانان عالم پر اپنا اثر ڈالنا چاہتی ہے تو بسم اللہ دل ما روشن چشم ما شاد کیونکہ ان کا اثر نتیجہ ہو گا خدمات اسلام کا پس ہر اک ہمد ردملت بیضا کو اس امر کا حریص ہونا چاہئے جس کا یہ نتیجہ ہے.اگر ان کی سرگرمی میں ہی تبلیغ احمدیت ہے.نیز اگر کفار کا مقابلہ اور با ہمی کشمکش سے احتراز و اجتناب با ہم آویزیوں سے نفرت دعوت اتحاد پر زور دینا وغیرہ امور کو ہی مسلم پبلک بنظر پسندیدگی دیکھتی ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس عمل خیر پر کار بند ہونے والوں کی نیت پر حملے کئے جائیں کیوں نہ دینی وطیرہ خود اختیار کیا جائے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں نے مسلم پبلک سے ووٹ حاصل

Page 686

تاریخ احمدیت جلد ۴ 623 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال کرنے کے لئے یہ روش اختیار کی ہے تو وہ خود ہی ووٹ حاصل کریں در نجف خالص اسلامی خدمات بجا لانے والوں کا معترف ہے اور یہ اس کا آزادانہ اعلان متصور ہو".(اخبار در نجف ۱۸ اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحه ۱) یہ تو مسلمانوں کی تحریرات ہیں اب ہم ایک جماعت احمدیہ کی مساعی کا اثر آریوں پر آریہ اخبار کی رائے کا ذکر کرتے ہیں.جس سے معلوم ہو گا کہ ہندو قوم پر ان مسائی کا رد عمل کس رنگ میں رونما ہوا.چنانچہ ہندو اخبار "پیج" (مورخہ ۲۳ جولائی ۱۹۲۷ء) نے لکھا." ویسے تو آج کل مسلمان بھائیوں کا قریب قریب ہر فرقہ ہندوؤں کا مخالف ہو رہا ہے مگر احمدی مسلمان ہندو جاتی کو بد نام اور تباہ و برباد کرنے کے لئے جو ان تھک کوششیں کر رہے ہیں اس کی نظیر مسلمانوں کا کوئی دوسرا فرقہ نہیں پیش کر سکتا.یہ طے شدہ بات ہے کہ اس فرقہ کے عالم وجود میں آنے کی غرض و غایت ہی ہندوؤں اور خاص کر آریہ سماجیوں کو تباہ و برباد کرنا تھی جب بھی کسی ہندو بزرگ سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا.میں نے ان کو احمد یہ جماعت کی دن بدن بڑھتی ہوئی کوششوں کی طرف متوجہ کیا.افسوس میری صدائیں بے اثر ثابت ہو ئیں جو کچھ اب تک ہو تا رہا مسلمانوں کی انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھا.اب ایک زبر دست اور منتظم جماعت (جماعت احمدیہ ) اس کام کے لئے تیار ہو چکی ہے تو ایشور جانے کیا ہو جائے گا.23 لها اخبار بندے ماترم لاہور (۱۸ ستمبر ۱۹۲۷ء) نے لکھا.احمدی لوگ تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والے ہیں اور ان کی تبلیغی جد و جہد اس وقت ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہے اگر ہماری غفلت کی یہی حالت رہی تو مستقبل قریب میں یہی لوگ ہماری مکمل تباہی کے باعث ہوں گے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ احمدی لوگ ہندو جاتی کے سب سے زیادہ خوفناک حریف ہیں.ہمیں ان کی طرف سے ہر گز غافل نہ رہنا چاہئے اس ضروری بات کو پھر ایک دفعہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ احمدی جماعت ایک نہایت زبردست منظم اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی جماعت ہے احمدیوں کی عورتیں ہماری قوم کے مردوں سے بازی لے گئیں.ہم اپنی معمولی کامیابیوں پر خوشیاں منانے میں کمی نہیں کرتے لیکن ٹھوس اور خاموش کام کرنے سے ہمیں بیر ہے.ہماری زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں لیکن ہاتھ حرکت نہیں کرتے.احمدیوں کے نقص خوب نکالے بعض اوقات ان کا تمسخر بھی اچھی طرح اڑایا.لیکن ان کے مقابلہ میں کام کیا کیا ؟ اس کا جواب ہمارے پاس سوائے خاموشی کے اور کچھ نہیں " کوئی

Page 687

تاریخ احمدیت.جلد ۳ فصل سوم 624 خلافت نمائید کا چودھو رنگیلا رسول" اور "در تمان " کے فتنہ کی مدافعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات دینیہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم سفر شملہ کے آخر تک آگئے ہیں لہذا اب وہ واقعات بیان کئے جاتے ہیں جو اگر چہ اس عرصہ میں ہوئے مگر محض تسلسل کی وجہ سے چھوڑ دیئے گئے.لاوارث عورتوں اور بچوں کی خبر گیری کے لئے تحریک حضرت علیتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے جولائی ۱۹۲۷ء میں آریوں کے ایک خطرناک منصوبہ کا انکشاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ شدھی کا زور جب سے شروع ہوا ہے ہند و صاحبان کی طرف سے مختلف سٹیشنوں پر آدمی مقرر ہیں جو عورتوں اور بچوں کو جو کسی بد قسمتی کیوجہ سے علیحدہ سفر کر رہے ہوں بہکا کر لے جاتے ہیں اور انہیں شدہ کر لیتے ہیں اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہر بڑے شہر میں لاوارث عورتوں اور بچوں کے لئے ایک جگہ مقرر ہونی چاہئے جہاں وہ رکھے جائیں نیز دہلی والوں کو اس کے انتظام کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا.” یاد رکھنا چاہئے کہ قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.ایک ایک آدمی نکلنا شروع ہو تو بھی کچھ عرصہ میں ہزاروں تک تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی نسلوں کو مد نظر رکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں کا نقصان نظر آتا.پس اس نقصان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے." چنانچہ انجمن محافظ اوقاف دہلی نے یہ اہم فرض اپنے ذمہ لیا اور اس کے لئے پانچ معزز ارکان کی کمیٹی قائم کر دی.مسلم پارٹیز کانفرنس کے لئے تجاویز ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو (ایڈیٹر اخبار تنظیم " امر تسر ا ۱۹۲۷ء میں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے ایک مسلم پارٹیز کانفرنس منعقد کرنا چاہتے تھے اس سلسلہ میں انہوں نے جناب شوکت علی خاں، حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب جناب مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور ، جناب موادی ثناء اللہ صاحب امرتسری ، جناب ڈاکٹر نیاء الدین صاحب اور جناب پروفیسر عبد اللہ یوسف علی صاحب و غیرہ مسلمان لیڈروں سے مشورہ کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے بھی راہنمائی کے لئے

Page 688

تاریخ 625 خلافت عثمانیہ کا چودھواں سال درخواست کی.حضور نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل مکتوب رقم فرمایا.میں پہلے ہی اس فکر میں تھا.اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اختلاف سے نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ مسلمان اس اختلاف کے نقصان کو سمجھ نہیں سکتے.اور تیسری مصیبت یہ ہے کہ وہ اتحاد کے حقیقی ذرائع کو چھوڑ کر اپنے سوا دوسری ہر ایک آواز کو دبانا چاہتے ہیں.خداتعالی نے مختلف طبائع اس لئے پیدا کی ہیں.کہ وہ قومی تمدن کی مختلف ضرورتوں کی طرف دلی رجحان سے توجہ کریں.یہاں ہر ایک اختلاف کو منانے کی کوشش کی جاتی ہے میں آپ سے اس امر میں بالکل متفق ہوں کہ ایک عام تحریک سے پہلے چند آدمیوں کا ملکر اصول پر غور کرنا از بس مفید ہو گا.مگر میرے نزدیک تحمیل عمل کے لئے ان پانچ افراد کے علاوہ جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے سر شفیع یا سر اقبال...مسٹر جناح سر عبد القیوم مہاراجہ صاحب محمود آباد اور سر عبدالرحیم بھی اگر ابتدائی مشورہ میں شریک ہوں تو مفید ہو گا.اس مختصر کا نفرنس کے بعد پھر ایک عام کا نفرنس منعقد کی جاوے.اور اس میں زیادہ وسیع پیمانے پر پبلک کے اہل الرائے لوگوں کو دعوت دی جائے ان لوگوں کو دعوت ضرور دی جائے اگر مجبوری کی وجہ سے تشریف نہ لا سکیں تو پھر جس قدر احباب جمع ہوں وہی مشورہ کر لیں.اصل بات جس پر غور کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ :- مختلف جماعتوں کی نمائندگی کس اصول پر ہو ؟ اختلاف کی صورت میں کس حد تک مختلف جماعتیں پابند اور کس حد تک آزاد ہوں گی؟ مشترکہ پروگرام کیا ہو اور کس حد تک اس کا دائرہ عمل وسیع ہو ؟ ایسی تحریکات اس طرح ہوتی ہیں کہ ایک شخص دعوت دیتا ہے اور دوسرے لوگ اگر متفرق ہوں تو اس کے بلانے پر جمع ہو جاتے ہیں.اگر آپ کے نزدیک میری آواز کا کوئی اثر ممکن ہے تو میں ان اصحاب کو دعوت دینے کے لئے تیار ہوں اور اگر کسی دوسرے صاحب کو دعوت دینا زیادہ مناسب ہو تو میں ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کرتا ہوں".علاقہ تہراہ کا سنی شیعہ فساد اور حضرت حضرت خلیفتہ المی اشانی ایدہ اللہ تعالی نے کئی مہ خلیفتہ المسیح الثانی کی دردمندانہ اپیل کی توجہ اور کوشش سے اتحاد المسلمین کا جو خوشگوار ماحول پیدا کر دیا تھا.اسے سرحدی آزاد علاقہ کے شیعہ سنی فساد سے سخت نقصان پہنچا.جو ستمبر ۱۹۲۷ء کے ابتداء میں تیراہ کے علاقہ میں رونما ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر شیعہ اور سنی حضرات سے ، ندرجہ ذیل دردمندانہ اپیل شائع کی :-

Page 689

تاریخ احمد بیت جلد ۴ 626 ت ثانیہ کا چودهم " سرحدی آزاد علاقہ کے شیعہ سنی فساد کی اطلاعیں ان لوگوں کے لئے جن کے دل میں اسلام کا درد ہے سخت صدمہ کا موجب ہوئی ہیں...میں تمام سینیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان معالمات پر پلیٹ فارم یا اخبارات میں جوش سے بحث نہ کریں بلکہ باہمی اختلافات کا پرائیویٹ طور پر تصفیہ کرنے کی کوشش کریں.نیز یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ سنی صرف اس واسطے اس جھگڑے میں سنیوں کو حق پر نہ سمجھ لیں کہ وہ سنی ہیں اور اس طرح میں شیعوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یہ خیال نہ کرلیں کہ شیعہ قبائل مظلوم ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ شیعہ ہیں لیکن یہ بات صاف ہے کہ ہمیں بہت سی عزیز جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے.جو کسی وقت مفاد اسلامی کے لئے زیادہ منفعت بخش ثابت ہو سکتی تھیں.ہمارا فوری فرض یہ ہونا چاہئے کہ اس برائی کو اور نہ پھیلنے دیں اور ان لوگوں کی مدد کریں جن کو اس فساد میں نقصان برداشت کرنا پڑا ہے میرے ناقص خیال میں چونکہ ہم سرکاری علاقہ میں رہنے کی وجہ سے آزاد علاقے پر بہت تھوڑا اثر رکھتے ہیں اور چونکہ وہ اقوام اپنی آزادی کے لئے بہت غیرت رکھتی ہیں.اس لئے ہم صرف سرحدی رؤسا کے ذریعہ ہی ان لڑنے والے قبائل پر اثر ڈال سکتے ہیں لہذا ہم کو فور آپشاور اور کوہاٹ میں تمام اسلامی فرقوں کے ذی اثر اصحاب کی ایک کمیٹی بنانا چاہئے جس میں وہ ملا اور سردار خصوصیت سے شامل کئے جائیں.جن کو ان اقوام میں سے کسی نہ کسی میں کم و بیش رسوخ حاصل ہو تاکہ ہم آزاد سرحدی علاقہ کے شیعوں اور سنیوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے ذرائع معلوم کر سکیں.میں یہ بھی تجویز کرتا ہوں کہ اس کمیٹی کو چاہئے کہ ان لوگوں میں حقیقی صلح کرائے.اور صرف دفع الوقتی سے کام لے کر کوئی ایسا صلح نامہ نہ مرتب کرے.جو انجام کار ایک سخت نقصان دہ دھوکا ثابت ہو.نیز ایک فنڈ بھی فورا کھولنا چاہئے.تاکہ جن لوگوں کو اس افسوسناک لڑائی میں مالی یا جانی نقصان پہنچا ہے ان کی مدد کی جاسکے.میں ایک لائق ڈاکٹر کی خدمات پیش کرتا ہوں.جو بشرط ضرورت ان زخمیوں کا علاج کرے گا جن کے متعلق میں نے سنا ہے کہ کثیر تعداد میں سرکاری علاقے میں آگئے ہیں.نیز میں ان لوگوں کے لئے جن کو اس لڑائی میں تکلیف پہنچی ہے ہر ایک قسم کی مائی و اخلاقی مدد دینے کا جو میری طاقت میں ہے وعدہ کرتا ہوں." مصیبت زدگان گجرات کی امداد انہی دنوں گجرات کا ٹھیاواڑ میں سیلاب آیا خود حضور نے کی مالی امداد فرمائی.اور جماعت کے دوسرے دوستوں نے مصیبت زدگان

Page 690

627 خلافت ثانیہ کا چودھو انہی دنوں حضرت خلیفتہ المسیح الور کے اسلامی مدارس کے بقا کے لئے جد و جہد اثنانی کواطلاع ملی کہ ریاست اور میں اسلامی مدارس بند کر دیئے گئے ہیں جس پر آپ کی ہدایت کے مطابق ریاست سے خط و کتابت کے ذریعہ کوشش کی گئی.کہ اسلامی مدارس جاری رہیں.20 جماعت احمدیہ کی کامیابیوں اور حضرت مخالفین احمدیت کی سازش اور اس کا انجام خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر حلقہ " میں بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر بعض لوگوں نے جن سے سلسلہ کی عظمت اور آپ کی شہرت دیکھی نہیں جاتی تھی.آپ کی زبر دست مخالفت شروع کر دی چنانچہ اس غرض کے لئے قادیان کے بعض مستری جو مشین سویاں کی دکان چلاتے تھے آلہ کار بنائے گئے.جنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کرنے کے علاوہ ایک اخبار ” مباہلہ " نامی ( قادیان سے) جاری کر کے آپ کی ذات مقدس پر شرمناک حملے کئے اور اپنی دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی سے جماعت کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی کھڑا کر دیا.یہ فتنہ در اصل ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے سلسلہ احمدیہ کے مخالف عناصر کام کر رہے تھے.اور جنہوں نے احمدیت کو بد نام کرنے بلکہ کچلنے کے لئے پوری قوت سے ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کئے.اس فتنہ نے جہاں دشمنان احمدیت کی گندی اور شکست خوردہ ذہنیت بالکل بے نقاب کر دی وہاں حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی یوسفی شان کا اظہار ہوا.اور آپ نے صبر و تحمل کا ایک ایسا عدیم النظیر نمونہ دکھایا کہ ملک کا سنجیدہ اور متین طبقہ ورطہ حیرت میں پڑ گیا.اور انہوں نے گند اچھالنے والوں کے خلاف نفرت اور بیزاری کا کھلا اظہار کیا.مثلاً اخبار " تازیانہ "لاہور (۱۷اپریل ۱۹۳۰ء) نے لکھا.مسلمانوں کی یہ انتہائی بد قسمتی ہے کہ وہ اپنی قوتیں اپنوں کی تخریب میں ہی صرف کرتے ہیں ہم نے ایک بار مباہلہ والوں کی حمایت کی تھی لیکن آج ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اصلیت کو پبلک پر ظاہر کر کے مباہلہ والوں کی مخالفت کریں.اخبار مباہلہ قادیان سے شائع ہوتا ہے اس اخبار میں احمدیوں کے بزرگ و محترم پیشوا کی ذات پر نہایت رکیک حملے کئے جاتے ہیں اب بتلائیے کہ یہ کہاں کی اسلامی شان ہے؟؟...اخبار مباہلہ والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اعتدال اور شرافت کا جزو پیدا کریں اگر وہ ایک جماعت کے ہر دلعزیز اور مقدس پیشوا پر نہایت خوفناک الفاظ میں الزامات لگا ئیں گے اور فحش نویسی سے کام لیں گے تو اگر اس پیشوا یا پیر یا ر ہنما

Page 691

تاریخ احمدیت - بلد ۴ 628 اثانیہ کا چودھواں سال کا کوئی جو شیلا مرید قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اسے معذور سمجھا جائے گا.اخبار مباہلہ والے اس حقیقت سے خالی الذہن نہیں کہ جس شخص کے خلاف وہ نہایت زہریلے مضامین لکھ رہے ہیں وہ مسلمانوں کی عزت و ناموس کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک جماعت کے احساسات کا خیال نہ کرتے ہوئے کامل بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری سے اناپ شناپ لکھتے چلے جائیں.اخبار "رشی " امرتسر ( ۱۰ اپریل ۱۹۳۰ء) نے لکھا.ہم اخبار مباہلہ کا شروع سے مطالعہ کرتے آئے ہیں اس میں ہمیشہ خلیفہ صاحب کے خلاف نہایت لچر اور گندے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اس کے مقابلہ میں مرزا صاحب کا رویہ قابل تعریف ہے کہ باوجود ہر قسم کی طاقت رکھنے کے آپ نے اس لچر اخبار کے بد زبان مالکان کے خلاف کبھی کوئی سخت ایکشن نہیں لیا.مگر افسوس ہے کہ آپ کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اس رذیل چیتھڑے میں آپ کے اہل بیت کے خلاف نہایت دل آزار مضامین شائع ہونے شروع ہو گئے ہیں اس وقت ہر بچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مذہب کے بچے خیر خواہ اور خدا کے عزیز بندے کے جانشین کی اس آڑے وقت میں امداد کریں".رسالہ " مولوی " (دہلی) نے لکھا.ہمارے نزدیک اس قسم کی حرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ایسے الزامات کا قطعی ثبوت درکار ہوتا ہے اور جب تک شرعی طور پر الزام ثابت نہ ہو.اس وقت تک اسکی اشاعت کسی لحاظ سے مفید نہیں ہو سکتی اب تک اس قسم کی بد اخلاقی کی کوئی اطلاع کسی کو نہیں ملی.حالانکہ ہمیشہ سے ان کے مخالفین کی تعداد کافی رہی مگر کسی نے اس نوعیت کے الزام ان پر نہیں لگائے".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء پر اس فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.ایسی باتیں الٹی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت لگی رہتی ہیں ان سے گھبرانا نہیں چاہئے ہمارا فرض کام کرتا ہے دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں.جو چیز خدا تعالی کی ہوا سے وہ خود غلبہ عطا کرے گا.اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے اگر سلسلہ احمدیہ کسی بندہ کا سلسلہ ہو تا تو اتنا کہاں چل سکتا تھا یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ شوکت و سلامتی سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب

Page 692

تاریخ احمدیت جلد ۴ 629 آنے والا ہے کہنے والے نے کہا ہے دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے مگر میں بھی دیکھوں گا میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اس شخص کی " چنانچہ ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی بات پوری ہوئی یہ فتنہ اپنی موت آپ مر گیا.اور بہت بری طرح مرا.مگر جماعت احمد یہ پہلے سے زیادہ شان پہلے سے زیادہ قوت اور پہلے سے زیادہ اثر و نفوذ میں بڑھتی چلی گئی.اور اب خدا کے فضل سے اس کو ایک ایسا غیر معمولی مقام حاصل ہو گیا ہے کہ عصر حاضر کی زندہ مذہبی تحریکات پر قلم اٹھانے والا کوئی شخص اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا.سائمن کمیشن کی آمد سے پہلے مسلمانوں کی بروقت رہنمائی ۱۹۸ء کی چیطوری ریفارم سکیم کے مطابق حکومت برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا.کہ ہر دس سال کے عرصہ میں ایک کمیشن ہندوستان بھیجا جایا کرے جو غور کر کے رپورٹ کرے کہ کیا ہندوستان مزید حقوق کے حاصل کرنے کے قابل ہو گیا ہے یا نہیں ؟ اور جو حقوق اسے پہلے دیئے جاچکے ہیں وہ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کر رہا ہے یا نہیں.اگر نہیں تو کیا یہ حقوق اس سے واپس لے لئے جائیں؟ اس سلسلہ میں حکومت برطانیہ کی طرف سے ۱۹۲۷ء کے آخر میں آئندہ ایک کمیشن کے بھجوائے جانے کا اعلان ہو ا جس کے صدر انگلستان کے مشہور بیرسٹر سر جان سائن مقرر کئے گئے.کمیشن کے ممبروں میں سے چونکہ کوئی بھی ہندوستانی نہیں تھا اسلئے کانگرس اور ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں نے اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا.حتی کہ مسلمانوں کے بعض مقتدر سیاست دان جن میں قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح اور محمد علی جو ہر بھی شامل تھے.اس کے حامی ہو گئے.حضرت خلیفہ ثانی ان اصحاب کو ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر اس اقدام سے چونکہ مسلمانوں کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اس لئے آپ نے ۸ دسمبر۷ ۱۹۲ء کو مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت کے عنوان سے رسالہ شائع کیا جس میں مسلمانوں کو خالص اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ مشورہ دیا کہ بائیکاٹ کا اثر زیادہ تر مسلمانوں پر پڑے گا.اور ہندوؤں پر بہت ہی کم پڑے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے ریفارم سکیم منظور ہوئی ہے ہندو اس امر کو سمجھ چکے ہیں کہ ہندوستان کا مستقبل انگریز قوم سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے لیڈر برابر آٹھ سال سے گرمیوں میں انگلستان جاتے ہیں اور بڑے بڑے انگریزوں سے ہندوؤں کے فائدہ کی باتیں کر کر کے انہیں اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں.اسی طرح وہ کوشش کر کے پارلیمنٹ کے ممبروں کو ہندوستان لاتے ہیں.اور ہندوؤں کے گھر مہمان ٹھراتے ہیں مگر مسلمانوں کے پاس نہ دولت ہے نہ ان کے اندر قربانی کا

Page 693

تاریخ احمدیت - جلد ۴ 630 خلافت همانیه کا مادہ.چنانچہ وہ اس آٹھ سال کے عرصہ میں بالکل سوتے رہے ہیں اور صرف اس سال عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب احمدی بیرسٹر لاہور ممبر پنجاب کو نسل اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب بیرسٹر ممبریو - بي کو نسل اس غرض سے ولایت گئے تھے.اور انہیں کئی بڑے بڑے آدمیوں نے کہا کہ ہمیں تو آج ہی معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی جداگانہ حفاظت کی ضرورت ہے ورنہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ہندو لیڈر جو باتیں کہتے ہیں مسلمان ان سے متفق ہیں ورنہ مسلمان کیوں نہ آکر ہم سے اپنے حقوق کے متعلق بات کرتے لیکن دو آدمیوں کی سہ ماہی کوشش آٹھ سال کے درجنوں آدمیوں کی کوششوں کا مقابلہ کب کر سکتی ہے ہندو لیڈروں میں سے اکثر انگلستان کے با اثر لیڈروں کے ذاتی دوست ہیں.جبکہ مسلمانوں میں سے بہت ہی کم لوگ انگریز لیڈروں کے روشنا سا ہیں.نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہ سمجھتے ہیں جو ہندوؤں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور مسلمان اس امر کو یاد رکھیں کہ اگر کمیشن کا بائیکاٹ ہوا تو کمشن جو رپورٹ کرے گا.وہ اپنے پہلے علم کی بنا پر کرے گا.اور وہ الف سے لیکری تک ہندو لیڈروں کا دیا ہوا ہے.حضرت خلیفہ ثانی کی سالانہ جلسہ پر تقریریں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسه ۱۹۲۷ ء پر بھی حسب دستور تین تقریر میں فرما ئیں.پہلی تقریر افتتاحی تھی دوسرے دن کی تقریر دلپذیر میں سال کے کاموں پر آپ نے تبصرہ کیا اور آئندہ کا پروگرام جماعت کے سامنے رکھا.تیسرے دن علمی تقریر حضرت مسیح موعود کے کارنامے کے موضوع پر تھی.مؤخر الذکر تقریر میں آپ نے حضور علیہ السلام کے پندرہ عظیم الشان کار ہائے نمایاں بالتفصیل بیان فرمائے اور آخر میں ارشاد فرمایا :- میں نے آپ کے کاموں کی تعدادہ ابتائی ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ آپ کا کام یہیں تک ختم ہو گیا ہے آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بڑھ جائیں گے اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتابی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ مشاپورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے.اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تین سو خوبیاں بیان کی جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا.آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائکہ خوبیاں بیان فرما دی ہیں.اور میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.

Page 694

تاریخ احمدیت جلد ۴ 631 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی پر حملہ کی مرکز میں متعدد مقامات سے اطلاعات آئیں کہ سازش اور سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء دشمنان اسلام اور دشمنان سلسلہ احمدیہ حضرت پھرے کا خاص انتظام خلیفہ ثانی پر حملہ کی سازش کر رہے ہیں بعض معزز احمدی دوستوں نے حضرت خلیفہ ثانی کو اس سلسلہ میں نہایت گھبراہٹ کے خطوط لکھے.کہ غیر مذاہب کے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی تجویزیں ہو رہی ہیں اس کے علاوہ بیسیوں لوگوں نے منذر خواہیں بھی دیکھیں جن میں خطرہ دکھایا گیا تھا.ان وجوہ کی بنا پر جماعت احمدیہ کی طرف سے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء کے موقعہ پر حضور کی حفاظت کا پہلی بار خاص انتظام کیا گیا.چنانچہ حضور نے سالانہ جلسہ پر پہرہ کے نئے انتظام کی وجوہ بتانے کے بعد فرمایا.گوند ہی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے رستہ میں مارا جانا بہت بڑی نعمت ہے لیکن شماتت اعداء کو مد نظر رکھتے ہوئے حفاظت کی ضرورت ہے رسول کریم اوں سے بڑھ کر دین کے لئے اور خد اتعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کی خواہش اور کس کو ہو سکتی ہے.مگر جب رسول کریم اللی کی جان کا خطرہ ہو تا تو صحابہ آپ کی حفاظت کرتے اور قبیلہ کے لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے اور رسول کریم ا اس بات کی اجازت دیتے اور اس وقت جب کہ لوگ پہرہ دے رہے ہوتے آپ بعض اوقات ان سے باتیں کرنے کے لئے باہر تشریف لے آتے.اس لئے ہم بھی احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہیں ورنہ ایسی باتیں مومن کے لئے خوشی کا باعث ہوتی ہیں.بزرگ ہستیوں کا انتقال اس سال حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری، منشی محمد عبدالله صاحب ریڈر سیالکوٹی - تائی صاحبہ محترمہ حرمت نبی بی زوجہ مرزا غلام قادر صاحب محترمہ ہاجرہ صاحبہ (نوای حضرت خلیفہ اول حضرت صوفی حافظ تصور حسین صاحب بریلوی اور منشی جھنڈے خان صاحب ( ہے ہالی ضلع گورداسپور) کا انتقال ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر ان جدا ہونے والے بزرگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.میں نہایت افسوس کے ساتھ ان چند اصحاب کی دائی جدائی پر اظہار رنج و ملال کرتا ہوں جن کو خدا تعالے کی مشیت نے اس سال ہم سے جدا کر لیا.ان میں سے مقدم وجود مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا ہے میرے نزدیک ہر سلسلہ کے خادم اور اسلام کے خدمت گزار کا جدا ہونا بہت رنج اور تکلیف کی بات ہے مگر مولوی عبداللہ صاحب سلسلہ کے خادم ہی نہ تھے حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام سے پرانی اور دیرینہ صحبت رکھنے کی خصوصیت ہی نہ رکھتے تھے بلکہ اپنے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت بڑا نشان بھی رکھتے تھے.جو ان کے دفن ہونے کے ساتھ ہی دفن ہو گیا"..

Page 695

632 تاریخ احمدیت.جلد ۴ 04 31 دوسرے ایک اور صاحب جو پرانے تو نہ تھے مگر بڑا اخلاص رکھتے تھے اور خصوصیت سے سیالکوٹ کی جماعت میں سے جن تین اصحاب کو خدا نے خلافت ثانیہ کے شروع کے وقت فتنہ سے محفوظ رکھا ان میں سے ایک تھے یعنی منشی محمد عبد اللہ صاحب".اسی زمانہ میں بعض ایسی عورتوں کی بھی وفات ہوئی ہے جو بطور نشان ہے یا جو قومی لحاظ سے افسوسناک ہے جیسے تائی صاحبہ کا انتقال اس عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی نواسی ہاجرہ فوت ہوئی ہیں.حضرت خلیفہ اول کو ان سے خاص انس تھا میں نے دیکھا اپنے بچوں کی طرح رکھتے اور جب اپنے بچوں کے لئے کپڑے بناتے تو ان کے لئے بھی بناتے مرحومہ میں بھی بہت اخلاص تھا اور سلسلہ کی خدمت کا شوق تھا.لجنہ کی محنت کرنے والی کار کن تھیں.چونکہ جوانی میں ہی فوت ہو گئی ہیں اس وجہ سے ان کی وفات کا اور بھی افسوس ہے ان باتوں کا اظہار میں نے اس لئے کیا ہے تا جماعت میں یہ احساس پیدا ہو کہ جو وجود سلسلہ کے خدمت گزار اور قابل قدر ہوں ان کے لئے محبت اور الفت کے جذبات پیدا ہوں....ان سے اپنے اخلاص کا اظہار کیا جائے اور ان کی یاد قائم رکھی جائے ".حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے ۱۹۲۷ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات حرم رابع سے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب احرم خامس سے صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب I اور حرم اول سے صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب پیدا ہوئے نیز حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ہاں سید مسعود احمد صاحب کی ولادت ہوئی.۶۴ ۲.حضرت خلیفہ ثانی نے اسی سال ۲۵ لاکھ کا ریز و فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی اور اس کی ضرورت یہ بیان کی کہ ہماری جماعت کا بجٹ چونکہ محدود ہوتا ہے اور ہم اپنے سلسلہ کی ضروریات سے اس قدر روپیہ نہیں بچا سکتے جس سے عام اسلامی معاملات کی درستی کے لئے کافی رقم نکال سکیں.جیسے که شدھی کا مقابلہ یا تمدنی اور اقتصادی تحریکات ہیں یا ادنی اقوام کی تبلیغ ہے.اس وجہ سے ہم نے ۲۵ لاکھ ریز رو ننڈ کی تحریک کی ہے تاکہ اصل برقم محفوظ رہے اور اس کی آمد اہم کاموں پر خرچ کی جائے.۲۵ اس سال حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کولمبو، بنگال، مدراس مالا بار اور یوپی کا کامیاب تبلیغی دورہ کیا اور حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیز تبلیغی مہم پر حیدر آباد تشریف لے گئے.- مرکز سے خط و کتابت کے ذریعہ سے بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری کیا گیا.

Page 696

تاریخ احمدیت.جلد ۴ 633 - علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات:- " اشاعت اسلام " (از حضرت مولوی شیر علی صاحب) " تاریخ مسجد فضل لنڈن " ( از حضرت میر محمد اسماعیل صاحب) مشاہدات عرفانی ( از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات (از حضرت چوہدری فتح محمد سیال - ایم اے سابق مبلغ انگلستان) سیرت مسیح موعود حصہ سوم - حیات ناصر (سوانح حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب) از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) - مشهور مباحثے : مباحثہ ڈیرہ دون (مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی اور پنڈت دھرم بھکشو صاحب کے درمیان) مباحثه بسراواں متصل قادیان (مولانا ابو العطاء صاحب اور ایک غیر احمدی کے درمیان مباحثہ مینو والی ضلع سیالکوٹ (مولانا ابو العطاء صاحب اور مولوی محمد شفیع سکھروی کے درمیان) مباحثہ لکھو وال ضلع لدھیانہ (مولوی غلام احمد صاحب بد و طهوی اور غیر احمدی علماء نادر علی صاحب و رحمت علی صاحب کے درمیان) - مکرم مولوی عبد اللطیف صاحب فاضل دیو بند بہاولپوری سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.صاحب تمت بالخير

Page 697

یخ احمدیت - جلد ۳ 634 خلافت عثمانیہ کا چودھوان حواشی (ساتواں باب) پوسٹر کی نقل ۱۰ جون ۱۹۲۷ء کے الفضل میں شائع کر دی گئی تھی.اختبار الفضل ماجون ۷ ۱۹۲ء صفحه ۶ تا ۸ اخبار گورو گھنٹال لاہور - ۲۷ جون سے ۱۹۲ء صفحہ ۲ م الفضل ۳ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ میں مفصل فیصلہ شائع ہو گیا تھا.الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء صفحه ۳ اخبار " انقلاب ۲۳۴ جون کے ۱۹۲ء ضمیمہ -N اور جدید لاہور ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۳ صفی ۴۳ روزنامه ساست لاہور ۲۳ جون ۱۹۲۷ء صفہیم.(ایضا مفصل روداد کے لئے ملاحظہ ہو الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء) الفضل یکم جولائی کے ۱۹۲ ء صفحہ ۳-۸ لیکچر شمله صفحه ۳۳ از سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایه الله تعالی) الفضل ۲۵اکتوبر ۷ ۱۹۲ء صفحه ۴ الفضل ۳۰ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۳۵۱۸ الفضل ۲ نومبر۷ ۹۲ صفحه 1 اختبار دور جدید لاہور 14 اکتوبر نے ۱۹۲ء صفحہ ۲۰۰۳ اخبار گورو گھنتال لا ہو ر ا جولائی کے ۱۹۲ء صفحہ » عدالت کے مفصل فیصلہ کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ۱۹ اگست ۱۹۲۷ء صفحہ ۵ تا ۱۰ ا الفضل ۱۲ اگست ۷ ۱۹۲ء صفحه ۱۰ اور افضل ۱۹ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۳ اخبار " مشرق ۲۳ ستمبر۷ ۱۹۳ ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۲۶۶۵ ۲۰ انقلاب ۳ اگست کے ہم بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۶۶-۶۷- بالآخر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی جماعت احمد یہ اور دوسرے غیور مسلمانوں کے برعکس بعض مسلمان لیڈروں نے ناموس رسول ﷺ کی خاطر اٹھائی جانے والی اس تحریک کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اس کا مذاق اڑایا.چنانچہ جناب ابو الکلام صاحب آزاد نے ۲۹ جولائی ۱۹۲۷ء کو مولومی محی الدین صاحب قصوری کے نام خط لکھا کہ مجھے قطعا اس سے انکار ہے کہ چونکہ تاریخ نوع بشر کے ۱۹۲۷ء یا اس سے پہلے کسی برس میں ہندوستان کے ایک مجمول اور مجنون جہل کیڑے مکوڑے نے یادو نے یا تین نے ایک یا چند رسالے لکھ کر تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی شخصیت کے خلاف بد زبانی کی ہے اس لئے اس کی ناموس کا خاتمہ ہو گیا.اس کی عزت و حرمت کا سوال پیدا ہو گیا.مجھے اس سے بھی قطعا انکار ہے انکار ہی نہیں بلکہ میں اسے اللہ کے برگزیدہ رسول ﷺ اور اس کے اہل بیت معمر کی بڑی سے بڑی تو ہین سمجھتا ہوں جو دنیا میں ہو سکتی ہے قطعا راجپال نے عالم انسانیت کی اس سب سے بڑی ہستی کی اتنی تو مہین نہیں کی جس قدر آپ لوگ کر رہے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے اعمال کا محاسبہ نہیں کرتے آپ کو معلوم نہیں پچھلے دنوں کسی چیز نے مجھے اتنی اذیت نہیں دی جس قدر آپ کے فدائیان رسول کی ان نا قابل برداشت نفوجوں نے کبرت كلمة تخرج من افواههم ان يقولون الاكذبا لطف یہ ہے کہ آپ از راه جوش ایمانی مجھے بھی دعوت دیتے ہیں کہ اس میں حصہ لوں میرے عزیز اسی کو غنیمت سمجھو کہ اگر فرار ہو گئے اور مجھے مناسب معلوم نہ ہوا کہ اس بارے میں کچھ لکھوں ورنہ مضمون طیار تھالور کمپوز ہو رہا تھا اب وہ رہا ہو جائیں اور جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے تو اپنا جو فرض اسلامی سمجھتا ہوں اس کے مطابق

Page 698

تاریخ احمدیت جلد ۴ 635 خلافت ثانیہ کا چودھواں سال لوگوں کو بتلاؤں گا کہ انہوں نے کیسا غلط اور گمراہ طریقہ اختیار کیا ہے ( " تبرکات آزاد صفحه ۵۵-۵۷) الفضل ۱۹ اگست ۱۹۴۷ء صفحه ۵ الفضل ۱۹ اگست ۱۹۲۷ء صفحہ ۶ - ۷ " الفضل ۱۶ اگست ۱۹۴۷ء صفحه ا ۲۴- الفضل ۴ اکتوبر۱۹۲۷ء صفحه ا ۲۵ الفضل ۳۰ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۲۰۳ ۲۶- الفضل ، ستمبر۷ ۱۹۲ء صفحہ ۸ ۲۷- الفضل، ستمبر۷ ۱۹۲ء صفحہ ۸ ۲۸ الفضل ۳۰ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۴۴۳ " الفضل 9 ستمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸-۹- الفضل 19 ستمبر۷ ۱۹۲ء صفحہ اب ضمیمہ الفضل ۳۰ ستمبر۱۹۲۷ء صفحه ۲ ۳۲ بطور مثال چند اخبارات کے اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.اخبار " ملاپ " لاہور نے لکھا ”ہماری اطلاعات بتلاتی ہیں کہ کچھ ہندو لیڈر ڈھیلے پڑ رہے ہیں ".انہیں اگر کوئی برائی نظر آتی ہے تو ہندوؤں میں اس لئے وہ انہیں پر سارا بوجھ ڈال کر صلح کی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں.لیکن آج ہندو جنتا کی آواز لیڈروں کے کانوں تک پہنچانے کے لئے ہم یہ کڑوی بات کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ چاہے شری مالوی جی ہوں یا لالہ لاجپت رائے.مسٹر سری تو اس آئینگر ہوں یا کوئی اور لیڈر اگر ہندوؤں کی عام رائے کے خلاف کوئی سمجھوتہ کیا گیا.تو ہندو ہرگز مجبور نہ ہوں گے کہ ان پر عمل پیرا ہوں ہندو صلح چاہتے ہیں لیکن با عزت بغیر کسی سودے کے بغیر کسی قسم کی قیمت ادا کرنے کے جی اخبار ہند ودر کشک نے لکھا.اتحاد کا نفرنس کرنے دو ان لوگوں کو جن کے پاس فالتو وقت ہے.تم اپنے کام میں لگو اور وہ کام سے مکھن کا.مولانا محمدعلی تو راجپال کو کتاب کی دوسری ایڈیشن شائع کرنے پر قتل کی دھمکی دیتے ہیں لیکن ہندو لیڈر ہیں جو اس شخص کے ساتھ جو سوامی شردھانند کے قاتل سے جیل میں ملنے کے لئے گیا بیٹھ کر اتحاد کی گفتگو کر سکتے اخبار تیج (دہلی) نے لکھا " حقیقت میں کوئی بھی ہندو ایسا نہیں ہے جو بچے دل سے یہ محسوس کرتا ہو کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی شرائط اتحاد طے کرنے سے اتحاد ہو سکتا ہے." بحواله الفضل ۳۰ تمبر ۱۹۲۷ء صفحه ۳-۴) الفضل "۲۳ ستمبر۷ ۱۹۲ء صفحه ۳ -۳۴ لیکچر شملہ - صفحہ ۲۸-۲۹ یہ لیکچر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے قلمبند کیا تھا.-۳۵ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کے سوانح نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اپنی کتاب ”حیات محمد علی جناح میں لکھا ہے ۱۹۲۷ء کے آغاز میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات مرتب کئے اور ہندوؤں سے کہہ دیا کہ اگر ہمارے یہ معمولی مطالبات منظور کر لئے جائیں تو ہم جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہو جائیں گے.(صفحہ ۷۰ طبع دوم) پھر ضرور پورٹ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.متحدہ مطالبہ متحدہ محاذ متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہوں نے چودہ نکات سے بھی دستبرداری اختیار کر لی.اب وہ صرف چند مطالبات کانگرس سے منظور کرانا چاہتے تھے (صفحہ ۱۷۶) ہماری ہجرت اور قیام پاکستان صفحه ۱۵-۱۶ از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تقریر جلسه سالانه ایریل ۱۹۴۹م) ۳۷- " تقریر دلپذیر صفحه ۱۵-۱۹ ۳۸ د مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت صفحہ 9 ۳۹ بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۶۵۰۷۴ ۴۰ بحوالہ کتاب جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۵۷۰۵۶ ۱ بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه ۵۸ ۴۲ بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۵۸-۵۹

Page 699

ریخ احمد بیت - جلد ۴ 636 م الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱-۲ ۴۴ اس اعلان کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مسلمان عورتوں کو بہکانے سے متعلق آریوں کی ایک اور گہری سکیم کا بھی پتہ چلا.یہ سکیم دھرم پر چار" کے نام سے چھپی جسے پہلے اخبار دعوت کانپور نے اور پھر الفضل (۲۰ ستمبر ۱۹۳۷ء) نے بھی شائع کر دیا تھا.۴۵ الفضل ۱۲ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ۴ اخبار " تنظیم امر تسر ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء صفحه ۲ ۴۷ الفضل 9 ستمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ا-ب- ضمیمہ الفضل ۱۶ ستمبر۷ ۱۹۲ صفحه ۵ ۴۹ - الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۴۷ء صفحه ۵ ۵۰ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو تقریر دلپذیر (سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی) تحفہ مستریاں ( از حضرت میر قاسم علی صاحب) فتنه مستریاں ( از ڈاکٹر د ر الدین صاحب) اخبار " جواب مباہلہ (مدیر مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری ۵۱ ان عناصر میں متعصب علماء اور تنگدل ہندوؤں کے علاوہ امیر غیر مبائعین بھی شامل تھے.چنانچہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب آڈیٹرا انجمن اشاعت اسلام لاہور امام مسجد احمد یہ اللہ نگس لاہور کا بیان ہے کہ "انجمن کی انتظامیہ کمیٹی کے سارے ممبروں کو علم ہے.کہ مولوی صاحب اپنی خاص منظوری کے ساتھ مبالیہ والوں (مستریوں) کی نقدی سے مدد کرتے رہے.ان کے اشتہارات چھپوا کر خاص ملازم انجمن کی معرفت دو سرے شہروں میں تقسیم کرواتے رہے.مگر مولوی صاحب نے مسجد میں کھڑے ہو کر جمعہ میں کہا.کہ ہم نے کبھی صاحبزادہ صاحب کے خلاف بدگوئی کی تشہیر میں حصہ نہیں لیا، (رسانه فرقان قادیان جولائی ۱۹۴۴ء صفحه ۱۸) اسی طرح میاں محمد صادق صاحب سابق آنریری جنرل سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ۱۹۴۲ء میں مولوی محمد علی صاحب کے نام اپنی ایک کھلی چھٹی میں لکھا کہ آپ نے خلیفہ صاحب قادیان کے خلاف الزامات کی تشہیر میں ہمیشہ اخلاقی اور مالی مدد کی ہے".(رسالہ "فرقان" قادیان مئی ۱۹۴۲ء صفحه ۳۳) اخبار فاروق (۷ جون ۱۹۳۱ء) نے اس امر کے ثبوت میں مولوی محمد علی صاحب کے مخطوط کی نقلیں شائع کیں.نیز لکھا اخبار مباہلہ سینکڑوں کی تعداد میں ان کے دفاتر میں فروخت ہو تا رہا.رات کے دو دو بجے تک مباہلہ کے پیکٹ تیار ہوتے تھے اگر کسی قسم کا شبہ ہو تو پیغام بلڈ نگ بک ڈپو کے حساب میں " مباہلہ " کی خرید و فروخت کا اندراج دیکھا جا سکتا ہے.بعد کے واقعات نے اس کی تصدیق کردی.مؤلف ۵۳- رساله مولوی جلد نمبر صفحه ۸ ۵۴- تقریر دلپذیر صفحه ۲۵-۳۰ ۵۵- رسالہ مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت صفحہ ۱۳-۱۴ یہ رسالہ مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے جمع شدہ چندہ ۵۷ سے شائع کیا گیا تھا.۵- یہ تقریر اسی نام سے شائع ہو چکی ہے.حضرت مسیح موعود کے کارنامے صفحہ ۱۵۷ از سید ناحضرت خلیفہ المی اشانی ایده اند تعالی طب اول دسمبر ۱۹۲۳ ۵۸- تقریر دلپذیر صفحه ۴۰۳ ۵۰ المیہ حضرت چودہری فتح محمد صاحب سیال تقریر دلپذیر صفحه ۵ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سیرت المہدی جلد دوم صفحہ ۷ ۱۰-۱۰۸ متولف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تقریر ولینذیر صفحه ۸۰۷ " الفضل " ۸ مارچ ۱۹۲۷ء صفحه الفضل ۵ اگست ۱۹۲۷ء صفحه ! الفضل " ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحه ا " الفضل " اکتو بر ۱۹۲۷ء صفحه

Page 700

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۲۶- تقریر دلپذیر صفحه ۳۹ تقریر دلپذیر صفحه ۲۰ از حضرت خلیفہ المسیح الثانی) ۶۸ " تقریر دلپذیر صفحه ۲۲ الفضل ۸ فروری ۱۹۲۷ء صفحه ۸ الفضل ۱۸ فروری ۱۹۲۷ء صفحه ان الفضل ۱۸ فروری ۱۹۲۷ء صفحه ۲ ۷۲ الفضل المارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۲ 637 خلافت ثانیہ کا چودھواں مکرم مولوی عبد اللطیف صاحب ۱۸۹۵ء میں احمد پور یہ ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے عربی کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی بعد ازاں تحمیل تعلیم کے لئے دو سال مدرسہ عربیہ دیوبند میں داخل ہوئے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے وطن میں ایک مدرسہ کے عربی استاد مقرر ہوئے خوابوں اور کشوف کی بناء پر ۱۹۲۷ء میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ۱۹۳۰ء میں آپ نے سورة بنی اسرائیل کی تغییر دستور الارتقاء لکھی اپریل ۱۹۴۱ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین اید و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ملازمت چھوڑ کر واقفین کی تعلیم کے لئے قادیان تشریف لے آئے اور ہجرت تک آپ واقفین کو مختلف علوم پڑھاتے رہے ہجرت کے بعد جامعتہ المبشرین میں تعلیم دینے کے لئے مقرر ہوئے.۱۹۵۳ء میں تذکرہ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری کے لئے آپ کی خدمات حاصل کی گئیں.۱۹۵۵ء میں آپ اس اہم کام سے فارغ ہوئے.۱۹۵۸ ء تک تحریک جدید کے صیغہ تصنیف میں کام کیا.اس کے بعد سے اب تک الشركة الاسلامیہ میں بطور مصنف کام کر رہے ہیں.( تاریخ وفات ۳ نومبر ۱۹۷۷ء )

Page 701

اشاریہ جلدم مرتبہ:.ریاض محمود باجوہ شاہد.محمد انور نسیم شاہد ) اسماء مقامات.کتابیات صفحه تا ۲۸ صفحه ۲۹ تا ۴۰ صفحه ۴۱ تا ۵۳

Page 702

۲۸۷ ،۲۵۷ ،۲۵۶ أسماء ابو العطاء جالندھری، مواد تا ۰۵۲۹۳۵۲۷ ،۴۹۶۰۴۸۲ ، ۳۱۹،۲۸۸ ۶۳۳۰۵۷۲۵۵۶۰۵۵۰ ۶۳۴،۴۱۷:۳۱۴۴۶۳ ۲۴۱۲۰۴۱۹۰،۱۹۶ ۵۴۹ ۵۳۹ ۵۴۰،۵۳۷،۲۰۴ ۵۴۴۵۴۱ ۵۵۴ ۵۲۸ 19 ۲۵۲ ۳۸۳،۳۱۴ ۲۷۵ ۵۷۲ ابوالکلام آزاد ، مولانا 7+4.0+A ۴۹۸،۴۲۳ ۴۶۶ ابوالہاشم خاں بنگالی ་་་ ۲۶۲ ۲۷۳ ۳۸۵ ابوبکر.پاؤانگ ابو بکر بکنڈ و مہا رام کاثرا ابوبکر الوب سماٹرمی، مولوی ابوبکر یوسف، سیٹھ ابوتراب عبد الحق ، مولوی ابوحسین مصطفی العماوي oor ۲۹۲ ۳۵۷ د ۲۴ ابوسعید عرب ابو صالح ابوالکلام ابوهريرة اجمل خاں، حکیم اجودھیا پر شاد احسان اللہ ، ملک احمد اللہ حاجی ۵۸۵،۵۶۲،۵۲۱۰۵۲۰ ۳۱۵،۲۶۴۱۵۷ ۵۹۲،۵۵۵،۵۵۴ آرا آرتھر کون ڈائل سمر آرنلڈ ، سر تھامس ڈبلیو آزاد سبحانی، مولوی آصف زمان ، خان بہادر آصف علی ، ڈاکٹر آئیں پہلے ، بشپ اے.بی آل نبی ، مولوی حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم ، سیکھ ابراہیم سیلونی ابراہیم عباس فضل اللہ ابراہیم علی، شیخ ابراہیم مانو.غانا ابن ابی لیلی گورنر کوفہ ابن مسعود ابوالاعلی مودودی ، سید ابو البشارت عبد الغفور ابوالحسن قدسی ، سید

Page 703

۵۰۵ ۴۱۳۳۱۲ ۵۴۴ ۵۲۹،۵۳۷ ۴۸۷،۱۸ ۵۹۲ ۱۷۲ ۴۹۷ IAM ۵۵۳۳۲۲ 7+9 ۲۲۴ ، ۱۸۸ ۵۶۹ ۲۳۴ احمد اللہ خان، حافظ.نا پور احمد الدین احمد بخش مولوی ۲۹،۲۸ احمد علی مولوی سید ۱۸۱ ۱۸۳ | احمد محمود غزنوی ۱۵۴ احمد مسیح ، پادری احمد حاجی سلیمان اچھا ۱۷۰ احمد نور، رادین ۳۱۹ احمد نورالدین مولوی احمد حسن الزيات احمد حسن سوکیہ احمد حسین ، ملک، بیرسٹر احمد حسین ، ملک، نیروبی احمد حسین خان - مدیر "شباب" احمد حسین فرید آبادی احمد حسین زاملکپوری، حکیم احمد حسین وکیل احمد علمی آفندی احمد دین دنگوی ۱۷۲ احمد نور کابلی سید ۴۱۲ احمدی ، سید ۵۵۳ | احمد ید الله منو ۲۱۲ | احیاء الدین، میجر جنرل ۳۱۱،۲۲۴ اختر احمد ۳۱۲ ارجمند خان، مولوی ۵۵۳ ارل و نشرشن ۲۹۲ اروڑے خاں منشی ۵۵۶ | ارون ، لارڈ احمد دین وکیل، چوہدری.گجرات ۳۵۸ اسامه بن زید احمد رشدی ، مولوی ۵۴۴ حضرت اسحاق علیہ السلام ام احمد ز کی ابو شادی ، ڈاکٹر ۲۹۲ اسحاق بن صفی ۵۸۷ احمد ز کی پاشا احمد زمری بدرالدین ۵۲۴ اسد اللہ خاں JAF ۵۲۲ اسد اللہ شاہ 7 احمد سریڈو ۵۵۳ اسد علی احمد سعید ، سید ۵۹۲ | اسماعیل.ماریشس MYA 199 احمد سعید، مولوی ۳۸۱ اسماعیل آدم بیٹھ احمد شاہ ، سید ۲۷۱ اسماء.درس القرآن میں شامل ہونیوالے ۳۰۰ ۳۰۲۲ ۳۹۹ اعظم علی جالندھری، ڈاکٹر 2 ۲۵۲

Page 704

اقبال علی شاه ، سردار اکبر علی، پیر اکبر سیح، پادری اکبر یار جنگ ،نواب افتخار احمد ، پیر.لدھیانہ افتخار احق افضل حق ، چوہدری." مفکر احرار افضل خاں.علاقہ ملکانہ الطاف حسین حالی ، مولانا الفا عبد القادر الف دین ایڈووکیٹ ، مولوی الفریڈ نلسن ، پادری اللہ بخش ، میاں اللہ وجہ ، ماستر ۶۰۹ امبید کار ، ڈاکٹر ۵۷۵۰۵۷۲،۱۸۶ | امته الباسط ، سیده ۲ امتہ الحفیظ ، سیدہ نواب ۴۱۳۲۶۰،۱۹۶ امتہ الحفیظ کلیولینڈ ۳۲، ۱۳۷ امتہ الحفیظ اہلیہ خلیل احمد ناصر لعة الحمید بیگم امتہ الحی ،سیده ،۳۹۶،۳۲۸ ۴۱۹،۴۱۵ ۳۰۰ اه ۳۹۸.۱۷۵،۸۸ ror ۳۰۸ P.A.190 ،۳۰۳،۱۸۰،۱۵۹،۱۵۵ ۵۸۴،۵۱۹۰۵۰۲،۴۸۹،۴۶۸ ،۳۹۹،۳۲۲۳۰۸ لمعتہ المی خلیل احمد ناصر صاحب کی سالی ۱۰۴۱۰۳:۴۹ امته الرشید بیگم ۲۶۹ لعته الرشيد بنت محمد یا مین ۲۶۰ امته الرشید شوکت ۵۲۵ امتة السلام بی بی ۱۲۰ امتہ العزیز بیگم ۴۹۶ امتہ العزیز بیگم بنت حضرت مصلح موعود 121 رضی اللہ تعالٰی عنہ لمة القيوم بيگم الیاس اکبر علی الیاس برنی ، پروفیسر الیکو، پرنس ۳۹ امتة اللطیف.امریکہ الیگزنڈر ڈوٹی ، ڈاکٹر ۶۴، ۲۴۹ امته الله خورشید ائیور اناج سر ۵۰۸ ام داؤد، سیده P+A ۳۰۸،۲۱۲ ۲۴۷ ٣٢٢ ۴۹۶ ۲۰۷ ۴۶۴ ۲۵۲ ۳۲۲ ۳۹۸،۳۲۲ امام الدین مولوی امام بخش تمندار قیصرانی امان اللہ خان ، امیر ۵۴۴۵۴۲ ام طاہر، سیده ( مریم بیگم ) ۳۰۳٬۲۷۷، ۳۲۲۳۰۸ ۹۶ | ام متین، سیده مریم صدیقہ ) ۲۶۳، ۴۸۵ ، ام ناصر، سیده ( محمودہ بیگم ) ۵۰۶،۵۰۵،۴۹۳۰۴۹۲، ۵۸۴،۵۱۰ امیر احمد خاں ، مرزا ۳۹۹،۳۰۳۶۳۴۵ ۲۶۵ 3

Page 705

۲۲۶ ۳۵۷ 1A9 ۵۱ ۳۵۳ ۵۷۵ ۲۷۵ ،۲۷۱ Par عد ۳۲۱۰۱۸۴۱۸۱ لوله لها امیر احمد قریشی ۱۳۷ برکت علی ، پیر امیر حسین ، قاضی سید ۲۱۱۷۱۵۴۱۱۹،۳۲ ، برکت علی ، چوہدری.راجن پور امیر علی سید امیر مینائی لکھنوی ۳۹۹،۲۱۹ ،۴۳۰ برکت علی ، چوہدری گری شنکر ۲۰۷ برکت علی لائق لدھیانوی ۵۰ برہان الدین جہلمی امین اللہ خاں سالک ۲۵۲ بسم اللہ بیگم انور احمد ، مرزا ۶۳۴ بشارت احمد ، ڈاکٹر انور شاہ کاشمیری ۲۷۸ | بشارت احمد ایڈووکیٹ ،سید اوصاف علی خاں ، خان ۲۶۵، ۳۳۴،۲۸۵ | بشارت احمد بشیر اہلیہ چوہدری فتح محمد سیال ایم اے ۱۹۵، ۶۳۶ بشارت احمد منیر ، ڈاکٹر بشارت احمد نسیم امروہی ٣٩٩ ۲۲۲ بشیر احمد، پروفیسر ۴۹۸ بشیر احمد شیخ.لاہور ۴۵۰ بشیر احمد ایم.اے صاحبزادہ مرزا ،۱۴۹،۱۴۳۳۱۴۱،۱۳۹،۱۴۹ ،۱۲۴۱۰۵ ، ۱۰۰،۸۷ ۱۹۸ ،۱۹ ، ۱۹۲ ۱۹۱ ۱۸۹۰۱۸۱۰۱۷۳۰،۱۹۷،۱۹۵ ۲۷۸،۲۶۰، ۲۴۴ ، ۲۲ ، ۲۱۶ ۲۱۱،۴۰۸ ،۲۰۵،۲۰۴ ،۳۵۱،۳۲۱،۳۱۹،۳۱۴۳۰۳،۳۲۱،۳۹۵،۲۸۳ ۵۶۹۰۵۵۷،۵۵۱۰۵۳۷ ، ۵۱۴ ،۴۶۴۰ ۴۳۴۰۳۵۷ ۲۲۵،۱۵۱ بشیر احمد خان رفیق، خان بشیر احمد نفس بشیر افضل ۲۵۲ بشیر الدین عبید اللہ حافظ بشیر الدین محمود احمد ، صاحبزادہ مر: اصفحه ا تا صفحہ آخر 719 ۴۸۷،۳۵۶،۳۵۱ IAI ۶۱۰۵۵۱ IAP اہلیہ کپتان عبد الکریم ایڈورڈ میکلیگن ،سر ایلاکس ورنر ایل سن، مسٹر ایوب انصاری ایوب فضلی قرانیا باقر ، آغا بدرالدین، چوہدری بدرالدین ، ڈاکٹر براڈے جہ مس براؤن ، ڈاکٹر برکت الله

Page 706

نگا، میاں ۱۴۵ تیهو در مارسین ، سر بلائڈن، ڈاکترای ڈبلیو ٹائن بی ، پروفیسر بلال دانیال باد کر نکل ۱۴۹ | نسل ڈیوس ۴۵۳،۴۵۲ ۱۵۳ ۴۹۸ بلام فیلڈ ۴۶۸ ٹیپو سلطان بوزینب بیگم ۱۷۵ ثریا ، ملکہ ۵۰۶ بی اماں ۴۱۷ ثناء اللہ امرتسری بیٹی، مسٹر ۵۱۵۰ ۶۲۴۵۸۸،۵۷۲۵۳۴،۵۱۳،۲۹۶۰۲۹۵،۲۸۵ پالی ہس ۵۵۰ پائندہ خان جنجوعه جارج برنارڈ شاہ で ۱۵۲ AA ۱۵۱ ۲۷۵ ۲۴۹ ،۲۰۶،۲۰۴،۱۵۱،۱۵۰ جارج پنجم جارج ششم جان محمد خان جان سائمن ،سر ۴۴۶،۴۴۵ ۲۸۵ ۲۱۲ اد جان بمفری فشر جان ہنری بیروز ۲۸۵ 11 جلال الدین شمسن، مولانا ۲۵۶،۳۵۱،۳۱۲،۳۱۱،۲۸۷ ،۲۶۵،۲۵۷ ،۲۵۶ ۴۹۷،۳۷۱ ۵۲۲،۵۱۴ تا ۵۸۶،۵۵۱،۵۲۷۰۵۲۵ ۵۳۲ ۱۰۴،۵۰ ۲۶۵۱۷۲ ۳۷۱،۴۶۲ پرائس، جے.اے.غانا پورنا بند ، پنڈت پہلوی، مسٹر پیٹر ، کنگ میٹرک لگن ،سر پیر بخش بنشی پیر محمد.ماریشس پھیجو خاں، نمبردار ت.جلال الدین قمر تاج وین لائلپوری ، مولوی تاج محمود، حاجی.چنیوٹ ۴۹۶ جلال لکھنوی ۲۴۶ | جمال احمد ، حافظ تصور حسین بریلوی، حافظ صوفی تقی الدین خلیفہ IAY ۲۳۱ | جمال الدین، بایو جمال الدین سیکھوانی ، میاں 5

Page 707

۲۱۲۱۱،۱۴۳،۱۲۶،۱۲۴ ۲۲۳۱۴۱۰ ۳۹۹ ۴۶۳۷۳ ۳۵۱ SAA IAM ۴۸۵ حامد شاہ سیالکوٹی ، میر ۲۲۴ ۵۵۳ حامد علی ، حافظ شیخ ۴۶۲۳۵۵،۳۵۴ حامد ه بیگم دختر پیر منظور محمد صاحب ۲۵۲ حبیب الرحمان بنشی.رئیس حاجی پوره ۵۷۲،۵۵۱ ۶۳۲۶۳۱،۱۸۹،۱۱ ۵۵۳ ۵۸۹ ۲۴۴۲۲۱،۲۰۱ ۱۹۹ ۵۰۳ ۲۲۷ ،۱۹۷ ، ۱۰۰،۱۹ ۲۰۶۷۸۲ حبیب الرحمن افغان جماعت علی شاہ ، پیر جندب جاوی جمیا ، مائی جواد علی بی.اے سید جوالا سنگھ ، پادری جواہر لال نہرو، پنڈت جوزف بار کلے جوشی مسٹر.ناگپور جو گندر سنگھ ہری، سردار جهانگیر، بادشاہ جیو فرے ہیرلڈ جھنڈے خاں منشی ۳۵۳ حبیب الرحمن لدھیانوی حبیب اللہ ۴۳۷ حبیب اللہ ، قاضی.لاہور ۵۸۹ | حبیب اللہ ، مولوی.دیوبند ۱۰۴ حبیب اللہ امرتسری، بابو ۲۷۳ حرمت بی بی.تائی صاحبہ ۶۳۱ حسام الدین لکھنوی حسن خاں حسن فواد.انڈر ونیشیا حسن موسیٰ خان.آسٹریلیا حسن نظامی، خواجه حسن نیکو، آقائی حشمت اللہ خاں ، ڈاکٹر ۴۹۸ ،۴۴۳،۴۴۲،۴۳۷ ،۴۳۹،۴۳۳، ۲۵۹ ، ۲۴۵ ۵۵۱.۵۰۲ JAY ۲۰۵ حشمت علی خاں حفصہ بیگم الیہ مفتی فضل الرحمان حفیظ احمد ( اول ) مرزا 6 GF YA ۴۹۵،۲۶۵،۲۱۱،۱۰۹۳ ۶۴ ۲۸۳ ۳۱۲ ۴۹۸ ۵۳۴ چ چانن ، میاں چراغ دین ، میاں.رئیس لاہور چراغ دین جمونی چرچل ، مسٹر چرنجی لال کریم چین خان چینگ ، ایفہ ہی حاجی بصری

Page 708

۵۴۵ ۵۹۲۴۹۵،۲۷۵ ۲۰۵ ،۵۹۹،۳۹۵،۲۰ ۲۰۵،۶۰۲۶۰۰ ۶۰۰ ۵۹۱ ۵۵۱،۴۱۳۲۸۵ ۶۳۳۵۷۲ A ۱۰۴۱۰۳،۵۳،۳۲ ۵۸۴ ۴۵۱ ۵۳۹ ۴۹۸ ۴۶۸ ،۲۸۵،۲۵۳،۲۱۷،۲۱۱ حفیظ احمد ، مرزا حمید احمد ، مرزا حمید الله حمید زمان این آصف زمان حنیف جواہر خ خادم حسین ،کیپٹن ملک خادم حسین بھیروی خادم دو جیلی ، شیخ خدا بخش ، مرزا ۵۵۰ دان ڈیر کو دوف ڈیرکو ۱۸۲ داؤ واحمد سید میر ۱۸۳ داود احمد ، مرزا ۴۶۷ دختر مرز امحمد شفیع صاحب ۱۷۲ دلاور خان ۱۳۷ ۴۰ ۵۰۱ دلاور شاہ بخاری ،سید دلیپ سنگھ ، جسٹس دولت احمد خاں بی.اے مولوی ۲۳۰،۱۸۶ دوست محمد ، مولوی.غیر مبائع خدا بخش، میاں ( مومن پیالوی) ۳۵۶،۳۵۵،۵۳۱ دھرم بھکشو، پنڈت خری فور جباره خلیل بیشطی خلیل احمد ، مرزا ۵۸۶ ۴۹۵ دینا.حجام دین محمد ، حکیم دیوان سنگھ مفتون ، سردار ڈگلس ، کرنل ڈمنگ واتو پوتی ڈیوڈ ہی رائس دینی سن راس ذوالفقار علی خان ، مولانا ۴۲۵،۳۱۱ ۴۳۴۰ تا ۴۳۶ ۴۴۳ ، ۵۰۶،۵۰۵،۴۴۷ ۵۷۹،۵۷۸،۵۷۵ ۶۱۹،۶۱۴،۵۷۲ ذوالفقار علی خاں، نواب سر 7 ۲۷۵ ۲۲۴،۲۰۵۰۱۶۵ ۳۰۸:۲۵۲ ۲۵۲ ۳۶۲ ۱۰۴,۵۰ خلیل احمد اختر ، ملک خلیل احمد مونتگھیری ، حکیم خلیل احمد ناصر ، چوہدری خلیل محمود ایم.اے خیراتی خان خیر الدین ، مسٹر.سرائیون خیر الدین، سیٹھ لکھنو داغ دہلوی ویڈیو

Page 709

۲۵۲ ۲۵۲ rar ۶۳۲۵۴۲ ۲۷۳ ،۱۶۵،۱۵۵،۱۵۴،۱۳۹ رشیده طن رشید : کلام رضا علی ،سید رضوان عبد الله رفیع احمد ، مرزا روڈوٹون ، بشپ ایس او روشن علی ، حافظ ، ۲۵۶،۲۲۷ ،۲۲۳۲۱۶۰،۲۱۳ ۲۱۱،۲۰۶،۱۹۰،۱۸۴ ۶۳۵،۱۰۹،۵۹۹ ۳۲۹ ۵۷۲ ۵۴۲ ۴۱۳۲۲۴ ،۴۶۵ ،۴۵۶ ،۴۳۴،۴۲۵ ، ۴۲۳، ۳۱۲،۲۸۵ ،۲۵۷ ۴۹۵،۱۴۱،۹۰،۳۱ ۵۳۶۴۹۷ ،۴۶۸ ۶۳۵،۵۱۲،۳۱۵،۲۶۲ ۴۵۰ ۵۶۲ ۵۷۲ رئیس احمد جعفری ریگین سرڈ بلیوا ریچ ۲۳۲ ۵۴۲۲۵۳۷،۲۲۳۲۰۴ دیمزے ، مسٹر ۶۳۳ این مستر زکیہ بیگم زدیمر، پادری Ar زید شہزادہ.عراق ۴۹۶ زین الدین آف بمبئی ۲۵۷،۲۳۵،۸۷ زین العابدین ولی اللہ شاہ ۵۰۵ ،۴۸ ۷ ، ۴۴۴۰ ۴۴۳ ۴۲۵ ، ۳۱۱،۳۰۷ ،۲۶۵ ۶۳۵،۵۳۶،۵۲۴۳۵۲۲ ۲۵۲ ۵۸۸،۵۳۷ ۵۳۰،۵۲۹ ۵۱۲ راج پال راجکمار اٹھی راج نرائن گهست شاستری رادین بدایت رام چندر دہلوی ، پنڈت رچرڈ ، مسٹر رحمت اللہ شیخ رحمت اللہ شیخ.لاہور رحمت اللہ میاں.بنگلہ رحمت اللہ شاکر شیخ رحمت خان، چوہدری رحمت علی ، مولوی رحمت علی موادی.غیر احمدی عالم رحم دین ، میاں رستم علی ، چوہدری.مدار رشید احمد رشید احمد ، مرزا رشید احمد چغتائی رشید احمد گنگوہی رشید الدین، چوہدری رشید الدین ، ڈاکٹر خلیفه ۱۴۳۳۱۴۱،۱۲۴۴۶۰۴۵ زینب عثمان زینی دحلان ، مولوی سبحان محمد فونکس 8 ۵۷۰۴۳۰،۴۲۵۰۲۱۷ ،۲۱۱۰۱۶۵،۱۴۶،۱۴۵۰

Page 710

۵۲۸ ۳۸ ۳۴۸ ۶۲۳۵۰۵،۳۸۳ ۱۳ ،۴۵۳۳۴۷ ،۴۲۳ سجاد سین خوابه سخاوت علمی ، حافظ سانپر ایل کی ساره بیگم ،سیده سراج الحق نعمانی ، پیر معراج الدین احمد ، قاضی ٤٩٨ ۲۳۵ سلیم محمد المر بانی سنت رام الله ترت صاحب ۱۰۳ ۱۰۴ سیف الدین کچلو ، ڈاکٹر ۱۱۸ | سیف علی.شیعہ ۴۹۸ ۵۱۹،۳۲۲۳۰ ۱۵۷ شادی لال سر شار پلیز ، ایم ایم سراج دین ،میاں.لاہور سردار علی ، شیخ سعود احمد دہلوی سعید احمد ، هر زا سفیر الدین احمد ، سید کارنو ، ڈاکٹر سکندر حیات خاں، نواب سر سلطان احمد، صاحبزادہ مرزا سلطان احمد پیر کوئی سلطان جہاں بیگم نواب سلطان محمود ، میاں صابی سلیمان صاحب سلیمان عباس سلیمان ندوی سید ۴۹۵ ۱۸۴ شاہ چراغ شاہد احمد خان نواب میاں ۲۷۵ شاید بیگم و ۱۵۰ ۲۷۵ دنا شاه محمد رسید ۵۴۰ تا ۵۴۴۵۴۲ شاہنواز خان ، ڈاکٹر ماہ ولی ،میاں شاہ ولی اللہ - محدث دہلوی ۳۹۸ شیلی ، علامه ۲۳۲ لله شبیر احمد عثمانی شجاع الدین خلیفه شردھانند، پنڈت ۵۹۰،۵۸۸ ۵۹۵،۳۲۲ ۵۵۳ ۲۰ ۳۲۸۳۲۷ ،۳۲ QAA ۵۵ ۳۹۶:۳۷۹،۳۵۸ ، ۴۱۷ تا ۴۱۹ ۵۷۸،۵۲۷،۵۱۰۰، ۵۹۴۵۹۲۵۰ 9

Page 711

ص ض ط ظ ۵۵۰،۳۹۹،۲۴۳ ۴۹۷۳۵۱ ۲۲۵ Art ۲۷۵ ۱۰۲ ۱۰۰ صاحب خاں نون ، ملک صادق حسین اٹاوی ، سید صادقہ بیگم.راجن پور صالح شیمی IAF شریف احمد شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۴۴۰۴۱، ۱۲۹،۱۰۰،۸۷، ۲۷۹،۲۷۷ ،۲۵۹۰۲۵۶۰۲۱۷ ،۱۹۵ ،۱۹۳،۱۹۲،۱۸۲ ،۴۳۴۴۱۲۳۹۸،۳۷۳،۳۵۱،۲۹۲۲۸۵،۳۸۳ ۵۷۵،۵۵۱۵۵۰،۴۹۵،۴۴۲ شریف حسین.شریف مکہ ۵۸۵٬۵۲۰۲۵۷ | صالح عبد القادر عوده شریف علی.شریف مکہ ۵۲۱،۵۲۰ صالح محمد مولوی صالح محمد قصوری ، صوفی صدرالدین مولوی.مجاہد ایران صدرالدین مولوی.لاہوری ۴۷۳،۱۴۱،۱۰۵ ۱۰۴ ،۶۱۸۴ ۲۳۳۲۲۹،۲۲۸ ،۱۳۷ ،۱۲۴۱۲۲ IM KA IAF ۱۵۱ 1+1 IAF ۴۱۲ በረል صدیق حسن خاں ، نواب صغر ئی بیگم.اماں جی صاحبہ صلاح الدین صلاح الدین، قریشی صلاح الدین ایم.اے ، ملک ضیاءالدین ، ڈاکٹر 1P.۲۵۲ ۵۰۵ ۵۳۲۴۴۲ ،۳۸۳۳۱۴،۲۶۲ ۶۲۴۰۶۱۴،۵۳۵۰۵۰۲۴۱۷ ۵۷۶ ۳۵۳ شفاعت احمد ، ڈاکٹر شفیع احمد دہلوی ،سید شکر الہی، چوہدری شمس الحق ، سید شوقی آفندی شوکت علی ، مولانا شہاب الدین ، سر چوہدری شہزادہ.آف بھڑ ا علاقہ ملکانہ شیر علی ، مولانا ،۲۴۰،۲۳۳۲۲ ،۲۱۶،۲۱۱۰۱۵۰۱۴۶،۱۴۳۱۴۱۰ ۲۷۷،۲۶۵،۲۴۶،۲۴۴، ۳۲۰،۳۱۱،۳۰۷، ۴۲۵، ضیاء الدین جگر اؤں ضیاء اللہ سندھی ضیاء اللہ طاہر احمد ، مرزا ( اول ) طاہرہ بیگم 10 ،۵۱۴،۵۰۱،۴۷۱،۴۶۶،۴۶۳،۴۵۹،۴۳۱،۴۲۹ ۵۱۸ 161 شیر محمد.آسٹریلیا شیر محمد ، میاں.یکہ بان

Page 712

۵۰۳ ۵۷۲،۵۵۱،۴۱۳،۲۱۳ ۱۸۸،۱۸۷،۱۸۴ ۱۹۵،۵۴ ۳۵۸،۳۲۱،۱۸۴IAI ۵۵۱،۲۱۳،۱۸۷ ۲۵ ۳۲۶ ۲۳۵ ۳۲۳ ۲۵۲ ۵۸۴،۵۰۸ ۵۹۲ ۱۱۸۰۴۹۵ ۲۵۲ ۲۷۵ ۲۹۲ ١٨٣ ۲۹۱،۲۸۷ ۵۴۴۵۴۲ طیبہ آمنہ بیگم ۲۲۳،۱۷۵ عبد الحسین آیتی ظفر احمد ، مرزا ظفر احمد کپور تھلوی ۱۵۰ عبد الحق، پادری ۱۲، ۳۱۰،۹۸ | عبدالحق ، قاضی ظفر اسلام ۳۵۶،۳۵۱ عبد الحق ، ماسٹر ظفرالملک علوی ۲۶۲ عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا ظفر علی خاں ، مولانا ۲۰۰،۱۳۲ ۲۶۲۲۴۳، عبدالحق، مولوی.غیر مبائع ۶۰۱،۵۱۵،۵۰۵،۳۱۵ ۶۱۴۰ | عبد الحق انور ، مولوی ظل الرحمان بنگالی ۳۵۶،۳۱۱،۲۰۴، ۳۵۷ | عبد الحق حقانی، مولانا ظہور احمد باجوہ ظہور حسین ، مولوی.مجاہد بخار ۱۵۱ عبد الحق کا تب ۳۱۱،۲۵۶،۲۰۴ I عبد الحق ودیارتھی رالحکیم کلیولینڈ عبد العلیم ، مولوی - چراسه عبد الحلیم شرر مولانا عبدالحمید ، بایو.آڈیٹرریلوے عبدالحمید ، راجہ عبدالحمید ، مولوی مجاہد افریقہ عبدالحمید ابراهیم آفندی عبدالحمید خاں عبدالحمید خورشید آفندی عبدالحی سید عبدالحی ،میاں.مجاہدانڈ ونیشیا عبدالحی ، مولوی.غیر احمدی 11 ۴۹۷۰۴۷۵۲۴۷۳۴۱ ،۴۳۳۴۱۳ ۴۹۶ ۴۶۵۰۱۷۵ ۱۷۲ ۲۹۰ ۵۰۵ ۵۳۵،۳۱۳۲۵۷ IZA ۵۹۳ HAP ع عابد علی شاہ سیالکوٹی عباداللہ، گیانی عباس احمد خاں، نواب میاں عباس علی ، مرزا عباس کالو عباس محمود العقاد عبد الاحد خان افغان عبدالباری ،مولانا.فرنگی محل عبدالباقی بہاری عبد الجبار، سید عبدالجلیل کا بھ گڑھی

Page 713

عبدالحی ،میاں.ابن حضرت خلیفۃ المسح الاول عبد الرحمان قادیانی ، بھائی عبدالحی سنوری Y ،۳۵۱،۲۴۱،۱۶۵،۳۹ ۲۳۷ ،۴۳۶،۴۳۴،۳۷۲۰۳۶۱،۳۶۰،۳۵۵،۳۵۴ ۵۷۹،۵۷۸،۵۵۰،۵۰۱،۴۵۵۰ ۲۵۰ عبد الخالق ، شیخ _ نومسلم ۳۱۳،۱۹۰،۱۲۶،۱۴۷ | عبد الرحمان مدراسی ۲۳۱، ۲۹۹ ،۴۱۳ عبد الرحمان مصری، شیخ عبد الخالق ، مولوی ۴۷۳،۳۵۷۰۲۷۵ عبد الخالق کپور تھلوی ۳۷۲،۳۷۱،۳۵۶ ، ۳۸۷ | عبدالرحیم ، بابو ،۴۲۵،۲۸۵،۱۹۹،۱۲ ۵۳۶،۵۲۲،۴۴۷ ، عبد الرحمان.انڈونیشیا عبد الرحمان، چوہدری عبد الرحمان صوفی.مالیر کوٹلہ ۵۴۴ | عبد الرحیم ، حافظ.مالیر کوٹلہ ۱۵۱ عبد الرحیم ، سمر 10 عبد الرحیم ، قاضی عبدالرحمن ، ماسٹر نومسلم ۳۲، ۱۸۵،۱۶۵،۱۴۱، عبد الرحیم، مولوی لکھو والے ۱۸۶ ، ۵۵۳،۴۸۷ عبد الرحیم پراچہ - ) ۱۸۶،۳۲ ۶۲۵ ۵۷۲ ۵۸۴ A عبد الرحمان، ملک ۱۲۰ عبد الرحیم خان خالد میاں عبد الرحمان مولوی.شہید کابل ۴۸۵ | عبد الرحیم درد، مولانا عبد الرحمان مولوی.اہل حدیث اده عبد الرحمان انور مولوی ۵۹۳،۱۳۸،۱۳۷ ۴۲۹،۴۲۵ ،۴۲۳،۴۰۵ ،۳۵۹ ،۳۳۴،۲۰۱۸ ،۵۶۲۰۴۶۰۰ ۴۵۹،۴۵۶۰۴۵۵ ، ۴۳۲،۴۳۶۴۳۴ عبد الرحمان پیڈرو ۲۶۸ عبد الرحمان جٹ، مولانا ۱۵۴ عبدالرحیم قادیانی، بھائی عبد الرحمان جنید ۱۸۳ عبد الرحیم لدھیانوی، سید ۲۵۹،۲۲۷ ،۲۰ ۳۷۵،۳۷۴ عبد الرحمان خادم، ملک ۲۴۰،۱۸۴،۱۸۱، ۲۵۷، عبدالرحیم مالا باری عبد الرحمان خاں.پشاور عبد الرحمان خاں بنگالی عبد الرحمان را نجها ۵۷۰٬۵۶۹، عبدالرحیم نیه ۹۳ ۲۵۲ ۱۸۳ ۲۹۷،۱۹۳ تا ۳۱۶،۲۷۰، ۴۲۳،۴۲۲۳۱۷ : ۳۴۷ ۱۸۲ عبد الرزاق ، سید ۶۳۲۵۹۳۵۵۳،۴۹۷۰۴۷ ۴۶ Ar 12

Page 714

۲۳۵ IAT ۲۶۵ Ar rat ۲۴۵ عبد الرشید - مجاہد شدھی عبد الرشید سید حافظ عبداله شیعه ارشد عبدالرشید خوشنویس عبدالرشید رازی عبدالستار، ڈاکٹر سید عبدالستار خاں.بزرگ صاحب عبدالستار سوکیه عبد السلام سید عبد السلام مولوی (احمدی) عبد السلام مولوی ( غیر احمدی) عبد السلام سیالکوٹی، میر عبد السلام شملوی ، حافظ عبد السلام عمر ، میاں عبد السلام کا تھ گڑھی عبدالسمیع ، میاں عبدالسمیع کپور تھلوی عبد الصمد خیالوی ۳۸۵ | عبد العزیزدین ۵۴۲ | عبد الغفار ۵۴۲ | عبدالغفار، نواب ۵۶۷ عبد الغفار افغان ۲۷۵ عبد الغفور ۴۱۲ | عبد الغفور بی.اے صوفی ۱۱۶ عبد الغنی کرک ، ڈاکٹر ۱۷۲ عبد القادر ، اخوند ڈاکٹر ۵۹۲ | عبدالقادر ، سر شیخ JAP ۳۲۸ | عبدالقادر، شیخ مواد تا ۱۵۵۱ عبد القادر المغربي عبد القادر ایم.اے پروفیسر سید ۳۵۶،۲۲۳ | عبد القادر ضیغم ۳۵۱ عبد القادر امد حیانوی ۳۵۷ عبد القدیر شاہد ، مولوی ۲۵۴،۲۴۶،۲۱۱۱۴۹ ۵۶۴۵۶۳۴۲۰۰۸ ۵۵۲۲۳۱ ،۲۱۸،۲۱۷ ۵۷۵ For ۲۶۵ ۲۷۵ ۳۵۷ | عبدالقدیر کا تجھے گڑھی JAF عبد العزيز ، حافظ ۵۵۶ | عبدالقدیر نیاز ، صوفی لة ال الدم الله عبد العزیز رسید ۵۹۲ ۵۵۹،۵۵۸۰۳۵۱۳۳۵۴۰۳۵۱۰۳۳۰،۳۰۰ ١٠٩ عبد العزیز هماستر عبد العزيز، ملک عبد العزیز، مولوی - چک سکندر عبد العزیز میاں عبد القيوم ،سر عبد القیوم چنیوٹی ۲۳۲ عبد الکریم.خطبه نویس ۱۲۰ عبد الکریم ،مولوی سید.غیر احمدی 13

Page 715

۲۵۲ ۲۹۰ ۳۳۰ ۶۲۴،۵۰۵،۲۶۰ ۶۲۴ ۵۷۵۰۵۱۹ ۵۱۴۵۱۲۵۰۸،۱۳۲ ۲۷۵ ۲۹۰ ۱۶۹ ۲۳۲ 19 ۵۹۵،۳۸۱،۳۱۵،۲۶۳ ۴۴ ۳۱۰،۲۵۳ ۵۰۳۴۷۱،۴۳۲،۱۴۹ [P+HY ۴۸۷ ،۴۳۰،۵۲۵ عبد الکریم امر اللہ ، ڈاکٹر حاجی ۵۴۴ عبدالله علی.امریکہ عبدالکریم سیالکوٹی ،مولانا ۲۱،۱۳۹، ۵۸،۵۷ عبد اللہ کو تلم.لیورپول عبد الکریم شریف، علامہ ۲۹۰ عبد الله مالا باری عبد الکریم غنی ۵۵۱ | عبدالله محمد صدیق الغماری عبد الکریم لوہار ۲۷۹ | عبد اللہ منہاس عبد الکریم یوسف زئی ، بابو ۲۸۹ | عبد اللہ ناصر الدین عبد اللطیف شہید، صاحبزادہ سید ۳۸۵،۴۱۱ عبداللہ ہارون، سیٹھ ۵۹۲٬۵۵۴ | عبد الله یوسف علی عبد اللطیف ، مولوی.چانگام ۱۹۶ عبد الماجد بھاگلپوری عبد اللطیف، مولوی مصطفی آباد ۹۷ | عبد الماجد دریا بادی ، مولانا عبداللطیف بہاولپوری، مولوی ۶۳۳، ۶۳۷ | عبدالمالک خان عبد اللطیف بی.ے، چوہدری ۳۱۲ عبد المتعال محمد الجبری عبد اللطیف شاہ حکیم ۵۵۵ | عبدالمجید عبد اللطیف شاہد ، مولوی ۲۷۵ | عبدالمجید بھٹی ۳۵۱ عبدالمجید بی اے، چوہدری عبد اللطیف گجراتی عبد الله ، قادیان عبد اللہ ، ڈاکٹر عبد اللہ ، مولوی.سار چوری عبد الله العراقی، الحاج عبد الله المامون السمر وردی ۲۴۷ عبدالمجید خاں منشی.کپورتھلہ ۲۰ عبد المجید خاں ، سلطان ۲۶۵ | عبدالمجید سالک ۲۵۸ عبدالمجید شاہ لاہوری ، ڈاکٹر IAD عبدالمجید قرشی عبد الله الہ دین ، سیٹھ ۲۱۴،۱۵۵ ۵۷۵،۳۳۴،۲۴۴ | عبدالمجید لدھیانوی عبد اللہ بن سبا عبداللہ خاں، چوہدری ۲۱۷ عبدالحی عرب، سید ۳۳۴ عبد المغنی خاں، مولوی 14 ۳۵۷ عبداللہ خاں، خان

Page 716

عبدالمنان عبدالمنان ، صوبیدار عبد الواحد عبد الواحد، شیخ عبد الواحد بنگالی ، مولوی سید عبد الواحد سمائری عبد الوحید ، حافظ سید عبدالوہاب بن آدم عبدالوہاب عسکری ، الحاج عبد الوہاب عمر ، میاں ۱۸۳ عزیز الرحمان بریلوی رسید ۳۲۰ عزیز اللہ شاہ سید ۵۵۳ عزیز بخش مولوی.ڈیرہ غازی خاں ۴۷۲ عزیز دین، بابو ۵۷۲ عزیز محمد پلیڈر، ملک ۵۴۰ تا ۵۴۲، ۵۴۴ عزیزہ بیگم ، سیده ۱۹۲،۱۸۹ | عصمت اللہ ، مولوی ۲۷۵ عصمت اللہ وکیل، چوہدری ۵۳۳ | عطاء الرحمان ایم اے، پروفیسر ۱۷۸ عطاء اللہ ، چوہدری ۳۱۲ عطاء اللہ.لاہور ۳۵۶ ۱۸۲-۱۸۱ ۱۸۷،۱۲۰ في ۳۵۸ ۵۵۴ 197 ۲۷۵ Ar ۱۸۳ عطاء اللہ ایڈووکیٹ ، میاں ۱۸۲،۱۸۱، ۴۸۷،۳۵۸ عبید اللہ ، بابو عبید السلام عبید السلام، حافظ ۴۱۱۷۱۷ عطاء اللہ خاں ، میر عبید اللہ بکل ۲۳۶،۱۸۵، ۴۹۲،۴۳۵ عطاء اللہ شاہ بخاری عبید اللہ سندھی ، مولانا ۸۲ عطاء اللہ شہاب پور عثمان صاحب.طائف | ۵۲۲ عطاء اللہ کلیم عثمان خان.علاقہ مالکانہ عثمان علی خان ، میر عثمان غنی حضرت ۲۱۸،۲۱۷ عجب خان ، پاراچنار عرفان علی بیگ مرزا عزیز احمد، چوہدری عزیز احمد، مرزا عزیز احمد خاں، ملک ۳۶۲ عطاء محمد حکیم ۱۵۷ عظیم اللہ مولوی.نابھہ عظیم ملطان غوث ۳۲۸ | علی اکبر ایم اے، چوہدری علی قاسم بنگانی IAF ۵۸۸،۳۱۵،۲۶۲۲۵۶ ۲۷۵ ۱۶۹ JARIAL ۵۵۳ ۳۵۱ علی محمد ہے اے بی ٹی ، چوہدری ۱۰۰، ۴۳۴،۱۳۷، ۴۳۶ ۵۴۳۳۵۴۰ | علیہ شہید - امریکہ ۲۵۲ 15

Page 717

۵۳۵۰۲۱۲ ۱۸۴ ۴۱۸ ۵۶۰،۱۲۶۱۲۴ ۱۹۰،۱۰۵ HARIAL 140 tot JAM POA ۳۸۵ ۴۲۰ ۹۰ رود JAI ۴۱۱ ،۱۸۱،۱۴۹،۱۴۸ 1A4 علیہ علی.امریکہ عمر الد ین شملوی الدین ۲۵۲ غلام بھیک بی.اے، میرسید ۱۳ ۲۱۳۱۸۷ غلام حسن ، اخوند پروفیسر عمر بن خطاب حضرت ۲۳۴٬۹۸ ۴۴۱۰ غلام حسن شیخ جہلم عمر حیات خالص توانه سمر ۶۱۴ غلام حسن پشاوری حنایت اللہ، میر ۱۸۳ غلام حسن رہتای عیسی علیہ السلام ۴۴۱،۲۹۰،۲۸۹ ۴۴۳۰ غلام حسین، چوہدری خامام حسین حکیم غریب نواز ، خواجه غلام احمد ، چوہدری غلام احمد ، چو ہدری.حج ہائی کورٹ 199 ۲۴۰،۱۸۴،۱۸۳ ۳۵۸ غلام احمد افکر غلام حسین رہتاسی ، ملک غلام حید روکیل ، مرزا نارم رسول ، بابو ۲۲۴ غلام رسول ، مرزا - پشاور غلام احمد بد و ملهبوی غلام رسول افغان ۶۳۳۵۷۲۵۵۱۰۵۱۴ غلام احمد قادیانی ، حضرت مرزا مسیح موعود ۱۵،۱۲، ۷ ۲۶،۲۳،۱۹ تا ۲۸، ۳۸ ۴۰ ۱۹۲،۱۳۴،۶۹۰۵۸،۴۱، غلام رسول را جیکی غلام رسول وز میرآبادی ، حافظ غلام سرور کانپوری غلام صمدانی بی اے غلام علی ، ڈاکٹر غلام فرید ایم اے، ملک ۲۰۸۰۵۲۹،۴۹۸ ،۴۰۱ ،۳۷۸،۱۸۹۰۱۸۸ ۳۱۴ ۳۵۶.۳۵۳۲۲ ،۲۵ غلام احمد کر یام غلام احمد واعظ غلام اکبر ایڈووکیٹ الثقلین، خواجه غلاما غلام الله ، مرزا غلام امام شاہجہانپوری غلام باری سیف، پروفیسر ۲۴۴ ۲۰۵ ۲۳۸ نارام قادر ، مرزا غلام مجتبی ، تاری ۳۲۱ غلام محی الدین قصوری | غلام مرتضی میانوی مفتی 16

Page 718

فرانس بینگ ہسبنڈ ،سر ۵۰۸ ۱۸۱ ۱۸۲ فرزند علی خاں خان ۳۵۸،۳۳۴،۲۶۵،۱۸۷،۱۴۹ ۴۱۱ ۳۲۰۰۱۸۳ FALETO غلام مصطفی، ڈاکٹر غلام محمد غلام محمد ، ڈاکٹر.غیر مبائع ۲۲۹،۱۲۶ فرنیزی ، پروفیسر غلام محمد ، ملک فضل احمد، چوہدری.گجرات غلام محمد اختر ، میاں فضل احمد بٹالوی ، بابوشیخ غلام محمد امرتسری ، صوفی نقل نویس ۵۷۲ فضل احمد لدھیانوی، مولوی قاضی غلام محمد امرتسری ، مولوی حکیم ۳۵۷،۱۹۶ | فضل الدین کمبوه، جمعدار ۲۱۳ ۲۷۸،۲۴۷ غلام محمد بی اے، صوفی حافظ ۱۶۹،۱۵۴ تا ۱۷۲، ۳۰۷ فضل الدین، وکیل، مولوی ۴۷۱،۴۳۰،۳۸۶،۲۱۶ غلام محمد بی اے سیالکوٹی ، چوہدری غلام نبی ، ملک ۳۱۱ IAM فضل الرحمن، حکیم غلام نبی بلانوی، خواجه ۴۳۰،۳۵۶،۲۲۱،۱۳۸، ۴۴۵ فضل الرحمان.قادیان غلام نبی مصری ، مولوی ۵۲۲،۱۸۵،۱۵۴ | فضل الرحمن ، مفتی ۵۷۹،۵۷۸۰۵۱۴ ،۴۹۸،۴۹۶ ۲۹۲۲۷۴:۲۷ ۰۲۲۳ IP ۲۰۵،۶۹ ۳۵۸ ۱۰۲ ۲۷۵ ۱۷۲ ۵۸۷ ۵۷۷ ،۴۲۰ ۳۱۹،۳۰۰،۲۳۶،۲۲۳ ۴۹۵،۲۲۱۴،۱۳ My ۳۵۸ ۲۴۰ فضل الرحمان فیضی سید ۲۵۲ ۱۸۳ | فضل الہی ،صوفی فضل النبی ، مولوی فضل الہی انوری فضل الہی بشیر فضل بی بی بنت میاں خیر الدین فضل حسین ، سرمیاں فضل حسین، مهاشه ملک فضل شاہ ،سید فضل کریم ، ڈاکٹر.کامل فضل کریم بی اے، میاں فضل کریم پراچہ، شیخ 17 ۲۶۵ غلام یسین بی اے، چوہدری غیور احمد ف فتح دین ، مولوی فتح محمد سیال ایم اے ، ۱۲۰،۱۱۶ ، ۱۳۷، ۲۱۱،۱۹۴۱۴۸ ۳۷۶۳۶۰،۳۵۵،۳۵۴،۳۵۲۰۳۵۱،۲۴۴ ،۲۱۷ ۵۳۶۰۴۴۷۰۴۳۶۳۴۳۴،۴۲۵ ،۳۸۲،۳۸۱ ۳۵۱ ۲۴۱ ۵۵۳ فتح محمد ملتانی فتح محمد نائک فخر الدین بنشی فخر الدین مالا باری ، مولون

Page 719

۳۵۸ ۵۷۲۲۵۶ ۱۹۵ ۱۵۶ 1++ ۵۵۰ ۵۲۶ ۲۲۷ ۱۸۳ ۳۸۷ ۳۹۹ ۲۲۷ ۵۰ ۳۱۹ ۲۵۲ ۲۰۵،۳۸۱ ۶۱۲ ۷۶۰۶۲ تا ۸۴،۷۸ ۵۹۰ ۶۰۴۶۰۰،۵۹۹ فضل کریم ، شیخ ۱۸۲ قطب الدین بدوملهوی، حکیم مولوی فقیر اللہ ، ماستر ۳۲، ۳۷، ۶۳۶ قمر الدین سیکھوانی ، مولوی فقیر علی ، بابو ۴۷۲۲۷۴ قمر جان صاحبه فقیر محمد ، چوہدری.کورٹ انسپکٹر ۲۳۱ ۴۹۳ | قیصر ولیم فوزیہ بیگم ۵۰۶ TAA ۱۷۵ که گ کارڈن، مسٹر کا زنند، ڈاکٹر ۲۷۵،۲۷۱ | کامل قصاب، شیخ ۵۶۲ کبیر الدین، مرزا ۵۶۳۵۶۲ ۲۳۲ کرامت الله کرشن جی ،سر ۲۷۱ کرم الہی ، قاضی کرم داد، مولوی کرم دین جہلمی کر ملی، الاستاذ ۴۹۶ IAM فقیر محمد ، خان فلپس، پادری ڈاکٹر فیروز محی الدین قریشی فیصل، شاہ عراق فیصل شہزادہ فیض احمد گجراتی ، چوہدری فیض الحق ، حاجی فیض الدین سیالکوٹی فیض قادر قادر بخش، ماسٹر ۴۱۲،۲۷۸ کریما کریم عبد الرحمان قاسم علی، میر ۲۱۳،۲۰۶،۱۹۰،۱۸۶،۱۸۵،۱۷۸ ۲۲۴۰ | کشفی شاه نظامی، سید ۲۲۷، ۲۷۷، ۴۱۳،۳۸۵، ۴۱۸، ۵۵۳،۴۳۰،۴۲۵، کفایت اللہ ، مولوی ۵۷۲ کلکر مستر قاسم علی خان را مپوری ۳۵۷ کمال الدین خواجہ قدرت اللہ ، حافظ ۵۴۲ قدرت اللہ سنوری قدسیه بیگم ۲۴۴،۲۰۵،۱۱۶ | کمال یوسف ، سید ۱۷۵ کنور دلیپ سنگھ 18

Page 720

۲۷۵ ۲۵۲ 199 ۵۲۷ ۴۵۳ ۱۸۹،۱۸۸ ۴۹۸،۴۲۳،۱۹۴ ۱۳۷ کشور عبد الوہاب کوریو، مسٹر کے الیس حسن کین، بے ایم ۳۸۳ | لطف الرحمان، مرزا ۱۴۷ لطیفہ کریم.امریکہ ۱۷۶ لعل محمد ، ڈاکٹر ۵۸۵ لوک ناتھ جی، پنڈت ۲۶۲،۲۶۱۰۲۲۱۲۱۹ رام ، پنڈت ۵۶۸،۵۱۰،۵۰۸،۵۰۲،۳۵۳،۳۱۵،۳۱۴٬۲۶۴ | لین بستر گاندھی مستر کب ، پروفیسر ایچ اے آر گرین، مسٹر ۵۴۵،۱۳۲ | لیوکس، مستر ۱۵۱ مارگولیتی، پروفیسر مازور صاحب.ماریشس مانٹیگو، مٹر مائیکل آڈوائر ،سر مبارک احمد، شیخ مولانا مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا (اول) ۲۴۴،۴۱، ۲۷۷ ۵۴۳،۲۳۹،۱۲۵ ۲۷۱۰ ۲۲۷ ۷ ،۶۰ ۴۱۱،۳۹۸۲۰۴،۱۴۸ ۱۰۸ ۵۹۰۴۴۴۱۰۱۷ ۳۹۸،۳۳۴۰۱۷۵،۶۳ مبارک احمد ، مرزا مبارک احمد ساقی ، مولوی مبارک اسماعیل ۲۶۵ ۴۴۲۰۴۴۱ ۲۶۵ ۲۸۲،۲۸۱ ۳۱۲ ۵۹۹ ۴۹۸ گلاب دین رہتاسی گلبرٹ کلین ،سر گل محمد ، مرزا گنگا سنگھ ، سردار گوبند سنگھ، گورو گیان بھکشو ،مہاشه گیان چند ، لاله گیڈن ، اے ایس لاجیت راست ، لاله ۶۱۴ ، ۶۳۵ مبارک علی ، ملک.لاہور لارنس ،مسٹر ۵۶۵ مبارک علی بنگالی ، مولوی لافٹس ہیر، ڈبلیو ۴۹۸ مبارک علی سیالکوٹی لال الدین ، ڈاکٹر لال شاه ، سید IA ۴۸۷ مبارکه بیگم ،سیده نواب لائڈ جارج ۲۵۴، ۲۵۵، ۴۲۷ | مبشر احمد ، مرزها 19

Page 721

E E ۳۳۰۳۲۱،۱۸۴۱۸۱ ۳۸۵،۳۸۲،۳۵۸،۳۵۲ ۱۰۳،۷۳،۱۱،۵۶ ۵۵ مبشر احمد ، مرزا (اول) مجید احمد ، مرزا مجددالف ثانی مجید ملک ایم اے محبوب خان، جے پور محبوب عالم بنشی محبوب علی خاں ، میر ۲۶۴ | محمد احمد ایم اے ۴۹۵۲۲۷۵ محمد احمد جلیل، مولوی ۱۹۹ محمد احمد مظہر ، شیخ ۵۶۶ ۳۵۱ محمد اسحاق ، سید میر ۵۷۵،۵۶۶۰۵۴ 10A ۴۶۴،۴۳۰،۴۲۶۰۴۲۵۰۲۸۳۰۲۸۲،۲۴۱۰۲۲۷ ۵۵۷۳۵۵۵،۵۵۱۰۵۳۲،۴۹۵.۴۲۵ ۲۷۵ 4.۲۰۱ محسن الملک ، نواب محفوظ الحق علمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۵،۱۲ ۲۳۹،۱۶۲،۱۵۲، محمد اسحاق ،صوفی محمدصلی ۲۹۶۲۶۱، ۴۰۷، ۵۳۸۳۵۴۵،۵۱۹،۴۳۷، محمد اسحاق خلیل مولوی ۲۵۹۶ ۲۰۸ محمد اسلم.غیر احمدی صحافی محمد سید ۵۹۲ محمد اسماعیل ، سید ۴۹۵ | محمد اسماعیل ، سید میر محمد ، میاں.نقشہ نویس محمد ابراہیم ، حافظ.قادیان محمد ابراہیم بقاپوری ، ۴۸۷ ۵۷۲۲۲۷،۲۱۳۲۰٦،١٩٦ | محمد ابراہیم بی ایس سی، صوفی ۳۵۶۳۵۱،۲۰۴،۱۸۱ محمد اسماعیل ، مولوی.بقا پوری ۴۲۲ محمد اسماعیل مولوی.غیر احمدی ،١٠٣،٩٩،٥٨ ،۲۴ ۰۲۵۹،۲۳۵،۲۱۷ ، ۲۰۵ ،۱۴۳،۱۴۱۰۱۲۴۱۰۵ ۵۹۳،۴۶۴۴۳۶۰۴۳۲۴۳۱،۲۸۱۳۲۷۹ ۳۵۷ ۴۹۷ ۴۶۵ ۵۰۶۰۴۹۶ محمد ابراہیم سیالکوٹی ،مولوی میر ۲۷۸،۲۶۵ محمد اسماعیل ، میاں.جلد ساز محمد ابراہیم علی ، شیخ محمد ابراہیم ناتک ۳۵۶ محمد اسماعیل تر گری ، مولوی ۳۵۱ | محمد اسماعیل بیگ، مرزا محمد احسن امروہی ، سید ۱۲۳٬۹۶،۸۵،۲۵، ۱۴۱ تا ۱۴۳ محمد اسماعیل پانی پتی ، شیخ ۲۲۷ ۲۲۲، ۲۸۵، ۵۷۵ | محمد اسماعیل حلالپوری محمد احمد ، نواب 17 ١٩٣،١٠٣ ۱۹۸،۱۸۴،۱۳۹،۱۳۷ ۵۵۹٬۵۵۸،۵۵۳،۴۳۰،۲۳۰،۲۲۷ ،۲۱ 20 20

Page 722

۵۲۶ ۵۸۵۲۵۴۵ ۵۲۲ ۳۵۸ ۲۴۴ ۹۹ IɅr ۵۵۱،۳۲۳۲۲۷ IAM ۲۴۰ محمد اسماعیل دیاں گڑھی ۲۳۲ محمد بشیر شاد محمد اسماعیل رام پوری محمد اسماعیل سرساوی محمد اسماعیل غزنوی محمد اسماعیل گوزیانی ، ڈاکٹر محمد اسماعیل منیر محمد اشرف ، ڈاکٹر.مراد آباد MIA محمد افضل ، قریشی ۱۸۳ | محمد بن ادریس ، امام ۱۱۶،۲۶،۲۵ | محمد بن عبدالوہاب ۵۸۸ | محمد بن شیخ احمد ۲۸۵ محمد پنیالوی ، حافظ ملک ۱۷۲ محمد تقی بنشی محمد جان وزیر آبادی، شیخ ۲۷۵،۱۷۲ | محمد حسن محمد اقبال، علامہ ڈاکٹر ۱۵۹،۱۵۰ محمد سن آسان دہلوی محمد اکبر خان، اخوند ۱۲۰ محمد حسین، چوہدری.جھنگ محمد اکرم خان ، خان ۴۹۴ محمد حسین، چوہدری.سیالکوٹ محمد الدین فوق ۹۰ | محمد حسین چوہدری.ملتان محمد الدین ملتانی منشی محمد امین افغان ، میاں محمد المغربي، الحاج محمد امین مولوی محمد امین ، مولوی.اہل حدیث ۳۵۶ محمد حسین ، حکیم.مرہم عیسی ۵۲۸،۵۲۶،۵۲۲ | محمد حسین شیخ ۴۳۲، ۴۷۱ ۴۷۳ محمد حسین.بھیرہ ۲۷۵ محمد حسین.غیر احمدی ۴۰۴/۲۰۳ محمد حسین مولوی.سبز پگڑی والے ۲۲۵،۲۰۶۰۱۸۷۰۱ H محمد انور Ar ۴۱۳ ۳۵۷ ۴۸۷،۳۷۱،۳۵۸ محمد ایوب، مخدوم ۸۳ محمد حسین چنیوٹی ۳۲ محمد ایوب ، مولوی محمد بخش ۲۱ محمد حسین قریشی ، حافظ محمد بخش ایڈووکیٹ ، میر.۵۴۴ محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید ۱۶۳،۱۲۴،۱۰۶، ۲۸۵،۲۲۸ IPM ۴۱۳ محمد حسین قریشی ، حکیم موجد مفرح عنبری ۴۶۳۱۵۵ محمد بشیر.شکاگو ۲۵۲ ۴۹۵ محمد بشیر الدین ، مولوی ۵۳۶ محمد حسین کو لوتار ژوی ۵۵۱،۴۹۷ 21

Page 723

محمد حنیف، سید محمد حنیف میر پوری، قریشی محمد خان شہاب ، مہر محمد خان گجراتی محمد داؤد محمد دلاور خان ، خان بہادر محمد دہلوی ، مرزا ۵۹۲ محمد سعید سعدی ۳۵۷، ۴۱۸ محمد سلیم، مولوی.مجاہد مصر ۴۹۶ محمد شتری ۵۰۳ محمد شریف ۵۲۹،۲۸۸ ۱۸۳ ۱۸۳ محمد شریف، چوہدری.مجاہد فلسطین ۳۲۰،۳۱۹،۲۸۸ ۵۶۰ ۳۱۴ محمد شریف ، سید ۵۳۱۳۵۲۹ ۵۹۲ [PAINAL هم هم ۴۶۳۲۱۳ محمد دین بنشی ۳۳۴ | محمد شریف میاں - پلیڈر محمد دین ، مولوی ۱۹۰،۱۴۶، ۲۸۸،۲۵۱،۲۴۱،۲۲۷، محمد شریف وکیل، چوہدری حمد شفیع ، شیخ.لدھیانہ ۵۹۳،۵۶۶ ،۴۴۷ ،۳۹۸ محمد دین، واصل باقی ،میاں محمد رشید، الحاج ۳۹۹ محمد شفیع ، سرمیاں ۵۴۴ محمد شفیع اسلم، ماسٹر محمد رمضان، ڈاکٹر محمد زاہد ۱۸۳ محمد شفیع داودی ۶۲۵ ۳۵۶۲۳۵۳،۳۵۱ ۵۵۳۴۹۷۰۴۱۶۰۴۱۵،۳۸۵،۳۷۱ ۶۱۲،۵۰۵ محمد زیدی ، مولوی ۵۴۲ محمد شفیع سنکھتر وی محمد سرور شاہ ، سید ۹۶،۳۳۳۲، ۱۰۵، محمد شہزاده خاں ، مولوی ۶۳۳ ۴۸۷،۳۱۱،۲۵۶ ۲۲۷،۲۱۶،۲۱۱،۱۸۷،۱۸۴،۱۶۵،۱۵۵،۱۵۴، ۲۵۷، محمد صادق (Ar ۲۷۷، ۴۱۳، ۴۲۵ ۴۳۰۰، ۴۳۱ ۵۵۴ محمد صادق مفتی ۱۰۲،۱۰۱۵۲،۵۳،۳۲۳۱۰۲۴ محمد سعد الدین.عرب سیاح ۵۵۰ ۱۳۷، ۱۳۸ ، ۱۹۴۱۹۱،۱۹۰،۱۸۸،۱۶۸،۱۶۵،۱۵۵ء ،۴۳۰،۴۲۵،۳۱۳،۲۹۴ ،۲۵۱،۲۵۰، ۲۴۰ ،۲۲۷ ،۲۱۷ ۴۹۵ ۶۳۴۵۷۹،۵۷۸،۵۷۵٬۵۵۳،۵۳۶،۵۰۵،۴۷۱ ۵۹۲ ۶۳۶۲۳۲ ۵۴۲ | محمد صادق،میاں.غیر مبائع محمد سعید ، الحاج میر.حیدر آباد محمد سعید ، سید محمد سعید احمد انصاری ۵۸۹،۵۴۱۲۵۳۹ محمد سعيد النشار الحميداني الطرابلسي ۵۲۲ | محمد صادق سماٹری 141 ۵۲۸ محمد صدر علی محمد سعید بخت ولی 22

Page 724

محمد صدیق چوہدری.مولوی فاضل محمد صدیق امرتسری محمد صدیق بانی سیٹھ مجد طفیل، ماسٹر محمد طفیل خان محمد طیب محمد طیب ، سید 190 ۲۳۵ محمد عبد اللہ سیالکوٹی ۲۱۳ محمد عبد اللہ صحیح مسٹر ۵۱۸ | محمد عثمان مولوی ۳۲۲ محمد عجب خان ۵۹۰،۵۴۰ | محمد عرفان، مولوی ۶۳۱،۴۱۰،۳۹۹ ۱۲۰ ۲۲۶ AY ۶۱۲ ۱۰۲ مسم ۵۵۱۰۳۲ ،۸۶،۸۴،۷۸،۶۲ ۶۱ محمد ظفر اللہ خاں ، سر چوہدری ۵۹۲٬۵۵۵،۵۵۴ | محمد علی - ضرب دیال ۱۶۰،۱۲۱،۱۲۰، محمد علی مرزا ،۲۰۳،۲۰۲۱۹۸،۱۹۳،۱۹۰،۱۸۶،۱۸۱،۱۹۷۱۶۵ محمد علی اشرف ،حکیم ماسٹر ۲۱۳، ۲۱۷ ،۲۲۳، ۲۵۲،۲۴۴،۲۴۱، ۲۸۳،۲۵۷ ، ۲۹۹ ، محمد علی ایم اے ، مولوی ،۱۲۵،۱۲۴،۱۲۲،۱۲۰ ۱۱۹ ۱۱۰ ۱۰۹۹۶۳۹۴ ،۱۸۶،۱۷۴۱۷۳،۱۶۳،۱۶۲،۱۴۵،۱۴۱ ،۱۳۳۲۱۲۷ ۲۲۶،۲۰۸ ۲۲۸ تا ۶۲۴،۵۶۲۵۶۱،۲۸۵،۲۳۴، ،۴۴۷ ،۴۳۴،۴۲۹،۳۳۴،۳۲۳،۳۲۰،۳۱۷ ،۳۰۲ ،۵۷۲،۵۳۶،۴۹۵ ، ۴۸۶ ،۴۸۵ ،۴۵۳،۴۵۲۴۵۰ ۶۳۰،۶۰۵۰۶۰٦ ٦٠٢٦٠١ ٤۰۰،۵۷۵ محمد ظہور الدین اکمل، قاضی کے کے ، ۲۲۱،۱۰۶۰۷۸، ۵۷۲٬۵۶۶،۵۵۷۰۴۴۵،۴۳۰،۲۲۵،۳۲۲۲۲۷ محمد علی جناح ، قائد اعظم ،۳۱۵،۲۳۵،۲۳۴۱۵۰ محمد عبد الحافظ ۵۹۱ محمد عبد الرحیم خاں، خان ۲۶۴ محمد علی جو ہر مولانا محمد عبد اللہ ، مولوی بھینی شرقپور ۲۶۵ ۶۳۵،۶۲۵۰۶۲۱۰۶۱۹۰۶۱۷ ،۶۱۴۶۱۲۰۵۰۵،۴۹۰ ۳۸۳،۳۱۵،۲۶۴ ۶۱۴،۵۳۵،۵۱۴،۵۱۲،۵۱۱،۵۰۸،۵۰۲۴۹۲،۴۱۷ محمد عبد اللہ ، جلد ساز ۴۲۵ ۶۳۵،۶۲۹،۶۲۲۶۲۱ محمد عبد اللہ، نواب 119 ۱۸۱،۱۷۵، ۲۰۵، ۲۷۸ محمد علی خاں، بابو ۴۱۲،۳۵۱،۳۳۴، ۴۱۶، ۵۵۶ | محمد علی خاں، خان بہادر محمد عبد اللہ بی اے بی ٹی ، قاضی ۱۳۸، ۳۵۵،۳۵۱،۱۷۷ محمد علی خاں، نواب محمد عبد اللہ سنوری بنشی ۴۳۰،۳۵۶ ۳۵۸،۲۴۳۹۸،۷ 23 ۳۹۹،۱۴۵ ۱۲۳۹۶،۹۴ ۹۳ ،۲۷۷ ،۲۴۴،۲۱۱،۲۰۹ ،۱۷۵،۱۶۵،۱۴۶۰۱۴۳۳۱۴۱ ۴۳۰،۳۵۷،۳۳۳۴۰۲۸۳،۳۸۰

Page 725

محمد علی رو پڑی محمد علی شاہ، سید ۲۷۸ | محمد یعقوب شیخ ۲۱۳ محمد یعقوب ، مرزا محمد عمر مباشد (سابق جوگندر پال) ۲۶۶، ۳۱۵ ، محمد یعقوب ، مولوی ۳۵۳،۳۵۱،۳۱۶ | محمد یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا ۵۹۲ IAM Ar ۶۱۳ ۱۶۲،۱۲۴،۸۴۶۹ ۲۴۱ محمد یعقوب ،طاہر ، مولانا ۳۳۲۳۲۱،۲۳۹،۱۳۸،۱۰۴ محمد عمر ، سید محمد عمر ایڈووکیٹ، شیخ محمد لطیف، پروفیسر ۲۷۵ محمد یوسف محمد لطیف، چوہدری محمد مدثر شاہ میر محمد مرزا دہلوی ، میاں محمد مراد، میاں.پنڈی بھٹیاں محمد مسعود، سید محمد مصطفی کمال پاشا محمد منیر ، ڈاکٹر محمد موسیٰ مستری.لاہور محمد موسیٰ ، مستری - امرتسر محمد ناصر ، سید میر محمد نذیر قریشی محمد نذیر لائکپوری، قاضی محمد نواز خاں، خان محمد نور محمد ہاشم بخاری ، سید محمد یار عارف ، مولانا محمد یسین منشی ۱۸۱ | محمد یوسف ، سردار ۲۷۵۰۲۲۲ محمد یوسف شیخ.ایڈیٹر نور قادیان JAP ۳۱۶ ۵۵۳،۴۳۰،۴۱۸،۲۶۵،۲۱۳،۲۰۶،۱۹۹،۱۹۲،۱۸۷ ۵۵۲۱۱۶ | محمد یوسف ، قاضی ۳۱۱،۳۳۷،۱۹۸،۱۶۵،۱۶۳،۱۶۲ ۵۹۲ | محمد یوسف ،میاں.لاہور ۲۷۳ محمد یوسف شاه، کرنل محمود احمد زرقانی، حکیم مرزا ۱۳۷ ۴۹۷ ۲۹۵ محمود احمد عرفانی، شیخ ۴۴۰،۲۸۷۰۲۸۶،۲۲۳،۲۰۴ لام سلام سلام ۱۸۲ محمود احمد ناصر ، سید میر ۲۵۶ محمود الحسن ۵۷۲،۴۱۸ | محمود اللہ شاہ ، سید ۶۱۲ محمود شلتوت ۵۵۳ محمود طرازی ، سردار ۲۷۵ محمودہ بیگم ۱۴۹ محی الدین ، مولوی ۵۵۵ | محی الدین الکردی ۵۵۳۵۲۲ 101 ۲۳۸ TARIAL ٣٢٠،٣١٩٢٩٠٢٨٩ ۵۰۵،۴۷۸ ۲۸۷ 24

Page 726

محی الدین قصوری ۶۳۴ | معین الدین، حافظ سلام سلام سلام مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ سید ۳۳۱۸، ۱۱۷ | مقبول احمد ، قریشی مختار بیگم ۱۹۵ ملائم خاں.علا دل پور علاول مدن موہن مالویہ، پنڈت ۱۲ ، ۶۱۴ ، ۶۱۷ ، ۶۳۵ ملتان خاں.علاول پور مراری لال مرتضی حسن در بهنگوی مرسل شفیق مرید احمد ، میر ۴۹۷ ملکہ جان ۲۷۸ | ممتاز احمد فاروقی ۲۵۲ ممتاز بیگم ۲۷۱ ٣٧٣ ۱۹۵ ۲۳۱ مسعود احمد ، سید میر مسولینی ، ڈکٹیٹر.اٹلی مشتاق احمد مشتاق احمد باجوہ مشتاق حسین شیخ - گوجرانوالہ مشتاق حسین ، نواب مولوی ۳۳۴ ممتاز علی مولوی ۶۳۲،۴۲۰ | ممتاز علی خاں ۴۴۵ منشور الارز ۱۸۳ منشی خان ۳۰۰،۱۵۱ منصور احمد ، مولوی.انڈونیشیا ۳۳۴ منظور احمد بھیروی ، ڈاکٹر ۴۹۰ منظور علی ۱۳۸ | منظور محمد ، پیر ۵۷۵،۳۸۰ ☐ ☐ ۳۶۲ م ۵ 194 ۲۴۰۰۲۲۷ مصباح الدین ، سردار مصطفی شیخ مصطفی احمد خاں ، نواب میاں مصطفى المراغی مصطفی البیل مطیع الرحمان، بنگالی ، صوفی مظفر احمد مرزا مظفر الدین بنگالی، چوہدری مظفر خاں معراج دین ، عمر ، میاں ۵۰۳ منور احمد ، مرزا ۱۷۵ منور احمد ، مرزا.مجاہد امریکہ ۲۹۰،۲۸۸ | منیر احمد ، مرزا ۲۵۲ منیر احمد رشید ۲۵۲۰۲۵۱ ۳۳۴،۲۱۲ ۲۵۲ ۲۱۲ ۲۷۵ منير الحصني ، السید ۵۸۶،۵۳۱،۵۳۰،۵۲۸،۵۲۵ ۱۵۰ | مولا بخش بھٹی سیالکوٹ ۱۳۷ مونجے ، ڈاکٹر ۳۶۲ مہاراجہ صاحب محمود آباد ۱۷۵،۱۶۱ مهتاب بیگ، مرزا 1941 ۶۱۴ ۶۲۵ ۵۵۵،۳۵۷ 25

Page 727

IAM ۲۷۵ ،۲۳۱ ۵۸۷ مہدی، چیف مهدی حسین ، سید میر میاں، خواجہ ۲۶۹،۲۶۸ نذیر احمد ۴۷۲۳۵۸ نذیر احمد، چوہدری ۵۵۳ | نذیر احمد ، ڈاکٹر ۲۳۶ نذیر احمد چغتائی ، ماسٹر میاں محمد ، مولاناسید میاں محمد شیخ.غیر مبائع میکلین ۶۱۰ میلکم ہیلی ،سر ۲۲۹،۱۲۷ نذیر احمد خاں ایڈووکیٹ، چوہدری.جے پور ۳۵۱ ۵۹۸ نذیر احمد طالب پوری لم سمسم میںگلی ،ڈاکٹر ۴۳۷ نذیر احمد علی ، مولانا نذیر احمد مبشر سیالکوٹی ۳۱۸۰۲۷۵،۲۷۴ نادر علی مولوی نارمن ونسنٹ پیل ۶۳۳ نذیر خان، ماسٹر ۲۴۰ ۲۵۳ 10- نصر اللہ خان، چوہدری ۵۷۰،۴۳۱،۳۳۴،۲۱۷،۱۴۶ ناصر احمد، صاحبزادہ مرزا خلیلیہ مسیح الثالث نصرت جہاں بیگم، حضرت سیدہ ناصر الدین ناصر شاہ، سید ۳۱۱،۲۰۵ ١٨٣ ۵۵۷ ،۱۶ ۵۷۵ ۱۴ تا ۱۷ ۳۰۳،۲۳۹،۲۰۵،۱۹۵،۱۸۶،۱۷۵۶۱۵۴۱۰۵ ۵۵۱،۴۳۳،۴۱۲۳۹۸ نصیر احمد ، مرزا نصیر الدین احمد ، شیخ ۶۳ ۲۷۱ ۳۶۲ 149.0A ۵۵۰ نصیر الدین خاں نظام الدین اولیاء نظام الدین ، مولوی نعمت اللہ خاں ، مولوی ۴۷۸۳۴۷۶۰۴۵۱٬۴۴۹ ،۴۹۵،۴۸ ۷ ، ۳۸۵ ،۴۸۴،۳۸۲۲۴۸۰ ۵۱۴،۵۱۰۲۵۰۸،۵۰۴ ۲۶،۴ ۵۰۸ نعمت اللہ ولی نکلسن ، پروفیسر 26 ۱۸۴ ۸۴،۵۸،۳۸،۱۳۹ ناصر علی ایڈووکیٹ ،مرزا.فیروز پور ناصر علی تمیم ،میاں ناصر نواب سید میر ۵۸۴۴۸۹،۴۶۵،۲۸۴،۲۳۲،۲۲۷ ،۲۱۹،۱۰۵ ۳۳۸،۶۸ ۳۶۲ IAY ۳۲۰ تانک، بابا نتھو خاں حجم الدین ، میاں نذر حسین ، سردار

Page 728

۳۱۶۳۰۰ ۲۵۲ IAA ۴۵۳ YA ۳۲۹ Al ۱۳۹۷ ۲۵۲ IAF نواب خان نو اس آئینگر ، سری نور احمد ، ڈاکٹر نوراحمد ، شیخ نوراحمد منیر ، شیخ نورالاسلام نور الحق ،مولوی نور الحق انور مولوی ۳۸۴ ۶۱۴ واحد حسین ، گیانی ۳۵۱ واگ لیری ۱۳۰ ۵۳۰،۵۲۹،۳۲۰،۲۹۰ ۲۵۲ ٢٠٢ ۲۵۲ والٹر مسٹر والٹر واش، ڈاکٹر وائٹ بر سخٹ ، پادری و چارانند ، سوامی وڈ ، پادری و ه ی نورالدین، حضرت حکیم مولانا ۱۸، ۵۳٬۵۱٬۴۰،۳۸، وزارت حسین ،مولوی سید.مونگیر ۴۵۴۰ ۴۳۴۴۳۸ 4.9 ۵۰۸ ۲۹۵،۲۹۳۲۹۲ HAP ۵۵۰ ۹۶۳۹۳٬۸۲،۷۶،۷۵۰۶۶۰۶۲۶۱۰۵۹،۵۷،۵۴ ۶۱۰،۲۳۳۱۶۲،۱۴۱،۱۳۴۱۳۰،۱۱۸ ۱۱۷ نور خاں نور علی، قاری نور محمد ، حافظ - فیض اللہ چک نور محمد ، قاضی ۳۵۳ ۵۸۴،۵۰۸ IN وسیم احمد ، مرزا وکٹر بر نیفورڈ ولی کریم ولی محمد ، چوہدری ولیم وی کنکور ۵۵۶،۳۲ ولیم سمپسن ، سر ۳۶۲ لیمسن، پروفیسر ایس جی ۵۶۶،۲۷۱ ولیم لافنس بیر نور محمد خان نور محمد نسیم سیفی (رئیس تبلیغ ) نور محمد نور دیا ، ماسٹر ۱۶۹ تا ۱۷۱ و یلیز ، ایچ جی نیاز علی ، شیخ MA ویلیز شهزاده نیاز محمد ، همستر باجرہ صاحبہ نیاز محمد ، شیخ نیاز محمد ، ملک نیاز محمد خاں.جے پور ۳۵۱ بادی علی خاں ہارون الرشید ہاشم علی بنشی نیک محمد خاں غزنوی ۵۵۴،۵۰۵،۴۷۸،۱۰۰ 27 27

Page 729

-- باؤلر ، بشب ہدایت اللہ خاں ، شہزادہ ہربرٹ ، ڈاکٹر ہنری کار، مسٹر ہنری مارٹن کلارک ، ڈاکٹر ۲۷۲ ینگسن ، پادری ۵۰۶ | جنگ ہسبنڈ ، کرنل ۱۵۳ حضرت یوسف علیہ السلام ۳۱۷ یوسف سلیمان ، ڈاکٹر یوسف علی بی اے، شیخ ۳۵۱،۳۰ نیوم، مستر یار محمد پلیڈر، قاضی IAA ۳۲ پانس احمد حضرت یعقوب علیہ السلام ۴۴۱ یحی بن عقب شامی، امام یعقوب طالع ، الحاج یعقوب علی عرفانی، شیخ ۲۷۶ یکی خاں ،۳۵۷ ،۳۱۹،۳۰۷ ، ۲۲۷ ، ۱۹۸ ، ۱۹۰ ، ۹۸ ،۸۳ ،۴۹۹،۴۴۷ ،۴۳۵،۴۲۵،۴۱۶،۳۹۹٬۳۸۵ ۰۹۳۵،۶۱۷،۵۵۶،۵۰۵،۵۰۱ 194 ۳۵۶۳۳۵۴۳۵۱ ۳۸۵ ۵۵۹،۵۵۸ م

Page 730

آدمیر آسٹریلیا آسٹریا آسنور ( کشمیر) آکسفورڈ اگرد مقامات مات 167 ۳۹۵،۱۷۶ [A។ ۲۸۴ ارون اڑیسہ اسباتفری اسپار استھونیا ۱۹۴ ،۱۵۲ ۳۶۰۳۳۵۳،۳۲۸۰۳۲۶،۱۹۲ اسرائیل اسکندریا ۵۰۲،۴۶۴،۴۳۴۴۳۵،۳۹۳،۳۸۶،۳۷۲ | اسلام آباد (کشمیر) ۵۸۷ ، ۵۲۹ اد ۳۸۲ ۵۲۹ ۵۲۸۰۵۲۲ ۲۸۴ آنور ڈیا وار اتا وہ اٹلی اجمیر شریف ۳۸۴،۳۵۶ اسمعیلہ ۲۷۳ اسہار ۳۵۷،۳۵۵،۳۲۶، ۴۹۷ ایام ۴۹۳۰۴۵۹۰۴۴۵ افریقہ ۳۸۵ ۲۷۴ ۲۰۸،۵۴۵،۵۳۳۴۵۰.۳۹۵،۳۸۴۰۳۱۷ ،۱ 199 افغانستان اجنالہ احمد آباد احمد پور اچھنیرو اواما ادمیں آیا یا ر تھک ۲۲۰،۱۸۵ اکبرپور ۶۳۷ اگر افول ۴۶۳،۳۵۲ ۵۸۷ اکرن البانية QAL الس ، 29 29 ΓΙΑ ۴۹۲۰۳۵۵۰۳۵۴ ۴۶۰،۴۵۹،۲۸۸ ۲۸۳

Page 731

۴۹۷ ،۲۷۸،۲۳۱،۲۳۳۸۷،۷۳،۶۹ ۵۴۰ ۵۳۹ ۵۳۲ ۴۷۵۳۴۷۳،۴۷۱،۴۰۴ ۳۲۶ ۵۵۱ ۳۵۰،۱۵۲ ۵۸۷،۵۲۸ ۲۳۹ ۱۵۲ ۴۴۵ ، ۴۴۴ ۲۵۷ ۱۵۲ ۴۳۴ ۴۷۵ ۵۲۷۰۴۷۵۰۲۶ ۶۱۵،۱۵۸ ۱۵۲ بانکی پور بٹالہ بٹاویہ بٹاوی بحرین بخارا بدایون بدو ملی برائٹن برجا ۶۲۷،۳۲۸ ۲۵۷ ۵۸۷،۵۲۸ الور الہ آباد ام اللحم امرتر امریکہ ۵۳۶۳۵۳۴۴۶۳۰۴۳۴۰۳۱۲۰۲۵۵۳۲۵۳۲۳۳ ۲۹۴۰۲۵۳ ۲۵۲۲۵۰،۲۴۹،۱۶۳،۲ ،۴۴۴،۳۹۸،۳۹۵،۳۸۴،۳۰۹،۲۹۶ ۲۰۸،۵۴۵،۵۳۳،۴۷۰،۴۵۰ ۴۶۳،۳۲۰ ۵۸۸،۵۴۵۳۵۴۲،۳۰۹،۲۲۳ ۲۵۲ ۵۳۲ انبالہ انڈونیشیا انڈیا نا پولیس انطاکیه برزبن انگلستان ۱۵۰۲۱۴۸،۱۲۱،۱۲۰،۲ تا ۲۱۲،۱۵۶،۱۵۳ ، ۲۳۴ تا ۴۲۲،۴۱۲،۳۹۵،۲۵۰،۲۳۶ ۴۲۴، برلن ۵۶۵۲۵۶۳،۴۶۱۳۴۴۶۰۴۳۴،۴۲۸ ۶۲۹۶۱۱۶۰۹۰۵۸۵ اودھم پور (کشمیر) ۴۱۳ برنڈری برون اہرانہ ۲۳۳ بریڈ فورڈ ایٹر ۳۵۴،۳۲۶ تا ۳۶۰،۳۵۷ بریلی ایران ۴۷۳۶۴۷۱۰۴۴۴،۴۰۴،۳۹۵،۱۵۹،۲ بروان بسی پاٹھی بالٹی مور بانڈ ونگ بصره ۳۵۶ بغداد ۲۵۲ بلوچستان ۵۴۳ بلیک برن 30

Page 732

سبتی ۱۹۲۴۷، ۲۰۶،۱۹۸، ۲۲۴،۲۰۷، ۲۸۷، ۳۲۸، ۲۰۱۵۵۹،۴۹۳،۴۶۲۰۴۶۱۰۴۳۵ ،۴۳ ۴۰ ۴۲۲۰ بھڈیار بھرت پور ۳۲۶ ، ۳۵۵،۳۵۴، ۴۱۴،۳۸۴،۳۵۷ جموری بنارس بنگال PAY ۳۸۲ ۳۲۰،۳۸۴،۳۰۰،۲۰۳۲۰۲۱۶۶ ۶۳۲،۵۷۱۰۵۷۰۵۵۷ یو پاره بوجنگ پورینو بوسٹن بوکیت بوگور بونی جایا بہار ۳۷۱ ۵۴۳ ۵۸۸ ۲۵۲ ۵۴۳ ۵۳۹ ۵۴۳ بھریا بھڑا همال بھنگاله بھوپال بھوپت پور بھونگاؤں ۲۳۳ ۳۵۳ ۲۰۶ ۲۳۳ ۴۹۲،۳۳۵،۱۶۱۰۱۵۸ ۳۵۷،۳۵۶ ۴۱۳۳۸۶ پ.ت.ٹ پا بووارن ۵۴۳ پاکپٹن ۵۷۱،۴۳۰،۱۹۳ پانی پت 190.10 ہو لام سلام پائی ببر وا کر تو ۵۴۰ پٹس برگ بیاس ۴۴۴ ۶۳ م چینی ۲۵۲ ۴۵۵،۱۵۰،۱۴۸ بیرسن بین ۱۷۶ پی „G ۵۷۲ بیروت ۴۴۴ ، ۵۲۷ پنیالہ ۴۶۳،۳۶۷ ،۲۲۷ ،۱۹۹،۱۹۸،۱۹۵ بیری ۴۱۸،۳۵۶ پر تھ بیسان ۵۸۷ پرشین ۱۵۲ بیگووال پر کم بھائی ۳۵۶ پشاور ۳۸۶،۳۸۲،۳۵۲ ۵۷۳۳۱۱،۱۶۵،۱۴۵ 31

Page 733

۵۴۳ ۵۴۳ ۴۷۵،۴۷۲،۴۷۱،۲۴۹ ۶۲۵،۳۵۶ ۵۴۳ ۲۸۳ سمجھو تنگ بالائی ۵۴۳ ۲۰۶ تولبخنگ ۳۰۰۲۹۹،۲۲۲،۲۰۵،۲۰۳،۲۰۱ تهران ۶۱۷،۵۵۸،۴۲۰،۴۰۰۰ ۳۸۴ تیراه ۱۸۶ تنگی ڈوکو ۴۴۵ ۴۴۴ ۴۴۰،۴۳۸ 16.تھر لیں تانگانیکا ج - چ ۵۴۴ ۴۳۴۷۳ جاپان جا کرتا ۵۴۳ ۵۴۰۳۵۳۸ جالندھر جاوا ۵۸۹،۴۶۰،۴۵۹،۲۹۶،۲ ۵۴۳ ۵۵۱،۴۶۳،۴۳۴،۲۹۲،۲۳۳ ،۵۴۱۳۵۳۹،۵۳۷،۲۹۸،۲ ۵۹۰۲۵۸۸،۵۴۳ ۵۲۰،۴۳۹ ،۳۹۵،۲۳۷ ،۲۳۹،۲۱۱،۱۵۷ ۱۵۶ ۴۶۰،۴۵۹،۴۱۲،۴۱۱،۴۰۰،۳۹۹ مام ۴۱۴ ٣٢٦ ۲۳۳ ۵۴۳ ۳۷۱ ۵۴۳۵۴۰،۵۳۹ ۴۷۴ جده ۵۴۳ | جرمنی ۵۸۷ ۴۷۴،۳۹۵ جلال آباد ۲۳۶،۲۲۲،۱۵۸،۱۵۶ ، ۲۳۷ جلالپور جٹاں جمال پور جموں جوڑہ جو گیا کرتا چھوڑا جہانگیر پورہ 32 ۴۶۰،۳۵۹،۲۸۳،۲۶۳۲۵۷ ۳۵۲۳۲۶ ۱۲۷ ۳۵۵ ۲۳۳ ۵۴۳ یکن بارو پکوان پنجاب پورٹ بلیر پورٹ سعید پورٹ لوئیس پینگلاں پھگوازه تابنگ تنگی تا یک توان ا سامنايا تاشقند تا انگ ترشیجا ترکستان ترکی تروا تریوے تی تلونڈی را ہوائی تجر انگ

Page 734

حاجی پوره ح خ ۵۸۷،۵۳۲۲۶۷ ۵۶۲۵۴۶،۵۲۱۳۵۱۹ ،۲۸۳۲۵۷ ۵۲۷ جبشه حجاز حماة ۲۶۵ ۳۵۱،۳۲۶ ۵۸۷ ۴۳۵ جسور جميع جھانسی چارلی گنج چاوا چہانچھ چو چہا رائے چٹا گانگ چری یون جماعت چشمہ اچھابل چشمه و مری ناگ حمص ۴۶۳ حیدر آباد (دکن) ۵۲۷ ۶۳۲،۴۳۵۰۱۷۰،۱۵۷ ،۱۵۵ ۵۴۳ حيفا ۵۲۹۲۵۲۷ ،۵۲۵۰۴۴۴۰۴۴۳ ۵۳۹ ۵۸۷،۵۸۶،۵۳۱ ۵۴۳ خیرپور ۵۴۳ ۵۴۳ و.ڈو دانا سگرا ۵۴۳ در یا گنج ง ۲۸۴ دری دوا ۵۸۷ چکالونگ دل اور چیمہ اده چک منگال ۳۰۹ دمشق چکوال ۹۳ ۵۲۵،۵۲۳،۴۴۴۳۴۴۲۰ ۴۲۷ ،۲۴۹ ۵۴۸ ،۵۳۰ چنیوٹ ۲۶۵ چهارنگ جیسا لاڈا چنین چھڑ متو دمیاط ۵۴۳ دوالمیال ۵۴۳ دو جو وال ۲۹۶،۲ دوراہا ۳۵۷ دھاریوال و تروی ۵۲۸ ۲۳۳،۲۲۷ ۳۳۴ سلام سلام ام 33

Page 735

۴۵ ۵۸۷ ۵۵۱ 121121 ۴۰۳،۲۳۹،۱۹۷ ۱۵۶ ۴۴۶۰۴۴۵ ۲۷۰ ۴۵۹ ۲۷۵،۲۷۰۲۲۸ ۲۶۵،۲۳۳ ۴۶۲۳۹۴،۳۸۶ ۱۵۲ ۴۶۰.۴۵۹ ۵۷۳ ۵۷۲ ۵۰۴ ۶۱۵،۴۹۳ ۲۳۳،۲۲۷،۱۹۶ ۴۵۹،۱۵۶ ۴۶۳ ۲۸۴ ۲۵۹ رڑکی ۱۲۰،۱۰۵،۷۹،۷۸،۵۸،۹، ۱۸۶،۱۷۸ راه د هرم ساله دیلی ۳۲۶،۳۱۲۲۴۱،۲۳۴۲۹۲۲۲۰:۲۰۲۱۹۵،۱۹۰ ۵۵۱،۴۶۳۴۳۴،۴۱۸ ،۳۹۰،۳۸۶،۳۲۹ ۳۵۷ ۵۵۸٬۲۰۸،۱۳۵،۸ MYA ۵۵۰ ۵۳۹ ۲۶۵ رنگون روز مل روس روما زادیه زیکوسلواکیہ سیش سالٹ بانڈ یار چور ساندهن ساؤتھ آل ساؤتھ فیلڈز چین سٹھیالی سرائے نورنگ سرحد سرگودھا سرویا سر ہنر سرینگر سٹروعہ 34 ۲۳۸ ۲۵۲۲۵۱ ۲۳۳،۱۸۷۰۱۲۰ ۲۲۴ ٣٧٣ ۴۶۳،۱۹۹ ۵۲۸ ۴۹۲،۳۷۱ ۲۶۲ ۲۳۳۷۴ ۵۹۲۳۰۹ دھومری ڈلہوزی ڈلہ ڈنمارک ڈوکو ڈوگری ڈوور ڈھاکہ ڈیٹرائٹ ڈیرہ غازی خان ڈیرہ دون ڈیریانوالہ زلمیہ رز را جپوره راس البر رام پور راولپنڈی راہوں ربوه

Page 736

۲۳۳۲۰۶ ١٨٩ ۲۵۲ 14A ۵۲۵۲۵۲۲۴۵۰،۴۳۸،۳۹۵،۲۵۷ ۵۴۹،۵۴۸،۵۴۳،۵۳۲٬۵۳۰ ۴۳۴۳۳۶،۳۳۴،۱۲۰،۱۱۷ ۵۸۷ ۴۷۰۰۳۱۳ ۲۵۲ ۲۵۱ سکندر آباد سکندر راؤ سکنڈی ۴۳۵،۲۸۷ سیکھواں ۱۰۵ میلیون ۲۶۸ سینٹ پیئر ۴۱۲،۲، ۵۸۹٬۵۸۸،۵۴۳۳۵۳۹،۵۳۷ | سینٹ لوئیس سماٹرا ۵۸۷ شادیوال شام شاہجہان پور شرشر شکاگو شمله ۱۶۱۰۹۳۶۶، ۱۸۷، ۲۸۳،۲۱۳،۲۰۱،۱۹۹،۱۹۸، ۶۲۴۶۲۱۲۶۱۹۶۱۷ ،۶۱۲۵۵۱،۴۹۰۴۷۶۰۴۶۳ ۱۹۶ تهم ۲۲ ۵۵۱۰ ۲۷۸ ۱۵۲ ۴۱۸،۳۹۴،۳۸۶ QAL ۳۳۳ ۵۲۰ b_b فینگر شیموگہ شیخو پوره شیروانی کوٹ شیفیلڈ صالح مگر مربع صوالي طائف 35 ۴۰۴ ۲۸۳ ۶۱۵،۱۸۵ ۲۰۵،۱۹۹ ۵۳۲ ۵۴۳،۵۴۰ ۴۳۵ ۳۹۳ ۵۴۳ ۵۴۳ ۵۴۳ ۵۷۱ ۴۸۱ ۴۳۳۲۳۳ ،۲۳۳،۲۱۳،۱۶۵،۵۱،۵۰ ۵۷۱،۴۱۳۲۵۵،۲۳۵ ۴۲۰ سیح سمرقند سمرنا سندھ سنگاپور ستور سوڈان سورابايا سورت سورج پور سو کا بومی سوکا تابی سنگا پرتا سونگھڑہ سوئٹزرلینڈ سہارنپور سیالکوٹ ی.پی سیرالیون

Page 737

۵۴۸ ،۴۴۶،۳۹۵،۲۳۶،۱۵۶ ۳۹۳،۳۸۵،۳۲ ۲۵۲،۲۵۰ ۲۹۸ ،۵۲۵،۵۲۳،۵۲۲۴۴۲۴۴۱ ۵۴۳۵۳۲٬۵۲۹۳۵۲۷ ۴۵۹ انجي ۵۸۷ فرانس ۵۸۷،۵۲۷ | فرخ آباد ۲۰۶ فلاڈلفیا فلپائن فلسطين فن لینڈ فونکس فیروزپور ق ۴۶۳،۴۱۳۲۶۵،۹۹،۷۹ طير با طول کرم طیرہ ظفروال ع غ عاده ۵۲۸ عالم پور کوٹلہ عدن عراق ۲۶۵ ۵۳۲،۴۳۸،۳۳۵ ۵۶۲۵۳۲۵۲۹،۵۲۴،۴۵۰،۲۵۷ ۵۲۰،۴۵۰،۳۹۵،۲۵۷ ،۲۴۹٬۸۹،۲ ۴۷۴۴۰۱ ۴۴۲ ۵۸۷،۵۰۰،۴۴۴ | قادیان ۱۲۲،۸۴،۷۵،۵۳، ۱۲۵، ۱۲۷، ۱۳۰، ۱۳۵، ،۲۲۴،۲۰۱۱۹۴۱۸۹،۱۸۸،۱۸۶،۱۸۵،۱۶۲۱۶۰،۱۴۵ ۶۰۴،۵۷۱،۴۶۳،۴۰۵،۳۱۱،۲۸۵،۲۷۸،۲۶۵،۲۲۸ ۵۳۰،۵۲۸ ،۴۴۱ ۴۴۰،۲۸۷ ،۲۴۹،۶۸ ۴۳۳۳۵۷ قاجره قائم گنج ۵۷۶۵۷۲۷۹ ۴۹۳ ۳۵۷ ک مرگ ۵۸۰،۵۱۲۵۰۸۴۹۳ قندهار قنوج کامل 36 ۳۷۳ ۲۳۳ ۴۳۴ ،۳۵۷ ، ۳۵۴،۳۲۸۳۳۲۶۰۸۰ ۳۷۱ ۵۲۷ ۵۸۷ ۶۳۳ ۴۶۳ ۳۵۲ ۲۱۳ (..عشق آباد علم علاول پور علی پور علی گڑھ علی گنج عمان عین غزال عید والی غوث گڑھ فتح پور فتح گڑھ چوڑیاں

Page 738

۵۷۲ 14 ۲۳۳ ١٩٦ ۶۲۵ ۴۰۳۱۳۵ ۵۳۲ ۲۷۴ MA ۲۵۲ ۱۸۵ MAY سوم ۲۸ کمال ڈیرہ کا ٹھ گڑھ کاس تنج ۳۶۰،۳۵۷ کنانور ۴۰۴ کو انیانا کا کان کانپور ۹۱ ۹۲ کوٹ رادھا کشن ۱۸۶ کولمبو کانڈی ۵۶ کولو تارز کانگڑہ ۲۷۰ کو ہاٹ کانو کا بلواں کیا بیر کپورتھلہ کشک کڈنگ ہالنگ کراچی کرادنگ کرتار پور کرنال کریام ۳۳۱ کوئٹہ ۵۸۷،۵۸۶،۵۳۱،۵۲۹۳۵۲۶ کویت ۲۳۳،۲۱۳۷۹ ،۴۶۳ کیفے ۲۱۳،۲۰۷ کیپ ٹاؤن ۵۴۳ کیپ کوسٹ ۵۴۳ کینس سٹی كينيا ۲۵۴ کمھارا ۲۳۳،۷۴ کھاریاں ۴۷۵۴۳۳ ۲۷۷ کشمیر کفر لام ۵۵۹،۳۲۹،۲۸۴۷۹ | کھڑوائی ۵۸۷ | کھیر گاردت کلاس والا کمت کلکٹن کلیولینڈ ۶۰۱،۵۷۳٬۵۵۱،۴۹۹،۲۶۲،۲۳۳ گاندھ بل ۵۶۵ گجرات ۲۵۲ گڑھ کر گڑھی 12 کماسی ۶۲۶۵۵۱،۲۳۴۲۲۰۰۳۱۳ ۱۹۶ ۳۷۱۳۶۱ 37

Page 739

۵۷۲،۴۱۳،۲۳۳، ۲۲۷ ۲۲۰ ۵۸۷،۵۴۸،۵۳۲۵۳۰،۲۴۹ ۵۸۷ ۵۲۲۴۶۳۹۹،۵۸،۹ لائلپور (فیصل آباد ) ۱۵۲ ۴۹۷ لبنان لم ۵۵۰ گلاسگو گلانوالی کمپولا گوجرانواله ۹۳، ۵۷۲،۵۵۱،۲۳۳٬۲۲۰،۲۱۳،۱۸۷ | لدھیانہ ۵۹۲،۵۳۷ ،۴۹۲۳۲۷،۲۲۷ ،۱۶۹ ۷۴ ۲۵۹،۲۵۳،۳۳۵ ،۲۳۴،۱۶۲۰۱۵۳۳۴۷ ،۴۲۷ ،۴۲۳۳۴۱۱،۳۹۸،۳۰۹،۲۷۰،۲۶۸ ،۵۵۰،۴۷۸،۴۷۰۰ ۴۶۸۰۴۶۱۳۴۴۶ ۶۰۴۵۶۴۳۵۶۲۳ ۵۵۰ ۲۳۳ ۹۳ ۲۸۳ ۱۵۸ ۵۴۰ ۲۸۹ ۴۵۹ ۱۵۲ ۲۱۳ ۳۰۹،۲۶۵۰۱۷۲۱۶۹ ۴۷۵ ،۴۷۴ لکھنو لنگروعه لندن لڑکا لودھراں لودهی منگل اورین لو ہارو لہو سوکن ۲۳۳ ۱۶۵،۱۰۴،۵۰ YA ٣٢٩،٣١٦ ۲۳۳ گوجره گورداسپور گورو ہر سہائے گوروکل کانگڑی کو کھوال گولڈ کوسٹ (غانا) ۲۶۶، ۲۷۰،۲۶۸ ۲۷۴ تا ۲۷۶ ۳۰۹،۲۹۲ ۵۴۳ ۳۷۱ ٣٠٩ ۵۲۷ ليبيا ۵۴۳ لیتھونیا لیڈز لیگون ۵۴۳ گوڈ رنگ گوہیٹہ گھٹیالیاں ،۱۳۰،۱۲۸،۹۰،۸۲،۸۱،۷۹،۶۹،۵۰، ،۲۱۷ ۲۱۳۰۱۸۶،۱۸۰۰ ۱۷۶۰۱۶۵۰۱۶۳۱۶۲ ،۲۸۵،۲۷۷،۲۵۵۲۰۲۵۳۰۲۳۳۰۲۲۸ ۲۲۰ ۴۹۴،۴۹۲،۴۹۰،۴۱۳،۳۱۳۳۱۲۲۹۵ ، ماچھیواڑہ ۵۸۰۳۵۷۸،۵۷۶،۵۷۵،۵۳۷ ماریشس ۲۰۴ اسکو 38 لاذقية لاوی مانگو لامت ڑا ہوں لائبیریا

Page 740

۳۳۳۳۰ ۲۵۲ ۳۵۷ ۳۳۵ ۵۲۷ ۱۷۲ ۴۹۷،۱۹۳،۱۶۵ MM ۴۹۷ ۵۴۰،۵۳۹ مكانه (علاقہ) ۶۳۲،۴۳۵۱۷۶ الا بار مالیر کوٹلہ مانچسٹر ۱۹۵،۱۸۶، ۲۷۷، ۴۶۳،۲۸۵ | طلوا کی ۱۵۲ محمد مانس پور ۵۴۳ مانگٹ اونچے PERNO منصوری منگھوائی ماہل پور ماؤنٹ گراوٹ معهرا مجہولہ ۵۷۲،۲۳۳ منماڑ ۲۳۹ موصل ۳۸۴،۳۵۷۳۳۵۵،۳۲۶، ۴۳۴،۳۸۶ موشین بلانش ۳۷۱ مونگیر ۲۳۳ موہن پور محلانوالہ ۳۵۷،۱۸۵ میکہ محمد آباد محمود آباد ۱۸۵ میانی مدراس ۳۰۲،۱۷۰ ،۶۳۲۶۰۱،۴۲۰ میدان مڈغاسکر ۱۷۲ میرٹھ مردان ۲۳۳ مین پوری ۴۶۲۳۹۳۳۸۶،۳۵۵،۳۵۴،۳۲۶ ن ۵۸۷ ۴۶۳۲۶۵ ۵۵۱ ۵۸۷ OAL ۴۳۷ ۲۷۳۲۲۶۸،۲۶۶،۲۶۵،۱۹۳،۱۴۸ نابلس نامہ نادون ناصر آباد ناصره ناگپور نائیجیریا 39 ۴۷۱ ،۳۹۵،۲۹۱۲۲۸۶،۲۵۷ ،۲۳۶،۲۲۳۸۹ ،۵۲۹،۵۲۲،۳۵۹ ،۴۵۰،۳۴۰ ،۴۳۸ ۵۶۳۵۵۰٬۵۳۲ ۳۵۷ ۴۹۷۰۳۵۴ ۵۲۲،۵۲۰،۴۳۹،۲۴۹ ۶۳۳ ۲۳۳۹۳,۳۱ مظفر گڑھ مظفر نگر مکه معظمه لکھوال ملتان

Page 741

۱۵۲ ۳۲۶ ۵۸۷ AY ۳۱۷،۳۰۹ | ہانگ کانگ ۵۲۱،۵۲۰ ہڈرزفیلڈ ۳۲۶، ۳۲۷ برات ۳۷۰،۳۶۲،۳۶۱ تا ۳۷۲ | ہردوئی ۴۳۱ جور ۷۴ ہری پور حلال پور ۳۱۲ ہندوستان ،٢١٩،٢١،٢٠١٤۸۵،۱۶۹،۱۶۰،۱۵۰ ۳۸۴،۳۲۹،۳۲۴،۲۹۲،۲۶۳۲۳۶۲۲۳۴ ،۴۶۷ ،۳۹۰:۴۵۹،۴۱۱ ،۴۰۷ ، ۴۰۴ ،۳۹۵ ۲۲۹، ۱۰۸ ،۶۰۴۵۷۳،۵۶۳۵۴۵ ۵۳۶ ۴۵ ۴۵۹ ۴۶۳۲۱۳ TAN JAZ ۵۲۲ ۶۳۲،۳۵۸،۳۲۶ ،۲۹۱،۱۸۵،۱۷۷ ، ۱۵۸،۱۵۳،۱۵۲،۶۳۲ ۳۵۶۰۳۵۴ ۳۱۲۲۹۳ ۲۵۲ ۲۵۲،۲۵۱ منزلی ہنگری ہوشیار پور MIA ماڑی پوره ۲۵۲۰۲۵۰ يافا ۹۳ مین ۵۳۳،۴۳۱،۴۲۷ ،۴۲۳،۴۲۲،۳۹۵،۳۸۴ ۱۰۸۰۵۴۵ ٣٠٩ IAI ર ۲۵۲ نجد نگلہ گھنو منگل نواں شہر نواں کوٹ نوشہرہ نو گاؤں نيروبي نیکس ٹاؤن نیویارک وہی واحد پور واشنگٹن وزیر آباد ولیای سلک و کشوریه ۴۳۵ یورپ و و کنگ ۱۴۷ وی آنا ۲۹۴ یوگنڈا یوگوسلاویہ 40 g ۴۶۱ ۴۱۸ ۳۰۹،۱۵۷۰ وینس ہا تھرس ہالینڈ

Page 742

۵۵۳۳،۵۳۱،۲۳۰،۲۲۸ ، ۱۲۸ ، ۱۰۵،۵۸ ۵۳۱،۵۳۰ QAY.OPI.{+}<PA ۲۳۲ 21 ۲۱۳ AMI ۵۳۰ ۱۰۳۴۵ ۵۹۳،۵۸۶،۵۰۳۱۰۲ ۵۹۰،۲۴۱،۱۰۵۱۰۲ I+Y ۵۹۳۵۴۲۱۰۶، ۶۵ سم نوم کتابیات الوحيد الهدى والتبصر المن بری انجام آنقم انوار الاسلام ایک غلطی کا ازالہ براہین احمدیہ پیغام صلح تبلیغ رسالت ۲۳۰ ۵۰۶۰۴۴۶،۲۴۲،۲۴۱،۱۰۵،۱۰۰ ۲۶۹ ۵۵،۵۴ ۵۷۲۵۲۵ حدیث بیان القرآن تفسیر کبیر جلالین بخاری شریف ریاض الصالحين مسلم مشكوة ۲۲۵،۹۸ تجلیات الهیه تحفہ بغداد کتب حضرت مسیح موعود تحفہ گولر و یه آئینہ کمالات اسلام احمدی اور غیر احمدی میں فرق ازالہ اوہام ۲۶ ۲۷ ، ۱۰۱ | تریاق القلوب ۵۴۳ تذکره MAcoly جنگ مقدس اسلامی اصول کی فلاسفی ۲۹۱،۲۵۲ ،۴۵۳،۴۹۴۴۷۳ | چشمه معرفت الاستفتاء ۵۸۶٬۵۲۹ | حقیقت اسلام اشتہار تحمیل تبلیغ حقیقۃ الوحی اشتہار دعوت حق ۵۲۸ حمامة البشرى اعجاز اسیح ۵۲۸ ۲۹۱ التبليغ خطبہ الہامیہ وافع البلاء 41

Page 743

۲۵۲ ۵۴۳ ۲۰۸ IMA ۵۳۲ ۱۰۸،۱۰۲ ۳۱۴ ۲۴۰،۱۸۵ 164 ۲۴۴۱۱۵،۱۹۴۰۶ ۵۰۱،۴۵۴ ۱۷۵ ١٠٢ ۱۵۵ ۳۱۵،۲۶۱۰۲۴۷ ۶۳۷۳۶۳۵،۵۹۵ ۱۸۴،۶۳ در ثمین در مکنون سبز اشتہار ۱۴۰ اسلام اینڈ ڈیما کریسی ۱۸۶ اسلام کا اقتصادی نظام ۹۸،۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز سراج منیر ۲۸ ، ۱۰۱ | اظہار حقیقت سر الخلافه ٢٦ الازهار لذوات الخمار کشتی نوح ۵۴۳ القول الفصل گلدستہ بہار ( انتخاب کلام فارسی و عربی) ۴۷۳ الكفر ملة واحدة لجد النور لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور محمود کی آمین ۵۳۱ الموعود ۵۴۳٬۵۳۱ | الواح البدی ۴۹۸ انوار خلافت ۲۹، ۱۰۱ ایک عظیم الشان بشارت مکتوبات احمد سید ۵۸۶٬۵۳۱،۱۰۰،۴۷،۱۹ | برکات خلافت ۷ پیارا رسول ۱۰۳۰۴۷ پیغام احمدیت ملفوظات جلد چهارم مواہب الرحمن حجم البوردی نزول اسح کتب خلفاء سلسله آل پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر آئینه صداقت ۵۳۰ پیغام مسیح ۱۰۳،۴۵ | تبلیغ حق ۵۳۵ ۱۰۸تا ۲۸۴۲۳۴،۱۱۰ آپ مسلمانوں کیلئے کیا کر سکتے ہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام اساس الاتحاد اسلام اور دیگر مذاہب ۵۹۵،۵۸۰ ۴۹۹،۴۳۰،۴۲۹ ۵۰۵،۳۹۱ ۵۳۱،۱۹۰ تحفة الملوک تحفه شهزاده ویلیز ترک موالات اور احکام اسلام تقدیر الہی تقریر دلپذیر ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض چشمه توحید چند غلطیوں کا ازالہ 42

Page 744

حضرت مسیح موعود کے کارنامے ۵۴۳ منهاج الطالبین حق الیقین ۵۶۸ نجات ۵۹۰،۵۸۵،۵۴۹ ۳۲۰،۳۱۹،۳۱۱،۱۹۰ حقائق القرآن ۱۳۵ نصائح مبلغین 19+ حقیقت الامر ۲۰۸ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر حقیقة الرؤيا ۲۰۵،۱۰۲ نظام تو ۲۳۹ ۵۴۳۵۳۱ هته القوة ۵۱ خلافت را شده ۳۱۳ ۵۷۲۰۵۰۳ ۱۳ ۲۷۱ ادد ۴۹۷ ۲۳۷ دعوة الاحمدیہ و غرضها دعوة الأمير ذکر الہی روح پرور خطاب زنده مذهب ۲۳۹،۱۷۳ نورالدین ۹۸ ہدایات زرین ۵۳۲ ہستی باری تعالی ۴۴۳،۵۰۵،۳۹۲ کتب مصنفین سلسله ۱۹۵ ۲۴۲ آپ بیتی (مفتی محمد صادق صاحب ) ۲۳۲۱۰۵ ٢٤٤،١٩٩ آپ بیتی (مولوی ظہور حسین صاحب) سیر روحانی سیرت مسیح موعود صادقوں کی روشنی کون دور کر سکتا ہے ۵۰۷ ۵۴۳،۱۹۳۱۰۵ آریہ پنتھ کا فوٹو آور موومنٹ آمینه احمدیت ۲۱۹ اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہند واقتدار کے منصوبے ۴۹۹،۳۹ ۶۳۵،۶۳۴ عرفان النبی کلام محمود کون ہے جو خد کے کام روک سکے لیکچر شملہ محبت الہی مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ملائکہ اللہ منصب خلافت ۲۳۳۲۳۳۰۱۴۳۱۳ ۶۴ ۶۳۶،۶۳۵ ۲۵۷ ۴۶۴ اچھوتوں کی حالت زار اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں احمد قادیانی احکام القرآن احمد بیت پر ایک طائرانہ نظر احمدی جنتری ۱۹۷۳ء 43

Page 745

احمدیہ پاکٹ بک اسرار ارکان اسلام اسلام اور دنیا کے علوم کا منبع ۲۴۰ القول الحمود في شان مصلح موعود ۵۴۳ الفاروق ۵۴۳ اصبح الاسرائیل اور صلیب اسلام اور عیسائیت اسلام کا اجمالی خاکہ اسلام کا تعارف اسلام کا غلبہ اسلام میں جہاد اسئله واجوبه اسوه حسنه اشاعت اسلام ٢۷۲ المهدي ۲۷۲ النور المبين ۲۵۲ الواح الهدی ۳۱۸ الحدية السنية لفية البشرة المسيحية ۵۴۳انداری پیشگوئی درباره مرزا احمد بیگ و غیره ۵۳۱،۵۲۹ انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارت ۵۷۲ انگریزی نماز ۶۳۳ با با نا تک کی سوانح عمری 197 ۲۲۷ ۲۹۱ ۵۷۲۰۳۱۴ ۵۲۷ ۵۵۱ ۲۳۵ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں ۳۱۸ براهين العقائد اصحاب احمد ۱۰۲۹۸ تا ۲۳۱،۲۳۹،۱۰۸، ۲۳۸، ۴۱۷ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول اعجب الاعاجيب فی فی الا نا جيل لمو المسيح على الصليب بشارات رحمانيه فضل الانبياء ۵۲۵ ۴۹۷ ۲۳۵،۲۲۵ بشائر التوراة والانجيل في حق سلیل سید نا ابراهيم الخليل باب التصرف في ابطال اوربية المسح ۵۲۷ بہائی مذہب کی حقیقت التاویل اصحیح لنزول المسیح ۵۳۱ بائیبل کا یسوع ۲۸۵ پسر موعود اده مام الله 170 التشريع السيح و الهامات المهدى والسيح الحجه البالغة ۱۹۷ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود له الا الله الحقائق عن الاحمد يد ۵۲۳ تابعین اصحاب احمد الدین الحي الخالد ۵۲۸ | تاثرات قادیان ۵۹۲۵۸۱،۲۲۵ ۴۱۹،۳۲۳۳۱ الصلاة في الاسلام ۲۹۱ تاریخ احمدیت ۴۴، ۹۶، ۲۳۴،۱۰۹۲۱۰۳۱۰۲،۹۹، القول المتين في بيان معنی خاتم النبيين ۵۲۸ ۵۸۶،۵۵۴۴۸۹،۴۲۰، ۲۳۳۳۳۳۳۵،۲۳۷ 44

Page 746

.۲۱۳ ۵۴۳ 1+9 ۵۴۳ ۵۲۷ ۲۵۲ ۵۲۳ 1AZ 1+9 ۶۳۳۵۰۴ ۵۰۰ ۲۸۵،۲۳۹ حق الیقین تاریخ مالا بار تاریخ بیت الفضل لندن ۲۳۴، ۵۰۲۴۹۸، حقیقت اہلبیت عیسی علیہ السلام ۶۳۳٬۵۹۳ حقیقت اختلاف تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب ۲۳۰ حقیقت بائیبل تبلیغ ہدایت تحریک جدید حکمت الصيام ۵۹۰ | حیات احمد تحریک جدید کے بیرونی مشن ۵۰۳ | حیات ابح ووفاته تحد مستریاں ٦٣٦ حیات النبی ۲۸۷ حیات قدی ۱۸۴ حیات ناصر ۵۴۴ خلافت محمود در عدن 1^2 تحقیق الادیان ترجمة القرآن ترقی اسلام کی راہ تذكرة الذاكرين تذكرة المهدى تصدیق المسیح ۲۸۵،۲۳۶،۱۸۷۹۹ دعوة عامة الى المناظرہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کی کھیلیں تنویر الابصار ۵۴۴۲۰۴ دليل المسلمين في الرد على فتاوى المفتين ۴۱۹ دنیا کا آئندہ نظام ۲۲۴ دیوان اشرف تنویر الالباب لابطال دعوة البهاء والباب ۲۹۱ ذکر حبیب توضیح المرام فی الرد على علما جمع وطرابلس والشام ۵۲۷ رہنمائے تبلیغ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات ۳۳۳،۳۲۲، رساله اخلاص الی کل مسیحی متدین ۵۲۸ ۵۲۷ 1+1 ۱۰۴ ۴۱۸،۳۱۵ ۵۲۸ ۴۱۸۲۰۴۱۶۰۳۳۴ ۶۳۳۰۶۰۸۰۵۹۴۰ ، ۶۳۵ | روایات سروری (بنیه مطبوع ) ۱۰۴۱۰۲، ۲۳۲۱۰۵ ہنما عت میبا تین سے عقائد سینه بود به را کلام ۲۲۴ روایات صحابه ( غیر مطبوع ) ۱۰۱۲۹۹ ۱۰۵ تا ۱۰۷ ٢٩١ ۲۳۸،۲۲۵ ۲۴۶ ۵۴۴ روندها و جلسه جوبی حدوث روح و ماده ادد 45

Page 747

۲۲۸ ۲۴۳ تا ۳۱۸،۲۴۷، فیصله حکم ۵۳۸،۵۰۲،۵۰۰،۴۱۹۳۴۱۶،۳۲۰، ۵۹۳ کارزار شدهی ۴۱۵ تا ۴۱۸، ۴۲۱ ، ۴۹۷ سیرت احمد ۱۰۰ کشف الاختلاف سیرت المہدی ۴۱۰،۹۸ کشف الغطاء عن وجه شريعة البهاء 1+2 ۵۳۱ سیرت النبی ۵۴۳ کشف اللثام ۲۹۱ سیرت ام المومنین ۹۹، ۱۰۷ کفاره ۵۴۴ سیرت خاتم النبین سیرت سروری کلام حسن ۲۳۲ کلمه الحق سیرت مسیح موعود ( مولا نا عبد الکریم سیالکوٹی) ۹۹۹ کلمۃ الفصل ۳۱۵،۲۶۰ ۲۴۱ ۴۲۰ 196 سیرت مسیح موعود ( شیخ یعقوب علی عرفانی ) ۱۰۲ کلید کلام الامام ۶۳۳۴۹۷۱۰۴ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں شفاعت ارحم الراحمین شمائل احمد ۵۴۴ قادیان ۴۲۰ قادیان گائیڈ شمشیر براں ۴۷۳ تبریح شہید مرحوم کے چشم دید واقعات ۲۸۵ قبر مسیح اسرائیلی صداقت رسول کریم از روئے بائیبل ۵۴۳ قتل مرتد اور اسلام ۵۴۳ قدرت ثانیه صداقت حضرت مسیح موعود صداقت مریمیه ظهور المهدی ۱۸۷ قیامت ۱۲۶ لائف آف محمد ۲۲۹ ٣٢٠،٣١٩ MIA ۲۵۲ ۵۹۱ ۵۴۴ عشرون ولیلا علی بطلان لاہوت لمسیح ۵۲۸ لائحہ عمل احمدیہ ۵۲۸ مباحثہ احمدیاں و غیر احمد یاں مه عين الضياء فتح مبین فتنہ مستریاں فقه احمدیه ۲۴۳ مباحثه سرگودها مباحثہ مصر ۴۹۷۰۴۱۳ مبائعین اور غیر مبائعین میں فرق 46 سم و MAA ۵۴۴

Page 748

محاکمہ آریہ سماج اور گاندھی ۴۱۵ ،۴۹۷ القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار محقق محمد اور یسوع ۴۱۳ اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب ۱۶۳، ۲۳۷ ۲۷۲ انکشاف حقیقت محمد رسول و خاتم النبيين ومفتي الديار المصريه ۵۳۱ خلافت اسلامیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم از روئے ہائیل ۵۴۴ | وی سپلٹ مرکز احمدیت قادیان مسئلہ کفر و اسلام مشارکت ، تمدن اسلامیه 1+1 سالانہ رپورٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور ۲۳۹،۱۹۷ | عسل مصفى ۲۲۷ ۲۸۴ ٢٢٦ ۲۳۰ ۲۳۲،۲۲۹ ۵۴۳ مجاہد کبیر مشاہدات عرفانی ۱۳۳ مجدد اعظم مقدمة الهدى والتبصر لمن بری ۳۱۹ | مجد د کامل مکمل تردید ۵۴۴ اسلامیات ۲۲۹ نعمت الهام و باب و بهاء دادی قمران کے صحیفے ۴۷۳ اقامته البرهان علی نزول عیسی فی آخر الزمان ۵۴۴ الاسلام عقيدة وشريعة والد صاحب ( عبد الرحیم درد صاحب کے والد ) ۳۱۸ الجهاد في الاسلام وکٹری فار خلافت دید شاستر اور اچھوت ادھار دیدوں کا سر بستہ راز ویئر ڈڈ جیزس ڈائیڈ ہماری تحریک ہماری ہجرت اور قیام پاکستان ہندوراج کے منصوبے کتب غیر مبائعين ۲۳۹ ۵۷۲ 10+ ۲۷۲ ۶۳۵ الفتاوى النسخ في الشريعة الاسلامية كما المحمية توجیہات الاسلام خلاصة الادیان وزبدة الادیان سیرت و تاریخ انڈیا ونز فریڈم تاریخ اقوام عالم ۲۹۰ ۳۲۰ ۵۹۴ ۳۲۰،۳۱۹،۲۹۹ ۲۹۰ ۳۲۰ ۵۸۶ ٣١٤ ۵۸۵،۲۳۶ ۲۴۷ احمدی قوم کی خدمت میں اپیل PPA 47 تاریخ ہند تاریخ ہند و پاک

Page 749

۵۹۳ ۵۸۴ ۲۴۶ ۲۴۳ ۵۴۴ ۲۳۱ ۲۷۵ ۲۴۱،۱۸۸ ۵۹۲ ۱۴۶ ۱۳ ۲۳۵ ۴ Air ۲۳۵ ۲۳۱ ۵۴۵۰۲۳۱ ۲۲۸ ۵۶۹ تبرکات آزاد ۴۱۵،۳۱۵ ، ۴۱۷، ۶۳۵ | میری داستان تحریک اسلامی ۳۱۵ نا قابل فراموش ترکی کے آرمینیوں پر فرضی مظالم ۲۳۶ یادگار جنگ تذکرہ حالی ۱۰۳ ارمغان قادیان القول صحیح قادیانی مذہب کتب مخالفین سلسله کتب اہل کتاب ۳۱۵ تقاریر مولانا ظفر علی خان تقسیم بند حقیقت خلافت اور مسلمانوں کا فرض ۳۱ ۲۳۶ حیات شبلی ۴۱۴۰۳۲۵ حیات محمد علی جناح ۶۳۵،۴۲۰،۴۰۶۰۳۱۵،۲۴۴ خطبات احرار احمدی ١٩م احمد یہ موومنٹ اعمال بائیل پیروز لیکچرز دی ڈائجسٹ آف کسٹمری لا سویلائز بیشن آن ٹرائل طالموه کرائسٹ آرمحمد گیونگ میرڈ (جینون اسلام) ماڈرن ٹرنڈ زان اسلام محمدن ازم نشو اللغة العربية ونموها واكتفاءها هفوات المسلمین ہندو سکھ لٹریچر 48 ۵۸۸،۵۰۵ خطبہ صدارت دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ ۲۳۶۰۱۵۷ ۲۳۶ ۵۹۵،۴۱۷ ،۳۸۰۳۱۵ ۳۱۵ ۵۸۳۳۱۴،۳۱۵ ۵۰۵،۴۹۰ ذکر اقبال سرگزشت سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری سیرت محمد علی سیر قادیان علماء حق کے کارنامے فتندارند اداور پویشی کل قلابازیاں ۴۱۵،۴۱۴، ۴۱۸ ۵۰۴۳۱۵۰۳۱۳ ۵۷۴ ۵۸۸ ۳۱۵ ۴۲۰ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی مسلمان مباراة مشاہداتی فی ماء الشرق مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں میثاق لکھنو

Page 750

بہائیت قدس لغت نحو.دائرۃ المعارف اردو انسائیکلوپیڈیا انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا حدائق البلاغه دروس نحویه اخبارات ورسائل اخبار آبرزور - لندن اخباراً خر دقیقہ.دمشق رنگیلا رسول ستیارتھ پرکاش ۲۰۱۶۰۰،۵۹۸۰۵۹۶ اخباراخوت لکھنو ۳۶۸ رسالہ الا سلام.انڈونیشیا بند و دھرم اور اصلاحی تحریکیں ۳۸۸، ۴۱۸ اخبار اصلاحات ایران ایران ۵۰۴۰ ۴۰۸ AL رسالہ اقبال.پاڈا نگ.انڈونیشیا رسالہ الاسلام - لندن اخبار البدر - قادیان ۳۱۷ ۵۴۴۵۳۹ ۵۳۸ ۱۵۰ ۱۰۵،۱۵ رسالہ البشارة الاسلاميه الاحمدیہ فلسطین ۲۸۸، ۵۲۸ رساله البشري _ فلسطین ،۵۲۹،۵۲۸،۳۲۰،۲۸۸ ۵۸۸،۵۸۷،۵۳۱ رسالہ البشری.انگریزی.قادیان اخبار البشیر.اٹاوہ رسالہ التمدن الاسلامی - دمشق ۵۳۶ ۵۳۲ ۵۳۳ ۲۲۹،۱۷۸ ۴۳۰ | اخبار الجزیره - عمان - اردن ۵۳۳ رسالہ الجمعیہ.دہلی اخبار اريد پتر اخبار چتر کا.بریلی ۲۸۱ اخبار الحکم.قادیان ۷۹، ۲۵۰،۲۴۳،۱۰۵،۱۰۱، ۳۱۸ رسالہ آواز مجلس انصار اللہ.انڈونیشیا ۵۴۴ اخبار الرساله والروایة - مصر رساله آواز مجلس ناصرات الاحمدیہ انڈونیشیا ۵۴۴ رساله الصراط المستقیم - بغداد ۵۹۰،۴۲۰،۴١٩،٣٢٢ ۳۱۹ ۵۳۳ اخبار آئین اسلام.ایران اخبار آ ئین برادری ایران اخبار اتفاق - مدراس رسالہ احمد کی.کلکتہ اخبار احمد یہ گزٹ.انڈونیشیا اخبار احمد یہ گزٹ.قادیان ۵۰۳ رساله العرفان - لبنان اخبار الفتح.قاہرہ ۵۳۲ ۳۲۰،۲۹۰ ۳۱۵ رسالہ الفرقان - ریوه ۲۳۹،۲۳۷، ۳۲۰،۳۱۴،۲۴۰ ۵۹۲،۵۵۷،۵۵۱ ۵۴۴ | اخبار الفضل قادیان ۵۵۷ ۵۹۲،۵۹۲،۵۸۷،۵۰۷ ۱۴۶،۱۰۵،۱۰۲۳۹۹,۹۰ ۴۲۱۳۴۱۵ ،۳۲۳۳۳۱۳۲۴۸۲۲۲۵ 449

Page 751

۴۳۵، ۰۵،۳۹۸ ۵ تا ۵۸۴،۵۰۷ تا۵۹۴ اخبار پبلک لیجر - امریکہ اخبار الصلح کراچی اخبار المقطم قاہرہ رسالہ الہدی.انڈونیشیا اخبار الہلال کلکتہ اخبار امان افغان - کامل اخبار انڈین ڈیلی میل.بمبئی رسالہ انصار اللہ نہ ربوہ اخبار انقلاب.لاہور اخبار انوار الاسلام لکھنو اختیار اودھر لکھنو ۲۴۰ اخبار پرتاپ.لاہور ۵۰۰ ۵۴۴ اخبار پر کاش.لاہور ۱۳۳ رسالہ پنو جوک جاسن.انڈونیشیا ۵۸۴ | رسالہ پینوراما.پاکستان ۵۰۳ اخبار پیسہ.لاہور ٣١٣ ۶۳۴۶۰۸۵۰۶ اخبار پیغام صلح - لاہور ۵۰۷ ۲۵۰ ۰۳۱۹،۴۱۴ ،۳۹۴،۳۷۹ ۵۹۴۵۷۶ ۵۴۴ ۳۱۳ ،۲۵۳ ۴۸۱،۴۱۴،۳۸۵ ۵۹۳،۵۶۲۵۴۸ ،۴۴۵ ،۲۳۴۷ ،۲۳۹،۲۳۹ ۲۸۳ رساله تادیب النساء قادیان اخبار اہلحدیث.امرتسر ۱۳۴، ۲۰۷، ۵۳۴،۵۱۳،۲۶۲ | اخبار تازیانہ.لاہور ۵۸۸،۵۸۴ رسالہ تائید الاسلام.لاہور ٣٨٠ ۶۲۷،۵۸۵،۴۱۸ TAD اخبار اہل سنت.امرتسر ۴۱۹،۳۹۳ رسالہ ترجمان.لاہور ۵۹۵،۵۷۹ اخبار آکپشین گزٹ.اسکندریہ ۲۳۵ رسالہ تشحید الا ذہان.قادیان ۲۴۶،۱۴۱،۱۰۶،۱۰۵ اخبار ایسٹ اینڈ ویسٹ.لنڈن ۱۸۵ میگزین تعلیم الاسلام - قادیان ۳۲۰،۲۹۲،۱۰۵ اخبار ایوننگ بلیٹین.امریکہ ۲۵۰ اخبار تنظیم - امرتسر ۵۷۶،۳۲۳،۳۱۰۰۲۵۳ د رسالہ بالی بات.انڈونیشیا اخبار ہیٹیسٹ ٹائمنر لنڈن ۵۴۴ ۶۳۶۶۲۴ ۵۶۵ اخبار تیج.دہلی ۶۳۵،۶۲۳،۴۱۹،۴۱۴،۳۷۹،۳۱۰، اخبار بدر.قادیان ۱۰۴ ۱۰۹ ۵۹۰،۲۳۳،۱۰۹ | اخبار ٹائمنر لنڈن ۵۰۲ ۴۱۵ ۲۴۶ اخبار بندے ماترم.لاہور اخبار بنگالی کلکتہ اخبار پایونیر کلکتہ اخبار پبلک ریکارڈ.امریکہ ۶۲۳،۵۷۶ | اخبار ٹائمز آف انڈیا ۴۸۰ | اخبار جا گرت.سناتنی اخبار ۲۳۵،۷۶ | اخبار جیون نت.لاہور ۲۵۰ اخبار حق.لاہور 50

Page 752

اخبار حقیقت.کابل اخبار حیات مسلمین.ایران ۵۰۴ اخبار ڈیلی میل.لندن ۵۰۳ | اخبار ذوالفقار رساله خالد ربوہ ۵۹۳،۵۹۰،۴۸۹،۲۸۶ | اخبار رشی.امرتسر اخبار سالہ درنجف.سیالکوٹ ۶۲۲۳۷۸ | اخبار رفتار زمانہ.لاہور ۵۸۰،۴۸۰،۴۷۷ ۴۸۴،۴۸۰،۳۲۰،۳۱۵،۲۹۳ ۶۲۸ ١٩ اخبار دعوت.کانپور اخبار دعوت اسلام.دہلی رسالہ دلگداز لکھنو اخبار دنیائے اسلام.ایران اخبار دور جدید - لاہور اخبار دی اسلامزم.ماریشس اخبار رنگین.امرتسر ۴۱۲ اخبار روزگار - آگرہ ۵۹۲ | اخبار ریاست - دہلی ۵۰۳ رساله ریویو آف ریجنز اردو.قادیان ۶۳۴۶۰۰ 149 ۴۹۴ ۳۷۸ ۵۸۴۵۰۹ 0+1' ،۴۹۹،۴۱۹ ،۴۱۵ ،۳۱۵ ،۲۴۳ ،۲۳۰،۲۳۹،۲۳۶ ۵۹۵،۵۸۹،۵۸۸،۵۸۶ اخبار دی ایوننگ سٹنڈ رد.لنڈن ۲۳۵، ۵۰۱ رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگلش.قادیان اخبار دی نرو تھے.نائیجیریا اخبار دی پریس.امریکہ اخبار دی کریسنٹ.روزیل اخبار دی گائیڈنس.سالٹ پانڈ ۵۰۵ ،۴۵۴۳۱٦٠١٦٩ ۲۵۰ اخبار زمیندار.لاہور ۱۳۲، ۳۸۶،۳۷۹،۳۷۵،۲۳۱، ۱۶۹ ۲۷۵ | اخبار سٹینس مین - کلکتہ ۵۸۴٬۵۱۵،۴۱۸،۴۱۵ ،۴۱۴ ۲۳۵ اخبار دی لائٹز.نائیجیریا ۲۷۲ اخبار سچ لکھنو رسالہ دی مسلم.ہیرلڈ.لنڈن ۱۵۱ اخبار سراج الاخبار - جہلم رساله دی مسلم سن رائز - امریکہ ۲۵۱ ۲۵۲ اخبار سرمه روزگار آگره رسالہ دی یو نیورسل ہیں.رنگون اخبار ڈیلی ٹائمنر.نائیجیریا ۵۵۱ اخبار سنڈے ٹائمنر - لندن ۲۷۳ اخبار سن رائز.قادیان اخبار ڈیلی ٹیلیگراف.لندن ۵۰۱،۵۰۴ | اخبار سوراجیہ.لاہور ۵۶۶ ۵۷۶ اخبار ڈیلی کرانیکل - لندن ۵۶۳٬۵۰۲٬۴۵۹ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور ۲۱۷،۱۸۵ ، ۲۴۷ ، اخبار ڈیلی گرافک.لنڈن اخبار ڈیلی مرر لندن ۵۰۱ ۵۰ | اخبار سوتھ ویلز نیوز - لندن 51 ۵۶۳

Page 753

719 12 • ۱۷۲ ۲۹۴ ۶۰۴ ۵۰۱۴۵۴ ۲۱۱ ۵۰۹،۲۳۵ MAI ۶۰۵۶۰۳۵۹۹ ۲۷۲ اخبار لغت العرب - مصر اخبار پیتے جرنل.ماریسش ۰۴۱۷،۳۸۵،۳۷۹ اخبار سیاست.لاہور اخبار سیلون.ڈیلی نیوز رسالہ سنیار اسلام.انڈونیشیا رسالہ شباب - اردو اخبار شبھ چنتک.قادیان اخبار صدق لکھنو اخبار عالم اسلامی.مصر ۶۳۴۵۹۵،۵۸۵ اخبار نے میسیج.ماریسش ۵۹۱ اخبار لیڈر.نیروبی ۵۴۴ اخبار مارننگ پوسٹ.لنڈن ۲۱۲ اخبار مارننگ ٹائمنر لندن ۶۴ | اخبار مانچسٹر گارڈین.لندن ۱۳ | اخبار مباہل - قادیان ۳۱۹ رسالہ مجلة الازہر.قاہرہ ۱، ۱۲۸ | رسالہ مخزن.لاہور اخبار عصر جدید - کلکتہ اخبار فاروق.قادیان ۲۳۹،۱۷۸، ۲۴۰ ۲۴۱ ، اخبار مدراس میل رسالہ الفرقان.قادیان اخبار فلاڈلفیار یکارڈ.امریکہ اخبار فنانشل ٹائمنر.لندن اخبار قصر العیں.مصر ۲۴۲۴۲، ۴۱۸ اخبار مدینہ - بجنور ۲۳۱،۲۲۵ رسالہ مرشد.لاہور ۲۵۰ اخبار مسلم.لاہور ۴۸۰ اخبار مسلم آؤٹ لک.لاہور ۲۸۷ اخبار مسلم ورلڈ.نائیجیریا اخبار روزانہ قومی رپورٹ.مدراس ۲۱۷ اخبار مسلم ورلڈ.امریکہ اخبار کرزن گناٹ.دہلی اخبار کشمیری.لاہور اخبار کیرلا پیتر کا ۱۳۴ اخبار مسلمان کلکتہ ۱۸۵ MAY ۵۰۳۴۷۵ اخبار مشرق.گورکھپور ۳۳۳، ۴۱۶،۳۷۵، ۶۰۷ ۶۳۴۰ ۱۷۷ رسالہ مصباح - قادیان ۲۶۰ ۵۰۰ ۶۳۵،۵۷۶،۳۱۸ اخبار کیسری.لاہور ۳۲۹، ۳۷۹، ۴۱۷ | رسالہ معارف اعظم گڑھ ۶۳۵ اخبار مقتطف - مصر مقط ۴۴۵ | اخبار معلم - قاہرہ اخبار گورو گھنٹال.لاہور اخبار ڈاٹر بیونا.روما رسالہ لائف.امریکہ ۳۱۸ | اخبار ملاپ.لاہور 52

Page 754

۶۰۹،۲۰۶،۵۹۷۰۵۹۶ اخبار ملت.لاہور اخبار منادی.دہلی ۱۳۳ | اخبار نیئر ایسٹ لندن ۱۰۵ رساله در تمان - امرتسر رسالہ مولوی.دہلی اخبار ناردن ایکو- لندن اخبار نائیجیرین.ٹریبیون اخبار نارتھ امریکن بلیٹین.امریکہ اخبار نجات - بجنور ۲۸ رسالہ ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ.نانا ۵۶۴ اخبار وکیل - امرتسر ۳۳۰،۲۱۷،۱۳۳، ۳۷۹،۳۷۷، ۲۷۳ ۲۵۰ ۴۸۲،۴۱۷ ،۴۱۵،۳۸۵ اخبار ویسٹ افریقن پائلاٹ.نائیجیریا ۴۱ | اخبار ویسٹ افریقہ.افریقہ رسالہ نظام المشائخ.وہلی ۲۴۴ اخبار ویسٹ منسٹر گزٹ - لندن رسالہ نقوش.لاہور ۲۳۴، ۳۱۵ ۴۱۴۰، ۴۱۸ | اخبار ہمدرد.دہلی ۲۳۵ ۵۰۲۴۶۰ ۱۲۲۵۸۴ اخبار نوردانش - ایران اخبار نور علی گڑھ ۵۰۳ اخبار ہمدم لکھنو ۳۳۲،۳۲۴٬۲۱۷، ۳۷۵، ۵۱۱،۴۱۵ ۳۷۷ اخبار ہندور کشک ۶۳۶ ۶۱۲ ۲۳۵ اخبار نور.قادیان ۱۹۲،۱۱۰،۹۶، ۲۴۱،۲۲۵ ۲۴۲ ، | اخبار ہندوستان ٹائمنر ۲۴۴، ۳۶۰،۲۴۶، ۴۱۸ | اخبار ہندو کلکتہ 53

Page 754