Tarikh-eAhmadiyyat V03

Tarikh-eAhmadiyyat V03

تاریخ احمدیت (جلد 3)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کاعہد خلافت
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

<span class="ufont-small">حضرت حکیم حافظ حاجی الحرمین مولوی نورالدین صاحب بھیروی ، خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے عہد خلافت کی جامع اور مستند تاریخ اور آپ کے عظیم الشان اور زندہ جاوید کارناموں کا مفصّل تذکرہ ۔ (پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 4)</span>


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت حضرت حکیم حافظ حاجی الحرمین مولوی نورالدین صاحب بھیروتی خليفة المسيح الاول کے عہد خلافت کی جامع اور مستند تاریخ اور آپ کے عظیم الشان اور زندہ جاوید کارناموں کا مفصل تذکرہ جلد سوم مؤلف دوست محمد شاہد

Page 2

نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع تاریخ احمدیت جلد سوم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 : : نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN - 181-7912-110-0 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-3 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN - 181-7912-110-0

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کوملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مورخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلد میں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے I

Page 4

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۴ کوجلد نمبر ۳ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جلد پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کو حتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد سوم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی (ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 5

عنوان فهرست تاریخ احمدیت جلد ۳ عنوان صفر سیدی حضرت طلیقہ اول اور آپ کا عہد خلافت راولپنڈی کے نارمل سکول میں داخلہ اور کامیابی ۳۰ ریاچه از جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب بالقابه) پنڈ دادنخان میں قیام اور ملازمت سے استعفی حصہ اول پہلا باب سفر را پور لکھنو میں آمد رامپور میں درباره ورود حضرت خلیفۃ المسیح اول کی جائے پیدائش.سفر میرٹھ ر دہلی سن ولادت.بچپن.ابتدائی تعلیم.سفر ہند ) بھوپال میں پہلی مرتبہ آمد جائے پیدائش من ولادت خاندان والد بزرگوار ننھیال کا شجرہ نسب حضرت کے ننھیال ایام طفولیت اور ابتدائی درسگاہ میں تعلیم لاہور میں تعلیم کا حصول لاہور سے بھیرہ کو مراجعت جہاد فی سبیل اللہ کا شوق ۱۵ ۱۶ ( 14 ۲۵ ۲۶ X ۲۸ ۲۸ ۳۰ دو سرا باب ۳۳ ۴۳ (سفر حرمین شریفین سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی زیارت تک ) حرمین شریفین کے لئے سفر مکہ معظمہ میں پہلی بار سفر مدینہ طیبہ ۵۹ = حضرت شاہ عبد الغنی سے چالیس احادیث کی روایت کا نخر ۶۷ مکہ معظمہ میں دوسری بار شرف حج اور اس کے تاثرات ገለ ۲۹

Page 6

عنوان مکہ معظمہ سے وطن کو مراجعت بھیرہ میں واپسی قتل کی سازش مفحه اک عنوان صفحه سوامی دیانند سرسوتی پر اتمام حجت انجمن اشاعت اسلام حفظ قرآن 97 ☑ A4 الري پہلی شادی انجمن حمایت اسلام 4A بھیرہ میں درس وتدریس اور مطب کا آغاز حضرت مسیح موعود سے غائبانہ تعارف بھوپال سے دعوت اور آپ کا سفر لاہور Al حضرت مسیح موعود کی پہلی بار زیارت لارڈلٹن کے دربار دہلی میں شمولیت A علم کلام کے متعلق تاثرات بھوپال میں دوسری بار ورود حضرت مولوی صاحب آیت اللہ تھے اور آپ بھیرہ میں آمد اور ریاست جموں و کشمیر میں کی آمد نشان ملازمت کی تحریک ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کا آغاز عظیم الشان طبی خدمات زمانہ جموں کے ایک کارڈ کا چربہ AM دوسری ملاقات اور ایک مجاہدہ کی ہدایت 1+ ۸۶ تیسرا باب ^^ "فصل الخطاب" کے مجاہدہ سلوک سے لے کر ریاست میں تبلیغ و اشاعت اسلام کی وسیع سرگرمیاں ۹۱ اس زمانہ کی تصنیفات جموں میں درس قرآن اشاعت قرآن کریم کے لئے ایک سکیم تفسیر تورات کے لئے سرسید کا آپ کو بلاتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ۹۳ ۹۴ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ہجرت قادیان تک) فصل الخطاب " کی تصنیف و اشاعت 110 خدمت دین کے لئے ملازمت سے استعفیٰ کا فیصلہ سرمه چشم آریہ " اور " سراج منیر کی اشاعت میں حصہ 112 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب آپ کی شاگردی میں ہے

Page 7

عنوان صفح عنوان صفحہ آل انڈیا محمدن ایجو کیشنل کانفرنس شیخ محمد عبد اللہ صاحب (علیک) کا قبول اسلام حضرت اقدس سے مراسلت 112 HA SEA منشور محمدی" میں ایک معرکہ ؟ اراء مضمون ItA بیماری اور عیادت کے لئے حضرت مسیح موعود کی جماعت احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسہ میں شرکت سفر لا ہور اور لیکچر ازالہ اوہام " کی اشاعت میں اعانت مولوی سید محمد احسن صاحب کے لئے چندہ مهمانان جلسہ کے لئے ایک مکان کی تعمیر IPA ITA ۱۳۹ (74 تشریف آوری ریاست جموں و کشمیر سے تعلق ملازمت کا خاتمہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی آپ کی اور اس کا پس منظر 1* شاگردی میں اخبار " چودھویں صدی" (راولپنڈی) کا انکشاف ۱۳۳ دوسری شادی لدھیانہ میں ۱۳۱ حضرت مسیح موعود کا ارشاد ریاست کے متعلق سلام سلام لدھیانہ کی بیعت اولی میں شرکت ریاست سے روانگی کے دن نصرت الہی عکس الفاظ بیعت اولی در قم فرموه حضرت مسیح موعود ) ۱۲۳ ریاست سے بھیرہ دوسرا مجاہدہ " تصدیق براہین احمدیہ " کی تصنیف و اشاعت سب سے پہلی تصویر حضرت مسیح موعود کے دو نایاب خطوط انجمن حمایت اسلام کے جلسہ ۱۸۹۳ء میں دعوی مسیحیت پر ایمان ۱۲۵ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے تبادلہ خیالات ۱۲۵ ڈاکٹر جگن ناتھ کا مطالبہ نشان ملازمت سے استعفیٰ کی ممانعت سفر قادیان MY ۱۲۷ IPA ١٣٥ ۱۳۵ ر معارف لیکچر 112 قادیان کی طرف مستقل ہجرت چوتھا باب آغاز ہجرت سے لے کر حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک )

Page 8

107 ۱۵۸ ۱۵۸ ۱۵۸ ١٥٨ 104 ÷ 14* + عنوان عنوان ہجرت کی مخالفت اور آپ کا ثبات و استقلال قادیان میں دینی مشاغل دو سروں کو ہجرت کی تحریک ۴۶ ۱۴۸ سفر ملتان سالانہ جلسه ۱۸۹۷ و پر ایمان افروز تقریر الحکم کا قادیان سے اجراء عکس فحط حضرت مولوی نور الدین خلیفہ المسیح اول انجمن ہمدردان اسلام میں لیکچر F T مقدمہ حفظ امن کے لئے سفر گورداسپور ولادت میاں عبد الحی صاحب مولوی کرم الدین آف بھیں کا مخط + } 10° 10° بنام مخدوم محمد صدیق صاحب کر سید احمد خاں سے خط و کتابت مباحثہ جنگ مقدس حضرت مسیح موعود کی شان میں عربی مضمون اور عربی قصیده اشتہار "التوائے جلسہ " میں ذکر سفر جموں حضرت مسیح ناصری کی قبر کا انکشاف ۱۵ 101 우 ۱۵۲ ۱۵۲ نئے ترجمہ قرآن کی ضرورت اور اس کے اصول ۱۵۲ سفر بہاولپور اور حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف سے ملاقات سفر مالیر کو حملہ جلسه اعظم مذاہب " لاہور ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۵ ولد تصميين قومی ضرورتوں کی طرف توجہ علامہ شبلی نعمانی مرحوم سے خط و کتابت ۲۷ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک وعظ ولادت سیدہ امتہ الحی صاحبہ اردو ترجمه قرآن مجید "الدار" میں قیام اخبار البدر کی قلمی معاونت ایک الزام کا عارفانہ جواب صاحبزادہ عبد القیوم کی ولادت سفر کپور تھلہ میاں عبد الرحیم خاں کا علاج 107 107 انجمن حمایت اسلام" کے سالانہ جلسہ پر لیکچر ڈگلس کی عدالت میں گواہی

Page 9

161 عنوان حضرت مسیح موعود کی ہدایت جلسہ تضحیة الا زبان کی صدارت عبد الکریم صاحب حیدر آبادی کے لئے اجتماعی دعا اے ترجمہ قرآن کے پہلے پارہ کی اشاعت اور حضرت مسیح موعود کا مکتوب شدید علالت میاں مبارک احمد صاحب اور میاں عبدالحی صاحب 141 Izr 160 160 147 166 کے مخطبہ نکاح جلسہ آریہ سماج لاہور میں شرکت درود شریف کے فلسفہ پر لطیف روشنی وزارت میاں عبد الوہاب صاحب " مجمع الاخوان " کا قیام مخطبہ جمعہ میں آیت استخلاف کا ذکر قرآن سیکھنے کی ایک مجرب راہ قادیان میں محمد مسیح موعود کا آخری خطبہ جمعہ احمد یہ بلڈ نگ لاہور میں قیام حضرت مسیح موعود کے آخری لمحات میں آپ کا صفحہ ١٦٣ 140 170 3 * F 196 176 ITA MA MA ☑ 141 (** عنوان فونوگراف میں وعظ کتاب "نور الدین کی تصنیف و اشاعت سفر لاہور گورداسپور میں قیام رسالہ ابطال الوہیت مسیح کی تصنیف سفر سیالکوٹ زلزلہ کانگڑہ پر لطیف نوٹ بیماری اور وصیت میاں عبد الحی صاحب کا ختم قرآن حرم اول کی وفات میاں عبد السلام صاحب کی ولادت انجمن کارپرداز مصالح قبرستان" صد را لمجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ دینیات کا پہلار سالم ڈاکٹر عبد الحکیم مرید کے نام محط حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا خطبہ نکاح زبان پر تصرف الہی سے کلمات حدیث جاری ہوتا ۱۷۰ میبرد استقلال مباری الصرف " کی تألیف و اشاعت

Page 10

صفحہ عنوان بیت المال کا قیام عنوان صفحہ قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کا قیام حصہ دوم ۲۰۸ ۲۰۸ پہلا باب حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اہلبیت کے اخراجات کا الہام الہی کے مطابق انتظام ۲۰۸ کتاب "پیغام صلح" کے خلاف محاذ Fil قدرت ثانیہ کے لئے اجتماعی دعا المسیح اول کی خلافت پر قوم کا اجماع.خلافت اولی مجلس ضعفاء کا قیام کا پہلا سال ۱۹۰۸ء ) IAL نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب کی ناقابل حضرت طلیقہ المسیح اول کی پہلی تقریر IM فراموش خدمات MIN Pir صدر انجمن احمدیہ کی طرفی سے بیرونی جاعتوں کو اطلاع 191 خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک حیرت انگیز بیان قیام خلافت اولی کی نسبت ۱۹۲ خواجہ کمال الدین صاحب کے خود نوشت بیان کا چہر بہ ۱۹۵ مولوی سید محمد احسن صاحب کا بیان خلافت اولی کے قیام کے متعلق حضرت اقدس کے وصال مبارک کا اثر *** حضرت مسیح موعود کی یاد گار میں دینی مدرسہ کے لئے تحریک و اعط من سلسلہ کا تقرر بھیرہ کی جائیداد کا سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف کرنا ۲۱۷ تشدد پسند پارٹیوں کی خدمت مولوی عبد اللہ العمادی کا ایک نوٹ اور حضرت خلیفہ اول کا ان کے نام ایک خط حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کا ظہور ۳۱۷ PIA ٢١٩ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا محط حضرت ام المومنین کے نام ۲۰۲ مخالفین احمدیت کی منظم یورش اور اس کی روک تھام ۲۰۴ خلافت اوٹی کے عہد میں صدر المجمن احمدیہ کا سب سے پہلا اجلاس سیلاب اور جماعت کی خبر گیری کا انتظام مسجد مبارک میں اعتکاف اور درس لنگر خانہ کا انتظام صد را نجسن کی نگرانی میں ۱۹۰۸ء میں سید نا محمود کے بعض تبلیغی سفر ٢١٩ ۲۲۰ ۲۲۰

Page 11

عنوان صفحہ عنوان صفحہ محمد خلافت اوٹی کے پہلے سالانہ جلسہ کے مختصر کوائف ۲۲۱ ڈاکٹر عبد الحکیم کے دلی خیالات خلیفہ وقت سے انحراف کا پہلا پبلک مظاہرہ ۲۲۳ حضرت خلفیہ اول کی تقریر کے لئے وقت کی پابندی ۲۲۸ غالیانہ عقیدہ جماعتی کانفرنس میں مدرسہ دینیہ کے قیام کی شدید مخالفت ۱۹۰۸ء کے بعض متفرق واقعات دو سرا باب فصل اول ۲۲۹ ۲۳۲ انجمن کے بارے میں منکرین خلافت کا صدر انجمن احمد یہ کا قیام انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کا صدر انجمن احمد یہ سے موسوم ہوتا ممبران انجمن کے تقریر کا واقعہ ممبران انجمن کی حضرت خلیفہ المسیح اول" اور خاندان مسیح موعود سے پرانی رقابت فته انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر.حضرت خلیفہ انجمن میں خواجہ صاحب کے حامیوں کی اکثریت اول کا معرکۃ الآراء فیصلہ اور عفو عام ۱۹۰۹ء ) لنگر خانہ پر قبضہ کرنے کی کوشش ممبران انجمن کی تقریروں کا ردعمل فتنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے روياء و الهامات خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے رفقاء کی سلسلہ میں شمولیت کا مقصد حضرت مسیح موعود کے دعوئی کو پیش کرنے کی ضرورت ایڈیٹرا خبار "وطن" سے گٹھ جوڑ ۲۴۱ ۲۴ ۲۴۵ ۲۴۵ حضرت مسیح موعود پر بے جا اسراف کے التزامات حضرت مسیح موعود کا آخری سفر اور لنگر خانہ کا انتظام خلافت اولی کا قیام اور اختیارات کو محدود کرنے کی سازش حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی طرف سے وضاحت طلب سوال ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۱ For ۲۵۳ ۲۵۳ ۲۵۳ ۲۵۴

Page 12

عنوان مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کا بے نقاب ہوتا حضرت خلیفہ اول کی طرف سے جماعتی شورشی ۳۵۴ عنوان صفحہ خلاف ورزی خلیقہ کے بجائے پریذیڈنٹ کے لفظ کا استعمال بھیرہ کی حویلی کا واقعہ اور منکرین خلافت کا حکم ۲۵۵ کی شورش حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا لمحط صاحب پر فتنہ کا انکشائی اور آپ کا جواب ۲۵۵ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کا محط دو سرے ممبران انجمن کا جواب خواجہ صاحب کا لاہور میں جلسہ خواجہ صاحب کے زہریلے پراپیگنڈا کا اثر حضرت خلیفہ اول " کے نام انجمن کے ایک ۲۵۲ مولوی محمد علی صاحب کا تبصرہ مخطوط پر Foy حضرت خلیفہ اول کا عفو عام اور وحدت کی 106 تلقین معافی پانیوالوں کا تجاہل عارفانہ دلدادہ کا محط ۳۱ر جنوری ۱۹۰۹ء کا یوم الفرقان حضرت خلیفہ اول کی جلالی تقریر درباره بیعت کا ارشاد خواجہ صاحب کا اقرار roɅ PAA ۲۶۲ فصل دوم ۲۷۵ ۲۶۵ ۲۲۵ 194 ۲۶۹ re (مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک ) مدرسہ احمدیہ کی بنیاد مستقل درسگاہ کی حیثیت سے بیعت کے بعد مولوی محمد علی صاحب کا حمد خلافت اوٹی کے اساتذہ ایمان سوز مظا ہرہ مدرسہ کے اولین طلبہ ۲۶۴ یہ فتنہ کس پاک شخصیت کے خلاف تھا حضرت خلیفہ اول کے صریح حکم کی مدرسہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ بشیر الدین ۲۸۴ TAY PAY

Page 13

عنوان عنوان صفحہ محمود احمد صاحب کے ہاتھ میں مدرسہ احمدیہ کی ترقی کے لئے زریں خدمات ۲۸۵ گرلز سکول (مدرسه البنات) ۲۸۷ دریا نند مت کھنڈن سبھا دیلی ۳۰۲ مدرسہ خلافت ثانیہ میں ۲۹۰ اخبار نور کا اجراء ٢٠٣ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی اصلاحات کا دور ۲۹۰ مبات منصوری - مدرسہ احمدیہ کا احیاء پاکستان میں ۲۹۱ انجمن ارشاد کا قیام ٣٠٣ اعانت بتائی و مساکین کے لئے تحریک ۲۹۱ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولادت ۳۰۴ حضرت مسیح موعود کی دو عظیم پیشگوئیوں کا ظہور ۲۹۱ جلسہ سالانہ کا پروگرام ۳۰۴ حضرت خلیفہ اول کا مکتوب خواجہ حسن نظامی صاحب کے نام نواب وقار الملک کے نام مخط انجمن "الاخوان" کے سالانہ جلسہ پر تقریر دہلی سے تصور تک تبلیغی دورہ اردو کی تائید میں ریزولیوشن نجات" ۲۹۲ | مسیعی لیکچروں کے جواب میں اسلامی پینچر ۳۹۳ ۲۹۳ مولوی محمد حسین صاحب ٹالوی کی مولوی ثناء اللہ ۳۰۵ صاحب امرت سری سے چپقلش اور تکفیر سے رجوع ۳۰۵ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے سولات کے جوابات ۳۰۷ حضرت خلیفہ اول کی طرف سے تمکین خلافت جلسه الجمن احمد یه فیروز پور انگریزی ترجمه قرآن مجید مباحثہ رام پور ram کے نشان کا ظہور ۲۹۴ 1909ء کے متفرق واقعات **1° pro تیسرا باب قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ۱۹۱۰ء ) گھر محلہ دار العلوم جماعت کو ذمہ داریوں کے احساس کی طرف توجہ دلا تا ۳۰۱ صاحبزادگان کا سفر کشمیر مسجد نور بھیرہ

Page 14

عنوان صفحه مسجد نور بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول تعلیم الاسلام ہائی سکول عنوان ۱۱ جھوٹے مدعیوں کا خروج ۳۱۲ نوجوانوں کے لئے تربیتی کلاس ۳۱۲ حضرت مسیح موعود کے تیسرے پوتے کی ولادت صفحہ ٣١٩ ٣١٩ ۳۲۰ اخبار الحق کا اجراء سنگا پور اور سیلون میں تبلیغی وفد بھجوانے کی تجویز ۱۳ مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے وظائف م ۳۱۴ حضرت سید ہ امتہ الحی صاحبہ کی آمین حضرت صاحبزادہ صاحب کے درس قرآن کا آغاز ۳۱۴ مباحثہ کھارا مسجد اقصیٰ کی توسیع نماز جمعہ میں مستورات کی پہلی بار شمولیت حضرت خلیفہ اول کا ایک خط سیکرٹری مدرسہالہیات ۳۱۴ سفر پشاور ۳۱۵ اپنے خرچ پر دو احمد یوں کو حج پر بھجوانے کی خواہش ۳۱۵ سفر ملتان ۳۲۰ ۳۲۰ ۳۲۰ ۳۲۰ £ ۳۲۱ کے نام الانذار ۳۱۵ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خطبہ جمعہ ۲۵/ مارچ ۱۹۱۰ء کی خصوصیت ۳۱۶ کا سب سے پہلا خطبہ جمعہ ۳۲۳ دسمبر ۱۹۰۹ء کا جلسہ مارچ ۱۹۱۰ ء میں ۳۱۶ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ ۳۲۴ انجمن راجپوتان ہند کا قیام ۳۱۷ جلسہ میر ٹھ حضرت خلیفہ اول کی طرف سے ایک ضروری اعلان ۳۱۷ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت جلسہ پر آنیوالوں کو ایک نصیحت دردمند دل کے مکفرین کے ایک اشتہار کا جواب ۳۲۴ ساتھ امتحان میں کامیابی ۳۱۸ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کالا ہور میں PIA تقر ر اور منکرین خلافت کی حالت سلام سلام حضرت امیر المومنین کو مبارکباد ۳۱۹ یوپی میں مبلغین احمدیت کے کامیاب دورے ۳۲۷

Page 15

صفحہ عنوان صفحه Far ۳۶۲ ٣٦٣ ་་ MA ٣٦٩ ٣٢ ۳۷۳ ۳۷۳ عنوان مرکزی علماء مونگھیر میں ۳۲۸ حضرت خالف یہ اول کا گھوڑے سے گرنے کا حادثہ ۳۲۹ جماعت کی طرف سے اپنے امام سے بے پناہ خلوص و محبت کا اظہار ۳۳۰ حضرت خلیفہ اول کی بیماری اور اس کے کوائف ۳۳۱ حضرت خلیفہ اول کے مقام عشق و فدائیت کے ایمان افروز واقعات آئندہ خلیفہ کے لئے وصیت ppp ۳۳۹ چوتھا باب (انجمن انصار اللہ کا قیام ۱۹۱۱ء ) رسالہ "احمدی " کا اجراء ڈاکٹر عبد الحکیم پٹیالوی کی پیشگوئی کا غلط ہونا انجمن انصار اللہ کا قیام اور اس کے کارنامے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی ولادت خاتم النبیین" پر نظام المشائخ میں مضمون حضرت خلیفہ اول کی طرف سے اہم تصریح حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی شادی خانه آبادی خواجہ کمال الدین صاحب کے لیکچروں کا رد عمل اور حضرت خلیفہ اول کا واضح ارشاد ۳۴۲ ۳۴۳ غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں حضرت مسیح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے چندہ مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے خواجہ کمال الدین صاحب کا طرز عمل منسکرت کی تعلیم کا انتظام موعود کا فیصلہ کن مسلک حضرت مولوی عبد الکریم حضرت خلیفہ اول کا اعلان حق صاحب کے ایک خط کا عکس جلسہ سالانه ۱۹۱۰ء حضرت خلیفہ اول کے دو خطوط کا عکس ۱۹۱۰ء کے متفرق واقعات ۳۴۵ ۳۴۸ For جلسہ بنارس مسکونین سے نیکی کی تلقین نکته معرفت ایک پرائیویٹ کلاس جلسه تاجپوشی پر تقریر و جلسه بماله

Page 16

عنوان صفحہ عنوان صفحه چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کا پہلا سفر انگلستان ۳۷۵ مباحثہ مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ مباده مونگیر سفر دلسوزی ۳۷۸ پانچواں باب ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب یدہ اللہ تعالٰی ) کے سفر ہند و عرب ۱۹۱۲ء ) حضرت امہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی آمین نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے میموریل دعائے خاص کا ایک یاد گاری واقعہ خلیفہ اور انجمن کے تعلقات پر بحث کرنے والوں کے مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے سفر ہند خلاف اظہار نفرت خطبہ عید احمدی علماء جنوبی ہند میں نواب سید رضوی صاحب کی طرف سے خواجہ Par ۳۸۲ ۳۹۲ جواب اشتہار جناب غلام سرور صاحب کانپوری ۳۹۶ حضرت خلیفہ اول کا سفر لاہور لاہور میں تقریریں " مرقاة اليقين في حياة نور الدین" ۳۹۹ صاحب کو دس ہزار روپیہ کی پیش کش ایک ضروری اعلان PAY ۳۸۳ رسالہ "احمدی خاتون " کا اجراء خواجہ کمال الدین صاحب کا سفر انگلستان کلام امیر کی اشاعت حضرت خلیفہ اول کا محط مولوی عبد الحق صاحب حقانی کے نام تقسیم بنگال کی تنسیخ حضرت خلیفة المسیح اول کا خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ م پر مدارج تقوی ۱۹۱۱ء کے متفرق واقعات FAF ۳۸۳ TAM MAY MAY نقشه عرب و مصر ۴۰۵ ۴۰۵ ۴۰۸ 2 3 حضرت صاجزادہ صاحب کا سفر مصر و عرب حضرت صاحبزادہ صاحب کا خط حضرت خلیفۃ المسیح اول کے نام (عکس) بنگال میں احمدیت.حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب

Page 17

عنوان کی بیعت جنگ بلقان در تحریکیں ۴۲۷ عنوان بخاری شریف کا ایک عام درس پادری غلام صحیح کے لیکچر کارد قادیان میں ایک غیر احمد ی صحافی کی آمد قاضی محمد یوسف صاحب کے ایک رقعہ کا جواب ۴۲۸ حضرت خلیفہ اول کا ایک مکتوب انجمن مبلغین کا قیام " خطبات نور" کی اشاعت ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب سے مخط و کتابت حضرت مسیح موعود کی نبوت کا واضح اعلان ۴۲۹ ۴۲۹ ۴۲۹ صفحه ۴۳۹ ۴۳۹ ۴۴۲ کلام محمود کی اشاعت خواجہ کمال الدین صاحب کے نام ایک اہم خط ۴۴۳ حضرت خلیفہ المسیح کی درد انگیز دعا ایک اولوالعزم امام کے ظہور کے لئے ۴۳۰ ترکی کی شکست اور حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی ۴۳۰ اخبار "الفضل کا اجراء حضرت خلیفہ اول کی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۲ ء پر چھٹا باب ۴۳۱ حضرت سید نا محمود کا مکتوب (عکس) صاحبزادہ عبد الحی صاحب کا نکاح ایک عظیم الان نشان کا ظہور خبار الفضل" اور "پیغام صلح" کا اجراء.یم نام نهم " ۴۴۸ ۴۵۰ تحریک انصار اللہ کے ممبر مصر و انگلستان میں ایک غیر احمدی عالم کا اعترانی حق اخبار پیغام صلح کا اجراء لاہور کے گمنام ٹریکٹوں کی شورش اور سالانہ جلسہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کا سفر انگلستان ۴۵۱ ۴۵۲ پر خلافت حقہ کی تائید کا روح پرور نظارہ (۱۹۱۳ء) اور یورپ میں سب سے پہلے احمدی مسلم مشن کا قیام ۴۵۷ عربی ممالک میں تبلیغ تعمیر مال کی تحریک کلمات قرآنی کی فہرست ۴۳۸ ۴۳۸ PA چوہدری فتح محمد صاحب کا عریضہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام اور حضور کا جواب (عکس) ۴۵۹ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا سفر مصر و شام ۴۶۲

Page 18

عنوان صفحہ عنوان صفحه خانہ کعبہ اور مدینہ میں اسلام اور احمدیت کے لئے حضرت خلفیہ اول کے حکم سے گمنام ٹریکٹوں کا دعائے خاص کی تحریک ۴۶۲ مسکت جواب حضرت خلیفہ اول کے پنجابی اشعار حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام ایک کھلا خط اور اس جماعت احمد یہ شملہ کا سالانہ جلسہ کا بصیرت افروز جواب اٹھوال کا گاؤں آغوش احمدیت میں سفر ملتان ۴۸۴ ترجمه قرآن مجید اور کتب احادیث کی اشاعت کی اخبار "بدر" کی بندش ۴۸۴ تحریک خلافت اوٹی کے عہد کا آخری سالانہ جلسہ ۴۸۳ حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایک اہم تجویز تائید خلافت کا روح پرور نظاره ۴۸۵ گوجرانوالہ میں جلسہ ~YA ساتواں باب حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان کی بنیاد ۴۶۸ (خلافت اولی کے آخری ایام.حضرت خلیفہ اول جماعت احمد یہ لکھنؤ کا سالانہ جلسہ MA کا وصال اور خلافت ثانیہ کا قیام حضرت خلیفہ اول کے پانچویں بچہ کی ولادت ۴۹۸ اخبار پیغام صلح کی طرف سے نبوت مسیح موعود سے جلسه لودی ننگل اور سفرفتح گڑھ چوڑیاں متعلق واضح اعلان لاہور سے گنام ٹریکٹوں کی اشاعت ”پیغام صلح " کی تائید اور حضرت خلیفہ اول کی شدید ناراضگی حضرت خلیفہ المسیح کی اس تحریر کا عکس کہ پیغام صلح" دراصل پیغام جنگ ہے "الحق" کا زبر دست احتجاج ۴۷۵ تبلیغ احمدیت کے لئے ملک گیر سکیم دعوة الى الخير فنڈ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں مولوی محمد علی صاحب کا انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹ سناتا اور آپ کا انہیں نصیحت فرمانا سفر چکوال ۴۹۵ ۴۹۵

Page 19

خوان صفحہ عنوان منی مباحشہ مدرسہ چٹھہ مسجد احمدیه وزیر آباد کا افتتاح الحکم کے احیاء کی کوشش مولوی صدر الدین صاحب کے ولایت بھیجوانے MA ٤٩٩ مسجد نور میں اجتماع اور انتخاب خلافت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی دعا اور تقریر حضرت خلیفہ اول کی تدفین ملکی پریس کے تبصرے کی تجویز حضرت خلیفہ اول کی مرض الموت کا آغاز حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی کوٹھی میں منتقل ہوتا حضرت خلیفہ اول کی وصیت (مع نکس) اختلافی مسائل کا عام چر چا اور ذاتی حملے ۵۰۰ ۵۰۴ A+Y ori ۵۲۳ آٹھواں باب میرالمومنین سید نا حضرت خلیفة المسیح اول کی سیرت طیبہ ) (فصل اول) قیام اتحاد واتفاق کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب (سیرت نور پر ایک عمومی نوٹ ) کی جدوجہد ۵۰۹ حضرت خلیفہ اول کی مقدس زندگی کے آخری لمحات ۵۱۰ حضرت خلیفہ اول کا وصال وفات کی خبر کیسے ملی؟ قادیان کا درد ناک نتظاره ON ۵۱۳ ۵۱۳ فصل دوم (سیرت کے بعض نمایاں اور ممتاز پہلو ) بے مثال توکل اور غیبی رزق کی آمد دهه عدیم النظیر عشق قرآن عدد حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی کی تقریر 017 اطاعت اور فدائیت مولوی محمد علی صاحب کی خدر باک سازش داه سمجھوتے کی آخری کوشش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے نظیر خاندان حضرت مسیح موعود کا ادب و احترام ۵۱۶ ۵۶۰

Page 20

اور عقیدت عنوان نواں باب (فصل اول) صفحه عنوان ۵۶۷ | خاندان حضرت مسیح موعود میں ترقی سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت خلافت اور خدمات جلیلہ صفحه ۱۰۵ ۱۰۵ ( خلافت اولیٰ کی نسبت آسمانی شہادتیں) ۵۸۲ خلافت اولی میں انتقال کرنے والے بزرگ ۲۰۶ (فصل دوم) عہد خلافت اولی میں پیدا ہونے والے بعض حضرت مسیح موعود کے رویا ء والہامات میں نامور فرزند احمد بیت حضرت خلیفہ اول کا ذکر ) ۵۸۵ حضرت خلیفہ اول کی ڈاک (فصل سوم) (حضرت خلیفہ اول کا بلند مقام.آخری سال میں صد را منجمن احمدیہ کے عہد یدار خلافت اولی کے بعض مصنفین خلافت اولی کے مقررین ۵۹۱ بر صغیر پاک و ہند کی بعض مشہور جماعتیں تحریرات حضرت مسیح موعود کی روشنی میں) ۵۸۶ | لٹریچر کی اشاعت تصانیف میں ذکر ۵۸۶ سید نا حضرت مسیح موعود کی رقم فرمودہ ایک تحریر ۵۹۱ اشتہارات میں ذکر خطوط میں ذکر (فصل چهارم) ۵۹۲ نئی مساجد کی تعمیر ۵۹۲ مشہور مباحثے ۶۰۲ Y-A ۲۰۸ 7+9 احمد یہ پریس میں نمایاں اضافہ ۶۰۹ حضرت خلیفہ اول کے بعض رؤیا ء و کشوف اور خلافت اولی کے عہد میں جماعت کی مالی ترقی ۶۰۹ الهامات دسواں باب امیر المومنین حضرت خلیفہ اسیج اول کے عہد خلافت پر ایک طائرانہ نظر ) قادیان حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں اونیات ۸۹۴ قادیان میں پبلک عمارتوں کی تعمیر تبلیغی جلسے ۲۰۲ ۶۰۴ خلافت اوٹی کے بعض مبایعین بیرونی ممالک کی بعض احمد یہ جماعتیں رونما ہونے والے فتنے اور ان کا عبرتناکہ انجام ۶۰۹ ۶۱۰ TH حضرت خلیفہ المسیح اول کے بعض مکتوبات کا مسائل متنازعہ نیہ کا فیصلہ دربار خلافت سے ۶۰۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند عظیم الشان پیشگوئیوں کا ظہور خلافت اولی میں ۶۰۴ تبصرے

Page 21

سید نا حضرت مولانا نورالدین خلیفه امسیح الاول

Page 22

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 1 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود سیدی حضرت خلیفۃ المسیح اول اور آپ کا عہد خلافت از قلم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سابق صدر جنرل اسمبلی اقوام متحدہ) خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح اول کی زیارت کا شرف اول مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کی ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف آوری کے موقعہ پر حاصل ہوا.والد صاحب مرحوم کو تو پہلے سے شرف نیاز حاصل تھا.گو والد صاحب نے ابھی بیعت نہیں کی تھی.دل میں فیصلہ کر چکے تھے.ان کے ایک ہم پیشہ چوہدری محمد امین صاحب کو بھی حسن ظن تھا اور والد صاحب کی خواہش تھی کہ اگر وہ بھی بیعت کا فیصلہ کرلیں تو دونوں ایک ہی وقت میں سلسلہ میں شامل ہو جائیں.چوہدری محمد امین صاحب کی پوری تسلی کے لئے یہ طے ہوا کہ دونوں صاحب نماز مغرب کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جایا کریں اور چوہدری محمد امین صاحب حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اپنے سوال پیش کر کے اپنے شبہات کا ازالہ کرلیں.چنانچہ یہ مجلس تین چار روز تک جاری رہی.خاکسار بھی ان دونوں بزرگوں کے ہمراہ حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہو تا رہا.خاکسار کی عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال تھی اور اس واقعہ پر اب ساٹھ سال گزرنے کو ہیں اس لئے اول تو خاکسار اس وقت بھی اس گفتگو کے موضوع کو اپنے ذہن سے بالا تصور کرتا تھا اور دوسرے اگر کوئی تفصیل اس کی ذہن میں آئی بھی تو افسوس ہے کہ اب وہ محفوظ نہیں رہی.فقط اتنا یاد ہے کہ آخری مجلس سے واپسی پر والد صاحب نے چوہدری محمد امین صاحب سے دریافت کیا.اب آپ کی کیا رائے ہے تو انہوں نے کہا میرے اعتراضات کا جواب تو آگیا ہے.والد صاحب نے کہا پھر کل بیعت کرلیں؟ چوہدری صاحب نے کہا.اچھی بات صبح جب آپ بیعت کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں.تو مجھے بھی ساتھ لیتے چلیں.دوسری صبح نماز فجر سے قبل ہی

Page 23

2 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عمد والد صاحب گھر سے روانہ ہوئے.خاکسار بھی ہمراہ تھا رستے میں چوہدری صاحب کے مکان پر رک کر چوہدری صاحب کو آواز دی.انہوں نے دوسری منزل پر سے اپنی کھڑ کی کھول کر کہا.میرے دل کو ابھی اطمینان نہیں اس لئے میں آپ کے ہمراہ نہیں جا سکتا.چنانچہ والد صاحب گئے اور بعد نماز فجر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں گزارش ارسال کی کہ بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ حضور اقدس نے اپنی جائے قیام پر فخربار یا بی بخشا اور والد صاحب نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.خاکسار بھی موجود تھا.اور جماعت سیالکوٹ کے چند بزرگ بھی موجود تھے.اس کے بعد والد صاحب کا معمول تھا کہ ستمبر کی تعطیلات میں اور جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان حاضر ہوا کرتے تھے اور خاکسار کو بھی ہمراہ لے جاتے تھے.ان ایام میں خاکسار کو حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے.مثنوی مولانا روم کے درس میں جو آپ اپنے مطب میں قبل دو پہر دیا کرتے تھے شامل ہونے اور قرآن کریم کے درس میں جو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں ہوا کر تا تھا.شامل ہونے کا فخر حاصل ہو تا رہتا تھا.اور بعض نصائح جو ان دنوں خاکسار نے سنیں وہ اب تک یاد میں محفوظ ہیں.آپ قبل دو پہر احمد یہ چوک کے شمال مشرقی کونے میں ایک لمبے دالان کے ایک حصے میں مطلب کیا کرتے تھے.اور مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معمول تھا کہ حضور دس بجے کے قریب سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.اور حضرت مولوی صاحب سیر میں حضور کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے.آپ نے ایک خادم کو مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ حضور کے دروازے کے باہر کھڑا رہے اور جونہی حضور دروازے کے باہر قدم رنجہ فرمائیں.جلدی سے آپ کو مطب میں پہنچ کر اطلاع کر دے.جیسے ہی یہ خادم دالان کے دروازے پر پہنچتے ہی اطلاع کر تا حضور تشریف لے آئے ہیں.حضرت مولوی صاحب دالان کے دو سرے سرے پر فور اجو فقرہ منہ میں ہوتا وہیں ادھورا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور دستار سنبھالتے اور پاپوش گھسیٹتے ہوئے دروازے کی طرف لپک پڑتے کہ جلد سے جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.حضور کی مجلس میں آپ نہایت مودبانہ سر جھکائے خاموش بیٹھے رہتے.صرف حضور کے مخاطب فرمانے پر سر اٹھاتے اور حضور کے مبارک چہرے کی طرف نگہ اٹھا کر نہایت ادب کے لہجے میں " جواب عرض کر دیتے.اپریل ۱۹۰۷ ء میں خاکسار نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا.اور والد صاحب نے خاکسار کو گورنمنٹ کالج لاہور میں مزید تعلیم کے لئے بھیج دیا.گرمیوں کی تعطیلات میں خاکسار گھر آیا ہوا تھا ان دنوں

Page 24

3 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت حضرت مولوی صاحب کا ایک کارڈ والد صاحب کے نام آیا.جس کا مضمون بس اتنا ہی تھا.اب آپ اپنے بچے کی بیعت کرا دیں.اس سے خاکسار کو یہ احساس ہوا کہ حضرت مولوی صاحب خاکسار کو پہچانتے ہیں.ستمبر میں جب خاکسار والد صاحب کے ہمراہ قادیان گیا تو کچھ عرصہ تو اس انتظار میں رہا کہ والد صاحب بیعت کے متعلق کچھ ارشاد فرما ئیں لیکن جب مہینے کا وسط آگیا اوروالد صاحب نے کچھ نہ فرمایا تو خاکسار نے خود ہی ۱۶ / ستمبر 1906 ء بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کر لیا.فالحمد لله على ذالک - یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل تھا کہ حضرت مولوی صاحب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہ والد صاحب کو اس ناچیز کی بیعت کے متعلق یاد دہانی فرما ئیں اور اگرچہ والد صاحب نے اس بارے میں خاکسار کو کوئی ارشاد نہیں فرمایا.لیکن خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کا کارڈ پڑھ لیا تھا اور آپ کی یہ توجہ خا..کے متعلق اس امر کا موجب ہوئی کہ خاکسار کو ستمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.دل سے تو خاکسار اس لحظہ سے ہی حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی غلامی میں داخل ہو چکا تھا جب کمال خوش قسمتی سے ۱۳ ستمبر ۱۹۰۴ء کے دن لیکچر لاہور کے موقعہ پر خاکسار کو حضور کا دیدار اول مرتبہ نصیب ہو ا تھا.لیکن اگر حضرت مولوی صاحب کی توجہ نہ ہوتی تو قیاس یہی ہے کہ خاکسار کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل نہ ہوتی.اور خاکساران برکات سے محروم رہتا جو اس ذاتی عہد و پیمان کے ساتھ وابستہ تھیں.کیونکہ ستمبر ۱۹۰۷ء میں خاکسار کی عمر ابھی ساڑھے چودہ سال تھی اور مئی ۱۹۰۸ ء میں مشیت ایزدی کے مطابق حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال وقوع میں آیا.حضرت مولوی صاحب کا یہ ایک احسان عظیم خاکسار پر ہوا اور پھر اس کے بعد تو ایک لمبا سلسلہ شفقت و رافت اور ذرہ نوازیوں کا شروع ہو گیا.جو آپ کے وصال تک ہیم جاری رہا.۲۶ / مئی ۱۹۰۸ء کے قیامت خیز روحانی زلزلے کے دن خاکسار لاہور میں موجود تھا اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے جنازے کے ہمراہ قادیان حاضر ہونے کی سعادت میں شریک ہوا.اندازہ ہے کہ بعض احباب نے لاہور سے بٹالہ تک کا وہ غم ناک سفر دوسرے درجے میں طے کیا.لیکن یہ خوب یاد ہے کہ حضرت مولوی صاحب ہم سب کے ساتھ تیسرے درجے میں تشریف فرما تھے اور آپ کی موجودگی ہمارے لئے بہت ڈھارس کا موجب تھی.اکثر حصہ سفر آپ سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے اور دعاؤں اور ذکر الہی میں یہ عرصہ صرف ہوا.امرت سر پہنچنے پر آپ نے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہی مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھا ئیں.دوسرے دن صبح طلوع آفتاب پر تھوڑا ہی وقت گزرنے پر یہ

Page 25

تاریخ احمدیت.جلد ۳ کا عہد خلافت حزیں قافلہ قادیان وارد ہوا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد اطہر کو حضور کے باغ والے مکان کے دالان میں نماز جنازہ کی انتظار میں رکھ دیا گیا.اس اثناء میں بعد مشورہ طے پایا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ ہوں.چنانچہ آپ نے جماعت کی بیعت لی.اور جماعت کو نہایت قیمتی نصائح فرما ئیں.اور خلیفتہ المسیح اول کی حیثیت سے جماعت کی باگ ہاتھ میں لی اور شکستہ اور زخم خوردہ دلوں کے لئے سہارا اور مرہم اور غمخوار اور غمگسار بنے.خاکسار نے بھی اس موقعہ پر بیعت کی سعادت حاصل کی.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا جنازہ باغ کے آموں والے حصہ میں پڑھا گیا اور حضور کی تدفین عمل میں آئی.خلافت اولیٰ کے دوران میں اگست ۱۹۱۱ء تک خاکسار کا یہ معمول رہا کہ گرمیوں کی تعطیل میں اور سالانہ جلسے پرتو بالالتزام قادیان حاضر ہوتا اور درمیان میں جب موقعہ مل جاتا.مئی 1911ء میں بی.اے کا امتحان دینے کے بعد خاکسار قادیان حاضر ہو گیا اور چند ہفتے متواتر حضرت خلیفتہ اصحیح اول کی خدمت میں حاضر رہنے اور آپ کے چشمہ فیض سے متمتع ہونے کا موقع ملا.کم و بیش دو ماہ قبل گھوڑے پر سے گرنے سے آپ کو چوٹیں آئی تھیں.اور ان میں سے ایک جو کنپٹی کے قریب تھی.ناسور کی صورت اختیار کر گئی تھی جب خاکسار حاضر ہوا.تو آپ بیٹھ تو جاتے تھے.لیکن ابھی چلتے پھرتے نہیں تھے.آپ کے پلنگ کے ساتھ ہی آپ کی نشست کا انتظام تھا آپ تکیوں کے سہارے بیٹھے ہوئے درس بھی دیتے تھے.مریضوں کو بھی دیکھتے تھے.حاجت مندوں کی حاجت روائی بھی فرماتے تھے.اور منصب خلافت سے متعلقہ احکام اور ہدایات بھی جاری فرماتے تھے.نماز کے لئے آپ مسجد میں تو تشریف لے جانہیں سکتے تھے.اس لئے جب مسجد سے اذان کی آواز آتی تو آپ حاضرین سے ارشاد فرماتے جاؤ مسجد میں نماز ادا کرو.اور خود نماز کی تیاری فرماتے اور اپنی نشست پر ہی قبلہ رو ہو جاتے.چند شاگردوں اور خادموں کو ہدایت تھی کہ وہ آپ کے ساتھ نماز ادا کریں.شیخ تیمور صاحب ایم اے جن کی تربیت آپ کی نگرانی میں ہوئی تھی امام ہوا کرتے تھے.خاکسار کی حاضری کے پہلے ہی دن جب آپ نے فرمایا جاؤ مسجد میں نماز پڑھو تو خاکسار بھی دوسرے حاضرین کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا.خاکسار کو یاد تھا کہ کئی دفعہ آپ فرما چکے تھے کہ جب عام ہدایت دی جاتی ہے کہ یوں کرو تو اکثر لوگ تو فور امستعدی ہے اس کے مطابق عمل شروع کر دیتے ہیں لیکن بعض جو اپنے تئیں نمبردار شمار کرتے ہیں حرکت نہیں کرتے.گویا کہ وہ مخاطب ہی نہیں تھے.آپ کے اس ارشاد کے پیش نظر خاکسار فورا چستی سے مسجد جانے کے لئے کھڑا ہو گیا.تو آپ نے نگاہ بلند کر کے فرمایا.میاں تم یہیں نماز پڑھا کرو.خاکسار نے یوں محسوس کیا کہ دنیا کے سب سے بڑے روحانی دربار سے

Page 26

جلد ۳ 5 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت خلعت فاخرہ عطا ہوئی ہے اس وقت خاکسار کی عمر ۱۸ سال تھی.جب آپ قبلہ رو ہو کر بیٹھ جاتے اور نماز کے لئے صف بنتی تو آپ کے بائیں طرف تو آپ کا پلنگ ہوتا اور دائیں طرف خاکسار کھڑا ہو جاتا.اور اس خیال سے کہ آپ کے بالکل قریب کھڑا ہونا آپ کی طبیعت پر گراں نہ ہو اور پاس ادب سے بھی خاکسار چند انچ کا فاصلہ درمیان میں چھوڑ کر کھڑا ہو تا.لیکن آپ اپنے دائیں دست مبارک سے خاکسار کو بالکل قریب کر لیتے.ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ عصر کی نماز کے وقت شیخ تیمور صاحب موجود نہیں تھے.جب آپ نماز کے لئے تیار ہو گئے.تو آپ نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر خاکسار کو کمال شفقت سے فرمایا.میاں تم نے بھی قرآن پڑھا ہے.تم نماز پڑھاؤ.تعمیل ارشاد کے سوائے چارہ نہ تھا امتحان کے بعد قادیان حاضر ہونے سے پہلے خاکہ مار والد صاحب کے استفسار پر ان کی خدمت میں گذارش کر چکا تھا کہ خاکسار کو قوی امید بفضل اللہ امتحان میں کامیابی کی ہے.قادیان کے قیام کے دوران میں والد صاحب کا ارشاد موصول ہوا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں گذارش کرد که امتحان میں کامیابی کی بفضل اللہ امید ہے اور بصورت کامیابی اگر آپ اجازت عطا فرما ئیں تو میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ وہ مجھے مزید تعلیم کے لئے انگلستان بھیجیں اس لئے حضور کی خدمت میں اجازت کی درخواست پیش ہے.زبانی تو عرض کرنے کا حوصلہ نہیں تھا.خاکسار نے ایک رقعہ جس میں علاوہ اس گذارش کے امتحان میں کامیابی کی دعا کی اور بعض دیگر امور کے متعلق گزارشات تھیں آپ کی خدمت میں پیش کر دیا.آپ پڑھتے گئے اور ساتھ ساتھ جاہیے پر اپنے ارشادات عالیہ مختصر الفاظ میں رقم فرماتے گئے اور پھر رقعہ خاکسار کو مع اپنے ارشادات کے واپس کر دیا.جن فقروں میں دعا کی گزارش تھی ان کے مقابل پر دعا کریں گے ثبت تھا اور باقی فقروں کے مقابل مناسب احکام و ہدایات تھیں.انگلستان جانے کی اجازت طلبی کے متعلق ارشاد تھا.استخارہ کر ہیں.آپ بھی اور آپ کے والد صاحب بھی.پھر اگر اطمینان ہو تو اجازت ہے.خاکسار نے اسی دن اس ارشاد کی تعمیل میں استخارہ شروع کر دیا.اور چند دن کے اندر واضح اشارہ والد صاحب کی خواہش کی تائید میں پایا.انہی دنوں میں دو تین اور طلباء نے بھی ایسی ہی اجازت حاصل کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں گذارش کی تھی لیکن آپ نے اجازت عطا نہیں فرمائی.خاکسار کو تو کوئی خاص شوق بھی انگلستان جانے کا نہیں تھا.بلکہ والدہ صاحبہ کی پریشانی کے پیش نظر طبیعت رکتی تھی.لیکن آپ نے استخارے کے نتیجہ میں اطمینان ہونے کی شرط پر اجازت مرحمت فرما دی.آپ کی مجلس تو ہر لحظہ سبق آموز تھی.لیکن ایک دن دو واقعات تھوڑے سے وقفے پر ایسے پیش

Page 27

تاریخ احمدیت جلد ۳ حضرت خلیفہ اول اور آب خلافت آئے جن کا خاکسار کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا.آپ درس و تدریس میں مشغول تھے.نظر اٹھا کر کمرے کے نچلے حصے کی طرف جو توجہ فرمائی تو دیکھا کہ آپ کے شاگرد مولوی غلام نبی صاحب مصری مرحوم جو کمرے میں کوئی کتاب یا کاغذ ایک الماری سے لینے کے لئے داخل ہوئے تھے اب واپس لوٹ رہے ہیں مولوی صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہا تھا.جو خاکسار نے بھی سنا تھا.لیکن چونکہ آپ کی توجہ کسی اور طرف تھی آپ نہ سن پائے ہوں گے.چنانچہ مسکر اکر فرمایا.مولوی صاحب السلام علیکم.مولوی صاحب نے بڑے انکسار سے و علیکم السلام عرض کیا اور کہا حضور میں نے السلام علیکم تو عرض کیا تھا لیکن حضور تک پہنچا نہیں سکا.ان دنوں آپ بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے.شیخ تیمور صاحب پڑھتے جاتے تھے اور باقی شاگر دستے تھے کہیں کہیں شیخ صاحب یا کوئی اور شاگر د سوال کرتے اور آپ وضاحت فرماتے یا خودہی کوئی نکتہ بیان فرما دیتے.اس دن شیخ صاحب نے ایک حدیث پڑھی اور اس کے متعلق کوئی سوال کیا اتنے میں کسی نے کوئی رقعہ پیش کر دیا تھا یا کسی محکمے سے کوئی کاغذ آگیا تھا اور آپ کی توجہ ادھر ہو گئی تھی.آپ نے شیخ صاحب کا سوال نہ سنا.جب آپ دوسری طرف سے فارغ ہوئے اور توجہ درس کی طرف لوٹی.تو شیخ صاحب نے اگلی حدیث پڑھ دی.آپ نے پہلی حدیث کی طرف توجہ دلا کر فرمایا.فلاں بات رہ گئی.شیخ صاحب نے کچھ ناز سے کچھ رق ہونے کے لہجے میں کہا.میں نے پوچھا تو تھا آپ نے توجہ نہیں کی میں نے خیال کیا.آپ کچھ کہنا نہیں چاہتے.آپ مسکرائے اور نظر اٹھا کر باقی شاگردوں کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا.شیخ خفا ہو گیا ! عصر کی نماز کے بعد جب صحن میں سایہ ہو جاتا تو آپ کی مجلس صحن میں منتقل ہو جاتی.جب تک آپ مجلس میں جلوہ افروز رہتے.خاکسار بالالتزام حاضر رہتا.ایک دن کچھ تعجب کے لہجے میں فرمایا میاں اس وقت سب لڑکے تفریح کے لئے کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں تمہارا دل نہیں چاہتا؟ خاکسار نے عرض کیا.حضور مجھے شوق نہیں.آپ مسکرا دئیے.ایک دن آپ صحن میں تشریف فرماتے تھے.گھر میں استعمال کے لئے ایندھن آیا.اور باہر کی ڈیوڑھی میں پہنچا دیا گیا.وہاں سے ایندھن باورچی خانے کے ساتھ کی کوٹھڑی میں منتقل کرنے کے لئے صحن میں سے گذرنا پڑتا تھا کچھ لڑکے ایندھن اٹھا کر ڈیوڑھی سے کو ٹھڑی کو لے جا رہے تھے خاکسار بھی شوق خدمت میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا.آپ نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا.میاں تم چھوڑ دو تمہارا یہ کام نہیں.دوپہر کے وقت ڈاکٹر صاحبان آپ کی کنپٹی والے زخم کی مرہم پٹی کے لئے حاضر ہو اکرتے تھے ان

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 7 حضرت کا محمد خلافت کے آنے پر مجلس برخاست ہو جاتی اور شیخ تیمور صاحب.چوہدری فتح محمد صاحب سیال مرحوم اور ایک دو شاگرد حاضر خدمت رہ جاتے.ڈاکٹر صاحبان کے چلے جانے کے بعد آپ کچھ دیر استراحت فرماتے اور جو خدام حاضر ہوتے ان میں سے کوئی آہستہ آہستہ بدن دبا تا.ایک دن اتفاق سے ڈاکٹر صاحبان کے چلے جانے پر فقط خاکسار ہی حاضر تھا.چنانچہ اس خدمت کی سعادت خاکسار کے حصے میں آئی.چند منٹ دبانے کے بعد خاکسار کو خیال ہوا کہ شاید آپ سو گئے ہوں اور مزید دبانے سے آپ کے آرام میں خلل آئے اس لئے خاکسار نے ایک لحظہ اپنے ہاتھ تھام لئے.آپ سوئے نہیں تھے اور یہ محسوس کر کے کہ خاکسار اٹھنے کو ہے آپ نے اپنا بازو اٹھا کر خاکسار کے گلے میں ڈالا اور خاکسار کے چہرے کو نیچا کر کے اپنے مبارک چھرے کے ساتھ لگا لیا.دو تین منٹ اسی حالت میں گذرے.خاکسار نے اندازہ کیا کہ آپ دعا فرما رہے ہیں.پھر اپنا بازو ہٹا لیا اور لیٹے لیٹے ہی فرمایا میاں ہم نے تمہارے لئے بہت بہت دعائیں کی ہیں.غرض خاکسار کے قیام دار الامان کا وہ عرصہ اسی کیفیت میں گذرا کہ تمام دن آپ کی مجلس میں گزرتا اور خاکسار پیم آپ کی محبت و شفقت اور ذرہ نوازیوں سے بہرہ ور ہو تا.فالحمد لله على زالک اسی اثناء میں امتحان کا نتیجہ نکل آیا.خاکسار آپ کی مجلس برخاست ہونے پر محسنم و مشفقم حضرت صاجزادہ میرزا بشیر احمد صاحب غفر الله وجعل الله الجنة العليا مثواه ) کے دولت کدے پر دوپہر کے کھانے کے لئے گیا.وہاں پہنچنے پر محترمی جناب مبارک اسماعیل صاحب کا کار ڈلا ہو ر سے لکھا ہو ا ملا.جس میں یہ خبر درج تھی کہ بی.اے کے امتحان کا نتیجہ نکل آیا ہے.اور تم بفضل اللہ اول درجہ میں پاس ہو گئے ہو خاکسار کارڈ ہاتھ میں لئے الٹے پاؤں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اور خاموشی سے کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا.پڑھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور خاکسار کو مبارکباد اور دعا دی.اس دن سہ پہر کی مجلس میں جو صاحب بھی حاضر ہوتے آپ انہیں مخاطب کر کے فرماتے.آج ہمیں ایک بہت خوشی کی خبر ملی ہے.اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرماتے یہ امتحان میں اول درجے میں پاس ہو گئے ہیں.اور تعجب ہے کہ انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ پاس ہو جائیں گے.یہ آخری جملہ بھی اظہار خوشنوری کا ایک طریق تھا ورنہ خاکسار نے تو اپنے رقعے میں صرف اتنا گذارش کیا تھا کہ پر چھے بفضل اللہ اچھے ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ خاکسار پاس ہو جائے گا.ایک دن آپ نے فرمایا ہمیں بار بار پیاس محسوس ہوتی ہے ڈاکٹروں نے جو کچھ تجویز کیا ہم نے کر دیکھا ہے.کچھ افاقہ نہیں ہوا.ڈاکٹروں کی تجویز میں تو الگ رہیں آپ خود ملک بھر میں چوٹی کے صاحب

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 8 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت تجربہ حاذق طبیب تھے.اور یہ خاکسار ایک نادان بچہ تھا.آج تک یہ بات یاد آنے پر پیشانی عرق انفعال سے نم ہو جاتی ہے.کہ کیسی احمقانہ جرأت کا ارتکاب خاکسار سے ہوا کہ وفور محبت میں سب کچھ بھول گیا.اور عرض کی کہ اگر حضور چائے الائچی کی آمیزش کے ساتھ نوش فرما ئیں تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تکلیف کا ازالہ فرمائے.کیا ہی دل لبھانے والی وہ مسکراہٹ تھی اور کس قدر پر شفقت دہ نگاہ تھی اور کیا ہی دلنواز وہ انداز تھا.جس میں آپ نے فرمایا.میاں ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ ہمیں دودھ کی ملاوٹ کی وجہ سے چائے کے استعمال کے نتیجے میں اسہال کی تکلیف ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی کسی خادم کو ارشاد فرمایا.ہمارے ایک پیارے نے یہ تجویز کی ہے اندر کہہ دو الا بچی ڈال کر چائے تیار کریں اور ہمیں بھیج دیں ہم اسے استعمال کریں گے.امتحان کا نتیجہ معلوم ہو جانے کے چند دن بعد خاکسار سفر انگلستان کی تیاری کرنے کے لئے دار الامان سے سیالکوٹ چلا گیا.اور تیاری مکمل ہو جانے پر والد صاحب والدہ صاحبہ ماموں جان میاں جہاں (جو ہمارے دادا جان کے وقت سے ہماری زمینوں کا انتظام کیا کرتے تھے ) اور خاکسار دار الامان حاضر ہوئے تا خاکسار حضرت خلیفتہ اصبح اول سے بعد دعا سفر پر روانہ ہو.اس دفعہ دارالامان میں قیام کا عرصہ بہت مختصر تھا.نمالنا ایک دن رات ہی میسر آسکے.میاں جہاں اپنے کام میں تو خوب ہو شیار تھے لیکن لکھے پڑھے نہ تھے اور روحانی مجالس کے آداب سے بھی چنداں واقف نہیں تھے پہلی دفعہ انہیں قادیان حاضر ہونے کا موقعہ ملا تھا.گھر سے فیصلہ کر کے روانہ ہوئے تھے کہ دار الامان پہنچ کر بیعت کا شرف حاصل کریں گے.چنانچہ بعد نماز عصر حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں بیعت قبول کئے جانے کی درخواست کی.آپ نے ارشاد فرمایا.کچھ دن ٹھریں.میاں جہاں نے کمال سادگی سے عرض کیا.حضور مجھے تو کل چوہدری صاحب (والد صاحب مرحوم) کے ہمراہ جاتا ہے.آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا تو پھر آپ چوہدری صاحب کی بیعت کریں ہماری بیعت کیوں کرتے ہیں.کیسے مختصر الفاظ میں آپ نے عمد بیعت کی حقیقت اور اس کا مفہوم واضح فرما دیے.بیعت کے معنے تو ہیں بک جانا.جب آپ ہمارے ہاتھ پر بک گئے تو ہماری اطاعت لازم ہو گئی.چوہدری صاحب کا یا کسی اور کا پھر کیا دخل باقی رہ گیا.دنیا جانتی ہے کہ آپ نے اپنے عہد بیعت کو کس طور پر اور کس خوبی سے نباہا تھا.تب ہی تو اپنے محبوب آقا کے دربار سے یہ سنہری سند خوشنودی پائی.← چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے خاکسار کو پاس بٹھا کر کمال شفقت سے چند نصائح لکھوائیں جن پر بفضل اللہ خاکسار عمل پیرا ر ہنے

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 9 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت کی توفیق پاتا رہا ہے اور بڑے بڑے فوائد ان سے حاصل کئے ہیں.فرمایا.جب سفر ختم ہونے کے قریب منزل مقصود نظر آنے لگے تو اللهم رب السموات السبع و ما اظللن و رب الارضين السبع و ما اقللن و رب الرياح و ما ذرين ورب الشياطين و ما اظللن انى اسئلك خير هذه القرية وخير اهلها وخير ما فيها واعوذ بك من شر هذه القرية وشراهلها وشر ما فيها اللهم ارزقنا حباها واعدنا من و باها اللهم حببنا الى اهلها وحبب صالحى اهلها الينا مسنون دعا پڑھا کرتا - اللهم ارزقني جليسا صالحا کا ور د ر کھنا.قرآن کریم میں جس قدر میسر ہو رو زانہ پڑھنا.ہمیں خط لکھتے رہنا تا دعا کی تحریک ہوتی رہے.ہر ملک میں شرفاء کا طبقہ ہوتا ہے وہاں کے شرفاء سے میل جول رکھنا.اپنے ہم ملک طلباء کے ساتھ زیادہ ربط نہ بڑھانا.وہ ملک سرد ہے لوگ کہتے ہیں سردی کی مدافعت کے لئے شراب کی ضرورت پیش آتی ہے.ہم طبیب ہیں اور ہم کہتے ہیں یہ بات غلط ہے.اگر سردی سے بچاؤ کے لئے کچھ پینے کی ضرورت محسوس کرو تو کو کو استعمال کرو.یہ آخری ملاقات تھی.لیکن خط و کتابت کے ذریعے نصف الملاقات کا شرف انگلستان بیٹھے ہوئے بھی نصیب ہو تا رہا.ہر عریضے کا جواب بالالتزام آپ دست مبارک سے رقم فرماتے اور خطاب بدلتے رہتے.کبھی تو صرف پیارے السلام علیکم پر اکتفا فرماتے.کبھی ارشد وارجمند باشی.السلام علیکم.کبھی ظفر اللہ باشی السلام علیکم وغیرہ.خاکسار اگر تعطیل کے ایام میں انگلستان سے باہر جانے کا ارادہ کرتا تو پہلے آپ کی خدمت میں اجازت کی درخواست ارسال کرتا اور اجازت ملنے پر سفر اختیار کرتا.چنانچہ ایک بار اجازت کی درخواست کے جواب پر ارشاد تحریر فرمایا کوئی دینی یا دنیوی مقصد سامنے رکھ لو.اجازت ہے.آخری بیماری میں بھی خاکسار کا عریضہ اجازت سفر کے بارے میں خدمت اقدس میں پہنچا تو دست مبارک سے اجازت تحریر فرمائی اور خاکسار کو آپ کا ارشاد آپ کے وصال سے چند دن قبل وصول ہو گیا ان دنوں قادیان سے لندن خط پہنچنے میں ۱۷-۸ اون صرف ہوا کرتے تھے.۱۹۱۲ء میں خواجہ کمال الدین انگلستان تشریف لے گئے تھے.لندن پہنچنے پر انہوں نے اسی مکان میں قیام پسند فرمایا جس میں خاکسار ٹھہرا ہوا تھا.ایک دن شام کے وقت سیر کے دوران میں خواجہ صاحب نے اپنے دو خواب خاکسار سے بیان کئے جن کا ذکر یہاں غیر متعلق نہ ہو گا.

Page 31

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 10 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا عہد خلافت خواجہ صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخری بار لاہور میں تشریف فرما تھے میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب ڈاکٹر میرزا یعقوب بیگ صاحب اور تین چار ہمارے اور دوست اور میں گرفتار ہو گئے ہیں اور ہم پر الزام یہ ہے کہ ہم نے بغاوت کی ہے چنانچہ ہمیں عدالت میں حاضر کیا گیا.میں نے خواب میں خیال کیا کہ ہمیں بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا ہے.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب تخت شاہی پر جلوہ افروز ہیں.آپ نے ہمیں مخاطب کر کے فرمایا تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے.بتاؤ تمہیں کیا سزا دی جائے.میں نے کہا اب آپ کا راج ہے آپ جو چاہیں حکم صادر فرما ئیں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ہم تمہیں ملک بدر کرتے ہیں.بیدار ہونے پر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضری کا موقعہ ملا تو میں نے اپنا خواب حضور کی خدمت میں گذارش کیا.آپ نے فرمایا شاہی قیدی ہونا کوئی بری بات نہیں پھر میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اپنا خواب سنایا.وہ سن کر چند منٹ تو سر جھکائے خاموش رہے پھر کہا کسی اور سے ذکر نہ کرنا.چند دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا.میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی.حضرت میرا وہ خواب پورا ہو گیا.میری بیعت قبول فرمائیے.آپ نے کہا نہیں نہیں قادیان چل کر مشورہ کریں.حضرت ام المومنین سے دریافت کریں.میاں محمود سے مشورہ کریں.نواب محمد علی خاں.میر ناصر نواب سے مشورہ کریں.قادیان پہنچنے کے بعد فورا مشورہ ہوا.اور حضرت مولوی صاحب کا انتخاب بطور خلیفتہ المسیح الموعود عمل میں آیا.کچھ عرصہ کے بعد میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ ہم وہی لوگ پھر گرفتار ہو کر مولوی صاحب کے روبرو پیش کئے گئے ہیں.آپ نے فرمایا تم لوگوں نے پھر ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے سرکاٹ دیئے جائیں.چنانچہ ہمیں متقل میں لے جایا گیا اور جب بھی میں اس نظارے کو یاد کرتا ہوں جب جلاد نے ایک ہیبت ناک کلہاڑے کے دار سے میرا سر میرے تن سے جدا کر دیا تو مجھ پر دیسی ہی وحشت طاری ہو جاتی ہے جیسی خواب میں طاری ہوئی تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات سے چند دن پیشتر شیخ نور احمد صاحب نے جو خواجہ صاحب کے خشی رہ چکے تھے اور بعد میں انگلستان پہنچ کر خواجہ صاحب کے مدد گار کے طور پر ان کے ساتھ دو کنگ میں رہائش رکھتے تھے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ اللہ کا وصال ہو گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضور" کے خلیفہ مقرر ہوئے ہیں.شیخ نور احمد صاحب نے خود ہی اس خواب کی تعبیر بیان کی کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی وفات قریب ہے اور ان کے بعد جناب صاحبزادہ میرزا بشیر الدین

Page 32

تاریخ احمدیت جلد ۳ آپ کا عہد خلافت محمود احمد صاحب ایده الله بنصره و متعنا اللہ بطول حیاتہ ) خلیفہ ہوں گے.آپ کی وفات پر جماعت میں اختلاف ہو گیا.والد صاحب کا خط خاکسار کو ملا کہ یہ دین کا معاملہ ہے میں اس بارے میں تمہیں کوئی مشورہ نہیں دیتا.صرف اتنا کہتا ہوں کہ جلدی نہ کرنا غور و فکر اور دعاؤں میں ہدایت طلب کرنے کے بعد فیصلہ کرنا.والدہ صاحبہ کی طرف سے خط ملا کہ جماعت میں بہت فساد پیدا کر دیا گیا ہے میں نے اپنی طرف سے اور تمہاری بہن اور بھائیوں کی طرف سے بیعت کا خط لکھوا دیا ہے تم میرا یہ خط ملتے ہی فورا بیعت کا خط لکھ دینا.خاکسار کی طبیعت پہلے ہی تیار تھی.خاکسار نے اسی دن حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایده الله بنصره و متعنا الله بطول حیاتہ کی خدمت میں بیعت کا عریضہ ارسال کر دیا.انگلستان سے خاکسار کی واپسی شروع نومبر ۱۹۱۴ ء میں ہوئی.خاکسار سیالکوٹ اپنے والدین کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے سفر کے دوران ہی میں قادیان حاضر ہوا اور حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی خدمت اقدس میں بازیابی اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کے شرف سے مشرف ہوا.خاکسار کی واپسی پر عزیز عبد اکئی مرحوم نے بتایا کہ جس دن تمہارا عریضہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں پہنچتا تھا آپ کو بہت خوشی ہوتی تھی اور آپ گھر میں پیغام بھیج دیا کرتے تھے آج ہمارا کوئی مرغوب کھانا تیار کرنا ہمیں اپنے ایک پیارے کا خط ملا ہے اور ہمیں بھوک محسوس ہوتی ہے اس کے بعد جب جمعہ کا دن آتا اور آپ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد کو جانے کے لئے تیار ہو جاتے تو فرماتے اس کا خط ہماری جیب میں رکھ دو ہم اس کے لئے دعا کریں گے.اللہ اللہ کس قدر شفقت اور رافت آپ کے وسیع اور پر درد دل میں ایک نادان ناچیز حقیر خادم بچے کے لئے تھی.اور آپ کی کریمانہ توجہ پر وہ بچہ باوجود اپنی بے شمار کو تا ہیوں اور کمزوریوں کے کس قدر نازاں تھا.اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار دانش کن از کمال فضل در بیست بيت النعيم خاکسار ظفر اللہ خان نیویارک ۱۳/ ستمبر ۱۹۶۳ء

Page 33

تاریخ احمدیت جلد ۳ بسم الله الرحمن الرحیم 12 حضرت خلیفہ اول اور آپ کا محمد خلافت نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم تاریخ احمدیت جلد چهارم اللہ تعالٰی کا یہ فضل اور احسان ہے کہ ہم امسال احباب کی خدمت میں تاریخ احمدیت جلد چہارم پیش کر رہے ہیں اس جلد میں حاجی الحرمین حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول ان کے عہد خلافت کے زندہ جاوید کارناموں کی تفصیل مکمل سوانح حیات اور سیرت طیبہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.کتاب کی ضخامت ساڑھے چھ صد صفحات سے زائد ہو گئی ہے.ایک سال کے عرصہ میں اتنی ضخیم کتاب کی تدوین و ترتیب کتابت اور طباعت ایک مشکل مرحلہ نظر آتا تھا.لیکن اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل سے مکرم مولوی دوست محمد صاحب فاضل کو اس قلیل عرصہ میں مسودہ کے تیار کرنے اور ہمیں اس کی طباعت کی توفیق عطا فرمائی.مکرم مولوی صاحب موصوف نے کتاب کے لئے مواد حاصل کرنے کے لئے قادیان.بھیرہ - لاہور - ملتان اور بعض دیگر مقامات کا سفر بھی کیا.اور اسی طرح بہت سے ایسے دوستوں سے جن کو حضرت خلیفہ اول کی ذات گرامی کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا تھا.مل کر روایات حاصل کیں.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی سعی کو قبول فرمائے اور بہترین بدلہ عطا کرے.مکرم سید محمد باقر صاحب خوشنویس بھی قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے نہایت محنت اور ہمت سے کتابت کی اور مکرم عبدالرحمن صاحب پریس مین بھی قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے باوجود تنگی وقت کے اس کی طباعت کو جلد از جلد ختم کرنے کی پوری کوشش کی - فجزاهم الله.حضرت خلیفتہ المسیح اول ا ایک عظیم الشان انسان تھے اور قصر احمدیت کی پہلی بنیادی اینٹ - آپ کو جو بلند مرتبہ حاصل ہو ا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کامل اطاعت اور

Page 34

تاریخ احمدیت جلد ۳ 13 کا عہد خلافت آپ میں فنا ہونے سے ہی ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی بے نظیر اطاعت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ” آپ میری اسی طرح پیروی کرتے ہیں.جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے ".پھر آپ کی فدائیت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے حضور اقدس کی خدمت میں لکھا کہ " میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.جو کچھ ہے.میرا نہیں.آپ کا ہے".آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اشارہ پر اپنی جائداد اور اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور قادیان میں آکر دھونی رمالی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی کوئی دے اور قادیان کے باہر رکھنا چاہے.میں نہیں رہ سکتا".علاوہ ازیں آپ کے اندر تمام وہ اوصاف حمیدہ پائے جاتے تھے.جو کامل انسانوں میں پائے جاتے ہیں.آپ کا بے مثال تو کل اور قرآن مجید سے انتہائی عشق آپ کی سیرت کے ممتاز اور نمایاں پہلو ہیں اور ضرورت ہے کہ ہر احمدی اس کو اپنے اندر جاری و ساری کرے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے طور پر چلیں.مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا نمونہ ہیں.جزاهم الله احسن الجزاء "(ازالہ اوہام) ہمارے لئے ضروری ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول یہ جیسی فدائیت اور اطاعت کو پیدا کرنے کے لئے ہم بار بار آپ کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں.اور اپنے اند روی روح پیدا کریں جو آپ میں موجزن تھی.اگلی جلد سے خلافت ثانیہ کے واقعات کا آغاز ہو گا.اور اس کی تکمیل تین جلدوں میں ہوگی احباب سے گزارش ہے کہ جن دوستوں کے پاس سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطوط ہوں وہ مکرم مولوی دوست محمد صاحب فاضل کو بھجوا دیں.اور دعا کریں کہ اللہ تعالٰی آئندہ سال خلافت ثانیہ کے واقعات پر مشتمل پہلی جلد کو شائع کرنے کی توفیق عطا کرے.تاہم اس ذمہ داری سے جلد عمدہ بر آہو سکیں.جو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کے متعلق ہم پر ڈالی ہے.وباللہ التوفیق خاکسار ابو المنیر نور الحق نیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین - ربوہ ۱۰ / دسمبر ۱۹۶۳ء

Page 35

تاریخ احمدیت - علما ۲ خلیفتہ المسیح الاد کے علامات زندگی اتحمل از خلافت اندون" حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاول ان کے حالات زندگی الله ( قبل از خلافت)

Page 36

تاریخ احمدیت جلد ۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ اول (پہلا باب) 15 خلیفتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم حضرت خلیفہ المسیح اول کی جائے پیدائش.سن ولادت- خاندان- بچپن - ابتدائی تعلیم- سفرہند (لکھنو - رامپور میرٹھ.دہلی.بھوپال) (۱۸۴۱۰۴۲ء سے ۶۶-۱۸۶۵ء بمطابق ۱۲۵۸ھ سے ۱۲۸۲ھ تک جائے پیدائش زمانہ قبل از تاریخ سے جو شہر اب تک آباد ہیں ان میں (جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے) بھیرہ سب سے قدیم ہے.کوئی شخص قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس کی بنیاد کب اور کس زمانہ میں پڑی؟ تاریخ میں اس کا نام سب سے پہلے سکندر اعظم کے حملے کے وقت آتا ہے جبکہ دریائے جہلم کے کنارے اس نے راجہ پورس کو شکست دی تھی.عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سکندر کی یورش کے وقت یہاں جنگل تھا جسے یونانی فوجوں نے پیرہ کہنا شروع کر دیا.فوجی پڑاؤ سے یہاں ایک بستی آباد ہو گئی جو پیرہ کہلائی اور بالاخر بھیرہ کے نام سے یاد کی جانے لگی.جنرل کننگھم نے " قدیم جغرافیہ ہند " (Ancient Geografy of India) میں بھیرہ کی قدامت کو تسلیم کیا ہے.سکندر کے حملہ کے بعد جو ۳۲۷ ق م میں ہوا.بھیرہ کا دوسری مرتبه نام مشهور چینی سیاح فاہیان کے سفر نامہ میں ملتا ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں اس نے لکھا.تیسری مرتبہ اس کا تذکرہ ساتویں صدی عیسوی میں آنے والے ایک اور چینی سیاح ہیون سانگ کے حالات سفر میں پایا جاتا ہے.اسلامی تاریخ میں بھیرہ کا ذکر سلطان محمود غزنوی کے حملہ سے شروع ہوتا ہے.جو اس نے ۱۰۰۴ء میں کیا.اس کے بعد ۱۲۹۲ء میں بھیرہ پر مغل تاجداروں کے حملے شروع ہوئے.امیر تیمور

Page 37

تاریخ احمدیت - جامد ۳ 16 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قمل از خلافت) (۱۴۰۵-۱۳۳۶) کا حملہ ان میں سب سے آخری تھا.ظہیر الدین بابر (۱۴۸۳-۱۵۳۰ء) نے ۱۵۰۹ء میں اسے فتح کیا.اس کے بعد آئے دن کے بیرونی حملوں سے برباد ہو کے رہ گیا.سب سے زیادہ تباہی احمد شاہ کے جرنیل نور الدین نامی شخص کے ذریعہ سے ہوئی جس نے ۱۷۵۴ء کے قریب اس قدیم شہر کو تاخت و تاراج کر دیا.جس پر شیر شاہ سوری نے اپنے عہد حکومت میں اسے دوبارہ آباد کیا.شاہان مغلیہ کے زمانہ میں اسے برابر عروج حاصل ہو تا رہا.مغلوں نے اس شہر میں پختہ عمارات بنا ئیں اور اس کے گرد شہر پناہ بھی تعمیر کی گئی جس کے آٹھ بڑے بڑے دروازے تھے.فصیل تو منہدم ہو چکی ہے مگر اس کے آثار و نشانات دروازوں کی شکل میں ابھی تک موجود ہیں.مغلیہ حکومت میں اس تاریخی شہر کو جور دلق حاصل ہوئی بعد ازاں سکھ گردی کے پر آشوب ایام میں بالکل غارت ہو گئی.یہی وہ تاریک ترین زمانہ ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے نور الدین ہی کے مبارک نام سے من ولادت بھیرہ ہی کی سرزمین میں ایک عظیم الشان اور برگزیدہ انسان پیدا کیا.پہلے نور الدین (احمد شاہ کے جرنیل) نے تو بھیرہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی.مگر اس نور الدین نے (جو وہ بھی احمد کی فوجوں کا سپہ سالار بنا) اپنے نور ایمان و عرفاں نور اخلاق و توکل اور نور خلافت سے نہ صرف دین اسلام کا نور چار دانگ عالم میں پھیلا دیا بلکہ اس کے قدم سے بھیرہ کا نام و مقام بھی ہمیشہ کے لئے روشن ہو گئے.جب تک یہ زمین قائم ہے آسمان شہرت پر اس کا نام بھی قیامت تک چہکتا رہے گا انشاء اللہ.میری مراد امیر المومنین خلیفتہ المسیح اول مولانانور الدین اللہ سے ہے جو پنجاب کے سکھ راجہ شیر سنگھ کے عہد حکومت میں ۱۳۵۸ھ یا ۱۸۳۱ ء یا ۱۸۹۸ سمت کے قریب بھیرہ کے محلہ معماراں) میں تولد ہوئے دلی کے تخت پر اس وقت ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ متمکن تھا اور اس کا......روز نامچہ "سراج الاخبار " کے نام سے چھپنا شروع ہو چکا تھا یا ہونے والا تھا اور ملک ہند کے متعدد مقامات آگرہ - میرٹھ بنارس - بریلی - پنجاب سمیتی اور مدراس وغیرہ میں بڑی کثرت سے مطابع و اخبارات جاری ہو چکے تھے.اور ہو رہے تھے.ہندوستان کے ہمسایہ ممالک میں سے ایران پر قاچاری خاندان حکمران تھا اور ترکی پر سلطان عبد المجید اول کا پھر یہ الہرا رہا تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب کے والد بزرگوار کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب خاندان اور والدہ ماجدہ کا نام نور بخت تھا.آپ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے بتیس (۳۲) واسطوں کے ساتھ خلیفتہ الرسول حضرت فاروق اعظم سید نا عمر ال تک پہنچتا ہے.داد ھیال کے علاوہ نھیال سے بھی آپ کا خاندان شرف و مسجد میں نہایت اعلیٰ ہے چنانچہ آپ کی والدہ ماجدہ

Page 38

نسب نامہ حضرت خلیفہ اول سے متعلق ضروری نوٹ حضرت عمران سے حضرت شہزادہ قاضی شعیب شجره خونه الاصفیاء فارسی شده مولفه غلام سرور قریشی اسدی الہاشمی الماری سے ماخوذ ہے.اور اس سلسلہ کے ناموں کی وضاحت محمد علی اصغر کی مشہور کتاب جواہر فریدی فارسی مش۳۳-۳۴۷) کی روشنی میں کی گئی ہے.جواہر فریدی اگے اس حت کی نقل قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی مرحوم نے مردان سے مولف کو بھجوائی تھی.کتاب پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی فہرست میں موجود ہے مگر مؤلف ہذا کو مل نہیں سکی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے پہلی دفعہ حضرت خلیفتہ اسے عقل کا شجرہ نسب بلکہ ۲۸ مارچ ۱۹۱۳ء میں شائع فرمایا تھا جو آپ کی سوانح عمری (مرقاۃ الیقین) میں بھی موجود ہے.کہتے ہیںکہ یہ شجرہ نسب مولوی غلام احمد صاحب بھیرہ سے قادیان لائے تھے اور بڑے بڑے کاغذوں پر لکھا تھا.اس شجرہ نسب میں خزینۃ الاصفیاء کے مقابل کچھ فرق ہے.بعض افراد کے نام درج نہیں گو بعض نام زیادہ بھی ہیں.مثلا شیخ فتح شیر خان اور عبد السامح مگر کسی مستند کتاب میں ان کا نام سلسلہ نسب میں نہیں دیکھا گیا.یہ شجرہ نسب خفیف سے تغیر کے ساتھ مراۃ الانساب من میں بھی درجہ ہے.جگر کسی پشت میں یہ نام وہاں بھی موجود نہیں.نائب شدہ ابتدائی کرایوں کی تصدیق خزینۃ الاصفیاء اور جواہرفریدی کے علاوہ انساب کی دوسری کتابوں شوق دمر ا حمد اختر ہوی کی کتاب تذکرہ اولیائے ہند و پاک ہے " سے بھی ہوتی ہے.بہر کیف بند کا مطبوعہ شجرہ نسب حضرت ورما نے حضرت شہزادہ قاضی محمد شعیب تک یونی پہنچتا ہے.حضرت امیر المومنین معماری المشائخ شیخ عبد الله حضرت نصیر الدین حضرت سلطان ابرایم درحم طان این ایم ادهم حضرت شیخ اسحاق - حضرت شیخ فتح محمد خان حضرت وانا اکبر حضرت واحفظ الفرج حضرت عبد الله حضرت مسعود حضرت عبد السائح شیخ محمود حضرت ام المان حضرت شیخ فرخ شاه کابلی تقدس سره العزیز حضرت شیخ احمد المحرون حضرت شیخ شہاب الدین حضرت شیخ الله - حضرت شیخ یوسف - حضرت شعیب - حضرت شعیب سے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ مسیح الا قل تک کے بندگوں کے نام بلکہ میں مطبوعہ شجرہ نسب پر مبنی ہیں.عام طور پر انساب کی کتابوں میں حضرت قاضی شعیب کے بیٹے شیخ جمال الدین کو حضرت خواجہ فرید الدین شکر گنج کا والد قرار دیا گیا ہے.مگر تذ کرہ اولیائے ہند و پاک کے مؤلف کی رائے میں آپ کے والد بزرگوار حضرت شعیب کے ایک بیٹے حضرت سلیمان تھے (مش) تذکرہ اولیاء مؤلفہ رئیس احمد جعفری میں بھی حضرت کے والد کا نام قاضی سلیمانی لکھا ہے میں.امروہہ کے ایک صاحہ نے تو سیادت فاروقی " کتاب میں یہاں تک ثابت کیا ہے کہ حضرت بابا صاحب سید تھے.فاروقی النسب نہیں تھے.(ایضا مت کا مگر یہ صیح نہیں.قاموس المشاہیر ما مؤلفہ نظامی بدایوانی میں سلیمان کی بجائے شیخ جلال الدین نام لکھا ہے.اب خواد ولا سلیمان تھے یا شیخ جلال الدین حضرت خلیفتر توانا کا یہ نظریہ موجودہ شجرہ نسب کی روشنی میں بالکل درست ہے کہ حضرت فرید الدین شکر گری کے والد اور پیر سے جد امجد دینی شیخ جمال الدین مرحوم دونوں سگے بھائی تھے.حضرت حافظ غلام رسول صاحب کی اولاد کے نام حضرت خلیفہ ایج اولی رضی الہ عنہ کے قلی بیاض (جو خاندان خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے) سے ماخوذ ہیں اور باقی کو الف مؤلف کی ذاتی تحقیق کا نتیجہ ہیں !! ؟

Page 39

نسب نامری حضرت مولوی نور الدین نان بیشتری خلیفه ای لاوان من سیدی نورالدین حنابه ستید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عن سے لیکر اور حضر من لیفت ایسی اول تک سیدنا حضرت عمر فاروق رضی الله عنه تعاع عبد الرحمن حضرت عبدالله محمد حضرت عبید الله ناتر خوا بر سلیمان امنصور حضرت بلا انت اور من حضر المان را می دادیم بادشاه بیخ شہزادہ اسحاق تواجد ابوالفتح کا مع بیت حضرت احمر فروخ شاه بادشاه کابل - سلطان نصیر الدین محمود العورات تعلمین شاه ابراہیم خواجه شهاب الدین کا تواجه خواجه یوسف خواجه احد شهید شهزاده تاخی محمدشعیب - حضرت شیخ جمال الدین - ی ساخت حافظه یار محمد حافظ عبد العزيز ما فظ نمر الشهـ بال الدین حضرت شیخ سلیمان - حضرت شیخ بہاؤ الدین حافظ عبد الغنی حضرت قاضی عبدالرحمن - حضرت شیخ بدر العرين حافظ عبد الرب - حافظ فخر الدین - حافظ معز الدین - حافظ غلام محمد حضرت حافظ غلام رسول منا والد بزرگوار حکیم الامت مدفون پر مصطفے قبرستان بیش مولوی سلطان احمد مولوی غلام نہیں حکیم مولوی غلام احمد صدا دید خون بھیرا امد فون خالقاه مخدردم میانی ل مولوی محمد بخش مجمى المدين بیٹیا مولوی حافظ محمد تھانیدار مولوی محمد الله مولوی دوست کیر مولوی سردار محمد سائین معبد در جوان رجمون ر وفات اور نو میرا مدفون فرایند احمد بہشتی مقبره قادریان ریکاره که بہشتی مقبره ۳٫۳۰ کی نیست (سم) ۱۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ۲۵۵ قریشی عبدالحق قریشی میراحمد قریشی مصور احمد خلیفہ اسح الاول + (4) غلام بی اے امام بی واله کی شتی ترشی مهم الامت مولوی والدین می را تا الان میں نشا و انجام انتم میانه انیمه امیر محمد جو بتا بار ڈاکٹر محمد عبدالله چنین منیر احمد اتصال سلطان احمد بقیہ جو اگلے صفحات پر دیکھیں ذاکر حبیب راز مفتی کار سادق) (و) غالباً بھیٹر میں مدنی ہیں انکی اور ارشیجان پور کے قریب آباد ہوئی.ت که ۳۱۳ الصحاب VAL غلام احمد احمد شفیع دیگر تیم ایرانی پرس میانوالی) اسمعیل عبد الماجد کے منتا پر ان سے ایک بیان فر (س) ۳۱۳ اصحاب میں سنتے ان کے بی سیم محمدیان منصور البر ہوگئے تھے اصل یکم اپریل اسلام واقعہ کا ذکر ہے ) 4 (۳) ان کی دو بیٹیاں سربار بی اور مہتاب کی تھیں.مرسله الیہ میں کہا میں فروخت کرنے کیلئے گئے جہاں زمیر کی مرضی سے انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے.ضمیروید ، روی ایم مشیری ے وہ دہلی کے مشہور د مین کا خاندان جس میں منظر ہے ولی اله شاه عبدالعزیز شاه منیع الدین شاه عبدالعنی شاه اسمعیل شہید جیسے بزرگ شامل ہیں ، آپ ہی کی اولا رہے ہیں سے غائی ان کی بیٹی حضرت قاضی امیر حسین کے عقد میں آئی.رافضل ۲۸ اگست ستاره صفر و کالم ۲) ا حضرت خلیفه این ناول نے لکھا ہے کہ میرے ہر ایک بھائی کے نائبا پانچ پانچ چھ چھ بچے تھے امرتات اینی مشا، یہاں صرف معروف اوور کا ہی ذکر کیا گیا ہے.در سب بھائی حضرت مسیح موعودہ کے دھوئی ماموریت سے قبل وفات پاچکے تھے (مرقاۃ الیقین مٹا ، مشکا سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ غلام رسول صاحب کیسے سات بیٹے اور در بیان تھیں او حکیم است سب سے چھوٹے تھے حکیم الامت کی ایک نہیں جو احمدی نہیں تھیں جنوری شہداء میں قادیانی بھی تشریف لائیں اصحاب حمد جلد عالم منا ) 4

Page 40

919-0 حکیم الامت الحاج مولوی نورالدین صاحب بین مسیح الاول عبد الله الاله f فضل اپنی حفیظ الرحمن عبد القيوم محمود احمد بیٹا بیٹا بیٹا (درس القرآن کلان (اسی لئے ابو اسامہ جموں میں فوت ہوئے ولادت ۲۰ ستمبر تا در راه اسقین ( نام معلوم نہیں ص ٢٥ کنیت تھی فصل الخطاب ( مرقاة الیقین مثلا) ونات را گست شاره ها ولادت خشم دمکتوبات امرد جلد پنجم داحمد می چیستری مولفه ' ہوئے؟ امیامد یا اس سے قبل ) حفصه الا مفتی فضل الرحمن منانا مرحوم منظور النبي ) الله الله ونات ۲۶ اگست یا و بیر ولادت تا شهداء وفات کو ستمبر - اسال کی عمرمیں ہوں میں سال دام ا ر ا ) (الفضل، استحب انتقال کرگئیں دیتا جاودانی من) (ان میں سے جو صاحبزادی چھوٹی مقدس زوجہ مولوی عبد الواحد غزنوی خلف حضرت مولوی عبدا له فزونی میتا شه هید ان کا انتقال مئی شیاء میں ہوا ) محمد عبد الر حمن حفیظ الرحمن فضل کریم عبدالحفیظ محمد عبدالله عبد المالک احمد باجره امتد الرحمن امته الحفيظ مولوی محمد جمیل غزنوی مولوی ابراهیم نو نوری استورز و به حافظ خید بنده و حکیم وقات شاه عبدالله غزنوی غلام نبی رحیات جاودانی مش احمدی جنتری مرتبه منظو را کلام امیر هات محمد بودند) تو ٹھے :.(1) حضرت خلیفہ ایسی تعالی نے مرقاۃ الیقی ملا میں اجالا ذکر فرمایا ہے کہ آپ کی تین ہو یاں تھیں دو بیویوں کا نام اور اوہ کی تفصیل کا اوپر کر آگیا ہے.مگر میری بیوی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہتے ہیں کہ عرب میں بھی آپ نے ایک شادی کی تھی اور اور دبھی ہوئی : (۲) حضرت خلیفہ رسی اولی منہ کے خط مطبوعہ (الحکم، ار فروری منشاء صلا کالم مکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ، ار اسپری شداد کو بھیرہ میں تھے نہ (۳) آپ کے نواسہ مولوی محمد امین صاحب خودنوی حضرت مسیح موعود کی دوا کے نیب میں پیدا ہوئے تھے (الفضل ۱۲ اکتوبر ت من ا لم ؟

Page 41

اولاد زوجه ثانیه حضرت صغری بیگم صاحبہ بنت حضرت صوفی احمد جان مالدھیانوی کمالات الحاج مولوی نورالدین صاحب این است الاوان (1) محمد احمد (۲)- میاں عبدالحی صاحب حضرت امتہ الحی صاحبہ سر الخل فرمات ) مدفون بہشتی مقبره قادیان ) حرم حضرت خلیفہ اسیج مشان الله اله تعالیٰ بنصره العتريني ) ولادت بھیرہ ولادت ۱۵ار فروری شاه ونات قادیان ضمیر الحكم ما فروری ماه د بنده را پرین نوری وفات در نومبر لاء الفضل ۱ نومبر ) ۱۹۱۵ منون مشتی مغزه قاریان ولا دست یکم اگست نشده و الفضل ۳۰ مئی ۱۹۱۳ وفات : ۱۰ر دسمبر ۱۳ صاحبزادی اعتر الفيوم صاحبزادی امتہ الرشید صاحبزادہ مرزا خلیل احمد حرم حضرت مرزا مظفر احمد حرم میاں عبد الرحیم احمد ولادت ۱۰ نومبر 1 ولادت و ولادت ۶۱ نومبرتا وفات : ۴ مارچ شهداء میان عبد السلام مرحوم میاں عبدالوہاب ایل ایل بی (علیگ) میاں عبدالمنان میاں عبد الله علامت ۱۱ فروری شار ولادت ۱۹ اپریل منه ولادت : ۱۸ نومبر له ولادت : ۲۰ اکبر شاهه ابتد ۱۳ فروری شنگار ابتکه ۲۱ اپریل نشر من قدر در نومبر ) (بقره ر جنوری شاه احمدی جنتری مؤلفه منظور الہی وفات : ارجون ساندو وفات : مارچ تشاء (مدفون بہشتی مقبره راقد

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 17 خلیفہ المسیح الادل" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) ۱۵ اعوان قوم سے تھیں.جس کا مورث اعلیٰ مورخین نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قرار دیا ہے.اس اعتبار سے آپ فاروقی بھی ہیں اور علوی بھی.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کے آباء و اجداد مدینہ سے نکل کر بلخ میں آباد ہوئے پھر کابل و غزنی کے حکمران بنے اور بالاخر چنگیزی حملہ کے دوران میں کابل سے ہجرت کر کے پہلے ملتان کے نواح میں بعد ازاں بھیرہ میں آبسے.آپ کے خاندان میں بہت سے اولیاء و مشائخ طریقت گذرے ہیں اور حفاظ کا سلسلہ تو اس خاندان میں برابر گیارہ پشت سے چلا آتا ہے.جو اس مقدس خاندان کے ابتداء ہی سے قرآن مجید سے والہانہ شغف اور غیر معمولی لگاؤ کا پتہ دیتا ہے جو شاید آپ کے مورث اعلیٰ حضرت عمر فاروق اللہ کے کلمہ حسبنا کتاب الله " فرمانے کا روحانی اثر و جذب تھا جو آنحضرت ﷺ کی زندگی کی آخری گھڑی میں آپ کی زبان مبارک سے نکلا تھا.آپ کے خاندان میں جو اہل اللہ گذرے ہیں ان میں سے بعض مشہور بزرگوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ : سید نا حضرت عمر فاروق کے فرزند اور حضرت حفصہ زوجہ رسول کے سگے بھائی اپنے زمانہ کے مشہور محدث اور بلند پایہ علماء میں سے تھے.عہد صدیقی میں شامیوں سے جو زبر دست مقابلہ ہوا.اس میں اسلامی فوج کے کمانڈر آپ ہی تھے.شامیوں کا جرنیل آپ ہی کے ہاتھوں تہ تیغ ہوا.آپ کی وفات ۶۹۲ ء میں ہوئی.2) حضرت عبید اللہ ناصر : بنی امیہ کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ سے ترکستان ہجرت کر آئے.اور بلخ میں سکونت پذیر ہوئے.حضرت خواجہ اوھم : ایک جوان صالح جن کو حاکم بلغ نے نیکی اور پارسائی کی وجہ سے اپنی لڑکی دی اور خانہ داماد بنایا.کیونکہ حاکم کی نرینہ اولاد نہ تھی اس طرح حاکم بلخ ہو گئے.حضرت سلطان ابراہیم ادھم : اولیائے کبار ہ صوفیائے عظام میں ان کا شمار ہوتا ہے.ابتداء میں بلخ کے بادشاہ تھے مگر ایک عبرتناک خواب دیکھ کر عین عنفوان شباب میں تاج و تخت ٹھکرا دیئے.اور فقیرانہ لباس بدل کر شہر سے نکل گئے اپنے گناہوں پر روتے جاتے تھے اور جنگلوں اور وادیوں میں سے پا پیادہ گذرتے جاتے تھے اسی حالت میں آپ نواح نیشا پور میں پہنچ گئے وہاں ایک غار نظر آیا جو نہایت تاریک اور بھیانک تھا.یہاں تقریباً نو سال تک ریاضت کرتے رہے پھر مکہ شریف پہنچے اور حضرت امام اعظم ، سفیان ثوری اور ابو یوسف غولی کی محبت میں رہنے لگے.حضرت جنید قدس سرہ

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 18 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) فرماتے تھے کہ آپ علم کی کنجی ہیں.حضرت امام اعظم آپ کو سید نا کہا کرتے تھے.خرقہ ولایت حضرت فضل عیاض سے پہنا تھا.آپ سے کرامات کا اس درجہ ظہور ہوا کہ بیان سے باہر ہے.۲۸/ اگست ۷۲۸ ء کو 110 سال کی عمر میں وفات پائی.مزار مبارک جبلہ (شام) میں ہے.یہ خیال شہزادہ داراشکوہ کا بعض آپ کی قبر بغداد شریف میں بتاتے ہیں اور بعض شام میں انگر حضرت فرید الدین عطار کے نزدیک کوئی خیال درست نہیں آپ کی قبر کسی نامعلوم جگہ پر ہے.حضرت خواجه سلطان محمود نشیمان شاه : آپ نے حکومت بلخ میں نواحی کابل کو بھی فتح کر لیا.ZJ حضرت شاہ سلطان نصیر الدین : بلخ کا شہر چھوڑ کر آپ کابل میں قیام پذیر ہو گئے آپ کے ایک بیٹے حضرت احمد فرخ شاہ بھی تھے.حضرت احمد فرخ شاہ کابلی : "سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ بادشاہ کابل تھے مگر جب غزنی حکومت کا زور بڑھا تو آپ کی سلطنت بھی اس میں مدغم ہو گئی لیکن آپ کے فرزند کابل ہی میں رہے.آخر اسی دوران میں چنگیز خان نے خروج کر کے ایک عالم کو زیر و زیر کیا.اور سلطنت کابل کا تختہ بھی الٹ گیا.حضرت احمد فرخ شاہ کابلی بخراب میں درہ فرخ شاہ واقع بخراب کو ہ دامن میں مدفون ہیں آپ کا روضہ مرجع عام و خاص ہے.حضرت شهزاده خواجہ احمد شهید: حضرت خواجہ یوسف کے فرزند تھے تاتاری فوج کے حملہ میں شہید ہو گئے اور حکومت پر تاتاری قابض ہو گئے.kia ** حضرت شہزادہ قاضی شعیب : حضرت خلیفہ المسیح اول ﷺ کے جد اعلیٰ جو سلطان شہاب الدین غوری کے زمانہ میں اپنے اہل و عیال سمیت کابل سے ہجرت کر کے پہلے پشاور آئے 2 پھر لاہور سے قصور پہنچے.یہ ۵۹۹ھ مطابق ۱۲۰۳ء کا واقعہ ہے قاضی قصور نے ان کی بہت خاطر مدارات کی اور بادشاہ وقت کو ان کی آمد کی اطلاع دی.بادشاہ نے ملتان کے قریب ایک قصبہ کتنے وال یا کھو توال) میں ان کو قاضی مقرر کر دیا اور قصبہ پاکپٹن مع نواحی بطور جاگیر عنایت کی.آپ رہیں مقیم ہو گئے اور اسی جگہ وفات پائی اور دفن ہوئے.حضرت خواجہ ولی اللہ المعروف نارنجی باباً : آپ جہا نگیر بادشاہ کے زمانہ کے اولیاء

Page 44

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 19 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) میں سے تھے.درہ نارنجی بونیر میں مدفون ہیں.TA 2 حضرت قاضی عبدالرحمن شاطر مدراسی : یہ بھی اکابر اولیاء میں سے تھے.مگر افسوس ان کے حالات پر کتابوں سے روشنی نہیں پڑتی.المختصر آپ کے اجداد میں اولیاء علماء محد ثین، بادشاہ ، صوفی، قاضی شہید ہر طبقہ کے بزرگ گذرے ہیں اور آپ کا خاندان ہمیشہ ہی ایک ممتاز شان کا حامل رہا ہے.یاغستان میں آپ کے افراد خاندان آج تک شہزادے کہلاتے ہیں.اور بھیرہ میں جو آپ کا آبائی وطن ہے آپ کے خاندان کو ابتدای سے حددرج ما سے حد درجہ عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے.حضرت خلیفۃ اصحیح اول تحریر فرماتے ہیں: گرچه خوردیم نسبت است بزرگ یہ خاکسار قریشی فاروقی ہے.میرا سلسلہ نسب حضرت عمر سے پھر حضرت شعیب سے ملتا ہے.جو کابل سے پشاور اور وہاں سے لاہور پھر قصور پھر کتنے وال علاقہ بہاولپور میں مقیم ہوئے قاضی عبدالرحمن امر مدراسی بابا نارنجی مقیم یا غستان اسی سلسلہ کے ممتاز ہیں.حضرت فرید شکر رحمتہ اللہ کے والد اور میرے جد امجد دونوں حقیقی بھائی تھے.یہ قصہ طویل ہے.بھیرہ ضلع شاہ پور میرا وطن تھا.وہاں صدیقی قریشیوں کا ایک بڑا محلہ ہے.نورالدین " والد بزرگوار آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسول صاحب ، متہ اللہ علیہ اپنے زمانہ کے نهایت متدین منی المذہب اور حنفی مشرب بزرگ تھے اور سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھتے تھے قرآن مجید سے ان کو خاندانی روایات کے مطابق خاص عشق تھا اور قرآن مجید کی ترویج و اشاعت ہی ان کی زندگی کا سب سے محبوب مشغلہ تھا kal ہزاروں روپے کے قرآن شریف خریدتے اور ملک کے اطراف میں ان کو پھیلا دیتے تھے.بمبئی کے ایک تاجر کا کہنا ہے کہ میں تمہیں ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر بھیرہ گیا جہاں آپ نے وہ سب کے سب خرید لئے مجھ کو اس میں منافع عظیم ہوا.پھر دوبارہ اسی طرح ہزاروں ہزار کے قرآن شریف خرید کے لے جاتا تھا.قرآن مجید سے ندائیت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت خلیفہ اول کی بڑی بہن کی شادی ہوئی تو آپ نے جہیز میں سب سے اوپر قرآن شریف رکھ دیا اور فرمایا.ہماری طرف سے یہی ہے.اس قرآن شریف کا کاغذ حریری اور باریک بڑی محنت اور صرف زر سے میر ہوا.مولوی نور احمد صاحب جلالپور جٹاں نے سو روپیہ صرف لکھنے کا نذرانہ لیا- جدول - رول - آیات کی علامات لکھنا.رنگ بھرنا سونے کے پانی پھیرنے کے اخراجات اس کے عاادہ تھے.aa -

Page 45

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 20 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) حضرت حافظ صاحب بڑے شہسوار تھے.اور گھوڑیوں کا انہیں بڑا شوق تھا.خدا نے مال و دولت بھی بہت دے رکھی تھی.اور بڑے عالی حوصلہ اور شاہانہ طبیعت و مزاج کے انسان تھے.چرہ سے ہمیشہ بشاشت ٹپکتی تھی.اپنے بچوں خصوصاً اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے (حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ المسیح اول) پر بڑی شفقت فرماتے.اور ان کے کسی بڑے سے بڑے خرچ کی پرواہ نہیں کرتے تھے.اکثر لاہور سے اشیاء منگوانے کا انتظام فرماتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مولانا نور الدین صاحب اپنے مکتب میں کھڑے سختی سکھا رہے تھے کہ آپ کا اچانک گذر ہوا.دیکھا کہ سیاہ رنگ کے پانی سے بھرے ہوئے ایک گھڑے سے انہوں نے تختی صاف کی ہے اور بازو گندے ہو گئے ہیں.فرمایا ہم اس کام کو پسند نہیں کرتے اور آپ کو بازار سے بہت سے کاغذ خرید دئیے اور ایک شخص غلام حسن سے اس کی وملیاں بنوادیں.حضرت مولوی نور الدین چند و ملیاں لے کر گھر آئے.اور ہر ایک پر الف ب وغیرہ حروف لکھ کر سب سیاہ کر ڈالیں.بڑے بھائی نے آپ سے عرض کیا کہ نور الدین نے تھوڑی دیر میں کتنے ہی کاغذ خراب کر دیے ہیں انہوں نے فرمایا.کیا حرج ہے تم اس کے نام کا ہی کھاتہ جدا کر دو اور وہاں سے خرچ کرتے رہو جب بڑا ہو گا تو اپنا قرضہ خود اتارے گا.ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب "گلستان" پڑھ رہے تھے کہ آپ کے والد محترم نے فرمایا.یہ اچھے خط کی نہیں اسے چھوڑ دو اور جلد ہی کشمیر سے ایک نہایت خوشخط گلستان منگوا کے ان کے حوالہ کر دی.کچھ عرصہ بعد حضرت مولوی صاحب نے اس پر دوات رکھی اور وہ ہوا سے الٹ کر اس کے ورقوں پر پھیل گئی اور کتاب غارت ہو گئی مگر آپ کے والد صاحب نے نہایت درجہ حو صلہ مندی اور بشاشت قلبی سے فرمایا کہ کیا حرج ہے اور لے دیں گے.بچوں کی ذہنی نشود نما اور اعلیٰ صحت کے برقرار رکھنے کا آپ کو بہت خیال رہتا.آپ کا دسترخوان انار - سیب اور انگور وغیرہ عمدہ پھلوں سے بھرا رہتا تھا.جو خاص اہتمام سے آپ منگواتے تھے.اس کے ساتھ اپنے بچوں کی خالص اسلامی رنگ میں تربیت کا ان کو خاص خیال رہتا تھا.کبھی نقد پیسہ اپنے بچوں کو نہیں دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شے تم چاہو ہم تم کو منگاریں گے ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ان سے عیدی مانگی تو فرمایا جو کچھ کہو گے ہم منگا دیں گے پیسے کیا کرو گے.اور صرف ادھنی آپ کو دی.اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے آپ از حد شائق تھے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح اول فرمایا کرتے "میرے باپ کو اپنی اولاد کی تعلیم کا بہت شوق تھا.مدن چند ایک ہندو عالم تھاوہ کو ڑھی ہو گیا لوگوں

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 21 فلیتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ؟ نے اسے باہر مکان بنا دیا.میرے باپ نے اس کے پاس میرے بھائی کو پڑھنے کو بھیجا.لوگوں نے کہا خوبصورت بچہ ہے کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو اس پر میرے باپ نے کہا.مدن چند جتنا علم پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہو گیا تو کچھ پروا نہیں میرے والد ایسے بلند ہمت تھے کہ وہ اگر اس زمانہ میں ہوتے تو مجھے امریکہ بھیج دیتے.ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاؤ مگرماں کو خبر نہ ہو.دوم اتنی دور جاؤ کہ اگر ہم مر جائیں تو تم کو خبر نہ ہو.بھینسیں رکھنے کا آپ کو از حد شوق تھا.چرواہے کو تاکید کردی تھی کہ ہماری بھینس کا دودھ نہ دوہا کر.ہم تجھے زیادہ اجرت دیں گے.لیکن وہ ایک دن دودھ دوہتا ہوا پکڑا گیا.تو کہنے لگا کہ حضور میرا بیٹا مر گیا ہے اس کی جمعرات ہے میں نے بہت سوچا پھر یقین ہو گیا کہ آپ کی بھینس طیب حلال ہے اس کا دودھ اس کی فاتحہ میں دوں آپ بہت مضبوط تنومند اور بہت تیز چلنے کے عادی تھے اور آخر عمر تک اس تیز رفتاری میں فرق نہیں آیا.لباس عمدہ ہو تا.ایک قسم کی لنگی پہنتے تھے جس پر تلا ضرور ہو تا تھا.یہ لنگی آپ کی بیٹیاں اپنے ہاتھ سے تیار کرتی تھیں اور اس پر ان کو فخر ہو تا تھا.RO آپ کی وفات ۱۸۷۱ء کے بعد ہوئی جبکہ حضرت مولوی نور الدین صاحب سفر حجاز سے واپس تشریف لا چکے تھے.آپ کی دس پشتوں میں ایک ہی شخص سے خاندان کی نسل چلتی چلی آئی ہے یعنی کوئی اور بھائی اور بہن اس کے ساتھ نہیں ہو تا تھا.یہی بات آپ میں تھی.نہ آپ کا کوئی اور بھائی تھانہ بہن! اگر آپ کی پشت سے چونکہ نور الدین جیسا مقدس وجود ظاہر ہونا مقدر تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے اس کی برکت سے گذشته خاندانی سلوک کو بدل کر آپ کو خارق عادت رنگ میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں.یہ سب لکھے پڑھے تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول عمر کے اعتبار سے آپ کے سب سے چھوٹے فرزند تھے.اور پہلی اولاد گویا آپ کے لئے بطور ارہاص تھی.آپ کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: - مولوی سلطان احمد صاحب : بڑے متبحر عالم تھے.بھیرہ کی جامع مسجد میں وعظ فرمایا کرتے تھے.مگر بعد میں لاہور چلے آئے اور یہاں آپ نے مطبع قادری کے نام سے کابلی مل کی حویلی میں ایک مطبع کھول دیا.جو لاہور کے قدیم ترین مطالع میں سے سمجھا جاتا ہے - مولف "اختر شهنشاهی (اختر الدوله حاجی سید محمد اشرف نقوی مالک اخبار اختر ہند) نے لاہور کے ایک پرانے مطبع قادری کا ذکر کیا ہے جس کا اجراء قادر بخش نامی کسی صاحب نے ۱۸۸۱ء میں کیا تھا.مگر مولوی

Page 47

تاریخ احمدیت جلد ۳ 22 خلیفتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) سلطان احمد صاحب کا پریس غدر ۱۸۵۷ء سے بھی کئی برس پہلے کا ہے.کنہیا لال ایگزیکٹو انجینئر لاہور کی مشہور تاریخ لاہور میں سب سے پہلا مطبع "کوہ نور کو قرار دیا گیا ہے.جو منشی ہر سکھ رائے نے ۱۸۵۰ء میں جاری کیا تھا.ممکن ہے کہ ہندوؤں میں سے ہر سکھ رائے کا پریس سب سے پہلا ہو مگر لاہور کے مسلمان پریس میں مولوی سلطان احمد صاحب کے پریس ہی کو اولیت حاصل ہے.مطبع قادری میں کتابیں اور اخبار دونوں چھپتے تھے.ایک دفعہ اس میں اخبار ”لاہور گزٹ بھی شائع ہوا.اس نام کے مطبع کی چھپی ہوئی ایک کتاب "ناصرۃ العطرة الطاهرة " جو سید ابو القاسم کی تالیف ہے صادق لائبریری ( قادیان) میں اب بھی موجود ہے اس کا سن اشاعت ۱۲۷۶ھ بمطابق ۷۹ ۱۸۷۸۰ ء ہے.مولوی سلطان احمد صاحب اور ان کے دوسرے بھائیوں کے استاد موادی احمد الدین صاحب بگوی گے والے) تھے.مولوی سلطان احمد صاحب کی شادی بھی بگوی خاندان میں ہی ہوئی تھی.جو مولوی احمد الدین صاحب کی حقیقی بھیجی تھی.چنانچہ آپ کی بیوی نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو دودھ چھڑانے کے بعد اکثر اپنے پاس رکھا وہ آپ کو بہلاتے ہوئے اکثر کہا کرتی تھیں انت الھادی انت الحق ليس الهادى الا ھو.E آپ کے دو مشہور صاحبزادے تھے.مولوی حافظ محمد صاحب هو جو ۳۱۳.اصحاب میں سے ۲۵۸ نمبر پر تھے ۲.مولوی احمد اللہ صاحب - مولوی سلطان احمد صاحب بھیرہ میں ہی مدفون ہیں ان کی وفات اپنے والد بزرگوار کے بعد ہوئی.مولوی غلام نبی صاحب : ان کی اولاد بھیرہ کے نزدیک سبحان پور میں آباد ہوئی.-۳- حکیم غلام احمد صاحب : میانی میں ہی رہا کرتے تھے.اور میانی کے قبرستان خانقاہ مخدوم صاحب میں ہی آپ کی آخری آرام گاہ ہے (معہ اہلیہ صاحبہ ) موادی سردار محمد صاحب اور مولوی دوست محمد صاحب جن کا نام حضرت مسیح موعود نے انجام آتھم کی ۳۱۳ کی فہرست میں بالترتیب ۲۵۷٬۲۵۷ پر لکھا ہے آپ ہی کے صاحبزادے تھے.ده ۴ تا ۶ - مولوی محمد بخش صاحب : تاجر کتب تھے.کتابیں فروخت کرتے ہوئے لیہ تشریف لے گئے اور وہیں زحیر کی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے.ان کے علاوہ ایک بیٹے غلام محی الدین صاحب تھے.بہنوں کا نام یہ ہے.غلام بی.امام بی ے.حضرت حافظ مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ اصحیح اول الله عنه - حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور آپ کے سب ہی فرزند (حضرت مولوی نور الدین خلیفته

Page 48

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 23 فلیتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( حمل از خلافت ) اول کے سوا) جماعت احمدیہ کے قیام سے قبل انتقال فرما چکے تھے البتہ آپ کی ایک بیٹی کا بعد میں بھی زندہ رہنا بلکہ جنوری ۱۸۹۸ء میں اور اس کے بعد دوبارہ قادیان میں آنا بھی ثابت ہے یہ بیٹی کسی پیر کی مریدہ تھیں اور ان کے آنے کا مقصد بڑا دلچسپ تھا یعنی ان کو یہ مشورہ کرنا تھا کہ چونکہ ان کے پاس روپیہ کافی ہو گیا ہے اس لئے اس کو خرچ کرنے کے لئے کوئی مقدمہ کرنا چاہئے.حضرت مولوی صاحب یہ لطیفہ درس میں بھی سناتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی طرح دراز قد اور مضبوط جسم کی خاتون تھیں.حضرت حافظ غلام رسول صاحب ۱۸۸۹ ء سے قبل فوت ہوئے.آپ کا مزار بھیرہ کے قبرستان پیر مصطفیٰ میں بتایا جاتا ہے.

Page 49

حضرت خلیفہ تسبیح اول مولانا نور الدین صاحب کے ننھیال کا شجر ہیب ) بڑھے شاہ ادان تاریخ احمدیت جلد ۳ 24 خلیفہ المسيع الاول کے حالات زندگی (تحمل از خلافت) مراد نشر قاد خویش بخت بی بی غیر بانو بشیر خان کھوکھر غلام مصور ہوتا مراد نیاین دیوتا) الله دین نو ریخت نیک بخت نور بھری بھیانگ پیری چراغ رلو کہ میں بیاہی کئی ) شهرداران الر حمانا اشراف فضل غلام محمد شر الدين والده با جیره حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ تعالٰی عنہ نسواں صاجزادی فتح خان فتح خاتون تھا دریا بیا ہی گئی رکہا نہ میں ) علی محمد حیات فضلیان بخت بھری ولی محور ریر جو نیا امیر خلیفہ اسی اول رضی ا د ا نے ان کی علمی بیانی سے کا نور ہے.تیری خان دید شجرہ نسب حضرت خلیفة المسیح اول ان کی قلمی بیاض سے ماخوذ ہے)

Page 50

تاریخ احمدیت جلد ۳ 25 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول کے ننھیال کہا نہ ضلع حضرت کے ننھیال جہلم میں تھے جو دریائے جہلم کے کنارے پر پنڈ دادنخاں سے جانب غرب للہ اسٹیشن سے قریبا چار میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے.ضلع راولپنڈی تحصیل علم سيكوال صياني ضلع سرگودها بيره حضرت خلیفتہ المسیح اول کے نانا کا نام مراد بخش اور پڑنانا کا نام بڈھے شاہ تھا جو اعوان قوم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نور بخت تھا جو ایک بزرگ اعظم کی نواسی بھی تھیں.آپ کی والدہ ماجدہ حضرت نور بخت اپنے خاوند کی طرح بڑی دیندار اور عقیدہ و مسلک کے لحاظ سے سنی حنفی فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں نماز کی بہت پابند تھیں اور باورچی خانہ میں اپنا مصلی کھونٹی پر شکار کھتی تھیں.نماز کا وقت ہو تا تو بے تامل و ہیں نماز پڑھ لیتی تھیں آپ اچھی پڑھی لکھی ، مذہبی مسائل سے واقف اور قرآن مجید کو خوب سمجھتی سمجھاتی تھیں.تیرہ برس کی عمر سے انہوں نے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا.ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے آپ سے قرآن شریف پڑھا.پنجابی میں قرآن مجید کے عجیب عجیب نکات بیان فرمائیں.ان کی زبان سے کبھی خفیف سے ناشائستہ الفاظ بھی نہیں سنے گئے.اگر کبھی خفا ہو تیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کہتیں." محروم نہ جائیں یا نا محروم ان کو ابتداء ہی سے شوق تھا کہ آپ کی اولاد قرآن مجید سے گہری محبت اور غیر معمولی شغف رکھتی

Page 51

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 26 فلیتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( حمل از خلافت) ہو.چنانچہ آپ کے سب بچوں کو قرآن شریف اور اسلامی لٹریچر سے خاص لگاؤ پیدا ہوا.اس میں ان کی دلی آرزو اور حسن تربیت کا بھاری عمل دخل تھا.حضرت مولوی نور الدین خلیفتہ المسیح اول فرماتے تھے کہ " میری ماں قرآن خوب جانتی تھی.حمل کے اندر بھی قرآن ہی کی آواز مجھے پہنچی اللہ تعالی کی بہت بہت رحمتیں ہوں میری کھلائی پر کہ مجھے بہلانے کے وقت اور لوری دیتے ہوئے اس کے منہ میں اللہ کا نام اور نبی کا نام رہتا تھا ابتداء میں میرے مسلمان ہونے کا سبب یہی ہوا...پھر میں نے اپنی ماں کی گود میں لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی آواز سنی اور گود میں قرآن پڑھا.میری والدہ ماجدہ ۸۵ برس کی عمر تک لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتی رہیں آپ حضرت مولوی نور الدین صاحب سے بہت پیار کرتی تھیں.بچپن میں ایک مکھن کا پیڑا سا بنا کر آپ کے سر مبارک پر رکھ دیتیں جو جذب ہو جاتا.آپ عظیم الشان شخصیت کی مالکہ تھیں.لوگ حسن عقیدت یا دنیوی آرام یا دینی اغراض پر اپنی اولاد کو ان کا دودھ پلانے کے خواہشمند تھے اسی لئے آپ کے بہت سے رضاعی بیٹے تھے جن میں حافظ غلام محی الدین بھی ہیں.حضرت نور بخت کا مئی ۱۸۸۹ء میں بھیرہ میں انتقال ہوا.آپ کے کفن دفن کا انتظام حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب نے کیا اور آپ قبرستان پیر مصطفیٰ میں دفن ہو ئیں.انتقال کے وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب جموں میں مقیم تھے جب آپ کو اپنی والدہ کا تار ملا تو اس وقت آپ بخاری شریف پڑھا رہے تھے.وہ بخاری اعلیٰ درجہ کی تھی.آپ نے یہ خبر ملتے ہی کہا.اے اللہ میرا باغ تو یہی ہے پھر آپ نے وہ بخاری وقف کر دی جو خان صاحب منشی فرزند علی صاحب آف فیروز پور کے پاس عرصہ تک رہی.ایام طفولیت اور ابتدائی درسگاہ میں تعلیم حضرت خلیفہ المسیح اول مولانا نورالدین صاحب الله ابتداء ہی سے غضب کا حافظہ رکھتے تھے.حتی کہ آپ کو اپنا دودھ چھوڑنا بھی یاد تھا چناچہ فرماتے ہیں." میری ماں نے پستان کے اوپر بال لگا لئے اور میں نے اپنے بھائی سے کہا تھا یہ ہوا ہے " اس غیر معمولی حافظہ کے ساتھ یہ مزید فضل الہی ہوا کہ آپ کی آنکھیں ایسے گھر میں کھلیں جہاں ہمیشہ قال الله اور قال الرسول ہی کا چرچا رہتا تھا.اور والد سے لے کر بھاوج اور چھوٹے بھائی تک سب قرآن ہی کی محبت میں سرشار تھے.ابتداء میں آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں قرآن مجید پڑھا اور انہیں سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں اور کچھ حصہ قرآن شریف کا اپنے والدت بھی پڑھا.2 اس گھر یلو تعلیم کے بعد آپ مدرسہ میں داخل ہوئے اور میاں غلام حیدر صاحب بھٹا اور حاجی

Page 52

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 27 خلیفہ المبیع الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) کریم بخش صاحب اور ان کے بیٹے حاجی شرف الدین صاحب سے پڑھا.اس وقت کے سکولوں میں طلبہ کی کثرت نہ ہوتی تھی جیسا کہ اب ہے آپ کے استاد ایک خاص رنگ کے آدمی تھے وہ دس لڑکوں کو ملا کر سبق نہ پڑھاتے بلکہ ایک ایک لڑکے کو باری باری الگ الگ سبق دیتے تھے.جو زیادہ خدمت کرتا اسے زیادہ اور عمدہ سبق پڑھ لینے کا موقعہ ملتا اور جو کم خدمت کرتا اسے کم موقعہ ملا.مدرسہ کا ماحول بھی پاکیزہ اور ستھرا تھا.جہاں بچپن میں آپ نے اسلام کے خلاف کوئی بات نہ دیکھی نہ نماز کی طرف رغبت مکتب کی پڑھائی کے دوران سے ہی شروع ہو گئی تھی.اور آپ کے استاد دوسرے بچوں کے ساتھ آپ کو نماز پڑھنے کے لئے بھیجا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک لڑکے نے وضو کر لینے کے بعد سب کو مخاطب کر کے کہا کہ نماز کون پڑھتا ہے یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار سے رگڑی جس سے مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا.(یہ شخص بعد میں شہر کا اول نمبر چور بنا اور کیفر کردار تک پہنچا) اس طرح اس نے سب لڑکوں کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی انکل سکھانے کی کوشش کی مگر آپ پر اس کا نہ صرف ذرہ برابر اثر نہ ہوا بلکہ نماز کے ساتھ آہستہ آہستہ دعاؤں کا ذوق و شوق بھی دل میں پیدا ہو گیا.ایک دفعہ کسی ضرورت کے پیش آنے پر آپ نے استاد سے پوچھا کہ کیا تدبیر کروں اس نے جواب دیا کہ افسوس ! میرے پاس اس مطلب کے حصول کے لئے کوئی عمل نہیں ہے اس پر خدا نے آپ کی راہ نمائی فرمائی اور آپ سے کہا آؤ عقد ہمت سے کام لیں اور دعا کریں.جس پر آپ کا یہ مطلب عشاء کے وقت ہی پورا ہو گیا.استاد نے اس سے یہ یقین کر لیا کہ آپ کوئی عمل جانتے ہیں؟ مدرسہ کے زمانہ ہی سے جبکہ آپ کے سن تمیز کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ آپ کو کتابوں کا شوق دامن گیر ہو گیا اور بچپن میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرنے لگے اور یہی دراصل آپ کے لڑکپن کی دلچسپی کا سامان تھا.ورنہ آپ عمر بھر کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلیے آپ نے صرف ایک ہی کھیل کھیلا ہے اور وہ تیرنا ہے آپ کو تیر نا خوب آتا تھا.بعض اوقات بڑے بڑے دریاؤں میں بھی تیرتے رہے ہیں.آپ کو بچپن ہی سے گھوڑے کی سواری کا شوق تھا خود فرماتے ہیں."ہم چھوٹے تھے ہمارے والد صاحب لگام چھپا دیتے تھے تا چھوٹے بچے تیز گھوڑوں پر سوار ہو کر گر نہ جائیں مگر ہم گھوڑے کے گلے کی رہی ہی سے ان کو چلا لیتے تھے.آپ کے سامنے آپ کے ہم جولیوں نے کبھی گالی نہیں دی.بلکہ آپ کو دور سے دیکھ کر بہت محتاط ہو جاتے اور آپس میں کہا کرتے تھے کہ یا روا سنبھل کر بولنا بچپن ہی سے آپ کی گفتار و کردار سے غیر معمولی اولوالعزمی اور علو ہمتی ٹیکتی تھی.ایک دفعہ

Page 53

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 28 خلیفتہ المسیح انا دل کے حالات زندگی (تحمل از خلافت) آپ کے ایک ہم جولی ( شیخ احمد صاحب برادر اکبر شیخ حکیم فضل احمد صاحب سرکاری ڈاکٹر راولپنڈی) نے آپ سے کہا کہ چلو سبق یاد کریں.آپ نے فرمایا " یہ تم کیا کہتے ہو.تم تو محض حکیم بننا چاہتے ہو لیکن میں تو بادشاہ بنوں گا".AF • آپ کے وطن میں ٹھیٹھ پنجابی بولی جاتی تھی اور پہلی دفعہ آپ نے ایک ہندوستانی سپاہی کو اردو زبان میں کلام کرتے سنا جسے آپ نے بہت پسند کیا.آپ کے بچپن کے خاص دوستوں میں حکیم نجم الدین صاحب اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی تھے.لاہور میں تعلیم کا حصول ۱۲۷۰ھ مطابق ۱۸۵۳ء کے قریب جبکہ آپ کی عمر بارہ برس کی ہوئی آپ کو اپنے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب کے پاس ^^ لاہور میں آنا پڑا.جنہوں نے کابلی مل کی حویلی میں مطبع قادری کھول رکھا تھا.یہاں آکر آپ کو خناق کا مرض ہو گیا اور آپ حکیم غلام دستگیر صاحب لاہوری ساکن سید مٹھ کے زیر علاج رہے اس وقت آپ کے دل میں طبی تعلیم کی تحریک پیدا ہوئی مگر آپ کے بھائی صاحب نے آپ کو طب پڑھانے کی بجائے مشی محمد قاسم صاحب کشمیری کے پاس فارسی کی تکمیل کے لئے سپرد کر دیا.سادہ بڑی محنت سے رزم نرم اور بہار یہ مضامین لکھ دیتے اور حضرت مولوی صاحب سے لکھواتے.خوشخطی کے استاد مرزا امام ویردی مقرر ہوئے اور مشق کے لئے یہ شعر لکھ کر دیا.سرنوشت ساز دست خود نوشت خوشنویس است و نخواهد بد نوشت مگر خدا تعالٰی نے آپ کی دماغی صلاحیتیں بہت اعلی و ارفع اور نہایت عظیم الشان مقصد کے لئے پیدا کی تھیں.اس لئے زبان فارسی سے آپ کی کوئی چنداں دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور فن خوشملی سے تو معرا ہی رہے.اور صرف ا - ب - ج- دچار حروف ہی سیکھ سکے.البتہ اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ یہ دونوں استاد چونکہ شیعہ مذہب کے پابند تھے (گو مباحثات سے ان دونوں بزرگوں کا تعلق کم تھا) آپ کی معلومات میں شیعہ مذہب کے بارے میں مزید اضافہ ہوا.قیام لاہور کے اس زمانہ میں آپ کو لاہور کے مشہور منی حکیم اللہ دین صاحب لاہوری (مقیم گئی بازار) سے بھی نیاز حاصل ہوا مگر فارسی اور خوشخطی کے شغل میں آپ ان سے کوئی استفادہ نہ کر سکے!! لاہور سے بھیرہ کو مراجعت دو سال کے بعد آپ ۱۸۵۵ء میں واپس بھیرہ آگئے اور یہاں حاجی شرف الدین سے فارسی کی دوبارہ تعلیم شروع کی مگر طبیعت اب بھی اس زبان سے مانوس نہ ہو سکی.ہاں عدم دلچسپی کے سبب ایک خوشگوار نتیجہ یہ ضرور بر آمد ہوا کہ سبق یاد کرنے کی محنت سے آپ بچ گئے.اور قومی خوب مضبوط رہے.ورنہ عین ممکن تھا

Page 54

تاریخ احمدیت جلد ۳ 29 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) کہ کثرت مطالعہ اور علمی محنت سے دماغ پر دباؤ پڑ جاتا.تھوڑے عرصہ کے بعد آپ کے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب بھی بھیرہ میں آگئے اور انہوں نے باضابطہ عربی کی تعلیم دینی شروع کی.ان کا طریقہ تعلیم نهایت ساده دلچسپ اور موثر تھا.انہوں نے صرف میں بناؤں اور تعلیلات کا گورکھ دھندا آپ کے سامنے نہ رکھا.اور آپ نے بہت جلد عربی کے رسائل پڑھ لئے.پھر جناب الہی کے انعامات میں سے ایک یہ بات بھی پیدا ہوئی کہ ۱۸۵۷ء میں ایک شخص کلکتہ کے تاجر کتب جو مجاہدین کے پاس اس زمانہ میں روپیہ لے جایا کرتے تھے.آپ کے مکان میں اترے انہوں نے غالبا مولوی سلطان احمد صاحب ہی سے (جو اس وقت آپ کے استاد تھے) آپ کی پڑھائی کی بابت سوال کیا انہوں نے بتایا.تو اس شخص نے کہا کہ آپ جو اس کو مخلوق کی کتاب پڑھاتے ہیں خدا کی کتاب کیوں نہیں پڑھاتے یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اس نے آپ کو ایک مترجم پنج سورہ جو مطبع مصطفائی کا چھپا ہوا تھا.دے دیا.اور مولوی سلطان احمد صاحب نے بھی آپ کو وہی پڑھانا شروع کر دیا.اس وقت سے آپ کو قرآن مجید کی الفت و محبت پیدا ہو گئی.اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں.انہوں نے ترجمہ قرآن کی طرف یا یہ کہنا چاہئے کہ اس گراں بہا جواہرات کی کان کی طرف مجھے متوجہ کیا جس کے باعث میں اس بڑھاپے میں نہایت شادمانہ زندگی بسر کرتا ہوں.وہ ذالک فضل الله علينا وعلى الناس وأكثر الناس لا يعلمون".انہی دنوں بمبئی کے ایک تاجر کی تحریک سے " تقویتہ الایمان" (مولفہ حضرت سید اسماعیل صاحب شہید اور مشارق الانوار پڑھنے کا بھی موقعہ ملا.قبل ازیں ایک واعظ غلام محی الدین کے دعظوں میں بیٹھنے کا موقعہ ملتا رہتا تھا اور آپ توحید سے وابستہ ہو چکے.مگر ان کتابوں سے آپ کے خیالات میں نمایاں انقلاب پیدا ہوا اور آپ عقیدہ توحید میں اور پختہ ہو گئے.اور باوجودیکہ آپ کے اب وجد چشتی سلسلہ سے منسلک تھے مگر آپ پر توحید کا رنگ چڑھنے لگا.اور لا اله الا اللہ کا نقش رفتہ رفتہ نمایاں ہو تا چلا گیا.” مشارق الانوار" کو آپ نے نہایت محنت سے پڑھا اور بہت فائدہ اٹھایا.آپ کو یوں بھی اردو سے بہت رغبت تھی اور شرک سے نفرت.اس لئے وہ کتاب بالخصوص آپ کے ذوق کی تھی.مگر آپ کے خاندان کے دوسرے افراد ان خیالات سے ناواقف ہی تھے.آپ نے یہ کتابیں خوب غور سے پڑھیں اور تھوڑے دنوں بعد دوبارہ لاہور آگئے جہاں آپ نے حکیم الہ دین صاحب لاہوری سے طب کی کتاب موجز پڑھی.عربی عبارت نہایت صحیح پڑھانا اور تلفظ میں احتیاط کرنا یہ ان کو ہمیشہ مد نظر رہتا تھا مگر چند روز کے بعد آپ کو پھر بھیرہ آنا پڑا.

Page 55

ریت - جلد ۳ 30 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) ۱۸۵۵-۵۶ء میں ترکی دروس کی لڑائی.....جاری تھی.اور جهاد فی سبیل اللہ کا شوق ہندوستان میں ہر روز متوحش خبریں آتی تھیں آپ ان ایام میں اپنے وطن بھیرہ میں تھے اور آپ کے سب بھائی اور بہنیں اور ان کی اولاد سب ایک رات کو اتفاقا گھر میں جمع تھی اور سوائے حضرت مولانا المکرم کے سب شادی شدہ تھے اس لئے گھر بڑا بارونق ہو رہا تھا.آپ نے والدین سے عرض کیا کہ کس قدر مسلمان مارے جاتے ہیں اور روز مرہ ہزاروں آدمیوں کے مارے جانے کی خبریں آتی ہیں.آپ کے گھر میں بفضل خدا بہت رونق اور امن ہے.اگر مجھے خدا کی راہ میں قربان کر دیں تو عین ثواب ہے اتنی بڑی اولاد میں سے ایک کو فی سبیل اللہ دے دینا کوئی بڑی بات نہیں.آپ کو خدا کے ہاں سے بڑا اجر ملے گا.مگر آپ کی والدہ ماجدہ صاحبہ نے کہا کہ میں اپنی زندگی میں یہ بات کب برداشت کر سکتی ہوں.میں چاہتی ہوں کہ میرا کفن دفن آپ کریں.خدا تعالٰی کی غیرت کو دیکھو وہ اپنا کیا کام کر گئی.تھوڑے دنوں کے بعد والدین ہی کے سامنے باقی اولاد فوت ہونی شروع ہوئی حتی کہ سارا گھر خالی ہو گیا آپ ان دنوں میں جموں میں تھے.ایک دفعہ موسم گرما میں وطن میں آئے اور ایک کمرہ میں سوئے ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں اور انہوں نے اتنی زور سے انا للہ وانا الیه راجعون پڑھا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی.اور اپنی والدہ ماجدہ کو گھبرایا ہوا اور پریشان دیکھ کر صبر کی ہدایت کی پھر آپ نے والدہ صاحبہ سے عرض کیا کہ اماں جان آپ کو معلوم ہے کہ گھر کیوں ویران اور خالی ہو گیا ہے.فرمایا کہ ہاں خوب یاد ہے یہ اس غلطی کا نتیجہ ہے جو میں نے آپ کی بات کو رد کیا تھا اور اب تو میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو بھی میرے پاس نہیں ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ ذکر آچکا ہے.راولپنڈی کے نارمل سکول میں داخلہ اور کامیابی قریبا ۱۸۵۸ء میں جبکہ آپ کی عمر اٹھارہ برس کے قریب تھی آپ نے نارمل سکول راولپنڈی میں داخلہ لیا.منشی محمد قاسم صاحب کی تعلیم کی قدر اس وقت معلوم ہوئی کیونکہ آپ نارمل سکول میں سہ نثر ظہوری اور ابو الفضل کے پڑھنے میں طلباء کے سرتاج تھے مولوی سکندر علی صاحب ہیڈ ماسٹر سکول اتنے خوش ہوئے کہ آپ کی غیر حاضری کو بھی معاف کر دیا.اس غیر حاضری میں آپ کو یہ فائدہ ہوا کہ حساب اور جغرافیہ پڑھنے کے لئے آپ نے ایک استادر رکھ لیا.نارمل سکول آپ کے مکان سے دو تین میل کے فاصلہ پر تھا.مگر اس طرح نارمل سکول کے آنے جانے میں جو وقت صرف ہو تا تھا اب وہ اقلیدس حساب اور جغرافیہ کے لئے مفت بچ جاتا تھا.تقسیم کسور و مرکب سیکھنے کے لئے آپ نے شیخ غلام نبی صاحب ہیڈ ماسٹرلون سیانی کی خدمات حاصل کر لیں ان کا سیکھنا ہی تھا

Page 56

31 فلیتہ المسیح انا دل کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) کہ مبادی الحساب کے چاروں حصے پڑھانے میں آپ شیخ صاحب کے بھی استاد ہو گئے.علم اقلیدس منشی نهال چند ساکن شاہ پور سے سیکھا اور پہلے مقالہ کی چند شکلیں پڑھیں اس کے بعد محض خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نارمل کے سارے تعلیمی حصہ پر حاوی ہو گئے.اور آپ نے تحصیل کا امتحان اس درجہ نمایاں کامیابی سے پاس کر لیا کہ آپ پنڈ دادنخان کے انگریزی مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر بنا دیئے گئے.راولپنڈی میں آپ کی رہائش گاہ کے ساتھ ایک انگریز پادری الیگزینڈر کی کو تھی تھی ایک دفعہ کوئی شخص آپ کو وہاں لے گیا.اس نے رسوائے عالم پادری فنڈر کی مشہور کتابیں " میزان الحق اور "طريق الحياة " جو بڑی دیدہ زیب چھپی ہوئی تھیں آپ کو پڑھنے کے لئے دیں ان کتابوں سے آپ کو پہلی دفعہ عیسائیت کے عقائد کا علم ہوا.آپ کی عمر بھی چھوٹی ہی تھی لیکن چونکہ قرآن کریم سے اس زمانہ میں بھی آپ کو محبت تھی.اس لئے آپ کو یہ دونوں کتابیں بہت لچر معلوم ہو ئیں.حالانکہ اس زمانہ میں عیسائی لوگوں کو ان پر بہت ناز تھا اور خصوصاً " میزان الحق " تو وہ کتاب تھی جس سے کئی مسلمان مرتد ہو چکے تھے.راولپنڈی میں مولانا محمد فضل صاحب پشتی سے ملاقات ہوئی جو اپنے زمانہ کے ایک عظیم الشان مصنف اور بزرگ تھے.تحصیل جہلم میں دریائے جہلم کے تھوڑے سے فاصلہ پر پنڈ دادنخاں کا پنڈ دادنخان میں قیام قصبہ آباد ہے اس قصبہ میں 9 فروری ۱۸۵۵ء کو در نیکر مڈل سکول جاری ہوا.جس میں فارسی اور انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی اور اس کی موجودہ عمارت کی بنیاد جیسا کہ اس کے بیرونی دروازہ کی گول ڈاٹ پر کندہ حروف سے پتہ چلتا ہے ۱۸۶۹ء میں رکھی گئی تھی نومبر ۱۹۰۴ء میں یہ سکول ہائی سکول بنا دیا گیا.جو اب تک قائم ہے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول اس سکول میں چار سال تک ہیڈ ماسٹر ر ہے.سکول کے فارسی مدرس آپ کی مخالفت میں اپنے شاگردوں کو امتحانا سوال کرنے کے لئے بھیج دیتے مگر اپنی خداداد قابلیت سے آپ ان کا مکمل جواب دیتے.اس طرح آپ کی علمی لیاقت کا سکہ بیٹھ گیا.ہیڈ ماسٹری کے زمانہ میں ہی آپ کے بھائی نے عربی تعلیم پھر سے شروع کرا دی اور نحو کی کتاب الفیہ منطق کے رسائل اور علم کلام کی کتاب شرح عقائد نسفی آپ نے ختم کرلیں.ملازمت سے استعفی پنڈ دادنخاں سکول کی ہیڈ ماسٹری سے آپ نے از خود استعفیٰ دیا.یہ آپ کی شان استغناء اور توکل علی اللہ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے.جس کی

Page 57

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 32 خلیفہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) تفصیل خود حضرت خلیفتہ المسیح اول کی زبان مبارک سے لکھتا ہوں.فرماتے ہیں " میں پنڈ دادنخاں میں ہیڈ ماسٹر تھا وہاں انسپکٹر مدارس آگئے.میں اس وقت کھانا کھا رہا تھا.میں نے ان کو کہا کہ آپ بھی آجائیں.تو انہوں نے بجائے اس کے کہ میرے ساتھ کھانا کھاتے.مجھے فرمایا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟ میں انسپکٹر مدارس ہوں اور میرا نام خدا بخش ہے.میں نے کہا آپ بہت ہی نیک آدمی ہیں مدرسوں کے ہاں کھانا نہیں کھاتے تو بس پھر تو یہ بہت ہی بہتر ہے یہ کہہ کر میں بڑے مزے سے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا.اور وہ بچارا اپنا گھوڑا خود ہی پکڑے ہوئے اس بات کا انتظار کر تا رہا.کہ شاید اب بھی یہ کسی لڑکے کو میرا گھوڑا پکڑنے کے لئے بھیج دے.جب میں نے کوئی لڑکا نہ بھیجا تو اس نے خود مجھ سے کہا کہ کسی لڑکے کو تو بھیج دیجئے.جو میرا گھوڑا تھام لے.میں نے کہا جناب آپ مدرسوں کے گھر کا کھانا تو کھاتے ہی نہیں کیونکہ آپ اس کو رشوت سمجھتے ہیں تو پھر ہم لڑکے کو گھوڑا پکڑنے کے لئے کیسے کہہ دیں کیونکہ وہ تو یہاں صرف پڑھنے ہی آتے ہیں گھوڑے تھامنے کے لئے تو نہیں آتے.پھر اگر کسی لڑکے کو گھوڑا تھا منے کے لئے کہہ دیا جائے تو آپ یہ بھی کہیں گے کہ اس کو کہیں باندھ بھی دو.اور گھاس بھی ڈالا جائے.تو پھر جب آپ مدرسوں کے کھانے کو رشوت سمجھتے ہیں تو ہم آپ کے گھوڑے کو گھاس کیسے دیں؟ اس کا گھوڑا بڑا شور کرتا تھا.اتنی دیر میں اس کے ملازم بھی آگئے انہوں نے گھوڑے کو باندھا اور جلدی ہی روٹی وغیرہ تیار کرلی.اس نے کہا کہ میں امتحان لوں گا.میں لڑکوں کو امتحان دینے کے لئے تیار کر کے علیحدہ جا بیٹھا.وہ خود ہی امتحان لیتارہا بعد میں مجھے کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے آپ بڑے لائق ہیں.اور بڑی لیاقت سے آپ نے نارمل وغیرہ پاس کر کے بہت عمدہ اسناد حاصل کی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ شاید اسی باعث سے آپ کو اس قدر ناز ہے میں نے یہ بات سن کر اس کو کہا کہ جناب ہم اس ایک بالشت کے کاغذ کو خدا نہیں سمجھتے اور ایک شخص کو کہا کہ بھائی اس بت کو ذرا نکال کر تو لاؤ.پھر اس کے سامنے ہی اسے منگا کر پھاڑ ڈالا اور دکھلا دیا کہ ہم کسی چیز کو خدا کا شریک نہیں سمجھتے (اس شخص کو میری اس طرح پر اپنی اسناد کو پھاڑ ڈالنے سے رنج بھی ہو ا جس کا اس نے نہایت تاسف سے اظہار کیا.اور کہنے لگا آپ کے اس نقصان کا باعث میں ہوا ہوں.نہ میں یہ بات کہتا اور نہ آپ کا نقصان ہو تا) لیکن حقیقت میں جب سے میں نے اس ڈپلوما کو پھاڑ ا تب ہی سے میرے پاس اس قدر روپیہ آتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.میں نے لاکھوں روپیہ کمایا ہے".ملازمت کو خیر باد کہنے کے بعد آپ کے والد ماجد نے آپ کو تعلیم عربی کی تکمیل کے لئے تاکید فرمائی اور آپ نے مولوی احمد الدین صاحب بگوی سے پڑھنا شروع کیا مگر ان کو جامع مسجد بنانے کی ایسی

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 33 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) فکر لگی ہوئی تھی کہ ایک جگہ ٹھہرنا ان کے لئے محال تھا آپ ایک سال تک سفر و حضر میں ان کے ہمراہ رہے اور عربی زبان کی ابتدائی درسی کتابیں نہایت تکلیف سے پڑھیں اور تنگ آکر اپنے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب سے کہا وہ آپ کو لاہور لائے اور آپ کو حکیم محمد بخش صاحب اور چند اور اساتذہ کے سپرد کر کے بھیرہ تشریف لے آئے.مولوی سلطان احمد صاحب کے جاتے ہی ایک طالب علم نے ہندوستان جاکر تعلیم سفر رامپور حاصل کرنے کی ترغیب دی.چنانچہ آپ ایک لمبے سفر پر محض علم کے حصول کے لئے لاہور سے نکل کھڑے ہوئے آپ کے ساتھ دو اور طالب علم بھی تھے.ایک کا نام مولوی محمد مصطفیٰ اور دوسرے کا مولوی علاؤ الدین تھا.سنت رسول کے مطابق ایک صاحب امیر مقرر ہوئے اور یہ قرار پایا کہ کسی ایسے شہر میں تین برس تک رہیں جہاں بہت زیادہ عالم ہوں تا مختلف علوم میں زیادہ سے زیادہ دسترس حاصل ہو سکے.چلتے چلتے ایک بستی کا بدلہ میں پہنچے تو مولوی نور الحسن صاحب ایک پاک صورت اور معمور الاوقات بزرگ ملے انہوں نے کا بدلہ میں ہی قیام کرنے کی فرمائش کی مگر آپ کا اصل ازادہ رامپور جانے کا تھا جو ان دنوں مشرقی علوم کا مرکز تھا اور لکھنو اور دہلی کے تمام کاملین علوم و فنون وہاں جمع تھے.اس لئے آپ نے وہاں ٹھہرنا پسند نہ کیا.اور آپ بالا خر رامپور میں پہنچ گئے.سب غریب الدیار تھے اور کوئی واقفیت نہیں تھی.ناچار مینوں نے ایک مختصر اور ویران سی مسجد میں ڈیرہ ڈال دیا.جب کھانے کا وقت آیا.تو سات آٹھ سال کی ایک بچی کھانا لے آئی.کھانا کھا کر آپ شہر میں علماء کی جستجو میں گھومتے رہے دوسرے دن بھی یہی بچی کھانا لائی تیسرے دن اس نے کھانا پیش کرتے ہوئے کہا کہ میری امی کہتی ہیں کہ آپ دعا کریں کہ میرا خاوند میری طرف توجہ کرے آپ اس کے خاوند کے ہاں پہنچے اور خوب وعظ کیا.جس پر اس نے اپنی بیوی سے حسن سلوک شروع کر دیا.رامپور میں ایک محلہ پنجابیوں کا بھی ہے آپ اسی دن شام کے قریب اکیلے ہی اس محلہ میں تشریف لے گئے وہاں مولوی حافظ عبد الحق صاحب سے آپ کو تعارف ہوا وہ بڑی مروت اور محبت سے پیش آئے اور انہوں نے سرسری سی پہلی ملاقات میں ہی تینوں طلبہ کے قیام و طعام بلکہ کتابوں کی فراہمی تک کی ذمہ داری اٹھالی اور استادوں کی بھی ! چنانچہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت انہی کی مسجد میں مقیم ہو گئے حافظ صاحب نے بھی ایک سال تک اپنے عہد کو کمال خوبی سے نبھایا اور اہل محلہ کا بھی آخر تک آپ کے ساتھ نہایت عمدہ سلوک رہا ! رامپور میں آپ نے مشکوۃ شریف سید حسن شاہ صاحب سے.1 شرح وقایہ (فقہ) مولوی عزیز اللہ افغان سے اور اصول شاشی (فقہ) اور میبدی (فلسفه) مولوی ارشاد حسین صاحب مجددی سے دیوان متنبی (عربی) مفتی محمد سعد اللہ صاحب سے صدری

Page 59

تاریخ احمدیت جلد ۳ 34 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) (منطق) وغیرہ مولوی عبد العلی صاحب سے ) اور ملا حسن (منطق) سعد اللہ ر ڈیال (پنجاب) سے پڑھیں.حضرت مولوی نور الدین خلیفہ المسیح اول کے خیالات پر حضرت مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی کا بڑا گہرا اثر تھا گو آپ کے خاندان کو ان عقائد سے قطعا واقفیت نہ تھی.اب جو آپ رامپور وغیرہ میں آئے تو آپ کو دوسری درسی کتابوں کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تالیفات میں سے حجتہ اللہ البالغہ ”ازالۃ الخفاء " اور " خیر کثیر" کے پڑھنے کا بھی موقعہ ملا.اور آپ حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دل سے معتقد ہو گئے.411 رامپور میں آپ کو کئی ایسے واقعات پیش آئے جن میں سے بعض کا ذکر دلچسپی کا موجب ہو گا.ا.جس طالب علم کی تحریک پر آپ نے یہ طویل سفر اختیار فرمایا تھاوہ چپکے سے کہیں چل دیئے اور اب آپ دو ہی رہ گئے ان دنوں آپ اکثر طالب علموں میں رہا کرتے تھے ایک دفعہ بہت سے طالب علموں کا نحو کے ایک مسئلہ پر گرما گرم مباحثہ ہو رہا تھا جو سوال زیر بحث تھا اس کا ایک مکمل جواب خدا نے آپ کو سمجھا دیا اور آپ نے بلند آواز سے کہا کہ میں اصل سوال کا جواب دیتا ہوں بہت سے طالب علموں نے آپ کا مذاق اڑایا مگر پنجابی طالب علم آپ کے طرفدار ہو گئے.اور کہا کہ پہلے امتحان لیا جائے کہ اس نے سوال سمجھا ہے یا نہیں اگر سوال سمجھا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے جواب کو توجہ اور قدر سے نہ سنا جائے.اس پر مباحثہ کسی قدر سرد پڑ گیا.آپ نے تجویز پیش کی.کہ نحو کا کوئی بڑا عالم ثالث مقرر کرد.چنانچه اتفاق رائے سے ایک بزرگ مولوی غلام نبی صاحب ثالث قرار پائے جب ان کے سامنے یہ عالمہ رکھا گیا تو انہوں نے آپ سے اصل سوال اور اس کا جواب سن کر کہا.کہ اس سوال کے در جواب " شرح ملا جامی " میں لکھے ہیں پھر وہ جو اب بھی سنائے مگروہ جو اب اس درجہ کمزور تھے کہ خود مولوی صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ بہت کمزور ہیں مگر آپ کے جواب کو بہت صحیح قرار دیا.نیز کہا کہ یہ لوگ تو آپ سے کبھی نہ مانتے جب تک وہی جواب نہ سنتے جو کتاب میں درج ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب آپ کے غور و فکر کا نتیجہ ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب اس تقریر سے خوش ہوئے.مگر ساتھ ہی فیصلہ کر لیا کہ اب میں شرح جامی تک کی کتابیں ہرگز نہیں پڑھوں گا.اور اس کی بجائے دوسری کتابیں مختلف اساتذہ سے شروع کر دیں.۲.فلسفہ کی کتاب میبذی پڑھنے میں آپ کو یہ افسوسناک تجربہ ہوا کہ جو باتیں آپ کے دل میں کھٹکتی تھیں ان کے بارے میں اساتذہ کا ذہن بھی صاف نہیں ہو تا تھا سمجھانا تو درکنار وہ خود بھی نہیں سمجھتے تھے اس وجہ سے نہ صرف اس کتاب سے آپ کو سخت کراہت پیدا ہو گئی بلکہ آپ کو پہلی مرتبہ

Page 60

یت - جلد ۳ 35 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) بڑی شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ ہندوستان کی اسلامی درسگاہوں کا نظام تعلیم یکسر بدلنے کے لائق ہے.نصاب کافی غور و فکر اور بڑے فہم و تدبر سے مقرر کیا جانا چاہئے.باقاعدہ امتحان لیا جائے اور اس بات کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے کہ طلباء دین و دنیا میں ترقی کر سکیں.ایک سب سے بڑا مسئلہ آپ کے لئے یہ پیدا ہوا کہ نہ تو اساتذہ یہ رہنمائی کرتے ہیں کہ کن کتابوں کا انتخاب کرنا چاہئے.نہ طلباء آزادی رائے کے ساتھ کوئی کتاب انتخاب کر کے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس پورے نظام میں اخلاق فاضلہ کی تعلیم و تلقین کا کوئی حصہ نہیں ہو تا.آپ ہمیشہ عمر کے آخر تک دکھ بھرے دل سے فرماتے کہ اس زمانہ میں کسی استاد میں یہ بات نہ دیکھی ان باتوں کا رنج مجھے اب تک بھی ہے.کس قدر رنج ہوتا ہے جبکہ میں غور کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارے افعال اقوال عادات اخلاق پر کبھی ہمارے معلموں میں سے کسی نے نوٹس نہ لیا بلکہ عقائد کے متعلق بھی کبھی کچھ نہ کہا مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ مشکوۃ میں ہی ہمارے اخلاق پر توجہ ولائی گئی ہو.رام پور میں ان دنوں ایک بزرگ حضرت شاہ عبدالرزاق رہا کرتے تھے حضرت مولوی صاحب کو اکثر ان سے فیض صحبت اٹھانے کا موقعہ ملتا تھا ایک دفعہ آپ کچھ دنوں کے وقفہ سے جو ان کی خدمت میں پہنچے تو فرمایا.نور الدین تم بہت دنوں میں آئے اب تک کہاں تھے ؟ عرض کیا کہ حضرت ہم طالب علموں کو اپنے درس و تدریس کے اشغال سے بہت کم فرصت ملتی ہے.کچھ مجھ سے بھی تساہل ہو گیا.فرمانے لگے کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے.عرض کیا ہاں اکثر اتفاق ہوا ہے فرمایا تم نے دیکھا ہو گا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ دونوں چھریاں لے کر آپس میں رگڑتا ہے اس طرح چھریوں کی دھار پر جھی ہوئی چربی دور ہو جاتی ہے اور چھریاں پھر تیز ہو جاتی ہیں.یہ لطیف مثال دے کر فرمانے لگے کچھ ہم پر غفلت کی چربی چھا جاتی ہے کچھ تم پر.جب تم آجاتے ہو تو کچھ تمہاری غفلت دور ہو جاتی ہے اور کچھ ہماری.پس ہم سے ملتے رہا کرو اور زیادہ عرصہ جدائی اور دوری میں نہ گزارا کرو.۴- رامپور کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ آپ کے ایک جگری دوست ایک صاحب میاں سبحان شاہ رامپوری کے پاس گئے اور شریعت کے متعلق کچھ عرض کیا میاں صاحب ان کی بات ہنسی میں ٹال گئے آپ کے دوست گھڑے ہو گئے میاں صاحب نے کہا آپ جاتے تو ہیں مگر آپ تو پھر بھی ہمارے یہاں آہی جائیں گے دوست نے غلیظ قسم کھائی کہ میں آپ کے یہاں ہر گز نہ آؤں گا.جب وہ مکان پر آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کے گلے میں کوئی رسہ ڈالا گیا ہے اور زور سے کوئی کھینچتا ہے.چنانچہ وہ | 110 | -.

Page 61

تاریخ احمدیت جلد ۳ 36 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) مجبور اٹھ کر کھنچے چلے جاتے تھے.راستہ میں انہوں نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ورد کرنا شروع کر دیا.وہ ورد کرتا جاتا اور سبحان شاہ کے مکان کی طرف بڑھتا جاتا تھا پھر اس دوست نے بڑی الحاج سے دعا مانگی یہاں تک کہ وہ رسہ ٹوٹ گیا.اور وہ راستہ میں ہی اپنے مکان کو واپس چلے آئے.بہت دنوں کے بعد وہ خود ہی سبحان شاہ کے مکان پر گئے تو انہوں نے دیکھتے ہی کہا چلے جاؤ.یہ دوست چلے آئے مگر یہ کہتے ہوئے آئے کہ آپ کا رسہ تو ہم نے تو ڑ ہی دیا ہے.-۵- آپ کے استاد مولوی ارشاد حسین صاحب سلسلہ نقشبندیہ میں مرید ہونے کی وجہ سے آپ کے پیر بھائی بھی تھے.مگر ان کی مجلس میں جب کبھی حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کی شان میں کوئی ناروا بات کہی جاتی تو آپ برداشت نہ کر سکتے.آپ نے ہر چند کوشش کی کہ وہاں یہ جھگڑے نہ ہوں کیونکہ ان کا پڑھائی پر سخت ناگوار اثر پڑتا تھا مگر آپ کا کوئی سکوت کارگر نہ ہوا.ایک دن آپ کے استاد صاحب نے آپ سے کہا کہ تم جو مولوی محمد اسماعیل صاحب کے اس درجہ عقیدت مند ہو کیا تم نے ان کو دیکھا ہے ہم تو علم میں ان سے زیادہ ہیں.آپ نے جواب دیا کہ آپ علم میں ان سے زیادہ ہی سہی لیکن یہی تو ان کا جذب ہے کہ میں ان کے مقابلہ میں آپ کو یا کسی کو نہیں سمجھتا یہ سنکر مولوی ارشاد حسین صاحب بہت خفا ہو گئے اور ایک آسودہ حال طالب علم عبد القادر خاں نے اس محلہ میں جا کر جہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے تھے.ایک سادہ طبع شخص کلن خاں کو اکسایا کہ امام الصلوۃ کا اپنے استاد سے کئی مسائل میں اختلاف ہے اس لئے وہ کسی عزت کا مستحق نہیں ہے مگروہ اس کے بھرے میں نہ آئے بلکہ غضب ناک ہو کر اپنی تلوار نکال کر اسے دکھائی.یہ دیکھتے ہی عبد القادر خان بھاگ گیا.بہت دنوں کے بعد حضرت مولوی صاحب نے کلن خاں سے اصل واقعہ پوچھا تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ وہ آپ کے متعلق کچھ کہنے لگا تھا مگر رہ گیا.اگر ذرا زیادہ زبان ہلا تا تو میں فورا اس کا سر اڑا دیتا.آپ نے فرمایا.آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا.اگر خدانخواستہ یہ بات نواب صاحب تک پہنچتی تو آپ کو مشکل پیش آتی.کہا.نہیں جناب ! ہمار ا سارا محلہ ذبیح ہو جائے گاتب کوئی آپ کو ہاتھ لگا سکے گا.رامپور میں آپ کا تین سال تک قیام رہا.یہاں دور دور مقام پر دو پہر اور رات کو جا جا کر سبق پڑھنے اور دن رات مطالعہ میں منہمک رہنے کی وجہ سے آپ کو بے خوابی کا مرض لاحق ہو گیا آپ رامپور سے مراد آباد چلے گئے جہاں ایک پنجابی نوجوان تاجر اسماعیل کے توسط سے ایک صاحب عبدالرشید بنارسی سے ملاقات ہو گئی جنہوں نے مہینہ ڈیڑھ مہینہ تک آپ کی بے حد خدمت کی.حتی کہ آپ اس عارضہ سے بکلی شفایاب ہو گئے.

Page 62

تاریخ احمدیت جلد ۳ 37 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( محمل از خلافت) لکھنو میں آمد بحالی صحت کے بعد آپ نے لکھنو کا قصد کیا.کانپور میں آپ کے بھائی کے ایک دوست عبدالرحمن خان مالک مطبع نظامی کے پاس آپ ٹھر گئے انہوں نے حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کی بہت تعریف کی اور دوسرے دن گاڑی میں سوار کرا کے لکھنو روانہ کر دیا.لکھنو میں آپ کسی حالت میں پہنچے اور اللہ تعالی نے آپ کی تعلیم اور رہائش کے لئے کس طرح نی سامان فرمائے یہ نہایت درجہ ایمان پرور اور روح افزا حالات ہیں جن کا تذکرہ خود حضرت خلیفہ المسیح اول کے قلم مبارک ہی سے لکھتا ہوں.فرماتے ہیں :." کچی سڑک اور گرمی کا موسم - گردو غبار نے مجھے خاک آلودہ کر دیا تھا کہ میں لکھنو پہنچا جہاں وہ گاڑی ٹھری وہاں اترتے ہی میں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا.خدائی عجائبات ہیں کہ جہاں گاڑی ٹھری تھی اس کے سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا.یہاں ایک پنجابی مثل یاد کرنے کے قابل ہے.کل کرے اولیاں رب کرے سولیاں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا تھا.ایک بڑا ہال نظر آیا.ایک فرشتہ خصلت دلربا.حسین - سفید ریش نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چار زانو بیٹھا ہوا.پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے.سامنے پاندان اگالدان - خاصدان.قلم دوات - کاغذ دھرے ہوئے.ہال کے کنارے کنارے جیسا کوئی التحیات میں بیٹھتا ہے بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے.نہایت براق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا.وہ قہقہہ دیوار دیکھ کر میں حیران سارہ گیا.کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.بہر حال اس کے مشرقی دروازہ سے اپنا بستہ اس دروازہ ہی میں رکھ کر) حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا.گرد آلودہ پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے میں خود ہی مجوب ہو گیا.حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا جو لکھنو میں ایک نرالی آواز تھی.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا.کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلودہ ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے اور میں دو زانو بیٹھ گیا.یہ میرا دو زانو بیٹھنا بھی اس چاندنی کے لئے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوارہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جو اراکین لکھنو سے تھا اس وقت مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ کسی مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں.میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھا مگر خدا شرے برانگیزد که غیر مادران باشد.میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی فیرزی

Page 63

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 38 خلیفہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) زرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے..فداہ ابی والی.اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا.اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اٹھائی ہے ؟ اور تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے سے کہا.کہ آپ کا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے ایک انقباض ہے میں خود تو نہیں پڑھا سکتا.میں نے قسم کھائی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا.میری طبیعت ان دنوں بہت جو شیلی تھی اور شاید سر کا بقیہ بھی ہو.اور حق تو یہ ہے کہ خدائے تعالی ہی کے کام ہوتے ہیں منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی کہ میں نے جوش بھری اور درد مند آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا.رنجانیدن دل جهل است و کفارہ یمین سهل.اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پر آب ہو گئے.تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا مولوی نور کریم حکیم ہیں اور بہت لائق میں آپ کو ان کے سپرد کر دوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے جس پر میں نے عرض کیا کہ ملک خدا تنگ نیست و پائے مرالنگ نیست.تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا ہم نے قسم توڑ دی.اس کے بعد حکیم صاحب تو گھر کو تشریف لے گئے اور وہ لوگ جو مختلف اغراض اور بیماریوں کے لئے آئے تھے اپنی اپنی جگہ چلے گئے میں نے بھی تنہائی کو غنیمت سمجھ کر اپنا بوریا بد ھنا سنبھالا اور اس مکان سے باہر نکلا.میرے بھائی صاحب کے دوست علی بخش خان مرحوم مطبع علوی کے مالک تھے میں ان کے مکان پر پہنچا وہاں میں نے بڑا آرام پایا.غسل کیا.کپڑے بدلے.خان صاحب نے انار کا ایک خوبصورت درخت دکھایا جوان کے مطبع والے مکان میں تھا.اور فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی کی یاد گار ہے.وہاں آرام پا کر میں مختلف علماء سے جو لکھنو میں تھے ملا اور عجیب عجیب باتیں سننے میں آئیں.آخر علی بخش خاں نے مجھے ایک مکان دیا اور وہاں کھانے کا انتظام مجھے خود کرنا پڑا.جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں حرفہ کے لئے میرے دماغ میں کوئی بناوٹ نہیں.اپنی روٹی پکانے کے لئے ایک منطق سے کام لینے لگا.چولھے میں آگ جلائی تو ا ر کھا اور روٹی گول بنانے کی یہ ترکیب سوجھی کہ آٹے کو بہت پتلا گھول لیا.اور ایک برتن کے ذریعہ اس گرم توے پر بلا تھی اور خشکے کے خوبصورت دائرہ کی طرح آٹا ڈال دیا.جب اس کا نصف حصہ پک گیا تو پلٹنے کے لئے روٹی کو اٹھانے کی فضول کو ششیں کیں.ان کوششوں میں روٹی اوپر تک پک چکی تھی.خیالی فلسفہ نے توے کو اتار کر آگ کے سامنے رکھوایا.جب محمدہ طور پر اوپر کا حصہ یافتہ نظر آیا تو چاقو سے اتارنے کی بھری مگر چاقو کے ذریعہ اترنے سے بھی اس نے انکار کیا اور مجھے دعا کی توفیق ملی.اس مکان سے باہر نکل کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر یوں دعا مانگنے

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 39 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) لگا.اے کریم موٹی ایک نادان کے کام سپرد کرنا اپنے بنائے ہوئے رزق کو ضائع کرنا ہے.یہ کس لائق ہے جس کے سپر د روٹی پکانا کیا گیا.اس روٹی کے انتظام اور دعا کے بعد حکیم صاحب کے حضور پر تکلف لباس میں جا پہنچا.جاتے ہی اپنی دعا کی قبولیت کا یہ اثر دیکھا کہ حکیم صاحب نے فرمایا.آپ اس وقت آئے اور بے اجازت چلے گئے یہ شاگردوں کا کام ہے ؟ آئندہ تم روٹی ہمارے ساتھ کھایا کرو اور یہیں رہو یا جہاں ٹھہرے ہو وہاں رہو مگر روٹی یہاں کھایا کرو.میں نے کچھ عذر معذرت کی پھر آپ نے فرمایا کیا پڑھنا چاہتے ہو میں نے عرض کیا طب پڑھنا چاہتا ہوں مجھے اس وقت یہ بھی اطلاع نہ تھی کہ دنیا میں بڑا طبیب کون ہے.حکیم صاحب نے فرمایا طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو میں نے عرض کیا افلاطون کے برابر.مجھ کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب آپ نے ہنس کر فرمایا.کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے.اگر کسی چھوٹے کا نام لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا.کیونکہ ہر ایک انسان اپنی نمایت مطلوب تک نہیں پہنچتا.حکیم الہ دین لاہوری مرحوم اور حکیم محمد بخش لاہوری مرحوم سے کسی قدر موجز تو میں پڑھ ہی چکا تھا اور علمی مباحثات کے لئے میری پہلی تعلیم کافی سے بھی زیادہ تھی میں نے عرض کیا قانون شروع کرا دو.اس پر حکیم صاحب نے تبسم کیا.پھر میں نے جلد جواب دیا کہ میں تو خد اتعالیٰ کی کتاب بھی سمجھ سکتا ہوں بو علی سینا یا اس کا قانون اس سے بڑے ہیں ؟ حکیم صاحب نے نفیسی کی طرف اور اس کے علمی حصہ کے لئے مجھے مجبور کیا.میں نے کتاب شروع کر دی.ایک ہی سبق تمام دن میں میرے لئے ہرگز قابل برداشت نہ تھا.میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں کوئی اور سبق پڑھوں مگر وہابیت کا خدائے تعالیٰ بھلا کرے اس نے کوئی جگہ پسند نہ کرنے دی.پھر بھی مولوی فضل اللہ نام فرنگی محلی سے میری سفارش ہوئی اور انہوں نے ملا حسن یا حمد اللہ پڑھانے کا وعدہ کیا اور شروع کرا دی میں نے چند ہی سبق پڑھے ہوں گے کہ تنہائی میں اپنی گذشتہ عمر کا مطالعہ شروع کیا اور اس بات تک پہنچ گیا کہ اگر تو اسی طرح پڑھے گا تو ان علوم سے متمتع ہونے کے دن تجھ کو کب ملیں گے اور میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ اگر چھ سات سبق ہر روز نہ ہوں تو پڑھنا گویا عمر کو ضائع کرنا ہے غرض اس فیصلہ کے بعد حکیم صاحب کے حضور صرف اس لئے گیا کہ آج میں ان سے رخصت ہو کر رامپور جاؤں گا لیکن قدرت خداوندی کے کیا تماشے ہیں کہ میری اس ادھیڑ بن کے وقت حکیم صاحب کے نام نواب کلب علی خاں نواب رام پور کا تار آیا تھا کہ آپ ملازمت اختیار کر لیں.m علی بخش نام ان کے ایک چہیتے خدمت گار علیل ہیں ان کا اگر علاج کریں.دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر میں وہاں حاضر ہوا اپنے منشاء کا اظہار کر کے عرض کیا.کہ اب میں رامپور جانا چاہتا ہوں حکیم صاحب نے فرمایا تم یہ بتاؤ مجھ جیسے آدمی کو ملازمت اچھی

Page 65

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 40 خلیفتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) ہے یا آزادی سے علاج کرنا.چار سو کے قریب یہاں شہر میں آمدنی ہوتی ہے.کیا اس آمدنی کو چھوڑ کر ملازمت اختیار کریں ؟ تمہارے خیال میں یہ بھلی بات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نوکری آپ کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ حالت میں اگر آپ کے حضور کوئی شخص اپنے پہلو یا سرین کو کھجلانے لگے تو آپ کو یہی خیال ہو گا.کہ یہ کچھ دینے لگا ہے اس پر وہ قہقہہ مار کر ہنسے اور اللہ تعالٰی نے ان کے دل میں یہ ڈال دیا کہ یہ بھی اس شخص کے تصرفات کی کوئی بات ہے غرض ہماری ولایت کا وہاں سکہ بیٹھ گیا.پھر وہ تار نکالا اور کہا کیا یہ آپ کے رامپور جانے کی ترکیب نہیں ؟ اچھا ہم منظور کرتے ہیں اور آپ ساتھ چلیں.غرض معارا مپور آنے کی تیاری ہو گئی".لکھنو اس زمانے سے لے کر آج تک شیعیت کا ہندوستان بھر میں بہت بڑا مرکز رہا ہے اس لئے لکھنو کے زمانہ قیام میں آپ کو شیعہ حضرات کے عقائد و اعمال کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا بڑا اتفاق ہوا.کیونکہ وہاں شیعہ طلباء بھی تھے.اور علماء بھی.سب کے حالات دیکھنے کا آپ کو بخوبی موقعہ ملا.تب آپ کو شوق ہوا کہ میں تحقیقات کروں کہ دنیا میں کس قدر مختلف الخیال لوگ ہیں اور ان میں با ہم کیا اختلاف ہے.ازاں بعد آپ کی نظر میں جوں جوں وسعت اور دماغ میں اور زیادہ بصیرت پیدا ہوتی گئی.آپ کے سامنے مذاہب عالم کے اختلافات کے سب ہی گوشے نمایاں ہو گئے اور اختلافی مسائل کا ایک وسیع میدان دکھائی دیا.مگر آپ پوری زندگی کی تحقیق و مطالعہ کے بعد بالا خر اس نتیجہ پر پہنچے کہ مقلد ہوں یا غیر مقلد سنی ہوں یا شیعہ ان میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے ".رامپور میں دوبارہ درود لکھنو سے آپ حکیم علی حسین صاحب کے ہمراہ رامپور چلے آئے اور دوبارہ حافظ عبد الحق صاحب کے ہاں قیام پذیر ہوئے اور محلہ پنجابیاں کے لوگ بدستور آپ سے بہت مردت کرتے رہے.رامپور آکر حکیم صاحب نے حضرت مولوی نور الدین صاحب سے علی بخش کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی.آپ نے فرمایا مجھے یہ بچتا نظر نہیں آتا اور مجھے اس کے لئے دعا کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور بدوں توجہ دعا نہیں ہو سکتی.چنانچہ علی بخش مر گیا.اس کے مرنے پر حکیم صاحب نے آپ سے کہا.کہ علی بخش کے مرنے پر ہمارے شہر کے ایک حکیم ابراہیم صاحب کو دربار میں ہم پر نہی کا موقعہ ملا ہے.آپ کی زبان مبارک سے بے ساختہ نکلا.کہ اس مریض جیسا کوئی ان کے ہاتھ سے بھی مرد ہے گا.قدرت الہی 11 نہ گمان نہ خیال علی بخش کے بالمقابل نواب کلب علی کا ایک دوسرا خدمت گار بھی اسی بیماری میں گرفتار ہوا.اور حکیم ابراہیم صاحب لکھنوی اس کے معالج تجویز ہوئے.معالج حکیم اس کی صحت کے متعلق بہت پر امید تھے.اور انہوں نے اس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ بھی دیا کہ ہم کو اس کی صحت کی بہت امید ہے.مگر حضرت

Page 66

تاریخ احمدیت جلد ۳ 41 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) مولوی صاحب نے یہ سن کر فرمایا.کہ اب یہ مرگیا ہے.خدا تعالٰی کے عجائبات ہیں سچ سچ وہ خدمت گار راہی ملک عدم ہو گیا.اور حکیم ابراہیم صاحب آئندہ تمسخر سے باز آگئے.حضرت مولوی صاحب نے اپنی طبی تعلیم میں ایک خاص اصول و مسلک اپنے پیش نظر ر کھا اور وہ یہ کہ آپ نے مفرد اور مرکب ادویہ کے متعلق حکیم علی حسین صاحب سے کبھی کوئی سوال نہ کیا کہ یہ مرکب کس طرح بنتا ہے یا اس مفرد کا کیا نام ہے بات یہ تھی کہ اگر ود نام بتاتے تو صرف لکھنو کا مروج نام اور وہ میرے لئے اپنے وطن میں بھی مفید نہ ہوتا.اور آپ کو یقین تھا کہ مرکبات کے معلوم کرنے کے لئے قرابادیوں کا مطالعہ کافی ہو گا.باقی رہا نسخہ نویسی کا علم تو اس کے متعلق حکیم علی حسین صاحب یہ چاہتے تھے کہ آپ ان کے نسخے لکھا کریں مگر آپ کو علم پڑھنا مطلوب تھا اس لئے جو نہی آپ مطب میں بیماروں کا ہجوم دیکھتے تو اپنے دوسرے اساتذہ کے پاس اور علوم کے واسطے چلے جاتے.کیونکہ حکیم صاحب موصوف کے پاس صبح سے عشاء تک اپنا ضروری سبق بھی بمشکل ختم ہو سکتا تھا.ایک دفعہ آپ کے طبی امتحان کا موقعہ آیا جس میں خدا تعالٰی نے عجیب رنگ سے آپ کو کامیابی بخشی.اس واقعہ کی تفصیل خود حضرت مولوی صاحب کے قلم مبارک سے تحریر کرتا ہوں.فرماتے ہیں: ایک دن مرمن ماشرہ کا مبتلا ایک بیمار آیا اس کا سر اس قدر موٹا ہو گیا تھا جیسے ہاتھی کا.اس کے ہونٹوں اور آنکھوں کی شکل بھی بڑی بھیانک تھی.میں اس سے دو تین روز پہلے یہ مرض پڑھ چکا تھا مگر مریض کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آیا.کہ یہ ماشرہ ہے ادھر حکیم صاحب نے فرمایا کہ اس کا نسخہ لکھو میں سخت گھبرایا آخر میرے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار تھا.معا حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا.کہ ایسے ماشرہ دنیا میں کم دیکھنے میں آتے ہیں.تب میں نے عرض کیا کہ اس مریض کو دیکھنے میں بہت جمگھٹا ہو گیا ہے.یہ اس کو مکان پر لے جائیں.اور پھر آکر نسخہ لے جائیں.اس طرح وقت کو ٹلادیا اور خود اپنے کمرہ میں جاکر حکیم صاحب کی زیر نظر کتا ہیں.شرح گیلانی قانون ترویج الارواح طبری اور مجموعہ بقائی کو دیکھنا شروع کیا.اور ان تمام کتابوں سے ایک مشترکہ نسخہ مضمار اور طلاء اور کھانے کا لکھ لیا.اور کتا ہیں اپنی اپنی جگہ رکھوا دیں.اور نسخے قریب یاد کرلئے.تیمار دار دیر کے بعد آیا اور حکیم صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ آپ نے نسخہ لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ ابھی لکھ دیتا ہوں قلم اٹھا کر نسخے لکھ دیئے اور حکیم صاحب کے حضور پیش کئے.حکیم صاحب نے ان کو دیکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ شرح گیلانی ترریح اور مجموعہ بقائی لاؤ میں لایا.میرے نسخوں کو سامنے رکھ کر سرسری نظر ان کتابوں پر ڈال لی اور نسخے تیماردار کو دے دیئے.جب فراغت ہوئی تو اپنا بیاض بڑی محبت سے مجھ کو عطا کیا اور فرمایا تم اس کے اہل ہو.دے کر آپ حرم سرا میں تشریف لے گئے.میں نے دیکھا اس میں کچھ نسخے تھے.اس بیاض کو میں نے

Page 67

تاریخ احمدیت جلد ۳ 42 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) مطب میں ہی چھوڑ دیا.اور اپنے کمرہ میں چلا گیا.کسی دوسرے وقت حکیم صاحب آئے اور بیاض کو اس طرح کھلا پڑا ہوا دیکھ کر اٹھایا اور مجھے دیا.میں نے عرض کیا اس کو کیا کروں.نسخہ لکھنا تو تشخیص پر منحصر ہے اور اس میں کوئی تشخیص نہیں اس پر متبسم ہو کر کہا کہ بات تو ٹھیک ہے".آپ اس کو رس کو (جو اندھا دھند ملک میں اب تک رائج ہے) پڑھنا تفضیع اوقات سمجھتے تھے.آپ کا خیال تھا اور وہ خیال بالکل بجا تھا کہ جس طرح اور علوم میں ایک ملکہ پیدا ہونے پر دوسری کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے پر انسان قادر ہو سکتا ہے.اسی طرح طب کا حال ہے اس واسطے آپ نے طول و طویل کورس طب کا پڑھنا تفضیع اوقات سمجھ کر قانون کے عملی حصہ کو پڑھ لینا کافی سمجھا.اس عرصہ میں آپ نے حکیم صاحب کی ہدایت پر ایک مولوی محمد اسحاق نگینوی کو شرح اسباب پڑھاری اور آپ کو اس کے پڑھانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کو دیوان متنبی کے پڑھنے کا شوق ہوا آپ مفتی سعد اللہ صاحب کی خدمت میں گئے.آپ نے ان کی بڑی منت سماجت کی کہ آپ مجھے متنبی کا ایک سبق پڑھا دیا کریں.مگر مفتی صاحب نے صاف انکار کر دیا.آپ نے جلالی شان میں آکر کہا کہ اچھا ہم بھی اسی وقت پڑھیں گے جب آپ ہماری منت کریں گے یہ کہہ کر اپنے مکان پر چلے آئے.اور اسی فرط رنج و غم سے آپ نے حکیم صاحب سے کہا کہ اب ہم علم پڑھنا پسند نہیں کرتے.انہوں نے فرمایا کہ کیوں ؟ آپ نے کہا کہ آپ نمایت علم بتائیں کہ اس سے کیا نتیجہ ملتا ہے.حکیم صاحب نے کہا کہ علم سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں.خیر آپ سن کر خاموش ہو رہے.حکیم صاحب نے محبت سے پوچھا کہ کیا بات ہے آپ یوں متفکر ہیں آپ نے فرمایا کہ مفتی سعد اللہ صاحب کے پاس گیا تھا اور ان سے کچھ پڑھنے کی درخواست کی تھی مگر انہوں نے خشک سا جواب دے دیا ہے کہ ہمیں فرصت نہیں.حکیم صاحب نے اسی وقت ایک پرچہ مفتی صاحب کو کچری میں لکھ بھیجا کہ کچھری سے اٹھتے ہی ادھر سے ہوتے جائیں.مفتی صاحب تشریف لائے حکیم صاحب نے آپ سے پہلے ہی سے کہہ رکھا تھا کہ آپ اپنی کو ٹھڑی میں جاکر بیٹھیں.حکیم صاحب نے مفتی صاحب سے کہا کہ اگر میں پڑھنا چاہوں تو آپ کچھ وقت دے سکتے ہیں.مفتی صاحب نے کہا کہ ہاں بہت وقت دے سکتا ہوں.حکیم صاحب نے پھر فرمایا کہ اگر ہمارے پیرو مرشد پڑھیں تو آپ وقت دے سکیں گے ؟ مفتی صاحب نے کہا کہ ان کو ہم وہاں پڑھا دیا کریں گے جہاں وہ چاہیں گے.تھوڑی دیر کے بعد حکیم صاحب نے آپ کو طلب فرمایا.آپ جب سامنے ہوئے تو مفتی صاحب دیکھ کر ہنس پڑے اور کہا کہ آؤ صاحب اب ہم آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ ہم سے پڑھیں اور ہم ضرور پڑھائیں گے.اور

Page 68

تاریخ احمدیت جلد ۳ 43 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی تحمل از خلافت ) یہ پہلی مثال نہیں قبل ازیں لکھا جا چکا ہے کہ آپ کے جذب نے حکیم صاحب پر وہ اثر کیا ہوا تھا کہ اب وہ آپ کو اپنا پیرو مرشد تسلیم کرتے تھے اور مفتی صاحب جیسے بڑے آدمی منت سے کہتے تھے کہ ہم آپ کے پڑھانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں.اس سے اس حدیث کی بھی کیسی وقعت اور شان بڑھ جاتی ہے کہ طالب علم کے لئے فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں.رامپور ہی کا واقعہ ہے کہ طلباء میں یہ سوال اٹھا کہ اہل کمال اپنا کمال کسی کو بتاتے ہیں یا نہیں ؟ آپ کا دعوی تھا کہ اہل کمال تو اپنا کمال بتانے اور سکھانے میں دریغ نہیں کرتے مگر کوئی سیکھنے والا ہی نہیں ہے مگر دو سرے اس کے مخالف تھے.آپ نے کہا کہ یوں اس جھگڑے کا تصفیہ نا ممکن ہے اول تم کوئی اہل کمال پیش کرو اس کے پاس جانے پر فیصلہ ہو جائے گا.انہوں نے ایک صاحب کمال امیر شاہ عامل کا نام لیا.غرض سب طلباء عامل موصوف کے باغیچہ میں گئے.عامل صاحب ایک تخت پر لیٹے ہوئے تھے اور سامنے ایک چھوٹی سی چٹائی بچھی ہوئی تھی.بڑے طلباء تو اس چٹائی پر بیٹھ گئے اور باقی زمین پر اور آپ دیوار کے پاس کھڑے رہے.عامل صاحب نے آپ کو کھڑا دیکھ کر اپنے پاس بٹھا لیا.اور آنے کا سبب پوچھا.سب حال بیان کیا گیا.انہوں نے سن کر فرمایا کہ یہ صاحب (یعنی حضرت مولانا نور الدین) حق بجانب ہیں.پھر اٹھنے لگے تو عامل صاحب نے کہا.ذرا ٹھہرو اور وہ اندر چلے گئے.اور ایک بہت بڑی منحنیم قلمی کتاب اٹھالائے اور فرمایا کہ یہ میری ساری عمر کی اندوختہ ہے اور اس میں عملیات کا خزانہ ہے اور میں بڑی خوشی سے آپ کو دیتا ہوں.آپ نے کہا کہ میں طالب علم ہوں ابھی تعلیم پاتا ہوں مجھے فرصت نہیں اور نہ مجھے اس کی ضرورت ہے وہ سن کر چشم پر آب ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کو دیتے ہیں اور آپ لیتے نہیں اور یہ لوگ ( مراد طلباء ) مانگتے ہیں اور ہم ان کو دیتے نہیں.چلتے ہوئے شاہ صاحب موصوف نے آپ کو ایک عجیب نکتہ بتایا اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص آپ کے پاس کسی غرض کے لئے آئے تو آپ درگاہ ایزدی میں دعا کریں کہ الہی میں نے اس کو نہیں بلایا.تو نے خود بھیجا ہے جس کام کے لئے وہ آیا ہے اگر آپ کے ہاں منظور نہیں تو جس گناہ کے لئے میرے لئے یہ سامان ذلت بھیجا گیا ہے میں اس سے تو بہ کرتا ہوں.اس دعا کے بعد اگر وہ شخص اصرار کرے تو آپ دوبارہ دعا مانگ کر کچھ لکھ دیا کریں.ITO سفر میرٹھ و دہلی حضرت مولوی صاحب دو برس تک حکیم صاحب کے پاس رہے اور ہمشکل قانون بو علی سینا کا عملی حصہ ختم کیا.اور سند حاصل کرنے کے بعد ان سے اجازت چاہی کہ عربی کی تکمیل اور حدیث پڑھنے کے لئے جاتا ہے انہوں نے میرٹھ اور دہلی جانے کا مشورہ دیا.اور نہایت محبت سے فرمایا کہ ہم معقول خرچ ان دونوں شہروں میں تمہیں بھیجا کریں گے.

Page 69

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 44 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) لر جب آپ میرٹھ پہنچے تو حافظ احمد علی صاحب سہارنپوری کلکتہ کو چلے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی مجاہدین کو روپیہ پہنچانے کے مقدمہ میں ماخوذ تھے.یہ ۶۵.۱۸۶۴ء کا واقعہ ہے.اس طرح ان دونوں اصحاب سے ایک حرفی تک پڑھنے کا موقعہ نہ مل سکا.اور گو ایک دوسرے وقت میں آپ نے حافظ صاحب سے پھر بھی بہت کچھ استفادہ کیا مگر مولوی نذیر حسین صاحب سے تو بالکل کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول خود فرمایا کرتے تھے.” میں نے دہلی میں نذیر حسین سے پڑھنے کا کئی بار قصد کیا مگر موقعہ نہ نکلا آخر اس کی حکمت مجھ پر اب کھلی کہ وہ مکذب رسول نکلا.ورنہ دہلی کے محمد اسماعیل شاہ عبد الغنی سے میں نے بہت فائدے اٹھائے ہیں.بھوپال میں پہلی مرتبہ آمد میرٹھ اور دہلی میں جب آپ کو حصول تعلیم میں کامیابی نہ ہوئی تو آپ ریاست بھوپال کی طرف روانہ ہو گئے گوالیار پہنچے تو حضرت [ITA] سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مخلصین میں سے ایک بزرگ سے ملاقات ہو گئی ان کی صحبت سے آپ کو ایسی خوشی ہوئی کہ وہیں رو پڑے انہوں نے دوران ملاقات میں خواجہ محمد وزیر وزیر کا یہ قطعہ پڑھا جس نے آپ کے دل پر بڑا گہرا اثر کیا نہ کر عوض مرے عصیان و جرم بے حد کا کہ تیری ذات غفور الرحیم کہتے ہیں کہیں نہ کہہ دے عدد دیکھ کر مجھے غمگیں یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں گوالیار میں چند دن قیام کے بعد آپ ایک ساتھی محمود نامی افغان کے ساتھ آگے روانہ ہوئے.یہ سفر نہایت کٹھن تھا.پاؤں زخمی اور ماندہ ہو گئے تھک کر ایک چھاؤنی گونہ نامی میں شب باش ہوئے ایک مسجد ویران پڑی ہوئی تھی.وہاں ٹھہرے بہت حصہ رات کا گذرا تھا کہ ایک آدمی نماز پڑھنے کے لئے آیا.آپ نے فرمایا کہ آپ بڑی دیر سے نماز پڑھتے ہیں اس نے ذکر کیا کہ یہ مسجد بڑی آباد تھی اور پانچ وقت یہاں باجماعت نماز ہوتی تھی یہاں رفع یدین اور آمین بالجھر کا جھگڑا ہوا اور قریب تھا کہ لوگ کٹ کر ڈھیر ہو جائیں آخر کو ایک امیر نے کہہ دیا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کریں.مسجد میں کوئی نماز نہ پڑھے.ورنہ ان مولویوں کے کہنے سے سب ہلاک ہو جاؤ گے اس پر سب نے مسجد میں آنا چھوڑ دیا.اس لئے جب سب لوگ رات کو سو جاتے ہیں تو میں مسجد میں آکر نماز پڑھتا ہوں آپ نے کہا کہ کل تم تمام لوگوں کو خبر کر دو کہ ایک شخص آیا ہے اور وعظ کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس شخص نے تمام لوگوں کو آگاہ کر دیا اور لوگ جمع ہو گئے.آپ نے اتفاق پر وعظ فرمایا اور کہا کہ ان چھوٹے چھوٹے اختلافوں کی وجہ سے اتنے بڑے عظیم الشان محکم خدا یعنی نماز با جماعت کو ترک کر دینا سخت غلطی ہے.خدا کے فضل سے آپ کے وعظ کا ایسا عمدہ اثر ہوا کہ مسجد پھر آباد ہو گئی اور لوگ

Page 70

تاریخ احمدیت جلد ۳ 45 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی (تحمل از خلافت) باجماعت نمازیں پڑھنے لگے.گو نہ چھاؤنی سے آگے چل کر تھوڑی دور رستے میں ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا.رستے میں ایک زمیندار نے کہا کہ اس سڑک پر آپ لوگ نہ جائیں مری یعنی ہیضہ پڑا ہوا ہے.مگر محمود خان نے اسی طرف سے جانے پر اصرار کیا.گو آپ نے رو کا مگر نہ رکا.الغرض وہ ہیضہ میں گرفتار ہو کر دو تین روز میں مرگیا.اور اس کے دفن کرنے میں آپ کو بڑی دقت ہوئی.کافی روپیہ دے کر اس کی قبر کے لئے جگہ خریدی اور اس کو خود ہی تجہیز و تکفین کر کے دفن کیا.اور باوجود منت و سماجت کے کسی نے اس کے دفن کرنے میں مدد نہ دی.تین چار روز تک کچھ کھانے پینے کو بھی نہ ملا.آخران میں سے ایک آدمی کا اکلوتا بیٹا بتلائے ہیضہ ہوا اور وہ دو ڑا ہوا آپ کے پاس آیا کہ چلو میرے ہاں روٹی کھاؤ اور میرے لڑکے کو دیکھو.آپ اس کے گھر گئے اور اس کے لڑکے کا علاج کیا اور وہ خدا کے فضل سے بچ گیا.پھر تو تمام شہر میں آپ کی طبابت کی شہرت ہو گئی اور لوگ دوڑے دوڑے آئے یہ حال دیکھ کر اس نمبردار نے جس نے قبر کے لئے روپیہ لے لیا تھا.منت سماجت کر کے روپیہ واپس کر دیا بلکہ وعدہ کیا کہ ہم آپ کو اپنے خرچ سے بھوپال تک پہنچادیتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا د عدہ ایفا کیا.رستے میں آپ کو کنگن ولی کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا.جو شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے بزرگان سے تھے.ان کا نام نامی حضرت شاہ وجیہہ الدین تھا اور اس جگہ کو جہاں ان کا مزار ہے گنج شہید ان کہتے ہیں.جب آپ بھوپال میں پہنچے تو شہر کے باہر ایک سرائے میں اپنا اسباب اور روپیہ رکھ دیا.اور اپنے ہمراہ صرف ایک روپیہ لے کر چل دیئے.شہر کے اندر بلا کسی خاص اجازت کے جانے نہیں دیتے تھے آپ اندر شہر کے داخل ہوئے آپ کو بھوک لگی ہوئی تھی باد رچی کی دکان پر گئے اور آٹھ آنے میں ایک وقت کا کھانا ملا.کھانا کھا کر شہر میں گشت لگانے گئے تو اٹھنی جو باقی تھی وہ کہیں گر گئی جب سرائے میں گئے تو دیکھا کہ اسباب میں روپیہ ندارد.کوئی لے گیا یا سرائے والے نے چرا لیا.غرض وہاں سے اسباب اٹھا کر شہر میں لے گئے اور طباخی کی دکان پر کتابیں وغیرہ رکھ کر شہر میں پھرتے رہے اور ایک مسجد میں جو باجی کی مسجد سے موسوم ہے ٹھر گئے.وہاں کوئی واقفیت نہ تھی.اور نہ پاس رد پیہ رہا تھا اس لئے کئی روز تک فاقہ کشی کرنی پڑی.اور بالا خر فاقہ سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ مارے بھوک کے آپ کی جان قریب بہ ہلاکت ہو گئی.آپ مسجد مذکور کے چبوترہ پر لیٹے ہوئے تھے کہ ناگہاں اللہ تعالٰی نے منشی جمال الدین صاحب مدار لہام ریاست بھوپال کو وہاں بھیج دیا منشی صاحب نے نماز سے فارغ ہو کر امام مسجد کو آپ کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجا.آپ نے امام صاحب کو کچھ روکھا سا جواب دیا.امام صاحب اپنا سا منہ لے کر منشی صاحب کے پاس گئے معلوم نہیں امام صاحب نے کیا جا کر کہا.خیر منشی

Page 71

یت- جلد ۳ 46 خلیفتہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) صاحب خود ہی معہ اپنے ہمراہیوں کے آپ کے پاس پہنچے.آپ مارے ضعف کے ہل جل بھی نہیں سکتے تھے اسی طرح ہی لیٹے رہے.منشی صاحب نے پوچھا کہ آپ کچھ پڑھے ہوئے ہیں آپ نے کہا ہاں پڑھا ہوا ہوں پھر انہوں نے کہا آپ کیا علوم جانتے ہیں.آپ نے کہا سب ہی کچھ جانتا ہوں.اس پر منشی صاحب نے اپنی نبض دکھلائی آپ نے نبض دیکھ کر کہا کہ بد ہضمی ہے نسخہ طلب کیا آپ نے قیمتی نسخہ لکھ دیا.انہوں نے کہا.اگر فائدہ نہ کرے تو کیا ہو گا.آپ نے بڑی سختی سے کچھ جواب دے دیا.پھر انہوں نے سوال کیا کہ آپ علم مساحت جانتے ہیں آپ نے کہا ہاں جانتا ہوں.سامنے ایک بڑا تالاب تھا انہوں نے کہا یہاں بیٹھ کر آپ اس کی مساحت کر سکتے ہیں آپ نے کہا ہاں.غرض آپ نے ایک قاعدہ بتایا اور وہ مطمئن ہو کر چلے گئے اور رستے میں سے کہلا بھیجا کہ ہم آپ کی ضیافت کرتے ہیں آپ اٹھ بیٹھ تو سکتے نہیں تھے آپ نے جواب دے دیا کہ ہمیں ضیافت کی ضرورت نہیں.پھر اس کے بعد نشی صاحب موصوف نے آپ کے پاس دوبارہ آدمی بھیجا کہ مسنون دعوت ہے آپ نے سنت پر عمل کرنے کے لئے منظور کر لیا غرض ایک سپاہی کھانے کے وقت بلانے آیا.آپ نے فرمایا میں چل نہیں سکتا.اس آدمی نے آپ کو اپنی پشت پر اٹھالیا اور منشی صاحب کے مکان پر لے گیا.دستر خوان پر کھانا چنا ہوا تھا جب آپ منشی صاحب کے قریب بیٹھے تو غور کے بعد پلاؤ کی رکابی سے ایک لقمہ اٹھایا مگر بوجہ ضعف ڈرے کہ کہیں حلق میں لقمہ پھنس نہ جائے اس واسطہ اسے پھینک دیا.اور اس کی بجائے تھوڑا سا مرغ کا شور با پی لیا.جس سے آپ کی جان میں جان آئی اور آنکھیں روشن ہو گئیں کھانے سے فراغت کے بعد منشی صاحب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ اور یہاں کس غرض سے آئے ہیں.ان دنوں آپ کا اردو لب ولہجہ لکھنوی طرز پر تھا.آپ نے فرمایا کہ میں ایک پنجابی ہوں یہاں پڑھنے کے ارادہ پر آیا ہوں یہ بات بہت مفید ثابت ہوئی منشی صاحب کو یہ گمان تھا کہ یہ کوئی آسودہ حال مگر صدمہ رسیدہ ہے پڑھنے کا یونہی نام لیتا ہے ورنہ یہ خود عالم ہے.چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ بہت بہتر آپ ہمارے ہاں رہا کریں اور ہمارے ہی ساتھ کھانا کھایا کریں.اور جہاں آپ پڑھیں گے ہم آپ کو مدد دیں گے غرض منشی صاحب نے توشہ خانہ میں رہنے کو ایک کمرہ دے دیا اور مستم کتب خانہ کو کہہ دیا کہ جو کتاب آپ پڑھنا چاہیں آپ کو مت روکیں اور دوکان سے بھی اسباب منگوالیا گیا.اس کے بعد آپ نے حضرت مولوی عبد القیوم صاحب سے جو ایک باخدا بزرگ و عالم تھے صحیح بخاری اور ہدایہ پڑھنا شروع کیا اور ایک مدت تک سبق جاری رکھا.منشی جمال الدین صاحب گو مدار الہام تھے اور اس ریاست میں سب سے بڑے جلیل القدر متعین تھے تاہم ان کو قرآن کریم کی اشاعت کا بے حد شوق تھا.آپ بعد نماز مغرب قرآن منصب و

Page 72

تاریخ احمدیت جلد ۳ 47 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) شریف کا لوگوں کو لفظی ترجمہ پڑھایا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفتہ الصحیح اول کو بھی وہاں اس درس میں شریک ہونے کا اتفاق ہو گیا.اس وقت منشی صاحب موصوف اس آیت کا ترجمہ کر رہے تھے و اذا لقوا الذين امنوا قالوا امنا و إذا خلا بعضهم الى بعض (بقره ع۹) آپ نے کہا کہ کیا اجازت ہے کہ ہم لوگ کچھ سوال بھی کریں.منشی صاحب نے کہا.بڑی خوشی ہے.آپ نے فرمایا یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور یہاں خدا تعالیٰ نے نرم لفظ بولا ہے یعنی بعضهم الى بعض.اور اس سورۃ کے ابتداء میں جہاں انہیں منافقین کا ذکر ہے وہاں بڑا تیز لفظ استعمال ہوا ہے یعنی یہ کہا گیا ہے اذا خلوا الى شيطينهم (بقره ع ۲) اس نرمی اور اس سختی کی کیا وجہ ہے منشی صاحب نے فرمایا.ہمیں تو نہیں آتا.کیا آپ جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق رہتے تھے.ایک اہل کتاب اور ایک مشرک.اہل کتاب منافق کے لئے نرم لفظ استعمال ہوا ہے اور مشرک منافق کے لئے سخت.منشی صاحب اس نکتہ کو سن کر اس قدر مسرور ہوئے کہ اس وقت اپنی مسند سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جہاں آپ تھے وہاں آگئے اور آپ کو فرمایا کہ آپ مسند پر جا بیٹھیں.اب آپ ہی قرآن پڑھایا کریں اور ہم آپ سے قرآن سیکھیں گے.اس طرح ایک ہی نکتہ پر آپ قرآن مجید کے مدرس و مفسر بن گئے.آپ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے معارف اور نکات ایسے سکھلا دیئے تھے کہ جب آپ بیان فرماتے تو اس سے لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچا اور منشی صاحب کو آپ کا قرآن پڑھانا ایسا پسند آیا کہ آپ سے بے حد محبت کرنے لگے.یہاں تک کہ آپ کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے.ایک دفعہ منشی صاحب کی مجلس میں ایک اخلاقی مسئلہ پیش ہوا.آپ بھی وہاں موجود تھے قاضی شہر نے شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی کی نسبت کوئی سخت لفظ کہا.جس کو آپ برداشت نہ کر سکے اور آپ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور کھانے کے وقت منشی صاحب کے دسترخوان پر بھی نہ آئے.منشی صاحب نے بھی ان کے بغیر کھانا نہ کھایا.دوسرے دن منشی صاحب دریافت کر کے خود اس جگہ تشریف لے گئے جہاں آپ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے داہنی طرف بیٹھ گئے جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا.اخاہ ! آپ نے تو سلام کی ابتداء ہی کر دی.اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا.اور بگھی میں سوار کر کے لے چلے اور فرمانے لگے کہ آپ نے تو ہم کو کل سے بھوکا رکھا ہے.آپ نے فرمایا آپ کی مجلس میں حضرت شاہ اسحاق صاحب کی توہین ہوتی ہے اور میں شاہ صاحب کا عاشق ہوں میں ان کی تو ہین گوارا نہیں کر سکتا.منشی صاحب نے فرمایا کہ ہم تو شاہ صاحب کے شاگر داور سخت معتقد ہیں انہوں نے ہی تو ہم کو شیعہ سے سنی بنایا تھا.اس وقت ایک سرکاری معالمہ تھا ایسی باتوں کی طرف زیادہ التفات نہیں چاہئے.یہ کہہ کر بگھی مکان کی طرف لے آئے اور کھانا پیش کیا اور دوبارہ کہا

Page 73

تاریخ احمدیت جلد ۳ 48 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) کہ آپ ایسی باتوں کا زیادہ خیال نہ کیا کریں.منشی صاحب موصوف کو قرآن سے بے مثال محبت تھی اور و قاف للقرآن ہونے میں ان کی نظیر نہ تھی ہمیشہ نابینا مرد و عورت کی تلاش میں رہتے اور ان کی شادیوں کے سارے اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرتے ان کا ایک محلہ بھی آباد کیا.ان کے بچوں کے لئے اسی محلہ میں ایک مدرسہ بھی جاری کر رکھا تھا ایک روز ایک لڑکے کو (جس کے والدین نابینا تھے) دیکھ کر ان پر وجد کی سی حالت طاری ہو گئی اور حضرت مولوی صاحب سے کہنے لگے کہ دیکھو ان کی دنوں آنکھیں کیسی اچھی ہیں ؟ وہاں دور دراز علاقوں کے اندھے جمع تھے حتی کہ ایک اندھا سیالکوٹ کا بھی تھا.گویا یہ دنیا میں اپنی طرز کا واحد اندھوں کا عجائب گھر تھا جسے دیکھ دیکھ کر ان کادل باغ باغ ہوجاتا اور روح فرط مسرت سے جھوم جاتی تھی !! حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ امسیح اول نے بھوپال کے مفتی صاحب سے ایک حدیث مسلسل بھی سنی جو حضرموت کے ایک بزرگ محمد بن ناصر حضرمی نے ان تک پہنچائی تھی.حضرت مولوی صاحب کی دو نہایت عمدہ صدریاں تھیں جن کے پہننے کی ہمیشہ آپ کو عادت تھی ان میں سے ایک چوری ہو گئی.آپ نے اس یقین سے کہ طالب علمی میں یہ ایک مصیبت ہے اور مصیبت میں صبر کرنے والے کو جناب الہی سے نعم البدل عطا ہو تا ہے دوسری صدری بھی اس کے شکریہ میں دے دی.تھوڑے دنوں بعد ایک امیر کبیر لڑکا سوزاک میں گرفتار ہو گیا اس نے ایک شخص ( پیر ابو احمد مجددی) سے کہا کہ کوئی غیر معروف سا طبیب لاؤ جو بنی ہوئی دوا کی بجائے سل کی دو ابتلا دے تا اس کے بنانے میں عام نوکروں کو آگاہی نہ کرنی پڑے.پیر ابو احمد مجد دی آپ کو وہاں لے گئے.آپ نے حقیقت حال دریافت کر کے کہا کہ کیلے کی جڑ کا ایک چھٹانک پانی صاف کریں اور اس میں وہ قلمی شورہ ملا کر جو آپ کے دالان میں بارود کے لئے رکھا ہے کئی دفعہ پئیں اور شام تک مجھے اطلاع دیں.آپ یہ کہہ کر چلے آئے.قدرت الہی سے اسے شام تک کافی تخفیف ہو گئی.اس نے آپ کو ایک گران بها خلعت اور استار و پیہ دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا.اب آپ نے حرمین کا ارادہ کر لیا.جب بھوپال سے رخصت ہونے لگے تو مولوی عبد القیوم صاحب سے آخری ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.سینکڑوں آدمی مشایعت کی غرض سے آپ کے ہمراہ تھے جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے.آپ نے مولوی عبد القیوم صاحب سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتا ئیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں.فرمایا کہ نہ خدابنتانہ رسول - آپ نے عرض کیا کہ حضرت میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں غالبا یہ بھی نہ سمجھے ہوں کے سبھی نے کہا کہ ہم بھی نہیں سمجھے مولوی عبد القیوم صاحب نے پوچھا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو.آپ

Page 74

تاریخ احمد بیت 49 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( محمل از خلافت) کی زبان سے بے ساختہ نکلا خدا تعالیٰ کی ایک صفت فعال لما یرید ہے وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم کوئی خدا ہو.اسی طرح رسول کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جنم میں جائیں گے اسلئے وہ سخت رنجیدہ ہو تا ہے تمہار ا فتویٰ کوئی مانے یا نہ مانے وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے لہذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہئے.

Page 75

تاریخ احمد ید - جلد ۳ 50 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) ㅓ حواشی باب تعارف " شائع کرده حاجی کریم بخش شاه دلی تاجران کتب انار کلی لاہور صفحه ۴۹۳ ۲ صفحه ۱۵۵-۱۵۹ -A.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا فاہیان نے اپنا سفر ۳۹۹ء میں شروع کیا اور پندرہ برس بعد چین واپس پہنچ کراپنا سفر نامہ مرتب کیا تقدیم تاریخ ہند از جمیل الرحمن ایم اے) صفحہ ۱۳ سفرنامے کا زمانہ ۶۶۳۹ تا ۶۶۵ (ایضاً صفحه ۱۶) شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے بھیرہ کے تاریخی حالات " کے عنوان سے ایک مضمون امروز میں شائع کیا تھا جس میں بہت اہم معلومات جمع کر دی تھیں.ہم نے بھی اس سے کافی استفادہ کیا ہے مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو.پنجاب ڈسٹرکٹ گریم (جملم) ۱۹۰۴ء صفحه ۲۶۳-۲۹۱ تا ۲۹۳ ، پنجاب ڈسٹرکٹ گزینی ( جملم) ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۹۱- و پنجاب ڈسٹرکٹ گریٹر ( مسلم) ۸۴-۲۱۸۸۳ صفحه 110- (یہ سب پنجاب پبلک لائبریری لاہور (حصہ (انگریزی) میں موجود ہیں.Archaeolgical Survey Report 40 35 Voltiv انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ " بھیرہ "- تعارف شائع کردہ حاجی کریم بخش شاه دلی تاجران کتب انار کلی لاہور صفحہ ۴۹۳ تاریخ گورو خالصہ حصہ سوم صفحہ ۱۲۲۴ از بھائی کیان سنگھ ) مرقاۃ الیقین صفحہ ۵۵-۱۳۵۸ھ کے مطابق سن عیسوی ۱۸۴۲ء اور ۱۸۹۸ سمت کے مطابق ۱۸۴۱ ء کا سال بنتا ہے.آپ کی پیدائش کا یاد گیری کمرہ قریب قریب اپنی اصلی صورت میں اب بھی مسجد نور بھیرہ کی عمارت میں غربی جانب موجود ہے.سراج الاخبار ۱۸۴۱ء میں جاری ہوا " بہادر شاہ ظفر اور ان کا دور " ( از سید رئیس احمد جعفری ندوی) صفحه ۴۷۹ سراج الاختبار ۱۸۴۱ء میں جاری ہو ار بہادر شاہ ظفر اور ان کا دور " ( از سید رئیس احمد جعفری ندوی) صفحه ۴۷۸ ۱۲ عجیب بات ہے " نور بخت" کے حروف ابجد ۱۳۵۸ بنتے ہیں جو حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ المسیح اول کی پیدائش کا سال ہے.ملاحظہ ہو نسب نامہ مشمولہ کتاب ہذا ۱۳ در ۵ / اکتوبر ۱۹۱ء صفحہ 1 و مرقاة الیقین ۱۵- پاک وہند کے ایک مورخ مولانا محمد الدین صاحب فوق لکھتے ہیں: اعوان اور ان کی اکثر شاخوں اور اعوان مصنفوں کو اس بات پر قطعی اتفاق ہے کہ وہ حضرت علی کے فرزند حضرت عباس علمدار کی اولاد سے ہیں جو معرکہ کربلا میں شہید ہو گئے تھے ان کے فرزند عبداللہ یا عبید اللہ (وفات ۱۳۰ھ بعد خلیفہ ہشام بن عبد الملک اموی مدفن مدینہ) کی نانویں پشت میں عون بن قاسم لیلیٰ سے اعوان کا شجرہ ملتا ہے اور چونکہ اعوانوں کا نسب حضرت عباس علمدار تک جاتا ہے اس لئے یہ عباسی بھی ہیں اور حضرت عباس علمدار چونکہ حضرت علی کے فرزند تھے.اس لئے یہ علوی بھی ہیں.علوی اس کو کہتے ہیں جو باپ کی طرف سے علی المرتنی تک جائے.اور جس کا مادری سلسلہ حضرت فاطمتہ الزہرا بنت رسول کریم کے سوا حضرت علی کی کسی اور زوجہ تک پہنچتا ہو.جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حسن و حسین اور محسن تھے جس گروہ اور قبیلہ کا نام سادات ہے وہ حسن اور حسین کی اولاد سے ہیں.اور جو گروہ علوی کہلاتا ہے وہ حضرت علی کی دوسری بیویوں کے بطن ہے حضرت عباس علمدار اور ان کے باقی تین بھائیوں جعفر عبداللہ عثمان کی والدہ ام البستین بنت حرام وحید یہ تھیں اس لئے ان کی اولاد سادات کی بجائے علوی کہلاتی ہے اور اسی طرح حضرت علی کے دوسرے فرزندوں محمد بن حنفیہ وغیرہ کی اولاد جن کی مائیں قریش کے دوسرے قبیلوں سے تمھیں علوی قریشی مشہور ہے.مصنف باب الاعوان صفحه ۱۲۶ پر میزان قطبی و میزان ہاشمی کے حوالہ تے لکھنا ہے، قاسم لیلی کا اصل نام لیلی تا لقب قاسم وطن

Page 76

51 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) تاریخ احمدیت.جلد ۳ بغداد نہ ہب شیعہ ولادت کا سال ۳۸۵ اور وفات کا سال ۵۴۷۳ تھا.پھر صفحہ ۱۲۷-۱۲۸ پر لکھا ہے.ان کے فرزند کا نام عمون تھا اور لقب قطب شاہ ان کی پیدائش ۴۱۹ جہ میں بغداد میں ہوئی اپنے آباؤ اجداد کی طرح یہ بھی شیعہ تھے.حضرت عبد القادر جیلانی کی خالہ بی بی عائشہ ان کے گھر تھیں.اس قرابت قریبیہ کی وجہ سے حضرت شیخ کے ہاں اکثر جایا کرتے تھے.مذہب شیعہ انہی کی تبلیغ و تحریک سے ترک کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کی.اور صاحب الشریعت و الطریقت اور منصب خلافت سے مشرف ہو کر ہندوستان آئے.ہزار ہا لوگ آپ کے موعظہ حسنہ اور اخلاق فاضلہ سے مسلمان ہو گئے.ان فیوض و برکات کی وجہ سے قطب شاہ کے نام سے موسوم ہوئے چونکہ اصل نام عون تھا اس لئے ان کی اولاد عون قطب شاہی یا اعوان قطب شاہی کہلائی عمر کے آخری حصہ میں بغد اور اپس گئے اور وہیں ۵۵۶ء میں عمر ۱۳۳ سال وفات پاگئے.اور بغداد کے مقبرہ قریش میں دفن ہوئے".تاریخ اقوام پونچھ صفحه ۲۸۰-۲۸۲ناشران ظفر برادر ز تاجران کتب لاہو رو سرینگر کشمیر) ہمیں خدا کی کتاب کافی ہے (بخاری شریف جلد ۳ صفحه (۷) - قاموس المشاہیر جلد دوم صفحہ اے (مرتبه نظامی بدایونی مطبوعه نظامی پریس بدایوں ظہور احمد موعود صفحه ۱۵۴ از قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی -۱۸ قاموس المشاہیر جلد دوم صفحہ اے مرتبہ نظامی بدایونی مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ظہور احمد موعود صفحه ۱۵۴ از قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی) 19 قاموس المشاہیر ظہور احمد موعود ۲۰ اردو ترجمہ " سفینه الاولیاء " صفحہ ۱۲۱-۱۲۲- " قاموس المشاہیر جلد اول صفحه ۱۳ خزينته الاصفیاء (فارسی) صفحه ۲۳۱ نیا تذكرة الاولیاء از سید رئیس احمد جعفری صفحه ۳۶-۴۱ ( ترجمه) تذکرة الاولیاء از حضرت فرید الدین عطار مترجم عبد الرحمن شوق صفحه ۱۰۴-۸۹ ۲۱ اردو ترجمه مفیبته الاولیاء صفحه ۱۵۵ ۲۲- تذ کرہ اولیائے ہند مرزا محمد اختر صفحہ ۵۸ " تاریخ احمدیه " از قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم فاروقی صفحه ۷ ۸ و ظهور احمد موعود " صفحه ۱۵۵ ۲- ظهور احمد موعود صفحه ۱۵۵ -۲۴ مراة الانساب صفحه ۴۰ " نزلته الاصفیا " صفحه ۲۸۸ ۲۵- ا حکم ۱۴ رو نمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۴ کالم تذکرہ علمائے ہند از مرزا اختر د لوی صفحه ۵۸ مراة الانساب صفحه ۴۰ " آب کوثر شیخ اکرام بی.اے صفحہ ۲۴۴ " ظہور احمد موعود " صفحه ۱۵۵ ۲۷.تذکرہ علمائے ہند ( از مرزا اختر دہلوی) صفحہ ۵۸ ۲۸ ظهور احمد موعود از قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی ہوتی مردان صفحہ ۱۵۷ ۲۹ در ۱۹۱۱ء نمبر 1 صفحه ۰۴ ۳۰- الحکم ۱۴ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ کالم ۱ ۳۱ بدر ۱۸ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۱۰۵ - الحکم ۷/۱۴ اد ممبر ۱۹۱۸ء صفحه ۳ کالم - ۳۲ مرقاۃ الیقین صفحه ۹۰ طبع دوم) ۳۳- مرقاۃ الیقین صفحه ۱۷۲( طبع دوم) ۳۴ کلام امیر صفحه ۴ ۳۵- بدر / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم - مرقاۃ الیقین صفحه ۳۰۱۷۲ ۱۷۴۰۱۷ ۳۷- الحکم ۷/۱۴ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحه ۵

Page 77

تاریخ احمدیت جلد ۳ 52 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی (تحمل از خلافت) ۳۸- وصلی در باہم پیوند کئے ہوئے کاغذ کا ورق جس پر خوشنویس لوگ قطعہ وغیرہ کی مشق کرتے ہیں.مشق کرنے کا موٹا کاغذ - تاسی کا شعر ہے لگ گئی پیٹھ مری ہجر میں یوں بستر سے جس طرح وصلی میں کاغذ سے ہو پیوند (فرہنگ آصفیہ) بدر ۲۷/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۳.پدر / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۷ کالم ۴۱- بدر / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ کے کالم ۴۲ پادری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸ کالم ۳ ۴۳- مرقاة الیقین صفحه ۷۴-۱۷۵ ۴۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۳ ۴۵- الحکم ۲۴ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۶ کالم ۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۶- عسل مصفی از مرز اخد ابخش صاحب حصہ دوم صفحه ۶۷۵ ، یہ جوبلی شہری مسجد کے آئے دائیں طرف ایک تھی میں واقع تھی علی محمد حین صاحب قریشی موجد مطرح نبی کسی زمانہ میں ۴۸- اختر شاہنشای صفحه ۱۹- ۴۹ مرقاة الیقین صفحه ۵۵ ۵۰ تاریخ لاہور صفحه ۴۵ ۵۱ ملاحظہ ہو اخبار کوه نور ۲۹/ جنوری ۱۸۵۶ء صفحه ۱۸۰ اصل پرچہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے) ۵۲ ضلع جہلم میں ایک گاؤں جگہ ہے جو کسی زمانہ میں بڑا علمی مرکز تھا یہاں ایک خاندان آباد ہے جو سالہا سال سے حافظ چلا آتا ہے مولوی صاحب اسی خاندان میں سے تھے آپ نے چودہ سال تک دہلی میں تحصیل علم کیا اور ظاہری علوم حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ محمد اسحاق سے حاصل کئے اور بیعت شاہ غلام علی شاہ سے کی.چھ مہینے بگہ میں اور چھ مہینے لاہور میں درس دیتے.کہتے ہیں کہ دو ہزار علماء فضلاء نے آپ سے حدیث کی سند حاصل کی.اپنی زندگی کے آخری ایام بھیرہ میں گزارے اور جامع مسجد میں دفن ہوئے.ولادت ۱۸۰۲ و روفات ۱۸۷۰ء ( نقوش لاہور نمبر صفحه ۵۳۳) (ایضاً" برق آسمانی " حاشیه صفحه ۶۰ از ظہور احمد صاحب بگوی) ان کی لکھائی ہوئی بعض یادداشتیں حافظ احمد الدین صاحب پر اچہ کی بیاض میں ہیں جو مولف ہذا کے پاس موجود ہے.۵۳.ہاری اور حق تو ہی ہے تیرے سوا کوئی ہاری نہیں (مرقاۃ القین صفحہ ۱۷۳) و بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صلحہ ۲ کالم اقلمی بیاض حضرت خلیفتہ صحیح اول ۵۴ مرقاۃ الیقین میں حضرت خلیفہ اول نے یہ لکھا ہے کہ " میانی میں بھی ہمارا ایک گھر تھا " (صفحہ ۲۰۷).یہ گھر حکیم غلام احمد صاحب ہی کا تھا.میانی کا قصبہ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر واقع ہے حضرت خلیفہ اول جب پنڈ دادنخان میں ہیڈ ماسٹر تھے تو اسی رستہ سے دریا عبور کر کے جایا کرتے تھے.میانی کا قدیم نام مشمس آباد ہے.گو وہ سیلاب کی نذر ہو گیا جسے شاہجہان کے خسر آصف جاونے دوبارہ بنوایا.مگر نور الدین ( جنرل احمد شاہ) نے ۷۵۴ او میں اسے بھی تباہ کر دیا.اس کے بعد اس مقام پر موجودہ قصبہ آباد ہوا.جو لون میانی "کہلاتا ہے.پنجاب ڈسٹرکٹ گزیر ضلع جہلم صفحہ ۲۶۳ ۵۵- کلام امیر صفحه ۵۸ ۵۲ بیاض قلمی حضرت خلیفہ اول.آپ کے قلم سے تیسری بیٹی کانام اللہ ہی کا بھی پتہ چلتا ہے مگر مرقاۃ میں صرف دو بیٹیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے اور اس کے مطابق شجرہ نسب بنایا گیا ہے.۵۷- مرقاۃ الیقین صفحہ ۷۵ اسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے ہر بھائی کی غالبا پانچ پانچ چھ چھ تک اولاد تھی.مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۰۸ پر آپ کے ایک بھتیجا شاہسوار نامی کا ذکر ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ آپ کے کس بھائی کا بیٹا تھا.

Page 78

تاریخ احمدیت جلد ۳۰ 53 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( حمل از خلافت) ۵۸- تفسیر کبیر از حضرت المصلح الموعود سورة القريش صفحہ ۲۴۲- الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۰ء صفحہ ۳ کالم - اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۲۰ - قاضی ظہور الدین صاحب اکمل کی روایت ہے کہ یہ بہن بھی بلاخر آپ کے زمانہ میں بیعت کر کے احمدی ہو گئی تھیں.اور قادیان میں ہی فوت ہو ئیں.مگر دوسرے رشتہ دار ان کی نعش اپنے وطن میں لے گئے تھے.ان کا ایک پر لطف واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے یہ لکھا ہے کہ : حضرت خلیفہ اول ان کی ایک بہن تھیں جو کسی پیر کی مرید تھیں.ایک دفعہ وہ آپ سے ملنے کے لئے آئیں.تو آپ نے اس سے کہا.بہن تمہیں نماز کی طرف توجہ نہیں تم آخر خدا کو کیا جواب دو گی؟ اس نے کہا میں نے جس پیر کی بیعت کی ہوئی ہے اس نے مجھے کہہ دیا ہے کہ چونکہ تم نے میری بیعت کرتی ہے.اس لئے اب تمہیں سب کچھ معاف ہے.آپ نے اپنی بہن سے کہا.بہن ! اپنے پیر سے پوچھنا کہ خدا کا حکم کس طرح معاف ہو گیا.نماز کا حکم تو خدا نے دیا ہے اور وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا.آپ کی بیعت کرنے سے یہ حکم کس طرح معاف ہو گیا؟ اس نے کہا بہت اچھا.جب میں جاؤں گی تو یہ بات ضرور دریافت کروں گی.کچھ مدت کے بعد وہ پھر آپ سے ملنے کے لئے آئی.تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم نے اپنے پیر صاحب سے وہ بات دریافت کی تھی اس نے کہا ہاں میں اپنے پیر صاحب کے پاس گئی تھی اور ان سے میں نے یہ بات دریافت کی تو وہ کہنے لگے تو نور دین سے ملنے گئی تھی معلوم ہوتا ہے یہ شرارت تجھے نور دین نے ہی سکھائی ہے.میں نے کہا کسی نے سکھائی ہو آپ یہ بتا ئیں کہ اس کا جواب کیا ہے ؟ انہوں نے کہا.قیامت کے دن جس وقت خدا تم سے پوچھے گا کہ تم نماز میں کیوں نہیں پڑھا کرتی تھیں تو تم کہہ دینا کہ میرا جواب پیر صاحب سے لیجئے.انہوں نے کہا تھا کہ میری بیعت کر لینے سے اب تمام ذمہ داری مجھ پر آپڑی ہے تمہیں نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.اس پر خدا کے فرشتے تمہیں چھوڑ دیں گے اور وہ تم کو کچھ نہیں کہیں گے.میں نے کہا پیر صاحب اپھر آپ کا کیا بنے گا؟ اتنے لوگوں کے گناہ آپ کے ذمہ لگ جائیں گے.اس پر وہ کہنے لگے.جس وقت خدا ہم سے حساب لینا چاہے گا تو ہم لال لال آنکھیں نکال کر اس سے کہیں گے کہ کربلا میں ہمارے دادا امام حسین کی شہادت کچھ کم تھی کہ اب ہم کو بھی دق کیا جاتا ہے.اس پر خدا اپنی آنکھیں نیچی کرلے گا.اور ہم بھی نور اجنت میں چلے جائیں گے " ( تفسیر کبیر (القریش) صفحہ ۲۴۲ ۵۹ حضرت خلیفتہ المسیح اول نے اپنی قلمی بیاض میں جو آپ کے خاندان میں محفوظ ہے.آپ کی والدہ کے تھیال کا شجرہ بھی درج فرمایا ہے جو یہ ہے: معظم خاتون فتح خان مرگ تيح خاتون ندرخان خل اتر پراکن نہیں او یار نژاد علی سيدلي لي امام بي فين فعل غلام محمد یہ بغیر ہاتھ کا ہوتا ہے نورنگان جهدنی خان جہان خان بدر ۱۸/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۶۰۵ ال احکم ۱۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ کالم ۲ ۲ مرآة الیقین صفحه ۱۷۳ اشراف سان خان

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 54 - مرقاة الیقین صفحه ۱۷۴ و الحکم ۲۸/ اگست ۱۹۲۳ء صفحه اکالم ) سوم ۷ - مرقاۃ الیقین صفحه ۱۷۴۴۱۷۳ ۶ - مرقاة الیقین صفحه ۱۷۴۱۷۳ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۳۶ و بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۲ ۶۷ بدر ۱۸/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۳ کالم ۳ و احکام ۳۱ / جنوری 1901ء صفحہ ۶ کالم ۲۳ ۲۸- احکم سے الرجون ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ۲ ۹ روایت جناب حکیم محمد صدیق صاحب میانی گھو گھیات خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) بدر / اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم ۳ و الحکم جلد ۳ نمبر ۳۱ صفحہ اکالم - حضرت حافظ صاحب آخری عمر میں قادیان آگئے تھے اور سلسلہ کی رضا کارانہ خدمت کیا کرتے تھے ان کی ایک صاحبزادی حضرت ملک نورالدین صاحب کے عقد میں آئیں دو بیٹے ڈاکٹر عبد المغنی صاحب اور عبد العزیز صاحب ان کی یاد گار ہوئے.۳۱۳ کی فہرست میں ان کا نام ۲۹۷ نمبر پر ہے (حیات احمد چہارم صفحہ الى الحکم ۷ ار جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۲.۷۲ الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵ کالم ۲ ۷۳.بدر / جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۲ کالم و مرقاة الیقیین صفحه ۱۷۸ ۷۴ مرقاة الیقین صفحه ۵۵- بد ر ۱۹/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۵ کالم ۳ ۷۵ حضرت خلیفہ اول اس زمانہ کا ایک واقعہ بیان کرتے تھے کہ جب میں پڑھنے لگا تو مجھے خوب یاد ہے کہ یا غستان سے ایک تاجر ہمارے ڈیرہ میں آیا اس نے کوئی چیز پڑھتے وقت میرے بھائی سے کہا کہ اسے قرآن شریف پڑھائیے اور مجھے ایک سورۃ اذا وقعت الواقعه معه ترجمه دی ".بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ) ۷.قلمی بیاض حضرت خلیفہ اول ۷۷ بدر ۱۸ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۶۴۵ - یہ مدرسہ ایک اسلامی مکتب تھا اور آپ کے پڑھانے والے ایک مسلمان تھے.ڈسٹرکٹ اسکول بھیرہ 19 جولائی ۱۸۵۴ء سے جاری ہوا تھا ( پنجاب ڈسٹرکٹ گزٹ ۱۸۸۳۰۸۳ء صفحه (۱۳) لہذا ابتداء آپ جس درس گاہ میں پڑھے وہ یہ ڈسٹرکٹ اسکول تو بہر حال نہیں ہو سکتا.۷۸.بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۲- 29 مدرسہ میں داخلہ یا اس کے قریب کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ اول یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ۱۸۴۶ ء میں چارہ کے ایک مشہور ڈاکو مردانہ نامی کا سر پکڑ کر اڑا دیا گیا اور بھیرہ کی چٹی پل کے دروازہ پر اس کا سر ٹکا دیا گیا.اس نامی گرامی ڈاکو کو دیکھنے کے لئے سب لوگ گئے تھے جن میں آپ بھی تھے ایک ہجوم میں کھڑے آپ نے اس کو دیکھا.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۷۹) ۸۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۸ ۱ مرقاة الیقین صفحه ۱۷۸- اخبار نور جلد ۴ نمبر صفحه ۱۳ ۸۲ بروایت ملک عبد الرشید صاحب متصل مسجد فضل احمد یہ بھیرہ ۸۳ بادر ۲۱/۲۸ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۳ کالم ۲۱ -۸۴ رپورٹ صدرانجمن احمد یه ۱۹۰۸-۱۹۰۷ء صفحه ۴۴ حکیم امین الدین شاری والے آپ بحیرہ کا کتا ہے کہ آپ کے ہم مکتبوں میں بابو امام الدین صاحب بھی تھے جو میاں اسلام احمد کے چھوٹے بھائی تھے.۸۶- حکیم صاحب کے آپ کے بھائیوں سے گہرے تعلقات تھے بلکہ آپ کے بھائی طب میں ان کے شاگرد بھی تھے (مرقاۃ الیقین صفحہ ۵۵) حکیم صاحب سکھ عہد کے بلند پایہ اطباء میں سے تھے.علم و فضل میں بھی یگانہ روزگار تھے سکھوں کے دربار میں ان کی بڑی عزت تھی.تاریخ لاہور کنہیا لال صفحہ (۶) آپ کے شاگردوں میں حکیم الہ دین بہت مشہور ہوئے حکیم صاحب انگریزی عہد میں

Page 80

55 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) چند سال گذار کر فوت ہو گئے ( نقوش لاہور نمبر صفحہ ۸۸۴) ۸۷ کمی لال کی " تاریخ لاہور میں آپ کا نام صفحہ ان پر لکھا ہے بڑے فاضل ادیب اور نہایت اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے کابل سے اگر آباد ہوئے اور لاہور میں حویلی میاں خاں میں سکونت پذیر ہوئے (اخبار نویسوں کے حالات از فوق صفحہ ۵۹) ان کے لکھے ہوئے قطعات بعض مساجد اور نوابین قزلباش کے امام باڑہ واقع چوک نواب صاحب میں اب تک بھی موجود ہیں.کندہ کاری اور نقاشی دونوں کے ماہر تھے خود ہی لکھتے خود ہی نقاشی کرتے اور خواہی پتھر کھودتے.لاہور میں ان کے بے شمار تلامذہ تھے ۱۸۸۰ء میں انتقال ہوا.اودھ اخبار لکھنو (۱۹ / فروری ۱۸۸۹ء) نے ان کی وفات پر لکھا.امام وبردی مرحوم خوشنویسی میں اپنے وقت کے امام اور میں پنجہ کش مرحوم دہلوی کے قائم مقام تھے.( نقوش لاہور نمبر صفحہ ۱۰۴۸-۱۰۴۹ ۸۸- پدر ۱۳/ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۹ ۸۹ - مرقاة الیقین صفحه ۵۷٬۵۵ الحکم ۷/۱۴ جولائی 1991ء صفحہ ۵ کالم ۳ -9° حکیم شمس الدین صاحب کے فرزند تھے طب حکیم غلام دستگیر صاحب سے پڑھی ان کا شمار لاہور کے مقتدر اطباء میں سے ہو تا تھا.کثیر الاولاد تھے مگر آپ کی وفات کے وقت تین لڑکے زندہ تھے.حکیم احمد الدین شارح موجز - حکیم چراغ دین حکیم نیرو زدین جو ماہنامہ رفیق الاطباء وا حکیم کے ایڈیٹر تھے.(نقوش لاہور نمبر صفحہ ۸۱۶) ۹۲ - بدر ۶ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ کے کالم ۲.بد ر ۲۸-۲۱ جولائی ۱۹۱۰ء صفحه ۳ کالم ۲۴۱ ۹۳ مرقاة الیقین صفحه ۵۷٬۵۶ -۹۴ پدر / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۳۲.ابتدائی کتابوں میں سے جو آپ نے توحید کے مسلک پر پڑھی ہیں ایک کتاب " رفاہ المسلمین بھی تھی.(ایضاً)- مرقاۃ الیقین صفحہ ۵۷ ۹۵ ترکی اور روس میں تین مشہور جنگیں ہوئیں.۱ (۱۸۲۷ء تا۶۱۸۲۹-۲- (۱۸۵۴ تا ۱۱۸۵۶-۳-۶۱۸۷۷۰۷۸- سب سے پہلی لڑائی کا خاتمہ صلح نامہ ایڈریا نوپل کی شکل میں ہوا.جس کے مطابق یونان کو خود مختاری حاصل ہوئی.دوسری جنگ کے بعد جس کا ذکر او پر واقعات میں کیا گیا ہے معاہدہ پیرس عمل میں آیا جس کی رو سے ترکی کی سالمیت برقرار رکھنے کا یقین دلایا گیا.تیسری لڑائی میں بلقانی ریاستوں (Balkan States) کو خود مختاری نصیب ہوئی (اردو انسائیکلو پیڈیا شائع کردہ فیروز سنز لمیٹڈ - صفحه ۵۵۶) - مرقاة الیقین صفحه ۱۸۱- بد در ۱۸ اگست ۱۹۱۰ صفحه ۰۶ ۹۷ صلیب کے علمبردار مصنفہ پادری برکت اللہ ایم.اے صفحہ ۲۱ جناب چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی اور جناب مولوی عبد الرحمن صاحب خاکی نے راولپنڈی کے محکمہ تعلیم سے اس زمانہ کے ریکارڈ بر آمد کرنے کی کوشش کی مگر معلوم ہوا کہ وہ مدت ہوئی انسپکٹر آف سکول کے دفتر میں منتقل کر دیا گیا تھا.لیکن وہاں سے بھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا.اگر وہ ریکار ڈمل جاتا تو حضرت خلیفہ اول کے متعلق کئی نئے امور کا قطعی پست مل جاتا.اور عین ممکن ہے کہ آپ کی معین تاریخ ولادت کی بھی نشان دہی ہو جاتی.-** شكل 49.قلمی بیان حضرت خلیفہ اول پنڈ دادنخان کی بنیاد ۱۷۲۳ء میں رکھی گئی.۱۸۷۳ء میں یہاں میونسپلٹی قائم ہوئی.۱۸۶۸ء میں اس کی آبادی 110 ۷ نفوس پر تھی ( پنجاب گزٹیر ۸۴-۱۸۸۳ء صفحہ (۱۶) موجودہ آبادی میں ہزار کے لگ بھگ ہے.اور چار حصوں میں منقسم ہے.شہر کے باہر ایک پرانا قلعہ ہے.اس میں تحصیل ہوتی ہے اور ایک بارہ دری بھی اب تک موجود ہے جو راجہ گلاب سنگھ کی بنوائی ہوئی ہے.یہاں کے باشندے اکثر نمک کھودنے کا کام کرتے ہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت یہ نمک کی بھاری منڈی تھی (میانی والے بھی چونکہ یہیں سے نمک لے جاتے تھے اس لئے میانی کولون میانی کہا جاتا تھا) (تعارف صفحہ ۴۴۳) ۱۱- یہ معین تاریخ ڈاکٹر ممتاز بی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پنڈ داد خاں نے بہم پہنچائی ہے.جزاء اللہ احسن الجزاء -۱۰۲ پنجاب ڈسٹرکٹ گزینز ( ضلع جہلم) ۱۹۰۴ء صفحه ۲۶۳ ١٣- الحکم ۲۸-۲۱ جولائی ۱۹۵۴ء صفحہ ۲ کالم ۳۴۲.ایضا مرقاة الیقین صفحه ۱۸۶- حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اپنے ایک غیر مطبوعہ

Page 81

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 56 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) مضمون " الدر المنثور فی لمعات النور " میں بھی جو انہوں نے میاں عبد المنان صاحب عمر ایم اے کو لکھ کر دیا.اس واقعہ کی تفصیل لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ افسر مدارس منفی خیال کا تھا.اور جب اس نے دیکھا کہ آپ نے سند چاک چاک کر دی ہے.تو وہ بھی بول اٹھا کہ ایمان ہو تو ایسا ہو.(صفحہ ۷۴-۷۵) ۱۰۴ قاموس المشاہیر جلد دوم صفحه ۱۵۴ ۱۰۵ آبائی وطن رامپور محلہ پنجابیاں ہی ہے علم تجوید کے ماہر اور عمدہ قاری تھے کتب فارسی کے علاوہ عربی صرف و نحو کی کتب درسیہ بھی جانتے تھے قرآن مجید اور مسائل فقہ پر گری نظر تھی.نہایت پر ہیز گار اور خدا پرست تھے یہ ان کی دین داری کا ثمرہ تھا کہ مولوی فضل حق رامپوری اور حکیم محمد نبی جیسے فاضل فرزند یاد گار ہوئے تقریباً اسی سال کی عمر میں ۱۳۲۹ھ (مطابق 1911ء) میں انتقال فرمایا " تذکرہ کاملان رامپور صفحه ۱۹۸- مولفہ حافظ احمد علی خاں رام پور اسٹیٹ یو پی مطبوعہ ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء) -١٠- حضرت جلال بخاری کی اولاد میں سے تھے غالباً ۶ ۱۲۲ھ مطابق ۱۸۸ء میں تولد ہوئے زمانہ طالب علمی میں خواب میں آپ کو آنحضرت ﷺ کی زیارت ہوئی اور عرض کیا کہ حضور جو کام کروں حضور سے دریافت کر کے کروں گا.حکم ہوا اچھا.خواب کے بعد حدیث پڑھنے کا شوق بڑھ گیا.چھ برس تک مراد آباد میں رہ کر صحاح ستہ اور موطا اور تصانیف شاہ ولی اللہ صاحب مولوی عالم علی صاحب سے پڑھیں اور سند حاصل کی.نواب وزیر الدولہ نے ٹونک میں رکھنا چاہا.مگر بند ر کیا کہ میں نے حدیث پڑھی ہے میری آرزو ہے کہ تا زندگی اپنے مکان پر یہ خدمت سر انجام دوں.چنانچہ اللہ کے فضل سے ایسا ہی ہوا.نہایت درجہ سادہ مزاج تھے انکسار اور تواضع میں بے مثل 11 طریقہ نقشبندی میں حضرت شاہ عبد المغنی صاحب مجددی سے بیعت تھے اگست ۱۸۹۴ء میں فوت ہوئے اور شاہ بغدادی صاحب کے احاطہ مزار میں دفن کئے گئے منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی نے تاریخ رحلت لکھی تذکره کاملان رامپور صفحه ۱۱۴٬۱۰۸) ۱۰۷.آپ کے جد اعلیٰ حضرت مجدد الف ثانی تھے ۲۶ جولائی ۱۸۳۱ء کو رامپور میں پیدا ہوئے.۲۵/ دسمبر ۱۸۹۳ء کو وفات پائی اور اپنی مسجد کے متصل دفن ہوئے تصانیف میں ایک ضخیم کتاب انتصار الحق بزبان اردو موجود ہے ترجمہ کتاب الجمیل عالمگیری اردو قلمی کتب خانہ ریاست رامپور میں ہے.ایک کتاب ارشاد العرف ان کی چھپی ہوئی موجود ہے (ایضا صفحہ ۳۲۴۳۰) ۱۰۸ ولادت ۲۳ / اکتوبر ۱۸۰۴ء وفات ۲۳/ ستمبر ۱۸۷۷ء مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی.مولانا محمد اسحاق صاحب قدس سرہ کے درس سے استفادہ کیا.شیخ جمال مکی سے حدیث کی سند حاصل کی ۱۸۵۴ء میں حج و زیارت حرمین سے مشرف ہوئے.ندر سے پہلے رامپور میں عمدہ قضاء و افتاء پر رہے.آپ کے شاگردوں کی تعداد شمار سے باہر ہے.مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی ، حکیم علی حسین خاں لکھنوی آپ کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں فارسی و عربی علوم و فنون میں مجمع البحرین تھے.فارسی میں آشفتہ تخلص کرتے تھے آپ کی تصانیف بہت ہیں شاہ بغدادی صاحب کے مزار کے احاطہ میں آپ کا مزار ہے.مولوی لطف اللہ اور مولوی بشارت اللہ دو فرزند یادگار چھوڑے (ایضا) صفحه ۱۵۱-۱۵۴) نواب صدیق حسن خاں نے اپنی کتاب ابجد العلوم صفحہ ۹۲۵-۹۲۶ میں بھی ان کے حالات لکھتے ہیں.19 رام پور میں اس نام کے کئی علماء گزرے ہیں ایک مولوی عبد العلی خان کا جو غالبیا حضرت کے استاد تھے تذکرہ "کامان رامپور " میں آتا ہے.کہ انہوں نے حدیث حضرت شاہ اسحاق صاحب سے اور طب حکیم صادق علی صاحب سے سیکھی ان کے شاگردوں میں مولوی احمد رضا خاں بریلوی بھی تھے.۸۶-۱۸۸۵ء میں انتقال فرمایا اور محلہ راج دوارہ میں مولوی غلام جیلانی کے پہلو میں دفن ہوئے (صفحہ ۲۲۹٬۲۲۸) ۱۱۰ مرقاة الیقین صفحه ۶۴ - حضرت مولوی محمد اسماعیل شهید حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے اور مشہور مفسر اور محدث شاہ عبد العزیز کے بھیجے تھے.حضرت سید احمد بریلوی نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا اس میں آپ ان کے دست راست تھے اور بالاخر بالا کوٹ میں ہی بڑی جرات و مردانگی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور وہیں آپ کا اور حضرت سید احمد بریلوی کا مزار ہے.۱۱ بدری ابر اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم ۳ ۱۱۳- مرقاۃ الیقین صفحہ ۶۱-

Page 82

تاریخ احمدیت جلد ۳ 57 خلیفتہ المسیح الاول" کے حالات زندگی ( قبل از خلافت ) ۱۱۴ تذکره کاملان رامپور میں اس نام کے کئی بزرگوں کے حالات آتے ہیں معلوم نہیں حضرت کے استادان میں سے کون سے ہیں ؟ ایک بزرگ اخوند عبد الرزاق تھے جو اول قلندر خان کے گھر میں آم والی مسجد میں رہے پھر وہاں سے اس محلہ کی دوسری مسجد میں چلے گئے آپ کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی اس محلہ میں بہت شہرت تھی.بلاسپور دروازہ کے قریب سڑک سے جنوب کی جانب مزار ہے ان کے انتقال کا سن ۱۸۸۲۰۸۷ء تایا جاتا ہے غالب خیال ہے کہ آپ ہی یہ بزرگ ہوں گے.(صفحہ ۲۱۶) ۱۱۵ مرقاۃ الیقین - صفحہ ۶۲۴۶ ۱ مرقاة الیقین صفحه ۶۴۶۳ ۱۱ مرقاة الیقین - صفحہ ۲۱۷ ۲۱۶ آپ بڑے متوکل انسان تھے.اور مسجد کے حجرہ میں رہا کرتے تھے حضرت خلیفہ اول کا چشم دید واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے یہاں عشاء کے بعد کوئی مہمان آیا حیران ہوئے کہ کیا بندوبست کروں اور کس سے کہوں انہوں نے مہمان سے تو کہا کہ کھانا پکنے تک آرام کریں اور خود قبلہ رخ بیٹھ کر یہ دعا کرنی شروع کردی و افوض امری الی الله ان الله بصیر بالعباد - تھوڑی دیر بعد ہیں جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے وہ برابر دعا میں مصروف تھے کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جاتا ہے جلدی آؤ.یہ آئے ایک شخص تانے کی رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے آیا.انہوں نے لے کر مہمان کو دے دیا.اس رکابی کا کوئی مالک نہ نکلا وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ جس کی رکابی ہونے جائے لیکن کوئی اس کا مالک پیدا نہ ہوا.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۱۷) ۱۱۹ ۱۸۱۵-۲۹ء میں لکھنؤ کے جو ہری محلہ میں آپ کی پیدائش ہوئی.لکھنو کے مشہور اساتذہ مولوی عبد الحکیم فرنگی محلی مولوی حسین احمد طلیح آبادی مولوی سلامت اللہ کانپوری مفتی سعد اللہ مراد آبادی اور حکیم مینا سے شرف تلمذ رکھتے تھے.اپنے معاصرین میں یکتائے روزگار تھے پڑھاتے بھی تھے اور مطلب بھی کرتے تھے تو رع اتقا خوش خلقی اور علم و تواضع میں اپنی نظیر آپ تھے.آپ کے تلامذہ بہت ہیں جن میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کے علاوہ یہ بھی بہت مشہور ہیں.مولوی حکیم محمد سعید معالج نظام دکن - مولوی حافظ محمد احمد صاجر مہتم مصارف حرمین بھوپال.میر پیر علی انیس لکھنوی.آپ نے پہلا حج ۱۸۵۴ء میں اور دوسرا ۱۸۷۳ء میں کیا.دوسرے سفر حج میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے بیعت ہوئے ساتھ برس کی عمر میں آپ کے کل اعضا دائیں بازو کے سوا) بے حس و حرکت ہو گئے تھے مگر عشق رسول کا یہ عالم تھا کہ اس معذوری کے عالم میں بھی خفیہ طور پر اپنے ایک عزیز کو ساتھ لے کر کعبتہ اللہ کو روانہ ہو گئے اور حرم مقدس کے قریب جہاں سے کعبتہ اللہ نظر آیا تھا ایک مکان نے کر رہائش پذیر ہو گئے اور چھ ماہ بعد ۲۷ / رجب ۱۲۹۴ھ مطابق ۸/ اگست ۱۸۷۷ء کو انتقال فرمایا اور ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری کے قبہ مبارک کے قریب دفن ہوئے.(تذکرة کاملمان رامپور صفحه ۲۵۷٬۲۵۵) ۱۲۰ فن معقولات میں یکتائے روزگار تھے خصوصا درس زواہد ثلاثہ آپ کا حصہ تھا.مدت تک کیننگ کالج میں افسر مدرس عربی رہے آپ کے تلامذہ کثرت سے تھے آپ نے اخذ بیعت مولانا شاح عبد الرزاق قدس سرہ سے کی.آپ کی بھاری خصوصیت یہ تھی کہ ماہر معقولات ہونے کے باوجود بڑے راسخ الاعتقاد مسلمان اور مودب و منکسر المزاج تھے.۱۸۹۲ء میں حج سے مشرف ہوئے.آپ کی تصانیف مختلف اوقات میں ضائع ہو گئیں ایک حاشیہ میرزاہد رسالہ کا دستیاب ہوا جو مطبع یوسفی میں طبع ہو چکا ہے ۲۳/ اکتوبر ۱۸۹۳ء کو آپ نے وفات پائی (احوال علمائے فرنگی محل مولفہ مولوی شیخ الطاف الرحمن صاحب رئیس بڑا گاؤں ضلع بارہ بنکی ارده مطبع مجتبائی واقع لکھنو) ۱۲۱ نواب سید علی محمد خان کی اولاد میں سے تھے روہیل کھنڈ کی مشہور ریاست رامپور کے نواب یوسف علی خاں کے بعد فرمانروا ہوئے ساڑھے بائیس سال تک حکومت کی.نہایت علم نو از بنر پسند اور عربی کے قدردان علم وفن نواب تھے شعر و سخن میں بھی کمال ذوق تھا اردو فارسی دیوان یاد گار ہیں ۲۳ مارچ ۱۸۸۷ء کو رحلت ہوئی (قاموس المشاہیر حصہ دوم صفحہ ۱۵۴) ۱۲۲- مرقاۃ الیقین صفحه ۶۷ تا اے طبع دوم با شر الشركه الاسلامیہ ربوہ دسمبر ۱۹۶۲ء ۱۲۳- بدر ۱۸ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۶ کالم ۱- ۱۲۴ آپ رام پور میں پیدا ہوئے جوان ہو کر عربی و فارسی علوم پڑھے میاں غلام حسن شاہ کو پیرو مرشد تسلیم کیا آپ کے کمالات رام پور میں بہت مشہور ہیں نہایت بااثر اور خدا پرست درویش تھے ۲۳ / اپریل ۱۸۷۳ء کو واصل بحق ہوئے تصانیف : 1- رسالہ

Page 83

تاریخ احمدیت جلد ۳ 58 خلیفہ المسیح الاول کے حالات زندگی ( قبل از خلافت) کشفیہ (فارسی قلمی) اس کے دیا چہ میں لکھا ہے کہ شوال ۱۲۴۷ھ مطابق ۱۸۳۲ء میں چلہ کشی کے نتیجہ میں بوسیلہ مرشد جو حالات مجھ پر منکشف ہوئے ان کو درج کرتا ہوں -۲- دعوت دعائے سیفی (فارسی قلمی) اس کے خاتمہ میں آپ نے اپنے مرشد کی تعلیم درج کی ہے.۳.تعلیم الخواص یہ ہزار صفحہ کی ایک ضخیم کتاب ہے.(تذکرہ کاملان رامپور صفحه ۶۴۶۰) ۱۲۵- مرقاة الیقین صفحه ۷۲ ۷۶ ۱۳۶ تاریخ المحدیث از میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوئی صفحہ ۴۲۸ ۲۷- بدر / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸ کالم ۲.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ المسیح دہلی گئے اور سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے پاس نمبرے آپ نے ان سے اس حدیث کا مطلب پوچھا کہ گرگٹ کو مارنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں پھونکیں مارتا تھا.سوال یہ تھا کہ یہ گرگٹ جواب موجود ہے اس کا کیا قصور؟ اس کا جواب مولوی نذیر حسین صاحب کچھ نہ دے سکے.اور کہا یہ اعتراضات اس زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں آپ ہی اس کا جواب دیں گویا حق بہ حقدار رسید دہلوی محدث صاحب نے تسلیم کر لیا کہ زمانہ حال کے پیدا شدہ شبہات ووساوس کا جواب دینے کی قابلیت آپ ہی کو دی گئی ہے.نیز انہوں نے ایک بخاری بھی حضرت کو نذر کی جس سے ان کی نگاہ میں حضرت مولوی صاحب کا بلند مقام و منصب بھی ثابت ہوتا ہے.(الحکم ۲۱ اگست ۷ / ستمبر ۱۹۸ء صفحے کے کالم ۲) ۱۲۸ لکھنو وطن تھا آبائی سلسلہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے.اور ننھیالی قرابت میرزاؤں کے ایک نامی گرامی خاندان سے تھی.گوشہ نشینی اور تو کل باپ دادا سے ترکہ میں ملا تھا.ساری عمر کسی کی نوکری نہیں کی.شعر و سخن کا شوق بچپن سے تھا شیخ امام بخش ناسخ سے مشق سخن کی اور انہی کی زندگی میں استاد مسلم الثبوت بن گئے لوگ ان کی آمدنی کو دست غیب پر محمول کرتے تھے.۱۲۷۰ھ بمطابق ۵۴-۱۸۵۳ ء میں وفات پائی ( تذکرہ شعرائے اردو صفحه ۱۳۶۸ از سید عبدالحی صاحب سابق ناظم ندوة العلماء لکھنو) -۱۲۹ تذکرہ شعراء اردو صفحہ اے ۳ میں اصلی قطعہ یوں لکھا ہے کہ : کا شه کر عوض میرے نرم و گناہ ہے خالد دیکھ کر مجھے محتاج دو الی تجھے کو غفور الرحیم کہتے ہیں کہیں کہیں نہ یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں ۱۳۰- انتہائی بے نفس خدارسیدہ اور متقی انسان تھے.عربی زبان میں بڑی تیزی سے کلام فرماتے.مگر کوئی لفظ قرآن و حدیث سے باہر نہ ہو تا تھا.ایک دفعہ آپ منشی جمال الدین صاحب مدارالمہام کے مکان پر آئے تو منشی صاحب نے ایک ہزار روپیہ کی تحصیلی ان کے سامنے رکھ دی یہ دیکھتے ہی ان پر خفگی کے آثار نمایاں ہو گئے.منشی صاحب نے فورا تھیلی اٹھالی تو ان کے چہرہ پر بشاشت کھیلنے لگی فرمانے لگے ہمارا ارادہ آپ کو حدیث رسول سنانے کا تھا مگر آپ نے روپیہ رکھ تو سخت قلق ہوا کہ یہ تو دنیا دار آدمی ہیں حدیث میں آتا ہے کہ روپیہ کوئی دے تو واپس نہ کرو اس لئے ہم روپیہ تو لے لیتے مگر روپیہ لے کر پھر حدیث نہ سناتے مگر اب جبکہ تم نے روپیہ واپس لے لیا ہے تم کو حدیث سنائیں گے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۹۵) ١٣١ ۱ مرقاة الیقین و الحکم ۱۴ / فروری ۱۹۱۵ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ ۱۳۲- مرقاة الیقین صفحه ۶ ۷-۸۸

Page 84

تاریخ احمدیت جلد ۳ دو سرا باب 59 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک.سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک (۶۶ - ۱۸۶۵ء تا ۱۸۸۵ء بمطابق ۸۳-۵۱۲۸۲ تا ۱۳۰۳ھ تک) حرمین شریفین کے لئے سفر آپ جب دیار حبیب خدا ( ا ) کے لئے روانہ ہوئے تو بعض روایات کے مطابق آپ کی عمر ۲۵/۲۴ سال کے لگ بھگ تھی گویا عین عنفوان شباب تھا.سمسی حساب سے یہ ۲۶ - ۱۸۶۵ ہو گا.بھوپال سے الوداع ہو کر آپ برہان پور اسٹیشن پر اترے.یہاں ایک شخص نے جو آپ کے والد بزرگوار کا پرانا دوست تھا.آپ کی بہت خاطر تواضع کی اور چلتے ہوئے ایک ٹوکری پیش کی جب رستہ میں آپ نے یہ کھولی تو اس میں مکہ کے ایک دولتمند کے نام ایک ہزار روپیہ کے چیک کے علاوہ کچھ نقد روپیہ بھی رکھا تھا.بمبئی پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات مولوی عنایت اللہ نامی ایک بزرگ سے ہوئی.ان دنوں آپ کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی مختصری کتاب الفوز الکبیر کا بڑا شوق تھا.انہوں نے بمبئی کی چھپی ہوئی دکھائی اور کہا کہ اس کی قیمت پچاس روپیہ لوں گا.آپ نے فورا پچاس کا نوٹ نکال کر دیا اور کتاب لیکر باہر جانے لگے.انہوں نے اس قدر جلدی جانے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ خرید و فروخت میں ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے.حنفی لوگ تفارق قولی کے قائل ہیں.اور محدثین تفارق جسمی کی طرف مائل ہیں.میں چاہتا ہوں کہ احتیاطاً دونوں کے موافق سودا صحیح اور قوی ہو جائے اس لئے جانے کا ارادہ کیا ہے.یہ سنتے ہی وہ جھوم گئے اور آپ کے حسن ذوق کو دیکھ کر پچاس روپے نذر کئے.آپ نے روپے لینے سے انکار کیا کہ میں طالب علم تو ہوں مگر محتاج نہیں مگر انہوں نے اصرار کر کے آپ کو واپس ہی کر دیئے.بمبئی سے روانگی کے وقت آپ کو اپنے وطن کے پانچ آدمی حج کو جاتے ہوئے مل گئے جن کے

Page 85

تاریخ احمدیت جلد ۳ 60 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک باعث آپ کو جہاز میں بڑا آرام ملا.جہاز بندرگاہ سے حدیدہ میں لنگر انداز ہوا تو چونکہ اسے کچھ مدت ٹھہرنا تھا آپ یمنی علماء سے ملاقات کے لئے حدیدہ سے مراعہ پہنچے وہاں کے ایک نوجوان نے آپ سے ( نحو کی کتاب) الفیہ کی اجازت لکھوائی جو بڑے اچنبھے کی بات تھی اور اس کا کچھ حصہ آپ سے پڑھ بھی لیا الغرض یمن کے وسطی حصہ کے حالات کا بچشم خود مطالعہ کرنے کے بعد آپ حدیدہ سے بذریعہ جہاز جدہ پہنچے اور جدہ سے بالاخر مکہ معظمہ کی مقدس سرزمین میں داخل ہوئے.رستہ میں کئی خدائی نصرت و غیبی مدد کے نظارے آئے جن کی تفصیل آپ کی سوانح عمری میں موجود ہے.مکہ معظمہ میں پہلی بار مکہ معظمہ میں ایک بزرگ محمد حسین صاحب سندھی رہا کرتے تھے.آپ ان کے مکان پر اترے انہوں نے اپنا بیٹا آپ کے ساتھ کر دیا کہ آپ کو طواف القدوم کرا دے (یعنی وہ طواف جو مکہ میں آنے والے ہر زائر کو کرنا مسنون ہے) اس طواف میں مطوف آپ کے ساتھ تھا وہ مسنون دعا ئیں بتاتا جاتا تھا اور قدم قدم پر سنن کو نہایت احتیاط سے مد نظر رکھتا تھا.[ طواف کرتے ہوئے آپ نے پہلے حجر اسود کی طرف جاکر تکبیر کلمہ کہا اور اسے بوسہ دیا.پھر دائیں دروازے سے ہو کر سات بار خانہ کعبہ کے گرد چکر لگائے اور مقام ابرہیم کے پاس جا کر دو رکعت نماز ادا کی.آپ کو ایک دو سرے موقعہ پر یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ آپ نے خانہ کعبہ کا طواف ایک دفعہ ایسے وقت میں کیا جب کہ کوئی اور طواف نہیں کر رہا تھا.چنانچہ اپنی ایک قلمی بیاض میں فرماتے ہیں ایک بار وہ طواف نصیب ہوا جس میں میں تنہا تھا اور دعاؤں میں لذت حاصل كى و هذا فضل و رحمة منك يا ارحم الرحمين " آپ نے کسی روایت کے ذریعہ سنا تھا کہ بیت اللہ نظر آتے ہی جو دعا کی جاتی ہے ضرور قبول ہو جاتی ہے.محدثین کی نگاہ میں تو یہ روایت ثقہ نہیں مگر اس وقت آپ کے دل میں ایسا خدائی تصرف ہوا کہ آپ نے بیت اللہ شریف پر نظر پڑتے ہی بے اختیار یہ دعا مانگی کہ الہی میں تو ہر وقت محتاج ہوں اب میں کون کون سی دعا مانگوں پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ میں جب ضرورت کے وقت تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کر لیا کر اس مبارک گھڑی کی یہ دعا خدا کے فضل سے ایسے شاندار رنگ میں پوری ہوئی کہ حیرت آتی ہے بعد میں بڑے بڑے نیچریوں ، فلاسفروں اور دہریوں سے آپ کے بڑے بڑے محر کے ہوئے اور دعا کی برکت سے آپ کو ہمیشہ نمایاں فتح و کامیابی نصیب ہوئی مکہ معظمہ میں آپ نے جن اکابر علماء و فضلاء سے حدیث پڑھی ان کے نام یہ ہیں.(1) شیخ محمد خزرجی (نسائی، ابو داؤد - ابن ماجہ ) (۲) شیخ الحدیث سید حسین ( صحیح مسلم شریف)

Page 86

تاریخ احمدیت جلد ۳ 61 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک (۳) حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی مہاجر مکہ (موطا) شیخ محمد خارجی کا سبق عبداللہ حلوانی نامی ایک شخص کے مکان پر ہو تا تھا.سید حسین حرم میں درس دیتے تھے.II اور مولوی رحمت اللہ صاحب اپنے خلوت خانہ میں پڑھاتے تھے جو مسجد کے صحن کے ساتھ ہی تھا.حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی کا مکان جس محلہ میں تھا.اس کا نام حارث الباب ہے اور یہ حرم سے شمال مغرب کی طرف واقع ہے جس میں ترک و عرب آباد ہیں حضرت مولوی نورالدین صاحب بعض اوقات آپ کے مکان پر بھی تشریف لے جاتے تھے اس وقت تو حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب کا حلقہ درس کچھ استاد سیع نہ تھا.مگر چند سال بعد جب کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب حرمین سے واپس اپنے وطن چلے آئے) آپ نے اسی محلہ میں ۱۸۷۴ء میں مدرسہ صولیہ کی بنیاد رکھی جس نے حکومت کی سرپرستی سے کافی ترقی کرلی اور کثرت سے طلباء پڑھنے لگے.اس کے بعد سہ منزلہ عمارت میں دار الا قامتہ (بورڈنگ ہاؤس) درسگاہ لیکچر روم اور باہر سے آئے ہوئے طلباء کی رہائش کے لئے علیحدہ علیحدہ کمرے ہیں اور پاس ہی صنعتی سکول اور مسجد بھی ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب کو ایک طالب علم کی حیثیت سے یہاں پہنچے تھے مگر آپ اساتذہ کی ہر بات اپنی مجتہدانہ بصیرت سے پر کھتے اور جانچتے تھے آپ کی عادت تھی کہ سبق کو پڑھ کر کسی بڑے کتب خانہ میں اس کتاب کی شرح کا مطالعہ کرتے اور اگر کوئی لغوی الجھن ہوتی تو لغات بھی دیکھ لیتے تھے اور جب تک پوری تسلی نہ ہو جاتی تھی کوئی بات قبول نہ کرتے تھے.خود فرماتے ہیں.”میری طبیعت اس وقت بھی بہت آزاد حریت پسند اور دلائل کی محتاج تھی." ایک دفعہ آپ ابو داؤد پڑھ رہے تھے.اعتکاف کے مسئلہ میں حدیث سے معلوم ہو تا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان معتکف میں بیٹھے آپ کو استاد شیخ محمد خزرجی نے اشارہ کیا کہ حدیث کا حاشیہ پڑھو یہ حدیث بہت مشکل ہے آپ نے عرض کیا کہ یہ حدیث تو بہت آسان ہے حکما یہ دیکھ لیتا ہوں.چنانچہ آپ نے سرسری طور پر اس کا حاشیہ دیکھا اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ حدیث مشکل ہے کیونکہ اکیس | ۱۳ تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے اکیسیویں رات لیلتہ القدر ہو ، عصر کو بیٹھیں تو رسول اللہ سے ثابت نہیں.آپ نے دیکھکر کہا کہ ذرا بھی مشکل نہیں.یہ حواشی کی غلطی ہے میں ایسی راہ عرض کرتا ہوں جس میں ذرا بھی اشکال نہیں یعنی میں کی صبح کو بیٹھے.انہوں نے کہا یہ تو اجماع کے خلاف ہے آپ نے کہا امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اجماع محض دعادی ہیں.ہر ایک شخص اپنے اپنے مذہب کی کثرت کو دیکھ کر لفظ اجتماع بول لیا کرتا ہے اس پر وہ بہت ہی خفا ہو گئے مگر آپ صبح سے لیکر

Page 87

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 62 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دوپہر تک سبق پڑھتے ہی چلے گئے.مگروہ بالکل چپ بیٹھے رہے جب ظہر کی اذان کی آواز آئی تو اتنا فرمایا کہ جماعت مشکل سے ملے گی.سو آپ وضو کر کے ظہر کی نماز کو چلے گئے.ظہر کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کے خلوت خانہ میں جاپہنچے انہوں نے فرمایا کہ آج تمہارا اپنے شیخ سے مباحثہ ہوا ہے.آپ نے عرض کیا کہ شاگرد اور استاد کا کوئی مباحثہ نہیں ہو سکتا.میں طالب علم آدمی ہوں میرا مباحثہ ہی کیا ہمارے شیخ بڑے آدمی ہیں.ہاں یوں طالب العلم اساتذہ سے کچھ پوچھا ہی کرتے ہیں.فرمانے لگے نہیں کوئی بڑا مسئلہ ہے.آپ نے کہا مسئلہ تو کوئی نہیں ایک جزوی بات تھی.مولوی صاحب نے فرمایا کہ تمہارے شیخ آئے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض طالب علم بہت دلیر آجاتے ہیں اور ان کے مشکلات کا خمیازہ ہمیں اٹھانا پڑتا ہے پھر انہوں نے پھر سارا واقعہ ہم کو سنایا آپ نے جب سمجھ لیا کہ اب اختفا کا کوئی موقع نہیں تو ان سے عرض کیا کہ یہ ایک جزوی مسئلہ ہے اکیس کی صبح کو نہ بیٹھے ہیں کی صبح کو بیٹھ گئے اس طرح حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے.مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی نے فرمایا کہ یہ بات اجماع کے خلاف ہو جاتی ہے.آپ نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات پر بھلا اجماع کیا ہو گا تب انہوں نے فرمایا کہ سبق کل پڑھائیں گے اب تم ہمارے ساتھ ہمارے مکان پر چلو یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد کے صحن میں پہنچ گئے آپ نے عرض کیا حضرت اس کو ٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا حضرت محمد اللی کا حکم ہے.آپ نے کہا انبیاء کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے پھر آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء بنی اسرائیل کیوں چھوڑتے ہیں؟ اتنے بڑے اجماع کو چھوڑ دیا گیا ہے.میں نے اگر جزوی مسئلہ میں ایک حدیث کے معنی میں اختلاف کیا تو حرج کیا ہوا فرمایا دل دھڑکتا ہے.آپ نے کہا جس کا دل نہ دھڑ کے وہ کیا کرے پھر فرمایا کہ دل دھڑکتا ہے اور کھڑے ہو گئے تب آپ نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ محقق اور عالم ہیں.ہر مسئلہ میں شخص واحد کی اتباع کے متعلق آپ مجھے ارشاد کریں.فرمایا ہم تو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں مگر ہر مسئلہ میں تو ہم فتویٰ نہیں دیتے.پھر فرمایا ہم علی العموم ان باتوں کے دشمن نہیں تمہاری شفاعت تمہارے شیخ سے کر دی ہے.تم سبق پڑھنے جائیو رہ روکیں گے نہیں اور آزادی سے پڑھو ہم نے شیخ کو مطمئن کر دیا ہے.آپ نے عرض کیا ہمارے شیخ حدیث کا بڑا ادب کرتے ہیں اگر میں ان کے حضور پڑھتار ہوں تو وہ کبھی مجھ کو بند نہ کریں گے فرمایا وہ ڈرے تھے ہم نے مطمئن کر دیا ہے چنانچہ آپ دوسرے دن گئے گو شیخ صاحب اس دن تو نہ بولے مگر آپ نے سبق پڑھ لیا.اور نسائی ابو داؤد ابن ماجہ انہی سے آپ نے پڑھ لیں.کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی مدینہ سے مکہ میں تشریف لائے.شہر میں بڑا شہرہ ہوا.آپ بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت وہ حرم شریف میں بیٹھے ہوئے تھے

Page 88

تاریخ احمدیت جلد ۳ سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک اور ہزاروں آدمی ان کے گرد موجود تھے سب سے پہلے آپ نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اعتکاف کب بیٹھا جائے ؟ انہوں نے بیساختہ جواب دیا.بیس کی صبح کو.آپ نے مزید پوچھا.حضرت میں نے سنا ہے کہ یہ اجماع کے خلاف ہے بڑے عجیب لہجہ میں فرمایا کہ جہالت بڑی بری بلا ہے.حنفیوں میں فلاں فلاں شافیعوں میں فلاں.حنابلہ میں فلاں.مالکیوں میں فلاں.کئی کئی آدمیوں کے نام لیکر کہا کہ ہر فقہ میں اس میں کے بھی قائل ہیں اس علم اور تجربہ سے آپ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی.تب وہاں سے ہٹ کر آپ نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ جا سکتا ہوں؟ اس کاغذ کو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سنائی المستشار موتمن پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہئے.آپ نے یہ قصہ جا کر حضرت مولانا رحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبد الغنی صاحب نے تو حرم میں بیٹھ کر ہزار ہا مخلوق کے سامنے فتوی دیا.مگر کسی نے چوں بھی نہ کی.فرمایا شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں.مکہ میں حضرت مولانا نورالدین خلیفہ اول نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ اپنے علم سے دوسروں کو بھی مستفید فرماتے تھے.چنانچہ انہیں ایام میں آپ مولوی ابو الخیر صاحب دہلوی خلف الرشید حضرت محمد عمر صاحب نقشبندی مجددی کو فقہ کی کتاب در مختار پڑھایا کرتے تھے اس وقت تک آپ نے لکھنوک رامپور میں زیادہ تر یونانی طب سیکھی اور اس کا تجربہ کیا تھا مگر مکہ میں آگر آپ کو ڈاکٹری طب کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گئی.واقعہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر محمد وزیر خاں صاحب جو حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی کے دوست اور مناظرہ آگرہ میں شامل تھے.مولوی صاحب کے مکان پر ان سے آپ کی ملاقات ہوئی ان دنوں شریف مکہ کو سنگ مثانہ تھا.فرانس سے پتھری نکالنے کا آلہ منگوایا گیا.اور ڈاکٹر صاحب نے وہ پتھری پیس کر نکال دی.اس کامیاب تجربہ سے آپ کو ۱۵ ڈاکٹری طب کا بہت شوق ہوا.مگر آپ کی تعلیمی مصروفیت ایسی تھی کہ اس طرف توجہ نہ کر سکے.مکہ میں آپ کو بعض بڑے افسوسناک واقعات بھی پیش آئے جن کا آپ نے تفصیل سے اپنی سوانح عمری میں ذکر فرمایا ہے.مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ آپ کا قیام ڈیڑھ برس تک ہو چکا تھا کہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے نیاز حاصل ہو گئے اور آپ نے ان سے فیض صحبت اٹھانے کے لئے مدینہ طیبہ کا قصد کر لیا.مدینہ طیبہ جانے کے لئے چونکہ آپ نے حضرت شاہ عبد الغنی مجددی" سے سفر مدینہ طیبہ راہنمائی اور مشورہ حاصل کر لیا تھا.اس لئے آپ مدینہ پہنچتے ہی ان کی خدمت

Page 89

تاریخ احمدیت جلد ۳ 64 سفر د مین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک میں حاضر ہوئے انہوں نے ایک علیحدہ حجرہ رہنے کے واسطے آپ کو دے دیا.جس کے متصل ایک اور حجرہ تھا.جہاں چشتی جام پور کے ایک مولوی نبی بخش رہتے تھے یہاں آپ صرف مدینہ کے برکات سے مستفید ہونے اور حضرت شاہ عبد الغنی کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کے لئے آئے تھے اس لئے آپ نے آکر کسی سے سبق نہیں پڑھا البتہ آپ فرصت کے وقت ایک کتب خانہ میں (جو مسجد نبوی کے جنوب و مشرق میں تھا) اکثر تشریف لیجاتے اور کتابیں مطالعہ فرمایا کرتے تھے شروع شروع میں آپ کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ شاہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.مگریہ تحریک کئی قسم کے خیالات آنے پر پھر مدھم پڑ جاتی.کبھی سوچتے کہ قرآن مجید میں ہر چیز موجود ہے ان لوگوں سے کیا زائد چیز ملے گی.اگر حسن اعتقاد سے نفع ہے تو عقیدت تو مجھ کو ویسے ہی بہت ہے کسی وقت خیال آنا کہ ہزاروں لوگ جو آپ سے بیعت ہوئے ہیں آخر کسی فائدہ کو دیکھ کر ہی ہوئے ہیں ؟ فرمنکہ کئی دن اسی غور و فکر میں گذر گئے.بہت دنوں کے بعد آخر آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ کم سے کم بیعت کر کے تو دیکھیں اس میں فائدہ کیا ہے ؟ اگر کچھ فائدہ نہ ہوا تو پھر چھوڑنے کا اختیار ہے.لیکن جب آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خیال آیا کہ ایک شریف آدمی معاہدہ کر کے چھوڑ دے تو یہ بھی حماقت ہی ہے.پہلے ہی اس سے بات کو سوچ لینا بہتر ہے یہ نسبت اس کے پھر چھوڑ دے.آخر ایک دن عرض کیا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کہ استخارہ کرو.آپ نے عرض کیا کہ میں تو بہت کچھ استخارہ اور فکر کیا ہے لیکن شاہ صاحب نے جونہی اپنا ہاتھ بیعت لینے کے لئے بڑھایا آپ کے دل میں بڑی مضبوطی سے یہ بات آئی کہ معاہده قبل از تحقیقات یہ کیا بات ہے؟ اس لئے باوجودیکہ انہوں نے ہاتھ بڑھایا تھا.آپ نے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ لئے.مربع بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ بیعت سے کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا کہ سمعی کشفی گرد و و دید شنید مبدل گردد.اور یہ وہ جواب ہے جو نجم الدین کبریٰ نے دیا تھا پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا دیئے لیکن اس وقت آپ نے اپنے ہاتھ کو ذرا سا پیچھے ہٹا لیا.اور فرمایا تمہیں وہ حدیث یاد ہے جس میں ایک صحابی نے درخواست کی تھی کہ اسئلک مرافقتك في الجنتہ میں جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں آپ نے عرض کیا خوب یاد ہے آپ نے فرمایا اس امر کے لئے تم کو اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو کم سے کم چھ مہینے میرے پاس رہنا ہو گا.اور اگر فروع اسلام سیکھنے ہیں تو ایک برس رہنا ہو گا.تب آپ نے اور بھی ہاتھ بڑھایا اس پر آپ نے بیعت لی اور فرمایا کہ ہم کوئی مجاہدہ سوائے اس کے آپ کو نہیں بتاتے کہ ہر وقت آپ آیت و نحن اقرب اليه من حبل الورید پر توجہ رکھیں پھر و الله معکم این ما کنتم کی نسبت بھی ایسا ہی فرمایا.اس توجہ میں آپ نے بارہا حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت کی.حضرت خلیفہ اول اپنی ایک قلمی بیاض میں (خدا کو

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 65 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک مخاطب کرتے ہوئے) لکھتے ہیں ”مدینہ طیبہ میں وہ مقدس انسان و انت حسیبه شیخ عبد الغنی نداه البی و امی تو نے مجھے ملایا جس کے کرامات سے میں نے تجھے انت الہادی انت الحق پایا.اور تیرے رسول خاتم النسین سید المرسلین اللهم صلى وسلم بارک وسلم سے بار بار بلا.“ حضرت شاہ صاحب مدینہ میں بخاری شریف ، ترمذی شریف، مثنوی مولانا روم اور (تصوف کی کتاب تفسیر یہ کا درس دیا کرتے تھے.آپ کے کھانے پینے کے عجائبات میں سے ایک یہ بات ہے کہ اکبر خاں صاحب سنوری ( حضرت مسیح موعود کے مرید اور خاص خادم) کے ایک حقیقی بھائی ولی داد خاں صاحب تھے جو مدینہ منورہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں اکثر رہتے تھے ان کو ایک دفعہ گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا وہ نہایت عمدہ گیہوں جس میں جو کا ایک دانہ بھی نہ تھا لائے لیکن آئندہ بازار کا سودا ان کی معرفت منگوانا بند کر دیا.آخر ایک شخص کو پھر گیسوں خریدنے کے لئے بھیجا اس شخص نے وہ روپیہ جو گیہوں خرید نے کانہ ولی داد خاں کو دیا اور یہ کہا کہ اب کی دفعہ جو گیہوں حضرت صاحب کے واسطے لاؤ تو اس میں بہت سے جو ملے ہوئے ہوں چنانچہ وہ گیہوں لائے جس میں بہت سے جو ملے ہوئے تھے.خوش ہو کر فرمانے لگے کہ یہ گیہوں کون لایا ہے اس شخص نے سفارش کے طور پر کہا کہ ولی داد خاں لائے ہیں فرمانے لگے کہ اب ان کو عقل آگئی ہے لہذا آئندہ وہی لایا کریں.ایک دفعہ مذاہب کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اشهر المذاهب مذهب ابی حنیفه واوسع المذاهب مذهب مالك اقوى المذاهب مذهب شافعى و احوط المذاهب أحمد بن حنبل - (ترجمہ) مذاہب میں سب سے مشہور حضرت امام ابو حنیفہ کا.سب سے وسیع حضرت امام مالک کا.سب سے قوی حضرت امام شافعی کا اور سب سے محتاط حضرت امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے.حضرت شاہ صاحب کے مکان میں ہر روز ختم ہو تا تھا اور بعض مرید انیس ہزار دفعہ لا الہ الا الله ہر روز پڑھتے تھے ایک شخص نے شکایت کی کہ نور دین اتنی محنت نہیں کرتا.نیز امام کے پیچھے الحمد پڑھتا ہے اور رفع یدین کا قائل ہے آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ایسی چھری لائیں جو رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ کو بخاری میں سے کاٹ سکے اور انیس ہزار بار لا الہ الا اللہ پڑھنے کی کوئی سند ہے تو وہ نو ر الدین کو دکھلائی جائے اگر وہ صحیح ہو گی تو وہ مان لے گا.اس پر آپ کے سب پیر بھائی بالکل خاموش ہو گئے.ایک دفعہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کی مولوی نبی بخش صاحب سے ایک رکعت وتر کے معاملہ میں دوستانہ گفتگو تھی جس میں انہوں نے کہا کہ ایک رکعت و ترامام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیقات کے خلاف ہے اور کوئی دلیل اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.امام کا فیصلہ کافی دلیل ہے کہ ایک

Page 91

تاریخ احمدیت جلد ۳ 66 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک رکعت کوئی نماز نہیں.کچھ دن بعد آپ نے ان کو ایک کتاب میں نماز عاشقاں دکھائی جو ایک رکعت ہوتی ہے اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے.انہوں نے کہا کہ یہ نماز بہت ہی مجرب ہے آپ نے کہا یہ امام صاحب کی اس ایک رکعت والی تحقیق کے خلاف ہے تب انہوں نے امام صاحب کے حق میں بڑی ہی گستاخی کے کلمات کہے.آپ نے کہا کہ اس دن آپ اتنے مداح تھے یا اب ایسے گستاخ ہیں کہنے لگے کہ وہ فقہاء کے مقابلہ میں ہیں.اور یہ تو سلطان جی نے لکھا ہے سلطان جی تو عرش پر پہنچنے والے ہیں.ان کے سامنے امام ابو حنیفہ وغیرہ ملا لوگوں کی کیا حقیقت ہے.تب آپ نے فیصلہ کیا کہ محبت اور تقلید بھی بڑی تکلیف میں ڈالنے والی چیز ہے.وہ مدینہ میں اس وجہ سے رہتے تھے کہ حالت بقطہ میں نبی کریم ﷺ کو دیکھیں.آپ نے ایک دفعہ رویاء میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا.آپ نے فرمایا کہ تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے." ان دنوں میں آپ نے نبی بخش کو بہت ڈھونڈا.باوجودیکہ آپ کے ساتھ کے حجرہ میں رہتے تھے مگر ملاقات نہیں ہو سکی اور وہ حجرہ میں آئے ہی نہیں.بہت دنوں کے بعد جب ملے تو آپ نے کہا کہ آپ کو کوئی تکلیف ہو تو بتا ئیں اور ضرورت ہو تو میں آپ کو کچھ دام دیدوں.کہا کہ مجھ کو بہت شدت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چو نہ اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور اجرت بھی ہاتھ آگئی ہے اس لئے ضرورت نہیں.مدینہ طیبہ میں ایک ترک کو آپ سے بہت محبت تھی..اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب آپ کو پسند ہو تو ہمارے کتب خانہ سے لے لیا کریں.گو ہمارا قانون نہیں ہے مگر آپ کے اس عشق و محبت کی وجہ سے جو آپ کو قرآن کریم سے ہے آپ کو اجازت ہے آپ نے فرمایا کہ مسئلہ ناسخ منسوخ کے متعلق کوئی کتاب دو.انہوں نے ایک کتاب دی جس میں چھ سو آیت منسوخ لکھی تھی.آپ کو یہ بات پسند نہ آئی.ساری کتاب پڑھی اور مزانہ آیا.آپ اس کتاب کو واپس لے گئے اور کہا کہ میں جوان آدمی ہوں اور خدا کے فضل سے یہ چھ سو آیتیں یاد کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ کتاب پسند نہیں وہ بہت بوڑھے اور ماہر شخص تھے انہوں نے ایک اور کتاب دی جس کا نام "اتقان تھا اور ایک مقام اس میں بتایا جہاں ناسخ منسوخ کی بحثہ تھی.آپ نے فوزالکبیر کو جو ہمیئی میں پچاس روپیہ کو خریدی تھی ابھی پڑھا نہیں تھا کہ آپ اتقان لے آئے اور پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا کہ انیس آیتیں منسوخ ہیں.آپ اس کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور سوچا کہ انہیں یا نہیں آیتوں کو تو فور ایا د کرلوں گا.گو آپ کو خوشی بہت ہوئی.مگر آپ کو ایسا قلب اور علم دیا گیا تھا کہ پھر بھی وہ کتاب آپ کو پسند نہ آئی.تب فوز الکبیر کا خیال آیا کہ اس کو بھی تو پڑھ کر دیکھیں اس کو پڑھا تو اس کے مصنف نے لکھا تھا کہ خدا تعالٰی نے جو علم مجھے دیا ہے اس میں پانچ آیتیں منسوخ ہیں.یہ پڑھ کر تو بہت ہی خوشی ہوئی مگر آپ نے جب ان پانچ پر غور کی تو "

Page 92

تاریخ احمدیت جلد ۳ 67 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک خدا تعالیٰ نے آپ پر منکشف فرمایا کہ یہ ناسخ منسوخ کا جھگڑا ہی بے بنیاد ہے.کوئی چھ سو بتاتا ہے کوئی انیس یا اکیس اور کوئی پانچ اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو صرف فہم کی بات ہے اور خد اتعالیٰ کے فضل سے قطعی طور پر اس نتیجہ تک پہنچے کہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ صرف بندوں کے قسم پر ہے.ایک دفعہ ایک شخص شاہ صاحب کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں مدینہ منورہ ہجرت کر کے آیا ہوں لیکن یہاں کے لوگوں کے حالات سے میں تنگ آگیا ہوں شاہ صاحب سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ہم بھی تو ہجرت کر کے آئے ہیں تم نے اگر جوار نبی کریم ﷺ کے لئے ہجرت کی ہے تو وہ موجود ہے.اور اگر اس لئے کی ہے کہ حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی یہاں موجود ہیں.تو یہ لوگ تو بیشک آج موجود نہیں ہیں.آپ یہاں سے چلے جائیں.آپ کا حضرت شاہ عبد الغنی کے بتائے ہوئے وظیفہ پر عمل جاری تھا کہ ایک دفعہ دو پہر کو سو گئے اٹھے تو جماعت ہو چکی تھی آپ کا خون خشک ہو گیا آپ کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں خوف کے مارے رنگ زرد ہو گیا.مسجد سے اندر قدم رکھنے سے بھی ڈر معلوم ہوتا تھا.مسجد نبوی کا ایک باب الرحمت ہے اس پر لکھا ہے.یا عبادى الذين أسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله يغفر الذنوب جميعا انه هو الغفور الرحيم (الزمر۳۹ آیت ۵۴) جب آپ نے یہ آیت دیکھی تو اس سے قلبی دہشت کچھ کم ہوئی پھر بھی آپ نے بہت ہی سہمے ہوئے اور حیران و پریشان ہو کر مسجد میں قدم رکھا جب منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچے اور نماز ادا کرنے لگے تو رکوع میں بڑے زور سے خیال آیا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ما بین بیتی و منبری روضة من رياض الجنة کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان کا ایک ٹکڑا بہشتی ہے.اور جنت تو وہ مقام ہے جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی ہے پس آپ نے دعا مانگی کہ الہی میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے.اور معافی کی صورت میں مجھے بطور اطلاع اس کی دلیل بھی بتائی جائے.ظہر کی نماز تھی رکوع میں ہی آپ کو یہ آیت بتائی گئی کہ ولکم فيها ما تشتهى انفسكم ولكم فيها ما تدعون اور القا ہوا کہ تمہارا یہ گناہ بخشا گیا ہے.حضرت شاہ عبد الغنی سے چالیس احادیث کی روایت کا فخر قیام مدینہ کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے پیرو مرشد حضرت شاہ عبد الغنی" کے ذریعہ سے آنحضرت ﷺ کی چالیس صحیح احادیث کا رادی بننے کا شرف حاصل ہو ا جو ان تک ستائیس واسطوں سے مسلسل و متصل صورت میں پہنچی تھیں یہ چالیس احادیث وہ ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے "اربعین" میں شائع فرما دی تھیں اور آگے انہی سے یہ سلسلہ اسناد دو رادیوں سے حضرت شاہ عبد الغنی مجددی تک آیا تھا.یعنی

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 68 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حضرت شاہ ولی اللہ سے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی نے روایت سنی ان سے شاہ اسحاق نے ااور حضرت شاہ اسحاق سے حضرت شاہ عبد الغنی مجددی نے اور ان سے حضرت مولانا نور الدین صاحب تک پہنچی آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے من حفظ على امتى اربعين حديثا في امر دينها بعثه الله تعالى فقيها و كنت له يوم القيامة شافعا و شهيدا یعنی جس شخص نے میری امت کے لوگوں کو سنانے اور سمجھانے کے لئے چالیس حدیثیں یاد رکھیں جو دین کے بارے میں ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن فقہاء وعلماء کے زمرہ میں داخل کرے گا اور میں اس کی سفارش بھی کروں گا اور اس کے حق میں گواہی بھی دوں گا.اس حدیث کے مطابق حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول نے نہ صرف یہ احادیث خود یاد کیں بلکہ ان کو اپنے بعض شاگردوں تک بھی پہنچایا.چنانچہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ مجھے حضرت خلیفہ المسیح اول حضرت مولوی حکیم نور الدین اللہ نے اپنے شفا خانہ میں فرمایا.کہ آنحضرت میر کی چالیس حدیثیں ایسی ہیں جو زبانی مجھ تک پہنچی ہیں آؤ میں وہ تمہیں سناؤں....آپ نے پہلے اپنے سے آنحضرت ال تک کے راوی بیان فرمائے پھر وہ چالیس حدیثیں مجھے ایک ایک کر کے سنائیں اور ان کے معنی بتائے اور ان کی مختصر تفسیر فرمائی.پھر مجھے ان حدیثوں کے حفظ کرنے کی ہدایت کی.جس پر میں نے وہ حدیثیں اسی زمانہ میں یاد کر لیں.....یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں پیش آیا اور حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب نے اپنے مطب کے مشرقی دروازہ میں بیٹھ کر ظہر کی نماز کے بعد جب کہ حافظ روشن علی صاحب بھی موجود تھے.مجھے ان حدیثوں کا راوی بنایا اور اس وقت کی بات سے مترشح ہو تا تھا کہ حافظ صاحب کو بھی حضرت مولوی صاحب اس سے قبل ان حدیثوں کا ر ا دی بنا چکے تھے.مدینہ میں کچھ عرصہ گذار کر حضرت مولوی نور الدین صاحب مکہ معظمہ میں دوسری بار مدینہ سے دوبارہ عازم مکہ ہوئے یہ ۸۶-۱۲۸۵ھ یا ۶۹ - ۶۱۸۶۸ کی بات ہے اور حج کے مہینے تھے.مکہ کے رستہ میں ایک جگہ آپ نے ڈیرا کیا.ساتھ ہی ایک عظیم الشان خیمہ نصب تھا جس میں مقلد اور غیر مقلد مسئلہ تقلید پر الجھے ہوئے تھے.حضرت مولوی صاحب نے جو اس وقت خیمہ سے باہر ہی کھڑے یہ بحث سن رہے تھے بلند آواز سے فرمایا کہ جب ایک مسئلہ میں اتنے بڑے علم کی ضرورت ہے تو ایک امام کو دوسرے امام پر تمام مسائل میں ترجیح دینے کے لئے لاکھوں علوم کی ضرورت ہوگی.آپ کی اس آواز نے سب پر بجلی کا سا کام دیا مگر وہ لوگ...امراء تھے

Page 94

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 69 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک اور ان دنوں اس طبقہ سے آپ کو نفرت تھی.جب آپ مکہ معظمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو خیال آیا کہ حضرت نبی کریم کداء مقام کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے تھے لیکن آدمیوں کی بار برداریاں اور سواریاں اس راستہ نہیں جاتی تھیں اس لئے جہاں دوسرے لوگ معروف رستہ سے آگے بڑھے وہاں آپ ز طوئی مقام سے ذرا آگے بڑھ کر اونٹ سے کود پڑے اور آخضرت ﷺ کی سنت مبارکہ کے مطابق کداء ہی کے رستہ سے مکہ میں داخل ہوئے.مکہ معظمہ میں جہاں آپ فرد کش تھے آپ مکان ہی سے احرام باندھ کر عمرہ کر لیا کرتے تھے جن کے گھر میں رہتے تھے وہ ایک بوڑھا مخدوم تھا.اس نے بار بار وہاں احرام باندھتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ آپ تنعیم سے جہاں سے تمام اہل مکہ احرام باندھتے ہیں کیوں احرام نہیں باندھتے آپ نے کہا کہ تنعیم میں جاکر احرام باندھنا بیہودہ بات ہے اس نے گھبرا کر کہا کہ آپ تمام شہر کے خلاف کرتے ہیں.آپ نے بڑی جرات سے فرمایا کہ ان کی میں ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا.جب کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مکہ والے اپنے گھروں سے احرام باندھ سکتے ہیں.میرا عمل تمام شہر مکہ کے خلاف تو نہیں ہاں گدھے والوں کے خلاف ہے کیونکہ ان کے کرایہ میں کمی ہوتی ہے یہ بات سن کر وہ ہنس پڑا اور خاموش ہو گیا.☑ شرف حج اور اس کے تاثرات آپ قبل از میں ایک بج کر بیچکے تھے اس سال آپ دوسری دفعہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے جس سے روحانی انوار و برکات بھی آپ کو حاصل ہوئے اور حج کا فلسفہ اور بے شمار فوائد پر بھی حق الیقین ہوا پھر جوں جوں عمر اور تجربہ اور روحانیت میں اضافہ ہو تا گیا یہ بصیرت و معرفت بھی بڑھتی چلی گئی.چنانچہ آپ نے بعد میں خود ہی ان باطنی مشاہدات کا تذکرہ بڑے روح پرور الفاظ میں ایک لطیف مضمون میں کیا ہے مضمون کیا ہے حقائق و معارف کا بحرز خار اور تصوف اسلامی کا نچوڑ ہے.حج سے آپ کو ایک نکتہ معرفت یہ بھی حاصل ہوا کہ چونکہ ہر سال نئے حاجی آتے ہیں اور وہ بہت جلد چلے جاتے ہیں.اس واسطے وہاں کے لوگوں کو کسی کامل انسان سے بھی کچی محبت نہیں ہو سکتی وہاں ہر روز نئے مہمان آتے اور جاتے ہیں اگر وہ شدید محبت کسی سے کریں تو پھر تو ان کی ہلاکت ہے.آپ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ وہاں جناب الہی کی محبت کے واسطے خالص سامان مہیا ہے انسانی محبتیں کوئی چیز نہیں

Page 95

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 70 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک الغرض دیار حبیب کے فیوض و برکات سے مالا مال ہو کر اور دوبار مکہ سے وطن کو مراجعت شرف حج حاصل کر کے آپ مکہ معظمہ سے جدہ اور جدہ سے بذریعہ جہاز بمبئی پہنچے.یہاں آپ کو ایک میاں بیوی کے حالات سن کر جن کو آپ نے مکہ میں بھی دیکھا تھا شدید احساس ہوا کہ بیوگان کو بٹھارکھنا بڑے تلخ نتائج پیدا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کے گھر میں جو ان بیوہ عورتیں بیٹھی ہیں.یہ توفیق دے کہ ان کا نکاح استخارہ کر کے کر دیں.ہمی سے ریل پر سوار ہو کر دہلی آئے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا دہلی میں درس و تدریس جاری تھا.اور غالبا یہی موقعہ تھا یا ۱۸۷۷ کا اوائل جب کہ آپ کو بھی ان کی مجلس میں شامل ہونے کا موقعہ ملا چنانچہ خود ہی بیان فرماتے ہیں.میں نے مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کو دیکھا ہے بڑے تیز آدمی تھے.فلسفیانہ طبع تھی ہر سوال کا جواب فور ا دیتے تھے.دیانند ان کے مقابلہ میں آنے سے ڈرتا تھا ایک دفعہ حدیث پڑھا رہے تھے ایک حدیث میں آیا کہ آخری زمانہ میں مال کم ہو گا اور اس کے بعد ایک اور حدیث آئی کہ کسی جگہ سونا نکلے گا.میں نے چاہا کہ سوال کروں ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ حضور پہلی " تو فورا سمجھ گئے اور جھٹ جواب دیا کہ میاں کیا تم نے چراغ بجھتا ہوا نہیں دیکھا.میں بھی جواب سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا.مطلب یہ تھا کہ سمجھتے بجھتے چراغ کی روشنی یکدفعہ آخر میں اٹھتی ہے یہ آخری جوش ہے دہلی میں آپ کو اپنے طبیب استاد (مولوی حکیم علی حسین صاحب لکھنوی) سے بھی اچانک ملاقات ہو گئی انہوں نے پوچھا کہ تم حرمین سے کیا کیا لائے؟ آپ نے بعض لطیف کتابوں کا ذکر کیا جو آپ لائے تھے کہنے لگے وہ سب مجھے دیدے.آپ نے انشراح صدر سے فرمایا کہ وہ تو آپ ہی کی چیز ہے لیکن میں نے صندوق بذریعہ ریل لاہور بھجوا دیئے ہیں.میں لاہور سے وہ صندوق آپ کی خدمت میں بھجوادوں گا.انہوں نے کہا کہ ہم بھی لاہور دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ خوشی خوشی ان کی رفاقت میں لاہور تشریف لائے اور بہت سے مقامات کی ان کو سیر کرائی آپ صندوق لینے کے لئے اسٹیشن کو جانے لگے تو انہوں نے اپنا نو کر بھیج کر صندوق منگوا لئے اور ان کا محصول بھی اپنی گرہ سے ادا کر دیا.پھر کہا کہ یہ ہم نے صرف اس لئے کیا ہے کہ کچھ ہمار ا حصہ بھی ان میں شامل ہو جائے در اصل بات یہ تھی کہ اس وقت آپ کی جیب میں اتنے روپے ہی نہیں تھے کہ ان صندوقوں کا کرایہ ریل ادا کر سکتے مگر خدا تعالیٰ نے خود ہی ایسا سامان کیا کہ آپ نے تو اس کا ذکر تک کسی سے نہ کیا اور بمبئی سے لاہور تک کے اخراجات آپ کے استاد نے از خود ادا کر دیئے کو ذالك فضل الله يو تيه من يشاء.بہر حال آپ اپنے استاد کو رخصت کر کے شہر لاہور میں داخل ہوئے تو بھیرہ کا ایک ہندو مل گیا جس

Page 96

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 71 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کے پاس بار برداری کا سامان تھا اس نے آپ سے کہا کہ میں آپ کا اسباب بھیرہ لئے چلتا ہوں آپ مجھے روپیہ بھیرہ میں دے دیں.شام کو آپ چینیاں والی مسجد میں گئے نماز کے لئے جب وضو کر رہے تھے تو میاں محمد علی برادر مولوی محمد حسین صاحب نے تاریخ منسوخ کے متعلق سوال کیا.آپ نے فرمایا کہ کوئی ناسخ منسوخ نہیں.جب مولوی محمد حسین صاحب کو اس کے متعلق اطلاع ہوئی تو وہ آپ کے پاس دوڑے ہوئے آئے کہ آپ ناسخ و منسوخ کے قائل نہیں آپ کی طرح ابو مسلم اصفہانی اور سید احمد خاں صدر الصدور بھی قائل نہیں.آپ نے جواب دیا کہ پھر تو ہم تین آدمی ہو گئے وہ کہنے لگے کہ امام شوکانی لکھتا ہے کہ جو شیخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے آپ نے فرمایا کہ پھر تم تو صرف دو آدمی قائل ہوئے.پھر آپ نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ آپ کوئی آیت جو تمہارے نزدیک منسوخ ہو پڑھو ہم ثابت کر دیں گے کہ منسوخ نہیں.غرض مولوی صاحب نے ایک آیت پڑھی آپ نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ نے اپنی فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں اور یہ وہ بزرگ ہیں جن کو تم بھی بزرگ مانتے ہو پھر ایسے خاموش ہوئے کہ کچھ جو اب ان سے نہ بن پڑا بھیرہ میں واپسی دور دراز ممالک ہندو عرب کے طویل اور تھکا دینے والے سفر اختیار کرنے اور طبی اور دینی علوم کی تکمیل کے بعد آخر وہ دن بھی آپہنچا جب کہ آپ واپس اپنے وطن مالوف بھیرہ میں رونق افروز ہوئے.یہ وسط ۱۸۷۱ء کا ذکر ہے جب کہ آپ کی عمر مبارک تمھیں سال کے لگ بھگ ہو چکی تھی.اور والدین خدا کے فضل سے زندہ تھے مگر اس دوران میں کئی بھائی وفات پاچکے تھے.آپ کے بلاد عرب و ہند سے تعلیم پا کے آنے کی خبر شہر کے ایک سرے سے دو سرے سرے تک بجلی کی طرح پھیل گئی اور مسلمان اور ہندو بڑی کثرت سے آپ کے استقبال کے لئے جمع ہو گئے عین اس موقع پر ایک حنفی عالم نے یہ کہہ ڈالا کہ بخاری ایک ایسی کتاب ہے جو ہزار سال سے گوشہ گمنامی میں پڑھی تھی اسے دلی کے ایک شخص نے جس کا نام اسماعیل تھا شائع کیا ہے بخاری شریف کی شان اقدس میں جسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کا مرتبہ حاصل ہے یہ گستاخانہ کلمات گویا تیر و نشتر بن کر آپ کے سینہ میں پیوست ہو گئے اور دل و دماغ میں سخت غیظ و غضب پیدا ہوا.وطن میں آنے کا یہ پہلا دن اور ملاقات کا یہ پہلا نازک موقع تھا اور طالب علمی کے دور کے بعد اب اپنے شہر میں زندگی کے نئے دور کا آغاز کر رہے تھے.مگر رسول خدا ﷺ کا یہ عظیم عاشق اور حق و صداقت کا یہ علمبردار یہ بے ادبی در جسارت کیسے گوارا کر سکتا.چنانچہ آپ نے بھری مجلس میں جواب دیا کہ اول تو میں ابھی طالب علمی سے آیا ہوں نہ میرا مطالعہ نہ میری وسعت نظر نہ مجھے تجربہ.لیکن بخاری کے ساتھ شروح کے نام

Page 97

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 72 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک اس وقت مجھے یاد ہیں اگر ایک شرح کو سولہ برس کے قریب قریب ختم کر لیا جائے تو کچھ زیادہ مدت معلوم نہیں ہوتی تو اس ہزار برس میں ہر روز بخاری شریف کی شرح لکھی گئی ہے اور یہ شہر میں شافعی مذہب کی بھی.حنفیوں کی بھی.مالکیوں کی بھی اور حنبلیوں کی بھی ہیں میں نے خود بخاری کو بڑے حنفی مذہب مولوی عبد القیوم صاحب سے بھوپال میں پڑھا ہے پھر شاہ عبد الغنی صاحب سے بھی.ان دونوں کی صحبت میں میں نے کبھی ایسے الفاظ نہیں سنے !! یہ حنفی مولوی صاحب جو بخاری شریف کے سخت دشمن تھے.اس وقت تو اس کا جواب دینے سے قاصر رہے مگر اندر ہی اندر آپ کو وہابی قرار دے کر آپ کے خلاف اشتعال پھیلانے اور منصوبے بنانے کی در پردہ سازشیں شروع کر دیں.ان دنوں اہل حدیث فرقہ حکومت انگریزی کی نگاہ میں بھی سخت معتوب تھا اور پنجاب میں حنفی علماء نے تو ہر جگہ اہل حدیثوں کی مخالفت میں اکھاڑے قائم کرلئے تھے.اور ان کی سخت تحقیر و تذلیل کی جاتی تھی.اس وقت تک یہ تحریک لاہور.وزیر آباد.جہلم.سیالکوٹ وغیرہ شہروں میں زور پکڑ رہی تھی.جہاں علی الترتیب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی - حضرت مولوی برہان الدین صاحب اور میرابراہیم صاحب سیالکوٹی ان خیالات کی ترویج و اشاعت میں مصروف تھے لیکن اب جو بھیرہ کے مشہور حنفی خاندان میں یہ تحریک سرایت کرنے لگی تو حنفی (مقلد) علماء نے شہر بھر میں ایک آگ لگادی اور علماء.پیر.طبیب.دکاندار عوام غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے اور حیلے استعمال کئے جانے لگے !! چنانچہ بھیرہ کے ایک کٹر حنفی عالم (مولوی ظہور احمد بگوی) خود لکھتے ہیں."حرمین سے واپسی پر نورالدین نے رہا بیت اختیار کی اور ترک تقلید پر وعظ کئے.اور عدم جو از تقلید پر کتابیں تصنیف کیں.بھیرہ میں ہیجان عظیم برپا ہو گیا.حضرت مولانا غلام نبی صاحب للوی.مولانا غلام رسول صاحب چودی اور مولانا غلام مرتضی صاحب بریلوی ، حضرت زبدة العارفین مولانا عبد العزیز بگوی کے دستخطوں سے ایک فتویٰ غیر مقلدین کے خلاف شائع ہوا اور محلہ پر اچگان بھیرہ میں فیصلہ کن مناظرے کے بعد غیر مقلدین کا بھیرہ میں ناطقہ بند ہو گیا.المختصر ان علماء نے پہلے مختلف اختلافی مسائل (رفع یدین ، یا عبد القادر شیئا للہ کہنا) وغیرہ پر بحث مباحثہ کا بازار گرم ہوا مگر ہر معرکہ میں ان کو سخت زک اٹھانا پڑی.بعض پیر حنفی علماء کی طرح مقابلہ میں آئے مگر وہ بھی آپ کے زبر دست دلائل ، قوت جاذبہ اور عالمانہ استدلال کے سامنے دم بخود رہ گئے.آپ کی سوانح عمری ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح غیر معمولی حالات اور ماحول میں آپ

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 73 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کو تائید الہی حاصل ہوئی.حضرت خلیفتہ المسیح الاول اپنے قلمی بیاض میں فرماتے ہیں: " اب عملی دشمن اس صدا کے (لا الہ الا اللہ کے.ناقل ) وطن میں نظر آئے اور مجھے پیر حیدر شاہ کے گھر میں غلام محمد حائک نے دھوکہ دے کے پہنچایا میں نے دیکھا کہ میری مخالفت میں جسم غفیر جمع ہے اور الزام یہ قائم کیا گیا کہ دعا بعد الاذان میں میں نے میاں عزیز مستری کو جو یادداشت لکھ دی تھی اس میں وارزقنا شفاعته نہیں ملتا اس لئے دلائل الخیرات میں سے وارزقنا شفاعتہ کا لفظ نکال کر لوگوں کو بھڑ کا یا گیا وہ کون تھا جس نے میرا ہاتھ مولوی غلام قادر صاحب کی طرف بڑھایا اور دلائل الخیرات) ان سے لینا چاہی انہوں نے تامل فرمایا.میں نے ان کے ہاتھ سے لے لی.....اور جب میں نے دلائل الخیرات) کو کھولا تو مطبع نظامی کی دلائل کے صفحہ نمبرے کو کس نے نکال دیا.تو نے.تو نے.تو نے.(خدا تعالیٰ کو خطاب ہے.ناقل ) اور وہی دعا لکھی تھی جو میں نے عزیز مستری کو لکھ دی تھی تب میں نے یقین کیا تو ہادی اور حق ہے وہاں علماء و عوام کے سامنے کیا نظارہ تیرے فضل کا تھا کہ پیر صاحب نے کہا.ناقل ) حضرت سید عبد القادر صاحب کو تم کیا سمجھتے ہو.میں نے کہا ان مولویوں سے پوچھو کہ اس انسان کو یہ لوگ یقینی اور قطعی طور پر جنتی کہتے ہیں؟ تو کیا تو ہی نہ تھا جس نے علوم کو اس وقت سلب کیا کہ بول اٹھے سوائے عشرہ مبشرہ کسی کو ہم لوگ جنتی نہیں کہہ سکتے تو میں نے کہا ان کی ولایت کا تمہیں کب اور کیسے یقین ہوا.پیر صاحب متحیر ہو گئے." قتل کرنے کی سازش علماء نے اپنی شکست محسوس کر کے آپ کو قتل کرانے کی ٹھان لی اور اس کے لئے عوام کو اکسانا شروع کیا.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح اول لکھتے ہیں " ایک مرتبہ میری مخالفت بھیرہ میں اس قدر بڑھی کہ لوگ میرے قتل کے منصوبے کیا کرتے تھے.یہاں تک زور ہوا کہ ایک شخص میرا دودھ شریک بھائی تھا اس نے میرے دشمنوں سے کہا کہ میں نورالدین کے چھری مار کر اس کا کام تمام کر دوں گا میں نے جب سنا تو میں ایک دن رات کو نماز عشاء کے بعد اس کے گھر چلا گیا اس کی ماں کا چونکہ میں نے دودھ پیا تھا اس لئے وہ مجھ سے پر وہ تو کرتی ہی نہ تھی میں وہاں جا کر لیٹ گیا اور خراٹوں تک بھی نوبت پہنچادی.سب نے سمجھا کہ یہ سو گیا ہے میرے دل میں یہ خیال اور شوق کہ دیکھوں یہ کس طرح چھری مارے گا.یہاں تک کہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو اس کی ماں نے مجھے جگایا کہ بیٹا اب تم اپنے گھر جاؤ میں نے کہا کہ میں یہیں سو رہوں گا کیونکہ آدھی رات تو گذر ہی گئی ہے اس نے کہا کہ نہیں تم اپنے گھر ہی جاکر سود.میں نے کہا کہ اچھا میں تنہانہ جاؤں گا.اس کو دودھ شریک بھائی کو میرے ساتھ بھیجو کہ مجھ کو مکان تک پہنچا آئے وہ میرے ساتھ ہولیا میں نے دانستہ اس کو پیچھے رکھا اور خود آگے آگے چلا لیکن اس نے کچھ نہ کیا.پھر جب میں اپنے

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 74 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک گھر کے دروازے پر پہنچا تو میں دروازہ کی سیڑھیوں پر اوپر کھڑے ہو کر اس کو نیچے کی سیڑھی پر کھڑا کر کے باتیں کرنے لگا کہ اب یہ اطمینان سے چھری بھونک دیگا لیکن وہ تو اس قدر گھبرایا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ اب اجازت دیجئے میں نے کہا.اچھا" جب عوامی اشتعال کارگر نہ ہوا تو جامع مسجد میں آپ کو بلوا کر فتوی لگا کے شہید کر دینے کی ایسی زبر دست سازش کی کہ تحصیلدار بھی اس میں شامل ہو گیا.آپ یہ واقعہ خود تحریر فرماتے ہیں ایک دفعہ وہاں کے علماء مباحثہ کے لئے جمع ہوئے وہاں کی جامع مسجد کو جو شیر شاہ کی بنوائی ہوئی ہے اکھاڑہ بنایا.کئی قسم کی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تم جو اولیاء کا پکارنا شرک کہتے ہو اگر علماء میں سے کسی نے ایسا لکھا ہو تو بلا گفتگو اس امر کو مان لیں گے بہت سے علماء تھے جن سے یہ پختہ اقرار کرایا گیا.دوسرے دن آپ تفسیر عزیزی لے گئے اور اس میں سے و تبتل الیہ تبتیلا کا موقع ان کو دکھایا جہاں شاہ عبد العزیز صاحب تحریر فرماتے ہیں." بعضے پیر پرستان از زمره مسلمین در حق پیران خودا مراول را ثابت میکنند و در وقت احتیاج ہمیں اعتقاد با نما استعانت سے نمائیندا الخ.اس کے لطیف جوابوں میں ایک شخص نے جو بڑے پیر بنے ہوئے تھے اور عالم بھی مشہور تھے آپ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا آپ گھبرا کر کیوں بات کرتے ہیں.یہاں کیا کوئی تمہارا دشمن ہے؟ دوسرے مولوی نے کہا کہ یہ لفظ پیران (بہائے فارسی) نہیں بلکہ بیران (بیائے موحدہ) ہے اور بیر ہنومان کو کہتے ہیں.پھر آپس میں کچھ اشارے کر کے سب کھڑے ہو گئے معلوم ہوا کہ کوئی خاص منصوبہ انہوں نے تجویز کیا ہے.اور اس لئے انہوں نے ایسی بھی کوشش کی تھی کہ وہاں آپ کے دوستوں سے ایک شخص بھی موجود نہ تھا آپ اس وقت اپنے دل میں یہ دعا مانگ رہے تھے عزت بر بی و ربکم ان ترجعون.اس مسجد جامع میں ایک منبر تھا ایک مولوی اس پر جا کھڑا ہوا.ایک دنیا دار آدمی جس کو آپ کے خسر سے محبت تھی اس عظیم الشان از دهام اور کہرام میں آپ کے پاس سے یہ کہتا ہوا گذر گیا کہ "اگر یہ وقت مل جائے تو پھر ہم انتظام کر سکتے ہیں." جب مولوی کھڑا ہوا تو آپ کو یقین ہو گیا کہ اب یہ کسی قسم کا فتویٰ دیگا اور اس فتوے کی حقیقت آپ کو معلوم نہ تھی آپ کے داہنی طرف شہر کے تحصیلدار کھڑے تھے ان کا نام را مد اس تھا اور ان کے داہنے ہاتھ پر تھانیدار تھے.اور تھانیدار کے دہنے اور پیچھے بہت سے سپاہی تھے باقی ہزارہا مخلوق ان کے پیچھے تھی.اس تھانہ دار کا نقار تو صحیح تھا کیونکہ مولوی آپ کے مخالف تھے لیکن آپ کو بڑا تعجب ہوا جب کہ تحصیلدار نے آپ کو دھمکی دی اور کہا کہ آپ کی نسبت جو یہ محض فتوی دینے لگا ہے اس میں یہ شخص مختار ہے یہ سنتے ہی میں نے خدا تعالیٰ سے تائید پا کر اپنی پوری طاقت سے تحصیلدار کی رگ گردن کو جو شہ رگ کہلاتی ہے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اس طرح دبایا کہ تحصیلدار صاحب کی شیخ

Page 100

تاریخ احمدیت جلد ۳ 75 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک نکل گئی اور وہ بیہوش ہو کر گر پڑے.تھانہ دار کو جب یہ معلوم ہوا کہ تحصیلدار مارا جا چکا ہے تو اس کو خیال آیا کہ ہم تھانہ سے با قاعدہ رونا مچہ میں روانگی درج کر کے نہیں آئے ہم کو تھانہ سے باقاعدہ آنا چاہئے.چنانچہ تحصیلدار کے بیہوش ہو کر گرتے ہی تھانہ دار مع تمام سپاہیوں کے وہاں سے بھاگ گیا اس کے جاتے ہی یکلخت تمام مسجد خالی ہو گئی حتی کہ ان منبر پر چڑھنے والے مولوی صاحب کا بھی کوئی پتہ نشان نہ تھا.تحصیلدار رام داس کو جب ہوش آیا تو ان کا چہرہ زرد اور منہ فق تھا.اور اس تمام مسجد میں سوائے آپ کے اور ان کے کوئی تیسرا آدمی نہ تھا.تحصیلدار نے بڑی لجاجت اور خوفزدہ آواز سے کہا.مہاراج میں آپ کا مخالف نہیں ہوں.معلوم ہو تا تھا کہ ان کو اندیشہ ہے کہ یہ مذہب کے جوش میں مجھ کو قتل نہ کرڈالیں.آپ نے ان کو محبت سے اٹھایا اور گلے لگالیا.لیکن ان کا اندیشہ رفع نہ ہوا.تحصیلدار قد میں آپ سے چھوٹے اور بڑے شریف الطبع انسان تھے آپ نے ان کو اپنی بغل میں دبا لیا.اور اسی طرح بغل میں لئے مسجد سے باہر نکل آئے.لوگ ہوا ہو گئے تھے کسی کا پتہ نشان نہ تھا جوں جوں دونوں شہر کے قریب آتے جاتے تھے تحصیلدار کا چہرہ بشاش ہوتا جاتا تھا جب دروازہ میں آئے تو انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا اور جب چوک میں پہنچے تو بالکل سنبھل گئے اور آپ سے کہا کہ آپ ارشاد کریں تو میں تحصیل کو چلا جاؤں آپ نے کہا ہاں جاؤ.جب قتل کے منصوبوں میں بھی صریح ناکامی ہوئی تو علماء نے بعض پیروں سے ساز باز کر کے آپ کو بھیرہ سے نکال دینے کی تجویزیں سوچنا شروع کر دیں.چنانچہ حضرت خلیفتہ اصبح اول نے " مرقاه الیقین " میں لکھا ہے !کہ " ہمارے شہر میں ایک بہت بڑے پیر ولایت تھے بہت کچھ سمجھا کران سے لوگوں نے یہ اقرار لے لیا کہ اس قدر عہد دے دیں گے کہ نور الدین کو شہر سے نکال دیں جب پیر صاحب آرے.بلے.کہہ چکے مجھ کو بھی یہ خبر پہنچی.میں دوپہر کے وقت پیر صاحب کے پاس پہنچا اور وہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت پیر صاحب اکثر تنہا ہی ہوتے تھے میں نے کہا کہ عرض کرنے آیا ہوں جو بہت ہی مختصر ہے یہ باغ جو آپ کے گھر کے پاس ہے اس باغ کی نسبت ایک سوال ہے کہ " آپ حجرہ شاہ مقیم " کے رہنے والے ہیں اور وہ یہاں سے بہت دور ہے یہ باغ آپ کو اس شہر میں کس طرح مل گیا ؟ بس میرا اتنا ہی سوال ہے " پیر صاحب نے فرمایا کہ آپ کے دادا نے ہمارے دادا کو دیا تھا.میں نے کہا کہ بہر حال آپ کو ہمارے خاندان سے کچھ نفع پہنچا ہے یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ میں اور آپ کا بڑا بھائی لاہور میں ایک جگہ رہتے تھے اور ہمارے باہم بہت کچھ رسم آمد و رفت تھی.میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے اس شہر سے نکالنے میں شریک ہیں.خیر یہ تو احسان کا بدلہ ہی ہو گا.مگر اتنا آپ یاد رکھیں کہ جو لوگ میرے مرید اور معتقد ہیں وہ تو کم سے کم آپ کو کبھی سلام نہ کریں گے.یہ

Page 101

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 76 سفر د مین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کہہ کر میں چلا آیا.دن کے آخر حصہ میں جب علماء اکٹھے ہو کر ان کے پاس گئے اور میرے اخراج کا فتویٰ پیش کیا.تو پیر صاحب نے ہنس کر یہ فرمایا کہ فقر کا دروازہ بڑا ہی اونچا ہے.ہندو.سکھ.مسلمان.عیسائی.وہابی سب فقر کے سلامی ہیں.تب ان علماء نے عرض کیا کہ آپ نے کل فرمایا تھا کہ میں کل تدبیر بتادوں گا.اور ہم سے خوب پکی بات آپ کی اس کام کے متعلق ہو چکی تھی.پیر صاحب نے کہا کہ ہاں آپ رسول کی گدی کے مالک ہیں اور اس لئے آپ کی رعایت کرنی ضروری ہے لیکن فقر کا دروازہ بہت اونچا ہے اور فقر کے سب سلامی ہیں مولویوں نے بڑا ہی زور دیا مگر سلام کے لفظ کو پیر صاحب چھوڑ نہ سکے.پھر ان کا آدمی پہنچا اور کہا کہ پیر صاحب آپ کے مکان کے قریب سے گذریں گے جب وہ قریب آئیں تو آپ باہر نکل کر ان سے ملیں.میں نے خیال رکھا.جب مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ قریب ہیں میں مکان سے نکل کر ان سے ملاوہ ایک گھوڑی پر سوار تھے مگر کوئی آدمی ان کے آگے پیچھے نہ تھا.حالانکہ وہ بڑے ذی وجاہت آدمی تھے مجھ سے کہنے لگے کہ " جو ان ! میں نے وہ کام کر دیا ہے.یار! اب اپنے مریدوں سے کہہ دینا کہ وہ ہم کو سلام کر لیا کریں " آپ نے کہا کہ ” جب میں نے خود آپ کو سلام کیا ہے تو میرے مرید بھلا کیوں نہ کریں گے." بھیرہ میں چونکہ آپ کے خلاف ایک زبردست ہنگامہ بپا تھا اس لئے فریقین کی ضمانتیں اور مچلکے ہوئے بایں ہمہ علماء کا جوش انتقام فرد نہیں ہوا بلکہ انہوں نے علاقہ بھر میں اپنی سرگرمیوں کو اور بھی تیز کر دیا اور جہاں جہاں تک ان کا بس چلا عوام کو آپ کی مخالفت اور بائیکاٹ پر اکساتے چلے گئے * پہلی شادی انہیں ایام میں (عمر تھیں سال) آپ کی پہلی شادی مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی بھیروی کی لڑکی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی.بھیرہ میں تقلیدی رسوم و بدعات کے خلاف سب سے پہلی آواز حضرت مولوی صاحب نے ہی بلند کی جس کی وجہ سے آپ کی مخالفت اور زیادہ بڑھ گئی اور مخالفین کا گر وہ آپ کے نکاح میں بھی حارج و مانع ہوا.نکاح پڑھنے والے آپ کے ایک استاد تھے.آپ نے ان سے کہا کہ مہر تو مجھے ادا کرنا پڑے گا آپ کو نہیں اس لئے مرواجبی رکھئے.عورتوں میں ایک شور مچ گیا کہ لڑکا بول پڑا.آپ کے استاد صاحب بھی ناراض ہو گئے عورتیں بھی سخت جزبز ہو ئیں لیکن آپ نے پانسو سے زیادہ منظور نہ کرنا تھا نہ کیا.بہر کیف آپ کے خسر نے ان باتوں کی کچھ پرواہ نہ کی.حضرت مولوی صاحب کی مخالفت میں سب سے زیادہ اور نمایاں حصہ تو حنفی یا مقلدین اصحاب نے لیا تھا مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر قسم کے خیال و مسلک کے لوگ آپ کی تکفیر پر جمع ہو گئے چنانچہ آپ ایک مقام پر لکھتے ہیں.

Page 102

تاریخ احمدیت جلد ۳ 77 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک "وطن آیا تو مقلد لوگ شیخ ابن عربی محمد اسماعیل کے باعث صوفی ابن تیمیہ کے سبب غیر مقلد آئمہ اربعہ اور امام یوسف و امام محمد کی محبت کے موجب کا فربنانے لگے." یہ تو اندرون ملک کی مخالفتوں کا مختصر سا بیان ہے ورنہ آپ کے مخالفین حضرات آپ کے پیرو مرشد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی اور حضرت مولوی رحمت اللہ صاحب مہاجر مکی کی خدمت میں بھی پہنچنے مگر ناکام و نامراد واپس آئے.علماء باوجودیکہ ان کی اکثریت تھی اور عوام بھی ان کے ساتھ تھے آپ کی زبر دست شخصیت سے مرعوب تھے وہ اپنی مجلسوں میں آپ کی مذمت کرتے مگر بعض اوقات ایسا ہو تا کہ جو نہی ان کی نظر آپ پر پڑ جاتی ان پر سکتہ کا عالم طاری ہو جا تا تھا ت دراصل ان کے دل یہ تسلیم کرتے تھے کہ جس شخص سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے وہ معمولی شخصیت کا انسان نہیں بہت بڑا عاشق رسول ہے چنانچہ بھیرہ کے گیلانی خاندان کے ایک بزرگ پیر بادشاہ صاحب بتایا کرتے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب کے مخالف فریق کا ایک شخص کہا کرتا تھا کہ دشمنی کے باوجو د میں ان کو دلی کہتا ہوں.کیونکہ جب آنحضر اللہ کانام ان کے سامنے لیا جاتا ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور ایک خاص وجدانی کیفیت ان سے ظاہر ہوتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سے ان کا کوئی خاص گہرا تعلق ہے اور نفسیاتی طور پر آپ کے نام سے ہی آپ کے وجود پر بڑا اثر پڑتا ہے حضرت مولوی نورالدین صاحب نے بھیرہ میں درس و تدریس اور مطب کا آغاز بھیرہ میں آتے ہی قرآن و حدیث کے - - ، ۵۳ درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر دیا.ابتدا میں آپ نے مشکواۃ پڑھانی شروع کی.یہ درس آپ کی آبائی مسجد میں ہو تا تھا.آپ کے والد ماجد جن کو شروع ہی سے آپ کو قاری سے قرآن پڑھانے کا بہت ذوق و شوق تھا آپ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے.درس کے علاوہ (جو آپ کی روحانی غذ اتھا) آپ نے محض خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ مطب بھی جاری کر دیا.مطلب چلنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ آپ مریضوں سے مانگتے نہیں تھے اور غرباء کو دوا بالکل مفت دیتے تھے (اور یہی دستور آپ کا آخر دم تک رہا) فصد کرنا ، معجون اور شربت کا استعمال آپ نتیج سمجھتے تھے اس لئے تمام جراح اور پنساری آپ کے دشمن ہو گئے اور علماء کی شدید مخالفت و مزاحمت اس کے علاوہ تھی بعض مقامی طبیبوں نے مطب کے اجراء سے قبل آپ کو صاف صاف اختباہ کر دیا.کہ آپ یہاں کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکیں گے.مگر آپ نے اللہ پر توکل کر کے

Page 103

تاریخ احمدیت جلد ۳ 78 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک اپنے ایک شاگرد سے یہ سرمہ بنانے کی ہدایت فرمائی.جست (میں ماشه) سرمه سیاه (بیس ماشه) زنگار ( تین ماشہ ) سفیده کاشغری (چار ماشه) افیون ( تین ماشه ) سمندر جھاگ (چار ماشہ ) اور افیون کے سوا انہیں اجزاء کا دوسرا سرمہ بھی آپ نے تیار کر لیا.آپ نے عصر کے بعد وضو کرتے ہوئے ایک شخص کی آنکھوں کو بغور ملاحظہ فرما کر پہلی قسم کا سرمہ لگا دیا.اس کی دیکھا دیکھی ایک اور نے درخواست کی.یہ آپ کا گویا پہلا اشتہار تھا.بھیرہ میں رطوبت کے زیادہ ہونے سے یہ بیماری بھی عام پھیلی ہوئی تھی.دوسرے دن صبح مریضوں کا ہجوم آپ کے پاس ہو گیا بعض مریض نزلی اور بعض معدی آشوب کا شکار تھے.اور بعض کو طبقات العین میں یہ عارضہ تھا اس لئے آپ نے سرمہ بھی لگایا اور اطریفل کشنیزی کے استعمال کی بھی ہدایت دی.بعض کے کانوں کے پیچھے یا ہڈی یا گردن پر پلاسٹر بھی لگا دیا.بس یہ آپ کے مطب کا پہلا دن تھا خد اتعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ آگے چل کر اس سرمہ کی بدولت آپ کو طب میں غیر معمولی برکت اور عظیم الشان کامیابی ہوئی گردو نواح میں آپ کی دھوم مچ گئی.اور آپ کی طبابت کا سکہ بیٹھ گیا.اور پھر ہر طرف اتنا چرچا ہوا کہ آپ کے ہمعصر اطباء کی آنکھیں بھی چکا چوند ہو گئیں..اہل حرفہ دو سرے ہم پیشہ کو اپنا حریف سمجھتے ہیں.مگر آپ کے مد نظر تو مخلوق خدا کی ہمدردی تھی آپ کے مطلب کا دروازہ صرف مریضوں ہی کے لئے نہیں طبیبوں کے لئے بھی ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور آپ ان کو قیمتی سے قیمتی نسخہ جات بتانے میں کچھ تامل نہیں کرتے تھے.چنانچہ اس زمانہ کے بعض نسخے بھیرہ کے قدیم خاندانوں کی طبی بیاضوں میں آج تک موجود ہیں.بھیرہ میں آپ کا مطب ابتداء ایک ایسے وسیع مکان میں تھا جو ایک طبیب کے لئے نہایت موزوں تھا.اس کا انتخاب اپنے والد ماجد کے ارشادہی سے کیا تھا مگر جب کچھ عرصہ بعد آپ کے والد ماجد کا وصال ہو گیا.تو آپ کے سب سے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب نے (جنہوں نے آپ کو پڑھایا پرورش کی اور شادی کا انتظام کیا تھا) آپ سے کہا کہ یہ مکان میرے روپیہ سے خرید گیا تھا اور میں نے ہی اس کی مرمت کے اخراجات ادا کئے تھے.لہذا آپ تحریر میں بھی یہ بات لکھ دیں اور جیسا کہ بعد میں آپ کی والدہ محترمہ نے بھی وضاحت فرما دی اس تحریر کا منشایہ نہیں تھا کہ آپ یہ مکان ہی چھوڑ دیتے مگر آپ نے پوری بشاشت قلبی سے یہ تحریر بھی لکھ دی اور اپنے شاگردوں سے کہا کہ دوائیں اٹھا کر فلاں مسجد کے حجرہ میں رکھ دو اور اسی وقت مکان خالی کر دیا اب یہ حالت تھی کہ آپ ان دنوں بالکل تہی دست تھے.اور بظاہر کوئی تدبیر نے مکان بنوانے کی نہیں تھی.شہر میں ایک سرکاری زمین تھی جس کو کمیٹی کی زمین کہتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست مستری سے کہا کہ تم اس

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 79 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک زمین پر مکان بناؤ اور ایک ہندو سے کہا کہ تم روپیہ دے دو.مکان بنا شروع ہو گیا.وہاں تحصیلدار (جن کا نام منصب دار خاں تھا اور جو راولپنڈی کے علاقہ کے رہنے والے تھے) نے آپ کے پاس کہلا بھیجا کہ اول تو کوئی مکان بلا اجازت اور بغیر نقشہ منظور کرائے بنانا جائز نہیں پھر یہ سرکاری زمین میں مکان بنانا قانون کے خلاف ہے.میں بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکتا.مگر ہاں یہ بتائے دیتا ہوں کہ کمیٹی بھی اگر چہ یہ سبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکی.لیکن انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کر دی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بنا بنایا مکان گرا دیا جائے گا.آپ کے دوست مستری نے بھی یہی کہا.مگر چونکہ آپ کا دل انشراح صدر سے یہی کہتا تھا کہ مکان ضرور بنے گا اسلئے آپ نے اسے یہی فرمایا کہ تم اپنا کام کئے جاؤ.صاحب ڈپٹی کمشنر نے کمیٹی والوں کی رپورٹ پر کہا کہ ہم بہت جلد وہاں آنے والے ہیں خود ہی آکر موقع کا ملاحظہ کریں گے چنانچہ وہ آئے اور بعد ملاحظہ فرمایا کہ جس قدر مکان بن چکا ہے وہ تو ابھی رہنے دو باقی تعمیر کا کام روک دو.آپ بھی اس وقت وہاں قریب کے مکان میں موجود تھے ڈپٹی کمشنر صاحب کے آنے کی خبر سن کر وہاں پہنچے تو ڈپٹی کمشنر صاحب وہاں سے چلے گئے تھے اور بہت سے قدم آگے نکل گئے تھے مگر آپ کو آتا دیکھ کر شاید ان کے ہمراہی لوگوں میں سے کسی نے کہا ہو گا کہ مکان بنوانے والا آگیا ہے وہ پھر واپس آئے اور ان کو واپس ہوتے دیکھ کر آپ کے دل نے کہا کہ حکم ٹوٹ گیا.جب وہ آگئے تو آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ سرکاری زمین ہے ؟ آپ نے کہا ہاں! مگر سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے انہوں نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر سرکار کو اس شہر کے مقام پر فوجی میدان بنانا پڑے تو کیا شہر کے لوگ انکار کر سکتے ہیں ؟ کہا ہاں نہیں کر سکتے آپ نے فرمایا بس اسی طرح ہر جگہ سرکاری ہی کہلاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ اچھا آپ کا مکان سرکاری زمین کے کتنے حصہ میں بن سکتا ہے آپ نے کہا کہ ایک طرف تو سڑک ہے دو سرے طرف بھی شارع عام ہے اس کے درمیان جتنی زمین ہے اس میں مکان بن سکتا ہے ڈپٹی کمشنر نے کہا اچھا ابھی میخیں گاڑ دو.چنانچہ میخیں گاڑ دی گئیں.پھر تحصیلدار اور میونسپلٹی کے لوگوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کوئی اعتراض ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ان کا مکان تو نافع عام ہوتا ہے ہم کو کوئی اعتراض نہیں آپ سے کہا کہ اچھا آپ اپنا مکان بنا ئیں جب وہ چلے گئے تو تحصیلدار نے آپ کے پاس آکر کہا کہ یہ تو سکھا شاہی فیصلہ ہوا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو خود بھی اختیار اس طرح سرکاری زمین دینے کا نہیں ہے آپ نے ان سے کہا کہ آپ خاموش رہیں بہت دور جا کر ڈپٹی کمشنر پھر واپس آئے اور آپ سے کہا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ بدرد ہے آپ کو اس کے سبب سے بہت تکلیف پہنچے گی آپ نے کہا میں نے سنا ہے انگریز بہت عقل مند ہوتے ہیں آپ ہی کوئی تدبیر بتا کہیں.کہا میں نے تدبیر یہ سوچی ہے کہ سرکار

Page 105

تاریخ احمدیت جلد ۳ A* سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک * کی طرف سے آپ کے مکان کا پشتہ کمیٹی بنادے.پھر کمیٹی والوں سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں وہ تحصیلدار آپ سے کہنے لگا کہ یہ ایک ہزار روپیہ اور ہم پر جرمانہ ہوا.آپ نے ان سے کہا کہ تم ان باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہو ؟ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایک بار پھر غیبی نصرت فرمائی اور مکان تیار ہو گیا اس کے بعد ہندو کے قرض کی ادائیگی کس طرح ہوئی یہ بھی ایک ایمان افروز واقعہ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے.آپ کے مطب کی یہ خصوصیت ابتدا ہی سے رہی کہ یہ ایک مکمل درسگاہ ہو تا تھا جس میں مریضوں کی تشخیص اور دوا دینے کے علاوہ قرآن وحدیث اور دوسرے علوم کی تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا چنانچہ خلیفہ نورالدین صاحب جمونی (جو اس زمانہ میں جموں سے بھیرہ میں آپ کی خدمت میں حاضر تھے ) بیان کرتے ہیں.ایک دفعہ میرا بھیرہ جانا ہوا.وہاں حضرت مولوی نور الدین صاحب کے بڑے بھائی سلطان احمد صاحب نے ذکر کیا کہ ان کے بھائی (حضرت خلیفہ اول) حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے مکہ گئے ہوئے ہیں اور کچھ عرصہ تک واپس آئیں گے.میں ان کا منتظر رہا.ایک روز صبح کے وقت گجرات میں میرے والد صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب حمام میں نہانے کے لئے گئے.نہا کر مولوی برہان الدین صاحب نے فرمایا.کہ بھیرہ میں ایک اہل حدیث حدیث کا علم پڑھ کر آیا ہے میں نے مولوی صاحب سے ان کا نام پوچھا انہوں نے فرمایا.نور الدین.میں نے پوچھا.کیا وہ آگیا ہے کہنے لگے ہاں.میں نے کہا کہ میں تو اس کا منتظر تھا.چنانچہ میں نماز پڑھ کر ایک کمبل کاندھے پر رکھ کر چل پڑا.تیسرے روز بھیرہ پہنچا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت مولوی صاحب نے حکیم فضل الدین صاحب اور دیگر اہل حدیثوں سے فرمایا کہ یہ ایک اور اہلحدیث آیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے مجھے اہل حدیثوں کی مسجد یعنی حکیماں والی مسجد کا امام مقرر فرمایا.اور میرا کھانا اپنے گھر پر مقرر کر دیا.مولوی صاحب مجھے خود حدیث پڑھاتے تھے لیکن پڑھائی کے دوران میں بہت مریض آجایا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب ایک دو حدیثیں پڑھانے کے بعد مجھے نسخے لکھوانے لگ جاتے اور پھر فرماتے ان کو یہ دوائیاں بانٹ دی.دوائیوں کی تقسیم کے بعد مولوی صاحب پھر پڑھانا شروع کر دیتے اس اثناء میں اور مریض آجاتے تو پھر نسخہ لکھنے اور دوائیاں تقسیم کرنے کا کام شروع ہو جاتا.غرضیکہ مریضوں کے ہر گروہ کے وقفہ کے درمیان ایک دو حدیثوں کی پڑھائی ہوتی.

Page 106

جلد ۳ 81 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تیک بھوپال سے دعوت اور آپ کا سفر لاہور منشی جمال الدین صاحب مدار المهام ریاست بھوپال کو آپ سے جو محبت و عقیدت تھی.اس کی بنا پر وہ چاہتے تھے کہ آپ دوبارہ بھوپال میں تشریف لائیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں ان کی طرف سے جو تحریری دعوت نامہ پہنچا تو آپ بھی بھوپال جانے کے لئے بھیرہ سے روانہ ہو گئے.اور خلیفہ نور الدین صاحب جونی کو بھی ساتھ لے لیا.لاہور پہنچے تو ان سے کہا کہ آپ لاہور میں ہی ٹھہریں بھوپال پہنچ کر آپ کو وہاں بلالیں گے.لیکن اس اثناء میں آپ کے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب کا انتقال ہو گیا.اس لئے حضرت مولوی صاحب کو یہ سفر ملتوی کر کے واپس بھیرہ آنا پڑا خلیفہ نورالدین صاحب نے لاہور کے ایک مدرسہ میں با قاعدہ داخلہ لے لیا تھا مگر آپ ان کو بھی ساتھ ہی لے آئے.اور طب اور حدیث کی تعلیم کا سلسلہ پھر سے با قاعدہ جاری ہو گیا.اپنے بچوں کی تعلیم و پرورش میں امداد ادویہ کی کوٹ چھان کی نگرانی ، مریضوں کے لئے نسخہ جات لکھنا اور ان کی تیاری اور تقسیم کا سب کام آپ نے انہی کے سپرد کر رکھا تھا.خلیفہ صاحب موصوف دس بارہ سال تک آپ کی خدمت میں حاضر رہے اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے رہے.مکان کی عمارت تو بارہ سو روپیہ میں مکمل ہو گئی مگر لارڈلٹن کے دربار دہلی میں شمولیت اب آپ کو فکر لاحق ہوئی کہ ہندو قرض خواہ کہیں اپنا روپیہ ہی نہ طلب کر بیٹھے اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ یکم جنوری ۱۸۷۷ء کو وائسرائے ہند لارڈلٹن (Lard Lutton) کا دربار دہلی کی پرانی چھاؤنی میں اس پہاڑی کے نیچے منعقد ہو رہا تھا جس پر سے انگریزوں نے شہر کو فتح کیا تھا دربار میں بڑے بڑے رئیس ، جاگیردار اور راجے مہاراجے مدعو تھے اور خود آپ کو شمولیت کے لئے اطلاع آچکی تھی.مگر بعض مخصوص حالات کے باعث آپ کا دہلی جانا ممکن نہیں تھا کہ اس اثناء میں آپ کے ایک دوست ملک فتح خانصاحب گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور بتایا کہ بڑے رئیس تو دیلی دربار میں جمع ہو نگے مگر اس تاریخ کو راولپنڈی میں بھی دربار ہو رہا ہے اور ہم اس میں بلائے گئے ہیں حضرت مولوی صاحب نے ان کے کان میں چپکے سے کہا کہ مجھے بھی دربار میں جاتا ہے انہوں نے جھٹ اپنا گھوڑا سواری کے لئے پیش کر دیا.چنانچہ آپ گھر میں اطلاع دیئے بغیر سوار ہو کر ان کے ساتھ چل دیئے.جہلم پہنچ کر ملک صاحب تو راولپنڈی کی ریل میں سوار ہو گئے اور آپ تنہا رہ گئے سفر میں آپ کے کپڑے بہت ہی میلے ہو چکے تھے.اس لئے آپ ملک حاکم خاں تحصیلدار کے ہاں پہنچے اور ان کا ایک پاجامہ پگڑی اور کوٹ زیب تن کر لیا.مگر نیچے کرتا نہیں پہنا.سیر کے لئے باہر نکلے اور شملتے ہوئے سٹیشن جہلم پر پہنچے کسی سے دریافت کیا کہ لاہور کا تھرڈ

Page 107

تاریخ احمدیت جلد ۳ 82 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کلاس کا کیا کرایہ ہے معلوم ہوا کہ پندرہ آنہ.اس کوٹ کی جیب میں دیکھا تو صرف پندرہ آنہ کے پیسے پڑے تھے.آپ نے ٹکٹ لیا اور لاہور پہنچے.یہاں بڑی بھیٹر تھی کیونکہ لوگ دربار کے سبب دہلی جا رہے تھے ٹکٹ کا ملنا محال تھا اور آپ کی جیب میں تو کوئی پیسہ بھی نہ تھا ایک پادری جن سے کسی مرض کے متعلق طبی مشورہ دینے کے سبب آپ کی پہلے سے جان پہچان تھی سٹیشن پر مل گئے ان کا نام گولگ ناتھ تھا انہوں نے کہا کہ آپ کہاں جاتے ہیں ٹکٹ تو بڑی مشکل سے ملے گا.آپ نے کہا مجھ کو دہلی جانا ہے گولگ ناتھ نے کہا میں جاتا ہوں اور ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں چنانچہ وہ گئے اور بہت ہی جلد ایک ٹکٹ دہلی کا لائے.آپ نے ٹکٹ ان سے لے لیا اور جیب میں ہاتھ ڈالا.تو پادری صاحب کہنے لگے آپ میری ہتک نہ کریں معاف کریں میں اس کے دام نہ لوں گا اور میں بھی تو دہلی جاتا ہوں رستہ میں دیکھا جائے گا.آپ رستہ میں ان کو تلاش کرتے رہے مگر وہ نظر نہ آئے اور دہلی کے سٹیشن پر بھی باوجود تلاش کے آپ کو نہ ملے.دہلی سٹیشن پر اترے تو عصر کا وقت تھا.آہستہ آہستہ اس سڑک پر چلے جس پر رؤساء کے خیمے نصب تھے.اور غالبا پانچ میل نکل گئے اب چونکہ آفتاب غروب ہونے کو تھا آپ نے واپسی کا ارادہ کیا اتنے میں ایک سپاہی جو منشی جمال الدین صاحب مدار المهام بھوپال کے کا ملازم تھا دوڑتا ہوا آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو منشی صاحب بلاتے ہیں انہوں نے آپ کو دیکھ کر مجھے بلانے بھیجا ہے آپ نے کہا اب تو وقت تنگ ہے میں کل انشاء اللہ تعالیٰ ان کی خدمت میں آؤں گا اس نے کہا کہ وہ بہت اصرار سے آپ کو بلاتے ہیں آپ نے پھر بھی کہا کہ کل آؤں گا.اس نے کہا پاس ہی تو خیمہ ہے آپ ذرا تکلیف کر کے خود ہی ان سے عذر کر لیں.جب آپ تشریف لے گئے تو وہ حسب عادت بڑی ہی مہربانی سے پیش آئے اور فرمایا کہ میرا ایک نواسہ محمد عمر نام بیمار ہے آپ اس کو دیکھیں.آپ نے فرمایا میں کل آکر اس کو دیکھوں گا انہوں نے کہا کہ آپ آج رات کو یہیں رہیں کل ہم آپ کے مکان پر چلیں گے چنانچہ آپ کے لئے علیحدہ ایک آرام دہ خیمہ کھڑا کر دیا.اور اگلے روز چونکہ جمعہ تھا انہوں نے یہ سمجھ کر مکان پر جانے سے تو اس کو ہم نے روک لیا ہے راتوں رات ہی آپ کے لئے کپڑے تیار کرا دیئے.جو آپ نے اگلے روز پہن لئے.جمعہ کا وقت آیا تو آپ دونوں جامع مسجد گئے اور نماز پڑھی.جس طرف حضرت مظہر جانجاناں شیخ المشائخ کی قبر ہے اس طرف کی سیڑھیوں سے وہ اترے وہیں ان کی بگھیاں کھڑی تھیں.آپ سے کہا کہ آپ کا مکان کہاں ہے ادھر چلیں آپ حیران.سامنے ایک تنگ گلی نظر آئی آپ نے کہا ادھر ہے.فرمایا اس طرف تو ہماری بگھی نہیں جا سکتی.اپنے دو آدمی آپ کے ساتھ کر دیئے اور کہا کہ اسباب لے آؤ.آپ ان آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اس گلی میں پہنچے کسی ارادہ کے بغیر چلے جاتے تھے کہ ایک مکان نظر پڑا کہ اس مکان میں بڑی

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 83 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کثرت سے لوگ جاتے ہیں اور آتے بھی ہیں.اس مکان میں مخلوق کی اس قدر آمد و رفت دیکھ کر آپ بھی بلا تکلف اس مکان میں گھس گئے.جب اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ نیچے ایک بہت بڑا دالان ہے اور او پر زینہ کے راستہ بالا خانہ پر لوگ جا رہے ہیں.آپ نے ان سپاہیوں کو تو اس دالان میں بٹھایا اور بلا تکلف سڑھیوں پر چڑھ گئے دل میں ذرا بھی وسوسہ نہ آیا کہ یہ کس کا اور کیسا مکان ہے گویا قدرت کا ایک ہاتھ تھا جو آپ کو پکڑ کر اوپر لے گیا.وہاں کثرت سے آدمی بیٹھے ہوئے تھے آپ بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے آپ نے ان لوگوں میں سے صرف عبید اللہ صاحب ساکن بنت مصنف تحفتہ الہند کو پہچانا آپ کو دیکھتے ہی وہ بڑے خوش ہو کر بولے آپ کا آنا تو میرے لئے بڑا ہی مبارک ہوا ہے میرے ساتھ کچھ نوجوان نو مسلم ہیں میں اس فکر میں تھا کہ ان کو کہاں رکھوں.اب آپ جیسا انسان اور کون مل سکتا ہے.آپ ان کو اپنے یہاں لے جائیں یقین ہے کہ بڑی مہربانی سے رکھیں گے انہیں نو مسلموں میں آپ کے ایک دوست ہدایت اللہ بھی تھے وہ بہت کمسن تھے.آپ نے کہا ہاں میں بخوشی ان کی خدمتگزاری کو موجود ہوں مجھ کو بھی اپنے مکان پر واپس جانا ہے آپ میرے ساتھ کر دیں مولوی صاحب نے کہا ان کے ساتھ ان کے بسترے اور سب ضروری سامان موجود ہے آپ نے فرمایا میرے آدمی نیچے بیٹھے ہیں وہ سب اٹھوا کر لے چلیں گے ان کو دیدو.ان سپاہیوں سے اسباب اٹھو اگر آپ بخیر وعافیت منشی صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے.وہ بہت ہی خوش اور احسان مند ہوئے اور سب کو اپنی بگھیوں میں سوار کراکر کیمپ میں لے آئے.آپ نے کہا کہ میں تھوڑے ہی دن آپ کے پاس رہ سکتا ہوں اور میاں محمد عمر کے رسولی ہے یہ بہت دونوں کے بعد جائے گی.اور میں گھر میں اطلاع دیکر بھی نہیں آیا.انہوں نے کہا آپ ضرور ٹھہریں اور گھر کے لئے پانسو روپیہ کا نوٹ بھیج دیں آپ بہت مشوش ہوئے کہ نام تو بارہ سو کے مقروض ہو کر نکلے تھے اور یہ تو پا نسوہی دیتے ہیں شاید وہ جگہ نہیں جہاں ہمیں جانا ہے.المختصر آپ نے وہ نوٹ تو اس ہندو قرض خواہ کو بھیجوا دیا اور گھر میں لکھا کہ آپ مطمئن رہیں تھوڑے ہی دونوں کے بعد منشی صاحب نے سات سو روپیہ اور دیا.اور آپ سے کہا کہ جس طرح ممکن ہو آپ بھوپال تک چلیں.آپ نے سمجھا کہ میرا قرضہ تو پورا ہو ہی گیا ہے اب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں.پھر قبل ازیں آپ بھوپال آنے کا وعدہ بھی فرما چکے تھے.اس کے پورا کرنے کا موقع اب آچکا تھا.HD چنانچہ آپ منشی صاحب کے ہمراہ بھوپال تشریف لے گئے منشی بھوپال میں دوسری بارو رود صاحب نے کچھ ماہانہ اپنے پاس سے اور دو سو روپیہ ریاست سے مقرر کرا دیا اور کہا کہ لوگوں سے فیس لے سکتے ہیں غرض آپ کا کچھ مدت تک بھوپال میں قیام

Page 109

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 84 نظر زمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک رہا.پھر آپ ریاست کی ملازمت چھوڑ کر واپس بھیرہ میں آگئے.بھیرہ میں آمد اور ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کی تحریک بھیرہ جو آپ کے چلے جانے سے کچھ بے رونق سا ہو گیا تھا آپ کی تشریف آوری سے دوبارہ آباد ہو گیا اور عوام پھر سے آپ کے طبی اور دینی کمالات سے فیض یاب ہونے لگے اس زمانہ میں کئی اہم واقعات ہوئے.(1) آپ کی خاص کوشش سے بھیرہ کی ایک مسجد کے ساتھ (جو پنکھے بنانے والوں کے محلہ میں واقع تھی) کنواں بنا اور مسلمان عورتیں جن کو بازار میں سے ہو کر پانی لانا پڑتا تھا ان کو بڑا آرام ہو گیا.۶۸ (۲) ایک امیر کبیر آدمی محرقہ آپ کا مریض آپ کے زیر علاج تھا آپ نے اس کے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہ اٹھار کبھی آپ کو یقین تھا کہ ساتواں دن بحران کا ہے جس کے بعد بخار ٹوٹ جائے گا.اس کے گھر والے اس بات سے ناواقف تھے.انہوں نے جو ساتویں روز کی شام کو مریض کو سخت اضطراب میں پایا تو وہ راتوں رات پنڈ دادنخان کے ایک خاندانی طبیب کرم علی کو بلالائے بحران شروع ہو چکا تھا اس طبیب کی ایک پڑیہ سے ہی تپ ختم ہو گیا.گھر والوں نے اس جادو بھری پڑیہ پر اسے انعام و اکرام دیا.اور آپ کو یہ انعام ملا کہ مخلوق پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے.(۳) آپ کے ایک دوست خان بہادر ملک صاحب خاں صاحب ٹوانہ رئیس ٹوانہ سی ایس آئی اسی برس کے ہو چکے تھے اور لاولد تھے ایک مرتبہ وہ کسی انگریز کی کوٹھی میں تھے.انگریز نے سوال کیا کہ محمد (رسول اللہ ) سچے رسول تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری کوٹھی میں آکر تو حضور بچے رسول ہی ثابت ہوتے ہیں.اس نے پوچھا کیسے ؟ انہوں نے کہا.کہ میرے پاس تین لاکھ جمع ہے اس برس کی عمر ہے اور اولاد کوئی نہیں پھر بھی آپ کی کوٹھی میں آکر یہی جی چاہتا ہے کہ کچھ زمین اور مل جائے کوئی کرسی کا درجہ بڑھ جائے مال و دولت اور عورت وغیرہ ہی لطف کی چیزیں ہیں.لیکن حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا کہ دنیا سے محبت نہ کرو.کسی کا مال نہ لو کسی کی عورت کو نہ دیکھو.پھر اپنی اولاد (سادات) کے لئے زکوۃ تک لینا ممنوع کر دیا.پس اب یہ بتاؤ کہ پیغمبری سے انہوں نے خود کون سا فائدہ اٹھایا حتی کہ اولاد کے لئے صدقہ تک حرام کر دیا یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے زبر دستی ہی پیغمبری کار عومی کرایا ہو گا.یعنی خدا تعالٰی نے ہی پیغمبر بنایا ہو گا.جب حضرت مولوی صاحب کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو سنتے ہی آپ کی زبان پر بے ساختہ جاری ہوا کہ اب ضرور ملک صاحب کے لڑکا بھی پیدا ہو گا.

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 85 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تکہ ملک صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی تحریک دلانے پر ایک دوشیزہ سے شادی کر لی.اور بالا خر اس مرد خدا کی زبان سے نکلی ہوئی بات حرف بحرف پوری ہوئی یعنی ان کے ہاں ۱۸۷۴ء میں ملک عمر حیات خاں پیدا ہوئے جنہوں نے بعد میں بہت ترقیات کیں اور ٹوانہ خاندان میں بڑا نام پیدا کیا اور یہ سب کچھ خدا کے فضل اور آپ کی توجہ اور روحانی قوت کا نتیجہ تھا.(۴) ان دنوں آپ کو تاریخ ابن خلدون کا بہت شوق تھا.ایک تاجر ستر روپیہ میں بیچتا تھا.آپ بالا قساط یہ رقم دینا چاہتے تھے مگر تاجر اس پر رضامند نہ ہوا.لیکن جب آپ نماز ظہر کے لئے مطلب میں آئے تو تاریخ کی یہ کتاب وہاں رکھی تھی.ہر چند آپ نے تحقیق کی کہ کون رکھ گیا ہے مگر کچھ پتہ نہ چلا کچھ مدت کے بعد معلوم ہوا کہ کسی رئیس نے ایک عرصے سے ایک سکھ کو حکم دے رکھا تھا کہ مولوی صاحب کو کوئی ضرورت پیش آئے تو بلا تامل پوری کر دیا کرو.اتفاق سے یہ سکھ بھی اس دن مجلس میں موجود تھا اس نے فورا یہ کتاب اس تاجر سے خرید کر مطب میں رکھ دی اور اس کی قیمت اس رئیس سے وصول کرلی.(۵) ان دنوں ایک مفلوج کا آپ نے کامیاب علاج کیا جس سے آپ کی غیر معمولی شہرت ہو گئی.اس بیماری میں آپ نے گو علاج تو یونانی ہی کیا.مگر ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کر لیا.مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ آپ کو ڈاکٹری کی طرف توجہ ہوئی تھی اب اس موقعہ پر آپ کو اس کی طرف اور زیادہ رجحان پیدا ہو گیا..بھیرہ میں غالبا سب سے اہم واقعہ جو باطنی اعتبار سے آپ کی ملازمت جموں و کشمیر پر منتج ہوا یہ پیش آیا کہ آپ کو سفر حرمین کے بعد سے بیوہ عورتوں کی شادیوں کی طرف خاص توجہ پیدا ہو چکی تھی ان دنوں آپ نے ایک بیوہ کو نکاح کی تحریک کی.اس نے پہلے معذرت کی پھر کہا کہ نکاح کر لیا جائے ولی بعد میں راضی ہو جائیں گے.حضرت خلیفہ اول نے ولی کی مزاحمت کے باوجود اس کی پروانہ کرتے ہوئے اس بیوہ سے نکاح کر لیا.ابھی رخصتانہ کی نوبت نہ آئی تھی کہ آپ نے حضرت رسول مقبول ا کو خواب میں دیکھا کہ حضور کا چہرہ زرد ہے اور ریش مبارک مونڈی ہوئی ہے اور زمین پر لیٹے ہوئے ہیں آپ پر خواب کی تعبیر کھلی کہ یہ نکاح سنت نبوی علیہ السلام کے خلاف ہوا ہے.اس پر آپ نے ایک خط مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کو اور ایک خط مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کو اس وقت اہلحدیث کے پیشوا اور ایڈووکیٹ سمجھے جاتے تھے.لکھا کہ ایک بیوہ عورت ہے بالغ ہے ہوش و حواس سالم میں نکاح کرنا چاہتی ہے مگر ولی مانع ہیں.جواب آیا کہ وہ ولی معزول ہو جاتے ہیں جو مانع نکاح ہوں.بیوہ ایسی حالت میں باختیار خود نکاح کی مجاز ہے.کیونکہ حدیث لا نکاح

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد ۲۳ 86 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک الا بولی میں کلام ہے چونکہ فتویٰ عین منشاء کے مطابق نکلا.آپ کو بڑی مسرت ہوئی اور ارادہ کر لیا کہ اب بیوہ مذکورہ کو گھر میں لایا جائے اپنے دیوان خانہ کے دروازہ تک پہنچے تو ایک شخص سامنے سے آیا اور کہنے لگا کہ اس حدیث کا مطلب مجھے سمجھائیں الاثم ما حاک فی صدرک ولو افتاک المفتون آپ نے اسے ایک غیبی آواز سمجھا اور آپ کے دل میں صیح آہنی کی طرح بیٹھ گیا کہ یہ خدا تعالی کی طرف سے تنبیہہ ہوئی ہے کہ ان مفتیوں کے فتویٰ کی پرواہ نہ کرو.دیوان خانہ کا دروازہ بند کر کے دالان میں داخل ہوئے پھر دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ اول تو حدیث مجروح ہے پھر مفتیوں نے فتویٰ بھی جواز کا دے دیا ہے ادھر دوسری حدیث ڈراتی ہے تو اب کیا کیا جائے خدا کی قدرت اسی فکر میں لیٹ گئے آپ پر نوم کا غلبہ ہوا تو آپ کو رویاء میں دوبارہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی دیکھا کہ حضور سامنے بیٹھے ہوئے ہیں آپ ۲۵ برس کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں مگر بائیں جانب سے آپ کی ریش مبارک خشخشی ہے اور دائیں طرف سے داڑھی کے بال لمبے ہیں.آپ نے دل میں کہا کہ اگر رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک کے بال دونوں جانب سے یکساں ہوتے تو بہت خوبصورت معلوم ہوتے.پھر معاً آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ چونکہ مجھے اس حدیث کی صحت میں تامل ہے اس لئے یہ فرق ریش مبارک میں ہے پھر آپ نے عزم بالجزم کر لیا کہ خواہ کوئی انسان ہو اگر وہ اس حدیث کو ضعیف کے گائیں ہر گز اس کا کہا نہیں مانوں گا اس خیال کا دل میں آنا تھا کہ آپ نے دیکھا آنحضرت کی ریش مبارک برابر ہو گئی حضور آپ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا.کہ کیا آپ کشمیر دیکھنا چاہتے ہیں آپ نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ.آپ اٹھے اور چل پڑے.حضور آگے آگے اور آپ پیچھے پیچھے تھے اور بالا خر خواب میں ہی بانہال کے رستہ سے کشمیر پہنچ گئے.اس رویاء کی تکمیل کا ظاہری سبب یہ ہوا کہ بھیرہ کے ایک ہندو لالہ متھر اداس جو آپ کے ہمسایہ بھی تھے اور مہاراجہ رنبیر (یا رندھیر ) سنگھ والی ریاست جموں و کشمیر کے عہد میں پولیس افسر تھے سل میں مبتلا ہو کر اور بھیرہ اگر آپ کے زیر علاج رہے اور شفا پائی جس کا دور دور تک شہرہ ہوا.اسی اثناء میں دیوان کر پارام وزیر اعظم کشمیر پنڈ دادنخاں سے گزرے اور انہیں بھی اس کامیابی کا علم ہوا واپس جا کر انہوں نے اور لالہ متھر اداس کے ماموں بخشی جوالہ سنگھ صاحب نے مہاراجہ صاحب سے آپ کے علم و فضل کا تذکرہ کیا.یہ ۱۸۷۶ء یا اس سے کچھ پیشتر کا واقعہ ہے.مہاراجہ صاحب نے لالہ متھر اداس ہی کو بھیجوایا کہ مولوی صاحب کو جا کر بھیرہ سے لے آؤ.ریاست جموں و کشمیر میں ملازمت کا آغاز لالہ متھر اور اس صاحب مہاراجہ کا حکم لیکر LL بھیرہ آئے چنانچہ حضرت مولوی نور الدین

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 87 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک AT صاحب اور آپ کے شاگر د خلیفہ نورالدین صاحب جمونی اور لالہ متھر اداس مینوں ایک یکہ میں سوار ہو کر کئی روز میں وزیر آباد اور سیالکوٹ کے رستہ جموں پہنچے.لالہ متھر اداس نے کہا کہ مولوی صاحب کے دو سو روپیہ مشاہرہ ریاست بھوپال سے ملتا رہا ہے چنانچہ مہاراجہ صاحب نے فی الفور دو سو روپیہ منظور کر لئے اور کہا کہ اگر ایسا آدمی دو ہزار بھی مانگے تو ہم اس قدر رقم دینی منظور کر کے بھی انہیں ضرور رکھ لیں کچھ عرصہ کے بعد یہ تنخواہ چار سو اور پھر پانچ سو تک کر دی گئی.جموں میں آپ نے ایک مختصر سرکاری بالا خانہ میں رہائش اختیار کرلی.یہاں سے آپ کو دربار آنے جانے میں سہولت تھی اس مکان کا مہتم بڑا بد عمد مشہور تھا.اسی بناء پر آپ نے ایک سال کے لئے اسٹامپ بھی لکھوالیا.مگر وہ دوسرے تیسرے روز ہی عہد سے پھر گیا اور کہا کہ فلاں کرایہ دار مجھے دو گنا کرایہ دیتا ہے باقی رہی تحریر تو میرے نزدیک یہ قابل اعتبار نہیں ہے آپ اسے دو گنا کرایہ دینے پر رضامند ہو گئے لیکن وہ تھوڑی دیر کے بعد آکے کہنے لگا کہ وہ آدمی جو گنا کرایہ دیتا ہے آپ نے فرمایا اچھا ہم چوگنا ہی دیتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد پھر آیا اور کہنے لگا کہ وہ بارہ گنا کرایہ دیتا ہے ایک سرکاری افسر کی پیرانہ سالی میں اس درجہ بد عمدی دیکھ کر آپ کو شہر سے ہی نفرت ہو گئی اور آپ اسباب بند ھوا کر نیچے اترنے لگے کہ جموں کے رئیس شیخ فتح محمد صاحب آگئے.اصل قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے آدمیوں سے اسباب اٹھوالیا اور آپ کو اپنے گھر جو محلات شاہی کے قریب ہی واقع تھا لے آئے.آپ بارہ سال ان کے مکان میں فردکش رہے اور انہوں نے اور ان کے گھر کے تمام افراد نے آپ سے اس درجہ عمدہ سلوک کیا کہ آپ نے خود لکھا ہے کہ ”میں اب تک ان کے وسعت حوصلہ پر حیران ہوں....اور یہ بات ان کی ذات ہی سے وابستہ نہیں تھی.بلکہ ان کے گھر کے تمام چھوٹے بڑے سب ایک ہی رنگ میں رنگین دیکھے.۱۸۸۸ء تک آپ کی نشست گاہ اور مطب دونوں شیخ فتح محمد صاحب کے مکان پر رہے جس میں مختصر سے دو کمرے اور سامنے ایک بڑا لمبا پلیٹ فارم تھا.اور زنانہ مکان تھوڑے فاصلہ پر محلہ کے اندر Ar Ar مسجدہ کے پاس تھا.۱۸۸۸ء کے بعد جب کہ مہاراجہ رنبیر سنگھ فوت ہو چکے تھے اور مہاراجہ پرتاب سنگھ حکمران تھے آپ بخشی را مد اس صاحب وزیر وزارت کے مکان کے پاس ایک دو منزلہ عمارت میں منتقل ہو گئے اور ہیں مطب بھی آگیا تھا.۱۸۵ ۱۸۸۸ء سے ۱۸۹۲ء کے آخر تک پھر آپ کا اسی جگہ قیام رہا اس زمانہ میں آپ کو دیکھنے والے بعض لوگ جو اب تک بقید حیات ہیں ان میں سے ایک غیر احمدی دوست) محمد اکرم خان پیشنر

Page 113

تاریخ احمدیت جلد ۳ 88 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ڈی.سی و چیئر مین مجلس اوقاف اسلامیہ جموں بھی ہیں.ان کا چشم دید بیان ہے کہ گو اس وقت میری عمر زیادہ نہ تھی تاہم مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ عام طور پر نماز جمعہ مسجد منصب داراں واقع کوچه موچیاں محلہ تالاب کھٹیکاں جموں میں ادا کرتے اور بعد ادائے نماز جمعہ میرے حقیقی بچا کر نل سردار یار محمد خاں صاحب کے مکان واقعہ محلہ تالاب کھٹیکاں میں مجلس عرفان گرم رہتی اس مجلس میں دینی مسائل وغیرہ پر گفت و شنید ہوتی.اتنے میں نماز عصر آجاتی.چائے نوش کرنے اور نماز عصر کی ادائیگی کے بعد بیماروں کو دیکھنے کے لئے تشریف لے جاتے آپ غریبوں کا علاج مفت کرتے تھے اور آپ ان سے ہمدردی سے پیش آتے تھے اور مفلس مریضوں کی نقدی سے بھی امداد کرتے تھے.آپ کی رہائش گاہ جموں میں دالوں کے دو منزلہ مکان کے اندر تھی (نزد مکان بخشی را مد اس صاحب وزیر وزارت) با عمل متجر عالم تھے.آپ کی مجلس میں شرکت کرنے والوں میں سے چند کے اسماء گرامی یہ ہیں.کر تل سردار یار محمد خاں خانصاحب.خلیفہ نور الدین صاحب.چوہدری فتح محمد صاحب کھیک.مفتی محمد صادق صاحب.شیخ فتح محمد صاحب سپر نٹنڈنٹ خاطر تواضع.مولوی امیر عالم صاحب.حکیم مولوی عمر الدین صاحب.حکیم مولوی محمد حسین صاحب.منشی فضل احمد صاحب.چوہدری اللہ دتہ کھٹیک صاحب.سید محمد شاہ صاحب ٹھیکیدار بخشی را مد اس صاحب وزیر وزارت.لالہ امریک رائے صاحب وزیر وزارت - عظیم الشان طبی خدمات ملازمت ریاست کے دوران مہاراجہ کی توقع کے مطابق ریاست کو بھاری فائدہ ہوا.اور آپ کے قدم سے اس کی خوش نصیسی کے دن پلٹ آئے نجی طور پر بھی آپ نے مطلب جاری کر رکھا تھا جس سے عوام و خواص وسیع پیمانہ پر استفادہ کرتے تھے بے شمار لاعلاج مریض آپ کے ہاتھوں شفایاب ہوئے.میاں لعل دین صاحب رئیس جموں (جو خدمت گاری کے عہدے پر فائز تھے ) ان کی بیٹی نے زمیر کاذب کی مرض سے نجات پائی جس پر انہوں نے آپ کو ایک یا رقندی یا بو مع زمین بھی دیا اور خلعت بھی ملی ایک چنگی افسر نے شدید قولنج سے شفا پائی.بعض لوگ جو خطرناک ضعف باہ میں مبتلا تھے آپ کے علاج سے صحت یاب ہوئے.۱۸۷۹ء کے قریب کشمیر میں سخت قحط پڑا اور اس کے بعد ہیضہ کی خطرناک وبا پھوٹ پڑی اور ہزاروں لوگ لقمہ اجل ہوئے آپ نے اس وباء میں مخلوق خدا کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا جس پر آپ کو مہاراجہ صاحب نے ایک نہایت قیمتی خلعت بطور انعام پیش کی.۸۱ - ۱۸۸۰ء میں راجہ *41)

Page 114

تاریخ احمدیت جلد ۳ 89 طر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک پونچھ کو پیچش کے شدید مرض سے مخلصی ہوئی اور کئی سال تک وہ آپ کو خطیر رقم بطور شکریہ بھجواتے رہے.۱۸۸۶ء میں راجہ پونچھ کے بیٹے تکہ بلدیو سنگھ کو زلزلوں سے دماغی خلل ہو گیا جس کا آپ نے ایسا کامیاب علاج کیا کہ راجہ پونچھ نے ہزاروں روپے دیئے.بلکہ مہاراجہ جموں وکشمیر نے آپ کو سال بھر کی تنخواہ کے علاوہ مزید انعام دیا.غرض کہ کہاں تک ذکر کیا جائے تاریخ کشمیر کا یہ دور نہایت سنہری دور ہے جس میں ریاست کو آپ سابے مثال حکیم و حاذق طبیب میسر آیا اور ہزاروں جانیں تلف ہونے سے بچ گئیں.

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 90 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک زمانہ جموں کے ایک کارڈ کا چربہ اسلام کے کئی دن روانہ ہے پر کھائے.مین سبب اسکے ہاکٹر جاون کے برها یاد گشته در سیم مخدوم محمد صدری Keen haari

Page 116

تاریخ احمدیت جلد ۳ 91 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ملازمت کے دوران ریاست میں تبلیغ و اشاعت اسلام کی وسیع سرگرمیاں آپ کی سعی و جدو جہد ۹۸ صرف طبی خدمات تک محدود نہیں تھی.بلکہ اس دور میں آپ نے تبلیغ و اشاعت اسلام کی وسیع سرگرمیاں جاری کر رکھی تھیں اور یہ زمانہ آپ کے لئے زبردست تبلیغی اور تربیتی اور علمی جہاد کا زمانہ تھا.مہاراجہ کشمیر اسی ہزار مربع میل کا مالک اور تقریباً پچیس لاکھ نفوس پر حکمران تھا.اور اڑتالیس ہزار فوج اس کے ادنی اشارہ پر حرکت میں آجاتی تھی اس کے رعب و داب اور شان و شوکت کو دیکھ کر اس کے سامنے بڑے بڑے لوگوں کے دل دہل جاتے تھے اور ان کے لئے خوشامد اور چاپلوسی اور کاسہ لیسی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا.مگر حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول تو خدا کے بہادر سپاہی اور پیشہ علم و عمل کے شیر تھے جو باطل کی بڑی سے بڑی قوت کے ساتھ اپنے علم و اخلاق اور روحانیت سے ٹکرا جاتے تھے.مگر اس کے سامنے دب کر رہنا آپ کو کسی طرح گوارا نہیں تھا !! مہاراجہ کے دربار میں آپ کی حق گوئی جرأت اور خودداری مشہور تھی.آپ سولہ برس تک غیر مسلم فرمانروا کے ملازم رہے مگر آپ کو دوسرے درباریوں کی طرح ایک دفعہ بھی ان کو سلام کرنا نہیں پڑا مہاراجہ کشمیر بارہا سر دربار آپ کی طرف اشارہ کر کے تمام درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ تم سب اپنی اپنی غرض لے کر میرے پاس جمع ہوئے ہو اور میری خوشامد کرتے ہو لیکن صرف یہ شخص ہے جس کو میں نے اپنی غرض کے لئے بلایا ہے اور مجھ کو اس کی خوشامد کرنا پڑتی ہے.ایک دفعہ مہاراج نے آپ کو تنہائی میں بتایا کہ میں آپ سے بہت ڈرتا ہوں اور بعض اوقات ایسی چشم پوشی کرتا ہوں کہ میری طبیعت کے وہ بالکل خلاف ہوتی ہے.پھر کہا کہ سلطان محمود غزنوی شاہی خاندان کا شاہزادہ اور حسب و نسب کے اعتبار سے شاہان ایران کی نسل سے تھا مگر فردوسی نے بعض شعر کہکر ہمیشہ کے لئے اس پر خطر ناک ٹیکہ لگا دیا.یہی وجہ ہے کہ میں آپ جیسے مصنف لوگوں سے بہت ڈرتا ہوں.مہاراج سے آپ کا کئی دفعہ مذہبی تبادلہ خیالات بھی ہو تا تھا.اور بات اکثر بحث و مباحثہ تک جا پہنچتی تھی مگر آپ ہر قسم کے عواقب سے بے پرواہ ہو کر بر سر مجلس کلمہ حق سنا دیتے تھے اور دلائل ایسے پیش فرماتے کہ ان کو لاجواب اور ساکت ہو نا پڑتا تھا.حالانکہ ہمیشہ آپ انہی کو منصف مقرر کرتے تھے.ایک مرتبہ مہاراجہ صاحب نے آپ سے کہا کیوں مولوی جی اتم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سور کھاتے ہو اس لئے بیجا حملہ کر بیٹھتے ہو.بھلا یہ بھی تو بتاؤ کہ انگریز بھی تو سور کھاتے ہیں وہ اس طرح عاقبت نا اندیشی

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 92 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک سے حملہ نہیں کرتے.آپ نے برجستہ جواب دیا کہ وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں اس سے اصلاح ہو جاتی ہے.یہ سن کر وہ دم بخود رہ گئے اور دو سال تک آپ سے کوئی مذہبی مباحثہ کرنے کی جرات نہ کر سکے.کسی دوسرے موقعہ پر مہاراجہ کشمیر نے کہا کہ مولوی صاحب ! ان اختلافوں کے مٹانے کے لئے بھی کوئی معیار ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آپ ہی کچھ سوچئے کہ کیا معیار ہو سکتا ہے کہنے لگے مذہب وہ سچا ہے.جو پراچین (قدیم) ہو اور تمہارا تو صرف بارہ سو سال سے ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمارے یہاں فبهداهم اقتده (سوره انعام آیت : 91) آیا ہے یعنی جو پرانا اور اچھا ہو اس کی پیروی کرو.انہوں نے سنکر کہا کہ رامچند رجی سب سے پرانے ہیں ہم ان کو مانتے ہیں.آپ نے پوچھا.رامچند رجی کس کی پرستش کرتے تھے کہنے لگا.وشن کی.آپ نے سوال کیا کہ وہ کس کی کرتے تھے کہا وہ ردر کی.آپ نے پھر پوچھا وہ کس کی عبادت کرتے تھے جواب دیا.برہما کی.پھر آپ نے پوچھا برہما کس کی عبادت کرتے تھے.مہاراجہ نے کہا.ایشور کی.اس پر آپ نے فرمایا.ہم وحدہ لا شریک خدا کی پرستش کرتے ہیں.اور اس کا نام اسلام ہے غرض کہاں تک بیان کیا جائے.مہاراجہ کے سامنے حق کی آواز پہنچانے اور دین اسلام کی خوبیاں بیان کرنے میں آپ پوری طرح نڈر اور بے خوف تھے.اس سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے کہ جب مہاراج کو کھلم کھلا تبلیغ کرتے ہوئے آپ کی طرف سے اس جوش اور اس ولولہ کا اظہار ہو تا تھا تو دوسرے درباریوں ، رئیسوں، پنڈتوں اور عیسائی پادریوں سے مذہبی گفتگوؤں کا کیا رنگ ہو گا ؟ ایک دفعہ وہاں کے گورنر پنڈت رادھا کشن نے (جو بدھ تھے) راجہ امر سنگھ کے مکان پر کہا کہ لیکھرام کے اسلام پر بعض اعتراضات بالکل لا جواب ہیں.آپ نے راجہ صاحب کو منصف بنا کر ان سے پوچھا کہ ان اعتراضوں میں سب سے اعلیٰ درجہ کا اعتراض کریں ابھی فیصلہ ہو جاتا ہے انہوں نے اعتراض کیا کہ اسکندریہ کا کتب خانہ حضرت عمر کے حکم سے جلایا گیا تھا ؟ آپ نے ان سے دریافت کیا.کہ اس دور کی کوئی مستند تاریخ آپ کے نزدیک کونسی ہے اس پر انہوں نے انگریز مورخ ایڈورڈ گبن (۱۷۳۷ - ۱۷۹۴) (EGIBBON) کی کتاب Decline and fall of the Roman Empire Dialine ( تاریخ زوال سلطنت روما) کا نام لیا.یہ کتاب اسی وقت کتب خانہ سے منگوالی گئی اس میں گہن نے اس شرمناک الزام کی سختی سے تردید کی تھی.اور اس کا بے بنیاد ہونا دلائل سے ثابت کیا تھا.اس حوالہ نے ساری بحث کا خاتمہ کر دیا.غالباً انہی گور زیاد یوان امرناتھ گورنر جموں سے آپ کی عورت مرد میں مساوات کے بارے میں ایک دلچسپ گفتگو بھی ہوئی.جس سے وہ ہکا بکا رہا گیا.

Page 118

تاریخ احمدیت جلد ۳ 93 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک |||| غیر مسلموں کے علاوہ مسلمان علماء خصوصاً شیعہ حضرات سے بھی گاہے گا ہے گرما گرم بخشیں جاری رہتی تھیں.اور چونکہ دیوان اننت رام وزیر اعظم کے استاد مولوی عبد اللہ صاحب شیعہ خیال کے تھے اس لئے بعض اوقات ان کے سامنے بھی سوال و جواب ہوتے تھے.اور آپ کے معقول و مسکت جوابات سے ان کی تسلی ہو جاتی تھی.ایک غالی شیعه طبیب غالبا میر نواب لکھنوی (2) ولی عہد کے خاص طبیب تھے ایک دن انہوں نے مطاعن صحابہ کا ذکر شروع کر دیا.آپ نے ان سے صرف اس قدر کہا کہ عمر نام صحابی کی اولاد میں سے میں بھی ہوں.ہاں اب آپ اعتراض کیجئے.ان کی متانت و شائستگی اور شرافت دیکھو جب تک آپ ریاست میں رہے انہوں نے پھر کبھی آپ کے سامنے مذہبی چھیڑ چھاڑ نہیں کی آپ نے ۸۱ - ۱۸۸۰ء میں ولی عہد کی تحریک پر ایک خط بھی "خطوط جواب شیعہ در دسخ" کے نام سے شائع کیا مگروہ خاموش ہی رہے.اور کوئی جواب نہ دیا.اس زمانہ کی تصنیفات اس زمانہ کی تصنیفات جو آپ کے قلم سے شائع ہو ئیں.(1) کتاب فصل الخطاب في مسئلہ فاتحة الكتاب ۱۵/ نومبر ۱۸۷۹ء کو رگھوناتھ پریس جموں میں شائع ہوئی.یہ کتاب مولوی فضل الدین صاحب گجراتی (۱۸۳۴ - ۱۹۰۸ء) والد قریشی محمد حسن صاحب لاہور کے جواب میں تالیف فرمائی جو ان دنوں ریاست جموں و کشمیر کے محکمہ تاریخ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور مدرسہ نعمانیہ کے باغیوں میں سے تھے.(۲) خطوط جواب شیعه در د نسخ (سن تالیف ۸۱ - ۶۱۸۸۰) (۳) ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب (پادری جیمز کے جواب میں ایک رسالہ جسے انجمن حمایت اسلام لاہور نے وسط ۱۸۸۹ ء میں شائع کیا ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۱۸۳ پر اس کا ذکر آچکا ہے.(۴) تصدیق براہین احمدیہ (سن اشاعت ۱۸۹۰ء) اس کا کسی قدر تذکرہ تاریخ احمدیت جلد دوم میں گذر چکا ہے مزید تفصیل آگے آرہی ہے.(۵) رو تاریخ ( مطبوعہ ۱۸۹۱ء) پنجاب پریس سیالکوٹ.اس کے علاوہ آپ ان دنوں مختلف رسائل واخبارات میں اپنے مجربات یا مضمون بھی بھیجا کرتے تھے.مثلا ۱۸۷۹ء میں ” مرءة الطبابت" میں مجربات لکھتے رہے.(طبیب حاذق جلد نمبر ۲) دھاریوال ضلع گورداسپور سے ایک رسالہ " انتخاب الحکمت" مطبع شعلہ نور بٹالہ سے چھپتا تھا.اس کے جولائی ۱۸۸۸ء کے ایشوع میں (صفحہ ۹ کالم ) آپ کے مجربات شائع ہوئے جن کا عنوان تھا علاج ہیضہ

Page 119

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 94 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک مجربه مولوی نور الدین حکیم مہاراجہ کشمیر " وغیرہ - رساله منشور محمدی ۱۸۸۷ء (بنگلور) میں آپ کا ایک اہم مضمون چھپا جس کا ذکر آگے آرہا ہے.جموں میں درس قرآن آپ قرآن مجید کے بے مثال عاشق تھے.قرآن مجید آپ کے لئے سب سے بڑا روحانی مائدہ تھا اور اس کا درس و تدریس آپ کی روحانی و قلبی تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ تھا.یہی وجہ ہے کہ بھیرہ کی طرح ریاست میں بھی آپ کا سلسلہ درس زور شور سے جاری رہا.اور اس غرض کے لئے آپ نے بے دریغ روپیہ صرف کیا.آپ کو قرآن سنانے کا کس درجہ بے پناہ شوق تھا اور اس میں کتنی پر تاثیر کشش و جاذبیت ہوتی تھی اس کا کسی قدر اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کو بعض خاص مصاحبوں کی مجلس میں جانے کا موقع ملا.مجلس میں سب ہندو تھے آپ نے دو ایک روزان کو قرآن مجید سنایا.ایک ہندو جو افسر خزانہ کا بیٹا بھی تھا اور خود بھی خزانہ کا ایک افسر تھا بر سر عام کہنے لگا کہ دیکھو ان کو قرآن سنانے سے روکو درنہ میں مسلمان ہو جاؤ نگا قرآن شریف بڑی دلر با کتاب ہے اور اس کا مقابلہ ہرگز نہیں ہو سکتا.اور نور الدین کے سنانے کا انداز بھی بہت ہی دلفریب اور دلرہا ہے.آپ ایک معقول آمد والے معزز عہدے پر ممتاز تھے تنخواہ اور انعام سرکاری اور پرائیویٹ پریکٹس سب ملا کر بہت سا روپیہ ماہوار آجا تا تھا مگر آپ کا طریق زندگی بہت سادہ تھا اور آپ کا روپیہ سب دینی کاموں پر ہی خرچ ہو تا تھا.اشاعت قرآن کے لئے ایک سکیم انہی دنوں آپ نے تجویز کی کہ اپنے خرچ پر دو طلبہ کو اعلیٰ درجہ کی عبرانی پڑھوائیں.دو کو یونانی دو کو سنسکرت اور دو کو انگریزی ایسا ہی دیگر زبانیں اور علوم پڑھائے جائیں اور یہ ایک جماعت ہو جو تمام مذاہب مروجہ کے دینی علوم سے پوری واقفیت حاصل کر کے قرآن شریف کی تغییر لکھے اور خدمت دین میں اپنی زندگی گزارے اس مجوزہ سکیم کا آغاز کیا تھا اور انجام کیا ہوا.حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں " مجھے یہ سوجھا کہ میں اپنے صرف اپنے خرچ سے ایسے باراں آدمی تیار کروں جن کو ضروریات کے لئے پچاس روپے ماہانہ دیا جائے.او ر وہ زمانہ کی رفتار پر مصلح بنیں.عربی کے عالم دو.عربی کے ماہر دو.یونانی جانے والے دو.سنسکرت جاننے والے دو.انگریزی دان دو.عربی انگریزی دو.پھر اس خیال پر دو مولوی بڑے عربی دان اور میرے نزدیک بہت ٹھیک عربی پڑھنے کے لئے پہلے

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 95 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک چریا کوٹ پھر کلکتہ کو بھیجے اور وہ دو برس میں بڑے کامل عربی دان بن کر واپس آئے اور دو علی گڑھ کے کالج میں بھیجے اور سید احمد خان کے کہنے پر ان کو میں روپے ماہانہ کے قریب دیتے رہے.غرض قصہ مختصر جب یہ صاحبان میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ایک جلسہ کیا اور اپنے خیال میں اہل الرائے احباب کو جمع کیا اور پوچھا سر دست کسی طرح کام شروع کیا جائے.تو سب ساکت ہوئے آخر میرے اصرار پر وہ عربی دان بولے آپ کو جنون ہے ہم تو طب پڑھ کر رو پیہ جمع کر لیں گے اور بس کہاں کا بکھیڑا نہ ہب مذہب یا قوم یا قوم! علی گڑھ والے بولے ہم نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اب پلیڈری کریں گے.تو روپیہ جمع کر کے بیرسٹری کے لئے ولایت جائیں گے اب مجھے گھبرا کر کچھ کہنے کا ارادہ تھا کہ ایک پیر صاحب بولے.اجی ہمارے مرید بہت ہیں ہم تمہارے منشاء کے مطابق قرآن کریم ان کو سنوایا کریں گے.آخر جلسہ مابین ناکامی و کامیابی ( پیر صاحب کے بھولے پن کی مہربانی) برخاست - ایک اور صاحب علی گڑھ میں انگریزی و سنسکرت پڑھتے سے اور پر ہمن کا خون بھی ان میں تھا.مجھے فرمایا کہ یہ مردہ زبان ہے.اور اس کے پڑھانے والے احمق پنڈت ہیں میں اب نہیں پڑھ سکتا آخر پلیڈر بن گئے اب ان کی یہ حالت ہے کہ ایک آشنا کو پرائیویٹ خط میں کہتے ہیں کہ قادیانی لوگ لائق تھے مگر کود کر اسلام سے نکل گئے اور خود نہ نماز نہ روزہ نہ زکوۃ نہ حج اور نہ قرآن کریم کا فہم یہ تہذیب اور شائستگی وہاں سیکھی".المختصر آپ کی یہ سکیم درمیان میں رہ گئی.مگر خدا نے آپ کے جذبہ ایمان کو اس درجہ نوازا کہ لاکھوں کی جماعت آپ کے قدموں میں ڈال دی.جس کے قیام کا مقصد وحید ہی اشاعت اسلام اور تبلیغ قرآن ہے.چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں فرمایا.HA ” میں نے بڑی محنتوں سے قرآن سنانا چاہا.مگر باوجود خرچ اموال مجھے اس کثرت سے سننے والے نہ ملے.اب تم اس کثیر تعداد سے سننے والے موجود ہو.میں نے کوشش سے سنانا چاہا تو بہت کم لوگوں نے سنامگر میرے مولی نے میری سچائی اور دلی تڑپ کو دیکھ لیا اور سننے والے مہیا کر دیئے.1114.تفسیر تو رات کے لئے سرسید کا آپ کو بلانا سرسید نے ایک دفعہ تو رات کی تفسیر کرنے بلانا کے لئے غازی پور کے مشہور مناظر اسلام اور عربی و عبرانی کے عالم مولوی عنایت رسول صاحب چریا کوٹی کی خدمات حاصل کیں.اور ان کی اعانت کے لئے سرسید کی نگاہ انتخاب حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب پر پڑی.چنانچہ رسالہ " مصنف " علی گڑھ ماہ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۰) میں لکھتا ہے.مولانا عنایت الرسول صاحب نے ایک بار سرسید سے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اسلامی

Page 121

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 96 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک نقطہ نظر سے تو رات کی تفسیر مجھ سے لکھوائیں کیونکہ یہ کام میرے بعد غالب نہ ہو سکے گا.اس کے لئے پرلیں.سٹاف.تو رات کی شرحوں اور یہود کی تاریخوں کی ضرورت تھی.سر سید نے یہ تجویز پسند کی اور ایک پریس اس غرض سے منگوایا جو سائنٹیفک سوسائٹی میں تھا.چنانچہ تہذیب الاخلاق اور خطبات احمدیہ میں تو رات کی جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں وہ اسی پریس کی چھپی ہوئی ہیں.سرسید نے مولانا کی مدد کے لئے حکیم نور الدین قادیانی کو بلانا چاہا.جو عبرانی زبان کسی قدر جانتے تھے مگر مولانا صاحب نہ آسکے.اور یہ کام نہ ہو سکا." آنحضرت ﷺ کی زیارت جموں میں آپ کو آنحضرت ﷺ کی خواب میں پھر زیارت ہوئی.آپ نے دیکھا کہ جموں کے ایک مندر (واقع جلا کا محلہ) کے سامنے پرچون کی دکان ہے وہاں ایک لکڑی کی چوکی پر آنحضرت ﷺ تشریف فرما ہیں حضور نے آپ کو گذرتے دیکھ کر فرمایا کہ تم ہمارے یہاں سے آٹا لے لو.چنانچہ حضور نے ایک لکڑی کی ترازو میں آٹا تو لا.جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے قابل تھا.آپ نے اپنے دامن میں اس کو لیا.جب آپ کی جھولی میں آٹا ڈال چکے تو پڑے کو زور سے ڈنڈی سے مارا اور سب آٹا آپ کے دامن میں گرا دیا.بعد ازاں آپ نے حضور سے سوال کیا کہ کیا آپ نے حضرت ابو ہریرہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی.جس سے وہ آپ کی حدیثیں یاد رکھتے تھے.حضور نے فرمایا."ہاں" آپ نے عرض کیا وہ بات مجھے بھی بتا دیں.تا میں بھی آپ کی حدیثیں یاد کرلوں.فرمایا.ہم کان میں بتاتے ہیں.آپ نے کان آگے کیا اور حضور نے بھی اپنا دہن مبارک آپ کے کان سے لگایا کہ خلیفہ نور الدین صاحب نے نماز کے لئے آپ کو جگا دیا.آپ نے سوچا کہ حدیث پر عمل کرنا یہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے اٹھانے والا بھی خواب ہی کا فرشتہ ہوتا ہے.اور "نور الدین" کے لفظ سے اس وقت یہ تعبیر آپ کے ذہن میں آئی mai خدا کی قدرت 11 آئندہ چل کر آپ اس جگانے والے کے نام کی طرح خود ہی صحیح معنوں میں خلیفہ نور الدین ہو گئے اور اس مبارک خواب کی ایک دوسری تعبیر کھلی.زمانہ قیام ریاست کے حالات پر عمومی رنگ میں روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم دبارہ ۱۸۷۶۷۷ء کی طرف آتے ہیں اور (ترتیب کے ساتھ) اس دور کے بعض دوسرے جستہ جستہ ضروری واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں.اپریل ۱۸۷۷ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم سوامی دیانند سرسوتی پر اتمام حجت صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ سے مباحث شاہجہانپور

Page 122

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۱۴۳ 97 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کرنے کے بعد سوامی دیانند (بانی آریہ سماج) نے پنجاب کا رخ کیا اور رتن باغ لاہور میں ڈیرہ جمایا.حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھی انہی دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا.آپ گفتگو کے لئے دیا نند کے پاس بھی چلے گئے.سوامی جی نے کہا کہ زمانہ قدیم ہے.آپ نے فرمایا.زمانہ چیز کیا ہے.جس کو تم قدیم کہتے ہو ؟ سوامی جی پریشان ہو گئے.ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہیں.آپ نے خود ہی جواب دیا کہ زمانہ ہمارے مقدار فعل کا نام ہے اور فعل فاعل پر موقوف ہے.اور وہ دو درجے نیچے ہے.وہ ایک حادث چیز ہے.جب زید بولتے ہیں تو ابھی کی پیدا بھی نہیں ہوتی کہ زکا زمانہ موقوف ہو جاتا ہے.پھر د نہیں بولی جاتی کہ ہی کا زمانہ فنا ہو جاتا ہے.اس منقلی دلیل کا سوامی جی سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا.۱۸۸۰ء کے آخر اور ا۱۸۸ء کے شروع میں ابو سعید مولوی محمد حسین انجمن اشاعت اسلام صاحب بٹالوی نے علمائے ہند کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دنیا بھر میں اسلام کی منادی اور اعلائے کلمہ اسلام کے لئے ملک بھر کے مسلمانوں کی ایک مشترکہ انجمن ہونی چاہئے جس کے فرائض میں عیسائی مشنریوں کی طرح واعظوں کا اندرون و بیرون ملک میں بھجوانا.اسلامی لٹریچر شائع کرنا اور اسلامی مدارس کھولنا ہو.اس کا نام انہوں نے انجمن اشاعت اسلام“ تجویز کیا مشاہیر علماء نے جن میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کے علاوہ مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی.مولوی عبد الحئی صاحب لکھنوی.حافظ محمد لکھو کی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بھی شامل تھے.یہ تجویز بہت پسند کی اور کئی مسلمان اخباروں (مثلاً اخبار انجمن پنجاب لاہور.پنجابی اخبار لاہور.جریده روزگار مدراس - منشور محمدی بنگلور وغیرہ) نے بھی اس کی پر زور تائید کی اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے لاہور میں ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا.جس کے بعض ممتاز ممبر یہ تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب حکیم ریاست جموں.حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیردی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی خلیفہ حمید الدین صاحب مدرس گورنمنٹ سکول لاہور.خلیفہ رجب الدین صاحب سود اگر پیشینہ.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لاہور میں انجمن کے قیام پر اخبار منشور محمدی میں لکھا ”ان حضرات (یعنی انجمن کے ممبروں.ناقل) نے اپنے اپنے حوصلہ کے موافق الجمن کے لئے چندہ بھی مقرر کیا ان سب میں بالفعل جناب مولوی نور الدین صاحب سبقت لے گئے ہیں جنہوں نے ساٹھ روپیہ سالانہ مقرر فرمایا ہے اور سو روپیہ یکمشت دینے کا وعدہ کیا ہے.اب اس انجمن کے اتمام و استحکام میں صرف اتنی کسر باقی ہے کہ بعض معزز روساء اسلام اس میں شامل ہوں اور کسی قدر اور مشاہیر علماء

Page 123

تاریخ احمدیت جلد ۳ 98 سفر زمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک IFA کرام اس میں شریک ہوں.تھوڑے سے رؤساء اور کسی قدر اور علماء اس انجمن کے معاون ہو جاویں اور کار روائی شروع ہو.تو اکثر علماء صدہا عوام و رؤساء اس میں شامل ہو جائیں گے.چنانچہ اکثر جمهوری کام اسی طرح استحکام پکڑتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایک سے ہزار ہو جاتے ہیں." افسوس حضرت مولوی نورالدین صاحب نے تو پورے طور پر اپنا فرض منصبی ادا فرما دیا.مگر چونکہ اشاعت اسلام کی بنیادی اینٹ آسمانی حکومت کے ازلی فیصلہ کے مطابق عنقریب مسیح محمدی کے مقدس ہاتھوں سے رکھی جانے والی تھی اور عمارت اسلام کی تکمیل بھی مسیح موعود کی جماعت کے ذریعہ مقدر تھی اور اس کے ظہور کا وقت آن پہنچا تھا اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی یہ خوش آئند تجویز جس کے پروان چڑھنے کی ان کو بڑی توقع اور کامل وثوق تھا ان کے خیال میں رہ گئی یا اشاعتہ السنة کے کاغذوں میں !! - ٤٢٩ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں؟ ۱۸۸۱ء (بمطابق ۱۸۳۷ اسمت) میں آپ ایک راجہ کے ساتھ ایک شاہزادہ کی شادی پر حفظ قرآن تشریف لے گئے آپ ہاتھی پر سوار تھے کہ ایک اسپرنگ کی وجہ سے آپ زخمی ہو گئے زخم خدا خدا کر کے مندمل ہوا.تو آپ ایک گھوڑی پر آگے روانہ ہوئے اگر چہ آپ بڑی احتیاط سے زین کے ایک طرف رہے لیکن چار میل بعد آپ کو آگے جانے کی طاقت نہ رہی.دیوان کچھمن داس نے جو فوجی افسر بھی تھے آپ کے لئے پالکی کا انتظام کیا.اس میں آرام کے لئے بستر بچھا ہوا تھا آپ اس میں لیٹ گئے اور شکریہ میں قرآن مجید یاد کرنا شروع کر دیا.ایک مہینہ کا سفر تھا جب آپ جموں پہنچے تو ۱۶ پارے آپ نے حفظ کر لئے تھے.بقیہ چودہ پارے آپ نے بعد میں یاد کئے اور اپنی خاندانی روایات کے مطابق آپ کو بھی حفظ قرآن کا شرف حاصل ہوا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی انجمن کی ناکامی کے بعد انہی اغراض و انجمن حمایت اسلام مقاصد کو لیکر ایک دوسری انجمن حمایت اسلام" کے نام سے مارچ ۱۸۸۴ء میں قائم ہوئی چنانچہ لکھا ہے.چودھویں صدی ہجری کا پہلا سال یعنی ۱۳۰۱ھ مسلمانان پنجاب کی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں زریں حروف سے لکھا جائے گا.کیونکہ اس سال شروع ماہ جمادی الاولی مطابق ۱۸۸۴ء میں لاہور کے چند مسلمان جن کے دل قومی درد اور اسلامی جذبہ سے معمور تھے ایک جگہ اکٹھے ہوئے.تاکہ عیسائی مشنریوں کی مخالف اسلام ریشہ دوانیوں اور نئی جاری شدہ آریہ سماج کی تازہ تازہ معاندانہ سرگرمیوں

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 99 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کی روک تھام کا انتظام کیا جائے اس کے ساتھ ہی مسلمانان ہندوستان کے قائد اعظم جناب سرسید خان بہادر علیہ الرحمتہ کی اٹھائی ہوئی آواز پر کہ قوم کی پستی کا علاج دینی تعلیم کے ساتھ مروجہ تعلیم میں مضمر ہے غور کیا جائے اس مجلس مشاورت کا نتیجہ ایک جماعت کی تشکیل ہوا.جس کا نام انجمن حمایت اسلام لاہور رکھا گیا.(۱) مخالفین اسلام کے اعتراضات کا تحریری و تقریری جواب دینا (۲) مسائل اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور (۳) مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام یہ تین مقاصد قرار پائے." | حضرت مولوی نور الدین صاحب نے جو پہلے " اشاعت اسلام" کے نام پر دیوانہ وار آگے آئے اب پھر "حمایت اسلام" کے نام پر دل و جان سے لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں آگئے اور انجمن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر ممکن سعی و جد وجہد سے کام لینے لگے اور ہمیشہ اس کی مالی اعانت بھی کی.مضامین بھی لکھے.اور اس کے پلیٹ فارم سے قرآنی علوم و معارف کے نکات سنا سنا کر خوابیدہ دل مسلمانوں کو جگاتے اور ان کے دلوں کو گرماتے رہے.اگرچہ تبلیغ و اشاعت اسلام کی غرض جو اس کے اولین مقاصد میں سے تھی انجمن کے وجود سے نہ پوری ہوئی نہ ہو سکتی تھی جیسا کہ امام الزمان نے فتح اسلام میں کھول کر بتایا یہ چیز تو مامور ربانی سے ہی سرانجام پاسکتی ہے.محض انجمنوں کا وجود کافی نہیں ہے.تاہم حضرت مولوی صاحب انجمن کی شاندار تعلیمی خدمات کو آخر دم تک قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے حتی کہ اس کے خلاف کوئی نازیبابات آپ کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتی تھی.چنانچہ آپ کے زمانہ خلافت میں آپ کے ایک مرید (عبد العلی صاحب بھیروی) نے انجمن کو کچھ نا ملائم و ناشائستہ الفاظ سے یاد کیا تو آپ نے ان کے سگے بھائی کو اپنے قلم سے ایک خط لکھا اس میں سخت سرزنش فرمائی اور بتایا کہ.بر اسلحے کو صرف تنقید پر اسے انہیں قنات روستم کی دل سے تحقیر کی نہیں.عبد العلی کو صرف ابتلا ہے اس نے انجمن حمایت اسلام کی دل سے تحقیر کی تھی." خط مرقومہ ۱۶ جنوری ۱۹۰۹ء بنام حافظ احمد دین صاحب پراچہ بھیروی "

Page 125

تاریخ احمدیت جلد ۳ 100 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حضرت مسیح موعود سے غائبانہ تعارف اب ہم حضرت مولوی صاحب کے سوانح حیات کے اس اہم حصہ تک آپہنچے ہیں جسے آپ کی زندگی کا عبد انقلاب کہا جائے تو ہر گز مبالغہ نہ ہو گا.اور وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق وابستگی کا آغاز !! حضرت اقدس علیہ السلام سے آپ پہلے پہل کیسے روشناس ہوئے؟ آپ کے شاگرد خلیفہ نور الدین صاحب جھوٹی کا کہنا ہے کہ حضرت اقدس کا تعارف آپ کو سب سے پہلے ضلع گورداسپوری کے ایک صاحب شیخ رکن الدین صاحب سے ہوا.(جو ان دنوں جموں کے ایک ہندو کی جائیداد پر منتظم و منصرم تھے ) شیخ صاحب نے بتایا کہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی حمایت میں رسالے لکھتے ہیں (غالبا ان دنوں براہین احمدیہ شائع ہو رہی تھی) حضرت مولوی صاحب نے یہ سن کر حضرت کی خدمت میں مخط لکھ کر کتابیں منگوا ئیں اور ان کے آنے پر جموں میں حضور کا چر چا شروع ہو گیا.گو حضرت اقدس علیہ السلام کے مضامین " منشور محمدی" وغیرہ مسلم اخبارات میں ایک عرصہ سے نکل رہے تھے مگر ہمیں یہ باور کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں ہے بلکہ ہم اسے عین قرین قیاس سمجھتے ہیں کہ حضور کا نام مبارک ابتدء ! آپ نے شیخ صاحب ہی کی زبانی سنا ہو گا.کیونکہ وہ بھی ضلع گورداسپور ہی کے باشندے تھے جہاں قادیان واقع ہے.تاہم حضور سے تعلق و رابطہ کی فوری وجہ یہ ہوئی کہ آپ کا ایک تعلیم یافتہ مسلمان افسر سے ختم نبوت کے بارے میں ایک مباحثہ ہوا.جس کے دوران میں آپ کو حضرت مسیح موعود کا وہ پہلا اشتہار ملا جو حضور نے اپنے دعوئی ماموریت کے بعد نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے لئے ایشیا امریکہ اور یورپ کے تمام مذہبی عمائد و مفکرین کو بھجوایا تھا یہ اشتہار آپ کو دیوان اننت رام یا دیوان گوبند سائے نے دیا تھا.جو ان دنوں ریاست کے وزیر اعظم تھے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب اس واقعہ کی تفصیل میں خود ہی تحریر فرماتے ہیں.میں نے بہت بزرگوں سے بیعت بھی کی ہے.منجملہ ان مشہور لوگوں کے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مہاجر مدنی مجددی بھی ہیں.اور ملک بخارا کی طرف کے مشہور لوگوں میں سے حضرت محمد جی نامی میرے پیرو مرشد تھے.اور علماء میں سے مولوی عبد القیوم صاحب مرحوم مولوی عبدالحئی صاحب مرحوم کے صاحبزادے تھے.اور ان کے سوا اور بزرگ بھی ہیں.میں نے بڑے بڑے شہروں.مثلاً لکھنو.رام پور بھوپال مکہ معظمہ میمن مدینہ طیبہ اور آخر کشمیر وغیرہ میں اس دعا کے بعد جن جن لوگوں سے تعلق محبت یا نیاز پیدا کیا ہے.وہ سب کے سب

Page 126

تاریخ احمدیت جلد ۳ 101 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک بحمد اللہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کبھی بھی میری کچی اور درد دل کی دعاؤں کو ضائع نہیں کیا.اور نہ ہی کبھی مجھے کسی دھوکا میں مبتلا کیا.حضرت مرزا صاحب کا خیال مجھے پہلے پہلے اس بات سے پیدا ہوا کہ ایک بڑا انگریزی تعلیم یافتہ اور بہت بڑا عهده دار شخص جو کہ مسلمان کہلاتا تھا.میرا اس سے حضرت نبی کریم ﷺ کی نبوت کے معاملہ میں مباحثہ ہوا.کیونکہ وہ ایسے دعاوی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا.آخر کار دوران گفتگو میں اس نے تسلیم کیا کہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں لہذا اس معاملہ میں اب بحث نہیں کرتا.اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ بھلا ختم نبوت کی کوئی دلیل تو بیان کرو.کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس شخص نے اس وقت یہ اقرار صرف پیچھا چھڑانے کی غرض سے کر لیا ہے.چنانچہ میرادہ خیال درست نکلا اور اس نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت کی کمال دانائی اور عاقبت اندیشی اس امر سے مجھے معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے ختم نبوت کا دعویٰ کیا.کیونکہ آپ زمانہ کی حالت سے یہ یقین کر چکے تھے کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور کہ آئندہ ایسا زمانہ اب نہیں آوے گا کہ لوگ آئندہ کسی کو مرسل یا صبط وحی مان سکیں.اسی بناء پر آپ نے (نعوذ باللہ ) دعوی کر دیا.کہ میں ہی خاتم النبین ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو بڑے اعلیٰ درجہ کا دانا اور عاقبت اندیش انسان مانتا ہوں.میں نے اس دلیل کو سن کر بہت ہی رنج کیا.اور میرے دل کو سخت صدمہ اور دکھ پہنچا کہ یہ شخص بڑا ہی محجوب اور بے باک ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ اولیائے کرام کے حالات سے بھی نابلد محض ہے.اب چونکہ ایک طرف تو اس سے مباحثہ ہوا تھا اور اس کا صدمہ دل پر ابھی باقی تھا.دوسری طرف وہیں کے پرائم منسٹر نے مجھے حضرت اقدس کا پہلا اشتہار دیا.جس میں اس سوفسطائی کا ظاہر اور بین جواب تھا جو نہی کہ پرائم منسٹر نے مجھے وہ اشتہار دیا میں فورا اس کو لیکر اسی عہدہ دار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھو تمہاری وہ دلیل کیسی غلط اور ظنی ہے.اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے.یہ سن کر وہ نہایت گھبرایا اور متحیر ہو کر بولا کہ اچھا دیکھا جاوے گا." IKA حضرت مسیح موعود کی پہلی بار زیارت دنیائے اسلام میں اشاعت و حمایت اسلام کا دم بھرنے والی انجمنیں اپنے فرائض منصبی فراموش کر چکی تھیں.عیسائیت ، برہمو سماج آریہ سماج اور دوسرے فتنے اسلام کو نڈھال کر رہے تھے.اور مسلمان علماء و برام میں ان کے مقابلہ کا دم خم باقی نہیں تھا.اور گو اب تک آپ اپنے ماحول میں غیر مسلموں سے گویا چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے.مگر یہ کام صرف ایک عالم دیں کا نہیں تھا اس کے لئے تو

Page 127

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 102 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک آسمانی نشانات اور آسمانی کلام لانے والے مامور من اللہ کی ضرورت تھی اور زمانہ کی حالت پکار پکار کر اس ضرورت کا اعلان کر رہی تھی اس لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب بعض دوسرے بزرگوں کی بیعت میں شامل ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود کا پہلا اشتہار دیکھتے ہی پر دانہ وار جموں سے قادیان پہنچے.اور فراست و بصیرت کی باطنی آنکھ سے جو صرف صدیقوں کا خاصہ ہے.خدا کے اس برگزیدہ کو پہچان لیا جس کے انتظار میں ہزاروں نہیں کروڑوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے.یہ مارچ ۱۸۸۵ء سے کچھ پہلے کی بات معلوم ہوتی ہے.اس وقت نہ تو حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع کیا تھا نہ مسیحیت وغیرہ کے دعاوی تھے نہ نشانات و معجزات کا بظاہر کوئی ظہور آپ کے سامنے ہوا اور نہ ہونے کا کوئی تصور تھا.اور آئندہ ہونے والے معرکے کارنامے اور شائع ہونے والا عظیم الشان لٹریچر پر دہ غیب میں تھا.مگر آپ نے حضور علیہ السلام کا نورانی مکھڑا دیکھتے ہی انوار ماموریت کو بھانپ لیا اور آپ کی محبت و عقیدت میں ایسے کھوئے گئے کہ سچ سچ سب کچھ آپ ہی کے قدموں پر قربان اور نثار کر دیا.اس بے مثال الفت و شیفتگی کی وجہ پر آپ کسی پیارے اور دل کو لبھانے والے الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں.اگلے زمانہ میں جب ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ حضرت علیہ السلام آئیں گے ایسے ہوں گے ایسے ہوں گے ویسے ہوں گے غرضیکہ یہ سب باتیں سن کر احمقوں نے جو دل میں ایک تصویر بنالی تھی.اس کو عین سمجھ لیا اور مرزا صاحب کا انکار اسی بناء پر کیا گیا.کہ وہ ان کی خیالی تصویر کے مطابق نہ اترے.انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ہماری طرح ہی آدمی ہے.ہمارے پاس لوگ بیمار آتے ہیں وہ بھی دل میں کئی کئی خیال جماکر آتے ہیں کہ وہ ایسے ہوں گے اس طرح بیٹھے ہوں گے.پھر دیکھنے کے وقت ہم انہیں ایک معمولی انسان نظر آتے ہیں اس قاعدہ میں اللہ تعالٰی نے ایک حکمت رکھی ہوئی ہے اور اسی واسطے اللہ تعالٰی وہ خیالی تصویر رہنے نہیں دیتا تا کہ خدا کی نسبت غلط خیال نہ بیٹھ جاویں.اس سے مجھے مرزا صاحب کے ماننے میں ذرا بھی وقت نہ ہوئی.خیالی تصویر تو ہم نے بنائی ہوئی نہ تھی حدیث والے خد و خال ہم کو مل ہی گئے." ۱۱۴۰ علم کلام کے متعلق تاثرات یہ تو حضور کی ذات والا صفات کے بارے میں آپ کے جذبات تھے جہاں تک حضور کی تعلیم اور علم کلام کا تعلق ہے.اس کی قوت و شوکت اور فولادی تاثیر اور جذب و کشش سے متعلق آپ کے تاثرات بڑے ہی فیصلہ کن تھے.چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں.

Page 128

103 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک میں جب قادیان میں آیا.شروع میں یہاں مرزا صاحب مرحوم و مغفور ہی تھے ان کی بیوی خود کھانا پکاتی تھی اور ایک خادمہ تھی ہیں.لیکن جب تعلیم دیکھی تو میں نے کہا کہ ایسی ہے کہ عقلمندوں کو کھا جائے گی.اور مجبور ا یہ صداقت دنیا کو پہنچ جائے گی.لیکن امیر نہ مانیں گے چنانچہ میرے دیکھتے دیکھتے یہ سب آگئے اب بھی عقلمند سن کر مقابلہ نہیں کر سکتا." الدا حضرت مسیح موعود حضرت مولوی صاحب آیت اللہ تھے اور آپ کی آمد نشان علیه السلام ماموریت کے وقت سے ہی دعا میں مصروف تھے کہ الہی دین اسلام کی خدمت کے لئے مجھے مددگار اور انصار عطا فرما.آپ کی دعا ئیں اور التجائیں عرش تک پہنچیں اور رب العزت نے کشمیر سے مولانا نورالدین جیسا عظیم الشان انسان بھیج دیا اور وہ خبر پوری ہو گئی کہ مہدی کے انصار کشمیر سے آئیں گے.اس اعتبار سے حضرت مولوی صاحب کی آمد یقیناً ایک عظیم الشان نشان تھی اور آپ بلاشبہ آیت اللہ تھے.یہ امربیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مازلت مذامرت من حضر الرب و احييت من الحر ذى العجب احن الى عيان انصار الدين ولا حسنين العطشان الى الماء المعين وكنت اصرخ فى لیلی و نهاری و اقول يا رب من انصارى يارب من انصارى انى فرد مهين فلما تواتر رفع يد الدعوات و امتلاء منه جو السموات اجيب تضرعى و فارت رحمة رب العالمین فاعطاني ربی صديقا صدوقا هو عين اعوانى و خالصة خلصاني وسلالة احبائي في الدين المتين اسمه كصفاته النورانية نور الدين هو بهير وی مولدا و قرشی فاروقى نسبا من سادة الاسلام و من ذرية النجبين الطيبين فوصلت بوصوله الى الجذل المفروق و استبشرت به کاستبشار السيد بالفاروق ولقد ا نسيت احزاني مذ جاءني ولقانی...ولما جاء ني ولا قاني ووقع نظری علیه رايته آية من آیات ربی و ایقنت انه دعائی الذي كنت اداوم عليه و اشرب حسی و زبانی حد سى انه من عباد الله المنتخبين - " (ترجمہ) جب سے میں خدا تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور جی وقیوم نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے مجھے دین کے چیدہ مددگاروں کا شوق رہا ہے.اور وہ شوق پیاسے سے کہیں بڑھ کر رہا ہے میں خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری کرتا تھا اور عرض کرتا تھا کہ الہی میرا نا صر و مددگار کون ہے میں تنہا اور بے حقیقت ہوں پس جب دعا کا ہاتھ مسلسل اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے معمور ہو گئی اللہ

Page 129

تاریخ احمدیت جلد ۳ 104 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک تعالٰی نے میری عاجزانہ دعا قبول کی اور رب العالمین کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ تعالٰی نے مجھے ایک مخلص اور صدیق عطا فرمایا.جو میرے مددگاروں کی آنکھ اور میرے مخلصین دین کا خلاصہ ہے اس مددگار کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نور الدین ہے وہ مولد کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے اعتبار سے ہاشمی قریشی ہے وہ اسلام کے سرداروں میں سے ہے اور بزرگوں کی نسل سے ہے مجھے آپ کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ جسم کا ٹکڑا مل گیا.اور ایسا مسرور ہوا جیسا کہ آنحضرت ا حضرت فاروق کے ملنے سے ہوئے تھے.مجھے سارے غم بھول گئے....جب وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے ملاقات کی اور میری نگاہ ان پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ آپ میرے رب کی آیات میں سے ہیں.اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہیں جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتادیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہیں.اس اولین ملاقات کے جلد بعد ہی آپ دوسری ملاقات اور ایک مجاہدہ کی ہدایت دوباره قادیان تشریف لائے اور حضرت سے عرض کیا کہ آپ کی راہ میں مجاہدہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ مجاہدہ یہی ہے کہ عیسائیوں کے مقابل پر ایک کتاب لکھیں آپ نے عرض کیا کہ بعض سوال اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں الزامی جواب ہی دشمن کو خاموش کرتا ہے.لہذا اگر ان کے بعض اعتراضات کا صرف الزامی جواب دیا جائے تو کیا آپ اس طریق کو پسند فرما دیں گے ؟ کیونکہ بعض اعتراض بہت ہی لاجواب ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا یہ بڑی ہی بے انصافی ہوگی.اگر ایک بات جس کو انسان خود نہیں مانتا دوسرے کو منوانے کے واسطے تیار ہو.ہاں اگر کوئی ایسا ہی مشکل سوال آپ کی راہ میں آجاوے جس کا جواب ہر گز آپ کی سمجھ میں نہ آسکتا ہو تو اس کے واسطے یہ راہ مناسب ہے کہ اس کے جواب کے لئے آپ اس سوال کو نہایت ہی خوشخط اور جلی قلم سے لکھ کر اپنی اکثر اوقات نشست گاہ کے سامنے جہاں ہمیشہ نظر پڑتی رہے لٹکا دیا کریں.یہاں تک کہ اللہ تعالٰی آپ پر اپنے خاص فضل سے وہ فیضان نازل فرمائے جس سے کسی بھی اسلامی صداقت کے متعلق آپ کو کوئی مشکل پیش آئی ہو.آپ فرمایا کرتے تھے " اس طریق دعا کا میں کم و بیش پہلے سے قائل تھا.آج مجھے اس کی مضبوط چٹان پر حضرت اقدس نے کھڑا کر دیا." اپنی ایک قلمی بیاض میں لکھتے ہیں."احمد مرزا نے قرآن کی محبت رسول کریم کی محبت ، بخاری کی محبت سید عبد القادر جیلانی کی محبت اور مجاہدات کے لئے فصل الخطاب.براہین احمدیہ کی تصدیق- الوہیت مسیح کا ابطال - نور الدین -

Page 130

تاریخ احمدیت جلد ۳ 105 مفرحرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک و تفسیر و ترجمه قرآن جیسے بیج میرے اندر ہوئے.فارحمه و عافه و اگرم نزله و صل و سلم و بارک وارحم محبو به خاتم النبيين سيد الاولين والاخرين واله و خلفاء امين.

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 106 سفر د مین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ا مرقاۃ الیقین صفحه ۹۲ - ۹۳ بدر ۱۳ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحه ا کالم ۲ حواشی باب بدر ۹/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۵ کالم اور احکم ۱۴/ نومبر 1918 ء صفحہ ۳ کالم ۳ میں آپ کی یہ دعا ان الفاظ میں لکھی ہے.یا الہی میں جب مضطر ہو کر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کر لینا." ۴.صحاح ستہ پر آپ کو کافی عبور تھا سادہ سادہ پڑھاتے تھے اور مباحثات کی طرف سے ان کی طبیعت بالکل متنفر تھی.نهایت ہی کم سخن بزرگ تھے اور باتیں کرنے میں اس قدر تامل تھا کہ بعض اوقات ضروری کلام بھی نہیں فرماتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح اول نے لکھا ہے کہ ان کی صحبت میں مدت دراز تک حاضری کا اتفاق رہا مگر میں نے الفاظ حدیث کے سوا ان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں سنا برسوں سے ان کی یہی حالت تھی بالکل الگ تھلگ ہے رہتے اور کسی کو یہ راز نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کھاتے کہاں سے ہیں؟ ان کا یہ روزانہ معمول تھا کہ ان کے درس میں جو سائل آتے تو وہ تھوڑی دیر تک ان کو دیکھتے رہتے پھر -A کسی کو ” یا باسط " کسی کو "یا غنی "کسی کو "یا حمید اور کسی کو "یا مجید "پڑھنے کا ارشاد فرماتے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۹۴) ولادت ۱۸۱۷ء بمقانہ کیرانہ ضلع مظفر نگر.مولانا احمد علی مفتی سعد اللہ لکھنوی سے تحصیل علم کیا اور جلد ہی نامور علماء اور مناظرین کی صف اول میں شمار ہونے لگے.۱۸۴۴ء میں مشہور پادری فنڈر سے آگرہ میں آپ نے کامیاب مناظرہ کیا.کئی کتابوں کے مصنف تھے اور کئی مغربی مولفین کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا.۱۸۵۷ ء کے بعد وہ اپنے قابل شاگرد اور حاجی ڈاکٹر وزیر خان کے ساتھ مکہ معظمہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ایک عربی کتاب اظہار الحق تصنیف کی جس کا یورپ کی چند زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے.تین مرتبہ قسطنطنیہ گئے.مگر تعلیم کے شوق اور ضعف پیری کے سبب پھر مکہ تشریف لے آئے.بڑے محتاط.وسیع المخلق.قلیل الکلام اور بڑے دل گردہ کے انسان تھے.سخت سے سخت اعتراضات بھی بڑی کشادہ قلبی سے نتے اور مسکراتے رہتے تھے.دینی علوم میں بڑی وسیع نظر تھی.۱۸۷۰ء میں آپ نے دوسرے علماء ہند (مولوی عبد الحئی لکھنوی قاضی و مفتی سعد اللہ صاحب وغیرہ) کے ساتھ ہندوستان میں جہاد کی حرمت کا فتوی دیا ( اخبار اکمل الاخبار ویلی جلد ۵ نمبر ۳۹ صفحه ۳۰۶) سلطان عبد الحمید خان ثانی نے ان کی تین سو روپیہ ماہور کی پنشن مقرر کر دی تھی.۱۸۹۱ء میں انتقال کیا اور جنت معلی میں دفن کئے گئے.(قاموس المشاہیر جلد دوم صفحه ۳۵۹- ۳۶۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۹۲) مرقاة الیقین صفحه ۹۵ مرقاة الیقین صفحه ۹۳ ۹ مرقاة الیقین صفحه ۹۵ -1° -N -۱۲ تاریخ مکه معظم (متولفه پیر غلام دستگیر صاحب نامی باشی ) طبع اول صفحه ۱۶۳ ۱۶۷۶ حقیقت حج از منظور علی شملوی (۱۳۵۳ طبع اول صفحه ۱۳۳۹ تامی تھی یہ معلومات پیر غلام دستگیر نامی کی کتاب " تاریخ مکہ معظمہ " صفحه ۶۷٬۱۶۳ اسے ماخوذ ہیں، جو پیر صاحب نے سے ۱۹۲ء میں کی اب تو اس میں اور بھی ترقی ہو چکی ہوگی !! اخبار نور الانوار کانپور نے (۱۷/ جنوری ۱۸۷۴ء صفحہ ۲۰ کالم ۳) مدرسہ کے افتتان پر خبر شائع کی." جناب مولوی رحمت اللہ صاحب نے فی الحال پچاس روپیہ ماہواری چندہ جمع کر کے ماور مضان المبارک میں ایک حافظ قرآن مصری اور ایک ہندوستانی اور دو مدرس مقرر کئے اور مکہ معظمہ میں مدرسہ قائم کیا.البدر / اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۲۹۴ صفحه

Page 132

107 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک تاریخ احمد اہل اللہ میں سے تھے دہلی میں ۱۸۲۰ء میں پیدا ہوئے.ان کے مرید مرزا کامران قلعہ معلی کے متعلق خبر دی کہ وہ بد اخلاقی کا مرکز بن رہا ہے آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ قلعہ چھوڑ کر چلے جائیں.عصر کے وقت مرزا کامران قلعہ سے باہر چلے آئے شام کے وقت آپ کو الہام ہوا کہ تم نے قلعہ والوں کو تباہ کر دیا جب تک یہ قلعہ میں تھا ہم نے عذاب روک رکھا تھا تب شاہ عبد الغنی کو اس کا افسوس ہوا.قلعہ اور دلی شہر فتح ہو گئے تو شاہ صاحب وہاں سے مع اہل و عیال پہلے کراچی اور کراچی سے مکہ معظمہ میں ہجرت کر آئے پھر مکہ سے مدینہ منورہ چلے گئے (مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۹۳) یہیں حضرت مولانا نور الدین ان سے بیعت بھی ہوئے.آپ حافظ قرآن بھی تھے اور حنفی فقہ کے ماہر بھی اور علماء ہند و حجاز سے اجازت حاصل کرنے کے بعد درس حدیث میں مصروف ہو گئے الحاج الحاجہ " اور بعض دوسری کتابیں ان کی تالیفات میں مولوی صدیق حسن خاں صاحب نے ان کے حالات اپنی کتاب ابجد العلوم کے صفحہ ۱۹۲۹ پر لکھے ہیں.۱۵ مرقاة الیقین صفحه ۹۶ - مرقاة الیقین صفحه ۹۸ ا مرقاة الیقین صفحه ۱۰۰ ۱۸ مرقاة الیقین صفحه ۱۰۳ -19 کہتے ہیں کہ ولید او خاں صاحب ملک سے پیدل مکہ گئے تھے حضرت شاہ عبد الغنی مسجد وکی سے والہانہ عشق تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کے خذیفہ ہوئے.۲۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۰۷ بدر ۲۰ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۰۷ ۱۰۹ ۲۲.الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۳- ۲ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالی کی ایک تقریر ( مطبوعہ العنف ۲۱ ، مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۳) سے بھی اس واقعہ کی تصدیق ہوتی ہے.۲.بیقی حوالہ چالیس جواہر پارے.۲۴ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۴۰ء صفحه ۳- ۲ حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے اس نمبر کے الفضل میں یہ سب تفصیلات بتانے کے بعد یہ اعلان فرمایا تھا کہ جو دوست میری طرح ان حدیثوں کا راوی بننا چاہتے ہیں وہ ان حدیثوں کو میرے سامنے زبانی سنادیں تب میں ان کے آگے یہ سنا کر انہیں راوی بنا دونگا معلوم نہیں کہ آگے کس کس کو یہ توفیق و سعادت ملی کہ وہ آپ سے احادیث سن کر رادی بن سکیں.۲۵ مرقاة الیقین صفحه 14 ۲۶ مرقاة الیقین صفحه 10 ۲۷- بدر ۱۹۰۳ صفحه :- ۲۸ ملاحظہ ہو بد / ۲ / اکتوبر ۱۹۰۷ء نخ ۳۹۴-۳۹۵ ۲۹ مرقاة الیقین صفحه ۱۱۲ ۳۰ اصحاب احمد جلد ششم متولقہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے میں لکھا ہے کہ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب الله عنہ کے والد قاضی غلام احمد صاحب نے سفر حج پر جاتے ہوئے حضرت خلیفتہ صحیح اول کے ساتھ اکٹھے ایک ہی جہاز میں سفر کیا تھا ایک روایت کے مطابق) قاضی غلام احمد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب ہم سوار ہوئے سردیوں کا موسم تھا بڑی سخت آندھی آئی تیز بارش کے ساتھ اولے بھی گرے لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا مگر سب نے سروں پر کپڑے ڈھانک لئے تھے مگر میں نے دیکھا کہ ایک تنومند بالا قد نوجوان نے اپنا سر نہیں چھپایا تھا یہ نوجوان حضرت مولوی نور الدین خلیفتہ اصحیح اول تھے آپ نے فرمایا کہ میرے قومی ایسے ہیں کہ میں سخت سردی کو برداشت کر سکتا ہوں اس طرح قاضی صاحب کے تعلقات حضرت خلیفہ اول سے قائم ہو گئے.۳۱.مرقاۃ الیقین صفحه ۱۱۳

Page 133

تاریخ احمد یات - جلد ۳ 108 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ۳۲ پیدائش ۱۸۳۲ء بمقام نانو نه مدرسه دارالعلوم دیو بند کے بانیوں میں سے تھے شیخ نہال احمد نانوتوی و مولوی محمد نیاز سهارنپوری سے کتب عربی و فارسی پڑھ کر دہلی گئے اور مولانا مملوک علی صاحب مدرس اول مدرسہ دہلی سے تحصیل علوم کی اور سند حدیث حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی سے حاصل کی ۱۸۶۰ء میں پہلا نج کیا ۱۸۶۸ء میں دوسری مرتبہ حج سے واپس آکر دہلی میں تعلیم و تدریس شروع کی ۱۸۷۶ء میں پادری تارا چند سے چاند پور ضلع شاہجہانپور میں اور ۱۸۷۷ء میں دیانند سرسوتی سے مناظرے کئے اس کے بعد مولانا کی صحت خراب رہی اور آپ نے پچاس سال کی عمر سے پہلے ہی ۴ جمادی الاول ۱۲۹۷ھ مطابق ۱۵/ اپریل ۱۸۸۰ء میں وفات پانی اور قصبہ نانوتہ میں آپ کا مزار شریف ہے تحذیر الناس حجتہ الاسلام - رسائل قاسم العلوم- مصابيح التراریخ.آب حیات تقریر دلپذیر مباحثه شما جهان پور - ہد.تہ اشیعہ.قبلہ نما آپ کی مشہور تصانیف ہیں.(قاموس المشاہیر جلد دوم ۱۹۸ ۱۹۹.موج کوثر صفحہ ۲۱۸ ۲۱۹.سوانح قاسمی از مناظر احسن صاحب گیلانی ۳۳- بدر ۲ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه اکالم ۲ محلہ چابک سواراں میں ایک پرانی مسجد جو حویلی نواب سعد اللہ خان المشهور میاں خاں سے متصل ہے حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی بھی کچھ عرصہ یہاں رہے ہیں اب یہ مسجد فرقہ اہل حدیث کے قبضہ میں ہے اور آباد ہے بہت ساروپیہ صرف کر کے اس کی مرمت و توسیع کی گئی ہے اس کے ساتھ لڑکیوں کا مدرسہ بنات المسلمین بھی قائم ہے ( نقوش لاہور نمبر صفحہ ۵۶۰) ۳۵ مرقاة الیقین ایضا الحکم ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۰) بدر ۲۷ / جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ کے کالم -1.حضرت مولوی صاحب کے ہمعصر حکماء میں سے بھیرہ کے ایک حافظ احمد دین صاحب (ولادت (۱۸۴۳ء) والد حافظ محمد یخنی صاحب (متولد ۷ / اکتوبر ۱۸۸۰ء) پراچہ بھیرہ بھی تھے.حافظ احمد دین صاحب مرحوم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک سو سالہ طبی بیاض مولف ہذا کے پاس محفوظ ہے جس میں حضرت خلیفتہ المسیح اول کے بعض وہ نسخے بھی درج ہیں جو ان کی بھیرہ کی واپسی کے بعد حافظ صاحب کو حاصل ہوئے ایک نسخہ پر جو اطر- مغل کا ہے / ستمبر اے ۱۸ء کی تاریخ درج ہے جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آپ / تمبرا ہے ۱۸ ء سے قبل واپس آچکے تھے دوسری طرف تقویم شمسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال حج ۳ / مارچ ۱۸۷۱ء کہ ہوا.مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۲ سے قیاسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ حج سے فراغت کے معابعد ہی وطن کے لئے روانہ ہو گئے تھے اب اگر اس زمانہ کے ذرائع رسل در سائل کے مد نظر مکہ سے بھیرہ تک کی مسافت کا اگر تین چار ماہ میں ملے ہو نا فرض کر لیا جائے تو آپ کی مراجعت جون جولائی اے ۱۸ء میں ہوئی.۳۷- مرقاة الیقین صفحہ ۱۲۶.۳۸- مرقاۃ الیقین صفحہ ۷۵ اسے ثابت ہے کہ ۵۶-۱۸۵۴ء کی ترکی دروس کی جنگ کے بعد ہی کئی بھائی فوت ہو چکے تھے اور ریاست جموں میں ملازمت تک تو سبھی کا انتقال ہو گیا تھا.۳۹- حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اپنی سوانح میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مقلدوں کی مخالفت سے اہل حدیث کس درجہ سمے ہوئے تھے واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ننھیال میں ایک نو عمر کٹر ہابی مولوی تھا جو اہلحدیث کی کتاب زیرہ الاسلام " کا ٹائٹل بیچ پھاڑ کر اس کی بجائے ایک دوسری کتاب " دار الشفاء" کا سرورق چسپاں کر رکھا تھا (مرقاۃ الیقین صفحه ۲۳۶) برق آسمانی بر خرمن قادیانی صفحه ۷۱ مرقاة الیقین صفحه ۰۳ ۲۰۴ ۲۰۳ ۴۴ مرقاة الیقین صفحه ۱۲۰ ۱۲۲ ۴۳- مرقاۃ الیقین صفحه ۱۲۴-۱۲۵.-۴۴ ان پیر صاحب کا نام غالبا پیر حیدر شاہ تھا جو سید محبوب زبانی صاحب گیلانی (غوغیہ منزل بھیرہ) کے دادا تھے اور گیلانی سادات سے تعلق رکھتے تھے.پیر شمشیر علی صاحب آف بھیرہ کا بیان ہے کہ ہمارے والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ جب بھیرہ میں حضرت مولوی صاحب کی مخالفت ہوئی تو ہمارے خاندان نے ان سے تعاون کیا اور آپ نے ایک خط میں اس کا شکریہ بھی ادا فرمایا تھا.۴۵ ان اصحاب نے حضرت کے مکان سے متصل نانبائی پر بھی دباؤ ڈالا کہ آپ کی روٹی پکانے سے انکار کر دے مگر اللہ کے اس بندہ نے

Page 134

تاریخ احمدبیت، جلد ۳ 109 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک مولویوں کی ایک نہ مانی اور ڈٹا رہا.حضرت مولوی صاحب نے اس تعاون پر اس کو تنور والی جگہ ہی نہ کر دی جو اب بھی اس کے بیٹوں کے قبضہ میں ہے اور جب حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نومبر ۱۹۵۰ء میں بھیرہ تشریف لے گئے تو ایک روٹی اس تنور کی آپ کی خدمت میں بھی پیش کی گئی جو حضور نے بڑی خوشی سے تناول فرمائی.مرقاة الیقین صفحہ ۱۳۳-۱۳۵ پر اس سلسلہ میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو.جس میں آپ کے چکرم داس شاہپور خوشاب سے ہوتے پر ہوئے سیکیسر جانے کا ذکر ہے جو بھیرہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سکیسر تک کا ماحول علماء نے آپ کے خلاف مسموم کر دیا تھا.۴۷- مرقاة الیقین صفحه ۱۸۲ -۴۸- عوامی ذہن ان دنوں کس درجہ خراب ہو چکا تھا اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ قصبہ کے حجام تک آپ کا مذاق اڑانے میں بیباک ہو گئے تھے چنانچہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں ” میری شادی تھی مفتیوں کے محلہ میں وہاں جراح رہتے تھے.میرا بیاہ تھاوہ آتے رہتے تھے ایک نے مجھ سے کچھ نسی کی میں نے کہا کہ تم بڑے جاہل ہو اس نے کہا کہ کیا تو ہمار انتاج نہیں ہے.کبھی خون نہ نکلوانا ہو گا.میں نے کہا کہ میں نکلواؤں گا ہی نہ بلکہ یہ تمہارا کام ہی چھڑا دو نگا میاں شیخ احمد صاحب نے مجھے کہا کہ یہ لوگ آپ سے ناراض ہو جائیں گے اور طب کے کام میں مشکل پڑے گی." بدر ۲۰ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۳ کالم (۳) بدر ۱۷/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۸ کالم.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مسلک توحید کو اہلحدیث کے سب سے زیادہ قریب تھا مگر معروف اصطلاح سے آپ اہا حدیث کبھی نہیں ہوئے اس لئے آئمہ کی محبت کی رو سے آپ کو " حنفی اہل حدیث " کہا جائے تو بے جانہ ہو گا.۵۰ اخبار بدر۱۷/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحه ۸ ۵۱ - مرقاة الیقین صفحه ۱۲۴ ۵۲ بروایت فضل الرحمان صاحب بھیرہ (غیر احمدی) ۵۳ مرقاة الیقین صفحه ۱۵ ۵۴.یہ مسجد جو مکان کے بالکل متصل تھی اب غیر احمدیوں کے قصہ مں سے تھر مگر ماہت خوبصورت مسجد ہے حضرت کے رہائش کا کمرہ اوپر تھا اور کتا بیں نچلی منزل میں ہوتی تھیں (کلام امیر حصہ دوم صفحہ 41 کالم ۲) ۵۵ - الحکم ۱۹۰۵ء نمر ۲۱ صفحه ۱ ۵۲- خط حضرت خلیفہ اول بنام مخدوم محمد صدیق صاحب ( اصل خط جناب مخدوم بشیر احمد صاحب بھیرہ اور جناب مخدوم محمد ایوب صاحب بی.اے صدر جماعت احمدیہ میانی کے پاس محفوظ ہے.ایضا مرقاۃ الیقین ۱۲۵.-02 یہ سرے سرمہ نگاری اور سرمہ مبارک وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں.۵۸ مرقاة القین صفحه ۱۲۵-۱۲۶.۵۹ مثلا ڈاکٹر فیض قادر صاحب کے پاس ان کے والد جناب ملک قادر بخش صاحب کی طبی بیاض میں ! ! حافظ احمد دین صاحب کی طبی بیان کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا ہے.۶۰ مرقاة الیقین صفحہ ۱۲۶ مرقاة الیقین صفحه ۷ ۱۲-۱۳۸ حیات احمد جلد چہارم حاشیہ صفحہ ۱۱۶ - ۱۱۷ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ابتداء آپ نے ہندو پنساری رکھا ہو ا تھا بروایت مخدوم بشیر احمد صاحب بھیرہ) حیات احمد جلد چهارم حاشیہ صفحہ ۱۷۱۱۶ چراغ دہلی صفحه ۴۵۲ شائع کرده کرزن گزت تاریخ عروج سلطنت انگلشیہ ہند صفحہ ۲۱۹ از مولانا ذکاء اللہ خاں دہلوی ۶۵ - مرقاة الیقین صفحه ۱۲۸-۱۳۱ حیات احمد جلد چہارم صفحہ ے.

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 110 بھوپال کے بعض واقعات کے لئے ملاحظہ ہو مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۳۱- ۱۳۲.۱۸ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۵ ۹ مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۳۷۱۳۶ سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ے.ان کے حالات سریپل گریفن نے " تذکرہ رؤسائے پنجاب " ترجمہ اردو حصہ دوم صفحہ ۲۹۵) میں لکھے ہیں.اپنی صاف دلی سچائی اور قابلیت سے بڑی شہرت پائی اور اپنے خاندانی جھگڑوں سے الگ ہو کر بڑی پاکیزہ عمر بسر کی.ندر کی خدمات کے صلہ میں پنشن کے علاوہ کافی جاگیر کی بہت سی زمین انہوں نے خود بھی خریدی اور اس کی آبپاشی کے لئے دریائے جہلم سے ایک نہر بھی نکلوائی.ا مرقاۃ الیقین صفحه ۲۴۷-۲۴۸.ترجمہ تذکرہ رؤسائے پنجاب طبع دوم صفحہ ۲۶۶ ۷۲.اکیس برس کی عمر میں اپنی والد ماجد کی جائید او پر قابض ہوئے.۴-۱۹۰۳ ء میں سمالی لینڈ اور تبت میں فوجی خدمات سرانجام دیں ۱۹۰۷ ء میں صوبائی لیجسلیٹو کونسل کے ممبر نامزد ہوئے غرض کہ عمر بھر بڑے بڑے عہدوں پر ممتاز رہے ( تذکرہ رؤسائے پنجاب طبع دوم صفحہ ۲۹۸) ملک خضر حیات خان صاحب جو متحدہ پنجاب کے آخری وزیر اعظم بنے آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.(مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو یادگار در بار تاج پوشی ۱۹۱۱ صفحه ۳۴۶- ۳۴۵ مولفه نشی محمد دین صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور ۷۴ مرقاۃ الیقین ۱۳۸۰-۱۳۹ ۷۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۹-۱۴۰ رسالہ حکیم حاذق "لاہور.بابت ماہ نومبر۱۹۰۷ ء ( خود نوشت اجمالی سوانح عمری حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول صفحه ۱۴ ۷.مرقاۃ الیقین صفحه ۱۴۰-۱۴۱ ۷۸- حیات احمد جلد چہارم کے.اور رہنمائے کشمیر از مولانا فوق کشمیری صفحہ۶۹ ۷۰ پر اس کا نام رنبیر سنگھ لکھا ہے.مگر صحیفہ زریں" ے مطبوعہ نول کشور پریس لکھنو پر رندھیر سنگھ لکھا ہے.اگست ۱۸۵۷ء میں والد مہاراجہ گلاب سنگھ کی وفات پر مسند نشین ہوئے اور ۲ ستمبر ۱۸۸۵ء کو راہی ملک عدم ہوئے.( صحیفہ زریں صفحہ ے مذہبی مباحثات سننے کے بہت دلدادہ تھے (رہنمائے کشمیر صفحه ۶۹) مولوی حشمت اللہ خاں لکھنوی نے اپنی کتاب " مختصر تاریخ جموں دریاست ہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر " کے صفحہ ۶۶ سے صفحہ ۷۳ تک مہاراجہ رنبیر کے دربار کے حالات کا نقشہ کھینچا ہے اور ان کی تصویر بھی شائع کی ہے ( اصل کتاب قاریان کی صادق لائبریری میں موجود ہے اور راقم الحروف نے دیکھی ہے.) ۷۹ اصل وطن ایمن آباد تا ۱۸۷۵ء سے اپنی وفات ۱۸۷۶ء تک دیوان کے عہدہ پر رہے علوم مشرقہ کے ماہر تھے اور کنی فارسی کتابوں کے مولف بھی.مثلا تاریخ کشمیر - گلاب نامہ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دیوان کر پارام جنہوں نے مہاراجہ سے آپ کا ذکر کیا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوئے (ملاحظہ ہو تذکرہ رؤسائے پنجاب حصہ دوم صفحہ ۲۱۳ - ۲۱۰) نیز مولوی محرم علی چشتی نے اپنے اخبار رفیق ہند (لاہور) ۱۹ / اپریل ۱۸۸۴ء میں شائع کیا تھا کہ "حکیم مولوی نور الدین سات آٹھ سال سے سرکار کشمیر کے درباریوں میں حکیم اول کے عہدہ پر ممتاز ہیں ( بحوالہ کتاب رئیس قادیان " صفحه ۸۱ جلد اول از ابو القاسم دلاوری) اس خبر کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح اول کی ملازمت کا سال ۱۸۶۷ ء و ۱۸۷۷ معلوم ہوتا ہے اب چونکہ دیوان کر پا رام کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی اور مہاراجہ صاحب کے سامنے انہوں نے جو نمی آپ کا ذ کر کیا مہاراجہ صاحب نے آپ کو بلوا بھیجا اس لئے ۱۸۷۶ء ہی کا سن متعین ہوتا ہے!! مرقاۃ الیقین ۱۴۰.حکیم حاذق نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ احیات احمد چہارم صفحہ ۱۷ حاشیہ.۸۲ حیات احمد جلد چہارم صفحہ کے حاشیہ (ان دنوں وزیر آباد سے جموں تک ریل نہیں تھی) ۸۳ مرقاة الیقین صفحہ ۱۴۲- ۱۴۳.ایضار سالہ حکیم حاذق.۸۴- کلام امیر صفحہ ۹۵ پاکستان کے ایک فاضل و محقق حیف کیفوی لکھتے ہیں کہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ رنبیر سنگھ کے وقت تصنیف و تالیف کا ایک محکمہ حکیم مولوی نور الدین (خلیفہ اول جماعت قادیان)

Page 136

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 111 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کی منگرانی میں کام کر رہا تھا جس کا قیام جموں اور کشمیر میں ۱۸۷۶ء سے ۱۸۹۰ء تک رہا.وہ شاہی طبیب بھی تھے اور دار الترجمہ کے نگران بھی.اس دور میں سنسکرت کی کچھ کتابیں ڈوگری میں منتقل ہوئیں جس میں ایک حساب کی کتاب بھی شامل ہے اور جس کا ذکرڈاکٹر بوہلر نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے.اس کا انکشاف انہیں راجپوتانہ میں شکرت کے مخطوطات کی تلاش کے دوران ہوا" (کشمیر میں اردو صفحہ ۱۵-۱۶ مولفہ حیف کیفوی ناشز مرکزی اردو بورڈ پوسٹ بکس ۳۱۷۷ گلبرگ لاہور طبع اول اپریل ۴۱۹۷۹) ۸۵- ولادت ۱۸۵۰ء ( مسند نشینی ۱۲/ ستمبر ۱۸۸۵ ء وفات ۱۹۲۵ء صحیفه زرین صفحه ۶-۸- مختصر تاریخ جموں و ریاستہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر صفحہ ۸۷۰۷۳ ان ہر دو کتب میں مہاراجہ کی تصویر بھی موجود ہے.جناب ملک صلاح الدین ایم.اے متولف اصحاب احمد کچھ عرصہ ہوا قادیان سے جموں گئے تھے معلوم ہوا کہ شیخ لفتح محمد صاحب کا مکان اور اس جگہ کی شکل بہت کچھ بدل گئی ہے نیز اس دور کا ریاستی ریکارڈ بھی محفوظ نہیں ہے.۸۷ مکتوب محمد اکرم خانصاحب آن جموں (مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۷۳ء بتنام متولف بذا) ۰۸۸ مرقاة الیقین صفحه ۱۵۸ - ۸۹ - مرقاة الیقین صفحه ۱۷۴ -4+ مرقاة الیقین صفحہ ۱۴۳.یار قند.چینی.ترکستان کا ایک شہر ہے اور یا بو چھوٹے گھوڑے کو کہتے ہیں (فرهنگ عامرہ) ۹۱ - مرقاۃ الیقین صفحه ۱۴۳ء ۹۲ - مرقاة الیتین صفحه ۱۵۸ ۹۳ تواریخ کشمیر ۲ از سالگ رام مالک آریہ پریس ۱۸۸۸ء میں بھی ہیضہ کی وباعام ہو گئی تھی (اخبار ریاض ہند یکم مئی ۱۸۸۸ء) حیات احمد جلد چهارم صفحہ ۱۹ حاشیہ.-۹۴ مرقاة الیقین صفحه ۲۱۹ - و مرقاة الیقین صفحه ۱۴۴ ۹۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۹-۱۵۰ تاریخ اقوام پونچھ صفحہ ۱۷۹.کشمیر میں ان طبی خدمات کے سلسلہ میں آپ کو ہندی طب کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے پنڈت ہر نام د اس سے امرت ساگر اور سرت سبقاً سبقاً پڑھی (مرقاۃ الیقین ۱۵۷) اس طرح آپ یونانی ڈاکٹری اور ویدک تینوں علوم میں یکتائے زمانہ بن گئے.دنیائے طب میں ایک نیا انقلاب آیا.جس کے نتیجہ میں ہر قسم کی طبی تحقیقات کا اجتماع ہو گیا اور اس انقلاب کے بانی آپ ۹۷- صحیفه زرین صفحه ۸ ۹۸ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۸ ۹۹ مرقاۃ الیقین صفحه ۲۲۰.۱۰۰ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۹ ۱۰۱- مرقاة الیقین صفحه ۱۵۳ ۱۰۲- مرقاة الیقین صفحه ۲۲۳ ۱۰۳- مرقاة الیقین صفحه ۲۲۳ ۱۰۴- مرقاة الیقین صفحه ۲۲۱.۱۰۵ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۵.راجہ پرتاب سنگھ کے چھوٹے بھائی.۱۰۷.چنانچہ مین نے کتاب کی تیسری جلد صفحہ ے ے اپر صاف لکھا ہے کہ میں کتب خانہ کے نذر آتش کئے جانے کو قطعا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں.۱۰۸ مرقاة الیقین صفحه ۱۵۶ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۸-۲۲۹.

Page 137

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 112 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک 110 لاله سالگ رام اپنی کتاب تواریخ کشمیر " صفحہ ۲۱۴ ۲۱۵ پر ان کے بارے میں لکھتے ہیں.امیر بن امیر عربی شاستری و انگریزی علوم کے عالم امور مملکت میں رساد دقیقہ سنج.نہایت معمل - خلیق.سلیم الطبع - خندہ پیشانی ، مصلحت داں ، فیاض.جفاکش و محنتی ہیں مگر نازک بدن و ضعیف الدماغ ہیں.مرقاة الیقین صفحہ ۲۶۱.-100 ۱۱۲ مرقاة الیقین صفحه ۱۶۲ ۱۱۳- مرقاۃ الیقین صفحه ۱۷۰-۱۷۱.-۱۱۴ منشور محمدی کا یہ فائل خلافت لائبریری ربوہ میں اور رسالہ انتخاب الحکمت کا ایک نسخہ قادیان کے کتب خانہ میں آج تک محفوظ ہے.۱۱۵ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۵.۱۱۶- مرقاة الیقین صفحه ۱۵۵.شیخ محمد عبد اللہ پلیڈ ر مراد ہیں.۱۱- الحکم ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۵- 19 بدر / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸ کالم ۳ ۱۲۰- حیات جاوید حصہ اول صفحہ ۱۰ ۱۱ از مولانا الطاف حسین حالی اس واقعہ کا سین بن معلوم نہیں ہوا.حض سرسید کے تذکرہ کی مناسبت سے یہاں اس کا ذکر کر دیاگیا ہے.ای یا مقام ہے یا مار لیا اما الان لا الہ اب ایم پی کے ہوگئے.۱۳۴- جیون پر تر صفحه ۲۹۸ از پرت لیکھرام ۱۳۵ بدر ۹ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۷-۸- ١٣٦ جیون چر ترص ۲۶۳ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے با ہو نیلا ہر صاحب مصاحب مہاراجہ کشمیر اور دیوان انت رام کو بھی سوامی صاحب سے ملنے کے لئے بھیجا تھا اور مہاراجہ صاحب کا ارادہ ان کو جموں میں بلوانے کا تھا اور سوامی صاحب تیار بھی ہو گئے تھے.مگر پنڈت گنیش شاستری ( حج جموں) نے کہا کہ اگر ان کو بلاتے ہیں تو پہلے مندروں کو گرادیجئے گا.اس پر مہاراجہ یہ ارادہ ترک کر دیا گویا سوامی صاحب کے ریاست میں لانے کا ایک منصوبہ سوچا گیا تھا اور اس سے قیاس ہوتا ہے که شاید حضرت مولوی صاحب کو بھی اس کا علم ہو گیا ہو.اور آپ کوئی موقعہ نکال کر خود ہی اس سے گفتگو کرنے کے لئے لاہور تشریف لے آئے ہوں.۱۲۷- منشور محمد کی جلد ۱۰ نمبر ۲ صفحه ۲۲ - ۲۳- ۱۳۸ منشور محمدی جلد انمیرے صفحہ ۷۸ ۱۳۹ - ۱۸۸۱ء میں اس انجمن کی تجویز ہوئی اور مارچ ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماموریت کے مقام پر کھڑا کر دیا.۱۳۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۴۶..۳۱ رو داد گولڈن جوبلی انجمن حمایت اسلام صفحه ۱۵ ۱۳۲- آپ کا لیکچر اکثر انجمن کے سالانہ جلسوں پر ہوا کرتا تھا جس کا تذکرہ انجمن کی متعدد رو دادوں میں آج تک موجود ہے.(جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے، علاوہ ازیں انجمن کے کتب خانہ میں مدت تک حضرت مولوی صاحب کی کتابیں شائع یا فروخت ہوتی رہیں.جن کا منافع سر حال انجمن کو پہنچتا رہا.مثلاً ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب ابطال الوبيت مسیح.فضل الحطاب تصدیق براہین احمدیہ (ملاحظہ ہو.فارسی کی دوسری کتاب اور دینیات کا تیسرا رسالہ و صرف فاری کا ابتدائی رسالہ شائع کردہ انجمن

Page 138

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 113 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حمایت اسلام ۱۱-۱۳۰۹ھ ) اس سے ظاہر ہے کہ انجمن کو ابتداء میں تبلیغ اسلام کے ٹھوس کام کی اگر کچھ تھوڑی بہت توفیق ملی ہے تو وہ بھی حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کی برکت سے ملی ہے.۱۳۳- لیکچر قرآن شریف کی دنیا کو ضرورت شائع کردہ انجمن حمایت اسلام ۱۸۹۸ء اور دوسرے رسائل میں لکھا ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے مقاصد یہ ہیں.اول مخالفین مذہب اسلام کے جواب تحریری و تقریری تہذیب کے ساتھ دیئے جائیں دوم مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام.ایک آخری مقصد یہ تھا کہ گورنمنٹ انگلشیہ کی وفاداری کے نتائج حقہ سے اہل اسلام کو آگاہ کرنا.اس آخری مقصد کی تکمیل کے لئے ایک مضمون سرکار انگلشیہ کے عہد کے برکات اور رعایا کے دلوں میں نمک حلالی کے خیالات اور بعض دوسرے مضامین شائع ہوئے.(ملاحظہ ہو ر پورٹ انجمن حمایت اسلام اپریل ۱۹۰۳ء) ۱۳۴- حضرت مولوی صاحب کے انجمن سے ان تعلقات ہی کا نتیجہ ہے کہ باوجودیکہ جماعت احمدیہ پر ابتدا ہی سے کفر کا فتویٰ دے دیا گیا تھا مگر انجمن حمایت اسلام سے احمدیوں کے مراسم و روابط عرصہ دراز تک قائم رہے چنانچہ انجمن حمایت اسلام کی سالانہ رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ احمدیوں نے سالہا سال تک چندہ دیا احمدی لیکچرار اور شعراء ہمیشہ اس کے سالانہ جلسوں کی رونق ہوتے تھے.چنانچہ 1981ء کی بات ہے کہ انجمن حمایت اسلام اور جاسہ سالانہ قادیان دونوں ایک ہی تاریخوں میں منعقد ہوئے جس پر احمدی لیکچرار نہ آسکے اور جلسہ کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا.چنانچہ اجلاس عام میں ہی خان بہادر اللہ بخش نے کہہ ڈالا کہ اس دفعہ اور بھی کئی قومی اور اسلامی مجالس انہی دنوں قائم تھیں ندوۃ العلماء کا جلسہ دہلی میں منعقد ہو رہا تھا اس لئے قاری شاہ سلیمان اور مولانا شبلی نعمانی دیگر علمائے کرام ادھر مصروف ہونے کے باعث اس جلسہ میں تشریف نہیں لاسکے.احمدیوں کا جلسہ قادیان میں تھا اس لئے کچھ مسلمان ادھر مصروف رہے.(انجمن حمایت اسلام کے پچیسویں سالانہ جلسہ کی روداد مارچ اپریل 1918ء ضمیمہ انجمن کے سالانہ جلسوں میں جن احمد بی مقررین نے (حضرت مولوی نور الدین صاحب کے علاوہ) تقریریں کیں یا نظمیں پڑھیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب (جلسه ۱۸۹۴ء ۱۸۹۵ء ۱۸۹۷ء) ان سالوں میں حضرت میر صاحب نے ایک نظم پڑھی پھولوں کی مگر طلب ہے تو پانی چمن کو دے.جنت کی گر طلب ہے تو زرا انجمن کو دے " اس نظم پر انجمن کو بہت چندہ ہوا.(حیات ناصر - صفحہ (۳۱) خواجہ کمال الدین صاحب (۱۸۹۴ ۶ - ۱۸۹۵ء) مولوی محمد علی صاحب (صدارت ۱۹۲۲ء) مولوی عصمت اللہ صاحب (۱۹۲۲ ۶ - ۱۹۲۵ء) شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور (۱۹۲۷ء) مولوی صدر الدین صاحب (۱۹۲۷ء) - ولوی عبد الحق صاحب دویار تھی (۱۹۲۷ء)۱۹۳۶ء میں انجمن حمایت اسلام نے بیرونی دباؤ سے متاثر ہو کر احمدیوں کے اخراج کے لئے باقاعدہ ایک ریزولیوشن پاس کیا کہ ”عقائہ نبوت وحی اور خاتمیت میں انجمن حمایت اسلام عامتہ المسلمین کی ہمنوا ہے اور یہ کو نسل اس امر کا اعلان ضروری سمجھتی ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کا اساسی اصول ہے اور حضرت محمد مصطفی ایا ہے کے بعد کوئی نبی کسی رنگ میں نہیں آسکتا انجمن کا مسلک یہی ہے اور ایسا ہی رہے گا.(بحوالہ ٹریکٹ انجمن حمایت اسلام لاہور کا اعلان رقم کرده جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم امیرانجمن اشاعت اسلام لاہور) یہ ریزولیوشن عامتہ المسلمین کو مسلم کی تعریف سے خارج کر تا تھا کیونکہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے مستقل نبی کی آمد ثانی کے منتظر تھے مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ ایسا مانے والے تو انجمن حمایت اسلام کے ممبر ہی رہے مگر احمد یوں پر اس کے دروازے آج تک بند ہیں جن کا تصور صرف یہ ہے کہ دوسرے جہاں حضرت مسیح کے آسمان سے آنے کا عقیدو رکھتے ہیں وہاں ان کے نزدیک آنے والا مسیح آنحضرت ﷺ کی امت میں سے پیدا ہونے والا ہے اور آپ کے غلاموں میں سے ایک غلام اور خادموں میں سے ایک خادم ہے اور حدیث نبوی کے مطابق اس کی نبوت کے صرف یہ معنی ہیں کہ وہ خدا تعالٰی سے کثرت مکالمہ مخاطبہ کی خبر پا کر دیا میں اسلام اور محمد رسول اللہ ان کی عالمگیر حکومت قائم کر دے !ایا للعجب ۱۳۵- حیات احمر چهارم صفحه ۱۱۸ حاشیہ ۱۳۹ اس اشتہار کا ذکر تاریخ احمدیت جلد دوم (طبع دوم) میں ۱۸۸۵ء کے واقعات میں صفحہ ۶۷ پر آچکا ہے.۱۳۷- تذکرہ رؤسائے پنجاب حصہ دوم صفحہ ۲۱ پر لکھا ہے کہ دیوان اننت رام نے ۱۸۸۵ء میں دماغی عارضہ کے باعث استعفیٰ دیدیا تھا.اور ان کی جگہ گوبند سہائے وزیر اعظم مقرر ہوئے تھے.اس لئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ آپ کو اشتہار دینے والے کون تھے.

Page 139

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 114 فرو مین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ۱۳۸- الحکم ۲۲/ اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۲-۳ ۱۳۹- کمکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۱.آ پر آپ کے نام حضرت مسیح موعود کا پہلا خط ۱۸ مارچ ۱۸۸۵ء کا ہے جس سے یہ تخمینہ لگایا گیا ہے.۱۳۰ بدر ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحہ ۳ کالم ۱.حضرت خلیفہ اول نے نہایت روح پر اور الفاظ میں اپنے پہلے سفر قادیان اور زیارت مسیح موعود کا جو واقعہ ر تم فرمایا ہے وہ تاریخ احمدیت حصہ دوم میں آچکا ہے.۱۳۱ کلام امیر صفحہ 18 کالم.۱۴۳ آئینہ کمالات اسلام صلحه ۵۸۱-۵۸۳ ۱۳۳- الزامی جواب علم مباحثہ میں اس دلیل کو کہتے ہیں جو صرف فریق مخالف کے عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے جو اب دینے والا اس کا قائل نہیں ہوتا.اس کی ایک دلچسپ مثال حضرت شاہ عبد العزیز کے ایک واقعہ سے ملتی ہے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک پادری صاحب شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ کیا آپ کے پیغمبر خدا کو پیارے ہیں آپ نے فرمایا ہاں وہ کہنے لگا تو پھر انہوں نے قتل حسین کے وقت فریاد کی یا یہ فریاد سنی نہ ملی.شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضور نے فریاد تو کی تھی.لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا.ہے لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے ٹھیٹی کا صلیب پر چڑھنا یاد آرہا ہے.(رود کوثر صفحه ۵۶۸ اشاعت سوم از شیخ محمد اکرام ایم.اے.۱۳۴- الحکم ۳۳ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۳ کالم ۳

Page 140

تاریخ احمدیت جلد ۳ 115 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک تیسرا باب فصل الحطاب کے مجاہدہ سلوک سے لیکر ہجرت قادیان تک (ابتداء ۱۸۸۶ء تا ۱۸۹۳ء بمطابق ۱۳۰۳ھ تا ۵۱۳۱۰) فصل الخطاب کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجاہدہ کا حکم لیکر آپ وطن آئے تو ایک ہم مکتب حافظ مل گیا جو عیسائیت سے بہت متاثر ہو چکا تھا.آپ نے فرمایا.اپنے پادری سے مجھے بھی ملاؤ.چنانچہ وہ آپ کو پنڈ دادنخان کے انگریز پادری تھامس ہاول کے پاس لے گیا.اس نے کہا میں بعد میں اعتراضات لکھ کر بھیجواروں گا.اس پر آپ نے حافظ سے وعدہ لیا کہ جب تک پادری صاحب کے سوالات ہم تک پہنچ کر ان کے جوابات آپ کو نہ مل جائیں آپ بپتسمہ نہ لیں.آخر پادری صاحب نے اعتراضوں کا ایک بڑا پلندہ آپ کو جموں روانہ کر دیا.اتفاق سے انہی دنوں مہاراجہ پونچھ نے آپ کو اپنے بیٹے کے علاج کے لئے پو نچھ بلا لیا اور شہر سے الگ تھلگ مکان میں جگہ دی.یہاں آپ کو تنہائی میسر آگئی اور آپ نے جواب لکھنا شروع کر دیا.ادھر راجہ کا لڑکا اچھا ہوا.ادھر آپ نے چار جلدوں میں جواب بھی مکمل کر لیا.جواب کا نام آپ نے ایک بزرگ سید محمد غوث صاحب کی کتاب کے نام پر تفصل الخطاب " ہی رکھا.اب اس کے چھپنے کا مرحلہ باقی تھا.تو اس کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں سامان کیا کہ راجہ پونچھ اور مہاراجہ جموں سے آپ کو بہت کچھ انعام و اکرام ملا.چنانچہ آپ نے یہ ساری آمد اور فصل الخطاب کی دو جلدوں کا مسودہ طباعت کے لئے مطبع مجتبائی دہلی کے مالک (مولوی عبد الواحد صاحب کو بھیجوا دیئے.اس طرح یہ کتاب ان کے زیر انتظام ۱۳۰۵ھ مطابق ۸۸-۱۸۸۷ ء میں چھپ کر شائع ہو گئی.فصل الخطاب اپنی نوعیت کی نرالی اور لاجواب تصنیف تھی.عیسائیت سے متاثر حافظ اور ان کے

Page 141

تاریخ احمدیت جلد ۳ 116 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دوسرے ساتھی اس کی بدولت ارتداد سے بچ گئے اور کہا کہ اب ہم سچے دل سے مسلمان ہو گئے باقی دو جلدوں کی اشاعت کی ضرورت نہیں.بعض جوں نے آپ کو اس کی اشاعت پر مبارک باد بھی دی.یہ کتاب مطبع مجتبائی دہلی کے علاوہ انجمن حمایت اسلام اور بک ڈپو وکیل ٹریڈنگ کمپنی امرتسر میں بکثرت فروخت ہوئی اور اس پر نہایت عمدہ تبصرے شائع کئے گئے ذیل میں ہم مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری کا تبصرہ درج کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں.اس عمدہ کتاب میں پر جوش تحریر کے ساتھ اکثر نئی تحقیق کا دریا موجزن ہے اسلام کی خوبی کو مختصر طور سے خوب دکھایا ہے.اور غالبا عیسائیوں کے کل اعتراضوں کے جواب الزامی اور تحقیقی خوش اسلوبی سے دیتے ہیں.اور نبوت سرور انبیاء اور ضرورت قرآن مجید کو عمدہ طرز سے ثابت کیا ہے " خدمت دیں کے لئے ملازمت سے استعفیٰ کا فیصلہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں آپ نے اپنے اخلاص فدائیت اور عقیدت میں صرف فصل الخطاب" کے مجاہدہ پر ہی بس نہیں کی.بلکہ آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دے کر حضور کی خدمت میں چلے آنے کا قصد کر لیا.حضرت اقدس علیہ السلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے مشورہ دیا کہ ملازمت سے علیحدگی ہر گز اختیار نہ کریں.لیکن حضرت مولوی صاحب استعفیٰ دے چکے تھے.چونکہ خدا کی جناب میں آپ کا ریاست میں رہنا اس کی مصالح کے لحاظ سے ضروری تھا اور حضرت اقدس کی دلی خواہش بھی یہی تھی اس لئے آپ کا استعفیٰ ریاست سے منظور ہی نہیں ہوا.اور آپ عرصہ تک ریاست میں ہی بیٹھ کر اپنے آقاد مرشد کی روحانی رفاقت کا حق ادا کرتے رہے چنانچہ حضور کی خدمت میں نہایت، اخلاص بھرے الفاظ میں لکھا.".مولانا- مرشد نا- امامنا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑار ہوں.یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں میرا جو کچھ ہے.میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالاؤں کہ اس کی تمام قیمت ادا کر

Page 142

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 117 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کے اپنے پاس سے واپس کردوں.حضرت پیرو مرشد ! تابکار شهر مسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے.پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرما دیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو "." " " براہین احمدیہ " سرمہ چشم آریہ اور سراج منیر کی اشاعت میں حصہ " کی تصنیف اشاعت تک چونکہ آپ کی حضور سے کوئی رسم دراہ نہ تھی اس لئے آپ اس کی طباعت کے وقت کوئی مالی خدمت نہ کر سکے.لیکن جونہی آپ حضور کے قدموں میں آئے آپ نے اول براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لیا دوم حضور کی ہر تالیف و تصنیف میں امانت پر کمر بستہ ہو گئے.چنانچہ آپ نے ۱۸۸۶ء میں سرمہ چشم آریہ" کی سو جلدیں خرید کر مفت تقسیم کیں اور رسالہ "سراج منیر " کے لئے بھی چندہ دیا جس کی ایک قسط پچاس روپیہ کا دینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ایک خط ہے بھی ثابت ہے.1 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب آپ کی شاگردی میں مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں بخاری شریف پڑھنے کے لئے اسی سال ۱۸۸۶ء میں جموں آ گئے اور چھ ماہ تک آپ کے پاس رہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنی شاگردی کے اس دور پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.مجھ پر ایک وقت آیا ہے کہ میں علم حدیث سے نا آشنا تھا اور اس طرف توجہ کرنی پسند نہ کرتا تھا.میرے مخدوم و استاذ مولوی صاحب جو اس حلاوت علم کے ذوق سے حظ وافر رکھتے تھے مجھے ہمیشہ اس کی طرف توجہ کرنے کی ترغیب دیتے تھے.آخر ۱۸۸۶ ء میں جب کہ ہمیں اللہ تعالٰی کی مشیت نے کشمیر میں چھ ماہ کے لئے ایک جگہ رکھا اور مولوی صاحب نے بخاری شریف مجھے سنائی یا یوں کہو کہ میں نے ان سے سنی اس وقت اس کی برکات مجھ پر منکشف ہو ئیں اور اب تو میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ جو کوئی حضرت رسول کریم ان کی پاک صورت دیکھنا چاہے وہ حدیث پڑھے.قرآن شریف پڑھنے کے بعد بڑا سعادت مند وہ ہے جو حدیث پڑھتا ہے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی صحبت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اس قسم کی خوبیوں اور معارف سے واقف ہوا." آل انڈیا محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس علی گڑھ کالج کے قیام کے بعد برصغیر ہند و پاکستان کے مقتدر مسلم لیڈر سرسید احمد خان (۶۱۸۱۷ - ۱۸۹۸ء)

Page 143

تاریخ احمدیت جلد ۳ 118 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک نے دوسرا بڑا اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ ۱۸۸۶ء میں انہوں نے آل انڈیا محمدن ایجو کیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی جس نے ہندوستان کے مختلف صوبوں اور ضلعوں میں پھیلے ہوئے چھ کروڑ مسلمانوں میں ایک حرکت کی پیدا کر دی اور مسلمانوں میں عام تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں " ایجو کیشنل کانفرنس " کالج سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوئی.کانفرنس کے اجلاس میں علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ - ۱۹۱۴ء) مولانا حالی (۱۸۳۷ - ۱۹۱۴ء) نواب محسن الملک (۱۸۳۷ - ۱۹۰۷ء) وغیرہ اکابر لیکچر دیتے اور بیداری کے نئے آثار نمودار ہو جاتے.- حضرت مولوی نور الدین صاحب کو چونکہ مسلمانان ہند کی دینی و دنیوی ترقی سے خاص دلچسپی تھی.اور یوں بھی سرسید مرحوم کی خدمات کے آپ دل سے معترف تھے اس لئے آپ کا نفرنس کے معاونوں میں شامل ہو گئے.اور مقدور بھر اس کی ہمیشہ مدد کرتے رہے.دراصل آپ ان دنوں سر سید احمد خاں مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف کسی قدر ما ئل ہو گئے تھے.اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصرفات کی تاویل فرما دیا کرتے تھے.ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا.حتی کہ فنائیت کامل کا مقام حاصل ہو گیا.پونچھ میں قیام کے خان بهادر) شیخ محمد عبد اللہ صاحب (علیگ) کا قبول اسلام زمانه میں فصل الخطاب" کی تصنیف کے علاوہ ایک نہایت اہم واقعہ یہ ہوا کہ یہاں موضع بھان تنی کے ایک برہمن خاندان کے نوجوان ٹھاکر داس سے پونچھ کے سکول میں آپ سے ملاقات ہوئی جس کے بعد وہ نوجوان آپ کی تحریک پر مزید تعلیم کے لئے جموں آیا اور آپ کی توجہ ، تعلیم و تلقین اور فیض صحبت سے بالا خر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا اور بعد ازاں آپ کی خصوصی تو جہات و عنایات کی بدولت خان بہادر محمد عبد اللہ بی.اے.ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ایم ایل اے بنا اور علی گڑھ تحریک کے لئے بے حد تقویت کا موجب ہوا.حضرت اقدس سے مراسلت حضرت مولوی صاحب کی حضور سے پہلی ملاقات کے معابعد قادیان تک برابر جاری رہا.سے سلسلہ مراسلت جاری ہو چکا تھا.جو آپ کے زمانہ ہجرت منشور محمدی میں ایک معرکتہ الا را مضمون پنڈ دادنخان کے پادری تھامس ہاول صاحب نے پرچہ "نور افشاں “۶ / جون

Page 144

تاریخ احمدیت جلد ۳ 119 سفر در مین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ۱۸۸۷ ء میں رسالہ " شحنہ حق اور مرزا غلام احمد صاحب کے الہام " کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا.حضرت مولوی صاحب نے جو ان کے پہلے اعتراضوں کا قلع قمع کر چکے تھے اس مضمون کا بھی دندان شکن جواب لکھا.جو " منشور محمدی" بنگلور کی کئی قسطوں میں شائع ہوا.اس مضمون کا عنوان تھا.” جناب مرزا غلام احمد صاحب کے الہامات کی بابت پادری تھامس ہاول کی نکتہ چینیوں پر ایک مفصل ریمارک اور آخر میں نام کی بجائے صرف ن.و.جموں کے الفاظ لکھے تھے.مضمون کا آغاز ان الفاظ سے ہو تا تھا." مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جو فی زماننا مسلمانوں میں ایک عالم صوفی ہیں دین اسلام کی حقیت اور منجانب اللہ ہونے کے بے نظیر مدعی و مثبت ہیں ان کی طرف سے حال میں ایک کتاب شحنه حق شائع ہوئی ہے جس کا خاص مدعا یہ ہے کہ جہلاء پسند رسالوں کی بیہودہ اصلیت اور پر تزویر تقریروں اور علمی صورت تحریروں کی پر فساد حیثیت کو آریوں کے کم علم اور بے خبر ممبروں پر کسی قدر کھول دیا جائے تاکہ وہ ایسے لغویات کو بعض آوارہ طبع اور منہ پھٹ آریوں کا (جن کا مشیر شاید کوئی نیک طبع آریہ نہ ہو گا) عین کمال سمجھ کر بہتیروں کی طرح ان کی تقلیدی گڑھے میں نہ کو دیں." اس کے بعد ایک جگہ لکھا " سبھی مسلمان اولیاء اللہ کے الہامات کے قائل ہیں جبکہ ان کے نزدیک نیک بندوں کا ہر صدی میں صاحب الہام ہو ناممکن اور مسلم ہے تو ان کو اس بارے میں مرزا صاحب کی مخالفت کرنے سے پہلے اپنے مسلم اعتقادوں اور مسائل صحیحہ دینیہ کی تردید بھی کرنی پڑتی ہے اور کوئی عاقل شخص اور حق پسند ان میں سے بدوں کامل تحقیق کے اس مخالفت کا مرتکب نہیں ہو G-C پادری صاحب نے کور نے اعتراض کیا تھا کہ جب شرکاء کے بارے میں خدا نے دعا قبول نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا تو لمبے چوڑے مقدمات مرزا غلام قادر صاحب و مرزا غلام مرتضی صاحب نے کیوں کئے.اس کے جواب میں آپ نے بالوضاحت لکھا کہ یہ مقدمات مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مرزا غلام قادر صاحب نے دائر کئے اور آپ نے مرزا غلام قادر صاحب تک یہ الہام پہنچا بھی دیا مگر انہوں نے صرف یہ کہا کہ اگر ہمیں پہلے خبر ہوتی تو ہم مقدمہ نہ کرتے.اور اس قدر خرچ کرنے سے دست کش رہتے اب چھوڑنا مشکل ہے آخر وہ ہائیکورٹ تک پہنچے اور ہار گئے.آپ نے جب مضمون کی سب قسطیں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ارسال فرما ئیں تو حضور نے ۲۳/ جنوری ۱۸۸۸ء کو اس پر اپنے ایک خط میں کمال خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا.منشور محمدی میں جو آنمخدوم نے مضمون چھپوایا ہے وہ سب پر چے پہنچ گئے وہ مضمون نہایت ہی عمدہ

Page 145

تاریخ احمدیت جلد ۳ ہے.جزاکم اللہ خیرا" 120 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حضرت مسیح موعود بیماری اور عیادت کے لئے حضرت مسیح موعود کی تشریف آوری علیہ السلام کو حکیم فضل الدین صاحب کا جموں سے خط ملا کہ حضرت مولوی صاحب سخت بیمار ہیں جس پر حضور اپنے خادم حافظ حامد علی صاحب کو ساتھ لے کر آپ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لائے بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جموں جاتے ہوئے آپ وزیر آباد کے محلہ شیخ لال کے قریب پیر حیدر شاہ کے مکان پر قیام فرما ر ہے.کئی لوگ آپ کی ملاقات کے لئے بھی حاضر ہوئے جموں میں خلیفہ نورالدین صاحب جھوٹی کے کمرہ میں آپ فروکش ہوئے.۱۲۵ یہ انداز آی / جنوری ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے.آپ بخار اور سردرد کے عارضہ میں مبتلا تھے اور کمزوری بہت ہی ہو گئی تھی.حضرت اقدس تین دن تک قیام پذیر رہے.آپ نے پہلے سے آپ کو اطلاع دی کہ " مجھے بشارت دی گئی ہے.کہ میرے وہاں پہنچنے کے وقت آپ کو آرام ہو گا.اور ایسا tt ہی ہوا.حضرت مولوی صاحب اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں.حکیم فضل الدین صاحب نے میری کسی بیماری میں گھبرا کر حضرت صاحب ( مسیح موعود) کو لکھ دیا کہ بیمار ہیں.حضرت صاحب بیتاب ہو کر میرے پاس جموں تشریف لے گئے.قیام جموں کے دوران حضور کے دل میں بڑے زور سے دو خیال اٹھے(۱) حضرت مولوی صاحب دوسرا نکاح کرلیں.(۲) اپنے اخراجات پر کنٹرول کر کے کچھ نہ کچھ تنخواہ میں سے پس انداز کریں.چنانچہ قادیان واپس جاکر حضور نے ۲۲/ جنوری ۱۸۸۸ء کو حضرت مولوی صاحب کو لکھا.”جب سے یہ خاکسار آپ کی ملاقات کر کے آیا ہے تب سے مجھے آپ کے ہموم و غموم کی نسبت دن رات خیال لگا ہوا ہے اور میرا دل بڑے یقین سے یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر نکاح ثانی کا دلخواہ انتظام ہو جاوے تو یہ امر موجب برکات کثیرہ ہو گا.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سے تمام کسل و حزن بھی دور ہو گا اور اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم سے اولاد صالح صاحب عمرد برکت بھی عطا کرے گا...دوسرے ایک یہ امر بھی قابل انتظام ہے کہ آپ کے اخراجات ایسے حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ جن کے سبب سے ہمیشہ آپ کو تہی دست رہنا پڑتا ہے.یہاں تک کہ میں نے مولوی کریم بخش صاحب مراد مولوی عبد الکریم صاحب.ناقل) کی زبانی سنا ہے کہ جو آٹھ سو روپیہ مجھ کو آپ نے بھیجا تھاوہ بھی قرضہ لیکر ہی بھیجا تھا.دامن 21 سے لا تبسط كل البسط کی طرف خیال رکھنا چاہئے.اور اپنے نفس سے ایک مستحکم عہد کرلیں کہ تیسرا یا چوتھا حصہ تنخواہ میں سے خرچ کریں اور باقی کسی دکان وغیرہ

Page 146

تاریخ احمدیت.جلد ۲ میں جمع کرا دیں." 121 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حضرت مسیح حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی آپ کی شاگردی میں موعود کی واپسی کے معا بعد قریبی ایام میں ہی مفتی محمد صادق صاحب کو آپ کے والد جموں لائے اور حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں چھوڑ کر وطن چلے گئے چنانچہ حضرت مفتی صاحب کی روایت ہے کہ پورے طور پر جو میرا تعلق حضرت (مولوی صاحب.ناقل) سے شروع ہوا.وہ ۱۸۸۸ء کے ابتدائی مہینوں میں تھا.جب کہ میرے والد مرحوم باوجود اس ضعف و علالت و پیری کے جو اس وقت ان کے شامل حال تھی مجھے بھیرہ سے جموں لے گئے...آپ انہیں ایام میں سخت بیماری بخار اور شدید سردرد سے شفایاب ہوئے تھے اور کمزوری کے آثار ہنوز آپ کے چہرہ پر نمودار تھے.چہرہ کا رنگ زردی مائل ہو رہا تھا.اس خط کے بعد حالات نے کچھ ایسا پلٹا حضرت مولوی صاحب کی شادی لدھیانہ میں کھایا کہ آپ کی برادری میں جو سلسلہ جنبانی ہو رہا تھا وہ بوجوہ قائم نہ رہ سکا.جن کی تفصیل کا ہمیں کوئی علم نہیں اس لئے اب خود حضرت مسیح موعود نے کئی جگہ خطوط روانہ کئے اور بالاخر منشی احمد جان صاحب کی صاحبزادی صغری بیگم صاحبہ سے رشتہ کی تجویز پختہ ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ حضرت خلیفہ اول اور دیگر احباب شادی کی برات میں لدھیانہ تشریف لائے.اور بعد نکاح مع دلہن واپس تشریف لے گئے یہ ۷ / مارچ ۱۸۸۹ء سے قبل کا واقعہ ہے.لدھیانہ کی بیعت اولیٰ میں شرکت حضرت مولوی صاحب نے ایک عرصہ سے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلی بیعت آپ کی لی جائے.چنانچہ حضور نے یہ درخواست منظور فرما لی.ازاں بعد جب حضور کو خدا کی طرف سے بیعت کا حکم ملا تو حضور نے آپ کی بیعت سے پہلے استخارہ کا ارشاد فرمایا جس کا طریق حضور نے یہ بتایا.اول دو رکعت نماز پڑھیں پہلی رکعت میں قل بیایھا الكافرون دوسری رکعت میں قل ھو اللہ پھر التحیات کے بعد نماز ہی میں یہ دعا پڑھیں.سات روز استخارہ کریں اگر ہر نماز کے بعد استخارہ ہو تو بہتر ہے.ورنہ عشاء کے بعد تو ضرور چاہئے.

Page 147

ت جلد ۳ 122 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دعائے استخارہ اللهم انی استخيرك بعلمك و استقدرك بقدرتك فانك تعلم ولا اعلم وتقدر ولا اقدر وانت علام الغيوب - اللهم ان كنت تعلم ان بیعتی بغلام احمد خير لي في دینی و دنیائی و عاقبه امری و عاجله فقدر لي ثم بارک لى فيه اللهم وان كنت تعلم ان بیعتی به شر لي في دینی و دنیائی و عاقبه امری و عاجله فاصرفه عني واصرفني عنه و قدر لي الخير حيث ما شئت ثم بارك لي فيه آمین - Ra اے میرے اللہ میں تیرے علم سے خیر اور تیری قدرت سے طاقت چاہتا ہوں کیونکہ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا تو قادر ہے میں قادر نہیں ہوں.اور تو سب فیبوں سے پوری طرح واقف ہے.اے میرے اللہ ! اگر تیری نگاہ میں غلام احمد کی بیعت کرنا میرے دین ودنیا اور میری عاقبت اور موجودہ زندگی کے لئے بہتر ہے تو مجھے اس کی توفیق بھی دے پھر اس میں برکت بھی ڈال لیکن اگر تیرے نزدیک میری یہ بیعت میرے دین ودنیا اور موجودہ اور آئندہ زندگی کے لئے بری ہے تو مجھے اس سے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور تیری جناب میں جہاں بھی بھلائی ہو وہ مجھے عطا کر کے میرے لئے اس میں برکت رکھ رے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب حضور کے ارشاد کے تحت استخارہ کر کے لدھیانہ پہنچے.جہاں ۲۳/ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولی ہوئی اور اول المبایعین ہونے کا شرف حاصل کیا.حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں.” نبی کو جو فراست دی جاتی ہے.وہ دوسروں کو نہیں دی جاتی.حضور نے جب میری بیعت لی تو میرا ہاتھ پہنچے سے پکڑا.حالانکہ دوسروں کے ہاتھ اس طرح پکڑے جیسے مصافحہ کیا جاتا ہے.پھر مجھ سے دیر تک بیعت لیتے رہے اور تمام شرائط بیعت کو پڑھوا کر اقرار لیا.اس خصوصیت کا علم مجھے اس وقت نہیں ہوا.مگر اب یہ بات کھل گئی." کسی شخص نے بعد ازاں حضرت خلیفہ اول سے سوال کیا کہ آپ نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کر کے کیا فائدہ حاصل کیا؟ جواب میں فرمایا.دنیا سے سرد مہری.رضا بالقضا کا ابتدا اخلاص.فہم قرآن میں بین ترقی.طول امل سے تنفر.اور المنکر سے بحمد اللہ حفاظت.فتن رجال سے بحمد اللہ حفاظت تامہ - کبر.کسل - کذب - کفر.جین سے امن نامہ - حضور نے جن الفاظ میں آپ سے بیعت لی تھی وہ آپ کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم سے لکھ کر انہیں عنایت فرما دیئے تھے.

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد ۳ اور 123 سفر دومین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تیک بیعت اولی کے الفاظ جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنے قلم سے لکھے.سم رئطا طحن الرحيم محمدات مع من احد کے ا ت پر اپنے ان تمام امت اور خراب اورتوں سے توبہ کرتا ہوں که شبان تک ریاستہ اور مچھر ہے اپنی عمر کے اخری دن کے نام کا میں ہیے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے ار آموں اور نشی کے لغات ہے مقدم ر کہوں گا اور میں اپنی گذشتہ گیا منوں کے خداتعالی سے معافی เ چاہتا ہوں استنوا اللہ رہے استنو اللہ رہے استغفر اللہ رہے من کل در البر ان ناله العالم وجود دن ایک که در شه بان محمد و خود در سولر نسب و اتوب الیه اب کی ظلمت کیسے و المترنت بدینے کا غم ہے الو ونو به خانه الالية الغزنوي الند انت

Page 149

124 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دوسرا مجاہدہ تصدیق براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس نے پہلا مجاہدہ تو رد عیسائیت بتایا تھا.اب اس کتاب کی اشاعت پر دوسرے مجاہدہ.رد آریہ دھرم کی تلقین و تحریک فرمائی اور تحریر فرمایا کہ " آج ہمارے مخالف اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے.اور اعلائے کلمتہ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اس مجاہدہ کی تکمیل میں (پنڈت لیکھرام کی کتاب " تکذیب براہین" کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ " جیسی لاجواب کتاب تصنیف فرمائی جو ۱۸۹۰ء میں اشاعت پذیر ہوئی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان ہر دو مجاہدات میں بڑے بڑے فوائد ہوئے." " تکذیب براہین" کے جواب میں ایک اور عالم مولوی ابو رحمت حسن نے بھی " تهذیب الکمکذبین" کے نام سے ایک کتاب شائع کرائی جو بڑی قابل قدر ہے.مگر مقبولیت و شہرت صرف آپ ہی کی کتاب کو حاصل ہوئی جو آپ کے مجاہدہ کے مقبول و منظور ہونے کی آسمانی سند ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب پر یہ ریویو فرمایا کہ.حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کی معلومات رکھتے ہیں فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے.فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں.ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ تیار کیا ہے.اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں.مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر و سیع رکھتے ہیں.بہت ہی عمدہ کتابوں کے متولف ہیں.حال ہی میں کتاب " تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.۱۸۹۰ء کے قریب راجہ امر سنگھ صاحب نے آپ کا ایک فوٹو لیا تھا.سب سے پہلی تصویر جو غالبا آپ کا سب سے پہلا فوٹو ہے.فوٹو میں اگر چہ آپ خلعت فاخرہ زیب تن کئے ہوئے ہیں مگر چرے سے سادگی اور استغنا اور تقدس کانور صاف طور پر عیاں ہے.حکیم محمد عمر صاحب کا بیان ہے کہ یہ تصویر پہلی دفعہ مجھے ۱۹۰۷ ء کے قریب کلکتہ میں کہیں سے حاصل ہوئی تھی جو میں قادیان لایا اور آج تک اسی کی اشاعت ہو رہی ہے.་ یہ تصویر پہلی دفعہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی نے اپنے رسالہ حکیم حاذق ۱۹۰۷ء (صفحہ ۳) پر شائع کی تھی.بلاک سے نہیں بلکہ کاتب نے اپنے ہاتھ سے اس کا خاکہ اتار لیا تھا.

Page 150

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 125 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دعوی مسیحیت پر ایمان ۱۸۹۰ء کے آخر میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے "فتح اسلام " میں دعوئی مسیحیت فرمایا تو بعض بڑے بڑے عقیدت مندوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور ایمان متزلزل ہو گیا.مگر آپ جو خدا کے مسیح کی شان مسیحائی پر پہلے ہی ایمان لاچکے تھے حضور کے دعوئی مسیحیت پر اور بھی پختہ ہو گئے.آپ کے ایمان و اخلاص اور فہم و فراست کا ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ آپ کو تو رسالہ ”فتح اسلام " کی اشاعت کا علم تک نہیں تھا.مگر ایک مولوی عطاء اللہ یہ کتاب اچھی طرح پڑھ کر لدھیانہ گیا.آپ بھی ان دنوں لدھیانہ میں ہی تھے.مولوی عطاء اللہ نے وہاں جا کر کئی لوگوں سے نہایت وثوق سے کہا کہ میں مولوی نور الدین صاحب کو مرزا صاحب سے ابھی الگ کر دوں گا.پھر آپ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ختم نبوت کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نے اپنے اس زمانہ کے مسلک و عقیدہ کی روشنی میں مختصر سا جواب دیا.اس نے کہا کہ اچھا اب اگر اس زمانہ میں کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے تو اس کو آپ کیا سمجھیں گے.آپ نے فرمایا کہ اگر وہ راستباز انسان ہے اور ہم نے اس کو راستباز مان لیا ہے پھر تو ہم کو کوئی دقت ہی نہیں کیونکہ ختم نبوت کے جو معنی وہ بتائے گا رہی ٹھیک ہوں گے....آپ کا یہ کہنا تھا کہ وہ اٹھ کر چل دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مولوی نور الدین تو اب لا علاج ہو چکا ہے.جن لوگوں نے حضرت اقدس مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے تبادلہ خیالات کے دعوئی مسیحیت پر مخالفت کا طوفان اٹھایا ان میں سر فہرست مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہلحدیث تھے جنہوں نے ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم پھر کر علماء سے فتاوی کفر لئے اور ان کو شائع کر کے ملک بھر میں حضور کے خلاف ایک آگ لگادی! مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتح اسلام" کے ابتدائی صفحات پڑھتے ہی ایک طرف تو حضور کو وہ خط لکھا جس کا ذکر تاریخ احمدیت حصہ دوم (صفحہ ۱۹۱) پر آیا ہے دوسری طرف حضرت مولوی صاحب سے طویل خط و کتابت شروع کر دی.اور آپ کو مباحثہ کے لئے لکھا جس کے جواب میں آپ نے ۱۳ مارچ ۱۸۹۱ء کو لکھا کہ جناب والا کو خاکسار بہت مدت سے مرزا جی کے خلاف پر مستعد یقین کرتا ہے جناب سورج کے سامنے نجوم کے شعاع کو کون دیکھتا ہے ابھی مرزا زندہ ہیں.میں آپ کے دعاوی اور علم سے ناواقف نہیں اور یہ امر اب پلک کے سامنے آگیا ہے اب پرائیویٹ خط و کتابت کو بند کیجئے.میں لوگوں سے مباحثہ کروں مجھے اختیار ہے مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ میں آپ کی خدمت میں

Page 151

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 126 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حاضر ہو کر عقائد کی اصلاح کروں اس سے زیادہ میں اس لئے نہیں لکھتا کہ میں آپ سے مایوس ہوں.et اس مراسلہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کو مہاراجہ جموں کے ہمراہ لاہور تشریف لانا پڑا.مہاراجہ صاحب ابھی لاہور میں مقیم تھے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے لدھیانہ پہنچے اور ۱۳ / اپریل ۱۸۹۱ء کو لدھیانہ سے دوبارہ لاہور آکر کوچہ کو ٹھی داران میں منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر فروکش ہوئے.دراصل لاہور کے مخلصین جماعت کی خواہش تھی کہ حضرت مولوی صاحب سے مولوی عبد الرحمن صاحب لکھو کے کی گفتگو کرائیں گے اور آپ اسی لئے دوبارہ لاہور آئے تھے.مگر معلوم ہوا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب تو کہیں چلے گئے ہیں او رطے پایا کہ مسئلہ حیات و وفات مسیح پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بالمشافہ تبادلہ خیالات کیا جائے چنا نشی امیرالدین صاحب کے مکان پر ہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بلوایا گیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب جو اس موقعہ پر شامل بحث تھے بیان فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بڑے همطراق سے اپنے جبہ کو سنبھالتے ہوئے آئے وہ ہمیشہ بڑا دامن در از جبہ پہنا کرتے تھے اور پیچھے سے اٹھا کر کے ایک ہاتھ میں سنبھالے رکھتے تھے...حضرت حکیم الامت اپنی سادہ وضع سے آئے." اس موقع پر مولوی محمد حسین صاحب نے آپ سے گفتگو کی.وہ انہوں نے اشاعتہ السنہ جلد ۱۳ صفحہ ۱۹ ۳۱) میں شائع کر دی تھی.اس گفتگو کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب اصل مبحث سے کرید کر کے بے تعلق سوالات کرتے رہے چنانچہ جن حضرات نے یہ تقریب پیدا کی تھی انہوں نے بھی مولوی محمد حسین صاحب کے غیر متعلق سوالات اور طریق بیان کو نا پسند کیا اور انہیں توجہ دلائی کہ مسئلہ حیات و وفات مسیح پر گفتگو ہونی چاہئے مگر مولوی صاحب نے اصل موضوع کی طرف آنے کا نام ہی نہ لیا.اور یہ پہلو بچانا چاہا صاف طرح دے گئے جس پر ان دوستوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا ہے اس غیر ضروری مکالمہ کو طول دینے کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ حضرت مولوی صاحب صبح چار بجے سے چار بجے شام تک نزیل لاہور رہ کر رات کی گاڑی سے واپس لدھیانہ جہاں ۱۸ار اپریل تک قیام فرمایا پھر اپنے اہل بیت کو لیکر ۱۹ / اپریل ۱۸۹۱ء کو لاہور - اور لا ہوتا ہے جموں پہنچ گئے.سم الله مر الله مارچ ۱۸۹۱ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جموں ڈاکٹر جگن ناتھ کا مطالبہ نشان میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک ڈاکٹر جگن ناتھ کے سامنے جن سے آپ بے تکلفانہ تعلقات رکھتے تھے اور نہ ہی تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے ) صداقت اسلام

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 127 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک پر دوسرے دلائل کے علاوہ اس کے زندہ مذہب ہونے اور اس میں زندہ نشانات کے جاری ہونے کی دلیل بھی پیش کی اور اس بحث میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجو د مبارک بطور مثال پیش کیا.اس پر ڈاکٹر جگن ناتھ آمادہ ہو گئے کہ ان کو کوئی نشان دکھایا جائے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے ان کا یہ مطالبہ حضرت کی خدمت میں لکھا تو حضور نے نشان نمائی کا یہ مطالبہ منظور فرمالیا.مگر شرط یہ عائد کی کہ " امر خارق پر کوئی ناجائز اور بے سود شرطیں نہ لگائی جائیں.بلکہ خارق عادت صرف اس طور سے سمجھا جائے جو انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوں.مگر یہ سب اس وقت ہو گا کہ جب پہلے اجازت الہی اس بارے میں ہو جائے." اس پر ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ وہ صرف انسانی طاقتوں سے بالا اعجازی نشان دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ حضور نے فورا ایک رجسٹری خط بھیجا کہ اگر آپ بلا تخصیص کسی خارق عادت نشان پر سچے دل سے مسلمان ہونے کو تیار ہیں تو پنجاب گزٹ (سیالکوٹ).رسالہ انجمن حمایت اسلام (لاہور).ناظم الهند (لاہور) - اخبار عام (لاہور) - نور افشاں لدھیانہ ) - اخبارات میں حلفا اقرار شائع کرا دیں کہ میں نشان دیکھ کر مسلمان ہو جاؤں گا تو ایک سال کے اندر اندر وہ ایسا خارق عادت نشان ضرور دیکھ لیں گے.بصورت دیگر ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے نظور ہے.اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں.نگار ڈاکٹر صاحب کو جو مہینوں سے نشان طلبی کا مطالبہ کر رہے تھے اس طرز کا حلف شائع کرنے کی جرات نہ ہو سکی.اور وہ صریحا گریز اختیار کر گئے !! حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی طرف سے جب (تاریخ ۷ / جنوری ۱۸۹۲ء) حضور کو اطلاع دی کہ وہ اب بلا تخصیص نشان دیکھنے پر رضامند ہیں تو ساتھ ہی حضور کی خدمت میں لکھا." عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو.اللہ کی رضامندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں.اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ تابکار (مگر محب انسان چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خط کا یہ حصہ درج کر کے اپنے قلم سے اشتہار میں رقم فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جانفشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے." ملازمت سے استعفی کی ممانعت دعوی مسیحیت کے بعد اب حضرت مولوی صاحب کے دل میں زور سے پھر یہ خیال اٹھا کہ ریاست کی نوکری OA

Page 153

ربیت - جلد مو 128 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک چھوڑ دینی چاہئے اور باقی وقت خدمت دین میں گزارنے کے لئے حضرت اقدس کی خدمت میں چلے جانا چاہئے.مگر جب حضور کو آپ کے اس ارادہ کا پتہ چلا تو حضور نے دوبارہ اس کی ممانعت فرما دی.اور لکھا ” آئمکرم کی نوکری ہمارے ہی کام آتی ہے.ظاہر اس کا دنیا اور باطن سرا سر دین ہے اگر چہ بظا ہر صورت تفرقہ میں ہے مگر انشاء اللہ القدیر اس میں جمیعت کا ثواب ہے اور انشاء اللہ القدیر ذریعہ بہت سے برکات اور خوشنودی مولی کا ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے جو حکیم و علیم ہے بعض مصالح کے رو سے اس مقام میں آپ کو متعین فرمایا ہے پس قیام فی ما اقام الله ضروری ہے.اس راہ سے آپ کو فیض رحمانی پہنچیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نومبر ۱۸۹۱ء میں سفر دہلی ولدھیانہ و پٹیالہ سے واپس سفر قادیان تشریف لائے تو حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دوسرے مخلصین جماعت کو قادیان میں بلوایا.چنانچہ حضرت مولوی صاحب بھی اپنے آقا کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے جموں سے سیالکوٹ آئے.رات کو ایک سرائے میں قیام کیا اور دوسرے دن قادیان روانہ ہو گئے.جماعت احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسہ میں شرکت ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء کو بعد نماز ظہر / مسجد اقصیٰ قادیان میں سب سے پہلا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.اس اولین جلسہ میں جن ۷۵ - اصحاب احمد نے شمولیت اختیار کی ان میں سب سے ممتاز حضرت مولوی نور الدین صاحب تھے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آنے والے ہر سالانہ جلسہ میں آپ اپنی امتیازی شان کے ساتھ موجود رہے.۱ جنوری ۱۸۹۲ء کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل لاہور پر اتمام سفرلاہور اور لیکچر حجت کے لئے لاہور میں تشریف فرما تھے حضرت مولوی صاحب بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے.اس تاریخ کو منشی میراں بخش صاحب کو ٹھی میں ایک عظیم الشان جلسہ بھی ہوا.جس میں حضرت اقدس کی تقریر کے بعد آپ حضرت اقدس کے ارشاد پر اٹھے اور میز پر کھڑے ہو کر فرمایا." آپ نے مرزا صاحب کا دعوی اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں اور بشارتوں کو بھی سنا جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں.تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں.علماء بھی مجھ سے ناواقف نہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا ہے.میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں.

Page 154

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 129 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ان کی خدمات اسلامی کو دیکھا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی میں نے دیکھا کہ اس سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا وہی اب ہو رہا ہے.گویا اس پرانی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے.میں کلمہ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا.مومن حق کو قبول کرتا ہے.میں نے حق سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہے.آپ کو بھی اس حق کی دعوت دیتا ہوں وما علینا الا البلاغ السلام علیکم.یہ کہکر میز پر سے اتر آئے اور جلسہ بر خاست ہو گیا." ازالہ اوہام " کی اشاعت میں اعانت حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ازالہ اوہام " کی اشاعت میں قابل قدر حصہ لیا.| ۷۲ چنانچه خود حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک اشتہار میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا اور لکھا اس جگہ اخویم مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب معالج ریاست جموں کی نئی امداد جو انہوں نے کئی نوٹ اس وقت بھیجے قابل اظہار ہے خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.مولوی سید محمد احسن صاحب کے لئے چندہ مولوی سید محمد احسن صاحب احمدیت کی وجہ سے محلہ چوبدار پورہ (بھوپال) میں نوکری سے علیحدہ ہو کر خانہ نشین تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے گزارہ کے لئے اپنے مخلصین سے چندہ کی اپیل فرمائی جس پر حضرت مولوی صاحب نے ملازمت سے علیحدگی کے باوجو د لبیک کمی اور اپنے ذمہ کچھ رقم بطور چندہ واجب کرلی.مہمانان جلسہ کے لئے ایک مکان کی تعمیر ۱۸۹۱ء میں سالانہ جلسہ کی بنیاد پڑ چکی تھی اور اس جلسہ پر آنے والوں کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع ہو رہا تھا لہذا آپ نے مہمانان جلسہ کے لئے سات سو روپیہ کے صرف سے قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی تعمیر میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ کی امداد کی !! یہ بات جب ایک غیر احمدی صاحب کو معلوم ہوئی تو انہوں نے چینیاں والی مسجد (لاہور) کے امام مولوی رحیم بخش صاحب سے استفتاء کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا فتویٰ ہے؟ اس دلچسپ استفتاء کے جواب میں چینیاں والی مسجد کے مکفر مولوی صاحب نے ایک طول طویل عبارت اور ایک غیر متعلق حدیث کا غلط سلط مطلب بیان کر کے یہ فتویٰ دیا

Page 155

تاریخ احمدیت جلد ۳ 130 سفر ترمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا ہونا محدثات میں سے ہے.جس کے لئے کتاب و سنت میں کوئی سند نہیں اور جو شخص ایسا کرے وہ مردود ہے.پس اس غرض کے لئے کوئی مکان بھی اسی ذیل میں آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فتویٰ کا مفصل جواب دیا (جو تاریخ احمدیت میں آچکا ہے) اور مکان بنوانے کے متعلق آپ نے لکھا " رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیت مهمانداری اور بہ نیست آرام هر یک صادر و دارد بنا نا حرام ہے.تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہئے اور اخویم حکیم نور الدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض اللہ اس سلسلہ کی جماعت کے لئے ایک مکان بنوا دیا.جو شخص اپنی تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے " ریاست جموں وکشمیر سے تعلق ریاست جموں وکشمیر سے جو تعلق ملازمت مہاراجہ رنبیر سنگھ کے ذریعہ ۱۸۷۶ء میں ہوا تھا ملازمت کا خاتمہ اور اس کا پس منظر وہ ستمبر ۱۸۹۲ء میں اس کے نالائق جانشین مہاراجہ پرتاب سنگھ کے اس ظالمانہ حکم سے ختم ہوا کہ آپ اڑتالیس گھنٹہ کے اندر اندر ریاست سے نکل جائیں.چنانچہ اخبار " سر مور گزٹ " (۱۶/ ستمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۲ کالم ۲) نے پیسہ اخبار کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی.افسوس ہے کہ جناب مولانا مولوی نور الدین صاحب کی نسبت اخباروں کی خبروں سے یہ امر تحقیق ہو گیا ہے کہ جناب ممدوح کو ریاست سے علیحدہ کر دیا گیا ہے پیسہ اخبار لکھتا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سری نگر سے جموں تار بھیجا.کہ اڑتالیس گھنٹہ کے اندر مولوی حکیم نور الدین صاحب کو نکال دیا جائے چنانچہ مولوی صاحب بھیرہ روانہ ہو گئے ہیں ".ایک ایسا شخص جس نے نہایت وفاداری اور امن پسندی اور رواداری کے ساتھ پندرہ سولہ سال تک ریاست کے ہر طبقہ کی خدمت کی ہو اور اپنے دینی اور اخلاقی کیریکٹر کے اعتبار سے ایک مثالی شان کا حامل ہے.وہ بھلا قانون شکنی کا مرتکب ہو سکتا ہے؟ در اصل پس پردہ کچھ اور سازشیں تھیں جو مدت سے ریاست کے اندر ہی اندر آپ کے خلاف پرورش پارہی تھیں اور جو اخراج ریاست کے المناک حادثہ پر منتج ہو گئیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۸۴۴ء کے قریب قریب سکھوں کے راجہ گلاب سنگھ صاحب نے ریاست جموں وکشمیر پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی.۱۸۴۶ء میں جب انگریزی حکومت پنجاب پر قابض

Page 156

131 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک ہوئی تو انگریزوں نے ۹ / مارچ ۱۸۴۶ء کو راجہ گلاب سنگھ سے معاہدہ کیا کہ وہ پچھتر لاکھ روپیہ نذر کر کے اس حصہ ملک پر قابض و متصرف رہیں جس پر ”سکھوں کے عہد میں قابض و متصرف تھے راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کی حکومت اعلیٰ تسلیم کرلی اور یہ اقرار کیا کہ ہمسایہ ریاستوں سے اگر کوئی نزاع پیش آئے گا تو اس کا فیصلہ برٹش گورنمنٹ کرے گی اور وہ ہنگامی حالات میں انگریزی فوج کی اعانت کریں گے.اس طرح جموں و کشمیر کی ریاست قائم ہوئی.اور راجہ گلاب سنگھ اس ریاست کے مہاراجہ ہوئے.مہاراجہ گلاب سنگھ کا زمانہ نہات درجہ تکلیف دہ زمانہ تھا جس میں کشمیر کے مسلمان باشندوں کو زر خرید غلاموں سے بھی بد تر حیثیت دی گئی تھی.اگست ۱۸۵۷ء میں راجہ گلاب سنگھ چل ہے.اور ان کی جگہ ان کے بیٹے مہاراجہ رنبیر سنگھ گدی پر بیٹھے.مہاراجہ رنبیر سنگھ اہل کمال کے قدردان اور علم دوست حکمران تھے.خصوصاً علم طب سے ان کو خاص شغف تھا ان کے دربار میں قریباً پچیس نامی گرامی حکیم ، ڈاکٹر اور وید جن میں حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی ، کلکتہ کے مشہور بنگالی ڈاکٹر گوپال چندر.حکیم فدا محمد دہلوی ، حکیم سید احمد شاہ لاہوری اور حکیم ولی شاہ لاہوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں ملازم تھے.۱۲ ستمبر ۱۸۸۵ء کو مہاراجہ رنبیر سنگھ کے آنکھ بند کرتے ہی ریاست کا یه شهری دور رخصت ہو گیا اور ریاست میں ہر طرف خلفشار انتشار اور بد نظمی پھیل گئی اور اس کے تینوں بیٹوں پر تاب سنگھ امر سنگھ اور رام سنگھ میں اتفاق نہ رہا.مہاراجہ پرتاب سنگھ نے (جو مہاراجہ رنبیر سنگھ کا بڑا بیٹا اور اس کا جانشین تھا) انتظامی امور سے تھا ! کنارہ کشی اختیار کرلی یا بعض لوگوں کے خیال کے مطابق کر نیل سٹ ریذیڈنٹ کی شکایات کی بناء پر حکومت ہند نے مہاراجہ کے اختیارات سلب کر لئے اور وہاں ایک کو نسل قائم کر دی.بہر حال مہاراجہ کا استعفا قبول کیا گیا اور مہاراجہ پرتاب سنگھ کے بھائی راجہ امر سنگھ اور راجہ رام سنگھ کو نسل کے ممبر تجویز ہوئے.اور دیوان کچمن داس ایمن آبادی کو نسل کے صدر قرار پائے.کونسل میں ایک اور ممبر نالہ باگ رام بھی تھے ان کے علاوہ کچھ انگریزی افسر بھی شامل کئے گئے.کونسل میں صرف ایک مسلمان ممبر خان بهادر غلام محی الدین نامزد ہوئے اور یہ قرار پایا.کہ اگر چہ کو نسل کو کامل اختیارات ہیں.لیکن کوئی اہم کام ریذیڈنٹ کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے.اور ریذیڈنٹ کو نسل کی کاروائیوں کے مشیر کے فرائض سر انجام دے گا.کچھ عرصہ بعد دیوان کچمن داس صدارت سے بر طرف کر دیئے گئے اور ان کی جگہ مہاراجہ ہری سنگھ کے والد راجہ امر سنگھ ممبر کو نسل پریذیڈنٹ مقرر ہو گئے اور ان کی جگہ راجہ سورج کول نام ایک عہدیدار لاہور سے سینیٹر ممبر بنا کر بھیجے گئے.حضرت مولوی نورالدین صاحب تو ایک درویش طبع اور خدارسیدہ بزرگ تھے انہیں حکومت

Page 157

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 132 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک میں دخیل و متصرف ہونے کا نہ پہلے خیال تھا نہ اب ہو سکتا تھا.البتہ اب ان کے لئے تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک عمدہ موقعہ پیدا ہوا.جو پہلے میسر نہیں تھا.کیونکہ جیسا کہ خان بہادر شیخ محمد عبد اللہ صاحب (علیگ) ( سابق ٹھاکر داس) کے قبول اسلام کے حالات میں آچکا ہے مہاراجہ پرتاب سنگھ ایک تنگدل اور تنگ خیال شخص تھا جس نے ۱۸۸۶ء میں دیوان امرناتھ گورنر جموں کو بلوا کر یہ حکم دیا کہ ہندولڑکے کو مولوی صاحب کے مکان پر جانے کی اجازت نہیں ہے.چنانچہ گورنر نے مہاراجہ کے اس حکم کی پوری پوری تعمیل کرائی.لیکن چار سال بعد جب مہاراجہ پرتاب سنگھ کا اقتدار چھن گیا.تو حضرت مولوی صاحب کے لئے اپنی تبلیغی کوششوں کو جاری رکھنا نسبتا زیادہ آسان ہو گیا.راجہ امر سنگھ صاحب اور راجہ رام سنگھ صاحب دونوں سے حضرت - سے خود مولوی صاحب کے تعلقات (جو مہاراجہ پرتاب سنگھ کے زمانہ سے ہی تھے اور جن کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کا وجود بھی اس کی نگاہ میں خار بن کر کھٹکنا شروع ہو گیا تھا) اور زیادہ مستحکم ہو گئے اور آپ نے ان دونوں کو قرآن شریف پڑھانا شروع کیا جو آپ کی روحانی غذا تھی.چنانچہ راجہ رام سنگھ صاحب نے جو چھوٹے بھائی تھے.قریباً سارا قرآن شریف ترجمہ سے ختم کر لیا اور دل سے مسلمان ہو گئے.اس کے بھائی (مہاراجہ ہری سنگھ کے والد) راجہ امر سنگھ صاحب نے صرف پند رہ پارے تک پڑھا اور گو اسلام تو قبول نہ کیا مگر حضرت مولوی صاحب سے نہایت درجہ گہرے تعلقات قائم کر لئے.آپ کے قادیان آجانے کے بعد بھی برابر ان کی خط و کتابت جاری رہی.حضرت مولوی صاحب کا وجود چونکہ مسلمانان کشمیر کے لئے ایک بڑے سہارا کا موجب رہا اور دیسے بھی آپ کی شخصیت کا بھاری اثر تھا اس لئے جو نہی پرتاب سنگھ صاحب دوبارہ بر سراقتدار آئے کو نسل کے بعض ممبروں اور دوسرے حاسدوں نے جن میں راجہ سورج کول اور باگ رام کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.اور جن کو آپ سے مذہبی اختلاف کے علاوہ ذاتی بغض و عناد بھی تھا آپ کے ریاست بد ر کرنے کی اندر ہی اندر سازش شروع کر دی.حضرت مولوی صاحب اپنی تبلیغی کوششوں اور راجہ امر سنگھ و راجہ رام سنگھ سے تعلق و مراسم کی وجہ سے مہاراجہ پرتاب سنگھ کی صاحب کی نظر میں پہلے ہی سے معتوب تھے اب جو دوسرے ممبروں نے بھی اس کے کان بھرنے شروع کر دیئے تو وہ اور زیادہ بھڑک اٹھا اور بالاخر اس ڈر سے کہ کہیں رام سنگھ اور اس کے بھائی مسلمان نہ ہو جا ئیں اس نے حضرت مولوی صاحب کے خلاف اخراج از ریاست کے وہ شرمناک احکام جاری کر دیئے جن کا ذکر اور پر کیا گیا ہے.اخراج ریاست سے قبل مہا راجہ پونچھ نے آپ پر راجہ امر سنگھ کا حامی قرار دے کر ایک مقدمہ کی بھی بناڈالی تھی

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 133 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک اخبار ” چودھویں صدی ( راولپنڈی) کا انکشاف اخراج ریاست کے محرکات و عوامل پر ہم اپنی تحقیق پوری سے لکھ چکے ہیں اب ہم اخبار ” چودھویں صدی " (۲۳/ جولائی ۱۸۹۵ء) کا ایک نہایت درجہ اہم مضمون بعنوان "مسلمانان کشمیر کی حق تلفی کا اصلی سبب " درج کرتے ہیں.جس سے ہمارے اس نظریہ کی حرف بحرف تصدیق ہوتی ہے کہ کونسل کے زمانہ میں مسلمانوں کو ریاست بد ریا ملازمت سے بر طرف کرنے کی منظم سازش کی گئی تھی.اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ای کا اخراج بھی اسی سازش کی ایک کڑی تھی.جموں اور کشمیر کی حکومت میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا زمانہ تو ایک نہایت پر آشوب زمانہ تھا ان کے زمانہ حکومت سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا.البتہ مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کا عہد حکومت ایک پر امن زمانہ تھا اور طرز حکومت کی ایک مستقل بناء پڑ گئی تھی.اور ہر ایک قسم کی ترقیاں ہوئیں تھیں.جو سب سے بڑی خوبی مہاراجہ رنبیر سنگھ صاحب کی حکومت میں تھی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی رعایا کے ہر ایک فرقہ کے ساتھ ان کے حقوق کے مقدار کے مطابق سلوک کرنے کی طرف مائل رہتے تھے اپنی مسلمان رعایا سے بھی ایسی ہی الفت رکھتے تھے جیسی ہندو رعایا ہے.اور اگر چہ ان کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں میں ان کی رعایا ہونے کے اعتبار سے باہم کوئی فرق نہ تھا لیکن ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اپنی ملازمت میں رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے.اس سبب سے اچھے اچھے اور جلیل القدر عہدوں پر اکثر مسلمان ملازم دکھائی دیتے تھے.اور ادنی ملازمت میں بھی بے شمار مسلمان تھے اس وقت ہمارے پاس کوئی فہرست تو اس زمانہ کے ملازموں کی نہیں ہے لیکن ہم حافظہ سے بہت سے نام گنا دے سکتے ہیں (اس کے بعد بارہ مسلمانوں کے نام لکھ کر تیرھواں نام آپ کا لکھا یعنی ”مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ " اور آپ کے بعد چند مزید لکھنے کے بعد تحریر کیا) مولوی نور الدین صاحب حکیم اعلیٰ وغیرہ جیسے بزرگ اور قدیم اور ہر دل عزیز عہدہ دار کی نسبت صرف یہ امر قابل بیان ہے کہ ان کے نکالنے کے واسطے گاؤ کشی کا الزام تجویز کیا گیا تھا.کیونکہ اور کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا." تاریخ کا یہ حصہ یقیناً نا تمام رہے گا اگر میں یہ نہ بتاؤں کہ حضرت مولوی صاحب کے اخراج کے باوجود راجہ رام سنگھ نے اسلام سے تعلق و رابطہ اور زیادہ استوار کر کے کوشش شروع کر دی تھی کہ اسلامی ریاستوں سے تعلق قائم کر کے کشمیر کو انگریزی اقتدار سے آزاد کرا لے مگر افسوس انگریزوں نے اس کے ان عزائم کو بھانپ کر اسے زہر دے دیا.

Page 159

تاریخ احمدیت.جلد ۲۳ 134 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک حضرت مسیح موعود کا ارشاد ریاست کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ان مخالفانہ حالات کا علم ہوا.تو آپ نے ریاست کو بد قسمت قرار دیا.اور فرمایا کیا بد قسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم نیک بخت اور بچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے." AF AL it ریاست سے روانگی کے دن نصرت الہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل از میں اپنے ۱۶ / اگست ۱۸۹۱ء کے مکتوب میں دعا فرمائی تھی کہ حمایت و حفاظت الہی آپ کے شامل ہے " چنانچہ اس دعا کی قبولیت کا ایک عجیب نظارہ اس دن نظر آیا جب آپ ریاست سے جانے والے تھے.: حضرت مولوی نور الدین صاحب نصرت الہی کے اس واقعہ کی تفصیل میں تحریر فرماتے ہیں : جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا وہ مجھ سے ہمیشہ نصیحتا کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ میں ایک سو روپیہ آپ پس انداز کر لیا کریں.یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں میں ہمیشہ یہی کہدیا کرتا ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بد ظنی ہے.ہم پر انشاء اللہ تعالی کبھی مشکلات نہ آئیں گے جس دن میں وہاں سے علیحدہ ہوا ہوں اس دن وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہو گی.میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چار سو اسی روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کے ان دنوں کی تنخواہ ہے اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ کیا نور دین تم پر نائش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا.کہ ایک رانی صاحبہ نے میرے پاس بہت سا رو پید بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ روپیہ نہ تھا یہ ہمارے جیب خرچ کا روپیہ ہے جس قدر اس وقت موجود تھا سب کا سب حاضر خدمت ہے." حضرت مولوی صاحب کے ذمہ کشمیر میں ایک لاکھ پچانوے ہزار قرض تھا اس کی ادائیگی کا بھی خارق عادت رنگ میں خدائی سامان ہوا.کشمیر سے جانے کے بعد پہلی بار آپ نے قرض خواہ کو صرف پانچ روپے کی قسط روانہ فرمائی.جس پر قرض خواہ نے لکھا.کہ آپ نے مجھ سے تمسخر کیا ہے.مگر آپ نے جواب دیا کہ اس وقت میرے پاس اتنی ہی رقم تھی.جو میں نے روانہ کر دی.قرض آپ کا میرے ذمہ ہے اور میں ہی اسے ادا کرونگا.آپ فکر نہ کریں " اس واقعہ کے بعد یہ ہوا کہ راجہ امر سنگھ صاحب سے ایک ہندو چیل کا ٹھیکہ لینے کے لئے آیا تو راجہ صاحب نے کہا اگر تم اس ٹھیکہ کے منافع کی نصف رقم حضرت مولوی نور الدین صاحب کو دینے کے لئے تیار ہو تو میں یہ ٹھیکہ تمہیں دلا ور ADI

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 135 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک دونگا.اس نے یہ شرط منظور کرلی اور یہ ٹھیکہ دے دیا.اب یہ عجیب بات ہوئی کہ اس کے منافع کی رقم بالکل قرض کی رقم کے برابر تھی.کہتے ہیں کہ وہ ہندو ٹھیکیدار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان آیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں یہ روپیہ پیش کیا حضرت مولوی صاحب نے یہ روپیہ خود تو نہ لیا اور قرض خواہ کا نام لے کر اسے بتایا کہ اسے میری طرف سے ادائیگی کر دی جائے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.اگلے سال وہ شخص پھر آیا اور اس سے کچھ زیادہ رقم پیش کی.حضرت خلیفہ اول نے پوچھا یہ کیسی رقم ہے؟ اس کے بتانے پر آپ نے فرمایا.لے جاؤ اس میں ہمارا کوئی حق نہیں اس نے بہت اصرار کیا مگر آپ نہ مانے.آخر اس نے کہا کہ آپ اپنے لئے نہیں تو کم سے کم میرے لئے یہ رقم قبول کرلیں.کیونکہ راجہ صاحب آئندہ مجھے ٹھیکہ نہیں دیں گے آپ نے فرمایا بہر حال یہ رقم تو میں لینے کا نہیں البتہ راجہ صاحب کے نام سفارشی چھٹی لکھ دیتا ہوں چنانچہ آپ نے ایک چٹھی لکھ دی اور وہ چلا گیا.ریاست سے واپس اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے.جہاں آپ کا ارادہ ریاست سے بھیرہ ہوا کہ بڑے وسیع پیمانے پر ایک شفا خانہ ہو اور ایک عالی شان مکان تعمیر کیا AY جائے.چنانچہ آپ نے مکان کی عمارت زور شور سے شروع کر دادی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو نایاب خطوط قیام بھیرہ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو خط لکھے جو آج تک سلسلہ کے لٹریچر میں نہیں آئے.پہلاخط : مخدومی د مکرمی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.یقین که آن مکرم بخیر و عافیت بھیرہ میں پہنچ گئے ہوں گے میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالی بہر حال آپ سے بہتر معاملہ کرے گا.میں نے کتنی دفعہ جو توجہ کی تو کوئی مکروہ امر میرے پر ظاہر نہیں ہوا.بشارت کے امور ظاہر ہوتے رہے اور دو دفعہ خدا تعالی کی طرف سے یہ الہام ہوا.انى معكما اسمع وادی.ایک دفعہ دیکھا گیا کہ گویا ایک فرشتہ ہے اس نے ایک کاغذ پر مہر لگا دی اور وہ مہر دائرہ کی شکل پر تھی.اس کے کنارہ پر محیط کی طرف اعلیٰ کے قریب لکھا تھا.نور دین اور درمیان یہ عبارت تھی.ازواج مطہرہ - میری دانست میں ازواج دوستوں اور رفیقوں کو بھی کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نور الدین خالص دوستوں میں سے ہیں کیونکہ اسی رات اس سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ فرشتہ نظر آیا.وہ کہتا ہے کہ تمہاری جماعت کے لوگ پھرتے جاتے ہیں فلاں

Page 161

تاریخ احمدیت جلد ۳ 136 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک فلاں اپنے اخلاص پر قائم نہیں رہا.تب میں اس فرشتہ کو ایک طرف لے گیا اور اس کو کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں تم اپنی کھو کہ تم کس طرف ہو تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو تمہاری طرف ہیں تب میں نے کہا کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ میری طرف ہے تو مجھے اس کی ذات کی قسم ہے کہ اگر سارا جہان پھر جائے تو مجھے کچھ پرواہ نہیں پھر بعد اس کے میں نے کہا کہ تم کہاں سے آتے ہو اور آنکھ کھل گئی.اور ساتھ الہام کے ذریعہ سے یہ جواب ملا کہ اجی من حضرة الوتر.میں نے سمجھا کہ چونکہ اس بیان سے جو فرشتہ نے کیا وتر کا لفظ مناسب تھا کہ وتر تنہا اور طاق کو کہتے ہیں اس لئے خد اتعالیٰ کا نام الو تربیان کیا.اس خواب اور اس الہام سے کچھ مجھے بشریت سے تشویش ہوئی اور پھر سو گیا.تب پھر ایک : شتہ آیا اور اس نے ایک کاغذ پر مرلگادی اور نقش مرجو چھپ گیا دائرہ کی طرح تھا اور وہ اس قدر دائرہ تھا جو ذیل میں لکھتا ہوں اور تمام شکل یہی تھی.روردین مجھے دل میں گذرا کہ یہ میری دل شکنی کا جواب ہے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے خالص دوست بھی ہیں.جو ہر ایک لغزش سے پاک کئے گئے ہیں جن کا اعلیٰ نمونہ آپ ہیں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان - بخدمت اخویم حکیم فضل دین صاحب السلام علیکم AA دو سراخط - مخدومی و مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر باعث مشکوری ہوا.عام طور پر لوگ آں مکرم کے استقلال کو بڑی تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.در حقیقت اللہ جل شانہ کے بندے جو اس کی ذات پر تو کل رکھتے ہیں.ان کے لئے خدا تعالی کافی ہے کسی راجہ رئیس کا کیا پرواہ ہے.جب کہ اس بات کو مان لیا.خدا ہے اور ان صفتوں والا کہ ایک طرفہ العین میں جو چاہے کر دیوے.تو پھر ہم کیوں غم کریں.اور زید و عمر کی بے التفاتی سے ہمارا کیا نقصان آپ کو اپنے بہت سے برکات کا مور د بنا دے.کہ آپ نے اس عاجز کی اللہ وہ خدمت کی ہے کہ جس کی نظیر اس زمانہ میں ملنا مشکل ہے.میں چاہتا ہوں کہ چونکہ انسان کے بعض اخلاق مخفیہ کا خلقت پر ظاہر ہونا کسی قسم کی تکلیف پر موقوف ہے اس لئے وہ رحیم و کریم اپنے مستقیم الحال بندوں پر حوادث بھی نازل کرتا ہے.تا ان کے دونوں قسم کے اخلاق جو ایام راحت اور ایام رنج سے متعلق ہیں.ظاہر ہو جاویں اسی وجہ سے ہم خدا تعالیٰ کے

Page 162

تاریخ احمدیت جلد ۳ 137 سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک مشیت میں کھینچے چلے جاتے ہیں تا جو کچھ ہمارے اندر ہے ظاہر ہو جاوے.اس عاجز کا پہلا خط جس میں ایک دو الهام درج ہیں شاید پہنچ گیا ہو گا.والسلام.خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۳/ ستمبر ۳۱۶۱۸۹۲ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ ۱۸۹۳ء میں پر معارف لیکچر حضرت مولوی صاحب نے اوائل 41] ۱۸۹۳ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں شرکت فرمائی اور بصیرت افروز لیکچر بھی دیا یہیں آپ سے مشہور مسلم مشنری مولوی حسن علی صاحب مو نکھیری کی ملاقات بھی ہوئی.مولوی حسن علی صاحب آپ کے لیکچر اور ملاقات کا واقعہ اس طرح تحریر فرماتے ہیں.۱۸۹۳ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں مجھ کو شریک ہونے کا اتفاق ہوا.یہاں پر میں اس عالم و مفسر قرآن سے ملا.جو اپنی نظیر اس وقت سارے ہند کیا بلکہ دور دور تک نہیں رکھتا.یعنی حکیم مولوی نورالدین صاحب سے ملاقات ہوئی.میں ۱۸۸۷ء کے سفر پنجاب میں بھی حکیم صاحب ممدوح کی بڑی تعریفیں من چکا تھا.غرض حکیم صاحب نے انجمن کے جلسے میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کر کے ان کے معنی و مطالب کو بیان کرنا شروع کیا.کیا کہوں اس بیان کا مجھ پر کیا اثر ہوا.حکیم صاحب کا وعظ ختم ہوا اور میں نے کھڑے ہو کر اتنا کہا کہ مجھ کو فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفسر کو دیکھا اور اہل اسلام کو جائے فخر ہے کہ ہمارے درمیان اس زمانے میں ایک ایسا عالم موجود ہے...میری خواہش تھی کہ جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب سے ملاقات کرتا لیکن مولوی صاحب از راه کرم خود اس خاکسار سے ملنے آئے میں نے ان سے تنہائی میں سوال کیا کہ مرزا صاحب سے جو آپ نے بیعت کی ہے اس میں کیا نفع دیکھا ہے؟ جواب دیا کہ ایک گناہ تھا جس کو میں ترک نہیں کر سکتا تھا.جناب مرزا صاحب سے بیعت کر لینے کے بعد وہ گناہ نہ صرف چھوٹ ہی گیا بلکہ اس سے نفرت ہو گئی جناب مولوی حکیم نورالدین صاحب کی اس بات کا مجھ پر ایک خاص اثر ہوا." ar قادیان کی طرف مستقل ہجرت او پر یہ ذکر آچکا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے بھیرہ میں ایک عالی شان عمارت شروع کر رکھی تھی.جس پر سات ہزار روپے صرف ہو چکے تھے.ابھی یہ عمارت نا تمام ہی تھی کہ آپ کسی ضرورت کے سبب لاہور تشریف لائے.یہ ۱۸۹۳ء کی پہلی سہ ماہی کے قریب کا واقعہ ہے.لاہور آکر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا خیال آیا اور آپ قادیان تشریف لے گئے.اس ایمان افروز واقعہ کا ذکر آپ نے ایک دفعہ درس قرآن کے دوران میں بایں الفاظ فرمایا.میں یہاں قادیان میں صرف ایک دن کے لئے آیا اور ایک بڑی عمارت بنتی چھوڑ آیا حضرت

Page 163

تاریخ احمدیت.جلد ۳ سفر حرمین شریفین سے حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت تک صاحب نے مجھ سے فرمایا.اب تو آپ فارغ ہیں میں نے عرض کیا ہاں.ارشاد فرمایا.آپ رہیں.میں سمجھا دو چار روز کے لئے فرماتے ہیں.ایک ہفتہ خاموش رہا.فرمایا آپ تنہا ہیں ایک بیوی منگوالیں.تب میں سمجھا کہ زیادہ دنوں رہنا پڑے گا.تعمیر کا کام بند کرا دیا.چند روز بعد فرمایا.کتابوں کا آپ کو شوق ہے یہیں منگوا لیجئے.تعمیل کی گئی.فرمایا.اچھا دوسری بیوی بھی یہیں منگوالیں.پھر مولوی عبدالکریم صاحب ائے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے لا تصبون الى الوطن فيه تهان و تمتحن به الهام نورا الدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے مجھ سے فرمایا وطن کا خیال چھوڑ دو چنانچہ میں نے چھوڑ دیا نہ اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا".

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 139 حواشی حواشی باب ۳.ان دنوں میں انگریز پادری پنڈ دادنخان میں تھے منشور محمدی جلد ۱۷ انمبر ۱۳ صفحه ۲۹- تاریخ بشارت المہند و پاکستان (ص ۲۱۶) میں لکھا ہے.پادری گارڈن صاحب نے پنڈ دادنخان میں بشارتی خدمت کو سنبھالا جہاں بعد کو پادری تھامس ہاول بہت دیر تک خدمت کرتے رہے.حیات قدی چهارم صفحه ۱۴۹-۱۵۰ مرقاة الیقین صفحه ۱۳۸۱۴۷ و کتاب پیغام محمدی از مولانا سید محمد علی کانپوری مطبوعہ ۱۳۰۹ھ نامی پریس کانپور.الحکم ۲۲ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم ۳.مرقاۃ الیقین ص ۱۵۰.پیغام محمدی فارسی کی دوسری کتاب مطبوعہ "انجمن حمایت اسلام ".- فهرست خیر جلیس فی الزمان کتاب صفحه ۲۶.-1° پیغام محمدی از مولانا سید محمد علی صاحب کانپوری.وکیل ٹریڈنگ کمپنی امرت سر کی مطبوعہ فہرست "خیر جلیس فی الترمان کتاب" صفحہ پر لکھا ہے اس میں اسلام کی خوبی اور اس کی ضرورت اور عیسائیوں کے اکثر الزامی اور تحقیقی جواب عمدہ طور سے بیان کئے ہیں." مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۱۶ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۹ فتح اسلام صفحہ ۶۲ طبع اول ۱۲ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۱.۱۲.۱۳.رسالہ اصحاب احمد نومبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۱۵.۱۴ موج کوثر صفحه ۸۲ ۱۵.اس کے ثبوت میں کانفرنس کی سالانہ رپورٹیں بابت ۱۸۸۸ء.۱۸۸۹ء.۱۸۹۱ء اور ۱۸۹۳ء ملاحظہ ہوں ان سب میں چندہ دہندگان کی فہرستوں میں آپ کا نام بھی درج ہے ۱۸۸۸ء کے بعد کا چندہ تو آپ نے براہ راست بھجوایا.مگر ۱۸۸۸ء میں ولی احمد صاحب اسلامیہ بورڈنگ ہاؤس لاہور کی معرفت رقم بھجوائی..یہی وجہ ہے کہ آپ نے سرسید کو ایک سو روپیہ بھی بھیجا کہ جو لکھیں بھیج دیا کریں (بدرے / اپریل ۱۹۰ ء صفحہ ۵ کالم ) مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ سرسید کے عقائد سے آپ پوری طرح متفق ہو گئے تھے.نہیں ایسا ہر گز نہیں چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب فرماتے ہیں." میرے مخدوم مولوی صاحب بھی سید صاحب کی تصانیف منگواتے اور صفات الہی کے مسئلہ میں ہمیشہ سید صاحب سے الگ رہے اور میں ان کے ساتھ ہو کر بھی سید صاحب کی ہر بات کی بیچ کرتا اور کبھی مولوی صاحب مجھ سے الجھ بھی پڑتے." (الحکم ۳۱ / اکتوبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۲ کالم ۱) ے.سیرت المہد کی حصہ دوم صفحہ ۵۷ ۱۸ مورخ کشمیر جناب محمد الدین فوق نے اپنی کتاب " تاریخ اقوام پونچھ " میں شیخ صاحب کے قبول اسلام کے مفصل واقعات لکھے ہیں جو اختصار ادرج ذیل ہیں.حکیم مولوی نور الدین جو مہاراجہ رنبیر سنگھ کے شاہی طبیب تھے تکہ بلدیو سنگھ کے علاج کے لئے جموں سے پونچھ بلوائے گئے.وہ ہفتہ میں ایک دو مرتبہ مکتب میں بھی آتے اور لڑکوں سے ان کے سبق سنا کرتے اور ان سے علمی سوالات کیا کرتے تھے.ایک مرتبہ مولوی نور الدین صاحب نے پوچھا بتاؤ انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے لڑکوں نے جواب دیا کہ انسان بول سکتا ہے.

Page 165

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 140 حواشی لیکن حیوان بول نہیں سکتا.فرمایا طوطا بھی بولتا ہے کیا وہ بھی انسان ہے.شیخ محمد عبد اللہ نے جو ان دنوں ٹھاکر داس تھے کہا.انسان دوسرے انسان کو پڑھا سکتا ہے.حیوان نہیں پڑھا سکا فرمایا یہ کچھ پسند کی بات ہے جو تم نے کسی ہے.واقعی انسان اور حیوان میں یہ فرق ضرور ہے.کہ انسان جو بات خود سیکھ سکتا ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا سکتا ہے.لیکن حیوان اگر کچھ خود سیکھ سکتا ہے تو دوسرے حیوانوں کو سکھا نہیں سکتا.چنانچہ طوطا جو بات خود سیکھ سکتا ہے کسی دوسرے طوطے کو نہیں سکھا سکتا.فرمایا لیکن اس کے سوا کوئی اور بات بھی انسان اور حیوان کے فرق کی ہو تو بتاؤ.لڑکوں کی خاموشی کے بعد مولوی نور الدین صاحب مرحوم نے خود ہی فرمایا.انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان اپنی حالت بدل سکتا ہے لیکن حیوان نہیں بدل سکتا.ایک آدمی کا باپ اگر جاہل ہے تو بیٹا عالم ہو سکتا ہے.لیکن ایک نبیل کا بچہ بیل ہی رہے گا.ایک بکرا جیسے کہ آج سے سو سال قبل تھا.آج اس کی اولاد بھی اسی کی طرح ویسا ہی ایک بکرا ہے.چند دنوں کے بعد حکیم مولوی نور الدین صاحب ہی کی تحریک سے آپ نے طلب پڑھنے کا شوق ظاہر کیا اور حکیم صاحب نے میاں نظام الدین وزیر اعظم سے ذکر کیا.میاں نظام الدین جب شام کو مکتب میں آئے تو انہوں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا.سنا ہے تم طب پڑھنا چاہتے ہو.پونچھ میں کوئی طبیب نہیں ہے.اگر کوئی لڑکا یہ علم پڑھ سکے.تو اس کے لئے بہت اچھا ہو گا ان الفاظ سے آپ کو حصول طب کا اور زیادہ شوق ہو گیا.آپ نے ایک دو ابتدائی کرتا ہیں پونچھ ہی میں حکیم صاحب سے پڑھیں چونکہ وہ عارضی طور پر نکہ بلدیو سنگھ کے علاج کے لئے آئے ہوئے تھے اس لئے حکیم صاحب نے فرمایا کہ اگر تم ہمارے ساتھ جموں چل سکو تو ہم طب کی تمام کتابیں تم کو پڑھا دیں گے.آپ کے والدین آپ کو روانگی کی اجازت نہ دیتے تھے لیکن اس خیال سے کہ میاں نظام الدین وزیر اعظم پونچھ میں ایک ماہر طبیب کی ضرورت ظاہر کرتے ہیں اور وہ ضرور قدردانی فرما ئیں گے انہوں نے آپ کو حکیم صاحب کے ہمراہ جموں جانے کی اجازت دے دی.جموں جاتے ہی آپ تیسری جماعت میں داخل ہو گئے ان ایام میں مولوی عبد الکریم کا شمیری سیالکوئی مرحوم حکیم نور الدین صاحب مرحوم کے پاس جموں میں مقیم تھے انہوں نے دو ہی ماہ کے اندر آپ کو اتنی انگریزی پڑھادی کہ آپ پانچویں جماعت میں داخل ہو گئے.اردو فارسی میں آپ کو اچھا ملکہ تھا.آپ کو ذہین وز کی دیکھ کر ماسٹر اندر نرائن اور ماسٹر نکند لال نے سکول ٹائم کے علاوہ انگریزی پڑھانا شروع کر دی.اور سالانہ امتحان آپ نے کامیابی سے دیا.کہ چھٹی جماعت کی بجائے آپ کو ساتویں جماعت میں داخل کر لیا گیا.لیکن ساتھ ہی ماسٹر نکند لال نے حکیم مولوی نور الدین کے ہاں آنے جانے اور وہاں کے قیام سے منع کر دیا.آپ نے کہا کہ میں وہاں طب پڑھنے کے لئے ٹھرا ہوا ہوں.اور اسی غرض سے گھر سے نکلا ہوں.ان دنوں دیوان امرناتھ گورنر جموں تھے اور راجہ امر سنگھ کا جو مہاراجہ سرپرتاب سنگھ کے چھوٹے بھائی تھے بڑا زور تھا.اور مولوی نور الدین راجہ امر سنگھ کے نہایت معتمد مشیر تھے.اس لئے ان پر یکا یک حملہ کرنا بہت دشوار تھا.تاہم لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ یہ لڑکا مولوی نور الدین کے اثر سے ضرور مسلمان ہو جائے گا.مہاراجہ پر تاپ سنگھ تک آخر یہ بات پہنچائی گئی کہ مولوی نور الدین ایک ہندو لڑکے کو مسلمان کرنے کی فکر میں ہیں.چنانچہ مہاراجہ صاحب کے حکم سے دیوان امر ناتھ نے آپ کو بلا کر کہا کہ مہاراجہ صاحب کا حکم ہے کہ آج سے حکیم صاحب کے مکان پر نہ جایا کرو یہ جب تک تمہارے والد یا رشتہ دار نہ آئیں تم پنڈت مند لال کے مکان پر رہا کرو.چنانچہ اس کے بعد جب تک آپ جموں رہے پنڈت نند لال کے مکان پر ہی رہے.مولوی حکیم نور الدین آپ کے مربی اور محسن تھے.ان کی جدائی آپ کو بہت شاق گذری.ایک دو مرتبہ اس واقعہ کے بعد ان سے چوری چھپے ملاقات بھی ہوئی لیکن ان دشواریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے آپ نے جنوں ہی کی رہائش کو ترک کر دینا مناسب سمجھا.ان پریشانیوں اور تکلیفوں کے باوجود آپ جماعت میں سب سے اول رہتے تھے اور جب کہ کوئی شخص باہر سے ریاست کا یہ واحد ہائی سکول دیکھنے آتا تھا تو استاد اور پرنسپل اپنے لڑکوں میں سے بطور مثال آپ کو پیش کیا کرتے تھے.آپ کو اب مدرسہ سے وظیفہ بھی ملنے لگا تھا.اور یہ بھی کہا گیا کہ ریاست تم کو اپنے خرچ پر لاہور میں بی.اے کی تعلیم دلائے گی.لیکن آپ جموں سے پہلے پونچھ اپنے گھر چلے گئے.وہاں ایک ماہ قیام کیا.پھر جنہوں جانے کی بجائے سیدھے لاہور آگئے اور گورنمنٹ ہائی سکول (واقعہ حویلی راجہ دھیان سنگھ) میں داخل ہو گئے.اور ایک ہی سال ۱۸۹۱ء میں آپ نے انٹرنس کا امتحان

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 141 حواشی پاس کر لیا.مولوی نور الدین صاحب نے اپنے چند دوستوں کو ان کی خبرگیری و حفاظت کی اطلاع دیدی تھی.اور خود بھی جب کبھی لاہور آتے تو ان سے ملا کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ آپ کو قادیان بھی لے گئے اور ایک مرتبہ لدھیانہ میں بھی جہاں مرزا غلام احمد قیام پزیر تھے پونچھ سے آتے ہی آپ مولوی صاحب سے ملے ان کے مشورہ کے مطابق آپ علی گڑھ چلے گئے.مولوی صاحب نے سرسید احمد خاں مرحوم کے نام بھی ایک خط لکھ دیا تھا.وہ بڑی شفقت سے پیش آئے علی گڑھ کے اسلامیہ دار العلوم میں آپ فسٹ ائیر میں داخل ہو گئے اور ہر امتحان میں با تعریف پاس ہو کر و ظائف لیتے رہے.بی.اے پاس کرنے کے بعد وکال کا امتحان (ایل ایل بی) بھی پاس کر لیا اور علی گڑھ ہی میں وکالت شروع کر دی اور سرسید احمد خان مرحوم کے ارشاد کے مطابق علی گڑھ کو صرف اپنا گھر ہی نہیں بلکہ اپنا طن بنایا.اختلاف رائے یا اختلاف عقائد کی وجہ سے آپ مرزا صاحب یا حکیم صاحب کے ذاتی اوصاف کے خلاف نہیں ہیں آپ فرماتے ہیں مذہبی پہلو کو نظر انداز کر کے ان دونوں بزرگوں کے صرف انسانی پہلو کو سامنے رکھ کر اگر کوئی ان کی نسبت رائے قائم کرے تو وہ ان کو ہد روان بنی نوع انسان کی صف اول میں جگہ دینے پر مجبور ہو گا.کسی مذہبی اختلاف کی وجہ سے ان کے انسانی اوصاف پر مٹی ڈال دینا انصاف اور انسانیت کے قطعا خلاف ہے مجھ پر ابتداء میں مولوی نور الدین صاحب مرحوم کی فلسفیانہ باتوں کا بڑا اثر پڑا.یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اسلام کے اعلیٰ اصولوں نے میرے دل میں گھر کر لیا.اور کو طالب علمی کے زمانہ میں اور وہ بھی صرف تین ماہ مرزا صاحب کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہو الیکن میرے ایمان اور اعتقاد کی پختگی کے لئے یہ تین ماہ بہت مفید ثابت ہوئے." ( تاریخ اقوام پونچھه از مولانا محمد دین فوق صفحه ۶۷۸-۶۸۳ مطبوعہ ۱۹۳۶ء) ملاحظہ ہو مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۲۰ منشور محمدی جلد ۷ انمبر ۳ صفحہ ۲۸.۲۱ منشور محمدی جلد ۷ انمبر ۱۳ صفحه ۳۰ ۲۲ منشور محمدی صفحه ۱۵۴.(اس مضمون کی قسطیں منشور محمدی کے مندرجہ ذیل پرچوں میں ملاحظہ ہوں جلد کے انمبر ۳ صفحہ ۶۸.جلد انمبر صفحہ ۱۰۱.جلد کے انمبر ۱۳.جلد ۷ انمبر ۱۳ صفحه ۲۹.جلد ۷ انمبر ۱۳ صفحه ۱۵۳-۱۵۶) ۲۳.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم.نمبر ۲ صفحه ۵۶ ۴.مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۵۰ ۲۵.حیات احمد جلد چهارم صفحه ۱۲۱ حاشیہ - رئیس قادیان جلد اصفحه ۸۲ ۸۳ ابو القاسم دلاوری) ۲۶.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ حضور نے حضرت مولوی صاحب کو ۵/ جنوری ۸۸ ء کے خط میں پہلے سے یہ اطلاع دے دی تھی کہ آپ ۷ / جنوری ۱۸۸۸ء کو یہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۵۰.۲۷.کلام امیر صفحه ۹۵ کالم ۲.۲۸ مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۹۲.۲۹.نقل مطابق اصل ۳۰ مکتوبات احمد یہ جلد باشیم نمبر ۲ صفحه ۵۰ تا ۵۲ - ۳۱.کلام امیر صفحہ ۹۵ کالم ۱-۲ ۳۲.حیات احمد جلد سوم صفحه ۱۲-۱۵.- الحکم ۱۰/ نوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳ کالم ہے.احکم ۲۸ / مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۵ کالم ۲.۳.۳۵.شمعید الاذہان جلدے نمبر صفحہ ۷ ۴۷.ایضا کلام امیر صفحہ ۲۵ کالم ۲..الحکم ۳۱/ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ کالم.الفضل ۲۸ فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲.۳ - التحام ۲۴ / جون ۱۹۰۱ء صفحہ ا کالم ۲.

Page 167

142 تاریخ احمد بیت - جلد ۳ ۳۹.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۳۸.۰.الحکم ۲۴/ جون ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ کالم ۲.ا.قادیان کی لائبریری میں اس کا تیسرا ایڈیشن جو ۱۹۰۹ ء کا ہے اور نامی پریس میرٹھ کا چھپا ہوا ہے راقم الحروف نے دیکھا ہے.۲۲ فتح اسلام صفحہ ۶۳ - ۷۴ حاشیه (طبع اول) ۴۳ ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحه ۲۴ الحکم سے جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.۴۲۵.بحوالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ا صفحه ۱۴ ۱۵ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۶۷.اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۶ او صفحہ ۳۲.۴۷.اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۱۶و ۳۲ ۴۸.حیات احمد چہارم صفحہ ۷۴.۴۹.حیات احمد یہ سوئم از ۱۸۸۹ء تا ۱۸۹۲ء صفحہ ۷۴.اس مجلس کے بعض حاضرین مولوی محمد عبد اللہ صاحب پر و فیسر عربی کالج.سید فقیر الدین رئیس و آنریری اسٹنٹ کمشنر لاہور.شیخ خدا بخش صاحب حج اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۱۷.معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبد الرحمان صاحب لکھو کے بھی بعد ازاں اس مجلس میں پہنچ گئے تھے.۵۰ اشاعتہ السنہ جلد ۱۳ صفحہ ۳۴ سے معلوم ہوتا ہے.کہ اس کی روداد ضمیمہ ”پنجاب گزٹ " (۲۵/ اپریل ۱۸۹۱ء) میں بھی چھپی تھی.-۵۱ مرزا امان اللہ صاحب.منشی عبد الحق صاحب ابو اللی بخش صاحب حافظ محمد یوسف صاحب - منشی محمد یعقوب صاحب یہ سب حضرات اہلحدیث تھے اور اس تبادلہ خیالات کے محرک (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۹۸) ۵۲ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ صفحہ ۳۲ - ۳۳.۵۳ حیات احمد سوم از ۱۸۸۹ء تا ۱۸۹۳ء صفحه ۷۴ - ۵۴ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۳۳.۵۵- حیات احمد سوم صفحه ۲۰۱ ۲۰۲ مکتوبات احمد یہ انجم نمبر ۲ صفحه ۱۰۴ -۵۲ آسمانی فیصلہ صفحہ ۷ الطبع اول.تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ.۵۷- تبلیغ رسالت جلد دوم حاشیه صفحه ۱۸.-۵۸ تبلیغ رسالت جلد دوم حاشیہ صفحہ ۱۸.۵۹ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۱۰۰.-10 حیات احمد جلد پنجم صفحہ ۱۱۸-۱۹ حاشیہ روایت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی) آسمانی فیصلہ طبع اول صفحہ ۳۱.حیات احمد جلد سوم صفحه ۲۰۹ (۱۸۸۹ء تا ۱۸۹۳ء) تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ ۷۳.تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ !! آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۰۶ ( طبع اول) آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۲ (ح) طبع اول ۱۷ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ "ریاست کی ملازمت سے جب آپ علیحدہ ہوئے میں اس وقت آپ کی خدمت میں موجود تھا کیونکہ میں بھی اس وقت جنوں ہائی سکول میں ٹیچر تھا.ہزار پندرہ سو روپے ماہوار کی آپ کی آمدنی تھی اور خرچ جو قریباً سارا ہی فی سبیل اللہ ہو تا تھاوہ اس کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تا تھا کبھی آپ کی عادت نہ تھی کہ روپیہ پیسہ جمع رکھیں.اس حالت میں ملازمت ریاست سے اچانک علیحدگی کے باوجود نہ آپ کے چہرے پر کوئی ملال تھا نہ اس کا کوئی احساس تھا جیسا روز مرہ │

Page 168

تاریخ احمد بیت جلد ۳ 143 حواشی آپ درس و تدریس میں بیماروں کو دیکھنے میں لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے میں اور اپنی کتب کے مطالعہ کرنے میں مصروف اپنی نشست گاہ میں کھلا دربار لگائے بیٹھے رہے تھے جہاں لوگ بے تکلف آتے جاتے رہتے تھے ایسا ہی اس دن اور اس سے دوسرے دن جو تیاری سفر کا دن تھا آپ حسب معمول بیٹھے رہے گو یا علیحدگی ملازمت کا واقعہ ہوا ہی نہیں یا ہوا ہے تو روز مرہ کی باتوں میں سے ایک معمولی سی بات ہے " (حیات نور الدین صفحہ ۱۵۳) ۲۸.انسائیکلو پیڈیا بر شیکا زیر لفظ "کشمیر " KASHMIR).صحیفہ زریں صفحہ ے.۷۰ کتاب رئیس قادیان جلد دوم صفحہ ۱۰۳ ۱۰۴ر نبیر سنگھ کی وفات کے وقت حضرت خلیفہ اول پونچھ میں تھے (الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ا کا لم.ای ولادت ۱۸۵۰ء وفات ۱۹۲۵ ء انسائیکلو پیڈیا برٹنیک زیر لفظ "کشمیر“.-2 ۷۲- رئیس قادیان جلد دوم صفحہ ۱۰۴ د صحیفہ زریں صفحہے.اخبار چودھویں صدی ۲۳/ جولائی ۱۸۹۵ء صفحہ ۶ کالم.۷۳.تاریخ اقوام پونچھ صفحه ۶۸۰ ( از مولانا محمد دین فوق) الفضل ۱۴ فروری ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ کالم ۱۲ خطبہ جمعہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی.مرقاة الیقین صفحہ ۱۲۶.حضرت مولوی صاحب نے راجہ سورج کول سے ذاتی مخاصمت کا ایک واقعہ درج کرنے کے بعد یہ بھی لکھا ہے.کہ لالہ باگ رام نے آپ سے کھلم کھلا یہ بھی کہدیا تھا کہ اگر آپ استعفیٰ دیدیں تو اس میں بڑے مصالح ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ بنے ہوئے روزگار کو خود چھوڑنا ہماری شریعت میں پسند نہیں کیا گیا الاقامة في ما اقام الله ضروری ہے لیکن آخر ایک روز علیحدگی کا پروانہ آگیا.۷.رسالہ حکیم حاذق ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۶.ہ ہے.مہاراجہ پونچھ صاحب کو دراصل امر سنگھ صاحب سے دشمنی تھی جن کے ساتھ حضرت مولوی صاحب کے مراسم تھے.نیز اس مقدمہ میں ان کے ایک وزیر کاہاتھ بھی معلوم ہوتا ہے.کیونکہ اس نے ایک دفعہ آپ کو مہاراجہ کے علاج کرنے پر یہ دھمکی دی تھی کہ " آپ یہاں علاج کرنے آئے ہیں یا ہمارے ولی عہد کو حکومت سکھانے آئے ہیں.آپ صرف دو او غیرہ بتادیا کریں اور حکومت کرنی نہ سکھائیں ورنہ آپ کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی.یہ لوگ اگر ایسے ہو جائیں جیسا آپ چاہتے ہیں تو ہم لوگ روٹی کہاں سے کھائیں ؟ " مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۵۳.ے.مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مہاراجہ پرتاب سنگھ کے زمانہ میں کشمیر کے حالات پر ہندوؤں یا سکھوں کی طرف سے جو کرتا ہیں راقم الحروف نے دیکھی ہیں ان میں کہیں حضرت مولوی صاحب کا تذکرہ موجود نہیں ہے جس سے صاف تعصب اور جنبہ داری کی سا سے صاف تو اس ذہنیت کا پتہ چلتا ہے.جو آپ کے خلاف غیر مسلم عناصر میں کام کر رہی تھی.9 اخبار چودھویں صدی راولپنڈی ۲۳ / جولائی ۱۸۹۵ء صفحہ ۵-۶- ۸۰.یہ واقعہ آج تک ایک سربستہ راز تھا جس پر خدا جانے کب تک پردہ پڑا رہتا.مگراللہ تعالی جزائے خیر دے جناب مولوی محمد یعقوب صاحب ظاہر فاضل کو کہ انہوں نے حضرت خلفیتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک غیر مطبوعہ تحریر سے ایک اہم اقتباس مولف ہذا کو بھجوا دیا ہے جس میں حضور نے اپنی زبان مبارک سے تاریخ کے اس گمشدہ ورق پر روشنی ڈالی ہے.جناب مولانا فرماتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کو مہاراجہ پرتاب سنگھ نے جموں سے اڑتالیس گھنٹہ کے اندراندرا خراج کا جو ظالمانہ حکم دیا تھا اس کی وجوہ کے متعلق سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک نہایت قیمتی روایت میرے پاس محفوظ ہے جسے تاریخ احمدیت میں اندراج کے لئے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ بات ہمارے سلسلہ کے لٹریچر میں کمیں شائع نہیں ہوئی مگر میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے یہ بات سنی ہے اور میں علی وجہ البصیرت اس کی شہادت دیتا ہوں.حضور نے فرمایا :- حضرت خلیفہ اول کشمیر کے مہاراجہ رنبیر سنگھ کے شاہی طبیب تھے.اور موجودہ مہاراجہ کشمیر کے لیے والد اور ان کے بھائی رام

Page 169

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 144 خوانی سنگھ کے اتالیق تھے.اپنے میل جول کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول نے موجودہ مہاراجہ کے والد اور اس کے بھائی کو قرآن شریف پڑھانا شروع کیا راجہ رام سنگھ نے جو چھوٹا بھائی تھا قریبا سارا قرآن شریف ترجمہ سے ختم کر لیا.مگر ان کے بھائی نے جو موجودہ راجہ کے والد تھے صرف ایک حصہ پڑھا.نتیجہ یہ ہوا کہ رام سنگھ دل سے مسلمان ہو گئے یہ نوجوان شہزادہ بڑی جنگی روح رکھتا تھا اور اس کے بڑے بھائی مہاراجہ پرتاب سنگھ نے اس کو فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا تھا.تے جس عرصہ میں اس نے کشمیر کی سخت وادیوں میں قلعے بنادیئے تھے اور چترال اور گلگت کی طرف کے مسلمان حکمرانوں سے تعلقات پیدا کر لئے تھے.اس کا منشایہ تھا کہ طاقت پکڑ کر انگریزوں سے بغاوت کرے اور کشمیر کو آزاد کرائے مہاراجہ پرتاب سنگھ کو اس کی اسلام کی طرف رغبت کا علم ہو گیا.کچھ اس کے قلعہ بنانے کی مہم نے انگریزوں کو ہو شیار کر دیا جس پر مقامی روایات کے مطابق انگریزوں نے رام سنگھ کو زہر دے کر مروا دیا.مہاراجہ پرتاب سنگھ نے کچھ انگریزوں کے ڈر کے مارے اور کچھ اس ڈر سے کہ رام سنگھ اور اس کے بھائی مسلمان نہ ہو جائیں حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جو اس کے شاہی طبیب تھے اور بعد میں جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ بنے.اڑتالیس گھنٹے کا نوٹس دے کر ریاست بد ر کر دیا." حاشیہ در حاشیه (i) یہ ایک عرصہ قبل کی تحریر ہے اس میں " موجودہ مہاراجہ " سے مراد راجہ ہری سنگھ صاحب ہیں جو اس وقت حکمران تھے اور جن کے والد امر سنگھ تھے.راجہ ہری سنگھ مہاراجہ پرتاب سنگھ کی موت کے بعد ۱۹۲۵ء میں گدی پر میٹھے ۱۹۴۷ء میں پاک و ہند کی آزادی کے ساتھ ڈوگرہ شاہی حکومت کا تختہ الٹ گیا.کچھ حصہ مجاہدین نے آزاد کرالیا اور باقی بھارت کے قبضہ میں ہے.(ii) اخبار " چودھویں صدی " (راولپنڈی ۲۳ / نومبر ۱۸۹۵ء صفحہ اکالم ۲) نے ان کے بارے میں یہ خبر شائع کی تھی "سر راجہ رام سنگھیہ کے.سی.بی کمانڈر انچیف افواج کشمیر کی انصاف پسندی کی تعریف کے بغیر ہم نہیں رہ سکتے کہ جناب ممدوح نے منشی غلام محمد ڈپٹی انسپکٹر کو اس کے عمدہ پر بحال فرما دیا ہے.کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک نہایت ہی انصاف کا کام کیا گیا ہے." مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۱۲۳.-۸۲ حضرت امام الترمان کی یہ آہ خالی نہیں گئی بلکہ اس کے نتیجہ میں مسلمانان ہند نے ریاستی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بڑی جرات سے آواز اٹھانا شروع کر دی.اور اخبار ” چودھویں صدی " راولپنڈی میں ۱۸۹۵ء سے با قاعدہ ایک سلسلہ مضامین جار کی ہوا.حتی کہ آپ ہی کے تائب اور خلیفہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ذریعہ یہ آواز " آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی شکل میں ایک موثر ترین تحریک کی صورت پکڑ گئی.جس نے ڈوگرہ راج کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور مسلمانوں کو ان کے بہت سے پامال شدہ حقوق پھر سے واپس دلائے.اور ان کی آزادی کی بنیادیں رکھ دیں.مگر اس کی تفصیل اگلے حصہ میں آئے گی یہاں اسی قدر کافی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر میں بے شک اسباب ظاہری بہت کام کرتے نظر آتے ہیں مگریس پر دہ باطنی و حقیقی سبب آپ کی مہاراجہ کے خلاف بددعا تھی جس نے جناب الہی کے فضل کو جذب کیا اور مسلمانان کشمیر پھر سے زندگی کا سانس لینے کے قابل ہوئے اور ہو رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب کہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اصبح اول اور دوسرے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم رنگ لائیں گے اور کشمیر کی وہ وادی جو خطہ جنت ہونے کے باوجود آج آگ اور خون کا نظر پیش کر رہی ہے سچ سچ دنیا کی سطح پر بہشت بریں کا نمونہ پیش کرے گی.انشاء اللہ و ماذلک علی اللہ عزیز ۸۳- مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۶۷-۱۶۹.۸۴.حضرت خلیفہ اول کی ایک تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک لاکھ پچانوے ہزار کے علاوہ آپ پر پانچ ہزار روپیہ ایک دوسرے شخص کا بھی قرض تھا الحمام ۲۱ - ۲۸ فروری ۱۹۱۵ء صفحه ۲-۳) ۸۵.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۴۸۵ ۸۶ روایت حکیم محمد عمر صاحب

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ۸۷ - مرقاة الیقین صفحه ۱۹۸ 145 ۸۸ منقول از اخبار زمیندار ۱۹/ نومبر ۱۹۳۲ء حوالہ "برق آسمانی " از مولوی ظهور احمد صاحب بگوی صفحه ۲۷-۲۸ - ۸۹ منقول از اخبار زمیندار ۱۹/ نومبر ۱۹۳۲ء بحواله برقی آسمانی بر خرمن قادیانی - صفحه ۶۸ متولفه (مولوی ظهور احمد صاحب بگیری) ۹۰.جلسہ سالانہ قادیان (منعقدہ ۶۱۸۹۲) پر آپ نے جو لیکچر دیا اس کا ذکر تاریخ احمدیت حصہ دوم ( طبع دوم صفحہ ۲۵۶ پر کیا جا چکا ہے.(متولف) ۹ انجمن کا آٹھواں سالانہ جلسہ ۲۵-۲۶ فروری ۱۸۹۳ء کو ہوا پیسہ اخبار ۶ / مارچ ۱۸۹۳ ء نے خبر دی کہ حکیم نور الدین کے وعظ سے حاضرین پر بہت اچھا اثر پڑ ا متعد دلوگوں نے دل کھول کر چندے دیئے.پر بہت اچھا اثر پر استعد نے ۹۲ - تائید حق صفحه ۷۷-۶۹ مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۲۸.حضرت مولوی صاحب نے ۱۳ اگست ۱۸۹۷ء کے اپنے ایک عدالتی بیان میں جو آپ نے ڈکس کی عدالت میں دیا فرمایا کہ میں چار سال سے برابر مرزا صاحب کے پاس رہتا ہوں کتاب البریہ صفحہ ۲۰۸-۲۱۰ -۹۴ قیمه بادر ۲۹/ جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۷ ۷ کالم ۲.-۹۵ - یہ الہام ۲ / اپریل ۱۸۹۳ء کا ہے تذکرہ طبع دوم میں ۱/۲ اپریل ۱۸۹۲ء چھپ گئی جو سہو ہے.ان دنوں تو آپ ابھی ریاست میں ہی مقیم تھے.اس شعر کا ترجمہ یہ ہے.تو وطن کی طرف ہر گز توجہ نہ کر اس میں تیری اہانت ہوگی اور تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی.حضرت خلیفہ اول کی جیسی بیاض میں اس الہام کے الفاظ یہ لکھتے ہیں لا تصبون الى الوطن - فيه تصنام وتمتهن یعنی اپنے وطن کی جانب مت راغب ہو اس میں تجھے پر ظلم کیا جائے گا اور تو ذلیل ہو گا.( تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۶ - ۷۶۲ حاشیہ)

Page 171

I تاریخ احمدیت جلد ۳ 146 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک چوتھا باب آغاز ہجرت سے لیکر حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک اپریل ۱۸۹۳ء تا ۲۶ - مئی ۱۹۰۸ء بمطابق ۱۳۱۰ھ تا ۱۳۲۶ھ) ہجرت کے بعد کئی لوگوں نے حضرت ہجرت کی مخالفت اور آپ کا اثبات و استقلال مولوی صاحب کو تحریک کی کہ وہ مہاراجہ کے شاہی طبیب رہے ہیں اور ویسے بھی علم و فضل میں آپ کا مقام بہت بلند ہے اس لئے آپ قادیان کی بجائے لاہو ر یا امرت سر میں شفاخانہ کھول لیں.خلقت دیوانہ وار آپ کے پاس پہنچ جائے گی مگر آپ نے ان بڑے بڑے شہروں کے مقابل قادیان جیسے گمنام گاؤں کو ترجیح دی.اور اپنے آقاو مرشد کی خدمت میں دھونی رما کر بیٹھ گئے.اور جس طرح اول المبایعین کی سعادت حاصل کی تھی اول المہاجرین کا شرف بھی پالیا - چنانچہ حضرت مسیح موعود اپنے خط ( بنام نواب محمد علی خاں مالیر کوٹلہ) میں آپ کے اس عظیم الشان ایثار و قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.بیچاره نورالدین جو دنیا کو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بیشک قابل نمونہ ہے.بہتیری تحریکیں ہو ئیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرت سر میں رہیں دنیاوی فائدہ طبابت کی رو سے بہت ہو گا.مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں فرمائی.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بچی تو بہ کر کے دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہے." ہجرت سے نہ صرف مولوی صاحب کی دلی تمنا بر آئی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برسوں قبل کی یہ دعا قبول ہوئی کہ مولوی صاحب اور آپ دونوں کی بقیہ زندگی ایک جگہ بسر ہو.کچھ عرصہ الدار میں رہائش کے بعد آپ نے ڈھاب کے کنارے الگ مکان بنالیا اور ایک چھوٹی سی کوٹھری میں اپنا مطب قائم کر لیا.

Page 172

تاریخ احمدیت جلد ۳ 147 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک قادیان میں دینی مشاغل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں حضرت مولوی صاحب کے علاوہ چونکہ علم و تقویٰ کے مقام میں جماعت کا کوئی دو سرا فرد آپ کا ہمسر و ہم پلہ نہیں تھا اور حضرت مسیح موعود کے فیض صحبت میں رہنے کی وجہ سے آپ کو ایک خاص امتیازی اور مرکزی حیثیت حاصل تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود کے بعد اپنے اور بیگانے اپنے مسائل و معاملات میں آپ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فقہی مسائل کے جواب کے لئے دوستوں کو آپ کی طرف بھجواتے.حضور کی اپنی بیماری یا اہل بیت یا دوسرے خدام کی بیماریوں میں آپ کو دوا دینے کا ارشاد ہو تا.حضرت اقدس جو کتاب تصنیف فرماتے اس کے لئے مختلف حوالہ جات کی فراہمی اور پروف ریڈنگ کے کام میں بھی آپ حضور کا ہاتھ بٹاتے تھے.پھر دربار شام اور سیر اور سفر میں اکثر آپ کو حضور کے ساتھ ہونے کا موقعہ ملتا تھا.آپ کی قادیان کی زندگی کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس اور مبشر اولاد کو قرآن مجید بخاری اور دینیات پڑھاتے تھے خصوصاً حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تو خاص طور پر آپ سے یہ علوم سیکھے تھے چنانچہ سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتے ہیں.مجھے اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے...مگر اس فضل کے جذب کرنے میں حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول" کا بہت سا حصہ ہے میں چھوٹا تھا اور بیمار رہتا تھا.وہ مجھے پکڑ کر پاس بٹھا لیتے تھے اور اکثر یہ فرماتے تھے کہ میاں تم کو پڑھنے میں تکلیف ہوگی میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ اور اکثر اوقات خود ہی قرآن پڑھتے اور خود ہی تفسیر بیان کرتے.اس کے علوم کی چاٹ مجھے انہوں نے لگائی اور اس کی محبت کا شکار بانی سلسلہ احمدیہ نے بنایا.بہر حال وہ عاشق قرآن تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ سب قرآن پڑھیں.مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور پھر بخاری کا اور فرمانے لگے لو میاں سب دنیا کے علوم آگئے ان کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے." اس کے علاوہ بہت سے مشاغل و مصروفیات جاری رہتیں جن کا آج ہم پوری طرح اندازہ بھی نہیں کر سکتے.غرضکہ آپ کی زندگی نہایت درجہ معمور الاوقات زندگی تھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب مختصرا ان مشاغل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں." آپ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے تھے.اس کے بعد طالب علموں کو درس حدیث و طبی کتب دیتے تھے.مثنوی شریف اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس بھی گا ہے دیتے تھے اور بعد نماز عصر روزانه درس قرآن شریف دیا کرتے تھے.مہمانوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے تھے.غرباء کی امداد کا

Page 173

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 148 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک خیال رکھتے تھے اور تمام احمدیوں کو اچھے کاموں کے کرنے اور بدیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے تھے.اور باہر سے آنے والے خطوط کا جو متعلق مسائل دینیه و طبیہ ہوتے تھے جواب لکھتے اور لکھاتے رہتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ صبح سے شام تک بلکہ اکثر عشاء تک سوائے نمازوں کے اوقات کے ایک ہی جگہ اپنی نشست گاہ میں بیٹھے رہتے تھے.جس میں صرف چٹائی بچھی ہوتی تھی.اور آپ کے واسطے کوئی الگ مسند نہ ہوتی تھی.ہر طرح کے حاجتمند آتے تھے اور آپ سے مستفیض ہوتے رہتے تھے.ایک کھلا دربار ہو تا تھا.جس پر کبھی کوئی دربان مقرر نہ ہوا.اندر زمانہ میں عموماً صبح کے وقت آپ عورتوں میں بھی درس قرآن شریف دیا کرتے تھے.جب تک آپ کے شاگر درشید اور رفیق و انیس حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب زندہ رہے وہ مسجد مبارک میں پنج وقت نماز اور جمعہ کی امامت کراتے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ پڑھاتے تھے حضرت مولانا عبد الکریم کے وصال کے بعد آپ پانچ نمازیں اور جمعہ ان مساجد میں پڑھاتے رہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوه والسلام تشریف لے جا سکتے تھے.اور عموماً سب نمازیں مسجد مبارک میں ہوا کرتی تھیں آپ کی عادت باہر سیر کے واسطے جانے کی نہ تھی.لیکن گا ہے حضرت مسیح موعود آپ کو اپنے ساتھ سیر کے واسطے باہر لے جایا کرتے تھے.جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو آپ اس میں عربی پڑھاتے رہے.صدر انجمن احمدیہ کے آپ پریذیڈنٹ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ”مولوی صاحب کی رائے انجمن میں سورائے کے برابر سمجھنی چاہئے." قادیان میں آپ کے گزارے کی صورت بظاہر طب کے سوائے اور کچھ نہ تھی مگر آپ کے خانگی اخراجات مهمان نوازی بیتامی و مساکین کی پرورش دینی چندوں میں سب سے بڑھ کر حصہ لینا.ان سب پر معقول رقم خرچ ہوتی تھی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رقوم کہاں سے آتی تھیں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے.اور مجھے رزق من حيث لا يحتسب عطا کر تا رہتا ہے.آپ کی کوئی ایسی ضرورت نہ ہوتی تھی.جو پوری نہ ہو جائے اور غیب سے اس کے واسطے سامان بن نہ جائے ".دوسروں کو ہجرت کی تحریک ہجرت کے چندہ ماہ بعد آپ نے اپنے ایک مخلص دوست مخدوم محمد صدیق صاحب جو ان دنوں کوٹ احمد خاں ( متصل میانی ) میں رہتے تھے.ایک خط میں لکھا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ میں بمقام قادیان بخدمت ملازمت حضرت مرزا صاحب خوش و خرم ہوں.دل چاہتا ہے آپ

Page 174

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 149 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک بھی یہاں آجاویں ولا يو من احدكم حتى يحب لا خيه ما يحب لنفسه و السلام خاکسار نور الدین ۲۸/ اگست ۱۸۹۳ء از قادیان" عکس خط حضرت مولوی نورالدین ما خليفه سنج اول بنام مخدوم محمد صدیق حیات استروریستی در مرورا به وی یا شور میز تقام مقایسه با سیلات ورزقت حضرت مو زارات خوشی دو تخدم واست دل و تارا بی الاست زمانین ه عریفه قران اور ایران

Page 175

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 150 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک سرسید احمد خاں سے خط و کتابت سرسید احمد خاں مرحوم نے "الدعا و الاستجابه ایک کتاب لکھی تھی جس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب کی تحریک پر حضرت اقدس علیہ السلام کے قلم سے ” برکات الدعا کار سالہ نکلا.برکات الدعا کی اشاعت کے بعد سرسید مرحوم نے پہلے سے زیادہ خط و کتاب کا سلسلہ شروع کر دیا اور وفات سے چند دن پیشتر آپ کی خدمت میں لکھا کہ بدوں نصرت الیہ اور دعا کے کچھ نہیں ہو سکتا." مباحثہ "جنگ مقدس" ۲۲ / مئی ۱۸۹۳ء سے ۵ / جون ۱۸۹۳ء تک امرت سر میں مشہور مباحثہ جنگ مقدس ہوا.اس مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاونین میں سید محمد احسن صاحب امرد ہوئی اور شیخ اللہ دیا صاحب کے علاوہ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی تھے.اور عیسائی فریق کے مناظر ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھے.جن کے مددگار پادری ہے.ایل ٹھاکر داس صاحب پادری عبد اللہ صاحب اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے.ایک دفعہ کسی عیسائی نے حضرت مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ پندرہ دن امرت سر میں عیسائیوں سے مباحثہ ہوا.اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ آپ نے فرمایا.چار نتائج ہوئے.اول یہ کہ عیسائیوں جیسا کپتا یعنی جھگڑالو.ناقل) دنیا میں کوئی نہیں.دوم مرزا صاحب بڑے حوصلے والے ہیں.سوم آپ (یعنی عیسائی) ایک منٹ کے لئے بھی کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.چہارم یہ کہ ہم بادشاہ ہیں.یہ سب نتائج تو پہلے دن ہی میں نے نکال لئے باقی پندرہ دونوں میں تو بہت سے نتائج ظہور پذیر ہوئے.عیسائی نے پوچھا کہ ان نتائج کی وجوہ کیا ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ (1) حضرت مرزا صاحب نے ایک عمدہ اصل قائم کیا تھا کہ عظمند جو دعوی کرے اس کی دلیل دے اور جو اعتراض کرے.یا جواب دے تو اس کی دلیل اپنی مسلمہ کتاب الہامی میں سے دے.اپنی طرف سے کچھ نہ کے.پھر باد جو دوعدہ کے آپ اس اصل کی طرف آئے ہی نہیں اس لئے کہتے ہو.(۲) مرزا صاحب و سیع حو صلہ اس لئے ہیں کہ باوجود اس کے بھی پندرہ روز تک تم سے مباحثہ کرتے رہے میرے جیسا ہو تا تو پہلے دن میں ختم کر دیتا.(۳) آپ اپنے مذہب کی صداقت کی دلیل کسی مذہب کے سامنے نہیں دے سکتے اس لئے کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.(۴) ہم اس لئے بادشاہ ہیں کہ ہمارے دعوئی اور جواب کی دلیل ہماری کتاب میں موجود ہے.اب یہ ایک بیج بویا گیا ہے اور ایسا اصل ہے کہ سوائے قرآن دانوں کے کوئی مذہب والا نہیں چل سکتا نہ

Page 176

تاریخ احمدیت جلد ۳ 151 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک آرید نہ برہمو نہ یہود نہ عیسائی یہ ایسا حربہ ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی قوم نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود کی شان میں عربی مضمون اور عربی قصیده.اگست ۶۱۸۹۳ میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں فصیح و بلیغ عربی میں ایک مضمون اور قصیده رقم فرمایا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب "کرامات الصادقین " لکھ رہے تھے آپ نے اس کے آخر میں ان کو بھی ساتھ ہی شائع فرما دیا.آپ کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ جب میں نے موجودہ زمانہ کے مفاسد دیکھے تو میں مجد والزمان کی تلاش میں بیت اللہ شریف تک پہنچا.اس مقدس سرزمین میں کئی بزرگوں کو زہدو تقویٰ میں بہت بڑھا ہوا پایا.مگر ان میں سے کسی کو بھی مخالفین اسلام کے مقابلہ کی طرف توجہ نہ تھی حالانکہ میں خود ہندوستان میں دیکھ چکا تھا کہ لاکھوں طلبہ علوم دین چھوڑ کر اس کے مقابل انگریزی علوم کو ترجیح دے رہے ہیں.کروڑوں کتابیں دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں شائع ہو چکی تھیں.میں کسی صادق کی آواز کا منتظر تھا کہ ناگاہ حضرت مولف براہین احمدیه (مهدی الزمان و مسیح دوران) کی بشارت پہنچی پس میں حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی فراست سے معلوم کر لیا کہ آپ ہی موعود اور حکم عدل ہیں اور آپ ہی کو خدا نے تجدید امت کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور اس پر میں نے خدا کی آواز پر لبیک کسی اور اس کے اس احسان عظیم پر سجدات شکر بجالایا اور آپ کے غلاموں میں شامل ہو گیا.آپ کے لکھے ہوئے شعر کا عربی قصیدہ کا ابتدائی شعر یہ ہے.فو الله من لاقيته زادني الهدى و عرفت من تفهيم أحفدا احمدا خدا کی قسم جب سے میں نے آپ کی ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے میرا ایمان بڑھ گیا ہے او ر احمد (ہندی) کی تقسیم سے میں نے احمد ( عربی ) ا کی معرفت حاصل کرلی ہے.اشتہار التوائے جلسہ " میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۳ء کے سالانہ تعریف میں یہ تحریر فرمایا جلسہ کے التوا کا اشتہار دیا جس میں حضور نے آپ کی ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں عجر د ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دو سو سے کسی قدر زیادہ ہیں...جن میں سے اول درجہ پر میرے خالص دوست اور محب مولوی حکیم نورالدین صاحب

Page 177

تاریخ احمدیت جلد ۳ 152 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک اور چند اور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالی کے لئے میرے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی آخرت پر نظر ہے.سودہ انشاء اللہ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں".۱۸۹۵ء کے قریب (جب کہ مفتی محمد صادق صاحب جموں میں ہی ملازم تھے) حضرت سفر جموں مولوی نور الدین صاحب ریاست جموں کے بعض ارکان کی پر زور دعوت پر چند روز کے لئے جموں تشریف لے گئے وہاں مہاراجہ جموں نے اعتراف کیا کہ آپ پر بہت ظلم ہوا ہے اور معافی چاہی آپ نے فرمایا یہ تو خدا تعالی کا گناہ ہے خدا تعالی کا گناہ خدا تعالی ہی معاف فرما سکتا ہے بندے کی کیا طاقت ہے.مہاراجہ نے آپ سے خواہش کی کہ ریاست میں پھر ملازمت کر لیں مگر چونکہ اس امر کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی اجازت نہ تھی اس لئے آپ صاف انکار کر کے واپس چلے آئے.حضرت مسیح ناصری کی قبر کا انکشاف خلیفہ نور الدین صاحب جونی کا بیان ہے کہ " ایک قبر دفعہ میں محلہ خانیار (سری نگر) سے گذر رہا تھا کہ ایک قبر پر میں نے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو بیٹھے دیکھا میں نے ان سے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ”نبی صاحب" کی ہے.اور یہ قبریوز آسف شہزادہ نبی اور پیغمبر صاحب کی قبر مشہور تھی.میں نے کہا یہاں نبی کہاں سے آگیا.تو انہوں نے کہا یہ نبی دور سے آیا تھا اور کئی سو سال قبل سے آیا تھا....میں نے یہ تذکرہ حضرت مولوی صاحب سے کیا اس واقعہ کو ایک عرصہ گذر گیا.اور جب مولوی صاحب ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے گئے تو حضرت مسیح موعود کی مجلس میں جس میں حضرت مولوی صاحب بھی موجود تھے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ مجھے اوپناهما الى ربوة ذات قرار و معین سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعی حضرت عیسی علیہ السلام کسی ایسے مقام کی طرف گئے جیسے کہ کشمیر.اس پر حضرت خلیفہ اول نے خانیار کی قبر والے واقعہ کے متعلق میری روایت بیان کی.حضور نے مجھے بلایا اور اس کے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا." ft رائے بریلی کے ایک صاحب نئے ترجمہ قرآن کی ضرورت اور اس کے اصول مولوی ریاض احمد صاحب نے پیسہ اخبار میں (وسط ۱۸۹۵ء کے قریب ایک نئے ترجمہ قرآن کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی تھی.اور ایک خط بھی حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں لکھا.حضرت مولوی صاحب نے ۱۳/ ستمبر ۱۸۹۵ء کو ضرورت ترجمہ کی تائید کرتے ہوئے ایک مفصل خط لکھا جس میں آپ نے بڑی تفصیل سے

Page 178

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 153 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک مثالیں دے دے کر نو ایسے اہم امور کی نشان دہی فرمائی جو زمان حاضر میں ایک مترجم قرآن کے لئے نہایت درجہ ضروری ہیں.چنانچہ آپ نے بتایا کہ اول تراجم موجودہ نے قرآن مجید کے مقدس اور معصوم الفاظ کو شائستگی سے گرے ہوئے مکروہ محاورات میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے.جس سے مترجم کو بچنا ضروری ہے.دوم قصص قرآنی کے نام پر مفسرین نے بہت سی بنی اسرائیلی روایات اور دوسری خرافات جمع کر دی ہیں اور خصوصاً انبیاء کو تو بڑے بڑے اتہامات کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے مترجم کا فرض ہے کہ اس سے اجتناب کرے.سوم متشابہ اور محکم آیات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے.چہارم.مقطعات قرآنی کے معانی پر خاص طور پر غور کرنا چاہئے.پنجم.مسئلہ نخ پر غور ضروری ہے.قرآن مجید میں ہر گز کوئی آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ اگر آیات منسوخہ قرآن میں موجود ہو تیں تو کم از کم کچھ ایسا جناب باری سے یا جناب صادق مصدوق حبیبی و خلیلی سیدنا و مولانا رسولنا و نبینا اصفی الاصفیا الله الله و ازواجہ و ذریاتہ و اہل بیتہ سے یا حضرات خلفائے راشدین سے یا ابو بکر و عمر سے جو راس رئیس علماء وقت ہیں اس سے کچھ ثابت ہو تا.یہ امریخ کا دعویٰ علماء نے اپنے خیال سے کیا ہے جب دو آیات میں تطبیق نہیں آئی تو دعوی کر دیا کہ ایک آیت منسوخ ہے.اس انکشاف نے مجھے قرآن کریم کی شاہراہ پر چلنے کے لئے بڑی راہ کھول دی ہے.ششم.چھٹا امر جس پر مترجم کو غور ضروری ہے وہ مسئلہ ہے ترتیب آیات کا.میرے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن کریم الحمد شریف سے لے کر سورۃ ناس تک ایک ایسی ترتیب رکھتا ہے کہ اگر ایک آیت کہیں سے نکال ڈالیں تو قرآن قرآن نہیں رہتا.ہفتم.ساتواں امر جسے مترجم کو مد نظر رکھنا ضروری ہے حال کا فلسفہ ہے جس کی بناء گو اکثر مشاہدہ پر ہے.مگر ہمارے ہندوستانی طالب علم اس میں تھیوری ، قیاس ، قیاس اور خیال اور امر محقق شدہ میں تمیز نہیں کر سکتے.سید احمد خاں کی جماعت نے اس حقیقت کو نہ سمجھ کر یورپ کے فلسفہ اور سائنس سے دب کر صلح کرلی ہے.اور الہام روحی و ملائکہ وہ آخرت و جنت و نار کے وجود سے گویا انکار کر دیا ہے.ہشتم.آٹھواں امر جس پر مترجم کو غور ضروری ہے اصول ترجمہ کا قائم کرتا ہے گذشتہ مفسرین نے خواہ اہل روایت ہوں یا اہل درایت.صوفی ہوں یا علم اشتقاق سے تعلق رکھتے ہوں.اپنی تفاسیر کے لئے اصول ترجمہ قائم نہیں کئے جس سے سخت گڑ بڑ واقع ہوئی ہے.نہم.مترجم کو ترجمہ کے وقت قولا ہی نہیں عملاً بھی مفسرین کے طبقات کو مد نظر رکھنا چاہئے اول

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 154 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک IA 14 درجه تفسیر القرآن بالقرآن.دوم حضرت حق سبحانہ کے اس نائب ا کا ہے جس کے حق میں فرمايا من يطع الله فقد اطاع الله - تیسرا مرتبہ خلفائے راشدین کا ہے.سفر بہاولپور اور حضرت خواجہ غلام فرید ۱۸۹۶ء کے نصف اول کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحب چاچڑاں شریف سے ملاقات مولوی صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کی اجازت سے نواب صادق محمد صاحب رائع (متوفی ۱۸۹۹ء) نواب بہاولپور کے علاج کے لئے بہاولپور تشریف لے گئے.نواب صاحب موصوف نے آپ کو بہاولپور میں رہنے اور ساتھ ہزار ایکڑ زمین دینے کی پیش کش کی مگر آپ نے بالکل انکار کیا.اور فرمایا کہ اس قدر زمین سے کیا ہو گا.انہوں نے کہا کہ آپ اس سے امیر کبیر ہو جائیں گے.آپ نے جواب دیا کہ اب تو آپ ہمارے پاس چل کر آتے ہیں کیا پھر بھی آئیں گے.انہوں نے کہا نہیں تب آپ نے ارشاد فرمایا." پھر فائدہ ہی کیا ہے؟" جب دربار بہاولپور میں ابتداء حضرت مولوی صاحب کے بلوانے کی تجویز ہوئی تو حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف (۱۸۴۶ء.۱۹۰۱ء) سے بھی استصواب کیا گیا تھا اس پر بعض لوگ جو ریاست میں اس وقت ممتاز عہدوں پر تھے اور اپنے آپ کو دیندار خیال کرتے تھے انہوں نے اعتراض کیا کہ حضرت صاحب ( مراد خواجہ صاحب بعض اوقات تو دین کا کچھ باقی نہیں رہنے دیتے اب " مرزائی" کے بلائے جانے کا مشورہ دے دیا ہے.جب یہ بات ایک ذریعہ سے خواجہ صاحب کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کا کلام شیخ اکبر کی طرح عمیق ہے یہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں یونہی چلاتے جاتے ہیں.بہر حال نواب صاحب بہاولپور نے حضرت خواجہ صاحب کے مشورہ کے مطابق آپ کو بلوا بھیجا.نواب صاحب سے ملنے کے علاوہ آپ کی حضرت خواجہ صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جس کا ذکر خود حضرت خواجہ صاحب کے ملفوظات سے ملتا ہے.سفر مالیر کوٹلے حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں چنانچہ حضرت اقدس کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحب مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور غالبا اپریل سے اکتوبر ۱۸۹۶ء تک وہاں قیام پذیر رہے.آپ کے ہمراہ آپ کے اہل بیت بھی تھے اور کئی ایک شاگرد بھی جمع ہو گئے تھے.مثلاً بھائی عبدالرحیم صاحب.بھائی عبد الرحمان صاحب مفتی فضل الرحمان صاحب.اس پورے قافلہ کی مہمان نوازی حضرت نواب محمد علی خان صاحب فرماتے تھے اور ان کی چھوٹی

Page 180

تاریخ احمدیت جلد ۳ 155 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک بڑی ضروریات کا خیال بھی بڑی فیاضی اور سیر چشمی سے رکھتے تھے.کچھ عرصہ آپ کا قیام شہر میں رہا بعد ازاں شیروانی کوٹ میں منتقل ہو گئے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظله العالی تحریر فرماتی ہیں.کہ حضرت خلیفہ اول شیروانی کوٹ کے اوپر کے چوبارہ پر رہے تھے جو زنانہ حصہ اور زنانہ پورچ کی جانب تھا.شیروانی کوٹ میں ہر طرح کا انتظام تھا گھوڑا گاڑی بھی آپ کی ضرورت کے لئے تیار رہتی تھی.اکتو بریا نو مبر میں آپ واپس قادیان تشریف لائے اور جلسہ مذاہب عالم میں شمولیت کے بعد دوبارہ جنوری ۱۸۹۷ء میں مالیر کوٹلہ پہنچ گئے.ابھی سال چھ ماہ اور حضور کی اجازت سے آپ کو ٹھہرانا تھا.کہ مارچ ۱۸۹۷ء میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت کے باعث حضرت ام المومنین کی طبیعت علیل ہو گئی اور آپ کو بذریعہ تار واپس قادیان کو بلوا لیا گیا.قیام مالیر کوٹلہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ان میں سے بعض کا بالا ختصار تذکرہ کیا جاتا ہے.(1) حضرت مولوی صاحب سے حضرت نواب صاحب نے قریباً چھ ماہ میں قرآن شریف ختم کر لیا تھا.حضرت نواب صاحب شہر سے شیروانی کوٹ جاتے اور قرآن مجید پڑھتے اور دوپہر کا کھانا آپ کی معیت میں تناول کر کے واپس تشریف لے جاتے تھے.(۲) حضرت مولوی صاحب نے قادیان کی طرح یہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا اور آپ کے شاگردوں کے علاوہ دوسرے بہت سے لوگ اس سے استفادہ کرتے تھے اور اس طرح احمدیت کی بھاری تبلیغ ہوتی تھی.(۳) حضرت نواب صاحب کا چونکہ شیعہ خاندان تھا اور ویسے بھی خوجہ شیعوں کا زور تھا.اس لئے مالیر کوٹلہ میں عام شیعہ اصحاب کے علاوہ ان کے بعض مجہتدین سے آپ کے بڑے بڑے معرکے ہوئے.(۴) میاں عبدالرحیم خاں صاحب خالد جو اکتوبر ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے معجزانہ طور پر شفایاب ہونے کے باعث آیت اللہ میں سے ہیں.آپ کی موجودگی میں ۱۳.۱۴/ جنوری ۱۸۹۷ء کو پیدا ہوئے تھے پیدائش کے بعد میاں صاحب سخت بیمار ہو گئے اور حضرت مولوی صاحب نے بہت توجہ سے ان کا علاج کیا.دسمبر ۱۸۹۶ء کے آخر میں جلسہ اعظم مذاہب کا عظیم الشان جلسہ جلسہ اعظم مذاہب لاہور منعقد ہوا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود کا مضمون خدائی بشارت کے مطابق سب مضمونوں پر بالا رہا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے بھی اس میں شمولیت

Page 181

تاریخ احمدیت جلد ۳ 156 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک فرمائی تھی بلکہ حق یہ ہے آپ جلسہ کے ماڈریٹر حضرات میں سے تھے علاوہ ازیں ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۶ء کا وہ یادگار اجلاس جس میں مولوی شاء اللہ صاحب اور بعض دوسرے نمائندوں کی تقریروں کے علاوہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون سنا گیا آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا.اس اجلاس کی کارروائی ٹھیک سوا دس بجے شروع ہوئی اور اس کا آغاز بھی حضرت مولوی صاحب کی ایک مختصر مگر نہایت درجہ لطیف و پر معنی تقریر سے ہوا.اور خاتمہ بھی آپ کی تقریر سے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ پر لیکچر حسب معمول آپ نے ۱۸۹۷ء کے سالانہ جلسہ (انجمن حمایت اسلام لاہور) میں بھی شمولیت فرمائی اور معرکتہ الاراء لیکچر دیا.جس کا جلسہ کی روئیداد میں ذکر موجود ہے آپ کی تقریر کے وقت حاضرین کی تعداد بہت زیادہ تھی.چنانچہ لکھا کہ ۳۰/ جنوری ۱۸۹۷ء کے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں بعد ادائے نماز ظہر مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی کا لیکچر ہوا.اس دن مولوی صاحب کے لیکچر پر بہت بڑا مجمع تھا اس دفعہ مولوی صاحب نے بھی اپنی تقریر کو زیادہ تر انجمن کے حالات تک محدود رکھا اور بالکل مذہبی باتوں میں نہیں لگے رہے.مولوی صاحب تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کرتے رہے." ڈگلس کی عدالت میں گواہی پادری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود کے خلاف ڈگلس کی عدالت میں اقدام قتل کا جو مقدمہ دائر کیا تھا اس مقدمہ میں عبد الحمید نے گواہی دی تھی کہ مولوی نور الدین صاحب مجھے پڑھاتے تھے پادری مارٹن نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ عبد الحمید نے ایک خط مولوی نورالدین صاحب کو بیاس سے بھیجا تھا تا عبد الحمید کی سکونت کا مولوی صاحب کو بھی پتہ لگے جس سے شبہ پڑتا ہے کہ سازش قتل میں حضرت مولوی صاحب بھی شامل ہیں..بنابریں حضرت مولوی صاحب عدالت میں بلائے گئے.چنانچہ آپ نے ۱۳ / اگست ۱۸۹۷ء کو بیان دیا - دیا ۱۸۹۷ء کے واقعات میں سے ایک سفر ملتان بھی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سفر ملتان رفاقت میں آپ کو اکتوبر ۱۸۹۷ء میں پیش آیا.راستہ میں اسٹیشنوں پر بہت سے لوگ ا ملاقات کے لئے حاضر ہوئے جن میں غیر احمدی بھی تھے اور ملتان میں تو استقبال کا بڑا عمدہ انتظام تھا.حضور کے مخلص فدائی مولوی بدر الدین ہیڈ ماسٹر ہائی سکول نے سکول کے طلبہ کو دو رویہ قطار میں مختلف قطعات دے کر کھڑا کر رکھا تھا.جب حضور گذرے تو طلبہ دعائیہ کلمات السلام علیکم اور نظمیں

Page 182

تاریخ احمدیت جلد ۳ 157 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک پڑھتے تھے.مولوی بدرالدین صاحب ہی نے فردوگاہ کا انتظام کیا تھا.ملتان کے ہر طبقہ کے لوگ حضور کے پاس حاضر ہوتے.گردیزی خاندان کے رکیں بھی آئے اور شہر کے لوگ بھی آپ کا ذکر مودبانہ رنگ میں کرتے تھے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے پاس آکر دوا پوچھنے والوں کا تو ایک لگا رہتا تھا.جمگھٹا سا ملتان میں حضور بزرگوں کے مزاروں پر بھی تشریف لے گئے تھے.اور مدرسہ اسلامیہ کے ہال میں تقریر بھی فرمائی.آپ نے ۲۷ دسمبر ۱۸۹۷ء کو سالانہ جلسہ سالانہ جلسه ۱۸۹۷ء پر ایمان افروز تقریر قادیان میں ایک عظیم الشان تقریر فرمائی جو معمول نکات و معارف سے پر تھی.اور نہایت درجہ وجد انگیز تھی.تقریر کے دوران میں آپ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا.میں خداتعالی کو گواہ رکھ کر اور اس واحد لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی ان امراض کا جو مجھے لاحق ہیں.کوئی علاج نہیں پایا.جب تک کہ خدا تعالی کے خاص فضل سے میں نے امام کو شناخت نہیں کیا.میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر میری جیسی مرض کا علاج نہ ملتا تو میں ہلاک ہو جاتا...میں اپنے جیسی استعداد اور مرتبہ کے آدمیوں کو تو کھول کھول کر بتلا دیتا ہوں کہ میں نے اپنے مرض کا تو خطا نہ کرنے والا علاج پالیا ہے اور وہ بھی تریاق موجود ہے جو تم میں بیٹھا ہے اور جو اسی وعدہ الہی کے موافق آیا ہے جو اس نے وعد الله الذین امنوا میں فرمایا ہے کوئی معجزہ کوئی آیت کوئی دلیل میرے لئے ضروری نہیں کیونکہ میں نے اپنی مرض پر اس تریاق کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے....میں پھر اس مسجد میں جو خد اتعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے اس کے سامنے یہ شہادت دیتا ہوں میرے جیسا بیمار خطرناک اور تندرستی میں بے نظیر عمر کا ایک بہت بڑا حصہ گزار چکا ہوں جس کا ایک ٹکٹ بھی واپس نہیں آسکتا.یہاں اگر اپنے مرض کا علاج نہیں پاتا ہوں تو کیوں بیٹھا ہوں میرے جیسا پیشہ ور انسان آسائش کے سامان کہیں سے حاصل کر سکتا ہے.مگر بتلاؤ تو سہی کہ یہاں کس قدر سامان مل سکتے ہیں.ہمارے بھائی سوچ سکتے ہیں کہ ہم یہاں رہ کر کس قدر امداد اپنی کر سکتے ہیں پھر بایں ہمہ جو میں یہاں پڑا ہوں کیا پاگل اور مجنوں ہوں؟ اگر کوئی دق مجھے اندر ہی اندر نہ کھا رہی تھی تو میں خود مجنونوں کا علاج کرنے والا ایک مجنون کے پاس ہی وہ تریاق پاتا.سوچو !! اور پھر سوچو !!! ان درد بھرے الفاظ ہی سے جو آپ کی تقریر سے بطور نمونہ لکھے گئے ہیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری تقریر کس شان کی ہوگی ؟ مکمل تقریر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی مرتبہ رپورٹ

Page 183

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 158 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ۱۸۹۷ء میں چھپی ہوئی موجود ہے اور مطالعہ کے قابل ہے.الحکم کا قادیان سے اجراء ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء سے قادیان سے اخبار الحکم لکھنا شروع ہوا.تو حضرت مولوی نور الدین صاحب اس اخبار کے خصوصی قلمی معاونین میں سے ایک تھے آپ کے درس.لیکچر.جلسے.فتاوی.مضامین.خطوط اور دوسرے ملفوظات اس میں بڑی کثرت سے شائع ہوتے اور دلچسپی ، اضافہ معلومات اور ایمان کی ترقی کا موجب بنتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات کے بعد اخبار کی جان اور روح رواں ہوتے تھے.انجمن ہمد ردان اسلام میں لیکچر قادیان میں چھوٹے بچوں کی ایک انجمن ہمدردان اسلام تھی جس کے سیکرٹری بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تھے حضرت مولوی صاحب ہمیشہ بچوں سے مشفقانہ سلوک کرتے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے تھے آپ گا ہے گا ہے اس مجلس میں بھی تشریف لاتے اور بچوں کو اپنی پیاری پیاری باتیں سناکران میں خاص جلا پیدا کیا کرتے تھے.2 مقدمہ حفظ امن کے لئے سفر گورداسپور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت سیح موعود علیہ السلام پر حفظ امن کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا جس میں پہلی پیشی کے لئے حضور ۱۴ جنوری ۱۸۹۹ء کو گورداسپور تشریف لے گئے.مقدمہ کی دوسری پیشی کے لئے حضور کو تاریخ ۲۸/ جنوری ۱۸۹۹ء دھاریوال کا سفر اختیار کرنا پڑا.حضرت مولوی نور الدین صاحب حسب دستور ان ہر دو سفروں میں حضور کے ہمرکاب تھے.گورداسپور سے واپسی پر آپ نے اسٹیشن پر بعض عمائد و حکام کے سامنے صداقت مسیح موعود پر ایک مختصری تقریر بھی فرمائی اور اپنے بعض حیرت انگیز تجربات و مشاہدات بھی بیان کئے دھار یوال میں نہر کے کنارے نماز جمعہ آپ ہی نے پڑھائی اور خطبہ میں قرآن مجید کے معارف ایسے موثر انداز میں بیان فرمائے کہ لوگوں پر محویت طاری ہو گئی ایسا معلوم ہو تا تھا کہ آسمان سے قلوب پر فرشتوں کا نزول ہو رہا ہے.نماز میں خلقت کا بڑا ہجوم تھا.ولادت میاں عبد الحی صاحب حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ہاں ابھی تک کوئی اولاد نرینہ نہ تھی.ایک بیٹا محمد احمد فوت ہوا تو ایک لدھیانوی معترض نے ہنسی اڑائی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۴ء میں محمد احمد کا ایک نتم البدل بچہ عطا کئے جانے کی بشارت ملی اور خواب میں بتایا گیا کہ اس بچہ کے بدن پر پھنسیاں ہیں اور کوئی

Page 184

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 159 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک کہتا ہے کہ اس کا علاج ہلدی اور ایک اور چیز ہے آپ نے یہ خبر قبل از وقت انوار الاسلام “ میں شائع فرما دی.” چنانچہ اس خبر کے عین مطابق ۱۵ / فروری ۱۸۹۹ء کو میاں عبدالحی صاحب پیدا ہوئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب فرماتے ہیں: " میرا لڑکا عبدالحی آیت اللہ ہے محمد احمد مر گیا تھا.لدھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا.میں نے اس لدھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اور اس پر کوئی توجہ نہ کی مگر میرے آقا د امام نے اس پر توجہ کی تو اس کو وہ بشارت ملی جو انوار الاسلام کے صفحہ ۲۶ پر درج ہے اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبد الحی ہے.پیدا ہوا.کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے جس کے علاج میں میری طبابت گرد تھی عبدالحی کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا.جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہو تا.مگر ہم مجبور تھے کچھ نہ کر سکتے تھے.ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایما تھا اور اس کی ایک جزو ہلدی تھی.اور اس کے ساتھ ایک اور دوا تھی جو یاد نہ رہی تھی ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر چاہا کہ ہلدی لگا ئیں.آپ نے کہا کہ میں جرات نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کا دوسرا جز و یاد نہیں مگر ہم نے غلطی کھائی اور ہلدی لگادی.جس سے وہ بہت ہی تڑپا اور آخر ہم کو وہ دھونی پڑی.اس سے ہمارا ایمان تازہ ہو گیا کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے اور یہ مامور اور مرسلوں کی جماعت ایک مشین اور کل کی طرح ہے جس کے چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے.بغیر اس کے بلائے یہ نہیں بولتے.غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے اور خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہ چھو ڑا سینکڑوں نشان دکھا دیے.مولوی کرم الدین آف بھین کا خط مولوی کرم دین الدین صاحب آف بھین (ضلع جہلم) جو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بد ترین معاندوں کی صف اول میں آگئے ابتداء میں گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کو تو صحیح نہیں سمجھتے تھے مگر ان کو آپ سے کوئی دشمنی بھی نہ تھی اور ان کا خیال تھا کہ ” مرزا صاحب کا ادعا مہدویت ایسا ہی ہے جیسے سابق ان کے بہت سے لوگوں نے ادعا کئے ہیں چنانچہ بعض مدعی مہدویت ایسے بھی گزرے ہیں جو بڑے ولی اور جامع کمالات ہوئے ہیں اور ان سے ایسا ادعا غلبہ سکر عرفان الہی اور دورہ حالت عرفانیہ کے سرزد ہوا.یہ مولوی صاحب اپنے نظریہ پر قائم تھے کہ انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 185

اریخ احمدیت.جلد ۳ 160 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک صدقت میں چند رویا ء دیکھے جو حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بغرض اشاعت ارسال کئے چنانچہ آپ نے ان کی خواہش کے مطابق الحکم میں چھپوا دیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر مسیح کی تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تعیین کی طرف ایک وفد بھیجوانا چاہتے تھے.اس وفد کے امیر مرزا خدا بخش م م وند نصیبین صاحب کے اخراجات سفر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اپنے ذمہ لے لئے.وفد کی روانگی کے سارے انتظامات مکمل ہو گئے اور ۱۲/ نومبر ۱۸۹۹ء کو مسجد اقصیٰ میں ان کے ۴۵ الوداع میں ایک جلسہ بھی ہوا.جس میں بیرو نجات سے بہت سے احمدی احباب شریک ہوئے اور بزرگان سلسلہ میں سے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تقریریں بھی ہو ئیں مگر افسوس کہ حکومت افغانستان کی طرف سے بعض مشکلات پیش آجانے کے سبب وفد کو رک جانا پڑا.ایک کافی عرصہ بعد حضور کے بعض خدام مثلا شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور سید امجد علی شاہ صاحب کو نصیین جانے کا اتفاق ہوا.مگر انہیں قلت وقت اور محدود ذرائع کے باعث وہاں جا کر حضرت مسیح کے سفر کا کھوج لگانے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہو سکی.حضرت مولوی صاحب نے ۲۴ / مارچ ۱۹۰۰ء کو ایک اعلان قومی ضرورتوں کی طرف توجہ فرمایا جس میں احباب جماعت کو بروقت بعض مرکزی اور - قومی ضرورتوں کی طرف توجہ دلائی مثلا نو مسلموں کا انتظام.نوجوانوں کی تعلیم کا انتظام.غرباء اور مسافروں اور قیموں کی مختلف ضروریات کا انتظام.ہجرت کی خواہش کرنے والوں کے لئے مکانات کا انتظام وغیرہ.اس اعلان میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت میں واعظ بہت کم ہیں.اس لئے واعظوں کی ایک جماعت کا تیار کرنا بھی ضروری ہے جو متنازعہ مسائل پر بحث و تمحیص کر سکیں.اعلان کی اشاعت سے قبل آپ نے عید الاضحیہ کے موقعہ پر دوستوں سے مشورہ بھی فرمایا.یہ تحریک وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھی اور بہت پسند کی گئی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اجازت دیدی.چنانچہ اس غرض کے لئے با قاعدہ آمد و خرچ کے الگ رجسٹر کھول دیئے گئے.علامہ شبلی نعمانی (۶۱۸۵۷ - ۱۹۱۴ء) نے علامہ شبلی نعمانی مرحوم سے خط و کتاب "دائره التالیف" کے نام سے ایک اشتہار دیا تھا.جس میں اخوان الصفا کی طرز پر مضامین لکھنے اور شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کر کے اسے وقت کی بہت بڑی ضرورت بتا یا علامہ صاحب نے یہ اشتہار اور ایک مسودہ اپنے خط سے منسلک کر کے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں بھیجوایا اور ان کے متعلق آپ کی رائے دریافت کی.

Page 186

تاریخ احمدیت جلد " 161 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک آپ نے ۲۹/ مارچ کو اس کے جواب میں ایک مفصل خط لکھا کہ ترقی و فلاح کی اصل راہ وہ نہیں جو اس وقت مسلمانوں کے خود ساختہ مصلح پیش کر رہے ہیں بلکہ وہ ہے جس پر ہمارے امام و مقتداء نے اللہ تعالی کے الہام سے ہمیں چلایا ہے.سرسید والا الہام نہیں.مکالمہ اللہ والا الهام.نیز توجہ دلائی کہ مسلمان اگر قرآن مجید کو صحیح معنوں میں اپنا دستور العمل بنا لیتے ہیں تو ان کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابل آسمانی نشانات و آیات عطا ہو تیں.مگر موجودہ دنیا میں مسلمان کو غیر مذاہب پر کوئی امتیاز نہیں رہا.۲۷ / د کمبر ۱۹۰۰ ء کی صبح کو جب کہ احباب ۲۷/ ۲ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک واعظانہ تقریر جلسہ کے لئے جمع تھے آپ نے مسجد اقصیٰ میں قرآنی حقائق و معاروف سے لبریز تقرر فرمائی.جو الحکم کی کئی قسطوں میں شائع ہوئی.اس وعظ کا ایک اقتباس بطور نمونہ درج کیا جاتا ہے.فرمایا."....یاد رکھو جب تک قرآن پر عمل نہ ہو گا.یہ ادبار اور تنزل جو مسلمانوں کے شامل حال ہے ہر گز دور نہ ہو گا.مگر قران پر عمل کرنے کے واسطے قرآن کا فہم ضروری ہے اور فہم بدون تقویٰ کے آ نہیں سکتا.اور تقویٰ ہو نہیں سکتا جب تک مجاہدہ نہ ہو.مجاہدہ ممکن نہیں جب تک اخلاق فاضلہ نہ ہوں.اور اخلاق فاضلہ کے حاصل کرنے کے واسطے امام کے حضور رہنا ضروری ہے.پس یہاں آؤ اور امام کے حضور رہ کر اس بات کے حاصل کرنے کی فکر کرو.جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مبعوث فرمایا ہے.- ولادت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ یکم اگست ۱۹۰۱ء کو حضرت مولوی صاحب کے ہاں صاحبزادی امتہ الحی صاحبہ تولد ہو ئیں جو ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حرم میں شامل ہو ئیں.حضرت مولوی صاحب نے اپنی یاداشت میں اپنے قلم سے ان کی تاریخ ولادت لکھی تھی جس کا عکس یہ ہے.اردو ترجمه قرآن مجید حضرت مولانا نے ایک عظیم الشان کارنامہ ان ایام میں یہ سرانجام دیا کہ قرآنی مزاج اور روح کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ فرمایا.اور اسے چھپوانے کے لئے مجلس منتظمہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے سپرد فرمایا.جس کے سیکرٹری اس وقت مولوی محمد علی صاحب تھے.مگر افسوس انجمن کی طرف سے اس کی اشاعت کی

Page 187

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 162 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک نوبت نہ آسکی اور صرف ایک پارہ آپ کی زندگی میں شائع ہو سکا جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے.ملک پر طاعون کا زور دار حملہ شروع تھا اور خدا نے "الدار" کی حفاظت کا الدار" میں قیام خاص طور پر وعدہ کر رکھا تھا اس لئے حضرت مولوی صاحب بھی دوسرے / مخلصین کے ساتھ " الدار ہی میں قیام پذیر ہو گئے اور جب تک یہ وبا کم نہیں ہوئی یہیں رہے.اخبار البدر کی قلمی معاونت الحکم کے بعد سلسلہ کا دوسرا مرکزی اخبار ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو "البدر" کے نام سے نکلنا شروع ہوا.تو آپ نے احکم کی طرح اس اخبار کی بھی زور شور سے قلمی اور مالی اعانت شروع کر دی جو آخر دم تک جاری رہی.البدر میں ابتداء آپ کے بعض قیمتی نسخوں کی بھی اشاعت ہوتی تھی.مگر اخبار البدر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود کے ملفوظات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کے کلمات طیبات کو بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ محفوظ کر دیا.حق کے مخالفوں کی عجیب حالت ہوتی ہے جب کوئی قابل ایک الزام کا عارفانہ جواب اعتراض بات نہیں ملتی تو جھوٹی اور بے اصل خبریں اڑانا شروع کر دیتے ہیں ایک مرتبہ معاندین سلسلہ نے یہ مشہور کر دیا کہ آپ نے معاذ اللہ سلسلہ سے قطع تعلق کر لیا ہے.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے اس خبر کی بابت حضرت مولوی صاحب سے استفسار کیا جس پر آپ نے چند لفظوں میں یہ جواب لکھا " و من اظلم ممن افترى على الله كذبا ا و کذب بایاته - نور الدین نے تو مرزا کی آیات دیکھ لئے کہ وہ منجاب اللہ ہے پس اگر وہ ان آیات کا مکذب ہے تو اس سے ظالم ترکون ہے.مگر وہ بجھ اللہ ظالم نہیں اور اسی پر اعتقاد ہے." ۲۲ / ستمبر ۱۹۰۳ء کو حضرت مولوی صاحب کے مشکوئے صاحبزادہ عبد القیوم کی ولادت معلی میں حضرت صغری بیگم صاحبہ کے بطن سے دوسرا عبد القیوم پیدا ہوا.صاحبزادہ صاحب ۱۲ / اگست ۱۹۰۵ء کو قبل دو پہر وفات پاگئے.نماز جنازہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل ہوئے.مگر پیش امام آپ کو ہی بنایا.دفن سے پہلے آپ نے اپنے بچے کا منہ کفن سے کھولا اور بوسہ دیا اور آپ کی آنکھیں پر آب تھیں اور فرمایا میں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولا تھا کہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ سنت پوری ہو.آنحضرت کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھا تو آنحضرت ﷺ نے اس کا منہ چوما تھا اور آپ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور فرمایا کہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی پر ہم خدا کے فعلوں پر راضی ہیں.اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے میں نے بھی اس کا

Page 188

163 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موجود کے وصال مبارک تک کھولا اور چوما.یہ خدا کا فضل ہے اور خوشی کا مقام ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقعہ عطا ہو.پھر فرمایا خدا نے ہم کو کیسا رسول عطا کیا کہ وہ ہر حالت میں ہمارا غمگسار ہے اور ہر حال میں ہم کو خوشی دینے والا ہے." صاجزادہ صاحب کی وفات کے بعد آپ کی خدمت میں کثرت سے تعزیت نامے موصول ہوئے تو آپ نے الحکم اور بدر میں احباب کے نام ایک کھلا خط لکھا کہ خطوط تعزیت نے مجھ پر خصوصیت سے محبت بڑھانے کا اثر کیا ہے مگر آپ لوگوں پر دینی اخراجات کا ایک بڑا بوجھ ہے جو روز افزوں ہے اس لئے ” میری درخواست ہے کہ بجائے اس کے کہ مجھے ایسے خطوط لکھے جائیں آپ صاحبان ان خرچوں کو جمع کر کے دینی کاموں میں لگا دیں یہ میرا ولی جوش ہے اور مجھے ڈر ہے کہ ایسے اخراجات کہیں اسراف میں داخل نہ ہوں." ۵۷ れ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص فدائی خانصاحب محمد خان صاحب سفر کپور تھلہ احمدی افسر بگھی خانہ سرکار کپور تھلہ بیمار تھے.جن کے علاج کے لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب حضور کے ارشاد پر ۴/ اکتوبر ۱۹۰۳ ء کی صبح کو قادیان سے کپور تھلہ کے لئے روانہ ہوئے اور ۷ / اکتوبر ۱۹۰۳ء کو واپس تشریف لائے.کپور تھلہ میں آپ کی تشریف آوری پر ایک جلسہ بھی ہوا.جس میں مختلف مذاہب و مذاق کے سر بر آوردہ لوگ شامل ہوئے.اس تقریر دلپذیر میں آپ نے ایک نئے اور اچھوتے انداز میں ہر قسم کے مکتب فکر کے لوگوں کو تبلیغ فرمائی اور اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات اور مثالیں دے دے کر لوگوں کی روحانی تشنگی بجھائی.Y• اکتوبر ۱۹۰۳ء میں میاں عبد الرحیم خاں ( خالد بار ایٹ لاء مالیر میاں عبدالرحیم خاں کا علاج کو دہ) سخت بیمار ہو گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ان کا علاج کیا.آخر جب زمینی علاج میں کامیابی نہ ہوئی اور زندگی کے آثار منقطع ہونے لگے تو آسمانی طلب نے اپنا کام کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا و توجہ سے آپ کو اعجازی رنگ میں شفا ہو گئی.فونوگراف میں وعظ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ایک فونوگراف قادیان لائے تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب کا بھی اس میں ایک مختصر و عظ ریکارڈ کیا گیا.جس میں آپ نے سورۃ العصر کی لطیف تغییر فرماتے ہوئے اس کے مطالب پر غور کرنے کی تلقین

Page 189

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 164 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک فرمائی.یہ واقعہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۳ ء سے قبل کا ہے.کتاب "نور الدین" کی تصنیف و اشاعت ایک مرتد آریہ دھرم پال (سابق عبد الغفور) نے " ترک اسلام" نامی کتاب لکھی جس کے جواب میں آپ نے ایک مفصل کتاب "نور الدین" کے نام سے تصنیف فرمائی.کتاب کا مسودہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک ایک باب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نماز مغرب کے بعد یا میر کے دوران سنایا کرتے تھے.ایک مرتبہ مسودہ کا ایک حصہ پڑھا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس آگ میں ڈالا گیا.اس سے مخالفت اور لڑائی کی آگ مراد ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اس تاویل کی کیا ضرورت ہے مجھے بھی خدا تعالٰی نے ابراہیم کہا ہے اور الہام فرمایا ہے.کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں ؟ " چنانچه مولوی صاحب نے مضمون کا یہ حصہ کاٹ دیا اور جواب میں حضور ہی کا مسلک پیش فرمایا." ۶۴ جو چھپا ہوا موجود ہے.حضرت مولوی صاحب اس کتاب کی تالیف کے ذکر میں لکھتے ہیں.دھرم پال نے جب ترک اسلام کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب نظر آیا تھا کہ اللہ تعالی مجھ سے فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن شریف کی کوئی آیت تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر قرآن ہو تو ہم خود تم کو اس آیت کے متعلق علم دیں گے.”جب دھرم پال کی کتاب آئی اور خدا تعالٰی نے مجھ کو اس کے جواب کی توفیق دی.حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے اتنا خیال کیا کہ مولانا سیہ منکر قرآن تو ہے گو میرے سامنے نہیں یہ مقطعات پر سوال کرتا ہے.اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا.جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نور الدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا.اس کتاب کے سرورق پر آپ نے استغفر الله استغفر الله - استغفر الله ولا حول ولا قوۃ الا باللہ کے الفاظ لکھے.ان الفاظ میں دراصل ایک روحانی نظارہ کی طرف اشارہ تھا.جو آپ کو انہی دنوں دکھایا گیا.آپ نے دیکھا کہ ہندوؤں کے گھر میں شادی کے بعد ایک مندر کی طرف لے جائے گئے ہیں جس میں دو بڑے بڑے بت ہیں آپ کی موحدانہ طبیعت میں جوش آیا تو آپ نے

Page 190

165 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک استغفار پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک آپ گر گیا.پھر آپ دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے.اور بہت استغفار پڑھا مگربت جوں کا توں موجود تھا تب آپ کو تحریک ہوئی کہ یہاں لاحول کے تیر سے کام لینا چاہئے.چنانچہ آپ نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا.تو وہ بت پاش پاش ہو گیا.اس کی تقسیم یہ ہوئی کہ "نور الدین " کی اشاعت کے بعد دھرمپال کا فتنہ آپ کی زندگی میں مٹایا جائے گا.اور دوسرا کام خدا تعالی اپنی قدرت سے کر دے گا.چنانچہ وہ دھرم پال جو اسلام کو دنیا کا نعوذ باللہ سب سے برا مذہب قرار دیتا تھا نئے سرے سے مسلمان ہو کر اسلام کی تعریف میں رطب اللسان ہو گیا.اور اسلام کے خلاف لکھی ہوئی کتابیں اپنے ہاتھ سے جلا دیں.51 حضرت مولوی صاحب کا ارادہ ستیارتھ پر کاش کا جواب لکھنے کا بھی تھا.مگر دوسرے دینی مشاغل نے فرصت نہ دی.۶۴ سید نا حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۰ / اگست ۱۹۰۴ء کو گورداسپور سے لاہور تشریف سفر لاہور لے گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھی آنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ اس فرمان پر قادیان سے مع اہل بیت لاہور حاضر ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کو دیکھ کر غیر از جماعت لوگوں کی زبان پر یہ کلمات جاری ہو جاتے کہ ”لو صاحب مرزے کا خلیفہ آگیا" آپ کی تشریف آوری سے قبل لوگ حضور کی زیارت کے لئے آتے تو تھے مگر اکثر ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے.مگر اب وہ دل جمعی سے حضور کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھنے لگے.حضرت مولوی صاحب کی نشست میاں چراغ الدین صاحب کی مبارک منزل میں تھی.ہاں روحانی اور جسمانی بیماریوں کے مریض جوق در جوق آپ کے گرد بیٹھے رہتے اور صبح سے لیکر شام تک ای طرح جمگھٹا رہتا.لوگ آپ کے عزم داستقلال پر عش عش کرتے.بعض آریوں سے مسئلہ تاریخ پر مباحثہ بھی ہوا.مولوی محمد عبد اللہ چکڑالوی صاحب کے مرید میاں چٹو بھی کئی گھنٹوں آپ کی مجلس میں بیٹھتے تھے دوران قیام آپ نے ایک خطبہ میں سورہ کوثر کے نکات بھی بیان فرمائے.گوداسپور میں قیام آخر اگست ۱۹۰۴ء سے شروع اکتوبر ۱۹۰۴ء تک آپ مقدمات کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور مقیم رہے.ہفتہ بعد آپ کا چھوٹا صاحبزادہ عبد القیوم سخت بیمار ہو گیا اس وجہ سے آپ نے اہل وعیال کو بھی بلوالیا.گورداسپور میں آپ کی مجلس علم و حکمت جاری رہی اور لوگ آپ سے استفادہ کرتے رہے.مگر درس قرآن کا با قاعدہ سلسلہ قادیان میں ہی اگر شروع ہوا.

Page 191

166 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک محکمہ ابطال الوہیت مسیح اسی سال آپ کا ایک رسالہ عیسائیت کے رد میں شائع ہوا جس کا نام تھا.ابطال الوہیت مسیح " سفر سیالکوٹ آخر اکتوبر ۱۹۰۴ء میں آپ حضرت اقدس کی معیت میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور احباب کو اپنے وعظ سے نوازا.۲ / نومبر کو حضور کا مشہور لیکچر مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر سنایا.جلسہ گاہ میں شامیانوں کے نیچے لکڑی کا ایک سٹیج تھا جس میں حضور کے ساتھ ہی ایک کرسی پر آپ بیٹھے تھے اور آپ کی صدارت میں جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا.صدارتی خطاب میں فرمایا.دنیا میں بہت سے جلسے ہوا کرتے ہیں جنکے اغراض مختلف ہوتے ہیں بعض مصالح ملکی کے لئے ہوتے ہیں.اور بعض اصلاح قوم کے لئے اور بعض درستی اخلاق کے واسطے حسن اتفاق سے خوش قسمتی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ صاحبان کو یہ موقعہ دیا ہے کہ ایک لیکچر سنیں اور اس پر غور کریں...میں امید کرتا ہوں اور خدا سے توفیق چاہتا ہوں کہ ”شوق سے سنیں اور پھر عمل درآمد کی طرف بھی ان کو توجہ ہو." اس کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت اقدس کار تم فرمودہ لیکچر پڑھ کر سنایا اور آخر میں آپ نے اٹھ کر تقریر فرمائی اور جلسہ برخاست ہوا.زلزلہ کانگڑہ پر لطیف نوٹ کانگڑہ میں ۱۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق قیامت خیز زلزلہ آیا تھا ایک خط جوالا مکھی کی تباہی کے بارے میں پہنچا تو آپ نے شیخ یعقوب علی صاحب تراب سے فرمایا.میں دیر تک خدا کی حمد کرتا رہا اور سجدات شکر بجالایا.اور میرا دل عجیب جوش سے بھر گیا کہ یہ زلزلہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم کرنے کے واسطے مبارک فال ہے.کانگڑہ میں بڑا بھاری شرک کا مندر تھا خد اتعالیٰ نے اسے تباہ کر دیا اس کے بعد آپ نے ایک شیخ صاحب کی درخواست پر ایک لطیف نوٹ بھی ان کو شائع کرنے کے لئے لکھ دیا جس میں تحریر فرمایا.” وہاں زلزلہ آیا اور اس اعجوبہ سے آیا اور کب آیا جب ایک مامور من اللہ نے انبیاء کے قدم بقدم تبلیغ کا کام ایک کمال تک پہنچا دیا.پھر اس پنجاب میں اتمام حجت کے لئے سینکڑوں تدبیروں سے کام لیا.مگر بے پروائی کی گئی.آخر راستبازی مصدق راستبازوں کا ہو سکتا تھا کیونکہ اس کی شان ہے مصدق لما معكم اس راست باز نے عفت الديار محلها و مقامها کی پاک وحی گیارہ مہینے پیشتر شائع کی ہے اور بتا دیا.کہ بیرونی عارضی طور پر ایک خاص دار کے رہنے والے اور وہاں کے اصلی

Page 192

تاریخ احمدیت جلد ۳ 167 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک ہے باشندے تباہ ہو جائیں گے آخر چار اپریل کو اس کا ظہور ہوا.اب دیکھیں جو دیکھنے کی آنکھیں رکھتے ہیں اور سنیں جو سننے کے کان رکھتے ہیں." باغ میں قیام کے دوران آپ ۱۵ جون ۱۹۰۵ء کو بسبب اسهال سخت بیمار ہو بیماری اور وصیت گئے.سورۃ نور کی تفسیر کے بارے میں ایک لطیف مضمون آپ نے شروع کیا تھا کہ ضعف کا اس درجہ غلبہ ہو گیا کہ عربی میں وصیت بھی لکھ دی (جس میں بڑی تفصیل سے اپنے عقائد لکھے) مگر ساتھ ہی فرمایا.میں موت سے ہر گز نہیں گھبراتا..میرے دل کو اطمینان رہتا ہے کہ قرآن شریف میری غذا ہے.حضرت مسیح موعود کو الہانا آپ کی شفایابی کی بشارت ملی اور آپ صحت یاب ہو گئے.میاں عبدالحی کا ختم قرآن صاجزادہ میاں عبدالحی صاحب ( آپ کے فرزند) نے ۲۷/ جون ۱۹۰۵ء کو ختم قرآن کیا.اس تقریب سعید پر حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے ایک دعائیہ نظم بھی کی اور اخبار الحکم کا ایک غیر معمولی پرچہ بھی شائع ہوا.اس دن آپ غیر معمولی طور پر خوش تھے کیوں نہ ہوتے آپ کے چیتے بیٹے نے آپ کی محبوب ترین کتاب پڑھ کر ختم کی تھی.جس کی تبلیغ و اشاعت کے لئے آپ کی زندگی کا ایک ایک سانس وقف چلا آرہا تھا.میاں عبدالحی صاحب قرآن شریف ختم کر کے حاضر ہوئے تو فرمایا.” بیٹا ہم تم سے دس باتیں چاہتے ہیں ان میں سے (۱/۱۰) آج تم نے کرلی ہیں.قرآن شریف پڑھو پھر اس کو یاد کرو پھر اس کا ترجمہ پڑھو پھر اس پر عمل کرو.پھر اسی عمل میں تمہیں موت آجائے.قرآن پڑھاؤ.پھر یاد کراؤ.پھر ترجمہ سناؤ.پھر عمل کراؤ.پھر اسی حالت میں تم کو موت آجائے." یہ نصیحت سن کر میاں عبدالحی صاحب نے کہا.اباجی میں نے یہ قرآن شریف تو پڑھ لیا ہے پہلے یہ تو کسی مسکین کو دیدیں." حضرت مولوی صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے.یہ تقریب کس طرح منائی جائے اس پر کئی مشورے ہوئے کسی نے کہا.کہ مسرنا القرآن کی طرز پر قرآن مجید چھپوایا جائے.کسی نے کہا تفسیر لکھی جائے.لیکن حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.جو حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام فرما ئیں وہ مبارک ہو گا.حضرت امام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی طبیعت کمزور ہے.کوئی دماغی محنت کا کام مناسب نہیں.سردست مساکین کو کھانا کھلا دیں اور احباب کی دعوت کر دیں.چنانچہ اس کے مطابق ۲۸ ۲۹ جون ۱۹۰۵ء کو دعوت کا انتظام کیا گیا.

Page 193

احمد بیت - جلد ۳ 168 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقعہ پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن مقرر کیا جائے جو قرآن مجید حفظ کرائے فرمایا میرا بھی دل چاہتا ہے اللہ تعالی جو چاہے گا کرے گا.ان دنوں تعلیم الاسلام کالج نیا نیا بند ہوا تھا جس کا آپ کو بہت صدمہ تھا.اس لئے حضرت عرفانی صاحب کی تحریک پر آپ نے کالج فنڈ میں ایک سو روپیہ بھی عطا فرمایا.حرم اول کی وفات حضرت مولوی صاحب کی زوجہ کلاں جن کا نام فاطمہ تھا۲۸ جولائی ۱۹۰۵ء بروز جمعہ اس دار فانی سے رحلت کر گئیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ / السلام کے ساتھ کچا اخلاص و ایمان تھا اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ یہ مولوی صاحب کا احسان ہے کہ ہم نے خدا کے مسیح کو پہچان لیا.لیکن اب تو میرے دل میں خدا کے رسول کی اس قدر محبت ہے کہ خواہ کوئی پھر جائے میں تو آپ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عصر کے بعد بہت دوستوں کے ساتھ ان کا باہر میدان میں جنازہ پڑھا اور قادیان کے شمال مشرقی جانب کے قبرستان میں سپرد خاک کی گئیں.اسی رات حضور نے دربار شام میں ان کا ذکر کیا اور فرمایا.وہ مجھے ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ میرا جنازہ آپ پڑھا ئیں اور میں نے دل میں پختہ وعدہ کیا ہوا تھا کہ کیساہی بارش یا آندھی وغیرہ کا وقت ہو میں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.آج اللہ تعالٰی نے ایسا عمدہ موقعہ دیا.کہ طبیعت بھی درست تھی اور وقت بھی صاف میسر آیا اور میں نے خود جنازہ پڑھایا." میاں عبد السلام صاحب کی ولادت میاں عبد القیوم صاحب کی وفات پر نادان مخالفوں نے بہت شور اٹھایا تھا سو اللہ تعالی نے ان کی خوشیوں کو پامال کرنے کے لئے ۲۵/ دسمبر ۱۹۰۵ء کو ایک اور فرزند عطا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کثیر خدام کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر پڑھنے کے لئے بیٹھے تھے کہ آپ کو یہ خوش خبری ملی آپ نے اس مولود مسعود کے لئے دعا کی اور عبد السلام نام رکھا.2 انجمن کار پرداز مصالح قبرستان حضرت اقدس نے اللہ تعالی کی بشارت اور حکم کے تحت دسمبر ۱۹۰۵ ء میں بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھی اور اس مقبرہ کے آمد و خرچ کے لئے ایک انجمن کار پرداز مصالح قبرستان بھی بنائی.اور حضرت مولوی صاحب کو اس کے چندوں کا امین مقرر فرمایا.چنانچہ "الوصیت " میں اس کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ

Page 194

تاریخ احمدیت جلد ۳ 169 آیا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مسارف کے لئے چندہ داخل کرے...بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہیئے.اوائل فروری ۱۹۰۶ء میں انجمن کار پرداز مصالح صد رانجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ قبرستان اور دوسرے شعبوں کو مدغم کر کے صدر انجمن احمدیه " واحد تنظیمی ادارہ معرض وجود میں آیا.تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولوی صاحب ہی کو اس کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا.A اور ارشاد فرمایا کہ ”مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن میں سورائے کے برابر سمجھنی چاہئے.۸۵۱ دینیات کا پہلا رسالہ لڑکوں اور لڑکیوں کو مسائل نماز سے عام فہم الفاظ میں واقف کرنے کے لئے آپ نے جنوری ۱۹۰۶ء میں ”دینیات کا پہلا رسالہ " شائع فرمایا جو بہت مقبول ہوا.اور اس سال اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے (جو اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے ڈاکٹر عبد الحکیم مرتد کے نام خط را برید که نجات کا دارومدار صرف ایمان توحید و قیامت پر ہے.جماعت سے خارج کئے جاچکے تھے) آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس کے جواب میں آپ نے ایک مفصل مکتوب اس کے نام بھجوایا جس میں اس کے عقائد فاسدہ کی خوب قلعی کھولی اور لکھا." آپ نے تیرہ کروڑ مسلمانوں پر رحم فرمایا.اور ذکر کیا ہے کہ تیرہ سو سال میں یہ تیرہ کروڑ مسلمان تیار ہوئے ہیں.سب کو نجات حاصل کرنا چاہئے....دوارب اللہ کے بندے اس وقت موجود ہیں.تیرہ کرو ڑ اگر محمد رسول اللہ ال کے باعث تیار ہوئے ہیں تو دوارب اللہ کی مخلوق اور ڈارون کے طریق سے لاکھوں برس اور معلوم نہیں کہ کب سے وہ تیار ہوئے ہیں ان سب نے اگر نجات نہ پائی تو تیرہ کر در چیز ہی کیا ہے.اور ایک آیت ما یو من اكثر هم بالله الا وهم مشركون قرآن میں موجود ہے....تیرہ کروڑ مسلمانوں میں سے اس آیت کے بموجب اکثر مشرک ہوں گے اور مشرک نجات نہیں پاسکتا.پھر یہ تیرہ سو سال میں تیار ہوئے اور ان میں سے اکثر مشرک نکلے اور مشرک کو نجات نہیں.آخر میں اسے نصیحت کی کہ.اگر امام صاحب کے حضور شوخی کرنے سے پہلے مجھ سے براہ راست آپ خط و کتاب کرتے تو مجھے بہت پیارے الفاظ بولنے کا موقعہ ملتا.مگر محبوب پر سخت کلامی کو ایک محب فطر نا پسند نہیں کر سکتا اور وہ معذور بھی ہے." Ae

Page 195

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 170 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ۲۷ / اکتوبر ۱۹۰۶ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا خطبہ نکاح آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح حضور کی موجودگی میں پڑھا.اور حقائق و معارف سے لبریز خطبہ دیا فرمایا.”ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا ہے.اور بث منهما رجالا کثیرا کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جنکے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں.کیونکہ اس کی اولاد (میں) اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس کے مکالمات سے مشرف ہوں گے.زبان پر تصرف الہی سے کلمات حدیث جاری ہونا نومبر ۱۹۰۶ء کی بات ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ رہائیکورٹ نے عرض کیا کہ حضور ! سعد اللہ لدھیانوی کے ابتر رہنے والے الہام کی اشاعت نہ کی جائے مگر حضور نے الہام الہی کے چھپانے سے صاف انکار فرما دیا اور زور دار لفظوں میں کہا کہ یہ پیش گوئی پوری ہو کے رہے گی اور فتح ہماری ہو گی.اس مجلس میں حضرت مولوی صاحب بھی تشریف فرما تھا کہ یکا یک آپ کی زبان مبارک پر حدیث رب اشعث اغبر جاری ہو گئی.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں.فسمع كلا مى بعض زبدة المخلصين - الفاضل الجليل فى علم الدين اعنى محبنا المولوى الحكيم نور الدين - فجرى على لسانه حديث رب اشعث أغبرر اطمئن القلوب بقولي و قوله " ترجمہ.جو نمی میری یہ بات میرے مخلص ترین دوست اور علوم دینیہ میں فاضل جلیل مولوی حکیم نور الدین صاحب نے سنی تو آپ کی زبان پر حدیث رب اشعث اغبر الخ جاری ہو گئی اس طرح میری اور ان کی بات سے سب کے دل مطمئن ہو گئے.اور عجیب بات یہ ہے کہ یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوئے چنانچہ اس الہام پر تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ ۴/ جنوری کی شب کو لدھیانہ سے تار آگیا کہ سعد اللہ ابتری کی حالت میں فوت ہو گیا ہے.مبادی الصرف کی تالیف و اشاعت اسی سال آپ نے صرف کے ابتدائی قواعد " مبادی العرف" کے نام سے شائع فرمائے.اگلے

Page 196

تاریخ احمد بیت جلد ۳ 171 آغاز اجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک سال ۱۹۰۷ ء میں آپ نے اس میں نحوی قواعد کا اضافہ کر کے شائع فرمایا.اور اس کا نام مبادی الصرف مو النحور کھا گیا.حضرت مسیح موعود کی ہدایت ۱۹۰۷ء کے اوائل کی بات ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر قارئین کے اشتیاق کے پیش نظر اپنے اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی صاحب اور سلف صالحین کے فرمودات کی روشنی میں ایک سلسلہ تفسیر شروع کرنا چاہتے تھے.چنانچہ انہوں نے یہ معالمہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں رکھا تو حضور نے تحریر فرمایا.السلام علیکم بہت بہتر ہے اس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے مگر ضروری ہے کہ مولوی صاحب کو دکھلا لیا کریں تاکہ غلطی نہ ہو جاوے.والسلام مرزا غلام احمد " جلسہ عید الاذہان کی صدارت قادیان میں احمدی نوجوانوں کی طرف سے ان دنوں جس قدر مجالس یا تنظیمیں قائم ہو ئیں.انجمن ہمدرد اسلام ، مجمع الاخوان ، شمعید الا زبان وغیرہ ان سب میں آپ کی تقاریر ہوتی تھیں.خصوصاً آخر الذکر مجلس سے آپ کو بڑی دلچسپی تھی کیونکہ اس کے صدر آپ کے محبوب آقا کے جگر گوشہ...سیدنا محمود ایدہ اللہ الودود بنصرہ العزیز تھے.عبد الکریم صاحب حیدر آبادی کے لئے اجتمائی دعا عبدالکریم صاحب حیدر آبادی میں (جن کو سنگ دیوانہ نے کاٹ لیا تھا اور جو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معجزانہ دعا سے صحت یاب ہوئے اور عرصہ تک زندہ رہے) جب بیماری کے آثار ظاہر ہو گئے تو حضرت مسیح موعود نے کسی طالب علم کے ہاتھ مولوی صاحب کو دوا بھیجی اور کہلا بھیجا کہ یہ اسے پلائی جائے.حضرت مولوی صاحب اس وقت مسجد اقصیٰ میں درس قرآن دے رہے تھے.دوران درس ہی آپ نے حاضرین سے فرمایا.کہ دیکھو خدا کے مامور میں کس قدر خلقت اللہ پر شفقت ہے.پھر فرمایا مجھے اس بچے کے لئے سخت اضطراب ہے ایسا درد ہے کہ میں تم کو سبق نہیں پڑھا سکتا.اس کے بعد آپ نے درد دل کے ساتھ اس طالب علم کے لئے اجتماعی دعا کرائی.ترجمہ قرآن کے پہلے پارہ کی اشاعت حضرت مولوی صاحب کے قسم کا ترجمہ قرآن اور حضرت مسیح موعود کا مکتوب جس کی قوم کو مدت سے انتظار تھی.اس کا پہلا پاره شیخ عبدالرشید صاحب مالک مطبع احمدی

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 172 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک صدر بازار میرٹھ نے اپریل ۱۹۰۷ ء میں شائع کر دیا.اس پارہ کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو خط لکھا.- "السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.چونکہ عمر اور زندگی کا اعتبار نہیں اور در حقیقت یہ ضرورت ہے اگر آپ سے انجام پذیر ہو تو بہت ثواب کا کام ہے.بلکہ میرے نزدیک ایسی خدمت سے عمر بڑھتی ہے جب حدیث کے خادموں کی طول عمر کی نسبت بہت کچھ ثابت ہوتا ہے.تو پھر قرآن شریف کے خادم کے بارے میں قوی یقین ہے کہ خدا اس کی عمر میں برکت دیگا.جون ۱۹۰۵ء کی طرح اگست ۱۹۰۷ ء میں بھی آپ تشویشناک حد تک بیمار ہو گئے مگر شدید علالت اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے آپ کو نئی زندگی بخشی اور ۲۳ / اگست ۱۹۰۷ء کو غسل صحت کر کے جمعہ بھی پڑھایا اور فرمایا کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا.اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مرجاؤں گا.ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بیمار پرسی کی.تمام رات جاگتے تھے ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستار شاہ صاحب ہیں عضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خدا تعالیٰ کی غفور رحیمیاں ہیں ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی اور یاد رکھو کہ اگر میں مرجاتا تو اس ایمان پر مرتا.کہ اللہ واحد لا شریک ہے اپنی ذات و صفات میں اور حضرت محمد ال اس کے بچے رسول اور خاتم الانبیاء اور فخر رسل ہیں اور یہ بھی میرا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب مہدی ہیں صیح ہیں اور محمد رسول اللہ الل کے بچے غلام میں بڑے راستباز اور سچے ہیں گو مجھ سے ایسی خدمت ادا نہیں ہوئی جیسی کہ چاہئے تھی اور ذرہ بھی ادا نہیں ہوئی.میں آج اپنی زندگی کا ایک نیا دن سمجھتا ہوں گو تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے.مگر اب میں ایک نیا انسان ہوں اور ایک نئی مخلوق ہوں." / ۳۰ +1 اگست میاں مبارک احمد صاحب اور میاں عبدالحی صاحب کے خطبہ نکاح ۱۹۰۷ء کو آپ نے حضور کے صاحبزادہ حضرت میاں مبارک احمد صاحب اور اپنے فرزند میاں عبدالحی صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا.صاحبزادہ مرزا ا مبارک احمد صاحب کا نکاح حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی صاحبزادی مریم بیگم صاحبہ سے اور میاں عبدالحی صاحب کا نکاح حضرت پیر منظور محمد صاحب کی صاحبزادی حامدہ صاحبہ سے ہوا تھا.آریہ سماج وچھو والی لاہور نے دسمبر۷ ۱۹۰ ء کے پہلے جلسہ آریہ سماج لاہور میں شرکت ہفتہ میں مذاہب کانفرنس کے نام سے ایک جلسہ کیا

Page 198

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 173 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک جس میں حضور بھی مدعو تھے.حضور نے ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب کے سپرد فرمایا کہ وہ جلسہ میں سنادیں نیز فرمایا کہ اس وقت اگر مولوی عبد الکریم صاحب بھی زندہ ہوتے تو بھی میں مولوی صاحب ہی کو ترجیح دیتا.اور یہ بھی فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مولوی صاحب ہی کے شاگرد اور خوشہ چین تھے ".چنانچہ آپ نے پوری بلند آواز سے یہ لیکچر پڑھا.لیکچر کا ایک ایک لفظ دلوں پر اثر کر تا تھا اور جب آپ قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھتے تو مجلس میں وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی چنانچہ ایک معزز غیر احمدی دوست نے صاف کہا کہ مولوی صاحب کی تلاوت قرآن مجید تو سخت سے سخت دلوں کو بھی ہلا دینے والی ہے.درود شریف کے فلسفہ پر لطیف روشنی قیام لاہور کے دنوں میں کسی شخص نے سوال کیا کہ تکمیل دین کے بعد تم لوگ درود شریف میں کیا مانگتے ہو.اور جو مانگتے ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کم درجہ پر کیوں مانگتے ہو.(کما صلیت علی ابراهیم اس سوال کا آپ نے جو لطیف اور مسکت اور مدلل جواب دیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ یاد رکھو ایک خدا کا فضل ہوتا ہے اور ایک تکمیل دین ہوتی ہے خدا کے فضل محدود نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالی خود غیر محدود نہیں.درود شریف پڑھنے کے اور بھی کئی فوائد ہیں.خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا نقشہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا کہ وہ ایسی بلند شان والی قادر و توانا ہستی ہے کہ سب انبیاء و ر سول ہر وقت اس کے محتاج ہیں.خدا تعالی کا غناظا ہر ہو گا.کہ سارا جہان اس سے سوال کرتا رہے مگر اس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے.اپنے نبی کریم ﷺ کی نسبت یہ اعتقاد ہو جائے گا کہ وہ بھی خدا کے ہر آن محتاج ہیں خدائی کے مرتبہ پر پہنچے اور نہ پہنچیں گے.بلکہ عبد کے عبدہی رہیں گے.مگر خدا تعالی کا فیضان ان پر ہمیشہ ہو تا رہتا ہے اور ہو تا رہے گا.ود شریف پڑھنے والا اس ذریعہ سے آنحضرت اللہ کے ساتھ اس ترقی میں شریک رہے وروو گا.سوال کے دوسرے حصہ کا جواب آپ نے مندرجہ ذیل وجد آفرین الفاظ میں دیا.”ہمارے نبی کریم ﷺ حضرت ابراہیم کی آل میں بھی داخل ہیں اور صلوۃ بھیجنے والا چاہتا ہے کہ جس قدر برکات اور انعامات الہیہ حضرت ابراہیم اور اس کی اولاد پر ہوئے ہیں ان سب کا مجموعہ

Page 199

تاریخ احمدیت جلد ۳ 174 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ہمارے نبی کریم ﷺ کو عطا ہو اس سے یہ تو ثابت نہیں ہو سکتا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ حضرت ابراہیم سے کمتر درجہ پر ہیں.بلکہ اس سے تو ان کے اعلیٰ مدارج کا پتہ لگتا ہے.چونکہ درود شریف پڑھنا ایک نیک کام ہے اور یہ ایک حکم ہے کہ جو کوئی نیکی سکھاتا ہے.تو اس کو بھی اس قدر ثواب پہنچا ہے.جس قدر کہ سیکھ کر عمل کرنے والے کو اس لئے دنیا میں جس قدر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں.اور عبادتیں کرتے ہیں ان سب کا ثواب ہمارے نبی کریم ﷺ کو بھی پہنچتا ہے.اور ہر وقت پہنچتا ہے.لا کیونکہ زمین گول ہے اگر ایک جگہ فجر ہے تو دوسری جگہ عشاء ہے ایک جگہ عشاء ہے تو دوسری جگہ شام ہے ایسے ہی اگر ایک جگہ ظہر کا وقت ہے تو دوسری جگہ عصر کا ہو گا.غرض ہر گھڑی اور ہر وقت ہمارے نبی کریم ﷺ کو ثواب پہنچتا رہتا ہے.دنیا میں کرو ڈور کروڈ رکوع اور سجدہ کرتے اور درود پڑھتے اور دوسری دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اس کے علاوہ دوسرے احکام پر چلتے روزے رکھتے زکو تیں ادا کرتے ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ قرآن میں محمد رسول اللہ الله کو بھی ان عبادات کا ثواب پہنچتا رہتا ہے کیونکہ اسی نے تو یہ باتیں سکھائی ہیں.کہ تم لوگ نمازیں پڑھو.زکو تیں دو.اور مجھ پر درود بھیجو.اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی روح جو دعائیں مانگتی ہوگی وہ ان کے علاوہ ہیں.اب تم سوچ سکتے ہو کہ جب سے مسلمان شروع ہوئے اور جب تک رہیں گے ان سب کی عبادتیں ہمارے نبی کریم ﷺ کے نامہ اعمال میں بھی ہونی چاہئیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ وہ دنیا کی کل مخلوقات کا سردار ہے کیونکہ اس کے اعمال تمام دنیا سے بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ جو کوئی مسلمان نیکی کرے گا..وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نامہ اعمال میں ضرور لکھی جائے گی.اور اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ تمام رسولوں نبیوں اور اولیاؤں کا بھی سردار ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر رسول گذرے ہیں ان کی امتیں ان کے لئے دعائیں نہیں کرتیں.مگر ہمارے نبی کریم ا کے لئے ان کی امت دن رات دعائیں مانگتی رہتی ہے.اور ہمارے نبی کریم ﷺ کا تمام نبیوں اور تمام مخلوق سے بڑھ کر ہونے کا یہ ایک ثبوت ہے." ہے.۸ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مولوی صاحب کے ہاں ولادت میاں عبد الوہاب الوہاب صاحب ایک اور بچہ پیدا ہوا جس کا نام حضرت اقدس مسیح موعود نے عبد الوہاب رکھا اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص موہت ہے.اخبار الحکم نے یہ خوشی کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا.”حضرت حکیم الامت وقف علہی کے ایک خاص اور زندہ نمونہ ہیں.میرے کانوں میں وہ الفاظ اب تک گونجتے ہیں جو ایک اشتہاری طبیب کے اولاد نرینہ کے لئے علاج کرنے کی تحریک پر آپ نے فرمائے تھے.

Page 200

اریخ احمدیت.جلد ۳ " 175 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک مجھے دیندار اور سعادت مند اولاد کی ضرورت ہے.مجرد اولاد کی حاجت نہیں." مارچ ۱۹۰۸ء کے دو سرے ہفتہ میں آپ نے احباب جماعت کے سامنے مجمع الاخوان کا قیام ایک اہم دینی تحریک رکھی جسکا حل یہ تھاکہ کوئی ایسا امتیازی نشان مقر کیا جائے کہ ۴ سب تعاونوا علی البر کا مصداق بن کر خدائی فضلوں کے جذب و نزول کا موجب ہوں.کوئی ایسی تدبیر نکل آوے کہ عربی زبان احمدیوں میں خصوصاً اور مسلمانوں میں عموماً رائج ہو جاوے کہ یہی ذریعہ مسلمانان عالم کے عالمگیر اتحاد کا ہے.اور اسی پر قرآن و حدیث کا فہم و اور اک منحصر ہے.جہاں جہاں احباب میں باہمی رنجش و کدورت دیکھیں وہاں یہ اصحاب صلح کرا دیں.ہر عسر دیسر میں باہمی مشوروں اور دعاؤں سے کام لیں.تائید اسلام میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کا سلسلہ جاری کیا جائے.آپ نے اس سلسلہ میں اسکندریہ اور مصر تک خطوط لکھے کہ کس طرح عربی تعلیم اور تقریر و تحریر میں ترقی ہو سکتی ہے.ایه تحریک " مجمع الاخوان " کی شکل میں قائم ہو گئی.خطبہ جمعہ میں آیت استخلاف کا ذکر ۱۳ مارچ ۱۹۰۸ء کے خطبہ جمعہ کے دوران میں آپ نے آیت استخلاف کا ذکر کر کے فرمایا.رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے دین کے بچے خادموں جو صحابہ اولیاء اصفیاء اتقیاء اور ابدال کے رنگ میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے بوجہ ان کے حسن خدمات کے جن کی وجہ سے انہوں نے بعد رسول اکرم ہم پر بہت بڑے بھاری احسانات اور انعامات کئے ان کے واسطے بھی دعا کرے.خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی مخالفت کرے گا.اور اس کو نظر عزت سے نہ دیکھے گا اور ان کے احکام اور فیصلوں کی پروا نہ کرے گا تو وہ فاسق ہو گا بلکہ وہاں تک جہاں تک تعظیم الہی اور تعظیم کتاب اللہ اور تعظیم رسول اللہ اجازت دیتی ہو اس گروہ کا ادب و عزت اور اس خیل پاک کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم قرآن شریف سے ثابت ہے ".الحکم ۳۰ مارچ ۱۹۰۸ء) کے ذریعہ آپ نے قرآن مجید قرآن سیکھنے کی ایک مجرب راہ سیکھنے کا ایک ایسا لطیف طریق بنایا جو آپ کا پوری عمر کا تجربہ شدہ تھا اس طریق کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن مجید کے پانچ دور کئے جائیں.پہلے دور میں انسان ایک مترجم قرآن مجید کا تخلیہ میں مطالعہ کرے اس کے لفظوں پر غور کرے اور

Page 201

تاریخ احمدیت جلد ۳ 176 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک سوچے کہ جن لوگوں کے حالات کا ذکر ہے میں ان میں شامل ہوں؟ مجھ میں نیکوں کے خصائل ہیں یا بدوں کے.عذاب کی آیات پر پناہ مانگے اور آیات رحمت پر خوش ہو ہر روز درود شریف دعا استغفار اور لاحول پڑھ کر شروع کرے اور ایک نوٹ بک میں مشکل مقامات نوٹ کرتا جائے دو سرے دور میں بیوی کو سامنے بٹھا کر سنادے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دنوں کے لئے نازل ہوا ہے.اس دور میں پہلی نوٹ بک کو بھی سامنے رکھے.مشکل مقامات حل ہو جائیں گے اور نئی مشکلات کے لئے الگ نوٹ بک بنائے.تیرے دور میں گھر کے بچوں، عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی شامل کرے مگردہ ایسے لوگ ہوں جو کوئی اعتراض نہ کریں پہلی دو نوٹ بکیں پیش نظر رکھ کر جو قابل حل آیات سامنے آئیں ان کو تیسری نوٹ بک میں درج کرے.چوتھا دور مسلمانوں کے مجمع میں شروع کرے اگر کسی اعتراض کا جواب نہ دے سکے تو وہ اپنی نوٹ بک میں لکھ لے.اور ان کے حل کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور درد دل سے دعا میں مصروف ہو جائے.پانچویں دور میں وہ بلا امتیاز مذہب وملت سب کے سامنے قرآن مجید سنائے اللہ تعالی کا خاص فضل اور فیضان اس کے شامل حال ہو گا اور ایک بہت بڑا حصہ قرآن شریف کا اسے سکھا دیا جائے گا اور بار یک دربار یک حقائق و معارف اور اسرار کلام ربانی اس پر کھولے جائیں گے.قادیان میں عہد مسیح موعود کا آخری خطبہ جمعہ ۲۴ / اپریل ۱۹۰۸ء کو آپ نے خطبہ جمعہ میں سورۃ فلق کی تفسیر فرمائی یہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس زمانہ کا آخری جمعہ تھا.احمد یہ د یہ بلڈنگس لاہور میں قیام اب ہم سیدنا و مرشد نا و امامنا حضرت مسیح موعود علیه الصلوۃ والسلام کے آخری سفر لاہور تک آپہنچے ہیں جو بالا خر خدائی مشیت کے مطابق سفر آخرت بھی ثابت ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان آخری ایام میں کس طرح دینی و تبلیغی جہاد کا سلسلہ جاری رکھا اس کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد سوم میں گذر چکی ہے.ہم اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہ سمجھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے لئے بھی یہ دن بڑی مصروفیت کے دن تھے آپ حضور کی مجلس سے بھی فیضاب ہوتے اور آنے والے احباب کو بھی شرف ملاقات بخشتے.آپ کا کھلا دربار جس میں علم الادیان اور علم الابدان کے موتی بکھرتے تھے ہر وقت کھلا رہتا تھا.احمدیہ

Page 202

تاریخ احمد بیت، جلد ۳ 177 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک بلڈ نگس کے میدان میں آپ نے سورۃ فاتحہ سے قرآن شریف کا درس شروع کر دیا تھا.جس میں بہت رونق ہوا کرتی تھی.پنج وقتہ نمازوں میں جو عزیز منزل میں ہوتی تھیں آپ ہی پیش امام ہوتے تھے.آپ نے طلبائے دینیات کو یہاں بلالیا تھا اور ان کی تعلیم باقاعدگی سے جاری رکھتے تھے.چنانچہ مولوی محمد جی صاحب فاضل کا بیان ہے کہ ۱۹۰۸ء میں لاہور میں آپ کے ہمراہ قریباً گیارہ طلبہ تھے جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے مقام پر جماعت ہوا کرتی تھی ظہر کی نماز کے وقت میں اور عبد الرحمان کا نمانی وہاں گئے فرمایا کیا کھانا کھا لیا ہے.میں نے عرض کی کھالیا ہے.پوچھا کہاں سے میں نے کہا انار کلی کی ایک دکان ہے.آپ نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کو بلا کر نقدی دی اور فرمایا کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دینا مجھ سے روپے لیتے رہنا کھانے کا انتظام کر دیں.محمد صادق نام ایک غیر احمدی طالب علم دیو بند سے آیا ہوا تھا.ایک دکاندار کے پاس اس کو لے گئے اور روٹی کا اچھا انتظام کرا دیا.لاہور میں ہندو و مسلمان اپنے اپنے مکانوں کو بابرکت بنانے کے لئے مولوی صاحب کو لے جایا کرتے تھے اور نقدی کی صورت میں نذریں پیش کرتے تھے.الله حضرت مسیح حضرت مسیح موعود کے آخری لمحات میں آپ کا صبر و استقلال موعود علیه السلام کی مقدس اور خدا نما زندگی کے آخری لمحات آپ کے لئے حد درجہ صبر آزما تھے اور آئندہ آنے والے خطرت و مشکلات کے تصور سے آپ کا دل لرزا در روح کانپ رہی تھی.مرض الموت کے آغاز میں حضور نے آپ کو بلوانے کا ارشاد فرمایا.آپ دوسرے مخلص احباب کے ساتھ حاضر ہو گئے.حضور نے فرمایا کہ " مجھے سخت دورہ اسمال کا ہو گیا ہے آپ کوئی تجویز کریں پھر ساتھ ہی فرمایا کہ حقیقت میں تو دوا آسمان پر ہے.آپ دعا بھی کریں اور دوا بھی " چنانچہ آپ نے بعض دوسرے احمدی ڈاکٹروں سے مشورہ کر کے علاج شروع کیا.مگر خدائی تقدیر میں اب اسلام کے اس فتح نصیب جرنیل کی واپسی کا وقت آن پہنچا تھا.کوئی دوا کار گر نہ ہوئی اور چودھویں صدی کا یہ روحانی چاند اس دنیا سے غروب ہو کر اگلے جہان میں طلوع ہو گیا.انا لله وانا اليه راجعون حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ " جس وقت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب اس کمرہ میں موجود نہیں تھے.جس میں آپ نے وفات پائی.جب حضرت مولوی صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ آئے اور حضرت صاحب کی پیشانی کو بوسہ دیا اور پھر جلدی اس کمرے سے باہر تشریف لے گئے.جب حضرت مولوی صاحب کا

Page 203

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 178 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک قدم دروازے سے باہر ہوا.اس وقت سید محمد احسن صاحب نے رقت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا.انت صدیقی حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.یہاں اس سوال کو رہنے دیں.قادیان جاکر فیصلہ ہو گا." مولوی سید محمد احسن صاحب کو یہ جواب دے کر آپ تشریف لائے تو کچھ وقت بعد جماعت کے دوسرے زخم خوردہ خدام نے بیعت کی درخواست کی مگر آپ نے اپنے پیارے آقا کی مفارقت کا بے پناہ غم اپنے سینہ میں چھپائے ہوئے بڑے صبر و تحمل سے اپنا پہلا جواب دہرا دیا.اور فرمایا اس کا فیصلہ یہاں نہیں قادیان جاکر ہو گا.چنانچہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا بیان ہے کہ " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت لوگوں کے ہوش و حواس پر اثر تھا اور جماعت احمدیہ کو بے انتہا صدمہ تھا لیکن جو شخص اس وقت صبر و وقار سے کام لے کر جماعت کی تسکین کا باعث تھا.وہ حضرت مولانا حافظ نور الدین اللہ تھے.حضرت مولوی محمد سعید صاحب حیدر آبادی ان دنوں لاہور میں موجود تھے انہوں نے نیز خاکسار اور مولوی حافظ غلام محمد صاحب نے حضرت موصوف کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ہم سے بیعت لیں.مگر آپ نے فرمایا جاؤ اپنا کام بدستور کرو.اور بیعت کا فیصلہ قادیان جاکر ہو گا چنانچہ قادیان اگر بیعت ہوئی اور حضرت مولانا بالاتفاق کل جماعت معہ اہل بیت کے اجماع سے خلیفہ المسیح اول منتخب ہوئے." 112

Page 204

تاریخ احمد بہت جلد ۳ 179 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ا -+ الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۹۱ - ۹۲.الحکم ۲۹/ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحه ۴ کالم حواشی باب۴ تفسیر کبیر جلد سوم صفحه ۱۴ دیباچه ترجمه قرآن مجید آپ نے ۱۹۰۴ء.۱۹۰۳ء میں چھ ماہ کے اندر ختم کیا اور ۱۹۰۹۶۹ء کے دوران بخاری شریف پڑھی پھر عربی کے کچھ رسائل پڑھے.حیات نور الدین صفحه ۱۵۴-۱۵۶ - ۳۱.اصحاب میں ان کا نام ۱۸۹ نمبر پر درج ہے جماعت میں جب امارت کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ بھیرہ کے سب سے پہلے مقرر ہوئے آپ نے موضع کوٹ احمدی والا ( نزد میانی) میں ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء کو بعد نماز فجر انتقال کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ان کا جنازہ غائب پڑھنے سے قبل فرمایا " محمد ونم صاحب مرحوم حضرت خلیفہ اول کے شاگردوں میں سے تھے نہایت خاموش طبیعت اور مخلص احمد کی تھے اپنے علاقہ میں بہت ذی عزت اور صاحب وجاہت تھے بھیرہ اور اس کے علاقہ کی جماعت کے امیر تھے.انہوں نے گذشتہ چودہ پندرہ سالوں میں احمدیت میں اچھی ترقی کرتی تھی." مرحوم کے اکلوتے فرزند مخدوم محمد ایوب صاحب بی.اے (امیر جماعت احمدیہ میانی) صحیح معنوں میں آپ کے جانشین اور یاد گار ہیں اور یہ خط بھی انہیں سے ملا ہے جزاہ اللہ (حالات کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۸ / جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۹۷) -4 الحکم ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۵.کالم ۳.حیات احمد چهارم صفحه ۳۷۱ ۹ کلام امیر صفحہ ۱۹.۲۰.کرامات الصادقین صفحه الفح کرامات الصادقین صفحہ الف - ج - تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۶۸-۷۰ حیات نور الدین صفحه ۱۵۶- ذکر حبیب از حضرت مفتی صاحب صفحه ۲۲ ۲۳ ۱۴ مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۶۶ ۱۶۷.۱۵- حیات نور الدین صفحه ۱۵۶ حیات احمد جلد چہارم صفی ۱۱۹.۱۳۰ حاشیہ.۱۷ احکم ۲۷ / مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۸-۱۱.(ملخص) ۱۸۹۵-۱ء میں آپ نے ام الالسنہ کی تحقیق میں بھی گرانقدر حصہ لیا.(تاریخ احمدیت حصہ دوم طبع اول صفحه ۳۵۵.طبع دوم ۳۳۸) اسی طرح ریواڑی کے رسالہ معلم الصحت ( اپریل ۱۸۹۵ء صفحہ ۵۳) نے آپ کا ایک طبی مراسلہ شکریہ کے ساتھ شائع کیا.سفر ڈیرہ بابا نانک میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ( تاریخ احمدیت جلد دوم طبع اول صفحه ۳۶۸ طبع دوم صفحه ۳۵۲) 19 یہ واقعہ یقینا مارچ اپریل ۱۸۹۶ء کے بعد کا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نے آپ سے بوقت ملاقات امیر کابل کے نام جس مکتوب کا تذکرہ فرمایا ہے وہ مارچ اپریل ۱۸۹۶ء میں لکھا گیا ہے (مفصل ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت حصہ دوم صفحہ ۳۶۷) حضرت مفتی صاحب اس سفر کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں "ریاست بہاولپور کے نواب صاحب نے ایک دفعہ آپ کو اپنے علاج کے واسطے بلوایا اور حضرت مسیح موعود سے اس غرض کے واسطے نواب صاحب کے آدمیوں نے اجازت حاصل کی کچھ

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 180 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک دن نواب صاحب کا علاج کر کے آپ واپس آگئے." (حیات نور الدین صفحہ ۱۵۶) الفضل ۷ ار ا گست ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ کالم ۳.بد ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ و صفحه ۳ کالم ۳.۲۲ (مکتوبات رقم فرموده حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه بنام مولف بل ۲۴۱/ مارچ ۱۹۷۳ء) -۲۳ اصحاب احمد دوم صفحہ ۹۸ - ۰۳ او حیات جاودانی - الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۲ کالم ۳.۲۵ مرقاة الیقین صفحه ۲۴۱- ۲۴۲ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۳۵۷-۳۵۸ ۲۷ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۳۵۷-۳۵۸ ماخوذ از مکتوب حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه ۲۴ / مارچ ۱۹۹۳ ۶ بنام مولف ۲۸ محمد عبد الله صاحب جلد ساز مالیر کو عمومی کا بیان ہے کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مالیر کوٹلہ میں ایک " انجمن مصلح الاخوان" قائم کر رکھی تھی جس کی ایک رپورٹ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کا ذکر بھی آتا ہے.مگر افسوس کہ مولف کو ربوہ اور قادیان کی لائبریریوں سے یہ رو کر او مل نہیں سکی.مؤلف اصحاب احمد جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۳۸-۱۴۹ پر اس انجمن کا ذکر کیا ہے کہ یہ ۱۸۹۶ء میں بنی تھی.۲۹ رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ ۵۶ ۳۰ رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحه ۲۵۷-۲۵۸ رپورٹ.انجمن حمایت اسلام ۱۸۹۷ء صفحہ ۲.۳۲ کتاب البریه صفحه ۱۳۲د صفحه ۱۵۴ - صفحه ۱۲۰ - ۳۳- دو سر جنگ مقدس از شیخ یعقوب علی صاحب تراب کتاب البریہ میں سمو ۳۱/ اگست چھپی ہے.یہ کتاب قادیان کی لائبریری میں موجود ہے.۳۴- روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحه ۱۷۹-۸۰ و بد را / اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم.۳۵ روئید او جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۷۸-۱۷۹.۳۶ ۱۸۹۷ء کے واقعات میں سے دو یہ ہیں (1) پنڈت لیکھرام کے قتل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ آپ کی خانہ تلاشی بھی ہوئی ( تاریخ احمدیت جلد دوم طبع اول صفحہ ۴۳۱ و طبع دوم صفحه ۴۲۹)(۲) جلسه احباب" کے موقعہ پر آپ نے تقریر بھی فرمائی ( تاریخ احمدیت جلد دوم طبع اول صفحه ۴۵۱- طبع دوم صفحه ۴۴۸-۴۴۹ ۳۷- الحکم / جولائی ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۳۹ میں مفصل تقریر طبع شدہ موجود ہے.۳۸- ۱۸۹۸ء کے بعض دیگر واقعات (۱) تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اجراء اور تکمیل میں شاندار جد و جہد کی ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه ۷۵ (۲) دواتریاق الہی کے دو ہزار روپیہ کے یا قوت رمانی دیئے.( تاریخ احمدیت صفحہ ۱۲ (۳) عورتوں میں ایک مفصل وعظ کیا.(الحکم ۶ - ۱۳ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۸ - ۱۰(۴) سردار کرتار سنگھ مصاحب اعلیٰ ریاست پونچھ اپنے علاج کے لئے آپ کی خدمت میں قادیان آئے.(الحکم ۲۰-۲۷/ اگست ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۳ کالم ۳) ۳۹ حیات احمد جلد پنجم صفحه ۷۸ - ۷۹ دا ۸ و ۸۲ ۴۰ ضمیمہ الحکم ۷ از فروری ۱۸۹۹ء.ام رساله تفسیر سوره جمعه ۴۸-۴۹.- اخبار سراج الاخبار / جون ۱۸۹۴ء صفحہ کے کالم ۲.اصل اخبار خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے ان صاحب کا یہ بھی عقیدہ تھا که امام مهدی حکومت انگریزی ایسی عادل اور امن گستر حکومت میں نہیں آسکتا.(ایضا) ۴۳- حیات احمد جلد پنجم صفحه ۱۶۶ ۱۶۷ -۴۴ نصیبین آجکل ترکی کی حدود میں واقع ہے.یہ شہر ید ا قدیمی شہر ہے سورہ جن میں جن لوگوں کی آنحضرت ا سے خفیہ ملاقات

Page 206

تاریخ احمدیت جلد ۳ 181 آغا ز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک کا اشارہ پایا جاتا ہے.وہ تھیسین ہی کے یہودی باشندے تھے.۴۵ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۷۲.۴۶ حیات احمد جلد پنجم صفحہ ۱۴۲ - ۱۴۹ (الحکم اگست تا اکتوبر ۱۹۰۳ء میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کی جلسہ الوداع کی تقریریں درج ہیں) ۴۷ ۱۸۹۹ء کے دیگر واقعات (1) وسط ۱۸۹۹ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کا سب سے پہلا فوٹو لیا گیا.(۳) اس سال تین ہزار کے لگ بھگ خطوط آپ کی خدمت میں پہنچے ان میں سے ایک کثیر تعداد سوالات پر مشتمل تھی جن کے جواب آپ نے بذریعہ الحکم یا بذریعہ خط دیئے (الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۶ کالم ۲.الحکم ۲۴/ مارچ ۱۹۰۰ء صفحہ ۷.۴۹- الحکم ۳۱ / مارچ ۱۹۰۰ء صفحہ ۴ کالم ۲.٠٥٠ ۵۱ الحكم 10 جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ ۷ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۵-۳۱/ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۲.ال الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۶ کالم ۳.۵۲ - ۱۹۰۰ ء کے بعض دیگر واقعات (1) خطبہ الہامیہ قلمبند فرمایا.(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۹۲)(۳) پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی سے خط و کتاب ہوئی ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۳۴- ۱۳۵ (۳) منارۃ المسیح کی بنیاد کے لئے اپنے گھر کی پیشکش کی.تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۳۷) منارہ کے لئے آپ نے ایک سو روپیہ چندہ بھی دیا تھا.(تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۵۹)(۳) جمع الصلوة پر حضرت مسیح موعود کی تقریر پر آپ نے جوش ایمان سے فرمایار ضیت بالله ربا و بک مسیحا و مهدیا ( تاریخ احمد بیت حصہ سوم صفحہ ۱۷۹-۱۸۰) ۵۳ - ۱۹۰۱ء کے بعض دیگر واقعات (1) انجمن اشاعت اسلام کے پریذیڈنت مقرر ہوئے.اور اس کام میں سب سے بڑھ کر اعانت فرمائی ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه ۱۷۱ ۱۷۲) (۲) سفر گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمرکاب ہوئے ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه (۸۳) ۵۴.۱۹۰۲ء میں آپ نے صاحبزادگان حضرت مسیح موعود کے نکاح پڑھے اور برات میں شمولیت فرمائی ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ (۲۳۱-۲۲۹ الحکم ۱۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ کالم ۳.یہ واقعہ معلوم نہیں کسی من کا ہے مگر چونکہ اس کی اپریل ۱۹۰۳ء میں اشاعت ہوئی ہے.اس لئے یہ اسی سن کے واقعات میں شامل کر دیا گیا ہے.۵۶ الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ء بدر ۲/ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۹۳ کالم.۵۷- بدر ۱۰/ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۷ کالم ۲-۳ الحکم ۱۰/ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ کالم ۳-۴ ۵۸ خان صاحب کی فدائیت کا یہ مقام تھا کہ بعض اوقات حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی ان کے اخلاص پر رشک کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بشیر اول کی وفات پر جو شخص ہم سب سے آگے نکل گیا وہ محمد خاں تھا ( ن ) (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۳۹) ۵۹ - البدر ۹ / اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۰۲ کالم ۲.مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۱ دسمبر ۱۹۱۸ء انید ر۲۹/ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۱.۶۲ - الحکم ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ کالم ۲.حیات نور الدین صفحه ۱۵۵- ذکر حبیب صفحه ۱۶۷ از حضرت مفتی محمد صادق صاحب الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۶ کالم از مفتی صاحب کی روایت ہے کہ یہ مسودہ شام کی مجلس میں سنایا جاتا تھا مگر حضرت سیدنا محمود خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے بیان کے جلس میں تایا جا مطابق یہ سیر میں سنائی جاتی تھی.الفضل ۱۴ فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۲ کالم ۲ - ۳ الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ کالم ۱.

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ۱۵ مرقاة الیقین " صفحه ۱۵۴ ۲ - الحکم ۱۴/ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۲ کالم.الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم ۴.182 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ۶۸ ۱۹۰۳ء میں تعلیم الاسلام کالج کی افتتاحی تقریب پر آپ نے لیکچر دیا اور پروفیسر دینیات کے فرائض سرانجام دیتے رہے.( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۳۲۲-۳۲۳) البدر ۱۶ / اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۲ کالم ۳ و البدر ۲۴ / اگست ۱۹۰۴ء صفحه ا کالم ۱-۳ ۷ - البدریکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲-۴ اے.البدر یکم ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ کالم ۳.۷۲ - الحکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۹ ۷۳ البدر ۱۸ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۲ صفحه ۱۲ کالم ۲.۷۴ اسی سال (۱۹۰۴ ء میں) آپ نے تصاویر کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصلاح کی طرف توجہ دی (البدر یکم و ۸ نومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۹ کالم ۴۳ ۷۵ - الحکم ۱۷/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۴ ۷۶.بدر ۱۵ جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۱۳ مفصل وصیت کے لئے ملاحظہ ہو.الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ے.بدرد سمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴.کلام امیرص (۱۵) مولانا محمد جی صاحب فاضل کے بیان کے مطابق آپ کی وصیت رسالہ البیان " نے بھی شائع کی تھی اس کے ایڈیٹر سے حضرت مولوی صاحب کی خط و کتابت تھی اور وہ قادیان بھی آئے تھے.اور اچھا اثر لیکر گئے تھے.۷۷.بدر ۱۲/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ سے کالم ۳.۷۸ الحام ۳۰/ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۷-۸-۱۰- ۹ - ۳۰ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ کالم ۳.۴.۸۰ اخبار بد ر۲۷/ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ سے کالم ۲.بدر ۵ / جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم ۳.-۸۲- صاجزادہ عبد السلام صاحب نے ۲۴-۲۵ مارچ ۱۹۵۶ء کو انتقال کیا.اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئے.۸۳- رساله الوصیت صفحه ۱۵ شائع کردہ انجمن اشاعت اسلام لاہور.۸۴- ۱۹۰۵ء کے بعض دیگر واقعات (1) مدرسہ تعلیم الاسلام کے قیام و بقا کی جد وجہد فرمائی ( تاریخ احمد بہت جلد سوم صفحہ ۴۲۷)(۲) - اڑھائی ماہ تک حضور کے ساتھ باغ میں قیام پذیر رہے.تاریخ احمدیت حصہ سوم ۳۶۹-۴۰۵-۴۱۱) (۳) آپ کی دینیات کلاس جاری رہی آپ کے بعض طلباء کے نام کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۴۲۷ حاشیہ (۴) طبیب حاذق میں آپ کے مجربات کی اشاعت شروع ہوئی جن کو اصلاح و ترمیم کے بعد بیاض نور الدین کی شکل میں شائع کیا گیا.قرشی محمد حسن شفاء الملک کی بیاض خاص اس کے علاوہ ہے.(۵) حضرت اقدس کے تار پر سفر د ہلی اختیار فرمایا.( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۴۳۷) یہاں اس غلطی کی تصحیح ضروری ہے.کہ حضور نے اپنی نقرس کی تکلیف کے لئے نہیں بلکہ حضرت میرناصر نواب صاحب کے علاج کے لئے بلوایا تھا بد را ۳/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴ کالم ۳- بدر ۳/ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ کالم ۲-۳) ۸۵- بدر ۲۳/ فرور ی ۱۹۰۶ء صفحہ ۸.حیات نور الدین صفحه ۱۵۵ ۸۷ - الحکم ۳۱ / جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳-۶ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.به خط " الذکر الحکیم میں شائع شدہ ہے.۸۹ - الحکم ۳۱ / مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰۹ ۹۰ الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ.

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ۹- الحکم ۲۴/ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۷۶ 183 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ۹ حقیقته الوحی (ضمیمہ) الاستفتاء صفحہ ۳۶.الحکم جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵ کالم ۲.۹۳- الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.۱۳ بدر ۲/ اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۵-۶ -۹۵- بدر ۲۷ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ کالم ۲.۳.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول کار تم فرمودہ ایک کارڈ کا عکس احکم ۱۴/۷ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ہم پر ملاحظہ ہو.۹۶ - ۱۹۰۶ء کے بعض دیگر واقعات.(۱) حضرت سید محمد اسحاق صاحب کا نکاح پڑھا ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه ۴۶۰)(۲) رساله تعلیم السلام " میں آپ کا درس شائع ہونا شروع ہو گیا.تاریخ احمدیت جلد سوئم صفحہ ۳۸۱) ۹۷- الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ا کالم ۲.۹۸ در ۲۵ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ کالم ۲.94- بدر ۱۹ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے اس ارشاد کی تعمیل میں عربی کی دو تفاسیر لکھیں جن میں سے ایک مفصل تھی ایک مجمل مجمل تفسیر مکمل رنگ میں اور مفصل کے ۸۰ صفحات میاں عبد المنان صاحب عمر کے پاس موجود ہیں.tel مرقاۃ الیقین صفحه ۴۱ - ۴۲.۱۰۲- بدر ۱۵ ستمبر۷ ۱۹۰ ء صفحہ ۴.اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۹.۱۰- الحکم ۱۰ دسمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ ۶ کالم./ 1 الحلم ۱۴ / جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ کالم ۲.۳.۱۵- ۱۹۰۷ء کے بعض دیگر واقعات (۱) نماز کسوف پڑھائی.(الحکم ۱۷/ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ا کالم ۲) (۲) حضرت صاحبزادہ مبارک احمد 19+ صاحب کے علاج میں حصہ لیا.( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۵۰۲) (۳) قیام امن کے موضوع پر تقریر فرمائی ( تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه ۵۰۰ (۴) جلسہ ۱۹۰۷ء پر ایمان افروز تقریر فرمائی (ایضا صفحه ۵۱۸) 1- الحام ۱۰ / فروری ۱۹۰۸ء صفحہ اکالم.۱۷- الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷.10 ۱۰/ ۱۰۸- الحکم ۶ برابریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴.-1+q -NY الحکم ۳۰ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ اکالم ۲-۳ مفصل خطبہ کے لئے الحکم ۶ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳.۴.جنوری تا اپریل ۱۹۰۸ء کے بعض دیگر واقعات (1) حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح پڑھا ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۲۴ - ۱۵۲۵) (۲) فنانشل کمشنر پنجاب کے استقبال میں شامل ہوئے ( بدر ۲۶ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ کالم ۲) (۳) پیر عبد اللہ شاہ صاحب خلیفہ مجاز پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو تبلیغ حق کی (الحکم ۲ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۳.(۴) "الظفر الرحمانی" کے مطابق ۱۵ / مئی ۱۹۰۸ء کو آپ سے مفتی غلام مرتضی صاحب میانوی کا مباحثہ بھی ہوا حضرت مولانار اجیکی صاحب کا بیان ہے کہ یہ مباحثہ حیات روفات صحیح پر ہوا.حضرت مولوی صاحب نے ان کو بتایا کہ یا عیسی انی متوفیک و رافعک الی میں واؤ ترتیب کے لئے ہے.اور یہ کہ آنحضرت نے حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ نبیوں میں دیکھا ہے پس ان کی وفات ثابت ہے مفتی صاحب نے وار کو ترتیب کی بجائے واؤ جمع قرار دیا جس پر حضرت مولوی صاحب نے ان الصفاء المروة من شعائر اللہ کے نزول کے بعد کا یہ واقعہ بتایا کہ جب صحابہ نے حضور سے پو چھا کہ کس ترتیب سے ان کا طواف ہو تو حضور نے فرمایا ابدو بما بدء اللہ کہ جسے ترتیب کے لحاظ سے خدا نے پہلے رکھا ہے.اس سے ابتدا کرو.اس سے ثابت ہوا کہ " واؤ کا حرف جمع کے علاوہ ترتیب کا بھی فائدہ دیتا ہے.(حیات قدی.رجسٹر نمبر صفحہ ۲۲۹) بد ۲۶ / مکی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم ۲.

Page 209

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 184 آغاز ہجرت سے حضرت مسیح موعود کے وصال مبارک تک ۱۱۴ یہ روایت آپ نے دوسری روایات کے ساتھ اپنے قلم سے مؤلف کو لکھ کر بھجوائی ہے.۱۵ تفصیل " تاریخ احمدیت " جلد سوم سابقہ ایڈیشن صفحہ ۵۵۲ - ۵۵۳ میں مذکور ہے.سیرت المہدی حصہ اول طبع اول صفحہ ۱۴.الحكم ۲۸ / مئی و ۷ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۴.

Page 210

حضرت حکیم مولانا نورالدین ( گود میں آپ کے فرزند میاں عہدائی صاحب ہیں ) (فوٹو ۱۹۰۲ء)

Page 211

خلافت اولیٰ کی بیعت کا مقام مقام ظہور قدرت ثانیہ مقام ظہور قدرت ثانیہ

Page 212

و ہگلی جہاں حضرت خلیفہ مسیح اول کے گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پیش آیا.حضرت خلیفہ اول کا مقام وصال کو بھی حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان

Page 213

مزار مبارک سید نا حضرت مسیح موعود و حضرت خلیفہ اول مسجد نور.قادیان

Page 214

تاریخ احمد بیت - جلد ۲۳ 185 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز

Page 215

تاریخ احمدیت جلد ۳ 186 P نظام خلافت کا آغاز است کا امیں حافظ قرآن خلیفہ نباض قلم علم کی اک کان خلیفہ مہدی کا علمدار کہوں تو بھی بجا ہے صدیق سا لاثانی و ذی شان خلیفه (ثاقب زیروی)

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 187 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم حصہ دوم (پہلا باب) حضرت حکیم نورالدین صاحب خلیفہ المسیح اول کی خلافت پر قوم کا اجماع ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء تا ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ ء بمطابق جمادی الاولی ۱۳۲۶ھ سے ذی الحجہ ۱۳۲۶ھ تک) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے معابعد جماعت کے سامنے سب سے پہلا اور اہم مسئلہ جو پیش آیا وہ آپ کے خلیفہ کا انتخاب تھا.پوری جماعت کی نگاہیں خدائی تصرف کے تحت ابتداء ہی سے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طرف اٹھ رہی تھیں مخالفین تک پہلے ہی سے آپ کو مرزا صاحب کا خلیفہ قرار دیتے تھے.مگر ظاہری اور مادی نقطہ نگاہ سے پوری قوم کو خلافت تلے جمع کرنے کی منتظم اور جماعتی سطح پر تحریک اٹھانے کا سہرا خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر سیکرٹری انجمن احمدیہ کے سر ہے جنہوں نے ۱۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس کی نعش مبارک کے قادیان پہنچتے ہی باغ میں بیعت خلافت کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو تحریک کی.اور ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ "حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین حضرت مولوی نور الدین صاحب ہوں ".مولوی محمد علی صاحب نے کہا.بالکل صحیح ہے اور حضرت مولوی صاحب ہی ہر طرح سے اس بات کے اہل ہیں خواجہ صاحب نے کہا.یہ بھی تجویز ہوئی ہے کہ سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں.مولوی محمد علی صاحب نے کہا."اس کی کیا ضرورت ہے جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوں گے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیت کا منشاء ہے ".خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ چونکہ وقت بڑا نازک ہے ایسا نہ ہو کہ جماعت میں تفرقہ پیدا ہو جائے اور احمدیوں کے حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لینے میں کوئی حرج بھی نہیں.اس پر مولوی صاحب بھی بیعت کے لئے رضامند ہو گئے.te "

Page 217

تاریخ احمدیت جلد ۳ 188 احمدیت میں کلام خلافت کا آغاز مولوی محمد علی صاحب کو قائل کرنے کے بعد خواجہ صاحب صدرانجمن احمدیہ کے دوسرے اکابر مثلاً شیخ رحمت اللہ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو لے کر نواب محمد علی خان صاحب کے پرانے مکان پر پہنچے اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعہ سے مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو بھی بلوا بھیجا.اور پوچھا کہ جس طرح آنحضرت ا کی تکفین و تدفین سے قبل صحابہ نے حضرت صدیق اکبر کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی.اسی طرح ہم حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.مولوی صاحب نے اس کی پوری پوری تائید کی.نیز مشورہ دیا کہ حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب سے مشورہ کر لینا ضروری ہے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب باغ سے بلوائے گئے.آپ نے نہایت کشادہ پیشانی سے اتفاق رائے کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اور حضرت مولوی صاحب ہی خلیفہ ہونے چائیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے.اور حضرت اقدس کا الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہو گا اور یہ پھوٹ کا ثمرہ (ہے) اس کے بعد یہ حضرات باغ میں پہنچے.اور حضرت میر ناصر نواب صاحب سے دریافت کیا.انہوں نے حضرت مولوی نور الدین صاحب ہی کی خلافت کی تائید کی.ازاں بعد خواجہ کمال الدین صاحب جماعت کے نمائندہ کی حیثیت سے حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب موصوف سے بڑھ کر کون اس کے قابل ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا جانشین ہو.چنانچہ اہل بیت سے مشورہ اور تسلی بخش جواب کے بعد خواجہ صاحب حضور کے دوسرے ساتھیوں کو لے کر حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں گول کمرہ میں حاضر ہوئے.اور مناسب رنگ میں بیعت خلافت کے لئے عرضداشت کی.آپ نے کچھ تامل کے بعد فرمایا." میں دعا کے بعد جواب دوں گا.چنانچہ پانی منگوایا گیا.آپ نے وضو کیا اور غربی کوچہ کے متصل دالان میں (اور مفتی صاحب کی روایت کے مطابق ) نواب صاحب کے مکان میں جہاں مولوی شیر علی صاحب کے دفتر کا کمرہ تھا.نماز نفل پڑھی اور سجدہ میں گر کر بہت روئے اس عرصہ میں یہ وفد باہر صحن میں انتظار کرتا رہا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ چلو ہم وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر ہے.اور جہاں ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب تمام حاضرین سمیت باغ میں تشریف لے گئے.اس وقت حضور کی نعش مبارک باغ ہی میں رکھی تھی.اور سب لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے.یہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کھڑے ہو کر تمام جماعت کی طرف سے ایک تحریر پڑھی جس میں آپ کی خدمت میں بیعت کی درخواست تھی

Page 218

تاریخ احمدیت جلد ۳ 189 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اور اس پر جماعت کے سب ہی اکابر کے دستخط ثبت تھے.| A حضرت خلیفۃ المسیح اول کی پہلی تقریر احباب جماعت کی درخواست سننے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر کلمہ شهادت و استعاذہ کے بعد آیت ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف و ينهون عن المنکر پڑھی اور فرمایا.میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں جو ابدی اور ازلی ہمارا خدا ہے.ہر ایک نبی جو دنیا میں آتا ہے اس کا ایک کام ہوتا ہے جو کرتا ہے.جب ہو چکتا ہے.خدا تعالٰی اس کو بلا لیتا ہے.حضرت موسیٰ کی نسبت یہ بات مشہور ہے کہ وہ ابھی بلاد شام میں نہیں پہنچے تھے کہ رستہ ہی میں فوت ہو گئے.حضرت نبی کریم نے قیصر و کسری کی کنجیوں کا ذکر فرمایا کہ مجھے دی گئیں ہیں مگر آپ نے وہ کنجیاں (چاہیاں) نہ دیکھیں کہ چل دئے ایسی باتوں میں اللہ تعالیٰ کے مخفی اسرار ہوتے ہیں.یہاں بھی بہت سے لوگ تعجب کریں گے کئی پیشگوئیاں کی تھیں وہ ابھی پوری نہیں ہو ئیں میرے خیال میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ بتدریج کام کرتا ہے.اور پھر جسے مخاطب کرتا ہے کبھی اس سے مراد اس کا مثیل بھی ہوتا ہے......اس کے بعد فرمایا :."میری پچھلی زندگی میں غور کر لو.میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم مرحوم امام الصلوة بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.میں ہرگز ایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا موٹی مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں.قادیان بھی اس لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہو گی.اس لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں (یعنی صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب.میر ناصر نواب صاحب ه - نواب محمد علی خان صاحب ناقل...اس وقت مردوں بچوں عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں اور اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو.میں تمہارے ساتھ ہوں.میں خود ضعیف ہوں بیمار رہتا ہوں پھر طبیعت مناسب نہیں.اتنا بڑا کام آسان نہیں.پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عمائید کا نام لیا ہے.ان میں سے کوئی منتخب کر لو.میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بک

Page 219

190 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا سو اس کے بعد میری ساری عزت اور میرا سارا خیال ان ہی سے وابستہ ہو گیا.اور میں نے کبھی وطن کا خیال.....تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.ایک شخص دوسرے کے لئے اپنی تمام حریت اور بلند پر وازیوں کو چھوڑ دیتا ہے.اس لئے اللہ نے اپنے بندے کا نام عبد رکھا ہے.اس عبودیت کا بوجھ اپنی ذات کے لئے مشکل سے اٹھایا جاتا ہے.کوئی دوسرے کے لئے کیا اور کیونکر اٹھائے.طبائع کے اختلاف پر نظر کر کے یک رنگ ہونے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے...آنحضرت ا کی وفات کے بعد جناب ابو بکر کے زمانہ میں عرب میں ایسی بلا پھیلی تھی کہ سوا مکہ اور مدینہ اور جوانہ کے سخت شور و شر اٹھا.مکہ والے بھی فرنٹ ہونے لگے.مگر وہ بڑی پاک روح تھی.جس نے انہیں کہا.کہ اسلام لانے میں تم سب سے پیچھے ہو.مرتد ہونے میں کیوں پہلے بنتے ہو.عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں.میرے باپ کے اوپر جو پہاڑ گرا ہے وہ کسی اور پر گر تا تو چور ہو جاتا.پھر بیس ہزار کی جماعت مدینہ میں موجود تھی.اور چونکہ آنحضرت ا حکم دے چکے تھے کہ ایک لشکر روانہ کرتا ہے بس اس کو بھیج دیا ادھر اپنی قوم کا یہ حال تھا مگر آخر خدا نے اپنی قدرت کا ہاتھ و کھلایا - و ليمكنن لهم دينهم الذی ارتضى لهم کا زمانہ آگیا اس وقت بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے میں چاہتا ہوں کہ دفن ہونے سے پہلے تمہارا کلمہ ایک ہو جائے.نبی کریم ا کے بعد ابو بکر کے زمانے میں صحابہ کرام کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں.سب سے پہلا اہم کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے.اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.پھر حضرت ابو بکڑ نے زکوۃ کا انتظام کیا.یہ بڑا عظیم الشان کام ہے.انتظام زکوۃ کے لئے اعلیٰ درجے کی فرمانبرداری کی ضرورت ہے پھر کنبہ کی پرورش ہے.غرض کئی ایسے کام ہیں.آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا :.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعا د کرہا اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتا فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات.دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی.اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے.یہ اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا.ولتكن منكم امة يدعون الى الخير - یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدث میں ہیں جس کا کوئی رئیں نہیں وہ مرچکی ہے.

Page 220

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 191 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اس درد بھری تقریر پر سب نے بالا تفاق درد مند دل کے ساتھ عرض کیا.کہ ہم آپ کے بھی احکام مانیں گے آپ ہمارے امیر بنیں اور ہمارے مسیح کے جانشین ہوں.چنانچہ اسی جگہ بارہ سو کے قریب احمدیوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور یوں قدرت ثانیہ کا ظہور ہوا.مردوں کی بیعت کے بعد مستورات نے بھی بیعت خلافت کی اور سب سے اول بیعت کننده حضرت سیدۃ النساء ام المومنین رضی اللہ عنہا تھیں.کٹر عطر دین صاحب درویش کا بیان ہے کہ میں تدفین کے بعد چودھری فتح محمد صاحب سیال اور شیخ محمد تیمور کے ہمراہ شہر کو واپس آرہا تھا کہ بڑے باغ کے کنویں کے پاس کسی نے پیچھے سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول ہیں آپ نے فرمایا میاں عطر دین ! کیا محمد علی نے میری بیعت کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ انہوں نے بیعت کی ہے چنانچہ میں نے اسی وقت اپنے ساتھیوں کو بتا دیا کہ حضور نے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق یہ دریافت فرمایا ہے.صدرا الجمن احمدیہ کی طرف سے بیرونی جماعتوں کو اطلاع غرض کہ پوری جماعت اس وقت حضرت خلیفہ اول کی خلافت پر بالاتفاق جمع ہو گئی اور خواجہ کمال الدین صاحب نے صد را انجمن احمدیہ کی طرف سے اخبار "الحکم " اور "بدر" میں بیرونی جماعتوں کو اطلاع دی کہ " آپ ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمدیه موجود قادیان و اقربا حضرت مسیح موعود با جازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم الامت نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے.مولانا حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب.صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب جناب نواب محمد علی خان صاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب.مولوی محمد علی صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب و خلیفہ رشید الدین و خاکسار (خواجه کمال الدین یه خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں.اس اعلان میں خواجہ صاحب نے بیعت کے الفاظ بھی درج کئے تھے.

Page 221

تاریخ احمد بہت جلد ۳ 192 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز کمال الدین صاحب کا ایک حیرت خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح انگیز بیان قیام خلافت اولیٰ کی نسبت اول کی بیعت کے لئے اس درجہ سعی و جد و جہد کام لیا؟ یہ ایک نہایت ایمان افروز واقعہ ہے جس کی تفصیل خواجہ کمال الدین صاحب کے قلم سے لکھتا ہوں - فرماتے ہیں:.احمد کی جماعت میں بہت تھوڑوں کو اس بات کا علم ہے کہ میں نے ہی سب سے اول حضرت قبلہ کو اپنی طرف سے اور اپنے خاص احباب کی طرف سے خلافت کا بار گراں اٹھانے کے لئے عرض کیا.اس کی بناء کوئی مصلحت وقت نہ تھی بلکہ اشارہ ربی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے.حضرت مسیح موعود ۲۶ / مئی ۱۹۰۸ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے.میں نے شب در میان ۲۳.۲۴/ مئی ۱۹۰۸ ء ایک عجیب رویا دیکھا.میں ان واقعات کا ذکر بھی نہ کرتا لیکن چونکہ بعد کے واقعات اور موجودہ واقعات نے اس رویا کی صداقت پر مہر لگادی ہے اس لئے میرے نزدیک ہر ایک سلیم الفطرت احمدی کے لئے یہ ایک قطعی شہادت ہے.میں نے دیکھا کہ میں اور میرے ہمراہ شاید اور نویا دس یا گیارہ احباب ہیں جن میں سے ایک مولوی محمد علی صاحب ہیں ہم سب کسی شاہی خاندان میں سے ہیں لیکن جس خاندان کے ہم ممبر ہیں ان کا سرتاج تخت سے الگ ہو چکا ہے.اور نئی سلطنت قائم ہو گئی ہے، اور پہلا دور بدل گیا ہے.اور ہم یہ نو دس آدمی امیران سلطانی ٹھہرائے گئے ہیں.ہم سخت تشویش میں ہیں کہ اتنے میں ہمیں اطلاع ہوئی کہ نئی سلطنت کا سرتاج ہم کو طلب کرتا ہے اور ہمیں ہماری قسمت کا فیصلہ سناتا ہے.کیا شان ایزدی ہے کہ ہم جو نو دس آدمی ہیں ان کی بھی دو جماعتیں بنائی گئی ہیں حکم ہوا کہ باری باری جماعت میں نئے حاکم کے سامنے ہم پیش ہوں.چنانچہ پہلی جماعت جو نئے سلطان کے سامنے پیش ہوئی وہ بسر کردگی مولوی محمد علی صاحب گئی ہم کمرہ سلطان سے باہر تھے لیکن مجھے یہ سمجھ آئی کہ نئے فرمانروا نے جو کچھ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو کہا انہوں نے خاموشی سے سن کر سر تسلیم خم کیا اور خاموش ہی باہر آگئے اس کے بعد مجھے حکم ہوا.میرے ہمراہ بھی چار پانچ احباب باقی تھے.اور وہ میری سرکردگی میں پیش ہوئے جب میں کمرہ سلطان کے اندر داخل ہوا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ نیا حاکم خود مولوی نور الدین صاحب ہیں.آپ نے نہایت متانت اور تمکنت کے ساتھ مجھے اور میرے ہمراہیوں کو دیکھا اور پھر حسب ذیل گفتگو شروع ہوئی.میرا اند از جواب کسی قدر تیز تھا.مولوی نور الدین صاحب ! تم جانتے ہو کہ تم کون ہو.اور تمہاری حیثیت اس وقت کیا ہے ؟ میں.میں خوب جانتا ہوں کہ جس خاندان شاہی کے ہم رکن تھے وہ دور بدل گیا ہے اور ہم اس وقت

Page 222

تاریخ احمدیت جلد ۳ اسیران سلطانی ہیں.193 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز مولوی نور الدین صاحب.کیا وجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہی سلوک نہ کیا جاوے جو اسیران سلطانی کے ساتھ ہو اکرتا ہے.کیا وجہ ہے کہ تم کو ان وطنوں سے نکال کر دو سرے وطنوں میں آباد نہ کیا جاوے." میں.( بڑے جوش اور لا پرواہی کے ساتھ ) آپ کی جو مرضی ہے کریں جب ہم اسیر سلطانی ہیں تو ہمارا چارہ ہی کیا ہے.ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارا اب دور بدل گیا ہے اب ہم فیدی ہیں اگر ہم کچھ اور چاہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں جو آپ کی خوشی ہو کر و.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.میرے جسم پر سخت رعشہ اور سنسناہٹ تھی.اور ایک مدت تک میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا.یہ تسجد کا وقت تھا.میں اٹھا اور سب سے اول اسی واقعہ کو قلمبند کیا اور صبح تک استغفار میں مصروف رہا.بعد از صبح حضرت مرزا صاحب مغفور باہر آئے تو سب سے اول جو موقعہ مجھے تنہائی میں آپ سے ملا.میں نے وہ کاغذ پیش کیا.دو دن کے بعد یہ رویا بالکل بدیہی واقعہ ہو جانے والا تھا.لیکن مصلحت ربی نے آپ کی طبیعت کو اس طرف نہ آنے دیا.آپ نے صرف اس قدر فرمایا.کہ خواب میں اسیر سلطانی ہو نا نہایت ہی مبارک نہایت ہی مبارک ہے.حضرت صاحب کے بعد میں حضرت حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ کاغذ دکھایا.وہ حسرت آج تک میرے پیش نظر ہے.جو اس کاغذ کو دیکھ کر مولوی صاحب کے چہرے پر نمودار ہوئی.آپ نے کئی منٹوں تک گردن نیچی رکھی.اور پھر بعد میں اس کاغذ کو اپنی جیب میں ڈال کر فرمایا.کہ میں اس کی تعبیر بعد غور بتلاؤں گا.۴۸ گھنٹہ اس واقعہ پر گزرے کہ بادشاہ وقت جہان سے رخصت ہو گیا اور نئے کار کے آثار شروع ہو گئے اس خواب سے اطلاع اسی دن مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کو دی گئی تھی.اور وہ خدا واسطے اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں.الغرض جب ہم اس اچانک موت کے ضروری انتظام سے فارغ ہو کر ریل میں بغرض قادیان بیٹھے.تو میں نے حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب سے جب کہ ہر دو ڈاکٹر صاحب بھی ہمراہ تھے پوچھا.کہ جتلاؤ اب خلیفہ کون ہو گا.تو شیخ صاحب نے فی الفور بجواب کہا کہ وہی جس کی تمہیں دو دن پہلے اطلاع ہو چکی ہے.شیخ صاحب کا اس رویا کی طرف اشارہ تھا.جب ہم قادیان پہنچے.اور حضرت فاضل امروہی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی استرضا کے بعد گول کمرہ قادیان میں جمع ہوئے تو میں نے حضرت قبلہ کو وہاں آنے کی تکلیف دی.اس وقت بھی میں نے یہ نہیں کہا کہ اب آپ خلافت کو قبول کریں.بلکہ میں نے یہ عرض کیا کہ حضور کو جو کاغذ پر سوں لاہور میں میں نے دیا

Page 223

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 194 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز تھا.اور جس میں میرا ر و یا تھا وہ کیا حضور کو یاد ہے.مولوی صاحب.ہاں میاں.وہ کاغذ اب بھی میری جیب میں ہے..میں.تو پھر اب وہ وقت آگیا.اس کے بعد حضرت نے دو نفل ادا کئے اور مجھے حکم دیا کہ حضرت مائی صاحبہ اور میر صاحب سے استرضا کروں.جو تقریر اول بطور خلیفتہ المسیح آپ نے باغ میں فرمائی اس میں بھی آپ نے مجھے مخاطب کر کے ذیل کے الفاظ فرمائے.اب سستی اور غفلت کے وطنوں کو چھوڑ دو.اور چستی اور کار کردگی کے وطنوں میں آباد ہو جاؤ.یہ الفاظ بھی خواب کی طرف تلمیح کرتے تھے.لیکن نہ مجھے اور نہ خود حکیم صاحب قبلہ کو اس وقت علم تھا کہ یہ الفاظ اس طرح استعارہ نہیں بلکہ لفظی معنوں میں پورے ہونے والے ہیں آج میں ہوں اور یورپ کیا عجیب بات ہے کہ کل سے میری طبیعت یہاں بے چین ہے اور بار بار گھر جانے کو دل چاہتا ہے.گھر سے میری مراد لندن ہے سبحان اللہ سبحان اللہ اکیوں تم کو ان وطنوں سے نکال کر دوسرے وطنوں میں آباد نہ کیا جائے.رویا کیا برحق ثابت ہوا.خان نواب محمد علی خاں صاحب بھی اس رویا سے واقف ہیں.ان واقعات کی شہادت خود حضرت قبلہ حکیم صاحب سے لی جاوے.آیا یہ بچے امور ہیں یا نہیں.ابھی دو ماہ ہوئے جب میں نے ان کو کہا کہ آپ کسی کو میری مدد کے لئے لندن بھیج دیں تو میں نے پھر اس خواب کی طرف اشارہ کر کے لکھا کہ خواب تو چاہتا ہے کہ میرے ہمراہ چار پانچ اور بھی وطنوں کو چھوڑ کر غریب الوطنی اختیار کریں اور آپ کے حکم سے.آپ کیوں حکم صادر نہیں فرماتے.میرے ساتھ تو چار پانچ اور بھی تھے جب آپ نے مجھے جلا وطن کیا.بہر حال ہمارے دو تین احباب جو قاضی یار محمد صاحب کے معاملہ میں کچھ متامل سے ہیں چونکہ وہ اس احمدی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے لئے خواب اور مکاشفات حجت ہوتے ہیں.وہ ان امور بالا پر غور کریں یہ رویا تو کچھ ایسا قادیان میں مشہور تھا کہ ۱۹۰۹ ء میں بعض واقعات کے پیدا ہونے پر جیسے طنزا امیر سلطانی کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ایک میرے قابل ادب دوست کے لئے تو یہ میرا اسیر سلطانی کا خطاب بہت سارے پریشان کن حالات کا موجب ہو جایا کرتا تھا."

Page 224

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 195 ت میں کلام خلافت کا آغاز خواجہ کمال الدین صاحب کی خود نوشت بیان کا چربہ گذشته صفحات میں خواجہ صاحب کے جس بیان کا ذکر کیا گیا ہے اس کا چہ بہ درج ذیل ہے.احمدی جماعت میں سے بہت تھوڑوں کو رسوبات کا علم ہے کہ میں نے کی شب اول خفرستد تبادر کو اتنی کرنے اور اسے قاضی احباب کردار نے خلافت کا بار گران قبلہ روڈا نے م نے عرض آگیا ایسکی نے کوئی مصاحبت وقت نہ رہتی.بلکه اشاره داین یکی تغیں حسب ذیل ہے - موری یا ان دو ملی منتشر کر ایسی دنیا سے رفعت ہے.اپنے مطب در این صفرت اردو ۴۰ و ۳ دی کیلئے دریا در کیا ، میش است واقعات کا ذکر ہی نہ کرتا لیکن چونکہ میر کے واقعات بود که بوده واقعات نے اس رویا کی صداقت پر ہر لگا دی ہے اسلئے میرے تو دیگ پر ایک سلم الفرات امور کے گئے یہ ایک قطعی شہادت ہے.مینے دیکھا نزدیک نو یا دس یا گیارہ کہ مین اور زیور ہمراہ شاید اور احباب ہیں.جنہیں ہے ایک مولوی عامر علی عیب ہیں ہم سنی ہیں شاہی خاندان میں سے ہیں.لیکن کی میں خانداست اشتها بر نمبر ہیں ان کا ستر تاج تحت سے انگز ہو چکا ہے.اور نئی سسوارت قائم ہو گئی ہے اور پہلا روز بدل گید ہے اور ہم یہ تو دس اولی " اثیرات اسالاران این ٹرا کے گئے ہیں، ہم سخت تشویش من من که اتنی

Page 225

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 196 احمدیت میں کلام خلافت کا آغاز بین نہیں الارم یه کی که نرمی سلطنت کا سر تاہم نیکو صبے کرتا ہے اور نہیں ہماری سخت پسندید سناتا ہے.ندات ایزوی نے کی بنای گئی ہے کم ہو کر ہم تو خود کس آدمی میں انکی بی برا جماعتین تو نئے سلطان ور جماعت این لیکن پھر - باری باری نے حاکم کے سامنے ہم پیش کراہت یا نخر پہلی جماعت کے سامنے پیش ہروہ بسر کردگی مولوی محمد علی کی گئی ہم کره سلطانی سریا ہوتے.کیا بہر یہ سمجھ آئی کہ نئے فرمان روان کچھ مولوی محمد علی خواب اور ان کے ہمرائیوں کو کہا انہوں نے موٹر ے سکتے سرتسلیم خم کیا.اور چوستی ہی باہر آگئے.اسکے بعد گھر حکم ہوا.- دیگر ہمراہ بھی چا رہا ہ ہم اجاب باقی گھر.اور وہ میری سرکردگی میں پر ہو.- اکرے جب مین کره سلطانی کے اندر داخل ہوا وا تو کیا دیکھ بون که پینا حاکم خود واری نور الویز جناب ہیں.آپنے نہایت در ممکنت سے کے ساتھ مہر اور مریر ہمراہیوں کو دیکھا مانت اور - سید ہر حسب زیب گفتگو مشتری را انداز خواب کی تیز کیا.- مور نے دی ہے.تم جانتے ہو کہ تم کون ہو اور تمہاری حیثیت اوقت کیا مین که اي خوب جانتا مون کو چین خاندان شاہی کے ہم رکن تھے وہ اسوقت دور بدل گیا.اور ہم اکران سلطان ہیں.

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد 197 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز وای تو دارین کا کیا وه ی که تا زیر چاند دی ملک ان کی یاد و اگر به سیالی کالا نہ جائے کے ساختیم شمیم کرتا ہے.کیا وجہ ہے کہ محتر از دو نوت د سے کیا دیکر دوسری بانوان میں آباد کیا جارہے ین.(بڑی بوش اور اور پر درہم کے ساختہ) آپ کی تو مرضی ہے کریں.جیب ہے المریدان اتنی ہی تو ہارنا چارہ کیا گیا پھر ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارا اب درو بدل گیا ھر اب ہم تیر ہیں.اگر ہم کچھ اور چاہیے جو آپ کی مرضی مر کروں.را نه کیا کرتے ہے اس کے بعد میں آنکیر کیر گئی.کویر تم پر سخت داشتہ اور سنتے ہٹ تھی اور ایک مدت تک مین اپنے آپ کو بینال نہ سکا تجھ کا وقت بیتا بین اور میانہ اور سہنے والی اس بود قد کو قلمبند کیا اور ہم تک استغفار میں - واقعہ - معروف رها سر باز نماز صبح جب حضرت مروزی خود باھر آئے تو سب سے دول به موقعه خبر تباری میں اپنے ملا.مہینے وہ کاغذ پیش کیا واقعه کہا.رارداد بعد میں رویا بالکل بری ہی رہنے والا ہے.لیکن مصلحت راہی نے آپکی طبیعت کو الطرف نہ آنے دیا آنے صرف استور مجھے خواب میں اسر سلطانیت ہونا تی تھی مبارک

Page 227

تاریخ احمدیت جلد ۳ 198 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز نفرت خانه حضرت حکم کاستیه کی دوست بین فازوا اور تو میرے آج نہیں سر کے پیش کرے جو کاغذ کو دیگر مولوی جناب کے پیرہ کے نمودار ہوئی.- اپنے کئے منٹوں مگر گردن پیچی بوکی اور پہر بعد بین روس کاغذ کو اپنے مین ڈالکر فرمایا که مین پر اسکی تعبیر شود بر درگا می نبود - مریم گئے الواتو به گذری که بادشاه وقت چار سے رخصت ہو گیا.اور نئے آغاز که مورد تار آغا ر مشروم ہو نگے کے کا خواب کی الوم روسیت را یعقوب بیگ ناز اداکار متعین نشان اور شیخ شاعرانه ها کو دیگری تھی.اور وہ بندا د وسلے اس امر کی شہادت دیکھتے ہیں.ہر تین کر - مو جب ہم اس اچانک موت کے ضروری نظام سے کا رخ ہم کو سیل میں ابران قادیانت بیٹے تی فرش شیخ رحمت الوحات جب کہ ) کو ڈاکٹر کی عمراہ ہے پوچھا کہ مترو اب خلیفہ کون ہوگا تو شیخ جام نے نے الغور بجواب کیا کہ زمی یکی نہیں.دو دن پہلے اطلاع می چکی مریم شاہ کا اس رویا کی طرف اشارہ تمام.اطلاع خاب جب ہم تادیات ہو پھر اور حضرت فاضل بامردی کا اور حضرت با براده است کی استریا ماند گول کمرہ قادیان میں ہم جمع ہوتے تو ہیں سے

Page 228

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 199 نے حضرت قبلہ کو و معانی آنیکی تکلیف دی یہ نہیں کیا کہ تھے یہ وطن کیا.آپ رب نوی اصناف نوتوی سیا اگر بہت میں کلام خلافت کا آغاز اد تربیت فلوقت کو قبول کرین حضور کو جو کا غمز پسون دایم زمین مہینے دیا ہتا اور کہیں یرا یک رویا شاہ وہ کیا حضور کو یاد ہے.- پوست وه پر کا غذاب نہیں میری چیب وہ وقت آگیا کے بعد حضرت نے دو نصف اور کئے اور میں کیا کہ مروان ہے اور میر ی سے استر مت کرونت حضرت بر فقر ر اول بار دید السیم آیند باغ میں فرمائی او سمین بھی آپ نے؟ - آپ سستی اور قت کے وخون کو چیوڈور اور چیتی رار ذیل من الفاظ فرمانے کار کردگی کے دعوت میں آباد ہو جائے میہ الفاظ بہر خوا محمد چه کو اسوقت علم کیا ہو یہ الفاظ و مطرح استفاده سینی بلکه خواب کی طرف تلمیح کرتے تھے.لیکن المیہ اور نہ خود ر حکیم مستم ادر

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 200 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز نی میں پور اور کرنے والیں ہیں.آج میں ہوں اور یورپ کیا جب بات مرکز کل سے بیعت یا نیچیت هر اور بار بار بھر چاہے کر دل چاہتات هر گم سے پرسی مراد انفوان کو ازندران در سمارا امان الله ذاشته کیون بلوان رعنون ہے کے اگر ڈاکوکر والدان میں آباد زندگی جا به ا خواب ادمینی که سی دی رویا را نفرین سینا گیا برقی ثابت ہوا والسلام ٹرفیس فورڈ ہوٹن پیریس - ر خادم داد کا نام مولوی سید محمد احسن صاحب کا بیان ان حالات سے بالکل ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ خلافت اولی کے قیام کے متعلق اسمیع اول میں ان کا انتخاب حضرت ابو بکر صدیق کی طرح اجماع قوم سے خالص خدائی تصرف کے تحت ہوا اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی اور آیت استخلاف کے عین مطابق ہوا.چنانچہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے ان ہی دنوں فرمایا:." یہ خلافت تامی نبوت ہے کیونکہ حدیث صحیح جو مشکوۃ شریف میں ہے روایت احمد و بیہقی موجود ہے.اس حدیث میں زمانہ آخری کی نبوت کے لئے ایک عظیم الشان پیشگوئی موجود ہے.اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ثم تكون الخلافه على

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 201 احمد بیت میں نظام خلافت کا آغاز منهاج النبوة.شار ھیں.معتمدین مثل ملا علی قاری وغیرہ کے مرقاۃ وغیرہ میں اس کی شرح یوں تحریر فرماتے ہیں کہ الظاهر ان المراد ان عيسى هو العهدی اور یہ امر تو ظاہر ہے کہ تمام اراکین انجمن احمدیہ کے جو جانشین حضرت اقدس کے ہیں.حضرت اقدس کو مسیح موعود اور مہدی معمود اعتقاد کرتے ہیں جن کی نبوت ماتحت نبوت حضرت خاتم النبین سید المرسلین ای کے تھی.اور ظاہر ہے کہ ان جملہ اراکین صدر انجمن نے حضرت خلیفتہ المسیح کے ہاتھ پر خود بھی بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ بیعت کی اور دوسرے تمام جماعت کے احمدیوں سے بھی بیعت کرائی.پس یہ خلافت بھی ویسی ہی ہوئی جیسا کہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت تامی نبوت اہل حل و عقد کے بیعت کر لینے سے واقع ہوئی تھی.پس مولانا صاحب ممدوح صد را انجمن احمدیہ کے بھی مطاع اور مقتدا ہو گئے اور ان کا حکم دیسا ہی نافذ ہو گا.جیسا کہ حضرت صدیق اکبر کا حکم جملہ اہل حل و عقد پر نافذ تھا- وهو المدعى (دلیل دوم) جس طرح نبوت اللہ تعالی کا انتخاب ہوتا ہے.كما قال الله تعالى والله اعلم حيث يجعل رسالته ای طرح خلافت راشدہ تامی نبوت کا بھی انتخاب خدائی ہی ہوتا ہے آیت استخلاف اس مدعا کے لئے ایک بڑی دلیل قوی ہے کہ جملہ امور متعلقہ خلافت راشدہ مندرجہ آیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی طرف مسند فرمایا ہے.- وعد الله - ليمكنن - وليبدلن - و من كفر بعد ذالك فاولئک هم الفاسقون.اس لئے آنحضرت ا نے کسی خاص شخص کی خلافت پر تحسین نہیں فرمائی کیونکہ یہ تو انتخاب خدائی پر موقوف تھی.اور اسی لئے حضرت اقدس نے بھی کسی خاص شخص کی خلافت پر تعیین نہیں کی اور یہی سر تھا اس امر میں کہ کل افراد انجمن نے خلیفہ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کی اور دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب بیعت دلائی.اگر یہ انتخاب خدائی نہیں تھا تو ایسا کچھ کیوں واقع ہوا.اور کونسا محرک موجود تھا.جو سب کے دلوں کو اس طرف ایک قومی جذبہ کے ساتھ کھینچ کر لے آیا." حضرت اقدس کے وصال مبارک کا اثر مند خلافت پر متمکن ہونے کے وقت آپ کی 1910 عمر سڑسٹھ (۶۷) برس کے قریب ہو چکی تھی.بار بار بیماریوں کے حملوں نے پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا.اور تحریری اور تقریری مجاہدات کے باعث جسمانی قوت جواب دے رہی تھی.کہ اب آپ کے کزدرو نحیف کندھوں پر خلافت کا بار گراں بھی آن پڑا.چنانچہ اپنے انتہائی صبر و ضبط کے باوجود آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے تنہائی میں فرماتے.میاں اجب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی

Page 231

تاریخ احمدیت جلد ۳ معلوم ہو 202 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز ||A| تا ہے.اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی.نیز اپنے دوسرے خدام سے اکثر فرماتے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہے جس سے میں دیا جاتا ہوں.ابتدائے خلافت میں آپ اکثر وقت اندر خلوت میں رہتے.دعاؤں میں بہت مصروف ہو گئے.بلکہ دعا کے واسطے ایک علیحدہ کمرہ بنوا دیا گیا تھا.اس وقت آپ کی دن کی نشست گاہ مسجد مبارک میں ہوتی تھی.مگر چونکہ بیمار بھی آپ کی توجہ کے محتاج ہوتے تھے اور بیماروں کا مسجد میں جمع ہو نا مناسب نہ تھا.اس لئے کچھ وقت بعد اپنے مطب میں بیٹھنا شروع کر دیا.حضرت میر محمد اسمعیل کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کی وجہ سے جماعت احمدیہ اور خاندان مسیح موعود علیہ حضرت ام المومنین کے نام السلام ایک گہرے صدمہ سے دو چار تھے.لیکن خلافت کے قیام سے مطابق وعده وليبد لنهم من بعد خوفهما منا جماعت کی بہت ڈھارس بندھ گئی.حضرت مسیح موعود کے افراد خاندان کس طرح حضور کے وصال کے حادثہ عظمی کے باعث غم و اندوہ میں مبتلا تھے.اور پھر انہوں نے کس طرح صبر و تحمل کا نمونہ پیش کیا.اس کا اندازہ حضرت سید میر محمد اسمعیل صاحب کے ایک خط سے ہوتا ہے.جو انہوں نے روجہان ضلع ڈیرہ غازی خاں سے اپنی غم رسیده بہن حضرت سیدۃ النساء ام المومنین کے نام اپنے مخصوص عارفانہ انداز میں لکھا.آپ نے تحریر فرمایا :- حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کی خبر وحشت اثر معلوم ہو کر جو صدمہ ہوا اس کے بیان کی ضرورت نہیں پر ساتھ ہی میرا تو یہ حال ہے کہ میں لکھتا جاتا ہوں اور اعتبار نہیں آتا کہ یہ واقعہ سچ ہے دل کو یقین ہی نہیں آتا یا یہ کہو دل یقین کرنا نہیں چاہتا.مگر جو امر ہو نا مقدر تھاوہ ہوا.اس میں کسی انسان اور فرشتے کا دخل نہیں.آج تک نہ کوئی انسان موت سے بچا نہ بچے گا.تمام پیمبر انبیاء بزرگ پیر صاحب کرامات خدا کے پیارے غرض بڑے بڑے رتبے والے حتی کہ سب کے سردار محمد مصطفى او تک نے چند روزہ زندگی بسر کر کے اس جہاں سے رحلت کی..انبیاء اور اولیاء کی موت ایسی نہیں ہوتی کہ مرتے وقت ان کو کوئی کاوش یا ہم و حزن ہو.بلکہ وہ ان کو دنیا سے بشارت اور دائی برکت اور رحمت کے ساتھ لے جاتی ہے.اور وہ لوگ جس طرح ایک بھو کا بچہ دیر کے بعد اپنی ماں کی گود میں ہمک کر جاتا ہے.اسی طرح اپنے رب سے وصال پاتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کے طرح طرح کے افضال اور الطاف کے مورد بنتے ہیں پس موت کا وارد ہوتا اس !

Page 232

تاریخ احمدیت جلد ۳ 203 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز شخص کے لئے موجب فکر و تشویش ہو سکتا ہے جسے اگلے جہان میں اپنے اعمال کی فکر ہو.مگر وہ شخص معصوم خدا کی درگاہ میں واپس آجاتا ہے نہیں بلکہ اس کا عزیز مہمان اور پیارا دوست بن کر جاتا ہے.اس کے انتقال پر ہم کو رشک کرنا چاہئے.دوسری بات جو ہم کو اس واقعہ پر پیش آئی ہے.وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمارا صبر اور ہماری استقامت اس ابتلا کے موقعہ پر آزمانا چاہتا ہے.ایک ہمار ا سب سے پیارا اس جہان سے رحلت فرما ہوا ہے اگر ایسی حالت اور ناگہانی صدمہ کے وقت انسان شدت غم میں خدا تعالی کی حدود سے باہر نہ جاوے دل پر جو رنج گزرتا ہے وہ فطری ہے مگر کثرت ہموم کے وقت کسی ایسی بات کا ہو جانا ممکن ہے جو خدا کی نظر میں نا پسندیدہ ہو.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ۸ سال کی تھیں جب رسول خدا ﷺ نے وفات پائی انہوں نے اور آپ کی اور ازواج نے جو نمونہ آپ کی وفات کے وقت دکھلایا دہ قابل تقلید نمونہ ہے تم بھی اس فرقہ کی عورتوں کے لئے نمونہ ہو.احتیاط رکھنی چاہئے کہ ایسے موقعہ پر جب کہ مردوں کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں کوئی ایسی بات نہ ہو.جس کی تقلید کر کے آئندہ امت کی عورتیں کوئی بری رسم اختیار کریں.تمہارے افعال تمہارے اقوال تمہاری باتیں آئندہ کے لوگ سند پکڑیں گے.پس اللہ تعالی کی رضا میں تمہاری ہر بات ہو اور کوئی نمونہ ایسا نہ چھوڑ جاؤ جس پر قیامت تک کسی کی حرف گیری ہو جماعت احمدیہ کے لئے یہ ایک سخت ابتلا ہے پہلے وہ ایک بے فکر کی طرح تھے اور نام کے مددگار تھے.اب ان کو معلوم ہو گا کہ کتنا بڑا کام وہ شخص اکیلا کر تا رہا.میرا ایمان ہے کہ اگر یہ فرقہ سچ ہے اور یقینا سچ پر ہے تو خدا تعالیٰ اس کو ہر طرح کی ہلاکت سے بچالے گا.اور ہر دشمن کی دشمنی سے محفوظ رکھے گا.اور اسے دنیا کے اطراف میں پھیلا دے گا.وہ شخص تو اپنا کام پورا کر گیا.بلکہ وصیت بھی ایک چھوڑ دو دفعہ چھوا دی تھی اور لوگوں پر تبلیغ پوری ہو چکی تھی اور یہ ایک دن آنے والا باقی تھا.سو آگیا.مگر وہ دن بھی خدا کا نشان ہو کر آیا.اور دو پیشگوئیوں کو پورا کر گیا.یعنی ایک تو الہام انتقال کے متعلق الرحيل ثم الرحيل والا اور مباش ایمن از بازی روزگار اور دوسرے وہ پرانا اور بار بار ہونے والا الهام داغ ہجرت یعنی ہجرت اور وطن کی جدائی میں رحلت ہو گی.غرض خدا کے بندے مرتے مرتے بھی اپنا خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت دے جاتے ہیں.اور ان کی ذات تو ایسی تھی کہ ان کا مرنا جینا سب خدا کی مرضی اور اس کی فرمانبرداری میں تھا مگر ہم کو بھی جو پسماندگان رہ گئے ہیں ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہئے.جس میں خدا تعالیٰ کی مرضی پر سر رکھ دینے اور رضا، نقضا ہونے کی خود ہمارے دل گواہی دے دیں.آپ مجھ سے بڑی ہیں اور سب باتوں سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں اور مجھے ایسا

Page 233

تاریخ احمدیت جلد ۳ 204 احمدیت میں عظام خلافت کا آغاز لکھنے کی ضرورت کچھ نہیں.مگر میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ اس ناگہانی حادثہ کا آپ کے دل پر کیا صدمہ ہوا ہو گا." ۲۰ مخالفین احمدیت کی منتظم یورش اور اس کی روک تھام حضرت اقدس" کے وصال پر احمدیت کی مخالف طاقتیں ایک بار پھر پوری قوت و طاقت سے ابھر آئیں اور وہ لوگ جنہیں اس شیر خدا کے سامنے ایک لمحہ ٹھرنے کی جرات نہ تھی.وہ اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی اپنی فتح و نصرت کے شادیانے بجاتے ہوئے میدان مقابلہ میں آگئے اور احمدیت کے پودا کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے ناخنوں تک کا زور لگانے اور خوف و ہراس پھیلانے لگے جس کا مختصر سا نقشہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں:.قادیان سے اخراج کا پراپیگنڈا.اس سلسلہ میں مخالفین کی طرف سے انتہائی زہریلا پراپیگنڈا یہ کیا گیا.کہ معاذ اللہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنے بھائیوں سے الجھ کر ان کو اور دوسرے احمدیوں کو قادیان سے نکال پھینکنے کو ہیں.حالانکہ یہ محض جھوٹ اور افترا تھا.جس کی پر زور تردید میں خود حضرت صاحبزادہ صاحب کو پیسہ اخبار میں ایک مفصل نوٹ شائع کرنا پڑا.جس میں آپ نے تحریر فرمایا." قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزار ہا درجہ نیک اور متقی عامل شریعت عاشق رسول عربی ہے.قرآن ان کے ہاتھوں میں ہے اور درودان کی زبان پر.شب بیدار اور پر ستار خدائے لایزال ہیں.اور میرے اعمال خود آپ جانتے ہیں.کیا ہیں؟ باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں لوگ انہیں کافر سمجھیں اور قابل دار لیکن وہ مجھ سے صد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں اور میں ان کو مسلمان سمجھتا ہوں." احمدیوں کے ارتداد کی انو ہیں :.احمدیوں کو مشوش کرنے کے لئے ایک حربہ استعمال کیا گیا کہ کثرت سے مرزائی لوگ تائب ہو کر بیعت کر رہے ہیں." یہ پراپیگنڈا پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کے مریدوں نے کیا.اس سلسلہ میں ایک مہم یہ شروع کی گئی کہ بعض احمدیوں کے نام پر خطوط بھی شائع کرائے گئے جن سے لوگوں کو احمدیت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانا اور بد ظن کرنا مقصود تھا.چنانچہ اخبار "وطن" اور اخبار "وکیل" میں کئی گندے اور شرافت سے دور خطوط شائع کئے گئے اور خواجہ غلام الثقلین بی.اے ایل ایل بی نے " عصر جدید میں ایک احمدی کا فرضی مکالمہ شائع کیا.اور لکھا کہ قادیانی تحریک ختم ہو گئی ہے.انجمن حمایت اسلام اور دوسری انجمنوں کے جلسے:.حضرت کی وفات پر ملک کے طول و عرض میں علماء نے احمدیت کے خلاف ہر جگہ زہر اگلنا شروع کر دیا تھا.خصوصاً لاہور میں جہاں

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 205 احمد بیت میں نظام خلافت کا آغاز آپ کا وصال مبارک ہوا.نام نہاد انجمن حامی اسلام" کے علماء نے جس کے کرتا دھر تا ما محمد بخش صاحب (جعفر زٹلی ) تھے.حضور کی لاہور میں آمد پر ہی آپکی قیام گاہ کے سامنے ایک اکھاڑہ قائم کر رکھا تھا.سب و شتم میں اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی.رسالہ المجد ولا ہو ر (جون ۱۹۰۸ء) لکھتا ہے." مرزا قادیانی کی فرودگاہ سے چند قدم کے فاصلہ پر اس کے عقائد باطلہ اور دعاوی کاذبہ کی تردید میں متواتر جلسے ہونے شروع ہو گئے.علمائے اسلام کی ایک جماعت تیار کی گئی ( آگے اس زمانہ کے مشہور علماء کے نام درج ہیں صوفی سید پیر جماعت علی صاحب مجددی نقشبندی محدث علی پوری ادام اللہ فیوضم مدعو کئے گئے تھے اور یہ جتنی کوششیں تھیں صرف عالی جناب ملا محمد بخش صاحب سیکرٹری انجمن حامی اسلام لاہور کی ان تھک اور جان تو ز خدمات اسلام کا نتیجہ تھیں یہ شاندار جلسے روز افزوں ترقی کرتے گئے اور آخر وہ دن آپہنچا کہ انجمن حامی اسلام لاہور کی سچی اسلامی خدمات کا اسے شمرہ ملتا یعنی وہ دن آپہنچا کہ مرزا قادیانی بمعہ اپنے دعاوی اور الہامات اور پیشنگوئیوں کے تباہ اور ہلاک ہو جائے...اسی شام کو مقام سابق پر ایک عظیم الشان جلسہ نہایت تزک و احتشام سے منعقد ہوا اور ہر ایک عالم نے کادیانی دعاوی کو بمعہ مرزا کے خاک میں ملا دیا اور خصوصاً حضرت شاہ صاحب قبلہ عالم علی پوری مدظلہ تعالیٰ نے اپنی تقریر دلپذیر کے اخیر میں جناب ملا محمد بخش صاحب سیکرٹری انجمن حامی اسلام لاہور کی اسلامی خدمات کا نہایت عمدہ طور پر اعتراف کیا.اور بسلسلہ حسن خدمات یکصد روپیہ انعام بدست خاص بمعه خلعت فاخرہ اور ایک تمغہ نقری عطا فرمایا.اور حضرات علماء کرام نے مل کر سیکرٹری صاحب موصوف کو "خادم الاسلام" کا خطاب مرحمت فرمایا اور جناب سیکرٹری صاحب موصوف کو کثرت کے ساتھ پھولوں کے ہار پہنائے گئے.اور ان کو مرزا کاویانی کے مقابلہ میں فتح و نصرت کی مبارکبادیں دی گئیں 10 اور جلسہ برخاست ہوا.اس جلسہ اور مرزائے قادیانی کے مرنے کے بعد بھی اہل اسلام کے اعتقادات پختہ کرنے کے لئے کئی دن تک جلسے ہوتے رہے ان جلسوں میں حضرت شاہ موصوف نے ۱۵-۲۰ کے قریب علمائے دین و دیگر حضرات کو صلہ حسن خدمات تمغہ جات نقرئی عطا فرمائے " مولوی شاء اللہ صاحب کی مخالفت.مولوی ثناء اللہ صاحب جو پہلے حضرت اقدس کے مقابلہ میں مباہلہ سے صاف انکار کر چکے تھے.اب پھر خم ٹھونک کر سامنے آگئے.اور یہ کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب کی موت میرے مقابل اشتہار آخری فیصلہ کے نتیجہ میں واقع ہوئی.” مرقع قادیانی" اور اہلحدیث وغیرہ میں اس پر بہت کچھ لکھا.علاوہ ازیں اخبار وکیل ۱۳/ جون ۱۹۰۸ء میں لکھا.”ہم " سے کوئی پوچھے تو ہم خدا لگتی کہنے کو تیار ہیں کہ مسلمانوں سے ہو سکے تو مرزا کی کل کتابیں سمندر میں -

Page 235

تاریخ احمدیت جلد ۲ 206 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز نہیں کسی جلتے تنور میں جھونک دیں اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مورخ تاریخ ہندیا TA تاریخ اسلام میں ان کا نام تک نہ لے." خواجہ حسن نظامی صاحب کا مشورہ.خواجہ صاحب جیسے مرنجان مرنج طبعیت رکھنے والے انسان نے احمدیوں کو مشورہ دیا کہ وہ مرزا صاحب کے دعوئی مسیحیت و مهدویت سے صاف انکار کر دیں ورنہ اندیشہ ہے کہ مرزا صاحب جیسے سمجھدار اور منظم شخص کی عدم موجودگی کے سبب احمدی جماعت مخالفین کی شورش کو برداشت نہ کر سکے گی اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا." مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا حملہ: مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو کچھ عرصہ قبل گوشہ تنہائی میں چلے گئے تھے دوبارہ " اشاعۃ السنہ" کے ذریعہ حملے کرنے لگے.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کا فتنہ:.مخالفین سلسلہ میں جس شخص نے اس موقعہ پر سب سے زیادہ فتنہ اٹھایا.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی تھا.اس شخص نے بڑے وسیع پیمانے پر بے بنیاد پراپیگنڈا کیا کہ مرزا صاحب کی ہلاکت اس کی پیشگوئی کے مطابق ہوئی ہے.اس لئے معرکہ حق و باطل میں وہ فاتح ہے.نیز حضور کی متعدد پیش گوئیوں پر اعتراض کیا.کہ وہ غلط نکلیں اور آپ چل بسے اسی سلسلہ میں اس نے " اعلان الحق اور اس کا تکملہ وغیرہ شائع کئے.غرضکہ حضرت کے انتقال پر جماعت احمدیہ پر سچ مچ ایک زلزلہ سابپا ہو گیا اور وہ چاروں طرف سے نرنہ اعداء میں گھر گئی.مخالفین حق کے ان حملوں کی روک تھام کے لئے سب سے اہم ہتھیار اس وقت جماعت کے بزرگوں نے دعا کا اختیار کیا.اور دوسرے نمبر پر ان اعتراضات و شبہات کے ازالہ کے لئے رسائل و اخبارات (الحکم - بدر - شعید الاذہان - ریویو آف ریلیجنز وغیرہ) میں اداریے اور مضامین لکھے اور بعض کتابیں اور رسالے بھی شائع کئے گئے.مثلاً حضرت خلیفتہ امسیح اول نے ایک پمفلٹ ” وفات المسیح" کے عنوان سے اور مولوی محمد احسن صاحب نے ایک مضمون بعنوان حیات الانبیاء فی ممات الانبیاء " لکھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ایک کتاب " آئینہ صداقت " تالیف کی.ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ نے خدا کا مسیح اور اس کا وصال" نامی رسالہ لکھا.مولوی محمد علی صاحب نے ریویو آف ریلیجز میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے الحکم میں مقالے لکھے.ان کے علاوہ بعض دوسرے بزرگوں مثلاً حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب وغیرہ نے اخبارات سلسلہ میں قیمتی مضامین لکھے.مگر اس مرکب حملہ میں سلسلہ کی طرف سے کامیاب ترین مدافعت کا فریضہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سرانجام دیا.چنانچہ آپ اپنے اس "

Page 236

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 207 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز عہد کے مطابق جو آپ نے اپنے مقدس باپ کی نعش کے سامنے کیا تھا.سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف ہو کر میدان عمل میں آگئے.اور آپ نے "محمود اور محمدی مسیح کے دشمنوں کا مقابلہ " کے عنوان سے شہید میں ایک مفصل و مبسوط مضمون شائع کیا.جس میں مشہور مخالفین احمدیت کے اعتراضات کی دھجیاں بکھیر دیں اور حضور علیہ السلام کے متعدد الہامات و کشوف سے صاف طور پر واضح کر دکھایا کہ حضور کا وصال بھی آپ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اور آپ کی سچائی کا ثبوت ہے.یہ جواب ایسا مدلل اور مسکت اور موثر تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب سے فرمایا.کہ ”مولوی صاحب مسیح موعود کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی.مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے" الحکم میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے حکم ہی سے یہ بلند پایہ مضمون ۱۰/ جولائی ۱۹۰۸ء کو دیدہ زیب کتابت و طباعت سے ایک مستقل کتاب کی شکل میں بھی شائع ہوا جس کا نام حضرت خلیفہ اول نے الہام الہی سے ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے." رکھا.یہ کتاب جو سید نا کی 2 سب سے پہلی تصنیف ہے قریبا ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھی.اور اس کے آخر میں رسالہ الوصیت بھی لگا دیا گیا تھا.حضرت خلیفہ اول نے یہ کتاب بذریعہ رجسٹری مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھیجی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ مرزا صاحب کی اولاد ا چھی نہیں.آپ نے کتاب بھجواتے ہوئے لکھوایا کہ " حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے.جو میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو.تو مجھے بھیج دو." کتاب کی اشاعت نے جہاں اپنوں کے حوصلے بلند کر دئے.وہاں دشمنوں کی خوشیاں خاک میں اک میں F مل گئیں اور انہیں احمدیت میں قدرت ثانیہ کی ایک نئی قوت ابھرتی ہوئی دکھائی دینے لگی.خلافت اولیٰ کے عہد میں صدر انجمن صدر انجمن احمدیہ کا سب سے پہلا اجلاس قادیان میں ۱۳۰ مئی ۱۹۰۸ء کو بوقت آٹھ بجے احمدیہ کا سب سے پہلا اجلاس صبح حضرت سیدنا محمود احمد ایدہ اللہ تعالٰی کی زیر صدارت منعقد ہوا.جس میں مندرجہ ذیل اہم فیصلے ہوئے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہاسپٹل اسٹنٹ دہلی کی خدمت میں لکھا جائے کہ ”وہ بالفعل ایک سال کی رخصت لے کر قادیان آئیں.موجودہ حالات کے ماتحت سخت ضرورت ہے کہ بعض خدام حضرت مسیح موعود و مهدی معهود قادیان میں آکر یکجہتی سے کام کریں."

Page 237

تاریخ احمدیت جلد ۳ 208 احمد بیت میں نظام خلافت کا آغا -۲- درخواست مولوی محمد علی صاحب پیش ہوئی کہ کچھ مساکین کا کھانا حضرت اقدس نے لنگر خانہ سے بند کر کے ان میں سے بعض کے لئے لکھا ہے کہ مجلس انتظام کرے پیش ہو کر قرار پایا کہ اب حسب احکام حضرت خلیفتہ المسیح الموعود لنگر کی حالت دگرگوں ہو گئی ہے اس لئے اس کاغذ کو داخل دفتر کیا جاوے.شیخ غلام احمد صاحب سے متعلق درخواست ( تقرر واعظ ) حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں بھیجوائی جائے.دور خلافت اولیٰ کے آغاز میں ہی حضرت خلیفتہ المسیح نے بیت المال کا ایک بیت المال کا قیام مستقل محکمہ قائم فرمایا.اور حکم دیا کہ آئندہ مد زکوۃ کو صیغہ صدقات سے الگ کر کے صیغہ بیت المال میں شامل کیا جاوے.یعنی زکوۃ کا روپیہ بھی بیت المال میں آیا کرے اور اس کے لئے مناسب قواعد تجویز کئے جائیں.قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کا قیام حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی نے مخالفین کے جواب کے بعد دوسرا اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کے مشورہ سے انجمن " تشخیذ الاذہان" کے زیر انتظام وسط ۱۹۰۸ء میں ایک پبلک لائبریری قائم کی.لائبریری کے لئے حضرت خلیفہ اول نے کتابیں بھی دیں اور چندہ بھی دیا.حضرت ام المومنین نے ایک وسیع مکان اس کے لئے بنوا کر دیا.خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک بڑی رقم اس مد میں عنایت فرمائی علاوہ ازیں حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت میر محمد اسحق صاحب.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے بھی چندہ دیا.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.مفتی محمد صادق صاحب اور مید عبدالحی عرب نے کتابیں دیں.شیخ صاحب نے تو کتابوں کے علاوہ الحکم کے فائل بھی دئے.صدر انجمن احمدیہ نے اپنے کتب خانہ کی قابل فروخت کتابوں کا ایک ایک نسخہ دے دیا.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے احباب نے مدد دی.اس طرح قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کا قیام عمل میں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ اہل بیت کے اخراجات کا الہام الہی کے مطابق انتظام السلام کے وصال کے بعد آپ کے اہل بیت اور خاندان کے لئے خدا تعالیٰ نے کیسے انتظام فرمایا اس کی تفصیل میں حضرت سیدنا محمود خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں.”حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات بھی ہوئی.مگر ہمارے لئے مشکل یہ تھی کہ ہم سمجھتے ہی نہ تھے کہ آپ وفات پا جائیں گے.

Page 238

جلد 209 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز آپ فوت ہو گئے بعض.نے تحریک کی کہ آپ مطالبہ کریں کہ جو چندے آتے ہیں وہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہی آتے ہیں اس لئے ان میں سے ہمارا حصہ مقرر ہونا چاہئے.میں اس وقت بچہ تھا مگر یہ مشورہ مجھے اتنا برا معلوم ہوا.کہ میں نے کمرہ کے باہر شملنا شروع کر دیا کہ جو نہی مجھے موقعہ ملے میں والدہ سے اس کے متعلق بات کروں اور جب موقعہ ملا.میں نے کہا کہ یہ چندے کیا ہماری جائیداد تھی.یہ تو خد اتعالیٰ کے دین کے لئے ہیں.ان میں سے حصہ لینے کا کسی کو کیا حق ہے؟ پھر بعض لوگ ایسے تھے کہ جو یہ مشورہ کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے گزارہ مقرر کرنا چاہئے.چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے آکر کہا کہ ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ آپ کو گزارہ دیا جائے.میں نے کہا کہ ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں.ہم بندوں کے محتاج کیوں ہوں.اس وقت ہماری جائداد بھی پراگندہ حالت میں تھی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف توجہ نہ کی تھی.اور بظاہر گزارہ کی صورت نظر نہ آتی تھی.مگر میرے نفس نے یہی کہا کہ جو خدا انتظام کرے گا اسی کو منظور کروں گا.بندوں کی طرف کبھی توجہ نہ کروں گا.میرا جواب سن کر اس دوست نے کہا کہ پھر آپ لوگوں کے گزارہ کی کیا صورت ہوگی.میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی کا منشاء زندہ رکھنے کا ہو گا.تو وہ خود انتظام کر دے گا.اور اگر اس نے مارنا ہے تو وہ موت زیادہ اچھی ہے جو اس کے منشاء کے ماتحت ہو.گویا میں نے یہ دونوں صورتیں رد کر دیں.حصہ والی تجویز تو شرعاً ناجائز تھی.مگر میں نے دوسری صورت کو بھی منظور نہ کیا...آخر حضرت خلیفتہ المسیح اول نے مجھے بلایا اور کہا ہم آپ لوگوں کو اپنے پاس سے کچھ پیش نہیں کرتے.بلکہ خود حضرت مسیح موعود کا الہام ہے جس کے ماتحت میں نے گزارہ کی تجویز کی ہے.اور الہام میں رقم تک مقرر ہے.اب سوال انسانوں کا نہ رہا بلکہ خدا تعالیٰ کے دین کا آگیا اس لئے میں نے اس امر کو منظور کر لیا.جو گزارہ مقرر ہو اوہ ہمارے لئے تو خدا تعالی کے فضل سے کافی تھا گو اس زمانہ میں ہمارے بچے بھی اس میں گزارہ نہیں کر سکتے.مجھے اس وقت ساٹھ روپے ملتے تھے.جن میں سے میں دس روپے ماہوار تو شعمید پر خرچ کرتا تھا.سود بچے تھے بیوی تھی.اور کو کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی مگر خاندانی طور طریق کے مطابق ایک کھانا پکانے والی اور ایک خادمہ بچوں کے رکھنے اور اوپر کے کام میں مدد دینے کے لئے میری بیوی نے رکھی ہوئی تھی.سفر اور بیماری وغیرہ کے اخراجات بھی اس میں سے تھے.پھر مجھے کتابوں کا شوق بچپن سے ہے جس وقت میری کوئی آمد سوائے اس کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپڑوں کے لئے مجھے دیا کرتے تھے نہ تھی.تب بھی میں کتب خرید تا رہتا تھا.بلکہ اس سے پہلے جب کہ کاپیوں کاغذ قلم وغیرہ کے لئے مجھے تین روپے ماہوار ملا کرتے تھے.اس میں سے بھی بچا کر کتابیں خرید تا رہتا تھا اب تو میں نے دیکھا

Page 239

یت - جلد ۳ 210 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز ہے اچھی اچھی نوکریوں والے بھی نہیں خریدتے مگر مجھے اس وقت بھی یہ شوق تھا اس رقم سے جو بھی گزارہ کے لئے ملتی تھی.اپنی علمی ترقی کے لئے اور مطالعہ کے لئے کتابیں بھی خرید تا رہتا تھا اور کافی ذخیرہ میں نے جمع کر لیا تھا " - انجمن کے گزارہ کے بعد کس طرح خدا تعالٰی نے اپنے ایک دوسرے الہام کے مطابق خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے لئے خود ان کی ذاتی قابلیت اور جائداد کے ذریعہ تائید و نصرت کے دروازے کھول دئے ؟ اس کا ذکر بھی حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم مبارک سے کرتا ہوں.فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد والدہ مجھے بیت الدعامیں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی اور کہا میں سمجھتی ہوں یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے.میں نے ان الہامات کو دیکھا تو ان میں ایک الہام آپ کی اولاد کے متعلق یہ درج تھا.حق اولاد در اولاد.اسی طرح ایک اور الہام درج تھا.جو منذر تھا.اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ الہام محمود کی والدہ کو سنایا تو وہ رونے لگ گئیں میں نے کہا کہ تم یہ الہام مولوی نور الدین صاحب کے پاس جا کر بیان کرو.انہوں نے محمود کی والدہ کو تسلی دی.اور کہا کہ یہ العام منذر نہیں بلکہ مبشر ہے.حق اولاد در اولاد کے معنے در حقیقت یہی تھے کہ وہ حق جو باہر سے تعلق رکھتا ہے یعنی زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ میں حصہ یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ میں نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے دنیا کے لیڈر ہی بنیں گے اور یہ وہ ورثہ ہے.جو ہم نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بعد میں جو کچھ ملا.حق اولاد در اولاد کی وجہ سے ہی ملا.اور میں نے جتنے کام کئے اپنی دماغی اور ذہنی قابلیت کی وجہ سے ہی کئے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں کب تک بڑھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں گا اب تمہاری اولاد جوان ہے اس سے کام لو.اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپرد کرد والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دے دئے...میں ان دنوں قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام کرنے کے لئے مجھے کہا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے.مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جاندار ہے کیا بلا اور وہ کس سمت میں ہے.مغرب میں ہے یا مشرق میں.شمال میں ہے یا جنوب میں.میں نے زمینوں کی لٹیں اپنے ہاتھ میں لے لیں اور افسردہ شکل بنائے گھر سے باہر نکلا مجھے اس وقت یہ

Page 240

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 211 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز علم نہیں تھا کہ ”حق اولاد در اولاد کا الہام کیا کام کر رہا ہے.میں جو نہی باہر نکلا ایک صاحب I مجھے ملے اور کہنے لگے میاں صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ کی زمینوں کے لئے کسی نوکر کی ضرورت ہے.میں نے کہا میں حیران ہوں کہ یہ کام کس طرح کروں.کہنے لگے میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں میں نے کہا آپ شوق سے یہ کام سنبھالیں.در حقیقت یہ آپ کا ہی حق ہے.مگر آپ لیں گے کیا؟ کہنے لگا آپ مجھے صرف دس روپے دے دیجئے.میں نے کہا دس روپے میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.کہنے لگے آپ فکر نہ کریں.بڑی بھاری جائداد ہے اور میری تنخواہ اس میں بڑی آسانی کے ساتھ نکل آئے گی.میں نے اسی وقت بغیر پڑھے رجسٹر ان کے حوالے کر دئے اور کہا کہ اگر دس روپے پیدا کر سکیں تو لے لیجئے.ورنہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں اس کے بعد انہوں نے خدا کے فضل سے اس سے بہت آمد پیدا کر کے دی - کتاب ”پیغام صلح" کے خلاف محاز حضرت اقدس علیہ السلام کے قلم مبارک کا لکھا ہوا آخری رسالہ ”پیغام صلح " تھا.جس میں حضور نے سلام سلام ملک میں امن و آشتی کی مستقل بنیاد قائم کرنے کے لئے بعض اہم تجاویز رکھی تھیں.خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ رہا ئیکوٹ نے ۲۱ / جون ۱۹۰۸ء کو پنجاب یونیورسٹی ہال میں رائے پر تول چند ر صاحب چیف جسٹس ہائیکورٹ کی صدارت میں جلسہ عام میں پڑھ کر سنایا.خواجہ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح کا ایک خط بھی پڑھا.جس میں آپ نے بحیثیت امام و مقتدا خواجہ صاحب کو یہ مضمون پڑھنے کی اجازت دی تھی.یہ پیغام خدا کے فضل سے اندرون و بیرون ملک میں عام طور پر بڑی وقعت و عظمت کی نگاہ سے دیکھا گیا.اور اس پر بڑے عمدہ ریویو لکھے گئے.مگر افسوس پنجاب کے متعصب اور تنگ دل طبقوں میں ”پیغام صلح" کی مخالفت کی گئی.چنانچہ رسالہ المجد د نے جولائی ۱۹۰۸ء کے شمارہ میں اسے آپ کی کوئی گہری سازش اور چال قرار دیا.آرید اخبار " پر کاش " اور پادری اکبر مسیح نے رسالہ " تجلی " (لاہور) میں پیغام صلح کی نسبت سخت زہر افشانی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ فسادی قرار دے کر یسوع کی تعریف میں لکھا کہ وہ صلح کا شہزادہ تھا اور اس نے دشمنی کا لفظ ہی لغت سے کاٹ دیا ہے.الله الله اخبار "المجدد" کی مضحکہ خیز تنقید تو محض مخالفت برائے مخالفت تھی.باقی رہا آریہ اخبار کا مخالفت کرناتو وہ اپنے بارودی مزاج اور فطرت ثانیہ کے اعتبار سے نیش زنی پر مجبور تھے.چنانچہ رسالہ ” انوار الاسلام " سیالکوٹ نے لکھا.” جو مبارک پیغام ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو مٹانے کے لئے لکھا تھا وہ گو صلح جو اہل ہنود میں ایک عمدہ تحریک پیدا کر رہا ہے مگر آریہ سماج کے پلیٹ فارم سے

Page 241

تاریخ احمدیت جلد ۳ 212 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اسے بہت نکتہ چینی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے.جس فرقہ کی گھٹی میں ہی نکتہ چینی اور دوسرے کے بزرگوں کو ہتک آمیز کلمات سے یاد کرنا پلایا گیا ہو ان سے صلح جوئی کی امید رکھنا محض عبث ہے " البتہ پادری اکبر مسیح نے دیگر مخالفین کی پیٹھ ٹھونکنے کے لئے جو مضمون لکھا چونکہ وہ کسی قدر توجہ کا ضرور مستحق تھا اس لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے رسالہ "شہید الا زبان " (دسمبر ۱۹۰۸ء) میں یسوع کی بھیڑیں " کے عنوان سے اس کا بڑے زور دار پیرایہ میں رد کیا اور انجیل کی روشنی میں لکھا کہ عیسائیوں کا یسوع صلح کا دشمن تھا اور جنگ کا شیدا.چنانچہ اس کا قول تھا.کہ میں صلح کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں پھر وہ اپنے حواریوں کو تلوار خریدنے کی اس قدر تاکید کرتا ہے.کہ اگر ان کے پاس روپیہ نہ ہو کپڑے بیچ کر خریدیں اور اس کے علاوہ انہیں بادشاہتوں کے وعدے بھی دے دیتا ہے.اور اخلاق اس کے یہ ہیں کہ ماں کی جنگ کرتا ہے.اور اس زمانہ کے علماء سے جب اس سے شرافت سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ آگے سے گندہ دہانی سے جواب دیتا ہے اس کے برخلاف ہمارے امام حضرت مسیح موعود کا خود دعوئی آپ کی صلح پسندی کا گواہ ہے.قدرت ثانیہ کے لئے اجتماعی دعا حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرت ثانیہ کے ظہور کے لئے ہر ملک میں اکٹھے ہو کر اجتماعی دعا کرنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو حکم دیا کہ وہ اخبارات میں اجتماعی دعا کی تحریک شائع کریں.چنانچہ انہوں نے اس کی تعمیل میں اعلان کر دیا.قادیان میں حضرت میر صاحب ایک عرصہ تک سجد مبارک میں یہ اجتماعی دعا کراتے رہے.ایک دفعہ احمد یہ اللہ نگس کے چاروں ممبران صدر انجمن مسجد مبارک میں تھے کہ آپ حسب معمول دعا شروع کرانے لگے.تو یہ حضرات یہ کہہ کر چل دئے کہ حضرت میر صاحب قادیان والوں کو تو دعا کے لئے اللہ تعالیٰ نے موقعہ دے رکھا ہے.آپ دعا کیا کریں.ہمیں تو اور بھی کام ہیں ہم نے ان کو بھی سرانجام دیتا ہے ".حضرت میر ناصر نواب صاحب نے باہمی محبت و مواساة اور اسلامی اخوت مجلس ضعفاء کا قیام پیدا کرنے کے لئے ایک مجلس ضعفاء کی بنیاد بھی رکھی جسے حضرت خلیفتہ المسیح نے بھی پسند فرمایا.اس مجلس میں سب کے سب غرباء شامل تھے.ہر آٹھویں روز مجلس کے ممبر اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاتے اور ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھاتے تھے حضرت میر صاحب نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ ان میں بیٹھتے اور اپنے غریب بھائیوں کی دلجوئی کرتے تھے.

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 213 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز نانا جان حضرت میر ناصر نواب مجلس ضعفاء کے قیام کے تسلسل میں مناسب ہو گا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی جماعتی صاحب کی ناقابل فراموش خدمات خدمات کا کچھ ذکر کر دیا جائے.ft.+10 حضرت میر صاحب وسط ۱۸۹۵ء میں مستقل طور پر قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے اور الدار میں رہائش اختیار کرلی اور ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو انتقال فرمایا.اس انتیس سالہ دور میں مرکز احمدیت کی ترقی و بہبود اور رفاہ عامہ کے جو جو اہم تعمیری کام ہوئے وہ اکثر و بیشتر آپ کی اولوالعزمی اور سعی بلیغ کا نتیجہ تھے.اور یقیناً قادیان کی مقدس بستی کو صاف اور ستھرا شہر بنانے میں آپ نے ناقابل فراموش خدمات کی ہیں.حضرت میر صاحب قادیان اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے جیسا کہ انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح میں خود تحریر فرمایا.گویا میں ان کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا.خدمتگار تھا.انجینئر تھا.مالی تھا.زمین کا مختار تھا.معالمہ وصول کیا کرتا تھا.اس طرح وہ تمام کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی شعت کیوجہ سے یونسی پڑے تھے وہ آپ نے سنبھال لئے.حضرت مسیح موعود کے باغ میں ہزار ہا گلوں میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے پھولدار بیلیں.آم.لوکاٹ.شہتوت امرود وغیرہ ہر قسم کے درخت بڑی محنت سے لگوائے.ایام زلزلہ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود اپنے عشاق کے حلقے میں یہاں رونق افروز تھے.یہ باغ پورے جو بن پر تھا کھیتوں میں سبزی ترکاری کا سلسلہ بھی آپ نے شروع کیا اور باغ کے علاوہ جہاں جہاں زمین اس غرض کے لئے مل سکی.آپ نے کار آمد بنالی.مدرسہ احمدیہ کے متصل جہاں بعد میں قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل آف گولیکی کا مکان اور شعید الاذہان کا دفتر تھا وہاں بھی مدتوں سبزی وغیرہ پیدا کی جاتی رہی.حضرت اقدس کے اندار میں کوئی تعمیر ہوتی تو حضرت میر صاحب قبلہ سارا سارا دن کھڑے تعمیر کا کام کراتے رہتے تھے.۲۹/ جنوری ۱۹۰۶ء کو صدر انجمن احمدیہ کے انجینئر اور اسٹور کیپر مقرر ہوئے.۲۱ مارچ ۱۹۰۷ء کو آپ کو صیغہ تعمیر کے ایک حصہ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی اور آپ کے سپرد مسجد اقصیٰ کی توسیع کا کام ہوا.بعض کھڑکیوں کے متعلق جھگڑا ہوا.معاملہ حضور تک گیا.تو حضور نے فرمایا کہ میر صاحب نے جہاں کھڑکیاں دروازے رکھ دئے ہیں وہیں رہنے دئے جائیں.اسی سال اکتوبر ۱۹۰۷ء میں مسجد کی توسیع بھی آپ کی نگرانی میں ہوئی مدرسہ احمدیہ جس جگہ واقع ہے یہاں بہت بڑی ڈھاب تھی.حضرت میر صاحب نے سلسلہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر اس ڈھاب میں بھرتی ڈلوائی اور ان زمینوں کو پانی سے نکال کر سلسلہ کے لئے ایک قیمتی جائداد بنا دیا.بھرتی پڑ رہی تھی کہ ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بعض رفقاء نے کہنا شروع کر دیا کہ " میر صاحب سلسلہ

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 214 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز کا روپیہ غرق کر رہے ہیں." آپ نے جواب دیا.میں غرق کر رہا ہوں تم سے لے کر نہیں حضرت صاحب کا روپیہ ہے.تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو.جاؤ حضرت صاحب سے کہو " - بھرتیوں کے معاملہ میں بھی حضور نے یہی فرمایا کہ " میر صاحب کے کاموں میں داخل نہیں دیتا چاہئیے." DA ود حضرت میر صاحب نے پرانی بنیادوں سے اینٹیں کھدوا کر ان سے گول کمرہ کے آگے ایک خوبصورت سا احاطہ بنا دیا.جو قابل رہائش صورت اختیار کر گیا.جب حضرت میر صاحب وہاں سے اینٹیں نکلوار ہے تھے اس وقت بھی بعض کو تاہ اندیشوں نے اعتراض کیا کہ یہ کیا لغو کام کر رہے ہیں ؟ مگر آپ نے اس کی ذرہ بھر پروانہ کی اور برابر سلسلہ کے کام کرتے چلے گئے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دراصل وہی تعمیرات سلسلہ کے ناظم تھے.اور اس کام کو انہوں نے نہایت درجہ اخلاص و محنت سے سرانجام دیا.خلافت اولی کے آغاز ہی سے آپ نے قادیان کے غرباء اور دوسرے مقامی باشندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف خاص توجہ مبذول کرنی شروع کر دی تھی چنانچہ مجلس ضعفاء اس کی پہلی کڑی تھی.ناصر وارڈ.مجلس ضعفاء کے قیام کے بعد آپ نے قومی ضروریات کا وسیع جائزہ لیا.تو سب سے پہلے آپ کے سامنے یہ مسئلہ آیا.کہ صدر انجمن احمدیہ نے مختصر سی ڈمپنری کھول رکھی تھی.مگر زیر علاج مریضوں کے لئے کوئی مخصوص مکان نہ تھا اور مریض عموماً حضرت خلیفہ اول کے مکانوں میں یا کرایہ کے مکانوں یا مہمان خانہ یا بورڈنگ ہاؤس میں قیام کرتے تھے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت میر صاحب کے دل میں پر زور تحریک اٹھی کہ وہ ایک ایسا مکان تعمیر کرائیں جس میں ڈسپنسری کے ساتھ بیماروں کے لئے بھی وسیع ہال ہو چنانچہ ۱۹۰۹ ء کے شروع سے آپ نے جماعت میں اس کے لئے چندوں کی تحریک کرنا شروع کر دی اور اس کا نام ایڈیٹر اخبار بد رنے نا صر وارڈ رکھا.ناصر وارڈ کے کام پر حضرت خلیفہ اول نے نہایت درجہ خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اس کے لئے خود بھی چندہ دیا اور دوسروں کو بھی تحریک فرمائی.اس کے ابتدائی اخراجات کے لئے پہلی قسط آپ نے 1910ء میں مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ کے پاس جمع کرا دی تھی.آخر ۱۹۱۸ء میں نور ہسپتال کی شکل میں مکمل ہو گیا جو ہندوستان کے مسلمان فرقوں میں خدمت خلق کا ایک مثالی ادارہ تھا.مسجد نور یہ نئے بورڈنگ اور ہائی سکول کے مابین واقع مشہور مسجد ہے.جو آپ کی کوشش اور محنت سے تیار ہوئی.

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 215 احمدیت میں کلام خلافت کا آغاز دار الضعفاء غرباء کے لئے رہائشی مکانات کاملمنا سخت مشکل ہو رہا تھا آپ نے بہشتی مقبرہ کے ساتھ دار لضعفاء کا ایک حصہ آباد کر دیا.اس محلہ کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح اول نے 1911ء میں رکھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ۲۲ مکانات کے لئے زمین عطا فرمائی.پہلا مکان حضرت خلیفہ اول کے خرچ پر بنا.آج کل یہ محلہ ناصر آباد کے نام سے موسوم ہے ۱۹۱۳ء میں آپ نے ناصر آباد میں مسجد بھی تعمیر کرا دی اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی بنوا دیا.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے ان ہی خدمات کے باعث انہی دنوں اپنے قلم سے ایک خط لکھا کہ مکرم معظم حضرت میر صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش بھی ہوتی ہے اور دل میں بڑی تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ.زنانہ.مردانہ.مسجد اور دار الضعفاء کے لئے چندہ ہو.اور آپ ان میں بچے - - ۶۵ دل سے سعی و کوشش فرمارہے ہیں اور بحمد اللہ آپ کے اخلاص صدق وسچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہو رہا ہے اور ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پر جوش ہیں ہمارے اور کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں.و ما نالك على الله بعزيز - " حضرت مسیح موعود کی یادگار میں حضرت خلیفتہ المسیح اول کے دل میں خلافت کے دینی مدرسہ کے لئے تحریک ابتدائی ایام میں ہی یہ تحریک اٹھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار میں اعلیٰ پیمانہ پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں واعطین اور مبلغین تیار کئے جائیں ۱۹۰۵ء میں ایک "شاخ دینیات "مدرسہ تعلیم الاسلام کے ساتھ قائم تھی.مگر غالبا ننڈ کی کمی کی وجہ سے اس کی حالت نہات درجہ ناقص تھی.لہذا حضرت خلیفہ اول کے حکم سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.حضرت نواب محمد علی خان صاحب.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے یہ تحریک پوری جماعت کے سامنے رکھی اور بتایا کہ اعلیٰ پیمانہ پر مدرسہ چلانے کے لئے عمدہ مکان اور بہترین لائبریری کا ہونا ضروری ہے یہ مدرسہ دنیا میں اشاعت اسلام کا ایک بھاری ذریعہ ہو گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار بھی لہذا دوستوں کو اس کے لئے پوری پوری مالی قربانی کرنی چاہئے.نیز لکھا.اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ یہ بڑے بھاری اخراجات ہیں.اور قوم ان اخراجات کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکے گی.تو یہ ایک کمزری کا خیال ہو گا " مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس تحریک کی اشاعت پر " مرقع قادیانی" میں یہ تبصرہ کیا کہ خلیفہ نورالدین نے حکم دیا ہے کہ مرزا کی یادگار میں دینی مدرسہ قائم کیا جائے ہم اس مدرسہ کی تائید "

Page 245

تاریخ احمدیت 216 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز کرتے ہیں امید ہے کہ مرزا صاحب کے راسخ مرید جی کھول کر اس میں چندہ دیں گے کہ آخر کار یہ مدرسہ ہمارا ہو گا اور مرزائی خیال عنقریب نیا منسیا ہو کر اڑ جائے گا." واعظین سلسلہ کا تقرر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں انجمن کی طرف سے باقاعدہ کوئی واعظ تبلیغ سلسلہ کے لئے مقرر نہ تھے مگر اب خلافت اوٹی کے شروع میں ہی اس کی پوری شدت سے ضرورت محسوس ہوئی اور خود حضرت خلیفتہ المسیح کی طرف سے اس کی تحریک ہوئی.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے انجمن نے سب سے پہلے شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم کو اور بعد ازاں مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو واعظ مقرر کیا ان کے بعد بعض اور واعظ مثلا الہ دین صاحب فلاسفر بھی نامزد ہوئے.واعظ اول شیخ غلام احمد صاحب کے تقریر کا واقعہ ذرا تفصیل سے ذکر کرنا موجب دلچسپی ہو گا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے صدرانجمن احمدیہ میں درخواست بھیجی کہ ان کو واعظ مقرر کیا جائے صدر انجمن نے اپنے اجلاس منعقدہ ۳۰/ مئی ۱۹۰۸ء میں فیصلہ کیا کہ چونکہ تقرر واعطین حضرت خلیفہ المسیح کے ہاتھ میں ہے اس لئے شیخ یعقوب علی صاحب کو لکھا جائے کہ وہ تحریری درخواست حضرت امام کی خدمت میں بھیج دیں.حضرت خلیفتہ المسیح نے اس کی منظوری دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ بڑے شہروں کی نسبت زیادہ تر چھوٹے چھوٹے دیہات میں جانا چاہئے.اور تھوڑا تھوڑا دودو تین تین میل کا سفر روز کریں اور اسباب اٹھوانے کے لئے ان کے پاس آدمی ہو.گاؤں کے لوگ مدد کر سکتے ہیں یا ٹو کر لیا کریں.مطلب یہ ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو اللہ اکبر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی آواز پہنچ جائے اور موسم سرما کے ابتداء تک اس طرح آپ ایک ضلع کو ختم کر سکتے ہیں.بدر (۳۰/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب یکم اگست ۱۹۰۸ ء سے تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اس پہلے دورہ میں امرتسر سے حیدر آباد تک جانے کا پروگرام تھا ان کے گھر کے اخراجات حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے برداشت کئے اور سفر خرچ انجمن کی طرف سے ملا شیخ صاحب کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی کا تقرر عمل میں آیا.آپ پنجابی زبان کے مشہور شاعر بھی تھے.ان کو ابتداء جموں- پونچھے.وزیر آباد گوجرانوالہ وغیرہ کے شہروں اور دیہات میں بھجوایا گیا ان ابتدائی واعطین کے فرائض میں چندہ کی فراہمی اور نئی انجمنوں کا قیام بھی ہو تا تھا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی عہد خلافت کے اولین واعظوں میں سے تھے.آپ پنجابی زبان کے بڑے عمدہ واعظ تھے اور زبان میں بڑی تاثیر تھی.اس زمانہ میں حافظ صاحب نے بڑا کام کیا ہے.

Page 246

تاریخ احمدیت جلد ۳ 217 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز حضرت مولانار اجیکی صاحب کا تقرر خلیفہ اول کے حکم سے احمد یہ بلڈ نگس لاہور میں ہوا.جہاں آپ نے سلسلہ کی دھاک بٹھادی.علاوہ ازیں خلافت اوٹی کے عہد میں آپ نے ملک کے طول و عرض میں بے شمار تقریریں کیں.بڑے بڑے معرکتہ الاراء مبائے گئے اور متعدد جماعتیں قائم کیں جن کا کسی قدر تذکرہ اپنے اپنے مقامات پر آئے گا.الہ دین صاحب فلاسفر کو دیہات کے لئے واعظ مقرر کرنے سے قبل حضرت خلیفہ اول کے ارشاد سے مفتی محمد صادق صاحب کی موجودگی میں لیکچر کرایا گیا.چنانچہ فلاسفر صاحب کافی عرصہ تک دیہات میں اپنے علم و قسم کے مطابق یہ خدمت سر انجام دیتے رہے.مگر افسوس ان کے وعظ و تبلیغ میں تمسخر اور استہزاء کی جھلک زیادہ نمایاں ہوتی تھی.جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور بالاخر انتہا تک پہنچ گئی.یہ تو فقط انجمن کے زیر انتظام چند واعظوں کے نام ہیں ورنہ جلسوں اور مباحثوں میں حصہ لینے والے کئی مقررین و واعطین خدا کے فضل سے آگے آئے جن کا ذکر مختلف مقامات پر آرہا ہے.بھیرہ کی جائداد کا سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف کرنا حضرت خلیفہ اسی اول اے المسیح نے جولائی ۱۹۰۸ء میں اپنی بھیرہ کی قیمتی جائداد صد را انجمن احمدیہ کے نام ہبہ کردی.جو دیوان گنپت رائے اور دولت رائے آف بھیرہ نے پانچ ہزار چھ سو ستاسی روپیہ بارہ آنے میں خریدی.جس میں سے دو سال کی زکوۃ کی رقم آپ نے مر ز کوۃ میں منتقل کرنے کی ہدایت فرمائی.تشدد پسند پارٹیوں کی مذمت تقسیم بنگال اور یونیورسٹیز ایکٹ کے بعد ۱۹۰۶ ء میں کانگریس نے اپنے اجلاس کلکتہ میں لوکل سیلف گورنمنٹ دئے جانے کا مطالبہ کیا اور ملک میں جابجا د ہشت انگیز اور انقلاب پسند خفیہ انجمنیں قائم ہو گئیں اور ہم سازی اور یورو چین افسروں کے قتل کی سازشیں زور پکڑ گئیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول ﷺ نے ان ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ " نیکی اور بھلائی اور رفاہ عام کے کام کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے اخفا ضروری ہو اس لئے اگر کوئی خفیہ انجمن اپنے اغراض نوع انسان کی بھلائی کے متعلق ظاہر نہیں کرتی یا نہیں بتاتی وہ کبھی قابل تسلیم نہیں ہو سکتی کیونکہ ان انجمنوں میں شرارت اور شیطنت ہوتی ہے خفیہ انجمنوں کی تاریخ پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں وہ ہیں انہوں نے امن عامہ میں خلل ڈالا ہے ہم ایسی انجمنوں سے سخت بیزار ہیں......پس ان سے ہمیشہ پر ہیز کرو."

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 218 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل کی روشنی میں آپ کا یہ مشورہ ایک نہایت مبارک اقدام تھا جس نے نہ صرف جماعت کو بلکہ مسلمانوں کو تباہی سے بچالیا.کیونکہ یہ واضح بات ہے کہ اگر اس زمانہ میں کانگریس کے منصوبے کامیاب ہو جاتے تو ملکی اقتدار کی پوری باگ ڈور مستقل طور پر ہندو اکثریت کے ہاتھوں میں چلی جاتی !! چنانچہ "نوائے وقت" میں لکھا ہے:."مسلمان کی آزادی کے لئے محض انگریز کا اس بر صغیر سے چلا جانا کافی نہیں تھا.انگریز کے بعد مسلمان ہندو اکثریت کے غلام بن جاتے کیونکہ یہ دونوں سے حکومت کا دور تھا.شاہ و شمشیر کا دور ختم ہو چکا تھا.اب مسلمان اقلیت تمام بر صغیر پر قابض نہیں ہو سکتی تھی.ان حالات میں مسلمانوں کی آزادی کا ضامن مسلم اکثریت کے علاقوں میں آزاد ملک پاکستان کا قیام تھا.اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ۱۹۴۰ء سے پیشتر مسلم مجاہدین آزادی کی کامیابی (یعنی تقسیم کے بغیر بر صغیر سے انگریزوں کا چلے جانا) بے وقت غیر موزوں اور مسلم قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی".مولوی عبد اللہ العمادی کا ایک نوٹ رسالہ البیان کے ایڈیٹر مولوی عبد اللہ العمادی اور حضرت خلیفہ اول کا ان کے (۱۸۷۴ - ۱۹۴۷ء) نے ماہ جمادی الاولی ۱۳۲۶ھ (مطابق ۱۹۰۸ء) کے رسالہ میں " پیغمبروں کی تھے.موت" کی سرخی کے تحت ایک نوٹ لکھا کہ نام ایک خط دوسرے پیغمبر میرزا غلام احمد صاحب قادیانی تھے جو ہندوستان کے مشہور صاحب مذہب ان پر وحی بھی آتی تھی.ان کی رائے میں خنزیر سے مراد موجودہ عیسائیت تھی اور دجال آج کل کے پادری تھے انہوں نے بڑے زور شور سے علمی جنگ کر کے دنیا کو ثابت کر دیا کہ میں صلح کل مهدی ہوں......میرزا صاحب کے مرنے پر ان کے جانشین جناب مولوی نور الدین صاحب ہوئے ہیں.صاحب موصوف عربی کے مشہور پر جوش عالم علوم اسلام میں سر بر آوردہ اور مذہبی لٹریچر میں وسیع الاطلاع ہیں....اس کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارا یہ زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں ہے." حضرت خلیفتہ المسیح اول نے البیان کا یہ شذرہ پڑھ کر مولوی عبد اللہ العمادی کو ایک مفصل خط لکھا جس میں بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے عقائد لکھنے کے بعد حضرت اقدس کے جملہ دعا دی کو قرآن و حدیث سے ثابت فرمایا اور آخر میں لکھا:."آپ نے ہزاروں پیشگوئیاں کیں جو صحیح ہو ئیں.جو بظاہر کسی کو نظر آتا ہے کہ صحیح نہیں ان پر مرزا صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے آپ نے با اینکہ محمد رسول اللہ کو خاتم النبین مانا اور ان کے عشق و محبت میں ہزاروں صفحہ لکھا ہے بے ریب لکھا ہے کہ میں نبی بمعنی

Page 248

تاریخ احمدیت جلد ۳ 219 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز پیشگوئی کرنے والا ہوں.مجھے احادیث اور کلام الہی میں نبی کہا گیا مگر نہ نبی تشریع اور یہی مذہب تمام صوفیائے کرام کا ہے فتوحات یکیہ پر آپ غور کریں.آپ کی سرخی اور آپ کا مضمون کم سے کم چار لاکھ مسلمان احمدیوں کو دکھ دینے والا ہے...مولوی صاحب آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں اس پر دریافت طلب امر یہ ہے کہ آپ کا اس بارے میں وحی نبوت ہوئی ہے کہ آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں یا آپ کی دہریت کا فتوی ہے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کا ظہور اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا بھی ظہورا ہوا کہ زلزلہ در گور نظامی نکند " حضور کا اس کے بعد کا یہ الہام تھا کہ ہندوستان اور پنجاب میں دبائے تپ سخت پھیلے گی.چنانچہ اس وباء سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل ہوئے اور اس نے خصوصاً امر تسر میں بہت تباہی مچائی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لیکچر کے وقت پھر پھینکے گئے تھے اور رمضان کے مہینہ میں سارا شہر قریباً بے روزہ رہا.اس قبری نشان کے علاوہ جیسا کہ پیشگوئی میں تھا مملکت نظام (حیدر آباد) ستمبر ۱۹۰۹ء میں ایک ہولناک سیلاب کی لپیٹ میں آگئی.جس سے ہزاروں جائیں تلف ہو ئیں اور محلوں کے محلے نیست و نابود ہو گئے.قمری نشان کے عنوان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مضمون شائع کیا.جس کے آخر میں درد مند دل سے لکھا."اے دوستو ! خدا کے لئے غور کرو اور دیر نہ کرو کیونکہ خدا کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.آؤ تو بہ کا دروازہ کھلا ہے.خدا تمہاری حالت پر رحم کرے اور تمہیں اپنے برگزیدہ کی شناخت عطا فرمائے ".سیلاب اور جماعت کی خبر گیری کا انتظام حیدر آباد سے زلزلہ کی اطلاع ملنے پر حضرت خلیفتہ المسیح اول نے وہاں کئی رجسٹری خطوط لکھے اور تار بھجوائے تا جماعت کی خیریت کا علم ہو.مگر جب کوئی خبر نہ ملی تو آپ نے حاجی ابو سعید صاحب عرب کو اپنے ذاتی مصارف سے مصیبت زدوں کی خبر گیری کے لئے روانہ فرمایا.اور یہ پیغام دیا کہ اگر کسی احمدی کے اہل وعیال اس ناگہانی طوفان سے لاوارث ہو گئے ہوں تو فوراً قادیان روانہ کر دیں ہم ہر طرح ان کے ذمہ دار اور کفیل ہوں گے.چنانچہ ابو سعید صاحب عرب دو ر د ر از مسافت طے کر کے وہاں پہنچے اور جماعت کے دوستوں کو ہر طرح تسلی و تشفی دی.جماعت کو ان کی آمد پر بہت خوشی ہوئی.آپ نے دیکھا کہ خدا کے فضل سے سب احمدی ہر طرح محفوظ تھے.حالانکہ اکثر احمد یوں کے مکانات انہیں مقامات پر واقع تھے جو کامل تباہی کا منظر پیش کر رہے تھے.

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 220 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز ۱۹۰۸ء کے رمضان میں حضرت خلیفتہ اصبح اول مسجد مبارک میں اعتکاف اور درس ی نے درس القرآن اور اعتکاف کے خاص مجاہدے کئے آپ کے ساتھ سید نا محمود بھی معتکف ہوئے.چنانچہ اخبار بد ر۲۳/ اکتوبر ۱۹۰۸ ء میں لکھا ہے.حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسلمین مولوی نور الدین ایدہ اللہ رب العالمین.بیسویں تاریخ ماہ رمضان سے مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھ گئے ہیں.آپ کے ساتھ کان رسالت کا چمکتا ہوا ہیرا سید محمود بھی معتکف ہے.مولانا کی فیض رساں طبیعت اس خلوت میں بھی جلوت کا رنگ دکھا رہی ہے قرآن مجید سنانا شروع کیا ہے صبح سے ظہر کی اذان تک اور پھر بعد از نماز ظہر عصر تک اور عصر سے شام اور پھر عشاء کی نماز کے بعد تک تین پارے ختم کرتے ہیں.مشکل مقامات کی تفسیر فرما دیتے ہیں.سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے ہیں.یہ نہ تھکنے والا دماغ خاص موہبت الھی ہے".لنگر خانہ کا انتظام صدرانجمن کی نگرانی میں لنگر خانہ کا انتظام حضرت مسیح موعود کی زندگی میں براہ راست حضور کے ہاتھ میں تھا مگر حضور کے وصال کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح اول کے منشاء کے مطابق لنگر خانہ کا انتظام صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں دے دیا گیا اور اس کے لئے سالانہ بجٹ ۱۲۷۶۷ روپے منظور ہوا.خلافت اولی میں جو بزرگ لنگر خانہ کے مہتمم رہے ان کے نام یہ ہیں.(۱) حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی حکیم محمد عمر صاحب II حضرت قاضی خواجہ علی صاحب - ۱۹۰۸ ء میں سید نا محمود کے بعض تبلیغی سفر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سے ہی سید نا محمود میں تبلیغ حق کا ایک خاص جوش پیدا ہو چکا تھا اور اپنی تعلیمی مصروفیات انجمن حمید الاذہان کی اہم ذمہ داریاں اور صدر انجمن کی ضروریات کے باوجود آپ کو جہاں کہیں جانے کا اتفاق ہو تا آپ لیکچر دیتے اور خدا کے دین کی منادی کرتے اس تعلق میں آپ کا سب سے پہلا سفر جو اس غرض کے لئے ہوا.بیگووال (ریاست کپور تھلہ) کی طرف تھا.آپ حضرت خلیفتہ المسیح کی اجازت سے کسی شادی کی تقریب پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے لیکچر دیا.یہ وہی گاؤں ہے جہاں آپ کے پڑدادا حضرت میرزا عطا محمد صاحب برسوں پناہ گزین رہے تھے.اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح اول کے حکم سے اور جماعت کا ٹھ گڑھ (ضلع ہوشیار پور) کی درخواست پر ۱۶/ دسمبر ۱۹۰۸ء کی صبح کو حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ کاٹھ گڑھ تشریف لے گئے

Page 250

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 221 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اور غالبا ۲۱ / دسمبر کو وارد قادیان ہوئے.کاٹھ گڑھ میں آپ کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور وہ یہ کہ جب آپ وہاں پہنچے تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ فلاں طرف رستہ میں ایک شدید دشمن رہتا ہے.اندیشہ ہے کہ کہیں آپ پر حملہ نہ کر دے لیکن آپ نے اس بات کی ذرا پرواہ نہ کی اور اسی رستہ پر چل پڑے.جب اس شخص کی نظر آپ پڑی تو وہ دوڑ کر آپ کی طرف آیا آپ کے ساتھیوں نے سمجھا کہ شاید آپ پر حملہ کرنے آ رہا ہے اس لئے وہ لاٹھیاں لے کر اکٹھے ہو گئے لیکن وہ شخص انہیں دھکہ دیتے ہوئے آگے بڑھا اور کہنے لگا یہ صرف تمہارے ہی پیر نہیں بلکہ ہمارے بھی پیر ہیں کیا ہم ان کی زیارت بھی نہ کریں پھر اس نے ایک روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا یہ میری طرف سے نذرانہ ہے اسے قبول فرما ئیں.عہد خلافت اولی کے پہلے سالانہ جلسہ کے مختصر کوائف اس سال احباب جماعت کو غیر معمولی رنگ میں کئی مرتبہ قادیان اور لاہور آنا پڑا.پھر قحط سالی اور بخار کی عالمگیر و با ہر طرف پھیلی ہوئی تھی.مگر عہد خلافت اوٹی کا یہ پہلا جلسہ نہایت بارونق تھا.جس میں شامل ہونے والے اصحاب دو تین ہزار کے لگ بھگ تھے.حضرت خلیفہ اول میں اللہ کی تقریریں:.جلسہ پر حضرت خلیفہ اول نے دو عظیم الشان تقریریں فرما ئیں پہلی تقریر نماز ظہر و عصر کے بعد سے مغرب تک جاری رہی.اس پر معارف تقریر میں علاوہ دیگر امور کے آپ نے ضرورت خلافت اور اطاعت خلافت کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی دوران تقریر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ "کر زن گزٹ (دہلی) نے حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے ان کا سرکٹ چکا ہے ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے تو کچھ ہو گا نہیں ہاں یہ ہے کہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے.سوخدا کرے یہی ہو میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں.اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی بعض آیات پڑھ کر ان کی لطیف تفسیر فرمائی.اور آخر میں عربی زبان کی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی اور بتایا کہ لوگ کہتے ہیں عربی سے کیا ہوتا ہے میں کہتا ہوں عربی سے قرآن شریف آتا ہے.عربی سے محمد رسول اللہ کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں.عربی سے ابو بکر و عمر تبع تابعین کی قدر کو پہچانا جاتا ہے.اس تقریر کے انتقامی الفاظ یہ تھے." تم نے خود میری بیعت نہیں کی.بلکہ میرے مولیٰ نے تمہارے دلوں کو میری طرف جھکا دیا.پس تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے ".آپ کی دوسری تقریر ۲۸/ دسمبر کو بعد نماز ظہر و عصر "حب" کے موضوع پر تھی جس میں آپ te

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 222 احمد جیت میں نظام خلافت کا آغاز نے تصوف کے باریک در باریک اور لطیف در لطیف مسائل سادہ اور آسان پیرائے میں بیان فرمائے.سید نا محمود کی تقریر: ۲۸/ دسمبر کے اجلاس میں سب سے پہلی تقریر حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تھی.تقریر کا مضمون یہ تھا کہ ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں." یہ تقریر مختصر ہونے کے باوجود اس درجہ موثر اور حقائق و معارف سے لبریز تھی کہ اخبار الحکم نے لکھا." آج صبح کی کارروائی شعید الاذہان کے جلسہ سے شروع ہوئی.حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ اللہ الاحد کی نظم اور آپ کی تقریر نے مردہ دلوں کو جلا دیا.بلا مبالغہ صاحبزادہ صاحب کی تقریر میں قرآن مجید کے حقائق و معارف کا سادہ اور مسلسل الفاظ میں ایک خزانہ تھا.پلیٹ فارم سے اس لب ولہجہ سے بول رہے تھے جو حضرت امام علیہ السلام کا تھا اور الولد سر لابیہ کا پورا نمونہ تھا صاجزادہ صاحب کی تقریر کے متعلق مجھے الفاظ نہیں ملتے کہ میں اس کا ذکر کر سکوں.صاحبزادہ صاحب نے تشنہ حقائق قوم کو باپ کی طرح سیراب کر دیا اور وہی زمانہ یاد دلا دیا.اللہ تعالٰی آپ کو اس سے بھی زیادہ حقائق و معارف کے موتیوں سے مالا مال کرے." آپ کی تقریر کے وقت صدر جلسہ حضرت خلیفہ المسیح اول بنی ہی تھے اور آپ نے اسے سراہا چنانچہ ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی کا بیان ہے.حضرت خلیفہ اول نے حضور کی قرآن دانی کے متعلق چند تعریفی کلمات فرمائے تو میرے پاس ڈاکٹر بشارت احمد صاحب.......بیٹھے ہوئے جھوم جھوم کر آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ سبحان اللہ سبحان اللہ آپ کے بعد یہی خلیفہ ہوں گے.میں ڈاکٹر صاحب سے اس وقت اس لئے واقف تھا کہ وہ اس وقت بھیرہ میں ہی تعینات تھے " جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء پر آپ کی ایک نظم بھی پڑھی گئی جس کے چند شعر یہ تھے: مدت سے پارہ ہائے جگر کھا رہا ہوں میں رنج و محن کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں میری کمر کو قوم کے غم نے دیا ہے توڑ کس ابتلاء میں ہائے ہوا مبتلا ہوں میں پھر کیوں نہ مجھ کو مذہب اسلام کا ہو فکر جب جان و دل سے معتقد میرزا ہوں میں شیطاں سے جنگ کرنے میں جاں تک لڑاؤں گا عمد ذات باری سے اب کر چکا ہوں میں دوسری تقاریر اور نظمیں:.ان کے علاوہ یہ تقریریں ہو ئیں.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی.مولوی صدر الدین صاحب - حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب - حضرت میر قاسم علی صاحب نے ایک پر درد مرعیہ پڑھا جس نے

Page 252

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 223 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز دلوں کو تڑپا دیا اور آنکھوں سے مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اس مرضیہ کے چند اشعاریہ تھے: مسیحا سب ترے خادم ہیں حاضر مگر تجھ بن تڑپتے ہیں یہ مضطر ہوئے ہیں ہجر میں مردوں سے بدتر جلا تو اب انہیں صورت دکھا کر ز مهجوری برآمد جان عالم ترحم یا نبي الله ترحم يحرم میر پھر تشریف لائیں تو سب خادم دو رویہ صف بتائیں بشوق دید آنکھوں کو بچھائیں زبان حال سے یہ پڑھ سنائیں کرده فرش راہند چو فرش اقبال پابوس تو خواهند جہانے دیده جلوس میر ہے جب یاد آتا نہیں تجھے بن ہمیں جینا بھاتا بده بکن دل بے تاب ہے قابو سے جاتا فرقت ہے یا حضرت ستاتا غم رتے ز پا افتاد گال را دلداری دلدادگان را سالانہ جلسه ۱۹۰۸ ء جہاں احمدیوں کے غیر خلیفہ وقت سے انحراف کا پہلا پبلک مظاہرہ معمولی اجتماع کے باعث خدائی تائید و نصرت کا نمونہ تھا.وہاں اس کے بعض نہایت تلخ اور تکلیف دہ نتائج بھی برآمد ہوئے جو آئندہ چل کر جماعت کے اشتقاق و افتراق کی مستقل بنیاد ثابت ہوئے اور اس کی ذمہ داری انجمن کے چند جمہوریت پسند اور مغربیت کے دلدادہ ممبروں پر تھی.اس امر کا تفصیلی پس منظر تو اگلے سال کے واقعات میں آئے گا یہاں ہم اجمالاً یہ عرض کرتے ہیں کہ گو خدائی تصرف کے مطابق پوری جماعت خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو چکی تھی اور خود انجمن کے ممبروں نے بھی اس جماعتی رجحان کی تاب نہ لاکر ظاہر ابیعت بھی کرلی تھی.مگر دل سرے سے خلافت کے قائل ہی نہیں تھے.اور ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشینی کا حق انجمن کو حاصل تھا نہ کہ خلافت کو.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب ”حقیقت اختلاف " میں اس کا واضح لفظوں میں اعتراف کیا ہے.چنانچہ لکھتے ہیں.” میرا جو کچھ مسلک تھا میں نے اسے ایک منٹ کے لئے بھی کسی سے نہیں چھپایا.نہ خود مولوی صاحب سے...حضرت مسیح موعود کی خلافت کا میں صرف جانشینی کے معنی میں قائل تھا اور آیت استخلاف میں نبی کریم ا کی خلافت کا ذکر مانتا رہا ہوں یعنی جسمانی طور پر بادشاہ آپ کے خلیفے ہوں گے.اور روحانی طور پر مجد دین.اس

Page 253

تاریخ احمدیت جلد ۳ 224 tt احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز آیت (یعنی آیت استخلاف ناقل) کو میں صرف نبی کریم کے متعلق مانتا ہوں.ای طرح خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں."اگر خلیفہ اور جانشین ہم معنے اور مترادف ہیں تو پھر خود حضرت مسیح موعود نے اپنا خلیفہ کس کو بنایا.دیکھو تمہاری انجمن کو خود مسیح موعود نے کہا.کہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے باقی جس قدر خلیفے ہیں ان کو تم خود انتخاب کرتے ہو.اور اسی طرح تمہارے انتخاب پر وہ خلیفتہ المسیح ہوتے ہیں.لیکن انجمن کا نام خود مسیح موعود نے خلیفتہ المسیح رکھا ہے".اس سلسلہ میں واضح ترین بیان ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا ہے چنانچہ آپ تحریر کرتے ہیں."ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ جناب مرزا صاحب نبی نہ تھے بلکہ آنحضرت ا کے خلیفہ تھے اور خلافت نبوت کی ہوتی ہے.خلافت کی خلافت ایک بے معنی بات ہے." ان کے اس نقطہ نگاہ کے مطابق بیعت خلافت در اصل ایک اصولی غلطی تھی اور اس کا احساس انہیں ابتدا ہی سے پیدا ہو چکا تھا.چنانچہ حضرت سید نا محمود (خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود) ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ "حضرت مسیح موعود کی وفات کو ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے میں نے کہا کہ اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جب کہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی.جب کہ حضرت خلیفہ اول نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی اور اس تقریر کو سن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیار مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے.میرے اس جواب کو سن کر خواجہ صاحب بات کا رخ بدل گئے " اور کہا بات تو ٹھیک ہے.میں نے یونسی علمی طور پر بات دریافت کی تھی اور ترکوں کی خلافت کا حوالہ دے کر کہا.کہ چونکہ آج کل لوگوں میں اس کے متعلق بحث شروع ہے.اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا.یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے.اور اس پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی.لیکن اس سے بہر حال مجھ پر ان کا عندیہ ظاہر ہو گیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفہ اول بھی یہ کا کوئی ادب و احترام نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹا دیں.جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہوا ہے " اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انجمن کے ان نام نہاد اکابر عمائمہ کے اندرونی عزائم و خیالات خلافت کے ابتدائی ایام ہی سے کیا تھے اور خلافت کی بیعت ان کی نگاہ میں محض ایک اتفاقی غلطی تھی.جس کا ارتکاب وہ کر بیٹھے تھے.چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب صاف لکھتے ہیں:.” وہ وقت بہت |

Page 254

تاریخ احمد 225 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز |||A نازک تھا حضرت مسیح موعود کی اچانک وفات کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالحکیم خان اور مولوی ثناء اللہ امرتسری نے بہت بڑا فتنہ اٹھایا ہوا تھا اور بڑا شور و شر کر رہے تھے اور جماعت احمدیہ کو اس وقت مرند کر دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے.اور جماعت کے کمزور لوگ بہت انتشار کی حالت میں تھے اور بے دل ہو رہے تھے.اس لئے خواجہ کمال الدین صاحب نے فرمایا کہ اس وقت چپ رہو.وقت ایسا نازک ہے کہ اس مسئلہ کو چھیڑنے سے ایک نیا اختلاف اور فتنہ پیدا ہو جانے کا احتمال ہے چلو مولوی نور الدین صاحب ایک بزرگ عالم میں اگر ان کے ہاتھ پر دوبارہ بیعت کرلی تو کیا مضائقہ ہے." لیکن حق یہ ہے کہ خواجہ صاحب کی یہ ایک اصولی غلطی تھی - اس اصولی غلطی کے ازالہ کے لئے سب سے پہلا قدم ان حضرات نے یہ اٹھایا.کہ آہستہ آہستہ انجمن کی کارروائیوں میں خلیفہ وقت کے فیصلوں اور احکامات سے گریز اختیار کر کے اس کی شان خلافت کو محض ایک امیرانجمن کی حیثیت دینی شروع کر دی.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے خود صدر انجمن احمدیہ کا قدیم ریکارڈ پوری پوری رہنمائی کرتا ہے کہ انجمن کے اجارہ داروں نے کس طرح آہستہ آہستہ خلافت کے مقام و عظمت سے گریز اختیار کیا.پہلے خلیفہ المسیح لکھنا شروع کیا مگر چند ماہ بعد " حضرت خلیفہ صاحب اور پھر حضرت مولوی صاحب" کہہ کر آپ کے احترام کو بالکل پس پشت ڈال دیا.اس امر کے اثبات کے لئے ہم ابتدائے خلافت اوٹی سے لے کر ۱۵/ نومبر ۱۹۰۸ء تک کے بعض اجلاسوں کے فیصلے اور کارروائی وغیرہ ذیل میں درج کرتے ہیں.(یاد رہے ۳۰ / مئی ۱۹۰۸ء کا اجلاس عہد خلافت اولی کا سب سے پہلا اجلاس ہے) !!+ ١٠٠ (۳۰/ مئی ۱۹۰۸ء) "بموجب اجازت خاص حضرت امام خلیفة المسیح و المهدی انعقاد مجلس معتمدین کا آج بتاریخ ۳۰/ مئی ۱۹۰۸ ء قادیان میں بوقت آٹھ بجے صبح ہوا." قرار پایا کہ اب حسب احکام حضرت خلیفۃ المسیح الموعود لنگر خانہ کی حالت دگرگوں ہو گئی ہے.اس لئے اس کاغذ کو داخل دفتر کیا جاوے." قرار پایا کہ تقر ر و ا ملین حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھ میں ہے.(۲۷/ جون ۱۹۰۸ء) رپورٹ مولوی محمد علی صاحب که حسب ارشاد جناب خلیفة المسیح حضرت اقدس کی یادگار میں ایک مدرسہ دینیہ اعلیٰ پیمانہ پر قائم کیا جائے جو مدرسہ انگریزی سے بالکل علیحدہ ہو اس کے اخراجات آمد و خرچ علیحدہ ہوں گے.لہذا اس کے متعلق ضروری قواعد مرتب کرنے کا جلد انتظام کیا جائے.پیش ہو کر قرار پایا کہ سب کمیٹی جس میں مفصلہ ذیل اصحاب ہوں صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب.جناب نواب محمد علی خاں صاحب بالقابہ.٢.

Page 255

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 226 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز سید سرور شاہ صاحب.جناب مولوی محمد علی صاحب قائم کی جاتی ہے.مولوی محمد علی صاحب اس کے سیکرٹری ہوں گے اس سب کمیٹی کا یہ کام ہو گا.کہ مدرسہ دینی کے لئے روپیہ فراہم کرے.ur ای تاریخ کا دوسرا فیصلہ: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر بالفعل حسب ذیل قواعد لنگر خانہ کے متعلق تجویز کئے جاتے ہیں.جن کو حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح نے منظور فرمایا ہے." ای تاریخ کا تیرا فیصلہ.جن لوگوں کو لنگر خانہ سے کھانا ملتا ہے.ان کے متعلق حکم حضرت خلیفہ المسیح کا قطعی ہو گا".(۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء) درخواست مولوی محمد علی صاحب کہ مدرسہ دینیہ کی رپورٹ سب کمیٹی مجوزہ سے ۱۵/ اگست تک مانگی گئی ہے.لیکن اس میں سرمایہ کا سوال ضروری ہے.جس کے واسطے کافی وقت چاہئے.لہذا کم اکتوبر تک معیاد زیادہ کی جائے پیش ہو کر قرار پایا کہ منظور -110 << " حضرت خلیفہ صاحب تشریف لے گئے اور مجلس بصدارت جناب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جاری رہی.HA (۲۸ / جولائی ۱۹۰۸ء) سیکرٹری صاحب کی درخواست پر حضرت خلیفہ صاحب......کی جائداد کے بہہ کرانے میں منظور کئے گئے " ۵ (۳۰/ اگست ۱۹۰۸ء) حضرت خلیفہ صاحب نے ارشاد فرمایا.اہل بیت کے خرچ کے واسط...منظور کئے جاتے ہیں." ۲ (۱۵/ نومبر ۱۹۰۸ء) رپورٹ محاسب کہ ڈاکٹر محمد شریف صاحب......ما هوار کا مستقل وظیفه دیتے ہیں پھر وہ مشورہ حضرت مولوی صاحب بالا بالا کسی طالب علم کو ملتا رہا ہے لیکن اب مناسب ہے کہ وہ با قاعدہ خزانہ صدر انجمن میں داخل ہو کر بلوں سے اسی طالب علم کو ملا کرے.جسے انجمن دینا منظور کرے پیش ہو کر قرار پایا کہ تجویز محاسب صاحب منظور -114" Ļ ہے.........یہ ۱۳۰ مئی سے ۱۵/ نومبر ۱۹۰۸ء تک کے اجلاسوں کے چند فیصلہ جات ہیں خط کشیدہ عبارت سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ابتداء میں وہ انجمن جو اجلاس کے انعقاد کے لئے ” خلیفتہ المسیح " کی اجازت خاص کو ضروری سمجھتی تھی اسی طرح " تقر ر واعطین " اور لنگر خانہ سے متعلق آپ

Page 256

تاریخ احمدیت جلد ۳ 227 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز کا حکم قطعی" قرار دیتی تھی کس طرح یکا یک حضرت خلیفتہ المسیح کو اب حضرت مولوی صاحب کے نام سے یاد کر کے آپ کے خلاف فیصلہ دینے میں حرج نہیں سمجھتی.یہ حقیقت انجمن ہی کی دستاویزات سے واضح کرنے کے بعد اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ ۱۵/ نومبر ۱۹۰۸ء کو صدرانجمن احمدیہ کا ایک اجلاس (جس میں آپ کے مشورہ کی صریح خلاف ورزی میں فیصلہ دیا گیا) قادیان کی بجائے لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان پر ہوا.اور اس میں صرف مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال ممبر شامل ہوئے.اور اس اجلاس میں سالانہ جلسہ کا پروگرام مرتب کیا گیا.اور ایسے رنگ میں تقاریر کا پروگرام تیار کیا گیا کہ جماعت خلافت سے منحرف ہو کر انجمن کے قدموں میں آگرے.پروگرام میں زیادہ تر انجمن کے انہی ممبروں کے بولنے کے مواقع رکھے گئے جو متفق الخیال تھے.اور تجویز کی کہ مختلف پیرایوں میں بتایا جائے.کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود کی اصل جانشین ہے تا دماغ ان کے ذہنی انقلاب کے لئے تیار ہو جائیں.قبل ازیں انجمن ۲۷/ جون ۱۹۰۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح کے ارشاد کے مطابق مدرسہ دینیہ کی یادگار قائم کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی.اور اس کے ضروری قواعد اور روپیہ کی فراہمی کے لئے سب کمیٹی بھی قائم ہو چکی تھی.جس کے سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب تھے.مگر ۱۵/ نومبر ۱۹۰۸ء کے لاہور کے منعقدہ اجلاس میں ایک طے شدہ معاملہ کو دوبارہ جلسہ سالانہ کی کانفرنس انجمن ہائے احمد یہ میں پیش کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح کے ارشاد کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی رائے یہ لکھی." مجلس کی رائے میں عربی مدرسہ کے لئے بغیر وظیفہ کے طالب علموں کا ملنا مشکل معلوم ہوتا ہے.اور اس طرح پر مقصد دینی مدرسہ کا حاصل نہیں ہو سکتا.بہتر معلوم ہوتا ہے.کہ احمدی طلبہ کو اعلیٰ درجہ کی مروجہ تعلیم و ظائف دے کر دلائی جاوے یا ان کو خاص طور پر ڈاکٹری کے لئے تیار کیا جاوے.اور یہ لڑکے وہ ہونگے جو قادیان ہائی سکول سے انٹرنس پاس کر کے نکلیں اور دینی تعلیم خصوصیت اور قابلیت سے حاصل کی ہو.اور دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا خاص انتظام کیا جائے.اور جب لاہور میں آویں ان کے لئے تعلیم دین کا خاص کچھ انتظام ہو جاوے اور جو گریجوایٹ عربی پڑھنے کے لئے مصر و غیرہ جاویں.ان کو وظیفہ دیا جاوے جب کالج اپنا کھل جاوے.تو وہاں عربی کا خاص انتظام ہو جاوے.اس وقت مدرسہ عربی میں کوئی نئی جماعت نہ بنائی جاوے بلکہ اس کے لئے فیصلہ کا نفرنس کا انتظار کیا جاوے ".جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اس سوچی سمجھی سکیم کو کس طرح عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی؟ • اس کا کیا رد عمل ہوا اور کیا نتائج بر آمد ہوئے اب ہم ان پہلوؤں کی طرف آتے ہیں.

Page 257

تاریخ احمدیت جلد ۳ 228 احمدیت میں کلام خلافت کا آغاز حضرت خلیفہ اول کی تقریر کے لئے وقت کی پابندی انجمن کے مطبوعہ پروگرام کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح کی پہلی تقریر کے لئے ایک گھنٹہ وقت مقرر کیا گیا.مگر عمل ہوا یہ کہ آپ کی تقریر نماز ظہر عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب سے دس پندرہ منٹ قبل تک جاری رہی.تقریر کے خاتمہ سے قبل آپ نے فرمایا.m چونکہ فلاں شخص نے مجھے کہا ہے کہ میں نے بھی چند منٹ کے لئے کچھ عرض کرتا ہے اس لئے یہ دس پندرہ منٹ میں ان کے لئے چھوڑتا ہوں اس پر مولوی سید محمد احسن صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ خلیفہ وقت کی بہتک ہے.کہ ان کا وقت مقرر کیا گیا اور عام لوگوں کی طرح ان کے لئے وقت کی تحسین کی گئی ہے.اس پر خواجہ صاحب نے ذرا کھسیانے ہو کر کہا حکیم الامت صاحب کے مشورہ سے پروگرام بنایا گیا تھا.مگر بات ظاہر ہو گئی اور لوگوں میں چرچا ہونے لگا.کہ یہ لوگ خلیفہ کی اس طرح اطاعت نہیں کرتے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کرتے تھے.12 لیکچروں میں انجمن کی جانشینی کا وعظ :.پروگرام کے مطابق انجمن کے ان اکابر نے اپنی تقریروں میں انجمن کی جانشینی کا پوری قوت سے ذکر کیا.چنانچہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے کہا.صدر انجمن احمد یہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے." ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے اپنا زور بیان اس پر صرف کیا کہ ہمیں بروز صحابہ بننے کے لئے صدرانجمن احمدیہ کی تجاویز پر عمل کرنا چاہئے.اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ذکر کرنے کے بعد مولوی محمد علی صاحب کی ذات کو نمایاں رنگ میں پیش کیا اور ان کی قربانی کو لاثانی قربانی " قرار دیا.خود مولوی محمد علی صاحب نے اپنی رپورٹ کے ابتدا میں کہا.”اس مجلس کے سپرد حضرت اقدس نے اس سلسلہ کے کل انتظامی کاروبار کو کیا اور اپنی زندگی میں ہی یہ کام اس مجلس میں کرایا.اور اس کے تمام فیصلوں کو قطعی قرار دیا.اور اس کے ثبوت میں ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۷ء کی حضرت اقدس کے قلم کی لکھی ہوئی یہ تحریر پڑھ کر سنائی کہ " میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہئے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے.تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہئے.اور وہی قطعی ہونا چاہئے.لیکن اس قدر میں زیادہ لکھنا پسند کرتا ہوں.کہ محض دینی امور میں جو ہمارے خاص اغراض سے تعلق رکھتے ہیں مجھ کو محض اطلاع دی جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلاف منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی.لیکن صرف احتیاطاً لکھا جاتا ہے کہ شاید وہ ایسا امر ہو کہ خدا تعالی کا اس میں کوئی خاص ارادہ ہو اور یہ صورت میری زندگی تک اور بعد میں ہر ایک امر میں اس انجمن کا اجتہاد کافی ہو گا.“ والسلام مرزا غلام احمد ۲۷/

Page 258

تاریخ احمدیت جلد ۳ 229 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اکتوبر ۱۹۰۷ ء." اس تحریر کو پیش کرتے ہوئے ابتدا ہی میں ان کی زبان سے اس کی تشریح میں یہ کلمہ حق بھی نکل گیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اس انجمن کی بنیاد رکھی.تو ساتھ ہی اس سلسلہ کے کاروبار کے نظم و نسق کے لئے ایک مجلس بھی مقرر فرمائی جس کا نام مجلس معتمدین ہے.اس مجلس کے چودہ ممبر ہیں جن کو حضرت صاحب نے خود مقرر فرمایا.اور ان کے امیر یعنی میر مجلس اپنی پاک فراست سے اس عظیم الشان انسان کو قرار دیا جو علم الہی میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہونے والا تھا اور جو اس وقت ہم سب کے امیر اور مقتدا ہیں ".جماعتوں کی کانفرنس میں مدرسہ سب سے زیادہ کھل کر مخالفت کا مظاہرہ جماعتوں کی کانفرنس میں کیا گیا جو ۲۶/ دسمبر ۱۹۰۸ء کی دینیہ کے قیام کی شدید مخالفت رات ۸ بجے سے ۱۰ بجے تک مسجد مبارک میں منعقد ہوئی.کانفرنس میں مدرسہ دینیہ کا مسئلہ پیش ہوا.تو خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، سید محمد حسین شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اپنے اجلاس (لاہور) کی رائے کی پر جوش رنگ میں حمایت کی اور تجویز کی کہ تعلیمی وظائف بڑھا دئے جائیں تا احمد کی نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں کالجوں میں جائیں اور پاس ہونے کے بعد ان میں سے جو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں انہیں ایک آدھ سال میں قرآن پڑھا کر مبلغ بنا دیا جائے.مسجد مبارک میں یہ اجلاس ہو رہا تھا مگر انجمن کے ان ممبروں نے عمد آیا سہوا یہ تجویز حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں نہیں پہنچائی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ کانفرنس کے اختتام سے کچھ وقت قبل آپ کو علم ہوا کہ مسجد میں شورٹی ہو رہی ہے اور مدرسہ دینیہ کا سوال زیر غور ہے.چنانچہ آپ اندر گئے تو خواجہ کمال الدین صاحب بڑے زور و شور سے تقریر کر رہے تھے کہ ہماری جماعت بڑی عقلمند ہے وہ کسی چیز کا ضائع ہونا گوارا نہیں کر سکتی ہمیں چونکہ انگریزی دان مبلغ چاہئیں اس لئے مدرسہ دینیہ پر اس قدر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں.مدرسہ کے ذریعہ جو مبلغ تیار ہوں گے دنیا ان کے متعلق نہی کے گی کہ وہ روپیہ کی خاطر تبلیغ کر رہے ہیں.لیکن اگر ہم اپنے نوجوانوں کو کالجوں میں تعلیم ولا ئیں کوئی ڈاکٹر بن جائے کوئی وکیل بن جائے کوئی انجینئر بن جائے کوئی سائنس کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرے تو لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہو گا.اور وہ کہیں گے کہ یہ کیسے اسلام کے جاں نثار خدام ہیں جو تنخواہ لئے بغیر تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.پس مدرسہ دینیہ کو بند کر دیا جائے اور نوجوانوں کو کالجوں میں تعلیم دلوائی جائے.خواجہ صاحب کی اس تقریر پر ساری مجلس سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہی تھی اور ان کی رائے سے پوری طرح متفق نظر آتی تھی.جب آپ نے حضرت مسیح موعود کی یادگار کے ساتھ یہ بے

Page 259

تاریخ احمدیت جلد ۳ 230 ا نظام خلافت کا آغاز حرمتی دیکھی تو آپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا.اور یوں معلوم ہوا جیسے یہ لوگ احمدیت کو دفن کر رہے ہیں.آپ کی طبیعت میں زبردست جوش پیدا ہوا اور آپ نے فرمایا میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت کو ساری کی ساری اس وقت اس طرف مائل تھی کہ مدرسہ احمد یہ توڑ دینا چاہئے.لیکن ان سب نے انا ماشاء اللہ بیک آواز کہا.ہاں ہاں ہو لئے.غالبا وہ سمجھتے تھے کہ آپ اس بات پر اور زور دیں گے کہ وظیفے دئے جائیں.خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا آپ آگے آجا ئیں میں ذرا اپنی بات ختم کر لوں پھر کہا کہ آپ آگے آجا ئیں.مگر آپ نے وہیں کھڑے کھڑے دس بارہ منٹ ایک ی تقریر فرمائی جس میں کہا.کہ آپ نے جو کچھ فیصلہ کیا ہے یہ آپ کے خیال میں ٹھیک ہو گا مگر ایک چیز ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے کام آج ختم نہیں ہو جائیں گے.بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک ان کا اثر چلتا چلا جائے گا.اور دنیا کی نگاہیں ان پر ہوں گی.اور اگر ہم کسی کام کو چھپانا بھی چاہیں گے.تو وہ نہیں چھپے گا.بلکہ تاریخ کے صفحات پر ان واقعات کو نمایاں حروف میں لکھا جائے گا.اس نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور حضرت اسامہ بن زید کو اس کا سردار مقرر فرمایا.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہو گئی اور سوائے مکہ اور مدینہ اور طائف کے سارے عرب میں بغاوت رو نما ہو گئی.اس وقت بڑے جلیل القدر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقعہ پر اسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں.کیونکہ ادھر سار ا عرب مخالف ہے.ادھر عیسائیوں کی زبر دست حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلامی حکومت در ہم پر ہم ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے ایک وفد حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں روانہ کیا.اور درخواست کی کہ یہ وقت سخت خطر ناک ہے اگر اسامہ کا لشکر بھی عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے چلا گیا.تو مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.اے ابو بکر ا ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ اس لشکر کو روک لیں.اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں.جب ہم انہیں دبالیں گے تو پھر اسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا جاسکتا ہے اور چونکہ اب مسلمان عورتوں کی عزت اور عصمت کا سوال بھی پیدا ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن کہیں مدینہ میں گھس کر مسلمان عورتوں کی آبروریزی نہ کرے اس لئے آپ ہماری اس التجا کو قبول فرماتے ہوئے جیش اسامہ کو روک لیں اور اسے باہر نہ جانے دیں.حضرت ابو کر میں ٹین کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی عاجزانہ حالت کا اظہار کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو

Page 260

تاریخ احمدیت جلد ۳ 231 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اپنے باپ کی نسبت دے کر بات کیا کرتے تھے.کیونکہ ان کے باپ غریب آدمی تھے اور چونکہ ان کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا اس لئے اس موقعہ پر حضرت ابو بکر میں تھی نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ کیا ابو قحافہ کا بیٹا خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جو آخری مہم تیار کی تھی اسے روک دے؟ پھر آپ نے فرمایا.خدا کی قسم اگر کفار مدینہ کو فتح کرلیں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا.جسے محمد رسول اللہ نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا.یہ مثال بیان کرنے کے بعد آپ نے دوستوں سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ لوگوں کا بھی یہ پہلا اجتماع ہے آپ لوگ غور کریں اور سوچیں کہ آئندہ تاریخ آپ کو کیا کے گی تاریخ یہ کہے گی کہ حضرت ابو بکڑ نے ایسے خطرہ کی حالت میں جبکہ تمام عرب باغی ہو چکا تھا اور جبکہ مدینہ کی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھی کوئی مناسب سامان ان کے پاس نہ تھا اتنا بھی پسند نہ کیا کہ رسول اللہ ا کے ایک تیار کئے ہوئے لشکر کو روک لیں.بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے حکم کو منسوخ نہیں کروں گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے اڑھائی سال پہلے دسمبر ۱۹۰۵ء کے جلسہ سالانہ پر تمام جماعت کے دوستوں سے مشورہ لینے کے بعد جس دینی مدرسہ کو قائم فرمایا تھا.اور جس کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور مولوی برہان الدین صاحب علمی کی یادگار ہوگا.اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے علماء تیار کرنے کا کام اس کے سپرد ہو گا.اسے مسیح موعود کی جماعت نے آپ کے وفات پانے کے معابعد تو ڑ کر رکھ دیا.کیونکہ جس طرح جیش اسامہ کی تیاری کا کام خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا اس طرح مدرسہ دینیات کا اجراء خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آخری عمر میں فرمایا تھا.پس دنیا کیا کہے گی کہ ایک مامور کی وفات کے بعد تو اس کے متبعین نے اپنی عزتوں کا برباد ہونا پسند کر لیا.مگر یہ برداشت نہ کیا کہ رسول کریم اے کا حکم باطل ہو.مگر دو سرے مامور کے متبعین نے باوجود اس کے کہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہ تھا.اس کے ایک جاری کردہ کام کو اس کی وفات کے معابعد بند کر دیا.آپ کی اس مختصر تقریر نے خدا کے فضل سے تمام لوگوں کے قلوب کو آپ کی طرف پھیر دیا اور بعض کی تو رفت کی وجہ سے چینیں نکل گئیں.اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم ہر گز یہ رائے نہیں دیتے کہ مدرسہ احمدیہ بند ہونا چاہئے.ہم اسے جاری رکھیں گے اور مرتے دم تک بند نہیں ہونے

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 232 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز دیں گے.تب خواجہ کمال الدین صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے طریق کے مطابق کہا کہ دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے.ہمارا مطلب بعینہ وہی تھا جو میاں صاحب نے بیان کیا ہے یہ خواجہ صاحب کا عام طریق تھا کہ جب وہ دیکھتے کہ ان کی کسی بات کو لوگوں نے پسند نہیں کیا تو کہتے کہ دوستوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے.چنانچہ پھر انہوں نے اس غلطی فہمی کو دور کرنے کے لئے ایک تقریر بھی کی.مگر آخر میں کہا کہ اس پر مزید غور کر لیا جائے ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے.بعد میں ہم خط و کتابت کے ذریعہ مشورہ حاصل کرلیں گے.انہوں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح جماعت کی رائے ان کی تائید میں ہو جائے.چنانچہ کچھ وقفہ کے بعد انہوں نے پھر تمام جماعتوں سے رائے طلب کی.مگر جماعت نے یہی لکھا کہ وہی فیصلہ ٹھیک ہے جو ہم قادیان میں کر کے آئے تھے.۱۹۰۸ء کے بعض متفرق واقعات ۱۹۰۸ء کے بعض متفرق واقعات یہ ہیں:.ا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئی ماہ تک عبد الغفار خان و غلام رسول خاں صاحب پہرہ دیتے رہے.حضرت خلیفہ اول نے تحریک فرمائی کہ خوشنویس حضرات یہاں مرکز میں آکر ر ہیں تا سلسلہ کے کام بروقت ہو سکیں.ایک مکمل و مفصل فہرست تیار کی ایک اہم تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ جماعت مبایعینی جائے.تا قادیان سے جو کچھ شائع ہو جلد سے جلد جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے.۴.قادیان کو نوٹیفائڈ ایریا قرار دیا گیا.A اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.لالہ شرمیت رائے اور مرزا نظام الدین اس کے ممبر قرار پائے اور اس کا پہلا اجلاس ۲۱ / جولائی ۱۹۰۸ء کو تحصیلدار بٹالہ کی صدارت میں قادیان میں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیفات مسیح ہندوستان میں.نجم الہد کی اور براہین احمدیہ حصہ پنجم جو ابھی تک غیر مطبوعہ تھیں شائع ہو ئیں..بعض مقامی ضروریات کی وجہ سے حضرت خلیفتہ المسیح نے صوبہ سرحد کے کمشنر کو ایک وفد بھیجوایا.کمشنر نے وفد کی معروضات سن کر ان کا تسلی بخش جواب دیا.

Page 262

تاریخ احمدیت جلد ۳ 233 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز حواشی (حصه دوم بابا ا.جناب مولوی محمد علی صاحب کی کتاب "حقیقت اختلاف صفحه ۱۲۹ شائع کردہ انجمن اشاعت اسلام) سے ماخوذ "مجاہد کبیر "صفحہ -4 -41 یعنی دیانت سوڈا واٹر فیکٹری والے احاطہ کا مکان جہاں بعد میں ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بھی رہے ہیں کسی زمانہ میں یہاں ر خان صاحب لائبریری تھی اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کا دفتر ہوا کرتا تھا.الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۶.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۸۹ - جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے اس واقعہ کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں.جہاں تک مجھے علم ہے اس وقت خواجہ صاحب کو یہ ضرورت پیش آئی تھی.کہ اہل بیت کے متعلق اطمینان کرلیں.کہ دہ حضرت مولوی صاحب مرحوم کی خلافت سے انکار نہ کر دیں اور ادھر سے کچھ اشارہ بھی میاں صاحب کے متعلق ہوا تھا.مگر جماعت کے عام رجحان اور میاں صاحب کی کم عمری کی وجہ سے واقعی کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی.حقیقت اختلاف صفحہ ۳۰.یہ تو مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا واقعہ ہے اب مولوی صاحب کے سوانح نگاروں نے اسے بھی بدل کر کیا کچھ بنادیا ہے.اس کے لئے مجاہد کبیر" کی یہ عبارت ملاحظہ ہو.پہلے خواجہ کمال الدین صاحب و دیگر اصحاب کو جو آپ کی خدمت میں درخواست لے کر گئے تھے.آپ نے ایک دو نام تجویز کر دئے.پھر دوبارہ سب کے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب اور میر ناصر نواب صاحب کا اس پر اتفاق نہیں چنانچہ میاں محمود احمد صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا میں اپنی والدہ سے مشورہ کر کے بتاؤں گا اور بعد از مشورہ انہوں نے اور میر ناصر نواب صاحب نے جب مولانا نور الدین صاحب پر اتفاق ظاہر کیا تب آپ نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے پر آمادگی ظاہر کی " (صفحہ ۷۲) خط کشیدہ عبارت تاریخی حقائق کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کو ہم نرم اور محتاط ترین الفاظ میں صرف ذہنی تخیل داختراع ہی سے تعبیر کر سکتے ہیں.یہ بات وضع کرنے والے اگر اس حقیقت کو یکسر فراموش کر گئے کہ خواجہ صاحب موصوف حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت ام المومنین سے استصواب اور ان کی رضامندی کے اظہار کے بعد گئے تھے.پھر یہ بھی غلط ہے کہ خواجہ صاحب اور دوسرے وفد کے سامنے آپ نے کوئی اور نام خلافت کے لئے رکھے تھے.یہ بات تو آپ نے پہلی تقریر میں تمام احمدیوں کے سامنے کہی تھی.(بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ کالم.اسی طرح خلافت کی ذمہ داری آپ نے اس لئے نہیں سنبھالی کہ آپ کو اہل بیت کے اتفاق کا علم ہو چکا تھا.بلکہ اس لئے کہ پوری جماعت نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا (بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ) غرضکہ کہاں تک لکھا جائے.یہ خط کشیدہ عبارت محض مفروضہ ہے.اصلی واقعات وہی ہیں جو سلسلہ کے قدیم لٹریچر کے حوالہ کی روشنی میں درج کئے گئے ہیں.اخبار بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم.اس کے آگے یہ الفاظ ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی اسی پر اتفاق کیا." حیات نور الدین صفحہ ۱۵۷ الفضل ۱۲۳ فروری ۱۹۵۵ء صفحه ۴ کالم ۱-۲ بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۵۹-۵۲۰) - الحکم ۶ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸۰۷ پدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷۶ الله ضمیمه الحكم ۲۸/مئی ۱۹۰۸ء کے مطابق بیعت کے الفاظ یہ تھے.اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله تین بار.آج میں نور الدین کے ہاتھ پر تمام ان شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے

Page 263

ریت - جلد ۲ - 234 احمد بیت میں نظام خلافت کا آغاز سیح موعود اور مہدی محمود بیعت لیا کرتے تھے.اور نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن و سنت و احادیث صحیحہ کے پڑھنے سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور اشاعت اسلام میں جان ومال سے بقدر وسعت و طاقت کمر بستہ رہوں گا.اور انتظام زکوۃ بہت احتیاط سے کروں گا.اور باہمی اخوان میں رشتہ محبت کے قائم رکھنے اور قائم کرنے میں سعی کروں گا.استغفر الله ربي من كل ذنب واتوب اليه ( تین بار) رب انی ظلمت نفسی و اعترفت بذنبي فاغفرلی ذنوبي فانه لا يغفر الذنوب الا انت.(ترجمہ) اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.اور میں اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہوں.میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین." ۱۲ اصحاب احمد جلد دہم صفحہ.۱۳ ضمیمہ الحکم ۲۸ مئی ۱۹۰۸ ء و بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحها الم -۱۴- یہ خواجہ کمال الدین صاحب کے ایک غیر مطبوعہ مضمون کا اقتباس ہے جو آپ نے لندن سے ۶ جولائی ۱۹۱۳ ء کو ایک خداداد شہادت " کے عنوان سے بدر میں شائع کرنے کے لئے لکھا تھا ( اصل مضمون میاں عبد المنان صاحب عمر کے پاس محفوظ ہے) الحکم نمبر ۸ جلد ۱۳ صفحه ۷۶ - ۲۸/ فروری ۱۹۰۹ء..بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کی تدفین کا مفصل واقعہ تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۶۳ - ۵۶۴ میں آچکا ہے الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۵ کالم ۱.۱.حیات نور الدین صفحه ۱۵۸.۱۹ حیات نور الدین صفحه ۱۵۸ ۲۰ مکمل مخط کے لئے ملاحظہ ہو ر سالہ خالد مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۲.۴ ۲۱.حضور کے وصال پر فرضی جنازہ بنانے کا واقعہ تاریخ احمدیت حصہ سوم میں آچکا ہے.اس اخلاق سوز واقعہ سے خدا ناترس علماء نے کس درجہ خوشی کا اظہار کیا.اس کا اندازہ رسالہ " المجدد " (لاہور) کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے عبارت ملاحظہ ہو.لکھنے والے کذاب نے حضور کی ذات بابرکات کی شان اقدس میں جس درجہ دریدہ دہنی اور بے باکی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے.اس ے علماء هم شر من تحت اديم السماء " کا عملی ثبوت ملتا ہے.اور اس عصر کی گندی ذہنیت آشکار ہو جاتی ہے.لکھا ہے.قدرت ایزدی نے طبقہ جہلاء کے ہاتھوں اس خدا اور رسول کے دشمن کی رسوائی اور بے عزتی کرائی کہ آج تک کسی مفتری ملعون اور کذاب کی نہیں ہوئی.یعنی طبقہ جہلا کا صف ماتم بنانا اور اس کے اندر ایک مثیل مرزا کی لاش کو لٹانا اور پھر سب کا مکر ایسے مضحکہ خیز اور نحش و گندے الفاظ سے مرزا کادیانی کی نوحہ خوانی کرنا اور پھر ایک شخص کادو سرے سے کہنا کہ اس کا ذب) نہی کا چہرہ تو کھاؤ امید ہے کہ نبی کا چہرہ بہت نورانی ہو گا.لیکن جب اس کا ذب نبی یعنی مشیل مرزا کے چہرہ سے کپڑا اٹھایا جاتا تو اس کا منہ کالا نظر آتا اور پھر مرزا کے مرنے پر فورا اس کی موت گاہ کے باہر پولیس کا پہرہ لگ جانا اور پھر اسے ملعون کا جوتیوں کے ساتھ جنازہ پڑھا جاتا.اور اس کا جنازہ سیشن کی طرف لے جاتے ہوئے طبقہ جہلاء کا اس کے جنازے پر نجاست پھینکنا اور پھر اسی ریل پر کہ جس کو دہ خود خرد جال کہا کرتا اور طرفہ ترین یہ کہ واقعی گدھوں والی گاڑی میں مرزا یعنی دجال کی لاش ڈالی گئی.گویا مرزاد جال کو گدھے پر سوار کرایا گیا.( المجد و جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) علماء ہم" کے جوش غیظ و غضب کی انتہاء یہ ہے کہ بعض مخالفین نے عبرت ناک موت" کے نام سے ایک کتابچہ میں ایک فرضی تصویر حضور کی وفات کے وقت کی بنائی ہے جسے کوئی ذرہ بھر شرافت و دیانت رکھنے والا انسان دیکھنا تک گوارا نہیں کر سکتا.تصویر میں طبقہ جہلا کا ہجوم بھی دکھایا ہے.خدا کی قدرت کہ وہ شخص جس کا مصنوعی جنازہ بنا کر لاہور کے گلی کوچہ میں پھرایا گیا اور جس کا نام تاج دین عرف بلا تھا بعد میں احمدی ہو گیا تھا.( ہدایت کر تل بشیر حسین صاحب مری) ۲۲ چیسہ اخبار کو الہ الحکم الرجولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۶ کالم ۱.۳.۲۳ المجد د (لاہور) جون ۱۹۰۸ء.پیر صاحب موصوف کے مریدوں نے تو بس حدی کردی.کہ حضرت اقدس کی وفات کو اپنے پیر کی

Page 264

تاریخ احمدیت جلد ۳ 235 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز کرامت مشہور کردی.اور آپ کی روحانی طاقت کا اسے کرشمہ قرار دیتے ہوئے پہلے کہا کہ پیر صاحب نے ۲۲ / مئی ۱۹۰۸ء بروز جمعہ شاہی مسجد میں کہا تھا کہ " مرزا بہت جلد ذلت اور عذاب کی موت سے مارا جائے گا.“ (المجد (جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) پھر اس کرامت کو زیادہ زور دار بنانے کے لئے یہ خبر پھیلائی کہ در اصل ۲۵/ مئی ۱۹۰۸ء کی شام کو پیر صاحب نے کہا تھا.کہ " آج میں مجبوراً کہتا ہوں کہ آپ سب دیکھ لیں گے کہ کل چوبیس گھنٹے میں کیا ہوتا ہے.(المجد و جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۵۰) بالا خر جب کئی برس اس بات پر اور گزر گئے تو یہ کہنا شروع کر دیا.حضرت صوفی پیرسید جماعت علی شاہ صاحب علی پوری نے ۲۲ مئی ۱۹۰۸ ء میرزا کو مقابلہ مناظرہ کے لئے للکارا اور اس کی ہلاکت کے لئے مجمع عام میں دعا کی اور فرمایا.کہ میرزا کو تین دن کی مہلت ہے پیر صاحب کی طرف سے روزانہ آدمی میرزا کے پاس آتے جاتے رہے.آخر بروز اتوار پیر صاحب نے کہلا بھیجا.کہ اب صرف ایک دن کی مہلت ہے تو بہ کر لو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے.میرزا کو مقابلہ میں آنے کا حوصلہ نہ ہوا.سنا گیا ہے بروز دو شنبہ خربوزہ کھانے کے بعد ہیضہ ہو گیا." برق آسمانی بر خرمن قادیانی " از ظهور احمد صاحب بگوی صفحه ۲۴ اخبار الحکم ۲۲/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱.۲.۲۵ از مولف: اگر پیر صاحب کی کوئی روحانی کر امت اس موقعہ پر ظاہر ہوئی تھی تو اس کے بر عکس یہ چاہئے تھا کہ علماء کی طرف سے خادم الاسلام " کا خطاب بھی پیر صاحب کو ملتا.انہیں کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا جاتا.انہیں کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے اور وفتح و نصرت کی مبارکباد پیش کی جاتی مگر ہوا یہ کہ خود پیر صاحب نے اس فتح و نصرت " کو ملا محمد بخش صاحب کا کارنامہ قرار دیا.یا للعجب ۲۶.حسن خدمات میں غالباً مصنوعی جنازہ کی خدمت اولین نمر پر تھی.مولف.۲۷- "المجد و " جون ۱۹۰۸ء سرورق ۲۸.بحوالہ الحکم ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ کالم ۱ ۲۹.پیر اخبار ۵ / جون ۱۹۰۸ء بحواله بدر ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.۳.ملاحظہ ہو ا شاعتہ السنہ جلد ۲۲ نمبر ۳ صفحه ۷۶ ۳۱- " عرفان الهی صفحه ۹ از حضرت خلیفہ اصبیع الثانی ایدہ اللہ تعالٰی الحکم ۱۴ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۱۲ صفحه ۱ کالم ۳ ۳۳.الحکم جوبلی نمبر صفحہ ۱۷ کالم ۳ ۳۴ عرفان الی صفحه ۹ -۳۵ ریکارڈ صد را انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ء صفحه ۱۵۲ ۱۵۴ (ضروری نوٹ یہ ریکارڈ جس کے حوالے اس کتاب میں آرہے ہیں مختلف رجسٹروں کی صورت میں دفتر صد را مجمن احمدیہ میں محفوظ ہے اور اس میں انجمن کے فیصلہ جات اور دوسری کارروائی کا اندارج ٣.ہے.را ریکارڈ صدرانجمن ۱۹۰۸ء صفحه ۱۵۵ الحکم سے جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۳.۳۸.فیصلہ ۲۷/ جون ۱۹۰۸ء ( ریکار ڈ صدرانجمن احمدیه ۱۹۰۸ء ص ۱۳۹) - شعید الاذہان جلد ۷ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲۷-۲۸ ۲۰ شحمید الاذہان " مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ ۷۵ ا الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۹ء صفحه ۸۰۷ -۲۲ یعنی حضرت شیخ نور احمد صاحب بری.حضرت شیخ صاحب ۱۸۵۷ء میں کھارا متصل قادیان میں پیدا ہوئے اور ۲۹/ جنوری ۱۹۳۶ء کو انتقال فرمایا.حضرت شیخ صاحب کے بزرگوں کے حضرت مسیح موعود کے خاندان سے قدیمی مخلصانہ تعلقات تھے اور سکھوں کا زور توڑنے اور اس خاندان کے اقتدار و عروج کے قائم رکھنے کے لئے انہوں نے بڑی بھاری خدمات کی تھیں یہی خوبی حضرت شیخ صاحب کو اپنے اب وجد کے دریہ میں ملی تھی.حضرت شیخ صاحب نے ۱۸۸۹ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ

Page 265

تاریخ احمدیت جلد ۳ 236 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.اور آخر دم تک اس عہد کو نبھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "آئینہ کمالات اسلام" (ص ۶۲۱ - ۶۲۷) کے علاوہ اپنے بعض اشتہارات میں بھی ان کا تذکرہ فرمایا ہے وہ مدتوں خاندان حضرت مسیح موعود کے مختار عام رہے اس سلسلہ میں ان کو بیسیوں مقدمات میں کام کرناپڑا.اور ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کے مقابل خاندان مقدس کے مفاد کو مقدم رکھا بلکہ بقول حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی وہ اخلاص کے ایک بلند مقام پر کھڑے رہے اس سلسلہ میں ان کی بعض خدمات بہت شاندار ہیں اور بعض اوقات اس عہد و ناپر کھڑے ہونے کی وجہ سے دشمنوں سے ماریں بھی کھائیں." (الحلم / فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۷ (۸) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی تقریروں اور خطبوں میں کئی مقام پر ان کا تعریفی کلمات سے ذکر فرمایا ہے اولاد نرینہ میں سے دولڑکے شیخ فضل قادر صاحب اور شیخ فیض قادر صاحب ان کی یادگار ہیں.مکرم شیخ نور الحق صاحب سنڈیکیٹ ربوہ شیخ فضل قادر صاحب ہی کے فرزند ہیں.۴۳ الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۲۵ - الفضل ۱۸ فروری ۱۹۴۸ء صفحه ۴ الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ۵- الفضل ۱۲۴ اپریل ۱۹۵۷ء ۲۴.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.الحکم ۱۰/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱.۳.تاریخ احمدیت حصہ سوم حاشیہ صفحہ ۵۲۲.خواجہ صاحب نے پیغام صلح کا پہلا ایڈیشن خود طبع کرا کے بڑی کثرت سے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں شائع کر دیا تھا.۴۵ - المجد د جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۵۷ ۲۶ بحوالہ رسالہ انوار الاسلام " سیالکوٹ جلد ۱۰ نمبر ۱۷۱۶ ۴۷.بحوالہ شعید الاذہان ۱۹۰۸ء صفحہ ۴۹۳ ۲۸ رسالہ انوار الاسلام جلد نمبر ۱۷۱۶ شہید الازمان جلد ۳ ۱۹۰۸ء صفحه ۵۰۶ ۵۰- بدر ۱۸/ جون ۱۹۰۸ و صفحه او ۲۵ / جون ۱۹۰۸ء صفحه برا محکم ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم ۲- ۳ و الحکم ۱۲۲ اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۳ ۵۱.حیات قدی جلد پنجم صفحہ ۱۵.۵۲ - حیات ناصر صفحه ۲۶/ الحکم ۲۲/ اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۲۰۱ ۵۳ سیرة ام المومنین حصہ اول صفحه ۱۹۸ ۰۵۴ سیرت ام المومنین صفحه ۱۹۸-۱۹۹ ۵۵ ریکار ڈ صد را انجمن احمد یہ ۱۹۰۶ء صفحہ ۹ - ۱۳.۵۲.ریکارڈ مد را انجمن احمدیہ ۱۹۰۷ء صفحہ ۴۳.ایضا سیرت ام المومنین حصہ اول صفحہ ۲۱۰ ۲۱۱.۵۷- حیات ناصر صفحه ۲۹ د سیرت ام المومنین حصہ اول صفحہ ۲۰۷ ۵۸ سیرت المومنین حصہ اول صفحه ۲۱ نیز صفحه ۲۰۷ ۵۹.حیات ناصر صفحہ ۳۰.الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۴ کالم الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۴ کالم ۶۲ - الحام جلد ۱۳ نمبر ۲ صفحه ۴- ۶۳.حیات ناصر صفحہ ۱۵.چنانچہ اخبار تنظیم امر تسر نے لکھا.اس وقت ہندوستان میں ہزاروں مشن ہسپتال موجود ہیں جہاں ہر سال لاکھوں ہندوؤں مسلمانوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تبلیغی انجمنوں نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے علاقہ ارتداد میں کوئی قابل ذکر ہسپتال قائم کیا جو ہر قسم کے جدید آلات وسامان سے آرستہ ہو جہاں دوستوں اور دشمنوں سے یکساں ہمدردی کی جاتی ہو؟ اس قسم کے ہسپتال کا نمونہ قادیان میں موجود ہے.(بحوالہ " جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات " صفحه ۸۳- از چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے)

Page 266

237 تاریخ احمدیت جلد ۳ احمد بیت میں نظام خلافت کا آغاز ۶۵.حیات ناصر صفحه ۲۵- سیرت ام المومنین حصہ اول ۲۱۴-۲۱۵ قادیان گائیڈ صفحہ ۷۷-۸۷.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۷.احکم ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۵ کالم ۳.ناصر آباد کے بعض ابتدائی مکینوں کے نام یہ ہیں.حافظ احمد اللہ خان صاحب سید فضل شاہ صاحب میاں نظام الدین صاحب میر خیر الدین صاحب عبد الستار صاحب نو مسلم.حافظ محمد ابراہیم صاحب حافظ محمد امین صاحب مولوی نظام الدین صاحب مبلغ کشمیر سید حسن شاہ صاحب " قادیان گائیڈ صفحه (۸۸) ٦٦ الحکم ہے.۱۲ مئی 1999 صفحہ و کالم سے ۶۷.یہ تو حضرت خلیفتہ صحیح اول بیلہ کی رائے ہے مگر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اور ان کی ہمنوائی میں مولفان "مجاہد کبیر " کا خیال یہ ہے کہ میر صاحب کے ان سفروں اور کوششوں میں دار الضعفاء کے چندے تو محض بہانہ تھا دراصل ان کے ذریعہ سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو بد نام کر کے میاں محمود احمد صاحب کی خلافت کے لئے راہ صاف کیا جا رہا تھا.اناللہ خواجه وانا اليه راجعون الملاحظہ ہو پیغام صبح کے ار دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۲۱- و "مجاہد کبیر ص ۱۰۱ خواجہ صاحب وغیرہ کو بدنام کرنے کی بنیاد اس شعر پر رکھی جاتی ہے جو ان کے سفر نامہ میں ہے کہ کا تھا وہاں لیکچر پر نہ مسرور میں ہوا شکر (سفر نامیہ صفحہ اسلام حالانکہ اگلے شعروں میں مسرور نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس لیکچر میں مجھے پہنچنے کا موقعہ نہیں ملا.چنانچہ فرماتے ہیں:.صاحب ہمسری مجھ کو کوئی جو جوانوں میں مجھے کو لے جاتا دیکھتا میں بھی محفل شبان پڑھا ہوتا جوانوں سمان پھر خواجہ صاحب کو میرا "مخنور " کہکر لکھتے ہیں:.لوگ کہتے تھے خوب یکچر خوب بولا مرا محور بھائیوں کو خوشی ہوئی شکر خواجه உ بات کو سن کر وعظ بب تمام ہوا خواب صاحب کا خوب نام ہوا خواجہ صاحب کے وعظ کو سننے کی تلقین فرماتے ہیں:.میں تسکین اگر لوگ اور تعصب کا 235 ہور کے روگ مارے تے فسار ہویں 133 احمدی بھائی ہوں کوئی نتا نہیں ہماری بات کس قدر جور و بدر ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم ۴ -۱۹ مرقع قادیانی تمبر.اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم ۱-۲- سرور ظلم ہے بیات (سفر نامہ صفحہ ۳۱) ۷۰ الحکم ۲/ اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۱۳ ۳۰/۲۶ اگست ۱۹۰۸ء شیخ صاحب حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی اشاعت کے لئے عہد کر چکے تھے.(بدر۳۰/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ۱) ا انعام ۲۶/ اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ و ریکار ڈ صد را انجمن ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲۱.۷۲ اکتوبر ۱۹۰۸ء کا ریکارڈصد را منجمن احمدیہ صفحہ ۱۱۵.۷۳.حیات قدری ۷۳ ریکار ڈ صد را انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۵۵.۷۵ - ریکارڈ صدر انجمن احمدیه ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۵۵.حضرت خلیفہ اول نے ایک مرتبہ ان کی کسی درخواست سفر خرچ پر رقم فرمایا.اصل بات یہ ہے کہ اللہ فی الله و بالله واعظوں کی ضرورت ہے اور اللہ تعالٰی مخلصانہ و عظوں کو ہر گز ضائع نہیں کرتا.مگر اس طرح روپیہ مقررہ دے کر وعظ کا مزہ مجھے تو آتا ہی نہیں." ( ریکار ڈ صد را مجمن احمدیہ ۱۹۰۸ء صفحه ۳۵۰)

Page 267

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 238 احمدیت میں نظام خلافت کا آیا ریکار ڈ صد را انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴۱.ے.احکام - ۲۶-۳۱ اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم ۳.۷۸.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۸-۱۹۰۷ء صفحه ۳۴.رجسٹر ششم صد را مجمن احمدیہ صفحہ ۱۸۳.الحكم ۲۹/۳۰ اگست ۱۹۰۸ء صفحہ اکالم ۱-۲- ۸۱ ۲/دسمبر ۶۱۹۹۱ البیان " جمادی الاولی ۱۳۲۶ صفحه ۱۵-۱۶ ۸۳- بدر ال تمبر ۱۹۰۸ء صفحہ کالم ۸۴ متحمید الا زبان ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶ ۸۵ اخبار بدر ۱۰/ ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲.پدر ۲۲/ اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحه ۸ کالم ۳.۸۷ ریکارڈ صد را انجمن احمدیه ۱۹۰۸ء صفحه ۱۵۳ ریکارڈ صد را انجمن احمد یه ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵.۸۹ ریکار ڈ صد را مجمن احمدیہ ۱۹۱۰ء صفحه ۱۵۱ - ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۰ء صفحه ۱۸۴-۱۸۵ ۹ تعید الاذہان ۱۹۰۹ء جلد ۴ صفحه ۱۷۲ ۹۲ - الحکم ۱۸ رو نمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲.الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۶ کالم ۲.۹۴.احکام ۷ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۹ کالم ۲.-۹۵ رپورٹ جلسه سالانه ۱۹۰۸ء از صد را جمن احمد یه صفحهب از صدر بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۴.۹۷ بدری / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۹ کالم ۲.۹۸- بدر ۱۴/ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۷۳ مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہور پورٹ سالانہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰۳.۱۰۹.۱۰۰.الحکم جوبلی نمبر صفحہ ۶۷ کالم ہے.روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد پنجم صفحه ۳۶ ۱۰۲ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱۹.۱۲۲.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۹۰۸ء صفحه ۳۱ ۱۰۴.اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ ۵۰.۱۰۵- مراة الاختلاف ۱۶ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات.صفحہ ۱۳.۱۰۷.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک.صفحہ 9 ۱۰۸ اختلاف سلسلہ احمدیہ پر ایک نظر صفحہ ۸ ( از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب خود خواجہ لکھتے ہیں ” حکیم صاحب کے معاملہ میں ہم نے وصیت کے خلاف نہیں کیا.اور اگر کیا تو ایک غلطی ہوئی لیکن یہ غلطی بھی نہ شرعانہ قانونا دوسری غلطی کی جوازیت پر دال ہے." (اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب) صفحہ ۴۰.۱۰۹ ریکار ڈ صد ر انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ ء رجسٹر نمبر صفحہ ۱۴۷

Page 268

تاریخ احمدیت جلد ۳ 239 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز 110 ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ اور جسٹر نمبر صفحہ ۱۵۲ ا ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ء رجسٹر نمبر صفحہ ۱۵۵.۱۱۲ ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ و رجسٹر نمبر صفحہ ۱۶۷.۱۱۳ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ ء رجسٹر نمبر صفحہ ۱۷۰ ۱۱۴ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ ءور جسٹر نمبر صفحہ اے.-۱۱۵ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ ءور جسٹر نمبر ۲ صفحہ ۱۹.ریکار ڈ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ ء رجسٹر نمبر ۲ صفحہ ۲۳ ۷ ریکار ڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۸ور جسٹر نمبر ۲ صفحه ۴۵ ۱۱۸ ریکار ڈ انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ ء رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۸۴.119 ریکارڈ انجمن احمد یہ ۱۹۰۸ ء رجسٹر نمبر ۲ صفحہ ۶۱ ریکار ڈ صد را انجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۱۳۹ او بدر ۲۹/ نومبر ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۱۲۱ ریکار ڈ صد را مجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۳۹ اوپر ر۲۹/ نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ کالم ۱ ۱۲۲.حیات بقاپوری صفحه ۸ حصه چهارم روایت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری) ۱۲۳ رپورٹ جلسہ سالانه ۶۱۹۰۸ صفحه ۹۲ (مرتبه مولوی محمد علی صاحب ایم.اے) یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ یہ فقرہ کو الوصیت میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں نکل سکتا.کہ حضور نے انجمن کو اپنے بعد ان معنوں میں جانشین مقرر کیا جن معنوں میں آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر یا حضرت عمر ہوئے.اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حضور کے بعد کوئی فرد واحد آپ کا خلیفہ نہ ہو گا.جو مطاع ہو اور انجمن ہی آپ کی حقیقی جانشین ہوگی کیونکہ.ا.انجمن کے ممبروں کے بارے میں حضور الوصیت میں فرماتے ہیں.کہ "تمام خدمات کو حسب ہدایت سلسلہ احمدیہ بجا لائیں." ان الفاظ میں حضور نے صاف طور پر انجمن کو سلسلہ احمدیہ کے ماتحت حیثیت دی ہے پس انجمن کی جانشینی ایک مخصوص دائرے کے متعلق ہی قرار دی جاسکتی ہے.۲.اس انجمن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی اس کے مفوضہ کاموں کے متعلق اختیارات دے دئے تھے.اور وہ آپ کی زندگی میں ہی خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین تھی.پس معلوم ہوا کہ انجمن کی جانشینی کا لفظ کسی آئندہ خلافت میں روک نہیں ہو سکتا تھا.۳.انجمن کا خلیفہ اور جانشین ہونا تاریخ مامورین میں ایک نرالا واقعہ تھا.جسے آپ کو اپنی کتابوں میں واضح رنگ میں لکھنا چاہتے تھا.مگر عملاً آپ نے یہ کیا کہ ایسی اہم چیز اصل الوصیت کی بجائے تمہ میں لکھی اور وہ بھی فروعی صورت میں اس میں بھی " جانشین ہوگی " کی بجائے " جانشین ہے " کے لفظ لکھے جو اس کا فیصلہ کن ثبوت ہے کہ کوئی نئی چیز آپ نے جاری نہیں فرمائی.۴.رسالہ الوصیت میں حضور نے صاف لفظوں میں حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت کو قدرت ثانیہ قرار دیتے ہوئے اپنے متعلق پیشگوئی فرمائی " اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالٰی اپنی قدیم سنت کو ترک کر دے میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا منظر ہوں گے." یہ عبارت مع اپنے سیاق و سباق کے اس امر پر نص قطعی ہے کہ حضرت اقدس کے بعد شخصی خلافت کا سلسله ای طرح جاری ہو گا.جس طرح حضرت رسول پاک ﷺ کے بعد ہوا تھا.۱۲۴ رپورٹ جلسه ۱۹۰۸ء صفحه ۹۶٬۱۰۰ ۱۳۵ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲.یہ تحریر خواجہ کمال الدین صاحب کی درخواست پر حضور نے رقم فرمائی تھی.خواجہ صاحب نے یہ تحریر کس غرض سے حاصل کی؟ اور ” ہر معالمہ " سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں جناب خواجہ صاحب خود ہی لکھتے ہیں.پھر حضرت میر صاحب کے اہتمام میں مسجد مبارک بنتی ہے اور بعض امور کے پیدا ہونے پر میں خود حضرت اعلیٰ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ اس امر کا بھی فیصلہ کریں کہ کہاں تک صدر انجمن احمدیہ کے احکام اور فیصلہ جات پر شخصی رائے کا اثر ہے.

Page 269

- جلد 240 احمدیت میں نظام خلافت کا آغاز اور آیا معاملات سلسلہ میں جو انجمن کے ہاتھ میں (ہیں) وہ کسی کی شخصی رائے کے ماتحت ہیں یا انجمن کا اجتہاد ان کے لئے کافی ہے." ( اندردانی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ ۴۲.۴۵) یہ " بعض امور " کیا تھے ؟ ان کی تشریح میں آپ مزید لکھتے ہیں.پھر اس تحریر کا بھی ذکر کرو جو حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بے ضابطگیوں پر میری ہی تحریک سے حضرت اقدین نے لکھی.اندرون اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ (۴۲) ثابت ہوا کہ یہ تحریر صرف انہی معاملات کے متعلق تھی ” جو انجمن کے ہاتھ میں ہیں.پس اس تحریر پر خلیفہ وقت کے مقابل انجمن کی بالا دستی کی بنیاد قائم کرنا خوش فہمی ہی نہیں مغالطہ انگیزی بھی ہے.١٢٦ الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۲ کالم ۲.۳.۱۳۷ - الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۳۵ء صفحه ۴ کالم ۲.۳.۱۲۸ - الفضل / اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ کالم ۲.١٢٩ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۱۳۰.الفضل ا / اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۱۳۱- تقریر جلسه سالانه ۲۸/ دسمبر ۶۱۹۷۱ ۱۳۲.ریکار ڈ صد را منجمن احمدیه ۱۹۰۸ء صفحه ۱۰۸ ۱۳۳) حکم ۱۴ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۳.۱۳۴- الحکم ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ کالم ۳ ۱۳۵ - الحکم ۲۶ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ سے کالم ۲.۱.احکم کے جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۳ ۱۳۷- الحکم سے /جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کا الم۳ !

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد ۳ دو سرا باب (فصل اول) 241 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر حضرت خلیفہ اول کا معرکتہ الارا فیصلہ اور عفو عام (جنوری ۱۹۰۹ء تاد سمبر ۱۹۰۹ء بمطابق ذی الحجہ ۱۳۲۶ھ سے ۱۳۲۸ھ تک) ممبران انجمن کی تقریروں کا ردعمل سالانہ جلسه ۱۹۰۸ ء پر ممبران انجمن نے اس طرح ہوشیاری سے بار بار انجمن کی خلافت و حاکمیت کا تذکرہ کیا کہ ذہین دماغ بھانپ گئے کہ ان کا اصل مقصد حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا جواب دے کر انجمن کی (جس سے مراد خود ان کا وجو د تھا) خلافت قائم کرنا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ قادیان اور باہر کی جماعتوں میں اس امر کے متعلق چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اصل حاکم و مطاع کون ہے انجمن یا حضرت خلیفہ اول؟ یہ حالات حضرت خلیفہ اول کے سامنے کس رنگ میں آئے اور آپ نے کس طرح اپنی خداداد فراست سے اس غلط نظریہ کے قائلین کا قلع قمع کیا اس کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے انکار خلافت کے فتنہ کا پس منظر اور اس فتنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود کے الہامات کا ذکر ضروری ہے.چنانچہ حضور اقدس کے چند الہامات و کشوف درج ذیل ہیں :.فتنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے رویا و الہامات ا.۲..(الهام) خدادو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہو گا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے ".کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں...اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ دارتداد ہے "." میں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی کشتی کر رہے ہیں.میں نے کہا آؤ میں تم کو ایک

Page 271

تاریخ احمدیت.جلد ۲.242 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر خواب سناؤں مگر وہ نہ آئے.میں نے کہا کیوں نہیں سنتے.جو شخص خدا کی باتیں نہیں سنتادہ دوزخی ہوتا ہے".....بعض بد قسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بد گمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے.مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے.پس مقام خوف ہے.ولا تكلمني في الذين ظلموا انهم مفرقون....یہ الہام خاص دوستوں کے لئے ہے".- سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا".۷.لاہور میں ایک بے شرم ہے ویل لک ولا فکک تجھ پر اور تیرے جھوٹ پر ملامت اور افسوس ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دئے جائیں گے انما یرید الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهير ا "..چند روز ہوئے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ مرتدین میں داخل ہو گیا ہے میں اس کے پاس گیاوہ ایک سنجیدہ آدمی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا.اس نے کہا کہ مصلحت وقت ہے".قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ ” میں نے حضرت اقدس کی زبان مبارک سے سنا کہ تم عبدالحکیم کو دیکھ کر کیا.تعجب کرتے ہو ابھی میری نظر میں ۵۰.۶۰ آدمی مرتد ہوں گے.خدا اس جماعت پر رحم فرمائے.رب ارحم رب ارحم رب ارحم "..اگر بار یک نظر سے دیکھا جائے تو ان الہامات میں اس فتنہ کے متعلق مندرجہ ذیل حیرت انگیز تفصیلات کی اطلاع دی گئی ہے.اول.جماعت دو گروہوں میں بٹ جائے گی اور اس کا سبب پھوٹ ہو گا.دوم.ایک گروہ خوارج کی طرح حضرت مسیح موعود کی خلافت کا منکر ہو جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانشین اس فتنہ پر صبر کرے گا.اور ان فتنہ پردازوں کو جماعت سے خارج کرنے کی بجائے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا.ان لوگوں کا تمام تر شور و غوغا بد گمانیوں کے نتیجہ میں اٹھے گا اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض " خاص دوستوں میں سے ہوں گے.سوم.یہ فتنہ اٹھانے والا گر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوابوں اور الہاموں کو کچھ وقعت

Page 272

243 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر نہیں دے گا.خصوصاً ایک شخص جو مولوی کہلا کر قبول الہامات کے بارے میں سب سے کچا ثابت ہو گا.چہارم.اس فتنہ میں لاہور کے کسی بے شرم کا بہت بڑا دخل ہو گا.جہاں سے جھوٹ اور فریب پھیلایا جائے گا.اس وقت جماعت کے سامنے امتحان کی طرح بعض سوالات رکھے جائیں گے جن میں بعض پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دئے جائیں گے.پنجم.فتنہ پرداز لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کے خلاف ہوں گے.حالانکہ خداتعالی کے نزدیک حضور کے اہل بیت مطہر ہوں گے.یعنی انہی کا مسلک صحیح ہو گا.ششم.فتنہ پرداز عصر اپنے قول و فعل میں مصلحت وقت کو حقیقت و صداقت پر قربان کر دے ہفتم.اس عصر کو عبدالحکیم مرتد پٹیالوی کے نظریات سے موافقت کی وجہ سے ابتلا آئے گا اور حکم کردہ راہ ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ کی طرف سے جماعت میں اٹھنے والے اس فتنہ کی فقط تفصیلات ہی نہیں بتائی گئیں بلکہ اس کے علمبرداروں کی نشان دہی بھی کر دی گئی تھی چنانچہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ حضور علیہ السلام نے اس زمانہ میں جب کہ "وطن" اور ریویو کا جھگڑا ہو رہا تھا.اور خواجہ صاحب ریویو کو " وطن " پر قربان کرنے پر تلے ہوئے تھے.مولوی محمد علی صاحب کو چھوٹی مسجد (یعنی مسجد مبارک.ناقل ) میں تشریف لا کر فرمایا کہ خواجہ صاحب کو خط لکھ دو کہ وہ بہت توجہ و استغفار کریں اور قربانی بھی دیں.مجھے ان کی نسبت سخت منذر رویا ہوئے ہیں جس سے ان کے ایمان کا بھی خطرہ ہے.اور پھر حضور علیہ السلام نے ایک رویا لکھوایا بھی جو یہ تھا کہ ” میں نے دیکھا ہے کہ میں اور مولوی نور الدین صاحب اس مسجد میں ایک تخت پر بیٹھے ہیں اور خواجہ بدن سے نگا پاگلانہ صورت میں ادھر آیا.اور آتے ہی ہم دونوں پر حملہ کرنے لگا.ہمارے پاس اس وقت حافظ حامد علی تھا.میں نے اس کو کہا کہ اس کو نکال دو.وہ نکالنے لگا تو خواجہ خودہی زینہ سے اتر کر نیچے چلا گیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد علی صاحب سے لکھوا کر خط بھیجوایا.اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ مسجد سے مراد امام کی جماعت ہوتی ہے.پس مجھے اس کا بہت اندیشہ ہوا.اس کو بہت تو بہ کرنی چاہئے.یہ خط مولوی محمد علی صاحب نے اپنے قلم سے حضور علیہ السلام کے حکم سے لکھ کر خواجہ f صاحب کو پہنچایا " - ۱۳

Page 273

تاریخ ا ت جلد 244 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے ان الہامات و کشوف کو لکھنے کے بعد جن میں انکار رفقاء کی سلسلہ میں شمولیت کا مقصد خلافت کے فتنہ کا پورا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے میں اس فتنہ کے پس منظر کی طرف آتا ہوں لیکن اس امر کو تفصیلا لکھنے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جن کو دیوی شان و شوکت کا خیال ہے کہ محکمے ہوں.دفاتر ہوں.بڑی بڑے عمارتیں ہوں وغیرہ وغیرہ.دوسرے وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی مثلاً حضرت مولوی نور الدین صاحب کے اثر کے نیچے آکر جماعت میں داخل ہو گئے ہیں اور انہی کے ساتھ وابستہ ہیں.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو خاص میری ذات سے تعلق ہے اور وہ ہر بات میں میری رضا اور میری خوشی کو مقدم رکھتے ہیں.دا مقدم الذکر لوگوں کے متعلق (جو انجمن وغیرہ کے دلدادہ تھے) فرمایا کہ ان کا خطرہ ہے.خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء کا تعلق دراصل اسی پہلے گروہ سے تھا اوپر گوان کا سلسلہ سے وابستہ ہونا اخلاص و محبت کے تحت تھا.اس لئے باوجود ان قومی خدمات کے جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سر انجام دیں ان کا ذاتی رجحان جمہوریت اور مغربیت سے متاثر ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اس طرف تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مقصد بعثت یہ ہے کہ ایک کمیٹی اشاعت اسلام کی غرض سے قائم ہو جائے اور لوگوں سے چندہ لے کر قرآن مجید کا ترجمہ اور دوسرا اسلامی لٹریچر شائع ہو یا سکول کالج وغیرہ کھول دئے جائیں.قرآن کا ترجمہ یا دوسرے اسلامی لٹریچر کی اشاعت یا سکولوں کا اجراء بلا شبہ بہت مبارک اور ضروری چیزیں تھیں مگر احمدیت کے قیام کا حقیقی مقصد جیسا کہ خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ کشف بتایا دنیا کے قائم شدہ پورے نظام حیات کو یکسر بدل کر ایک نئی زمین نیا آسمان اور نیا نظام قائم کرنا تھا.اور ظاہر ہے کہ یہ غیر معمولی کام انجمنیں سرانجام نہیں دے سکتیں بلکہ آسمانی سلسلہ ہی کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے چنانچہ حضور علیہ السلام دعوئی مسیحیت کی سب سے پہلی تصنیف میں لکھتے ہیں." بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا ہی تائید کے لئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں.اور کیونکر اور کن راہوں سے وہ اغراض حاصل ہو سکتے ہیں سوا نہیں جانا چاہئے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے.جو تعلقات نفسانیہ سے چھڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے سو اس یقین کامل کی را ہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہرگز کھل نہیں سکتیں اور انسانوں کا گھڑا ہوا فلسفہ اس جگہ فائدہ

Page 274

تاریخ احمدیت جلد ۳ 245 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر نہیں پہنچا تا بلکہ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالٰی اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتا ہے.اور جو آسمان سے اترا.وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے.سواے وے لوگو! جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک و شبہات کے پنجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اسمی اور رسمی اسلام پر ناز مت کرو.اور اپنی کچی رفاہیت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی انہی تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں کے ذریعہ کی جاتی ہیں یہ اشغال بنیادی طور پر فائدہ بخش تو ہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصور ہو سکتے ہیں.مگر اصل مدعا سے بہت دور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں A انجمنوں کے وجود کو محض ایک ابتدائی زینہ قرار دعوی کو پیش کرنے کی ضرورت دیا وہاں اسلام کی ترقی و سر بلندی کو اپنے وجود سے وابستہ یقین کرتے ہوئے بار بار اپنے دعوئی اور دلائل کو پیش فرمایا.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک دفعہ یہ اعتراض بھی ہوا کہ حضور جو کچھ لکھتے ہیں بس اپنے لئے اور اپنے دعوئی کے لئے ہی لکھتے ہیں.اسلام کے لئے کچھ کام نہیں کرتے.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں جو مفصل تقریر فرمائی اس کا ملخص مولوی محمد علی صاحب کے الفاظ میں یہ تھا."یہ اعتراض تو صرف ہم پر نہیں آتا.ہمارے سلسلہ نبوت پر آتا ہے.ہر نبی جو آیا پہلے اپنے آپ کو ہی منوا تا رہا.سب نے یہی کہا.کہ اطیعون.میری پیروی کرو.تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام نبی بھی اپنے لئے یہ سب مصیبتیں اٹھاتے تھے.بلکہ یہ کم نمی ہے......بر هموؤں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ لا الہ الا اللہ تو ہو انگر یہ ساتھ محمد رسول اللہ کیا لگا دیا ہے.فرمایا.ہم خود کیا ہیں.ہم زمین پر حجتہ اللہ ہیں.ہم خدا تعالیٰ کے مجسم نشان ہیں.مگر کس کام کے لئے صرف اسلام کے لئے.اور پیغمبر اسلام کی خدمت کے لئے.اور اللہ تعالیٰ کے بچے دین کی تائید کے لئے.ہماری سب کارروائیاں اسلام کی خاطر ہیں نہ اپنی ذات کے لئے.پھر فرمایا.کہ اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم دن رات جو دوسرے ادیان کی بطلان کی فکر میں ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے کیا ہم نصیبین یا کشمیر آدمی اس لئے بھیجتے ہیں کہ ہماری بڑائی ہو یا دین اسلام کی حقانیت روشن ہو " ایڈیٹر اخبار "وطن" سے گٹھ جوڑ یہ اصحاب حضرت مسیح موعود کے اس وضاحتی بیان کو 14 آہستہ آہستہ اپنی افتاد طبع کے باعث نظر انداز کرتے گئے حتی کہ آخر ۱۹۰۵ ء میں خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے زیر اثر مولوی محمد علی صاحب نے اخبار وطن سے از خود یہ معاہدہ کر لیا کہ وہ ریویو آف ریلیجز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 275

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 246 ختنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر مخصوص علم کلام اور دعاوی کو الگ رکھیں گے اور خاص مضامین جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں علیحدہ ضمیمہ کی صورت میں شائع کریں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر سخت خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ مجھے چھوڑ کر کیا تم مردہ اسلام پیش کرو گے.جس پر ان کو مجبوراً اپنا ارادہ چھوڑ دینا پڑا.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب خود لکھتے ہیں.اس تحریک میں میرا حصہ خواجہ صاحب سے کسی طرح کم نہ تھا.فرض کر لو یہ ایک غلطی تھی.حالانکہ اصل بات یہ ہے (؟) کہ پہلی تحریک بھی حضرت صاحب کے علم میں لا کر کی گئی تھی.لیکن چونکہ بعد میں اس کے بعض پہلوؤں کی وجہ سے حضرت صاحب نے اسے ناپسند کیا.اسے ترک کر دیا گیا"." فرض کر لو یہ ایک غلطی تھی" کا فقرہ صاف بتاتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک در اصل یہ کوئی غلطی نہ تھی مگر چونکہ حضرت اقدس نے اسے ناپسند کیا اسے ترک کر دیا گیا.ڈاکٹر عبدالحکیم کے دلی خیالات کے دلی خیالات بعینہ میں نظریہ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب پٹیالوی کا تھا " چنانچہ وہ "الذکر الحکیم" میں لکھتا ہے.”مولوی انشاء اللہ خاں صاحب ایڈیٹر الوطن کی تحریک پر مولوی محمد علی و خواجہ کمال الدین صاحبان وغیرہ نے یہ تجویز پاس کی اور شائع کی کہ ریویو آف ریلیجنز " قادیان میں عام اسلامی مضامین شائع ہوا کریں اور خاص مرزا صاحب کے متعلق ابحاث علیحدہ ضمیمہ میں شائع ہوا کریں.اس تجویز کی اشاعت سے میرا دل قدرے ٹھنڈا ہوا اور میں نے کہا کہ ہماری جماعت میں عالی خیال اور عالی ظرف لوگ بھی ہیں اور اب یہ کام قرآنی رنگ میں خدائی آئین پر چلے گا.اور ہمارا پیغام احسن اور بلغ صورت میں تمام دنیا کو پہنچے گا.مگر وہ تمام خوشی خاک میں مل گئی جب کے مرزائیوں یا مرزا کے شیدائیوں نے اس تجویز کے خلاف شور مچانا شروع کیا اور وہ تجویز خاک میں مل گئی.مولوی محمد علی صاحب کو مرزائیوں کا شور دبانے کی غرض سے اپنے اقرار اور عقائد شائع کرنے پڑے.اناللہ واناالیه راجعون.پھر ڈاکٹر عبدالحکیم نے اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا جس میں تحریر کیا.میں چند امور کی طرف جو نہایت ضروری ہیں.آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول یہ کہ امت محمدیہ میں جو لوگ ہماری تکذیب کرتے اور ہمیں صریحا کافر کہتے ہیں ان کے ساتھ تو بے شک نماز نہیں ہو سکتی.مگر جو لوگ ہمیں صریحاً کافر نہیں کہتے ان تمام کو کافر نہ سمجھا جائے بلکہ حسن ظنی سے کام لیا جائے اور ان کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی اجازت دی جائے.تاکہ ہماری تبلیغ آسان اور وسیع ہو سکے.روم.یہ کہ جو تجویز انشراح صدر اور عالی ظرفی سے مولوی محمد علی اور خواجہ کمال الدین صاحب

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 247 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر نے شائع کی تھی.اس سے ہمارے مشن کی تبلیغ بہت جلدی اور عمدگی سے پھیل سکتی ہے..۲۴ سوم.آپ کا وجود خادم اسلام ہے نہ کہ وجود اسلام.پس اپنے وجود کی خاطر اصل اشاعت اسلام کو روکنا حکمت و دانائی کے خلاف ہے.جب اصل پر لوگ قائم ہوں گے تو فروعات خود قائم ہو جائیں گے.چهارم.عام حکمت کا یہ قاعدہ ہے کہ پہلے بڑے امراض کا علاج کیا جاتا ہے ملکی غذا ئیں دی جاتی اور قومی ثقیل غذاؤں سے پر ہیز کرایا جاتا ہے رفتہ رفتہ (جب) بڑے امراض سے صحت ہو جاتی ہے.تب خفیف اور ضمنی امراض خود رفع ہو جاتے ہیں.یعنی پہلے اسلام کو عام صورتوں میں پیش کرنا چاہئے.رفتہ رفتہ علی قدر عقول الناس جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کا طریق رہا ہے اس کے اسرار اور معارف پیش کرنے چاہئیں.پنجم.محض ایک مسئلہ وفات مسیح اور آمد مسیح یا پیشگوئیوں پر تمام زور خرچ کرنا اور باقی اجزائے اسلام کو نظر انداز کر دینا یا غیر ضروری و حقیر سمجھنا سخت نادانی - پست خیالی - تنگ ظرفی اور ضد و تعصب میں داخل ہے......ششم.اسلام کی طرف اصل رہبر فطرت اور بچی تعلیم ہے نہ کہ محض پیشگوئیاں چنانچہ قرآن مجید نے بچی تعلیم اور فطرت کو ہی اصل رہنما اور رہبر قرار دیا ہے نہ کہ پیشگوئیوں کو...پس محض پیشگوئیوں کو ہی ذریعہ ہدایت سمجھنا سراسر خلاف قرآن ہے اور قرآنی تعلیمات کو مردہ اسلام قرار دینا انتہا درجہ کی بے باکی اور بد نمی ہے.افسوس کہ خاص قرآن کو تو مردہ اسلام قرار دیا گیا......اس سے بڑھ کر قرآن اور اسلام کی اور کوئی توہین نہیں ہو سکتی کہ اس کی حیات کا دارو مدار ایک شخص کی منحصر تھا جو آج تیرہ سو سال کے بعد پیدا ہوا.پس یہ نہایت ہی رذیل اور گستاخانہ کلمات تھے جو کلام الہی کی نسبت شائع ہوئے.افسوس اس معاملہ میں احمدی جماعت نے ایسی تنگ خیالی اور ضد و تعصب کا نمونہ دکھایا کہ ساری قوموں سے سبقت لے گئے اور اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو (جسے) پست خیال اور تنگ ظرف مولویوں نے احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان حائل کیا تھا اور اب وہ شکستہ ہو کر گرنے کے قریب ہو گئی تھی اس کو اپنے ہاتھوں سے پھر کھڑا کر دیا.زات پر ۲۵ اس خط میں چونکہ اکثر انجمن کے بارے میں منکرین خلافت کا غالیانہ عقیدہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب ہی کے اندرونی خیالات و معتقدات کی عکاسی تھی اس لئے آئندہ چل کر

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 248 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ان حضرات نے پوری طرح کھل کر انسی لائنوں پر جماعت میں ایک جدید مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی جو ظاہر ہے کہ احمدیت کی روح اور مزاج سے قطعا کوئی تعلق نہ رکھتی تھی.خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کی نگاہ سے خدائی سلسلہ کی مخصوص شان اور امتیازی خصوصیات کے اوجھل ہونے کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ عبدالحکیمی خیالات کو انہوں نے مستقل عقیدہ کی حیثیت سے اپنا لیا اور دوسرا اثر اس کے معابعد ہی صدر انجمن احمدیہ کے قیام پر ہوا جبکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند شان اور عظیم مرتبہ کو یکسر فراموش کر کے جماعتی تنظیم و اتحاد کا واحد ذریعہ انجمن ہی کو سمجھ لیا.اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت پر حاکم قرار دینے لگے اور یہاں تک غلو سے کام لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو انجمن کو محض ایک ابتدائی زینہ کہا تھا مگر یہ اصحاب انجمن کے قیام کو ہی حضرت اقدس کا سب سے بڑا کارنامہ کہنے لگے.چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں.”حضرت اقدس مسیح موعود مرزا غلام احمد علیہ الرحمتہ مجدد وقت کی جب وفات کا زمانہ نزدیک آیا.تو آپ نے ایک وصیت لکھی جس میں سب سے بڑا اور اہل دنیا کی نظروں میں حیرت انگیز کارنامہ یہ کیا کہ ایک انجمن بنا کر اسے اپنا جانشین قرار دیا اور کسی فرد واحد کو اپنا جانشین نہ بنایا.صد را انجمن احمدیہ کا قیام اب میں اس طرف آتا ہوں کہ یہ صدر انجمن کا قیام کس طرح معرض ظہور میں آیا.سو جاننا چاہئے کہ سلسلہ کے انتظامی امور کو چلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے مختلف اوقات میں مختلف انجمنیں جماعت میں قائم ہو ئیں.مثلاً ۱۸۹۸ء میں مدرسہ کے انتظام کے لئے انجمن بنائی گئی.دسمبر ۱۹۰۱ ء میں یہ انجمن تو ڑ دی گئی.اور مدرسہ کے لئے ایک نئی انتظامیہ انجمن قائم ہوئی.پھر 1901ء میں ہی خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ انگریزی خواں حضرات کی تحریک پر ایک انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد پڑی جس کا مقصد مغربی دنیا میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت تھا.اس انجمن کے افتتاحی اجلاس میں حضور نے واضح فرمایا.کہ "سب صاحب اس بات کو سن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کارروائی خدا ہی کے لئے ہے وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنا چاہتا ہے.جیسے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہو تا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے.کہ زمین پر تاریکی پھیل گئی ہے.تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھارے اور قوانین کے موافق حجت پوری کرے اس لئے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خدا سے تعلق نہیں رہتا سمجھ کم ہو جاتی ہے اس وقت خداتعالی اپنے کسی بندہ کو مامور کر دیتا ہے".نیز فرمایا :-

Page 278

249 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر خلاصہ یہ ہے کہ ایک پہلو تو میں کر رہا ہوں دوسرے پہلو کو ہمارے انگریزی خوان جماعت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ تجارت کے طریق پر یہ کام جاری ہو جائے دین کی اشاعت ہو جائے.بہر حال یہ ان کا ارادہ ہے میرے نزدیک جہاں تک یہ امرذ ہب سے تعلق رکھتا ہے میں اس کی حمایت کرتا ہوں اگر یہ تجویز عمل میں نہ بھی آدے تب بھی یہ کام ہو جائے گا بہر حال آپ غور کر لیں اللہ تعالٰی کو بہتر معلوم ہے ".یہ سب انجمنیں جماعت کے دوسرے دوستوں کی تحریک پر بنی تھیں مگر دسمبر ۱۹۰۵ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وحی کی بناء پر بہشتی مقبرہ کی اور نظام الوصیت کی بنیاد رکھی تو اس بہشتی مقبرہ کی آمدی خرچ کے انتظام کے لئے خود ایک انجمن بنائی.جس کا نام حضور نے انجمن کار پرداز مصالح قبرستان رکھا اور اس کا امین حضرت خلیفتہ المسیح اول مولوی نور الدین صاحب کو مقرر فرمایا - E یہ تھی "انجمن کار پرداز مصالح قبرستان " جسے حضرت اقدس علیہ السلام نے خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کا جانشین قرار دیا.بعد ازاں اس میں سلسلہ کے دوسرے تمام اداروں کا انتظام شامل کر دیا گیا اور اس کا نام صدر انجمن رکھا گیا.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں.دیہی انجمن بالا خر صد رانجمن کے نام سے قائم کی گئی گو پہلا نام اس کا جیسا کہ ضمیمہ (الوصیت) سے ظاہر ہے انجمن کار پرداز مصالح قبرستان تھا".انجمن کارپرداز مصالح قبرستان کا انجمن کارپرداز مصالح قبرستان صدر انجمن احمدیہ " کے نام سے کیسے موسوم ہوئی ؟ یہ ایک صدر انجمن احمدیہ سے موسوم ہونا نہایت اہم واقعہ ہے.جس سے خواجہ کمال الدین صاحب کی ذہنیت کے علاوہ ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے جو در پر وہ صدر انجمن کے قیام سے وہ وابستہ کئے ہوئے تھے.چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی چشم دید شہادت ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت لکھی اس وقت خواجہ صاحب جناب مولوی محمد علی صاحب کے پاس ان کے کمرہ میں بیٹھے ہوئے بار بار اپنی ران پر ہاتھ مارتے اور مولوی صاحب کو (جو کچھ لکھ رہے تھے ) یہ کہتے کہ مولوی صاحب آپ کو مزا نہیں آیا.میرزا نے تو ایک قلم کے ساتھ آپ کی سلطنت بنادی ہے.کیونکہ اگر ایک زمیندار کے دس بیٹے احمدی ہوں تو اتنے سال میں اس کی ساری زمین اور سب جائیداد آپ کی ملکیت اس ذریعہ سے ہو جائے گی.مگر سلطنت بھی ایسی کہ سب زمین کی مالک نہ کہ اوروں کی طرح غیر مالک.مگر یہ کام اب آپ کا ہے کہ اس کو ابھی سے شخصی ہونے سے بچا لو اور جمہوری بنالو.اور بارہا اس کے دوہرانے کے بعد آپ نے جمہوریت کا یہ ڈھانچہ بیان کیا.کہ

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 250 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر آپ ایک تو صدر انجمن احمد یہ بنائیں.جس کا ہر نمبر ایک احمدی ہو.اور پھر ایک انجمن معتمدین بنا ئیں جو ہننزلہ سب احمدیوں یا بلفظ دیگر صد را مجمن کے قائم مقام اور نائب اور معتمد علیہا ہو.اور پھر کہا کہ یہ تو بنی بنائی ہی ہے.کیونکہ جو انجمن مقبرہ بہشتی کی حضرت صاحب نے بنائی ہے.اس کا نام آپ معتمدین رکھ لیں.تو ساتھ ہی یہ فائدہ ہو جائے گا کہ لوگ ان معتمدین کو حضرت صاحب کی یقین کریں گے.اور پھر آپ کے احکام سے کوئی چون و چرا نہ کر سکے گا چنانچہ یہ تو اسی وقت ہو گیا اور اس حجرہ کے اندر ہو گیا.حالانکہ جمہوریت کی بنا ہی انتخاب پر ہے مگر ابھی دو خطرے باقی تھے.اول یہ کہ اس وقت تو ہم خود ہی اس معتمدین کے بلا انتخاب قوم ممبر بن گئے ہیں.مگر ہو سکتا ہے کہ کل قوم اپنے حق انتخاب کا دعوی کرے اور پھر ہماری جگہ اور ممبر انتخاب کرلے اور یہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جاوے.تو اس خطرہ کے رفع کرنے کے لئے یہ کیا کہ موجودہ ممبر جو ہیں یہ لائف ممبر ہیں (گو جمہوریت میں کبھی ابتدا سے اب تک نہ ہوا ہو.اور دوسرا خطرہ یہ تھا کہ آئندہ اس انجمن ہی کو کوئی تو ڑ دے تو پھر لائف ممبری بھی کچھ کام نہیں دے گی.تو اس کے دفعیہ کے لئے بہت کچھ وقت اور دماغ صرف کیا گیا.مگر بجز اس کے اور کچھ ہاتھ نہ آیا کہ اس کو رجسٹرڈ کرایا جائے.ان ہی دنوں میں یہ بھی ہو گیا.ممبران انجمن کے تقرر کا واقعہ صدر انجمن احمدیہ کے قیام کے بعد تقرر ممبران وغیرہ کے سلسلہ میں بھی خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء نے من مانی کی اور حضرت کے ارشاد کو پس پشت ڈال دیا.چنانچہ سید نا محمود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں.ایک دن حضرت صاحب اندر آئے تو والدہ صاحبہ سے کہا کہ انہیں (یعنی مجھے ) انجمن کا ممبر بنا دیا ہے.نیز ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کو اور مولوی صاحب کو ناکہ اور لوگ کوئی نقصان نہ پہنچا دیں.پھر میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا گیا آپ نے فرمایا دہ مدرسہ میں پڑھتے ہیں افسران کے ماتحت ہوں گے اس لئے ان کو رہنے دو.پھر آپ آئے اور کہا یہ نام تجویز کئے ہیں.ڈاکٹر محمد حسین صاحب کا نام یقینی یاد ہے.مرزا یعقوب بیگ صاحب کا یقینی یاد نہیں کہ حضرت صاحب نے تجویز کیا یا نہیں.آپ کو کہا گیا م انام لکھ لئے ہیں.حضرت نے فرمایا اور چاہیں باہر کے آدمی بھی ہوں.اور کے نام بھی بیان کئے جن میں سے ذوالفقار علی خان صاحب.چوہدری رستم علی خان صاحب.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں اس پر کہا گیا کہ زیادہ آدمیوں سے کو رم نہیں پورا ہو گا.آپ نے فرمایا اچھا تھوڑے سہی.پھر کہا اچھا ایک اور تجویز کرتا ہوں.اور وہ یہ کہ مولوی صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر ہو.(یہ امیر نہیں تو اور کیا ہیں ۱۴ ممبر ایک طرف ایک کی رائے چالیس کے برابر ہو.)

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 251 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر اس وقت میرے سامنے ان لوگوں نے حضرت صاحب کو دھوکہ دیا کہ حضرت ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنایا ہے.اور پریذیڈنٹ کی رائیں پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشاء ہے کہ ان کی رائیں زیادہ ہوں.مجھے اس وقت انجمنوں کا علم نہ تھا کہ کیا ہوتی ہیں در نہ بول پڑتا کہ پریذیڈنٹ کی ایک ہی زائد رائے ہوتی ہے.تو انہوں نے یہ دھوکا دیا.پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دئے گئے تھے اور میں ہی حضرت صاحب کے پاس لے کر گیا تھا.اس وقت آپ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا ہے.میں نے کہا انجمن کے قواعد ہیں.فرمایا.لے جاؤ.ابھی فرصت نہیں ! گویا آپ نے ان کو کوئی وقعت نہ دی.ممبران انجمن کی حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد علی صاحب کا ابتدائی انجمنوں کے زمانہ سے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور خاندان مسیح موعود سے پرانی رقابت خاندان حضرت مسیح موعود خصوصاً حضرت میر ناصر نواب صاحب سے اختلاف چلا آتا تھا.چنانچہ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کو ٹلہ اپنی خود نوشت ڈائری میں لکھتے ہیں: ۱۷/ نومبرا.......مولوی محمد علی صاحب سے تخلیه میں مدرسہ کے متعلق گفتگو ہوئی انہوں نے اس جھگڑے کو مٹانے کے لئے اپنی علیحدگی کی پسندیدگی ظاہر کی جس سے معلوم ہو تا تھا کہ مولوی نور الدین صاحب کا کمیٹی میں ہونا ان کو پسند نہیں ".اور یہ ناپسندیدگی اس درجہ بغض کی حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ آپ کئی دفعہ قادیان چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.چنانچہ مولانا سرور شاہ صاحب فرماتے ہیں." آپ بہت زد و رنج اور مغلوب الغضب تھے.آپ کئی بار معمولی معمولی باتوں پر اس قدر جوش میں آئے کہ قادیان اور اپنے دار ہجرت کے چھوڑنے پر اور حضرت مسیح موعود اور خلیفتہ المسیح کی بابرکت صحبت سے جدا ہونے پر تیار ہو گئے تھے اور اس کا یہ اثر تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح سے مدرسہ کی کمیٹی کے زمانہ میں رنج ہوا تو آخر تک اس رنج کو نہ چھوڑا.اسی طرح اہل بیت مسیح کا حال " - ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امرد ہوی سے آپ الجھ پڑے تو قادیان چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے.قادیان سے جانے کا تیسری مرتبہ فیصلہ مولوی صاحب نے اس وقت کیا جب کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب سے مسجد مبارک کے معاملہ میں نزاع ہو گیا.انجمن میں خواجہ صاحب کے حامیوں کی اکثریت انجمن کے متعدد ممبر خواجہ صاحب کے گہرے دوستوں میں

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 252 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر سے اور بعض دوسرے ممبر مولوی محمد علی صاحب کی خدمات کے اثر سے ان کے ہمنوا تھے.ان وجوہ سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کو انجمن میں زبر دست اکثریت حاصل ہو گئی تھی اور سارا اقتدار انہی کے ہاتھ میں چلا گیا تھا جس کا اقرار مولوی محمد علی صاحب نے بھی کیا ہے - Com لنگر خانہ پر قبضہ کرنے کی کوشش خواجہ صاحب.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقا گو انجمن کے سب ہی حالات پر اقتدار جما چکے تھے.مگر لنگر خانہ " کا انتظام ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں تھا.اس لئے وہ چاہتے تھے کہ اس پر بھی قبضہ کر لیں چنانچہ اس کے لئے انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ بعض مہمانوں کے سامنے لنگر خانہ کی مفروضہ بد انتظامیوں کا رونا رونا شروع کیا.چنانچہ اس سلسلہ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے لدھیانہ کے احمدی بابو محمد صاحب کو باغ میں لے جا کر سنانا شروع کیا کہ میر ناصر نواب صاحب مالیوں کو یوں روٹیاں دیتے ہیں اور باغ کے کتوں کو یوں گوشت دیا جاتا ہے.میر صاحب کا نام خاص طور پر انہوں نے اس لئے لیا کہ ان سے پرانا رنج تھا بابو صاحب نے کہا کہ آپ لوگ اس کو روکتے کیوں نہیں ؟ تو خواجہ صاحب نے ماتھا پیٹ کر کہا کہ اگر ہم کہیں تو پھر کچھ بھی کام نہیں کر سکتے.اور اگر کہہ سکتے تو بات ہی کیا تھی یہ تو آپ جیسے بزرگوں کا کام ہے اور اسی وجہ سے آپ کا ذکر کیا ہے تب بابو محمد صاحب نے وعدہ کیا کہ میں ضرور اس کا ذکر کروں گا.چنانچہ اس پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا جس میں خواجہ صاحب کے عندیہ کے مطابق اسراف کا الزام لگایا اور تجویز رکھی کہ بھی روپیہ انجمن کے سپرد ہونا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں کھلا خط شائع کیا کہ " مجھے وہ لوگ چندہ دے سکتے ہیں جو اپنے بچے دل سے مجھے خلیفتہ اللہ سمجھتے ہیں اور میرے تمام کاروبار خواہ ان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ان پر ایمان لاتے اور ان پر اعتراض کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں میں تاجر نہیں کہ کوئی حساب رکھوں.میں کسی کی کمیٹی کا خزانچی نہیں کہ کسی کو حساب دوں.میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو ایک ذرہ بھی میری نسبت اور میرے مصارف کی نسبت اعتراض دل میں رکھتا ہے اس پر حرام ہے کہ ایک کوڑی بھی میری طرف بھیجے مجھے کسی کی پرواہ نہیں جبکہ خدا مجھے بکثرت کہتا ہے گویا ہر روز کہتا ہے کہ میں ہی بھیجتا ہوں جو آتا ہے اور کبھی میرے مصارف پر وہ اعتراض نہیں کرتا تو دوسرا کون ہے جو مجھ پر اعتراض کرے.ایسا اعتراض آنحضرت ا پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا.سو میں آپ کو دوبارہ لکھتا ہوں کہ آئندہ سب کو کہدیں کہ تم کو اس خدا کی قسم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا.اور ایسا ہی ہر ایک جو اس خیال میں ان کا شریک ہے کہ ایک حسبہ بھی میری طرف کسی سلسلہ کے لئے کبھی اپنی عمر تک ارسال

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 253 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر نہ کریں.پھر دیکھیں کہ ہمارا کیا حرج ہو ؟؟ اب قسم کے بعد میرے پاس نہیں کہ اور لکھوں “.خاکسار مرز اغلام احمد م خواجہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بے جا اسراف کے الزامات مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اگر چاہتے تو مرسل ربانی کے اس اختباہ پر تو بہ کر کے اپنی روش کو بدل لیتے مگر انہوں نے اور زیادہ بے باکی سے نہ صرف یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ لنگر خانہ کا انتظام ان کو دے دیا جائے بلکہ اپنی پرائیوٹ مجلسوں میں حضرت اقدس اور آپ کے اہل بیت کے خلاف بے جا اسراف اور فضول خرچی کا الزام بھی لگانا شروع کر دیا جس کے چشم دید واقعات حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی کتاب کشف الاختلاف میں موجود ہیں.20 حضرت مفتی محمد صادق حضرت مسیح موعود کا آخری سفر اور لنگر خانہ کا انتظام حضرت لکھتے صاحب ہیں اپنے آخری سفر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے.تو لنگر خانہ کا انتظام مولوی محمد علی صاحب کے سپرد ہوا.حضرت مولوی نور الدین صاحب کو اور عاجز را تم کو اور بعض دیگر اصحاب کو بھی حضرت صاحب نے لاہو ر بلا لیا لیکن مولوی محمد علی صاحب قادیان ہی میں مقیم رہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اعتراضاً لکھا کہ لنگر خانہ کا خرچ تو بہت تھوڑا ہے معلوم نہیں کیوں ایسا کہا جاتا ہے کہ لنگر میں اس قدر خرچ ہوتا ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت ناراض ہوئے.اور فرمایا " اسے اتنا خیال نہیں آتا کہ ہمارے لاہور چلا آنے کے سبب مہمان تو سب لاہور آرہے ہیں اب قادیان جاتا ہی کون ہے جو لنگر خانہ کا پہلے کی طرح خرچ ہو " اس کے بعد چند دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا اور مولوی محمد علی صاحب کو حضور کی زندگی میں ایسا موقعہ ہی نہیں ملا کہ وہ معذرت کرتے اور معافی مانگتے.11 خلافت اولیٰ کا قیام اور اختیارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد کو محدود کرنے کی سازش جیسا کہ تفصیلی ذکر آچکا ہے اگر چہ انجمن کے تمام ممبروں اور پوری جماعت کا خلافت پر اجماع ہو گیا.مگر چند دنوں کے بعد ہی انہیں محسوس ہوا.کہ ہم نے خلافت تسلیم کر کے سخت غلطی کی ہے.اور ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکیں گے چنانچہ اس خطرہ کے سدباب کے لئے انہوں نے خلیفہ وقت کے اختیارات کو محدود کرنے کی سازش شروع کر دی اس کے لئے ایک تو انجمن کی کارروائی میں

Page 283

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 254 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر خلیفہ وقت کی عظمت کو گرانا چاہا دوسرے جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء پر انجمن کی خلافت و حاکمیت پر زور دے کر جماعت کی عقیدتوں کا رخ خلافت سے موڑ کر انجمن کی طرف پھیرنے کی ہر ممکن کوشش کی.حضرت میر محمد اسحق صاحب کی طرف فتنہ انکار خلافت کے پس منظر پر تفصیلی روشنی سے وضاحت طلب سوال ڈالنے کے بعد اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کو اس کا علم کیسے ہوا.جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء پر انجمن کے ممبروں کی جو تقریریں ہوئیں.ان سے جماعت میں اندر ہی اندر چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور خلافت اور انجمن کے بارے میں جماعت دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی.ایک کیمپ خلیفہ کو حاکم سمجھتا تھا اور دوسرا انجمن کو مگر نہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کو نہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو اس صورت حال کا کچھ علم تھا.یہ فتنہ اندر ہی اندر سلگ رہا تھا کہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے اس کی ابھرتی ہوئی چنگاریوں کو محسوس کر کے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں بعض سوالات بھیجے.جو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے مولوی محمد علی صاحب کی طرف بھیجوا دئے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں.افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے اپنی سادگی سے ان سوالات کو آگے چلا دیا.یعنی انجمن کے ممبروں کے سامنے پیش کر دیا".موادی محمد علی صاحب کے خیالات کا بے نقاب ہونا یہ سوالات کیا تھے ؟ اور ان کے جوابات مولوی محمد علی صاحب نے کیا دے ؟ ان کی تفصیل خود مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب " حقیقت اختلاف " میں درج کی ہے.ہم بطور نمونہ چند ضروری سوالات اور ان کے جوابات کا ذکر کرتے ہیں.(سوال) صدر انجمن کے تعلقات اس زمانہ میں اور آئندہ زمانہ میں خلافت کے منصب والے (یعنی خلیفہ) کے ساتھ کیسے ہیں اور کیسے ہوں گے.یعنی آپس میں کیا فرق ہے اور ہو گا؟ (جواب) اس وقت خلافت کے منصب پر بیٹھنے والا صد را انجمن احمدیہ کا صدر ہے یعنی جس شخص کو حضرت صاحب نے مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ کا میر مجلس منتخب فرمایا تھا اسی کو ساری قوم نے اتفاق کے ساتھ خلیفہ منتخب کیا ہے پس وہ اور صد را انجمن احمد یہ ایک ہی چیز ہیں.آئندہ جیسا خلیفہ ہو گا ویسے ہی اس کے ساتھ تعلقات ہوں گے.علم غیب کوئی نہیں جانتا لیکن حضرت صاحب کی وصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خلیفہ کا کوئی فرد واحد ہونا ضروری ہے.گو خاص صورتوں میں ایسا ہو جیسا کہ اب ہے بلکہ حضرت صاحب نے انجمن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ ایک ہی

Page 284

اریخ احمدیت.جلد ۳ 255 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر شخص ہو بلکہ ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے.اور یہ اس واسطے بھی ہے کہ انجمن کے واسطے حضرت اقدس نے دعا کی ہے کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں اور خاص طور پر اگر اس امانت کے قابل کسی ایک فرد واحد کو سمجھا ہے تو وہ حضرت مولوی نور الدین صاحب ہی ہیں.نہیں؟ (سوال) خلیفہ بطور خود اشاعت اسلام وغیرہ جماعت احمدیہ کی مدات کا انتظام کر سکتا ہے یا (جواب) انجمن کو ایک مامور من اللہ نے الہام الہی کے مطابق قائم کیا ہے اگر کوئی خلیفہ مامور من اللہ ہو تو وہ پھر مطابق منشاء الہی اس میں جو چاہے گا تغیر کر سکے گا.دوسرے کے واسطے جائز نہیں.(سوال) خلیفہ کے حکم صدرانجمن مسترد کر سکتی ہے یا نہیں؟ (جواب) حضرت صاحب نے جا کہ ادوں اور مالوں اور مکانوں کا صرف محافظ ہی نہیں بنایا بلکہ ان کا مالک بھی قرار دیا ہے ہاں صرف یہ روک ہے کہ اس انجمن کا کوئی ممبر کسی جائداد یا مال کو اپنے ذاتی اغراض میں خرچ نہیں کر سکتا اور نہ ہی خود انجمن سوائے اغراض سلسلہ کے کسی طرح پر خرچ کر سکتی ہے..حضرت خلیفہ اول کی طرف سے جماعتی شوری کا حکم مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں.اس جواب کے پہنچنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.کہ ان سوالات کو جواب کے لئے چالیس آدمیوں کے پاس بھیجا جائے اور ان کی رائے سے انہیں اطلاع دی جائے اور ۳۱/ جنوری ۱۹۰۹ء کے دن وہ جمع ہوں".حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ابھی ان سوالات کی نقل حضرت صاجزادہ صاحب کو نہیں پہنچی تھی.کہ آپ پر رویا میں صاحب پر فتنہ کا انکشاف اور آپ کا جواب اس فتنہ کا انکشاف ہوا.جس کا تفصیلی ذکر آئینہ صداقت میں موجود ہے اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح اول اے نے آپ کو بھی سوالات بھیجوائے اور ان کا تحریری جواب دینے کے لئے ارشاد فرمایا.چونکہ یہ معاملہ نہایت نازک اور اہم تھا اس لئے اگر چہ آپ خلیفہ کو انجمن کا مطاع سمجھتے تھے.لیکن آپ نے دعا کے بغیر اپنی رائے دینا نہ چاہی اور دعا میں مصروف ہو گئے.لیکن آپ کو کچھ تقسیم نہ ہوئی آخر ۳۰/ جنوری ۱۹۰۹ء کو آپ میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور آپ نے فیصلہ کر لیا کہ چونکہ مجھے خدا کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا اس لئے میں

Page 285

تاریخ احمد بیست - جلد ۳ 256 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر اس مجلس میں ہی نہیں جاؤں گا.اور کہیں باہر چلا جاؤں گا.آخر جب اضطراب اور بڑھا تو آپ کو الہام ہوا.قل ما يعبثو بكم رہی لو لادعاء کم اس الہام سے آپ کا شرح صدر ہو گیا اور آپ سمجھے کہ آپ کا خیال ہی درست ہے.اور جو اس کے خلاف خیال رکھتے ہیں ان کو کہہ دو کہ یورپ کی تقلید میں کامیابی اور فلاح نہیں دینی سلسلہ ہے اس لئے جس طرح خدا کے نبیوں کے خلیفے ہوتے رہے اسی طرح یہاں بھی خلافت ہی ہوگی.لیکن اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو خدا کو ان کی کوئی پروا نہیں.کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خدا کے حضور گر جائیں اور زاری کریں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا کا عذاب موجود ہے اس طرح جب آپ پر خدا نے حقیقت واضح کر دی تب آپ نے اپنی رائے لکھ کر بھیج دی کہ خلیفہ انجمن پر حاکم ہے نہ کہ انجمن خلیفہ پر.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں.”میاں صاحب کی دوسرے ممبران انجمن کا جواب ہارٹی نے تو میں کہا تھ اور میں کہا کہ حضور سرکار جو کچھ ہے خلیفہ ہی ہے انجمن کیا بلا ہوتی ہے.لیکن باقی تمام ممبروں نے جن میں مولوی محمد علی صاحب.خواجہ کمال الدین مرحوم.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ مرحوم شیخ رحمت اللہ مرحوم.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ مرحوم...وغیرہ تھے صاف لفظوں میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کی رو سے ان کی جانشین انجمن ہے حضرت صاحب نے کسی فرد واحد کو اپنا جانشین نہیں بنایا.یہ اور بات ہے کہ اس انجمن نے بالا تفاق آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ کو اپنا مطاع بنالیا.تو اس کا اپنا ذاتی فعل ہے وہ وصیت کے ماتحت ایسا کرنے پر مجبور نہ تھی.خواجہ صاحب کا لاہور میں جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب کا جوش اس موقعہ پر صرف یہ جواب دینے سے ہی فرو نہیں ہوا بلکہ وہ پوری طرح بغاوت کا علم بلند کئے ہوئے میدان عمل میں آگئے.اور انہوں نے اپنے مکان پر لاہور کے احمدیوں کا جلسہ کر کے لوگوں کو سمجھایا کہ سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے اصل جانشین حضرت مسیح موعود کی انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی.تو جماعت خطرہ میں پڑ جائے گی اور سلسلہ تباہ ہو جائے گا.خواجہ صاحب کی اس تحکم آمیز تقریر سے متاثر ہو کر سب لوگوں نے دستخط کر دئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق انجمن ہی آپ کی حقیقی جانشین ہے.صرف دو شخص یعنی حکیم محمد حسین صاحب قریشی سیکرٹری انجمن احمد یہ لاہور اوربا بو غلام محمد صاحب فورمین ریلوے دفتر لاہور نے دستخط کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ ہم تو ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت اللہ رکھتا ہے.اور حضرت مسیح موعود کا ادب ہم سے زیادہ اس کے دل میں ہے جو کچھ وہ کہے گا ہم اس

Page 286

تاریخ احمدیت جلد ۳ کے مطابق عمل کریں گے.۵۲ 257 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر مولوی محمد علی صاحب اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.ان سوالات کے لاہور پہنچنے پر خواجہ صاحب سے بلاشبہ یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے بجائے علیحدہ علیحدہ جواب لکھنے کے جو مولوی صاحب کا منشاء تھا احباب لاہور کا جلسہ کر کے سب کی متفقہ رائے ان پر لے کر اسے لکھ بھیجا.دوسری طرف قادیان میں شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنے مکان پر جلسہ کر کے وہاں جو کچھ چاہا.کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ فتنہ بڑھ گیا اور قادیان اور لاہور میں ہر جگہ یہی باتیں ہونے لگیں.خواجہ صاحب کے زہریلے پراپیگنڈا کا اثر خواجہ صاحب اپنے دوستوں کے کیثر مجمع کے ساتھ پورے جوش و خروش کے ساتھ قادیان میں وارد ہوئے اور لوگوں میں برابر اشتعال پھیلاتے رہے.کہ اگر اس وقت قدم پھسل گئے تو جماعت تباہ ہو جائے گی خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کی ایک میٹنگ مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں بھی ہوئی جس میں اول شیخ یعقوب علی صاحب کے مکان والے جلسہ کی رو نداد سنائی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ جلسہ اس اتفاق پر ختم ہوا کہ ہمیں خود کوئی فیصلہ نہ کرنا چاہئے.کل خلیفتہ المسیح اس بارے میں جو فیصلہ فرما ئیں اس پر کار بند ہونا چاہئے.اس پر خواجہ صاحب کے بعض رفقاء نے کہا کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے ہمیں جمہوریت پسند خلیفہ دیا ہے جس کی نسبت ہمیں یقین ہے کہ وہ کبھی یہ فیصلہ نہیں کرے گا.خلیفہ حاکم اور انجمن اس کے ماتحت ہے مگر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ اگر مولوی صاحب نے انجمن کے تابع و محکوم ہونے کا فیصلہ کیا.تو میں کام چھوڑ کر لاہور جا کر بیٹھ جاؤں گا.شیخ رحمت اللہ صاحب کا جوش اس دن خاص طور پر بڑھا ہوا تھا جو شخص بھی ان کی رائے کے خلاف رکھنے والا ان کو ملا اس کو سخت ست کہتے رہے حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب کو (جنکو قبلہ کہا جا تا تھا، تو انہوں نے گندی گالیاں دیں اور اگر وہ الدار میں تشریف نہ لے جاتے تو شاید زدو کوب تک نوبت جا پہنچتی.خواجہ صاحب اور ان کے پراپیگنڈے کے نتیجہ میں قادیان میں بہت اشتعال پھیل گیا تھا اور انجمن کے حامیوں میں سے بعض لوگ صاف کہتے تھے کہ اگر مولوی صاحب (خلیفہ اول) نے خلاف فیصلہ کیا تو ان کو اسی وقت خلافت سے علیحدہ کر دیا جائے گا بعض خاموشی سے خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے منتظر تھے.بعض بالمقابل خلافت کی تائید میں جوش دکھا رہے تھے اور خلافت کے قیام کے لئے ہر ایک قربانی پر آمادہ تھے.مولوی محمد علی صاحب نے اس جوش و خروش کے مظاہرہ کی بابت لکھا ہے کہ " قبل اس کے

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 258 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر که حضرت مولوی صاحب تقریر کریں ہم چند دوست جو ایک خیال کے تھے.یہ اتفاق کر چکے تھے کہ حضرت مولوی صاحب جو کچھ فیصلہ کریں ہم اس کو مان لیں گے سوائے اس کے کہ انجمن کو ہی توڑ دیا جائے یا حضرت صاحب کی اس کھلی اور واضح تحریر کو کہ جو کچھ فیصلہ انجمن کثرت رائے سے کرے وہی مانا چاہئے رد کیا جائے.جس صورت میں ہم چند احباب علیحدہ ہو جائیں گے".حضرت خلیفہ اول کے نام انجمن کے ایک دلدادہ کا خط ممبران انجمن نے اپنے جلسہ کی تقریروں سے جماعت کے ذہنوں میں کس طرح خلافت کے خلاف بارود سا بھر دیا تھا اس کا اندازہ ایک خط سے ہوتا ہے جو اس دوران میں تحصیل چکوال ضلع جہلم کے ایک نام نہاد احمدی اور انجمن کے مرید...حکیم غلام محی الدین...کا حضرت خلیفہ اول کے نام آیا.اس شخص نے لکھا..”اس وقت جو حالات واقعات ممبران انجمن احمدیہ اور حضرت خلیفہ صاحب کے درمیان پیش آرہے ہیں ان کا مجرم کون ہے.کیا حضرت خلیفہ صاحب یا کہ بعض ممبران انجمن.دونوں میں سے جو ہو مسیح موعود کے وصیت کے خلاف کر رہے ہیں بہتر ہے کہ تنازعات اور خواہشات نفسانی کو چھوڑ کر اس نزاع کو درمیان سے اٹھا دیا جائے مسیح موعود نے اپنے تمام معاملات ایک انجمن شورٹی کے ہاتھ میں دے دئے اس میں نہ ذات خلیفہ صاحب کو بہ حیثیت خلافت دخل ہے اور نہ ہی خاندان امامت کو....ہے تو صرف انجمن شوری کو.جب اس انجمن شورٹی کی حالت میں پریذیڈنٹ حضرت خلیفہ صاحب ہی ہیں........میں نے سنا ہے کہ اب دعاؤں پر بہت زور دیا جارہا ہے مگر جو باتیں اور مشکلات قبولیت دعا سے پہلے حل ہو سکتی ہیں ان کی طرف توجہ فرمائی جاوے جب تک خود پسندی کارکنان انجمن شوری میں ہے.تب تک مسیح موعود کے سلسلہ کی اصلاح نہیں ہو سکتی.حضرت آپ بہ حیثیت پریذیڈنٹ ان تمام واقعات کو انجمن شوری میں پیش کرا کر فیصلہ فرما دیں اور جس کا قصور ہو یا یہ کہ جو مجرم قرار دیا جاوے کہ مسیح موعود کے کاموں سے علیحدہ کیا جاوے میں نے سیکرٹری صاحب صدر انجمن سے بھی خط و کتابت کی ہے اور آج جناب کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے ".المختصر جماعت احمدیہ کے دو اڑھائی سو نمائندے جن کو ۳۱/ جنوری ۱۹۰۹ء کا یوم الفرقان حضرت خلیفتہ المسیح اول نے مشورہ کے لئے بلایا تھا ۳۰/ جنوری کی رات تک پہنچ گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی لکھتے ہیں.” یہ رات عجیب رات تھی کہ بہتوں نے قریباً جاگتے ہوئے یہ رات کائی اور قریباً سب کے سب تہجد کے وقت سے مسجد مبارک میں جمع ہو گئے تاکہ دعا کریں اور اللہ تعالٰی سے مدد چاہیں اور اس دن

Page 288

تاریخ احمدیت جلد ۳ 259 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر اس قدر دردمندانہ دعائیں کی گئیں کہ میں یقین کرتا ہوں کہ فرش عظیم ان سے مل گیا ہو گا سوائے گریہ و بکا کے اور کچھ سنائی نہ دیتا تھا.اور خدا کے سوا کوئی ناخد انظر نہ آتا تھا".آخر فجر کی اذان ہوئی لوگ سنتیں ادا کر کے حضرت خلیفہ اول کی انتظار میں بیٹھے تھے کہ خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں کو خلافت کے مقابل انجمن کی بالا دستی اور حاکمیت کا سبق پڑھانا شروع کیا حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس وقت بیت الفکر کے متصل دالان میں نماز کے انتظار میں ٹہل رہے تھے کہ آپ کو مسجد سے لوگوں کی اونچی اونچی آواز میں آنی شروع ہو گئیں.جیسے کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں.اسی دوران میں آپ کے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی یہ بلند آواز آئی کہ ہم کسی بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں.ایک بچہ کے لئے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جارہا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسے خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کر دیں.آپ یہ سن کر سخت حیران ہوئے کہ یہ بچے کا ذکر کیا شروع ہو گیا ہے.اور وہ کون سا بچہ ہے جسے لوگ خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ اس کے متعلق بعد میں آپ کو حضرت خلیفہ اول ہی سے معلوم ہوا کہ بچہ سے ان کی کیا مراد ہے اور وہ اس طرح کہ اس روز صبح کی نماز کے بعد آپ بعض باتیں لکھ کر حضرت کے پاس گئے اور دوران گفتگو میں شیخ صاحب کا بھی ذکر کیا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے نہ معلوم یہ بچہ کون ہے حضرت خلیفہ اول آپ کی بات سن کر مسکرائے اور فرمایا تمہیں معلوم نہیں وہ بچہ کون ہے وہ تمھی تو ہو.المختصر کچھ دیر انتظار کے بعد حضرت خلیفہ اول نماز پڑھانے کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لے آئے بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صبح کی نماز سے قبل آپ کو الہاما سورہ بروج کے پڑھنے کا حکم دیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کے پڑھنے سے اکثر لوگوں کے دل نرم ہو جائیں گے.چنانچہ اس کے مطابق آپ نے اس سورۃ کی تلاوت فرمائی اور اگرچہ شروع سے لے کر آخر تک ساری ہی نماز سوز و گداز عجز و نیاز گریہ و بکا اور تضرع و خشوع خضوع کا دردناک نمونہ تھی مگر جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ ان الذين فتنوا المومنين والمومنت ثم لم يتوبوا فلهم عذاب جهنم ولهم عذاب 5 الحريق - تو مسجد گو یا ماتم کدہ میں بدل گئی.خود حضرت خلیفہ اول کی آواز بھی شدت گریہ سے رک گئی.اس کے بعد آپ نے دوبارہ جو یہ آیت دوہرائی تو تمام جماعت رقت سے نیم بسل سی ہو گئی.اور چند سنگدل لوگوں کے سوا سب کے دل کثافتوں سے دھل گئے اور ان میں خشیت اور تقوی اللہ کا نور چھا گیا.یہ ایک آسمانی نشان تھا.جو خلافت کی تائید غیبی کے لئے ظاہر ہوا.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بیان ہے کہ " جب آپ آیت قرآنی ان الذین فتنوا المومنین الخ پر پہنچے تو آپ کی آواز بھی نہ صرف یہ کہ درد و کرب سے بھرائی ہوئی نکلتی تھی بلکہ

Page 289

تاریخ احمدیت جلد ۳ 260 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر چینیں نکل جاتی تھیں.آپ نے اس آیت کو دوہرایا.اور پھر تیسری بار پڑھا وہ سماں آج بھی یاد آکر دل پگھلا دیتا اور رنج گلو گیر بن جاتا ہے.مسجد آہ و نالہ اور فغاں سے گویا ماتم کدہ بن رہی تھی.لوگ بلبلا کر سکیاں لیتے اور دعائیں کرتے تھے.سجدہ گاہیں آنکھ کے پانی سے تر اور روتے روتے لوگوں کی گھگھیاں بندھ گئی تھیں.یہ نماز اپنی کیفیت کے لحاظ سے خاص ہی نماز تھی جو کہ شاذ ہی کبھی اللہ کے فضل سے میسر آیا کرتی ہے.نماز سے ایسا محسوس ہو تا تھا کہ اب کسی دل میں خلافت کے خلاف کوئی منصو بہ باقی نہیں رہ سکتا مگر جو نہی حضرت خلیفہ اول نماز کے بعد گھر تشریف لے گئے تو بعض عمائد انجمن نے یہ لیکچر شروع کر دیا کہ اب مولوی صاحب کوئی اور تقریر نہیں فرمائیں گے.جس کی نسبت آپ نے آج کا وعدہ اور اعلان فرمایا ہو ا تھا.اس تقریر کے قائم مقام یہی آیتیں ہیں جو آپ نے نماز میں پڑھی ہیں اور ان کو پڑھ کر آپ نے ہم کو یہ وعظ فرمایا ہے کہ مومنوں کا اس امر پر اتفاق تھا کہ انجمن حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے اور سب جماعت اور خلیفہ کچھ حاکم ہے.مگر بعض شریروں نے اس کے خلاف بات چھیڑ کر مومنوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈال دیا.پس مولوی صاحب نے جو وعظ کرنا تھا وہ کر دیا ہے اب اور کوئی تقریر نہ ہو گی.تم کو چاہئے کہ اسی بات پر جم جاؤ اور کسی شریر کے کہنے پر نہ جاؤ.مگر نماز کے اندر اللہ تعالٰی کی طرف سے مومنوں کو شرح صدر عطا ہو چکا تھا.اس لئے اکثر لوگوں نے اس پراپیگنڈا کو سخت نفرت و حیرت سے دیکھا اور ان پر ان کا جادو کچھ اثر نہ کر سکا.اسی دوران میں حضرت خلیفتہ المسیح اول کی طرف سے مسجد مبارک کی چھت پر جمع ہونے کا حکم ملائین اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس آئے اور کہا آپ مولوی صاحب سے جا کر کہیں کہ اب فتنہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا.کیونکہ سب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی حضرت مسیح موعود کی جانشین ہے آپ تو یہ بات سن کر خاموش ہو گئے مگر وہ خود حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پہنچ گئے اور جاتے ہی عرض کیا.مبارک ہو سب لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ انجمن ہی جانشین ہے.یہ سن کر آپ نے فرمایا کون سی انجمن ؟ جس انجمن کو تم جانشین قرار دیتے ہو وہ تو خود بموجب قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتی.یہ جواب سن کر خواجہ صاحب اور ان کے رفقاء کو پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ معاملہ ویسا آسان نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں وگرنه قبل ازیں وہ عموما یہی سمجھتے تھے کہ انہی کی رائے کے مطابق فیصلہ دیا جائے گا.چنانچہ ان میں سے بعض جو حضرت خلیفہ اول کی نیکی کے قائل تھے عام طور پر لکھتے تھے کہ خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہوا ہے ورنہ اگر ان کے بعد ہو تا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہو تا.

Page 290

تاریخ احمدیت.جلد ۰۳ 261 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منتظر الغرض حضرت خلیفتہ المسیح اول چھت پر تشریف لائے.آپ کے لئے مسجد کے وسط میں ایک جگہ تیار کی گئی تھی.مگر آپ نے وہاں کھڑے ہونے سے بالکل انکار کر دیا.اور شرقی جانب اس حصہ مسجد میں کھڑے ہو گئے جسے حضرت مسیح موعود نے خود تعمیر کروایا تھا.اس موقعہ پر قریباً اڑھائی سو کا مجمع تھا.جس میں اکثریت احمد یہ جماعتوں کے نمائندوں کی تھی.اس جلسہ کا نظارہ حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی بذریعہ ردیا پہلے ہی دیکھ چکے تھے اور دراصل یہی رویا سنانے کے لئے آپ صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کے پاس گئے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:." میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اول و تقریر فرمار ہے ہیں مگر آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنوایا تھا.اس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے تھے اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں.آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آگئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے بھی تقریر کی.جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت رکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی بچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا واقعہ یاد آگیا.جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آوے اسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا.جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے پہلے ہمیں ہلاک نہ کرلے قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو ر دیا میں میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول و تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن میں سے یہ رد یا بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول اے نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا.میرے دائیں طرف آبیٹھو.پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی.تم نے خودہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا".

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 262 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر حضرت خلیفہ اول کی جلالی تقریر بہر حال حضرت خلیفہ اول و تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا." تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصہ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ میں اپنے میرزا کی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں.نیز فرمایا.میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے اور یہ دونوں خادم ہیں انجمن مشیر ہے اس کا رکھنا خلیفہ کے لئے ضروری ہے ".اسی طرح فرمایا.جس نے یہ لکھا ہے کہ خلیفہ کا کام بیعت لیتا ہے اصل حاکم انجمن ہے وہ تو بہ کرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر اس جماعت میں سے کوئی تجھے چھوڑ کر مرتد ہو جائے گا تو میں اس کے بدلے تجھے ایک جماعت دوں گا.لوگوں نے حضرت خلیفہ اول ﷺ کے جب یہ خیالات معلوم کئے تو گو جماعت کے بہت سے لوگ ان کے ہم خیال بن کر آئے ہوئے تھے مگر ان پر اپنی غلطی واضح ہو گئی اور انہوں نے رونا شروع کر دیا.چنانچہ جو لوگ اس جلسہ کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ مجلس اس وقت ایسی معلوم ہوتی تھی.جیسے شیعوں کے مرضیہ کی مجالس ہوتی ہیں اس وقت لوگ اپنے کرب اور اتنے درد سے رو ر ہے تھے کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ مسجد ماتم کدہ بنی ہوئی ہے اور بعض تو زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگ گئے.پھر آپ نے فرمایا.کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملا بھی کر سکتا ہے.اس لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں.اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت رہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے.آپ کی اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے دل صاف ہو گئے اور ان پر واضح ہو گیا کہ خلیفہ کی کیا اہمیت ہے.دوبارہ بیعت کا ارشاد تقریر کے بعد آپ نے خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں.اسی طرح آپ نے فرمایا.میں ان لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتا جنہوں نے خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کیا ہے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا.اور پھر جبکہ خدا تعالٰی نے مجھے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کو مٹاسکوں تو انہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب سے بھی جو اس جلسہ کے بانی تھے..آپ نے فرمایا.کہ آپ دوبارہ بیعت کریں.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب سے دوبارہ بیعت لی گئی.حضرت سید نا محمود نے اس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ عام بیعت ہے اپنا ہاتھ بھی بیعت کے لئے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفہ اول نے آپ کے ہاتھ کو پرے کر دیا اور فرمایا یہ

Page 292

تاریخ احمدیت جلد ۳ 263 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر بات تمہارے متعلق نہیں.خواجہ کمال الدین صاحب نے بیعت کے وقت (جسے بعد میں انہوں نے خواجہ صاحب کا اقرار بیعت ارشاد سے موسوم کر لیا ) صاف لفظوں میں یہ اقرار کیا کہ میں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا حکم بھی مانوں گا".کے بعد مولوی محمد علی خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس بیعت صاحب کا ایمان سوز مظاہرہ وقت بیعت اطاعت تو کر لی مگر یہ بیعت ہی بالخصوص مولوی محمد علی صاحب کے دل میں حضرت خلیفہ اول کے خلاف بغض و عناد اور عداوت و دشمنی کے شراروں کو اور زیادہ بھڑ کانے کا موجب بن گئی.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب اپنے اس اندرونی غیظ و غضب کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں." حضرت مولوی صاحب نے ہمیں یہ کہا کہ تمہیں میری اطاعت کرنی ہوگی اور میری زندگی میں اس سوال کو نہ اٹھانا ہو گا.اگر چاہو تو اس کے متعلق مشورہ کر کے مجھے جو اب دو تو ہم نے فورا یہ کہا کہ کسی مشورہ کی ضرورت اس کے لئے نہیں.اور آپ بیعت کا حکم دیتے ہیں تو ہم بیعت بھی کرتے ہیں.بایں ہمہ مجھے رنج ضرور تھا.اس لئے کہ حضرت مولوی صاحب نے ہماری تحریروں پر اعتماد کیا اور جو کچھ ہمارے خلاف ان کے کان بھرے گئے اسے ایک حد تک درست سمجھ کر ہمیں ان لوگوں میں شامل کیا جو فتنہ کے اصل موجد تھے کیونکہ دوبارہ بیعت لینے سے یہ ضرور ظاہر ہو تا تھا کہ ہم چاروں نے گویا اس فتنہ کو اٹھایا ہے حالانکہ اس کو اٹھانے والے میر محمد اسحاق اور شیخ یعقوب علی اور دیگر اہل بیت تھے.اور اس طرح فتنہ پردازوں میں شامل کئے جانے کو اپنی ذلت بھی ضرور سمجھا.اور ایک بے گناہ کو لا ز ماریج ہوتا ہے.جب اسے گناہ گاروں میں شامل کیا جائے اسی رنج کا اظہار میں نے اپنے خاص احباب سے بھی کیا".اس کا اظہار کس رنگ میں کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسجد کی چھت سے اترتے ہی انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آج ہماری سخت ہتک کی گئی ہے.میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا.ہمیں مجلس میں جوتیاں ماری گئی ہیں.اور اپنے کمرہ میں آکر خواجہ کمال الدین صاحب کو بھی ملامت کی کہ تم نے ہی پہلے خلیفہ بنانے کی کوشش کی.پھر تم نے ہمیں ذلیل کرایا اور بیعت کرائی.خواجہ صاحب قریباً ایک ہفتہ تک مولوی محمد علی صاحب کے پاس رہے اور ان کے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کا جوش بڑھتا ہی گیا.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے اور LA

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 264 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر مولوی محمد علی صاحب کو جماعت کا ایک بہت بڑا ستون سمجھتے تھے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول یه کے پاس اس قدر گھبرائے ہوئے آئے کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے اور آتے ہی سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اول سے کہا کہ بڑی خطرناک بات ہو گئی ہے آپ جلدی کوئی فکر کریں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے.میں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا.آپ جلدی سے کسی طرح ان کو منوالیں ایسانہ ہو کہ وہ قادیان سے چلے جائیں.حضرت خلیفہ اول الہ نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب میری طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جاتا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں.ڈاکٹر صاحب جو سمجھتے تھے کہ مولوی محمد علی صاحب کے جانے سے نہ معلوم کیا ہو جائے گا آسمان مل جائے گایا زمین لرز جائے گی انہوں نے جب یہ جواب سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے کہا.میرے نزدیک تو پھر بہت بڑا فتنہ ہو گا.حضرت خلیفہ اول ا نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب! میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا.اگر فتنہ ہو گا تو میرے لئے ہو گا.آپ کیوں گھبراتے ہیں.آپ انہیں کہہ دیں.کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں.غرض اسی طرح یہ فتنہ بڑھتا چلا گیا.یہ فتنہ کس پاک شخصیت کے خلاف تھا یہ تمام تر فتنہ اور ہنگامہ آرائی اس مقدس اور خدا انما وجود کے خلاف تھی جس کے بارے میں مولوی محمد علی صاحب کو بظاہر یہ مسلم تھا.خواہ ہم نے اس کی بیعت بھی نہ کی ہوتی مگر ابھی منشاء نے سلسلہ کی مزید تقویت کے لئے سب دلوں میں حضرت مسیح موعود کی وفات پر یہ ڈال دیا کہ اس پاک اور بے نفس وجود سے جو نور الدین کی شکل میں تم میں موجود ہے وہی روحانی تعلق پیدا کرو اس لئے اس کا انتخاب چالیس نے نہیں کیا بلکہ کل قوم کی گردنیں الہی ارادہ سے اس کے آگے جھک گئیں اور قریب ڈیڑھ ہزار کے آدمیوں نے ایک ہی وقت بیعت کی.اور ایک بھی منفس باقی نہ رہا.کیا مرد اور کیا عورتیں.پس یہ تو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہی گویا بڑھایا گیا ہے.اور حضرت خلیفتہ المسیح کی یہ تعریف میں نہیں کرتا.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے اور اس کو اس سلسلہ میں وہ امتیاز دیا ہے جو اور کسی کو حاصل نہ تھا.اور یہ ہے ".آگے آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۸۴ سے وہ عبارت دی ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح اول کی تعریف میں ہے.میں نے صرف چند لفظ یہاں نقل کئے ہیں.ورنہ آٹھ صفحے حضرت خلیفتہ المسیح کی تعریف سے بھرے ہوئے ہیں جو تمام اسی مضمون کے ہیں کہ وہ نبوت کے نور سے روشن ہے.اور نبی میں اللہ کے نور سے نور حاصل کرتا ہے وہ :

Page 294

تاریخ احمدیت جلد ۳ 265 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر تمام نیکیوں اور پاکوں کا فخر اور سب مومنوں کا فخر ہے.اپنے علم اور عمل اور نیکی اور صدقات میں زمانہ میں یگانہ ہے وہ دین کے خادموں کا سردار ہے.اللہ تعالٰی اس کے بقاء سے اسلام اور مسلمانوں کی تائید کرے گا جس سے صاف خلافت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے) وہ ہر امر میں میری اسی طرح پیروی کرتا ہے جس طرح نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے اور میری رضا میں وہ فانی ہے اور آخر پر لکھا ہے کہ یہ میں نے اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کے ایما اور اس کے القاء سے لکھا ہے ".حضرت خلیفہ اول کے صریح حکم کی خلاف ورزی حضرت خلیفہ اول نے اپنے فیصلہ کے بعد حکم دیا کہ جو میرے پاس انجمن وخلیفہ سے متعلق تحریرات پہنچی ہیں وہ میں نے سب کی سب جلا دی ہیں اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی تحریر اس کے متعلق ہو تو تم بھی تلف کردو - مولوی محمد علی صاحب نے یہ حکم سنا مگر عمد اخلاف ورزی کی.اور نہ صرف یہ سوالات و جوابات اپنے پاس محفوظ رکھے بلکہ اپنی کتاب حقیقت اختلاف " میں ان کو شائع بھی کر دیا.خلیفہ کی بجائے پریذیڈنٹ کے لفظ کا استعمال مولوی محمد علی صاحب کے مقابل خواجہ کمال الدین صاحب موقعه شناس آدمی تھے انہوں نے یہ رنگ اختیار کیا کہ خلافت کے متعلق عام مجالس میں تذکرہ ہی چھوڑ دیا اور چاہا کہ اب یہ معالمہ رہا ہی رہے تا جماعت کے افراد آئندہ ریشہ دوانیوں کا اثر قبول کرنے کے قابل رہیں مگر اس کے ساتھ ہی مجموعی طور پر یہ تدبیر اختیار کی گئی کہ صدرانجمن کے معاملات میں جہاں حضرت خلیفتہ المسیح اول کے کسی حکم کی تعمیل کرنی پڑتی وہاں یہ لکھتے کہ میر مجلس (یعنی پریذیڈنٹ) صاحب نے اس معاملہ میں یوں سفارش کی ہے.جس سے یہ غرض تھی کہ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہ ہو کہ خلیفہ کبھی انجمن کا حاکم رہا ہے.جس پر حضرت خلیفہ اول نے ۲/ دسمبر ۱۹۱۰ء سے اپنی بجائے حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو میر مجلس بنا دیا.چنانچہ اخبار الحکم نے لکھا.”حضرت خلیفتہ المسیح چونکہ صد را انجمن اور سلسلہ کے مطاع اور امام مفترض الطاعہ تھے نہ کہ میر مجلس اس لئے آئندہ میر مجلس کے عہدہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت کے قائم مقام مقرر ہوئے.یہ مخالفت اندر ہی اندر بڑھتی بھیرہ کی حویلی کا واقعہ اور منکرین خلافت کی شورش جارہی تھی.کہ اگست ۱۹ ۱۹۰۹ء میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی انجمن کے نام یہ شدہ حویلی کی فروخت کا واقعہ پیش آگیا.

Page 295

تاریخ احمدیت جلد ۳ 266 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر AL جس کے نتیجہ میں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے دو سرے رفقاء اپنی پوری قوت کے ساتھ دوبارہ خلیفہ وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور عزل خلافت کے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک دفعہ پھر شورش برپا کردی حتی کہ خود حضرت خلیفہ اول کو کہنا پڑا کہ میں تو سمجھا تھا کہ فتنہ مر چکا ہے مگر اس نے اب پھر سر اٹھا لیا ہے لہذا دعا کرد کہ خدا تعالی اس کا سر کچل دے.بات یہ ہوئی کہ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے اپنی بھیرہ کی جائداد انجمن کے نام ہیہ کر دی تھی اس جائداد میں ایک حویلی بھی تھی.انجمن اس حویلی کو فروخت کرنا چاہتی تھی.بھیرہ کے ایک شیعہ سید زمان شاہ صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں درخواست دی کہ یہ حویلی حکیم صاحب کو ہم نے ہی اپنے بعض سخت مشکلات کی وجہ سے بہت سستے داموں فروخت کی تھی اس لئے یہ کسی قدر رعایت سے ساڑھے چار ہزار روپیہ میں ہم کو ہی دے دی جائے.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے سید زمان شاہ صاحب کی یہ درخواست منظور فرمالی اور الجمن کو سفارش فرمائی کہ یہ مکان ای رعایتی قیمت سے اس کے پاس فروخت کر دیا جائے.مولوی محمد علی صاحب نے تین ماہ کی مہلت پر اس سے فیصلہ ٹھرایا اور معاملہ کمیٹی میں پیش ہوا.حضرت خلیفہ اول کمیٹی میں موجود تھے.جب اس معالمہ پر بیرونی آراء دیکھی گئیں.تو ایک شخص کی رائے یہ تھی کہ یہ مکان بارہ ہزار کا ہے.قوم کا روپیہ اس طرح کیوں غمارت کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا اس شخص نے نہایت گستاخی سے کام لیا ہے میں نے سفارش کی ہے اور انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے اگر مکان اس قیمت پر بکتا تھا تو اب تک کیوں نہ بیچ لیا.اس لئے میں اب اس معاملہ پر رائے نہیں دیتا اور یہ کہہ کر آپ اٹھ کر چلے گئے اور انجمن نے ۵ / اگست ۱۹۰۹ء کو یہ فیصلہ کیا کہ اگر سید زمان شاہ پندرہ یوم کے اندراندر سارا رو پید قیمت حویلی ادا کر کے بیع نامہ رجسٹری کرائے تو بیع کل مکان کی بعوض چار ہزار پانچ سو روپیہ منظور ہے ورنہ A1 حویلی نیلام کی جائے گی اور جو سب سے بڑھ کر بولی ہو اس کے نام بشرط منظوری کمیٹی بیچ کی جاوے.اس فیصلہ کے بعد سید زمان شاہ ساڑھے تین ہزار روپیہ اور پانچ سو روپیہ کی ایک ہنڈی لائے اور حضرت خلیفہ اول سے عرض کی کہ یہ لے لیا جائے باقی روپیہ میں جلدی لاتا ہوں ابھی مقررہ تاریخ سے کچھ دن باقی تھے کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہنڈی تو شاید وہ لوگ نہ لیں.تم جا کر رو پیدہ ہی لے آؤ اگر کچھ دن زیادہ بھی ہو گئے تو کچھ حرج نہیں چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی موجودگی میں حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا.کہ میں نے سید زمان شاہ سے یہ بات کہی ہے جس پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ جب ساڑھے تین ہزار روپیہ وہ دے گیا ہے.تو پھر دس پندرہ دن کی مہلت بھی اس کو دے سکتے ہیں المختصر سید زمان اصل معیاد کے بعد آئے پانچ سوروپیہ اور دے کر کہا کہ

Page 296

تاریخ احمدیت جلد ۳ 267 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر باقی پانچ سو بھی لاتا ہوں.نیز انجمن میں درخواست دی کہ یکصد روپیہ بیعانہ دیتے وقت جو میعاد قیمت حویلی کی ادائیگی کے لئے مقرر کی گئی تھی یعنی تین ماہ کی وہ بحال کی جاوے اور ریزولیوشن نمبر ۹۹۹ میں جو پندرہ روزہ معیاد مقرر کی گئی ہے.وہ منسوخ کی جاوے.اس درخواست کے بعد ۲۶ / ستمبر ۱۹۰۹ء کو انجمن کا اجلاس ہوا.چونکہ قبل ازیں انجمن کے بعض ممبر بار بار لکھ رہے تھے کہ قوم کا روپیہ تباہ کیا گیا ہے.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے بھی ناراضگی میں ان کو لکھ دیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو اب مدت گزر چکی ہے تم یہ فیصلہ موقوف کردو.اتنے میں حکیم فضل الدین صاحب کا ایک عزیز آیا اور اس نے کہا کہ یہ دونوں چیزیں یعنی حویلی اور زمین ہمارے حوالہ کر دو.اور دونوں چیزوں کی قیمت گیارہ ہزار پڑی.اجلاس میں معاملہ پیش ہوا.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے کہا کہ ہم لوگ خدا کے حضور جواب دہ ہیں اور ٹرسٹی ہیں اور حضرت صاجزادہ صاحب سے پوچھا ہمیں کیا کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ جب حضرت خلیفتہ المسیح اول فرماتے ہیں کہ اس شخص کو رعایت کریں تو ہمیں بھی اس کی رعایت کرنی چاہئے.ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ حضرت نے تو اجازت دے دی ہے جب خط سنایا گیا تو آپ کو اس سے صاف ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے اور آپ نے کہا کہ یہ خط تو ناراضگی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اجازت پر اس پر ڈاکٹر صاحب نے ایک لمبی تقریر کی جس میں خشیتہ اللہ اور تقوی اللہ کی آپ کو تاکید کرتے رہے آپ نے بار بار یہی جواب دیا کہ آپ جو چاہیں کریں میرے نزدیک تو یہی رائے درست ہے چونکہ باقی سارے ممبران کے ہم نوا تھے اس لئے کثرت رائے سے اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ کیا جس کے مختصر الفاظ یہ تھے کہ درخواست سید زمان شاہ برائے توسیع میعاد نا منظور ہے پندرہ یوم کی معیاد ان کو دی گئی تھی انہوں نے حسب منشاء فیصلہ انجمن روپیہ دے کر رجسٹری نہیں کرائی.سید زمان شاہ کا روپیہ واپس دیا جائے.ازاں بعد ممبران انجمن حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پہنچے.اور بتایا کہ یہ فیصلہ سب کے مشورہ سے ہوا ہے.اور صاحبزادہ صاحب بھی اس میں موجود تھے.حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو طلب فرمایا.آپ تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیوں میاں اہمارے حکموں کی اس طرح خلاف ورزی کی جاتی ہے؟ آپ نے عرض کیا کہ میں نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ اس امر میں حضرت خلیفتہ المسیح کی مرضی نہیں اس لئے اس طرح نہیں کرنا چاہئے.اور آپ کی تحریر سے اجازت نہیں بلکہ ناراضگی ٹپکتی ہے یہ سن کر حضرت خلیفہ اول نے ممبران انجمن سے فرمایا.کہ دیکھو تم اس کو بچہ کہا کرتے ہو یہ بچہ میرے خط کو سمجھ گیا.اور تم لوگ اس کو نہ سمجھ سکے پھر بہت کچھ تنبیہہ بھی کی.اور فرمایا اطاعت میں ہی برکت ہے اپنا رویہ بدلو ورنہ خدا تعالٰی کے فضلوں سے محروم ہو جاؤ گے.مگر AA

Page 297

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 268 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر انہوں نے سنا تک نہیں اور خود ہی بولتے گئے اور آخر کچھ دیر بعد اٹھ کر چلے گئے.اس واقعہ کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کو صاف صاف کہہ دیا کہ ہم مولوی صاحب کے کتنے پر ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑ سکتے.دوسری طرف احمد یہ بلہ نگس میں جو ابتدا ہی سے خلافت کے خلاف ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا ہوا تھا آپ کو معزول کر کے کسی اور کو خلیفہ مقرر کرنے کی تیاریاں شروع ہو گئیں.جب معاملہ اس درجہ نازک صورت اختیار کر گیا تو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے نوٹس دیا.کہ یہ لوگ عید الفطر (۱۲ / اکتوبر ۱۹۰۹ء تک) اصلاح کرلیں.اس اعلان پر ان باغیوں نے حضرت خلیفہ اول کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا.اور اس سلسلہ میں کئی طویل طویل خط حضرت سید حامد علی شاہ صاحب کو بھی لکھے جن میں سے صرف دو خط نقل کئے جاتے ہیں.ڈاکٹر مرز الیعقوب بیگ صاحب کا خط حضرت امی المکرم.السلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته...قادیان کے مشکلات کا سخت فکر ہے خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلاء کا ہے.....اگر اس میں ذرہ بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں......سب حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جوش فرد نہ ہوا.اور ایک اشتہار جاری رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں....آپ فرما دیں ہم اب کیا کر سکتے ہیں ان کا منشاء یہ ہے کہ انجمن کالعدم ہو جائے اور ان کی رائے سے ادنی متخالف نہ ہو.مگر یہ وصیت کا منشاء نہیں اس میں یہی حکم ہے کہ تم سب میرے بعد مل جل کر کام کرو شیخ صاحب I اور شاہ صاحب بعد سلام مسنون مضمون واحد ہے :.خاکسار مرزا یعقوب بیگ ۲۹/۹/۰۹ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کا خط یکم اکتوبر ۱۹۰۹ء بسم الله الرحمن الرحيم -:- نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم الى المكرم جناب شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالٰی 1 السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته - جناب کا لوازش نامہ پہنچا حال معلوم ہوا.....قادیان کی نسبت دل کو بٹھادینے والے واقعات جناب کو شیخ صاحب نے لکھے ہوں گے وہ باغ جو حضرت اقدس نے اپنے خون کا پانی دے دے کر کھڑا کیا تھا.ابھی سنبھلنے ہی نہ پایا تھا کہ باد خزاں اس کو گرایا چاہتی ہے.حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں ضد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پرواہی کرتے ہوئے شخصی و جاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے سلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ ملے پر نہ ملے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت

Page 298

269 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر - اقدس کے ذریعہ بنایا تھا.اور جو کہ بڑھے گاوہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے.سب اہل الرائے اصحاب اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں.اور حضرت مرزا صاحب سلمہ اللہ تعالٰی کے مرتے ہی سب نے آپ کے احسانات کو بھلا آپ کے رتبہ کو بھلا آپ کی وصیت کو بھلا دیا اور پیر پرستی جس کی بنیاد کو اکھاڑنے کے لئے یہ سلسلہ اللہ نے مقرر کیا تھا قائم ہو رہی ہے اور عین یہ شعر مصداق اس کے حال کا ہے..بے کے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست ہر کے در کار خود با دین احمد کار نیست کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ بھائی یہ وصیت بھی کوئی چیز ہے یا نہیں یہ تو اللہ کی وحی کے ماتحت لکھی گئی تھی.کیا یہ پھینک دینے کے لئے تھی.اگر پوچھا جاتا ہے تو ارتداد کی دھمکی ملتی ہے اللہ رحم کرے.دل سخت بیکلی کی حالت میں ہے.حالات آمده از قادیان سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب فرماتا ہے کہ سب کا گولہ دس دن تک چھوٹنے کو ہے جو کہ سلسلہ کو تباہ و چکنا چور کر دے گا.اللہ رحم کرے.تکبر اور نخوت کی کوئی حد ہوتی ہے نیک ظنی نیک ظنی کی تعلیم دیتے دیتے بد ظنی کی کوئی انتہاء نظر نہیں آتی.ایک شیعہ کی وجہ سے سلسلہ کی تباہی.اللہ رحم کرے.یا الہی ہم گنہگار ہیں.تو اپنے فضل و کرم سے ہی ہمیں بچا سکتا ہے اپنی خاص رحمت میں لے لے.اور ہم کو ان ابتلاؤں سے بچالے.آمین.اور کیا لکھوں.بس حد ہو رہی ہے وقت کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی خاص تائید الہی ہو.تاکہ یہ اس کا سلسلہ اس صدمہ سے بچ جاوے.آمین.سب برادران کی خدمت میں السلام علیکم اور دعا کی درخواست خاکسار سید محمد حسین "- مولوی محمد علی صاحب نے ان خطوط پر " حقیقت مولوی محمد علی صاحب کا تبصرہ خطوط پر اختلاف" میں یہ عجیب تبصرہ کیا ہے کہ ”اس موقع پر حضرت مولوی صاحب کا رنج بھی واقعی انتہاء کو پہنچ گیا.اور آپ نے فرمایا.کہ میں عید کے دن ایک اعلان کروں گا....چو نکہ اعلان کا لفظ گول مول تھا.اس لئے ہمارے احباب کو یہی خیال تھا کہ حضرت مولوی صاحب شاید کوئی ایسا اعلان کریں جس کی رو سے انجمن کالعدم ہو جائے اور سلسلہ میں فساد پیدا ہو جائے اسی موقعہ کے وہ دو خط ہیں.جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کو لکھے میں مانتا ہوں کہ ان خطوط میں الفاظ نامناسب حضرت مولوی صاحب کی شان میں استعمال ہوئے ہیں.۱۲ اکتوبر ۱۹۰۹ء کو عید الفطر تھی حضرت خلیفہ اول کا عفو عام اور وحدت کی تلقین اس روز حضرت خلیفہ اول ان

Page 299

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 270 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر لوگوں کے جماعت سے اخراج کا فیصلہ کر چکے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس آخری تعزیری کارروائی سے روک دیا دوسری طرف باغیان خلافت نے یہ دیکھ کر کہ لوگ ہماری بات سنتے ہی نہیں.اور ہماری کوششیں بے سود ہیں از خود دوبارہ معافی مانگ لی.اور بعض نے دوبارہ بیعت بھی کی.اس روز آپ نے ایک جلالی خطبہ پڑھا جس میں ان لوگوں کو خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کی اور حلفیہ اعلان کیا کہ مجھے خدا نے عبائے خلافت پہنائی ہے اب میں اسے ہر گز نہیں اتار سکتا.چنانچہ آپ نے فرمایا :.خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے.میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کرتے کو ہر گز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ.تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا.تم معاہدہ کا حق پورا کرو.پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو مجھے ضرور تا کچھ کہنا پڑا ہے.اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تمہار ا ساتھ دوں گا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے معاہدہ پر قائم رہو.ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ.اگر تم مجھ میں کوئی اعوجاج دیکھو تو اس کی استقامت کی دعا سے کوشش کرد.مگر یہ گمان نہ کرو کہ تم مجھے بڑھے کو آیت یا حدیث یا مرزا صاحب کے کسی قول کے معنے سمجھا لو گے اگر میں گندہ ہوں تو یوں دعا مانگو کہ خدا مجھے دنیا سے اٹھا لے.پھر دیکھو کہ دعا کس پر الٹی پڑتی ہے.تو بہ کرو اور دعا کرو اور پھر دعا کرو.میں فروری گویا نو ماہ سے اس دکھ میں مبتلا ہوں اب تم اس بڑھے کو تکلیف میں نہ ڈالو.اس پر رحم کرو.اگر میں نے کسی کا مال کھایا تو میں دس گناہ دینے کی طاقت رکھتا ہوں.اگر میں نے کسی سے طمع کیا ہے تو میں لعنت کر کے کہوں گا کہ ایسا آدمی ضرور بول اٹھے میں اپنے آپ کو لعنتی سمجھوں گا اگر میں نے تمہارے مالوں میں سے کچھ لینے کا خیال کیا ہو.اللہ تعالٰی نے ہمارے خاندان سے پہلوں کو بھی امیر بنایا ہے.حضرت مجددالف ثانی.شاہ ولی اللہ صاحب دھلوی.فرید الدین شکر گنج میرے خاندان کے لوگ ہیں اور اب پھر بھی اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری اولاد پر فضل کروں گا.ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے.کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم ﷺ کے لئے بھی آیا ہے.ولا یعصینک فی معروف.اب کیا ایسے لوگوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک سر ہے میں تم میں سے کسی پر ہر گزید خلن نہیں.میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں کسی کو اندر ہی اندر دھو کہ

Page 300

تاریخ احمدمیت، جلد ۳ نہ لگ جائے.271 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر پھر مجھے کہتے ہیں کہ لوگوں سے اختلاط کرتا ہے.اس کا جواب تمہارے لئے جو میرے مرید ہیں یہی کافی ہے کہ تم میرے آمر نہیں بلکہ مامور ہو...میں تمہارے ابتلاء سے بہت ڈرتا ہوں اس لئے مجھے کمانے کا زیادہ فکر ہوتا ہے.سب کے گولے اور زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک یہ بات ہے کہ تم میں وحدت نہ ہو.جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا بہت آسان ہے.مگر اس کا نکلنا بہت مشکل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ ابو بکڑ اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے.میں تم پر بڑا حسن ظن رکھتا ہوں میں نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کبھی تمہارے محرروں سے بھی دریافت نہیں کیا کہ تم لوگ کس طرح کام کرتے ہو مجھے یقین ہے کہ تم تقویٰ سے کام کرتے ہو.میں آج کے دن ایک اور کام کرنے والا تھا.مگر خدا تعالٰی نے مجھے روک دیا ہے اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں......میں ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں پھر سمجھ جائیں پھر سمجھ جائیں.ایسا نہ ہو کہ ان کی ٹھوکر کا باعث بنوں.میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض و تحاسد کا رنگ چھوڑ دو.کوئی امرا من یا خوف کا پیش آجاوے.عوام کو نہ سناؤ.ہاں جب کوئی امر طے ہو جائے تو پھر بے شک اشاعت کرد.اب میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑیں گی.طوعا د کرہا.اور آخر کہنا پڑے گا.اتینا طائعین.جو کچھ میں کہتا ہوں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں.اللہ تعالٰی مجھے اور تمہیں راہ ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین".142 اس جگہ اس بات کا بیان کر دینا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا معافی پانے والوں کا تجاہل عارفانہ کہ جن ممبران انجمن کو حضرت خلیفتہ المسیح اول جماعت سے خارج کرنے کا ارادہ رکھتے تھے.اور ان کی معافی مانگ لینے پر آپ نے اپنا ارادہ ملتوی فرما دیا تھا انہوں نے آپ کے اس اعلان معافی کے موقعہ پر اسی پر چہ اخبار بدر میں جس میں آپ کا مذکورہ بالا خطبہ چھپ کر شائع ہوا تھا.اپنی طرف سے ایک اعلان شائع کیا.جس سے یہ ظاہر ہو تا تھا کہ گویا یہ اعلان ان لوگوں کے متعلق نہیں.بلکہ ایسے لوگوں کے متعلق ہونے والا تھا جن کا انہیں کچھ علم ہی نہیں تھا.کہ وہ کون ہیں اور یہ کہ جب وہ عید کے موقع پر قادیان یہاں آئے تو یہاں آکر انہیں معلوم ہوا کہ بعض نامعلوم لوگوں کے متعلق آپ کا ایسا ارادہ تھا.جسے آپ نے ملتوی کر دیا ہے.

Page 301

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 272 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ا.حواشی دو سراباب (فصل اول) اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات (از حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صفحه ۱۳- ۱۵ و حیات بقاپوری حصہ چهارم -۲- تذکرہ طبع دوم صفحہ اے.تذکره طبع دوم صفحہ ۲۸.-۴- تذکره طبع دوم صفحه ۷۹ ۴ والبدر ۲۰/ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۵ - ۲۶ - ۵- تذکره طبع دوم صفحه ۵۳۵ - 1 تذکره طبع دوم صفحه ۶۰۷ ے.تذکرہ طبع دوم صفحه ۴۱۴.تذکره طبع دوم صفحه ۷۰۰-۷۰۱ تذکره طبع دوم صفحه ۷۲۸ -۱ الفارق صفحہ ۶ مولفہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب جناب مولوی محمد علی صاحب اپنے رسالہ " شناخت مامورین " صفحہ ۲۰ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے اپنا دلی عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں." حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں اپنے الہامات کو کتاب اللہ اور حدیث پر عرض کرتا ہوں اور کسی الہام کو کتاب اللہ اور حدیث کے مخالف پاؤں تو اسے کھنگار کی طرح پھینک دیتا ہوں".حالانکہ حضور نے معاذ اللہ ایسا ہرگز ہرگز کہیں نہیں لکھا.جناب مولوی محمد علی صاحب کا مندرجہ بالا مسلک خود بخود تا رہا ہے کہ "سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی کون ہے؟ ۱۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک دوسرا العام اخرج منه اليزيديون ہے ( تذکرہ طبع دوم صفحہ ۱۸۱) چنانچہ ان اصحاب کا اہلبیت کے بارے میں یہ نظریہ رہا ہے کہ اہلبیت کا وجود جیسے کہ پہلے قوم کے لئے موجب ابتلاء اور تفرقہ اہل اسلام ہوا ایسا ہی اب بھی ہوا." (پیغام صلح 4 جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳ فاروق ۱۴/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحه ۲ کالم ۳ ۱۴ سیرت المهدمی حصہ اول صفحه ۱۷ طبع دوم ۱۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۴۱ ان رفقاء میں سر فہرست مولوی محمد علی صاحب ہیں چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ صاحب سے اپنے دیرینہ تو نہ تعلقات کا ذکر پاس الفاظ کیا ہے." خواجہ صاحب مرحوم حضرت صاحب کی بیعت میں داخل ہو چکے تھے اور میں ابھی تک داخل نہ ہو ا تھا لیکن خیالات میں اس قدریکا نگت تھی کہ ہمارے تعلقات بہت ترقی کر گئے (پیغام صلح ۲۶ / د سبرا ۱۹۵ء صفحه ۱۴) ۱۷- چشمه مسیحی حاشیه صفحه ۳۵ ۱۸- فتح اسلام صفحہ ۷۰ طبع اول ذکر حبیب صفحہ ۷۵ ۷۶ ۷۷ اقتباس از خط مولوی محمد علی صاحب مولفہ مفتی محمد صادق صاحب ۲۰ حقیقت اختلاف صفحه ۹ ۲۱.حقیقت اختلاف صفحه ۹ ۲۲.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے احمدیت کو اختیار کرنے کے بعد بعض ایسے عقائد کا پروپیگنڈا شروع کر دیا.جو صحیح اسلامی تعلیم کے خلاف اور حضرت اقدس کے بیان کردہ عقائد کے خلاف تھے.اس لئے حضور نے ان کو جماعت سے خارج کر دیا تھا.

Page 302

تاریخ احمدیت جلد ۳ 273 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ۲۳ الذكر الحکیم نمبر ۴ صفحه ۲-۳ ۲۴.یعنی یہ تجویز کہ ریویو آف ریپلیمرہ میں عام اسلامی مضامین شائع ہو اکریں اور خاص مضامین جو حضور کے متعلق ہوتے ہیں وہ علیحدہ شائع ہوں.۲۵- الذكر ا حلیم صفحہ ۷۳ عبدالحکیم مرتد نے حضرت مسیح موعود کی پینگوئیوں کا پیش کرنا اسلام کی توہین کے مترادف قرار دیا تھا اور گو خواجہ صاحب موصوف نے یہ بات کھلم کھلا کہیں نہیں لکھی مگر عملاوہ حضرت اقدس کی پیشگوئیوں کو کچھ زیادہ وقعت نہ دیتے تھے.جس کے ثبوت میں بطور مثال دو واقعات پیش کئے جاتے ہیں:.مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے رسالہ " حقیقت اختلاف " صفحہے میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواجہ صاحب کے متعلق فرمایا." مہوشو کے جلسہ اعظم مذاہب کے واسطے جب میں نے مضمون لکھا تو طبیعت بہت علیل تھی.اور وقت نهایت تنگ تھا اور ہم نے مضمون جلدی کے ساتھ اس تکلیف کی حالت میں لیٹے ہوئے لکھایا.اس کو سن کر احباب میں سے ایک نے کچھ نا پسندیدگی کامنہ بنایا اور پسند نہ کیا کہ مذاہب کے اتنے بڑے عظیم الشان جلسہ میں وہ مضمون پڑھا جائے.اور جیسا کہ آئینہ صداقت " سے پتہ چلتا ہے.خواجہ صاحب حضور کی اس پیشگوئی پر کہ مضمون بالا رہا.اس درجہ نا امید تھے کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد کے باوجود انہوں نے نہ خود اس کے لئے اشتہار دیا اور نہ لوگوں کو شائع کرنے دیا.آخر جب لوگوں نے حضور کو بتا کر خاص زور دیا تو رات کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر چند اشتہار دیواروں پر اونچے کر کے لگادئے تالوگ ان کو نہ پڑھ سکیں اور حضور کو بھی کہا جاسکے کہ ان کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے.(۲) سعد اللہ لدھیانوی کے ابتر ہونے کی پیشگوئی پر خواجہ صاحب نے جو مظاہرہ کیا اس کا مفصل ذکر حضرت مسیح موعود کے الاستفتاء میں موجود ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ اس الہام کو شائع نہ کیا جائے.اس ضمن میں حضور کے خط کا عکس آخر میں دیا جارہا ہے.۲۷ پیغام صبح ۷ اردسمبر ۱۹۳۸ء جوبلی نمبر صفحہ ۲۱ کالم ا.۲۸.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۵.۲۹.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۶۷.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۳۶-۱۳۷ تقریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله تعالی بنصره العزيز ۳۰.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۱۷۰ ۱۷۱ ۳۱.بحوالہ حیات احمد جلد پنجم ۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۲ء صفحه ۳۲-۳۱ یہ تقریر اس زمانہ میں ہی الحکم میں ہی چھپ گئی تھی.۳۲.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں کوئی نادان اس قبرستان اور اس انتظام کو بدعت میں داخل نہ سمجھے کیونکہ یہ انتظام حسب وحی الی ہے انسان کا اس میں دخل نہیں اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ خدا تعالی کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا( الوصیت صفحہ 19 حاشیہ شائع کردہ انجمن اشاعت اسلام لاہور) - ضمیمه الوصیت صفحه ۲۳ شائع کر دو انجمن اشاعت اسلام.۳۴.حاشیہ الوصیت صفحہ سے شائع کردہ انجمن اشاعت اسلام ۱۹۱۴ ء ۳۵ کشف الاختلاف صفحه ۴۹۴۸ ۳۶.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۳۷-۳۸ ۳۷.اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۵۳۷.۳۸.کشف اختلافات صفحه ۱۲.۳۹.فاروق ۱۹ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۳.۴.۴۰.اس کی تفصیل میں مولوی سید سرور شاہ صاحب لکھتے ہیں." مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب مسجد مبارک کی تعمیر کابل مولوی محمد علی صاحب نے روک دیا اور حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس سے تکلیف ہوئی تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 303

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 274 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر کی خدمت میں یہ شکایت کی تو جب مولوی محمد علی صاحب کو اس شکایت کا علم ہوا تو وہ بہت طیش میں آگئے یہاں تک کہ انہوں نے قادیان سے جانے کا ارادہ کر لیا.اور تیاری شروع کردی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے بہت سمجھایا مگر مولوی صاحب روانگی پر زیادہ ہی مصر ہوتے چلے گئے.آخر اس کی اطلاع حضور کو پہنچی اور حضور مولوی محمد علی صاحب والی کو بھی میں تشریف لائے بات چیت شروع ہوئی.تو مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ ہم اس لئے یہاں آئے ہیں کہ حضور سے دعائیں.اور جب ہاری شکایتیں حضور کے پاس جاتی ہیں تو آخر آپ بھی انسان ہیں کسی وقت ان سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ میری حالت یہ ہے کہ ایک ہی خیال ہے جو کہ ہر وقت مجھے اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے اور دوسری طرف مجھے متوجہ ہونے ہی نہیں دیتا.میں باہر آپ لوگوں میں بیٹھتا ہوں آپ سمجھتے ہیں یہ ہم میں بیٹھا ہوا اور ہماری باتیں سنتا ہے مگر میرا ذ ہن اسی ایک خیال کی طرف لگا ہوا ہوتا ہے گھر میں جاتا ہوں تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس ہیں مگر میرا دھیان اسی ایک بات کی طرف ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دعوئی کے دلائل بھی دیئے اور لوگوں کے اعتراضوں کے جواب بھی دئے اور خداتعالی نے ہمارے لئے زبردست نشان بھی دکھائے مگر یہ کچھ بھی نہیں اگر اصل کامیابی نہ ہو اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک عمدہ جماعت تیار کرلیں جو ہمارے بعد عمدگی کے ساتھ اس کام کی تکمیل کر سکے.کہ جس کو ہم نے شروع کیا ہے.حضور نے اس وقت ایسے پر درد طریقہ سے اس کو بیان فرمایا کہ حضور پر بھی رقت طاری تھی اور جس قدر حضور کے خدام موجود تھے ان میں سے اکثر کی آنکھیں پر نم تھیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس نے میری توجہ کو اس قدر کھینچا ہوا ہے کہ میر صاحب نے بے شک میرے پاس اگر کچھ کہا تھا میرے کان میں کچھ آواز پڑ رہی تھی.مگر میں اس کی طرف اس قدر بھی متوجہ نہیں ہو سکا کہ مجھے سمجھ آتا کہ انہوں نے کیا کہا ہے".(خلافت حقہ صفحہ ۲۱-۲۲) حقیقت اختلاف صفحہ 10-11- ۴۲.انجمن کے اجلاسوں میں جس درجہ دھاندلی مچائی جاتی تھی اس کا کسی قدر نمونہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مندرجہ ذیل بیان سے ملتا ہے فرماتے ہیں:.ان لوگوں کی عادت تھی کہ جب وہ دیکھتے کہ کوئی بات مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے پیش ہو رہی ہے.تو اس کے متعلق مولوی صاحب کی رائے معلوم کرنے کے لئے کتنے مولوی صاحب ہمیں تو اس کے متعلق کچھ علم نہیں آپ اس کی تفصیل اور تشریح کر دیں.اس پر مولوی صاحب بتا دیتے کہ اس بارے میں ان کا کیا خیال ہے اس کے بعد ان کے ساتھی وہی رائے دے دیتے.چونکہ کثرت ان کی ہوتی تھی ہمارے لئے بولنے کا موقعہ ہی نہ ہوتا.مولوی محمد علی صاحب کی رائے کی تائید میں رائے دینے والے.ڈاکٹر محمد حسین صاحب تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.خواجہ صاحب تھے.شروع میں ایک لمبے عرصہ تک خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم بھی ان کے ساتھ اور ان کے بڑے جوشیلے ساتھی تھے.ادھر میں اکیلا ایا ہم دو آدمی ہوتے تھے.ہماری رائے پر کوئی غور ہی نہ کرتا تھا.نواب صاحب نے مجلس میں جانا چھوڑ دیا تھا.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب باہر ہوتے تھے.اس لئے مجلس میں جانے والا آخر میں ہی رہ گیا تھا.اس دن ان لوگوں نے سیٹھ صاحب پر زور دیا کہ آپ بھی رائے دیں.پہلے تو انہوں نے کہا کہ میں کیا رائے دے سکتا ہوں.میں دیکھتا ہوں.آپ کام کریں جب پھر زور دیا تو چونکہ بزنس مین کی سمجھ بڑی تیز ہوتی ہے انہوں نے دیکھا کہ یہ تو ان لوگوں نے محول بنا رکھا ہے ایک ہی شخص سے پوچھتے ہیں کہ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور جب وہ اپنی رائے ظاہر کر دیتے ہیں تو وہی رائے خود دے دیتے ہیں.دو تین بار یہی طریق دیکھ چکے تھے.جب انہیں پھر کسی نئے مسئلہ کے بارہ میں کہا گیا کہ سیٹھ صاحب آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں تو اسی کمرہ میں جو اس مسجد کے ساتھ چھوٹا سا ہے اسی طرز پر جس طرح وہ لوگ ہاتھ بڑھا کر کہا کرتے تھے میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے.اس بارہ میں جو میاں صاحب فرماتے ہیں وہی میری رائے ہے.یہ پہلی دفعہ تھی جب انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا.اور پھر کھل گئے “.(الفضل مورخہ ۶/ اگست ۱۹۴۱ء صفحہ ۴ کالم ۵۳) ۳۳.کشف الاختلاف صفحه ۱۶ ۲۴ الحکم جلد نمبر پر چہ ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۹.کالم ۱-۲ ۴۵.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی یعنی شہادت بڑی تفصیل سے بیان کرتے

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 275 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ہوئے تحریر فرماتے ہیں."جس روز مسجد کے چندہ کے واسطے گوجرات یا کڑیانوالے کی طرف جارہے تھے اور جناب نواب خان صاحب تحصیلدار کے ٹانگ پر ہم تینوں سوار کو چہان اور جناب خواجہ صاحب آگے تھے.میں اور جناب پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے.تو جب ہم اس سڑک پر پہنچے جو کہ کڑیانوالہ کی طرف جاتی ہے تو خواجہ صاحب نے یہ فرمایا کر کہ راستہ باتوں کے ساتھ طے ہوا کرتا ہے اور میرا ایک سوال ہے آپ اس کا جواب دیں.سوال شروع کیا.صحیح اور یقینی مضمون اس کا یہ تھا کہ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر انبیاء اور صحابہ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے.کہ وہ کم اور خشک کھاتے خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دیا کرتے تھے.اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے.غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے.اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے.لیکن جب ہماری بیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جھوٹے ہو ہم نے تو قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے.جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں.حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے.لہذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصہ دراز تک ہم کو دھوکہ دیتے رہے ہو.اور آئندہ ہم ہرگز تمہارے دھو کہ میں نہ آویں گی.پس اب وہ ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں جب میں نے جناب کو (مولوی محمد علی صاحب مراد ہیں ناقل) کہا تھا.کہ آج مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر میں بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہو اتو لنگر بند ہو جاوے گا.مگر یہ (خواجہ وغیرہ) ایسے ہیں کہ بار بار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بد نکنی کرتے ہیں.اور یہ سنا کہ میں نے بوجہ محبت.یہ کہا تھا کہ آپ آئندہ کبھی اس معاملہ میں شریک نہ ہوں.ایسا نہ ہو کہ حضرت اقدس کی زیادہ ناراضگی کا موجب ہو جاوے.اور آپ کو نقصان پہنچے.اس کے دو تین روز بعد خواجہ صاحب قادیان آئے تو نماز مغرب کے بعد آپ (یعنی مولوی محمد علی صاحب) نے مجھے بلایا.جب میں حاضر ہوا تو آپ (مولوی محمد علی صاحب.ناقل ) اور خواجہ صاحب مجھے مسجد مبارک کی چھت پر لے گئے تو خواجہ صاحب نے مجھے فرمایا.کہ تم حضرت صاحب سے اچھی طرح سے بات چیت کر لیا کرتے ہو تم ضرور حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ حضور وہ تو حضور کے غلام ہیں اور حضور کے ہاتھ پر بک چکے ہوئے ہیں.بھلا غلام کیا اور اس کا مال کیا اصل بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ خدا تعالٰی ہم کو حضور کی خدمت میں اس واسطے لایا ہے کہ حضور پر جو کاروبار ظیم کا بوجھ ڈالا گیا ہے ہم ان کاموں میں حضور کا ہاتھ بٹائیں.اور فنگر کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں.حضور کے اوقات گرامی میں تشویش واقع ہوتی ہے.حضور کی طبیعت چاہتی ہے کہ حضور کے مہمانوں کی اچھی طرح خاطرداری اور مہمان نوازی ہو.لیکن ملازم لنگر یوجہ نگران نہ ہونے کے اچھی طرح کام نہیں کرتے.تو اس سے بھی حضور کو تکلیف ہوتی ہے روپیہ بہت سرف ہوتا ہے اور غرض حاصل نہیں ہوتی.تو حضور کی تشویش کو دیکھ کر ہم کو یہ ندامت ہوتی ہے.کہ ہم کیوں اس تشویش کے رفع کرنے میں کوشش نہیں کرتے.پس محض اس خیال سے وہ چاہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ان کے سپرد ہو جائے.ورنہ حضوران کی جانوں اور مالوں کے بھی مالک ہیں وہ کب یہ خیال دل میں لا سکتے ہیں کہ جناب بے جا صرف کرتے ہیں لہذا یہ انتظام ہم کو دیا جائے.اور خواجہ صاحب بار بار تاکید کرتے تھے.کہ ضرور کہنا اور یہ باتیں کر رہے تھے کہ دفتہ آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ مولوی صاحب ! اب مجھے وہ طریق معلوم ہو گیا ہے جس سے لنگر کا انتظام نور احضرت صاحب ہمارے سپرد کر دیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ دیکھو کہ جونہی میں پیش کروں گا تو آپ ضرور ہی حوالہ کر دیں گے.اس پر آپ (یعنی مولوی محمد علی صاحب) نے یہ کہا کہ خواجہ صاحب! میں تو اب ہر گز نہیں پیش کروں گا.تو خواجہ صاحب نے یہ سنتے ہی آنکھیں سرخ کرلیں.اور غصہ والی شکل اور غضب والے لہجہ سے کہنا شروع کر دیا کہ قومی خدمات ادا کرنے میں بڑے مشکلات پیش آیا کرتے ہیں اور کبھی حوصلہ پست نہ کرنا چاہئے.اور یہ کیسی غضب کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ قوم کا روپیہ کیسی محنت سے جمع ہو تا ہے اور جن اغراض قومی کے لئے وہ اپنا پیٹ کاٹ کر روپیہ دیتے ہیں وہ رو پید ان اغراض میں صرف نہیں ہو تا بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہو سکے اور ناقص حالت میں پڑے ہوئے ہیں.اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو

Page 305

محمد بیت.جلد ۳ 276 تنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر اکیلے اس نے وہ سارے کام پورے ہو سکتے ہیں آپ اچھے خادم قوم ہیں کہ یہ جانتے ہوئے پھر ایک ذراسی بات سے کہتے ہیں کہ میں آئندہ ہر گز پیش نہیں کروں گا.میں تو کہتا ہوں کہ میں ضرور پیش کروں گا.اس پر آپ نے کہا کہ میں ساتھ چلا جاؤں گا مگر بات نہیں کروں گا تو خواجہ صاحب نے کہا کہ میں بھی ساتھ ہی جانے کے لئے کہتا ہوں بات تو میں نہیں کرا تابات تو میں خود کروں خواجہ غرض کہ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن سے اس بات کا صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی مالی اغراض کلورس خواجہ صاحب نے شروع کر دیا تھا.(کشف الاختلاف صفحہ ۳ (۱۹) ۴.ذکر حبیب صفحه ۲۷۴-۲۹۵ ۴۷.اختلافات سلسلہ پر ایک نظر صفحه ۵۴ ۴۸ حقیقت اختلاف حصہ اول صفحہ ۳۹.۱.۴۹ حقیقت اختلاف صفحہ اسمو مجلد کبیر صفحه ۵۰ الفضل ۲۸/ ستمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۳- و اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے بچے حالات ص اختلافات سلسلہ پر ایک نظر صفحه ۵ ۵۲ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات.صفحہ ۱۹-۲۰ ۵۳ حقیقت اختلافات صفحه ۴۱ و مجاہد کبیر صفحه ۹۲ ۵۴ خواجہ صاحب کے جلسہ لاہور میں کی اطلاع ملنے پر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنے مکان کے بالا خانہ پر جلسہ کیا تھا جس میں خلافت سے وابستگی اور مقام خلافت کی عظمت اور اس کے واجب الاطاعت ہونے کے متعلق تقاریر کر کے ریزولیوشن پاس کیا تھا.جس پر دو کے سوا سب نے اتفاق کیا.اس جلسہ میں بیالیس احباب شریک ہوئے (خلافت ثانیہ کا قیام صفحہ ۸ از حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ۵۵ کشف الاختلافات صفحه ۲۹.۵۲ کشف الاختلافات صفحہ ۳۰.۵۷ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۰.۵۸ حقیقت اختلاف صفحه ۲۳ ۵۹.اصل خط میاں عبد المنان صاحب عمرایم.اے کے پاس محفوظ ہے.۶۰ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات.صفحہ ۲۲.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۱۴- ۱۵- از خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالی اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات از صفحہ ۲۲ ۲۳- الموعود صفحه ۱۰۰.۱۰.۹۲ روایت سید محمود عالم صاحب الفضل ۱۲۲ اگست ۱۹۴۰ء صفحه ۴ کالم ) خلافت ثانیہ کا قیام.صفحہ ۸ (ترجمہ) وہ لوگ جو مومن مرد اور مومن عورتوں میں فتنہ ڈالتے ہیں.اور پھر تو بہ بھی نہیں کرتے ان کے لئے عذاب جہنم اور جلا دینے والا عذاب مقدر ہے.-۲۵ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۴.خلافت ثانیہ کا قیام صفحه ۸-۹-.کشف الاختلافات صفحه ۳۰ ۶۸ - اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۵.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۱۷.- 19 اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۷.ے.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۲۶.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۱۹.

Page 306

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 277 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ا.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۱۷۱۵ ۷۲.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۱۹۱۸.فاروق ۵/ جولائی کے 1 ہر صفحہ ۳ کالم ۲.القول الفصل صفحہ ۲۸.الفضل ا/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ) کالم ۳.۷۳.اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ وہ مولفہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب ۷۴.اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ ہے.۷۵.جناب مولوی سید سرور شاہ صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ بر خاست ہونے پر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اپنے جوش کے باعث چند منٹ بھی قادیان میں نہ ٹھر سکے اور فوراہی لاہور روانہ ہو گئے.۷۲.حقیقت اختلاف صفحہ ۴۲.۷۷.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحه ۲۹ ۳۰ -GA کشف الاختلاف صفحه ۳۲ ۷۹.خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ ۲۱ - ۲۲ ایک نہایت ضروری اعلان صفحه ۱۰- ۱۲ از مولوی محمد علی صاحب ضمیمہ رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب صفحه ۲۸- از مولانا محمد اسمعیل صاحب بلالپوری ۸۲.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۳۲ ۳۳.چنانچہ انجمن کے رجسٹر دوم صفحہ ۷۶ ۳ پر جو کارروائی لکھی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں حضرت مولوی نور الدین صاحب میر مجلس تشریف لائے.-- انجمن کے رجسٹر چہارم صفحہ ۲۲۲ حضرت سید نا محمود کے بارے میں لکھا ہے کہ "میر مجلس چند روز سے ڈلہوزی میں تشریف لے گئے".الحکم ۳/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۶ کالم ۳.۱۵ کشف اختلافات صفحه ۳۳-۳۴.رجسٹر ریکارڈ صد را انجمن احمد یہ نمبر ۳ صفحه ۸۸ ۸۷.چونکہ انجمن کے کارپرداز حضرت خلیفہ اول کے ادب و احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سید زمان شاہ کو حویلی نہ دینے پر تلے ہوئے تھے.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے تاریخ ۲۶/ اگست ۱۹۰۹ء شیخ محمد نصیب صاحب کو (جو آپ کی امانی رقوم رکھا کرتے تھے) ہدایت فرمائی.کہ "چونکہ سید زمان شاہ صاحب کو آمد و رفت میں اور اس تگ دور میں میرے باعث بہت بڑا خرچ ہوا ہے.اس لئے ایک سو روپیہ بطور حرجانہ ان کو میری طرف سے دے دیں ".اصل خط میاں عبد الستان صاحب عمر کے پاس محفوظ ہے.رجسٹر موم صد را انجمن احمدیہ صفحہ ۱۰۳ ۱۰۴.۸۹- اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۲۵-۳۲۹ و اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۳۵-۳۶- اصحاب احمد حصہ دوم صفحہ ۳۲۹.اہل پیغام کے بعض خاص کارنا ہے صفحہ ۵۳ جمله خطوط جن میں حضرت خلیفہ اول کے خطوط بھی تھے حضرت میر صاحب کے پاس عرصہ تک محفوظ رہے جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے پہلی دفعہ الفضل یکم اگست ۱۹۱۵ء صفحہ ۴.۵ میں شائع کرایا تھا.۹۲ مراد شیخ رحمت اللہ صاحب ۹۳ مراد سید محمد حسین شاہ صاحب (ناقل) ۹ مراد سید زمان شاه بیردی ۹۵ آئینه صداقت صفحه ۱۲۴-۱۲۶ ۹۲ حقیقت اختلاف صفحہ ۳۶ ۹۷ اخبار بد ر جلد ۸ نمبر ۵۲ پرچه ۱۲ صفحه ۸ - ۱۹۰۹ - الحکم ۱۲۸ اکتوبر ۱۹۰۹ صفحه ۱۳۱۳

Page 307

| تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 278 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے مکین خلافت کے نشان تک فصل دوم مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک جیسا کہ ۱۹۰۸ء کے واقعات مدرسہ احمدیہ کی بنیاد مستقل درسگاہ کی حیثیت سے میں ذکر آچکا ہے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی قیام خلافت کے آغاز ہی سے یہ دلی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار میں ایک دینی مدرسہ قائم ہونا چاہئے چنانچہ صدر انجمن کے بعض سرکردہ لوگوں کی سرتوڑ مزاحمت و مخالفت کے باوجود آپ کی یہ قلبی تمنا اس سال (۱۹۰۹ء) کی پہلی سہ ماہی میں ہی پوری ہو گئی اور یکم مارچ 1909ء کو اس درسگاہ کی بنیاد رکھ دی گئی جس کا نام حضرت مولوی شیر علی صاحب کی رائے کے مطابق مدرسہ احمد یہ رکھا گیا.II مدرسہ کے اولین ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب قرار پائے اور سپرنٹنڈنٹ مولوی صدر الدین صاحب بی اے.بی ٹی.مدرسہ کے قیام سے قبل ۳۱/ جنوری ۱۹۰۹ء کو ایک سب کمیٹی مدرسہ کے نصاب اور انتظام کے سلسلہ میں بنائی گئی جس کے ممبران یہ تھے.(۱) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایده اللہ تعالی (۲) حضرت مولوی شیر علی صاحب (۳) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب.(۴) حضرت قاضی امیر حسین صاحب (۵) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۲) مولوی محمد علی صاحب (سیکرٹری مجلس معتمدین).سب کمیٹی نے ۱۳ / فروری تا ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ء مختلف وقتوں میں غور کیا اور ایک مکمل سکیم پیش کی جسے حضرت خلیفہ اول کے مشورہ سے معمولی تبدیلی کے ساتھ منظور کر لیا گیا.سکیم کی بعض اہم شقیں یہ تھیں.}.اس مدرسہ میں گیارہ سال سے کم عمر لڑ کا داخل نہ کیا جاوے گا.معیار قابلیت مروجہ پرائمری کا امتحان ہو گا..جن لڑکوں نے پرائمری کا امتحان پاس نہ کیا ہوا نہیں اس مدرسہ میں داخل ہونے کے لئے ایک

Page 308

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 279 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک داخلہ کا امتحان دینا ہو گا.- نصاب مدرسه احمد یہ سات سال کے لئے تیار کیا گیا ہے.- مجوزہ ہفت سالہ نصاب میں دو درجے ہونگے.درجہ اولیٰ کا امتحان پانچویں سال کے بعد اور درجہ اعلیٰ کا امتحان ساتویں سال کے بعد ہو گا اور کوئی طالب علم درجہ ادنی سے درجہ اعلیٰ میں ترقی نہ کر سکے گا جب تک وہ درجہ ادنی کا امتحان پاس نہ کرے اور نہ کسی طالب علم کو تحمیل تعلیم کی سند دی جائے گی.جب تک وہ اعلیٰ درجہ کا امتحان پاس نہ کرے.دو سال کی خاص تعلیم میں طرز تعلیم حسب ذیل طریق سے ہوگی.اول.مندرجہ ذیل چھ مضامین میں سے ہر ایک دن ایک خاص مضمون پر طلباء کو ایک گھنٹہ کے لئے لیکچر دیا جاوے گا.فضائل اسلام.مقابلہ مذاہب عالم.مخالفین اسلام کے اعتراضوں کا جواب.فلسفه قدیم و جدید - استنباط مسائل جمع مذاہب عالم.ادب ولغت.دوم.اس لیکچر کے علاوہ ایک گھنٹہ روزانہ پڑھائی کا ہو گا.جس میں حسب ذیل کتب عبور کرائی جاویں گی.الجواب اصحیح.رد شیعہ - منہاج ابن تیمیہ.اعلام الموقعین ابن قیم.ائمہ ثلاثہ کی تین کتا ہیں.فصوص الحکم.احیاء العلوم.زرقانی.اشباہ والنظائر.سوم.چھ مضامین مذکورہ ضمن اول میں سے ایک ایک مضمون پر ہر پندرہ روز میں طالب علم خود ایک مضمون لکھے گا.مضمون کا عنوان اس مضمون کا پروفیسر تجویز کرے گا.یہ مضامین محققانہ ہوں گے اور طالب علم بطور خود مطالعہ کتب کر کے ایسے مضامین تیار کرے گا.چہارم.ان کے علاوہ ہر ایک مضمون کے پروفیسر کا فرض ہو گا کہ اپنے اپنے مضامین کے متعلق ضروری کتابوں کے مطالعہ کی طلباء کو ہدایت کرے اور حسب ضرورت ان کے مطالعہ میں ان کو مدد دے.۷.جن طالب علموں کو مجلس درجہ خاص کی تعلیم کے قابل نہ سمجھے گی ان میں سے بعض کو بطور واعظ مقرر کر کے باہر بھیجا جائے گا.اور بعض کو مولوی فاضل کے امتحان کے لئے تیار کیا جائے گا.هرچ جو طالب علم بطور واعظ باہر بھیجے جانے ہوں ان کے لئے ضروری ہو گا کہ کم از کم ایک سال شفا خانہ میں عملی طور پر طبابت اور جراحی کا کام سیکھیں.اور وہ شفا خانہ میں اس ڈاکٹر کی زیر نگرانی تعلیم اور تجربہ حاصل کریں گے جس کی نگرانی میں شفا خانہ ہو اور علاوہ ازیں ان سے وعظ بھی کرایا جاوے گا اور مضامین لکھوائے جائیں گے.

Page 309

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 280 احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک جن طلباء کو مولوی فاضل کے امتحان کے لئے تیار کیا جاوے گا.ان کو ایک سال میں مولوی فاضل کے امتحان کی ایسی کتابیں جو نصاب ہفت سالہ میں شامل نہیں ہیں عبور کرائی جاویں گی -1 ا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب (ہیڈ ماسٹرو اول عہد خلافت اولیٰ کے اساتذہ مدرس دینیات) (۲) حضرت قاضی امیر حسین صاحب (اول) مدرس فقه) (۳) مولوی محمد اسمعیل صاحب (مدرس علم ادب) (۴) حکیم فضل الدین صاحب بھیروی دوم مدرس دینیات) (۵) میاں (پیر) منظور محمد صاحب مدرس متفرق مضامین (1) مولوی محمد جی صاحب (۷) مولوی غلام نبی صاحب (مصری) (۸) پیر مظهر قیوم صاحب (۹) ماسٹر عبد الرحیم صاحب نیر (۱) شیخ عبد الرحمن صاحب (مصری) (1) حکیم محمد الدین صاحب (۱۲) میاں عبد الحق صاحب (۱۳) حضرت میر محمد الحق صاحب (۱۴) مرزا برکت علی صاحب 1 (۱۵) میاں دین محمد صاحب 1 I+A ابتداء جب مدرسہ احمدیہ جاری ہوا تو اس میں شاخ دینیات کے طلباء مدرسہ کے اولین طلبہ اور بعض اور طلباء بھی داخل ہوئے.جن کی مجموعی تعداد ستائیں تھی اولین طلبہ میں سے بعض کے نام یہ ہیں (مولوی) عبد الرحمن صاحب (جت).محمد شریف صاحب.محمود عالم صاحب.عبد الغفور صاحب.غلام فرید صاحب.بشیر احمد صاحب رحمت علی صاحب.عبید اللہ صاحب.خوشی محمد صاحب رحمت اللہ صاحب.الہ دین صاحب.سید منظور عالم صاحب.عبد القدوس صاحب شروع شروع میں چار جماعتیں کھولی گئیں مگر چو تھی جماعت متعدد وجوہات سے قائم نہ رہ سکی.اگلے سال ۱۹۱۰ ء میں چوتھی جماعت بھی کھل گئی اور طلباء کی تعداد انتالیس تک پہنچ گئی.پھر 19ء میں اڑسٹھ ہو گئی اور مدرسہ پانچویں جماعت تک بڑھا دیا گیا.علاوہ ازیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تجویز پر یکم مارچ 1911ء سے ایک سپیشل کلاس کھولی گئی جس میں لڑکوں کو ایک سال تک تعلیم دے کر دوسری کلاسوں کے ساتھ شامل کیا جانے لگا.۱۹۱۲ ء میں مدرسہ کی چھٹی جماعت اور ۱۹۱۳ ء میں ساتویں جماعت بھی کھل گئی.اس طرح مدرسہ کی کلاسیں مکمل ہو گئیں.اور طلبہ فارغ التحصیل ہو کر سلسلہ کی خدمات پر فائز ہونے لگے.مدرسہ اپنے ابتدائی مراحل کے ایام میں کس درجہ کمزور حالت میں تھا اس کا کسی قدر نقشہ یہ ہے کہ مدرسہ کے اساتذہ و طلبا کی کتابوں کے لئے ابتداء ایک سو پچیس روپے منظور ہوئے.II جو بعد میں آہستہ آہستہ بڑھا دئے گئے یہ رقم درسی نصاب کے لئے مخصوص تھی اور عام دینی مطالعہ کے لئے طلباء کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی قائم

Page 310

تاریخ احمدیت جلد ۳ -1433 170 281 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک کردہ لائبریری یا حضرت خلیفہ اول کی لائبریری کی طرف جانا پڑتا تھا.ازاں بعد لائبریری کے لئے کتابیں منگوائی جانے لگیں جن کی تعداد ۱۹۱۲ء تک باسٹھ تھی.پھر مدرسہ کی اپنی عمارت کوئی نہ تھی.بلکہ تعلیم الاسلام کے ساتھ ہی چلتا تھا.اور گو بعد میں حضرت خلیفہ اول کی گرانقدر اعانت سے اس کا مستقل بورڈنگ ہاؤس تعمیر ہو گیا.مگر مدرسہ کے طلباء ابتداء تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں ہی رہتے تھے.ان حالات میں اساتذہ اور طلباء کو کما حقہ سکون میسر نہیں تھا اور سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام جن کو مدرسہ کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا تھا اور جن کی وساطت سے ہی جملہ معاملات انجمن تک پہنچ سکتے تھے.اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس مدرسہ کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے تھے یا نہیں دے سکتے تھے.اس لئے مدرسہ کے انتظام میں بہت کچھ خلل آگیا تھا.مدرسہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا یہ صورت حال دیکھ کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بہت قلق ہوا.اور بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ میں آپ نے ستمبر ۱۹۱۰ء میں انجمن کو توجہ دلائی کہ اس مدرسہ کا انتظام یا تو مدرسہ احمدیہ کے مدرس اول (ہیڈ ماسٹر کی زیر نگرانی ہو یا کسی اور موزوں شخص کو اس کا ناظم مقرر کیا جائے.اس پر صدر انجمن نے مدرسہ کا پورا انتظام آپ ہی کے سپرد کر دیا اور فیصلہ کیا کہ مدرسین کو انتظامی معاملات میں کوئی دخل نہ ہو گا.باد جو دیکہ آپ کی دوسری دینی مصروفیات بہت تھیں اور انتظامی امور میں کوئی خاص تجربہ بھی نہ تھا مگر آپ نے محض قومی خدمت کی خاطر اس بار گراں کو اٹھانا منظور کر کے مدرسہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ستمبر ۱۹۱۰ ء سے مارچ ۱۹۱۴ء تک افسر مدرسہ احمد یہ رہے.آپ کا دورہ مدرسہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنہری دور کہلانے کا مستحق ہے آپ سے قبل مدرسہ ناقص حالت میں تھا.مگر آپ کے آتے ہی اس کی قسمت جاگ اٹھی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی کایا پلٹ گئی.مدرسہ احمدیہ کی ترقی کے لئے زریں خدمات چنانچہ سیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدرسہ احمدیہ کے اس سنہری دور کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:."مدرسہ ہائی کے ساتھ جب تک مدرسہ احمد یہ رہا اس کی حالت ایک لاوارث چیز کی سی تھی طالب علموں کے پاس پورے طور پر کمرے بھی نہ تھے.مدرسوں کے پاس اچھی کرسیاں تک نہ تھی.بعض کلاسیں زمین پر چٹائیاں بچھا کر گزارہ کرتی تھیں.ایک دفعہ ایسا بھی ہوا

Page 311

ریخ احمد بیت - جلد ۳ 282 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک کہ نہ امتحان ہوا اور نہ کلاس بندی ہوئی.بالکل لاوارثی کی سی حالت تھی اس بے کسی کے زمانہ میں حضرت محمود مدرسہ احمدیہ کے لئے فرشتہ بن کر ظاہر ہوئے مدرسہ احمدیہ کی نظامت آپ کے سپرد ہوئی وہ مدرسہ احمدیہ جس کی ڈوبتی کشتی ایک دفعہ آپ پہلے بچا چکے تھے.اب آپ نے اسے اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا.آپ کا وجود مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک مجسم رحمت تھا.آپ نے پست خیال طالب علموں کے اندر علو ہمتی پیدا کرنے کے لئے متعدد طریق اختیار فرمائے.آپ نے حکما طالب علموں کو زمین پر بیٹھ کر پڑھنے سے منع فرمایا.کیونکہ اس سے پست خیالی پیدا ہوتی ہے.طالب علموں کو فن خطابت سکھانے کے لئے جلسوں اور لیکچروں کا انتظام فرمایا.ہر جمعرات کو نصف دن تعلیم ہوتی تھی اور باقی نصف وقت تعلیم خطابت ہوتی تھی.لڑکوں کے بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کا خاص اہتمام ہونے لگا.ہر ماہ میں ایک دفعہ لازماً آپ بورڈنگ.دائر ہوں.کچن اور بیت الخلا کی صفائی ملاحظہ فرماتے.عربی مدرسوں کے طالب علموں میں ایک قسم کی پستی پیدا ہو جاتی ہے.اس کو دور کرنے کے لئے آپ خود وقتا فوقتا تقریریں فرماتے اور ان کو ابھارتے.مدرسہ احمدیہ کے قابل طالب علموں کے لئے کھیلنے کے لئے کوئی الگ فیلڈ نہ تھی.آپ نے ان کے لئے فیلڈوں کا انتظام کیا.تاکہ آئندہ بننے والے علماء صرف ملاں ہی نہ ہوں.بلکہ ہر طرح چاق وچوبند ہوں.مدرسہ ہائی کے پاس تو ایک قیمتی لائبریری تھی.جس سے طالب علم فائدہ اٹھاتے تھے.مگر مدرسہ احمدیہ کے پاس کوئی لائبریری نہ تھی.آپ نے اس ضرورت کو سخت محسوس کیا اور اپنی لائبریری سے قیمتی کتابوں کا ایک بڑا مجموعہ جس میں الھلال مصر کے پرچے بھی تھے مرحمت فرمایا.اور مزید روپیہ بھی انجمن سے منظور کروایا.طالب علم عربی کتابوں کو پڑھتے تھے اور فائدہ اٹھاتے تھے.آپ نے مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت کو اپنے لئے مخصوص کر لیا اور روزانہ تین گھنٹہ اپنا وقت دیتے تھے.میں بھی اس کلاس کا طالب علم تھا اور اپنے بخت پر فخر کرتا ہوں کہ مجھے بھی آپ سے نسبت تلمذ حاصل ہے.آپ اپنی کلاس کے طالب علموں کی ہر طرح سے تربیت فرمایا کرتے تھے یہ مدرسہ احمدیہ کا موضوع بہت لمبا ہے.سر دست اختصار سے اس قدر لکھتا ہوں کہ بعض طالب علم مدرسہ میں کر نہ پہن کر آجاتے تھے.ایک دفعہ آپ نے ترجمہ میں ایک فقرہ دیا.....جو یہ تھا......مدرسہ میں بغیر کوٹ پہنے نہیں آنا چاہئے.اس فقرہ سے سب لڑکے سمجھ گئے کہ آپ کیا چاہتے ہیں سرے دن لڑکے کوٹ پہن کر آگئے.رو

Page 312

جلد 283 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک تربیت کا یہ ایک عجیب پہلو تھا.ایک دن سکول میں آپ دیر سے تشریف لائے.لڑکے باہم ہنسی مذاق کرنے لگے.اسی حالت میں آپ تشریف لے آئے.آپ نے اس وقت تو کچھ نہ فرمایا.تیسرے دن اردو سے عربی کرنے کا جب کام دیا.تو حسب ذیل فقرات اس میں درج تھے :.ا.ہنسی مذاق بری چیز نہیں..مگر کھیل کھیل کے وقت کھیلو.مدرسہ میں جب آؤ.ایک دوسرے کا ادب کرو.۴- د حکم دھکا مت ہو.و کسی کے کندھے پر ہاتھ مت رکھو.لڑکوں نے عربی میں ترجمہ تو کیا مگر اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کرلی.رات کو آپ لڑکوں کو سٹڈی کی حالت میں دیکھنے کے لئے تشریف لاتے.الغرض مدرسہ احمدیہ آپ کی پوری توجہ سے بڑھتا چلا گیا.اور سلسلہ میں جس قدر کام کرنے والے علماء آج نظر آتے ہیں وہ آپ کی توجہ اور محنت کا نتیجہ ہیں.مدرسہ احمدیہ کے نظام تعلیم کو ٹھوس اور مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے آپ نے سب سے اہم قدم یہ اٹھایا کہ اوائل ۱۹۱۲ ء میں اپنے خرچ پر ہندوستان کا ایک لمبا دورہ کیا.جس میں دیوبند.سہارنپور.ندوہ وغیرہ اسلامی مدارس کی تعلیم اور ان کے انتظام کو بغور مطالعہ کیا اور پھر اپنے تجربات کی روشنی میں مدرسہ میں اہم تبدیلیاں کر کے طلباء کے معیار تعلیم کو بلند سے بلند تر کر دیا.اس کے بعد آخر ۱۹۱۲ء میں عربی مدارس دیکھنے اور حج کرنے کے لئے آپ نے مصرو عرب کا سفر بھی اختیار فرمایا - a ۱۹۱۳ء میں آپ کے مشورہ پر سید ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ کو مصر میں بغرض تعلیم بھجوایا گیا.تاوہ عربی تعلیم حاصل کر کے مدرسہ احمدیہ کے لئے مفید وجود بن سکیں.قبل ازیں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو نہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کی سہولت تھی نہ انٹرنس تک انگریزی پڑھنے کی آسانی.مگر آپ کی توجہ سے مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کے لئے ہائی سکول میں انگریزی تعلیم کا انتظام ہوا.نیز طلباء مدرسین کی مدد سے مولوی فاضل کے امتحان میں شامل ہونے لگے.علاوہ ازیں مدرسہ کے نصاب کی تکمیل کے لئے ایک دو سالہ طبی کورس بھی رکھا گیا.آپ اپنے اوقات کا اکثر حصہ مدرسہ کی اصلاح میں خرچ کرتے اور اپنے قوم کے بچوں کے لئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتے تھے.آپ نے بورڈنگ کا الگ انتظام کرایا.پرائمری سے

Page 313

تاریخ احمدیت جلد ۳ 284 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک کم تعلیم رکھنے والے طلبہ کے لئے ( یکم مارچ 1911 ء سے) پیشل کلاس کھلوائی.آپ طلبہ کی تعلیم میں اس حد تک ذاتی دلچسپی لیتے رہے کہ جب کوئی استاد رخصت پر جاتا تو بعض اوقات خود ہی اس کا مضمون پڑھاتے اور طلبہ میں عربی کا ذوق پیدا کرنے کے لئے عربی کلام فرماتے تھے.مدرسہ احمدیہ کے لئے آپ کی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع ہے.مختصرا یہ کہ آپ نے اس دینی درسگاہ کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.اور مدرسہ نے آپ کے عہد میں حیرت انگیز ترقی کی.مارچ ۱۹۱۴ء میں جب آپ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو مدرسہ کا مدرسہ خلافت ثانیہ میں انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے خوش اسلوبی سے سنبھال لیا.ازاں بعد شیخ عبد الرحمن صاحب مصری ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.1919ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ محسوس کر کے کہ جماعت کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کو صرف مدرسہ احمدیہ ہی پورا کر سکتا ہے.آپ نے پہلی جاری شدہ سکیم پر نظر ثانی کے لئے ایک کمیٹی نامزد فرمائی.جس کے ممبر یہ تھے:.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مولوی رحیم بخش صاحب ایم.اے (جن کا نام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بعد میں عبدالرحیم صاحب درد تجویز فرمایا حضرت میر محمد اسحق صاحب.حضرت مولوی محمد دین صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب.ماسٹر نواب دین صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری.چنانچہ حضور کی زیر نگرانی مدرسہ کے لئے ایک نئی انقلابی سکیم نافذ کی گئی.اس سکیم کے نتیجہ میں مدرسہ احمد یہ ترقی کرتے کرتے ۲۰ / مئی ۱۹۲۸ء کو عربی کالج کی شکل اختیار کر گیا.جس نے بڑے بڑے نامور علماء اور مبلغ پیدا کر کے تبلیغ اسلام کی جدوجہد میں شاندار حصہ لیا.جو رہتی دنیا تک یاد گار رہے گا.وسط ۱۹۳۷ء میں مدرسہ احمدیہ کا حضرت میر محمد اسحق صاحب کی اصلاحات کا دور ایک جدید دور شروع ہوا جب کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے اخراج جماعت کے بعد حضرت میر محمد اسحق صاحب اس کے ہیڈ ماسٹر ہوئے.آپ نے مختصر عہد میں مدرسہ میں متعدد اصلاحات کیں.اس کی خستہ عمارت کو پختہ کرایا.یتیم اور بے سہارا طلبہ کی تعلیم کے لئے خصوصی انتظامات کئے.طلبہ میں علمی شعور پیدا کرنے کے لئے علمی مجالس قائم کیں آپ طلبہ میں تبلیغی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے شاگردوں کو قادیان سے

Page 314

285 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے مکین خلافت کے نشان تک ہا ہر جلسوں پر لے جاتے.خود بھی تقریر فرماتے اور ان سے بھی تقریریں کراتے.آپ نے اپنی خدادا علمی، روحانی اور انتظامی قابلیتوں سے مدرسہ احمدیہ کی عظمت کو چار چاند لگا دے.مگر افسوس زندگی نے وفانہ کی اور آپ ۱۹ / مارچ ۱۹۴۴ء کو انتقال فرما گئے اور آپ کی بجائے مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد جب قادیان فسادات کی لپیٹ میں آگیا تو مدرسہ احمدیہ کے چار اساتذہ جن میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل بھی تھے درویشوں میں شامل ہوئے اور بقیہ اساتذہ کا قافلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کے ساتھ ۱۰/ نومبرے ۱۹۴ء کو بذریعہ کنوائے قادیان سے لاہور پناہ گزین ہوا.نٹے بدلے ہوئے حالات میں چونکہ دو مستقل اداروں مدرسہ احمدیہ کا احیاء پاکستان میں کا علیحدہ علیحدہ شکل میں قائم رہنا مشکل تھا اس لئے ان کا الحاق کر کے ۱۳/ نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں ایک مخلوط ادارہ کا اجراء کیا گیا جس میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلبہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مولانا ابو العطاء صاحب فاضل کی زیر نگرانی تعلیم پاتے تھے جگہ کی تنگی نیز ہوسٹل کی سہولتوں کے میسر نہ آنے کی وجہ سے یہ ادارہ چند دن بعد پہلے چنیوٹ میں بعد از ان دو ماه بعد احمد نگر ( متصل ربوہ) میں منتقل کر دیا گیا.شروع دسمبر ۱۹۴۹ء میں جامعتہ المبشرین یعنی مبشرین کالج کا اجراء ہوا.جس میں جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کو تبلیغ اسلام کی خصوصی ٹریننگ دی جانے لگی.آخری / جولائی ۱۹۵۷ء کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشرین تینوں ادارے ایک ہی درسگاہ میں مدغم کر دئے گئے اور اس درسگاہ کے پرنسپل سید داؤ د احمد صاحب (خلف الصدق حضرت میر محمد اسحق صاحب مقرر ہوئے اب یہ درسگاہ جو........جامعہ احمدیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے.آپ کی زیر نگرانی ترقی کر رہی ہے اسے نہایت عمدہ عمارت میسر آگئی ہے اور دار الاقامہ کی عمارت بھی نہایت عمدہ ہے.طلبہ کی تعلیم کے لئے بہترین لائبریری بھی موجود ہے.اعانت یتامی و مساکین کے لئے تحریک جنوری ۱۹۹۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح اول نے یتامی اور مساکین فنڈ کی اعانت کے لئے تحریک فرمائی جس کے لئے سو روپیہ آپ نے خود بھی عطا فرمایا.اس سال حضرت مسیح موعود علیہ حضرت مسیح موعود کی دو عظیم پیشگوئیوں کا ظہور السلام کی دو عظیم الشان

Page 315

تاریخ احمدیت جلد ۳ 286 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے مکین خلافت کے نشان تک پیشگوئیوں کا جو ایران اور ترکی سے متعلق تھیں، ایسا واضح ظہور ہوا کہ ایک عالم دنگ رہ گیا.ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہو ا تھا." تزلزل در ایوان کسری افتاد " اس الی خبر کے عین مطابق عوام نے ایرانی شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا.اس پیشگوئی کے پورے ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک اشتہار دیا جس میں اس کی تفصیلات کا ذکر کرنے کے بعد لوگوں کو یہ دعوت دے کر اتمام حجت کی کہ " آؤ اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ میں داخل ہو.ورنہ ایسے نشان کی نظیر کسی جھوٹے نبی کے کارناموں میں دکھلاؤ.مگر جو کہتا ہے کہ ایسا ہوتا ہے وہ جھوٹا ہے خدا تعالی فرماتا ہے.لعنة الله على الكاذبين پس خدا کی لعنت سے بچنے کے لئے احمدیت کے جھنڈے کے نیچے پناہ لو".-۲- حضرت مسیح موعود نے صاف فرمایا تھا کہ سلطان (روم.ناقل) کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا.اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ترکی میں ایک خونی انقلاب آیا.جس کے نتیجہ میں سلطان عبد الحمید خاں معزول کر دئے گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف ایدہ اللہ تعالٰی نے اس پیشگوئی کے ظہور پر " تازہ نشان" کے عنوان سے ایک زبر دست مضمون شائع کیا.2 حضرت خلیفہ اول کا مکتوب خواجہ خواجہ حسن نظامی صاحب (۶۱۸۷۸ - ۱۹۵۷ء) حسن نظامی صاحب کے نام نے حضرت محبوب الى نظام الدین اولیاء (۱۳۲۵-۱۲۳۸) کے متعلق حضرت خلیفتہ اصبح اول سے کچھ لکھنے کی درخواست کی تھی اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اول نے حضرت نظام الدین صاحب کی شان و عظمت کے بارے میں ایک ایمان افروز مکتوب لکھا.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا :- اب میں قرآن کریم کو پڑھتا ہوں تو اس میں ارشاد ہے.وکذالك جعلنا كمامة وسطا لتكونوا شهداء على الناس تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حقیقت ہر زمانہ کے اخیار میں طاری و ساری ہے.اور ہمیشہ اس کے مطابق ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور اس معیاد پر میں نے حضرت نظام الحق والدین سلطان الدنیا و العقبیٰ کو دیکھا تو سات سو برس کے قریب قریب ہوتا ہے کہ ہزاروں ہزار اخیار آپ کی مدح میں رطب اللسان ہیں.پس میرا دلی یقین ہے کہ وہ محبوب الہی....واقعی محبوب الہی تھے.نواب وقار الملک کے نام خط نواب وقار الملک مشتاق حسین صاحب (۱۸۳۷- ۱۹۱۷) سرسید کے دست راست تھے.اور اسی لئے نواب محسن - الملک مولوی مهدی علی خاں کی وفات پر اکتوبر ۱۹۰۷ء میں علی گڑھ کالج کے سیکرٹری ہوئے اور اپنی

Page 316

جلد ۳ 287 درسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک وفات تک بڑی دلچسپی سے یہ خدمت سر انجام دیتے رہے.اپنے سیکر ٹری شپ کے تیسرے سال انہوں نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ علی گڑھ کالج کے لئے دولاکھ روپیہ چندہ جمع کریں.اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اول نے ۲۲ / مارچ ۱۹۰۹ء کو ایک مفصل خط لکھا جس میں علی گڑھ کالج کے نظام تعلیم کے بارے میں ناقدانہ نگاہ سے لکھا“.” آپ کا محمڈن کالج - آکسفورڈ کیمرج کا مقابلہ نہ کر سکے گا.اسلام درگور ہے بلکہ ہندوستان سے اسلام کا مقابلہ محال ہے.جس قدر آپ ترقی کریں کرلیں یورپ و امریکہ کو چھوڑ ہندوؤں سے مقابلہ بھی خواب و خیال ہو گا.اسلام مال سے نہیں اخلاص سے ترقی کر چکا اور کرے گا.ایمان اعمال صالحہ سے وابستہ ہے".نیز تحریر فرمایا.گو سرسید دعا کا نتیجہ حصول مراد نہیں مانتے تھے.مگر میں بخلاف ان کے دعا کو سبب حصول مرادات مانتا ہوں ایک پیسہ جمع کرنا بھی نا پسند کرتا ہوں اور یہ واقع ہے کہ پھر بائیں آپ کے سرسید بھی میری عزت کرتے تھے اور بہت کرتے تھے محسن الملک اور ان کے بازو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.حضور کسی امام و مصنف کا نام اسلام میں بتا سکتے ہیں جس نے ان رویوں کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا.لائبریری کا عالیجاہ؟ آپ کو شوق ہے مگر صرف ہندوستان میں صرف میری لائبریری ہے جس سے سرسید احمد خاں اور مولانا شبلی نے بحمد اللہ ضرور فائدہ اٹھایا ہو گا.یا ہے ایک تو دنیا سے چل بسے دوسرے موجود ہیں آپ ان سے دریافت فرما سکتے ہیں.| ۱۴۵ انجمن "الاخوان" کے سالانہ جلسہ پر تقریر مارچ 196ء کے آخری عشرہ میں لاہور کے احمدی طلباء نے اپنی انجمن الاخوان کا سالانہ جلسہ کیا.جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی کو بھی مدعو کیا.آپ کو ان دنوں سخت چوٹ لگی ہوئی تھی اور اس حالت میں ڈاکٹروں نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا تھا.مگر محض خدمت کے جذبہ کے باعث آپ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح اول کی اجازت سے جلسہ میں شامل ہوئے جب پنڈال میں پہنچے آپ کو سخت درد ہو رہا تھا.لیکن خدا کے فضل سے جو نبی ||-| آپ کھڑے ہوئے درد دور ہو گیا اور آپ نے اس کے بعد نہایت فاضلانہ لیکچر دیا جو بہت پسند کیا گیا.1 حضرت صاحبزادہ صاحب مارچ ۱۹۰۹ء کے خاتمہ پر حضرت دہلی سے قصور تک تبلیغی دورہ ام المومنین اور دیگر صاحبزادگان اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے رستہ میں آپ چند روز کپور تھلہ میں ٹھہرے.کپور تھلہ سے پھر لاہور کے جلسہ سیرت النبی اللہ میں شمولیت فرمائی اور نہایت موثر اور روحانیت سے لبریز تقریر فرمائی.لاہور سے فراغت کے بعد پھر دہلی پہنچے اور وہاں ۹/ اپریل کو ایک کامیاب لیکچر دیا اس کے

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 288 ط رسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک معا بعدا / اپریل ۱۹۰۹ء کو قصور کے سالانہ جلسہ میں شریک ہوئے اور لیکچر دینے کے بعد دوبارہ دہلی میں حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے جہاں آپ کا ۱۶ / اپریل ۱۹۰۹ء کو دوسرا عام لیکچر ہوا اور ۱۸ اپریل ۱۹۰۹ء کو حضرت ام المومنین کے ساتھ واپس قادیان تشریف لائے.اردو کی تائید میں ریزولیوشن ڈاکٹرلی.ی.پیٹر جی نے پنجاب یونیورسٹی کے جلسہ اسناد پر کہا تھا کہ اردو صوبہ پنجاب کی درنیکلر زبان نہیں ہے اس لئے صوبائی تعلیم اردو کی بجائے پنجابی میں ہونی چاہئے.یہ خیال چونکہ مسلمانوں کے لئے نہایت درجہ مضر اور نقصان رساں تھا اس لئے مجلس معتمدین صدرانجمن احمد ید نے ۱۲۵ مئی ۱۹۰۹ ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح کی صدارت میں یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ " اس انجمن کی رائے میں "اردو" صوبہ پنجاب میں تعلیمی اغراض کے لئے بالعموم اور ابتدائی تعلیم کے لئے بالخصوص مناسب اور موزوں زبان ہے اور بہ حیثیت درسی جو رتبہ اسے مدارس میں حاصل ہے اس کو قائم رکھنا ترقی تعلیم کے لئے نہایت ضروری ہے ".۱۳۸ ۲۹ ۳۰ ۱ مئی ۱۹۰۹ء کو انجمن احمد یہ فیروز پور نے جلسہ کیا جس جلسه انجمن احمدیہ فیروز پور کا پروگرام خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر چیف کورٹ نے تجویز کیا تھا اس جلسہ میں بھی حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا لیکچر ہوا.بعنوان اسلام کیا ہے اور وہ ہمیں کیا بنانا چاہتا ہے " صدر جلسہ خواجہ کمال الدین صاحب نے اس لیکچر پر یہ ریمارکس کئے : " صاحبزادہ صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ اپنے لیکچر کو ختم کیا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا مگر جو حقانیت ان کے دل پر مرتسم ہے وہ بڑے بڑے آدمیوں میں نہیں.اگر چہ ہم نے کوئی گدی نہیں بنائی.مگر میں اتنا کہتا ہوں کہ آپ نے اور پیروں کے بچے بھی دیکھے ہیں میرے مرشد زادہ اور پیرزادہ کو بھی آپ نے دیکھا ہے کہ وہ قرآن کریم پر کیسا شیدا ہے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں کیسا قابل ہے".اس جلسہ میں آپ کے علاوہ جن مقررین نے تقریریں کیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی خان صاحب منشی فرزند علی صاحب.خواجہ کمال الدین صاحب شیخ محمد یوسف صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.یہ جلسہ بہت کامیاب رہا.انگریزی ترجمہ قرآن مجید اس وقت تک قرآن پاک کے جتنے تراجم یورپ کی مختلف زبانوں مثلاً انگریزی ، فرانسیسی ، جرمنی ، یونانی، لاطینی، پولینڈ اٹالین ، پرتگالی، اسپینش ، ہنگری، سردی ، ہالینڈ البانی ، ڈنمارک، آسٹریا، بلغاری وغیرہ) میں ہوئے 10+

Page 318

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 289 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک تھے وہ کل عیسائیوں کے قلم سے نکلے تھے.ظاہر ہے یہ مسلمانوں کے نزدیک کسی استناد کے لائق نہ ہو سکتے تھے.انگریزی میں سب سے پہلا ترجمہ ۱۹۴۹ء میں الیگزنڈر راس نے (ALEXANDER ROSS) اور دوسرا ترجمہ جارج سیل نے (GEORGESALE ۱۷۴۳ء میں کیا جو اس درجہ مقبول ہوا کہ اس کے چھتیں ایڈیشن شائع ہوئے.آخری ایڈیشن ۱۹۱۳ء میں چھپا اس کے بعد ۱۸۶۱ء میں راڈ ویل نے (REV.J.N.REDWELL.M.A) ۱۸۸۰ء میں ایڈورڈ ہنری پامر ,EDWARD HENRY PALMER) نے اور ۱۹۰۵ ء میں محمد عبد الحکیم خاں پٹیالوی نے ترجمہ شائع کیا.ان حالات میں عالم اسلام کو انگریزی میں ایک نئے ترجمہ قرآن کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی.جو قرآن مجید کی صحیح روح اور مزاج کی ترجمانی کرنے والا ہو.تانہ صرف مغربی دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلے بلکہ نو تعلیم یافتہ مسلمان جو قرآن سمجھنے کے لئے مغربی تراجم کی طرف رجوع کر رہے تھے.صحیح ترجمہ قرآن سے واقف ہو سکیں.100 چنانچہ اس اہم ضرورت کی طرف بعض احمدی احباب نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی.جس پر صدر انجمن احمد یہ نے یہ کام یکم جون ۱۹۰۹ ء کو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیچر کے سپرد کیا اور مولوی صاحب کو ادارت کے کام سے فارغ کر کے ان کی بجائے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو مقرر کر دیا گیا.چنانچہ خود مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں:.”مولوی صدر الدین صاحب بی اے بی ٹی کے مدرسہ میں آنے پر مولوی شیر علی صاحب بی.اے میگزین میں آگئے.مولوی صاحب موصوف پہلے بھی ہیڈ ماسٹری کے زمانہ میں ریویو میں مضامین لکھ کر وقتا فوقتا امداد دیتے رہے تھے.اب جب ان کا سارا وقت اس کام کے لئے خالی ہو گیا تو ایڈیٹر کو اس سے فراغت مل گئی.چنانچہ یکم جون ۱۹۰۹ء سے ریویو کے لئے مضمون نویسی کا کل کام مولوی شیر علی صاحب کے سپرد ہو کر ایڈیٹر کے سپرد ترجمه قرآن شریف کا کام کیا گیا.اور ٹریکٹوں کی طبع کا انتظام بھی ان ہی کے سپرد کیا گیا.اس طرح قرآن شریف کے انگریزی ترجمہ کا کام صدر انجمن احمدیہ کے اہتمام میں شروع ہو چکا ہے".مولوی محمد علی صاحب نے ترجمہ قرآن کے ضمن میں یہ درخواست پیش کی کہ پہلے تراجم اردو و انگریزی اور لغات عربی و انگریزی کا مطالعہ کیا جائے گا.دو سال میں ترجمہ ہو گا.قریبا چھ ہزار روپیہ اسی کام پر علاوہ کاغذ وغیرہ کے خرچ اٹھے گا.ترجمہ کے لئے ایک مکان با ہر ہوا دار بنایا جائے اور ایک دفتر بھی.چنانچہ صدر انجمن نے ۶ / جون ۱۹۰۹ء کو ان کی اس درخواست کو منظور کر لیا اور ان کی ضروریات پوری کردی گئیں اور پرانی آبادی کے باہر ایک کھلے میدان میں ایک مکان مع دفتر بنوا دیا - 1 ستمبر ۱۹۱۰ء کو ایک ٹائپ را کنرا انجمن نے مہیا کیا.چنانچہ صدرانجمن احمدیہ کی رپورٹ میں لکھا ہے.or ۱۵۴

Page 319

" تاریخ احمدیت.جلد ۳ ۱۱۵۵ 290 درسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک ۱۵۸ ۵۹۳ روپے میں سے ۴۱۱ روپے پر تو ایک ٹائپ رائٹر ترجمتہ القرآن کے کام کے لئے خریدا گیا ہے اور باقی متفرق خرچ ہے ".مئی ۱۹۱۳ء میں مولوی صاحب کو چھ ماہ کے لئے پہاڑ پر ایک چپڑاسی دے کر بھجوایا گیا تا وہ سکون کے ساتھ یہ کام جاری رکھ سکیں.ضروری کتابیں بھی ساتھ بھیجوانے کا انتظام کیا گیا.جنوری ۱۹۱۴ء میں مولوی محمد جی صاحب کو ان کی امداد کے لئے لگایا گیا.غرضکہ مولوی صاحب موصوف کو صد را انجمن احمدیہ نے نہ صرف اس کام کے لئے فارغ کر کے معقول مشاہرہ دیا بلکہ اخراجات کی پروانہ کرتے ہوئے ہر ممکن سہولت ان کے لئے مہیا کی تب کہیں جا کر تین سال میں ترجمہ مکمل ہوا اور بعد ازاں اس پر نوٹ لکھنے کا کام شروع کیا.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ (۱۳.۱۹۱۲ء) میں لکھا ہے." بڑا خرچ اس مد ( ترجمہ القرآن.ناقل ) کا ایڈیٹر صاحب ریویو کی تنخواہ ہے.جو سال زیر رپورٹ میں سارا وقت ترجمتہ القرآن کے کام کو ہی دیتے رہے ہیں.ترجمہ تو مکمل ہو گیا ہے اب نوٹ لکھے جارہے ہیں.اور اس کے بعد دیباچہ لکھا جائے گا.جو امید ہے کہ آئندہ سال میں ختم ہو کر قرآن شریف کے دلایت چھپوانے کا انتظام انشاء اللہ ہو جائے گا".آخر جب نوٹ وغیرہ لکھنے کا کام کسی حد تک مکمل ہو گیا.تو خواجہ کمال الدین صاحب نے از خودہی اخبار ”پیغام صلح" میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے چندہ دینے کی اپیل کی اور چندہ کی وصولی کے لئے اپنی طرف سے چار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی.جس کے ممبروں میں اپنے علاوہ مندرجہ ذیل لاہوری دوستوں کو نامزد کیا.شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب.حالانکہ انہیں اس بات کا قطعا کوئی حق نہیں تھا.انگریزی ترجمہ قرآن لکھنے والے انجمن کے ملازم تھے اور انجمن فراخ دلی سے ان کے اخراجات برداشت کرتی آرہی تھی اسی لئے اشاعت کی ذمہ دار بھی وہی تھی.اب ترجمہ کے نوٹ آخری مراحل پر تھے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات ہو گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا.صدر انجمن احمدیہ کے ملازم کی حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ وہ ترجمہ قرآن کا مسودہ صد را انجمن احمدیہ کو (جس کے ہزاروں روپے ترجمہ قرآن کے لئے ان پر خرچ ہوئے تھے) واپس کر دیتے یا اس کی زیر نگرانی اس کی تعمیل کرتے مگر مولوی محمد علی صاحب نے جو پہلے ہی ترجمہ انگریزی کو اپنی ملکیت قرار دینے اور اس کے ذریعہ اپنی شہرت و نمائش کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے.اس مصالحانہ اور دیانتدارانہ طریق سے ہٹ کر ایک دوسری راہ اختیار کی یعنی وہ انجمن کو چھ ماہ کی رخصت کی درخواست دے کر قادیان سے لاہور چلے گئے اور ساتھ ہی جاتے 109

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 291 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تسکین خلافت کے نشان تک ہوئے مسودہ ترجمہ کے علاوہ دفتر کا ٹائپ رائٹر اور میگزین کی تمام ضروری کتب بھی ترجمہ کے بہانے ساتھ لے گئے.جس پر سیکرٹری صدر انجمن قاریان نے ۲۲ جون ۱۹۱۴ء کو ریزولیوشن پاس کر کے ان کی خدمت میں لکھا کہ وہ ترجمہ انگریزی کے تمام مسودات اور نقول اور میگزین کی لائبریری کی کتب اور دیگر سامان مملوکہ انجمن جو ان کے پاس ہے پندرہ دن کے اندراندر واپس کر دیں.اس مطالبہ پر مولوی محمد علی صاحب نے جو جواب دیا دہ زمانہ حال کے مفسر قرآن کی دیانت وامانت و تقوی شعاری کا پردہ چاک کرنے کے لئے کافی تھا.چنانچہ انہوں نے لکھا:." جناب سیکرٹری صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط نمبر ۲۲۲ مورخہ ۲۲/جون ۱۹۱۴ء مجھے ۲۵/ جون کو ملا.میرا جواب مختصر احسب ذیل ہے:.ا.میں موجودہ انجمن کے نظام اور اس کی تمام کارروائی کو خلاف قانون سمجھتا ہوں اس لئے اس کا وہ ریزولیوشن جس کے حوالے سے آپ نے مجھے مخاطب فرمایا ہے میرے لئے واجب التعمیل نہیں ہے.۲.ریزولیوشن مذکورہ کی اس لئے میں تعمیل نہیں کر سکتا کہ انجمن کو ترجمہ کے کام میں رکاوٹ ڈالنے یا مخل ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے.اس کام کو میں نے اپنے طریق پر اور اپنی اقتضاء و رائے کے مطابق تکمیل کرتا ہے اور جس طرح سے میں پسند کروں اسے ختم کرنا اور طبع کرانا ہے انجمن کو کسی موہوم نقصان و اندیشہ یا کسی دیگر وجہ سے کوئی استحقاق نہیں ہے.کہ مجھ سے مکمل مسودہ جس کی تحمیل کے لئے تاحال خاصہ عرصہ چاہئے طلب کرے.نہ ہی انجمن مجھ کو اس بات سے روک سکتی ہے.کہ میں اپنا تصنیف کردہ مسودہ یا اس کی نقول کو اپنے پاس رکھوں یا جس طرح چاہوں ان سے کام لوں..قطع نظر اس کے جہاں تک میں نے غور کیا ہے قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ جو میری تصنیف ہے میری ملکیت ہے..چونکہ ترجمہ ہنوز نا مکمل ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ آپ واپسی کتب پر اصرار نہ فرمائیں گے.خاکسار محمد علی ایڈیٹر ریویو آف ریلیج " اس کے بعد جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تحریر میں لکھ دیا تھا ترجمہ کو اپنے طریق اور اپنی اقتضاء و رائے کے مطابق تکمیل تک پہنچایا.یعنی اپنے نئے مسلک و عقیدہ کے مطابق اس پر نظر ثانی اور ترمیم و تصحیح کر کے جماعت کے مخصوص عقائد.نبوت مسیح موعود ولادت مسیح وغیرہ کو خارج کر دیا.اور یہ رد و بدل اتنے وسیع پیمانہ پر کیا گیا کہ پہلے مسودہ کو دوبارہ ٹائپ کرانا پڑا.چنانچہ اخبار

Page 321

ریخ احمدیت - جلد ۳ 292 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک "پیغام صلح صاف لفظوں میں لکھتا ہے :.۱۹۱۴ء میں حضرت مولانا نور الدین صاحب وفات پاگئے اور اختلاف سلسلہ کا حادثہ رونما ہوا.اس کے بعد حضرت امیر حالات کی مجبوری کی وجہ سے ترجمہ قرآن کے مسودات کو لے کر لاہور تشریف لے آئے اور یہی وہ ایک متاع تھی جو ہمارے بزرگ قادیان سے اپنے ساتھ لاہور لائے.ترجمہ اور حواشی کا باقی کام لاہور میں تکمیل کو پہنچا.اور اس کے بعد سارے مسودہ پر نظر ثانی کی گئی.مسودہ کو ایک دفعہ پہلے ٹائپ ہو چکا تھا لیکن نظر ثانی کے بعد پھر ٹائپ کرایا گیا اور ۱۹۱۶ء میں یہ طباعت کے لئے بالکل مکمل ہو گیا.BA مولوی محمد علی صاحب نے ترجمہ کی تکمیل پر کتا ہیں تو واپس نہ کیں البتہ اس مرحلہ پر جب کہ مسودہ میں کافی رد و بدل کیا جا چکا تھا انہوں نے قادیان لکھا کہ میں نے ترجمہ مکمل کر لیا ہے اس کی طباعت کے نصف اخراجات اگر دے دئے جائیں تو اس کی آدھی کا پیاں آپ کو دے دی جائیں گی.مگر جب مولوی محمد علی صاحب اس میں اپنی ذاتی رائے اور اقتضاء کے مطابق ترمیم و تنسیخ کر چکے تھے تو اس کو جماعتی سطح پر شائع کرنے کا مطالبہ ہی مضحکہ خیز تھا اس لئے اسے رد کر دیا گیا.قصہ کو تاہ یہ مسودہ طباعت کے لئے مولوی صدر الدین صاحب کے پاس ود کنگ (انگلستان) بھیج دیا گیا.متن کی کتابت لاہور میں ہوئی اور بلاک ولایت ہی میں بنے اور غالبا ۱۹۱۸ ء کے ابتداء میں اس کا پہلا ایڈیشن یہاں پہنچا.اور ہا تھوں ہاتھ بکا.اور مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا.اور یہی توقع تھی کیونکہ جس غیر احمدی پبلک سے اس کی اشاعت کے لئے چندہ وصول کیا گیا تھا اس کے ذوق و مزاج کے مطابق اس میں رد و بدل ہو چکا تھا اور ترجمہ کرنے والے مسلمانوں میں سے ایک عمدہ انگریزی دان تھے.اور دوسری طرف کسی مسلمان عالم کا انگریزی ترجمہ ان کے پاس سرے سے موجود ہی نہیں تھا.۱۹۱۸ء میں یہ ترجمہ شائع ہوا اور مولوی محمد علی صاحب کو ۱۹۱۹ء سے انجمن اشاعت اسلام لاہور سے اس کا حق تصنیف وصول ہونا شروع ہو گیا.مئی ۱۹۲۵ء میں خواجہ صاحب کی تجویز پر ان کے حق تصنیف کی شرح دگنی کر دی گئی.HD اس پر خود ان کے ساتھیوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں.۱۹۳۷ء میں مولانا غلام حسن خان صاحب نے (جو اس وقت انجمن اشاعت اسلام کے سرگرم ممبرادر چوٹی کے لیڈر تھے) اعتراضات سے بھرا ہوا ایک لمبا خط لکھا کہ "مولوی صاحب کا انگریزی ترجمتہ القرآن جو انہوں نے بطور اجیر انجمن سے اجرت لے کر کیا ہے وہ چند آدمیوں نے باضابطہ مولوی صاحب کو تملیک کر دیا ہے.جو کسی طرح جائز نہ تھا.مولوی صاحب کا اس کو لے لینا تقویٰ کے خلاف تھا.

Page 322

تاریخ احمدیت جلد ۳ 293 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک اس کے بعد اگرچہ مولانا غلام حسن خاں تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی بیعت کر کے مبایعین میں شامل ہو گئے.مگر بات معقول تھی.اس لئے ان کے ساتھی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ مولفان "مجاہد کبیر " کا کہنا ہے.افسوس...اس سیدھے سارے معاملہ کو مولانا محمد علی صاحب کے خلاف باتیں بنانے کے لئے ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا گیا.اور در پردہ پروپیگنڈا اور مسلسل چہ میگوئیاں کی گئیں اور اس بات کو ایک ایسا رنگ دیا جاتا رہا کہ خدا جانے مولانا محمد علی صاحب انجمن سے کیا کیا نا جائز طور پر لے کر کھا گئے"." یہ مخالفت اندر ہی اندر چل رہی تھی کہ ۱۹۵۱ء میں مولوی صاحب نے انجمن کے جنرل سیکرٹری سے گٹھ جوڑ کر کے در پردہ ایک ہولی قرآن ٹرسٹ قائم کر لیا.جس میں اپنے تئیں حنفی المذہب " قرار دیا.بورڈ آف ٹرسٹیز میں اپنے علاوہ اپنی اہلیہ (مر النساء بیگم صاحبہ) اپنے برادر نسبتی (مسٹر نصیر احمد فاروقی یکے از مولفان مجاہد کبیر) اپنے ایک فرزند ( محمد احمد صاحب ایم.اے یکے از مولفان مجاہد کبیر) ایک بھتیجا (میاں رحیم بخش صاحب) اور ایک عزیز ( فضل احمد صاحب پسر جناب میاں محمد صاحب پریمیر فلور مل لائل پور) کو شامل کیا.ٹرسٹ کی رجسٹری کے بعد جب اصل کار روائی منظر عام پر آئی تو ان کے رفقاء میں سخت غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی چنانچہ ان کی بیگم صاحبہ کا بیان ہے." مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا اور طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے یہاں تک بکو اس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن HD کا مال غضب کر لیا ہے".ES خلاصہ یہ کہ جماعت احمدیہ کے مخصوص علم کلام اور نقطہ نگاہ سے قوم جس ترجمتہ القرآن کی مدت سے امیدیں لگائی بیٹھی تھی اور جس کے لئے اس کا ہزاروں روپیہ صرف ہواوہ مولوی محمد علی صاحب شائع نہ کر سکے.اور خدا نے اس کی توفیق خلافت ثانیہ کے عہد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب خان بهادر ابو الهاشم خان صاحب اور ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو دی.کہ ان کی مجموعی کوششوں سے ایک مکمل اور مستند ترجمہ قرآن مجید انگریزی شائع ہوا اور خلافت ثانیہ میں نہ صرف انگریزی ترجمہ ہی مکمل رنگ میں اشاعت پذیر ہوا.بلکہ سواحیلی ڈچ اور جرمن وغیرہ زبانوں میں بھی شائع ہوئے علاوہ ازیں روی، فرانسیسی ، اطالوی ، پرتگالی اور ہسپانوی زبانوں میں تراجم کے مسودات بھی مکمل ہو چکے ہیں.

Page 323

تاریخ احمدیت - جلد ۳ مباحثه رامپور 294 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے مکین خلافت کے نشان کی.خان صاحب ذو الفقار علی خان صاحب نے (جو ریاست رام پور میں ایک معزز عہدہ پر ممتاز تھے ) حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں خط لکھا کہ نواب صاحب رام پور احمد ی اور غیر احمدی علماء کا مباحثہ کرا کے سلسلہ کی حقانیت معلوم کرنا چاہتے ہیں چونکہ مباحثہ کی خواہش ایک والی ریاست کی طرف سے تھی.اور یہ خیال تھا کہ عوام الناس کا اس میں کچھ دخل نہ ہو گا اور گفتگو متانت و شائستگی سے ہو گی.لہذا حضرت خلیفتہ المسیح نے اس کی اجازت دے دی.چنانچہ یہ مباحثہ ۱۵/ جون سے ۱۹ جون ۱۹۰۹ء تک جاری رہا.جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب حضرت مولوی سرور شاہ صاحب مولوی مبارک علی صاحب.حضرت حافظ روشن علی صاحب مولوی محمد علی صاحب.خواجہ کمال الدین صاحب.حضرت میر قاسم علی صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی شامل ہوئے اہم شرائط ۱۷۳ مناظرہ یہ قرار پائیں.(۱) مباحثہ نواب صاحب کی موجودگی میں ہو گا.(۲) مباحثہ تحریری ہو گا.اور پر چے فریقین کے میر مجلسوں کے دستخطوں سے مصدق ہو کر فریقین کو دئے جائیں گے.(۳) استدلال صرف قرآن کریم اور سنت صحیحہ مثبتہ سے علی منہاج النبوۃ ہو گا.مولوی ثناء اللہ صاحب فریق مخالف کے نمائندہ تھے اور احمدیوں کی طرف سے میر قاسم علی صاحب اور حضرت سید محمد احسن صاحب بطور مناظر پیش ہوئے.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح کی وفات کے دلائل دیئے نیز ثابت کیا کہ خاتم النبین کا لفظ محل مدح پر آیا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی بعثت کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو کوئی ایسا نیا حکم لائے جو کتاب اللہ اور سنت صحیحہ میں نہ ہو یا نعوذ باللہ کسی حکم منصوص کو منسوخ کر دے کیونکہ آنحضرت کمالات نبوت کے انتہائی نقطہ پر ہیں جہاں تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہیں.اسی طرح انہوں نے اپنی بحث میں بتایا حضرت مسیح موعود کا دعوئی برحق ہے.اور آپ کے الهامات منجانب اللہ ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہر علم سے بعض اوقات اجتمادی غلطی واقع ہو سکتی ہے.اور آپ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں.افسوس نواب صاحب رام پور جو اس مباحثہ کے داعی و محرک تھے پہلے دن ہی غیر جانبدار نہ رہے اور دوسرے دن تو کھلم کھلا مولوی ثناء اللہ صاحب کی پشت پناہی کرنے لگے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے ۲۰/ جون ۱۹۰۹ء کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا.” ہماری بحث کی طرف قطعاً توجہ نہیں کرتے اور نہ اسے سنتے ہیں پہلے دن بھی اور کل بھی جب ہماری تحریر ہوتی ہے تو لوگوں سے باتوں میں مشغول رہتے ہیں اور جب ہمیں یا ہمارے امام کو برا کہا جاتا ہے تو اس سے نواب صاحب کو رنج نہیں پہنچتا.بلکہ جس طرح فریق مخالف استہزاء کر کے خوش ہوتا ہے.اسی طرح نواب صاحب بھی

Page 324

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 295 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک خوش ہوتے ہیں.اور اپنی خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں.پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر شروع ہوتی ہے تو بجلی کے پنکھے بھی بند کر دئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے شور سے آواز اچھی طرح سنائی نہیں دیتی.اب گویا یہ حالت ہے کہ ہماری باتوں کو نواب صاحب سننے کی پروا نہیں کرتے.اور نہ اس کی طرف کچھ توجہ فرماتے ہیں اور ان کی ساری ہمدردی فریق مخالف کے ساتھ ہے.اور بالا خر جب وہ فریق مخالف کے وکیل ہو گئے تو ہمیں یہ مصیبت پیش آئی ہے کہ ہم اپنی باتوں کو کس طرح پیش کر سکیں اور امن کی حالت گویا خطرہ کی حالت میں بدل گئی ہے اور تحریر مصدقہ ہوتی نہیں جس سے پبلک کو بھی کچھ فائدہ ہو سکے".جماعت کو ذمہ داریوں کے احساس کی طرف توجہ دلانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے دل میں یہ خیال بہت دفعہ پیدا ہوا کہ حضور کے وجود باجود کے دنیا سے اٹھ جانے سے جہاں اور بہت سے تغیرات دنیا میں ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں وہاں ہر ایک احمدی کی کوششوں اور جدوجہد میں بھی ایک نمایاں تبدیلی ہونی چاہئے.چنانچہ جب یہ خیال بہت زور سے آپ کے دل میں اٹھا تو آپ نے تبلیغ اسلام کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا جو شعید الاذہان میں شائع ہوا.اس ولولہ انگیز مضمون کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے." آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے ہم پر بعض نئی ذمہ داریاں پڑی ہیں اور وہ کام جس کو وہ خدا کا برگزیدہ نبی کر تا تھا اب ہمارے سپرد ہوا ہے جس سے اب یہ بات ضروری اور لازمی ہو گئی ہے کہ ہم بھی اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کریں اور ایک خاص جوش ہمارے دلوں میں پیدا ہو اور ہماری ہر قسم کی سستی اور کاہلی کا فور ہو جائے اور ہمارے دل محبت الہی کی بیخود کرنے والی شراب سے لبریز ہوں.غرض کہ ہم میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ اس برگزیدہ کی موت سے جو کمی ہم میں پیدا ہو گئی ہے.اسے خداوند تعالٰی اپنے فضل و کرم سے پورا کر دے".صاحبزادگان کا سفر کشمیر یکم جولائی ۱۹۰۹ء سے ۲/ اگست ۱۹۰۹ء تک حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کشمیر میں قیام پذیر رہے A آپ کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مرزا شریف احمد صاحب.حضرت میر محمد اسحق صاحب کے علاوہ حضرت مولانا سرور شاہ صاحب بھی تھے.جو بطور اتالیق گئے تھے.ان دنوں وہاں موٹریں نہیں ہوتی تھیں.اور یہ سفریکوں میں طے ہوا تھا.بعض جگہوں پر گھوڑے کی سواری کی گئی.کشمیر میں آپ نے تبلیغ کے ساتھ ساتھ روحانی مجاہدات کا خاص خیال رکھا.

Page 325

تاریخ احمدیت جلد ۳ 296 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک حضرت خلیفہ اول کے بزرگوں کی خاندانی مسجد ایک ایسے محلہ میں واقع ہے جہاں مسجد نور بھیرہ احد کی اور غیر احمدی دونوں رہتے ہیں ابتداء بہت کو شش ہوئی کہ دونوں صلح سے رہیں مگر ایک تھانیدار کے اکسانے پر کشمکش شروع ہو گئی اور فریقین کے مچلکے ہو گئے اور گو فساد تک نوبت نہ پہنچی مگر حضرت خلیفہ اول کو یقین ہو گیا کہ فساد رفع نہیں ہو گا جس پر آپ نے اپنا ایک سہ منزلہ مکان جو مسجد کے متصل تھا ہبہ کر کے مسجد بنوادی.جواب مسجد نور کے نام سے موسوم ہے اس مسجد کا غربی کمرہ جو اب تک اپنی اصل صورت میں ہے آپ کا مقام ولادت ہے یہ مسجد دوسری منزل پر واقع ہے.اور نچلے حصہ کی کوٹھریاں بدستور موجود ہیں.حضرت خلیفہ اول کے اپنی حویلی کے ہبہ کر کے مسجد بنوانے پر ایک غیر احمدی مولوی نے بذریعہ تحریر اعتراض کیا جس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا:.مسجد تو آپ لوگوں اور فتووں نے ہم سے لے لی.اب ہم اپنا مکان مسجد بنادیں تو ہم شریر.آہ یہ اسلام ہے.مولوی صاحب! اتنا بڑا سہ منزلہ عظیم الشان باپ دادا کا مکان کوئی ضائع کرتا ہے.آپ IAT |IAL] چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت متفرق ہو جاوے.گویا اس محلہ میں ہم لوگ اللہ کا نام بھی نہ لیں ".گرلز سکول (مدرستہ البنات) مدرسه البنات کا قیام حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوا.گرلز سکول (مدرسته البنات) ممر جماعت بندی ۱۹۰۹ء سے ہوئی ابتداء میں کئی سالوں تک اس کا انتظام محترمہ مکتہ النساء صاحبہ کے ہاتھ میں زیر نگرانی ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول رہا.لیکن پھر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب افسر مدرسہ احمدیہ ان کے نگران مقرر ہوئے.ابتداء میں حضرت خلیفہ اول کی وقف شدہ زمین سے پانچ سو روپیہ کی رقم سے اس درسگاہ کے لئے ایک مکان خرید ا گیا.1919ء میں گر لز سکول مبارک منزل متصل مدرسہ احمدیہ میں تھا اس کے بعد قادیان کی آبادی بڑھی تو محلہ دار العلوم میں اس کے لئے ایک وسیع عمارت میسر آگئی اور گرلز سکول وہاں منتقل کر دیا گیا.دیا نند مت کھنڈن سبھادہلی دہلی اور اس کے ماحول میں آریہ سماج نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبر دست فتنہ برپا کر رکھا تھا.جماعت احمد یہ دہلی کے IAT نامور ممبر حضرت میر قاسم علی صاحب نے ملازمت چھوڑ کر ان دشمنان اسلام کے تحریری و تقریری دفاع کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور دہلی میں دیا نند مت کھنڈن سبھا کے نام سے ایک انجمن قائم کی.حضرت خلیفہ اول نے اپنی جیب خاص سے اس انجمن کے لئے ایک سورو پسیہ عطا فرمایا.اس انجمن نے آریوں کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بڑا بھاری کام کیا اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے.IAO

Page 326

297 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک اخبار "نور" کا اجراء شیخ محمد یوسف صاحب سابق سورن سنگھ) نے اکتوبر ۱۹۰۹ء سے ایک نیا اخبار "نور" کے نام سے جاری کیا جس کا مشن سکھوں میں اسلام کی تبلیغ تھا یہ اخبار تقسیم ہند تک بخیرو خوبی جاری رہا.اس کے بعد شیخ صاحب نے پاکستان میں آکر گوجرانوالہ سے اسے دوبارہ نکالنا شروع کیا مگر افسوس چند پرچے ہی شائع ہوئے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا.سکھوں میں تبلیغ اسلام کی کوئی تاریخ شیخ محمد یوسف صاحب کے جاری کردہ اخبار نور اور ان کے شائع کردہ لٹریچر کے بغیر مکمل نہیں قرار دی جا سکتی.اخبار نور پہلا نیا اخبار ہے جو خلافت اولیٰ کے عہد ۱۱۸۵ مبارک میں جاری ہوا.ای سال وسط نومبر میں دوسرا مشہور مباحثہ منصوری میں ہوا.حضرت خلیفتہ مباحثہ منصوری المسیح اول کے حکم سے قادیان سے جو وفد گیا اس میں مولوی محمد علی صاحب.حضرت حافظ روشن علی صاحب.شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب شامل تھے.دہلی سے حضرت میر قاسم علی صاحب اور لاہور سے مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کو پہنچنے کا ارشاد ملا.روانگی کے وقت حضرت خلیفتہ المسیح اول نے مولوی محمد علی صاحب کو امیر قافلہ مقرر فرمایا اور دوسروں کو ان کی اطاعت کی تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ پر توکل کرد.لوگوں کے ساتھ ان کی سمجھ کے مطابق بات کرو.اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی نگہداشت کرد و اثبتوا واذكروا الله کثیر ا پر عمل کرو یعنی ثابت قدمی اختیار کرو اور اللہ تعالی کو بہت یاد کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو اور تمہارے دل کے گوشہ میں سوائے عظمت الہی کے کچھ نہ ہو.اس مباحثہ کے لئے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلانے کے لئے تار پر تار دئے گئے بلکہ کرایہ کی رقم بھی بذریعہ تار بھجوائی گئی مگروہ نہ آئے.اس لئے مولوی محمد بیٹی صاحب بهاری مدرس مدرسہ مظاہر العلوم پیش ہوئے اور احمدیوں کی طرف سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے مناظرہ کیا.اس مباحثہ کے دو موضوع تھے (1) حیات و وفات مسیح (۲) دعاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام.خدا کے فضل سے دونوں موضوع میں احمدی مناظر کو کامیابی نصیب ہوئی.۱۹۰۹ء کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انجمن ارشاد کا قیام انجمن حمید الا زبان کے بعد دوسری انجمن ارشاد " بنائی جس کا مقصد دشمنان اسلام کے اعتراضوں کار دو ابطال تھا."

Page 327

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 298 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ۱۵/ نومبر ۱۹۰۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے ہوتے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مدظلہ العالی کی ولادت IAA صاحب کی ولادت با سعادت ہوئی اللہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو آپ کی ولادت کی پہلے سے عظیم الشان بشارت مل چکی تھی چنانچہ آپ نے ۲۶/ ستمبر 1909 ء کو ایک خط میں لکھا " مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسالٹر کا دوں گا.جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہو گا..." Qadian اسلام علیکم...مجمع پایی حد ارتقائے نے خبر دی ہے کہ تیر تجھے ایک ایسا پڑھی در کا جو دین کا ناظر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہوگیا...و السلام فانتشار مرزا محمود احمد جلسہ سالانہ کا پروگرام گزشتہ سال کے تلخ نتائج کی وجہ سے امسال جلسہ ۱۹۰۹ء کے پروگرام کا کام ایک سب کمیٹی کے سپرد کیا گیا جس کے سیکرٹری حضرت صاحبزادہ صاحب اور ممبر مولوی صدر الدین صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب تھے اس کمیٹی کا تقرر ۲ / نومبر ۱۹۰۹ء کو ہوا.ایک پادری میکملن نے مشن کالج لاہور کے احاطہ میں مسئلہ کفارہ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا نجات جس کے جواب میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مضمون

Page 328

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 299 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک "نجات" کے عنوان سے لکھا جو پہلے رسالہ " تشعیذ الاذہان " میں اور پھر مستقل رسالہ کی شکل میں شائع ہوا.اس مضمون میں آپ نے عیسائیوں کے سامنے چار فیصلہ کن سوال بھی رکھے.جس سے عیسائی دنیا کبھی عہدہ بر آنہیں ہو سکتی.ا ثابت کیا جائے کہ خدا تین ہیں جب تک خدا تین ثابت نہ ہوں نہ کفارہ رہتا ہے نہ نجات تورات و خروج ب ۸ آیت ۱۸.تو صرف خدائے واحد لا شریک کا تصور پیش کرتی ہے؟ ۲.اگر خدا تین ہیں تو یسوع ہی کیونکر تیسرا خدا ہے کیونکہ بیٹے کا لفظ بہتوں کے لئے بولا گیا ؟ متی ب ۲۶ آیت ۳۹ سے ثابت ہے کہ مسیح صلیب پر مرنا نہ چاہتا تھا.پس خدا ظالم ٹھرتا ہے.۴.یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ مسیح نے واقعی صلیب پر جان دے دی تھی ؟ آخر ۱۹۰۹ء میں عیسائیوں نے فورمین کالج مسیحی لیکچروں کے جواب میں اسلامی لیکچر میں تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا.جس کے آخر میں چند منٹ مسلمانوں کو بھی سوال کے لئے دئے جاتے تھے.مسلمانان لاہور کا منشایہ تھا کہ مسلمان اول تو ان لیکچروں کو نہ سنیں دوم اسی وقت ان کے مقابلہ میں لیکچر دئیے جائیں.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے ۵/ نومبر ۱۹۰۹ء کو اعلان فرمایا کہ یہ دونوں طریق درست نہیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے عیسائی اپنے لیکچر مکمل کر لیں اس کے بعد لاہور میں اسلامی لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا.||141 چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۹ دسمبر ۱۹۰۹ء تا یکم جنوری ۱۹۱۰ء چار روز احمد یہ بللہ نگس میں جوابی لیکچر ہوئے.دوسرے مقررین کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی نجات کے موضوع پر مدلل تقریر فرمائی.اس موقع پر عیسائیوں نے حافظ احمد مسیح صاحب اور بریلی کے جو الا سنگھ صاحب کو بلوالیا اور دوبارہ لیکچروں کا سلسلہ شروع کر دیا.مگر اس میں ان کو پوری ناکامی ہوئی اور لیکچر بند کر دینے پڑے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی ۱۹۰۹ء کا سال اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ہے کہ اس میں سلسلہ کے دو مشہور معاند مولوی ۱۱۹۴ محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی شاء اللہ سے چپقلش اور تکفیر سے رجوع صاحب جو جماعت کو تباہ کرنے کا دعوئی لے کر اٹھے تھے.آپس میں الجھ پڑے.اور ملک کے دوسرے مشہور علماء بھی رفتہ رفتہ اس جنگ میں کو دپڑے اور فریقین نے ایک دوسرے کو کافر کہنے پر بس نہ کر کے مرصع گالیاں دیں.چنانچہ مولوی ثناء اللہ

Page 329

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 300 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک صاحب نے اہلحدیث میں اپنے روحانی باپ" مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے متعلق جھوٹا.بکواسی.بیہودہ گو تک کہہ ڈالا.نیز لکھا.بٹالوی کا رہبر شیطان لعین ہے.اس کے مقابل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو ” کاذب گیڈر " مفتری وغیرہ خطاب سے نوازا.اور بڑے لمبے لمبے مضامین " اشاعۃ السنہ" میں ان کے خلاف لکھے غرضکہ ایک طوفان بے تمیزی تھا جو بلند ہوا.اور یہ سب کچھ اس شوخی اور بے باکی کی پاداش میں تھا.جو ان خدا نا ترس علماء نے حضرت 10 مسیح موعود علیہ السلام کے بالمقابل دکھائی تھی.اس معرکہ آرائی کے دوران مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی طرف بھی رجوع کر لیا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی.هذا الرجل يو من بایمانی قبل موته - یہ شخص اپنی موت سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر IBI لے گا.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے 1909ء میں اس سلسلہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ یہ اعلان کیا کہ آنے والا مسیح موعود آسمانی نشانات و برکات سے اسلام کو غالب کرے گا.ان کی اصل عبارت یہ ہے:.112 IA " (امام مهدی) بھی حضرت مسیح موعود کی طرح اپنے مشن میں سیفی جنگ و تلوار و تفنگ سے کام نہ لیں گے بلکہ صرف آسمانی نشانات اور روحانی برکات سے دنیا میں دین اسلام کی اشاعت کریں گے".اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن اور آپ کا دعویٰ تھا.اس حیرت انگیز اعلان کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ پہلے اپنے ایک لڑکے ابو اسحق کو پھر عبد الباسط کو قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کرا دیا.جس پر اہلحدیث حلقے میں بہت شور اٹھا مگر مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ”میرے پانچ لڑکے یکے بعد دیگرے علم عربی دینی کے پڑھنے میں کو تاہی اور آخر صاف انکار اور مخالفت احکام شریعت پر اصرار کرنے کے سبب میری اطاعت سے خارج اور عاق ہو گئے.ان میں سے بڑا ابو اسحق نانی اب تک آوارہ پھرتا ہے اور اس کا پتہ نہیں.دوسرا چھوٹا عبد الباسط قابو آیا.تو منشی یعقوب علی ایڈیٹر ا حکام نے اس کا حال سن کر ہمدردی کا اظہار کیا.اور اپنے سکول کے انتظام کی تعریف کر کے کہا کہ ان کو چند روز کے لئے ہمارے سپرد کر دیں.اس سکول کے انتظام و تعلیم کی تعریف میں نے خار جا بھی سنی یعنی سرکاری ملازموں نے بھی کی.یہ سن کر چھوٹے لڑکے کو ان کے سپرد کر دیا.میں نے ان سے یہ شرط کر لی ہے کہ احمدی عقائد کی ان کو تعلیم نہ دیں.جس کو انہوں نے قبول کر لیا.ساتویں جماعت کی تعلیم مذہبی میں بانی مذہب کا لیکچر مہوتسو اور حمامتہ البشری داخل تھا.میرے کہنے سے انہوں نے اس لڑکے کی تعلیم سے اس کو بھی نکال دیا.

Page 330

تاریخ احمدیت جلد ۳ 301 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک ارکان سکول اور بورڈنگ کے حسن تدبیر و نگرانی و لطف سے لڑکے کا دل وہاں تعلیم پر اچھی طرح لگ 144- گیا.اور اس کی آوارگی جاتی رہی.اس کے بعد تیسرا قدم یہ اٹھایا کہ انہوں نے گوجرانوالہ میں لالہ دیو کی نندن کی عدالت میں اپنے فتویٰ کفر سے رجوع کرتے ہوئے) بیان دیا.” ایک فرقہ احمد یہ بھی اب تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعوئی مسیحیت اور مہدویت کا کیا ہے.یہ فرقہ بھی قرآن و حدیث کو یکساں مانتا ہے.کسی فرقہ کو جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ہمارا فرقہ مطلقا کافر نہیں ماننا".چنانچہ اس بیان پر منصف نے اپنے فیصلہ میں صافی لکھا.”مولوی محمد حسین صاحب گواه مدعیه اسلام کے حنفی ہیں اور احمدی فرقہ والوں کے نزدیک وہ کافر ہیں.جیسے کہ انہوں نے اپنے بیان میں خود تحریر کرایا ہے.اور ایسے ہی مولوی عبدالحکیم صاحب گواہ مدعیہ کے نزدیک احمدی فرقہ کے لوگ کافر ہیں جو مرزا غلام احمد صاحب کے پیرو ہیں.حالانکہ مولوی محمد حسین گواہ کے نزدیک وہ کافر نہیں.پس اس سے ظاہر ہوا کہ ایک فرقہ والا دوسرے فرقہ والے کو کافر کہتا چلا آیا ہے.دراصل کوئی کافر نہیں ہے جیسے کہ مولوی محمد حسین گواہ کا بیان ہے...اسلام کا اصل مقصود دنیا میں توحید پھیلاتا ہے اور دنیا سے شرک کو مٹانا ہے پس جو شخص ایک خدا کو مانتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور ایک خدا کی عبادت کرتا ہے وہ قرآن مجید کی رو سے مسلمان ہے خدا اور رسول اسے مسلمان کہتے ہیں.اور ایسا شخص اسلام سے خارج نہیں ہو سکتا".ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے سوالات کے مشہور مسلمان فلسفی شاعر اور قانون دان ڈاکٹر سر محمد اقبال (۱۸۷ - ۱۹۳۸) نے ۱۹۰۹ء میں جوابات حضرت خلیفہ اول کی طرف سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں مندرجہ ذیل سوالات بغرض جواب بھجوائے :- ال کیا کوئی غیر مسلم فرمانروا اپنی مسلمان رعایا کے لئے وضع قانون کر سکتا ہے ؟ ۲.کیا کوئی غیر مسلم حج از روئے قانون اسلامی مسلمانوں کے مقدمات فیصل کر سکتا ہے ؟ کیا تاریخ اسلام میں کسی ایسے غیر مسلم حج کی نظیر موجود ہے جو بحیثیت عمدہ مسلمانوں کے مقدمات فیصل کرتا ہو؟.کیا مسلمان ہونے کے لئے شرع محمدی کی پابندی لازمی ہے.اگر ہے تو ان مسلمان قوموں کی نسبت کیا حکم ہے جن کے معاملات زیادہ تر رواج سے فیصل پاتے ہیں اور جو خود اپنے آپ کو رواج کا پابند ظاہر کرتی ہیں.

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 302 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک ۴.مسلمانوں کا ضابطہ تعزیری قریب قریبا بالکل معطل ہے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ اسلامی ممالک میں بھی کیا اس ضابطہ کی پابندی ضروری ہے اگر ہے تو جو مسلمان اس کے پابند نہیں خواہ اس وجہ سے کہ وہ کسی غیر مسلم بادشاہ کے محکوم ہیں جو اس ضابطہ کا پابند نہیں ہے یا کسی اور وجہ سے ان کے اسلام کی نسبت کیا حکم ہے؟ یہ سوالات عصر حاضر کے نہایت اہم سوالات تھے جن کے مفصل جوابات پر حضرت خلیفہ اول جیسی ماہر اسلامیات شخصیت ہی روشنی ڈال سکتی تھی.چنانچہ آپ نے ڈاکٹر صاحب کے سوالات کے اصولی جوابات قرآنی آیات پیش کر کے لکھ بھیجے جن کا مخص یہ تھا.شخصی قرآن مجید گو مکمل ضابطہ حیات ہے مگر وہ مذاہب مختلفہ کو باہمہ اختلافات تباہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ قائم رکھنا چاہتا ہے.قانون اسلامی کے اصل الاصول قرآن مجید میں موجود ہیں.مگر ان کی تفصیل کو اطاعت اولی الامر کے نیچے رکھا ہے.اور اسی پر صحابہ سے لے کر آج تک اسلامیوں کا عمل ہے ہر مسلمان کے لئے اطاعت اللہ اطاعت الرسول اور اطاعت اولی الامر ضروری ہیں.اگر اولی الامر صریح مخالفت فرمان الہی اور فرمان نبوی کرے تو بقدر برداشت مسلمان اپنی مو و ذاتی معاملات میں اولی الامر کا حکم نہ مانے یا اس کا ملک چھوڑے دے اولی الامر میں حکام و سلطان اول ہیں اور علماء و حکام دوم درجہ پر ہیں.تعزیری احکام کے ہم ذمہ دار نہیں ہو سکتے.قرآن شریف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال موجود ہے کہ آپ سلطنت فرعون کے ماتحت تھے.اور ملکی قانون کی خلاف ورزی نہ کر سکتے تھے.غیر مسلم حج جب فرمانروا کی طرف سے ہے.تو حقیقتہ فرمانروا ہی جج ہے.اور اگر فرمانروا کی طرف سے نہیں بلکہ پنچائتی طور پر ہے تو بھی جائز ہے چنانچہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک موقعہ پر خود فرعون مصر کو اپنے معالمہ میں منصف مقرر فرمایا.شرع محمدی نام ہے قرآن.احکام نبوی.خلفائے راشدین صحابہ ائمہ دین (امام ابو حنیفہ.ابو یوسف - محمد - زفر - حسن) کے فیصلہ پر عملدرآمد کا.فتاوی عالمگیری بلکہ ہدایہ کے مقدمات دیوانی و فوجداری اور قوانین میں قرآن مجید و حدیث کے ہزارویں حصہ کا ذکر بھی نہیں آتا.میونسپلٹی اور سیاست مدن کے قواعد کی چھان بین کی جائے تو غالبیا سارے کا سارا عرف پر مبنی ہے اور فوجی قوانین کی کوئی خاص کتاب میرے زیر مطالعہ آج تک نہیں آئی.اور اگر کوئی کتاب ایسی ہو بھی تو اس میں قرآن و حدیث کا ذکر بطور تبرک ہی آتا ہے.اور ائمہ دین کا ذکر بھی شاید ہی اس میں ملتا ہے.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ان امور کی آزادی میں وقتی ضرورت عرف

Page 332

تاریخ احمدیت جلد ۳ 303 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے تمکین خلافت کے نشان تک سے کام لیا گیا ہے.قرآنی نظریہ کے مطابق ایمان بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے.پس جو لوگ صرف لا اله الا الله کہتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں وہ ایک حد تک مسلمان ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ پابند نماز بھی ہیں وہ پہلوں سے بڑھ کر مسلمان ہیں اور جو ز کوۃ روزہ حج کو بھی ادا کرتے ہیں وہ اور زیادہ پختہ مسلمان ہیں.علیٰ ہذا القیاس.سب مساوی الایمان نہیں اور ہر گز نہیں.تمکین خلافت کے نشان کا ظہور ایڈیٹر حکم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اس سال کے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا." سال کے شروع میں خلافت حقہ کے اختیارات کے متعلق ایک بحث اٹھی جس میں صدرانجمن اور خلافت کے تعلقات اور اختیارات پر چند سوالات کئے گئے تھے.یہ خطرناک فتنہ اور ابتلا تھا.جماعت کی تمحیص کے لئے سلسلہ کے درد آشنا دل پہلو میں رکھنے والے اس ابتلاء کو ایک طرف دیکھتے تھے اور دشمنوں کی پیشگوئیاں اور تک بازیاں دوسری طرف جو یہ کہتے تھے کہ ایک سال ہی کے اندر یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا اور خیال کیا جاتا تھا کہ اس ابتلا پر خاک بدہن دشمن سلسلہ کے دو فریق ہو جائیں گے مگر سلسلہ کی عظمت اور شوکت اور بھی بڑھ گئی جب اللہ تعالٰی نے محض اپنے فضل سے تمکین خلافت کی پیشگوئی کو پورا کر دیا.جیسا کہ آیت استخلاف میں درج ہے کہ خوف کو امن سے بدل دیں گے اس سلطنت پر امن میں سلسلہ حقہ کی خلافت پر کوئی ایسا زمانہ نہیں آسکتا تھا.جو خوف و خطر کا اس رنگ میں ہو جو صدیقی خلافت پر آیا.اس کے لئے یہی ایک خطرناک زمانہ تھا کہ خدانخواستہ شیرازہ قوم میں کوئی جنبش پیدا ہو.خوف آیا اور سخت آیا.مگر اللہ تعالٰی نے اس کو امن سے بدل دیا جیسا کہ اس کا وعدہ تھا.چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک تیارہ شدہ قوم حضرت مسیح موعود و مغفور نے چھوڑی تھی اور اس کی سرپرستی اللہ تعالیٰ نے ایسے ہاتھ کے ذریعہ کی جو حضرت مغفور سے صدیقی تعلق رکھتا تھا.اس لئے سب نے اس خطرناک موقعہ پر اپنی اطاعت اور وفاداری کا ثبوت دیا اور خلافت حقہ کو (جیسا کہ پہلے سے اپنے لئے مطاع اور امام یقین کرتے تھے ) اپنا مطاع اور امام تسلیم کیا.اس ابتلا کے وقت کسی نے حضرت امام سے پوچھا کہ آپ اس کا نتیجہ کیا تنزل سمجھتے ہیں یا ترقی؟ فرمایا یہ ترقی کا موجب ہے چنانچہ جماعت کا ایمان بڑھا.جیسا کہ حق کے مقابلہ کے لئے باطل حد اندازی کرتا ہے.پھر بھی ایک دو مرتبہ اس باطل نے سر نکالنا چاہا.مگر بالا خر خدا تعالیٰ نے پوری شوکت اور قوت کے ساتھ تمکین خلافت کا نشان بھی ہم سب کو دکھا دیا.غرض صدیقی خلافت کا زبر دست نشان بھی اسی سال میں پورا ہوا".

Page 333

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 304 مدرسہ احمدیہ کے سنگ بنیاد سے مکین خلافت کے نشان تک ۱۹۰۹ء کے متفرق واقعات ا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بد رنے ایک لمبا دورہ کیا.جس میں انہوں نے سلسلہ کی تبلیغ بھی کی.اور بہت جگہ نئی انجمنیں قائم کیں.اور ان کے مواعظ حسنہ سے متاثر ہو کر کئی لوگ احمد ہی ہوئے._r کلکتہ میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوا (انگریزی) مضمون خواجہ کمال الدین صاحب نے پڑھا جو بہت مقبول ہوا.کتاب - خواجہ کمال الدین صاحب نے نظام حیدر آباد دکن تک سلسلہ کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک " صحیحه آصفیه " شائع کی جس میں آیت ما كنا معذبين حتى نبعث رسولا کے مطابق حضور نظام کو بڑے عمدہ پیرایہ میں متنبہ کیا کہ اگر کوئی خدا کا فرستادہ برپا نہیں ہوا تو حیدر آباد کا سیلاب اور دو سرے غذاب کیوں آرہے ہیں ؟ - مسٹر الیگزینڈر رسل دیب (امریکہ) کی تحریک پر پہلی مرتبہ امریکہ و یورپ میں کوئی مبلغ بھیجوانے کا سوال صدرانجمن احمدیہ میں زیر غور آیا.- سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے قادیان میں ” سادہ سنگت " کے نام سے ایک انجمن قائم ہوئی.جس نے گورمکھی میں ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ شائع کئے.- خواجہ کمال الدین صاحب نے شملہ میں لیکچر دئے.جن کی لوگوں نے بہت تعریف کی.اس کے علاوہ متفرق مقامات پر آپ نے دید مقدس اور قرآن کریم پر لیکچر دئے..دہلی سے میر قاسم علی صاحب کے قلم سے شدھی کی اشدھی اور چند اور رسائل آریوں کی تردید میں شائع ہوئے.- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ۲۴ سے ۲۸ پارہ تک کا ترجمہ قرآن شائع کیا.

Page 334

ریخ احمدیت.جلد ۳ 305 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر حواشی دو سراباب (فصل دوم) ۹۸ سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیه ۱۹۰۸ ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵ - د ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ریویو آف ریلیجز، اردو مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۱۳۵.بدر ۱۸/ مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۳ کالم ۲.۱۰۰ رجسٹر نمبر ۲ صدر انجمن احمدیه ۱۹۰۹ء صفحه ۳۴۱-۳۳۸ رسالہ ریویو آف ریلیجز اردو مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۱۳۳-۱۳۵- مدرسہ کے ابتدائی نصاب کے لئے ملاحظہ ہو شھید الاذہان جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۳.۴.۱۰۲ رجسٹر نمبر ۲ صد ر انجمن احمد یه ۱۹۰۹ء صفحه ۳۳۸ ۱۰۳- صدرانجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۳ صفحه ۳۵.حکیم فضل دین صاحب بیماری کی رخصت پر چلے گئے جس پر یکم جون ۱۹۰۹ء سے آپ مدرس مقرر ہوئے.۱۰۴ رجسٹر صد را انجمن احمد یہ نمبر ۳ صفحه ۱۲۷- ۲۵/ جنوری ۱۹۱۰ء سے تقرر ہوا.۱۰۲۴۱۰۵.رجسٹر صد را مجمن احمد یہ نمبر ۳ صفحہ ۱۴۷-۳۶/ مارچ ۱۹۱۰ء سے (طلبہ کو بھاشہ اور انگریزی سکھانے پر مقرر ہوئے) ۱۷.رجسٹر نمبر ۵ صد را مجمن احمدیہ صفحہ ۹۱ ۱۰ رجسٹر ۵ صد را انجمن احمدیہ صفحہ ۹۱ ١٠٩ حکیم محمد الدین صاحب مستعفی ہو گئے تھے اس لئے ان کی بجائے آپ کا تقرر ہوا.رجسٹر صد را مجمن احمد یہ نمبر صفحہ ۳۶ ۳۱۰ مارچ ۱۹۱۲ء سے مدرس ہوئے رجسٹر صد را انجمن احمد یہ نمبر صفحہ ۱۹۴ جنوری ۱۹۱۳ء سے پیش کلاس کے ٹیچر بنے.رجسر صدرانجمن احمد یہ نمبر صفحہ ۲۱۸.-۱۲ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری جب مصر میں بغرض تعلیم گئے.تو یہ ان کے قائم مقام مدرس تجویز ہوئے رجسٹر نمبرے صد را مجمن احمدیہ صفحہ ۱۱۸له رپورٹ صد را انجمن احمدیہ اکتوبر ۱۹۰۸ء تا ۳۰/ ستمبر ۱۹۰۹ء - صفحه ۳۶.۱۱۴ رجسٹر نمبر ۳ صد را انجمن احمد یه صفحه ۱۳۵ ۱۱۵ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ - اکتوبر ۱۹۰۸ ء لغایت ۳۰/ ستمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۳۶.۱۱۲.رپورٹ صد را مجمن احمدیہ.اکتوبر ۱۹۰۹ء تا ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۹.ے.رپورٹ صدرا الجمن احمدیہ.اکتوبر ۱۹۱۰ء تا ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۹-۳۰.رجسٹر نمبر ۴ صد را مجمن احمدیہ صفحہ ۱۴۵.رپورٹ صد را انجمن احمدیہ ۱۲-۱۹۱ ء صفحہ ۳۹ در پورٹ ۱۳- ۱۹۱۳ء صفحہ ۳۹ 119 رپورٹ صد را مجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۳۴۱- ۳۳۸.۱۲۰ رپورٹ صد را انجمن احمدیہ ۱۲- ۱۹۱۱ء صفحہ ۳۹ ۱۲۱.رجسٹر نمبر ۴ صد را مجمن احمد یه صفحه ۱۰۸ ۱۲۲.صدر انجمن احمدیہ کے رجسٹر نمبر ۳ صفحہ ۱۵۸ اسے معلوم ہوتا ہے.کہ حضرت خلیفہ اول کی وقف شدہ زمین سے ۵۷۹۸/۳ کی رقم مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہاؤس پر لگائے جانے کا فیصلہ ہوا.(ملاحظہ ہو فیصلہ / جون ۱۹۱۰ء) -۱۲ صد را انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ مولوی صدر الدین صاحب کے توسط سے کاغذات پیش کئے جائیں ملاحظہ ہو رجسٹر نمبر ۲ صدر انجمن احمدیہ صفحہ ۳۳۸.۱۲۴.رجسٹر نمبر ۴ صد را انجمن احمدیہ صفحہ ۲۳.

Page 335

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 306 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ۱۲۵.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۲۶.احکام جوبلی نمبر صفحہ اسے کالم.۲.۲۷.ای دوران میں آپ کی قائم مقامی میں افسر مدرسہ احمدیہ کے فرائض مولوی محمد الدین صاحب نے سرانجام دئے.رجسٹر نمبرہ صدر انجمن احمدیہ صفحه ۳۳۵ ۱۲۸- ان سفروں کی تفصیل آگے آرہی ہے.۱۲۹ سفر مصر کے دوران حضرت مولوی شیر علی صاحب افسر، رسہ بنے اور مشیر تعلیمی حضرت مولانا سرور شاہ صاحب.رجسٹر نمبر صدر انجمن احمدیہ صفحہ ۱۳۳ ۱۳۰.رجسٹر نمبرا صد را مجمن احمدیہ صفحہ ۳۳۳ ۱۳۱ شمعید الاذہان جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۴.۱۳۲.رجسٹر نمبر ۴ صد را انجمن احمدیہ صفحہ ۱۴۵ ۱۳۳ بدر ۲۲ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم ۲ ۱۳۴ الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۴ کالم ۲.۱۳۵ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ ۲۰- ۱۹۱۹ء صفحه ۵۹ ۱۳۶.رسالہ جامعہ احمدیہ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۳.عربی کالج (یعنی جامعہ احمدیہ ) کے حالات خلافت ثانیہ کی تاریخ میں آئیں گے.۱۳۷ مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی.مولوی شریف احمد صاحب امینی.مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری.۱۳۸.رپورٹ صد را انجمن احمدیه ۳۸-۱۹۴۷ء صفحه ۱۵ ۱۳۹.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد قادیان میں کس طرح مدرسہ احمدیہ کا دوبارہ اجر ا ہوا اس کی تفصیلات اگلی جلدوں میں آئیں گی.۱۴۰- بدر ۲ / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۱.۲..الحکم سے / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۳ کالم.۱۳۱- الحکم سے / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۳.۱۴۲- تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۴ ۱۴۳.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو عید الاذہان مئی.جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۱.۴.۱۴۴ - الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۰ ء صفحہ ۳ کالم.۱۳۵ بدر ۶/ مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳ کالم ۲.-١٣٦ شحمید الاذہان اپریل و مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶۲ - ۱۶۳ ۱۴.شعید الاذہان ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۶۳.الحکام سے / اپریل ۱۹۰۹ء ص ۶ و الحکم ۲۱ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۲.۱۳۸ ریویو آف ریلیجز اردو ۱۹۰۹ء صفحه ۲ ١٣٩ الحکم ۸/ جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۳.۴.۱۵۰.ان کی مفصل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ القرآن " صفحہ ۱۱۹ ۱۳۷ مولفہ قاضی عبد الصمد صاحب فاضل جامعه از هر پیام امین صفحه ۳۵-۴۶.۱۵۱ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۰۷۸ ء صفحہ ۱۷.۱۵۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه ۹ - ۱۹۰۸ء صفحه ۳۸ ۱۵۳ ریکارڈ صد را مجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۳ صفحه ۲۹.۱۵۴ بدر ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰.اس مکان اور دفتر پر خود مولوی محمد علی صاحب کی اپنی نوشتہ رپورٹ کے مطابق ۲۳۹۴/۱۱/۳ خرچ ہوئے.ملاحظہ ہو ر پورٹ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۱۰-۱۹۰۹ء صفحہ ۳۵) ۱۵۵.رپورٹ صد را انجمن احمد یہ ۱۳- ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۷.۱۵۶.رجسر صد را منجمن احمد یہ نمبر ، صفحہ ۳۱۳

Page 336

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۱۵۷ رجسٹر صد را مجمن احمد یہ نمبرے صفحہ ۱۲۰ ۱۵۸.رپورٹ صد را مجمن احمدیہ سیف ۱۹۹۳ء صفحہ ۳۷.307 ختنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ۱۵۹.خواجہ صاحب کا مضمون یہ تھا:.گزشتہ تین سال سے ہمارے دوستوں نے حضرت قبلہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل ایل بی ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجر قادیان پنجاب کی خدمت کو رسالہ مذکور کی ایڈیٹری سے سبکدوش کر کے قرآن شریف کے ترجمہ انگریزی کے لئے خاص کر دیا تھا.مولانا موصوف کی اس اہم کام کے لئے اہلیت ہندوستان میں ایک امر مسلم ہے ان کو عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ید طولی حاصل ہے ان کی قلم کا لوہا زمانہ مان چکا ہے ۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۰ء تک وہ انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر اور قرآنی حقائق شائع فرماتے رہے تب انہوں نے ترجمہ شروع کیا جو اب بفضلہ مکمل ہو چکا ہے اب مولانا موصوف ترجمہ قرآن کا مقدمہ لکھ رہے ہیں جن میں ان تمام اوہام و اعتراضات کا ازالہ ہو گا جو سیل اور دیگر مترجمین نے اپنے ترجمہ میں کئے ہیں الغرض چند ماہ میں قرآن مجید بغرض طبع تیار ہو جائے گا.ہمارا ارادہ ہے کہ قرآن مع متن انگلستان میں چھپے ایسے نادر صحیفہ کو ہندوستان میں چھاپ کر اہل مغرب کے آگے پیش کرنا گویا اہل مغرب کو یہ کہتا ہے کہ یہ کتاب تمہارے پڑھنے کے قابل نہیں.ضروری ہے کہ مولانا موصوف خود یہاں آکر اپنی نگرانی میں ترجمہ چھپوائیں.ان کا یہاں آنا میرے سفر ا مریکہ میں بہت آسانیاں پیدا کر دے گا.ہماری جماعت کے اور بھی اہم اسلامی فرائض ہیں.جو اس قابل نہیں چھوڑتے کہ ہم ترجمہ قرآن مجید کے چھپوانے کا انتظام فی الفور کر سکیں.اس لئے میں کل بر اور ان اسلام کی خدمت میں اپیل کرتا ہوں کہ مشکل حصہ کام کا ہم نے ختم کر لیا ہے.اب اس کو چھپنا اور اس کی اشاعت باقی ہے.وہ وہ کریں.ہم چاہتے ہیں کہ ترجمہ قرآن مجید کی کئی ہزار کا پیاں مفت بطور تحفہ اور کہیں برائے نام قیمت پر مغربی دنیا میں تقسیم ہو جائیں.اور پھر اس امر کو خدا پر چھوڑ دیا جائے.میں نے اپنے دوستوں کو لاہور میں لکھا ہے کہ وہ انطباع ترجمہ قرآن کریم کی ایک باضابطہ کمیٹی بنا کر اعلان کریں.کل امدادی روپیہ کا حساب کتاب با ضابطہ اخبار پیغام صلح لاہور میں شائع ہو گا.یہ روپیہ محض اور خالصتہ ترجمہ قرآن مجید پر خرچ ہو گا.اور اس امر کی کفیل ہم چار خادمان اسلام کی غیر منقولہ جائداد ہو گی.یعنی راقم الحروف و شیخ رحمت اللہ مالک انگلش ویر ہاؤس.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ پروفیسر میڈیکل کالج ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ اسٹنٹ کیمیکل ایگزامینر گورنمنٹ پنجاب " (پیغام صلح ۲۳/ اکتوبر 1913ء صفحہ سو کالم (۳) ۱۲۰.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ میں لکھا ہے.اطلاع مولوی محمد علی صاحب افسر اشاعت کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر جاتا ہوں میری غیر حاضری میں افسر اشاعت کا مناسب انتظام کیا جائے.سر دست مولوی شیر علی صاحب کو چارج دلایا جائے مولوی محمد علی صاحب ترجمہ القرآن کے کام کے لئے یہ امید منظوری مجلس ضروری کتب دفتر میگزین لے گئے ہیں.(رجسٹر نمبرے صفحہ ۲۲۶) ۱۲ رجر صدر انجمن احمد یہ نمبرے صفحہ ۲۸۹ - ۲۹۰ ۱۶۲.رجسٹر صد را انجمن احمد یہ نمبرے صفحہ ۲۸۹ - ۲۹۰.۱۷۳ - پیغام صلح ۱۷ دسمبر ۱۹۳۸ء جوبلی نمبر صفحہ ۳۲ کالم ۲ ۱۷۴ پیغام صلح ۱۷ار دسمبر ۱۹۳۸ء جوبلی نمبر صفحہ ۳۲ کالم ۲ ۱۷۵.مجاہد کبیر صفحہ ۱۹۴.یہاں یہ بتانار چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ خواجہ صاحب ہی نے ترجمہ انگریزی کی اشاعت سے قبل لکھا کہ ہم اس کو ذریعہ کمائی بنانا ایک لعنت سمجھتے ہیں.(ٹریکٹ احمدی جماعت میں مقدمات.صفحہ ۶) ۱۲۶.مجاہد کبیر صفحه ۱۹۶.۱۲۷.مجاہد کبیر صفحه ۱۹۸ ۱۲۸.ٹرسٹ کے عمل مسودہ کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ۳۹/ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۲-۵/اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۴.۱۲۹.یہ وی " انجمن " ہے جسے مولوی صاحب " خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کا جانشین " قرار دے کر پوری جماعت کا حاکم کہا کرتے تھے.۱۷۰.خط بیگم صاحبہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۴ ( بحوالہ رسالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چھٹی کے جواب کا تمہ از نظارت اصلاح و از شاد) ۱۷۱.مجاہد کبیر میں (ص ۷۶ تا ۸۱) پیغام صلح کے بعض اقتباسات پیش کر کے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولوی محمد علی

Page 337

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 308 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر صاحب کے موجودہ ترجمہ قرآن کے باعث حضرت خلیفہ اول نے بہت خوشی کا اظہار کیا.اول تو پیغام صبح کے اقتباسات جوان کے اکابر کا ہمنوا اخبار تھا ہمارے لئے حجت نہیں.دوم.اس میں حقائق کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے مثلا لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا کہ "مجھ کو بڑا پیارا ہے.حالانکہ پیغام صلح ۳ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ا کالم ۲ سے ثابت ہے کہ آپ نے مولوی صاحب کو نہیں خدا تعالی کو پیارا کہا تھا.مگر مولفان مجاہد کبیر نے مولوی محمد علی صاحب کی عقیدت میں غلو کر کے یہ کلمات جو خدا کے لئے کئے گئے تھے.مولوی محمد علی صاحب کی طرف منسوب کر دئے.اگر حضرت خلیفہ اول نے خوشنودی کا اظہار کیا تو یقینا موجودہ ترجمہ القرآن پر نہیں کیا.کیونکہ خود پیغام صلح کی اپنی شہادت کے مطابق اس کے اصل مسودہ میں جو آپ کو سنایا جاتا تھا بعد میں ردو بدل کر دیا گیا ہے.اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ انگریزی ترجمہ ہو رہا تھاتو میر ناصر نواب صاحب نے ایک اردو ترجمہ کی بنیاد ڈالنی چاہی اور اس کے لئے کچھ چندہ بھی جمع کر لیا.مگر مولانا نور الدین صاحب نے ان کو روک دیا اور کہا کہ ہماری جماعت کی طرف سے اردو ترجمہ بھی وہی چھپے گا جو محمد علی انگریزی ترجمہ کے بعد کرے گا.(ص۸۰) حالا نکہ یہ بالکل خلاف واقعہ ہے.واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے نہ صرف روکا نہیں بلکہ اپنے قلم سے میر صاحب کی تحریک ترجمہ پر لکھا.یہ مبارک تحریک ہے اللہ تعالی اس کو مثمر ثمرات بابرکات کرے آمین خاکسار انشاء الله بقدر طاقت امداد کو حاضر ہے مولوی محمد علی صاحب نے جو ترجمہ کیا اس کے دو پارے میں نے بغور دیکھتے ہیں عمدہ ہیں اور پہلا پارہ مطبوع قدرے اصلاح طلب ہے و السلام نور الدین." (بدر ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ و صفحه ۴ کالم ۱) پس حضرت ظیفہ اول نے قطعا حضرت میر ناصر نواب صاحب کو اردو ترجمہ قرآن سے منع نہیں فرمایا البتہ بدر ۱۳-۲ نومبر ۱۹۱۳ء سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے.کہ جب خواجہ کمال الدین صاحب نے بدر میں حضرت میر صاحب کی تحریک اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا اپنے قلم کا نوٹ پڑھا تو انہوں نے حضرت میر صاحب کی خدمت میں ایک درخواست کی اور لکھا کہ اردو ترجمہ قرآن کی واقعی ضرورت ہے مگریہ ترجمہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ ہو جائے گا.اور یہ دونوں کام یک ماں مولانا محمد علی کرسکتے ہیں.یہ جماعت پر اور آپ پر روشن ہے کہ اس انگریزی ترجمہ کے لئے قوم کا بہت سانتیمتی وقت اور روپیہ خرچ ہو چکا ہے.یہ اب قریبا تکمیل کو پہنچ گیا ہے.آپ انگریزی اور اردو دونوں تراجم کے لئے بغرض چندہ گھر سے نکلیں اور ایک ہی فنڈ قائم کریں تقسیم فنڈ کی ضرورت نہیں.ہم سب ایک ہی ہیں اور ہم سب کا کام اور غرض ایک ہی ہے." اس مقام پر ایک خطر نمی کا ازالہ بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ مدت سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ترجمہ مکمل ہو گیا اور حکیم نور الدین ی بیٹی کو اس کی قبولیت کی اطلاع خداتعالی کے حضور سے بھی آگئی." (پیغام صلح امیر نمبر صفحہ ۳۸) مجاہد کبیر میں مزید بتایا گیا ہے کہ حضرت کو یہ قبولیت کی اطلاع " الہام میں ہوئی تھی.چنانچہ لکھا ہے ۱۴ مارچ کو حضرت صاحب نے فرمایا ہمارا انگریزی ترجمہ اللہ کو مقبول ہو گیا ہے الہاما بشارت آگئی ہے.(مجاہد کبیر صفحہ (۸) حق یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول کو ترجمہ قرآن کے بارے میں نہ الہام ہوا نہ بشارت ہوئی البتہ میر عابد علی صاحب سیالکوٹی نے اپنا الہام ضرور سنایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کو ختم قرآن مبارک ہو مگر حضرت خلیفہ اول نے اس الہام کی تشریح یہ فرمائی کہ شاید مولوی محمد علی صاحب کا قرآن مراد ہو یا میاں عبدالحی ک قرآنا اچنانچہ پیغام صلح میں ہی لکھا ہے.کل ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت سید عابد علی شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود کے بہت ہی پر انے اور مخلص اصحاب احباب میں سے ہیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ الہام ہوا ہے کہ حضرت خلیفتہ الصحیح کو ختم قرآن مبارک آپ نے یہ سنتے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے پھر فرمایا شاید مولوی محمد علی والا قرآن مراد ہو.پھر فرمایا عبد الحی نے بھی دینی علوم کے کل مہاری علوم ختم کر لئے ہیں یہ بھی بڑی خوشخبری ہے." (پیغام صلح ضمیمہ ۵ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۴) ۱۷۲.تفصیل خلافت عثمانیہ کے حالات میں آئے گی.شیخ محمد طفیل صاحب ایم.اے مبلغ انجمن اشاعت اسلام لاہور رکھتے ہیں ” قادیانی جماعت کی طرف سے کوئی درجن بھر مبلغ انگلستان روانہ ہوئے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں پھیل گئے.اس وقت مغربی دنیا میں ان کے مبلغ جرمنی ، چین اور سوئٹر رینڈ میں کام کر رہے ہیں سب ہی پڑھے لکھے مخلص تو جوان ہیں.خیر قادیانی جماعت کے پاس کارکنوں کی تو پہلے ہی کی نہیں تھی.لیکن ان کے پاس مغربی زبانوں میں کوئی خاص

Page 338

تاریخ احمدیت جلد ۳ 309 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر لٹریچر نہیں تھا انگریزی زبان میں زیادہ تر ہمارے لٹریچر سے فائدہ اٹھاتے تھے لیکن اب وہ بات نہیں رہی ان کی گزشتہ دس سال کی سعی کا ثمر ظاہر ہو رہا ہے.ڈچ.جرمن اور انگریزی زبان میں ان کے پاس اچھا خاصا لٹریچر موجود ہے حال ہی میں ہیگ مشن کی طرف سے قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ معہ متن شائع ہوا ہے لکھائی چھپائی نفیس اور دیدہ زیب ہے ہمیں بعض مسائل کی تشریح اور مطالب سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک ٹھوس کام ہے اس کی اشاعت بڑے وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے.ہمار اڈچ ترجمہ مدت ہوئی نایاب ہو چکا ہے.اس وقت مارکیٹ میں قادیانی جماعت کا ہی ترجمہ ہے جس سے ڈچ عوام قرآن سے روشناس ہو سکتے ہیں." (پیغام صلح ۲۱ / جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ سے کالم ۳) ۱۷۳.حضرت شیخ صاحب رو نداد مباحثہ نوٹ کرنے کے لئے تشریف لے گئے.۱۷۴.بدر ضمیمہ ۲۴ / جون ۱۹۰۹ء صفحه ۱-۴- مباحثه رامپوری از مولانا محمد احسن صاحب امروہی ۱۷۵.اصل خط جو ۲۰ / جون ۱۹۰۹ ء کا ہے.خاندان حضرت خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے.۱۷.شہید الاذہان جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲۱۸ ۱۷۷.رجسٹر سوم ریکارڈ صد را مجمن احمدیہ صفحه ۸۹ ۱۷۸ حمید الا زبان.اگست ۱۹۰۹ء سرورق صفحہ ۲.الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۹۰ء صفحہ ۵ کالم ۱۷۹.احکم جوبلی نمبر (۱۹۳۹ء) صفحہ ۲۹ ۱۸۰ بدر ۲۹/ جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۳ کالم ۲.۱۸۱ بدر ۵ / اگست ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۴.۳.۱۸۲.المیہ قاضی اکمل صاحب ۱۸۳ رجسٹر سوم صد را انجمن احمد یہ صفحہ ۱۲۰- قادیان گائیڈ ص ۵۱-۵۲- ۱۸۴ الحکم ۲۸/ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۵ کالم ۲.۳.۱۸۵ - الحکم ۲۸ / اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱۵ کالم ۱۸۶ اخبار بد ر ۲۵/ نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ - -- ریویو آف ریلیجز اردود نمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۴۸۳ ۱۸۷- کتاب قادیان صفحه ۲۷۲ از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم ۱۸۸ - بدر ۱۸/ نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۱۸۹.رجسٹر سوم صد ر انجمن احمد یہ صفحہ ۱۲۲.۱۹۰ شمعید الازمان دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۴۶۹ 19 الحاکم ۱۳/ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ سے کالم ۱.۲.۱۹۲ نام خواجہ کمال الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب مولوی صدر الدین صاحب حضرت ین صاحب.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.۱۹۳ بدر ۶ / جنوری ۱۹۱۰ ء صفحہ ۱.۲.۱۹ احکم ۱۴/ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ -190 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ر سالہ اشاعتہ السنہ - جلد ۳۲ و جلد ۲۳-۱۹۰۹ء ۱۹۱۷ء.۱۹۹ - اشتہار ۴/ مئی ۱۸۹۳ء ۱۹۷ اشاعته السنه جلد ۲۲ نمبر ۴ صفحه ۱۱۳ ۱۹۸.یہ لڑکا چند دن رہ کر بھاگ گیا چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے رجسر نمبر ۲ صفحہ ۲۱۳ پر سپرنٹنٹ صاحب مدرسہ احمدیہ کی یہ رپورٹ درج ہے کہ حسب ارشاد حضرت خلیفتہ المسیح ابو اسحق پسر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو داخل بورڈنگ کیا گیا.مبلغ چار روپے سوالو آنے کا بقایا چھوڑ کر چلا گیا لہذا یہ رقم مد زکوۃ متفرق سے منظور کی گئی.199.اہلحدیث ۲۵/ فروری ۱۹۱۰ء بحوالہ الحق دہلی ۱۴ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ -

Page 339

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 310 فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ۲۰۰.فیصلہ مقدمہ نمبر ۳۰۰ بحوالہ پیغام صلح ۱۵/ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳-۴- ۲۰۱ - الحکم ۲۱ / دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۲ - ۴ و الحکم ۲۸ / مارچ ۱۹۵۴ء (کراچی) صفحه ۴-۵- ۲۰۲ الحكم ۱۴/ نوری ۱۹۱۰ ء صفحہ ۶ کالم ۱.۲.۲۰۳ سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیه ۹ - ۱۹۰۸ء صفحه ۴۲ ۲۰۴- الحکم ۲۱ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۵.سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۹ - ۱۹۰۸ء صفحہ ۴۰- بدر ۲۲/ اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۸ - ۱۲.۲۰۵ - بدر ۲۲/ جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم.۲۰۶.الحکم ۷ / نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳.۲۰۷- بدر ۲۳/ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد ۳ تیسرا باب 311 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر (جنوری ۱۹۱۰ ء سے دسمبر ۱۹۱۰ء تک بمطابق ذی الحجہ ۱۳۲۷ھ تا محرم ۱۳۲۸ھ ) محلہ دار العلوم قادیان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مدرسہ تعلیم الاسلام جیسے اہم ادارے کی عمارتی مشکلات کی وجہ سے ضرورت تھی کہ قادیان کی پرانی آبادی سے باہر جدید محلہ آباد کر کے اس میں اس ادارہ کے شایان شان عمارت تعمیر کی جائے.چنانچہ قادیان کے شمالی جانب ایک نیا محلہ آباد کرنا شروع کیا گیا.اس محلہ کو ابتداء " بھٹہ یا چھاؤنی " کہا جاتا تھا.مگر بالا خر حضرت خلیفہ اول نے اس کا نام دار العلوم تجویز فرمایا - I جہاں خلافت اولی کے زمانہ میں متعدد عالی شان عمارتیں تعمیر ہوئیں.ا.مسجد نور دار العلوم کی آبادی کا آغاز مسجد نور سے ہوا.جس کی بنیاد حضرت خلیفہ اول نے ۵/ مارچ ۱۹۱۰ء کو بعد نماز فجر اپنے دست مبارک سے رکھی اس موقعہ پر احمدیوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی.حضرت خلیفہ اول نے اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے ہاتھ سے پہلی اینٹ لے کر اپنے ہاتھ سے گارا لگا کر متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ رکھی اور اینٹوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ کر عمارتوں اور مسجدوں کے حقیقی فلسفہ پر ایک پر معارف تقریر فرمائی.۲۳ / اپریل ۱۹۱۰ ء کو جبکہ مسجد کا ایک کمرہ تیار ہو چکا تھا آپ نے نماز عصر پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا.اور اس کے بعد سورۃ انبیاء کے چھٹے رکوع کا درس قرآن بھی دیا.جس میں بتایا کہ آج اللہ تعالٰی نے دعا کے لئے ایسے ایسے الفاظ اور طریق بتائے ہیں کہ میں حیران تھا اور ایسی دعا ئیں جو میرے وہم میں بھی نہ تھیں.نیز حلفا فرمایا کہ میں نے اس مسجد کی بنیاد اللہ کی رضا کے لئے رکھی ہے اور تقویٰ پر رکھی ہے اور جس مسجد کی بنیاد اللہ کی رضا پر ہو وہ بڑی پکی مسجد ہوتی ہے.اسی دوران میں نہایت جلال سے یہ بھی فرمایا.”میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ میری چٹان سے جو سرمارے گا اس کا سمر

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد ۳ قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر ٹوٹ جائے گا" درس ختم کرنے کے بعد آپ نے بہت لمبی دعا فرمائی.مسجد نور پر پانچ ہزار روپیہ کے قریب صرف ہوا جس میں سے اڑھائی ہزار روپیہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے جماعتوں میں گھوم کر بطور چندہ وصول کیا اور بقیہ اڑھائی ہزار ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی ہمشیرہ کی ایک وصیت سے آگیا.1 مسجد کی تکمیل کے بعد فضل حق صاحب مختار خلیفہ صاحب ریاست پٹیالہ نے اگست ۱۹۱۰ء میں تین سورد پیہ اس کے فرش کے لئے اور پچاس روپے کی رقم نکا لگوانے کے لئے بھجوائی.اور یکم نومبر ۱۹۱۰ ء سے اس کے لئے ایک مستقل خادم مقرر ہوا.۱۳۵-۱۹۱۲ ء میں اس کا وسیع صحن تیار کرایا گیا.اور جلسہ سالانہ میں منعقد ہونے لگا.-۲ بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول اسی سال بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عالی شان اور وسیع عمارت کی بنیاد رکھی گئی جس کے تین پہلو ستمبر ۱۹۱۰ ء تک مکمل ہوئے اور باقی بعد میں چند ماہ تک مکمل ہو گئے.جس میں قریباً دو سو بور ڈروں کی گنجائش تھی اس بورڈنگ ہاؤس میں رہائشی کمروں کے علاوہ کھانا کھانے اور پڑھائی کرنے کے لئے ایک وسیع ہال بھی تھا.بورڈنگ ہاؤس اور اس سے متعلقہ عمارات پر جو اخراجات ہوئے اس میں عام چندہ کے علاوہ ساڑھے چار ہزار روپیہ حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی موہو بہ حویلی اور زمین سے حاصل ہوئے جو حکیم سید زمان شاہ صاحب کو فروخت کی گئی.اور جس پر بہت کچھ ہنگامہ آرائی ہو چکی تھی.۳.تعلیم الاسلام ہائی سکول اس عالی شان عمارت کی تجویز تو بورڈنگ ہاؤس کے ساتھ ہی ہو چکی تھی مگر اس کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح اول نے معیت صاحبزادگان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵/ جولائی ۱۹۱۲ء کو رکھی آپ نے تین جگہ بنیادی اینٹیں رکھیں مشرقی کونے پر مغربی کونے پر اور درمیانی ہاں کے مشرقی کونے پر حضرت خلیفتہ المسیح اول پہلے خود اینٹ پر دعا کر کے اسے بنیاد پر رکھتے پھر تین اینٹیں صاحبزادگان (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) سے رکھواتے.اول و آخر بہت دعا کی اس طرح چھ بار دعا کی گئی.اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی اینٹیں حضرت کو پکڑاتے تھے.بنیاد رکھنے کے بعد آپ نے دعا فرمائی کہ اس مدرسہ سے متقی اور صالح بچے دنیا میں پھیلیں.دعا کے بعد آپ نے بورڈنگ ہاؤس کے چند کمرے دیکھے اور گاڑی پر واپس تشریف لے گئے.؟

Page 342

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 313 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر سے تعلیم الاسلام کی عمارت بورڈنگ کی عمارت سے بھی زیادہ شاندار اور زیادہ جاذب نظر تیار ہوئی.جس میں عام کمروں کے علاوہ سائنس روم اور وسیع ہال بھی تھا.اور اس کی پیشانی پر برج بھی بنائے گئے اس عمارت پر ۳۰ ستمبر ۱۹۱۳ء تک قریباً پچاس ہزار روپیہ صرف ہوا.جس میں ۱۶ کمرے ارد گرد بر آمدوں سمیت تیار ہوئے اور تھوڑا سا ہال بھی.عمارت کی پہلی منزل کی تکمیل کے دوران میں روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح نے پانچ ہزار روپیہ اپنی ذمہ داری پر بعض ذی استطاعت احباب سے لے کر عطا فرمایا.جس سے فوری ضروریات پوری ہو گئیں.چونکہ مدرسہ کی پرانی عمارت میں طلباء کی گنجائش نہ تھی.اس لئے مئی ۱۹۱۳ء میں ہی سکول کو ادھوری عمارت میں لانا پڑا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لئے تمہیں ہزار روپیہ کے قریب گورنمنٹ سے گرانٹ ملی.اخبار الحق کا اجراء 1909ء میں مکرم شیخ محمد یوسف صاحب نے اخبار " نور " جاری کیا.اس سال حضرت میر قاسم علی صاحب نے دہلی سے ۷ / جنوری ۱۹۱۰ ء سے دوسرا اخبار نکالنا شروع کیا.جس کا نام حضرت خلیفہ اول نے "الحق" تجویز فرمایا - اخبار "الحق" کے اہم اغراض و مقاصد یہ تھے (1) مخالفین اسلام کے عموماً اور دیا نندیوں کے خصوصاً اعتراضات کا جواب دیتا اور اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا اور دیانندی تعلیم کے طلسم کو توڑنا (۲) مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق بڑھانا اور اختلافات باہمی سے اجتناب (۳) حکومت وقت و رعایا کے تعلقات کو خوشگوار بناتا.اخبار "الحق" نے آریوں اور دوسرے غیر مسلموں کے خلاف جہاد کی بدولت جلد ہی مسلمانان ہند میں شہرت حاصل کر لی.1911ء میں حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت ایک ہزار روپیہ کی نقد ضمانت طلب کی تو اسلامی پریس نے اس کے خلاف پر زور احتجاج کیا.چنانچہ اخبار البشیر ، وکیل الاسلام لمت وقت مسلمان، زمیندار افغان وغیرہ اخبارات نے اس فیصلہ پر سخت تنقید کی.مگر حکومت نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا اور حضرت میر صاحب نے جو ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سو روپیہ ضمانت جمع کر چکے تھے.تین دن کے اندر اندر ایک ہزار روپیہ کی ضمانت داخل کرا دی.اور "الحق " پھر سے جاری کر دیا.حالا نکہ بڑے بڑے پرانے اخبار ضمانت طلب کئے جانے پر بند ہو گئے تھے.۱۹۱۳ء کے آخر میں یہ اخبار خطرناک مالی بحران میں مبتلا ہو گیا.تو حضرت خلیفتہ المسیح اول کی طرف سے بوساطت صاحبزادہ مرزا ! بشیر الدین محمود احمد ارشاد ملا کہ امیر المومنین پسند نہیں فرماتے کہ الحق بند کر دیا جائے اور یہ بھی فرمایا کہ ہم کچھ امداد بھی کریں گے خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے میر صاحب کو لکھا کہ الحق ہرگز بند نہ کیا

Page 343

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 314 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر جائے اور مبلغ دس روپے بطور امداد بھجوائے.اخبار "الحق" نے آریوں میں تبلیغ کے علاوہ احمدیت کے بعض مخصوص مسائل مسئلہ ختم نبوت وغیرہ کی وضاحت کرنے میں بھی نمایاں کام کیا ہے.ایک خاص چیز جو سلسلہ میں قیمتی اضافہ کا موجب بنی.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا سفرنامہ تھا جو اس میں بالاقساط چھپتا تھا.حضرت میر صاحب آخر ۱۹۱۵ء میں دہلی سے قادیان ہجرت کر کے آگئے اور اخبار "الحق" فاروق کی شکل میں قادیان ہی سے شائع ہونے لگا.سنگا پور اور سیلون میں تبلیغی وفد بھیجوانے کی تجویز جنوری ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ المسیح اول نے ملک سے باہر پیغام احمدیت پہنچانے کی تجویز فرمائی اور اس ضمن میں سنگا پور اور سیلون وغیرہ میں ایک تبلیغی وفد بھیجوانا چاہا مگر آپ کے زمانہ میں اس کی تکمیل نہ ہو سکی اور آپ کی مبارک آرزو خلافت ثانیہ میں پوری ہوئی.فروری ۱۹۱۰ء سے حضرت حضرت صاحبزادہ صاحب کے درس قرآن کا آغاز صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی نماز مغرب کے بعد قرآن مجید کا درس دینا شروع فرمایا درس کیا تھا حقائق و معارف کا صاف و شفاف چشمہ تھا.جو دل کی گہرائیوں سے پھوٹ پھوٹ کر لکھتا اور سامعین کی روحانی پیاس کو بجھاتا جاتا تھا وسط ۱۹۱۳ء سے آپ دو دفعہ درس دینے لگے (نجر اور ظہر کے بعد ) حضرت خلیفہ اول کے درس قرآن کے بعد قادیان کے روحانی تحفوں میں یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جسے حاصل کرنے کے لئے احمدی بڑے اشتیاق سے حاضر ہوتے تھے.مسجد اقصیٰ کی توسیع اس سال کی پہلی سہ ماہی میں مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی عمل میں آئی.جس کے نتیجہ میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا بر آمدہ تیار ہو گیا.مستورات کی نماز کے لئے زیر تعمیر " منارۃ المسیح " کے ساتھ ایک چبوترہ بھی بنا دیا گیا.اس سال ۲۵ سے ۲۷/ مارچ ۱۹۱۰ ء تک سالانہ جلسہ منعقد ہونے والا تھا اور مسجد کے نچلے کمرہ میں مٹی ڈلوانے کے لئے مزدور فراہم نہیں ہو رہے تھے.اور اندیشہ تھا کہ جلسہ تک یہ حصہ مکمل نہیں ہو سکے گا.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے 11 / مارچ ۱۹۱۰ء کو نماز جمعہ کے بعد تحریک فرمائی کہ احباب اس کام میں مدد کریں.چنانچہ احباب جماعت اپنے مقدس امام کا ارشاد پاتے ہی مٹی کاٹنے اور ٹوکریاں اٹھانے میں مصروف ہو گئے خود حضرت خلیفہ اول نے بھی نہایت سرگرمی سے مٹی اٹھانا شروع کر دی

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 315 قادیان میں متعد د پبلک عمارت کی تعمیر یه نظاره نهایت ایمان افروز تھا کہ خدا کے مسیح کا مقدس خلیفہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کے لئے اپنے ہاتھ سے ٹوکریاں اٹھ رہا تھا اور احمدیت کے سپاہی اپنے بوڑھے مگر جواں ہمت آسمانی جرنیل کی قیادت میں پروانہ دار کام کر رہے تھے.نماز جمعہ میں مستورات کی پہلی بار شمولیت مسجد اقصیٰ چونکہ تنگ تھی اس لئے احمدی مستورات ابھی تک جمعہ میں حاضر ہو کر خطبہ نہیں سن سکتی تھیں.ہاں روزانہ نمازیں بیت الفکر میں جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں.مگر اب جو مسجد اقصیٰ کی توسیع کا کام شروع ہوا تو احمد کی خواتین کو جمعہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہونے لگی.چنانچہ ۲۱ جنوری ۱۹۱۰ ء کے جمعہ میں احمدی مستورات نے جن میں حضرت ام المومنین بھی شامل تھیں.مسجد اقصیٰ میں سب سے پچھلی صف میں نماز پڑھی اور خطبہ سنا.اس طرح خلافت اولی میں ایک سنت نبوی کا احیاء ہوا.حضرت خلیفہ اول کا ایک خط سیکرٹری مدرسہ الہیات کے نام کان پور میں ایک نیا " مدرسه الیات قائم ہوا جس کی غرض اشاعت و حفاظت اسلام تھی.حضرت خلیفہ اول کو چونکہ ایسی انجمنوں سے شروع ہی سے گہری دلچسپی رہی تھی.اس لئے آپ نے مدرسہ کے سیکرٹری مولوی احمد اللہ صاحب کو نصاب کے بارے میں عمدہ مشورے دیئے اور ایک معقول رقم اشاعت اسلام کے لئے بھجوائی.اس ضمن میں آپ نے ادا ئل 1910ء میں ایک مفصل خط بھی لکھا جس میں عہد حاضر کے مشہور متکلمین اسلام اور ان کے پیدا کردہ لٹریچر کا تذکرہ فرمایا اور ان کو خط کے آخر میں نصیحت فرمائی.”جو لوگ دعاؤں کے قائل نہیں اور متقی نہیں اور اخلاص اور صواب ان کے مد نظر نہیں وہ کیا مفید ہو سکتے ہیں ؟ ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا "."الانذار" ان دنوں خدا کے قتری نشان پے در پے ظاہر ہو رہے تھے.ایران یونان ، وسط ایشیا اٹلی ، سلی اور امریکہ کے پے در پے زلازل حیدر آباد اور پیرس کے تباہ کن سیلاب نے ہر طرف ایک قیامت بپا کر رکھی تھی.حضرت خلیفہ اول نے اپنے مقتداء و پیشوا کی طرح الانذار " ہی کے نام سے ایک اعلان شائع فرمایا.جس میں لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ تکبر اور شوخی سے باز آئیں اور نیکی کی طرف قدم بڑھا ئیں.اور خدا کے مقدس بندوں کے خلاف بد زبانی چھوڑ دیں.

Page 345

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 316 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر خطبہ جمعہ ۲۵/ مارچ ۱۹۱۰ء کی خصوصیت ۲۵ / مارچ ۱۹۱۰ء کو جبکہ جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے بہت سے احباب جمع تھے حضرت خلیفہ اول نے ایک رقت آمیز خطبہ ارشاد فرمایا.حضرت کے چہرہ مبارک کی کچھ اور ہی کیفیت تھی.معلوم ہو تا تھا کہ کوئی فنافی اللہ انسان ایک ربودگی کے عالم میں کلام کر رہا ہے.اس خطبہ کی خصوصیت یہ تھی کہ کثرت مخلوق کی وجہ سے چونکہ آپ کی آواز دور تک نہیں پہنچ سکتی تھی اس لئے آپ نے حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب مولوی مبارک علی صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب کو مقرر کر دیا کہ آپ جو کہیں دوسروں کو ساتھ ساتھ سناتے جائیں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے جب ایسا انتظام کرنا پڑا.1909ء کا سالانہ جلسہ حضرت خلیفہ اول کے حکم سے دسمبر ۱۹۰۹ ء کا جلسہ مارچ ۱۹۱۰ء میں ایسٹر کی تعطیلات پر ملتوی کیا گیا تھا.جو ۲۵ سے ۲۷/ مارچ ۱۹۱۰ ء انعقاد پذیر ہوا.جلسہ میں شامل ہونے والے تین ہزار سے زائد تھے.اس جلسہ میں ۲۶/ مارچ کو حضرت خلیفہ اول نے اور ۲۷ مارچ کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایمان افروز لیکچر دیئے.دوسرے مقررین کے نام یہ ہیں.حضرت میر نا صر نواب صاحب، مولوی محمد علی صاحب ( آپ نے صدر انجمن کی رپورٹ پیش کی) خواجہ کمال الدین صاحب نے قومی ضروریات کی اپیل کی.سید عابد علی شاہ صاحب نے اپنے چند کشوف و الہامات سنائے.جلسہ کے دوران میں بورڈنگ ہاؤس کے ایک کمرہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں احمدیہ کا نفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں تعمیر فنڈ کے واسطے توجہ دلائی گئی.جلسہ پر بہت لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کی بیعت کا سلسلہ متفرق اوقات میں جاری رہا.مسجد اقصیٰ میں بیعت کرنے والوں کا یہ عالم تھا کہ حضرت نے منبر پر کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ پھیلایا اور سب سے کہا کہ بیعت کرنے والے اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر ہاتھ پھیلا لیں اور بیعت کے الفاظ دو ہراتے رہے.II ۲۹ بیعت لیتے ہوئے آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ فرمایا.” میں شرک نہیں کروں گا.چوری نہیں کروں گا.بدکاریوں کے نزدیک نہیں جاؤں گا.کسی پر بہتان نہیں لگاؤں گا.چھوٹے بچوں کو ضائع نہیں کروں گا نماز کی پابندی کروں گا اور زکوۃ، روزہ، حج اپنی طاقتوں کے موافق ادا کرنے کو مستعد رہوں گا.بیعت کے بعد آپ نے ایک تقریر فرمائی.جس میں بتایا کہ ”خوب یاد رکھو کہ بیعت کر کے تم نے اپنے آپ کو بیچ دیا ہے کیونکہ یہی بیعت کی حقیقت ہے".جلسہ کے آخری اجلاس میں حافظ عبدالرحیم صاحب سیکرٹری انجمن شہید نے اپنی سالانہ رپورٹ

Page 346

تاریخ احمدیت جلد ۳ 317 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تو سنائی اس کے بعد حضرت صاجزادہ صاحب نے انتقامی دعا کرائی اور دعا کے بعد جلسہ بخیر و خوبی ختم ہوا.قادیان میں جلسہ سے قبل طاعون کی بعض واردات ہو چکی تھیں اور خیال تھا کہ جلسہ پھر ملتوی ہو جائے گا.مگر حضرت خلیفہ اول نے جلسہ کا التوا منظور نہ فرمایا.البتہ رعایت اسباب کے پہلو سے اتنا فرما دیا کہ شہر میں ہمارے مہمان فرش پر نہ سوئیں اور رات کو وہ باہر مدرسہ تعلیم الاسلام کے میدان میں رہیں اور اصل علاج یعنی دعا کا وعدہ اپنے ہاتھ میں لے لیا.سو خد اتعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور ہزاروں کے اجتماع کے دوران کوئی واردات نہیں ہوئی.جو محض خدا کے فضل اور آپ کی دعاؤں کا ثمرہ تھا.انجمن مسلمان راجپوتان ہند کا قیام را جوتوں میں تبلیغ کے لئے ۲۷ / مارچ ۱۹۱۰ء کو ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا جس کا نام انجمن راجپوتان ہند" رکھا گیا انجمن کے پریذیڈنٹ چودھری غلام احمد صاحب کاٹھ گڑھی اور سیکرٹری چودھری مولا بخش صاحب بھٹی سیالکوئی تھے.اخبار بدر - اخبار بدر الحکم میں اس سلسلہ میں جو اعلان ہوا اس سے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کو یہ شبہ ہوا کہ اس انجمن کو دوسری بنیادی انجمنوں کے رنگ کی طرح باقاعدہ حضرت خلیفہ اول کی سرپرستی کا فخر حاصل ہے.حضرت خلیفہ اول کو یہ بات پہنچی.تو آپ نے لکھا.” میری تو کوئی بھی خصوصیت سے کسی قوم کی سرپرستی نہیں.اور ہرگز نہیں میں تمام احمدیہ جماعت اور پھر تمام اہل اسلام پھر تمام مخلوق کی بہتری کا خواہش مند ہوں".اپریل ۱۹۱۰ء میں حضرت حضرت خلیفہ اول کی طرف سے ایک ضروری اعلان خلیفہ اول نے بذریعہ اخبار یہ اعلان فرمایا کہ بعض احمدی آپس میں دنیوی معاملات و معاہدات کر لیتے ہیں اور ہم سے مشورہ کرنا بلکہ اطلاع تک دینا پسند نہیں کرتے مگر جب مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں تو شکایتی خطوط آنے لگ جاتے ہیں.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ لین دین کے معاملات میں عاقبت اندیشی.شریعت اور قانون عدالت کے مطابق کام کریں صرف احمدی کہلانا کوئی خوش معاملگی کا سرٹیفکیٹ نہیں اور نہ اس سے احمدیت پر کوئی الزام ہے خدا کی مخلوق کثیر ہے امت محمدیہ میں مسلمان کہلانے والے جب بد معاملگی کرتے ہیں تو اس طرح آنحضرت ﷺ پر کوئی اعتراض نہیں مخلوق خدا میں سے کوئی بد معاملگی کرتا ہے تو اس سے خالق پر کوئی اعتراض نہیں ہے.

Page 347

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 318 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر جلسہ پر آنے والوں کو ایک نصیحت درد مند دل کے ساتھ حضرت خلیفہ اول نے ۱۸ / اپریل ۱۹۱۰ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت درد انگیز الفاظ میں جلسہ پر آنے والوں کو نصیحت فرمائی.....تم لوگ بھی یہاں اکٹھے ہوئے تھے.گورو کل- انجمن حمایت اسلام علی گڑھ والے بھی اکٹھے ہوئے ہیں وہاں بھی رپورٹیں پڑھی گئی ہیں.یہاں بھی ہمارے رپورٹ نے بھی رپورٹ پڑھ دی کہ اتنا روپیہ آیا.اتنا خرچ ہوا.پر میں سوچتا ہوں کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے.یہ روپیہ تو بذریعہ منی آرڈر بھی بھیج سکتے تھے.اور رپورٹ چھپ کر ان کے پاس پہنچ سکتی تھی پھر جو لوگ عمائد تھے وہ اگر مجھ سے علیحدہ ملتے تو میں ان کے لئے دعائیں کرتا انہیں کچھ نصیحتیں دیتا.لیکن افسوس کہ اکثر لوگ اس وقت آئے کہ لوجی ! السلام علیکم یکہ تیار ہے.تم یاد رکھو میں ایسے میلوں سے سخت متنفر ہوں میں ایسے مجمعوں کو جن میں روحانی تذکرہ نہ ہو.حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں.یہ روپیہ تو وہ منی آرڈر کر کے بھیج سکتے بلکہ اس طرح بہت سا خرچ جو مہمانداری پر ہوا وہ بھی محفوظ رہتا.یہاں کے دکانداروں نے بھی افسوس دنیا کی طرف توجہ کی اور کہا کہ جلسہ باہر نہ ہو شہر میں ہو.ہماری چیزیں بک جاویں میں ایسے اجتماع اور ایسے روپے کو جو دنیا کے لئے ہو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں.جو سن رہا ہے وہ یا د ر کھے اور دوسروں تک یہ بات پہنچا دے میں اسی غم میں پکھل کر بیمار بھی ہو گیا.کیا اچھا ہو تاکہ تم میں سے جو تمہاری باہر کی جماعتوں کے سیکرٹری دو عمانکہ آئے تھے وہ مجھ سے علیحدہ علیحدہ ملتے ہیں ان کو بڑی نیکیاں سکھاتا اور بڑی اچھی باتیں بتا تا.لیکن افسوس کہ ہماری صدر انجمن نے بھی ان کو یہ بات نہ بتائی اس لئے مجھ کو ان سے بھی رنج ہے.کیا آیا کتنے روپے جمع ہوئے ہم کو اس سے کچھ بھی غرض نہیں ہم کو تو صرف خدا چاہئے مجھ کو نہیں معلوم کہ کیا جمع ہوا.کیا آیا مجھ کو اس کی مطلق پرواہ نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو مقدم کرو.ہماری کوششیں اللہ کے لئے ہوں اگر یہ نہ ہو تو ہائی سکول کیا حقیقت رکھتا ہے.اور اس کی عمارتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں.ہمیں تو ہمار اموٹی چاہیئے.اپنے احباب کو خط لکھو اور ان کو تنبیہ کرد.میں تو لاہور اور امرت سر کے لوگوں کا بھی منتظر رہا کہ وہ مجھ سے کیا سیکھتے ہیں.لیکن ان میں سے بھی کوئی نہ آیا.میں چاہتا تھا کہ لوگ میری زندگی میں متقی اور پر ہیز گار بھی نہیں اور دنیا اور اس کی رسموں کی طرف کم توجہ کریں".اپریل ۱۹۱۰ء میں انٹرنس کے امتحان کا نتیجہ نکلا.مدرسہ تعلیم الاسلام کے امتحان میں کامیابی سولہ طالب علموں میں سے آٹھ طالب علم کامیاب ہوئے جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اول رہے نتیجہ نکلنے کے بعد آپ کالج میں داخلہ لینے کے لئے لاہور

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد ۳ تشریف لے گئے.319 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حضرت امیر المومنین کو مبارکباد 19/ اپریل ۱۹۱۰ء کی صبح کو حضرت خلیفہ اول کے ہاں چوتھے فرزند پیدا ہوئے.2 حضرت ام المومنین نے - حضرت خلیفہ اول کو مبارک باد دی.تو آپ نے فرمایا کہ اس خوشی میں میرا بھی کام ہے کہ میں اب یا تمہارے لئے بہت دعا کروں یا خیرات کروں.حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت کی طرح حضرت خلیفہ اول جھوٹے مدعیوں کا خروج کے زمانہ میں بھی بعض لوگوں نے جھوٹے دعوے کئے چنانچہ بابو سیر الدین -اروپی- عبد اللہ تیماپوری، مولوی یار محمد اور بعض دوسرے نام نہاد احمدی قدرت ثانی خلیفتہ المسیح ، مصلح موعود اور رسول ہونے کا دعوئی لے کر اٹھے.W مولوی یار محمد کو تو دماغی خلل تھا مگر مولوی عبداللہ تیمار پوری نے از راہ شرارت اپنے خلیفتہ المسیح ہونے کا ادعا کیا.اور اپنی بعض خوابوں پر اس کی بنیاد رکھی حضرت خلیفہ اول نے اسے اپنے خط میں لکھا کہ ایک وقت میں دو خلیفہ ہر گز نہیں ہو سکتے.اور ابو داؤد کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر بتایا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو دوسرا شخص مدعی خلافت ہو وہ قتل کیا جانا چاہئے.ظہیر الدین اروپی نے حضرت خلیفہ اول سے معافی مانگ کر اپنے دعوئی سے توبہ کرلی اور حضرت خلیفہ اول نے اسے معاف بھی فرما دیا مگر وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہا اور پھر یہ فتنہ اٹھادیا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ان جھوٹے مدعیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا ” جیسے آنحضرت الین کے مرفوع ہونے کے بعد کوئی شخص اگر خلافت راشدہ کا انکار کرے تو باوجود آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنے کے متبع سبیل المومنین نہیں ہو سکتا اسی طرح پر کوئی احمدی جو حضرت خلیفتہ امسیح کی خلافت کو قدرت ثانیہ کے مظہر اول کی خلافت یقین کرنے میں مضائقہ کرتا ہے.اس کا اپنے آپ کو محض حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے سے احمدی سمجھنا غلطی ہے".یہ سب مدعی بڑے زور و شور سے اٹھے اور بالا خر ناکام و نامراد رہے.اور شمع خلافت پوری شان سے فروزاں رہی اور اس کے پروانے چاروں طرف سے دیوانہ وار جمع ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نوجوانوں کے لئے تربیتی کلاس احمدی نوجوانوں کی تربیت و اصلاح کا خاص خیال رہتا تھا.چنانچہ آپ نے اس جذبہ کے تحت اس سال سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دوران قادیان آنے

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 320 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر والے طلبہ کے لئے ایک تربیتی کلاس کا اجراء فرمایا.کلاس کے نصاب میں قرآن وحدیث اور بعض قصائد شامل تھے.آپ نے ان کو بڑی محنت سے پڑھایا.اور عربی ودینی علوم سے متعارف کیا.حضرت مسیح موعود کے تیسرے پوتے کی ولادت 14 جون ۱۹۱۰ء کو حضرت مرزا / بشیر احمد صاحب کے مشکوئے معلی میں مرزا حمید احمد پیدا ہوئے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے ہوتے ہیں.مله امه یہ تعلیم الاسلام کے لئے وظائف تعلیم الاسلام کے یتامی و مساکین کے وظائف کی مد میں چونکہ گنجائش کم تھی اس لئے اس سال حضرت خلیفہ اول نے اپنی جیب خاص سے سو روپے عطا فرمائے یہ جون ۱۹۱۰ ء کی بات ہے.حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ کی آمین اس ماہ کے آخر میں حضرت سیدہ امتہ الٹی صاحبہ صاحبزادی حضرت خلیفہ اول) نے قرآن مجید ختم کیا.اس مبارک تقریب پر حضرت اماں جی نے مدرسہ کی استانیوں کو انعام و اکرام سے نوازا اور مدرستہ البنات کی بچیوں کو دعوت دی اور شیرینی تقسیم کی.مباحثہ کھارا قادیان کے نزدیک ایک گاؤں کھارا ہے جس میں وسط ۱۹۱۰ء میں ایک مباحثہ ہوا جس میں مرکز سے حضرت حافظ روشن علی صاحب (امیر) مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سید عبدالحی صاحب عرب شامل ہوئے.احمدیوں کی طرف سے حضرت حافظ صاحب نے بحث کی اور مبحث حیات وفات مسیح تھا.مولوی نواب دین صاحب حضرت حافظ صاحب کے دلائل کی تاب نہ لا کر جوابی تقریر سننے سے پہلے ہی روانہ ہو گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے وسط ۱۹۱۰ ء میں پشاور کا سفر اختیار فرمایا.اس سفر پشاور سفر کی یادگار آپ کی ایک تصویر ہے جس میں آپ کے ساتھ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم امیر ہوتی مردان حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب کے صاحبزادگان (عبد الرحیم جان صاحب اور عبداللہ جان صاحب) اور گل محمد خان صاحب وکیل بھی موجود ہیں.(اس یادگاری فوٹو میں سے آپ کی تصویر سامنے ملاحظہ ہو).۱۹۱۰ء کے بعد آپ دسمبر ۱۹۱۳ء میں بھی پشاور تشریف لے گئے.اور اپنے اہل بیت کو لے کر سالانہ جلسہ پر پہنچ گئے.

Page 350

تاریخ احمدیت جلد ۳ 321 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر اپنے خرچ پر دو احمدیوں کو حج پر بھجوانے کی خواہش حضرت امیر المومنین خلیفہ اول نے وسط جولائی ۱۹۱۰ ء میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ "ہم دو احمدیوں کو اپنے خرچ پر حج کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں.جو زاد راہ سے معذور اور حج کی تڑپ رکھنے والے صالح الاعمال متقی ہوں ایک ان میں سے پہلے حج کر چکے ہوں.جولائی ۱۹۱۰ء کے آخری ہفتہ میں حضرت خلیفہ اول نے سفر ملتان اختیار فرمایا.جو خلیفہ بننے سفرملتان کے بعد آپ کا پہلا سفر تھا اس سفر کی وجہ یہ ہوئی کہ ملتان کا ایک سپاہی محمد تراب خاں نامی جس کے دماغ میں خلل تھا.چھ ماہ قبل قادیان آیا اور آپ کے زیر علاج رہا.یہ شخص قادیان سے ملتان OT گیا اور اقدام قتل کے الزام میں گرفتار ہو گیا.جس پر آپ کو ملتان شہادت کے لئے طلب کیا گیا.حضرت خلیفہ اول حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر کر کے ۲۴ جولائی ۱۹۱ء کو ۴ بجے بذریعہ ٹانگہ قادیان سے بٹالہ کے لئے روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ مولوی محمد علی صاحب میاں عبدالحی صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب حکیم محمد عمر صاحب اور بعض دوسرے خدام بھی تھے.نہر تک پہنچے تو حکیم محمد عمر صاحب نے عرض کی کہ ضرور ہم اتنی دیر میں بٹالہ پہنچ جائیں گے حضرت نے فرمایا کہ ایسا دعویٰ نہیں چاہئے.نتیجہ یہ ہوا کہ حضور اور باقی خدام تو بر وقت بٹالہ اسٹیشن پر پہنچ کر ریل میں سوار ہو کر لاہور چلے گئے مگر جس ٹانگہ میں حکیم صاحب تھے وہ پیچھے رہ گیا اور ریل چلی گئی.اور آخر دوسرے دن ایک بجے کے قریب لا ہو ر پہنچے معلوم ہوا حضرت خلیفہ اول شیخ رحمت اللہ صاحب انگلش دیر ہاؤس کے ہاں کھانے کے لئے تشریف لے گئے ہیں چنانچہ سیدھے وہاں پہنچے.حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا.دیکھو آپ نے دعوی کیا تھا.کہ ضرور پہنچ جائیں گے حکیم صاحب نے عرض کی پرانی عادتیں ہیں کوشش تو کر رہا ہوں کہ ایسے کلمات منہ سے نہ نکلیں.خدا کا شکر ہے کہ تنبیہہ بھی ہو جاتی ہے.کھانا کھانے کے بعد انہی کے مکان پر نماز ظہر پڑھی گئی.پھر حضرت خلیفہ اول شیخ صاحب کی درخواست پر ان کی دکان واقع انار کلی میں تشریف لے گئے اور سب کمروں میں اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی.شیخ رحمت اللہ صاحب کی دکان سے ہو کر حضرت خلیفہ اول خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان (واقع کیلیانوالی سڑک پر تشریف لے گئے اور نماز عصر ادا فرمائی یہاں بعض لوگوں نے بیعت کی.نو کو آپ نے نصیحت فرمائی کہ غفلت کی صحبت سے بچتے رہو اور اگر کوئی مجبوری پیش آوے تو استغفار بہت کرو.ایک شخص نے عرض کی کہ میری اولاد کچھ پاگل اور کچھ نالائق ہے.فرمایا خیرات اور مبایعین

Page 351

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 322 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر دعا اور استغفار کرتے رہا کرو.خدا اپنے فضل سے سب کام ٹھیک کر دے گا.ہمت ہارنا اور مایوس ہونا کفر ہے مومن کبھی نا امید نہیں ہوتا.اسی دن ۲۵/ جولائی ۱۹۱۰ء کو آپ لاہور سے بذریعہ ریل ملتان روانہ ہوئے.لاہور کی جماعت کے بہت سے دوست مشایعت کے واسطے اسٹیشن پر حاضر تھے.شام کا کھانا حضرت میاں چراغ الدین صاحب کی طرف سے اسٹیشن پر پہنچایا گیا.لاہور سے آپ کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی میاں معراج الدین صاحب عمر اور مرزا عبد الغنی صاحب بھی ہمرکاب ہوئے.۲۶ / جولائی کو ۵ بجے صبح کے قریب گاڑی ملتان اسٹیشن پر پہنچی.اسٹیشن پر آپ کا پر تپاک استقبال کیا گیا.اور آپ کے رفقاء محلہ شاہ یوسف گردیزی میں سید محمد شاہ صاحب گردیزی کے ایک مکان میں فروکش ہوئے.کچھ وقت کے بعد آپ رائے کیشو ر اس صاحب مجسٹریٹ کی عدالت میں بیان کے لئے تشریف لے گئے.رائے صاحب نہایت درجہ اخلاق سے پیش آئے آپ کو کرسی پیش کی اور معذرت کی کہ آپ کو ملتان آنا پڑا اور قانونی مجبوری سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا.آپ نے اپنی شہادت میں بتایا کہ چھ ماہ سے زائد عرصہ گذرا.ملزم میرے پاس بغرض علاج آیا تھا میری تشخیص کے مطابق اسے مانیا کا عارضہ تھا جسے انگریزی میں مینیا کہتے ہیں جو جنون کی ایک قسم ہے.میں حضرت مرزا صاحب کا خلیفہ اول ہوں.جماعت احمدیہ کا لیڈر ہوں قریباً ۴۵ سال سے حکمت کرتا ہوں.ریاست کشمیر میں شاہی طبیب تھا وہاں قریباً پندرہ سال رہا.میں نے نہیں سنا کہ اس شخص نے کسی پر حملہ کیا ہو.مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اس کو نسخہ لکھ دیا تھا.میرے ہاں بیماروں کے لئے کوئی رجسڑاند راج نہیں میں بہار کو پوری تحقیق سے دیکھتا ہوں سرسری طور پر کسی کو نہیں دیکھتا.ده شہادت کے بعد آپ مکان پر واپس تشریف لائے آپ کا ارادہ تو اسی روز واپسی کا تھا.مگر بعض معززین ملتان کے اصرار سے ایک روز اور ٹھرنا منظور فرمالیا.کہتے ہیں قیام ملتان کے دوران آپ حکیم محمد اسماعیل صاحب کی بیٹھک (واقع منگل وہرہ اندرون پاک دروازہ ملتان میں بھی تشریف لے گئے.جب تک ملتان رہے بیماروں کا تانتا بندھا رہا.۲۶ / جولائی کی شام کو خان بہادر مخدوم شیخ حسن بخش صاحب قریشی آنریری مجسٹریٹ آپ کی زیارت کے لئے آئے اور دوسرے دن صبح (۲۷/ جولائی) آپ کی اور جماعت احمد یہ ملتان کے جملہ احباب کی پر تکلف ضیافت کی.اسی دن ساڑھے پانچ بجے شام کو مدرسہ انجمن اسلامیہ کے ہال میں ایک شاندار جلسہ ہوا.جس میں عمائد ملتان کی درخواست پر حضرت خلیفہ اول نے ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب ایک نهایت درجه اثر انگیز خطاب فرمایا.یہ تقریر ایسی زبردست تھی کہ لوگ دیوانہ وار آپ کے ساتھ لاہور تک کھچے آئے.تقریر کے بعد

Page 352

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 323 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر آپ اسٹیشن پر تشریف لے گئے.جماعت احمدیہ کے بھی افراد اپنے مقدس امام کو الوداع کہنے کے لئے ساتھ تھے آپ ریل پر سوار ہو کر ۲۸/ جولائی کی صبح کو بوقت چھ بجے لاہور وارد ہوئے.حسب معمول بہت سے دوست آپ کے استقبال کے لئے موجود تھے.احباب لاہور نے واپسی پر بھی پہلے کی طرح خلوص و محبت کا اظہار کیا.مستری محمد موسیٰ صاحب نے آپ کی اور آپ کے خدام کی دعوت کی.چنانچہ آپ کھانا کھا کر انار کلی میں سے قیام گاہ کی طرف تشریف لائے رستہ میں آپ میاں چراغ دین صاحب کی درخواست پر ان کی دکان " عزیز ہاؤس میں تشریف لے گئے.یہاں ان کے بھائی میاں عبد العزیز صاحب مغل اور میاں محمد سعید صاحب سعدی کام کرتے تھے.اس موقعہ پر آپ نے فرمایا.دکان چلانے کے واسطے ہمت استقلال ، دیانت ، ہوشیاری عاقبت اندیشی اور امانت کی ضرورت ہے نیز فرمایا لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو ایک ہزار حرفہ سکھایا تھا یورپ میں بہت ترقی ہے مگر ہنوز ہزار تک نوبت نہیں پہنچی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ تجارت میں ۱۹ حصہ منافع ہے باقی ایک حصہ دیگر حرفوں میں ہے.حدیث میں یہ بھی لکھا ہے تجارت کے واسطے مغربی ممالک میں جاؤ.قیام لاہور کے دوران آپ نے جمعہ بھی پڑھایا اور ۳۱ / جولائی کی صبح کو احمد یہ بلڈ نگس کے میدان میں ایک پبلک تقریر فرمائی.اس پر معارف تقریر کا مضمون تھا " اسلام اور دیگر مذاہب" بعد ازاں آپ مع خدام لاہور سے بذریعہ ریل بٹالہ روانہ ہوئے اور اسی دن ۳۱ / جولائی ۱۹۱۰ ء کی شام کو بخیریت قادیان پہنچ گئے.اس سفر میں حکیم محمد عمر صاحب فیروز پوری نہ صرف حضور کی خدمت میں نہایت محبت و اخلاص سے حاضر خدمت رہے.بلکہ دیگر تمام رفیقان سفر کو ہر ممکن سہولت اور آرام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا.حکیم صاحب موصوف ان دنوں حضرت کے ان وفادار اور خدمت گذار دوستوں میں سے تھے.جن کی خدمت پر بڑے بڑے بزرگ رشک کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود حضرت خلیفتہ المسیح اول کے سفر ملتان کے دوران ۲۹ جولائی ۱۹۱۰ء کو جمعہ آیا تھا جو لاہور احمد صاحب کا سب سے پہلا خطبہ جمعہ DA میں حضرت خلیفہ اول نے اور قادیان میں آپ کی قائم مقامی میں امیر مقامی کی حیثیت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھا.یہ حضرت صاحبزادہ صاحب کا سب سے پہلا خطبہ جمعہ تھا اس خطبہ میں آپ نے قرآنی آیت أن الله يامر بالعدل والاحسان و ایتای ذی القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر و البغى (محل ع۱۳) کی مختصر مگر لطیف تفسیر بیان فرمائی.

Page 353

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 324 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حضرت خلیفہ اول کو تھوک کے حضرت صاحبزادہ صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ ساتھ خون آنے کی شکایت ہو گئی تھی اور آپ جمعہ نہیں پڑھا سکتے تھے.اس لئے آپ نے ۲۶ / اگست ۱۹۱۰ء کے جمعہ کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو امام و خطیب مقرر فرمایا اور ان کے مقتدی کی حیثیت سے نماز پڑھی.ابتدائی سنتیں کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تھے اس لئے بیٹھ گئے مگر نماز جمعہ کھڑے ہو کر ادا فرمائی.اس دن نماز مغرب کے بعد آپ نے اپنی نواسی کا نکاح بھی بیٹھ کر پڑھا.۲۸-۲۷ / اگست ۱۹۱۰ء کو میرٹھ میں ایک اسلامی انجمن کا جلسہ ہوا.جس میں حضرت جلسہ میرٹھ خلیفتہ المسیح کے حکم سے حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت مولوی سید سردر شاہ صاحب شیخ محمد یوسف صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا الیعقوب بیگ صاحب نے شرکت کی مگر تقریر وقت کی قلت کے باعث موخر الذکر دو اصحاب کی ہوئی.خصوصاً خواجہ کمال الدین صاحب کا لیکچر بہت کامیاب رہا.ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت" حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الهام تھا.” ایک مشرقی طاقت اور کو ریا کی نازک حالت" یہ الہام ستمبر ۱۹۱۰ء میں بعینہ پورا ہوا جبکہ کو ریا کو جاپان نے مالیا نی مدرسہ "اصلاح دارین" کے چند صتمین کی مکفرین کے ایک اشتہار کا جواب طرف کے ایک فتوئی شائع ہوا کہ جو شخص احمد یوں کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اور فتویٰ کے آخر میں چند باتیں لکھیں جو ان کے خیال میں احمدیوں کے کفر پر دلیل تھیں.حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو یہ فتویٰ پہنچا تو آپ نے " کمفرین کے ایک اشتہار کا جواب" کے نام سے اس کا مدلل و مسکت جواب شائع فرمایا - Kia مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کال لاہور حضرت خلیفہ اول نے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کو قادیان بلوا لیا تھا اور آپ کو میں تقرر.اور منکرین خلافت کی حالت پہلے تو مدرسہ تعلیم الاسلام کی پانچویں سے دسویں جماعت کی عربی تعلیم پر مقرر فرمایا بعد ازاں آخر ۱۹۱۰ء میں جماعت لاہور کی اصلاح و تربیت اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے لاہور بھیج دیا.لاہور کی جماعت کے مقامی امام حضرت مولوی غلام حسین صاحب چوٹی کے ممتاز علماء میں سے تھے مگر درویش سیرت اور مسکین طبع ہونے کی وجہ سے اپنی شہرت پسند نہ کرتے تھے.ہر وقت مطالعہ کتب

Page 354

تاریخ احمدیت جلد ۳ 325 قاد یا ان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر اور درس و تدریس میں مستغرق اور منہمک رہتے تھے.نہایت بڑھاپے کی عمر میں اپنی ایمانی قوت اور الهامی راہ نمائی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور آخر عمر تک اپنے عمد بیعت پر کمال خلوص و عقیدت سے قائم رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ "عام طور پر انبیاء کے مانے والے ان سے کم عمر کے لوگ ہوتے ہیں بڑے بوڑھے بہت کم مانتے ہیں مگر مولوی غلام حسین خاں لاہوری اور بابا ہدایت اللہ صاحب شاعر لاہوری یہ دونوں ایسے ہیں جو بڑے اور بوڑھے ہو کر ایمان لائے ہیں.مولوی صاحب یکم فروری ۱۹۰۸ء کو انتقال فرما گئے آپ کی نعش کو حضرت مسیح موعود نے کندھا دیا اور آپ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے آپ کی وفات کے بعد جماعت لاہور میں ایک بہت بڑا خلا واقع ہو گیا.اور خصوصاً احمد یہ بلڈ نگس کے ممبران اور ان کے ماحول کی اصلاح و تربیت کے لئے ایک عالم دین کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی.جس پر خود جماعت لاہور کی درخواست پر حضرت خلیفہ اول نے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو لاہور کا مبلغ مقرر فرمایا.لاہور کی گئی والی مسجد میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب امامت کرایا کرتے تھے غیروں کے قبضہ میں چلی گئی تھی اس لئے احباب لاہو ر اب احمد یہ بلڈ نگس میں نمازیں ادا کرنے لگے تھے مولوی صاحب نے احمد یہ اللہ نگس ہی کو اپنی اصلاحی و تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا.چنانچہ روزانہ صبح کو قرآن مجید کا درس دیتے اور شام کے بعد بخاری شریف کا.اور عہد خلافت اوٹی کے آخر تک یہ فریضه نهایت خوش اسلوبی سے نباہتے رہے.احمد یہ بلڈنگس میں صدر انجمن کے چاروں ممبر جو فتنہ انکار خلافت میں پیش پیش تھے آپ سے قرآن و حدیث اور بعض دوسری کتب پڑھتے تھے خصوصاً خواجہ کمال الدین صاحب نے قرآن کے علاوہ زاد المعاد اور علم نحو کی کتاب آپ سے پڑھی.لیکچروں کی تیاری میں قرآنی آیات کے حوالے اور ان کے ترجموں میں بھی ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے تھے.مولانا راجیکی صاحب نے اس زمانہ کے حالات اپنے قلم سے لکھے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ احمدیہ بلڈ نگس کے چاروں ممبران انجمن 1909 ء میں دو دفعہ معافی مانگنے کے بعد تمرد اور سرکشی میں اور بھی بڑھ گئے تھے.چنانچہ جب آپ شروع شروع میں وہاں گئے تو انہوں نے رسالہ "الوصیت آپ کے سامنے رکھ کر نہایت درجہ مداہنت سے پوچھا کہ مولانا آپ جماعت کے بلند پایہ عالم ہیں اس عبارت کا مطلب ہمیں بتائیں کہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد انجمن ہی جانشین ثابت ہوتی ہے یا اس میں کسی شخصی خلافت کا بھی ذکر پایا جاتا ہے.بعض ممبروں نے یہ بھی کہا کہ کیا مولوی نور الدین

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 326 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر صاحب غلطیوں اور خطاؤں سے پاک اور معصوم ہیں.آپ ان کی اس گفتگو سے حیران رہ گئے کہ دوبارہ بیعت کرنے کے باوجود ان لوگوں کے دل کدورت سے صاف نہیں ہوئے اور وہی پراپیگنڈا برابر کئے جارہے ہیں.آپ نے ان کو بدلائل سمجھایا کہ اصل جانشین انجمن نہیں بلکہ خلیفہ وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب ہیں نیز نصیحت کی کہ دوبارہ بیعت کے بعد فیصلہ حقہ کے خلاف کوئی بات دل میں بٹھا رکھنا جائز نہیں اب تو ادب و احترام کو ملحوظ رکھ کر اپنے عمد اطاعت و بیعت کو وفاداری سے نبھانا چاہیے.آپ کے اس جواب سے وہ سب مایوس ہو گئے اور آپ کی مخالفت کے درپے ہو کر آپ کے لاہور سے نکلوانے کی تدبیریں سوچنے لگے.دوسری طرف آپ نے بھی جماعت کے سامنے جمعہ کے خطبوں اور دوسری مجالس خطابت میں خلافت حقہ پر اور زیادہ زور دینا شروع کر دیا.ایک دفعہ آپ خطبہ جمعہ میں خلافت کا ذکر کر رہے تھے کہ یہ حضرات بڑ بڑانے لگے اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب خدا کے لئے غلو چھوڑ دیں.ایک خطبہ جمعہ سن کر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں شکایت بھی کی کہ مولوی صاحب کے خطبوں سے پیر پرستی اور شرک پیدا ہونے کا ڈر ہے مگر یہ محض مغالطہ انگیزی تھی.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے ان کو یہ جواب دیا کہ جو درجہ حضرت صاحب کا مولوی راجیکی صاحب سمجھتے ہیں میں ان سے زیادہ سمجھتا ہوں.علاوہ ازیں ۱۴ ستمبر ۱۹۱۲ء کو اپنے قلم سے آپ کو ایک خط ارسال فرمایا جس میں لکھا: السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالٰی آپ کا حافظ و ناصر ہو.میں آپ سے بالکل خوش ہوں.نورالدین ۴/ ستمبر ۱۹۱۲ء ".ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو خواجہ کمال الدین صاحب کے اثر کی وجہ سے یہ وسوسہ پیدا ہو گیا تھا کہ میاں محمود احمد صاحب نے جو ادھر ادھر جماعتوں میں جانا شروع کر دیا ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے گدی نشین بنیں یہ خیال بڑھتے بڑھتے ان کے دل پر یہاں تک چھا گیا کہ انہوں نے مفروضہ پیر پرستی اور گدی نشینی کی تردید میں ایک رسالہ " طریق فلاح" بھی لکھ مارا.جس میں انہوں نے خلافت حقہ کو گدی قرار دے کر اپنے باغیانہ خیالات و عقائد کا اظہار کیا تھا اس کے بعد ایک دفعہ انہیں اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے ریاست بہاولپور جانا پڑا واپس آکر انہوں نے مولانا راجیکی صاحب کو بتایا کہ سفر میں مجھے بہت ہی منذر خواہیں آئی ہیں اور بار بار سرزنش ہوئی ہے کہ میاں صاحب کی مخالفت نہ کروں.چنانچہ یہ خواب بھی سنایا کہ میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی اپنی لائن پر نہایت سرعت اور عمدگی سے چلی جارہی ہے مجھے بتایا گیا کہ اس کے ڈرائیور میاں محمود احمد

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 327 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر صاحب ہیں پھر مجھے سورۂ عصر الہام ہوئی.اور میں نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ جو لوگ میاں صاحب کی گاڑی پر سوار ہوں گے وہی ایمان و عمل صالح رکھنے والے ہوں گے یہ خواب اور الہام سنانے کے بعد انہوں نے عہد کیا کہ میں آئندہ میاں صاحب کی مخالفت نہیں کروں گا.1 یوپی میں مبلغین احمدیت کے کامیاب دورے مدرسہ الہیات" کانپور اور انجمن ہدایت الاسلام" اٹاوہ کے سالانہ جلسے منعقد ہو رہے تھے جن میں احمدی علماء کی شرکت کے لئے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست پہنچی بلکہ مدرسہ الہیات کی طرف سے خود آپ کو بھی تشریف لانے کی دعوت دی گئی آپ کا جانا تو مشکل تھا اس لئے اپنی طرف سے ۹/ اکتوبر ۱۹۱۰ ء کو یو پی میں ایک وفد بھجوا دیا.جو حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب پر مشتمل تھا وفد کانپور اور اٹاوہ کی کانفرنسوں میں کامیاب لیکچر دینے کے بعد لکھنو پہنچا جہاں دار العلوم ندوہ کے بانی مولانا شیلی سے بھی ملاقات ہوئی.مولانا شیلی بڑے اخلاق سے پیش آئے اور دریافت کیا کہ کیا آپ لوگ مرزا صاحب مرحوم کو نبی مانتے ہیں؟ مفتی محمد صادق صاحب نے جواب دیا کہ ”ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النسین ہیں آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں نہ نیا اور نہ پرانا.ہاں مکالمات الہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے.اور وہ بھی آنحضرت اللہ کے طفیل آپ کے فیض حاصل کر کے اس امت میں ایسے آدمی ہوتے رہے ہیں جن کو الہام الہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے.چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام کے سلسلہ میں آپ کو خدا تعالٰی سے بہت سی آئندہ کی خبریں بھی بطور پیشگوئی کے بتلائی جاتی تھیں جو پوری ہوتی رہیں.اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں.اور احادیث میں بھی آنے والے مسیح موعود کا نام نبی رکھا اس پر مولوی شیلی صاحب نے فرمایا کہ ” بے شک لغوی معنوں کے لحاظ سے یہ ہو سکتا ہے اور عربی لغت میں اس لفظ کے یہی معنے ہیں لیکن عوام اس مفہوم کو نہ پانے کے سبب گھبراتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں.اس کے بعد جناب شیلی صاحب نے فرمایا.کہ میں مدت سے ایک نہایت مشکل اور اہم مسئلہ کی فکر میں ہوں اور بالخصوص گذشتہ چھ ماہ سے بہت ہی فکر میں ہوں.مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جاوے اگر ہم طلباء کو صرف عربی علوم پڑھاتے ہیں تو ان میں سے پرانی ستی اور کمزوری اور کم ہمتی نہیں جاتی جو آج کل کے مسلمانوں کے لاحق حال ہو رہی ہے.اور اگر انہیں انگریزی علوم کا صرف ایک چھینٹا بھی دے دیا جائے تو اس کا یہ اثر ہو تا ہے کہ دین کو بالکل

Page 357

ریخ احمدیت - جلد ۳ 328 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر A چھوڑ بیٹھتے ہیں ہم حیران ہیں کہ کیا کریں.ہاں آپ کی جماعت میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ آپ کی جماعت کے ممبر انگریزی خوان بھی ہیں اور دین کے بھی پورے طور سے پابند ہیں.”میں مرزا صاحب کے دعوی کو تو نہیں مانتا مگر ان کی جماعت میں جو یہ خوبی ہے اس کا قائل ہوں".اس کے بعد انہوں نے حضرت خلیفہ اول کے علم و فضل کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ان کی ملاقات کا بہت اشتیاق ہے ایک دفعہ میں قادیان بھی جانے لگا تھا.مگر پھر کسی وجہ سے ایک اور طرف جانے کا اتفاق ہو گیا.جہاں مجھے ایک حادثہ پیش آیا جس کے سبب اب تو میں معذور بھی ہوں.المختصر لکھنو سے یہ وفد کامیاب و کامران ہو کر۱۷ / اکتوبر ۱۹۱۰ء کی شام کو دار الامان میں داخل ہوا.انجمن احمد یہ مونگھیر کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے مرکزی علماء سونگھیر میں حضرت خلیفہ اول نے ۱۸ نومبر ۱۹۱۰ء کو حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو روانہ کیا.رستہ میں ان ہر دو بزرگوں نے شاہجہان پور میں لیکچر دئیے.جن سے متاثر ہو کر دو ہندو مرد اور ایک عورت مشرف بہ اسلام ہوئے.جو حضرت حافظ سید علی میاں صاحب اور ان کے فرزند ارجمند حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے عرصہ سے زیر تبلیغ تھے اس جلسہ کی مفصل خبر ان دنوں جناب محمد علی عابد نے اخبار پیسہ میں بھی شائع کر دی تھی.رپورٹ میں حضرت مفتی صاحب کی تقریر کے بارے میں لکھا: " آپ کا بیان علی العموم اور وہ حصہ بالخصوص بہت ہی دلپذیر تھا جس میں آپ نے عبرانی کی تو رات سے حضرت محمد مصطفی مال کے متعلق پیشگوئیاں پڑھ کر ان کا ترجمہ سنایا جس نے کہ آنحضرت ا کا حلیہ شریف اور نام مبارک اصل زبان عبرانی کی تو رات شریف میں لکھا دکھا دیا.اور فضیلت آنحضرت ا کے ثبوت پیش کرتے ہوئے سورۃ کوثر کی بڑی عمدہ و لطیف تفسیر کی جو سامعین کو محو حیرت بن گئی".حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی تقریر پر یہ ریمارکس دیئے." آپ کا انداز بیان نہایت عالمانہ اور محققانہ تھا.آپ نے مشہور مذاہب کی تعلیمات کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا.اور پھر اسلام کی تعلیم پیش کر کے اسلام کا افضل و اکمل مذہب ہو نا مثل آفتاب نصف النهار روشن کر دیا".ان لیکچروں کی شہر میں دھوم مچ گئی اور مسلمان فرط مسرت و عقیدت میں ملاقات کے لئے دوسرے روز ان کی فرودگاہ پر آئے لیکن معلوم ہوا کہ وہ ساڑھے گیارہ بجے شب سونگھیں روانہ ہو گئے ہیں.

Page 358

329 قادیان میں متعد د پالک عمارتوں کی تعمیر مو کھیر کا جلسہ ۱۲/ نومبر سے ۱۴/ نومبر ۱۹۱۰ ء تک تین روز جاری رہا.جس میں ان بزرگوں کے علاوہ حضرت میر قاسم علی صاحب نے بھی تقریر کی جو دہلی سے یہاں حضرت خلیفہ اول کے حکم سے پہنچ گئے تھے جلسہ غیر معمولی طور پر کامیاب رہا اور کئی سعید رو میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو ئیں.حضرت خلیفہ اول کا گھوڑے سے گرنے کا حادثہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۹۰۳ء میں بذریعہ خواب یہ نظارہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب گھوڑے پر سے گر پڑے ہیں یہ خواب بالکل مخالف حالات میں پوری ہوئی اور احمدیت کی صداقت کا ایک چمکتا ہو انشان ظاہر ہوا.واقعہ یہ ہوا کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے وطن سے چند مہینوں کے بعد واپس آئے تھے اور آپ ان کے گھر تشریف لے جانا چاہتے تھے یہ جمعہ کا دن اور ۱۸/ نومبر ۱۹۱۰ ء کی تاریخ تھی.ابھی آپ جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خود حضرت نواب صاحب ملنے کے لئے آگئے اس صورت میں بظاہر کوئی ضرورت نہ تھی کہ آپ ایک میل دور ان کی کو ٹھی پر تشریف لے جاتے.چنانچہ بعض دوستوں نے عرض بھی کیا مگر خداتعالی کے منشاء کو کون روک سکتا ہے.آپ سرخ رنگ کی ایک گھوڑی پر سوار ہو کر (جو میاں عبدالحی صاحب کو بطور تحفہ ملی تھی) نواب صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے واپسی پر بہت سے احباب ساتھ چلنا چاہتے تھے مگر آپ نے روک دیا کہ پیچھے آہستہ آہستہ چلے آؤ اور صرف دو آدمی آپ کے ساتھ تھے.مگر گھوڑی کے بدک کر تیز ہو جانے کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے.آپ کے مکان کی طرف دو راستے آتے تھے.ایک بازار سے دو سرا تنگ گلی سے ہو کر.اس خیال سے کہ بازار کا راستہ زیادہ صاف ہے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے زیادہ محفوظ ہے.پہلے آپ ای طرف چلے لیکن مین وہاں پہنچ کر دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ یہاں عورتیں اور بچے ہوں گے.ایسا نہ ہو کہ کسی کو تکلیف ہو.آپ وہاں سے لوٹ کر دوسرے راستہ کی طرف چل پڑے جو نسبتاً بہت زیادہ خطرناک تھا.گھوڑی تو آگے ہی تیز ہو رہی تھی اس راستہ میں اس طرح بد کی کہ ایک موڑ کے آگے ایک شخص مہرالدین آتشباز کے مکان کے قریب پہنچ کر آپ کا پاؤں رکاب ہی میں لٹک گیا اس وقت شیخ رحمت اللہ صاحب کو مکہ فروش اتفاق سے پہنچ گئے اور انہوں نے بھاگ کر لگام پکڑلی.گھوڑی انہیں دھکیل کر آٹھ دس قدم تک لے گئی اسی اثناء میں آپ کا پاؤں رکاب سے نکل گیا.آپ ایک پتھر پر گر پڑے اور آپ کے ماتھے پر سخت چوٹ آئی.یہ بھی قدرت الہی ہے کہ آپ خاص اس جگہ پر گرے کہ جہاں پتھر تھے.حالانکہ اس حصہ میں پھر صرف اسی جگہ پر تھے.اور اگر نصف گز بھی ادھر ادھر کرتے تو چوٹ ہرگز نہ آتی.

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 330 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر اس حادثہ کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنی اہلیہ کو آواز دی اور وہ چار پائی اور کپڑا لے آئیں اور آپ چارپائی پر لیٹ گئے.اس دوران میں قریب کے بعض احمدی دوست مثلاً میر حسین صاحب بریلوی سید عبدالرحمن صاحب (خلف الرشید حضرت سید عزیز الرحمن صاحب) اور ان کی والدہ بھی پہنچ گئیں.حضور کے سر سے خون بہہ رہا تھا جو سر پر پانی ڈالنے کے باوجود بند نہ ہوا.شیخ صاحب نے اپنی پگڑی سے خون صاف کیا.تھوڑی دیر بعد ہوش آئی تو فرمایا.خدا کے مامور کی بات پوری ہو گئی.شیخ صاحب نے عرض کی کون سی بات فرمایا.کیا آپ نے اخبار میں نہیں پڑھا کہ حضور نے میرے گھوڑے سے گرنے کی بابت خواب دیکھی تھی.ازاں بعد آپ کے شاگر د حکیم غلام محمد صاحب امرت سری اور آپ کے بچوں کے خادم محی الدین صاحب آپ کی چارپائی اٹھا کر آپ کے مکان میں لے آئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ نے "نشان آسمانی" کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا.جس میں اس واقعہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد دنیا کو اس نشان سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور لکھا: پیشگوئی کا ایسے وقت میں ہوتا جب آپ کے پاس کیا قادیان کے احمدیوں میں سے کسی کے پاس بھی گھوڑا نہ تھا.پھر اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود کافوت بھی ہو جاتا اور اس پیشگوئی کا بالکل ظہور نہ ہونا.پھر کسی شخص کا عزیزم عبد الحی سلمہ اللہ تعالٰی کو گھوڑا ہر تہ پیش کرنا اور خریدا ہوا نہ ہونا.نواب صاحب کے خود آکر ملنے کے باوجود حضرت مولوی صاحب کا وہاں تشریف لے جانا.رکابوں کا چھوٹا ہونا اور باوجود کہنے کے آپ کا بچوں کی تکلیف کے خیال سے ان کے لیے کرنے سے منع کرنا.احباب کا ساتھ چلنے کی خواہش کرنا اور آپ کا روک دیتا.گھوڑے کا بدک کر تیز ہو جانا اور دونوں ساتھیوں کا ، رہ جانا اور پھر آپ کا خاص اس جگہ پر کرنا جہاں پتھر تھے.ایسے عجیب واقعات ہیں کہ سوائے اس کے کہ یقین کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کے خاص ارادے کے ماتحت حضرت صاحب کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہوئے ہیں اور کوئی صورت نظر نہیں آتی.جماعت کی طرف سے اپنے امام سے آپ کے گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پوری بے پناہ خلوص و محبت کا اظہار جماعت کے لئے ایک دل ہلا دینے والا حادثہ تھا جس نے سب ہی کو تڑپا دیا اور جوں جوں دوستوں کو یہ خبر پہنچی وہ دیوانہ وار اپنے محبوب آقا کی عیادت کے لئے کھچے چلے آئے.بیمار پری کے لئے ہر طرف سے بکثرت خطوط پہنچنے لگے.اور جماعت کے چھوٹے بڑے سب دعاؤں میں

Page 360

تاریخ احمد بیت - جلد - 331 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر مصروف ہو گئے اور جماعتی رنگ میں بھی دعائے خاص کی مسلسل تحریکیں ہونے لگیں.کئی دوستوں نے اصرار کیا کہ مرکز سے روزانہ بذریعہ کار ڈان کو اطلاع دی جائے چنانچہ اس کا اہتمام بھی کیا گیا.غرضکہ مخلصین جہات نے خلیفہ وقت ہے اس موقعہ پر جس فدائیت و شیدائیت کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا.حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک روز جناب باری میں عرض کی کہ اے موٹی 1 حضرت نوح کی زندگی کی ضرور تیں تو مختص المقام تھیں.اور اب تو ضرور تیں جو درپیش ہیں ان کو بس تو ہی جانتا ہے.ہماری دعا قبول کر اور ہمارے امام کو نوح کی سی عمر عطا کر ".شیخ محمد حسین صاحب (لائل پور) نے دعا کی کہ حضرت صاحب کی بیماری مجھ کو آجائے اسی طرح سید ارادت حسین صاحب سونگھیری نے اپنی دعا میں جناب باری سے التجا کی میری عمر دو سال کم ہو کر حضرت صاحب کو مل جائے ان دعاؤں کے علاوہ دوستوں نے صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا." یہ خوشی کی بات ہے کہ بیماری کے ایام میں جماعت اللہ کی طرف متوجہ ہے ".اس موقعہ پر احمدی ڈاکٹروں نے بھی علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جس پر حضرت نے خاص طور پر شکریہ ادا کیا.حضرت خلیفہ اول کی بیماری اور اس کے کوائف اس حادثہ میں جو ستر برس کی عمر میں آپ کو پیش آیا آپ کے سر کو سخت چوٹ لگی اور بہت خون بہہ گیا تھا.جس کی وجہ سے تین برس تک یہ بیماری کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہی اور قریبا سات ماہ تک آپ کو بستر علالت پر رہنا پڑا.حضرت خلیفہ اول ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۳ء کو اپنے قلم سے اس بیماری کے کوائف اس طرح لکھتے ہیں: گھوڑے سے گر اسخت کھنگر تھے جو اس باختہ ہو گیادا ئیں طرف زخمی ہوئے اسہال کا مرض تو جاتا رہا.ہفتہ بھر کے بعد شقیقہ شروع ہوا.سمجھ میں نہ آئے درجن ڈاکٹر حیران آخر میراسماعیل ڈاکٹر نے کہا.ابرو کے زخم سے رجنہ کو خون پہنچا ہے.اور وہ ریح بن گیا.آخر بخلاف رائے ڈاکٹر ان صدغ پر اپریشن ہوا.ریح نکلی درد کو آرام آگیا.ساتویں روز شدید ماشرا ہو گیا.زخم بالکل اصفر ہو گیا.ہرڈ مشہور پروفیسر کو بلایا اس نے رائے دی علاج ترک کرد و قدرت پر رکھو صرف اکھتول گلیسرین سر اور منہ پر لگا دیں بارے ہفتہ کے بعد انحطاط شروع ہوا اور اپریشن کا زخم ناسور بن گیا.پیشاب کی کثرت ہو گئی شدت کا ہزال ہوا.ایک مخلص نے سونا اور فولاد دکھلایا.چالیس روز کھایا.منہ بند تھا سیال اشیاء گذر جائیں.تین برس کے بعد ناسور اچھا ہوا.اور نظر بھی درست ہو گئی اب ذیا بیطس اور عطش کی

Page 361

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 332 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر کثرت ہے ۰۴ اوزنی اور شکر زیادہ تھی علاج کیا.شکر خود بخود دور ہو گئی رات کو دوبار دن کو دو بار پیشاب آتا ہے عصر و مغرب کے درمیان پیاس ہوتی ہے......اسپغول بہت کھایا اور مفید ہوا.اب پانچ روز سے درس دیتا ہوں.والحمد لله رب العلمين".حضرت خلیفہ اول نے اوپر ڈاکٹر میجر ہرڈ (Herd) کا ذکر فرمایا ہے یہ ڈاکٹر صاحب میڈیکل کالج لاہور کے مشہور پروفیسر تھے جو 19 / جنوری 1911ء کو دوپہر کے وقت قادیان آئے انہوں نے حضرت خلیفہ اول کا طبی معائنہ کیا نبض دیکھی تو کہا یہ نبض تو جوانوں کی سی ہے جیسے تیس سالہ جوان ہوتا ہے بڑھاپے میں ایسی حالت کبھی میں نے نہیں دیکھی تھرما میٹر لگایا ، پیشاب کا ٹیسٹ کیا اور دوبارہ اپنے ہاتھ سے مرہم پٹی کی اور تسلی دلائی کہ زخم کی حالت اچھی ہے تدریجا بھر جائے گا.چنانچہ خدا کے فضل سے چند دن میں ہی ماشرہ کا دورہ ختم ہو گیا.بخار بھی اتر گیا اور آہستہ آہستہ جسم میں قوت و طاقت آنی شروع ہو گئی.اور گو دوسرے عوارض درمیان میں چلتے رہے.مگر صحت میں بہر حال ترقی ہوتی گئی حتی کہ آپ اپریل کے تیسرے ہفتہ میں پہلی بار اپنے گھر سے چل کر اپنے مطب تک تشریف لائے.اور تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے ۲۱ / اپریل کو آپ پالکی میں بیٹھ کر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کو ٹھی میں تشریف لے گئے اور دن بھر وہاں رہے اب آپ درس حدیث دینے اور بیماروں کو بھی دیکھنے لگے.19 مئی 1911ء کو آپ نے علالت کے بعد سب سے پہلا جمعہ پڑھایا جس میں دوستوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی.اس کے بعد وسط جون 1911ء میں آپ نقاہت وضعف کے باوجود نماز صبح کا درس دینے لگے.درس کے بعد بیماروں کو دیکھتے پھر تفسیر جلالین پڑھاتے اور ادبیات کا درس دیتے.نیز اصول فقہ کی کتابیں پڑھاتے.ظہر کے بعد مسلم شریف اور دیگر کتب کا درس ہو تا.شام کے بعد طب پڑھاتے غرضیکہ قریباً سات ماہ بعد آپ کے علمی مشاغل بہت حد تک پھر معمول پر آگئے.البته درس قرآن جو آپ مسجد اقصیٰ میں دیا کرتے تھے.کئی ماہ کے بعد 9 / اکتو بر ۱۹ ء کو شروع ہوا.اور جماعت جو کم و بیش ایک سال سے اس نعمت عظمی سے محروم ہو گئی تھی اسے پھر سے یہ نعمت میسر آگئی.فالحمد لله على ذالك.حضرت خلیفہ اول کے مقام عشق و خدا کے مرسلین اور ان کے خلفاء اور دوسرے اہل اللہ کی بیماری دراصل ان کے مدارج کی فدائیت کے ایمان افروز واقعات بلندی کے لئے ایک زینہ کا کام دیتی ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ان العبد اذا سبقت له من الله منزلة لم يبلغها بعمله ابتلاء في جسده او ماله او في ولده ثم صبر على ذالك حتى يبلغه المنزلة التي سبقت •

Page 362

اریخ احمدیت.جلد ۳ 333 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر له من الله یعنی جب کوئی بندہ اس مقام پر جو اللہ تعالٰی کے نزدیک اس کے لئے مقدر ہو چکا ہے اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا.تو اللہ تعالٰی اس کو جسم مال یا اولاد کے دکھ میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسے صبر کی توفیق عطا کرتا ہے.اور اس طرح اسے اس مقام پر فائز کر دیتا ہے جو جناب الہی سے اسکے لئے پہلے سے مقدر ہو چکا ہے.اسی طرح سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تحریر فرماتے ہیں: نبیوں اور راستبازوں پر جو بلا ئیں آتی ہیں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بلا اور مصیبت ان کے لئے مدرک الحلاوۃ ہو جاتی ہے وہ اس سے لذت اٹھاتے ہیں اور روحانی ترقیوں کے لئے ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لئے ایسی بلاؤں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لئے زینہ کا کام دیتی ہیں".الفاظ وفا نہیں کرتے تو اس لذت کو بیان کر سکیں.جو اخیار و ابزار کو ان بلاؤں کے ذریعہ آتی ہے.یہ مصیبت کیا ہے ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام واکرام اور پھل اور میوے پیش کئے جاتے ہیں.خدا اس وقت قریب ہوتا ہے فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں اللہ تعالی کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کو تسلی اور سکینت دی جاتی ہے لوگوں کی نظروں میں یہ بلاؤں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے...غرض میں کہاں تک بیان کروں کہ ان بلاؤں میں کیا لذت اور مزا ہوتا ہے اور عاشق صادق کہاں تک ان سے محظوظ ہوتا ہے مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بلاؤں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار او را خیار پر آتی ہیں جنت اور ترقی درجات ہے ".یہ روحانی رنگ جس کا نقشہ حضور علیہ السلام نے کھینچا ہے حضرت خلیفہ اول کی اس بیماری میں آنکھوں کے سامنے عملاً آگیا.جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے اس حادثہ کے پیش آتے ہی آپ نے سب سے پہلا کلمہ یہ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواب پوری ہوئی.ایک روز فرمایا کہ "میری اس علالت میں کوئی عظیم الشان منشاء سرکاری معلوم ہوتا ہے جو اتنے سال پہلے مرزا کو یہ واقعہ دکھایا.....اور پھر اس واقعہ کو اسی رنگ میں پورا کر کے دکھایا اور مجھے چار پائی پر ڈال دیا".گھوڑے سے گرنے کے کچھ وقت بعد آپ نے فرمایا کہ کوئی حافظ ہے تو قرآن سنائے چنانچہ پہلے حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب نے پھر حافظ سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے قرآن پڑھا.حضور نے فرمایا مجھے آپ کے والدین پر رشک آتا ہے کہ کیسی نیک اولاد اللہ تعالٰی نے ان کو دی ہے.قرآن سے

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 334 قادیان میں متعدد پالک عمارتوں کی تعمیر عشق کا جو جذبہ ابتداء سے آپ میں موجزن تھا.وہ اس بیماری میں عروج تک پہنچ گیا.چنانچہ ان دنوں آپ کا سب سے محبوب مشغلہ قرآن مجید پر غور و تفکر تھا.آپ لیٹے لیٹے قرآن مجید کے مضامین پر غور فرماتے تھے.ایک دن نماز مغرب کی نیت باندھی اور ساتھ ہی قرآنی آیت پر غور شروع ہو گیا.قریبا دو گھنٹہ اسی حالت میں گزر گئے اور نماز پوری نہ ہو سکی تو فرمایا.کیا کروں نماز نہیں پڑھی گئی.(مگر یہ عجیب کمال ہے کہ آپ نے اس دوران میں کوئی نماز قضا نہیں ہونے دی).ایک دفعہ فرمایا ایک نکتہ معرفت میرے کان میں پہنچا.میری بیوی نے کہا.آپ جانتے ہیں؟ کہ آپ کو تکلیف کیوں پہنچی.میں نے کہا اللہ کے مخفی در مخفی راز ہیں.کہا ایک وجہ میرے خیال میں بھی آئی ہے کہو تو سناؤں.میں نے کہا ہاں.کہنے لگی تمہاری عادت تھی جمعہ کے بعد دعاؤں میں لگے رہتے.تم وہ دعا کا وقت چھوڑ کر ایک امیر کو ملنے چلے گئے.مجھے یہ نکتہ بہت پیارا لگا.ابتداء میں جب بیماری کی تکلیف زیادہ تھی آپ حافظ محمد ابراہیم صاحب اور قاری محمد یاسین صاحب وغیرہ دوستوں سے قرآن مجید ذوق و شوق سے سنتے.II ایک روز آپ پر سخت رقت طاری ہوئی اور روپڑے نیز فرمایا.کہ کیا قادیان میں کوئی حافظ نہیں ہے؟ کوئی مجھ سے قرآن نہیں سنتا اور نہ سناتا ہے.یہ تو مرض کے ابتدائی ایام کی بات ہے.جب قدرے افاقہ ہوا تو آپ نے لیٹے لیٹے قرآن مجید سنانا اور درس دینا شروع کر دیا.ڈاکٹروں نے اس پر عرض کیا کہ اس سے بیماری پر اثر پڑے گا.تو آپ نے فرمایا.نور الدین کو درس قرآن سے مت رو کو یہ نور الدین کی غذا ہے.چنانچہ آپ بیماری کی حالت میں شیخ محمد تیمور صاحب اور ایک غیر احمدی مولوی محمد شفیق کو قرآن شریف اور حدیث پڑھاتے رہے.آپ کی بیماری سے جماعت کو جو نقصان پہنچا اس میں آپ کے درس قرآن کی محرومی سب سے بڑا نقصان تھا جس کا آپ کو خود بھی بہت احساس تھا چنانچہ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو حکم دیا کہ عصر کے بعد قرآن مجید کا درس دیا کریں اور اگر وہ ناسازی طبع کی وجہ سے نہ دے سکیں تو مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب درس دیں اگر وہ بھی نہ دے سکیں تو قاضی امیر حسین صاحب درس | 1** دیں چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ۱۳ / فروری 1911 ء سے درس شروع کر دیا - 21 حفاظ بلا کر قرآن مجید سننے کا مشغلہ بیماری کے دنوں میں صبح شام رہا.قرآن مجید کے علاوہ آپ بخاری شریف اور عمدۃ الاحکام بھی سنتے رہتے جس سے آپ کے عشق رسول کے زبر دست جذبہ کا اندازہ ہوتا ہے.اب میں آپ کی علالت کے دوران کے بعض واقعات لکھتا ہوں جن سے آپ کی غیر معمولی احتیاط بے مثال تو کل زبر دست جرات، بے نظیر عشق مسیح موعود اور شاندار فیاضی وغیرہ اوصاف

Page 364

تاریخ احمدیت جلد ۳ 335 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حمیدہ پر روشنی پڑتی ہے.1- ایک دفعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اخبار میں اعلان کر دیں کہ اگر کسی شخص کا روپیہ میرے پاس امانت ہو یا قرض ہو یا کسی وجہ سے دیا ہو یا کسی مریض نے آپ کو کچھ معالجہ کے واسطے دیا ہو اور اس کے خیال میں اس کا حق اسے نہ ملا ہو تو مجھ سے مطالبہ کر کے وصول کرلے.۲ ۱۳/ دسمبر ۱۹۱۰ء کو یوم النحر تھا.مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول اس روز ہائی سکول کے طلبہ کو باہر ٹورنامنٹ پر بھجوانا چاہتے تھے حضرت کو یہ بات سخت ناگوار گذری اور آپ نے مولوی صدر الدین صاحب سے فرمایا.میں تو ہرگز ہر گز پسند نہیں کرتا اور جائز نہیں سمجھتا کہ عید کے دن سفر کیا جاوے نیز فرمایا.اگر تمہیں کوئی خوف ہے تو لکھ دو کہ نور الدین نے اجازت نہیں دى.- بیماری میں آپ ہمیشہ مصروف دعا رہتے تھے.خصوصاً یوم العرفہ کو آپ نے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقت دعاؤں کے لئے مخصوص فرمالیا.اس وقت آپ بالکل تخلیہ میں تھے اور کسی شخص کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ تھی.اس وقت آپ نے نہایت درجہ سوز و گداز سے اور دعاؤں کے علاوہ یہ بھی دعا کی کہ اے میرے موٹی میں ان لوگوں کے ساتھ مل کر دعا کرتا ہوں جو آج عرفات میں ہیں.- خواجہ کمال الدین صاحب پہلی دفعہ عیادت کے لئے حاضر ہوئے اور ذکر کیا کہ علی گڑھ میں میرا لیکچر تھا.مگر آپ کی بیماری کی وجہ سے میں نے معذرت کر دی.حضرت نے فرمایا.نہیں میری علالت اس تبلیغ کے کام میں روک نہ ہو.وہاں ضرور جانا چاہئے میں اپنے وجود کو کسی طرح بھی اسلام کے کام میں روک بنانا نہیں چاہتا بلکہ میری تو آرزو یہی ہے کہ میں اسلام ہی کی خدمت میں زندگی پوری کروں.ایک روز حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے عرض کیا کہ موجودہ ہندو مسلم کشمکش کا اثر کیا ہو گا فرمایا.میں نے اس پر بہت غور کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ مسلمانوں میں بھی قومیت کی روح پیدا ہو جائے گی...میں اس کو مسلمانوں کے لئے مفید سمجھتا ہوں.ایک خادم نے جو امرت سرسے عیادت کے لئے حاضر ہوا تھا.عرض کی کہ اشاعت اسلام کے نام سے دو سرے لوگ ہم سے چندہ مانگتے ہیں کیا کیا جاوے.حضرت نے فرمایا.اشاعت اسلام تو ایک مبارک اور مفید کام ہے اور اس کام کے لئے ہمیں بہت تڑپ ہے اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا میں پھیلے.مگر جو لوگ ہمارے سلسلہ کے دشمن ہیں اور اشاعت اسلام کرنا چاہتے ہیں ان کے متعلق

Page 365

تاریخ احمدیت جلد ۳ 336 قادیان میں متعدد پالک عمارتوں کی تعمیر قابل غور یہ امر ہے کہ کیا وہ موید من اللہ اور منصور ہیں یا نہیں اس کے بعد آپ نے واقعاتی شہادتیں دیں.اور بالوضاحت بتایا کہ یہ لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے.اندریں صورت ہم اپنے اموال ان کے سپرد کیوں کریں ؟ جناب الہی کا یہ منشاء نہیں کہ ان کی تائید کرے بر خلاف اس کے اس سلسلہ (احمدیہ) کو اللہ تعالی نے الحاصیں اسلام کا اور یہ اجالا ہو اور رشتوں کی مخالفت کے بار او را یک بوی خاصی اس خدمت کے لئے تیار کر دی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے خدا تعالیٰ نے اسی سلسلہ کو پیدا کیا ہے اور اس کے ذریعہ یہ کام ہو گا..آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ کے بھتیجے سائیں عبدالرحمن صاحب اپنی امانت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری رسید کم ہو گئی ہے.حضرت نے فرمایا.ہماری امانتوں کا انتظام خدا کے فضل سے بہت محفوظ ہے اور ہر شخص اپنی امانت جس وقت چاہے لے سکتا ہے.ہم امانت کو اسی طرح رکھتے ہیں جس حالت میں کوئی دیتا ہے.ہمارے گھر والے بھی اسے خوب جانتے ہیں کسی امانت پر جو ہمارے پاس ہو ہماری زندگی یا موت سے کوئی اثر نہیں پڑتا.اور رسید کے بارے میں فرمایا کچھ پرواہ نہیں اس کی امانت کے ساتھ رسید ہو گی اسے دیکھو اور ابھی دے دو.چنانچہ جب اس کی امانت دیکھی گئی تو واقعی اسکے ساتھ حضرت کے ہاتھ کی لکھی ہوئی رسید موجود تھی اور اس کے ساتھ ہی امانت کا روپیہ تھا.جو اسی وقت ادا کر دیا گیا.ایک روز مغرب کی نماز کے بعد جبکہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم اور بعض اور احباب آپ کی مجلس میں حاضر تھے آپ نے فرمایا.میری آمدنی کا ذریعہ بظا ہر طب تھا اب اس رشتہ کو بھی اس بیماری نے کاٹ دیا ہے میری بیوی نے آج مجھے کہا کہ ضروریات کے لئے روپیہ نہیں.اور مجھے یہ بھی کہا کہ مولوی صاحب آپ نے کبھی بیماری کے وقت کا خیال نہیں کیا....میں نے اسے کہا کہ " میرا خدا ایسا نہیں کرتا میں روپیہ تب رکھتا جو خداتعالی پر ایمان نہ رکھتا".شیخ صاحب نے عرض کیا کہ ڈاکٹر اور دوسرے لوگ اس بیماری میں آپ کی خدمت اپنی سعادت سمجھتے ہیں فرمایا.مجھ پر تو خدا کا فضل ہے اور یہ بھی فضل ہے.آپ یہ بیان فرماہی رہے تھے کہ شیخ محمد تیمور صاحب نے آپ کی خدمت میں شیخ محمد اسماعیل صاحب ( ولد حاجی امیر الدین صاحب تاجر چرم) حیدر آباد (سندھ) کا خط سنایا جو تازہ ڈاک سے آیا تھا.وہ بیمار ہوئے انہوں نے ایک سو روپیہ حضور کی خدمت میں بطور نذر خاص بھیجا.اس پر وہ اچھے ہو گئے پھر دوسرے دن ایسا ہی اتفاق ہوا.تو انہوں نے پچیس اور بھیجے.علاوہ از میں پنڈ دادنخاں سے بھی ایک خط ملا.کسی شخص نے لکھا تھا کہ جب آپ پنڈ دادنخان میں مدرس تھے.اس وقت کی چار روپیہ کی چونیاں آپ کی میرے ذمہ ہیں.اب وہ بھیجنا چاہتا ہوں یہ دونوں خط حضرت

Page 366

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 337 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر کو سنائے گئے تو آپ رقت سے بھر کے بے اختیار رو پڑے اور فرمایا "اللہ میرا مولیٰ ایسا ہی قادر خدا ہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ طب کے تعلق کو توڑ کر بھی مجھے رزق دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا " - شیخ تیمور صاحب کو ہدایت فرمائی کہ میری ادویہ وغیرہ پر جس قدر خرچ ہوا ہے اس کا میزان کرد اور میری بیوی سے کہو کہ جو روپیہ کپڑے میں باندھ کر دیا گیا ہے اس میں سے وہ کل حساب ادا کردو غرض آپ نے اپنی بیماری کے کل اخراجات خود برداشت کئے اور انجمن سے ایک پائی تک لینا گوارا نہ فرمایا.| 117 | = ۱۷-۱۰/ جنوری 1911 ء کو اپریشن کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف اٹھانا پڑی.اپریشن میں جب آپ کا زخم صاف کیا گیا آپ کی زبان مبارک پر کثرت سے لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اور سبحان الله سبحان اللہ کے کلمات جاری تھے.ا حضور کی خدمت میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حاضر ہوئے اور گفتگو کے دوران خواجہ کمال الدین صاحب کا بھی ذکر کیا.حضور نے فرمایا.خواجہ صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے میں اس کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہوں افاقہ ہونے پر کسی کو لکھا دوں گا یا سنادوں گا.چنانچہ دوسرے ہی دن اپنی بیاض منگواکر فلسفہ گناہ پر ایک تقریر فرمائی.۱۲- ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے یہ عرض بھی کی کہ حضور کا دل کس چیز کو چاہتا ہے.حضور نے نہایت رقت بھرے الفاظ میں فرمایا.”میرا دل یہی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.پھر فرمایا کہ میرا اللہ راضی ہو پھر فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم فرمانبردار رہو اختلاف نہ کر لو.جھگڑانہ کرنا پھر فرمایا میں دنیا سے بہت سیر ہو چکا ہوں کوئی دنیا کی خواہش نہیں.مرجاؤں تو میرا خدا مجھ سے راضی ہو.فرمایا کہ سب کو سنا دو.پھر فرمایا میں دنیا کی پروا نہیں کرتا میں نے بہت کمایا بہت کھایا بہت لیا بہت دیا کوئی خواہش باقی نہیں کبھی کبھی صحت اس لئے چاہتا ہوں کہ گھبراہٹ میں ایمان نہ جاتا رہے پھر بہت دفعہ دردانگیز لہجہ میں فرمایا کہ اللہ تو راضی ہو جا.پھر کئی بار فرمایا اللهم ارض عنى اللهم ارض عنى.اللهم ارض عنی پھر فرمایا مجھے شوق ہے کہ میری جماعت میں تفرقہ نہ ہو.دنیا کوئی چیز نہیں میں بہت راضی ہوں گا اگر تم میں اتفاق ہو.میں سجدہ نہیں کر سکتا.پھر بھی سجدہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں میں نے تمہاری بھلائی کے لئے بہت دعائیں کیں.مجھے طمع نہیں مجھے میرا موٹی بہت رازوں سے دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ دیتا ہے خبردار جھگڑا نہ کرنا.تفرقہ نہ کرنا اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اس میں تمہاری عزت باقی رہے گی.نہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.پھر فرمایا میں نے کبھی کسی کو حکم دیا

Page 367

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 338 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ہے تو اپنے دلی طمع سے حکم نہیں دیا.خدا کا حکم سمجھ کر دیا ہے نمازیں پڑھو.دعائیں مانگو.دعا بڑا ہتھیار ہے تقویٰ کرو بس.پھر فرمایا دعائیں مانگو.نمازیں پڑھو بہت مسئلوں میں جھگڑے نہ کرو.جھگڑوں میں بہت نقصان ہوتا ہے بہت جھگڑا ہو تو خاموشی اختیار کرو.اور اپنے لئے اپنے دشمنوں کے لئے دعا کرو.پھر فرمایا.لا اله الا الله محمد رسول الله اکثر پڑھا کرو.قرآن کو مضبوط پکڑو - قرآن بہت پڑھو اور اس پر عمل کرو.پھر فرمایا.رضیت بالله ربا وبالاسلام دينا و بمحمد ر سو لا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے عرض کیا کہ کیا یہ لکھ دیا جاوے کہ یہی حضور کی وصیت ہے فرمایا ہاں.فرمایا جاؤ حوالہ بخدا | HO invi -۱۳- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کیا.آپ کی بیماری سے دل کو ازحد تکلیف ہوتی ہے مگر یہ امر بڑا ہی خوشکن ہے کہ ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے فرمایا اگر یہ بڑا نشان نہ تھا تو حضرت صاحب کو اتنا عرصہ پہلے کیوں دکھایا گیا؟ ۱۴.حضرت مسیح موعود کے مخلص خادم میاں جان محمد صاحب کا بیٹا میاں دین محمد عرف بگا آیا تو حضور نے حکم دیا کہ اسے ایک روپیہ دے دو نیز فرمایا اس کی والدہ اس کے رشتہ کی تلاش کرے ہم بھی مدد دیں گے.۱۵- ایک دفعہ فرمایا مجھے اپنی اولاد کا کچھ بھی فکر نہیں.اس وقت آپ کو ابھی تک ماشرہ کا درم موجود تھا اور آپ کو تکلیف تھی.۱۶- مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی نے رویاء میں دیکھا کہ مولانا محمد قاسم صاحب حضرت خلیفتہ المسیح کی عیادت کو آئے ہیں اور ایک سو روپیہ صدقہ کرنے کے لئے فرمایا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح نے خواب سنتے ہی حکم دیا کہ ایک سور دو پہیہ نقد صدقہ کر دیا جائے.۱۷.ایک روز حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشہور عربی قصیدہ نونیہ آپ کو سنا رہے تھے کہ آپ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے قریب تھا کہ اس جوش محبت میں آپ کی جان چلی جاتی آپ نے سب کو اٹھا دیا.لیں.HA- ۱۸- مولوی محمد علی صاحب سے فرمایا کہ نیا مہمان خانہ ہماری زندگی میں تعمیر کرا دو تا ہم بھی دیکھ ١٩- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ناظم مدرسہ احمدیہ ) کی یہ تجویز حضرت کے علم میں آئی کہ کوئی آدمی مصر میں تعلیم کے لئے بھیجا جائے جو تعلیم حاصل کر کے مدرسہ احمدیہ میں کام کرے.فرمایا دو تین آدمی بھیجنے چاہئیں نصف خرچ ہم دیں گے.

Page 368

تاریخ احمدیت جلد ۳ 339 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر -۲۰ - بیماری کے دوران میں آپ کی طبیعت اچار کی طرف متوجہ ہوئی.اس خواہش کے اظہار پر کثرت سے مختلف قسم کے اچار آنے لگے اس پر آپ نے فرمایا.میرے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا بسط کیا ہے جس چیز کی خواہش میرے دل میں آتی ہے وہی کثرت سے مہیا ہو جاتی ہے.یہ اس کار تم اور غریب نوازی ہے.۲۱ - اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے یہ اطلاع دی کہ میاں عبدالحی صاحب نے آج تقویٰ پر لیکچر دیا اور بہت اچھا لیکچر دیا یہ سن کر فورا بیٹھ گئے اور سجدہ شکر کیا.اور دیر تک دعائیں کرتے رہے.پھر خودہی فرمایا مجھ کو اس قدر ضعف ہے کہ بیٹھ نہیں سکتا.لیکن اکبر شاہ خاں نے ایسی بات سنائی کہ میں خوشی کے سبب بیٹھ گیا.۲۲- شیخ یعقوب علی صاحب نے سوال کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے.فرمایا مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستور العمل ہو.آئندہ خلیفہ کے لئے وصیت حضرت خلیفہ اول نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے وقت اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد جانشین بنتا اور اسی واسطے میں ان کی تعلیم میں سعی کرتا رہا.لیکن جب خدا کی مشیت ازلی نے آپ ہی کو خلافت کی خلعت سے نوازا.تو آئندہ کے لئے حضرت کی نگاہ انتخار پر پڑنے لگی.باوجود خلیفہ ہونے کے آپ کے دل میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا سب سے زیادہ احترام تھا.سفر ملتان میں تشریف لے گئے تو آپ ہی کو امیر مقامی بنایا.میر مجلس بنانے کا سوال اٹھا تو آپ ہی کو اس غرض کے لئے نامزد فرمایا اس طرح اب جو آپ بیمار ہوئے تو آپ کی خدمت میں حضرت صاحبزادہ صاحب آئے تو حضرت نے ان کو ارشاد فرمایا کہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے رہو.چنانچہ آپ حضرت خلیفہ اول کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتے رہے.II اس بیماری میں آپ نے اپنی بجائے نمازوں میں امامت وغیرہ کے فرائض حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی کے سپرد کر دئیے.اسی طرح زندگی کے آخری ایام میں بھی جبکہ آپ مرض الموت میں تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب ہی کو امام مقرر فرمایا.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض بھی کیا.مگر آپ نے اپنا فیصلہ قائم رکھا.چنانچہ مولوی ظهور حسین (سابق) مبلغ بخارا) کی روایت ہے.کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نے ہمیں کلاس میں بتایا کہ ان ایام میں جبکہ حضرت میاں صاحب امام الصلوۃ تھے.مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہا کہ آپ حضرت خلیفتہ المسیح کے بلا تکلف دوست ہیں میرا نام لئے بغیر ان سے عرض کریں.کہ جماعت کے بڑے بڑے جید عالم موجود ہیں ان کی موجودگی میں میاں صاحب کو امام

Page 369

تاریخ احمدیت جلد ۳ 340 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر مقرر کرنا مناسب نہیں.جس پر بعض دوست اعتراض کرتے ہیں.حضرت حافظ صاحب نے بتایا کہ میں نے مولوی صاحب کے منشاء کے مطابق یہ پیغام حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں پہنچا دیا.اور مولوی محمد علی صاحب کا نام نہیں لیا.اور جیسا کہ انہوں نے کہا تھا محض عمومی رنگ میں یہ بات کہہ دی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.ان اکرمکم عند الله اتقاکم مجھے محمود جیسا ایک بھی متقی نظر نہیں آتا.پھر از خود فرمایا کہ کیا میں مولوی محمد علی صاحب سے کہوں کہ وہ نماز پڑھا دیا کریں؟ ایک دفعہ خطبہ جمعہ دیتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا : ایک نکتہ قابل یا د سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش رک نہیں سکا.اور وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے ۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی ۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خاص بھلائی کے لئے کسی ہے ".aaa یہ اور اس نوعیت کے متعدد واقعات سے بالبداہت نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ بعض آسمانی بشارات کے مطابق یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ کے بعد سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ ہوں گے.اسی کامل یقین کے مطابق جب آپ نے گھوڑے سے گرنے کے بعد ۱۹/۲۰ کی درمیانی شب کے آخری حصہ میں ایک وصیت لکھی جس کی تفصیل اخبار بدر میں ان الفاظ میں شائع ہوئی.” درمیانی شب جمعرات و جمعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ قلم دوات کاغذ لاؤ.میں کچھ لکھ دوں.پچھلی رات کا وقت تھا سوائے شیخ تیمور صاحب ایم.اے کے جو دیگر رات کو وہاں رہنے والے خدام موجود تھے ان کو بھی باہر جانے کا حکم دیا ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا اور اسے ایک لفافہ میں بند کرا کر اپنا انگوٹھا لگایا اور پھر ایک دوسرے کاغذ پر بھی کچھ لکھ کر وہ بھی ایک لفافہ میں بند کرا دیا.اس دو سرے کاغذ میں ایک سطر شیخ تیمور صاحب سے بھی لکھوائی اور نیچے اپنے دستخط کر دیے.اور ان کی اشاعت سے منع کیا".یہ وصیت کیا تھی ؟ مولوی محمد علی صاحب اپنی کتاب "حقیقت اختلاف " میں تحریر کرتے ہیں.اپنی پہلی بیماری میں یعنی 1911 ء میں جو وصیت آپ نے لکھوائی تھی اور جو بند کر کے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی اس کے متعلق مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں آپ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا یہ وصیت بعد میں بند کی بند ضائع کر دی گئی " 10 حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں: آپ نے رات کے وقت قلم دوات طلب کی اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے.خلیفہ - محمود- ۱۳۵

Page 370

تاریخ احمدیت جلد ۳ 341 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر اور اپنے ایک شاگرد کو وہ کاغذ دیا کہ لفافہ میں بند کر کے اپنے پاس رکھو.یہ وصیت شائع نہ ہوئی کو کئی لوگوں کو اس شاگرد کے ذریعہ سے اس کے مضمون سے آگاہی حاصل ہو گئی.اس کے بعد صحت ہو جانے پر آپ نے وہ لفافہ لے کر پھاڑ دیا.جس قلم اور دوات کے ساتھ یہ وصیت لکھی تھی وہ اب تک عاجز (یعنی حضرت مفتی صاحب - ناقل) کے پاس محفوظ ہے"- ان لاہوری ممبروں کو جو نظام خلافت ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کے خواب دیکھ رہے تھے یہ وصیت سخت شاق گذری اور ان کو اس سے از حد تشویش ہوئی.چنانچہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو حضور کے بعض کلمات سن کر از خود کہا کہ کیا یہ لکھ دیا جاوے کہ یہی حضور کی وصیت ہے ؟ اس میں اس تشویش و اضطراب کی جھلک نمایاں نظر آ رہی تھی.ڈاکٹر صاحب " یہی وصیت ہے " کے الفاظ سے پہلی وصیت کو کالعدم قرار دینا چاہتے تھے یہ ایسی کھلی بات تھی کہ تماعت میں اس کا چر چا شروع ہو گیا حتی کہ خود حضرت خلیفتہ المسیح اول کو اصل حقیقت واضح کرنا پڑی کہ اس وصیت کی نوعیت اور ہے اور اس کی اور.چنانچہ اخبار الحکم میں ایوان خلافت" کے عنوان سے یہ واقعہ اشارہ موجود ہے لکھا ہے.۲۲ / جنوری ۱۹۱۱ ۹۶ بجے رات شیخ تیمور صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے جو چند کلمات ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو رخصت کرتے وقت فرمائے تھے ان کی نسبت کچھ شور ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے جو یہ کہا تھا کہ حضور کی یہی وصیت ہے اس کا بھی چر چاہے فرمایا کہ لوگ تو بے سمجھ ہیں یہ تو چند ضروری باتیں تھیں جو ڈاکٹر صاحب کو میں نے کسی تھیں.مصیبت کے وقت انسان کے اندرونی حالات کا پتہ لگ جاتا ہے اور میں تو وہی کہتا ہوں.جو میرے دل میں ہوتا ہے.فرمایا.میری باتوں میں اختلاف نہیں ہو تا.یہ جو اس وقت کی ہے یا جو کسی اور وقت کسی ہے کوئی باہم متخالف نہیں." صحت یاب ہونے کے بعد گو آپ نے یہ وصیت چاک کردی مگر اس کے بعد اپنی وفات تک برابر مختلف پیرایوں میں اس امر کا اظہار فرماتے رہے کہ آئندہ خلافت اس وصیت کے مطابق ہی قائم ہوگی مثلاً ا قاضی رحمت اللہ صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں ایک ردیاء لکھا جس پر آپ نے تحریر فرمایا کہ میرے بعد میاں محمود احمد صاحب خلیفہ ہوں گے.آپ فرماتے تھے ”محمود کی خواہ کوئی کتنی شکایتیں ہمارے پاس کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہمیں تو اس میں وہ چیز نظر آتی ہے جو ان کو نظر نہیں آتی.یہ لڑکا بہت بڑا بنے گا.اور اس سے خدا تعالٰی عظیم الشان کام لے گا.۳.یکم دسمبر ۱۹۱۲ء کو آپ نے بعد نماز عصر سورہ اعراف کی آیت و لقد اخذنا ال فرعون بالسنین کا درس دیتے ہوئے فرمایا." تیس برس کے بعد انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ مجدد یعنی موعود ۱۳۷

Page 371

تاریخ احمد بیست - جلد ۳ 342 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر (قدرت ثانیہ ظاہر ہو گا.( یعنی ۱۹۴۴ء میں مصلح موعود کا ظہور ہو گا) ۴- ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز کے بعد کسی شخص نے حضرت خلیفہ اول سے مصافحہ کیا تو حضور نے فرمایا میاں صاحب سے بھی مصافحہ کر لو.شاید ہمارے بعد ان کے ہاتھ پر تمہیں بیعت کرنی پڑے.شیخ عبد الرحمن صاحب کو مصر میں لکھا کہ " تمہیں وہاں کسی شخص سے قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں جب تم واپس قاریان آؤ گے تو ہمارا علم قران پہلے سے بھی انشاء اللہ بڑھا ہوا ہو گا.اور اگر ہم نہ ہوئے تو میاں محمود سے قرآن پڑھ لینا ".اسی طرح آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو فرمایا کہ اگر میری زندگی میں قرآن ختم نہ ہو تو بعد ازاں میاں صاحب سے پڑھ لینا - a ۷ - ۸/ ستمبر ۱۹۱۳ء کو حضرت پیر منظور محمد صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کیا کہ مجھے آج حضرت اقدس کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ چل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا کہ ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں.پیر صاحب نے یہ الفاظ قلمبند کر کے بغرض تصدیق آپ کی خدمت میں رکھے تو آپ نے اپنے قلم سے لکھا.ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں" " ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور انکا ادب کرتے ہیں" یہ لفظ مہینے برادر منظور محم سے کہی ہیں تو این دارو نیز در - ۸/ جنوری ۱۹۱۴ء میں آپ نے ایک بھری مجلس میں فرمایا کہ مسند احمد حنبل کی تصحیح کا کام ہم سے تو نہ ہو سکا میاں صاحب کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو سکے گا.نومبر ۱۹۱۰ء میں حضرت صاحبزداہ مرزا عزیز احمد صاحب کی شادی خانہ آبادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کا نکاح مرزا اسلم بیگ

Page 372

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 343 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر صاحب کی صاحبزادی سے ہوا.دسمبر میں شادی ہوئی اور آپ لاہور سے ۲۹/ دسمبر کو اپنی دلہن کو لے کر قادیان آئے.دلہن نے حضرت طلیقہ المسیح کے حضور میں حاضر ہو کر بیعت کی.قادیان میں ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی.خان بہادر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب ریونیو ممبر بہاولپور نے بھی اس میں شرکت فرمائی.|_ خواجہ کمال الدین صاحب کے لیکچروں کا رد جیسا کہ ہم بالتفصیل بتا چکے ہیں خواجہ کمال الدین عمل اور حضرت خلیفہ اول کا واضح ارشاد صاحب اخبار وطن سے معاہدہ کر کے دوسرے مسلمانوں میں اثر و نفوذ پیدا کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ آرزو حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تو پوری نہ ہو سکی لیکن ۱۹۰۹ء کے آغاز میں دوبارہ بیعت خلافت کے بعد آپ نے اس کی تکمیل کی طرف توجہ کی اور ملک بھر میں لیکچروں کا وسیع پیمانہ پر سلسلہ شروع کر دیا.خواجہ صاحب قادر الکلام مقرر تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے قلب و دماغ میں ایک نئی روشنی پیدا ہو چکی تھی.اس لئے جب آپ نے احمدیت کے مخصوص مسائل سے گریز کر کے مسلمانوں میں خطاب عام کرنا شروع کیا تو ان کی بے پناہ شہرت ہوئی اور خود غیر احمدی حضرات ان کو اپنی مجلسوں اور کانفرنسوں میں بلانے لگے.اس سے گو ایک جزوی اور ضمنی فائدہ یہ ضرور ہوا کہ عامتہ المسلمین میں ایک احمدی مقرر کی زبان سے اسلامی مسائل کی تشریح اور آنحضرت کی تعریف و عقیدت سن کر یہ احساس اٹھنے لگا کہ احمدی بھی اسلام کو مانتے ہیں اور آنحضرت سے ان کو محبت والفت ہے مگر اس خوشگوار اثر کے ساتھ ہی ایک خطرناک رد عمل یہ ہوا کہ عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ احمدی بھی عنقریب دوسرے مسلمانوں میں ہی جذب ہو جائیں گے جو جماعت کی زندگی کے اعتبار سے ایک مسلک ترین چیز تھی.اس امر کی تائید میں بطور مثال ایک غیر از جماعت اہل قلم مولوی محمد الدین صاحب فوق کا ایک اقتباس پیش کرنا کافی ہو گا مولوی صاحب نے خواجہ صاحب کی بڑھتی ہوئی شہرت دیکھ کر اپنے رسالہ "کشمیری میگزین " میں ان کے لیکچروں کی بہت تعریف کی اور آخر میں لکھا.خواجہ صاحب کے عام اسلامی لیکچروں اور خود ان کے طرز عمل اور ان کی جماعت کے بعض افراد نے ایک حد تک اس رکاوٹ کے دور کرنے میں نمایاں کام کیا ہے جو فرقہ احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان تھی چنانچہ کئی مواقع پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور میر قاسم علی صاحب مشہور احمدی لیکچرار اور بعض جلسوں میں حضرت حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ صاحب قبلہ علی پوری اور خواجہ صاحب کو ایک ہی مقصد کی سرانجام دہی کے لئے محمود منہمک پایا ہے اور انشاء اللہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ احمدی اور عام مسلمان ایک ہی جگہ اور ایک ہی امام کے پیچھے نماز

Page 373

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ بھی پڑھیں گے".344 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ان تاثرات کو خواجہ صاحب کے اس طرز عمل نے اور بھی تقویت پہنچائی کہ انہوں نے پہلے تو لیکچروں میں سلسلہ کے بارے میں خاموشی سی اختیار کی پھر جب دوسرے حلقوں سے احمدیت کے بارے میں سوالات ہونے لگے تو انہوں نے بر سر مجلس حضرت مسیح موعود کے حقیقی منصب کو گرا کر پیش کرنا شروع کر دیا.مثلاً انہوں نے 1911ء کے آغاز میں "شبان المسلمین " سیالکوٹ کے جلسہ میں صاف کہا کہ "المسیح الموعود " کوئی نبی نہیں ہو گا.بلکہ امتی ہو گا.اور پھر اخفائے حق کی یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ انہوں نے برملا یہ کہنا شروع کر دیا کہ احمدیت کا ذکر سم قاتل" ہے.انا للہ وانا اليه راجعون.اس انتہا درجہ کی مداہنت کے باوجود خواجہ صاحب جہاں جا ایک طبقہ میں خاص طور پر یہ سوال اٹھتا کہ آپ دوسروں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اور اس کے نتیجہ میں کفر و اسلام کی بحث بھی چھڑ جاتی.چنانچہ اخبار بد ر نے انہی دنوں صاف لکھا کہ ” یہ سوال بہت دفعہ اٹھا ہے.حضرت مسیح موعود مرحوم و مغفور کی زندگی میں بھی اس کے متعلق بارہا سوال ہوا...آپ کی وفات کے بعد جہاں کہیں جناب خواجہ صاحب نے اپنے پر اثر لیکچروں کے ذریعہ سے اسلامی حمایت کا بے نظیر نمونہ دکھلایاو ہیں یہ ۱۵۰ سوال اٹھا".اخبار "بدر نے اس سوال کے متعدد بار اٹھنے کی وجہ سے متعدد قسطوں میں ایک مفصل مضمون شائع کیا جس کے شروع میں بتایا کہ اس کا جواب جماعت احمدیہ کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہی اب تک قائم ہے اور وہی قائم رہے گا.اس تمہید کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد تحریرات شائع کیں جن سے اس مسئلہ پر تیز روشنی پڑتی تھی.مثلاً حضور علیہ السلام کی یہ تحریر شائع کی گئی کہ : صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اس میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے دیکھو دنیا دار روٹھے ہوئے اور ایک دو سرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا تعالٰی کے لئے ہے تم اگر رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا پاک جماعت الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے".اس سلسلہ مضمون کے ساتھ حضرت خلیفہ اول کی اصلاح و نظر ثانی کے بعد (خان صاحب) منشی فرزند علی صاحب (فیروز پوری) کا مضمون چھپا جس میں اس مسلک کی تائید ہوتی تھی.or

Page 374

تاریخ احمدیت جلد ۳ 345 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر چند ماہ کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں یہ سوال پیش ہوا.تو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے ارشاد فرمایا." ان کو کہہ دو کہ قد بدت البغضاء من افو هكم و اما تخفي صدور کم اکبر جب تم ہمارے پیارے امام کو مفتری جانتے ہو اور مفتری ڈاکو کنجر دہریہ سے بد تر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.من اظلم ممن افترى على الله كذبا تو پھر ہم تمہارے پیچھے کس طرح نماز پڑھ سکتے ہیں ؟" پھر فرمایا."کیا اتنی ترقی جو جماعت کو اب تک ہوئی ہے وہ منافقت کے میل ملاپ سے ہوئی ہے ۱۵۲ ہرگز نہیں ایسے میل ملاپ سے کوئی فائدہ نہیں جس میں منافقت پائی جاوے".یہ دربار خلافت کا آخری فیصلہ تھا جس سے اصل مسئلہ کی نوعیت بالکل واضح ہو گئی.غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ کن الهامی مسلک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ایک خط کا عکس یہ خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ۳/ ستمبر ۱۹۰۳ء کو مخدوم محمد صدیق صاحب ساکن کورٹ احمد خان میانی شاہپور کے نام لکھا تھا) در زمینه اشته گاریان ترسید بی که کسی شخص غیر باید مسیر ناد صور کی معرفت سپید تھے اور کرایا یہ خنوں کے امام وقت کو لف ہجانا انا

Page 375

تاریخ احمدیت جلد ۳ 346 قادیان میں متعدد پیلیک عمارتوں کی تعمیر جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ سالانه ۲۵-۲۶-۲۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء کو تین روز جلسہ سالانہ ۱۹۱۰ء منعقد ہوا.کل حاضری اڑھائی ہزار کے قریب تھی اس جلسہ پر بھی بیعت کثرت سے ہوئی.بیعت کرنے والے اپنی پگڑیاں پھیلا دیتے تھے.جن کا ایک سرا حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ میں ہو تا تھا اور کوئی شخص یہ آواز بلند آپ کے ساتھ ساتھ بیعت کے الفاظ دہراتا جاتا تھا اور سب کہتے جاتے تھے.جلسہ کی اصل روح رواں حضرت خلیفہ اول کی تقریریں تھیں جو آپ نے علالت طبع کے باوجود فرما ئیں آپ کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی کی تقریر میں خاص طور پر قابل ذکر تھیں.حضرت خلیفہ اول کی تقریریں : آپ نے اس تقریب پر تین تقریریں فرما ئیں.(1) پہلی تقریر کلمہ طیبہ کے لطیف فلسفہ پر جلسہ کے پہلے دن بعد نماز ظهر فرمائی.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر " الحکم " یہ تقریر ساتھ ساتھ لکھتے گئے.اور بعد ازاں اسے مجمع کو سنا دیا.اس دوران میں احباب نهایت درجه ذوق و شوق کے ساتھ آپ سے شرف مصافحہ کے لئے آتے رہے یہ بھی ایک قابل دید نظارہ تھا.جس سے خلافت حقہ کی قبولیت اور تاثیر قدسی کی جھلک نمایاں ہوتی تھی - ) (۲) حضرت کی دوسری تقریر ۱۲۷ دسمبر کو بعد نماز ظہر و عصر ہوئی.اس تقریر میں آپ نے فرمایا." میرے تم پر بہت حقوق ہیں.اول حق تو یہی ہے کہ تم نے میرے ہاتھ پر میری فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے.جو اقرار کے خلاف کرتا ہے.وہ منافق ہو جاتا ہے.میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو میری نافرمانی سے کوئی منافق ہو جائے.دوسرا حق یہ ہے کہ میں تمہارے لئے تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتا ہوں.تیسرا حق یہ ہے کہ میں آج کل نماز میں بھی بالکل سجدہ نہیں کر سکتا.مگر تمہاری بھلائی کے لئے نماز سے بڑھ کر سجدہ میں دعا ئیں کی ہیں پس میری حق شناسی کرو اور با ہم تفرقہ چھوڑ دد- 1 (۳) آپ کی تیسری تقریر ۲۷ / دسمبر کی شام کو بعد نماز مغرب تمام احمدیہ انجمنوں کے عہدیداروں کے سامنے ہوئی.جن کو آپ نے حاضر ہونے کا پہلے سے ارشاد فرمایا تھا اس تقریر میں پہلے تو آپ نے فرمایا کہ " سال گذشتہ میں میرے دل پر ایک رنجیدگی تھی کہ آپ لوگ مجھ سے نہیں ملے تھے.اس لئے میں نے چاہا تھا کہ اگر سال آئندہ زندہ رہوں.تو آپ کو ملامت کروں گا.اس کے بعد آپ نے انہیں نہایت لطیف پیرائے میں چند اہم نصائح فرما ئیں.مثلاً جھگڑے نہ کرد - صبر سے کام لو اپنی ذاتی آمد سے صدقہ و خیرات دو.اپنے چندہ کی نسبت بد گمانی نہ کرو وغیرہ وغیرہ.آخر میں فرمایا." یہ معرفت کی باتیں ہیں.مجھے کہنے میں معذور سمجھو.میرے دل کی خواہش برس بھر سے تھی.بد گمانی یہی ہوئی کہ شاید پیسوں کے لئے بلاتا ہے.میں مالوں کا خواہش مند نہیں.میرا نام آسمان میں عبد الباسط ہے.

Page 376

تاریخ احمدیت جلد ۳ 347 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر باسط اسے کہتے ہیں جو فراخی سے دیتا ہے میرا مولی وقت پر مجھے ہر چیز دیتا ہے.اس کے بڑے بڑے فضل مجھ پر ہیں میں ابھی گرا تھا.اگر گھوڑی آنکھ پر لات مار دیتی تو کیا حقیقت تھی یہ اسی کا فضل تھا سال گذشتہ میں کئی قسم کی غلطیاں ہوئیں مگر خدا کے فضل سے امید ہے کہ آئندہ نہ ہوں گی " حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر : ۲۶/ دسمبر ۶۱۹۱۰ کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر ہوئی.اس تقریر میں آپ نے جماعت کو اس خطرناک غلطی پر کھلے اور واضح لفظوں میں زبر دست انتباہ کیا کہ بعض احمدی مقرر اپنے لیکچروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر سے عحمد اگریز کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی نسبت نہایت کمزور دھیمی اور ست ہے.اس طرح آپ نے اس طلسم کو جس سے قوم مسحور ہو رہی تھی باطل کر دیا.چنانچہ آپ نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا." تم اپنے امتیازی نشان کو کیوں چھوڑتے ہو.تم ایک برگزیدہ نبی کو مانتے ہو اور تمہارے مخالف اس کا انکار کرتے ہیں.حضرت صاحب کے زمانے میں ایک تجویز ہوئی کہ احمدی غیر احمدی مل کر تبلیغ کریں.مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم کون سا اسلام پیش کرو گے جو خدا نے تمہیں نشان دیئے جو انعام خدا نے تم پر کیا.وہ چھپاؤ گے ایک نبی ہم میں خدا کی طرف سے آیا.اگر اس کی دہ اتباع کریں گے تو وہی پھل پائیں گے.جو صحابہ کرام کے لئے مقرر ہو چکے ہیں.اس وقت ایک دنیا کی نظریں ہماری طرف ہیں وہ بچی تعلیم جو خدا نے ہمیں دی ہے ہمیں چاہئے کہ بلا دھڑک بلا چھپائے بلا کسی عذر 104 کے تمام دنیا میں پہنچا دیں ".یہ تقریر گویا ایک صور اسرائیل تھی جس نے قوم کے مردہ دلوں میں پھر سے زندگی کا تازہ خون بھر دیا.چنانچہ اخبار "الحکم " نے اس پر لکھا: یہ تقریر احمدی قوم میں نئی روح پیدا کرنے والی ہے.احمدی قوم کی ترقی میں ایک امر حارج ہو رہا تھا اور وہ یہ کہ ہم لوگ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس امر کی طرف جا رہے تھے کہ سلسلہ کا ذکر درمیان میں نہ آئے.اور اسی کو اتحاد المسلمین سمجھتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ یہی راہ ہماری ترقی کا موجب ہو گی.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب نے قوم کو جگا دیا.اور آگاہ کیا کہ "کیس راہ تو میروی بہ ترکستانست " اس تقریر نے حاضرین کے دل پر خاص اثر کیا.دراصل یہ حضرت صاحبزادہ صاحب ہی کا حق تھا کہ وہ اس غلطی سے جو غفلت سے قوم میں پیدا ہو چکی تھی آگاہ فرماتے.-

Page 377

1 تاریخ احمدیت جلد ۳ 348 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حضر خلیفہ اول کے خطوط کاکس.(1) اشتم در حواله در برنامه بہر خیال را در آپ میستی آ رہینگے اہر تھانے پر بلاگ آینه یار ہے امیت آپ تیم اسلنه مین کی قدر هست و چالاک ہو جاویم ادرشتی که ترک کردیں.اب ہو ، آپ تا عدیم میں اریجانیم به ارا دون اور باریک دربار یک خوسٹ ہونے اور زم شرم تو نئے کام نید - انت ، به تو ترکه کونین تم ما نذر در یک مکثیر ایتا یک نظر ایران ایر و دو تن انگشتر

Page 378

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 349 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر تر بود در ع نوشره صدق و صفا رید گن میترا بر مصطفی - در صورا ہے دور کیاتو راست دیوان دخالت رہی بریت کو اندرونی ر نو ک روز کاری کتاب عمل الیوم در ریاست ہم سے جان نزل الابرار این تودی به الحفر المقبل من محمد اباد - اور الحرب الا علم میں نے الماری کی اور سفر المادہ تیز نوروز آمین کہے رہنا ہے.خوراکم کار حاد - امام اخوان المسم الموعد العمود المحمود محمود او است با لایه ا استغفار به لوهان در روده ها اختر اور قران کریم اقت کا نیا -

Page 379

تاریخ احمد بیت - جلد 350 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ستعاریف به لابی ایت الله خوشته غلط کاریو کانم جہ نتائج سے یا انسان مارے لیے محفوظ فعادت ، اراک و حمل پین - غفلتون بیچنا اور کمیونی قائم کیا درود شریفیه امین نے کریم تا حانات پر برت برکت آینی در مفتی انانیت کے لئے تقیم - آپکے مطلب بنایا ہے - آکا ایلو ته ترتی تاد جرات کی خواہر دکتر جانے دینے دی ہے.نامه اکتاب اور دورات برام کاریه ای آدم بند کتنی ہونی.رگردانی توجه پر موقوف است جب سیار هیر کلام مہر بہتوں کو چوں.عام طور پر پڑتا جا زیر

Page 380

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 351 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر در مه شری تصویر تان بر جو نما زمین پر کہا جاتا ہے اورا ہوتا ہے کہ پا که پول خاتم انبیت سے تو بتا دیا ہے.درد و متفات نیز میور بقال از شرکه شهلات المستفات است ہے کریم کو کہار 25 زالہ غیرالله على العموم منع نہیے - پاک جگہ اور جو در در شریف نے افراد نے شرعی اعداد نامی کر متعلقہ 2 ہے.دعما - استنفار - تقدیر تورات اور کو نواع الطعام قیقہ ہوا محاسب شعفر القسم الموعو 2 دعادی کی - ده توسیح کو کاذب - معتر علی ہے.یا لے کندر کے نقی کا عمت بر آنا نا نا ده بوا ہی نہیں کہتا میری مرزا دانام بوقت مجدد الفہد الہین نہج الوعود ھے

Page 381

تاریخ احمدیت جلد ۳ 352 ادیان میں متعدد پالک عمارتوں کی تعمیر 2 به نام مین جو حضرت خاتم اردنیان با این صبیح اله و سلم ہم کو صوفی تو لقب سے ہار نے نے انگاہ نہیں فرمایا.اتر زمانه اگر سجاده نیز دولت ہم قران سے خودم ضرورہ اس سے محروم ہے.امام الوقت سے باز نہ سنسته ایم سے بے خبر میں ریال منیبہ نسبت اسکتا ہم اور اصلی مطلع ہے کیا ہور نصا ہے.صحیح علی اہم اور ہمارے نہے کہ یم سید موئے زمانه نیز عابد و زاہد نہ ہر آپ کے خیال میز اگر وہ صلی ہے اور ایران استان تولی ہے تو ہم لوگ ضرور ہی آپکا سلامت احمد الکفر نے الحاد نا امه زدن ز با که صد تو در کو جائز هر گونه مارا کام بیان زكورة امام مولا امام استان به ماه محور ارادہ کے د سکتی بر رشد یک خ کی خانہ پر " رکی مانا یا اس لیے بہت بہن اورست سته دارد ملی قدان کی باز گشت نوٹ : ان خطوط سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ تبلیغ میں مداہنت کو ہر گز پسند نہ کرتے تھے اس طرح آپ کی نگاہ میں مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت کیا تھی اس پر بھی روشنی پڑتی ہے یہ خط مخدوم محمد اعظم صاحب آف بھیرہ کے نام تھے.

Page 382

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 353 قادیان میں متعد د پبلک عمارتوں کی تعمیر حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب کی تقریر : جلسہ کے آخری دن کے پہلے اجلاس میں حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب کی تقریر ہوئی.یہ تقریر جو مسجد اقصیٰ میں ہوئی بیش بہا معارف اور حقائق سے بھری ہوئی تھی.دوران تقریر آپ نے آیت خاتم النبین کی تفسیر میں فرمایا."چونکہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ کسی کے باپ نہیں تو اس سے ابتر ہونے کا شبہ پڑتا تھا.اس لئے لکن حرف استدراک لایا گیا.اور جو دو ہم ما سبق سے پیدا ہو تا تھا اس نے دور کر کے فرمایا کہ آپ روحانی باپ ہیں اور تمام کمالات نبوت کے جامع ہیں.یعنی کامل و مکمل ہیں اس لئے آپ کی مہر سے ولد روحانی یعنی نبی پیدا ہوتے رہیں گے.جو امتی بھی ہوں اور نبوت جزوی بھی ان کو حاصل ہو".حضرت مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ "حضرت صاجزادہ صاحب نے کیسی ترقی کی ہے اور ظاہر کیا کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے خیالات دل میں نہ آنے دیں کہ یہ وہی بچہ ہے جو کل ہمارے ہاتھوں میں کھیلتا تھا.اس قسم کے خیالات فرعونی خیالات ہوتے ہیں ".نیز کہا."ایک یہ بھی الہام تھا کہ انا نبشرک بغلام مظهر الحق و العلاء جو اس حدیث کی پیشگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے.کہ یتزوج و یولد لہ یعنی اس کے ہاں ولد صالح عظیم الشان ہو گا.چنانچہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد موجود ہیں " - E -1- نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب مرحوم نے ۱۹۱۰ء کے متفرق واقعات " حضرت عیسی اور صلیب" کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا.جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود کے نظریہ صلیب مسیح کی تائید کی اور بدلا ئل ثابت کیا کہ حضرت مسیح نے صلیب سے زندہ اترنے کے بعد طبعی رنگ میں وفات پائی.یہ رسالہ وکیل ٹریڈنگ کمپنی امرت سر نے شائع کیا.-۲- خواجہ کمال الدین صاحب نے اس سال سیالکوٹ ، بھیرہ سرگودھا.کوہاٹ - اثاره....اور علی گڑھ میں کامیاب لیکچر دئیے.2 ۳.حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول کے بچپن کے دوست تھے اور سلسلہ کی بہت سی خدمات سرانجام دینے کے بعد بالا خر مہتم لنگر خانہ ہوئے ۹/ اپریل ۱۹۱۰ء کو انتقال فرما گئے.HD.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے اخبار الحکم کے صفحات میں حیات نور کے نام سے امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح اول کے حالات زندگی پر مضمون کا ایک سلسلہ شروع کیا.اور اس کا نہایت دلچسپ مقدمہ لکھا.ان کا ارادہ ”حیات نور " تین حصوں میں لکھنے کا تھا.(۱) آپ کی زندگی کے عام

Page 383

تاریخ احمدیت جلد ۳ 354 || (11 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حالات وواقعات (۲) مذہبی مشاغل (۳) عہد خلافت مگر افسوس آپ صرف چند قسطیں شائع کر سکے اور یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا.گو الحکم کے صفحات میں جو حالات آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر دئیے ان میں "حیات نور" کی تکمیل کے لئے ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے.-۵ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب اور سردار محمد یوسف صاحب قنوج کی اسلامی انجمن کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوئے.اور اپنی تقریروں سے محظوظ کیا.یہاں کوئی بااثر احمدی نہیں تھا صرف اخبار "نور" کے پرچہ سے اسلامی انجمن کو احمدی مبلغ منگوانے کی تحریک ہوئی.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (مولف مجدد اعظم) کو جو ۱۹۱۰ ء میں بھیرہ کے اسسٹنٹ سرجن تھے حکومت نے دفعہ ۱۹۳ کی آڑ لے کر ہتھکڑی لگا دی اور نظر بند کر دیا.اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف صوبہ بھر کے اخبارات نے بلا لحاظ فرقہ و مذہب آواز اٹھائی.آخر عدالتی کارروائی اور شہادتوں کے تکلیف دہ سلسلہ کے بعد آپ بری ہو گئے.

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 355 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر حواشی باب سوم / ۳.ایما بدر ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳- اس محلہ کے بعض ابتدائی مکین مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو ( جن کی کوٹھی الجمن نے اپنے خرچ پر تفسیر القرآن کے کام کے لئے بنوائی تھی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم میرزا برکت علی صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب اوور میر عبداللہ صاحب مہاجر خانصاحب نعمت اللہ خان صاحب نیز ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب ( قادیان گائیڈ صفحه ۹۹-۱۰۰) خلافت ثانیہ میں تو اس کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا.بدر ۱۷۰۲۴ مارچ ۱۹۱۰ در صفحه ۳ کالم ۲ -۴- بدر ۵ مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ کالم اس افتتاح کے محرک مولوی محمد علی صاحب تھے الحکم ۱۴۰۲۸/ اپریل ۱۹۱۰ ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.-4 -| الحکم ۱۴/۲۸- اپریل ۱۹۱۰ ء صفحه ۱۱۴۱۵ ریویو آف ریلیجز اردود نمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۳۸۴- ریکار ڈ صد را انجمن احمدیہ (رجسٹر نمبر ۳) صفحه ۱۷۲ ریکارڈ صدرانجمن احمدیہ (رجسٹر نمبر۴) صفحہ ۷۰ رپورٹ صد را انجمن احمد یه ۱۳- ۱۹۱۲ء صفحه ۴۸-۴۹ رپورٹ سالانہ صد را جمن احمدیه ۱۰-۱۹۰۹ء صفحه ۲۵٬۲۴ سالانہ رپورٹ ۱۹۱۱۲ء صفحہ ۷۲ ریکارڈ صدرانجمن احمد یہ رجسٹر نمبر۳ صفحه ۱۱۶ بدر یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم ۲-۳ رپورٹ صد را مجمن احمدیه ۱۳- ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸ رپورٹ صد را مجمن احمدیہ ۱۳- ۱۹۱۲ء صفحہ ۴۶ ۱۴ الحق کے جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ کالم ۲ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الحق ۱۸/ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۳۰۱۰ - اخبار الحق ۱۴/ نومبر تا ۵ د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲۳-۲۵ ے ملاحظہ ہو ناروق جلد نمبرا "الحق" کے ذکر کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "صحانت پاکستان ہند میں" (ڈاکٹر عبد السلام خورشید) صفحہ ۳۹۹ A History of the press in India p 172 19 الحکم ۲۱ فروری ۱۹۱۰ء صفحه ۵ کالم ۳ الفضل ۱۸ جون ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۳ ۲۱ اخبار بدر ۱۳ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ سے کالم ا ۲۲ - الحکم ۷ / فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۴۱ ۲۳ بار ۲۴-۱۷ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ کالم ۳۴۲ ۲۴- الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ کالم ۱ ۲۵ الحکم ۷ / فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ کالم ۳ و الحکم ۲۸ / مئی ۱۹۱۰ ء صفحہ ۱۰- الحق جلد نمبر ۴۳ صفحه ۱۳ کالم ۱ ۲۶- الحکم کے مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴ کالم 1 ۲۷.انہی دنوں طاعون نے پھر حملہ کر دیا تھا جس کے دفاع کے لئے آپ نے مندرجہ ذیل دعا پڑھنے کا ارشاد فرمایا.بسم الله الذي لا

Page 385

356 قاریان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر تاریخ احمدیت جلد ۳ يضر مع اسمه شئى في الارض ولا في السماء وهو السميع العليم اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق (ترجمہ) اس خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی ضرر نہیں پہنچا سکتی اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا خدا ہے میں اس کی مخلوق کے شرسے اللہ تعالی کے کلمات تامہ کی پناہ میں آتا ہوں.(الحکم کے مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴ کالم ۲۰۱ ۲۸ الحكم ۲۸/ مارچ ۷۰ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۲-۳ ۲۹- بدر۳۱ / مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۲۰۱ -1 ا حکم ۲۸ / مارچ دے / اپریل ۱۹۱۰ ء صفحہ ۶-۷ ۳۱- بدر ۳۱ مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۲ ۳۲ الحکم ۱۴۰۲۸ اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ اکالم ۳ صفحه ۳۱ کالم ۳۴۲ ۳۳ - الحکم ۲۸/ مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ و بدر ۲۳ جون ۱۹۱۰ م صفحه ۷-۸ ۳۴ اصل خط خاندان حضرت خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے.۰۳۵ ۱۵ مئی ۱۹۱۰ء صفحه ۸ کالم ۱ ۳۶ (بدر ۲۱-۱۴-۷ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۲ کالم ۲) الحکم ۲۸-۱۴ اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ یعنی میاں عبد السنان صاحب عمر ۳۹- الحکم ۲۸-۱۴ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۱ -۴۰ یہ بات عبد الله تیما پوری کے ایک خط سے ثابت ہوتی ہے جو خاندان حضرت خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے.ان لوگوں کے بعد بغض اور لوگ بھی مختلف دعاوی لے کر آئے.صدیق دیندار چن بسویشور - عبد اللطیف گنا چوری وغیرہ ۴۲.الحکم ۲۸-۱۷/ اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۲۳ ۴۳- بدر ۱۳/ مئی ۱۹۱۰ء صفحه ۲ کالم ۴۴- الحکم ۱۴-۷ جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ ۴۵ رجسٹر نمبر ۳ صد را انجمن احمدیہ صفحہ ۱۷ -۴- پدر ۳۰ / جون ۱۹۱۰ء صفحه ۲ کالم ۳ ۲۷ اخبار بد را۲۸۰۲ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۲ کالم ۲-۲۳ ۲۸ به تصویر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان نے راقم الحروف کو بھیجوائی تھی.الفضل ۳۱/دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۲ ۵۰ بدر ۱۴ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ا کالم ۲ ۰۵۱ الحکم ۲۸ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ سے کالم ۳- ایضابد را / اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۳ کالم ۲۰۱ -۵۲ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ۲۳ / جولائی ۱۹۱۰ء کی شام کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ اجازت ہو تو عاجز بھی حضور کے ہمرکاب ملتان جائے.حضرت نے اس پر اپنے قلم سے رقم فرمایا.شام کو عرض کروں گا".نور الدین اللہ اللہ خدا کازی شان خلیفہ کسی انکسار و فروتنی سے اپنے خدام کو خطاب فرماتا ہے.۵۳.اس موقعہ پر آپ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے سفریج کا یہ عجیب واقعہ سنایا کہ جب آپ جہاز میں سوار تھے تو سمندر میں سخت خوفناک طوفان اٹھا.اس وقت حضرت سید صاحب کو اونگھ آئی اور آپ نے فرمایا.نہیں.عرض کیا گیا.یہ کس بات پر آپ نے فرمایا.فرمانے لگے.کہ سمندر میرے سامنے آیا اور کہا کہ اگر آپ کوئی ارشاد فرما ئیں تو میں اس کی تعمیل کروں.میں نے جواب دیا مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ کی زبان پر الحمد شریف کے الفاظ جاری ہوئے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سمندر پھر حاضر ہوا.اور اس نے خبر دی کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ سید صاحب کے کسی رفیق کی قبر تجھے

Page 386

تاریخ احمدیت جلد ۳ 357 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر میں نہیں ہے.چنانچہ اسی وقت طوفان تھمنا شروع ہو گیا.فلسفی کو منکر خانه است : از حواس انبیاء بیگانه است ۵۴ افسوس اب مرور زمانہ کی وجہ سے اس مکان اور اس کے ماحول کی ہیئت یکسر بدل گئی ہے.سید محمد شاہ صاحب گردیزی مشهور ولی حضرت ابو الفضل جمال الدین سید محمد یوسف شاہ کی اولاد میں سے تھے جو ۱۹۸۸ء میں گردیز متصل شهر غزنی سے ہجرت کر کے ملتان تشریف لائے اور اپنے زہد و تقویٰ اور کشف و کرامات کی وجہ سے بہت مشہور ہو گئے ۷ ۱۱۳ء میں وصال ہوا.(تذکرہ روسائے پنجاب جلد دوم صفحه ۵۰۹) ۵۵ ولادت قریباً ۱۸۴۹ ء وفات ۲۸/ فروری ۱۹۳۱ء آپ مہاراجہ فرید کوٹ کے شاہی طبیب بھی رہے یہ ۹۹-۱۸۹۷ء کی بات ہے اس زمانہ کی ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی بعض چٹھیاں راقم الحروف مولف کے پاس بھی موجود ہیں حکیم صاحب احمدی تھے اور بحیثیت حکیم بھی حضرت خلیفہ اول ان کے ان سے اچھے تعلقات تھے.وہ بیٹھک جہاں حضرت خلیفہ اول کچھ وقت کے لئے تشریف فرمار ہے اب ان کے صاحبزادہ حکیم فیروزالدین صاحب اس میں مطب کرتے ہیں.۵۷.آپ حضرت شیخ بہاء الدین ملتانی قدس سرہ کی اولاد میں سے تھے اپنے بھائی مخدوم بہاول بخش صاحب کی وفات کے بعد ۱۸۹۶ء میں درگاہ کے سجادہ نشین ہوئے ۱۹۲۱ء میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کے صاجزادہ خان بہادر شیخ مخدوم مرید حسین صاحب آپ کے جانشین ہوئے مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو تذکر، رؤسائے پنجاب جلد دوم صفحہ ۵۰۰) اینا یاد گار دربار ۱۹۱ء حصہ دوم صفحه ۴۸۷-۴۸۵ مرتبه منشی محمد دین صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور.۵۷ یہ انجمن بر صغیر پاک وہند کی قدیم اسلامی انجمنوں میں سے ہے جس کی بنیاد غالبا ۱۸۸۴ء میں رکھی گئی ابتداء اس کے زیر انتظام ایک پرائمری سکول جاری ہو ا جس کے ہیڈ ماسٹر مدت تک ایک مخلص احمدی ماسٹر بد ر الدین صاحب رہے جن کے ایک صاحبزادہ حکیم محمد زاہد صاحب اب شور کوٹ میں ہیں.اس ابتدائی سکول کا ہال بھی ایک تاریخی ہال تھا جس میں دوسرے مسلم زعماء کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول نے بھی تقاریر فرما ئیں افسوس یہ ہال سیلاب کی وجہ سے گر چکا ہے.اور اس کی جگہ اب موجودہ اسلامیہ ہائی سکول کے صحن نے لے لی ہے.انجمن اسلامیہ کا پہلا سالانہ جلسہ ۵/ مارچ ۱۸۹۰ء کو منعقد ہوا.جس کی مفصل رو کر اد اخبار "سرمور گزٹ ( ناہن میں اپریل ۱۸۹۰ء کے متعدد نمبروں میں شائع ہوئی.اس اخبار کا ایک متعلقہ ایشوع خلافت لائبریری ربوہ میں بھی موجود ہے)." سر مور گزٹ" سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں انجمن کے صدر سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس آئی تھے.ایک عرصہ تک مخدوم زاده سید محمد ولایت حسین صاحب جیلانی اس کے صدر اور سید محمد اولاد علی شاہ گیلانی مہجور ایم.اے سیکرٹری رہے اب سید فیض مصطفی صاحب گیلانی سیکرٹری ہیں.۵۸ بدر ۲۸ / جولائی ۱۹۱۰ء صفحه او ۴/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه اکالم ۱۱۲ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۳ ( ایضار روایات حکیم محمد عمر صاحب ۱۸/ اگست ۱۹۱۰ ء صفحہ ۴-۵- حکیم محمد عمر صاحب کے مختصر حالات یہ ہیں.قریباً ۱۸۸۵ء میں پیدا ہوئے ۱۸۹۷ء میں پہلی دفعہ قادیان کی زیارت کی ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت مرشد آباد میں تھے وہاں سے مستقل ہجرت کر کے قادیان آگئے حضرت خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کو تحریک بیعت کر کے پہلی دفعہ قادیان آپ ہی لائے تھے خان صاحب نے احمدیت سے قبل ایک سوالنامہ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا آپ نے قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کو جواب کے لئے ارشاد فرمایا.حکیم صاحب نے عرض کی حضور جواب دیتا ہے تو آپ جواب دیں جس پر حضرت اسی وقت کھڑی باندھ کر بیٹھ گئے اور اپنے قلم سے جواب لکھا جس پر خان صاحب نے احمدیت قبول کرلی.۵۹ پد / ۲۱۰۲۸ / جولائی ۱۹۱۰ ء صفحہ اکالم ۱-۲ ۶۰ ۶۳ الحکم ۲۸/ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۳ کالم ۲-۳ بدر ۱۸ ستمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۱۱۹ الحکم ۷ / فروری ۱۹۱ء صفحہ ۶ کالم ۲ پدر ۱۰-۱۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۶۰۵ ۶۴ اس دوران میں آپ کو حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی تعلیمی خدمت کا زریں موقعہ بھی میسر آیا.الدر المنشور في لمعات النور غیر مطبوعه از قلم حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی

Page 387

تاریخ احمد بیت جلد ۳ 358 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ۹۵ روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۴ صفحه ۴۲ حیات تدى " حصہ چہارم صفحہ ۱۰۹ او صفحه ۲۶ - الدر المنشور فى لمعات النور (غير مطبوعه) ۶۷- خواجہ کمال الدین صاحب بوقت ملاقات موجود نہیں تھے.خدا کے امور اور دیگر ارضی علماء کی قوت قدمی اور تعلیم میں زمین و آسمان کا جو فرق ہوتا ہے.اس کی ایک دلچسپ مثال خود مولانا شیلی ہی کی زندگی سے پیش کرتا ہوں.مولانا کے سوانح نگار جناب سلیمان ندوی " حیات شیلی " ( صفحہ ۵۸۴) میں پٹنہ کا یہ واقعہ لکھتے ہیں."اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لئے معتقدین کا نہایت کثرت سے مجمع تھا..آدھی راہ کے بعد طلبہ کے اصرار سے گاڑی کے گھوڑے کھول دیئے گئے اور خود طلبہ ذوق و شوق کے عالم میں اس گاڑی کو اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر فرودگاہ تک لائے.مولانا ( شبلی ناقل) فرماتے ہیں یہ تو نہیں کہتا.رعونت پرست نفس کو پھریری نہیں ہوئی ہوگئی لیکن واقعا ہنسی آتی تھی کہ عجب خوش اعتقاد بلکہ ضعیف الاعتقاد ہیں اس کے مقابل تاریخ احمدیت جلد سوم (صفحه ۵۴۰) پر یہ واقعہ گذر چکا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود کے خدام نے یہ حرکت کرنا چاہی تو حضور نے ارشاد فرمایا.فور انگھوڑے جو تو ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.اخبار بد ر۲۷/ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۳۰۲ اخبار بدر ۲۲ دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۱۰۰۱ ال البدری ۲/ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۵ ۷۲- سعید الاذہان ۱۹۱۰ء صفحہ ۳۹۹-۴۰۳ و اصحاب احمد جلد دهم صفحه ۱۸۳ ۷۳.حضرت خلیفہ اول نے تیسرے روز حکیم غلام محمد صاحب کو بھجوایا کہ خون آلود پگڑی لے آؤ.شیخ صاحب خودی پگڑی لے گئے فرمایا وہ بگڑی ہمیں دے دو.ان کے توقف پر آپ شیخ صاحب کا مطلب سمجھ گئے.اور فرمایا اچھا اسے کیا اور استعمال کر لو.لیکن ٹکڑے کر کے تقسیم نہ کرنا اور ان کو ایک نئی پگڑی بھی عنایت فرمائی.(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۸۳) ۷۴ شعید الازبان ۱۹۱۰ء نمبر جلد ۵ صفحه ۴۰۳-۴۰۴ ۷۵- بدر ۲ / فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۳ کالم ۲ پدر ۱۶ / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ کالم -۲ ہے.بدر ۲/ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۷۸ - الحکم کے دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ 191° ۷۹ ہر واقعہ میں بعض مستثنیات بھی ہوتی ہیں بعض خبیث الفطرت لوگ آپ کی بیماری میں بھی فتنہ اٹھاتے رہے.چنانچہ یہ مشہور کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص گھوڑے سے گر پڑا.پھر حضور کو الہام ہوا."استقامت میں فرق آگیا.(تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۷۹) سو معاذ اللہ مولوی صاحب کی استقامت میں فرق آگیا ہے.بعض نے کہا کہ نعوذ باللہ آپ مرتد ہو گئے.(الفضل جلد نمبر ۵۲ صفحہ سے کالم مگر یہ سب دماغی بے راہ روی کا نتیجہ تھا.اور یہ الہام در اصل حضرت خلیفہ اول کی ذات بابرکات کے متعلق نہیں بلکہ انہی لوگوں کے متعلق تھا اور اس میں بتایا گیا تھا کہ ایک شخص کے گھوڑے سے گرنے کے بعد بعض افراد استقامت و عزیمت کے مقام سے گر جائیں گے.سوانساری ظہور میں آیا.(الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ کالم ) باقی اس دور ابتلاء میں حضرت خلیفہ اول کو کس درجہ قوت ایمان عطا ہوئی اس کا ذکر آگے آرہا ہے.۸۰ نام دارد ۱ رخسار ۸۲- کپی ۸۳- ایک انگریزی دوا ۸۴- پیاس ۸۵- یہ ایک خط کا اقتباس ہے.جو آپ نے حکیم فیروز الدین صاحب (مولف رموز طلباء)لاہور کے نام / نمبر ۱۹۲۳ء کو تحریر فرمایا.

Page 388

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۱۸۷ بدر ۲۷/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ا کالم ۱-۲ 359 ۸۷- بدر ۲۰/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ اکالم - ایضا الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۸ کالم ۱ ۸۸- بدر ۲۷/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ا کالم) بدر ۲۵ / مئی ۱۹۱۱ء صفحه ۲ کالم ۱-۳ ۹۰- بدر ۱۲ / اکتوبر ۱۹۱ء صفحه ۲ کالم ۲ مشکوۃ المصابیح باب عيادة المريض وثواب المرض ۹۲- الحکم ۱۹۰۴ء نمبر ۱ ۳ صفحه ۲ بحوالہ خزینہ العرفان حصہ دوم صفحه ۱۸۹-۱۹۰ ۰۹۳ الحکم کے اد سمبر 1910ء صفحہ ۳ کالم -۹۴ روایت حکیم محمد عمر صاحب فیروز پوری ۹۵- الحکم ۷ / دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۴ کالم ۳ ۹۶- الحکم ۲۱ / جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۸ کالم ۲ الحکم ۱۴ / جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۳ کالم ۲ ۹۸- قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر قرآن مجید سنانے والوں کو یا آپ کرسی پر بٹھاتے یا اپنے ساتھ چارپائی پر احکام ۱۴ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴ کالم ) / 99 الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ کالم ۳ -r روایت حکیم محمد صدیق صاحب کھو گھیاٹ اینا الحکم ۱۳ فروری ۱۹ ء صفحہ ۳ کالم ۲-۳ اینا بد ۶ / اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ کالم الحکم ۱۴ / فروری 1911ء صفحه ۴ کالم ۱۰.الحکم ۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۵ کالم ۲ ۱۰۳- بدر ۱۰-۳/ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲ کالم ۱-۲ الحکم سے /جنوری 191 ء صفحہ ۴ کالم ۲۱ ۱۰۵- الحکم کے جنوری صفحہ ۴ کالم ۳ ۱۰۶- الحکم ۷ / جنوری صفحہ ۵ کالم ۱۰۷- الحکم ۷ / جنوری 1911ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۱۰۸- احکم کے جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۸ کالم ۱ تا ۳ 10- الحکم ۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲ الحکم ۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۵ کالم ۲-۳ الحکم کے او کمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۶ کالم 1 الحام ۲۱ / جنوری ۱۹۱ء صفحه ۸۰۷ الحکم ۲/ جنوری ۱۹ ء صفحہ ۸ کالم ۳ -PA -41° -401 ۱۱۲- +1+ االم احکام ۲۸؍ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۱۵- الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۸ کالم ۳ الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ، کالم ۳ود الحام ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ کالم ۲ الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ کالم ۱۱- الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۳ کالم ۲ 119 الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۳ کالم ۳ ۱۲۰ الحکم ۱۴ فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۴ کالم ۲ ۱۲۱ الحکم ۱۴ / فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۴ کالم ۳۴۲

Page 389

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 360 قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ۱۲۲- الحکم ۱۴ فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴ کالم ہو ۲۳۴ ۱۳۳- الحکم ۱۴/ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۹ کالم ۳ ۱۲۴- الحکم ۱۴-۷ / جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ کالم ۳ ۱۳۵ بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶ کالم ۳ الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴ کالم ۴ ۱۲۷- اخبار الحلم ۲۱ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ 4 کالم پر لکھا ہے.یہ تو سب کو معلوم ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح اید والله بنصرہ العزیز نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو امام مقرر کیا ہوا ہے.چنانچہ پانچوں نمازوں کی امامت آپ کرتے ہیں اور جمعہ کا خطبہ اور نماز بھی آپ پڑھاتے ہیں ".۱۲۸ الفضل ۱۹/ جنوری ۱۹۴۰ء صفحه ۷-۸ ۲۹ حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی صوفیاء کے مشہور چشتی سلسلہ کے اکابر اولیاء میں سے گذرے ہیں.آپ ۱۸۴ء بمطابق اے.۷ ۷ اء میں پیدا ہوئے اور صفر ۱۲۶۷ھ مطابق دسمبر ۱۸۵۰ ء واصل بحق ہوئے.(مشاہیر اسلام حصہ اول صفحہ ۹۵۰۸۵).آپ نے اپنی ایک قلمی بیاض میں (جو آپ کے خاندان میں محفوظ ہے) اپنے دست مبارک سے حضرت خواجہ صاحب کی عالم رویاء میں ملاقات کی تفصیل لکھی ہے.۱۶ / دسمبر ۱۹۰۸ ء شب چہار شنبہ رویاء میں اول میں نے خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمتہ اللہ کو دیکھا پھر ایک مکان میں گیا جہاں تخت ہے اور اس پر غالباً قالین ہیں.اس پر حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ تونسوی ہیں اور بڑا فرنل پہنا ہوا ہے) اور ریش مبارک گھنی (ہے)؟ مگر حد سے متجاوز نہیں.سر پر ٹوپی ہے خواجہ اللہ بخش نیچے ہیں ان کی اولاد میں سے ایک مرد لڑ کا تخت کے دوسری طرف تخت کے نیچے آپ کے سامنے ہے مجھے ارشاد فرمایا.اوپر آجاؤ میں دائیں طرف کے قریب حاضر ہوا خواجہ اللہ بخش رحمتہ اللہ نے کوئی بات دریافت فرمائی ہے...اس وقت آپ کے تمام بدن سے ایک آواز جوش کی نکلی.جیسے میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھ پر توجہ ڈال رہے ہیں.والحمد لله رب العلمین" ۱۳ بدر ۲۷/ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹ کالم ۳ ۱۳۲- تاریخ مشائخ چشت مولفہ خلیق احمد نظامی ایم.اے استاد شعبہ تاریخ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں لکھا ہے.۱۵-۱۶ برس کی عمر میں خواجہ محمد سلیمان خواجہ ماروی سے بیعت ہوئے تھے شیخ صاحب کی صحبت کا فیض کل ۶ سال تک اٹھایا خود ایک جگہ فرماتے ہیں.مار ا صحبت ظاہری حضرت قبلہ عالم شش سال یا کم بود( نافع السالکین صفحه ۱۴۰-۱۴۱) ہمیں حضرت قبلہ عالم کی ظاہری صحبت ۶ سال یا کچھ کم حاصل رہی ہے.۲۱-۲۲ سال کی عمر میں پیرو مرشد نے خلافت عطا فرمائی " (صفحہ 19) ۱۳۳- حضرت خلیفہ اول کے خاص شاگردوں میں سے ہیں.باوجود حامل وصیت ہونے کے خلافت ثانیہ کے قیام پر ان کو ٹھوکر لگی اور دہریت کا شکار ہو گئے.سالہا سال تک علی گڑھ کالج میں پروفیسر پھر پشاور کالج کے پرنسپل رہے بعد ازاں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہو کر ریٹائرڈ ہوئے اب سیالکوٹ (وڈ گرین سٹریٹ) میں رہائش پذیر ہیں اور فالج میں مبتلا ہیں.۱۳۴- بدر ۲۶/ جنوری 1911ء صفحہ اکالم ۱۳۵- "حقیقت اختلاف " صفحہ ۶۹ ۱۳۶- "حیات نور الدین صفحه ۱۶۱ ۱۳۷- احکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۲ ۱۳۸ - الفضل ۴۰۶ / اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ اکالم ۳ ١٣٩- الفصل ۱۴ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۴ کالم ۴ مضمون میاں عبد الوہاب صاحب عمرا ۳۰ فرقان ( قادیان) مئی ۱۹۴۵ء صفحه ۲۵ ۱۴۱ روایت قریشی امیر احمد صاحب بھیروی.۱۴۲- الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۱ کالم ۱ الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۱ کالم ٣٣

Page 390

تاریخ احمدیت جلد ۳ م ۱۴- شعید الازبان مئی ۱۹۱۴ء صفحه ۳۸ ۴۵- القول الفصل طبع اول صفحه ۵۶ 361 ۱۴۶- بدر ۱۰-۳/ نومبر ۶۱۹۱۰ صفحه ۱۳ کالم ۳ و بدر ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ اکالم ۳ ۱۴۷ کشمیری میگزین لاہور مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۴۰ -۱۴۸ اخبار بد ر ۱۶ / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۴ کالم ۲ ۱۴۹- پیغام صلح یکم مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۲ ۱۵۰ پدر ۲۱-۲۸ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲ ۱۵۱- ملاحظہ ہو بد ر۲۱ / جولائی ۶۱۹۱۰ تا ۲۵ / اگست ۶۱۹۱۰ ۱۵۲- ۱۳۰۱۰۰ نومبر ۶۱۹۱۰ صفحه ۲ کالم ۳د صفحه ۸۰۷ ۱۵۳- بدر ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۱۴ کالم ۳ ۴۵۴- بدر ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲۱۱ ۱۵۵- مفصل تقریرید/ ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء صلحہ ۱۳-۱۵ پر چھپ گئی تھی.۱۵۷ الحکم ۷ / جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۱۵۷- احکم ۷ / جنوری ۱۹۱۱ ء صفحہ ۱۰ کالم ۲ ۱۵۸- الحکم کے تر جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۰-۱۲ -۱۵۹ پدر ۱۹/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ سے کالم ۲۰۱ ۱۰ - الحکم ۷ / جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ 4 کالم ۳ - بدر ۲۶/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۱۶۲.الحکم کے سر جنوری 1911ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۶۳- ضمیمه اخبار بد ر۲۶/ جنوری ۱۹۱ء صفحه ۲ کالم ۱ قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کی تعمیر ۱۳ بدر ۱۹ / مکی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵ کالم ۲ ۹۱ جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱۳/ جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۷۴ و ۲۳ جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۶ کالم ۳ و بد ر ۲۷/ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۴ کالم او بدر ۲۲ / د ممبر ۱۹۱۰ء صفحه ۱ کالم ۳ رو نداد اجلاس ندوة العلماء دوازدهم صفحه ۱۴۸ ۱۹۵- بدر ۷۰۲۱ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۵-۱۲۹ ۱۲۶- الحکم کے مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۵ - الحام ۲۱ ستمبر تا ۷ اکتوبر 1990ء صفحہ 1946.اس ایشوع میں اخبار " وطن کا ایک ادار یہ نقل کیا گیا ہے.

Page 391

اریخ احمدیت.جلد ۳ 362 انجمن انصار اللہ کا قیام چوتھا باب انجمن انصار اللہ کا قیام (جنوری ۱۹۱۱ء تا دسمبر۱۹۱۱ء بمطابق ذی الحج ۱۳۲۸ھ تا محرم ۱۳۳۰ھ) مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری ایڈیٹر اہلحدیث اور رسالہ "احمدی " کا اجراء مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے حضرت میر قاسم علی صاحب نے جنوری 1911 ء سے " احمدی" کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی کتاب " تیر اسلام بجواب محل اسلام " (صفحہ ۴) میں یہ اصول بتایا تھا کہ "جب کوئی شخص کسی قوم کے ہادی اور سب کے پیشوا کی نسبت بر الفظ کے یا بے ادبی کرے تو گویا یقینی اس نے تمام قوم کا دل دکھایا.پس اس کے جواب میں حق تو یہ ہے کہ تمام قوم ایک ایک کر کے اس بد گو کو اسی قدر ستالیں جتنا کہ اس نے سب کو ستایا تب کہیں جا کر عوض معاوضه گله ندارد کا مصداق ہو".اس اصول کے مطابق میر صاحب نے اعلان کیا کہ انشاء الله احمدی " حدود اللہ سے تجاوز نہ کرے گا.بلکہ واجب حق سے بھی جو کچھ اس کو پہنچتا ہے.بہت کچھ معاف کر دے گا.جہاں پر کہ امید اصلاح ہو ".ابھی رسالہ کے تین پرچے ہی نکلے تھے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں دہائی دینا شروع کر دی اور خطوط لکھے کہ میر صاحب کو بند کریں.ان کی سخت کلامی میرے لئے ناقابل برداشت ہے.اور لاجواب ہو کر لکھا کہ اس کے ایڈیٹر کا مقابلہ ہم سے نہیں ہو سکتا.اور اس کا ہمیں خود اعتراف ہے.A اس پر حضرت میر صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کی شیریں بیانی" کے بڑے بڑے نادر نمونے دیئے اور کہا یہ ہے اہلحدیث کے اخلاق محمدی " کا کورس جس پر آپ کو ناز ہے !! مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اخبار اہلحدیث میں لکھا تھا.”ہمارا اور مرزائیوں کا فرق عیسائیوں اور محمد یوں یا موسائیوں اور عیسائیوں کا ہے جس طرح ان دونوں میں یہ تمیز ہے کہ ایک

Page 392

تاریخ احمدیت جلد ۳ 363 الجمن انصار اللہ کا قیام دو سرے سے ایک رسول زیادہ مانتا ہے.اس طرح قادیانی امت ہم مسلمانوں سے زیادہ مرزا صاحب کو مانتے ہیں ".اس بیان نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے صحیح خدو خال بالکل نمایاں کر دیئے.رسالہ " احمدی ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۳ء تک باقاعدہ جاری رہا اس کے بعد ۱۹۱۸ ء میں اس کا احیاء ہوا.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے 11/ نومبر ۱۹۱۰ء ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی کی پیشنگوئی کا غلط ہونا ، پیشگوئی کر رکھی تھی کہ (حضرت) مولوی نور الدین صاحب / جنوری ۱۹۱۱ء تک فوت ہو جائیں گے.مربوی نور الدین صاحب 11 جنوری و یا تک قوت ہو ۱۱ شان را فوت ہوئیں گے خاک و عید را فیلیم 10 1 نو بر شتر ڈاکٹر صاحب کی یہ پیشگوئی بھی دوسری تمام پیشگوئیوں کی طرح جھوٹی نکلی.پٹیالہ کے ایک معزز غیر احمدی کیپٹن مرزا حمید بیگ صاحب نے جب ڈاکٹر صاحب پٹیالوی کو پیشگوئی کے غلط ہونے پر ملزم کیا تو اس نے نہایت دبل و قریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ اخبار بد ر دیکھ لو میری خواب تو بچی نکلی چنانچہ اخبار بد ر میں لکھا ہے.جنوری کو ڈاکٹر جمع کئے گئے اور مولوی صاحب کو طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے.اب وہ قریب المرگ ہیں.اور کیا پتہ ہے کہ مر گئے ہوں.اصل میں مرزائیوں نے اس بات کو چھپا لیا ہے." حضرت خلیفہ اول کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے فرمایا.اس کو لکھنا چاہئے کہ اگر تمہاری پیشگوئی پوری ہو گئی اور تم سچے ہو تو خود ہی آکر دیکھ جاؤ.پھر فرمایا اچھا ہے اگر اس کی پیشگوئی / جنوری کو پوری ہو چکی ہے تو یہی دیکھ جاوے کہ مرزائیوں نے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اور وہ مسیح ہیں.اور فرمایا کہ اور نہیں تو ڈاکٹر ہرڑ صاحب جو یہاں سے ہو گئے ہیں لاہور میں آکر انہیں سے دریافت کرے.فروری 1911ء میں حضرت انجمن انصار اللہ " کا قیام اور اس کے کارنامے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 393

تاریخ احمدیت جلد ۲ 364 المحمن انصار اللہ کا قیام صاحب ایدہ اللہ تعالی کو عالم رویاء میں دکھایا گیا کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جا رہا ہے.ساتھ ہی ایک میدان میں ہزاروں پتھمیرے بڑی تیزی سے اینٹیں ہاتھ رہے ہیں آپ نے پوچھا کہ یہ محل کیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ محل جماعت احمد یہ ہے ہتھیرے فرشتے ہیں اور محل کا ایک حصہ اس لئے گرایا جا رہا ہے تا بعض پرانی اینٹیں خارج کر کے بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور نئی اینٹوں سے محل کی توسیع کی جائے.نیز معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے اور فرشتے ہی اللہ تعالی سے اذن پا کر یہ کام کر رہے ہیں.اس خواب کی بناء پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے.اور فریضہ تبلیغ کو باحسن وجوہ ادا کیا جائے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہ صرف خود ہی استخارہ کیا بلکہ کئی اور بزرگوں سے استخارہ کروایا.کئی ا دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارات ہو ئیں تب آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی اجازت سے ایک انجمن انصار اللہ " کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر میں اس کا مفصل اعلان کر دیا.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے بیماری کے باوجود یہ مضمون شروع سے لے کر آخر تک مطالعہ فرمایا اور ا- حضرت صاحبزادہ سے فرمایا.” میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں " -2 -A -9 اس انجمن کے قواعد و ضوابط آپ نے یہ تجویز فرمائے: ہر ممبر کا فرض ہو گا کہ حتی الوسع تبلیغ کے کام میں لگا ر ہے اور جب موقعہ ملے اس کام میں اپنا وقت صرف کریں.ہر ممبر قرآن شریف اور حدیث شریف پڑھنے پڑھانے میں کوشاں رہے.ہر نمبر سلسلہ کے افراد میں صلح و اتحاد کی کوشش میں مصروف رہے اور جھگڑے کی صورت میں یا خود فیصلہ کریں.ورنہ حضرت خلیفتہ امسیح سے راہ نمائی حاصل کریں.ہر قسم کی بدظنیوں سے بچے جو اتحاد اور اتفاق کو کالتی ہیں.ہر ماہ کے آخر میں اپنے کام کی رپورٹ دے.اس انجمن کے ممبر رشتہ اتحاد و اخوت کو پختہ کرنے میں ہر ممکن ذرائع بروئے کار لا ئیں.نبیح و تحمید اور درود شریف بکثرت پڑھیں.حضرت خلیفتہ المسیح کی فرمانبرداری کا خاص خیال رکھیں.پنج وقتہ نمازوں میں پابندی کے علاوہ نوافل صدقہ اور روزہ کی طرف بھی توجہ رکھیں آپ نے ممبر شپ کے لئے یہ شرط بھی عائد کی کہ جو شخص اس انجمن میں آنا چا ہے وہ سات دفعہ

Page 394

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 365 انجمن انصار اللہ کا قیام استخارہ کرے اگر اس کے بعد اس کا دل اللہ کے تصرف سے اس طرف مائل ہو تو پھر شوق سے داخل انجمن ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.اس اعلان پر ابتداء میں مندرجہ ذیل اصحاب انجمن انصار اللہ کے ممبر بنے : -1- حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ( قادیان) ۲- حضرت حافظ روشن علی صاحب قادیان ۳ منشی احمد دین صاحب اپیل نویس گوجرانوالہ -۴ ( خان صاحب) منشی فرزند علی صاحب ہیڈ کلرک قلعہ میگزین فیروز پور ۵- شیخ عبد الرحمن صاحب لاہوری نو مسلم قادیان ۶ - سید صادق حسین صاحب مختار عدالت اٹاوہ ۷ - شیخ غلام احمد صاحب واعظ قادیان ان کے بعد رفتہ رفتہ جماعت کے بہت سے سر بر آوردہ اصحاب اس مبارک تحریک میں شامل ہو گئے.۱۲ / اپریل ۱۹۱۱ء کو اس انجمن کا افتتاحی جلسہ قادیان میں منعقد ہوا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس جلسہ میں ممبروں کو متعدد ہدایات دیں مثلا یہ کہ وہ تبلیغی لیکچر دینے کے لئے بہت مشق کریں اور چھٹیاں لے کر مرکز میں آئیں.ہر روز تبلیغ کریں.خواہ پانچ منٹ کے لئے ہی سہی ، انصار کثرت سے باہم ملاقات کریں.کسی شہر میں جائیں تو وہاں کے انصار کو تلاش کر کے ملیں اگر ریل میں سفر کر رہے ہیں تو جو اسٹیشن رستے میں آتے ہوں وہاں کے انصار کو اطلاع دیں.انصار سفر میں حتی الوسع انصار ہی کے پاس ٹھہریں.میں تو صحابہ کی طرح دینی گفتگو کر کے ایمان تازہ کر لیں.انصار کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول اور علمائے سلسلہ کی بعض خاص کتابوں کا پڑھنا لازمی قرار دیا گیا.جو مختلف مذاہب کی تردید یا اسلام کی حمایت میں لکھی گئی تھیں.حضرت خلیفتہ المسیح اول کی سرپرستی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی قیادت دونوں نے اس انجمن کے ممبروں میں زندگی کی ایک نئی لہردوڑا دی اور اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا کام جو بہت پیچھے جارہا تھا پھر سے تیز رفتاری کے ساتھ شروع ہو گیا.چنانچہ جولائی ۱۹۱۳ء تک اس کے ممبروں کے ذریعہ دو تین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اور یہ سلسلہ اسی طرح بعد میں بھی جاری رہا.انجمن نے جماعت میں مبلغین اسلام کی ایک جمعیت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر جماعت احمدیہ کی ترقی داشاعت میں بڑا بھاری حصہ لیا.انجمن نے اپنے خرچ پر ایک ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان میں خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لئے بھجوایا.علاوہ ازیں شیخ عبد الرحمن صاحب نو مسلم اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب انصار اللہ کی طرف سے تعلیم و تبلیغ کی خاطر مصر بھیجے گئے.مگر اس کے لئے کوئی عام چندہ نہیں کیا گیا.مولوی ابو الکلام صاحب آزاد نے بھی جو ان دنوں "الحلال" اخبار

Page 395

366 الجمن انصار اللہ کا قیام کے ایڈیٹر تھے.اور اپنے فولادی قلم سے مسلمانان ہند کو سیاست کی ایک خاص لائن کی طرف چلانے کے لئے سرگرم عمل تھے." انصار اللہ " ہی کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی.یہ تو بیگانوں کا رد عمل تھا مگر اپنوں میں سے بعض نے جن کی ذہنیت منکرین خلافت کے اثر کے نیچے بگڑ چکی تھی.اس مبارک انجمن پر کئی اعتراضات اٹھانے شروع کر دئیے.مثلا (1) اس کا نام انصار اللہ کیوں رکھا گیا.کیا دوسرے احمدی انصار اللہ نہیں ؟ ۲۰ یہ انجمن خواجہ کمال الدین صاحب کے بالتقابل کھڑی کی گئی ہے ؟ (۳) جماعت کے اندر ایک الگ جماعت بنادی گئی ہے اور جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے وغیرہ وغیرہ.حضرت صاجزادہ صاحب نے ایک مضمون کے ذریعہ سے ان تمام اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ : (۱) انصار اللہ " کا نام تو محض تفاؤل کے طور پر رکھا گیا ہے جس طرح لوگ اپنے بیٹوں کا نام مختلف انبیاء کے نام پر محمد - احمد - موسیٰ.عیسی - حسن - حسین رکھتے ہیں جب یہ نہیں سمجھا جاتا کہ وہ اپنے بیٹوں کے علاوہ دوسروں کو معاذ اللہ ابو جہل یا فرعون یا یزید کی اولاد قرار دے رہے ہیں اسی طرح انجمن کا نام انصار اللہ رکھنے سے یہ کیسے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دوسرے ہماری نگاہ میں عدو اللہ ہیں.(۲) تبلیغ فرض عین ہے فرض کفایہ نہیں اس لئے خواجہ صاحب کی تبلیغ اسلام کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی یہ کام کریں.تا قوم کی زندگی اور ایثار کا نشان ہو.(۳) حضرت خلیفتہ المسیح اول نے حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں ایک مجلس " مجمع احباب" کے نام سے بنائی تھی.بالکل یہی پوزیشن انجمن انصار اللہ کی ہے.ایک مضحکہ خیز اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک خفیہ سوسائٹی ہے آپ نے اس کے جواب میں مختصرا اتنا کہا کہ "کیا خفیہ سوسائٹیاں اپنی کارروائیاں مساجد میں کھلے بندوں کرتی ہیں اور اخباروں میں اس کو شائع کرتی ہیں.میرے دوستوا ان اختلافات کو چھوڑو اور بجائے نیک کام پر اعتراض کرنے کے خود نیکی میں بڑھو".mm صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی ولادت ۱۳ مارچ ۱۹۱۱ء کو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پیدا ہوئے.چنانچہ اخبار الحکم نے لکھا."۱۳ / مارچ 1911ء کی صبح ساکنین الدار اور مہاجرین دارالامان کے لئے عموماً اور خاندان نبوت کے لئے خصوصا ایک خاص فضل اور بشارت کو لے کر آئی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد سلمہ اللہ الاحد کے مشکوئے معلیٰ میں پہلا بیٹا پیدا ہوا.جو خاندان احمد میں دوسرا نافلہ (ہوتا) اور چراغ

Page 396

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 367 المجمن انصار اللہ کا قیام ہے."." خاتم النبین " پر نظام المشائخ میں مضمون دہلی سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی زیر ادارت ایک رسالہ "نظام المشائخ " چھپتا تھا اس رسالہ کا "رسول نمبر " مارچ 1911ء میں شائع ہوا.ادارہ نے اس خاص اشاعت کے لئے دو سرے اہل قلم اور سر بر آوردہ حضرات کے علاوہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے بھی اپنا مضمون بھجوانے کی درخواست کی.جس پر آپ نے " خاتم النبین " کے عنوان سے ایک نہایت لطیف اور روح پرور مضمون لکھا جو مندرجہ ذیل ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا: گذشته ربیع الاول ۱۳۲۹ھ میں جب ہمیں پہلی دفعہ "رسول نمبر " نکالنے کا خیال پیدا ہوا تو ہم نے مختلف مذاہب و مشارب کے پیشواؤں کو لکھا تھا.کہ وہ براہ عنایت رسول اللہ ﷺ کی نسبت اپنے خیالات و آراء ظاہر فرمائیں.انہی میں صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلف جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم دعویدار مسیحیت بھی تھے.لیکن افسوس کہ ان کا جواب موصول ہو کر ایسا گم ہوا کہ انتیں تو انتیں ۱۳۲۰ھ کے "رسول نمبر" میں بھی شائع نہ کیا جا سکا.....ہم صاحبزادہ صاحب سے معافی چاہتے ہیں اور دلی شکریہ کے ساتھ اسے ذیل میں درج کرتے ہیں".تو 5 مارچ 1911ء میں دربار خلافت سے ایک حضرت خلیفہ اول کی طرف سے اہم تصریح اہم تصریح ہوئی.حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب سول سرجن لاہور کا یہ سوال پیش ہوا.کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کوئی فروعی اختلاف ہے ".فرمایا.یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان کوئی فروعی اختلاف ہے.D کیونکہ جس طرح پر وہ نماز پڑھتے ہیں ہم بھی پڑھتے ہیں اور زکوۃ.حج اور روزوں کے متعلق ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں.میری سمجھ میں ہمارے اور ان کے درمیان اصولی فرق ہے.اور وہ یہ کہ ایمان کے لئے یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو اس کے ملائکہ پر کتب سماویہ پر اور رسل پر.خیرو شر کے اندازوں پر اور بعث بعد الموت پر.اب غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہاں سے ہی ہمارا اور ان کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے.ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہو سکتا.اور اس ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں عام (ہے) خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے ہندوستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں.کسی مامور من اللہ کا انکار کفر ہو جاتا ہے اب بتلاؤ کہ یہ اختلاف فرومی کیونکر ہوا.قرآن میں تو لکھا ہے لا نفرق بين احد من رسلہ لیکن حضرت مسیح موعود کے انکار

Page 397

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 368 الجمن انصار اللہ کا قیام میں تو تفرقہ ہوتا ہے.رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کو قرآن مجید میں خاتم النبین فرمایا.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین یقین نہ کرے.تو بالاتفاق کافر ہے.یہ جدا امر ہے کہ ہم اس کے کیا معنے کرتے ہیں اور ہمارے مخالف کیا.اس خاتم النبین کی بحث کو لا نفرق بین احد من رسلہ سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک الگ امر ہے.اس لئے میں تو اپنے اور غیر احمدیوں کے درمیان اصولی فرق سمجھتا ہوں".اسی طرح فرمایا : لا الله الا اللہ مانے کے نیچے خدا کے سارے ماموروں کے مانے کا حکم آجاتا ہے اللہ کو مانے کا یہی مطلب ہے کہ اس کے سارے حکموں کو مانا جاوے گا.اب سارے ماموروں کا ماننالا اله الا الله کے معنوں میں داخل ہے...اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہم " مرزا صاحب کو نیک مانتے ہیں لیکن وہ اپنے دعوئی میں جھوٹے تھے.یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں.خدا تعالٰی فرماتا ہے.من اظلم ممن افترى علی الله الكذب ا و کذب بالحق لما جاءہ دنیا میں سب سے بڑھ کر ظالم دو ہی ہیں.ایک جو اللہ پر انترا کرے.دوم جو حق کی تکذیب کرے.پس یہ کہنا کہ مرزا نیک ہے اور دعاوی میں جھوٹا گویا نور و ظلمت کو جمع کرتا ہے جو ناممکن ہے ".سید محمود نے ۱۸۷۳ء میں ایک ایسی اسلامی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے چندہ یونیورسٹی کا تخیل پیش کیا جو کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرح حکومت وقت کے اختیارات سے آزاد ہو اس کے بعد نواب محسن الملک مرحوم نے سرسید کی وفات کے بعد اس خیال کو آگے بڑھایا اور سرسید کی یاد گار ٹھہرا کر ایجوکیشنل کانفرنس کے مقصد میں اس کو داخل کر لیا.II اور اس کی اعانت کے لئے ہندوستان بھر میں اسلامی اداروں، جماعتوں اور دوسرے مسلمان رؤسا اور عوام سے چندہ کی تحریکیں کی گئیں.خود حضرت خلیفتہ المسیح نے اعلان فرمایا.کہ " پیونکہ اس وقت ایک عام تحریک اسلامی یونیورسٹی کے ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے اور بعض احباب نے دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں.یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر چہ ہمارے اپنے سلسلہ کی ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر بہت بوجھ چندوں کا ہے تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک مفید اور نیک تحریک ہے اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس میں شامل ہوں اور قلمے ، قدمے سخنے در سے مدد دیں".اس اعلان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا.

Page 398

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 369 الجمن انصار اللہ کا قیام نواب محسن الملک کی زندگی میں انگریزی حکومت کی بعض کڑی شرائط کے باعث یونیورسٹی کا معاملہ بھی برسوں تک کھٹائی میں پڑا رہا.مگر آخر جنوری ۱۹۲۱ء میں یہ عظیم الشان یونیورسٹی جو ایشیائی مسلمانوں کی بہت بڑی یونیورسٹی تھی.معرض وجود میں آگئی.مسلمان وہی ہے جو سب ماموروں کو مانے حضرت خلیفہ اول کے اس اعلان پر کہ احمدی اور غیر احمدی اختلاف اصولی ہے.فروعی نہیں ہے.امرت سر کے اخبار وطن اور جھنگ کے اخبار المنیر " نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ نے ایک ذرا سے فرق پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دی ہے.اسی طرح پیسہ اخبار میں کسی شوخ مزاج نے ایک مضمون لکھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح اس فیصلہ کو واپس لے کر حضرت مرزا صاحب کے الہامات کو باطل کر دیں گے.اور ان پر سے کفر کا فتویٰ واپس لے لیں گے.خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی ان ہر دو اخبارات میں ایک مضمون لکھا جس پر کفر و اسلام کے مسئلہ پر ایک عام بحث چھڑ گئی.اس نازک مرحلہ پر جبکہ خلیفہ وقت کے مسلک کے خلاف چیلنج کیا گیا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے شعید الاذہان (اپریل 1911ء میں ایک مفصل مضمون لکھا جس میں آپ نے جماعت کے سامنے حضرت خلیفہ اول کے مسلک کی تائید میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پیش کیں اور اس موضوع پر ایک فیصلہ کن بحث کر کے ثابت کیا کہ "مسلمان رہی ہے جو سب ماموروں کو مانے اور یہی عنوان اس مضمون کا رکھا.حضرت خلیفتہ المسیح نے یہ مضمون سننے پر تحریر فرمایا کہ " مجھے اس مضمون سے مخالفت نہیں اور ہرگز مخالفت نہیں اور ارشاد فرمایا کہ اسے چھاپ دو.سو آپ کی اجازت وہدایت سے یہ مضمون پہلے شہید الاذہان میں اور پھر اخبار الحکم میں شائع ہوا.کسی شخص نے اسے الگ رسالہ کی شکل میں شائع کرنا چاہا تھا مگر چونکہ یہ مضمون خاص جماعت کے لئے تھا اور ایک رسالہ اور ایک اخبار میں شائع ہو کر اس کی جماعت میں کافی اشاعت ہو چکی تھی اس لئے حضرت خلیفہ اول نے اس کی اجازت نہ دی.انہی دنوں سید محمد حسین شاہ صاحب جنہوں نے فروعی اختلاف کی بابت سوال کیا تھا دوبارہ قادیان آئے تو حضرت خلیفہ اول نے مسلم یونیورسٹی کی اعانت کے سلسلہ میں فرمایا کہ اس بارے میں اشتراک کا تو ہم نے فیصلہ کیا ہے لیکن امتیاز قائم رکھنا ضروری ہے.جس کے پانچ وجوہ آپ نے بیان فرمائے.امتیاز نہ رہے تو قوم گھل مل کر تباہ ہو جاتی ہے.جب ہمارے مامور من اللہ کو یہ لوگ جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہماری غیرت کس طرح برداشت کر سکتی ہے کہ ان کو اپنا امام صلوۃ بنالیں.

Page 399

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 370 الجمن انصار اللہ کا قیام جب تک تمیز نہ ہو نہ امر بالمعروف ہی رہتا ہے نہ نہی عن المنکر.خود نام رکھنا ہی ترقی کا موجب ہوتا ہے.جب کوئی قوم ممتاز ہوتی ہے تو قوم اس کی مخالفت کرتی ہے پھر جوں جوں مخالفت ہوتی ہے اس ممتاز بننے والے کو سعی اور دعا کا موقعہ ملتا ہے.آخر میں فرمایا " سعی کو شش جہاد دعا کے لئے ضرور ہیں صلح کل میں نہیں ہو سکتا".بهر حال حضرت خلیفہ اول کی واضح تصریحات اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے مضمون نے احمدی و غیر احمدی سوال کے بارے میں قطعی فیصلہ کر دیا.چنانچہ اخبار الحکم نے لکھا." میں نے لکھا تھا کہ حضرت صاجزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ الا جن نے اس پر ایک مبسوط مضمون لکھا ہے خدا کا شکر ہے کہ وہ مضمون اب حضرت خلیفتہ الصحیح، ظلہ العالی کے ارشاد اور استصواب کے ماتحت پبلک ہوتا ہے......اس مضمون کے بعد انشاء اللہ اس بحث کا خاتمہ ہو جائے گا جبکہ ہم ایک نبی کے متبع ہیں.تو کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کی عام ہمدردی یا تعریف کو حاصل کرنے کے لئے اپنے ممتاز عقائد کو صفائی سے بیان نہ کریں ".خواجہ کمال الدین صاحب کا طرز عمل خواجہ کمال الدین صاحب جو آج تک اپنے زعم - میں ایک " صلح کل پالیسی اختیار کر کے ملک میں >> گھوم رہے تھے اور لیکچروں کے ذریعہ عوامی شہرت کے خوگر اور دلدادہ ہو رہے تھے حضرت خلیفہ اول کی تصریحات اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے تائیدی مضمون سے سخت جزبز ہوئے.چنانچہ پیسہ اخبار " (لاہور) نے لکھا کہ "وہ (یعنی خواجہ صاحب - ناقل) رسالہ مشحمید الاذہان کے نوجوان اور نا تجربہ کار ایڈیٹر کے اس قول سے متفق نہیں کہ احمدی لوگ سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں جو مرزا غلام احمد صاحب کی نبوت یا مجددیت کے قائل نہیں ".نیز لکھا ”امید ہے کہ خواجہ صاحب نے انجمن احمدیہ کی اتفاق رائے سے اس امر کا اعلان کیا ہو گا ".A اخبار الحکم نے حسن ظن سے کام لے کر لکھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح جس کو اپنی علالت کے ایام میں اس کے تقویٰ و طہارت کو دیکھ کر امام مقرر فرما ئیں.اگر اس پوزیشن کا انسان نا تجربہ کار کہلا سکتا ہے تو ایسے نا تجربہ کاروں پر ہمارا جان و مال نثار غرض ایک احمدی کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ خواجہ صاحب اس قسم کے الفاظ بولیں.یہ محض خواجہ صاحب پر افترا ہے.اسی اثناء میں ایڈیٹر الحکم کی نظر سے خواجہ صاحب کا ایک اشتہار گذرا جو انہوں نے غیر احمدی مسلمانوں کے متعلق میرا نہ ہب" کے عنوان سے شائع کیا تھا.دراصل خواجہ صاحب نے بلا ضرورت اس سوال کو لاہور کے اسلامیہ سکول میں کسی لیکچر

Page 400

تاریخ احمدیت جلد ۳ 371 الجمن انصار اللہ کا قیام کے اثناء میں چھیڑ دیا.جس پر خود انہیں اپنی پوزیشن غیر احمدیوں کے سامنے صاف کرنا پڑی - 21 خواجہ صاحب نے اپنے اس اشتہار میں لکھا تھا: میرے مرشد زادہ حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد نے اپنے رسالہ شعید الاذہان میں منکران جناب مسیح موعود کو کافر لکھا ہے.سو جہاں تک میں نے اس رسالہ کو پڑھا ہے میرے نزدیک اس پر اس قدر شور کرنے کی کوئی وجہ نہیں.دراصل عربی زبان میں کفر کے معنے انکار کے ہیں.اور کافر بمعنی منکر ہوتے ہیں.کسی چیز کے مانے والے کو عربی زبان میں اس چیز کا مومن اور اس کے نہ ماننے والے کو اس چیز کا کافر کہا جاتا ہے ہم نے اگر مرزا صاحب کو مانا تو ہم ان کے مومن اور اگر ہم ان کو نہیں مانتے تو ہم کافر مرزا ہیں.حضرت مرزا صاحب ہمارے نزدیک مامور من اللہ ہیں تو ان کے مصدق مومن بالمامور کہلائیں گے اور ان کے منکر کافر بالمامور - کیونکہ منکر مامور اور کا فرمامور دونوں ہم معنی جملے ہیں.میرے نزدیک حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی تحریر میں لفظ کا فر بمعنی منکر استعمال کیا ہے.والا اگر کافر سے مراد خارج از اسلام لیا جائے جیسے ہندو یا عیسائی تو اس میں میری یا میاں صاحب کی رائے کیا جب خود حضرت اقدس مرحوم مغفو ر اپنے منکرین کو کافر یعنی خارج از اسلام نہیں کہتے تو ہم ان کے خلاف کیوں کہیں ".اختبار الحکم نے اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کے ارشادات بالکل له.صاف تھے خواجہ صاحب خواہ مخواہ سوال کو زیادہ پیچ دار اور حل طلب بناتے جا رہے ہیں.پھر لکھا: بہر حال اس اشتہار میں اگر چہ صاف نہیں مگر خواجہ صاحب نے انت بیان کر دیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے نزدیک مامور من اللہ ہیں.تو ان کے مصدق مومن بالمامور کہلائیں گے اور ان کے منکر کافر بالمامور - اب لغوی حیثیت سے دیکھے جانے کے قابل کوئی لفظ نہیں بلکہ اس کو ہم نے شرعی اصطلاح میں دیکھنا ہے.کہ شریعت اس کے کیا معنی کرتی ہے.اور خواجہ صاحب کا بھی دہی مفہوم ہونا چاہئے نہ کچھ اور.کیونکہ حضرت خلیفتہ المسیح نے جو اس کی اشاعت کی اجازت دی ہے تو اسی حیثیت اور مفہوم کے لحاظ سے جو آپ کی مندرجہ بالا تقریروں اور حضرت کے ارشادات بھی درج کئے ہیں.ناقل) میں درج ہے نہ کسی اور رنگ میں.اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے اور مختصر الفاظ میں ہم اس کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب خدا تعالٰی کے مامور د مرسل ہیں اور ان پر ایمان لانا ایمان بالرسل میں داخل ہے جب تک کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتا اس وقت تک وہ اس ایمان کا مومن نہیں کہلا سکتا.جو لا نفرق بين احد من رسلہ میں سکھایا گیا ہے...ہم کو اخلاقی جرات سے کام لینا چاہیئے اور اپنے مذہب کو چھپانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.مصلحت

Page 401

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 372 الجمن انصار اللہ کا قیام وقت کوئی چیز نہیں ہے.ہم پر افسوس ہو گا کہ دوسرے مسلمان تو ہمارے امام اور خدا کے برگزیدہ مامور و مرسل کو نعوذ باللہ کاذب کہیں اور ہم ان کو مومن حقیقی یقین کرلیں...ہم تمام ان کاموں میں جو قومی حیثیت سے ہمارا اشتراک چاہتے ہیں شامل ہونا ضروری سمجھتے ہیں اور حضرت امام نے اپنے عمل سے بتا دیا ہے لیکن جہاں مذہبی معتقدات کی بحث آتی ہے وہاں ہم ان سے الگ رہنا ضروری جانتے ہیں اور ہمارے مغفور امام علیہ السلام اور موجودہ امام مدظلہ العالی نے جو کچھ خدا تعالیٰ کے اشارہ اور ہدایت کے ماتحت اپنا مذ ہب ظاہر کر دیا ہے.وہی ہمارے لئے سند اور حجت ہے ".خواجہ صاحب نے اپنے اشتہار میں زیادہ زور اس بات پر دیا تھا کہ ”ہم انہی کو کافر کہتے ہیں.جو ہم کو کافر کہتے ہیں".اس لئے اخبار " المنیر " (جھنگ) نے یکم جولائی 1911ء کے پرچہ میں لکھا: خواجہ کمال الدین صاحب وہی بات کہتے ہیں جو عبدالحکیم مرتد کہتا تھا.پس کیا وجہ ہے کہ ان کو مرزائی جماعت سے عبد الحکیم کی طرح مرتد کر کے خارج نہیں کیا جاتا.اور تعجب کی بات ہے کہ احمدی اہل قلم ان کو برابر خواجہ خواجگان ہی لکھتے چلے جاتے ہیں".خواجہ صاحب نے تو یہ گول مول پالیسی عوامی ذہن کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اختیار کی تھی مگر چونکہ انہی کے قلم سے اشتہار میں ان کے لئے " کا فر بالمامور" کے لفظ بھی نکل گئے تھے.اس لئے غیر احمدی حلقے ان کی چالاکی کو بھانپ گئے اور خود لاہور میں ہی جہاں ان کے لیکچروں کی دھاک بیٹھی تھی.ان کو پبلک سٹیج پر آنے سے روک دیا گیا.در اصل خواجہ صاحب کے عام لیکچروں کی تردید میں علماء کے حلقوں نے پہلے ہی سے آواز اٹھانا شروع کر دی تھی.حتی کہ وہ اندر ہی اندر ان لیکچروں کی بھی مخالفت کر رہے تھے.جن میں انہوں نے محض عمومی رنگ میں اسلام کا تعارف کرایا تھا.اور اپنی مخصوص پالیسی کے مطابق جماعت احمدیہ کا اشارہ تک نہیں کیا تھا.مثلاً قادری پریس بنارس سے ”مولانا حاجی الحرمین قاری محمد عیسی صاحب نے تردید لیکچر خواجہ کمال الدین صاحب قادیانی" کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں " قادیانیوں کے نمائشی ایمان کا جواب" کے عنوان سے ایک فارسی نظم لکھ کر نہایت بد زبانی اور دشنام طرازی سے کام لیا.اس طرح وہ مصلحت آمیز لیکچر جو بظاہر احمدیت کی ترقی و اشاعت کے لئے دیئے گئے تھے.احمدیت کی مخالفت میں استعمال ہونے لگے.سنسکرت کی تعلیم کا انتظام حضرت خلیفتہ المسیح اول نے شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم اور شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کو سنسکرت پڑھانے کے لئے ایک پنڈت کا انتظام کیا اور اس کے اخراجات خود برداشت فرمائے.

Page 402

ربیت - جلد ۳ 373 انجمن انصار اللہ کا قیام حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں یہ ذکر آیا کہ مولوی محمد حضرت خلیفہ اول کا اعلان حق حسین صاحب بٹالوی نے لکھا ہے.کہ اگر احمدی مرزا صاحب کو نبی کہنا چھوڑ دیں تو ہم کفر کا فتویٰ واپس لے لیں گے.آپ نے فرمایا." ہمیں ان کے فتویٰ کی کیا پروا ہے اور وہ حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں؟ جب سے مولوی محمد حسین نے فتویٰ دیا ہے.وہ دیکھے کہ اس کے بعد آج تک اس کی عزت کہاں تک پہنچ گئی ہے اور مرزا صاحب کی عزت نے کس قدر ترقی کی ہے.اپریل 1911 ء کے آخری ہفتہ میں جماعت احمدیہ بنارس کا جلسہ منعقد ہوا.جس میں جلسہ بنارس حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی حضرت میر قاسم علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب نے تقریریں کیں.مفتی محمد صادق صاحب کی تقریر تحفہ بنارس " کے نام سے بعد میں کتابی شکل میں بھی چھپ گئی.حضرت میر صاحب اور مولوی را جیکی صاحب نے مہاراجہ صاحب بنارس ( ہزہائی نس سر پر بھو نارائن سنگھ بہادر جی.سی.آئی - ای ) کی کوئی میں بھی لیکچر دیئے.جماعت سونگھیر نے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں تار دیا.کہ مبلغین کو مونگھیر کے جلسہ میں پہنچنے کی بھی اجازت دی جائے.حضور نے خواجہ صاحب کے سوا سب کو اجازت دے دی مگر بعض مجبوریوں کے باعث صرف حضرت مولوی سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی صاحب ہی وہاں جا کر لیکچر دے سکے.اس سفر میں کئی لوگوں نے بیعت کی.ایک احمدی مولوی صاحب نے کفر اور مکذب مولویوں کے مکفرین سے نیکی کی تلقین ہاتھوں تنگ آکر حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ مکذبین بھی تو کافر ہیں کیوں نہ ایسا کیا جاوے کہ ہماری جماعت کے مولوی صاحبان ان کے حق میں ایک کفر کا فتویٰ ان پر مہریں تیار کر کے شائع کردیں.حضرت نے فرمایا ان کو لکھ دو کہ آپ ان مخالفین کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے رہیں اور ان کے حق میں دعا کرتے رہیں اور ان کے ساتھ حتی الوسع نیکی کرتے رہیں وہ برا کہیں تو آپ خاموش رہیں.اللہ تعالٰی آپ کو فتح مند کرے گا.نکته معرفت ایک شخص کا خط حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں مقروض ہو گیا ہوں.آپ کے بڑے بڑے مرید ہیں مجھے بہت سارو پید ان سے دلا دیں.فرمایا

Page 403

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 374 الجمن انصار اللہ کا قیام اس کو لکھ دو میرا بڑا پیر بھی اللہ ہے اور بڑا مرید بھی اللہ ہے.وہ پیر ہے کیونکہ وہ میرا ہادی ہے وہ مرید ہے کیونکہ جودہ ارادہ کرتا ہے وہ ہو جاتا ہے.مرید خداتعالی کا ایک نام ہے.وہی میرے سب کام کرتا ہے میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے سوال نہیں کیا.نہ اپنے مریدوں سے کرتا ہوں آپ کو جس طرح کا اضطراب ہے اگر اس میں دعا کی توفیق مل جائے تو انشاء اللہ بیڑا پار ہو جائے گا.ایک پرائیویٹ کلاس اوائل 1911ء کی بات ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کالج سے تشریف لائے تھے.آپ کی خاطر گھر میں حضرت سید نا مرزا بشیر الدین ام محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی نے ایک کلاس شروع فرمائی.جس میں حضرت میاں صاحب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی شامل ہوتے تھے بعد میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی بھی شامل ہو گئے تھے.کلاس میں خطبہ الہامیه دروس النحویہ حصہ دوم قصیده بانت سعاد پڑھا جاتا تھا.طریق تعلیم یہ تھا کہ آپ ہر روز پچھلا درس سنا کرتے تھے.اور جب ایک سوال پوچھا جاتا اور نمبر ایک سے لے کر نمبر یا نمبرے تک کوئی نہ بتا تا صرف آخری طالب علم تلا تا تو اسے آخری نمبر سے اٹھا کر ایک پر لے جاتے اور باقی سب ایک ایک نمبر پیچھے کر دئیے جاتے.نتیجہ یہ ہو تا کہ طالب علم اپنے اپنے نمبر کی حفاظت کے لئے خوب محنت کرتے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کا بیان ہے.کہ ان کو ایک سال تک اس کلاس میں پڑھنے کا موقع میسر آیا.۶ / مئی ۱۹۱۰ ء کو شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم نے انتقال کیا اور ۲۲ / جون ۱۹۱۱ء کو جلسه تاجپوشی پر تقریر شهزاده ویلیز جارج پایم (۶۱۸۲۵-۱۹۳۲ء) کی رسم تاج پوشی ہوئی.اسی سال بشپ آفس مدر اس نے کہا.”ہمارے شہنشاہ کو خدا کی طرف سے سلطنت برطانیہ کا تاج عطا ہوا ہے....دنیا کی سلطنت آخر کار خدا کی سلطنت اور اس کے مسیح کی بادشاہت ہو کے رہے گی.مگر قادیان کے جلسہ تاجپوشی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے یہ تقریر فرمائی کہ گورنمنٹ برطانیہ کی دی ہوئی مذہبی آزادی کا جو سب سے بڑی نعمت اس حکومت کی ہے) شکریہ یہ ہے کہ ہم اپنے نفوس کا تزکیہ کریں.اور اپنی زندگی ایسی طرز میں گزاریں جو مخلوق الہی کی ہمدردی سے لبریز ہو نیز دعا کی کہ جیسے اس شہنشاہ کے سر پر آج دنیاوی تاج رکھا ہے وہ دن بھی آوے کہ اسلام کا تاج اس کے سر پر ہو - D 24 مئی 1911 ء کو انجمن احمد یہ بٹالہ کا جلسہ تھا.پہلے روز حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد جلسہ بٹالہ صاحب شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹرا حکم اور شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور نے لیکچر دیئے.دوسرے روز حضرت حافظ روشن علی صاحب مولوی غلام رسول صاحب را جیکی - خواجہ کمال

Page 404

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 375 رین صاحب اور ایڈیٹر صاحب نور کے علاوہ حضرت صاحبزادہ صاحب کا دوبارہ لیکچر ہوا.انجمن انصار اللہ کا قیام چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا پہلا سفر انگلستان اسی سال کا واقعہ ہے کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ بیرسٹری پاس کرنے کے لئے انگلستان تشریف لے گئے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں اجازت سفر کے لئے آپ نے عریضہ لکھا تو حضور نے آپ کو اور آپ کے والد محترم حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کو استخارہ کا ارشاد فرمایا.چنانچہ دونوں نے استخارہ کیا اور کوئی امر مانع نہ پاکر انگلستان کے سفر کی تیاری شروع کر دی.آپ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں آخری ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے نصیحت فرمائی کہ آپ لنڈن جارہے ہیں.لندن شہر دنیا کی زیب و زینت اور جاذب نظر مناظر کے لحاظ سے مصر سے بھی بہت بڑھ کر سنا جاتا ہے.آپ ہر صبح سورہ یوسف کی تلاوت کر لینا اس سے بہت فائدہ ہو گا.دوسرے کسی شہر میں سب کے سب شریر نہیں ہوتے.شرفاء بھی ہوتے ہیں اس لئے تعلقات اور نشست و برخاست کے لئے شرفاء کا انتخاب مفید رہے گا.اگر چہ وہ زمانہ آپ کے عنفوان شباب کا تھا اور مغربی ممالک خصوصاً انگلستان میں چاروں طرف الحاد دہریت اور لادینیت کا ایک سیلاب انڈا ہوا تھا.مگر آپ نے خلیفہ وقت کی اس نصیحت پر اس سختی سے عمل کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے جو بعد میں ہندوستان سے انگلستان پہنچ گئے.اور دو کنگ میں مقیم تھے آپ کے زہد و تقوی، پاکیزہ اور اعلیٰ کیریکٹر اور دینی شعف سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کو خط لکھا کہ لندن شہر کو اگر مصر سے تشبیہ دی جائے تو ظفر اللہ خان یوسف ہیں.01 قیام انگلستان کے دوران آپ کو اپنے تعلیمی فرائض ادا کرنے کے علاوہ انگلستان اور دوسرے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کے ذرائع دو سائل پر بھی کافی غور کرنے کا موقع ملا.نیز یورپ کے نئے مذہبی رجحانات اور اسلام کے خلاف مہم کا بھی آپ نے گہرا مطالعہ کیا.اور جہاں تک ممکن ہو سکا.انگریزوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی از حد کوشش کی جس کی تفصیل ان رپورٹوں سے ملتی ہے جو ان دنوں اخبار بدر میں شائع ہوتی رہتی تھیں.ان تبلیغی سرگرمیوں کے پیش نظر جو آپ نے زمانہ طالب علمی میں وہاں کی ہیں آپ کو اسلام کا سب سے پہلا احمدی مبلغ کہنا مناسب ہو گا.یورپ کے لوگوں کو عیسائیت سے کھینچ کر اسلام کی طرف لانے کی آپ میں کس درجہ تڑپ تھی.اس کا اندازہ ذیل کے خط سے باسانی لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے انہی دنوں لندن سے لکھا.”مجھے اکثر تعجب آتا ہے کہ یورپ میں

Page 405

تاریخ احمدیت 376 الجمن انصار اللہ کا قیام تثلیث کے ماننے والوں کی کیا تعداد ہے.میں نے سوائے ایک عورت کے کسی شخص کو انگلستان یا کسی اور ملک میں تثلیث کا قائل نہیں پایا.یہ لوگ گرجے جاتے ہیں مگر صاف مانتے ہیں کہ لباس دکھانے کی غرض سے نہ عبادت کی ضرورت سے تثلیث کو بلا پس و پیش بیہودہ قرار دیتے ہیں تین ہی دن ہوئے کہ ایک عورت سے باتیں ہو رہی تھیں کہنے لگی کہ گرجے تو جاتی ہوں مگریچ پوچھو تو تثلیث کو نہ مانتی ہوں نہ مان سکتی ہوں.ہم میں سے کوئی بھی نہیں مانتا اور ہمارے علماء اکثر دل میں اس سے منکر ہیں ایک ڈاکٹر سے میری گفتگو ہوئی اس نے کہا میں تو تثلیث کو نہیں مانتا لیکن فرض کیا کسی نے باپ اور بیٹے کو تو سمجھ لیا.مگر روح القدس کے حصے کا پتہ نہیں لگتا.میں نے ایک پادری سے سوال کیا تھا کہ مجھے سمجھاؤ تو اس نے جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب اگر اتنی عمر میں بھی آپ روح القدس کو نہیں سمجھ سکے.تو میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا اس ڈاکٹر نے اسلام کی بہت تعریف کی اور مجھ سے کہا میرے بعض دوست دل سے بالکل مسلمان ہیں.فالحمد للہ کر صلیب دور نہیں معلوم ہوتی ".۱۹۱۳ء میں آپ چند روز کے لئے سوئٹزرلینڈ اور جرمنی تشریف لے گئے.اس سفر میں بھی آپ کو پیغام اسلام پہنچانے کا موقعہ ملا.اس سفر کے بعد تعطیلات گرما میں آپ نے ایک دوست کے ہمراہ سویڈن فن لینڈ اور روس کا سفر کیا.ان دنوں روس کا ملک کچھ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا.تین دن سینٹ پیٹر برگ میں (جو ان دنوں روس کا دار الحکومت تھا) قیام کیا.ایک دن آپ کو معلوم ہوا کہ وہاں ایک مسجد تعمیر ہو رہی ہے.چنانچہ آپ شیخ صاحب کے ساتھ وہاں پہنچے.مسجد کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک مزدور ملا.جو صرف ردی زبان بولتا تھا.آپ نے عمارت کی طرف اشارہ کر کے سوال کیا مسجد ؟ اس نے جواب دیا مسجد پھر پوچھا.مسلمان اس نے کہا " مسلمان الحمد للہ " آپ نے بتایا کہ ہم بھی مسلمان ہیں جس پر اس نے پھر الحمد للہ کہا.اور تینوں نے لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھا.وہ آپ کو مسجد میں لے گیا.جہاں آپ نے الحمد شریف پڑھی.آپ غیر ملکی ہونے کی وجہ سے کوئی گفتگو تو نہ کر سکتے تھے.الحمد للہ وہ بھی سمجھتا تھا.آپ بھی یہی پیارا کلمہ مسجد کی طرف اشارہ کر کے دہراتے رہے جب وہ آپ کو مسجد دکھا چکا تو آپ نے اسے ایک روپیہ دیا.مسجد دیکھ کر آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا.نیز یہ معلوم کر کے بھی مسرت ہوئی.کہ سینٹ پیٹرس برگ میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں.آپ کا قانونی دماغ ان دنوں بھی کس طرح اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و بہبودی میں کام کر رہا تھا.اس کا کسی قدر اندازہ آپ کے ایک خط سے ہو سکتا ہے جو آپ نے فروری ۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ ادل کی خدمت میں لکھا.انگریزی حکومت میں رائج شدہ شرع محمدی (Law Mohammaden سے

Page 406

تاریخ احمدیت جلد ۳ 377 الجمن انصار اللہ کا قیام متعلق بعض باتیں بطور مثال پیش کر کے آپ نے تحریر کیا.اگر یہ باتیں اسلام کے اصول کے خلاف ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہند کے مسلمان ان کو بدلوانے کی کوشش نہیں کرتے.ہمیں کم از کم یہ تو ظاہر کر دیتا چاہئے کہ گورنمنٹ جو قانون چاہے عمل میں لائے مگر جس قانون کا نام شرع محمدی رکھا ہے وہ شرع محمد ی نہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں.مگر محمدی قانون کے طور پر رائج ہیں.بہتر ہو اگر گورنمنٹ ہند کے شرع محمدی کی نظر ثانی کی جائے.اور کم سے کم جماعت احمدیہ کی توجہ تو اس طرف دلائی جاوے تاکہ وہ اسلام پر عمل کر کے ان غلط اصولوں کے خلاف فیصلہ کرا دیں.کیونکہ پنجاب میں اور اودھ میں یہ قانون ہے کہ مسلمانوں کے رواج کو شرع محمدی پر ترجیح دی جاوے اس لئے اگر کوئی بات سرکاری شروع محمد ی میں ایسی ہو جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو.اور جماعت احمد یہ تمام کی تمام اس بات کے خلاف اور اسلام کے مطابق عمل کرے.تو یہ ان کا رواج ہو جائے گا اور کچھ سالوں کے عرصے میں عدالت اسے تسلیم کرلے گی.امید ہے کہ حضور اس امر کی طرف کچھ توجہ مبذول فرمائیں گے".پھر لکھا: ایک اور اصول جو شرع محمدی میں دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان مرد یا عورت اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے.اس اصول سے پادری لوگ مسلمانوں کو تنگ کرتے ہیں مثلاً اگر ایک مسلمان عورت عیسائی ہو جائے.تو اس کی طلاق ہو گی.اب بے شک اسے کوئی نکال کرلے جائے خاوند کچھ نہیں کر سکتا حضور کی اس امر کی بابت کیا رائے ہے.....و السلام دعا گو و طالب دعا.حضور کا غلام ظفر اللہ " - HD چوہدری صاحب کے بعد لندن میں پہلے خواجہ کمال الدین صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب سیال بھی تبلیغ اسلام کے لئے پہنچ گئے.اور آپ کے ساتھ اعلائے کلمہ اسلام کے فریضہ میں خاص دلچسپی لیتے رہے.خلافت ثانیہ کے قیام پر آپ نے اور چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے تو بیعت کا خط لکھ دیا.مگر خواجہ صاحب نے جو مجبور اخلیفہ اول کی دوبارہ بیعت کر چکے تھے آپ کی وفات کے بعد خلافت سے علی الاعلان منحرف ہو گئے.کہتے ہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں جب لندن سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بیعت نامے پہنچے تو آپ نے ایک مجلس میں فرمایا خدا کی قدرت فتح و ظفر خدا نے ہمیں عطا کر دیئے ہیں اور کمال (یعنی چالا کی غیر مبایعین کے حصہ میں آیا ہے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لندن میں تین سال قیام کے بعد شروع نومبر ۱۹۱۴ء میں واپس

Page 407

تاریخ احمدیت.جلد ۳ اپنے وطن میں پہنچے.378 الجمن انصار اللہ کا قیام مباحثہ مانگٹ اونچے " ( ضلع گوجرانوالہ) مئی 1911ء میں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے مانگٹ اونچے میں مولوی میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے وفات مسیح" - "ختم نبوت " اور "صداقت مسیح موعود" کے موضوع پر کامیاب مناظرہ کیا.مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی شکست فاش کو دیکھ کر پچاس آدمی داخل احمدیت ہو گئے.یہ مناظرہ ہزار ہا کے مجمع میں دو دن جاری رہا تھا.حیات قدسی حصہ سوم (صفحہ ۸۶-۹۰) میں اس کی مفصل رو نداد طبع شدہ ہے.مباحثه مونگیر انہی دنوں مونگھیر میں بھی مباحثہ ہوا.مباحثہ میں مرکز کی طرف سے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تشریف لے گئے.یہ بڑا مشہور مناظرہ تھا جس میں ہندوستان کے اطراف و جوانب سے تقریباً ڈیڑھ سو غیر احمدی علماء جمع ہوئے اور سامعین کی تعداد ۱۵ ہزار سے بھی متجاوز تھی.مولوی ابراہیم صاحب سیالکوئی پہلے سے یہ پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ احمدی مناظر عربی سے نابلد ہیں اور وہ عربی میں مناظرہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے.ہماری فتح و کامیابی کا ڈنکا بجے گا.لیکن جب مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے مولوی عبد الوہاب پروفیسر عربی کلکتہ کالج کے مقابل پہلا پرچہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں پڑھنا شروع کیا تو علماء حیران و ششدر رہ گئے اور اپنی صریح ناکامی دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا اس فتنہ انگیزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوران مباحثہ میں ہی آٹھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے احمد بیت قبول کرلی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس سال ڈلہوزی کا سفر اختیار فرمایا.ڈلہوزی میں آپ کو ایک پادری سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا.آپ نے تثلیث اور کفارہ پر بحث کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اگر میز پر رکھی ہوئی پنسل کو فقط اٹھانے کے لئے کوئی شخص دو آدمیوں کو آواز دے تو آپ کیا سمجھیں گے کہنے لگا بیوقوف سمجھوں گا.آپ نے فرمایا پھر خدا کے متعلق تمہارا کیا نظریہ ہے جس نے آپ کے عقیدہ کے مطابق کامل طور پر قادر مطلق ہوتے ہوئے بیٹے اور روح القدس کی ضرورت محسوس کی.پادری بہت شرمندہ ہوا اور زچ ہو کر کہنے لگا کہ سوال تو ہر بیوقوف کر سکتا ہے.مگر جواب دینے کے لئے عقلمند آدمی ہونا چاہئے.آپ نے جواب دیا میں تو آپ کو عظمندہی سمجھ کر آیا تھا.1 سفر ڈلہوزی مزور

Page 408

تاریخ احمدیت.جلد سو 379 انجمن انصار اللہ کا قیام حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی آمین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی صاجزادی حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ختم قرآن پر ۳/ جولائی 1911ء کو آمین ہوئی جس پر حضرت ام المومنین نے احباب قادیان کی ایک شاندار دعوت کی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پرانی خواہش کے مطابق نظم کی جس میں یہ مصرعہ بار بار آتا تھا فسبحان الذي او في الاماني اخبار بدر نے اس تقریب پر لکھا."ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی خاندان نبوت میں قرآن مجید سمجھنے والے اور پھر اس کے مبلغ پیدا کر تار ہے.اور وہ دنیا کے لئے ہادی و رہنماء پیشوا نہیں".۶۰ شہنشاہ جارج پنجم کا دربار تاجپوشی عنقریب دہلی میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے میموریل ہونے والا تھا اس اہم واقعہ پر حضرت خلیفہ اول کے دل میں تحریک ہوئی کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جس میموریل کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی تھی اور جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی غفلت کی وجہ سے درمیان میں ہی رہ گیا تھا.اسے اس خوشی کی تقریب پر وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجا جائے تو کامیابی کی امید ہو سکتی ہے.چنانچہ آپ نے سلسلہ احمدیہ کے امام کی حیثیت سے مسلمانان ہند کے نام ایک مفصل اعلان شائع کیا.تا مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور مسلمان انجمنیں بھی اپنی قرار دادوں کے ذریعہ اس کے حق میں آواز اٹھا ئیں.نیز لکھا کہ یہ غرض نہیں کہ ضرور ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں.چونکہ اللہ تعالٰی نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے ہم نے اسے پیش کر دیا ہے اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے بشر طیکہ اس کے بھیجنے کا کوئی مناسب انتظام کر لیا جائے"."1 اس اعلان کا ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے پر جوش خیر مقدم کیا اور مسلمان مقدس اسلامی شعار کے تحفظ کے لئے پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے.چنانچہ مسلم پریس نے اس کے حق میں پر زور آواز اٹھائی اور پر جوش الفاظ میں ادار لیے لکھے.اخبار ملت (لاہور) نے لکھا.ملت مولانا مولوی نور الدین صاحب سے کلی اتفاق کر کے جملہ انجمن ہائے وہ شاخ ہائے مسلم لیگ و معزز اہل اسلام و اسلامی پبلک اور معاصرین کرام کی خدمت میں

Page 409

تاریخ احمد بیت.جلد ۳ 380 الجمن انصار اللہ کا قیام نہایت زور مگر ادب کے ساتھ درخواست کرتا ہے کہ مولانا مدوح کی خواہش کے مطابق اس میموریل کی پر زور تائید کریں.....امید ہے کوئی شخص ایسی مبارک اور نیک تجویز کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کرے گا".اخبار زمیندار نے لکھا." اس ضروری اور اہم تحریک کی سعادت مولانانور الدین صاحب کے حصہ میں آئی ہے جنہوں نے قادیانی جماعت کے پیشوا کی حیثیت سے تمام مسلمانان ہند کی توجہ کو اس طرف مبذول کیا ہے....اور ہمیں یقین ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہو گا.جو ایسے میموریل کے گذرانے کو بہ نگاہ احسان نہ دیکھے".اخبار الاسلام لاہور نے لکھا."کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کے دل میں حضرت محمد مصطفیٰ اور آپ کے پیارے دین اسلام کی سچی محبت ہو اور وہ اس میموریل کی مخالفت کرے یا اسے نا پسند کرے کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے ہر گز نہیں.آل انڈیا مسلم لیگ کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ کو ہاتھ میں لے.اور ایک میموریل تیار کرے.تمام انجمنوں و ڈسٹرکٹ لیگوں کا فرض ہے کہ وہ اس میموریل کی تائید میں ریزولیوشن پاس کریں تمام رسالوں اور اخباروں کا فرض ہے کہ اس معالمہ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں جب تک کہ اس میں کامیابی نہ ہو جائے".اخبار اہلحدیث امرت سرنے لکھا.حکیم صاحب نے ایک اشتہار سب مسلمانوں کی اتفاق رائے اور تائید کے لئے اس امر کے متعلق دیا ہے کہ دربار تاجپوشی دہلی کے موقعہ پر گورنمنٹ سے ایک میموریل کے ذریعہ جمعہ کی نماز کے لئے ۲ گھنٹہ کی تعطیل حاصل کی جائے.اور بذریعہ سرکاری سرکار سرکاری دفاتر سکولوں اور کالجوں میں یہ تعطیل ہونی چاہئے.حکیم صاحب کی رائے سے ہم متفق ہیں.تمام مسلمانوں کی معرفت بھیجنا چاہئے".افشان " نے لکھا.اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک نہایت مناسب اور ضروری ہے اور کسی مسلمان کو اس قسم کی ضرورت سے انکار نہیں ہو سکتا".مسلمان اخبارات اور دوسرے عام مسلمانوں نے عموماً اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ لوگوں نے خصوصا یہ رائے دی کہ یہ میموریل دربار تاجپوشی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہو.لہذا حضرت خلیفہ اول نے بھی اس سے اتفاق فرمایا اور احمدی جماعتوں کو اس سے مطلع کر دیا گیا کہ وہ اس معالمہ میں مسلم لیگ کی ہر طرح تائید و معاونت کریں.مسلم لیگ کے ہاتھ میں لے لینے کے بعد سب سے زیادہ جس شخص نے اس کی تائید میں منتظم کوشش کی وہ شمس العلماء مولانا شیلی تھے جنہوں نے اس غرض کے لئے چندہ جمع کیا.انگریزی میں

Page 410

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 381 الجمن انصار اللہ کا قیام میموریل لکھوا کے مسلمانوں کے دستخط کروائے اور ندوۃ العلماء کے اجلاس منعقدہ ۸۴۷۶/ اپریل ۱۹۱۲ ء میں ریزولیوشن پیش کر کے اس تحریک کی تائید میں ایک مختصر اور پر دلائل تقریر فرمائی.اس اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب بھی موجود تھے.آپ نے بھی اس کی تائید کی اور یہ ریزولیوشن بالاتفاق پاس ہو گیا.چنانچہ اجلاس کی روئداد میں لکھا ہے." جناب مرزا سمیع اللہ بیگ صاحب بی.اے.ایل ایل بی نے اس کی نہایت پر جوش تائید کی اور جناب مرزا محمود احمد صاحب قادیانی کی تائید مزید کے بعد ووٹ لئے گئے اور تجویز مندرجہ بالا انہیں الفاظ کے ساتھ نہایت جوش کی حالت میں بالاتفاق پاس کی ".سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ”حیات شیلی" کے صفحہ ۵۰۱ پر بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.آخر مارچ ۹۱۳ء میں مسٹر غزنوی (بنگال کے نمبر) نے بنگال کو نسل میں اس کے متعلق گورنمنٹ سے سوال کیا.سرکاری ممبر نے اس کا جواب تسلی بخش دیا اور گورنمنٹ بنگال نے نماز جمعہ کے لئے دو گھنٹہ کی چھٹی منظور کرلی.مولانا شبلی نے اس پر ایک میموریل تیار کرایا جس میں بنگال گورنمنٹ کے فیاضانہ حکم کا حوالہ دے کر گورنمنٹ سے خواہش کی کہ جمعہ کو دو گھنٹہ کی تعطیل کی بجائے ایک بجے سے آدھے دن کی عام تعطیل دی جائے.یہ کارروائی ابھی جاری تھی کہ مولانا شیلی انتقال فرما گئے مگر اس میموریل کا یہ اثر ہوا کہ اکثر صوبوں میں ملازمین کو نماز جمعہ میں جانے کی اجازت مل گئی.خلیفہ اور انجمن کے تعلقات پر بحث خلیفہ اور انجمن کی بحث حضرت کے فیصلہ پر ختم کرنے والوں کے خلاف اظہار نفرت ہو جانی چاہئے تھی مگر بعض لوگ اندر ہی اندر اسے تفرقه اندازی کا ذریعہ بنا کر چھیڑتے رہتے تھے جس سے آپ کو از حد تکلیف ہوئی چنانچہ ۵ / اگست ۱۹۱۱ء کا واقعہ ہے کہ آپ نے فرمایا."تم میں اگر اس قسم کی بحثیں ہوں کہ خلیفہ اور فلاں کے کیا تعلقات ہیں اور پھر اس پر فیصلہ کرنے لگ جاؤ تو مجھے سخت رنج پہنچتا ہے تم مجھے خلیفتہ المسیح کہتے ہو.میں تو اس خطاب پر کبھی پھولا نہیں بلکہ اپنے قلم سے کبھی لکھا بھی نہیں میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان بیہودہ بخشیں کرنے والے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہیں سمجھتا....ان کو کیا حق ہے کہ تفرقہ اندازی کی باتیں کریں....ایسے لوگ اگر میری مدد کے خیال سے ایسا کرتے ہیں تو سن رکھیں کہ میں ان کی مدد پر تھوکتا بھی نہیں.اگر مخالفت میں کرتے ہیں تو وہ خدا سے جا کر کہیں جس نے مجھے خلیفہ بنایا.سنو ! میرا صدیق اکبر کی نسبت یہی عقیدہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ نے خلیفہ نہیں بنایا نہ اس وقت جب ممبر پر لوگوں نے بیعت کی.نہ اجماع نے ان کو خلیفہ بنایا.بلکہ خدا نے بنایا.خدا نے چار جگہ قرآن میں خلافت کا ذکر کیا ہے.اور چار بار اپنی

Page 411

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 382 انجمن انصار اللہ کا قیام طرف اس کی نسبت کی ہے پس میں بھی خلیفہ ہوا تو مجھے خدا نے بنایا اور اللہ کے فضل ہی سے ہوا".۲۵ ستمبر 191 ء کو عید الفطر تھی جو حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے خطبہ عید پڑھائی.اور ایک خطبہ دیا.جس میں یہ لطیف نکتہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالی نے ابتلاء سے بچنے کے لئے عید کے دن میں (جو خوشی کا دن ہے) چھٹی نماز کا اضافہ کر دیا ہے.اس میں اشارہ یہ ہے کہ جب مال و دولت اور آرام و راحت حاصل ہو تو عبادت زیادہ کرو.جب ان کی خواہشات بڑھیں تو ایک اور نماز بھی بڑھا دو.ریاست میسور کے شہر بنگلور سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں احمدی علماء جنوبی ہند میں درخواست پہنچی کہ ہمارے یہاں جماعت اسلامیہ کا جلسہ ہو رہا ہے جس میں بلاد ہند کے علماء شرکت کریں گے.آپ بھی اپنے علماء مرکز سے بھجوائیں.چنانچہ آپ نے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، خواجہ کمال الدین صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھجوایا.بنگلور میں سید سلیمان صاحب ندوی (۱۸۸۴- ۱۹۵۳) اور مولانا شوکت علی صاحب (۱۸۷۳-۱۹۳۸) کے علاوہ بعض عرب علماء بھی آئے ہوئے تھے.سید سلیمان صاحب ندوی نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی تقریر کے بارے میں کہا کہ ان کی بیان کردہ تفسیر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے.میں نے آج تک سو کے قریب تفاسیر سورہ کو ثر کی پڑھی ہیں مگر ان کی تقریر میں بالکل نئے حقائق و معارف تھے اور جدید معلومات کا ایک ذخیرہ موجود تھا خواجہ صاحب نے ان کو بتایا کہ یہ میرے استاد ہیں.نواب سید رضوی صاحب کی طرف سے واپسی پر یہ وفد بھٹی میں پہنچا تو خواجہ صاحب کی خواجہ صاحب کو دس ہزار روپے کی پیشکش ملاقات نواب سید رضوی صاحب سے ہوئی جن یا کو نظام حیدر آباد دکن کی پھوپھی زاد بہن سے شادی کرنے کی پاداش میں ریاست سے نکال دیا گیا تھا.سید رضوی صاحب نے جو ان دنوں ہمیئی میں وکالت کرتے تھے خواجہ کمال الدین صاحب سے اپنے کیس کے بارے میں مشورہ کیا.طے پایا کہ پریوی کو نسل میں مقدمہ دائر کر کے رضوی صاحب کی بیوی کو اس کی والدہ کی جائیداد اور ملکیت کا وریشہ دلایا جائے.نواب رضوی صاحب نے خواجہ صاحب کو سفر انگلستان کے لئے آٹھ ہزار روپیہ کی رقم اور اہل وعیال کے اخراجات کے لئے دو ہزار روپے پیش کئے.

Page 412

تاریخ احمدیت جلد ۳ 383 انجمن انصار اللہ کا قیام اکتوبر 1911ء کو حضرت خلیفتہ المسیح اول نے ایک ضروری اعلان لکھا ایک ضروری اعلان جس کا ملخص یہ تھا کہ نکمی بحثوں اور لغو جھگڑوں سے اجتناب کرو اور اپنے ایمان کا دعوی سچا ثابت کرنے کے لئے اعمال صالحہ بھی بجالاؤ اور سلسلہ کی مالی ضروریات میں قربانی دکھاؤ دنیا کی حرص کو کم کرو اور روپیہ کے ہر ایک قسم کے ناجائز طریق حصول کو سخت آگ سمجھ مولوی عبدالحق حضرت خلیفہ اول کا خط مولوی عبد الحق صاحب حقانی کے نام صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں یہ درخواست بھیجی کہ علمائے ہند کا ایک وفد شہنشاہ جارج پنجم کو مبارک باد دینے کے لئے جانے والا ہے اور مقامی حکام نے اسے پسند کیا ہے اس غرض کے لئے مجھے انتخاب کیا گیا ہے اور میں آپ کو منتخب کرتا ہوں.علماء کے گروہ پر احسان ہو گا اگر اسے منظور فرمالیں گے.حضرت خلیفہ اول نے اس کے جواب میں لکھا.مکرم معظم مولانا! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.خاکسار ایک ضعیف ضعیف العمر اس پر علیل ہے.گھوڑے سے گرا تھا اب تک زخم باقی ہے پھر مولانا ہم لوگ نہ علماء ہیں نہ حکماء نہ اطباء ہیں پھر بادشاہوں کے حضور جانا روئے باید - بہر حال جناب خود ہر طرح منتخب اور ایسے امور کے لائق ہیں.دعا کو لوگ کچھ سمجھیں میں اس کا قائل ہوں دعا کروں گا.مولانا آپ بحمد للہ عالم ہیں.علماء اگر اپنی اصلاح فرما ئیں تو کون سی عزت ان کو حاصل نہیں اور ان کو مل نہیں سکتی مگر موجودہ حالت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ما أصابكم من مصيبة فبما كسبت اید یکم کی تصدیق ہے بادشاہ کیا کر سکے گا.یہ علماء حاصل شدہ عزت سے متمتع نہیں ہوتے.کیوں؟ اس میں کس کا قصور ہے ؟ خاکسار ۱۸/ نومبر ۱۹۱۰ ء سے علیل ہے اس لئے سفر کے قابل نہیں.والسلام نور الدین ۱۱/ نومبر ۱۹۱۱ء ".تقسیم بنگال کی تفسیخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بالکل مخالف حالات میں یہ خبرمی تھی کہ LA پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب اس کی دلجوئی ہو گی".یہ آسمانی خبر ۱۲ / د سمبر 191 ء کو پوری ہو گئی.جبکہ جارج پنجم نے خود اپنی زبان سے دہلی کے دربار عام میں تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان کیا.یہ اعلان خالصتہ خدائی تصرف کا نتیجہ تھا کیونکہ دربار میں ایک مستقل اعلان شاہی ملک معظم کی طرف سے پہلے ہی پڑھ کر سنایا جا چکا تھا.چنانچہ منشی دین محمد ایڈیٹر میونسپل گزٹ " لاہور اپنی کتاب "یادگار دربار تاجپوشی ہندوستان"

Page 413

تاریخ احمدیت 384 الجمن انصار اللہ کا قیام جلد اول ( صفحه ۴۴۲۳-۲۴۴) پر لکھتے ہیں.”جب دیر میشیز مرکزی یونین سے تشریف لے جا کر شاہی تختوں پر رونق افروز ہو گئے تو سب حاضرین کا یہی خیال تھا کہ اب دربار ختم ہو گیا لیکن حاضرین دربار کے تعجب و حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جبکہ انہوں نے دیکھا کہ ویر میجسٹیز اپنی جگہوں پر کھڑے ہو گئے اور حضور ملک معظم نے گورنر جنرل سے ایک کاغذ لے کر نہایت صاف الفاظ میں پڑھنا شروع فرمایا." ہم خوشی کے ساتھ اپنی رعایا کو اعلان کرتے ہیں کہ صلاح اپنے وزراء کے جو بعد گورنر جنرل با حساس کو نسل سے مشورہ لینے کی کی گئی ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گورنمنٹ ہند کا دار السلطنت اب بجائے کلکتہ کے دہلی قرار دیا جائے جو زمانہ قدیم میں رہا ہے اور باعث اس تبدیلی کے جس قدر جلد ممکن ہو صوبہ بنگال کے لئے ایک گورنری قائم کی جائے.اعلان ختم ہونے پر دیر میجسٹیز اپنے تختوں پر متمکن ہو گئے.واقعی اس اعلان شاہی کو لوگوں نے نہایت حیرت سے سنا کیونکہ کسی کو اس کا سان و گمان بھی نہ تھا"."ذکر اقبال " میں لکھا ہے."اقبال نے بھی تقسیم بنگال کی تنسیخ پر تو دوسرے مسلمانوں ہی کی طرح صدمہ محسوس کیا لیکن انگریز کی طرف سے اس کی تلافی کا بھی کسی حد تک اعتراف کیا چنانچہ انہوں نے ایک خط میں لکھا کہ حکومت نے انتقال دار السلطنت سے گویا بنگالیوں کی اہمیت گھٹا کر صفر کر دی...اس خط میں دو شعر بھی لکھے مندمل زخم دل بنگال آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیز کافر و مومن گئی تاج شاہی آج کلکتہ سے دہلی آگیا مل گئی باہو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی 29 حضرت خلیفۃ اسی اول کا حضرت خلیفۃ اصحیح اول کا خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ ء پر ے ارادہ جلسہ ۱۹۱۱ء پر کوئی خاص تقریر کرنے کا نہیں تھا اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں ہر روز درس دیتا ہی ہوں ان ایام میں اس درس میں ہی کچھ وسعت کرلوں گا مگر ایک دوست کی تحریک پر آپ نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۱ء کو اڑھائی گھنٹہ تک تقریر فرمائی جس کے معرفت و حکمت کے نکتے اور درد دل کی نصائح سامعین کے دلوں کو پاک کرنے کا موجب ہوئے.m اپنی تقریر میں بھی آپ نے جماعت کو خاص طور پر یہ تاکید فرمائی کہ وہ اتحاد و اتفاق سے رہیں اور تفرقہ اندازی سے بچیں.اور نکمی اور فضول بحثوں کو چھوڑ دیں چنانچہ فرمایا: میں خلیفہ المسیح ہوں.اور خدا نے مجھے بنایا ہے میری کوئی خواہش اور آرزو نہ تھی اور کبھی نہ تھی.اب جب خدا تعالٰی نے مجھے یہ ردا پہنادی ہے میں ان جھگڑوں کو نا پسند کرتا ہوں اور سخت ناپسند

Page 414

تاریخ احمدیت جلد ۳ 385 انجمن انصار اللہ کا قیام کرتا ہوں.میں نہیں چاہتا کہ تم میں ایسی باتیں پیدا ہوں جو تنازعہ کا موجب ہوں..تم کو کیا معلوم ہے کہ قوم میں تفرقہ کے خیال سے بھی میرے دل پر کیا گذرتی ہے ؟ تم اس تکلیف کا احساس نہیں رکھتے.جو مجھے ہوتی ہے میں یہ چاہتا ہوں اور خدا ہی کے فضل سے یہ ہو گا.کہ میں تمہارے اندر کسی قسم کے تنازعہ اور تفرقہ کی بات نہ سنوں بلکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ تم اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا عملی نمونہ ہو.و اعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا.صحابہ کے آثار پڑھو کم از کم موطا امام محمد اور آثار امام محمد ہی کو پڑھ لو صحابہ ایسے مسائل جزویہ میں اپنے ذوق کے موافق ترجیح دیتے تھے.مگر یہ مسائل ان میں اختلاف کا باعث نہ ہوتے تھے.میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ جو سنتا ہے وہ سن لے اور دوسرے کو پہنچا دے کہ جھگڑا مت کرو ہم مر جائیں گے پھر تمہیں بہت سے موقعے جھگڑنے کے ہیں.تم سمجھتے ہو میں حضرت ابو بکر کی طرح آسانی سے خلیفہ بن گیا ہوں.تم اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے.اور نہ اس دکھ کا اندازہ کر سکتے ہو اور نہ اس بوجھ کو سمجھ سکتے ہو جو مجھ پر رکھا گیا ہے یہ خدا کا فضل ہے کہ میں اس بوجھ کو برداشت کر سکا.تم میں سے کوئی بھی نہیں جو اس کو برداشت تو ایک طرف محسوس بھی کر سکے.کیا وہ شخص جس کے ساتھ لاکھوں انسانوں کا تعلق ہو آرام کی نیند سو سکتا ہے ؟ نیز فرمایا.Ar میں اس مسجد میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر خدا تعالی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے پیر بننے کی خواہش ہرگز نہیں اور نہ تھی اور قطعا خواہش نہ تھی.خدا تعالیٰ کے منشاء کو کون جان سکتا ہے.اس نے جو چاہا کیا.تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا اور اس نے آپ نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کرتا پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا بھی روادار نہیں اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا.اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دے دیا کرتا تھا.مگر کسی کو غلطی میں ڈالا اور اس نے کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں تب میں نے محض خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا.کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں ایسا کہنے والے نے غلطی کی.نہیں بے ادبی کی اسے چاہئے کہ وہ تو بہ کرے میں پھر کہتا ہوں کہ وہ تو بہ کرے اب بھی توبہ کرلیں.ایسے لوگ اگر تو بہ نہ کریں گے تو ان کے لئے اچھا نہ ہوگا.تم خوب یا درکھو کہ د کہ معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دو.مگر ادب کو ہاتھ سے نہ جانے دو.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.بس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر

Page 415

تاریخ احمدیت جلد ۳ 386 الجمن انصار اللہ کا قیام سکتی اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا.اگر اللہ تعالٰی نے مجھے معزول کرنا ہو گا.تو وہ مجھے موت دے دے گا.تم اس معالمہ کو خدا کے حوالہ کرو تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.میں تم میں سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا مجھے یہ لفظ ہی دکھ دیتا ہے جو کسی نے کہا کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے.دستوری حکومت ہے مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہو گئی اور دستوری کا زمانہ ہے انہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی..خوب یاد رکھو اور سن رکھو میری امانت و دیانت کی حفاظت تم سے نہیں ہو سکتی.اور کوئی بھی نہیں کر سکتا.مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں ہاں میں صرف خدا ہی کا خوف رکھتا ہوں پس تم ایسی بد گمانی نہ کرو اور توبہ کرو.اگر ہمارا گناہ ہے تو ہمارے ہی ذمہ رہنے دو.اگر میں غلطی کرتا ہوں.اس بڑھاپے اور اس عمر میں قرآن مجید نے نہیں سمجھایا تو پھر تم کیا سمجھاؤ گے ؟ میری حالت یہ ہے کہ بیٹھتا ہوں تو پیر دکھی ہوتے ہیں کھڑا ہوتا ہوں تو محض اس نیت سے کہ آنحضرت ا کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے.میں نہیں جانتا میرا کتنا وقت ہے.مجھے کیا معلوم ہے کہ پھر کہنے کا موقعہ ملے گا یا نہیں.موقعہ ہو تو تو فیق ہو یا نہ ہو اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ تم کو حق پہنچا دوں.پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو اس کی بات ہے جو میں سناتا ہوں میری نہیں کہ واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا " - a جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ ء پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مدارج تقویٰ کے موضوع پر حق مدارج تقوی و معرفت سے لبریز ایک نہایت لطیف تقریر فرمائی.بعد میں یہ تقریر رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دی گئی.1911 ء کے متفرق واقعات - الہ آباد میں مذاہب عالم کا نفرنس ہوئی.جس میں مولوی محمد علی صاحب کا مضمون پڑھا گیا.اور خواجہ صاحب کا کامیاب لیکچر ہوا.A علاوہ ازیں خواجہ صاحب نے آگرہ کپور تھلہ اور امرت سر میں بھی لیکچر کئے.زمیندار نے لکھا.”خواجہ صاحب کا لیکچر معلومات کا ایک گنجینہ ہوتا ہے اور چونکہ وہ آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی چاشنی سے اپنی فلسفیانہ تقریر کو مسلمانوں کے کام و زبان کے لئے مرغوب بنانے کا فن خوب جانتے ہیں اس لئے سننے والوں کو ان کی تقریروں میں ایک خاص لطف آتا ہے ".۲۶-۲۵ - ۲۷/ اگست ۱۹۱۱ء کو جماعت احمدیہ شملہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، مولوی محمد علی صاحب مولوی صدر الدین صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کی تقاریر ہوئیں.AA

Page 416

تاریخ احمدیت جلد ۳ 387 حواشی باب چہارم انجمن انصار اللہ کا قیام ا 14 ضمیمہ الحق / نومبر 1910ء -A -4 -# بوالد رسالہ احمدی جنوری 19 صفحه ۴ بجو اللہ رسالہ احمدی جنوری ها و صفحه ۴ حیات قدسی صفحه ۲۰۵ رجسٹر چهارم) بحوالہ رسالہ احمد کی اگست 190 ء صفحہ آئے (اہلحدیث ۳۱ مارچ ۶۸۹۸) بحوالہ احمدی جنوری ۱۹۱۲ ء صفحه ۱۵ اہلحدیث ۲۸/ اپریل ۲۹ صفحہ اکائم ۳) فاروق ۱۸۰۲۵/ اپریل ۱۹۱۸ء صفحه ۱۳۰ کالم الحکم ۲۱ جنوری 19 صفحہ و کالم ا الحکم ۱۲۱ جنوری 19 او صفحہ ۱۰ کالم ۲ بدر ۲۳ فروری ۱۹۸ و صفحه ۲ کالم بدر ۲۳ فروری بر صفحه ۲ ۱ بدر ۱۹ مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۸ کالم ۳۰۲ بدر ۲۳ فروری ۱۹۸ء صفحه ۳ کالم ۳ اد بدر ۹ / مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۸ کالم ۲ ۱۵ مثلاً مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل ہلال پوری - حافظ غلام محمد صاحب بی.اے.مولانا غلام رسول صاحب را جیکی- مولوی غلام في صاحب - مرزا برکت علی صاحب محبوب عالم صاحب لاہور.حضرت سید عبد الستار شاه صاحب افغان- حضرت مولوی امام الدین صاحب گولیکی مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب محمد مبارک اسماعیل صاحب فقیر اللہ صاحب قادیان عبد الرحمن صاحب قادیانی- چوہدری عبداللہ خان صاحب دامتہ زید کا.حکیم محمد الدین صاحب گھٹیالیاں.چوہدری عبد اللہ خان صاحب پہلو پور ضلع لائلپور - منشی برکت علی صاحب شملوی (اظهار حقیقت صفحه ۲۴) ۱۶ پدر ۹/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۱-۲ ۱۸ احکم جوبلی نمبر صفحے کے کالم ۳ -A -19 الحکم جوبلی نمبر صفحہ ے سے کالم ۳ ۲۰- اس تحریک کے داخلہ کے فارم کا نمونہ یہ تھا- نحن انصار الله قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله - رب العلمین لا شریک له و بذلك امرت وانا اول المسلمین (۱۳۶۳) میری عبادت میری قربانی میرا جینا میرا مرنا غرمنکہ میری ہر چیز صرف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے اس قربانی کا مجھ کو حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں پہلا مسلم ۰۲۱ ہوں نام پیش الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۴-۱۵ (الجلال نے مئی ۱۹۱۳ء) / ۲۲ مولفان "مجاہد کبیر " نے مجلس انصار اللہ کو ایک فتنہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک سازش تھی.جو میاں صاحب کی خلافت کے لئے کی گئی.میں کہتا ہوں کہ اگر بفرض محال یہ واقعی کوئی سازش تھی تو حضرت خلیفہ اول جو پہلے روز سے اس کے حامی تھے اس سازش میں پوری طرح شریک تھے.۲۳- الحکم ۱۴ مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۹ کالم ۲- تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحه ۴۸۵ پر تاریخ ولادت ۱۷/ مارچ چھپ گئی ہے جو سمو ہے."

Page 417

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 388 الجمن انصار اللہ کا قیام -۲۴- رساله نظام المشائخ ربیع الثانی ۱۳۳۰ھ جلد نمبر ۴ صفحه به مکمل مضمون الحلم ۱۴ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ، اپر بھی شائع ہو گیا تھا.۲۵ یاد رہے کہ الہ آباد کانفرنس میں خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی کہا تھا اس فرقہ اور دیگر فرقہ ہائے اسلام میں اصولاً کوئی اختلاف نہیں صرف ایک امر میں اختلاف ہے ہمارے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک پیشگوئی کی ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام کی تجدید کے لئے ایک مسیح موعود آئے گا اور ہم احمدیوں نے اس پیشگوئی کا مصداق احمد یہ فرقہ کے مقدس پانی کے وجود مسعود کو قبول کیا ہے ".(بدر ۲/ فروری 19ء صفحہ ۵ کالم ) ۲۶- بدر ۱۳ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ اکالم ۲ ایضا الحکم ۲۸-۱۲۱ اگست ۱۹۱۷ء صفحه ۸ کالم ) ۲۷- بدر ۹ / مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ کالم ۲-۳ اینا الحلم ۱۲۸ اپریل ۱۹۷ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۲۸- حیات شیلی صفحه ۵۳۰-۴۳۴ از مولانا سید سلیمان ندوی ۲۹- الحلم ۱۴ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ | کالم ۳۰ سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ ۱۲-۱۹۱۱ء صفحہ ۸۱ ۳۱.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو موج کوثر " صفحہ ۱۳۸ متحمید الا زبان ایریل ۱۹۱۸ء صفحه ۱۳۱-۱۲۲ ۳۳- الحکم ۲۸-۲۱ / اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۷ کالم " بعنوان "خواجہ صاحب اور غیر احمدی" یہاں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی کے قلم سے اس مسئلہ کی وضاحت میں ایک اہم اقتباس درج کرنا ضروری ہے.فرماتے ہیں ”ہماری طرف سے تو شروع میں جب یہ سوال اٹھا خواجہ کمال الدین صاحب کے لیکچروں اور مضامین کی وجہ سے اٹھایا گیا ورنہ ہمیں اس سوال کے اٹھانے کی کیا ضرورت تھی اب غیر مبایعین کو کبھی کبھی یہ سمجھ کر یہ سوال پیدا کر دینے سے انہیں کامیابی ہوگی اور لوگ ہم سے متنفر ہو جائیں گے گدگدی سی اٹھتی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب ان امور پر بحث ہوگی تو لوگ ان سے ناراض ہو جائیں گے مگر پھر بھی بیعت کرنے کے لئے جب لوگ آتے ہیں ہمارے پاس ہی آتے ہیں لیکن میں پھر ایک دفعہ اعلان کر دیتا ہوں کہ ہم کفر کے وہ معنے نہیں سمجھتے جو وہ سمجھے بیٹھے ہیں.ہم کافر جہنمی کسی کو نہیں کہتے اور نہ یہ کہتے ہیں.کہ ہر کا فرد و زخ میں جائے گا.ہمارے نزدیک کفر کا اطلاق ایک خاص حد کے بعد ہوتا ہے جب کوئی ہم اسلام کو اپنا ذ ہب قرار دیتا اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے کو اپنا دستور العمل سمجھتا ہے اس وقت مسلمان کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے اور حقیقی معنوں میں وہ مسلمان اس وقت ہوتا ہے جب کامل طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل کرتا ہے لیکن اگر وہ اسلام کے اصول میں سے کسی اصل کا انکار کر دیتا ہے تو گودہ مسلمان کہلاتا ہے مگر حقیقی معنوں میں وہ مسلم نہیں رہتا.(الفضل یکم مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۸ کالم ۳۴۶ ท اس تشریح سے صاف کھل گیا کہ احمدی علم کلام اور احمدی لٹریچر میں جہاں دوسروں کے لئے کافر کالفظ استعمال ہوا ہے وہ اسلامی ریاست کے آئین دوستور کی اصطلاح کے طور پر نہیں حقیقت اسلام کی روشنی میں ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک بعض متشدد غیر از جماعت حلقے جماعت احمدیہ کو دستوری و آئینی اصطلاح کے مطابق بھی غیر مسلم قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں مگر احمدی جماعت نے ان کے لئے بھی غیر احمدی " کا لفظ ہی استعمال کیا ہے.غیر مسلم " کبھی نہیں کہا.اگر آئینی و دستوری اعتبار سے "کافر" کہنے کے معنے اسلامی اسٹیٹ میں غیر مسلم قرار دیے جانے کے ہوتے تو جماعت احمد یہ کبھی تو ہندوؤں، سکھوں یہودیوں وغیرہ کو غیر احمدی" کے نام سے اور غیر احمدیوں کو غیر مسلم" کے نام سے یاد کرلیتی.مگر جماعت کی مستند تاریخ میں اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی.پس یہ امتیاز بتاتا ہے.کہ کفر کا لفظ محض "حقیقی اسلام" کے مقابل پر ہے.اصطلاح ریاست کے لحاظ سے نہیں!! ۳۵- الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۲-۳ ۳- الحکم ۲۸/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۳۷ کتاب مجاہد کبیر صفحہ ۱۰۲ پر لکھا ہے.کہ "مولانانور الدین صاحب نے بستر علالت پر بہت سے لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ مسئلہ کفر و اسلام کو میاں محمود احمد صاحب نے نہیں سمجھا.مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب مولانا شیر علی صاحب اور نواب محمد علی

Page 418

389 تاریخ احمدیت - جلد ۳ انجمن انصار اللہ کا قیام خان صاحب اور دوسرے حضرات کی صالح شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات سرا سر غلط ہے حضرت نے ان کے سامنے جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا کہ مجھ پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ کبھی میں غیر احمدیوں کو کافر کہتا ہوں اور کبھی مسلمان یہ وقتی مسئلہ ہے خدائے اس میں مجھے وہ کچھ سمجھایا ہے جو کسی کو نہیں سمجھ آیا.حتی کہ ہمارے میاں نے بھی نہیں سمجھا.(القول الفصل صفحہ ۴۵) ۳۸ بحوالہ احکم ۲۱۰۲۸ / اگست ۱۹۱۱ء صفحہ سے کالم ۳ ۳۹ اخبار الحکم ۲۸-۲۱/ اگست و صفحه ۱۸ کالم ) پورا اشتہار اخبار عام ۱۸ ستمبر 194 ء صفحے پر چھپ گیا تھا اصل پر چہ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے).۰۳۱ با حکم ۲۸-۱۲۱ اگست ۱۹۷۰ و ۴۲ المنير بحوالہ حمید الاذہان جون ۱۹۱۱ء سرورق صفحه ۲ ۴۳ اصل کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے.۰۲۴ الحکم ۱۲۸ مارچ ۱۹۱۱ء صفحه ۳ کالم را ۴۵- الحکم ۲۸/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ا کالم ! ۴۶ اختیار بدر " بنارس نمبر ۴ (۸/ جون ۱۹۱۱ء) ۴۷- الحکم ۲۸ / اپریل ۱۹۱۱ء صفحه ۱۰ کالم ۲ -۴۸- الحکم ۲۸/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحه ۱۰ کالم ۲-۳ ۴۹- الحکم جوبلی نمبر صفحہ اے کالم ۲-۳ ۵۰ رسالہ زمانہ ( کانپور) جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴۶ الله یادگار دربار تاجپوشی ۱۹۱۱ ء جلد اول صفحه ۴۴۳-۴۴۴ مولفه منشی دین محمد لاہور ۵۲- بدر ۲۹/ جون ۱۹۱۱ء صفحه ۵ کالم ۱-۲- ضمنا یہ بات دلچسپی کا موجب ہوگی.کہ ایک زمانہ میں محمد احمد سنوسی (۸۴۸-۱۸۸۵) نے مسلمانان ہند کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ امام آخر الزمین کے ظہور تک انگریزوں کے ایسے خیر خواہ اور وفادار نہیں اور اپنی اطاعت شعاری کو اس شان سے عمل میں لا کر دکھا ئیں کہ انگریزی قوم برکت اسلام کی خود بخود قائل ہو جائے رسالہ شیخ سنوسی اور ظہور حضرت امام مهدی آخر زمان"- مولفه حسن نظامی صفحه ۲۵ ۵۳- بد را امئی ۱۹۱۱ء صفحہ ا کالم ۳ ۵۲ کتاب میری والدہ صفحه ۳۹ مولفہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صدر جنرل اسمبلی ۵۵- اصحاب احمد جلد | صفحہ ۵۹ ۵۶- اصحاب احمد جلد ۱۳ صفحه ۶۰ ( مفهوم) ۵۷- بدر ۱۸/ تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۶ کالم ۱-۲ ۵۸- بدر ۱۲ / جون ۱۹۱۳ء صفحه ۹ کالم ۱-۲ ۵۹ بدر ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ کالم - وید (۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۳ یہ خط یو نین سوسائٹی یونیورسٹی کالج لندن Garor Street W C) کے پتہ سے لکھا گیا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنا اسیر سلطانی والا خواب آپ کو بھی لندن میں سنایا تھا تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ۱۳ صفحه ۶۱-۶۳ کتاب میری والدہ صفحه ۴۸ ۶۳ - اخبار بد را از مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲ کالم ۳ حیات قدی جلد سوم صفحه ۴۹-۵۰- ایضا بد ر ۲۲/ جون ۱۹۱۱ ء صفحه ۹ ۶۵ ریکارڈ صدر انجمن احمد یہ رجسٹر نمبر ۲ صفحه ۳۲۲ روح پر در خطاب جلسہ ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۷

Page 419

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 390 پدر جولائی 191 ء صفحہ اکالم ۱۳ ۲۹/ جون 1940 ء صفحہ اکالم - الحکم سے جولائی 1940 ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ ۶۸- بدره ۲ جولائی - صفحہ ۷۶ - احکم ۷۰۷۳ / اگست ۱۹۱۷ء صفحه ۲۵ 20 اخبار پدر ۱۰ ۳/ اگست 14، صفحه ۱۹ کالم ۳ ا رو نداد جلسه ندوة العلماء ۱۹۱۳ء صفحہ ۵ ۷۲- حیات شیلی صفحه ۵۳۸-۵۵۰ ۷۳- پدر ۲۴/ اگست ۱۹۸ و صفحه ۲-۳.اختبار الحکم ۱۲۸ اکتوبی ۱۹ ء صفحہ ۸۰۷ انجمن انصار اللہ کا قیام ۷۵ حیات قدسی حصہ چہارم صفحه ۴-۵۳- خواجہ صاحب اگلے سال لندن روانہ ہو گئے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے..خواجہ 24 الحکم ہوا تو میرا 191 ء صفحہ ۲ ہے.الحکم ۲۱/ جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۰ کالم ۲-۳ ۷۸- تذکره صفحه ۱۵۸ ( طبع دوم) ۷ ذکر ا قبال از سالک صفحه ۱۰۰ ه بدر ۱۸/ جنوری ۱۹۱۲ ء صفحہ سے کالم ۱ بدر ۱۴ جنوری ۱۹۲ ء صفحہ ۷ کالم ۲ آپ نے اپنی ایک جیسی بیاض صفحہ ۹۲ میں (جو حضرت خلیفہ اول کے خاندان میں محفوظ ہے) آیت استخلاف کے بارے میں خدائی تقسیم اپنے قلم سے یہ لکھی ہے.اور سلسلے ہیں ایک جسمانی ایک روحانی اگر اس میں بادشاہ پریذیڈنٹ صدر نہ ہو تو تباہی آجاتی ہے ایسے ہی روحانی بادشاہ نہ ہو تو تباہی پر تباہی الابد ہے".۸۳ بدر ۱۲۵ جنوری ۱۹۱۳ء صفوی ۰۸۴ الحکم یکم فروری ۱۹۱۲ء صفحه ۳-۴۰ ۸۵ مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بدر / جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۳-۱۸۱۷/ جنوری ۱۹۱۲ و صفحه ۵-۶ اخبار بدر ۱۳ فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۴ ۵ اینا کشمیری میگزین لاہور مارچ ۱۹۱۱ و صفحه ۳۸ ۸۷ اخبار بدر ۲۲ جون ۱۹۱۱ء صفحه ۲ کالم ۲۴۱ ۸۸- بدر ۲۶ اکتوبر ۱۹ ء صفحہ ۸ کالم ۳

Page 420

تاریخ احمدیت جلد ۳ 391 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سرہند و حرب پانچواں باب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی کے سفر ہند و عرب (جنوری ۱۹۱۲ ء سے دسمبر ۱۹۱۲ ء بمطابق ۱۳۳۰ھ تا ۱۳۳۱ھ تک) ۱۰ / مارچ ۱۹۱۲ء کو دعائے خاص کا ایک یادگاری دعائے خاص کا ایک یادگاری واقعہ واقعہ پیش آیا.جو مولوی محمد عبد الله صاحب بو تالونی کے قلم سے درج کرتا ہوں.”مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۱۲ء نماز مغرب کے بعد حسب معمول صاحبزادہ حضرت خلیفتہ المسیح میاں عبدالحی صاحب قرآن شریف کا سبق پڑھ رہے تھے اور ایک کثیر تعداد دیگر طالب علموں کی بھی موجود تھی.جو کہ روزانہ اس درس میں شریک ہوا کرتے تھے اثنائے درس میں میاں شریف احمد صاحب صاحبزادہ خورد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ضرورت کے واسطے باہر جانے لگے.تو حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا کہ جلدی واپس آنا.پھر فرمایا.کہ شاہ عبدالرحیم ایک بزرگ تھے.ان کو خدا تعالٰی نے توجہ دلائی کہ گنو اس وقت کتنے آدمی موجود ہیں.انہوں نے گن لئے.پھر الہ ام ہوا کہ آج عصر کی نماز جس قدر لوگ تمہارے پیچھے پڑھیں گے سب جنتی ہوں گے ایک آدمی سے وہ خوش نہ تھے.جب انہوں نے نماز شروع کی.تو وہ آدمی موجود تھا.جب نماز ختم کی تو دیکھا کہ وہ آدمی پیچھے نہیں ہے.آدمی گنے تو پورے تھے.پوچھا کہ ان میں کوئی اجنبی آدمی آکر شامل ہوا ہے ؟ آخر ایک اجنبی آدمی پایا گیا.اس سے پوچھا گیا کہ تم کس طرح شامل ہو گئے ؟ اس نے کہا کہ میں جا رہا تھا اور میرا وضو تھا جماعت کھڑی دیکھی.میں نے کہا کہ میں بھی شامل ہو جاؤں.پھر وہ دوسرا آدمی آگیا.اس سے پوچھا کہ تم کہاں چلے گئے تھے ؟ اس نے کہا کہ میرا وضو ٹوٹ گیا تھا اور میں وضو کرنے گیا تھا.مجھے وہاں دیر ہو گئی.اتنے میں نماز ختم ہو گئی.یہ معاملہ ہمارے درس سے بھی کبھی کبھی ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے ہم نے آج ایک دعا کرنی ہے.وہ دعا بڑی لمبی ہے.مگر سب دعا اس وقت نہیں کریں گے.ہمارا دل چاہتا ہے کہ جس قدر لوگ اس وقت درس سن رہے ہیں اللہ تعالی ایسا کرم کرے کہ اس دعا سے کوئی محروم

Page 421

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 392 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب نہ رہے".چنانچہ اس کے بعد آپ نے دعا فرمائی اس دعا میں حضرت صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب بھی شامل ہو گئے.مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے سفر ہند حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مشہور اسلامی درسگاہوں کے طریقہ تعلیم و انتظام کا معائنہ کرنے کے خیال سے اپریل.مئی ۱۹۱۲ ء میں اپنے خرچ پر ایک لمبا سفر کیا.آپ کے ساتھ بزرگان دین کی ایک جماعت تھی جن کے نام یہ ہیں.حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب حضرت قاضی امیر حسین صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب سید عبد الحی صاحب عرب - حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی روانگی سے قبل یہ وفد حصول اجازت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا.” میں میاں صاحب کو تم پر امیر مقرر کرتا ہوں...میاں صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ تقوی اللہ سے اور چشم پوشی سے عموماً کام لیں.بہت دعائیں کریں.جناب الہی میں گر جانے سے بڑے بڑے برکات اترتے ہیں اور آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے امیر کی پوری اطاعت و فرمانبرداری کریں کوئی کام ان کی اجازت کے بدوں نہ کریں.علم کا گھمنڈ کوئی نہ کرے میں نے بھی علوم پڑھے ہیں بعض وقت کوئی لفظ بھول بھی جاتا ہوں.مگر خدا کے فضل سے خوب سمجھتا ہوں.بہت پڑھایا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ محض علوم کچھ چیز نہیں ع و علم آن بود که نور فراست رفیق اوست تم بھی اس علم کو حاصل کر دیہی اپنا مقصد بناؤ باقی علوم کچھ بھی چیز نہیں ہوتے.ان کا گھمنڈ بھی نہ کرنا.دعاؤں سے بہت کام لینا.یہاں سے چلتے وقت راستہ میں کسی بستی کو دیکھو تو برا بر مسنون دعائیں کر میرا اپنا تجربہ ہے میں بڑھا ہو گیا.جب انسان اللہ تعالٰی کے دروازہ پر گر جاتا ہے تو پھر خدا تعالٰی اس کے دل کو کھول دیتا ہے اور آپ اس کی مشکل کا حل بتا دیا ہے......علماء سے ملواگر کسی سے کوئی عمدہ بات ملے تو اسے فورا لے لو.کیونکہ کلمة الحكمة ضالة المو من اخذها حيث وجدها یعنی حکمت کی بات مومن کی گم گشتہ متاع ہے جہاں سے ملے لے لو - 2 حضرت خلیفہ اول سے اجازت مل چکی تو یہ وفد ۳ / اپریل ۱۹۱۲ء کو روانہ ہو کر امرت سر سے ہردوار اور ہر دوار سے ۵ / اپریل ۱۹۱۲ ء کو لکھنو پہنچا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے جمعہ امین آباد پارک میں قاضی محمد اکرم صاحب کے مکان پر پڑھایا اور آیت ولتكن منكم امة يدعون الى الخیر پر ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا اور سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تحریک فرمائی.جمعہ سے

Page 422

تاریخ احمدیت جلد ۳ 393 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب فراغت کے بعد آپ مولانا شیلی کے قائم کردہ دار العلوم ندوہ کی طرف تشریف لے گئے مولانا شیلی کو پتہ چلا تو انہوں نے اصرار کیا کہ ندوہ کے جلسہ میں (جو ۶-۸۰۷ / اپریل ۱۹۱۲ء کو منعقد ہو رہا تھا اور جس میں شمولیت کے لئے سید رضا بھی مصر سے آچکے تھے ضرور تشریف لائیں اور ہمارے ہاں ہی قیام فرما ئیں آپ کی دعوت پر جلسہ میں چلے تو گئے اور اس میں ان کے تعطیل جمعہ سے متعلق ریزولیوشن کی تائید بھی کی اور وہ پاس بھی ہو گیا.مگر مصلحت ان کے ہاں نہیں ٹھہرے اس خیال سے کہ دوسرے علماء چڑ نہ جائیں اور کوئی بد مزگی بھی پیدا نہ ہو.لیکن مولانا شیلی مرنجان مرنج طبیعت رکھتے تھے ان کو معلوم ہوا کہ آپ کا قیام کسی اور جگہ ہے تو وہ اصرار کر کے آپ کو اپنے یہاں لے گئے.وہاں جاکر جیسا کہ خیال تھا کچھ بد مزگی بھی پیدا ہوئی.اور غیر احمدی حضرات نے گالیاں بھی دیں مگر وہ بہت ہمت والے آدمی تھے انہوں نے بالکل پروانہ کی- دار العلوم ندوہ کے بعد آپ لکھنؤ کے مدرسہ فرنگی محل میں تشریف لے گئے جسے دیکھ کر آپ از حد متاثر ہوئے.چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں.” جس وقت ہمارا وفد وہاں پہنچا تو مولوی عبد الباری صاحب نہایت تپاک سے ہمیں ملے اور اپنی کلاس کا معائنہ کرایا اور پھر مولوی صبغتہ اللہ صاحب کو ہمارے ساتھ کیا کہ باقی سکول دکھا دیں.ہم نے دیکھا کہ ہر طالب علم نہایت ادب اور متانت سے بات کرتا تھا.مولوی عبدالحی صاحب کے نواسے کو بھی انہوں نے پیش کیا کہ اس سے سوال کریں اس وقت اس کی عمر کوئی ۱۳ سال کے قریب تھی اس سے ہم نے جتنے سوال کئے اس نے نہایت سنجیدگی اور متانت سے اس کے جواب دیئے یوں معلوم ہو تا تھا کہ ہم کسی طالب علم سے سوال نہیں پوچھ رہے بلکہ کسی مفتی سے فتوی دریافت کر رہے ہیں.انہوں نے بتایا اس کو تین چار ہزار عربی شعر یاد ہیں غرض وہ لڑکا بڑا ہی ذہین تھا.میں نے اندازہ لگایا تھا کہ احمدیت چاہے اس کو ملے یا نہ ملے لیکن بڑا ہو کر اپنے نانا کے طریق پر چلے گا.مگر افسوس تھوڑا عرصہ بعد ہی وہ فوت ہو گیا.اس موقعہ پر جہاں آپ اچھے لائق اور عالم اساتذہ اور ذہین اور ہوشیار طلبہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے وہاں یہ تکلیف دہ نظارہ بھی آپ نے دیکھا که فرنگی محل کا ایک استاد ایک قبر کے سامنے سجدہ میں پڑا تھا.۹/ اپریل ۱۹۱۲ء کو قیصر باغ کی بارہ دری واجد علی شاہ میں آپ کا خصوصیات سلسلہ پر ایک لیکچر بھی ہوا.لکھنو کے اسلامی مدارس دیکھ کر آپ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور سید عبدائی صاحب عرب کو لے کر بنارس تشریف لے گئے.اور وہاں آپ نے چار لیکچر دئیے.رند کے باقی ارکان نے لکھنو میں سید رشید رضا اور دوسرے علماء سے ملاقاتیں کیں.اور حقیقتہ الوحی کا ضمیمہ استفتاء وغیرہ تقسیم کئے.۱۷ / اپریل کو حضرت صاحبزادہ صاحب بنارس سے کانپور پہنچے.جہاں وفد کے 2-

Page 423

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 394 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب دوسرے حضرات پہلے ہی پہنچ چکے تھے رستہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو الہام ہوا.انک تھدی من احببت (یعنی جسے تو چاہے ہدایت دے سکتا ہے خطاب خدا تعالٰی کو ہے) کانپور میں دو مدرسے قابل دید تھے مدرسہ جامع العلوم جس کے ناظم خان صاحب محمد سعید خان صاحب مالک مطبع نظامی تھے.دوسرا مدرسہ الہیات جس کے پرنسپل مولانا آزاد سبحانی تھے.چنانچہ آپ نے یہ مدارس بھی دیکھے.مدرسہ جامع العلوم میں آپ کو ایک پارٹی بھی دی گئی.جامع العلوم کے چند طلبہ نے کہا کہ ہم بعض احادیث کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں.جس پر جواب دیا گیا کہ ہم یہاں مباحثہ کے لئے نہیں آئے.ہاں اگر آپ ہمارے خیالات معلوم کرنا چاہیں تو بڑی خوشی سے آپ کو ان سے آگاہ کیا جائے گا.جس پر انہوں نے یقین دلایا کہ وہ محض استفادہ کے لئے آئے ہیں.مولانا آزاد سبحانی نے جو اس وقت موجود تھے یہی کہا کہ واقعی اگر آپ لوگ استفادہ کی غرض سے آئے ہیں تو دریافت کریں.لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ استفادہ بحث کا رنگ پکڑ لے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے حافظ روشن علی صاحب کو جواب کے لئے حکم دیا.چنانچہ مدرسہ کے ایک مدرس حافظ مولوی محمد یوسف صاحب نے یہ حدیث پیش کی کہ اس کو مرزا صاحب پر منطبق کریں- فيتزوج ويولد له و يمكث خمسا واربعين سنة و يدفن معى في قبرى فاقوم انا و عيسى ابن مريم في قبر واحد بين ابى بكر و عمر (مشكوة صفحه ۳۸۰) (ترجمه) مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولاد بھی ہو گی وہ پینتالیس برس رہے گا.اور میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہو گا.اور میں اور عیسی بن مریم ابو بکر و عمر کے درمیان ایک قبر میں سے اٹھیں گے.حافظ روشن علی صاحب اس حدیث کو رسول اللہ تک ثابت کریں.حافظ محمد یوسف صاحب : مشکوۃ میں موجود ہے.حافظ روشن علی صاحب: یہ حدیث نہ متواتر ہے نہ احاد.اس کی سند تک موجود نہیں.حافظ محمد یوسف صاحب : ابن جوزی اس کے راوی ہیں مشکوۃ آپ کی جماعت میں مسلم ہے.حافظ روشن علی صاحب ابن جوزی تو چوتھی پانچویں صدی کے آدمی ہیں اس صدی کا آدمی رسول اللہ تک حدیث کو کیو نکر پہنچا سکتا ہے اس جواب پر گفتگو ختم ہو گئی مگر حافظ صاحب نے فرمایا گوید حدیث ثابت نہیں مگر میں آپ کی خاطر معنی کر دیتا ہوں ینزل آئے گا یتزوج نکاح کرے گا.یولد له اولاد بھی ہوگی.چنانچہ مرزا صاحب نے نکاح کیا اور آپ کی اولاد بھی ہوئی.حافظ محمد یوسف صاحب صاحب اولاد تو سب ہوتے ہیں اصل امتیازی نشان تو چو تھا ہے.حافظ روشن علی صاحب اس نشان کے معنی یہ ہیں کہ چونکہ مسیح موعود رسول اللہ ﷺ کا

Page 424

تاریخ احمدیت جلد ۳ 395 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اید واللہ کے سفر ہند و عرب خادم ہے اور نہایت مقرب خادم ہے اس لئے اس کو اس جنت میں جگہ ملے گی جس میں رسول اللہ ہیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے القبر روضة من رياض الجنة.10- حافظ محمد یوسف صاحب: یہ حدیث بالکل غلط ہے اصل حدیث ہے ما بین قبری و منبری روضة من رياض الجنه.یہ کہہ کر بہت شور مچایا کہ یہ رسول اللہ پر افترا ہے ایسی کوئی حدیث موجود نہیں.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ یہ حدیث یقیناً موجود ہے اور ہم مسافر ہیں اور ہمارے پاس گو کتابیں نہیں مگر ہم آپ کو اس کا پورا پورا حوالہ لکھ کر دیں گے.کانپور میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ایک پبلک لیکچر ۱۸ / اپریل کی شام کو طلاق محل کے میدان میں ہوا.جو آپ کی قیام گاہ کے نزدیک تھا.لیکچر کے وقت لوگوں کا ایک ہجوم امڈ آیا اور لیکچر گاہ بالکل بھر گئی اور بہت سے لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا.کوئی اڑھائی ہزار کے قریب مجمع ہو گا.سب سے پہلے مولوی عبد الحی صاحب عرب نے تلاوت کی پھر حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مختصری تقریر کے بعد آپ کھڑے ہوئے.اور گو بنارس میں کثرت سے بولنے کی وجہ سے طبیعت علیل تھی مگر اللہ تعالی نے آپ کی ایسی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی کہ آپ نے ایک جدید اور اچھوتے رنگ میں احمدیت کی تبلیغ کی جسے سن کر سب مسحور ہو گئے اور باوجودیکہ خواجہ کمال الدین صاحب کی روش کے خلاف آپ نے کھول کھول کر سلسلہ احمدیہ کے عقائد بیان فرمائے مگر سامعین نے اسے نہایت درجہ دلچسپی سے سنا.دو اڑھائی گھنٹہ تک آپ کی تقریر ہوئی.اور تقریر کے بعد جو نہی آپ بیٹھے تو لوگ اپنی جگہ پر یہ سمجھ کر جمے رہے کہ شاید سانس لینے کے لئے بیٹھے ہیں.آخر اعلان کیا گیا کہ لیکچر ختم ہو چکا ہے.اس پر سامعین نے باد از بلند کہا کہ بہت سے لوگ مصافحہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ وہ لوگ جو دن کے وقت آپ کے منہ پر کافر کہہ کے گئے تھے.بڑھ بڑھ کر مصافحہ کرنے کے علاوہ آپ کے ہاتھ بھی چومنے لگے.کانپور کے شرفاء نے مزید قیام اور لیکچر کی درخواست کی.مگر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا ہے کہ اب میں یہاں سے روانہ ہو جاؤں.دوسرے دن آپ شاہجہانپور پہنچے اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے مکان پر قیام فرمایا انسی کی تحریک پر آپ نے صبح کے وقت ایک دل ہلا دینے والی تقریر فرمائی جس سے مولوی سراج دین صاحب خانپوری اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کی اشاعت کے لئے کچھ رقم بھی پیش کر دی.۲۰ اپریل کو یہ وفد رام پور پہنچا جہاں خان صاحب ذو الفقار علی خان صاحب اور مولوی عبید اللہ صاحب بہل آپ کی مہمانی کے لئے موجود تھے.رامپور میں آپ نے مدرسہ عالیہ دیکھا ۲۲ / اپریل ۱۹۱۲ء کو آپ وفد سمیت امروہہ پہنچے.اسٹیشن پر حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی اور

Page 425

396 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب دوسرے احباب جماعت نے پرجوش استقبال کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا.حضرت صاجزادہ صاحب نے یہاں بھی ایک مختصری تقریر فرمائی.آخر مولوی صاحب نے بادیدہ گریاں رخصت کیا.۲۳ / اپریل ۱۹۱۲ء کو وفد دہلی پہنچا اور مدرسہ حسنین بخش، عبد الرب اخیہ اور فتح پوری کے مدارس دیکھے.۲۵/ اپریل ۱۹۱۲ء کو دارالعلوم دیو بند دیکھنے کے لئے گئے.جمیعتہ الانصار کے سیکرٹری مولوی عبید اللہ صاحب سندھی کے ذریعہ سے دیوبند کے مہتمم مولوی محمود الحسن صاحب (۱۹۲۰-۱۸۵۱) مولوی بشیر احمد صاحب اور دوسرے بزرگ علماء سے ملاقات ہوئی اور مدرسہ کا معائنہ کرنے اور پر رسہ کے متعلق تمام ضروری معلومات حاصل کرنے کا موقعہ ملا.ناظم مدرسہ (مولوی محمد احمد صاحب خلف الرشید حضرت مولانا محمد قاسم صاحب) بے حد اخلاق و مروت سے پیش آئے اسی طرح مولوی بشیر احمد صاحب بھی !! مگر بعض حضرات نے اپنے جوش تعصب میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو قتل تک کی دھمکی دے ڈالی.دیو بند میں ایک احمدی میاں فقیر محمد صاحب بھی ملے.دیوبند کی عظیم اسلامی درسگاہ دیکھنے کے بعد آپ اپنے ساتھیوں سمیت سہارنپور تشریف لے گئے اور مشہور مدرسہ مظہر العلوم کا معائنہ کیا.مولوی عنایت الہی صاحب مہتمم مدرسہ جو ایک خوش اخلاق بزرگ تھے.آخر تک ساتھ رہے اتفاق سے حافظ عبد المجید صاحب منصوری آئے ہوئے تھے انہوں نے پورے وفد کو پر تکلف کی پارٹی دی.سیار پور سے فارغ ہو کر وفد ۲۸/ اپریل ۱۹۱۲ء کی شام کو ہردار پنجر سے روانہ ہوا اور اگلے دن ظہر سے قبل قادیان پہنچ گیا.حضرت خلیفتہ المسیح اول نہایت خوشی اور مسرت سے ملے.رات کو پورے وفد کی ضیافت فرمائی اس خوشی کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح کو وفد کی طرف سے روزانہ اطلاعات بھجوائی جاتی تھیں مگر اتفاق کی بات ہے کہ آپ کو کئی روز تک کوئی اطلاع نہ مل سکی.لہذا آپ کو از حد تشویش ہوئی.جس پر آپ نے پہلے تار دیا اور پھر چو ہدری فتح محمد صاحب سیال کو دہلی بھیجوایا.جواب اشتهار جناب غلام سرور صاحب کانپوری" کانپور کے کسی صاحب غلام سرور صاحب نے اشتہار دیا که حافظ روشن علی صاحب مدرسہ جامع العلوم میں بحث کے دوران لاجواب ہو گئے اور حافظ مولوی محمد یوسف صاحب کے سوالوں کے جواب سے قاصر رہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس اشتہار کے جواب میں ایک ٹریکٹ لکھا اور اس میں پورا واقعہ پبلک کے سامنے رکھا اور اس حدیث کا حوالہ بھی شائع کیا.جس کا وعدہ حضرت حافظ صاحب نے کیا تھا.اور جس پر بحث کا دارومدار تھا.آپ نے بتایا کہ یہ

Page 426

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 397 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب حوالہ کتاب بشرى الكتيب بلقاء الحبیب " (امام سیوطی) میں موجود ہے.اس ٹریکٹ میں آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں تحریر فرمایا.یہ تو ہم ثابت کر ہی چکے ہیں کہ یہ حدیث قطعار سول اللہ تک پہنچنی ثابت نہیں...اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح حدیثوں کے خلاف ہے چنانچہ صحیح مسلم میں ہے " قال رسول اللہ صلی الله عليه وسلم انا سيد ولد آدم يوم القيامة واول من ينشق عنه القبر ".(جلد دوم کتاب الفضائل) اس حدیث سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کو دیگر انبیاء و اولیاء پر جو فضیلتیں دی گئی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی قبر سب سے پہلے کھلے گی.اگر اس فضیلت میں کسی کو آپ کے شامل کر دیا گیا تو جائز ہو تاکہ دوسری خصوصیات میں بھی دوسرے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ بنی آدم کے سردار کا لقب پائیں.افسوس کہ اب اسلام کی حقیقت یہ باقی رہ گئی ہے کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی کوئی خصوصیت پسند نہیں کرتے آپ خاتم النبین تھے لیکن...حضرت مسیح کو انیس سو برس کے بعد کھینچ بلایا.اب جو آخر میں آئے گاوہ خاتم النبین ہو گا.....اب ایک خصوصیت آپ کی قبر کی تھی وہ بھی یہ برداشت نہیں کر سکے.اور لا کر مسیح کو بھی آپ کی قبر میں داخل کر دیا تاکہ جب سب سے پہلے رسول کریم ﷺ کی قبر کھلے تو مسیح بھی اس فضیلت میں شامل ہوں.کاش عام مسلمان ہی غور کرتے کہ ان کے علماء ان کو کس راہ پر چلا رہے ہیں.آخر میں آپ نے علامہ سیوطی کی کتاب "بشری الکتیب بلقاء الحبیب" کے حوالہ اور قرآن شریف کی بعض آیات سے ثابت کیا کہ قبر سے مراد صرف مٹی ہی کی قبر نہیں بلکہ اس سے کوئی ایسا مقام مراد ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی خود اپنے خاص اذن سے داخل کرتا ہے پس خلاصہ یہ کہ مولوی حافظ محمد یوسف نے جو حدیث پیش کی وہ قطعا علم حدیث کی رو سے ثابت نہیں اور بفرض محال اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی قرآنی آیات اور دیگر حدیثوں سے اس حدیث کے معنے بالکل صاف ہو جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے وسط ۱۹۱۲ء میں سفر لا ہور اختیار فرمایا حضرت خلیفہ اول کا سفر لاہور جو آپ کے دور خلافت کا آخری سفر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش و میر ہاؤس سے وعدہ فرمایا تھا کہ ان کے مکان کا سنگ بنیاد ہم رکھیں گے.چنانچہ جب شیخ صاحب بنیا د رکھنے کی درخواست لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فورا منظور فرمالیا.کیونکہ آپ کے نزدیک اپنے پیارے آقا کے منہ سے نکلی ہوئی بات ضرور پوری کرنی

Page 427

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ چاہئے تھی.398 حضرت مرزا بشیر الدین محمود د احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب حضرت خلیفہ اول ۱۵ جون کو قادیان سے لاہور تشریف لائے آپ کے ہمراہ آپ کے اہل بیت اور صاحبزادگان کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت میاں بشیر احمد صاحب حضرت میاں شریف احمد صاحب، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور بعض دوسرے خدام بھی تھے.لاہور اسٹیشن پر احباب جماعت نے پر جوش استقبال کیا.مہمان احمد یہ اللہ نگس میں ٹھرے اور حضرت خلیفتہ المسیح اول کا قیام ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے مکان پر تھا.اسی دن شام کو شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی.سب سے پہلے حضرت خلیفہ اول نے ایک پر معارف تقریر فرمائی.جس میں قرآنی آیت ا فمن اسس بنیانه على التقوى (سورۃ توبہ) کی لطیف تغییر فرمائی اور بالاخر فرمایا کہ ہم اس وقت حضرت صاحب کے خاندان کے پانچ آدمی موجود ہیں.(یعنی خود حضرت خلیفہ المسیح اول حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب) میں دعا کر کے ایک اینٹ رکھ دیتا ہوں.میرے بعد صاحبزادگان اور نواب صاحب ایک ایک اینٹ رکھ دیں.آپ نے پہلے ہی سے صاحبزادگان کو بلا کر اپنے پاس کھڑا کر لیا تھا.اور حضرت نواب صاحب کو جو پیچھے کھڑے تھے آگے آنے کی ہدایت فرمائی.پھر چار کرسیاں لانے کا حکم دیا اور ان چاروں کو اپنے سامنے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.ان کو بیٹھنے میں بہت تردد تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کھڑے ہیں مگر آپ نے فرمایا.میں تو تمہاری خدمت کرتا ہوں اور تمہارا ہی کام کر رہا ہوں.تمہارے باپ کی جو میرا محسن اور آتا ہے میرے دل میں بڑی عظمت ہے آپ بیٹھ جائیں ".چنانچہ یہ بزرگ بیٹھ گئے اس کے بعد آپ نے تقریر کر کے اپنے دست مبارک سے بنیادی اینٹ رکھی.اور آپ کے خصوصی حکم سے ان بزرگوں نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی.ازاں بعد آپ نے حاضرین سمیت دعا فرمائی اور ایڈیٹر صاحب الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ شیخ صاحب سے کہہ دیں.ہم خدا تعالٰی کے فضل سے حضرت صاحب کے وعدہ کو پورا کر چکے.اب ہم آزاد ہمیں خواہ صبح جائیں یا شام کو شیخ صاحب نزدیک ہی کھڑے تھے یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور نہایت رقت بھرے لہجہ میں عرض کیا کہ جو غلام ہو ا سے آقا کو آزاد کرنے کی کیا جرات ؟ آپ نے فرمایا مجھے قادیان

Page 428

تاریخ احمدیت جلد ۳ 399 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب سے باہر مزا نہیں آتا میں کیا کروں میری حالت ہی ایسی ہے.حضرت کا منشا تو دوسرے دن ہی واپس چلے جانے کا تھا مگر آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کل حضور کے ایک لیکچر کا پروگرام ہے.چنانچہ آپ نے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا.لاہور میں تقریریں دوسرے دن ١٦ / جون کو حضرت خلیفہ اول کے حکم سے صبح 9 بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک تقریر فرمائی آپ کی تقریر کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح مسجد میں رونق افروز ہوئے اور انہی آیات پر تقریر فرمائی جن آیات پر حضرت صاجزادہ صاحب نے بھی روشنی ڈالی تھی.یعنی واعتصموا بحبل الله جميعا الخ) گورنگ بالکل جدا اور بالکل نرالا تھا.اخبار بد ر نے لکھا ” یہ تو ارد بھی کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر تا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے اپنی تقریر میں جو نہایت درجہ پر جلال و پر شوکت تھی منکرین خلافت کے مرکز میں جاکر مسئلہ خلافت اور دوسرے اہم اختلافی امور کے بارے میں کھول کھول کر حق و صداقت کی تبلیغ کی اور ان پر اتمام حجت کر دی.چنانچہ آپ نے مسئلہ خلافت پر روشنی ڈالتے ہوئے پوری شان و تمکنت کے ساتھ اعلان فرمایا.میں نے تمہیں بارہا کیا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خداتعالی کا کام ہے آدم کو خلیفہ بنا یا کس نے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا - اني جاعل في الارض خليفة".اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا کہ حضور وہ مفسد فی الارض اور منفک الدم ہو گا مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے اور اگر وہ اباء اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یا درکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اسے اسجد والادم کی طرف لے آئے گی ان کی (داؤد کی.ناقل ) مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے اور کو د پڑے مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا.کون تھا جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.پھر اللہ تعالٰی نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنایا رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں.مگر کیا تم نہیں دیکھتے کروڑوں انسان ہیں جو ابو بکر، عمر رضی اللہ عنھما پر درود پڑھتے ہیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے...اگر کوئی کہے کہ انجمن نے

Page 429

تاریخ احمدیت جلد ۳ 400 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں.اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے.اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی کو کہہ دیں.پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی میں یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حقدار ہو سکتے ہیں مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں.اور انہوں نے اپنا دعوئی ان کے سامنے پیش نہیں کیا.مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود بشیر شریف.نواب ناصر- نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں.......میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں.مگر نہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم (میں سے) ایک بھی نہیں.جس طرح علی - فاطمہ عباس نے ابو بکر کی بیعت کی تھی اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے.اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر فدا ہے کہ مجھے کبھی وہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو.ย سنو ا میرے دل میں کبھی یہ غرض نہ تھی کہ میں خلیفہ بنتا.میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا تب بھی میرا یہی لباس تھا.میں امراء کے پاس گیا اور معزز حیثیت میں گیا مگر تب بھی یہی لباس تھا.مرید ہو کر بھی اسی حالت میں رہا.مرزا صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ کیا خداتعالی نے کیا میرے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی مگر اللہ تعالی کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا مجھے تمہار ا امام اور خلیفہ بنا دیا اور جو تمہارے خیال میں حقدار تھے ان کو بھی میرے سامنے جھکا دیا.اب تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ اگر اعتراض ہے تو جاؤ خدا پر اعتراض کرد مگر اس گستاخی اور بے ادبی کے وبال سے بھی آگاہ

Page 430

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 401 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب " رہو.میں کسی کا خوشامدی نہیں مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نذیر اور پرورش کا محتاج ہوں.اور خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا د ہم بھی میرے دل میں گذر........جو سنتا ہے وہ سن لے اور خوب سن لے اور جو نہیں سنتا اس کو سننے والے پہنچا دیں کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حقدار کو نہیں پہنچی رافضیوں کا عقیدہ ہے اس سے تو بہ کر لو.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرد - ابلیس نہ بنوا " جیسا میں نے ابھی کہا ہے یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے کہ خلیفہ کرتا ہی کیا ہے ؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے کوئی کہتا ہے کہ کتابوں کا عشق ہے اس میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی.جس نے مجھے خلیفہ بنایا.یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے رافضی ہیں جو ابو بکرہ عمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں.میں باوجود اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتا ہے اس رقعہ کو ، ہم کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور نہ اب تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے اگر تم زیادہ زوردو گے.تو یاد رکھو کہ میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.دیکھو میری دعا ئیں عرش پر بھی سنی جاتی ہیں.میرا موٹی میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو تو بہ کرلو.....تھوڑے دن صبر کرو پھر جو پیچھے آئے گا.اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا".مسئلہ خلافت کے علاوہ آپ نے دوسرے نزاعی مسائل (مسئلہ نبوت و کفر و اسلام) کے بارے میں بھی واضح لفظوں میں تصریحات فرما ئیں چنانچہ آپ نے فرمایا : سنو تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.اول ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے ہیں، جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں بولتا.یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں

Page 431

تاریخ احمدیت جلد ۳ 402 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب نہیں آتا ان پر رائے زنی نہ کرو".” ہر نبی کے زمانہ میں لوگوں کے کفر او بر ایمان کے اصول کلام الہی میں موجود ہیں.جب کوئی نبی آیا اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کیا وقت رہ جاتی ہے.ایچا پیچی کرنی اور بات ہے ورنہ اللہ تعالی نے کفر.ایمان.شر کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پہلے نبی آتے رہے ان کے وقت میں دو ہی قومیں تھیں ماننے والے اور نہ مانے والے.کیا ان کے متعلق کوئی شبہ نہیں پیدا ہوا؟ اور کوئی سوال اٹھا کہ نہ ماننے والوں کو کیا کہیں جو اب تم کہتے ہو کہ مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو کیا کہیں غرض کفر ایمان کے اصول تم کو بتادیے گئے ہیں.حضرت صاحب خدا کے مرسل ہیں اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے جس میں آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب ان کے ماننے اور انکار کا مسئلہ صاف ہے عربی بولی میں کفر انکار ہی کو کہتے ہیں ایک شخص اسلام کو مانتا ہے اس حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو جس طرح پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو.اسی طرح پر مرزا صاحب کا انکار کر کے ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے جیسے رافضی صحابہ کا کرتے ہیں ایسا صاف مسئلہ ہے.مگر مجھے لوگ اس میں بھی جھگڑتے رہے ہیں اور کام نہیں ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو قلعے فتح کرتے ہیں اور ایک یہ ہیں.لاہور میں آپ کی ۱۶ / جون کی شام اور ۱۷ جون کی صبح کو بھی تقریریں ہوئیں جن میں آپ نے دوسرے مذاہب کے مقابل اسلامی تعلیمات کی برتری نهایت وضاحت سے ثابت کر دکھائی.قیام لاہور کے دوران مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر اخبار ”زمیندار“ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جناب مرزا صاحب کو آپ نبی نہ کہا کریں.تو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت آسان ہو جائے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ اگر مرزا صاحب نبوت کا دعوی نہ کرتے تو رسول کریم کی بات غلط ہو جاتی.کیونکہ حدیث میں آنے والے مسیح کو نبی کہا گیا ہے.حضرت ام المومنین کا ارادہ ابھی چند دن اور لاہور میں ٹھہرنے کا تھا.اس لئے آپ نے سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی ان کے ساتھ قیام کرنے کی ہدایت فرمائی.اور خود ۱۷ / جون کو لاہور سے امرت سر تشریف لے گئے اور بابو صفدر جنگ صاحب پشنز کے مکان پر چند گھنٹہ آرام فرمایا اور سورۃ والعصر کی تفسیر میں آپ نے ایک لطیف تقریر بھی فرمائی.اور ۱۲ بجے شب بٹالہ پہنچے جہاں آپ نے ایک مفصل تقریر بھی فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن کریم پڑھو اور اس پر عمل کرو.19 جون کی صبح کو آپ واپس قادیان میں پہنچے اور سفر کی کوفت اور تقریروں کے باوجود اسی دن درس کا سلسلہ پھر

Page 432

تاریخ احمدیت جلد ۳ سے شروع کر دیا.- 403 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو حرب حضرت خلیفتہ المسیح اول کی سوانح عمری شائع کرنے کا "مرقاۃ الیقین" في حياة نور الدین سب سے پہلا خیال حکیم فیروز الدین صاحب لاہوری کے دل میں آیا.جبکہ وہ کتاب رموز الاطباء کی تالیف کے لئے مواد جمع کر رہے تھے.چنانچہ ان کی فرمائش پر حضرت خلیفتہ المسیح نے اپنی طبی سوانح عمری لکھوائی جو حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کے رساله حکیم حاذق (اگست ۱۹۰۷ء) اور اخبار الحکم ۱۹۰۷ ء میں شائع ہوئی اور اس کا خلاصہ حکیم ۳۸ فیروز الدین صاحب نے " رموز الاطباء" کے آغاز میں آپ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم نے 1910ء میں ”حیات النور “ لکھنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں چند قسطیں اپنے اخبار میں شائع بھی کیں.مگر جیسا کہ اوپر آچکا ہے یہ ارادہ نا تمام ہی رہ گیا.تب ایک جوان ہمت اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے دوست اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی نے جو چھ سال سے حضرت کے درس قرآن کے نوٹ لکھ رہے تھے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور اپنی نوٹ بکوں اور حضور کی مصنفہ کتابوں خطبوں اور لیکچروں سے آپ کی خاص تعلیمات ، تجارب اور علمی نکات و لطائف کا ایک مجموعہ مرتب کر کے حضور کی خدمت میں اپنی سوانح عمری لکھوانے کے لئے درخواست کی جسے حضور نے فروری ۱۹۱۲ ء سے شروع کر کے جون ۱۹۱۲ء میں آپ کو ہجرت قادیان تک کے مکمل حالات لکھوا دیے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کا بیان ہے.میں پنسل کاغذ لے کر حاضر ہو تا آپ کام کرتے کرتے مجھ کو منتظر بیٹا ہوا دیکھ کر فرماتے.اچھا تم بھی کچھ لکھ لو.آپ فرماتے جاتے اور میں لکھتا جاتا.باوجود اس کے کہ میں محض خدا تعالی کے فضل و کرم سے اکثر لیکچراروں کے لیکچر باسانی حرف بحرف لکھ سکتا ہوں.بڑی مستعدی اور پوری ہمت کو کام میں لاکر آپ کے تمام الفاظ قلمبند کر سکا ہوں اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کس روانی اور طلاقت کے ساتھ تقریر فرماتے ہوں گے.لیکن جب اپنی قیام گاہ پر آکر اس پنسل کے شکستہ لکھے ہوئے کو صاف کرتا تو مجھ کو یاد نہیں کہ عبارت کو چست اور درست بنانے کے لئے کہیں کسی فقرہ میں کوئی تغیر و تبدل کرنا پڑا ہو.بس آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اپنی اصلی حالت میں لکھ دیا ہے اور یہ سب کچھ آپ نے ایسی حالت میں لکھوایا ہے کہ گرد و پیش بہت سے مریض ، مرید ، مہمان طالب علم اور مختلف ضرورتوں والے جمع ہوتے تھے.بیچ بیچ میں کئی دفعہ لوگوں کی طرف مخاطب ہونا کسی کو نسخہ لکھنا ، کسی کی عرضی پڑھنا غیرہ یہ کام بھی ہو جاتے تھے ".اکبر شاہ خان صاحب نے حضرت کی لکھوائی سوانح نہایت درجہ عرق ریزی اور محنت سے قلمبند کی ۳۹

Page 433

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 404 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب اور اس سے قبل ایک مقدمہ اور آخر میں " عطر مجموعہ " کے نام سے آپ ہی کے بیان فرمودہ واقعات سلیقہ سے شامل کر دیے ۱۹۱۲ء کے آخر میں اسے " مرقاۃ الیقین فی حیاة نور الدین " کے نام سے شائع کر دیا گیا.خان بهادر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اس کتاب پر ایک نہایت مفصل ریویو لکھا.جو اول سے آخر تک پڑھنے کے لائق ہے چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی خود نوشت سوانح کی نسبت لکھا.ان حالات یا ان کیفیات کے پڑھنے سے پڑھنے والے پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی اور عجیب نکات سے آشنا ہونے کا موقعہ ملتا ہے.پڑھنے کے بعد یہ کہنا ہی پڑے گا کہ یہ علامہ نور دین کی فطرت شروع ہی سے ایک انوکھا یا نرالاڈھنگ یا سماں رکھتی تھی طالب علمی کے زمانہ ہی میں مولوی صاحب کی طبیعت میں غیرت دینی محبت رسول اکرم ، عزم ، راست گوئی صاف بیانی جرات کا پایا جانا زندہ دلیل اس امر کی ہے کہ قدرت نے ان کا وجود خاص اغراض اور خاص مقاصد کے تابع بنایا تھا"."عطر مجموعہ " کے بارے میں ان تاثرات کا اظہار فرمایا : یہ مجموعه یا یه گلدستہ واقعی عطر بیز یا عطر فشاں ہے اور یہ مجموعہ نادرات انہی الفاظ میں قلمبند ہوا ہے جو خود مولوی صاحب کی اپنی زبان کے ہیں.اس مجموعہ میں ناظرین کو بیسیوں ایسی باتیں ملیں گی.جو بڑے بڑے حکیموں اور فلاسفروں کے حصہ میں بھی یہ مشکل آئی ہیں.یہ گراں بہا نکات یا قیمتی باتیں چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہیں ایسے روپ میں کہ نبی سے نجی طبیعت اور متعصب سے متعصب انسان بھی اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ باتیں اور یہ نکات مشاہداتی ہی نہیں ہیں بلکہ تجربی بھی.فلسفی ہی نہیں ہیں بلکہ روحانی بھی.اختلافی ہی نہیں بلکہ تمدنی بھی.تمدنی ہی نہیں ہیں بلکہ سوشل اور سیاسی بھی.ان نکات سے کیا نکلتا ہے مولوی صاحب کی زودرسی، توکل ، خدا پر اعلیٰ بھر دسہ ، تدین ، ذہانت ، حاضر جوابی موقعه شناسی ، حسن جواب ، حسن، تبلیغ ، کشادہ دلی وسعت قلبی ، یہ وہ باتیں اور یہ وہ نکات ہیں جو بعض ہی کا حصہ ہوتے ہیں ع ایں سعادت بزور بازو نیست اس عطر مجموعہ سے ناظرین مندرجہ ذیل باتیں خصوصیت سے دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں مولوی صاحب کی روش کیا رہی ہے.(الف) اہل خاندان کے ساتھ (ب) اہل و عیال کے ساتھ (ج) اپنے شباب کے ساتھ (د) احباب کے ساتھ (ھ) اہل وطن کے ساتھ.ان شعبوں میں آپ کو بہت سی اس مجموعہ سے ایسی باتیں ملیں گی.جو ملکی اور قومی حمیت غیرت اور دور اندیشی کے گر ہوں گے.ساتھ ہی اس کے آپ کو یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ مولوی صاحب کی پاک طبیعت بناوٹ ، تصنع، فریب رہی

Page 434

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 405 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب خوشامد ، معیوب وجاہت جاه طلبی خود غرضی خود پسندی سے کہاں تک نافر رہی ہے اور نافر ہے.اور خدا کا فضل و کرم یہ ہے کہ وہی روش اب تک بھی چلی جاتی ہے.علم دوستی، علم پروری میں گویا ان کی طبیعت اور ان کا مذاق اپنی آپ ہی نظیر ہے ہزاروں روپے کا کتب خانہ ان کی اپنی ہی خرید ہے.اور اب تک وہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف کھانے پینے اور لباس کا یہ حال ہے کہ دیکھنے سے کوئی اجنبی نہیں کہہ سکتا.کہ یہ وہی نور دین ہے جو زمانہ بھر میں شہرت رکھتا ہے ان کی بیرونی وجاہت اندرونی وجاہت اور اندرونی عظمت اور علوشان کا عکس ہے.کیونکہ بائیں حالات رعب اور ہی شان لئے ہوئے ہے.ایک طرف احسان پروری کی کوئی حد نہیں اور دوسری جانب احسان فراموشی اور احسان خواری سے طبیعت کو سوں بھاگتی ہے.یہ بات کسی نمائش کی غرض سے نہیں بلکہ طبیعت بھی مستغنی واقع ہوئی ہے.اور یہ کہ کوئی دوسرا کیوں تکلیف میں پڑے صوفیائے کرام اور حضرات اولیائے عظام کی خدمت میں جو کچھ عقیدت ہے اس کا ہر رنگ میں اعتراف ہے چار مشاہیر اسلام سے بیعت ہے اور چاروں سے اب تک وہی عقیدت ہے اور اسی ادب و عزت سے ان کا ذکر کیا جاتا ہے.جو شروع میں تھا.سوچنے والے سوچیں کہ مولوی صاحب کو بزرگان دین سے کہاں تک عقیدت اور محبت ہے اور مختلف انساب صوفیائے عظام سے انہیں کیسی اعلیٰ نسبت ہے اسی حسن عقیدت کا یہ اثر اور یہ نتیجہ ہے کہ خود مولوی صاحب بھی اسی سلسلہ عظام سے وابستہ ہو چکے ہیں ذالک فضل الله يوتيه من يشاء ".احمدی مستورات کی تربیت کے لئے اس وقت تک کوئی رسالہ ”احمدی خاتون کا اجراء رسالہ مرکز سے جاری نہیں تھا اس کمی کو احمدی خاتون نے پورا کر دیا جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں ستمبر ۱۹۱۲ء سے نکلنا شروع ہوا.یہ رسالہ خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور تک جاری رہا.خواجہ کمال الدین صاحب کا سفر انگلستان خواجہ کمال الدین صاحب اپنے سفر بمبئی میں سید محمد رضوی صاحب وکیل سے ان کے مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں جو معاہدہ کر چکے تھے اس کی تعمیل کے لئے انہی کے خرچ پر آپ نے اس سال سفر انگلستان اختیار کیا.آخر اگست میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں الوداعی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے آپ نے نصیحت فرمائی کہ تم ولایت کو جاتے ہو کسی اپنی خوبی کا گھمنڈ مت کرنا.شراب ، سئو ر بری مجلس سے بچتے رہنا.میرے بھی تم پر بڑے بڑے حق ہیں.میری باتوں کا خیال رکھنا.اپنی طاقت کے مطابق دین کی خدمت وہاں ضرور کرنا.ہم کو ایک خط ضرور لکھا کریں.اگر نہ ہو

Page 435

تاریخ احمدیت جلد ۳ 406 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایده الله - فرمند ؛ عرب سکے تو کارڈ ہی سہی.دعا کے بعد آپ نے خواجہ صاحب کو رخصت فرمایا - ۱۷/ ستمبر ۱۹۱۲ء کو آپ بمبئی سے جہاز پر سوار ہوئے.اور ۲۴ ستمبر کی سہ پہر کو انگلستان میں قدم رکھا.وہاں پہنچ کر حضرت خلیفہ اول نے ان کو تین باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.اول یہ کہ دعا اور کوشش سے کام لیں.دوم.ساری دنیا کے لوگ لندن میں ہیں سب سے ملو اور وفات عیسی منواؤ - l سوم - سنا ہے روکنگ میں ایک مسجد بھی ہے جس کے لئے ڈاکٹر لا شٹر (Lietner) نے چندہ کیا تھا.خواجہ صاحب نے مسجد کی طرف توجہ کی تو معلوم ہوا واقعی لندن سے کوئی پچیس تمیں میل کے فاصلہ پر دو کنگ شہر میں پروفیسر ڈاکٹر جی.ڈبلیو لائٹر نے ۱۸۸۶۰۸۷ء میں بیگم صاحبہ بھوپال کے خرچ سے بنوائی تھی.مگر یہ جب سے بنی تھی.مقفل پڑی تھی.خواجہ صاحب نے ایک صاحب مرزا عباس علی بیگ صاحب سے مل کر ۱۳ اگست ۱۹۱۳ء کو یہ مسجد کھلوائی.اور ٹرسٹیان مسجد سے زبانی یا تحریری یہ وعدہ کر کے وہ اپنی تبلیغ میں احمدیت یا کسی قسم کے فرقہ وارانہ امور کا ذکر نہیں کریں گے.۲ نومبر ۱۹۱۳ء سے دو کنگ میں مشن قائم کر لیا.اور احمدیت کے تذکرہ کو "سم قاتل قرار دے کر " تبلیغ اسلام " کرنا شروع کر دی.چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں." میں اول تو اپنی فطرت سے مجبور ہوں.غیر اسلامی لوگوں کے سامنے مجھے قرآن اور محمد کو پیش کرنے کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا.دوسرے فرقہ کی بحث یہاں کرنا میرے علم اور یقین میں اشاعت اسلام کے لئے سم قاتل " ہے.اتفاق یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام لارڈ ہیڈلے تھا.اور کافی عرصہ ہندوستان میں رہ چکے تھے.اور عرصہ سے دلی طور پر مسلمان تھے.اور اپنے تئیں عام طور پر مسلمان کی حیثیت سے ظاہر نہ کرتے تھے.آپ کو مل گئے.آپ نے کھلم کھلا اظہار اسلام پر ان کو آمادہ کیا.جس پر انہوں نے ۱۸/ نومبر کو اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا.اس اعلان کو خواجہ صاحب نے اپنی شہرت کا ایک زبر دست ذریعہ بنا کر وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ کیا.جس میں انہیں خاصی کامیابی ہوئی.چنانچہ مولف " مجدد اعظم " لکھتے ہیں.انہی ایام میں لارڈ ہیڈلے کی شہرت کا انسان اسلام میں داخل ہوا.جس سے مشن کی شہرت انگلستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیل گئی.خواجہ صاحب نے لارڈ ہیڈلے کی بے حد تعریف و توصیف کی حتی کہ اسے آفتاب اسلام کے طلوع مغرب سے قبل " صبح کا ستارہ قرار دیا.خواجہ صاحب کے اس پراپیگنڈا کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا.یعنی مسلمانان ہند کے ہر طبقہ کے سامنے آپ نے مشن کی تقویت کے لئے چندہ کی مسلسل پلیں کیں اور ہر فرقہ کے مسلمان انگلستان میں فتوحات اسلام کی امیدیں باندھ کر ان کو فراخ دلی سے چندے دینے لگے.نظام حیدر آباد دکن نے خواجہ صاحب کے نام معقول وظیفہ جاری کر دیا.انجمن خواتین اسلام حیدر آباد نے خواجہ صاحب کو چندہ بھجوایا.لاہور آگرہ اور کلکتہ

Page 436

تاریخ احمدیت جلد ۳ 407 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب میں بڑے بڑے جلسوں میں ان کی اعانت کی تحریکیں ہوئیں جن میں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا آزاد نے خاص طور پر حصہ لیا.سرکار بھوپال نے بھاری مدد کی.علامہ شبلی نے خواجہ صاحب کے مشن کے لئے ایک سو روپیہ ماہانہ کی رقم ایک دربار سے مقرر کرا دی.قبل ازیں خواجہ صاحب نے ان تمام مسلمانوں کے نام " من انصاری الی الله" کے عنوان سے ایک چٹھی بھی لکھی تھی.جس میں لکھا.میں نے اپنے ایجنٹ منشی نور احمد صاحب کو مقرر کیا ہے کہ وہ مختلف شہروں میں آپ صاحبان کی خدمت میں آویں.میری طرف سے گدائی کریں ".حضرت خلیفہ اول نے یہ دیکھ کر کہ خواجہ صاحب ولایت میں بھی جا کر اس پنسی پر چلے گئے ہیں جو اخبار وطن کے ایڈیٹر سے گٹھ جوڑ کر کے انہوں نے تیار کی تھی.اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سخت نا پسند فرمایا تھا.خواجہ صاحب کو خاص طور پر خط لکھا کہ : میں آپ کے لئے دو باتیں بے شک نا پسند کرتا ہوں.اول آپ کا جلد ہندوستان آنا.دوسرا عام لوگوں کے آگے چندے کے لئے سوال کرنا بھی مجھے آپ کے لئے بہت نا بند ہے اس میں آپ دوسرے لوگوں کی طرف خیال نہ کریں.خواہ وہ کتنے بڑے لوگ کیوں نہ ہوں.جو ان کا اسلام ہے وہ ہمارا اسلام نہیں ہم تو اللہ کا ہی دیا ہوا روپیہ چاہتے ہیں.خواہ لندن میں ہو یا ہندوستان میں.خوشامدی بن کر جو روپیہ لیا جاوے وہ بابرکت نہیں ہو تا.اور یہ تو مجھے یقین ہے کہ جو آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوں گے وہ مسیح کی وفات کے بھی قائل ہوں گے.اور ایسا ہی وہ اس بات کے قائل ہوں گے.کہ طبعی مردے دنیا میں واپس نہیں آیا کرتے حضرت صاحب کا اصلی منشاء تو عملی حالت کو سنوار نا تھا.اس لئے احباب کو عملی حالت کے سنوارنے کی طرف نگاہ رکھیں.اس بات کی مطلق پروانہ کریں کہ فلاں انجمن یا فلاں مجلس میں آپ کے لئے کیا ہوایا کیا نہیں ہوا".مگر خواجہ صاحب نے اس وقت آپ کی اس ہدایت سے قطعی گریز اختیار کیا.ایک عرصہ بعد پیسہ اخبار میں اس قسم کی خبریں شائع ہو ئیں کہ خواجہ صاحب بعض پرانے نو مسلم انگریزوں کو اپنی ماہانہ رپورٹ میں اپنے نو مسلموں کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں تو انہوں نے سخت طیش میں آکر اشاعت اسلام کے نام پر دئیے ہوئے لاکھوں روپیہ کے حساب کا مطالبہ شروع کر دیا.آخر بڑی دیر اور بار بار کے اصرار کے بعد خواجہ صاحب بولے اور انہوں نے بعض رقوم کو ذاتی بتا کر ان کا حساب دینے سے قطعاً انکار کر دیا.اور بعض کے متعلق کہا کہ ان کا حساب کتاب انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سپرد کیا گیا ہے اور وہی اس کی ذمہ دار ہے ".

Page 437

تاریخ احمدیت جلد ۳ 408 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب اس کے بعد ۱۹۲۹ء کے آخر میں آپ نے دو کنگ مشن کا تعلق انجمن اشاعت اسلام سے بھی منقطع کر لیا.اور انقطاع سے قبل صاف صاف اعلان کیا: و مسلم مشن دو کنگ مشن اپنی بناء.اپنے وجود اپنے قیام کے لئے میری ذات کے سوا کسی اور جماعت یا شخصیت یا کسی انجمن کا مرہون احسان نہیں ہے.میں نے اپنے ہی سرمایہ سے جو وکالت کے ذریعہ مجھے حاصل ہوا.اس مشن کو قائم کیا.اس کے متعلق نہ میں نے کسی سے مشورہ حاصل کیا نہ کسی نے مجھے مشورہ دیا.بلکہ جب میں گھر سے نکلا تھا تو میرے ارادہ سے کوئی واقف بھی نہ تھا.خود میرے اعزا اور میرے دوستوں کو میرے انگلستان جانے کا اس وقت علم ہو ا جب میں نے جہاز کا ٹکٹ لے لیا.وہاں جا کر جو کچھ کیا.اپنی ذمہ داری پر اور اپنے اخراجات پر کیا.دو سال سے زیادہ مشن کی کشتی کو اپنے بازوؤں سے چلایا.اسلامک ریویو " اپنے سرمایہ سے نکالا - ۱۵ء میں برادران اسلام میں سے بعض نے امداد دینی پسند کی.جسے شکریہ کے ساتھ قبول کیا گیا.اگر چہ یہ کل کاروبار ذاتی کاروبار ہیں اور جس نے امداد دی.اسے کہہ دیا گیا.اور اس کے متعلق مطبوعہ اعلان موجود ہے.کہ جو مجھے پر اعتبار نہ رکھتا ہو وہ ہرگز مدد نہ دے"."کلام امیر" کی اشاعت ۱۹ / ستمبر ۱۹۱۲ء سے اخبار بدر میں کلام امیر" کے نام سے ایک مستقل ضمیمہ شائع ہونا شروع ہوا.جس میں حضرت کا درس قرآن حضرت کی ڈائری ، حضرت کے سوانح اور آپ کے فرمودہ مباحث و لطائف اور خطوط و غیرہ درج ہونے لگے.یہ ضمیمہ ایک سو چار صفحہ تک چھپ کر بند ہو گیا.یہ ضمیمہ حقائق و معارف کا ایک گنجینہ ہے جس سے آپ کی روحانی عظمت اور بلند اخلاق اور وسیع علم کا پتہ چلتا ہے.

Page 438

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ایران 409 نقشه عرب ومصر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب شمال بغداد راق شام ار پورٹ سوڈان ایتھوپیا خوندم سوداك ہندوستان کے طویل سفر کے بعد حضرت حضرت صاحبزادہ صاحب کا سفر مصر و عرب صاحبزادہ صاحب نے اسی سال مصر و عرب کا بھی سفر کیا جو علوم عربیہ کی تحقیق ، دنیائے عرب و مصر کے نظام تعلیم کے مشاہدہ ، تبلیغ احمدیت اور دیار رسول کی زیارت اور حج کی غرض سے تھا.حضرت خلیفتہ المسیح اول اور حضرت ام المومنین کی اجازت لینے اور انصار اللہ کو ہدایات دینے کے بعد آپ ۲۶/ ستمبر کو قادیان سے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل مدرسہ احمدیہ کے صحن میں آپ کو شاندار الوداعی پارٹی دی گئی.حضرت خلیفتہ المسیح نے دعا کرائی طلباء کی طرف سے محمود احمد صاحب عرفانی نے اور اساتذہ کی طرف سے مولوی عبد الرحیم صاحب نیر نے ایڈریس پیش کیا.1 قادیان کے بہت سے احمدی دوست آپ کو رخصت کرنے کے لئے بٹالہ تک اور بعض لاہور تک ساتھ 10

Page 439

جلد ۳ 410 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر بند و عرب گئے.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے عبد ا ئی صاحب عرب کو (جو عراق کے رہنے والے تھے اور شیعوں میں سے احمدی ہوئے تھے) آپ کے ہمراہ بھیجا.II اور حضرت شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی اور عبد العزیز صاحب آپ کی مشایعت کے لئے بمبئی تک گئے.II جہاں حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب بھی آپ کے مسفر ہونے کے لئے پہنچ گئے.اور اس مقدس قافلہ کے تین رکن ہو گئے یعنی حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب اور سید عبدالحی عرب صاحب.آپ کا ارادہ مصر سے واپسی پر حج کرنے کا تھا مگر حضرت نانا جان چونکہ براہ راست حج کو جا رہے تھے.اس لئے آپ نے ان کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کر لیا ہمیٹی کے دوران قیام میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے زین الدین محمد ابراہیم صاحب کے مکان پر خطبہ جمعہ پڑھایا.جس میں یہ لطیف نکتہ بتایا کہ اگر عمل صالح کے بغیر حضرت نبی کریم ﷺ پر ایمان نجات نہیں دے سکتا تو آپ کے غلام کا خالی مان لینا کس کام آئے گا.قیام بمبئی کے دوران آپ کو حضرت ام المومنین نے خط لکھا." مولوی صاحب کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالٰی کی خدمت میں دے چکی ہوں.اب میرا کوئی دعوئی نہیں وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا اور تم کو کوئی خطرہ نہیں.خداوند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کرے گا.میں نے خدا کے سپرد کر دیا.تم کو خدا کے سپرد کر دیا اور سب یہاں خیریت ہے.والدہ محمود احمد ".بمبئی میں سیٹھ غلام غوث صاحب نے نہایت اخلاص سے اس قافلہ کی ضیافت و مهمان نوازی کے فرائض سرانجام دیئے.۱۲ / اکتوبر کو یہ قافلہ جہاز پر سوار ہوا.عرشہ جہاز پر حضرت صاحبزادہ - صاحب کے ساتھ بہت سے انگلستان جانے والے ہندو مسلمان طلبہ بھی تھے مسلمان بھی اور ہندو بھی سب کے سب دہریہ تھے ان کو آپ نے خوب تبلیغ کی.وہ آپ سے اتنے مانوس ہو گئے کہ جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین کی باتیں شروع کر دیتے ان کے ساتھ تین وکیل بیرسٹری کرنے کے لئے جارہے تھے.جو آپ سے مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ کانگریس میں شامل ہو جائیں.۲۱ / اکتوبر کو عدن پہنچ کر آپ نے ان کے ساتھ عدن کی سیر کی.یہ بیرسٹر بھی طلباء کی طرح کے دہریہ اور سخت بد زبان تھے.مگر آپ کی تبلیغ اور نمونہ سے بہت متاثر ہوئے.چنانچہ آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کے نام ایک مکتوب میں لکھا.”تین بیرسٹر.....سب سے زیادہ دریدہ دہن تھے.مگر اللہ تعالی کے فضل سے کوشش رائیگاں نہیں گئی اور گو انہوں نے پورے طور سے اقرار نہ کیا.لیکن ایک نے یہ اقرار کیا کہ گو پہلے میں اس معاملہ میں بالکل نڈر تھا.لیکن اب خدا کے بارے میں نہیں کرتے یا سنتے میرا دل کانپ جاتا ہے.اور

Page 440

تاریخ احمد - جلد - 411 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب ایک خواہش پیدا ہو گئی ہے.کہ اس بات کی پوری طرح چھان بین کروں.اس نے یہ بھی کہا کہ اگر چہ آپ کی باتوں کا جواب میں نہیں دے سکتا.لیکن چونکہ پر انا اعتقاد جما ہوا ہے.اس لئے پوری طرح تسلی نہیں ہوتی بس ایک امتحان بیرسٹری کا باقی ہے وہ دے کر جب چار پانچ ماہ کے بعد واپس ہند آؤں گا تو آپ سے ملوں گا.اور قادیان آؤں گا کہ اس مسئلہ کی تصدیق کروں.دوسرے ہندو نے کہا کہ وہ بھی بیرسٹری کے سب امتحان پاس کر چکا ہے صرف ٹرم باقی ہے کہا کہ آج تک میں نے اس رنگ میں کبھی مذہب پیش ہوتے نہیں دیکھا اور آج تک بغیر دلیل کے ہی ہمیں مذہب منوایا جاتا تھا.یہ نیا طریق دیکھا ہے کہ آپ دلائل دیتے ہیں مگر وہ ایسا گستاخ تھا.کہ بار بار یہ کہتا تھا.کہ اگر خداتعالی میں کوئی طاقت ہے تو وہ اسے ہلاک کر دے نعوذ باللہ من ذالک.ایک اور طالب علم نے میرا پتہ لکھ لیا.کہ ولایت سے میں مذہب کے متعلق آپ سے خط و کتابت کروں گا.میں نے سب سے وعدہ لیا ہے کہ ولایت میں خواجہ صاحب سے ملاقات کریں.بعض نے بعض کتابیں بغرض مطالعہ بھی مانگی ہیں.فالحمد لله على ذالک.اس فائدہ کے علاوہ مجھے سب سے عظیم الشان فائدہ یہ ہوا کہ ان لوگون کی حالت دیکھ کر اسلام کی موجودہ حالت کا نقشہ کھنچ گیا.ایسا خطرناک دہریہ میں نے کبھی نہ دیکھا جیسا ان لوگوں کو دیکھا سخت دلیر اور منہ پھٹ.میں دیکھتا ہوں اسلام کی حالت کا جو پہلے درد تھا اس سے بہت زیادہ اب میں پاتا ہوں ".ان تبلیغی مشاغل کے علاوہ آپ نے اس سفر میں بہت کثرت سے دعائیں کیں.چنانچہ اس خط میں فرماتے ہیں."اگر چہ میری جسمانی صحت اس سفر میں بہت کمزور ہے لیکن روحانی طور سے بہت کچھ فائدہ ہوا ہے اور اس قدر دعاؤں کا موقعہ ملا ہے.کہ پہلے کم اتفاق ہوا تھا اور مجھ سے جس قدر ہو سکا اپنے علاوہ حضور کے لئے.حضور کے خاندان کے لئے.اپنے سب خاندان کے لئے قادیان کے احباب کے لئے.پھر کل جماعت احمدیہ کے لئے اور اسلام کے لئے بہت دعائیں کیں.خصوصا تئیس تاریخ شام کو جہاز پر کچھ ایسی حالت ہوئی.کہ مجھے یوں معلوم ہوا تھا کہ گویا تمام زمین و آسمان نور سے بھر گیا ہے.اور دل میں اس قدر دعا کا جوش تھا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا اور پھر ساتھ دل میں یہ یقین ہو تا تھا اور اطمینان تھا کہ سب دعا ئیں قبول ہو رہی ہیں اور دعا سے طبیعت گھبراتی نہ تھی".غرض خدا کا پیغام پہنچاتے اور صبح و شام دعاؤں کے ماحول میں رہتے ہوئے آپ ۲۶ / اکتوبر کو سعید کی اور پورٹ سعید پہنچ گئے آپ نے اس شہر کی مذہبی اور تمدنی حالت کا مختصر جائزہ لیا.ایک قہوہ خانہ میں وہاں کے شیخ الاسلام سے بھی ملنے کا موقعہ ملا.عبد الحی عرب صاحب نے ان سے وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو کی بہت سے لوگ یہ سن کر خوش ہوئے کہ وفات مسیح کا ثبوت دیا جا رہا ہے.

Page 441

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 412 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب حضرت صاحبزادہ صاحب کا خط حضرت خلیفتہ المسیح اول کے نام یہ اس خط کے ایک حصہ کا عکس ہے جو آپ نے پورٹ سعید سے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں لکھا اس خط پر حضرت نے اپنے قلم سے لکھا."محمود احمد کا خط میرے انداز پر آیا مبارک مبارک.مبارکہ کو آپ پہنچا دیں نور الدین - ۱۰/ نومبر ۱۹۱۲ء - اصلی خط حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے پاس محفوظ ہے.سا اگر وہ میری جهانی محبت اس امر پر بہت کرو یہ ہوگی لیکن روحانی طور سے بہت کچھ فائدہ ہوا ہے اور اس قدری بازی کا موقعہ ملا ہے کہ ہے وہ کم اتفاق ہوا تھا.اور رحیم ہے تقدیر ہوسکا اپنے علاوہ حضور کے لئے حضور کے خاندان کے لئے اپنے سب خاندان کے لئے قادیان کے اجاب کے لئے کل جماعت تحمدیہ کے لئے اور اسلام کے لئے بہت دعائیں کیں.خصوصاً نئیں تاریخ کو جہاز پر کچھ ایسی حالت ہوئی کہ مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا تمام زمین و آسمان نور سے بھرگیا ہے اور دل پر دوا کا اتقدر جوش ناکہ ہم نے کبھی نہر دیکھا کر میری استدرجوش تھا کہ دل میں یہ یقینی معلوم ہوتا تھا اور اطمینان تھا کہ سب دعائم کی تبول مور ہیں کہ اسے ا و و و وردی کے طبیعت گراتی ن علی علاوه از یه شما یه نفر رو روی اکثر اوقات دعا کی

Page 442

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 413 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب ا موقع ملتا تها کند و بست انها را، ایک دو قه ده چین به مر کچھ تکلیف سے مولی ، امیر کے ساتھ بہت سے طلباء انگلستانی سوار تھے مسلمان بھی اور ہنر بھی انکو لیتے بھی خوب موقع مل گیا سب کے سب پر سیاہ اور پراید تھی نے مستی وات پر نہیں اور ٹھٹھا کرتے.رہتی رداشت رہے تھے ہورہ کے لیے تو بود ے کی یقہ کا ر ہی نہیں کرتی ہے کہ کہ اب وہ مذہب سے بالکل آزاد تھے.میں حتی الوسع تفرم انکے پیچھے پڑاڑا اور وہ میں کچھ مانوس ہو گئے تے جب اپنے کاموں لیے تاریخ ہوتے تھے میرے پاس ٹھاکر دین کی باتیں شروع کر دیتے کی تین بر سر تھے.سب سے زیادہ دریدہ دہنی تھے مگ اللہ تھا لئے آگے نقل سے کوشش را نگاں مہر گڑا اور گونگا انہوں نے پورے طور سے اقرار نہ گا لیکن ایک کے ار کیا کہ گو میری یہ ہے پہلے ہم اس معا وا تھالیکن اب طلبہ بارہ کم نہیں کرتے اسنے میرا دل

Page 443

414 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب تاریخ احمدیت.جلد ۳ کانپ جاتا ہے اور ایک خواہش پیدا ہو گئی ہے.که داستان بھی پوری طرح سے بیان میں کردوں اس لیے یہ بھی وسکتا لیکر چونکتے کونگا سرانا اعتقاد کیا ہوا ہے اس لئے پوری کر تسلی نہیں ہوگی.ہر ایک استمان بیرسٹری کا باقی ہے وہ دیکر است تا با شنا کے بعد جب راکسی بند اکڑ گیا تو آپ سے کلونگا اور قادیانی آؤنگا کہ اس سے سکہ کی تصدیق کروں.دوسرے نہ ہونے کہ وہ بھی میرسوی کے سب امتحان پاس کر چکا ہے صرف صفار کا ایک ٹرم باقی نے کہا کہ ایک کر لیے اس رنگ کی کبھی شراب و پیش ہوئے شیر دیکھا ہے اور ابتک پنیر دیتے ہیں ہم یک مذہب سنوایا جاتا تھا یہ ناظر تقوی یگرده ای نگارنده دیکھا ہے کہ آپ دلامل تھا کہ بار بار تھا کہ اگر و خدا کوئی طاقت ہے تو وہ اسے بلاک کردی نفوذ باللہ من ذالت -

Page 444

تاریخ احمدیت جلد ۳ 415 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و حرب ایک اور طالب علم نے میرا نہ لکھ لیا ک ولایت سے ہو میرا مذہب کے متعلق آپ کسے خط و کتابت کرد کا کی ہے سب سے وعدہ لیا ہے کہ ولایت میں خواجہ شاپ سے ملاقات کی بعض کے بعض کہتا ہیں غیر میں مطالعہ بھی مانگی کہ الحمد للہ علی ذالک اس والحمد فائدہ کے علاوہ مجھے سب سے عظیم الشان فائدہ یہ ہوا کہ ان لوگو بکری حالت دیکھکر اسلام کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچ گیا ایسا خطرناک دوہری میں ہے کبھی نہ دیکھنا ہے جہاں لوگوں کو دیکھا تخت دلیر اور منہ پھٹ.سردیکھنا ہوتی السلام کی حالت گا دیکھا کو میں کا جو پہلے درد تھا اس کے لا اصبح اللہ بہت زیادہ اب میں ہوں یہ دعا کی بہت ضرورت ہے اور بخت نہیں تھمان ہوں انوقت بھی سر درد شروع ہے اور جیب بیعت بہت خراب ہوتی ہے تو دل گھر جاتا ہے ہے فاصہ نورا محمود احمد رزیوٹ سعیت

Page 445

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 416 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب پورٹ سعید سے آپ کا ارادہ قاہرہ میں جا کر مدارس اور لائبریریاں دیکھنے اور بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات کرنے کا تھا.مگر آپ کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ حج کو چلے جاؤ ورنہ پھر جگہ نہ ملے گی.لہذا آپ نے مصر کی بجائے جہاز سے جدہ پہنچنے کا فیصلہ کرلیا.پورٹ سعید سے سویز آتے ہوئے سیکنڈ کلاس میں پانچ آدمی آپ کے ساتھ اور سوار تھے ایک یور چین چار مسلمان - جن میں سے دو بدوی رؤسا اور ایک محکمہ تار کا افسر اور ایک ریلوے انسپکٹر تھا.آپ نے ان مسلمانوں کے سامنے اسلام کی حالت زار کا نقشہ کھینچنے کے بعد حضرت مسیح کی وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر روشنی ڈالی محکمہ تار کا افسر جو عربی کے علاوہ انگریزی فرانسیسی اور اٹلی زبانیں جانتا تھا.آپ کی گفتگو سے بالخصوص بہت متاثر ہوا آپ کا پتہ اس نے نوٹ کر لیا.اور آئندہ خط و کتابت رکھنے کا وعدہ کیا اور آپ کو آرام پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی.جہاز پر سینکڑوں زبانوں کے بولنے والے لوگوں کو حج کے لئے جاتے ہوئے دیکھ کر آپ کے دل پر ایک عجیب رقت کی کیفیت طاری ہو گئی.چنانچہ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں." حج کی قدر اور عظمت حج کے بغیر نہیں معلوم ہو سکتی.واقعی جو دعا اور توجہ الی اللہ اس سفر میں دیکھی ہے وہ کبھی نہ دیکھی تھی.سینکڑوں زبانوں کے بولنے والے لوگوں کو جہاز پر اکٹھا دیکھ کر اور ان کے لبیک لبیک کی آواز سن کر ایسی رقت اور محبت پیدا ہوتی تھی کہ اندازہ سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کے کمالات پر تعجب آتا تھا کہ مکہ سے اٹھ کر اس نور نے دنیا کے کس کس گوشہ کو روشن کر دیا.آخر وہ کیا قوت قدسی تھی جس نے کروڑوں نہیں اربوں کو ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ بتا دیا.رابغ پر بیٹھتے وقت جب اک لبیک کا نعرہ اٹھا اور میں نے ترکوں کو بیچ بیچ کہتے سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ لوگ لفظ تو درست بول نہیں سکتے.لیکن آنحضرت کی دعاؤں اور آہ و زاریوں نے ان کو کھینچ کر راہ اسلام دکھا دی.رابغ کے قریب اللہ تعالٰی نے میرے سینہ کو دعاؤں کے لئے کھول دیا.اور بہت دعا کی توفیق ملی.قدرت اللہ اور اس کے فضل کے قربان جاؤں کہ وہ ترک جو ترکی تو الگ عربی بھی نہیں جانتے تھے.ایک میرے دائیں اور ایک میرے بائیں کھڑے ہو گئے اور نہایت درد دل سے آمین آمین پکارنے لگے.فورا میرے دل میں آیا کہ یہ قبولیت کا وقت ہے.کہ خدا نے یہ لوگ میرے لئے آمین آمین کہنے کے لئے بھیج دیئے ہیں.اور حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.اس وقت میں نے اپنے لئے حضور کے لئے (یعنی حضرت خلیفتہ المسیح کے لئے.ناقل) حضور کے خاندان کے لئے اپنی والدہ اور سارے خاندان کے علاوہ احباب قادیان احمدیوں اور پھر حالت اسلام کے لئے بہت دیر

Page 446

حمد بیت - جلد ۳ 417 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب AT تک دعا کی اور وہ دونوں ترک برابر آمین کہتے رہے.فالحمد للہ علی ذالک.المختصر آپ یکم نومبر کو جدہ پہنچے II اور سیٹھ ابو بکر صاحب کے ہاں قیام پذیر ہوئے.جدہ سے ایک خط میں لکھا.” خدا کے فضل سے مصر سے ہو کر احرام کی حالت میں جدہ پہنچ گئے ہیں اللہ اللہ کیا پاک ملک ہے ہر چیز کو دیکھ کر دعا کی توفیق ملتی ہے.خدا کی رحمتیں اس زمین پر بے شمار ہی معلوم ہوتی ہیں.احباب قادیان کے لئے.احمدی جماعت کے لئے اس قدر دعاؤں کی توفیق ملی ہے.کہ بیان نہیں ہو سکتی.میں نے احمدی جماعت کے لئے اس سفر میں اس قدر دعائیں کی ہیں کہ اگر وہ اس کا اندازہ لگا سکیں.تو ان کے دل محبت سے پگھل جائیں.لیکن لا يعلم اسرار القلوب الا الله تبلیغ کے متعلق بھی بڑی کامیابی معلوم ہوئی ہے.لوگ بڑے شوق سے باتیں سنتے ہیں عام ضروریات اسلام اور سلسلہ کے متعلق میں لوگوں کو سناتا رہتا ہوں کئی لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ وہ غور کریں گے اور مجھ سے خط و کتابت کریں گے.اگر کوئی ان بلاد میں آکر رہے تو انشاء اللہ بہت کامیابی ہوگی.کیونکہ تعصب اور حسد سے خالی ہیں فی الحال پوسٹ ماسٹرمدینہ کی معرفت مجھے خط مل سکے گا".چھ دن جدہ میں قیام کے بعد آپ ۷ / نومبر کو حضرت نانا جان سمیت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے.مکہ معظمہ جاتے ہوئے آپ نے ایک نظم بھی کسی جس کے چند اشعار یہ تھے :- دوڑے جاتے ہیں بامید تمنا سوئے باب شاید آجائے نظر روئے دل آراء بے نقاب یا الہی آپ ہی اب میری نصرت کیجئے؟ کام لاکھوں ہیں مگر ہے زندگی مثل حباب میری خواہش ہے کہ دیکھوں اس مقام پاک کو جس جگہ نازل ہوئی موٹی تیری ام میرے والد کو بھی ابراہیم ہے تو نے کہا جس کو جو چاہے بنائے تیری ہے عالی جناب ابن ابراہیم بھی ہوں اور تشنہ لب بھی ہوں اس لئے جاتا ہوں میں مکہ میں با امید آب جو نہی خانہ کعبہ پر نظر پڑی تو آپ کو حضرت خلیفہ اول کا واقعہ دعا یاد آگیا اور آپ نے بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا.آج عمر بھر میں قسمت سے موقع ملا ہے پس میری تو دعا یہی ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دعا کرے گا.وہ قبول ہوگی.میری دعا تجھ سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دعائیں قبول ہوتی رہیں.آپ نے حضرت نانا جان کے ساتھ عمرہ کیا اور اس موقعہ پر اہل قادیان جماعت احمدیہ اور اسلام کی سربلندی کے لئے بہت دعائیں کیں اور جس قدر ہو سکا دوستوں کا نام لے لے کر دعائیں کیں.AO الكتاب اگلے روز آپ نے مکہ سے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں لکھا." خد اتعالیٰ کا ہزار ہزار شکر

Page 447

تاریخ احمدیت جلویر ۳ 418 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب اور عنایت ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اپنے پاک اور مقدس مقام کی زیارت کا موقعہ دیا.کل جب مکہ کی طرف اونٹ آرہے تھے دل کی عجیب کیفیت تھی کہ بیان نہیں ہو سکتی.محبت کا ایک جوش دل میں پیدا ہو رہا تھا.اور جوں جوں قریب آتے تھے دل کا شوق بڑھتا جاتا تھا.میں حیران ہوں کہ اللہ تعالی کس طرح اپنی حکومت اور ارادہ کے ماتحت کہاں سے کہاں کھینچ لایا.پہلے مصر کا خیال پیدا ہوا پھر یہ خیال آیا کہ راستہ میں مکہ ہے اس کی زیارت بھی کرلیں.پھر خیال ہوا.حج کے دن ہیں.ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.غرضکہ ارادہ مصر سے مکہ اور حج کا ہوا اور آخر اللہ تعالٰی نے وہاں پہنچا دیا.مجھے مدت سے حج کی خواہش تھی اور اس کے لئے دعا ئیں بھی کی تھیں لیکن بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.کیونکہ وہاں کے راستہ کی مشکلات سے طبیعت گھبراتی اور یہ بھی خیال تھا کہ مخالفین کوئی شرارت نہ کریں لیکن مصر کے ارادہ سے یہ خیال ہوا کہ مصر جانا اور راستہ میں مکہ کو ترک کر دینا ایک بے حیائی ہے اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جدہ سے مکہ تک کا سفر نہایت کٹھن ہے اور میر صاحب تو قریباً بیمار ہو گئے.اور مجھے بھی سخت تکلیف ہوئی.اور تمام بدن کے جوڑ جو ڈبل گئے لیکن بڑی نعمتیں بڑی قربانیاں بھی چاہتی ہیں.اس بڑی نعمت کے لئے یہ تکلیف کیا چیز ہے.مدینہ کا راستہ اور بھی طویل اور کٹھن ہے لیکن چند دن کی تکلیف ان پاک مقامات کے دیکھنے کے لئے جہاں رسول کریم فداہ ابی و امی نے اپنی بعثت نبوت کا ایک روشن زمانہ گزارا کیا چیز ہے.میرا دل تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر قربان ہو رہا ہے کہ وہ کس حکمت کے ساتھ مجھے اس جگہ لے آیا.نالك فضل الله يؤتيه من يشاء.اللہ تعالی کی حکمت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ اول تو اس جہاز سے جو مصر جا تا تھا رہ گئے لیکن بعد میں جب اصرار کر کے دوسرے جہاز میں سوار ہوئے تو مصر پہنچتے ہی خواب آیا کہ حضرت صاحب یا آپ (یعنی حضرت خلیفتہ المسیح - ناقل) فرماتے ہیں.فور امکہ چلے جاؤ پھر شاید موقعہ ملے کہ نہ ملے چنانچہ ہ دو جہاز چلے گئے اور ہم ان میں سوار نہ ہو سکے.جس سے خواب کی تصدیق ہو گئی اس طرح مصر کی سیر بھی نہ کر سکے.اور جب مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ اب مصر نہیں جاسکتے.کیونکہ گورنمنٹ مصر کا قاعدہ ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو مصر کے باشندہ ہوں حج کے بعد چار ماہ تک کوئی شخص حجاز و شام سے مصر نہیں جا سکتا..اب اس صورت میں مصر میں واپس جانا فضول معلوم ہوتا ہے میں نے تو ان سب واقعات کو ملا کر یہی نتیجہ نکالا ہے کہ منشائے الہی مجھے حج کروانے کا تھا اور مصر کا خیال ایک تدبیر تھی.میں تو اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر قربان ہوں کہ میرے جیسے گندگار انسان کی کیا حقیقت تھی کہ اس پر اس قدر لطف و عنایت کی نظر ہوتی اور اس طرح اسے ایسے پاک مقامات کی زیارت کروائی جاتی.مگر خد اتعالیٰ کا پیار بھی اپنے بندوں سے سمجھ میں نہیں آسکتا.وہ تو محسن ہے مگر ہما.ہی طرف سے ناشکری ہوتی ہے کل

Page 448

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 419 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب عمرہ ہو گیا.اور اللہ تعالی نے امید سے بڑھ کر دعاؤں کی توفیق دی.اور میں نے حتی المقدور حضور کے لئے حضور کے خاندان کے لئے کل احمدی جماعت اور اسلام و مسلمانوں کے لئے دعائیں کیں.زیارت بیت اللہ کے وقت بھی اور صفا و مروہ کی سعی کے وقت بھی خصوصاً جماعت کی ترقی اور آپس کے اتحاور مودت کے لئے والله المجيب.مکہ میں آپ کو ایک رویا ہوا کہ ایک جگہ ہوں اور میر صاحب اور والدہ ساتھ ہیں آسمان سے سخت گرج کی آواز آرہی ہے اور ایسا شور ہے جیسے توپوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی پیدا ہوئی ہے اتنے میں اس دہشت ناک حالت کے بعد آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی الفاظ میں لا الہ الا الله محمد ر سول اللہ لکھا گیا ہے.میں نے میر صاحب کو پوچھا آپ نے یہ عبارت نہیں دیکھی انہوں نے جواب دیا کہ نہیں.میں نے کہا کہ ابھی آسمان پر یہ عبارت لکھی گئی ہے اس کے بعد بآواز بلند کسی نے کچھ کہا جس کا مطلب یا د رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہو گا.اس کے بعد اس نظارہ اور تاریکی اور شور کی دہشت سے آنکھ کھل گئی".یہ خواب اپنے خط میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھتے ہوئے تحریر فرمایا ” اس طرف کے لوگوں کی دین سے بے پرواہی اور خودی کو دیکھ کر دل پر ایک ایسا اثر ہوا ہے کہ کچھ بیان نہیں کر سکتا.حضور کے لئے ، والدہ عبدالحی ، عبدالحی ، امتہ الحی، عبد السلام ، عبد الوہاب عبد المنان اور والدہ امتہ الرحمن کے لئے برابر ہر موقعہ پر دعا کر تا رہتا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے تو اس کی درگاہ بہت عالی ہے.میری طبیعت کی کمزوری کچھ نہ کچھ چلی ہی جاتی ہے.دعا کی درخواست ہے ایک متوحش نظارہ برابر دیکھ رہا ہوں جب دعا کرتا ہوں وہی بات اور رنگ میں دکھائی جاتی ہے.قریباً ۵-۷ دفعہ دیکھا ہے.کل اونٹ پر جاگتے ہوئے کشفی رنگ میں دیکھا".مکہ میں آپ کی خبر آنا فانا مشہور ہو چکی تھی اور ہر جگہ آپ کا چرچا ہونے لگا تھا.آپ جہاں سے گذرتے لوگ بعض دفعہ اشارہ کر کے ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ "ابن قادیانی" ( قادیانی کا لڑکا) لوگوں میں علماء نے بہت غلط باتیں بتا ر کھی تھیں.مثلاً حضرت اقدس نعوذ باللہ شرعی نبوت کے مدعی ہیں.نیز آپ نے جہاد کو قطعی حرام قرار دے دیا ہے.ایک شخص نے جو رشتہ میں آپ کے ماموں تھے اور بھوپال کے رہنے والے تھے بھوپال کے ایک رئیس ( خالد نامی) کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف سخت شورش بھی شروع کر دی اور لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑ کانے لگے کہ یہ قادیانی کفر پھیلاتے ہیں اور ساتھ ہی اہلحدیث مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو (جو اس سال حج کو گئے تھے) مباحثہ کے لئے آمادہ A4

Page 449

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 420 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب کر لیا.مقصد یہ تھا کہ مکہ میں باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اگر مباحثہ ہوا تو لوگ جوش میں آکر انہیں قتل کر دیں گے.اس شخص نے یا اس کے ساتھیوں نے گورنمنٹ حجاز کو بھی توجہ دلائی کہ آپ کے خلاف فوری کارروائی کرے.اور اس فتنہ " کو بڑھنے سے رو کے عبدالحی عرب صاحب کے پاس جب مولوی ابراہیم صاحب کی دعوت مباحثہ پہنچی تو عرب صاحب نے پیغام لانے والے کو جواب دیا کہ ہم یہاں مباحثات کے لئے نہیں آئے حج کی غرض سے آئے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کو اس اشتعال انگیزی کا ابھی تک کوئی علم نہ تھا.ایک دن آپ ایک عرب عالم مولانا عبد الستار کہتی کو جو شریف مکہ کے بچوں کے استاد تھے.تبلیغ کے لئے گئے وہ عقیدہ اہلحدیث تھے مگر چونکہ ان دنوں اہلحدیثوں کو سخت نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.اس لئے وہ اپنے تئیں خیلی ظاہر کرتے تھے.آپ کافی دیر تک ان کو تبلیغ کرتے رہے.آخر وہ کہنے لگے آپ نے مجھے تو تبلیغ کرلی ہے اور آپ کی باتیں بھی معقول ہیں لیکن میرے سوا کسی اور کو تبلیغ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں اور خطرہ ہے کہ کوئی شخص آپ پر حملہ نہ کر بیٹھے یا حکومت ہی آپ کو قید نہ کر دے پھر اس نے آپ کے غیر احمدی ماموں کا نام لیا کہ اس نے آپ کے خلاف اشتہار دیا یا دلوایا ہے اور لکھا کہ اگر انہیں اپنے دعاوی کی صداقت پر یقین ہے تو مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مباحثہ کرلیں.مولانا عبد الستار صاحب فرمانے لگے.میں نے مولوی سیالکوٹی صاحب سے کہا ہے کہ کہیں جوش میں آکر مباحثہ نہ کر بیٹھنا کیونکہ یہاں احمدیوں سے زیادہ اہلحدیثوں کی مخالفت ہے احمدیوں کے خلاف کسی کو اشتعال آیا یا نہ آیا تمہارے خلاف ضرور لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کس طرف سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں انہوں نے ایک عالم کا نام لیا کہ اسے تو بالکل تبلیغ نہ کرنا.آپ نے ان کو بتایا کہ میں تو اسے ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آرہا ہوں.وہ حیران ہو کر بولے پھر کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ غصہ اور جوش کی حالت میں کہہ دیتے تھے.کہ نہ ہوئی تلوار ہمارے قبضہ میں ورنہ تمہار ا سر قلم کر دیتا.غرض مکہ میں مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق آپ کے غلام کی آواز پوری قوت و شوکت سے آخر دم تک پہنچاتے رہے.مکہ کی مقدس سرزمین نے آپ کی روحانیت پر جو گہرا اثر ڈالا.اس کا ذکر اپنے ایک خط میں جو مکہ سے حضرت خلیفتہ المسیح ہی کے نام لکھایوں فرماتے ہیں :

Page 450

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 421 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب اگر چہ جسمانی طور سے تو اس سفر میں بہت تکلیف ہوئی ہے اور میری صحت بہت خراب ہو گئی ہے لیکن روحانی طور سے بہت اصلاح معلوم ہوتی ہے سرزمین مکہ کی ہر ایک اینٹ اور ہر ایک مکان اور ہر ایک آدمی اور ہر ایک چیز اللہ تعالی کی ہستی کا ایک ثبوت ہے اس وادی غیر ذی زرع میں کیا کچھ سامان لا کر اکٹھا کر دیا ہے.کعبہ کو بھی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہر وقت سینکڑوں آدمی گھوم رہے ہیں اور عملی طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکام پر قربان کرنے کا اشارہ کر رہے ہیں پھر اس سرزمین سے کیسا پاک انسان خاتم الرسل پیدا ہوا.اس نے دین حق کے لئے کیا کیا کوششیں کیں کس طرح اپنے آپ کو راہ الہی میں قربان کر دیا.ہزاروں اثرات ہیں جو دل پر ہوتے ہیں اور نیکی اور تقویٰ کی تحریک کرتے اور محمد ہوتے ہیں دعاؤں کی تحریک بھی بہت ہوتی ہے.افسوس کہ مدینہ منورہ نہیں جا سکتا.لیکن شاید اللہ تعالٰی پھر موقعہ دے دے "." نیز لکھتے ہیں.” دعاؤں سے رغبت اور دعاؤں کا القا اور رحمت الہی کے آثار جو میں نے اس سفر میں خصوصاًانکہ مکرمہ اور ایام حج میں دیکھے ہیں وہ میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہے اور میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا ہے کہ اگر انسان کو توفیق ہو تو وہ بار بار حج کرے.کیونکہ بہت سی برکات کا موجب ہے".حج کے روز آپ کی طبیعت جو مسلسل سفر اور کام کی وجہ سے نڈھال ہو گئی تھی خدا کے فضل سے صاف ہو گئی اور حج کا فریضہ نہایت عمدگی اور خیریت کے ساتھ ادا ہوا.میدان عرفات میں قریباً چار گھنٹہ سے زیادہ آپ کو دعا کا موقعہ ملا.اور رحمت الہی کے آثار ایسے نظر آتے تھے کہ معلوم ہو تا تھا تمام دعائیں قبول ہو رہی ہیں.اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی دعا ئیں القا ہوتی تھیں جو کبھی وہم میں بھی نہ آئی تھیں.آپ نے ان مبارک لمحات میں قادیان کے دوستوں کے لئے ہر ایک کا نام لے لے کر دعائیں کیں.اور ہر ایک مقام پر کیں.1 مکہ میں آپ کو تبلیغ کے بہت سے نئے تجربات ہوئے.آپ شریف مکہ سے بھی ملے آپ کا ارادہ حج کے بعد کچھ عرصہ اور قیام کرنے کا تھا.مگر ایک تو آپ بیمار ہو گئے.دوسرے حج ختم ہوتے ہی مکہ میں ہیضہ پھوٹ پڑا.جو اتنا شدید تھا کہ لوگ گلیوں میں مردوں کو پھینک دیتے تھے اور دفن کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا تھا یہ دیکھ کر حضرت نانا جان گھبرا گئے اور انہوں نے کہا ہمیں جلدی واپس چلنا چاہئے.چنانچہ آپ نے واپسی کی تیاری شروع کر دی.آخری ملاقات کے لئے جب اس غیر احمدی ماموں کی طرف گئے تو معلوم ہوا کہ منی سے واپسی پر وہ ہیضہ کے حملہ کی تاب نہ لا کر تھوڑی دیر میں ہی فوت ہو گئے ہیں.

Page 451

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 422 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب جب آپ جدہ پہنچے تو جدہ کے انگریزی قونصل خانہ میں بھی آپ کے نھیال کے ایک رشتہ دار تھے.آپ ٹکٹ کے لئے ان کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو کمپنی کا ملازم سمجھ کر بڑی لجاجت سے کہا کہ ہمارا قافلہ تمیں نہیں عورتوں اور مردوں پر مشتمل ہے اور اس وقت سخت مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کا ہے ہیضہ کی وجہ سے عورتیں تو پاگل ہو رہی ہیں.اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عورتوں کو یہاں سے رخصت کر دیں.آپ نے فرمایا عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی ؟ اس پر اس نے کہا کہ آپ دو چار اور ٹکٹ لے دیں.تو کچھ مرد بھی ان کے ساتھ جاسکیں گے اور ساتھ ہی روپوں کی ایک تحصیلی آپ کو پکڑوادی چنانچہ آپ نے اپنے رشتہ دار سے کہا.کہ ان لوگوں کی حالت بہت قابل رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لادیں.وہ اس وقت کسی بات پر چڑے ہوئے تھے کہنے لگے کیا میں کوئی ایجنٹ ہوں کہ ٹکٹ لاتا پھروں؟ مگر آپ نے دوبارہ کہا یہ رحم کا معاملہ ہے آپ ضرور کوشش کریں اور اگر ان کے لئے نہیں تو کم از کم میری خاطر ہی ٹکٹ لادیں وہ واپس گئے اور تھوڑی ہی دیر میں غالبا سترہ ٹکٹ لے کر واپس آئے.آپ نے وہ ٹکٹ اور باقی رو پے کھڑکی میں سے اس شخص کو پکڑوا دیے شاید دوسرے ہی دن جب آپ اپنے نانا جان کے ساتھ (منصورہ نامی) جہاز پر سوار ہونے کے لئے گئے جہاز چلنے ہی والا تھا.وہ نوجوان جہاز کے دروازہ پر ہی آپ کو ملا.اور کہنے لگا.آپ نے اتنی دیر لگادی.جہاز تو چلنے والا ہے.چنانچہ انہوں نے خود ہی مزدوروں پر زور دے کر جلد جلد آپ کا اسباب جہاز میں رکھوایا.اور پھر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا کہ آپ نے بڑا احسان کیا جو ہمیں ٹکٹ لے کر دیئے ورنہ ہمارا اس جہاز پر سوار ہونا بالکل ناممکن تھا.آپ نے اس کا نام پوچھا تو معلوم ہوا یہ وہی خالد ہے جو مکہ میں بحث مباحثہ کر کے آپ کو مار دینے کی سازش میں شریک تھا !! یہ ۲۵/ دسمبر کا واقعہ ہے.آپ نے جدہ سے روانہ ہوتے ہوئے قادیان تار دے دیا تھا کہ ” میں جہاز پر جدہ سے سوار ہوتا ہوں مگر جلسہ پر نہیں پہنچ سکوں گا.ہاں یہ پیغام دیتا ہوں کہ کشتی ڈوبنے کے وقت جو حالت ہوتی ہے وہ اس وقت مسلمانوں کی ہے.سب دعاؤں میں لگ جائیں.میں نے تمام قادیان والوں اور افراد سلسلہ کے لئے بہت بہت دعائیں کی ہیں".۶ / جنوری ۱۹۱۳ء کو منصورہ جہاز جدہ سے بمبئی کے کنارے آلگا.یہاں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی آپ کی پیشوائی کے لئے پہلے سے موجود تھے.۱۰ / جنوری ۱۹۱۳ء کو بمبئی سے ریل پر سوار ہوئے اور ۱۲ / جنوری ۱۹۱۳ء کو لاہور پہنچے احباب لاہور نے آپ کا بڑے اخلاص سے استقبال کیا.کہتے ہیں چھ سو کے قریب پلیٹ فارم کے ٹکٹ

Page 452

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 423 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب 44 تقسیم ہوئے.لاہور میں اتفاق واتحاد کے موضوع پر آپ کی تقریر بھی ہوئی احباب امرت سر کے اصرار پر آپ پونے نو بجے کی گاڑی سے امرت سر اترے وہاں بھی آپ نے تقریر فرمائی پھر دو بجے کے قریب بٹالہ پہنچے.حضرت ام المومنین اپنے پیارے لخت جگر کے استقبال کے لئے بہ نفس نفیس قادیان سے بٹالہ تشریف لے گئیں.حضرت خلیفہ اول کو آپ کی مراجعت پر جو بے انتہا خوشی ہوئی وہ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی تھی.آپ کے ارشاد سے دونوں سکولوں میں تعطیل کر دی گئی اور بہت سے دوست اور مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلبہ قاریان والی نہر تک استقبال کے لئے گئے حضرت خلیفتہ المسیح اول نے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کیں اور باوجود ضعف و ناتوانی کے قادیان سے باہر دور تک آگے تشریف لے گئے.قادیان کے بقیہ لوگ جن میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب بھی شامل تھے آپ کے ساتھ تھے چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب قریباً پونے پانچ بجے شام تشریف لے آئے.اخبار "الحکم " میں لکھا ہے.پونے پانچ بجے نبیوں کا چاند طالع ہوا.جو مسرت جو شادمانی اور جو ہجوم اور پروانہ وار جان نثاران ملت کا گرے پڑنا اس موقع پر دیکھا گیاوہ سرسری نظر سے دیکھنے کے قابل نہیں ان فی ذالک لایات للسائلين " دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا آپ کے خیر مقدم پر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی (ابن شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم) نے ایک اشتہار بھی شائع کیا جس میں آپ کی تشریف آوری پر مبارک باد دی اور لکھا تھا کہ آپ کے سفر حج سے میر العرب کا الہام پورا ہوا ہے اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ شعر لکھے لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دن ہوں مرادوں والے پرنور ہو سویرا روز کر مبارک سبحان من یرانی ۱۴/ جنوری ۱۹۱۳ء کو مدرسہ کے طلباء نے آپ کے اعزاز میں ایک پر تکلف پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ اول نے تقریر بھی فرمائی.اس دن حضرت کی خدمت میں طلبائے ہائی سکول نے درخواست پیش کی کہ ہم حضرت میاں صاحب کی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کیسے کریں.آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا.”میاں صاحب کی زندگی با برکت مفید خلائق اور خادم اسلام ہو مل کر یہ دعا کرو.وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ کے جناب الہی کی تعریف اور اپنے استغفار کے بعد - نور الدین ۱۴ ر جنوری ۱۹۱۳ء " - - حضرت خلیفہ اول کے ارشاد سے دوستوں نے مسجد نور میں صلوٰۃ الحاجہ پڑھی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے لئے دعائیں کی گئیں دعا کے بعد حضرت صاجزادہ صاحب نے تقریر فرمائی جس میں اپنے سفر کے حالات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ میں نے اس سفر کے لئے ایک ماہ قبل سے استخارہ شروع کیا.

Page 453

تاریخ احمدیت جلد ۳ 424 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب بعد ازاں سنت رسول کے مطابق اسباب کی طرف توجہ کی.پھر بتایا اس سفر میں مختلف مذاہب کے لوگوں اور دہریوں کے ساتھ میرے بڑے بڑے مباحثات ہوئے اور میں نے ہمیشہ سلسلہ احمدیہ کو پیش کیا.اور خدا کے فضل سے مظفر و منصور ہوا.آخر میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ان الفاظ پر اپنی تقریر ختم کی.” جیسا کہ پیشگوئیوں سے ظاہر ہے.اسلام کی فتوحات کا زمانہ قریب ہے.طوفان بے شک بہت بڑے جوش سے اٹھا ہے اور اس طوفان میں جہاز خطرے میں ہے اس لئے ضرورت ہے اس بات کی کہ سب لوگ اوپر آجادیں اور کام کریں...یہ فارغ بیٹھنے کا وقت نہیں بلکہ کام کرنے کا وقت ہے.اٹھو اٹھو اور کام کرو.ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہت مبارک ہے".یہ سال بنگال میں احمدیت.حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب کی بیعت تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک بھاری خوشخبری لانے کا موجب ہوا.اور وہ اس طرح کہ برہمن بڑیہ بنگال کے ایک بہت بڑے عالم حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب (۱۸۵۳-۱۹۲۶) جو حضرت مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محل کے مشہور تلامذہ میں سے تھے احمدیت میں داخل ہوئے.اور ان کی تبلیغ سے ۱۹۲۱ء تک ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ احمدی ہوئے.حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا علم حکیم قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری سے ہوا.جنہوں نے حضور کے کچھ حالات بھی بھجوائے اور ریویو آف ریلیجز" کے چند پرچے بھی.ان پرچوں میں حضرت اقدس کے ایک مضمون پر جو نظر پڑی تو اس میں ایک خاص شان و عظمت محسوس ہوئی.اور لفظ لفظ میں ایک روشنی ہی دکھائی دی دل نے گواہی دی کہ یہ چیز اہل باطل میں نہیں ہو سکتی.اور اس ذوق و شوق میں حضرت اقدس کی کئی کتابیں قادیان سے منگوائیں اور ان کا بالا ستیاب مطالعہ کیا.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت شروع کر دی اور نہایت ادب سے اپنے شبہات حضور کی خدمت میں لکھے جن کا جواب حضور نے اپنے قلم سے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں شائع فرما دیا.اب صداقت منکشف ہو چکی تھی اس لئے آپ نے بعض خاص تلاندہ اور دوست وکیل دولت خاں صاحب کو حق کی تبلیغ شروع کر دی.لوگوں میں اس کا چرچا ہوا تو وہ مباحثہ کے لئے اپنے علماء لے آئے مگر وہ آپ کے سامنے ٹھہر نہ سکے.اس مناظرانہ جنگ و جدل کے بعد بھی آپ سلسلہ کی مزید تحقیق میں مصروف رہے.اسی دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا.اگر چہ حق پوری طرح کھل چکا تھا اور شرح صدر بھی حاصل ہو گیا تھا مگر اس خیال سے کہ شاید ہندوستان کے علماء کے پاس احمدیت کے بطلان کی کوئی قطعی دلیل موجود ہو.آپ اکابر علماء

Page 454

تاریخ احمدیت جلد ۳ 425 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب سے بالمشافہ ملاقات کے لئے نکل کھڑے ہوئے.آپ کا ارادہ اس سفر میں قادیان تک جانے کا بھی تھا تا حضرت مرزا صاحب کی صحبت میں رہنے والوں کی عملی دروحانی حالت بچشم خود ملاحظہ کر سکیں.چنانچہ آپ اکتوبر ۱۹۱۲ء میں مولوی امداد علی صاحب ، قاری دلاور علی صاحب اور دھانو منشی کو ساتھ لے کر برہمن بڑیہ سے لکھنو پہنچے جہاں مولانا شیلی صاحب سے تخلیہ میں ملاقات کی اور پوچھا.قادیانی عقائد کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے ؟ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر سکوت اختیار کر لیا کہ میں نے تجربہ کیا ہے جب کسی باطل مذہب کی تردید کی جائے تو وہ اور بڑھتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کی جائے تو بتدریج مٹ جاتا ہے.یہیں مولوی عبد اللہ ٹونکی بھی آگئے تھے مولوی عبد الواحد صاحب نے ان سے مسئلہ وفات مسیح کی بابت سوال کیا.تو اس کا جواب دینے کی بجائے جھٹ بول اٹھے کہ اصل کلام تو میرزا صاحب کی نبوت میں ہے اس پر مولوی سید عبد الواحد صاحب نے حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی امام عبد الوہاب شعرانی اور حضرت ملا علی قاری اور حضرت شیخ محمد طاہر کا مسلک پیش کر کے کہا کہ مرزا صاحب جس قسم کی نبوت (غیر تشریعی و علی) کے مدعی ہیں اس میں تو کوئی قباحت نظر نہیں آتی.انہوں نے آیت خاتم النبین پیش کر دی مولوی سید عبد الواحد صاحب نے کہا کہ خاتم کالفظ ت کی زبر سے ہے اس لفظ کے معنی جو آخر الانبیاء کئے ہیں اس کی عرب کے کسی مستند کلام سے کوئی نظیر دکھا سکتے ہیں جھٹ جواب دیا لا نبی بعدی.آپ نے فرمایا کہ اس قسم کی ترکیبیں حدیث میں کثرت سے آئی ہیں چنانچہ لکھا ہے لا ايمان لمن لا امانة له ولا دين لمن لا عهد له.ان دونوں حدیثوں میں "لا" کا حرف نفی جنس کے لئے نہیں نفی کمال کے لئے مستعمل ہوا ہے یہی معنی لانبی بعدی کے ہیں یعنی میرے بعد مجھ سی شان رکھنے والا کوئی نبی قیامت تک نہیں آسکتا.الغرض مسئلہ نبوت پر مغرب کی نماز تک گفتگو جاری رہی.دوسرے دن آپ حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے داماد مولوی عبد الباری صاحب سے ملاقی ہوئے مگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کی طرف توجہ دینے سے گریز کیا.اور محض مجادلانہ باتیں ہی کرتے رہے آخر آپ لکھنو سے شاہجہانپور آئے اور بریلوی فرقہ کے پیرو مرشد مولوی احمد رضاخان صاحب کے مکان پر پہنچے.اور ان سے اپنے آنے کی غرض بتائی.انہوں نے بات سنتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ جڑ دیا.مولوی سید عبد الواحد صاحب نے اس فتویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل طلب کی انہوں نے جواب دیا کہ امت محمدیہ کے نزدیک دعوی نبوت کفر ہے.آپ نے ان کے سامنے بھی وضاحت کی جیسا کہ مولوی عبد اللہ ٹونکی کے سامنے کر چکے تھے اور پہلا مطالبہ ان سے بھی کیا.مگر وہ بد حواس سے ہو گئے.آپ نے ان سے پوچھا خاتم النبین کیا مقام مدح

Page 455

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 426 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایر و اللہ کے سفر ہند و عرب میں آیا ہے؟ جواب دیا.ہاں.آپ نے پوچھا خاتم کے معنی کیا ہیں.کہنے لگے مر- آپ نے کہا.اب " خاتم النبین کے معنی کیجئے.فرمانے لگے سب نبیوں کے بعد آخر نبی.عرض کیا کہ آخری کس لفظ کے معنی ہیں.مولوی احمد رضا خان صاحب نے جواب دیا.ہم فتویٰ لکھ کر آخر میں ہی مر کرتے ہیں.آپ نے کہا میں تو ایسا نہیں کرتا.میں ہمیشہ رہنے طرف حاشیہ پر مر کر دیتا ہوں یہی دستور سرکاری کاغذوں میں ہوتا ہے.اس پر وہ بالکل لاجواب ہو گئے.مولوی احمد رضا خان صاحب سے باتیں کرتے کرتے بارہ بج گئے.اثنائے گفتگو میں بعض اوقات ان کا چہرہ زرد ہو جاتا تھا ان کی یہ کیفیت دیکھ کر آپ نے گفتگو بند کر دی.اور وہاں سے امروہہ میں مولوی محمد احسن صاحب سے ملنے کے بعد دہلی آکر مولوی عبدالحق صاحب (مولف تغییر حقانی) کے پاس پہنچے اور سوال کیا کہ ظہور مہدی و نزول مسیح کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے کہنے لگے کسی مسیح و مہدی کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں جن حدیثوں میں ان کی آمد کی خبر ہے وہ احاد کی قبیل سے اور محض ظنی ہیں.مولوی عبد الواحد صاحب نے کہا کہ حضرت ابھی آپ جو خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی کے مزار سے ہو کر آئے ہیں تو آپ کو وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی.مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے خادم کو زور سے آواز دی کہ چائے لاؤ اور مولوی صاحب کو پلاؤ لیکن آپ نے عذر کر دیا.دوسرے دن پنجاب کی طرف روانہ ہو گئے.امرت سر پہنچ کر مولوی ثناء اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی ان دنوں میر قاسم علی صاحب نے اشتہار دے رکھا تھا کہ اگر میرے تجویز کردہ الفاظ میں مولوی ثناء اللہ صاحب حضرت مسیح موعود کی تکذیب شائع کر دیں تو پچیس روپے انعام دوں گا.مگر مولوی صاحب اس طرف نہیں آتے تھے.اب جو مولوی ثناء اللہ صاحب سے ملے تو جونہی ان کی نظر آپ پر پڑی ان کا رنگ فق ہو گیا نہ معلوم اس کی کیا وجہ تھی ؟ الخصر آپ امرت سر سے بٹالہ آئے اور دوسرے دن صبح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے پاس پہنچے قبل ازیں مولوی محمد حسین صاحب نے خط لکھا تھا.کہ میرزا صاحب قادیانی کی تردید جس قدر میں نے کی ہے کسی نے نہیں کی.سات برس تک یہی کام کرتا رہا.چنانچہ " اشاعۃ السنہ" کی سات جلد میں میرے پاس موجود ہیں اور ہر ایک کی قیمت تین روپیہ ہے.آپ نے جواب دیا کہ آپ صرف یہ بتا ئیں اس سات برس کے عرصہ میں آپ نے کتنے مسائل میں مرزا صاحب کو شکست دی ہے؟ مولوی محمد حسین صاحب نے بوقت ملاقات آپ کو قادیان جانے سے روکنے کے لئے بہت کچھ حیلہ انگیز باتیں کیں.مگر آپ نے جواب دیا.جب اتنی دور آگئے ہیں تو قادیان دیکھے بغیر نہ جائیں گے چنانچہ بڑی مشکل سے آپ مولوی محمد حسین سے رخصت ہو کر قادیان پہنچے.قادیان میں آپ پندرہ دن تک حضرت خلیفہ اول سے تبادلہ خیالات کرتے رہے اور جب اپنے تمام نوٹ کئے ہوئے شبہات کا تسلی بخش جواب پا کر ہر طرح اطمینان

Page 456

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 427 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب 1-0 کر لیا.اور قادیان کے باشندوں کے حالات کو بھی غور و تدبر کی نگاہ سے دیکھ کر انشراح صدر ہو گیا.تو مزید توقف نہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول کے دست مبارک پر بیعت کرلی.حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں درخواست کی کہ بنگال میں علماء کا ایک تبلیغی وفد بھیجوایا جائے.چنانچہ حضور نے مارچ ۱۹۱۳ء میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب ، حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، مولوی مبارک علی صاحب اور مولوی ابو یوسف صاحب کو بنگال بھجوایا.اس وفد کے امیر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب تھے.وفد نے سترہ دن تک بنگال کے مختلف مقامات کا دورہ کر کے تبلیغ حق کا فریضہ ادا کیا.یہ پہلا وفد تھا جو قادیان سے بنگال بھیجا گیا.جنگ بلقان ۱۹۰۸ء میں نوجوان ترکوں کی پارلیمنٹ نے سلطان کو معزول کر کے اس کی جگہ محمد خامس کو سلطان اور خلیفتہ المسلمین بنالیا تھا یورپ کی بڑی بڑی حکومتیں اس انقلاب سے بہت مشوش ہو ئیں اور آخر 1911 ء میں اٹلی نے طرابلس پر چڑھائی کر دی پھر بلقانی ریاستوں نے بھی دول عظمیٰ کی شہ پا کر ترکی کے ساتھ جنگ چھیڑ دی.اور ترکی نہایت تشویشناک صورت حال سے دو چار ہو گیا.اس سلسلہ میں متحدہ ہندوستان کے مسلمان زعماء اور مسلمان اخبارات نے یہ تحریک اٹھائی کہ عید الاضحیہ کی قربانی کا روپیہ ترکی مجروحین کی امداد میں بھیج دیا جائے.مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے اخبار "الحلال" میں تو یہاں تک لکھا." آج نماز اور حج سے بڑھ کر ہمارا فرض ترکوں کی مدد ہے ".لیکن حضرت خلیفتہ المسیح اول سے جب فتوئی طلب کیا گیا تو آپ نے فرمایا نہیں جن پر قربانی فرض ہے وہ قربانی کے علاوہ روپیہ بھیج سکتے ہیں مگر شرعا قربانی کے بدلہ میں روپیہ نہیں دیا جا سکتا.نیز ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا.حضرت نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں بڑی ضرورتیں تھیں.خلفاء کے زمانہ میں سخت سے سخت ضرور تیں تھیں.قربانی ترک نہیں کی گئی افسوس قرآن نہ سمجھنے کا وبال ہے.کیا مسلمانوں کے پاس مال ہی نہ رہا کہ اب قربانی پر ہاتھ صاف کرنے لگے.اگر ایسے ہی مفلس ہیں تو نہ زکوۃ نہ قربانی اور نہ تعلیم پر روپیہ خرچ کریں چھٹی ہوئی اللہ اللہ تم اللہ اللہ - مکہ میں قربانیاں بند کر دیں...یو نیورسٹی کا روپیہ دے دیں.۴ کروڑ مسلمان ہیں ۴/ ہی دیں.مگر خود اسلام کے شعار کو ہاتھ سے نہ دیں.طرابلس کے غریب عرب جان دے رہے ہیں ترک میدان جنگ چند روز جاری رکھیں قد افلح المومنون والله العزة ولرسوله وللمومنين انا لننصر رسلنا والذين امنوا في الحيوة الدنيا بالکل سچ ہے حرفے بس است "...

Page 457

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 428 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب بعض نام نہاد احمدیوں نے اس موقف پر اعتراض کیا تو آپ نے مفصل تقریر کی کہ میں ترکی کو چندے دینے کا ہرگز مخالف نہیں.مگر شرعی قربانی چھوڑنا ہرگز جائز نہیں.خود ترکی حکومت نے عید کی قربانیاں ترک نہیں کیں.مکہ معظمہ میں قربانیاں ہوئیں پس ایسی باتوں میں اختلاف نہ کرو.مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے.اور میں تم میں سے کسی کا بھی احسان مند نہیں جسے یقین نہ ہو وہ مقابلہ پر آکر دیکھ لے.1 H ترکی کے لئے چندے کے بارے میں حضرت خلیفہ اول نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ روپیہ جس مقصد کے لئے لیا جاتا ہے.اس میں خرچ ہو اور صحیح مقام پر پہنچ جاوے.ایک خط کے جواب میں آپ نے یہاں تک لکھا.میں ڈرتا ہوں کہ غریبوں کا روپیہ ضائع نہ ہو جاوے".چنانچہ آپ کی یہ فراست حرف بحرف درست ثابت ہوئی.چنانچہ اسی چندہ کے پرجوش حامی الحلال کے ایڈیٹر مولوی ابو الکلام صاحب آزاد نے ایک لمبے آرٹیکل میں یہ انکشاف کیا کہ "جس شخص کا جی چاہتا ہے فرضی انجمنیں قائم کر لیتا ہے.چندوں کے لئے فہرست کھول دیتا ہے.نہ کوئی حساب و کتاب ہے اور نہ کوئی نگرانی و احتساب " - | 117 دو تحریکیں دسمبر ۱۹۱۲ ء کے آخر میں حضرت خلیفہ اول نے دو اہم تحریکیں فرمائیں..علم الرویا کا علم اللہ تعالی نے بعض انبیاء کو عطا فرمایا.اور ان سے ورثہ میں علماء امت کو پہنچا.چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر کامل استعمیر اور تعطیر الانام وغیرہ عمدہ کتابیں لکھیں حضرت خلیفہ اول نے تحریک فرمائی کہ ہم سے پہلے بزرگوں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا.لیکن اب کئی نئی ایجادیں نکل آئی ہیں ہمیں نئی ضروریات کے لئے اس فن کی ضخیم کتاب تیار کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.در سری تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لئے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف موجودہ زمانہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی صفات اس کے افعال اور اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کئے جائیں.اور رسول کریم ﷺ کے حصہ کی ادائیگی کے لئے حدیث شریف کی اشاعت اور حضور کی ذات اور حضور کے خلفاء پر اعتراضات کے جوابات پر روپیہ خرچ کیا جائے.۲۸ / دسمبر ۱۹۱۲ء کا واقعہ ہے کہ قاضی محمد یوسف صاحب کے ایک رقعہ کا جواب قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری حضور کی خدمت میں دعا کا ایک رقعہ لے کر حاضر ہوئے.آپ چارپائی پر مطب میں تشریف فرما تھے.

Page 458

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 429 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اید و اللہ کے سفر ہندو عرب اور دونوں طرف اکبر شاہ خاں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیٹھے تھے.حضرت خلیفہ اول نے رقعہ کی پشت پر چند الفاظ لکھے جن سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ آپ کو خدا کی طرف سے آئندہ بعض اختلافات سلسلہ کے بارے میں انکشاف ہو چکا تھا.اور آپ کسی نہ کسی رنگ میں اس کا اظہار بھی فرما دیتے تھے.الفاظ یہ تھے."انشاء اللہ بہت دعا کروں گا.آپ خود بھی دعا کریں.ایک رؤیا ہے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ایران برباد ہو گئی گو مجھے تیرا کرتے ہیں مگر اس کی پرواہ نہیں.اب فوجیں تیار کرتا ہوں اللہ کرے تم بھی افسر فوج ہو جاؤ ".االم حضرت خلیفہ اول کی تحریک پر ۱۹۱۲ء کے ابتداء میں قادیان کے بعض "انجمن مبلغین " کا قیام نوجوانوں نے ایک انجمن مبلغین " بنائی جس کا نام "یادگار احمد " بھی تھا.اس انجمن کی غرض اسلام کی تائید اور باقی مذاہب کے ابطال میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کرنا تھا.اس انجمن نے پہلا ٹریکٹ "کسر صلیب" کے نام سے شائع کیا.جو حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے قلم سے نکلا.اس انجمن کی دیکھا دیکھی لاہور میں احمدیہ ینگ مین ایسوسی ایشن بھی قائم ہوئی جس نے کئی پمفلٹ چھاپے.ma بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر راجپورہ بٹھنڈا ریلوے لاہور ”خطبات نور“ کی اشاعت نے حضرت خلیفہ اول کے خطبات کتابی شکل میں شائع کئے اور جس کا نام خود حضرت ہی نے خطبات نور رکھا.اور خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی ان کو جمع کرے گا.بڑی محنت کی ہے.جیسی آپ نے ان سے محبت کی ہے خدا آپ سے محبت کرے".قبل ازیں یہ تحریر اپنے دست مبارک سے لکھ کر دی."بابو عبد الحمید صاحب نے میری اجازت سے اور مجھے مسودات دکھانے کے بعد میرے خطبات کو کتاب کی صورت میں شائع کرنے کا انتظام کیا ہے.اللہ تعالی اس اخلاص کے واسطے انہیں جزائے خیر دے اور ان کے کام کو با برکت کرے".| IIA ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب سے خط و کتابت ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے عربی ادب کی اعلیٰ ترین کتب کے بارے میں حضرت خلیفہ اول سے راہ نمائی چاہی تھی چنانچہ آپ نے ۲ / دسمبر ۱۹۱۲ء کو عربی کے ادبی لٹریچر کی ایک فہرست بھجوائی اور لکھا کہ علم ادب کی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب مخل بالطبع ہو کر عرض کرتا ہوں اور اس امر میں بڑے بڑے ادیب میرے ساتھ ہیں.حتی کہ جرمنی کے عربی دان بھی کہتے ہیں کہ عربی کی بہترین کتاب قرآن

Page 459

تاریخ احمدیت جلد ۳ مجید ہے.| 119 430 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب دسمبر ۱۹۱۲ء میں حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کا واضح اعلان فرمایا.میں حیران ہوں کہ لوگ اگلے مجد دوں کو تو مانتے ہیں جن میں کسی نے کھل کر یہ دعویٰ نہیں کیا.کہ مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے اور محض اس لئے مان لیا.کہ ان میں سے کسی نے بہت سی کتابیں تصنیف کر دیں اور اس مجددا عظم کا انکار کرتے ہیں جو مج منیرہ کے ساتھ آیا.اور اس میں دوسرے مسجد دوں سے کئی باتیں بڑھ کر ہیں.مثلاً یہ کہ خدا کی وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اسے بطور حجت بارہا اعلان کر کے شائع کیا.پھر آنحضرت کے سال ہائے نبوت سے زیادہ مدت گذر گئی.دوم تمام مجددوں میں سے نبی اللہ صرف آپ ہی کے لئے احادیث میں آیا ہے دیکھو مسلم سوم آپ نے تمام مخالف اسلام مذاہب کی تردید قرآنی آیات سے کی اور اسلام کو تمام ادیان پر حسب پیشگوئی لیظهره على الدين كله غالب کر دکھایا.ترکی کی شکست اور حضرت مسیح موعود کی ایک پیشہ کی جنگ بلقان میں ترکی کی پیشگوئی بہت ہوئی جو پورے شکست عالم اسلام کے لئے نہایت درجہ درد ناک حادثہ تھا.مگر اس موقعہ پر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی.اس لئے خواجہ کمال الدین صاحب نے ولایت کے ایک انگریزی اخبار میں مضمون لکھا کہ " آج سے ۹ سال پہلے احمد نبی قادیان نے صاف اور صریح اور بلا مغشوش الفاظ میں پیشگوئی کی....غلبت الروم في ادنى الارض و هم من بعد غلبهم سيغلبون في بضع سنین ریویو آف ریپیرو اردو جنوری ۱۹۰۴ء) ترک اس زمین میں جو ان سے ملحق ہے مغلوب ہوں گے اور پھر چند سالوں میں اپنے دشمن پر غالب آئیں گے اس پیشگوئی کا پہلا حصہ قریباً پورا ہو چکا ہے " اور عنقریب رہ وقت آنے والا ہے جبکہ واقعات آئندہ اس کے بقیہ حصہ کو پورا کر دیں گے.عربی الہام میں الفاظ ادنى الارض بہت ہی معنے خیز ہیں ان سے مراد بہت ہی قریب کی زمین اور ملک جو ترکی کی سرزمین کے ملحق ہو جس سے صاف طور پر بلقان کی زمین مراد ہے.( ترجمہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں " بضع سنین " کا لفظ بتاتا تھا کہ یہ حادثہ تین سے نو سال تک کے عرصہ میں وقوع پذیر ہو گا.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا اور جیسا کہ اس میں یہ خبر تھی کہ ترک پھر غالب آئیں گے.مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترک مسلمان شاہ راہ ترقی پر گامزن ہو گئے اور عجیب بات ہے کہ مغلوبیت کے ٹھیک 9 سال کے اندر اندر وہ اس قابل ہو گئے.کہ یونان کو پہلی

Page 460

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 431 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب شکست دے سکیں.چنانچہ " تاریخ اقوام عالم " (مولفہ مرتضی حسن خاں) میں لکھا ہے."مصطفیٰ کمال پاشا نے انقرہ میں بیٹھ کر نئی فوج مرتب کی اور ۱۹۲۱ء میں انقرہ سے چند میل کے فاصلہ پر یونانیوں کو پہلی شکست دی" - ۱۲۳ حضرت خلیفہ اول نے ۲۵/ دسمبر حضرت خلیفہ اول کی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۲ ء پر ۱۹۱۲ء کو نماز ظہر کے بعد مسجد اقصیٰ میں ایک تقریر دلپذیر فرمائی جس میں جماعت کو وحدت و اتحاد کی تلقین فرمائی.چنانچہ ارشاد فرمایا.ملکوں پر ملک تمہارے قبضہ سے نکلتے چلے جاتے ہیں.سمرقد ، بخارا، دہلی، لکھنؤ ، مصر ، مسقط ، زنجبار مراکش، تیونس، طرابلس ، ایران وغیرہ بارہ سلطنتیں مسلمانوں کی میرے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو ئیں اور اب قسطنطنیہ پر بھی دانت ہے یہ کیوں ہوا؟ قرآن میں اس کا سبب لکھا ہے.ولا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم باہم جھگڑے چھوڑ دو تم مست ہو جاؤ گے.تمہاری ہو ا بگڑ جائے گی".حضرت صاحبزادہ صاحب سفر حجاز میں تھے اس لئے ان کے خطوط جلسہ کے موقع پر سنا دیے 173-2

Page 461

تاریخ احمد بیت - جلد - 432 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و حرب ۱ بدر ۲/ مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳ کالم - د.حواشی باب پنجم آپ کے علاوہ مائے خاص میں جن خوش قسمت دوستوں کو شرکت کی سعادت میسر آئی ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب حضرت مولوی عبداللہ صاحب بو تالوی - حضرت سید سعید الدین احمد صاحب سونگڑدی.(بدر ۲ / مئی ۱۹۱۲ء الفضل ٢٦ / اگست ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم ۱ - الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴ کالم (۳) ملک بشیر علی صاحب (منڈی بہاؤ الدین) کا بھی بیان ہے کہ وہ اس موقعہ پر شامل درس تھے.رجسٹر نمبر۵ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۲۰۱۱ء صفحہ ۳۰۴ الحکم جوبلی نمبر صفحہ ۱۶ کالم :- یہاں مزید یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ نے خلافت اولی کے زمانہ میں جس قدر سفر کئے ہیں انجمن سے ایک پائی تک طلب نہیں کی (ہدایات زریں صفحہ ۸۴) الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ا کالم ۲۶ ا حکم ۲۸-۲۱ / اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ اکالم ۲- و الحکم ۱۴-۷ / مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲ مفصل خطبہ کے لے مار دے ہو بدر۳۰/ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲ کالم ۳۴۲ مفصل حالات کے لئے " حیات شیلی " پڑھئے رو نداد جلسه ندوۃ العلماء ۱۹۱۳ء صفحہ ۵۱ - تفسیر کبیر الماعون صفحه ۱۳۲۶ واقعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی مولانا شیلی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو مد عو کرنے کے علاوہ خواجہ کمال الدین صاحب کو بھی لیکچر کے لئے بلایا تھا.مولانا شبلی کی اس وسعت حوصلہ کے مقابل دوسرے علماء کی تنگ ظرفی ملاحظہ ہو کہ وہ اس بات پر مقرضہ ہے کہ احمدیوں کو کیوں شامل جلسہ کیا گیا ہے.چنانچہ سید سلیمان ندوی "حیات شیلی" (صفحہ ۵۲۹) میں لکھتے ہیں.” مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کا کام تمام فرقے مل کر کریں.اس لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد جواب خلیفہ قادیان ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا.اس پر اس جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا.کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی.مگر مولانا شروانی کی ثالثی سے یہ بلا ٹلی".الفضل ۳۵/ جون ۱۹۶۰ء صفحه ۴ کالم ۳ ۱۲ تفسیر کبیر البقره جز دوم صفحه ۵ الحکم ۷۰۱۴ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۸ کالم - صد را مجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۱۲ ۱۳- الحکم ۷۰۱۴ / مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۸ کالم ۲۰۱ ۰۱۴ الحکم ۷۰۱۴ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۸-۹ ٹریکٹ جواب اشتہار جناب غلام سرور صاحب کانپوری از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالٰی آئینه صداقت صفحه ۱۵۲٬۱/۱۵۲ / ب الحکم ۱۸-۷ الر مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۱۰ یہ مجلس مولوی محمود الحسن صاحب نے 1909ء میں قائم کی تھی.جس کے سلسلہ میں علی گڑھ کالج سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ کالج کے وہ طلبہ جو تبلیغ کا شوق رکھیں دیو بند میں جاکر علوم اسلامیہ حاصل کریں اور جو دیو بند سے فارغ ہو کر انگریزی پڑھنا چاہیں.ان کے لئے علی گڑھ کالج میں خاص انتظام کیا جائے گا.(موج کوثر صفحہ ۲۲۴) ۱۸- الحکم ۱۴-۷ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۱-۱۲ -19 الحکم ۱۴-۷ / مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۱۲ ۲۰ جواب اشتهار جناب غلام سرور صاحب کانپوری صفحه ۲-۱۸ یہ ٹریکٹ قادیان کی احمد یہ لائبریری میں محفوظ ہے)

Page 462

تاریخ احمدیت جلد ۳ 433 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے مقربت ، ذب ۲- احکم ۱۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲ کالم ۲ -۲۲ حضرت مولوی سید عبد الستار صاحب افغان حضرت مولوی ابو الحمید صاحب سب رجرار حیدر آباد دکن حضرت مولوی سعید احمد صاحب مدرس دینیات حیدر آباد دکن مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول میاں غلام حسین صاحب کلرک دفتر نظارت صدرانجمن (بدر۲ جون ۱۹۱۲ء صفحه اکالم ۱-۲) ( بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم ۲) ۲ در ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۴-۵- ۲۴- احکم ۱۷۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ کالم ۳ ۲۵- اس بلڈنگ پر جو مال روڈ پر واقعہ ہے آج تک یہ کتبہ نصب ہے.ماشاء الله لا قوة الا بالله دار الرحمت جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح مولوی حکیم نور الدین صاحب نے ۱۵ جون ۱۹۱۲ء مطابق ۲۸/ جمادی الثانی ۱۳۲۰ھ کو رکھا بدر کے ۲/ جون ۱۹۹۲ء ۲۷- بدر / جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۶-۷ ۲۸ احکم ۲۸-۲۱ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۰ پر شعبہ کا لفظ چھپا ہے ۲۹- بدر / جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۵۰۴ ۳۰- بدرا لا جولائی ۱۹۱۱ء صفحه ۳-۴ اس تقریر میں آپ نے اس خیال کا بھی رد کیا کہ خلافت کے بارے میں لاہوری روک ہیں آپ نے فرمایا " جس طرح ابو بکر اور عمر خلیفہ ہوئے رضی اللہ عنہما اسی طرح پر خدا تعالٰی نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا.پس جب خلیفہ بنانا اللہ تعالی ہی کا کام ہے.تو کسی اور کی کیا طاقت ہے کہ اس کے کام میں روک ڈالے؟" اس موقعہ پر کسی شریر نے جو بظاہر اہل بیت کا محب اور در پردہ منکرین خلافت کے ساتھیوں میں سے تھا محض فتنہ کھڑا کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ خلافت کا حق کسی کا تھا اور دی گئی کسی کو.حضرت خلیفہ اول نے اپنی تقریر میں اس شخص کو رافضی.جھوٹا اور فاسق قرار دیا.اور اس کے اصل مطلب کو کمال فراست سے بھانپ کر حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی اور خاندان مسیح موعود کی اطاعت کی ازحد تعریف فرمائی.اس تقریر کے دوران حضرت خلیفہ اول نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ لاہوریوں پر بد ظنی نہ کرو.اس ذریعہ سے آپ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عین ممکن ہے کہ ان میں کبھی تبدیلی ہو جائے.اور ان لوگوں کو ایک اور موقعہ دیا کہ وہ سنبھل جائیں.مگر افسوس بعد میں خفیہ ٹریکٹوں نے ان کے سب باطنی عزائم و خیالات بے نقاب کر دئیے.اور ان کے متعلق حسن ظنی کا کوئی پہلونہ رہا.۳۲- بدر ۱۸/ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ے میں یہ تقریر مفصل چھپی ہوئی ہے.۳۳.رساله فرقان ( قادیان) جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۰ ۳۴ تفسیر کبیر (النور) صفحه ۴۰۷ ۳۵ بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۵ کالم ۳.مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۰۲۱ ۱۴/ اگست ۱۹۱۴ء بدر ۲۵ / جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۵ کالم ۳۷- بدر۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۵ کالم ۳ ۳۸.آپ بر صغیر پاک و ہند کے مشہور مورخ.اردو کے بلند پایہ ادیب.بہت سی اعلیٰ درجہ کی تاریخی اور تحقیقی کتب کے مولف اور کئی

Page 463

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 434 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہند و عرب اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر تھے.۱۸۵۷ء میں بمقام نجیب آباد پیدا ہوئے.۱۹۰۵ ء میں پہلی مرتبہ قادیان میں آئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے دسمبر 1994ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں فارسی ٹیچر مقرر ہوئے.۱۹۰۷ء میں تبلیغ اسلام کے لئے زندگی وقف کی.۱۹۱۲ ء میں ” مرقاۃ الیقین " شائع کی پھر مئی ۱۹۱۴ء میں رخصت بلا تنخواہ پر ہمیشہ کے لئے قادیان سے لاہور چلے گئے یہاں عرصہ تک اخبار "پیغام صلح کی ایڈیٹری کرتے رہے.پھر "زمیندار" کے ایڈیٹر ہو گئے.دیال سنگھ کالج کے پروفیسر بھی ہوئے.پھر وطن چلے گئے.اور ایک رسالہ عبرت " جاری کیا اور سلسلہ سے بے تعلقی کی حالت میں ۱۲ / مئی ۱۹۳۸ء کو نجیب آباد میں انتقال کر گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون (ا حکم ۱۴/ نومبر ۱۹۱ ء صفحہ ۷-۸- رسالہ نقوش لاہور نمبر صفحہ ۹۳۲- رجسٹر نمبرے ریکارڈ صد را انجمن احمدیہ ۱۴- ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۷۳ ۹ مرقاة الیقین صفحه ۱۵۰۱۴ مقدمه) ۴۰ کتاب کا نام حضرت حافظ روشن علی صاحب نے تجویز فرمایا اور کتابت منشی کرم علی صاحب خوشنویس نے فرمائی.(مرقاۃ الیقین صفحہ (۲۷) یہ حصہ اول تھا.اکبر شاہ خان نے دوسرے حصہ کے لئے بھی شبانہ روز کوشش سے بہت سا مواد فراہم کر لیا تھا اور ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے اس کے لئے ان کو مناسب حدید کی پیشکش بھی کی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا.اسی اثناء میں ان کی وفات ہو گئی.ملک صاحب نے ملک بشیر علی صاحب (حال منڈی بہاء الدین) کو مسودات کی تلاش میں نجیب آباد بھیجا.لیکن چنداں کا میابی نہ ہوئی.المرقاۃ الیقین " کے کئی ایڈیشن آج تک چھپ چکے ہیں پہلا ایڈیشن ۱۹۱۳ء میں چھپا اس کے بعد احمد یہ المجمن اشاعت اسلام لاہور اور الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ نے شائع کیا.انجمن اشاعت اسلام نے اس کی اشاعت پر کچھ تصرف کر کے حضرت کے شجرہ نسب کے ابتدائی الفاظ جو ہد ر ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ء سے ماخود تھے حذف کر دئیے.کیونکہ ان میں لکھا تھا." آج سے تیرہ صدیاں قبل حضرت عمر خلافت نبوی کے مالک ہوئے تھے آج ان کے ایک بیٹے کو خدا تعالٰی نے ایک نبی کا خلیفہ اول بنا دیا ہے".(مرقاۃ الیقین پہلا ایڈیشن صفحہ ۱۶) مرقاۃ الیقین " کاوہ حصہ جو آپ کی رقم فرمودہ سوانح پر مشتمل ہے "حیات نور الدین " کے نام سے شائع شدہ ہے اس کے آخر میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے آپ کی قادیان کی زندگی کے مختصر حالات بھی درج ہیں.۲ ریویو آف ریلیم اردو ۱۹۱۴ء صفحه ۷۲۰۴۹ ۲۳.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مجدد اعظم حصہ سوم میں لکھتے ہیں.اور کنگ مشن بھی کسی تیار کردہ اسکیم کا نتیجہ نہ تھا.خواجہ کمال الدین صاحب کو ایک مقدمہ میں وکالت کا کام سر انجام دینے کے لئے انگلستان جانا پڑا.(صفحہ ۳۲۷).۴۴- پیغام صلح جلد نمبر صفحه ۳ کالم ۴۵ بدر ۲۰۲۰/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴ کالم الحکم ۱۳/ نومبر ۱۹۱۳ء صلح - الف ن ۴- پدر ۳۱ / اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳ کالم -۳- ڈاکٹر ن شتر ۱۸۳۲ء میں ہنگری میں پیدا ہوئے آٹھ سال کی عمر میں قسطنطنیہ میں عربی اور ترکی سیکھنی شروع کی.نومبر ۱۸۷۴ء میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل نے عرصہ دراز تک اسلامی ملکوں کی سیاحت کی اور اسی دوران میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام عبد الرشید سیاح رکھا اور دو جلدوں میں تاریخ اسلام لکھی ۱۸۸۶ ء میں وہ لا ہور سے چلے گئے مسجد دو کنگ انسی کی یادگار ہے ۲۲/ اپریل ۱۸۹۹ء میں جرمنی میں فوت ہوئے.( " نقوش لاہور نمبر صفحہ ۹۴۲) مجدد اعظم حصہ سوم صفحہ ۳۲۸- پیغام صلح ۷ / جون ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم - احمد کی جنتری ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۳ مرتبه من منظور الی صاحب چودھری فتح محمد صاحب سیال مسلم مشنری انگلستان کا بیان الفضل یکم جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم ۴ ۵۰ - مجد دا هم جلد سوم صفحه ۳۲۸ ۵- پیغام صلح یکم مارچ ۱۹۱۴ء صفحه اکالم ۲ ۵۲- لارڈ ہیڈلے کے اپنے بیان سے ظاہر ہے کہ ان کے قبول اسلام میں خواجہ صاحب کی تبلیغ کا کچھ اثر نہیں وہ مدتوں سے اسلامی عقیدہ پر قائم تھے چنانچہ لکھتے ہیں." میرے موجودہ اعتقادات میری کئی سالوں کی تحقیقات اور تفتیش کا نتیجہ ہیں میرے دوست خواجہ کمال الدین صاحب نے ذرہ بھر کوشش مجھے اپنے زیر اثر لانے کی نہیں کی.(پیغام صلح ۱۶ / د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۳ یہ رہی

Page 464

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 435 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے فریندا عرب لارڈ ہیڈلے ہیں جن پر دائر لو اسٹیشن کے باہر مے نوشی کا ارتکاب کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا تھا.(الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحه ۳-۳ ۵۳- مجدد اعظم حصہ سوم صفحه ۳۲۸ ۵۴ پیغام صلح ۲۰/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۲-۳ ۵۵ حیات عثمانی صفحه ۲۴۰ مطبوعہ اعظم اسٹیم پریس گورنمنٹ ایجوکیشنل پر نظر حیدر آباد دکن ۶۱۹۳۶ ۵۲ رسالہ " شریف بی بی " اخبار ایڈیٹر محبوب عالم منشی ۱۰ / ایریل ۱۹۷۳ ء اخبار (پیغام صلح ۷ اد ممبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳ ۵۷- پیغام صلح ۳/ جنوری ۱۹۱۴ء صفحه اکالم ۲۵۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳- المال ۲۴/ دسمبر ۶۱۹۱۳ صفحه ۴۷۴- پیغام صلح ۲۵/ د سمبر ۶۱۹۱۳ صفحہ ا کالم ۳ -۵۸ پیغام صلح ۲۸/ د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۸ کالم -۳- نیز ٹریکٹ دو کنگ مشن کی اجمالی کیفیت " ۵- بدره / مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۲ کالم ۲ -۲۰ پیغام صلح ۱۸/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم مکتوب ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ قادیانی مذہب یار پنجم از پروفیسر الیاس برنی صفحه ۸۳۲ ۶۲ مجاہد کبیر صفحه ۱۸۸ اخبار من (بجنور۲۷ / جون ۱۹۲۸ء ورکنگ کے ایک سابق امام عبد الجید خان نے لکھا.لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے.کہ دو کنگ مشن جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے دو کنگ مسجد اور مشن بالکل آزاد ادارے ہیں اور کسی بھی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے دو کتگ مسجد اور مشن کا تعلق احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے صرف اور صرف اتنا ہے کہ انجمن مشن کے بجٹ کو پورا کر دیتی ہے (پاکستان ٹائمز حید سپلیمنٹ ۱۹/ جولائی ۱۹۵۶ء) بدر ۳/ اکتوبر ۱۹۲ء صفحه ۲ احکم جوبلی نمبر صفحہ ہے کالم -- آپ کی عدم موجودگی میں حضرت مولوی شیر علی صاحب افسر یہ رسہ اور حضرت مولوی سید سرور شاه صاحب ان کے تعلیمی مشیر قرار پائے ( ریکار ڈ صدر المجمن احمد یہ رجسٹر نمبر۵ صفحه ۱۳۴) - بدر ۳/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم - الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء صفحه ۴ کالم ۲ ۶۹- پدر ۳/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم : بدر ۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم ا بدر الر اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم ۳۰۲ الفضل ۱۱۰ مئی ۱۹۴۲ء صفحه ۵ کالم ۳-۴ -۷۲ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم ۲-۴- ایضا خالد مئی ۱۹۷۱ و صفحه ۵ الحکم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم) ۷۴ سیر روحانی جلد سوم صفحه ۱۳ ۱۴ خالد مئی ۱۹۶۱ء صفحه ۵ر صفحه ۱۲ ۷۵- خالد متکی ۱۹۶۱ء ۷۶.خالد مئی ۱۹۶۱ء صفحہ 11 کے.خالد مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۸ ۷۸ - الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۵ کالم ۴۴۳ و خالد مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۰ او حکم ۲۸-۲۱ / جنوری ۱۹۱۳ ء صفحه ۲ کالم ۳ و اخبار بد / ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ اکالم ۲۰۱ -- پدر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم ۳۰۲ ۸۱ - بدر ۱۲ / د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه اکالم ۳

Page 465

تاریخ احمدیت جلد ۳ 436 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ کے سفر ہندو عرب ۸۲- پدر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ کالم ۱-۲- حضرت خلیفتہ اصبح نے اس دن فرمایا.”میاں صاحب نے اس سفر میں بہت تبلیغ کی ہے بڑا کام کیا ہے بہت بڑا کام کیا ہے (اخبار بدر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ۱) ۰۸۳ پدر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم ۲ ۸۴- تفسیر کبیر (سورة البقره جز دوم) صفحه ۴۵۱ ۸۵- بدر ۱۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم ۲ ۸۶ - الحکم ۷ /دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۵- اس جگہ اس واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مکہ میں آپ سے کہا گیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کا حکم ہے کہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتا.اور آپ نے بوجہ ادب سمعا وطاعتہ دو ایک نماز پڑھ بھی لی مگر جب حقیقت کھل گئی کہ حکم کوئی نہیں تھا تو یہ نماز بھی دہرائی اور ہمیشہ الگ جماعت کرا کے مسجد حرام میں نماز پڑھتے رہے.قادیان اگر آپ نے جب اس بات کا تذکرہ حضرت خلیفہ اول کے سامنے کیا تو آپ بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ نے مکہ میں غیروں کے پیچھے کبھی کسی کو نماز کی اجازت دی ہے تو جان کا خوف اور فتنہ سے بچانے کے لئے (الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ہو الفضل ۷ / مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۵ کالم او آئینہ صداقت صفحه ۹۱-۹۲) الحمام ۷۰۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۹ کالم ۲-۳ الحکم ۷۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صلحہ کالم 1 ۸۹ الحکم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۹۰ تفسیر کبیر ( الغاشیه) صفحه ۴۵۲ له الحکم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ ء صفحہ ۹ کالم 1 تفسیر کبیر الغاشیه صفحه ۴۵۲-۴۵۳ الحکم ۷۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۲۶ ۰۹۳ الحکم ۷۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲- آپ مکہ میں تبلیغ احمدیت کی مزید تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں.وہاں میں نے تبلیغ شروع کی اور خدا نے اپنے خاص فضل سے میری حفاظت کی.اس وقت حکومت ترکی کا وہاں چنداں اثر نہ تھا اب تو شاہ حجاز کے گورنمنٹ انگریزی کے زیر اثر ہونے کے باعث ہندوستانیوں سے بدسلوکی نہیں ہو سکتی مگر اس وقت یہ حالت نہ تھی اس وقت تو وہاں جس کو چاہتے گرفتار کر سکتے تھے مگر میں نے تبلیغ کی اور کھلے طور پر کی لیکن جب ہم وہ مکان چھوڑ کر واپس ہوئے.تو دوسرے دن اس مکان پر چھاپہ مار آ گیا اور مالک مکان کو پکڑ لیا گیا کہ اس قسم کا کوئی شخص یہاں تھا " ( الفضل سے / مارچ ۱۹۲۱ء) ۹۵ تفسیر کبیر (الغاشیه) صفحه ۴۵۲-۴۵۴- الحکم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۰ کالم الحکم ۷۰۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم الحکم ۷۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۴ کالم ۲ ۹- الحکم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم ) -46 -44 -4** احکام ۷۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء.یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ حضرت ام المومنین کے ارشاد پر مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری اس سفر کے دوران میں قادیان مقیم رہے اور حضرت میاں صاحب کی واپسی تک ہر نماز میں احباب کو دعا کی تحریک کرتے رہے.واپسی پر ام المومنین نے ایک دو تھی اور جائے نماز عطا فرمائی ) (نصرت الحق صفحہ ۳۵) الحكم ۱۴-۷ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۰ کالم ۱-۲ ۱۰۱ الحکم ۲۸-۲۱ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۱-۲- یاد رہے یہی وہ اشتہار ہے جس کے متعلق مولفان " مجاہد کبیر نے محمد اسلم غیر احمدی - " جرنلسٹ کے حوالہ سے یہ طنر کی ہے کہ اس سے پیر پرستی کی بو آتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود کو احمد نبی اور آپ کے خاندان کو خاندان نبوت لکھا گیا تھا !! 10 الحکم ۷۰:۱۴ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۲ ۱۰۳ اصل خط حضرت خلیفہ اول کے خاندان میں محفوظ ہے.

Page 466

تاریخ احمدیت جلد ۳ 437 حضرت مرزا رین محمود احمد اید و اللہ کے سفر ہندو عرب الحکم ۲۸-۲۱/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۲-۳ -۱۰۵ ملخصا از جذبات الحق تصنیف لطیف مولانا سید عبد الواحد صاحب الحکم کے نومبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۸ کالم ہو ۱۰- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵/ اپریل ۱۹۷۳ء صفحه ۴ کالم ۱۲ تقریر جناب مولوی محمد صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان) حیات قدی حصہ چهارم صفحه ۵۵-۵۹ ۱۰۷ تاریخ اقوام عالم از مرتضی حسن خان صفحه ۶۶۸-۷۶۹ ۱۰۸ الحکم ۷ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ - اخبار وکیل پیسہ اخبار اہلحدیث وطن اور الحلال کے تبصروں کے لئے ملاحظہ ہو شہید الاذہان دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۵۲۹-۵۳۳ ۱۰۹.الحکم ۱۴/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ کالم 1 الحکم ۱۴/ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ الله الحکم ہم اردو سمیر ۱۹۱۲ ء صفحہ ہے WH- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۷۱۴ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۹-۱۰ الحکم ۱۴ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ کالم ར به تفصیل جناب قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے چند دن قبل بذریعہ تحریر مولف ہذا کو بھجوادی اور لکھا تعبیر جو واقع ہوئی حضرت عمر سے مراد حضرت فضل عمر ایران سے مراد غیر مبایعین کا گردہ تیر افضل عمر بر کرتے ہیں جو منکرین خلافت کا فعل ہے تو جیں جماعت احمدیہ کے مجاہدین خاکسار یکم جنوری ۱۹۱۵ء سے ۱۲۱ دسمبر ۱۹۶۲ء تک سلسلہ کے اہم عہدوں پر رہا.جو اس روباری کا نتیجہ ہے".۱۱۵ الحق ۲۸ / فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۲ کالم ۲۴۱ ١٦- الحق ۳۰ / مئی ۱۹۱۳ ء صفحہ ۱۴ و ۲۷/ جون ۱۹۱۳ء صفحه ۸۰ ولادت ۱۸۸۴ء بیعت جون ۱۹۰۳ء خلافت اولی و ثانیہ میں بحیثیت آڈیٹر ان کو سلسلہ کی متعدد خدمات کا موقعہ ملا چودھری محمد مام ظفر اللہ خان صاحب کے لاہور سے جانے کے بعد امیر جماعت لاہور مقرر ہوئے.-+ خطبات نور حصہ اول سرورق صفحہ ۴۲ کتاب کے دو حصے شائع ہوئے پہلا جولائی ۱۹۱۲ء میں دوسرانو مبر ۱۹۱۲ء میں یہ حصہ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۰ء تک کے خطبات جمعہ و عیدین پر مشتمل تھے.اصل خط کی نقل خاندان حضرت خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے.الحکم ۱۴/ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۲ کالم ۲-۳ یہ پہلا اور آخری موقعہ ہے کہ خواجہ صاحب نے لندن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بحیثیت نہی پیش کیا اور نہ وہ احمد بیت کا ذکر سم قاتل سمجھتے تھے.مگر دل نے آخر گواہی دی کہ یہ عظیم الشان خبرنی ہی کی زبان سے ہو سکتی ہے.۱۲۲ بدر ۱۹ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۴ ۱۳۳ بدر ۹/ جنور کی ۱۹۱۳ء صفحہ ۷۱ ۱۲۴ پدر ۲۰/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۸ کالم ۲ ۱۳۵ اخبار بد ر۹ / جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۶ کالم

Page 467

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 438.اخبار " الفضل " اور " پیام صلح " کا اجراء چھٹا باب اخبار الفضل“ اور ”پیغام صلح" کا اجراء.تحریک انصار اللہ کے ممبر مصر و انگلستان میں لاہور کے گمنام ٹریکٹوں کی شورش اور سالانہ جلسہ پر خلافت حقہ کی تائید کا روح پرور نظارہ جنوری ۱۹۱۳ء سے دسمبر ۱۹۱۳ء تک بمطابق ۱۳۳۱ھ تا ۱۳۳۲ھ) عربی ممالک میں تبلیغ اس سال مربی ممالک تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے مصالح العرب میں کے نام سے بدر کے ساتھ ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہوا جو سید عبد الحی عرب صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا.ہال کی تعمیر کی تحریک حضرت خلیفہ اول نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپرد یہ خدمت فرمائی کہ قرآن مجید کے درس کے لئے ایک خاص کمرہ تعمیر کیا جائے.حضرت ام المومنین نے زمین کا ایک حصہ اس غرض کے لئے مرحمت فرمایا.ا کلمات قرآنی کی فہرست حضرت خلیفتہ امسیح اول نے بعض خدام کو یہ کام سپرد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے اسماء افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں اس طریق سے خدام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس پر غور و فکر کی عادت پیدا کرنا مقصود تھا.مولوی ارجمند خان صاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھارھواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا مگر سہوا میں نے اس پر نہ پارے کا نام درج کیا نہ اپنا حضرت نے ان سے پوچھا کیا نام ہے.عرض کیا.ارجمند خاں".فرمایا نام تو بڑا پیارا ہے پھر خود اپنے قلم سے نام لکھ دیا.

Page 468

تاریخ احمدیت جلد ۳ 439 اخبار " الفضل" اور "پیغام صلح " کا اجراء حضرت خلیفہ اول قرآن مجید کا درس پانچ مرتبہ دے چکے بخاری شریف کا ایک عام درس تھے کہ آپ نے مارچ ۱۹۱۳ء سے قرآن کے درس سے پہلے بخاری کا بھی عام درس شروع فرما دیا.اور ایڈیٹر الحکم شیخ یعقوب علی صاحب تراب حضرت کے حکم سے اسے مرتب کرنے لگے.یہ درس کئی ماہ تک اخبار بد ر میں بطور ضمیمہ چھپتا رہا.پادری غلام مصیح کے لیکچر کارد پادری غلام صحیح نے "عظمت صحیح از روئے قرآن" کے عنوان سے فورمین کرسچن کالج میں ایک لیکچر دیا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے " شمیذ الاذہان میں اس لیکچر کے رد میں ایک تحقیقی مضمون لکھا جس میں قرآنی نقطہ نگاہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کا حقیقی منصب و مقام پیش کر کے ان کے اصلی خدو خال پیش فرمائے.ایک غیر احمدی صحافی (اخبار نویس) محمد اسلم قادیان میں ایک غیر احمدی صحافی کی آمد صاحب امرت سر سے قادیان آئے اور چند دن قیام کر کے واپس چلے گئے.انہوں نے حضرت خلیفہ اول اور جماعت کا نہایت قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات پر ایک تفصیلی بیان دیا.اس بیان سے (جس کے بعض ضروری اقتباسات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں) حضرت خلیفہ اول اور آپ کے عہد خلافت کی قادیان پر بہت تیز روشنی پڑتی ہے.مسٹر محمد اسلم نے لکھا:.عالم اسلام کی خطرناک تباہ انگیز مایوسیوں نے مجھے اس اصول پر قادیان جانے پر مجبور کیا کہ احمدی جماعت جو بہت عرصے سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ دنیا کو تحریری و تقریری جنگ سے مغلوب کر کے اسلام کا حلقہ بگوش بنائے گی.آیا وہ ایسا کرنے کی اہمیت رکھتی ہے......مولوی نور الدین صاحب جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلمہ پیشوا ہیں.جہاں تک میں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غور کیا.مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصتہ اللہ کے اصول پر نظر آیا.کیونکہ مولوی صاحب کا طرز عمل قطعاً ریاد منافقت سے پاک ہے.اور ان کے آئینہ دل میں صداقت اسلام کا ایک ایسا زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعہ ہر وقت ان کے بے ریا سینے سے اہل ابل کر تشنگان معرفت توحید کو فیض یاب کر رہا ہے.اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی یہ نہیں کہ وہ تقلیدا ایسا کرنے پر مجبور ہیں نہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے

Page 469

تاریخ احمد بیت ، جلد ۳ 440 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے.......مجھے زیادہ تر حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک اسی سالہ بوڑھا آدمی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگاتار سارا دن کام کرتا رہتا ہے وہ متحدہ طور پر آج کل کے تندرست و قوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے...مولوی صاحب کے تمام حرکات و سکنات میں صحابہ علیہم السلام کی سادگی اور بے تکلفی کی شان پائی جاتی ہے.اس نے نہ اپنے لئے کوئی تمیزی نشان مجلس میں قائم رکھنا ہے نہ کسی امیر و غریب کے لئے.اور نہ تسلیم و کورنش اور قدم بوسی پیر پرستی کی لعنت کو وہاں جگہ دی گئی ہے.صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں از حد مسرت ہوئی صاحبزادہ صاحب نہایت ہی خلیق اور سادگی پسند انسان ہیں.علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم ومدبر بھی ہیں علاوہ دیگر باتوں کے جو گفتگو صاحبزادہ صاحب موصوف اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پر ہوئی اس کے متعلق صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بناء پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زبر دست مدبرانہ پہلو لئے ہوئے تھی.صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے از راہ نوازش بہت کچھ مخلصانہ پیرائے میں یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ میں کم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں اگر چہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل تے قاصر رہا.مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظرانہ مهربانی و شفقت کا از حد مشکور ہوں.صاحبزادہ صاحب کا زہد و تقویٰ اور ان کی وسعت خیالانہ سادگی ہمیشہ یادر ہے گی.مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجز سے مجھے ملنے کی نہایت ہی تمنا تھی مگر افسوس بڑی مسجد میں باوجود ان سے مصافحہ کرنے کے انہوں نے یہ دریافت کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی کہ ایک مسافر مسلمان جو ان سے بڑھ کر نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کر رہا ہے.وہ کون ہے ؟ علاوہ اس کے میں نے قادیان کی اس جدوجہد کو دو دن میں بکمال غور و خوض دیکھا جو وہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے قیام کے ذریعہ دنیا میں حقیقی اسلامی قوم پیدا کرنے کی مدعی بن کر کر رہی ہے...احمدی جماعت قابل مبارک بادی ہے....انگریزی اسلامی سکولوں و کالجوں پر قادیان کے ہائی سکول کو اسلامی پہلو سے وہ برتری حاصل ہے کہ جس کی گرد کو بھی باقی اسلامی انگریزی سکول و کالج نہیں پہنچ سکتے...عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کے افراد کو دیکھا گیا.تو انفرادی طور پر ہر ایک کو توحید کے نشہ میں سرشار پایا گیا.اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے قادیان میں

Page 470

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 441 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء دیکھی کہیں نہیں دیکھی.صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا.دونوں احمدی مسجدوں میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا موثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا.حتی کہ احمدی جماعت کے تاجروں کا صبح سویرے اپنی اپنی وکانوں اور احمدی مسافر مقیم مسافر خانے کی قرآن خوانی بھی ایک نہایت پاکیزہ سین (منظر) پیدا کر رہی تھی.گویا صبح کو مجھے یہ معلوم ہو تا تھا کہ قدسیوں کے گروہ در گروہ آسمان سے اتر کر قرآن مجید کی تلاوت کرے بنی نو انسان پر قرآن مجید کی عظمت کا سکہ بٹھانے آئے ہیں.غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا ".پیر پرستی کا نرالا ڈھنگ جو ہندوستان میں مسلمانوں کی شامت اعمال سے ہندوستان کے بڑے بڑے اولیاؤں کے مزاروں کے ذریعے ان کے جانشینوں اور خلیفوں نے ڈال کر اپنے طرز عمل سے اسلامی توحید کی مٹی پلید کر رکھی ہے میں نے اپنے دو دن کے قیام میں اس کا کوئی شائبہ عملی صورت میں نہیں دیکھا.مرزا صاحب کی قبر کو بھی جا کر دیکھا جس پر کوئی عالی شان یا معمولی روضہ نہیں بنایا گیا.اپنے گردو نواح کی قبروں سے اسے کسی قسم کی نمایاں خصوصیت نہیں تھی.اور نہ کسی مجاور یا جاروب کش کو وہاں پایا نہ کسی کو زیارت کرتے یا دعامانگتے دیکھا.میں نے نہایت غور سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر قبر کے سرہانے کو دیکھا کہ کہیں پرستش کے مستحق قبروں کی طرح اس قبر پر بھی چراغ جلایا جا تا ہو.مگر میں نے اس کا کوئی نشان نہ پایا.علاوہ اس کے میرے روبرو تو نہ مولوی نور الدین صاحب سے کسی نے تعویذ لینے کی استدعا کی اور نہ خود بخود کسی سائل یا مریض کو انہوں نے لکھ دیا.اور نہ کسی پر جھاڑ پھونک کی.پس ہر ایک معاملے میں علاوہ بیماروں کو علاج بتانے کے خداوند تعالیٰ سے دعا ئیں مانگنے کا زور تھا.جس کے لئے مولوی نور الدین صاحب نے اپنے آپ کو مخصوص نہیں بنا رکھا....جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا.وہ خالص اور بے ریا توحید پرستی تھی.اور جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظر آتا تھا.غرض قادیان کی احمد می جماعت کو عملی صورت میں اپنے اس دعوئی میں میں نے بڑی حد تک سچا ہی سچا پایا.کہ وہ دنیا میں اسلام کو پر امن صلح کے طریقوں سے تبلیغ و اشاعت کے ذریعے ترقی دینے کے اہل ہیں اور وہ ایسی جماعت ہے.جو دنیا میں عملاً قرآن مجید کے خالصتہ للہ پیرو اور اسلام کی فدائی ہے اور اگر تمام دنیا اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان یورپ میں اشاعت اسلام کے ان کے ارادوں کی عملا مدد کریں تو یقینا یورپ آفتاب اسلام کی نورانی شعاعوں سے منور ہو جائے گا.....آخر میں میں ناظرین کی خدمت میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے جو کچھ اس وقت رائے

Page 471

تاریخ احمدیت جلد ۳ 442 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء ظاہر کی ہے.وہ مرزا صاحب کے مریدی کے حلقے سے باہر ہونے کی حیثیت میں کی ہے میں نے قادیان کو اس اصول پر نہیں دیکھا کہ مرزا صاحب کے دعوئی مسیح موعود یا مہدی مسعود کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق قادیان کو دیکھ کر کوئی نتیجہ اپنے دل میں اخذ کروں میں صرف اپنے مذکورہ بالا خیال کی کشش کے باعث وہاں گیا اور احمدی جماعت کو اس کے اہل پایا اور اسے خالص اسلامی جماعت کے جلوے میں دیکھا.خواہ اس جماعت کا بانی اپنے ذاتی دعوئی میں حق بجانب تھا یا نہیں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں.مگر عالمگیر اسلامی اصول کی بنا پر اس نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے.اور اسلام کی خدمت کو عملی طور پر کرنے والے زبر دست مشن کی بنیاد دنیا میں ڈال گیا ہے.اس اصول پر مرزا صاحب کی بہت بڑی بھاری عزت میرے دل میں پیدا ہو گئی ہے.اور انہیں میں اسلام کا سچا خادم تسلیم کرتا ہوں.گوان کے ذاتی دعوئی مسیح و مہدی سے مجھے اتفاق نہیں جو یقیناً افترا پر مبنی نہیں تھا وہ اسلام کو ترقی دینے کی پالیسی یا کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا.جو اسلام کے کمال ضعف کو دیکھ کر سخت جوش کی وجہ سے مجبور اسرزد ہو گیا مگر جو کچھ ہوا نیک نیتی سے ہوا.کیونکہ ان کے کام کا نتیجہ یہی شہادت دیتا ہے " - D حضرت خلیفہ اول کا ایک مکتوب حضرت خلیفہ اول نے ایک خط تحریر فرمایا.خط کے ایک حصہ میں آپ نے مسئلہ خلافت پر روشنی ڈالی کہ " خلیفہ بنانا میرے نزدیک صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے پھر ابو بکر کو مولانا کیا ضرورت پڑی کہ آیت استخلاف سے استدلال کرتا.ان ہی دنوں آپ نے اپنی ایک جیبی بیاض میں لکھا.الذین امنوا منكم و عملوا الصلحت کی تقسیم کہ دو سلسلہ ہیں ایک جسمانی ، ایک روحانی اگر اس میں بادشاہ پریذیڈنٹ صدر نہ ہو تو تباہی آجاتی ہے ایسے ہی روحانی بادشاہ نہ ہو تو تباہی ہی تباہی لابد ہے."کلام محمود " کی اشاعت حضرت صاجزاد مرزا محمود احمد صاحب کا عارفانہ شعری کلام پہلی مرتبہ قاضی محمد ظهور الدین صاحب اکمل نے مئی ۱۹۱۳ ء میں شائع کیا اور ابتداء میں اس کا دیباچہ بھی لکھا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی اولین نظم ۱۹۰۳ء کی ہے جب کہ آپ شاد تخلص کرتے تھے.شعر و سخن کے باعث میں آپ کا مسلک کیا رہا ہے اس پر آپ خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.” میں کسی نظم کو شاعری کے شوق میں نہیں کہتا ہوں.بلکہ جب تک ایک خاص جوش پیدا نہ ہو.نظم کہنا مکروہ سمجھتا ہوں.اس لئے درد دل سے نکلا ہوا کلام سمجھنا چاہئے.بعض نظم نا مکمل صورت میں پیش کرنے سے میرا مقصد یہ ہے تاکہ لوگ دیکھیں کہ شاعری کو بطور پیشہ نہیں اختیار کیا گیا بلکہ جب کبھی قلب پر کیفیت ظاہر ہوتی ہے تو اس کا اظہار کر دیا جاتا ہے.اور پھر یہ خیال نہیں ہو تا کہ اس کو مکمل بھی کیا جارے.(۳) چونکہ میں تکلف سے شعر نہیں کہتا.ٹوٹے ہوئے

Page 472

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 443 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء دل کی صدا ہے پڑھو اور غور کرو.خدا کرے یہ درد بھرے کلمات کسی سعید روح کے لئے مفید و با برکت ثابت ہوں".مئی ۱۹۱۳ء کو حضرت خلیفہ اول خواجہ کمال الدین صاحب کے نام ایک اہم خط نے خواجہ کمال الدین صاحب کے نام ایک خط لکھا جس کے ضروری حصے یہ ہیں لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لنفسک علیک حق ہمیشہ یادر ہے جان سے اتنا کام لوجس میں بیمار (ی) وہلاکت سے بچو.حفظ دین.حفظ جان.حفظ عقل.حفظ عزت.حفظ مال.حفظ نسل اسلام کے ستہ ضرور یہ ہیں".میں نے جہاں تک غور کیا ہے مسیحت کی بناء کسی کتاب پر نہیں.پولس (پال) نے توریت کو طعنہ کیا ہے.اور جس انجیل کا ذکر وہ خطوں میں کرتا ہے وہ کسی کے پاس نہیں صرف ایک بشارت پر جو اس نے کفارہ میں کی ہے ".ایک میری پرانی یادداشت ہے اس کے صفحات کی نقل مرسل خدمت ہے.ایک مضمون ایک انجمن میں بصدارت نور الدین پیش ہوا.اس پر رائے زنی ہو.آہ.آہ.آہ.اس پر کیا لکھوں لا حول ولا قوة الا بالله الله ہی توفیق دے وما توفيقي إلا بالله.آپ کو معلوم ہے ہمہ یاراں بہشت ایک مثل ہے مکرم میاں محمود احمد سے تو ان کو مناسبت نہیں ہمیشہ ان کی تحقیر ان کے مد نظر ہے.نواب صاحب میر ناصر نواب بھی میاں محمود سے زیادہ معیوب (اصل لفظ معتوب ہو گا.ناقل ) ہیں.گویا انجمن نام ہے شیخ صاحب رحمت اللہ.عزیزان محمد حسین شاہ صاحب ڈاکٹر.مرزا یعقوب بیگ صاحب ڈاکٹر.مکرم مولوی محمد علی صاحب مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر.یہ پانچ کورم پورا ہوا جو چاہیں کریں.پہلے محمود کو سخت ست کہا وہ رک گیا مگر مدت کے بعد اس کو سمجھایا کہ اب غالبا سرد ہو گئے ہوں گے آپ جایا کریں.وہ گئے کسی معاملہ پر ایک نے کہا.آپ صدرالدین کے معاملہ میں ہرگز نہ بولا کرو اس پر محمود نے بھی رنج آلود خط لکھا.جس پر میں نے ملامت اور نصیحت لکھ کر ڈاکٹروں کو دے دیا.پھر مولوی محمد علی صاحب کو تحریر الکھا.مگر کچھ جواب نہ دیا.انالله وانا اليه راجعون - میرے مرنے پر ان کو ضرور دقت پیش آئے گی مگر اصلاح نہ ہوئی.افسوس! مجھے محمد اقبال ڈاکٹر نے میرے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا ڈریپر مرگیا.اس کا فلسفہ بھی مرگیا.یورپ ہر روز نئے فلسفہ کا دلدادہ ہے میرے دل میں آیا.یہ کیا بات ہے ظہر کا وضو کرنے لگا القا ہوا.

Page 473

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 444 اخبار "الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء انسان ہر انسان فنا ہوتا ہے اور نیا بنتا ہے.کیا یہ انسان لغو ہے.ہرگز نہیں.پھر القا ہوا.سنستدرجهم من حيث لا يعلمون يه تبديلي (نقل مطابق اصل.ناقل ) ہمارا اپنا فعل ہے اور ایک حکمت پر مبنی ہے.حق کو آرہے ہیں ".ایک ہفتہ بعد آپ نے خواجہ صاحب کو ایک طویل خط لکھا جس میں یہ عبارت بھی تھی:." مجھے ابتداء آپ لوگوں نے دبایا مدت تک اس مصیبت میں رہا.جب کبھی نکلنا چاہا.رنگ برنگ مالی بدظنی ہوتی رہی.آخر بحمد اللہ نجات ملی.الحمد لله رب العالمین پھر باہم تنازعے شروع ہو گئے (کہ)...نواب میر ناصر محمود نالائق بے وجہ جو شیلے ہیں.یہ بلا اب تک لگی ہے.یا اللہ نجات دے.حضرت خلیفتہ المسیح کی دردانگیز دعا ۵/ جون ۱۹۱۳ء کو حضرت خلیفہ اول کی طبیعت ایک اولو العزم امام کے ظہور کے لئے بہت علیل تھی آپ نے سمجھا کہ اب میں دنیا میں نہیں رہوں گا.سو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور....یہ دعا فرمائی." الهی اسلام پر بڑا تبر چل رہا ہے.مسلمان اول توست ہیں.پھر دین سے بے خبر ہیں اسلام و قرآن اور نبی کریم اللہ سے بے خبر ہیں.تو ان میں ایسا آدمی پیدا کر جس میں قوت جاز بہ ہو وہ کابل وست نہ ہو.ہمت بلند رکھتا ہو باوجود ان باتوں کے وہ کمال استقلال رکھتا ہو.دعاؤں کا مانگنے والا ہو.تیری تمام رضاؤں یا اکثر کو پورا کیا ہو.قرآن و حدیث سے باخبر ہو پھر اس کو ایک جماعت بخش اور وہ جماعت ایسی ہو جو نفاق سے پاک ہو تباغض ان میں نہ ہو اس جماعت کے لوگوں میں بھی جذب ہمت اور استقلال ہو.قرآن و حدیث سے واقف ہوں.اور ان پر عامل ہوں اور دعاؤں کے مانگنے والے ہوں.ابتلا تو ضرور آدیں گے.ابتلاؤں میں ان کو ثابت قدمی عنایت فرما اور ان کو ایسے ابتلاء نہ آئیں.جو ان کی طاقت سے باہر ہوں.آمین ".اخبار "الفضل " کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے ۱۸ جون ۱۹۱۳ء سے اخبار "الفضل " جاری فرمایا.یہ نام خود حضرت خلیفہ اول نے تجویز فرمایا تھا.الفضل کا اجراء جماعت کی جن اہم ترین ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوا ان کی تفصیل حضرت صاحبزادہ صاحب نے اخبار کے پر اسپکٹس میں (جو اخبار " فضل کا پراسپکٹس" کے نام سے وزیر ہند پریس امرت سمر سے طبع ہوا) بایں الفاظ تحریر فرما ئیں:.

Page 474

تاریخ احمدیت جلد ۳ 445 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء پہلی ضرورت:.” بڑھنے والی ضروریات میں سے ایک نئے اخبار کی ضرورت ہے بے شک ایک وہ زمانہ تھا جب کہ جماعت قلیل تھی.اور پھر اکثر لوگ زمینداروں کے طبقہ میں سے تھے.لیکن اب علاوہ اس مخلص جماعت کی ترقی کے ہزاروں مخلص تعلیم یافتہ پیدا ہو گئے.جن کے علوم کو وسعت دینے کے لئے اخبار کی اشد ضرورت ہے".دوسری ضرورت: " بعض احمدی ہیں کہ جو احمدی تو ہو گئے ہیں لیکن ان کو ابھی معلوم نہیں کہ احمدی ہو کر ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور کس طرح ہمیں دوسروں کی نسبت رسومات و بدعات اور مقامات اسراف سے بچنا چاہئے؟" تیسری ضرورت: احمدی جماعت کو تاریخ اسلام سے واقفیت دلانا ضروری ہے.خصوصاً رسول کریم (فداہ ابی دامی) اور صحابہ کی تاریخ ہے.چوتھی ضرورت:.ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں اس وقت بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد کا دریا جوش مار رہا ہے...اور اس سلسلہ میں ہندوستان میں بھی ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا....کہ عجیب عجیب رنگ سے بد فنیاں پھیلا رہا ہے اور چونکہ ہمارا کوئی ایسا اخبار نہیں کہ جو سیاست کے اہم مسائل پر اس نقطہ خیال سے روشنی ڈالے کہ جو حضرت صاحب نے قائم کی ہے.اس لئے خطرہ ہے.کہ ہم میں سے بعض احباب اس رد میں نہ بہہ جائیں اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں بڑے زور سے حضرت صاحب کی تحریروں کی روشنی سے روشنی ڈالی جائے اور احمدیوں میں اس سیاست کو رائج کیا جائے جسے حضرت صاحب نے پیش کیا.پانچویں ضرورت:.احمدی جماعت میں تعلیم کا پھیلانا.چھٹی ضرورت:.آپس میں تعارف اور میل ملاپ کو ترقی دنیا اور مصالحت.ساتویں ضرورت.احمدی جماعت کو دنیا کی ترقی سے آگاہ کرنا.آٹھویں ضرورت:.تبلیغ کے لئے کوشش کرنا اور جن ممالک میں تبلیغ نہیں ہوئی.ان کی طرف توجہ کرنا اور دشمنان اسلام کی تبلیغی کوششوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا.الفضل کے اجراء سے قبل حضرت صاحبزادہ صاحب نے استخارہ کیا.اور حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں اجازت کے

Page 475

تاریخ احمدیت.جلد ۳ " 446 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء لئے عرض کیا تو آپ نے لکھا.جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے ہاں تائید الهی حسن نیست اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے.زمیندار.ہندوستان.پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الہیہ کی امید بل یقین تو تھا علی اللہ کام شروع کر دیں“.JA الفضل کا انتظام مکمل ہو چکا تھا تو احمد یہ بلڈ نگس لاہور سے پیغام صلح سوسائٹی کا پر اسپکٹس ملاجس میں ”پیغام صلح" کے نام سے ایک اور اخبار جاری کرنے کا اعلان تھا.تب آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر مناسب ہو تو اخبار کو روک دیا جائے لیکن حضور نے اس پر ارشاد فرمایا." مبارک کچھ پرواہ نہ کریں وہ اور رنگ ہے یہ اور کیا لاہور میں اخبار بہت نہیں.چنانچہ الفضل جاری کر دیا گیا.الفضل کے لئے ابتدائی سرمایہ جن مبارک ہستیوں نے مہیا کیا.وہ تین تھیں.آپ کی حرم اول حضرت ام ناصر جنہوں نے اپنے دو زیور پیش کر دئے کہ ان کو فروخت کر دیا جائے آپ نے خود لاہور جا کر پونے پانچ سو روپیہ میں یہ زیور فروخت کئے.چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں ” خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ کے دل میں رسول کریم اس کی مدد کی تحریک کی تھی اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا.اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی بہت بڑا سبب پیدا کر دیا.....دوسرا مبارک وجود جس نے "الفضل" کے جسد میں روح پھونکی حضرت ام المومنین کا تھا آپ نے اپنی ایک زمین جو ایک ہزار میں بکی " الفضل " کے لئے عنایت فرمائی.تیسرا قابل صد احترام وجود حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا ہے جنہوں نے اس غرض کے لئے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دے دی جو تیرہ سو روپیہ میں فروخت ہوئی.الفضل کے اجراء میں آپ کے معاون خصوصی اور سٹاف کے سرگرم رکن جنہوں نے اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ہاتھ بٹایا حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل تھے ان کے علاوہ ادارہ میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر بھی تھے.الفضل کا ابتدائی دفتر نواب محمد علی خان صاحب کے مکان کی نچلی منزل میں قائم ہوا.12 اس کے اولین کاتب محمد -

Page 476

تاریخ احمدیت جلد ۳ 447 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا جراء مین صاحب تھے اور مینجر مرزا عبد الغفور بیگ صاحب - طابع و ناشر کے فرائض حضرت صاحبزادہ صاحب بنفس نفیس سرانجام دیتے تھے.الفضل کے پہلے پرچہ میں آپ نے جناب الہی میں نہایت دردمندانہ التجائیں اور دعائیں کیں کہ خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے الفضل جاری کرتا ہوں.میرے حقیقی مالک میرے متولی تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے.تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے.اے میرے موٹی اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی راستہ دکھا.لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھا ئیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا" - حضرت خلیفہ اول نے جب پہلا نمبر پڑھا تو آپ نے فرمایا ”پیغام صلح " بھی میں نے پڑھا ہے اور الفضل بھی مگر میاں شتان بینھما یعنی کجاوہ کجا یہ.یہ تو ایک مبصر کی رائے تھی.مگر ہر شخص مبصر نہیں ہوتا.اس لئے چاروں طرف سے اس کی مخالفت کی آوازیں اٹھنے لگیں.اور جماعت کے ایک مخصوص عصر نے تو شروع ہی سے جو آپ کا مخالف تھا ڈٹ کر مقابلہ کرنا شروع کر دیا.خصوصاً ادارہ پیغام صلح" نے تو حد ہی کر دی.مگر آپ نے اس کی چنداں پرواہ نہیں کی بلکہ اس مزاحمت کو نیک فال سمجھا اور خدائی بشارتوں کے ماتحت اپنا قدم اور آگے بڑھاتے چلے گئے.چنانچہ آپ نے ۱۹۱۳ء میں شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کے نام خط لکھا کہ : الفضل چونکہ اصلاح کے لئے جاری ہوا ہے اور لوگوں کے ہاں میں ہاں ملانے کے لئے نہیں نکلا اس لئے اس کی اشاعت ابھی کم ہے احمدی تک مخالفت کرتے ہیں بعض جماعتوں نے بالکل نہیں خریدا.الحمد للہ ہر ایک نیک تحریک کی مخالفت ہوتی ہے.میں نے آج ہی خواب میں دیکھا کہ میں کسی شخص کو کہہ رہا ہوں.کہ سب انبیاء اور اولیاء کی مخالفت ہوتی آئی ہے پھر میری کیوں نہ ہو.پھر دیکھا کہ ایک ستارہ ٹوٹا ہے لیکن بجائے نیچے جانے کے اوپر کی طرف چلا گیا ہے ".PA

Page 477

تاریخ - جلد - 448 اخبار " والفضل " اور " پیام صلح " کا جراء " حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکتوب ( بنام شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی) القدم علیکم.آپ کا خط مل.میں آنے کے لئے دعا کرتا ہوں.آئیے الفصل کی ترقی کے لے جو کوششیں کی ہیں انکا اجر تو خوال لئے ہیں کی طرف سے ملیگا ان والد الفضل یونکہ اصلاح کے لئے جاری ہوا ہے اور لوگو کی ہاں یں ان ملنے کے نہر کا اس لئے اسکی اشاعت بھی کم ہے احمدتی یک مخالفت کرتے ہیں بعض جماعتوں نے پالنگان نہیں خریدا.الحمد للہ پر ایک نیک تحریک کی مخالفت غمين بلد ہوتی ہے میں نے آج ہیں خواب سے دیکھا کہ میں کی ہی کو کہ رہا ہوں کہ سب انبیاء اور اولیاء کی مخالفت ہوتی آئی ہے پر میری کیوں نہ م و ر دیکھا کہ ایک ستارہ ٹوٹا ہے لیکن میں کے نیچے جان کے اوپر کی طرف چلا گیا ہے.

Page 478

تاریخ احمدیت جلد ۳ 449 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء چنانچہ خدا کے فضل سے اس مخالفت کے باوجود جماعت کا رجحان "الفضل" کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور اخبار پیغام صلح اور اس کے ہمنواؤں کی مخالفت کے باوجود الفضل کی خریداری بڑھنے لگی.اس ترقی میں خدا کے فضل کے ساتھ ساتھ اس کے بلند معیار اور عظیم افادیت کا بھاری دخل تھا.عہد خلافت اولی میں اخبار الفضل نے تاریخی، ملکی ، جماعتی، تبلیغی ، سیاسی اور اخلاقی غرض کہ ہر قسم کے مضامین میں پوری جماعت کی راہ نمائی کی.اور میدان صحافت میں یہاں تک اپنا سکہ بٹھالیا کہ "الحلال" کے ایڈیٹر مولوی ابولکلام صاحب آزاد انہی دنوں قید ہوئے تو ان کے سیکرٹری نے آپ کی خدمت میں چٹھی لکھی کہ مولانا آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے.ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہوں نے صرف الفضل کی اجازت مانگی.خلافت ثانیہ کے قیام پر جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب خلافت پر فائز فرما دیا.قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کی ادارت سنبھالی اور پرنٹر و پبلشر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی تجویز ہوئے ۲۷/ اگست ۱۹۱۴ء تک کے پرچے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ادارت میں نکلتے رہے پھر عملی طور پر یہ ذمہ داری حضرت قاضی اکمل صاحب نے اٹھالی اب الفضل کا حلقہ عمل روز بروز وسیع ہوتا جارہا تھا.اور قاضی صاحب کے ذمہ الفضل کی مینجری کے علاوہ اور کام بھی تھے.اس لئے ایک مستقل ایڈیٹر کی ضرورت محسوس ہوئی.جس پر ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کی خدمات حاصل کی گئیں.مگر ا ا/ جنوری ۱۹۱۶ ء سے حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کے سپرد ادارت ہو گئی.چند دن کے بعد پھر حضرت قاضی اکمل صاحب ہی ایڈیٹر بنا دئے گئے.ازاں بعد ۴ جولائی ۱۹۱۶ء سے اس کے مستقل ایڈیٹر خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی مقرر ہوئے.جنہوں نے ۳۰ برس تک یہ ذمہ داری نہایت کامیابی سے سنبھالی.۱۸/ نومبر ۱۹۴۶ء سے ادارت کا کام شیخ روشن دین صاحب تنویر بی اے.ایل ایل بی کے سپرد کیا گیا جو آن تک یہ اہم خدمت خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں.الفضل ابتداء ہفتہ وار تھا.دسمبر ۱۹۱۳ء کے سالانہ جلسہ پر تین دن یعنی ۲۶ تا ۲۸/ دسمبر اس کا روزانہ لوکل ایڈیشن شائع ہوا.خلافت ثانیہ کے قیام سے لے کرے / نومبر ۱۹۱۵ء تک ہفتہ میں تین بار چھپتا رہا.بعد ازاں دو بار کر دیا گیا.۳۱/ جولائی ۱۹۲۴ء سے ۸/ دسمبر ۱۹۲۵ء تک اس کی اشاعت ہفتہ میں تین بار رہی.11/ دسمبر ۱۹۲۵ء سے ہفتہ میں پھر دو بار ہو گیا.۲۲/ اپریل ۱۹۳۰ء سے اس کی ہفتہ میں چار بار اشاعت ہونے لگی.پھر ۳۰ / مئی سے تین بار اور / مارچ ۱۹۳۵ء تک سہ روزہ ہی رہا.مد و جزر کے اس وسیع سلسلہ کے بعد آخر ۸ / مارچ ۱۹۳۵ء سے الفضل مستقل طور پر روزانہ کر دیا گیا.

Page 479

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 450 اخبار " الفضل " اور " پیام صلح " کا اجراء الفضل کے ذریعہ خلافت اوٹی میں احمدیہ پریس کو بے حد تقویت ہوئی اور خلافت ثانیہ کے دور میں تو نصف صدی سے وہ اسلام و احمدیت کی ایسی شاندار خدمات سرانجام دے رہا ہے کہ جن کے بیان کی ضرورت نہیں.وہ سلسلہ کا واحد ترجمان اور آرگن ہے اور سلسلہ کی پچاس سالہ تاریخ کا حامل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی عظمت و اہمیت جاتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا تھا." آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں.مگر وہ دن آرہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے.جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہوگی.لیکن کو نہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے ".EA ۲۱ جون ۱۹۱۳ء کو صاحبزادہ عبدالحی صاحب کا نکاح صاحبزادہ عبد الحی صاحب کا نکاح حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کی دختر نیک اختر فاطمہ سے دو ہزار روپیہ صریر ہوا.خطبہ خود حضرت خلیفتہ المسیح نے پڑھا.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے اپنے اخبار الفضل میں اس تقریب پر مبارکباد شائع کی اور لکھا." یہ شادی بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے کہ اللہ تعالٰی نے عزیزم عبد الحی کو بلوغ کی عمر تک پہنچایا".سلام سلام حضرت خلیفہ اول نے محض تو کل پر عبدالحی کے مکان کی بنیاد رکھوائی.حضرت ہر روز معمار اور مزدوروں کو ان کی مزدوری ادا فرما دیا کرتے اینٹ وغیرہ کا خرچ بھی برابر ادا ہو تا رہتا تھا اور یہ کام محض خیسی نصرت و تائید ایزدی کی برکت سے ہوا.۱۳۵ بھیرہ کے ایک مستری فضل الہی صاحب (جو اب تک زندہ ہیں) نے مکان کی تعمیر کی.حضرت خلیفہ اول نے مستری صاحب کو ارشاد فرمایا کہ مکان قبلہ رخ بنایا جائے تا میری اولاد نماز پڑھتی رہے.الغرض جب مکان بن چکا تو میاں عبد الحی صاحب کا ۲/ اگست ۱۹۱۳ء کو بیاہ ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح نے اپنی بہو اور بیٹے کو اس موقعہ پر بطور تحفہ یہ چیزیں دیں.دو قرآن مجید.دو صحیح بخاری اور ان کے لئے رحل حزب المقبول.فتوح الغیب براہین احمدیہ اور ان کے رکھنے کے لئے الماری.نیز تہجد کے لئے لالٹین اور لوٹا.ایک عظیم الشان نشان کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب "نشان آسمانی" میں لکھا تھا کہ " حدیثوں کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت ترکی سلطنت کچھ ضعیف ہو جائے گی.اور عرب.....نئی سلطنت کے لئے کچھ تدبیریں کرتے ہوں گے اور ترکی سلطنت کے چھوڑنے کے لئے تیار ہوں گے.یہ نشان اس |

Page 480

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 451 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء سال پورا ہونا شروع ہوا جب کہ امیر نجد نے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر کے ترکی مقبوضات پر قبضہ کر لیا.اور آخر سلطان عبد الوحید کے زمانہ میں جنگ عظیم چھڑ گئی.جرمنی اور اس کے ساتھی ترکی کو شکست ہوئی اتحادیوں نے ترکی سلطنت کے حصے بخرے کر دئے اور عرب پر تر کی اقتدار ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا.۱۹۱۳ء میں مطبع دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن کے ایک غیر احمدی عالم کا اعتراف حق ایک رکن مولوی ابو الجمال احمد مکرم صاحب عباسی چڑیا کوئی نے ایک کتاب " حکمت بالغہ " دو حصوں میں شائع کی جس میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس نظریہ کی بدلا کل تصدیق کی کہ یا جوج وماجوج سے مراد اہل روس و یورپ کی سیاسی حکومتیں ہیں اور دجال سے مراد عیسائی پادری ان کی مفصل تحقیق کا ایک حصہ درج ذیل کرتا ہوں.یا جوج و ماجوج کے بارے میں انہوں نے تحریر کیا کہ بعضهم یو مئذ يموج في بعض يعني ياجوج و ماجوج لہروں کی طرح ایک دوسرے سے گڈمڈ ہو جائیں گے.اخبار تاریخ اور مشاہدہ تینوں اس پیشگوئی کے بچے شاہد اور ایسے بدیہی ثبوت ہیں جن کو ماننے کے سوا چارہ نہیں.اگر چہ اقوام یورپ سب ایک دوسرے میں گڈمڈ ہیں جیسا کہ ظاہر و شاہد ہے.مگر ان میں بھی روس یا جوج اور فرانس و انگلستان کا گڈنڈ ہونا خاص طور پر قابل تماشہ ہے...کیا ممکن ہے کہ کوئی بشری طاقت ایسا معجزہ دکھلا سکے.ہرگز نہیں".دجال سے متعلق پیشگوئی کے بارے میں انہوں نے احادیث نبوی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ " ہمارا یہ دعوی ہے کہ حدیثوں میں دجال سے کوئی خاص فرد مخصوص نہیں ہے.....بلکہ دجال سے دجال صفت لوگ مراد ہیں اور دجال کی جو صفت بیان کی گئی ہے وہ بالکل اہل یورپ اور پادریوں پر صادق آتی ہے اور یہ ایک زبر دست پیشگوئی ہے جو نہ صرف وفات رسول اے بلکہ کتب حدیث کی تدوین کے سینکڑوں برس کے بعد پوری ہوئی اور ہو رہی ہے ".علاوہ ازیں یہ بھی لکھا.حضرت عیسی بن مریم (اگر زندہ ہیں) یا کوئی مثیل مسیح آکر امت کی اصلاح کرے گا مگر اس وقت جبکہ دجال کا فتنہ و فساد بہت عام اور مضر ہو جائے گا".شاید کہ حدیثوں میں مسیح و مہدی ایک ہی شخص کو کہا گیا ہو جو ایسے فتنہ کے وقت مسلمانوں کی دستگیری کرے گا.مگر یہ خیال جمہور کے عقیدہ کے خلاف ہے ".m

Page 481

452 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء اخبار پیغام صلح کا اجراء لاہوری ممبران انجمن نے یہ محسوس کر کے کہ قادیان میں ان کی باغیانہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی لاہور میں ”پیغام صلح سوسائٹی" کی بنیاد رکھی.چنانچہ ترجمه یادداشت شراکت مع دستور العمل پیغام صلح سو سائٹی لیٹڈ لاہور میں اس انجمن کے بارے میں ہمیں یہ تفصیلات ملتی ہیں.ا.۳.اس سوسائٹی کی رجسٹری بموجب ایکٹ ہائے ہند نمبر۶ - ۱۸۸۶ء جولائی ۱۹۱۳ء میں ہوئی..اس سوسائٹی کا دفتریا ہو راحمد یہ بلڈ نگس میں قائم ہوا.اس سوسائٹی کے اغراض و مقاصد میں اشاعت اسلام، ملک میں قیام امن ، ایک اخبار کا اجراء اور واعظین مقرر کرنا تھا.اس سوسائٹی کے بانی سید محمد حسین شاہ اور حصہ داریہ تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب.ملک غلام محمد صاحب.سید الطاف حسین صاحب شیخ عبد الرزاق صاحب بیرسٹرایٹ لاء.فضل الہی صاحب.بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر.سوسائٹی نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے ۱۰ جولائی ۱۹۱۳ء سے ایک اخبار ”پیغام صلح" جاری کیا.اس اخبار سے عملی تعلق رکھنے والے چار اصحاب تھے.(۱) ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جو اخبار کے لئے مضمون بھی لکھتے اور اپنی گرہ سے اس کے لئے خرچ بھی کرتے تھے.(۲) بابو منظور اٹھی صاحب جو اخبار کے قلمی اور انتظامی معاون بھی تھے.(۳) مولوی عبدالحق صاحب جو دفتر میں کام کرتے تھے.(۴) خلیفہ رجب دین صاحب ( پرنٹر و پبلشر) جہاں " الفضل " کا نام خود حضرت خلیفہ اول نے تجویز فرمایا.وہاں ”پیغام صلح" کا نام اخبار کی سوسائٹی نے رکھا.شروع میں یہ ہفتہ میں تین بار شائع ہو تا تھا.جس پر اخبار "الحق" نے تنقید کی کہ یہ قبل از وقت ہے."پیغام صلح" کے دو اہم ترین مقاصد تھے اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے خلاف مہم - دوم خواجہ کمال الدین صاحب کے مشن کا پراپیگنڈا کر کے غیروں میں مقبولیت حاصل کرنا پیغام صلح میں لکھا ہے.پیغام صلح کا اجراء جولائی ۱۹۱۳ء میں ایسے حالات میں عمل میں آیا.جب سلسلہ احمدیہ میں اندرونی طور پر بہت کچھ خلفشار پیدا ہو چکا تھا اور قادیان میں میاں محمود احمد صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر اصحاب بالخصوص ان کے نانا میر ناصر نواب صاحب لاہور کے پاک ممبروں کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے پھرتے اور

Page 482

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 453 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء انہیں بدنام کرنے کے درپے تھے اس وقت قادیان کے اخبارات الحکم اور بد ر زیادہ تر میاں صاحب ہی کے زیر اثر تھے.دوسری طرف حضرت خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم و مغفور کے ذریعہ......بلاد غربیہ میں اسلام کا سورج طلوع ہونا شروع ہو گیا.رسالہ اسلامک ریویو مسلم انڈیا اینڈ اسلامک ریویو کے نام سے جاری ہو چکا تھا اور ضرورت اس بات کی داعی تھی کہ اس رسالہ کے چیدہ مضامین کا ترجمہ اور ورکنگ مشن کی ضروری خبریں ہندوستان کے اردو دان لوگوں تک پہنچائی جائیں ان حالات و ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے جن کا قدم سلسلہ کی ہر تحریک میں سب سے آگے رہا ہے.پیغام صلح سو سائٹی کے نام سے مشترک سرمایہ کی ایک کمپنی بنائی اور اس کے ماتحت پیغام صلح کے نام سے ایک اخبار جاری کیا.خواجہ کمال الدین صاحب چونکہ ایڈیٹر "الحلال" ابو الکلام آزاد صاحب سے ساز باز کر چکے تھے.اس لئے "پیغام صلح " کی سیاسی پالیسی کا اخبار الحلال سے ہم آہنگ ہو نا طبعی بات تھی.جس کا واضح اور کھلے رنگ میں اظہار کان پور کے مشہور حادثہ کے موقعہ پر صاف نظر آگیا.واقعہ یہ ہوا کہ کانپور کے محلہ مچھلی بازار میں ایک مسجد بر سر راہ تھی وہاں سے شہر کی میونسپلٹی نے ایک نئی سڑک نکالی جس میں مسجد کا ایک حصہ جو غسل خانہ تھا شامل کر دیا گیا.اس سلسلہ میں کانپور کی عید گاہ میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا.جس میں بعض آتش بیان مقرروں کی تقاریر کے نتیجہ میں زبر دست اشتعال پیدا ہو گیا اور جلسہ کے اختتام پر سینکڑوں آدمی سیدھے مسجد کی طرف چل پڑے اور جاتے ہی شور مچانا شروع کیا کہ مسجد کو دوبارہ تعمیر کر دو اور کچھ لوگوں نے اینٹیں بھی اکٹھی کرنی شروع کر دیں.ایک سب انسپکٹر پولیس نے ان کو سمجھایا.مگر انہوں نے اس پر پتھر برسائے بعد ازاں ایک انسپکٹر پولیس چند سپاہیوں کو لے کر پہنچا تو اس پر بھی پتھراؤ کیا گیا اور وہ چوکی میں پناہ لینے پر مجبور ہوا اور اس کا کچھ سامان بھی توڑ پھوڑ دیا.جب صورت حال اس درجہ پہنچ گئی تو ڈپٹی کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ پولیس مسلح پولیس لے کر موقعہ پر آئے.ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو پیچھے چھوڑ کر لوگوں کو سمجھانا شروع کیا.مگر اس پر بھی اینٹیں اور پھر پھینکے گئے.کچھ دیر انتظار کے بعد ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو خالی فائر کرنے کا حکم دیا.لیکن مجمع بدستور قابو سے باہر ہو رہا تھا.اس لئے گولی چلانی پڑی جس پر لوگ منتشر ہو گئے.تیرہ آدمی اسی وقت مردہ پائے گئے.تمہیں زخمی ہوئے جن میں سے چھ نے بعد میں دم تو ڑ دیا.دوسری طرف پولیس کا ایک آدمی خود پولیس کی گولی سے مر گیا.پچیس سپاہی زخمی ہوئے اور ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بھی ضربیں آئیں اس فساد میں قریباً ایک سوستر

Page 483

خ احمدیت.جلد ۳ 454 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء آدمی پکڑے گئے.جو مسلمان زخمی ہوئے انہوں نے برملا کہا مولویوں نے ہمیں برس کا کر خراب کیا تھا.مسلمانان کانپور نے بعد میں وائسرائے ہند کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا جس میں کہا کہ ہم ان لوگوں کی کارروائی کو ملامت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں جنہوں نے اینٹوں کے پھینکنے سے قانون کی خلاف ورزی کی یا کسی اور طریقہ سے خلاف قانون طرز عمل اختیار کیا.ہم حضور والا کو یقین ولاتے ہیں کہ مسلمانان کانپور ہزامپریل میجسٹی شہنشاہ معظم کی انتہا درجہ کی قانون پر چلنے والی اور وفادار رعایا ہیں ".یہ ہے سانحہ کانپور کی تفصیل جسے ابتدائی مرحلہ سے ہی بعض مسلمان اخباروں نے اچھالنا شروع کیا اور کانپور کے مسلمانوں کو اکسا اکسا کر ان کو آمادہ فساد کرتے رہے.اس آگ کو سب سے زیادہ ہوا دینے والے مولانا ابو الکلام آزاد تھے.جنہوں نے "الحلال" کے صفحے کے صفحے اس کے لئے وقف کر دئے اور متعدد تصاویر شائع کیں.اخبار " الفضل " نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی راہ نمائی اور مشورہ سے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ "رسول کریم کے زمانہ میں غسل خانہ وضو خانہ اور پاخانہ مساجد میں نہ ہوتے تھے.پھر غسل خانہ کو مسجد کا حصہ کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے.اور وضو خانہ اس کا حصہ کیونکر قرار پا سکتا ہے؟ یہ موقف چونکہ اخبار "الحلال" اور "پیغام صلح" کی طرف سے خلیفہ رجب الدین صاحب کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھیجا گیا تا آپ کی تحریری رائے حاصل کی جائے اس پر حضرت خلیفہ اول نے ۶/ اگست ۱۹۱۳ء کو ایک تحریر لکھی جو پیغام صلح (مورخہ ۱۰/ اگست صفحه ۲ د ضمیمه ۲۴/ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۵) میں بایں الفاظ شائع ہوئی." میرا مذ ہب یہ ہے کہ جس سلطنت کے ماتحت ہم رہیں اس کے خلاف نہ کریں.اس کے حضور آرام کی درخواستیں کرتے رہیں.اگر وہ مان لے تو سبحان اللہ.اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے اگر نہ مانے تو اس کے ملک سے نکل جائیں.حضرت قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے کہ نبی کریم "موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا.قوم کو صبر کا حکم دیا.واصبروا ان العاقبة للمتقين - آخر درخواست کی ہے.ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبهم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دو اور ان کو آپ دکھ نہ دیں.حضرت نبی کریم خاتم النبین صلے اللہ علیہ و آلہ اجمعین نے تیرہ برس مکہ معظمہ میں تکالیف کو برداشت فرمایا.سمیہ کو سختی سے قتل کیا گیا.زنیرہ کو مار ڈالا.یا سر کو نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا.آخر آپ نے اپنے پہلے صحابہ کو ہجرت کا حکم دیا.پھر آخر آپ خود مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے اور مکہ سے ہجرت کر گئے.یہ ہے میرا مذ ہب.اس پر عمل درآمد ہے.رہا پیسہ اخبار یا اہل حدیث یا ان کے برادران خورد و بزرگ - سویہ لوگ ابتداء سے اس وقت تک ہمارے دشمن رہے ہمارا کیا بگاڑا جو اب بگاڑیں گے بے ریب کانپور

Page 484

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 455 اخبار الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء " کے حکام باختیار کی غلطی ہے کہ مندر کو بچایا اور مسجد کو گرایا اور آخر گولی چلانے کا حکم دیا.عمدہ ترا بیرو عاقبت اندیشی سے کام نہ لیا.مگر ایسے حکام کے متعلق قرآن مجید کا حکم صاف ہے و کذالک نولی بعض الظالمين بعضا.مسلمان خود مسلمان ہوں تو ان پر ایسے حکام کیوں ہوں یہ ہے میرا ایمان غالبا آپ سمجھ گئے ہیں اس کے خلاف کرو گے تو ہم آپ سے بیزار ہیں".اس فتویٰ کے علاوہ حضرت خلیفہ اول کی نظر ثانی سے الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۱۳ء میں ایک مضمون بھی شائع ہوا.جس میں اس تمام تر ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری شعلہ بیان لیکچراروں اور آتش مزاج ایڈیٹروں پر ڈالی اور مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اسلام بغاوت اور حکام کے مقابلہ کو منع کرتا ہے.مسلمانوں کا فرض تھا کہ حکام کی خلاف ورزی کی بجائے اطاعت کرتے.اگر حکام ظالم تھے تو یقین رکھتے کہ ایک حی و قیوم خدا ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کافی ہے.حضرت خلیفہ اول نے اس مضمون پر یہ تحریر فرمایا." جزاک اللہ احسن الجزاء خوب لکھا ہے کچھ زائد شائع کر دو.اب مسئلہ بالکل واضح تھا اور مسجد کان پور کے نام پر شورش اٹھانے والوں سے ہم نوائی کی کوئی وجہ جو از اس سے نہیں نکل سکتی تھی.مگر مولوی محمد علی صاحب نے پورے فتویٰ کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس فقرہ کو لے کر کہ "بے ریب کانپور کے حکام باختیار کی غلطی ہے کہ مندر کو بچایا مسجد کو گرایا".تین لمبے لمبے مضمون پیغام صلح میں شائع کئے.جس میں وضو خانہ کو مسجد ہی کا حصہ قرار دیا اور اس سے الحلال کی تحریک کو بے حد تقویت پہنچی.مولوی محمد علی صاحب کو احمدیوں نے توجہ دلائی کہ قادیان میں دو مسجدوں کے غسل خانے کسی اور مصرف میں لائے جاچکے ہیں.اس لئے آپ کا استدلال صحیح نہیں ہے.جس پر مولوی صاحب نے پیغام صلح میں ایک مراسلہ لکھا جس میں عجیب و غریب تاویلات کیں اور لکھا کہ ” میں نے ہرگز اس مضمون پر قلم اٹھانا پسند نہیں کیا.جب تک کہ حضرت خلیفتہ المسیح ادل کے ہاتھ کا لکھا ہوا فتوی نہیں پڑھ لیا کہ حکام نے غلطی کی.الخ " نیز لکھا.” میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک معمولی امر ہے کہ بعض واقعات سے ایک شخص ایک نتیجہ پر پہنچے دوسرا کسی اور نتیجہ پر.اس کو سلسلہ میں اختلاف کا نام دینا اس کے مرتکب احمدی ہوں یا غیر احمدی بڑی جلد بازی ۶۰ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے اخبار پیغام صلح کے پیش نظر اہم ترین مقاصد میں سے اولین مقصد خاندان حضرت مسیح موعود کی مخالفت تھی.حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے پیغام صلح کے اجراء پر اس اخبار کے لئے اکسیر" کے عنوان سے ایک نہایت لطیف مضمون ارسال فرمایا.جس سے آپ کی

Page 485

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 456 اخبار " الفضل “ اور ”پیغام صلح " کا اجراء فراخ دلی اور وسعت قلبی کا پتہ چلتا ہے.مگر چونکہ ادارہ پیغام صلح کی پالیسی میں خاص طور پر آپ کی ذات پر تنقید شامل تھی.اس لئے اس نے چند ہفتوں کے بعد ہی الفضل سے کھلم کھلا نوک جھونک شروع کر دی اور لکھا.”ہم احمدی لوگ دوسروں کو تو الزام دیتے ہیں کہ وہ قرآن پر عمل نہیں کرتے.لیکن اگر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں اور غور کریں تو پائیں گے کہ ہم خود جو حق قرآن پر چلنے کا ہے ادا نہیں کرتے.اور تنسون انفسکم کا رنگ ہماری تحریروں اور تقریروں میں پایا جاتا ہے.ہمارے بعض اخبارات نے اس حکم کی تعمیل میں کو تاہی اختیار کی ہے.وہ دار الامان میں امن سے رہتے ہیں ان تک وہ گالیاں پہنچیں یا نہ پہنچیں لیکن بیرو نجات کے لوگوں کو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے.اس لئے بڑے ادب سے ہم اپنے احمدی بھائیوں کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ اس حکم الہی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان حرکات سے باز آجائیں ۶۴ et - حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ اس مضمون پر حضرت خلیفہ اول سخت ناراض ہوئے اور فرمایا یہ " پیغام جنگ" ہے اور مجھے حکم دیا کہ اگر چہ ہم قیمت دے چکے ہیں.پھر بھی ہمارے نام اگر ڈاک میں آوے تو واپس کر دیں.اور ایک خط ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے نام لکھا کہ " آپ کا پیغام جنگ ملا.مولوی محمد علی اور خواجہ کمال الدین کی بیعت کر لو.ان الله و انا الیه راجعون".یہ بات جماعت میں انہی دنوں پھیل گئی.اور پیغام صلح سے نفرت و حقارت کا اظہار ہونے لگا.چنانچہ اخبار "الحق" (دہلی) نے لکھا." احقر ایڈیٹر الحق کو گو پیغام صلح کی روش ابتداء سے پسند نہ تھی.مگر تا وقتیکہ اپنے امام کا ارشاد اس کے متعلق معلوم نہ کر لیا.اس پر لکھنا مناسب نہ جانا.اب جبکہ وثوق کے ساتھ مجھے یہ علم ہو گیا کہ حضرت امامنا و مرشد نا امیر المومنین خلیفتہ المسیح ایده الله بنصرہ نے "پیغام صلح" سے اظہار ناراضگی فرمایا بلکہ اس کے کارکنان کو خط بھی لکھ دیا کہ آئندہ پیغام صلح ہمارے نام نہ بھیجیں ہم اس کو دیکھنا پسند نہیں کرتے.اور حضور کے اس ارشاد کو سن کر دیگر مخلص احباب نے بھی ”پیغام صلح" کالینا بند کر دیا.اور پرچے واپس کر دئے نیز حضور پر نور نے اس کا نام بجائے "پیغام صلح" کے "پیام جنگ" رکھا".حضرت خلیفہ اول نے ۲۷/ اگست ۱۹۱۳ء کو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے نام ایک خط لکھا کہ ”یہاں خطرناک مخالفت کا جلوہ ہے.مرزا یعقوب بیگ صاحب ، ڈاکٹر شیخ صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے تو میرے سامنے اور سید محمد حسین صاحب نے تحریراً اور مولوی محمد علی صاحب نے سنتا ہوں گو ابھی میرے پاس ثبوت کے لئے کوئی ذریعہ نہیں کی

Page 486

تاریخ احمدیت جلد ۳ 457 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء ہے فاناللہ وانا الیہ راجعون اور کیا لکھوں.والسلام نورالدین ۲۳ / رمضان شریف ۵۲۵ " خطرناک قلات مین در مرز ایتی کده ویر پر سامنے.اور سید محوض خان نے عززاً اور ہیلے تھے پھر مجود سے کالے نے سنتے ہونے کو راہی میں اڑی ہوں کوئی دور یونین کی بہت نانا ہر وانا الیہ راجح اس کے علاوہ آپ نے اپنے قلبی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.محمود مسیح موعود کا بیٹا ہے.اس پر جو زبان تیز کرے گاوہ یا د ر کھے کہ محمد حسین نے ایسا کیا اور اس کی اولاد گندی ہو گئی".حضرت چوہدری فتح محمد صاحب کا حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۱۹۱۲ء میں عربی میں ایم.اے کی ڈگری حاصل کر کے اپنے سفر انگلستان اور یورپ میں سب عید وقف زندگی کے مطابق قادیان آچکے تھے کہ سے پہلے احمدی مسلم مشن کا قیام حضرت خلیفہ اول نے تحریک فرمائی کہ ہمیں لنڈن مشن کے لئے ایک مبلغ کی ضرورت ہے جس پر حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے اپنا نام پیش کیا.حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کوئی نوجوان جانے کو تیار نہیں.میرے پاس تو ایک کی بجائے دو نوجوانوں کی درخواستیں آگئی ہیں.مولوی محمد علی صاحب چونکہ دوسرے نوجوانوں کو بھجوانے کی بجائے خواجہ کمال الدین صاحب کی خواہش کے مطابق خود ولایت جانا چاہتے تھے.اس لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو یہ اطلاع دی کہ یہ نوجوان دس دس ہزار روپیہ پیشگی کا مطالبہ کرتے ہیں چوہدری صاحب نے عرض کی یہ تجویز خود مولوی صاحب کی ہے ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے.چوہدری صاحب نے مولوی الدین صاحب کو یہ بات پہنچائی تو انہوں نے کہا ان حالات میں میں تو نہیں جا سکتا لیکن چوہدری

Page 487

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 458 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء صاحب نے کہا کہ اس کا صحیح جواب فقط یہی ہے کہ ہم کسی مدد کے بغیر لنڈن پہنچ جائیں.اس کے بعد چوہدری صاحب نے پورا واقعہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین صاحب سے بیان کیا.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا.کہ انصار اللہ کا چندہ جو ممالک غیر میں تبلیغ کے لئے جمع ہے.وہ میں تم کو دیتا ہوں لیکن میرا اس طرح خود دینا درست نہیں تبرک اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ میں رقم ابھی حضرت خلیفہ اول کو بھیجوا دیتا ہوں.تم حضور کے مطب میں جا کے انتظار کرو.چنانچہ آپ مطب میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روپیہ کا انتظار کئے بغیر عرض کیا کہ حضور میں لنڈن جا رہا ہوں.حضور نے فرمایا کرایہ کا کیا انتظام کیا ابھی آپ یہ عرض ہی کر رہے تھے کہ ایک خادم رو مال میں تین سو روپیہ لے کر پہنچ گیا حضرت نے یہ رقم بڑی خوشی سے چوہدری صاحب کے حوالہ کر دی.وہاں حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی تشریف فرما تھے انہوں نے بھی ایک سو پانچ روپے حضرت کی خدمت میں اس سلسلہ میں پیش کئے.علاوہ ازیں بعض اور دوستوں نے بھی چندہ دیا لیکن پوری رقم سات سو سے کم ہی رہی.اسی طرح ایک سو پانچ روپے حضرت خلیفہ اول کی فہمائش پر صد را مجمن احمدیہ کی طرف سے دیا گیا.سنت صوفیا کے مطابق آپ نے یہ رقوم وصول کرلیں.ڈیڑھ سو روپیہ کی ضروری کتابیں مثلاً بخاری و مسلم وغیرہ خرید لیں اور کوئی نیا جوڑا نہیں بنایا اور اسی حالت میں قادیان سے روانہ ہو کر ۱۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء کو لنڈن تشریف لے گئے اور ا / اگست ۱۹۱۳ء کو روکنگ چلے گئے.اس وقت خواجہ صاحب وہاں موجود نہ تھے چار پانچ روز بعد واپس آئے.ہندوستان سے آئی ہوئی ڈاک پہنچی.تو ایک خط مولوی محمد علی صاحب کا بھی تھا.جس میں لکھا تھا کہ چوہدری فتح محمد میاں محمود احمد کا خاص آدمی ہے جو آپ کی جاسوسی کے لئے بھیجا گیا ہے.خواجہ صاحب نے خط پڑھ کر چوہدری صاحب سے پوچھا تو چوہدری صاحب نے اس الزام کی تردید کی اور بتایا کہ آپ بے فکر رہیں میں آپ کی مدد کے لئے اور تبلیغ کے لئے آیا ہوں.حضرت میاں صاحب نے انصار اللہ کی مد سے صرف اس لئے رقم دی کہ مولوی محمد علی صاحب نے متعدد دفعہ مدد کرنے سے صاف انکار کیا تھا.سلام کے لیکن خواجہ صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی بات اپنے دل میں بٹھائی اور پہلے تو حضرت خلیفہ اول کو خط لکھنے شروع کر دئے کہ خدا کرے اب وہ دن آئے کہ سید محمد حسین اور مولوی محمد علی یہاں ہوں.پھر صاف لکھا کہ گوچودھری فتح محمد صاحب کی آنکھ کی تکلیف میں افاقہ ہے لیکن میرا ارادہ نہیں کہ وہ کام شروع کریں.لیکن جب دربار خلافت میں کوئی شنوائی نہ ہوئی تو خواجہ صاحب نے

Page 488

تاریخ احمدیت جلد ۳ 459 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء پیغام صلح میں برادران کے نام کھلا خط شائع کر دیا.جس میں لکھا ” میری تجویز یہ ہے کہ جناب مولانا مولوی محمد علی صاحب کو بہت جلد یہاں بھیج دیا جاوے اور میں ان کے ہمراہ دو ڈیڑھ ماہ رہوں.جب ان کا یہاں کے احباب سے رابطہ ہو جائے تو میں ہندوستان آجاؤں.موجودہ صورت میں اگر میں چلا آؤں تو پھر چودھری فتح محمد صاحب اور شیخ نور احمد صاحب دونوں کے لئے اس اہم اور بھاری کام کا چلانا سخت دشوار ہو جائے گا.اس لئے جتنی جلدی ہو سکے جناب مولوی محمد علی صاحب کو یہاں بھیجنے کا انتظام کریں.یہی پیغام جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ان کی طرف سے آیا.یہ تو بیرونی رنگ میں ان کی چوہدری صاحب کے واپس بھیجوانے کی جدوجہد تھی.جہاں تک تبلیغ اسلام کے کام کا تعلق تھا انہوں نے چوہدری صاحب کو سختی سے ہدایت دی کہ تبلیغ کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہرگز نہیں لینا.اس اختلاف کی بناء پر چوہدری صاحب و کنگ چھوڑ کر فوکسٹن چلے آئے اور حضرت خلیفہ اول تک اصل واقعات بھجوا دئے.حضور نے حکم بھیجا کہ فور اور کنگ واپس چلے جاؤ اور تبلیغ میں جب موقع ملے.حضور کا نام ضرور لیں.تبلیغ ہی کے لئے تو میں نے آپ کو بھیجا ہے.تبلیغ سے آپ کو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ کسی کا حق ہے.باقی امور میں آپ خواجہ صاحب کی اطاعت کریں.کیونکہ وہ امیر ہیں اس پر آپ پھر دو کنگ آگئے اور حضرت خلیفہ اول کے منشاء کے مطابق تبلیغ کرتے رہے.آپ ہی نے مسجد دو کنگ کا افتتاح کیا اور سب سے پہلا پالک لیکچر دیا.جس کا اعتراف خواجہ صاحب نے اسلامک ریویو" میں بھی کیا.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر چونکہ خواجہ صاحب خلافت سے ہمیشہ کے لئے کٹ گئے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے حکم سے لنڈن آگئے اور وہاں سب سے پہلا احمد یہ مسلم مشن قائم کر دیا.جواب کامیابی سے چل رہا ہے.خواجہ صاحب قبل ازیں چوہدری صاحب کو کہہ چکے تھے کہ تم ہندوستان چلے جاؤ.ہم مل کر کام نہیں کر سکتے.واپسی کا کرایہ میں ادا کر دیتا ہوں.تمہارے والد میرے دوست ہیں.میں ان سے رقم وصول کرلوں گا.چوہدری فتح محمد صاحب کا عریضہ " تحریک وقف زندگی" پر لبیک کہتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو درخواست لکھی تھی.جس کے نام اور حضور کا جواب پر حضور نے اپنے قلم سے اظہار خوشنودی فرمایا.اس درخواست اور حضور کے جواب کا عکس درج ذیل ہے :

Page 489

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 460 اخبار "الفضل راسيم الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عد صرفه ۲۵ بر تیر بادی و ملاقات سلام علیکم ورحمہ البدو بر یا تمہا.حضور بندہ کا مدت سے ارادہ تھا.کہ اپنی زندگی اللہ تعالے کی رہ ہیں وقف کر دوں کے تھا.ہے اس اس کا پینے اپنے والدہ جب سے کئی زند ذکر بھی کیا.اور انہون تے این کرنے کی بندہ کو اجازت دی ہوئی ہے.ہے جو اس قسم کی ایک ترقی نے حضور کی خدمت مبارک ہیں مینے لکھی تھی.منگی اسوقت حضرت مولان مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا تھا.کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا.اسلئے بندہ نے توقف کیا.نہیں تو بندہ کی ہمیشہ

Page 490

تاریخ احمدیت جلد ۳ 461 اخبار " الفضل ہی خو اہتی رھی ہے.اب بندہ حضور سے استدی کرتا ہے.کہ اس عرض کو قبول کیا جائے.اور دعا کی جائے.کہ المر تو نے ایندہ کی اس قربانی کو قبول فرمائے.کیونکہ قرآن شریف میں لکھا ہے.کہ اور متقی کی قربانی قبول کی تا ہے.اور دوسری کے ردم ان اللہ تشقيل من المتفقین استیم در خفته الفوارة انا تقبل اللون تحقیق در ريف کی خود نشانی اس او اتفاق پستی این مناسب ہے نہ مفتی محمد صادقی صاحب مصوری اونی انتقام فتح محمد مور خود ۲۵ تیری

Page 491

تاریخ احمدیت جلد 462 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء مدرسہ احمدیہ کو عربی علوم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا سفر مصر و شام کے چوٹی کے اساتذہ کی ضرورت تھی.یہ خلا پر کرنے کے لئے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (ایف.اے) اور شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم (مولوی فاضل) لاہوری کو مصر بھیجا گیا.دونوں ہم سفر انصار اللہ کے ممبر تھے اور انصار اللہ ہی نے ان کو سفر کے اخراجات دئے.۲۶ / جولائی ۱۹۱۳ء کو یہ اصحاب قاریان سے روانہ ہوئے.حضرت خلیفہ اول نے دعا کے ساتھ الوداع کیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب انصار اللہ کے ممبروں اور دوسرے احباب کے ساتھ مشایعت کے لئے دور تک گئے.اور شہر سے باہر جا کر کے بٹھایا.مصر میں پہنچ کر شاہ صاحب کا دل قاہرہ کے قدیم طریقہ تعلیم سے اچاٹ ہو گیا.اور وہ شیخ عبد الرحمن صاحب کو قاہرہ چھوڑ کر پہلے بیروت پھر طلب میں گئے اور چوٹی کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی.اور بیت المقدس میں امتحان دے کر اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوئے پھر صلاح الدین ایوبیہ کالج میں استاد مقرر ہوئے اور ساتھ ہی شام یونیورسٹی سے سند بھی حاصل کی.بعد ازاں سلطانیہ کالج کے دائس پرنسپل بنے.اکتوبر ۱۹۱۸ء کے آخر میں سیاسی قیدی کی حیثیت میں اولاً قاہرہ اور ثانیا مئی ۱۹۱۹ء میں لاہور لائے گئے.جہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے آپ کو آزاد کروایا.خانہ کعبہ اور مدینہ میں اسلام اور احمدیت ۱۹۱۳ء میں خان صاحب فرزند علی صاحب حج کے کے لئے دعائے خاص کی تحریک لئے روانہ ہونے لگے.تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے قلم سے ان کو ایک مفصل مکتوب لکھا.جس میں تحریر فرمایا." میرا ارادہ تھا کہ آپ کو ایک دعائیہ خط لکھ کر دوں جسے آپ میری طرف سے مدینہ منورہ اور مکہ میں پڑھ کر دعا مانگیں.لیکن اب میرے دل کی کیفیت اس کی اجازت نہیں دیتی.آپ اسی بات کی دعا کریں کہ الہی جس کام کے لئے میں کھڑا ہوں اگر تیرے منشاء کے مطابق ہے تو میرے دل کو مضبوط کر اور طاقت دے کہ میں تیرے قائم کردہ سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کروں.اور اے خدا اگر جو کچھ میں کرتا ہوں تیرے منشاء کے خلاف ہے تو مجھے ہدایت دے اور اگر میرا وجو د سلسلہ کے لئے باعث فتنہ ہے تو مجھے میرے حبیب محسن کے ساتھ ملا دے کہ دل بے چین و بے قرار ہے.تازه پیغام (اخبار پیغام صلح.ناقل ) آپ نے پڑھا ہو گا.اب گویا صریح مقابلہ شروع ہو گیا ہے راستہ میں بہت دعا کریں اور بہت ہی دعا کریں.خدا تعالیٰ جماعت کا حامی ہو اسلام کا مددگار ہو ہمیں اسلام کا خادم بنائے اور اسلام پر ہمیں وفات دے کہ زمانہ تاریک ہو رہا ہے اور مصائب کے پہاڑ نظر آرہے

Page 492

تاریخ احمدیت جلد ۳ 463 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء ہیں مسیح موعود کا قائم کردہ سلسلہ اپنی پیج دین سے ہلتا ہوا نظر آتا ہے.زندگی سے دل سرد ہے اور دماغ افکار و آلام سے پر اگر دل کو ڈھارس ہے تو یہ کہ خدا کے وعدے ہیں کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے گا.ہاں خواہش ہے کہ ہمارے ہوتے ہو جائے تو ہماری آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوں اگر تسلی ہے تو یہ کہ خدا کا وعدہ ہے اور حضرت صاحب فرماتے تھے مجھے روزانہ یہ الہام ہوتا ہے اور کوئی اور الہام اس کثرت سے نہیں ہوا جتنا کہ انی ملک و مع املک.پس اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ لوگ ہماری مخالفت ضرور کریں گے.اور خدا ہمارے ساتھ ہو گا.ہاں ڈر ہے تو یہ کہ اپنی غفلتوں سے اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو بھی گمراہی کے گڑھوں میں نہ ڈال دیں.علم نہیں ہمت نہیں صحت کمزور ہے بوجھ بہت زیادہ ہے اور کام اہم ہے خدا ہی رحم کرے تو کام چلے اس لئے میرے سرداری آقا کے نماز پڑھنے کے مقام پر ان گلیوں میں جن میں وہ چلتا تھا.اس کے مکان کے ارد گرد گھوم گھوم کر جو ابراہیم نے بنایا تھا اس میدان میں جو آپ نے قبولیت دعا کے لئے پسند فرمایا.مزدلفہ میں مقام ابراہیم کے پاس میرے لئے دعا کریں.میری دعاؤں کو تو وہ یہیں سے سنتا ہے میری فریاد کو ہمیں پہنچتا ہے.مگر ایک آرزو ہے ایک عشق ہے جو تمنا کرتا ہے کہ محبوب کے سواد اور اس کی جائے رہائش میں بھی کچھ عرض کروں ".| AF | 19 ستمبر کی رات کو حضرت خلیفہ اول ذات الجنب کی حضرت خلیفہ اول کے پنجابی اشعار بیماری میں مبتلا تھے.شدت تکلیف میں آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور آپ نے پنجابی میں چند دعائیہ اشعار لکھے.جن کا مفہوم یہ تھا کہ میں ڈوب رہا ہوں اے میرے خدا تو میرا ہاتھ پکڑ لے کہ تیرے سوا کوئی دستگیر نہیں ہے ہم بے آسروں کا تنہا تو ہی آسرا ہے اب میں کیا حال سناؤں کہ نوبت کہاں تک آپہنچی ہے اپنے بیگانے ہو گئے دنیا پر سخت تاریکی چھا گئی.فضا کہر آلود ہو گئی گرداب بلا انتہا کو پہنچ گئے اب تو ہی ہے کہ ہمیں اس طوفان سے پار نکال دے.دوست صرف سکھ میں ہی کام آتے ہیں دکھ درد میں بھلا کون کسی کا شریک ہوتا ہے.خدا کرے میں دین پر قائم رہوں اور نور دین ہی بن جاؤں تا اپنے محبوب کے دربار تک رسائی کی کوئی صورت نکل آئے.AP ان اشعار کے بارے میں بعد کو آپ نے خود ہی فرمایا.ایک خاص وقت کا میرا ذوق ہے اس وقت میں شعر کہنے کے سوائے رہ ہی نہ سکتا تھا".جماعت احمدیہ شملہ کا سالانہ جلسہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی کی طبیعت ناساز تھی اس لئے آپ مولوی سید سرور شاہ صاحب کے ساتھ تبدیلی آب و ہوا کے لئے ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ء کو شملہ تشریف لے گئے.AC

Page 493

تاریخ احمدیت جلد ۳ AC 464 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء حضرت نواب محمد علی خان صاحب پہلے ہی یہاں مقیم تھے آپ کے بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی آگئے.ان بزرگوں کی آمد سے فائدہ اٹھانے کے لئے جماعت شملہ نے ۲۰.۲۱ / ستمبر کو سینٹ ٹامس چرچ میں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کیا اور نواب سید محمد رضوی صاحب نے اس کے اخراجات برداشت کئے.جماعت نے اشتہار شائع کرنے چاہے مگر چونکہ اس میں خاص طور پر ذکر تھا کہ جماعت احمدیہ کی خصوصیت پر لیکچر ہوں گے.اس لئے پریس والوں نے ان کو چھاپنے سے انکار کر دیا.اور جماعت والوں نے کہا کہ اب جلسہ نہ ہو سکے گا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان دنوں شملہ ہی سے انصار اللہ کے لئے ایک دستی پریس خرید اتھا آپ نے اس موقعہ پر فرمایا کہ لیکچر ضرور ہو گا.اور اس کا پہلا تجربہ اس پریس سے کریں گے.چنانچہ آپ نے اس وقت پینسل سٹینسل سے اشتہار لکھا اور آپ اور حافظ روشن علی صاحب دونوں نے راتوں رات بڑی کثرت سے اشتہار چھاپ دئے.جو دوسرے دن شملہ میں چسپاں کر دئے گئے.مخالفین نے تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ احمدیوں کے جلسہ میں کوئی نہ جاوے.مگر خدا کے فضل سے توقع سے کہیں بڑھ کر حاضری ہوئی.اس جلسہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے دو لیکچر ہوئے جو بہت مقبول و کامیاب ہوئے.آپ نے دونوں لیکچروں میں سلسلہ احمدیہ کی کھلے الفاظ میں تبلیغ کی.اور ان تقاریر کی رو نداد شائع کرتے ہوئے اخبار الحق (دہلی) نے لکھا.میاں صاحب ممدوح کے دو لیکچر اس جگہ ہوئے ۲۰/ ستمبر کو مسلمان کیونکر ترقی کر سکتے ہیں " کے عنوان سے لیکچر دیا اور ۲۱ کو " الاسلام " کی سرخی سے دونوں لیکچروں کو سن کر سامعین جس قدر شگفتہ رو ہو کر گئے اور جس قدر خوش ہوئے وہ حد بیان سے باہر ہے محض قرآن مجید سے آپ کے تمام استدلال تھے.ہر ایک دعوی پر آیات قرآن پیش کرتے تھے.سامعین سے ہال بھرا ہوا تھا اور عموماً غیر احمدی لوگ و آریہ د سکھ شامل ہوئے آپ کے لیکچر کے بعد بابو محمد حسین صاحب نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا اما ان کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب کے علاوہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کے "ختم نبوت" کے موضوع پر اور حضرت میر قاسم علی صاحب کے اسلام اور دیگر مذاہب" کے عنوان پر لیکچر ہوئے.صدارت کے فرائض پہلے دن حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور دوسرے دن نواب سید محمد رضوی صاحب AA نے سرانجام دئے.خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء نے جن بڑے بڑے شہروں میں لیکچر دینے شروع کئے تھے ان میں شملہ کو خاص اہمیت حاصل تھی.منشی برکت علی خان صاحب شملوی کا (جوان دنوں جماعت شملہ کے سیکر ٹری تھے ) بیان ہے کہ ان لیکچروں میں ایک تو یہ اصحاب احمدیت کے ذکر سے

Page 494

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 465 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء قطعی اجتناب کرتے بلکہ خواجہ صاحب تو صاف کہتے تھے کہ احمدیت کے نام سے لوگ آتے نہیں.میں عام مضامین سن کر سفر مینا کا کام کرتا ہوں یعنی لوگوں کو احمدیت کے لئے تیار کرتا ہوں.دوسری خصوصیت ان عمائد کی یہ تھی کہ یہ باتوں باتوں میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ذکر چھیڑ دیتے تھے اور بظاہر تعریف کر کے یہ ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ لیڈر بننے کے اہل نہیں ان کی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کو یہ خوف تھا کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد کہیں وہ خلیفہ نہ ہو جائیں اور گو ان کو پہلے ہی جماعت میں خاصار سوخ حاصل تھا.پھر بھی انہوں نے دورہ کر کے تمام جماعت میں اپنے رسوخ کو اور بڑھانا چاہا اور ساتھ ہی یہ بھی کوشش کرتے رہے کہ لوگوں کے دلوں سے حضرت میاں صاحب کی محبت کم کر کے ان کی عزت گھٹا دیں.مجھے چونکہ حضرت میاں صاحب کے حالات معلوم تھے اور مجھے ان سے محبت تھی میں ہمیشہ ان کی مخالفت کرتا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے میرے سامنے ایسی باتیں ترک کر دیں ان دنوں جب کہ حضرت میاں صاحب شملہ میں تھے میں نے آپ سے دریافت کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے رفقاء آپ سے کیوں ناراض ہیں؟ فرمایا.یہ ان کی غلطی ہے خدا جانے ان کو کیا غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ وہ میرے ساتھ ایک حقارت کا سلوک رکھتے ہیں اور سلام کا جواب بے رغبتی سے دیتے ہیں.ایک سوال میں نے غالباً اس موقعہ پر یہ کیا کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد آپ کے خیال میں کون خلافت کے لئے زیادہ موزون ہے.آپ نے فرمایا خلیفہ کی زندگی میں اس قسم کا سوال اٹھانا میں گناہ سمجھتا ہوں اور کوئی جواب نہ دیا.(مخص بیان منشی برکت علی صاحب شملوی) ۱۹۰ قیام شملہ ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت صاجزادہ صاحب نے رویا دیکھا کہ ” میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں.ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے.اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں.ایسا نہ ہو تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ.اور پھر کہا کہ میں تمہیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو.میں نے کہا.ہاں بتاؤ.اس پر اس نے کہا.کہ بہت سے بھیانک نظارے ہوں گے مگر تم ادھر ادھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونا.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے ہوئے سیدھے چلے جانا.ان کی غرض یہ ہوگی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ.اگر تم ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے.اس لئے اپنے کام میں لگ جاؤ.چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل تھا اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیانک تھا.تو بعض لوگ آئے

Page 495

تاریخ احمدیت جلد ۳ 466 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معا خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے ہوئے چلے جانا.اس پر میں نے ذرا بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے.اس کے بعد پھر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستہ آیا.اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں.حتی کہ بعض سرکٹے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے.ہوا میں معلق میرے سامنے آتے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے اور چھیڑتے مجھے غصہ آتا لیکن معافرشتہ کی نصیحت یاد آجاتی اور میں پہلے سے بھی بلند آواز سے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہنے لگتا.اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلا ئیں دور ہو گئیں اور میں منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ گیا.اس رویاء کے بعد آپ کا آج تک یہ التزام رہا ہے کہ جو مضمون بھی تحریر فرماتے ہیں اس کے اوپر بسم الله الرحمن الرحیم کے بعد " خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " ضرور لکھتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو لکھا کہ لمبا عرصہ آپ کا باہر رہنا میں پسند نہیں کرتا.اس لئے آپ جلد انبالہ سے ہوتے ہوئے واپس قادیان تشریف لے گئے.انبالہ میں آپ نے دو روز قیام فرمایا.ایک رات انبالہ صدر میں دوسری رات انبالہ شہر میں.شہر میں آپ نے لیکچر بھی دیا جو ایساد لچسپ اور پر از معلومات تھا کہ سامعین کو لیکچر ختم ہونے کے باوجود اس کے جاری رکھنے کا بے پناہ اشتیاق تھا.لیکچر کا عنوان تھا کہ آیا احمدی عقائد سے اسلام کا زندہ مذہب ہونا اور خدائے اسلام کا جلال و جبروت و رحمت اور آنحضرت ﷺ کی شان ارفع و اعلیٰ ثابت ہوتی ہے یا غیر احمدی عقائد سے ؟ خان صاحب برکت علی صاحب شملوی کی روایت ہے کہ ۱۹۱۳ء کے اواخر میں جب حضرت میاں صاحب شملہ سے واپس گئے تو حضرت مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول مراد ہیں.ناقل) نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی پوچھا.کہ شملہ کی جماعت کس طرف ہے.ہماری طرف یا خواجہ صاحب کی طرف.حضرت میاں صاحب نے جواب دیا کہ حضور وہ تو کچھ خواجہ صاحب کی طرف جھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے پوچھا کہ برکت علی کدھر ہے ؟ حضرت میاں صاحب نے جواب دیا کہ وہ تو ہماری طرف ہے اس پر آپ نے فرمایا کہ ہاں بے شک ہم جانتے تھے کہ وہ ہماری طرف ہو گا.کیونکہ وہ بڑا مخلص ہے...اس سے مفصلہ ذیل نتائج بر آمد ہوتے ہیں.اول حضرت مولوی صاحب کو اختلاف کا علم تھا.دوم.وہ حضرت میاں صاحب سے متفق تھے.سوم.خواجہ صاحب کے خیالات والوں کو اپنے مخالف جانتے تھے.چہارم.ان کو یہ یقین تھا کہ جو احمدی مخلص ہو گاوہ ضرور خواجہ صاحب کے خلاف اور حضرت میاں صاحب کے ساتھ ہو گا".

Page 496

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 467 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء ضلع گورداسپور میں ایک گاؤں اٹھوال ہے جس اٹھوال کا گاؤں آغوش احمدیت میں کے غیر احمد ہی دوستوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو مباحثہ کے لئے مدعو کیا.مگر جب ان کو بتایا گیا کہ مباحثہ "مسئلہ حیات مسیح" پر ہو گا.تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ حضرت مسیح کا جنازہ ہی پڑھ دو.جس پر سارا گاؤں آغوش احمدیت میں آگیا.یہ ستمبر ۱۹۱۳ ء کا واقعہ ہے.1 ترجمہ قرآن مجید اور کتب احادیث کی اشاعت کی تحریک جیسا کہ ترجمہ قرآن انگریزی کے حالات میں اجمالاً ذکر آچکا ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مسجد نور اور دور الضعفاء اور ہسپتال کے لئے چندہ کی فراہمی کے بعد جماعت کی طرف سے قرآن مجید کے مستند اردو ترجمہ اور بخاری اور دوسری اسلامی کتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک کی اور حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی کہ ” آپ مجھے ترجمہ اور نوٹ عنایت فرما دیں نیز..کچھ روپیہ بھی بخشیں".حضرت خلیفہ اول نے اس تحریک پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے دعا فرمائی.اور اعانت کا وعدہ فرمایا.۱۹۱۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر حضرت صاحبزادہ صاحب کی ایک اہم تجویز الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدرانجمن احمدیہ کے طریق کار کی بعض خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ اہم تجویز رکھی کہ اس وقت مجلس معتمدین جس طرز پر ہوتی ہے.وہ بہت غلط ہے بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ جن کو بیرونی ممبر ا چھی طرح سمجھ نہیں سکتے.ان کی رائے ان معاملات پر سوائے کام میں حرج پیدا کرنے کے اور کسی کام کی نہیں ہوتی.چنانچہ بعض دفعہ کثرت رائے زبردست ہوتی ہے.تو وہ ایسی تحریری رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں.اگر مائنارٹی (Minority) زبر دست ہو.تو وہ یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ اب تو رائے آگئی ہے کیا ہو سکتا ہے.لہذا بعض معاملات کو جو مقامی ہوں قادیان کے ممبران ہی فیصلہ کر لیا کریں اور صرف ایسے امور جن پر بیرونی ممبران کی رائے کچھ وقعت رکھے اس میں بیرونی ممبروں کی رائے طلب کی جائے اس کے لئے قادیان کے موجودہ ممبروں کی ایک سب کمیٹی ہونی چاہئے اور اس کے اختیارات کے لئے ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو یہ فیصلہ کرے کہ کونسے امور مقدم الذکر سب کمیٹی میں پیش ہوں اور کون سے مجلس معتمدین میں؟ لیکن افسوس مجلس معتمدین نے یہ تجویز غیر ضروری قرار دے دی.

Page 497

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 468 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء ۲۶-۲۵/ اکتوبر ۱۹۱۳ء کو گوجرانوالہ میں جلسہ منعقد ہوا.جس میں گوجرانوالہ میں جلسہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور مولوی صدر الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے علاوہ حضرت صاجزادہ صاحب کا بھی لیکچر ہوا.اس لیکچر کا خلاصہ یہ تھا کہ اس امت کی اصلاح کے لئے پہلے کسی نبی کو لانے میں آنحضرت ا بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی بنک ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ ایک نیانی پیدا کرے؟ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ نبوت تشریعی اور غیر تشریعی دو رنگ کی ہوتی ہے.موجودہ وقت میں مسلمانوں کی حالت کھلے طور پر ایک مصلح کی آمد کا تقاضا کر رہی ہے.اب آنے والے کو دیکھو کہ اس کے آنے سے آنحضرت ﷺ کی عزت دوبارہ قائم ہوئی یا نہیں.آنحضرت سے جو عشق و محبت حضرت مرزا صاحب کے دل میں تھی.اس کا نمونہ تاریخ اسلام میں نظر نہیں آتا.اگر آپ اسلام کے فدائی نہ تھے تو یہ عشق رسول آپ کے دل میں کہاں سے آگیا؟ گوجرانولہ سے واپسی پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مستری موسیٰ صاحب کی دکان (واقعہ نیلہ گنبد) سنگ بنیاد رکھا اور لاہور سے قادیان تشریف لے آئے.101 ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۳ء کو حضرت خلیفہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان کی بنیاد اول دار العلوم میں ٹانگہ پر تشریف لے گئے پہلے مولوی شیر علی صاحب کے مکان کی بنیاد رکھی.دوائیں خود اپنے دست مبارک سے اور تیسری حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہاتھ سے ازاں بعد آپ نے مدرسہ تعلیم الاسلام اور بورڈنگ کا معائنہ فرمایا.لڑکوں کے کھیل بھی دیکھے اور ارشاد فرمایا کہ کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے.ہم اس میں روپیہ دیں گے.جماعت احمدیہ لکھنؤ کا سالانہ جلسہ ۹-۸-۷/ نومبر ۱۹۱۳ء کو انجمن احمد یہ لکھنو کا سالانہ جلسہ ہوا.جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مولوی سرور شاہ صاحب اور حضرت میر قاسم علی صاحب نے لیکچر دیا.حضرت مفتی صاحب نے اہل لکھنو کے لئے ”نو لکھا ہار" کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون سنایا.بعد ازاں آپ نے جب بائبل سے آنحضرت کا نام محمد میں دکھایا تو جلسہ میں احسنت و مرحبا کے نعرے بلند ہوئے.- ۱۸/ نومبر ۱۹۱۳ ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت حضرت خلیفہ اول کے پانچویں بچہ کی ولادت خلیفہ اول کو اپنے فضل سے پانچواں فرزند عطا فرمایا.جس کا نام آپ نے عبداللہ رکھا.یہ بیٹا ایک نشان تھا کیونکہ جن دنوں حضرت

Page 498

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 469 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء خلیفہ اول گھوڑے سے گرنے کے باعث بیمار تھے.آپ کو خواب آئی کہ میری جیب میں کسی نے ایک روپیہ ڈال دیا ہے.اس کی تقسیم یہ ہوئی کہ ایک لڑکا ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.۹/ جون ۱۹۱۴ء کو آپ سب سے چھوٹے صاحبزادہ کا انتقال ہوا.اخبار ”پیغام صلح" کی طرف سے نبوت ادارہ اخبار پیام صلح نے ۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۳ء کے سیح موعود سے متعلق واضح اعلان پرچہ میں یہ اعلان شائع کیا.معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے یا ان میں سے کوئی ایک سید نا رہ دینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت میں اخبار "پیغام صلح" کے ساتھ تعلق ہے خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جانے والا ہے حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے.ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی.رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے کم و بیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نجات حضرت نبی کریم اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتی.اس کے بعد ہم اس کے خلیفه بر حق سید ناد مرشد نا و مولانا حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح کو بھی سچا پیشوا سمجھتے ہیں.اس اعلان کے بعد اگر کوئی ہماری نسبت بدظنی پھیلانے سے باز نہ آئے.تو ہم اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں.وافوض امرى الى الله ان الله بصير بالعباد اخبار میں اگر کسی قسم کی غلطی ہو جائے تو ہم ہر وقت اپنی غلطی مانے پر تیار ہیں.ہم نے اخبار کو محض خدمت اسلام کے لئے جاری کیا ہے.یہ نام و نمود یا دنیاوی مفاد کے لئے ہم اپنے بھائیوں سے حسن ظنی چاہتے ہیں اور بس.ہمارے کام کا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.والسلام " - پیغام صلح کے اس اعلان کو احمدی حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا.چنانچہ اخبار الحق نے لکھا " جو دل خوشکن نوٹ معزز " پیغام صلح" کی کارکن پارٹی نے شائع کیا ہے وہ نہایت ہی قابل قدر ہے اور بہت سی غلطیوں کا ازالہ کرنے والا ہے....پیغام صلح سوسائٹی کو اس جرات پر مبارک باد دیتے ہیں ".چند ماه بعد "پیغام صلح" نے ختم نبوت کی تشریح میں ایک نظم بھی شائع کی جس کے چند شعر یہ تھے.کیا ختم رسالت نے کمال اپنا دکھایا امت میں ہے دریائے نبوت کو بہایا اس فیض کے ملنے سے ہوئے خیر اہم ہم کیا حرج ہے امت میں نبی بن کے گر آیا

Page 499

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 470 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء مومن کے لئے کوئی بشارت ہے تو اس سے امت میں اگر کوئی کرامت ہے تو اس سے آخر مارچ ۱۹۱۴ء میں اخبار مذکور نے ایک مضمون میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ "ہمارا سلسلہ کوئی گدی نشینی کا سلسلہ نہیں.ہم ایک نبی کے سلسلہ کے ممبر ہیں" لاہور سے گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت وسط نومبر ۱۹۱۳ء کا واقعہ ہے کہ لاہور سے اظہار پیغام صلح کی تائید اور حضرت خلیفہ الحق نمبر1.اظہار الحق نمبر سے دو خفیہ ٹریکٹ شائع ہوئے.پہلا ٹریکٹ چار صفحہ کا تھا اور دو سرا اول کی شدید ناراضگی آٹھ صفحہ کا.دونوں کے آخر میں نام کی بجائے ” داعی الی الوصیت" کے الفاظ لکھے تھے.پہلے ٹریکٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں جمہوریت کی اشاعت اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس زمانہ کا مامور بھی جمہوریت کا حامی ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت مسیح موعود سوائے ان امور کے جن میں وحی ہوتی احباب سے مشورہ کر لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے مامور کیا ہے کہ انسانوں کی شانیں جو حد سے زیادہ بڑھا دی گئی ہیں ان کو دور کریں.اور جب آپ کو اپنی وفات کے قرب کی خبر خد اتعالیٰ نے دی.تو آپ نے اپنی وصیت لکھی اور اس میں اپنے بعد جانشین کا مسئلہ اس طرح حل کیا.کہ آپ کے بعد جمہوریت ہو گی.اور ایک انجمن کے سپرد کام ہو گا.مگر افسوس کہ آپ کی وفات پر جماعت نے آپ کے فرمودہ کو پس پشت ڈال کر پیر پرستی شروع کر دی اور جمہوریت کے رنگ کو نسیا منسیا کر دیا.اس وقت جماعت میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں.جنہوں نے بیعت مجبوری سے کی ہے ورنہ ان کے خیال میں اس بیعت لینے والے کی نسبت ( حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول) بہتر لوگ جماعت میں موجود ہیں.اور اس امر کا اصل و بال کارکنان صدر انجمن احمدیہ پر ہے جنہوں نے بانی سلسلہ کی وفات پر جماعت کو پیر پرستی کے گڑھے میں دھکیل دیا.اب یہ حال ہے کہ حصول گدی کے لئے طرح طرح کے منصوبے کئے جاتے ہیں اور ایک خاص گروہ انصار اللہ اس لئے بنایا گیا ہے تا قوم کے جملہ بزرگواروں کو نیچا دکھایا جاوے.انصار اللہ کا کام ظاہر میں تو تبلیغ ہے لیکن اصل میں بزرگان دین کو منافق مشہور کرنا ہے.مولوی غلام حسن صاحب پشاوری.میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی.مولوی محمد علی صاحب.خواجہ کمال الدین صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ان لوگوں کو قابل دار بتایا جاتا تھا.حضرت مسیح موعود نے صاف طور پر انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا ہے.نہ کسی واحد شخص کو.حضرت مسیح موعود نے صاف لکھ دیا ہے کہ آپ کے بعد صد را مجمن احمدیہ کا فیصلہ ناطق ہو گا.اب جماعت کی حالت کو دیکھو کہ غیر مامور کی ہر ایک بات کو تسلیم

Page 500

تاریخ احمدیت جلد ۳ 471 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء کیا جاتا ہے.پیغام صلح کو بند کر کے خلیفہ نے جماعت کو اس سے بدظن کر دیا (پیغام صلح کی منافقانہ کارروائیوں سے تنگ آکر حضرت خلیفتہ المسیح نے اعلان فرما دیا تھا کہ اسے میرے نام نہ بھیجا کرو.اور پھر جب یہ لوگ بھیجتے رہے تو آپ نے ڈاک سے وصول کرنے سے انکار کر دیا) جب ایک معزز طبقہ کی بے عزتی بلا وجہ وہ شخص جو جماعت میں عالم قرآن سمجھا جاتا ہے.(یعنی خلیفہ اول) محض خلافت کی رعونت میں کر دیتا ہے تو بے سمجھ نوجوان طبقہ سے بزرگان جماعت کیا امید رکھ سکتے ہیں ؟ بزرگان قوم ان کارروائیوں کو کب تک دیکھیں گے اور خاموش رہیں گے ؟ احمد یو! دو سرے پیر زادوں کو چھوڑو اور اپنے پیرزادوں کی حالت کو دیکھو.دوسرے ٹریکٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت احمدیہ میں کوئی عیار نہیں.غیر مامور کی شخصی غلامی (یعنی حضرت خلیفہ اول کی بیعت) نے ہماری حالت خراب کر دی ہے.رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود کے وقت میں جماعت بہت آزادی سے گفتگو کر لیتی تھی.اب سخت تقیہ کیا جاتا ہے.اور خلیفہ کے کان بھر کر بھائیوں کو تکلیف دی جاتی ہے.اگر چند دن یہی حالت رہی تو احمدی پیر پرستوں اور غیر احمدی پیر پرستوں میں کوئی فرق نہ رہے گا.حضرت مسیح موعود کے ایک سو سال بعد ہی کوئی مصلح آسکتا ہے.اس سے پہلے نہیں.جن کا اس کے خلاف خیال ہے وہ اپنے ذاتی فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا خیال پھیلاتے ہیں.جماعت کی بہتری اسی میں ہے کہ جمہوریت کے ماتحت کام کرے.اس کے بعد جماعت میں فتنہ کی تاریخ اس طرح لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کی گھبراہٹ میں جب حضرت مسیح موعود کے احکام کو پس پشت ڈال کر جماعت نے مولوی نور الدین صاحب کو خلیفہ مان لیا.تو اس وقت سب لوگوں کی زبانوں پر یہ کلام جاری تھا.کہ مولوی محمد علی صاحب ہی آپ کے بعد خلیفہ ہوں گے.حاسدوں نے اس امر کو دیکھ کر بیوی صاحبہ (ام المومنین) کی معرفت کارروائی شروع کی.اور ان کی معرفت خلیفہ کو کہلوایا کہ آپ کی بیعت تو ہم نے کرلی.ہم کسی ارائیں وغیرہ کی بیعت نہیں کریں گے.جس پر مولوی صاحب نے ان کی حسب مرضی جواب دے کر ٹال دیا.اس کے بعد انجمن کے معاملات میں دخل دینے اور مولوی محمد علی صاحب کو تنگ کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز کوشش شروع ہو گئی.پھر میر محمد اسحق صاحب کے ذریعہ ایک فساد کھڑا کر دیا گیا.(ان سوالات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر میں پہلے تاریخ سلسلہ کے بیان میں کر چکا ہوں) اور کارکنان انجمن کے خلاف شور ڈال دیا گیا.اور مرزا محمود صاحب کو مدعی خلافت کے طور پر پیش کیا جانے لگا.اور مشہور کیا گیا کہ انجمن کے کارکن اہل بیت کے دشمن ہیں.حالانکہ یہ غلط ہے.اہل بیت قوم کا روپیہ کھا رہے ہیں.اور

Page 501

تاریخ احمدیت جلد ۳ 472 اخبار " الفضل " اور " پیام صلح " کا اجراء " انجمن اور اس کے اراکین پر ذاتی حملے کر رہے ہیں.مولوی محمد علی صاحب پر الزام لگائے جاتے ہیں.پیغام صلح کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا.تو جھٹ "الفضل " کی اجازت خلیفہ سے مانگی گئی.جنہوں نے ڈر کر اجازت دے دی.ہمارے مضامین میں منتظمین پیغام کا کچھ دخل نہیں.نہ ان کو خبر ہے.کانپور کا واقعہ جب ہوا.تو منتظمان پیغام نے خلیفہ رجب الدین کو ٹرمیون دے کر قادیان بھیجا.اور مولوی صاحب کا خط منگوایا.اگر اس کے چھاپنے میں کوئی خلاف بات کی گئی تھی تو مولوی صاحب کو چاہئے تھا اس کی تردید پیغام میں کرتے نہ کہ منتظمان پیغام پر ناراض ہوتے.مولوی صاحب نے اخبار پیغام صلح کو کانپور کے جھگڑے کے باعث نہیں بلکہ ایک معمولی بات پر ناراض ہو کر بند کر دیا تھا.بھائیو! تعجب ہے ایک عالم قرآن (حضرت خلیفہ اول) اس طرح بلا وجہ ایڈیٹر پیغام اور دوسرے متعلقین کو زبانی اور بذریعہ الفضل ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیتا ہے کیا یہی انصاف اسلام سکھاتا ہے ؟ پیغام کے خلاف الحق دہلی نے جو زہر اگلا ہے.اس کا جواب چونکہ قادیان والوں نے نہیں دیا اس لئے وہی اس کے محرک ہیں.اس کے آگے ذاتی عیوب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا سمجھنا بغیر تفصیل کے بیرو نجات کے لوگوں کے لئے مشکل ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت لوگوں کو ورغلا رہے ہیں.اور بزرگان سلسلہ کو بدنام کر رہے ہیں اور جماعت کو اکسایا ہے کہ احمدی جماعت کو اس مصیبت سے بچانے کی کوشش کریں اور راقم ٹریکٹ سے اس امر میں خط و کتابت کریں.اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کون تھے ؟ اس بارے میں کچھ زیادہ تحقیق و تفحص کی ضرورت نہیں کیونکہ ٹریکٹ کی اندرونی اور بیرونی شہادتیں لکھنے والوں کی خود بخود نشان دہی کر رہی تھیں.اندرونی شہادت ٹریکٹوں میں ان ہی خیالات کی اشاعت تھی جو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے تھے.اور حضرت خلیفہ اول کے خلاف لب و لہجہ بالکل ان ย خطوط کے مطابق تھا جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اپنے خطوط میں اختیار کر رکھا تھا اور وہی پہلا سا الوصیت کے پس پشت ڈالنے اور شخصی وجاہت قائم نے کا اظہار ان ٹریکٹوں کی روح رواں ہے.ٹریکٹ میں صاف لفظوں میں مولوی محمد علی صاحب کے حقیقی جانشین ہونے نیز الفضل کے خلاف اور پیغام صلح کے حق میں دل کھول کر پراپیگنڈہ کیا گیا.بعض ٹریکٹ ایسے تھے.جن پر معرفت اخبار " کے لفظ لکھے تھے.بیرونی شهادت یہ ٹریکٹ اکثر جگہ پیغام صلح کی مطبوعہ چٹوں میں بند کر کے بھیجا گیا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹریکٹ دفتر پیغام صلح سے بھیجے گئے.اور اس کے

Page 502

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 473 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء متعلقین کا اس کی اشاعت میں بھاری دخل تھا.اور ٹریکٹ میں لکھے ہوئے نظریات و عقائد محض وقتی اور ہنگامی حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ خلافت ثانیہ کے قیام پر یہی نظریات و عقائد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے تمام رفقاء کے دین و عقیدہ کے جزبن گئے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.ان ٹریکٹوں کی اشاعت سے دبے ہوئے فتنہ کی چنگاریاں ایک شعلہ جوالہ بن کر نمودار ہو گئیں اور اس نے پوری جماعت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.یہ فتنہ گزشتہ تمام باغیانہ فتنوں سے شدید تر اور وسیع تر تھا.جس سے حضرت خلیفہ اول کی خفگی انتہاء تک پہنچ گئی.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب خود اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں.” چند دنوں کے بعد لاہور سے دو گمنام ٹریکٹ نکلے جن میں کچھ نکتہ چینی حضرت مولوی صاحب کے طریق عمل پر کی تھی.کہ پیر پرستی کی بنیاد رکھی جارہی ہے اور کچھ اعتراضات میاں صاحب پر تھے.ان ٹریکٹوں کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی پیغام صلح پر ناراضگی بہت بڑھ گئی".گمنان ٹریکٹوں کے علاوہ اخبار پیغام صلح نے ان کی تائید میں انصار اللہ کے نام کھلی چٹھی" کے عنوان سے یہ نوٹ لکھا.” جو ٹریکٹ ہم نے دیکھے ہیں ان میں ذرا بھی شک نہیں کہ اکثر باتیں ان کی کچی ہیں.جہاں تک کہ ان کے متعلق ہمارا اعلم ہے اور بعض باتیں ہمارے علم اور مشاہدہ سے بالا تر ہیں اس لئے ہم ان کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتے.ہمارے خیال میں یہی رائے تمام جماعت کی ہوگی.اب قابل غور امر یہ ہے کہ ہمیں ان باتوں کی اصلاح کرنی چاہئے یا خواہ مخواہ اپنے بے گناہ بھائیوں کو نشانہ طعن بنا کر ان کو ابتلاء میں ڈالنا چاہئے جب ہمارا حضرت مسیح موعود کی ہر بات کے ساتھ پورا پورا ایمان ہے تو دیگر فروعی باتوں کے اختلاف یا ٹریکٹ ہائے کے بیان کردہ باتوں کے ساتھ اتفاق رائے رکھنے کے جرم میں اگر ہماری نسبت غلط فہمی پھیلائی جانی لاہور انصار اللہ نے مناسب سمجھی ہے اور ہمارے خلاف کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے.تو ہماری طرف سے اگر کچھ کمی بیشی کا کلمہ لکھا گیا تو اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی.راقم محمد منظور الھی احمدی.میں ہر حرف سے متفق ہوں.سید انعام اللہ " اس کھلی چٹھی نے ساری حقیقت طشت از بام کر دی تھی.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے اپنے خطوں میں جماعت کے بعض دوستوں کو ان چھپے ہوئے دشمنوں کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے صاف صاف لکھا." آج کل ٹریکٹوں اور لاہو ر پیغام جنگ نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اس لئے کسی آدمی کا روپیہ کے لئے بھیجنا اور وہ بھی نور الدین کی طرح سے پسندیدہ نہیں نیز نصر اللہ خاں سے پہلے حاکم علی صاحب خود آگئے ہیں.مجھے خود فکر ہے نور الدین - ۲۱/ نومبر ۱۹۱۳ء

Page 503

تاریخ احمدیت جلد ۳ 474 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء حضرت خلیفہ المسیح کی تحریر کا عکس جس میں صاف لکھا ہے کہ پیغام صلح (لاہور) پیغام جنگ ہے آج کل کو کیوں اور اور در ایام چنگ لاہور نے ایک طوقان پر پا کر رکھا ہت ہلے کسی اریکی کارو ہیں نئے پہنچاتا اور ہا ہی نورا قوم کیطرف سے ستون نہیں نیز نفرا ہو جانے سے پہلے.قائم کیے جات تو آگئے ہیں.بہر خود حکمت

Page 504

تاریخ احمدیت جلد ۳ 475 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء حضرت خلیفہ اول کو یہ صدمہ آخر دم تک فراموش نہیں ہوا.بلکہ دراصل یہی غم واندادہ آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوا.چنانچہ آپ نے مرض الموت میں لاہور کے متعلق نہایت برہم ہو کر فرمایا." میں تو لاہور کو جانتا نہیں وہ ایسا قصبہ ہے جہاں سے مجھ کو ایسے بڑھاپے میں اس قدر تکلیف پہنچی ہے".اخبار الحق نے اول یہ تجویز رکھی کہ جلد.سالانہ پر جماعت کی "الحق" کازبردست احتجاج طرف سے ٹریکٹوں کے خلاف ایک قرارداد مذمت پاس کی جائے.دوسرے پیغام صلح کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ لکھا کہ : میرا اور ہر بچے احمدی کا خیال غالب یہ تھا کہ چونکہ ٹریکٹ مذکور لاہور سے شائع ہوا ہے اور لاہور کے بعض بزرگان کی نسبت اکثربد گمانیاں کسی نہ کسی وجوہات پر پھیلی ہوئی ہیں اس لئے امید قوی ہے کہ دائی کا ایسا نوٹ جو لاہور سے شائع ہوا ہے پڑھ کر ضرور ہی بزرگان لاہور اس کی تردید اور اپنی بریت میں پوری سعی کر کے اپنی بیزاری کا اعلان کریں گے مگر افسوس کہ مہرباں جن کو سمجھتے تھے ستم گر نکلے لعل کا جن یہ گماں کرتے تھے پتھر نکلے خلاف امید بجائے بیزاری کے ایسا دل شکن اور دلخراش پیغام نکلا جس نے اکثر حصہ احباب کو حیرت اور تعجب میں ڈال دیا.جس پیغام صلح کی طرف سب کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں کہ وہ بشارت کا پیغام لے کر نکلے گا.اس نے ۱۶/ نومبر کے پرچہ میں سخت نا مبارک پیغام پہنچایا.جو ایک ایسے شخص کی طرف سے دیا گیا ہے.جس پر میرا تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ وہم وگمان نہ تھا کہ وہ ایسے پر نجاست ٹریکٹ کو منظور کریں گے بلکہ انعام کا بھی اس پر اضافہ ہو گا.افسوس صد افسوس کہ پیغام صلح آخر کار پیغام جنگ ہی بن گیا.ނ جو کھلی چٹھی محمد منظور الی صاحب نے احمدی ہو کر انعام اللہ کی تصدیق سے بنام انصار اللہ شائع کی ہے وہ نہ صرف را قم و مصدق کے لئے ہی باعث شرم و غیرت تھی بلکہ پیغام صلح کے چہرہ پر بھی ایک بد نما سیاہ داغ ہے جو پیغام کے چہرہ کو شب دیجور بنا دیتا ہے.کیا مدعیان صلح جو اس بد شعار داعی کی بے نامی مستفید ہو رہے تھے.وہ ان نام آوروں کی دلیری سے بد نام نہیں ہو گئے.اور ان ہر دو کارکنان پیغام صلح نے پردہ اٹھا کر سارا بھانڈا نہیں پھوڑ دیا.مجھے تو یہ خوشی ہوئی ہے کہ سید ناد مرشد نا حضرت خلیفتہ المسیح والمهدی ایدہ اللہ بصرہ کے فرمائے ہوئے پاک کلمات کہ پیغام صلح دوسروں کے لئے پیغام صلح ہے مگر ہمارے لئے پیغام جنگ بہت ہی جلد بچے ثابت ہو کر پورے ہو گئے ".

Page 505

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 476 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء حضرت خلیفہ اول کے حکم سے چونکہ ٹریکٹ لکھنے والوں نے ان ٹریکٹوں میں گمنام ٹریکٹوں کا مسکت جواب انجمن انصار اللہ کے خلاف خاص طور پر زہر اگلا تھا اور اخبار پیغام صلح نے بھی انہی کے نام کھلی چٹھی شائع کی تھی اس لئے حضرت خلیفہ اول نے بھی اس ٹریکٹ کا جواب انصار اللہ ہی کے سپرد فرمایا.جو آپ کے ارشاد کے ماتحت دو ٹریکٹوں کی صورت میں شائع کیا گیا.پہلا ٹریکٹ ۲۳ نومبر ۱۹۱۳ء کو شائع ہوا جس کا نام حافظ روشن علی صاحب نے "خلافت احمدیہ " رکھا.یہ ٹریکٹ خود حضرت خلیفہ اول نے ملاحظہ کیا اور اس کی اصلاح کی.اور یہ فقرہ اپنے قلم سے زائد فرما دیا کہ ”ہزار ملامت پیغام پر جس نے اپنی چٹھی کو شائع کر کے ہمیں پیغام جنگ دیا اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا." خلافت احمدیہ " میں جو اظہار الحق نمبرا کے جواب میں تھانہ صرف حضرت خلیفہ اول کی خلافت حقہ کی نسبت متعدد آسمانی شہاد میں شائع کیں بلکہ مسئلہ خلافت پر قرآن و حدیث اور تحریرات مسیح موعود سے فیصلہ کن روشنی ڈالی اور انجمن کے مطاع الکل ہونے کے بارے میں جس قدر شبہات و اعتراضات اٹھائے گئے تھے.ان کی خوب قلعی کھولی.اظہار الحق نمبر ۲ کے جواب میں انصار اللہ نے دو سر اٹریکٹ اظہار حقیقت" کے نام سے شائع کیا جس میں ان تمام رکیک اور گندے الزامات کا جواب دیا گیا تھا.جو حضرت خلیفہ اول اور اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگائے گئے تھے.یہ ٹریکٹ بھی حضرت خلیفہ اول کی نظر ثانی کے بعد شائع ہوا.ان ٹریکٹوں کے مسودات جب آخری مرتبه بغرض منظوری پیش ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا." اخلاص سے شائع کرو خاکسار بھی دعا کرے گا.اور خود بھی دعا کرتے رہو کہ شریر سمجھے یا کیفر کردار کو پہنچے.||Z! نور الدین".HA- حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام ایک ٹریکٹ اظہار الحق" کی اشاعت کے بعد اس کے ہمنواؤں میں سے ایک شخص نے حضرت کھلا خط اور اس کا بصیرت افروز جوار صاحبزادہ صاحب کے نام ایک کھلا خط لکھا.اس خط میں معترض نے آپ کو امیدوار خلافت " قرار دیا.اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے اس شخص کو لکھا ” میں قریباً آٹھ سال سے یہاں مقیم ہوں اور یہاں کی بابرکت صحبتوں سے فیض حاصل کرنے کا بھی بہت شائق ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے عظمت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں.کہ کم سے کم میں تو ہرگز نہیں جانتا کہ ہمارے موجودہ خلیفہ المسیح کے بعد کون شخص خلیفہ ہو گا.ہاں یہ میرا اعتقاد ہے کہ خدا

Page 506

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 477 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء تعالیٰ جس کو چاہے گا اس کے سامنے سب کی گردنیں جھکا دے گا.میرے نزدیک کسی احمدی کو امیدوار خلافت کہنا ایک گالی ہے کیونکہ اس کو ایک قابل شرم نادانی سے ختم کرنا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اپنے فقرہ مذکورہ بالا کی نقل پڑھ کر آپ کو خود بھی ندامت ہوئی ہوگی کیونکہ آپ کے پاس سوائے ظن کے اور دلیل اور کوئی علم اس بات کے کہنے کے لئے نہیں ہے.| 114– آپ نے امیدوار خلافت کا نہایت ذلیل ترین خطاب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو دیا.مہربانم اگر براہ راست جناب میاں صاحب سے آپ نے خلافت کی خواہش نہیں معلوم کی.یعنی ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں دیکھی اور کوئی تقریر ایسی نہیں سنی کہ جس میں انہوں نے خلیفہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہو.تو ذرا خدا کا خوف کر کے بتائیں کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کہاں جائز ہے کہ وہ ان کو امیدوار خلافت کے " یہ ایسے شخص کی شہادت ہے جو انصار اللہ کی تحریک میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء سے بھی گہری ہمدردیاں رکھتا تھا.جیسا کہ پیش آنے والے واقعات نے ثابت کیا.مگر اصل خط چونکہ براہ راست حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام تھے.اس لئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے اصل خط اور اس کا مفصل جواب الفضل میں شائع فرما دیا.جو حسب ذیل ہے.کھلا خط بنام مرزا محمود احمد صاحب سکنہ قادیان ضلع گورداسپور امیدوار خلافت جناب من! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ:- میں عرصہ سے آپ کی تحریرات کو دیکھتا آیا ہوں.مجھے نہایت افسوس ہے کہ آپ کی تحریرات میں روز بروز دق عظیم ہوتا جاتا ہے.بعد وفات حضرت مسیح النقلین علیہ الصلوۃ والسلام تمنائے خلافت آپ کو بہت بے چین کئے ہوئے ہے مگر جناب والا! معاف فرمائے.آپ نے حصول خلافت کے لئے جو ذریعہ اختیار کیا ہے.وہ ہر گز اچھا نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس ذریعہ کے عمل میں لانے سے آپ جماعت میں تفرقہ عظیم پھیلا رہے ہیں.مگر یہ نئی بات نہیں ہے بعد وفات حضرت رسول کریم جناب علی کو باوجود زہد و تقویٰ اکثر تمنائے خلافت پریشان رکھتی تھی.آپ نے اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا ہے که واقعی جناب مسیح موعود بروز محمد علیہ الصلوۃ والسلام تھے.آپ کو خاندان رسالت میں ہونے کا دعویٰ ہے اور میں مانتا ہوں کہ بے شک آپ ہیں.مگر اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے.کہ آپ تفرقہ ڈال کر اپنا کام نکالیں.

Page 507

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 478 اخبار " الفضل" اور "پیغام صلح " کا اجراء چاہے آپ ناراض ہو ہی جائیں مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ خواجہ کمال الدین صاحب بازی لے گئے اور ممکن ہے کہ آپ جناب خلیفتہ المسیح کو دبا کر اب یہ کہلوالیں کہ انہوں نے ان کے لئے عمدہ الفاظ درس میں نہیں کے مگر اب میں ضرور کہوں گا.چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت کمال دیں بودے.اور آپ خدا کی اور فرشتوں کی زبان نہیں رد کر سکتے.کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس شخص کو خدا نے جانشینی احمد کے لئے چنا ہے اس کو دنیا والوں کی نگاہ سے گرا دیں.یاد رکھئے.کہ آپ ہرگز ہر گزایسا نہیں کر سکتے.چراغ را که ایزد بر فروزد کے کو تف زند ریشش بسوزد آپ نے اور آپ کے لواحقین مثلاً اکمل ، پھکڑ دہلوی وغیرہ وغیرہ نے خوب خوب یہ چاہا کہ اس مقدس وجود کے لئے دنیا میں اور جماعت میں غلط فہمیاں پھیلا ئیں.مگر کیا آپ نے اس کو بگا ڑلیا.آپ خاندان مسیح موعود میں سے ہیں آپ کو چاہئے تھا کہ جو باغ آپ کے والد ماجد نے لگایا ہے اس کی پرداخت کرتے اور گلزار کرنے کی کوشش کرتے.مگر آپ نے افسوس ایسا نہیں کیا.اس سے جناب مسیح موعود کا مثیل نوح ہو نا بھی یقین ہو گیا.میں اپنے خط کو طول دینا نہیں چاہتا میں صرف چند امور لکھ کر اسے تمام کرتا ہوں.اول.آپ جماعت احمدیہ میں تفرقہ نہ پھیلائیں اپنے چیلے چاپڑوں کو منع کریں کہ وہ بھی تفرقہ نہ پھیلائیں.(۲) خواجہ کمال الدین صاحب کامیاب ہو گیا.اور اب آپ کا حسدا سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.اس کی مخالفت سے باز آؤ.اس کی مخالفت مسیح موعود کی مخالفت ہے.اس کی مخالفت اسلام کی مخالفت ہے.(۳) تمنائے خلافت چھوڑ دیجئے.ابھی آپ طفل مکتب ہیں یہ بار عظیم ہے اس کے اٹھانے کے آپ ہر گز اہل نہیں ہیں.آپ سے ہزار درجہ افضل تو میں ہوں اگر آپ نے دعوی کیا ہے تو مجبورا میں بھی ایسا کروں گا.(۴) آپ کو قسم ہے خدا پاک کی کہ آپ بذریعہ اخبارات اپنی پوزیشن صاف کریں اور جو جو الزامات میں نے لگائے ہیں ان کی تردید کریں.اگر آپ نے قسم شرعی کھائی تو میں اپنا دعویٰ اٹھالوں گا.اور آپ سے معافی کا خواستگار ہوں گا.اگر ایسا آپ نے نہ کیا.تو یاد رکھئے کہ آپ خدا کے یہاں جوابدہ ہوں گے".حضرت اولو العزم محمود فضل عمر کا جواب " مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر جو صدمہ ہوا.اسے تو خدا ہی جانتا ہے لیکن وہ صدمہ کوئی نیا نہ تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس قسم کے الزامات لگائے جانے کا عادی ہوں.اور جب سے ہوش سنبھالا ہے.غیروں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ اپنے دوستوں ہی کے ہاتھوں سے وہ کچھ دیکھا اور ان کی

Page 508

تاریخ احمدیت جلد ۳ 479 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء زبانوں سے وہ کچھ سنا کہ دوستوں سے اس قدر صدمہ اٹھائے ہم نے دل سے دشمن کی عداوت کا گلا جاتا رہا میں ایک گنہگار انسان ہوں اور مجھے پاک و مطہر ہونے کا دعویٰ نہیں.ہر روز مجھ سے غلطیاں ہوتی ہیں اور کون ہے جس سے غلطیاں سرزد نہ ہوتی ہوں لیکن باوجود اس کے جو گناہ سرزد نہ ہو.اس کی طرف منسوب ہونے پر دل گھبراتا ضرور ہے جو حملے آنکرم نے کئے ہیں ان کا کوئی ثبوت بھی دیتے تو شاید ان کے جواب دینے کے قابل ہوتا.لیکن وہ کہتے ہیں کہ تم نے یوں کیا یوں کیا.اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ میں نے یوں نہیں کیا.اور آپ نے صرف بدظنی سے کام لیا ہے.اور اعتراض کرنے میں جلدی کی ہے.اگر یہ خط اکیلا آتا اور اس کے سوا اور میں کوئی آواز نہ سنتا.تو میں بالکل خاموش رہتا.لیکن آج پانچ سال کے قریب عرصہ ہونے کو آیا ہے کہ اس قسم کے اعتراضات میں سنتا آرہا ہوں لیکن پہلے تو افواہا ان اعتراض کا علم ہو تا تھا اور اب کچھ مدت سے تحریر ابھی یہ الزامات مجھ پر قائم کئے جانے لگے ہیں.اور صرف مجھی تک بس نہیں بلکہ ٹریکٹوں کے ذریعہ یہ خیال تمام جماعت احمدیہ میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے.چنانچہ جن دوستوں تک اظہار الحق نامی ٹریکٹ جو لاہور سے کسی گمنام صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے.پہنچا ہے اور اکثر پہنچا ہو گا.کیونکہ وہ پنجاب وہندوستان میں بکثرت شائع کیا گیا ہے ان کو علم ہو گیا ہو گا.کہ اب یہ معاملہ زبانوں سے گزر کر تحریر تک اور تحریر سے گزر کر اشاعت تک جا پہنچا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ مجملا اس کے متعلق کچھ لکھا جائے.میں حیران ہوں کہ اس معاملہ میں کچھ لکھوں تو کیا لکھوں.آخر وہ کون سے دلائل ہیں جن کو تو ڑوں جب سب معاملہ کی بنا ء ہی بدظنی پر ہے تو میں بدظنی میں دلائل کیا دوں.عقلی مسئلہ ہو تو اس کا جواب دلائل عقلیہ سے دیا جائے.لیکن جب یہ معاملہ ہی رویت و سماعت کا ہے.تو جب تک میری تحریر یا تقریر سے یہ الزامات مجھ پر ثابت نہ کئے جائیں اس وقت تک میں ان الزامات کا کیا جواب دے سکتا ہوں؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں جواب دینے سے مجبور ہوں اور موجودہ صورت میں اور کیا کہہ سکتا ہوں سوائے اس کے کہ یہ کہوں کہ خدا تعالیٰ شاہد ہے اور میں اس کو حاضر و ناظر جان کر اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کبھی اس امر کی کوشش نہیں کی کہ میں خلیفہ ہو جاؤں.نہ یہ کہ کوشش نہیں کی.بلکہ کوشش کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہیں آیا.اور نہ میں نے کبھی یہ امید ظاہر کی اور نہ میرے دل نے کبھی خواہش کی.اور جن لوگوں نے میری نسبت یہ خیال پھیلایا ہے انہوں نے میرا خون

Page 509

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 480 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء کیا ہے.وہ میرے قاتل اور خدا کے حضور وہ ان الزامات کے جوابدہ ہوں گے.جب حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں.اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی اور ہندوستان میں انیس سال کی عمر میں ابھی کھیلنے کودنے کے ہی دن سمجھے جاتے ہیں.پس میری عمر بچپن کی حالت سے زیادہ نہیں ہوئی تھی.جب میں نے یہ جھوٹ بولا جاتے ہوئے سنا.میرے اس دوست نے جس نے مجھے خط لکھا ہے آج یہ اعتراض کیا ہے.مگر یہ اعتراض بہت پرانا ہے.اور اس وقت سے میں اس کو سنتا آرہا ہوں جب کہ میں ابھی اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھ سکتا تھا.جس وقت خلافت کا جھگڑا ہوا ہے.اس وقت میرے کانوں میں یہ آوازیں پڑی تھیں کہ بعض نوجوان خلیفہ بننے کی خواہش میں یہ شورش برپا کر رہے ہیں.میرے کان اس بات کو سنتے تھے مگر میرا دماغ ان کے معنوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا.کیونکہ میرا دل پاک تھا.اور بالکل بے لوث تھا.اور اس پر ہواؤ ہوس کے غبار نے کوئی اثر نہ کیا تھا.میں نے معلوم کیا کہ ان انگلیوں کا اشارہ میری طرف ہے اور ان اقوال کا مخاطب میں ہوں میری اس وقت کیا عمر تھی اور ایسے وقت میں میرے دل پر کیا صدمات گزر سکتے تھے.اسے خدا ہی جانتا ہے.میرا کوئی دوست نہ تھا.جس سے میں اس دکھ کا اظہار کر سکوں.کیونکہ میری طبیعت بچپن سے ہی اپنے دیکھ لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے رکتی ہے.میرے دل پر وہ اقوال خنجر اور تلوار کی ضرب سے بڑھ کر پڑتے تھے.اور میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے مگر خدا کے سوا کسی سے اپنے دکھ کا اظہار نہ کرتا تھا.اور اگر کرتا تو لوگ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے تھے میں نے ان لوگوں کے بغض سے جنہوں نے یہ باتیں میرے حق میں کہیں.ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے رکھا.اور اپنے دل کو میلا نہ ہونے دیا.کیونکہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی.میں سمجھتا ہوں کہ چند دن کا فتنہ ہے جو خود بخود دور ہو جائے گا.مگر اس فتنہ نے اپنی لمبائی میں شب ہجر کو بھی مات کر دیا.اور گھٹنے کی بجائے اور بڑھا.میں نے کبھی معلوم نہیں کیا کہ میرا کیا قصور تھا.سوائے اس کے کہ میں مسیح موعود کا بیٹا تھا.کیونکہ اور بہت سے لوگ موجود ہیں جن پر یہ الزام نہیں لگائے گئے اور لاکھوں احمدیوں کے سر پر یہ بوجھ نہیں رکھا گیا.مگر یہ قصور میرا نہیں اس کی نسبت خدا سے سوال کرو.اگر یہ کوئی قصور تھا.تو اس کا فاعل خدا ہے.نہ میں.میں خود مسیح موعود کے ہاں پیدا نہیں ہوا.مجھے میرے مولا نے جہاں بھیج دیا.میں آگیا.پس خدا کے لئے مجھے اس فعل پر دکھ نہ دو.اس واقعہ کی بناء پر مجھے مت ستاؤ.جو میرے اختیار سے باہر ہے جس میں میرا کوئی دخل نہیں.غرض ان مشکلات میں اپنے مولا کے سوا میں نے کسی پر توکل نہیں کیا.اور اپنے دل کے دکھوں پر اس کے سوا کسی کو آگاہ نہیں کیا.گو میرا دل ایک پھوڑے کی طرح بھرا ہو اتھا.مگر سوائے کبھی کبھی اپنی

Page 510

تاریخ احمدیت جلد ۳ 481 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجرا نظموں میں بے اختیار ہو کر اشارہ اپنے دکھ کے اظہار کے کبھی اپنے دکھ کا اظہار نہیں کیا.مجھے ہمیشہ تعجب آتا رہا ہے کہ لوگ اس قدر بد ظنیوں سے کیوں کام لیتے ہیں.مجھ سے تو اس معاملہ پر اگر کسی دوست نے گفتگو کرنی چاہی تو ہمیشہ میں نے یہی کہکر ٹال دیا کہ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کب تک زندہ رہوں گا.مگر افسوس کہ ظلم میں کمی ہونے کی بجائے وہ اور ترقی کرتا گیا.حتی کہ اب وہ اپنے کمال پر پہنچ گیا ہے.اور خدا چاہے تو شائد وقت آگیا ہے.کہ اب وہ پھر زوال کی طرف رخ کر لے اگر مجھے خیال نہ ہوتا.کہ شاید اس شور کا اثر ایک میرے پیارے کے دل پر نہ پڑے تو میں شاید اب بھی جواب کی طرف متوجہ نہ ہوتا.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ قوم کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کچھ کہنا ضروری ہے.میرے باپ پر جس قدر الزام لگائے گئے تھے.یہ الزام ان کے عشر عشیر بھی نہیں لیکن وہ خدا کے مامور تھے.اور ان سے جو خدا کے وعدہ تھے وہ مجھ سے نہیں.اس لئے میرا ان پر کڑھنا تعجب کی بات نہیں.افسوس میں نے اپنے دوستوں سے وہ سنا جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے نہ سنا تھا.میرا دل حسرت و اندوہ کا مخزن ہے.اور میں حیران ہوں کہ میں کیوں اس قدر مورد عتاب ہوں.بے شک وہ بھی ہوتے ہیں جو غم و راحت میں اپنی عمر گزارتے ہیں مگر یہاں تو چھاتی قفس میں داغ سے اپنی ہے رشک باغ جوش بہار تھا کہ ہم آئے امیر ہو اگر میں تبلیغ دین کے لئے کبھی باہر نکلتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کو پھلانے کے لئے اپنی شہرت کے لئے اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لئے اپنی حمایتیں بنانے کے لئے نکلتا ہے اور اس کا باہر نکلنا اپنی نفسانی اغراض کے لئے ہے.اور اگر میں اس اعتراض کو دیکھ کر اپنے گھر بیٹھ جاتا ہوں تو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ یہ دین کی خدمت میں کو تاہی کرتا ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے اور خالی بیٹھا دین کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتا ہے اگر میں کوئی کام اپنے ذمہ لیتا ہوں تو مجھے سنایا جاتا ہے کہ میں حقوق کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہوں.اور قومی کاموں کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہوں اور اگر میں دل شکستہ ہو کر جدائی اختیار کرتا ہوں اور علیحدگی میں اپنی سلامتی دیکھتا ہوں تو یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ یہ قومی درد سے بے خبر ہے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کی بجائے اپنے اوقات کو رائیگاں گنواتا ہے مگر مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ میں عام انسانوں سے زیادہ کام کرتا ہوں.حتی کہ اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رکھتا.مگر اسے جانے دو.مجھے تو تم خود ہی بتاؤ کہ وہ کون سا تیسرا راستہ ہے جسے میں اختیار کروں.خدا کے لئے مجھے اس طریق سے آگاہی دو.جس پر ان دونوں راستوں کو چھوڑ کر میں قدم زن ہوں.اللہ

Page 511

تاریخ احمد بیت جلد ۳ 482 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء مجھے وہ سبیل بتاؤ.جسے میں اختیار کروں.آخر میں انسان ہوں خدا کے پیدا کئے ہوئے دو راستوں کے علاوہ تیرا راستہ میں کہاں سے لاؤں؟ صبح شام رات دن اٹھتے بیٹھتے یہ باتیں سن سن کر میں تھک گیا ہوں.زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے اور آسمان باوجود رفعت کے میرے لئے قید خانہ کا کام دے رہا ہے اور میری وہی حالت ہے کہ ضاقت عليهم الارض بما رحبت و ضاقت عليهم انفسسهم و ظنوا ان لا ملجا من الله الا اليه - افسوس کہ میرے بھائی مجھ پر تہمت لگاتے ہیں اور میرے بزرگ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب آدمی بستا ہے مگر مجھے تو سوائے خدا کے اور کوئی نظر نہیں آتا.لوگ اس دنیا میں تنہا آتے اور یہاں سے تنہا جاتے ہیں مگر میں تو تنہا آیا اور تنہا رہا اور تنہا جاؤں گا.یہ زمین میرے لئے ویران جنگل ہے اور یہ بستیاں اور شہر میرے لئے قبرستان کی طرح خاموش ہیں.میرے دوست مجھے اس وقت معاف فرما ئیں.میں ان کی محبت کا شکر گزار ہوں.لیکن میں کیا کروں کہ جہاں میں ہوں وہاں وہ نہیں ہیں.میں ان مہربانوں کے مقابلہ میں جو مجھے آئے دن ستاتے رہتے ہیں ان کی محبت کی قدر کرتا ہوں ان کے لئے دعا کرتا ہوں.اپنے رب سے ان پر فضل کرنے کی درخواست کرتا ہوں.لیکن باوجود اس کے میں تنہا ہوں.میری مثال ایک طوطے کی ہے جس کا آقا اس پر مہربان ہے.اور اس سے نہایت محبت کرتا ہے اور طوطا بھی اس کے پیار کے بدلہ میں اس سے انس رکھتا ہے اور اس کی جدائی کو نا پسند کرتا ہے مگر پھر بھی اس کا دل کہیں اور ہے اس کے خیال کہیں اور ہیں.میرے آقا کا دلبند میرا مطاع امام حسین تو ایک دفعہ کربلا کی ابتلا میں مبتلا ہوا.لیکن میں تو اپنے والد کی طرح یہی کہتا ہوں کہ کربلا نیست میر ہر آئم صد حسین است در گریبانم اے نادانو ! کیا تم اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر میرا خدا مجھے بڑا بنانا چاہے تو تم میں سے کون ہے جو اس کے فضل کو رد کر سکے.اور کون ہے جو میرے مولیٰ کا ہاتھ پکڑ سکے.وان یردک بخیر فلار آد لفضله يصيب به من يشاء من عباده ، و هو المغفور الرحیم.اور اگر وہ عزت دینا چاہے تو کون ہے جو مجھے ذلیل کر سکے.اور اگر وہ مجھے بڑھانا چاہے تو کون ہے جو مجھے گھٹا سکے اور اگر وہ مجھے اونچا کرنا چاہے تو کون ہے جو مجھے نیچا کر سکے.اور اگر وہ مجھے اپنا قرب عطا کرنا چاہے تو کون ہے جو مجھے اس سے بعید کر سکے.اور اگر وہ مجھے اپنے پاس بٹھائے تو کون ہے جو مجھے اس سے دور کر دے.پس اپنے آپ کو خدامت قرار دو کہ عزت دینا اور ذلیل کرنا خدا کے اختیار میں ہے نہ کہ تمہارے.من كان يريد

Page 512

ربیت - جلد ۳ 483 اخبار " الفضل "ا العزة فلله العزة جميعا - کسی انسان کی زندگی کا بھی اعتبار نہیں ہوتا.مگر میں تو خصوصا بیمار رہتا ہوں اور ہر چوتھے پانچویں دن مجھے حرارت ہو جاتی ہے اور سخت سردرد کا دورہ ہوتا ہے چنانچہ اس وقت بھی جب کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں.میرے سر میں درد ہے اور بدن گرم ہے.اور صرف خدا ہی کا فضل ہے کہ میں یہ چند سطریں لکھنے کے قابل ہوا ہوں اور علاوہ ازیں مجھے اور بھی کئی بیماریاں ہیں.میرا سینہ کمزور ہے میرا جگر بیمار ہے.میرا معدہ اچھی طرح غذا ہضم نہیں کر سکتا.تمہیں کیا معلوم ہے.کہ میں کل تک زندہ رہوں گا یا نہیں.کیا جانتے ہو کہ نیا سال مجھے پر چڑھے گایا نہیں.تم کیوں خواہ مخواہ یوسف کے بھائیوں کی طرح کہتے ہو.یخل لكم وجه ابیکم میرے تو اپنے پیارے دوسری دنیا میں ہیں.میرے لئے تو یہ دنیا خالی ہے.میر امحمد اس دنیا میں ہے میرا احمد اسی دنیا میں ہے کیا وہ لوگ زندہ رہے کہ میں رہوں گا.میرے پاس اعمال کا ذخیرہ نہیں اور میرا ہاتھ خالی ہے.لیکن خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ وہ مجھے ان کے خدام میں جگہ دے کیونکہ ان کے قرب کے بغیر جنت بھی میرے لئے بھیانک ہے.میں تم سے گھبراتا نہیں.میں تمہارے حملوں سے ڈرتا نہیں.کیونکہ میرا خدا پر بھروسہ ہے لیکن مجھے اگر غم ہے تو اس بات کا کہ قوم میں فتنہ نہ ہو.اور یہی غم میرے دل کو کھائے جاتا ہے مگر مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو بچائے گا اور اس کی مدد کرے گا.کیونکہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگا کر پھر اسے سوکھنے دے.ہاں اتناء کے ایام ہیں جو گزر جائیں گے.وا اسفا على فراق قوم المصابيح ہائے افسوس اس قوم کی جدائی پر جو شمع کی طرح تھے اور قلعوں کی طرح تھے.والمدن و المزن و الرواسي والخير لم والامن اور شہر تھے اور بارش تھے اور پہاڑ تھے اور خیر تھے اور امن تھے اور سکون تھے.تتغير لنا الليالي حتى توفاهم ہمارے لئے زمانہ نہیں بدلا.مگر جب موتوں نے ان کو وفات دے دی.فكل جمرلنا قلوب والحصون والسكون المنون وكل ماء لنا عيون اب تو یہ حال ہے کہ دل انگارہ ہیں اور آنکھیں بہہ رہی ہیں.افوض امرى الى الله - وهو ولى فى الدنيا والاخرة وانما اشکوا بثی و خزنی الی الله اللهم انى اعوذ بك من جهدا البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء وشماتة الاعداء واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين - A

Page 513

ریخ احمدیت جلد ۳ سفرملتان 484 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح کا " کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آخر نومبر ۱۹۱۳ ء میں جلسہ میں شرکت کے لئے ملتان تشریف لے گئے آپ کے ہمراہ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے.۲۷/ نومبر کی شام کو جب یہ قافلہ حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوا.تو آپ نے سب کو دعا کے ساتھ رخصت کیا اور فرمایا.” میں نے بہت دعا کی ہے ملتان میں شیعہ بہت ہیں پر تم چار یار وہاں جاتے ہوئے نرمی سے وعظ کرو سخت کلامی نہ کرو.دعاؤں سے بہت کام لو.امیر بنا بنا یا تمہارے ساتھ ہے".ملتان میں آپ نے ۳۰ / نومبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی مسیحیت و مهدویت پر معرکتہ الا را تقریر فرمائی اور آپ کی تقریر کے بعد تیرہ اشخاص داخل احمدیت ہوئے اور شہر میں ہر طرف احمدیت کا چرچا ہونے لگا.ملتان کے رئیس اعظم خان بہادر مخدوم حسن بخش صاحب نے اپنی گزشتہ روایات کے عین مطابق حضرت صاجزادہ صاحب اور آپ کے رفقاء کی دعوت کی.اخبار "بدر" کی بندش اخبار بد رجسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک بازو قرار دیا تھا.عیسائیت کے خلاف مضمون لکھنے کی پاداش میں بند ہو گیا.پریس ایکٹ کے ماتحت پبلشر کے نام تین ہزار کی ضمانت طلب کی گئی جو ادانہ کی جاسکی.بدر کا آخری پرچہ ۱۸ دسمبر ۱۹۱۳ء کو شائع ہوا.اس کے بعد حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے (جو بدر کے ایڈیٹر تھے) فروری ۱۹۱۴ء میں صدائے صادق ٹریکٹ سیریز کا ایک سلسلہ جاری کیا جو چند نمبروں کے بعد ختم کر دیا گیا.خلافت اولیٰ کے عہد کا آخری سالانہ جلسہ مجلس معتمدین نے ۱۹۱۳ء کے جلسہ سالانہ کے بارہ میں فیصلہ کیا کہ وہ صرف ۲ دن ہو عمر حضرت خلیفتہ المسیح اول نے یہ فیصلہ منسوخ کر کے یہ حکم دیا کہ جلسہ ۲۶ سے ۲۸ دسمبر تک رہے گا.چنانچہ اسی کے مطابق تین دن پوری شان سے یہ جلسہ منعقد ہوا یہ خلافت اوٹی کے عہد کا آخری سالانہ جلسہ تھا.حضرت خلیفہ اول کی تقریریں : حضرت خلیفہ اول کی دو ایمان افروز تقریریں ہوئیں.پہلی تقریر ۱۲۷ د سمبر کو ہوئی جو وحدت کے موضوع پر تھی.دوسری تقریر سورہ مومنون کی ابتدائی آیات کی تفسیر پر.علاوہ ازیں آپ نے ۲۶/ دسمبر کو ایک لطیف خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمایا.جس میں قرآن مجید کی طرف توجہ دینے کی تلقین فرمائی.مومنوں کو آپ نے اپنے ایوان میں شرف ملاقات بخشا اور اپنے کلمات طیبات سے نوازتے رہے.

Page 514

تاریخ احمدنات، جلد ۳ 485 اخبار " الفضل "اور "پیغام صلح " کا اجراء اس جلسہ پر حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی مصروفیات:.بہت مصروفیت تھی آپ دونوں وقت خود پاس کھڑے ہو کر دو ہزار کا کھانا تقسیم کراتے اور سب مہمانوں کے کھانا کھانے کے بعد گھر تشریف لے جاتے.دن میں کئی بار انتظامات جلسہ کا معائنہ کرتے اور مناسب ہدایات دیتے تھے مہمانوں تک تازہ خبریں پہنچانے کی غرض سے آپ نے جلسہ کے دنوں میں الفضل کے دور رقہ کا انتظام فرمایا.جو روزانہ شائع ہو تا تھا.ان مصروفیات کے باوجود آپ نے تمام احباب سے ملاقاتیں بھی کیں.اور حصول تقویٰ کے ذرائع پر بھی موثر تقریر فرمائی.نیز انصار اللہ کے جلسہ عام کو بھی خطاب فرمایا.جس میں آپ نے انصار اللہ کے خلاف الزامات کی تردید کی.اور انصار کو ہدایت دی کہ وہ اپنے مال جان اور وقت کو تبلیغ احمدیت کے لئے وقف کر دیں.جلسه ۱۹۱۳ء خدائی تائید و نصرت کا ایک نشان تھا.جو تائید خلافت کا روح پرور نظاره: خلافت کی تائید میں ظاہر ہوا.گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت نے جماعت کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی جو ناپاک اور مذموم سازش کی تھی وہ اس عظیم اجتماع کے ذریعہ ناکام و نامراد ہوئی.اور احمد کی بڑی کثرت سے شمع خلافت کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو گئے اور خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے قابل رشک مالی قربانیاں پیش کیں.حضرت خلیفہ اول نے خود "شکریہ" کے عنوان سے ایک مضمون جلسہ کے بعد شائع کرایا.جس میں فرمایا :.” پچھلے سال بعض نادانوں نے قوم میں فتنہ ڈلوانا چاہا اور اظہار حق نامی اشتہار عام طور پر تقسیم کیا گیا.جس میں مجھ پر بھی اعتراضات کئے گئے.مصنف ٹریکٹ کا تو یہ منشا تھا کہ اس سے جماعت میں تفرقہ ڈال دے لیکن اللہ تعالی نے اپنی بندہ نوازی سے مجھے اور جماعت کو اس فتنہ سے بچالیا.اور ایسے رنگ میں مدد اور تائید کی کہ فتنہ ڈلوانے والوں کے سب منصوبے باطل اور تباہ ہو گئے..جس کا نمونہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر نظر آرہا تھا.یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت تھی کہ امسال باوجود بہت سے موانع کے اور باوجود " اظہار حق " جیسے بد ظنی پھیلانے والے ٹریکٹوں کی اشاعت کے جلسہ پر لوگ معمول سے زیادہ آئے.اور ان کے چہروں سے وہ محبت اور اخلاص ٹپک رہا تھا جو بزبان حال اس بات کی شہادت دے رہا تھا کہ جماعت احمدیہ ہر ایک بداثر سے محفوظ اور مصنون ہے.علاوہ ازیں مختلف جماعتوں نے ایثار کا بھی اس دفعہ وہ نمونہ دکھایا کہ اس سے اللہ تعالی کا خاص فضل ثابت ہو تا تھا.پچھلے تمام سالوں کی نسبت اب کی دفعہ لگنے روپے کے وعدہ یا وصولی ہوئی

Page 515

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 486 اخبار الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء " اس جلسہ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی باطل کر دیا.جو کہتے تھے کہ نورالدین گھوڑے سے گر گیا ہے.جب ایک دفعہ خلافت کے خلاف شور ہوا تھا تو مجھے اللہ تعالٰی نے رویا میں دکھایا تھا.میں......اس خواب سے سمجھا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ خلافت کے گھوڑے سے گر جائے گا جھوٹے ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے گا.بلکہ کامیابی عطا فرمائے گا.سوخد اتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری اس خواب کو بھی پورا کیا.اور اس سال کے جلسہ نے اس کی صداقت بھی ظاہر کر دی کہ باوجود لوگوں کی کوششوں اور مخالفتوں کے اور باوجود گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت کے اس نے میری تائید پر تائید کی.اور جماعت کے دلوں میں روز بروز اخلاص اور محبت کو بڑھایا اور ان کے دل کھینچ کر میری طرف متوجہ کر دئے.اور انہیں اطاعت کی توفیق دی اور فتنہ پردازوں کی حیلہ سازیوں کے اثر سے بچائے رکھا".

Page 516

تاریخ احمدیت جلد ۳ 487 حواشی باب ششم اخبار " الفضل “ اور ”پیغام صلح " کا اجراء ا الحکم ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۳ ۳.- الحکم ۲۸-۲۱ / فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۰ کالم ۳.ا حکم ۷۰۱۴ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۳.یہ مضمون شحمید الازبان اپریل ۱۹۱۳ء میں چھپا.۵ بحوالہ بدر ۱۳/ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ ۱ تا صفحه ۹ - الحکم ۲۸۰۷/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۱ ا کالم ۲..- ے.جیسی بیاض صفحه (۹۲) یہ بیاض حضرت خلیفہ اول کے خاندان میں محفوظ ہے._A راقم الحروف نے قادیان میں کلام محمود کے پہلے ایڈیشن کے پروف دیکھتے ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پروف ریڈنگ کی خدمت بھی قاضی صاحب ہی نے سرانجام دی تھی.اب تک کلام محمود کے ایک درجن سے زائد ایڈیشن طبع ہو چکے ہیں.۹ ( سرورق نمبر ۲) کلام محمود الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۴ کالم ۲.۳.الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳.۱۲.یہ خط ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے جب پیغام صلح میں شائع کیا.تو مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری فاضل کی سرکردگی میں علمائے سلسلہ کا ایک وقد مسلم ٹاؤن میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب سے ملا اور کہا کہ حضرت خلیفہ اول کا خط نا مکمل صورت میں شائع کیا گیا ہے خط کے انداز سے ظاہر ہے کہ درمیان میں ایک فقرہ دیدہ دانستہ چھوڑ دیا گیا ہے جس سے مضمون خبط ہو گیا ہے.براہ کرم اصل خط دکھائیے.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا جاؤ جاؤ الفضل میں جا کر شائع کر دو کہ ڈاکٹر خط نہیں دکھاتا.لیکن جب اصرار ا ہوا تو بتایا کہ اصل خط شیخ مولا بخش صاحب لائلپوری کے پاس محفوظ ہے مگر شیخ صاحب نے وہ خط دکھانے سے صریحاً گریز کیا.اس کے کچھ عرصہ بعد جب شیخ صاحب انتقال کر چکے تھے الفضل نے پیغام صلح سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس چٹھی کو مکمل صورت میں شائع کرے مگر آج تک اسے اشاعت کی توفیق نہیں مل سکی ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳) حضرت خلیفہ اول کی تحریروں کو بغور پڑھنے والے جانتے ہیں کہ آپ کے خطوط میں حد درجہ اختصار ہوا کر تا تھا.آپ فقرات میں سے بعض الفاظ محمد ا چھوڑ دیا کرتے تھے مندرجہ بالا خط میں بھی آپ نے اختصار سے کام لیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ تنازعے شروع ہو گئے کہ بعد کہ " کالفظ حذف فرما دیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے تو آپ لوگوں نے دوبالا " آخر " نجات ملی "مگر پھر باہم تازے شروع ہو گئے کہ نواب میر ناصر محمود نالائق بلا وجہ جو شیلے ہیں.( مفاصل ما احظہ ہو الفضل ۲۹/ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳) الحکم ۷ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۳.۱۳ - الحق ۳۰ مکی ۱۹۱۳ء صفحہ 19 سے معلوم ہوتا ہے الفضل کا نام پہلے آپ نے " فضل " رکھا تھا.۱۵.اس گروہ کے قائد مولانا ابو الکلام آزاد ایڈیٹر " الہلال " تھے جو سید جمال الدین افغانی کو عمد آخر کے پیغمبرانہ اوصاف رکھنے والے مسلح یقین کرتے تھے.(الهلال ۱۲ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۵ کالم ۳) اور مسلمانان ہند کو بالاخر کانفرنس کی چوکھٹ پر جھکا دینے کی در پردہ کوشش میں مصروف مسلمانوں کا بیشتر حصہ ان کے عزائم سے ابتداء بے خبر تھا.مگر صاحبزادہ صاحب نے ان کی طرز تحریر سے ان کے مقاصد کو بھانپ لیا تھا.چنانچہ وہی آزاد جنہوں نے پہلے عالم اسلام کے مسائل میں گہری دلچسپی لے کر مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنی تھیں.الصلال ۱۰ دسمبر ۱۹۱۳ء میں کھل کر کہنے لگے.” وہ زمانہ گیا جب انڈین نیشنل کانگرس کی شرکت کے تصور سے مسلمان کانپ اٹھتے تھے کسی مسلمان کے لئے سب سے بڑی گالی یہ تھی کہ اسے کانگریسی کہہ دیا جائے اب تو وہ کلمہ حق جو حسین بن منصور کی زبان سے انکا تھا خود علی گڑھ کی در و دیوار سے اثبات وجود کر رہا ہے..اب مسلمان کانگرس میں

Page 517

ریخ احمدیت.جلد ۳.488 اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء شریک ہوں یا نہ ہوں مگر ملک کی ایک ہی بچی اور صادق العمل جماعت نے اپنی استقامت اور راستبازی سے ان کی ضد اور ہٹ پر فتح تو ضرور پانی ہے".قبل ازیں ۱۳ دسمبر ۱۹۱۳ء کے ایشوع میں انہوں نے صفحہ اول پر گاندھی جی کی تصویر شائع کی اور نیچے لکھا."رئیس الاحرار مسٹر گاندھی." یہ خطرہ ایک حقیقی خطرہ تھا جس کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے تبلیغ اسلام پر جنہاں دوسرے مسلم زعماء سے ساز باز کی وہاں مولانا آزاد اور ان کے الہلال سے بھی گہرے روابط پیدا کر لئے تھے چنانچہ انہوں نے الہلال میں متعدد مضامین لکھے (مثلاً ملاحظہ ہو الحلال ۱۲ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۹۱ اینا ه / اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۳۵) مولانا آزاد نے صرف کلکتہ میں خواجہ صاحب کے حق میں پر جوش تقریر کر کے ریزولیوشن پاس کرایا بلکہ "الحلال" میں ان کی زبر دست تائید کی اور لکھا خواجہ صاحب کی نسبت مجھے یقین ہے کہ وہ خلوص و ایثار کے ساتھ اس خدمت میں مصروفی ہیں." الہلال ۱۴۲/ جنوری ۱۹۱۴ء) الحلال کے کاموں میں مشہور سیاسی لیڈر مسٹر بشیر حسین قدوائی کا ایک خط چھپا جو انہوں نے لندن سے بھیجا تھا کہ " جب سے میں آیا ہوں ہر جمعہ کی نماز میں شریک ہوا ہوں اور خواجہ کمال الدین صاحب کے وعظوں کو دلچپسی اور غور سے سنا ہے کبھی کسی وعظ میں سمو سے بھی انہوں نے احمد کی ہونے کا خیال نہیں کیا.ان سے گفتگو ہوئی.معلوم ہوا کہ گودہ احمد می ضرور ہیں مگر اس کو محض ایک ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں وہ خاص احمدیت کی تبلیغ ہرگز ہرگز نہیں کرتے.حاشا نہیں کرتے.وہ خالص اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں.اس اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں جو قرآن میں ہے.الہال ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۲۳ ان حالات میں بالکل واضح بات ہے که سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی کا یہ خدشہ ظاہر کرتا کہ احمدی "الحلال " کو خواجہ صاحب کا ہمنو آپا کر کہیں مولانا آزاد کی سیاسی تحریک میں بھی بہہ نہ جائیں ہر گز بے محل نہیں تھا.الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳.۱۸.حضرت خلیفہ اول نے اخبار کا نام ابتداء فضل رکھا تھا ( الحق ۳۰/ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ 19) الفضل کے پر اسپکٹس کا ایک نسخہ احمدیہ بلڈنگس کی احمد یہ لائبریری میں موجود ہے.in - الحق ۳۰ / مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۰ کالم ۱ ۲۰ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۷ ۷-۷۸ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۷۸ ۲۲ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۷۸ ۲ - الفضل ۴ / جولائی ۱۹۲۴ و صفحه ۵ کالم ۲-۳ و الفضل ۹ / جولائی ۱۹۱۳ ء صفحه) ۲۴ الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۶ کالم ۲۵ - الفضل ۹/ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱ الفضل ۱۸/ جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۳.۲۷ الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵ کالم ۳.۲۶.۲۸- رساله خالد و ممبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۶ - ٢٩ الفضل ۴/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵ کالم ۳.- الأفضل ۱۳/ نوری ۱۹۵۵، صفحہ ۲ کالم ۲.الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۳۸.۳۲.ولادت دسمبر ۱۸۹۴ء مقام بلانی ضلع گجرات وفات ۱۸/ اپریل ۱۹۵۶ء بمقام کھاریاں (ضلع گجرات اور نیکٹر مڈل کا امتحان پاس کر کے جون کو قادیان تشریف لائے.مضمون نویسی کا بچپن سے شوق تھا جہاں آکر حضرت خلیفہ اول حضرت سید نا محمو د ایده الله تعالی.حضرت میر محمد اسحق صاحب.حضرت حافظ روشن علی صاحب اور دوسرے بزرگوں کے فیض صحبت سے اور زیادہ بڑھ گیا اور آپ کے مضامین پہلے اخبار نوہر.پھر کشمیری میگزین (لاہور) افغان (پشاور) اور پیغام صلح میں چھپنے لگے.خلافت ثانیہ کے آغاز میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے درس قرآن لکھنے پر مامور ہوئے ازاں بعد حضور کے خطبات جمعہ

Page 518

تاریخ احمد بیت.جلد ۳ 489 اخبار " الفضل.[" پیغام " کا اجراء اور جلسہ سالانہ کی تقاریر قلمبند کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جولائی ۱۹۱۷ء سے الفضیل کی ادارت کا کام سپرد ہوا.اور حضرت خلیفتہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ادارت کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہدایات اپنے قلم سے لکھ کر بھجوائیں.(1) کم از کم قرآن کریم کا ترجمہ آنا ضروری ہے اور صحاح ستہ پر عبور ہونا چاہئے.(۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں پر عبور ہونا چاہئے.(۳) غیر مذاہب کی کتابوں کی واقفیت ہونی چاہئیے.(۴) خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس سے وابستگی لازمی چیز ہے.(۵) حکومت وقت کی اطاعت ضروری ہے.(۶) احمدیت کے لئے اخلاص اور ہر قسم کی قربانی کا جذیہ ہونا چاہئے.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو والفضل ۵/مئی ۱۹۵۶ء صفحه ۵) حضور ایدہ اللہ تعالی نے ان کی وفات پر فرمایا.ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی صرف مڈل پاس تھے مگر بہت ذہن اور ہوشیار تھے میری جس قدر پہلی تقریریں ہیں وہ ساری کی ساری انہی کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں.وہ بڑے اچھے زود نویس تھے.اور ان کے لکھے ہوئے بہت لیکچروں اور خطبات میں مجھے بہت کم اصلاح کرنی پڑتی تھی پھر وہ اخبار کے ایڈیٹر ہوئے اور ایسے زبر دست ایڈیٹر ثابت ہوئے کہ در حقیقت پیغامیوں سے زیادہ تر فکر انہوں نے ہی لے لی.پیغام صلح کے وہ اکثر جوابات لکھا کرتے تھے اسی طرح وہ میرے ابتدائی خطبات وغیرہ بھی لکھتے رہے جو انسی کی وجہ سے محفوظ ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جماعت پر یہ ایک بہت بڑا احسان ہے اور جماعت ان کے لئے جتنی بھی دعا ئیں کرے اس کے وہ مستحق ہیں." ( الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۶ء صفحہ ۴ کالم (r الفشل ۲۸ / مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۳.الفضل ۲۵ / جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۹.۳۵.روایت ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی ۶۸۰ ماڈل ٹاؤن لاہور.۳۶ روایت مستری فضل الهی صاحب مستری فضل الہی صاحب اپنے والد کے ساتھ ان دنوں بیعت کے لئے گئے ہوئے تھے.مستری صاحب کو آشوب چشم کا عارضہ تھا جو آپ کی دوا سے جاتا رہا.الفضل ۶ / اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۱ کالم الفضل ۹/ جولائی ۱۹۱۳ ء صفحہ ۱۶.۳۹.حکمت باللہ جلد اول صفحہ ۵۹۸.۲۰.حکمت بالله جلد دوم صفحه ۱۳۱- ۱۴۲.۴۱.حکمت بالله جلد دوم صفحه ۱۴۴ ۴۲.حکمت باللہ جلد دوم صفحه ۱۴۵ ۴۳.ملاحظہ ہو صفحہ الف.۴۴ اخبار پیغام صلح جوبلی نمبر صفحه ۵۱ (۷۱۹۳۸) ۴۵.ملاحظہ ہو ترجمہ یاد داشت شراکت مع دستور العمل پیغام صلح سوسائٹی لینڈ.۴۶.پیغام صلح جوبلی نمبر صفحہ ۵۱.اخبار احق ۳۰ مکی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۹ کالم ۳ ۴۸ اخبار الحق ۳۰ مکی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۰ کالم ۲.- الملال ان دنوں ترکی حکومت کی مدح سرائی کر رہا تھا.پیغام صلح میں بھی ترکوں کے بادشاہ کو خلیفتہ المسلمین کے لقب سے یاد کیا جانے لگا.چنانچہ پیغام صلح (۲۷ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۸) میں مولوی ظفر علی خاں صاحب کا جن کے پیچھے خواجہ صاحب لندن میں که ما از آن سلطانیم اخوت برملا گوید که آواز آن ما باشد نماز بھی پڑھ چکے تھے یہ قصیدہ شائع ہوا.خلافت مدعا حذر اے دشمنان ملت بیضا ازان ساعت که جوید ✓ دست امیرما لوائے مصطفی باشد

Page 519

تاریخ احمد بیت.جلد ۳ ۵۰ پیغام صلح جوبلی نمبر صفحه ۵۱ 490 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجراء ۵۱ سید سلیمان ندوی نے جو ان دنوں الہلال کے ادارہ میں شامل تھے اسے "وضوخانه " قرار دیا.(حیات شیلی صفحه ۲۰۰) ۵۲ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۳.۵۳ - الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۳ ۵۴ اخبار زمیندار جلد ۳ نمبر ۲۳۶ اصل اخبار کا تراشه خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے) ۵۵ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۳.۵۶.حیات شیلی صفحہ ۲۰.۵۷ الفضل ۲۳ / جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۶.۵۸.حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالٰی نے آئینہ صداقت میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی اصل تحریر کچھ تصرف کے ساتھ شائع کی گئی چنانچہ بعض الفاظ کی اندرونی شہادت اس کی تائید میں ہے.۵۹.ملاحظہ ہو پیغام صلح ۲۰/ اگست ۱۹۱۳ء صفح ۱ - ۲ پیغام صلح ۳۱/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۲.۳.پیغام صلح ۷ / ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲.۳.-۶۰ پیغام صلح 14 ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲- - اخبار پیغام صلح نے ۲۲ / جولائی ۱۹۱۳ء کو یہ مضمون شائع کیا.اور ادارتی نوٹ میں لکھا: ذیل میں وہ مضمون عدیہ ناظرین کیا جاتا ہے.جو جناب صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کمال مہربانی سے باوجود کم فریحی کے پیغام صلح کے لئے قلم بند کر کے ارسال کیا تھا.افسوس کہ کثرت مضامین کی گڑبڑ میں ہم اسے جلدی میں شائع نہ کر سکے.مضمون کسی تعریف کا محتاج نہیں میاں صاحب ممدوح کا نام نامی اس کی خوبی اور اہمیت کی کافی مضمانت ہے.ایڈیٹر " پیغام صلح ۲۴/ اگست ۱۹۱۳ء.- اخبار الفضل ٩/ اگست ۱۹۱۴ء صفحه ۷ کالم ۲.۳.الفضل ۳۰-۲۶/ مارچ ۱۹۱۸ء صفحه از شهادت بابو محمد عثمان صاحب قریشی) ۶۵ - الحق ۲۶/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ کالم ۱.۲.الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ہو.اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء نے عجیب عجیب افواہیں اڑائیں.مثلا یہ کہ میاں صاحب اور حضرت خلیفہ اصبح میں باہمی مخالفت ہو گئی ہے.حضرت خلیفہ اول نے ایک خطبہ میں فرمایا." میرے اور میاں صاحب کے درمیان کوئی نقار نہیں جو ایسا کہتا ہے وہ بھی منافق ہے وہ میرے بڑے فرمانبردار ہیں انہوں نے مجھ کو فرمانبرداری کا بہتر سے بہتر نمونہ دکھایا ہے وہ میرے سامنے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے انہوں نے فرمانبرداری میں کمال کیا ہے." ( الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵ کالم ۲) ۶۷ - الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵ کالم ۱-۲- ۶۹ -21 خواجہ صاحب کی خواہش کا علم ان کے دو خطوط ت ہوتا ہے.جو بد ر۱۱-۴/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ اور پیغام صلح ۱۸ رد ممبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ میں شائع شدہ ہیں.تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ؟ الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵.تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ؟ ۷۲ - الفضل یکم جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم ا.1 ۷۳ تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ 9 الفصل یکم جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم.۷۴.الفضل یکم جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم.۲.چودھری صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں موادی محمد علی صاحب کی اس کارروائی کی اطلاع دی تو آپ نے جواب دیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایسے خط کی نسبت انکار کرتے ہیں چودھری صاحب نے یہ خط خواجہ صاحب کو دکھا دیا.حضرت خلیفہ اول نے ایک خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کے سامنے یہ فرمایا."تم میں سے بعض کہتے

Page 520

تاریخ احمدیت جلد ۳ 491 اخبار " الفضل “ اور ” پیغام صلح کا جراء " میں فتح محمد کو کمال الدین کی جاسوسی کے لئے بھیجا ہے یہ لوگ بالکل جھوٹ بولتے ہیں حد سے مت بڑھو.حد سے بڑھ جاؤ گے تو ہماری آیتوں کے کافر بن جاؤ گے.(الفضل ۲۲ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۲.) ۷۵ - ۴-۱۱/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ۲..۱۳-۶/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶ کالم ۲.۷۷ پیغام صلح ۱۸ / د سمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ۳.- الحکم ۷۰۱۴/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۵ کالم.و الفضل یکم جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم ۳-۴- تعلیم الالسلام میگزین قادیان جلد نمبر صفحہ ۷.اس سے پہلے مشن کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں.ملاحظہ ہو ریکارڈ صدرانجمن احمد یہ ۱۴ - ۱۹۱۳ ء رجسٹر چہارم صفحہ ۳۰۳.احکم جوبلی نمبر صفحہ ۷۷ والفضل ۳۰/ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۲.(غیر مطبوعہ) خود نوشت سوانح جناب سید زین العابدین ولی الله شاہ صاحب (غیر مطبوعہ) یہ سوانح راقم الحروف کی درخواست پر آپ نے قلمبند فرمائی ہے.۲ اصل خط جناب شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل کے پاس محفوظ ہے.اس کا چہ بہ انہوں نے الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۰ء ( صفحہ ۶۵) میں بھی شائع کر دیا تھا..یہ اشعار جو در اصل نهایت درجه عارفانہ کلام پر مشتمل ہیں راقم الحروف (مولف تاریخ احمدیت کو مل گئے ہیں مگر حضرت خلیفہ اول کے ایک ارشاد کے احترام میں جو کلام امیر صفحہ ۶۶ پر چھپا ہوا ہے.ان کو شامل اشاعت نہیں کیا گیا."الدر المنشور فی المعات النور " غیر مطبوعہ (مولفہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی) سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں محکم دین (ساکن امر تسیا کے پاس حضرت خلیفہ اول کی ایک پنجابی سی حرفی تھی جو میاں محکم دین کی درخواست پر حضور نے ان کو بطور یاد گار عطا فرما دی تھی.مگر افسوس اب کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا ہوئی؟ الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ا.۸۵ - الفضل ۱۰/ تمبر ۱۹۱۳ء صفحہ.الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱.۸۷ - الفضل ۲۴/ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۴-۵ ۸۸ - اخبار الحق ۲۶ تمبر د ۲۱ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۹۸ ۸۹ - اخبار الحق ۲۶/ تمبر صفحہ ۸ - ۹ کالم ۲.بدر ۳/ اکتوبر ۱۹۱۳ صفحہ ۲ کالم.ملخصاً از اصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۱۸-۱۹ الفضل ۱۷ / اپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۵-۶ الفضل ۱۷/ اپریل ۱۹۳۵ء صفحه ۵-۲ ۹۳ اصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۱۹-۲۰ ۹۴ - الحق ۲۶ ستمبر ۳۷/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲ ۹۵ انتخاب خلافت صفحه ۴۵-۴۶- از منشی برکت علی صاحب شملوی ٩٢ الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴ کالم ۹۷ بدر ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۱-۱۲ ۹۸ ریکارڈ صد را انجمن احمد یہ رجسٹر چهارم صفحه ۲۳۸ ۹۹ پدر ۳۰/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم :.۲.۱۰۰- بدر ۱۳-۹/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحے.ا پدر ۳۰/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۱-۲

Page 521

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ١٠٣ الفضل ۵/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ا کالم ۲۱ 492 ۱۰.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الحق ۱۴/ نومبر تا ۵ / و سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳-۹ ۱۰۴- بدر ۷/۲۰ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۲ کالم ۳ ۱۰۵.الحکم ۱۴ جون ۱۹۱۴ء صفحہ کے کالم ۳ ۱۶ اخبار یغام صلح ۱۷ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲ کالم ۳ اخبار " الفضل " اور "پیغام صلح " کا اجراء ۱۷ اخبار الحق ۲۴-۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۹ کالم ۲.(اخبار پیغام صلح نے قبل از ۷ / ستمبر ۱۹۱۳ء میں بھی لکھا تھا کہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود مهدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالٰی کے بچے رسول تھے اور اس زمانہ کی ہدایت کے لئے دنیا میں نازل ہوئے آج آپ کی متابعت میں ہی دنیا کی نجات ہے صفحہ ۳ کالم ۲) ۱۰۸ پیغام صبح ۱۲ / فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۲ ۱۰۹.ایضا ۲۲ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ۳.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو آئینہ صداقت صفحه ۱۶۳ حقیقت اختلاف صفحه ۱۴ پیغام صلح ۱۶/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳ کالم ۳ ۱۳ اقام ۲۸/ فروری ۱۹۳ صفحه ۷ أحق ۱۹/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲۷ - ۲۸ - اخبار پیغام صلح ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہے میں اشک شوئی کے لئے ایک لمبی نظم شائع ہوئی جس کے چند اشعار یہ تھے اس نظم میں خطاب حضرت خلیفہ اول کو کیا گیا تھا؟ غلط کاری بہت ہم سے ہوئی ہے احات خماد والا کے خدا ہم پر فرض کیا کیا ہم میں تو ہے برگزیده تیری اطاعت بہت ہیں ہی تو نے بخشی خطائیں بیان کیا کیا کریں تیری عطائیں بنایا حق نے خود ہم کیا بنائیں کریں ہر دم اٹھائیں ۱۵- الدر المنشور فى لمعات النور از مولوی غلام رسول صاحب را بیکی (غیر مطبوعہ) آمینه صداقت طبع صفحه ۱۲۷-۱۲۸.۱۷.یہ نام مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے تجویز کیا تھا( الدر المنشور فی لمعات النور) ۱۱- آئینہ صداقت صفحه ۱۲۹ 119- الحق ۲۰ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۲.۱۲۰ الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۲ ۱۳.اس مضمون پر بہت سے احمد کی دوستوں نے ہمدردی کے خطوط لکھے جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ : میں ان دوستوں کی ہمدردی کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ ان کے لئے اللہ تعالٰی سے دعا کروں کہ وہ ان کے دین کی حفاظت کرے اور انہیں تقویٰ اور طہارت میں ترقی عنایت فرمائے اور دین و دنیا میں ان کا نگران و موید ہو بعض احباب نے اپنے مضامین میں نہایت لطیف باتیں بھی لکھی ہیں جن کے شائع نہ کرنے پر مجھے خود افسوس ہے.مگر مصالحت وقت میں چاہتی ہے.کہ فی الحال اس معاملہ کو ختم کیا جائے آخر میں سب جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ یہ وقت بہت نازک ہے...اس لئے بہت دعاؤں سے کام لینا چاہئے اللہ تعالٰی ہم پر رحم کرے اور حقیقی اسلام پھیلانے کی ہمیں طاقت دے گویم مشکل وگر نه گویم مشکل "- (الفضل (۲۴/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۳ کالم (۳) ۱۲۱ بر ۱۸/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳-۶ ۱۲۲- پیغام صلح ۲۳/ د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲ کالم ۲

Page 522

تاریخ احمدیت جلد ۳ 493 اخبار " الفضل " اور " پیغام صلح " کا اجرا ۱۲۳- الحق ۱۹ / د سمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲۹ کالم ۲ - ۲ ۱۲۴.الفضل ۳۱/, سمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱.۲.مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو احکام ۲۸-۲۱ / فروری ۱۹۸۵ ۶ صفحه ۲ - ۴ اخبار پیغام صلح ۴ - ۸/ جنوری ۱۹۱۴ء میں یہ تقاریر بہت گاڑ کر شائع کی گئیں جن سے یہ تاثر پیدا کرنا مقصود تھا کہ گویا حضرت خلیفہ اول نے انصار اللہ کی طرف سے اظہار الحق کے جواب کو بھی ناپسند فرمایا ہے اور اس سے فرض یہ تھی کہ ان گمنام ٹریکٹوں کا اثر قائم ہو اور ان کے جوابات کا اثر زائل ہو جائے.حالانکہ یہ جوابی ٹریکٹ آپ ہی کے حکم بلکہ نظر ثانی کے بعد شائع ہوئے تھے.( آئینہ صداقت صفحہ 149) اس سلسلہ میں پیغام صلح کے رپورٹر نے تقریر کو جس لب ولہجہ میں ڈھالنے کی کوشش کی.وہ حضرت خلیفہ اول کا ہو ہی نہیں سکتا.مثلا اس نے حضرت کی طرف یہ فقرہ منسوب کیا."میاں صاحب اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ".پیغام صلح و / جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ سم کا نمرات ۲۵ - الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ ء ص ا کالم ۱-۲ -١٣٦ الفضل ۳۱/دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم ۳ پر کور ارشادے آپ طرف تھارا ہو تے ۱۲۷.یہ اعلان شکریہ سید نا محمود نے آپ کے ارشاد سے آپ کی طرف سے لکھا تھا.(الحکم ۱۹۱۴ء نمبر ۱۳ ۱۴ صفحہ ۷) ١٣٨ الفضل ۷ / نوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۴.

Page 523

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 494 خلافت اوٹی کے آخری ایام ساتواں باب خلافت اولیٰ کے آخری ایام.حضرت خلیفہ اول کا وصال اور خلافت ثانیہ کا قیام جلسہ لودی ننگل اور سفر فتح گڑھ چوڑیاں ادائل ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے کہ مولوی نور احمد صاحب لودی ننگل نے اپنے گاؤں میں ایک جلسہ کرایا.مرکز سے سیدنا حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی) حافظ روشن علی صاحب اور بعض طلبا شامل ہوئے.یہ بزرگ لودی ننگل سے ایک دن کے لئے فتح گڑھ چوڑیاں بھی تشریف لے گئے.جہاں بعض مخالف علماء نے کچھ نوجوان ان کی مخبری کے لئے پیچھے کر دئے.حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے رفقاء سمیت ایک باغ میں پہنچے اور عربی زبان میں تقریر شروع کر دی.اس پر مخبروں نے مولویوں کو بتایا کہ ان لوگوں نے ہمیں گالیاں دی ہیں.مولویوں نے جھٹ تھانہ میں رپورٹ درج کرا دی.اس پر سب کو بلوایا گیا.حافظ روشن علی صاحب نے کہا کہ جن الفاظ میں گالیاں دی گئی ہیں وہ دہرا دئے جائیں مگر وہ کچھ بتا نہ سکے اور بات آئی گئی ہو گئی.یہاں ایک ایمان افروز واقعہ بھی پیش آیا اور وہ یہ کہ لودی ننگل کے ایک اہلحدیث امام میاں کرم الدین صاحب بھی فتح گڑھ چوڑیاں میں پہنچے اور انہوں نے فتح گڑھ کے علماء سے پوچھا.کہ مرزا کالر کا آج یہاں آرہا ہے.آپ کا کیا پروگرام ہے؟ اس پر ایک مولوی صاحب نے کہا.کہ فوراً بچے جمع کرو اور ان کی جھولیوں میں پھر بھر دو.جب وہ قصبہ کے نزدیک آئے وہ پتھر برسائیں اور اسے قصبہ میں داخل نہ ہونے دیں.میاں کرم الدین صاحب نے یہ بات سنی تو جواب دیا کہ یہ کام تو طائف والوں نے حضرت نبی کریم اے کے ساتھ کیا تھا.جس پر مولوی صاحبان خاموش ہو گئے اور میاں کرم الدین صاحب مزید کچھ کے بغیر واپس لودی ننگل چلے آئے اور دوسرے دن صبح کو نماز پڑھانے

Page 524

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 495 اولی کے آخری ایام کے بعد نمازیوں سے مخاطب ہو کر کہا.کہ مجھ پر صداقت کھل گئی ہے اس لئے آج میں جمعہ کی نماز مسجد احمدیہ میں مولوی نور احمد صاحب کے پیچھے پڑھوں گا.جس نے میرے ساتھ جانا ہو چلے.چنانچہ آپ کے ساتھ بعض اور نمازی بھی چل دئے اور آپ نے نماز جمعہ مسجد احمدیہ میں ادا کی.اور شامل احمدیت ہو گئے اسی طرح ان کے والد میاں نظام الدین صاحب نے بھی بیعت کر لی.تبلیغ احمدیت کے لئے ملک گیر سکیم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت دعاؤں اور التجاؤں کے بعد اور حضرت خلیفتہ المسیح کی اجازت سے جنوری ۱۹۱۴ ء کے آغاز میں جماعت کے سامنے ہندوستان بھر میں تبلیغ کے لئے ایک سکیم پیش کی.جس کے اہم پہلو یہ تھے (1) ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں خاص طور پر جلسے کئے جائیں (ب) مختلف مقامات میں واعظ مقرر ہوں.(ج) ہر زبان میں ٹریکٹ شائع ہوں.(د) سکول کھولے جائیں.اس سکیم کی تکمیل کے لئے جن اصحاب نے خاص طور پر آپ کی آواز پر لبیک کہا ان کے نام یہ ہیں.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.حضرت میر قاسم علی صاحب.سید صادق حسین صاحب اٹاوہ.بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر.چوہدری عبد اللہ خان صاحب دات زید کا.ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب.میاں نور الدین صاحب تاجر قادیان.میاں محمد شریف صاحب پلیڈ ر چیف کورٹ.حضرت صاحبزادہ صاحب نے سلسلہ کی تبلیغ کے لئے جماعت کو جھنجوڑتے ہوئے لکھا." میں حیران ہوں کہ میں سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو ہوشیار کرنے کے لئے کون سی راہ اختیار کروں.میں ششدر ہوں.کہ تمہارے دلوں میں کس طرح وہ آگ لگادوں جو میرے دل میں لگ رہی ہے لکڑیوں کو جلانے کے لئے دیا سلائیاں ہیں بڑے بڑے جنگل ایک دیا سلائی سے جل سکتے ہیں مگر دلوں کو گرم کرنے کے لئے دنیا نے کوئی سامان ایجاد نہیں کیا.جس سے کام لے کر میں تمہارے دلوں میں حرارت پیدا کر دوں دلوں کا پھیر نا خدا تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہے اور اسی سے دعا کر کے میں نے پہلا مضمون لکھا تھا.اور اس کے حضور میں اب گرتا ہوں کہ وہ میری آواز کو موثر بنائے اور پاک دلوں میں اس کے لئے قبولیت پیدا کرے".دعوۃ الی الخیر فنڈ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ملک بھر میں تبلیغی سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک دعوت الی الخیر فنڈ بھی کھولا.

Page 525

تاریخ احمدیت جلد ۳ 496 خلافت اولی کے آخری ایام حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں مولوی مولوی محمد علی صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کی محمد علی صاحب کا انگریزی ترجمہ قرآن کے طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن کے کام پر لگے ہوئے تھے.ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ نوٹ سنانا اور آپ کا انہیں نصیحت فرمانا حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوتے اور انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹ سناتے تھے جن کو سن کر آپ قرآنی حقائق و معارف بیان فرماتے.اور ضمناً بعض دوسرے امور پر بھی روشنی ڈالتے.آپ کی دلی خواہش تھی کہ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے انگریزی ترجمہ قرآن جلد شائع ہو.حضرت مولانا سرور شاہ صاحب کا بیان ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح روزانہ بار بار مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ "یزید بہت ہی برا شخص ہوا ہے.خدا نے مجھے سالم سورۃ قرآن اس کے حق میں نازل فرمائی ہوئی بتائی ہے.اسی طرح بنی امیہ کے حق میں بھی ایک سالم سورۃ موجود ہے آپ ضرور اس کے متعلق نوٹوں میں زور زور سے لکھیں.یہ بہت ہی برا آدمی ہوا ہے.اس لئے کہ اس نے بڑے پاک خاندان کا مقابلہ کیا ہے " آپ بار ہا یہ کہتے ہوئے رو پڑتے تھے.ایک دن ڈاکٹر محمد حسین وغیرہ بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور چند او را احباب بھی موجود تھے کہ آپ نے بڑے زور کے ساتھ یہی بات دہرائی اور پھر زار زار رو پڑے تو جب ہم چند آدمی اس کے بعد اٹھ کر باہر نکلے تو کسی نے سوال کیا.کہ تو اس کی کیا وجہ ہے کہ پہلے کبھی حضرت مولانا صاحب اس طرح نہ فرماتے تھے اور اب بڑے زور کے ساتھ اور بار بار کہتے ہیں اور بالخصوص مولوی محمد علی صاحب ہی کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.تو ہم میں سے ایک معزز شخص نے فرمایا تھا.کہ اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ اہل بیت کی مخالفت کرنے والے ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ان کے رکیں ہیں.لہذا ان کے سمجھانے اور ان پر حجت پوری کرنے کے لئے سب کچھ فرما ر ہے ہیں ".اخبار الحکم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات آپ نے سورہ محمد کی بعض آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں ۲ مارچ کو بھی فرمائی چنانچہ اخبار الحکم میں لکھا ہے." ان تفسدوا فی الارض الخ.(سورہ محمد ع ۳) پر فرمایا.میں تو جب اس کو پڑھتا ہوں.تو یزید کے متعلق پاتا ہوں.اس پلید نے قطع ر تم کیا.بڑا ہی بدبخت تھا.امام حسین نبی کریم کی ذریت ہیں اس نے اتنی بڑی نسل کو بری طرح ضائع کیا ہے ".حضرت مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ "حضرت خلیفتہ المسیح اول کی وفات کے بعد مجھے کچھ

Page 526

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 497 خلافت اوٹی کے آخری ایام دن آپ کے صاحبزادے مولوی عبدالحی مرحوم کو انگریزی پڑھانے کا فخر حاصل ہوا.ان ایام میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے ابا جان سے پوچھا کہ جب آپ مولوی محمد علی صاحب کو قرآن شریف پڑھاتے ہیں.تو اکثر دفعہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں یزید کی طرف اشارہ ہے.لیکن جب میں آپ سے قرآن شریف پڑھتا ہوں تو آپ نے کبھی ایسا نہیں کہا.آپ نے جواب دیا میں ان لوگوں سے اس لئے محبت کرتا ہوں کہ میری بات ان پر اثر کرے میرے بعد جو خلیفہ ہو گا اگر ان لوگوں نے اس کی بیعت کرلی تو سمجھتا کہ یہ لوگ میری محبت کے مستحق تھے.لیکن اگر انہوں نے اس کی بیعت نہ کی.تو سمجھنا کہ ان جیسا کوئی نہیں (یہاں آپ نے ایک نہایت سخت لفظ استعمال کیا جو ایمانی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے " جلسہ چکوال میں شمولیت کے لئے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سفر چکوال ایدہ اللہ تعالٰی ۲۴/ جنوری ۱۹۱۴ ء کو مفتی فضل الرحمن صاحب کے ہمراہ قادیان سے روانہ ہوئے.لاہور پہنچ کر آپ نے ۲۵/ جنوری کی شام کو جماعت لاہور کی درخواست پر میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر ایک پر معارف لیکچر دیا.جس میں آیت ادعونی استجب لکم کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے زمانہ حال کے مسلمانوں کا صحابہ کی قربانیوں سے مقابلہ کیا اور آخر میں جماعت کو تبلیغ حق کی ضرورت و اہمیت بتائی اور ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.تقریر کے بعد آپ ابجے شب لاہور سے روانہ ہو کر ۳ بجے جہلم پہنچے.۲۶/ جنوری کو نماز ظہر کے بعد آپ نے ایک تقریر فرمائی جو سورہ فاتحہ پر تھی.نماز مغرب کے بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب کا وعظ سوره والعصر پر ہوا.۲۷/ جنوری کو آپ بے صبح جہلم سے بذریعہ ریل میند را اسٹیشن پر اترے اور ۹ بجے ٹانگہ پر سوار ہو کر شام کو چھ بجے چکوال رونق افروز ہوئے.راستہ میں چک نورنگ کے احمدی علاقہ دار بابو غلام حیدر صاحب اور سید رکن شاہ علاقہ دار اور سید اللہ دتہ نمبردار چوہان استقبال کے لئے موجود تھے.چکوال میں ایک مختصر سے خطاب کے بعد ۲۹/ جنوری کو ٹانگے پر سوار ہو کر چک نورنگ تشریف لے گئے جہاں شام کو مردوں اور عورتوں میں الگ الگ وعظ کیا.چک نورنگ سے آپ گھوڑی پر سوار ہو کر ۳۰/ جنوری کو چوہان پہنچے اور جمعہ پڑھانے کے بعد ایک عام لیکچر دیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کھول کھول کر بیان فرمائی یہ تقریر بڑی دلپذیر تھی اور لوگوں پر اس کا گہرا اثر ہوا.اگلے دن ۳۱/ جنوری آدھی رات کو آپ چوہان سے بذریعہ ریل جہلم پہنچے اور صبح جو بلی گھاٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر زبر دست لیکچر دیا.لیکچر گاہ باوجود مخالفت کے پر تھی.

Page 527

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 498 خلافت اولی کے آخری ایام مولوی امام الدین صاحب گولیکی نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے گولیکی چلنے کی درخواست کی.مگر حضرت خلیفتہ المسیح کی اجازت کے بغیر آپ کے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا.اس لئے آپ نے معذرت کر دی.شام کو آپ جہلم سے گوجر انوالہ پہنچے اور جماعت سے خطاب فرمایا.دوسرے دن (یکم فروری کو صبح نہ بجے ریل پر سوار ہوئے اور شام کو بٹالہ پہنچ کر بوقت عشاء قادیان دارد ہوئے.مباحثہ مدرسہ چٹھہ اکال گڑھ ( ضلع گوجرانوالہ) کے نزدیک ایک گاؤں مدرسہ چٹھہ ہے یہاں شیعہ حضرات سے ایک مباحثہ قرار پایا.۲۰/ فروری کی صبح کو مولانا سید سرور شاہ صاحب اور حافظ غلام رسول صاحب اجازت و ہدایات کی غرض سے حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا " دعا ئیں بہت کرو اللہ تعالٰی کے حضور گر جاؤ تکبر نہ کرنا.پھر فرمایا کہ شیعہ کے ساتھ مناظرہ کے متعلق ہمارا اصول کسی کو معلوم ہے ؟ آپ کے اس سوال پر عرض کیا گیا کہ ہاں مگر آپ نے خود ہی اس کی تصریح کی اور فرمایا کہ ایک نشان ہے ہموا بما لم ينالوا اس اصل پر دیکھ لو کہ حضرت صدیق فاروق اور عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کامیابیاں کس شان کی ہیں.پھر آیت استخلاف سے استدلال کا طریق بتایا پھر اس طریق پر استدلال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کیا.اور آپ کی کامیاب زندگی اور موت کو بطور اعجاز اور نشان پیش کر کے خلافت راشدہ کی تصدیق کی اور پھر آخر میں اپنے وجود کو ایک دلیل کے رنگ میں دکھایا اور بتايا کہ يسلب الملك من القریش کی حدیث پڑھاتے ہوئے مجھے خیال آتا تھا کہ قریش میں اب کوئی امیر المومنین نہیں ہو سکتا.اور مجھے اپنی ذات کے متعلق تو کبھی وہم و گمان بھی نہیں آتا تھا.مگر دیکھو خدا تعالیٰ نے مجھے کس طرح خلیفہ بنا دیا.غرض اس طریق استدلال میں آپ نے بتایا.کہ ہمارا طریق استدلال قرآن مجید پر مبنی ہو اور واقعات اس کی تائید کرتے ہوں اور پھر سلسلہ احمدیہ کی زندہ شہادت کو پیش کرنا چاہئے.اور فرمایا جاؤ بڑھو.ہمیں صحابہ بھی پیارے ہیں اور اہل بیت بھی.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحق صاحب بھی تھے.جو بعد میں حاضر ہوئے آپ نے ان کو ضرورت وحدت کی طرف متوجہ فرمایا.اور نہایت لطیف پیرایہ میں بتایا کہ سعادت فضیلت اور جوانی پر گھمنڈ نہ کرنا پہلا مناظرہ ہے خدا کے حضور جھکو اور دعائیں کرو.پھر بہت دعا کی اور یہ کہکر رخصت فرمایا.کہ میرا دل جان روح دعا کرتی ہے کہ تم فتح مند ہو.بہت دعا کی ہے.مدرسہ چٹھہ میں حضرت مولانا سرور شاہ صاحب کا سید احمد شاہ صاحب آف راولپنڈی سے مباحثہ ہوا.وہاں میرابراہیم صاحب سیالکوئی بھی فساد کی نیت سے آپہنچے تھے.مگر احمد یوں نے کمال صبر و تحمل

Page 528

تاریخ احمدیت جلد ۳ 499 سے کام لیا اور مباحثہ امن و امان سے اختتام پذیر ہوا.10 خلافت اوٹی کے آخری ایام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حافظ مسجد احمدیه وزیر آباد کا افتتاح روشن علی صاحب اور مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی معیت میں ۲۶ / فروری ۱۹۱۴ء کو مسجد احمدیہ وزیر آباد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے وزیر آباد میں آپ نے شیخ نیاز احمد صاحب کے ہاں قیام فرمایا.مسجد میں پہلے خطبہ پڑھا پھر نماز جمعہ کے بعد عصر تک حافظ روشن علی صاحب نے اور عصر سے مغرب تک خود حضرت صاجزادہ صاحب نے سلسلہ احمدیہ کے متعلق لیکچر دئے.مغرب سے عشاء تک دوبارہ حضرت حافظ صاحب کا وعظ ہوا.۲۷/ فروری کو عازم قادیان ہوئے.آتے اور جاتے ہوئے خاندان حضرت میاں چراغ الدین صاحب کے افراد اور انصار اللہ کے ممبر آپ کے استقبال کے لئے لاہور اسٹیشن پر موجود تھے.الحکم کے احیاء کی کوشش الحکم نہایت درجہ خطرناک مالی بحران سے دو چار ہو چکا تھا اور اندیشہ تھا کہ یہ اخبار بند نہ ہو جائے.لہذا حضرت خلیفہ اول نے نہ صرف جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ ء پر جماعت کے سامنے اس کے لئے اپیل کی بلکہ آئندہ کے لئے اس کے مالی انتظام کے لئے حضرت میاں صاحب کو ناظم مقرر فرمایا اور اس کے دوبارہ احیاء کے لئے اپنے پاس سے ایک ہزار ر؛ پیہ عطا کرنے کا ارشاد فرمایا.مولوی صد ر الدین صاحب کے ولایت بھجوانے کی تجویز خواجہ کمال الدین صاحب کی طرف سے درخواست آئی کہ میری امداد کے لئے مولوی صدر الدین صاحب کو ولایت بھجوایا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول نے مولوی صدر الدین صاحب سے فرمایا کہ ہم آپ کی عمر کے چھ مہینے مانگتے ہیں.مولوی صاحب نے عرض کیا.حضور ساری عمر حاضر ہے اور جانے کی تیاری شروع کر دی.مولوی محمد علی صاحب کو چونکہ مولوی صدر الدین صاحب کا ولایت جانا پسند نہیں تھا.اس لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا کہ مولوی شیر علی صاحب تیار ہیں ان کو بھجوا دیا جائے.ازاں بعد خواجہ کمال الدین صاحب کا تار آیا."REVIEW ENLARGED SEND SADDER DIN" اسلامک ریویو بڑھا دیا گیا ہے مولوی صدر الدین صاحب بھیجوا دئے جائیں.یہ تار مفتی محمد صادق صاحب لے کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے قریب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کھڑے تھے مفتی صاحب نے تار ڈاکٹر صاحب کو دے دیا.ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا.حضور خواجہ صاحب کا تار آیا ہے.وہ دعا کے لئے درخواست کرتے ہیں.اس پر مفتی صاحب نے کہا.اصل -

Page 529

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 500 خلافت اوٹی کے آخری ایام تار بھی سنائیے.اس پر ڈاکٹر صاحب نے کھسیانے ہو کر دوبارہ عرض کیا کہ حضرت خواجہ صاحب کا تار آیا ہے وہ لکھتے ہیں کوئی آدمی بھیج دیا جائے یہ کارروائی حاضرین کو بہت ناگوار گزری.اور سمجھے کہ وہ مولوی شیر علی صاحب کو نکالنا چاہتے ہیں اور مولوی صدرالدین صاحب کا جانا پسند نہیں کرتے.اس لئے وہ ڈرتے ہیں کہ اگر مولوی صدر الدین صاحب کا نام لیا جائے گا.تو شاید حضرت صاحب انہی کو بھیجنے کا ارشاد فرما دیں گے.چنانچہ خود ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا اپنا بیان ہے.۱۷ / فروری کی رات کو یعنی اسی شب کو جب مولوی صدرالدین صاحب میرے ساتھ حسب معمول حضرت صاحب کو کھانا کھلانے کے لئے گئے.آپ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا.آپ سے صرف چھ ماہ کی زندگی مانگتا ہوں.فرمایا.شملہ بھی تو لوگ سیر کر آتے ہیں.مطلب یہ تھا کہ مولوی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لئے انگلستان جانے کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کریں.اس کے جواب میں مولوی صدر الدین صاحب نے عرض کیا.ساری زندگی حاضر ہے.اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے".خواجہ صاحب کا ولایت سے تار آیا.جس کا مضمون یہ تھا کہ مولوی صدرالدین صاحب کو فوراً بھیج دو.مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے تار دیا.کہ حضرت صاحب کو سناد......میں نے اس خیال سے کہ حضرت صاحب کو خواجہ صاحب کے اس معالمہ میں عدم استقلال رائے کا افسوس ہو گا.صرف اتنا عرض کر دیا.کہ خواجہ صاحب کا مددگار کے متعلق تار آیا ہے".بهر حال اصل معامله تو مولوی صدر الدین صاحب کے متعلق تھا مگر چونکہ مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کے سامنے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا نام پیش کر دیا تھا اس لئے مولوی شیر علی صاحب نے چھ ماہ کے لئے رخصت کی درخواست دے دی.مگر جب یہ معاملہ پیش ہوا تو انجمن نے فیصلہ کیا کہ انجمن کا کوئی ریزولیوشن نہیں ہے.کہ جس میں اس نے مولوی شیر علی صاحب کو ولایت جانے کا حکم دیا ہو.یہ ان کا پرائیوٹ معاملہ ہے.اس طرح یہ تجویز درمیان میں ہی رہ گئی.حضرت خلیفہ اول کی مرض الموت کا آغاز زغم کی بیماری سے صحت یاب ہونے کے باوجود حضرت خلیفہ اول کی صحت بحال نہیں ہو سکی اور زیادہ کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے تھے.مگر آپ کے دینی مشاغل پورے زور شور سے جاری تھے.اس بے مثال دماغی محنت و کاوش کے ساتھ بڑھاپے کی اس عمر میں آپ کو گمنام ٹریکٹوں کے فتنے کا شدید صدمہ پہنچا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے.آپ نے جلسہ سالانہ

Page 530

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 501 خلافت اولی کے آخری ایام (۱۹۱۳ء) پر ابھی ابتدائی کلمات ہی کے تھے کہ آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور تقریر مکمل کئے بغیر واپس تشریف لانا پڑا.بایں ہمہ قرآن مجید اور بخاری شریف کا درس آپ اس حالت میں بھی برابر دیتے رہے.جو آپ کی روح کی غذا اور دل کی تسکین کا واحد ذریعہ تھا.وسط جنوری ۱۹۱۴ء میں آپ بہت رات گئے پیشاب کے لئے کھڑے ہوئے تو سینے کے بل دھڑام سے گر پڑے اور کچھ دیر کے بعد زمین سے اٹھنے کے قابل ہوئے بایں ہمہ اپنے پیارے خدا کے پیارے کلام کو سنانے میں ناغہ نہیں ہونے دیا.اور درس کے لئے تشریف لے آئے.دراصل یہ آپ کی مرض الموت کا آغاز تھا.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب الله " سلسلہ احمدیہ " میں تحریر فرماتے ہیں.ابتداء میں صرف پہلی کے درد کی تکلیف اور گاہے گاہے ہلکی حرارت اور قے وغیرہ کی شکایت تھی.آہستہ آہستہ بیماری نے اس قدر زور پکڑ لیا کہ آپ بستر سے نہ اٹھ سکے ".اب ہم مرض الموت کے واقعات کا بالتفصیل ذکر کرتے ہیں:.۱۷ ۱۸ جنوری سے حضرت خلیفہ اول کی طبیعت زیادہ کمزور ہو گئی تو آپ نے شام کا درس گھر میں جاری کر دیا.لیکن اب بھی آپ کی دینی مصروفیات میں کوئی خاص کمی نہیں آئی.بلکہ فرمایا کہ اس کمزوری میں جب کہ بعض اوقات لیٹ کر کام کرنا پڑتا ہے.میری یہ خواہش ہے کہ اگر کوئی نئی کتاب مل جائے تو اسے ختم کئے بغیر نہ چھوڑوں.۲۵ دانت نکلوانے سے مسوڑے پر ورم ہو گیا اور چہرا دیا گیا.اور آپ دو روز ۱۵-۱۶/ جنوری کو درس نہ دے سکے.۱۷/ جنوری کو پیر منظور محمد صاحب کے صحن میں اور ۱۸/ جنوری کو پیر منظور محمد صاحب کے مکان میں درس قرآن و بخاری دیا.مگر اس کے بعد طبیعت پھر زیادہ ناساز ہو گئی.ضعف بھی بہت رہا.اور تین چار روز عصر کا درس بھی بند کر دینا پڑا.تاہم عورتوں میں درس قرآن و حدیث بدستور دیتے رہے.دوبارہ ۲۵/ جنوری کو آپ نے مردوں میں بھی درس دینا شروع کیا.آپ عصر کے بعد میاں عبدائی صاحب کے مکان میں درس دیتے تھے.جنوری کے آخر اور فروری کے ابتداء میں آپ کی طبیعت اور زیادہ علیل ہو گئی.اور ضعف کے علاوہ حرارت بھی ہونے لگی.مگر باوجود سخت ضعف کے آپ کھڑے ہو کر اور بار از بلند درس دیتے رہے طبیبوں اور ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ آپ کو آرام کرنا چاہئے.مگر آپ نے فرمایا.مجھے تو اس سے تقویت ہوتی ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک خط پہنچا کہ کامیابی کے ساتھ کئی مشکلات اور ابتلاء بھی در پیش ہیں.آپ نے تحریر فرمایا.عادت سے زیادہ دعائیں کریں.عادت سے زیادہ خیرات کریں اور

Page 531

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 502 خلافت اولی کے آخری ایام عادت سے زیادہ نماز پڑھیں.II اب آپ کی طبیعت یہاں تک کمزور ہو گئی.کہ سہارے کے بغیر بیٹھنا محال ہو گیا.اور بولنے سے ضعف ہونے لگا.اب بھی اپنے گھر میں درس کا سلسلہ جاری رکھا.چنانچہ ۲/ فروری کو آپ نے ایسے درد انگیز لہجہ میں درس دیا کہ سب کے قلوب پر رقت طاری ہو گئی.اور بعض چیچنیں مار کر رونے لگے.وہ کلمات گویا ایک وصیت کا رنگ لئے ہوئے تھے.Ba اسی روز آپ عصر و مغرب کے درمیان درس دینے کے لئے بعض لوگوں کے کندھوں پر سہارا رکھ کر پہنچے اور بیٹھے بیٹھے ہی درس دیا اور فرمایا.” میں جب مروں گا.تم میں سے بہت لوگ ہوں گے میری اس بات کو بطور وصیت یاد رکھنا کہ میری اولاد کے واسطے چندے ہر گز نہ کرنا.اور ان کو مساکین کی مد میں نہ رکھنا.بتامی کی مد میں نہ رکھنا.میری اولاد کو بھی اللہ تعالٰی اسی طرح اپنی قدرت سے دے گا جس طرح اس نے مجھے ہمیشہ دیا ہے...میرے ذمہ کچھ قرض تھا.آج الحمد للہ اس کے دو حصے ادا ہو گئے ہیں.ایک حصہ باقی ہے.وہ انشاء اللہ کل ادا ہو جائے گا اور پھر میرے ذمہ کسی کا قرض نہیں".دوران درس میں آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں درس کا یہ دور ختم کرلوں اور بڑی خواہش ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے ترجمہ انگریزی جو کیا ہے اس کے نوٹ سن لوں کچھ سن بھی چکا ہوں مگر میری و مبدم طاقت کم ہوتی جاتی ہے کہاں میں تم کو مسجد میں جاکر پھر مدرسہ میں جاکر قرآن سناتا تھا پھر میں اٹھ کر سناتا تھا.مگر اب یہ بھی طاقت نہیں اب بیٹھنے پر مجبور ہوں.۴ فروری کو ایک احمدی کا خط آیا کہ لوگ مساجد سے نکالتے ہیں.فرمایا میدان میں نماز پڑھ لیا کریں.استغفار اور صبر سے کام لیں.۵ فروری کو طبیعت نسبتاً اچھی رہی.۷ / فروری کو پیاس کی تکلیف رہی.اس دن بہت سے احباب عیادت کے لئے حاضر ہوئے.اس دن انگریزی ترجمہ کے ہیں پارے کے نوٹ ختم ہو گئے.اس کے طباعت کے اخراجات کے لئے آپ نے خود تحریک کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.۹/ فروری کو طبیعت زیادہ نڈھال ہو گئی.۸/ فروری کو آپ نے بتایا کہ خدا تعالٰی نے اس بیماری میں مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ پانچ لاکھ عیسائی افریقہ میں مسلمان ہوں گے.پھر فرمایا.مغربی افریقہ میں تعلیم یافتہ ہوں گے.اس دن آپ کا مرض کچھ رک گیا.مگر کمزوری بہت زیادہ ہو گئی.مگر دوسرے دن افاقہ ہو گیا.پہلے پر کچھ آرام ہو تا مگر پچھلے پر خفیف سی حرارت ہو جاتی.ضعف کا یہ حال ہو گیا کہ سارے کے بغیر بیٹھنا تو درکنار باوجود سارے کے سر نہیں تھام سکتے تھے.تاہم آپ نے حضرت میاں صاحب کے ذریعہ اخبار میں اعلان کرایا کہ دوست بیمار پرسی کے لئے یہاں آنے کی بجائے اپنے اپنے مقام پر

Page 532

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 503 خلافت اولی کے آخری ایام دعائیں کریں یہی کافی ہے.10 اس عالم میں ۱۴ / فروری کو فرمایا.بول تو میں سکتا ہوں.خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا.درس کا انتظام کرو کہ میں قرآن مجید سنادوں.پھر اپنے گھر والوں کو تلقین فرمائی کہ دکھوں میں کبھی نہ گھبرائیو.لا الہ الا اللہ کا ورد رکھیو اپنے محسن نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتی رہیو.نیز فرمایا.جو لوگ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے انہیں کیا معلوم کہ نورالدین کا آخری وقت میں بھی لا اله الا اللہ پر ایمان تھا.فرمایا.میرا دل خوش ہے.میں مطمئن ہوں اللہ تعالیٰ میرا مولیٰ ہے اور محمد رسول اللہ جیسا عظیم الشان ( خاتم کمالات رسالت) میرا ہادی.پھر فرمایا کہ شاعر اور مصور واقعات کی تصویر کھینچ دیتے ہیں مگر حضرت رب العزت نے مدینہ پر احزاب کی چڑھائی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کا منظر ایک شاعر یا مصور کی کیا طاقت کہ دکھا سکے.یہ فرما کر آپ پر رقت طاری ہو گئی.۱۵ فروری کو بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لاہور سے ایک یورپین ڈاکٹر ملول کو لے کر پہنچے انہوں نے معائنہ کیا اور بتایا کہ دل، پھیپھڑا ٹھیک ہے نبض بھی اچھی ہے البتہ معدہ میں کچھ قصور ہے.اور بڑھاپے کی وجہ سے اعصاب میں کمزوری ہے.اس کے بعد دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد قریب رہی نسخہ تجویز کیا جو پہلے سے زیر استعمال تھا.ڈاکٹر ملول نے آپ کا مزاج پوچھا.فرمایا میں تو اچھا ہوں ڈاکٹروں نے لٹا دیا ہے.پھر فرمایا مجھے موت کا کوئی غم اور خوف نہیں.ان الفاظ سے اتنی طمانیت اور جوش ٹپکتا تھا کہ ڈاکٹر بھی دنگ رہ گیا.☑ ۱۸ فروری کو پہلی کے درد سے آپ کی طبعیت بہت زیادہ کمزور ہو گئی مگر اس کے بعد قدرے افاقہ رہا.۱۹ / فروری کو حضرت ام المومنین اور دیگر مستورات حضرت اماں جی کے ساتھ آپ کی عیادت کو حاضر ہو ئیں.حضرت ام المومنین کے سلام کے جواب میں آپ نے فرمایا.و علیکم السلام ورحمة الله عليكم اهل البيت وعلى ابنائكم و بنا تکم.آپ اس وقت کچھ چشم پر آب بھی ہو گئے.آپ کے گھر والوں نے عرض کیا کہ کیا آپ گھبرا گئے فرمایا میں بالکل نہیں گھبرایا.میں موت سے نہیں ڈرتا خدا سے ڈرتا ہوں.خدا راضی ہو جائے تو سب کچھ پالیا.چپ اس لئے ہوں کہ بولنے سے تکلیف ہوتی ہے.۲۱ فروری کو آپ کی مجلس میں لاہور کا ذکر آیا.جس پر آپ کو گمنام ٹریکٹوں کا خیال آیا اور اس نے آپ کی طبعیت کو مکدر کر دیا.اور نہایت برہم ہو کر فرمایا." میں تو لاہور کو جانتا نہیں وہ ایسا قصبہ ہے کہ جہاں سے مجھ کو ایسے بڑھاپے میں اس قدر تکلیف پہنچی.اس ٹریکٹ کی یاد سے آپ کو بہت رکھ ہوا.اور ان سے آپ نے بے حد بیزاری کا اظہار فرمایا.آپ کی آنکھیں پر نم اور آواز میں غم و

Page 533

تاریخ احمد بیست جلد ۳ 504 خلافت اولی کے آخری ایام غصہ کے جذبات تھے آپ نے فرمایا.” میرا دل بہت جلایا گیا.میں اس وقت بوڑھا ہوں کیا یہ مجھ کو دکھ دینے اور تکلیف دینے کا وقت تھا.یہ تو مجھ سے محبت کرنے کا وقت تھا.مجھے اس وقت راضی کرنا چاہئے تھا.فرمایا.میری دعاؤں کو اللہ تعالی سنتا ہے اور میں خوب جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعا ئیں وہ سنتا اور قبول کرتا ہے.میں اس وقت رویا ہوں اگر میری غضب کی آنکھ ہوتی تو کھا جاتی.پھر اس سلسلہ میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.آپ اس کو لائے آپ نے اس کی معافی کرائی لیکن آج تک اس کی تلافی نہیں ہوئی.قرآن مجید فرماتا ہے من تاب و اصلح فاجرہ علی الله مگر اس نے کوئی اصلاح نہیں کی.کوئی تلافی نہیں ہوئی نہ آپ نے اصلاح کرائی نہ تلافی کرائی".پھر فرمایا وہ جو کہتا ہے کہ فلاں شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے.غلط ہے مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہو گا اور کیا ہو گا.کون خلیفہ بنے گایا مجھ سے بہتر خلیفہ ہو گا.میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا.میں ۱۴۴ کسی کو خلیفہ نہیں بنا تا میرا یہ کام نہیں.خلیفے اللہ ہی بناتا ہے میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی آپ کو الہاما بتایا گیا کہ پانی ہوا آگ اور پانی کے کو ٹھی (دار السلام) میں منتقل ہونا ملاپ میں علاج ہے.اس غرض کے لئے آپ نے شہر سے باہر کھلی فضا میں منتقل ہونے کا فیصلہ فرمایا.یہی مشورہ ڈاکٹروں کا تھا.اس پر ۲۷/ فروری بعد نماز جمعہ آپ ڈولی میں بیٹھ کر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دار السلام میں تشریف لے گئے رستہ میں بورڈنگ ہاؤس کے پاس طلباء نے آپ کا استقبال کیا اور عرض کیا.السلام علیکم یا امیرالمومنین.اس پر آپ نے ڈولی کو ٹھہرایا اور بچوں کے لئے درد دل سے دعا مانگی.اور مولوی محمد علی صاحب کو بلوایا.وہ پاس نہ تھے.اطلاع ہونے پر مسجد نور کے قریب ملے.کوٹھی میں پہنچ کر ان کو ارشاد فرمایا.کہ مجھے تو وہ (اللہ تعالٰی) بہت ہی پیارا ہے.دو کام بتائے ہیں.تواضع اور خاکساری اور اس کی بچوں کو فوری طور پر تاکید کرو.ہر لڑ کا خیرات دے.ہر لڑ کا استغفار کرے مجھے معلوم ہوا ہے کہ طاعون بھی آتی ہے.پھر فرمایا.یہ کام ابھی کرنا ہے چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے مغرب کی نماز کے بعد بچوں کو نصیحت پہنچائی.در اصل مولوی صدر الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب چاہتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کو ہائی سکول کے بورڈنگ کی اوپر کی جنوبی منزل میں لے جایا جائے.اور اس غرض کے لئے بعض تبدیلیاں بھی عمارت میں کروا دیں.سیڑھیاں گول تھیں اور حضرت خلیفہ اول بیٹھنے کے قابل بھی

Page 534

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 505 خلافت اوٹی کے.نہیں تھے.چنانچہ انہوں نے ڈائننگ ہال کی میزوں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک اڈہ سا بنایا.تاکہ چار چار آدمی آپ کی چار پائی لے جائیں اور اس تمام تر کوشش کا در پردہ منشاء یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اول کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں پر عوام الناس نہ جا سکیں خاص پہرہ بھی ان کے لئے تجویز کیا گیا.اور طے پایا کہ یہ پہرہ دار صرف ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دیں جن کو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب یا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب پسند کریں.اول تو حضرت خلیفہ اول کی چارپائی کو ان میزوں کے اوپر رجہ اٹھا کر لے جانے میں یہ خطرہ تھا کہ ایک آدمی کا ہاتھ پھسل جانے سے حضور یقینی طور پر زمین پر آگر تے.دوسرے وہ جگہ بھی مناسب نہ تھی تیسرے اس جگہ بھی کھانے کا تسلی بخش انتظام نہ تھا.غر منکہ اس خطرناک منصوبہ کی اطلاع کسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو مل گئی آپ مشوش ہوئے اور آپ نے حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب سے اس کا ذکر کیا.جس پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضور کی خدمت میں اپنی کو ٹھی میں تشریف لے جانے کی درخواست کی.کھانا چند دن پہلے ہی آپ کے گھر میں جاتا تھا.اب حضور نے اس پیشکش کو بھی بڑی خوشی سے قبول فرما لیا اور آپ کی طبعیت میں خوشی کی ایک بری دو ڑ گئی.چنانچہ جب آپ کو کو ٹھی کی طرف لے جانے کا وقت آیا تو دوسرے دوستوں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی پہنچے گھر سے ڈولی اٹھانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء کا یہ پختہ ارادہ تھا کہ کسی ترکیب سے حضرت خلیفہ اول کو بورڈنگ میں رکھ لیا جائے.چنانچہ جب...ڈولی بورڈنگ تک پہنچی.تو چار پائی وہاں روک لی گئی.حضرت خلیفہ اول نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حسرت سے فرمایا.کہ ہیں یہ اس جگہ مجھے لا رہے ہیں".حضرت مرزا شریف صاحب نے اونچی آواز سے کہا کہ حضور یہ صرف چلنے والوں کو آرام دینے کے لئے روکا ہے.ورنہ آپ نواب صاحب کی کوٹھی پر ہی جارہے ہیں.اس سے حضرت خلیفتہ المسیح کو تسلی ہوئی اور خفیہ منصوبہ رکھنے والے اس کی تردید کی جرات نہ کر سکے اور ان کو اپنے ناپاک ارادہ میں بری طرح ناکامی ہوئی.اس حقیقت کو چھپانے کے لئے اخبار پیغام صلح نے مندرجہ ذیل خبر شائع کی کہ " تیسرے پھر نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی میں چند روز کے لئے تبدیلی آب و ہوا کے لئے تشریف لائے.پہلے جناب کا ارادہ بورڈنگ ہاؤس کے بالا خانہ پر تشریف رکھنے کا تھا مگر چونکہ وہاں چڑھنے میں دقت تھی.نواب صاحب کی درخواست پر نیز طبی رائے پر جناب نواب صاحب کے ہاں تشریف لے گئے ".حضرت خلیفہ اول کو کو بھی کے باہر کے شمالی کمرہ میں رکھا گیا اور باقی سب بیرونی کمرے مہمانوں کے

Page 535

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 506 خلافت اولی کے آخری ایام لئے خالی کرادئے گئے.کوٹھی چونکہ کافی وسیع تھی.حضرت خلیفہ اول اور آپ کے خاندان اور آنے والے مہمانوں کے لئے کو ٹھی میں ہی کھانا تیا ر ہو تا تھا.حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بھی شب و روز کو ٹھی میں رہنے لگے اور آپ کا اکثر وقت حضور کی خدمت میں گزرتا تھا.کو ٹھی میں آنے کے دوسرے دن بعد حضور نے حضرت نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مکان بہت خوب.ہے اس میں مجھے بہت آرام ہے.خدا آپ کو جزائے خیر دے اسی روز سے آپ نے بدستور قرآن مجید کے نوٹ سننے شروع کئے.مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور پچیسواں پارہ ختم ہو گیا ہے.دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہا.تیرا فضل تیرا کرم.پھر فرمایا.مجھ پر تو خدا تعالی کی رحمت کے عجیب عجیب بادل چڑھتے ہیں اور مجھ پر برستے ہیں.اس بہار کی پھوہار کو میں ہی سمجھتا ہوں.یکم مارچ کو آپ کی طبیعت نسبتا اچھی رہی.۲/ مارچ کو آپ نے سورہ محمد کی تفسیر کے دوران میں مولوی محمد علی صاحب کو اپنی تفسیر میں یزید کا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی.اس دن آپ کو ضعف or کی سخت شکایت ہو گئی.جس کا سلسلہ اگلے دنوں میں اور زیادہ تشویشناک صورت اختیار کر گیا.حضرت خلیفہ اول کی وصیت ۱۴ مارچ کو نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اول کو یکایک ضعف محسوس ہونے لگا.اسی وقت آپ نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو قلم دوات لانے کا حکم دیا.چنانچہ وہ قلم دوات اور کاغذ لے آئے اور پ نے لیٹے لیٹے کا غذ ہاتھ میں لیا اور مندرجہ ذیل وصیت لکھی.بسم الله الرحمن الرحيم - نحمد و نصلی علی رسوله الكريم وآله مع التسليم خاکسار بقائمی جو اس لکھتا ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ.میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر مال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے ان کی پرورش...تمامي ومساکین سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جاوے.لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جاندار و قف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو ہر دلعزیز.عالم باعمل ہو حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے مطلوک.چشم پوشی.درگزر کو کام میں لادے.میں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام.كها

Page 536

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 507 خلافت اوٹی کے آخری ایام بری وصیت حضرت خلیفہ المسیح اول ان الاسمر من السهم رتقا می خوای كلتا اله الا الله جھوٹے سین کاری گراں نہیں رکنند اہم مان کو مردہ منہ جمع کیا تارے بدلن رے اور یا کتبہ - ہانڈ اور تف على ال ابرو ہوں میرا چا تثبت فارم ہو پر دولنور عالم باعمل ہے قران و سوریه เล اور ہے" بيا لاد روت بستم كيد الحمود تو اوشو به زالیتو بیگ گواه شد 14 414

Page 537

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 508 خلافت اوٹی کے آخری ایام وصیت لکھ کر حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو حکم دیا کہ وہ سنادیں.چنانچہ انہوں نے باد از بلند پڑھ کر سنادی.پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ تین مرتبہ سنادو.چنانچہ تین مرتبہ ہی انہوں نے اسے پڑھا.جب وصیت پڑھی جارہی تھی.حاضرین پر رقت و اضطراب کا ایک درد ناک سماں بندھا ہو ا تھا.دل اور آنکھیں روتی تھیں.مولوی محمد علی صاحب تین مرتبہ وصیت سنا چکے تو آپ نے فرمایا کہ نواب صاحب کے سپرد کر دودہ اسے محفوظ رکھیں گے.چنانچہ مولوی صاحب نے اصل کا غذ نواب صاحب کے سپرد کر دیا.حضرت نواب صاحب نے دستخط کے لئے یہ وصیت حضور کی خدمت میں پیش کی چنانچہ آپ نے اس پر دستخط کر دئے.وصیت پر مولوی محمد علی صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے علاوہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بھی بطور گواہ دستخط کئے اور وصیت حضرت نواب صاحب نے محفوظ کر لی.اگلے روزی اخبار پیغام صلح نے ایک ضمیمہ نکالا.جس میں اس پوری وصیت کو شائع کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب کے وصیت سنانے کا واقعہ بایں الفاظ درج کیا :.قریب آبجے شام کے حضرت خلیفہ المسیح نے مولوی محمد علی صاحب کو ان کے گھر سے ہلوا بھیجا.میں ( مراد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب - ناقل) قریب سوا پانچ بچے کے جب حاضر ہوا.تو حضرت صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیرا حکم اور حکیم مرہم عیسی صاحب اور شیخ تیمور صاحب ایم.اے اور اور کثرت سے اصحاب موجود تھے.حضرت صاحب نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دیا تاکہ وہ دیکھیں کہ پڑھا جاتا ہے کہ نہیں انہوں نے عرض کی کہ سوائے آخری سطر کے سب پڑھا جاتا ہے.قلم خراب تھی آپ نے اور قلم دوات منگائی اور اس سے نئے کاغذ پر وصیت لکھی.ہر چند سطور لکھنے کے بعد آپ کا غذ مولومی محمد علی صاحب کو دیتے تھے کہ دیکھیں پڑھا جاتا ہے کہ نہیں.وہ غرض کرتے تھے کہ اب ٹھیک پڑھا جاتا ہے.جب وصیت لکھا چکے تو آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو فرمایا کہ سب کو سنادیں.انہوں نے کھڑے ہو کر سب سامعین کو باد از بلند ستاد یا.پھر وہ بیٹھ گئے آپ نے فرمایا کہ تین دفعہ پڑھو.چنانچہ پھر مولوی صاحب نے اٹھ کر دوبار اور پڑھ کر حاضرین کو سنا دیا.اس کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی اور ضروری امرا گر رہ گیا ہو تو بتا دیں.میں لکھ دوں.مولوی محمد علی صاحب و جمله احباب نے عرض کی کہ اور کوئی ایسا امر نہیں.اس کے بعد آپ نے وہ کاغذ نواب محمد علی خان صاحب کو دے دیا.فرمایا.محفوظ رکھیں (یعنی امانت کے طور پر) پھر فرمایا.اس سے زیادہ میں کچھ نہیں لکھ سکتا.اور نیچے "۴ / مارچ ۱۹۱۴ء بعد از اعلان" بھی لکھ دیا.اس کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا.جیتے رہے تو پھر دیکھا جائے گا.پھر فرمایا.موت حیات کی کوئی خبر نہیں."

Page 538

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 509 خلافت اوٹی کے آخری ایام اللہ پاک نے فرما دیا ہے.اور مجھے بھی علم نہیں فرمایا دل کی خواہش کا اظہار کیا ہے یہ بھی نہ سمجھو کہ مجھے کوئی مایوسی ہے ".اختلافی مسائل کا عام چرچا اور ذاتی حملے یوں تو حضرت خلیفہ اول کی بیماری کی ابتداء سے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء نے اختلافی مسائل کو ہوا دینی شروع کر دی تھی مگر آخری وصیت کے بعد تو خاص طور پر اس کے چرچے ہونے لگے.حضرت قمر الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.اس طویل بیماری کے ایام میں منکرین خلافت کا پراپیگنڈہ بہت زور پکڑ گیا اور اختلافی مسائل کی بر ملا اشاعت کے علاوہ مویدین خلافت اور خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف ذاتی حملوں نے زیادہ شدت اختیار کرلی.گویا ان ایام میں لاہوری پارٹی کے زعماء نے ایک آخری جد و جہد اس بات کی کرنی چاہی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر جماعت کے سواد اعظم کو اپنی طرف کھینچ لائیں.مگر ایک خدائی تحریک کو اس کے ابتدائی مراحل میں غلط رستہ پر ڈال دینا کسی انسانی طاقت کا کام نہیں اس لئے اس کوشش میں منکرین خلافت کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.مجھے خوب یاد ہے کہ ان ایام میں احمدیت کی فضائوں شرر بار ہو رہی تھی کہ گویا ایک میدان جنگ میں چاروں طرف سے گولیاں برس رہی ہوں یہ خدا کا فضل تھا.کہ حضرت خلیفہ اول کی دور بین آنکھ نے اپنی بیماری کے ایام میں اپنے قدیم طریق کے مطابق اپنی جگہ نمازوں کی امامت اور جمعہ کے خطبات کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو مقرر کر رکھا تھا.ورنہ اگر پریس کے ایک حصہ کے ساتھ ساتھ جماعت کے خطبات کا منبر بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا.تو پھر بظا ہر حالات بڑے فتنہ کا احتمال تھا".قیام اتحاد و اتفاق کے لئے حضرت اختلافی مسائل پر جب گفتگو میں حد سے زیادہ بڑھ گئیں.تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحبزادہ صاحب کی جدوجہد محمود احمد صاحب نے ایک اشتہار لکھا کہ اب جبکہ حضرت خلیفہ اول سخت بیمار ہیں مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی بحثیں کریں اس کا انجام فتنہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اس لئے اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ حضور کو شفا عطا فرمائے اور آپ خودان بحثوں کی نگرانی کر سکیں نہ کچھ لکھا جائے نہ زبانی گفتگو کی جائے.اشتہار کا مسودہ آپ نے مولوی محمد علی صاحب کو بھیجا کہ آپ بھی اس پر دستخط کر دیں تا ہر قسم کے خیالات کے لوگوں پر اس کا اثر ہو اور جماعت فتنہ سے محفوظ ہو جائے مولوی محمد علی صاحب نے اس پر دستخط سے صاف انکار کرتے ہوئے

Page 539

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 510 خلافت ادلی کے آخری ایام کہا.کہ چونکہ جماعتی اختلاف سے عام طور پر لوگ واقف نہیں.ایسا اشتہار ٹھیک نہیں.اس سے دشمنوں کو واقفیت ہو گی اور نسی کا موقعہ ملے گا.بہتر ہے کہ قادیان کے لوگوں کو جمع کیا جائے اور اس میں آپ بھی اور میں بھی تقریریں کریں اور لوگوں کو سمجھا ئیں کہ اختلافی مسائل پر گفتگو ترک کر دیں.گو آپ حیران تھے کہ گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت کے بعد لوگوں کا جماعت کے اختلاف سے ناواقف ہونا کیا سمنے رکھتا ہے.مگر آپ نے اللہ ہی کی خاطر یہ اشتہار لکھا تھا اور محض اللہ کی خاطر ہی اس کا شائع کرنا ترک کر دیا.اور مولوی محمد علی صاحب کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے مسجد نور میں تقریر کرنے کے لئے تشریف لے گئے.جہاں پہلے آپ نے پھر مولوی محمد علی صاحب نے تقریریں کیں.مولوی محمد علی صاحب نے گو آخر میں اتفاق کی طرف توجہ دلائی مگر ابتداء میں نہایت تحکمانہ انداز میں پچھلے قصوں کو دہرانا شروع کیا.اور لوگوں کو ڈانٹنا شروع کیا کہ وہ خواجہ صاحب پر یا ان کے ہم خیالوں پر کیوں حملہ کرتے ہیں اور خوب ڈانٹ پلائی.عین ممکن تھا کہ لوگ مسجد میں ہی ان سے الجھ جاتے.مگر حضرت میاں صاحب کی شخصیت کا اثر تھا کہ ان کی اشتعال انگیز تقریر کے باوجود اس وقت فضا مکدر نہ ہوئی.المختصر آپ نے کھڑے ہو کر اپنے اشتہار کا مضمون دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنادیا اور اتفاق پر زور دیا یہ ۱۲ / مارچ کا واقعہ ہے.علاوہ ازیں آپ نے ان ایام میں اپنے حلقہ احباب میں اکابر علماء کو خاص طور پر یہ تلقین کرنا شروع کی کہ حضرت خلیفتہ المسیح کے انتقال کی صورت میں ہمیں جماعت کے اتحاد کو مقدم رکھتے ہوئے بر کیف کسی کے ہاتھ پر ضرور بیعت کر لینی چاہئے.قطع نظر اس کے کہ خلیفہ کا تعلق جماعت کے کسی فریق سے ہو.مگر جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے.آپ اس قسم کے شخصی وذاتی سوال پر سوچنا بھی شرعا حرام سمجھتے تھے.چنانچہ شیخ تیمور صاحب علی گڑھ سے حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے دوران قادیان آئے تو آپ سے بھی ملے.اور کہا کہ میں آپ کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر آپ نے اب دیا.تم کیسی گناہ والی بات کر رہے ہو.ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا شرعاً بالکل ناجائز اور حرام ہے.یہ وہ صاحب تھے.جو اس زمانہ میں آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں جمع کیا کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ یہ پیشگوئیاں اتنی زبر دست ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.ma حضرت خلیفہ اول کی مقدس زندگی کے آخری لمحات حضرت خلیفہ اول کی آخری وصیت گویا ایک بجلی تھی.جس نے ہر شخص کو ایک لمحہ میں احساس دلا دیا کہ ان کا پیارا آقا اور ان کا محبوب امام جس نے

Page 540

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 511 خلافت اوٹی کے آ اپنے نورانی وجود سے برسوں تک ایوان خلافت کو روشن رکھا ہے ہم سے عنقریب رخصت ہونے والا ہے.اور کو تاجدار خلافت نے اپنی واپسی کا اعلان کر دیا مگر ذہن اسے باور کرنے کو تیار نہ تھے.نبضیں چھٹ گئیں.دل آنے والے خطرات کا تصور کر کے لرز گئے اور جسموں پر کپکپی طاری ہو گئی.اطباء نے علاج معالجہ کے لئے از سر نو مشورے کئے اور ہر جگہ پہلے سے زیادہ سوز و گداز اور تضرع اور عاجزی سے دعائیں ہونے لگیں.YA لیکن اس برگزیدہ الہی نے اپنی آخری منزل قریب سے قریب تر آتے دیکھ کر اپنی بیماری کی شدت میں قرآن مجید کے عملی نکات کو تیزی سے بیان کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی تک لگادی چنانچہ ان ہی ایام میں آپ نے مسئلہ شق القمر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.کہ اب تو سائنس نے اس مسئلہ کو حل کر دیا ہے.سائنس دان کہتے ہیں.کہ چاند میں سے ٹکڑے کرتے رہتے ہیں اور بڑے بڑے عجائب گھروں میں رکھے بھی ہوئے ہیں.پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی رویا کا حوالہ دیا اور آخر میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بہت وسط سے لکھا ہے اس وقت قرآن مجید آپ نے کھول کر سینہ پر رکھا ہوا تھا.۱۳/ مارچ ( بروز جمعہ کی صبح طلوع ہوتے ہی آپ کی حالت نازک ترین صورت اختیار کر گئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو نہایت بے جگری سے دن رات آپ کی خدمت کے لئے کھڑے رہے غیر معمولی تشویش کے ساتھ کو ٹھی دار السلام سے شہر آئے.اور حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کو فرمایا.کہ بھائی جی آپ لاہور جا ئیں حکیم محمد حسین صاحب مراہم بیٹی کو کل سے لاہور بھیجا ہوا ہے.وہ ابھی کستوری لے کر نہیں لوٹے.حضرت خلیفتہ المسیح کی طبیعت بے حد کمزور ہے کستوری کی ضرورت ہے.اگر حکیم صاحب کستوری لاتے ہوئے مل جائیں.تو لوٹ آئیں در نہ جس قدر جلد ممکن ہو کستوری کے لئے لاہور روانہ ہو جائیں.بھائی جی نے عرض کیا کہ وقت اتنا جنگ ہے کہ کوئی یکہ گاڑی پر نہیں پہنچا سکے گا.اس پر آپ فورا گھر تشریف لے گئے اور اپنا سائیکل لاکر ان کے حوالہ کر دیا.اور بھائی جی بٹالہ کی طرف چل پڑے.ادھر بھائی جی لاہور پہنچے ہوں گے کہ ادھر حضرت خلیفہ اول کی تکلیف میں بے حد اضافہ ہو گیا.آخر وہ المناک گھڑی آن پہنچی جس کا تصور کر کے بھی مومنوں حضرت خلیفہ اول کا وصال کے دل کانپ رہے تھے اور آنکھیں آنسو بہار رہی تھیں یعنی سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح اول مولوی نور الدین صاحب بعد دو پسر ۲ بجکر ۲۰ منٹ کے قریب عین حالت نماز میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.انا للہ وانا اليه راجعون.وفات سے

Page 541

تاریخ احمدیت جلد ۳ 512 خلافت اوٹی کے آخری ایام پہلے آپ نے میاں عبدالحی صاحب کو بلایا اور فرمایا.لا الہ الا الله محمد رسول الله پر میرا ایمان رہا اور اسی پر مرتا ہوں اور حضرت نبی کریم کے سب اصحاب کو میں اچھا سمجھتا ہوں اس کے بعد میں حضرت امام بخاری کی کتاب کو خدا کی پسندیدہ سمجھتا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیده انسان سمجھتا ہوں مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے کی تم سے نہیں کی.قوم کو خداتعالی کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے پورا اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا.تم کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا پڑھانا اور عمل کرنا.میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی.بے شک یہ خدا کی کتاب ہے باقی خدا کے سپردا میاں عبدالحی صاحب کے علاوہ آپ نے صاحبزادی متہ الحی صاحبہ کو پیغام دیا کہ میرے مرنے کے ور میاں صاحب سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں (بھی) درس دیا کریں.وفات کی خبر کیسے ملی؟ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو حضرت خلیفتہ المسیح اول کے انتقال کی خبر کیسے ملی اس کی تفصیل کے خود اپنے قلم سے یہ تحریر فرماتے ہیں:.جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد جامع گیا.نماز پڑھا کر تھوڑی دیر کے لئے میں گھر گیا اتنے میں ایک شخص خان محمد علی خان صاحب کا ملازم میرے پاس ان کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف دانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں تھے تو ایک نو کر دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ہمیں اطلاع دی کہ حضرت خلیفتہ المسیح فوت ہو گئے ہیں اور اس طرح میری ایک پرانی رویا پوری ہوئی کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں..آرہا ہوں کہ راستہ میں مجھے حضرت خلیفتہ امسیح کی وفات کی خبر لی ہے.یہ خبر اس وقت کے حالات کے ماتحت ایک نہایت ہی متوحش خبر تھی حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کا تو ہمیں صدمہ تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر جماعت میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا".حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا بیان ہے کہ "ہم لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہوئے تھے.میں جمعہ کے بعد جلدی جلدی چل پڑا کہ حضرت خلیفہ اول کی طبیعت معلوم کروں میں اس وقت اس گلی میں سے گزر رہا تھا.جو اخی المکرم مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان سے اور بعد میں بنے ہوئے قصر خلافت کے ساتھ گزرتی ہے.اس کے ساتھ ہی دائیں جانب ایک سکھوں کا مکان ہے جب میں یہاں سے گزر کر سکھوں کے مکان کے مقابل پہنچا ہوں تو ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے ہیں.میں نے اس وقت بغیر کچھ سوچنے کے تیزی کے ساتھ بھاگنا

Page 542

تاریخ احمدیت جلد ۳ 513 شروع کیا لیکن میں نے دو قدم ہی اٹھائے تھے کہ مجھے خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول تو وفات پاچکے ہیں بھاگنے سے کیا فائدہ.جماعت کے حالات بہت منتشر حالت میں ہو گئے ہیں.میں تیسرے ہی قدم پر کھڑا ہو گیا.اور بڑے الحاج کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ الہی خلیفہ اول تو فوت ہو گئے ہیں اب جماعت کو فتنوں سے محفوظ رکھنا.میں کافی عرصہ تک ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتا رہا.اور پھر آہستہ آہستہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی گلی میں سے ہو کر نواب صاحب کے مکان کی طرف چل پڑا.نواب عبدالرحیم خاں صاحب خالد کا بیان ہے کہ میں اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب جمعہ کی نماز پڑھ کر کوٹھی چلے آرہے تھے کہ ریتی چھلہ سے ذرا دور حضرت مولوی شیر علی صاحب کی کو ٹھی کے قریب مقابل سے کسی آنے والے نے اطلاع دی کہ حضرت خلیفہ اول کا انتقال ہو گیا ہے میاں بشیر احمد صاحب اس وقت اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا.میں بھی ساتھ بھاگ چلا اسی پریشانی میں ہم کو بھی پہنچے.پھر کیا تھا لوگ آنے شروع ہوئے اور ہماری کو ٹھی کا ہر حصہ اور ہر میدان مردوں اور عورتوں سے بھر گیا.یہ تو قادیان میں اطلاع پہنچنے کی صورت تھی.بیرونی جماعتوں کو اس حادثہ سے آگاہ کرنے کے لئے تار دئے گئے اور جونہی یہ اطلاع جماعتوں تک پہنچی احمدی دیوانہ وار قادیان کی طرف چل پڑے.قادیان کا درد ناک نظاره قادیان اور جماعت پر حضرت خلیفہ اول کی وفات پر کیا بیتی؟ خلافت کو مٹا دینے کے کیا منصوبے ہوئے اور پھر کس طرح قدرت ثانیہ کا قیام ہوا؟ اس کی تفصیل قم الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اپنے حقیقت افروز قلم سے یہ لکھتے ہیں.کہ " قادیان کی نئی آبادی کا کھلا میدان گویا میدان حشر بن گیا بے شک حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا غم بھی ہر مومن کے دل پر بہت بھاری تھا.مگر اس دوسرے غم نے جو جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل کو کھائے جارہا تھا.اس صدمہ کو سخت ہولناک بنا دیا تھا جیسا کہ بتایا جاچکا ہے.جمعہ کے دن سوا دو بجے کے قریب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی اور دوسرے دن نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے گویا یہ قریباً چھبیس گھنٹے کا وقفہ تھا جو قادیان کی جماعت پر قیامت ما طرح گزرا.اس نظارے کو دیکھنے والے بہت سے لوگ گزر گئے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس کے بعد پیدا ہوئے یادہ اس وقت اس قدر کم عمر تھے کہ ان کے دماغوں میں ان واقعات کا نقشہ محفوظ نہیں.مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یاد قائم ہے وہ اسے کبھی بھلا نہیں سکتے وہ دن جماعت کے لئے قیامت کا دن تھا.اور میرے اس بیان میں قطعا مبالغہ نہیں.ایک نبی کی جماعت تازہ بنی ہوئی جماعت

Page 543

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 514 خلافت اوٹی کے آخری ایام بچپن کی اٹھتی ہوئی امنگوں میں مخمور اور صداقت کی برقی طاقت سے دنیا پر چھا جانے کے لئے بے قرار.جس کے لئے دین سب کچھ تھا اور دنیا کچھ نہیں تھی.وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی کہ اگر ایک طرف اس کے پیارے امام کی نعش پڑی ہے تو دوسری طرف چند لوگ اس امام سے بھی زیادہ محبوب چیز یعنی خدا کے برگزیدہ مسیح کی لائی ہوئی صداقت اور اس صداقت کی حامل جماعت کو مٹانے کے لئے اس پر حملہ آور ہیں.یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا.اور میں نے تاریک گھڑیوں میں ایک دو کو نہیں.دس ہیں کو نہیں بلکہ سینکڑوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا.اپنے جدا ہونے والے امام کے لئے نہیں.مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس وقت جماعت کے غم کے سامنے یہ غم بھولا ہوا تھا.بلکہ جماعت کے اتحاد اور اس کے مستقبل کی فکر میں.مگر اکثر لوگ تسلی کے اس فطری ذریعہ سے بھی محروم تھے وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا.اور دیوانوں کی طرح ادھر ادھر نظر اٹھائے پھرتے تھے.تاکہ کسی کے منہ سے تسلی کالفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں.غم یہ نہیں تھا.کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ انکے پاس حق ہے.کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ ان کے پاس حق تھا.بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں نہایت قلیل ہونے کے اور باوجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا.اور قریباً تمام مرکزی دفاتر پر ان کا قبضہ تھا.اور پھر ان میں کئی لوگ رسوخ والے طاقت والے اور دولت والے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ چونکہ ابھی تک اختلافات کی کشمکش مخفی تھی.اس لئے یہ بھی علم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون بیگانہ.اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی.گویا ایک ریوڑ تھا.جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑئے تاک لگائے بیٹھے تھے "." حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کر رکھی تھی.اور گو خدا کے وعدوں پر ایمان تھا.مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے.جمعہ سے لے کر عصر تک کا وقت زیادہ نہیں ہوتا.مگر یہ گھڑیاں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں.آخر خدا خدا کر کے عصر کا وقت آیا اور خدا کے ذکر سے تسلی پانے کے لئے سب لوگ مسجد نور میں جمع ہو گئے.نماز کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مختصر مگر نہایت دردانگیز اور موثر تقریر فرمائی اور ہر قسم کے اختلافی مسائل کا ذکر کرنے کے بغیر جماعت کو نصیحت کی کہ یہ ایک نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی در پیش ہے.پس سب لوگ گریہ و زاری کے ساتھ خدا کے حضور

Page 544

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 515 خلافت اولی کے آخری ایام دعائیں کریں.کہ وہ اس اندھیرے کے وقت میں جماعت کے لئے روشنی پیدا کر دے اور ہمیں ہر رنگ کی ٹھوکر سے بچا کر اس رستہ پر ڈال دے.جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے.اور اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل کے دن روزہ بھی رکھیں تاکہ آج رات کی نمازوں اور دعاؤں کے ساتھ کل کا دن بھی دعا اور ذکر الہی میں گزرے اس تقریر کے دوران میں لوگ بہت روئے.اور مسجد کے چاروں کونوں سے گریہ و بکا کی آواز میں بلند ہو ئیں.مگر تقریر کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں ایک گونہ تسلی کی صورت بھی پیدا ہو گئی اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو کر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں کو چلے گئے ".رات کے دوران میں اس بات کا علم مولوی محمد علی صاحب کی خطرناک سازش ہوا کہ منکرین خلافت کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے حضرت خلیفہ اول کی وفات سے قبل ہی ایک رسالہ ”ایک نہایت ضروری اعلان" کے نام سے چھپوا کر مخفی طور پر تیار کر رکھا تھا.اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لئے اس کے پیکٹ وغیرہ بھی بنوا ر کھے تھے اور اب یہ رسالہ بڑی کثرت کے ساتھ تقسیم کیا جار ہا تھا.بلکہ یہ محسوس کر کے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات بالکل سر پر ہے آپ کی زندگی میں ہی اس رسالہ کو دور کے علاقوں میں بھجوا دیا گیا تھا.اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اول کی وعیت کے احترام میں کسی شخص کو بطور امیر مقرر کیا جا سکتا ہے.مگر یہ شخص جماعت یا صد را منجمن کا مطاع نہیں ہو گا.بلکہ اس کی امارت اور سرداری محدود اور مشروط ہو گی وغیرہ وغیرہ.یہ اشتہار یا رسالہ ہیں اکیس صفحے کا تھا.اور اس میں کافی مفصل بحث کی گئی تھی اور طرح طرح سے جماعت کو اس بات پر ابھار ا گیا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضامند نہ ہوں.جب قادیان میں اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا.اور یہ بھی پتہ لگا کہ قادیان سے باہر اس رسالہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ کی گئی ہے.تو طبعا اس پر بہت فکر پیدا ہوا.کہ مبادا یہ رسالہ ناواقف لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بن جائے.اس کا فوری ازالہ وسیع پیمانے پر تو مشکل تھا.مگر قادیان کے حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت کے لئے ایک مختصر سانوٹ تیار کیا گیا.جس میں یہ درج تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضروری ہے.اور جس طرح حضرت خلیفہ اول جماعت کے مطاع تھے اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہو گا.اور خلیفہ کے ساتھ کسی قسم کی شرائط وغیرہ طے کرنا کسی طرح درست نہیں اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں سے دستخط کرائے گئے تاکہ یہ اس

Page 545

تاریخ احمدیت جلد ۳ 516 خلافت اولی کے آخری ایام بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثرت نظام خلافت کے حق میں ہے.غرض یہ رات بہت سے لوگوں نے انتہائی کرب اور اضطراب سے گزاری.سمجھوتے کی آخری کوشش دوسرے دن فریقین میں ایک آخری سمجھوتہ کی کوشش کے خیال سے نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی پر ہر دو فریق کے چند زعماء کی میٹنگ ہوئی جس میں ایک طرف مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند رفقاء اور دوسری طرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب اور بعض دوسرے مویدین خلافت شامل ہوئے.اس میٹنگ میں منکرین خلافت کو ہر رنگ میں سمجھایا گیا کہ اس وقت سوال صرف اصول کا ہے پس کسی قسم کے ذاتی سوال کو درمیان میں نہ لائیں.اور جماعت کے شیرازہ کی قدر کریں.یہ بھی کہا گیا کہ اگر منکرین خلافت سرے سے خلافت ہی کے اڑانے کے درپے نہ ہوں.تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرت رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا.خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل و جان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرین خلافت نے اختلافی مسائل کو آڑ بنا کر خلافت کے متعلق ہر قسم کے اتحاد سے انکار کر دیا.بالا خر جب یہ لوگ کسی طرح بھی نظام خلافت کے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ان سے استدعا کی گئی.کہ اگر آپ لوگ خلافت کے منکر ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کا خیال آپ کو مبارک ہو.لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں آپ خدارا ان کے رستے میں روک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے دیں.مگر یہ اپیل بھی برے کانوں پر پڑی اور اتحاد کی آخری کوشش ناکام گئی.مسجد نور میں اجتماع اور انتخاب خلافت چنانچہ جب ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو بروز ہفتہ عصر کی نماز کے بعد سب حاضر الوقت احمدی خلافت کے انتخاب کے لئے مسجد نور میں جمع ہوئے تو منکرین خلافت بھی اس مجمع میں روڑا اٹکانے کی غرض سے موجود تھے.اس دو ہزار کے مجمع میں سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب نے خلیفہ اول کی وصیت پڑھ کر سنائی.جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے کی نصیحت تھی.اس پر ہر طرف سے " حضرت میاں صاحب " حضرت میاں صاحب " کی آوازیں بلند ہو ئیں اور اسی کی تائید میں مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی نے جو جماعت کے پرانے بزرگوں میں سے تھے کھڑے ہو کر تقریر کی.اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتا کر تجویز کی کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہو جانا چاہئے.کہ وہی ہر رنگ میں اس مقام کے

Page 546

اریخ احمدیت.جلد ۳ 517 خلافت اولی کے آخری ایام اہل اور قابل ہیں.اس پر سب طرف سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں.اور سارے مجمع نے بالاتفاق اور بالاصرار کیا کہ ہم انہی کی خلافت کو قبول کرتے ہیں.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض رفقاء بھی موجود تھے.مولوی محمد علی صاحب نے مولوی محمد احسن صاحب کی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی.مولوی محمد علی صاحب اس وقت کیا کہنا چاہتے تھے ؟ اس بارے میں انہوں نے حقیقت اختلاف میں لکھا ہے.”میں نے کھڑے ہو کر چاہا کہ ان باتوں کا ذکر کروں.جو مجھ میں اور میاں صاحب میں ہوئی تھیں".لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنے خفیہ ٹریکٹ کے ذریعہ سے ہر احمدی تک اپنے خیالات بڑی تفصیل سے پہنچا چکے تھے.تو اب اس موقعہ پر کسی گزشتہ گفتگو کے ذکر کرنے کی ان کو ضرورت ہی کیا تھی ؟ سوائے اس کے کہ وہ خلافت پر اجتماع میں نا ہنگامہ برپا کرنا چاہتے ہوں.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی روایت ہے کہ مولانا سید محمد احسن صاحب کی تقریر کے فورا بعد ہی ایک طرف جناب مولوی محمد علی صاحب اور دوسری طرف سید میر حامد شاہ صاحب کھڑے ہو گئے.دونوں کچھ کہنا چاہتے تھے.مگر سید صاحب چاہتے تھے کہ پہلے اپنا عندیہ بیان کریں.اور مولوی صاحب اپنے خیالات پہلے سنانا چاہتے تھے.چنانچہ دونوں بزرگوں میں باہم ردو کر ہوتی رہی.سید صاحب مرحوم مولوی صاحب سے اور مولوی صاحب سید صاحب سے مہر اور انتظار کرنے کی درخواستیں کرتے رہے وہ کہتے مجھے پہلے کچھ کہہ لینے دیں اور وہ فرماتے مجھے پہلے عرض کر لینے دیں اس طرح ایک مجادلہ کی صورت بن گئی.....حضرت عرفانی کبیر نے جرات کی اور عرض کیا کہ ان جھگڑوں میں یہ قیمتی وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے.ہمارے آقا حضور ہماری بیعت قبول فرما ئیں لوگ بے اختیار لبیک لبیک کہتے ہوئے بڑھے " لیکن لوگوں نے یہ کہکر انہیں روک دیا.کہ جب آپ خلافت کے ہی منکر ہیں تو اس موقعہ پر ہم آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے اور اس کے بعد مومنوں کی جماعت نے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف رخ کیا.کہ اس کا نظارہ کسی دیکھنے والے کو نہیں بھول سکتا.لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے.اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف کھینچے لا رہے ہیں اس وقت ایسی ریلا پیلی تھی اور جوش کا یہ عالم تھا.کہ لوگ ایک دو سرے پر گر رہے تھے اور بچوں اور کمزور لوگوں کے پس جانے |Ai

Page 547

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 518 خلافت اولی کے آخری ایام کا ڈر تھا اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ہماری بیعت قبول کریں.ہماری بیعت قبول کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد جس میں ایک عجیب قسم کا پر کیف عالم تھا لوگوں کے اصرار پر اپنا ہاتھ بڑھایا اور بیعت لینی شروع کی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں." مجھے بیعت کے الفاظ یاد نہ تھے اور میں نے اس بات کو عذر بنانا چاہا.اس پر مولوی سرور شاہ صاحب نے کہا میں الفاظ بیعت دہرا تا جاؤں گا آپ بیعت لیں.تب میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے اور اس کے منشا کو قبول کیا اور لوگوں سے بیعت لی " - یکلخت مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا.اور جو لوگ قریب نہیں پہنچ سکتے تھے.انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے.بیعت شروع ہو جانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اس مجمع سے حسرت کے ساتھ رخصت ہو کر اپنی فرودگاہ کی طرف چلے گئے.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے صبح کے وقت مسجد میں تقریر کی.کہ اگر میں نے بدنیتی سے ٹریکٹ لکھا تھا تو خدا مجھے پکڑے مجھے ہلاک کرے مجھے ذلیل کر دے.عصر کے وقت وہ ایک ایسے مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جو اسی جماعت کا ہے جس میں پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم جو تیوں سے چندہ وصول کریں گے پھر اسی جماعت میں جس میں آپ کے ماتحت ملازم شامل تھے اس جماعت کا تھا جس میں وہ طلبا موجود تھے.جو مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر کے زیر تربیت رہتے تھے وہ اسی مجمع میں کھڑے ہوتے ہیں جس پر سید نا محمود کا کوئی زور نہ تھا کوئی حکومت نہ تھی مگر دیرینہ سیکرٹری شپ کی وجہ سے لوگ ان کے معتقد تھے اور ان کو جماعت کے معززین میں خیال کرتے تھے.اور ان کے ترجمہ قرآن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں.لیکن خدا کی قدرت جو رہ کھڑے ہوتے ہیں تو ہزاروں کے مجمع میں ایک شور بلند ہوتا ہے کہ ہم آپ کی بات نہیں سنتے.صبح کی بد دعا کے بعد ایسے مجمع میں اس واقعہ کا ہونا.اگر ایک اللی شہادت نہیں تو اور کیا ہے ؟ قیام خلافت کے بعد ان خدا نا ترسی لوگوں نے یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ میاں صاحب انصار اللہ کی سازش سے خلیفہ بنے ہیں لیکن یہ الزام کس در پہ پر افتراء ہے.اس بارے میں صرف یہ بتانا کافی ہے کہ انصار اللہ کے بعض ممبروں نے جو بعد میں مولوی محمد علی صاحب کے پر جوش اور سرگرم ساتھیوں میں شامل ہو گئے واضح شہادتنادی کہ انصار اللہ کی مجلسوں میں کبھی حضرت میاں صاحب کی خلافت کا سوال زیر بحث ہی نہیں آیا.اور نہ اس پر کبھی گفتگو ہوئی.اس الزام کے جھوٹا ہونے کی ایک Ar

Page 548

تاریخ احمدیت جلد ۳ 519 خلافت اولی کے آخری ایام ناقابل تردید آسمانی شہادت یہ ہے کہ جماعت کے بہت سے دوستوں کو قبل از وقت خوابوں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ بننے کی اطلاع دی گئی چنانچہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے آخری ایام میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا.کہ آپ (یعنی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) خلیفہ ہو گئے ہیں اور لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں ماسٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ نے پھر بیعت کیوں نہ کی.تو انہوں نے کہا کہ رویا میں مجھے تو نہیں کہا گیا تھا کہ میں بیعت کروں پس اگر یہ سازش تھی.تو خداتعالی اور اس کے فرشتے اس سازش میں برابر کے شریک تھے 11 سازش کے الزام کے ثبوت میں سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی کہ انصار اللہ نے حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات کے قریب ایک کارڈ بھیجا تھا کہ " حالت نہایت نازک ہے ضعف بڑھتا جاتا ہے جس سے بجائے دنوں کے اب عمر کا اندازہ گھنٹوں میں کیا جاتا ہے".حق یہ ہے کہ یہ کارڈ انصار اللہ نے تمام انجمن ہائے احمدیہ کے سیکرٹریوں کو لکھا تھا جس میں مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیال لوگ بھی شامل تھے پس اس کارڈ سے فقط می نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انجمن انصار اللہ چاہتی تھی کہ اس موقعہ پر جماعت کے زیادہ سے زیادہ نمائندے مرکز میں موجود ہوں تا مشورہ ہو سکے.- انتخاب خلافت ثانیہ سے متعلق ایک عینی شہادت سید نا حضرت مسیح موعود کے رفیق خاص حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب تحریر فرماتے ہیں:."خاکسار عرض کرتا ہے یہ کارڈ مجھے بھی موصول ہوا تھا کیونکہ میں ان دنوں جماعت پٹیالہ کا سیکرٹری تھا.یہ جمعہ کا دن تھا جب کارڈ موصول ہوا اور میں نے اس کو نماز جمعہ کے وقت احباب جماعت کے سامنے پیش کر دیا تھا اس کارڈ کے مضمون کے پیش نظر احباب نے مجھے قادیان جانے کے لئے منتخب کیا تھا اور میں اسی شام کی مناسب گاڑی سے روانہ ہو گیا.مرحوم مکرم محمد مصطفیٰ خان صاحب بی.اے ابن حضرت مولوی محمد عبد اللہ خان صاحب سابق پریذیڈنٹ جماعت پٹیالہ بھی میرے ساتھ قادیان کے لئے چل پڑے.اس سے پہلے آنحترم قادیان نہ گئے تھے حالانکہ وہ بہت پرانے عالم صحابی کے فرزند تھے یعنی ان کی پرورش احمدیت کے ماحول میں ہوئی تھی.ہم ہفتہ کے روز صبح ۷ - ۸ بجے امر تسر پہنچے تو وہاں پر معلوم ہوا کہ حضرت خلیفہ اول کا کل وصال ہو چکا ہے اور تدفین آج شام کو عمل میں آئے گی اسی اسٹیشن پر لاہور کی جانب سے حضرت مولوی محمد احسن صاحب بھی فروکش ہوئے ان کو دیکھ کر میرا دل بہت خوش ہوا اس وقت میری رائے یہ تھی کہ اب خلیفہ مولوی صاحب ہوں گے کہ وہ دو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ شمار کئے جاتے تھے چنانچہ میں نے مولوی صاحب کی عزت اور توقیر خاص طور پر کرنا شروع کر دی.جب بٹالہ کی ٹرین میں سوار ہوئے

Page 549

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 520 خلافت اولی کے آخری ایام تو میں نے اپنی گرم چادر مولوی صاحب کی سیٹ پر بچھادی اور مولوی صاحب کے بیان کی طرف خاص طور پر کان لگائے حضرت مولوی صاحب نے بٹالہ پہنچنے تک خلافت کے قیام کی ضرورت اور اس کے دلائل لگا تار بیان کئے بٹالہ پہنچ کر ہم مولوی صاحب سے سواری کے لحاظ سے جدا ہو گئے ہم دونوں نے سالم یکہ کرایہ پر لیا.جب یکہ وڈالہ گر نتھیاں کے قریب پہنچا تو ہم نے مستری موسیٰ کو قادیان کی جانب سے بٹالہ کی طرف مع ایک دو ساتھی آتے دیکھا انہوں نے ہمارا ایکہ رکوالیا اور ایک تحریر ہمارے پیش کی جسے پہلے مولوی محمد مصطفیٰ صاحب نے پڑھا اور اس پر اپنے دستخط کر کے کاغذ میرے حوالے کر دیا میں نے کانز ہاتھ میں لے کر پڑھا اس پر یہ تحریر تھی.آپ خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اپنی رائے ثبت کریں کہ آیا اب خلافت ہونی چاہئے یا نہیں ہونی چاہئے اگر ہونی چاہئے تو کیا دیسی ہی جیسی حضرت خلیفہ اول کی تھی یا کسی اور طرح کی میں نے اس عبارت کو پڑھ کر ہونی چاہئے اور ویسی ہی ہونی چاہئے جیسی حضرت خلیفہ اول کی تھی دستخط کر وئے.ہمارا یکہ چل پڑا میں نے مصطفیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے مشورہ لئے بغیر کیوں دستخط کر دئے جب کہ امیر قافلہ میں تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک واضح بات تھی کہ اس میں مشورہ کی ضرورت میں نے نہ جانی اور خلافت ہونی چاہئے پر رائے ثبت کر دی.اس کے بعد ہمار ا تبادلہ خیالات ہوا کہ اب کون خلیفہ ہوں گے کون ہونے چاہئیں اور اثناء قیل و قال میں میں نے جب یہ کہا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی ہو سکتے ہیں تو مولوی محمد مصطفیٰ صاحب بولے وہ نہیں ہو سکتے نہ معلوم کن وجوہ سے انہوں نے ایسا کہا مگر میرا یہ آیت پڑھنا یا ر ہے ان اکرمکم عند الله اتقاکم اس پر مصطفیٰ صاحب نے کہا رہنے دیں میں بھی اس کے ملنے جانتا ہوں وہ کچھ عربی دان تھے.آخر یہ گفتگو بلا نتیجہ ختم ہوئی یعنی نہ مصطفیٰ کسی کا نام تجویز کر کے صاد کر سکے اور نہ میں کسی ایک کا نام حتمی طور پر پیش کر سکا یہاں تک قادیان پہنچ گئے مہمان خانہ میں کھانا کھانا تھا اور نماز کے لئے تیاری کر کے مسجد نور میں جلد از جلد پہنچنا تھا.اسی اثنا میں مولوی مصطفی صاحب کو اعلان ضروری دانا ٹریکٹ کسی کے ہاتھ سے مل گیا جبکہ میرا ہاتھ اس سے پاک رہا.مولوی صاحب نے بسرعت تمام ٹیکٹ پڑھ لیا اور اس کے پورے شکار ہو گئے اور مسجد نور میں بیعت کا شاندار نظارہ دیکھنے کے باوجو د بیعت سے مجتنب رہے اور پٹیالہ میں واپس پہنچ کر بعض کو اپنے ساتھ لے ڈوبے جن میں کئی ایک بڑی محنت صرف ہونے پر مبائع بن گئے مگر مصطفیٰ صاحب اپنے والد صاحب اور چھوٹے بھائی محمد مرتضی خان صاحب کو بحیثیت پیغامی پٹیالہ چھوڑ کر لاہور لے جانے میں

Page 550

تاریخ احمدیت جلد ۳ کامیاب ہو گئے.521 خلافت اوٹی کے آخری ایام خان حشمت الله ۲۴/۱۱/۲۴ (مراسله بنام مورخ احمدیت.غیر مطبوعہ ) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بیعت کے بعد لمبی دعا ہوئی جس میں سب لوگوں پر تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا اور تقریر رقت طاری تھی.اور پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس مجمع میں کھڑے ہو کر ایک درد انگیز تقریر فرمائی جس میں جماعت کو اس کے نئے عہد کی ذمہ داریاں بتا کر آئندہ کام کی طرف توجہ دلائی اور اس دوران میں کہا میں ایک کمزور اور بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر میں خدا سے امید رکھتا ہوں کہ جب اس نے مجھے اس خلعت سے نوازا ہے تو وہ مجھے اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت دے گا.اور میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور تم میرے لئے دعا کرو.چنانچہ فرمایا :- دوستو ! میرا یقین اور کامل یقین ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.پھر میرا یقین ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں...پھر میرا یقین ہے کہ قرآن مجید وہ پیاری کتاب ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ خاتم الکتاب اور خاتم شریعت ہے.پھر میرا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہی نبی تھے جس کی خبر مسلم میں ہے اور وہی امام تھے جس کی خبر بخاری میں ہے مگر میں پھر کہتا ہوں کہ شریعت اسلامی کا کوئی حصہ اب منسوخ نہیں ہو سکتا......خوب غور سے دیکھ لو اور تاریخ اسلام میں پڑھ لو کہ جو ترقی اسلام کے خلفاء راشدین کے زمانہ میں ہوئی وہ جب خلافت حکومت کے رنگ میں تبدیل ہو گئی تو گھٹتی گئی.تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے منہاج نبوت پر حضرت مسیح موعود کو آنحضرت کے وعدہ کے موافق بھیجا اور ان کی وفات کے بعد پھر وہی سلسلہ خلافت راشدہ کا چلا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح مولوی نور الدین صاحب ان کا درجہ اعلیٰ ملین میں ہو اس سلسلہ کے پہلے خلیفہ تھے.پس جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اسلام مادی اور روحانی طور پر ترقی کرتا رہے گا...میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ایک خوف ہے اور میں اپنے وجود کو بہت ہی کمزور پاتا ہوں......میں جانتا ہوں کہ میں کمزور اور گند گار ہوں میں کس طرح دعوی کر سکتا ہوں کہ میں دنیا کی ہدایت کر سکوں گا اور حق اور راستی کو پھیلا سکوں گا.ہم تھوڑے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم اور غریب نوازی پر ہماری امیدیں بے انتہاء ہیں.تم نے یہ بوجھ مجھ پر رکھا ہے.تو سنو! اس ذمہ داری سے عہدہ بر آہونے کے لئے میری مدد کرو اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق چاہو اور اللہ تعالی کی رضا اور فرمانبرداری میں میری اطاعت کرد.

Page 551

تاریخ احمدیت جلد ۳ 522 خلافت اولی کے آخری ایام میں انسان ہوں اور کمزور انسان.مجھ سے کمزوریاں ہوں گی تو تم چشم پوشی کرنا.تم سے غلطیاں ہوں گی.میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ میں چشم پوشی اور درگزر کروں گا.میرا اور تمہارا متحدہ کام اس سلسلہ کی ترقی اور اس سلسلہ کی غرض وغایت کو عملی رنگ میں پیدا کرنا ہے....اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لو گے.اور اس عہد کو مضبوط کرو گے تو یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا".اس بیعت اور اس تقریر کے بعد لوگوں کی طبیعتوں میں کامل سکون تھا اور ان کے دل اس طرح تسلی پا کر ٹھنڈے ہو گئے تھے جس طرح کہ ایک گرمی کے موسم کی بارش جھلسی ہوئی زمین کو ٹھنڈا کر دیتی ہے.روح القدس نے آسمان پر سے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور خدا کے مسیح کی یہ بات ایک دفعہ پھر پوری ہوئی کہ :.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے".حضرت خلیفہ اول کی تدفین دعا اور تقریر کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے شمالی میدان میں قریباً دو ہزار مردوں اور کئی سو عورتوں کے مجمع میں حضرت خلیفہ اول کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر حضور کی معیت میں مخلصین کا یہ بھاری مجمع جس کے ہر متنفس کا دل اس وقت رنج و خوشی کے دہرے جذبات کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت خلیفہ اول کی نعش مبارک کو لے کر بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس مبارک انسان کے مبارک وجود کو ہزاروں دعاؤں کے ساتھ اس کے آقا و محبوب کے پہلو میں سلا دیا.اے جانیوالے الجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام و مطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی.جا.اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارکباد کا تحفہ لے کر اور رضوان یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر.اور اے آنے والے اتجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسند خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسادیں.تو ہزاروں کانپتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تخت امامت کی طرف آیا.پھر صرف ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھراتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی.آ.اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر.تو ہمارے پہلو سے اٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا.آ.اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھ

Page 552

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 523 خلافت اوٹی کے آخری ایام اے فخر رسل قرب تو معلوم شد ویر آمده زراه آمده" رور ملکی پریس کے تبصرے حضرت خلیفہ اول کے انتقال پر بر صغیر پاک وہند کے پریس نے بکثرت تبصرے لکھے ان میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:.مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار (لاہور) "مولوی حکیم نورالدین جو ایک زیر دست عالم اور جید فاضل تھے ۱۳ / مارچ کو کئی ہفتہ کی مسلسل علالت کے بعد دنیا ئے فانی سے عالم جاودانی کو رحلت کر گئے.انا للہ وانا اليه راجعون...مولانا حکیم نور الدین صاحب کی شخصیت اور قابلیت ضرور اس قابل تھی جس کے فقدان پر تمام مسلمانوں کو رنج اور افسوس کرنا چاہئے کہا جاتا ہے کہ زمانہ سو برس تک گردش کرنے کے بعد ایک باکمال پیدا کرتا ہے.الحق اپنے تجر علم و فضل کے لحاظ سے مولانا حکیم نور الدین بھی ایسے ہی باکمال تھے افسوس کہ آج ایک زبردست عالم ہم سے ہمیشہ کے لئے جد اہو گیا".مولانامحمد علی صاحب جو ہر اخبار ہمد رد (دہلی) " مرحوم فرقہ احمدیہ کے ممتاز ترین رکن تھے اور اعلیٰ درجہ کی مذہبی قابلیت کے رکھنے کے علاوہ ایک مشہور طبیب بھی تھے.منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار (لاہور) آپ نے متعدد کتابیں اسلام کی تائید میں لکھیں اور متانت کے ساتھ معترضوں کو دندان شکن جواب دئے.اور بعض تصانیف میں برای تحقیق و تدقیق کا ثبوت بہم پہنچایا.سب سے زیادہ شہرت و عزت اپنی جماعت میں آپ کو قرآن شریف کے (حقائق و معارف کی تشریح کے باعث حاصل ہوئی.جس میں آپ علوم جدیدہ و تازه تحقیقات فلسفیہ پر نظر رکھتے تھے اور اسلام کو فطرت کے مطابق ثابت کرتے تھے.مولانا حامد انصاری صاحب ایڈیٹر مدینہ (بجنور) آپ احمدی جماعت کے رکن رکین اور مرزا غلام احمد صاحب کے حقیقی جانشین تھے.آپ کی وفات احمدی جماعت کے لئے بہت زیادہ موجب افسوس ہے ".مولانا ابوالکلام صاحب آزاد ایڈیٹر "الحلال" (کلکتہ) حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی ثم قادیانی وہ علامہ دہر تھے جن کی ساری عمر قرآن شریف کے پڑھنے اور پڑھانے میں گزری.ہر مذہب وملت کے خلاف اسلام کا رد آپ نے آیات قرآنی سے کیا.آپ کے پاس علم تفسیر کا بہت بڑا ذخیرہ تھا.اخبار طبیب (دہلی) افسوس کہ ہندوستان کے ایک مشہور و معروف طبیب مولوی حاجی حافظ

Page 553

تاریخ احمد ثیمت - جلد ۳ 524 خلافت اولی کے آخری ایام لدین صاحب جو علم دینیہ کے بھی متجر عالم با عمل تھے اور جماعت احمدیہ کے محترم پیشوا کچھ عرصہ عوارض ضعف پیری میں مبتلا رہ کر آخر جمعہ گزشتہ کو قریباً اسی سال کی عمر میں رحلت فرما گئے.انا لله وانا اليه راجعون.حکیم صاحب مغفور بلا امتیاز احمدی و غیر احمدی یا مسلم یا غیر مسلم سب کے ساتھ شفقت علی خلق اللہ کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے.آپ کے طریق علاج میں یہ چند باتیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.(1) یا رو اغیار - مومن و کافرسب کو ایک نظر دیکھنا.(ب) طب یونانی و ویدک کے علاوہ مناسب موقعہ ڈاکٹری مجربات سے بھی ابنائے ملک و ملت کو مستفید فرمانا.(ج) بعض خطرناک امراض کا علاج قرآن شریف سے استخراج کرنا.(و) دوا کے علاوہ دعا بھی کرتا.(0) علاج معالجہ کے معاملہ میں کسی کی دنیوی و جاہت سے مرعوب نہ ہوتا.(3) مریضوں سے مطلق طبع نہ رکھنا اور آپ کا اعلیٰ درجہ تو کل و استغفار.(ز) نادار مستحق مریضوں کا نہ صرف علاج مفت کرنا بلکہ اپنی گرہ سے بھی ان کی دستگیری و پرورش کرنا خصوصاً طلباء قرآن و حدیث و طب کی.اخبار انسٹیٹیوٹ گزٹ (علی گڑھ) (۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء) قطع نظر اپنے مختص الفرقہ بعض خاص معتقدات کے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم صاحب مرحوم ایک نہایت بلند پایہ عالم عامل اور علوم دینیہ کے بہت بڑے خادم تھے اس پیرانہ سالی اور ضعف و مرض کی حالت میں بھی آپ کا پیشتر وقت تعلیم و تعلم میں صرف ہو تا تھا.اور ایک طبیب حاذق ہونے کی حیثیت سے بھی آپ خلق اللہ کی بہت خدمت بجالاتے تھے.اس لحاظ سے مرحوم کا انتقال واقعی سخت رنج و ملال کے قابل ہے.منشی محمد الدین صاحب فوق کشمیری میگزین (لاہور) (۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء) نہایت رنج دافسوس سے لکھا جاتا ہے کہ حکیم حافظ حاجی مولوی نور الدین صاحب جو بلحاظ عقائد جماعت احمدیہ کے خلیفتہ المسيح بلحاظ علم و فضل مسلمانوں کے مایہ ناز اور بلحاظ ہمدردی عوام انسانیت کے لئے مایہ افتخار تھے.کچھ عرصہ کی علالت کے بعد ۱۳/ مارچ کو بعد دو پہر دو بجے قادیان میں انتقال فرما گئے.مولوی نور الدین صاحب کی وفات پر احمدی اخبارات کے علاوہ تمام اسلامی اخبارات نے باوجود ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف رکھنے کے نہایت رنج و افسوس کا اظہار کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مولوی نور الدین جیسا

Page 554

تاریخ احمدیت جلد ۳ 525 خلافت اولی کے آخری ایام قابل فرزند ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک عرصہ کے بعد پیدا ہو سکے گا.آریہ سماجی اخبار مسافر آگره (۲۰/ مارچ ۱۹۱۴ء) اصولاً ہمارے اور ان کے خیالات میں انتا ہی فرق تھا جتنا قطب جنوبی و قطب شمالی کے درمیان ہے لیکن پھر بھی یہ نہ کہنا دیانت کا خون ہو گا کہ وہ راسخ الاعتقاد ایماندار و نیک آدمی تھے.علاوہ بریں ہم جانتے ہیں کہ ان کے دل میں اشاعت اسلام کا برادر داور قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے سے خاص محبت تھی.اور وہ مرنے سے چند یوم پہلے تک برابر دونوں کام سرانجام دیتے رہے." حکیم عبدالکریم برہم ایڈیٹر اخبار مشرق گورکھپور (۱۷/ مارچ ۱۹۱۴ء) احمدی سلسله میں یہ خلیفتہ المسیح اور عام طور پر مسلمانوں میں اپنے تبحر علمی اور زہد و انتقاء کی خوبیوں سے نہایت محترم اور اسلام کے محاسن اور اس کی اشاعت میں کوشاں تھے.ان کی زندگی میں ہزار ہا ایسے موقعے آئے کہ ان کی آزمائش ہوئی جس میں انہوں نے صداقت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اللہ تعالٰی نے جو جو فضل و کرم اور ثمرہ اعتماد و صبرا نہیں بخشا تھا.اس کی تفصیل سوانح عمری میں پائی جاتی ہے.جس سے دل پر نقش ہو تا ہے کہ وہ ایک بچے خدا پرست اور پکے موحد تھے.اور ان کی زندگی اسلام کے پاک نمونہ پر بسر ہوئی.وہ صرف مذہبی پیشوا نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجہ کے طبیب بھی تھے.اور اعلیٰ درجہ کی کتابوں کے فراہم کرنے اور خلق اللہ کو فائدہ پہنچانے کا خاص ذوق تھا.اخبار بھارت (۲۰/ مارچ ۱۹۱۴ء) آپ درویس منش اور منکسر المزاج خلیق اور ملنسار تھے.عالم با کمال اور طبیب بے مثال تھے.مذہب کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایام علالت میں بھی قرآن شریف کے ترجمے میں گہری دلچسپی لیتے رہے.اخبار آفتاب (۱۹) مارچ ۱۹۱۴ء) احمدی جماعت کے خلیفتہ المسیح مولوی حکیم نورالدین صاحب نے جو ایک متبحر عالم اور جید فاضل تھے.کئی مہینے کی مسلسل علالت کے بعد جمعتہ المبارک کے دن ٹھیک پونے دو بجے اس دار فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کیا.انا للہ وانا الیہ راجعون ہمیں اپنے احمدی دوستوں سے اس قومی و مذہبی صدمہ میں دلی ہمدردی ہے اور ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم ان کو صبر عطا فرمادے." مولونی انشاء اللہ خان صاحب ایڈیٹر ” وطن اخبار " (امرت سر) (۲۰/ مارچ ۱۹۱۴ء) مولوی صاحب مرحوم کیا بلحاظ طبابت و حذاقت اور کیا بلحاظ سیاحت علم و فضیلت و علمیت ایک

Page 555

526 خلافت اور برگزیدہ بزرگوار تھے.علم سے ان کو عشق تھا اور فراہمی کتب کا خاص شوق تھا ان کا پیدائشی وطن بھیرہ ضلع شاہ پور ہے.مگر عمر کا بڑا حصہ با ہر گزرا اور آخری حصہ قادیان میں.میونسپل گزٹ (لاہور) (۱۹/ مارچ ۱۹۱۴ء) نهایت ربح وافسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ مرزائی جماعت کا کئی ہفتہ کی مسلسل اور سخت حالت کے بعد آخر ۱۳ / مارچ کو بو قبت ۲ بجے انتقال ہو گیا.انالله وانا اليه راجعون کلام مرحوم جیسا کہ زمانہ واقف ہے ایک بے بدل عالم اور زہد اور اتقاء کے لحاظ سے مرزائی جماعت کے لئے تو واقعی پاکباز اور ستودہ صفات خلیفہ تھے.لیکن اگر ان کے مرزائیانہ مذہبی عقائد کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے.تو بھی وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں بے شک ایک عالم متبحر و جید فاضل تھے.اللہ سے آپ کو جو عشق تھا وہ غالبا بہت کم عالموں کو ہو گا.اور جس طرح آپ نے عمر کا آخری حصہ احمدی جماعت پر صرف قرآن مجید کے حقائق و معارف آشکارا فرمانے میں گزارا.بہت کم عالم اپنے حلقہ میں ایسا عمل کرتے ہوئے پائے جائیں گے.حکمت میں آپ کو خاص دستگاہ تھی.اسلام کے متعلق آپ نے نہایت تحقیق و تدقیق سے کئی کتابیں لکھیں اور معترضین کو دندان شکن جواب دئے.بہرحال آپ کی وفات مرزائی جماعت کے لئے ایک صدمہ عظیم اور عام طور پر اہل اسلام کے لئے بھی کچھ کم افسوسناک نہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.اخبار "وکیل" امرت سر (۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء) مرحوم فرقہ احمدیہ کے ممتاز ترین رکن اور مرزا غلام احمد قادیانی کے جانشین تھے.آپ کے علم و فضل کا ہر شخص معترف تھا اور ان کے علم اور بردباری کا عام شہرہ تھا ان کی روحانی عظمت و تقدس کے خود مرزا صاحب بھی قائل تھے.مرزا حیرت دہلوی ایڈیٹر کرزن گزٹ (دہلی) (۲۳/ مارچ ۱۹۱۴ء) حکیم صاحب سے ہمیں ذاتی تعارف حاصل تھا.ذاتی تعارف ہی نہیں بلکہ ایک عرصہ تک ہم اور حکیم صاحب جموں میں ایک ساتھ رہے یہاں تک تعلق بڑھا ہوا تھا کہ حکیم صاحب شام کو کھانا ہر روز آندھی آئے یا مینہہ.ہمارے مکان پر آکے کھایا کرتے تھے.مغرب کی اور عشاء کی نماز ہم ان کے ساتھ پڑھتے تھے.طبیعت میں مذاق بہت تھا.نیک دل اور مخیر تھے.صورت شکل وجیہہ تھی.رنگت گندمی تھی.قد لمبا تھا.داڑھی اس قدر گھنی تھی کہ آنکھوں کے حلقوں تک داڑھی کے بال پہنچے ہوئے تھے.جموں میں ان کے ماتحت مدر سے اور شفا خانے تھے.جن کا انتظام نہ نہایت عمدگی اور نیک نیتی سے کرتے تھے.اس وقت حکیم ندا محمد خان صاحب مرحوم مہاراجہ رنبیر سنگھ کے طبیب خاص تھے.بعد ازاں مستقل اعلیٰ

Page 556

تاریخ احمدیت.جلد ۳ ہے 527 خلافت اوٹی کے آخری ایام طبیب ہو گئے تھے اور آپ کو چھ سو سے سات سو تک اخیر دم تک تنخواہ ملتی رہی.اس عہدے میں گویا حکیم نور الدین صاحب ان کی ماتحتی میں بھی کام کیا کرتے تھے حکیم صاحب موصوف کو دو سو یا اٹھائی سو روپے کی تنخواہ ملتی تھی.آپ تعجب سے سنیں گے کہ اس تنخواہ کا بڑا حصہ نہایت سیر چشمی اور فیاضی طلباء پر آپ خرچ کر دیا کرتے تھے.بہت سے طلباء آپ کے ساتھ رہتے تھے.نہ صرف ان کی تعلیم کے آپ کفیل تھے بلکہ کھانا کپڑا بھی بڑی فراخی سے انہیں دیا کرتے تھے.آپ نے اپنی عمر میں صدہا بے خانماں اور غریب طلباء کو پرورش بھی کیا اور پڑھا بھی دیا.شیخ عبد اللہ صاحب پلیڈ ر علی گڑھ اور ایڈیٹر ر سالہ خاتون آپ ہی کے پروردہ اور مسلمان کئے ہوئے ہیں.شیخ صاحب پہلے کشمیری پنڈت تھے.حکیم صاحب نے انہیں مسلمان بھی کیا اور پڑھایا لکھایا بھی.یہاں تک کہ علی گڑھ کی تعلیم کا خرچ بھی آپ برابر اٹھاتے رہے.غرض یہ کہ طبیعت میں ایثار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا آپ کی زندگی کے دو ہی بڑے بڑے مذاق تھے.ایک طلباء کی پرورش اور تعلیم دوسرے نادر الوجود کتابوں کا جمع کرنا.بس اسی میں آپ کی تنخواہ صرف ہو جاتی تھی.آپ بہت ہی منکسر المزاج اور خلیق تھے.ساتھ ہی ہر ایک کام سچائی اور راستبازی سے کرتے تھے.آپ سے آپ کے عملہ کے آدمی بہت خوش تھے.کبھی کسی کو آپ سے وجہ شکایت نہیں پیدا ہوئی.آپ کی دینی علوم کی مہارت اور عربی قابلیت مسلم تھی.آپ اپنے عہد کے فرائض کی ادائیگی کے بعد طلبہ کو بخاری و مسلم کا سبق دیا کرتے تھے.آپ کی واقفیت مذ ہی بہت بڑھی ہوئی تھی.حکیم محمد افضل صاحب جنرل سیکرٹری پنجاب طبی کانفرنس لاہور نے لکھا : پنجاب کے نہایت مشہور طبیب ہوئے ہیں.سن پیدائش ۱۸۴۱ء لا ہو ر.لکھنو.بھوپال وغیرہ میں دینی اور طبی تعلیم حاصل کی.پھر ریاست جموں و کشمیر میں عرصہ تک ریاست کے طبیب رہے.مہاراجہ صاحب آپ سے بہت عزت سے پیش آتے تھے.قیام جموں کے زمانہ میں حکیم صاحب کو میرزا غلام احمد قادیانی (علیہ الصلوۃ والسلام) سے عقیدت ہو گئی.چنانچہ مرزا صاحب کی کتاب ”براہین احمدیہ " کی تائید میں ” تائید براہین احمدیہ " تالیف کی.ریاست سے قطع تعلق ہونے کے بعد وطن مالوف بھیرہ تشریف لے گئے.پھر مکان بنانے کے بعد آپ قادیان چلے آئے اور میرزا صاحب کے ایماء سے قادیان میں ہی مقیم ہو گئے.اور اہل و عیال کو بھی وہیں منگا لیا.تھوڑے ہی دنوں میں حذاقت کا ڈنکہ بج گیا اور سل- دق.نامردی وغیرہ کے مریض بکثرت آنے لگے.کسی مریض کا علاج اگر یونانی طریقہ سے نہ ہو تا تھا تو آپ کو ویدک اور ڈاکٹری دوائیں اضافہ کرنے کے بعد عجیب و غریب کامیابی ہوتی تھی.میرزا صاحب کے زمانہ حیات میں اگر ایک طرف میرزا صاحب کے اردگر و معتقدین و مریدین کا ہجوم

Page 557

تاریخ احمدیت جلد ۳ 528 خلافت اوٹی کے آخری ایام ہو تا تھا.تو دوسری طرف حکیم صاحب کے مکان پر مرضاء اور طلباء کا جمگھٹا لگا رہتا تھا.خود میرزا صاحب حکیم صاحب کی شان میں تعریفی کلمات کہنے میں دریغ نہیں کرتے تھے اور حکیم صاحب کے علم و فضل کی قدر شناسی کرتے تھے.میرزا صاحب کے بعد جماعت احمدیہ نے متفقہ طور پر آپ کو خلیفہ قرار دیا اور کئی سال اس منصب پر فائز رہنے کے بعد ۱۹۱۴ء میں بمقام قادیان ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا.آپ علوم معقول و منقول میں زبر دست مہارت رکھتے تھے طب میں آپ کو درجہ اجتہاد حاصل تھا.

Page 558

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 529 خلافت اوٹی کے آخری ایام حواشی باب هفتم - جمعدار فضل الدین صاحب اس مجلس میں موجود تھے اور انہوں نے ہی راقم الحروف کو یہ پوری روایت بتائی ہے.میاں کرم الدین صاحب ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئے اور ۶ / جنوری ۱۹۴۵ء کو وفات پائی.بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.جناب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل گورداسپوری مجاہد افریقہ آپ ہی کے صاجزادے ہیں.یہ مفصل روایت آپ نے ہی مولف ہذا کو ارسال کی ہے..الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۴.۱۵.و۷ / جنوری ۱۹۱۴ء ص ۳ م الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء صفحه ۳ ه الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۴ الفضل ۲۰/ جنوری ۱۹۱۴ء صفحه ۳ کالم ۲ الحکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ الفاروق صفحہ ۳۱.حافظ عبد السلام صاحب مملوی کا بیان ہے کہ میں حضرت خلیفتہ المسیح اول کی وفات سے ایک ہفتہ قبل حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت مولوی محمد علی صاحب قرآن شریف کا ترجمہ سنا رہے تھے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور سید محمد حسین شاہ صاحب بھی اس وقت موجود تھے حضرت خلیفہ اول قرآن مجید کا ترجمہ سنتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے بعض دوستوں سے کہا کہ اتنے بڑے آدمی ہو کر روتے ہیں اس سے جماعت کی سیکی ہوتی ہے بعد میں بعض دوستوں نے بتایا کہ حضرت خلیفہ اول نے اس وقت یہ فرمایا تھا کہ اپنی تفسیر میں یزید پلید کا ذکر ضرور کرنا اس نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے جمعدار فضل دین صاحب ) مرتب فضل عمر تقویم و مجمع البحرین) کی مزید شہادت ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے یہ ار شاد نواب محمد علی خان صاحب کی کو ٹھی میں فرمایا تھا.اور میں اس وقت موجود تھا.الحکم سے / مارچ ۱۹۱۴ ء صفحہ ۶ کالم ۲ الحکم جوبلی نمبر صفحہ ۸ کالم ۲ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۱-۲ - پیغام صلح ۲۷ جنوری ۱۹۱۴ء صفحه ۲ کالم ۳ الفضل ۱ / فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۲-۱۳ ۱۳ - الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۶-۷ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱ او الفضل ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء ص ۱ کالم ۳ ۱۶.الحکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ا کالم او الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء ص ا کالم ۲ ۱۷.الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء صفحه ا _ 19 الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۳ کالم ۱ پیغام صلح ۱۴ / اپریل ۱۹۱۴ ء نمبر ۱۱۶ ۲۰.رجسٹر فیصلہ جات صد را مجمن احمد یہ نمبرے صفحہ ۲۲۲ الفضل ۱۲/ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۱ - ۲ - (یا الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۵۶ء صفحہ ۷) ۳۲ الفضل نے / جنوری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱.کالم ۲۳ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۱۴ء ص اکالم ۱-۲ ۲۴.سلسلہ حمدیہ صفحہ ۳۲۲

Page 559

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۲۵ پیغام صلح ۲۲/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۴ الفضل ۲۱ / جنوری ۱۹۱۴ ء ص ا کالم ۲۷ پیغام صلح ۲۵/ جنوری ۱۹۱۴ ء صفحه ۴ کالم ۳ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۳ء ص ۱ کالم ٢٩ الفضل ۴ فروری ۱۹۹۴ء ص ا کالم) ۳۰ الفضل فروری ۱۹۱۴ ا پیغام صلح ۳ / فروری ۱۹۹۴ و ص ۴ کالم ۳ پیغام صبح ۴ / فروری ۱۹۱۴ء ص ا کالم ۳ - پیغام صلح / فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۴ کالم ۲ الفضل ۱۱ / فروری ۱۹۱۴ ء ص ۱۳ کالم ۳ -۵ پیغام صبح ۱۰ / فروری ۱۹۱۳ء ص ۴ کالم ۳ 530 ٣٦ الفضل / فروری ۱۹۱۴ و ص ا کالم سو پر آنے والے مہمانوں کا نام چھپا ہوا ہے.۳۷- پیغام صلح ۳ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۴ کالم ۲ پیغام صلح ۱۰ / فروری ۱۹۱۴ء ص ۴ کالم ۳ الفضل ۱ / فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۶ الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۱۴ء ص ا کالم ۱-۲ خلافت اوٹی کے آخری ایام ۴۱ - الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۱۳ء ص اکالم ۲.یونانی اطباء کے نزدیک یہ تپ کا عارضہ تھا ( الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء) ص ۶ کالم ا ۴۲ - الحکم ۲۸ / فروری ۱۹۱۴ء ص ۶ کالم ۱ - ۲ - پیغام صلح ۳ / مارچ ۱۹۱۴ ء ص ۲ کالم ۳ - ۲- ۴۰ ا حکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ ء ص اکالم ۲.صفحہ ا کالم ۳ الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء ص سے کالم ۱-۲ ۴۵ - احکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ ء ص سے کالم او پیغام صلح ۲۴/ فروری ۱۹۱۴ء ص ۴ کالم ۲ ا حکم ۲۸ فروری ۱۹۱۴ء ص ۱ کالم ۴۷- آئینہ صداقت صفحہ ۱۷۱ آپ کے بعض معالجوں کے نام یہ ہیں.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر کرم الہی صاحب.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (الفضل ۳/ اگست ۱۹۵۷ء ص ۱۳ کالم ) ۳۸.الحکم کے مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم.پیغام صلح ۳ مارچ ۱۹۱۳ء ص ا کالم ۳ - الفضل ۳/ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۳ مضمون حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) ۵۰- پیغام صلح ۳ مارچ ۱۹۱۲ ء ص ا کالم ال یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ ان دنوں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء (ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرہ) نے دل کھول کر اختلافی مسائل کے بارے میں ایسے رنگ میں ڈائریاں مرتب کر کے شائع کرائیں جو حضرت خلیفہ اول کے گزشتہ مسلک کے بالکل مخالف اور ان کے اندرونی نظریات کے بالکل مطابق تھیں.اور جن سے معلوم ہو تا تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی نگاہ میں ان دنوں یہ لوگ نہایت درجہ محبوب تھے.بطور مثال پیغام صلح ۳/ مارچ ۱۹۱۴ ء صفحہ ۴ کالم پر یہ چھپا کہ حضرت خلیفہ اول نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو مخاطب کر کے کہا.کہ میں تمہاری خدمات سے بہت خوش ہوں".مولوی محمد علی صاحب ڈائری نویسی میں اس درجہ غیر محتاط تھے.کہ غیر اختلافی اور واضح واقعات کو بھی صحیح ، تنگ میں لکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے.اس کی فقط ایک مثال عرض کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول نے حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب.حضرت میر محمد اسحق صاحب اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب کو مدرسہ چٹھہ کے مباحثہ پر جاتے ہوئے چند ہدایات فرمائی تھیں (الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۶.۷) مولوی محمد علی صاحب نے ان ہدایات کو تو کسی قدر لکھ لیا.مگر ڈائری بناتے ہوئے وضاحت یہ کی کہ حضرت

Page 560

تاریخ احمدیت جلد ۳ 531 خلافت اولی کے آخری ایام صاحبزادہ صاحب کو چکوالل جاتے ہوئے یہ فرمایا تھا.(پیغام صلح ۱۹۱۴ ء ص ۴ کالم ۳) قیاس کن ز گلستان من بهار مرا.۵۲ - الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ء ص ۶ کالم ۱.۲.الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۱۴ ء ص ا کالم ۲ الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ ء ص ۶ کالم ۱-۲ ۵۴ - الحکم کے زمارچ ۱۹۱۴ م ص ۶ کالم ۱-۲ ۵۵- تفصیل پہلے گزر چکی ہے.-۵- احکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ ء ص ۶ کالم ۲ ۵۷ الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵ کالم ۲.الحکم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولا آپ نے مختصر سا حصہ وصیت کا لکھا لیکن چونکہ قلم درست نہ تھا دیسی قلم منگایا گیا.اس سے ایک مکمل وصیت آپ نے اپنے قلم سے تحریر کر دی اصل وصیت میں "یا پرورش " کے الفاظ دوبارہ لکھتے ہیں.۵۸.الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵ ۵۹- ضمیمہ پیغام صلح ۵ / مارچ ۱۹۱۴ ء ص ا کالم.اخبار نور ۱۰ / اپریل ۱۹۱۴ ء سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے اہل بیت کو بھی الگ ایک کاغذ پر وصیت لکھ دی تھی اور فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد اسے کھولا جائے.۶۰.سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۲۲ آئینہ صداقت صفحه ۱۷۷ پیغام صلح میں مولوی محمد علی صاحب کے زمانہ قادیان کی تقریروں پر یوں تبصرہ کیا گیا ہے.جلسہ سالانہ آیا تو اس خاموش ھو مراد مولوی محمد علی صاحب.ناقل) سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے سنا کس قدر قوت و شوکت اس کے الفاظ میں تھی اور کس تحکمانہ انداز میں اس نے لوگوں کو خطاب کیا الخ".(امیر نمبر صفحہ ) کالم (۲) ۱۳ - آئینه صداقت صفحه ۱۷۷ ۱۷۸.الحکم ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵ کالم ۳ آئینہ صداقت صفحه ۱۷۷-۱۷۹ ۶۵- خلافت راشده از حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی صفحہ ۲۵۹ - ۲۶۰ ۲۶.خلافت ثانیہ کے قیام پر شیخ تیمور صاحب نے یہ نازیبا حرکت کی.کہ حضرت خلیفتہ ثانی کو تار دیا کہ نور امولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء سے صلح کرلیں.ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے جواب دیا کہ تم خدا تعالیٰ کی حجت کے نیچے ہو تم نے بارہا حضرت خلیفہ اول کی زبان سے ایسا ذ کر بنا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے بعد خداتعالی مجھے اس مقام کھڑا کرے گا.ا تم انکار کر کے دہریت کی زد سے نہیں بچ سکتے.چنانچہ اس خط پر ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ علی الاعلان خدا کی ہستی کے منکر ہو گئے.(خلافت راشدہ صفحہ ۲۶۰) ۶۷.آخری دنوں میں آپ کو ضعف بے چینی تے بخار اور پیاس کی تکالیف لاحق ہو گئی تھیں اور بڑھاپے کے عوارض مزید برآں تھے.(ایضا کالم ۲) ۶۸ - الحکم ۷ / مارچ ۱۹۱۴ء ص ۶ کالم ۳ ۱۹ - ۷۰ الحکم ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ء ے.الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ ء ص اکالم ا ٧٢ الفضل ۲۰/ و سمبر ۱۹۱۴ء ص ۶ کالم ۲ ۷۳.آئینہ صداقت صفحه ۱۷۹-۱۸۰ ۷۴ مراد احمد دین صاحب درزی (بہنوئی میاں بگا صاحب مرحوم بروایت سید عبدالرحمن صاحب خلف حضرت سید عزیز الرحمن صاحبة ۷۵ - الفضضل ۳/ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۳/۴ ۷۶.نواب عبد الرحیم خان صاحب خالد کے ایک خط کا اقتباس جو آپ نے مولف کتاب ہذا کو لکھا اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ

Page 561

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ نے اپنے قلم مبارک سے اس کی تصحیح فرمائی.۷۷.مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ ء ص ۹ 532 خلافت اولی کے آخری ایام ۷۸.یہ ٹریکٹ بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کو قادیان آتے ہوئے لاہور اسٹیشن پر ملا تھا.حضرت بھائی جی رات کو قادیان پہنچے کوٹھی دار السلام میں اس وقت لوگ نوافل و تسجد میں مصروف تھے کوئی کونہ میں بڑا مشغول گریہ و بکا تھا.اور کوئی سجدہ میں تھا یہ قریبا دو بجے کا وقت تھا.حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی مسجد کے لئے وضو کر رہے تھے.کہ حضرت بھائی جی حاضر ہوئے اور ٹریکٹ پیش کیا اور ساری کیفیت کہہ سنائی کہ کس طرح جماعت میں اسے بکثرت تقسیم کیا جارہا تھا.(قیام خلافت ثانیہ صفحہ ۲۵.(۲۷ ۷۹.منکرین خلافت اس نازک موقعہ پر اتحاد و اتفاق کیونکر کر سکتے تھے وہ تو فتنہ و فساد کے منصوبے سوچ رہے تھے چنانچہ حضرت قاضی محمد حسین صاحب کا بیان ہے کہ مولوی صدر الدین صاحب نے پشاور تار دیا کہ مولوی صاحب فوت ہو گئے اور جس قدر افغان مل سکیں قادیان ساتھ لادیں یہ تار ۲ بجے پشاور میں ملی.مگر حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب نے احباب کو مطلع کیا کہ کوئی احمدی پشاور سے قادیان نہ جاوے وہاں بھی افغان ہیں اور یقینا فساد ہو گا.(احمد موعود صفحہ ۱۰۲) اس موقعہ پر خلافت کے انتخاب کو کالعدم کرنے کے لئے یہ سازش بھی کی گئی کہ سید عابد علی شاہ صاحب کی نسبت تجویز کی کہ ان کی خلافت کے لئے چالیس آدمی تیار کئے جائیں.چنانچہ یہی مولوی صدر الدین صاحب رات کے وقت ماسٹر عبد الحق صاحب اور بعض اور اصحاب کو لے کر گھومتے رہے مگر دو ہزار کے مجمع میں ان کو عبرتناک ناکامی ہوئی اور صرف تیرہ آدمی اس خیال کے حامی مل سکے.( آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۶.والموعود صفحه (۱۰۳) دوسری طرف بعض اصحاب نے یہ دیکھ کر کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف ہم سے دھو کہ کیا ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کی مقدس وصیتوں کی بے حرمتی کر کے جماعت میں اختلاف ڈلوانا چاہا ہے آنے والے مہمانوں کا رجحان معلوم کرنے کے لئے ایک تحریر پر دستخط کرانے شروع کئے.چنانچہ ان در ستخطوں سے معلوم ہوا کہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس بات پر متفق ہے کہ خلیفہ ہونا چاہئے.اور اسی رنگ میں ہونا چاہئے.جس رنگ میں حضرت خلیفہ اول تھے.( آئینہ صداقت ۱۸۶-۱۸۷) ۸۰ حقیقت اختلاف صفحه ای خلافت ثانیہ کا قیام صفحه ۳۷۳۶ ۰۸۳ آئینه صداقت صفحه ۱۹۰-۱۹۱ شخص از القول الفصل صفحه ۷۳۰۷۲ ۸۴ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی شہادتوں کے لئے ملاحظہ ہو.( آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۳) ۸۵ ملاحظہ ہو بشارات رحمانیہ حصہ اول، دوم و تابعین اصحاب احمد ۰۸ رساله فرقان اپریل ۱۹۴۲ء صفحه ۳۲ ۸۷- ملخص آئینه صداقت صفحه ۱۹۴ ۸۸ - الفضل مارچ ۱۹۱۴ء ۱۳۸۹ مارچ کی شام کو مولوی شیر علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کو غسل دیا.مفتی فضل الرحمن صاحب، مولوی سرور شاه صاحب قاضی امیر حسین صاحب، میاں نجم الدین صاحب و مولوی غلام محمد صاحب اور حضور کے دوسرے شاگرد اس وقت موجود تھے پھر کفن پہنا کر جنازہ رکھ دیا گیا.دوسرے دن بیعت خلافت ثانیہ کے بعد پونے پانچ بجے جنازہ پڑھا گیا.کل 11 صفیں تھیں اور ہر صف میں قریبا ایک سو ساٹھ آدمی تھے پیچھے عورتوں کی بھی تین صفیں تھیں قریبا تین سو مستورات نے جنازہ پڑھا.تدفین سوا چھ بجے کے قریب ہوئی.(الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ اکالم ۳۲) سلسلہ احمدیہ صفحه ۳۳۴-۳۳۶ ۱۹ / مارچ ۱۹۱۳ء (الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۳ء ص ۲ کالم ۳) الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۳.

Page 562

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 533 خلافت اوٹی کے آخری ایام پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ ء ص ا کالم ۳.۹۴ - ۱۸/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحه ۳۷۳ حکیم سید علی احمد نیر واسطی تحریر فرماتے ہیں اطبائے پنجاب میں حکیم نور الدین بھیروی معالج ریاست کشمیر و جموں کا نام نامی نہایت بلند ہے جن کے گنگا جمنی طریق علاج نے نظام طب میں ایک عجیب تاثیر اور رنگینی پیدا کر دی ہے.( تشریحات بر کتاب "طب العرب " مرتبہ ایڈورڈجی براؤن.مطبوعات ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور) ۹۶."مجربات کا نفرنس نمبر ۳ صفحہ ۷ مرتبہ حکیم محمد افضل صاحب جنرل سیکرٹری پنجاب پراونشل طبی کانفرنس لاہور (بحوالہ الفضل قادیان ۱۳ اپریل ۱۹۴۵ ء صفحه ۵)

Page 563

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 534 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ آٹھواں باب (فصل اول) امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی سیرت طیبہ امیرالمومنین سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الاول مسلمہ طور پر اپنے علم و عرفان اور تقویٰ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سب سے بلند اور سب سے ممتاز مقام رکھتے تھے.علم و معرفت کے بحر بیکراں اور ولایت و کرامت کی چلتی پھرتی تصویر ، آپ کو دیکھ کر بزرگان سلف کے کارناموں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.وہ لوگ بھی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا د عوامل ماموریت تسلیم کرنے میں عمر بھر تامل رہا.آپ کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کی بزرگی اور علمیت و قابلیت کے دل سے قائل تھے ایک مرتبہ ایک نے سرسید مرحوم سے خط و کتابت کے دوران پوچھا کہ جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے ؟ سرسید مرحوم نے جواب دیا کہ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو نور الدین بنتا ہے.- مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو ولی اللہی فلسفہ کے داعی تھے محض حضرت خلیفہ اول سے ملاقات و استفادہ کے لئے قادیان تشریف لائے تھے.7 اور حضور کے اسلوب تفسیر سے بہت متاثر ہوئے چنانچہ ان کی تفسیر میں اس کی گہری جھلک نظر آئی ہے اور احمدیت کے خیالات و افکار کا عکس بھی ان کی تفسیر سے دکھائی دیتا ہے.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے قانون شریعت کے مختلف مسائل سے راہ نمائی کے سلسلہ میں خط و کتابت جاری رہتی تھی.ایک مرتبہ ان کو اپنی ایک بیوی کے بارے میں شبہ ہوا کہ چونکہ وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ کر چکے تھے.مبادا شرعا طلاق ہو چکی ہو.جس پر انہوں نے مرزا جلال الدین صاحب کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھیجا کہ مسئلہ پوچھ آؤ.آپ نے فرمایا کہ شرعا طلاق نہیں

Page 564

حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ تاریخ احمدیت.جلد ۳ 535 ہوئی لیکن اگر آپ کے دل میں کوئی شبہ اور وسوسہ ہو تو دوبارہ نکاح کر لیجئے.چنانچہ ڈاکٹر اقبال نے اس فتویٰ کے مطابق دوبارہ اس خاتون سے نکاح پڑھوا لیا.50 - مولانا محمد علی جو ہر.نواب وقار الملک.مولانا ابوالکلام آزاد.مولوی ظفر علی خان.علامہ شیلی نعمانی.نواب محسن الملک.مولوی عبدالحق صاحب حقانی مفسر دہلوی.خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمہ مسلمان لیڈر آپ کی عظمت شان اور جلالت مرتبت اور تبحر علمی کے دل سے قائل تھے اور اسلامی رسائل میں آپ کی دینی رائے کو بڑی وقعت دی جاتی تھی.ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی لاہور کی چشم دید شہادت ہے کہ حضرت ایک مرتبہ چیف کورٹ پنجاب میں کسی گواہی کے سلسلہ میں تشریف لائے جب حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو تین حج تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے.آپ کے علمی فیض کا حلقہ بہت وسیع تھا اور آپ کے شاگردوں کی تعداد جنہوں نے آپ سے علوم پڑھے بے شمار ہے.علوم دینیہ کے علاوہ آپ کا شمار چوٹی کے طبیبوں میں ہو تا تھا اور پورے ملک میں آپ کی دھوم مچی ہوئی تھی.یہ بھی ایک روایت ہے کہ کوئی شخص انگلستان میں بغرض علاج گیا.تو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہندوستان میں جاکر مولوی حکیم نور الدین صاحب سے علاج کرائیں.ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی (لاہور) کی روایت ہے کہ "آپ کبھی لاہور تشریف لاتے تو آپ کے گرد ہندو مسلمان اور سکھ دور و نزدیک سے ہجوم کر کے آجاتے بازار میں چلتے تو لوگ حضرت کے پاؤں پکڑ لیتے.اور اپنے مریضوں کے لئے دو اطلب کرتے.حضرت حکیم صاحب قبلہ نے ہزاروں روپیہ کی دوائیں اپنی جیب سے خرچ کر کے ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کر دیں.حضرت کے دل میں خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ تھا.نیز لکھتے ہیں." حضرت حکیم صاحب ۱۹۱۳ء میں بیمار ہوئے تو جناب مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خان صاحب دہلوی.حکیم عبد العزیز خان صاحب لکھنوی.حکیم حسنین صاحب کستوری خود عیادت کے لئے قادیان تشریف لائے.حکیم فقیر محمد صاحب حسین چشتی.حکیم مولوی سلیم اللہ خان صاحب.حکیم سید عالم شاہ صاحب.حکیم مفتی محمد انور صاحب ہاشمی.حکیم فیروز الدین صاحب وغیرہ وغیرہ حضور کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا کرتے تھے.اور حضرت کو حضرت استاذی المکرم کہا کرتے تھے.عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب "مسلم ثقافت ہندوستان میں " کے صفحہ ۳۰۰ - ۳۰۱ پر لکھتے ہیں." آپ کی حذاقت کا شہرہ نزدیک و دور پھیل گیا.اور آپ ہندوستان کے چند منتخب اطباء میں شمار ہونے لگے.آپ بھیرہ چھوڑ کر قادیان چلے گئے اور بقیہ عمر غلام

Page 565

تاریخ احمدیت جلد ۳ 536 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ درس و تدریس علاج معالجہ اور پرورش غرباء میں بسر کر دی.آپ آل انڈیا ویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اعزازی ممبر اور رکن خصوصی بھی تھے.حضرت خلیفہ اول کے طبی تلامذہ کی تعداد بہت ہے.mom - حضرت خلیفہ اول کے روحانی اور اخلاقی کمالات، تأثیرات قدسیہ اور احسانات و عنایات کی تفصیل کے لئے تو ایک دفتر درکار ہے مختصر طور پر اتنا بتانا ضروری ہے کہ آپ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کامل کل کی حیثیت سے جملہ اخلاق حسنہ اور مردانہ صفات اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر تھے.آپ در از قامت تھے خدو خال موٹے ہونٹ اور ناک نہایت نمایاں مہندی رنگی ہوئی ڈاڑھی r.سانوله رنگ مگر صورت نہایت دلکش اور پر رعب تھی...قد آدم عصا ہاتھ میں ہو تا تھا.جسمانی قوت کا یہ حال تھا کہ زمانہ طالب علمی میں کئی کئی وقت تک کھانے کا ناغہ کرتے مگر کوئی ضعف و نقاہت قطعاً محسوس نہ کرتے تھے.اسی زمانہ میں بڑے بڑے لمبے سفر کئے.ایک دفعہ آگرہ سے چل کر بھوپال پہنچے اور معلوم بھی نہ ہوا.گو بڑھاپے میں آپ کے قومی مضمحل ہو گئے اور مسلسل بیماریوں نے نڈھال کر دیا تھا مگر پھر بھی اکثر پورا پورا دن بے تکان علمی کام کرتے جاتے تھے.آپ زبر دست تیراک اور شہسوار تھے حضرت نے کبھی بینک نہیں لگائی.باوجود پیرانہ سالی کے سیدھے چلتے اور سیدھے کھڑے ہوتے تھے.آپ گھوڑے سے گرنے کے حادثہ سے پہلے کئی دفعہ چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی میرا ہاتھ ٹیڑھا کر کے دکھا دے.آپ کا جسم بھاری تھا آہستہ آہستہ چلتے تھے کوئی رستہ میں مل گیا تو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسجد اقصیٰ کی طرف جاتے کوئی نہ ملتاتو از خود تشریف لے جاتے.آپ کے خلاف کشمیر اور بھیرہ میں بڑی بڑی سازشیں ہو ئیں مگر آپ نے شجاعت اور بہادری کے بے نظیر نمونے دکھائے کئی لوگوں نے آپ سے ٹکر لی اور وہ پاش پاش ہو گئے.بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قادیان میں آپ کے قتل کی سازش کی گئی مگر آپ پر ذرہ برابر بھی خوف و ملال کے آثار نہیں تھے اور برابر اپنے کام میں مصروف رہے.اردو عربی، فارسی کے علاوہ ایک حد تک پشتو بھی جانتے تھے.آپ کی مادری زبان پنجابی تھی مگر زمانہ طالب علمی میں زیادہ تر ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے پنجابی نہیں بول سکتے تھے.اور عام بول چال اردو میں فرماتے تھے.مشکل سے مشکل گھڑیوں میں بھی آپ ایسے بشاش رہے جیسے عام معمولات میں اور ہمیشہ فرماتے مومن پر خوف و حزن نہیں آسکتا.ہمیشہ خوش رہتے بیماری کے ایام میں بھی چڑ چڑا پن نہیں آتا تھا.۲۳

Page 566

تاریخ احمدیت جلد ۳ 537 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ فروتنی انکسار اور عاجزی میں اپنی نظیر آپ تھے ایک مرتبہ کسی جگہ ڈیڑھ روپیہ ماہوار کی نوکری کر لی مگر جب بعد میں نوکر رکھنے والے شخص کو علم ہوا کہ آپ علامہ دہر اور محدث زماں ہیں تو وہ حیران رہ گیا اور معافی مانگنے لگا.حافظہ کی قوت اتنی زبر دست تھی کہ بچپن کی باتیں آخر تک دماغ میں نقش تھیں.اور ان کو ایسے غیر مبہم اور واضح رنگ میں بیان فرماتے تھے کہ گویا ابھی کل کی بات ہے حق گوئی میں آپ شمشیر برہنہ تھے.جمہوری ملکوں میں تو صحافت کی حکومت ہوتی ہے اور بڑی بڑی حکومتوں کو پریس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں.مگر آپ اخبار نویسوں کے غلط طرز عمل پر کھلی تنقید کر دیتے اور فرماتے کہ یہ دوسروں کی اصلاح پر تو تیار ہیں.مگر اپنی اصلاح کی طرف کوئی توجہ دلا دے تو لڑنے کو تیار ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تم کسی ناصح کی بات پر عمل نہیں کرتے تو تمہارا کیا حق ہے کہ اپنی بات منواؤ- دیوان کچھن داس وزیر اعظم کشمیر نے ابتداء میں بعض افغانوں کو دربان مقرر کر دیا تھا جو پشتو کے سوا کوئی زبان نہ جانتے تھے.حضرت کو علم ہوا تو آپ نے ان کو خط لکھا کہ یہاں کے لوگ ملاقاتوں کے عادی ہیں.میں نے سنا ہے آپ نے خطرہ کی وجہ سے پہرہ بٹھا دیا ہے مہربانی کر کے ایک وسیع کمرہ جس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہو ملاقات کے لئے مقرر فرما ئیں.دیوان صاحب نے خط ملتے ہی آپ کو بلا بھیجا اور بتایا کہ آپ کا خط ملتے ہی میں نے پہرہ والوں کو موقوف کر دیا ہے.اور ایرانی قالین بچھا دیا ہے نیز کہا کہ ریاست میں صفائی سے بات کہنے والا انسان ضروری ہے.اب میں کسی کو ملاقات کے لئے نہ روکوں گا.اور آپ کے لئے تو کوئی وقت مقرر نہیں آپ جس وقت چاہیں بلا تکلف تشریف لا ئیں.حضرت خلیفہ اول کا بے پناہ علمی ذوق بڑے بڑے علماء و مفکرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا.آپ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس شوق میں آپ نے بے شمار روپیہ خرچ کر کے اپنی ذاتی لائبریری بنائی تھی.جس میں تفسیر، حدیث اسماء الرجال ، فقہ، اصول فقہ کلام ، تاریخ تصوف سیاست منطق فلسفه صرف نحو ، ادب ، کیمیا، طب ، علم جراحی علم ہیت اور دیگر مذاہب وغیرہ کی نادر کتا ہیں موجود تھیں.جن میں کئی قلمی نسخے بھی تھے.اور آپ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ خود اپنے خرچ پر مولوی غلام نبی صاحب مصری کو مصر بھجوا کر وہاں کی بعض قلمی کتابوں کی نقول منگوائیں.اور حق یہ ہے کہ اب تک حضرت خلیفہ اول کا یہ ذاتی کتب خانہ ہی زیادہ تر جماعتی ضرورتوں میں کام آتا رہا ہے.کئی سیاح اور زائرین قادیان میں اس کتب خانہ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے تھے کہ اس چھوٹے سے قصبہ میں علوم کا یہ نادر خزانہ کہاں سے آگیا ہے؟ سر شاہ محمد سلیمان جو فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے

Page 567

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 538 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ ایک نہایت بلند پایہ علم دوست حجج تھے انہیں ایک دفعہ سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی جو سارے ہندوستان میں تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں لی.آخر انہیں پتہ لگا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میں موجود ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی اجازت سے اس کا یہ نسخہ عاریتاً حاصل کیا اور پھر بحفاظت واپس بھیجوا دیا.لاریب کئی لحاظ سے حضرت خلیفہ اول کی یہ ذاتی لائبریری ہندوستان میں عدیم المثال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی بعض تحریروں میں آپ کے کتب خانہ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور یہ سب کچھ ایک نہایت محدود ذرائع والے انسان کے ذاتی ذوق و شوق کا ثمرہ تھا اور پھر یہ کتابیں محض جمع کرنے کے جذبہ کے ماتحت نمائشی رنگ میں اکٹھی نہیں کی گئیں بلکہ اس وسیع کتب خانہ کی ہر کتاب حضرت خلیفہ اول کے ذاتی مطالعہ میں آتی تھی اور جابجا کتابوں کے حاشیہ پر آپ کے قلمی نوٹ پائے جاتے ہیں.زندگی اس درجہ پاکیزہ تھی کہ دوسروں کو فرماتے تھے کہ تمہارے لئے یہ دلیل حضرت کی سچائی پر TA کافی ہے کہ میرے جیسا انسان مرزا صاحب کے غلاموں میں شامل ہو گیا.آپ کے چچا زاد بھائی مولوی غلام قادر صاحب (جنہوں نے اسلام کی کتابوں کا ایک سلسلہ لکھا تھا) کہا کرتے تھے کہ آج اگر مولوی نور الدین صاحب میرے ساتھ ہوتے تو سارا ملک سنی ہو جاتا.قوت فراست کا یہ عالم تھا کہ کسی مصنف کی نثر کا ایک ورق پڑھ کر بھانپ لیتے تھے کہ اس کا مذ ہب کیا ہے ؟ اور بیوی بچوں اور دوستوں اور دشمنوں سے اس کے تعلقات کیسے ہیں؟ استغناء اور قناعت میں آپ کا مقام نہایت بلند تھا.آپ نے بار ہا فرمایا کہ میں کسی بات میں تمہارا محتاج نہیں نہ تم سے کوئی اجر مانگتا ہوں.حتی کہ تمہارے سلاموں کا بھی خواہشمند نہیں.جب میں رات کو سوتا ہوں تو الحمد للہ کسی کے ساتھ کوئی ناراضگی کوئی حرص میرے دل میں نہیں ہوتی اور سب سے فارغ البال ہو کر سوتا ہوں خلیفہ ہونے پر انجمن نے آپ کا وظیفہ مقرر کرنا چاہا.مگر آپ نے اسے وصول کرنے سے بالکل انکار کر دیا.2 بیمار ہوئے تو اپنی بیماری کے اخراجات خود ادا کئے فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ کی طرح میں نے کبھی حضرت صاحب سے دنیا سے متعلق کوئی درخواست نہیں 70-5 باوجود اپنی شان اور وجاہت کے آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے.آپ کا ذاتی خرچ صرف چند روپے تھا.تکلف اور بناوٹ سے آپ کی طبیعت کوسوں دور تھی.اکثر پاجامہ اور کھلا کر نہ زیب تن کرتے اور سر پر عمامہ رکھتے جو لنگی وغیرہ کی طرز کا ہوتا.صدری کا استعمال بھی فرماتے تھے.شیخ مولانا بخش صاحب سیالکوئی خاص اہتمام سے آپ کے لئے گر گالی لاتے.مگر آپ اس کی ایڑھی بٹھا

Page 568

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 539 حضرت خلیفہ البیع الاول کی سیرت طیبہ لیتے.آپ کے پاس گھڑی کبھی نہیں دیکھی گئی.اکثر کلک اور دیسی سیاہی استعمال فرماتے کسی وقت نب والے قلم سے بھی لکھ لیتے مگر اس سے بالکل مانوس نہیں تھے.یا اس کو پسند ہی نہیں فرماتے تھے.آپ مطب کے مشرقی دروازہ کے شمالی حصہ کے قریب صف پر بیٹھتے تھے.صف پر ادنی درجہ کی اون کا بچھونا ہو تا تھا ساتھ تکیہ رکھا ہو تا سامنے معمولی سی تپائی ہوتی تھی مگر یہ پابندی نہیں تھی کہ لازماً اس پر رکھ کر ہی لکھیں اکثر دو زانو بیٹھ کر لکھتے.خضاب کبھی استعمال نہ کیا ہمیشہ مہندی لگا یا کرتے تھے.ماسٹر عبد الرؤف صاحب بھیروی کا بیان ہے کہ حضرت مولانا نور الدین صاحب کو میں نے دیکھا ہے کہ اگر کرتے پر بٹن ابتداء سے نہیں لگا تو آخر دم تک اس پر بٹن نہیں دیکھا گیا.آپ کی مرغوب غذا یہ تھی کہ شوربے میں روٹی بھگو لیتے تھے.کبھی گرمیوں میں سرد کوٹ پہنے نہیں دیکھے گئے.سادہ پگڑی کے بیچوں میں سے مندی رنگے سرخ بال کبھی باہر نکلے ہوئے نظر آتے تھے.ہاتھ میں لمبا عصار کھتے تھے.غرضکہ آپ کے لباس اور کھانے اور بود و باش میں سادگی کا رنگ غالب تھا.مگر سادگی اور بے تکلفی کے باوجود ایک خداداد رعب رکھتے تھے.صبح سے شام تک پبلک میں رہتے مگر آپ کی وجاہت اور رعب اور دبدبہ اور شوکت میں ذرہ برابر فرق نہ آتا تھا.خودداری میں آپ یکتائے روزگار تھے.ایک دفعہ نواب خان زمان خاں نے اپنا مدار المهام قادیان بھیجا کہ میں بیمار ہوں.میرے علاج کے لئے تشریف لائیں.مہربانی ہو گی.میں چھوٹی سی ریاست کا حکمران ہوں.آپ نے فرمایا.مجھے تو آنے کی فرصت نہیں اگر آپ آجا ئیں تو میں آپ کا علاج کروں گا اور آپ کا تمام خرچ میں برداشت کروں گا.اپنے دوستوں سے خاص طور پر حسن سلوک کرنا اور ان کی خیر اور بھلائی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنا آپ کا آخری دم تک شعار رہا.ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے ان کی ضروریات کا خیال رکھتے دوستوں سے ملاقات کر کے آپ کو بے حد خوشی ہوتی.ایک دفعہ میاں محمد لودھیانوی نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ سے کہا کہ اگر روپیہ کی ضرورت ہو تو مجھ کو ارشاد فرما ئیں.مگر آپ نے جواب دیا کہ تم ہمارے لئے دعا کرو کہ ہمیں آپ سے مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے.1909ء میں قادیان میں طاعون پھیلنے لگا.آپ نے خدا کی جناب میں نہایت تضرع سے دعا کی کہ ابھی تیری چھوٹی سی جماعت ہے اور اس جماعت میں اس درجہ کا دعا کرنے والا بھی نہیں.پس تو اپنا فضل کر.اس دعا کا کرشمہ یہ ہوا کہ طاعون کا حملہ ختم ہو گیا.جو بیمار تھا وہ بھی اچھا ہو گیا.آپ سوتے وقت اپنے سرہانے دعا کرانے والوں کی لسٹ رکھ لیتے اور تہجد میں اٹھ کر دعا فرماتے.حضرت خلیفہ اول کی

Page 569

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 540 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ صحبت میں بیٹھنے والوں میں سے ہر ایک شخص یہی سمجھتا تھا کہ حضور سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں.چوہدری غلام محمد صاحب آپ کی خدمت میں بی.اے میں کامیابی میں دعا کے لئے روزانہ درخواست بھجواتے تھے.چند ہفتہ بعد حضور نے فرمایا کہ اب مجھے دعائیہ درخواست بھیجنے کی ضرورت نہیں مجھے تم ہر دعا کے وقت یاد آجاتے ہو.چنانچہ حضور کی دعاؤں کی برکت سے وہ کامیاب ہو گئے.۱۴۷ جن خدام سے گہرے تعلقات ہوتے انہیں خطوں میں بھی لکھ دیتے کہ ہمیں تم سے بہت محبت ہے اور دل سے چاہتے ہیں کہ آپ سے ملتے رہیں ایک دفعہ بھیرہ کے ایک دوست کو لکھا." آپ کو مجھ سے محبت.مگر ملنے کی فرصت نہیں ".اسی طرح لکھا." مجھے آپ سے بدل محبت ہے بھلا ہو- سکتا ہے کہ آپ کا محبت نامہ آئے اور میں خود نہ پڑھوں.(۵ / مارچ ۱۹۱۳ء) - مخدوم محمد اعظم صاحب کے نام ایک خط لکھا." مجھے ان کو ایک بھی نسخہ ایسا نہیں جس کو بتانے میں قاتل ہو پھر آپ ایک تو میرے نہایت پیارے بھائی کے بھائی ہیں پھر حکیم و طبیب شریف خاندان کے." ۵۱ باوجود سب نشیب و فراز جاننے کے اپنے دوستوں سے مشورہ کر لیتے تھے.مردان کی جماعت قادیان میں جلسہ پر آتی تو واپسی پر حضور سے اجتماعی ملاقات کر کے جاتی تھی.ایک دفعہ مردان کے حضرت میاں محمد یوسف صاحب پہلے ہی چلے گئے حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کہ میاں محمد یوسف صاحب کہاں ہیں ؟ پھر تعجب کا اظہار فرمایا کہ وہ تو ہمیشہ مل کر جایا کرتے تھے.میاں محمد یوسف صاحب سلسلہ کے بڑے فدائی اور مخلص بزرگ تھے جب ان کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ کچھری میں بیٹھے ہوئے تھے.سنتے ہی کچھری میں اپنا بستر منگوایا اور سیدھے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے اور حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں قادیان پہنچے.حضرت سے معافی مانگی اور پھر واپس مردان آئے.آپ نہایت درجہ خلیق، ملنسار اور شگفتہ مزاج تھے اور آپ کی ملاقات سے دل کو ایک سرور حاصل ہو تا تھا.ہر شخص آپ سے مل کر بہت خوشی سرور اور فرحت محسوس کرتا تھا.عبدالمجید صاحب سالک لکھتے ہیں :.”کہ ۱۹۱۲ء کا ذکر ہے میں بعض لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے بٹالہ سے قادیان گیا اور ایک عزیزہ کے علاج کے سلسلے میں مولانا حکیم نور الدین مرحوم و مغفور کی خدمت میں حاضر ہوا.صبح کا وقت تھا حکیم صاحب اپنے مکان کے صحن میں تشریف رکھتے تھے بہت سے عقیدت مند اور ضرورت مند لوگوں کا جمگھٹا تھا کوئی نبض دکھا رہا تھا.کوئی طب کی تعلیم حاصل کرنے کا خواہاں تھا.کوئی دینی مسائل کے متعلق استفتاء کی غرض سے آیا بیٹھا تھا.میں بھی انہی لوگوں میں بیٹھ گیا.جب میری

Page 570

تاریخ احمدیت جلد ۳ 541 or حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ باری آئی تو میں نے اپنی عزیزہ کے لکھے ہوئے حالات پیش کئے.حکیم صاحب نے ان حالات کو غور سے پڑھتے ہوئے مجھ سے پوچھا.کہاں سے آئے؟ میں نے عرض کیا بٹالہ سے.پوچھنے لگے کسی محلہ میں رہتے ہو ؟ جواب دیا.ہاتھی دروازہ میں.پوچھا گئے زکی ہو.عرض کیا جی ہاں.پوچھا کس خاندان سے ہو.میں نے بتایا کہ میاں میر محمد میرے دادا ہیں.چونک کر کہا وہی میاں میر محمد جو صبح سے شام تک لوگوں کو مفت پڑھاتے ہیں؟ میں نے مسکر اکر کہا جی ہاں.فرمایا وہ تو ہمارے دوست ہیں اور تم ہمارے بچے ہو.یہاں کس کے پاس ٹھہرے ہو؟ میں نے عرض کیا.قاضی اکمل صاحب کے پاس.مسکرا کر کہا.جی ہاں شاعر تو شاعری کے پاس ٹھہرے گا ".آپ کا دربار ہر وقت کھلا رہتا اور آنے والے بلا تکلف آپ سے ملاقات کر سکتے تھے.جمعدار فضل دین صاحب کا بیان ہے کہ بیعت کے چند دن بعد میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.فرمایا.اب تو آپ بے تکلفی سے دیکھ رہے ہیں ایک وقت آئے گا جب لوگ خلیفہ وقت کے چہرے کے لئے ترسیں گے.مہمانوں کی خدمت میں آپ کو ایک روحانی فرحت محسوس ہوتی تھی.مردان کے میاں محمد یوسف صاحب کے بھائی میاں محمد احسن ابھی غیر احمدی تھے.کہ وہ علاج کے لئے قادیان گئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ کھانے کا انتظام ہم خود کریں گے انہوں نے کہار قم موجود ہے.فرمایا مجھے دے دو.اس کے بعد علاج ہو تا رہا.اور گاہے گاہے آپ ان کو حضرت اقدس کی مجلس میں بھی لے جاتے رہے جس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے میاں محمد یوسف صاحب کو (جو وہ بھی اس وقت غیر احمدی تھے ) خط لکھا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.میاں محمد یوسف صاحب نے کہا کہ میرا انتظار کریں.اُس وقت دیکھا جائے گا.چنانچہ چند دن بعد میاں محمد یوسف صاحب بھی بیوی بچوں سمیت قادیان پہنچ گئے ان کو یہی فکر تھا کہ کہیں بیعت ہی نہ کرلی ہو.حضرت خلیفہ اول نے ان کے کھانے کا بھی انتظام فرمایا چند دن کے بعد پورے خاندان نے بیعت کر لی.میاں محمد حسن مردان جانے لگے تو آپ نے ان کی رقم واپس کردی.- آپ کے وطن سے غریب رشتہ دار آتے.ان پر کمال شفقت فرماتے.بخاری کی حدیث میں جب ماں کے رشتہ داروں سے سلوک کر کے دنیاوی فائدہ کا ذکر آیا.تو فرمایا میری روزی کی وسعت کا ذریعہ حدیث نبوی پر عمل کرنا ہے.تم دیکھ رہے ہو میری والدہ کی قوم کے لوگ میرے پاس اپنی اپنی ضرورت کے لئے کیسے دوڑتے آتے ہیں.ایک دفعہ کالو نام کا لمبے قد کا جوان کئی ماہ آپ کے پاس رہا.غرض اپنی والدہ کے اقرباء سے حسن سلوک کو روزی کی وسعت کا ذریعہ قرار

Page 571

تاریخ احمدیت جلد ۳ دیتے تھے.٥٥ 542 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ مساکین و یتامی کی پرورش کا خیال رکھتے اور ہمیشہ آپ نے کسی یتیم لڑکے لڑکی کو اپنے گھر میں اپنی اولاد کے برابر عزیز رکھا.آپ کی ہدایت تھی کہ نئی جوتی یا لحاف یا کوئی اور چیز خرید و تو پرانی جوتی یا لحاف وغیرہ غریب کو دے دو.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں آپ نے جماعت کے ڈاکٹروں اور حکیموں کو بلا کر نصیحت فرمائی کہ غریبوں کو ایسا نسخہ بتا ئیں جو چند پیسوں کا ہے.اور امیروں کو ایسا نسخہ بتائیں جو ان کی حیثیت کے مطابق ہو.ان سے جو دو بچے وہ دوا غریبوں پر خرچ کریں اور غریبوں کی دعائیں لیں.یہاں جو غریب آتے ہیں.ان کو تیار شدہ دوا دے دیتا ہوں.جو نسخہ تیار نہیں ہو تا.وہ ایسا نسخہ ہو تا ہے جو چند ٹکوں کا ہوتا ہے.ایک غیر احمد کی دوست نے جو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں دو سال تک کشمیر میں رہ چکے تھے.بیان کیا کہ "کشمیر میں مہا راجہ امر سنگھ صاحب حکومت کرتے تھے.اور آپ (خلیفہ اول) ان کے یہاں شاہی طبیب تھے.درباری مصروفیات کے علاوہ آپ کو جب کبھی موقع ملتا غریب مریضوں کا اپنی خداداد حکمت و قابلیت سے علاج کرتے اور مفت کرتے.آپ کی غریب نوازی کا دائرہ یہاں تک ہی محدود نہ تھا.بلکہ بیسیوں ایسے طریقے آپ نے اختیار کر رکھے تھے.جن سے محتاجوں کی حاجت روائی ہوا کرتی تھی.چنانچہ ایسا ہو تا کہ کئی امیدوار اپنی عرضیاں سفارش کے لئے لاتے.آپ نہ صرف سفارش فرماتے بلکہ مہاراجہ صاحب سے منظور کرا دیتے.ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ یکے بعد دیگرے آٹھ امیدوار اپنی عرائض سفارش کی غرض سے لائے آپ نے ان کی دل شکنی نہ کی.بلکہ ہر ایک سے یہی فرمایا.کہ میں تمہاری عرضی رکھ لیتا ہوں.صبح مہاراجہ صاحب کے پیش کر کے تمہیں اطلاع دوں گا.دوسرے روز حسب معمول آپ دربار میں گئے اور اچھا موقع پا کر ایک عرضی مہاراجہ صاحب کے پیش کر دی.مگر مہاراجہ صاحب نے عرضی نا منظور کر دی.آپ نے دوسری پیش کر دی.وہ بھی قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکی حتی کہ آپ نے سات عرضیاں پیش کیں.اور ساتوں کا یہی حشر ہوا.لیکن آپ بالکل مایوس نہ ہوئے بالا خر آٹھویں بھی پیش کردی مهاراجہ صاحب آپ کی مستقل مزاجی سے حیران رہ گئے اور آپ سے اس طرح مخاطب ہوئے :.مولوی صاحب! ایسا کوئی شخص میری نظر سے آج تک نہیں گزرا.جسے سات بار ناکامی ہو اور اس نے اپنا قدم ذرہ بھر بھی پیچھے نہ کیا ہو.مگر آپ نے اپنی تعریف کا سننا گوارا نہ کیا.اور مہاراجہ کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ چونکہ میں عرائض کنندگان سے وعدہ کر چکا تھا کہ تمہاری عرضیوں کو ضرور مہاراجہ

Page 572

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 543 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ صاحب کے پیش کردوں گا.اس لئے اس فریضہ کو ادا کیا ہے مہاراجہ صاحب اس جواب سے اور زیادہ محظوظ ہوئے اور آٹھوں عرضیوں کو منظور کر لیا.پڑوسیوں اور عام مسلمانوں اور غیر مسلموں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے اور اس کی طرف دو سروں کو توجہ دلاتے رہتے تھے.مسلمانوں کے مصائب سے آپ کو از حد صدمہ ہوتا اور بعض اوقات ان کا تصور کر کے ساری رات اس غم میں جاگتے رہتے.کہ دجالی فتنہ شدت سے بڑھتا جا رہا ہے.اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی کئی حکومتیں تباہ ہو گئیں.اپنے صاحبزادہ عبدالحی کا مکان بنوا ر ہے تھے کہ ہمسایوں کی طرف سے دیوار پر کوئی اعتراض اٹھا.اس پر حضور کے حکم سے بنی بنائی دیوار گرادی گئی.دشمنوں سے بھی حسن سلوک کرتے اور جماعت کو بھی ہدایت فرماتے کہ دشمنوں کے لئے دعا اور مخالفوں سے نیکی کرو.آپ بے حد فیاض اور ہمدرد بنی نوع بشر تھے.شاگردوں سے بہت انس تھی.اپنے پاس سے طلباء کو کتابیں کپڑے اور کھانا دیتے تھے.نذرانہ آنا تو اکثر دوستوں اور شاگردوں اور خدام میں بانٹ دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ایک شاگرد نے عرض کی.گرم کپڑا نہیں ہے حضرت نے اپنے اوپر ایک 10 دھہ لیا ہوا تھا.فورا اتار کر دے دیا اور خود اندر سے رضائی منگوا کر لپیٹ لی.آپ بہت سے طلباء کی فیس اور خرچ اپنے جیب سے ادا کیا کرتے تھے امرت سر کا ایک شخص میاں غلام رسول حجام احمد کی ہوا.اس سے لوگوں نے کام لینا چھوڑ دیا.اور اس کو بہت تنگ کیا.حضرت اقدس سے اس کو بہت محبت تھی.حضور کے ناخنوں کے تراشے کپڑے میں باندھ کر رکھتا تھا.کہ جب میں مروں گا تو میری آنکھوں اور چہرہ پر ڈالے جائیں گے.میاں غلام رسول کے لڑکے کا خرچ بھی حضرت مولوی صاحب دیا کرتے تھے.بورڈنگ سے بقایا کی وجہ سے اسے نکال دیا گیا.آپ کو یہ بات ناگوار گزری آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود کے خاندان.قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو مستثنی کر کے حکیم غلام محمد صاحب امرت سری سے کہا کہ دروازہ پر اشتہار چسپاں کریں کہ جو علاج کے لئے گھر بلائے گا اس سے اتنی فیس وصول کی جائے گی مہینہ گزرنے پر جو لوگ علاج کے لئے گھر لے گئے تھے ان سے رقم کا مطالبہ ہوا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مطب کے مشرقی جانب کے کمرے رقم کے عوض دئے جو بیماروں کے کام آنے لگے.بعد ازاں آپ نے اشتہار ا تر وادیا.ایک دفعہ اپنے بڑے لڑکے میاں عبدالحی مرحوم کو بورڈنگ میں داخل کرایا.اور چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے سپرنٹنڈنٹ کو لکھ بھیجا کہ خرچ میں حتی الوسع کفایت کرنے کی کوشش کریں.YY

Page 573

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 544 حضرت خلیفہ المسیع الاول کی سیرت طیبہ حضور نے اپنے بچہ کے متعلق کفایت شعاری کی تاکید فرمائی.حالانکہ اس وقت بورڈنگ میں پانچ یا چھ یتیم بچے آپ کے خرچ پر داخل تھے.اور ان کے خرچ میں تخفیف کے لئے آپ نے کبھی کفایت کے لئے ہدایت نہیں فرمائی.آپ کے درس میں غیر احمدی طلباء بھی شامل ہوتے تھے.اور ان پر بھی حضرت کی نگاہ شفقت رہتی تھی.ایک شخص سید محمد نصیب نامی نے کہا.میری والدہ بوڑھی ہے اس کی خدمت نہیں کر سکتا.اور اس وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا.آپ نے فرمایا.تمہاری والدہ کو میں خرچ دوں گا.تم پڑھنا شروع کر دو.چنانچہ اس نے متنبی وغیرہ پڑھنی شروع کر دی.اور آپ اس کی والدہ کو ماہوار خرچ دیتے رہے یہ شخص منشی فاضل پاس کر کے گورداسپور میں ملازم ہو گیا.آپ عیدین کے موقعہ پر قادیان کے مستحق امداد لوگوں کے نام لکھ کر بچوں اور بالغوں کے لئے کپڑوں کو ٹانک کر کچھ نقدی کے ہمراہ بھیجوا دیا کرتے تھے ایک دن عید میں جب کپڑے تقسیم کئے گئے تو ایک شخص نے کہا کہ میرا پاجامہ اور جوتی نہیں.آپ نے ایک طالب علم سے چادر لی اور پاجامہ اور جوتی نکال کر دے دی.اور ننگے پاؤں گھر چلے گئے.عید کے لئے بلانے والا بار بار آرہا تھا.اتنے میں سرخ کھال کی جوتی اور کپڑے لاہور سے آپ کو پہنچے تب آپ نماز کے لئے تشریف لے گئے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے شیخ محمد نصیب صاحب کو ایک چوزہ دیا.ان کے پاس ان دنوں کئی مرغیاں تھیں جب یہ چوزہ بڑا ہو گیا تو انہوں نے عرض کی کہ اب یہ پل گیا ہے اگر اجازت دیں تو بھجوا دوں.فرمایا.نورالدین جب کوئی چیز دیتا ہے تو پھر لیتا نہیں.سائل کے سوال کو آپ نے کبھی رد نہیں فرمایا.حاجی مفتی عبدالرؤف صاحب بھیروی کا بیان ہے.جو چیز آپ کے پاس آتی وہ تقسیم کر دیتے تھے.ایک حاجتمند آیا کہ لڑکی کی شادی کرنی ہے.مگر کوئی پیسہ میرے پاس نہیں.آپ نے فرمایا کتنے پیسوں میں گزارا ہو جائے گا.اس نے اڑھائی سو روپے بتائے فرمایا بیٹھ جائیں.چنانچہ آپ مریضوں کے ہاتھ دیکھتے رہے.ظہر کے وقت اٹھنے لگے اور کپڑا اٹھایا گنتی کی گئی.پورے اڑھائی سو روپے نکلے جو اس غریب کو دے دئے گئے.ایک شخص نے ایک مصلیٰ آپ کو تحفہ دیا.آپ نے وہ رکھ لیا اور ایک خادمہ کو بلوایا اور فرمایا تم جائے نماز مانگتی تھی خدا نے بھیج دیا ہے یہ اٹھالے جاؤ.نواب عبد الرحیم خاں صاحب خالد کی روایت ہے کہ " دو اشخاص مرزا صفدر علی اور ایک احمد دین (ہمارے ملازم) دونوں آپ کے قصے سنایا کرتے تھے کہ لوگ مالی امداد کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوتے آپ کبھی کسی کو انکار نہیں فرماتے تھے کہہ دیا کرتے تھے بیٹھ جاؤ.جو تمہاری قسمت کا ہو گارہ تم

Page 574

- جلد ۳ 545 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ کو مل جائے گا.آپ کے علاج سے جو مریض شفایاب ہوتے یا اعتقاد الوگ آپ کو حاضر ہو کر یا کسی کے ہاتھ بھیج کریا بذریعہ منی آرڈر روپیہ دیا یا ارسال کرتے تو اگر دویا تین حاجتمند منتظر بیٹھے ہوتے تو ان کو سلسلہ وار جس کی پہلی درخواست ہوتی اس کو پہلے پھر دو سرے پھر تیسرے کو جو آتا یہ کہہ کر دے دیا کرتے.لو بھئی یہ تمہاری قسمت کا ہے.اب اس پر اکتفا کرو".آپ ہر مذہب و مشرب کے بیمار کا نہایت شفقت سے علاج فرمایا کرتے.ایک ہندو علاج کے لئے آیا جو دق کا مریض تھا.آپ نے اسے نسخہ لکھ دیا.اس نے عرض کی اس دوا کے خریدنے کی مجھ میں طاقت نہیں.آپ نے بذریعہ ڈاک دوا منگوا دی.اور فرمایا ختم ہونے پر اطلاع دیتا.اس کو دوا با قاعدہ منگوا کر دیتے رہے حتی کی وہ تندرست ہو گیا.حضرت خلیفہ اول جماعت کی بہبود کا خیال رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں ڈرتا ہوں کہ مرنے کے بعد جب میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوں گا.تو آپ یہ جواب طلبی نہ فرما ئیں.تم نے میری جماعت کی ترقی و استحکام کے لئے کیا کیا ہے ؟ آپ ہر کار خیر میں جس کا اعلان ہو تا ضروری چندہ میں حصہ لیتے اور اتنا دیتے کہ قریباً سب سے بڑھ جاتے.20 عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کے آپ خاص طور پر زبر دست حامی تھے اور ان پر شفقت و رحم کے برتاؤ کا اپنے وعظوں میں اکثر ذکر فرماتے.حسن معاشرت کی مثال اپنی آپ تھے.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے آج تک کسی بیوی کا کوئی صندوق ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا.آپ نصیحت فرماتے تھے کہ جب سفر سے آؤ.تو بیوی کے لئے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور لے جاؤ بیوی کے انتخاب میں ہمیشہ دین کو اہمیت دیتے.حافظ احمد دین صاحب بھیروی کو ایک خط میں لکھا." دولت ایک سایہ کا حکم رکھتی ہے.غرباء کو دولت مند اور امراء کو غریب ہوتے وقت کیا دیر لگتی ہے.لیاقت حقیقی ایمان ہے حسن و صحت اگر عورت میں ضروری ہے تو مرد میں بھی ضروری ہے.والا حسین عورت کم رو آدمی کے پاس کیسے با عصمت رہ سکتی ہے؟ آپ بیوی بچوں کو علیحدہ رکھنے کو بہت ناپسند فرماتے تھے.اور اسے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسوہ حسنہ کے خلاف قرار دیتے تھے.ایک روایت ہے کہ آپ جب کشمیر کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو کسی امیر نے آپ کو ایک تھیلی جس میں ہزار روپے تھے.بطور نذرانہ دی جو آپ کی اہلیہ نے ایک ٹرنک میں رکھ دی.بھیرہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تھیلی والا ٹر تک ٹانگہ میں ہی رہ گیا ہے گھر والوں نے طبعا بہت افسوس کا اظہار کیا.مگر

Page 575

ریخ احمدیت.جلد ۳ 546 آپ نے زندگی بھر اس کی طرف اشارہ تک نہیں فرمایا.A-> حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ بچوں کو ہمیشہ نصائح فرماتے اور ان کی تربیت کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے.آپ کا معمول تھا A کہ بچوں کو بعض نصیحت آموز فقرے یاد کرا دیا کرتے تھے کہ ہم یہ کریں گے یہ نہیں کریں گے.مفتی عبدالرؤف صاحب بھیروی اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ناشتہ کے وقت انڈہ میں سے زردی خود کھاتے اور سفیدی مجھے دے دیتے تھے.حضرت مفتی صاحب بچپن میں دوا لینے کے لئے آپ کے مطب میں گئے اور دوا کے لئے بایاں ہاتھ آگے بڑھایا.مگر آپ نے فرمایا.دائیں ہاتھ سے لو.ایک دفعہ آپ کے صاحبزادہ عبدالحی کو کسی چھابڑی والے نے اس کی چند چیزیں خراب کر دینے پر جھڑ کا.حضرت خلیفہ اول نے اسے کئی گنا قیمت ادا فرمائی اور فرمایا کہ بچوں کو جھڑکنا نہیں چاہئے.اس سے ان کے ابھرنے والے جذبات وسب جاتے ہیں.آپ نے ہدایت دے رکھی تھی کہ بچوں کو سکول میں پیٹا نہ جائے.AA ایک دفعہ میاں عبدالحی صاحب مرحوم نے آپ کا موتیوں کا سرمہ کھیلتے ہوئے گرادیا.کسی نے کہا کتنا قیمتی سرمہ تھا.حضور نے فرمایا.” عبد الحی کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے ".حضور کے بعض صاحبزادے درس سے پہلے مسجد میں آجاتے اور جب آپ تشریف لاتے.تو یہ پیچھے سے آکر کندھوں پر چڑھ کر پاؤں طرف آگے لٹکا لیتے.حضور ان کو خوش کرنے کے لئے ہاتھوں کے بل اور زیادہ جھک جاتے.چودھری غلام محمد صاحب بی.اے نے رپورٹ دی کہ عزیز عبدالحی (ان دنوں بورڈنگ میں داخل تھے ) با قاعدہ نمازیں پڑھ رہے ہیں.اس پر آپ نے اپنی جیب سے ان کو ایک روپیہ عطا کر کے فرمایا.کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص خوشخبری دے تو اسے کچھ دینا چاہئے.شیخ عبد الکریم صاحب مغلپورہ کا بیان ہے کہ بٹالہ کے ایک مسلمان نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے دو بچوں کو پادری مرتد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں (مشن والے ان بچوں کا خرچ بھی دے رہے تھے) آپ دعا کریں.کہ یا تو یہ بچے مر جائیں یا اسلام میں رہیں.حضرت خلیفہ اول نے یہ بچے اپنی نگرانی میں لے لئے اور ان بچوں کے اخراجات دیتے رہے ان بچوں میں سے ایک کا نام شیخ عبد الرحیم ہے یہ واقعہ خلافت اوٹی سے پہلے کا ہے.جانوروں سے حسن سلوک کا آپ کو ہمیشہ خیال رہتا تھا.آپ کے سامنے کوئی بھینس لے کر آیا.اس نے گوبر کر دی.لوگوں نے برا مانا اور تھوکنے لگے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ تمہارے پاخانہ A4

Page 576

تاریخ احمد بیت جلد ۳ 547 حضرت خلیفہ المسح الاول" کی سیرت طیبہ سے تو زیادہ بد بودار نہیں.کسی ادنی لغویت کو بھی گوارا نہ کرتے تھے.فروع سے الجھنا آپ لغو سمجھتے تھے اور فضول اور نکمی بحثیں آپ کو سخت نا پسند تھیں.آپ کو بے فائدہ سوالات سے سخت نفرت تھی.کسی نے سوال کیا کہ کوئی خلیفہ ۴۰ سال کی عمر سے کم ہوا ہے.آپ نے فرمایا.میں خلیفوں کا مورخ...نہیں.و من حسن اسلام المرء تر که ما لا یعنیه خاکسار کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ آدم اور داؤد علیہما السلام کی کیا عمر تھی نیز ثم جعلنكم خلف فی الارض میں سب بالغ بلکہ غیر بالغ موجود ہیں ".آپ کو حقہ سے سخت نفرت تھی.ایک شخص حقہ پی کر آپ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو گیا آپ کو متلی ہونے لگی.نماز کے بعد آپ نے اسے فرمایا.کہ مہربانی فرما کر آپ ایسی حالت میں گھر ہی نماز پڑھ لیا کریں.آپ کی پوری زندگی نہایت درجہ مصروفیت اور غیر معمولی محنت میں گزری.کسی نے کہا فرمت ہے.فرمایا ہم تو موت کے ساتھ فرصت چاہتے ہیں.سید امجد علی صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے.کہ ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا.صاحبزادہ عبدالحی صاحب نے بچپن کی سادگی میں مجھ سے پوچھا کہ کیا کرتے ہیں میں نے کہا کوئی کام نہیں.حضرت خلیفہ اول سے انہوں نے ذکر کیا کہ ابا جان وہ کہتے ہیں.کہ میں کوئی کام نہیں کرتا.آپ نے فرمایا.مومن بیکار نہیں رہتا یا نہیں ہوتا) حضرت خلیفہ اول کے وعظ و تلقین کا رنگ نہایت درجہ دلربا.موثر اور دل نشین ہوتا.آپ کا ہمیشہ طریق یہ تھا کہ جس کا قصور ہو تا اسے ہرگز مخاطب نہ فرماتے.آپ کی ہر بات میں ایک درد اور جذب ہو تا تھا.آپ کی مجلس کا رنگ ایسا نرالا تھا کہ انسان کی روح تازہ ہو جاتی اور دنیا سے بے رغبتی کے ساتھ ساتھ سوزد گر از غم اور درد پیدا ہو جاتا.اور کثافتیں دھل جاتی تھیں.آپ کو افسوس تھا کہ واعظ صرف نہانے اور رلانے کا خیال تو سامنے رکھتے ہیں.مگر خشیت اللہ ان کے مد نظر نہیں ہوتی.آپ محض قوت مستحیلہ کو بڑھانے کو بہت خطرناک چیز سمجھتے تھے.آپ کو زبردست قوت قدی حاصل تھی آپ کے وعظ سے کئی لوگوں نے بیعت کی.آپ سلسلہ کے کارکنوں سے توقع رکھتے تھے کہ وہ صرف ڈیوٹی کے اوقات میں ہی کام میں مصروف نہ رہیں.بلکہ کچھ نہ کچھ وقت رضا کارانہ کام بھی ضرور کریں.آپ کے کلام میں ایک جدت ہوتی تھی.ایک جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اول نے ایک نکاح کا ۹۸۰

Page 577

تاریخ احمد بیت - جلد ۲۳ 548 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ اعلان فرمایا.اور فرمایا کہ چھوہارے تقسیم کرنے کے لئے کوئی باہمت نوجوان ہے.اس پر مولوی چراغ الدین صاحب ( مربی سلسلہ احمدیہ پشاور) کے والد معین الدین صاحب آف مردان کھڑے ہوئے.حضور نے دیکھتے ہی فرمایا." ہمت مرداں مدد خدا".آپ ایک مخصوص انداز تحریر کے بانی تھے.تالیف و تصنیف کی زبردست قوت رکھتے تھے.اور آپ نے کئی معرکتہ الاراء کتابیں تالیف کیں.جن میں سے بعض آپ کا عظیم شاہکار ہیں.تحریر میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ ساتھ سادگی اور وقار کا قدرتی رنگ بہت ٹپکتا تھا.آپ نے اسلام کے بدگو دشمنوں کے خلاف بھی قلم اٹھایا ہے.مگر متانت اور سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا.آپ نے مخالف کا نام تک اپنی جوابی تحریروں میں نہیں لیا.اور جب تک بتایا نہ جائے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کتاب کس معاند کے جواب میں لکھی گئی ہے.بہر حال آپ بہت نرم مزاج تھے اور مخالفوں کے خلاف تحریروں میں آپ کبھی سخت کلمہ استعمال نہیں کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول جن دنوں عبد الغفور مرتد کے رسالہ " ترک اسلام کا جواب دے رہے تھے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ اس مرتد نے کتنی مخش کلامی کی ہے مگر آپ نے کوئی سخت لفظ اس کے جواب میں نہیں لکھا.فرمایا.جو شخص دور چلا جائے.اس کو اور زیادہ دور کرنا بہادری نہیں نزدیک لانا بہادری ہے.کبھی مباحثات کی آپ نے خواہش نہیں کی اور نہ کسی مباحثہ کی خود طرح ڈالی ہے بایں ہمہ علم مناظرہ میں آپ ایک خاص طرز کے موجد تھے.اور فریق مخالف کو دو ایک باتوں میں ہی ساکت کر دینے کا خدا نے آپ کو غیر معمولی ملکہ عطا کر رکھا تھا.پردہ پوشی اور اغماض آپ کی خاص عادات میں سے تھے.ایک دفعہ دس اشخاص بیعت کے لئے حاضر ہوئے آپ کو کشف بتایا گیا کہ ان میں سے ایک قتل نفس کے جرم کا ارتکاب کر چکا ہے.اس پر آپ نے بھی سے بیعت تو بہ لی اس طرح سب کی اجتماعی بیعت تو بہ سے اس ایک شخص کی بھی پردہ پوشی ہو گئی.حسن ظنی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.ایک زمیندار نے چند گنے پیش کئے.دوسرے زمیندار نے کہا کہ یہ چوری کے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے ارشاد فرمایا.میں نے چوری کرتے نہیں دیکھا نہ میں اسے چور سمجھتا ہوں.یہ بدظنی ہے اس کی قیمت اگر چاہو تو مجھ سے لے لو.حضرت خلیفہ اول شعار اسلامی کی خود بھی سختی سے پابندی فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے.اسلامی واعطین کے لئے آپ ہمیشہ داڑھی کا پر زور حکم دیتے تھے.قادیان کے (غیر

Page 578

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 549 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیب احمدی ارائیوں کی مسجد کے حجرہ کی فروختگی کا آپ کو علم ہوا.تو آپ نے فرمایا یہ بے حرمتی ہے اگر مقدمہ کرنے کی ضرورت ہو تو مقدمہ کرو.سلسلہ کے نظام کا آپ کو بے حد احترام تھا.زمانہ خلافت سے قبل جبکہ آپ صد را مجمن احمدیہ کے امین تھے.اور خزانہ کی الماری آپ کی اس کو ٹھڑی میں رہتی تھی جو مطب کے ساتھ تھی.الماری سے سو روپیہ کم ہو گیا.انجمن نے فیصلہ کیا.کہ چونکہ انجمن کے فیصلہ کے مطابق روپیہ نکالنے یا رکھنے کے وقت خود نہیں جاتے رہے اس لئے نقصان کے ذمہ دار مولوی صاحب ہیں.چنانچہ آپ نے یہ سو روپیہ ادا فرما دیا.اور حرف شکایت تک زبان پر نہ لائے.بزرگان دین سے آپ کو بے حد الفت تھی.مجد دین اور اولیائے دین کا نام بڑے ادب سے لیتے تھے.خصوصاً حضرت امام ابو حنیفہ - حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے تو آپ کو خاص تعلق تھا.حضرت شاہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں.غفر الله بفضله و منه و کرمه امین فانه كان نعمه لاهل الهند وانا احبه لله و في الله و بالله - آپ ہمیشہ اس خیال سے ذہنی تکلیف محسوس کرتے کہ حسین علیہ السلام کو شہید کرنے والا مشخص عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی کا لڑکا تھا.H زہد و تقویٰ کا یہ حال تھا کہ کوئی فعل کوئی قول کوئی حرکت کوئی سکون ایسا نہ تھا.جو نبی کریم کی سنت مبارکہ کے خلاف ہو.آنحضرت ﷺ کی محبت میں ایسے گداز تھے کہ حد بیان سے باہر ہے.ایک دفعہ فرمایا.” جب میں اپنے نبی پر نازل ہونے والے قرآن مجید میں عطا غیر مجذوز پڑھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اس پیارے نبی کے قدم چوم چوم کے اس کے قربان ہو جاؤں.جس نے میری فطرت کا تقاضا پورا کر دیا.منشی عبد الحق صاحب کا تب (مکرم ابو المنیر مولوی نور الحق صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ کے والد ماجد) نے بتایا کہ میں کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے باہر کتابت کے کام کے سلسلہ میں فیروز پور چلا گیا.اور ایک عیسائی پادری کے اصرار پر اس کی بعض کتابیں بھی لکھیں.میں جب قادیان آیا تو حضرت خلیفتہ المسیح نے دریافت فرمایا کہ کہاں ہوتے ہو ؟ میں نے سب حال عرض کیا.حضرت خلیفہ اول غیرت رسول کے جذبہ سے موجزن ہو کر فرمانے لگے.کہ پھر تو رسول اللہ ﷺ کو خوب گالیاں دیتے ہوں گے.یہ بات سن کر منشی عبد الحق صاحب تڑپ گئے.اور پھر فیروز پور جانے کا نام تک نہ لیا.حدیثوں کا بہت سا حصہ یاد تھا.فرمایا کرتے تھے." میں نے بہت روپیہ محنت وقت خرچ کر کے احادیث کو پڑھا ہے.اور اس قدر پڑھا ہے.کہ اگر بیان کروں تو تم کو حیرت ہو.ابھی میرے

Page 579

تاریخ احمد بیت.جلد ۳ HA 550 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ سامنے کوئی کلمہ حدیث کا ایک قرآن کا اور ایک کسی اور شخص کا پیش کرو.میں بتادوں گا کہ یہ قرآن کا ہے یہ حدیث کا ہے اور یہ کسی معمولی انسان کا درود شریف کا خود بھی بڑی کثرت سے ورد کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت فرماتے.آنحضرت کے لئے آپ کو بے حد غیرت تھی مولوی ریاض احمد بریلوی کے نام ایک خط میں لکھا." حضرت شاہ ولی اللہ مجد دوالا حکیم الامت نے بھی زینب کے قصہ میں لغزش کھائی ہے.اور حجتہ اللہ البالغہ میں ایک لفظ لکھ دیا ہے.جس سے ایک مومن رنج اٹھاتا ہے.ایک شخص نے " قاضی مبارک " پڑھنے کی درخواست کی.فرمایا.پہلے ایک صفحہ مشکوۃ شریف کا پڑھ لیا کرو.مگر وہ آمادہ نہ ہوا.اس لئے آپ نے بھی پڑھانے سے انکار کر دیا.ایک دفعہ آپ نے علی گڑھ کالج کے بعض طلبہ کو ایک خط میں لکھا."کیمرج آکسفورڈ کی ہوا چل رہی ہے.ہم لوگ وادی غیر ذی زرع کی ہوا کے گرویدہ ہیں".m فرماتے تھے.حضرت محمد ا لڑائیوں میں اپنی بیوی عائشہ صدیقہ اور اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی لے جاتے تھے.کسی تاریخ میں نہیں لکھا کہ یہ دونوں پکڑی گئی ہوں.میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی شکست نہیں کھائی میں ایسی کہانیوں کو جھوٹ سمجھتا ہوں کہ نبی کریم نے شکست بھی کھائی".ایک شخص نے آپ سے کہا.کہ تم نبی کریم کی مدح کیوں کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ زمین گول ہے نماز کا وقت زمین پر ہر جگہ ہوتا ہے.ہر وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ نماز میں پڑھتے ہیں پھر ہر نماز میں درود پڑھی جاتی ہے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو تا.تم بتاؤ کوئی رسول بھی ایسا ہے جس کے لئے اس قدر دعائیں مانگی جاتی ہوں اور مانگی گئی ہوں.درود شریف کی تاثیرات و برکات 10 کو آپ بڑے شرح وسط سے بیان فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ فرمایا."خدا تعالٰی نے مجھے رسول اللہ سے ایسی محبت بخشی ہے.کہ میرے کسی گوشہ میں آپ کی تعلیم.آپ کی اولاد.آپ کی آل سے ذرا بغض نہیں رہا.میں نے اتنی تاریخیں پڑھی ہیں.خارجی.شیعہ رافضی کی مگر پھر بھی کسی صحابی سے مجھے رنج نہیں.نہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی سے نہ کسی آل و اولاد سے رنج ہے.اور خدا کا فضل ہے ".خدا تعالی کی توحید اور اس کے لئے غیرت آپ کے دین و عقیدہ کا جزر اعظم تھی.جو آپ کے رگ و ریشہ میں سرائیت کر چکی تھی.آپ کوئی ایسی بات جس سے خدا تعالی کی وحدانیت پر حرف آئے یا اس کی شان کو داغدار کیا جائے.آپ کے لئے نا قابل برداشت ہو جاتی تھی.طالب علمی کے زمانہ میں ایک دفعہ آپ کے ایک استاد کے یہاں پیران پیر کی گیارھویں شریف" کی جلیبیاں آئیں.استاد نے کہا کہ ان کا کھا لینا جائز ہے.مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے کھانے سے صاف انکار کر دیا کہ ما اهل

Page 580

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 551 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ لغیر اللہ کا آپ کو خیال نہیں.فرماتے تھے.ڈاکٹروں اور حکیموں میں یہ مرض ہے کہ کہتے ہیں کہ ہم نے شفاری اور اگر مریض اچھا نہ ہو.تو کہتے ہیں خدا کی مرضی.آپ شانی مطلق صرف خدا کو سمجھتے تھے اور اس حقیقت کی طرف بڑے لطیف رنگ میں آپ دوستوں کو توجہ دلاتے رہتے تھے.شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کا بیان ہے کہ میری بیوی بیمار تھیں.میں نے حضرت خلیفہ اول سے دعا کی درخواست کی.فرمانے لگے.کہ بعض اوقات انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے.وہ چھوٹے حکیم کے پاس جاتا ہے.مگر آرام نہیں آتا.پھر ضلع یا صوبہ کے حکیم کے پاس جاتا ہے.مگر پھر بھی آرام نہیں آتا.بعد ازاں وہ کسی باخد ا کے پاس جاتا ہے مگر اس کی بیماری رفع نہیں ہوتی.پھر وہ آخر خدا کے پاس جاتا ہے.تو آرام آجاتا ہے.ایک دفعہ فرمایا.مرزا صاحب میں ایک محبوبیت تھی اس لئے ہم نے اپنے اپنے وطن چھوڑے لیکن جب وہ فوت ہوئے تو پھر ہمیں اس لا الہ الا اللہ کی طرف متوجہ کیا.اور پھر اپنی محبت کا ایک گر بتایا کہ اگر تم اللہ کو محبوب بنانا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرو.یہ ایک مجرب نسخہ ہے بتلانے والا پہلے اپنے پر آزماتا ہے.اس نے ایک راہ پر قدم مارا اور اللہ کا حبیب بن گیا.پس اسی طرح جو اللہ کو محبوب بناتا ہے وہ اب اس راہ سے آئے.جس راہ سے محمد رسول اللہ آئے.آپ مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ کے مزار مبارک پر دعا کر رہے تھے کہ یکایک خیال آیا کہ اصل چیز تو تو حید ہے اس لئے خانہ کعبہ جا کر دعا کرنی چاہئے.اور اپنی دعاؤں کے لئے آنحضرت کے مزار کو واسطہ نہیں بنانا چاہئے.یہ خیال آنا تھا کہ آپ نے مکہ کی تیاری کرلی.خدا کی طرف منسوب ہونے والے ہر الہامی کلام کی خاص عزت و عظمت آپ کے دل میں تھی.ایک مرتبہ شیخ محمد تیمور صاحب نے الماری پر رکھی ہوئی بائیبل پر کوئی اور کتاب رکھ دی.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ بائیبل ہزار مبدل محرف سہی.پھر بھی یہ خدا کی کتاب ہے.خدا تعالی کے وعدوں پر آپ کو ایک زندہ یقین حاصل تھا.آپ نے ایک شخص کی تعلیم پر جو ہندوؤں سے مسلمان ہوا تھا.ہزاروں روپے خرچ کئے مگر جب وہ پڑھ چکا تو اس نے ایک خط لکھا میں اسلام کو چھوڑتا ہوں.اس پر آپ نے اس خط کے جواب میں ایک آیت لکھ دی.جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک آدمی تمہارے دین سے مرتد ہو جاوے.تو خداوند کریم اپنے کرم سے قوم دیتا ہے.چنانچہ آپ کو خدا نے اپنے فضل سے ایک شخص کے بدلے لاکھوں کی ایک فعال جماعت عطا فرما دی - 122 آپ پر آزمائش اور ابتلاء کے کئی دور آئے.ملازمتیں گئیں.قتل کے منصوبے ہوئے نو بچوں کی

Page 581

تاریخ احمدیت.جلد و 552 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ وفات کے پے در پے صدمے سے کئی بار بیماریوں میں مبتلا ہوئے مگر سخت سے سخت کرب کی حالت میں بھی آپ خدا کی رضا پر راضی رہے.اور دکھ کی المناک گھڑیوں میں بھی زبان سے سبحان اللہ و بحجم و کانی پیارا کلمہ نکلتا رہا.اپنے ایک بچہ کی وفات پر جنازہ پڑھتے وقت الحمد للہ کہنے میں ایک بار کچھ قبض ہوئی.آخر خدا نے سمجھایا.کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو معلوم نہیں کیا کچھ کرتا.اس پر آپ نے بشاشت قلبی سے الحمد للہ کہا.آپ زندگی کے ہر مرحلہ پر دعا کرنا ضروری سمجھتے تھے.اور دعا کی قوت و طاقت کو سب سے بڑی طاقت یقین کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے.انسان کو چاہیئے.کہ دعا کی عادت ڈالے.اس سے کامیابیوں کی تمام راہیں کھل جائیں گی.ہر مرض کی دوا ہر مشکل کی مشکل کشائی دعا ہے.امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں.وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں.میں کبھی کسی مسئلہ اختلاف سے نہیں گھبراتا.کہ میرے پاس دعا کا ہتھیار موجود ہے.یہ دعا کا ہتھیار تمہارے قبضہ میں ہے اس سے مسلح ہو جاؤ.دوسرے سب اس سے محروم ہیں.کسی نے تین سو روپیہ قرض مانگا آپ نے اسے ایک دعا لکھ بھجوائی کہ ہمارے پاس تو یہ دولت ہے.ہے.آپ فرماتے تھے کہ انسان اگر مبرد استقلال سے آستانہ الوہیت پر بیٹھا ر ہے تو جو چاہے لے سکتا [ire] آپ کا مقولہ تھا کہ " خدا سے ڈر اور پھر کر " - 11 ایک گمنام خط حضور کی خدمت میں پہنچا.جس میں آپ کو لکھا تھا کہ فلاں دعا پڑھیں.حضور نے فرمایا کیا حرج ہے یہ قرآن کی دعائیں ہیں.ہم تو پڑھتے ہی رہتے ہیں.اخبار میں چھاپ دیں.ad فرماتے تھے ہمیں دو زبانیں پسند ہیں.ایک اللہ کی.ایک بادشاہ کی.10 بحیثیت طبیب آپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.”مولوی صاحب کا وجود از بس غنیمت ہے.آپ کی تشخیص بہت اعلیٰ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بیمار کے واسطے دعا بھی کرتے ہیں.ایسے طبیب ہر جگہ کہاں مل سکتے ہیں".ایک دفعہ آپ کے پاس دق کا ایک لاعلاج بیمار آیا.فرمایا کل دکھانا.اور رات کو سحری کے وقت نماز تہجد میں مریض کے لئے بہت دعا کی جس پر اس کی صحت کی آپ کو الہاما بشارت ملی.صبح آپ نے یہ خوشخبری سنائی.چنانچہ حضور کے تجویز کردہ نسخہ کے چند روز استعمال کے بعد وہ بالکل تندرست ہو گیا.

Page 582

ت - جلد ۳ 553 حضرت خلیفتہ البیع الاول کی سیرت طیبہ امرت سر کی ایک عورت کو د بیلتہ الرحم سے درد شدید اور پیپ اور خون بہنے کی تکلیف تھی اور باوجود اطباء اور ڈاکٹروں کی کوشش کے اسے چنداں افاقہ نہیں ہوا.آپ حضور کی اجازت سے اس کے اقرباء کے ساتھ تانگہ پر سوار ہو کر قادیان سے امرت سر کی طرف روانہ ہوئے اور تانگہ میں ہی دعا شروع کر دی.کہ اے خدا بڑے بڑے طبیبوں سے یہ شفا نہیں پاسکی تو نور الدین تیرے فضل کے بغیر کیا کر سکتا ہے ؟ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی.اور خدا نے آپ کے نسخہ سے اسے شفایاب کر دیا.فرماتے ہیں کہ کوئی مریض آکے کہتا ہے مجھے دوا سے فائدہ ہے.کوئی کہتا ہے کچھ فائدہ نہیں نہ میں پہلے کی بات پر خوش ہوں نہ دوسرے کے کہنے پر ناراض.اس لئے کہ میرا کام تو صرف نسخہ لکھ دیتا ہنے آگے شفا دینا نہ دینا یہ صرف خدا کا کام ہے.۱۳ صحابی مسیح موعود چوہدری حاکم دین صاحب مرحوم کی بیوی کو پہلے بچہ کی پیدائش کے وقت سخت تکلیف ہوئی.چوہدری صاحب رات کے گیارہ بجے حضرت خلیفہ اول کے گھر گئے چوکیدار نے اطلاع دینے سے انکار کر دیا.مگر حضور نے اندرون خانہ میں آواز سن لی.اور آپ نے ایک کھجور پر کچھ پڑھ کر ان کو دیا کہ بیوی کو کھلا دیں اور بچہ پیدا ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں.تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوئی.مگر انہوں نے دوبارہ جاکر حضور کو جگانا مناسب نہ سمجھا.مگر صبح حاضر ہوئے.تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے.اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کر تا رہا ہوں.آپ کو غلو سے سخت نفرت تھی.ایک دفعہ فرمایا." لا تغلوا فی دینکم میں نے اپنے امام کی قبر کو اس لئے پریشان نہیں بنے دیا.اور وہ تابوت جس میں حضور علیہ السلام کی نعش مبارک تھی.پھینکوا دیا.تاغلو و شرک نہ پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت کی بات ہے کہ آپ کا ایک فوٹو قادیان میں بک رہا تھا کسی شخص نے یہ فوٹو حضور تک بھی پہنچا دیا.فرمایا یہ تو جوانی کے زمانے کا ہے.پھر فرمایا یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے.ایسا نہ ہو کہ ہندوؤں کی طرح اس پر کوئی پھول چڑھانے شروع کر دے.کسی نے آپ کے حرم کے لئے ام المومنین کا لفظ استعمال کیا.جس پر آپ نے سخت کراہت اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا.T - آپ کا مقصود صرف دین تھا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنا تھا اور اس کے لئے آپ محاسبہ نفس بھی کرتے رہتے تھے ایک روز جمعہ کی نماز سے قبل نما رہے تھے.کہ اپنے نفس کا محاسبہ شروع کر دیا.اگر بیوی یاد نہ دلاتی تو شاید وہیں شام ہو جاتی.الده

Page 583

554 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ آپ فرماتے تھے کہ مجھے دیندار اولاد چاہئے.جو دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا.میرے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.اسی طرح ایک دفعہ فرمایا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے کثرت دولت کی دعا نہیں کی.کیونکہ دولت مندی فسق و فجور کا سبب بن جاتی ہے.ایک مرتبہ اپنی سب سے بڑی خواہش یہ ظاہر فرمائی کہ " میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالٰی کی محب ہو.اللہ تعالٰی کے رسول حضرت محمد ﷺ کی متبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو میں اپنے موٹی پر بڑی بڑی امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا کہ تم میں سے اللہ تعالٰی کی محبت کرنے والے محمد رسول اللہ ﷺ کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ تعالٰی کے فرمانبردار اور اس کے خاتم النبین کے بچے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو "

Page 584

تاریخ احمد بیرت - جلد - آٹھواں باب (فصل دوم) 555 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ سیرت کے بعض نمایاں اور ممتاز پہلو حضرت خلیفہ اول کی سیرت طیبہ پر عمومی رنگ میں روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم آپ کی مقدس زندگی کے چار نمایاں اور ممتاز ترین پہلو بیان کرتے ہیں.بے مثال تو کل اور غیبی رزق کی آمد آپ کی زندگی کا سب سے پہلا اور نمایاں پہلو آپ کا بے مثال تو کل تھا.جو آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں پوری شان سے جلوہ گر نظر آتا تھا.ایک دفعہ آپ کی بیماری کے دنوں میں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے عرض کیا.کہ اگر پسند کریں تو حاذق الملک کو دہلی سے بلوایا جائے.فرمایا "خدا پر تو کل کرو.میرا بھروسہ نہ ڈاکٹروں پر ہے نہ حکیموں پر.میں تو اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی پر تم بھروسہ کرد".آپ کا خدا تعالیٰ سے ایسا ذاتی تعلق تھا کہ آپ کی ہر ضرورت کے پورے ہونے کا غیب سے سامان ہو جاتا تھا.اور اس بارے میں آپ کی زندگی میں اتنے واقعات پیش آئے جن کا شمار ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.آپ فرمایا کرتے تھے.کہ میری آمدنی کا راز خدا نے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی.۱۳۹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:." حضرت خلیفتہ المسیح (اول) کو دیکھ لو انہیں جو ضرورت ہو اس وقت پوری ہو جاتی ہے اور کوئی روک یاد یہ نہیں ہوتی.ان سے اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ جب تمہیں ضرورت ہو ہم دیں گے.ایک دفعہ کا ذکر ہے میرے سامنے ایک آدمی آیا اس نے دو سو روپیہ بطور امانت دو سال کے لئے دیا.اور کہا کہ میں دو سال کے بعد آکر آپ سے لے لوں گا ایک شخص جس نے جناب سے ایک سو روپیہ قرض مانگا ہوا تھا.وہ بھی پاس ہی بیٹھا ہوا تھا.آپ نے ایک سو اسے دے دیا.اور رسید لے کر اس تھیلی میں رکھ لی اور تھیلی روپوں کی گھر بھجوا دی.تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھوانے والا پھر آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے وہ روپے آپ مجھے

Page 585

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۱۵۰ 556 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ دے دیں.آپ نے فرمایا کب جاؤ گے اس نے کہا ایک گھنٹے کو.آپ نے فرمایا اچھا تم یکہ وغیرہ کرو اور ایک گھنٹہ کو آکر مجھ سے روپیہ لے لینا.میں اس وقت آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا.دیکھو انسان پر بھروسہ کرنا کیسی غلطی ہے.میں نے غلطی کی.خدا نے بتلا دیا کہ دیکھو تم نے غلطی کی.اب دیکھو میرا موٹی میری کیسے مدد کرتا ہے.وہ ایک سو روپیہ ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو مل گیا.اور آپ نے اسے دے دیا ".کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت نانا جان دور الضعفاء یا نور ہسپتال کے چندے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا.میرے پاس اس وقت کچھ نہیں مگر حضرت نانا جان نے کئی بار اصرار کیا.اس پر حضرت خلیفہ اول نے کپڑا اٹھایا اور وہاں سے ایک پونڈ اٹھا کر دے دیا اور فرمایا اس پر صرف نور الدین نے ہاتھ لگایا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئی تو آپ نے دعا مانگی.مصلی اٹھایا تو ایک پونڈ پڑا ہوا تھا.قریشی امیر احمد صاحب بھیروی کی شہادت ہے کہ ہمارے سامنے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں شیخ محمد چٹھی رسان کتابوں کا ایک دی.پی لایا جو سولہ روپے کا تھا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ یہ کتابیں مجھے بہت پیاری ہیں اور میں نے بڑے شوق سے منگوائی ہیں.لیکن اب ان کی قیمت میرے پاس نہیں ہے لیکن میرے مولیٰ کا میرے ساتھ ایسا معاملہ ہے کہ سولہ روپے آئیں گے اور ابھی آئیں گے.چنانچہ ہم بیٹھے ہی تھے کہ ایک ہندو اپنا ایک بیمار لڑکا لے کر آیا.حضرت نے نسخہ لکھ دیا.ہندو ایک اشرفی اور ایک روپیہ رکھ کر چل دیا.آپ نے اسی وقت سجدہ شکر کیا اور فرمایا کہ میں اپنے موٹی پر قربان جاؤں کہ اس نے تمہارے سامنے مجھے شرمندہ نہیں کیا.اگر یہ شخص مجھے کچھ بھی نہ دیتا تو میری عادت ہی مانگنے کی نہیں.پھر ہو سکتا تھا کہ وہ صرف ایک روپیہ دیتا یا اشرفی ہی دیتا.مگر میرے موٹی نے اسے مجبور کیا کہ میرے نور الدین کو سولہ روپے کی ضرورت ہے اس لئے اشرفی کے ساتھ روپیہ بھی ضرور رکھو.ایک کشمیری دوست نے آپ کو چار سو روپیہ بطور امانت دیا.چند دن بعد اس کا تار آگیا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اول اس وقت مطب میں بیٹھے تھے کہ کچھ وقت کے بعد شاہ پور کے دو ہندور میں حاضر ہوئے.ایک تھالی میں پھل اور چار سو روپیہ پیش کر دیا.ایک دن عبد الحی عرب نے کہا.میں نے چالیس روپے قرض دینے ہیں.آپ نے فرمایا آج سے پندرھویں دن لے لیں.جب وقت آیا اتوار کا دن تھا کوئی منی آرڈر نہ پہنچا نہ کہیں سے روپیہ آیا.

Page 586

تاریخ احمدیت جلد ۳ 557 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ شام کے قریب حضرت خلیفہ اول اپنے کوٹ اور واسکٹ لٹکا کر وضو کے لئے گئے.عبدالحی صاحب نے آپ کا کوٹ اور واسکٹ کی جیبیں دیکھیں.اور خالی پائیں مگر جب وضو کر کے واپس آئے تو کوٹ واسکٹ پہنا اور چالیس روپے عبدالحی کو نکال کر دئے.عبدالحی نے ہنسنا شروع کیا.مولوی محمد جی صاحب نے بتایا کہ عبدالحی صاحب نے کہا تھا کہ یونسی کہا کرتے ہیں کہ ہماری ضرورت پوری ہو جایا کرتی ہے.آج تو خالی ہی رہے.حضرت خلیفہ اول بھی مسکرائے اور فرمایا کہ مجھ سے اللہ تعالی کا خاص معاملہ ہے.جس سے کوئی واقف نہیں.آپ اپنے خدام کو بھی توجہ دلاتے تھے کہ وہ اپنی ضرورت کے وقت خدا ہی کے آستانہ کی طرف جھکیں اور اسی پر بھروسہ کریں.جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے اپنے آخری ایام مرض میں میاں عبدالحی صاحب مرحوم کو درس دیتے ہوئے فرمایا کہ اب ہم جا رہے ہیں جب کبھی مشکل پیش آئے خدا سے دعا کرنا کہ اے نور الدین کے خدا جس طرح تو نے نور الدین کی حاجت روائی کی ہے میری بھی مشکل دور کر.میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری ضرورت بھی پوری کر دے گا یہ فرماتے ہوئے آپ کی آواز نمایاں طور پر بھر گئی.عشق قرآں دو سرا نمایاں پہلو آپ کی سیرت کا عشق قرآں تھا.آپ کے جذبہ عشق قرآن کا تصور دلانا کسی انسانی قلم کی طاقت میں نہیں.فرمایا کرتے تھے..مجھے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا ہی کی کتاب پسند آئی " - 10 ۱۵۵ میں نے دوسری کتابیں پڑھی ہیں اور بہت پڑھی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ مجھے پیاری ہیں.بلکہ محض اس نیت اور غرض سے کہ قرآن کریم کے نسم میں معاون ہوں ".۱۵۶ قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے انف محبوب نظر آتے ہیں.اور میرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتا ہے اور میرے سینہ میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے.بعض وقت تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں " - 1 قرآن میری غذا میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.بچپن سے میری طبیعت خدا نے قرآن

Page 587

ریت - جلد ۳ 558 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ شریف پر تقریر کرنے والی بنائی ہے.اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں".۱۵۸ " مجھے قرآن مجید سے محبت ہے اور بہت محبت ہے قرآن مجید میری غذا ہے.میں سخت کمزور ہو تا ہوں قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مجھ میں طاقت آجاتی ہے " ”میں نے قرآن کریم بہت پڑھا ہے اور اب تو میری غذا ہے اگر آٹھ پر میں خود نہ پڑھوں اور نہ پڑھاؤں اور میرا بیٹا میرے سامنے آکر نہ پڑھے تو میں اس کا وجود بھی نہیں سمجھتا.سونے سے پہلے وہ آدھ پارہ مجھے سنا دیتا ہے.غرض میں قرآن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.وہ میری غذا ہے"."میرا تو اعتقاد ہے.کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے.جس باغ میں میں رہتا ہوں.اگر لوگوں کو خبر ہو جاوے تو مجھے بعض دفعہ خیال گزرتا ہے.کہ میرے گھر سے قرآن نکال کر لے جاویں".ایک دفعہ فرمایا کہ ” خدا تعالی مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں پڑھاؤں اور ناؤں".بعض وقت میں نے قرآن کے تین تین لفظوں کو علیحدہ چھانٹ کر دیکھا ہے کہ انہیں تین الفاظ سے میں دنیا کے تمام مذاہب کا مقابلہ کر سکتا ہوں".آپ کے ان اقوال کی عملی تصدیق کے لئے سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات پیش کئے جاسکتے ہیں کہ آپ کس درجہ عاشق قرآن تھے مثلاً آپ ایک دفعہ درس قرآن کے لئے مسجد اقصیٰ کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ آپ کو غلام رسول صاحب پٹھان کی دکان پر پہنچ کر اطلاع ملی کہ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے قرآن مجید حفظ کر لیا ہے.آپ وہیں دکان کی چٹائی پر سجدہ شکر میں گر گئے.خان ارجمند خان صاحب (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ) کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ غالبا مد رسہ احمدیہ کے صحن میں درس دے رہے تھے کہ آپ کے کسی بچہ نے قرآن شریف صف پر رکھ دیا آپ نے فورا اٹھا لیا.اور بہت خفگی کا اظہار فرمایا کہ قرآن مجید کی بے ادبی ہوئی ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ المسیح نے بارہ دوستوں کو ہدایت کی کہ اڑھائی اڑھائی پارے وہ یاد کر لیں.ایک دفعہ فرمایا.قرآن کریم کیسی کتاب ہے ایک دفعہ میرا جی چاہا کہ حاشیہ پر اس کی منتخب

Page 588

تاریخ احمدیت جلد ۳ 559 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ یادداشتیں لکھوں میرے دماغ کو شعر سے تو کچھ نسبت نہیں.ایک روز جمعہ کے دن بڑے زور مار مار کر تین شعر لکھے تھے حالانکہ اس وقت میرے اندر ایک کیفیت بھی موجود تھی.مگر جب قرآن کریم کے انتخاب کے لئے قلم اٹھایا تو مجھ کو یہ شعر یاد آگیا..ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ ہے مگرم کرشمہ دامن دل میکشد که جا اینجا است میں نے قلم کو توڑ دیا.سیاہی کو الٹ دیا.اور کہا کہ اے قلم کہ تو بھی جھوٹا ہے اور اے دوات اتو INA بھی جھوٹی ہے کیا قرآن کریم کا انتخاب لکھنا چاہتے ہو.یہ خود سارے کا سارا انتخاب ہے.ایک بار ختم قرآن کے موقعہ پر آپ درس دینے کے لئے مسجد میں کھڑے ہوئے سامنے ایک بڑی چادر میں بتاشے رکھ دئے گئے.حضور نے درس دیتے ہوئے فرمایا.ان کو اٹھالو.تمہیں ختم قرآن کی خوشی ہے.اور نور الدین کو غم ہے کہ پھر زندگی میں قرآن مجید ختم کرنا نصیب ہو گا یا نہیں.آپ تیز بخار میں بھی درس کا ناغہ نہ ہونے دیتے.ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں درس دیتے ہوئے اچانک آپ کو شدید ضعف ہو گیا بیٹھ گئے ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے.چلنے کی قوت نہ رہی چارپائی پر اٹھا کر لائے.مگر راستہ میں جب مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ مجھے گھر نہ لے جاؤ مسجد میں لے جاؤ.بمشکل تمام مسجد کی چھت پر پہنچ کر نماز پڑھی اور باوجود تکلیف کے نماز مغرب کے بعد ایک رکوع کا درس دیا.پھر چار پائی اٹھا کر گھر تک لائے.اللہ تعالیٰ نے آپ پر حضرت مسیح موعود کی قوت قدمی سے قرآن مجید کے علوم اور حقائق و معارف کے دروازے اس کثرت سے کھول دئے تھے کہ اس زمانہ میں دنیائے اسلام میں درس قرآن کا آپ سے بڑا ماہر خطہ زمین پر دیکھنے میں نہیں آتا.قمر الا نبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت خلیفہ اول کے درس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:.یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اور اوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے حضرت خلیفہ اول کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تغییر کے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہو تا تھا.کیونکہ آپ کا قاعدہ تھا کہ رحمت والے واقعات کی تشریح کر کے نیکی اور انابت الی اللہ کی رغبت دلاتے اور عذاب والے واقعات کے تعلق میں دلوں میں خشیت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.اور آپ کا درس بے حد دلچسپ اور ہر طبقہ کے لئے موجب جذب و کشش ہوا کرتا تھا.یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے علم التفسیر کا ایک کثیر حصہ بلا واسطه یا بالواسطہ آپ ہی کی تشریحات اور انکشافات پر مبنی ہے.اور آپ کے درس میں یوں معلوم ہو تا تھا.کہ جیسے ایک وسیع سمند ر ہے.جس کا ایک حصہ موجزن ہے.اور دوسرا ساکن اور

Page 589

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 560 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ عمیق اور اس میں سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق پانی لے رہا ہے.درس کے دوران میں بعض دفعہ سوال بھی کیا کرتے تھے اور حضرت خلیفہ اول ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتے تھے اور مخاطب کے مذاق اور حالات کے پیش نظر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی لطیفہ بھی بیان کر جاتے تھے.مگر بعض اوقات جب آپ کو سوال کرنے میں بلا وجہ سوال پوچھنے کا میلان محسوس ہو تا تھا یا آپ خیال کرتے تھے سوال ایسا ہے کہ وہ خود توجہ دے کر اس کا جواب سوچ سکتا ہے تو ایسے موقعہ پر یا تو خاموشی کے ساتھ گزر جاتے تھے اور یا کہہ دیتے تھے کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے خود سوچو افسوس ہے کہ اس وقت کے نوٹ لینے والوں نے آپ کے اس درس کے نوٹ قلمبند نہیں کئے اور آپ کی تفسیر کا معتد بہ حصہ ضبط تحریر میں نہیں آسکا.ہاں سننے والوں کے سینے اب تک اس بیش بہا خزانہ کے امین ہیں اور ہر احمدی تفسیر میں حضرت خلیفہ اول اے کے علم کی روشنی نظر آتی ہے.خاکسار راقم الحروف (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب - ناقل) نے بھی جب کہ میں بی.اے میں پڑھتا تھا.تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر حضرت خلیفہ اول سے قرآن شریف پڑھا.اور پورا قرآن شریف ختم کر کے پھر اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آیا یہ بھی ایک پلک درس تھا جس میں بہت سے دوسرے دوست بھی شریک ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اول ان کے قرآن کے درس کا نمایان رنگ یہ ہوتا تھا کہ گویا ایک عاشق صادق اپنے دلبرد معشوق کو سامنے رکھ کر اس کے دلر با حسن و جمال اور دلکش خد و خال کا نقشہ پیش کر رہا ہے اللہ اللہ کیا مجلس تھی اور اس مجلس کا کیا رنگ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت خلیفہ اول کی سیرت کا تیسرا خاص اور امتیازی پہلو یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود بے نظیر اطاعت اور فدائیت کی محبت و فدائیت اور اطاعت میں فنائیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آنحضرت ا کا عشق اور آپ پر مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور اطاعت ختم ہے.اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے صرف چند مثالیں کافی ہوں گی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا چشم دید واقعہ ہے کہ :.ایک دفعہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا.اور اس کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ ہی حضرت خلیفہ اول ان کو بلا بھیجا اس وقت مبارک احمد کی چار پائی دار المسیح کے صحن میں بچھی ہوئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس چارپائی پر تشریف رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اول تشریف لائے.مبارک احمد کو دیکھا اور پھر حضرت

Page 590

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 561 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بات کرنے کے لئے ایک سیکنڈ کی جھجک اور تامل کے بغیر چار پائی کے ساتھ صحن میں ہی سنگی زمین یعنی فرش خاک پر بیٹھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفقت سے فرمایا.مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں.اس وقت بس یہی ایک چارپائی تھی جس پر مبارک مرحوم لیٹا ہو ا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے.حضرت خلیفہ اول سرک کر چارپائی کے قریب ہو گئے.اور ایک ہاتھ چارپائی کے ایک کنارے پر رکھ کر بدستور فرش پر بیٹھے بیٹھے عرض کیا.حضرت میں ٹھیک بیٹھا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر محبت کے ساتھ فرمایا اور اس دفعہ غالبا حضرت خلیفہ اول کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا.مولوی صاحب یہاں میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھیں.حضرت خلیفہ اول ناچار اٹھے اور چارپائی کے ایک کنارے پر اس طرح جھک کر بیٹھ گئے کہ بس شاید چارپائی کے ساتھ آپ کا جسم چھوتا ہی ہو گا.حکیم محمد صدیق صاحب آف گھو گھیاٹ کا بیان ہے کہ آپ اپنی بیٹھک میں تشریف فرما تھے کہ کسی نے پیغام دیا کہ حضور یاد فرماتے ہیں.یہ سنتے ہی فور اٹھ کر چل دئے پگڑی گھٹتی جاتی تھی اور آپ اسے لیٹے جاتے تھے.قادیان سے ایک منٹ باہر جانا آپ موت سمجھتے تھے.Dad آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص ہزار روپیہ روزانہ بھی مجھے دے تو میں حضرت صاحب کی صحبت چھوڑ کر قادیان سے باہر جانے کے لئے تیار نہیں.آپ احمدیوں کو بار بار مرکز میں آنے اور فیض اٹھانے کی تاکید کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں حضور کی صحبت اور قرب میں رہنے کو اس قدر عزیز سمجھتا ہوں کہ حضور کے حکم کے بغیر ایک منٹ بھی آپ سے علیحدگی گوارا نہیں.اور اگر کوئی شخص ایک لاکھ روپیہ بھی ایک دن کی اجرت دے اور حضرت صاحب کی اجازت اور حکم کے بغیر مجھے حضور سے جدا کرنا چاہے تو میں اس لاکھ روپیہ پر ہزار درجہ حضرت کے حضور ایک منٹ کی صحبت و قرب کو ترجیح دوں گا.ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے آپ کو اپنی بیمار بیوی کو دکھانے کے لئے بٹالہ لائے.حضور نے آپ کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے.یکہ پر قادیان سے شام تک بٹالہ پہنچے اور مریضہ کے لئے غذا اور دوا تجویز کر کے واپسی کے لئے بہت زور دے کریکہ کا انتظام کرایا.کچھ راستہ آپ نے یکہ پر طے کیا مگر ان دنوں رستہ میں ہر طرف پانی اور کیچڑ تھا.گھوڑا رک رک جاتا آخر آپ پیدل ننگے پاؤں چل دئے.رستہ میں آپ کے پاؤں کانٹوں سے زخمی ہو گئے مگر آپ اسی عالم میں برابر چلتے رہے اور آدھی رات کے قریب

Page 591

تاریخ احمد بہت.جلد ۳ 562 حضرت خلیفتہ المسیح الاول" کی سیرت طیبہ قادیان پہنچ گئے.صبح کی نماز آپ ہی نے کرائی.حضرت مسیح موعود نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی.آپ نے عرض کیا کہ میں رات کو بغیرت واپس پہنچ گیا.لیکن کسی قسم کی تکلیف کی طرف مطلق اشارہ SAY- A IAL نہ فرمایا.حضرت خلیفہ اول کے بھتیجے مولوی دوست محمد صاحب بیمار تھے.حضرت خلیفہ اول ایک دن کے لئے حضور کی اجازت لے کر میانی تشریف لے گئے اور صرف ایک دن رہ کر واپس قادیان چلے آئے.بعض لوگوں نے عرض بھی کیا کہ حضور ایک رات تو قیام فرما ئیں.آپ نے فرمایا.ہمیں اپنے مرشد کی طرف سے رات رہنے کی اجازت نہیں.حضرت خلیفہ اول کو اسہال کا عارضہ تھا.حضرت کی طرف سے تقریر کا حکم ملا.چنانچہ اسی وقت باہر چلے آئے اور قریبا تین گھنٹہ تک تقریر کی.ایک دفعہ خطبہ کے دوران میں آپ کو حضرت مسیح موعود کا پیغام ملا.آپ نے خطبہ بند کر دیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد واپس آئے اور بقیہ خطبہ مکمل کیا.اسی طرح ایک دفعہ آپ نماز توڑ کر حضور کی خدمت میں پہنچے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فصل الخطاب " اور " تصدیق براہین احمدیہ " کے مجاہدہ کے علاوہ ایک کوڑھی کے علاج کا بھی مجاہدہ بتایا.چنانچہ آپ نے اس کی پوری پوری تعمیل کی.کوڑھی نے کچھ لیت ولعل کی.مگر آپ نے فرمایا.میں مجبور ہوں کیونکہ امام کا حکم ہے.شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی سے حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ فرمایا.کہ آپ جب حضرت اقدس کی مجلس میں بیٹھا کریں تو کثرت سے درود پڑھتے رہا کریں.اس سے بہت بڑا رو حانی فائدہ ہو گا.پھر فرمایا.میں نے آج کی مجلس میں قریبا پانچ سو بار درود شریف پڑھا ہے.ایک دفعہ حضرت ام المومنین نے حضرت کو کہلا بھیجا کہ فورا آکر میری فصد کر دیں.آپ نے جواب دیا.کہ اس موسم اور اس مرض میں اطباء فصد منع کرتے ہیں.اس کے بعد خادمہ دوبارہ آئی اور پیغام دیا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ آپ فصد کر دیں.اس پر حضرت خلیفتہ المسیح اول نے فی الفور اپنا نشتر اور سامان سنبھالا اور جا کر فصد کردی.حضرت مسیح موعود نے اپنے خادم میاں جان محمد صاحب مرحوم کا جنازہ بہت دیر تک پڑھایا حضرت IAM خلیفہ اول نے کہا کہ میرے دل میں حسرت ہے کہ اے کاش! میرا جنازہ ہو تا.آپ ادب کے خیال سے حضرت صاحب کی مجلس میں پیچھے ہٹ کر بیٹھتے تھے.حالانکہ دوسرے لوگ شوق صحبت میں آگے بڑھ بڑھ کر اور حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھتے تھے.ولكل وجهة

Page 592

تاریخ احمدیت.جلد ۳ هو موليها - ha 563 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت ایک دفعہ فرمایا.عظیم الشان صحابہ میں میں دیکھتا ہوں کہ کسی نے آنحضرت ﷺ سے دنیا کی کسی چیز کے لئے دعا کی درخواست نہیں کی.خدا کا احسان ہے.کہ میں نے بھی حضرت صاحب سے کبھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی.ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کو آپ نے ان کے خط کے جواب میں لکھا کہ اگر شوخی سے قبل حضرت IAS 14+ — امام کی خدمت میں خط لکھتے تو میں محبت بھرے الفاظ میں جواب دیتا.مگر اب ایسا نہیں ہو سکتا.نیز آپ نے عبدالحکیم صاحب کی تفسیر القرآن اور دوسری کتابیں انہیں واپس کر دیں.حالانکہ اس تفسیر میں انہوں نے بہت کچھ آپ سے استفادہ بھی کیا تھا.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخالفت کے باوجود آپ کی بزرگی تقدس اور خداتری کے قائل تھے.ایک پٹھان نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا.کہ متواتر چھ ماہ میں نے آپ سے نقرس کا علاج کروایا ہے.مگر کچھ بھی آرام نہیں آیا.مگر آج یہ واقعہ ہوا کہ جب حضرت مسیح موعود کھڑکی سے باہر نکلے.تو سب لوگ استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے.مگر میں کچھ دیر سے اٹھا.تو اتفاقاً حضور کا پاؤں میرے پاؤں پر پڑ گیا.اس وقت میں نے محسوس کیا.کہ میری نقرس کی بیماری جاتی رہی ہے.جب نماز کے بعد حضور اندر تشریف لے جانے لگے تو میں نے عرض کیا.کہ حضور ہے تو بے ادبی کی بات.مگر آپ میرے پاؤں پر پاؤں رکھ کر چلے جائیں.حضور نے میری درخواست پر ایسا کر دیا.اور اب مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل صحت ہے.اس پر مولوی نور الدین صاحب نے جواب میں فرمایا.کہ بھائی میں تو معمولی حکیم ہی ہوں.لیکن وہ تو خدا کے رسول ہیں.ان کے ساتھ میں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں؟ ڈاکٹر ظفر حسن صاحب مرحوم نے ایک دفعہ مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی.اے مرحوم (ناظر امور عامہ قادیان) کو بتایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں ایک دفعہ بعض مخالفین نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب اسلام کی ترقی اور تبلیغی وسعت کے متعلق دعاوی تو بہت بلند بانگ کرتے ہیں لیکن آپ نے چند مسلمان اکٹھا کر کے اپنی جماعت کی شیرازہ بندی کر لی ہے.اگر غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کا کام کرتے تو آپ کی سچائی کے متعلق غور کیا جا سکتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین ان کو ارشاد فرمایا.کہ ایک فہرست ان غیر مسلموں کی بھی تیار کی جائے.جو ہمارے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں چنانچہ حسب ارشاد حضرت مولانانور الدین صاحب نے ایک فہرست

Page 593

تاریخ احمدیت جلد ۳ 564 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ تیار کی.اور سر فہرست اپنا نام درج فرمایا...بعض احباب نے عرض کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو نو مسلموں کی فہرست تیار کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.اور آپ نے سر فہرست اپنا نام درج کر دیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے بڑے جوش سے فرمایا کہ مجھے حقیقی اور اصل اسلام کا شرف تو حضرت اقدس علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوا ہے.اس لئے میں نے اپنا نام بھی اسی فہرست میں درج کر دیا ہے.ایک دفعہ فرمایا.”اگر میری لڑکی ہو اور مرزا صاحب اس کو سو برس کے بڑھنے سے بیاہنا چاہیں تو ہرگز عذر نہ ہو".or 19 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب الله کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری ایام میں ہمیشہ امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اول ہمیشہ مصلے پر آپ والی جگہ چھوڑ کر بائیں جانب کھڑے ہوا کرتے تھے اور کبھی ایک دفعہ بھی آپ مصلے کے وسط میں یا دائیں جانب کھڑے نہیں ہوئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا بھی یہی طریق رہا ہے اور ایسا غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کے خیال سے کیا جا تا تھا.سیمی غلام نبی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے.مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوؤں کے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.کہ یہ جگہ اگر مسجد میں شامل ہو جائے.تو مسجد فراخ ہو جاوے.حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لئے.سو اب اگر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے.ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا.کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہو کر رہیں گی.کیونکہ حضور بن بلائے بولتے نہ تھے.- ایک دفعہ کسی شخص نے مطالبہ کیا کہ آپ مرزا صاحب کی صداقت پر حلف اٹھا ئیں.آپ نے بلا تامل تحریر لکھ دی اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسولہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کر کے یہ چند حروف لکھتا ہوں.کہ میرزا غلام احمد پسر مرزا غلام مرتضی ساکن قادیان ضلع گورداسپور اپنے دعوئی مسیح و مهدی و مجددیت میں میرے نزدیک سچا تھا اس کے دعاوی کی تکذیب میں کوئی آیت قرآنیہ اور کوئی صحیح حدیث کسی کتاب میں میں نہیں دیکھی.نور الدین - ۲۱/ اپریل ۱۹۱۰ء ".آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں کوئی کتاب تصنیف نہیں کی اور اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کی اشاعت پر اثر پڑے.142

Page 594

در بیت - جلد ۳ 565 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ ایک دفعہ میں نے کالج کے زمانہ میں عینک لگائی.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.میاں تم نے عینک کیوں لگاتی ہے ؟ جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے برق طفلی بشیر.اس کے بعد آپ نے کوئی سرمہ وغیرہ دیا جس سے مجھے آرام آگیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ حضرت خلیفہ اول انگلش ویر ہاؤس کی بنیاد کے لئے تشریف لے گئے.آپ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کی نچلی منزل پر بیٹھے ہوئے تھے.که مولوی ظفر علی خان صاحب آف زمیندار ملنے کے لئے آئے.مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ان کی آمد کی اطلاع دی.فرمایا.”ہمارے آقا کو تو برا کہتا ہے".ایک دفعہ نواب خاں صاحب مرحوم تحصیلدار نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا " مجھے بہت فوائد حاصل ہوئے ہیں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پہلے مجھے آنحضرت ﷺ کی زیارت خواب میں ہوتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے ".فرمایا میں نے |149| 14A- آپ کی صحبت میں یہ فائدہ اٹھایا.کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑ گئی....یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا.ایک دفعہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ سنا ہے کہ آپ کو کیمیا گری آتی ہے.فرمایا ہاں آتی ہے.رض کیا.کہ ہم غریب ہیں اور مقروض رہتے ہیں ہمیں بھی بتا ئیں.چنانچہ حضور نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”لوگ اکسیر اور سنگ پارس تلاش کرتے پھرتے تھے.میرے لئے تو حضرت مرزا صاحب پارس تھے.میں نے ان کو چھوا تو بادشاہ بن گیا".آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے قرآن مجید کے لئے لاکھوں روپے کی کتابیں خریدیں.مکہ مدینہ میں بھی کئی برس اسی ذوق سے رہا کہ یہ معلوم کروں کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی.مگر قرآن تو میں نے مرزا ہی سے سیکھا اور مرزا کالفظ کہکر آپ بہت خوش ہوتے تھے.مولوی فضل الدین صاحب وکیل کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں منکرین خلافت کے اخراج کا سوال آیا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کہ میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد حضرت مسیح موعود مجھے یہ فرما ئیں کہ تم جماعت کے دو ٹکڑے کر کے آگئے ہو؟ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ سے جس درجہ محبت و شفقت فرماتے تھے وہ بھی ایک مثالی چیز تھی.حضرت سید محمد اسحق صاحب نے ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کو بتایا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی بربان الدین صاحب کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی

Page 595

تاریخ احمد میمت - جلد ۳ 566 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ سخت بیمار ہو گئے.دوسرے ڈاکٹروں کے علاوہ حضور خود ان کا علاج فرماتے تھے.ایک دفعہ حضرت اقدس دار الذکر میں تشریف لے گئے باری کھولی اور دو تین پوٹلیاں لے آئے اور دالان میں جہاں بیت الدعا ہے بیٹھ گئے.حضرت اماں جان بھی بیٹھ گئیں اور کہا اللہ رحم کرے.پہلے بڑے بڑے عالم فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب پر رحم فرمائے.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا." یہ شخص ہزار عبد الکریم کے برابر ہے ".حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے گھر میں حضرت خلیفہ اول کا ذکر ہوا.تو آپ دیر تک آپ کا نام لیتے ہوئے الحمد للہ کہتے ہوئے فرماتے رہے کہ مولوی صاحب بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں.- ایک دفعہ جبکہ آپ الدار" میں مقیم تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں شام کو آپ کی دعوت تھی.نماز مغرب کے بعد اپنے کمرہ میں ہی کھانے کی انتظار میں بیٹھے رہے مگر کھانانہ آیا آخر نماز عشاء پڑھی اور پھر انتظار کرنے لگے.حضرت اماں جی نے عرض کیا کہ اب وقت نہیں رہا.گھر سے ہی کھانا کھالیں.فرمایا کہ خدا کے مسیح نے خود شام کا کھانا بھیجوانے کا ارشاد فرمایا ہے میں ساری رات کھانا نہیں کھاؤں گا.ضرور حضور سے کھانا آئے گا.اسی اثناء میں باہر سے دستک ہوئی.پوچھا آواز آئی غلام احمد.آپ پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا.جلدی اٹھے دروازہ کھولا.دیکھا کہ حضور خود کھانا لئے کھڑے ہیں.فرمایا.مولوی صاحب ناراض نہ ہوں.دیر بہت ہو گئی.خادم بھی چلے گئے.خود مجھے بھی یاد نہیں رہا.میں خود لے آیا ہوں.20 ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں حضرت اقدس کے گھر میں مستورات کے درمیان اس امر پر گفتگو ہو رہی تھی.کہ حضور کو اپنے مریدوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ حضرت ام المومنین نے فرمایا.کہ میرے خیال میں تو حضرت صاحب کو سب سے پیارے مولوی نور الدین ہیں.اور اس کا امتحان بھی تم سب عورتوں کو ابھی کرائے دیتی ہوں.چنانچہ یہ کہکر آپ حضرت اقدس کے کمرہ میں تشریف لے گئیں.اور حضور کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں.کہ آپ کے جو سب سے پیارے مرید ہیں وہ اتنا فقرہ کہکر حضرت ام المومنین چپ ہو گئیں.اس پر حضرت اقدس نے گھبرا کر پوچھا مولوی نور الدین صاحب کو کیا ہوا.جلدی بتاؤ.اس پر حضرت ام المومنین نے مسکراتے ہوئے فرمایا.مولوی نور الدین صاحب اچھی طرح ہیں.میں تو آپ کے منہ سے یہ بات کہلوانا چاہتی تھی کہ آپ کے سب سے پیارے مرید کون سے ہیں.حافظ محمد ابراہیم صاحب کا بیان ہے ایک دفعہ ایک رئیس نے جو غالبا راولپنڈی کے ضلع کا تھا.

Page 596

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 567 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ حضرت مولوی صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت طلب کی.کہ وہ میرے علاج کے لئے ساتھ چلیں اور یہ بھی عرض کی کہ میں سورو پیہ یومیہ کے حساب سے انہیں فیس دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنا تو فرمایا.اگر میں نور الدین کو حکم دوں کہ تو پانی میں چلا جاتو وہ جانے کے لئے تیار ہے.اگر میں اس کو کہوں کہ آگ میں داخل ہو جاتو وہ میرے حکم سے آگ میں بھی جانے کو تیار ہے.وہ کسی طرح بھی میرے حکم سے انکار نہیں کر سکتا.مگر اس کو اپنے سے علیحدہ کرنا نہیں چاہتا.پیر سراج الحق صاحب نے ایک مرتبہ آپ کو حضرت مسیح موعود کی شکل مبارک میں دیکھا.حضرت مسیح موعود نے خواب کی تعبیر میں فرمایا.کہ مولوی صاحب واقعی عقیدت وارادت میں یکتا ہیں.اور ہم میں فنا ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ فوت ہوئے اور سید النبین و امام المعصومین ﷺ کی قبر کے ساتھ دفن کئے گئے.آپ نے خدا کے حبیب د رسول کو نہ زندگی میں چھوڑا نہ ممات میں اسی طرح حضرت خلیفہ اول کو یہ سعادت نصیب ہوئی.کہ آپ نے زندگی اور موت دونوں میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے پہلو میں جگہ پائی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ آپ کی نسبت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو لکھا.مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کو پڑھ کر رونا آتا تھا.ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہان میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہان میں بھی میرے ساتھ ہوں گے".m |T-A خاندان حضرت مسیح موعود کا حضرت خلیفہ اول کی سیرت طیبہ کے ممتاز ترین پہلوؤں میں سے چوتھا خاص پہلو یہ ہے کہ آپ ادب و احترام اور عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ہر فرد کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے.اور حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسبح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات سے تو خاص الخاص انس تھا.جب آپ حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے میاں تم مجھ کو بہت ہی پیارے ہو اپنی - مسند پر بٹھاتے.اور آپ کو علوم کی چاٹ لگانے کے لئے اچھی اچھی کتابیں منگوا کر دیتے.بعض دفعہ یہ بھی فرماتے کہ ”میاں جب قرآن کریم کا سبق پڑھتے ہیں تو بہت سی آیات مجھے حل ہو جاتی ہیں جن باریکیوں کو یہ پہنچ جاتے ہیں.میرا د ا ہمہ بھی وہاں تک نہیں پہنچتا".a

Page 597

تاریخ احمدیت جلد ۳ 568 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ جن دنوں حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے صاحب فراش تھے ان دنوں کا ایک چشم دید واقعہ نواب عبدالرحیم خان صاحب خالد یہ بیان فرماتے ہیں کہ "سید محمود اللہ شاہ صاحب....نماز پڑھایا کرتے تھے اور آپ بیٹھ کر ان کے پیچھے نماز ادا کیا کرتے تھے.....ایک مرتبہ حضرت خلیفہ ثانی کو بھی وہاں چارپائی پر اسی جماعت میں نماز مغرب پڑھتے دیکھا....اپنے ہم عمروں سے ہی معلوم ہوا کہ دورہ ضعف ہو گیا لوگ بعد نماز ان کو دبا رہے تھے لیکن حضرت در آنحالیکه خود بیمار تھے بار بار دریافت کرتے تھے میاں صاحب اب کیسے ہیں؟" مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری تحریر کرتے ہیں.کہ ایک دفعہ آپ نے نماز پڑھانے سے پہلے صفوں کی درستی کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا میں آپ کے بالکل پیچھے کھڑا تھا اور بائیں طرف دوسرے یا تیسرے حضرت بشیر الدین محمود احمد صاحب تھے.حضرت خلیفہ اول نے ہاتھ بڑھا کر حضرت میاں صاحب کو مجھ سے دائیں طرف صف اول میں کھڑا فرما دیا اور فرمایا میاں آپ اس باپ کے بیٹے ہیں جو کبھی بائیں طرف نہیں کھڑا ہوا.مولوی ظہور حسین صاحب (سابق مبلغ بخارا) کا بیان ہے کہ حضور نے اپنی بیٹھک میں ایک خط حضرت میاں صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی) کے نام لکھا اور مجھے فرمایا.کہ دے آؤ.میں نے رستہ میں کھولا تو ایسے ادب کے رنگ میں حضرت خلیفہ اول نے آپ کو مخاطب فرمایا تھا کہ گویا میاں صاحب خلیفہ ہیں اور آپ خود خادم ہیں خط میں یہ لکھا تھا کہ بازار والوں میں جھگڑا رہتا ہے دعا کریں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں.کہ "حضرت خلیفتہ المسیح اول مولوی حکیم نور الدین صاحب الله جس طرح کی محبت اس وجود کے ساتھ کرتے تھے.اور اس کے بچپن میں بھی جس قدر ادب اور احترام آپ کا کرتے تھے اس سے معلوم ہو تا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو اپنی فراست مومنانہ اور کشف ولیانہ سے محسوس و مشہور ہو رہا تھا کہ یہ بچہ منشائے الہی کے ماتحت کسی منصب عالی کے واسطے تیار کیا جا رہا ہے.ایک دفعہ ہم سب ہم سفر تھے.( حضرت مسیح موعود ساتھ نہ تھے ) ایک اسٹیشن پر ہم گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ کھا رہے تھے...حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب کہیں پلیٹ فارم پر پھر رہے تھے.جب آپ گاڑی کے اندر آئے تو حضرت مولانا فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر نیچے بیٹھ گئے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنی جگہ پر بٹھایا.مولوی صاحب کو نیچے بیٹھا دیکھ کر ہم سب کھڑے ہو گئے اور جگہ نکال کر با صرار حضرت مولوی صاحب کو اوپر بٹھایا ".خاندان حضرت مسیح موعود کی قدرو منزلت حضرت خلیفہ اول کی نگاہ میں کس درجہ تھی اس کی

Page 598

تاریخ احمدیت جلد ۳ 569 حضرت خلیفتہ المسیح الاون کی سیرت طیبہ تفصیل حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے نہایت دلکش الفاظ میں رقم فرمائی ہے تحریر فرماتی ہیں." میرا بچپن ان کی گود میں کھیل کر گزرا اور بچپن سے ان سے پڑھنا شروع کیا روز کا آنا جانا تھا.گویا ایک ہی گھر تھا...بلا مبالغہ قریباً روز ہی بڑے پیار سے فرماتے کہ یہ اولاد اور یہ عبدالحی جو میری بڑھاپے کی نرینہ اولاد ہے یہ بھی تم لوگوں سے زیادہ مجھے پیارے نہیں ہم سب کے لئے مجموعی طور پر بھی ایسے الفاظ استعمال فرماتے اور خصوصیت سے اور اکثر بہت زور دے کر فرماتے کہ " محمود سے زیادہ یہ اولاد مجھے پیاری نہیں ہے ".سالوں تک میں نے اس بات کو بہ تکرار سنا ہے.اب تک تو دل پر یہی اثر تھا کہ چونکہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انتہائی عشق تھا تو ان کی اولاد بھی پیاری تھی خصوصاً وہ جو ہر قابل جس کو ان کی نگاہ معرفت پر کچھ چکی تھی.مگر اب میں سوچتی ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے خاص مقبول بندے تھے یہ ان کا ہوئی بچوں کی گھریلو مجلس میں روزانہ محبت بہت لانا بھی کسی خاص اشارہ کی وجہ سے نہ ہو.ضمنا ایک واقعہ بھی یاد آگیا.آپ کے صاحبزادے میاں عبد السلام مرحوم چھوٹے تھے.میں جب پڑھنے کو روز صبح جاتی تو ان کے لئے جیب میں بادام اخروٹ وغیرہ لے جاتی اور جیسا کہ بچوں کے کھیل ہوتے ہیں روز ہی ان سے پوچھتی کہ بتاؤ عبد السلام تم کتنے اخروٹ کے نوکر ہو ؟ وہ روز جواب دیتے دو اخروٹ کا تو کر ہوں.ایک دن میاں عبدائی مرحوم نے غصہ سے کہا.کہ عبد السلام نو کر کیوں کہتے ہو ؟ تم کوئی نوکر ہو ؟ کہہ دو میں نوکر نہیں ہوں.اندر کمرے میں حضرت خلیفہ اول سن رہے تھے نہایت جوش سے کڑک کر فرمایا." عبد الحی یہ کیا کہا تم نے ؟ یہ نوکر ہے".اور فرمایا " عبد السلام اندر آؤ".ہم دونوں اندر گئے.فرمایا کہو میرے سامنے ” میں نوکر ہوں".بچہ نے دہرا دیا.اس جذبہ کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو حضرت خلیفہ اول کی طبیعت سے وائف آپ کی صحبت میں رہ چکے یا آپ کی سیرت کا مطالعہ کر چکے ہوں.وہ کوہ وقار تھے.غیور تھے.خور دار تھے..ان کا سر کبھی کسی کے سامنے نہ جھکا تھا.جھکا تو اپنے محبوب آقا کے سامنے جھکا اور اس عشق کامل کا نتیجہ تھا کہ ان کی ایک کم عمر لڑ کی جو ان کی شاگرد بھی تھی.اس کے لئے بھی اپنے پیارے بچے کو اتنا کہنا " کو میں نوکر نہیں ہو ".سخت ناگوار گزرا.آپ کا چہرہ مجھے آج تک یاد ہے ایسا اثر تھا کہ صرف غصہ اور ناگواری ہی نہیں.بلکہ بہت صدمہ گزرا ہے.حالانکہ جیساوہ والدین کی مانند بے انتہا لاڈ پیار مجھ سے کرتے تھے بے تکلف کرتے تھے.ان کا حق تھا وہ بہ آسانی مجھے بھی کہہ سکتے تھے سمجھا سکتے تھے کہ بچہ سے ایسے نہیں کہلواتے ذلیل ہو جاتا ہے.عزت نفس نہیں رہتی.تم اس کو جو چاہو ویسے ہی دے دیا کرو.اور مجھے بھی آپ کار و کناز را

Page 599

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 570 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ بھی برا نہ معلوم ہوتا.کیونکہ ان کی محبت کا پلڑا بہت بھاری تھا.مگر انہوں نے اپنے طبعی وقار کے خلاف صرف اپنے خاص جذبہ عشق و محبت کے تحت الٹا بچہ سے سامنے کہلوایا کہ ”میں نوکر ہوں." ایک دفعہ جبکہ آپ گھوڑے سے گر گئے تھے.سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی (خلیفتہ المسیح الثانی) آپ ۲۱۵ کے پاس بیٹھے دعا کر رہے تھے اور آپ تکلیف سے کراہ رہے تھے.کہ کئی بار پیغام آیا کہ میاں ناصر احمد صاحب تشویشناک طور پر بیمار ہیں حضرت سیدنا حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے باعث یہ سن کر خاموش ہو گئے مگر حضرت خلیفہ اول اس وقت ہوش میں تھے آپ نے یہ بات سن لی آپ نے سید نا محمود ایده اللہ تعالیٰ کی طرف اپنا رخ مبارک کیا اور کسی قدر ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا."میاں تم گئے نہیں".اور پھر کہا کہ تم جانتے ہو کس کی بیماری کی اطلاع آدمی دے کر گیا ہے.وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا بھی ہے اس پر سید نا کو بادل ناخواستہ اٹھنا پڑا.ڈاکٹر بلا کر میاں ناصر احمد صاحب کو دکھلایا.چند دنوں کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کو شفا دے دی.نواب عبد الرحیم خان صاحب خالد کا بیان ہے.ہم بچوں کے ساتھ نہایت شفقت کا سلوک فرماتے تھے...مولوی عبدالحی مرحوم فرزند حضرت خلیفہ اول کو شام کے وقت قرآن شریف کا درس دیا جاتا تھا.اس میں ہم عمر بچے میرے منجھلے بھائی عبد اللہ خاں اور راقم دونوں نے جانا شروع کیا پہلے دن جب ہم گئے تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا.الفاظ یہ تھے کہ میرا گھر نور سے بھر گیا.میاں ! تم دونوں کے آنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی بتائے تقسیم کئے ".حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے بیان فرمایا کہ غالبا خلافت سے قبل کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ میری سوتیلی اور صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کی حقیقی والدہ بیمار تھیں بارہ ایک بجے شب کا وقت تھا کہ میں باہر صحن میں دیوان خانہ کے نزدیک سویا ہوا تھا.میری والدہ کی طبیعت خراب تھی جس پر حضرت خلیفہ اول تشریف لائے.آپ واپس جا رہے تھے کہ میرے والد (حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب الله ) نے آپ سے یہ عرض کیا کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کو بے وقت تکلیف دی اس پر حضرت خلیفہ اول نے میرے والد کی گردن میں بانہہ ڈال کر فرمایا.مجھے تکلیف کیسے ہو سکتی ہے میں تو مرزا کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں پتہ نہیں کہاں تک گننے کے بعد فرمایا.میں تو ان کا بھی غلام ہوں.آپ کی سیرت پر حضرت قمر الانبیاء کا جامع نوٹ بالاخر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر جامع نوٹ پر یہ باب ختم کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.احمد صاحب کے ایک لطیف اور

Page 600

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 571 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ حضرت خلیفہ اول کا پایہ حقیقتاً نہایت بلند تھا اور جماعت احمدیہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے حضرت مسیح موعود کے بعد جبکہ ابھی جماعت میں کوئی دوسرا شخص اس بوجھ کے اٹھانے کا اہل نظر نہیں آتا تھا ایسے قابل اور عالم اور خدا ترس شخص کی قیادت نصیب ہوئی.حضرت خلیفہ اول کو علمی کتب کے جمع کرنے کا بہت شوق تھا.چنانچہ زر کثیر خرچ کر کے ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا.اور ایک نہایت قیمتی لائبریری اپنے پیچھے چھوڑی مگر آپ کا سب سے نمایاں وصف قرآن شریف کی محبت تھی.جو حقیقتہ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی.خاکسار نے بے شمار دفعہ دیکھا کہ قرآن شریف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آپ کے اندر ایک عاشقانہ ولولہ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی.آپ نے اوائل زمانہ سے ہی قرآن شریف کا درس دینا شروع کر دیا تھا جسے اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی جاری رکھا.اور آخر جب تک بیماری نے بالکل ہی نڈھال نہیں کر دیا.اسے نبھایا.طبیعت نہایت سادہ اور بے تکلف اور انداز بیان بهت دلکش تھا اور گو آپ کی تقریر میں فصیحانہ گرج نہیں تھی.مگر ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا نکلتا تھا مناظرہ میں ایسا ملکہ تھا کہ مقابل پر خواہ کتنی ہی قابلیت کا انسان ہو وہ آپ کے برجستہ جواب سے بے دست وپا ہو کر سر دھنتا رہ جاتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ فرماتے تھے.کہ فلاں معاند اسلام سے میری گفتگو ہوئی اور اس نے اسلام کے خلاف یہ اعتراض کیا اور میں نے سامنے سے یہ جواب دیا اس پر تلملا کر کہنے لگا.میری تسلی نہ ہوئی.گو آپ نے میرا منہ بند کر دیا.فرمانے لگے.تسلی دینا خدا کا کام ہے میرا کام چپ کرا دیتا ہے.تاکہ تمہیں بتادوں کہ اسلام کے خلاف تمہارا کوئی اعتراض چل نہیں سکتا.یہ درست ہے کہ ان معاملات میں حضرت مسیح موعود کا طریق اور تھا یعنی آپ مخالف کو چپ کرانے کی بجائے اس کی تسلی کرانے کی کوشش فرماتے تھے.اور گفتگو میں مخالف کو خوب ڈھیل دیتے تھے.مگر ہر ایک کے ساتھ خدا کا جدا گانہ سلوک ہوتا ہے اور یہ بھی ایک شان خداوندی ہے کہ خصم تسلی پائے یا نہ پائے.مگر ذلیل ہو کر خاموش ہو جائے اس لئے کسی کہنے والے نے کہا ہے.ع ہر گئے را رنگ و بوئے دیگر است" حضرت خلیفہ اول کے دل میں حضرت مسیح موعود کی اطاعت کا جذبہ اس قدر غالب تھا کہ ایک دفعہ جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود دہلی تشریف لے گئے.اور وہاں ہمارے نانا جان مرحوم یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے.تو ان کے علاج کے لئے حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں تار بھجوائی کہ بلا توقف دہلی چلے آئیں.جب یہ تار قادیان پہنچی تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے درس و تدریس کا شغل کر رہے تھے اس تار کے پہنچتے ہی آپ بلا تو قف وہیں سے اٹھ کر بغیر گھر گئے اور بغیر کوئی سامان یا زاد راہ لئے سیدھے بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے

Page 601

ماریخ احمدیت.جلد ۳ 572 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ جو ان دنوں قادیان کا ریلوے سٹیشن تھا.کسی نے عرض کیا.حضرت بلا توقف آنے کا یہ مطلب تو نہیں تھا.کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں.اور اتنے لمبے سفر پر یوں خالی ہاتھ روانہ ہو جائیں ؟ فرمایا امام کا حکم ہے.کہ بلا توقف آؤ.اس لئے میں ایک منٹ کے توقف کو بھی گناہ خیال کرتا ہوں اور خدا خود میرا کفیل ہو گا.خدا نے بھی اس نکتہ کو ایسا نوازا کہ بٹالہ کے اسٹیشن پر ایک متمول مریض مل گیا.جس نے آپ کا بڑا اکرام کیا اور دہلی کا ٹکٹ خرید کر دینے کے علاوہ ایک معقول رقم بھی پیش کی.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر حضرت مسیح موعود مجھے ارشاد فرما ئیں کہ اپنی لڑکی کسی چوہڑے کے ساتھ بیاہ دو تو خدا مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو.یقینا ایسا پاک جو ہر دنیا میں کم پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کو بھی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ از حد محبت تھی اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے یعنی کیا ہی اچھا ہو اگر قوم کا ہر فرد نور دین بن جائے.مگر یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے.

Page 602

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 573 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت علیہ ا بد /٦ / مئی ۱۹۰۹ ء صفحہ ۳ کانما..حواشی باب هـ اسلام اور ملکیت زمین (از سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) صفحہ ۱۵..انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی خواہش پر "الخیرا اکثیر کا ایک نسخہ بھی فل سکیپ کاغذ پر دستخط لکھوا کر بھجوایا تھا روایت مولوی محمد می صاحب فاضل) اس امر کا ثبوت آپ کے درس قرآن کے وہ نوٹ ہیں جو "دار الاشاعت پیر جھنڈا " سے مولانا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری فاضل نے خود نقل کئے اور اب تک ان کے پاس محفوظ ہیں بطور مثال اس سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:." مرزا صاحب اصل میں عیسائیوں کے مقابلہ میں اٹھے تھے." نقل درس صفحہ ۹۲ - ” ہمارے ہاں قرآن میں تنسخ بالکل نہیں.شاہ صاحب فقط پانچ آیتیں منسوخ مانتے ہیں مگر ہم اس کو بھی نہیں مانتے کیونکہ اس کی تاویل ہو سکتی ہے." نقل درس صفحہ ۳۱۱۸)." بعض اوقات ریفار مر مصلح مسجد کوئی قوم میں پیدا ہوا اور وہ اصلاح میں ویسا ہی رہا جس طرح کہ نبی ہوتا ہے اور اگر وہ نبوت کا دعوی کرے تو جو معیار ہم نے مقرر کیا ہے اس معیار پر اس کو نبی مانتا ہو گا.( نقل درس صفحه ۲۲۳) " و لكن شبه لهم لیکن صليب چڑھانے کے وقت بہت گڑبڑ ہو گئی اور اس وقت پھانسی دینے والے لوگ خود شک میں تھے کہ آیا حضرت عیسی قتل ہوئے یا نہ." (اینا صفحه ۹۵) حاصل نزول عیسی کا یہ ہے کہ ایک آدمی ایسا پیدا ہو گا جو کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو ملادے گا." نقل درس صفحه ۱۵۱) تغییر الیوم اکملت لکم " اب گویا کہ سرکاری خزانے سے ہمیں ہر وقت چیز مل سکتی ہے.فقط ایک شرط ہم پوری کریں پھر جو چاہیں مانگیں لے گا." فقل درس صفحہ 190) ہندوستان میں اگر رام اور کرشن کو مان لیا جاوے تو پھر ہندوؤں کے ساتھ بھی زیادہ بھرا نہیں رہتا." (ص ۲۸۲) ایک فلاسفروں کے سکول میں تعلیم پا کر ہم تو دید سیکھتے ہیں اور ایک یہ ہے کہ ہم نبی سے یہ تو حید سیکھتے ہیں تو جس وقت ہم نبی سے لا الہ الا اللہ سنتے ہیں تو ہمارے تمام اخلاق میں تغیر آجاتا ہے تو نبی پر روحانی عالم سے فیضان ہوتا ہے." ( نقل درس صفحہ ۲۷۹.۲۸۰)- " جو روحیں مجسم انسانوں کو فطرت کی طرف چلانے کی کوشش کریں وہ انبیاء کہلاتے ہیں اسی طرح جو شخص فطرت سے الٹی ترقی کرانا چاہے تو وہ دجال کہلاتا ہے." ( نقل درس صفحہ ۱۴۳) مولینا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری کا بیان ہے کہ جن دنوں میں نے یہ نوٹ نقل کئے ان دنوں میں غیر احمدی تھا اور مجھے احمدیت کا نام تک سنتا گوار نہیں تھا.نونوں میں کئی مقامات پر حضرت مرزا صاحب کی تعریف لکھی تھی اس لئے میں نے جوش مخالفت میں ایسے کئی صفحات اپنے رجسٹر سے پھاڑ دئے تھے.مولانا کا یہ بھی بیان ہے کہ مولوی نور الحق صاحب پر و فیسر اور ٹیل کالج کے پاس بھی یہ نوٹ موجود تھے.مولانا سندھی کے سیاسی مکتوبات " جرنل آف پنجاب یونیورسٹی جنوری ۱۹۸۰ء صفحہ ۴۵ سے آپ کی حضرت خلیفہ اول سے غیر معمولی عقیدت کا پتہ چلتاہے.- ذکر اقبال از عبد المجید صاحب سالک نام علمی حلقوں میں آپ کی کیا قدرو منزلت تھی اس کے لئے فقط ایک مثال کافی ہوئی.با میانہ رہ کے ایک صاحب خاں ناظم مدرستہ المسلمین نے ۱۸۹۴ء میں ٹامس کارلائل کی کتاب ہیروز اینڈ ہیروز در شپ کے ایک لیکچر کا اردو ترجمہ اسلام اور اس کا بانی " کے نام سے شائع کیا اسے آپ کے نام پر معنون کرتے ہوئے لکھا." نذر بعالی خدمت فیض در جست عمر ق ا حقیقین قدرة المهد ممین های دین متین جناب حکیم مولوی نور الدین صاحب ان قومی خدمات جایلہ تقریری و تحریری وند ہی تو جهات جمیل.لسانی ومالی کے لحاظ سے جو جناب کی ذات بابرکات سے رفاہ عام کے بارہ میں علی العموم اور اشاعت اسلام کے پیرایہ میں علی الخصوص معرض ظہور میں آئی ہیں.اصل کتاب احمد یہ انجمن اشاعت اسلام !اہور کی لائبریری میں موجود ہے.ے.بطور مثال ملاحظہ ہو رسالہ " صور " منڈی بہاؤ الدین تمبر 1911ء صفحہ ہے.اس رسالہ میں روزوں کی فلاسفی کے موضوع پر ایک مضمون شائع ہوا.جس میں آپ کی تفسیر کا بھی ذکر کیا گیا ہے.

Page 603

تاریخ احمدیت.جلد ۳ - رسالہ انہیں صحت لاہور.اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۲۵ کالم ۲ 574 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثرو بیشتر افراد کے علاوہ جنہوں نے آپ سے استفادہ کیا) آپ کے بعض ممتاز شاگر دیہ ہیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے.حضرت خان صاحب فرزند علی صاحب.حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب.حضرت محمد سعید صاحب حیدر آبادی.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب پروفیسر عبد القادر صاحب.چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے.ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مصر سنگھ).مولوی محمد جی صاحب ہزار دی.ابو سعید عرب صاحب.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری.سید عبدائی عرب صاحب عبدالرحمن صاحب دا توی.حضرت پیر سراج الحق صاحب.مولوی محمد علی صاحب مرحوم.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب شیخ محمد تیمور صاحب ایم.اے.مولوی محمد علی صاحب ایک دفعہ نار اختگی میں قرآن شریف پھینک کر چلے گئے اور آپ کے درس میں آنا بند کر دیا تھا مگر پھر کچھ عرصہ بعد باقاعدگی سے آنا شروع کر دیا.الفضل ۱۲ اگست ۱۹۲۴ء د ۱۳/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷.) روایت مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ.رسالہ انیس صحت لاہور اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۲۵ کالم ۱-۲ ۱۲ رسالہ انیس صحت لاہور اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۲۱-۲۲ رپورٹ کا نفرنس ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۴۷ ا.چند نام یہ ہیں: مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری - حکیم مولوی قطب الدین صاحب بدو لوی.مفتی فضل الرحمن صاحب - حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی.حکیم ڈاکٹر محمد طفیل صاحب بٹالوی حکیم نور محمد.صاحب مشتاق احسان پوری شیخ فضل حق صاحب بٹالوی.ڈاکٹر محمد حیات صاحب راولپنڈی.حکیم مولوی عبد اللطیف صاحب ہاتف حکیم نظام جان صاحب و حکیم عبد الرحمن صاحب کا غانی.حکیم محمد ابراہیم صاحب کپور تھلوی عطا محمد صاحب مرحوم (مالک (راخانه رفیق حیات (قادیان) حکیم محمد صدیق صاحب (سابق ملٹری ٹرانسپورٹ کلرک) متوطن گھو گھیاٹ ڈاک خانہ میانی حال ربوہ.۱۵.مراۃ الطبابت وغیرہ میں آپ کے مجربات شائع ہوتے تھے.اور حکماء اور دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.آپ کی متعد دریا نہیں چھپ چکی ہیں جو آپ کے طبی کمالات کی عمدہ یاد گار ہیں.روایت جناب نواب عبد الرحیم خان صاحب خالد بار ایٹ لاء مالیر کوٹلہ.ضروری نوٹ:.جناب نواب عبد الرحیم خان صاحب خالد نے مولف ہذا کے نام ایک مفصل مکتوب میں حضرت خلیفہ اول کے چشم دید اور ایمان افروز حالات بھجوائے تھے جن پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہما نے از راہ شفقت نظر ثانی بھی فرمائی تھی.تاریخ احمدیت کے اس حصہ میں نواب عبد الرحیم خان صاحب کی طرف سے جس قدر روایات درج ہیں وہ اسی مکتوب سے ماخوذ ہیں.عد مرقاة الیقین صفحه ۱۸۵-۱۸۶ ا مرقاۃ الیقین صفحه ۱۸۵-۱۷۸-۱۸۰ ۱۹ اخبار نور جلد ۴ صفحه ۱۳ کالم ۲۳ ۲۰.روایت ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم صفحه ۲۹۷.(بیان مولوی فضل الدین صاحب وکیل) ۲۲.ظہور احمد موعود صفحہ ۱۰۳.بھیرہ کے بعض ہندوؤں نے ملک عبداللہ صاحب پٹواری بھیرہ کو بتایا کہ حضرت مولوی صاحب ہمیں فارسی میں خط لکھا کرتے تھے.٢٣ الحكم ۷۰۱۴ / دسمبر ۱۹۱۸ء صفحه ۴ کالم ۲ ۲۴- انبد ر جلد ۲ نمبر۷ ۳ صفحه ۱۳۹۲ کالم ۲.شعید الاذہان جلد ۶-۱۹۱ ء صفحہ ۲۶۳ - ۲۶۴ - بدر ۱۲ / مئی ۱۹۱۰ء صفحه ۳ کالم ۳ ۲۵- مرقاة الیقین صفحه ۱۸۸

Page 604

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 575 حضرت خلیفتہ المسیح الاول ملی ہے طیبہ ۲۶.بدر ۵ / مئی ۱۹۱۰ء صفحہ اکالم ۲ ۲۷ مرقاۃ الیقین صفحه ۱۴۶-۱۴۷ ۲۸ (مضمون قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۳.۴.نوٹ:.اس عظیم الشان لائبریری میں قریباً میں تمہیں ہزار کتابوں کا عظیم الشان ذخیرہ موجود تھا رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۲ ہندوستان کے بہت سے لوگوں کے علاوہ سرسید اور علامہ شیلی وغیرہ نے بھی آپ کے کتب خانہ سے استفادہ کیا.(الحکم ۳۱ / مارچ ۱۹۰۰ء صفحه ۴ کالم ۲- بدر مئی ۱۹۰۹ء صفحہ (۳) ایک دفعہ استنبول کے ایک سیاح نے لائبریر میں دیکھی تو حیران رہ گیا ( بدر / اپریل ۱۹۱۰ ء صفحہ ۵ کالم ) آپ کے کتب خانہ میں جس کا ایک حصہ قادیان میں اور ایک حصہ ربوہ میں ہے متعدد قلمی کتابیں محفوظ ہیں فرمایا کرتے تھے کہ میں خدا کے فضل سے چھ سات سو صفحہ کی کتاب ایک رات میں پڑھ لیا کرتا ہوں.(حمید الاذہان ۱۹۱۱ء ص ۲۳۶۳) مولانا ابو الکلام آزاد سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں:."سید علی بلگرامی کا نسخہ (کتاب الرد على المنطقین ابن تمیمہ.ناقل) مولانا شبلی مرحوم کے پاس تھا دو سرا نسخہ حکیم نور الدین صاحب قادیان کا تھا جو دیو بند آیا مولانا عبید اللہ کے پاس رہا پھر غائب ہو گیا." تبرکات آزاد صفحہ ۱۴۷) ۲۹ - البد (۲۹ اکتوبر ۸ / نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۹ کالم ۲ ۳۰ روایت پیر شمشیر علی صاحب آف بھیرہ ۱ پدر ۲۲/ جولائی ۱۹۰۹ء صفحه ۳ کالم ۳۲.شعید الازمان جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۶۲.احکم ۷ / دسمبر ۱۹۹۰ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲ ۳۴.الحام ۷ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲ ۳۵.الحکم ۷ / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۶ کالم سو ۳۶.روایت مولوی فضل الدین صاحب وکیل ۳۷.کلام امیر صفحه ۵۸ - روایت قریشی امیر احمد صاحب ۳۹.روایت حکیم محمد صدیق صاحب آف گھو گھیاٹ حال ربوہ شہید الا زبان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۴ روایت مولوی محمد جی صاحب فاضل الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ کالم الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۶ کالم ۴۴ بدر جلد ۸ نمبر ۴۴ درس صفحه ۹۵ کالم ۲ ۴۵.فاروق ۷ / اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحه ۸ کالم ۱ ۴.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۷۰.۴۷.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۲۷ -۴۸.یہ خط مخدوم محمد صدیق صاحب کے نام تھے اصل خطوط مخدوم بشیر احمد صاحب بھیرہ کے پاس محفوظ میں ۴۹.اصل خط جو ۲۱ / دسمبر ۱۹۰۳ء کا ہے مخدوم بشیر احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے مخدوم محمد اعظم صاحب حاجی مخدوم محمد عثمان صاحب کے فرزند اور حضرت خلیفہ اول کے بہت پیارے عزیزوں میں سے تھے چار سال تک مدرسہ طیبہ دہلی میں تعلیم پائی تھی اور حکیم عبد المجید خاں اور حکیم محمد اجمل خاں سے سند حاصل کر کے واپس اپنے وطن مخدوم آباد داخلی کوٹ احمد خاں میں آگئے اور مطلب جاری کیا.کچھ عرصہ بعد راولپنڈی چلے گئے چند سال تک ریاست لسبیلہ ریاست بلوچستان میں والئے ریاست سرکار جام صاحب بہادر کے طبیب خاص اور افسر شفا خانہ جات رہے چند سال کے بعد آپ ملازمت سے استعفاء دے کر بھیرہ میں آگئے اور مطلب کرنے لگے.رپورٹ آل انڈیا یدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کے تیسرے اجلاس کی رپورٹ کے صفحہ ان پر ان کا

Page 605

576 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ نام آتا ہے " طاعون اور اس کا استیصال نامی ایک مبسوط رسالہ ان کی تالیف ہے.(خزنتہ الاطباء صفحہ ۴۲۹) مخدوم صاحب کی اول او (1) مخدوم بشیر احمد صاحب (۲) مخدوم نذیر احمد صاحب ایم.ایں.کسی مرحوم (متوفی ۲۰/ ستمبر ۱۹۵۷ء) (۳) مخدوم محمد صدیق اکبر ایم.ایس.سی علی گڑھ.(۴) مخدوم محمد فاروق اعظم.۵۰ - الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۴ کالم ۳ ۵۱ روایت جمعدار فضل دین صاحب (بیعت ۶۱۹۱۰ ) ۵۲ پیغام صح ۲۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحه ۱۵ کالم ۱ ۵۳- روایت جمعدار فضل دین صاحب ۵۴.روایت حکیم محمد صدیق صاحب کھو گھیات.۵۵ روایت مولوی محمد می صاحب فاضل.۵۲ عید الاذہان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۳ - ۲۶۴ ۵۷.الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۵۸ روایت مدار فضل دین صاحب.۵۹ الفضل ۳۰/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹ کالم ۳ الفضل ۱۶ جون ۱۹۳۵ء صفحہ کے کالم ۲ بیان مستری فضل الہی صاحب بھیرہ.ا حکم ۲۸/ جنوری ۱۹۱۱ء مصفحہ ۵ کالم ۲۳ ۶۳ - احکم ۲۸/ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ اکالم ۲ -10 روایت ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی ماڈل ٹاؤن لاہور) ۷۵.صدر انجمن احمدیہ کے قدیم ریکارڈ میں عزیز احمد عبد اللہ برکت علی.اجاگر سنگھ کی فیسیں اپنی جیب سے دینے کاز کرماتا ہے.-۲۶ - روایت مولوی محمد جی صاحب فاضل.صدر انجمن کے پرانے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ آپ کے پاس آپ کے متعد درشتہ دار عزیز قیام پذیر رہتے تھے.مثلا چن پیر.محمود - زین پیر.شہسوار وغیرہ.۶۷.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۰۷۲-۷۳ روایت مولوی محمد بی صاحب فاضل ہزاروئی.روایت مولوی محمد جی صاحب فاضل.شعید الا زبان جلد ۱۹۱۱۰۷ء صفحه ۲۶۴ ے.بھیرہ کے ایک غیر احمدی دوست جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے خاندان سے ہیں.۷۲.روایت ملک خدا بخش صاحب (احمدی محلہ بھیرہ.۷۳.روایت مولوی محمد می صاحب فاضل.۷۳ روایت مولوی محمد تی صاحب فاضل ۷۵.عید الاذہان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۴ شعید الا زبان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۶۴ ے.مرقاۃ الیقین صفحه ۱۸۴ حیات جاودانی صفحه ۱۷ ۷۸ - خط ۱۶/ جنوری ۱۹۰۹ء اصل مکتوب مولف ہذا کے پاس محفوظ ہے.۷۹.اصحاب احمد هشتم صفحه ای ۸۰ روایت مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل._Al پدر ۱۵/ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۴-۵

Page 606

تاریخ احمدیت جلد ۳ الازبار لذوات الخمار صفحه ۱ - ۲ ۸۳ مفتی صاحب ایک غیر احمدی دوست ہیں.۸۴- کلام امیر صفحه الله ۸۵ روایت جمعدار فضل دین صاحب.- بدر ۲۳/ مئی ۱۹۷۲، صفحه ۳ 577 ۸۷ روایت رحمت اللہ صاحب ہزاروی حال ناظم آباد کراچی.۸۸ روایت حکیم محمد صدیق صاحب گھو گھیات حال رہوہ.۸۹.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۷۲-۷۳ روایت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی.۹۱ - کلام امیر صفحه ۲ ۹۲ - الحکم ۲۱ / جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ کالم ۱ اصل خط کی مصدقہ نقل خاندان حضرت خلیفہ اول کے پاس محفوظ ہے.الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۲ ۹۵ - کلام امیر صفحه ۹۲ ۹۶.سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۷۴ ۹۷ بدر۳۰/ مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۴ کالم ۲-۳ ۹ روایت مولوی محمد می صاحب فاضل 99 - الحکم ۲۰ فروری ۱۹۲۳ء صفحه ۳ کالم ۱ ۱ روایت جمعدار فضل دین صاحب 101 الحکم ۲۱ / جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۹ کالم ۲ ۱۰۲- روایت مولوی محمد تی فاضل حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ ۱۰۳.لاہور کی چینیاں والی مسجد میں ایک صاحب مولوی رحیم بخش ہوا کرتے تھے.جو کئی کتابوں کے مصنف تھے ایک دن وہ بڑے زور شور کے ساتھ آپ سے مباحثہ کے لئے آئے اور آتے ہی کہا کہ قرآن تو مجمل ہے آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی یہ آیت پڑھی کتا با مفصلا.بس وہ اٹھ کر چل دئے اور کہا کہ ساری عمر آپ سے مباحثہ نہ کروں گا.سورة المرسلات کے پڑھاتے ہوئے جب یہ آیت آئی فبای حدیث بعده یومنون تو ایک چکڑالوی نے آپ سے کہا کہ تمہاری ساری حدیثوں کا رد ہو گیا.آپ نے برجستہ جواب دیا.تیری اس بات کا بھی رد ہو گیا.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۳۳) ایک پادری گارڈن آپ کے مکان پر آیا کرتا تھا.ایک دن انجیل کی تعلیم کی خوبیاں بیان کرنے لگا آپ نے کہا.تمہار امذ ہب ایسا نہیں ہے کہ بلند میناروں پر چڑھ کر اللہ اکبر اللہ اکبر کہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں.تمہارے ہاں تو صرف گھنٹہ بجتا ہے.کیا تم یاد از بلند کہہ سکتے ہو.کہ خدا تین ہیں.اور تین ایک ہوتا ہے.اور خد اپھانسی پر لٹکایا گیا.( بدر ۱۱۵ اکتوبر ۱۹۰۸ و صفحه ۵ کالم (۳) ایک دفعہ ایک گریجوایٹ کو ایک پادری کے پاس بھیجوایا کہ وہ تشکیت کی فلاسفی بیان کرے.پادری صاحب نے کہا کہ ایشیائی دماغ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے.آپ نے جواب بھیجوایا کہ تمہارا خدا مسیح) بھی ایشیائی تھا اور اس کے سرید پولوس اور پطرس بھی ایشیائی.آپ کے قاعدہ سے معلوم ہوا.کہ وہ تینوں اس مسئلہ کو نہیں سمجھے بایں صورت تمہاری سمجھ میں یہ کیسے آگیا؟ (مرقاة الیقین صفحه ۲۴۹) ایک مسیحی نے آپ سے کہا.بائبل کے معنے ہم ہی خوب کر سکتے ہیں آپ نہیں کر سکتے.آپ نے جواب دیا کہ توریت کے معنی پھر تو یہودی ہی خوب کر سکتے ہیں تم نہیں کرسکتے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۳۴۷) ایک پادری نے آپ پر اعتراض کیا کہ بہشت میں کھائیں گے تو پاخانہ کیوں نہ پھریں گے آپ نے فرمایا کہ تم نے نو مہینے تک ماں

Page 607

تاریخ احمدیت جلد ۳ 578 حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ کے پیٹ میں کھایا کیا وہاں پاخانہ بھی پھرا کرتا تھا اس پر وہ چپ ہو گیا.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۸۸) ایک شخص نے آپ سے کہا فضا میں عدم محض ہے آپ نے کہا تو پھر چاند سورج عدم محض میں چلے گئے کہنے لگا.دیکھو لفظوں کی غلطی نہ پکڑو.آپ نے فرمایا کہ آخر کلام تو لفظوں سے ہی ہوتا ہے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۵۵) ایک شریر نے اعتراض کیا.اگر پوری کائنات پتھروں سے بھر دی جائے تو نعوذ باللہ خدا کہاں جائے گا؟ آپ نے پوچھا زمانہ ان پر حکومت کرتا ہے یا نہیں کہنے لگا ہاں زمانہ تو ان پتھروں سے نہیں کچلا جاتا آپ نے فرمایا زمانہ تو خد اتعالیٰ کی ایک مخلوق ہے.(مرقاۃ الیقین صفحہ ۲۵۶) غرضکہ آپ کے جدید مناظرانہ علم کلام کی صد ہا مثالیں موجود ہیں.سب ۱۰۴ - الدر المنشور في المعات النور ۱۰۵ روایت جمعدار فضل الدین صاحب.بدر ا/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴ کالم ۲ ۱۰۷- انجام ۱۴ / فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۸ کالم ۳ ۱۰.اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۲۶ ۱۹ بدر ۲۲/ مئی ۱۹۱۳ء صفحه ۱۳ کالم ۱۱۰ خط بنام مولوی ریاض احمد بریلوی (الواح النور صفحه ۵) الفضل ۲/ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۳ کالم ۳ شمعید الازبان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۴ ۱۳ بدر ۷ / اپریل ۱۹۱۰ء صفحہ ۳ کالم ۳ ۱۱۴.ضمیمه درس بخاری صفحه ۱۵ مشموله بدر ۲۱ / اگست ۶۱۹۱۳ هان الحکم ۲۱ جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم لمعات النورس الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۱۸ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۸- خط محرره ۱۹/ جنوری ۱۹۱۰ء ( خالد نومبر ۱۹۷۳ء صفحه ۱۰) ۱۱۹ مرقاۃ الیقین صفحه ۲۰۷ ۱۲۰ مرقاة الیقین صفحه ۲۵۰ ۱۲۱.ملاحظہ ہو ر ساله در رود شریف صفحه ۱۲۰-۲۴ و محامد خاتم النبین از حضرت مولوی محمداسمعیل صاحب فاضل بلا پوری ۱۲۲ مرقاة الیقین صفحه ۲۱۳ ۱۲۳ اخبار نور ۳/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ ۱۲۴- بدر ۱۴/ جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۲۵.یہ روایت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے دہلی میں ۱۹۳۳ء کے قریب قریشی محمد نذیر صاحب فاضل کو سنائی تھی.۱۲۶ روایت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی.۱۳۷ بدر ۳ / اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم - شمعید الا زبان جلد ۶ ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۵ ١٢٩- الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۷ کالم ۲.۳ ۱۳۰ بدر ۳۳/ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۳ ۱۳ بدر ۱۶/ مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳ کالم ۱۳۲.الحکم ۱۰/ اپریل صفحه ۳ ۱۳۳ الحکم ۷ / اگست ۱۹۰۹ء صفحه ا į i

Page 608

تاریخ احمد میمه - جلد ۳ ۱۳۴- ملفوظات نور صفحه ۲۹ ۱۳۵- لمفوطات نور صفحه ۳۵ ١٣- الدر المنشور في لمعات النور (غیر مطبوعہ) ۱۳۷ روایت رحمت اللہ صاحب ہزاروی ( مقیم کراچی) ۱۳۸.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۷۲ ۱۳۹ بورے / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸ کالم ۱۴۰ - الفضل ۲۷/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۳ کالم ۴ ۱۴۱ روایت جمعدار فضل الدین صاحب.۱۴۲- بدر ۲۳ / نومبر ۱۹ ء صفحہ ۵ کالم ۱ ۱۴ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵ ۱۴۴.الحکم ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۹ کالم ۲ 579 ۱۴۵- تفسیر احمدی صفحه ۵۶ کالم ۲ از حضرت میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی تغیر اندی صفحه از میرم سعید حیدر آباد ۱۴۶.الحکم جلد ۱۳ نمبرام صفحه ۱۴ حواشی فصل دوم حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ ۱۴۷.راقم الحروف نے تاریخ احمدیت کی تدوین میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے راہ نمائی حاصل کی ہے (اللهم اعطه عنى اجرا جزيلا وارفع درجاته وادخله في جنتك النعيم خلافت اولی کے دور کی تاریخ لکھنے سے پیشتر جب خاکسار ۲۳/ مئی ۱۹۶۳ء کو بوقت آٹھ بجے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بعض قیمتی ہدایات دینے اور ایمان افروزا واقعات بتانے کے علاوہ حضرت خلیفہ اول کی زندگی کے چار اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا کہ ان کو نمایاں رنگ میں ذکر کیا جائے چنانچہ اس فصل میں اسی کا مفصل بیان ہے.۱۴۸ - الحکم جلد ۱۴ نمبر ۴ صفحه ۱۸ کالم ۱ ۱۴۹.الحکم ۲۸/ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۹ ۱۵۰ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۶ کالم ۲ ۱۵.بیان جمعدار فضل الدین صاحب.۱۵۲- نصائح المبلغین صفحه ۸-۹- از حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله تعالی ۱۵۲ روایت ملک بشیر علی صاحب کنجاہی ۱۵۴ روایت مولوی محمد تقی صاحب فاضل ہزاروی ۱۵۵- بدر ۱۸/ نوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ے کالم ۳ ۱۵۶.بدر ۸/ جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۸ کالم ۱۵۷.بدر ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳ کالم ۲ ۱۵۸- ترجمته القرآن پارہ اٹھا ئیسواں صفحہ ۴۶ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۱۵۹.احکم جلد ۱۵-۱۹۱۱ء نمبر ۷ ۲-۲۸ صفحه ۹ کالم ۱۲۰.الحکم ۱۹/ ۱۹۱۵ء نمبرے.۸ صفحه ۲ - بدری / جولائی ۱۹۱۰ ء صفحہ اکالم ۲

Page 609

حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ تاریخ احمدیت.جلد ۳ ۲- تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۳۹ ۱۳ بدر ۹۷ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ 580 ۹۴ روایت خان ارجمند خان صاحب (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ) ۱۲۵- حمید الازبان جلدی صفحہ ۱۰۱ ۱۲۶- کلام امیر صفحه ۲۵ ۱۹۷ روایت حکیم محمد صدیق صاحب گھو گھیات حال ریوہ.۱۸ - الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ اکالم ! ۱۷۹- بدر ۱۰ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۰ کالم الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحه ۳-۴ ۱.الفضل ۶ /دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵ کالم ۱۷۲ روایت حکیم محمد صدیق صاحب آف گھر گھیات حال ربوہ.۱۷.الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم ۲ ۱۷۴ روایت مولوی فضل الدین صاحب وکیل ۱۷۵ احکم ۳۱ / مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ کالم ۱-۲ ١٧٦- الدر المنشور في لمعات النور.روایت حضرت مولا نار اجیکی صاحب.۷۷ - الدر المنشور في المعات النور - روایت حضرت مولا نار اجیکی صاحب.۱۷۸ روایت قریشی امیر احمد صاحب ولد قریشی حکیم سردار محمد صاحب (رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۵ صفحه ۱۲۹) ۱۷۹ روایت قریشی محمد نذیر صاحب فاضل ۱۸۰ روایت قریشی امیر احمد صاحب ولد قریشی حکیم سردار محمد صاحب (رجسر روایات صحابہ نمبر۵ صفحه ۱۳۹) الحکم ۱۷ ستمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ لا کالم ۲۱ ۱۸۲.تفسیر کبیر (النور) صفحه ۴۰۹ ۱۸ - الحکم ۲۸/ اکتوبر ۱۹۱ء صفحہ ۵ کالم ۳ ۱۸۴ - الدر المنشور في المعات النور - اصحاب احمد جلد دوم ص ۵۱۹ ۱۸۵.روایت ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی ( ماڈل ٹاؤن لاہور) الحق ( دیلی) ۲۸/ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۱۳ ۱۸۷.سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۵۶ ۱۸۸ - الحکم جلد ۱۵ ۱۹۱۱ء نمبر ۵ صفحه ۶ ۱۸۹ بدر ۳۱ / مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۹ کالم ۲ 190 الذكر الحکیم حصه چهارم صفحه ۲۳ از عبد الحلیم پٹیالوی ۱۹۱.سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۴۶ ۱۹۲ - الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۹۳ء صفحہ ۵ کالم ۳-۴ ۱۹۳.الحکم سے الر مارچ 1991ء صفحہ 1 کالم 1 ۱۹ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۱۰۰ ۱۹۵ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۳۰۴ ١٩- بدر ۲۵/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۳ کالم ۲ 19 الحکم جلد ۱۷- ۱۹۱۳ء -192

Page 610

تاریخ احمدیت جلد ۳ 581 ١٩٨- الدر المنشور في المعات النور روایت مولانا نظلام رسول صاحب را جیکی 199 الحکم جلد ۱۷ ۱۹۱۳ء نمبر ۳۳ صفحه ۳ ۲۰۰- روایت جمعدار فضل الدین صاحب ۲۰۱ شمعید الا زبان جلدے نمبر ۱۲ صفحه ۵۶۶ ۲۰۲.حکیم محمد عمر صاحب کی روایت.۲۰۳.روایت جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ٹمپل روڈ لاہور ۲۰۴ نجات صفی ۳۷ از حضرت خلیفتہ صبیح الثانی ایدہ اللہ تعالی طبع دوم ۲۰۵.روایت ملک خدا بخش صاحب احمد یہ محلہ بھیرہ.۲۰.طائف صادق صفحہ ۱۳- ۱۳ ۲۰۷ الحکم جلد ۳۸ ۱۹۳۵ء نمبر ۴ صفحه ۶ ۲۰۸- تذکرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۴۸ ۲۰۹.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۸۳ ۲۱۰.الحکم جوبلی نمبر صفحه ۸۰ کالم ۴ احب بھیروی.الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۳۸ صفحه کال ۳۳ اینار دایت قریشی امیراحمد صاحب بھیروی ۸ ۴ ۲۱۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۱۵ ۲۱۳ - الحاکم جوبلی نمبر صفحه ۸۰ کالم ۴ ۲۱۴ الفضل ۳۰/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳ ۲۱۵.الفضل ۲۶/ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۳-۴ ٢١٦ الفضل / ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۷ کالم ۱-۲ ۲۱۷.مکتوب بنام مولف هذا.۲۱۸.سلسلہ احمدیہ صفحہ ۲۲۳-۳۲۵ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی سیرت طیبہ

Page 611

تاریخ احمدیت - جلد ۳ 582 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شہادتیں نواں باب (فصل اول) خلافت اولیٰ کی نسبت آسمانی شہادتیں حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح اول مولوی نور الدین صاحب بھیروی الله کی خلافت خدائے علیم و خبیر کی ازلی تقدیروں میں سے ایک خاص تقدیر تھی اور آپ ایک موعود شخصیت تھے چنانچہ اس سلسلہ میں چند آسمانی شہادتیں ذیل میں لکھی جاتی ہیں.محضرت اللہ نے ایک طرف یہ خبر دی کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے پہلی شہادت ہاتھوں ہو گی.دوسری طرف دعا فرمائی." اللهم اذقت اول قريش نکالا فاذق اخر هم نوالا.اے خدا جس طرح تو نے اول قریش کو بلا سے دو چار کیا اسی طرح انجام کار ان کو اپنی عطا سے بہرہ ور کرنا.حضرت پیغمبر خدا کی یہ دعا حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خلافت سے پوری ہوئی اس طرح خلافت کا اختتام بھی قریش سے ہوا اور اس کا احیاء واجراء بھی قریش سے.دوسری شهادت آنحضرت ا نے حضرت عمر سے فرمایا کہ ایک مہدی تیری اولاد سے بھی ہو گا.جو زر شیعہ ہو گا یعنی جس کے منہ اور سر کے کسی حصہ میں ایسا زخم لگے جو ہڈی تک پہنچا ہو گا.حضرت خلیفتہ المسیح اول فاروقی النسل بھی تھے اور آخری عمر میں ذوشبعہ والی پیشگوئی کے بھی مصداق ہوئے.حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ (۱۱۶۴-۱۲۴۰) نے پیش گوئی فرمائی کہ تیسری شهادت آنے والے موعود کا ایک خاص و زیر حافظ قرآن ہو گا.چنانچہ لکھتے ہیں و ہم من الاعاجم ما فيهم عربى و لكن لا يتكلمون الا بالعربية لهم حافظ ليس من جنسهم ما عصى الله قط هو اخص الوزراء وافضل الامناء " یعنی وزرائے مہدی سب عجمی ہوں گے ان میں سے کوئی عربی نہ ہو گا.لیکن وہ عربی میں کلام کرتے ہوں گے.ان میں سے ایک حافظ قرآن ہو گا.

Page 612

ریخ احمدیت جلد ۳ 583 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں جو ان کی جنس میں سے نہیں ہو گا.کیونکہ اس نے کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کی ہوگی.رہی اس موعود کا وزیر خاص اور بہترین امین ہو گا.چو یہ پیشگوئی حضرت خلیفہ اول کی ذات میں جس کمال صفائی سے پوری ہوئی وہ محتاج بیان نہیں.وتھی شہادت بعض پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ مہدی کا ایک مدد گار کشمیر میں سے آئے گا.چنانچہ آپ کو کشمیر میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت پہنچی اور کشمیر سے ہی آکر آپ بیعت اولی کے موقعہ پر پہلی بیعت سے مشرف ہوئے.پانچویں شہادت پانچھ میں صدی ہجری کے مسلمہ امام حضرت امام یحی بن عقب امام مہدی کے بعد ایک عربی النسل انسان کے ظہور کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اذا ما جاء هم العربي حقا على عمل سیملک ويفتحونها من غير شک ركم محال داع ينادي بابتهال یعنی حضرت امام مہدی کے بعد ایک عظیم الشان عربی النسل آئے گا.جو خلیفہ برحق ہو گا.(یا سیہ حق بات ہے کہ وہ عربی نسل ہو گا) اور نیک عمل و سیرت اور بلند مرتبت کے باعث وہ روحانی بادشاہت کا ضرور وارث ہو گا.اور اس کے زمانہ میں بلا شک ممالک فتح ہوں گے.بے شمار دعائیں کرنے والے اسلام کو فتح (یا قدرت ثانیہ کے ظہور کے لئے ) دعا ئیں کریں گے.چھٹی شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد عللها العالی کو آپ کی خلافت کے بارے میں قبل از وقت بذریعہ رویا بتا دیا گیا تھا.اسی طرح حضرت صاجزادہ عبد اللطیف صاحب شہید اللہ کو بھی آپ کی خلافت کی اطلاع دی گئی چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے قادیان میں عجب خاں صاحب تحصیلدار سے ارشاد فرمایا کہ واپسی کے وقت مولوی نور الدین صاحب سے جاکر ضرو ر ا جازت لینا کیونکہ حضرت مسیح موعود کے بعد یہی پہلے خلیفہ ہوں گے.علاوہ ازیں میاں نجم الدین صاحب بھیروی کے خاندان کی ایک مسلمہ خاتون کو تیس سال پیشتر ہی جب کہ ان کو ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا بھی علم نہیں تھا خواب میں دکھایا گیا.کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح بن گئے ہیں." آپ کی خلافت پر ساتویں عظیم الشان شہادت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ ساتویں شہادت السلام کے وصال مبارک پر پوری قوم کی نگاہیں خلافت کے لئے جس مقدس وجود کی طرف اٹھیں وہ فقط آپ ہی کا وجود تھا.چنانچہ حضور علیہ السلام کی وفات کے معا بعد حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی.انت صدیقی یعنی آپ میرے

Page 613

تاریخ احمدیت جلد ۳ 584 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں صدیق ہیں.حضرت میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی نے پہلے ہی اپنی نوٹ بک میں ایک یاداشت لکھ رکھی تھی جس میں آپ سے بیعت کی درخواست کی گئی تھی.اسی طرح جب بیرونی جماعت میں حضرت اقدس مسیح موعود کے انتقال کی خبر پہنچی تو کئی بزرگوں نے انتخاب خلافت سے پہلے ہی لکھ دیا کہ خلیفہ تو بہر حال حضرت مولوی نور الدین صاحب ہی ہوں گے.ہم ان کی بیعت کرتے ہیں.بلکہ حضرت حاجی غلام احمد صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمد یہ کریام نے تو اپنے علاوہ جماعت کریام کی بیعت کا خط بھی روانہ کر دیا تھا.کہتے ہیں کہ ایک اہلحدیث عالم نے حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر سن کر مجرات کے بعض احمدیوں سے کہا کہ اب تم لوگ قابو آ گئے ہو.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے اور تم میں خلافت نہیں ہو سکتی.تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف نہیں آؤ گے.دوسرے دن انتخاب خلافت کا تار ملا.تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ نور الدین پڑھا لکھا آدمی ہے اس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی ہے آئندہ اگر خلافت رہی تو دیکھیں گے.

Page 614

تاریخ احمد جیت - جلد ۳ فصل دوم 585 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شاد تیں حضرت مسیح موعود کے رویاء الہامات میں حضرت خلیفہ اول کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و رویا میں کثرت سے نہایت تعریفی رنگ میں آپ کا ذکر پایا جاتا ہے.بطور نمونہ چند الهامات و رویا درج ذیل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا نا بتایا گیا کہ آسمان پر آپ کا نام "عبد الباسط " رکھا گیا ہے.اپریل ۱۸۸۷ء میں حضور نے آپ کے بارے میں خواب دیکھا کہ ”میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں.مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندہ خدا" آیا اس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا.اور میں اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا.کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے ".حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رویا ہوئی کہ "نور الدین کو دو گلاس دودھ کے پلائے ایک ہم نے خود دیا.اور ور سرا اس نے مانگ کر لیا اور کہا سرد ہے.پھر دودھ کی ندی بن گئی.اور ہم اس میں نبات کی ڈلی ہلاتے جاتے ہیں".14 - کشف میں دیکھا تفسیر حسینی ۵۰ اور ا۵ صفحه پر...فسره نور الدين بالمعارف الغريبه".( ترجمہ ) نور الدین نے اس کی عجیب و غریب معارف کے ساتھ تفسیر کی.۵ ۱/۵اپریل ۱۸۹۳ء کو آپ کی روحانی عظمت اور بلند شان کے بارے میں حضور کو الہام ہوا.ان الصفا والمروة من شعائر الله".(ترجمه) صفاء مردهہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی صحت کے لئے دعا کر رہے تھے کہ الہام ہوا." ان کنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا فاتوا بشفاء من مثله " الهام " ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملئكة ان لا تخافواو لا تحزنوا وابشر وابالجنة التي كنتم توعدون نور الدين " ( ترجمہ ) یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں.(یہ خوشخبری دیتے ہوئے) کہ خوف نہ کھاؤ اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا.نور الدین

Page 615

تاریخ احمد بہت جلد ۳ 586 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں فصل سوم حضرت خلیفہ اول کا بلند مقام تحریرات حضرت مسیح موعود کی روشنی میں چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تحریرات میں اپنے مخلص اور جاں نثار خدام میں سے سب سے بڑھ کر جس وجود کو تعریفی کلمات سے نوازا ہے وہ حضرت مولوی نور الدین خلیفتہ المسیح اول ہیں جن کا ذکر آپ نے نہ صرف اپنی کتابوں میں فرمایا ہے بلکہ اپنے اشتہاروں ، نجی خطوط اور تقاریر میں بھی آپ کے بلند مقام اور علو مرتبت کا بڑی کثرت سے تذکرہ فرمایا ہے اس ضمن میں حضور کے چند اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں.تصانیف میں ذکر حضور فتح اسلام (۱۸۹۰) میں فرماتے ہیں.” سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نور دین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں.کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے".re " آسمانی فیصلہ " (۱۸۹۱) میں تحریر فرماتے ہیں." حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرے لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے.تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں." عالی جناب مرزا جی مجھے

Page 616

587 خلافت اونی کی نسبت آسمانی شاد میں اپنے قدموں میں جگہ دو اللہ کی رضامندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے.تو یہ نابکار (مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اسی کام میں کام آوے." تم كلامه جزاء الله حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جاں فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے "."نشان آسمانی " (۱۸۹۲ء) میں تحریر فرماتے ہیں.”مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور اللہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی.یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے...اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے.اس کی نظیر اب تک میرے پاس نہیں...خد اتعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے آمین ثم آمین.A چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے.ازالہ اوہام " (۱۸۹۱ء) میں تحریر فرماتے ہیں.ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں اس کی کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں.میں نے ان کو طبعی طور پر اور نهایت انشراح مصدرت دینی خدمتوں میں جاں نثار پایا.اگر چہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے.کہ وہ ہریک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے بچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے...میں یقینا د یکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو.جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے.تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہو سکتا.ان کو خدا تعالی نے قومی ہاتھوں سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے.اور طاقت بالائے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے.انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا.اور بہتیرے ست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعوئی کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں.قادیان میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے.امنا و صدقنا فاكتبنا مع الشاهدين...مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں.

Page 617

تاریخ احمدیت جلد - 588 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں آئینہ کمالات اسلام (۱۸۹۳ء) میں تحریر فرماتے ہیں ( ترجمہ ) " آپ مسلمانوں کا فخر ہیں.اور آپ کو قرآنی دقائق کے استخراق اور حقائق فرقان کے خزانوں کی اشاعت میں عجیب ملکہ حاصل ہے.بے شبہ آپ مشکوۃ نبوت کے انوار سے منور ہیں.اور اپنی شان اور پاک طینتی کے مطابق نبی کریم کے نور سے نور لیتے ہیں.آپ ایک بے مثال وجود ہیں جس کے ایک ایک لمحہ سے انوار کی نہریں بہتی اور ایک ایک رشحہ سے فکروں کے مشرب پھوٹتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے.اور وہ خیر الواہین ہے.آپ نجمتہ المسلمین.اور زبدۃ المولفین ہیں لوگ آپ کے آب زلال سے پیتے اور آپ کی گفتگو کی شیشیاں شراب طور کی طرح خریدتے ہیں.آپ ابرار و اخیار اور مومنوں کا فخر ہیں.آپ نہایت ذکی الذہن ، حدید الفوار ، فصیح اللسان، نجمته الابرار اور زبدة الاخیار ہیں آپ کو سخاوت اور مال عطا کیا گیا ہے.امیدیں آپ کے ساتھ وابستہ کی گئی ہیں پس آپ خدام دین کے سردار ہیں اور میں آپ پر رشک کرنے والوں میں سے ہوں...خدا تعالیٰ نے آپ پر قسم قسم کے انعام کئے ہیں اور آپ کی بقا کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کی ہے.آپ کو میرے دل سے عجیب تعلق ہے میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بد زبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں کی مفارقت اختیار کرتے ہیں میرے کلام کے سننے کے لئے آپ پر وطن کی جدائی آسان ہے.اور میرے مقام کی محبت کے لئے آپ اپنے اصلی وطن کی یاد تک چھوڑ دیتے ہیں.اور میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے اور میں آپ کو اپنی رضا میں فانیوں کی طرح دیکھتا ہوں.جب آپ سے سوال کیا جاتا ہے تو بلا توقف پورا کرتے ہیں.اور جب کسی کام کی طرف مدعو کیا جاتا ہے تو آپ سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں سے ہوتے ہیں.آپ کا دل سلیم خلق عظیم اور کرم ابر کثیر کی طرح ہے.آپ کی صحبت بد حالوں کے دلوں کو سنوارتی ہے اور آپ کا حملہ دین کے دشمنوں پر شیر ببر کے حملہ کی طرح ہوتا ہے.آپ نے آریوں کے مسائل کو کھودا اور نقب لگا کر ان بیوقوفوں کی زمین میں اترے اور ان کا تعاقب کیا اور ان کی زمین میں زلزلہ بپا کر دیا اور اپنی کتابوں کو مکذبین کے رسوا کرنے کے لئے نیزوں کی طرح سیدھا کیا.خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ہندوؤں کو شرمندہ کیا....اور وہ مردوں کی طرح ہو گئے.پھر انہوں نے دوبارہ حملہ کرنا چاہا.لیکن مردے موت کے بعد کس طرح زندہ ہو سکتے ہیں لرزے ہوئے واپس چلے گئے اگر ان کے لئے حیاء میں سے کچھ بھی حصہ ہوتا تو وہ دوبارہ حملہ نہ کرتے...فاضل نبیل موصوف میرے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ان دوستوں میں سے ہیں جنہوں نے میری بیعت کی ہے.اور عقد نیت کو میرے ساتھ خالص کر دیا ہے اور جنہوں نے اس بات پر عمد بیعت باندھا کہ وہ خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہ کریں گے

Page 618

تاریخ احمدیت.جلد ۲۳ 589 خلافت ادلی کی نسبت آسمانی شعار میں میں نے آپ کو ان لوگوں میں سے پایا ہے جو اپنے عہدوں کی محافظت کرتے اور رب العالمین سے ڈرتے ہیں اور وہ اس پر شرر زمانہ میں اس ماء المعین کی طرح ہیں جو آسمان سے نازل ہوتا ہے.جس طرح ان کے دل میں قرآن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے.ایسی محبت میں اور کسی کے دل میں نہیں دیکھتا.آپ قرآن کے عاشق ہیں.اور آپ کے چہرہ پر آیات مبین کی محبت ٹپکتی ہے.آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نور ڈالے جاتے ہیں، پس آپ ان نوروں کے ساتھ قرآن شریف کے وہ دقائق رکھاتے ہیں.جو نہایت بعیدہ پوشیدہ ہوتے ہیں.آپ کی اکثر خوبیوں پر مجھے رشک آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی عطا ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور وہ خیر الرازقین ہے.خدائے تعالیٰ نے آپ کو ان لوگوں میں سے بنایا ہے.جو قوت و بصارت والے ہیں اور آپ کے کلام میں وہ حلاوت و طلاقت ودیعت کی گئی ہے.جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتی اور آپ کی فطرت کے لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے پوری پوری مناسبت ہے.خدا تعالیٰ کے کلام میں بے شمار خزانے ہیں.جو اس بزرگ جو ان کے لئے ودیعت رکھے گئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس کے لئے کوئی اس کے رزقوں میں ردو قدح کرنے والا نہیں.کیونکہ اس کے بندوں میں سے بعض وہ مرد ہیں جن کو تھوڑی سی نمی دی گئی ہے.اور دوسرے کئی آدمی ہیں جن کو بہت سا پانی دیا گیا ہے.اور وہ اس کے ساتھ حجت بازی کرنے والے ہیں...آپ بڑے بڑے میدانوں کے شہسوار ہیں ان کے لئے یہ قول صادق آتا ہے.لکل علم رجال و لکل میدان ابطال اور نیز یہ بھی صادق آتا ہے.ان فی الزوايا جنايا وفي الرجال بقايا خداتعالی آپ کو عافیت دے اور آپ کی عمر کو اپنی رضامندی اور اطاعت میں لمبا کرے.اور مقبولین میں سے بنائے.میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے لبوں پر حکمت بہتی ہے.اور آسمان کے نور آپ کے پاس نازل ہوتے ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ مہمانوں کی طرح آپ پر نزول انوار متواتر ہو رہا ہے.جب کبھی.آپ کتاب اللہ کی تاویل کی طرف توجہ کرتے ہیں.تو اسرار کے قلعے کھول دیتے لطائف کے چشمے بہا دیتے عجیب و غریب پوشیدہ معارف ظاہر کرتے وقائق کے ذرات کی تدقیق کرتے اور حقائق کی انتہا تک پہنچ کر کھلا کھلا نو ر لاتے ہیں...علماء علوم روحانیہ کی دولت اور اسرار رحمانیہ کے جواہرات سے بے گوشت ہڈی کی طرح خالی رہ گئے.پس یہ جو ان کھڑا ہوا اور رسول اللہ اللہ کے دشمنوں پر اس طرح ٹوٹ پڑا جیسے شیاطین پر شہاب کرتے ہیں سو دہ علماء میں آنکھ کی پتلی کی طرح ہے.اور آسمان حکمت میں روشن آفتاب کی طرح ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا.وہ ان سطحی راؤں سے خوش نہیں ہو تا جن کا منبت اونچی زمین ہے نہ نیچی زمین بلکہ اس کا فہم ان دقیق الماخذ مخفی اسرار کی طرف پہنچتا ہے.جو گہری زمین میں ہوتے ہیں.فلله دره و علی الله اجرہ - اللہ تعالٰی نے اس کی

Page 619

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 590 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں طرف کھوئی ہوئی دولت کو واپس کر دیا ہے.اور وہ ان لوگوں میں سے ہے جو توفیقی دیئے جاتے ہیں اور سب حمد اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھے یہ دوست ایسے وقت میں بخشا جب کہ اس کی سخت ضرورت تھی.سو میں اللہ تعالٰی سے دست بدعا ہوں کہ اس کی عمر د صحت و ثروت میں برکت دے.اور مجھے ایسے اوقات عطا کرے جن میں وہ دعائیں قبول ہوں جو اس کے اور اس کے خاندان کے لئے کروں اور میری فراست گواہی دیتی ہے کہ یہ استجابت ایک محقق امر ہے نہ ظنی اور میں ہر روز امیدواروں میں سے ہوں خدا کی قسم میں اس کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں.اور قرآن شریف کے اسرار کھولنے میں اور اس کے کلام اور مفہوم کے سمجھنے میں اس کو سابقین میں سے پاتا ہوں میں اس کے علم و علم کو ان دو پہاڑوں کی طرح دیکھتا ہوں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں مجھے علم نہیں کہ ان دونوں میں سے کو نسا دو سرے پر فوقیت لے گیا ہے.وہ دین متین کے باغوں میں سے ایک باغ ہے.اے رب تو اس پر آسمان سے برکتیں نازل کر اور دشمنوں کے شرسے اس کو محفوظ رکھ اور جہاں کہیں وہ ہو تو بھی اس کے ساتھ ہو.اور دنیا و آخرت میں اس پر رحم فرما.اے ارحم الراحمین آمین ثم آمین.تمام تعریف اول و آخر او ظاہر اور باضنا اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے وہی دنیا و آخرت میں میرا دالی ہے.اس کے کلام نے مجھے بلوایا اور اسی کے ہاتھ نے مجھے ہلایا سو میں نے یہ مسودہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اشارے اور القاء سے لکھا ہے.ولا حول ولا قوة الا بالله " "بركات الدعا" (۱۸۹۳) میں تحریر فرماتے ہیں.” پر جوش مردان دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی ہیں.جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لنا دیا -" " سر الخلافه " (۱۸۹۴) میں تحریر فرماتے ہیں ( ترجمہ از عربی) میرے دوستوں میں ایک دوست سب سے محبوب اور میرے محبوں میں سب سے زیادہ مخلص فاضل ، علامہ عالم رموز کتاب مبین عارف علوم الحکم والدین ہیں جن کا نام اپنی صفات کی طرح مولوی حکیم نورالدین ہے"."حمامته البشری " (۱۸۹۴) میں تحریر فرماتے ہیں ( ترجمه از عربی) میرے سب دوست متقی ہیں لیکن ان سب سے قوی بصیرت اور کثیر العلم اور زیادہ تر نرم اور حلیم اور اکمل الایمان والا سلام اور سخت محبت اور معرفت اور خشیت اور یقین اور ثبات والا ایک مبارک شخص بزرگ - متقی - عالم صالح.فقیہ اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق حکیم - حاجی الحرمین - حافظ قرآن قوم کا قریشی نسب کا فاروقی ہے جس کا نام نامی مع لقب گرامی حکیم نور الدین بھیر دی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے اور صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ

Page 620

تاریخ احمدیت جلد ۳ 591 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شمار تھیں اول نمبر پر ہے اور غیر اللہ سے انقطاع میں اور ایثار اور خدمات دین میں وہ عجیب شخص ہے اس نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور میں نے اس کو ان مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک رضا پر اور اولاد و ازواج پر اللہ تعالی کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کی رضا چاہتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ماں اور جانیں صرف کرتے ہیں اور ہر حال میں شکر گذاری سے زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ شخص رقیق القلب صاف طبع حلیم - کریم اور جامع الخیرات.بدن کے تعمد اور اس کی لذات سے بہت دور ہے.بھلائی اور نیکی کا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی ضائع نہیں ہو تا.اور وہ چاہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دین کے اعلاء اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہا دے اور اپنی جان کو بھی خاتم البنین" کی راہ میں صرف کرے.وہ ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتا ہے.اور مفسدوں کی بیخ کنی کے واسطے ہر ایک سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر تا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس.اللہ تعالی کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محب اس سے سبقت نہیں لے گیا.ضمیمہ انجام آتھم (۱۸۹۸) میں فرماتے ہیں." مولوی حکیم نور الدین صاحب....تمام دنیا کو پامال کر کے میرے پاس ان فقراء کے رنگ میں آبیٹھے ہیں جیسا کہ اخص صحابہ رضی اللہ عنہم نے طریق اختیار کر لیا تھا"."ضرورة الامام" (۱۸۹۸) میں تحریر فرماتے ہیں.”ہماری جماعت میں اور میرے بیعت کردہ بندگان خدا میں ایک مرد ہیں جو جلیل الشان فاضل ہیں اور وہ مولوی حکیم حافظ حاجی حرمین نور الدین صاحب ہیں جو گویا تمام جہان کی تفسیریں اپنے پاس رکھتے ہیں اور ایسا ہی ان کے دل میں ہزار ہا قرآنی معارف کا ذخیرہ ہے ".سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رقم فرمودہ ایک تحریر مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میں نے سعد اللہ کے متعلق ایک مضمون لکھا ہے حضور ملاحظہ فرما دیں اور خواجہ کمال الدین صاحب کے پیشگوئی کی اشاعت کے منع کرنے کے بارے میں اگر مناسب ہو تو چند الفاظ تحریر فرما دیں.جس پر حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل تحریر رقم فرمائی (جو جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کے پاس محفوظ ہے)

Page 621

تاریخ احمدیت جلد ۳ 302 کچھ غیر تماسی نہیں کیا کہ اس ایک وکیل حاصلاتی کشور ان کی نسبت استر کا الی منفی طور پر سارے کرتی ہیں منع کیا تو مت آپ کی ان کو کہا کہ مین تقی رنگا رہے کر نہ دوستی شرکی بھی بجایی کار سرقت با ارایه کم کردی است یا خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں ہ جو یہ پوٹی رقیب است ایر لواقع علی الت باہرکہ رات کو آپس کو بھی انعام کام کو حریف چند روز است الالای تولید خود را در گرگا اشتہارات میں ذکر حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے اشتہارات میں آپ کی شان میں بہت کچھ لکھا ہے.مثلا ۴ / اکتوبر ۱۸۹۹ء کے اشتہار میں لکھا.”میں اس بات کے لکھنے سے رہ نہیں سکتا کہ اس نصرت اور جانفشانی میں اول درجہ پر ہمارے خاص محب فی اللہ مولوی حکیم نور الدین صاحب ہیں جنہوں نے نہ صرف مالی امداد کی بلکہ دنیا کے تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر اور فقیروں کا جامہ پہن کر اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان میں موت کے دن تک آبیٹھے.اور ہر وقت حاضر ہیں.اگر میں چاہوں تو مشرق میں بھیج دوں یا مغرب میں.میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسبت براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے.اصحاب الصفه و ما ادرك ما اصحاب الصفه..اور مولوی حکیم نورالدین صاحب تو ہمارے اس سلسلہ کے ایک شمع روشن ہیں ".خطوط میں ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط میں بھی آپ کی شاندار خدمات اور بلند منصب کا بار بار ذکر ملتا ہے.چنانچہ حضور نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے.کہ "مجھ کو آندوم کے ہر ایک خط کے پہنچنے سے خوشی پہنچتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں.خالص دوستوں کا وجود کبریت احمر سے عزیز تر ہے.اور آپ کے دین کے لئے جذبہ اور ولولہ اور عالی ہمتی ایک فضل الہی ہے.جس کو میں عظیم الشان فضل سمجھتا ہوں".12 ۱۳۵

Page 622

تاریخ احمدیت جلد ۱۳ 593 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس زمانہ میں یہ خلوص و محبت و صدق قدم براہ دین کسی دوسرے میں نہیں پایا اور آپ کی عالی ہمتی کو دیکھ کر خداوند کریم جل شانہ کے آگے خود منفعل ہوں..جس قدر میری طبیعت آپ کی للی خدمات سے شکر گزار ہے مجھے کہاں طاقت ہے کہ میں اس کو بیان کر سکوں.بلاشبہ کلام الہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ اللی کے کلمات طیبات سے عشق ہونا اور اہل اللہ کے ساتھ جب صافی کا تعلق حاصل ہونا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں کو ملتی ہے...فالحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت جو راس الخیرات ہے عطا فرمائی ہے...جیسے آپ کے اخلاص نے بطور خارق عادت اس زمانہ کے ترقی کی ہے ویسا ہی جوش حب اللہ کا آپ کے لئے اور آپ کے ساتھ بڑھتا گیا.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا.کہ اس درجہ اخلاص میں آپ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک نہ ہو اس لئے اکثر لوگوں کے دلوں پر جو دعوئی تعلق رکھتے ہیں خدا تعالی نے قبض دارد کئے اور آپ کے دل کو کھول دیا.جو کچھ خدا تعالٰی نے اس عاجز کی نصرت کے لئے محبت اور ہمدردی کا آپ کو جوش بخشا ہے وہ تو ایسا امر ہے جس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا.الحمد لله الذي اعطانی مخلصا كمثلكم محبا كمثلكم ناصرا في سبيل الله كمثلكم وهذه كله فضل الله ".

Page 623

تاریخ احمدیت جلد ۳ 554 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شاد میں فصل چهارم حضرت خلیفہ اول کے بعض رویاء و کشوف اور الہامات حضرت خلیفہ اول ان مقدس اور برگزیدہ انسانوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالٰی سے ہمکلامی کا شرف عطا ہوتا ہے اور کشف و الہام کے دروازے کھلتے ہیں چنانچہ آپ کے چند رویا ء و کشوف اور الهامات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.روياء و كشوف فرمایا " ایک دفعہ میں نے حضرت علی مرتضیٰ کو خواب یا کشف میں دیکھا میں نے آپ سے سوال کیا کہ حضرت ابو بکر اور آپ کی فضیلت کا مسئلہ دنیا میں بینچ دار ہو رہا ہے اس کا اصل کیا ہے؟ فرمایا.انسان کی فضیلت موقوف ہے اس تعلق پر جو انسان کو اللہ تعالٰی سے ہے (اور) دلوں کے حالات کو علیم بذات الصدور کے سوا کون جانتا ہے ؟ ایک دفعہ آپ کو رویاء میں لا الہ الا اللہ کے یہ معنے سمجھائے گئے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی چیز کی حیثیت مستقل نہیں.فرمایا.میں نے ایک بار ملک کو دیکھا ہے وہ انسان کی شکل میں متشکل تھا.قرآن مجید میں ہاروت ماروت کا نام بھی ہے.جس کو میں نے دیکھا ہے.اس کا نام محی الدین تھا.فرمایا " مجھے ایک دفعہ خواب آیا کہ آدھ پیالہ دودھ کا ہے اور میرے ایک دوست نے جو مجھ سے ناراض تھے.اسے پی لیا.میں بخاری شریف پڑھایا کرتا تھا.نصف باقی تھا کہ وہ ایک روز آئے بعض باتیں جو پسند آئیں تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ اب میں بھی پڑھو نگا.چنانچہ باقی نصف بخاری انہوں نے مجھ سے پڑھی".فرمایا.ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ مولوی عبد القدوس صاحب کی گود میں پانچ خوبصورت لڑکے ہیں جو میں نے اچک لئے ہیں میں نے پوچھا تمہار ا نام کیا ہے تو وہ بولے کھیعص ".الوليد فرمایا.میں نے مابعد الموت لوگوں سے ملاقات کی ہے اور ان سے جہنم و جنت کے حالات کی نسبت سوال کیا ہے " A پھر میں نے ایک اور نظارہ دیکھا.اک شخص بہشت میں ہے جو فی عرفات امنون ہے “.الخ

Page 624

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 595 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شہادتیں ایک دفعہ فرمایا.ابھی میں نے دیکھا ہے کہ اسی مقام پر کسی پرند کا مزیدار شور بہ کھایا ہے اور اس کی باریک باریک ہڈیاں پھینک دی ہیں اللہ تعالی کی قدرت اسی وقت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کچھ پرند شکار کر کے لائے جو حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے.-A فرمایا.جب روح جسم خاکی سے علیحدہ ہوتی ہے.تو وہ اپنے ساتھ ایک نیا جسم لے کر نکلتی ہے.جو ہر ہر عضو سے لکھتا ہے میں نے ایسے جسم خود دیکھتے ہیں.ایک شخص جو اس وقت زندہ موجود ہے.اس کو میں نے دیکھا اس کا جسم خنزیر کا ہے ایک ہی وقت میں اس کا ظاہر جسم اور خنزیر والا جسم اپنے چار پیروں پر چلتا دیکھا ہے".فرمایا." خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ میں اگر کہیں جنگل بیابان میں بھی ہوں تب بھی خداتعالی مجھے رزق پہنچائے گا.اور میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا".فرمایا.” بعض اوقات لوگوں کے دل میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں کہ ان کے لئے دعا كر".١٥٠ خواب میں دیکھا کہ جلسہ میں لیکچر ہو رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب مرحوم و مغفور فرماتے ہیں.آئندہ نوجوانوں کے لیکچر اچھے ہوں گے.فرمایا - " صاحب نسبت جو لوگ ہوتے ہیں ان کی ملاقات ہو جاتی ہے میں نے کبھی توجہ نہیں کی باوجود اس کے میں نے بھی مردوں سے باتیں کی ہیں ".-۱۲ فرمایا - " بڑائی - شیخی اور فخر کے لئے نہیں تحدیث نعمت کے لئے کہتا ہوں کہ میں نے خود ایسے فرشتوں کو دیکھا ہے اور انہوں نے ایسی مدد کی ہے کہ عقل فکر د ہم میں نہیں آسکتی.اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ دیکھو ہم کس طرح اس معاملہ میں تمہاری مدد کرتے ہیں".۱۴ فرمایا."مجھ کو خدا تعالٰی نے عالم رویاء میں یہاں ایک شخص دکھایا کہ یہ فری مسینوں کی طرف سے خاص طور پر یہاں رہتا ہے ".۱۵ فرمایا ” میں نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان صاحب تو نسوی اور حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ غلام علی صاحب اور صحابہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک عالم میں خود دیکھا ہے".ده - ۱۲ فرمایا.” مجھ کو حضور نبی کریم اللہ نے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہ ربنا اتنا فی الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار بہت پڑھا کرو - E ۱۷ فرمایا." میں نے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح

Page 625

تاریخ احمدیت ، جلد ۳ 596 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شہادتیں اٹھا رکھا ہے.جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے ".فرمایا.”میں نے سلطان عبد الحمید کو دیکھا کہ ایک جھولدار چارپائی پر میلی تو شک پڑی ہے اور وہ اس پر بیٹھار کن کی طرف منہ کر کے رو رہا ہے.اور کپڑا چاروں طرف سے سمٹا جا رہا ہے.اس کے ہاتھ میں ایک خالی گھڑا ہے میں نے چاہا کہ بھر دوں مگر بھرا نہیں گیا.تعبیر اس کی یہ سمجھائی گئی کہ سلطان عبد الحمید کی سلطنت کے عمائد اچھے نہیں اور اس کا ملک کم ہوتا جا رہا ہے.اور میں نے دعا کرنی چاہی مگر توفیق نہ دی گئی ".19 فرمایا." میں اپنی جان و دل سے شہادت دیتا ہوں کہ اپنی آنکھ سے فرشتوں کو دیکھا ہے.....ان کی محبت و احسان کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے کانوں سے انہیں یہ کہتے سنا نحن اولیاء کم فی الحيرة الدنيا".۲۰ فرمایا.” ایک ہمارا محسن تھاوہ مارا گیا.مجھے اس حج سے ملنے کا موقع ملا جس نے تحقیقات کی تھی اس نے تایا...کل اتنے آدمیوں کو پھانسی لگ جائے گی...میں لیٹ گیا.تو میں نے دیکھا کہ جن کے متعلق پھانسی کا حکم دیا گیا تھا وہ چارپائی پر بیٹھے ہیں اور کچھ سکھ مجھ کو دکھائے گئے جو زمین پر بیٹھے تھے.میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ یہ سب چھوٹ جائیں گے.اور اس کے قاتل وہ سکھ ہیں جو سزائیں پائیں گے...ٹھیک نو بجے جب کہ پھانسی کا مقررہ وقت تھا.سیالکوٹ سے تار آگیا کہ اصل مجرم پکڑے گئے ہیں...تحقیقات پر مقدمہ نئی طرز کا ہو گیا.اور وہ رہا ہو گئے.تب وہ حج کہنے لگا.بڑا الیش چرج ہے.تب اس نے پوچھا کہ اب کون سزا پائے گا.میں نے کہا وہ سکھ جو ان مجرموں میں سرکاری وعدہ معافی پر بن لیا.وہ بچ گیا.اور باقی پھانسی پاگئے اس پر جج نے کہا کہ ایک تو بچ گیا.میں نے کہا مجھے تو یہ نہیں دکھایا گیا کہ یہ بچے.چنانچہ اس نے وہاں سے نکل کر خوشی میں شراب پی کر ایک لڑکی کو چھیڑا.اس کے رشتہ داروں نے وہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ".۲۱ ۱۴ فروری ۱۹۱۴ء کو فرمایا." سورة (نجم) کا ابتداء بلکہ دور تک خود اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پڑھایا ہے".۲۲ - فرمایا - " مجھے تو خدا تعالیٰ نے آپ قرآن پڑھایا ہے.اور میں نے بعض آیتوں کو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالی سے پڑھا ہے.II پڑھنے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ اس سے نبی کریم ا کی زیارت ہو جائے گی.چنانچہ آپ اسی رات زیارت آنحضرت ا سے مشرف ہو گئے.-۲۴ فرمایا." شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے بھوک تھی میں سو گیا.خواب میں پلاؤ اور زردہ کھالیا جب جاگا تو دیکھا پیٹ بھرا ہوا تھا.میں نے خودان باتوں کا بڑا تجربہ کیا ہے ".

Page 626

تاریخ احمدیت جلد ۳ ۲۶ 597 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شاد میں ۲۵- فرمایا." میں نے خود نبی کریم ﷺ کو موسیٰ علیہ السلام علی مرتضی الله امام علیہ السلام عبد الکریم علیہ الرحمہ اور حکیم فضل الدین کو دیکھا اور اس جہان کا حال دریافت کیا.نصیر الدین صاحب حال مانسہرہ ضلع ہزارہ کا بیان ہے کہ ان کے والد عمر دین صاحب کے ہاں میں سال سے اولاد نہیں تھے.مولوی محمد یکی صاحب ریپ گراں نے آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی.آپ کو کشف میں ایک لڑکا نصیر الدین نامی دکھایا گیا چنانچہ سات ماہ بعد ان کی پیدائش ہوئی اور کشف کی بناء پر ان کا نام نصیر الدین رکھا گیا.الهامات ا الهام" لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت".الهام " كلابل تحبون العاجلة وتذرون الاخرة".آپ کو راجہ رام موہن کی سوانح عمری کے بارے میں الہام ہوا کہ اس کی کتاب نہ پڑھو.یہ کتاب آپ کو جموں کے کسی آدمی نے دی تھی.۵ الهام " بطن الانبياء صامت" فرماتے تھے.خدا کی آواز میں نے سنی اس نے فرمایا کہ " قرآن کی آیت کا منکر کوئی ہو اور دہ مشکل سے مشکل آیت کے متعلق کوئی سوال کرے اور تجھے نہ آتا ہو تو معاً اس کا علم تجھے سکھا دیں گے.الخ -9 الهام " لا اله الا الله ".قل ما عند الله خير من اللهو و من التجارة " الہام "سنتیں پڑھنا چاہئے ".مجھے فرمایا "کل ہی مجھے ایک کتاب ملی ہے اس کی نسبت مجھے الہام ہوا تھا کہ ہند میں نہیں...ایک سیاح اتفاقا یہاں آگیا...اس سے ذکر کیا.اس نے کہا ہاں ہند میں تو نہیں مگر سندھ میں ہے میں تمہیں پہنچار و نگا کل وہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہنچ گئی ".القاء الهام اغنني بفضلك عمن سواک.ا الهام " من جمع القرآن فقد تصن وتصان".الهام تو مجھ سے کہہ اور دعا کر میں اسے قبول کروں گا".۱۳ حضور کو القاء ہوا (الف) ان الذي فرض عليك القرآن لرادك الى معاد (ب) الحمى من نار جهنم فاطفوها بالماء (ج) اس طرح آپ کو بتایا گیا کہ اکثر

Page 627

تاریخ احمد - جلد 598 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں بیماریوں کا علاج ہوا پانی اور آگ سے اور دردوں کا آگ اور پانی سے (1) سنستدرجهم من حيث لا يعلمون".۱۴- کسی دوست نے پوچھا کہ الیاس سے یوحنا کی تشبیہ ظاہری الفاظ کے خلاف ہے.پس یہود مسیح علیہ السلام کے ماننے میں معذور ہو سکتے ہیں.آپ کو القاء ہوا."کسی کے ماننے میں جو ذرائع جناب الہی نے بتائے ہیں دو قسم کے ہوتے ہیں.اول محکمات دوسرے متشابہات.محکمات کو اصل قرار دیا جائے نہ متشابہات ہم اپنے باپ کی اولاد ہیں ہماری ماں یقیناً عفیفہ ہے اور اس کے لئے محکمات ہمارے لئے بس ہیں اور ہم اسکی جائد و پر قابض ہونے کے مدعی ہیں.ایسے امور میں متشابہات کی کیا ضرورت ہے اللہ تعالٰی کے ماننے رسولوں انبیاء اور اولیاء کے ماننے میں ایسی ہی راہ سلامتی کی ہے Ar

Page 628

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 599 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں ا بخاری کتاب الفتن صفحه ۱۵۰ حواشی باب نهم - ترندی جلد دوم باب فضل الانصار و قریش صفحه ۶/۵.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خلافت احمد یہ صفحہ ۲۹ شائع کردہ انصار الله ) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خلافت احمدیہ صفحہ ۳۹ شائع کردہ انصار الله ) - فتوحات کمیه جلد ۳ صفحه ۳۶۵ تفصیل کے لئے دیکھیں امام مہدی کا ظہور " از مد اسد الله صاحب قریشی فاضل صفحه ۳۰۸-۳۰۹ ۷ شمس المعارف الکبری از امام شیخ احمد بن علی مصری صفحه ۳۲۰۰۳۳۹.یہ کتاب جو علم نجوم و جفر سے تعلق رکھتی ہے ۱۰۳۰ء کے دوران ہندوستان میں پہنچی اور خاندان حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ایک فرد یا سین علی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا اور لاہور میں تین جلدوں میں طبع ہوئی.الحکم جلد ۱۳ میرا - سیرت المہد کی حصہ سوم ۳۷ *f* شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۸ الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۴۰ء صفحه ۴ کالم ۴- ۱۲ تاریخ احمدیت حصہ سوم ۱۳ بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم ۳ -۱۴ آئینه صداقت از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحه ۸۱ ۱۵ اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۹۴ الفضل ۱۷ / اپریل ۱۹۴۶ء صفحہ ۵ کالم ہے.۱۷ تذکره طبع دوم صفحه ۱۵۲- مکتوبات جلد پنجم نمبر ۲ صفی ۲۷ -IA ۱۸- تذکره طبع دوم صفحه ۱۵۲-۱۵۳ ۱۹ جیبی بیان حضرت خلیفہ اول ( بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحه ۳۶۴) ۲۰ جیسی بیاض (بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحه ۷۶۵) یہ الہام غیر مطبوعہ ہے اور تذکرہ میں بھی نہیں ہے.ریاض جیبی جس کا قبل ازیں ذکر کیا گیا ہے.اس میں موجود ہے.غالباً اسی الہام کی بناء پر حضرت خلیفہ اول نے اپنے تئیں شعائر اللہ میں شامل کرتے ہوئے ایک دفعہ آیت لا تحلوا شعائر اللہ کی تشریح میں فرمایا میں نے بھی تمہیں پہچان کی راہ پائی ہے میری بھی حرمت کرو - درس القرآن کلاں صفحہ ۸۲ کالم -۲ ۲۲- تذکره طبع دوم صفحه ۵۲۳ ۲۳- الحکم ۲۸/ مارچ ۱۹۴۰ء صفحه اکالم ۲- ۲۴ فتح اسلام صفحہ ۲۹ طبع اول ۲۵ آسمانی فیصله صفحه ۳۳ حاشیه نشان آسمانی طبع اول صفحه ۴۶ ۲۷- ازالہ اوہام صفحہ ے ے سے تا ۸۱ ۷ طبع اول ۲۸- ترجمه و تلخیص از عربی حصه آئینه کمالات اسلام از صفحه ۵۸۴ تا صفحه ۵۸۹

Page 629

تاریخ احمدیت - جلد - ۲۹ بركات الدعا صفحه ۲۶ حاشیہ ۳۰ سر الخلافه صفحه ۵۳ ۱ حمامتہ البشری ترجمه و تلخیص از صفحه ۱۵ تا ۱۶ ۳۲- ضمیمه انجام آتھم صفحہ ۳۱.۳۳- ضرورة الامام صفحه ۲۶- ۴۴ 600 خلافت اوٹی کی نسبت آسمانی شہادتیں سبحان اللہ اخرا کے مسیح کے قلم سے نکلی ہوئی یہ عظیم الشان پینگو کی جو حضور نے ۱۸۹۹ء میں فرمائی تھی ہو بہو پوری ہوئی اور حضرت خلیفتہ اسی اول سچ سچ قادیان میں موت کے دن تک آبیٹھے.۳۵ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۲۶- ۳۶ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۴۵ ۳۷ قبض کی بجائے سموا فیض چھپ گیا ہے) ۳۸ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۷۲ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۱۲۷ الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵- ام الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحه ۵ ۴۲ بار ۳۱- ۲۴/ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۴ - بدر ۱۴ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۴- یہ دوست نور الدین تاجر کتب جموں تھے.۴۴ بدر ۲۷/ جنوری ۱۹۱۰ء صفحه ۳- مولوی بد القدوس ایک کشمیری بزرگ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر میں فرمایا کہ اس کا علم آپ کو دیا جائے اور وہ لڑ کے فرشتے تھے مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۵۴ ۴۵- بدر ۳ / مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ ۷- پدر / اپریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۳ صفحه ۴ ۴۷- الحکم سے / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ ۴۸- بدر ۲۳ فروری ۱۹۱۱ء صفحها ۴۹- بدر ۳- ۱۰/ اگست ۱۹۱۰ء صفحه ۶ ۵۰ بدر۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفی ۴ ۵- بدر ۲۱ / دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱ -۰۵ بدر ۱۳/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۰۳ ۵۳ بار ۳۰/ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۴ -۵۴ قرآن رمضان صفحه ۳۳ درس دوم صفحه ۲۲- ۵۵ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۷ ۵۶ مرقاة الیقین صفحه ۱۸۸ ۵۷- مرقاۃ الیقین صفحه ۲۶۲ ۵۸ - الحکم ۱۳/ نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ ا حکم ۲۱-۲۸ / جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۳ احکام ۱۴۰۷ / فروری ۱۹۱۵ء صفحه ۰۶ الفضل / فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۴- احکم سے / جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۶.۵۹ ۶۲

Page 630

تاریخ ۱۳ سراج منیر ۶۴ کلام احمد 601 خلافت اولی کی نسبت آسمانی شہادتیں ر صفحه ۵۰ - قریشی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی کی روایت ہے کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نے فرمایا کہ میں حضرت خلیفتہ اصبح اول اللہ سے پڑھا کرتا تھا بعض اوقات کھانے کے وقت میں تعلیم جاری رہتی ایک دفعہ اتفاق سے مجھے فاقہ آگیا اور کھانے کا وقت بوجہ تعلیمی مصروفت کے نہ مل سکا.عین دوپہر کا وقت تھا.حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں سبق پڑھتے رہے مجھے خوب بھوک لگی ہوئی تھی.اس عالم میں ربودگی سی طاری ہوئی اور میرے سامنے بھنا ہوا گوشت روٹی اور دودھ پیش کیا گیا.میں نے خوب کھا یا دودھ پیا.جب یہ کیفیت دور ہوئی تو میں سیر ہو چکا تھا.اور قطعا بھوک نہ تھی بلکہ کھانے کے بعد جو لطف آتا ہے اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا.اچانک حضرت مولانا نور الدین صاحب اللہ نے فرمایا "روشن علی فارغ ہو گئے ".میں حیران تھا کہ آپ کو میرے کھانے کا علم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی میری خواب کا نظارہ دکھلا دیا.الفرقان (حضرت حافظ روشن علی نمبر) صفحہ 11 کالم ۲.حبیبی بیاض مملوکہ خاندان حضرت خلیفہ اول) بروایت محمد اسد اللہ صاحب قریشی الکاشمیری مربی سلسلہ احمدیہ تحریر ۶۳-۱۰-۳۱ ۶۷.الہامات کی کیفیت کے بارے میں آپ کے ذاتی مشاہدات و تجربات بدر / اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۳ پر طبع شدہ ہیں.- اخبار نور ۱۰ / فروری ۱۹۱۴ء صفحه ۱۰ -۶۹ اخبار نور ۱۰ / فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ -6° - الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۱۸ء صفحه ۶ ( حبیبی بیاض اصل بیاض آپ کے خاندان میں محفوظ ہے) ا مرقاۃ الیقین صفحه ۲۶۲ ترجمہ انبیاء کا پیٹ خاموش ہوتا ہے ایک روز آپ نے دودھ اور جلیبیاں خوب کھالیں اس کی وجہ سے ریاح کی تکلیف ہو گئی.اس پر یہ الہام ہوا.۷۲- بدر ۱۳/ اکتوبر ۱۹۱۰ ۶ صفحه ۰اد صفحه ۱۱ ۷۳- بدر ۱۵ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۵- ۷- بدر ۱۶/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۴ -۷۵- ترندی مصری جلد اول صفحہ ۸۴ کے حاشیہ پر آپ کے قلم سے یہ الہام لکھا: واہے یہ کتاب خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے.بدر ۱۸/ نوری ۱۹۱۲ء صفحه ۸ ے.بدر ۶ فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۱۲- -۷۸ ترجمہ جس نے قرآن جمع کیا.اس نے اپنے آپ کو بچالیا.اور وہ بچایا گیا.(الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۰ء) ۷۹ احکم ۱۴: نوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۷.الفضل ۴ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۱ الله الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۴.۸۲- حبیبی بیاض سے ماخوذ ( مملوکہ خاندان حضرت خلیفتہ المسیح اول) -Ar

Page 631

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 602 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر دسواں باب امیرالمومنین حضرت خلیفہ المسیح اول کے عہد خلافت پر ایک طائرانہ نظر قادیان حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان سے بٹالہ تک یکے چلتے تھے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان آنے والوں میں خاصہ اضافہ ہوا اور آمد و رفت کے لئے ٹمٹموں کا رواج ہونے لگا.اس زمانہ میں قادیان دینی و دنیاوی علوم کا گہوارہ اور طب کا ایک اہم مرکز تھا.مگر سب سے بڑی خصوصیت جو اس پاک بستی کو حاصل تھی وہ اس کا خالص اسلامی ماحول تھا.جو دنیا بھر میں صرف اسی کی فضا کو میسر تھا.یہ ایک جنت تھی جو اس خطہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسی اور حضرت خلیفہ اول کے دست تربیت سے ابھر آئی تھی اور جس سے کوئی بیرونی شخص بھی خواہ وہ کسی مذہب وملت کا ہو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ صحابہ کرام کے زمانہ کی یاد دلاتا تھا.قرآن کریم ، حدیث شریف اور دوسرے دینی علوم کے پڑھنے پڑھانے کا جماعت میں ایک زبر دست ولولہ تھا.جو بے نظیر عشق دین حضرت خلیفہ اول کے دل میں موجزن تھا اس نے اہل قادیان کے دلوں میں ایک چنگاری روشن کر رکھی تھی.اور اس کا ایک زبر دست اثر بیرو نجات کی جماعتوں پر بھی تھا.قادیان اور قادیان سے باہر کے لوگ برابر دین کا علم سیکھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور یہ بات بالخصوص قادیان کی رونق اور نیک شہرت کا باعث تھی اور اس بات نے افراد جماعت میں دینداری ، دیانتداری اور پرہیز گاری پیدا کر دی تھی.حضرت خلیفہ اول اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دین کا اثر ہمارے تمام معاملات میں نظر آنا چاہئے.چنانچہ قادیان کے لوگوں میں خصوصاً اور باہر کی جماعتوں میں عموماً احکام دین کی پابندی کا بہت شوق تھا.اور دوسری بات جس پر آپ بڑا زور دیا کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ایک مسلمان ہر معاملہ کے متعلق جناب الہی میں گرے اور دعا کرتا ر ہے اور اس بات پر آپ زور دیتے کبھی جھکتے ہی نہ تھے.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے تو ایک طرف رہے

Page 632

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 603 خلافت اوٹی پر ایک طائرانہ نظر چھوٹے بچے بھی رو رو کر دعائیں کرتے تھے.اور جماعت میں عام طور پر یہ یقین تھا.کہ مومنوں کی دعا ئیں خداتعالی سنتا ہے اور اس ذریعہ سے ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے.ان دنوں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی درسگاہیں بچوں میں دینی اور مذہبی روح پھونکنے کا مئوثر ذریعہ تھیں اور مخالفین احمدیت تک اپنی اولادوں کو قادیان میں تعلیم کے لئے بھجوایا کرتے تھے.طلبہ نہ صرف پنج وقتہ نمازیں باجماعت ادا کرتے بلکہ سہ پہر کو بلا ناغہ حضرت خلیفہ اول کا اور کچھ عرصہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کا درس قرآن سننے کے لئے دار العلوم سے مسجد اقصیٰ میں آتے تھے یہ قادیان کا سب سے بڑا روحانی مکتب تھا جس سے چھوٹوں سے لیکر بڑوں تک یکساں فائدہ اٹھاتے اور اپنے علم و عرفان میں اضافہ کرتے تھے.رمضان شریف میں قادیان کا روحانی نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا یوں محسوس ہو تاکہ دلوں پر قرآنی علوم کی بارش ہو رہی ہے اور فرشتے انوار و برکات تقسیم کر رہے ہیں.اس بے مثال کیفیت کا کسی قدر تصور دلانے کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ستمبر ۱۹۱۲ء میں ” قرآن رمضان" کے عنوان سے ایک نوٹ لکھا جس میں بتایا کہ گیارہ مہینے کیسی ہی غفلت میں گذرے ہوں.رمضان کے روزے ضرور اہتمام سے رکھے جاتے ہیں اور اس ماہ میں نمازوں کی پابندی بھی کی جاتی ہے.اور صدقہ و خیرات کا دروازہ بھی حسب مقدور کھولا جاتا ہے.یہ تو عام اسلامی دنیا کا رنگ ہے ہی لیکن قادیان کا رمضان قرآن شریف پڑھنے اور سننے کے لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے.تہجد کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے.صوفی تصور حسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب بھی قرآن شریف سننے کے لئے اسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.تراویح ختم ہو ئیں تو تھوڑی دیر میں الصلوۃ خیر من النوم کی آواز بلند ہوتی ہے.زاہد و عابد تو تہجد کی نماز کے بعد اذان فجر کی انتظار میں جاگ ہی رہے ہوتے ہیں دو سرے بھی بیدار ہو کر حضرت صاجزادہ صاحب کے لحن میں کسی محبوب کی آواز کی خوشبو سے اپنے دماغوں کو معطر کرتے ہوئے فریضہ صلوۃ فجر کو ادا کرتے ہیں.جس کے بعد مسجد کی چھت قرآن الفجر کے محسین سے گونجنے لگتی ہے.مگر چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح جلد اپنے مکان کے صحن میں درس دینے والے ہوتے ہیں اس واسطے ہر طرف سے متعلمان درس بڑے اور چھوٹے بچے اور بوڑھے پیارا قرآن بغلوں میں دبائے حضرت کے مکان کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.تھوڑی دیر میں صحن مکان بھر جاتا ہے.حضرت کے انتظار میں کوئی اپنی روزانہ منزل پڑھ رہا ہے.کوئی کل کے پڑھے ہوئے کو دہرا رہا ہے.کیا مبارک فجر ہے مومنوں کی.تھوڑی دیر میں حضرت کی آمد اور قرآن خوانی سے ساری مجلس

Page 633

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 604 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر بقعہ نور نظر آنے لگتی ہے.نصف پارہ کے قریب پڑھا جاتا ہے.اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے.تفسیر کی جاتی ہے سائیلین کے سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں.تقوی و عمل کی تاکید بار بار کی جاتی ہے.لطیف مثالوں سے مطالب کو عام قسم اور آسان کر دیا ہے اس کے بعد اندرون مکان میں عورتوں کو درس قرآن دیا جاتا ہے.پھر ظہر کے بعد سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں وہاں حضرت خلیفتہ المسیح بھی تشریف لے جاتے ہیں اور صبح کی طرح وہاں پھر درس ہوتا ہے.بعد عشاء مسجد اقصیٰ میں حافظ جمال الدین صاحب تراویح میں قرآن شریف سناتے ہیں اور حضرت کے مکان پر حافظ ابو اللیث محمد اسمعیل صاحب سناتے ہیں.غرض اس طرح قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے اور سنے کا ایسا شغل ان ایام میں دن رات رہتا ہے کہ گویا اس مہینہ میں قرآن شریف کا ایک خاص نزول ہو تا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح اپنے درد مند دل کی دعاؤں کے ساتھ قرآن شریف سناتے ہیں.درس کے بعد سامعین کے واسطے دعائیں کرتے ہیں ".(1) لنگر خانے کا انتظام صدرانجمن احدیہ کے سپرد ہوا.(۲) اندرون ملک میں با قاعدہ اولیات واعظ مقرر ہوئے.(۳) اندرون ملک کی جماعتوں نے سالانہ جلسے منعقد کرنے شروع گئے.(۴) احمدی خواتین بھی مسجد اقصیٰ کے خطبات جمعہ میں شریک ہونے لگیں.(۵) احمدی نو جوانوں کو بغرض تعلیم مصر بھجوایا گیا.(۶) مصالح العرب" کے نام سے ایک عربی اخبار ضمیمہ بدر کی صورت میں جاری ہوا.(۷) شیعہ اصحاب سے پہلی دفعہ مباحثہ ہوا.(۸) انگلستان کو سب سے پہلا احمدی مبلغ روانہ ہوا.مسائل متنازعہ فیہ کا فیصلہ دربار خلافت سے حضرت خلیفتہ المسیح کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ آپ نے جملہ مسائل متنازعہ مثلاً مسئلہ نبوت مسیح موعود " مسئلہ خلافت مسئلہ کفر و اسلام پیشگوئی اسمہ احمد کا مصداق - غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنا اور ان کا جنازہ وغیرہ کے سلسلہ میں ناطق فیصلے کئے.اور جماعت ہمیشہ کے لئے مستحکم عقائد پر قائم ہو گئی.حضرت مسیح موعود کی چند عظیم الشان خلافت اولی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کا ظہور خلافت اولیٰ میں متعدد پیشگوئیاں پوری ہو ئیں.مثلا ز لزلہ درگور نظامی انگند - تزلزل در ایوان کسری فتاد منکرین خلافت کے فتنہ کی پیشگوئی مولوی محمد حسین کے رجوع کی پیشگوئی.تقسیم بنگالہ کی تنسیخ کی پیشگوئی.ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت.حضرت خلیفہ اول کے گھوڑے سے گرنے کی

Page 634

تاریخ 605 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر پیشگوئی.غلبہ روم کی پیشگوئی - مسیر العرب- خاندان حضرت مسیح موعود میں ترقی عہد خلافت اولیٰ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی ترقی ہوئی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نواب محمد احمد خاں صاحب صاحبزادی منصوره بیگم صاحبہ نواب مسعود احمد خان صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کی ولادت اسی دور میں ہوئی.سید نا محمود ایدہ اللہ تعالی کی اطاعت خلافت اور خدمات جلیلہ خلافت خلافت اولی ہے قبل حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفتہ المسیح اول سے بے تکلف تھے اور گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے تھے.مگر قیام خلافت کے بعد آپ نہایت ادب سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بیٹھتے اور ہمیشہ نیچی نگاہ رکھتے اور آہستہ آواز سے کلام کرتے تھے.اور آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے.بلکہ کوئی اہم قدم آپ کی اجازت کے بغیر اٹھانا جائز نہیں سمجھتے تھے.اور جماعتی حالات سے آپ کو ہمیشہ باخبر رکھتے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے.کہ "خلافت اولی کے زمانہ میں میں نے دیکھا کہ جو ادب اور احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اور شخص میں نہیں پایا جاتا تھا.آپ کے ادب کا یہ حال تھا.کہ جب آپ حضرت خلیفتہ المسیح اول " کی خدمت میں جاتے تو آپ دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور جتنا وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اسی طرح دو زانوی بیٹھے رہتے.میں نے یہ بات کسی اور صاحب میں نہیں دیکھی.اسی طرح آپ ہرا م میں حضرت خلیفتہ المسیح اول کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے.کسی امر کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح اول کا ارشاد ہو تا تو آپ اس کی پوری پوری تعمیل کرتے.حضرت خلیفتہ المسیح اول نے اپنی تقریر میں جو آپ نے ۱۹۱۲ء میں احمد یہ بلڈ نگس لاہور میں فرمائی.فرمایا." میاں محمود بالغ ہے....وہ میرا سچا فرمانبردار ہے.اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں ".خلافت اولی میں سید نا محمود کی دینی خدمات کا سلسلہ نہایت وسیع ہے اور جیسا کہ قارئین بالتفصیل مطالعہ کر چکے ہیں.آپ خرابی صحت کے باوجود اس دور میں پیکر جہاد و عمل نظر آتے ہیں یہاں بطور مثال چند خدمات کا تذکرہ کرنا مناسب ہو گا.ادارت تشحمید الا زبان.ملک بھر کی احمد یہ کانفرنسوں میں تقاریر ممبر د صدر مجلس صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت سے فرائض کی سرانجام دہی.مدرسہ احمدیہ کی

Page 635

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 606 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر نظامت- درس قرآن - امیر قادیان کی حیثیت سے فرائض انصار اللہ کی بنیاد - سفر مدارس ہند - سفر حج - ادارت الفضل فتنہ منکرین خلافت کی سرکوبی وغیرہ.خلافت اولیٰ میں انتقال کرنے والے بزرگ خلافت اوٹی میں انتقال کرنے والے بعض بزرگوں کے نام یہ ہیں.حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر (وفات جنوری ۱۹۰۹ء)- قدرت اللہ خان صاحب شاہجہان پوری (وفات اپریل ۱۹۰۹ء) حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی (وفات اپریل ۱۹۱۰ء) - صاحبزاده حمید احمد صاحب پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (وفات اگست ۱۹۰۹ء) - مولوی عبد الله صاحب ضلع ہزارہ (وفات جنوری ۱۹۱۱) - حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لدھیانوی (وفات اگست ۱۹۱۲ء) - اسی دور میں سلسلہ کی جن خواتین نے وفات پائی ان میں سے بعض یہ ہیں.محمدی بیگم صاحبہ زوجہ پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی (وفات اکتوبر ۱۹۰۸ء) - فاطمہ بیگم صاحبہ زوجہ مولوی محمد علی صاحب (وفات نومبر ۱۹۰۸ء) - بخت روشن صاحبه والده حافظ روشن علی صاحب (وفات اپریل ۱۹۱۱ء).حیات النور صاحبہ زوجہ حافظ روشن علی صاحبہ (وفات نومبر ۱۹۱۱ء).سکینہ بی بی صاحبہ زوجہ قاضی امیر حسین صاحب (وفات اگست ۱۹۱۳ء) خاندان مسیح عہد خلافت اولیٰ میں پیدا ہونے والے بعض اور نامور فرزند موعود عليه السلام کے علاوہ جماعت میں کئی ایسے ہو نہار فرزند پیدا ہوئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ کی بھاری خدمات سر انجام دیں مثلا ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی ( ۱۹۱۰-۱۹۵۷ء) حضرت خلیفہ اول کی ڈاک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول کا عام دستور تھا.کہ جہاں تک ممکن ہو تا اپنے قلم سے خطوں کا جواب دیتے تھے مگر زمانہ خلافت میں یہ اہتمام نا ممکن تھا.اس لئے عموماً پیر افتخار احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب آپ کی طرف سے خطوط کے جواب پر مقرر تھے.ان بزرگوں کے علاوہ گاہے گاہے حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور مفتی فضل الرحمٰن صاحب بھی یہ خدمت سر انجام دیتے تھے.حضرت کی خدمت میں آنے والی ڈاک براہ راست خادم ڈاک وصول کرتا تھا.جو تین حصوں میں تقسیم کرتا.(۱) طبی خطوط (۲) دعا کی درخواست پر مشتمل خطوط (۳) دوسرے امور سے متعلق خطوط.طبی خطوط حضور کے خاص طبی شاگرد کے سپرد کی جاتی جو مناسب موقعہ پر حضرت کی خدمت میں پیش کر کے جواب لکھ دیتے.دعائیہ

Page 636

607 خلافت اوٹی پر ایک طائرانہ نظر خطوط کے پیش کرنے کی بجائے ان کی روزانہ فہرست معہ نام و مقام اور مطلب کے خلاصہ کے آپ کے سامنے پیش کر دی جاتی اور حضور اس فہرست کو آگے رکھ کر ایک ایک کے لئے دعا کر دیتے.البتہ وہ خطوط جو دوسرے امور سے متعلق ہوتے.خادم ڈاک کی طرف سے روزانہ پیش ہوتے.بعض سنا دیئے جاتے بعض کو حضور خود ملاحظہ فرماتے.گاہے خود اپنے قلم سے جواب تحریر فرماتے.مگر عموماً ہر خط کے بارے میں ہدایت فرما دیتے کہ یہ جواب لکھا جاوے.بعض ضروری جوابات ساتھ ساتھ بدریا الحکم میں بھی شائع کر دیئے جاتے تھے.خاص اس غرض کے لئے "کلام امیر" کے نام سے بعد میں ایک الگ ضمیمہ شائع ہونے لگا جو بڑا ایمان افروز ہو تا تھا.۱۹۱۴ء میں صدر خلافت اولیٰ کے آخری سال میں صد رانجمن احمدیہ کے عہدیدار انجمن احمدیہ کے مندرجہ ذیل عہدیدار تھے.(1) میر مجلس و افسر مدرسہ احمدیہ و افسر بیت المال حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایده الله تعالى.(۲) سیکرٹری افسر اشاعت اسلام مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.(۳) محاسب وافسر شفاخانہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۴) ناظر منشی مرزا محمد اشرف صاحب (۵) امین ماسٹر فقیر اللہ صاحب (۲) آڈیٹر بابو عبد الحمید صاحب لاہور - (۷) مشیر قانونی چوہدری نصر اللہ خان صاحب (۸) اسسٹنٹ سیکرٹری افسر تعلیم مولوی صدر الدین صاحب بی اے بی ٹی.(۹) افسر بہشتی مقبرہ - حضرت میر ناصر نواب صاحب (۱۰) سب کمیٹی تعمیر - حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( اور آپ کی عدم موجودگی میں ماسٹر محمد الدین صاحب) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت خلیفہ اول کی ہدایت کے مطابق مجلس معتمدین کے ممبر تجویز ہوئے اور نہ صرف آپ بحیثیت ممبر قومی فرائض سرانجام دیتے تھے بلکہ حضرت خلیفہ اول کی مرض الموت کے ایام میں منعقد ہونے والے انجمن کے دو اجلاس کی صدارت آپ نے فرمائی.خلافت اولیٰ کے بعض مصنفین اس دور کے ممتاز مصنف یہ ہیں.حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی) حضرت میر محمد اسحق صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت میر قاسم علی صاحب - خواجہ کمال الدین صاحب - مولانا عبد المساجد صاحب بھاگلپوری.حکیم خلیل احمد صاحب مو نگهیری - مولانا سید محمد احسن صاحب امرد ہوی.حضرت قاضی محمد ظہور الدین

Page 637

جلد ۳ 608 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر صاحب اکمل - مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی.مولوی عمر دین صاحب شملوی.مولوی محمد علی صاحب ایم اے شیخ محمد یوسف صاحب نو مسلم سردار مہر سنگھ صاحب نو مسلم عبد الحی صاحب عرب - حضرت مولوی شیر علی صاحب - سید صادق حسین صاحب انادی.شیخ رحیم بخش صاحب نو مسلم مرزا نذر علی صاحب پشاوری.میاں معراج الدین صاحب عمر.منشی خادم حسین صاحب بھیروی منشی برکت علی صاحب شملوی خانصاحب فرزند علی صاحب - مولوی غلام نبی صاحب " مصری - قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری - قاضی صاحب واحد شخص تھے جنہوں نے پشتو اور فارسی میں کتابیں اور رسائل شائع کئے.لٹریچر کی اشاعت خلافت اولی کے عہد میں سلسلہ احمدیہ اور اسلام کی تائید میں اردو - انگریزی ہندی اور گورمکھی اور پشتو اور فارسی زبان میں بکثرت لٹریچر شائع ہوا.جس کی تعداد سینکٹروں سے متجاوز ہے.اس دور کی چند مشہور تصانیف و تالیفات یہ ہیں.صادقوں کی روشنی.دلائل ہستی باری تعالی - نجات کسر صلیب نمبر1.اسلام اور بدھ مذہب.ترجمتہ القرآن.خلافت احمدیہ - اظهار حقیقت اشاعت اسلام - البشر کی جلد اول و دوم صحیفہ آصفیہ - اسوه حسنه النبوة فی خیر الامت - ویدک توحید کا نمونہ - مباحث مونگھیر - واقعات مونگھیر - کشف الحقائق - تحفہ بنارس اصول اسلام - آئینه صداقت - احمدیہ پاکٹ بک - شری نهه کلنک درشن - آئینہ حق نما- دین الحق عیسائی مذہب کا فوٹو.واقعہ صلیب کی چشم دید شهادت سفر نامہ ناصر- اوامر و نواہی قرآن پیدائش عالم - بادا نانک کی سوانح عمری - آریہ دھرم کا فوٹو ہدایت المهتدی الی حقیقته المهدی "- معیار صداقت - کرامات المهدی - ضرورت نبی - کشف الحقائق - القاء ربانی.عبد خلافت اولی کے بعض مشہور مقررین یہ ہیں.حضرت خلافت اولی کے مقررین صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مولوی محمد احسن صاحب امرد ہو ی.خواجہ کمال الدین صاحب حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی مولوی سید سرور شاہ صاحب" - حضرت حافظ روشن علی صاحب - حضرت میر قاسم علی صاحب.شیخ محمد یوسف صاحب نو مسلم حضرت مفتی محمد صادق صاحب مولوی سید عبد الواحد صاحب بنگالی.شیخ غلام احمد صاحب واعظ - صوفی غلام محمد صاحب مولوی عبدالحی صاحب" عرب- حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی - مولوی عبد اللہ صاحب بھینی.بر صغیر ہندوپاک کی بعض مشہور جماعتیں خلافت اولیٰ کے عہد میں برصغیر پاک و ہند کی بعض مشہور جماعتیں یہ تھیں.m قادیان -

Page 638

مسجد اقصیٰ جس کی توسیع خلافت اولیٰ میں ہوئی تعلیم الاسلام ہائی سکول.قادیان (جو ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کا لج بنا )

Page 639

قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( فوٹو جولائی ۱۹۱۰ء بمقام پشاور )

Page 640

سید نا محمود نے ہندوستان کے دینی مدارس کا دورہ کیا یہ تصویر اپریل ۱۹۱۲ میں لکھنو میں اتاری گئی ( کرسیوں پر دائیں سے بائیں ) (۱) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (۲) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (۳) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب عرفانی صاحب کے ساتھ کھڑے ہوئے.(۱) حضرت حافظ روشن علی صاحب (۲) حضرت قاضی سیدامیرحسین صاحب عقب میں دوسرے نمبر پر کھڑے.سید عبدائی عرب صاحب ( اور باقی لکھنو کی جماعت کے مخلص افراد )

Page 641

سید نامحمود ایدہ اللہ الود و دشملہ میں ۱۹۱۳ء (ناموں کی تفصیل ضمیمہ میں درج ہے.)

Page 642

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 609 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر بٹالہ - سیالکوٹ - لاہور - شملہ - لائل پور مردان - گجرات - وزیر آباد گوجرانواله - پشاور - ڈیرہ غازی خاں.بھیرہ - جموں.فیروز پور - کراچی - کپور تھلہ - کریام - راولپنڈی - امرت سر - جہلم - ملتان - پٹیالہ - کرنال- لالہ موسیٰ - حیدر آباد دکن.اٹاوہ - کانپور - را ہوں.الہ آباد شاہجہان پور - مونگھیر - سروع - میرٹھ - پٹیالہ - کلکتہ لدھیانہ - اورجمہ ضلع شاہپور - کا ٹھ گڑھ - چندوی - ضلع مراد آباد - بنگه - سامانه - کریم پور - یاری پورہ - کشمیر- چنیوٹ.قصور - لکھنو.بنارس - داتہ ضلع ہزارہ - سامانہ - قتال پور ضلع ملتان - بستی دریام کملانہ کو سمبی ضلع کٹک سنور - نا بھ.دھرم کوٹ ضلع گورداسپور - لودھراں ضلع ملتان ھمیال ضلع ہوشیار پور.میرٹھ - گولیکی ضلع گجرات.مگر الی ضلع گجرات.بھینی ضلع لاہور.کیپٹن.اوجله ضلع گورداسپور بٹھنڈہ صریح ضلع جالندھر برہمن بڑیہ.اڑیسہ کھاریاں ضلع گجرات - تمال ضلع گجرات - آگرہ - ہوشیار پور - ڈیرہ اسماعیل خاں - حصار - رہتک - چکوال- حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں مندرجہ ذیل مقامات پر نئی مساجد نئی مساجد کی تعمیر تعمیر ہوئیں.قادیان - لاہور - وزیر آباد - ڈیرہ غازی خاں - جموں.بنور (ریاست پٹیالہ ) مشہور مباحث منصوری - سونگھیر - رام پور -لاہو ر مانگٹ اونچے اور مدرسہ چٹھہ میں مباحثے ہوئے.احمد یہ پریس میں نمایاں اضافہ خلافت اولی میں جماعت کے پریس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا اخبار نور - اخبار الحق - اخبار الفضل اور اخبار پیغام صلح اسی دور میں جاری ہوئے.اور چونکہ آخر میں اخبار بدر بند ہو گیا تھا اس لئے ان جدید اخباروں کے اجراء سے جماعت کے اخباروں کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی.جو جماعت کی تعداد اور وسعت کے لحاظ سے یقینا ایک بڑی تعداد تھی.اخبارات کے علاوہ بعض رسائل کا بھی اجراء ہوا.مثلاً احمد کی خاتون.خلافت اولی کے عہد میں سلسلہ کے آمد خلافت اولیٰ کے عہد میں جماعت کی مالی ترقی و خرچ کے بجٹ میں بھی خاصا اضافہ ہوا.چنانچہ ۱۹۰۷۰۸ ء میں صدر انجمن احمدیہ کو کل آمد ۴۰۹۳۸ ( چالیس ہزار نو سوار تھیں) کے قریب ہوئی.مگر ۱۹۱۳۱۴ ء میں آمد کا بجٹ ( ایک لاکھ ننانوے ہزار سات سو پچاس ۹,۷۵۰ ۹۹ و ابنایا گیا - a اله حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں متعدد قادیان میں پبلک عمارتوں کی تعمیر پلبک عمارتوں کا اضافہ ہوا.مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کا بورڈنگ.مسجد نور - اسی عہد میں محلہ ناصر آباد کی بنیاد رکھی گئی.نیز مسجد اقصیٰ کی توسیع

Page 643

تاریخ احمدیت جلد ۳ ہوئی.610 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر تبلیغی جلسے اس دور کی یہ بھاری خصوصیت ہے کہ اس میں بر صغیر ہندو پاک کے طول و عرض میں بڑی کثرت سے جلسے ہوئے اور احمدیت کا پیغام ہر طبقہ تک پہنچا.بعض مشہور مقامات جہاں جلسے ہوئے یہ ہیں.قادیان - میرٹھ - کانپور - اٹاوہ سونگھیر - الہ آباد - امرت سر- بٹالہ - شملہ - حیدر آباد دکن - پٹیالہ - بنگہ کلکتہ - سامانہ - پٹیالہ - ہوشیار پور.سڑدہ ضلع ہوشیار پور کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور - لاہور - سیالکوٹ - مردان - ڈیرہ غازی خان گوجرہ- لائل پور - برہمن بڑیہ.شاہجہانپور - خلافت اوٹی میں ہزاروں سعید رو میں حلقہ بگوش خلافت اولیٰ کے بعض مبایعین احمدیت ہو ئیں اور ہر طبقہ کے لوگوں نے حق قبول کیا.خصوصاً سابق صوبہ سرحد - شمال مغربی کشمیر اور ضلع ہزارہ میں احمدیت کا بڑا چرچا ہوا.نواب خانی زمان خاں صاحب کے کئی کارکن احمدیت میں شامل ہوئے.17 اس طرح اٹھوال کا گاؤں احمدی ہو گیا.بنگال میں احمدیت کو بہت قبولیت حاصل ہوئی اور سینکڑوں نے احمدیت اختیار کی.حیدر آباد دکن میں احمدیت نے بہت اثر و نفوذ پیدا کیا اور ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی.الحکم کی ایک خبر کے مطابق "راس اتین" میں بیک وقت ڈیڑھ سو نفوس داخل احمدیت ہوئے.مالا بار اور ماریشس میں بھی کئی لوگ احمدی ہوئے.II اسی طرح غیر ممالک میں بھی کئی لوگ سلسلہ میں شامل ہوئے.غرمنکہ حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جماعت کی تعداد میں نمایاں ترقی ہوئی.اس عہد کے چند ممتاز مبایعین کے نام یہ ہیں.(1) خان صاحب منشی فرزند علی صاحب فیروزپور (۱۸۷۶-۱۹۵۹) (۲) مولوی سید عبد الواحد صاحب بنگالی (وفات ۲۰ مارچ ۱۹۲۶) (۳) مرزا ناصر علی صاحب وکیل فیروز پور (برادر اصغر مرزا ظفر علی صاحب (۴) شیخ عبد الرب صاحب لائلپور سابق شورام داس خسر مولانا شیخ عبد القادر صاحب فاضل نومسلم (۵) پیراکبر علی صاحب ایڈووکیٹ فیروز پور (وفات ۲۶/مئی ۱۹۴۸) (۲) مولوی عبد المغنی خان صاحب ناظر بیت المال و دعوة تبليغ (وفات ۱۴ ستمبر ۱۹۵۵) - (۷) شیخ محمد یعقوب صاحب والد ماجد شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی (وفات (۱۹۴۱) (۸) خان بہادر دلاور خان صاحب مرحوم (ولادت ۱۰ / مارچ ۱۸۹۹ء) (۹) سید محمد طفیل شاہ صاحب کو گھر وال (وفات ۲۵ / مارچ ۱۹۵۳ء) (۱۰) میاں محمد مراد صاحب پنڈی بھٹیاں - (۱۱) ملک صاحب خان صاحب نون (۱۲) سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو (وفات ۲۲ دسمبر ۱۹۶۰ء) (۱۳) مولوی ارجمند خان صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ (ولادت ۶۱۸۹۴) (۱۴) دوست محمد خان صاحب مجانہ ڈیرہ غازی خان (۱۵) صوفی عطا محمد صاحب والد صوفی بشارت الرحمن بصاحب ایم.اے.(۱۲) سیٹھ محمد غوث صاحب

Page 644

تاریخ احمدیت جلد ۳ 611 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر حیدر آباد دکن (وفات اپریل (۱۹۴۷ء) (۱۷) حافظ عبد السلام صاحب شملوی (وکیل المال ربوہ) (۱۸) مولوی محمد یعقوب خانصاحب بی.اے بی ٹی ساکن پیر پیائی ضلع پشاور (ایڈیٹر اخبار لائٹ و سابق ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ) - (۱۹) مرزا غلام حید ر صاحب نوشهروی (ولادت مارچ ۱۸۹۷ء) (۲۰) سیٹھ محمد حسین صاحب چنته کنند (وفات ۲۴ / جون ۱۹۵۳) (۲۱) سیٹھ محمد اسماعیل صاحب چرچرالہ ضلع محبوب نگر ( وفات ۸ / مئی ۱۹۵۸) (۲۲) خان بہادر سعد اللہ خاں صاحب رئیس اعظم موضع امیر و تھانہ نظام پور ضلع پشاور (۱۸۷۴- ۱۹۵۴ء) (۲۳) صاجزادہ سیف الرحمن صاحب بازید خیل (۲۴) صاجزاده باشم جان صاحب مجددی ساکن شیر شاہی افغانستان مقیم تیرازی ضلع پشاور - (۲۵) قاضی محمد شفیق صاحب ایم.اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ مردان (۲۶) کرنل صاحبزاده احمد خان صاحب ساکن مٹھا ضلع مردان (۲۷) مولوی مبارک علی صاحب بوگر امشرقی بنگال - (۲۸) سید عبد الخالق صاحب ڈپٹی مجسٹریٹ موضع شاہ پور تحصیل سالار ضلع مرشد آباد (۲۹) حافظ سید عبد المجید صاحب منصوری (۳۰) حافظ سید عبد الحمید صاحب منصوری (۳۱) نواب اکبر یار جنگ صاحب حیدر آباد دکن (وفات ۱۶ / جون ۱۹۵۷ء)- (۳۲) نور محمد صاحب نوریا - ایڈیٹر اسلام ازم ماریشس (۳۳) ماسٹر محمد عظیم صاحب ماریشس - (۳۴) ماسٹر نذیر احمد صاحب رحمانی (ولادت ۱۸۹۸ ء وفات ۸ / نومبر (۱۹۵۹ء) (۳۵) مولوی شهزاده خان صاحب (ولادت ۱۸۸۹ء وفات ۱۱ اگست ۱۹۶۳ء) (۳۶) مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی (۳۷) خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی- حضرت خلیفہ اول کے دور خلافت میں بیرونی بیرونی ممالک کی بعض احمدی جماعتیں ممالک کے مندرجہ ذیل مقامات پر مختصری احمدی جماعتیں موجود تھیں.نیروبی - کیوں مباسہ - (افریقہ) نگوئی بنموک - رنگون (برما) لندن علاوه از مین آسٹریلیا - چین - ہانگ کانگ سنگا پور - ترکی- راس التین - طرابلس - طائف - بغداد - جده - مصر اور ماریشس میں بھی احمدی پائے جاتے تھے.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ فرمایا ” ہماری جماعت چہار لاکھ سے زیادہ ہے اور بلاد افریقہ.یورپ و امریکہ و چین و آسٹریلیا میں ابھی پہنچے ہیں انشاء اللہ برس کے بعد آپ دیکھیں گے کس قدر کامیاب ہوئے.رونما ہونے والے فتنے اور ان کا عبرتناک انجام حضرت خلیفہ اول کے عہد میں اندرونی اور بیرونی لحاظ سے متعدد فتنے اٹھے.مخالفین احمدیت کا فتنہ انکار خلافت کا فتنہ.جھوٹے مدعیوں کا فتنہ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 645

تاریخ احمدیت جلد ۳ 612 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر ان طوفانوں میں جماعت احمدیہ آپ کی قیادت میں روز بروز بڑھتی چلی گئی اور یہ فتنے نظام خلافت کو اپنی آہنی زنجیروں سے متزلزل کرنے میں یکسرنا کام رہے.غرضکہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کا کچھ سالہ زمانہ خلافت اپنوں اور بیگانوں کی مزاحمتوں اور مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود ایسی شاندار فتوحات اور عظیم الشان کارناموں سے بھرا ہوا ہے کہ سچ بچ خلافت صدیقی کا روح پرور نظارہ چودہ سو سال بعد پھر سے آنکھوں کے سامنے پھر گیا.حتی کہ آپ کی خلافت کو دل سے تسلیم نہ کرنے والے بھی پکار اٹھے کہ ہم نے ابو بکر صدیق کو نور الدین کی شکل میں دیکھ لیا ہے.ہمیں ہے فخر نور الدین اور محمود احمد پر دوبارہ کر دیئے حق نے ابوبکر و عمر پیدا اللهم صل على محمد و على آل محمد و علی خلفاء محمد و بارک وسلم انک مید مجید و اخر دعونا ان الحمد الله رب العالمين.سید نا محمود کا گروپ فوٹو بمقام ہارس ہیتھ جاکھو.شملہ (متعلقہ صفحہ ۶۰۹) کرسیوں پر (بائیں سے دائیں )۱-۲- ۳ میاں محمد عبد الرحمان خاں مرحوم کو میاں محمد عبد اللہ خاں مع اپنے والد نواب محمد علی خان تینوں صحابی (۴) حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ( خلیفتہ المسیح الثانی) (۵) نواب سید محمد رضوی حیدر آبادی مرحوم ( صحابی) (۶) مولوی سید محمد سرور شاه صاحب (مدفون بهشتی مقبرہ صحابی) (۷) بابو محمد یوسف صدر جماعت احمد یہ شملہ مدفون بهشتی مقبره) (۸) خان صاحب منشی برکت علی مرحوم سیکرٹری جماعت شملہ ( صحابی) (۹) میاں محمد عبد الرحیم خاں خالد (صحابی) ابن حضرت نواب محمد علی خان مرحوم نیچے بیٹھے ہوئے (پہلی قطار ) (۱) (۲) منشی محمد افضل مرحوم (۳) بابو عبد الرحمان صاحب (۴) حضرت حافظ روشن علی صاحب ( صحابی - مدفون بهشتی مقبره ) (۵) ماسٹر نور محمد صاحب خسر جناب حافظ عبد السلام صاحب سابق وکیل اعلیٰ تحریک جدید (۶) خواجہ حفیظ اللہ مرحوم (۷) شیخ اللہ دین صاحب ماسٹر نور محمد صاحب کے سامنے حضرت مرزا عبد الحق صاحب بیٹھے ہیں.(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد سوم)

Page 646

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 613 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر حضرت خلیفتہ المسیح اول کے بعض مکتوبات کا عکس حضرت خلیفہ اول نے مندرجہ ذیل خط شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کو اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا جب کہ وہ بعض مالی مشکلات میں مبتلا تھے.ان نصائح پر عمل کے بعد خدا کے فضل سے ان کی تکالیف دور ہو گئیں.راک کرتا ہے.خاطر خاصی اور عام و حمیت اور سلما در ایالات ر اساس اختیار وی در فور اروین الت در جهم الله در بانه در استقدار جیسے کتنے بہت اہر نے غفلت کی نے اسکی یہ نتائج سے پھر محفوظ یہ مکہ اور وقت کے رکھو استقرام 1301 اور بد حول جسکے منے ہے اپر تیرے نفرت دارم کھی ہے بنا سکتا تو بدی سے پیر اور ایک نیا لا حول ولا قوة الديانة ذل اور الحمد شریف بھی سننے اور درود بایی ہے لام اور محمد یونی اللہ نے صبیح راہ علیہ وسلم ہمارے لئے بڑے دکہ درد رہا ہے اور سر سخت ہے الان پینک تیرا دین پوری یا امپر است بدید پاری است "" فرد کے

Page 647

614 تاریخ احمدیت جلد ۳ خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر حضرت خلیفتہ المسیح اول نے لدھیانہ کے ایک غیر احمدی دوست کے نام تاریخ (۳/ جولائی ۱۹۰۹ء) لکھا تھا.جو اشاعت اسلام کے کام میں دلچسپی لیتے تھے.(یہ خط حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کے فرزند محمد الیاس صاحب سے مؤلف ہذا کو ملا ہے) الله ورحم الله درمانه اشاعت اسلام کی فکر ہزاروں میں تو سکوں ہو گی انین سے آپکو بھی بہت سید احد قات کے پران کی روپیہ اس کام نے کیا طبیع ندوة استما ہو گیا.رانی استیو مدرسہ المیاست کا نہور السل السلام به وقرہ کی روح قوم اسلام میں انہیں استاد کچھ ہی کریش ده سفید و یا برکت نہیں ہوتا.انا پیر و انا الیه ریتم خواآپ اپنے شہری اگر ٹا نگاه کرد - دعا به دو عرفته امیر عبدالله مو گرفت ان احمد پر لی الله علمای کشور با ته پشته ناسب تھا.اگر ہم کو آنکو مون طب ہوتا تو اک امر تاریخ البابلی بین در روز ۵ را داراست در 1

Page 648

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ ان کئے ؟ ائم قید آدمی یا اہم مشورہ کرتے اگر کو مقصد ہو جاتا.تو اسکے مطابق اشاعت کی انتظام کیا جاتا جو محمد سے انداز ہو سکتی میں دہ ہی دیتا جو آپ کے آتے آگ کرتے.تمام دن انتا آپ کی شان میں ایک کیا ہے سکتے ہیں رہی اسلام بر دهم 8 اگا شہر میں 615 خلافت اوٹی پر ایک طائرانہ نظر بیات اریک.سکون کیسے متقی عام کروایا ہے الاول شمالی کو خود می خواندی.دوسری کی عمر اسفار ود ہو کر کو ہوتا.ایک لیے درد کو نورالان سود خون گرم تراب کیویرا مت کہو محنت کی روٹی کہاں ہے نار ستوار کر پڑہا کوکا.بڑی صحبت سے بچو مندرجہ نصائح رقم فرما ئیں.ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب پٹیالوی کی درخواست پر حضرت خلیفہ اول نے ان کے عریضہ کی پشت پر ، ود اطیب کی کان کے در سور کی خدمت میں کرہ حدد ہے

Page 649

616 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر مکتوب مبارک حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح اول بطرف بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر.لاہور تاریخ احمدیت.جلد ۳ رگ بر من آکو شده الرئل لديك زار اوی مه را به دو باتر است مولا آپ بہت انتظار کریں.اور اہم وہ ہے جو سو کی کو پروسه ده گرین اور سونے کی یہ صفت بر که حیوانات کی در دوازده بر پورت کو بیت برای - پر انتقادات والہور نوبی در دروازه د بند کر دیات کیا اپنے بہت دیکھا اور یہ مرتا جو داشتن و گمان میں ہمیں ار هیات است تا کرده تجارت پر گیند زاکرین ہو زمیندار کافر من جلتا ہے.ریسکیو ایک حال سے مارکر حال پر یه دریا را داشت امر اہم ہی پہر یہ کہ ایک پرید دو پر پر یہ ہوا دوسم نداریم فائی مانگ داز قر アッ ماری خوید

Page 650

تاریخ احمدیت جلد ۳ 617 ایوان خلافت کی ڈاک کا ایک نمونہ خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر ایوان خلافت کی ڈاک کے ایک مطبوعہ کارڈ کا نمونہ.یہ کارڈ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت خلیفتہ اول کی طرف سے ۲۲ / مارچ ۱۹۱۲ء کو مخدوم محمد اعظم صاحب کے نام لکھا تھا.عمده تحصیلی بد الله الرحمن الرحيم "206" از پیشگاه حضرت خلیفہ اسی المهدی دیاد گرد دیور فت برادرم گرم دور هم که اسلام امامی که در هته الله وبرکاته علیکم رحمته به بینی شده حضرت تھے حکم سے ارسالی خدمت ہیں.منصور ذیلی طور پر نعیم کردین راست تا خراش نمون بلوچ جو حضرت مرحب کا دردہ کا بہائی ہے.اور قادیان آنا چاہتا ہے گرایید و در سط بندگی بیری و حضور نسبت حضرت وسیب کی بلغ کہلائی تھی.اسکا حفظ امار در سطے آیا اسکا پیشہ بصری پائین سے معلوم کریں مبلغ عنظار بصری نائین سوات على التوعية پھر کی کئی صاحبا امتی و سلام

Page 651

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 618 خلافت اولی پر ایک طائرانہ نظر حواشی باب دهم ا ذکر حبیب صفحه ۱۹۸ حاشیه از حضرت مفتی محمد صادق صاحب -4 بیان جناب مولوی صدر الدین صاحب بی.اے بی ٹی (پیغام صلح ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۰ ملخصاً) کلام امیر صفحه ۷-۸- بدر حصہ دوم مورخه ۱۹/ ستمبر ۶۱۹۱۲ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.درس القرآن حضرت خلیفہ اول صفحه ۹۲-۵۸۵-۶۶۵-۵۲۲-۵۳۵-۵۶۶-۵۹۰-۴۶۳-۵۷۲-۶۵۰- صفحہ ۱-۲۸- ایضا الحکم ۲-۲۸ / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۴ کالم ۲- احکم ۱۴ ستمبر ۱۹۱ء صفحہ ۱۰ کالم ۲.بد را / جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳-۴- ایضا شعید الا زبان جلد نمبر 1 صفحہ ۳۰۰۱۱ منصب خلافت صفحه ۳۵ طبع اول الحکم جوبلی نمبر صفحہ ۸ کالم - ایضا الحق دہلی ۲۰ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲ ے.ملاحظہ ہو ” قاریان گائیڈ " صفحه ۵۸ تا ۶۵٬۶۰-۶۶- کلام امیر صفحه ۱۰ کالم ۱-۲- -16 رجسٹر صدرانجمن احمدیہ نمبر صفحہ ۲۱۸ در جسٹر نمبرے صفحہ ۱۴۴ یہ اجلاس ۳۹/ جنوری ۱۹۱۴ ء اور ۱۵ / فروری ۱۹۱۴ء کے تھے.(ملاحظہ ہور جسر صدرالمجمن احمدیہ نمبری صفحه ۱۸۰ و صفحه ۱۸۶) یہ نام صدر مجمن احمد یہ قادیان کی سالانہ رپورٹوں سے ماخوذ ہیں اور ان میں کوئی خاص ترتیب مد نظر نہیں رکھی گئی اور نہ اس کا مطلب ہے کہ مشہور جماعتیں صرف یہی ہیں.یہ نام فقط بطور مثال درج کئے گئے ہیں.۱۲ ملاحظہ ہو ر پورٹ ہائے سالانہ صد را مجمن احمد یہ قادیان ۱۳ رپورٹ جلسہ سالانہ صدر انجمن احمد یه قادیان ۱۹۰۸ء صفحه ۸ ۱۳ رجسٹر صد را لمجمن احمد یہ نمبرے.اله -۱۵ روایت مولوی محمد می صاحب ہزاروی ۱ بدر ۳۰/ مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۴ کالم ۰۳ الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۳- راس التین کو نسا علاقہ ہے ؟ اس کے بارے میں کافی تحقیق کے باوجود کچھ معلوم نہیں ہو سکا.البته شمالی افریقہ میں ایک مقام " FIR Cape ہے.جس کا عربی ترجمہ راس التسین ہی ہوتا ہے.اسی طرح لتھونیا کے قریب بحیرہ بالٹک کے کنارے ۲۰۶۵۲ طول بلد پر راس التسین ROSAITTEN) کے نام سے ایک شہر بھی آباد ہے.علاوہ ازیں بعض محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ جگہ موجودہ ترکی میں ہے اور پہلی عالمگیر جنگ (۱۳-۱۹۱۸ء) میں یہاں اتحادیوں اور ترکیوں کے درمیان بعض جھٹر میں بھی ہوئی تھیں.اور ترکی حکومت کی طرف سے وہاں ۲۷/ فروری ۱۹۱۶ء کو اتا ترک مصطفی کمال پاشا کو بھیجوایا گیا تھا.بهر کیف حتما کچھ نہیں کہا جا سکتا.کہ وہ "راس التین " جہاں سے بیعت کے خطوط پہنچے تھے کو نسا شہر ہے ؟ بدر ۱۳/ مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ کالم میں خبر ہے کہ برہم بڑیہ میں دو سو کے قریب احمدی ہو چکے ہیں.۱۸ تاریخ مالا بار از محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم صفحه ۱۹ تفصیل کے لئے صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹیں ملاحظہ ہوں.والفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۰۵ ۲۰- بدر جلد ۴ نمبر ۱ صفحه ۲ کالم ۲- - سابق کی " میں سابق ایڈیٹر " الفضل " قادیان آپ کی خود نوشت سوانح " چھتیس سال قادیان میں " چھپ چکی ہے.ناشر کیپٹن خادم حسین صاحب ربوہ سال اشاعت ۱۹۷۳ ء - بیان خواجہ کمال الدین صاحب (بدر / اپریل ۱۹۹۰ء صفحه ۸ کالم ۲) خلیفتہ الرسول حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت خلیفتہ المسیح

Page 652

619 خلافت اوٹی پر ایک طائرانہ نظر اول کے درمیان مشابہتوں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بد / ۱۲ / فروری ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۳ پیش لفظ طبع ثانی مرقاۃ الیقین صفحه ب تا صفحه - ( مرتبہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح دار شاد) ایک حیرت انگیز مشابہت یہ ہے کہ جہاں حضرت ابو بکڑنے رسول خدا اللہ کی ۶۳ سالہ عمر کے مطابق زندگی گزاری حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ٹھیک ۷۳ سال تک زندہ رہے.

Page 653

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 620 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے تبصرے تاریخ احمدیت سے متعلق حضرت مصلح موعود کا خصوصی پیغام بسم اللہ الرحمٰن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جیسا کہ احباب کو علم ہے مولوی دوست محمد صاحب شاہد میری ہدایت کے ماتحت تاریخ احمدیت لکھ رہے ہیں.الحمد للہ کہ خدا کے فضل سے انہوں نے اس کا چوتھا حصہ بھی مکمل کر لیا ہے.استازی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول ان کے بلند مقام اور آپ کے عظیم الشان احسانات کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد آپ کے زمانہ کی تاریخ کی اشاعت میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے اسے خود بھی پڑھے اور دوسروں کو بھی پڑھائے بلکہ میں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ ہی نمایاں حصہ لیتے ہیں تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی تمام مشہور لائبریروں میں رکھوا دیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں قیامت تک ملتا رہے اور وہ اور ان کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.آمین.والسلام مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ۴/۱۲/۶۳ ( مطبوعہ الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۱)

Page 654

تاریخ احمدیت جلد ۳ 621 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی کا مکتوب گرامی اللہ بھلا کرے دارالمصنفین کے کارکنوں کا کہ ان کی زیر نگرانی مولوی دوست محمد صاحب نے " تاریخ احمدیت حصہ چہارم " کی تالیف فرما کر احمد یہ لٹریچر میں ایک بہت مفید.اہم اور قیمتی تاریخی تصنیف کا اضافہ کیا ہے.مولوی صاحب موصوف نے اس سے قبل تاریخ احمدیت کے تین حصے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی قبل از دعوئی مسیحیت اور بعد از دعوئی پر مشتمل تھے تالیف فرما کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے ہر باب کو مکمل کر دیا تھا.وہ کام بھی اپنی ذات میں بہت اہم اور مشکل تھا.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات پر کافی مواد مختلف تصنیفات کی شکل میں پہلے سے موجود تھا اس لئے مولوی صاحب موصوف کو حضور کے حالات زندگی کو منضبط کرنے میں غائبا اتنی کاوش نہ اٹھانی پڑی.جتنی کہ تاریخ احمدیت کے حصہ چہارم کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ کو حضرت خلیفتہ اصحیح اول کے متعلق حالات جمع کرنے میں اٹھانی پڑی.کیونکہ سوائے ایک آدھ چھوٹی سی کتاب کے کوئی قابل ذکر تصنیف موجود نہ تھی.جو آپ کی بھر پور زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتی.حضرت خلیفتہ المسیح اول ان کی زندگی کے حالات کو بن کر نا اس لئے بھی نسبتاً زیادہ مشکل تھا.کہ آپ ایک جہاں گردوجہاں دیدہ انسان تھے.آپ بہت جگہ پھرے تھے اور زندگی کے نرم و گرم حالات سے گزرے تھے.مولوی دوست محمد صاحب نے بلا مبالغہ ہزاروں ہی صفحات کتب اور اخبارات مثلا بدر - الحکم - الفضل.پیغام صلح وغیرہ کے پڑھے.اور بیسیوں احباب سے مل کر حالات دریافت کئے.تاریخ احمدیت کے تین حصوں کی تالیف سے مولوی صاحب موصوف اپنے میں یہ قابلیت اور استعداد پیدا کر چکے تھے.کہ کس طرح کسی شخص کے حالات زندگی کو سبق آموز اور دل کش پیرائے میں تصنیف کرنا چاہئے.پھر مسیح پاک کے صدیق کی تو ساری زندگی ہی سراپا نور تھی.وہ کیوں سبق آموز اور دل کش نہ ہوتی.حق یہ ہے کہ مولوی دوست محمد صاحب کی قوت تحریر نے اس کی دل کشی کو کم نہیں ہونے دیا.یہ تو کتاب کے مطالعہ سے ہی پتہ لگ سکتا ہے.کہ سید نانور الدین کس روحانی عظمت اور بلند کریکٹر کے انسان تھے.مگر جو بات اس ضخیم کتاب کے صفحہ صفحہ سے مترشح ہوتی ہے وہ حضرت سید نا کا اپنے خدا پر پہاڑوں جیسا اٹل تو کل.اس کی توحید کے لئے الله

Page 655

تاریخ احمدیت جلد ۳ 622 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے بے نظیر غیرت.اس کے قرآن کے ساتھ والہانہ عشق اور اپنے آقا مسیح موعود علیہ السلام کی مکمل اطاعت تھی اپنے آقا علیہ السلام کے ساتھ صدق و وفا کا جو نمونہ آپ نے دکھلایا وہ اپنی نظیر آپ تھا اور جب تک آپ میں بولنے کی طاقت رہی آپ قرآن کریم سنتے اور سناتے رہے.اور توحید الہی کے لئے آپ کی غیرت اس ایک ہی واقعہ سے ظاہر ہو جاتی ہے.کہ آپ مدینہ البنی میں آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک پر دعا کر رہے تھے.کہ آپ کو معا خیال آیا کہ نورالدین خدا کا گھر تو مکہ میں ہے اور تو اس کے رسول ﷺ کے دوارے کھڑا اس کو پکار رہا ہے.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ نے رخت سفر باندھا.اور اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے.مولوی دوست محمد صاحب مبارک باد کے قابل ہیں.کہ انہوں نے ایک بہت بڑے روحانی انسان کے حالات کو جہاں ایک طرف نہایت دل آویز اور دل کش پیرائے میں جمع کر دیا ہے وہاں انہوں نے مور خانہ تنقید کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا.کتاب کا پہلا حصہ جس میں حضرت سیدنا کی زندگی کے ابتدائی حالات درج ہیں مولوی صاحب موصوف کی مورخانہ قابلیت کو ظاہر کرتا ہے.اور اس کا آخری حصہ جس میں آپ کے کریکٹر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور جو اصل میں کتاب کی جان ہے اس محبت اور عقیدت کو ظاہر کرتا ہے جو مولوی دوست محمد صاحب کو حضرت خلیفتہ المسیح اول ال سے ہے.مولوی صاحب نے یہ کتاب تالیف فرما کر جماعت احمدیہ اور خصوصاً اسے نوجوان طبقہ پر جنہوں نے حضور کے عہد مبارک کو نہیں پایا بہت بڑا احسان کیا ہے.میں نے کتاب کو بالاستیعاب پڑھا ہے.اور جب میں اس کو ختم کر چکا.تو میری یہ حسرت رہی کہ کاش مولوی صاحب کچھ اور بھی لکھتے.کتاب کے مطالعہ سے سید نا حضرت خلیفتہ المسیح اول کے متعلق علم میں بہت بڑا اضافہ تو ہوتا ہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر انسان کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے کہ کتنا عظیم الشان خدا کا وہ مامور و مرسل تھا جس کو نور الدین جیسا خادم ملا.غلام فرید ملک ۸۰ ٹمپل روڈ - لاہور.۲۳/۱۲/۱۳ (غیر مطبوعہ)

Page 656

تاریخ احمدیت جلد ۳ 623 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے تاریخ احمدیت جلد چہارم کے متعلق مکرم مولانا ابو العطاء صاحب سابق مبلغ بلاد عربیه وایڈیٹر الفرقان کے تاثرات میر اول اس کتاب کے مطالعہ سے باغ باغ ہو گیا تاریخ احمدیت میں سید نا حضرت خلیفتہ المسیح اول مولانا نور الدین کو جو ممتاز اور نمایار مقام حاصل ہے.اس کا تقاضا یہی تھی کہ آپ کی زندگی کے جملہ واقعات مستند طور پر اور پوری تفصیل دہ نسل اور آئندہ نسلوں کے سامنے رہیں.تاسب احمدی آپ کے اسوہ کی پیروی کریں.آپ کے ایثار آپ کی فدائیت اور آپ کی اطاعت امام کے عاشقانہ جذبہ سے سرشاری کو نمونہ بنا ئیں.ادارۃ المصنفین ربوہ نے نہایت بر محل اور ہر موقعہ کتاب تاریخ احمدیت کی جلد چہارم شائع کی ہے.یہ جلد سید نا حضرت مولانا نور الدین ان کی زندگی کی بہترین تاریخ ہے.کتاب کی جامعیت بالکل عیاں ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مصنف عزیزم محترم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے نہایت عرق ریزی اور پوری کاوش سے کو نہ کو نہ چھان مارا ہے اور حضرت مولوی صاحب کے زندگی کے ہر پہلو کو نہایت کامل صورت میں ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے.یہ کتاب پڑھنے سے جہاں حضرت مولوی صاحب موصوف کے کمالات زیادہ روشن طور پر سامنے آجاتے ہیں اور ہر مرحلہ پر آپ کی بلندی درجات کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے وہاں پر اس جامع کتاب کے پڑھنے سے غیر مبائعین کا بھی پوری طرح قلع قمع ہو جاتا ہے.تاریخی شواہد اور ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں بلکہ اکابر غیر مبالکین کے خود مسلمہ بیانات کے مطابق ان کا باطل پر ہونا ثابت کر دیا گیا ہے.جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا دستخطی غیر مطبوعہ مضمون اس سلسلہ میں ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے کہ جس کے بعد اکابر غیر مبالعین کے لئے قطعاً گنجائش نہیں رہتی کہ وہ حضرت خلیفہ اول سے اپنی محبت کے دعاوی میں بچے قرار پا سکیں.نیز ان کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت کے وجود کا انکار کر سکیں.

Page 657

تاریخ احمدیت جلد ۳ 624 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے میں ابھی کتاب کو بالاستیعاب پڑھنے والا ہوں.مگر میرا دل اس کے سرسری مطالعہ سے ہی باغ باغ ہو گیا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف اور ناشر ادارہ کو جزائے خیر بخشے.آمین.احباب کا فرض ہے کہ اس کتاب کو خود بھی مطالعہ فرمائیں اور غیر مبائعین کو بھی پڑھا ئیں تاکہ ان میں سے بھی خدا ترس انسان حق کو شناخت کرلیں.اللهم آمین.خاکسار ابو العطاء جالندھری ٨/١٢/١٣ مطبوعه الفضل ۱۳ د سمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۷ )

Page 658

تاریخ احمدیت جلد ۳ 625 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے تاریخ احمدیت حصہ چہارم کے متعلق مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس سابق مجاہد انگلستان و بلاد عربیہ کی رائے تاریخ احمدیت حصہ چہارم جو ادارۃ المصنفین کی طرف سے شائع کی گئی ہے.اسے میں نے دیکھا ہے تاریخ احمدیت کی تدوین کا اہم کام ادارۃ المصنفین کی طرف سے کیا جارہا ہے.اور یہ خوشی کی بات ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ کے بعد اب حضرت خلیفہ اول اللہ کے سوانح حیات اور آپ کے عہد خلافت کے واقعات بھی محفوظ ہو گئے ہیں.کتاب نہایت جامع ہے اور آپ کے سوانح حیات کے علاوہ بہت سی تاریخی نایاب باتوں پر مشتمل ہے.جو ابھی منصہ شہود پر نہیں آئی تھیں.مصنف نے اس کی تیاری میں بہت محنت شاقہ کی ہے اور جماعت کے لئے ایک نہایت قیمتی ذخیرہ جمع کر دیا ہے.علاوہ قیمتی مواد کے متعدد نایاب تصاویر بھی لگائی گئی ہیں.طباعت اور کتابت عمدہ ہے اور باوجود نخیم ہونے کے قیمت اصل لاگت ہی مقرر کی گئی ہے.میں جماعت کے ہر فرد سے اپیل کروں گا کہ وہ اسے فورا خریدیں کیونکہ اس جلد میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے.احمدیت کی نئی پود کے لئے ان کا جانتا نہایت ضروری ہے.جلال الدین مشمس مطبوعہ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۷)

Page 659

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 626 " تاریخ احمدیت " حصہ چہارم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کی نظر میں " تاریخ احمدیت " پر تبصرے کتاب " تاریخ احمدیت" کی جلد چہارم کل مغرب کے وقت مجھے مل گئی تھی.اس کتاب کے دیکھنے اور پڑھنے کا شدید اشتیاق تھا.عشاء کی نماز کے بعد اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا اور راتوں رات اس کا اکثر حصہ پڑھ لیا.حضرت حکیم الامت حاجی الحرمین سید نا مولوی نور الدین خلیفتہ المسیح اول کی زندگی کے حالات.آپ کی سیرت اور سوانح جس محنت اور عرق ریزی اور تحقیق و تفتیش کے بعد دل آویز انداز کے ساتھ شستہ اور سلیس زبان میں ہو نہار فاضل مولف مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نے ترتیب دیئے اور قلمبند کئے ہیں اس کے لئے وہ بے حد شکریہ کے مستحق ہیں جزا ہم اللہ احسن الجزاء.حضرت خلیفتہ اصبح اول کے بابرکت عہد خلافت کی جامع اور مستند تاریخ کے علاوہ آپ کے ان کا رہائے نمایاں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو آپ نے نظام خلافت کے استحکام کے سلسلہ میں بلا خوف لومتہ لائم انجام دیئے.اس سلسلہ میں نہایت قیمتی اور غیر مطبوعہ دستاویزات اور شہادتیں اس کتاب میں جمع کر دی گئیں ہیں.کتاب کا ہر حصہ ہر ایک باب اور ہر ایک فصل دلچسپ انداز میں تحریر کی گئی ہے.اور تحریر کے اس دلچسپ انداز کو بتو فیقہ تعالی آخر تک قائم رکھا گیا ہے.کتاب کے پڑھنے سے جہاں حضرت خلیفہ المسیح اول کے خلوص.اطاعت.اپنے مرشد و مطاع کے لئے فدائیت.توکل علی اللہ.سادگی.انکساری - سخاوت - خدمت خلق.خدمت علم.عشق الہی.عشق قرآن اور بے لوث خدمت دین کی صفات کا پتہ چلتا ہے وہاں پر اس کتاب میں روحانیت سے لبریز ان صفات و بیان کے پڑھنے والے کا بھی تزکیہ ہوتا ہے.اس قسم کی صفات کے پیش نظر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں شدید خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ” دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے طور پر چلیں.مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا نمونہ ہیں.جزا ہم اللہ احسن الجزاء " کتاب تاریخ احمدیت جلد چہارم پڑھ کر صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے طور.آپ کے اخلاق آپ کی صفات اور آپ کی پاکیزہ سیرت فی الواقعہ ایسی تھی کہ گویا پہلے

Page 660

تاریخ احمد بیت - جلد ۳ 627 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے راستبازوں کا نمونہ سامنے آگیا ہے اور اس وجہ سے خدا کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سب معتقدین اور ماننے والوں سے یہ چاہا کہ وہ حضرت سید نا مولوی نور الدین ان کے نقش قدم پر چلیں.تاریخ احمدیت کی اس جلد نے تمام احمدیوں کے لئے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ وہ خدا کے مسیح کی آرزومند خواہش کو اس کتاب کے مطالعہ کے بعد پورا کریں.اس کتاب کا محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے دیباچہ تحریر فرما کر اور اپنی ذاتی شہادت کی بناء ایمان افزا تاریخی کوائف و حالات اور بعض واقعاتی شہادتوں کو پیش کر کے بلا شک و شبہ اس قیمتی تصنیف کی افادیت میں قیمتی اضافہ کیا ہے.جماعت مبالکین سے اختلافات رکھنے والے دوستوں کے لئے تو اس کتاب کا مطالعہ اکسیر ہو گا.والسلام خاکسار شیخ مبارک احمد ربوه ۹/۱۲/۶۳ ایک حصہ الفضل ۲۴ د سمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۸ پر شائع شدہ)

Page 661

تاریخ احمدیت جلد ۳ 628 " تاریخ احمدیت " پر تبصرے مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مجاہد سنگا پور کا مکتوب بنام مولف کتاب مورخه ۵ / مئی ۱۹۶۵ء مکرم محترم جناب مولانا د دوست محمد صاحب شاہد سلمہ اللہ تعالی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالٰی خیریت سے ہوں گے.فروری ۶۴ء میں مکرم محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب چند دنوں کے لئے کو لالمپور تشریف لائے تو وہ وہاں پر تقریباً سارا سارا دن " تاریخ احمدیت " پڑھتے رہے ختم کر کے کتاب کی بہت تعریف فرمائی.اور بعض امور کی طرف میری توجہ خاص طور پر مبذول کرائی.اور مجھے یہ کتاب اول سے آخر تک ضرور پڑھنے کی نصیحت فرمائی اور ساتھ ہی اپنی کتاب یعنی " تاریخ احمدیت " بھی مجھے تحفتہ پیش فرما دی کیونکہ یہاں پر ابھی نہیں پہنچی تھی.میں نے اسے پڑھا ہے کئی بار پڑھا ہے.الحمد للہ نہایت ہی جامع طور پر لکھی گئی ہے اور آپ بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں اور دعاؤں کے بھی جو کہ یہ عاجز حسب توفیق آپ کے لئے کرتا رہتا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اب تو آپ اگلی جلد تیار کرنے میں مصروف ہوں گے.مکرم محترم سید داؤد احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کی تحریک پر میں نے اپنی زندگی کے چند واقعات لکھ کر انہیں ارسال کئے ہیں یعنی جن میں سیدی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خاص شفقت اور حسن و احسان سے پیش آئے اور محسنانہ سلوک فرمایا.ان واقعات میں تاریخ کا بھی کچھ حصہ ہے اس لئے آپ کی خدمت میں اس کی نقل ارسال کرتا ہوں آپ پڑھ لیں.قبولیت دعا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بھی اس میں ایک دو نشانات ہیں شائد کوئی واقعہ تاریخی طور پر آپ کو پسند آئے یا ضروری سمجھیں اس لئے نقل ارسال ہے.دعاؤں میں یادر کھیں یہ عاجز آپ کے لئے ہمیشہ دعا گو رہا ہے.و السلام خاکسار محمد صدیق امرتسری مبلغ سنگاپور (غیر مطبوعہ)

Page 662

اشاریہ جلد ۳ مرتبہ:.ریاض محمود باجوہ شاہد.محمد اشرف اسحاق شاہد ) اسماء صفحه ۱ تا ۲۵ مقامات صفحه ۲۶ تا ۳۷ کتابیات صفحه ۳۸ تا

Page 663

ابو المنمر نور الحق ابوالهاشم خان خان بهادر جلد ۳ ۲۹۹ ۲۳۰٬۲۰۱٬۲۰۰٬۱۸۸۶۷ ۴۴۲۴۳۹۹٬۳ ،۹٬۲۳۹٬۲۳۱ ง ۴۲۷ ۵۳۵ ۲۸ or ده 1 اسماء ابو بکر ، سیٹھ - جده ابوبکر صدیق ابو حنیفہ امام ابو رحمت حسن' مولوی 10° ۵۴۷ ۳۹۴ ۱۹۲ 16 اشارب آتھم عبداللہ حضرت آدم علیہ السلام آزاد سبحانی، مولانا آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم ابن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابراهیم ادهم سلطان ابراہیم لکھنوی ، حکیم ابو احمد مجددی پیر م سوم ابو سعید عرب ۳۰۶۲۸۲ ابو مسلم اصفهانی ابویوسف مولوی ابو اسحاق این مولوی محمد حسین بٹالوی ابو الجمال احمد مکرم عباسی ابو الحمید مولوی.حیدر آباد دکن ابوالخیر دہلوی مولوی ۴۵۱ سم سلام ۶۳ اجاگر سنگھ اجمل خان دہلوی حکیم احمد شیخ ابو العطاء جالندھری ، مولا تا ۶۲۴۴۶۲۳۴۴۸۷۲۹ احمد الدین بگوی، مولوی بو القاسم سید ابوالکلام آزاد ۲۲ ۴۴۹٬۴۲۸٬۴۲۷٬۴۰۷۳۶۵ ۵۷۵٬۵۳۵٬۵۲۳٬۴۸۸٬۴۸۷٬۴۵۴٬۴۵۳ احمد الدین پراچہ، حافظ احمد الدین حکیم احمد اللہ امرتسری مولوی

Page 664

جلد ۶۱۰٬۵۸۰٬۵۵۸٬۴۳۸ ۲۳۰ تا۲۳۲ YA ۵۴ Fer ☑ ۶۵ ۴۳۹٬۴۰۳٬۳۳۹٬۳۱ ۴۵۲ It A AA ارجمند خان خان مولوی ارشاد حسین مجددی، مولوی اسامہ بن زید اسحاق شاه اسلام احمد میاں اسلم بیگ مرزا اسماعیل.دہلی اسماعیل رامپور افتخار احمد پیر اکبر خان سنوری اکبر شاه خان نجیب آبادی اکبر علی ایڈووکیٹ، پیر اکبر سیع، پادری اکبر یار جنگ نواب الطاف حسین سید الطاف حسین حالی اللہ بخش خان بهادر اللہ وہ سید اللہ دی ٹھیک ' چوہدری 2 Fr ۵۵ ۱۲۱ ۶۰۸ ۵۴۴ ۵۴۵۱۰۹۴۱۰۸٬۹۹ ۳۶۵ ۴۲۶۴۲۵ ۱۶ M4A IA ۴۴ ۱۸ ۳۰۵ 12 ง ٣٣١ اشاریہ احمد اللہ خان حافظ احمد اللہ مولوی احمد جان چوہدری راولپنڈی احمد جان صوفی.لدھیانہ احمد حسین فرید آبادی احمد خان مرتل احمد دین احمد دین بھیروی حافظ احمد دین درزی احمد دین ، منشی احمد رضا خاں بریلوی احمد شاہ (بادشاہ) احمد شاہ سید - راولپنڈی احمد شاہ لاہوری حکیم سید احمد شهید خواجه احمد علی سہارنپوری، حافظ احمد فرخ شاہ کابلی احمد صیح پادری ادهم، خواجه ارادت حسین مونگه مری، سید

Page 665

جلد ۳ ۵۸۱٬۵۸۰٬۵۷۵٬۵۵۲ ١٢٦ PAYPACT orr'orr'ra'FrT DA'er AA AY ۵۴ Y⚫A oro'rm ۴۷۵۴۷۳ ۹۲ ۲۹۵ ۶۰۶ AY AN'AZ امیر احمد بھیروی امیرالدین ، منشی.لاہور امیر حسین ' قاضی سید.بھیرہ امیر شاه عامل امیر عالم مولوی.جموں امیر مینائی منشی امین الدین شماری.بھیرہ اندر نرائن ، ماسٹر انذر علی پشاوری مرزا انشاء اللہ خاں مولوی انعام اللہ سید اننت رام دیوان ایڈورڈ گین ایڈورڈ ہنری پامر باگ رام لاله بخت روشن ( والده حافظ روشن علی) بخشی جوالہ سنگھ بخشی را مد اس 10° PAT I ۳۱ ۲۹۵ ٣١٠ ۵۴ ۴۹۸٬۳۸۷ ۲۲ ۲۸ ۱۴۲ *orz'14 ۴۲۵ اشاریه اللہ دیا شیخ اللہ دین لاہوری، حکیم اله دین الیگزینڈر پادری الیگزنڈر راس الیگزنڈر رسل دب امام الدین باہو امام الدین گولیکی ، مولوی ۱۴۰۱۳۴ ۱۳۲ ۱۳۱ ۱۳۹۲ ۵۴۵ ۱۴۴ ۱۴۳ ۸۸ امام في امام و مردی مرزا امان اللہ مرزا امنة الحفیظ بیگم ، نواب امته الحی، سیده امجد علی شاہ سید امداد علی قاری امر سکھ مہاراجہ امرناتھ دیوان امریک رائے لالہ ام ناصر ( محمودہ بیگم )

Page 666

جلد ۳ ۳۰۳٬۳۰۱۴۲۹۹٬۲۹۲تا۳۲۱۴۳۱۹۳۱۶٬۳۱۲۳۰۵ ۳۶۹۴۳۲۷۳۶۳۳۶۰۳۵۳٬۳۴۷ تا ۳۷۳۳۷ ۳۹۱٬۳۸۸٬۳۸۱۳۷۹ تا ۷ ۴۴۲۴۴۰٬۴۳ تا ۴۴۴ ۴۶۷۴۶۳۴۶۳۴۵۸٬۴۵۷٬۴۵۵٬۴۵۰٬۴۳۸ ای ۷۶۴ ۴ تا ۴۹۵٬۴۹۴۴۹۰۴۸۸٬۴۸۴۴۴۷۸ ۳۹۷ تا ۵۱۱٬۵۰۰٬۵۰۸٬۵۰۶۳۹۹تا۵۲۳٬۵۱۸ ۵۶۸تا۶۲۰۶۱۳۶۰۸۶۰۷۶۰۵۶۰۳٬۵۷۰ ۴۸۸ بشیر حسین قدوائی بشیر علی ، ملک.منڈی بہاؤالدین ۵۷۹٬۴۳۴۴۳۲ 111 IT IPTŪP'G'AL ۲۱۱ 10 بوہر، ڈاکٹر بهادر شاہ ظفر پر بھو نارائن سنگھ ، سر پرتاب سنگھ مہاراجہ پر تول چندر رائے پطرس پورس ، راجہ پولوس ۲۵۴۴ ۵۶۳ ۳۸۷۳۵۵٬۲۸۶ TH المشاري بدر الدین مولوی.ملتان بڑھے شاہ اوان برکات احمد را جیکی برکت علی برکت علی مرزا برکت علی فعلوی، منشی برکت علی لائق لدھیانوی برہان الدین جہلمی، مولوی ۵۷۵٬۲۳۲٬۸۰٬۷۲ ۲۲۸۴۲۳۷ ۲۲۳ ۲۲۲ ۴۸۷۴۳۳۳۵۴۲۵۴ " PAY ۵۷۶٬۵۷۵ ۳۹۶ ۲۵۰٬۲۰۸۱۷۷۷ بشارت احمد ، ڈاکٹر بشیر احمد بشیر احمد مخدوم.بھیرہ بشیر احمد ، مولوی.دہلی بشیر احمد ایم.اے مرزا ۵۰۱۱۳۹۸٬۳۵۸٬۳۴۲٬۳۲۰٬۳۱۸٬۳۱۲٬۳۰۱۴۲۹۰ ۵۷۹٬۵۷۱٬۵۶۵٬۵۶۴٬۵۶۰٬۵۵۹٬۵۱۳٬۵۰۹ • بشیر الدین محمود احمد ، مرزا - المصلح الموعود ۲۱۵ ۲۱۲٬۲۱۰۲۰۸ ۲۰٠٩ ٦٤٢٠١١٩١٤٨٩١٦٤٤٤ ۲۵۴۳۵۰٬۲۳۷ ۲۳۳ ۲۲۵ ۲۲۴ ۲۲۲ ۲۲۰ ۲۱۹ ۲۹۳٬۲۸۷٬۲۸۲٬۲۸۴۲۶۵٬۲۶۱۴۲۵۸۲۵۵تا۳۹۴

Page 667

اشاریہ 50 چند سوم پیر بادشاہ تارا چند پادری تصور حسین ، صوفی تھامس ہاول پادری تیمور امیر تیمور ایم.اے شیخ ٹامس کارلائل ٹکہ بلدیو سنگھ تا.ٹ.ث 66.۱۰۸ Y*** (0+'\P4°14'||A*{[0 10 های ۳۳۷۳۳۶۴۳۳۴ ۵۷۴٬۵۵۱٬۵۳۱٬۵۱۰٬۵۰۸٬۳۴۰ ۱۳۰ ۱۳۹۸۹ شاء اللہ امرتسری ، مولوی ۳۰۳۱۳۰۰٬۲۲۵٬۲۰۵ ۴۶۷۳۲۶۶۳۶۳۳۶۳۳۴۳۳۰۴۳۰۵ جارج سیل جان محمد میاں جگن ناتھ ، ڈاکٹر جلال الدین نفس جلال الدین، مرزا جلال بخاری ، مولوی جماعت علی شاہ پیر ج - چ ۲۹۵ ۵۶۲ ۶۲۵ ۵۳۴ ۵۶ ۳۴۳٬۲۳۵۲۰۵۲۰۴ جمال الدین ، منشی جمال الدین افغانی سید جہاں میاں جوالا سنگھ.بریلی ہے.ایل ٹھاکر داس، پادری چر جی ڈاکٹر چٹو میاں چراغ الدین مولوی چراغ دین ، حکیم.لاہور Aramo MAL < ۳۰۵ 10+ ۱۶۵ ۵۴۸ g ۵۵ چراغ دین ، میاں.لاہور ۳۹۹٬۴۹۷۳۲۳۳۲۲ چراغ علی نواب اعظم یار جنگ چن بسویشور چمن پیر حاکم دین، چوہدری حاکم علی چوہدری حـخ حامد انصاری، مولانا حامد علی حافظ حامد علی شاہ میر جامدہ صاحبہ بنت پیر منظور محمد For ۳۵۶ oor ۵۲۳

Page 668

چند سوم PAY ۶۰ ۶۲۸ ÷ ۶/۰ ۴۲۵ ۲۱۷ ۴۲۵ PAY ٣٣٨ مخضر حیات خاں ، ملک خلیل احمد مونگهبری حکیم خورشید احمد شیخ خوشی محمد خیر الدین سیٹھ خیر الدین ، میاں د.ڈ.ؤ حضرت داؤد علیہ السلام داؤد احمد سید میر دلاور خان خان دلاور علی، قاری دوست محمد مولوی سیانی دوست محمد شاہد دولت رائے بھیرہ دھرم پال دھانو نٹی دیانند سرسوتی سوامی دین محمد منشی.لاہور دین محمد میاں دین محمد بگا ۵۴۹٬۴۸۳٬۵۰ ۳۲۲ ۲۳۷۳۳ ١٣٧ oroʻrer' ۳۳۰ اشاری حسن امام حسن بخش قریشی، مخدوم شیخ حسن شاہ سید - رامپور حسن علی مونگیری مولوی حسن نظامی، خواجه حسین سید شیخ الحدیث کہ حسین بریلوی، میر حشمت اللہ خان ، ڈاکٹر ۶۱۵٬۵۳۱٬۵۱۹٬۳۹۵٬۲۳۳ ۶۰۶۳۲۰ 16 YOY ۱۲۰۱۰۸۷۳ ۶۰۸ ΚΑΙ حفیظ اللہ خواجہ حمید احمد ، مرزا حمید الدین خلیفہ حمید بیگ، کیپٹین مرزا حیات النور زوجہ حافظ روشن علی حیدر شاه پیر حیرت دہلوی، مرزا یف کیلوی خادم حسین بھیروی، منشی خالد رکھیں بھوپال خدا بخش صیح.حج خدا کلش ، ملک.بھیرہ

Page 669

جلد رحیم بخش ، میاں ۲۹۹ رستم علی خان، چوہدری ۲۰۶٬۲۵۰ رشید احمد مرزا رشید الدین خلیفہ ۲۱۵٬۲۰۸٬۳۰۶۱۹۱ ۲۲۲ امام کے ۶۰۷۵۳۰۳۹۸۲۸۴۳ رضوی، نواب سید ۳۸۲ [*• : ۴۹۷ رکن الدین، بیخ گورداسپور رکن شاہ سید رنجیت سنگھ مہاراجہ ده رنبیر سنگھ مہاراجہ ON'ıʻIFIʻIFF'IF": ۳۳۹۳۲۳۳۲۰٬۳۰۰۶۸ ۵۷۸٬۵۵۰۱۵۳ ۶۱۰۵۳۹ ۲۲۶۷ ۲۶۶۴۳۱۲ {** 7 ۳۹۵٬۳۰۰۲۵۰ 107 ۹۲ ۲۹۵ ۹۲ اشاریہ دیو کی میدن لالہ ذوالفقار علی خان خان ڈگلس گریل رز irr'ırrıfrüri ۵۹۷ رادھا کشن پنڈت را ڈویل را چچندر جی را مد اس تحصیلدار رام سنگھ رام موہن راجه رجب الدین خلیفہ رحمت الله شیخ ۲۵۶۴۲۲۷۱۹۳۹۹۱ ۲۵۷ ۲۷۴ روشن علی حافظ ریاض احمد ، مولوی زمان خان نواب خان زمان شاه سید زین الدین محمد ابراهیم زین العابدین ولی اللہ شاہ سید ۳۹۸٬۳۹۷۳۵۵٬۳۳۰۳۲۹۳۲۱۲۹۶۴۳۸۰۲۷ ۴۷۰۴۵۲۴۴۳ ۳۴۱ 064066 TAY ۶۰۸ رحمت اللہ قاضی رحمت اللہ کیرانوی رحمت اللہ ہزاروی رحمت علی رحیم بخش اطلع رحیم بخش مولوی.لاہور

Page 670

جلد ۳ سلیمان تونسوی، خواجه شاه سلیمان ندوی سید ۵۷۵٬۴۹۰۴۴۳۲٬۳۸۳٬۳۸۱ سمیع اللہ بیگ مرزا MAI ۳۵۶۴۴ سورج کول راجہ سید احمد بریلوی سید احمد خان سر 4A*40*21 opp'rqa'r¶p'ını'lar'10-'ımı'\|A'ıız TI ۱۱۳ سیف الرحمن ، صاحبزاده ش شاه سلیمان، قاری شبلی نعمانی علامه rar'iy.'||A'||r ۵۷۵٬۵۳۵٬۴۳۲٬۳۲۵٬۴۰۷ ۱۳۹۳٬۳۸۱۴۳۸۰٬۳۲۷ ۲۸٬۲۷ ۲۳۲ ۳۵۸٬۳۱۳٬۳۰۱۱۷۰ شرف الدین حاجی شرموت رائے لالہ شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۵۹۵٬۵۱۳٬۵۰۵٬۴۲۲٬۳۹۸٬۳۹۳۳۹۱۳۷۳۷۶ [4 IA < ۵۷۵۱۰۸ ده حضرت شعیب علیہ السلام شعیب شنزاده قاضی همشیر علی پیر بھیرہ شمس الدین حکیم.لاہور 8 ۵۷۴۴۶۲۳۷۴۳۶۵٬۲۹۰ ۵۵۰ ۵۷۶ ۳۶۳۵ ۵۷۴٬۵۶۷ ۳۹۵ ۲۲ VII ۳۴ ۵۹۱۲۷۳۱۷۰ سلام سلم لهم ۴۳۲ 10 ۳۰۲ ۲۸۲۲۲۱ ۸۱۸۰۳۳۲۹ ۵۳۵ اشاریہ زین پیر سبحان شاہ رامپوری ، میاں سراج الحق نعمانی پیر سراج دین خانپوری، مولوی سردار محمد مولوی سعد اللہ خان خان بہادر سعد الله رزیال سعد اللہ لدھیانوی سعید احمد حیدر آبادی، مولوی سعید الدین سونگھروی، سید سکند را عظم یکمینہ انساء سکینہ بی بی سلطان احمد مولوی سلطان محمود غزنوی سلیم اللہ خاں، حکیم

Page 671

جلد ۳ 1 ۵۴۴ صفدر علی مرزا ظفر احمد ، مرزا ظ اله ۲۰۵ ۵۶۳ 010'oro'orror ۷۲ ۳۶۸۳۳۹ ٣١٩ orrʻrin rai ۵۳۵ ۲۰۵ ۵۵۰ ۴۲۵۳۹۳ ۵۳۲٬۲۸۲ ۱۳۴۲ ظفر حسن ' ڈاکٹر ظفر علی خان مولوی 9 ง 41 rar Y H اشاری شوکانی مام شوکت علی مولانا شہزادہ خان، مولوی شهسوار شیر سنگھ راجہ شیر شاہ سوری شیر علی مولانا ۳۵۵٬۲۹۹٬۲۹۵٬۲۸۳٬۲۸۰٬۲۳۳ ظہور احمد میگوی.بھیرہ ظہور حسین مولوی.مجاہد بخارا ظهیر الدین ارویی بابو ظہیر الدین بابر عابد علی سیالکوٹی، سید میر عالم شاه حکیم سید عالم علی پوری شاه عائشہ صدیقہ عباس علی بیگ، مرزا عبد الباری فرنگی محل مولوی عبد الباسط عبد الحق ، ماسٹر عبد الحق ، منشی ۲۰۸٬۶۰۵٬۵۳۲٬۵۰۰ ۳۹۹۴۴۹۶۴۴۲۸٬۴۳۵٬۳۸۸ ۴۳۲ ۶۰۸٬۴۸۵٬۳۶۵ ۵۴ ۳۸۳۴۳۷۸۴۲۳۲۱۱۳ شیروانی مولانا ص صاحب خان تون صادق حسین سید صادق محمد نواب صبغۃ اللہ فرنگی محل مولوی صدر الدین مولوی crr'raï'rra'rr¿'r+p'r«s'rqo'rar ۲۰۷٬۵۳۲٬۵۱۸٬۵۰۳٬۵۰۰ ۴۹ ۴۶۸ ۶۴۴۳ 1.6 ۳۵۶ صدیق حسن خان نواب صدیق دیندار صغری بیگم

Page 672

جلد ۳ عبد الرحمن، سید ۳۳۰ عبد الرحمن ، ماسٹر.سابق مہر سنگھ ۲۰۸٬۵۷۴٬۲۰۶ عید الرحمن جٹ ، مولوی عبد الرحمن خادم ملک عبد الرحمن خان ، کانپور عبد الرحمن خاکی مولوی % ۵۷۴ 14 10 ۴۵۲ ۵۳۵٬۳۲۶٬۳۸۳ Ar ۲۴۳٬۲۳۵۳۰۶۹۱۶۹ اشاریه عبد الحق مولوی عبد الحق حقانی، مولوی عبد الحق كاتب المنشی عبد الحق ودیارتھی عبد الحلیم پٹیالوی، ڈاکٹر ۵۶۳۱۳۷۲۳۶۳۳۰۷۲۹۵۲۷۳۲۷۲۲۴۶ عبد الحمید یا ہو.آڈیٹر ۶۱۶۶۰۷٬۴۹۵٬۴۵۳٬۴۲۹ عبد الرحمن دا توی عبد الرحمن شاطر، قاضی عبد الرحمن قادیانی بھائی ۵۱۴۵۰۳٬۳۲۴۴۴۱۰۳۸۷٬۳۵۵٬۳۵۴٬۳۰۳٬۲۷۶ ocr'arr'alz PAYPLA عبد الرحمن کانمانی ، حکیم عبدالرحمن لکھو کے مولوی عبد الرحمن مصری بیخ عبد الرحمن ولد عزیز الرحمن سید ori عبد الرحیم شاہ ۳۹ عبد الرحیم ، شیخ.بٹالہ ory عبد الرحیم جان ۳۲۰ عبد الرحیم خاں خالد نواب میاں ۱۵۵ ۱۶۳ ۵۱۳۴ ۱۵۶ ۵۸۰٬۵۷۳٬۵۳۵٬۳۸۹ ۵۹۰٬۲۹۲ Y ۳۲۰٬۲۸۱۱۷۳۱۵۹ ۱۵۸ عبد الحمید جهلمی عبد الحمید چغتائی، ڈاکٹر عبد الحمید خان سلطان عبد الحمید منصوری، سید عبدالحی ، میاں ۵۱۲۵۰۴۹۷۴۵۰٬۳۱۹۳۹ ۳۳۹۳۲۱ 02-'014'002'02'artorr 41° ۶۱۲ ۱۲ ٣٣٦ عبد الحی لکھنوی، مولوی عبد الخالق سید عبد الرب المخ عبد الرحمن نابو عبد الرحمن، پریس مین عبد الرحمن ' سائیں :

Page 673

عبدالعلی مولوی رامپور عبد العلی بھیروی عبد العلی خان، مولوی چند سوم } ۳۴ 44 ۵۶ ۲۳۲ عبد الغفار خاں عبد الغفور عبد الغفور بیگ، مرزا عبد الغفور مرتد PAY ۴۴۷ Or A عبد الغنی، شاه - مدینہ ۶۳ تا ۷۲٬۶۸ ۷۷ ۱۰۰۰ ۱۰۷ ۱۰۸ ۳۲۲ ۵۷۴ ☑ ۳۳۸ You ۱۶۸ ۱۶۵ ۱۶۳ ۵۴۶ ۵۲۵ عبد الغنی، مرزا عبد القادر، پروفیسر عبد القادر خان، رامپور عبد القادر لدھیانوی 11 عبد القدوس عبد القدوس کشمیری مولوی عبد القیوم، مولوی عبد القیوم، میاں عبد الکریم شیخ عبد الکریم پر ہم حکیم عبد الکریم حیدر آبادی 14 ง عبد الکریم سیالکوئی مولوی ۱۶۰٬۱۵۲۱۳۰٬۱۲۰۱۷ ۶۱۳٬۵۷۴٬۵۷۰٬۵۶۸٬۵۴۵۳۱ ۳۱۶۲۹۰۰ ۳۵ ۴۵۲ ง 121 ۳۶ ۴۳۴ ۵۴۶۵۴۴٬۵۳۹ ۲۳۷ ۴۲۰ OTA'MIAʻINA ۷۲ J SIA ۳۲۳ اشاره عبد الرحیم ورد ، مولانا عبد الرحیم نیر مولوی عبد الرزاق شاہ رامپور عبد الرزاق، شیخ عبد الرشید شیخ عبد الرشید ملک.بھیرہ عبد الرشید بناری عبد الرشید سیاح عبد الرؤف بھیروی ، ماسٹر عبد الستار الو مسلم عبد الستار شاہ سید - الفان عبد الستار کیتی، مولانا عبد السلام میاں عبد السلام هملوی حافظ عبد العزيز عبد العزیز بگوی، مولوی عبد العزیز خاں ، منشی عبد العزیز دہلوی، شماه عبد العزیز مغل ' میاں

Page 674

جلد سوم عبد الله مهاجر ۲۵۵ عبد اللہ ہزاروی، مولوی ۲۰۶ عبد الماجد بھا گلپوری عبد المجید اول سلطان (4 عبد المجید خان ۴۳۵ عبد المجید خاں ، حکیم.دہلی دد عبد المجید سالک، مولانا ۵۴۰٬۵۳۵ عبد الجيد منصوری، مولوی عبد المحى عرب سید ۳۱۰٬۳۹۳٬۳۹۲٬۳۲۰٬۲۰۸ ۲۰۵٬۵۷۴٬۵۵۷٬۵۵۶٬۴۳۸٬۴۲۰ OY ۲۳۴٬۵۶ 12 عبد المغنی خان مولوی عبد المغنی مجددی، شاہ عبد المنان عمرایم.اے میاں عبد المنان وزیر آبادی حافظ عبد الواحد بنگالی، مولوی سید ۴۲۷۱۳۲۴ ۷ ۶۱۰۶۰۸٬۴۳ عبد الوحید سلطان عبد الوہاب مولوی - کلکتہ FLA عبد الوہاب ، میاں عبد الوہاب شعرانی امام ۴۲۵ اشاریہ 06m‘010ʻora'rroʻppr'iad'ını'ler'ınTY ۵۸۳ لا ۴۳۲ ۶۰۸ ۵۷۴ Poyr ۴۲۵ ۳۲۰ ۳۸۷ ۴۹۵۳۸۷ IAF ۲۱۸ PA عبد اللطیف بہار پوری عبد اللطیف شهید صاحبزادہ سید عبد اللطیف ہاتف ، حکیم مولوی عبد الله عبد اللہ مولوی.شیعہ عالم عبد الله بن عمر عبد الله بو تالوی مولوی عبد اللہ بھیعنی مولوی عبد اللہ پٹواری ملک.بھیرہ عبد الله حماپوری عبد اللہ ٹونکی مولوی عبد الله جان عبد الله حلوانی عبد اللہ خان چوہدری.بہلولپور عبد اللہ خان چوہدری.راجہ زید کا عبد اللہ شاہ پیر عبد الله العماری، مولوی عبد اللہ غزنوی ، مولوی عبداللہ گنا چوری

Page 675

جلد ۳ ۳۸ ۴۲۵ ۲۰۱ ۲۲۰ ۵۹۷٬۵۹۵۶۷٬۵۰۱۷ لا ۳۲۸ 1617 ۵۸۲٬۴۳۴٬۴۲۹٬۳۹ AA ۸۵ ۲۰۸ ۵۹ و ۵۷۷۳۹۷۱۵۲ arfrr علی بخش خاں علی حسین لکھنوی، حکیم علی قاری ملا علی قاضی خواجہ علی کرم اللہ وجہ علی لدھیانوی، خواجه علی محمد خان نواب سید 13 علی میاں ، حافظ سید عمر ابن الخطاب عمر الدین، حکیم مولوی عمر حیات خان ، ملک عمر دین هملوی مولوی عنایت الہی ، مولوی.بمبئی عنایت رسول مولوی حضرت عیسی علیہ السلام ۲۸۶ غلام احمد حکیم غلام احمد قاضی حضرت غلام احمد قادیانی مرزا مسیح موعود ۵۷۵٬۵۳۴٬۳۹۶ 16 16 ۵۸۳ ۵۷۰۳۴۲ ۳۳ ٣٣٣ 41+ ۲۲۰ ۱۲۵ ₤4 = ۳۳ orr اشاریہ عبيد الله عبید اللہ نسل مولانا عبید اللہ سندھی مولوی عبید اللہ ناصر عثمان غنی عجب خان ، تحصیلدار عزیز احمد عزیز احمد مرزا عزیز الله افغان مولوی رامپور.عزیز اللہ شاہ حافظ سید عزیز مستری میاں صمت اللہ مولوی عطا محمد حکیم عطامحمد صوفی عطا محمد مرزا عطاء اللہ ، مولوی عطر دین ' ڈاکٹر علاؤ الدین مولوی علی احمد نیر واسطی، حکیم سید علی بخش

Page 676

جلد ۳ غلام رسول را جیکی، مولانا ۲۱۷٬۱۸۳٬۵۵ ۳۰۳٬۲۱۷ 14 اشاری pal'paypar'pca'r er't crʻpraïrr‹°r«c'ro¶ror'rƒ^°PPA'TIA ۶۰۸۵۷۴٬۴۹۵٬۴۹۳۴۴۳۲ ۵۶۰ ۵۸۶٬۵۲۶٬۵۲۴ تا ۶۰۳٬۵۹۳ ۲۰۸٬۵۳۰٬۴۹۸ crr's ۵۹۵ PAY 100 غلام رسول و زیر آبادی، حافظ غلام سرور کانپوری غلام علی شاہ ۵۸۴ ۲۰۸٬۳۶۵٬۲۱۶٬۲۰۸ ۲۰۴ ۲۲ فلام احمد کر یام، حاجی نظام احمد واعظ الطبخ غلام الثقلین، خواجہ فلام بي غلام حسن خان پشاوری، مولانا ۵۳۲٬۴۷۰٬۳۲۰٬۲۹۹ غلام فرید غلام فرید خواجه غلام فرید ایم.اے ملک ۵۷۴٬۵۶۵٬۵۵۷٬۲۹۹ ۶۲۲۶۲۱۵۸۱ ۵۳۸٬۷۳ ☑ Ar ۲۵۶ ۵۷۴٬۵۴۶٬۵۴۳٬۵۴۰ ۲۵۲ ۱۴۴ غلام قادر ، مرزا غلام قادر ، مولوی غلام مرتضی مرزا غلام مرتضی، مفتی ۳۲۵٬۳۲۴ ۳۳۳ ۵۳۵ ۲۶ ۵۵۲۸ نظام حسین مولوی.لاہور غلام حسین میاں غلام حسین حسنین گفتوری، حکیم غلام حیدر بابو غلام حید ر میاں فلام حیدر نو شهرری، مرزا فلام و معگیر، حکیم لاہور غلام رسول حافظ.والد حضرت خلیفہ المسیح الاول غلام مرتضی بریلوی مولوی فلام محمد بابو.فورمین غلام محمد چوہدری غلام محمد ملک غلام محمد منشی < ۲۳۲ غلام رسول چووی، مولوی غلام رسول حجام میاں غلام رسول خان

Page 677

MA'AL 110°14'2 15 اشاره غلام محمد امرتسری ، حکیم ۵۳۷٬۵۴۳٬۵۳۲٬۳۵۸٬۳۳۰ ۵۴۷٬۵۳۳٬۵۳۲٬۳۵۸۰ فتح محمد امیخ.رئیس جموں فتح محمد سیال چوہدری ۴۹۱۲۵۹۴۵۷۰۴۳۴۰۳۹۶۳۷۷ ^^ ory IM فتح محمد کلیک، چوہدری خدا محمد خان، حکیم فدا محمد دہلوی حکیم فردوی فرزند علی خان ، منشی Pecret ۶۱۰۶۰۸۵۷۴ ۴۶۳۳۶۵٬۳۵۷ فرید شکر مینج PALIZA TA'DA'Y ۷۳ mirr TOA I ٢٣٩ 0 فلام محمد بی.اے حافظ صوفی ظلام محمد جانک غلام محی الدین غلام محی الدین ، حکیم غلام محی الدین خان بہادر غلام سیخ پادری غلام نبی سیلهی غلام نبی، شیخ.میانی غلام نبی مولوی ۲۲ فضل احمد منشی ^^ غلام نبی مولوی رامپور ۳۴ غلام نبی بلانوی، خواجہ HÉCA فضل احمد ابن میاں محمد ۲۹۹ فضل احمد مالوی شیخ ۷ ۶۱۳٬۵۷۸٬۵۷۷٬۵۵۴۴۴۸٬۴۴ غلام نبی حلقوی ، مولوی فضل الى ۴۵۲ غلام نجی مصری ، مولوی ۲۰۸٬۵۷۴٬۳۸۷٬۲۸۶۴۶ فضل الهی، مستری OLYA ف فضل الدین جمعدار ۵۸۱۵۷۹۵۷۶٬۵۳۱٬۵۲۹ فضل الدین بھیروی ، حکیم ۱۲۹٬۱۲۰٬۹۷۲۸ ۵۸۱٬۵۹۷۳۵۳٬۳۱۲٬۲۸۶٬۲۷۸٬۳۶۶۲۲۰ ۱۳۹ فضل الدین گجراتی، مولوی فضل الدین، وکیل، مولوی 00° 10 فاطمه فاطمه بي بي فاطمه بیگم فامیان جمیلی سیاح

Page 678

اشاری 16 فضل الرحمن ، مفتی ۲۰۶٬۵۷۴٬۵۳۴٬۴۹۷۱۵۴ کر پارام، دیوان فضل الله فرنگی محل ، مولوی فضل حق بٹالوی، شیخ فضل حق رامپوری، مولوی فضل شاه سید فضل قادر، شیخ فقیر الدین ، سید.کمشنر لاہور فقیر اللہ قادیان ۳۹ کرتار سنگھ، سردار ۶۱۳٬۵۸۰٬۵۷۴ کرم الہی ، ڈاکٹر ۵۲ ۲۳۷ کرم الہی پٹیالوی، شیخ کرم الدین میاں کرم دین مولوی.ساکن بھین ۱۴۲ کرم علی حکیم.پنڈ دادنخان ۳۸۷ جلد ۳ ± ۱۸۰ ۵۳۰ ۵۶۲ ordrer 104 A ۴۳۴ ۷۲ r ۳۶ IMAʻIA6'166'16-'\\F°q کرم علی کاتب منشی کریم بخش، حاجی کلب علی خان نواب کلن خان رامپور کمال الدین خواجہ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۰ ۲۲۵۲۲۴٬۲۱۳ ۲۱۱۱۹۲ ۱۹۱ ۲۴۳٬۲۳۷ تا۲۵۶٬۳۵۲ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۷۳ تا ۳۷۴ ۲۰۷٬۵۳۲۵۱۹ May ۵۳۵ فقیر اللہ ، ماسٹر فقیر محمد ، میاں.دیوبند فقیر محمد چشتی ، حکیم ق قاسم علی میر ۳۱۳٬۳۱۰٬۳۰۴۴۳۰۰٬۲۲۲ ۴۶۸۴۶۴٬۴۲۷۴۲۶۳۷۳۳۶۲۳۳۳۳۳۹ ۳۲۱۳۱۹۳۱۰٬۳۰۴٬۳۰۰٬۲۹۶۲۹۳٬۲۸۲۲۸۱ ۶۰۸۲۰ ۷٬۴۹۵ ۳۵۳٬۳۴۳٬۳۳۷۳۳۵٬۳۲۷۳۲۵٬۳۲۴ 1+1 ۳۶۹۴۳۶۶۴۳۶۵۳۵۹تا۳۸۹٬۳۸۶٬۳۸۲٬۳۷۷ ۵۶۸۴۴۳۶ ۳۰۵ تا ۴۵۳٬۴۵۲۴۴۳٬۳۳۴٬۴۳۲٬۴۳۰۴۰ ۴۹۱۴۴۸۸٬۴۷۰٬۴۶۶۴۶۴۴۵۸۴۴۵۲ ۵۷۴ قدرت اللہ خان، شاہجہانپور قدرت اللہ سنوری ، مولوی قطب الدین بختیار کانی خواجہ قطب الدین بد و مهری ، حکیم ک

Page 679

جلد ۳ ۵۶۱٬۵۶۰۱۷۲ مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا مبارک اسماعیل مبارک علی بوگرا مولوی مبارک علی سیالکوئی مولوی ۴۲۷٬۳۱۷٬۳۱۷٬۳۰۰ IAP'100 مبارکہ بیگم سیده نواب و ۵۸۳٬۵۷۴٬۵۶۹٬۵۳۱۴۴۱۲ ALAY ٢٤٠ متھرا داس الاله مجددالف ثانی ( شیخ احمد سرہندی) محبوب عالم لاہور محرم علی چشتی محکم دین ، میاں 17 ۲۲ ۳۲۲ اشاریہ کھیا لال کشور اس رائے گ CAA \rr³ırıır='\'ı²´að ۳۲۰ 114800 ۱۳۱ Ar ۲۱۷ گاندھی مسٹر گلاب سنگھ مہاراجہ گل محمد خان وکیل گوبند سمائے دیوان گوپال چندر ، ڈاکٹر گولک ہاتھ ، پادری گنبت رائے ویوان گنیش شاستری ، چذت ل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائٹز ، ڈاکٹر جی ڈبلی ٹن لارڈ Al چھن داس دیوان orz'iriga ۴۵۴ ۴۱۶۴۰۶۳۹۷۳۸۶٬۳۸۰٬۳۲۸٬۲۷۰٬۲۳۱ ۵۹۷٬۵۹۵٬۵۸۲٬۵۶۷٬۵۵۴٬۵۵٬۵۰۳٬۴۶۸ ۲۵۲ ۲۲ ۵۲۶۳۳۴۲۳۷ ۳۸۷ محمد یا ہو.لدھیانہ مجھے مولوی حافظ محمد ابراہیم حافظ محمد ابراہیم بقا پوری، مولوی محمد ابراہیم سیالکوئی مولوی میر ۳۷۸٬۳۶۲۴۷۲ AA ۹۲ ۱۵۶ لعل دین میاں.جموں لمكهرام مارتن کلارک پادری مبارک احمد شیخ

Page 680

} محمد اسماعیل پانی چی شیخ محمد اسماعیل شهید دهلوی، مولوی جلد ۳ ۵۹۱ Fyre محمد اشرف' مرزا 7.6 محمد اعظم، مخدوم ۵۷۵٬۵۳۰٬۳۵۲ محمد افضل ، حکیم ۵۲۷ محمد افضل، منشی ۶۱۲ محمد اقبال، ڈاکر سر ۵۳۵٬۵۳۴٬۴۲۹٬۴۰۷۳۰۷ محمد اکرم خان جموں 1 محمد الدین حکیم مولوی ۲۸۶٬۲۷۹۲۷۸ محمد الدین حکیم.گھنیالیاں ۳۸۷ orm'err oro 169 ۱۲ 18 ۵۷۵ ۱۵۰ ۱۳۹ اشاری محمد ابراہیم کپور تھلوی ، حکیم محمد اجمل ، حکیم.دہلی محمد احسن ! مردی سید ۳۰۰۲۵۱٬۲۲۸٬۳۳۲٬۲۰۶٬۲۰۰۱۹۱۴۱۸۸۱۷۸ م ۷٬۵۸۳٬۵۱۷۵۱۲۴۲۶۳۹۵۳۵۳ ۲۰۸٬۶۰ محمد احمد ابن حضرت خلیفہ المسیح الاول IDIOA ۲۹۶ ۲۹۹ ۶۰۵ محمد احمد مولوی محمد احمد ایم.اے محمد احمد خان نواب محمد اسد اللہ کشمیری قریشی محمد الدین مولوی محمد اسحاق سید میر ۲۵۳٬۲۲۰٬۲۰۸۱۸۳۱۰۷۶۸ محمد الدین فوق ۱۲۹۱۲۹۰۲۶۳ ۳۲۹۳۰ اے ۶۰۷٬۵۶۵٬۵۳۰٬۴۹۸۴۴ محمد الیاس ابن حکیم محمد حسین مرہم عیسی محمد اسحاق همینوی مولوی ۴۲ محمد امین چوہدری محمد امین حافظ محمد انور ، حکیم مفتی محمد اولاد علی شاہ گیلانی محمد ایوب بی.اے مخدوم محمد باقر اسید - کاتب ۳۲۲ ۳۸۷۲۸۲ محمد اسلم، جرنلسٹ محمد اسماعیل ، حکیم محمد اسماعیل سیٹھ محمد اسماعیل شیخ محمد اسماعیل ' مولوی - طلالپوری محمد اسماعیل میر سید ۷٬۲۰۲ ۵۷۸٬۳۵۵٬۳۳۱۴۲۵۰٬۲۰ محمد بخش، حکیم.لاہور

Page 681

جلد ۳ ۴۲۴۳۳۱۲۵۶٬۸۸٬۵۲ ۴۴۷ ٣٥٠ ۴۲۷ 414- ۳۵ ۲۵۳ ۲۵۱۲۴۳۳۲۶۱۶ محمد حسین قریشی ، حکیم محمد حسین کاتب محمد حیات ڈاکٹر راولپنڈی محمد حیات خان سردار محمد خامس ، سلطان 19 ۲۳۵۲۰۵ ۲۲ ۴۸ 166 اشاریہ محمد بخش ملا ( جعفر زنلی) محمد بخش، مولوی محمد بن ناصر حضری محمد تراب خان ملتان محمد جی ہزاروی ، مولوی ۷۳٬۵۵۷٬۲۸۶۱۸۲ ۵ تا ۵۷۹٬۵۷ محمد خاں کپور تھلوی، خان ۵۴۱ محمد خزرجی، شیخ م محمد رضوی، نواب سید محمد زاہد ، حکیم محمد سرور شاہ سید ۳۲۰٬۳۰۲۳۰۰٬۲۹۰٬۲۸۴٬۲۸۲٬۲۷۷۲۷۴۲۷۳ ۳۸۸٬۳۷۸٬۳۷۳٬۳۶۵۳۳۴ ۳۳۸۳۲۷۳۲۴ orr'or-'oin'mae'men'~¤'mqoʻmar ۲۱۳۲۰۸٬۶۰۳٬۵۳۳ ۳۹۴ Fir ۵۳۷ AA ۳۵۷۳۲۲ محمد سعید خان خان.کانپور محمد سعید سعدی ، میاں محمد سلیمان سرشاه محمد شاہ سید محمد شاہ گردیزی سید محمد حسن میاں محمد حسین بابو.شملہ محمد حسین ، حکیم.مرہم عیسی ۵۷۴٬۵۳۲٬۵۱۱۵۰۸ ۴۰۳۳۲۲ ۶۱۱ ٣٣١ Arr ۱۳۵٬۹۸۹۷۸۵۷۲ محمد حسین ، سیٹھ - چنته کنشه محمد حسین شیخ.لائل پور محمد حسین قاضی محمد حسین بٹالوی ۳۰۵٬۲۰۰٬۲۰۶٬۱۵۸۱۳۷ تا ۳۲۶۳۷۹۳۷۳٬۳۰ *+ ۲۵۰٬۲۲۲۱۹۳۱۹۱۱۸۸ محمد حسین سندھی محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید ۳۲۶٬۳۱۲٬۲۹۷٬۲۸۰٬۲۷۷۲۴۲۶۹۲۶۷۲۵۶ ۴۷۰٬۴۵۸۳۵۶٬۴۵۳٬۴۵۲٬۴۴۳۳۳۹۹٬۳۶۷ ۵۳۰٬۵۲۹۴۷۲

Page 682

جلد ۳ سے ۶۳۸۶۲۷۴۳۷۳ محمد ظہور الدین اکمل، قاضی ۱۴۳ محمد عبد الرحمن خان نواب محمد عبد اللہ مولوی پروفیسر محمد عبدالله شیخ ( سابقٹھا کرداس) ۱۴۰٬۱۳۲۴۱۱۸ FAZ ۳۹۱ IA.۱۲۵ ۶۱۲٬۵۷۰٬۵۰۵٬۴۳۲ ۵۷۵ ٤٩٠ محمد عبد الله قاضی محمد عبد الله بوتانوی محمد عبد اللہ جلد ساز محمد عبد اللہ چکڑالوی محمد عبد اللہ خان نواب 20 20 ۲۸۶ 3 ۲۲۶ ۳۹۵ ۳۲۴ اشاریہ محمد شریف محمد شریف ڈاکٹر محمد شریف وکیل، میاں محمد شفیق قاضی مردان محمد شفیق مولوی ۱۸۹۱۵۱۵۲۱۳۴۴۱۲۱۸۸ محمد صادق مفتی ۳۲۱۴۴۳۱۰ ۳۳۰۳۲۸۲۲۲۲۲۱۷۳۰۸۴۲۰۲ ۳۹۸۴۳۷۳۳۵۶٬۳۴۱۳۴۰۳۳۵٬۳۲۸٬۳۲۷ ۵۲۸٬۵۰۰٬۴۹۹٬۴۸۴۴۶۸۴۵۶۴۳۴۴ ۶۱۷۶۰۸۶۰۶۶۰۳۵۹٬۵۷۶٬۵۷۴ محمد صدیق ، حکیم.میانی ۷۴٬۵۶۱ ۵ تا ۵۸۰٬۵۷ محمد عثمان مخدوم.محمد صدیق اکبر مخدوم میانی ۵۷۶۳۴۵۱۴۸٬۱۰۹ محمد عثمان قریشی یا بو محمد عظیم ، ماسٹر ماریشس محمد علی ایم.اے مولوی IAA'IAZ'IIP'I ۱۹۱ ۲۰۶۱۹۲ تا ۲۰۸ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۲۳٬۲۱۵تا۲۲۶ ۲۴۳ ۲۴۵ تا ۲۶۲٬۲۵تا۲۷۳٬۲۶۹٬۲۶۸٬۳۶۶تا۲۷۵ ۲۷۹ تا ۲۹۵٬۲۸۴٬۲۸۲ تا ۳۲۱۳۱۶۳۱۰۳۰۳٬۴۰۰ PA ۵۲۹ ۴۲۵ ۵۷۴ ۶/۰ zo'r محمد صدیق امرتسری محمد صدیق گورداسپوری محمد طاہر اشیخ محمد طفیل شیخ محمد طفیل بٹالوی، حکیم ڈاکٹر محمد طفیل شاہ سید.گوکھو وال محمد ظفر اللہ خان، سر چو ہدری

Page 683

اشاره 21 ۳۳۸ تا ۴۵۹۱۲۵۵٬۴۴۳٬۴۴۰٬۳۸۶٬۳۵۵٬۳۴۰ محمد حافظ.لکھو کے محمد میاں.لدھیانہ ۵۰ تا ۵۱۵٬۵۱۰ تا ۵۲۹٬۵۱۸ تا ۲۰۸٬۶۰۷٬۵۷۴٬۵۳۲ مجھ مبارک اسماعیل محمد علی جوہر ۵۳۵٬۵۲۳ محمد مراد میاں.پنڈی بھٹیاں محمد علی خان نواب ۱۵۴۱۰ ۱۸۲٬۱۶۳ ۱۸۸ ۱۹۱۱۸۹ محمد مرتضی خان پٹیالہ جلد ۳ ۵۳۹ ۳۸۷ ۵۲۰ ۳۳ } ۵۲۰٬۵۱۹ ۵۲۰٬۴۶۸٬۳۲۳ ۵۶ ۲۰۱۵۸۰۵۷۸ ۵۴۴ HA ۴۴ ۳۵۷ ۳۳ 096 ۱۴۲ Y/+ ۳۸۸٬۳۳۲٬۳۲۹۴۲۵۱۲۲۵٬۲۱۷٬۲۱۵۲۰۸۱۹۳ محمد مصطفی مولوی ٤٤٢٣ م م م م ٩٧٤م ۵۱۲٬۵۰۸٬۵۰۵٬۵۰۴۱ حمد مصطفی خان مولوی.پیالہ ۶۱۲٬۵۶۷٬۵۴۳٬۵۲۹۵۷ محمد موسیٰ مستری محمد نبی حکیم محمد نذیر قریشی محمد نصیب اسید محمد نیاز سهارنپوری محمد وزیر خواجه محمد ولایت حسین جیلانی سید محمد یاسین قاری محمد میکنی بهاری، مولوی محمد یکی ره نگرانی مولوی محمد یعقوب المشي محمد یعقوب خان بی.اے.بی.ٹی محمد یعقوب پانی پی شیخ ۳۲۸ محمد علی سیالکوٹی، مولوی محمد علی عابد محمد علی کانپوری، سید مولوی محمد عمر ا حکیم o^íroz'rrr'rrírr•'ırm AP'Ar 110 024 I PA'YA 44*6* محمد عمر نواسہ منشی جمال الدین محمد عیسی ، قاری محمد غوث سیٹھ.حیدر آباد محمد غوث سید محمد فاروق اعظم محمد دم محمد فضل چشتی، مولوی محمد قاسم کشمیری، منشی محمد قاسم نانوتوی

Page 684

جلد ۳ ۲۵ ۲۰۵ ۲۹۲ ۶۰۵ ۲۸۶ ۲۰۸٬۳۲۲ ۷۶ ۵۰۳ ده 1 A 1°0'711 ۶۰۵ ۲۲۲ ۴۷۵۴۷۳۴۵۲ PAY ۵۰۳۴۲۲۸۶ ناریه محمد یعقوب طاہر مولوی محمد یوسف یا ہو.شملہ محمد یوسف حافظ مولوی محمد یوسف الشیخ ۶۰۸٬۳۶۸٬۳۷۴٬۳۷۲ 22 22 مراد بخش اعوان مریم بیگم بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ مسعود احمد خان نواب مشتاق حسین نواب و قار الملک مصطفی کمال پاشا مظفر احمد مرزا منظر قیوم پیر معراج الدین عمر میاں مکرم قریشی ، مفتی شیخ کند لال ماسٹر طول، ڈاکٹر ممتاز نبی ، ڈاکٹر مملوک علی مولوی منصور احمد صاحبزادہ مرزا منصورہ بیگم صاحبزادی منظور احمد بھیردی ، ڈاکٹر منظور الهی با بو منظور عالم سید منظور محمد پیر مولا بخش بھٹی ، چوہدری **A'ñra'rr+ ۵۴۰ ۳۵۴ ۲۰۶ ۵۶۸٬۳۳۳ ۴۵۴۴ IA ۵۸۲٬۴۲۵ ۳۹۵٬۳۲۸ ۲۱ محمد یوسف قاضی.مردان محمد یوسف میاں.مردان محمد یوسف قنوج سردار محمدی بیگم البیه پیر منظور محمد مه هیانوی محمود محمود احمد عرفانی، شیخ محمود الحسن، مولوی محمود اللہ شاہ حافظ سید محمود خان افغان ود عالم سید محمود نشیمان شاه خواجه سلطان محی الدین کی الدین ابن عربی مختار احمد ، حافظ ކ به نیا چند

Page 685

جلد ۳ tz'rar'rzo ۲۳۳۲۰۸ ۲۰۳۱۹۱ ۲۹۹ > IA ۵۹۷ ۲۳۲ ۲۳۷ ۴۹۵ Par ۳۵۵ ۵۶۵ ۳۲۰ نذیر حسین دہلوی، مولوی نصر اللہ خان، چوہدری نصرت جہاں بیگم ، سیده نصیر احمد فاروقی نصیر الدین سلطان نصیر الدین ولد عمر دین 23 or A ۲۹۲۱۱۸ 144 AI ۵۴۱ اشاریہ مولا بخش سیالکوئی شیخ حضرت موسی علیہ السلام مهدی علی خان نواب محسن الملک مر ا نساء بیگم البیہ مولوی محمد علی صاحب مر علی شاہ گولڑوی میر محمد میاں سیکملن پادری نا سر احمد ، صاحبزادہ مرزا ناصر علی وکیل، مرزا با هر نواب سید میر ۲۰۵٬۵۷۰٬۳۰۴ نظام الدین، مرزا نظام الدین مولوی.مبلغ کشمیر نظام الدین ، میاں نظام الدین، میاں.سودی ننل ۱۱ ۱۸۹ ۲۱۲ تا ۲۳۳۲۱۵ نظام الدین ، میاں.وزیر اعظم پونچھ نظام الدین اولیاء نظام جان حکیم نعمت اللہ خان خان نند لال پذت نواب خان تحصیلدار نواب دین، ماسٹر نواب دین مولوی ۴۳۸٬۳۱۰ ۳۱۶۳۱۴۳۸۱۲۷۳۲۵۷۲۵۳٬۲۵۱ ۶۰۷۵۷۲٬۵۵۶٬۳۶۷۴۵۸۰۳۵۲۰۴۴۴۴۴۳ PA ۶۴ ۵۲۲ ی بخش مولوی مدینه مجمه الدین، حکیم مجمد الدین کبری تجمد الدین' میاں نذیر احمد مخدوم یر احمد رحمانی مامنه

Page 686

جدار ۴۹۹ ۱۱۲ ۳۹۳ ۴۵ ۵۶ IA 24 اشاریہ نور احمد شیخ منشی خواجہ کمال الدین ۴۵۹٬۴۰۷٬۲۳۵۱۰ نیاز احمد شیخ نیلا میر ہا ہو وہ واجد علی شاہ لکھنو وجیه الدین شاه 12'09'' ۵۹۵٬۵۵۰٬۵۳۹٬۲۷۰٬ 1*6'40 هه ۳۸۳٬۳۷۹۳۷۴ พ ۳۲۵ وزير الدوله، نواب وزیر خان ڈاکٹرھا جی ولی احمد لاہور ولی اللہ ، خواجہ ولی اللہ شاہ محمد ث دہلوی ولی داد خاں سنوری ولی شاہ لاہوری حکیم ویردی امام دیز چارج پنجم شهزاده باشم جان محمد دی، صاحبزاده ہدایت اللہ لاہوری ، بابا ہرا میجر ڈاکٹر ہر سکھ رائے ہری سنگھ مہاراجہ ۲۹۵٬۴۹۴ 14 نور احمد لودی ننگل ، مولوی نور احمد، مولوی جلالپور جٹاں نور الحسن، مولوی نور الحق، پروفیسر مولوی ۵۷۳ نور الحق صحیح نور الدین.احمد شاہ کا جرنیل ۳۳ 14 نور الدین الحلاج حکیم مولانا خلیفہ المسیح الاول صفحہ انا اخر 4** ۵۴ ۴۹۵ ۱۵۲٬۱۲۰۰۰٬۸۸٬۸۷۸۱ ۲۶۲۵۱۲ ۳۸ ll I⚫A ۳۱ نور الدین تاجر کتب جموں نور الدین ملک نور الدین، میاں قادیان نور الدین جھوٹی خلیفہ نور بخت نور کریم ، حکیم مولوی نور محمد ماسٹر نور محمد مشتاق حکیم نور محمد نوریا ماریشس نسال احمد ناتو توی شیخ نمال چند مشی.شاہ پور

Page 687

جلد ۳ ۲۹۶۲۹۴٬۲۸۰۲۷۴٬۲۶۹۲۶۸۲۵۶۲۵۰٬۲۲۸ 25 ۴۳۵٬۴۰۶ ۴۴۳۳۹۸٬۳۸۲٬۳۴۱۳۳۸۳۳۷۳۲۶۳۲۴ 10 ۵۰۴٬۵۰۰٬۴۹۹۴ ۷۲۴۴۷۰٬۴۶۸٬۴۵۶٬۴۵۳ ۵۷۳٬۵۶۵٬۵۳۰٬۵۲۹٬۵۰۸٬۵۰۵ ۲۰۶۱۸۸۱۶۸۱۵۷ یعقوب علی عرفانی، شیخ ۳۱۹ ۳۰۰٬۲۸۲٬۲۷۶٬۲۶۳ ۲۶۲۲۵۷ ۲۳۶۲۱۶۴۲۰۸ ۳۵۱۳۴۶۳۳۹٬۳۳۸ ۳۳۹٬۳۱۲۳۱۰۳۰۹ ۴۵۶٬۴۳۹٬۴۰۵٬۳۰۳۳۹۸۱۳۹۳۳۷۴۳۷ ۲۰۷٬۵۷۳٬۵۵۵٬۵۱۳٬۵۰۸ ٣٠٨ حضرت یوسف علیہ السلام ^^ ۵۹۹ ٥٨٣ premey ی اشارب ہیڈلے لارڈ بیون سانگ چینی سیاح یار محمد قاضی یار محمد مولوی یار محمد خان اگر تل سردار یاسین علی يحيى بن عقب امام یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا

Page 688

جلد۳ ۶۱۰۶۰۹٬۵۵۳ ۴۳۶٬۳۹۵ ۶۱۱۳۱۵۳۱۰٬۲۹۳٬۲۸۰۱۰۰۲ 02071 ✓ ✓ ۳۶۵٬۲۹۸٬۲۸۱٬۲۸۰۱۱ ۱۰ ۹ ۸۵ ۶۲۵٬۶۰۴٬۵۳۵٬۵۰۰٬۴۵۷۳۵۱٬۴۳۸ 01 AY ).-: 27 مقامات انہالہ انڈیا انقرة انگلستان ا و جله اوره ایران ایشیا ایمن آباد بالا کوٹ با نهال Li ۲۰۹٬۵۳۶٬۵۲۵٬۴۰۶۰ ۹۱۰۶ ۱ ۶۱۰٬۶۰۹٬۵۹۵٬۳۲۵٬۳۵۲۳۲۷ ۴۲۷۳۱۵ ۲۹۱ 160 14° ^ آسٹریلیا آکسفورڈ اگرہ اتاوه انگلی اٹھوال احمد نگر اور حمه اریسه اسکندریه افریقہ افغانستان اکال گڑھ الہ آباد ۶۱۰۶۰۹٬۳۸۸٬۳۸۶ امرت سر ۴۰۲٬۳۹۲٬۳۸۶٬۳۸۰٬۳۲۹٬۳۵۳٬۳۳۵٬۳۱۸ ۵۴۳٬۵۲۶٬۵۲۵٬۵۱۹۴۹۱۴۴۴ ۴۳۹۱۴۳۶۴۳

Page 689

جلد ۳ ۵۷۵ بلوچستان 28 ۵۴۱٬۵۴۰٬۵۲۰٬۵۱۹٬۵۴۹۸۴۲۶۴۲۳ ہمیتی ۴۳۲۴۴۱۰٬۴۰۶٬۴۰۵٬۳۸۲۷۰۶۶۵۹٬۴۹۱۶ ۲۰۰ ۳۹۵ ۳۹۳ ۳ ۷۳ ۷۲ AF بنارس بنت بنگال ۱۳۸۴۳٬۳۸۱٬۲۱۷ ۶۱۰۶۰۴۱۴۲۷۴۲۴۴۳۸۴ ۲/۰۲۰۹ ۳۸۷ A بنگلور بنگه بنور بہار پور بهلونپور بھارت بهان تنی ۲۰۹٬۴۲۹ ۵۳۳ ۵۶۸٬۴۳۱۳۳۹۱۰۰ IA > بجنور بخارا بخراب بر صغیر پاک و ہند ۲۱۰۶۰۸٬۵۲۳۴۴۳۴٬۳۵۷۲۱۸ ۶۰۶۰۹۴۲۵٬۴۲۴ TI'I'IA بھوپال ۸۳٬۸۲٬۸۱٬۷۲٬۵۹٬۵۷٬۴۸٬۴۵٬۴۴٬۱۵ ۵۳۶٬۵۲۷۴۱۹۳۰۷۴۰۶۲۹۱۰۰۰ or OL 69'60'67'6'61°c•'or'or'o<'rp³pra MAA.۳۰۲۱۲۶۶٬۲۶۵۱۲۲۲۲۱۷۱۷۹۱۳۷ ۱۳۵٬۱۳ ۵۳۵٬۵۲۷٬۵۲۶٬۳۵۰٬۳۰۰۱٬۳۵۳٬۳۵۳٬۳۵۲ IA'16 بر طانیہ برہان پور بر امن برید بریلی بستی و ریام کملانہ کو سمبھی بغداد جگہ (ضلع جہلم) بلا در بلانی بلقانه ( کیرانہ ) بلقانی ریاستیں

Page 690

جلد ۳ ۳۱۵ 10 29 پورٹ سعید پونچھ ۱۳۳۴۱۸٬۱۱۵٬۸۹ پرس پیره ( بھیرہ) پھیاں ضلع ہوشیار پور ۶۰۹٬۵۸۱٬۵۷۶٬۵۷۵٬۵۷۴۳٬۵۴۵٬۵۴۰٬۵۳۶ 104 ۱۵۶ ۴۶۲ ۴۶۲ ۲۲۰ ترکی ، ترکستان ۳۴۷۲۹۲٬۱۸۰۱۰۸٬۵۵٬۳۰۱۷۱۲ کے ۶۱۱۴۸۹٬۴۵۱۴۵۰۴۳۶۴۴۳۰۴۲۸۴۲ 14 *ཝཱ ۵۶ ۲۲۴ تنعيم تهال ( ضلع گجرات) تونس ٹوٹک جاپان جالند همر جده جرمنی (A ); بھینی ( ضلع لاہور ) بیاس بیت المقدس بیرات بیگودال ۴۳۵٬۳۰۳٬۲۹۱۲۱۸۱۴۴ ۱۳۹۵ ۳۵۷ ۶۰۹٬۵۴۸٬۵۳۳٬۴۸۸٬۳۶۰٬۳۲۰ ۱۹ ۱۸ ۵۲۳۲٬۳۱۲۵ ۳۳۶٬۱۳۹۱۱۸۱۱۵٬۸۶٬۸۴٬۵۵ پاکیشن پاکستان چینه پیالہ پشاور پنڈ دادنخان ۲۹۴٬۲۸۰٬۳۱۹٬۲۱۱۱۸۳۱۲۹۱۳۷ ۱۳۰ ۱۲۷ ۵۳۵٬۵۳۳۴۵۲۷۴۷۹۴۳۶۳ پنجاب

Page 691

جلد ۳ U て چینی ترکستان حجاز جديدة حرمین.حرم مقدس ۸۵٬۷۲۷۰٬۵۹٬۵۷٬۵۲٬۴۸ ۴۶۲ ۶۱۰٬۲۰۰٬۴۵۱٬۳۱۵ Fry ۴۹۵۳۸۷ ¿ حصار حیدر آباد دکن حیدر آباد سندھ خوشاب داتہ زید کا داته ( ضلع ہزارہ) دره نارنجی بونیر دیلی pap'per`r-c¨lar'ır'ın'ıðʻir'ı•^'ı•Z'Ar 30 14 ۱۵۳۱۳۳۱۳۲۱۴۰۰ ۶۰۹٬۲۰۰٬۵۹۷٬۵۳۳۵۲۶۲۱ 14+ 1+q'man'maz'ron'alʻzr ۱۵۴ ۵۴ ۱۴۴ ۹۵ ۶۴ 1+9 i ۴۹۷ ۶۰۹٬۵۳۱٬۴۹۷۲۵۸ ۶۰۹ ۶۰۹۲۹۱ ۴۹۷ جلال پور جناں جموں جواد جہلم جھنگ چاچڑاں شریف جاده چترال چریا کوٹ چشتی جام ہو.چکرم داس چک نورنگ چکوال چندوی چنیوٹ چوہان

Page 692

جلد ۳ " ۶۰۹ lor را ہونا رائے بریلی JAN,+bJ,270,070,+V0,1•h, Vih¸ddh ۴۵۱٬۳۷۶۱۰۸٬۵۵٬۳۰ 1+cirar 70 ۶۰۹ ربوه رنگون (برما) رو جهان (ڈیرہ غازیخان ) 70 الم الده العلم والله الله الله الله الله الله له All 1 671 LAW ۶۰۶۰۹ ۲۲۰ ۵۳۸۲۸۱ روس روم روہیل کھنڈ رہنگ ریاست ریاستہائے مفتوحہ مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر ریواڑی زنجبار سامانه سبحان پور چین 31 170,470,070,V70,+VO,VIL دها ریوال دھرم کوث دیپ گران دیوبند ڈلہوزی ۱۵۸۹۳ ۶۰۹ 760 کے ۵۷۵٬۴۳۳۴۳۹۶٬۲۸۹۹۷ ڈیرہ اسماعیل خان ڈیرہ بابا نانک ڈیرہ غازیخان نيطوى 971,472 169 14 1}} ۴۲۹ رز راجپوتانه را چواره ها ولد له ولده الله فا لها والله والله له والله الله وال ۶۰۹٬۳۹۵٬۳۰۰۱۴۰۰۰ ۳٬۵۷ ¥4,+4,14,00,57 راس التين رامپور راولپنڈی 149,070,079,00, وال والد له و الله لله والله الم و ١٧

Page 693

جلد سینٹ پیٹر برگ ۴۶۲ ۴۱۸۱۸۹۱۲۴۱۸ ۵۵۶ ۵۲۶٬۳۴۵۱۰۹۳۱۱۹ شام شاہ پور 32 شاہ جہانپور ۶۰۹۴۲۵٬۳۹۵٬۳۲۸٬۱۰۸٬۹۶ ۶۱۰۰ شمس آباد ( میانی کا قدیم نام ) شمل ۵۲ ۴۶۳۰ ۳۸۶٬۳۱۰ ۶۱۲ ۶۰۹۵۰۰۴۶۶۴۶۵ ۳۵۷ ۶۰۹ ۶۱۱ ۴۹۴٬۲۳۰ ۴۱۰ شورکوٹ ص بط صریح ( ضلع جالندھر ) ع.غ ۶۱۰۰ ۲۳۲ ۳۵۳ ۱۵۲۱۳۰ 71+1 7+9 ۳۱۵ 1+9 = ۴۳۱ ۵۹۷ ۶۱۱ ۲۲۸۳۱۴ حمد سرگودها سری نگر سرون سلى سکیر سالی لینڈ سمرقند سندھ نگاپور 1+9 سنور سوئٹزرلینڈ ٢٨ ٣٧٦ طائف طرابلس سویدن MY سہارنپور عدن سیالکوٹ ۱۲۸۱۲۷۹۳۸۷۷۲٬۴۸۱۱۸۲۰۱ ۱۲۶ | عراق عرب ان ۴۰۹٬۳۹۱۲۸۹۱۲۴ ۳۵۱ عرفات ۰۲۱ ۳۳۵ ۶۱۰۰ ۶۰۹۵۹۶۳۶۲٬۳۵۳۰۳۴۴۲۳۶٬۲۱۱ ۲۸ ۳۱۴ علی گڑھ ۱۱۷٬۹۵ ۳۱۸٬۲۹۳٬۲۹۲۱۳۱۱۱۸ ۳۵۰, سید محمد سیلون

Page 694

جلد ۳۸۳٬۳۸۰٬۳۶۹٬۳۶۵٬۳۵۷۳۴۳۳۴۲٬۳۳۴ الد الله لا اله له له له له له الا الله واله له ما ولد له والدا الدار المال لها الوالده فاله الله على انه قال له لا والله ۵۷ و ۶۷ 33 ۵۳۴٬۵۱۰٬۴۸۷٬۴۳۴٬۳۸۰٬۳۶۸٬۳۶۰٬۳۵۳ 710,000,170 40 ۴۴۹ تا ۴۶۲٬۴۵۸٬۴۵۷۴۵۵٬۴۵۳٬۴۵۲٬۴۴۲ ۳۵۷۱۸۱۷ ۲۹۹۲۹۷٬۴۹۱٬۴۸۸٬۳۸۷۴۷۷۴ ۷۲٬۴۶۸۴۶ ۵۴۱۲۳۱٬۵۲۸۵۳۶٬۵۳۴٬۵۳۰٬۵۱۹٬۵۱۵٬۵۱۳٬۵۱ ۵۷۴۵۷۳٬۵۷:۵۶۴۵۶٬۵۵۳٬۵۴۹٬۵۳۸٬۵۴۳ ۲۰۲٬۶۰۴۳٬۶۰۲۶۰۰٬۵۹۲٬۵۸۷٬۵۸۳٬۵۷۵ V⚫kjolk, Vik ٦٠٩ له السالم وله الدار اعط 7+1 ۳۵۴ لرجال 71,41,61,67! له الله roz 174 غازی پور غزنوی فق یک فتح گڑھ چوڑیاں فرانس فرید کوٹ فن لینڈ فیروز پور قادیان ۶۰۹٬۵۴۹٬۳۶۵۲۹۴۳ ۲تا۵ ۸ تا ۱۰۰٬۵۴٬۵۳٬۲۳٬۲۲۱۳تا۱۰۴ ۱۰ تا ۱۱۴ ۱۱۸ ۱۲۰ ۱۳۴۱۲۹۱۲۸٬۱۲۳ ۱۳۵ تا ۱۳۷ ۱۱ تا ۱۴۳ ۱۴۵تا۱۵۲۱۳۸ ۱۵۵ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۲۵٬۱۶۳ قال پور ( ضلع ملتان ) تخطي تصور قلعہ معلی اطاله و اطاله ٧,١٦,٨٦,٧٦,٠٧١,٧١,٦٧,٥٧١,١٥ ۷٬۲۰۴ ۲۱۲۲۰۸٬۲۰ تا ۲۱۴ ۲۲۵٬۲۲۱٬۲۱۹ ۳۳۲٬۲۲۷ ۲۳۵ تا ۲۶۸٬۲۶۴٬۲۵۷۳۵۳۲۵۱۲۴۶۲۳۱۴۳۳ فنوج قیصر باغ کامل کاٹھ گڑھے کاندله bk4,174,471,071,77Ÿb74¸•¥Ã¸•bŸlbå ۳۱۱٬۳۱۰٬۳۰۶۳۰۵۳۰۳٬۳۰۲٬۲۹۸۲۹۶۲۹۴ ا دل من له الا اله الا الله الله الله

Page 695

جلد ProCA 129 ۳۵۳ ۲۵ ۲۳۵ TH ☑A ۶۰۹٬۴۸۸٬۲۷۵٬۸۰ ۲۵۷ ۱۳ ۴۵ م ۳۰۷۳۰۳٬۲۱۶ ۶۰۹٬۴۹۸٬۴۶۸٬۳۷۸۳۶۵ ۶/۰ 34 کانگڑہ MMY کونٹ احمد خان کانپور ۳۹۶۲۳۹۳۳۲۷۱۳۹۰۳ کوٹ احمد والا ۴۵۳ تا ۲۴۳۵۵ ۶۱۰۶۰۹٬۴۷ کوریا کتنے وال یا کھو تو وال ۱۹۱۸ | کوہاٹ کپور تھلہ ۶۰۹۳۸۶٬۲۹۳٬۲۲۰۱۶ کمانہ ضلع جہلم 14 کھارا كراء کراچی ۲۰۹٬۵۷۹۱۰۷ | کھاریاں کربلا ۵۳۵۰ ۲۰۹ کرنال کیسوموں کیمبرج کریام ۲۰۹٬۵۸۳ کریم ہو.کڑیانوالہ ۶۰۹ گجرات ۲۷۵ کشمیر ۱۹٬۸۸٬۸۶۸۴٬۲۰ گلگت سیج شهیدان گوالیار گوجرانوالہ گورداسپور ۱۵۸٬۱۰۰٬۹۳ ۵۶۴۵۳۴۴۴۶۷۱۸۱۱۷۵ ۵۳۵٬۵۴۲٬۵۳ ۷٬۵۳۶٬۵۳۳٬۵۲۷۱۳۲۲٬۲۴۵ ۶۱۰٬۶۰۹٬۵۸۳ ۶۰۹ سکرالی کلکته ۳۸۴۳۷۸٬۳۱۰٬۲۱۷۱۳۱۱۲۴٬۹۵٬۴۴٬۲۹ ۶۱۰۶۰۹٬۵۲۳٬۴۸۸۰

Page 696

جلد ۶۱۰۶۰۹۳۸۷۳۳۲۹۹ ۱۵۹۱۳۱۱۲۸۱۲۶ ۱۲۵ ۱۳۲ ۱۳۱ q«ª°\\r\ror'ız• لائل پور (فیصل آباد ) ند میانه ۶۰۹٬۵۲ ۷٬۴۶۸٬۳۳۱٬۴۲۵٬۳۹۳٬۳۹۲٬۳۲۸٬۳۲ ۲۵ م ۳۸۹۳۷۷۳۷۵۲۳۴۹ 1+0 ۴۹۴ ۲۲ الله لو سٹیشن شدن لو وهران لودی ننگل 35 ۵۲۵ Y+4'A'TIF ۴۵۴۴ ۳۸۷ ۵۸۰۵۷۷۵۷۴۵۶۱۳۵۹ Y+4 ل ۳ ۱۸۱۳۱۰ تا۵۵٬۵۲٬۳۳٬۲۹٬۲۸٬۲۲ گورکھپور گولیکی گونہ چھاؤنی گھٹیالیاں گھوگھیات لاله مومنی لاہور ۱۳ ۱۳۹۱۳۷ تا ۱۴۶۱۴۲ ۱۵۵ ۱۷۳۱۷۲۱۶۵۱۵۶ ۷ تا ۲۱۱۲۰۵٬۲۰۰٬۱۹۳۱۸۲۱۷۸ ۲۴۳۲۴۴۲۱۷ ۲۹۳٬۴۹۱۲۸۱۲۸۰٬۲۷ ۲۶۲۵۷۲۵۶٬۲۵۳ ۳۳۲٬۳۴۲۶۳۲۴۳۱۸۳۰۴۳۰۳٬۲۹۸٬۲۹۶ ۴۳۸٬۴۰۷٬۴۰۲۳۹۹۳۹۷٬۳۸۹٬۳۸۷٬۳۸۳ ماریش مالابار Yi- مالیر کوٹلہ ۱۵۵۱۵۴ ۱۶۳ ۵۷۴۳۲۹۲۵۱۲۰۸۱۸۰ ۴۴۶ ٤٦٣٣٥٢ ٤٤٦٨ ٤٠ ۴۷۳۴ تا ۷۵ ۴۷۹۴ ۵۲۳٬۵۲۰٬۵۱۹٬۵۱۶٬۵۱۱٬۵۰۳٬۴۹۹٬۴۹۷۴۸۸ ozr'orr'oro'orr'orr'orz'ortor مانسرو مانگٹ اونچے ۵۸۰۵۷۷۵۷ ۵۸ ۲۰۶۲۲۶۰۹۶۰۷۶۰۵٬۵۹۹ مخدوم آباد ( کوٹ احمد خان ) Ya'reA ديد

Page 697

جلد 36 ۳۷۴۷۵۱۲ مکہ معظمہ ۱۷ ۶۲۷۰٬۵۹ ۶۳ ۶۸ تا ۱۰۰٬۸۵٬۸۰٬۷۰ ۴۲۸۴۴۲۷ ۴۲۲٬۴۲۰۴۱۲۴۲۳۰ ۱۹۰ ۱۰,۱۰۶ app‘010ʻool'marʻroc'rry T ۱۷ ۱۵۶۱۸ ۳۲۱۱۵۷ تا ۳۲۳ ۶۰۹۳۸۴٬۳۵۷۳۵۶۳۳۹ Kl q-a'r-r ۶۰۶۰۹۳۷۸٬۳۷۳۳۲۹۳۲۸ ۵۷۴۵۷۲۳۴۵۷۹۱۴۸۱۰۹٬۵۵ 366 گوئی مشموک ملتان ممباسہ منڈی بہاؤالدین منصوری ۶۰۹٬۵۳۰٬۴۹۸ دراس در بینہ منورہ ۷٬۱۰۰٬۶۸۶۲٬۵۰٬۴۷۱۷ ۲۳۰۱۹۰۱۰ منى مونگیر میانی میر ٹھ مصور میندرا ناظم آباد کراچی ۶۲۲٬۵۶۵٬۵۵۱٬۵۰۳ ۴۶۲۳۲۱۴۱۸۴۱ ۳۳۱ 7-9'01'FT ۶۰ ۶۱۰۶۰۹٬۵۴۸٬۵۳۱٬۵۴۰۳۵۷٬۳۲۰ ۳۵۷ ۴۶۳ ۶۲۶ ۴۳ مراد آباد راع مراکش مردان مرشد آباد مر ولقه مسقط مسلم ٹاؤن لاہور مشرقی افریقہ مشرقی پاکستان ۳۰۸٬۲۸۹۲۸۸٬۲۷۹۲۷۸۲۳۷۷۵۱۲۴ ۴۳۸٬۴۳۱۳۱۸۴۱۶۴۰۰ ۴۰۹۳۵۳۳۶۵٬۳۳۸ ۶۱۶۰۴٬۵۳ ۷ ۴۶ (+Y ۵۰۲ مظفر نگر مغربی افریقہ

Page 698

YII = جلد ۳۹۲ 410*4-4096 D ہانگ کانگ برد دار ہزارہ ہندوستان ۲۹۷٬۲۹۳۴۲۸۹٬۲۸۰٬۲۳۹٬۳۱۹٬۲۱۸۴۲۱۴۲۰۶ ۳۷۵۳۶۸۳۶۶٬۳۱۷۳۳۳۰۸۳۰۳ ۳۷۷ تا ۳۸۲٬۳۸۰ تا ۲۰۶٬۳۹۲٬۳۹۱٬۳۸۹٬۳۸۴ 37 I A ۴۵۱ prp'pop'pro'raq ۲۴۵۱۲۰۱۸۱۱۸۰ ۴۳۵۴۳۳٬۳۰۷۳۸۲٬۳۱۰ 12 ۴۲۸ ۳۵۲تا ۴۹۵٬۴۸۷٬۴۸۰٬۳۷۹٬۴۵۹٬۳۵۸٬۳۵۴ ۵۷۵٬۵۷۳٬۵۳۸٬۵۳۶٬۵۳۵٬۵۲۶٬۵۲۵٬۵۳۳ ۴۳۴ ۳۵۶٬۳۲۰ ۶۱۰۶۰۹۲۲۰ FAI نگری ہوتی ہوشیار پور بیگ ۴۳۵ ۵۲۰ ۳۱۵ ۵۰۰٬۴۹۹ تانوته تجد نجیب آباد ندوه نصيب من نظام.حیدر آباد دکن ۴۰۲٬۳۷۵٬۲۹۸٬۱۰ ۳۵۹۴۵۸۳۵۴٬۴۳۵٬۴۳۴۴۰ ۳۷۴ خيروني نیشاپور نیله گنبد واٹرلو و ڈال کر نتھیاں وزیر آباد وسط ایشیا ولایت در کنگ ویلیز

Page 699

یارقد یاری پوره باغستان بین يو-لي.یونان 38 ۲۹۴۲۹۳٬۲۸۱۲۵۶۱۵۳۱۲۴۱۰۶۱۰۰ ٠٠٠۳۲۷۳۷۵٬۳۲ ۴۳۰٬۳۱۵ جلد ۳

Page 700

ودا ۲۰۰٬۵۹۰ fl JAF ۶۰۰٬۵۰۰ 39 کتابیات تفسیر اتقان الوميت انوار الاسلام تفسیر احمدی ۵۷۹ براہین احمدیه تغییر حسینی بركات الدعاء تفسیر کبیر پیغام صلح تبلیغ رسالت حدیث تذکره پر سیکی حقيقة الوحي مامنه البشری سراج منیر سر الخلافه ۲۰۰٬۵۹۰ سرمه چشم آرید نا ضرورة الامام ضمیمه انجام آتھم فتح : سلام کتاب البریه ☑ 106 ۶۰۵۹۹ ren ابوداؤد اربعین بخاری بیقی ترندی صحیح مسلم شریف مسند احمد بن حنبل مكلوة ۳۹۴٬۳۵۹٬۲۰۰٬۳۵۳۳ کتب حضرت مسیح موعود آسمانی فیصلہ ۵۹۹۵۸۶۱۴۲ آئینہ کمالات اسلام ۱۴ ۵۹۹٬۵۸۸٬۲۳۶٬۱۴۲ | کرامات الصادقین JJ

Page 701

۲۳۵ عرفان التي 40 OLA محامد خاتم النبيين مکتوبات احمد یہ ۱۳۹۱۱۳ ۱۳۱ ۱۴۳ ۲۰۰۵۹۹۱۸۱۱۴۴ فصل الخطاب نشان آسمانی کتب خلفاء سلسلہ احمدیہ AAZ آئینه صداقت ۵۹۹٬۵۳۲٬۵۳۱٬۴۹۲٬۴۳۶٬۴۳۲٬۲۷۷ کلام میر ۶۸۶۰۷۵۸۰۵۷۷۳۰۸۱۸۳۱۷۹۱ کلام محمود مرقة اليقين ۵۳٬۵۰تا۱۰۶۷۷۵٬۵۸ تا ۱۳۹۱۱۲ 229 1-c'or PAL ابطال الوہیت مسیح اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات اسلام اور ملکیت زمین الازهار الذوات الخمار القول الفصل الموعود 066 ተረ ۵۷۸ لمقومات نور منصب خلافت نجات نصائح المبلغين اصحاب كتب مصنفین سلسا.Jaza'' الواح النور ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب تصدیق براہین احمدیہ خطبات نور خطوط جواب شیعه و (رد) نسخ خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک خلافت را شده 01'12''||*|- ۵۳۱ اظهار حقیقت الدر المنثور في لمحات النور

Page 702

تظر ۲۳۹ حیات بقاپوری حیات قدی ۲۳۶٬۱۸۳ ۳۹۰٬۳۸۷٬۳۵۸٬۲۳۷ ۴۳۷ حیات ناصر خدا کا بیج اور اس کا وصال 094 orr'ray ۴۰۳ ۳۵۸٬۲۳۸٬۱۸۰ IA⚫ ۵۸۱٬۵۳۳٬۵۲۹۵۰۱ 41 ۲۷۲ 044 orr الفارق امام مہدی کا ظہور انتخاب خلافت بشارات رحمانیه تابعین اصحاب احمد ۵۳۲ خلافت احمدیه تاریخ احمد بیت II'I'I'IO خلافت ثانیہ کا قیام ۱۷۹تا۶۲۹۱۲۰٬۵۹۹۳۸۷۳۷۳۲۳۶۱۸۳ ود شریف تاریخ احمدیه تاریخ مالا بار تاریخ بیت فضل لندن تائید حق اه ذكر حبيب HA رمون الاطباء ۴۹۰ روایات صحابه ۱۴۵ رو نداد جلسه سالانه ۱۸۹۷ء تحفہ بنارنیا تذكرة الصيدي سلسلہ احمدیہ ۵۸۵۸۰ سیرت المہدی ۱۲۴ سیرت ام المومنین شهید مرحوم کے چشم دید واقعات ضیمه رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب ۲۷۷ ۵۷۴۵۳۲۵۱ or ۲۸۲ تهذیب اله خادمین جذبات الحق جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات چھتیس سال قادیان میں ۶۱۸ ظہور احمد - وعود حضرت معینی اور صلیب For عسل مصفى حیات احمد ۱۰۹٬۵۳ تا ۱۱ ۱۱۳ ۱۳۱ ۷۹۱۳۲ تا ۲۷۳۱۸ قاریان

Page 703

قادیان گائیڈ کشف الاختلاف ۲۷۷۲۷۶۲۵۳ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تمہ لطائف صادق *A* ۵۸۱ نصرت الحق اسلامیات ازاله الخفاء الحاج الحاجه الفوز الكبير انصار الحق بشرى الكتيب بلقاء الحبيب پیغام محمدی تذكرة الأولياء تعطير الانام تقویه الایمان حجہ اللہ البالغہ حقیقت حج حکمت بالغه خزینه الاصفياء 42 خير جليس في الزمان کتاب خیر کثیر دار الشفا در مختیار ۴۳۶ هم سفر 1° ۷۷٬۵۹ 04 ۳۹۷ ة ۴۲۸ F HY AE دعوت دعائے سیفی رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب رسال كشفيه زینه الاسلام سفينه الاولياء شمس المعارف الكبرى نتوحات مکید كامل التعبير کتاب الرد على المنطق من ابن تيميه مثنوی مولانا روم مراة الانساب مشارق الانوار نافع السالكين آب کوثر سیرت و تاریخ جلد ۳ ۳۴ I A ۵۸ ۵۸ ۱۰۸ ٥٩٩ ۴۲۸ ده اد 1

Page 704

احوال علماء فرنگی محل اختر شهنشاهی بہادر شاہ ظفر اور ان کا دور پیام امین تاریخ ابن خلدون تاریخ اقوام پونچھ تاریخ اقوام عالم تاریخ القرآن تاریخ بشارت الهند و پاکستان تاریخ مروج سلطنت انگلشیہ ہند تاریخ گورو خالصه تاریخ لاہور تاریخ مشائخ چشت تاریخ تکہ حلقو تذکرہ رؤسائے پنجاب تذکرہ شعرائے اردو تذکرہ علماء ہند تذکرہ کاملان را مپور تعارف ۵۴۲۱ ۵۰ ۸۵ ۱۳۹ 1*4 0° ٥٨ اد 0° 43 تواریخ کشمیر جیون چرتر چراغ دہلی حیات جاوید حیات شبلی حیات عثمانی جلد ۲ pa‹'err'rqópa- ذکر اقبال رو ندارید ندوة رو نداد گوندن جو بلی انجمن حمایت اسلام رود کوثر رہنمائے کشمیر رئیس قادیان سوانح قاسمی ۴۳۵ * HP شیخ سنوسی اور ظہور حضرت امام مهدی آخر الزمان ۳۸۹ قدیم جغرافیہ بند کشمیر میں اردو مجدد اعظم مختصر تاریخ جموں و ریاست ہائے مفتوح ساراجہ گلاب سنگھ بہادر 10

Page 705

مسلم ثقافت ہندوستان میں oro 44 حقیقت اختلاف ۳۵۴۲۳۳۳۳۳ orr'mar'ry='rp='r66“rzy'pop'por موج کوثر یادگار در بار تاجپوشی شناخت مامورین کتب مخالفین سلسله صحیفه آصفی مجاہد کبیر اعلان الحق مجدد اعظم الذكر الحكيم ۵۸۰۲۷۳۲۴۶ برق آسمانی بر خرمن قادیانی تعمیر اسلام بھجواب مغل اسلام تردید لیکچر خواجہ کمال الدین صاحب قاریانی تکزیب بر امین احمدیه شحنہ حق اور مرزا غلام احمد صاحب کے الہام قادیانی نہ جب مرتع قادیانی ۳۶۲ ۲۳۷٬۲۱۵٬۲۰۵ كتب غير مبامعيين ተረ ۴۳۶۴۳۵٬۳۸۸٬۲۹۹٬۲۸۰۲۳۷ يانهبل ترک اسلام تورات کتب اہل کتاب طريق الحياة میزان الحق متفرق العلوم اختلاف سلسلہ احمدیہ پر ایک نظر اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب PLA'Pra ارشاد الصرف اصول شاشی ۲۷۷۲۴۰٬۲۳۸ الامد ایک نہایت ضروری اعلان ۵۱۵۲۷۷ | انسائیکلو پیڈیا بر این کا اهد ده ☑I 12'07 ۵۲ ٣٣

Page 706

جلد ۳ ۴۲۶٬۳۰۶۲۸۲٬۲۳۵۲۰۶۱۴۲ ٣٨٠ ۳۳ PASPIP خبار افشاں اخبار افغان اخبار الاسلام.لاہور اخبار البدر - بدر قادیان ۱۰۹۱۰۷۱۰۶٬۵۸٬۵۶۵۱ ۱۲ تا ۱۴ ۱۳۹۱ ۱۶۲ ۱۸۰۱۶۳ تا ۳۳۷۱۸۲ تا ۲۷۱۳۳۹ ۲۷۷تا۳۵۵٬۳۴۴۳۲۰۰۳۱۷۲۸۳تا ۳۷۹۱۳۶۴ ۴۳۵٬۴۳۳۴۴۳۲۳۹۹۳۹۰۳۸۷ تا ۳۳۹۱۴۳۷ 45 ۵۳۳ ۴۲٬۳۳ ۳۱ ۳۳ por par ۳۳ \***** ۶۰۱٬۲۰۰٬۵۹۹٬۵۸۰۵۷۳٬۴۹۲٬۴۹۱۴۴۸ ۴۴۸۴ *A*02'01'01 HIA raz'rooʻrır'ıp'tar سلام سلام اخبار البشير - اتاوه ۲۹ رساله البيان tripp اخبار الحق.دہلی mariraz'p zo'r or'r'roq'ror'rz 1.4'04- اخبار الحکم.قاریان - ۲۷۹۲۷۷۲۷۳٬۲۶۵۲۴۰٬۲۲۳۸۲۳ تشریحات بر کتاب طب العرب خزینه الاطباء دیوان متنبی شرح عقائد نسفی شرح ملا جامی شرح و قاسمیه صدری صحیفہ زرین موس المشاهير مراة الطبابت لا حسن موز میکی اخبارات و رسائل اخبار آفتاب - لاہور ر ساده احمدی قادیان رساله احمدی خاتون - قادیان ۵۲۵ ۳۸۷۳۶۳۳۶۲ ۳۵۸٬۳۵۶٬۳۵۵٬۳۵۳٬۳۴۱۳۱۷۲۸۳ IFY'A رسالہ اسلامک ریویو - لندن رسالہ اشاعه السنه - لاہور

Page 707

جلد ۵۷۴ ده ۲۸۳٬۲۰۵ ora ۹۷ ۲۳۵٬۲۰۴٬۱۵۲٬۱۳۰ 46 ۳۶۹ تا ۳۸۷۳۷۱تا ۳۹۰ رسالہ انوار الاسلام.سیالکوت ۴۳۵٬۴۳۳۰۴۳۲۴۲۳۴۰ تا ۴۸۷٬۴۵۳٬۴۳۷ رسالہ انیس صحت.لاہور ۵۷۳٬۵۳۱٬۵۳۰٬۵۲۹٬۴۹۹٬۴۹۶۴۴۳ تا ۵۸۱ اخبار اودھ.لکھنو اخبار اہل حدیث.امرتسر اخبار بھارت اخبار پر کاش ۵۲۹ رساله الفاروق اخبار الفضل قادیان و ربوه ۲۷۹۲۷۷۲۴۰٬۲۳۸٬۲۳۶۲۳۳۱۸۲۱۸۰۱۴۳ ۳۲۴۴۰۲۳۸٬۲۳۶۴۳۴۰۲۳۲٬۳۸۷۳۲۰تا۴۴۷ اخبار پنجاب گزٹ.سیالکوٹ ۴۸۵۴۷۷۴۷۲٬۴۵۵٬۴۵۳٬۴۵۲٬۴۵۰٬۴۴ اخبار پنجابی اخبار.لاہور ۷۴٬۵۳۳۳۵۲۹٬۴۹۳۴۸۷ ۵ تا ۵۸۱۵۷۹٬۵۷۷ اخبار پیسہ.لاہور اخبار پیغام صلح - لاہور ۲۸۰٬۲۷۳٬۲۷۳٬۲۳۷تا۲۸۳ ۲۶۹ تا۷۲ ۷۳ ۱۲۹٬۵۰۸٬۴۹۳۴۸۹۴ تا ۵۳۱ ۶۱۸٬۶۰۹٬۵۷۶٬۵۳۳ ۲۱۱ رسالہ ملی.لاہور رساله تشدود الاذہان ۳۶۱۱۳۵۸٬۳۰۵٬۳۰۱٬۳۸۲٬۲۷۸٬۲۳۸٬۲۳۵٬۲۱۲ DAGEN S'or¶raa'r ziÙprya ۶۰۹٬۲۰۰٬۵۹۹ ۲۳۶۲۳۳ ۲۱۱۲۰۵ ۴۲۷۳۶۵ اخبار المجدو - لاہور اخبار المنير - جھنگ اخبار الهلال ۳۸۸٬۴۵۴۴۳۷تا۵۲۳٬۴۹۰ رساله انتخاب الحکمت - دهار یوال اخبار انجمن پنجاب لاہور ۹۳ ۱۸۰ ۱۳۹۱۲۷ ۵۲۴ رسالہ انجمن حمایت اسلام.لاہور اخبار انسٹیٹیوٹ گزٹ.علی گڑھ

Page 708

جلد ۵۲۳ 47 ۳۶۹ الی ۴۳۹٬۳۸۸۳ ۵۷۴ تا ۵۸۰٬۵۷۸٬۵۷۶ اخبار طبیب.دہلی رساله طبیب حاذق ۹۳ اخبار عام.لاہور رسالہ عبرت رسالہ فاروقی.قادیان ۵۷۵٬۳۵۵٬۳۱۴٬۲۷۷۲۷۳ رساله فرقان - ربوه ۶۰۱٬۵۳۲٬۴۴۳٬۳۶۰ ۵۲۶ ۵۲۴٬۳۹۰ or ۲۲ ۵۲۳٬۴۳۵ ۵۲۵ Fir دان ۶۰۴ Ar ۲۷۹ 16 رسالہ تعلیم الاسلام.قادیان اخبار تنظیم امرتسر رسالہ جامعہ احمدیہ - قادیان اخبار جریده روزگار - مدراس اخبار چودھویں صدی راولپنڈی ۱۳۳ ۱۴۳ ۱۴۴ اخبار کرزن گزٹ.دہلی رسالہ حکیم حاذق رساله خالد.ربوہ رساله رفیق الاطباء و الحکیم اخبار رفیق ہند.لاہور رساله ریویو آف روا مجنز رسالہ کشمیری میگزین - لاہور ۴۸۸٬۴۳۵ اخبار کوه نور دد اخبار لاہور گزٹ اخبار مدینہ.بجنور ۲۴۶۲۴۵ ۲۴۳٬۴۰۶ ۴۳۴٬۴۲۴٬۳۵۵۲۷۹۲۷۸ اختیار مسافر.اگرہ اختبار مسلمان ٣٨٩ اخبار مشرق - گورکھپور اخبار زمانہ.کانپور اخبار زمیندار - لاہور ۱۳۵ ۵۲۳٬۴۹۰۳۸۰٬۳۱۳ اخبار مصالح العرب - قادیان اخبار مصنف.علی گڑھ 40 رسالہ معلم الصحت - ریوازی اخبار مت.لاہور اخبار منشور محمدی - بنگلور ۱۱۳٬۰۰۰٬۹۷ ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۴۱۱۳۹ ۱۸۰۵۰۱۶ ۴۳۵ ۵۷۳ اخبار سراج الاخبار - جہلم اختبار سر مور گزت رساله شریف بی بی رسالہ صوفی.منڈی بہاؤالدین

Page 709

ند ۵۳۵۳۳۷۳۶۱۳۴۳٬۲۴۵ سمسم orv'er d'rır'ra'rse arr اخبار وطن.لاہور اخبار وقت اختبار و نیل - امرتسر اخبار ہمدرد.دہلی 48 ۵۲۶ ۱۲۷ MAɅ ۲۱۸ q•«°q•ırır°r»r اخبار میونسپل گزٹ.لاہور اخبار ناظم البند.لاہور رسالہ نظام المشائخ رسالہ نقوش.لاہور اخبار نوائے وقت.لاہور اخبار نور - قادیان اخبار نور افشاں.لدھیانہ

Page 709