Tarikh-eAhmadiyyat V02

Tarikh-eAhmadiyyat V02

تاریخ احمدیت (جلد 2)

1898ء سے 26 مئی 1908ء تک۔
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد 3)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد دوم ۱۸۹۸ء سے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء تک مؤلفه دوست محمد شاہد

Page 2

نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کردہ مطبع : تاریخ احمدیت جلد دوم مولا نا دوست محمد شاہد 2007 2000 نظارت نشر واشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر ISBN-181-7912-109-7 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-2(Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition: 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-109-7

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم دیبا چه طبع اوّل جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کچھ عرصہ قبل سید نا حضرت خلیفہ البیع الثانی ایدہ اللہ نصر والعز یز نے اعلان فرمایا تھا کہ تاریخ سلسلہ کو محفوظ کرنے کا کام جلد ہی شروع کر دیا جائے گا.چنانچہ اس کے تھوڑا عرصہ بعد حضور نے مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کا اس کام کے لئے انتخاب فرمایا اور مکرم مولوی صاحب موصوف نے تدوین کا کام شروع کر دیا.اکتوبر ۱۹۵۶ء میں حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خاکسار کو یا د فرمایا اور تاریخ احمدیت کی طباعت اور اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین کے ذمہ لگائی.حضور نے اس ضمن میں بعض قیمتی ہدایات دیں اور فرمایا کہ جس قدر جلد ہو سکے اس عظیم کام کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دسمبر ۱۹۵۷ء میں تاریخ احمدیت کی پہلی جلد اور دسمبر ۱۹۵۸ء میں دوسری جلد شائع کر دی گئی.اب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تیسری جلد بھی شائع کی جارہی ہے.ان ہر سہ جلدوں میں سید نا حضرت مسیح * موعود علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات سوانح حیات اور آپ کی سیرت طیبہ مکمل طور پر آگئی ہے.تاریخ کی متینوں جلدوں کی ضخامت تیرہ سو صفحات سے زائد ہوگئی ہے کیونکہ اب تک تاریخ سلسلہ سے متعلق جس قدر کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان سب کو تاریخ احمدیت کی تدوین میں مد نظر رکھ لیا گیا ہے.خاکسار نے مسودہ پر نظر ثمانی کرتے ہوئے اس بات کو پوری طرح مد نظر رکھا ہے کہ کتاب ہر لحاظ سے جامع اور مستند ہو اور کسی بات کی کمی باقی نہ رہے.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہان پوری مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل، مکرم مولوی محمد شریف صاحب سابق مبلغ فلسطین، مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل اور مکرم مولوی فضل دین صاحب قابل شکر یہ ہیں کہ انہوں نے بعض مقامات پر مسودہ کے متعلق بیش قیمت مشورے دیے.فجزاهم الله - مکرم شاہ محمد صاحب کا تب بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مسودہ کی کتابت صرف کا تب ہونے کے لحاظ سے ہی نہیں کی بلکہ محبت اور عقیدت سے اسے لکھا اور اس کا حق ادا کیا.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تدوین تاریخ کے متعلق ایک یہ ہدایت بھی فرمائی تھی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر " تاریخ احمدیت میں محفوظ ہونا ضروری ہے تا ان کے نیک نمونہ اور قربانیوں کی اقتداء آنے والی نسلیں کر سکیں.چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں تقریباً دوصد صحابہ کی مختصر سیرت و سوانح درج کر دی گئی ہیں اگر اس کو مجموعی رنگ میں شائع کیا جائے تو سیرت صحابہ پر موجودہ ایڈیشن میں یہ تینوں جلد میں دو جلدوں میں آگئی ہیں.

Page 4

ایک خاصی کتاب بن سکتی ہے.ہمیں ایک گونہ خوشی ہے کہ ایک عظیم الشان دور کی تاریخ مکمل ہو گئی ہے.بقیہ کام کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اس سے بھی سبکدوش ہو سکیں.آئندہ کے متعلق یہ پروگرام ہے کہ اگلے سال جلسہ سالانہ کے موقع پر خلافت اولی کے دور کی تاریخ اور پھر اس کے بعد دوحصوں میں خلافت ثانیہ کے زمانہ کی تاریخ مکمل کر دی جائے.وہ احباب جن کے پاس ان زمانوں سے تعلق رکھنے والی تحریرات یاد داشتیں یا قیمتی دستاویزات ہوں وہ شعبہ تاریخ احمدیت ادارۃ المصنفین کوارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں کیونکہ اس زمانہ کو دیکھنے والی ایک کثیر تعداد خدا کے فضل سے زندہ موجود ہے اور اس وقت مواد کی فراہمی آسان کام ہے.بالآ خر احباب کی خدمت میں درخواست ہے کہ تاریخ احمدیت جیسی قیمتی کتاب کو حاصل کر کے اس پورا فائدہ اٹھانے کی کوش فرما دیں اور کش کر یں کہ ن صرف خود بلک ان کی اولاد ہی بھی اس پاک دور کے متعلق معلومات حاصل کر لیں.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے " تاریخ احمدیت جلد اول اور جلد دوم کے شائع ہونے پر احباب کو خاص طور پر اس کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی تھی.اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بڑے زور سے کتاب خریدنے کی تحریک کی تھی چنانچہ اس کے نتیجہ میں تاریخ احمدیت جلد اول اور دوم کا پہلا ایڈیشن فورا ہاتھوں ہاتھ لے لیا گیا.اس کے بعد ہر دو حصوں کے ایڈیشن دوم بعد اضافہ کے شائع ہوئے ہیں.احباب کو چاہئے کہ ان کو بھی حاصل کر لیں اور اس قیمتی خزانہ سے پورا فائدہ اٹھا ئیں.خاکسار ابوالمنير نور الحق میٹنگ ڈائر یکٹر ادارۃ المصنفین ربوه ۲۲-۱۲-۲۰

Page 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالٰی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 6

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۳ کوجلد نمبر ۲ بنایا گیا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر و اشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت سے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.موجودہ جند پہلے سے شائع شدہ جلد کا عکس لیکر شائع کی گئی ہے چونکہ پہلی اشاعت میں بعض جگہوں پر طباعت کے لحاظ سے عبارتیں بہت خستہ تھیں اُن کوحتی الوسع ہاتھ سے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تا ہم اگر کوئی خستہ عبارت درست ہونے سے رہ گئی ہو تو ادارہ معذرت خواہ ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد دوم کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 7

☑ ۲۶ ۳۶ ۴۸ ۵۰ ۵۴ ۵۵ ۵۶ ود 1 فہرست مضامین تاریخ احمد بہت جلد نمبر ۲ حجم الہدی کی تصنیف و اشاعت ماموریت کاسترھواں سال ۱۸۹۸ء مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام دو عظیم الشان انعامی چیلنج مولوی محمد حسین صاحب بنالوی کی شورش انگیزی مقدمه حفظ امن اور قبل از وقت پیشگوئی کے مطابق عبر تناک ذلت ر از حقیقت اور کشف الغطاء“ کی تصنیف طاعون پھیلنے کی پیشگوئی اور اہل ملک کو اصلاح واشاعت احوال کی تلقین حضور کی وفات کی مفتر یا نہ خبر و سفر گورداسپور.دھاری والی.پٹھانکوٹ مقدمہ کا فیصلہ حضور کی بریت اور کامیابی البلاغ یا فریاد درد کی تصنیف اور دنیا کی ۱۸۹۸ء کے بعض صحابہ اہم زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی جامع سکیم کا اعلان رشتہ ناطہ کے متعلق اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار مقد مہ انکم ٹیکس سے بریت کا نشان ایام الصلح " اور " ضرورت الامام" کی تصنیف و اشاعت منشی الہی بخش صاحب کا عبرت ناک انجام q ۱۴ ۱۵ 14 14 امن عامہ کے قیام کیلئے ایک اور ضروری میموریل ۲۰ ماموریت کا اٹھارھواں سال ١٨٩٩ء حقيقة المہدی کی تصنیف و اشاعت مولا نا عبدالکریم صاحب کی طرف سے خطوط کا اد صاحبزادہ مرز امبارک الحمد صاحب کی ولادت حضرت مسیح موعود کا پہلا فوٹو تریاق القلوب" کی تصنیف ستارہ قیصریہ کی تصنیف و اشاعت

Page 8

I+A ١١٣ ۱۲۲ ۱۲۵ ۱۲۵ ۱۳۸ ۱۴۲ ذا ۵۲ 2 حکومت برطانیہ پر اتمام حجت اور مذاہب عالم حضرت مسیح موعود کے نظریہ جہاد کی تائید علماء کی کے جلسہ کے لئے میموریل مقدمہ گوڑگانواں YE طرف سے منارة امسیح کی تحریک اور بنیاد تصنیف " مسیح ہندوستان میں سفر عیدین کی تجویز اسماءگرامی چند و بندگان بشرح یک صد روپیه سفرنصیبین اور جلسہ الوداع ۱۸۹۹ء کے بعض صحابہ ماموریت کا انیسواں سال ×1900 جدی بھائیوں کی طرف سے "الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار اولا " اجرت ثانیا مقدمہ کرنے کا فیصلہ جناب الہی کی طرف سے فتح کی بشارت سفر گورداسپور مقدمہ کا فیصلہ اور بدم دیوار عید الفطر اور جلسہ دعا تحفہ غزنوی کی تصنیف و اشاعت و ۶۳ برائے منارة السبح قادیان ۶۵ لیتہ النور" کی تصنیف و اشاعت ۷۵ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو علمی مقابلہ کی دعوت اور ان کا گریز حضرت مسیح موعود کی طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج اتمام حجت کے Ar Ar ۸۳ ربعین کی تصنیف واشاعت اور مخالفین پر حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر اور ان کے ہم خیال علماء کیلئے پانچ سورو پسیہ کا انعامی اشتہار پیر مہر علی شاہ پر اتمام حجت اور تحفہ گولڑویہ کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود کی جماعت کا فرقہ احمد یہ ت موسوم ہونا بشپ جارج الفریڈ لیفرائے کا فرار اور اسلام کی پے در پے فتوحات ۹۰ نواب عماد الملک فتح نواز جنگ مولوی سید مهدی حسین صاحب کی قادیان میں آمد اور قبول حق ۹۶ جہاد بالسیف کے التواء کا فتونی رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد کی تصنیف واشاعت دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب علاقہ خوست ) کی احمدیت سے وابستگی ڈیورنڈ لائن کے ریکارڈ میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا ذکر خطبہ الہامیہ کازبردست علمی نشان

Page 9

192 ۱۹۸ 3 مجلس تشحید الا ذہان“ کی بنیاد ۱۹۰۰ء کے بعض صحابہ ۱۶۰ | ۱۹۰۱ء کے بعض ممتاز صحابہ حواشی ماموریت کا بیسواں سال 81901 رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی تجویز نجمن اشاعت اسلام" کی بنیاد ۱۶۵ ماموریت کا اکیسواں سال ١٩٠٢ء ریویو آف ریلیجنز (اردو اور انگریزی) کا اجراء ۲۰۳ عربی تفسیر اعجاز مسیح کی تصنیف داشاعت ۱۶۷ ریویو کا اندرون ملک اور مغربی ممالک پر اثر ۲۰۳ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے سیف چشتیائی“ کی اشاعت جمع الصلوة کا نشان مخالف علماء کو صلح کی مخلصانہ پیشکش طاعون کے بارہ میں پھر انتباہ ۱۶۹ واقع البلاء و معیار اہل المصطفاء" کی تصنیف و اشاعت السيد محمد رشید رضا کو عربی میں مقابلہ کا چیلنج اور ۱۷۴ "الهدى والتبصرة لمن يرى " كي تصنيف و اشاعت کابل میں حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب کی نزول المسیح کی تصنیف شہادت ۱۷۷ جماعتی چندوں کے لئے ایک نظام کی بنیاد امام الزماں کی کتابوں کے امتحان کی تحریک ۱۷۸ کشتی نوح کی تصنیف واشاعت الدار" کی مقام نبوت کے متعلق ایک زبر دست علمی انکشاف غیر معمولی حفاظت اور جماعت کی حیرت انگیز اشتہار ایک غلطی کا ازالہ اور تعریف نبوت میں ترقی تبدیلی کا پہلا تحریری اعلان فونوگراف کی ایجاد اور تبلیغ اسلام ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۰ ۲۱۵ ۱۸۴ طاعون سے حفاظت کے دو نہایت اہم واقعات ۲۱۷ ۱۹۲ تحفہ الندوہ کی تصنیف و اشاعت E ۲۱۹ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد حضرت ندوۃ العلماء کے جلسہ میں شمولیت کے لئے وفد ۲۲۰ صاحبزادہ مرزا شریف احمد اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ۱۹۴ اخبار البدر‘ کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد برطانوی سیاح مسٹر ڈکسن کی قادیان میں آمد ۱۹۵ صاحب کا نکاح ٢٢١ ۲۲۳

Page 10

مباحثہ مد اعجاز احمدی" کی تصنیف و اشاعت ۲۲۶ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی قادیان میں ۲۲۹ آمد سید نا حضرت مسیح موعود کا دس ہزار روپے کا چیلنج ۲۳۱ روس کا عصا ملنے کی اطلاع بذریعہ رویا سفر بٹالہ ۲۳۲ صاحبزادی العتہ النصیر صاحبہ کی ولادت مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا مقدمہ ازالہ عبد اللہ صاحب چکڑالوی کا مباحثہ اور حضرت مسیح حیثیت عرفی.حضرت مسیح موعود کا سفر گود اسپور ۲۳۳ اور چیف کورٹ میں بریست موعود حکم ربانی کا ریویو امریکہ کے لئے نشان.جان الیگز نذر ہوئی کو آریہ سماج قادیان کی مخالفت اور تصنیف ۲۴۱ اشاعت نسیم دعوت " و " سناتن دھرم" امریکہ اور یورپ کے پریس کا تبصرہ ڈوئی کی مسجد البیت و بیت الدعا کی تعمیر ۲۴۷ تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح دعوت مباہلہ ہلاکت پر حضرت مسیح موعود کی طرف سے اسلام کی فتح کے کابل میں حضرت سید عبداللطیف صاحب کی اس عظیم الشان نشان کی منادی ۲۵۰ در دناک شہادت یورپ کے لئے نشان.سیدنا حضرت مسیح موعود حضرت صاحبزادہ صاحب کا سفر قادیان کی پکٹ کے متعلق پیشگوئی ۱۹۰۲ء کے بعض صحابہ ۲۵۴ مراجعت وطن - مباحثہ اور شہادت کے ۲۵۶ در دانگیز واقعہ کی تفصیل حضرت مسیح موعود کے ماموریت کا بائیسواں سال قلم سے ١٩٠٣ء مواہب الرحمن کی تصنیف واشاعت اور مولوی کرم دین صاحب سے متعلق ایک پیشگوئی مولوی کرم دین صاحب کا پہلا مقدمہ ۲۶۰ و سانحہ شہادت کے بعد ایک عجیب آسمانی نشان کا ظہور ایک چشم دید شہادت 12.۲۷۳ ۲۷۳ PLA ۲۹۹ ☑H ۳۱۲ ۳۲۶ ۳۲۹ حضرت مسیح موعود کا سفر جہلم اور بربیت حضرت شہید کا حلیہ مبارک اور عادات و فضائل ۳۳۱ ظلم کی پاداش میں جبار و قہار خدا کی تجلیات اور قہری نشانات کا ظہور ۳۳۵

Page 11

5 تذكرة الشہادتین کی تصنیف و اشاعت ۳۳۷ مخدوم الملت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک آسٹریلین نو مسلم کی قادیان میں آمد ۳۳۹ اور حضرت مولوی بر بان الدین صاحب کا انتقال نواب عبدالرحیم صاحب کی شفایابی کا معجزہ ۳۴۰ اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ٣٩٩ "سيرة الابدال کی تصنیف و اشاعت ۳۴۱ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے مختصر سوانح ۴۰۰ ۱۹۰۳ء کے بعض صحابہ ماموریت کا تیکسواں سال ۱۹۰۴ء ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت کے متعلق پیشگوئی ۳۴۱ حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی مختصر ۳۴۷ صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت ۳۴۸ سوانح حیات او را خلاص و فدائیت ۰۹ ایک عظیم الشان در مرگا.مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ۴۱۲ اخبار وطن کی ایک تحریک اور اس کا انجام آخری سفر د ہلی لدھیانہ میں قیام اور لیکچر ۴۳۱ ۳۲۸ سید نا حضرت مسیح موعود کا سفر ا ہوراور لیکچرز ۳۴۹ امرتسر میں قیام اور لیکچر ۴۲۹ مسلمانان عالم کے بین الاقوامی اتحاد کیلئے الہام ۴۳۱ بہائی مبلغ حکیم مرزا محمود زرقانی اور بہائی دنیا پر اتمام حجت سفر سیالکوٹ ۱۹۰۴ء کے بعض صحابہ ۳۵۴ قرب وصال سے متعلق الہامات و رویا.الوصیت کی تصنیف و اشاعت اور نظام ۴۳۵ ان سم خلافت کے قیام کی پیشگوئی ماموریت کا چوبیسواں سال بہشتی مقبرہ کا قیام ۱۹۰۵ء بزلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز کا نگر د میں قیامت خیز زلزلہ براہین احمدیہ، حصہ پنجم کی اشاعت اور زلزلہ عظیم کی عظیم الشان پیشگوئی " آه نادر شاہ کہاں گیا" کے کے سام صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد اشتبار تبلیغ الحق احمد کی اور غیر احمد کی میں کیا فرق ہے" ۳۸۲ ۱۹۰۵ء کے بعض صحابہ ۴۴۵ ۳۹۴ ماموریت کا پچیسواں سال +19+9 ۴۳۷ هم هم م م بم

Page 12

انقلاب ایران سے متعلق پیشگوئی حضرت سید میر محمد الحق صاحب کی شادی تقسیم بنگال کی تنسیخ کے متعلق خبر چشمه سیحی کی تصنیف و اشاعت رسالہ تشحید الاذہان کا اجراء چراغ الدین جمونی کی ہلاکت کا نشان عبدالحکیم پنیالوی کا جماعت سے اخراج' اس کی پیشگوئی اور انجام ۴۴۸ ۴۵۰ ۴۵۷ ۴۵۹ ۴۵۹ 6 ماموریت کا چھبیسواں سال 61906 طاعون کا اشد معاندین سلسله پر سخت حملہ اور ان کی پے در پے ہلاکت سعد اللہ لدھیانوی کی ہلاکت قادیان کے آریوں کی گندہ دینی اور تصنیف 1 اشاعت رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم MA MAF حقیقۃ الوحی“ کی تصنیف و اشاعت پادری احمد مسیح کی مباحثہ میں ناکامی اور مباہلہ سے گریز صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب کی ولادت اور وفات حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب کی شادی تجلیات الہیہ کی تصنیف اور سلسلہ احمدیہ کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی رسالہ تعلیم الاسلام کا اجراء احیائے موتی کا ایک نشان سید محمد یوسف بغدادی سیاح اور شیخ محمد چٹو صاحب کی قادیان میں آمد ۴۲۸ ۴۶۹ احیائے موتی کا بے نظیر نشان ۴۸۵ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ ۴۸۶ مسودہ مباہلہ کی اشاعت حضرت اقدس کے قلم سے MAL مولوی ثناء اللہ صاحب کا مباہلہ سے انکار و فرار ۲۹۰ ملکی شورش میں حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصیحت الواح الہدی کی تجویز ألم سفر بٹالہ ۴۷ نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۴۷۴ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات وقف زندگی کی پہلی منظم تحریک آریہ سماج لاہور وچھو والی کی مذہبی کانفرنس کے لئے حضرت اقدس کا مضمون ۴۹۴ ۴۹۴ ۴۹۵ ۳۹۵ ۴۹۹ ۱۹۰۶ء کے بعض صحابہ ۴۷۵ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسه

Page 13

۱۹۰۷ء کے بعض ممتاز صحابہ ماموریت کا ستائیسواں سال 7 ۵۱۲ آخری صحابی قیام لاہور کا ایک ایمان افروز واقعہ اتحاد اقوام کے لئے ”پیغام صلح کی تصنیف ۵۳۲ ۵۳۳ ۵۳۳ چشمہ معرفت‘ کی تصنیف و اشاعت ۵۱۳ وفات کے متعلق بار بار واضح الہامات گورو ہر سہائے ضلع فیروز پور میں باوانا تک آخری سر کے تبرکات میں قرآن شریف" کا مرض الموت کا آغاز نکشاف ۵۱۴ سید نا حضرت مسیح موعود کا وصال نکاح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه ۵۱۵ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا ایک ایمان مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کی بیعت ۵۱۷ افروز خواب سر جیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب کا دورہ سیدنا حضرت مسیح موعود کے عشاق کی حالت کا قادیان امریکن سیاح قادیان میں حضرت مسیح موعود کا آخری سفر لاہور ۵۱۷ درد ناک منظر ۵۱۹ نقشه مقام وصال مسید نا حضرت مسیح موعود ۵۳۹ ۵۴۰ ۵۴۳ مهم ۵۴۵ ۵۲۴ حضرت مسیح موعود کے اہل بیت کا بے مثال صبر ۵۴۷ اہور میں حضرت اقدس کی مصروفیات تظار کیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ند.نصائح کا سلسلہ ۵۲۶ صاحب کا عہد شنیز : دو سلطان ابراہیم صاحب اور مسٹر محمد علی شرفاء کی ہمدردی اور اشد مخالفین کا افسوسناک صاحب جعفری کی ملاقات جماعت کو نصائح اور تو حید کا وعظ ۵۲۷ مظاہرہ ۵۲۸ نعش مبارک کا لا ہور سے قادیان لایا جانا پروفیسر تکیمنٹ ریگ کی ملاقات اور اس کا اثر ۵۲۸ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حادثہ کی مستر سر فضل حسین صاحب کی ملاقات ۵۲۹ | البانی اطلاع پبلک لیکچر اور رؤسائے لاہور کو تبلیغ ۵۳۰ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع اخبار عام کی غلط رپورٹ اور حضور کی تر دبیر ۵۳ حضرت مولائی نور الدین صاحب کی دردانگیز ۵۳۸ ۵۴۸ ۵۴۹ ۵۵۰ ۵۵۵ آخری تقریر

Page 14

حضرت خلیفۃ المسیح اول کی بیعت صدر انجمن کی طرف سے جماعتوں کو اطلاع جنازہ آخری زیارت اور تدفین مزار مبارک کتبہ اور چار دیواری حضرت اقدس مسیح موعود کی وفات پر اخبارات کے تبصرے ۵۵۷ ۵۵۷ ۵۵۸ 8 ۵۵۹ حضرت مسیح موعود کا حلیہ مبارک' خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کا ایک ایمان افروز مکتوب مولف کتاب " تاریخ احمدیت کے نام دد ۵۹۹

Page 15

تاریخ احمدیت.جلد ۲ بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم والسلام على عبده السيح الموعود مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام و ماموریت کا سترھواں سال "مدرسہ تعلیم الاسلام" کا (۱۸۹۸ء) کا قیام 10/ قادیان میں اب تک بچوں کی تعلیم کے لئے دو سکول تھے ، ایک سرکاری سکول جو لوئر پرائمری تک تھا اور ریتی چھلہ سے قریب واقع تھا، دوسرا آریہ سکول جس میں اس سے اوپر کی کچھ جماعتیں تھیں.اول الذکر پرائمری سکول کو سرکاری تھا مگر اس کا ہیڈ ماسٹر جو اتفاقی طور پر آریہ تھا مسلمان بچوں کو گمراہ کرنے کے لئے اسلام پر پر ملا حملے کیا کرتا تھا اور بچے اس سے بہت متاثر ہوتے تھے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ اس پرائمری سکول میں میں بھی کچھ عرصہ پڑھا ہوں....ایک دن جب میرا کھانا آیا جس میں کلیجی کا سالن تھا تو اسے دیکھ کر ایک طالب علم نے حیرانی سے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا یہ تو ماس ہے جس کا کھانا حرام ہے.جب سرکاری سکول کی یہ حالت ہو تو آریہ سکول میں اسلام کے خلاف طلبہ کے دماغوں میں کیا کچھ بھرا جاتا ہو گا ؟ اس کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے.جب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس صورت حال کا علم ہوا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا.اب ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایک اسلامی سکول کھولیں سو حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ۱۵ / ستمبر۷ ۱۸۹ء کو جماعت کے نو نہالوں کو عیسائیت ، الحاد اور مغربی تہذیب سے بچانے اور انہیں اسلام کا مخلص خادم بنانے کی غرض سے قادیان میں ایک مثالی اسلامی درس گاہ کے قیام کی بذریعہ اشتہار تحریک فرمائی.چنانچہ حضور نے لکھا ” اگر چہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس بچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا ہے اور نجات حاصل ہوتی ہے لیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے علاوہ ان طریقوں کے جو استعمال کئے جاتے ہیں ایک اور طریق بھی ہے

Page 16

تاریخ احمدیت جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام اور وہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہرائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جن لوگوں نے اسلام پر حملے کئے ہیں وہ حملے کیسے خیانت اور جھوٹ اور بے ایمانی سے بھرے ہوئے ہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسی کتابیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں تالیف کروں گا بچوں کو پڑھائی گئیں تو اسلام کی خوبی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی.اور دوسرے مذاہب کے بطلان کا نقشہ ایسے طور سے دکھایا جائے گا جس سے ان کا باطل ہو نا کھل جائے گا...اس لئے میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بچوں کی تعلیم کے ذریعہ سے اسلامی روشنی کو ملک میں پھیلاؤں.اور جس طریق سے میں اس خدمت کو سرانجام دوں گا میرے نزدیک دو سروں سے یہ کام ہرگز نہیں ہو سکے گا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اس طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے اس ارادہ میں میری مدد کرے.سو میں مناسب دیکھتا ہوں کہ بالفعل قادیان میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے." حضور نے اس امر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ ”دیکھو تمہاری ہمسایہ قوموں یعنی آریوں نے کس قدر حیثیت تعلیم کے لئے بنائی.کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا.کالج کی عالی شان عمارت اور سامان بھی پیدا کیا.اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں تو میری بات سن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے.....ہر ایک شریف قوم کے بچوں کا عیسائیوں کے پھندے میں پھنس جانا اور مسلمانوں حتی کہ غوث و قطب کہلانے والوں کی اولاد اور سادات کے فرزندوں کا رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنا دیکھ چکے ہو.ان صحیح النسب سیدوں کی اولاد جو اپنا سلسلہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچاتے ہیں ہم نے کر چین (عیسائی) دیکھی ہے جو بانئے اسلام کی نسبت قسم قسم کے الزام (نعوذ باللہ) لگاتے ہیں.ایسی حالت میں بھی اگر کوئی مسلمان اپنے دین اور اپنے نبی کے لئے غیرت نہیں رکھتا تو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا.؟" انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل اس اہم تحریک کو عملی جامہ پہنانے عملہ مہیا کرنے اور مدرسہ کے انتظامی امور پر سوچنے اور قواعد مرتب کرنے کی غرض سے حضرت اقدس کی ہدایت کے مطابق ایک سب کمیٹی مقرر ہوئی جس کا پہلا اجلاس ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۷ء کو منعقد ہوا.اس اجلاس میں مدرسہ کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی مقرر کی گئی جس کے پریذیڈنٹ حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاب بھیروی، محاسب حضرت میر ناصر نواب صاحب ، سیکرٹری خواجہ

Page 17

تاریخ احمدیت جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام کمال الدین صاحب وکیل ہائی کورٹ اور جائنٹ سیکرٹری حضرت مولانا عبد الکریم صاحب مقرر کئے گئے.خواجہ صاحب چونکہ قادیان میں سکونت نہ رکھتے تھے اس لئے حضرت مولوی صاحب ہی عملاً سیکرٹری کا کام کرتے رہے اور بالاخر آپ ہی سیکرٹری ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کو عمر بھر مدرسہ کے معاملات سے بہت دلچپسی رہی.انتظامیہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مدرسہ یکم جنوری ۱۸۹۸ء کو کھول دیا جائے.افتتاح چونا انتظامیہ کمیٹی کے فیصلہ کی رو سے تو مدرسہ یکم جنوری ۱۸۹۸ء کو ہی کھل جانا چاہیے تھا مگر ونکہ یہ دن جلسہ سالانہ کے تھے جن میں مہمان بکثرت آئے ہوئے تھے اس لئے اس کا افتتاح ۳/ جنوری ۱۸۹۸ء کو ہوا.حضور علیہ السلام نے اس مدرسہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا.ہماری غرض مدرسہ کے اجراء سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے.مروجہ تعلیم کو اس لئے ساتھ رکھا ہے تاکہ یہ علوم خادم دین ہوں".” ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف اے یا بی اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمت دین کے لئے زندگی بسر کریں اور اسی لئے مدرسہ کو ضروری سمجھتا ہوں کہ شاید دینی خدمت کے لئے کام آسکے." شروع میں مدرسہ کے لئے کوئی مخصوص عمارت موجود نہ تھی اس لئے اس مدرسہ کی عمارت کا آغاز مہمان خانہ میں ہوا لیکن جلد ہی مہمان خانہ کے متصل دو تین کمرے تعمیر کئے گئے ۱۹۰۰.۱۸۹۹ء میں مزید عمارت بنوائی گئی.اس کے بعد حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ہجرت کر کے قادیان تشریف لائے تو حضور اقدس نے مدرسہ کا پورا نظم و نسق ان کے سپرد کر دیا.آپ نے ۲.دسمبر ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک یہ قومی خدمت نہایت محنت اور ذوق و شوق سے سرانجام دی.مدرسہ کو غروری فرنیچر فراہم کیا.اس کی پہلی عمارت کو وسعت دی اور ڈھاب پر کر کے بورڈنگ کے لئے کوارٹر بنوائے.۱۹۰۶ ء میں مدرسہ کی ضروریات بڑھ گئیں تو اس کے متصل اور زمین خرید کی گئی.لیکن جب یہ زمین بھی کافی ثابت نہ ہوئی تو اس کی انتظامیہ کمیٹی نے قادیان کے شمال میں ایک وسیع قطعہ اراضی تین ہزار میں خرید لیا جس کی بنیادوں کی کھدائی مارچ ۱۹۱۲ء کے آخر میں شروع ہوئی اور ۱۵/ جون ۱۹۱۲ء کو قریباً چھ بجے شام پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الاول مولوی نور الدین صاحب نے دعا کر کے بنیادی اینٹ رکھی پھر آپ کے ارشاد کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب

Page 18

تاریخ احمدیت جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے ایک ایک اینٹ رکھی.بعد ازاں یہاں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بورڈنگ کی شاندار عمارتیں بنیں.۱۹۱۳ء میں ہائی سکول اپنی جدید عمارت میں آگیا.تمیں سال بعد جب ۱۹۴۴ء میں یہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کو دیدی گئی تو نور ہسپتال سے متصل ایک دوسری جگہ ہائی سکول تعمیر کیا گیا جو ہجرت ۱۹۴۷ء تک قائم رہا.ہجرت کے بعد ۶ / نومبر ۱۹۴۷ء کو بمقام چنیوٹ ملک بھگوان داس کی بلڈنگ میں یہ قومی اداره از سر نو جاری کیا گیا اور بارچ ۱۹۵۲ء کے نصف آخر میں اپنی موجودہ مستقل عمارت واقع ربوہ میں منتقل ہوا.مدرسہ کے اولین ہیڈ ماسٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب مقرر ہوئے اور مدرسہ کا اسٹاف ابتدائی اساتذہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نو مسلم، مولوی فضل دین ہیڈ ماسٹر صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات اور حافظ احمد اللہ صاحب تھے.ان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کئی ایک قابل بزرگ اساتذہ اس کے اسٹاف میں شامل ہوئے.مثلا ا.قاضی امیر حسین صاحب ۲.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ۳.مولوی حکیم عبید اللہ صاحب بسل -۴ شیخ محمد اسمعیل صاحب سرسادی ۵ ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری (سابق مہر سنگھ )۶.ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیرے.منشی غلام محمد صاحب ۸.مولوی غلام نبی صاحب مصری ۹۴.ماسٹر عبد العزیز خاں صاحب - 10- پیر منظور محمد صاحب 11 قاضی عبد الحق صاحب ۱۲.منشی سکندر علی صاحب کلانوبری - ram جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب تھے.مگر تھوڑے عرصے کے بعد جب مدرسہ پرائمری سے مڈل تک ہو گیا تو حضرت شیخ صاحب پرائمری حصہ کے انچارچ مقرر ہوئے اور مڈل کے عارضی ہیڈ ماسٹر مرزا ایوب بیگ صاحب.مرزا ایوب بیگ صاحب کے لاہور چلے جانے کے بعد ماسٹر فقیر اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.ماسٹر صاحب موصوف نے فروری ۱۸۹۹ء تک مدرسہ کی ہیڈ ماسٹری کے فرائض سرانجام دیئے.اس کے بعد دوماہ کے لئے عارضی طور پر راجہ شیر محمد خاں صاحب بی.اے سپرنٹنڈنٹ محکمہ مال کشمیر اور پھر مئی ۱۸۹۹ ء میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.۱۹۰۳ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ہیڈ ماسٹر بنایا گیا.لیکن دو سال کے بعد مفتی صاحب اخبار " البدر" میں چلے گئے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب دوبارہ ہیڈ ماسٹر بنا دئیے گئے.

Page 19

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام اولین طلبہ جماعت کی قلت تعداد کے باعث بورڈنگ ہاؤس اور اس کے سپرنٹنڈنٹ بہت تھوڑے تھے.یہ طلباء مہمان خانے کے ایک کمرے میں رہتے تھے.ان کے نگران حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم (سابق جنگت سنگھ ) مقرر ہوئے.بورڈنگ ہاؤس کی مستقل صورت مئی ۱۹۰۰ ء سے کی گئی.ابتداء ۳۲ بور ڈر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں متعدد سپر نٹنڈنٹ بنے جن میں سے شیخ عبد الحق صاحب حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بہل اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں.طلباء کی تعداد ۱۸۹۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں طلباء کی تعداد حسب ذیل تھی +19+0 ۴۱ ۸۵ ۱۳۲ ۱۳۸ ۲۰۸ ۱۹۰۵ء ۱۹۰۶ء ۱۸۹۹ء $1900 ۲۲۰ *19*2 ۱۴۶ 51901 19.*19*A ۱۵۰ +19+ ۱۵۲ ۱۹۰۳ء پرائمری سکول سے کالج تک مدرسہ تعلیم الاسلام نے جو اپنی ابتدائی شکل میں پرائمری کی صورت میں شروع ہوا.خدا کے فضل سے چند سالوں کے اندر اندر اس نے بڑی ترقی کی.چنانچہ ۱۸۹۸ء میں وہ مڈل سکول بنا.فروری ۱۹۰۰ ء میں ہائی سکول ہوا اور مئی ۱۹۰۳ ء میں کالج تک پہنچ گیا جس کی تفصیل ۱۹۰۳ء کے واقعات میں آرہی ہے).جماعت احمدیہ کی اس پہلی مرکزی درسگاہ کی خدمات کا سلسلہ نصف صدی سے زائد عرصہ خدمات تک ممتد ہے.بالخصوص جماعت کے انگریزی خوان طبقہ میں دیوی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی ذوق اور دینی شعف پیدا کرنے میں ” مدرسہ تعلیم الاسلام" نے ایک نمایاں حصہ لیا ہے.جماعت کے بہت سے مبلغ اور دوسرے مقامی کارکن اس مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ادارہ کے قدیم طلباء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفته المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی شامل ہیں.

Page 20

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 4 مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام دو عظیم الشان انعامی چیلنج ۱۸۹۸ء کے آغاز میں حضرت مسیح موعود نے دو عظیم الشان انعامی چیلنج دیئے جنہیں قبول کرنے کی آج تک کسی شخص کو توفیق نہیں مل سکی.پہلا چیلنج پہلا چیلنج عیسائیوں کے نام تھا جو حضور نے "کتاب البریہ " میں بایں الفاظ دیا.بھلا اس سید الکونین ﷺ کی تو شان عظیم ہے.ذرا انصافا پادری صاحبان ان میرے الہامات کو ہی انصاف کی نظر سے دیکھیں اور پھر خود ہی منصف ہو کر کہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ایسے کلمات سے خدائی ثابت ہو سکتی ہے تو یہ میرے الہامات یسوع کے الہامات سے بہت زیادہ میری خدائی پر دلالت کرتے ہیں.اور اگر خود پادری صاحبان نہیں سوچ سکتے تو کسی دوسری قوم کے تین منصف مقرر کر کے میرے الہامات اور انجیل میں سے یسوع کے وہ کلمات جن سے اس کی خدائی سمجھی جاتی ہے ان منصفوں کے حوالہ کریں.پھر اگر منصف لوگ پادریوں کے حق میں ڈگری دیں اور حلفایہ بیان کر دیں کہ یسوع کے کلمات میں سے یسوع کی خدائی زیادہ تر صفائی سے ثابت ہو سکتی ہے تو میں تاوان کے طور پر ہزار روپیہ دے سکتا ہوں." دوسرا چیلنج دو سرا بیس ہزار روپیہ انعام کا چیلنج حضور نے مسلمان علماء کو دیا جو یہ ہے.یہ ہے."اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے ؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں....اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہ پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانے میں زمین کی طرف واپس آئیں گے.اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تادان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور تمام کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.جس طرح چاہیں تسلی کرلیں." الله

Page 21

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ طاعون پھیلنے کی پیشگوئی اور اہل ملک کو اصلاح احوال کی تلقین مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام دشمنان حق نے جب اپنی مخالفت انتہا تک پہنچادی تو خد اتعالیٰ کے زور آور حملوں نے طاعون کی شکل اختیار کرلی جو ۱۸۹۶ء کے آخر میں بمبئی کے علاقہ سے نمودار ہوئی اور آہستہ آہستہ ہردوار تک پہنچ گئی.پنجاب ابھی تک اس وہا سے محفوظ تھا اور انگریزی حکومت کے افسر اپنی حفاظتی تدابیر کے پیش نظر یقین رکھتے تھے کہ پنجاب محفوظ رہے گا مگر اللہ تعالی نے ۶ / فروری ۱۸۹۸ء کو حضرت مسیح موعود پر بذریعہ رویا ظاہر فرمایا کہ پنجاب میں بہت جلد طاعون پھیلنے والی ہیں.حضرت اقدس نے یہ خبر ملتے ہی ایک اشتہار دیا جس میں اہل پنجاب کو اطلاع دی اور انہیں اصلاح احوال کی پر زور تحریک فرمائی.طاعون سے متعلق پہلا اشتہار اس اشتہار میں حضور نے تحریر فرمایا :.آج جو ۶ / فروری ۱۸۹۸ ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالٰی کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا.لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا.اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى القرية یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہو تب تک ظاہری وباء بھی دور نہ ہوگی.یہ تقدیر ایسی ہے کہ جو دعا صدقات اور خیرات اور اعمال صالحہ اور توبہ نصوح سے مل سکتی ہے.اس لئے میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ میں عام لوگوں کو اس سے اطلاع دوں." مندرجہ بالا اشتہار کے بعد آپ نے ۲ مئی کو "جلسه طاعون اور دوائے طاعون" " "" " اپنے مخلصین خاص کا اجتماع کر کے انہیں متوقع ۲۵ وبائی خطرہ سے متعلق ضروری ہدایات دیں.آپ نے ان کے بچے خادم دین و ملت ہونے کی وجہ

Page 22

تاریخ احمدیت جلد ۲ A مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام سے ارشاد فرمایا کہ ہماری جماعت بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اور گورنمنٹ کی ہدایتوں کی دل و جاں سے پیروی کر کے اپنی نیک ذاتی اور نیک عملی اور خیر اندیشی کا نمونہ دکھا دے.علاوہ ازیں حضور نے پہلے ہی " تریاق الہی" نامی ایک الہامی دوا بھی اڑھائی ہزار روپیہ کے صرف سے تیار کروائی تاجس وقت پنجاب میں طاعون پھیلنے کا احتمال ہو یہ دو اللہ تقسیم کر دی جائے ساتھ ہی بدن پر مالش کے لئے " مرہم عیسی بھی بنائی جو طاعون کی تمام قسموں کے لئے تیر بہدف اور مادہ سمی کی بہترین مدافعت کرتی ہے.دوائے طاعون کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب نے دو ہزار روپے کے یا قوت رمانی دیئے.نیز شیخ رحمت اللہ صاحب نواب محمد علی خان صاحب، ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسٹنٹ سرجن قصور اور منشی رستم علی صاحب کو رٹ انسپکٹر انبالہ اور کئی اور دوستوں نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا.یہ دوا تیار ہو چکی تو حضور اقدس نے ۲۳ / جولائی ۱۸۹۸ء کو اشتہار دیا جس میں عوام کے لئے پیش قیمت طبی ہدایات دیں اور ان ظاہری تدابیر کے ساتھ جو ہمیشہ سنت صلحاء کا خاصہ رہی ہیں سب سے ضروری بات یہ لکھی کہ ”خد اتعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں ، دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مشغول ہوں.یہ اشتہار دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.انہیں دنوں حضور پر روحانی طریق سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ طاعون اور خارش کا مادہ ایک ہے چنانچہ حضور نے مشورہ دیا کہ اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور بطور حفظ ما تقدم طاعون سے متاثرہ مقامات پر خارش کا مرض پھیلا دیں تو ممکن ہے کہ مادہ طاعون اس راہ سے تحلیل ہو جائے اور طاعون سے نجات مل جائے.ملکی اخبارات کی مخالفت حضور نے طاعون کی پیشگوئی سے متعلق جو پہلا اشتہار شائع فرمایا وہ ملکی اخبارات کو بھی بھجوادیا تھا مگر افسوس کمفر علماء کے علاوہ اخبارات نے بھی جو عوام کے نمائندے تھے اور ان کی مفید راہنمائی کر سکتے تھے اپنے قلم کا پورا زور گورنمنٹ کے قانون طاعون پر جرح قدح کرنے میں صرف کر دیا اور گورنمنٹ کے قانون اور مذہبی دست درازی کی آڑ لے کر اس سلسلہ میں چھوت چھات کی ایسی طویل بحثیں چھیڑ دیں کہ اصلی مقصد ہی فوت ہو گیا.لاہور کے روزنامہ پیسہ اخبار " نے حضور کے اشتہار کے ایک حصہ کو بہت معقول مئوثر قیمتی مشورہ بہت عمدہ اور مدلل تسلیم کرنے کے باوجود اس پر متعدد اعتراضات اٹھائے.مخالفین حضرات اسی طرح مخالفت کر رہے تھے کہ جلد ہی طاعون پنجاب میں بھی داخل ہو گئی.شروع میں اس کا حملہ زیادہ سخت نہیں تھا مگر وہ رفتہ رفتہ تیز ہوتی گئی یہاں تک کہ ۱۹۰۲ ء میں اس نے کافی زور پکڑ لیا اور ۱۹۰۳ ء سے لے کر ے ۱۹۰ء تک تو اس نے پورے صوبہ میں وہ تباہی مچائی کہ لوگوں

Page 23

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام کی آنکھوں کے سامنے قیامت کا نمونہ آگیا.ہزاروں دیہات ویران ہو گئے.سینکٹروں شہروں اور قصبوں کے محلے کے محلے خالی ہو گئے اور بعض جگہ ایسی تباہی آئی کہ مردوں کو دفن کرنے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا اور لاشیں سڑکوں اور گلیوں میں پڑی ہوئی سڑتی تھیں.جب یہاں تک نوبت پہنچی تو وہی اخبارات جنہوں نے حضرت اقدس کے اشتہارات پر ہنسی اڑائی تھی برملا لکھنے لگے کہ ” یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ خدا کے علم میں پنجاب کو ابھی اس وباء سے بہت کچھ نقصان پہنچنا تھا.نیز انہیں حضرت اقدس کے بیان کی لفظاً لفظ تصدیق کرتے ہوئے لکھنا پڑا کہ طاعون کا اگر علاج ہے تو یہی ہے جو ہر شہر کے باشندے کر رہے ہیں کہ بد اعمال ترک کر کے نیچے دل سے جناب باری میں التجا کریں تاکہ اس کا دریائے رحم جوش میں آکر اس قہر کی آگ کو بجھا دے." ٣٣ حضور کی وفات کی مفتریانہ خبر انہیں دنوں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام طاعون کے پنجاب پر خطر ناک حملہ کی خبر دے کر انہیں نیکی، تقوی شعاری اور اخلاق و مروت کی تلقین فرما رہے تھے ، آپ کے مخالفوں نے آپ کی وفات کی مفتریا نہ خبر اڑا دی.یہ افسوسناک حرکت ملا محمد بخش جعفرز ٹلی نے کی تھی جس نے افسوسناک حادثہ " کے عنوان سے اس مضمون کا اشتہار شائع کیا کہ مرزا صاحب (معاذ اللہ ) طاعون میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے ہیں.یہ خبر چو نکہ بڑی تیزی سے ملک بھر میں پھیل گئی تھی اس لئے ۳/ اپریل ۱۸۹۸ء کو اس کے ازالہ کے لئے اخبار الحکام کا ایک غیر معمولی پر چہ شائع کرنا پڑا."البلاغ " یا " فریاد درد" کی تصنیف اور دنیا کی اہم زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی جامع سکیم کا اعلان کتاب امہات المومنین کی اشاعت ایک بد زبان کشمیری مرقد احمد شاہ شائق عیسائی نے جو کسی زمانہ میں لداخ کا میڈیکل افسر اور جگر اؤں ضلع لدھیانہ کا مشنری بھی رہ چکا تھا.انگلینڈ میں امہات المؤمنین " کے نام سے ایک گندی کتاب لکھی جو آر پی پریس گوجر انوالہ میں چھپی اور اوائل ۱۸۹۸ء میں بڑے وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کی

Page 24

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام گئی اس کتاب میں آنحضرت ا اور حضور کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کو اتنی غلیظ گالیاں دی گئی تھیں کہ مسلمانان ہند کے جگر چھلنی اور دل پارہ پارہ ہو گئے اور ہر طرف اس کے خلاف بہت شور اٹھا اور اخباروں میں زبر دست احتجاج کیا گیا.ہندوستان کے شرق و غرب میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی.انجمن حمایت اسلام لاہور نے یہ اشتعال دیکھ کر گورنمنٹ کے نام ایک میموریل بھیجا کہ کتاب، ضبط کر لی جائے حالانکہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں مفت تقسیم ہو کر اپنا ز ہر پوری شدت سے پھیلا چکی تھی اور اس کی ضبطی کا سوال اٹھانا محض اپنی شکست کا اعتراف کرنا تھا اور جیسا کہ ایک مسلمان اخبار " مخبر د کن" نے بھی تسلیم کیا تھا اس مطالبہ کی منظوری سے اس کے سوا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو سکتا کہ مخالفین اسلام بھی اسلامی لٹریچر کی ضبطی کا مطالبہ شروع کر دیتے اور یہ چکر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی صورت اختیار کر جاتا اور بالاخر تبلیغ اسلام کے رستے قریب مسدود ہو کے رہ جاتے.۱۳۵ یہ نازک صورت حال دیکھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے میموریل کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے نور امیدان عمل میں آئے اور حضور نے اپنی جماعت اور روشن خیال مسلمانوں کی طرف سے ۱۴ مئی ۱۸۹۸ء کو لیفٹیننٹ گورنر صاحب پنجاب کو ایک مفصل میموریل بھجوایا کہ انجمن حمایت اسلام کے میموریل سے ہم قطعاً متفق نہیں ہیں.اسلام ایک مقدس اور معقول مذہب ہے اس کے نزدیک دین میں جبر و اکراہ جائز نہیں ہے.پس مذہبی آزادی کا دروازہ کھلا رکھنا ضروری ہے تا مذ ہبی علوم و معارف میں لوگ ترقی کریں.اور چونکہ اس عالم کے بعد ایک دو سرا عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہیے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے.ہاں اس کے لئے تہذیب و شائستگی سے کام لینا ضروری ہے مگر کتاب امہات المومنین میں ہمارے نبی کریم ﷺ کو انتہائی شرمناک اور مکروہ ترین الفاظ سے یاد کیا گیا.اور یہ سب کچھ اس قوم نے کیا جس کا دعویٰ تہذیب کا تھا مگر قرآن مجید کا نہیں یہی حکم ہے کہ ہم اہل کتاب تک حکیمانه اند از ناصحانہ رنگ اور احسن پیرایہ میں خدا کا پیغام پہنچا ئیں.اسلام کوئی عاجز اور فروماندہ دین نہیں کہ جو حملہ کرنے والوں کا جواب دینے سے عاجز ہو.پس کتاب ”امات المومنین " کے خلاف حکومت اپنے ملکی قوانین کے لحاظ سے از خود جو چاہے قدم اٹھائے مگر ہمارا فرض صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس کے اعتراضات کا جو در حقیقت نہایت نادانی یا دھوکہ دہی کی غرض سے کئے گئے ہیں خوبی اور شائستگی کے ساتھ جواب دیں اس طرح اس کتاب کی قبولیت خود بخود گر جائے گی.

Page 25

تاریخ احمدیت ، جلد ۲ " مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام حضور نے اس میموریل میں آنحضرت ﷺ کے خلاف پادریوں کی دریدہ دہنی اور فحش گوئی اور بد زبانی کی طرف حکومت کو توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ قرآن مجید میں پہلے سے یہ خبر موجود ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ عیسائی اپنے اعتراضات کے ذریعہ سے مسلمانوں کو بڑی اذیت پہنچائیں گے.پس پادریوں کی ان ناشائستہ حرکات سے بھی اسلام ہی کی سچائی ثابت ہوتی ہے.اس میموریل کے علاوہ (جو اپنی ذات میں عیسائی تصنیف "البلاغ "یا " فریاد درد" حکومت کے لئے تبلیغ اسلام کا ایک مئوثر ذریعہ بھی تھا) حضور نے دوسرا کام یہ کیا کہ انہی دنوں ایک کتاب "البلاغ" تصنیف فرمائی جس میں حضور نے مخالفین اسلام کے جواب میں دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر شائع کرنے کی ایک جامع سکیم مسلمانوں کے سامنے رکھی اور انہیں بتایا کہ اس وقت تک کروڑوں کتابیں عیسائیوں کی طرف سے شائع ہو چکی ہیں.اس صورت میں اگر نقض امن کے اندیشہ کی تدبیر یہی ہے جو انجمن حمایت اسلام کو اب سو جھی کہ میموریل بھیجوایا جائے تو آج تک کم از کم ایک کروڑ میموریل حکومت کو جانا چاہیے تھا.پس میموریل اس کا کوئی علاج نہیں.اس وقت پادریوں کی زہریلی تحریرات اور ملحدانہ فلسفہ نے اسلام پر یورش کر رکھی ہے اور امہات المومنین کی طرز کی کتابوں کا سیلاب اما آ رہا ہے پس ایسی صورت میں دفاع کی صرف ایک ہی قابل عمل صورت ہے اور وہ یہ کہ ایک موزوں شخص کا انتخاب کیا جائے جو اعتراضات کا مجموعہ تیار کر کے نہ صرف نرمی اور متانت سے ان کا جواب تحریر کرے.بلکہ اسلامی تعلیم کی عمدگی ایسے دلکش انداز میں ثابت کر دکھائے کہ پادریوں کی ساٹھ سالہ دجالانہ کارروائیاں خاک میں مل جائیں اور اسلام کا منور چہرہ آفتاب کی طرف سامنے آجائے.اسلامی مدافعت سرانجام دینے والے شخص کی خصوصیات اسلامی مدافعت کا یہ فریضه نهایت درجه نازک پیچیدہ اور کٹھن تھا اور حضور ایک عرصہ سے اس میدان میں مصروف جہاد تھے.لہذا حضور نے اس کتاب میں وہ خصوصیات بھی تحریر فرما دیں جو مدافعت اسلامی کا کام کرنے والے شخص میں پائی جانی ضروری ہیں.یہ خصوصیات مندرجہ ذیل تھیں.ا.وہ زبان عرب میں یکتائے روزگار ہو.اس کی دینی معرفت میں صرف یہی کافی نہیں کہ چند حدیث اور فقہ اور تفسیر کی کتابوں پر اسے عبور ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق اور تدقیق اور لطائف اور نکات اور براہین یقینیہ پیدا کرنے میں فی الواقعہ حکیم الامت اور ز کی النفس ہو.

Page 26

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام کسی قدر علوم طبعی اور طباعت اور بیت اور جغرافیہ میں بھی دسترس رکھتا ہو.۴.عیسائیوں کے مقابل پر وہ ضروری حصہ بائبل کا جو پیشگوئیوں وغیرہ میں قابل ذکر ہوتا ہے عبرانی زبان میں یا د رکھتا ہو.خدا سے حقیقی ربط اور صدق اور وفا اور محبت اللہ اور اخلاص اور طہارت باطنی اور اخلاق فاضلہ اور انقطاع الی اللہ رکھتا ہو کیونکہ علم دین آسمانی علوم میں سے ہے اور یہ علوم تقویٰ اور محبت الہیہ سے وابستہ ہیں علم تاریخ سے واقف ہو.۷.علم منطق اور علم مناظرہ میں بھی کسی قدر ملکہ ہونا ضروری ہے اس کے پاس معتبر اور مسلم الثبوت کتابوں کا ایک ذخیرہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ منقولات صحیحہ کی فوج جھوٹے کا منہ توڑنے کے لئے تیز حربوں کا کام دیتی ہے.دینی خدمت کے لئے اس کی زندگی وقف ہو..اسے اعجازی طاقت حاصل ہو کیونکہ انسان حقیقی روشنی حاصل کرنے کے لئے اور کامل تسلی پانے کے لئے اعجازی طاقت یعنی آسمانی نشانوں کے دیکھنے کا محتاج ہے اور بچے مذہب کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اس میں نشان دکھلانے والے پیدا ہوتے رہیں.اشاعت کے بارے میں اہم تجاویز حضور نے اس کی اشاعت کے لئے بھی متعدد اہم اور اصولی تجاویز پیش فرمائیں مثلاً ایسی کتاب اردو عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں شائع ہو اور تمام بلاد اسلامیہ میں اس کی مفت اشاعت کی جائے.اخراجات کی فراہمی کے لئے حضور نے یہ مشورہ دیا کہ مسلمانوں کی ایک کمیٹی قائم کی جائے جو ہر طبقہ کے مسلمانوں سے ایک رقم کثیر بطور چندہ جمع کرے.آمدہ رقوم ایک امین کے سپرد کی جائیں اور حسب ضرورت خرچ کی جائیں.کتاب کے آخر میں حضور نے بطور ضمیمہ کتب حدیث، تفسیر، صرف و نحو، معانی فهرست کتب بیان ادب، لغت، تاریخ، اصول فقہ ، کلام ، منطق ، اخلاق و تصوف، طب اور کتب مذاہب اور علوم مختلفہ کی قریبا ڈیڑھ ہزار کتب کی فہرست بھی شامل کی جن سے مخالفین اسلام کے رد میں استفادہ کرنا ضروری ہے.اور جو حضور اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے کتب خانہ میں موجود تھیں.

Page 27

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام یہ جامع سکیم پیش کرتے ہوئے حضور نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ "اے مسلمانوں سے اپیل بزرگوا یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہی دین اور دینوں پر غالب ہو گا جو اپنی ذاتی قوت سے اپنی عظمت دکھا دے.پس جیسا کہ ہمارے مخالفوں نے ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بد شکل اور مکروہ ظاہر کریں ایسا ہی ہماری کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایہ ثبوت پہنچا دیں...اور ان کو دکھلا دیں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے...خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانہ میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اس تخم بد نامی کو جو بویا گیا ہے اور ان اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلا دیں کہ ان کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں." حمایت اسلام کے میموریل کی نا منظوری حضرت اقدس کی پیش فرمودہ جامع سکیم آج بھی اور مسلمانوں کا اظہار اطمینان قائم ہے اور قیامت تک مشعل راہ کا کام دے گی مگر انجمن حمایت اسلام کا میموریل حکومت نے مسترد کر دیا جس پر مسلمانان پنجاب کے ذہین طبقہ نے بھی اظہار اطمینان کیا.سر سید احمد خان صاحب کی طرف مسلمانوں کے مشہور سیاسی لیڈر سرسید احمد خان صاحب بھی حضور اقدس کے اس موقف کی سے حضور کے موقف کی تائید جواب دینا چاہیے.تائید میں تھے کہ کتاب " امہات المؤمنین " کا سرسید اس کے جلد بعد انتقال کر گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے "البلاغ " میں انہیں بہادر زیرک ، حقیقت شناس اور فریس انسان قرار دیتے ہوئے لکھا.انہوں نے اپنی تمام عمر میں ایسا کوئی فضول میموریل کبھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں نہیں بھیجا جیسا کہ اب لاہور سے بھیجا گیا.بلکہ اب بھی جب ان کو کتاب " امہات المومنین " کے مضامین پر اطلاع ہوئی تو صرف رد لکھنا پسند فرمایا.سید صاحب تینوں باتوں میں میرے موافق رہے.اول حضرت عیسیٰ کی وفات کے مسئلہ میں.دوم جب میں نے یہ اشتہار شائع کیا کہ سلطان روم کی نسبت گورنمنٹ انگریزی کے حقوق ہم پر غالب ہیں تو سید صاحب نے میرے اس مضمون کی تصدیق کی اور لکھا کہ سب کو اس کی پیروی کرنی چاہیے.سوم اسی کتاب " امہات المؤمنین " کی نسبت ان کی یہی رائے تھی کہ اس کار د لکھنا چاہیے.

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام میموریل نہ بھیجا جائے کیونکہ سید صاحب نے اپنی عملی کارروائی سے رد لکھنے کو اس پر ترجیح دی." البلاغ" کے بارے میں تجویز تھی کہ اردو کے البلاغ "یا " فریاد درد کی اشاعت علاوہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں بھی اس کی اشاعت ہو.لیکن ۱۸۹۹ میں اس کا صرف انگریزی ایڈیشن شائع کیا گیا.اور اردو ایڈیشن حضور کے وصال مبارک کے بعد ۱۹۲۲ء میں چھپا.رشتہ ناطہ کے متعلق اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار " علماء کی مسلسل جدوجہد نے ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ غیر احمدی اقارب سے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے تھے اس لئے وقت آگیا تھا کہ حضرت مسیح موعود جماعت کی اندرونی تنظیم و اصلاح اور اسے اہل و اقارب کے بداثرات سے بچانے کے لئے کوئی واضح قدم اٹھا ئیں چنانچہ حضور نے برسوں کے انتظار کے بعد بالا خرے / جون ۱۸۹۸ء کو جماعت کے نام ایک اشتہار دیا جس میں تحریر فرمایا کہ ” مال میں دولت میں علم میں فضیلت میں خاندان میں پر ہیز گاری میں خداتری میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں.ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے اور ہمار ا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناء خواں اور تابع ہیں." کتاب البنين والبنات حضرت اقدس صحیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ شادیوں کے سلسلہ میں بڑی دقت محسوس ہو رہی ہے.جماعت کے قابل شادی لڑکے اور لڑکیوں کا ایک رجسٹر ہو تو مفید ہو گا.حضور نے اس معقول تجویز کو پسند فرمایا اور مندرجہ بالا اشتہار میں ہی مخلصین جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی اولاد کی فہرستیں بقید عمرو قومیت بھیج دیں تا جماعتی رشتوں کا پرائیویٹ ریکارڈ تیار ہو جائے.مخلصین جماعت کی طرف سے فہرستیں آنے لگیں تو حضور نے ایک رجسٹر میں اپنے قلم سے ان کا اندراج شروع فرما دیا اور اس کا نام "کتاب البنین والبنات" تجویز فرمایا.حضور کانشاء مبارک تو مستقل طور پر ان فہرستوں کے اندراج کا تھا مگر ابھی ستر (۷۰) صاحب اولاد اصحاب کے نام درج ہوئے تھے کہ یہ تجویز در میان میں ہی رہ گئی جس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مخلص دوست کو رشتہ درکار تھا دوسری طرف اسی شخص کی ایک لڑکی قابل شادی تھی جو الدلم

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۵ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام ۴۵۱ شخص رجسٹر کھولنے کا محرک تھا.حضرت اقدس نے اس مخلص دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس سے سلسلہ جنبانی کی جائے لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتہ دینے سے انکار کر دیا جس پر حضور نے فرمایا کہ آج سے میں شادیوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.1 گو اس طرح رجسٹر تو نا تمام رہ گیا مگر حضور نے اپنے اشتہار میں شادی بیاہ کے لئے جو اصول ارشاد فرمایا تھا وہ آئندہ چل کر جماعت کی اصلاح و تنظیم اور اخوت ویگانگت اور خالص اسلامی ماحول کے قیام کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا اور آپ کی طرف منسوب جن اصحاب نے اسے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی وہ ایک لحاظ سے دوسرے عناصر میں ہی جذب ہو کے رہ گئے ہیں اور انہیں اپنی اولادوں کا مستقبل صاف طور پر تاریک دکھائی دے رہا ہے.مقدمہ انکم ٹیکس سے بریت کا نشان اللہ تعالیٰ کی مالی مدد و نصرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھی جس کی کثرت کو حاسدوں نے دیکھ کر یہ شاخسانہ کھڑا کر دیا کہ آپ کی آمدنی بہت ہے مگر آپ حکومت کے قانون کے مطابق انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچا ر ہے ہیں چنانچہ بعض مخالفین کی مخبری پر وسط ۱۸۹۸ ء میں حضور پر حکومت پنجاب نے سات ہزار دو سو روپیہ پر ایک سو ستاسٹھ روپیہ آٹھ آنہ کا ٹیکس عائد کئے جانے کا مقدمہ دائر کر دیا.ڈاکٹر مارٹن کلارک اور ان کے ہمنو جو اپنے مقصد میں ناکام ہو چکے تھے بڑے خوش ہوئے کہ اگر ہمارا پہلا نشانہ خطا ہو گیا تو اس مقدمہ میں اس کی تلافی ہوگی لیکن خدا تعالٰی کو اپنے محبوب کی ذات اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے نشان کے بعد مالی اعتبار سے بھی نصرت کا نشان دکھلانا مقصود تھا.یہ مقدمہ ایک ہندو تحصیلدار کے پاس تھا.حضرت اقدس کی طرف سے شیخ علی احمد صاحب وکیل نے ۲۰/ جون ۱۸۹۸ء کو عذرداری داخل کی.اسی دوران میں حضور مسجد مبارک میں چند احباب کے ساتھ بیٹھے آمد خرچ کا حساب کر رہے تھے کہ آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ کو دکھایا گیا کہ ہندو تحصیلدار جس کے پاس مقدمہ تھا بدل گیا ہے اور اس کی بجائے ایک اور شخص کرسی پر بیٹھا ہے جو مسلمان ہے اور اس کشف کے ساتھ بعض ایسے امور بھی ظاہر ہوئے جو فتح کی بشارت دیتے تھے.حضور نے اسی وقت اپنا یہ کشف حاضرین کو سنا دیا جن میں خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے انسپکٹر مدارس جموں و کشمیر کے علاوہ حضور کے اور بہت سے خدام بھی موجود تھے.

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مسلمان مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام چنانچہ اس کے بعد حالات یکا یک بدل تحصیلدار کی غیر جانبدارانہ رپورٹ تھے اور ہندو تحصیلدار کی کرسی پر ایک مسلمان منشی تاج الدین صاحب باغبانپوری بٹالہ آگئے جنہوں نے ۱۵.اگست ۱۸۹۸ء کو قادیان پہنچ کر اصل معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اور ۳۱.اگست ۱۸۹۸ء کو مسٹر ایف ٹی ڈکسن (F.T.DIXON) کلکٹر ضلع گورداسپور کی خدمت میں مفصل رپورٹ بھجوائی کہ " مرزا غلام احمد کی 21 اپنی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری زمین اور باغ کے اور نہیں ہے جو قابل ٹیکس ہو.گواہوں میں سے چھ گواہ کو معتبر اشخاص ہیں لیکن مرزا صاحب کے مرید ہیں اور اکثر مرزا غلام احمد کے پاس رہتے ہیں.دیگر سات گواہ مختلف قسم کے دوکان دار ہیں جن کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق نہیں ہے بالعموم یہ سب گواہان مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور اس کی ذاتی آمدنی تعلقہ داری زمین اور باغ کے اور کسی قسم کی نہیں بتلاتے.میں نے موقعہ پر بھی خفیہ طور سے مرزا غلام احمد صاحب کی ذاتی آمدنی کی نسبت بعض اشخاص سے دریافت کیا لیکن اگر چہ بعض اشخاص سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی بہت ہے اور یہ قابل ٹیکس ہے لیکن کہیں سے کوئی بین ثبوت مرزا صاحب کی آمدنی کا نہ مل سکا زبانی تذکرات پائے گئے کوئی شخص پورا پورا ثبوت نہ دے سکا.میں نے موضع قادیان میں مدرسہ اور مہمان خانہ کا بھی ملاحظہ کیا.مدرسہ ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور اکثر عمارت خام بنا ہوا ہے اور کچھ مریدوں کے لئے گھر بھی بنے ہوئے ہیں.لیکن مہمان خانہ میں واقعی مہمان پائے گئے.اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جس قدر مرید اس روز قادیان میں تھے انہوں نے مہمان خانہ سے کھانا کھایا.کمترین کی رائے ناقص میں اگر مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی صرف تعلقہ داری اور باغ کی قرار دی جائے جیسا کہ شہادت سے عیاں ہوا اور جس قدر آمدنی مرزا صاحب کو مریدوں سے ہوتی ہے اس کو خیرات کا روپیہ قرار دیا جاوے جیسا کہ گواہان نے بالعموم بیان کیا تو مرزا غلام احمد پر موجودہ انکم ٹیکس بحال نہیں رہ سکتا." تاج الدین صاحب تحصیلدار بٹالہ نے اپنی رپورٹ کے آخر میں یہ لکھا.لیکن جب کہ دوسری طرف خیال کیا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک معزز اور بھاری خاندان سے ہے اور اس کے آباد اجداد رئیس رہے ہیں اور ان کی آمدنی معقول رہی ہے اور مرزا غلام احمد خود ملازم رہا ہے اور آسودہ حال رہا تو ضرور گمان گزرتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک مالدار شخص ہے اور قابل ٹیکس ہے.مرزا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق حال ہی میں اس نے اپنا باغ اپنی زوجہ کے پاس گروی رکھ کر اس سے چار ہزار کا زیور اور ایک ہزار روپیہ نقد وصول پایا.تو جس شخص کی عورت اس قدر روپیہ دے سکتی ہے اس کی

Page 31

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ 14 مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام بست یہ ضرور گمان گزرتا ہے کہ وہ مالدار ہو گا.کمترین نے جس قدر تحقیقات کی ہے وہ شامل مسل ہذا فیصلہ اور بریت " ۱۷.ستمبر ۱۸۹۸ کو اس مقدمہ کی مسل اور رپورٹ مسٹرایف.ٹی.ڈکسن صاحب کے پاس ڈلہوزی گئی اور انہوں نے سب کا غذات دیکھ کر حضور کو ٹیکس سے مستثنی قرار دے دیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا.یہ ٹیکس اب کے ہی لگایا گیا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ تمام آمدنی میری جماعت کے لئے خرچ ہوتی ہے میرے ذاتی خرچ میں نہیں آتی.وہ اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ میری اور بھی جائداد ہے لیکن تحصیلدار صاحب کے سامنے انہوں نے بیان کیا ہے کہ اس میری جائداد کی آمدنی بھی جو از قسم زمین ہے اور پیداوار زراعت ہے اور زیر دفعہ (۵) ب ہے انکم ٹیکس سے بری ہے دینی مصارف میں کام آتی ہے.اس شخص کے اظہار نیک نیتی میں مجھے شک کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی جس کی جماعت کو ہر ایک جانتا ہے میں ان کے چندوں کی آمدنی کو جس کی تعداد ۵۲۰۰ بیان کرتے ہیں اور جو محض دینی کاموں میں خرچ ہوتی ہے زیر دفعہ ۵ (ای) انکم ٹیکس سے بری کرتا ہوں." (ترجمہ) مقدمہ کے بعض کوائف حضور نے اس مقدمہ کی پیروی کے لئے حکیم مولوی فضل دین صاحب بھیروی کو مقرر فرمایا اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب کو ان کا معاون.مقدمہ میں جماعت کے چھ افراد کی شہادتیں ہو ئیں جن میں شیخ صاحب موصوف بھی شامل تھے.یام الصلح کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس مسیح موعود نے ۶ فروری ۱۸۹۸ء کو جو اشتہار طاعون کے متعلق تحریر فرمایا تھا اس پر بعض حلقوں سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ طاعون کے استیصال کے لئے بیک وقت دوا بتانے اور یہ کہنے میں کہ یہ وباء شامت اعمال کا نتیجہ ہے دونو میں تناقض ہے.ایام الصلح اگر چہ بظاہر اس اعتراض کے جواب کے لئے لکھی گئی تھی مگر اس میں حضور نے فلسفہ دعا.تقدیر.ایمان اور اپنی صداقت کے دلائل پر اس خوبی اور شان جامعیت سے روشنی ڈالی کہ ایک انسان کو ایک نئی بصیرت اور ایک نئی روشنی عطا ہوتی ہے.ایام الصلح کا فارسی ایڈیشن (جو مولانا عبد الکریم صاحب نے تیار کیا) اگر چہ اگست ۱۸۹۸ء میں چھپ

Page 32

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام چکا تھا اور اس کا اعلان بھی الحکم ۱۳.اگست ۱۸۹۸ء میں ہو گیا مگر اس پر چہ میں ایک خصوصی ضمیمہ کے ذریعہ سے اس کی اشاعت ایام الصلح اردو کی اشاعت تک مصلحنا روک دی گئی اور یہ دو نو کتا ہیں جنوری ۱۸۹۹ء میں ایک ساتھ منظر عام پر آئیں.وجہ تصنیف ۵۴۱ ضرورة الامام" کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دیرینہ تعلق رکھنے والوں میں ایک صاحب منشی الہی بخش صاحب اکا ؤ ٹسٹ لاہور بھی تھے جنہیں اپنے الہامات پر ناز تھا.یہ صاحب ستمبر ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حضور کے ایک اور مرید کے ساتھ قادیان پہنچے اور حضور کو تخلیہ میں اپنے بہت سے رویا اور الہامات سنائے.حضور کو اس امر سے تو خوشی ہوئی کہ خدا تعالٰی نے انہیں الہامات کا شرف بخشا ہے لیکن جب انہوں نے ایک یہ خواب سنائی کہ میں نے آپ کی نسبت کہا ہے میں ان کی بیعت کیوں کروں بلکہ انہیں میری بیعت کرنا چاہیے - تو حضور نے اپنی فراست سے یہ سمجھ کر کہ اس نوع کی خوابوں سے انہیں ٹھوکر نہ لگ جائے صرف ڈیڑھ دن میں ایک پر معارف رسالہ ” ضرورۃ الامام " تصنیف فرمایا جو اکتوبر ۱۸۹۸ء میں شائع ده ہوا.رسالہ ضرورۃ الامام کیا ہے ؟ حقائق و معارف کا خزانہ ہے جس میں حضور نے بڑی شرح وبسط سے بتایا ہے کہ امامت کے بلند منصب کے لئے اخلاق ، قوت امامت سطت فی العلم ، عزم ، اقبال علی اللہ کی قوتوں اور کشوف و الہامات کے سلسلہ کا ہونا ضروری ہے جو آپ میں خدا تعالیٰ نے جمع کر دی ہیں.اس لئے آپ ہی امام الزمان ہیں جن کی پیروی تمام مسلمانوں ، زاہدوں، خواب بینوں اور مسلموں کو کرنا خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے.اس کتاب میں حضور نے بچے الہام کی دس ایسی واضح علامات بیان فرمائی ہیں جن سے شیطانی اور رحمانی الہامات میں امتیاز واضح ہو جاتا ہے اور جھوٹا ملم مقابل پر نہیں ٹھہر سکتا.اس ضمن میں حضرت اقدس نے یہ زبر دست تحدی فرمائی کہ :."اگر میں حکم نہیں ہوں تو میرے نشانوں کا مقابلہ کرو.میرے مقابل پر جو اختلاف عقائد کے وقت آیا ہوں اور سب بحثیں نکمی ہیں.صرف حکم کی بحث میں ہر ایک کا حق ہے جس کو میں پورا کر چکا.خدا نے مجھے چار نشان دیئے ہیں (۱) میں قرآن شریف کے معجزہ کے کل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے (۲) قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے (۳) میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں کوئی

Page 33

تاریخ احمدیت.جلد ۳ 19 مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.میں حلفا کہہ سکتا ہوں کہ میری دعا ئیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے (۴) میں غیبی اخبار کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے." - حضرت اقدس نے کتاب کے آخر میں نہایت درجہ ہمدردی اور دلسوزی سے الہی بخش صاحب کو ان کا نام لئے بغیر نصیحت فرمائی کہ " میرے عزیز علم اس دھو کہ میں نہ رہیں کہ فقرات الہامی اکثر ان پر وارد ہوتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میری جماعت میں اس قسم کے علم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے.نیز یہ لطیف نکتہ بتایا کہ ہم انکار نہیں کرتے کہ آپ پر لانی علم کے چشمے کھل جائیں مگر ابھی تو نہیں.خوابوں اور کشنوں پر استعارات اور مجازات غالب ہوتے ہیں مگر آپ نے اپنے خواب کو حقیقت پر حمل کر لیا.مجد د صاحب سرہندی نے ایک کشف میں دیکھا تھا کہ آنحضرت اللہ کو ان کی طفیل خلیل اللہ کا مرتبہ ملا اور اس سے بڑھ کر شاہ ولی اللہ صاحب نے دیکھا تھا کہ گویا آنحضرت اللہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے مگر انہوں نے باعث سلت علم کے وہ خیال نہ کیا جو آپ نے کیا بلکہ تاویل کی." افسوس منشی منشی اللهی بخش صاحب میدان مخالفت میں اور ان کا عبرت ناک انجام الی بخش صاحب "ضرورة الامام " جیسی مفصل و مدلل کتاب پڑھنے کے بعد بھی اپنے خیالات و وساوس کو دور کرنے کی بجائے اگلے سال ہی میر عباس علی شاہ صاحب لدھیانوی کی طرح کھلم کھلا میدان مخالفت میں آگئے اور اپنے دوستوں میں یہ مشہور کر دیا کہ انہیں خدا نے بذریعہ الهام خبر دی کہ مرزا صاحب (معاذ اللہ ) مصرف و کذاب ہیں لیکن وہ اس مصلحت سے یہ الہامات شائع نہیں کرتے کہ مبادادہ ہم پر انگریزی عدالت میں نالش کر دیں.حضرت اقدس کو آپ کے پرانے رفیق شیخ حامد علی صاحب ساکن تھہ غلام نبی نے حافظ محمد یوسف صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار کی زبانی یہ بات سنائی جس پر حضور نے منشی الہی بخش صاحب کو اللہ تعالیٰ کی قسم کا واسطہ دے کر یقین دلایا کہ میں ایسے الہامات کی اشاعت پر کوئی نالش نہیں کروں گا بشرطیکہ وہ یہ الہامات حلفاً شائع کریں اور لکھیں کہ اگر یہ میری انترا پردازی ہے تو خدا تعالیٰ مجھے اس کی پاداش میں سزا دے.منشی صاحب نے خدا کے شیر کی یہ لنکار سنی تو حضور کی مخالفت میں " عصائے موسیٰ " کے نام سے چار سو صفحات کی ایک کتاب لکھ کر شائع کی اور اس میں بڑے طمطراق سے اپنے الہامات مثلا هُوَ الَّذِى ارْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرْوغيره

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام بھی شائع کئے.مگر حضور کے ارشاد کے مطابق حلفیہ بیان شائع نہ کیا.لیکن چونکہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام "عصائے موسی" رکھ کر خدا کے صحیح کو معاذ اللہ فرعون اور اپنے آپ کو موسیٰ قرار دیا تھا نیز اس میں الہامات لکھے تھے کہ آپ پر خدا کا غضب نازل ہو گا اور طاعون میں مبتلا ہو جائیں گے.دوسری طرف اپنے ایک الہام کی بناء پر یہ لکھا تھا کہ جو خدمت مجھ کو سپرد ہوئی جب تک پوری نہ ہو ئیں ہرگز نہ مروں گا اس لئے وہ حضور کی زندگی میں ہیے.اپریل ۱۹۰۷ء کو لاہور میں طاعون کا شکار ہو کر اس جہان سے رخصت ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک اور نشان ظاہر ہوا.Y اہلحدیث 11 اپریل ۱۹۰۷ ء نے ان کی وفات کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا.افسوس منشی الہی بخش صاحب لاہوری مصنف عصائے موسیٰ بھی طاعون سے شہید ہو گئے." امن عامہ کے قیام کے لئے ایک اور ضروری میموریل امہات المومنین" کی اشاعت پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان دیکھ کر عیسائی اخبار " نور افشاں" (لدھیانہ) نے نہایت درجہ عاقبت نا اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اور زیادہ اشتعال پھیلانا شروع کر دیا جس نے ملکی فضا کو اور زیادہ مکدر کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتنہ و فساد کے شعلوں کو پھیلتے دکھا تو اکتوبر ۱۸۹۸ء میں وائسرائے ہندو کٹر الیگزنڈر بروس الجن (۱۸۴۹ - ۱۹۱۷) (Victor Alexander Bruce gth Earl of Elgion) کے نام ایک میموریل بھیجا جس میں ۱۸۹۵ء کے مذہبی مباحثات سے متعلق میموریل کی تجاویز کا اعادہ کرتے ہوئے مزید یہ تجویز بھی پیش فرمائی کہ گور نمنٹ عالیہ دس برس تک جس حد تک مناسب سمجھے اس طریق بحث کو قطعاً مسدود فرمادے کہ کوئی فریق دوسرے کے عقیدے اور مذہب پر حملہ کرے یا کسی قسم کی نکتہ چینی سے فریق مخالف کو ایذا پہنچا دے بلکہ ہر ایک فریق اپنی کل تحریروں اور تقریروں کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے تک محدود رکھے اور دوسرے فرقوں اور دوسرے فرقوں کے عقائد اور ان کے حسن و قبیح کا ذکر نہ کرے." افسوس پہلے میموریل کی طرح انگریزی حکومت نے اس اہم میموریل کی طرف بھی کوئی توجہ نہ کی.شاید انگریزی حکومت ان دنوں جس مذہبی آزادی کے تصور میں سرشار تھی وہ ایسا قدم اٹھانے سے اسے روکتا تھا.

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۱ نجم الہدی کی تصنیف و اشاعت مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام نجم الهدى حجم المہدی " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب ہے جو حضور نے ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو صرف ایک دن میں تصنیف فرمائی تھی.اس کتاب میں جو بڑی تقطیع پر شائع ہوئی حضرت اقدس نے آنحضرت ا کے محاسن و کمالات کا حسین نقشہ کھینچا ہے اور اپنی قوم کے سامنے دجال کے عالمگیر فتنہ کا نظارہ پیش کرتے ہوئے ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے دلائل و براہین اور نشانوں سے اپنی دعوئی مسیحیت کی سچائی ثابت کر دکھائی ہے.حضور نے سوز و گداز میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں اپیل کی ہے کہ "اے بھائیو! اکیلے اکیلے ہو کر کھڑے ہو جاؤ اور پھر انصاف کی رو سے فکر کرو اور دشمنوں کی طرح مت رہو.کیا تمہارا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ مصیبتیں اس حد تک پہنچیں اور مسلمانوں پر زمین تنگ ہو جائے اور فتنے بکثرت پیدا ہو جائیں یہاں تک کہ ان سے دلوں میں لرزہ پڑے اور بیقراریاں بڑھ جائیں.پھر باوجود تمام آفتوں کے خدا تعالیٰ کی مدد آسمان سے نازل نہ ہو اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہو اور صدی کا سر اس بادل کی طرح گزر جائے جس میں پانی نہ ہو.اور کسی مجدد اور امام کا منہ اس میں ظاہر نہ ہو اور خدا تعالی کی غیرت جوش میں نہ آوے باوجود یکہ فتنے ابر کی طرح محیط ہو جائیں.کیا یہ وہ بات ہے جس کو ایمانی فراست قبول کر سکتی ہے یا جس پر ربانی صحیفے گواہی دیتے ہیں.کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ صلیب کا غلبہ اور اس بد دین کا پھیلنا ظہور مسیح کی پہلی علامت ہے اور اس پر اہلسنت نے اقرار صحیح کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور کوئی فرد ان میں سے اس حدیث صحیح کا مخالف نہیں ہے اور عقل سلیم اور طبع مستقیم قبول نہیں کر سکتی کہ علامتیں تو اس شوکت اور شان کے ساتھ ظاہر ہوں اور دجل اور فتنہ انگیزی کمال تک پہنچ جائے اور اس پر ایک زمانہ بھی گزر جائے اور مسیح موعود اب تک ظاہر نہ ہو." نجم الهدی عربی اردو اور فارسی زبانوں میں تین کالموں میں بڑی تقطیع پر شائع ہوئی تھی.اصل کتاب عربی میں تھی اور اس کا اردو اور فارسی ترجمہ بھی حضور نے خود ہی کیا تھا.نجم الہدی کا انگریزی ترجمه خلافت ثانیہ میں خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب نے The Load" Star" کے نام سے شائع کیا.۲۵

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۲ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام حواشی "الفضل "۲۵- اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۵ کالم ۲۴۶ ملفوظات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایه الله علی بنصرہ العزیز) رسالہ تعلیم الاسلام جلد اول نمبر صفحه ۲۳۰ تا۲۳۲ و تبلیغ رسالت جلد ششم (بار اول) صفحه ۱۵۳ تا۱۵۵ ملفوظات جلد اول صفحه ۲۸ (بار اول) -۴ تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ا ۵ رسالہ تعلیم الاسلام" جلد اول صفحہ ۳۳۳٬۳۳۲ رسالہ تعلیم الاسلام جلد اول صفحه ۲۳۶٬۲۳۳ الحکم ۱۰/ دسمبر ۱۹۰۵ صفحه ۲ - رسالہ تعلیم الاسلام جلد اول صفحہ ۲۴۹.یہ وہی جگہ ہے جہاں اب مدرسہ احمدیہ قادیان کی عمارت ہے.رسالہ تعلیم الاسلام و سمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۲۴۹ -4 پو رپورٹ صدر انجمن احمدیہ صفحہ ۷۴.(اکتوبر ۱۹۱۱ء تا ستمبر ۱۹۱۲ء) اخبار "بدر ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۴-۵ -۱۲ رپورٹ صدر انجمن احمدیه " ربوه ۴۸ ۱۹۴۷ صفحه ۱۴ رپورٹ صدر انجمن احمدیه ۵۳ - ۱۹۵۱ء صفحه ۴۳ رسالہ تعلیم الاسلام و کمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۲۴۲ حضرت حافظ صاحب ناگپور کے رہنے والے تھے.کئی برس تک مکہ معظمہ میں مقیم رہے اور وہیں شادی کی.۱۸۹۳ء میں قادیان آئے اور الدار میں رہائش اختیار کی.آپ کئی مرتبہ حج سے مشرف ہوئے.ایک حج آپ نے حضرت سیدۃ النساء ام المومنین کے خرچ پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بھی کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے بچپن میں انسی سے قرآن شریف پڑھا تھا.حافظ صاحب فرماتے تھے کہ ختم قرآن کی تقریب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈیڑھ سوروپے دیئے اور میری تحریک پر "محمود کی آمین" لکھی.۱۵- کتوبر ۱۹۳۶ء بروز جمعہ 20 سال کی عمر میں وصال ہوا.(اخبار الفضل ۳۶/ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحه ۶ کالم -۲) حضرت اقدس کے جلیل القدر صحابی تھے ۱۸۹۴ء میں بیعت کی ۶۷ سال کی عمر میں ۲۵ جون ۱۹۴۴ء کو انتقال ہوا.حضرت مسیح پاک کی جذب و تاثیر کا ذکر کر کے فرمایا کرتے تھے.ہم جب حضور کے روئے انور کو دیکھتے تو ہمیں معلوم ہو تا کہ جنت میں ہیں آپ کے چہرہ منور کو دیکھتے ہوئے سب غم دور ہو جاتے.( الحکم ۲۸/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ کالم ۲) بانی علیہ عجائب گھر تاریان - ستمبر ۱۹۰۵ء میں داخل سلسلہ ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان سے آپ کو بڑی عقیدت تھی.حکیم مبارک احمد خان صاحب ایمن آبادی آپ ہی کے فرزند ہیں.۳۰ جنوری ۱۹۴۶ء کو عمر ۱۶ سال انتقال فرمایا اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.اصل وطن بو بک ضلع سیالکوٹ.حضرت قاضی صاحب بڑی خوبی اور مسلمہ قابلیت کے نوجوان تھے.آپ اکثر اپنا جو ہر قابلیت و علمیت رسالہ ریویو آف ریلیجز کے ذریعہ سے ظاہر کرتے رہتے تھے جس سے آپ کے علم کا سکہ اہل زبان پر بیٹھ گیا انگریزی ترجمته القرآن" کے پہلے پارہ کا ترجمہ آپ نے انتہائی قابلیت اور تیز رفتاری سے کیا جس پر حضرت خلیفتہ اصبیع الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا.آپ کا انتقال ۱۲.اگست ۱۹۱۶ء کو ہوا.آخری آرام گاہ بہشتی مقبرہ قادیان ہے.آپ کی وفات کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو قبل از وقت بذریعہ رویا اطلاع دی گئی تھی (الفضل ۱۵.اگست ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۸ ۳۰ مارچ ۱۹۰۲ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.۱۹۰۴ء سے ۱۹۲۸ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیمی فرائض سرانجام دینے کی توفیق علی (روایات صحابہ جلد اصفحہ ۱۸)

Page 37

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۳ یہ نام رسالہ تعلیم الاسلام دسمبر ۱۹۰۶ صفحہ ۲۲۳-۲۲۶ سے ماخوذ ہیں.۲۰ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے بعد آج تک جو ہیڈ ماسٹر ہوئے ان کی فہرست درج ذیل ہے مولوی صدر الدین صاحب (۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۴ء) مولوی محمد دین صاحب (متی ۱۹۱۴ء تا جنوری ۱۹۲۰ ء د اپریل ۱۹۲۷ء تا مئی ۱۹۴۰ء) قاضی محمد عبد اللہ صاحب (جنوری ۱۹۲۰ء تا اپریل ۱۹۲۷ء د ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۰ تا نومبر ۱۹۴۱ء) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (مئی ۱۹۴۰ تا اکتوبر ۱۹۴۰ء) اخوند عبد القادر خان صاحب (نومبر ۱۹۴۷ء تا جون ۱۹۴۴ء) سید سمیع اللہ شاہ صاحب (جون) ۱۹۴۴ء تا ۲۷ اکتوبر ۶۱۹۴۴ سید محمود اللہ شاہ صاحب (۲۷.اکتوبر ۱۹۴۴ء تا دسمبر (۱۹۵۴ء) اسے تعلیم الاسلام کا قیام صوفی محمد ابراہیم صاحب (دسمبر ۱۹۵۴ء تا جون ۱۹۵۶ء) میاں محمد ابراہیم صاحب (یکم جون ۱۹۵۶ء تا یکم مئی ۱۹۹۹ء) چوہدری فضل احمد صاحب ۲ مش تا ۱۹ مئی ۱۹۷۹ء ملک حبیب الرحمن صاحب ۲۰ مئی ۱۹۷۹ء سے اب تک فرائض بجالا رہے ہیں (وفات ۲۰ ستمبر ۱۹۸۷ء) یکم ستمبر ۱۹۷۲ء کو دوسرے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کو بھی قومی تحویل میں نے لیا گیا.۲۱- رسالہ تعلیم الاسلام دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۸۳٬۲۲۸٬۲۲۷ و ضمیمہ الحکم ۱۰.جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۲۰ رپورٹ مدرسه تعلیم الاسلام از مولانا عبد الکریم صاحب جائنٹ سیکرٹری مجلس منتظمہ) ۲۲- مدرسہ کے پہلے عمل کے امتحان میں صوفی غلام محمد صاحب ( مبلغ ماریشس) راجہ اسمعیل صاحب شیخ محمد نصیب صاحب شامل ہوئے اور تینوں پاس ہو گئے.(" روایات صحابہ " جلد ہشتم صفحه (۱۲۳) دیگر مفصل کوائف "صدر الجمن احمدیہ " کی سالانہ رپورٹوں میں شائع شدہ ہیں.۲۳ کتاب البريه طبع اول صفحه ۸۰ -۲۴ کتاب البریہ طبع اول حاشیه صفحه ۱۹۲ ۲۵- تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۶۵ ایام الصلح اردو ( طبع اول صفحه ۱۳۰ ۲۷- تبلغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۳۵ ۲۸- تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۴۸٬۴۷ ۲۹ ایام الصلح صفحہ ۱۲۱۴۱۲۰ ۲۶ ایام ا ۳۰ اخبار " احکام ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء صفحہ کے "حیات احمد " مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، جلد پنجم صفحه ۲۴ حالات ۱۸۹۸ء تا ۶۱۹۰۰ ) ۳۱ السلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۲۰-۱۲۱ بطور مثال ملاحظہ ہوا البدر ۸.مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ ۱۸۹۶ء سے ۱۹۳۳ء تک ایک کروڑ بیس لاکھ جانیں ہندوستان میں طاعون سے تلف ہو ئیں.چنانچہ لکھا ہے."The greatest toll was taken in India, where over 12,000,000 perished during the period between 1898 and 1933" (Collier's Encyclopedia vol19 P.95 Crowell Collier and Macmillan, Inc, 1967; ۳۲ گلزار ہند لاہور بحوالہ الحکم ۳۰/ اپریل ۱۹۰۴ء ۳۲- ايضا ۳۴- حیات احمد جلد پشم صفحه ۳۵٬۳۴ حالات ۱۸۹۸ء تا ۱۹۰۰ء) ۳۵ بحوالہ اخبار الحکم ۲۰۱۳/ مئی ۱۸۹۸ء

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۳ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام ملخصا از الحکم ۱۳۶۶مئی ۲۷٬۲۰۰/ مئی ۶۱۸۹۸ ۳۷- البلاغ صفحه ۲ تا ۷ ( تلخیص) ۳۸ البلاغ طبع اول صفحه ۱۳ ۳۹- سراج الاخبار (۲۵/ جولائی ۱۸۹۸) بحوالہ الحکم ۱۳۶۶ اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۸ کالم ۲ ۴۰ البلاغ صفحه ۳۴٬۳۳( طبع اول) تاریخ وفات سرسید احمد خاں مرحوم (۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء الحکم ۲۷۲۰/ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۷ کالم ۴۳- الحکم ۱۰ جنوری ۱۹۰۰ ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۴۳- تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۴۶۴۴۰ -۴۴ یه قلمی رجسٹر اس وقت خلافت لائبریری میں موجود ہے.رجسٹر کے اولین اندراج کی تاریخ ۱۵/ جون ۱۸۹۸ء معلوم ہوتی ہے فہرست کی ترتیب یہ تھی.نام صاحب اولاد.سکونت.نام اولاد - عمر.رجسٹر میں حضور نے اپنے قلم سے سب سے پہلا نام محمد حسین صاحب قریشی مالک کارخانه رفیق الصحت لاہور) کا لکھا تھا اور آخری نام مرزا ر سول بیگ صاحب (پسر مرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری کا ۴۵- "برکات خلافت " طبع اول صفحه ۷۲ ( تقریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) - لاہوری فریق کے ایک لیڈر لکھتے ہیں.”بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ دادا سلسلے پر عاشق تھے لیکن ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے.(پیغام صلح / فروری ۱۹۵۲ء صفحہ سے کالم ) یہ حالات اس درجہ تشویشناک ہیں کہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ "ہمارا مستقبل ایسی تاریکیوں کے اندر گھرا ہوا ہے کہ ان سے نکلنا اور پہلے کی سی روشن فضاؤں کا پیدا ہونا محال ہے.اس صدی کے مجدد کی تحریک بھی اب زندگی کے آخری مرحلوں میں ہے اور اب نیا مجد رہی اگر اس کو دوبارہ زندہ کریگا اس میں زندگی کی روح پیدا کرنا اب ہمارا کام نہیں " (پیغام صلح ۱۵/ جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۳ کالم) ۴۷.علامہ نیاز محمد خان نیاز فتحپوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کے مسلک کو اعتصام و فراست " سے موسوم کرتے ہوئے لکھتے ہیں.اب رہا یہ امر کہ غیر احمدی لوگوں میں وہ رشتہ مصاہرت قائم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تو اس پر کسی کو کیوں اعتراض ہو ؟ کیا آپ کسی ایسے خاندان میں شادی کر نا گوارا کریں گے جس کے افراد آپ کے مسلک کے مخالف ہیں اور کیا آپ ان لوگوں کی اقتداء کریں گے جو اپنے کردار کے لحاظ سے مقتدا بننے کے اہل نہیں ہیں احمدی جماعت کا ایک خاص اصول زندگی ہے جس پر ان کے مرد ان کے بچے اور ان کی عورتیں سب یکساں کار بند ہیں.اس لئے اگر وہ کسی غیر احمد ہی مرد یا عورت سے رشتہ ازدواج قائم کریں گے تو ان کی اجتماعیت یقینا اس سے متاثر ہوگی اور وہ یک رنگی اور ہم آہنگی جو اس جماعت کی خصوصیت خاصہ ہے ختم ہو جائے گی.آپ اس کو تعصب کہتے ہیں میں اس کو اعتصام و فراست ".رسالہ نگار لکھنو اکتوبر ۱۹۶۰ء لائف آف احمد اصلحه ۱۳۴۱ از مولانا عبد الرحیم صاحب درد) - نزول المسیح ۲۲۹.حضرت اقدس نے نزول اصسبیح صفحہ ۲۲۹ میں خواجہ صاحب کے علاوہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے مولوی عبد الكريم صاحب مولوی نور الدین صاحب مولوی شیر علی صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب کو بھی اس نشان کا گواہ قرار دیا ۴۸ -0° ہے حیات احمد جلد پنجم صفحه ۴۹ ا "لا تف آف احمد صفحه ۴۴۱ -۵۲ ضرورت الامام (طبع اول) صفحه ۳۲-۴۴ و نزول المسیح صفحه ۲۲۹ حیات احمد جلد پنجم صفحه ۵۲ (حالات ۱۸۹۸ تا۲۱۹۰۰) ۵۳ حیات احمد جلد پنجم صفحه ۴۹ ۵۴- مولف کتاب " مجدد اعظم " ( جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) نیز مولف "حیات طیبہ" نے لکھا ہے کہ ایام الصلح تیم اگست ۱۸۹۸ء کو شائع ہو گئی تھی.مگر یہ درست نہیں کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ۲۰/ ستمبر ۱۸۹۸ کے

Page 39

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۵ مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام اشتهار واجب الاظهار" (مندرجه تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۴۹) میں ایام الصلح اردو اور فارسی دونوں کو غیر شائع شدہ قرار دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایڈیشن ایک ساتھ اشاعت پذیر ہوئے جیسا کہ اخبار الحکم ۱۰/ جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ا کی اس خبر سے ظاہر ہے کہ کتاب ایام الصلح فارسی اور اردو دونوں مکمل ہو کر شائع ہو گئی ہیں." ۵۵- ضرورة الامام ( طبع اول) صفحہ ۲۳ و عصائے موسی صفحہ ۲۳ ( از الهی بخش صاحب اکار شٹ) ۵۶ الحکم ۲۹/ اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحه ۹ کالم نمبر ۲ (مجدد اعظم " حصہ اول صفحہ ۵۷۴ پر اس کی تاریخ اشاعت ستمبر ۱۸۹۸ء لکھی ہے جو صحیح نہیں) ۵۷- ضرورة الامام طبع اول صفحه ۲۳ ۵۸- ایضا حاشیه صفحه ۲۹ ۵۹ عصائے موسی صفحه ۲ از منشی الہی بخش صاحب اکاؤشٹ) ۶۰ ایضاً.صفحہ ۲۰-۲۱ ۶۳ ايضا صفحه 19 بحوالہ "حقیقت الوحی " تمه صفحه ۱۰۸ ۱۱۰ ( طبع اول) - الحکم ۱۵ - اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ سے کالم نمبرا ۶۴- حجم الله می (طبع اول صفحه به ۶۵- حجم اللہ کی ( طبع اول صفحه ۴ حیات احمد جلد پنجم صفحه ۱۴ ۶۷ ناؤ ضلع راجشاری بنگال میں پیدا ہوئے.۱۹۰۲ ء میں ٹیچر کی حیثیت سے گورنمنٹ کی ملازمت میں داخل ہوئے اور ترقی کر کے ڈویر تل انسپکٹر آف سکولز کے عہدے تک پہنچے.دسمبر ۱۹۱۴ ء میں مولوی مبارک علی صاحب.بی.اے.بیٹی سابق مبلغ جرمنی و امیر صوبائی بنگال کے ذریعہ سے قاریان اگر قبول احمدیت کی سعادت پائی.دسمبر ۱۹۳۶ میں ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے.آپ نے پوری عمر احمدیت کی خدمت میں بسر کی.حجم اللہ ہی کے علاوہ کشتی نوح تحفتہ الملوک، آئینہ صداقت اور نماز کا انگریزی ترجمہ بھی آپ نے کیا.قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کی کمیٹی کے ایک رکن آپ بھی تھے.آخری بیماری میں جب کبھی کسی احمدی مجاہد کی کارگزاری پڑھتے تو رو رو کر دعا کرتے اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں تندرست ہو کر مصلح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دینی جہاد کے میدان میں جاؤں اور اس راہ میں شہید ہو جاؤں.۱۷ جون ۱۹۴۶ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں سپرد خاک ہوئے.(الفضل یکم جولائی ۱۹۴۶ء صفحہ ۴)

Page 40

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۲۶ مولوی محمد حسین صاحب ٹالوی کی شورش اور ناکامی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش انگیزی مقدمہ حفظ امن اور قبل از وقت پیشگوئی کے مطابق عبرتناک ذلت "ر از حقیقت" اور "کشف الغطاء" "راز کی تصنیف و اشاعت غیر مشروط مباہلہ کی دعوت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مقدمہ مارٹن کلارک میں جو کھلی شکست اور ذلت اٹھانی پڑی تھی اس کی تلافی کے لئے انہوں نے اپنی مخالفت انتہاء تک پہنچادی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص مرید اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ہم مکتب مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی نے حضرت اقدس سے بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب سے بلا شرط مباہلہ کرنے کی درخواست کی جسے حضور نے منظور فرما لیا جس پر انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی ایک طویل خط میں سچائی کے فیصلہ کے لئے حضرت اقدس سے بٹالہ میں بلا شرط مباہلہ کرنے کی پر زور دعوت دی اور انہیں تحریص و ترغیب دلانے کے لئے ۲۰۰ روپے نقد انعام دینے کی پیشکش کی.مولوی عبد القادر صاحب کا یہ خط جب الحکم ۲۰-۲۷ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۱ ۱۲ میں شائع ہوا تو شملہ سیالکوٹ بٹالہ اور الہ آباد کی جماعتوں کے علاوہ قادیان اور دیگر مقامات کے بعض مخلص احباب کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ انہیں بھی مباہلہ کی تحریک میں شامل کیا جائے اور جوش و خروش کا ثبوت دیتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب کے مباہلہ میں کامیاب ہونے کی صورت میں انعام کی پیشکش بھی کی جس سے اکتوبر ۱۸۹۸ء کے آخر تک انعامی رقم دو ہزار پانچ سو پچیس روپیہ آٹھ آنہ تک پہنچ گئی.اس مرحلہ پر شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے انعام پیش کرنے والوں کی فہرست دے کر اپنے اخبار الحکم (۲۹.اکتوبر ۱۸۹۸ء) میں بٹالوی صاحب کو

Page 41

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۷ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکای دعوت مباہلہ کا اشتہار دیا کہ آؤ اور مرد میدان بن کر مباہلہ کرو.اس ضمن میں لکھا کہ ان کو اختیار ہوگا که اخیر نومبر ۱۸۹۸ء تک اپنی منظوری سے اطلاع دیں.ان کی طرف سے اطلاع ملنے پر تین ہفتہ کے اندر پوری انعامی رقم انجمن حمایت اسلام یا اگر وہ چاہیں بنگال بنک میں جمع کرا دی جائے گی.روپیہ جمع کرا دینے کے ایک ہفتہ کے اندر تاریخ مقررہ میں بمقام بٹالہ غیر مشروط میبالمہ ہو گا اور مباہلہ میں کامیابی کی صورت میں یہ انعامی رقم بلا تامل ان کے حوالہ کر دی جائے گی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کار و عمل اس اشتہار اور دعوت کا کوئی معقول جواب دینے کی بجائے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سخت کلامی پر اتر آئے اور انہوں نے ابوالحسن صاحب تبتی اور ملا محمد بخش صاحب جعفر زٹلی کی طرف سے ایک گندہ اشتہار دیا جس میں حضور کو گالیاں دی گئی تھیں.حضور کو جب یہ گالیوں سے بھرا ہوا اشتہار ملا تو حضور اقدس نے ۲۱/ نومبر خدائی فیصلے کا اعلان ۱۸۹۸ء کو مندرجہ ذیل اشتہار دیا.اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے اور وہ دعا جو میں نے کی ہے یہ ہے کہ اے میرے ذوالجلال پر وردگار اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں بار بار مجھ کو کذاب اور دجال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی.نے اس اشتہار میں جو ۱۰/ نومبر ۱۸۹۸ء کو چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا.تو اے میرے مولا میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل ہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر یعنی پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے پندرہ جنوری ۱۹۰۰ ء تک ذلت کی ماروارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما.لیکن اگر اے میرے آقا میرے مولی میرے منعم میری ان نعمتوں کو دینے والے جو تو جانتا ہے اور میں جانتا ہوں تیری بناب میں میری کچھ عزت ہے تو میں عاجزی سے دعا کرتا ہوں ان تیرہ مہینوں میں جو پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵/ جنوری ۱۹۰۰ ء تک شمار کئے جائیں گے.شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مثبتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلت کی مار سے دنیا میں رسوا کر.غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں بچے اور متقی اور پرہیز گار ہیں اور میں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں * میں ذلت کی مار سے تباہ کر اور اگر تیری جناب میں مجھے وجاہت اور عزت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہر فرما.ان تینوں کو

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۸ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی ذلیل اور رسوا اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کا مصداق کر.آمین ثم آمین.یہ دعا تھی جو میں نے کی.اس کے جواب میں یہ الہام ہوا کہ ” میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا.• اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :.إِنَّ الَّذِيْنَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سَيَنَا لَهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَتِهِمْ - ضَرْبُ اللَّهِ أَشَدُّ مِنْ ضَرْبِ النَّاسِ - إِنَّمَا أَمْرُنَا إِذَا أَرَدْنَا شَيْئًا أَنْ تَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ - أَتَعْجِبُ لا مَرِى إِنِّي مَعَ الْعُشَّاقِ انّى اَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ والى - وَيَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُطْرَحُ بَيْنَ يَدَيَّ - جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْمَهُمْ ذِلَةٌ مَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَامِمٍ - فَاصْبِرْ حَتَّى يَأْتِرَ اللهُ بِأَمْرِ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ - یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دو نو فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی یہ خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مولوی ابوالحسن تبتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں ان میں سے جو کاذب ہے وہ ذلیل ہو گا.یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بناء پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے کھلا کھلا نشان ہو کر ہدایت کی راہ ان پر کھولے گا." یہ تیرہ مینے خدا تعالٰی کے الہام سے معلوم ہوئے ہیں یعنی سال میں ایک ماہ اور زیادہ ہے.منہ ہاتھ کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جن ہاتھوں سے ظالم نے جو حق پر نہیں ہے ناجائز تحریر کا کام زیادہ ہاتھ اس کی حسرت کا موجب ہوں گے اور افسوس کرے گا کہ کیوں یہ ہاتھ ایسے کام پر چلے.منہ جعفر زٹلی کا اشتہار اور حضور کی جماعت کو نصیحت اشتہار پر جعفرز ٹلی نے " ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء کو پھر مرصع گالیوں کا ایک اور اشتہار دے دیا اور حضور کی پیشگوئیوں کی تکذیب کرتے ہوئے اپنے دل کا خوب غبار نکالا لیکن ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء سے چونکہ فریقین کے صدق و کذب کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اس لئے حضور نے بھی ۳۰ / نومبر ۱۸۹۸ء کو ایک رسالہ " راز حقیقت " شائع کر کے اپنی جماعت کو نہایت اعلیٰ درجہ کی نصیحت فرمائی کہ وہ طریق تقوی پر پنجہ مار کر یاوہ گوئی کے مقابلہ پر یادہ گوئی نہ کریں اور گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں نہ دیں.وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور ہنسی سنیں گے جیسا کہ وہ سن رہے ہیں مگر چاہیے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک بختی کے ساتھ خد اتعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں.اب اس عدالت کے سامنے مسل مقدمہ ہے جو کسی کی رعایت نہیں کرتی اور گستاخی کے طریقوں کو پسند نہیں کرتی.جب تک انسان عدالت کے کمرہ سے باہر ہے اگر چہ اس کی بدی کا بھی مواخذہ ہے مگر اس شخص کے جرم کا مواخذہ بہت سخت ہے جو عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر بطور گستاخی ارتکاب جرم کرتا ہے.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ

Page 43

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی ۲۹ تاریخ احمدیت جلد ۲ خدا تعالیٰ کی عدالت کی توہین سے ڈرو اور نرمی اور تواضع اور صبر اور تقویٰ اختیار کرو.اور خدا تعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم میں اور تمہاری قوم میں فیصلہ فرما دے.بہتر ہے کہ شیخ محمد حسین اور اس کے رفیقوں سے ہرگز ملاقات نہ کرو بسا اوقات ملاقات موجب جنگ و جدل ہو جاتی ہے اور بہتر ہے کہ اس عرصہ میں کچھ بحث مباحثہ بھی نہ کرو کہ بسا اوقات مباحثہ سے تیز زبانیاں پیدا ہوتی ہیں.ضرور ہے کہ نیک عمل اور راستبازی اور تقویٰ میں آگے قدم رکھو کہ خدا ان کو جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ضائع نہیں کرتا." مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء سے آسمانی عدالت میں مقدمہ دائر ہوا تھا اور اس کی میعاد تیرہ مہینے مقرر تھی مگر کے ہم مشرب علماء کی ذلت کا غیبی سامان خدا تعالیٰ نے جو شہنشاہ کون و مکاں ہے اپنے بندوں کو زیادہ انتظار میں نہ رکھتے ہوئے اگلے مہینہ میں ہی اس کا فیصلہ کر دیا اور شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہمنواؤں کی ذلت کا ایک عجیب غیبی سامان پیدا کر دیا.واقعہ یہ ہوا کہ شیخ صاحب نے ۱۴.اکتوبر ۱۸۹۸ء کو وکٹوریہ پریس لاہور سے ایک رسالہ انگریزی میں شائع کیا جس میں انہوں نے گورنمنٹ سے مربع حاصل کرنے کی خاطر امام مہدی آخر الزماں کی پیشگوئی کا صریحا - انکار کیا اور لکھا کہ میں مہدی کے آنے کی تمام حدیثیں موضوع سمجھتا ہوں.چنانچہ اس رسالہ میں انہوں نے اپنے ان مضامین کی فہرست دی جو انہوں نے انگریزی حکومت کی وفاداری وغیرہ میں لکھ کر رسالہ اشاعت السنہ" میں شائع کئے تھے.اس فہرست کا عنوان یہ تھا."The following is a list of Articles in the Ishat-us.Sunnah Where in the illegality of rebellion against or opposition to the Govt and the true nature of Jehad (creseentade) is explained.یعنی ذیل میں اشاعت السنہ" کے ان مضامین کی فہرست درج ہے جن میں گورنمنٹ کی مخالفت اور اس کے خلاف بغاوت کا ناجائز ہونا اور جہاد کی اصل حقیقت بیان کی ہے.اس کے بعد شیخ صاحب نے ایک ایک دو دو سطر میں ان مضامین کا خلاصہ دیا ہے جو انہوں نے ان اغراض کے لئے ۱۸۷۹ء سے لے کر ۱۸۹۶ء تک لکھے.انہی مضامین میں انہوں نے مہدی کے متعلق مضامین کا خلاصہ رسالہ کے صفحه ۵ پر یہ دیا کہ "Criticism of traditions regarding the Mahdi and arguments showing their incorrectness.یعنی ان حدیثوں پر جرح کی گئی ہے جو مہدی کے متعلق ہیں اور دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ان حدیثوں کا غلط اور باطل ہونا ثابت ہو تا ہے.نیز لکھا."Questioning the authenticity of traditions describing the signs of Mahdi"

Page 44

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٣٠ مولوی محمد حسین صاحب بثانوی کی شورش اور ناکامی یعنی جن حدیثوں میں مہدی کی علامات دی گئی ہیں ان کے غیر وضعی ہونے میں شبہ ہے.حضرت اقدس نے جب مولوی محمد حسین صاحب کی محض دنیاوی فائدے کے لئے یہ غیر مومنانہ کارروائی دیکھی تو ۲۹ / دسمبر ۱۸۹۸ء کو علماء ہند سے فتوی کی غرض سے مندرجہ ذیل استفتاء لکھا:.کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین کہ ایک شخص مہدی موعود کے آنے سے جو آخری زمانہ میں آئے گا اور بطور ظاہر و باطن خلیفہ برحق ہو گا اور بنی فاطمہ میں سے ہو گا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے قطعاً انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو جس پر تمام اہلسنت دلی یقین رکھتے ہیں سراسر لغو اور بے ہودہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا ایک قسم کی ضلالت اور الحاد خیال کرتا ہے.کیا ہم اس کو اہل سنت میں سے اور راہ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجال ہے.بینوا توجروا." حضور انور نے یہ استفتاء لکھ کر اپنے ایک مخلص مرید ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیانی کو دیا کہ وہ علماء سے اس کا جواب لا ئیں چنانچہ وہ بڑے بڑے علماء مثلاً مولوی عبدالحق صاحب غزنوی مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری ، مولوی غلام محمد صاحب بگوی امام شاہی مسجد مولوی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی، مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب شیخ الکل و ہلوی ، مولوی فتح محمد صاحب مدرس مدرسه فتح پوری دہلی.مولوی خواجہ عبد الرزاق صاحب بلند شہر اور مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی کے پاس پہنچے.سبھی نے اس استفتاء پر بالا تفاق یہ لکھا کہ یہ کافر مبتدع ضال مضل، مفتری خارج از اہلسنت والجماعت اور کذاب و دجال ہے." چنانچہ ذیل میں ہیں علماء کے مفصل فتاوی درج کئے جاتے ہیں :."جو شخص عقیدہ ثابتہ مسلم اہلسنت و جماعت سے خلاف کرے تو ہ صریح اور بیشک اس آیت کریمہ کے وعید کا مستحق ہے.قَالَ عَزَّ مِنْ قَبْلِ وَ مَنْ يَشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرً ا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قَيْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةٌ الإسلامِ مِنْ عُنْقِهِ - رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْوَدَاوُدَ - قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِتَّبِعُو السَّوَادَ الأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ رَوَاةَ اِبْنُ مَاجَةَ - قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ مَتِي عَلى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةَ وَ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ رَوَاهُ التَرْمِنِی.اور جمہور اہل سنت اس پر متفق ہیں کہ مہدی علیہ السلام اخیر زمانہ میں تشریف لاویں گے وہ بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہو گا اور له النساء : ١١٩

Page 45

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب بثانوی کی شورش اور ناکامی ظاہری باطنی خلافت کرے گا.وَمَنْ خَالَفَ عَنْ ذلِكَ فَقَدْ ضَلَّ وَاضَلَّ وَمَنْ يُضْلِ الله فَمَا لَهُ مِن سَبيل - " حرره عبد الحق الغزنوی تلمیذ مولوی عبد اللہ غزنوی ۲ در باب مهدی محمود و نزول عیسی بن مریم رسول الله و خروج دجال اکبر احادیث متواتر وارد اندو بریس است اجماع اہلسنت و جماعت منکر احادیث متواترہ کا فرد مخالف اہل سنت و جماعت مبتدع و ضال مضل است فقط " مهر ( عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی علی اللہ عنہما) "اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا شخص جس کا ذکر سوال میں مندرج ہے.مبتدع اور دائرہ اہل السنہ و جماعت سے خارج ہے " كَمَا حَرَّرَهَا الْمُجِيْبُ وَأَنَا عَبْدِ اللَّهِ الْغَنِتُ ابو محمد زبیر غلام رسول الحنفی القاسمی عفی عنہ امرت سمر) جو کچھ مولوی عبدالحق صاحب نے جواب میں لکھا ہے میرا اس سے اتفاق ہے ایسے آدمی کے ملنے والوں سے پر ہیز چاہیے و نشست برخاست ترک کرنی چاہیے.(دانا احمد اللہ عفی عنہ امرتسری) (مهر) - علماء عظام کا جواب صحیح ہے بیشک شخص مذکور السوال ضال اور مضل ہے اور اہل سنت سے خارج ہے." فقیر غلام محمد الیگوی عفا عنه امام مسجد شاہی لاہور بقلم خود).امام مہدی علیہ و علی آباة الصلوۃ والسلام کا قرب قیامت میں ظہور فرمانا اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور امت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت والجماعت سے انحراف کرتا ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكُ الْعَرَب رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِى يُوَ اِلى اِسْمُهُ اِسَمِي رَوَاهُ الحِرْمَنِى وَأَبُو اودُ وَ فِى رَوَايَةٍ لَهُ قالَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا لاَ يَوْمُ يُطَوّلُ الله ذَلِكَ الْيَوْ يَبْعَثَ اللَّهُ فِيْهِ رَجُلاً مِنِّى أَو مِنْ أَهْلِ بَيتِى يُوا عِى اِسْمُهُ اِسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اِسْمُ أَبِي يلا الأَرْضُ قِسْطَا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجُورًا - مشكوة شريف - قَالَ العَلَامَةُ التَّفْتَا زَانِي فِي الْمَقَاصِدِ قَدْ وَرَدَتِ الْأَحَادِيثُ الصَّحِيحَةُ فِي ظُهُورِ مَا مِ مِنْ وُلْدِ فَاطَمَةَ الزَّهْرَاءِ رَضِي الله عنها يعلا الدُّنْيَا قِشطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جُورً ا وَظُلْمًا فَلَا قِسْطَاوَعَـ هَذَا مَا عِنْدِ وَ اللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ كَتَبَهُ الْعَبْدُ الْمُذَنِبُ الْمُفْتِى محمد عبد الله على الله

Page 46

تاریخ احمدیت جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب ثانوی کی شورش اور ناکامی عنہ (پروفیسر اور مینٹل کالج لاہو ر و پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العلماء) ".یہ شخص مذکور سوال مفتری کذاب و ضال و مضل و خارج اہل سنت سے ہے." الراقم سید محمد نذیر حسین دہلوی بقلم خود) (میر) (حر) - الجواب صحیح و صواب" (محمد یقوب) " صبح الجواب " حمزه النقوى الدہلوی غفر اللہ القوی - سید محمد عبد السلام غفرلہ - سید محمد نذیر حسین سید محمد ابوالحسن ” جو عقیدہ خلاف اہلسنت والجماعت ہو وہ اہل اسلام کے نزدیک کس طرح معتبر ہو سکتا ہے.فقیر حشمت علی علی اللہ عنہ (ص) محمد عبد الغفار ابو یار - ابوالحسن - محمد اسماعیل خلیل الرحمن المنان غفر له (صر) یہ مواہیر دہلی کے علماء کی ہیں."جو شخص مهدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا منکر ۱۲ " ۱۳ ہے فقط " العبد النحیف محمد وصیت علی مدرس حسین بخش صاحب) (میر) (میر) اصاب من أجاب " ( محمد شاہ عفا عنه) جو شخص کہ احادیث صحیحہ سے اور اجماع سے انکار کرے اس کی ضلات اور گمراہی میں کچھ شک نہیں کیونکہ سینکٹروں حدیثوں سے امام مہدی علیہ السلام کا آنا اخیر زمانہ میں ثابت ہے اور یہ شخص کذاب اور دجال ہے.فقط - "(محمد یونس مدرس مدرسه مولوی عبد الواحد صاحب) (ص) ۱۴- "الجواب صحيح" (فتح محمد مدرس مدرسه فتح پوری دہلی) -۱۵ ” جو شخص مهدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے." ۱۶ (مر) (ص) (عبد الغفور مدرس مدرسه حسین بخش صاحب) شخص مهدی علیه السلام کے وجود باجود کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ایسے مغشوس الرائے یا وہ گو عبد الدنیا کے کلام کا اعتبار نہیں.ایسا شخص منکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کا مقام نار ہے." محمد عبد الغنی الہ آبادی مدرس مدرسه فتحپور) ۱۷ واقعی یہ شخص مخالف حدیث نبوی کے عقیدہ رکھتا ہے.ایسے شخص کا مکان بلاشک تار ہے کیونکہ یہ فعل اہل بدعت کا ہے." محمد ہدایت اللہ عفی عنہ فلتی علاقہ کانپور "

Page 47

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳ مولوی محمد حسین صاحب بثانوی کی شورش اور ناکامی مدرس مدرس فتحپوری دہلی) "جو شخص امام مهدی علیہ السلام کا انکار کرتا ہے وہ گمراہ ہے اور احادیث صحاح کا منکر ہے.مثلاً ترمذی وغیرہ میں یہ حدیثیں موجود ہیں." (عبداللہ خان بچھر ایونی بقلم خود) (مهر) 19 الجواب الصحیح.واقعی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور ایسے عقیدہ کا شخص کذاب لوگوں میں سے ہے.فقط " ۲۰ ۲۱ خورجه ضلع بلند شهر) (مولوی محمد عبد الرزاق خلف حاجی خدا بخش المتخلص ناچیز ساکن قصبه الْجَوَابُ أَقْرَلُ وَ بِالله التوفيق.معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفا و خلفا اہل اسلام کے نزدیک مسلم ہے صرف ضلالت اور گمراہی ہے اور یہ انکار کسی رجال کا کام ہے.فقط والله يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَا مِ المُسْتَقِيمِ " دستخط الراقم عبد العزیز عفی عنہ لو دیا نوی) از بنده رشید احمد عفی عنہ - بعد سلام مسنون مطالعه فرمانید - مسیح موعود کا آغاز اور مہدی موعود کا آنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چنانچہ ابو داؤد میں ان الفاظ میں وارد ہوئی لَو لَم يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلا يَوْمَ لَطَوَلَ الله ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَثَ رَجُلًا مِنِّي أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِنُّى اِسْمُهُ اِسْمِرَ وَاِسْمُ اَبِيْهِ اِسْمُ أَبِي يَعْلَا الْاَرْضَ قِسْطَا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظلما وجودًا اِنتَهی پس جو شخص اس سے منکر ہے وہ مخالف عقیدہ سنت جماعت اور خاطی ہے اور اس کو ہر گز متبع سنت نہ جاننا چاہئے فقط واللہ اعلم - رشید احمد.مورخہ ۸۱ شعبان ۲ ہجری A ڈاکٹر صاحب دہلی.لاہور اور امر تسر سے ہو کر ۳.جنوری ۱۸۹۹ء کو یہ فتویٰ لکھوا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے اور حضور اسی روز مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے انگریزی رسالہ اور اپنے استفتاء اور علماء کے فتوئی کی بابت پوری تفصیلات بذریعہ اشتہار منظر عام پر لے آئے اور لکھا کہ "آج میں اس خدائے قادر و قدوس کے ہزار ہزار شکر کے بعد جو مظلوموں کی فریاد کو پہنچا اور سچائی کی حمایت کرتا ہے اور اپنے پاک کلمات کو پورے کرتا ہے عام مسلمان اور دوسرے لوگوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ جو میں نے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنہ کے مقابل پر اس کی بہت سی گالیوں اور بہتانوں اور دجال کذاب کافر کہنے کے بعد اور اس کی اس پلید گندہ زبانی کے بعد جو اس نے خود اور اپنے دوست محمد بخش جعفر ز علی وغیرہ کے ذریعہ سے میری نسبت کی تھی ایک اشتہار بطور

Page 48

تاریخ احمدیت جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی مباہلہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کو لکھا تھا اور اس میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرَمَعُهُمْ ذِلَّةٌ یعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو بدی پہنچائی گئی ہے اس قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری ہو گئی کیونکہ مولوی محمد حسین نے بد زبانی سے میری ذلت کی تھی اور میرا نام کا فرادر دجال اور کذاب اور محمد رکھا تھا اور یہی فتویٰ کفر و غیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا اور اسی بناء پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور خود اس کے لکھوانے سے محمد بخش جعفر ز علی لاہو ر وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوں پر لگائے.سو اب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین کے استاد نذیر حسین نے اس کی نسبت دے دیا.....ہر ایک سوچ سکتا ہے کہ اس منافقانہ کارروائی سے جو محمد حسین گورنمنٹ کو تو کچھ کہتا رہا اور پوشیدہ طور پر لوگوں کو کچھ کہتا رہا کامل درجہ پر اس کی ذلت ہو گئی ہے اور مولویوں کی طرف سے وہ برے خطاب بھی اس کو مل گئے ہیں جو سراسر ظلم سے اس نے مجھے دیئے تھے یعنی ہر ایک نے اس کو کذاب اور دجال سمجھ لیا ہے." اس اشتہار کے بعد حضور علیہ السلام نے ایک دوسرے اشتہار (۶/ جنوری ۱۸۹۹ء) میں فتویٰ دینے والے علماء کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان پر منافقانہ طریق کا کوئی دھبہ نہ لگے اور ان کی دیانت اور امانت اور تقویٰ اور دینداری میں فرق نہ آئے تو وہ بلا توقف ایک جلسہ کر کے محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنہ کو اس جلسہ میں بلاویں اور اس کو صاف طور پر کہہ دیں کہ آج تک تم ہم سب پر یہ اپنا اعتقاد ظاہر کرتے رہے کہ تمہارا یہی عقیدہ ہے کہ تم اس مہدی معہود کے قائل ہو جو نبی فاطمہ میں سے آئے گا اور لڑائیاں کرے گا اور دین کو پھیلائے گا اور اب تمہاری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم نے زمین لینے کی طمع سے گورنمنٹ کو یہ احسان جتلانا چاہا ہے کہ تم ان تمام حدیثوں کو جو مہدی معہود کے بارے میں آئی ہیں، جھوٹی سمجھتے ہو اور تم نے صریح طور پر ایک انگریزی فهرست مورخہ ۱۴.اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مہدی کی حدیثوں کی نسبت لفظ موضوع لکھ کر اپنا عقیدہ انکار مهدی ظاہر کر دیا ہے.اب یا تو صاف طور پر اپنا تو بہ نامہ شائع کرو تاگور نمنٹ عالیہ کو تمہارے اندرونی حالات معلوم ہوں اور یا اس بات کو مان لو کہ تم اس ہمارے فتوئی کے مستحق اور اہلحدیث کے عام عقیدہ کے مخالف اور دجال اور کذاب اور ملحد اور بے دین ہو.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو جب یہ اشتہار پہنچا تو انہوں نے اشاعتہ السنہ کی انگریزی فہرست سے تو انکار کرنے کی جرات نہ کی البتہ اپنی بریت کے لئے مذکورہ بالا حضرات علماء دقت سے یہ نجیب و

Page 49

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۳۵ غریب استفسار کیا کہ انہوں نے یہ فتویٰ لکھتے ہوئے منکر مہدی کسے سمجھا تھا.مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو یا مجھے.اگر انہوں نے مجھے سمجھا تو بتائیں کہ انہوں نے مہدی موعود سے انکار میری زبان یا تحریر میں کب پایا نیز یہ بھی سوال کیا کہ میں نے ان حضرات میں سے کسی صاحب کے پاس اس عقیدہ کا کبھی اظہار کیا کہ مہدی موعود آئے گا اور وہ عیسائیوں وغیرہ کافروں سے لڑے گا میں نے ان کے رو برو کبھی یہ کہا ہے کہ میں نے غلطی سے احادیث متعلقہ مہدی کو ضعیف کہا تھا.وغیرہ IT اس استفسار کے جواب میں مولوی ابو عبید احمد اللہ صاحب امرتسری ، مولوی عبد الله صاحب الغنی ابو محمد زبیر غلام رسول مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی مولوی عبدالحق عزنوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے لکھا کہ یہ فتویٰ دیتے ہوئے ہمارے پیش نظر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نہیں تھے بلکہ مرزا صاحب تھے.حالانکہ فتویٰ کسی خاص شخص سے متعلق نہیں ہو تا اس کی نوعیت عمومی رنگ رکھتی ہے.اور یہ وہ حقیقت تھی جس کا اعتراف انہی علماء نے اس جواب میں کر لیا تھا.چنانچہ اکثر علماء نے یہی لکھا کہ اگر مرزا صاحب کے علاوہ کوئی اور بھی مہدی کا منکر ہو تو اس پر ہی یہ فتوی ہو گا.اس وضاحت نے اگر چہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے لئے ایک اور ذلت کا سامان پیدا کر دیا مگر اس ذلت کو انتہاء تک پہنچانے کے لئے ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب نے دوسرے علماء سے ایک دوسرا فتویٰ طلب کیا کہ کیا آپ حضرات نے بھی ان موادی صاحبان کی طرح دھوکہ سے مہریں یا دستخط کفر نامہ پر لگائے ہیں یا عموی فتویٰ دیا ہے.اس کے جواب میں باقی علماء تو خاموش رہے مگر مولوی مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی (پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور و پریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العلماء) اور امام مسجد شاہی لاہور مولوی غلام محمد صاحب بگوی نے خدا ترسی اور دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے صاف لکھ دیا کہ ہمار ا فتویٰ کسی خاص آدمی کے متعلق نہیں.ایسا مسلک رکھنے والا آدمی خواہ زید ہو یا بکر اہل سنت و الجماعت سے بہر نوع خارج ہے چنانچہ مفتی محمد عبد اللہ صاحب نے جواب دیا " میں نے اس جواب دینے میں کسی قسم کا دھو کہ یا فریب نہیں کھایا اور میرے نزدیک اس وقت بھی استفتائے مذکور کا یہی جواب ہے اور میں اس شخص کو جس کا استفتائے مذکور میں ذکر ہے اس وقت بھی مسلک اہل سنت و الجماعت سے منحرف جانتا ہوں خواہ وہ زید ہو یا بکر.مولوی غلام محمد صاحب بگوی نے لکھا.” جو استفتاء مطبوعہ مورخہ ۲۹/ دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵/ شعبان ۱۳۱۶ھ معرفت ڈاکٹر محمد اسمعیل خان مثبت بہ مواہیر اور دستخط علمائے امرتسر تھا میرے روبرو پیش ہوا.اس کے اوپر میں نے یہ عبارت لکھی ہے.علمائے عظام کا جواب صحیح ہے بیشک شخص مذکور السوال ضال "

Page 50

تاریخ احمدیت.جلد ۲ W4 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی اور مضل ہے اور اہل سنت سے خارج ہے پس یہ جواب بشرط صدق سوال صحیح ہے.مصداق علیہ اس کا خواہ زید ہو یا عمرد کسی خاص آدمی پر فتویٰ نہیں ہے.عام طور پر یہ عقیدہ اہل سنت کا لکھا گیا ہے اور اس میں کسی شخص کا کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہے." غرضیکہ پہلے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی تذلیل ہوئی اب ان کے بعض ہم خیال علماء پر بھی اخلاقی موت ورد ہو گئی اور يَعُضُّ الظَّالِمُ على یدیہ کا ایسا عظیم الشان نظارہ سامنے آیا کہ خدائی الہامات کے پورے ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی علمی ذلت يديه اور "راز حقیقت" کی تصنیف و اشاعت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی منافقت صاف نمایاں ہو گئی جو خود ایک بڑی ذلت اور رسوائی تھی مگر اس کے ساتھ علمی میدان میں بھی ان کی آبرو باختگی کا سامان ہوا.اور وہ اس طرح کہ حضور نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں اپنا ایک یہ الہام بھی درج فرمایا تھا کہ "ا تُعْجِبُ لِامْرِی - " مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس پر بے سوچے سمجھے اپنی عالمانہ شان کا سکہ جمانے کے لئے یہ اعتراض بڑے طمطراق سے پیش کیا کہ عربی زبان میں تعجب کا صلہ لام کبھی نہیں آتا اس لئے یہ الہام ہی سرے سے غلط ہے.حضرت اقدس نے اس کا جواب "راز حقیقت میں شائع فرمایا اور دیوان حماسہ سے شعرائے عرب کی پانچ مثالوں کے علاوہ حدیث میں مشکوۃ کتاب الایمان سے سے افصح العرب والعجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے عجب کا صلہ لام ثابت کر کے مولوی صاحب کے ادعا کی ایسی قلعی کھولی کہ دنیا پر ثابت ہو گیا کہ بٹالوی صاحب علم حدیث تو کیا علم ادب کے کوچہ سے بھی ناواقف ہیں.رساله "راز حقیقت میں حضور نے حضرت مسیح علیہ السلام کے سفر کشمیر پر بھی نہایت جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور قبر مسیح کا نقشہ بھی درج فرمایا ہے جو قابل دید ہے.کشف الغطاء کی تصنیف و اشاعت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے چونکہ اپنے انگریزی رسالہ میں حضرت اقدس پر باغی ہونے کے الزام کا اعادہ کیا اور لکھا کہ آپ نے گویا کوئی الہام اس مضمون کا شائع کیا ہے کہ گورنمنٹ انگریزی آٹھ سال کے عرصہ میں تباہ ہو جائے گی.اس امر کا ازالہ کرنے کے لئے حضور نے ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۸ء کو ”کشف الغطاء" کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں حضور نے حکومت کو کھول کر بتایا کہ

Page 51

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ کے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی بغاوت کا الزام محسن افتراء ہے اور مطالبہ کیا کہ گورنمنٹ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے جواب طلب کرے کہ کس کتاب یا اشتہار میں میں نے ایسا الہام شائع کیا ہے.اس رسالہ میں حضور نے بيقولى " جَزَاء سَيِّئَةٌ بِمِثْلِهَا " کے ظہور کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے حکومت کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ جو شخص اپنے انگریزی رسالہ میں حکومت کو خوش کرنے کے لئے کچھ بتاتا ہے اور اپنے ہم مسلک علماء پر ان کے عقیدہ کے مطابق اپنا عقیدہ ظاہر کرتا ہے.ایسے فاش جھوٹ کی موجودگی میں کیونکر اطمینان ہو کہ جو دوسری باتیں گورنمنٹ کو پہنچاتا ہے ان میں سچ بولتا ہے.حضرت پولیس کا محاصرہ اور مولوی محمد حسین صاحب کا مقدمہ حفظ امن مسیح موعود علیہ السلام برسوں سے جو بغاوت کا الزام کا رد کرتے آرہے تھے گورنمنٹ نے اس کی طرف تو کوئی توجہ نہ کی مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے خفیہ انگریزی رسالہ کی اشاعت پر انہیں چار مربعوں سے نوازا اور ان کی مخبریوں پر حضرت اقدس کے خلاف اس کی مشینری فوری حرکت میں آگئی.چنانچہ انگریز کپتان پولیس اور انسپکٹر پولیس را نا جلال الدین صاحب) سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر اکتوبر کے آخر میں بوقت شام قادیان پہنچ گئے اور سپاہیوں نے حضرت اقدس کے مکان کا محاصرہ کر لیا.کپتان اور انسپکٹر پولیس مسجد کے کوٹھے پر چڑھ گئے.حضور اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے تو کپتان پولیس نے کہا ہم آپ کی خانہ تلاشی کرنے آئے ہیں.ہم کو خبر ملی ہے کہ آپ امیر عبد الرحمن خاں والی افغانستان سے خفیہ ساز باز رکھتے اور خط و کتابت کرتے ہیں.حضور نے ارشاد فرمایا کہ " یہ بالکل غلط ہے ہم تو گورنمنٹ انگریزی کے عدل و انصاف اور امن اور مذہبی آزادی کے بچے دل سے معترف ہیں اور ہم اسلام کو بزور شمشیر پھیلانے کو ایک بہتان عظیم سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو آپ بیشک ہماری تلاشی لے لیں.البتہ ہم اس وقت نماز پڑھنے لگے ہیں اگر آپ اتنا توقف کریں تو بہت مہربانی ہو گی".کپتان پولیس نے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں پھر تلاشی ہو جائے گی.چنانچہ سب سے قبل حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے (جو ان کی آمد پر کوٹھے پر ہی موجود تھے ) خود ہی اذان دی اور نماز مغرب پڑھائی اور پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کا آخری رکوع پڑھا.حضرت مولانا کی جادو بھری آواز سن کر کوئی بڑے سے بڑا دشمن اسلام مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا مگر اس دن تو اذان اور قرات دونوں میں وہ بجلیاں بھری ہوئی تھیں کہ انگریز کپتان خدا کا پر شوکت کلام سن کر محو حیرت ہو گیا اور اس کی تمام غلط فہمیاں خود بخود دور ہو گئیں.وہ تلاشی وغیرہ کا خیال ترک کر کے نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدس سے کہنے لگا کہ " مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور جو کچھ آپ نے

Page 52

حسین صاحب بٹالوی کی شورش کہا ہے وہ بالکل سچ ہے.آپ لوگ جھوٹ بول نہیں سکتے.یہ دشمنوں کا آپ کے متعلق غلط پروپیگنڈا تھا.پس خانہ تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں.میں رخصت ہو تا ہوں.اور یہ عرض کر کے وہ قادیان سے چل دیا.اور گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوادی کہ مرزا صاحب کے خلاف پراپیگنڈا سر تا پا غلط ہے.اس واقعہ کے بعد ماحول بظاہر پر سکون سا ہو گیا مگر ۱۸۹۸ء کے اختتام پر حالات نے یکدم پلٹا کھایا اور آپ کے خلاف ایک سنگین مقدمہ حفظ امن کے نام پر دائر کر دیا گیا.مقدمہ کی بنیاد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جو اپنے آپ کو دعوت مباہلہ کے سلسلہ میں لاجواب ہوتے دیکھا تو انہوں نے اس کے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کئے کہ اسی اثناء میں حضور کی طرف سے ۱۳ ماہ کی میعاد ذلت کا اعلان ہوا.مولوی صاحب فرار کے لئے بہانہ کی تلاش میں تھے ہی انہوں نے جو یہ اعلان پڑھا تو اشتعال پھیلانے کے لئے ایک نئی راہ نکالی یعنی انہوں نے ایک تیز دھار چھری لوگوں کو دکھا دکھا کر عوام کو اکسانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے لیکھرام کی طرح میری ہلاکت کا انتظام کر کے اشتہار جاری کیا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اس پیشگوئی کی صداقت کے واسطے وہ مجھے قتل کرائیں گے.بٹالہ کے تھانہ میں اس وقت حضرت اقدس کا ڈپٹی انسپکٹر تھانہ پولیس بٹالہ کی رپورٹ ایک شدید مخالف ڈپٹی انسپکٹر محمد بخش نامی متعین تھا.جس نے یکم دسمبر ۱۸۹۸ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور (مسٹر جی ایم ڈوئی) کو رپورٹ بھجوائی کہ " حضور کو یاد ہو گا کہ جب مرزا غلام احمد مقدمہ حفظ امن پادری ہنری کلارک صاحب بہادر امر تسر سے بری ہوا تھا تو جناب مسٹرڈ گلس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر نے زبانی اس کو فہمائش فرمائی تھی کہ برائے آئندہ ایسے اشتہارات یا پیشگوئی جس سے نقض امن کا اندیشہ ہو نہ دیا کرے.کچھ عرصہ تک مرزا غلام احمد نے اس پر عمل کیا اور خاموشی رکھی اور اسی طرح اشتہار بازی شروع کر دی ہے جو موجب نقض امن کا ہے.لہزار پورٹ اطلاعات ارسال بحضور ہے.اشتہارات و اخبارات لف ہیں.جہاں اس کا ذکر درج ہے اس پر نشان سرخی سے دیا گیا ہے.اگر پسند رائے حضور ہو تو معرفت انسپکٹر صاحب اس امر کی خفیہ دریافت فرما کر فریقین کی ضمانت و مچلکہ حفظ امن کا انتظام فرمایا جاوے.تحریر یکم دسمبر ۱۸۹۸ء عرضی کمترین محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ." اس درخواست پر گورداسپور پولیس نے یہ رپورٹ لکھی کہ IA رپورٹ پولیس گورداسپور سال گذشتہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بر خلاف مقدمہ زیر

Page 53

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۳۹ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی دفعہ ۷ - اضابطہ فوجداری دائر کیا گیا تھا مگر کسی وجہ سے وہ رہا ہوا اور کپتان ڈگلس صاحب بہادر زپٹی کمشنر نے جن کی عدالت میں یہ مقدمہ سماعت ہوا تھا حکم دیا تھا کہ آئندہ کے لئے مرزا غلام احمد ایسی پیشگوئی نہ کرے مگر اب پھر اس نے اس حکم کے بر خلاف کرنا شروع کیا ہے جس سے اندیشہ نقض امن کا ہے.ہماری دانست میں مرزا غلام احمد نے کپتان ڈگلس صاحب بہادر کے حکم اور وعدہ کے خلاف کیا ہے اور ضرور نقض امن کو روکنے کے لئے فریقین کا انتظام کرنا ضروری ہے.فریقین کی حفظ امن میں ضمانت لینی چاہیے." 14 اس رپورٹ کے چار یوم بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ۵/ دسمبر ۱۸۹۸ء کو ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی." جناب عالی ! مرزا غلام احمد ساکن موضع قادیان نے برخلاف مظہر سائل بدیں مضمون اشتہار دیا ہے کہ مولوی ابو سعید محمد حسین کو ۱۳ ماہ کے اندر ذلت کی مار اور رسوائی ہوگی جس سے مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ اپنی پیشگوئی کو سچا کرنے کے لئے میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ناجائز تدبیر کرے گا.لہذا درخواست ہے کہ مظہر سائل کو ایک پستول اور ایک بندوق کا حفاظت جان کے لئے کل احاطہ پنجاب کے واسطے لائسینس دیا جاوے کیونکہ مظہر کل پنجاب میں واسطے وعظ وغیرہ ضرورتوں کے دورہ کیا کرتا ہے.سوائے اوزار اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی جماعت میں سے کوئی دشمن نقصان پہنچاوے.عرضی فردی ابو سعید محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنه ساکن بٹالہ ضلع گورداسپور" ڈپٹی انسپکٹر کی رپورٹ اور اس درخواست پر ڈپٹی کمشنر نے ۵/ جنوری کو پیٹی رکھ دی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم خیالوں نے مقدمہ جیتنے کے لئے زور شور سے تیاری شروع کر دی.وکیلوں کی فیس کے لئے شہروں میں چندوں کا اہتمام کیا گیا.ہندو اور عیسائی جو پہلے فوجداری مقدمہ میں منہ کی کھا چکے تھے.اب پھر ان کے ساتھ میدان میں آگئے.غرضکہ اس مقدمہ نے بھی ایک انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلی.حضرت اقدس کو یہ سب اطلاعات مل چکی تھیں مگر حضور کو ذرہ بھر تشویش نہیں تھیں بلکہ آپ نے انہی دنوں سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن صاحب مدراسی کو تسلی دیتے ہوئے لکھا کہ "یہ آخری ابتلا ہے جو محمد حسین کی وجہ سے پیش آگیا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے راضی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا.مخالفوں نے اپنی کوششوں کو انتہاء تک پہنچا دیا ہے اور خدا تعالیٰ کے کام فکر اور عقل سے باہر ہیں.

Page 54

تاریخ احمدیت.جلد ۲ پہلا سفر گورداسپور مولوی محمد حسین صاحب ٹالوی کی شورش اور ناکامی چونکہ ۵/ جنوری ۱۸۹۹ء کو تاریخ مقدمہ تھی اس لئے حضرت اقدس ۱۴ جنوری کی صبح کو پالکی میں بیٹھ کر براہ راست گورداسپور تشریف لے گئے آگئے اور باقی نو خدام جنہیں ساتھ جانے کا حضور ہی نے ارشاد فرمایا تھا بٹالہ ہوتے ہوئے گورداسپور پہنچ گئے جہاں لدھیانہ.کپور تھلہ.امرتسر.لاہور.شملہ.جموں.بد ولی وغیرہ مقامات سے مخلصین آ تھے.چنا نچ دوسرے دن نماز فجر میں سو کے قریب احباب موجود تھے.حضرت اقدس دس بجے اپنے خدام سمیت کچری تشریف لے گئے.لوگوں کا انبوہ حضور کے مرجع خلائق ہونے کا ثبوت دیتا تھا.بارہ بجے تک حضور عدالت کے انتظار میں وہیں تشریف فرمار ہے.لیکن چونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے وکیل اور ٹل (ORTOL) نے بذریعہ تار مقدمہ کے التواء کی درخواست کی تھی اس لئے مجسٹریٹ نے مقدمہ کی سماعت کے لئے 11 جنوری کا دن مقرر کر دیا.۱۲۴ ۱۲۵ حضرت اقدس نے اس کے بعد عدالت کے احاطہ میں ہی کھانا تناول فرمایا.پھر مخلصین کی کثیر تعداد کے ہمراہ قیام گاہ پر تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر ادا کی.ازاں بعد حضور چند احباب کے ساتھ بذریعہ یکہ گورداسپور سے سیدھے قادیان تشریف لے آئے اور باقی خدام حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب کی معیت میں ریل کے ذریعہ سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے قادیان پہنچے.11 جنوری کی تاریخ مقدمہ کے لئے حضور کو دوبارہ سفر گورداسپور دوسرا سفر گورداسپور اختیار کرنا پڑا.اس دن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، محمد بخش صاحب انسپکٹر پولیس بٹالہ اور سید بشیر حسین صاحب انسپکٹر پولیس گورداسپور کے بیانات ہوئے.حضرت اقدس کی طرف سے مسٹرڈ بلیو.براؤن (W-BROWN) مولوی فضل دین صاحب لاہور ، خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ علی احمد صاحب مقامی پلیڈ ر بطور پیری کار پیش ہوئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے دوو کیل حاضر تھے.1 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بیان دیا کہ میں ۱۸۹۷ء کے لیکھرام کے قتل سے خوفزدہ ہوں اور اپنی حفاظت کے لئے چھری رکھتا ہوں.۲۰/ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار سے مرزا صاحب نے مجھے اور زیادہ خائف کر دیا ہے.حضرت اقدس صحیح پاک علیہ السلام نے اپنے بیان میں فرمایا "میری پیشگوئی عبد اللہ آتھم کا سبب یہ تھا کہ عبد اللہ آتھم نے مجھ سے یہ تحریری درخواست کی تھی.ان کی رضامندی اور تحریری درخواست پر میں نے یہ پیشگوئی کی تھی کیونکہ انہوں نے اصرار کیا تھا.عبد اللہ آتھم کی درخواست جو

Page 55

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی میرے نام تھی وہ مقدمہ ڈاکٹر کلارک شامل ہے دیکھی جائے.جو پیشگوئی مجھ کو سنائی گئی وہ پنڈت لیکھرام کی نسبت تھی اور میں نے پنڈت لیکھرام کی رضامندی سے اور اس کی تحریری درخواست پر کی تھی.اس خاص پیشگوئی کی خاطر وہ پشاور سے آکر قادیان میں دو ماہ رہا اور بہت بد زبانی کرتا رہا اور تمام پیغمبروں کو گالیاں دیتا رہا.اور پنڈت لیکھرام پانچ برس کے بعد سنا ہے کہ مارا گیا.جب میرے گھر کی تلاشی ہوئی.اور پنڈت لیکھرام کے مرنے کے بعد میں نے ایک اشتہار جاری کیا جو مجھ کو اب پڑھ کر سنایا گیا.جب مقدمہ ڈاکٹر کلارک صاحب کا ہوا اس میں کپتان ڈگلس صاحب نے مجھے یہ ہدایت دی تھی اور میں نے ایک نوٹس پر دستخط کئے تھے.پنڈت لیکھرام نے ایک اشتہار اپنی طرف سے میری نسبت دیا تھا کہ تم تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے مرجاؤ گے.اور اس پیشگوئی کو اس نے پہلے آپ شائع کیا.ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ نمبر ۵۶۴ گواہ استغاثہ نے اپنے بیان میں کہا.”دونوں فریقوں کا جوش بڑا اشتعال انگیز ہے اور دشمنی سالہا سال سے چلی آتی ہے.جب پنڈت لیکھر ام مارا گیا اس وقت بٹالہ میں مذہبی جوش بہت تھا.مولوی محمد حسین جو اندیشہ بتاتا تھا میرے خیال میں وہ واقعی اندیشہ ہے مجھ کو اس واسطے خیال ہے کہ عام افواہ ہے کہ جو پیشین گوئیاں کی گئیں ان کے پورا کرنے کے لئے کوششیں کی گئی ہیں.میرے نزدیک واقعی اندیشہ ہے ( جرح مسٹر اور ٹل پر کہا) محمد حسین کی نسبت میرے پاس کوئی رپورٹ نہیں ہوئی کہ اس سے اندیشہ ہے.وہ کبھی کسی مقدمہ یا لڑائی میں شامل نہیں ہوا....مولوی محمد حسین نے بدر اشتہار تیرہ ماہ کے مجھ کو چھری دکھلائی تھی.مجھ کو مقامی حالات کی وجہ سے یہ خیال ہے کہ جب کبھی مرزا صاحب پیشین گوئی کرتے ہیں تو اس کی صداقت کے لئے کوشش کرتے ہیں." سید شبیر حسین صاحب انسپکٹر پولیس نے یہ گواہی دی کہ میں ضلع ہذا میں انسپکٹر پولیس ہوں.میں لاہور شہر میں انسپکٹر پولیس تھا.قبل اس کے ضلع ہذا میں آیا پنڈت لیکھرام کے قتل کے وقت وہاں تھا.یہ عام قوی شبہ تھا کہ مرزا غلام احمد کا تعلق اس قتل میں تھا.جو فقرات اس وقت پڑھ کر ہر دو فریق کے سنائے گئے ہیں ان کے شائع ہونے کی وجہ سے کوئی شبہ نہیں کہ نقض امن کا اندیشہ ہے.نہ مرزا نہ مولوی محمد حسین خود کوئی ایسا فعل کریں گے مگر وہ اپنے مریدوں کو اشتعال دیں گے (مسٹر اور ٹل کی جرح پر ) محمد حسین کی نسبت کبھی شبہ نہیں ہوا کہ اس نے یا اس کی پیروی کنندوں نے اشتعال قتل دیا 1-← ان بیانات کے بعد مقدمہ ۲۷ جنوری کو ملتوی ہوا اور آئندہ دھار یوال مقام سماعت قرار پایا -

Page 56

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۲ مولوی محمد حسین صاحب نانوی کی شورش اور ناکامی حضرت اقدس کا تحریری بیان حضرت اقدس نے دفاع کی غرض سے ایک مفصل تحریری بیان لکھا جس کو انگریزی میں طبع کر کے داخل عدالت کیا گیا.آپ نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، آتھم اور لیکھرام کی پیشگوئیوں کے واقعات بڑی تفصیل اور وضاحت سے بیان کئے جس سے آپ کا بری ہونا صاف کھل جاتا تھا.خصوصا" مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اس بیان کی تردید کی کہ آپ کی ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں کوئی ایسی پیشگوئی ہے جس سے ان کو یا ان کے کسی ہم خیال کی جان مال یا عزت کو خطرہ میں ڈالنے کا ارادہ کیا ہے.آپ نے بتایا کہ الہام " جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَزَهَقَهُمْ ذِلَةٌ " جس پر مقدمہ کا تمام تر مدار ہے قطعا" قانونی زد میں نہیں آسکتا کیونکہ ہر مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظالم کو یہ بد دعادے کہ جیسا تو نے میرے ساتھ کیا خدا تیرے ساتھ بھی ویسا کرے.اس صورت میں یہ بات تنقیح طلب ہوئی کہ فریق مظلوم کو کس قسم کی ذلت پہنچی ہے.اور فریق مخالف اس بات کو ہرگز قبول نہیں کرے گا کہ اس نے کبھی مجھ کو ایسی ذلت پہنچائی ہے جو فوجداری قوانین کے نیچے آسکتی.پس اس میں مثل ذلت مراد ہے جو اپنے اصل معنے کی رو سے پوری شان سے پوری ہو چکی ہے کیونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مجھ پر جیسا فتوی کفر لگایا تھا ویسا فتویٰ ان کے ہم خیال علماء انگریزی رسالہ کی اشاعت پر ان پر بھی لگا چکے ہیں.پیشگوئی میں ذلت کے لفظ کے ساتھ مثل کی شرط تھی سو اس شرط کے موافق الہام پورا ہو گیا اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی.اگر چہ اتناہی جواب کافی دوائی تھا مگر حضور نے فریق مخالف اور استغاثہ کے عائد کردہ الزام کے جواب میں ہر پہلو سے مسکت دلائل دیتے ہوئے لکھا:.عدالت میں میری نسبت یہ الزام پیش کیا گیا ہے کہ گویا میری قدیم سے عادت ہے کہ خود بخود کسی کی موت یا ذلت کی پیشگوئی کیا کرتا ہوں اور پھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے پوشیدہ طور پر اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح وہ پیشگوئی پوری ہو جائے.گویا میں ایک قسم کا ڈا کو یا خونی یا رہزن ہوں اور گویا میری جماعت بھی اس قسم کے اوباش اور خطر ناک لوگ ہیں جن کا پیشہ اس قسم کے جرائم ہیں.لیکن میں عدالت پر ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء سے خمیر کیا گیا ہے اور نہایت بری طرح میری اور میری معزز جماعت کی ازالہ حیثیت عرفی کی گئی ہے.میں اس وقت اس کو زیادہ بیان کرنا غیر محل سمجھتا ہوں لیکن عدالت پر واضح کرتا ہوں کہ میں ایک شریف اور معزز خاندان میں سے ہوں.میرے باپ دادے ڈاکو اور خونریز نہ تھے اور نہ کبھی کسی عدالت میں میرے پر کوئی جرم ثابت ہوا.اگر ایسے بد اور ناپاک ارادہ سے جو میری نسبت....بیان کیا گیا ہے.ایسی پیشگوئیاں کرنا میرا پیشہ ہو تا تو

Page 57

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب بثانوی کی شورش اور ناکامی اس میں برس کے عرصہ میں جو براہین احمدیہ کی تالیف سے شروع ہوا ہے کم از کم دو تین سو پیشگوئی موت وغیرہ کی میری طرف سے شائع ہوتی حالانکہ اس مدت دراز میں بجز ان دو تین پیشگوئیوں کے ایسی پیشگوئی اور کوئی نہیں کی گئی.میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ پیشگوئیاں لیکھرام اور عبد اللہ آتھم کے بارے میں میں نے اپنی پیش دستی سے نہیں کیں بلکہ ان دونوں صاحبوں کے سخت اصرار کے بعد ان کی دستخطی تحریریں لینے کے بعد کی گئیں اور لیکھرام نے میری اشاعت سے پہلے خود ان پیشگوئیوں کو شائع کیا تھا اور میں نے بعد میں شائع کیا.چنانچہ لیکھرام کو اپنی کتاب تکذیب صفحہ ۳۳۲ میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے لئے دو ماہ تک قادیان میں ٹھہرا رہا اور اس نے خود پیشگوئی کے لئے اجازت دی اور اپنی دستخطی تحریر دی.وہ اس صفحہ میں میری نسبت یہ بھی لکھتا ہے کہ " وہ موت کی پیشگوئی کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے جب تک اجازت نہ ہو." اور پھر اسی صفحہ میں اپنی طرف سے اجازت کا اعلان کرتا ہے...اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی ایک تحریر مسل مقدمہ ڈاکٹر کلارک کے ساتھ شامل ہے." ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ گزرتا ہے کہ میں نے اس عہد کو چھاپ کر شائع کر دیا ہے کہ میں کسی کی موت و ضرر وغیرہ کی نسبت ہر گز کوئی پیشگوئی شائع نہ کروں گا.پس اگر یہ پیشگوئی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ میں ہے کسی کی موت یا اس قسم کی ذلت کے متعلق ہوتی تو میں ہر گز اس کو شائع نہ کر تا لیکن اس پیشگوئی کو کسی کی ایسی ذلت سے جو قانونی حد کے اندر آ سکتی ہے کچھ تعلق نہ تھا." حضور نے اپنے بیان میں انگریزی عدالت کو اپنا آسمانی پیغام دیتے ہوئے یہ بھی لکھا:.امن اور سلامتی کے نشان اور امن اور سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میں کچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدیم سنت کے موافق ضرور تھا کہ میں بھی اسی طرح عوام کی زبان سے دکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی رکھ دیئے گئے.خاص کرده اسرائیلی نبی ، سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے شعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی نا انصافی اور نا بینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیرو داس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا سو مجھے اس بات سے فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے میں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا گیا...کاش اس گور نمنٹ محسنہ کو نشان دیکھنے کے ساتھ کچھ دلچپسی ہوتی اور کاش مجھ سے گورنمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ ہو تا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی آسمانی نشان یا کوئی ایسی پیشگوئی جو امن اور سلامتی کے اندر محدود ہو ر کھلاؤ.تو جو میرے پر انترا کیا گیا ہے کہ گویا میں ڈاکوؤں کا کام کر رہا ہوں یہ سب حقیقت کھل جاتی.آسمان پر ایک خدا ہے جس کی قدرتوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے."

Page 58

تاریخ احمدیت جلد ۲ سمسم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی اس بیان میں حضور نے مولوی محمد حسین صاحب اور جعفر زٹلی کی اشتعال انگیز تحریرات کے متعدد نمونے بھی پیش کئے.تیسرا سفر دھار یوال حضرت اقدس نے ۲۵/ جنوری ۱۸۹۹ء کی رات ہی کو علی الصبح روانگی کا حکم دے دیا تھا چنانچہ حسب معمول حکیم فضل دین صاحب بھیروی کے اہتمام میں روانگی کا انتظام ہوا.حضرت اقدس براہ راست پالکی سے اجے دھاریوال روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ سیٹھ اللہ رکھا عبد الرحمن صاحب مدراسی بھی تھے.چونکہ دھاریوال میں حضور کی جائے قیام کے لئے کوئی انتظام مشکل تھا اس لئے میاں نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ میاں عبد العزیز صاحب او جلوی ( پٹواری)، میاں جمال الدین صاحب سیکھوائی اور میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی وغیرہ نے دھاریوں سے ایک میل کے فاصلہ پر موضع لیل میں حضرت اقدس اور دیگر احباب جماعت کے قیام و طعام کا ایک وسیع مکان میں انتظام کر لیا تھا اور وہاں ہیں پچیس دوست پہنچ بھی چکے تھے اور حضور کا ارادہ بھی لیل ہی میں قیام فرمانے کا تھا مگر رستہ میں ہی سردار جیل سنگھ کی بیوہ بہو رانی ایشور کور صاحبہ کا مخلصانہ پیغام آیا کہ حضور یہاں موضع کھنڈہ میں قیام فرمائیں.حضرت اقدس نے ان کے جوش اخلاص کی وجہ سے یہ درخواست منظور فرمائی اور کھنڈہ کی طرف روانہ ہو گئے.لیل کے دوست بہت حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے مگر اس میں بھی خدائی مصلحت تھی.سنا گیا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی رہیں اترنے والے ہیں خدا نے چاہا کہ آپ کا قیام کسی دوسری جگہ ہو اور اس کے لئے خدا نے رانی ایشور کور صاحبہ کو تحریک کردی.بہر حال حضرت اقدس میل سے کھنڈہ تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد رانی ایشور کور صاحبہ نے اپنے اہل کاروں کے ہاتھ مصری اور باداموں کا ایک تھال حضور کی نذر کیا جسے حضور نے منظور فرمالیا.لیل میں جو دوست تھے وہ بھی اطلاع ملنے پر آپہنچے.اس کے بعد ایک وسیع مکان میں رانی صاحبہ نے پر تکلف دعوت دی اور مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا.دعوت کے بعد منشی محمد علی صاحب پٹواری نے بیعت کی.رات کو حسب سابق گاڑی.کپور تھلہ، جالندھر، جہلم اور لاہور وغیرہ مقامات سے بکثرت احباب پہنچ گئے اور اچھا خاصا اجتماع ہو گیا.دو سرے دن یہ مقدس قافلہ جس کے سالار امام الزمان تھے کھنڈہ سے دھاریوال کے عدالتی کیمپ کی طرف روانہ ہوا.حضرت اقدس معہ رفقاء ریلوے کی سڑک گزر کر دھاریوال کے کارخانہ کے ساتھ گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک ہجوم حضور کے استقبال کے لئے چشم براہ ہے.پاس پہنچے تو انہوں نے السلام علیکم کی پر جوش آواز سے خیر مقدم کیا.ادھر سے بھی اسی لہجہ کے ساتھ علیکم

Page 59

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی السلام کی آوز اٹھی اور سننے والوں پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی.ذرا اور آگے جب ڈاک خانہ کے متصل پہنچے تو دھاریوال کے مشہور اون کے کارخانہ کے ہندو مسلمان ملازم اور ڈاک خانہ کے کلرک دو ڑ کر آگے آئے اور کیمپ کا پتہ بتایا.راستہ میں حضرت اقدس نے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی ایک مبشر رویا جلائی.نہر کے پل پر پہنچ کر کیمپ نظر آگیا.چیرا سیوں اور اردلیوں نے وفور شوق سے سلام کیا.حضور آگے آگے جارہے تھے اور پیچھے خلقت کا ایک انبوہ تھا.نہر اور درختوں کا نظارہ دیکھ کر فرمایا " بہت اچھی جگہ ہے اور پھر خیمہ سے کوئی سو قدم کے فاصلہ پر اتر پڑے.آپ بیٹھ گئے اور حضور کے مخلصین بھی ارد گرد حلقہ بنا کر مئودبانہ بیٹھ گئے.ابھی چند منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ خلقت کے انبوہ در انبوہ آتے گئے اور چند ہی منٹوں میں کوئی تین چار سو آدمی جمع ہو گیا یہاں تک کہ بعض احباب نے لوگوں کو ہٹانا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اسیں جیارت کرن آئے ہاں تسی سانوں ہٹاؤندے ہو.کم کار چھڑ کے کیناں کو ہاں توں چلے آئے ہاں.یعنی ہم کاروبار چھوڑ کر کئی میلوں سے زیارت کے لئے آئے ہیں اور آپ روکتے ہیں.اس پر کسی کو کچھ نہ کہا گیا اور یہ مجمع اس قدر بڑھا کہ حضور کو بیٹھنا ہی دشوار ہو گیا اور آپ اٹھ کر ملنے لگے.اس دن آنے والوں کی تعداد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے ایک محتاط اندازے کے مطابق جو بحیثیت اخبار نویس موجود تھے دراڑھائی ہزار تک پہنچی ہوئی تھی.حضور بارہ بجے کے قریب عدالتی خیمہ میں تشریف لے گئے.حضرت اقدس کی طرف سے پہلے وکلاء ہی پیش ہوئے مگر مولوی محمد حسین صاحب آج ایک نئے قانونی مشیر مسٹر ہر برٹ پیروی کے لئے لائے جنہوں نے عذرداری پیش کی کہ جدید ضابطہ کی رو سے ایک ہی وقت پر فریقین کا مقدمہ سماعت نہیں ہو سکتا چنانچہ اس قانون کی وجہ سے مقدمہ کی اگلی تاریخ سماعت ۱۴ / فروری مقرر ہوئی اور ڈپٹی کمشنر صاحب نے سب سے پہلے حضرت کا مقدمہ سننے کا حکم دیا اور دوبارہ نوٹس بھیجنے کا حکم دیا.گویا سابقہ کار روائی کا لعدم قرار دے دی گئی.بہر حال حضور علیہ السلام عدالت سے فراغت کے بعد باہر تشریف لائے اور نماز جمعہ کی تیاری فرمائی.ڈیڑھ ہزار افراد نے نماز جمعہ ادا کی.خطبہ حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے پڑھا جو نہایت لطیف اور بے حد پر درد اور اثر انگیز تھا.نماز کے وقت تک کارخانہ کے مزدور اور دوسرے لوگوں کا پھر ایک عظیم اجتماع ہو گیا.آخر نماز ادا ہوئی تو کار خانہ کے بعض انگریزی افسر بھی شوق زیارت میں بیتاب ہو کر کچھے کچھے چلے آئے اور انہوں نے آرزو ظاہر کی کہ آپ اپنی زیارت سے مشرف کریں.چنانچہ حضور سامنے آکھڑے ہوئے اور وہ انگریز کافی دیر تک حضور کے نورانی چہرہ کا دیدار کرتے رہے.پھر نماز عصر کے لئے جماعت کھڑی ہوئی تو وہ چلے

Page 60

تاریخ احمد بیست جلد ۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی گئے.نماز کے بعد لوگوں کا ہجوم بہت ہو گیا چلنے کو راستہ نہ ملتا تھا.آخر عبادت علی نام ایک صاحب نے کہا کہ حضور لوگ دور دور سے کاروبار چھوڑ کر آئے ہیں حضور پل پر کھڑے ہو کر سب کو زیارت کرا دیں.چنانچہ حضور انور چند منٹ پل پر رونق افروز رہے.دھار یوال سے کھنڈہ تک لوگوں کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا.رستہ میں بیسیوں آدمی دوڑتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ سرکار ابھی روانہ تو نہیں ہوئے.حضرت اقدس تھوڑی دیر کھنڈہ میں ٹھہر کر براہ راست قادیان تشریف لے آئے.حضور کے ہمراہ کوئی ستر اسی خدام ہوں گے.ادھر تو خدائی قبولیت کا یہ زبر دست نشان نمودار ہوا ادھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی حالت یہ تھی کہ گورنمنٹ کے منظور نظر اور اہل حدیث کے ایڈووکیٹ نے دھاریوال میں جمعہ کے وقت چند آدمیوں کے ہمراہ ایک جگہ کھڑے ہو کر اونچی آواز سے پکارا کہ جو مسلمان ہے وہ نماز پڑھ لے مگر نماز کی تیاری کے وقت ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کی تعداد میں سے بڑھ نہ سکی.اپنی بریت اور ظالم فریق کے ناکام ہونے کی بشارت داریو ال سے واپسی کے بعد ۳ / فروری ۱۸۹۹ء کو حضور کو بذریعہ رویا بشارت دی گئی کہ آپ بری ہوں گے اور دشمن ناکام ونامراد رہیں گے چنانچہ حضور نے ۵ / فروری ۱۸۹۹ء کو ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو ایک مکتوب میں لکھا کہ " اب فوجداری مقدمہ کی تاریخ ۱۴ / فروری ۱۸۹۹ ء ہو گئی ہے دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیست بخیر نہیں.جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو میں نے جناب الہی میں دعا کر کے بھینس بنا دیا ہے اور پھر اس خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے سجدہ میں گرا ہوں اوربلند آواز سے کہتا ہوں ربی الاعلی رہی الا علی.میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی تعبیر یہ ہو کہ لکڑی اور پتھر سے دہی سخت اور منافق طبع حاکم (مراد) ہو اور پھر میری دعا سے اس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس سے دودھ کی امید ہے.اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آجائے گا اور ہمارے لئے مفید ہو جائے گا.اور سجدہ کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو.الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں." اس سلسلہ میں ۱۸ جنوری ۱۸۹۹ء کو بعض الہامات بھی ہوئے جن میں سے چند یہ تھے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ - أَنْتَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَأَنْتَ مَعِرَ يَا ابْرُ هِيمُ - يَأْتِيكَ نُصْر تِن اِنّى اَنَا الرَّحْمَنُ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ غِيْضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ - سَلَامٌ قَوْ لَا مِنْ رَبِرَ حِيمَ وَامْتَارُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ إِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْفُطِعَ

Page 61

تاریخ احمد مولوی محمد حسین صاحبہ بٹالو الْعُدُةُ وَأَسْبَابُهُ - وَيْلٌ لَهُمْ أَنَّى يُو فَكُونَ - يَعُضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وَيُوثَقُ إِنَّ اللهَ مَعَ الْأَبْرَارِ وَإِنَّهُ عَلَى نَصْرِ هِمَ لَقَدِيرُ - شَاهَتِ الْوُجُوهُ - إِنَّهُ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُ فَتْحٌ عَظِيمٌ یعنی خدا پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے اور تو پر ہیز گاروں کے ساتھ ہے اور تو میرے ساتھ ہے اے ابراہیم میری مدد تجھے پہنچے گی.میں رحمان ہوں.اے زمین! اپنے پانی کو یعنی خلاف واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو جو زمین پر پھیلائی گئی ہیں نکل جا.پانی خشک ہو گیا اور بات کا فیصلہ ہوا.تجھے سلامتی ہے یہ رب رحیم نے فرمایا اور اے ظالمو! آج تم الگ ہو جاؤ.ہم نے دشمن کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے.ان پر واویلا ہے کیسے افتراء کرتے ہیں.ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا اور خدا نیکوں کے ساتھ ہو گا.وہ ان کی مدد پر قادر ہے.منہ بگڑیں گے.خدا کا یہ نشان ہے اور یہ فتح عظیم ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ رویا اور الہامات مقدمہ کے دوران ہی میں ”حقیقتہ المہدی " میں ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو شائع فرما دئیے اور لکھا ” جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنا دیا اور اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں اسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حکام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے.یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب." ٣٥ بسفر پٹھانکوٹ اس مقدمہ کے دران حضور کو چوتھا سفر پٹھانکوٹ کی طرف پیش آیا.حضرت اقدس علیہ السلام ۱۳ / فروری کو علی الصبح اپنے خدام کے ہمراہ قادیان سے بٹالہ لکھا پہنچے اور بذریعہ ریل پٹھانکوٹ تشریف لے گئے.مولف "مجدد اعظم " جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اس سفر کا ایک ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ ”اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹرڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مرزا صاحب جا کر قیام پذیر ہوئے.راجہ غلام حیدر خاں صاحب جو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں مسٹر ڈگلس کے مسل خواں تھے ان دنوں وہ پٹھانکوٹ میں تحصیل دار تھے انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے قیام کے اہتمام میں خاص حصہ لیا.حضرت مرزا صاحب کی جائے سکونت اور ڈپٹی کمشنر کے خیمہ کے درمیان میں ایک میدان تھا جہاں حضرت مرزا صاحب اور آپ کے احباب نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے.مغرب کا وقت تھا مغرب کی نماز کے لئے حضرت اقدس میدان میں تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی حسب معمول امام بنے.انہوں نے نماز میں جو قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر میں

Page 62

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۸ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان میں پڑی وہ اپنے خیمہ کے آگے کھڑے ہوئے اور ایک انہماک کے عالم میں کھڑے قرآن سنتے رہے جب نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدر خان صاحب تحصیلدار پٹھانکوٹ کو بلا کر پوچھا کہ آپ کی ان لوگوں سے واقفیت ہے انہوں نے عرض کیا کہ ہاں کہا کہ میں نے ان لوگوں کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا ہے میں اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ حد سے باہر ہے.اس قسم کا ترنم اور اثر میں نے کسی کلام میں نہیں سنا اور نہ کبھی محسوس کیا.کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سننے کا موقع دیں گے.؟ راجہ غلام حیدر خان صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کل ماجرا عرض کیا.آپ نے فرمایا ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں چنانچہ اب کی دفعہ نماز کے وقت ایک کرسی قریب بچھادی گئی اور صاحب بہادر آکر اس پر بیٹھ گئے.نماز شروع ہوئی اور مولوی عبد الکریم صاحب نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور صاحب بہادر مسحور ہو کر جھومتے رہے.بالا خر ۲۴ / فروری ۱۸۹۹ء کا دن آپہنچا.مقدمہ کا فیصلہ حضور کی بریت اور کامیابی اس دن حضرت اقدس اپنے احباب کے ساتھ کثیر تعداد میں گورداسپور میں فیصلہ سننے کے لئے تشریف لے گئے.مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے دوست خوش تھے کہ آج ہمارا حریف عدالت کے کٹہرے میں مجرم قرار پائے گا اور انہیں فتح عظیم حاصل ہوگی.مگر جیسا کہ آپ کو قبل از وقت بتایا گیا تھا.اب وہ پتھر دل حاکم آپ کی دعا کی برکت سے ایک منصف و عادل کی شکل میں بدل چکا تھا.چنانچہ اس نے حضرت اقدس کی شائستہ اور متین تحریرات کے مقابل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ابو الحسن تبتی کے دشنام آلود اشتہارات دیکھے تو وہ ہکا بکا رہ گیا اور اس نے پولیس کا بڑی محنت سے بنایا ہوا مقدمہ خارج کر دیا اور فریقین سے اس مضمون کے ایک نوٹس پر دستخط کرائے کہ " آئندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے کوئی کسی کو کافر اور دجال اور مفتری اور کذاب نہ کہے کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جاوے اور نہ بٹالہ کو طا کے ساتھ.اور ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں.بد گوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں میں بھی یہی چاہیے." حضرت اقدس سے مسٹر جے ایم ڈوئی نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ "وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کراتے اور وہ حق اب تک قائم ہے "

Page 63

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۹ مولوی محمد حسین صاحب ٹالوی کی شورش اور ناکامی مسٹرڈوئی عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کو فہمائش کر رہے تھے کہ آئندہ وہ تکفیر اور بد زبانی سے باز رہیں اور سید شبیر حسین صاحب اور منشی محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر عدالت میں حاضر تھے کہ عین اس وقت رسالہ "حقیقت المهدی" جس میں بریت کی پیشگوئیاں درج تھیں عدالت کے کمرہ میں مولوی فضل دین صاحب پلیڈ ر چیف کورٹ اور مسٹر براؤن پلیڈ ر چیف کورٹ کے ہاتھ میں دیا گیا اور وہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے عدالت کے سامنے ان پیشگوئیوں کو پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس وقت یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور مسٹر براؤن صاحب نے شیخ رحمت اللہ صاحب (مالک انگلش ویر ہاؤس لاہور) سے بھی کہا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی بلکہ (حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی روایت کے مطابق وہ خود حضور کی خدمت میں پہنچے اور حضور کی پیشگوئی کے پورے ہونے پر مبارک باد پیش کی.ان معزز وکلاء کے مونہہ سے یہ باتیں اس لئے بے ساختہ نکل گئیں کہ انہوں نے کئی پیشیوں میں بچشم خود مشاہدہ کیا تھا کہ حضور کو سزا دلانے کے لئے پولیس اور شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے کیسی جان توڑ کوششیں ہو رہی تھیں کہ آپ سزا پائیں یا کم سے کم معقول ضمانت ہو جائے.یہ عجیب بات ہے کہ شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کو مسٹرڈوئی نے مقدمہ سے اس لئے الگ کر دیا تھا کہ اس کی نسبت الزام کی بعد کو تحقیقات ہوگی لیکن اس آخری پیشی پر مولوی صاحب مذکور کسی تعلق کے بغیر محض تماشا دیکھنے کے لئے حاضر عدالت ہو گئے تب عدالت نے ان کو حاضر پا کر بلا توقف ان سے اس مضمون کے نوٹس پر دستخط کرائے کہ آئندہ وہ بد زبانی، دشنام طرازی اور تکفیر اور تکذیب سے باز رہیں گے حالانکہ ان کو اس وقت کسی نے بلایا نہیں تھا یہ محض خدا کا ارادہ ان کو کھینچ لایا تا اس کا یہ پاک الهام پورا ہو کہ ظالم اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا یعنی اس کا مونہہ بد زبانی سے بند کیا جائے گا) اور چہرے بگڑ جائیں گے.خدا کی قدرت !! یہ مقدمہ جو ایک متعصب ڈپٹی انسپکٹر نے آپ کے مخالفین کی پشت پناہی کے لئے کھڑا کیا تھا.آپ کی قبولیت اور شہرت میں اضافہ کا موجب بن گیا.انگریزی عدالت تک آپ کو اپنا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ اپنی پیشگوئی کے مطابق باعزت طور پر بری کر دیئے گئے اور ہر طرح کامیاب و کامران اور مظفر و منصور ثابت ہوئے لیکن اس کے بر عکس مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی سخت ذلت ہوئی.حضرت اقدس کا تو ابتدا ہی سے یہ طریق تھا کہ حضور موت کی پیشگوئی فریق ثانی کی خواہش اور اجازت کے بغیر شائع نہیں فرمایا کرتے تھے.جیسا کہ حضور نے اپنے دفاعی بیان میں بھی بالتفصیل ذکر فرمایا اور تکفیر اور سخت الفاظ کا استعمال آپ کو پسند نہیں تھا بلکہ حضور دو سال سے مولوی محمد حسین

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی صاحب بٹالوی اور ان کے ہمنو اعلماء سے کہتے آرہے تھے کہ ”میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کرلیں کہ تکفیر اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں".مگریہ حضرات اس طرف آنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے مگر بالا خر عدالت کے سامنے ان کو تکفیر و تکذیب سے دستبردار ہونا پڑا.اور جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا ظالم فریق کے ہاتھ آئینی شکنجہ میں جکڑ دیئے گئے اور ان کا فتویٰ تکفیر جس کے لئے انہوں نے پشاور سے بنارس تک قدم فرسائی کی تھی خود انسی کے ہاتھوں چاک چاک ہو گیا.۱۸۹۸ء کے بعض صحابہ اس سال بیعت کرنے والے بعض مشہور صحابہ کے نام یہ ہیں.مولوی فخر الدین صاحب گھوگھیات ٹ ماسٹر عبدالرؤف صاحب بھیروی - R چوہدری اللہ بخش صاحب مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری - ۳/ جون ۱۸۹۸ء کو یاڑی پورہ (کشمیر) اور اس کے نواح میں اسی افراد داخل احمد بیت ہوئے اور وہاں ایک مضبوط جماعت قائم ہو گئی.ان مبایعین میں یاڑی پورہ کے رئیس اعظم راجہ عطاء اللہ خاں کے افراد خاندان اور اہل خانہ بھی تھے ا راجہ صاحب موصوف اس سے قبل ہی حضرت اقدس کی دستی بیعت کر چکے تھے.اب چونکہ قادیان سے اخبار "الحکم " کا اجراء ہو چکا تھا اس لئے بیعت کرنے والوں کے نام بھی گا ہے گا ہے اس میں شائع کئے جانے لگے اور نئے حلقہ بگوش احمدیت ہونے والے بزرگوں کی بیعت کا ایک مستند ریکارڈ تیار ہونا شروع ہو گیا.

Page 65

KA شبیہ مبارک سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عہد ماموریت کا سب سے پہلا فوٹو جو وسط ۱۸۹۹ء میں بمقام قادیان لیا گیا

Page 66

سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ (جون ۱۸۹۹ء) دائیں سے بائیں:.( کرسیوں پر ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت سید نا محمود مصلح موعود - حضرت مسیح موعود علیہ السلام.( گود میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب) حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب بھیروی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.حضرت پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ میسرنا القرآن.(کھڑے ہوئے ) حضرت منشی کرم علی صاحب کا تب.مولوی عبد اللہ عرب صاحب.مولوی محمد علی صاحب.حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر.حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی.حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (تراب) مفتی فضل الرحمن صاحب.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب نو مسلم.( فرش پر ) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی.حضرت حکیم قطب الدین صاحب.حضرت مولوی شیر علی صاحب.ملک شیر محمد صاحب بی.اے.جموں.(؟)

Page 67

دائیں طرف سے:.( کرسیوں پر ) ۱.۲.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب میاں معراج الدین صاحب عمری گود میں.۳.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی ۴.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ( خلیفہ اول) -۵- سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ( گود میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب ) ۶.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی.۷.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.۸.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی) (فرش پر بیٹھے ہوئے ) اینٹی کرم علی صاحب کا تب.۲.حضرت مولوی شیر علی صاحب.۳.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب (عرفانی).۴.ملک شیر محمد صاحب بی اے آف جموں.۵.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی جنگی گود میں ان کا بچہ ہے.۶.مفتی فضل الرحمن صاحب.۷.؟ ( پیچھے کھڑے ہوئے ) اس ملک غلام حسین صاحب رہتای نان پر حضرت مسیح موعود ۲۰- مولوی حکیم قطب الدین صاحب بد و ملبوی - ۳- میر نبی بخش صاحب بٹالوی - ۴- حکیم محمد حسین صاحب مرہم عینی ۵- عبد اللہ عرب صاحب.۲.حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیر دی.ہے.حضرت بھائی چوہدری عبد الرحیم صاحب تو سلم -۸- حضرت پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ پیر نا القرآن جنگی گود میں ان کی بچی ہے.9.مرزا اسماعیل بیگ صاحب پریس مین بعده شیر فروش A.

Page 68

جلد ۲ ۵۱ رش اور ناکامی حواشی مفصل اشتہار کے لئے جو خود حضرت مسیح موعود نے ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں بطور ضمیمہ شامل کر دیا تھا ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد هفتم ۵۷ تا۶۰ ۲ تبلیغ رسالت جار هفتم صفحه ۵۱-۵۲ را از حقیقت (طبع اول) صفحه ۲ تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۳۷ ه تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۱۵-۱۶ ڈاکٹر صاحب حضرت اقدس کے قدیم صحابہ میں سے تھے بڑے مخلص ابڑے ہنس مکھ اور بڑے زندہ دل ان کا نام حضور نے ۳۱۳ کی فہرست میں نمبر ۶۸ پر درج فرمایا ہے.حضور آپ سے بہت محبت رکھتے تھے.ایک دفعہ ان سے فرمایا ”ہمارے دو قسم کے دوست ہیں.ایک وہ جن کے ساتھ ہم کو حجاب نہیں اور دوسرے وہ جن کو ہم سے حجاب ہے اس لئے انکے دل کا اثر ہم پر پڑ ہے.اور ہم کو ان سے حجاب رہتا ہے جن لوگوں سے ہم کو کوئی حجاب نہیں ہے ان میں سے ایک آپ بھی ہیں." رائد ۱۴/ مارچ ۱۹۳۲ء صفحه ۹۳ - جون ۱۹۲۱ء کو ۱۵ برس کی عمر میں رحلت فرمائی.(الفضل ۹ - ۱۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ اکالم نمبر) ے یہ مہر انجمن تائید الاسلام امرتسر کی تھی.اس انجمن کے تین سو کے قریب علماء ور کیس ممبر تھے.(مولف) +-+4+ -H بحوالہ الحکم جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۷۴۴ بحوالہ الحکم جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ سے کالم اشتهار قابل توجه گورنمنٹ " الحکم ، جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۴) الحکم جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۱۵ تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۱۳ اشاعت السنہ جلد ۱۹ نمبر ۹ صفحه ۲۶۵-۲۶۶ ۱۳ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کے / جنوری ۱۸۹۹ء کو...مولوی احمد الله صاحب امرتسری کی ایک تحریر شائع کی جس سے ظاہر ہو تا تھا کہ فہرست انگریزی کی اشاعت سے کئی ماہ قبل مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی احمد اللہ صاحب کے آگے ایک تقریب پر اشارہ یہ ظاہر کر دیا تھا کہ میں نے اعتقاد انکار مهدی سے رجوع کر لیا ہے.مولوی احمد اللہ صاحب کی تحریر کے الفاظ یہ تھے.۹/ ذی قعدہ ۱۳۱۳ھ کے مطابق ۵ / مئی کو میرے سامنے مولوی محمد حسین صاحب نے میرے پاس صاف ظاہر کیا کہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا معتقد ہوں (یعنی اب ہو گیا ہوں) مانتا ہوں جو دہ سوا حضرت مسیح علیہ السلام کے ہیں جن کے بعد حضرت مسیح آدیں گے.(بحوالہ الحکم ۱۷ جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۷) لیکن اس رجوع کے بعد مولوی محمد حسین صاحب نے انگریزی فہرست میں پھر انکار مهدی کا عقیدہ ہی انگریزی حکومت پر ظاہر کیا اور اس کی آمد سے متعلق احادیث کو موضوع قرار دے دیا.۱۴ اشاعت السنه جلد ۱۹ نمبر ۱۹ صفحه ۲۶۵-۲۶۶ ۱۵- تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۳۶-۴۱ روایت را نا جلال الدین صاحب منقول از کتاب "مجدد اعظم جلد اول صفحه ۵۹۰ - ۵۹۳ و حیات احمد جلد پنجم صفحہ ۷۷.۷۸ بیان ڈپٹی انسپکٹر پولیس (الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۷) ۱۸- الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۷۶ 19 الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ کالم ۳۴۲ بحوالہ الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ سے کالم ۳ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول صفحه ۲۵

Page 69

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۲۲ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول صفحه ۲۵ ۲۳- الحکم ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ سے کالم ۲ -۲۴ الحکم جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۹ و ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحه ۸ کالم ۲۵- الحکم ، جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۹ کالم ۲۶ الحکم کے جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ کالم ۲ ۲۷- الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحه ۵ کالم ۳۴۲ ۲۸- الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحه ۹ کالم ۲۹- الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صح و کالم ۳۰- الحکم ۳۱ جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۵ کالم ۱ تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۳۶٬۲۴ ۵۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی ۳۲.اس سفر کی تفصیلات خفیف سے لفظی تغیر یا تخفیف کے ساتھ الحکم ۳۱ / جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۹۵ سے لی گئی ہیں.۳۳- حقیقته المهدی صفحه ۱۰ تذکره طبع دوم صفحہ ۳۳۷۳۳۶ طبع سوم صفحه ۳۳۲٬۳۳۱ ۳۴ حقیقته المهدی طبع اول صفحه ۱۳۱۰ ۳۵ حقیقته المهدی طبع اول صفحه الحکم ۳ مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۳۷ - مجدد اعظم حصہ اول صفحه ۶۰۷ ۳۸ " تریاق القلوب " طبع اول صفحه 1 تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۴۶۴۴۴ ۴۰ تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۴۶۴۴۴ ۴۱ " تریاق القلوب " طبع اول صفحه ۸۰ و " ذکر حبیب " صفحه ۵۱) مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) -۴۲- ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو اشتار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ ء و ۲۰ فروری (۱۸۹۳ء حضرت اقدس عدالتی معاہدہ کے بارے میں خود ہی تحریر فرماتے ہیں.” یہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر میری طرف سے بھی اس عہد کے ساتھ دستخط ہیں کہ میں محمد حسین کی موت یا ذلت کے لئے کوئی پیچیگو ئی نہیں کروں گا مگر یہ ایسے دستخط نہیں ہیں جن سے ہمارے کاروبار میں کچھ بھی حرج ہو بلکہ مدت ہوئی کہ میں کتاب انجام اعظم کے صفحہ اخیر میں بتفریح اشتہار دے چکا ہوں کہ آئندہ ان لوگوں کو مخاطب نہیں کریں گے جب تک خودان کی طرف سے تحریک نہ ہو بلکہ اس بارے میں ایک الہام بھی شائع کر چکا ہوں جو میری کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے....مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ ان لوگوں نے محض شرارت سے یہ بھی مشہور کیا ہے کہ اب الہام کے شائع کرنے کی ممانعت ہو گئی اور نہی سے کہا کہ اب الہام کے دروازے بند ہو گئے.مگر ذرا احیا کو کام میں لا کر سوچیں کہ اگر الہام کے دروازے بند ہو گئے تھے تو میری بعد کی تالیفات میں کیوں الہام شائع ہوئے.اس کتاب کو دیکھیں کہ اس میں الہام کم ہیں " ( تریاق القلوب طبع اول صفحہ (Al ۴۳- ضمیمه انجام آتھم صفحه ۳۵٬۲۷ -۴۴ والد ماجد مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر ( انچارج شعبہ زور نویسی ربوہ) ولادت قریبا ۱۸۸۰ ء وفات ۱۰/ نومبر ۱۹۴۰ء حضرت اقدس کے متعدد نشانات دیکھنے کا انہیں موقع نصیب ہوا.مثلا ۱۹۰۳۰ء میں ان کے چھوٹے بھائی اور اہلیہ طاعون میں خطرناک طور پر مبتلا ہو گئے.حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست دعا لکھی تو حضور کا جواب آیا کہ اللہ تعالٰی صحت دے گا.چنانچہ وہ خارق عادت طور پر صحت یاب ہو گئے.قادیان کے مرکزی دفاتر میں سالہا سال تک خدمات سرانجام دیں.۴۵ ولادت اپریل ۱۸۷۷ء وطن مالوف بھیرہ مدرسہ تعلیم الاسلام کے قدیم اساتذہ میں سے تھے جو مئی ۱۸۹۹ء سے دسمبر ۱۹۰۲ء تک مدرس رہے ۱۹۰۴ء میں دختر میگزین ریویو آف ریلیجنز میں کام کیا فروری ۱۹۰۶ء سے تو میرے ۱۹۲ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام" کے

Page 70

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۳ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شورش اور ناکامی ہیڈ کلرک رہے (احکم ۲۱ اپریل ۱۹۲۹ء) آپ نے ۱۰مئی ۱۹۴۵ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.مالک اللہ بخش سٹیم پریس قادیان " ولادت ۱۸۸۷ ء وفات ۶ اکتوبر۷ ۹۵ ءور بوہ میں صحابہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہیں.۴۷- ولادت قریباً ۶۱۸۸۲- زیارت قادیان ۱۸۹۸ء وفات ۱۹/ نومبر ۱۹۶۸ء.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸۴ء میں انبالہ چھاؤنی سے پٹیالہ کے رستہ سنور تشریف لے گئے تو آپ کے والد مولوی محمد موسیٰ صاحب بھی استقبال کے لئے حاضر تھے اور آپ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے.آپ بہت دعائیں کرنے والے بزرگ تھے.سلسلہ کے مالی جہاد میں سرگرم اور نمایاں حصہ یا کرتے تھے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو خاص تعلق محبت و عقیدت تھا.سالہا سال تک حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی اراضی ناصر آباد کے کامیاب مینجر رہے.چنانچہ حضور نے ۱۳۳۵ھ کی مجلس مشاورت میں فرمایا اس سال تو صدر انجمن احمدیہ کو کھاتا رہا لیکن مجھے نفع آیا ہے یہ محض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی." (رپورٹ صفحہ ۶۵-۲۶) آپ کی خود نوشت سوانح زندگی " قبلی قدرت " کے نام سے شائع شدہ ہے -۴۸- الحکم ۲۰-۲۷ جون ۱۸۹۸ء صفحہ سے پر اسماء مبایعین بھی درج ہیں الحکم ۲۰ - ۲۷ جون ۱۸۹۸ء سے پتہ چلتا ہے کہ بازی پورہ اور اس کے نواح کا ایک اجتماع صحن خانقاہ میں ہوا تھا جس میں شیخ غلام رسول صاحب، مولوی فضل حق صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب نے تقریریں کیں جس سے متاثر ہو کر اسی ۸۰ افراد داخل احمدیت ہو گئے.لوگوں نے حسب اجازت راجہ صاحب موصوف کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود کی بیعت کی.راجہ صاحب کے تفصیلی حالات حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قلم سے الحکم ۷ / ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ / ۸ میں شائع شدہ ہیں.( تاریخ وفات ۱۴ / اپریل ۶۱۹۰۴ )

Page 71

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۴ تصنیف و اشاعت ماموریت کا اٹھارھواں سال حقیقته المهدی" کی تصنیف و اشاعت (۱۸۹۹ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس سال کی پہلی تصنیف "حقیقتہ المہدی " تھی جو ۲۱ / فروری ۱۸۹۹ء کو شائع ہوئی.یہ کتاب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے الزام بغاوت کی تردید میں لکھی گئی تھی.مولوی صاحب ابتداء ہی سے انگریزوں کے پاس شکایات کرتے آرہے تھے کہ یہ شخص سوڈانی مہدی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے.اور وہ فخریہ کہا کرتے تھے کہ میرے پاس وائسرے لیفٹیننٹ گورنروں کمانڈر انچیف وغیرہ اعلیٰ عہدیداران حکومت کی چھٹیاں موجود ہیں مگر مرزا صاحب کسی ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہی کی کوئی چھٹی پیش کریں جس سے ان کا کوئی ذاتی اعزاز ثابت ہو.دہ امیر کابل کے پاس بھی پہنچے.پھر اس کی طرف سے واپس آکر دھمکیاں دیں کہ وہاں چلو تو زندہ نہ آؤ گے.اب جو انہوں نے حضور کے خلاف فوجداری مقدمہ کھڑا کر کے اپنی کوششیں انتہاء تک پہنچا دیں تو حضور نے اس کتاب کے ذریعہ سے انکی مخالفانہ کارروائیوں کو ایک بار پھر بے نقاب کیا اور حکومت کے سامنے خیر خواہ اور باغی کی پہچان کے لئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش رکھا اور وہ یہ کہ حضور نے از خود عربی اور فارسی زبان میں جہاد کے متعلق اپنے عقائد اس کتاب میں اشتہار کی شکل میں شائع کئے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بھی مطالبہ کیا کہ اگر وہ حکومت کی خیر خواہی میں بچے ہیں تو وہ بھی عربی اور فارسی میں ایسا اشتہار شائع کر دیں.حقیقتہ المہدی کے آغاز میں حضور نے ایک درد انگیز دعا کی ہے جس کے چند ابتدائی اشعار یہ ہیں سما و مهربان و رہنما اے قدیر و خالق ارض اے رحیم اے کہ میداری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر

Page 72

جلد ۲ تو ۵۵ حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت استی که مستم بد گھر بینی مرا پرفق و شر گر تو دید استی که پاره پاره کن من بد کار را شیار کن این زمرہ اغیار را آتش افشان بر در و دیوار من د تمنم باش و تبه کن کار من 2 یعنی اے قادر اور آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے اے رحیم و مہربان اور رستہ دکھانے والے خدا! اے وہ ذات جو دلوں پر نظر رکھتی ہے.اے وہ ہستی کہ تجھے سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں.اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارتوں سے بھرا ہوا دیکھتا ہے اور اگر تو نے دیکھ لیا ہے کہ میں بد گر ہوں تو تو مجھ بد کار کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال اور میرے دشمنوں کے گروہ کو خوش کر دے.میرے در و دیوار پر آگ برسا.میرا دشمن ہو جا اور میرا سلسلہ تباہ و برباد کر دے.مولانا عبد الکریم صاحب کی طرف سے خطوط کا سلسلہ آخر جون ۱۸۹۹ ء سے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے اخبار الحکم میں جماعت احمدیہ کے نام خطوط کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز سلسلہ جاری کیا جو آپ کی وفات تک بدستور قائم رہا.ان خطوط میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ملفوظات اور دوسرے پیش آمده واقعات کا نہایت عمدہ اور مئوثر پیرایہ میں تذکرہ بھی ہوتا تھا اور وعظ و نصیحت بھی.جماعت کے دوست اس خط کا بہت دلچسپی سے انتظار کرتے تھے اور ان کے ایمانوں میں اس کے پڑھنے سے ایک نئی روح پھونکی جاتی تھی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۳ء میں الہام ہو ا تھا کہ ”تین کو چار کرنے والا مبارک ".اس الہام میں خبر دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نکاح ثانی سے آپ کو چار فرزند عطا فرمائے گا اور چوتھے کا نام مبارک ہو گا.علاوہ ازیں اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ ء میں بھی بالواسطہ رنگ میں ان کی ولادت کا ذکر موجود تھا.ایک خواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس فرزند کا عقیقہ سوموار کو ہو گا.چنانچہ اس بشارت کے مطابق ۱۴ جون ۱۸۹۹ء (۴) صفر ۱۳۱۶ھ ) بروزبدھ بعد دوپہر تین بجے حضرت صاحبزدہ مرزا مبارک احمد صاحب پیدا ہوئے جو حضور" کے آخری فرزند تھے.آپ کی ولادت سے قبل الہام ہوا.انی اسقط من الله واصيبه " اس الہام کے متعلق حضرت اقدس نے اجتہاد یہ کیا کہ یہ لڑکا نیک ہو گا اور

Page 73

تاریخ احمدیت جلد ۲ 04 " حقیقتہ الحمدی " کی تصنیف و اشاعت رو بخدا ہو گا یا جلد فوت ہو جائے گا." حضرت صاحبزادہ صاحب کی پیدائش کے وقت حضرت ام المئومنین کا جسم اتنا سرد اور نیم جاں ہو گیا کہ موت کا شبہ ہونے لگا مگر حضرت اقدس کی دعا سے یکا یک بدن گرم ہو گیا اور یہ نازک گھڑی مل گئی.حضرت صاحبزادہ صاحب کے عقیقہ کا دن ۲۵ جون ۱۸۹۹ء بروز اتوار مقرر کیا گیا تھا.حضور نے اس کا اہتمام منشی نبی بخش صاحب بٹالوی کے سپرد فرمایا.حضرت اقدس کی طرف سے بڑی تاکید تھی اور یقین تھا کہ سب سامان ہو جائے گا.مگر اتوار کے مقررہ دن کو صبح صادق سے پہلے ہی بارش شروع ہو گئی.صبح کی نماز معمول سے سویرے پڑھی گئی اور دوست تاریکی اور ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سو گئے اور انتظام دھرے کا دھرا رہ گیا.حضرت اقدس بھی سو گئے اور منشی صاحب بھی.دن خوب چڑھ گیا تو حضرت اقدس بیدار ہوئے تو دریافت فرمایا کہ عقیقہ کا کوئی سامان نظر نہیں آتا.حضور کو فکر ہوئی کہ مہمانوں کو ناحق تکلیف ہوئی ادھر منشی صاحب بڑے اضطراب اور ندامت کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت کی.فرمایا اچھا " فعل ما قدر - " جو مقدر تھا وہی ہوا.مگر منشی صاحب کو مبرد قرار کہاں وہ بار بار حضور کے پاس معذرت کے لئے دوڑ کے گئے.ان کی یہ حالت دیکھ کر حضور کو اس وقت اپنی رو یا یاد آگئی جو حضور نے چودہ سال ہوئے دیکھی تھی جس کا مضمون یہ تھا کہ " ایک چوتھا بیٹا ہو گا اور اس کا عقیقہ سوموار کو ہو گا.خدا تعالیٰ کی بات کے پورا ہونے اور اللہ تعالٰی کے اس عجیب تصرف سے حضرت اقدس کو جو خوشی ہوئی اس نے ساری کوفت دور کر دی.چنانچہ دوسرے دن سوموار کو جب سب خدام صحن اندرون خانہ میں بیٹھے تھے اور حضرت صاحبزادہ کا سر مونڈا جا رہا تھا تو حضرت اقدس نے بڑے جوش اور خوشی سے یہ رویا سنائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے لئے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ فرمایا جس کا انگریزی ترجمہ مولوی محمد علی صاحب کو کرنا تھا.تجویز یہ ہوئی کہ یورپ میں چونکہ قیافہ شناسی کا علم اتنا ترقی کر چکا ہے کہ لوگ محض تصویر کے خدو خال دیکھ کر صاحب تصویر کے اخلاق کا پتہ چلا لیتے ہیں لہذا اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگادی جائیں.محض یہ تبلیغی و دینی ضرورت تھی جس کی بناء پر حضور نے اپنا فوٹو ا تروایا.خود فرماتے ہیں ”میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اپنے پاس رکھے یا شائع کرے.میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے.اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا.لیکن میں نے

Page 74

تاریخ احمدیت جلد ۲ " حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہش مند ہوتے ہیں کہ اس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے اور اکثر ان کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب." پہلے فوٹو کے لئے انتظام میاں معراج دین صاحب عمر (انار کلی) لاہور سے ایک فوٹو گرافر لائے جس نے حضور کے تین فوٹو کھینچے.دو صحابہ کے گروپ میں اور ایک پورے قد کا علیحدہ.دوسرے گروپ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ پہلے گروپ کے بزرگ صحابہ ہی بیٹھے ہوئے تھے حضرت اقدس کی عادت غض بصر کی تھی.فوٹوگرافر بار بار عرض کرتا تھا کہ حضور آنکھیں ذرا کھول کر رکھیں ورنہ فوٹو ا چھی نہیں آئے گی.اس کے اصرار پر حضور نے ایک مرتبہ تکلیف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا مگر وہ پھر نیم بندی ہو گئیں.فوٹوگرافر نے حضور سے لباس اور نشست کے متعلق بھی معروضات کیں مگر حضور نے انتہائی سادگی اور بے تکلفی سے فوٹو کچھوایا اور یہی رنگ تصویر میں بھی جلوہ گر رہا.بعد ازاں میاں معراج دین صاحب عمر نے ان فوٹووں کی طباعت کا انتظام کر کے ۱۰ / اگست ۱۸۹۹ء کو بذریعہ الحکم ان کی اشاعت کا باقاعدہ اعلان شائع کر دیا.یہ فوٹو جو زمانہ مأموریت کا پہلا پورے قد کا فوٹو ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب " ذکر حبیب " میں بھی شائع شدہ ہے.ابتدائی فوٹووں کے بعد حضرت حضور کے اور کتنے فوٹو لئے گئے اور کہاں کہاں؟ اقدس کے اور بھی متعدد فوٹو لئے گئے جن کی معین تعداد کا بتانا تو مشکل ہے البتہ سلسلہ کے لٹریچر سے معلوم ہو تا ہے کہ اگلے ہی سال خطبہ الامیہ" کے موقعہ پرا/ اپریل ۱۹۰۰ء کو بوقت عصر مسجد اقصیٰ میں ایک گروپ فوٹو لیا گیا.یہ فوٹو ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری نے لیا تھا.۱۷/ نومبر ۱۹۰۰ء کو ایک یورپین سیاح (T.DEXON ٹی ڈکسن نے حضرت اقدس کے تین فوٹو لئے جس میں سے دو تو حضور کے خدام کے ساتھ تھے اور ایک فوٹو صرف حضور کا تھا.۱۹۰۲ء میں حضور کا ایک پورے قد کا فوٹو " ریویو آف ریلیجه " انگریزی ۱۹۰۲ء صفحہ ۴۲۳ پر شائع ہوا جو البائن پریس لاہور میں طبع ہوا.حضور کا ایک گروپ فوٹو حضور کے سیالکوٹ کے اصحاب کے ساتھ نومبر ۱۹۰۴ء میں کھینچا گیا.ایک اور گروپ فوٹو بھی لیا گیا جس میں ایک طرف ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کو ڈیانوی اور دوسری طرف ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.ان کے علاوہ ایک اور فوٹو ایسا بھی ملتا ہے جس میں حضور کے ساتھ صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب کھڑے ہیں.مئوخر الذکر کس سال لئے گئے اس کی تعیین نہیں ہو سکی.قادیان میں حضرت اقدس کے فوٹو اکثر

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۸ " حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت د بیشتر مسجد اقصیٰ میں لئے گئے.مگر بعض مدرسہ تعلیم الاسلام یا نواب محمد علی خان صاحب کے مکان واقع اندرون شہر) کے صحن میں بھی کھینچے گئے تھے.B حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضور کے قلمی فوٹو بھی شائع ہوئے.مثلا الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں پورے قد کا قلمی فوٹو چھپا.حقیقتہ الوحی کے عربی حصہ الاستفتاء (۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء) میں حضور کی شبیہ مبارک کا خاکہ قلم سے نقل (TRACE) کر کے شائع ہوا.فوٹو کی یورپ میں اشاعت اور تاثرات حضرت مسیح موعود کے فوٹو کی "دیوید آف ریلیجز "انگریزی (۱۹۰۲ء تا ۱۹۰۵ء) کے ذریعہ سے جب مغربی ممالک میں اشاعت ہوئی تو حضرت اقدس کی خدمت میں کئی لوگوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے آپ کی فوٹو غور سے دیکھی ہے علم فراست کی رو سے ہمیں یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ جس کی یہ فوٹو ہے وہ ہر گز کاذب نہیں.ایک امریکی خاتون نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ فوٹو دیکھتی رہوں یہ تو بالکل یسوع مسیح کی طرح معلوم ہوتی ہے.ایک اور قیافہ شناس لیڈی نے کہا کہ " یہ نبیوں کی سی صورت ہے " بعض بڑے بڑے لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ "is a Great Thinker Ho - یعنی یہ ایک عظیم مفکر ہے.علم قیافہ کے ایک اور انگریز ماہر کے سامنے جب حضور کی فوٹور کبھی گئی تو وہ بڑے غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ کسی اسرائیلم پیغمبر کی فوٹو ہے.ایک دوسرے انگریز نجومی نے بھی یہی کہا کہ یہ شبیہ تو خدا کے کسی نبی کی ہے.IA فوٹو کی عام اشاعت کی ممانعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصویر کی عام اشاعت کو جو تبلیغی ضرورت کے بغیر محض نمائش کے طور پر ہو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ اس طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک نوبت پہنچ جاتی ہے.چنانچہ حضرت شیخ حبیب الرحمن صاحب (حاجی پورہ) کا بیان ہے کہ "جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سب سے پہلا فوٹو لیا گیا تھا.میں نے وہ فوٹو خریدا اور اس پر فریم اور شیشہ بھی لگوایا.جب میں قادیان گیا اور حسب دستور تنہائی میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں نے حضور کا فوٹو خریدا ہے.اگر حضور کی اجازت ہو تو اپنی نشست گاہ میں دیوار پر لگایا جاوے حضور نے فرمایا نہیں ہمارا اس فوٹو سے ہر گز یہ منشاء نہ تھا کہ لوگ خریدیں اور اپنے پاس رکھیں.ہم نے صرف ولایت بھیجنے کی غرض سے یہ فوٹو کھینچایا تھا.میں نے عرض کیا کہ اب میں اس کو خرید چکا ہوں اس کو کیا کیا جائے.فرمایا کہ کسی صندوق میں ڈال چھوڑو ایسی جگہ نہ رکھو کہ لوگ آئیں اور دیکھیں.اس طرح تصویروں کی پرستش ہو جاتی تھی.14

Page 76

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۹ " حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت ایک دفعہ آپ کی زندگی میں کسی نے کارڈ کی پشت پر آپ کی فوٹو شائع کر دی.آپ کو پتہ چلا تو یہ کارڈ آپ نے تلف کرا دیئے اور جماعت کو ہمیشہ کے لئے یہ نصیحت فرمائی کہ میں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو.ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویر میں جابجا در و دیوار پر نصب کرتے ہیں.یہ اور بات ہے.ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر شرک ہو جاتے ہیں بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں.جیسا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں پیدا ہو گئیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ جو شخص میری نصائح کو عظمت اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور میرا سچا پیرو ہے وہ اس حکم کے بعد ایسے کاموں سے دستکش رہے گا.ورنہ وہ میری ہدایتوں کے برخلاف اپنے تئیں چلاتا اور شریعت کی راہ میں گستاخی سے قدم رکھتا ہے." منشی الہی بخش صاحب کا فتنہ اور تریاق القلوب" کی تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پچھلے سال ۱۸۹۸ء میں منشی الہی بخش صاحب کے اوہام اور وساوس کے ازالہ کے لئے " ضرورۃ الامام " تصنیف فرمائی جس پر وہ اپنی روش پر نظر ثانی کرنے کی بجائے اور بھی متشدد ہو گئے اور اپنے چند ساتھیوں مثلاً منشی عبد الحق صاحب پیشنر ا کو مٹنٹ خان بہادر سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر اور حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر کے سمیت ایک بڑے فتنہ کی طرح ڈالی.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو رو خط بھیجے جن میں ان کو خدا کی قسم دے کر لکھا کہ وہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کرتے ہوئے اپنے الہامات شائع کر کے بھجوا د میں تاخد اتعالیٰ خود ہی بچے اور جھوٹے کا فیصلہ فرما دے.دوسرا خط حضور نے ۱۶ / جون ۱۸۹۹ء کو بھیجا اور اس کے آخر میں لکھا پھر اخیر میں خدا تعالٰی کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہوں لکھ کر چھاپ دیں.اب دس دن سے زیادہ میں آپ کو مہلت نہیں دیتا.جون، مہینے کی ۳۰/ تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے پاس آجانا چاہیے ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گا اور پھر آئندہ آپ کو کبھی مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہو گا." اس خط کے جواب میں انہوں نے جولائی ۱۸۹۹ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا جس میں حضور اور سلسلہ احمدیہ کے خلاف دو ایک پیشگوئیاں بھی درج تھیں.منشی الهی بخش صاحب چونکہ اب اپنے خط میں حضرت کے خلاف الہام بھجوا کر میدان مقابلہ میں اتر آئے اور افہام و تقسیم کی ہر صورت اپنے ہاتھوں ختم کر چکے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود

Page 77

قیقہ المدی " کی تصنیف و اشاعت تاریخ احمدیت جلد ۲ " 4.re ۲۵ علیہ السلام کی دینی غیرت نے نہ چاہا کہ دنیا کے سامنے حق و باطل مشتبہ ہو کے رہ جائیں.اس لئے حضور نے جولائی کے آخر میں تریاق القلوب" کے نام سے ایک عظیم الشان تصنیف کے لئے قلم اٹھایا جس میں یہ آسان طریق فیصلہ پیش فرمایا کہ " ایک مجمع مقرر کر کے کوئی ایسا شخص جو میرے دعوئی مسیحیت کو نہیں مانتا اور اپنے تئیں علم اور صاحب الہام جانتا ہے مجھے مقام بٹالہ یا امر تسریا لاہور میں طلب کرے اور ہم دونوں جناب الہی میں دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جناب الہی میں سچا ہے ایک سال میں کوئی عظیم الشان نشان جو انسانی طاقتوں سے بالا تر اور معمولی انسان کے دسترس سے بلند تر ہو اس سے ظہور میں آوے.ایسا نشان کہ جو اپنی شوکت اور طاقت اور چمک میں عام انسانوں اور مختلف طبائع پر اثر ڈالنے والا ہو خواہ وہ پیشگوئی ہو یا اور کسی قسم کا اعجاز ہو جو انبیاء کے معجزات سے مشابہ ہو.پھر اس دعا کے بعد ایسا شخص جس کی کوئی خارق عادت پیشگوئی یا اور کوئی عظیم الشان نشان ایک برس کے اندر ظہور میں آجائے اور اس عظمت کے ساتھ ظہور میں آئے جو اس مرتبہ کا نشان حریف مقابل سے ظہور میں نہ آسکے وہ شخص سچا سمجھا جائے گا." ایسی مجلس کے انعقاد کے لئے حضور نے یہ شرط بھی قرار دی که دس روز قبل بذریعہ اشتهار (جس پر ہیں معزز اور نامور علماء اور رؤسا کے دستخط ثبت ہوں) یہ اعلان شائع کیا جائے کہ ان مقامات میں سے فلاں تاریخ اور فلاں وقت ایسا جلسہ قرار پایا ہے.یہ اصل رسالہ جو ۲۳ صفحات پر مشتمل تھا کیم اگست تک مکمل ہو کر انہی دنوں چھپ بھی گیا تھا لیکن حضور کو خیال آیا کہ " ملہم لاہوری پر اتمام حجت کے لئے لیکھرام اور دوسرے افراد کے متعلق پیشگوئیوں کا مفصل تذکرہ کیا جائے جو نہات آب و تاب سے پوری ہو چکی ہیں.چنانچہ حضور نے اس کے ساتھ دو ضمیموں کا اضافہ فرمایا...پہلے ضمیمہ میں حضور نے لیکھرام کے قتل کے نشان کے قریبا چار ہزار مصدقین میں سے ۲۷۹ اشخاص کی تصدیقی شہادتیں شامل کیں اور دوسرے ضمیمہ میں اس کے علاوہ دوسری متعدد پیشگوئیوں پر مفصل روشنی ڈالی.دسمبر ۱۸۹۹ء تک حضرت اقدس نے پچھتر پیشگوئیوں کا بیان لکھا جو ۱۵۸ صفحات پر م کتاب تریاق القلوب جنوری ۱۹۰۰ ء تک ایک صفحہ کے مسودہ کے سوا چھپ چکی تھی مگر اس دوران میں وند تعیین کی تجویز کی وجہ سے حضور کی توجہ "لجہ النور " کی تصنیف کی طرف مبذول ہو گئی اور تریاق القلوب کی اشاعت رک گئی.ازاں بعد ۱۹۰۲ء میں جب کہ کتب خانہ کا چارج حکیم فضل الدین صاحب کے ہاتھ میں تھا.آپ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب سے عرض کی کہ بعض کتب بالکل تیار ہیں لیکن اس وقت تک شائع نہیں ہو ئیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کریں کہ ان کی اشاعت کی اجازت فرما دیں چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت اقدس سے ذکر ممثل تھا.

Page 78

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ 41 " حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت کیا اور حضور نے اجازت دے دی." تریاق القلوب " ساری چھپ چکی تھی اور صرف ایک صفحہ کے قریب مضمون حضرت اقدس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کاتب کے پاس پڑا تھا.اس کے ساتھ حضرت اقدس نے ایک صفحہ کے قریب مضمون اور بڑھا دیا اور آخر میں دو صفحے لگا کر ۲۸ / اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع کردی گئی.ستارہ قیصرہ کی تصنیف و اشاعت ساٹھ سالہ جوبلی کے موقعہ پر حضرت اقدس نے ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں " تحفہ قیصریہ " بھجوایا تھا اور توقع تھی کہ ملکہ تک اگر یہ رسالہ پہنچ گیا تو اپنے شاہی دستور کے مطابق وہ اس کے بارے میں ضرور اطلاع دیں گی.مگر جب دو سال تک اس کا کوئی جواب موصول نہ ہوا تو حضرت اقدس نے کافی انتظار کے بعد یہ خیال کر کے کہ ممکن ہے وہ رسالہ ان تک پہنچ نہیں سکا یا پہنچا تو ہے مگر اس کا جواب حکومت انگریزی کے افسروں نے آپ تک پہنچانا مناسب نہیں سمجھا ۲۴/ اگست ۱۸۹۹ء کو ”ستارہ قیصرہ " کے نام سے ایک اور رسالہ شائع کیا جس میں " تحفہ قیصریہ " کا مضمون ایک دوسرے انداز میں ڈھال دیا.روح وہی رہی مگر الفاظ بدل گئے.یہ دونوں تصانیف ایک جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں جن کے حقیقی مقاصد کی تہ تک پہنچنے کے لئے ان کا یکجائی مطالعہ ضروری ہے.حکومت برطانیہ پر اتمام حجت اور مذاہب عالم کے جلسہ کے لئے میموریل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے "ستارہ قیصرہ" کے بعد...خدا کے الہام سے گورنمنٹ انگریزی پر اتمام حجت کے لئے ۲۷/ ستمبر ۱۸۹۹ء کو ایک میموریل بھی شائع کیا جس میں اسے جلسہ مذاہب کے انعقاد کی طرف زور دار رنگ میں توجہ دلائی اور تجویز رکھی کہ تمام قوموں کے نمائندے اپنے اپنے مذہب کی سچائی کے ثبوت میں ایک تو اپنے اپنے مذہب کی ہمہ گیر تعلیم بتائیں جو دو سری تعلیموں سے اعلیٰ ہو.دوسرے یہ کہ ان کے مذہب میں وہ روحانیت اور طاقت اب بھی موجود ہے جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات ظاہر ہو سکتے ہیں اور اس امر کے ثبوت میں وہ خدا سے علم پا کر یک سالہ پیشگوئیاں بھی کریں.آپ نے اس میموریل میں تحدی فرمائی کہ "اگر اس جلسہ

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۶۲ " حقیقته " کی تصنیف و اشاعت کے بعد....ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں میں راضی ہوں کہ اس جرم کی سزا میں سولی دیا جاؤں اور میری ہڈیاں توڑی جائیں.لیکن وہ خدا جو آسمان پر ہے جو دل کے خیالات کو جانتا ہے.جس کے الہام سے میں نے اس عریضہ کو لکھا ہے وہ میرے ساتھ ہو گا اور میرے ساتھ ہے وہ مجھے اس گورنمنٹ عالیہ اور قوموں کے سامنے شرمندہ نہ کرے گا.اس کی روح ہے جو میرے اند ر بولتی ہے." حکومت انگریزی اگر مامور وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سرکاری سطح پر اس نوع کا جلسہ منعقد کر لیتی تو بلا مبالغہ اس کا بہت بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا اور اسلام کی تبلیغ کی متعدد نئی راہیں نکل آئیں مگر حکومت نے اس طرف چنداں التفات نہیں کیا اور دنیا ایک سنہری موقعہ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئی.مقدمہ گوڑگانواں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جنوری ۱۸۹۷ء میں عیسائیوں کو ایک ہزار روپے کا ایک انعامی اشتہار دیا تھا جس میں حضور نے لکھا تھا کہ ” میرا دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشانات زیادہ ہیں.اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قوی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا." اس اشتہار کو دیکھ کر جب کوئی عیسائی مرد میدان نہ بن سکا تو ایک مسلمان عالم اصغر علی حسین صاحب نے گوڑگانواں میں لالہ جوتی پر شاد مجسٹریٹ کی عدالت میں حضرت مسیح موعود کے خلاف نالش کی کہ میں مرزا صاحب کے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں کیونکہ میں بھی حضرت عیسی کو مانتا ہوں اس واسطے میں بھی عیسائی ہوں اور مجھے مرزا صاحب سے ان کے اشتہار کے مطابق ایک ہزار روپیہ دلایا جائے.اخبار ” عام " اور "ست دھرم " وغیرہ ہندو اخبارات کو جو نہی یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس پر لمبے چوڑے مخالفانہ نوٹ لکھے مقدمہ کا سمن قادیان پہنچا تو حضور نے پیروی کے لئے مولوی محمد علی صاحب ایم اے ، مرزا خدا بخش صاحب اور مرزا افضل بیگ صاحب مختار قصوری کو بھجوایا.لالہ جوتی پر شاد نے سرسری سی کارروائی کے بعد مقدمہ خارج کر دیا اور زبانی کہا کہ دراصل یہ مقدمہ تو سماعت کے قابل نہ تھا مگر ہم نے اس خیال سے رکھ لیا تھا کہ اس بہانہ سے حضرت مرزا صاحب کی زیارت ہو جائے گی مگروہ تشریف نہیں لائے اس لئے اسے ہیں ختم کرتا ہوں.

Page 80

تاریخ احمدیت.جلد ۲ оран " حقیقته الممدی " کی تصنیف و اشاعت تصنیف " مسیح ہندوستان میں "سفر نصیسین کی تجویز اور جلسہ الوادع" حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر کا انکشاف تو ایک عرصہ سے ہو چکا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف کتابوں میں اجمالاً اس پر روشنی بھی ڈالی تھی مگر اس نظریہ کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر اس موضوع پر ایک مستقل تصنیف کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جسے حضرت اقدس نے کتاب " مسیح ہندوستان میں لکھ کر پورا کر دیا.یہ کتاب اپریل ۱۸۹۹ء میں تصنیف ہوئی اور ۲۰/ نومبر ۱۹۰۸ء کو شائع ہوئی.اس میں حضور نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صلیب سے زندہ اتر آنے اور پھر کشمیر کی طرف ہجرت کرنے اور عمر طبعی سے وفات پانے کا ایسے زبر دست عقلی و نقلی دلائل سے ثبوت دیا ہے کہ ایک محقق کو آپ کا نظریہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا.یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے.باب اول: مسیح کے صلیبی موت سے بچنے پر انجیلی دلائل.باب دوم : ان شہادتوں کے بیان میں جو حضرت مسیح کے صلیبی موت سے بچ جانے کی نسبت قرآن و حدیث سے ملتی ہیں.باب سوم : ان شہادتوں کے بیان میں جو طب کی کتابوں سے ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر آئے اور ان کے : خموں کے لئے مرہم بنائی گئی جس کا نام " مرہم عیسی " تھا.باب چهارم : ان شہادتوں کے بیان میں جو تاریخی کتابوں سے لی گئی ہیں جن میں حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے بعد اپنے ملک سے ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے کا ذکر آتا ہے.اس باب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی لٹریچر، بدھ مت کی کتابوں اور دیگر تاریخی کتابوں سے مسیح کی سیاحت پر روشنی ڈالی ہے اور تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ مسیح کی کھوئی ہوئی بھیڑیں "کشمیر اور افغانستان میں آباد تھیں اور ان ممالک کے باشندے اسرائیلی ہیں.کتاب میں حضور نے مرد معلم سے سرینگر پہنچنے کا نقشہ سفر بھی دیا.حضور کا منشاء مبارک کتاب کی تصنیف سے قبل دس ابواب میں اپنی تحقیق پیش کرنے کا تھا مگر اس کتاب میں جو فی الحقیقت مجوزہ کتاب کا پہلا حصہ 10 تھا صرف ابتدائی چار ابواب پر ہی آپ نے اکتفاء کی اور باقی ابواب کا مواد فراہم کرنے کے لئے (جس میں بعض اہم زبانی روایات ، قرائن متفرقہ اور

Page 81

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۶۴ " حقیقته المهدی " کی تصنیف و اشاعت معقولی اور الہامی شہادتوں سے بھی اس پہلو پر بحث کرنا آپ کے مد نظر تھا) حضور نے اپنے مخلص مرید خلیفہ نور دین aa صاحب کو قبر مسیح کی پوری تحقیقات کے لئے کشمیر بھیجا جنہوں نے اپنا خرچ کر کے وہاں قریباً چار ماہ تک قیام کیا اور بالا خر۱۷ ستمبر ۱۸۹۹ء کو قبر کا نقشہ تیار کر کے اور اس پر پانچ سو چھپن باشندگان کشمیر کی تصدیق بھی کر الائے کہ یہی حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے جسے عام لوگ شہزادہ نبی کی قبرادر بعض یوز آسف نبی اور بعض نبی صاحب کی قبر سے موسوم کرتے ہیں.ان شہادتوں سے قبر مسیح کی تحقیق تو پایہ ثبوت تک پہنچ گئی اور آپ وند نصیبین کی تجویز کے نظریہ کی صحت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی تھی مگر حضور یہ تحقیق پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کشمیر کے علاوہ نصیین کوہ نعمان اور کابل کی طرف بھی وفد بھجوانا چاہتے تھے کیونکہ ان مقامات میں حضرت مسیح کے پہنچنے کا سراغ ملتا تھا.چنانچہ مشہور تاریخ کتاب "ر دفتہ الصفا" سے ثابت ہے کہ فتنہ صلیب کے وقت نصیین کے بادشاہ نے حضرت مسیح مو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ حضرت مسیح کو واقعی بادشاہ کی طرف سے دعوت نامہ آیا تھا اور اس انگریز نے اپنی کتاب میں بادشاہ کا یہ خط بھی درج کیا ہے.ان حالات میں حضور یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ نفیسین کے آثار قدیمہ کی چھان بین کی جائے تو اس میں حضرت مسیح کی آمد کا کوئی اور واضح ثبوت بر آمد ہو جائے گا اور کوہ نعمان کی طرف وفد بھیجنے کی ضرورت یہ تھی کہ آثار سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان سے کوہ نعمان میں گئے اور وہاں ایک مدت تک ان کا قیام رہا تھا.حضور کو جولائی ۱۸۹۹ء کے ابتداء میں یہ اطلاع ملی تھی کہ ایک "شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک جلال آباد علاقہ کابل) میں موجود ہے اور اس چبوترے کے نام ریاست کابل میں کوئی جاگیر بھی موجود ہے جس کے کاغذات کی نقل حاصل کرنا آپ کے مد نظر تھا.کابل اور کوہ نعمان بھجوانے کے لئے تو انہی علاقوں کے آدمی متعین کئے گئے."جلسه الوداع" مگر سفر نصیین کے لئے حضور نے تین افراد پر مشتمل ایک وفد تیار کیا جس کے امیر مرزا خدابخش صاحب نامزد ہوئے ( جو شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آرہے تھے اور دن رات خدمت میں مصروف تھے ) حضرت میاں جمال الدین صاحب اور مولوی حکیم قطب الدین صاحب بد و ملحی بطور رکن قرعہ اندازی سے شامل وفد کئے گئے - in - وفد کے اخراجات کے لئے حضرت اقدس نے ۴ / اکتوبر ۱۸۹۹ء کو بذریعہ اشتہار ایک پر زور تحریک فرمائی جس پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی نے مرزا خدابخش صاحب کا سفر خرچ

Page 82

تاریخ احمدیت جلد ۲ ام - حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت اپنے ذمے لیا.اور باقی دو افراد کے اخراجات حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بھجوا دئیے.علاوہ ازیں منشی عبد العزیز صاحب او جلہ.میاں جمال الدین صاحب.میاں امام الدین صاحب و میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی بلکہ خود مرزا خدا بخش صاحب نے بھی چندہ دیا.اس طرح انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچے تو حضرت اقدس کی ہدایت پر ۱۲/ نومبر ۱۸۹۹ء کو ان کے الواداع کا جلسہ ہوا.م اس کے بعد حضور کو تحریک ہوئی کہ وفد تحقیقات سفر مسیح کا فریضہ ادا کرنے کے علاوہ آپ کے پیغام کی اشاعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے.چنانچہ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.حضور نے زیر تالیف کتاب تریاق القلوب" کی تعمیل کی بجائے ایک عربی رسالہ "لجنہ النور " تصنیف فرمایا.نیز تجویز فرمائی کہ فونوگراف میں (جو نئی ایجاد ہوئی تھی آپ چار گھنٹہ کی ایک عربی تقریر ریکارڈ کروا کر وفد کو دیں تا دور دراز کے اسلامی ممالک حضور ہی کی زبان مبارک سے پیغام سن لیں.لیکن افسوس بعض وجوہ کی بناء پر وفد نعیسین کا جانا معرض التواء میں چلا گیا.۱۸۹۹ء کے بعض صحابہ ۱۸۹۹ء کے بعض مشہور صحابہ کے نام یہ ہیں.سیٹھ شیخ حسن صاحب حیدر آبادی.چوہدری فتح محمد صاحب سیال.ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب پٹیالوی -

Page 83

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۶۶ " حقیقتہ المہدی " کی تصنیف و اشاعت - رسالته اشاعت السنہ جلد ۱۵ نمبر صفحہ ۲۹۱ حقیقته المهدی صفحه ۳ حقیقته المهدی صفحه ۱۳ م حقیقته المهدی صفحه ا الحکم ۲۳ / جون ۱۸۹۹ء صفحہ، کالم نمبر ۲ الحکم / جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ اکالم) نزول المسیح صفحه ۱۹۶ حواشی الحکم ۱۵ / جون ۱۸۹۹ء ضمیمہ.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول مکتوب صفحه ۲۶-۲۷ الحکم ۳۰/ جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۸ کالم ۳ ۱۰- الحکم ۳۰/ جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ ذکر حبیب مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب طبع اول صفحه ۱۳۷۲ و براہین احمدیہ حصہ پنجم ضمیمه صفحه ۱۹۳ - ۱۹۴ ۱ براہین احمدیہ حصہ پنجم ضمیمہ صفحہ ۱۲۲.۹۴ نیز دیکھئے البدر ۱۲۴ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ کالم) ۱۳ پورے قد کے نوٹو کے لئے اعلان ملاحظہ ہو الحکم ۱۰/ اگست ۱۸۹۹ء ۱۴ زمانہ ماموریت " کی قید اس لئے لگائی ہے کہ حال ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ ۶۷ - ۱۸۶۴ء کے دور کانونو دریافت ہوا ہے.اس فوٹو کے دیکھنے والے احمدی دوست محمد فریدون نمال ولد رحمت اللہ خاں (ساکن شیخ البانڈی تحصیل ایبٹ آباد ہیڈ کلرک محکمہ امداد باہمی کا حلفیہ بیان ہے کہ ۵۹ - ۱۹۵۸ء کا ذکر ہے کہ میں خان محمد اصغر خاں صاحب قریشی اسٹنٹ رجسٹرار کو اپریٹو سوسائٹیز ہزارہ کے ہمراہ بحیثیت کمپ کلرک دورے پر موضع نگری ٹوٹیاں تحصیل ایبٹ آباد برائے معائنہ انجمن امداد باہمی گیا.دوران گفتگو جب ہمارے میزبان سردار عنایت الرحمان صاحب کو معلوم ہوا کہ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس مرزا صاحب کا فوٹو ہے جو ان کے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کا ہے وہ میں آپ کو دکھاتا ہوں.چنانچہ بموجودگی خاں محمد اصغر خاں صاحب سردار صاحب مذکور ایک گروپ فوٹو لے آئے جو فریم میں نہیں تھا بلکہ ایک گتہ پر چسپاں تھا.میں نے ان کے بتانے کے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک پہچان لی.حضرت اقدس کھڑے تھے اور فوٹو کے دائیں جانب سے تیسرے چوتھے نمبر پر تھے.اس فوٹو کا سائز فل سکیپ کے قریب دو تہائی کے برابر تھا.یہ ایک گروپ فوٹو تھا.آگے کرسیوں پر کئی اصحاب بیٹھے تھے جن میں ایک انگریز بھی تھا.فوٹو کا رنگ پیازی تھا اور نقوش نہایت واضح تھے.میں نے سردار صاحب مذکور سے درخواست کی کہ یہ فوٹو چند دن کے لئے مجھے عنایت فرما دیں تا میں اس کی نقول تیار کروا کر اصلی کالی آپ کو واپس کر دوں مگر سردار صاحب نے مجھے نال دیا.اس کے بعد وہ مجھے کئی دفعہ ملے اور میں اس کے لئے ان سے اکثر کہتا بھی رہا.چنانچہ ایبٹ آباد میں انہوں نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میں فوٹودے دوں گا." خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ ۲۵/ جنوری ۱۹۶۱ء کو محمد فریدون خان صاحب اور خاکسار دونوں نے سردار صاحب سے ان کی رہائش گاه واقع مری روڈ راولپنڈی پر ملاقات کی جس پر انہوں نے مئی ۱۹۶۱ء میں فوٹود کھانے کا وعدہ کیا مگر جب میں دوبارہ ان کے ہاں پہنچا تو انہوں نے بعض نا معلوم وجوہ کی بناء پر دکھانے سے معذرت کر دی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو یہ تاریخی فوٹود دیکھنے کی بہت آرزو تھی.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اس اہم تاریخی یاد گار کے بر آمد ہونے کی کوئی نیبی صورت پیدا کر دے.۱۵- ذکر حبیب صفحه الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱.۳ الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ کالم ۲.۳

Page 84

تاریخ احمدیت - جلد ؟ حقیقته المهدی" کی تصنیف و اشاعت ۱۸ ۱۰ / الحکم ۳/ جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰ کالم الحکم ۱۰ اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ا براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۹۴ ذکر حبیب صفحه ۳۷۲-۳۷۴ از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ ۳۷۴ میرة المهدی حصہ دوم صفحہ ے ے البدر ۵/ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۹ کالم الفضل ۳- ۱ ستمبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۳ کالم ۲ - ۳ بدر ۱۳ مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم الحکم ۱۲۴ مئی ۱۹۰۳ء کالم -• نمبر ۲ الفضل ۲۶/ اگست ۱۹۱۵ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳ ضمیمه بر امین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۹۵ طبع اول ۲۱- حضرت اقدس کی ان تشریحات کے باوجود علماء وقت کی طرف سے حضور کے فوٹو کھچوانے پر بہت شور مخالفت اٹھا نگر بالا خرا نہیں نہ صرف قولی لحاظ سے بلکہ عملی لحاظ سے بھی حضور کے مسلک دربارہ تصویر سے اصولاً اتفاق کرنا پڑا.-1- چنانچہ 1919ء میں سید سلیمان صاحب ندوی نے رسالہ "معارف میں ایک مضبوط مضمون مجسمہ اور تصویر کے متعلق اسلام کا شرعی حکم لکھا جس میں بتایا کہ موجودہ دنیا کے اسلام کے تمام روشن خیال علماء کی (بشر طیکہ روشن خیالی منصب افتاء کے خلاف نہ ہو) رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ فوٹو گرافی مصوری نہیں ہے اور نہ فوٹو پر تصویر کا اطلاق ہو سکتا ہے.یہی سبب ہے کہ مصرو مراکش و ایران و قسطنطنیہ کے تمام اکابر ارباب تمام ہم کاغذی پیراہنوں میں ہندوستان میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں.نو نو گرانی در حقیقت عکاسی ہے.جس طرح آئینہ پانی اور دیگر شفاف چیزوں پر صورت کا عکس اتر آتا ہے اور اس کو کوئی گناہ نہیں سمجھتا ای طرح فوٹو کے شیشہ پر مقابل صورت کا عکس اتر آتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ آئینہ وغیرہ کا عکس پاکدار اور قائم نہیں رہتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگا کر قائم کر لیا جاتا ہے.ورنہ فوٹوگرافر مصور کی طرح اعضاء کی تخلیق و تکوین نہیں کرتا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فوٹو عبادت کے کام میں نہیں آتے." ( معارف اکتوبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۷۴) 11- حال کے ایک مشہور عالم کا فتویٰ فوٹو کے بارے میں یہ ہے کہ ”جہار، تصویر لینے کا کوئی حقیقی تمدنی فائدہ ہو یا جب کہ تصویر کسی بڑی تمدنی مصلحت کے لئے ناگریز ہو تو صرف اس غرض کو پورا کرنے کی حد تک یہ فضل جائز ہو گا مثلاً پاسپورٹ پولیس کا جرموں کی شناخت کے لئے تصویریں محفوظ کرنا ڈاکٹروں کا علاج کے لئے یا فن طب کی تعلیم کے لئے مریضوں کی تصویر میں لینا اور جنگی اغراض کے لئے فوٹو گرافی کا استعمال یہ اور اسی نوعیت کے دوسرے استعمالات حکم عام سے مستقلی قرار پائیں گے بشرطیکہ وہ فرض جس کے لئے اس استثناء سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو خود حال ہو." " اصول فقہ کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ الضرورات تبيح المحظورات یعنی حقیقی ضروریات کے لئے وہ چیزیں جائز ہو جاتی ہیں جو بجائے خود نا جائز ہوں." رسائل و مسائل حصہ اول صفحه ۱۵۴-۱۵۵- از سید ابو الاعلی صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی- ناشر اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ ۱۳- ای شاه عالم مارکیٹ لاہور جنوری ۱۹۹۳ء) iii.غلام احمد صاحب پرویز مدیر طلوع اسلام " لکھتے ہیں.جہاں تک تصویر کشی کا تعلق ہے قرآن میں بصراحت مذکور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بڑے بڑے نادرہ کا رضاعوں سے تماثیل تیار کرایا کرتے تھے اور تماثیل کے اندر تصاویر اور مجتمے دونوں آجاتے ہیں.ظاہر ہے کہ جس امر کو قرآن کریم ایک نبی کا عمل کہہ کر اس کا ذکر کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں کہتا تو وہ عمل کبھی نا جائز نہیں ہو سکتا." (رسالہ طلوع اسلام کراچی ۲۳ جولائی ۱۹۵۵ء) v مولوی سید محمد جعفر شاہ صاحب پھلواری لکھتے ہیں." تصویر خواہ انسان کی ہو یا درخت اور پہاڑ کی.مجسمہ ہو یا منقوشہ ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں.فیصلہ اس مقصد سے ہو گا جو تصویر کشی اور تصویر سازی سے قائم کیا جائے.اگر پوجا کار جان ہو تو گائے اور پیپل اور گنگا کی تصویر بھی ناجائز ہے اور اگر یہ نہ ہو تو تصویر محض ایک آرٹ ہے خواہ وہ انسان ہی کی کیوں نہ ہو.اسی طرح اخلاق سوزی یا کوئی اور گرا ہوا مقصد پیش نظر ہو تو خواہ اسلحہ خانہ کی تصویر ہونا جائز ہوگی اور مقصد بلند ہو تو سینہ زن کی عکاسی بھی روا ہو گی.(رسالہ چٹان اہورا اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۸ کالم نمبر).مولانا ابو الکلام صاحب آزاد نے لکھا." تصویر و تمائیل کی ممانعت کو بھی اسی سلسلہ میں لانا چاہیے جس سلسلے میں تمام ایسی چیزوں کو روک دیا گیا ہے جو کو خود کوئی برائی نہیں رکھتیں لیکن برائیوں کا وسیلہ و مقدمہ ہیں.جس طرح عورتوں کو زیارت قبور سے روکا اور جس طرح مداحوں کی نسبت وعید آئی ٹھیک اسی طرح تصویر سازی کو بھی ممنوع قرار دیا فی نفسہ تصویر بنانے میں

Page 85

تاریخ احمدیت.جلد ۲ Ча حقیقة المهدی" کی تصنیف و اشاعت کوئی معضرت نہیں ہے.دراصل علت نہی شرک و اصنام پرستی تھی.اگر یہ علمت باقی نہ رہے تو کیوں تصویر ممنوع ہو.؟" ار ساله چشمین سالگرہ نمبر ۱۹۹۶ء ( صفحه ۱۵-۱۶) ۰۳۲ الحکم ۱۰/ اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۹ کالم نمبر ۳ ۲۳ تمجید الا زبان مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۴۱-۴۶ الحکم ۳۱/ جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳۲ ۲۵ تریاق القلوب طبع اول صفحہ ۲۲ ۲۳ تریاق القلوب طبع اول صفحه ۱۳ ۲۷ تریاق القلوب صفحه ۲۰ ۲۸ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حقیقتہ النبوۃ طبع اول صفحه ۲۳-۳۱ از حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله تعالی ۲۹ تبلیغ رسالت جلد هشتم صفحه ۶۰ ۳۰.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دوم طبع دوم صفحہ ۴۱ ۳۱- الحکم ۱۳۱ اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۵ کالم را ۳۲- کتاب صحیح ہندوستان صفحه ۱۳ ۱۰۵ ۳۳ ولادت ۷ ۱۸۴ ء وفات ۲ ستمبر ۱۹۴۲ء ۳۴.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب لکھتے ہیں کہ اس اطلاع سے حضرت اقدس اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا اللہ تعالی گواہ اور علیم ہے کہ اگر مجھے کوئی کروڑوں روپے لادیتا تو میں اتنا خوش نہ ہو تا را حکم ۱۰ جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ کالم نمیر) ۳۵ اشتهار ۴ اکتوبر ۱۶۱۸۹۹ تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۳-۷۲) تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۴ حاشیہ آپ اس وقت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ہاں مالیر کوٹلہ میں بطور اتالیق مقیم تھے.۳۸ - الحکم ۷ ادارج ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ کالم ۴ ۳۹ تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۶ صاحب کے ہالہ تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحہ ۷۴ (حاشیہ) اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۴۵۷ میں لکھا ہے کہ مرزا خدابخش صاحب کے اخراجات سفر برداشت کرنے کی پیشکش کرنے والے باہمت مخلص سے مراد حضرت نواب محمد علی خاں صاحب تھے یہ صحیح نہیں کیونکہ ۱۱۴ اکتوبر کے اشتہار کے حاشیہ میں حضرت نے اس کی تعین خود فرما دی ہے کہ یہ حضرت مولوی نور الدین صاحب ہیں.ال اصحاب احمد جلد ۲ صفحه ۴۵۷ نام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منشی عبد العزیز صاحب او جلوی ، میاں جمال الدین صاحب، میاب امام الدین صاحب اور میاں خیر الدین صاحب کے چندہ کا ذکر کرتے ہوئے " اشتہار جلسہ الوداع " مشموله تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۲) میں تعریفی کلمات ارشاد فرمائے چنانچہ لکھا کہ ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں.گویا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں.اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی." ۴۳ تبلیغ رسالت جلد ۸ صفحه ۷۷ ذکر حبیب صفحہ ۵۹ حقیقته النبوة صفحه ۲-۲۵ طبع دوم از حضرت خلیفہ المحی الثانی ایده الله تعالی ۴۵.اس کا ذکر آگے آئے گا الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۴.( مفصل ۱۹۰۱ء کے حالات میں) ۴۷- ۱۳۵۱ھ بمطابق ۳۶-۱۸۳۵ء بمقام یاد گیر پیدا ہوئے ۱۸۹۹ء میں قادیان جا کر حضور اقدس کے دست مبارک پر بیعت کی.قبول احمدیت کے بعد ان میں ایک خاص روحانی انقلاب پیدا ہو گیا پہلے نماز تک کی عادت نہ تھی اب تہجد گزار بن گئے اور الہامات و

Page 86

نهریت - جلد ۲ ۶۹ حقیقته المهدی " کی تصنیف و اشاعت کشوف سے نوازے گئے.بیعت کے نتیجہ میں آپ کے مال میں بھی غیر معمولی برکت پیدا ہو گئی.جس کثرت سے آپ کو رزق عطا ہوا اسی کثرت سے آپ نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا.بہت سے احمدی بچوں کو اپنے خرچ پر قادیان سے تعلیم دلوائی.علاوہ ازیں یاد گیر میں بچوں اور بچیوں کے لئے مدرسے جاری کئے.احمد یہ لائبریری قائم کی.احمد یہ مسجد اور احمد یہ ہال تعمیر کرائے.کافی رقم " تحریک تراجم القرآن " میں دی.غرض کہ عمر بھر سلسلہ کی بڑی بڑی خدمات سرانجام دیں.۱۹۴۵ء میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا.حج کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب ایک مکان میں مقیم تھے کہ ۷ / دسمبر ۱۹۴۵ء کو ایک سو دس سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا اور جنت البقیع میں مزار مبارک حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے عقب میں سپرد خاک ہوئے ( تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو " حیات حسن " از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اصحاب احمد جلد اول صفحه ۲۰۷.۲۶۱ از ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے ۱۸۸۷۴۸ء میں بمقام جو ڑہ کلاں ( تحصیل قصور ضلع لاہور) میں پیدا ہوئے.۱۸۹۹ ء میں اپنے والد کی معیت میں قادیان تشریف لائے اور حضرت اللہ س کی بیعت کی.حضرت اقدس نے ۱۹۰۷ء میں تحریک و قف زندگی کا آغاز فرمایا تو چوہدری صاحب نے اس پر لیک کہتے ہوئے اپنی درخواست حضور کی خدمت میں پیش کردنی جس پر حضور نے اپنے قلم سے منظور کا لفظ لکھ کر آپ کا وقف قبول فرمالیا.اس کے بعد ہمہ تن دینی خدمت میں مصروف ہو گئے.۱۹۱۴ء میں انگلستان کے پہلے احمد یہ مشن کی بنیاد رکھی.۱۹۲۰ء میں مسجد فضل لنڈن کے لئے پٹی ساؤتھ فلیڈ زمیں زمین خریدی ۱۹۲۲ء میں علاقہ ملکانہ میں "امیر المجاہدین " مقرر ہوئے اور تحریک ارتداد کی روک تھام میں بڑے بڑے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.بعد ازاں صد را انجمن احمد یہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے ۱۹۵۴ء میں ریٹائرڈ ہوئے مگر دوبارہ ناظر اصلاح وارشاد کے فرائض آپ کے سپرد ہوئے جنہیں ایک بہادر سپاہی کی طرح سر انجام دیتے ہوئے ۲۸ / فروری ۱۹۷۰ء کو انتقال فرمایا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان کی وفات پر کا رلکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے جب میں نے شمعید الا زبان جاری کیا تو جن لوگوں نے ابتداء میں میری مدد کی ان میں یہ بھی شامل تھے.ملکانہ تحریک ساری انہوں نے چلائی تھی.(الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ ۱) ولادت یکم جنوری ۱۸۸۷ ء وفات ۱۳ اپریل ۱۹۷۷ء.ڈاکٹر صاحب موصوف کے بیان کے مطابق وہ ۱۸۹۹ء میں حضرت مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ سے منسلک ہوئے جو حضور اقدس کی طرف سے بیعت لینے کے مجاز تھے الفضل ۱۷/۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۳ کالم ۳).بعد ازاں آپ نے تحریری بیعت بھی ۵/ جون ۱۹۰۳ء کو کی (الحکم ۱۷/ جون ۱۹۰۲) آپ نے حضرت اقدس کی پہلی مرتبہ زیارت اگست ۱۹۰۵ ء میں کی (بدر ۱۷/ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ سے کالم ہو).ڈاکٹر صاحب ۱۹۱۹ء سے ۱۹۵۴ء تک "نور ہسپتال ( قادیان دربوہ) میں طبی خدمات پر فائز رہے اور آپ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ذاتی معالج ہونے اور لمبے عرصہ تک فیض صحبت اٹھانے کا بھی فخر حاصل رہا.تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۹/ تمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ دا حکم ۳۱ جنوری ۱۹۳۸ ء د سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۶۰ - ۱۱ اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۷۷)

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد ۲ جدی بھائیوں کی طرف سے اندار کا کا مرہ اور مقدمہ دیوار ماموریت کا انیسواں سال جدی بھائیوں کی طرف سے ”الدار" کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار (*1900) بیسوی صدی کا آغاز ایک انتہائی درد انگیز اور رنج دہ واقعہ سے ہوا جس نے قریبا پونے دو سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو نہایت درجہ پریشانی اور بھاری مصیبت میں مبتلا کئے رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ہمیشہ ہی اسلامی رواداری مردت اور احسان کا سلوک کیا لیکن وہ فتنہ اٹھانے اور مظلوم احمدی آبادی کو اذیت پہنچانے میں خاص لذت محسوس کرتے تھے کوئی احمدی قریبی ڈھاب سے مٹی لینے جاتا تو وہ کرالیں اور ٹوکریاں تک چھین لیتے.ان کے ذوق ستم رانی کی حدید تھی کہ بعض اوقات اگر کوئی احمدی کھیت میں رفع حاجت کے لئے چلا جاتا اور وہ دیکھ پاتے تو اسے مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنا پا خانہ اٹھائے اور اگر کوئی نالہ و فریاد کرتا تو نخش اور غلیظ گالیاں دی جاتیں بلکہ زدو کوب تک نوبت پہنچتی.کئی احمدی مهاجر ان مظالم کا تختہ مشق بنے.ایک دفعہ حضرت اقدس کسی جگہ عمارت بنانا چاہتے تھے کہ یہ بلوہ کر کے آگئے اور مجبور اعمارت دو دفعہ ملتوی کرنا پڑی حالانکہ اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا.حضور کے گھر کے سامنے جہاں مہمانوں کے یکے ٹھرتے تھے وہاں کھڑے ہو کر مزاحمت کرنا اور گالیاں دیتا ان کا عام شیوہ تھا.کوئی اور ہوتا تو ان کی ایذا رسانیوں کا منہ توڑ جواب دیتا لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کا تاکیدی حکم تھا کہ صبر کرو.چنانچہ آپ کے خدام ہمیشہ انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنتے اور صبر کا قابل رشک نمونہ دکھاتے آرہے تھے.ان مظلوموں پر عرصہ حیات پہلے ہی تنگ تھا کہ ۵/ جنوری ۱۹۰۰ء کو مرزا

Page 88

تاریخ احمد حت - جلد ۲ جدی بھائیوں کی سے اندار کا محاصرو اور متحد مددیوار امام دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خدام کو تکلیف دینے کے لئے یہ انتقامی صورت نکالی که مهمان خانہ کو مسجد مبارک سے ملانے والی شارع عام بند کر کے اینٹوں سے دیوار کھینچ دی D جس سے احمدی آبادی مسجد سے براہ راست منقطع ہو گئی اور وہ اپنے آقا کی ملاقات اور آپ کے پاک کلمات سننے کے لئے قصبہ کا ایک دوسرا لمبا چکر دار اور ناہموار اور خراب رستہ اختیار نے پر مجبور ہوئے جو سلسلہ کے اشد معاندین کے گھروں کے سامنے سے گزرتا تھا.آنے والے مهمان قبل از میں دونوں وقت آپ ہی کے ساتھ کھانا کھاتے اور نمازوں میں باقاعدہ حاضر ہو سکتے تھے مگر اب بالخصوص صبح و عشاء کے وقت ضعیف اور کمزور صحت افراد کا مسجد میں پہنچنا ظالموں نے مشکل بنا دیا بلکہ خود حضرت اقدس کے باہر جانے کا رستہ بھی مسدود ہو گیا کیونکہ حضور اندرون خانہ سے گزرنا پسند نہیں فرماتے تھے.اگر یہاں سے گزر کر بھی مسجد اقصیٰ میں جانے کا قصد کرتے تو مکان کی دوسری منزل پر چڑھنا پڑتا.پھر دوسری طرف سے اتر کر جاسکتے ہے.حضرت اقدس اپنی کتابوں کے پروف اور کاپیاں بغرض احتیاط خود ہی پڑھتے تھے.پریس کے کارکنوں کو دن میں کئی بار حضور کی خدمت میں آنا پڑتا تھا مگر اب دیوار نے بڑی مشکل پیدا کر دی.ایک بڑی دقت یہ پیش آگئی کہ مرزا امام دین کے کنوئیں یا حضور کے مکان میں واقع کنوئیں سے مسجد مبارک تک سقہ کے ذریعہ سے پانی پہنچانے کی کوئی صورت نہ رہی.غر منکہ حضرت اقدس اور حضور کی جماعت پر زمین اپنی فراخی کے باوجود تنگ ہو گئی.حضرت اقدس کو دیوار کے کھینچنے کی جب اطلاع ہوئی تو حضور نے چوہدری حاکم علی صاحب اور بعض دوسرے خدام کو مرزا امام الدین صاحب کے پاس بھجوایا کہ بڑی نرمی سے سمجھا ئیں کہ یہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہو گی.اور یہ بھی پیشکش کی کہ اگر چاہیں تو میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بیشک قبضہ کر لیں لیکن مرزا امام دین صاحب سنتے ہی آگ بگولا ہو کر کہنے لگے کہ وہ (یعنی حضرت اقدس) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں.پھر طنزا کہا کہ جب سے وحی آنی شروع ہوئی ہے معلوم نہیں کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ حاکم ضلع کی خدمت میں وفد جب معالمه نمایت سنگین صورت اختیار کر گیا تو حضور نے احباب کے مشورہ سے یہ تجویز فرمائی کہ ضلع کے حاکم اعلیٰ کے پاس ایک وفد بھیج کر اپنی مشکلات کے ازالہ کی کوشش کی جائے چنانچہ جماعت کے معززین کی ایک فہرست مرتب کی گئی جس میں زمیندار ، تجار اور ملازمت پیشہ اصحاب شامل تھے.اتفاقاً ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈی.ایس پی کا دورہ قادیان سے متصل ہر چو دال میں مقرر ہو گیا.حضور کو علم ہوا تو -

Page 89

تاریخ احمدیت.جلد ۲ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار حضور نے فیصلہ کیا کہ وفد بھی اسی مقام پر پیش ہو چنانچہ وفد کے نامزد اصحاب کو اطلاعات بھیجوا دی گئیں اور وہ تاریخ مقررہ سے پہلے ہی قادیان پہنچ گئے.حضور نے مناسب ہدایات دیں اور جماعت کا وفد (جو قریباً پچاس نفوس پر مشتمل تھا) حافظ حاجی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی قیادت میں ہر چو وال کے بنگلہ پر پہنچا.قافلہ کے ترجمان حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر اخبار الحکم تھے جن کو اس زمانہ میں عموماً ایسی خدمات سپرد ہوتی تھیں.حضرت شیخ صاحب ، حکیم فضل الدین صاحب، چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار چک پنیار ضلع سرگودھا اور بعض اور دوست آگے تھے.ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچ کر حضرت شیخ صاحب نے ابھی یہ کہا تھا کہ ہم قادیان سے آئے ہیں اور کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر نے بات تک سننا گوارا نہ کیا اور نہایت غصہ سے کہا کہ " تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائیگا کہ کس طرح ایسی جماعت بنایا کرتے ہیں ".نیز سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے کہا کہ ”ان لوگوں کا بندوبست کرنا چاہیے " اور بڑے جوش سے کہا " چلے جاؤ ورنہ گرفتار کر لئے جاؤ گے".حضرت شیخ صاحب نے کہا.آپ ہماری عرض تو سن لیں.اس پر وہ اور غضب ناک ہو گیا اور وفد واپس آگیا.اولاً ہجرت ثانیا مقدمہ کرنے کا فیصلہ ضلع کے سب سے بڑے حاکم کے اس ناروا سلوک سے صورت حال اور زیادہ تشویشناک ہو گئی جس پر حضور نے اپنے خدام سے مشورہ کیا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کام کرتا ہے یہاں نہیں تو کہیں اور سی اور ہجرت بھی انبیاء کی سنت ہے.پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں.اس پر سب سے قبل حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں وہاں میرے مکانات حاضر ہیں.اور کسی طرح کی تکلیف نہیں.ان کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے سیالکوٹ، شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور چوہدری حاکم علی صاحب نے اپنے گاؤں چک پنیار تشریف لے چلنے کی مخلصانہ دعوت دی لیکن ۱۸۸۷ء کی طرح اب کی دفعہ بھی ہجرت کی تجویز درمیان ہی میں رہ گئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ عدالت دیوانی میں مقدمہ دائر کیا جائے.عدالت میں مقدمہ چنانچه مشی خدا بخش صاحب (گورداسپور کے ڈسٹرکٹ جج) کی عدالت میں آپ کی طرف سے مقدمہ درج کرایا گیا.حضرت اقدس کی پوری زندگی

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۷۳ جدی بھائیوں کی طرف سے اندار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار میں یہ پہلا اور آخری موقعہ ہے کہ آپ نے مدعی کی حیثیت سے کسی کے خلاف نالش کی ہے.آپ نے ہمیشہ دکھ اور تکلیفیں ہیں مگر کسی کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور قانونی شکنجہ میں لانے کا خیال تک ذہن میں نہیں لائے لیکن یہ معاملہ جماعتی اعتبار سے زندگی اور موت کا معاملہ تھا اور دوسری طرف وکلاء کا یہ مشورہ تھا کہ یہ راستہ چونکہ خاندان کا پرائیویٹ رستہ ہے لہذا آپ کے سوا کسی اور شخص کو قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق نہیں پہنچتا اس لئے مجبوراً آپ کو خلاف معمول یہ آخری اور ناگزیر اقدام کرنا پڑا.اب جو نائش ہوئی تو ایک پرانی مسل کے ملاحظہ سے معلوم ہوا کہ دعوی ہے بنیاد ہے اور اس کا خارج ہونا یقینی ہے کیونکہ جس زمین پر دیوار کھنچی گئی تھی اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مسل کی رو سے ثابت ہو تا تھا کہ مدعی علیہ قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ سے نکل گئی تھی اور اس نے مرزا امام دین صاحب کو اس کا قابض خیال کر کے گورداسپور میں بصیغہ دیوانی نالش کی تھی اور مخالفانہ قبضہ کے ثبوت کی وجہ سے وہ نالش خارج ہو گئی تھی تب سے مرزا امام دین صاحب کا اس پر قبضہ چلا آتا تھا جس سے بالوضاحت ثابت ہو تا تھا کہ اس زمین پر قبضہ مدعی علیہ کا ہے.یہ عقدہ لا نخل دیکھ کر آپ کے مرید خواجہ کمال الدین صاحب نے (جو اس مقدمہ میں آپ کے وکیل تھے ) یہ مشورہ دیا کہ بہتر ہو گا کہ کچھ روپیہ دے کر مصالحت کرلی جائے اور آپ مجبورا اس پر رضامند ہو گئے تھے مگر مرزا امام دین صاحب اپنی مخالفت میں اور زیادہ بڑھ گئے اور فیصلہ کر لیا کہ مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار حضور کے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دیں تا آپ قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نہ نکل سکیں.حضور خود فرماتے ہیں:.یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَ حُبَتْ کا مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی." جناب اللی کی طرف سے الہامات اور فتح کی بشارت ان حالات میں حضور کی توجہ جناب الہی کی طرف ہوئی جس پر حضور پر الہامات کا ایک سلسلہ جاری ہوا جس میں حضور کی کامیابی کی خوشخبری دی گئی تھی.اس وحی الہی کے الفاظ یہ تھے:.الرحى - تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ - إِنَّ فَضْلَ اللهِ لَاتِ وَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَرُدُّ مَا أَتَى قُلْ إلى وَرَتِى إِنَّهُ لَحَقُّ لَا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفِي - وَيَنْزِلُ مَا تَعْجَبُ مِنْهُ وَحَيَّ مِنْ رَبِّ السَّمَوتِ العلى - إِنَّ رَتِي لَا يُضِلُّ وَلَا يَنْسَى فَفْرُ مُّبِيْنَ - وَإِنَّمَا يُؤْ خِرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى أَنْتَ مَعِدَ وَ وه

Page 91

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۷۴ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار أنَا مَعَكَ - قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرَ ، فِي غَيْهِ يَتَعَطَى إِنَّهُ مَعَكَ وَإِنَّهُ يَعْلَمُ السّرَ وَ مَا اَخْفى - لا اله الا هُوَ يَعْلَمُ كُلِّ شَيْي وَيَرَى إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسْنَى إِنَّا اَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلى قَوْمِهِ فَاَعْرَضُوا وَقَالُوا كَذَّابٌ اَشِرَ - وَجَعَلُوْا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَ يَسِيلُوْنَ الَيْهِ كَمَاء مُنْهَمِرٍ إِنَّ حِتَّى قَرِيبٌ إِنَّهُ قَرِيبٌ مُّسْتَتِر - - یعنی چکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے.مطلب یہ ہے کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جو صورت مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضر اور نقصان رساں ہے قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے.اور جیسا کہ چکی کو گردش دینے سے جو منہ کے سامنے حصہ چکی کا ہوتا ہے وہ پیچھے کو چلا جاتا ہے.اور جو پیچھے حصہ ہوتا ہے وہ منہ کے سامنے آجاتا ہے.اسی طرح جو مخفی اور در پر دہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ نا قابل التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو رد کر سکے یعنی آسمان پر یہ فیصلہ شدہ امر ہے کہ یہ صورت موجودہ مقدمہ کی جس سے پاس اور نامیدی ٹپکتی ہے ایک دفعہ اٹھا دی جائے گی اور ایک اور صورت ظاہر ہو جائے گی جو ہماری کامیابی کے لئے مفید ہے جس کا ہنوز کسی کو علم نہیں.اور پھر فرمایا کہ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے.اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہو گی.مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے.پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز اور تکبر میں چھوڑ دے.پھر فرمایا کہ وہ قادر تیرے ساتھ ہے.اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں وہ بھی اس کو معلوم ہیں.اور پھر فرمایا کہ وہی خدا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے کہ گویادہ اس کا معبود ہے.ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے.وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس سے

Page 92

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۷۵ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیو ڈرتے ہیں.اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں.سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجالاتے ہیں اور کمال خوبی سے اس کو انجام دیتے ہیں.سو انہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور ان پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا.پس قوم اس سے روگردان ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے.دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے.یعنی ایسے ایسے جیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے.اور انہوں نے عدالتوں میں اس پر گواہیاں دیں تاکہ اس کو گرفتار کروا دیں.اور وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے.اس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.الہامات کے وقت حضور کی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ الہامات کے متعلق لکھتے ہیں.”یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوئے مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصر شاہ صاحب اوورسیر متعین بارہ مولہ کشمیر میرے پاؤں دبار ہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ.لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنہ اللہ ہے زبان پر نازل ہو تا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دو سرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہو تا تھا یہاں تک کہ کل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تقسیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے.اور یہ تقسیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہو گی." سفر گوداسپور یہ تو خدائی الہامات تھے مگر بظاہر ان کا پورا ہو نا ممکن نظر نہیں آتا تھا.بہر حال اس نا امیدی کے عالم میں اور بظاہر سراسر مخالف حالات میں مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی پھر اسی رنگ سے کم و بیش ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا.بالاخر ۱۵ / جولائی ۱۹۰۱ء کو فریق ثانی کی درخواست پر حضور کو گورداسپور کا سفر اختیار کرنا پڑا.اس سفر کی تفصیل میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں.

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 24 جدی بھائیوں کی طرف سے اندار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار ۱۵ جولائی کی صبح کو حضرت اقدس نے دار الامان سے روانہ ہونے کا حکم دیا.چنانچہ حضور کے لئے پالکی کی سواری تیار کی گئی اور احباب کے لئے یکے کئے گئے.دار الامان سے حضرت اقدس مع زمرہ خدام قریبا کے بجے روانہ ہوئے اور کوئی پاؤ میل تک پیدل تشریف لے گئے حضور کی روانگی کا یہ نظارہ بھی قابل دید تھا.ایک گروہ کثیر خدام کا آپ کو حلقہ میں لئے ہوئے جارہا تھا جس سے اس محبت اور عشق اور ارادت کا پتہ ملتا تھا جو آپ کے مریدوں کو آپ سے ہے چونکہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کو کچھ دیر لگی اس لئے حضور آپ کے انتظار کے لئے ٹھہر گئے.آخر مولوی صاحب کے پہنچنے پر احباب یکوں میں اور حضور پالکی میں سوار ہو کر رخصت ہوئے گورداسپور کو جاتے ہوئے راستہ میں ایک بہت بڑی نہر آتی ہے اور ایک مقام پر وہ نہر دو بڑے شعبوں میں منقسم ہو کر بہتی ہے....اس مقام کا نام ہم نے اپنے اس سفر نامہ میں مجمع البحرین رکھا ہے.جو احباب یکوں پر سوار ہو گئے تھے وہ وہاں پہلے پہنچے.اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام کے انتظار میں گھر گئے چنانچہ کوئی آدھ گھنٹہ کے انتظار کے بعد حضرت اقدس کی سواری آپہنچی.حضرت اقدس نے کھانا کھانے کا حکم دیا دستر خوان بچھایا گیا.احباب نے کھانا کھایا.کھانا کھا چکنے کے بعد پھر احباب اور حضور اقدس روانہ ہوئے...اور کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب گورداسپور جاپہنچے.اگر چہ حضرت اقدس کی دارالامان سے روانگی محض پر ائیوٹ رنگ میں تھی اور احباب کے طبقہ میں کوئی اطلاع اور خبر نہ تھی مگر کسی نہ کسی طرح جہاں جہاں احباب کو خبر پہنچی وہاں سے حضرت اقدس کے خدام مشتاق زیارت دوڑے آئے.چنانچہ کپور تھلہ امرتسر کے احباب جمع ہو گئے اور وہ دیوانہ دار حضرت اقدس کے استقبال کے لئے کوئی دو میل تک دو دفعہ آگے گئے اور آئے اور پھر گئے.کپور تھلہ کے احباب کو چونکہ ۱۵ جولائی تاریخ مقدمہ کی غلط اطلاع ملی تھی اس لئے ان کو بصد حسرت و افسوس ۱۵ / ہی کی شام کو واپس ہونا پڑا گورداسپور حضرت اقدس نے مولانا محمد علی صاحب کی تجویز کے موافق ان کے خسر منشی نبی بخش صاحب رئیس گورداسپور کے عالی شان مکان میں قیام فرمایا.مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کسی کے یہ کہنے پر کہ فریق مخالف نے بہت بے ہودہ جرح کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے آپ نے فرمایا میں اس بات کی کچھ پروا نہیں کرتا.مومن کا ہاتھ اوپر ہی پڑتا ہے.یدالله فوق ایدیھم کافروں کی تدبیریں ہمیشہ الٹی ہو کر ان پر ہی پڑا کرتی ہیں.مکر و او مگر الله والله خير الماكرين.میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ساتھ ذاتی عداوت اور بغض ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ملل باطلہ کے رد کرنے کے لئے جس قدر جوش مجھے دیا گیا ہے میرا قلب فتوی دیتا ہے کہ اس تردید و ابطال ملل باطلہ کے لئے اگر تمام روئے زمین کے مسلمان ترازو

Page 94

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا کا صرہ اور مقدمہ ویع ار کے ایک پلہ میں رکھے جاویں اور میں اکیلا ایک طرف تو میرا پلہ ہی وزن دار ہو گا.آریہ عیسائی اور دوسری باطل ملتوں کے ابطال کے لئے جب میرا جوش اس قدر ہے پھر اگر ان لوگوں کو میرے ساتھ بغض نہ ہو تو اور کس کے ساتھ ہو.ان کا بغض اسی قسم کا ہے جیسے جانوروں کا ہوتا ہے.تین دن ہوئے مجھے الہام ہو ا تھا انی مع الافواج اتیک بغتةً.میں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدمات میں ہوا ہے.افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے.کیونکہ خدا تعالی کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتا ہے.پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں.جب تک مقابل کی طرف سے جوش انتقام کی حد تک نہ ہو جاوے خدا تعالٰی کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی اس کے بعد مقدمہ کے متعلق کچھ اور باتیں ہوتی رہیں لیکن بیچ میں کچھ صیحتیں اور تقویٰ کی ترغیب اور اس کے خلاف کی ترہیب بھی ہوتی رہتی تھی.شام کو حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے اور وہ رات اسی طرح پر مقدمہ کے متعلق بعض امور دریافت طلب اور بحث طلب میں مع الخیر گزر گئی.رات کو خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈ ر پشاور سے تشریف لے آئے.۱۶ جولائی ۱۹۰۱ ء کو دس بجے کے بعد حضرت اقدس کو شہادت میں پیش ہو نا تھا.فجر کی نماز کے بعد کچھ دن چڑھے پھر احباب کا مجمع ہو گیا اور مقدمہ ہی کے متعلق ذکر شروع ہوا." جس روز رات کو گورداسپور پہنچے تھے حضرت اقدس کی طبیعت کسی قدر ناساز تھی.بایں ہمہ حضرت اقدس نے تمام احباب کو جو ساتھ تھے آرام کرنے اور سو جانے کی ہدایت فرمائی تھی.چنانچہ تعمیل ارشاد کے لئے متفرق مقامات پر جا کر احباب سو رہے.برادرم عبد العزیز صاحب (او جلوی.ناقل) اور دو تین اور دوست اس مکان میں رہے جہاں حضرت اقدس آرام کرتے تھے.ساری رات حضرت اقدس نا سازی طبیعت اور شدت حرارت کی وجہ سے سو نہ سکے.چونکہ بار بار رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی.اس لئے بار بار...اٹھتے تھے.حضرت اقدس ارشاد فرماتے تھے کہ میں حیران ہوں منشی عبد العزیز صاحب ساری رات یا تو سوئے ہی نہیں اور یا اس قدر ہشیاری سے پڑے رہے کہ ادھر میں سر اٹھاتا تھا ادھر منشی صاحب فورا اٹھ کر اور لوٹا لے کر حاضر ہو جاتے تھے.گویا ساری رات یه بنده خدا جاگتا ہی رہا اور ایسا ہی دوسری رات بھی...پھر فرمایا کہ در حقیقت آداب مرشد اور خدمت گزاری ایسی شے ہے جو مرید و مرشد میں ایک گہرا رابطہ پیدا کر کے وصول الی اللہ اور حصول مرام کا نتیجہ پیدا کرتی ہے.اس خلوص اور اخلاص کو جو منشی صاحب کا ہے ہماری جماعت کے ہر فرد کو حاصل کرنا چاہیے.جب دس بجے تو حضرت اقدس نے کچھری کو چلنے کا حکم دیا.چنانچہ ارشاد عالی

Page 95

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ جدی بھائیوں کی ر مقدمه دیوار سنتے ہی خدام اٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح پر کوئی چالیس آدمیوں کے حلقہ میں خدا کا برگزیدہ ادائے شہادت کے لئے چلا.راستہ میں لوگ دوڑ دوڑ کر زیارت کرتے تھے.آخر ضلع کی کچھری آگئی اور کچھری کے سامنے جو پختہ تالاب ہے اس کے جنوب اور شرقی گوشہ پر دری بچھائی گئی اور حضرت اقدس تشریف فرما ہوئے.حضور کا تشریف رکھنا ہی تھا کہ ساری کھری امنڈ آئی اور اس دری کے گرد ایک دیوار بن گئی.زائرین کا ہجوم بڑھتا جاتا تھا چونکہ تیسری یا چوتھی دفعہ تھی جو حضور گورد سپور کی کچری میں رونق بخش ہوئے پہلے اور طرف بیٹھا کرتے تھے.اس طرف بیٹھنے کے لئے یہ پہلی مرتبہ تھی.آپ نے فرمایا یہ جگہ باقی رہ گئی تھی.اس عرصہ میں ایک شخص معزز حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے حضرت سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں کرتے رہے اور اپنے لڑکے کے لئے جو بیمار تھا دعا کے لئے عرض کی.آپ نے دعا کا وعدہ فرمایا.پھر اس نے عرض کیا کہ جناب ہمارے لئے ہی یہاں تشریف لائے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہمارے واسطے ہی آپ کی تشریف آوری کی سبیل پیدا کی ہے کہ ہم مشتاقوں کو بھی آپ کی زیارت سے سعادت مندو بہرہ ور فرمائے.حضرت نے جو ابا ارشاد فرمایا.ہاں ایسا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو قادیان میں کسی وجہ سے نہیں آسکتے اور اپنے اند را خلاص رکھتے ہیں ہماری ملاقات سے محروم نہ رکھے..فرمایا لکھا ہے کہ دو بزرگ ایک حضرت سید عبد القادر جیلانی کے مرشد حضرت ابو سعید اور ایک بزرگ ایک مقام میں جمع ہوئے اور گفتگو یہ ہوئی کہ حضرت اقدس د اکرم رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے مدینہ میں ہجرت کراکر کیوں خدا تعالیٰ لے گیا ؟ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک نے فرمایا کہ مصلحت و حکمت الہی اس بات کی مقتضی تھی کہ جو مراتب اور علو درجات رسول اللہ اللہ کو عطا کرنے تھے وہ اس ہجرت اور سفرا در مصائب و تکالیف شدیده کے برداشت کرنے سے آپ کو عنایت فرمائے.دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ آتا ہے کہ مدینہ میں بہت سی ایسی روحیں پر جوش اور با اخلاص اور خدا تعالیٰ کی طرف دوڑنے والی تھیں جو ایک ذریعہ عظیمہ اور سبب کبری چاہتی تھیں اور وہ باعث کسی سبب یا بیدست و پا ہونے کے کہیں جا نہیں سکتی تھیں سو ان کی تکمیل کے لئے خداوند جل شانہ نے رسول اللہ اللہ کو مدینہ میں پہنچایا.غرض ان بزرگوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق یہ دو باتیں بیان کیں اور دونوں ہی باتیں سچی تھیں.سوخدا تعالی جو ہمیں گورداسپور لایا اور وہ اپنی مرضی اور حکمت کی رو سے لایا اور نہ ہم خود اپنی مرضی اور خواہش سے آئے خدا ہی جانے اس میں کیا اس کی علمیں اور مصلحتیں ہیں اور ہمارے ذریعہ یا ہمارے وجود سے حق کی کیا کیا تبلیغ اور سچائی کی کیا مجتیں پوری ہوں گی اور خدا کے علم میں اوپر کیا کیا باتیں ہیں جو ہمیں معلوم نہیں.خدا تعالیٰ اپنی حکمتوں سے خوب واقف ہے.پھر آپ نے چند نصیحتیں

Page 96

69 جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار کئی پیرایوں میں تقویٰ و طہارت اختیار کرنے اور برائیوں سے بچنے اور صدق اور راستی کے قبول کرنے کی نسبت بیان فرما ئیں.غرض یہاں بیٹھے ہوئے ابھی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مقدمہ پیش ہو گیا.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایل.ایل.بی پلیڈ ر مقدمہ کے لئے اندر پہنچے.اله حضرت اقدس کی شہادت اس کے بعد مردمی علیہ کے دو گواہ پیش ہوئے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گواہی ہوئی جس میں حضور نے مرزا امام الدین صاحب کی رقابت و عداوت کا سبب بیان کرنے کے بعد فرمایا.اس دیوار کے بننے سے مجھے بڑی ذاتی تکلیف ہوئی ہے.ذاتی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ مالی تکلیف ہوئی ہے کہ کنواں بنانا پڑا اور چھا پہ خانہ کا بہت بڑا حرج ہو ا مسافر اور میرے ملاقاتی جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہوتے ہیں وہ ملاقات کے لئے ترستے رہتے ہیں.میں اوپر ہو تا ہوں اور وہ نیچے.میں الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا کہ مجھے اس سے کس قدر درد پہنچتا ہے.آٹھ نو ماہ ہوئے ایک شریف عرب مجھے ملنے آیا اس کو چوٹیں لگیں.کیونکہ جو راستہ چکر دار ہے وہ بہت خراب ہے.پتھریلا ہے برسات میں خصوصاً چلنے کے قابل نہیں ہو تا...اس دیوار (کے) بننے سے پیشتر مهمان دو نو وقت میرے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے اور تعلیمی باتیں سنتے تھے جن کے لئے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.اب اگر او پر آتے ہیں تو بڑی تکلیف سے چکر کھا کر آتے ہیں اور صبح اور عشاء کی نماز میں ضعیف اور کمزور آدمی میرے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے.ان مہمانوں کی غرض جو میرے پاس آتے ہیں دین سیکھنے کی ہوتی ہے لیکن جب اس دیوار کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے ان تمام تکالیف کا صدمہ ہوتا ہے.جو کام میں کرنا چاہتا ہوں اس میں دقت پیدا ہوتی ہے.میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن میں میں ان تکالیف کو بیان کر سکوں.مہمان کہیں ہوتے ہیں اور میں کہیں.وہ اس بات سے محروم رہتے ہیں جس کے لئے آتے ہیں.اور میں اپنا کام نہیں کر سکتا جس کے لئے بھیجا گیا ہوں." حضرت اقدس کے بیان میں وہ زور اور جوش تھا کہ ہم الفاظ میں اس کو ادا نہیں کر سکتے.الفاظ کے ادا سے ایک خاص قسم کا رعب اور ہیبت ٹپکتی تھی....اس انداز کو ہم بیان نہیں کر سکتے اور اس اثر اور جوش کی تصویر نہیں دکھا سکتے جو اس وقت ظاہر ہو رہا تھا....غرض اس طرح پر حضرت اقدس کا بیان ختم ہوا." اور حضرت اقدس علیہ السلام ایک مجمع کثیر کے ساتھ عدالت کے کمرہ سے باہر آئے.آپ اس قدر خوش تھے جس کی کوئی حدود پایاں نہیں....اس کے بعد ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے پڑھی گئی...پھر فرود گاہ پر واپس آئے.شام کو حسب معمول سیر کو تشریف لئے گئے.راستہ میں ڈاکٹر

Page 97

احمدیت.جلد ۲ A* جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار فیض قادر صاحب نے عرض کیا کہ حضور مہدی حسن تحصیل دار اور ان کے چند دوست چاہتے ہیں کہ آپ سے کچھ دریافت کریں.اگر حضور اجازت دیں تو ان کو شام کو لے آئیں.فرمایا.ہاں بے شک ان کو بلا لو.ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں.واپس آکر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھیں اور پھر مہدی حسن صاحب مع صاحب مرزا سر رشتہ دار ڈسٹرکٹ حج اور فیض الرحمن صاحب کلرک خزانہ اور ایک دو آدمیوں کے ساتھ آگئے " ( اس کے بعد حضرت نے اس موقع پر نہایت لطیف پر ایہ میں انہیں تبلیغ فرمائی) دو سمرے دن حضرت اقدس علی الصبح مراجعت فرمائے دارالامان ہوئے اور کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب بخیرت دار الامان پہنچ گئے." ||A ۱۶ جولائی کے بعد مقدمہ ۱۰ / اگست ۱۹۰۱ء پر ملتوی کیا گیا مقدمہ کا فیصلہ اور ہرم دیوار چنانچہ ۱۰ اگست کو مدعی علیہ کے دوسرے گواہ پیش ہوئے.اور وکلاء کی بحث بھی ختم ہو گئی.۱۲ / اگست کو فیصلہ کا دن تھا اس دن مرزا امام دین صاحب اور ان کے ساتھی بہت خوش تھے کہ آج ان کا مقدمہ خارج ہو جائے گا اور وہ بر ملا کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذاء کا موقع ہاتھ آجائے گا اور بظا ہر صورت بھی یہی تھی کیونکہ ڈسٹرکٹ جج حضرت اقدس کا مخالف تھا.اس کے علاوہ آپ کے وکیل محض سماعی شہادتوں سے کام لیتے رہے جو ایک جوڈیشل(Judicial) فیصلہ کے مقابل چنداں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھیں اور بالکل بیچ تھیں.پس اگر ڈسٹرکٹ جج مخالف نہ بھی ہوتا پھر بھی جب گورنمنٹ کے کاغذات اس زمین کا قبضہ مرزا امام دین کے متعلق بتا رہے تھے تو عدالت محض سنی سنائی باتوں کو کیا وقعت دے سکتی تھی.بہر نوع جب فیصلہ کا وقت آیا تو آپ کے بھی مخالف دنگ رہ گئے کہ مقدمہ نے آنا نانا پلٹا کھایا اور ریج نے اپنی مخالفانہ ردش کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے دیوار گرانے اور سفید میدان میں کسی جدید تعمیر نہ کرنے کا روائی حکم دے دیا اور ساتھ ہی مرزا امام دین ( مدعی علیہ) پر اخراجات مقدمہ کے علاوہ ایک سو روپیہ بطور حرجانہ بھی ڈال دیا.یه فوری انقلاب در اصل حضرت اقدس کی صداقت کا ایک خارق عادت نشان تھا کیونکہ ابتداء ہی سے حضور کو الہاما بتایا جا چکا تھا کہ قضاء و قدر کی چکی گردش میں آئے گی اور یکا یک پردہ غیب سے ایسے اسباب پیدا ہوں گے آپ فتحیاب ہوں گے.یہ نشان کسی حیرت انگیز رنگ میں ظاہر ہوا حضور اس کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پرانی مسل کا انڈکس دیکھنا چاہیے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا

Page 98

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ سجد کی بھیانہ رو اور مقدمه دیوار خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام دین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضی یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی اس لئے بلا توقف امام دین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کردی." قادیان میں فیصلہ کی اطلاع ۱۲ اگست ۴ بجے شام کو مقدسہ کی فتحیابی کی خبر قادیان میں پہنچی تو جماعت میں خوشی کی مہرہ ڑ گئی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب، مولوی محمد علی صاحب مرزا خدا بخش صاحب ، حکیم فضل دین صاحب، قاضی ضیاء الدین صاحب، پیر سراج الحق صاحب اور بھائی عبد الرحیم صاحب مسجد مبارک میں بیٹھے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے دوڑتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ دیوار کو دہی بھنگی ڈھا رہا ہے جو اس شر اور فتنہ کے دن سے اسے کھڑا کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشی کا اس دن کوئی ٹھکانہ نہیں تھا.چنانچہ حضور نے فرمایا.گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا جس کی آج عید ہوئی." عدالتی فیصلہ میں مرزا امام دین صاحب پر مقدمہ کا حضور کی طرف سے خرچہ کی معافی خرچہ ڈالا گیا تھا اس لئے حضور کے وکیل نے (حضور کی اطلاع اور مشورہ کے بغیر خرچہ کی ڈگری لے کر اس کا اجراء کروا دیا.حضرت اقدس اس وقت گورداسپور میں فروکش تھے.اور آپ کی عدم موجودگی میں ہی سرکاری آدمی قادیان آیا.مرزا امام دین صاحب تو اس دوران میں فوت ہو چکے تھے اور مرزا نظام دین صاحب ان کے بھائی زندہ تھے مگر ان کی حالت ان مظالم کی پاداش میں اب اس درجہ ابتر ہو چکی تھی کہ وہ مطلوبہ رقم مبلغ ایک سو چوالیس روپیہ پانچ آنہ سات پائی بھی ادا کرنے سے قاصر تھے اور قرقی کے سوا اور کوئی صورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ انہیں یہ رقم معاف کر دی جائے.ادھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روایت کے مطابق) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو عشاء کے وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام یا خواب اطلاع دی کہ یہ بار ان پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے مخالف رشتہ دار بہت تکلیف میں ہیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی.اس وقت آدمی بھیجا جائے جو کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کر دیا ہے.اس کے ساتھ ہی حضور نے معذرت بھی کی کہ " میری لا علمی میں یہ

Page 99

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۸۲ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار تکلیف پہنچی ہے " اور اس کارروائی پر جو آپ کی لاعلمی میں ڈگری کے اجراء کے متعلق کی گئی خفگی کا اظہار فرمایا.حضور نے ۲۱ / اکتوبر ۱۹۰۴ء کو باقاعدہ ایک تحریر بھی عدالت کو بھجوائی کہ میں مرزا نظام الدین صاحب کو مقدمہ دیوار کے خرچہ کی رقم معاف کرتا ہوں جس کی ڈگری کا اجراء میرے مختار حکیم فضل دین صاحب نے کروایا ہے.میرا خرچہ کا کوئی مطالبہ نہیں اس لئے کاغذات داخل دفتر کئے جائیں.عید الفطر اور جلسہ دعا" - مقدمہ دیوار کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد میں دوبارہ ۱۹۰۰ء کے حالات کی طرف آتا ہوں.۲ فروری ۱۹۰۰ء کو عید الفطر تھی جس میں حضور کی تحریک پر قادیان اور اس کے قریبی دیہات کے علاوہ مدراس، کشمیر، شاہجہانپور (یو پی) جھنگ ، ملتان ، پٹیالہ سنور کپور تھلہ مالیر کوٹلہ لدھیانہ شاہ پور، سیالکوٹ ، گجرات، لاہور، امرتسر، بٹالہ اور گورداسپور وغیرہ مقامات سے ایک ہزار سے متجاوز افراد جمع ہو گئے.حضور صبح ۸ بجے اپنی جماعت کے ساتھ اس وسیع میدان میں جو قصبہ قادیان کی غربی جانب واقع اور قدیمی عید گاہ ہے تشریف لے گئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے نماز عید الفطر پڑھائی.نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک نہایت لطیف اور مئوثر خطبہ دیا جس میں سورہ والناس کی تفسیر کرتے ہوئے عجیب و غریب نکات و معارف بیان کئے.ان دنوں چونکہ انگریزی حکومت جنوبی افریقہ کے مقامی باشندوں سے نبرد آزما تھی.اس لئے آپ نے اپنی تقریر میں حکومت کی طرف سے آزادی مذہب کی پالیسی کو سراہتے ہوئے احباب کو اس کی فتح کے لئے دعا کی پر زور تحریک کی بلکہ تقریر کے بعد آپ نے حاضرین سمیت دعا بھی فرمائی a اس مناسبت سے اس تقریب کو " جلسہ دعا" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.زخمیوں کے لئے امداد دعا کے علاوہ حضور نے ۱۰ / فروری ۱۹۰۰ء کو بذریعہ اشتہار جنگ ٹرانسوال کے مجرد حین کی امداد کے لئے چندہ کی تحریک بھی کی جس پر جماعت کے دوستوں کی طرف سے پانچ سو روپیہ کی امدادی رقم جمع ہوئی جو انہی ایام میں حکومت کو بھجوا دی گئی.

Page 100

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۸۳ جدی بھائیوں کی طرف سے اندار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار تحفہ غزنویہ کی تصنیف و اشاعت مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں سخت بد زبانی ، ٹھٹھا اور نہی کی تھی اس اشتہار میں دو رنگ کے حملے کئے گئے تھے.اول بعض گزشتہ نشانوں اور پیشگوئیوں کو جو فی الواقع پوری ہو چکیں یا وہ عنقریب پوری ہونے کو تھیں ان کو پیش کر کے عوام کو یہ دھوکا دینا چاہا کہ گویا وہ پوری نہیں ہو ئیں.دوم حضرت اقدس نے خدا تعالیٰ کے الہام سے بطور اتمام حجت یہ تجویز پیش کر رکھی تھی کہ بیماروں کی شفاء کے ذریعہ سے استجابت دعا کا مقابلہ کیا جائے.مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے اس اشتہار میں اس پر جرح کی کہ بھلا سارے مشائخ و علمائے ہند کیونکر ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں.پھر ان کے اخراجات کا متحمل کون ہو گا.؟ حضرت اقدس نے اس اشتہار کے ان دو نو حملوں کے جواب میں " تحفہ غزنویہ " کے نام سے ایک رسالہ لکھا جو اکتوبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا.اور اس میں ان تمام غلط فہمیوں اور وسوسوں کا ازالہ فرمایا جو یہ حضرات عوام کو حق و صداقت سے منحرف کرنے کے لئے استعمال کر رہے تھے.”خطبه الهامیہ “ کا زبرست علمی نشان ا.اپریل ۱۹۰۰ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی لہذا اس موقع پر سیالکوٹ امرتسر، بٹالہ لاہور ، وزیر آباد جموں ، پشاور ، گجرات ، جہلم، راولپنڈی ، کپور تھلہ لودھیانہ ، پٹیالہ بمبئی لکھنو ، سنور بہت سے مقامات سے مہمان آئے جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی.حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت تک متعدد عربی تصانیف فرما چکے تھے جن کی فصاحت و بلاغت نے عرب و عجم میں دھوم مچارکھی تھی مگر عربی میں تقریر کرنے کی آپ کو آج تک نوبت نہیں آئی تھی لیکن اس دن آپ کو صبح کے وقت بذریعہ الہام تحریک ہوئی کہ " آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی.نیز الہام ہو ا کلام افصحت من لدن رب کریم یعنی کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.21 جناب الہی سے یہ ارشاد پاتے ہی آپ نے اپنے بہت سے خدام کو اس کی اطلاع کر دی.نیز مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی نور الدین صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ عید کے وقت قلم و دوات اور کاغذ لے کر آئیں تا خطبہ قلمبند کر سکیں.آٹھ بجے تک مسجد اقصیٰ قریبا پر ہو چکی تھی.حضرت اقدس کوئی ساڑھے آٹھ بجے تشریف لائے.سوا نو بجے عید کی نماز مسجد اقصی میں پڑھی گئی جو

Page 101

تاریخ احمد بہت جلد ۳ جدی بھائیو از کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی.نماز کے بعد حضور کے لئے مسجد کے پرانے صحن میں جنوبی ڈاٹ کے آگے کرسی رکھ دی گئی.حضور خطبہ کے لئے مسجد کے وسطی دروازہ میں کھڑے ہوئے اور اردو میں ایک لطیف اور پر معارف خطبہ ارشاد فرمایا.اردو خطبہ کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی نور الدین صاحب حضور کے بائیں طرف بیٹھ گئے.حضور نے کھڑے ہو کر " یا عباد الله" کے لفظ سے فی البدیہ عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا.آپ نے ابھی چند فقرے ہی کہے تھے کہ حاضرین پر جن کی تعداد کم و بیش دو سو تھی وجد کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی.محویت کا یہ عالم تھا کہ بیان سے باہر ہے.خطبہ کی تاثیر کا وہ اعجازی رنگ پیدا ہو گیا کہ اگر چہ مجمع میں عربی دان معدودے چند تھے مگر سامعین ہمہ تن گوش تھے.غرض یہ ایک ایسا روح پرور نظارہ تھا کہ تیرہ سو سال کے بعد آنحضرت کی پاک مجلس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا.حضرت مسیح موعود کی حالت یہ تھی کہ آپ کی شکل و صورت زبان اور لب ولہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ آسمانی شخص ایک دوسری دنیا کا انسان ہے جس کی زبان پر عرش کا خدا کلام کر رہا ہے.خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز میں ایک تغیر محسوس ہو تا تھا.ہر فقرہ کے آخر میں آپ کی آواز بہت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی.اس وقت آپ کی آنکھیں بند تھیں.چہرہ سرخ اور نہایت درجہ نورانی! خطبہ کے دوران میں حضور نے خطبہ لکھنے والوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی لفظ سمجھ میں نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد کو میں خود بھی بتا نہ سکوں.پھر اس قدر تیزی سے آپ کلمات بیان فرماتے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہو جاتا تھا.ان ہر دو وجوہ سے مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی نور الدین صاحب کو جو خطبہ نویسی کے لئے مقرر تھے بعض دفعہ الفاظ پوچھنا پڑتے تھے.چنانچہ خطبہ میں جب خناطیل کا لفظ آیا تو انہیں اس کے متعلق دریافت کمرنے کی ضرورت ہوئی.یہ تو وہ تاثر تھا جو سامعین لے رہے تھے مگر خود حضرت اقدس علیہ السلام جو اس وقت آسمانی انوار و برکات کے ضبط و مورد تھے آپ کے اندر اس وقت اتنی غیبی قوت کام کر رہی تھی کہ جیسا کہ آپ نے بعد ازاں بتایا کہ آپ یہ امتیاز نہیں کر سکتے تھے کہ میں بول رہا ہوں یا میری زبان سے فرشتہ کلام کر رہا ہے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کلام میں میرا د خل نہیں خود بخود برجستہ فقرے آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے.بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے بھی نظر آجاتے تھے اور ہر ایک فقرہ ایک نشان تھا.اس طرح جوں جوں آپ پر کلام اتر ما گیا آپ بولتے گئے.یہ سلسلہ کافی وقت تک جاری رہا جب یہ کیفیت زائل ہو گئی تو حضور نے خطبہ ختم کر دیا اور آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے.

Page 102

۸۵ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محا دعاؤں کی قبولیت حضرت اقدس نے عید سے ایک روز قبل حضرت مولوی نور الدین صاحب کو لکھا تھا کہ جتنے دوست یہاں موجود ہیں ان کی فہرست بھجوا دیں تاکہ میں ان کے لئے دعا کر دوں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب موصوف نے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں (جو اس وقت ہائی سکول تھا، لوگوں کو جمع کیا اور ایک کاغذ پر سب دوستوں کے نام لکھوائے اور حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا دیئے اور حضور بیت الدعا میں سارا دن دروازے بند کر کے مصروف دعا رہے.حضور نے خطبہ ختم کرنے کے بعد اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل کل عرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو میں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کے لئے یہ خطبہ بطور نشان رکھا گیا تھا.یعنی اگر میں یہ خطبہ عربی زبان میں ارتجالاً پڑھ گیا تو ساری دعائیں درگاہ الہی میں قبول ہو گئیں.اردو میں ترجمہ حضور کے اعجازی خطبہ کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب دوستوں کی درخواست پر خطبہ کا ترجمہ منانے کے لئے کھڑے ہوئے.ایک زبان کے خیالات دو سری زبان میں منتقل کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے مگر روح القدس کی تائید سے آپ نے اس فرض کو اس خوبی سے ادا کیا کہ ہر شخص عش عش کر اٹھا.مولوی صاحب موصوف ابھی اردو ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرط جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں گر گئے.آپ کے ساتھ حاضرین نے بھی سجدہ شکر ادا کیا.سجدہ سے سر اٹھا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ مبارک یہ گویا قبولیت کا نشان ہے." خطبہ کو حفظ کرنے کی تحریک خطبہ چونکہ ایک زبر دست علمی نشان تھا اس لئے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعود نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے.چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا.بلکہ موخر الذکر دو اصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثر اسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آجاتے.مولوی صاحب ایسے باند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قرار دی جاسکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امریہ پیدا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب رکشش سے خالی نہیں تھے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح

Page 103

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 14 جدمی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی.خطبہ الہامیہ کی اشاعت یہ خطبہ اگست ۱۹۰۱ ء میں شائع ہوا.حضور نے نہایت اہتمام سے اسے کاتب سے لکھوایا.فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیا اور اعراب بھی خود لگائے.اصل خطبہ کتاب کے اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے.اگلا حصہ آخر تک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا اور پوری کتاب کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا.یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعد نہیں ملتی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ خطبہ الہامیہ کے متعلق ایک وضاحت تعالٰی کی اس خطبہ کے متعلق رائے یہ ہے کہ te " خطبہ الہامیہ سے یہ مراد نہیں کہ اس خطبہ کا لفظ لفظ الہام ہوا بلکہ یہ کہ وہ خدا کی خاص نصرت کے ماتحت پڑھا گیا اور بعض بعض الفاظ الہام بھی ہوئے." : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے بھی اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضور نے اپنے الہامات میں خطبہ الہامیہ کے ابتدائی باب کو کہیں شامل نہیں فرمایا.

Page 104

تاریخ احمدیت جلد ۲ جدی بھائیوں کی طرف سے الدار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار حواشی سيرة المهدی حصہ اول (طبع دوم) صفحه ۱۴۳ الحکم ۳۰ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ے کالم نمبر ۳ حقیقته الوحی ( طبع اول صفحه ۲۶۷ الحكم ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۵ کالم نمبر ۱۳ مسجد داعظم حصہ اول صفحہ ۶۵۱ میں اس دیوار کے بنانے کی تاریخ سمو اے / جنوری لکھی ہے) ه "سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۰۸ متولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) یه دیوار گول کرہ اور موجودہ دفتر محاسب کے درمیان -9 ۱۲- جہاں مسجد کا دروازہ ہے کھینچی گئی تھی الحکم ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ء صفحه ۹ ۱۰ ۱۰ اگست ۶۱۹۰ صفحه ۱۴ حقیقت الوحی طبع اول صفحه ۲۶۷ "ميرة المهدی حصہ اول صفحہ ۱۳۸-۱۳۹) طبع ثانی و اصحاب احمد " جلد نہم صفحہ ۲۲۱ - ۲۲۴ احکم ۱۴/۷ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۵ کالم نمبراد " سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۰۸ حقیقته الوحی ( طبع اول صفحہ ۲۶۶-۲۶۷ الحکم ۲۴/ نوری ۱۹۰۰ ء صفحہ ۱۰ اور حقیقتہ الوحی صفحہ ۲۶۸-۲۷۱ ا حکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۰ار " حقیقته الوحی " ( طبع اول) ۲۶۷-۲۶۸ او ۱۳ - الحکم ۱۷ جولائی 1901ء صفحہ ۹ - ۱۰ ۱۴ الحکم ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱ ۱۲ -IA الحکم ۳۱ / جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۷-۸ الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۱۴-۱۵ ۱۷- الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰ء صفحه ۱۴-۱۵ التحام ۱۷ اکتوبر ۱۹۰ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۲ الحکم ۷ الر اگست ۱۹۰۱ء صلحہ ۱۳ ۲۰ "حقیقت الوحی صفحہ ۲۷ ۲۷۲ ۲۱- احکام ۱۷/ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۱۴ ۲۲ حقیقت الوحی " ( طبع اول صفحہ ۲۷۱ ۲۷۲ اس مقدمہ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے علاوہ مولوی محمد علی صاحب ، منشی عبد العزیز صاحب او جلوی ، میاں جمال الدین صاحب سیکہ دانی کو بالالتزام پیشی پر پہنچنے کی سعادت نصیب ہوئی (الحکم ۲۴/ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۱۶ کالم نمبر ۲) الحکم ۱۷/ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۲ ۱۵۰ کالم نمبر ۳ ۲۴- الحکم ۲۴/ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۹ ۲۵ احکم کے ا/ اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ کالم نمبر ۳ لائف آف احمد " صفحه ۵۲۹ حاشیه ۲۷- الحکم ۱۴/۷ جولائی صفحہ ۵ کالم ۳ و الفضل جلد ۲۴ نمبر ۲۹ صفحه ۸ ۲۸ سلسلہ احمدیہ " (مولفہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) صفحه؟ لائف آف احمد " صفحہ ۵۲۹ حاشیہ - مولانا عبد الرحیم صاحب درد.ایم.اے نے گورداسپور کے ریکارڈ آفس سے مقدمہ کی

Page 105

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٨٨ جدی بھا ار کا محاصرہ اور مقدمہ دیوار اصل مسل دیکھی تھی اس کا نمبر ۸۰۰ تھا.اس لڑائی کو بوئروں کی جنگ کا نام دیا گیا ہے.بوئر ولندیزی آباد کاروں کی نسل سے تھے.یہ لڑائی ۱۹۰۲ء تک جاری رہی اور اس کے اختتام پر ان علاقوں کو مستعمرات کا درجہ دے دیا گیا.جنہوں نے ۱۹۱۵ ء میں آپس میں اتحاد کر کے جنوبی افریقہ کی متحدہ حکومت قائم کرلی.۳۱ ملاحظہ ہو " رو نداد جلسه دعا " مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان دار الامان ۱۹۲۵ء ۳۲ رو نکر او جاس دعا صفحه ۳۲ ۳۳ الحکم ۱۲/ اپریل ۱۹۰۰ء صفحه ۱-۲ نام ش۳ " حقیقته الوحی صفحه ۳۶۲ ۳۵ مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۱۷ار اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ ۳ تا ۵ ۳۶ روایات صحابہ جلد ۱۳ صفحه ۳۸۵-۱۳۸۱ روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی) ۳۷ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۹۹۰ ۳۸ روایات صحابہ جلد ۱۳ صفحه ۳۸۵ ۳۹- "حقیقته الوحی صفحه ۳۶۲ ۴۰ اصحاب احمد " جلد نہم صفحہ ۷۵ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسی حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے مل گئی ہے.مگر حضرت بھائی صاحب نے اپنے پاس موجود تبرکات کی جو فہرست الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ میں شائع فرمائی تھی اس میں اس کرسی کا ذکر موجود نہیں ہے اس کرسی پر یہ عبارت لکھی ہے کہ " یہ وہ کرسی ہے جس پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خطبہ الہامیہ کا نزول ہوا." ان الفاظ میں کچھ ذہول کا رخل معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضور علیہ السلام نے یہ خطبہ کھڑے ہو کر دیا نہ کہ بیٹھ کر.اس لئے یہ خیال کہ اس کرسی پر " خطبہ الہامیہ " کا نزول ہو ا صحیح نہیں ہے.چنانچہ بعد میں جب مولوی برکات احمد صاحب راجیکی درویش قادیان نے ذکر کیا کہ ایسی متعدد کرسیاں دار المسیح میں موجود ہیں تو حضرت بھائی جی نے تسلیم کر لیا کہ یہ تعین سمو ہے.( اصحاب احمد جلد نهم طبع دوم صفحه ۵۳۶، مطبوعه ۱۹۸۲ء) الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۰ء صفحه ۲ کالم اور یکم مئی ۱۹۰۰ ء و سیرت المهدی حصہ سوم صفحه ۶۰ و اصحاب احمد جلد نهم صفحه ۲۷۷ تا ۲۷۳ W- ۴۲ - الحکم یکم مئی ۱۹۰۰ء صفحه ۵ ۴۳- " روایات صحابہ جلد ۳ ۴۴- الحکم ۱۴/۷ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۵ کالم ۲ ۲۵ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۰۷ ۴۶- سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۰۷

Page 106

تاریخ احمد احمدیت.جلد ۲ 19.بشپ جارج الفریڈ لیفرائے کا فرار اور اسلام کی پے در پے فتوحات اسلام کی پے در پے فتوحات

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۹۰ اسلام کی پے در پے فتوحات بشپ جارج الفریڈ لی فرائے کا فرار اور اسلام کی پے در پے فتوحات ۱۸۹۹ء میں لارڈ کرزن ہندوستان کے وائسرائے بنا کر بھیجے گئے اور ساتھ ہی پنجاب کے عیسائی نظام میں یہ تبدیلی عمل میں لائی گئی کہ لارڈ کرزن کے چہیتے اور دلی کے مشہور پر جوش مسیحی پادری جارج الفریڈ لیفرائے ۳ (۶۱۸۵۴ - ۱۹۱۹ء) کو لاہور کا بشپ بنا دیا گیا.یہ صاحب اپنے مذہب کی تبلیغ میں جارحانہ پالیسی کے قائل اور عبرانی ، فارسی اور اردو مینوں زبانوں کے فاضل تھے اور عیسائی حلقوں میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.ولی کے مشہور نابینا مولوی احمد مسیح انہی کی کوششوں سے عیسائی ہوئے اور پادری اور مسیحی کہلائے.مباحثات کا شوق انہیں پہلے ہی جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا اس لئے انہوں نے بشپ بنتے ہی اپنے انگریز بھائیوں پر یہ بات واضح کی کہ خداوند یسوع نے ہندوستان کو بطور امانت سپرد کیا ہے اس لئے ہمیں تندہی سے تبلیغ کرنی چاہیے.I نیز بڑے وسیع پیمانہ پر عیسائیت کی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.اس پروگرام کے تحت ۱۸ / مئی ۱۹۰۰ء کو انہوں نے معصوم نبی" کے موضوع پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ حضرت محمد رسول اللہ ا ) کے متعلق قرآن مجید میں ذنب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ گناہ گار تھے.آخر میں انہوں نے مسلمانوں کو نج دیا کہ اگر انہیں کوئی اعتراض ہے تو میدان میں آئیں اور سوال کریں.اس مجمع میں حضرت مسیح موعود کے مشہور مخلص مرید حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی موجود تھے.باقی مسلمان تولیفرائے کے دلائل سن کر دہشت زدہ ہو گئے وہ بولنے کی جرات کیسے کرتے مگر مفتی صاحب جو کا سر صلیب کے غلام تھے جوش غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور تقریر کے ایک ایک اعتراض کا اس خوبی سے جواب دیا کہ ان کے بھی دعاوی کی دھجیاں بکھر گئیں مثلاً انہوں نے کہا کہ مسیح کی عصمت پر لو قایا مرقس کے حوالے دینا کوئی سود مند بات نہیں ہو سکتی بہتر یہ ہے کہ خود مسیح کے اپنے منہ کے الفاظ دیکھے

Page 108

احمد بیت - جلد Q1 اسلام کی پے در پے فتوحات جائیں کہ وہ اپنی طہارت اور پاکیزگی کی نسبت کیا کہتے ہیں.چنانچہ انجیل متی باب ۱۹ آیت ۷ امیں لکھا ہے کہ اس نے کہا " تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا." پس جو نیک نہیں وہ معصوم کیسے ٹھر سکتا ہے.مفتی صاحب نے زبر دست دلائل سے ثابت کیا کہ ذنب خطا جرم اور جناح سب الفاظ کا ترجمہ گناہ کیا جاتا ہے حالانکہ یہ محض غلط ہے.نیز بتایا کہ قرآن کریم کے نزدیک ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ نبی ہیں جن کی عصمت پر خدا تعالٰی نے صاف لفظوں میں زور دیا ہے.اس تقریر سے بشپ صاحب مبہوت ہو کر رہ گئے اور مسلمان اسلام کی اس زبر دست فتح پر بہت خوش ہوئے اور کئی دن تک اس کا عام چرچا رہا کہ " مرزائی جیت گئے." بشپ صاحب نے اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لئے اشتہار دیا کہ وہ ۲۵/ مئی کو " زندہ رسول " پر پھر لیکچر دیں گے اس اشتہار سے مسلمانوں میں بڑا جوش پھیل گیا اور انہوں نے مقابلہ کے لئے امرتسر سے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بلایا.مولوی ثناء اللہ صاحب حیات مسیح کے قائل ہو کر بھلا کیا جواب دیتے انہوں نے الٹا ساری توجہ مسلمانوں کو جلسہ میں شمولیت سے باز رکھنے پر مبذول کر دی مگر جب وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے تو خود انہوں نے اور انکے بلانے والے دردمند مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا جواب صرف مرزا صاحب کی جماعت دے سکتی ہے.وہ بر ملا کہتے تھے کہ اب تو اسلام اور عیسائیت کی جنگ ہے جس میں " مرزائی بولے تو فتح ہو سکتی ہے ورنہ صاف شکست اٹھانا پڑے گی." ۲۴ مئی کو ظہر کی نماز کے بعد مفتی محمد صادق صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی زبانی ان واقعات کی خبر ہوئی.جلسہ میں اب صرف ۲۴ گھنٹے باقی تھے.ان دنوں آپ بیماری کی وجہ سے نڈھال تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و جلال کے لئے آپ کو خد اتعالیٰ نے جو دینی غیرت بخشی تھی اس نے اسلام و عیسائیت کی اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے آپ کے اندر زبردست جوش پری کر دیا اور آپ نے اسی وقت قلم پکڑ لیا اور زندہ رسول کے متعلق ایک لاجواب مضمون لکھا جس میں آپ نے حضرت مسیح کی وفات کا نا قابل تردید دلائل سے ثبوت دینے کے بعد بتایا کہ زندہ نہی تنہا ہمارے آقا حضرت محمد الیتے ہیں جن کی تاثیرات و برکات کا ایک زندہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے اور اس کا ایک نمونہ میں موجود ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتی "خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے " یہ مضمون جو صرف ڈیڑھ دو گھنٹہ B میں روح القدس کی خاص تائید سے لکھا گیا تھا آپ کی ہدایت کے تحت راتوں رات چھاپ دیا گیا.حضرت اقدس خود لالٹین لے کر بورڈنگ میں تشریف

Page 109

تاریخ احمد بیت جلد ۲ ۹۲ اسلام کی پے در پے فتوحات لائے اور طلباء کو اس کی کاپیاں تہہ کرنے کے لئے اٹھایا چنانچہ انہوں نے ساری رات جاگ کر نہایت خلوص سے یہ دینی خدمت، سرانجام دی.مفتی صاحب چار بجے صبح اشتہار لے کر بٹالہ روانہ ہوئے اور عین وقت پر لاہور جلسہ میں پہنچ گئے.حضرت اقدس کا مضمون سنایا جانا اشتہار کے مطابق بشپ لیفرائے نے " زندہ رسول " پر تقریر کی.اس کے بعد سوالات کا موقعہ دیا جس پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کا مطبوعہ مضمون نهایت پر شوکت انداز میں پڑھ کر سنایا.اس مضمون کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اگر چہ یہ ایک دن پہلے لکھا گیا تھا مگر اس میں بشپ صاحب کی تقریر کا مسکت جواب موجود تھا اور لوگ حیران تھے کہ بشپ صاحب کی تقریر کے خاتمہ پر امتاز بر دست مضمون آنانا: جھپ کر شائع کیسے ہو گیا؟ مضمون کا پڑھنا ہی تھا کہ لاہور ایک بار پھر اسلام کی فتح کے نعروں سے گونج اٹھا اور بشپ صاحب کو جو گزشتہ داغ مٹانے کے خیال سے آئے تھے ایسی زبر دست شکست ہوئی کہ چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں اور انہوں نے صرف یہ کہہ کر چپ سادھ لی کہ " معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو ہم تم سے گفتگو نہیں کرتے ہمارے مخاطب عام مسلمان ہیں." اس وقت تین ہزار کے قریب مجمع تھا.مسلمانوں نے جو ایک کثیر تعداد میں موجود تھے بالاتفاق اقرار کیا کہ مرزائی اگرچہ کافر ہیں مگر آج اسلام کی عزت انہی نے رکھ دکھائی ہے.حضرت مسیح موعود کی طرف سے " سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ نبی پر ".مضمون لکھنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ بشپ نبی کے متعلق مقابلہ کی کھلی دعوت صاحب کے گزشتہ لیکچر کا پورا پورا تعاقب کرتے ہوئے ۲۵ / مئی ۱۹۰۰ ء کو ہی ایک دوسرا اشتہار دیا کہ بشپ صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر مسلمان اپنے نبی ﷺ کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھا ئیں.یہ ایک عمدہ ارادہ ہے مگر بشپ صاحب کے اس طریق بحث سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہو گا کہ پبلک کو یہ دکھایا جائے کہ فلاں نبی نے کوئی گناہ نہیں کیا کیونکہ مذاہب کا گناہوں کی تحسین پر اتفاق نہیں ہے.بعض فرقے شراب نوشی کو سخت گناہ قرار دیتے ہیں مگر بعض کے عقیدہ کے موافق اس میں روٹی بھگو کر نہ کھائی جائے تو دینداری کی سند نہیں حاصل ہو سکتی.بنا بریں حضور نے نے انہیں توجہ دلائی کہ اگر وہ مرد میدان بن کر تحقیق حق کے شائق ہیں تو وہ " معصوم نبی " کا موضوع اختیار کرنے کی بجائے اس بارے میں بحث کر لیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور نقدی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم مقابلہ

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۹۳ اسلام کی پے در پے فتوحات اور موازنہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضلیت اور فوقیت ثابت ہوتی ہے.پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ ہونا چاہیے نہ صرف ترک شر میں جس کا نام بشپ صاحب معصومیت رکھتے ہیں.بشپ لیفر ائے نے جو دو دفعہ اسلام کے مقابلہ میں صریح شکست اٹھا چکے تھے حضرت اقدس کی دعوت پر بالکل چپ سادھ لی.اس پر حضرت اقدس نے بشپ صاحب کو اس علمی مقابلہ پر آمادہ کرنے کے لئے جماعت کے دوستوں کی ایک کمیٹی بنائی جس کے سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب ایم.اے تجویز ہوئے.اس کمیٹی کی طرف سے ۱۸ جون ۱۹۰۰ ء کو حضرت مسیح کے نام کا واسطہ دے کر بشپ لیفرائے صاحب کو لکھا گیا کہ وہ عیسائی مذہب کے زبر دست فاضل ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اسلام کے بے مثال نمائندے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں یہ قیمتی موقع میسر آیا ہے کہ آپ بھی موجود ہیں اور وہ بھی.مرزا صاحب نے بحث کی جملہ شرائط منظور کرلی ہیں.آپ بھی ہماری التجاء قبول کر کے منظوری سے مطلع فرمائیں.مسلمان پہلے ہی انتہائی بے قراری سے بشپ صاحب کی منظوری کے لئے چشم براہ تھے.اب جو یہ دلچسپ مراسلہ پریس میں آیا تو ملک کے بعض مقتدر اخبارات نے بھی اس کا زبر دست خیر مقدم کیا اور پر زور تحریک کی کہ بشپ صاحب کو اس طرف ضرور توجہ کرنا چاہیے.اور اخبار پا نیرالہ آباد نے لکھا که " بے شک اگر ڈاکٹر لیفر ائے مقابلہ کرنا منظور کرے تو یہ مباحثہ نہایت ہی دلچسپ ہو گا." انڈین ڈیلی ٹیلی گراف (۱۹.جون ۱۹۰۰ء) نے لکھا:.ہم کسی دوسرے صفحہ پر ایک نہایت ہی دلچسپ مذہبی چیلنج جو مسلمانوں کے اس فرقہ کی طرف سے ہے جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پیرو ہیں لاہور کے بشپ کے نام دیا گیا ہے نقل کرتے ہیں.اس کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نہایت سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی قادیان کے رئیس ہیں.اور اس چیلنج میں ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مسیح موعود ہونے کا دعوی ہی کرتے ہیں بلکہ اس دعوئی کو مضبوط اور قاطع دلیلوں کے ساتھ ثابت کر دکھایا ہے اور اپنے آپ کو وہ موعود ثابت کیا ہے جس کے آنے کی پیشگوئیاں قرآن مجید اور بائبل میں بیان کی گئی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مشہور شخص کے پیرو دنیا کے مختلف حصوں میں تمہیں ہزار کے قریب ہیں اور ان کے دوست اور مرید دل سے چاہتے ہیں کہ وہ لاہور کے بشپ کے ساتھ جس کے لیکچروں نے مسلمانوں کو قائل کر دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی علوم میں لاثانی ہے مذہب اسلام اور عیسائیت کی سچائی پر ایک

Page 111

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۹۴ اسلام کی پے در پے فتوحات فاضلانہ اور معقول بحث کریں.بشپ کا وسیع علم اور تجربہ اور اس کی عربی ، فارسی اور اردو سے واقفیت اور اس کے مہذبانہ اور عمدہ اخلاق بھی بطور وجوہات بیان کئے گئے ہیں کہ کیوں خصوصاً اس کو اسلام کے اس پہلوان کے ساتھ مباحثہ کے لئے بلایا گیا.چیلنج سارے کا سار ا نہایت مودبانہ الفاظ میں ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کے مجوز بڑی کچی خواہش اس امر کی رکھتے ہیں کہ عیسائیت اور اسلام (نہ اسلام اور عیسائیت) کے بالمقابل فضائل اور خوبیوں پر ایک باقاعدہ اور عمدہ مباحثہ ہو جس میں دو نو فریق کے لئے منصفانہ شرطیں پیش کی گئی ہیں اور چیلنج دینے والے جن کی تعداد بہت بڑی ہے ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہیں اور بشپ کو یسوع مسیح کے نام کی قسم دے کر امید رکھتے ہیں کہ اس مباحثہ پر رضامند ہو جائے گا.ہماری رائے ہے کہ بشپ اگر اس چیلنج کو منظور کرے تو بہت اچھا ہو گا.خود بخود ایک ایسی بڑائی اختیار کر لینا جو مباحثہ کے لئے بھی جھک نہیں سکتی اس کی غلطی ہو گی.کیونکہ پھر چیلنج دینے والے یہ کہنے کے حقدار ہوں گے کہ چونکہ فریق ثانی نے اپنے مقدمہ کا دفاع نہیں کیا اس لئے اس کی عدم پیروی کے سبب سے فیصلہ ان کے حق میں ہونا چاہئے اور اس طرح پر وہ فتح کے دعویدار ہوں گے.نیز یہ امر کہ مرزا غلام احمد قادیانی وہ موعود شخص نہیں ہے جس کی آمد کے متعلق قرآن شریف اور بائبل میں پیشگوئیاں ہیں بشپ کے مقابلہ کرنے سے انکار کے لئے کوئی دلیل نہیں.یہ سوال مجوزہ مباحثہ میں پیش نہیں ہو گا لیکن ممکن ہے کہ اگر بشپ چیلنج منظور کرے تو اپنے مخالف کو اس غلطی کا بھی قائل کر دے.یہ امر کہ مسلمان اپنے مسیح کو بشپ کے بالمقابل میدان مباحثہ میں پیش کرتے ہیں.یہ بشپ کی علمیت کی بڑی سے بڑی توہین ہے جو وہ کر سکتے ہیں.اس طرح پر وہ جتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں بشپ کو عیسائی مذہب کا اول درجہ کا ناضل مانتے ہیں.ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ بشپ کس طرح یہ عذر کر سکتا ہے کہ ایسے عمدہ مباحثہ میں اس کے وقت کا بڑا حصہ صرف ہو جائے گا.اس کو کسی طرح پر بھی ایسے مخالفوں کی تردید کرنے اور ان کو قائل کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے خصوصا جب کہ اس سے یہ بات ثابت کرنے کی خواہش کی گئی ہے کہ عیسائیت اور اسلام ہر دو مذاہب میں سے کو نسا نہ ہب زندہ کہلا سکتا ہے اور قرآن مجید اور بائبل دو نو کی تعلیمات میں سے کس کی تعلیم زیادہ افضل اور انسانی فطرت کے مطابق ہے.ہم پسند کریں گے اگر چیلنج منظور کر لیا جائے.کیونکہ ہمارے خیال میں یہ نہایت ہی دلچسپ ہو گا." غرض یہ کہ ملک کے سبھی حلقوں کی نگاہیں بشپ صاحب کی طرف تھیں اور وہ انتہائی بے تابی سے ان کی منظوری کا اعلان سننے کے لئے منتظر تھے مگر افسوس بشپ صاحب نے جو لیکچر کے بعد لاہور سے

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۹۵ اسلام کی پے در پلے فتوحات شملہ بھاگ گئے تھے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے میدان مناظرہ میں آنے سے بالکل انکار کر دیا اور اس کے لئے یہ انتہائی مضحکہ خیز عذر پیش کیا کہ مرزا صاحب اپنے تئیں صحیح کہلاتے ہیں جس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں نیز یہ کہ میرا اصل کام عیسائی کلیسیا کی اندرونی اصلاح اور اس کو مضبوط کرنا ہے.یہ اصل کام چھوڑ کر میں مجوزہ مباحثہ میں حصہ نہیں لے سکتا وغیرہ وغیرہ.یہ عذرات ہی بتاتے تھے کہ بشپ صاحب کس بے بسی کے عالم میں میدان مباحثہ سے فرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں." بشپ صاحب کے فرار پر ملکی اخبارات کا تبصرہ عیسائیوں کی سرگرمیوں سے پوچتا ہے کہ وہ بہت جلد پورے ہندوستان کو زیر نگیں کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے.مگر خدا کی قدرت !! انیسویں صدی ختم نہیں ہوئی کہ کا سر صلیب کے ہاتھوں اسلام کو عیسائیت کے مقابل زبر دست اور نمایاں فتح حاصل ہو گئی.اس معرکہ نے تثلیث پرستوں کے حوصلے انتہائی پست کر ڈالے اور پھر آج تک کسی بشپ کو جرات نہ ہو سکی کہ وہ بر ملا مسلمانوں کو گزشتہ انداز میں بحث کا چیلنج دے سکے بلکہ اس کے بر عکس یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ دوران گفتگو جو نہی پادریوں کو معلوم ہو تاکہ ان کا مخاطب کوئی احمدی ہے تو وہ بحث بند کر دیتے اپنا کیمپ اکھاڑ کر دوسری طرف چل دیتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خفیہ طور پر کوئی ایسے احکام ضرور جاری کئے گئے ہیں کہ وہ احمدیوں سے ہر گز گفتگو نہ کریں.المختصر عیسائیت کے ایک نامور نمائندے کا یوں بے بسی کے ساتھ میدان چھوڑنے سے ملک کے چاروں طرف ایک شور سانچ گیا اور ملکی اخبارات نے کھلے لفظوں میں لارڈ بشپ کے گریز کو عیسائیت کی بھاری شکست سے تعبیر کیا.انڈین سیکٹیٹر کی طرف سے بشپ کے گریز پر تبصرہ انڈین et سپیکٹیٹر نے بشپ کے انکار پر لکھا.معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے بشپ نے متانت کو چھوڑ کر جلد بازی کے ساتھ ایک ایسے چیلنج سے گریز اختیار کی ہے جس کا محرک وہ پہلے خود ہی ہوا تھا کچھ عرصہ ہوا کہ بشپ نے مسلمان حاضرین کے سامنے مسیح کی صداقت کا ثبوت پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس دعوت کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جس کے دعوئی مسیحیت کی نسبت ہم پیشتر از میں اسی اخبار میں ذکر کر چکے ہیں قبول کر لیا.اب خواہ مرزا غلام احمد مفتری ہو اور خواہ وہ اپنے آپ کو واقعی مسیح موعود سمجھتا ہو دونو حالتوں میں کوئی وجہ نہیں کہ بشپ اس کے ساتھ مباحثہ کرنے سے کیوں انکار کرتا ہے.بشپ کا بیان ہے کہ مرزا صاحب نے

Page 113

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۹۶ اسلام کی پے در پے فتوحات مسیح کہلا کر ایک خوفناک ہتک اور بے عزتی مسیح کی کی ہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ دو ہزار سال گزرے اسی وجہ پر یہودیوں نے یسوع کو صلیب دی تھی.اس کے صحیح کہلانے پر انہوں نے ہتک محسوس کی.اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بشپ مرزا غلام احمد کے دعوئی مسیحائی کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ پنجاب کے مسلمانوں کے ایک کثیر التعداد گروہ نے اس پر حقارت اور استہزاء ظاہر کیا ہے اور وہ اس کو مرزا صاحب کے دعوی کے بطلان کا قطعی اور یقینی ثبوت خیال کرتا ہے.مگر تعجب ہے کہ جب پیلاطوس نے یہودیوں کے مجمع سے سوال کیا کہ عید فع کے روز کے آزاد کرانا چاہتے ہیں مسیح کو یا برا باس کو تو ان سب نے بالا تفاق بد معاش چور کے حق میں رائے دی.کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یسوع کا دعوئی مسیحیت بے بنیاد تھا.ہم مرزا غلام احمد کے پیرو نہیں اور نہ اس کے دعاوی کو مسیح کے دعوؤں پر ترجیح دینا چاہتے ہیں.لیکن ہمارا اعتراض بشپ کی جھوٹی منطق پر ہے.اگر تمام مسلمانوں نے مرزا صاحب کا دعوئی مان لیا ہوتا تو کیا بشپ ان کے رسالت کے دعوئی کے متعلق اپنی رائے بدل لیتا.اس وقت اس ملک کے لوگ اپنے مذہبی خیالات پر بالاستقلال قائم نہیں ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے لئے جو ان کو سچائی پر قائم کرنا چاہتے ہیں.ضروری ہے کہ وہ دلائل ایسے پیش نہ کریں جو نہایت مضبوط اور قاطع نہ ہوں." (ترجمہ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام عصمت انبیاء کے موضوع پر سلسلہ مضامین نے عیسائیت کے مایہ ناز علم کلام کی فرد مائیگی کو انتہاء تک پہنچانے کے لئے رسالہ ریویو آف ریلیجز B میں "عصمت انبیاء" کے موضوع پر کئی قسطوں میں ایک زبردست مضمون لکھا جس نے بس دن ہی چڑھا دیا اور اور دیگر انبیاء کے مقابل ہر جہت سے آنحضرت ﷺ کے مقام کی افضلیت اور برتری بالکل نمایاں ہو گئی.نواب عماد الملک فتح نواز جنگ مولوی سید مهدی حسین صاحب کی قادیان میں آمد اور قبول حق لکھنو میں ایک بزرگ نواب عماد الملک سید مهدی حسین صاحب بیرسٹرایٹ لاء ہوتے تھے جو ایک زمانہ میں حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری اور چیف جسٹس بھی رہ چکے تھے.نواب عماد الملک علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی اور علوم قدیمہ وجدیدہ کے زیر دست فاضل تھے اور روشن خیال مسلمانوں میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے انہوں نے بشپ لیفرائے کے فرار کا واقعہ اخبار پانیر الہ آباد میں

Page 114

تاریخ احمدیت جلد ۲ 94 اسلام کی پے در پے فتوحات پڑھا تو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شوق دامن گیر ہو گیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہو سکتا جو اتنے بڑے آدمی کو ایک فوق العادت دعوت دیتا ہے اور اس کی غلامی میں بڑے عقیل و نیم داخل ہیں.اس کے بعد انہوں نے مولوی عبد الکریم صاحب کی مصنفہ کتاب "مسيرة مسیح موعود " کا مطالعہ کیا اور گرویدہ ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی صاحب سے خط و کتابت شروع کر دی.اسی دوران میں ان کی لکھنو میں (جہاں وکالت کرتے تھے) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن سے ملاقات ہوئی جس کے بعد ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۱ء کو حضور کی خدمت میں قادیان پہنچے اور حضور کے نیاز حاصل کر کے بڑی خوشی کا اظہار کیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے ان کو نہایت شرح و بسط سے پیغام حق پہنچایا اور بتایا کہ خدا نے مجھے صرف اس غرض سے بھیجا ہے تا میں ادیان عالم پر اسلام کو غالب کر دکھاؤں.میں اسی طرح مامور ہوں جس طرح پہلے مامور تھے.پس آپ میری مخالفت میں بھی بہت سی باتیں سنیں گے اور بہت قسم کے منصوبے پائیں گے لیکن میرا خدا میرے ساتھ ہے.اور اگر میں خدا کی طرف سے آیا نہ ہو تا تو میری یہ مخالفت بھی ہر گز نہ ہوتی.حضرت اقدس کے ارشادات سن کر ان کے تمام شکوک رفع ہو گئے.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا بیان ہے کہ نواب صاحب سے سید عبد اللہ صاحب بغدادی نے دریافت کیا کہ حضور انور کو کیسا پایا.تو انہوں نے عربی زبان میں جواب دیا.کہ آپ نبیوں جیسے اور آپ کا کام نبیوں جیسا ہے اور لاریب صادق ہیں.چونکہ نواب صاحب کو " آل انڈیا محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس میں شامل ہو نا تھا اس لئے جلد واپس تشریف لے گئے.قادیان سے جانے کے بعد ان کی سلسلہ سے ارادت و عقیدت روز بروز بڑھتی گئی.وہ قومی تحریکوں میں باقاعدہ شریک ہوتے.حضرت اقدس اور الحکم سے ان کو خاص الفت تھی.انہیں قادیان میں آنے کی بار بار تڑپ پیدا ہوتی تھی اور وہ بارہا اس موقعہ کی تلاش میں بھی رہے مگر افسوس زندگی نے وفا نہ کی اور آپ ۱۳/ جنوری ۱۹۰۴ء کو بمقام لکھنو انتقال فرما گئے.

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۹۸ اسلام کی پے در پے فتوحات حواشی ۲-۱- " تاریخ بشارت السند و پاکستان " صفحه ۲۱۸-۲۱۹ ( مولفه پادری خورشید عالم چرچ مشنری سوسائٹی گوجرہ شائع شد و ۱۹۴۹ء) دا حکم ۱۴/جنوری ۱۹۱۹ء صفحہ ۱ - ۲ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۹۲ -0 -Y -A -* -II بعض نئی اناجیل میں ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ رکھ دیئے گئے ہیں تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے " لیکن انگریزی کی متی انجیل اور مرقس باب ۱۰ آیت ۸ نیز لو قاباب ۱۸ آیت ۱۹ میں ابھی تک وہی الفاظ ہیں کہ " تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا." الحکم ۳۱ / مئی ۱۹۰۰ء صفحہ ۱.۲ الحكم ۱۴ / فروری ۱۹۳۴ء صفحہ کے کالم نمبرا تا۳ الحکم ۱۳۱ مئی ۱۹۰۰ء صفحه ۳-۶ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۸ صفحه ۲۱۱ ( روایت مرزا افضل بیگ صاحب) الحکم ۱۳۱ مئی ۱۹۰۰ء صفحه ۱-۳ الحکم ۳۱ / مئی ۱۹۰۰ء صفحه اتمام دالحکم ۱۴ / مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم نمبرا الحکم ۳۱ / مئی ۱۹۰۰ء صفحه تماس حکم ۱۴ / مئی ۱۹۰۸ صفحہ سے کالم نمیرا الحکم ۱۴ / مئی ۱۹۰۸ء صفحہ سے کالم نمبرا » الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۹۹ و تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۳-۱۱ ۱۳ بحوالہ ریویو آف ریلیجز اردو ۱۹۰۲ء صفحه ۳۵۳-۳۵۷ ۱۴ اس امر کے ثبوت میں پادری ای ایڈ منڈ صاحب (F ADMUND) کی وہ چھٹی پیش کرنا کافی ہو گا جو انہوں نے ۱۸۵۵ء میں دار الامارت کلکتہ سے ہندوستان کے تمام سرکاری ملازموں کے نام لکھی جس میں انہوں نے لکھا کہ تمام ہندوستان میں عمل داری بھی ایک ہو گئی ہے مذہب بھی ایک ہی ہونا چاہیے.نیز اس خواہش کا اظہار کیا کہ موجودہ نسل یہ حقیقت سمجھ لے اور عیسائیت میں آجاتے (مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو " اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۹۲ - ۲۰۲ از سرسید احمد خاں شائع کردہ اردو اکیڈی سندھ کراچی) -۵- اس قسم کے بعض ذاتی واقعات مولف "حیات طیبہ " اور مولف " مجددا عظم " نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں جو بڑے ایمان افروز ہیں.ایک غیر از جماعت دوست سلطان حمد صاحب اکو شٹ پھوپھی زاد بھائی صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ ڈی.ایس.پی سکھر کا حلفیہ بیان ہے کہ ۱۹۴۲ء کی بات ہے جب کہ میں دوران جنگ میں ہونا چھاؤنی میں ملازم تھا.اس وقت فوجی افسران سے جو عموما کرتل میجر کپتان اور لیفٹیننٹ کے عہدے کے انگریز ہوتے تھے سرکاری کام کے علاوہ دوسری باتیں بھی ہو تیں تھیں.ایک دن باتوں باتوں میں ایک لیفٹینٹ نے جس کا نام فسٹ تھا مجھ سے کہا کہ آؤ آج مذہبی بحث کریں.میں نے کہا کہ بحث اس شرط پر کرتے ہیں کہ جو ہار جائے وہ دوسرے کا مذہب اختیار کرے.سو اگر اسلام سچا ہو تو تم مسلمان ہو جانا.پھر میں نے کہا کہ تم لوگوں میں سب سے بڑا مسئلہ تو صحیح کے ابن اللہ ہونے کا ہے مگر ابن اللہ ہونے کا زیادہ حقدار تو آدم ہیں.جب میں نے اتنا کہا تو وہ فورا کہہ اٹھے کہ تم احمد یہ موومنٹ کے آدمی ہو.میں نے کہا نہیں میں احمدی نہیں ہوں.مگر اس نے میری ایک نہ مانی اور بار بار اس پر زور دیتا گیا کہ نہیں تم احمدی ہو.پھر اس نے یہ کہا کہ میں انگلستان کا انگریز نہیں ہوں بلکہ امریکہ کا انگریز ہوں اور وہاں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم کسی احمدی سے بات نہ کرنا ورنہ وہ تم کو مسلمان بنالے گا.سو اب میں تم سے بات نہیں کروں گا." الفضل ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۶ کالم نمبر) ۱۹ بحوالہ ریویو آف ریلیجر " اردو جلد نمبر صفحہ ۳۶ - ۳۶۳

Page 116

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۹۹ رسالہ کے اجراء کا ذکر ۱۹۰۲ء میں آرہا ہے.ملا حظہ ہو رسالہ ریویو آف ریلیجز مئی ۱۹۰۲ء 19 الحکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۰ ۲۰ الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱.۶ ا ۱۹۹۱ صفحا.کانفرس کی بنیاد سرسید نے میں ڈالی الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ.اس کا نفرنس کی بنیاد سرسید مرحوم نے ۱۸۸۷ء میں ڈالی تھی.۲۲ - الحکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰.اسلام کی پے در پے فتوحات

Page 117

تاریخ احمدیت جلد ۲ جہاد بالسیف) کے التواء کا فتوئی جہاد بالسیف) کے التواء کا فتویٰ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد" کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت پر ابتداء ہی سے انگریزی حکومت بڑی کڑی نگرانی رکھتی آرہی تھی.خفیہ پولیس حضور کی نقل و حرکت کے متعلق رپورٹیں بھجواتی.وہ مہمان جو حضور کو ملنے کے لئے آتا پولیس اس کا نام اور پتہ دریافت کرتی اور اس کے آنے کی غرض پوچھتی اور پوری طرح اس خیال میں رہتی کہ کسی منصوبہ کا پتہ لگتے ہی گرفتار کر لیا جائے.بعض انگریزی حکام ان روساء کو (جن کی نسبت ان کو معلوم ہو تاکہ احمدیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں) بوقت ملاقات اشارة کہہ دیتے کہ گورنمنٹ تو اس سلسلہ کو شبہ کی نگاہوں سے دیکھتی ہے آپ ان سے کیوں تعلق رکھتے ہیں.حکومت کے احمدی ملازمین کو ان کے بالا افسر بہت دق کرتے تھے اور انگریزی حکام ان کے حقوق پامال کرنا عام بات سمجھتے تھے." اور اس کی تمام تر وجہ یہ تھی کہ انگریزی حکومت حضور اور حضور کی جماعت کو مشکوک نگاہ سے دیکھتی تھی.یہ صورت حال ۱۹۰۷ء تک پوری شدت سے قائم رہی حتی کہ سرا سیٹس گورنر ہو کر آئے اور انہوں نے تمام حالات کا جائزہ لے کر اور حضور کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کو یہ رپورٹ کی کہ اس جماعت کے ساتھ یہ سلوک ناروا ہے بلکہ بڑی ناشکر گزاری کی بات ہے کہ جس شخص نے امن قائم کیا اور جو امن پسند جماعت قائم کر رہا ہے اس پر پولیس چھوڑی گئی ہے یہ بڑی احسان فراموشی ہے اور میں اسے ہٹا کر چھوڑوں گا.چنانچہ ان کی کوشش سے ۱۹۰۷ء میں احمدیوں کی نگرانی کا سلسلہ تو قریب قریب ختم ہو گیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخر تک حکومتی پالیسی سے مطمئن نہیں تھے جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ ۸ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضور کی خدمت میں تحریری درخواست کی کہ ایک انگریز

Page 118

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ 1-1 جهاد (بالسیف) کے التواء کا فتوی حضور سے ملنا چاہتے ہیں جس پر حضور نے جواب دیا کہ ” مجھے معلوم نہیں کہ کیسا اور کس خیال کا انگریز ہے.بعض جاسوسی کے عہدے پر ہوتے ہیں اور بعد ملاقات خلاف واقعہ باتیں لکھ کر شائع کرتے ہیں صرف یہ اندیشہ ہے." حضرت اقدس کا مسلک مذہبی آزادی دینے والی حکومت کے متعلق اس پالیسی کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی تعلیم کی روشنی میں ابتداء ہی سے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ (مذہبی آزادی دینے والی) با قاعدہ قائم شدہ حکومت کے خلاف اس کی حدود میں رہتے ہوئے جہاد بالسیف نہیں کیا جا سکتا.اس کا مرحلہ ملک سے ہجرت کے بعد آتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ حکومت مذہبی آزادی نہ دے اور بزور شمشیر مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور انگریزی حکومت نے تو سکھا شاہی کے ظالمانہ دور کے بعد جس میں محض اسلام کی بناء پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور اذان تک کہنے کی ممانعت کر دی گئی تھی مذہبی آزادی دے کر اسلام کی تبلیغ واشاعت کی راہ کھول دی اور اب مسلمان بلا مزاحمت اپنے عقائد حقہ کی اشاعت اور دوسروں کے عقائد باطلہ کی تردید کر سکتے تھے یہی وجہ ہے کہ تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد صاحب بریلوی (۱۷۸۱ - ۱۸۳۱) حضرت مولانا اسمعیل شہید (۱۷۸۱ - ۱۸۳۱) حضرت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی (۱۸۴۸ ۱۸۸۶) اور مفتیان مکہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے ہم عصر نامور اور مستند مذہبی دسیاسی مسلم لیڈر مثلا سید نذیر حسین صاحب دہلوی شیخ الکل ۳ (۱۸۰۵ - ۱۹۰۲) نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی (۱۸۳۲ - ۱۸۹۰) مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہلحدیث (۱۸۳۵ - ۱۹۲۰) سرسید احمد خاں کے.سی.ایس بانی علی گڑھ کالج ۳ (۱۸۱۷ - ۱۸۹۸) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی (۱۸۲۸ - ۱۹۰۵) شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب (۱۸۳۶.(۱۹۱۲ نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی ۳ (۱۸۴۶ - ۱۸۹۵) مولوی احمد رضا خاں بریلوی (متوفی ۱۹۲۱ء) اور دوسرے علماء یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ موجودہ انگریزی حکومت کی سیاسی اطاعت فرض اور بغاوت حرام ہے.۱۱۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلی دفعہ مسئلہ جہاد کے متعلق ۱۸۸۲ء میں وضاحت اپنے اس نظریہ کے اظہار کی ضرورت ۱۸۸۲ء میں محسوس ہوئی جب کہ ہندوستان کے مشہور تعلیمی کمیشن کے پریذیڈنٹ سرولیم ہنٹر آئی.سی.ایس نے اپنی کتاب مسلمانان ہند "The Indian Muslmans" (مطبوعہ (۱۸۷ء) میں یہ

Page 119

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ١٠٢ جہاد بالسیف) کے التواء کا فتویٰ خطر ناک پراپیگنڈہ کر کے مسلمانوں کو قومی حیثیت سے ختم کر دینے کی مہم جاری کر رکھی تھی کہ مسلمان لوگ انگریزی حکومت کے وفادار نہیں اور انگریزوں سے جہاد کرنا واجب قرار دیتے ہیں نیز لکھا ” تمام مسلمان اپنے بغاوت سکھانے والے پیغمبر کی زہر آمیز نصیحتوں کو نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں." پھر لکھا ”ہندوستان کے مسلمان اب بھی ہندوستان میں گورنمنٹ انگریزی کے لئے موجب خطر چلے آتے ہیں.tt اس قسم کے خیالات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانان ہند کے حقوق بے دردی سے پامال ہو رہے تھے اور تعلیم و ملازمت کے دروازے ان پر اکثر و بیشتر ید توں سے بند ہو چکے تھے.یہ افسوسناک صورت حال دیکھ کر پنجاب میں انجمن اسلامیہ لاہور اور انجمن ہمدردی اسلام نے انگریزی حکومت کو ایک میموریل بھیجوانے کی تحریک اٹھائی.حضرت اقدس کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے براہین احمدیہ حصہ سوم میں اس کی تائید کرتے ہوئے یہ تجویز بھی رکھی کہ اس تمام تر خرابی کی وجہ ڈاکٹر ہنٹر اور ان جیسے متعصب انگریزوں کے جہاد کے متعلق غلط خیالات ہیں جو بعض سرحدی لوگوں کے (جو غیر مساموں کو بلاوجہ قتل کر دیتے ہیں) ناشائستہ افعال میں تو موجود ہیں مگر اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے.ہندوستان کے مسلمانوں نے گورنمنٹ سے اخلاص اور وفاداری کے بڑے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں مگر ڈاکٹر ہنٹر نے ان تمام وفاداریوں اور مخلصانہ خدمات کو یکسر نظر انداز کر کے انصاف و حقیقت کا خون کیا ہے.پس مسلمانوں کی بہبود و ترقی کے لئے ضروری ہے کہ علماء کے فتووں کو محض انفرادی حیثیت سے چھاپنے کی بجائے مسلمانان ہند کی بڑی بڑی انجمنیں مستند اور مشہور علماء کے قلم سے وسیع پیمانے پر بکثرت یہ وضاحتی بیانات شائع کریں کہ ایسی سلطنت سے لڑائی یا جہاد جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن و عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں قطعی حرام ہے.اس طریق سے ڈاکٹر سرولیم ہنٹر اور ان جیسے دشمنان اسلام کے پراپیگنڈہ کا اثر زائل کرنے میں بھاری مدد ملے گی اور حکومت انگریزی پر بھی مسلمانوں کی صاف باطنی کھل جائے گی اور بعض حقیقت ناشناس مسلمان جنہیں اسلامی نظریہ جہاد کی واقفیت نہیں صحیح موقف سے آشنا ہو جائیں گے.رسالہ گور نمنٹ انگریزی اور جہاد" حضرت اقدس علیہ السلام براہین احمدیہ میں اس کی تصنیف اور فتویٰ التوائے جہاد امر پر روشنی ڈال چکے تھے اور حکومت وقت 12 سے اطاعت کے متعلق آپ کا موقف ملک اور حکومت کے سامنے آچکا تھا مگر رسول خدا ﷺ نے چونکہ مسیح موعود کے متعلق پہلے سے یہ خبر دے رکھی تھی " يضع الحرب - یعنی وہ اگر سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا التواء کر دے گا.اس لئے A

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ١٠٣ جہاد بالسیف) کے التواء کا نتونی آپ نے اسے اپنے آقا کی ہدایت سمجھتے ہوئے اور اس پر لفظاً لفظاً تعمیل کرنے کے لئے اول ۲۲ مئی ۱۹۰۰ء کو ایک رسالہ گور نمنٹ انگریزی اور جہاد" کے نام سے شائع کیا جس میں آنحضرت ﷺ کی حديث يضع الحرب كا ذکر کیا اور مسئلہ جہاد پر جامع رنگ میں روشنی ڈالی اور خود قرآن و حدیث سے ثابت کر دکھایا کہ اسلام سے بڑھ کر صلح و امن کا علمبردار کوئی مذہب نہیں ہے.وہی مذہب ہے جس نے اپنی دعوت کی بنیاد صلح پسندی کے عالمگیر اصولوں پر رکھی ہے اور اوائل اسلام میں جو جنگیں لڑنی پڑیں وہ محض وقتی اور مدافعانہ حیثیت کی تھیں اس لئے موجودہ حکومت میں جب کہ مذہبی آزادی ہے اور مسلمانوں کو مذہب کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تلوار اٹھانا اور ملک میں فساد پھیلانا اسلام کے خلاف ہے.جہاد کی حقیقت چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا: جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا حلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں.جاننا چاہیئے کہ جہاد کا لفظ جہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا...اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے؟ سود اضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں...اور انہوں نے درد ناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے نخران شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالی کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرکا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا.ان کے خونوں سے کوچے سرخ ہو گئے.پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہند کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں.ہار ہا پھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق استقامت کے پہاڑ نے ان تمام

Page 121

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۰۴ جہاد بالسیف) کے التواء کا فتویٰ آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی.اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی....تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے..اپنی پاک کلام شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ..میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے.اذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا ، وأن الله على نصر هم لقدير - ن الذين اخرجوا من ديارهم بغیر حق یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور نا حق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی.اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے (الجزء نمبری اسورة الج) مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جب کہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں.ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دین داری کا شعار سمجھا گیا اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا"." یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہر گزرہ صحیح نہیں اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پر جوش و عظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بنا دیں......اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون ان نادان اور نفسانی انسانوں سے نہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی ان سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں.یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں.اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں." اگر فرض بھی کرلیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تاہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور نہ ہی جنگوں کا

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۰۵ جهاد (بالسیف) کے التواء کا فتوئی خاتمہ ہو جائے گا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت کے منہ سے کلمہ يضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا.جب کہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں." ایک ہفتہ بعد حضور نے ۲۸ مئی ۱۹۰۰ ء کو التوائے جہاد کا باقاعدہ فتویٰ اپنی جماعت کو ہدایت دیتے ہوئے اپنی جماعت کو ہدایت فرمائی کہ "ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے." نیز لکھا." مسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع کام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے.جو بدی کا بدی سے مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے.اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو." فتویٰ جہاد کی وضاحت نظم میں چند دن بعد سے جون ۱۹۰۰ ء کو آپ کی ایک نظم بھی شائع ہوئی جس میں آپ نے اس فتویٰ کا سبب بیان کیا.اس نظم کے ابتدائی اشعار بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں.اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب انتقام ہے اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتوی فضول ہے کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التواء حضور نے اس نظم میں مسلمانوں کو نہایت لطیف پیرائے میں جہاں بانی کے حقیقی اصولوں کی طرف وہ علم وہ توجہ دلاتے ہوئے اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنے کی تلقین بھی فرمائی.چنانچہ فرمایا.اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی ده سلطنت دہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند کی طلعت نہیں رہی گداز وہ رقت نہیں رہی وہ ورو وہ خلق خدا یه شفقت د رحمت نہیں رہی دل میں تمہارے یار کی الفت نہیں رہی حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے مورت نہیں رہی.جہاد بالسیف کی ممانعت محض وقتی اور ہنگامی نوعیت کی تھی جیسا کہ مذکورہ بالا نظم سے بھی واضح

Page 123

1-4 جهاد (بالسیف) کے التواء کا فتوئی ہے حضور نے جہاد بالسیف سے متعلق فتوی دیتے ہوتے ہوئے ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر دی کہ جہاد ایک عرصہ کے لئے ملتوی کیا گیا ہے ہمیشہ کے لئے اٹھا نہیں لیا گیا.اسی ضمن میں حضور ابتداء ہی سے صاف لفظوں میں بتاتے آرہے تھے کہ یہ التواء فقط اس لئے ہے کہ ہمارے ملک میں اور اس زمانہ میں جہاد کی شرائط موجود نہیں.چنانچہ فرماتے ہیں.فَرُ فِعَتْ هَذِهِ السُّنَّةُ بِرَفْعِ أَسْبَابِهَا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ یعنی جہاد (بالسیف) اس لئے جائز نہیں کہ اس زمانہ اور اس ملک ہندوستان میں اس کی شرائط معدوم ہیں.نیز فرمایا " وَا مِرْنَا أَنْ تُعِدَّ لِلْكَفِرِيْنَ كَمَا يُعِدُّونَ لَنَا وَلَا نَرْفَعُ الْحُسَامَ قَبْلَ أَنْ نُقْتَلَ بِالْحُسَامِ - " یعنی ہمیں مامور ہی اس غرض سے کیا گیا ہے کہ ہم کافروں کے مقابل اسی قسم کی جنگ کی تیاری کریں جس طرح ہمارے مقابل کرتے ہیں اور یہ کہ تلوار سے قتل کئے جانے سے قبل تلوار نہ اٹھا ئیں.اس مسلک کی وضاحت آپ نے اردو کے الفاظ میں یہ فرمائی کہ اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے.اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلا دیں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالی کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے." فتویٰ کی مخالفت اور افسانہ کی اختراع حضرت مسیح موعود کے اس علمی جہاد کبیر کے اعلان پر اگر مسلمانان عالم توجہ کرتے تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا مگر افسوس یہ عجیب بات ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فتوی دیادہ اگر چہ عمل ۱۸۸۲ء سے علماء ہند کے سامنے تھا اور لدھیانہ کے چند علماء کے سوا جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نزدیک روح اسلام سے معرا اور سراسر نا واقف و جاہل تھے علمائے ہند نے آپ کا موقف صحیح تسلیم کیا.لیکن جب آپ نے اٹھارہ برس بعد محض رسول خدا ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں اس مسلک کا باقاعدہ اعلان کیا تو اس پر علماء کی طرف سے زبر دست شور و غوغا بلند ہوا.اور باوجودیکہ آپ نے ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ اس فتویٰ سے شرائط جہاد کے کالعدم ہونے کے باعث جہاد بالسیف کا التواء مقصود ہے مگر اس اعلان کو نہایت درجہ خدا نا ترسی اور حق پوشی کے ساتھ انکار جہاد" سے تعبیر کیا گیا.برسوں کے بعد جب عوامی ذہن اس پراپیگینڈا کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو گیا تو اس میں سیاست کا رنگ بھرتے ہوئے یہ افسانہ اختراع کیا گیا کہ انگریزوں نے مسلمانوں سے جذبہ جہاد سلب کرنے کے لئے اس جماعت کو جنم دیا ہے اور یہ تحریک انگریز کی اٹھائی ہوئی ہے.اس مضحکہ خیز خیال کی تردید کے لئے ایک غیر از جماعت دوست کا یہ بیان کافی ہے کہ ”جماعت احمدیہ کی شروع

Page 124

تاریخ احمدیت جلد ۲ 1.4 جہاد بالسیف) کے التواء کا فتونی زمانہ کی ترقی میں انگریزی حکومت کی سرپرستی کو بہت کم دخل ہے.مرزا صاحب اپنی زندگی میں اپنے معتقدین کو ایک منظم اور روبہ ترقی جماعت کی صورت میں قائم کر چکے تھے.مرزا صاحب ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے تھے اس وقت تک ہندوستان میں تحریک آزادی نے صحیح معنوں میں جنم ہی نہ لیا تھا اور انگریزوں کو اپنی رعایا میں وفا پیشہ افراد اور جماعتوں کی خاص طور پر حاجت نہ ہوئی تھی.مرزا صاحب کے زمانے میں ان کے مشہور مقتدر مخالفین مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب سرسید احمد خاں سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب.یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جو لٹریچر مرزا صاحب کے رد میں لکھا گیا اس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے." برسوں کی آویزش کے بعد حکم و جہاد کی بناء پر جماعت احمدیہ پر انگریز کے آلہ کار ہونے کا خیال پیدا کرنے والے دماغ دار العلوم tt عدل کے علم کلام کی طرف رجوع دیوبند کی اس سیاسی تحریک کی طرف منسوب ہوتے ہیں جس کے بانی مشہور عالم مولوی محمود الحسن صاحب (۱۸۵۱.۱۹۲۰) تھے جنہوں نے ۱۹۱۵ء میں تشدد اور جارحیت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہندوستان کی قائم شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ایک انقلابی پروگرام تجویز کیا جس کا خمیازہ ہندوستان کے مسلمانوں اور دوسرے ہندوستانی باشندوں کو نہایت عبرت انگیز رنگ میں بھگتنا پڑا.ہزاروں نفوس جیل میں ڈال دیئے گئے اور سینکڑوں تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے.اور غلامی کی زنجیریں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئیں.تشد در جبر کے اس دوسرے تجربہ کی ناکامی نے مولوی محمود الحسن صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی آنکھیں کھول دیں اور وہ بالا خر ۱۹۲۰ ء میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ان کا متشددانہ مسلک غلط ہے چنانچہ ایک مسلمان لیڈر کا (جن کی پوری زندگی جماعت احمدیہ کو انگریز کا خود کاشتہ پودا ثابت کرنے کی کوشش میں صرف ہوئی ہے بلکہ یہ خیال ابتداء انہی کے ذہن کی پیداوار ہے) اعتراف ہے کہ : ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں علماء شریک ہوئے اور ناکامی کے بعد مارے گئے کچھ قید ہوئے.ہزاروں انسان قتل ہوئے ، شہزادے قتل ہوئے ، ان کا خون کیا گیا.ان مصیبتوں کے بعد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.اسلامی حکومت قائم کرنے کا خیال شکست کھا گیا.اس کے بعد پھر ۱۹۱۴ء میں علماء کی ایک جماعت نے اسی خیال سے یعنی مسلم راج کرنے کے خیال سے تحریک شروع کی اور اس میں بھی شکست کھائی.اس کے بعد ۱۹۲۰ء میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بند مالٹا سے رہا ہو کر تشریف لائے.دہلی

Page 125

تاریخ احمدیت جلد ۲ I-A جہاد بالسیف) کے التواء کا فتوی میں ملک کے مختلف حصوں سے پانچ سو سے زائد علماء کا اجتماع ہوا اور وہاں یہ طے پایا کہ تشدد کا یہ راستہ غلط ہے موجودہ دور میں اسلامی حکومت کا قیام تقریبا نا ممکن ہے لہذا کانگرس کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان کی تمام قومیں مل کر ملک کا انتظام کریں اور جمہوری حکومت بنا ئیں.چنانچہ اس وقت تک ہم اسی عقیدے پر قائم ہیں اور ہم اسی راستہ کو صحیح راستہ سمجھتے ہیں." حضرت مسیح حضرت مسیح موعود کے نظریہ جہاد کی تائید علماء کی طرف سے موعود علیہ السلام کے نظریہ جہاد نے عالم اسلامی کے افکار و خیالات پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے صرف بر صغیر ہند و پاک کے بعض جید علماء کی تحریرات ذیل میں درج کرتے ہیں: مولانا ابو الکلام آزاد سابق وزیر تعلیم بھارتی حکومت (۶۱۸۸۸-۱۹۵۸ء) لکھتے ہیں: " جہاد کی حقیقت کی نسبت سخت غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد کے معنی صرف لڑنے کے ہیں.مخالفین اسلام بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے.حالانکہ ایسا سمجھنا اس عظیم الشان مقدس حکم کی عملی وسعت کو بالکل محدود کرتا ہے.جہاد کے معنی کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں.قرآن و سنت کی اصطلاح میں اس کمال درجہ سعی کو جو ذاتی اغراض کی جگہ حق پرستی اور سچائی کی راہ میں کی جائے جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.یہ سعی زبان سے بھی ہے مال سے بھی ہے.اتفاق وقت و عمر سے بھی ہے محنت و تکالیف برداشت کرنے سے بھی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں لڑنے اور خون بہانے سے بھی ہے." "دشمنوں کی فوج سے خاص وقت ہی میں مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن ایک مومن انسان اپنی ساری زندگی کی ہر صبح و شام جہاد حق میں بسر کرتا ہے...اس سے معلوم ہوا کہ لڑائی کے الگ کر دینے کے بعد بھی حقیقت جہاد باقی رہتی ہے." TA مولانا حسین احمد صاحب مدنی (۶۱۸۷۶.۱۹۵۷ء) لکھتے ہیں: اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی اور دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب (یعنی شاہ عبد العزیز قدس سرہ ناقل) کے نزدیک بلاشبہ دار الاسلام ہو گا اور - از روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں." مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء.۱۹۱۴ء) لکھتے ہیں:

Page 126

تاریخ احمدیت جلد ۲ 1-9 جہاد بالسیف) کے التواء کا توئی "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زریں سے لے کر آج تک مسلمانوں کا ہمیشہ یہ شعار رہا کہ وہ جس حکومت کے زیر سایہ رہے اس کے وفادار اور اطاعت گزار رہتے.یہ صرف ان کا طرز عمل نہ تھا بلکہ ان کے مذہب کی تعلیم تھی جو قرآن مجید حدیث فقہ سب میں کنایتہ " اور صراحتاذ کو رہے." م مولاناسید سلیمان صاحب ندوی (۱۸۸۴ء) - ۱۹۵۳ء) لکھتے ہیں " جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعا غلط ہے...لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں اس کے قریب قریب اس کے اصطلاحی معنی بھی ہیں یعنی حق کی بلندی اور اشاعت اور حفاظت کے لئے ہر ایک قسم کی جدو جہد ، قربانی اور ایثار گوارا کرنا اور اس کے لئے جنگ کے میدان میں اگر ان سے لڑنا پڑے تو اس کے لئے بھی پوری طرح تیار رہنا بھی جہاد ہے " افسوس کہ مخالفوں نے اتنے اہم اور اتنے ضروری اور اتنے وسیع مفہوم کو جس کے بغیر دنیا میں کوئی تحریک نہ سرسبز ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے صرف دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کے تنگ میدان میں محصور کر دیا ہے." ”یہاں ایک شبہ کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد اور قبال دونوں ہم معنی ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ان دونوں میں عام و خاص کی نسبت ہے یعنی ہر جہاد قتال نہیں بلکہ جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قتال اور دشمنوں کے ساتھ لڑنا بھی ہے." ۳۱ مولوی ظفر علی خاں صاحب آف زمیندار (۶۱۸۷۳-۱۹۵۶ء) لکھتے ہیں: اسلام نے جب کبھی جہاد (جہاد بالسیف مراد ہے.ناقل) کی اجازت دی ہے مخصوص حالات میں دی ہے.جہاد ملک گیری کی ہوس کا ذریعہ تکمیل نہیں ہے...اس کے لئے امارت شرط ہے.اسلامی حکومت کا نظام شرط ہے.دشمنوں کی پیش قدمی اور ابتداء شرط ہے.اتنی شرطوں کے ساتھ جو مسلمان خدا کی راہ میں نکلتا ہے اس کو کوئی شخص مطعون نہیں کر سکتا.البتہ اگر مسلمانوں نے اپنی حکومت و سلطنت کے زمانہ میں کبھی ملک گیری کے لئے توسیع مملکت اقوام وام کو غلام بنانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے تو اس کو جہاد سے کوئی تعلق نہیں." خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی (۱۸۷۸ء.۱۹۵۵ء) لکھتے ہیں: " جہاد کا مسئلہ ہمارے ہاں بچے بچے کو معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ جب کفار مذہبی امور میں ہارج ہوں اور امام عادل جس کے پاس حرب و ضرب کا پورا سامان ہو لڑائی کا فتویٰ دے تو جنگ ہر

Page 127

تاریخ احمدیت - جلد ۲ ١١٠ جہاد بالسیف) کے التواء کا لتونی مسلمان پر لازم ہو جاتی ہے مگر انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں نہ ہمارے پاس سامان حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہرگز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے."جہاد فی الاسلام" کے مصنف سید ابولاعلیٰ صاحب مودودی (ولادت ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء) انگریزی حکومت کے متعلق تحریر کرتے ہیں: ”ہندوستان اس وقت بلاشبہ دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جائیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا." ان چند تحریرات ہی سے جو بطور مثال درج کی گئی ہیں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسئلہ جہاد کے متعلق اختیار فرمایا مسلمانوں کے جید علماء بالا خر اس کی تائید کرنے پر مجبور ہوئے.

Page 128

تاریخ احمدیت جلد ۲ چہار (بالسیف) کے التواء کا فتویٰ ☑ -f حواشی ملحها از مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی مطبوعہ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳ الفضل ۱۸/ فروری ۱۹۵۹ء صفحہ ۶ کالم (خطبہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی) ذکر حبیب" از حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) صفحه ۳۴۴-۳۴۵ فرماتے ہیں ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیاء سفن سید المرسلین ہے سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں." (سوانح احمدی صفحه ای از مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری شائع کردہ صوفی پر جنگ کمپنی بہاؤ الدین) سوانح احمدی صفحه ۱۲۲ - " مجموعہ فتاوی (مولانا عبد الحی لکھنوی) مطبوعہ ۱۳۱۱ جلد دوم صفحہ ۲۳۵ پر آپ نے انگریزی حکومت کو دار الاسلام قرار دیا -A ہے.جمال دین ابن عبداللہ شیخ عمر حفی مفتی مکہ معظمہ احمد بن ذہنی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ سے بھی فتاوی حاصل کئے گئے جن میں ہندوستان کے دار الاسلام ہونے کا اعلان کیا گیا تھا." (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولفه شورش کا شمیری صفحه ۱۳۱) لکھتے ہیں " جب کہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کا یہاں کرنا سب ہلاکت اور معصیت ہوگا." (فتاویٰ نذیریہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۲ ۲۷۳ مطبوعہ دلی پر تنگ در کس طبع اول ایضا صفحہ ۳۷ (۳۹) کتاب "ہدایتہ السائل" اور دوسری متعدد کتابوں میں آپ نے لکھا کہ ہندوستان کے بلاد دار الاسلام ہیں نہ کہ دار الحرب اور غدر ۱۸۵۷ء میں جن مفسدوں نے انگریزی گورنمنٹ کا مقابلہ کیا تھا وہ فساد تھا نہ جہاد " (اشاعت السنہ جلد ۹ صفحه ایضاً " ترجمان وہابیہ صفحه ۱۵- ۳۰- ۸۴ مطبوعہ مطبع محمدی لاہور ۵۱۳۱۲) ملاحظہ ہو ان کا رسالہ " الاقتصاد فی مسائل الجهاد نیز اشاعت السنہ جلد نمبر ۱ صفحه ۲۸۷ پر لکھتے ہیں ” اہل اسلام کو ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے اور یہ جہاد نہیں ہے." اسباب بغاوت ہند (مطبوعہ ۱۸۵۸ء) میں لکھتے ہیں ” مسلمان ہماری گورنمنٹ و مستامن تھے.کسی طرح گورنمنٹ کی عمل داری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے (رسالہ مذکور صفحہ ۱۵ ۱۰۶ شائع کردہ اردو اکیڈیمی سندھ) فرماتے ہیں مسلمانوں کو یہاں ہندوستان میں جو مقبوضہ اہل مسیح ہے رہنا اور ان کا رعیت بنا درست ہے." فتویٰ صراط مستقیم از اشرف علی صاحب تھانوی بحواله رساله خالد اگست ۱۹۵۵ء صفحه ۲۰) ۱۳ آپ نے اپنے ترجمہ قرآن میں اولوالامر کا مصداق انگریزوں کو قرار دیا تھا.ترجمہ پر ان کو ۱۹۰۲ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی ڈگری پیش کی (داستان) تاریخ اردو مصنفہ حامد حسن قادری صفحه ۴۰۸ و "سید عطاء اللہ شاہ بخاری " مولفه شورش کا شمیری -If صفحه ۱۳۵) " ۱۳- دیکھئے ان کی کتاب " تحقیق الجمار" -10 ۱۵- لکھتے ہیں ”ہندوستان دار الاسلام ہے اسے دار الحرب کہتا ہرگز صحیح نہیں.نصرت الابرار صفحه ۲۹ مطبوعہ مطبع صحافی لاہور ایکی من شیخ ۱۶ بحوالہ " حیات جاوید " جلد اول صفحه ۱۴۴ مولفہ مولانا الطاف حسین صاحب حالی) مطبوعہ ۱۹۰۳ء براہین احمدیہ حصہ سوئم صفحه ا تاہم صحیح بخاری شریف صفحه ۱۳۹۰ مطبوعہ مطبع احمدی میرٹھ با تمام شیخ ظفر علی و مولوی عبد الرحمن) 19 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صفحہ اتاس

Page 129

تاریخ احمدیت جلد ۲ جهاد ( السیف) کے التواء کا فتوئی ۲۰ تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۴۸٬۴۷ ۲۱ خطبه العاميه ضمیمه صفحه آثار " تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۹٬۲۶ اور تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۵۲٬۴۹ ۲۲- "حقیقته المهدی صفحه ۱۹ ۲۳ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب مورخه ۲۱ جنوری ۱۸۹۲ء مطبوعه البدر ۱۴ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۹ کالم ۳ -۲۴- دیکھئے رسالہ " اشاعۃ السنہ " جلدے نمبر صفحہ ۷۵ حاشیہ ۲۵ احمدید تحریک صفحه ۱۲۴۳ ملک محمد جعفر خان صاحب ایڈووکیٹ شائع کردہ سندھ ساگر اکادمی لاہور.۲۶ طاحظہ ہو کتاب "سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۲۲ مولفه شورش کا شمیری ۲۷ سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۱۲۰ مولفہ خان کاہلی مطبوعہ ہندوستانی کتب خانہ ۶۳ ریلوے روڈ لاہور طبع اول.جون ۱۹۴۰ء ۲۸ مسئلہ خلافت صفحه ۷ ۱۴۸٬۱۴ شائع کردہ خیابان عرفان کھری روڈ لاہور ۲۹ نقش حیات جلد دوم صفحہ 11 حوالہ رسالہ ترجمان القرآن لاہو ر مارچ ۱۹۵۷ء -۳۰ مقالات شبلی جلد اول صفحہ اسے مطبوعہ معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۴ء ۳۱ سیرت النبی جلد ۵ صفحه ۴۰۴ تا ۴۰۷ ( طبع سوم ۱۹۵۲ء) ۳۲ اخبار زمیندار ۱۴ جون ۱۹۳۶ء ( بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک) ۳۳- رساله " شیخ سنوسی صفحہ کے امولفہ خواجہ حسن نظامی ۳۴- "سود " حصہ اول صفحہ ۳۴۳۰۳۴۲ ناشر اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور اشاعت اگست ۱۹۹۲ء

Page 130

تاریخ احمد بیت جلد ۲ الله منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد ؟ ۱۱۴ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد منارة المسيح مخبر صادق رسول خدا ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ بعث الله عیسی ابن مریم فینزل عند المنارة البيضاء شرقی دمشق - یعنی اللہ تعالٰی عیسی بن مریم کو معبوث فرمائے گا اور آپ ایک سفید منارہ کے پاس نزول فرما ہوں گے جو دمشق کے شرقی طرف واقع ہو گا.(صحیح مسلم شریف مصری جلد ۲ باب ذکر الدجال و صفته و مامعه صفحه ۳۳۰) اسلام کے عہد اول سے ہی یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ منارہ بیضاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل نبوت سے ہے اسی لئے یہ پیش گوئی پوری کرنے کے لئے ۴۶۱ ھ مطابق ۱۰۶۹ء میں بڑے اہتمام سے دمشق میں جامع اموی میں کئی لاکھ دینار کے صرف سے مینار بنایا گیا لیکن شوال ۷۴۰ ھ بمطابق اپریل ۱۳۴۰ ء میں عیسائیوں نے جامع اموی کو آگ لگادی اور مینار بھی تباہ ہو گیا جس پر اس کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی جو ابن طولون کی تحقیق کی رو سے ۷۷۴ھ (بمطابق ۷۳ - ۱۳۷۲ء) میں پایہ تکمیل تک پہنچی.ازاں بعد ۸۰۳ھ (بمطابق ۱۴۰۰ء) میں جب تیمور نے دمشق پر چڑھائی کی تو جامع مسجد میں پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی.تیمور نے آگ پر قابو پانے کی ہر چند کوشش کی مگر اسے سرا سرنا کامی ہوئی اور جامع اور مینار دونوں پوری طرح اس کی زد میں آگئے اور جل گئے.نامور اسلامی مورخ ابن خلدون اور صاحب ” ظفر نامہ " نے بھی اس حادثہ کا ذکر کیا ہے.دمشق کے وقائع نگار محمد ادیب نے اس آتشزدگی کی بابت لکھا ہے کہ اس وقت جامع اموی کی پوری عمارت نذر آتش ہو گئی.مصحف عثمانی کا نسخہ جو اس میں رکھا تھا وہ بھی اس کی زد میں آگیا.علاوہ ازیں کتابوں کا تمام ذخیرہ ضائع ہو گیا.بالاخر دو برس بعد شام کے گور نر شیخ خاصکی نے ۸۰۵ھ (بمطابق ۳.۱۴۰۲ء) میں اس کی تعمیر کا کام شروع کیا.اب تیسری بار کی سعی وجد وجہد سے گو جامع اموی بھی تعمیر ہو گئی اور منارہ عیسی" کے نام سے منارہ بھی قائم کر دیا گیا مگر خدا تعالٰی کا منشاء یہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانے اور اس کے مقام ظہور میں اس کی بناء رکھی جائے.اس لئے اب عام خیال کے بر عکس بعض مفکرین اسلام مثلا نویں صدی ہجری کے

Page 132

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۱۵ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد مجد د حضرت امام جلال الدین صاحب سیوطی کا ذہن خود بخود اس طرف منتقل ہو گیا کہ منار کا خاص دمشق میں ہونا ضروری نہیں اسے صرف دمشق سے مشرقی جانب ہونا چاہئے خواہ کہیں ہو.قادیان میں منار کی تعمیر کے لئے الہی تحریک سوای تعبیر کے عین مطابق خدا تعالی کی طرف سے ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تحریک ہوئی کہ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں (جو حدیث کے مطابق دمشق سے ٹھیک مشرقی جانب واقع ہے) ایک سفید منار تعمیر کیا جائے نیز یہ خبر دی گئی کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے اس منار کی تعمیر کا گہرا تعلق ہے.منار کے لئے اشتہار یہ زمانہ مالی اعتبار سے جماعت کے لئے بڑا پر آشوب زمانہ تھا.ویسے بھی جماعت کی تعداد نہایت قلیل تھی اور ایسے عظیم الشان منار کے لئے کثیر رقم کی ضرورت تھی جس کا مہیا ہونا ایک مختصری جماعت کے لئے (جسے تبلیغ حق کے دو سرے کاموں میں بھی اپنی طاقت و بساط سے بڑھ کر خرچ کرنا پڑتا تھا، بڑا ہی مشکل امر تھا مگر جوں ہی خدا کا حکم آگیا حضرت اقدس نے ہر قسم کے عواقب و خطرات سے بے نیاز ہو کر ۲۸/ مئی ۱۹۰۰ء کو جماعت کے نام ایک مفصل اشتہار شائع فرمایا جس میں بڑی شرح وبسط سے لکھا کہ." حدیث نبوی کے مطابق ایک اونچا مزار بنانے کی تجویز کی گئی ہے جو مازنہ کا کام دے گا.اس پر لالٹین اور گھنٹہ بھی نصب ہو گا.منارہ تصویری زبان میں مسیح محمدی سے متعلق پیش گوئی لیظهرة علی الدین کلہ کی طرف سے اشارہ کرے گا کہ جس طرح یہ مینار بلند ہے اسی طرح اسلامی سچائی بلندی کے انتہاء تک پہنچ جائے گی.اور جس طرح پر بلند ہونے والی آواز سب پر چھا جاتی ہے اسی طرح دین اسلام سب دیوں پر غالب آئے گا.منارہ کی لائین اور گھنٹہ یہ حقیقت بتائیں گے کہ زمینی علوم کے ساتھ آسمانی روشنی کا زمانہ آگیا اور دنیا کو اپنا وقت پہچاننا چاہئے." " منارة المسیح کی عظمت و اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیث نبویہ میں تسلیم کی گئی اور منارہ کا خرچ دس ہزار روپیہ سے کم نہیں ہے اور جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ ایسے موقع پر خرچ کرنا ہر گز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہو گا.وہ خدا کو قرض دیں گے اور معہ سود واپس لیں گے.کاش ان کے دل سمجھیں کہ اس کام کی خدا کے نزدیک کس قدر عظمت ہے.جس خدا نے منارہ کا حکم دیا ہے اس نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مردہ حالت میں اس جگہ سے زندگی کی روح پھونکی

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد ۲ منارة المسیح کی تحریک اور بہار جائے گی اور یہ فتح نمایاں کا میدان ہو گا.یہ کام بہت جلدی کا ہے.دلوں کو کھولو او رخدا کو راضی کرد.یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ کی طرف واپس آئے گا.میں اس سے زیادہ کرنا نہیں چاہتا اور ختم کرتا ہوں." یہ اشتہار شائع ہوا تو ہندوستان کے بعض علماء نے جن کا مقصد محض تکذیب تھا یہ علماء کا اعتراض اعتراض کیا کہ منارہ پر روپیہ خرچ کرنا اور گھڑیال رکھنا دونوں اسراف ہیں.اس پے حضرت اقدس نے یکم جولائی ۱۹۰۰ ء کو دوسرا اشتہار دیا کہ ہمیں تعجب ہے کہ ایسی گستاخی کی باتیں زبان پر لانے والے پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں.یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبر خدا کی پیش گوئی پوری ہو جائے.یہ سی قسم کی غرض ہے جیسا کہ ایک صحابی کو کسری کے مال میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیش گوئی پوری ہو جائے اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کے لئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا تو اب کی بات ہے نہ گناہ.اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کی کوئی پیش گوئی پوری ہو.اس اشتہار میں حضور نے مخلصین کو مخاطب کر کے لکھا.خدا تعالٰی کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بنے کیوں کہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے.سو اب یہ تیسری مرتبہ خدا تعالیٰ نے آپ کو موقعہ دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں.جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں سے ہو گا." و مسیح موعود کا حقیقی نزول یعنی ہدایت اور برکات کی روشنی کا دنیا میں پھیلنا یہ اس پر موقوف ہے کہ یہ پیش گوئی پوری ہو یعنی منارہ تیار ہو." "سو ابتداء سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جو نور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو پھیرے گا منارہ کی تیاری کے بعد ہو گا." حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد تعمیری اخراجات کے لئے مخلصین کی قربانی عینکہ اسی اثانی ایدہ اللہ تعالی کا بیان (خلیفتہ ہے کہ حضرت اقدس مسجد مبارک میں بیٹھے تھے.منار بنانے کی تجویز در پیش تھی.میر حسام الدین صاحب سیالکوٹی نے دس ہزار کا تخمینہ لگایا.مگر سوال یہ تھا کہ دس ہزار روپیہ کہاں سے آئے.کیوں کہ اس وقت جماعت کی حالت زیادہ کمزور تھی اور ان حالات میں منارہ کی تعمیر مشکل کام تھا اور حضور بار بار فرماتے تھے کہ کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اس سے بھی کم روپیہ خرچ ہو.آخر حضور نے دس ہزار کو

Page 134

تاریخ احمدیت جلد ۲ مثارة المسیح کی تحریک اور بنیاد سوسور پید کے حصوں پر تقسیم فرمایا.چنانچہ یکم جولائی ۱۹۰۰ء کے اشتہار میں منار کے اخراجات کی فراہمی کے لئے حضرت اقدس اپنے اء ا خدام کی ایک فہرست شائع کرتے ہوئے کم از کم ایک ایک سو روپیہ چندہ دینے کی تحریک فرمائی اور فیصلہ کیا کہ اس پر لبیک کہنے والوں کے نام منار پر بطور یادگار کندہ کرائے جائیں گے.اس تحریک کے ساتھ ہی آپ کے چار مخلص خدام منشی عبد العزیز صاحب او جلوی اور میاں شادی خان صاحب لکڑی فروش سیالکوٹ، مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور شیخ نیاز احمد صاحب تاجر و زیر آباد نے حضور کی شرط کے مطابق چندہ پیش کر دیا جن میں سے اول الذکر رو اصحاب کا تذکرہ حضور نے اس اشتہار کے آغاز میں بھی نہایت درجہ تعریفی کلمات میں فرمایا اور ان کی قربانی کو جماعت کے لئے قابل رشک قرار دیا.حضرت ام المومنین نے منار کے لئے ایک ہزار روپیہ کا چندہ لکھوایا جو دہلی کے ایک ذاتی مکان کی فروخت سے ادا کیا.منار کے لئے ابتدائی انتظامات منار کے لئے ابتدائی انتظامات میں پہلا مرحلہ نقشہ نویسی اور اینٹوں کی تیاری کا تھا.یہ دونوں کام ۱۹۰۱ء کے آخر 12 تک پایہ تکمیل کو پہنچے.منار کے لئے مختلف جگہیں زیر تجویز تھیں.حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین صاحب نے اپنا مکان پیش فرمایا کہ اس میں بنے مگر حضور نے مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں اس کی تعمیر کا فیصلہ فرمایا.II منار کا نقشہ اور تخمینہ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے چھوٹے بھائی سید عبدالرشید نے بنایا اور اینٹوں کے لئے زمین میاں امام دین صاحب قادیانی نے دی.اینٹیں تو ایک مناسب مقدار میں ۱۹۰۱ء کے آخر تک تیار ہو چکی تھیں لیکن چونکہ جلد سنگ بنیاد ہی ملک پر طاعون نے سخت حملہ کر دیا تھا اور سیالکوٹ اور بعض دوسرے مقامات جہاں سے معماروں کو آنا تھا اس وبا کی زد میں آچکے تھے.اس لئے ڈیڑھ سال تک کام معطل رہا اور بالاخر ۱۳ ذو الحجہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۳.مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعہ اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا.اس دن جمعہ کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور حکیم فضل التي صاحب لاہوری ، مرزا خدا بخش صاحب شیخ مولا بخش صاحب قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کیا کہ حضور کے دست مبارک سے منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھی جائے تو مناسب ہو گا.حضور نے فرمایا کہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیاد رکھی جاوے گی.اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پر دعا کردوں گا اور پھر جہاں میں کہوں وہاں آپ جا کر رکھ دیں.چنانچہ حکیم فضل الہی صاحب اینٹ لے آئے اور حضور نے اسے ران مبارک پر رکھ کر لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد آپ نے اس اینٹ پر دم کیا اور حکیم فضل الہی صاحب سے ارشاد فرمایا کہ آپ اس کو (مجوزہ) منارۃ المسیح کے مغربی حصہ میں

Page 135

تاریخ احمدیت جلد ۲ IIA سنارة المسیح کی تحریک اور بنیاد رکھ دیں.حکیم صاحب موصوف اور دوسرے احباب یہ مبارک اینٹ لے کر جب مسجد اقصیٰ پہنچے تو راستہ میں مولوی عبد الکریم صاحب نماز جمعہ پڑھا کر واپس آرہے تھے.مولوی صاحب کا معمول تھا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر دیر تک مسجد اقصیٰ میں بیٹھتے تھے.علم و حکمت کی یہ بڑی پر کیف محفل ہوتی تھی جس میں باہر سے آنے والے احباب آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور آپ سے استفادہ کرتے تھے.اس دن بھی حسب معمول دیر سے آرہے تھے.راستہ میں جب یہ حال آپ کو معلوم ہوا تو آپ رقت سے بھر گئے اور یہ اینٹ لے کر اپنے سینہ سے لگائی اور بڑی دیر تک دعا کرتے رہے اور فرمایا کہ یہ آرزو ہے کہ یہ کام فرشتوں میں شہادت کے طور پر رہے.آخر وہ اینٹ فضل الدین صاحب احمدی معمار نے بنیاد کی مغربی حصہ میں پیوست کر دی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب اس کام کے نگران مقرر ہوئے.مینار کی بنیاد بہت گہری وسیع و عریض اور کنکریٹ کے ذریعہ سے مضبوط کر کے اٹھائی گئی.مینار کے متعلق مقامی ہندوؤں کی حکومت کو شکایت قادیان کے ہندو مخالفیں نے اس موقعہ پر یہ شرارت اٹھائی کہ حکومت کے افسروں سے شکایتیں کیں کہ مینار کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہو گی.یہ معاملہ اس درجہ نازک صورت اختیار کر گیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے تحصیل دار بٹالہ کو اس کی تحقیقات کے لئے قادیان بھیجوایا گیا.یہ ۸.مئی ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے.حضور اس وقت میر پر تشریف لے گئے تھے.کوئی آدھ گھنٹہ بعد جب حضور واپس پہنچے تو تحصیل دار صاحب ملاقات کے لئے آئے اور سوال کیا کہ منار کیوں بنوایا جاتا ہے.حضور اقدس نے جواباً فرمایا کہ اس منار کی تعمیر میں ایک یہ بھی برکت ہے کہ اس پر چڑھ کر خدا کا نام لیا جائے گا.اور جہاں خدا کا نام لیا جاتا ہے وہاں برکت ہوتی ہے.چنانچہ آج کل اس لئے سکھوں نے بھی اذانیں دلوائی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے گھروں میں بلا کر قرآن پڑھوایا ہے.پھر اس کے اوپر ایک لائٹیں بھی نصب کی جاوے گی جس کی روشنی دور دور تک نظر آوے گی.سنا گیا ہے کہ روشنی سے بھی طاعونی مواد کار فعیہ ہوتا ہے اور ایک گھڑیال بھی اس پر لگایا جائے گا.مجھے حیرت ہے کہ یہاں کے ہندوؤں کے ساتھ ہم نے آج تک برادرانہ برتاؤ رکھا ہے اور یہ لوگ ہمارے مزار کی تعمیر پر اس قدر جوش و خروش ظاہر کر رہے ہیں.اس مسجد کو ہمارے مرزا صاحب (حضور کے والد صاحب ناقل) نے سات سو روپے کو خریدا تھا اور اس مینار کی تعمیر میں صرف مسجد ہی کے لئے مفید بات نہیں ہے بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہے.یہ خیال کہ اس سے بے پردگی ہو گی یہ بھی غلط ہے.اب ہمارے سامنے ڈپٹی شنکر و اس صاحب کا گھر ہے اور اس قدر اونچا ہے کہ آدمی اوپر چڑھے تو ہمارے گھر میں اس کی نظر برابر پڑتی ہے تو کیا اب ہم کہیں کہ اسے گرا دیا جائے بلکہ ہم کو چاہئے کہ اپنا

Page 136

د جلد ا 119 مارہ المسیح کی تحریک اور بنیاد پردہ خود کرلیویں.ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ مذہبی امور میں ہم سے دل بستگی ظاہر کرتے اور اس امر میں ہماری امداد کرتے.اگر یہ لوگ اپنا معبد بلند کرنا چاہیں تو کیا ہم اسے روک سکتے ہیں.مجھے ان لوگوں پر بار بار افسوس آتا ہے کہ ہمارے دل میں تو ان کی ہمدردی ہے بیماریوں میں ہم ان کا علاج کرتے ہیں.ہر ایک ان کی مصیبت میں شریک ہوتے ہیں.انہی سے پوچھا جاوے کہ کبھی ان کے مذہبی معاملات میں میں نے ان سے نقیض کی ہے.اب میں ایسا فعل کیوں کرنے لگا جس سے ان کو بھی نقصان ہو اور مجھے بھی کیوں کہ مینار پر چڑھ کر جیسے اوروں کے گھر پر نظر پڑے گی ویسے ہی ہمارے گھر پر بھی پڑے گی.المختصر حضرت اقدس کے اس مفصل بیان کے بعد فریقین کی تحریری شہادتوں سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ یہ شکایت محض تعصب اور مخالفت پر مبنی ہے.بنا بریں میجر ڈلس ڈپٹی کمشنر گوردار سپور نے ۱۶ / اپریل ۱۹۰۳ء کو یہ مقدمہ خارج کر دیا.مالی مشکلات کے باعث کام کا رک جانا مینار کی تکمیل کے ساتھ خدا تعالی کی طرف سے بہت سی برکات کا نزول وابستہ تھا اور اس لئے حضور اسے جلد سے جلد مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے تھے.مگر دلی خواہش و تمنا کے باوجود مالی مشکلات کے باعث تعمیر کا کام رک گیا.تب حضور نے اپریل ۱۹۰۵ء میں جماعت کے مخلصین سے چندہ خاص کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت پانچ ہزار کی ضرورت ہے.اگر پانچ ہزار دوست ایک ایک روپیہ دیں تو یہ رقم جمع ہو سکتی ہے.مگر الی تنگی کے باعث اس تحریک کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی روایت ہے کہ جب مینار کا کام (فنڈ کی کمی کے باعث) بند پڑا رہا تو ایک دن کسی شخص نے سوال کیا کہ حضور یہ مینار کب تیار ہو گا؟ حضور نے فرمایا.اگر سارے کام ہم ہی ختم کر جاویں تو پیچھے آنے والوں کے لئے ثواب کہاں سے ہو گا؟ II چنانچہ یہی ہوا کہ حضور کی زندگی میں مینار کی عمارت صحن مسجد کی سطح سے چھ فٹ سے زیادہ بلند نہ ہو سکی.حضور کے عہد مبارک میں مینار کے تکمیل تک نہ پہنچنے کی وجہ بتاتے ایک خلاف واقعہ بیان ہوئے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مولف "محمد واعظم " نے لکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو جب اطمنان ہو گیا تو اس نے تعمیر کی اجازت دے دی لیکن حضرت اقدس نے اجازت آجانے کے باوجود اس کی تعمیر کو ادی اور پھر اس کی طرف سے آپ کی توجہ بالکل ہٹ گئی یہاں تک کہ آپ اس جہان سے گزر گئے.ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر رک جانے کی وجہ مالی تنگی تو نہیں ہو سکتی تھی.بعد میں جماعت اس قدر بڑھ گئی تھی اور چندہ اس کثرت سے آنے لگا تھا کہ حضرت اقدس چاہتے تو ایسے کئی منارے بنوا سکتے تھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اشارہ غیبی یا القائے ربانی نے آپ

Page 137

تاریخ احمد مرد جلد ۲ ۱۲۰ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد کی توجہ اس طرف سے ہٹا کر اس روحانی مینار کی طرف پھیر دی جو دراصل آپ کے علم کلام اور بے بہا لٹریچر کے ذریعہ تیار ہو رہا تھا.مولف "مجد داعظم " کے اس بیان میں تین باتیں نمایاں ہوتی ہیں.اول.اجازت ملنے کے باوجود حضور نے از خود میتار کی تعمیر رکوادی.دوم - تعمیر مالی تنگی کے باعث نہیں رک سکتی تھی اس لئے کہ بعد ازاں اس کثرت سے چندہ آنے لگا تھا کہ حضور چاہتے تو ایسے کئی منارے بنوا سکتے تھے.سوم دراصل کسی اشارہ غیبی یا القائے ربانی نے آپ کی توجہ ظاہری مینار سے ہٹا کر روحانی مینار کی طرف کردی تھی.افسوس یہ تینوں دعاوی واقعات کے صریح خلاف اور محض مفروضات ہیں نہ تو اس بات میں کچھ صداقت ہے کہ حضور نے اجازت آنے کے بعد از خود اس کی تعمیر کوا دی بلکہ اس کے بر عکس حضور کو آخر دم تک اس مینار کا خیال رہا حتی کہ ۱۹۰۵ ء میں بھی جب کہ قرب وصال کے الہامات نازل ہو رہے تھے حضور کو اس طرف توجہ تھی جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.اس طرح یہ نظریہ کہ بعد میں چندے اتنی کثرت سے آنے شروع ہو گئے تھے کہ ایسے کئی منارے بنوائے جاسکتے تھے یہ بھی بے بنیاد بات ہے.الحکم ۱۹۰۷۸ء سے تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت اقدس کی زندگی کے آخری دنوں میں لنگر خانہ کے اخراجات بھی بار بار کی تحریک کے باوجود پورے نہیں ہو رہے تھے بلکہ مالی مشکلات کا یہ عالم تھا کہ ان دنوں باورچی خانہ کو نئے مہمان خانہ سے منتقل کرنے کے لئے نئے کچے مکانات بنوائے جا رہے تھے جو فنڈ کی کمی کے باعث روکنے پڑے.پھر مولف "مجدد اعظم" کا یہ دعویٰ کہ بعد میں القائے ربانی نے حضور کی توجہ ظاہری مینار سے ہٹا کر روحانی مینار کی طرف منعطف کرادی تھی سلسلہ کے لٹریچر سے ہر گز ثابت نہیں.اور اگر اسے ایک لو کے لئے تسلیم کر لیا جائے تو منارة المسیح کی تحریک محض لغو چیز قرار پاتی ہے اور حضور کے مخالف علماء جنہوں نے شروع میں ہی اس کی مخالفت کی تھی حق پرست ماننا پڑتے ہیں حالانکہ حضرت اقدس صاف لکھتے ہیں یہ مینار وہ مینار ہے جس کی ضرورت احادیث نبویہ میں تعلیم کی گئی." نیز فرماتے ہیں."خدا نے منارہ کا حکم دیا ہے.سوال یہ ہے آخر وہ القائے ربانی کہاں ہے؟ جس نے خدا کے اس پہلے حکم کو منسوخ کر دیا.پس حقیقت یہی ہے کہ مینار کی تعمیر کے بند کرنے کا حقیقی اور واقعاتی سبب اخراجات کی کمی تھا.اگر تعمیر مینار کی مد میں کافی رقم فراہم ہو جاتی تو حضور اپنی زندگی میں ہی اسے مکمل کردار ہے

Page 138

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۲۱ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد خلافت ثانیہ میں مینار کی تعمیل اس ضمنی مگر اہم حقیقت کی نشان دہی کرنے کے بعد اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف آتے ہیں.حضور کی وفات کے بعد خلافت اوٹی کے دور میں بھی اس پر کوئی اضافہ نہ ہو سکا لیکن جب خلافت ثانیہ کا عہد آیا تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنہیں الہام الہی میں نور قرار دیا گیا تھا اور جن کے ہاتھوں ازل سے مسیح محمدی کے نوروں کی ضیاء پاشی مقدر تھی.خلافت ثانیہ کے پہلے ہی سال ۲۷.نومبر ۱۹۱۴ء کو منارہ کی نا تمام عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کروا دیا.II اس دفعہ تعمیر کی نگرانی کے فرائض قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے سرانجام دئے.اس کے لئے اجمیر شریف سے بہترین سنگ مرمر مہیا کیا گیا اور آخر رسول خدا کے دلائل نبوت کا یہ زبر دست نشان دسمبر ۱۹۱۵ء 2 میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.یہ خوش نما اور دلکش اور شاندار مینار (جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ) ایک سو پانچ فٹ اونچا ہے.اس کی منزلیں تین گنبد ایک اور سیڑھیاں بانوے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیرینہ خواہش کے مطابق اس پر ۲۱۱ مخلصین چندہ دہندگان کے نام درج ہیں جنہوں نے منارہ کے لئے ایک ایک سورد پسیہ چندہ دیا.اس پر کلاک گھڑیاں بھی نصب ہیں اور بجلی کے قمقمے بھی آویزاں ہیں جو میلوں تک کے حلقہ کو روشنی پہنچاتے ہیں (اولین بنیاد کے اخراجات چھوڑ کر) اس کی تعمیر پر پانچ ہزار نو سو تریسٹھ روپے خرچ ہوئے (گھڑیال کٹرے، بجلی کا سامان نیز چندہ دہندگان کی کتابت کے اخراجات اس سے علاوہ ہیں) Te

Page 139

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۲۲ مارة المسیح کی تحریک اور بنیاد اسماء گرامی چندہ دہندگان بشرح یک صد روپیہ برائے منارة امسیح قادیان حضرت میرزا غلام احمد علیہ الصلوة والسلام ۲.حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اسی ۳.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح ۴.حضرت نصرت جہاں بیگم حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب.حضرت نواب محمد علی خان صاحب ے.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حافظ روشن علی صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ۱۰.محمد حیات خان صاحب رئیں حافظ آباد غلام اکبر خان صاحب حیدر آباد دکن ابو محمد افضل صاحب وزیرستان ۱۳ خان بہادر محمد علی خاص کو ہات چوہدری نعمت اللہ خان سیشن حج دہلی ۱۵ رشیدہ بیگم المیہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اخوند محمد الفضل خاں ڈیرہ غازی خاں ے اس دولت خاتون الایه اخوند صاحب موصوف ۱۸.الطاف خان پر اخوند صاحب موصوف ۱۹ قریشی مختار احمد صاحب دہلی ۲۰ مریم صدیقہ المیہ بابو محمد شلع نوشہرہ ۲۱ قاضی سید امیر حسین صاحب قادیان ۲۲.مولوی میر محمد سعید صاحب حیدر آباد دکن ۲- خشی شادی خان صاحب قادیان ۲۴ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایل ایل بی ۲۵- شیخ نیاز احمد صاحب تاجر وزیر آباد ۲.منشی عبد العزیز صاحب قادیان ۲۷.حاجی سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدرای ۲۸.سیٹھ علی محمد صاحب بنگلور ۲۹.حاجی سیٹھ صالح محمد در اس ۳.سیٹھ احمد صاحب مدراس.سیٹھ والی لائی صاحب مدارس ۳۲.سیٹھ ظهور علی صاحب حیدر آباد دکن ۳۳.میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹ ۳۲.نواب سید محمد رضوی صاحب بیتی ۳۵ مفتی محمد صادق صاحب قادیان ۳ - مستری محمد دین صاحب بھیرہ ۳۷.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین قادیان ۳۸.خلیفہ نور الدین صاحب جموں ۳۹.حافظ محمد اسحاق صاحب حیدر آباد دکن سید ناصر شاہ صاحب قادیان ام سید فضل شاہ صاحب قادیان ۲۲- سید غلام غوث صاحب قادیان ۴۳.ڈاکٹر رحمت علی صاحب افریقہ ۲۴ بابو محمد الفضل ایڈیٹر اخبار البدر قادیان ۴۵.ڈاکٹر محمد اسمعیل خان گریانی ۴۶.پیر برکت علی صاحب رحمل ۴۷.شیخ غلام نبی سیستمی قاریان ۴۸ مولوی شیر علی صاحب قادیان ۲۹.مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ۵۰ میاں رحمت اللہ صاحب سنوری میاں عبدالرحیم صاحب سنوری ۵۲- حبیب اللہ صاحب سنوری ۵۳.صوفی عبد القدیر صاحب بی.اے ۵۳ ماسٹر قادر بخش صاحب اودیانه ۵۵ مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۵۶.ہا ہو گلاب خان سیالکوٹ ۵۷.میاں محمد دین صاحب سیالکوٹ ۵۸ ماسٹر قمر الدین صاحب اودیانه ۵۹ مولوی عبد القادر صاحب اودیانه ۲۰.منشی محمد اکبر صاحب پٹیالہ.حکیم محمد حسین قریشی لاہور منشی محمد جان صاحب او جله ۱۳ - چوہدری حاکم علی قادیان ۷۲.میاں محمد صدیق سیکھواں ۶۵.میاں امام الدین سیکھواں ۱۶.میراں جمال الدین سیکھواں ۶۷.میاں خیر الدین سیکھواں مولوی غلام امام صاحب منی پور آسام

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد ۲ -21 ۷۹ - صوفی نمی بخش صاحب کلرک ممباسه - شیخ عبد الرحمن صاحب کلرک ممباسه ہے.شیخ اکرم الہی صاحب وکیل پٹیالہ ہے.ہیو روشن دین صاحب سیالکوٹ ۷۳.بابو شاہ دین صاحب ڈومیلی ۷۴.حاجی ملاں امام بخش صاحب ۷۵.سیٹھ موسی ابن عثمین جام نگر ہے.ڈاکٹر را مانند ضلع گڑ ہوال ۷۷.شیخ یعقوب علی صاحب قادیان ۷۸.المیہ شیخ صاحب موصوف قادیان ۷۹ - محموده دختر شیخ صاحب موصوف قاریان شیخ غلام غوث برادر شیخ صاحب موصوف قادیان مولوی حبیب الرحمان صاحب حاجی پوره ۸۲ - قاضی میر حسین علی پورمتان ۸۳ حاجی غلام احمد صاحب کر یام ۸۴ مولوی محمد الدین صاحب صریح ۸۵ الیہ مولوی محمد الدین صاحب صریح ۸۷ - بابو جمال الدین گوجر انوالہ ۸۷ مولوی احمد شیر خان حیدر آباد دکن ۸۸.سیٹھ شیخ حسن صاحب یاد گیر منشی نادر خاں سر کالی ضلع جہلم میرزا محمد صادق صاحب لاہور حکیم مولوی فضل دین قادیان منشی رستم علی صاحب کو رٹ انسپکٹر ۹۳.میاں نبی بخش صاحب امرتسر ۹۴.میاں چراغ دین صاحب لاہور ۹۵ مولوی غلام حسن پیشاور ۹۲.شیخ رحمت الله تاجر لاہور ۹۷ شیخ عبد الرحمن بی.اے لاہور ۹۸.ماسٹر نظام محمد صاحب سیالکوٹ 19.شیخ فضل حق صاحب بٹالہ ۱۰.شیخ مولا بخش پوٹ مرچنٹ سیالکوٹ ۱۰۱.شیخ غلام حید ر صاحب سیالکوٹ ۱۰۲.مولوی عزیز بخش صاحب بی.اے ۱۰۳.محمد اسماعیل ٹیلر سیالکوٹ ۱۰۴.فتح محمد جان صاحب وزیر آباد منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد ۱۰۵.حکیم مرز اخد ابخش صاحب لاہور ۱۰۲ نقشی مهردین پٹواری کو بلیاں ۱۰۷.حکیم محمد قاسم صاحب لالہ موسیٰ ۱۰۸- حاجی مفتی گلزار محمد الله ۱۰۹.مرزا حسین بیگ کھر کا ضلع گجرات ۱۱۰.منشی الله و تا صاحب سیالکوٹ _ IN صوفی محمد یعقوب صاحب کیٹری افغا ہیں ۱۱۲ بابو فخردین کلرک سپلائی ڈیو.ڈاکٹر عطا اللہ خاں دہرم کوٹ بگه یاہو نظام الدین صاحب مائل پور ۵- بابو عبد العزیز صاحب ٹیلی مسٹر سیالکوٹ بابو محمد زیر قال صاحب قادیان مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ۱۸ میاں الہ دین صاحب ٹھیکریاں راولپنڈی.راجہ علی محمد صاحب افسریال لاہور ۱۲۰- خان بهادر شیخ محمد حسین علی گڑھ - ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب افریقہ ۱۳۲.منشی گو ہر علی صاحب کو ٹلہ افغاناں ۱۲۳- شیخ مشتاق حسین گوجرانوالہ ۱۲۴.خان صاحب فرزند علی صاحب قادیان ۱۲۵- خدیجہ بیگم اہلیہ خان صاحب موصوفی ۱۳.امتہ اللہ بیگم المیہ دوم موصوف ۱۲۷.ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب ۱۲۸.اہلیہ ڈاکٹر صاحب موصوف ۱۳۹ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب قادیان ۱۳۰ خان صاحب برکت علی صاحب آف شمله ۱۳۱ مولوی عبد الرحیم نیر صاحب قادیان ۱۳۲.جماعت احمد یہ لیگوس ۱۳۳- مولوی عالمگیر خان صاحب سندھ ۱۳۲ مستری علی بخش صاحب فرید کوٹ ۱۳۵ اہلیہ مستری صاحب موصوف ۱۳.ڈاکٹر عبد الکریم صاحب گھر وال لودیا نہ ۱۳۷ شیخ علی اظفر صاحب ۱۳۸.منشی محمد دین صاحب کھاریاں ۱۳۹.میاں غلام نبی صاحب ماہل پور ۱۴۰.شیخ فضل احمد صاحب بٹالہ

Page 141

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۱۱.المیہ شیخ صاحب موصوف ۱۲.ڈاکٹر سید محمد حسین دہرم کوٹ رندھاوا ۱۳۳ پایگان ڈاکٹر صاحب موصوف ۱۳ ڈاکٹر فضل الدین صاحب افریقہ ۱۳۵.المیہ ڈاکٹر صاحب موصوف ۱۳۶.بچوگان ڈاکٹر صاحب موصول ۱۳۷- شیخ احمد اللہ صاحب نوشہرہ ۱۳۸ قاضی عبد الله صاحب قاریان ۱۳۹ صوفی محمد علی جنجوعہ صاحب جلال پور جناں ۱۵۰.ابو محمد عبد اللہ صاحب فیروزپور ا۱۵.ڈاکٹر فضل کریم صاحب قادیان ۱۵۲.سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب سکندر آباد ۱۵۳.المیہ عبد اللہ بھائی صاحب سکندر آباد ۱۵۴.سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب سکندر آباد ۱۵۵.ابو محمد شفیع اور سیر صاحب قادیان ۱۵۶ مولوی محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر قادیان ۱۵۷ برگان محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر قادیان ۱۵۸.حافظ سید عبد الوحید منصوری صاحب 109.بابر اعجاز حسین صاحب دہلی ۱۲۰- شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی صوبیدار غلام حسین صاحب چک ۱۸۱ ۱۷۲.ماسٹر محمد طفیل صاحب قادیان.ڈاکٹر شاہ نواز صاحب سیالکوٹ حافظ سید عبد المجید صاحب منصوری ۲۵ پیر منظور محمد صاحب قادیان ۱۲۲.منشی گل محمد صاحب تلہ گنگ کیمل پور ۲۷- شیخ نیاز احمد صاحب گوجر انوالہ - ابو غلام حسین صاحب لدھیانوی ۱۷۹.سیٹھ علی محمد صاحب سکندر آباد ۱۷۰.فاطمہ بیگم صاحبہ بنت عبد اللہ بھائی ۱۷.ابو فضل دین صاحب اور میٹر مردان ۱۷۲.سیٹھ اسماعیل آدم صاحب بھیتی ۱۷۳.ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب لاہور ے.سید غلام حسین صاحب رہنگ ۱۷۵.سیدہ جمیلہ خاتون صاحبه مظفر نگر ۱۷۶.ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ننکانہ ۱۲۴ منارة المسیح کی تحریک اور باتماد ۱۷.میاں محمد شریف صاحب قصور ۱۷۸.امتہ الرحمان صاحبہ بھیرہ ۱۷.نواب محمد الدین صاحب جودھپور ۱۸۰ ملک موٹی بخش صاحب امرتسر ۱۸ بابو سراج الدین صاحب ۱۸۲.قریشی محمد عین صاحب کرنال ۱۸۳.مرزا برکت علی صاحب ابادان ۱۸۴.المیہ مرزا صاحب موصوف ۱۸۵ ابراهیم یوسف صاحب بردولی ۱۶.بابو عبد الرحمان صاحب انبالہ ۱۸۷.حاجی میران بخش صاحب انبالہ ۱۸۸.میاں خدا بخش صاحب ہانڈو ۱۸۹.چوہدری صادق علی صاحب تحصیل دار ۱۹۰.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ 19.ڈاکٹر محمد رمضان صاحب سری گویند پور ۱۹۲.چوہدری محمد اسمعیل صاحب کھیوہ باجوہ ۱۹۳ ای.ملک مظفر صاحب پور بہار ۱۹۴ با بو علی حسن صاحب سنوری ۱۹۵- لمیده بیگم صاحبہ شاہ جہاں پور اہلیہ چوہدری مبارک احمد صاحب کو ہات ۱۹۷.چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۱۹۸.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب افریقہ ۱۹۹.مولوی عبد الغفور قادیان ۲۰۰ فاطمتہ اختر ہرہ صاحبہ المیہ عبد الغفور قادیان ۲۰۱.سردار محمد علی صاحب جوڑہ کرتا نہ ۲۰۲.مولوی عبد اللطیف چٹا گانگ ۲۰۳- سید محمد لطیف صاحب چک قاضیاں ۲۰۴ به رسول بی بی صاحبہ لونڈی موسیٰ ۲۰۵.مولوی عبد العلیم صاحب سنکی پوری ۲۰۶.بابو محمد وزیر صاحب لاہور ۲۰۷ مولوی فضل دین صاحب وکیل قادیان ۲۰ - چوہدری نور احمد محرر قاریان -٢٠٩ شیخ عبد الحمید صاحب آف شمله قادیان ۲۱۰ - زینب بی بی صاحبہ اہلیہ بھائی محمود احمد ۲ مولوی عبد المغنی صاحب نا تربیت المال قادیان

Page 142

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۲۵ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد جیسا کہ تعمیر مینار کے بعد اسلام کے روحانی مینار کی شعاعیں دنیا کے کناروں تک حضور نے پہلے سے خبر دی تھی کہ مینار کی تکمیل کے بعد برکات اسلام کی روشنی تیزی سے پھیل جائے گی چنانچہ بیچ بیچ جو نہی اس کی تعمیر مکمل ہوئی تبلیغ اسلام کی دنیا میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہو گیا.لجه النور" کی تصنیف و اشاعت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی سال عرب، شام، عراق اور ایران و غیره بلاد اسلامیه کو پیغام پہنچانے کی غرض سے عربی میں ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام "لجہ النور " رکھا.اس رسالہ میں عالم اسلام کا اس وقت کی حالت کا درد ناک نقشہ کھینچتے ہوئے اپنے دعوی کی صداقت میں دلائل و براہین دیئے ہیں اور آخر میں پادریوں کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے خوش خبری دی ہے کہ خدا تعالی نے میرے ہتھیاروں سے انہیں ہر مہم میں پسپا کر ڈالا ہے اور وہ میدان سے بھاگنے پر مجبور ہو چکے ہیں.اس کتاب کی یہ خصوصیت ہے کہ حضور نے اس میں اپنے تئیں ابو محمود احمد کی کنیت سے یاد کرتے ہوئے دوسرے خدائی افضال میں سے خاص طور پر اس نعمت کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ انسان بعض اوقات اس خیال سے سخت افسردہ خاطر اور غمگین رہتا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کا کوئی بیٹا وارث موجود نہیں ہے مگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ غم نہیں ہوا کیوں کہ اس نے اپنی جناب سے بیٹے عطا کئے ہیں جو میرے بعد دین اسلام کی خدمت کریں گے.21 اس رسالہ میں حضور نے یہ عظیم الشان پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالٰی میرا کلام دنیا کے شرق و غرب میں پہنچا دے گا اور راستی کے دریا تموج میں آئیں گے یہاں تک کہ ان کی موجوں کے حباب لوگوں کو حیرت میں ڈال دیں گے.اشاعت لجہ النور" کی اشاعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد فروری ۱۹۱۰ ء میں نامکمل صورت میں ہوئی.پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو علمی مقابلہ کی دعوت اور ان کا گریز ۱۸۹۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن سجادہ نشینوں کو نام لے کر مباہلہ کی طرف بلایا تھا ان میں گولڑہ (ضلع راولپنڈی) کے ایک نامی گرامی پیر مہر علی شاہ صاحب بھی تھے (ولادت قریباً ۱۸۳۷ء

Page 143

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۲۶ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد وفات اا.مئی ۱۹۳۷ء) یہ پیر صاحب چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداء ایک گونہ عقیدت بھی تھی چنانچہ ۹۷-۱۸۹۶ء کی بات ہے کہ ان کے ایک مرید بابو فیروز علی صاحب اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد ازاں حضرت اقدس کی بیعت میں داخل ہو گئے) جب ان سے حضور کی بابت رائے دریافت کی گئی تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا " امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک میں ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح و مہدی بن جاتے ہیں بعض ان کے ہم رنگ ہو جاتے ہیں.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے.مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر براں کا کام کر رہا ہے.اور یقینا تائید یافتہ ہے." اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنے گزشتہ صوفیانہ عمل کو چھوڑ پیر صاحب میدان مخالفت میں کر میدان مخالفت میں آگئے اور جنوری ۱۹۰۰ء میں حضرت اقدس کے خلاف اردو میں "شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح " کتاب شائع کی.یہ کتاب جب حضرت مولوی نور الدین صاحب کو پہنچی تو انہیں بڑا قلق ہوا.زیادہ تعجب حضرت مولوی صاحب کو اس پر ہوا کہ کچھ عرصہ قبل پیر صاحب ہی نے ان کے نام دو کارڈ لکھے تھے جن میں حضرت اقدس کا تذکرہ عقیدت مندانہ الفاظ میں موجود تھا جس کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کو خود پیر صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو چکا تھا.بہر حال اب جو ان کی طرف سے یہ کتاب پہنچی تو حضرت مولوی صاحب نے پیر صاحب کے نام (۱۸.فروری ۱۹۰۰ ء کو ایک مراسلہ لکھا جس میں پیر صاحب سے گیارہ سوالات کئے جو ابتدائی مطالعہ سے آپ کو پیدا ہوئے تھے."شمس الہدایہ میں ابن جریر اور تاریخ کبیر بخاری کے حوالے دئے گئے تھے جن کے متعلق آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ نے وہ خود ملاحظہ کی ہیں اور کیا آپ کے کتب خانہ میں موجود ہیں؟ چند دن بعد پیر صاحب کا جواب آیا تو اصل حقیقت کا پتہ چلا کہ یہ کتاب تو ان کے ایک مرید مولوی محمد نمازی صاحب کی تالیف کردہ ہے مگر مرید نے کتاب شائع کروا کر اسے " زبدة الحقیقین د رئیس العارفین مولانا حضرت خواجہ مہر علی شاہ صاحب ادام الله فیوضم " کی طرف منسوب کر دیا ہے.چنانچہ پیر صاحب نے لکھا.مولانا المعظم المكرم السلام علیکم و رحمتہ اللہ.اما بعد مولوی محمد غازی صاحب کتب حدیث و تغییر اپنی معرفت سے پیدا کر کے ملاحظہ فرماتے رہے ہیں.مولوی صاحب موصوف آج کل دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں.مولوی غلام محی الدین اور حکیم شاہ نواز وغیرہ احباب نے میری نسبت "

Page 144

ت جلد ۲ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد اپنے حسن ظن کے مطابق آپ کے سامنے بیان کیا ہو گاورنہ من آنم کہ من دانم.مولوی صاحب نے اپنی سعی اور اہتمام سے کتاب شمس الہدایتہ کو مطبوع اور تالیف فرمایا ہاں احیانا اس بے بیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین میں ہوا.جس وقت مولوی صاحب واپس آئیں گے کیفیت کتب مسئولہ اور جواب سرفراز نامہ اگر اجازت ہوئی تو لکھیں گے.اللہ تعالی جانبین کو صراط مستقیم پر ثابت رکھے زیادہ سلام.نیازمند علماء و فقراء مهر شاه - ۲۶ شوال ۵۱۳۱۷ B - " (مطابق ۲۸ مارچ ۱۹۰۰ء).لدا پیر صاحب نے نہایت سادگی سے اصل بات تو لکھ دی مگر جب ان کے مریدوں میں اس کے عام چرچے ہوئے تو انہیں اپنے مریدوں کے کھسکنے کا زبر دست خطرہ پیدا ہو گیا.چنانچہ انہوں نے اپنے واضح بیان پر پردہ ڈالنے کے لئے عجیب عجیب تو جیہات کرنا شروع کر دیں.چنانچہ ایک مرید عبد الہادی نامی کو لکھا ” آپ بے فکر رہیں.کوئی فقرہ حکمت اور صداقت سے انشاء اللہ خالی نہ ہو گا.لفظ تالیف اور طبع کے معنی نہ سمجھنے سے انہوں نے کہا جو کچھ کہا.و هولنا و علیهم سيظهر ـ ان سے یہ پوچھنا کہ ایجاد مضامین اور تالیف میں عموم خصوص من وجہ ہوا کرتا ہے.بھلا مجھ کو یہ بتاؤ کہ دوسرا کاغذ جو مولونی rr نور الدین صاحب کو پہنچا ہے ذرا اس کی نقل بھی منگوا کر ملاحظہ کرو.والسلام - مہر شاہ بقلم خود." ایک دو سرے مرید غلام محمد کلرک دفتر کو شٹ پنجاب کو لکھا ” مولوی نور الدین کی درخواست کے بارہ میں نیز وصف میرے علم کے جو کہ ان کو بذریعہ احباب پہنچی تھی اس کے بارہ میں نے لکھا تھا جس کا مضمون یہ ہے کہ میں تو اتنا علم نہیں رکھتا ہوں احباب نے حسن ظن کے مطابق تعریف کی ہوگی اور کتاب کے بارہ میں مولوی محمد غازی صاحب جب واپس آئے تو لکھیں گے کیوں کہ تجسس اور دیکھنا ان کے متعلق تھا میں مضامین غیر مرتبہ بسا اوقات ان کو دیتا رہا اور تالیف یعنی جمع و ترتیب و طبع کرانا یہ سب ان کے متعلق تھی.جناب مولوی نور الدین صاحب نے تالیف سے جو منسوب مولوی محمد غازی صاحب کی طرف کی گئی تھی اور فی الواقعہ یونسی تھا یہ سمجھ لیا کہ موجد مضامین اور مصنف مولوی صاحب فلاں نے یعنی میں نے اس کی تصنیف اور ایجاد سے انکار کیا تھا کبھی مولف اور موجد ایک ہی ہوتا ہے اور کبھی مختلف.میں نے باعث کم فرصتی کے جمع اور ترتیب بمعہ مطالع کتب ان کے ذمہ پر رکھا تھا.الغرض جو مطلب تھا یعنی لوگوں کا دھو کہ نہ کھانا وہ تو بفضل خدا بخوبی حاصل ہو گی بذریعہ خطوط روز مرہ مقبولیت کتاب معلوم ہوتی رہتی ہے باقی زید و عمرو سے کچھ غرض نہیں زیادہ سلام." حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے خطوط کی اشاعت ام حضرت مولوی

Page 145

تاریخ احمدیت جلد ۲ IMA منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد عبد الکریم صاحب جنہیں اشاعت اسلام کا ایک پر جوش جذ بہ عطا کیا گیا تھا اس دور نگی پر خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے ۲۴.اپریل ۱۹۰۰ء کے اخبار الحکم میں یہ سب ہی مراسلات شائع کر دیے اور ان سوالات کے جوابات کا دوبارہ مطالبہ کرتے ہوئے اصل واقعات سے کچھ اس اندازہ سے نقاب اٹھایا کہ انی مهین من ارادا امانتک کا نظارہ سامنے آگیا.اس مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ ایک محاذ قائم ہو گیا.پیر صاحب نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے مولوی محمد نمازی صاحب سے ایک اشتہار دلایا کہ " مولانا حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب" نے مولوی نورالدین صاحب کے سوالات کا جواب تو پہلے دن ہی لکھ رکھا تھا مگر بوجوہ اسے ان کی خدمت میں بھیجوایا نہیں گیا لیکن اب چونکہ الحکم میں ان استفسارات کے دوبارہ جواب طلب کئے گئے ہیں اس لئے وہ جو اب شائع کئے جاتے ہیں.اس کے بعد پیر صاحب کے لکھے ہوئے جواب درج کئے.یہ جوابات ان کے گزشتہ خطوط سے بھی زیادہ معمل تھے.نہ الماء صحیح نہ انشاء نہ زبان درست نہ خیال 11 بے ربط اور بے جوڑا! سید محمد احسن مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف سے دعوت مباحثہ صاحب امروہوی اس سال جلسہ سالانہ پر حاضر نہیں ہو سکے تھے.مخالفین نے اپنی خفت مٹانے کے لئے یہ خبر مشہور کردی کہ انہیں اب مرزا صاحب پر اعتقاد نہیں رہا.سید صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ بھی دارالامان آپہنچے.یہاں پیر صاحب نے بحث ہو رہی تھی انہوں نے کمال عقلمندی سے اپنے متعلق پراپیگنڈا کی عملی تردید کے لئے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے "شمس الہدایہ " کا مفصل جواب لکھا جو انہی دنوں " شمس بازغہ " کے نام سے شائع بھی ہو گیا.چونکہ مولوی محمد غازی صاحب نے شمس ہدایہ کے آخری صفحہ پر حضرت اقدس کو " بشرط کافی انتظام و اطمینان " مباحثہ کی دعوت بھی دی تھی اسلئے سید محمد احسن صاحب امرا ہوی نے تاریخ 9 جولائی ۱۹۰۰ ء پیر صاحب کو بذریعہ اشتہار اطلاع دے دی کہ میں مباحثہ کا - کے لئے تیار ہوں آپ اپنی طرف سے آمادگی کا اعلان فرما ئیں ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ حق ہماری طرف ہے.۱۴۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیر صاحب نے اس چینج کا از خود کوئی جواب نہ طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو اس وقت پیر صاحب کے ذاتی جواب کے منتظر تھے براہ ر است پیر صاحب سے مخاطب ہوئے اور ۲۰.جولائی ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے

Page 146

تاریخ احمدیت جلد ۲ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد ہزار ہا مرید یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم اور حقائق اور معارف دین میں علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں بلکہ خود انہوں نے بھی شمس الہدایہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن مجید کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے.یہ امر کہاں تک درست ہے ؟ اس امر کا فیصلہ کے لئے میں ایک سہل طریق رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راست باز بندے ہیں انہیں تین طریق سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(۱) مقابلہ کے وقت خدا تعالی ان سے خارق عادت سلوک کرتا ہے.(و يجعل لكم فرقانا) (۲) ان کو علم معارف قرآن عطا کیا جاتا ہے.(لا يمسه الا المطهرون) (۳) ان کی اکثر دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں.(ادعونی استجب لكم) لهذا حق و باطل کے امتیاز کے لئے پیر صاحب موصوف تغیر نویسی میں علمی مقابلہ کرلیں جس کا طریق حضور نے یہ تجویز فرمایا کہ.لاہور میں جو پنجاب کا صدر مقام ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں سے چالیس آیت یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یہ دعا کریں کہ یا الہی ہم دونو میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جگہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر اور جو شخص ہم دو نو فریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تالوگ معلوم کرلیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریں اور یہ ضروری شرط ہوگی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگار.اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تا اس کی فصیح عبارت اور معارف کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے کی مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانو لکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں.ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی مگر ایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کو گواہوں کے روبرو ختم کرنا ہو گا.اور جب

Page 147

تاریخ احمدیت جلد ۲ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد فریقین لکھ چکیں تو وہ دو نو تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا سنائی جائیں گی اور ان ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفا یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونو تفسیروں اور دونو عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے اور ضروری ہو گا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو.اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پر وفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں جو ان کے مرید اور پیر نہ ہوں.ضروری ہوگا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفا اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تغییر اور عربی عبارات اعلیٰ درجہ پر اور تائید الہی سے ہے لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہئے جس کا ذکر قرآن میں قذف محصنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے اور دو نو فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں ہیں ورق سے کم نہ ہو.اور ورق سے مراد اس اوسط درجہ کی تقطیع اور قلم کا ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صد با قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں.پس اس طرز کے مباحثہ سے اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے (II) بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ صاحب کے ساتھ ہے اور اس صورت میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوئی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا.لیکن اگر میرے خدا نے مجھے اس مباحثہ میں غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی.نہ وہ نصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ تو بہ کر کے مجھ سے بیعت کریں".حضرت اقدس نے اس اشتہار میں اپنے ہیں خدام کے بطور گواہ دستخط شائع کئے اور پیر صاحب سے کہا کہ وہ اس اشتہار کی وصولی کے بعد دس دن تک اشتہار کے ذریعے سے اپنی منظوری کا اعلان شائع کر دیں جس میں میرے اشتہار کی طرف سے میں معززین کی شہادت ثبت ہو اور مغلوبیت کی صورت میں اپنی بیعت کا اقرار بھی درج ہو.121 پیر صاحب موصوف کا اشتہار پیر صاحب کو چونکہ علمی میدان میں آنے کی تاب نہ تھی نیز دہ صاف انکار کر کے اپنی حقیقت بھی واضح نہیں کرنا چاہتے

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ١٣١ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد تھے اس لئے انہوں نے ۲۵.جولائی کو اشتہار دیا کہ مجھ کو دعوت حاضری مسجد جلسہ منعقدہ لاہور مع شرائط مجوزہ مرزا صاحب بسر و چشم منظور ہے مگر سب سے پہلے ان کے دعوئی مسیحیت سے متعلق بحث ہوگی پھر اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے دونو ساتھیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ اس بحث میں وہ حق پر نہیں تو انہیں میری بیعت کرنا پڑے گی.اس کے بعد تفسیر نویسی کے مقابلہ کی اجازت دی جائے گی.صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظ اقرار مقابلہ حقیقتاً مقابلہ سے کھلا انکار تھا اور حضور کی مقدس دعوت کی تفیک و تو ہین !! جس میں ایک ایسے شخص کو مباحثہ کے لئے ثالث مقرر کر دیا گیا جو اول المکفرین اور مسیح موعود کی مخالفت کے اعتبار سے پیر صاحب کا ہم مشرب تھا.پھر پیر گولڑوی صاحب موصوف کا منقولی مباحثہ کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور اس نوع کے دوسرے دو اشخاص کو از خود حکم بنالینا بھی ایک مضحکہ خیز بات تھی کیوں کہ یہ لوگ مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کے معاملہ میں پہلے ہی پیر صاحب موصوف کے موید تھے.مولوی محمد احسن صاحب نے ۱۴.اگست ۱۹۰۰ء کو مولوی محمد احسن صاحب کا جواب اشتہار دیا کہ اگر پیر صاحب مقابلہ سے فرار نہیں کر رہے تو وہی تین علماء جو تفسیر قرآن کے لئے حضور نے نامزد کئے تھے حلفاً یہ شائع کر دیں کہ پیر صاحب کا یہ طریق تفسیر نویسی کے مقابل عجز کا ثبوت نہیں ہے اس کے بعد اگر ایک سال کے اندر مرزا صاحب کی تائید میں کوئی نشان ظاہر نہ ہوا تو پھر ہم مغلوب متصور ہوں گے.اس کے علاوہ حضرت اقدس کے لاہور کے خدام نے اپنی انجمن فرقانیہ کی طرف سے ۱۹ اور ۲۰ اگست کو دو دفعہ اشتهار دیا کہ اگر پیر صاحب موصوف حضرت اقدس کی شرائط کے مقابل تفسیر لکھ لیں تاہم ایک ہزار روپیہ نقد بطور انعام پیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں گے.ان اشتہارت کے جواب میں ۲۱.اگست کو پیر صاحب کی طرف سے دوبارہ اشتہار دیا گیا جس میں تفسیر نویسی کو ٹالنے کے لئے سارا زور مباحثہ پر ہی تھا اور ساتھ ہی مباحثہ کی تاریخ از خود ۲۵ اگست تجویز کر لی.مریدوں کی طرف سے دھمکیاں مزید بر آن پیر صاحب کے بعد مرید آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے حضرت اقدس کو دشنام آلود خطوں کا با قاعدہ ایک سلسلہ شروع کر دیا جن میں فحش گوئی اور گندہ زبانی کو انتہاء تک پہنچاتے ہوئے قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں جس سے صاف ظاہر ہو تا تھا کہ عوامی ذہن کو آپ کے خلاف مسموم کرنے کی خطرناک مہم تیز کر دی گئی ہے.

Page 149

ت جلد ۲ ۱۳۲ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تغیر نویسی کے مقابلہ کے متعلق حضرت مسیح طرف سے صحیح صورت حال کا اظہار موعود علیہ السلام کی مخلصانہ پیش کش ٹھکرائی جاچکی تھی اور کسی منقولی بحث میں الجھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا تا ہم حضرت اقدس علیہ السلام نے اصلاح احوال کے لئے یہ ارادہ کر لیا کہ اپنے خدام میں سے سید محمد احسن صاحب فاضل امرد ہوی ایسے بلند پایہ عالم کو فقط منقولی بحث کے لئے بھجوا دیں لیکن خود سید صاحب ہی نے جب گندے خطوط کا یہ سلسلہ دیکھا تو انہوں نے اعراض ہی کو بہتر سمجھا اور حضرت اقدس سبھی اپنے ارادے نے دستکش ہو گئے اور ۲۵.اگست ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات پبلک میں شائع کر دیں.اور ساتھ ہی پیر صاحب موصوف کا اشتہار بھی شامل کر دیا تا قارئین با آسانی فیصلہ کرلیں کہ کیا ان کی کارروائی نیک نیتی پر مبنی ہے ؟ اب پیر صاحب کی سنئے.انہوں نے ۱۲.اگست کو یہ پیر صاحب کی لاہور میں اچانک آمد اشتہار دیا اور یہ انتظار کئے بغیر کہ حضرت اقدس کی ۵۶ [02] طرف سے اس کا کیا جواب دیا جا تا دو تین روز بعد ہی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جمعیت لے کر ۲۴.اگست بروز جمعہ لاہور پہنچ گئے.حضرت اقدس نے تفسیر نویسی کے مقابلہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور کا نام بطور ثالث تجویز کیا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس موقع پر اپنے ایک ذاتی کام کے بہانہ سے شملہ کی طرف چلے گئے مگر موخر الذکر دو اصحاب اس دن آموجود ہوئے اور مزعومہ مباحثہ کی کارروائی سننے کے لئے بیرونی مقامات سے بھی کافی لوگ آپہنچے.پیر صاحب کے مریدوں نے آتے ہی یہ اشتہار دے دیا کہ پیر صاحب بغرض مباحثہ آگئے ہیں اور انہوں نے مرزا صاحب کے تمام شرائط منظور کرلئے ہیں.پیر صاحب کا یہاں قدم رکھناہی تھا کہ لاہور میں یکا یک مخالفت کا ایک خوفناک سیلاب امڈ آیا.بر سر عام گالیاں سنائی دینے لگیں اور منبروں سے حضرت اقدس کے واجب القتل ہونے کے وعظ ہونے لگے.پیر صاحب کو میدان تفسیر نویسی میں لاہور کے مخلص احمدیوں نے پیر صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی یہ مخلصانہ سعی و جدوجهد 04- لانے کے لئے مخلصانہ سعی و جد و جهد شروع کردی که پیر صاحب مقابله تفسیر نویسی کے لئے تیار ہو جائیں.چنانچہ انہوں نے ۲۴.اگست ہی کو اشتہار دے دیا کہ پیر صاحب کے عقیدت مند لا ہور اور راولپنڈی سے حضرت اقدس کے خلاف گالیوں سے پر اشتہارات دے رہے ہیں.مگر

Page 150

تاریخ احمدیت.جلد ۲ منارۃ المسیح کی تحریک اور بنیاد سلطان محمود صاحب آف راولپنڈی، محمد دین صاحب کتب فروش لاہور اور دوسرے مرید اپنے قابل احترام پیر صاحب سے صاف لفظوں میں یہ اشتہار نہیں دلواتے کہ ہمیں حضرت اقدس کا مقابلہ تفسیر نویسی بلا شرط منظور ہے گو حضرت اقدس کی طرف سے مقابلہ کی مجوزہ تاریخ گزر چکی ہے تاہم اگر وہ اب بھی اسے تسلیم فرمائیں تو دوبارہ مناسب تاریخ مقرر ہو جائے گی اور حضرت اقدس اس میں شامل ہو جائیں گے.جب اس اشتہار پر بھی پیر صاحب کی طرف سے خاموشی رہی تو انہوں نے اشتہار کی بجائے پیر صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے ایک دستی خط میں لکھا کہ اگر در حقیقت جناب دین اسلام پر رحم کر کے اس بڑے فتنے کو مٹانے کے لئے ہی لاہور میں تشریف لائے تو فی الفور اپنے دستخط خاص سے اس مضمون کی ایک تحریر شائع کردیں کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ ان کے ۲۵.جولائی ۱۹۰۰ ء والے اشتہار کے مطابق بلا کم و کاست شرائط سے مقابلہ تفسیر نویسی کرنے کے لئے تیار ہیں.ایسی تحریر پر کم از کم لاہور کے چار مشہور رئیسوں اور مولویوں کے شہادۃ دستخط کرا دیں ہم یہ عرض بادب کرتے ہیں کہ اللہ آپ اس فیصلہ کے لئے آمادہ ہوں اور کسی طرح گریز کا خیال نہ فرمائیں." یہ خط اگلے دن ۲۵ اگست کو لکھا گیا تھا.ایک غیر از جماعت دوست میاں عبدالرحیم صاحب داروغہ مارکیٹ.حکیم سید محمد عبد اللہ صاحب بغدادی، منشی عبد القادر صاحب مدرس ، میاں میر بخش صاحب دکاندار لاہور کے ہمراہ پیر صاحب کی خدمت میں نماز ظہر کے وقت پہنچے.پیر صاحب موصوف نے فرمایا کہ اس کا جواب عصر کے بعد دیں گے مگر جب داروغہ صاحب پانچ بجے ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو ان کے مریدوں نے داروغہ صاحب کو اندر نہ جانے دیا اور باہر ہی سے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ پیر صاحب اس خط کا کوئی جواب نہیں دیتے.لاہور کے خدام مسیح موعود نے ۲۷.جون ۱۹۰۰ء سے بذریعہ اشتہار ایک چیلنج دے رکھا تھا کہ اگر کوئی عالم یا گدی نشین اپنے تئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ پر حق پر سمجھتے ہیں تو وہ بھی جمع ہو کر دعا کی قبولیت میں مقابلہ کرلیں اور وہ اس طرح کہ بعض لاعلاج مریضوں اور مصیبت زدوں کو بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کر لیا جائے.آدھے حضرت مرزا صاحب کے حصے میں اور آدھے فریق ثانی کے حصے میں.دونو خدا سے دعا کریں اور چالیس دن کے اندر اندر خدا سے خبرپا کر یہ بات شائع کر دیں کہ ہمارے مریضوں میں سے فلاں فلاں مریض تندرست ہو جائیں گے جس کی دعا سے مریض تندرست اور مصیبت زدہ خوش حال ہو جائیں وہ حق پر سمجھا جائے.اس سیدھے سادھے طریق کے جواب میں ایک طویل خاموشی کے بعد اسی روز ۲۵ - اگست ۱۹۰۰ء کو لاہور میں ایک اشتہار تقسیم ہوا

Page 151

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۳۴ منارة المسیح کی تحریک اور بنیاد جس میں مولوی غازی صاحب وغیرہ پیر صاحب کے مریدوں نے صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ نہ خدا ہمارا طرف دار ہے اور نہ بیماروں کو ہماری دعا سے شفاء ہو سکتی ہے.مرزا صاحب یک طرفہ نشان دکھا ئیں اور مریضوں کو شفاء دلائیں.افہام و تفہیم کی یہ سب صورتیں جب یکسر ناکام رہیں تو حکیم فضل الہی صاحب اور میاں معراج الدین صاحب عمر نے دوسرے دن (۲۶.اگست ۱۹۰۰ ء کو پیر صاحب کے نام ایک رجسڑی خط میں درخواست کی کہ وہ اپنی دستخطی تحریر سے شائع فرما دیں کہ مجھے ۲۰.جولائی ۱۹۰۰ء کی دعوت تفسیر نویسی بلا کم و کاست منظور ہے لیکن افسوس پیر صاحب نے رجسڑی لینے سے صاف انکار کر دیا مگر ان کے مریدوں نے یہ خبر پھیلائی کہ پیر صاحب نے تو مرزا صاحب کو ۲۵.اگست کو کئی تار دئے ہیں مگر مرزا صاحب کی طرف سے ہی کوئی جواب نہیں ملا جس پر ۲۷.اگست کو اشتہار دیا گیا کہ پیر صاحب اللہ شہادت شائع کر دیں کہ یہ خبر صحیح ہے تو ہم اکاون روپے بطور نذرانہ پیش کریں گے مگر پیر صاحب بدستور خاموش رہے.اس کے بعد یہ ہوا کہ اسی روز صبح شاہی مسجد میں علماء کرام نے اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک بھاری جلسہ کیا اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ مرزا صاحب اور ان کے مریدوں کی پروانہ کریں اور نہ ان کی کسی بات کا جواب دیں.اس موقع پر منشی نظام الدین صاحب فنانشل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام نے پیر صاحب کی خدمت میں باصرار درخواست کی کہ وہ بھی اپنے خیالات سے مستفید فرما ئیں.پھر بادشاہی مسجد میں لوگوں نے بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ پبلک جلسہ میں کچھ فرما ئیں.مگر انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ میری آواز دھیمی ہے میں منبر پر کھڑے ہو کر تقریر کرنے کے قابل نہیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مفصل اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ نے ۲۸.اگست ۱۹۰۰ء کو ایک مفصل اشتہار دیا جس میں لکھا کہ " مجھے معلوم ہوا کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا.اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ تمام باتیں خلاف واقع ہیں جب کہ خود پیر صاحب بھاگ گئے ہیں اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور نہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے اور میں بہر حال لاہور پہنچ جاتا.مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے i

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۳۵ منارۃ المسیح کی تحریک اور بنیاد ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوش سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام II کے کس طرح مناسب ہے...پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیت کو درست کر لیا ہے اور سیدھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل میں عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بہر حال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تغییر لکھنے میں ہو گا لاہور میں اپنے تئیں پہنچاؤں گا.صرف دو امر کا خواہش مند ہوں جن پر لاہور میں میرا پہنچنا موقوف ہے.اول یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی بیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کر دیں جس پر پانچ لاہور کے معزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ میں نے قبول کر لیا ہے کہ میں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف لکھوں گا...اور چونکہ موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ اس مقابلہ کی لکھنی چاہئے کہ کم از کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے..دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سید برکت علی خاں صاحب سابق اکٹرا اسسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں کی طرف سے گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی.اور یادر ہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں اور میں ان کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپیہ ان تینوں رئیسوں کے پاس جمع کرادوں گا.اگر میرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زدو کوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ اس طرح پر خاموش رہیں گے کہ جیسے کسی میں جان نہیں مگر پیر مہر علی شاہ صاحب جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مریدی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں کافی ہو گا کہ حضرات معزز رئیساں موصوفین بالا ان تمام سرحدی پر جوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیز ان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویوں کی گفتار کردار کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتویٰ دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.ان چند سطروں کے بعد جو ہر سہ رئیساں مذکورین بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر صاحب کے نذ کورہ بالا اشتہار کے بعد پھر میں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جاؤں تو کاذب ٹھہروں گا."

Page 153

تاریخ احمدیت.جلد ۲ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ پیر صاحب کے لئے مباحثہ کی ایک آسان شرط اس اشتہار کے آخر میں آپ نے پیر صاحب کے مطالبہ مباحثہ کو پورا کرنے کے لئے یہ آسان تجویز لکھی کہ اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ در حقیقت یہی سچا امر ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میراد عدہ ہے.اور وہ طریق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آؤں اور مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں جس میں ہر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں تین گھنٹے تک اپنے دعوئی اور اس کے دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف کوئی خطاب نہ ہو گا.اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پیر مہر علی شاہ صاحب اٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلک کو مخاطب کر کے ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا.پھر بعد اس کے لوگ ان دونو تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کرلیں گے اور ان دو نو باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرما دیں تو بشرط تحریری ذمہ داری رؤساند کورین میں لاہور میں آجاؤں گا." پیر صاحب کی گولڑہ کو واپسی پیر مہرعلی شاہ صاحب کا ارادہ ابتداء یکم ستمبر بروز جمعہ تک لاہور میں قیام کرنے کا تھا لیکن انہوں نے سوچا جمعہ کے دن پھر تقریر کے مطالبہ کی بوچھاڑ ہو گی اور ان کا رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا.لہذا وہ قیام لاہور کا مزید پروگرام منسوخ کر کے جمعہ سے قبل ہی چل دیئے.اور جاتے ہوئے اپنے مریدوں کو وصیت فرما گئے کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی کتابیں اور اشتہارات ہر گز نہ پڑھیں درنہ گمراہ ہو جائیں گے.نانچہ جب حضرت اقدس کا یہ آخری اشتہار لاہور میں پہنچا تو وہ گولڑہ تشریف لے جاچکے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب منشی تاج الدین صاحب سیکرٹری انجمن فرقانیہ اور حضرت اقدس کے دوسرے خدام نے مل کر انہیں فور آیہ اشتہار رجسٹری بھیجوا دیا اور انہیں لکھا کہ چونکہ آپ خلاف توقع جمعہ سے قبل ہی لاہور سے روانہ ہو گئے تھے اس لئے اسے رجسٹری کر کے آپ کی خدمت میں بھیجوا ر ہے ہیں.احتیاطاً دو اشتہار آپ کے مرید ان باصفا کو بھی دئے جارہے ہیں کہ پیش خدمت کر دیں.نیز لکھا کہ اشتہار میں حضرت مرزا صاحب کی طرف سے روسا سے دستخط کروانے کی پانچ یوم کی مہلت میں مزید دس روز کا اضافہ کر دیا گیا ہے آپ اس عرصہ میں مذکورہ رؤساء سے دستخط کرا کے بھیج دیں.علاوہ ازیں انہیں یہ پیشکش بھی کی کہ اگر آپ اس مقابلہ میں تشریف لاویں گے تو آپ کو کرایہ ریل سیکنڈ کلاس اور آپ کے دو خادموں کا کرایہ انٹر میڈیٹ کلاس آمد و رفت کا ہم نذر کریں گے.امید ہے کہ

Page 154

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۳۷ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ آپ حق کے فیصلہ کے واسطے بہت جلد اس کا احسن انتظام کر کے لاہور میں تشریف لاویں گے." جو وصیت پیر صاحب نے اپنے مریدوں کو کی تھی وہ بھلا خود اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رجری کیسے وصول کر سکتے تھے.چنانچہ انہوں نے اس دفعہ بھی رجسٹری لینے سے صاف انکار کر دیا اور اس طرح سفر و قیام کے اخراجات کی پیشکش کے باوجود نہ ان کو اور نہ ان کے ہم مشرب علماء کرام کو حضرت اقدس کے مطالبہ کی تعمیل میں وہ حدیث پیش کرنے کی جرات ہو سکی جس میں حضرت مسیح کے مجید عصری آسمان پر جانا اور پھر آنان کو ر ہو نیز وہ تفسیر نویسی اور بالمشافہ تقریر کے بھی مرد میدان نہ بن سکے.حضرت مسیح موعود کی طرف سے اتمام حجت پیر صاحب کے لاہور سے جانے کے بعد ان کے عقیدت مندوں کی طرف سے اشتہاروں کا ایک سلسلہ جاری کر دیا گیا جس میں لکھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اٹھا کر لاہور پہنچے مگر مرزا صاحب اس بات پر اطلاع پا کر کہ وہ بزرگ نابغہ زماں مجہاں دوراں اور علم و معارف قرآن میں لاثانی روزگار ہیں اپنے گھر کے کسی گوشہ میں چھپ گئے ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی بیان کرنے اور زبان عربی کی فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حق پوشی کا یہ رنگ دیکھا تو اللہ تعالی کی تحریک سے ۱۵.دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے پیر مہر علی شاہ صاحب کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہم دونوں ستر دن میں اپنی اپنی جگہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کریں.نیز اعلان فرمایا کہ اگر تین اہل علم جو ادیب اور اہل زباں ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں فیصلہ دیں کہ پیر صاحب کی تغیر فصاحت و معارف کے اعتبار سے آپ کی تفسیر پر فائق ہے تو حضور بلا توقف پانچ سو روپیہ نقد پیر صاحب کی نذر کر دیں گے.اس اعلان کے بعد حضور نے پیر صاحب کو کھلی اجازت دی کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور محمد حسن صاحب بھیں وغیرہ کو بلالیں بلکہ وہ چار عرب ادیبوں کی بھی خدمات حاصل کر سکتے ہیں.اور بالاخر لکھا کہ اگر میعاد مجوزه تک یعنی ۱۵- دسمبر ۱۹۰۰ ء سے ۲۵ - فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر دن میں ہے فریقین میں سے کوئی فریق تغیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گزر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی."

Page 155

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۳۸ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ اربعین کی تصنیف و اشاعت اور مخالفین پر اتمام حجت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی کی اشاعت اور مخالفین پر اتمام حجت کے لئے ہمیشہ نئی نئی راہیں سوچتے رہتے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے جولائی 1900 ء میں یہ تجویز فرمائی کہ ایک یا دو صفحے پر چالیس اشتہار شائع کئے جائیں اور اسی لئے حضور نے شروع میں اس کا نام "اربعین اتمام الحجه على المخالفين" تجویز فرمایا اور قارئین کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان اشتہارت کو جمع کرتے جائیں.شروع میں حضرت اقدس یہی چاہتے تھے کہ ہر پندرہ دن کے بعد (بشرطیکہ کوئی روک پیدا نہ ہو) یہ اشتہار نکلتے رہیں یہاں تک کہ چالیس پورے ہو جائیں یا کوئی مخالف صحت نیت کے ساتھ میدان میں آکر حضور کی طرح کوئی نشان دکھلائے.لیکن بعد میں جو آپ نے قلم اٹھایا تو حالات ایسے ہو گئے کہ آپ کو بڑے بڑے اشتہارات شائع کرنا پڑے اور ابھی آپ نے چار اشتہار ہی دئے تھے کہ ان کا حجم ۱۲۸ صفحات تک پہنچ گیا جو ابتدائی اندازہ سے کہیں زیادہ تھا آپ کے مد نظر گفتی کو پورا کرنا نہیں تھا بلکہ دعوئی کی اشاعت اور اتمام حجت اصل مقصود تھا اس لئے آپ نے یہ سلسلہ یہیں ختم کر دیا اور اسے پندرہ دسمبر ۱۹۰۰ء کو ایک سرورق لگا کر شائع کر دیا.نشان نمائی کی دعوت اربعین کے پہلے اشتہار میں آپ نے ایک دفعہ پھر پورے زور اور قوت " سے نہایت پر جلال الفاظ میں یہ دعوئی فرمایا کہ.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے میں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اور اگر دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابر اتر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھر سکے تو میں جھوٹا ہوں اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت سیدنا و سید الورٹی محمد مصطفیٰ سے کوئی پیش گوئی اور کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان گزرا ہے جس کی پیش گوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا

Page 156

پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے بچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے.بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں...اور میں صرف یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالی کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالٰی سے یہ نعمت پائے گا مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے.اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے.اور یاد رکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے.پس یہ اسلامی حقیقت اور میری حقانیت کی ایک زندہ دلیل ہے." اسی قوت نشان نمائی کی آزمائش کے لئے حضور نے اسے اشتہاروں میں دو نہایت آسان صورتیں پیش فرما ئیں.پہلی صورت اسلام کی سچائی اور اپنی سچائی کی زندہ دلیل یعنی قوت نشان نمائی کے امتحان کے لئے پہلی صورت یہ پیش کی کہ علمائے وقت میں سے کم از کم چالیس نامی جید اور فاضل علماء جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی (شیخ الکل) مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی، مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور پیر مہر علی شاہ صاحب پچاس معزز مسلمانوں کے دستخط سے اخبار میں یہ اقرار نامہ شائع کر دیں کہ اگر مرزا صاحب کی طرف سے کوئی فوق العادت نشان ظاہر ہو تو ہم حضرت ذو الجلال سے ڈر کر مخالفت چھوڑ دیں گے اور بیعت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ضروری کوئی جدید نشان ظاہر کرے گا.یہ نہیں ہو گا کہ وہ کوئی پچاس ساٹھ سال قرر کر دے بلکہ کوئی معمولی مدت ہو گی جو عدالت سے مقدمات یا امور تجارت میں بھی اہل غرض اس کو اپنے لئے منظور کر لیتے ہیں.دوسری صورت اپنے دعوئی کی آزمائش کی دوسری صورت آپ نے یہ رکھی کہ اگر یہ طریق ان کو منظور نہ ہو اور ایسا اقرار وہ اپنی عظمت و شاں کے منافی تصویر فرما ئیں تو " آپ لوگ محض خدا تعالٰی سے خوف کر کے اور اس امت محمدیہ کے حال پر رحم کرتے ہوئے بٹالہ یا امر تسر یا لاہور میں ایک جلسہ کریں اور اس میں جہاں تک ممکن ہو اور جس قدر ہو سکے معزز علماء اور دنیا دار جمع ہوں اور میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ حاضر ہو جاؤں.تب وہ سب یہ دعا کریں کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ شخص مفتری ہے اور تیری طرف سے نہیں ہے اور نہ مسیح موعود ہے اور نہ مہدی ہے

Page 157

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۴۰ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ تو اس فتنہ کو مسلمانوں سے دور کر اور اس کے شر سے اسلام اور اہل اسلام کو بچالے جس طرح تو نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو دنیا سے اٹھا کر مسلمانوں کو ان کے شرسے بچالیا.اور اگر یہ تیری طرف سے ہے اور ہماری ہی عقلوں اور فہموں کا قصور ہے تو اے قادر ہمیں سمجھ عطا فرما تا ہم ہلاک نہ ہو جائیں اور اس کی تائید میں کوئی ایسے امور اور نشان ظاہر فرما کہ ہماری طبیعتیں قبول کر جائیں کہ یہ تیری طرف سے ہے.اور جب یہ تمام دعا ہو چکے تو میں اور میری جماعت بلند آواز سے آمین کہیں اور پھر بعد اس کے میں دعا کروں گا اور اس وقت میرے ہاتھ میں وہ تمام الہامات ہوں گے جو ابھی لکھے گئے ہیں اور جو کسی قدر ذیل میں لکھے جائیں گے غرض یہی رسالہ (مرادار بعین نمبر ۲.ناقل) مطبوعہ جس میں تمام یہ الہامات ہیں ہاتھ میں ہو گا اور دعا کا یہ مضمون ہو گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو اس رسالہ میں درج ہیں اور جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے جن کی رو سے میں اپنے تئیں مسیح موعود اور مہدی سمجھتا ہوں اور حضرت مسیح کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں تیرا کلام نہیں ہے اور میں تیرے نزدیک کاذب اور مفتری اور دجال ہوں جس نے امت میں فتنہ ڈالا ہے اور تیرا غضب میرے پر ہے تو میں تیری جناب میں تضرع سے دعا کرتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندر زندوں میں سے میرا نام کاٹ ڈال اور میرا تمام کاروبار درہم برہم کر دے اور دنیا میں سے میرا نشان مٹا ڈال.اور اگر میں تیری طرف سے ہوں اور یہ الہامات جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہیں تیری طرف سے ہیں اور میں تیرے فضل کا مورد ہوں تو اے قادر کریم اس آئندہ سال میں میری جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دے اور فوق العادت برکات شامل حال فرما اور میری عمر میں برکت بخش اور آسمانی تائید نازل کر اور جب یہ دعا ہو چکے تو تمام مخالف جو حاضر ہوں آمین کہیں." معمور یہ صورت پیش کرتے ہوئے حضور نے پیشوایان قوم سے دردمندانہ اپیل کی کہ اے بزرگو اور قوم کے مشائخ اور علماء پھر میں آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اس درخواست کو ضرور قبول فرما ئیں میں نے محض خدا کے لئے یہ تجویز نکالی ہے.اور میرا خدا شاہد حال نے اس میں کوئی جو کچھ ا ہے کہ میں نے صرف اظہار حق کے لئے یہ تجویز پیش کی ہے.اس میں کوئی تجور مباہلہ کی نہیں جو کچھ ہے وہ میری جان اور عزت پر ہے.برائے خدا اس کو ضرور منظور فرما ئیں.1 اس نوع کے جلسہ کے انعقاد کے لئے حضور نے پہلے ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۰ء کی تاریخ مقرر کی جسے علماء کرام کی سہولت کے لئے ۲۵.دسمبر ۱۹۰۰ء کر دی.LA ان دونو صورتوں میں سے اگر اس زمانہ کے علماء کوئی قوم کو درد دل سے ایک دعوت صورت اختیار فرما لیتے تو دنیا ضرور خدا تعالیٰ کا ایک اور

Page 158

تاریخ احمدیت جلد ۲ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ زبر دست نشان دیکھتی اور امت مسلمہ کا انتشار اور تفرقہ بھی بہت حد تک رفع ہو جاتا.مگر افسوس اس زمانہ کے مامور ربانی کی درد بھری آواز کا جواب سب و شتم اور گالیوں کی شکل میں دیا جس پر حضرت اقدس نے ۲۹.دسمبر ۱۹۰۰ء کو لکھا.میں محض نصیحتا مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بدعائیں کریں اور رو رو کر استیصال چاہیں.پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعا ئیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعا ئیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر مسجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی.کیوں کہ میں خدا تعالیٰ سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بد دعا کرے گاوہ بد دعا اسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں." ” میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودہ نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مردے تمام جمع ہو جائیں.اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا.دیکھو صد ہا دانش مند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے ؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو رو کو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھائے نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو.خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا ! تو اس امت پر رحم کر ، آمین." | A = ¦

Page 159

تاریخ احمر بہت جلد ۲ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار شہر اور ان کے ہم خیال علماء کے لئے پانچ سو روپیہ کا انعامی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی مسیحیت کے وقت اکثر مخالف علماء اور عامتہ المسلمین کا یہ خیال تھا کہ آپ کی تحریک مخالفت کی تاب نہ لا کر بہت جلد تباہ و برباد ہو جائے گی.لیکن برسوں کی آویزش اور کشمکش کے بعد جب اللہ تعالی کے فضل سے حضور کی جماعت روز بروز بڑھتی گئی اور اسے غیر معمولی ترقی نصیب ہونے لگی اور حضور کے دعوئی الہام و کلام پر تمہیں اور اس کی اشاعت پر بھی اکیس برس ہو گئے تو اس کا رد عمل اس شکل میں ظاہر ہوا کہ انہوں نے قرآن مجید کے واضح اعلان اور امت کے چودہ سو سالہ متفقہ عقیدہ سے ہٹ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ کسی شخص کا دعوئی الهام و کلام کے بعد تئیس برس کی مہلت پانا اور ترقی حاصل کرنا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہے.یہ خیال غالبا سب سے پہلے بر ملا پیش کرنے والے حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار شہر تھے جنہوں نے لاہور میں بعض غلط کار علماء سے متاثر ہو کر ایک مجلس میں جہاں مرزا خدا بخش صاحب ، میاں معراج دین صاحب عمر ، مفتی محمد صادق صاحب صوفی محمد علی صاحب کلرک، میاں چٹو صاحب لاہوری، خلیفہ رجب دین صاحب شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹرا حکم ، حکیم محمد حسین صاحب قریشی ، حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی ، میاں چراغ دین صاحب کلرک اور مولوی یار محمد صاحب موجود تھے.بڑے اصرار کے ساتھ اپنے اس مسلک کا اظہار کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعوی کرے تو اپنے افتراء کے ساتھ تئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے یعنی افتراء علی اللہ کے بعد اس قدر عمر پاتا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہو سکتا نیز دعوی کیا بلکہ تحریر لکھ دی کہ ایسے کئی لوگوں کے نام میں نظیر ا پیش کردوں گا جنہوں نے نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا.تئیس برس یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خدا کا کلام ہم پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کاذب تھے.اس دعوئی پر چونکہ براہ راست رسول خدا ان کی ذات ستودہ صفات پر زد پڑتی تھی اور نبوت محمدیہ پر خطرناک حرف آتا تھا اس لئے حضور نے اربعین نمبر ۳ اور نمبر ۴ میں حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے ہم خیال علماء مشائخ اور سجادہ نشینوں کو پانچ سو روپیہ انعام کا اعلان کرتے ہوئے زبردست چیلنج دیا کہ "اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے دوسرے ہم مشرب جن کے نام میں نے

Page 160

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ Ar ن شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ اس اشتہار میں لکھے ہیں اپنے اس دعوئی میں صادق ہیں یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر با وجود مفتری ہونے کے برابر تیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت ا ہے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانچ سو روپیہ نقد دے دوں گا." حضرت اقدس نے صرف اس چیلنج پر اکتفا نہ کرتے ہوئے لو تقول کی قرآنی دلیل پر ہر پہلو سے مفصل روشنی ڈالی اور تحریر فرمایا کہ "ہم یقینا جانتے ہیں کہ قرآنی دلیل کبھی ٹوٹ نہیں سکتی یہ خدا کی پیش کردہ دلیل ہے نہ کسی انسان کی.کئی کم بخت بد قسمت دنیا میں آئے اور انہوں نے قرآن کی اس دلیل کو توڑنا چاہا مگر آخر آپ ہی دنیا سے رخصت ہو گئے مگر یہ دلیل نہ ٹوٹ سکی.حافظ صاحب علم سے بے بہرہ ہیں ان کو خبر نہیں کہ ہزار ہا نامی علماء اور اولیاء ہمیشہ اس دلیل کو کفار کے سامنے پیش کرتے رہے اور کسی عیسائی یا یہودی کو طاقت نہ ہوئی کہ کسی ایسے شخص کا نشان دے جس نے افتراء کے طور پر مامور من اللہ ہونے کا دعوئی کر کے زندگی کے تئیس برس پورے کئے ہوں.پھر حافظ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایہ ہے کہ اس دلیل کو توڑ سکیں.معلوم ہوتا ہے کہ اسی وجہ سے بعض جاہل اور ناظم مولوی میری ہلاکت کے لئے طرح طرح کے حیلے سوچتے رہے ہیں تا یہ مدت پوری نہ ہونے پارے جیسا کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسی بن مریم ان صادقوں میں سے نہیں ہے جن کا رفع الی اللہ ہو تا رہا ہے مگر خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا اور اپنی طرف سے تیرا رفع کروں گا جیسا کہ ابراہیم اور دوسرے پاک نیوں کا رفع ہوا.سو اسی طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں اسی برس یا دو تین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا تا لوگ کمئی عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں جیسا کہ یہودی صلیب سے نتیجہ عدم رفع کا نکالنا چاہتے تھے...اور خدا نے مجھے اطلاع دی کہ بعض ان میں سے تیرے پر بد دعا کیا بھی کرتے رہیں مگر ان کی بددعائیں میں انہی پر ڈالوں گا اور در حقیقت لوگوں نے اس خیال سے کہ کسی طرح لو تقول کے نیچے مجھے لے آئیں.منصوبہ بازی میں کچھ کمی نہیں کی.بعض مولویوں نے قتل کے فتوے دئے بعض مولویوں نے جھوٹے قتل کے مقدمات بنانے کے لئے میرے پر گواہیاں دیں بعض مولوی میری موت کی جھوٹی پیش گوئیاں کرتے رہے.بعض مسجدوں میں میرے مرنے کے لئے ناک رگڑتے رہے بعض نے جیسا کہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے

Page 161

ریت - جلد ۲ ۱۴۴ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ اپنی کتاب میں اور مولوی اسمعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ اگر کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا کیوں کہ کاذب ہے.مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مرگئے اور اس طرح پر ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا te مگر پھر بھی یہ لوگ عبرت نہیں پکڑتے." Ar علماء کا عجز اس انعامی چیلینج کے مقابلہ میں حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے ہم خیال علماء بالکل لاجواب اور عاجز رہ گئے اور وہ کوئی ایک نظیر بھی پیش نہ کر سکے.اور بعض علماء نے بڑی دیدہ ریزی اور برسوں کی مسلسل سعی و جدوجہد کے بعد جو مثالیں پیش کیں ان کا حضرت اقدس کے چیلنج سے کوئی تعلق ہی نہ تھا یعنی ان کے پیش کردہ بعض افراد تو وہ تھے جن کا دعویٰ الہام تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہو سکتا اور جن کے متعلق ایساد عومی ثابت ہوتا ہے وہ یا تائب ہو گئے یا کیفر کردار تک پہنچ کر لو تقول کی ابدی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.پیر مہر علی شاہ صاحب پر اتمام حجت اور " تحفہ گولڑویہ " کی تصنیف و اشاعت AC حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیر مہر علی شاہ صاحب نے (جو تغیر نویسی کے مقابلہ سے چھٹکارا پانے کے لئے ) دعوت مباحثہ دی تو چونکہ آپ انجام آتھم " میں اپنے اس فیصلہ کا اعلان فرما چکے تھے کہ آئندہ علماء سے ان کی غیر اسلامی روش اور دشنام طرازی کے سبب کبھی مباحثہ نہیں کریں گے بلکہ مخاطب تک نہیں کریں گے.اس لئے حضور نے مباحثہ تو منظور نہیں کیا مگر طبعا آپ کو اندیشہ ہوا کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور اور غور و فکر کا مادہ کم ہوتا ہے وہ اگر چہ یہ تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تغییر لکھنے پر قادر نہیں تھے لیکن ساتھ ہی ان کو یہ خیال بھی گزرے گا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہوں گے تبھی تو درخواست پیش کر دی اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ ان کے پاس حضرت مسیح کی زندگی اور حضور کی صداقت کے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں.اور ان کا ذہن قطعاً اس طرف نہیں جائے گا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرات بھی آپ ہی کے عہد ترک بحث نے ان کو ولائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا تھا.لہذا حضور نے " تحفہ گولڑویہ " جیسی لاجواب کتاب تالیف فرمائی اور اعلان کیا کہ اگر پیر صاحب اس کے مقابل کوئی رسالہ لکھ کر میرے تمام دلائل اول سے آخر تک تو ڑ دیں اور پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بٹالہ میں

Page 162

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۱۴۵ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ ایک جلسہ منعقد کر کے ہم دونو کی حاضری میں یہ تمام دلائل ایک ایک کر کے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جسے وہ کسی تصرف کے بغیر حاضرین کو سنادیں پیر صاحب کے جوابات سنادیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کا قلع قمع کرتے ہیں تو میں پچاس روپیہ انعام پیر صاحب کو ان کے فاتح ہونے کے اعتراف میں اسی مجلس میں دے دوں گا اور اگر پیر صاحب تحریر فرما ئیں تو میں یہ رقم پہلے سے مولوی محمد حسین صاحب کے پاس جمع کرادوں گا تم کھانے کے بعد میری شکایت ان پر کوئی نہیں ہوگی صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھا ئیں گے پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہو گا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے رد کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے کیوں کہ انہوں نے اگر اس انعامی رسالہ کا جواب نہ دیا تو بلاشبہ واضح ہو جائے گا کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں ہیں.چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا.پیر صاحب موصوف اور ان کے مرید زمین و آسماں کے قلابے تو ملاتے رہے مگر انہیں اس کا جواب دینے اور سیدھے سادھے طریق فیصلہ کے قبول کرنے کی آخر دم تک جرات نہ ہو سکی.تحفہ گولڑویہ کی تالیف کا آغاز جولائی ۱۹۰۰ء میں ہوا اور اس کی اشاعت یکم ستمبر ۱۹۰۲ء میں ہوئی یہ مفصل و مدلل تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل و براہین کا جامع اور لطیف ترین مجموعہ ہے.اس میں حضور نے موسوی و محمدی سلسلوں کی حیرت انگیز مماثلت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم و حدیث اور اولیاء امت محمدیہ کے کشوف اور پیش گوئیوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح کر دکھایا ہے کہ مسیح موعود کو چودھویں صدی میں ظہور کرنا چاہئے تھا اور یہ کہ وہ میں ہی ہوں جس کے آنے سے خدا کے گزشتہ نوشتے ایسی صفائی سے پورے ہو گئے کہ کسی کو انکار کی مجال نہیں رہی.حضرت پیر کو ٹھے والے صاحب کی شہادت اس ضمن میں آپ نے بالخصوص ایک صاحب کشف و الهام بزرگ پیر کو ٹھے والے صاحب II کی شہادت پیش کی جنہوں نے اپنی وفات سے چند سال قبل اپنے خاص محبوں کو بتا دیا کہ امام مهدی آخر الزماں پیدا ہو چکا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.زبان اس کی پنجابی ہے.اس پر اس قدر شدید مصائب آئیں گے جن کی نظیر گزشتہ زمانہ میں نہ ہوگی مگرا سے ذرہ بھر پروانہ ہوگی نیز خبر دی کہ میرے بعض احباب مہدی آخری الزماں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے یہ شہادت حضرت پیر کو ٹھے والے کے خلیفہ زادہ حکیم محمد یکی صاحب دیگرانی نے ۲۳.جنوری ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجوائی تھی جو حضرت پیر صاحب کے دو خاص مصاحبوں ( حافظ نور محمد صاحب

Page 163

تاریخ احمدیت جلد ۲ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ متوطن گڑھی اماز کی اور گلزار خان ساکن بڑا پیر علاقہ پشاور) کی چشم دید روایت پر مبنی تھی.علاوہ ازیں اس علاقہ کے بعض اور متدین اور معزز ا حباب مثلاً (محمد اسمعیل صاحب محله گلبادشاہ پشاور اور مولوی حمید اللہ صاحب ملاصوات) نے بھی اس روایت کی تصدیق کی.مولوی حمید اللہ صاحب نے تو حضرت اقدس کی خدمت میں بزبان فارسی ایک خط میں حلفا یہ بیان تحریر کیا اور حضرت پیر صاحب کے یہ اصل افغانی لفظ بھی لکھے جو ان کی زبان مبارک سے نکلے تھے یعنی " چہ مهدی پیدا شوے دے او وقت و ظہور ندے " یعنی مهدی موعود پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۴۷ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ حواشی منتخبات التاريخ لد مشق " جزو سوم صفحه ۱۰۳۵ از محمد ادیب آل تقی الدین الحصنی مطبعہ الحدیث دمشق ۱۹۳۴ء ، معجم البدان جلد ۴ صفحہ ۷ (مولفہ امام شہاب الدین ابو عبد اللہ ) طبع اول ۱۹۰۶ء د تمدن عرب " اردو صفحه ۱۱۵ از فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی بان) مترجم شمس العلماء سید علی بلگرامی صاحب مطبوعہ اعظم سٹیم پریس حیدر آباد دکن."اسلامی انسائیکلو پیڈیا " جلد اول صفحہ ۲۲۱ مرتبه منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور.منتخبات التواريخ خالد مشق " جلد سوم صفحه ۱۰۳۵ ملاحظہ ہو ترجمہ "بلاد فلسطین و شام " از جی بی اسٹرینج صفحه ۱۳۲۹ شائع کردہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن).منتخبات التواریخ جلد سوم صفحہ ۱۰۳۶ بیج الکرامہ صفحہ ۱۳۸ میں حضرت امام سیوطی کا یہ دعوئی لکھا ہوا موجود ہے کہ "انی المجدد " ( میں مجدد ہوں) مصر کے باشندے تھے.آپ کی تصنیفات کی تعداد چار سو کے قریب ہے جن میں تفسیر در منشور اور جلائین کا آخری حصہ بہت مشہور ہے.۱۵۰۵ء میں وفات پائی ( قاموس المشاہیر).حاشیه ابن ماجہ مصری صفحه ۲۶۵( مطبوعه ۵۱۳۱۳) ۷ اشتہار ۱۸- مئی ۱۹۰۰ء ( مشمولہ خطبہ الہامیہ) نزول عیسی والی حدیث مکاشفات میں سے ہے اور مکاشفات ہمیشہ مجازات و استعارات پر مبنی ہوتے اور کئی رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں لہذا حضرت اقدس نے اس مینارہ کی تحریک ہونے سے قبل اس حدیث کی بناء پر پیش گوئی فرمائی کہ حضور یا حضور کا کوئی خلیفہ و مشق کی طرف سفر کرے گا تمامتہ البشرئی صفحہ ۲۷ مطبوعہ جنوری (۱۸۹۴ء) چنانچہ حضور کے جانشین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی ۱۹۲۴ء کے سفریورپ کے دوران دمشق بھی کھرے اور منارہ بیضاء کے مشرقی طرف قیام پذیر ہوئے.اس کے بعد جب آپ نے دوسری مرتبہ سفر یورپ اختیار فرمایا تو آپ بذریعہ طیارہ دمشق میں نزول فرما ہوئے اور حدیث نبوی ظاہری لحاظ سے بھی کمال صفائی سے پوری ہو گئی.فالحمد لله علی ذالک.- تبلیغ رسالت جلد 4 صفحه ۳۳-۴۹( ضمیمہ خطبہ الہامیہ ).-1° -11 الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۲۰ صفحه ۸ منشی صاحب نے تو اپنے گھر کا تمام سامان فروخت کر کے تین سو روپیہ پیش کر دیا جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ شادی خاں صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا.جب میاں شادی خاں نے یہ سنا تو گھر میں جو چار پائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کرڈالا اور ان کی رقم بھی حضرت کے حضور پیش کر دی.(احکم ۲۶.جنوری ۱۹۲۰ء صفحہ (۸) ایضاً "سیرت احمد طبع اول صفحه ۱۴۳ ولفہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری) تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۵۳ - ۶۴ ا حکم ۱۴ فروری ۱۹۱۸ء صفحه ۱۲ و ۲۸ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۳ ۱۳ الحکم ۲۸.فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵ کالم ۳ -10 الحکم ۱۴.فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۱ ۱۲ - الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۴ کالم اور اصحاب احمد " جلد ششم صفحہ ۱۳۱ روایت حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب (مولفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان) الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵ کالم ۳ ۱۸ مستری فضل الدین صاحب معمار کا بیان ہے کہ اس اینٹ کی نچلی طرف کچھ لکھا ہوا تھا پھر لکھا ہوا حصہ حضور نے پہنچے رکھ کر بنیاد

Page 165

تاریخ احمدیت جلد ۲ -19 ۱۴۸ پر سر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ میں رکھنے کے لئے دے دیا اور ارشاد فرمایا اس اینٹ کو اسی طرح منار کی بنیاد میں رکھ دو اس کو الٹا نہ کرنا.چنانچہ یہ اینٹ اسی طرح نگادی گئی.(اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۱۳۱) الحکم ۱۷ مارج ۱۹۰۳ء صفحه ۴- ۵ و الحکم ۲۰.فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸ کالم سو ۲۰ الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۴ کالم ۱-۲ ۲ اخبار الحکم ۳۱.مئی ۱۹۰۳ء صفحہ کالم اسے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیل دار صاحب کے علاوہ ضلع کے مجسٹریٹ بھی اس سلسلہ میں قادیان آئے ہوئے تھے.۲۲ پدر ۲۲ - مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۸-۱۱۳۹ حکم ۳۱.مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ و سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۵۳ ۱۵۳ ( طبع ثانی) روایت حضرت حافظ روشن علی صاحب.۲۳- احکام ۱۰ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ کالم و الحکم ۱۷.مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ ۲۴- الحکم ۱۰.اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ اکالما ۲۵ سیرت احمد " ( مرتبہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری) صفحه ۱۳۳ مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۱.الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۳۴۲ کالم ۱-۲ ۲۷ " مجدد اعظم " حصہ اول صفحه ۷۹ ۲۸- الحکم ۱۷.نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ اکالم ۲۹ اشتہار مورخہ ۲۸.مئی ۱۹۰۰ ء ۳۰ حضرت اقدس خود فرماتے ہیں.چونکہ خدا تعالی کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام میں ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان (میر درڈ.ناقل ) کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تعمریزی ہوئی ہے زیادہ سے زیادہ پھیلا دے." ( تریاق القلوب طبع اول صفحه ۶۵) ۳۱- الفضل ۲۹.نومبر ۱۹۱۴ء صفحه ۱ الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم 1 ۳۲- الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۴ کالم.۲ و ۳ اصحاب احمد " جلد ششم صفحہ ۲ے منارة المسیح کے علاوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول بورڈنگ ہائی سکول مسجد نور مسجد اقصیٰ کا مسقف وغیرہ سلسلہ کی عظیم الشان عمارتوں کی تعمیر بھی حضرت قاضی صاحب کی نگرانی میں ہوئی ہے.(اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۷۲) ۳۳- الفضل ۲۸ دسمبر ۱۷۴٬۶۱۹۱۵.فروری ۱۹۲۳ء کو مینار پر گیس کے ہنڈے نصب ہوئے تھے جو نائجیریا کے مخلص احمدیوں کی رقم سے خریدے گئے.(الفضل ۲۲.فروری ۱۹۲۳ء صفحہ اکالم ) تم الحکم ۱۴/۲۱ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۳ کالم ۲۰۰۱ ۳۵ احمدی جنتری قادیان ۱۹۳۷ء صفحه ۳۹٬۳۸ مرتبہ مولوی محمد امین صاحب ( تاجر کتب قادیان) ۳۶.اس کی تفصیل خلافت ثانیہ کے واقعات میں آرہی ہے.۳۷ لجه النور طبع اول صفحه) ۳۸ لبجه النور طبع اول صفحه ۵۶ ۳۹- لجد النور طبع اول صفحه ۶۷ الحکم ۲۴.جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم ۲-۳ الم الحکم ۲۴.اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ سے کالم ۱-۲ الحکم ۲۴.اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ کے کالم ۱-۲ ۴۳- الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۰ء صفحے کالم ۲ ۴۴- الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ سے کالم ۳

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۴۹ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ ۴۵- الحکم ۹.جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰ ۱۱ حکم ۲۳.جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۵ کالم ۳ -۲۶ - اشتہار میں " سے " کا لفظ موجود نہیں جو سمو ہے.(مرتب) ۴۷ تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۶۵-۷۰ ۳۸ تبلیغ رسالت جلده صفحه ۷۰ ۴۹ مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو " واقعات صحیحہ " صفحہ ۲۵-۲۶ ( مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب) اس انجمن کے صدر حکیم فضل الہی صاحب.سیکرٹری منشی تاجدین صاحب اور جائنٹ سیکرٹری میاں معراج دین صاحب عمر -0- تھے.واقعات صحیحه صفحه ۳۶-۳۷ ۵۲- عصائے موسی صفحه ۳۱۸ تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۱۳۹۶-۱۳۹ ۵۴ تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۱۳۷۱۲۵ ۵۵ پیر صاحب کے بعض مریدوں نے ان کے اس مطالبہ بحث کے جواب میں حضرت اقدس کے اشتہار ۲۵ جولائی ۱۹۰۰ ء کی یہ عبارت پیش کی کہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے یا کی آخری زمانہ میں جسم عصری کے ساتھ نازل ہوں گے.اگر لکھا ہے تو کیوں ایسی حدیث پیش نہیں کرتے.سوال یہ ہے کہ اس سیدھے سادھے مطالبہ کے لئے کسی مباحث کی ضرورت ہی کیا تھی.جس طرح حضرت مسیح موعود نے تحریری چیلنج دیا تھا اسی طرح ان کے لئے بھی اپنے کسی اشتہار میں یہ مطلوبہ حدیث شائع کر دینا کافی تھا مگر وہ بھی بے چارے معذور تھے احادیث کے ذخیرہ میں یہ حدیث نہ آج تک کسی کو مل سکی ہے نہ آئندہ قیامت تک مل سکتی ہے پھر بھلا وہ کہاں سے لاتے ؟ ۰۵۷ عصائے موسیٰ " صفحہ ۴۱۸ ۵۷ خود لکھتے ہیں.خاکسار نے مرزا کے دعوئی بالمقابلہ تفسیر نویسی اور نشان نمائی کو اس کی قدیم لاف زنی سمجھ کر اعراض اختیار کیا اور اپنی اور ذاتی ضرورتوں کے لئے شملہ پہنچا "(اشاعت السنہ جلد ۱۹ صفحہ ۱۳۹) ۵۸- عصائے موسی صفحہ ۳۱۸ و واقعات صحیحه " صفحه ۴۱ - ۷۳ ( متولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب) ۶۰ مفصل خط کے لئے ملاحظہ ہو " واقعات صحیحہ " صفحه ۴۶۴۵ "واقعات صحیحه صفحه ۴۷۴۵٬۴۴ واقعات صحیحه " صفحہ ۲۰۱۹ ۶۳ واقعات صحیحہ " صفحہ ۴۲۷ ۶۳ واقعات صحیحه صفحه ۴۷ ۱۵- واقعات صحیحه صفحه ۴۹ ۲۲ اشاعت السنہ جلد ۱۹ نمبر ۵ صفحہ ۳۲ اپر اس جلسہ کی کارروائی میں علماء کا یہ فیصلہ ان الفاظ میں درج ہے.آئندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی یا اس کے حواریوں کی کسی تحریر کی پروانہ کریں اور نہ ان سے مخاطب ہوں.اور نہ ہی انہیں کچھ جواب دیں کیوں کہ ان کے عقاید وغیرہ بالکل خلاف اسلام ہیں." الحکم ۲۴.اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۷۶ ۶۸- حضرت اقدس کو تو یہ شرط لاہور کے ماحول کو دیکھ کر کافی وقت کے بعد مجبور عائد کرنا پڑی مگر پیر صاحب کے نمائندہ مولوی محمد نمازی نے ”ٹس اللہ امتہ" کے آخری صفحہ پر پہلے ہی یہ لکھ دیا تھا کہ "ہم مباحثہ کے واسطے بھی مرزا صاحب سے بشرط کافی انتظام کے ہر طرح سے تیار ہیں." 19 - اس شرط کے متعلق منشی اٹلی بخش صاحب اکو شٹ نے لکھا."سبحان اللہ ایہ خوب انصاف ہے کہ خود بدولت مرزا صاحب تو کسی

Page 167

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۰ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ کی ایک شرط بھی ہرگز قبول نہ کریں اور آپ شرائط پر شرائط بڑھاتے جائیں اور وہ بھی ایسے ناممکن العمل کہ کبھی ہو نہ سکیں" (عصائے موسیٰ صفحہ ۴۲۰) ان الفاظ سے اس شرط کی اہمیت نمایاں ہو جاتی ہے.دراصل حضرت اقدس کو اس موقع پر یہی سب سے بڑا شکوہ تھا کہ ایک دینی معاملہ اخلاق و تحمل کے جس ماحول کا مقتضی ہے وہ سرے سے مفقود ہے.اگر عملا یہ بات نہیں تھی تو مطلوبہ ذمہ داری حاصل کرنے کو ناممکن العمل " کیوں قرار دیا گیا.خصوصاً جب کہ یہ اصحاب پیر صاحب کے مرید یا ہم عقیدہ ہی تھے.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ ملتا ہے.چنانچہ سفن ابو داؤد " کتاب الخراج و الفنی والامارۃ باب خبر النفسیر) میں لکھا ہے کہ بنو نضیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میں آدمی لے کر آئیں ہم بھی اپنے اخبار لے کر آئیں گے.اگر ہمارے اخبار آپ کی تصدیق کریں تو ہمیں بھی کچھ عذر نہ ہو گا لیکن چونکہ وہ بغاوت کی تیاری کر چکے تھے حضور علیہ السلام نے کہلا بھیجا کہ جب تک تم ایک معاہدہ نہ لکھ دو تم پر اعتماد نہیں کر سکتا.تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۱۴۱۱۳۷ ے واقعات صحیحه ۲ صفحه ۷۱ - ۶۳ ۷۲ تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۹۶ ۷۳- اربعین نمبر صفحه او " اربعین نمبر ۴ صفحه ۱۴ ۷۴.ان کی اشاعت کی تاریخیں یہ ہیں.نمبر - ۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء ، نمبر ۲.۲۷.ستمبر ۱۹۰۰ء ، نمبر ۳ ۴ - ۱۵- دسمبر ۱۹۰۰ء ، ضمیمه نمبر ۳-۴-۲۹٬۱۵ دسمبر ۶۱۹۰۰ ۷۵- اربعین نمبر صفحه ۵۰۴ ۷ اربعین نمبر ۲ صفحه ۲۸-۲۹ ۷- اربعین نمبر ۲ صفحه ۲۹-۳۰ ۷۸- "اربعین نمبر ۲ صفحه ۳۲ ۰۷۹ "اربعین نمبر ۲ صفحه ۴۰ ۰۸۰ ضمیمه اربعین نمبر ۳ ۴ صفحه تار قرآن مجید میں جو مکمل ضابطہ حیات ہے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ولو تقول علينا بعض الاقاويل - لا خذنا منه باليمين.ثم لقطعنا منه الوتين (الحاقه (۲۴) یعنی اگر ہمارا یہ رسول ﷺ کوئی جھوٹا الہام بنا کر ہماری طرف منسوب کر تا تو ہم اسے یقینا دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے.اس کی شہ رگ کاٹ دیتے.خدا تعالی کے اس واضح معیار اور آنحضرت ا کے دعوئی الہام کے بعد تیس سالہ عمر کی روشنی میں علامہ سعد الدین تفتازانی (۱۳۲۲/۱۳۹۰) نے مذہبی دنیا کو چیلنج دیا تھا.فان العقل يجزم بامتناع اجتماع هذة الامور في غير الانبياء وان يجمع الله هذة الكمالات فى حق من يعلم انه يفتري عليه ثم يمهل ثلاثا و عشرين سنه " " شرح عقائد نسفی صفحه ۱۳۰ مطبوعہ مصرو "نبراس صفه ۴۴۴) یعنی عند العقل یہ بات ممتنع قرار پاتی ہے کہ اللہ تعالی ایک مفتری کو ۲۳ سال کی مہلت دے.عالم اسلام کے مشہور مناظر حضرت امام ابن قیم (متوفی ۷۵ء) عیسائیوں کے سامنے آنحضرت ﷺ کی صداقت میں سب سے بڑی دلیل یہی پیش کیا کرتے تھے (زاد المعاد جلد ا صفحہ ۵۰۰) ان متکلمین کے علاوه علامه فخر الدین رازی (۱۱۵۰- ۱۲۱۰) امام ابو جعفر طبری (متوفی ۶۸۳۵) حضرت علامہ خطیب بغدادی (۱۰۰۶-۱۰۷۰) علامہ حافظ ابو الفداء اسمعیل بن عمرو مشقی (متوفی ۶۱۳۷۲) علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۱۵۰۵ء) صاحب کشاف علامہ محمد بن عمرد ز مشتری (۱۰۷۴- ۱۱۴۲) اور دوسرے اکابر امت بھی یہی مسلک رکھتے تھے.ہندوستان میں جب پادری فنڈل نے "میزان الحق" میں رسول خدا اس پر اعتراض کیا تو مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی (۱۸۹۱۱۸۱۷) اور مولوی سید آل حسن صاحب قنوجی نے ازالہ اوہام " اور " استفسار " میں اسی دلیل سے عدوان دین کا منہ بند کیا تھا کہ آنحضرت ا اگر مفتری ہوتے تو تیس سالہ ملت دعوی نبوت کے بعد کیوں کر پا سکتے تھے.حال کے علماء میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری (۱۸۶۸ - ۱۹۴۸) نے بھی اسے تسلیم کرتے ہوئے صاف لکھا تھا.”نظام عالم میں جہاں اور قوانین الہی ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے.واقعات گزشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی مدعی نبوت کو

Page 168

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۱ پیر مہر علی شاہ صاحب کو دعوت مقابلہ سرسبزی نہیں دکھائی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوت مخالف بھی نہیں بتلا سکتے.مسیلمہ کذاب اور عبید اللہ عنسی نے دعویٰ نبوت کے کئے لیکن آخر کار خدا کے زبر دست قانون کے نیچے آکر کچلے گئے دعوی نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا " (مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۷ ۱ مطبوعہ مطبع چشمه نور امرتسر ۱۳۱۴) غرض کہ یہ امت محمدیہ کا ایک مسلمہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ جھو ٹامدعی الهام آیت لو تقول کے مطابق ۲۳ برس مہلت نہیں پاسکتا اور نہ کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہے.۸۲- اربعین نمبر ۳ صفحه ۱۸ ( طبع اول) ۸۳- اربعین نمبر ۳ صفحه ۸ تا ۱ ۸۴- انجام آتھم صفحه ۲۶۰ ۸۵ خفیف سے تصرف کے ساتھ " تحفہ گولڑویہ " سر ورق صفحہ ۲ سے ماخوذ ہے.۸۶ دریائے سندھ کے کنارے تحصیل صوابی ضلع پشاور میں ایک گاؤں کوٹھ شریف نامی ہے یہ بزرگ اسی جگہ رہتے تھے اور پیر کوٹھے والے کے نام سے مشہور تھے.۱۷۹۵ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۷۸ء میں وفات پائی.ان کے مرید ان کو تیرھویں صدی کے مجدد اور دوسرا مجدد الف ثانی " یقین کرتے ہیں.پیر صاحب کے سوانح حیات اور ملفوظات مراقبات اور بعض الهامات "مخزن عرفانی " اور " نظم الدرر فی ملک السیر " کے نام سے شائع شدہ ہیں.موخر الذکر کتاب فارسی میں تھی جس کا اردو ترجمہ " در اسرار " کے نام سے جون ۱۹۸۵ء میں پشاور سے صاحبزادہ بک فاؤنڈیشن نے شائع کر دیا ہے).۸۷- پیر کو ٹھ شریف کے جانشین تھے.جنوری ۱۹۰۵ء میں فوت ہوئے بمقام نینی تال آپ کا مزار ہے.۸۸ " تحفہ گولردید " طبع اول صفحه ۳۴ تا ۳۶ (حاشیہ).

Page 169

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۲ جماعت کا فرقہ احمد یہ سے موسوم ہونا جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۵۳ جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہوتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا سلسلہ حقہ کی بنیاد اگر چہ مارچ ۱۸۸۹ء میں پڑ چکی تھی مگر اب تک اس کا کوئی مستقل نام تجویز نہیں کیا گیا تھا اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سے امتیاز کے لئے بعض لوگ آپ کے ماننے والوں کو پنجاب میں ” مرزائی اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں ” قادیانی" کے نام سے پکارتے تھے لیکن اب ۱۹۰۱ء میں سرکاری طور پر مردم شماری ہونے والی تھی جس میں یہ التزام کیا جانے والا تھا کہ ہر ایک فرقہ جو دوسرے فرقوں سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کا اندارج کیا جائے اور جس نام کو کسی فرقہ نے اپنے لئے تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھا جائے.لہذا اس اہم مقصد کے پیش نظر حضرت اقدس نے ۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار واجب الاظہار" کے ذریعہ سے یہ اعلان فرمایا کہ ہمارے نبی ا کے دو نام تھے ایک محمد.دوسرا احمد.اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اس میں یہ پیش گوئی مخفی تھی کہ آنحضرت ا ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں کے بموں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صدہا مسلمانوں کو قتل کیا لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت الی دنیا میں آشتی اور صلح پھیلا ئیں گے.سو خدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اول آنحضرت ا کی مکی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا اور ہر طرح سے مبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سر کو بی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمد کی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں."

Page 171

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ها جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا جماعت کو ذمہ داری کے احساس کے لئے نصیحت "احمدی مذہب کے مسلمان " یا "مسلمان فرقہ احمدیہ " نام کے ساتھ جماعت پر جو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کی طرف توجہ دلانے کے لئے حضرت اقدس نے اگلے ماہ دسمبر ۱۹۰۰ء میں لکھا."خدا نے تمہیں اس عیسی احمد صفت کے لئے بطور اعضاء کے بنایا.سو اب وقت ہے کہ اپنی اخلاقی قوتوں کا حسن اور جمال دکھلاؤ.چاہیئے کہ تم میں خدا کی مخلوق کے لئے عام ہمدردی ہو اور کوئی چھل اور دھو کہ تمہاری طبیعت میں نہ ہو.تم اسم احمد کے مظہر ہو.سو چاہئے کہ دن رات خدا کی حمد و ثناء تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کرو اور تم کامل طور پر خدا کی کیوں کر حمد کر سکتے ہو جب تک تم اس کو رب العالمین یعنی تمام دنیا کا پالنے والا نہ سمجھو.اور تم کیوں کر اس اقرار میں بچے ٹھر سکتے ہو جب تک ایسا ہی اپنے تئیں بھی نہ بناؤ." پس تم کیوں کر بچے احمد یا حامد ٹھر سکتے ہو جب تک کہ اس خلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے.حقیقت میں احمد بن جاؤ اور یقینا سمجھو کہ خدا کی اصل اخلاقی صفات چارہی ہیں جو سورہ فاتحہ میں مذکور ہیں.(۱) رب العالمین سب کا پالنے والا (۲) رحمان بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخود رحمت کرنے والا (۳) رحیم کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام و اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا (۴) اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا.سو احمد وہ ہے جو ان چاروں صفتوں کو عملی طور پر اپنے اندر جمع کرے.یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے...اور یہی جمالی حالت ہے جو حقیقت احمد یہ کو لازم پڑی ہوئی ہے.محبوبیت جو اسم محمد میں تھی صحابہ کے ذریعہ سے ظہور میں آئی اور جو لوگ ہتک کرنے والے اور گردن کش تھے محبوب الہی ہونے کے جلال نے ان کی سرکوبی کی.لیکن اسم احمد میں شان محیت تھی یعنی عاشقانہ تذلل اور فروتنی یہ شان مسیح موعود کے ذریعہ سے ظہور میں آئی سو تم شان احمدیت کے ظاہر کرنے والے ہو لنڈا اپنے ہر ایک بے جاجوش پر موت وارد کرو اور عاشقانہ فروتنی دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو." دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت ۲۳.مارچ ۱۸۸۹ء کو جماعت کی بنیاد رکھی گئی اور ۱۸۹۲ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے علمائے ہند سے فتویٰ تکفیر لے کر شائع کیا جس میں حضور اور حضور کی جماعت کو کا فرادر مرتد قرار دیتے ہوئے قہار کی دیئے گئے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ان سے تعلق نکاح قائم کرنا اور ان کا جنازہ پڑھنا حرام

Page 172

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۵ جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا ہے.اس فتویٰ پر ہر جگہ جس سختی سے عمل کیا گیا اس کے لئے اس زمانہ کے ایک صاحب مولوی عبد الاحد نامی کا یہ بیان کافی ہے.لکھتے ہیں.” طائفہ مرزائیہ امر تسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نماز پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے...معاملہ و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے." " تمام لوگوں کے نزدیک مخذول و مطرور ہوئے.ملعونين اينما ثقفوا اخذوا کا مصداق بن گئے.معالمہ وبر تاؤ تم سے روکا گیا.عورتیں چھینی گئیں.مردے خراب و بے جنازہ پھینکے گئے مال و آبرو کا نقصان ، روپوں کی آمدنی میں خلل آگیا...مردے کے کپڑے یہاں راولپنڈی سے قادیان بھیجے گئے...نہ مسجدوں میں جاسکو نہ مجلسوں میں." اس نوع کے دلدوز حالات میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت دو سرے فرقہ کے ان ائمہ کے پیچھے جو تکفیر بازی کے شغل میں ملوث نہیں ہوئے کئی سال تک نمازیں ادا کرتی رہی.جب یہ سلسلہ زیادہ ناگوار شکل اختیار کر گیا تو حضرت اقدس نے حدیث رسول ا وا مامكم منكم " (بخاری) کی روشنی میں باہمی کشمکش ختم کرنے کے لئے یہ ہدایت فرمائی کہ آئندہ کسی مکفر و مکذب و متردد شخص کی اقتداء میں بالکل نماز نہ ادا کی جائے تا مسجدوں میں فتنے کا کوئی احتمال نہ رہے.یہ ہدایت ۱۸۹۸ء کے لگ بھگ دی گئی تھی اور اس کا علم زیادہ تر انسی احباب تک محدود تھا جو اس وقت تک شدید مظالم کا نشانہ بن چکے تھے.اس ضمن میں کوئی تحریری ہدایت جماعت کے نام نہیں دی گئی تھی.لیکن جب غیروں کی سختیاں انتہاء کو پہنچ گئیں اور مکفرین کی سینہ زوری اور خدا ناترسی کا منظر ہر شخص نے بچشم خود دیکھ لیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ۱۹۰۰ ء کے آخر میں تحریری شکل میں بھی یہ ہدایت بذریعہ اشتہار جاری کردی که یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا مترود کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا رہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم.یعنی جب مسیح نازل ہو گا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوئی اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا.تمہارا امام تم میں سے ہو گا.پس تم ایسا ہی کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو.اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک

Page 173

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۶ جماعت کا فرقہ احمد یہ سے موسوم ہونا حال میں مجھے حکم ٹھراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے پس جانو کہ وہ مجھ سے نہیں ہے کیوں کہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں." اس ارشاد کے کچھ عرصہ بعد حضور کے ایک مرید خان محمد عجب خان صاحب تحصیل دار آن زیده نے حضور سے استفسار کیا کہ جو لوگ سلسلہ احمدیہ سے ناواقف ہیں ان کے پیچھے نماز ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ حضور نے جواب دیا.ناواقف امام سے پوچھ لو اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں.اللہ تعالٰی ایک جماعت الگ بنانا چاہتا ہے اس لئے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جارے.جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتا ہے بار بار ان میں گھسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز سے متعلق اس ہدایت کے ساتھ ہی خبر دی کہ صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اس میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے تم ان میں اگر رلے ملے رہے تو خداتعالی جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے." چنانچہ سچ سچ ایسا ہی ہوا.آپ کے اس فرمان کی تعمیل کرنے والے روزافزوں ترقی کرتے گئے اور کرتے جا رہے ہیں.حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب علاقہ خوست کی احمدیت سے وابستگی موضع سید گاہ علاقہ خوست (افغانستان) میں ایک باکمال بزرگ حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب رہتے تھے.حضرت صاجزادہ حضرت مخدوم شیخ ابو الحسن علی ہجویری گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ (۱۰۰۹ ۱۰۷۲) کی اولاد میں سے تھے اور ملک کے مشہور مذہبی پیشوا، مقتدر عالم اور صاحب کشف و الہام تھے چنانچہ آپ کو خدا تعالٰی نے اوائل ہی میں یہ خبر دی کہ پنجاب میں مسیح موعود پیدا ہو گیا ہے.آپ کے عقیدت مند افغانستان میں بڑی کثرت سے موجود تھے.دربار شاہی میں بھی آپ ممتاز منصب رکھتے تھے.دنیا دی وجاہت کا یہ عالم تھا کہ ملک کے چوٹی کے جاگیر داروں میں ان کا شمار

Page 174

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۵۷ جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہوتا ہو تا تھا.سیاسی اثر و نفوذ کے لحاظ سے بھی ان کی شخصیت نمایاں تھی.چنانچہ جب امیر کابل عبد الرحمن (۱۸۴۴ - ۱۹۰۱) کے عہد میں ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں کی تحسین کے لئے کمیشن مقرر ہوا تو برطانوی گورنمنٹ کی طرف سے سرمار ٹیمر ڈیورنڈ اور نواب سر صاحبزادہ عبد القیوم خاں آف ٹوپی ضلع پشاور ممبر مقرر ہوئے اور افغانستان کی طرف سے سردار سرندل خاں گور نرسمت جنوبی اور حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب تجویز ہوئے.کمیشن نے ۲۹.جولائی ۱۸۹۴ء سے ۳.دسمبر ۱۸۹۴ء تک چھ ماہ میں اپنا حد بندی کا کام ختم کر لیا اور وہ تاریخی ڈیورنڈ لائن قائم ہوئی جو آج بھی پاکستان اور افغانستان کی حد فاصل ہے.کمیشن کے قیام سے دونوں ملکوں کی سرحدوں کا تعین تو لازماً ہونا ہی تھا.اس کا تحریک احمدیت کو بھی روحانی فائدہ ہوا کہ کمیشن کے ارکان پارا چنار کے مقام پر دن کو حد بندی کا کام کرتے اور رات کو مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہو تا.حسن اتفاق سے کمیشن کے محر ر پشاور کے سید چن بادشاہ صاحب نے ایک مرتبہ دوران گفتگو میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوئی کا تذکرہ کیا جس سے حضرت سید عبد اللطیف صاحب بڑے متاثر ہوئے.سید چن بادشاہ صاحب نے آپ کی خواہش دیکھی تو حضرت اقدس کی ایک تصنیف " آئینہ کمالات اسلام " پیش کی جس کے مطالعہ کے بعد حضرت صاجزادہ صاحب کو حضرت اقدس سے بے حد عقیدت و الفت پیدا ہو گئی.انہوں نے حضور سے رابطہ قائم کرنے کے لئے اپنے بعض خاص شاگردوں مثلاً حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب، حضرت مولوی عبد الستار صاحب اور حضرت مولوی عبد الجلیل صاحب کو حضرت اقدس کی خدمت میں بار بار بھیجنا شروع کیا.آپ کے یہ مخلص شاگرد قادیان میں حضرت اقدس کی صحبت میں کچھ وقت گزارتے اور حضور کی تازہ تالیفات لے کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس آتے.اس طرح حضور کے تازہ کو ائف کا بھی علم انہیں ہو تا رہتا تھا.دسمبر ۱۹۰۰ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کو اپنے چند شاگردوں کے ساتھ حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط دے کر بھجوایا.نیز حضور کے لئے کچھ خلعتیں بھی تحفہ کے طور پر بھیجوا ئیں.اله ڈیورنڈ لائن کے ریکارڈ میں حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا ذکر No.247 Translation of letter dated 13th Zilhij (18th June 1894) from

Page 175

جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہوتا ۱۵۸ Sardar Shirindil Governor of khost to J.S.Donald Esquire CIE Officer on special duty, kurraṁ.After Complements I have persued you, letter of the 17th June you wrote today Sahibzada Latif Jan and Dad Muhammad Khan, Hakim of the chakmannis, have stated that you have no power to do the demarcation beyond the Peiwar Kotal.But that from the Peiwar Kotal up to Kimatai Sar you are willing to demarcate the boundary along the water shed, and from Kimatai Sar you are willing to continue the boundary along the watershed of that spur which runs down in an eastern direction from Kimatai Sar and up to a spot between the Kharlachi post and the village of Lar Istia.That from this post which is between the post of Kharlachi and the village of Lar Istia you are willing to demarcate a line which will separate the lands of Kharlachi from those of pathan This will be demarcated in our persence on the spot.If you really agree to this line please let me know in clear language so that I may understand it My friend sahibzada (Abdul Latif Jan) and Dad Mohammad Khan came and told me that under my instructions they had been to Mr.Danald's camp.No.393 No.551c,dated28th July1894 From J.S.Donald, Esquire, CIE officer on special duty, Kurram to the commissioner and superintendent, Peshawar division.On the morning of the 27th instant Sahibzada Latif Jan, and agent of the Sardar,s and his right hand man in connection with demarcation operations, returned with my letter and said that the Sardar was puzzled at my having asked so many questions, that the disposition of his highness the Amir was "Barik" (delicate), and that his highness would be very much offended at the sight of so many questions and answers.The Sahibzada went on to say that the Sardar would be obliged if I could put my questions in a simple form, so that he may understand them.That though my questions may be clear enough in the English language, some of them had no meaning when rendered into Persian After consultation with the Sahibzada, I drew up another set of three (questions here with submitted).The Sahibzada seemed to be pleased with these as he thought the Sardar would understand them better.As the purport of most of the 20 questions is contained in these three questions, I did not see much difference myself in the two sets of questions, but as the second set pleased the Sahibzada, I told him he might take away both sets and after comparing them carefully see if he could discover any great difference.No.526 No.841C,dated 24th September1894 From J.S.Donald Esquire CIR officer on special duty, Kurram to the commissinoner and Suprintendent, Peshawar division.One of these letters was sent by me to the Sardar on the morning of the 21st instant, and it was brought back to me on the evening of the date by Sahibzada Lafif Jan, a trusted agent of the Sardar.Latif Jan came to me with Shirindil Khan,s copy of a map which professes to be a tracing of the map of Afganistan on a scale of 1 24 miles and asked me to point out to him where in the Sardar's map differed from my map which was supposed by me to be the Kabul agreement map.-

Page 176

تاریخ احمدیت.جلد ۲ نمبر ۲۴۷ ۱۵۹ جماعت کا فرقہ احمد یہ سے موسوم ہونا اس خط کا ترجمہ جو محترم سردار شرندیل خان صاحب گورنر آف خوست نے جناب ہے.ایس.ڈانلڈ صاحب بہادر ی.آئی ای آفیسران سپیشل ڈیوٹی کرم کو مورخہ ۱۳.ذی الحج (۱۸.جون ۱۸۹۴ء) کو تحریر کیا.سلام و آداب کے بعد واضح ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھ لیا ہے جس میں آپ نے لکھا ہے.کہ صاحبزادہ عبد اللطیف جان صاحب اور داد محمد خان صاحب حاکم چقمانی نے آپ کو بتایا ہے.کہ مجھے پائیوار کوٹل کے علاقے سے پرے کی جانب حد بندی کے اختیارات حاصل نہیں.لیکن پائیوار کوٹل کیما ٹائی سر کے مقامات تک ذخیرہ آپ کے ساتھ ساتھ سرحدی لائن کھینچے جانے سے مجھے اتفاق ہے.بالخصوص جب کہ یہ لائن خرلاچی پوسٹ اور لار اشیاء کے دیہات کے مابین گزرے.اس طرح مجھے اس امر پر بھی اعتراض نہیں.اگر یہ خط خرلاچی دیسات کی زمینوں کو پٹھان گاؤں کی زمینوں سے الگ کر دے.اور اس خط کی تعیین.ہم دونوں.موقع پر کریں.میرے دوست صاحبزادہ عبد اللطیف جان صاحب اور داد محمد خان صاحب میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ میری ہدایت کے مطابق ڈانلڈ صاحب کے پاس گئے ہیں.C نمبر ۳۹۳ نمبر ۱ ۵۵ سی مورخه ۲۸ جولائی ۱۸۹۴ء جناب جے.ایس.ڈانلڈ آفیسر آن سپیشل ریوٹی کرم کی طرف سے جناب کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ صاحب بہادر پشاور ڈویژن کے نام ! ۲۵ تاریخ کی صبح کو صاحبزادہ عبد اللطیف جان صاحب جو سردار سرندل کے نمائندے اور ان کے دست راست ہیں میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ سردار صاحب اتنے بہت سے سوالات پر کچھ پریشان سے ہیں اور پھر جناب امیر صاحب والی کابل بھی نازک طبیعت کے مالک ہیں اور وہ سرحدی تعین کے بارے میں سوالات کی پیچیدگی اور ان کی ناروا تفصیل کو دیکھ کر الجھن محسوس کریں گے بالخصوص جب کہ ان سوالات کو انگریزی زبان سے الگ کر کے فارسی زبان کا جامہ پہنایا جائے چنانچہ میں نے صاحبزادہ صاحب کے مشورے کے بعد فقط تین سوالوں پر مشتمل ایک سوال نامہ تیار کیا جسے دیکھ کر صاحبزادہ بھی کچھ مطمئن ہوئے اور فرمایا.کہ اب یہ سوال نامہ بہتر صورت میں ہے.میں نے انہیں یہ سوال نامہ اور اس کے ساتھ ہی پہلا سوال نامہ (جس میں ۲۰.سوال تھے) دونوں ان کی

Page 177

تاریخ احمدیت.جلد ؟ 14- جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا خدمت میں پیش کئے اور کہا.کہ وہ انہیں لے جائیں اور خود ملاحظہ فرما دیں کہ آیا دونوں کے مضمون اور مفہوم میں کوئی فرق تو نہیں؟ نمبر ۵۲۶ نمبر ۱ ۶۴ اسی مورخه ۲۴.ستمبر ۱۸۹۴ء جناب ہے.ایس ڈانلڈ - ی.آئی.آر.آفیسر آن پیش دیوٹی کرم بنام کمشنر صاحب (و سپرنٹنڈنٹ) پشاور ڈویژن میں نے ایک خط مورخہ ۲۱ ستمبر کو جناب سردار شرندیل خان صاحب کے خدمت میں بھیجا تھا اور اس کا جواب مجھے صاحبزادہ عبد اللطیف جان صاحب کے ذریعے شام کے وقت موصول ہوا جو سردار صاحب موصوف کے قابل اعتماد ساتھی اور نمائندے ہیں.جناب صاحبزادہ صاحب میرے پاس ایک نقشہ لے کر آئے.جس کے متعلق یہ خیال ہے.کہ وہ افغانستان کے نقشے کی صحیح نقل ہے.(بحساب انچ فی.۲۴ میل) اور مجھ سے انہوں نے دریافت کیا.کہ میں یہ نقشہ دیکھ کر انہیں بتاؤں کہ اس نقشے میں اور میرے نقشے میں کیا فرق ہے؟ (نوٹ) مندرجہ بالا اقتباسات ڈیورنڈ لائن (۹۴ - ۱۸۸۳ء) کے قدیم ریکارڈ سے ماخوذ ہیں جو پشاور میوزیم میں محفوظ ہے اور جس کی مصدقہ نقل شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ کے دفتر میں بھی ہے.مجلس تشخیز الاذہان کی بنیاد ۱۹۰۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مجلس کی بنیاد رکھی جس کا نام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " شعید الاذہان " تجویز فرمایا.یہ دنیا میں احمدی نوجوانوں کی پہلی فعال مرکزی مجلس تھی.مجلس کے پریذیڈنٹ صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب منتخب ہوئے.اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانوں کو تبلیغ اسلام کے لئے تیار کرے.یہ انجمن اگر چہ ۱۹۰۰ ء میں معرض وجود میں آئی مگر نمایاں رنگ میں اس کی سرگرمیاں ۱۹۰۶ ء میں جماعت کے سامنے آئیں جب کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھوں میں اس کا احیاء عمل میں آیا اور شعید الاذہان " ہی کے نام سے اس کا ترجمان بھی جاری ہو گیا.۱۹۰۶ء میں مجلس شعید الاذہان کے ابتدائی عہدیدار اور ممبر یہ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( پریذیڈنٹ) منشی عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلی (سیکرٹری) چوہدری فتح محمد صاحب سیال (ممبر).چوہدری عبد السلام صاحب (محاسب انجمن) منشی برکت علی صاحب ( نائب سیکرٹری شیخ تیمور صاحبہ

Page 178

تاریخ احمدیت جلد ۲ 141 جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا (ممبر) سید طفیل حسین صاحب (ممبر) چوہدری محمد ضیاء الدین صاحب ( ممبر) محب الرحمن صاحب (ممبر) عبد اللہ خاں صاحب کو ئٹہ (میر) بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی (ممبر) ۱۹۰۰ء کے بعض صحابہ اس سال جماعت میں شامل ہونے والے بعض ممتاز اصحاب کے نام یہ ہیں.(۱) حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب خوست کابل.(۲) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بل) (۳) خان ذو الفقار علی خان صاحب گوہر.(۴) حضرت حافظ روشن علی صاحب (۵) عماد الملک مولوی سید مهدی حسین شاہ صاحب لکھنوی (۲) ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ( ) مولوی ابوالحسن صاحب بزدار (۸) چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی سیالکوٹی ۲۲۱ ۲۳

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد ۲ جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا حواشی ا اشتہار واجب الاظهار " مندرجه تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه 9 -۲- از مولف) موجودہ زمانہ کے مشہور فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے حضرت اقدس کے اس نظریہ کو مستعار لیا ہے چنانچہ ان کا شعر ہے.ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور.:.ہے ابھی باقی مگر شان جمالی کا ظہور.اربعین نمبر ۲ صفحه ۲۰۱۸ اظهار مخادعت مسیلمہ قادیانی " صفحہ ۲ مطبوعہ چودھویں صدی "پریس راولپنڈی ۱۹۰۱ء اظهار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحه ۱۴ مطبوعہ چودھویں صدی پریس راولپنڈی ۱۹۰۱ء ایام الصلح " اردو صفحه ۱۳۳ ( طبع اول) اربعین نمبر ۳ صفحه ۲۸( حاشیه) طبع اول البدر ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۴-۳۵ و الحکم فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳ کالم ۱ 9 الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۱ ء صفحه ۳ شهید مرحوم کے چشم دید حالات " ( از سید احمد نور کاہلی) صفحه ۵ ( مطبوعہ قادیان) طبع اول تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو شہید مرحوم کے چشم دید حالات " حصہ اول و دوم "حقیقت الوحی صفحه ۲۰۳٬۲۰۲ رسالہ "دی مسلم ہیرلڈ " (TIHE MUSLIM HERALD) لنڈن بابت ماہ اپریل ۱۹۷۸ء (مضامین رشید احمد خان چودهری و بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن) آپ ابتداء ۱۸۹۷ء میں قادیان تشریف لائے.۱۹۰۴ء سے آپ نے مستقل طور پر قادیان میں رہائش اختیار کرلی.حضرت مولوی صاحب نهایت منکسر المزاج اور صاحب کشف بزرگ تھے اور عمر بھر مہمان خانہ کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں نہایت صبرد شکر کے ساتھ فقیرانہ رنگ میں اقامت گزیں رہے.۱۸ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو ساڑھے آٹھ بجے صبیح رحلت فرمائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان کی وفات پر فرمایا کہ آپ کو غصہ کے وقت اپنے نفس پر بہت قابو حاصل تھا بلکہ وہ اس خصوص میں حضرت صاجزادہ عبد اللطیف صاحب سے بھی آگے بڑھے ہوئے تھے.نیز فرمایا کہ یہ ان کے روحانی تعلق کا ثبوت ہے کہ جب تک میں ڈلیوری سے واپس نہیں آیا ان کی وفات نہیں ہوئی.پھر آپ نے اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرمایا کہ ڈلہوزی میں میں نے دیکھا کہ قادیان میں ایک ایسے شخص کی وفات ہوئی ہے جس سے زمین و آسماں ہل گئے ہیں (الفضل ۲۰.اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۲ کالم )) عاقبته المکذبین " صفحه ۲۹ تا ۱۳۱ از قاضی محمد یوسف صاحب) طبع اول و شہید مرحوم کے چشم دید حالات "صفحہ ۱.( از احمد نور صاحب کابلی) حصہ اول.۱۵- الحکم دسمبر ۱۹۳۹ ء جوبلی نمبر صفحه ۷۴ البدر ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۳ کالم ۱۷ اخبار بدر ۱۳- دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۶ ولادت ۱۸۵۲ ء وفات ۲۹.ستمبر ۱۹۳۸ء.مولانا کے والد بزرگوار مہتاب خاں ( منظر جمال) حضرت امام علی شاہ صاحب سجادہ نشیں اتر چھتر کے خلیفہ مجاز تھے.مولانا سہل اپنی عمر کے ابتدائی دور میں شیعی خیالات کے قائل ہو گئے تھے اور اس مسلک میں عظیم مقام پیدا کر لیا تھا.اریج المطالب " آپ کے اسی زمانہ کی تصنیف ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی سوانح میں سند تعلیم کی جاتی ہے.اس کے بعد آپ کو " سر الخلافہ " کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ احمدیت میں شامل ہو گئے اور زندگی کے آخر دم تک سلسلہ کی علمی خدمات میں مصروف رہے.

Page 180

تاریخ احمدیت جلد ۲ -19 جماعت کا فرقہ احمد یہ سے موسوم ہونا فارسی کے چوٹی کے قادر الکلام شاعر تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو " فردوسی " کا لقب عطا فرمایا تھا.اور حضرت مولانا نور الدین تو فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب فارسی کے اتنے بڑے عالم ہیں کہ مجھے رشک آتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسا علم عربی زبان میں ہو تا.مولانا کے انتقال پر اختلاف مسلک کے باوجود ہندوستان کے علمی طبقہ میں گہرے رنج و غم کا سایر اظہار کیا گیا.(مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو احکام ۳۹.۱۹۳۸ء) ۱۹ بر صغیر ہند و پاکستان کے مشہور سیاسی لیڈر علی برادران کے بڑے بھائی ۱۸۹۹ء میں بمقام رام پور ضلع مراد آباد (یو پی) میں پیدا ہوئے اور ۲۶.فروری ۱۹۵۴ء کو لاہور میں انتقال فرمایا اور ربوہ میں صحابہ کے قطعہ خاص میں سپرد خاک ہوئے.۱۸۸۸ ء میں "ریاض الاخبار " گورکھپور) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط الیگزینڈر رسل ویب سفیر امریکہ فلپائن کے نام شائع ہوا تھا جسے دیکھ کر حضرت خان صاحب کو پہلی مرتبہ حضرت اقدس سے نہیں تعارف ہوا.1900ء میں " ازالہ اوہام کا مطالعہ کرتے ہی حضور کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.پہلی بار ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا.اس وقت آپ نائب تحصیل دار تھے.۱۹۲۰ء میں مستقل طور پر قادیان میں ہجرت کر کے آگئے ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالی جن خدام کو اپنے ساتھ یورپ لے گئے ان میں حضرت خان صاحب بھی تھے.پاکستان بننے سے قبل کراچی میں کسی کا نگری لیڈر نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے دو چھوٹے بھائیوں نے تو وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کی آپ نے ایسا کیوں نہ کیا.جواب دیا میں بڑا بھائی تھا اس لئے میں نے اپنے ذمہ بڑا کام لیا.اس نے پو چھا کون سا.فرمایا ساری دنیا شیطان کی غلامی میں پھنسی ہے اور ساری دنیا کو آزاد کرانا ہندوستان کی آزادی سے بڑا کام ہے اس لئے میں اس تحریک میں شامل ہوں اور اس کا سپاہی ہوں جس تحریک کا یہی مقصد ہے یعنی تحریک احمدیت ( " روایات صحابہ " جلده صفحه ۳۴۷ تا ۳۷۹- الفضل ۱۳-۱۲-۱۷ مارچ (-1900 ۲۰ ولادت ۸۴ ۱۸۸۳ وفات ۲۳ جون ۱۹۲۹ء موضع رنمل ( تحصیل پھالیہ ضلع گجرات) کے مشہور صوفی اور اہل اللہ حضرت نوشہ کی دسویں پشت میں تھے.بچپن میں حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے قرآن حفظ کیا.۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آئے (الحکم ۱۰.نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ سے کالم (۳) اور غالباء 190 ء میں حضرت مولانا نور الدین کی شاگردی اختیار کی.آپ کی صرف ایک آنکھ میں معمولی بینائی تھی اس لئے تمام دینی علوم محض سن کر تحصیل کئے اور بالا تر اپنی زبر دست قوت حافظہ اور خداد ازہانت سے نہ صرف موعود جماعت کے علماء کی صف اول میں شمار ہوئے بلکہ جماعت میں بڑے بڑے نامور علماء پیدا کرنے کا موجب ہے.تفسیر علم کلام، حدیث تصوف اور ادب کے مثالی عالم تھے.بے شمار حوالے اور ہزاروں عربی شعر از بر تھے.آواز نہایت دلکش اور درد بھری تھی.طبیعت میں مزاح اور گفتگو میں بڑی شگفتگی تھی.ہزاروں تقریریں کیں.سینکڑوں بہائے گئے.بیسیوں مرتبہ قرآن مجید کا پور ادرس دیا.شدید گرمیوں میں روزہ رکھ کر ایک پارے کا روزانہ درس دیتے اور وہ بھی اس طرح کہ پہلے ایک پارہ تلاوت فرماتے پھر بلا تامل ترجمہ کرتے پھر تفسیر بیان فرماتے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی آپ کو قریبا ہر سفر میں بطور عالم ساتھ رکھتے.چنانچہ جب آپ نے پہلی مرتبہ مغریورپ اختیار فرمایا تو حضرت حافظ صاحب موصوف کو بھی حضور کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا اور شام میں آپ کی تقریروں کی دھوم مچ گئی.نہایت وجیہہ اور صاحب کشف بزرگ تھے.آپ نے رویا میں دیکھا کہ میرے تمام اعضاء علیحدہ علیحدہ کر دئے گئے ہیں.خواب میں آپ کو بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کے لئے گوشت تیار کرتا ہے.پھر دیکھا کہ اعضاء کچھ نقص کے ساتھ متصل کردئے گئے.اس خواب کی تعبیر آپ نے خودہی یہ فرمائی کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا کوئی ایسا کام سپرد ہو گا جس کی وجہ سے میرے اعضاء میں نمایاں ضعف و اختلال ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آخر عمر میں آپ کو فالج کا حملہ ہوا تاہم اس سے بڑی حد تک آپ کو افاقہ ہو گیا اور کسی قدر چلنے پھرنے کے بھی قابل ہو گئے.مجلس مشاورت میں تشریف لائے اور تلاوت بھی کی مگر اچانک پیچش اور قے کے عوارض نے خطر ناک صورت اختیار کرلی اور آپ دار فانی سے دار البقاء کی طرف چل ہے آپ کی آخری وصیت یہ تھی کہ " میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں." حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفتہ البیع الاول کو چھوڑ کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حضرت حافظ صاحب کی وفات کے حادثہ جیسا نہیں ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے آپ کی وفات پر فرمایا.

Page 181

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۶۴ جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا حافظ صاحب مولوی عبد الکریم صاحب ثانی تھے اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت ہی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے.انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سر انجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے ان کا کام کبھی نہ بھولے گا.ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے." (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل -۲۸ جون ۱۹۲۹ء صفحه ۱ ۸٬۷۲ و الفضل ۲ - اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۷ - ۸ رساله " جامعه احمدیه " ( قادیان سالنامه دسمبر ۱۹۳۰ء صفحه ۳ رسالہ " الفرقان (ربوہ) دسمبر ۱۹۹۰ء) ۲۱ ولادت ۱۸۷۸ء.وفات ۱۹.فروری ۱۹۵۷ء.بہت دعا گو شب بیدار اور صاحب کشف و رویا بزرگ تھے.اگست ۱۹۰۰ ء میں جب کہ آپ افریقہ میں ملازم تھے بذریعہ خط بیعت کی.فروری ۱۹۰۱ء میں قادیان آئے اور حضرت اقدس کی پہلی زیارت کا شرف حاصل کیا.حضرت اقدس کی زندگی میں آپ کو ایک سال تک مع اہل و عیال قادیان میں رہائش کی توفیق ملی اور بہت سے نشانات و معجزات کا مشاہدہ کیا.۱۹۰۴ ء میں مدرسہ احمدیہ کی شمالی طرف مکانات خریدے مگر الوصیت کی اشاعت پر ان کو وصیت میں دے دیا.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد غالبا ۱۹۲۸ ء میں مستقل طور پر قادیان میں آگئے اور بقیہ عمر قادیان اور پھر ربوہ میں بسر کی الفضل ۲۱.فروری ۱۹۵۷ء صفحه الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه ۳ " روایات صحابه " جلد ۵ صفحه ۲۱ تا ۲۸) وفات -۲۹ اکتوبر ۱۹۳۸ء ضلع ڈیرہ غازی خان میں جہاں جہاں قدیم احمد یہ جماعتیں موجود ہیں (مثلا بستی بزدار بستی رنداں بستی مند رانی کوٹ قیصرانی) وہ سب آپ کی تبلیغ سے قائم ہوئیں.حضرت مسیح موعود کا جب دلی میں نکاح ہوا تو اس وقت مولوی صاحب وہاں بخاری شریف پڑھتے تھے اور اسی محلہ میں مقیم تھے جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحب کا مکان تھا.ابتداء " ازالہ اوہام " اور " آئینہ کمالات اسلام " کا مطالعہ کیا جن سے سب ہی شکوک دور ہو گئے اور بذریعہ خط بیعت کرلی.دسمبر ۱۹۰۰ ء میں پہلی مرتبہ قادیان گئے اور دستی بیعت سے مشرف ہوئے.قادیان سے واپسی کے بعد دریائے سندھ کے شرقی اور غربی علاقہ میں آپ کے خلاف زبر دست مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی مگر آپ دیوانہ وار تبلیغ میں مصروف رہے اور کئی روحوں کو احمدیت میں لانے کا موجب ہے.(احکم ۱۴ فروری ۲۸.فروری ۷.مارچ ۱۹۳۹ء) ۰۲۳ ولادت ۱۸۷۵ء بیعت ۲۸- تمبر ۱۹۰۰ع (الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۸۰ء ص ۷ ) وفات ۲- نومبر۱۹۱۶ ء بڑے مخلص اور جری اور پر جوش مبلغ تھے.آپ نے صرف کثیر سے مینارہ مسیح کا کتبہ بنایا جو متارہ پر نصب ہے تصانیف الہام اعسم مع اختیار ابراہیم ۲.احمد رسول.ڈاکٹر محمد شاہنواز خاں صاحب ( ریٹائرڈ میجر و میڈیکل مشنری سیرالیون) آپ ہی کے فرزند تھے (الفضل ۱۱/۱۴ نومبر ۱۹۱۶ ء ص ۲)

Page 182

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۶۵ رسالہ " ریویو آف ریلیج کی تجویز ماموریت کا بیسواں سال رسالہ "ریویو آف ریلیجز " کی تجویز انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد (1901ء) اب ہم بیسویں صدی میں قدم رکھ رہے ہیں.اس صدی کا آغاز رسالہ " ریویو آف ریلیجز " (مذاہب عالم پر تبصرہ) کی تجویز سے ہوا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء ہی سے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کے عظیم الشان کام کی طرف خاص توجہ اور دلچسپی تھی.ایک دفعہ آپ کے کوئی مرید ایک مناظرہ میں کامیابی کی خوش خبری لائے تو حضور نے فرمایا کہ "میں نے تو یہ سمجھا کہ یہ خبر لائے ہیں کہ گویا یورپ مسلمان ہو گیا." حضور کو اللہ تعالیٰ سے بشار تمیں بھی مل چکی تھیں کہ آپ کی تحریریں یورپ میں بکثرت شائع ہوں گی اور ان سے متاثر ہو کر لاکھوں انگریز حلقہ بگوش اسلام ہوں گے.اور گو اس وقت تک حضور کے اشتہارات اور چند کتابیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر یورپ اور امریکہ میں پہنچ چکی تھیں لیکن کام کی اہمیت و نوعیت کے باعث دعوی مسیحیت کے آغاز ہی سے حضور کا منشاء مبارک تھا کہ مغربی ممالک تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے ایک ماہوار انگریزی رسالہ کا اجراء عمل میں لایا جائے جس میں خاص طور پر ان مضامین کے تراجم شائع ہوں جو تائید اسلام میں حضور کے قلم سے نکلتے ہوں.چنانچہ اسی سال حضور انور نے اپنے بعض انگریزی دان خدام کے مشورہ سے ۱۵/ جنوری ۱۹۰۱ء کو ایک انگریزی رسالہ کے اجراء کا اعلان فرمایا اور اس کی ادارت مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے پلیڈ ر پشاور کے سپرد فرمائی.رسالہ کے نظم و نسق کے لئے حضور کے حکم سے ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ء اور یکم اپریل ۱۹۰۱ء کو جماعت کے دوستوں کے اہم اجلاس مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں منعقد ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ رسالہ انگریزی اور حضرت اقدس کی کتب کے انگریزی تراجم کے لئے ایک مستقل ادارہ انجمن اشاعت اسلام" کے

Page 183

تاریخ احمدیت جلد ۲ 144 رسالہ " ریویو آف ریلیج کی تجویز نام سے قائم کیا جائے.اس ادارہ کا ابتدائی سرمایہ دس ہزار قرار پایا جس کی فراہمی کے لئے اس ادارہ کے ایک ہزار حصے مقرر کئے گئے.ہر حصہ دس روپے کا تجویز ہوا.یہ تو انجمن اشاعت اسلام" کے ابتدائی سرمایہ کے متعلق فیصلہ تھا.جہاں تک اس کے انتظامی معاملات کی سرانجام دہی کا تعلق ہے ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا جس کے ہیں ممبر تجویز ہوئے.انجمن کے سر پرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی تھے.باقی عہدیدار یہ نامزد ہوئے.پریذیڈنٹ حضرت مولوی نور الدین صاحب وائس پریذیڈنٹ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی سیکرٹری خواجہ کمال الدین صاحب اسٹنٹ سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب فنانشل سیکرٹری شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی محاسب ہاؤس لاہور میاں تاجدین صاحب لاہوری رسالہ کا نام بورڈ آف ڈائریکٹرز" نے "دی ریویو آف ریلیجز" THE REVIEW) (OF RELEGIONS تجویز کیا اور اس کی اشاعت کا مرکز اور دفتر لاہور میں قرار پایا.انجمن کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا کام ایک سب کمیٹی نے کیا جس کی آخری منظوری دیتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک لطیف تقریر کی اور فرمایا کہ ممبروں کی رائے میں تاجرانہ اصول کا لحاظ رکھنا بھی موجودہ حالات کے ماتحت ضروریات سے ہے کیوں کہ بعض وقت چندوں کی بہتات موجب ابتلاء ہو جاتی ہے.انجمن کی بنیاد کے دو ہفتہ کے اندر اندر اس کے قریباً ۷۷۵ حصے فروخت ہو گئے جن میں سب سے زیادہ حصے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے تھے.آپ نے ۱۶۰ حصے خریدے تھے.آپ کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب اور چوہدری محمد سلطان خان صاحب بیرسٹر جہلم نے.انجمن نے ۲۴ نومبر ۱۹۰۹ء کو یہ بھی فیصلہ کیا کہ اگر تین سو خریدار مہیا ہو جائیں تو " ریویو آف ریلیجز " کا اردو ایڈیشن بھی شائع کیا جائے گا.یہ جماعت احمدیہ میں قائم ہونے والے سب سے پہلے اشاعتی ادارے کی تفصیلات ہیں جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگرانی میں قائم ہوا.۱۹۰۲ء کے آغاز میں جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو دوسرے اداروں کے ساتھ یہ ادارہ بھی اس میں مدغم کر دیا گیا.

Page 184

تاریخ احمدیت جلد ؟ 142 رساله ربع بع آف کی تجویز عربی تغیر "اعجاز المسیح کی تصنیف و اشاعت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیر مہر علی شاہ صاحب اور ان کے ہمنو علماء کو بالمقابل تغییر فاتحہ شائع کرنے کا جو چیلنج دے رکھا تھا اس کی میعاد حضور نے ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۰ ء سے ۲۵/ فروری ۱۹۰۱ء تک مقرر فرمائی تھی اور لکھا تھا کہ " فریقین میں سے کوئی فریق تغیر چھاپ کر شائع نہ کرے.اور یہ دن گزر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی." سوخدا کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضور کے قلم سے ۱۲۳ فروری ۱۹۰۱ء کو "انجاز المسیح" کے نام سے فصیح و بلیغ عربی میں سورہ فاتحہ کی تفسیر چھپ کر شائع ہو گئی جو حضور کا ایک عظیم الشان نشان اور بے مثال علمی معجزہ تھا." حضور کو قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ آپ کو ایک عزت کا خطاب عطا ایک عزت کا خطاب ہو گا اور اس کے ساتھ بڑا نشان دیا جائے گا." اعجاز المسیح " سے اللہ تعالی کی یہ بشارت بھی پوری ہوئی اور آپ جناب الہی کے دربار سے ایک عزت کی کرسی پر بٹھائے گئے اور سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ایک قابل فخر عزت کا خطاب آپ کو عطا ہوا.حضور نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں تصنیف کی تکمیل میں روح القدس کی تائید یه تغییر تصنیف فرمائی تھی کیوں کہ ۲۰/ جنوری ۱۹۰۱ ء تک تو حضور اپنی دیگر دینی مصروفیات کے باعث صرف اردو میں مختصر مواد لکھ سکے تھے اور باوجودیکہ آپ پر ان دنوں مختلف امراض کے ایسے ایسے سخت حملے ہوئے کہ آپ خیال کرتے تھے کہ آخری دم ہے.اللہ تعالٰی نے آپ کی روح القدس سے ایسی غیر معمولی تائید و نصرت فرمائی کہ آپ نے عربی زبان میں قلم برداشتہ لکھنا شروع کیا.غیب سے بے تکلف مضامین اور الفاظ صف بستہ ہو کر آتے جاتے تھے.ایک مرتبہ مولانا سید محمد احسن صاحب کو کتاب کے پروف دیکھتے ہوئے ایک جگہ پر یہ شبہ ہوا کہ جو لفظ حضور اقدس نے استعمال فرمایا ہے اس کا صلہ آنا چاہئے.چونکہ کتاب کا مضمون خدا کی طرف سے آپ کے دل پر جاری ہو ا تھا اس لئے جب حضور کے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا گیا تو حضور نے فرمایا ” جو کچھ میں نے لکھا ہے صحیح ہے آپ لغت کی کتاب دیکھ لیں." چنانچہ مولانا صاحب موصوف نے لغت کی بہت سے کتابوں کی ورق گردانی کے بعد معلوم کر لیا کہ جو کچھ حضور نے لکھا تھا وہ درست تھا.14 A

Page 185

تاریخ احمدیت جلد ۲ (4A رسالہ " ریویو آف ریلی " کی تجویز اعجاز المسیح کے دوران تصنیف کا ایک واقعہ اعجاز امسیح کے دوران تصنیف کا ایک واقعہ ہے کہ ۱۵ فروری 1901ء کو تعلیم الاسلام سکول کے طلبہ کا کرکٹ میچ تھا.حضرت اقدس کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میں کہا کہ آیا آپ کیوں کرکٹ پر نہیں گئے.بچہ کا یہ معصومانہ سوال سن کر حضور پر نور نے جواب دیا.لوگ تو کھیل کر واپس آجائیں گے مگر میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک باقی رہے گا." اعجاز مسیح کے جواب سے علماء کا عاجز آنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اعجاز المسیح متعلق یہ الہام ہوا تھا کہ من قام للجواب وتنمر فسوف يرى انه تندم و تذمر - یعنی جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہوا.وہ عنقریب دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہو گا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو گا.چنانچہ حضور نے یہ پیش گوئی " اعجاز المسیح" کے سرورق پر درج کرنے کے علاوہ اس کتاب میں بھی بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان فرما دیا کہ اگر آپ کے مقابل دنیا بھر کے علماء ، حکماء اور فقہاء اور چھوٹے بڑے سب جمع ہو کر اس جیسی تغییر لکھنا چاہیں تو وہ ہر گز نہیں لکھ سکیں گے.چنانچہ اس عظیم الشان پیش گوئی کے مطابق نہ پیر صاحب کو نہ ان کے علاوہ عرب و عجم کے کسی بڑے سے بڑے عالم و فاضل کو اس کتاب کا فصیح عربی میں جواب دینے کی جرات ہو سکی.مولوی محمد حسن صاحب فیضی کا ادعائے جواب اور اس کی سزا مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھین تحصیل چکوال ضلع جہلم (مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور) نے عوام میں شائع کیا کہ میں اس کتاب کا جواب لکھتا ہوں مگر سلطان القلم کے بیان فرمودہ حقائق و معارف کا وہ عربی میں کیا جواب دے سکتے تھے ؟ انہوں نے اردو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعادی کے خلاف "اعجاز مسیح اور مولانا امردی کی کتاب "شمس بازغہ " کے حاشیہ پر ایک لمبا چوڑا مضمون لکھا جس میں انہوں نے ضمناً اعجاز المسیح کی چند مفروضہ غلطیاں بھی تحریر کیں اور بعض تو اردات کو سرقہ قرار دیتے ہوئے آسمانی نکات کا بھی مذاق اڑایا اور بالاخر بعض مقامات پر " لعنه الله على الكاذ بين " تک لکھ ڈالا لیکن اس لعنت پر ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ خود موت کے پنجے میں آگئے.اس طرح انہوں نے اعجاز مسیح کے خلاف قلم اٹھا کر معاذ اللہ خدا کے جری پہلوان کی ذلت و شکست کا ارادہ کیا تو خود ہی چند دنوں کے اندر اندر اس جہاں سے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ اٹھ گئے اور ان کی موت

Page 186

ت - جلد ۲ 149 رسالہ "دیوید آف ریلی کی تجویز مسیح پاک کی صداقت پر ہمیشہ کے لئے ایک نشان چھوڑ گئی.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے " سیف چشتیائی" کی اشاعت پیر مہر علی شاہ صاحب جو انجاز المسیح کے اولین مخاطب تھے مہینوں خاموش رہے مگر محمد حسن صاحب کی وفات کے بعد جب کہ اعجاز المسیح " کو شائع ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا انہوں نے "اعجاز المسیح" کے جواب میں "سیف چشتیائی" کے نام سے اردو میں ایک کتاب شائع کی جو حضور علیہ السلام کو یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو بذریعہ ڈاک پہنچی.حضور اس وقت " نزول المسیح " تصنیف فرمارہے تھے کتاب پہنچنے سے قبل ہی حضور کو خبر پہنچ چکی تھی کہ پیر صاحب "اعجاز المسیح" کے مقابل پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں مگر حضور کو یہ امید نہ تھی کہ وہ عربی تفسیر کا جواب اردو میں لکھیں گے لیکن آپ کا یہ خیال صحیح نہ نکلا حضور نے جب ان کی کتاب "سیف چشتیائی" دیکھی تو وہ اردو زبان میں تھی اور تفسیر کا نام و نشان اس میں نہ تھا.البتہ اعجاز المسیح" کے چند فقروں پر چند صفحات میں نکتہ چینی ضرور کی گئی تھی اور آپ پر سرقہ کا الزام لگایا گیا تھا."اعجاز مسیح پر ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کا عربی تفسیر کے مقابلہ سے کھلم کھلا گریز کرنا ان کا اعتراف شکست تھا جس نے اس امر پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ "اعجاز الصحیح" خدا کی طرف سے ایک نشان ہے.اس پہلو ہے " سیف چشتیائی" کے مضمون کے جواب کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی مگر حضور نے " نزول المسیح" میں بڑی شرح وبسط سے لکھا کہ عرب کے مسلمہ شعراء اور ادباء میں ایک دوسروں کی عبارتیں یا اشعار ہو ہو یا کچھ تغیر کے ساتھ ان کے دیوان میں موجود ہیں تو کیا یہ سرقہ ہے یا پھر اسے توارد قرار دیا جائے گا کیوں کہ جنہوں نے ہزار ہا نمونے اپنی انشا پردازی کے دنیا کے سامنے پیش کر کے اپنی لیاقت علمی کا سکہ بٹھا دیا ان میں چند فقرات کے اندراج سے ان کا منصب داغدار کرنا انتہائی ظلم ہے.اسی طرح خود میں نے بیسیوں کتابیں فصیح بلیغ عربی میں لکھی ہیں کیا یہ تمام علمی لٹریچر "حریری " یا " ہمدانی" کے سرقہ سے تیار ہوا ہے.پھر ہزار ہا حقائق و معارف جو ان کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ "حریری " اور "ہمدانی " میں کہاں ہیں ؟ پس صرف چند فقرے ہزار فقروں میں سے پیش کر کے یہ دعوی کرنا کہ یہ سرقہ ہے انصاف و دیانت کا خون کرنا ہے.ابھی حضور علیہ السلام کا ارادہ اسی الزام کے بارے میں مزید لکھنے کا تھا کہ ۲۶/ ایک اہم اطلاع جولائی ۱۹۰۲ء کو مولوی محمد حسن فیضی کے ایک دوست میاں شہاب الدین ساکن بھین کے خط کے ذریعہ سے آپ کو یہ خبر ملی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی " سیف چشتیائی " دراصل مولوی محمد حسن صاحب فیضی کے مسودہ کی من و عن نقل اور مسروقہ مضمون ہے جسے " زبدۃ المحققین و

Page 187

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 14.رسالہ " ریویو آف ریا بود " کی تجویز ریلیج رئیس العارفین مولانا حضرت مہر علی شاہ صاحب کی تصنیف قرار دے کر شائع کیا گیا ہے.یہ انکشاف ان پر اتفاق ہوا.وہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی تصنیف " سیف چشتیائی بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ ایک آدمی مولوی محمد حسن صاحب کے گھر کا پتہ پوچھتا ہوا ان کے پاس آیا.اس کے پاس کچھ کتابیں بھی تھیں.استفسار پر اس آدمی نے بتایا کہ مولوی محمد حسن صاحب کی یہ کتابیں پیر صاحب نے منگوائی تھیں جواب واپس دینے آیا ہوں.شہاب دین نے وہ کتابیں دیکھیں تو ایک اعجاز امسیحی" اور دوسری "شمس بازنہ " تھی جن پر مولوی محمد حسن صاحب متوفی کے لکھے ہوئے نوٹ تھے.انہوں نے ان نوٹوں کا " سیف چشتیائی" سے مقابلہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جو کچھ محمد حسن صاحب نے لکھا تھا وہ کسی تصرف کے بغیر اس کتاب میں موجود تھا جس پر انہوں نے جوش میں آکر براہ راست گولڑوی FP صاحب کو خط لکھا کہ آپ نے کیا لکھا جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر کے شائع کر دئے.جناب گولڑوی صاحب نے جو یہ راز کھلتا دیکھا تو انہوں نے محمد حسن صاحب کے والد کو خط لکھا کہ شہاب الدین کو وہ یہ کتابیں مت دکھا ئیں یہ ہمارا مخالف ہے.انہوں نے اپنے قلم سے بھین کے ایک مولوی محمد کرم الدین صاحب کو ایک کارڈ لکھا جس میں انہوں نے از خود اعتراف کر لیا کہ مولوی محمد حسن صاحب کے نوٹ لے کر انہوں نے "سیف چشتیائی " کی رونق بڑھائی ہے.مولوی کرم الدین صاحب اور میاں شہاب الدین صاحب نے نہ صرف یہ خط حضرت اقدس کی خدمت میں ضروری تفصیل کے ساتھ ارسال کر دیا بلکہ انتہائی کوشش کر کے وہ دونوں کتابیں بھی بھیجواد ہیں جن پر مولوی محمد حسن صاحب کے لکھے ہوئے نوٹ درج تھے جس پر مولوی کرم الدین صاحب، میاں شهاب الدین صاحب اور گولڑوی صاحب کے خطوط الحکم (۱۷) ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳.۱) میں پبلک کے سامنے شائع کر دئے گئے اور مولوی غمازی صاحب اور ان جیسے خوش عقیدہ لوگوں کو علم ہوا کہ ان کے پیرو مرشد کس پایہ کے انسان ہیں ابر حال پیر مہر علی شاہ صاحب اس واقعہ کے بعد مزید ۳۵ سال تک زندہ رہے اور ا / مئی ۱۹۳۷ ء کو فوت ہوئے مگر وہ اعجاز المسیح " کا جواب لکھنے کی توفیق نہ پاسکے.پیر صاحب کے سوانح نگار مولوی فیض احمد صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ "حضرت قبلہ عالم " (یعنی پیر صاحب نے تفسیر لکھنے کا قصد تو کیا تھا مگر پھر دست کش ہو گئے اور یہ دلچسپ عذر پیش کیا کہ " میرے خیال تغییر نویسی پر میرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش شروع ہو گئی ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر در کار ہوگی اور کوئی اور کام نہ ہو سکے گا" ("مر منیر صفحہ ۲۳۵- اشاعت ۱۹۷۳ء گولڑہ)

Page 188

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسالہ " ریویو آف ریلی " کی تجویز اعجاز ا مسیح کی بلاد عرب میں اشاعت حضرت اقدس علیہ السلام نے اعجاز امسیح کے متعدد نسخ نہ صرف دلی کے نامی گرامی علماء کو بھجوائے بلکہ حرمین اور شام و مصر میں بھی اس کی اشاعت فرمائی.قاہرہ کے بعض اخبارات مثلاً tt مناظر " اور "ہلال نے اعتراف کرتے ہوئے اس پر شاندار ریویو لکھے اور اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف کی.بلکہ اخبار " مناظر" کے ایڈیٹر نے تو یہاں تک لکھا کہ بے شبہ اس کتاب کی فصاحت و بلاغت معجزے کی حد تک پہنچ گئی ہے اور علماء ہرگز اس کے مقابل پر تفسیر لکھنے پر قادر نہیں ہو سکیں A جمع الصلوة کا نشان پیغمبر عالم آنحضرت اللہ نے مسیح موعود کی جو علامات بتائی تھیں ان میں ایک علامت یہ بھی تھی كه " تجمع له الصلوۃ یعنی مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی جس میں اس طرف اشارہ تھا کہ مصروفیت کا ایک زمانہ اس پر ایسا آئے گا کہ اس کے دینی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی.ضمناً اس سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہیں ہو گا بلکہ کوئی اور امامت کرائے گا سو اس پیش گوئی کے عین مطابق قریباً اکتوبر ۱۹۰۰ ء سے فروری ۱۹۰۱ء تک کا دور ایسا رایسا آیا جب کہ خطبہ المامی " تحفہ گولڑویہ " تریاق القلوب " اور بعض دو سری کتب آیا " کی تکمیل اور "انجاز المسیح کی تصنیف کے سلسلہ میں چار پانچ ماہ تک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مسجد مبارک میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرواتے رہے.یہ دور فی الحقیقت آپ کے لئے ایک زیر دست علمی جنگ کا تھا اور ضعف دماغ اور دوسرے ملک عوارض کے باوجو د دل میں خدمت دین کا اس درجہ جوش پیدا ہوا کہ "اعجاز المسیح لکھ چکے تو طبیعت نے چاہا کہ دوسری اہم دینی مہمات کی طرف توجہ کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کیا جائے مگر خالی بیٹھے رہنا آپ کو گوارا نہ ہوا.چنانچہ ۲۳/ فروری ۱۹۰۱ء کو خود ہی فرمایا." تفسیر کا کام تو ختم ہو گیا اور ہم چاہتے تھے کہ دوسرے ضروری کاموں کے شروع کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کر لیتے مگر جی نہیں چاہتا کہ خالی بیٹھے رہیں.مثنوی مولانا روم میں لکھا ہے کہ ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کو ہر وقت کوئی کمیاں مارتا رہے.ایسا ہی اہل اللہ کا حال ہو تا ہے کہ وہ آرام نہیں کر سکتے کبھی خدا ان پر کوئی محنت نازل کرتا ہے اور کبھی وہ آپ کوئی ایسا کام چھیٹر بیٹھتے ہیں جس سے ان پر محنت نازل ہو.نہایت درجہ برکت کی بات یہ ہے کہ انسان خدا کے واسطے کسی

Page 189

تاریخ احمدیت جلد ۲ کام میں لگا ر ہے." ۱۷۲ رسال " ریویو اہلیہ کی تجویز مولوی محمد احسن صاحب کے اعتراض کے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی رادی جواب میں حضرت مسیح موعود کی تقریر میں کہ جمع صلوۃ کے سلسلہ پر جب دو ماہ کا عرصہ ہو چلا تو ایک دن مولانا محمد احسن صاحب امرد ہوی نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہو گئے ہیں لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب ہی سے پوچھیں.مولوی محمد انوار حسین خاں صاحب شاه آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے ان سے حضرت منشی صاحب کو بھی اس سوال و جواب کا علم ہو گیا چنانچہ انہوں نے حضور کی خدمت میں اس امر کا تذکرہ کر دیا ) ( یہ دسمبر ۱۹۰۰ ء کا واقعہ ہے ) اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن مغرب کے بعد حضور نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا اور جمع صلوۃ کے نشان کے متعلق ایک پر جلال تقریر فرمائی جس میں حضور نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس امر پر روشنی ڈالنے کے بعد کہ گزشتہ پیش گوئیوں کے مطابق جمع صلوۃ کے علاوہ کئی اور اجتماعی رنگ کے نشانات روز روشن کی طرح پورے ہوئے.حضور نے فرمایا کہ ”میں رہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا.اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں...زمین نے اپنے نشانات الگ ظاہر کئے آسمان نے الگ...پھر اس قدر نشانات کے بعد اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوتا ہے.میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک پر خدا نے ایسا فضل کیا ہے کہ ایک بھی تم میں سے ایسا نہیں جس نے اپنی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی نشان نہیں دیکھا؟ ایک بھی نہیں.پھر ایسی بصیرت اور معرفت رکھنے والے نشانوں کے بعد مجھ پر حسن ظن ہی نہیں رہا بلکہ میری سچائی اور خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے پر تم علی وجہ البصیرت گواہ ہو اور تم پر حجت پوری ہو چکی ہے.پھر وہ بڑا ہی بد قسمت اور نادان ہو گا جو اتنے نشانوں کے بعد اس پیش گوئی کے پورا ہونے پر ابتلاء میں پڑے." تم بہت سے نشانات دیکھ چکے ہو.اور حروف تہجی کے طور پر اگر ایک نقشہ تیار کیا جاوے تو کوئی حرف باقی نہ رہے گا کہ اس میں کئی نشان نہ آدیں.تریاق القلوب میں بہت سے نشان جمع کئے گئے ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھے.اب وقت ہے کہ تمہارے ایمان مضبوط ہوں اور کوئی زلزلہ اور آندھی تمہیں ہلا نہ سکے.بعض تم میں سے ایسے بھی صادق ہیں کہ انہوں نے کسی نشان

Page 190

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۷۳ رسالہ " ریویو آف ریلی کی تجویز کی اپنے لئے ضرورت نہیں کبھی گو خدا نے اپنے فضل سے ان کو سینکڑوں نشان دکھا دیے لیکن اگر ایک بھی نشان نہ ہو تا تب بھی وہ مجھے صادق یقین کرتے اور میرے ساتھ تھے.چنانچہ مولوی نور الدین صاحب کسی نشان کے طالب نہیں ہوئے.انہوں نے سنتے ہی امنا کہہ دیا اور فاروقی ہو کر صدیقی عمل کر لیا.لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر شام کی طرف گئے ہوئے تھے واپس آئے تو راستہ ہی میں آنحضرت کے دعوی نبوت کی خبر پہنچی.وہیں انہوں نے تسلیم کر لیا." حضرت اقدس کی اس پر معارف تقریر نے ایک نیا ایمان و عرفاں پیدا کر دیا.حضرت مولوی نور الدین صاحب پر تو اس کا اتنا اثر ہوا کہ آپ عقیدت وارادت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اٹھے اور عرض کیا کہ میں اس وقت حاضر ہوا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی رسول کریم اللی کے حضور رضیت بالله ربا وبمحمد نبیا کہہ کر اقرار کیا تھا.اب میں اس وقت صادق امام صحیح موعود اور مہدی معہود کے حضور رہی اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک اور دہم حضور کے متعلق نہیں گزرا.یہ خدا تعالی کا فضل ہے.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں اور میں نے ہمیشہ اس کو آداب نبوت کے خلاف سمجھا ہے کہ کبھی کوئی سوال اس قسم کا کروں.میں آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں رضينا بالله ربا و بک مسیحا و مهدیا.اس تقریر کے ساتھ ہی حضرت اقدس نے اپنی تقریر ختم کر دی.مولانا محمد احسن صاحب جنہوں نے دراصل یہ سوال اٹھایا تھا زار و قطار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ آداب رسالت اختیار کرنے کی پر حکمت تلقین اسلام چونکہ خدا تعالی کی طرف سے حکم و عدل کے مقدس منصب پر فائز تھے اس لئے حضور نے اس تقریر میں اظہار نار انسگی کرتے ہوئے اپنے خدام کو اس امر کی خاص طور پر تلقین فرمائی کہ وہ سوالات کے معاملہ میں آداب ملحوظ رکھیں.چنانچہ حضور نے فرمایا.ہماری جماعت کے لئے تو یہ امر دور از ادب ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں پیش کریں یا ان کے وہم میں بھی ایسی باتیں آئیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں جو کرتا ہوں وہ خدا تعالی کی تقسیم اور اشارہ سے کرتا ہوں.پھر کیوں اس کو مقدم نہیں کرتے...اگر اس قدر نشان دیکھتے ہوئے بھی کوئی اعتراض کرتا اور علیحدہ ہو تا ہو تو وہ بے شک نکل جاوے اور علیحدہ ہو جاوے اس کی خدا کو کیا پر وا ہے وہ کہیں جگہ نہیں پاسکتا.جب کہ خدا تعالٰی نے مجھے حکم عدل ٹھرایا ہے اور تم نے مان لیا ہے.پھر نشانہ اعتراض بنا نا ضعف ایمان کا نشان ہے.حکم مان کر تمام زبانیں بند ہو جانی چاہئیں...

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۷۴ رسالہ " ریویو آف ریلیوں کی تجویز جب تک خدا تعالٰی کے مقرر کردہ حکم کی بات کے سامنے اپنی زبانوں کو بند نہ کرو گے وہ ایمان پیدا نہیں ہو سکتا جو خدا چاہتا ہے اور جس غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ میرا یہ عمل اپنی تجویز اور خیال سے نہیں اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے ہے اور رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے لئے ہے میں ایسے لوگوں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ کثرت سے استغفار کریں اور خدا سے ڈریں ایسانہ ہو کہ خدا ان کی جگہ اور قوم لاوے تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کی فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات یا تو ہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا.لیکن اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور نقل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ کی پاک باتوں کی عزت و عظمت کرنے والے ٹھرو.رسول اللہ ﷺ کی شہادت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا.وہ حکم عدل ہو گا.اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو پھر کب ہو گی.یہ طریق ہر گز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بد خنیاں بھی ہوں.میں اگر صادق نہیں ہوں تو پھر جاؤ اور صادق تلاش کرو." مخالف علماء کو صلح کی مخلصانہ پیشکش حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی مسیحت سے لے کر اس وقت تک مخالف علماء جماعت احمدیہ کو مسلم معاشرہ سے بالجبر کاٹ پھینکنے کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے تھے مگر حضرت اقدس تو امن و سلامتی کے شاہزادے تھے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ نے مسلسل دس سال تک اذیتیں برداشت کیں اور اف تک نہ کی.اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے معتقدین کو مظالم کا تختہ مشق بنتے دیکھا اور انہیں صبرو تحمل کی تعلیم دی گالیاں سنیں اور اس کے جواب میں دعاؤں اور تعلق باللہ کی ہدایت فرمائی لیکن اس نرمی اخلاق اور محبت و مروت کا علماء پر یہ الٹا اثر ہوا کہ وہ اور زیادہ تشدد پر اتر آئے.بالا خر حضرت اقدس نے امت کی صفوں میں یک جہتی اور اتحاد پیدا کرنے کے لئے ۵ / مارچ ۱۹۰۱ء کو ایک اشتہار دیا جس میں علماء کو صلح کی یہ نہایت مخلصانہ پیشکش کی کہ آئندہ فریقین ایک پختہ عہد کریں کہ وہ اور تمام وہ لوگ جو ان کے زیر اثر ہیں ہر ایک قسم کی سخت زبانی سے باز رہیں اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں اور اگر دو نو فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ

Page 192

تاریخ احمدیت جلد ۲ 140 رسالہ " ریویو ریلیجز کی تجویز شرط تہذیب و شائستگی ہے فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں " نیز لکھا کہ ” میں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور توہین کا ارادہ کیا گیا ہو اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عمل درآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اس مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا.اس اشتہار میں حضور نے علماء کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپے رہنا طریق تقوی کے برخلاف ہے یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خود بخود لوگوں کے دلوں سے دور ہو جائے گا لیکن اس وقت کی مخالفت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہوگی...آئندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا وہ خود غالب ہوتا جائے گا دنیا میں سچائی اول چھوٹے سے تخم کی طرف آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے وہ پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں." علماء کا مصالحت سے قطعی انکار اس زمانہ کے علماء نے جو ہر حال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خدام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے درپے تھے صلح کے نام پر ہی سخت آگ بگولا ہو گئے اور مصالحت سے صاف انکار کرتے ہوئے بذریعہ از راشتہار اعلان کیا کہ ہم آپ سے تہذیب و شائستگی اور مدارات کا معاملہ کرنا جائز ہی نہیں سمجھتے آپ (معاذ اللہ) مرتد و کافر اور داعی الی انقلال ہیں اور آیت یا ايها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم و ما و هم جهنم وبئس المصير کے مصداق - لہذا آپ سے صلح ان شرائط سے ہو سکتی ہے اول یہ کہ آپ علماء سے معافی مانگیں دوسرے آپ اپنی تمام کتابوں کو علی رؤس الا شہاد جمع کر کے جلا دیں اور اشتہار عام کے ذریعہ سے ان کتابوں سے بیزاری کا اظہار کریں اور آئندہ پختہ عزم کریں کہ زندگی بھر ان کے مذہب کی تائید و خدمت کروں گا اور جو کچھ حق میں چھپایا ہے اسے خوب بیان کروں گا.جب مرزا صاحب ایسا کریں گے تب جناب پیر مہر علی شاہ ناقل) صاحب اور ہم سب اہل اسلام مرزا صاحب کو از سر نو اسلام میں داخل ہونے کی مبارک باد دے کر مصالحت کا

Page 193

تاریخ احمدیت جلد ۲ 144 رسالہ " ریویو آف ریلیجود " کی تجویز عہد و پیماں موافق ان کی مرضی کے فورا شائع کردیں گے اور مشہور کر دیں گے کہ مرزا صاحب کفرو ارتداد سے نکل کر اسلام میں داخل ہو گئے ہیں.اس حقارت آمیز رویہ کے پیچھے صرف یہ خیال کار فرما تھا کہ یہ جماعت اپنی تعداد میں نہایت درجہ قلیل ہے اور عنقریب مخالفتوں کی تاب نہ لاکر صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے محو ہو جائے گی چنانچہ انہوں نے صاف لکھا.اس فرقہ ابو جمیلیه و طائفه احمقیہ کو اتباع مسیلمہ کذاب و اسود عنسی و امثالها پر قیاس کرنا چاہئے نہ حنفی شافعی وغیرہما پر.اور عنقریب انشاء اللہ ان کی طرح خدا اس کو مضمحل و نیست و نابود کر دے گا.ایسا مذ ہب خبیث ناپاک، بے بنیاد عقل اور نقل دونوں کے خلاف متناقض و متبات کبھی پھیل نہیں سکتا." لیکن یہ محض ان کی خام خیالی تھی آخر ہوا دہی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا کہ احمدیت کا بیج بویا جا چکا ہے اب یہ عظیم الشان درخت بنے والا ہے اور حق جوئی کے پرندے آرام کرنے والے ہیں.چنانچہ پوری صدی کی مخالفتوں اور فتنہ سامانیوں کے بعد اب احمدیت کا درخت نهایت سرعت سے شرق و غرب میں پھیل رہا ہے اور طیور ابراہیمی اس پر بیسرا کر رہے ہیں.طاعون کے بارے میں پھر انتباہ ۴۴ یوں تو حضرت اقدس خدا تعالٰی سے علم پا کر تین سال سے طاعون کی خبر دے رہے تھے مگراب 1901 ء میں جب خدا کی پیش گوئی کے مطابق طاعون کا زور بہت بڑھ گیا اور وہ سیل رواں کی طرح ملک کے چاروں طرف داخل ہو گئی تو آپ نے ہندوستان کے باشندوں کو ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے انتباہ فرمایا کہ "اے نانکو! یہ نہیں اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دور ہوتی ہے اگر چہ ہماری گورنمنٹ عالیہ بہت کوشش کر رہی ہے اور مناسب تدبیروں سے یہ کوشش کر رہی ہے مگر صرف زمینی کوششیں کافی نہیں ایک پاک ہستی موجود ہے جس کا نام خدا ہے.یہ بلا اسی کے ارادہ سے ملک میں پھیلی ہے کوئی نہیں بیان کر سکتا کہ یہ کب تک رہے گی اور اپنی رخصت کے دنوں تک کیا کچھ انقلاب پیدا کرے گی اور کوئی کسی کی زندگی کا ذمہ دار نہیں.سو اپنے نفسوں اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں پر رحم کرو.چاہئے کہ تمہارے گھر خدا کی یاد اور توبہ اور استغفار سے بھر جائیں اور تمہارے دل نرم ہو جائیں.اس اردو اشتہار کے بعد ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء کو حضور نے عربی زبان اور اردو ترجمہ کے ساتھ ایک اور اشتہار دیا جس میں ایک شفیق اور مہربان آسمانی طبیب کی حیثیت سے اہل ملک کو دوبارہ طاعون کے

Page 194

تاریخ احمدیت - جلد ۲ 144 سالہ ریویو آف ریلیجہ " کی تجویز روحانی علاج کی طرف سے توجہ دلائی.کابل میں حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کی شہادت حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کا قادیان کی طرف آخری سفر جیسا کہ ۱۹۰۰ء کے حالات میں ذکر آچکا ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کے سفیر مولوی عبد الرحمن صاحب کو دو یا تین مرتبہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں رہنے کا شرف نصیب ہوا.ہر مرتبہ کئی کئی ماہ تک حضور سے فیض پاتے اور حضور کی دعاوی اور تعلیمات پر ایک نیا ایمان لے کر لوٹتے تھے.آخری بار وہ دسمبر ۱۹۰۰ ء میں قادیان آئے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آفریدی ، وزیری اور محسودی وغیرہ آزاد قبائل ڈیورنڈ لائن کو اپنی خود مختاری اور آزادی کے لئے خطرہ تصور کر کے سرحد پر انگریزوں کے خلاف بڑے جوش و خروش سے اٹھے ہوئے تھے.اس شورش کو علماء نے بھاری تقویت دی جنہوں نے جہاد کے نام پر انگریزوں کے قتل کا فتویٰ دے دیا خود امیر عبدالرحمن خاں کی خاص ہدایت پر ایک رسالہ ” تقویم الدین دربارہ تحریک جہاد" کے نام سے سرحد پر شائع کیا گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد قبائل میں شورش کی آگ پورے زور سے بھڑک اٹھی اور محض اختلاف مذہب کی بناء پر پشاور اور بنوں میں کئی انگریز موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے.جہاد ایسے مقدس مسئلہ کی اس غلط تعبیر نے اسلام اور مسلمان در نو کو بہت بد نام کیا اور انگریز اور دوسرے غیر مساسوں میں یہ خیال پختہ ہو گیا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں گے اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہش پوری کریں گے.لہذا حضرت اقدس علیہ السلام نے مسئلہ جہاد کی اسلامی نکتہ نگاہ سے وضاحت بیان کرنے کے لئے بعض رسائل شائع کئے جیسا کہ پہلے ۱۹۰۰ ء کے حالات میں ذکر آچکا ہے.حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب نے جب قادیان میں حضور اقدس کے یہ رسائل پڑھے تو ان پر مسئلہ جہاد کی حقیقت بالکل آشکار ہو گئی.کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر کابل گئے جہاں انہوں نے جب مسئلہ جہاد کے متعلق اپنا مسلک پیش کیا تو امیر عبدالرحمن خاں (۱۸۴۴ - ۱۹۰۱) سے شکایت کی گئی جسے بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ملازم تھے اور زیادہ ہوادی اور ظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے اس کی تعلیم یہ ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں بلکہ اس زمانہ میں وہ قطعاً جہاد کا مخالف ہے.امیر عبد الرحمن خاں نے جو یہ سنا تو اس نے سخت برافروختہ ہو کر حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب کی نظر بندی کا حکم دے دیا اور بالاخر آپ گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند

Page 195

تاریخ احمدیت - جلد ۲ 14A رسالہ " ریویو آف ریلیج " کی تجویز کمر کے نہایت بے دردی سے شہید کر دئیے گئے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب احمدیت کے وہ پہلے بزرگ تھے جنہیں حق و صداقت کی راہ میں جام شہادت نوش کرنا پڑا.حضرت مسیح موعود کو اس سے قبل الہام ہو چکا تھا کہ "شاتان تذبحان " کہ دو بکرے مارے جائیں گے.چنانچہ اس الہام کے مطابق سب سے پہلے حضرت مولوی صاحب موصوف شہید کئے گئے.یہ حادثہ وسط ۱۹۰۱ء میں ہوا.قادیان میں اس کی خبر نومبر میں حضرت مولوی عبدالستار صاحب کے ذریعہ سے پہنچی جو اپنے تین رفقاء سمیت علاقہ خوست غزنی سے حضور کی زیارت کے لئے تشریف لائے تھے.کہتے ہیں اس حادثہ شہادت پر افغانستان کی سرزمین میں کئی آسمانی نشان ظاہر ہوئے.۵۴ امیر عبدالرحمن خاں پر فالج سب سے بڑا نشان یہ تھا کہ امیر عبدالرحمن خاں صاحب پر اس ظلم کی پاداش میں 10 ستمبر ۱۹۰ء کو فالج گرا.ہندوستان اور افغانستان کے حاذق طبیبوں اور ماہر ڈاکٹروں نے بڑا علاج کیا مگر بیماری یہاں تک بڑھ گئی کہ اٹھنے بیٹھنے سے بھی معذور ہو گئے اور بالاخر ایک ماہ تک اس مرض میں مبتلا ہو کر ۳/ اکتوبر ۱۹۰۱ ء کو چل ہے.امام الزماں کی کتابوں کے امتحان کی تحریک ۵۵ حضرت اقدس مسیح موعود نے 9 ستمبر ۱۹۰۱ء کو مفید الاخیار" کے نام سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں حضور نے اپنی اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ ہماری جماعت میں کم از کم ایک سو اہل کمال و فضل پیدا ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے علم کلام اور اس کے دلائل و نشانات سے اچھی طرح آگاہ ہوں اور غیر مسلموں کے زہر یلے لٹریچر کے بداثرات سے ہر طالب حق کو نجات دے سکیں.اس غرض کے لئے حضور نے یہ اہم تحریک فرمائی کہ ہر سال قادیان میں دسمبر کی تعطیلات میں حضور کی کتابوں کا امتحان لیا جائے اور جو خدام اس امتحان میں کامیاب ہوں ان کو سلسلہ کی تبلیغی خدمات پر مامور اور دعوت حق کے لئے مناسب مقامات پر بھیجا جائے.مرام " " پہلے امتحان کے لئے جو کورس تجویز کیا گیاوہ مندرجہ ذیل کتب پر مشتمل تھا.فتح اسلام توضیح ازالہ اوہام »، « انجام آتھم »، «ایام الصلح »» « سرمه چشم آرید"، "حمامته البشری" - fee خطبہ الہامیہ ".نیز فیصلہ ہوا کہ یہ امتحان ۲۷/ دسمبر ۱۹۰۱ء کو ختم ہو جائے گا.جو لوگ دور و دراز مقامات سے شامل نہ ہو سکیں وہاں پرچے روانہ کر دئیے جائیں گے جو ایک مہتمم کی نگرانی میں بغرض جواب تقسیم ہوں گے.امتحان میں شریک ہونے والے امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا کام ایڈیٹر الحکم جناب شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے سپرد ہوا.مگر اتنی سعی و جدو جہد کے باوجود افسوس

Page 196

تاریخ احمدیت جلد ۲ 149 رسالہ " ریویو آف ریلیوں " کی تجویز حضرت اقدس کی زندگی میں یہ تحریک عمل میں نہ لائی جاسکی.اور سات سال تک معرض التواء میں رہنے کے بعد حضرت مولوی نور الدین خلیفتہ اصبح الاول نے اپنے زمانہ خلافت کے پہلے سال ہی اس کی طرف توجہ فرمائی اور چونکہ جلسہ ۱۹۰۸ء میں اس کے لئے فرصت نہ نکل سکتی تھی اس لئے آپ نے اجازت دی کہ احباب معزز دوستوں کی نگرانی میں اپنے اپنے مقام پر ہی امتحان دے سکتے ہیں.EI اس کے بعد خلافت ثانیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے امتحان کا سلسلہ باقاعدہ رنگ میں شروع ہوا.ابتداء نظارت ” تعلیم و تربیت" قادیان نے امتحان کا اہتمام کیا.اس کے بعد جماعت کی بعض دوسری تربیتی تنظیموں نے بھی اس کی ترویج میں سرگرم حصہ لینا شروع کر دیا.

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسالہ " ریویو آف ریلیجر " کی تجویز حواشی -+ ذکر حبیب " صفحه ۵۲-۵۳ مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب الحکم ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۰ء صفحہ ، کالم اور ریویو ۱۹۰۲ء صفحہ ۴۹۵ فتح السلام صفحہ ۵۱ طبع اول " تبلیغ رسالت جلد وہم صفحہ ۱.۳ - ممبروں کے نام حضرت مولوی نور الدین صاحب نواب محمد علی خاں صاحب مولوی محمد علی صاحب مولوی عبد الکریم صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، میاں تاجدین صاحب لاہوری مرزا افضل بیگ صاحب قصور ، ڈاکٹر رحمت علی صاحب ، خلیفہ رشید الدین صاحب خواجہ کمال الدین صاحب ، حکیم، فضل الدین صاحب بھیروی ، میر حامد شاہ صاحب سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدرای مولوی عزیز بخش صاحب ڈیرہ غازی خاں، منشی محمد نواب خان صاحب تحصیل دار مرزا خدابخش صاحب ، شیخ یعقوب علی صاحب تراب (عرفانی) الحکم ۱۷/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۸-۹ ۲۴/ نومبر ۱۹۰۱ء کو بورڈ آف ڈاریکٹرز نے ایک اجلاس میں گزشہ فیصلوں میں بعض ترامیم منظور کیں.مثلا رسالہ کا مقام اشاعت لاہور کی بجائے قادیان قرار دیا گیا اور اس کے ساتھ سب ہی عہدیدار مقامی تجویز ہوئے.یعنی (سیکرٹری) مولوی محمد علی صاحب اسٹنٹ سیکرٹری و محاسب) مفتی محمد صادق صاحب فنانشل سیکرٹری) حضرت مولوی نور الدین صاحب (امین) نواب محمد علی خاں صاحب (الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳- ۱۴) - سب کمیٹی (مولوی عبد الکریم صاحب خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب ڈاکٹر رحمت علی صاحب پانچ ممبروں پر مشتمل تھی.(احکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۸ کالم ۲) الحکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ 1 کالم ) 10 الحکم ۱۷ اپریل 1901ء صفحہ اکالم 1 الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۴ ۱۳ بدر ۱۷/ فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۵ ۱۳ اشتهار ۱۵ / دسمبر ۶۱۹۰۰ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۹۱ الحکم ۳ / مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۲ کالم ۳ و ۱۰.مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کالم 1 ۱۵ اربعین نمبر ۳ صفحه ۳۷ HA -۲۰ الحکم ۱۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ | کالم الحکم ۳/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ کالم الحکم ۱۷ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نزول المسیح صفحہ ۵۷۵۷ میں عربی اور اردو تحریر کے وقت خداتعالی کی طرف سے غیبی اعانت کا مفصل بیان فرمایا ہے جو قابل دید ہے.الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۴ کالم ۲-۳ سیرت مسیح موعود صفحه ۱۳۵۸ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۲۱ اعجاز صحیح سرورق نزول اسبیح صفحه ۱۹۳ ۱۹۴ ۲۲- نزول المسیح » صفحه ۱۹۳ - ۱۹۴ ۲۳- "نزول اصبح " صفحه ۵۲-۶۲ ۲۴- نزول اصحیح صفحه ۶۷۷

Page 198

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵- نزول المسیح صفحه ۷۴ رسالہ " ریویو آف ریالیور " کی تجویز ۲۶- نزول المسیح صفحہ ۷۹۶۷ حاشیہ.پیر صاحب کے خط کا متن " محی و مخلصی مولوی کرم الدین صاحب سلامت باشند و علیکم السلام و رحمہ اللہ.اما بعد ایک نسخہ بذریعہ ڈاک یا کسی آدم معتبر فرستاده خواهد شد - آپ کو واضح ہو کہ اس کتاب (سیف چشتیائی) میں تردید متعلق تفسیر فاتحہ (یعنی اعجاز المسیح) جو فیضی صاحب مرحوم و مغفور کی ہے باجازت ان کے مندرج ہے چنانچہ فیمابین تحریر او نیز مشافتہ جہلم میں قرار پا چکا تھا بلکہ فیضی صاحب مرحوم کی درخواست پر میں نے تحریر جواب شمس بازند پر مضامین ضرور یہ لاہور میں ان کے پاس بھیج دیے تھے اور ان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے نام پر طبع کرار ہویں.افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور نہ وہ میرے مضامین مرسلہ مجھے لاہور میں ملے.آخر الا مر مجھ کو ہی یہ کام کرنا پڑا.لہذا آپ سے ان کی کتابیں مستعملہ منگوا کر تفسیر کی تردید مندرجہ حسب اجازت تبغیر مائی گئی ہے.آئندہ شاید آپ کو یا مولوی غلام محمد صاحب کو تکلیف اٹھانی ہوگی.والسلام." ( منقول از نزول اصبح حاشیه صفحه ۷۹ پیر صاحب کا یہ ادعا کہ صرف اعجاز ا مسیح کی تردید کا حصہ فیضی صاحب کا لکھا ہوا ہے باقی میں نے تحریر کیا ہے کتاب کی اندرونی شہادت کے خلاف ہے کیوں کہ اس کے صفحہ ۸۵ پر یہ الفاظ موجود ہیں." پیر مہر علی شاہ صاحب کے لئے آپ ہر چند دانت پیستے رہے مگر ان کی شہرت ہی شہرت اور عزت ہی عزت ہوتی رہی.صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ لکھنے والے بہر حال خود پیر صاحب موصوف نہیں ہو سکتے.۲۷ الحکم ۲۸/ جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۴۰ کالم ۳ بحواله تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۳۶ ۲۸- المنار جلد ۴ صفحه ۵۳۵ ۲۹ فتح الباری جلد ۶ صفحه ۳۱۶ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۹۰ مجموعہ قاری احمد یہ جلد ا صفحه ۱۸۷ مرتبه مولوی فضل محمد خاں صاحب چنگوی الحکم ۳/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳ کالم ۲ ۳۱.۳۲.حضرت اقدس مسیح موعود نے ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام ۵۲ پر درج فرمایا ہے (ضمیمہ انجام آعظم) ۲۷/ جولائی ۱۹۳۱ء کو اے سال کی عمر میں وفات پائی.۳۳ اصحاب احمد " جلد چهارم صفحه ۱۳۱- ۱۳۲ ۳۴- الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۱ میں ۳ دسمبر کی تاریخ تو صحیح درج ہوئی ہے مگر ۱۹۰۰ء کی بجائے سمو ۱۹۰۱ء لکھا گیا ہے (مولف) ۳۵ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت ہے کہ عصر کے بعد جب حضور معمولا مسجد میں چھت پر تشریف فرما تھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض کیوں دل میں اٹھتے ہیں.الخ " اصحاب احمد " جلد چہارم صفحه ۱۳۱- ۱۳۲- الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱.۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے مغرب کے بعد اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ایک لمبی تقریر ارشاد فرمائی تھی جیسا کہ اوپر درج ہے.- الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲ کالم ۲ - احکام ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم ۲-۳ ۳۸ اصحاب احمد " جلد چهارم صفحه ۱۳۲ م ۳۹- الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم ۲.۳ و الحکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ اکالم ۱-۲ سوال وجواب کے اس واقعہ سے محترم جناب مولف کتاب "مجدد اعظم" نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ " ایسے واقعات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت اقدس مرزا صاحب کے اقوال اور افعال کو ان کے مریدین مخلصیہ کس قدر نکتہ چینی کی نظر سے دیکھتے تھے اور اگر ان کا کوئی قول یا فعل کسی مرید کی سمجھ میں نہ آتایا اپنی سمجھ کے مطابق اس میں قرآن و سنت سے ذرا بھی انحراف دیکھتا توہ اعتراض کرنے سے کبھی بھی نہ چوکتا اور جب تک تشفی نہ ہو جاتی رہ اپنے اس اعتراض سے باز نہ آتا." ("مجدد اعظم جلد ۲ صفحه ۷۶۴) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تصریح کے باوجود اس کے سوالات و اعتراضات کی یہ صورت بے ادبی اور گستاخی

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسالہ " ریویو آف ریال یور" کی تجویز ہے.حضور کے مخلص صحابہ کے متعلق یہ نظریہ قائم کرنا کہ عمر بھر ان کا یہ معمول رہا کہ معاذ اللہ وہ حکم و عدل کی زندگی کو ناقدانہ نظر سے دیکھتے اور اعتراض کرتے رہتے تھے.بہت بڑی جسارت ہے 11 ۴۱- الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۱۴ ۴۲.ترجمہ: اے پیغمبر کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کر اور ان پر سختی کرے.ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری پلٹنے کی جگہ ہے.۴۳- " اظهار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحہ ۷ - ۸ را محکم ۱۰ / اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ 9 ۴ ۲۰ اظهار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحه ۹-۱۲ احکم ۲۴/ مارچ ۱۹۱۱ء صفحہ | کالم ۲ م الحکم ۱۲۴ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۹۴ ۴۷- "تذکرة الشاد تین " ( از حضرت مسیح موعود مشموله ریویو آف ریلیم اردو نومبرد سمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۴۴۳- " عاقبته المذبین" (از و قاضی محمد یوسف صاحب مردان صفحه ۳۱ - AFGTIANISTAN - افغانستان) مصنفہ مسٹرا لگن، مٹن مطبوعہ لنڈن ۱۹۰۹ء صفحه ۳۱۵ (بحوالہ "عاقبته المنذ بین ۴) صفحه ۲۹ از قاضی محمد یوسف صاحب ۴۹ عاقبته المکذبین صفحه ۲۹ ۵۰ تذكرة الشهادتین اور عاقبته المکذبین صفحه ۲۹ الله " براہین احمدیہ طبع اول صفحه ۵۱۲ حاشیه ۵۲- " عاقبته المکذبین صفحه ۳۲ ۵۳ - الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۵ کالم ۱-۲ ۵۴ "تذکره الشهادتین مشموله ریویو آف ریلیجز اردو نو میرود کمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۴۴۴ ۵۵ " تاریخ افاغنه " حصہ اول صفحه ۹۹ مولفه شهاب الدین ثاقب مطبوعہ حمیدیہ پریس لاہور بحوالہ "عاقبہ المکذبین" 49 ۵۶ - الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ کالم ۱-۲ ۵۸ ۵- الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کالم الحکم ۱۸ بر جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ اکالم ۲۱ ۵۹- بدر / جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ کالم ۲

Page 200

تاریخ احمدیت جلد ۲ IAF تعریف نبوت میں تبدیلی کا پہلا تحریری اعلان تعریف نبوت میں تبدیلی

Page 201

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۸۴ تعریف نبوت میں تبدیلی مقام نبوت سے متعلق ایک زبردست علمی انکشاف اشتہار ایک غلطی کا ازالہ اور تعریف نبوت میں تبدیلی کا پہلا تحریری اعلان ۱۹۰۰ء کے آخر اور ۱۹۰۱ء کے اوائل میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ انکشاف ہوا کہ مقام نبوت صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہونے کا نام ہے اور نئی شریعت کا لانا پہلی شریعت کا ترمیم کرنا یا براہ راست منصب نبوت و رسالت کا حصول نہی کی تعریف میں داخل نہیں ہے جیسا کہ عامتہ المسلمین کی عام مروج اصطلاح سے خیال کیا جاتا ہے.اس انکشاف سے آپ پر صاف کھل گیا کہ آپ کے الہامات میں آپ کو جو نبی قرار دیا گیا ہے وہ مجاز یا استعارہ کے رنگ میں محض محد ثیت نہیں بلکہ آپ اصلی اور صحیح معنوں کی رو سے آنحضرت کی غلامی کے طفیل فی الواقع نبی اور رسول ہیں اور نفس نبوت کے لحاظ سے آپ میں اور دوسرے انبیاء میں کچھ فرتی نہیں.فرق صرف حصول نبوت کے ذریعہ میں ہے نہ کہ نبوت میں.پہلے نبی براہ راست مقام نبوت پانے کی وجہ سے مستقل انبیاء کہلاتے ہیں اور آپ آنحضرت ا کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے مقام نبوت تک پہنچے ہیں اور امتی نبی کہلاتے ہیں تا آنحضرت کی قوت قدسیہ اور فیضان کا کمال ثابت ہو.چنانچہ حضور فرماتے ہیں.یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوئی میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعوی کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت کا افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے مقام نبوت تک پہنچایا اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے

Page 202

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۸۵ تعریف نبوت میں تبدیلی امتی...تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے." تبدیلی عقیدہ کا ذکر حضور کے قلم سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عظیم قلم سے الشان تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے "حقیقتہ الوحی" میں تحریر فرماتے ہیں.اوائل میں میرا ایسی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے.اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہو تا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی." ان الفاظ سے سے صاف کھل جاتا ہے کہ مسئلہ نبوت میں آپ نے اپنے عقیدہ میں ضرور کوئی تبدیلی فرمائی ہے اور وہ بھی ” تریاق القلوب" اور ریویو جلد اول کے درمیانی زمانہ میں کیوں کہ حضور نے جس سوال کے جواب میں یہ لکھا ہے اس کا تعلق اسی دور سے ہے.نیز ظاہر ہوتا ہے کہ آپ پہلے اس بناء پر کہ مسیح نبی ہے اور آپ غیر نبی مسیح سے اپنے تئیں افضل نہیں سمجھتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی وحی میں صریح طور پر نبی کا خطاب آپ کو دیا گیا تو آپ نے اس پہلے عقیدہ میں تبدیلی کرلی اور اپنے تئیں صراحتا صحیح معنوں میں نبی قرار دینے لگے.تعریف نبوت میں تبدیلی کے نتائج تعریف نبوت میں تبدیلی سے پہلے حضور اسلامی اصطلاح کے لحاظ سے نبی و رسول کی یہ تعریف سمجھتے تھے کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالٰی سے تعلق رکھتے ہیں." لیکن تعریف نبوت میں تبدیلی کے انکشاف کے بعد حضور علیہ السلام نے اس تعریف میں یہ ترمیم فرما دی کہ نبی کے لئے غیر امتی ہونا ضروری نہیں بلکہ آنحضرت ا کی پیروی اور افاضہ روحانیہ سے آپ کا امتی بھی مقام نبوت پاسکتا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا.یہ تمام بد قسمتی اس دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی "

Page 203

تاریخ احمدیت جلد ۲ تعریف نبوت میں تبدیلی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو." اگرچہ " براہین احمدیہ " پنجم اور حقیقتہ الوحی " (جن کے اقتباسات اوپر دئے گئے ہیں ۱۹۰۱ء کے بعد کی کتابیں ہیں مگر دراصل اس تبدیلی کی بنیاد ۱۹۰۱ ء سے پڑی ہے اور اس کا پہلا تحریری اعلان ” ایک غلطی کا ازالہ " میں ہوا (جیسا کہ ذکر آرہا ہے، چنانچہ اس رسالہ کی اشاعت کے بعد حضور نے نبی کی ہمیشہ یوں تعریف بیان فرمائی کہ میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر " مشتمل ہو." جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت یا کی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبہ پر مشتمل ہو تو وہی دو سرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے." Δ΄ " خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے." تعریف نبوت میں تبدیلی کا یہ نتیجہ بھی ہوا کہ آپ پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ آپ کا مقام محد ثیت کے مقام سے بالا ہے.محدث کو نبوت جزوی طور پر حاصل ہوتی ہے اور آپ کو مقام نبوت علی وجہ الکمال حاصل ہے اس لئے حضور نے اپنے متعلق جزئی نبی یا ناقص نبی یا محض محدث کا اطلاق ہمیشہ کے لئے ترک فرما دیا.لیکن یاد رہے آپ کے دعوی کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی وہ شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی رہا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہیں وہ بکثرت آپ سے ہم کلام ہوتا ہے اور آپ پر کثرت سے امور غیسہ کا اظہار کرتا ہے اسی حقیقت کا نام پہلے جزوی نبوت اور محد ثیت رکھتے تھے مگر بعد میں اسے نبوت کا مقام قرار دیا اور صاف اعلان فرمایا.اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیوں کہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور یہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہو تا تاکہ آنحضرت ا کی پیش گوئی صفائی سے پوری ہو جاتی.کیوں کہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اس قدر مکالمہ و مخاطبہ الیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ بھی نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت

Page 204

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۸۷ تعریف نبوت میں تبدیلی کی پیش گوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.اس خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا وہ پیش گوئی پوری ہو جائے." اس واضح اعلان کے علاوہ اہل عالم کو یہاں تک تحدی فرمائی کہ " خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے." حضرت اقدس نے تعریف نبوت کی تعریف نبوت میں تبدیلی کا پہلا تحریری اعلان تبدیلی کا سب سے پہلا تحریری اعلان ۵.نومبر ۱۹۰۱ء کو اشتہار ایک غلطی کا ازالہ" کے ذریعہ سے فرمایا.اشتہار " ایک غلطی کا ازالہ " کی تالیف کا فوری سبب یہ ہوا کہ نومبر ۱۹۰۱ء کے پہلے ہفتہ میں حضور کے ایک مخلص خادم حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ پر امر تسر میں بعض غیر از جماعت دوستوں نے اعتراض کیا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.حضرت شیخ صاحب نے اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا جو صحیح نہیں تھا.حضرت اقدس کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اشتہار لکھا کہ خداتعالی کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہاد فعہ بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں چنانچہ وہ مکالمات الہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں ان میں سے ایک یہ وحی اللہ ب هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهرة على الدين كله پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحہ ۵۵۷ براہین میں درج ہے دنیا میں ایک نذیر آیا اس کی دوسری قرات یہ ہے کہ ”دنیا میں ایک نبی آیا." نبی کے معنی لغت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا." اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہیں.مگر نبوت کے معنی اظہار غیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے.یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنی ہیں

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ١٨٨ تعریف ثبوت میں تبدیلی خدا سے خبر پا کر پیش گوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں اور جب کہ خود خد اتعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیوں کر رد کردوں یا کیوں کر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں...اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں میں کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتد ا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ ”من سیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی ا - " ** ایک غلطی کا ازالہ " کے حاشیہ میں فیصلہ کن تصریحات ایک غلطی کا ازالہ " کے حاشیہ میں حضور نے تحریر فرمایا کہ یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں ہیں جن کی رو سے انبیاء علیہ السلام نبی کہلاتے رہے لیکن قرآن بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیبیہ کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول سے ظاہر ہے.پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انعمت علیہم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں.مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے اس لئے مانا پڑتا ہے کہ اس موہت کے لئے محض بروز اور خلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے."

Page 206

تاریخ احمدیت - جلد ۲ 1A9 اس اقتباس سے مندرجہ ذیل امور بالکل واضح ہیں.ا جس امر کا امت کو وعدہ ہے وہ نبوت اور پیش گوئیاں ہیں.تعریف نبوت میں تبدیلی -۲ نبوتوں اور پیش گوئیوں کی وجہ سے پہلے انبیاء نبی کہلائے (حالانکہ سابق تعریف نبوت اس سے مختلف تھی..یہی نبوتیں اور پیش گوئیاں جن کی وجہ سے پہلے انبیاء نبی کہلائے امت محمدیہ کا وعدہ ہے.- آیت انعمت علیہم گواہی دیتی ہے کہ مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں.مصفی غیب سے حسب منطوق آيت فلا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول نبوت ورسالت کو چاہتا ہے.مصفی غیب کا منا( جو نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے ) براہ راست بند ہے.ے.اس لئے مانا پڑا کہ اس موہت کے لئے یعنی مصفی غیب کی موہت کے لئے جو نبوت و رسالت کو چاہتا ہے صرف بروز خلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.بروز علیت فنافی الرسول مومن کی ترقی کا انتہائی مقام نہیں بلکہ انتہائی مقام کے حصول کا ذریعہ ہے المختصر اس اقتباس کا یہ صاف نتیجہ ہے کہ نبوت پہلے براہ راست ملا کرتی تھی بند ہونے کے بعد اب وہی موہت رسول کریم ان کے واسطہ سے ملا کرے گی.پس نفس نبوت کے ملنے میں پہلے انبیاء اور امت محمدیہ میں ہونے والے نبی میں کوئی فرق نہیں.فرق صرف حصول کے ذریعہ میں ہے.سابقہ تعریف نبوت میں نبی کے لئے جو شرائط مقرر تھیں وہ اس جگہ مذکور نہیں.صرف ایک امر جو نبوت کے لئے ذاتی ہے وہ مصفی غیب کا منایا بالفاظ دیگر نبوتیں یا پیش گوئیاں ہیں جن کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلائے.یہی امر نبوت کے لئے ذاتی ہے باقی امور یعنی نئی شریعت کا لانایا شریعت میں ترمیم و تنسیخ یا اس کا مستقل اور براہ راست ہونا یا بالواسطہ ہونا نبوت کے لئے ذاتی امور نہیں بلکہ عرضی حقائق ہیں جو کسی نبی میں پائے جاتے ہیں کسی میں نہیں.اشتہار " ایک غلطی کا ازالہ " کی اشاعت کے بعد پوری جماعت کا رجحان اشتہار کا اثر اپنوں پر اس طرف : و گیا کہ حضور نفس نبوت کے لحاظ سے بیچ بیچ نبی ہیں اور ویسے ہی نبی ہیں جیسے پہلے انبیاء تھے گو ذریعہ حصول نبوت میں فرق ہے یعنی پہلے انبیاء کو براہ راست نبوت تفویض ہوئی تھی مگر حضور کو حضرت رسول کریم ان کی غلامی میں یہ منصب ملا ہے.اور اسی لئے آپ کا منصب "امتی نبی کا ہے محض نبی کا نہیں.چوہدری فتح محمد صاحب سیال کا حلفیہ بیان ہے کہ

Page 207

19.تعریف نبوت میں تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اشتہار ایک غلطی کا ازالہ " شائع کیا ان دنوں میں مستقل طور پر قادیان چلا آیا تھا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.ایک صاحب محمد شاہ ساکن تونسہ اس زمانہ میں مطبع میں ملازم تھے انہوں نے صبح کی نماز کے بعد مجھ سے اس اشتہار کا ذکر کیا...میں خودای وقت مطیع میں گیا اور ایک کاپی ایک غلطی کا ازالہ " لے کر پڑھی.اس وقت سے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی یقین کرتا ہوں.یه ای اشتہار کا اثر تھا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو مسجد مبارک کے امام تھے اب اپنے خطبات و مضامین میں گزشتہ سال سے بھی زیادہ زور اور وضاحت سے حضرت اقدس کی نبوت و رسالت پیش کرنے لگے اور آخر وقت تک حضور کی موجودگی میں سلسلہ احمدیہ کو منہاج نبوت پر قائم - ہونے والا سلسلہ اور حضور کو نبی رسول مرسل اور صادق مرسل کے نام سے یاد کرتے رہے.اس ضمن میں حضرت مولوی صاحب کی تحریرات کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں بھی ایک خاص تبدیلی عقیدہ کا پتہ چلتا ہے.چنانچہ آپ نے ۱۴.اپریل ۱۸۹۸ء کو اپنے ایک خط میں جو ” خلافت راشدہ " میں شائع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ”ہمارے مجدد سلمہ اللہ تعالٰی" کے الفاظ سے یاد کیا.لیکن جب انہوں نے اس کتاب کا مقدمہ ۱۲ / جون ۱۹۰۲ء کو لکھا تو اس میں حضور کو حضرت نبی اللہ" سے موسوم کیا اور اس بارہ میں حضرت مولانا کا عقیدہ اتنا پختہ ہو گیا کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے ایک مرتبہ آپ نے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی اے خدا کے مرسل تیری رسالت کی قسم کہ یہ معاملہ اس طرح ہے".حضور کے دوسرے صحابہ کا آپ کے نبی ہونے کے متعلق جو ایمان تھا اس کی متعدد شہادتیں طبع شدہ موجود ہیں جن سے یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ بعض صحابہ تو حضور کے فیض صحبت کے نتیجہ میں اس اعلان سے پہلے ہی سمجھ چکے تھے کہ آپ سچ سچ نبی ہیں.تاہم اس اعلان کے بعد وہ حضور کی خدمت میں خط لکھتے ہوئے حضور کو بر ملانی اللہ کے القاب سے یاد کرنے لگے.یہ اظہار صرف خطوط اور زبانی گفتگوؤں تک محدود نہیں تھا بلکہ سلسلہ کے اہل قلم کی طرف سے اخبار الحکام اور بدر میں بکثرت ایسے مضامین شائع ہوئے جن میں آپ کو نبی کے طور پر پیش کیا گیا.اس پر باقاعدہ قرآن و حدیث اور عقل سے دلائل لکھے گئے.خصوصاً رسالہ "ریویو آف ریلیجن" کے سابق ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب نے " ریویو آف ریلیجز " میں آپ کے مقام نبوت و رسالت کا تذکرہ بڑی کثرت و صفائی سے کیا.غرض که نبوت مسیح موعود کا مسئلہ حضرت اقدس کی زندگی ہی میں جماعت احمدیہ کا مسلمہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ بن گیا.چنانچہ حضرت اقدس" کی وفات پر حضور کے کارناموں کے متعلق

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد ۲ (91 تعریف نبوت میں تبدیلی اخبارات سلسلہ میں جو مضامین شائع ہوئے ان میں حضرت اقدس کا یہ معجزہ بھی پیش کیا گیا کہ ایک نبی آیا جب کہ تمام قوم کا متفق طور سے یہ عقیدہ تھا کہ اب کوئی نبی نہ ہو گا اور پھر اس نے چار لاکھ انسان کو اپنا قبع بنالیا.کیا یہ خدا کا فضل نہیں.کیا ہمیں اس کلمتہ اللہ کی قوت قدسیہ د روحانیہ پر ایمان نہیں لانا چاہئیے.." اشتہار کا اثر دو سروں پر مخالف علماء آپ پر اپنی اصطلاح کے مطابق دعوئی نبوت کا الزام دے رہے تھے حالانکہ ایسا دعویٰ حضور نے سرے سے کبھی کیا ہی نہیں تھا.چنانچہ حضور نے ان کے الزام کا ذکر کرتے ہوئے اسی اشتہار کے آخر میں پوری وضاحت سے لکھا کہ " مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مجھے ایسا کوئی دعوئی نہیں.میں اس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں " مزید بر آں بعد میں بھی صاف لفظوں میں بتایا کہ ”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت ا کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.ولكل ان يصطلح " اس تصریح و توضیح کے بعد آپ کے مخالف علماء کا اصولی طور پر فرض صرف یہ تھا کہ وہ آپ کی پیش فرموده تعریف نبوت کا عقل و نقل سے رد کر دکھاتے مگر انہوں نے اس سے قطعی گریز کیا اور اپنے نظریہ نبوت پر ہی قائم رہتے ہوئے بدستور یہ الزام قائم رکھا کہ (حضرت) مرزا صاحب نے اس اشتہار میں بھی دعوی نبوت و رسالت کیا ہے.چنانچہ سلسلہ کے مخالف منشی الہی بخش صاحب اکو شٹ کے ساتھی حافظ محمد یوسف صاحب امرتسر نے اشتہار ” ایک غلطی کا ازالہ " پڑھتے ہی مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کو لکھا کہ "کل میں نے اشتہار دیکھا جس میں مرزا صاحب نے دعوئی نبوت کا کیا ہے." حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے اس کے جواب میں الحکم میں بڑا مفصل مضمون لکھا جس میں بتایا کہ آپ حضرات نہ دعوئی کو سمجھے نہ انکار کو.کوئی ذرہ بھر عقل و دانش رکھنے والا انسان اس اشتہار میں جہاں انکار نبوت کے متعدد الفاظ موجود ہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فنافی الرسول نے اس نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا ہے جس کا انکار اجماع امت کر رہا ہے.انہی دنوں ایک اور شخص نے اعتراضات کئے کہ مرزا صاحب کا دعوئی آیت خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کے خلاف ہے اس کا جواب بھی انہی دنوں اخبار الحکم میں شائع کر دیا گیا کہ آیت و حدیث

Page 209

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۹۲ تعریف نبوت میں تبدیلی میں نبوت تشریعی کا ختم مراد ہے نہ کہ غیر تشریعی کا.اور حضرت مرزا صاحب کو دوسرے تمام محمد دین امت میں نبی اللہ کہنا اس لئے جائز ہے کہ آپ کے الہامات کے علاوہ حدیث اور قرآن میں مسیح موعود کے متعلق نبی اور رسول کے لفظ موجود ہیں.بالا خر واضح رہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے جس قسم کی نبوت کا دعویٰ فرمایا ہے وہ نہ اجماع امت کے خلاف ہے اور نہ اس سے آنحضرت ا کی کسرشان ہوتی ہے بلکہ آپ کے دعوئی سے آنحضرت ﷺ کی اس ارفع اور اعلیٰ اور بلند ترین شان کا اظہار ہوتا ہے کہ آنحضرت ا کے خادموں اور غلاموں میں آپ کی پیروی اور آپ کے فیض کے واسطہ سے مقام نبوت مل سکتا ہے گویا آنحضرت ا صرف نبی ہی نہیں بلکہ نبی الانبیاء بھی ہیں اور مثال کے طور پر آپ محض روحانی بادشاہ ہی نہیں بلکہ روحانی شہنشاہ بھی ہیں جن کی ماتحتی اور غلامی میں روحانی بادشاہت کا مقام بھی حاصل کرنے والے لوگ پیدا ہوں گے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى إِلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ فونوگراف کی ایجاد اور تبلیغ اسلام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی عالمگیر اشاعت کا مقصد لے کر مبعوث ہوئے تھے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ نشر و اشاعت کے کام میں مدد دینے والی اکثر و بیشتر اہم ایجادوں کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور حیات (۱۸۳۵ - ۱۹۰۸) کے گرد چکر لگاتا ہے.ان میں سے ہر ایک ایجاد ایسی ہے جس کا وجود حضرت مسیح موعود کے بین الاقوامی مشن کو فروغ دینے کے لئے از بس ضروری تھا.ان ایجادات میں سے ایک فونوگراف ہے جس کی ایجاد ۱۸۷۷ء میں ایڈسن نے کی مگر ہندوستان میں آئے ہوئے اسے چند سال ہوئے ہوں گے.حضور کے مخلص خادم اور جماعت کی ایک برگزیدہ ہستی حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے فونوگراف خریدا.حضرت اقدس کو اکتو برا۱۹۰ء میں اس کی اطلاع ہوئی.حضور جو دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کی صبح و شام نئی نئی راہیں سوچتے تھے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ "جب وفد نصیین جائے تو ہم اپنی ایک تقریر جو عربی زبان میں ہو اور قریباً چار گھنٹہ کے برابر ہو اس میں بند کر دیں جس میں ہمارے دعاوی اور دلائل بیان کئے جائیں.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں اس تقریر کو اس کے ذریعہ سنائیں.اس سے عام تبلیغ ہو جائے گی اور گویا ہم ہی بولیں گے اور یوں مسیح کے سیاح ہونے کے معنی پورے ہو جا ئیں گے.آج تک اس فونوگراف سے صرف کھیل کی طرح کام لیا گیا ہے مگر حقیقت میں خدا نے ہمارے لئے یہ ایجاد ر کھی ہوئی تھی اور بہت بڑا کام اس سے نکلے گا."

Page 210

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۹۳ تعریف نبوت میں تبدیلی ١٣٣ یہ بھی تجویز ہوئی کہ حضور کے خطاب سے قبل حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک تقریر اس موضوع پر ریکارڈ کی جائے کہ انیسویں صدی مسیحی کے سب سے بڑے انسان کی تقریر آپ کو سنائی جاتی ہے جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے نام سے دنیا میں آیا ہے اور جس نے ارض ہند میں ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملالیا ہے اور جس کے ہاتھ پر ہزاروں تائیدی نشان ظاہر ہوئے.خدا تعالٰی نے جس کی ہر میدان میں نصرت کی وہ اپنی دعوت بلاد اسلامیہ میں کرتا ہے.سامعین خود اس کے منہ سے سن لیں کہ اس کا دعویٰ اور دلائل کیا ہیں؟ نو نو گراف کا تجربہ کرنے کے لئے حضرت اقدس نے نواب محمد علی خاں صاحب کو لکھا کہ جب وہ قادیان آئیں فونوگراف ساتھ لیتے آئیں.چنانچہ وہ وسط نومبرا ۱۹۰ ء میں حضور کی خدمت میں لائے اور ۱۵.نومبر ۱۹۰۱ء کو نماز عصر کے بعد اس کے ریکارڈ سنائے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دو سلنڈروں میں آواز ریکارڈ کی.قادیان میں فونوگراف کا چرچا ہوا تو دوسرے لوگوں میں بھی اس کے دیکھنے کی بڑی خواہش پیدا ہوئی.قادیان کے آریہ سماجی لالہ شرمپت رائے کو تو اس قدر اشتیاق ہوا کہ انہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بھی درخواست کر دی.یہ ۲۰ نومبر ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے.حضور نے نماز ظہر کے وقت حضرت نواب صاحب سے اس کا تذکرہ فرمایا تو نواب صاحب نے اس کی بخوشی اجازت دے دی.ان لوگوں کا فونوگراف دیکھنا تو محض تماشائی کے رنگ میں تھا مگر حضرت مسیح موعود نے اسے تبلیغ کا ایک بھاری ذریعہ بنالیا اور وہ یوں کہ حضور نے چند منٹوں میں خاص اس تقریب کے لئے ایک لطیف اور تبلیغی نظم کی جس کے ابتدائی دو شعر یہ تھے.آواز آرہی ہے یہ فوٹو گراف ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے سے جب تک عمل نہیں ہے دل پاک صاف سے کم تر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے حضرت اقدس کی ہدایت کے تحت مولانا عبد الکریم صاحب نے یہ نظم اور اس کے علاوہ عجب نوریست در جان محمد کے مصرعہ والی مشہور نظم اور قرآن مجید کی چند آیات پڑھیں نیز حضور کی ایک فارسی نظم کے چند اشعار منشی نواب خاں صاحب ثاقب آنف مالیر کوٹلہ نے پڑھے جو فونوگراف میں محفوظ کرلئے گئے.یہ تیاری مکمل ہو چکی تو ساڑھے چار بجے کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کے بالاخانہ کے صحن میں فونوگراف رکھ دیا گیا.حضرت اقدس کی طرف سے تحریری اطلاع ملنے پر نہ صرف لالہ شرمپت رائے اور آریہ سماج کا سیکرٹری بلکہ دوسرے اور ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں پہنچ گئے.لالہ شرمیت رائے کو فونوگراف کے قریب بٹھایا گیا.فونوگراف نے سب سے پہلے مالیر کوٹلوی کے لب ولہجہ میں اشعار

Page 211

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۱۹۴ تعریف نبوت میں تبدیلی سنائے پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی سریلی آواز سے حضرت اقدس کی تازہ اور قدیم نظم نشر ہوئی.حضرت اقدس کی تازہ نظم دو بار سنائی گئی اور دو نو مرتبہ جماعت کے بزرگوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور ان پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری رہی مگر لالہ شرعیت رائے اور دوسرے غیر مسلموں کا رنگ بالکل فق ہو جاتا تھا.بہر حال حضرت اقدس نے تبلیغ اسلام کا حق ادا کر دیا اور یہ تجربہ تبلیغی نکتہ نگاہ سے نہایت درجہ کامیاب ثابت ہوا.آخر میں قرآن شریف مولانا عبد الکریم صاحب کی زبان سے سنایا گیا اور یہ جلسہ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا میں پہلا جلسہ تھا بر خواست ہوا.تجویز کی التواء افسوس جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے وفد نفیسین کے التواء کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود کی تقریر کے ریکارڈ کی تجویز بھی رہ گئی اور جماعت کو قیامت تک کے لئے حضور کی آواز سے محروم ہونا پڑا.یہی نہیں جن دو بزرگوں کی آواز محفوظ کی گئی تھی وہ بھی محفوظ نہ رہ سکی اور سلنڈر بہت جلد بیکار ہو گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور (حضرت) نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ختم قرآن شریف کی پر مسرت تقریب پر ۳۰/ نومبرا ۱۹۰ء کو آمین کی تقریب ہوئی جس میں حضور نے بطور شکریہ ایک پر تکلف دعوت دی اور مساکین اور یتامی کو کھانا کھلایا ایک دعائیہ نظم بھی حضور نے لکھی.اس موقع پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ آمین کوئی رسم ہے یا کیا ہے.حضور نے اس سوال پر مفصل تقریر کرتے ہوئے فرمایا " میں ہمیشہ فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اللہ تعالٰی کی عظمت و جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہاء فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے.پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جال کا اظہار ہوتی ہے.ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالٰی کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا کی i i

Page 212

ریخ احمدیت.جلد ۲ 190 تعریف نبوت میں تبدیلی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالی کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیوں کہ یہ رسول الله الله کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں.میں (جیسا کہ ابھی کہا ہے ) اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کردوں.پس یہ میری نیت اور غرض تھی.چنانچہ میں نے اس کو شروع کیا.اور جب یہ مصرعہ لکھا.ہر ایک نیکی کی جڑھ تو و سرا مصرعہ الہام ہوا اگر یہ بڑھ رہی سب کچھ رہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی بھی میرے اس فعل سے راضی ہے." برطانوی سیاح مسٹرڈ کسن کی قادیان میں آمد صبح کی سیر حضرت اقدس مسیح موعود کا دستور مبارک تھا کہ اپنے خدام کے ساتھ صبح سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے.دربار شام میں تو حضور اقدس شام کو مسجد مبارک میں رونق افروز ہو کر اپنے مقدس کلمات سے نوازتے تھے اور صبح کی سیر کے دوران میں علم و معرفت کے پھول بکھیرتے.یہ بھی گویا ایک چلتا پھرتا دربار تھا جس میں یہ روحانی شہنشاہ تقریروں سے اپنے عشاق کی تشنگی بجھاتا اور ان کو ایک زندہ ایمان عطا فرماتا.۱۷/ نومبر ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کے لئے گئے.راستہ میں حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ایک عزیز کے نام) اپنا ایک تبلیغی خط سنانا شروع کیا.خط کافی لمبا تھا جو حضور کے واپس گھر پہنچنے پر بھی ختم نہ ہوا تھا.لہذا حضور اقدس علیہ السلام حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مطب میں بیٹھ گئے.حضرت میر صاحب کے عزیز نے اپنے خط میں ترکوں کی مذمت کی تھی.حضرت میر صاحب اس کا معقول جواب سنا رہے تھے کہ حضرت اقدس نے اس پر فرمایا اگر چہ ہمارے نزدیک " ان اکرمکم عند الله اتقكم " ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اور کی.مگر یچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رک نہیں سکتے.ترکوں کے ذریعہ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے....دنیا میں خدا تعالٰی نے دو ہی گروہ رکھے ہوئے ہیں.ایک ترک دو سرے سادات.ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر اور روحانی فیض کا مبداء قرار دیا گیا.چنانچہ صوفیوں نے

Page 213

تاریخ احمدیت جلد ۲ 194 تعریف نبوت میں تبدیلی فقر اور روحانی فیوض کا مبداء سادات ہی کو ٹھرایا ہے.اور میں نے بھی اپنے کشف میں ایسا ہی پایا ہے.حضور یہ ذکر فرماہی رہے تھے کہ ایک یورپین ! السلام علیکم کہتے ہوئے مطب میں آپہنچے.حضرت اقدس کے ایماء پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب ترجمان مقرر ہوئے.حضرت اقدس نے ان کے آنے کا سبب دریافت فرمایا.معلوم ہوا کہ ڈی.ڈی ڈکسن نامی ایک فرنگی سیاح ہیں جو عرب.کربلا اور کشمیر کی سیاحت کرتے ہوئے یہاں صرف ایک دن کے قیام کا پروگرام لے کر آئے ہیں اور آئندہ مصر الجیریا اور سوڈان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.حضرت اقدس نے ان سے باصرار کہا کہ جب آپ نظارہ عالم کے لئے گھر سے نکلے ہیں تو قادیان میں بھی ایک ہفتہ کے لئے ٹھہرئیے مگر اصرار کے باوجود صرف ایک رات رہنے پر رضامند ہوئے.حضرت اقدس یہ ہدایت دے کر کہ شیخ مسیح اللہ خانساماں ان کے حسب منشاء کھانا تیار کریں اور ان کو گول کمرہ میں ٹھہرایا جائے اندرون خانہ تشریف لے گئے.مولوی محمد علی صاحب اور بعض دوسرے احباب انہیں مدرسہ تعلیم الاسلام دکھانے لے گئے.سکول کی لائبریری میں ناٹو وچ روی سیاح کی کتاب " مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات" دیکھ کر ڈکسن نے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی جسے پورا کر دیا گیا.کتاب لئے وہ گول کمرے میں آئے جہاں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب مناسب رنگ میں انہیں تبلیغ کرتے رہے.صحیح کی قبر کشمیر، عربی ام الالسنہ اور جماعت احمدیہ کی امتیازی خصوصیات کے بارے میں خصوصاً گفتگو ہوتی رہی.عصر کی نماز کے بعد انہوں نے حضرت اقدس کے تین فوٹو لئے.رو فوٹو آپ کے خدام کے ساتھ اور ایک فوٹو صرف آپ کا الگ لیا.دوسرے دن صبح چونکہ ڈکسن صاحب نے بٹالہ کی طرف واپس جانا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی مشایعت کے لئے بٹالہ کی طرف ہی سیر کو نکلے اور نہر کے پل تک تشریف لے گئے اور انہیں الوادع کہا.دوران سیر حضور نے ڈکسن صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ایک پر جوش تقریر فرمائی جس میں اپنے دعوئی کی غرض و غایت بتائی کہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے.ہاں خدا تعالٰی نے وہ لعل تاباں مجھے دیا ہے.اور مجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعل تاباں کے حصول کی راہ بتادوں.اس راہ پر چل کر میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقینا یقیناً اس کو حاصل کرے گا.فلاسفر آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتا تا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے.مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں.مسٹرڈ کسن حضرت اقدس کے دینی خیالات، آپ کے حسن سلوک اور مہمان نوازی سے بہت

Page 214

تاریخ احمدیت جلد ۲ 194 تعریف نبوت میں تبدیلی متاثر ہوئے اور بالخصوص یہ دیکھ کر تو وہ رنگ ہی رہ گئے کہ کس طرح آپ کی شخصیت نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جس میں دنیاوی اعتبار سے کوئی کشش موجود نہیں مشرقی و مغربی علوم کے ماہر جمع کر دئیے ہیں.۱۹۰۱ء کے بعض ممتاز صحابہ حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب - مرزا محمد شفیع صاحب خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر.ڈاکٹر محمد طفیل صاحب بٹالوی.مولوی عبدالله صاحب بو تالوی - مولوی محمد دین صاحب - مولوی فضل الدین صاحب وکیل - سید وزارت حسین صاحب مو نگھمیری - ڈاکٹر رحمت علی صاحب آف گجرات

Page 215

ریت - جلد ۲ تعریف نبوت میں تبدیلی حواشی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو "حقیقہ النبوة " از سید نا حضرت خلیفہ المیع الانا ایده الله بعمر العمر لح ا ا اد " قول بلغ " از مولانا قاضی محمد نذیر صاحب صفحه ۳۰ تا ۱۳۹ ۲ " حقیقته الوحی " طبع اول صفحہ ۱۴۹ - ۱۵۰ مطبوعہ ۱۵/ مئی ۱۹۰۷ء "حقیقته الوحی " طبع اول صفحہ ۱۴۹ - ۱۵۰ مطبوعہ ۱۵.مئی ۱۹۰۷ء "حقیقته الوحی " طبع اول صفحہ ۱۴۹ - ۱۵۰ مطبوعہ ۱۵.مئی ۱۹۰۷ء ه مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب مورخہ ۷ / اگست ۱۸۹۹ء مشموله الحکم ۱۷/ اگست سے را -6 ۱۸۹۹ء صفحه و مکتوبات احمدیہ جلد پیم نمبر چهارم صفحه ۱۰۳ ضمیمه بر امین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸ " تجلياب اليه" الوصیت "صفحه الطبع اول چشمه معرفت طبع اول صفحه ۳۲۷ "حقیقت الوحی طبع اول صفحه ۳۹۱ چشمه معرفت طبع اول صفحه ۳۱۷ ١٩٠٠٠ ۱۲ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے خطبات جمعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1900ء میں اس خیال کا اظہار شروع ہو گیا تھا.گو پورے زور اور پوری صفائی سے نہ تھا چنانچہ انہوں نے ۷ / اگست ۱۹۰۰ء کو ایک خطبہ میں حضرت مسیح موعود کو مرسل ثابت کیا اور لا نفرق بين احد منهم والی آیت حضور پر چسپاں کی جسے حضور نے بھی پسند فرمایا (احکم ۱/۲۴ اگست ۱۹۰۰ء صفحه ا) لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں پورا انکشاف ۱۹۰۱ء میں ہی ہوا ہے.حیات احمد جلد تیم صفحه ۱۰۴ حالات ۲.۱۹۰۱ء اشتہار ایک غلطی کا ازالہ " مشمولہ الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۷۵ -۱۵ بیان حضرت منشی برکت علی خان صاحب شملوی اصحاب احمد جلد سوم صفحہ (۸) مزید ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو حلفیہ بیان میاں محمد سعید صاحب سعدی در ساله فرقان جنوری ۱۹۴۳ء صفحه ۹) حلفیہ بیان قاضی حبیب اللہ صاحب مزنگ لاہور (رساله فرقان مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۷) حلفیہ بیان حضرت سید عبد الستار شاد صاحب (رساله فرقان جون ۱۹۴۳ء صفحه ۱۴) حلفیہ بیان حضرت میر قاسم علی صاحب (رساله فرقان ستمبر ۱۹۴۲ء صفحه (۲) حلفیہ بیان حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب (رساله فرقان نومبر ۱۹۴۳ء صفحه ۱۴) حلفیہ بیان سردار کرم داد خان صاحب (رساله فرقان مئی وجون ۱۹۴۴ء صفحه ۳۸) رساله " فرقان " ستمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۱۰ ملاحظہ ہو ا حکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۲ - ۱۴ حکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۱۳ حکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ - ۱۴۸ حکم ۱۰ / مئی ۱۹۰۳ء صفحہ اکالم.۱۲ حکم ۷ ار مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۱۲ حکم ۱۰ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ے کالم ۱ حکم ۲۴ جون ۱۹۰۳ء صفحہ سے کالم الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ کالم ۱ احکام ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ کالم لحام ، ار جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ) خلافت را شده " حصہ اول مقدمه صفحه ۱۷ ۱۲ از مولوی عبد الکریم صاحب) طبع سوم مطبوعہ وزیر ہند پریس امرتسر نومبر ۱۹۲۲ء 19 بیان حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی روایات صحابہ جلد ۱۳ صفحه ۱۳۹ ۲۰ ملاحظہ ہو رسالہ " الفرقان" قادیان ۱۹۴۲ء تا ۱۹۴۴ء ۲۱ بیان میاں محمد شریف صاحب ای.اے.سی ( فرقان نمبر ۱۹۴۲ء صفحه (۱۴) روایت حضرت سید مهدی حسین شاہ صاحب ( روایات

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد ۲ صحابہ جلد ۱ صفحه ۲۹۱) 199 تعریف نبوت میں تبدیلی ۲۲ بطور مثال ملاحظہ ہور سالہ ریویو آف ریلیجز اردو جلد ۳ نمبر ۳ جلد ۳ نمبرے، جلد ۳ نمبر جلد ۴ نمبر ۲ جلد ۴ نمبر ۳ جلد ۴ نمبر ۱۱۰ جلد ۴ نمبر ۱۲ جلد ۵ نمبر ۴ جلد نمبر جلدہ نمبر ۸ جلد نمبر ۳ جلد نمبر ۴ جلد نمبرے جلدے نمبرے ۲۳- چنانچه اخبار بد ر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء صفحہ کالم سو پر لکھا ہے.”ہر ایک احمدی اس عقیدہ پر قائم ہے کہ مبارک و مطهر و مقدس وجود جسے لوگ مرزا قادیانی کہتے تھے خدا اکابر گزیدہ نبی ہے." شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے ۲۴/ اگست ۱۹۳۵ء کو اپنی ایک حلفیہ شہادت میں لکھا کہ ” میں حضرت صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا احمد کی ہوں میں نے ۱۹۰۵ء میں بیعت کی تھی.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی طرح کانی یقین کرتا تھا اور کرتا ہوں جس طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں.نفس نبوت میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں.میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا." (حلفیہ شہادت رسالہ " فرقان "مارچ ۱۹۴۶ صفحه ۲۸) ۲۴ اخبار بد را / جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶ ۲۵ حقیقته الوحی طبع اول تخمه صفحه ۷۸ الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۹ - ۱۴ ۲۷- احکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه۶-۱۳ -٢٦ ۲۸- الحام ۲۴ و نمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۷۱ " ۲۹.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ اقوام عالم " شائع کردہ مجلس ترقی ادب -۲- نرسنگھ راس گارڈن کلب لاہور.جدید معلومات سائنس" از آفتاب حسن ناشر انجمن ترقی اردو ہند دہلی." موجدوں کی کہانیاں " ایجادیں "" سائنس کے معجزے " مطبوعہ فیرد زمنزل ہوں.EDITED BY ۳۱ الحام 10 نومبر 1901ء صفحہ ا کالم 1 ۳۲.احکام دار تو میرا ۱۹۰ ء صفحہ بہ کا نما "THE NEW CENTURY CYCLOPEDIA OF NAMES” CLARENCE L.BARNBART VOLUME I 1954 P.1399.۳۳.احکم ۱۰ کو تو میرا ۱۹۰ء صفحہ کا کم ۲۰۱ ۳۴ اصحاب احمد " جلد دوم صفحه ۱۳۷۵ ڈائری حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان) احکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ کالم ۳ ۳.احکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۴ کالم ہو ۱۷ ۳۷- احکام ۱۰ / اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ کالم ۱۴۳ حکم ۷ از اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ اکالم ۱ ۳۸- احکام ۲۴/ نومبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱- ۳ ۱ حکم ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ا کالم.۲ الحکم ۱۷ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ.۱۴ الحکم ۲۳ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱.۳ ۳۹- وفات ۲۳ جون ۶۱۹۳۰ عمر ۷۵ سال.حضرت خلیفہ المی الثانی ایدہ اللہ تعالی کے خسرادر جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حال ناظر امور خارجہ کے والد ماجد ۱۹۲۰۱ء میں پنشن لینے کے بعد :: یان میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی.نہایت مخلص صحابی ، صاحب کشف و الہام اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے ان کے بعض ایمان افروز واقعات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۱۳ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳-۴) ۴۰ ولادت اند از ا۱۸۷۷ ء وفات ۱۷/ جنوری ۱۹۴۵ء پہلی بار ۱۹۰۳ میں قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کی.۱۹۲۳ء میں مستقل طور پر قادیان ہجرت کر کے آگئے اور یہاں وفات تک پہلے آڈیٹر اور پھر محاسب کے عہدے پر فائز رہے.دہلی میں انتقال ہوا اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن ہونے کی سعادت پائی (الفضل ۲۹-۳۰/ مارچ ۱۹۴۵ء)

Page 217

تاریخ احمدیت جلد ۲ تعریف نبوت میں تبدیلی ولادت ۱۸۷۲ء حضرت مسیح موجود علیہ السلام کے ایک بے نفس فدائی.جن کی عمر سلسلہ احمدیہ کی مالی اور انتظامی خدمت میں گزری.تعمیر منارۃ المسیح کی تحریک میں آپ کو اور آپ کی اہلیہ صاحبہ دونوں کو شرکت کی سعادت حاصل ہوئی.آپ موصی بھی تھے اور تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے سپاہی بھی "بدر " اور " شمعید الاذہان " میں متعدد مضامین لکھنے کے علاوہ بعض رسائل بھی تالیف کئے مثلا گوشت خوری انتخاب خلافت قدامت روح و ماده و تاریخ - اصول قرآن نہی.کیا اسلام بذریعہ تبلیغ پھیلایا یا بذریعہ شمشیر ۱۹۳۲ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.۱۹۳۴ء میں حج کیا.۷ / اگست ۱۹۵۸ء کو وفات پائی ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " اصحاب احمد " جلد سوم طبع دوم - متولقہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) ۲.ان مجاہدین کی صف اول میں تھے جنہوں نے اندرون ملک کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں تبلیغ اشاعت اسلام کی توفیق پائی.قادیان آنے سے قبل کپور تھلہ میں سکول ماسٹر تھے مگر بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقناطیسی محبت آپ کو بھینچ کر بالاخر دیار حبیب میں لے آئی اور آپ ستمبر 1904ء سے قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے.ابتداء آپ مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے استاد مقرر ہوئے اور کئی سال تک نہایت اخلاص ومحنت سے یہ خدمت سرانجام دی.۱۵/ جولائی 1919ء کو چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے انگلستان روانہ ہوئے.انگلستان میں کئی ماہ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد آپ کو افریقہ بھیجوایا گیا.۲۱/ فروری ۱۹۱۳ء کو آپ نے ساحل افریقہ پر قدم رکھا اور سب سے پہلے میرالیون اور مغربی افریقہ کے دوسرے علاقوں میں پہنچے آپ کو حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوئی اور ہزاروں افریقی حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ایک سال تک نائیجریا ٹھہرنے کے بعد آپ کو دوبارہ انگلستان بھیجوا دیا گیا جہاں سے آپ ۱۹۲۴ء کے آخر میں حضرت فضل عمر ایدہ اللہ تعالٰی کی رفاقت میں بائیل و مرام واپس آگئے.انگلستان سے واپسی کے بعد آپ نے پانچ سال تک دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں بھوپال اور حیدر آباد میں خدمت سر انجام دیں.۱۹۴۷ء کے فسادات کے بعد آپ گوجرانوالہ میں پناہ گزین ہو گئے اور اسی مقام پر ۱۷/ تمبر ۱۹۴۸ء کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے.۴۳- ولادت ۱۸۸۳ء حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیرے ان کے دیرینہ تعلقات تھے اور انہی کی تلقین و تحریک سے داخل سلسلہ ہوئے.جس زمانہ میں قادیان تک ریل نہیں گئی تھی متعددا کا بر سلسلہ بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول بھی بعض اوقات آپ کے یہاں (مالہ میں قیام فرماتے تھے.مدرسہ احمدیہ میں برسوں تک نہایت محنت اور خلوص سے دری کے فرائض سر انجام دیتے رہے.خدمت خلق آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.قادیان کی لوکل کمیٹی کے صدر بھی رہے.جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان کے اندرون شہر کا قریباً سارا انتظام بطور ناظم جلسہ آپ کے سپرد ہو تا تھا.دیگر اہم قومی خدمات بھی بجا لانے کا آپ کو موقعہ طا.۲۰/ اگست ۱۹۵۰ء کو بمقام لائلپور انتقال فرمایا اور ربوہ میں موصیوں کے قبرستان میں امانتا سپرد خاک ہوئے.(الفضل ۲۶/ ستمبر۱۹۵۰ء صفحہ ۶.۷) -۲۴ ولادت ۲۰ مئی ۱۸۸۱ء احمدیت کی آواز آپ تک حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے پہنچائی اور اس کی صداقت کا انکشافی بذریعہ رویا ہوا.آپ موصی بھی تھے اور تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہد بھی.علاوہ ازیں آپ کو سلسلہ کی متعدد خدمات کی توفیق ملی.۱۹۳۵ء میں پنشن لے کر قادیان آگئے اور آخر دم تک جماعتی کاموں کے لئے وقف رہے سلسلہ کا لٹریچر بڑے اہتمام سے رکھتے تھے.اور تبلیغ کا خاص ذوق و شوق تھا.۳/ مئی ۱۹۵۳ء کو آپ کا انتقال ہوا.ربوہ کے مقبرہ خاص کے قطعہ صحابہ میں آپ کا مزار مبارک ہے.مولوی عبدالرحمن صاحب انور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے پرائیویٹ سیکرٹری اور مولوی قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ آپ ہی کے فرزند ہیں.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو "اصحاب احمد " جلد ہفتم صفحہ ۶۷ - ۳۱۸) ۴۵ ولادت ۱۴ دسمبر ۱۸۸۱ء وطن مالوف لاہور.شروع ۱۹۰۳ء میں مستقل ہجرت کر کے قادیان آگئے.۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک وقف زندگی پر جن بزرگوں نے لبیک کسی ان میں آپ بھی شامل ہیں مئی ۱۹۱۴ ء سے جنوری ۱۹۲۱ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ہیڈ ماسٹر رہے.جنوری ۱۹۲۳ء سے دسمبر ۱۹۲۵ء تک امریکہ میں تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دیئے.۱۹۲۷ء سے ۱۹۴۰ء تک دوبارہ ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے تعلیم الاسلام ہائی اسکول قادیان کی خدمات بھی بجالائے.۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک گرلز ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر رہے اور اب ناظر تعلیم کے عہدہ پر فائز ہیں.مولوی صاحب

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد ۲ موصوف ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ان دنوں بیت المال ربوہ میں خدمت سلسلہ بجانا رہے ہیں.تعریف نہریت میں تبدیلی ۴۶ وزارت ۱۸۸۷ء بیعت 1901ء ہجرت قادیان ۱۷.1974 ء مدرسہ احمدیہ میں سالہا سال تک عربی کے مدرس رہے.1919ء میں جب صدر انجمن احمد یہ میں نظار توں کا قیام عمل میں آیا تو آپ ناعم قضاء مقرر ہوئے.سلسلہ کے مشیر قانونی کی حیثیت ہے عرصہ تک کام کرنے کی توفیق ملی.آپ کی مشہور تصنیفات یہ ہیں.جماعت مبائین کے عقائد صحیحہ.نعم الوکیل - التشریح صحیح جواب کلمہ فضل رحمانی.بہائی مذہب کی حقیقت.۲۹.ہجرت /مئی ۱۳۴۷ ش ۱۹۶۸ء کو آپ کا انتقال ہوا.ولادت ۱۸۸۲ء بیعت کے بعد ۱۹۰۳ء میں چند دن تک مدرسہ تعلیم الاسلام کی ایک کلاس میں تعلیم دی جس کی بدولت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی کلاس کے معلم ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا.بعدہ کئی ماہ تک ریویو آف ریلیجز کے تناء انچارج کلرک رہے.پٹنہ ہائی کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ میں جب علی الترتیب احمدیہ مسجد مو کھیر اور احمدی کے تلخ نکاح کے مقدمات دائر تھے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کامیاب وکالت کی تو آپ نے ضروری مواد کی فراہمی میں بڑا کام کیا.ان ہر دو مقدمات میں جماعت احمدیہ کو کامیابی حاصل ہوئی.۱۹۲۴ء میں علاقہ ملکانہ میں تین ماہ تک تبلیغی جہاد کیا.۱۹۰۶ء سے ۱۹۴۶ء تک آپ مو سکھیر کے راجہ صاحبان کی ملازمت میں رہے.مگر جہاں گئے اسلام واحمدیت کی تبلیغ میں مصروف رہے.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے ہیں.حضرت مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری کی وفات کے بعد سال ہا سال تک امیر جماعت احمدیہ بہار رہے مگر اب کئی سال سے ہوجہ پیرانہ سالی سبکدوش ہو گئے ہیں (الحکم ۱۷ / فروری 1901ء صفحہ ۸ پر آپ کی بیعت درج ہے).وفات یکم مئی ۱۹۷۵ء.۴۸- الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۱ صفحه ۴

Page 219

تاریخ احمد بہت جلد ۲ ٢٠٢ رسالہ "ریویو آف ریلیجنز اور کا اجراء مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا اجر

Page 220

تاریخ احمد یسته - جلد ۲ ۲۰۳ " کا اجراء رسالہ ریویو " ماموریت کا اکیسواں سال اور ریویو آف ریلیجنه " ( اردو اور انگریزی) کا اجراء (۱۹۰۲ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (۱۹۰۱ء) میں جس رسالہ " ریویو آف ریلیجز کی تجویز فرمائی تھی وہ مولوی محمد علی صاحب کی ادارت میں انگریزی " اور "اردو" ہر دو زبان میں جنوری ۱۹۰۲ء سے جاری ہو گیا.انگریزی رسالہ تو ابتداء سے کچھ عرصہ تک لاہور میں ہی شائع ہوتا رہا مگر اردو ایڈیشن کا پہلا پرچہ لاہور کے مطبع فیض عام لاہور میں چھپا.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے انوار احمدیہ پریس قادیان میں طبع ہونے لگا." ریویو" کا اندرون ملک اور مغربی ممالک پر اثر شروع شروع میں رسالہ کے اکثر اردو مضامین حضور ہی کے لکھے ہوتے تھے اور بعض مضامین کے متعلق نوٹ لکھا کر راہنمائی فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی روحانی توجہ کی بدولت رسالہ کو اندرون ملک میں ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی.اندرون ملک میں پہلے ہی سال اس سے متاثر ہو کر کئی سعید روحوں نے حق قبول کیا بلکہ مدراس کے ایک ہندو دوست رسالہ کا اپنی زبان میں ترجمہ سن کر حضرت اقدس کی زیارت کے شوق میں قادیان بھی پہنچے.علاوہ ازیں ملک کے اسلامی اخبارات نے اس پر تبصرے لکھے چنانچہ رسالہ "البيان" (لکھنو) نے لکھا ریویو آف ریلیجز ہی ایک ایسا پرچہ ہے جس کو خالص اسلامی پرچہ کہنا صحیح ہے.ہم نے اس کے کئی نمبر دیکھے اور ہم کو اس امر کے ظاہر کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ عربی میں "المنار " اور اردو میں ریویو آف ریلیجز " سے بہتر پرچے کسی زبان میں شائع نہیں ہوتے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہیے کہ

Page 221

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۰۴ ہندوستان میں ایک ایسار سالہ نکل رہا ہے جس کے زور دار مضامین پر علم و فضل کو ناز ہے." پھر لکھا کہ : " ہندستان کا بہترین اسلامی میگزین ہے".لکھا.رسائل کے علاوہ عوام نے بھی اس رسالہ کا بڑا خیر مقدم کیا.چنانچہ مسٹر میکلین (پالم پور) نے " مجھے اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے تیرہ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے.مگر اب تک میں نے ایک بھی ایسی کتاب نہیں پڑھی جس میں اسلام کی حمایت اس قدر زور کے ساتھ کی گئی ہو جیسا کہ آپ کے شاندار پرچے میں." اخبار "لمت " لاہور نے لکھا:.te اب تک جتنے اعلیٰ اور بے نظیر مضامین رسالہ ریویو آف ریلیجز کے ذریعہ مرزا صاحب کے اصول مناظرہ کے مطابق یوروپین لوگوں کی نظروں سے گزرے ہیں انہوں نے یورپ کی مذہبی دنیا میں پانچل مچادی ہے اور پادریوں کے گروہ ماتم زدہ نظر آرہے ہیں.ان مضامین نے کثیر التعدادیو روبین لوگوں کو اسلام کے روحانی چشمہ سے سیراب کر دیا ہے اور ابھی اس کا فیض جاری ہے." مغربی ملکوں میں جن تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے یہ رسالہ جاری ہو ا تھا تین رنگ میں اس کا اثر ظاہر ہوا پہلا اثر یہ ہوا کہ یورپ اور امریکہ کے نو مسلم انگریزوں میں اسلام کے لئے نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا.اور قبل ازیں جو اپنے تئیں تنہا مجھے بیٹھے تھے اب دلائل و براہین کی تازہ کمک پہنچنے پر ان کے حوصلے یکا یک بلند ہو گئے اور انہوں نے اشاعت اسلام کی مہم تیز سے تیز تر کر دی.اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں چند نو مسلموں کی آراء درج کی جاتی ہیں.- اخبار "کرینٹ" (لور پول) انگلستان کے مشہور اسلامی پرچہ نے اس رسالہ پر ریویو کرتے ہوئے ۱۳/ تمبر ۱۹۰۳ء کے ایشوع میں لکھا.ریویو آف ریلیج " کا پرچہ دلچسپ مضامین سے بھرا ہوا ہے.ہمارے نبی ﷺ کی ذات پاک کے متعلق جو جاہل عیسائی الزام لگایا کرتے ہیں ان کی تردید میں ایک نہایت ہی فاضلانہ مضمون اس میں لکھا گیا ہے جس سے عمدہ مضمون آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا." (ترجمہ) " ۲.امریکہ کے پہلے تو مسلم محمد الگزنڈر رسل وب (امریکہ) نے لکھا:.میں یقین کرتا ہوں کہ یہ رسالہ دنیا میں مذہبی خیال کو ایک خاص صورت دینے کے لئے ایک نہایت زیر دست طاقت ہو گی اور یہ بھی یقین کرتا ہوں کہ آخر کار یہی رسالہ ان روکوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہو گا جو جہالت سے سچائی کی راہ پر ڈالی گئی ہیں." (ترجمہ)

Page 222

تاریخ احمدیت جلد ۲ رسالہ ریویو آف ریلیج " کا اجراء شیخ عبد اللہ کو فیلم (لور پول) نے لکھا:.میں ریویو آف ریلیجز کو پڑھ کر بہت ہی خوش ہوتا ہوں اور اس مقدس مذہب کی تائید میں اسے ایک نہایت ہی قیمتی تحریر سمجھتا ہوں." (ترجمہ) دو سرا اثر مغربی ملکوں پر یہ ہوا کہ وہاں چوٹی کے غیر مسلم مفکروں اور ادیبوں تک اسلام کا پیغام پہنچا.ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور وہ اسلامی نظریات کے قریب آگئے اور انہیں اسلام کی صحیح تصویر سمجھنے میں کافی مدد ملی.مغرب میں اسلام کے لئے جو ایک شاندار فضا بدلی ہے اس میں اس رسالے کا بھی نمایاں حصہ ہے.چنانچہ مسٹر اے.آر.رب نے امریکہ سے لکھا:.اس رسالہ کے مضامین روحانی صداقتوں کی نہایت پر حکمت اور روشن تفسیر ہیں." کونٹ ٹالسٹائے نے روس سے لکھا:.اس رسالہ کے خیالات بڑے وزنی اور بچے ہیں." پروفیسر ہا شما ایڈیٹر ” انسائیکلو پیڈیا آف اسلام" نے لکھا " یہ رسالہ از حد دلچسپ ہے." ریویو آف ریویوز لندن نے لکھا:.یورپ اور امریکہ کے وہ لوگ جو محمد ) کے مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ یہ رسالہ ضرور منگا ئیں".ریویو آف ریلیج " کا تیسرا اثر یہ ہوا کہ اس نے عیسائیت کے علمبرداروں میں ایک غیر معمولی جنبش پیدا کر دی.چنانچہ انگلستان کے اخبار "چرچ فیملی (CHURCH FAMILY)" نے لکھا کہ مرزا غلام احمد صاحب کے پیدا کردہ لٹریچر کا جواب نہ دیا جائے وہ عیسویت کے خلاف ایسا حربہ لٹریچر کی شکل میں پیدا کر دیں گے کہ بائبل کا صفایا ہو جائے گا.man حضرت مسیح موعود کی طرف سے رسالہ کے بین الاقوامی اثر و نفوذ اور شہرت و اہمیت کے پیش نظر حضرت اقدس نے اگلے سال ریویو آف ریلیجن" کے بارے میں پیغام کے وسط میں جماعت کے نام ایک پیغام دیا کہ اصل غرض خدا تعالی کی میرے بھیجنے سے یہی ہے کہ جو جو غلطیاں اور گمراہیاں عیسائی مذہب نے پھیلائی ہیں ان کو دور کر کے دنیا کے عام لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جاوے اور اس غرض مذکورہ بالا کو جسکو دوسرے لفظوں میں احادیث صحیحہ میں کسر صلیب کے نام سے یاد کیا گیا ہے پورا کیا جائے.اس لئے اور انہی اغراض کے پورا کرنے کے لئے رسالہ انگریزی جاری کیا گیا ہے جس کا شیوع یعنی

Page 223

تاریخ احمدیت جلد ۲ شائع ہونا امریکہ اور یورپ کے اکثر حصوں میں بخوبی مفید ثابت ہو چکا ہے اور بہت سے دلوں پر اثر ہونا شروع ہو گیا ہے بلکہ امید سے زیادہ اس رسالہ کی شہرت ہو چکی ہے اور لوگ نہایت سرگرم شوق سے اس رسالہ کے منتظر پائے جاتے ہیں.لیکن اب تک اس رسالہ کے شائع کرنے کے لئے مستقل سرمایہ کا انتظام کافی نہیں.اگر خدانخواستہ یہ رسالہ کم توجہی اس جماعت سے بند ہو گیا تو یہ واقعہ اس سلسلہ کے لئے ایک ماتم ہو گا.اس لئے میں پورے زور کے ساتھ اپنی جماعت کے مخلص جواں مردوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رسالہ کی اعانت اور مالی امداد میں جہاں تک ان سے ممکن ہے اپنی ہمت دکھلا دیں." " جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میرے منشاء کے مطابق میری اغراض میں مدد دے گا امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہو گا.پھر بعد اس کے وہ وقت آجائے گا کہ اگر ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے ایک پیسہ کے برابر نہیں ہو گا.یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کی صد ہا سال سے امتیں انتظار کر رہی تھیں.اور ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہو رہی ہے اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا کہ واقعی اور حقیقی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا." پھر آگے چل کر فرماتے ہیں :."اگر اس رسالہ کی اعانت کے لئے اس جماعت میں دس ہزار خریدار اردو یا انگریزی کا پیدا ہو جائے تو رسالہ خاطر خواہ چل نکلے گا.اور میری دانست میں اگر بیعت کرنے والے اپنی بیعت کی حقیقت پر قائم رہ کر اس بارے میں کوشش کریں تو اس قدر تعداد کچھ بہت نہیں بلکہ جماعت موجودہ کی تعداد بہت کم ہے.سواے جماعت کے بچے مخلصو اخداوند تمہارے ساتھ ہو.تم اس کام کے لئے ہمت کرو.خدا تعالیٰ آپ تمہارے دلوں میں القاء کرے کہ یہی وہ وقت ہمت کا ہے." مخلصین کالبیک حضرت اقدس کی اس تحریک پر جماعت کے بعض مخلصین نے اگر چہ اصل مسودہ ہی کو دیکھ کر تعمیل حکم میں بڑی سرگرمی دکھلائی لیکن افسوس کہ حضرت اقدس کا یہ منشاء کہ اس کا حلقہ اشاعت دس ہزار تک پہنچ جانا چاہئے ابھی تک پورا نہیں ہو سکا.جماعت کی تعداد اب پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ وہ حضور کی اس خواہش کو پورا کرے.(الحمد للہ کہ خلافت رابعہ کے بابرکت دور میں یہ منشاء مبارک پورا ہو تا صاف دکھائی دے رہا ہے).

Page 224

تاریخ احمدیت جلد ۲ رسال وافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء" کی تصنیف و اشاعت اجراء اس سال سے طاعون کا زور ملک میں بڑھتا جا رہا تھا بلکہ خود قادیان کے باہر ماحول میں اس کی بکثرت واردات شروع ہو چکی تھیں چنانچہ حضور نے ۳/ اپریل ۱۹۰۲ء کو ایک خط میں اسی حالت کا نقشہ کھنچتے ہوئے سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کو لکھا اسوقت قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے.قریبا دو کوس کے فاصلہ پر اور قادیان اس وقت ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے ارد گرد سخت طوفان ہو اور وہ دریا میں چل رہی ہے.ہر ایک ہفتہ میں شاید میں ہزار کے قریب آدمی مرجاتا ہے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہل ملک کو طاعون سے بچانے کے لئے اپریل ۱۹۰۲ ء میں ” رافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء" کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں منور نے اپنے الہامات کی روشنی میں طاعون کا روحانی پس منظر بیان کرتے ہوئے خبر دی کہ طاعون آپ کی مخالفت کے باعث نمودار ہوئی ہے جو اس حالت میں فرو ہوگی جبکہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کرلیں گے اور کم سے کم یہ کہ شرارت اور ایڈا اور بد زبانی سے باز آجائیں گے نیز یہ کہ خدا تعالی بهر حال جب تک طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لئے نشان ہے.مذہبی لیڈروں کو چیلنج اس رسالہ میں حضرت اقدس نے " الدار " کی خصوصی اور قادیان کی عمومی حفاظت کا ذکر کر کے ہندوستان کے تمام مذہبی لیڈروں کو مخاطب کر کے لکھا کہ ”خدا نے سبقت کر کے اپنی طرف سے قادیان کا نام لے دیا ہے.اب اگر آریہ لوگ دید کو سچا سمجھتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ بنارس کی نسبت جو دید کے درس کا اصل مقام ہے ایک پیشگوئی کر دیں کہ ان کا پر میشر بنارس کو طاعون سے بچالے گا.اور سناتن دھرم والوں کو چاہیے کہ کسی ایسے شہر کی نسبت جس میں گائیاں بہت ہوں مثلاً امر تسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ گنو کے طفیل اس میں ماعون نہیں آئے گی..اسی طرح عیسائیوں کو چاہیے کہ کلکتہ کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ اس میں طاعون نہیں پڑے گی.کیونکہ بڑا بشپ برٹش انڈیا کا کلکتہ میں رہتا ہے.اس طرح میاں شمس الدین اور ان کی انجمن حمایت اسلام کے ممبروں کو چاہیے کہ لاہور کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا.اور منشی الہی بخش اکا ؤننٹ جو الہام کا دعوی کرتے ہیں ان کے لئے بھی یہی موقع ہے کہ اپنے الہام سے لاہور کی نسبت پیشگوئی کر کے انجمن حمایت اسلام کو مدد دیں اور مناسب ہے کہ

Page 225

تاریخ احمد بہت جلد ۲ ۲۰۸ رساله " ریویو عبد الجبار اور عبد الخالق شہر امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں.اور چونکہ فرقہ وہابیہ کی اصل جڑ دلی ہے اس لئے مناسب ہے کہ نذیر حسین اور محمد حسین دلی کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا." اس کے ساتھ ہی حضور نے نہایت پر شوکت الفاظ میں یہ اعلان بھی فرمایا " ہر ایک مخالف خواہ وہ امرد ہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں اگر وہ قسم کھا کے کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالی کے مقابل پر گستاخی کی." حضور کے اس چیلنج پر آپ کے مخالفین میں سے خواہ وہ کسی فرقہ یا طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں کسی کو بھی یہ جرات نہ ہو سکی کہ وہ یہ تجویز قبول کر کے اس قسم کا اعلان کرتا.السید محمد رشید رضا کو عربی میں مقابلہ کا چیلنج اور الہدی والتبصرة لمن بری" کی تصنیف و اشاعت مفتی محمد عبده " شیخ الاسلام" کے ایک نامور شاگر د السید محمد رشید رضا (۱۸۶۸- ۱۹۳۵) تھے جن کی ادارت میں مصر کا مشہور رسالہ "المنار" شائع ہو تا تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصر میں جہاں اور علماء اور صحافیوں کو "اعجاز المسیح" کے چند نسخے ارسال کئے وہاں السید محمد رشید رضا کو بھی ایک نسخہ بھیجوایا تھا.قاہرہ کے اخبار " مناظر " اور "ہلال " نے تو اس کی فصاحت و بلاغت کی بہت تعریف کی اور اسے ایک اعجازی تصنیف قرار دیا.مگر السید محمد رشید رضا صرف اس وجہ سے کہ اس میں حضور نے "جہاد" کا صحیح نظریہ مسلمانوں کے سامنے رکھا تھا.سخت کلامی پر اتر آئے اور لکھا کہ اس میں باطنیہ اور متصوفہ کا مسلک اختیار کیا گیا ہے اور کتاب میں تفسیر کا نام ونشان نہیں.نیز لکھا کہ اگر یہ شخص مسیح ہونے کا دعویٰ نہ کرتا اور سورہ فاتحہ کے الفاظ میں تحریف نہ کرتا تو یہ تفسیر مسلمانوں میں بڑی مقبول ہوتی.یہ شخص علم و فصاحت میں بہت سے مشائخ سے بڑھا ہوا ہے صرف مریدوں کی کثرت نے اسے دھو کہ میں ڈال دیا ہے حالانکہ اس کے کلام سے مجمعیت ٹپکتی ہے اور بہت سی باتیں عربی محاورات کے بھی خلاف ہیں.ستر دن کی معیاد میں جواب لکھنے کا جو چیلنج حضور نے اس میں دیا تھا اس کے بارے میں انہوں نے یہ تعلی کی کہ ان کثیرا من اهل العلم يستطيعون ان يكتبوا خيرا منه في سبعة ايام " یعنی بہت سے علماء اس سے بہتر رسالہ سات دن میں لکھ سکتے

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رساله کا اجراء ہیں."المنار" کا یہ پرچہ آپ کے مخالف علماء کو ہاتھ آگیا اور انہوں نے اپنی طرف سے مزید حاشیہ آرائی کر کے اسے راولپنڈی کے اخبار ”چودھویں صدی میں شائع کرا دیا جس پر حضور علیہ السلام نے علماء پر واضح کرنے کے لئے کہ جس شخص پر ان کو ناز ہے اس کو علم وادب میں کہاں تک دخل ہے.الهدى والتَّبْصَرَةُ لِمَنْ يَری" کے نام سے فصیح و بلیغ عربی میں ایک تصنیف فرمائی جو ۱۲ / جون ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی.الهُدَى وَالتَّبْصَرَةُ لِمَنْ يَری میں حضور نے اسلام کے اندرونی اور بیرونی فتنوں کا مفصل نقشہ کھنچتے ہوئے ان کا حقیقی علاج تجویز فرمایا اور صاحب "المنار" کو مخاطب کر کے لکھا."وفقتُ لتاليفِ ذَالِكَ الْكِتَابِ فَسَأَرْسِلُهُ بَعْدَ الطَّبْعِ وَتَحْمِيلِ الْأَبْوَابِ فَإِنْ أَنَّى بِالْجَوَابِ الْحَسَنِ وَاحْسَنَ الرَّةِ عَلَيْهِ فَاحْرِقُ كُتُبِى وَاقَبلُ قَدَمَيْهِ وَ أَعْلِقُ بِذَيْلِهِ وَاكِيلُ النَّاسَ بكَيله - - یعنی میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور اس نے میری دعا قبول فرمائی اور اس کی جناب سے مجھے یہ کتاب لکھنے کی توفیق عطا ہوئی پس میں اس کے ابواب کی تکمیل اور طبع کے بعد شیخ رشید رضا کے پاس بھیجوں گا.اگر انہوں نے اچھا جواب دیا اور عمدگی سے اس کا رد لکھدیا تو میں اپنی تمام کتابیں جلادوں گا ان کے پاؤں کو بوسہ دوں گا ان کے دامن سے وابستہ ہو جاؤں گا اور باقی لوگوں کو بھی اس کے پیمانے سے مایوں گا.ساتھ ہی یہ پینگوئی فرمائی کہ آلَم لَهُ فِي البَرَاعَةِ يَدْطُولَى سَيُهِنَّ فَلَا يَرَى نَبَا مِنَ اللَّهِ الَّذِي يَعْلَمُ السّرَ وَاخْفى - " یعنی کیا انہیں فصاحت و بلاغت میں بڑا کمال حاصل ہے عنقریب میدان مقابلہ سے ہٹ جائیں گے.یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جو نہاں در نہاں امور سے آگاہ ہے.جب کتاب شائع ہوئی تو حضور نے اس کا ایک نسخہ رشید رضا صاحب کو بھی ہدستہ بھجوایا.انہوں نے اعجاز المسیح" کے متعلق تو لکھ دیا تھا کہ سات دن میں اس کا جواب لکھا جا سکتا ہے مگر اب جو الہدی " میں براہ راست ان کو مخاطب کیا گیا اور کسی مدت کی تعین کئے بغیر اس کا جواب طلب کیا گیا تھا تو ان پر بالکل سکوت طاری ہو گیا.وہ اس کے بعد تینتیس برس تک زندہ رہے.اس دوران میں انہوں نے متعدد تصانیف بھی کیں اور اپنا ر سالہ بھی جاری رکھا.جماعت احمدیہ کے بعض مبلغین نے ان کو ان کی وفات سے پانچ برس پہلے بھی یاد دہانی کرائی کہ وہ الہدی " کے مقابلہ میں کتاب لکھ کر اس پیشگوئی کو باطل ثابت کر دکھا ئیں مگر اس کے باوجو دوہ آخر دم تک جواب نہ شائع کر سکے.12

Page 227

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۱۰ "نزول المسیح" کی تصنیف ن رساله " ریویو کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارادہ تھا کہ آپ ایک ایسی کتاب تصنیف فرما ئیں جس میں آپ کے علم کلام اور لٹریچر کا جامع خلاصہ آجائے.اس غرض کے لئے حضور نے " نزول المسیح " جیسی معركته الاراء تصنیف شروع فرمائی جسمیں علاوہ متعدد لطیف نکات و معارف کے الہام رحمانی کی گیارہ فیصلہ کن نشانیاں تحریر فرمانے کے بعد اپنے الہامات میں سے بطور نمونہ ۱۲۳ پیشگوئیوں کا مفصل ذکر کیا جو پوری ہو ئیں اور جن کے گواہ سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے.اس کتاب میں حضور نے پہلی دفعہ مولوی کرم دین صاحب ساکن بھین کی خط و کتابت درج فرمائی جس سے یہ انکشاف ہو تا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے مولوی محمد حسن صاحب فیضی کے مضمون کا سرقہ کیا ہے.یہ کتاب ابھی زیر طبع تھی کہ اس کا ایک نسخہ کسی ذریعہ سے مولوی کرم دین صاحب کو پہنچ گیا جس پر انہوں نے عدالت میں مقدمہ وائر کر دیا کہ اس کتاب میں جو میرے خطوط درج ہیں وہ جعلی ہیں بعض دوسری تصنیفات ؟ مصروفیات کے باعث " نزول المسیح" کی تصنیف مکمل نہ ہو سکی اور یہ کتاب حضور کی وفات کے بعد اگست ۱۹۰۹ ء میں شائع ہوئی.جماعتی چندوں کے لئے ایک نظام کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب سے زیادہ اس فکر میں رہتے تھے کہ حق کے طالبوں کا ایک ! گروہ ہمیشہ آپ کے پاس رہے اور دو رو نزدیک سے لوگ آکر رہیں اور اپنے شبہات کا ازالہ کریں اور خدا کی راہ آپ سے سیکھیں.نیز جو کچھ آپ کتاب یا اشتہار کی شکل میں لکھیں وہ شائع ہو.اگر چہ یہ سلسلہ اب تک با قاعدگی سے جاری تھا.اور اس کے لئے جماعت کے مخلصین اپنی مرضی سے حسب توفیق بوجھ اٹھاتے آرہے تھے لیکن اب چونکہ تنہاء لنگر خانے کا خرچ آٹھ سو ماہوار تک پہنچ چکا تھا اور رسہ تعلیم الاسلام اور میگزین (ریویو آف ریلیجنز ) کے اجراء سے جماعت پر مزید ذمہ داریاں عائد ہو چکی تھیں اس لئے وقت آگیا تھا کہ جماعتی چندوں کی فراہمی کے لئے ایک نظام قائم کیا جائے.لہذا حضرت اقدس نے ۵ / مارچ ۱۹۰۲ء کو بذریعہ اشتہار ہدایت فرمائی کہ ہر ایک احمدی لنگر خانہ اور مدرسہ کی ضروریات کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق ماہوار چندہ اپنے پر مقرر کر کے مولوی عبد الکریم صاحب کو اطلاع دے.ان لازمی چندوں کے علاوہ زکوۃ اور صدقات کی رقوم کے متعلق بھی آپ نے |

Page 228

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٢١١ رسالہ " ریویو آن " کا اجراء ارشاد فرمایا کہ وہ ہر ماہ یہاں آنی چاہئیں.اس اشتہار میں (جسے جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے لئے سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے) حضور نے اس نئے نظام کی اہمیت واضح کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہیے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری چندہ مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ.اور جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں نہیں رہ سکے گا.اس اشتہار کے شائع ہونے سے تین ماہ بعد تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے.اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا." اس اشتہار کے نتیجہ میں لنگر خانہ اور میگزین کے لئے ذرا با قاعدگی سے چندہ فراہم ہونا شروع ہو گیا اور کئی دوستوں نے سرگرمی دکھلائی خصوصاً صوبہ پنجاب کی احمدی جماعتوں نے ایسا نمایاں حصہ لیا کہ حضور نے بھی بہت تعریف فرمائی.TA

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسال حواشی سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۸ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب."حیات احمد " جلد پنجم صفحہ ۳۹ حالات ۲.۱۹۹۱ء) حضور کے ان مضامین کے علاوہ وہ جو پہلی دفعہ اس رسالہ میں شائع ہوئے.آپ کی متعدد تصانیف کے متن یا تراجم بھی اس میں چھپے مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی - کشتی نوح.لیکچر لاہور.نیم دعوت.تذکرۃ الشہاد تین.الوصیت البدر ۲۱۳ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۹ رساله البیان جلد ۴ نمبر۵ صفحه ۲۲ بحوالہ " ریویو آف ریلیجز "اردو دسمبر ۱۹۰۵ء ٹائٹل صفحه ۲) رساله " البیان جلد ۵ صفحه ۲۶۰ - بحوالہ ریویو آف ریلیجه " (اردو) د سمبر ۱۹۰۵ء سرورق.بحوالہ الحکم ۷ / جنوری 1911ء صفحہ ۱۴ ریویو آف ریلیجر " (اردو) سرورق ۱۹۰۵ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۱۹ بحوالہ "حیات احمد " جلد پنجم (حالات ۲ - ۱۹۰۱ء) - مولوی محمد علی صاحب ۱۹۱۳ء تک رسالہ کے اردو اور انگریزی ایڈیشنوں کے ایڈیٹر رہے.ان کے بعد ۱۹۴۷ء تک ریویو آف ریلیجز " انگریزی کی ادارت کے فرائض مندرجہ ذیل حضرات نے سر انجام دیے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب مولوی محمد دین صاحب مولوی عبد الرحیم صاحب درد.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے.صوفی عبد القدیر صاحب نیاز چوہدری علی محمد صاحب بی.اے.بی.ٹی.تقسیم ہند کے بعد اس رسالہ کا دوبارہ احیاء ربوہ میں دسمبر ۱۹۵۱ء میں ہوا اور اس کے ایڈیٹر صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مقرر ہوئے.آپ کی وفات کے بعد چوہدری مظفرالدین صاحب اس کے مدیر ہوئے.۱۹۹۰ء میں مکرم سید داؤد احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ اس کے منیجنگ ایڈیٹر بنے.جولائی ۱۹۶۲ء سے جناب سید صاحب موصوف اور جناب صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ادارت کے فرائض بجالا رہے ہیں.(خلافت رابعہ کے عہد مبارک میں اب یہ رسالہ لنڈن سے چھپ رہا ہے) ریویو آف ریلیجہ اردو میں ۱۹۴۷ء تک جن اصحاب نے وقتا فوقتا یہ فریضہ ادا کیا ان کے نام یہ ہیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مولوی محمد دین صاحب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل.نذیر احمد صاحب افریقی.نور الدین صاحب بی.اے.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی.مولوی علی محمد صاحب اجمیری.ملک محمد عبد اللہ صاحب.ملک غلام فرید صاحب.صوفی عبد القدیر صاحب نیاز.چوہدری علی محمد صاحب بی.اے.بی.ٹی.رحمت اللہ خاں صاحب شاکر.ستمبر۷ ۱۹۴ء سے ریویو اردو بند ہو چکا ہے اور ابھی تک اس کا اجراء نہیں ہوا.الحکم ۳۰/ تمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۱۹-۲۰ الحکم ۳۰/ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹-۲۰ ۱۳ مکتوبات احمد یہ جلد حصہ اول صفحہ ۳۲ ۱۴ واقع البلاء و معیار اہل الاصطفاء " ( طبع اول صفحہ ۱۰) وافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء " ( طبع اول) صفحه ۱۸ -11.| السید محمد رشید رضا کی وفات پر علمائے ہند نے لکھا تھا." علامہ ابن تیمیہ کے بعد آج تک کسی مسلمان عالم نے مرحوم کے برابر دین کی خدمت نہیں کی."علامہ رشید رضا علم کے بحر ذخار تھے.تفسیر حدیث اور فقہ کے امام تھے اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتے تھے وہ قول فیصل کا حکم رکھتا تھا.آپ تمام دنیائے اسلام کے محترم تھے یہاں تک کہ سلطان ابن سعود آپ کو امام اور پیشوا کہہ کر

Page 230

جلد ۲ FIF رسالہ ریویو آف ریلیجہ " کا اجراء خطاب کرتے تھے.(رسالہ "ایمان پٹی ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۵ بحوالہ "الفضل ۲۹۴اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۴) ۱۷ بحوالہ " تبلیغ رسالت " جلد دہم صفحہ ۲۷ ۱۸ بحوالہ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۲۷ ۱۹- رسالہ " المنار " جلد ۴ صفحه ۵۴۵٬۴۶۵ ۲۰ رسالہ "المنار " جلد ۴ صفحه ۴۶۶ ترجمہ "المد علی والتبصر ولمن برنی " ( طبع اول صفحہ ۲۰۱۹ ۲۲ ترجمہ " الهدى والتبصره لمن مرئی ( طبع اول صفحہ ۲۰۱۹ ۲۳- رسالہ "المنار جلد ۵ صفحه ۳۱۷ ۲۴ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " الفضل ۲۹۴/ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵ ۲۵- نمونه پرچه " القادیان صفحه ۶ ۲۶.اس مقدمہ کی تفصیل آگے آتی ہے ۲۷ مثلاً حضرت مولوی نور الدین صاحب مولوی عبد الکریم صاحب سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی حضرت نواب محمد علی خان صاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب.بیگم فضل دین صاحب.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کو ڈیانوی.ڈاکٹر رحمت علی خاں صاحب ممبار - شیخ حامد علی صاحب.میاں عبد العزیز صاحب پنداری.میاں جمال الدین صاحب.میاں خیر الدین صاحب میاں امام الدین صاحب.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب.منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ.منشی عبداللہ صاحب سنوری.سید فضل شاہ صاحب.سید ناصر شاہ صاحب اوور سیر.میاں محمد علی صاحب لاہور.شیخ غلام نبی صاحب راولپنڈی.سید امیر علی شاہ صاحب.بابو تاج الدین صاحب لاہور.فشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجنئیر بھیتی.مولوی غلام امام صاحب برہما آسام - مولوی محمد احسن صاحب.سید حامد شاہ صاحب.خلیفہ نور الدین صاحب.پیر منظور محمد صاحب.۲۸ و تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۴۹-۵۰ ۲۹ تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحہ ۵۹-۲۰ (متحدہ پنجاب مراد ہے)

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد ۲۱۴ کشتی نوح کی تصنیف و اشاعت الدار کی غیر معمولی حفاظت اور جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی

Page 232

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۲۱۵ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی کشتی نوح کی تصنیف و اشاعت الدار" کی غیر معمولی حفاظت اور جماعت کی حیرت انگیز ترقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۵ / اکتوبر ۱۹۰۲ء کو "کشتی نوح" تقویتہ الایمان" کے نام سے حقائق و معارف پر مشتمل ایک لطیف کتاب شائع فرمائی جس میں حضور نے گورنمنٹ کی طرف سے طاعون کے ٹیکہ کے انتظامات کو سراہا مگر ساتھ ہی لکھا ”اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے.اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سوا اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ " تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائیگا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہو گا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے." نیز لکھا:." انجام کار لوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتاء مقابلہ خدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں." "الدار" کی توسیع کشتی نوح میں ہی حضور نے اپنے خدام سے یہ تحریک فرمائی کہ ہمارا گھر جس کے لئے خدا نے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا بطور کشتی کے تو ہے مگر آئندہ اس کشتی میں نہ کسی اور مرد کی گنجائش ہے نہ عورت کی.اس لئے اس کی توسیع کے لئے چندہ کی ضرورت ہے.چنانچہ صحابہ نے اس تحریک میں حصہ لیا.مکان کی وسعت صرف اس کے غربی جانب ہو سکتی تھی اور یہ جگہ مرزا غلام حیدر متوفی کی حویلی تھی اور مرزا امام الدین صاحب کے قبضہ میں تھی.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی کوشش سے مرزا امام الدین صاحب اس بات پر راضی ہو گئے کہ حویلی میں ہے حضور کا حصہ بھی دے دیں نیز بقیہ حصہ قیمت پر حضور کے ہاتھ فروخت کر دیں.اس حویلی کا ملحق مکان ڈپٹی شنکر داس کے قبضہ میں تھا جو شیخ صاحب نے خود خرید لیا اور اس کا تیسرا حصہ

Page 233

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۱۶ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی حضرت مسیح موعود کے نام ہبہ کر دیا.اس طرح "الدار کی توسیع عمل میں آئی.الدار" کی غیر معمولی حفاظت حضرت مسیح موعود نے خدا کے حکم سے جو پیشگوئی فرمائی وہ بعد کو لفظا لفظاً پوری ہوئی.حضور کے "الدار " (جہاں طاعون کے ایام میں آپ کے مخلصین کثیر تعداد میں رہائش پذیر تھے) کی دیواروں سے ملحق مکانوں تک طاعوان پہنچی اور ہمسایہ کے ہندو طاعون کا شکار ہوئے.مگر " الدار" میں چوہا تک طاعون سے نہیں مرا.اسی طرح جیسا کہ حضور نے پیشگوئی فرمائی تھی جماعت سے بھی خارق عادت سلوک ہوا جس کے نتیجہ میں جماعت کی ان دنوں اتنی غیر معمولی ترقی ہوئی کہ اس کی تعداد ہزاروں سے نکل کر ۱۹۰۲ء میں ایک لاکھ تک پہنچ گئی.۱۹۰۳ ء میں اس کثرت سے لوگ آپ کے مبائعین میں شامل ہوئے کہ اخبار ا حکم " کو مجبور انٹے میائین کی فہرست کا کالم ہی بند کر دینا پڑا.۱۹۰۴ء میں یہ تعد اد دولاکھ تک I اور ۱۹۰۶ ء میں چار لاکھ تک پہنچ گئی.حضور طاعون کے زمانہ میں بیعت کرنے والوں کو از راہ ظرافت ” طاعونی احمدی" کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے.کشتی نوح " کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جماعت کے لئے مقدس تو حضور نے اپنی مقدس تعلیم لکھی ہے جو نہ صرف طاعون بلکہ دنیا کی آفات و مصائب کے طوفانوں میں کشتی کی حیثیت رکھتی ہے.یہ تعلیم جب اہل عرب کے سامنے عربی زبان میں رکھی گئی تو بعض نے اسے زبانی حفظ کیا تھا.بطور نمونہ چند الفاظ درج کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں:.سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میر بیا جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقومی کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرد.یقینا یا د رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا ہے جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقومی ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سو خبردار ہو! ایسا نہ ہو کہ ٹھو کر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت

Page 234

تاریخ احمدیت جلد ۴ ۲۱۷ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی آسمان پر دے گا.اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.تم خدا کی آخری جماعت ہو سودہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجے پر ہو." حضرت مسیح ناصری کے پہاڑی وعظ کو عیسائی دنیا ایک شاہکار سمجھتی ہے مگر پہاڑی وعظ کو حضرت مسیح محمدی کی کشتی نوح میں بیان فرمودہ تعلیم سے کچھ نسبت نہیں.کشتی نوح پر اخبارات کی تنقید اور حضور کا ایمان افروز جواب ماعون پر ابتدائی اشتہار کی طرح "کشتی نوح" پر بھی سول ملٹری گزٹ" کے سوا) متعصب ملکی اخبارات نے مخالفانہ رنگ میں تقری نکات لکھی تھیں اور بڑی مخالفت کی کہ گویا حضور نے گورنمنٹ کی راہ میں روڑے اٹکا دیئے ہیں.مصری اخبار اللواء" نے لکھا کہ یہ لوگ قرآن مجید نہیں سمجھتے اور ترک اسباب کرتے ہیں حالانکہ حدیث میں ہے ما من داء الا له دواء کہ ہر بیماری کے لئے دوا موجود ہے.حضرت اقدس نے اس اعتراض کے جواب میں مفصل تقریر فرمائی کہ اسباب پرستی بھی آجکل ایک خطرناک شرک کی حد تک پہنچی ہوئی ہے حالانکہ مومن کا جس قدر ایمان اللہ تعالٰی پر ہوتا ہے اسی قدر وہ اسباب کی نفی اپنے ایمان میں کرتا اور اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ اور تو کل رہتا ہے.اس درجہ پر بعض امور اس قسم کے بھی پیش آتے ہیں کہ فی الحقیقت بلا توسط اسباب ظاہری اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو مدد دیتا ہے اور شفا دیتا ہے.میں نے اپنی ذات پر ان امور کو مشاہدہ کیا ہے.بعض امراض میں بدوں کسی دوا کے استعمال کے مجھے شفا دی ہے.اسباب پرست خواہ کچھ ہی کے مگر میں ایسے نشانوں کو بے قدری کی نگاہ سے دیکھوں یا انہیں ضائع کر دوں تو یہ معصیت ہوگی.اسی طرح یہ طاعون سے محفوظ رہنے کا نشان جو مجھے دیا گیا ہے میں اس کا کیونکر انکار کر سکتا ہوں.میں یقین رکھتا ہوں کہ ٹیکہ کے بغیر مجھے بچایا گیا ہے.یہ سچ ہے کہ ہر مرض کی دوا اس نے پیدا کی ہے مگر یہ تو نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کسی مرض کو دوا کے بغیر شفاء نہیں دیتا.مئی ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ مولوی طاعون سے حفاظت کے دو نہایت اہم واقعات محمد علی صاحب کو شدید بخار ہوا.جس پر انہیں طاعون کا شبہ ہو گیا.حضور کو خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اگر آپ کو طاعون ہو تو پھرانی احافظ كل من في الداد کا الہام اور یہ سب کا روبار عبث ہے.پھر حضور نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا تو بخار کا نام و نشان نہ تھا.حضور نے خود یہ واقعہ بائیں الفاظ میں بیان

Page 235

تاریخ احمدیت جلد ۲ فرمایا ہے:.KIA جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو سخت بخار ہو گیا اور ان کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے انی احافظ كل من فی الدار.تب میں ان کی عیادت کے لئے گیا اور ان کو پریشان اور گبھراہٹ میں پاکر میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی تو پھر میں جھوٹا اور میرا دعوئی الہام غلط ہے.یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونہ قدرت الهی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سرد پایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا." اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ۱۹۰۶ ء میں ہوا جس کی تفصیل حضور ہی کے الفاظ میں درج کرتا ہوں فرماتے ہیں.میں نے کئی دفعہ ایسی منذر خواہیں دیکھیں جن میں صریح طور پر یہ بتلایا گیا تھا کہ میر نا صر نواب جو میرے خسر ہیں ان کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے.میں دعا میں لگ گیا ہوں اور وہ اتفاقا مع اپنے بیٹے اسحاق اور اپنے گھر کے لوگوں کے لاہور جانے کو تھے میں نے ان کو یہ خواہیں سنادیں اور لاہور جانے سے روک دیا اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اجازت کے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا.جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی اور دونوں طرف بن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے.کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوبواں کی تعبیر یہی تھی اور دل میں سخت غم پیدا ہوا.اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں اور آپ بہت توبہ و استغفار کریں.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے.اور اگر چہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانون قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مرگیا تو ہماری تکذیب میں شور قیامت برپا ہو جائے گا اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہیں ہو گا.کیونکہ میں صدہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے.غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کانپ اتر گیا

Page 236

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۱۹ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اور گلٹیوں کا نام و نشان بھی نہ رہا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھرنا.چلنا.کھیلنا.دوڑنا شروع کر دیا.گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی.یہی ہے احیائے موتی.میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسی کے احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا." " تحفتہ الندوة" کی تصنیف و اشاعت دار العلوم دیو بند اور علی گڑھ تحریک کے متوازی ایک وسطی طریق اختیار کرنے کے لئے ۱۸۹۴ء سے ایک تنظیم لکھنو میں ندوۃ العلماء" کے نام سے کام کر رہی تھی.اس تحریک کے مقاصد میں نصاب تعلیم کی اصلاح اسلامی دار العلوم اور دار الافتاء کا قیام خاص طور پر شامل تھا.مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری اس کے ناظم اول تھے.شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ - ۱۹۱۴) اور مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مولف تغییر حقانی نے اس کے قواعد و ضوابط مرتب کئے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈروں مثلاً سرسید نواب محسن الملک نواب وقار الملک نے اس کا خیر مقدم کیا اپریل ۱۸۹۴ء میں بمقام کانپور اس کا سب سے پہلا جلسہ ہوا.اس کے بعد لکھنو بریلی اور میرٹھ میں بھی جلسے ہوئے.1901 ء میں ندوۃ العلماء کا کلکتہ میں اجلاس ہوا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی.حضور تو اپنی دیگر دینی مصروفیات کے باعث شامل نہ ہو سکے البتہ حضور کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مفصل تبلیغی خط ندوہ کے نام لکھا جس میں امام الزمان کی آواز پر لبیک کہنے کی تحریک کی مگر اہل ندوہ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا.اگلے سال ۱/۱۰/۹ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو اس کا اجلاس امرتسر میں ہونا قرار پایا.II حافظ محمد یوسف صاحب پٹنر نے جو لو تقول کی آیت کے متعلق آپ سے الجھ رہے تھے ایک ہفتہ قبل ۲/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مسیح موعود کے نام اشتہار دیا کہ میرے اس مسلک کے ثبوت میں کہ مفتری د کاذب ملہم بھی آنحضرت کی طرح دعوئی الہام کے بعد تئیس برس تک عمر پا سکتا ہے.ان کے دوست ابو اسحاق محمد دین نے " قطع الوتین " نامی رسالہ لکھا ہے جس میں ایسے مدعیان کاذب کے نام مع مدت دعوئی تاریخی کتابوں کے حوالے سے درج ہے.مرزا صاحب بھی جلسہ میں شامل ہوں، اور لکھ دیں کہ رسالہ " قطع الوتين " میں بیان شدہ مثالوں کو اگر ندوۃ کے منتخب علماء تاریخی لحاظ سے صحیح تسلیم کرلیں تو مرزا صاحب عین جلسہ پر ہی توبہ کا اعلان کر دیں گے.اشتہار سے چونکہ آنحضرت ﷺ کی سچائی پر حرف آتا تھا اور آنحضرت کی سختہ تو ہین ہوتی تھی.اس لئے حضرت اقدس نے ۶ / اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ایک مختصر سا رسالہ " تحفتہ الندوۃ" کے نام سے شائع فرمایا جس میں حضور نے نہایت لطیف

Page 237

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۲۰ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی پیرایہ میں حافظ محمد یوسف صاحب کے غلط مسلک کی تردید کر کے خدا تعالی کی فعلی شہادتوں سے اپنی صداقت کے متعدد ثبوت پیش فرمائے نیز لکھا کہ " ندوۃ العلماء " کو دینی مسئلہ میں حکم قرار نہیں دے سکتا.لہذا امر تسر جانے کی ضرورت نہیں.ہاں " ندوۃ العلماء " حافظ صاحب سے ایسے مدعیان نبوت کا حلفا ثبوت مانگے جن کی وحی کاذب کا قرآن شریف کی طرح سے تئیس برس تک برابر سلسلہ جاری رہا اور ان سے ثبوت مانگے کہ کہاں انہوں نے قسم کے ساتھ بیان کیا کہ ہم در حقیقت نبی ہیں اور ہماری وحی قرآن کی طرح قطعی یقینی ہے اور یہ بھی ثبوت مانگے کہ کیا وہ لوگ اس زمانے کے مولویوں کے فتوے سے کافر ٹھہرائے گئے ہیں یا نہیں.اگر نہیں ٹھہرائے گئے تو اس کی کیا وجہ.کیا ایسے مولوی فاسق فاجر تھے یا نہیں جنہوں نے دین میں ایسی لاپروائی ظاہر کی.اور یہ بھی ثبوت مانگے کہ ایسے لوگ کن قبروں میں دفن کئے گئے ؟ کیا مسلمانوں کی قبر میں یا علیحدہ.اور اسلامی سلطنت میں قتل ہوئے یا امن سے عمر گزاری؟ حافظ صاحب سے تو یہ ثبوت طلب کیا جائے.دوسری طرف پھر میرے معجزات اور دیگر دلائل نصوص قرآنیہ اور حد- شیہ کے طلب ثبوت کے لئے بعض منتخب علماء ندوہ کے قادیان میں آئیں اور مجھ سے معجزات اور دلائل یعنی نصوص قرآنیہ اور حد - شیہد کے ثبوت لیں.پھر اگر سنت انبیاء علیہم السلام کے مطابق میں نے پور اثبوت نہ دیا تو میں راضی ہوں کہ میری کتابیں جلائی جائیں".HA ندوۃ العلماء" کے جلسہ میں شمولیت کے لئے وفد حضرت اقدس نے تحفتہ الندوہ کے ذریعہ تبلیغ کا حق 14 ادا کر دیا تھا مگر اتمام حجت کے لئے حضور نے ۱۹ اکتوبر کو جلسہ میں شمولیت کے لئے قادیان سے ایک وفد بھی بھیجا جس میں مندرجہ ذیل احباب شامل تھے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی (امیروند) مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہزار وی.مولوی محمد عبداللہ صاحب کشمیری - شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر اخبار الحکم- امر تسر پہنچ کر وفد کو یہ علم ہوا کہ حافظ صاحب نے ندوہ والوں سے مشورہ کے بغیر از خود اشتہار وغیرہ دے دیا ہے اور ندوہ کے سیکرٹری سے اس بارہ میں قطعا کوئی اجازت یا مشورہ تک حاصل نہیں کیا گیا.انذار فد نے جلسہ کے تینوں دن انفرادی رنگ میں سلسلہ حقہ کا پیغام پہنچایا اور " تحفتہ الندوہ " اور " دعوة الندوہ " تقسیم کر کے اس کی خوب اشاعت کی.

Page 238

احمدیت.جلد ۲ ۲۲۱ اخبار البدر" کا اجراء جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اس وقت تک مرکز سے صرف ایک اخبار " الحکم " شائع ہو تا تھا لیکن اس سال بابو محمد افضل صاحب آن مشرقی افریقہ اور ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر کی کوشش سے ۳۱ / اکتوبر ۱۹۰۲ء سے دوسرا ہفت روزہ "البدر" کے نام سے جاری ہو گیا جس کا پہلا نمونہ کا پرچہ " القادیان" کے نام سے چھپا مگر اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود نے اس کا نام ” البدر تجویز فرمایا اور اس کے اجراء کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہماری طرف سے اجازت ہے خواہ آپ ایک سو پر چہ جاری کریں شاید اللہ تعالیٰ اس میں ہی برکت دیدے.البدر" کے مالک و مدیر محمد افضل صاحب اور منیجر منشی فیض عالم صاحب صابر تھے محمد افضل صاحب موصوف نهایت اخلاص سے ادارت کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے کہ ۲۱ / مارچ ۱۹۰۵ء کو اچانک انتقال کر گئے جس پر اخبار میاں معراج الدین صاحب عمر نے خرید لیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی محمد صادق صاحب کو جو ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اخبار البدر " کا ایڈیٹر مقرر فرما دیا اور ۳۰ / مارچ ۱۹۰۵ء کو ایک خاص اعلان کے ذریعہ سے جماعت کو اطلاع دی کہ ” میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جو ان صالح اور ہر یک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیر دی قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین ".حضرت اقدس کی یہ فراست حرف بحرف صحیح نکلی اور حضرت مفتی صاحب ہی اللہ کے زمام ادارت سنبھالتے ہی سچ سچ اخبار کی قسمت جاگ اٹھی اور اس کا نام اور دو پر چوں کے بعد تفاول کے طور پر "بدر" رکھا گیا.بدر دسمبر ۱۹۱۳ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا اور پھر بند ہو گیا.قریباً چالیس برس کے وقفہ کے بعد / مارچ ۱۹۵۳ء کو درویشان قادیان کی ہمت سے دوبارہ اس کا احیاء عمل میں آیا.موجودہ دور جدید میں اس کے پہلے ایڈیٹر مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مقرر ہوئے.اب یہ

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد ؟ ۲۲۲ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اخبار قاریان سے مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری کی ادارت میں شائع ہوتا ہے.( تاریخ وفات مولانا محمد حفیظ صاحب ۵ - نومبرے ۶۱۹۸ اخبار البدر" و "بدر" کی شاندار خدمات اخبار "الحکم کی طرح اخبار "البدر" اور "بدر" نے بھی مسیح پاک علیہ السلام کے تازه الهامات و ملفوظات اکابر سلسلہ کے مضامین اور مرکزی خبروں کے بروقت جماعت تک پہنچانے میں شاندار خدمات سرانجام دی ہیں اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سلسلہ کا ایک بازو الحکم کو اور دوسرا اسے قرار دیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے ” یہ اخبار " الحکم و بد رہمارے دو بازو ہیں.الہامات کو فور املکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں ".خلافت اوٹی کے زمانہ میں اس اخبار کو یہ بھاری خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا درس قرآن اور درس بخاری اور آپ کی ڈائری بھی "کلام امیر کے نام سے الگ الگ ضمیمہ کی شکل میں شائع ہوتی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح حضرت سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی مقدس اولاد کی بارے میں مدت سے یہ الہی بشارت مل چکی تھی کہ آپ کی نسل بہت ہو گی اور کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.نیز الہاما آپ کو بتایا جا چکا تھا کہ ” تری نسلا بعیدا." (یعنی آپ دور کی نسل بھی دیکھیں گے) اللذا حضور چاہتے تھے کہ به خدائی وعدہ جلد سے جلد ظہور میں آجائے اور آپ اپنی آنکھوں سے اسے پورا ہو تادیکھ لیں اور اسی لئے حضور اپنے صاحبزادگان کے رشتے بھی جلد سے جلد کرنا چاہتے تھے.چنانچہ حضور نے صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نکاح کی تحریک کے لئے اپنے نہایت مخلص مرید مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پشاور کے نام ۲۴ / اپریل ۱۹۰۲ء کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ ”میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت ، مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں.اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارے میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہو گا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرما دیں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف با ترجمہ پڑھ لے.نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز با سانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرما دیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں.زیادہ

Page 240

تاریخ احمد بیت جلد ۲ خیریت ہے." نکاح ۳۱ ۲۲۳ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی مولوی غلام حسن خان صاحب نے کمال خلوص سے اس تعلق پر رضامندی کا اظہار کیا.چنانچہ ۱۲.ستمبر ۱۹۰۲ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نکاح کی تقریب عمل میں آئی.احباب نماز عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرہ کے سامنے والے صحن میں جو مسجد مبارک سے ملحق تھا.جمع ہوئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے آپ کا نکاح مولوی غلام حسن خان صاحب کی دختر نیک اختر سرور سلطان صاحبہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا اور ایجاب و قبول کے بعد کھجوریں تقسیم کی گئیں اور حاضرین کی تواضع چائے سے کی گئی.اسی روز شام کو اخبار "الحکم " کا ایک غیر معمولی پر چہ اس مبارک تقریب کی خوشی میں شائع کیا گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی شادی مئی ۱۹۰۶ ء کے دوسرے ہفتے میں ہوئی.حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے واجب الاحترام نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اور برادر بزرگ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور دیگر احباب کے ساتھ قادیان سے ۱۰ / مئی شادی ۱۹۰۶ء کی صبح کو پشاور روانہ ہوئے اور ۱۶ / مئی ۱۹۰۶ ء کو بعد دو پہر واپس قادیان پہنچے.آپ کی اولاد صاحبزادی سرور سلطان صاحبہ کے بطن سے آپ کے ہاں گیارہ بچے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں.سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ (ولادت ۷ / اگست ۱۹۰۷ء).صاحبزاده اول مرزا حمید احمد صاحب (متوفی ۱۹۱۰ء) - صاحبزاہ مرزا مظفر احمد صاحب (ولادت ۲۸/ فروری ۱۹۱۳ء).صاحبزاہ مرزا حمید احمد صاحب (ولادت ۱۵ / جنوری ۱۹۱۵ء) - سیده امتہ الحمید بیگم صاحبه (ولادت ۱۶ / اگست ۱۹۱۶ء) - صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب (ولادت اگست ۱۹۱۸ء).صاحبزاده مرزا مبشر احمد صاحب اول (متوفی ۱۹۲۱ء.صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب ثانی (ولادت اگست ۱۹۲۲ء).صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (ولادت ۱۸/ جولائی ۱۹۲۴ء) سیده امته المجید بیگم صاحبہ (۱۵/ جنوری ۱۹۲۶ء).سیدہ امته اللطیف بیگم صاحبه (۵/ نومبر ۱۹۳۵) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نکاح ستمبر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح ہوا تھا.اگلے ماہ اکتوبر ۱۹۰۲ ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریب نکاح عمل میں آئی.حضور کے ایک مخلص عقیدت مند حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے جن کی بڑی صاحبزادی رشیدہ تھیں.سید نا حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر صاحب کو انہی کے متعلق رشتہ کی تحریک

Page 241

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۲۴ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی فرمائی.پھر کچھ مدت بعد لکھا کہ اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گو ابھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں جس کے معلوم ہونے کے بارے میں مجھے خواہش ہے تا کوئی کام ہمارا مرضی الہی کے خلاف نہ ہو مگر محمود کی رضامندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالبا واللہ اعلم جناب الہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہو گا.لہذا آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کی یہ مرضی ہو اور اس میں کوئی مخالفت نہ ہو جائے جس کے مقابل پر سب ارادے کالعدم ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں اور اس شرط سے آپ تیار اور مستعد رہیں کہ جب آپ کو مسنون طور پر نکاح کے لئے لکھا جائے.چند ہفتہ تک استخارہ کریں کہ ہر ایک کام جو استخارہ اور خدا تعالیٰ کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ بحالیکہ مبارک ہوتا ہے.دوسرے میرا ارادہ ہے کہ اس نکاح میں انبیاء کی سنت کی طرح سب کام ہو.بدعت اور بیہودہ مصارف اور تصور رسوم اس نکاح میں نہ ہوں بلکہ ایسے سیدھے سادھے طریق پر ہو جو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا ہے.نکاح ہو جاوے تا موجب برکات ہو." رڑکی میں نکاح حضرت ڈاکٹر صاحب کے غیر احمدی خاندان میں اس پر مخالفت ہوئی مگر حضرت ڈاکٹر صاحب نے بلا تامل اپنے آقا کے ارشاد پر سر تسلیم خم کر دیا جس پر اکتوبر ۱۹۰۲ء کا پہلا ہفتہ نکاح کے لئے مقرر ہوا اور قرار پایا کہ نکاح رڑکی میں ہو.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۲/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو قادیان سے علی الصبح حضرت مولوی نور الدین صاحب - حضرت میر ناصر نواب صاحب مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب.پیر سراج الحق صاحب نعمانی - مفتی محمد صادق صاحب اور ڈاکٹر نور محمد صاحب کے ہمراہ رڑکی کے لئے روانہ ہوئے اور اسی روز عشاء کے وقت رڑ کی پہنچے.اسٹیشن پر حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے حضرت ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کا ایک ہزار روپیہ صریر نکاح پڑھا.ڈاکٹر صاحب کے بھائی اس رشتہ میں ان کے مخالف تھے اور اسی لئے وہ شامل بھی نہ ہوئے تھے مگر حضرت ڈاکٹر صاحب نے اس کی چنداں پروانہ کی اور یہی کہا کہ بہر حال مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کی تعمیل ہونی چاہیے.۵/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو بعد نماز عصر یہ قافلہ رڑکی سے بخیریت قادیان پہنچا.اسی روز نماز مغرب کے بعد حضرت مسیح موعود حسب معمول شہ نشین پر رونق افروز ہوئے تو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے مبارکباد دی اور حضرت ڈاکٹر صاحب کے اخلاص کی بہت تعریف کی جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے.ان میں اہلبیت اور زیر کی بہت

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۲۵ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی ہے.اور میں نے دیکھا ہے ان میں نور فراست بھی ہے.رخصتانه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح تو اسی سال ہو امگر رخصتانہ کی تقریب اگلے سال ۱۹۰۳ میں اکتوبر کے دوسرے ہفتہ آگرہ میں عمل میں آئی - جہاں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے.21 حضرت صاحبزادہ صاحب ! اکتوبر ۱۹۰۳ء کی شام کو اپنے اہل بیت کے ساتھ قادیان پہنچے.بارات میں آپ کے ساتھ نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی تھے.اگلے دن حضور کے گھر سے دلہن کی خوشی میں بتاشے تقسیم ہوئے.اولاد آپ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی.صاجزادہ مرزا نصیر احمد صاحب (متوفی) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (ولادت ۱۶ / نومبر ۱۹۰۹ء) صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ - صاجزاہ مرزا مبارک احمد صاحب (ولادت ۹ / مئی ۱۹۱۴ء).صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (ولادت یکم فروری ۱۹۱۸ء).صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ (متوفیہ).صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ - صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (متوفی).صاحبزاده مرزا حفیظ احمد صاحب ثانی (ولادت (۱۹۲۶ء.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب (ولادت ۳ / اکتوبر ۱۹۲۷ء) صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب (ولادت ۱۷/ اکتوبر ۱۹۳۰ء) صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب (ولادت ۲۸/ جولائی ۱۹۳۵) دو سرے نکاح اس پہلی شادی کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بعد جو خواتین مبارکه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی کے عقد میں آئیں ان کی تفصیل یہ ہے.حرم دوم - سیدہ امتہ الحی بیگم صاحبه دختر نیک حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اول - ( نکاح ۳۱ / مئی (۱۹۱۴ء) - اولاد - صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ (ولادت ۱۹۱۶ء) صاحبزادی امته الرشید بیگم صاحبہ (ولادت ۶ / نومبر ۱۹۱۸ء) - صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب (ولادت ۱۱/ نومبر (۱۹۴۴ حرم ثالث سیده مریم بیگم صاحبہ (ام طاهری دختر نیک اختر سید عبد الستار شاہ صاحب - (نکاح ۷ / فروری ۱۹۲۱ء) - اولاد - صاجزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (متوفی).صاحبزادی امتہ الحکیم بیگم صاحبه (ولادت ۲۶ / مارچ ۱۹۲۶ء).صاحبزادی امته الباسط صاحبه (ولادت ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء).حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالٰی (۱۸/ دسمبر ۱۹۲۸ء) - صاحبزادہ مرزا اطہر احمد صاحب

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۲۶ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی (متوفی).صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ (ولادت ۳۰/ جولائی ۱۹۳۷ء) حرم رابع حضرت ساره بیگم صاحبه دختر نیک اختر حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری (نکاح ۱۲ / اپریل ۱۹۲۵ء) اولاد : صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب (ولادت ۵ / مارچ ۱۹۲۷ء) - صاحبزادی امته النصیر بیگم صاحبہ (ولادت ۱۳ - اپریل -۱۹۲۹ء)- صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب (ولادت ۲۴ مارچ ۱۹۳۲ء) حرم خامس حضرت عزیزه خاتون صاحبه (ام وسیم ) دختر نیک اختر سیٹھ ابو بکر یوسف صاحب آف جده (نکاح یکم فروری (۱۹۲۶ء) - اولاد : صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب (ولادت یکم اگست ۱۹۲۷ء) صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب (ولادت ۲۳/۲۴ مارچ ۱۹۳۲ء) حرم سادس حضرت سیده مریم صدیقه صاحبه ام متین) دختر نیک اختر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب - (نکاح ۳۰ / ستمبر ۱۹۳۵ء) اولاد : صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ (ولادت ۲۱ / دسمبر -(81977 حرم سابع سیده بشری بیگم صاحبه دختر نیک اختر جناب سید عزیز اللہ شاہ صاحب.(نکاح ۲۴/ جولائی BA (۱۹۴۴ مباحثه مد مد ضلع امرتسر میں ایک گاؤں ہے جہاں ایک بزرگ میاں محمد یعقوب صاحب رہتے تھے.میاں صاحب موصوف جب داخل احمدیت ہوئے تو مد والوں نے ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا.یہاں تک کہ سوشل بائیکاٹ کی نوبت آپہنچی جس پر میاں محمد یعقوب صاحب نے اپنے بھائی محمد یوسف صاحب اپیل نویس بکٹ گنج مردان کو اطلاع دی.جدہ پہنچے اور مخالفین کو مناسب طریق پر سمجھایا.چنانچہ فریقین کی رضامندی سے فیصلہ ہوا کہ مسائل متنازعہ کے تصفیہ کے لئے علماء کا مناظرہ ہو - 1 میاں صاحب کے ایک رشتہ دار نے اس سلسلہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب کو لانے کا بھی ذمہ اٹھایا.جب مناظرہ کی بات پختہ ہو گئی تو میاں محمد یوسف صاحب قاریان گئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں اصل واقعات پیش کئے اور علماء بھیجوانے کے لئے عرض کیا.یہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۲ ء کی بات ہے.حضرت اقدس نے تو اول تو فرمایا کہ ایسے مباحثات سے فائدہ نہیں ہو تا مگر منشی صاحب کا اصرار دیکھا تو حضور نے مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کو مد پہنچنے کا ارشاد فرمایا کہ وہاں احمدیت کی تبلیغ کریں اور اگر ضرورت پڑے تو مہذبانہ طریق سے مباحثہ کریں.مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کے ساتھ مولوی

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۱۵۳ ۲۲۷ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی عبداللہ صاحب کشمیری کو بھی روانہ ہونے کا حکم ملا.چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب کشمیری یکہ پر قادیان سے امر تسر آئے اور وہاں سے اجنالہ کے رستہ سے مد پہنچے.فیصلہ کے مطابق مولوی ثناء اللہ صاحب بھی آگئے اور آتے ہی گاؤں کی فضا یکسر مکدر کردی اور عوام میں زبر دست اشتعال پیدا کر ڈالا اور تعلی کی کہ میں بہادر اور فتحیاب ہوں.میرے یہاں پہنچنے کار از افشانہ ہو جائے ورنہ مجھے ڈر ہے کہ مرزائی مناظر دہشت زدہ ہو کر بھاگ جائیں گے.اسی ماحول میں مباحثہ کے لئے منادی کرائی گئی اور لوگ جلد جلد اس کے مضافات سے آٹھ بجے کے قریب گاؤں کے غربی حصہ میں ایک درخت کے نیچے جمع ہوئے.مرد کی آبادی ان دنوں دو اڑھائی سو کے قریب تھی اردگرد سے شامل ہونے والے غیر احمدیوں کی تعداد چھ سات سو تک پہنچ گئی مگر احمد ی صرف تین چارتھے.مباحثہ کی شرائط کا مرحلہ پیش آیا تو فریقین میں متنازعہ مسائل کے متعلق تحریری مباحثہ کا ہونا طے پا گیا اور صدر مجلس احمد علی صاحب نام ایک دوست مقرر ہوئے جو مد کے قریب پیلو دال کے باشندہ تھے.مولوی شاء اللہ صاحب ابتداء ہی میں اس بات پر اڑ گئے کہ پرچہ کے لئے صرف ہیں میں منٹ کی باری مقرر ہو مگر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے زور دیا کہ زیر بحث مضامین بڑی اہمیت ۵۵ کے حامل اور تفصیل طلب ہیں لہذا پرچہ کے لئے کم سے کم وقت ایک ایک گھنٹہ ہونا چاہیے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے منشی محمد یوسف صاحب کو بھی اس طرف توجہ دلائی لیکن عوام کے تیور بدلے ہوئے تھے تنہاء منشی صاحب کیا کر سکتے تھے ؟ اس بحث و تکرار میں مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ہنگامہ آرائی سے مجمع بے قابو ہو رہا تھا.احمدیوں نے اس نازک موقعہ پر مدد و نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کی اور بامر مجبوری بیس منٹ کے وقت پر راضی ہو گئے.مباحثہ شروع ہوا.ہر فریق میں منٹ تک لکھتا اور سنا دیتا.پھر ایک دوسرے کا دونوں جواب لکھتے تھے.مباحثہ کا اولین اور معرکتہ الاراء مسئلہ وفات مسیح تھا مباحثہ دو دن (۲۹ - ۳۰ اکتوبر ) جاری رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل ازیں ایک موقعہ پر مولوی شاء اللہ صاحب کی کسی تحریر کے جواب میں فرمایا تھا کہ وفات مسیح کے لئے فلما تو فیتنی والی آیت ہی کافی ہے.یہ عظیم نکتہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب موصوف کو عین موقعہ پر سمجھا دیا اور پھر آپ کی روح القدس سے ایسی تائید ہوئی اور آپ نے اسے اس طرح مدلل اور مسکت انداز میں پیش کیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اس کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور صدر مباحثہ کو اٹھ کر صاف اعلان کرنا پڑا کہ مولوی سرور شاہ صاحب نے جو بیان کیا ہے اسے سنکر اب میں کفر سمجھتا ہوں کہ مسیح کو زندہ سمجھوں.اس طرح ابتداء میں

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۲۸ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی ہی حق و باطل کا فیصلہ ہو گیا اور صداقت کی فتح ہوئی.آخری مضمون صداقت مسیح موعود کے بارے میں تھا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے قرآن شریف سے معیار صداقت پیش کر کے حضرت مسیح موعود کی سچائی واضح فرمائی.مولوی ثناء اللہ صاحب جو ”حیات مسیح" کے مسئلہ میں کھلی شکست و ہزیمت اٹھا چکے تھے اس مرتبہ بھی اصل مسئلہ سے گریز اختیار کرنے پر مجبور ہوئے.دوران مباحثہ میں انہوں نے قرآنی آیات کے جواب میں جو بات کہی وہ ان کی عالمانہ حیثیت کو واضح کرنے کے لئے کافی تھی.انہوں نے بحث کے دوران کہا کہ ہمارے پاس احادیث موجود ہیں اس کے مقابل قرآن تو بیکار شے ہے.یہی نہیں قرآنی دلائل سے عاجز ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف سخت دشنام طرازی اور دروغ گوئی پر اتر آئے اور قسمیں کھا کھا کر اور خلاف واقعہ اعتراضات کر کر کے لوگوں کو خوب بھڑکایا.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے اس موقعہ پر علمی دلائل پیش کئے.سامعین عموماً دیہاتی لوگ تھے اس لئے وہ بار یک علمی بحث تو پوری طرح سمجھ نہ سکتے تھے ہاں مولوی ثناء اللہ صاحب کی گالیوں اور پھبتیوں سے انہوں نے خوب لطف اٹھایا.مولوی ثناء اللہ صاحب کے سوانح نگار مولوی عبد المجید صاحب سوہدروی نے اپنی کتاب ”سیرت ثنائی" میں جہاں مولوی ثناء اللہ صاحب کے دو سرے مناظروں کا ذکر کیا ہے وہاں مباحثہ مد کا نام تک نہیں لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں علمی لحاظ سے ضیغم اسلام حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کے مقابل حقیقتاً سخت زک اٹھانا پڑی تھی.مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی واپسی اور حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مباحثه میں کامیاب و کامراں ہو کر یکم نومبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مسیح موعود کی جماعت کو قیمتی نصائح قادیان میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مناظرہ کی تفصیل عرض کی.اور حضور کی مجالس میں کئی دنوں تک اس کا چرچا رہا.حضور کو مباحثہ کی کارروائی سنائی گئی تو حضور نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پرچہ لکھنے کے لئے ہیں ہیں منٹ وقت مقرر کیا گیا.اور اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ایسے موقعہ پر جب مخالف بہت سے اعتراضات رکھ دے تو معترض کا سب سے اہم اعتراض لے لیں اور اس کا فیصلہ کر کے آگے بڑھیں.اصولا گفتگو کرنے سے پہلے کچھ ضوابط مقرر کر لئے جائیں اور مخالف سے دریافت کر لیا جائے کہ وہ منہاج نبوت کو مانتا ہے یا نہیں.پھر عوام الناس کے سامنے ہمیشہ موٹی موٹی باتیں رکھنی چاہیے.بلاغت کا کمال یہ بھی ہے کہ ایک بات دوسرے کے دل تک پہنچائی جائے.اور یہ امر ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ فریق مخالف اپنی چالاکی سے سامعین کو دھوکہ نہ دے جائے.اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ

Page 246

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۲۹ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی سامعین کے باطل عقائد کے موافق یہ لوگ ہماری طرف سے ایسی باتیں سناتے ہیں کہ جن سے لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں.پھر اس صورت میں خواہ ان کے سامنے کیسی ہی مدلل بات پیش کی جائے وہ ایک بھی نہیں سنتے.مباحثہ مد کے پرچے شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے لے لئے تھے تا ان کو مباحثہ کے پرچے شائع کریں لیکن افسوس ہے کہ وہ کم ہو گئے اور یہ قیمتی مواد شائع نہ ہو گا.د کے رہنے والوں نے چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو خود بلوا کر گالیاں مد پر طاعون کا حملہ دلوائیں اور ان کو شرارت سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی تھی اس لئے پانچ چھ ماہ بعد یہاں طاعون کا سخت حملہ ہوا اور دو اڑھائی سو کی آبادی میں سے مئی ۱۹۰۳ء تک ایک سو تمیں افراد اس کا شکار ہو کر لقمہ اجل ہو گئے.1910 ء میں دوبارہ مر میں طاعون کا زور ہوا اور گاؤں کی عورتوں نے مانوں کو سخت ست کہا کہ انہوں نے مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو بلوا کر مرزا صاحب کے حق میں سخت گوئی کی اور وبا پھیلی.1 طاعون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا دو ہر انسان تھی کیونکہ حضور نے قبل از وقت پیشگوئی فرمائی تھی.و اری ارض بل أريد غادرهم ربی كغصن تجذر تبارها یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مد کی تباہی کا وقت آگیا ہے اور میرے رب نے ان کو کئی ہوئی ٹہنی کی طرح کر دیا ہے.انعامی کتاب اعجاز احمدی" کی تصنیف و اشاعت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مرد کے مباحثہ میں یہ بھی کہا تھا کہ کتاب "اعجاز المسیح " معجزہ نہیں اور میں اس طرح کی کتاب بناؤں گا.سیدنا حضرت مسیح موعود کو خیال آیا کہ اگر اعجاز المسیح کی نظیر طلب کرنے پر مولوی ثناء اللہ صاحب اور دو سرے علماء صاحبان یہ حجت پیش کر عالم

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۳۰ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی دیں کہ یہ کتاب دو برس میں لکھی گئی ہے اور ہمیں بھی دو برس مہلت ملنی چاہیے تو یہ امر عوام کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا.حضور کئی روز تک اسی فکر میں تھے کہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ کی شام کو آپ کے دل میں ڈالا گیا کہ ایک اعجازی رنگ کا عربی قصیدہ مد کے مباحثہ کے متعلق لکھیں کیونکہ بہر حال مباحثہ مد کا زمانہ تو یقینی اور قطعی ہے.مگر حضور کو دوسرے روزے / نومبر ۱۹۰۲ء کو بٹالہ میں ایک گواہی کے لئے تشریف لے جانا پڑا اور قادیان سے بٹالہ تک آپ نے رتھ میں ہی بیٹھے ہوئے عربی قصیدہ کے چند اشعار رقم فرمائے.پھر ۸ / نومبر ۱۹۰۲ء سے باقاعدہ اسے لکھنا شروع کر دیا بالا خریہ عربی قصیدہ مع ایک اردو مضمون کے اجس میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے تھے اور حضور کی کتابوں کا ایک جامع خلاصہ تھا) ۱۲/ نومبر کو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.قصیدہ میں حضور نے مناظرہ مد کے واقعات کا بڑے جامع رنگ میں نقشہ کھینچا اور اپنی سچائی کے ثبوت میں بھاری دلائل دیے اور بتایا کہ لوگ بہشت اور اس کے انعام ولذات کے طلب گار ہیں مگر میری خواہش جس پر میری خوشی موقوف ہے فقط یہ ہے کہ کسی طرح صلیب ٹوٹ جائے یہی میرا فردوس اور یہی میری جنت ہے.اس قصیدہ میں حضور نے مولوی سرور شاہ صاحب کو شیر قرار دیتے ہوئے فرمایا :- فكان ثناء الله مقبول قومس ومنا تصدی للتخاصم سرور كان مقام البحث كان کاجمته 叫 الذئب يعوى والغضنفر بزه ر یعنی بحث کے لئے مولوی ثناء اللہ صاحب جو اپنی قوم میں مقبول سمجھے جاتے تھے پیش ہوئے اور ہماری طرف سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بطور مناظرہ پیش ہوئے.گویا بحث کا مقام ایک ایسے جنگل کی طرح تھا جس میں ایک طرف بھڑیا چیچنا تھا اور دوسری طرف شیر دھاڑ رہا تھا." اعجاز احمدی کی اشاعت حضرت اقدس کا یہ مضمون اور قصیدہ اعجاز احمدی" کے نام سے ۱۵ / نومبر ۱۹۰۲ء کو ساڑے تین ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.اگلے ہی روز مولوی محمد سرور شاہ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب اس کے نسخے لے کر مولوی ثناء اللہ صاحب اور دوسرے مخالفین میں تقسیم کرنے کے لئے امر تسر گئے.اس رسالہ میں چونکہ پیر مہر علی شاہ صاحب، مولوی اصغر علی صاحب اور مولوی علی حائری صاحب شیعہ بھی مخاطب تھے اس لئے اسی تاریخ کو انہیں بھی یہ رسالہ بذریعہ رجسٹری روانہ کر دیا گیا.

Page 248

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۲۳۱ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی سید نا حضرت مسیح موعود کا دس ہزار روپے کا چیلنج سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے مددگاروں کو اعجاز احمدی" میں دس ہزار روپے کا انعامی چیلنج دیتے ہوئے اعلان فرمایا تھا کہ اگر وہ اسی میعاد میں یعنی پانچ دن میں ایسا قصیدہ معہ اسی قدر اردو مضمون کے جواب کے جو وہ بھی ایک نشان ہے بنا کر شائع کر دیں تو میں بلا توقف دس ہزار روپیہ ان کو دے دوں گا چھپوانے کے لئے ایک ہفتہ کی ان کو مہلت دیتا ہوں یہ کل بارہ دن ہیں اور دو دن ڈاک کے بھی ان کا حق ہے." "دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں.اگر میں صادق ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور ان کے تمام صاحب اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کا رد لکھ سکیں کیونکہ خدا تعالٰی ان کی قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو غیبی کر دے گا." اس انعامی چیلنج کے علاوہ حضور نے دس ہزار روپیہ کا ایک الگ انعامی اشتہار بھی دیا جس میں اصل میعاد سے چھ دن کی مزید توسیع کا یہ اعلان فرمایا کہ "اگر میں دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں.مخالف علماء کے قلم ٹوٹ گئے خدائی تائید و نصرت سے لکھے ہوئے اعجازی مضمون اور قصیدے کا ارضی علماء بھلا کیا جواب دیتے یا دے سکتے تھے.پوری مقررہ میعاد گزرگئی مگروہ "اعجاز المسیح اور الہدی " کی طرح " اعجاز احمدی " کا جواب شائع کرنے میں بھی سراسر نا کام رہے اور جیسا کہ سلطان القلم نے قبل از وقت پیشگوئی فرمائی تھی خدا تعالیٰ نے سچ مچ ان کے دل نبی کر دیئے اور ان کے قلم توڑ دئیے.ایک شخص قاضی ظفر الدین احمد صاحب پروفیسر اور شیل کالج نے اس کے جواب میں عربی نظم لکھنا شروع کی مگر ابھی چند شعر لکھے تھے کہ ملک الموت نے ان کو آلیا.ان کی وفات کے چار سال بعد ان کا ایک بیٹا فیض اللہ خاں ایک احمدی منشی مناسب علی صاحب جالندھری سے مباہلہ کر کے ۱۳ اپریل ۱۹۰۷ء کو ہلاک ہو گیا.میرٹھ کے ایک اخبار "شحنہ ہند نے اعجاز احمدی کا انعامی اعلان پڑھ کر یہ تعلی کی کہ آئندہ شروع سال ۱۹۰۳ء (یعنی میعاد کے بعد اس کتاب کا اعجازی جواب شائع کیا جائے گا.اور اس غرض کے لئے اس نے مسلمانوں سے تین ہزار روپے چندہ کی بھی اپیل کی مگریہ اعلان بھی محض ایک اخباری tt TA

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۳۲ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اعلان ثابت ہوا اور اس کا جواب بن نہ پڑا.ایک سفر بٹالہ حکیم فضل الدین صاحب مہتم مطبع ضیاء الاسلام نے قادیان کے شمالی جانب نیلام شدہ فصیل کا ٹکڑا خرید کیا تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نام اس کا بیع نامہ لکھا تھا.قادیان کے کسی شخص نے اس زمین کے متعلق دعویٰ دائر کر دیا کہ اس میں کچھ حصہ اس کی ملکیت کا بھی شامل ہے.یہ مقدمہ قریباً ڈیڑھ سال سے چل رہا تھا.آخر یدعی نے حضرت اقدس کو شہادت کے لئے طلب کرایا.چنانچہ ۷ / نومبر ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس نے سفر بٹالہ اختیار فرمایا.حضرت اقدس سات بجے صبح بالا خانہ سے تشریف لائے.آگے نواب محمد علی خاں صاحب کی رتھ تیار تھی اور احباب جماعت اور طلباء مدرسہ ارد گرد جمع تھے.حضور کے چاروں صاحبزادے تو رتھ میں بیٹھ گئے اور حضور اپنے خدام کے ساتھ پا پیادہ قصبہ سے باہر تک تشریف لے گئے اور سب سے مصافحہ کر کے رتھ میں سوار ہوئے.اس سفر میں حضرت میر نا صر نواب صاحب مولوی محمد علی صاحب مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مفتی محمد صادق صاحب شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم، ماسٹر فقیر اللہ صاحب اور ماسٹر محمد نصیب صاحب اور مدرسہ کے چند طلباء حضور کے ہمراہ تھے.حضور و بجے کے قریب بٹالہ میں عدالت کے متصل ایک باغ میں پہنچے.کچھری کے عملہ کے علاوہ دوسرے زائرین کا ایک ہجوم ہو گیا.حضرت اقدس حلقہ احباب میں فرش پر تشریف فرما ہوئے.کھانا دستر خوان پر چنا گیا.کھانے کے دوران میں ہی حضور سے بعض خدام نے ملاقات کی اور حضور اپنے قیمتی اور پر معارف کلام سے نوازتے رہے.کھانے سے فارغ ہوئے تو اور لوگ بھی حضور کی خدمت میں ملاقات کے لئے آئے.بٹالہ آنے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا.ہمارا یہاں آنا تو کوئی اور ہی حکمت رکھتا ہے.ہر جگہ جو انسان قدم رکھتا ہے اس میں خدا کی حکمت ہوتی ہے.زمین پر کچھ نہیں ہو تاجب تک آسمان پر تحریک مقدر نہ ہو.اسی اثناء میں شیخ علی احمد صاحب پلیڈ ر گورداسپور آگئے.انہوں نے حضور سے اپنے مقاصد کے لئے درخواست دعا کی.ایک مولوی صاحب نے بھی جو عیسائیوں سے مباحثات کے بڑے مشتاق تھے حضور سے نیاز حاصل کیا.حضرت اقدس نے انہیں فرمایا کہ اب آپ لوگوں کے وہ پرانے ہتھیار کام نہیں دیتے وہ کند ہو گئے ہیں اور خاطر خواہ کام نہیں دیتے بلکہ ان سے الٹا اسلام کو نقصان پہنچتا ہے.۲۹ لاکھ کے قریب مسلمان مرتد ہو چکے ہیں.ان کا وہی حال ہے جس طرح کوئی کہے کہ فلاں شخص مرا تو

Page 250

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۳۳ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی نہیں مگر ہاں نبض بھی نہیں.سانس بھی نہیں لیتا.پیٹ بھی پھول گیا ہے.حرکت بھی نہیں کرتا.غرض ساری علامات مردوں کی ہیں مگر مرا نہیں.یہی ان لوگوں کا حال ہے کہ مسیح کو خدا نہیں کہتے مگر ساری خدائی کی صفات کو اس میں جمع کر دیتے ہیں.مولوی صاحب آخر من سن کر چپکے سے اٹھ کر چل دیئے.چونکہ عدالت کی پیشی میں دیر تھی.اس لئے نماز ظہر و عصر قصر کر کے جمع کی گئی.نماز میں کوئی دوسو کے قریب آدمی شریک ہوئے خلقت کا ایک اثر دھام ہو گیا.اس موقعہ پر اٹھوال، سیکھواں و هرم کوٹ اور امرتسر کی جماعت کے دوست بھی بکثرت آئے ہوئے تھے.بہت سے دوستوں نے اس وقت مجمع میں دوبارہ بیعت کی.آخر دو بجے کے بعد آپ بطور گواہ پیش ہوئے.خلقت کا ہجوم اس قدر تھا کہ برآمدوں اور کمرہ عدالت میں جگہ نہ تھی.عدالت میں بمشکل کمرہ خالی کرایا اور بند کمرے میں آپ کی شہادت ہوئی.منشی نصیر الدین صاحب منصف عدالت نے نہایت احترام سے حضرت اقدس کے لئے کرسی بچھائی اور آپ کو اس وقت تک کرسی پر بیٹھے رہنے کے لئے کہا جب تک کہ وہ عدالت کے کمرہ کو خالی نہ کرا چکے.کمرہ میں گواہی کے وقت آپ کے خدام میں سے شیخ یعقوب علی صاحب تراب، مفتی محمد صادق صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب نو مسلم موجود تھے.شہادت ختم ہوئی تو حضور باہر تشریف لائے اور ایک جم غفیر کے حلقہ میں فرودگاہ پر پہنچے.پھر بٹالہ سے روانہ ہوئے اور کوئی ساڑھے چھ بجے شام کے قریب قادیان پہنچ گئے - 1 مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کا مباحثہ اور حضرت مسیح موعود حکم ربانی کا ریویو فرقہ اہل حدیث حدیث کے بارے میں یہ غالیانہ عقیدہ رکھے ہوئے تھا کہ حدیث قرآن پر مقدم ہے.اس افراط کی راہ کارد عمل بیسویں صدی عیسوی کے آغاز ہی میں خود اہل حدیث کے اندریہ پیدا ہوا کہ ان میں سے ایک طبقہ نے سرے سے حجت حدیث ہی سے انکار کر دیا اور اپنا نام اہل قرآن رکھ لیا.اس گروہ کے بانی مولوی غلام نبی صاحب عرف مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی تھے.مولوی عبداللہ صاحب نے اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت کے لئے سب سے قبل " البیان الصريح لاثبات كرا به التراويح " تالیف کیا.پھر تفسیر القرآن کی ایک جلد شائع کی جس میں سلف

Page 251

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۳۴ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی صالحین کے خلاف بہت سے مسائل اختراع کئے اور لکھا کہ قرآن میں سب احکام شرعیہ مفصل و مشرح موجود ہیں لہذا احادیث کی ضرورت نہیں.رسول اللہ کا منصب صرف اتنا ہے کہ وہ پیغام رساں ہیں انہیں تبلیغ قرآن کے علاوہ حدیث سے کوئی تشریح با تفصیل بیان کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے.ان عقائد کی شہرت ہوئی تو کئی ایک اہل حدیث بھی اس سے متاثر ہوئے.یہ دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی سے ایک تحریری مباحثہ کیا.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۲۷ / نومبر ۱۹۰۲ء کو ایک محاکمہ لکھا.حضرت اقدس کا محاکمہ اس محاکمہ میں حضور نے تحریر فرمایا.و مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲) دوسری سنت اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں.یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث ایک الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعل...(۳) تیرا ذ ریعہ ہدایت کا حدیث ہے.اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے.پس سنت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنت ایک عمل ہے جو اپنے ساتھ تو اتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے...اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہو تا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نور اعلیٰ نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی کی گئیں اور اسلام میں بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہو گئے ان میں سے بچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت

Page 252

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۳۵ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی فائدہ پہنچا.پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانے کے اہل حدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر ان کے قصے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں تو ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑ دیا جاوے اور نہ حدیثوں کو مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جاوے بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے.اور جو حدیث قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو.اس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے.یہی صراط مستقیم ہے.مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں.نہایت بد قسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے.فت

Page 253

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۳۶ حواشی جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی -1 کشتی نوح صفحه ۲۱ ۲ کشتی نوح صفحه ۳۱۲ حیات احمد جلد پنجم صفحه ۱۳۰٬۱۳۹ مکتوبات احمد یہ جلد ۵ نمبر ۴ صفحه ۱۱۶ حکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۲ تقریروں کا مجموعہ نمبر ۲۷ تجلیات اللہ صفحہہ سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۲۲ البدر جلد نمبر نمبر ۳ صفحه ۲۲ کالم ۳ ۱۰- الحکم ۲۳۰ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۴۱ البدر ۱۷۸ مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۴ کالم ۲ ۱۲ حقیقته الوحی صفحه ۲۵۳ طبع اول) و الحکم ۲۴/ مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر ۴ ۱۳ حقیقته الوحی صفحه ۳۲۹۰۳۲۷ - موج کوثر صفحہ ۱۹۳۰۱۸۷ مولفه شیخ محمد اکرام صاحب ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈلاہور.طبع پانڈو ہم ۱۹۸۸ء یاد ایام صفحہ ۱۰۲ تا ۱۰۸ از محمد عبد الرزاق صاحب کانپوری شائع کردہ عبد الحق اکیڈیمی حیدر آباد دکن دسمبر ۱۹۴۶ء ۱۵- مفصل محط کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۵ و الحکم ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵ کالم.ریویو آف ریلیجز اردو ۱۹۰۲ء صفحہ ٣٣٨٠٣١١ - الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۳ ۱۷- تحفته الندوة ۱۸ تحفته الندوه طبع دوم صفحه ۸۰۷ الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ او الحکم ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۵ کالم نمبر ۲.شیخ یعقوب علی صاحب تراب اخبار نویس کی حیثیت سے شامل وفد کئے گئے تھے چنانچہ انہوں نے بعد میں جلسہ ندوہ کی کارروائی پر مبسوط تبصرہ بھی شائع کیا (ملاحظہ ہو الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۲ء تا ۲۴ / دسمبر ۶۱۹۰۲ ا حکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا منظوم عربی رسالہ البدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ اکالم ۲ ۲۳- القاديان صفحه ۱۰ ۲۴ ذکر حبیب صفحه ۱۲۷ ۲۵- ولادت ۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶ سن زیارت و بیعت ۱۹۰۰ء.قادیان کی ہجرت کا سال قریباً ۱۸۹۹ء.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے برادر نسبتی تھے.آپ ہی نے منشی محمد افضل صاحب آف افریقہ سے مل کر اختبار البدر جاری کیا.البدر کاڈ.کلریشن آپ کے نام تھا اور ادارت کے سوا باقی تمام فرائض آپ کے ذمہ ہوتے تھے.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری بھی آپ لکھتے تھے.ابتد النگر خانہ کے مہتمم بھی رہے.۱۴ / جنوری ۱۹۵۵ء کو انتقال فرمایا اور ربوہ میں صحابہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئے (حالات کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۱۲۸ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۷ - ۸ الفضل ۳/ اکتوبر ۱۹۵۵ء.روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) (_A_

Page 254

تاریخ احمدیت.جلد ۲ جاد هشتم صفحه ۱۲۹ ۱۲۷ ۲۶ - البدر ۶/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲۳۷ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی ۲۷- نمونے کا پرچہ ۲۰ دسمبر ۱۹۵۷ء کو شائع ہوا تھا.اولین پر نٹرو پبلشر حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی تھے اور مطبع را ما آرٹ ۲۰ کو ہواتھا.پر عبدالرحمن قادیانی اور پریس امرتسر ۲۸- ذکر حبیب صفحه ۱۹۳ أولاد -۲۹ اشتهار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء مندرجہ ذیل اشعار میں اس بشارت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:.خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یه بر باد ۳۰ اربعین نمبر ۲ صفحه ۳۲ ۳۱ بحوالہ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ ۳۲- الحکم ۷ استمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰۹ ۳۳ الحکام نے اسی ۱۹۰۶ ء صفحہ ۲ ۳۴ مکتوب مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ء ( اصل خط خلیفہ صلاح الدین صاحب مرحوم دار الیمن ربوہ کی اولاد کے پاس محفوظ ہے) ۳۵- آپ کا پہلا نام رشیدہ تھا مگر حضرت ام المومنین نے آپ کو محمودہ بیگم کا نام دیا اور اسی نام سے آپ آخر عمر تک موسوم رہیں الفضل ۷ / اگست ۱۹۵۸ء - الحکم ۱۰/۱۷- اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۹۴۸ - الحکم ۰۱۰/۱۷ اکتو: ۱۹۰۳ء صفحه ۹۴۸ ۳۸- جناب مولف صاحب مجدد اعظم" نے لکھا ہے کہ نکاح کے ساتھ شادی بھی ہوئی یہ صحیح نہیں.شادی اگلے سال ہوئی تھی.۳۹ ضمیمه الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳ و البدر ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳۱۴ ۴۰- اصحاب احمد جلد 4 صفحه ۱۳۰ الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء صفحه ۴ کالم نمبر ۱۳ حضرت سیدہ محمودہ کی سیرت و شمائل کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل کے / اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳ - الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳-۴ ۲۲ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کو جو ام ناصر کہلائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی بہو تھیں پچھپن چھپن سال تک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت اختیار کرنے کی سعادت ملی اور ۳۱/ جولائی ۱۹۵۸ء کو انہوں نے مری میں انتقال فرمایا اور ربوہ میں دفن ہو ئیں.حضرت سیدہ نہایت در چه خدار سیده غریب پر در اور ہمد رد خلائق خاتون تھیں.نیکیوں اور قربانیوں میں ان کا مقام بہت بلند تھا.آپ کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے جو خرچ کہا تھا اس کا اکثر حصہ چندے میں دے دیتی تھیں اور اولین مومیوں میں سے تھیں.آپ کی قربانی اور ایثار کی بہترین اور روشن یادگار اخبار " الفضل " کا اجراء ہے جس کے لئے آپ نے اپنے دو زیور اپنے مقدس خاوند کو پیش کر دیے اور اس سرمایہ سے اخبار جاری ہوا.۴۳ الفضل یکم جون ۱۹۱۳ء صفحه ( تاریخ ولادت یکم اگست ۱۹۰۱ء- تاریخ وفات ، ادسمبر ۱۹۴۴ء) -۴۴- الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۱ء صفحه ا ۴۵ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ا.تاریخ وفات ۱۳ مئی ۱۹۳۳ء الفضل ۵۹ فروری ۱۹۲۶ء صفحه ۱ ۰۴۷ الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه) ۴۸- الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۴۴ء صفحه ۱

Page 255

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ PA جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی میاں احمد بخش صاحب نائب تحصیلدار مردان متوطن ، تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر کے تین بیٹے تھے.میاں محمد یوسف صاحب.میاں محمد یعقوب صاحب.میائی احسن صاحب.سب سے پہلے میاں محمد احسن صاحب احمدیت کے نور سے منور ہوئے.میاں ان صاحب احمد ست محمد یعقوب نے ان کے بعد بیعت کی (بدر ۷-۱۵ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۱) میاں محمد یوسف صاحب 1991 ء میں داخل سلسلہ ہوئے اور ۶ / مئی ۱۹۶ء کو مردان میں وفات پائی آپ کے ذریعہ کئی افراد نے حق قبول کیا.خود آپ کو احمدیت میں لانے کا موجب با بو شاه دین صاحب اسٹیشن ماسٹر ساکن سا ہو وال تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ (متوفی ۱۲ / مئی ۱۹۰۸م) تھے.آپ ایک لمبے عرصہ تک امیر جماعت احمد یہ مردان رہے.میاں محمد یعقوب صاحب کی وفات حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہوئی یہ حالات قاضی محمد یوسف صاحب امیر جما منتہائے احمد یہ پشاور ڈویژن کی ایک تحریر سے ماخوذ ہیں) ۵۰ دیکھیں حاشیہ نمبر ۴۹ ۵۱ - الحکم ۳۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲ ۵۲ اعجاز احمدی صفحه ۵۳- اصحاب احمد جلد پنجم صفحہ ۷۸ ۰۵۴ اعجاز احمدی صفحه ۴۴۳۹ ۵۵- اعجاز احمدی و اصحاب احمد جلد پنجم صفحه ۷۹ ۵۶- اعجاز احمدی صفحه ۳۶ ۵۷- اصحاب احمد جلد پنجم ۸۱ ۵۸ اعجاز احمدی صفحه ۵۵ ۵۹ - البدر ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۹ کالم ۲ ۲۰ اعجاز احمدی المحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ - البدر ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۹.۲۰.اصحاب احمد جلد ۵ صفحہ ۷۶.۱۰۰ اصحاب احمد جلد ۵ صفحه ۸۲ الحکم کے امتی ۱۹۰۲ء کالم نمبر ۲.بدر ۱۳ مارچ ۱۹۱۰ صفحه) اعجازی احمدی صفحه ۴۵ مطبوعه ۱۵/ نومبر ۱۹۰۲ء اعجازی احمد فی صفحه ۴۳ ۶۵ اعجاز احمد ی صفحه ۳۶٬۳۵ و صفحه ۸۹ الحکم ۱۷/ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ کے کالم نمبر ۳ ن اعجاز احمدی صفحه ۳۶-۱۳۷ صفحه ۹۰ تمہ حقیقته الوحی صفحه ۱۲۵-۱۲۶ ۶۹ - البدر ۱۳ دسمبر ۶۱۹۰۲ ۷۰ الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴-۱۶ - البدر ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۳.البدر ۲ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۷۲۶ ہے.رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحه ۲۹۶ حاشیه ۷۲ مولوی عبد اللہ صاحب کے ان خیالات کی اشاعت کے لئے ۱۹۲۴ء میں خواجہ احمد دین صاحب امرتسری نے امت مسلمہ "نامی رسالہ جاری کیا.۱۹۲۸ء میں اس کی ترقی یافتہ شکل کا آغاز رسالہ " طلوع اسلام" سے ہوا جس کے ذریعہ سے حافظ محب الحق صاحب بہاری کے شاگر د حافظ محمد اسلم صاحب جیراجپوری اور مسٹر غلام احمد صاحب پرویز نے انکار حدیث کی تحریک کو فروغ دینے کے لئے ایک نیا انداز فکر اختیار کیا.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے نظریات سے اس انداز کو بڑی تقویت ملی.حافظ محمد اسلم صاحب جیرا جیوری بھی ابتد ا اہل حدیث تھے مگر عمر کے آخر میں حدیثیوں کو محض تاریخ دین کی حیثیت دینے لگے تھے.۷۳ مباحثہ کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو " اشاعت السته " جلد ۱۹ نمبر ۵ صفحه ۱۴۱-۲۳۱

Page 256

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۷۴ - الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶ تا ۹ ۲۳۹ جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی ۷۵ حضرت اقدس کا قرآن سنت اور حدیث کے متعلق یہ نظریہ بھی ایسا ہے جو بالا خر دو سرے مسلمان علماء کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے.چنانچہ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کہتے ہیں." ملت اسلامی کی عمارت در اصل اسی ترتیب پر قائم ہوئی تھی کہ پہلے قرآن اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ".نیز لکھا.”عام لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حدیث اور سنت کے فرق سے ناواقفیت ہے.سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جسے حضور نے خود اختیار فرمایا اور امت میں اسے جاری کیا.اس کے بر عکس حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کیا کیا اور کس چیز کو کرنے کا حکم دیا.اس لحاظ سے حضور کی پوری زندگی کا طور طریقہ سنت ہے " (ملاحظہ ہو " تنقیحات " صفحہ 119 طبع پنجم (مکتبہ جماعت اسلامی دار الاسلام پٹھانکوٹ - اخبار تسنیم " (لاہور) ۷ الرمئی ۱۹۵۵ صفحہ ا کالم ۲-۳

Page 257

احمدیت.جلد ۲ ۲۴۰ ڈوئی اور پگٹ کو دعوت مقابلہ امریکہ اور یورپ کیلئے عظیم الشان نشان اور اسلام کی فتح عظیم اسلام کی فتح عظیم

Page 258

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۱ اسلام کی طرح عظیم امریکہ کے لئے نشان ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی کو دعوت مباہلہ ڈوئی کے ابتدائی حالات اور دعوئی پیغمبری سکاٹ لینڈ کا ایک شخص جان الیگریڈر ڈوئی (۱۸۴۷ - ۱۹۰۷) تھا جو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا چلا گیا جہاں ۱۸۷۲ء کے قریب وہ ایک کامیاب مقرر اور پادری کی حیثیت سے پبلک کے سامنے آیا.کچھ عرصہ بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ یسوع مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے بیماروں کو شفا دینے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ طاقت اس زمانہ میں اسے بھی عطا کی گئی ہے.۱۸۸۸ء میں وہ امریکہ کی نئی دنیا میں اپنے خیالات پھیلانے کے لئے سان فرانسکو آگیا.سان فرانسکو کے قرب و جوار اور دوسری مغربی ریاستوں میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد اس نے ۱۸۹۳ء میں شکاگو میں اپنی خاص سرگرمیاں شروع کر دیں ایک مکان کرایہ پر لیا جس کا نام ” زائن روم رکھا.ایک اور بلڈنگ میں ”زائن پر ننگ اینڈ پبلشنگ ہاؤس " کھولا.اور ایک اخبار ”لیوز آف ہیلنگ" کے نام سے جاری کیا.تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے طول و عرض میں اسے بڑی شہرت حاصل ہوئی اور اس کے ماننے والوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا.ڈوئی نے یہ کامیابی دیکھ کر ۲۲ فروری ۱۸۹۶ء کو ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھی اور اس کا نام "کریچن کیتھولک چرچ " رکھا.۱۸۹۹ء یا ۱۹۰۰ء میں اس نے پیغمبری کا دعوی کیا اور اس فرقہ کو کر کچن کیتھولک اپاسٹلک چرچ کا نام دے دیا.اپنی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لئے اس نے ایک میحون نامی شہر کی بنیاد رکھی اور ظاہر کیا کہ مسیح اسی شہر میں نازل ہو گا.اس طریق سے اس کے مریدوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور مالی آمد میں یہاں تک اضافہ ہوا کہ سال کے شروع میں اسے دس لاکھ ڈالر یعنی تمیں لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ اپنے مریدوں سے نئے سال کے تحفہ کے طور پر ملنے لگا اور وہ ملک میں شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرنے لگا.انہی ترقیات کو دیکھ کر اس نے اپنے اخبار ”لیوز آف ہیلنگ میں لکھا.”اگر یہ ترقی اس طرح جاری رہی

Page 259

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۴۲ تو ہم ہیں سال کے عرصے میں ساری دنیا کو فتح کرلیں گے." اسلام کی طفح عظیم ڈوئی شروع ہی سے اسلام اور محمد رسول اللہ ا کا سخت دشمن تھا.ڈوئی کی اسلام دشمنی وہ آنحضرت کو (معاذ اللہ ) کا ذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے حضور کو یاد کرتا تھا.اس کے اندرونی بغض اور بد باطنی کا اندازہ لگانے کے لئے فقط یہ امر ہی کافی ہے کہ اس نے اپنے اخبار ”لیوز آف ہیلنگ ۲۵/ اگست ۱۹۰۰ء میں صاف اور کھلے لفظوں میں یہ پیش گوئی کہ " میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبردار کرتا ہوں کہ اسلام مردہ نہیں ہے اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے اگر چہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہئے محمڈن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہئے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضحل لاطینی عیسویت کے ذریعہ ہو سکے گی نہ ہی بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ سے." حضرت مسیح موعود کی طرف سے ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج جب ڈوئی اپنی شوخیوں اور بے باکیوں میں یہاں تک "1 پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں آنحضرت ﷺ کی غیرت کا ایک زبر دست جوش پیدا کیا.چنانچہ حضور نے ستمبر ۱۹۰۲ء کو ایک مفصل اشتہار لکھا جس میں حضور نے تثلیث پرستی پر تنقید کرنے اور اپنے دعوئی مسیحیت کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا.ا حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے.اس کا دعوئی ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجر مسیح کے اور کوئی خدا نہیں...اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبردی ہے کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کار سول قرار دیں." سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیش گوئی نہ سنادیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونو میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیوں کہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا مانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی مانتا ہوں.اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے.چاہیئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے.اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب i

Page 260

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۳ اسلام کی فتح عظیم اس کے یہی دعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے راہ نکل آئے گی.میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی.اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا.اور یاد رہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ صحیح پیدا ہو گیا اور وہ میں ہی ہوں.صد ہانشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہو چکے.ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے." اگر ڈوئی اپنے دعوئی میں سچا ہے اور در حقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا.کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے نوٹس کا جواب نہ دیا یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی.اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہو گا.مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہو اور ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا بچوں کے ساتھ ہو.آمین حضرت اقدس نے یہ اشتہار براہ راست ڈوئی کو بھیجوا دیا لیکن ڈوئی نے اس طریق فیصلہ کی طرف بھی ذرا توجہ نہ کی بلکہ حضور کو براہ راست اس کا جواب تک نہ دیا.اس پر مستزاد یہ کہ اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بد زبانی شروع کر دی.چنانچہ اپنے ستمبر ۱۹۰۲ء کے پرچہ میں لکھا کہ.” میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹا دیا جائے." اخبارات میں چیلنج کی وسیع اشاعت حضرت اقدس نے ڈولی کی اولا بے التفاتی اور ثانیاً یہ شوخی دیکھی تو کئی ماہ کے انتظار کے بعد اپنا مضمون مباہلہ امریکہ کے ان مشہور روزناموں کو بھیج دیا جو بڑی کثرت سے دنیا میں شائع ہوتے تھے.ان اخبارات کے ایڈیٹر کو عیسائی اور اسلام کے مخالف تھے مگر انہوں نے نہایت شد و مد سے حضور کے مضمون کی اتنی کثرت سے اشاعت کی کہ امریکہ اور یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی.ان میں سے

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۴ اسلام کی فتح عظیم بعض اخبارات نے حضرت اقدس کا فوٹو شائع کیا.بعض نے قبر مسیح کی تصویر بھی چھاپی.اخبار ار گوناٹ سان فرانسکو " نے حضرت اقدس کے پیش فرمودہ طریق فیصلہ کو معقول اور منصفانہ تجویز قرار دیا.اخبار " بر لنگٹن فری پریس " نے لکھا." مسیح موعود نے بڑی ہوشیاری سے ایک ایسا ہتھیار تجویز کر دیا ہے کہ اگر ڈوئی اس تجویز کو نہ مانے تو دوسرے الفاظ میں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ اپنے معالمہ کو اس بڑے مقتدر حاکم کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتا جس کی طرف سے وہ ہونے کا مدعی ہے." شکاگو کے ایک اخبار نے یہ تبصرہ کیا کہ ڈوئی نے چیلنج کو منظور نہیں کیا اور نہ اب تک انکار ہی کیا ہے.غالبا پہاڑ کی خوش گوار ہوا میں وہ جواب تجویز کر رہا ہے.ممکن ہے کہ بحیثیت فریق ثانی وہ شرائط میں کچھ تبدیلی چاہے.اس صورت میں اس کی درخواست یہ ہوگی کہ بجائے دعا کے گالیوں میں مقابلہ کیا جاوے اور جو دو سرے کو زیادہ گالیاں دے سکے وہی فتح یاب سمجھا جائے.ڈوئی کی خاموشی حضور کے اشتہار کو ایک سال گزر گیا اور امریکہ کے اخباروں نے اس کی بکثرت اشاعت کر کے ڈوئی کو شرم دلائی مگر ڈوئی نے اب بھی ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا اور نہ اس چیلنج کو قبول کیا نہ انکار.البتہ اس نے مفتی محمد صادق صاحب فنانشل سیکرٹری انجمن اشاعت اسلام کے نام ایک پرائیویٹ خط میں لکھا " خواہ کوئی شخص مجھے الیاس مانے یا نہ مانے میرے سلسلہ میں داخل ہو سکتا ہے.میری نبوت کو ماننا میرے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے ضروری نہیں." بعض امریکی اخباروں نے لکھا کہ ڈاکٹر ڈوئی کے مریدوں سے جب اس خاموشی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ڈائی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ کسی پنجابی سے مقابلہ کرے.حضرت مسیح موعود کا دوسرا اشتہار اور حضور نے جب دیکھا کہ ڈوئی ایک سال کا عرصہ ڈوئی کے عبرت ناک انجام کی پیشگوئی گزر جانے پر بھی نہ کھلے طور پر میدان مقابلہ میں آتا ہے نہ اپنی بد زبانی سے باز آتا ہے تو حضور نے ۲۳/ اگست ۱۹۰۳ء کو ایک اور انگریزی اشتہار جو چھ صفحے کا تھالا ہو ر سے شائع فرمایا.اس اشتہار میں مترجم کا نوٹ بھی درج تھا اور نیچے حضور کے دستخط تھے.اور اشتہار کا عنوان تھا."گٹ اور ڈوئی کے متعلق پیش گوئیاں." حضور نے اس اشتہار میں صاف صاف تحریر فرمایا کہ."مسٹرڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتا یا اشارہ میرے مقابلہ پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا."

Page 262

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۵ اسلام کی فتح عظیم اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کر چکا ہوں اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہو گا.میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے.لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پروا نہیں کی کیوں کہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہو گا بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا.اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعوئی اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور قریب تھا.اور اگر چہ وہ اس طرح موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن در حقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے.پس یقین سمجھو کہ اس کے میحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیوں کہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑے گی." حضور کے اس اشتہار کا بھی امریکہ کے اخباروں میں عام چرچا ہو مثلاً اخبار اخبارات میں چرچا دو گلاسگو ہیرلڈ " نے ۲۷ / اکتوبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا ” مرزا غلام احمد صاحب اپنی پیش گوئی مورخہ ۲۳/ اگست ۱۹۰۳ء میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی دعوت مقابلہ کے جواب کا سات ماہ آئندہ تک انتظار کریں گے.اگر اس عرصہ میں ڈاکٹر ڈوئی نے اس مقابلہ کو منظور کر لیا اور اس کی شرائط کو پورا کیا تو تمام دنیا اس مقابلہ کا انجام دیکھ لے گی.میری عمر ستر سال کے قریب ہے حالانکہ ڈاکٹر ڈوئی صرف پچپن سال کی عمر کا ہے لیکن چونکہ اس امر کا انفصال عمر پر نہیں ہے اس واسطے میں ان عمر کے سالوں کی تفاوت کی کچھ پروا نہیں کرتا.مرزا غلام احمد صاحب کہتے ہیں کہ اگر اب بھی ڈوئی مقابلہ سے انکار کرے گا تو امریکہ کے پیغمبر کے دعادی جھوٹ اور افترا ثابت ہو جائیں گے.||ARIZ| حضرت اقدس کے اس اشتہار کے جواب میں ڈوئی ڈوئی کا اشار تأمیدان مقابلہ میں آنا اشاروں اشاروں سے میدان مقابلہ میں آگیا.اور وہ اس طرح کہ اس نے ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۳ء کو اپنے اخبار میں لکھا کہ لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں

Page 263

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۶ اسلام کی طرح عظیم کہ کیوں تم فلاں فلاں بات کا جواب نہیں دیتے.جواب ! کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کو جواب دوں گا.اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ایک دم ان کو کچل سکتا ہوں.مگر میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں." ۱۲ / دسمبر ۱۹۰۳ کو لکھا ” اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں." اس کے معا بعد اس نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۰۳ء کے اخبار میں نہایت بد زبانی سے حضور کے لئے بیوقوف محمدی مسیح" کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا.ہندوستان میں ایک بے وقوف شخص ہے جو محمدی مسیح ہونے کا دعوی کرتا ہے.وہ مجھے بار بار کہتا ہے کہ حضرت عیسی کشمیر میں مدفون ہیں جہاں ان کا مقبرہ دیکھا جا سکتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ اس نے خود وہ (مقبرہ) دیکھا ہے مگر بے چارہ دیوانہ اور جاہل شخص پھر بھی یہ بہتان لگاتا ہے کہ حضرت مسیح ہندوستان میں فوت ہوئے.واقعہ یہ ہے کہ خداوند صحیح بیت منیاہ کے مقام پر آسمان پر اٹھایا گیا جہاں وہ اپنے سمادی جسم میں موجود ہے." پھر ۲۳ جنوری ۱۹۰۴ء کو مسلمانوں کی تباہی کی پیش گوئی دوہراتے ہوئے لکھا." سینکڑوں ملین مسلمان جو اس وقت ایک جھوٹے نبی کے قبضہ میں ہیں انہیں یا تو خدائی آواز سننی پڑے گی یا وہ تباہ ہو جائیں گے." ڈوئی کی اخلاقی موت یوں کھلم کھلا مقابلہ میں آنے کے بعد ڈوئی کا کیا عبرت ناک انجام ہوا اب اس کی تفصیل سنئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق ڈوئی کے خدائی قمر کی زد میں آنے کی اولین صورت خود اس کے ہاتھوں یہ پیدا ہوئی کہ اس کی پیدائش ناجائز نکلی اور وہ ولد الحرام ثابت ہوا.یہ حقیقت اخبار نیو یارک ورلڈ" کے ذریعہ سے منکشف ہوئی جس نے ڈوئی کے سات خطوط شائع کئے جو اس نے اپنے باپ ” جان مرے ڈوئی " کو اپنی ناجائز ولدیت کے بارہ میں لکھے تھے.جب ملک میں اس امر کا چرچا عام ہونے لگا تو خود ” ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈرئی" نے ۲۵/ ستمبر ۱۹۰۴ء کو اعلان کیا کہ وہ چونکہ ڈوئی کا بیٹا نہیں اس لئے "ڈر کی " کا لفظ اس کے نام کے ساتھ ہر گز استعمال نہ کیا جائے.فالج کا حملہ اس اخلاقی موت کے ایک سال کے بعد کم اکتوبر ۱۹۰۵ء کو اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا.ابھی اس کے اثرات چل رہے تھے کہ 19 دسمبر ۱۹۰۵ء کو اس پر دوبارہ فالج گرا اور وہ اس سخت بیماری سے لاچار ہو کر میحوں سے ایک جزیرہ کی طرف چلا گیا.

Page 264

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۴۷ اسلام کی نیچ تعظیم مریدوں کی کھلم کھلا بغاوت جوں ہی ڈوئی نے صیحوں سے باہر قدم رکھا اس کے مریدوں کو تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک نہایت ناپاک اور سیاہ کار انسان ہے.وہ مریدوں کو شراب بلکہ تمباکو نوشی سے بھی روکتا تھا مگر خود گھر جا کر مزے سے شراب پیا کرتا تھا.چنانچہ اس کے پرائیویٹ کمرہ سے شراب برآمد ہوئی.یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے تعلقات بعض کنواری لڑکیوں سے تھے.قریباً پچاس لاکھ روپے کی اس کی خیانت بھی ثابت ہوئی کیوں کہ یہ روپیہ صیحوں کے حساب میں سے کم تھا.یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس نے صرف بطور تحائف میحوں کی خوبصورت عورتوں کو دے دیا تھا.ان الزامات سے ڈوئی اپنی بریت ثابت نہ کر سکا.اب نتیجہ یہ ہوا کہ اپریل ۱۹۰۶ء کو اس کی کیبنٹ کے نمائندوں کی طرف سے ڈوئی کو تار دیا گیا کہ ہم تمہاری بجائے والد کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں اور تمہاری منافقت، جھوٹ، غلط بیانیوں فضول خرچیوں مبالغہ آمیزیوں اور ظلم و استبداد کے خلاف زبر دست احتجاج کرتے ہیں.اس تار میں اسے متنبہ کیا گیا کہ اگر اس نے نئے انتظام میں کوئی مداخلت کی تو اس کے تمام اندرونی رازوں کا پردہ چاک کر دیا جائے گا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی.اس نے یہ کوشش کی کہ عدالتوں کے ذریعہ صیحوں پر اور روپے پر قبضہ حاصل کرلے مگر اس موت میں بھی اسے ناکامی ہوئی.وہ صیحوں کے شہر میں جہاں ہزاروں آدمی اس کے ادنی اشارے پر چلتے تھے واپس آیا تو ایک بھی آدمی اس کے استقبال کے لئے موجود نہ تھا.اس نے چاہا کہ اپنے مریدوں کے سامنے اپیل کر کے ان کو پھر اپنا مطیع کرلے مگر چاروں طرف سے اس کے لئے مایوسی ہی مایوسی تھی.جسمانی طور پر اس کی حالت ایسی خراب ہو گئی کہ وہ خود اٹھ کر ایک قدم بھی نہ چل سکتا تھا بلکہ اس کے حبشی ملازم اسے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے.اسی حالت میں وہ دیوانہ ہو گیا اور بالا خر ۹ / مارچ ۱۹۰۷ء کی صبح کو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ دنیا سے کوچ کر گیا اور خدا کے مقدس مسیح موعود کے یہ الفاظ کہ وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا" عبرت ناک رنگ میں پورے ہو گئے.امریکہ اور یورپ کے پریس کا تبصرہ ڈوئی کی ہلاکت پر فرولی کی ہلاکت کا نشان دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی نوعیت کا نشان تھا جس نے مغرب کی مادیت پرست دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور امریکہ اور یورپ کے بعض اخبارات کو تسلیم کرنا پڑا کی محمدی مسیح کی پیش گوئی ایسی شان سے پوری ہوئی ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں کم ہے.

Page 265

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲.۲۴۸ اسلام کی نفع تعظیم چنانچہ " شکاگو ٹربیون" (۱۰.مارچ ۱۹۰۷ء) نے لکھا.ڈوئی کل صبح سے بچ کر ۲۰ منٹ پر شیلو ہاؤس میں مر گیا.اس وقت اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا." ڈوئی کے مرنے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے آراستہ و پیراستہ اقامت گاہ اور اس کے سارے سامان پر سرکاری ریسیور مسٹر جان ہارٹلے نے میحوں کے قرض خواہوں کے نام پر قبضہ کر لیا.جب ڈوئی کی نعش صندوق میں پڑی ہوئی تھی اس وقت سرکاری کسٹوڈین مکان کے احاطہ میں جائداد کی نگرانی کرتا رہا.یہ خود مصنوعی پیغمبر کسی اعزاز کے بغیر بالکل کس مپرسی کے عالم میں مرگیا.اس وقت اس کے پاس نصف درجن سے بھی کم وفادار پیرو موجود تھے جن میں با تنخواہ ملازمین من جملہ ایک حبشی کے شامل تھے.اس کے بستر موت پر کوئی قریبی عزیز نہ آیا.اس کی بیوی لڑکا جیمل مشی گن کے دوسری طرف والے مکان بین مکد وہی میں اس عرصہ میں مقیم رہے.وہ آدمی جس نے دوسروں کو شفا دینے کا پیشہ اختیار کیا وہ خود کو شفا نہ دے سکا.اس کی غیر مطبع سپرٹ کو اس بیماری کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا جو اس کو قریب دو سال سے دبوچے ہوئے تھی.اس کا شفا دینے کا ایمان اس کے فالج ، ڈراپسی اور دوسری پیچیدہ امراض کے سامنے بالکل بے طاقت ثابت ہوا." ( ترجمہ ) رسالہ انڈی پینڈنٹ " (۱۴ / مارچ ۱۹۰۷ء) نے لکھا.ڈوئی اپنی مذہبی اور مالی طاقت میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے کمال تک پہنچا مگر پھر یک لخت نیچے اگر ا.اس حال میں اس کی بیوی اس کا لڑکا اس کا چرچ سب اس کو چھوڑ چکے تھے.اس نے اپنے مزعومہ پیغمبری مرتبہ کے لئے رنگا رنگ کا ایسا لباس بنایا ہوا تھا جو یوسف یا ہارون نے کبھی نہ پہنا ہوگا.شہر میحوں کے لئے اور اپنی ذاتی شان و شوکت کے لئے اس نے ان اموال کو جو اس کی تحویل میں دئے گئے ناجائز طور پر استعمال کیا.ایسے آدمی سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے ناجائز کام کرنا بھی مناسب ہے کیوں کہ ان کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ اخلاق دنیا کے مسلمہ نظریات سے بہت بلند ہے." امریکن اخبار " ٹروتھ سیکر" (۱۵ / جون ۱۹۰۷ء) نے " مرسلین کی جنگ" کے عنوان سے اداریہ لکھا.ڈوئی (حضرت) محمد ( ال ) کو مفتریوں کا بادشاہ سمجھتا تھا.اس نے نہ صرف یہ پیش گوئی کی

Page 266

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۲۴۹ اسلام کی طرح تعلیم کہ اسلام میحوں کے ذریعہ سے تباہ کر دیا جائے گا بلکہ وہ ہر روز یہ دعا بھی کیا کرتا تھا کہ ہلال اسلامی نشان) جلد از جلد نابود ہو جائے.جب اس کی خبر ہندوستانی مسیح کو پہنچی تو اس نے اس ایلیاء ثانی کو للکارا کہ وہ مقابلہ کو نکلے اور دعا کریں کہ ”جو ہم میں سے جھوٹا ہو وہ بچے کی زندگی میں مرجائے." قادیانی صاحب نے پیش گوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اور ذلت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا.اور اگر اس نے چیلنج کو قبول نہ کیا تو تب اس کا اختتام صرف کچھ تو قف اختیار کر جائے گا.موت اس کو پھر بھی جلد پالے گی اور اس کے صیحوں پر بھی تباہی آجائے گی.یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی تھی کہ صحیحوں تباہ ہو جائے اور ڈوئی (حضرت) احمد (علیہ السلام) کی زندگی میں مرجائے." مسیح موعود" کے لئے یہ ایک خطرے کا قدم تھا کہ وہ لمبی زندگی کے امتحان میں اس ایلیا ثانی " کو بلائیں.کیوں کہ چیلنج کرنے والا ہر دو میں سے کم و بیش پندرہ سال زیادہ عمر رسیدہ تھا.ایک ایسے ملک میں جو پلیگ اور مذہبی دیوانوں کا گھر ہو.حالات اس کے مخالف تھے مگر آخر کار وہ جیت گیا." " بوسٹن ہیرلڈ " نے اپنے سنڈے ایڈیشن (مورخہ ۲۳ / جون ۷ ۱۹۰ء) کے ایک پورے صفحے میں اس پیش گوئی کی تفصیلات درج کیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پورے قد کا بڑا نو ٹو بھی شائع کیا اور مندرجہ ذیل دوہرے عنوان کے ساتھ اپنے مضمون کو شروع کیا."مرزا غلام احمد المسیح ایک عظیم الشان انسان ہے." " آپ نے پہلے ڈوئی کی حسرت ناک موت کی پیش گوئی کی اور اب طاعون طوفان اور زلازل کی خبر دیتے ہیں.۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے الیگزینڈر ڈوئی موسوم بہ ایلیا سوم کی موت کی پیش گوئی کی جو اس مارچ میں پوری ہو گئی.نیز لکھا.یہ ہندوستانی صاحب مشرقی دنیا میں کئی برس سے مشہور ہیں.آپ کا دعوئی یہ ہے کہ آپ ہی صحیح صادق ہیں جو آخر کی زمانہ میں آنے والا تھا.اور یہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنی تائید سے ا ہے.امریکہ میں آپ کا تعارف ۱۹۰۳ء میں ہوا جب کہ آپ نے ڈوئی سے مقابلہ کیا...آپ نے نہ صرف زوئی کی موت کی پیش گوئی کی تھی بلکہ یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ آپ کی زندگی میں مرے گا اور بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مرے گا." اس وقت ڈوئی ۵۹ سال کا تھا اور یہ نبی ۷۵ سال کا." ڈوئی ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کے دوست اس کو چھوڑ چکے تھے اور اس کی جائداد تباہ ہو

Page 267

اسلام کی فتح عظیم ۲۵ تاریخ احمدیت جلد ۲ چکی تھی.اس کو فالج اور دیوانگی کا حملہ ہوا اور وہ ایسی حالت میں ایک دردناک موت مرا کہ اس کا میحون اندرونی تفرقات سے پارہ پارہ ہو چکا تھا." سیدنا حضرت مسیح موعود کی ڈوئی کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی حضرت مسیح طرف سے اسلام کی فتح کے موعود علیہ السلام نے ۱۷ اپریل ۱۹۰۷ء کو وفتح عظیم" کے عنوان سے ایک مفصل اشتہار شائع الشان نشان کی منادی فرمایا جس میں آپ نے ڈوئی سے مباہلہ کے بعد اس عظیم کے حالات اور اس کی موت کا مفصل ذکر کرتے ہوئے لکھا.یہ شخص میرے مضمون مباہلہ کے بعد جو یورپ اور امریکہ اور اس ملک میں شائع ہو چکا تھا بلکہ تمام دنیا میں شائع ہو گیا تھا شوخی میں روز بروز بڑھتا گیا اور اس طرف مجھے یہ انتظار تھی کہ جو کچھ میں نے اپنی نسبت خدا تعالٰی سے فیصلہ چاہا ہے ضرور خدا تعالیٰ سچا فیصلہ کرے گا اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ کا ذب اور صادق میں فرق کر کے دکھلا دے گا.اور میں ہمیشہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا تھا اور کاذب کی موت چاہتا تھا.چنانچہ کئی دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تو غالب ہو گا اور دشمن ہلاک کیا جائے گا.اور پھر ڈوئی کے مرنے سے قریباً پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کے ذریعہ سے مجھے میری فتح کی اطلاع بخشی جس کو میں اس رسالہ میں جس کا نام ہے " قادیان کے آریہ اور ہم." اس کے ٹائٹل پیچ کے پہلے ورق کے دوسرے صفحہ میں ڈوئی کی موت سے قریبا دو ہفتہ پہلے شائع کر چکا ہوں.اور وہ یہ ہے.تازہ نشان کی پیش گوئی خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہو گی.یہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہو گا (یعنی ظہور اس کا صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہو گا) اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہو گا.چاہیئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیوں کہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تارہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اٹھا دے.المشتر میرزا غلام احمد مسیح موعود مشتهره ۲۰/ فروری ۱۹۰۷ء اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ! i

Page 268

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۱ اسلام کی فتح عظیم ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے کیوں کہ اور نشان جو میری پیش گوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو ان کے ظہور کی خبر نہ تھی.لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیش گوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہو ا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا....اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہو گا.چونکہ میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا کیوں کہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ حامی صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سوخد اتعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیش گوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی.کیوں کہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعوی کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی.اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے.بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل میں کچھ چیز نہ تھا نہ اس کی طرح شہرت ان کی تھی.نہ اس کی طرح کروڑہا روپیہ کے وہ مالک تھے.پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.اگر میں اس مباہلہ کے لئے نہ بلاتا اور اگر میں اس پر بد دعانہ کرتا.اور اس کی ہلاکت کی پیش گوئی نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیقت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا.لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو جائے گا.میں مسیح موعود ہوں اور ڈائی کذاب ہے.اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا.اس سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی اکرم کی پیش گوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہو گا.اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہو گا.والسلام على من اتبع الهدى المشتهر میرزاغلام احمد صیح موعود از مقام قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۷ اپریل ۶۱۹۰۷

Page 269

تاریخ احمدیت.جلد ۲ YOY اسلام کی فتح عظیم حواشی انسائیکلو پیڈیا آف برٹینگا زیر لفظ "ڈولی امریکہ کے ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈولی کا عبرت ناک انجام (مولفہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصرایم.اے.سابق مبلغ امریکہ شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ لینڈ ریوہ صفحہ ۱۴-۲۳ بحوالہ عبرت ناک انجام ۴۳-۴۴ بحوالہ " عبرت ناک انجام صفحہ ۷ ۴ ریویو آف ریلیجز اردو نمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۴۲-۳۴۵- ریویو آف ریلیجز (انگریزی) ستمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۴۲-۳۴۵ -4 بحوالہ "حقیقته الوحی " تتمہ صفحہ ۷۳ بحوالہ "حقیقته الوحی " تتمه صفحه ۷۲ ان امریکی اخبارات میں سے بعض کے نام یہ ہیں.شکاگو انٹر پریٹر (۲۸/ جون ۱۹۰۳ء) ٹیلی گراف " (۵ / جولائی ۱۹۰۳ء) ارگونات سان فرانسکو " ( یکم دسمبر ۱۹۰۲ء) لٹریری ڈائجسٹ" نیویارک (۲۰/ جون ۱۹۰۳ء) " نیویارک میل اینڈ میل ایکسپریس " (۲۸/ چون ۱۹۰۳ء) ہیرلڈ روچسٹر (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء) " ریکار ڈ بوسٹن " (۲۷/ جون ۱۹۰۳ء) ایڈور ٹائزر " بوسٹن (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء) پائیلٹ " بوسٹن (۲۷/ جون ۱۹۰۳ء) پاتھ فائنڈ ر "واشنگٹن (۲۷/ جون ۱۹۰۳ء) انٹر اوشن" شکاگو (۲۷/ جون ۱۹۰۳ء) ووسٹر پائی (۲۸/ جون ۱۹۰۳ء)، ڈیمو کریٹ کرانیکل " رو چسٹر (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء) بر لنگٹن فری پریس " (۲۷/ جون ۱۹۰۳ء) " شکاگو انٹر اوشن (۲۸/ جون ۱۹۰۳ء) النبی پریس (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء) جیکنسول ٹائمز " (۲۸/ جون ۱۹۰۳ء) بالٹی مور امریکن " (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء)".فلو ٹائمز (۲۵/ جون ۱۹۰۳ء) نیویارک میل " (۲۵/جون ۱۹۰۳ء) " بوسٹن ریکارڈ " (۲۷ / جون ۱۹۰۳ء) ڈیزرٹ انگلش نیوز (۲۷ / جون ۱۹۰۳ء)‘ "ہیلینا ریکارڈ " ( یکم جولائی ۱۹۰۳ء) گروم شائر گزٹ " (۱۷ / جولائی ۱۹۰۳ء) نونیٹن کرانیکل " (۱۷/ جولائی ۱۹۰۳ء) ہیوسٹن کرانیکل (۳/ جولائی ۱۹۰۳ء) سونا نیوز (۲۹ جون ۱۹۰۳ء) ریمنڈ نیوز" کیم جولائی ۱۹۰۳ء).pre 316 یہ اخبارات صرف وہ تھے جو ان دنوں حضور تک بھی پہنچ گئے اور تمہ حقیقتہ الوحی صفحہ ۷۰.۷۲ میں حضور نے ان کا خلاصہ مضمون بھی درج فرما دیا.- ریویو آف ریلیجز "اردو.تمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۴۳ و تمہ "حقیقتہ الوحی صفحہ اے بحوالہ " ریویو آف ریلیجر " اردو ۱۹۰۳ء) ستمبر ) صفحه ۳۴۲-۳۲۶ بحوالہ ریویو آف ریلیجنه " اردو ۶۱۹۰۳( ستمبر) صفحه ۳۴۱-۳۴۷ ۱۲ بحوالہ ریویو آف ریلیجز " اردو ۱۹۰۳ء) ستمبر صفحه ۳۴۷ حقیقتہ الوحی تمہ صفحہ اے (حاشیہ) در یویو آف ریلیجز اردو ۱۹۰۳ء صفحه ۴۷۷ ۱۴.حقیقتہ الوحی تمہ صفحہ کے حاشیہ در یویو آف ریلیجنز ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۷۷ ۱۵- پگٹ لنڈن کا ایک عیسائی پادری جس نے ڈوئی کی طرح جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا.گٹ کاف کرڈوئی کے واقعہ کے معابعد آرہا ہے.ریویو آف ریلیجه "اردو اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۱۴۳ - ۱۴۴ ۱۷ بحوالہ ریویو آف ریلیجر اردو ( ۱۹۰۳ء) صفحہ ۷ ۲۷-۴۷۹ - بعض اور اخبارات جن میں اس اشتہار کا ذکر کیا گیا " نیویارک کمرشل ایڈور ٹائزر " (۲۶ / اکتوبر ۱۹۰۴ء) "دی مارننگ ٹیلی گراف نیویارک (۲۸/اکتوبر ۱۹۰۳ء) ۱۹ بحوالہ ریویو آف ریلیجز "اردو ۱۹۰۴ء صفحه ۱۴۵-۱۴۶ -۲۰ بحوالہ ریویو آف ریلیجز، اردو ۱۹۰۴ء صفحه ۱۴۶

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۳ اسلام کی نفع عظیم تشیع ۲۱ حقیقته الومی تخمه صفحه ۷۳ و " عبرت ناک انجام صفحه ۴۵ ۲۲- " عبرت ناک انجام "صفحه ۲۳ رسالہ انڈی پنڈنٹ " (۱۹).اپریل ۱۹۰۶ء) بحوالہ امریکہ کے ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کا عبرت ناک انجام " صفحہ ۵۷۵۳ متولقہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصرایم.اے سابق انچارج مبلغ امریکہ) -۲۴ بحوالہ ریویو آف ریلیجز " اردو اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۷ ۱۴-۱۴۸ عبرت ناک انجام صفحه ۸۴-۸۵ -۲۵ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھا ہے.In April 1906 a revolt against his domination took place in zion city.He was charged with preculation and with practising polygamy and was depsosed, with the assent of his own wife and son.Dowie was now broken in health and unmistakably insane; he was struck with paralysis and died in March 1907.zion city in ترجمہ: اپریل ۱۹۰۶ء میں ڈوئی کے اقتدار کے خلاف شہر میحون میں بغاوت ہو گئی اور اس پر تین اور تعدد ازدواج کا الزام لگایا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے لڑکے کی رضامندی سے اسے معزول کر دیا گیا.اب ڈوئی کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور وہ بدیہی طور پر پاگل ہو چکا تھا.اسی حالت میں اس پر فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث مارچ کے ۱۹۰ ء میں وہ شہر مسیحون میں مرگیا.۲۶ بحوالہ " عبرت ناک انجام " صفحه ۹۴ تا ۹۶ ۲۷- بحوالہ عبرت ناک انجام صفحه ۹۴ تا ۹۶ ۲۸ بحوالہ عبرت ناک انجام " صفحه ۹۸ - ۱۹۴ ایضار سالہ "A FATE OF A FALSE PROPHET- مولفه سید حسنات احمد صاحب دہلوی ناشر امریکن فضل ماسک بلیکیشنز ۱۹۸۵ء (واشنگٹن) رساله ریویو آف ریلیجز "انگریزی ربوه اگست ۱۹۸۳ء -۲۹ حقیقتہ الوحی صفحہ ۷۳-۸۰ تتمہ.

Page 271

ریخ احمدیت جلد ۴ ۲۵۴ کی فتح اسلام کی فتح عظیم یورپ کے لئے نشان سید نا حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پگٹ کے متعلق امریکہ میں ڈوئی کے دعوئی نبوت سے ایک عام شور بلند تھا کہ لنڈن سے یہ خبر شائع ہوئی کہ وہاں بھی کلپٹن کے ایک پادری جان ہیوگ سمتھ گٹ (REV.J.H.SMITH PIGOTT) نے4/ ستمبر ۱۹۰۲ء کو گر جا میں وعظ کرتے ہوئے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.کئی عیسائی یہ سنتے ہی روتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ میں گر گئے.پھر جوں جوں اس کی شہرت پھیلی گئی لوگ دیوانہ وار اس کے مرید ہونے لگے.n " رگٹ کے دعوی کی خبر پڑھ کر مفتی محمد صادق صاحب نے اسے ایک تبلیغی خط لکھا D اور مزید حالات دریافت کئے.پگٹ کے سیکرٹری نے اس کے جواب میں دو اشتہار اور ایک خط بھیجا جو انہوں نے ۹/ نومبر ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سنائے.ایک اشتہار کا عنوان "کشتی نوح" تھا.حضور نے اسے سن کر فرمایا.اب ہماری بچی کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی اور فرمایا کہ "یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں سو اول لندن میں ایک جھوٹا مسیح آگیا.اس کا قدم اس زمین میں اول ہے بعد ازاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح ہے.اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجال خدائی اور نبوت کا دعوی کرے گا تو موٹے رنگ میں اب اس قوم نے وہ بھی کر دکھایا.ڈوئی امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور پگٹ لنڈن میں خدائی کا دعوی کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کہتا ہے." یکٹ کے نام اشتہار یہ شخص بھی ڈوٹی کی طرح اسلام کا مخالف تھا اس لئے حضور نے اس کے نام بھی اشتہار لکھا اور مولوی محمد علی صاحب کو بھیجا کہ وہ اس کا ترجمہ کر کے ولایت بھیج دیں.اتفاقا مفتی محمد صادق صاحب بھی اس وقت مولوی صاحب موصوف کے پاس ان کے دفتر میں موجود تھے.اس اشتہار کی دو خصوصیتیں تھیں.ایک تو یہ کہ حضور عموماً لمبے اشتہار

Page 272

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۵ اسلام کی فتح عظیم لکھا کرتے تھے مگر یہ اشتہار صرف چند سطروں کا تھا جو ایک چھوٹے سے صفحہ پر آگیا.دوسرے یہ کہ اس کے آخر میں حضور نے اپنا نام اس طرح لکھا تھا."النبی مرزا غلام احمد " اس اشتہار کا عنوان تھا.ایک الوہیت کے مدعی کو تنبیہ " حضور نے تحریر فرمایا ” یہ امر خدا کی غیرت کو بھڑکانے والا ہے کہ ایک شخص انسان ہو کر پھر خد ابنتا ہے اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور اس طرح پر خدا کے مقدس نبیوں کی بے عزتی کا بھی موجب ہو تا ہے.اس لئے میرے بچے اور پاک اور کامل خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے کہ میں ایسے شخص کو آنے والی سزا سے متنبہ کروں " اشتہار کی اشاعت انگلستان میں انگلستان کے اخباروں نے اس اشتہار پر دلچسپی لی اور اسے بڑی کثرت سے شائع کیا مثلاً اخبار سنڈے سرکل" (SUNDAY CIRCLE) لنڈن نے ۱۴ فروری ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں ”سب سے آخری صحیح" اور "پادری پگٹ کا ایک ہندوستانی حریف" کے دو ہرے عنوان سے لکھا کہ مشرق میں ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں ایک اسی دعوئی کا مدعی پیدا ہوا ہے جو پگٹ نے کیا تھا.اس سب سے آخری مسیح کا نام مرزا غلام احمد ہے اور وہ قادیان میں رہتے ہیں جس کے وہ رکیں ہیں.انہوں نے بھی ایک اشتہار یورپ اور امریکہ میں اشاعت کے لئے بھیجا ہے." ( آگے اشتہار کی عبارت نقل کی ہے).اس مخصوص حضرت مسیح موعود کی طرف سے بگٹ کو دوسری بار انتباہ اشتہار کے علاوہ جو * " رگٹ کو انتباہ کرتے ہوئے شائع کیا گیا تھا جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳.اگست ۱۹۰۳ء کو ” پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیش گوئیاں" کے نام سے اشتہار شائع کیا جس میں سٹ کے بارے میں پیش ھوئی فرمائی کہ ”یہ دلیر دروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کالنڈن میں دعوی کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائے گا." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش گوئی کے مطابق پیگٹ کی ناکامی و نامرادی جب پیٹ کو انتباہ کیا تو وہ پورے عروج پر تھا مگر اس کے بعد یکا یک غیب سے ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ عیسائیوں کی مخالفت کی تاب نہ لا کر اس نے آئندہ اپنے دعوئی مسیحیت کا ذکر تک چھوڑ دیا.ڈوئی تو ولد الحرام ثابت ہوا تھا اور اس پر حرام کاری کا الزام عائد کیا گیا جو عدالت میں بھی قائم رہا اور چمٹ نے اپنی بقیہ عمر گوشہ نشینی اور انتہائی

Page 273

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۶ اسلام کی فتح تعظیم کمپری اور گمنامی میں بسر کی اور نامرادی کی حالت میں اس جہاں سے رخصت ہوا.اس طرح جھوٹے مسیح کی جھوٹی کشتی خدا کے سچے مسیح کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے ٹوٹ پھوٹ گئی اور اس کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش گوئی فرمائی تھی پگٹ کیفر کردار کو پہنچا.۱۹۰۲ء کے بعض صحابہ ۱۹۰۲ء کے بعض ممتاز صحابہ یہ ہیں.میر قاسم علی صاحب دہلوی I قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی پشاور چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکر ڈاکٹر بشارت احمد صاحب -

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۷ حواشي ذکر حبیب صفحہ ۱۰۷ English Masalahs by Ronald Mathews -I Publishors, Mathaen and co Ltd London 36 Essen street W.C اسلام کی فلح عظیم مفصل خط اخبار " البدر ۲۱ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲۹ کالم ۲ - ۳ پر درج ہے.مفصل خط اخبار " البدر ۲۱.نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۹ ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۱۰۶.۱۰۷ حضرت اقدس کے اشتہار کے یہ الفاظ اخبار سنڈے سرکل لندن ۱۴.فروری ۱۹۰۳ء سے ماخوذ ہیں جو " ریویو آف ریلیجن اردو ( ۱۹۰۳ء) صفحہ ۳۴۹-۳۵۱ پر چھپ چکے ہیں.ریویو آف ریلیجز ۱۹۰۳ء صفحه ۳۴۸-۳۵۱ ریویو آف ریلیجز "اردو (۱۹۰۷ء) صفحه ۱۴۴ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے بعض انگریز محققین کے بیانات کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.ایک انگریز مورخ رانڈ میتھیوز (Ronald Mathewa اپنی کتاب "English Messiaha میں منٹ کے حالات میں لکھتا ہے کہ جان ہیوگ سمتھ پگٹ ۱۸۵۲ء میں پیدا ہوا.۱۸۸۲ء میں کلیسیائے انگلستان میں شامل ہو گیا.۱۸۹۲ء میں کیپٹن میں ہنری جیمز پرنس کے چرچ کا اجراء ہوا.یہاں پنکٹ ہر اتوار کو فرقہ کے اراکین سے خطاب کیا کرتا تھا اور بتا تا تھا کہ روح القدس کے پیغامبر ہنری جیمز پرنس کی پیش گوئی کے مطابق نجات دہندہ یسوع مسیح کی آمد قریب ہے.۱۸۹۹ء میں ہنری جیمز پرنس کا انتقال ہو گیا.اب آہستہ آہستہ پگٹ کے خطبات کا انداز بدلنے لگا کہ مسیحا کی آمد ثانی موہوم امید نہیں بلکہ یقینی چیز ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ عین ممکن ہے کہ آنے والے مسیح ان کے درمیان ہی ہوں.آخر ۹.ستمبر ۱۹۰۲ء بروز اتوار اس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا ”ہنری جیمز پرنس مسیحا کی آمد ثانی کے لئے راستہ تیار کرنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے جو کچھ بتایا تھا وہ درست تھا.میں آج رات جو آپ کے سامنے کھڑا تقریر کر رہا ہوں.وہی یسوع مسیح ہوں جو فوت ہوا.اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا." اخبارات میں اس کے دعوئی مسیحائی کی خبر چھپ گئی.اس کے جلد بعد اس کی اتنی زیادہ مخالفت ہوئی کہ کوشش کے باوجود وہ دوبارہ اپنے کلیپٹن کے گرجا میں عبادت و خطبات کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا.اور لنڈن چھوڑ کر سیکسٹن Spexton چلا گیا اور اپنی زندگی کے آئندہ ۲۵ برس وہیں گوشہ تنہائی میں گزارے اور مارچ ۱۹۲۷ء میں اس کی وفات ہوئی :English Messiaha صفحه ۱۸۳ تا۱۹۵) ایک اور انگریز مسٹری.ڈی.ٹی بیکر کار CDT Bahar - Carry لکھتا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں پگٹ نے دعوئی الوہیت کیا.اس کے فرقہ کے اکثر افراد اپنے گھٹنوں کے بل جھک گئے اور سینکڑوں لوگ دور دراز سے صرف اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آئے.وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا.اس نے مسیح کا بھی لقب اختیار کیا اور ایک مرتبہ تو اتوار کے دن تقریباً چھ ہزار آدمی صبح سے شام تک گرجے کے باہر اس کو دیکھنے کے منتظر بیٹھے رہے.گھوڑ سوار پولیس مجمع کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی.اس کے باوجود چند لوگ گرجے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے.شام کو جب اس کے گھر جانے کا وقت آیا تو انتہائی مشکل کے ساتھ پکٹ کو اپنے گھر کار استہ ملا.پھر بھی بعض افراد نے اس پر اینٹیں اور پھر پھینکے.نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کی حفاظت نہ ہوتی اس کے لئے گھر تک پہنچنا بڑا مشکل ہوتا.جب لندن میں اس شخص کے متعلق نفرت اور حقارت انتہاء کو پہنچی تو یہ سمرسیٹ کے مقام پر چلا گیا اور وہاں اپنے فرقے کو ترقی دینے کے متعلق تدابیر اختیار کرتا رہا.کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک خوبصورت لڑکی جس کا نام "پریس " FREECE تھا آئی اور چگٹ اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنے لگی.۲۳.جون ۱۹۰۵ء کو اس لڑکی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام گلوری رکھا گیا.

Page 275

تاریخ احمدیت جلسه ۲ -* -11 ۲۵۸ اسلام کی نفع عظیم یہیں ۱۹۰۸ء میں اس لڑکی کے ہاں ایک اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام پاور رکھا گیا.مقامی پادریوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ایک عدالت میں پکٹ کے خلاف دعوی دائر کیا اور اس پر حرام کاری کا التزام عائد کیا.عدالت نے دعوی کو درست تسلیم کیا اور پگٹ پر فرد جرم عائد کر دیا گیا.چمٹ کے پرائیوٹ گر جائی پڑتانی کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہاں تقریباً ایک سو عور تیں تھیں.اور یہ تمام لوگ کئی درجوں میں منقسم تھے.ان میں سے بعض ایسے افراد تھے جو چھوٹے کام کرنے پر مقرر تھے اور بعض ایسے افراد تھے جو نٹ کے منظور نظر تھے.سٹیٹ نے اپنے فرقہ کی شاخ امریکہ اور سکنڈے نیویا میں بھی قائم کرلی تھی.ایک نقاد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگلستان کی تاریخ میں پکٹ کا گر جا اور اس کا دعوی الوہیت اور مسیحیت سب سے بڑا دھوکا تھا جو لوگوں کو دیا گیا.اور کئی صدیوں تک اس کی نظیر نہیں مل سکتی.کٹ بوڑھا ہو چکا تھا.حتی کہ مارچ کے ۱۹۲ء میں وہ گھڑی آگئی جب اس نے بھی دامی اجل کو لبیک کہا.گرجے کے چاروں طرف خاردار تاریں لگائی گئیں اور انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ اس کا جنازہ لے جایا گیا.یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پگٹ کے فرقہ میں موت کو گناہ کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور یہی خیال کیا جاتا تھا کہ اس فرقہ کو ابدی زندگی عطا ہو گی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا.آج اس مختصر ترین فرقہ کی سیاہ اس کی مجوعہ بیوی پریس ہے جس کی عمر اس سال سے تجاویز کر چکی ہے.چند مٹھی بھر افراد اس کے ساتھ ہیں اور بگٹ کا مخصوص گر جا ہمیشہ مقفل رہتا ہے.اخبار دی ایوننگ نیوز لنڈن یکم فروری ۱۹۵۵ء صفحه کے زیر عنوان Bogus Messiahs) بیعت جولائی ۱۹۰۲ء وفات ۲۱.اپریل ۱۹۴۲ء عمر ۷۰ سال.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص مرید اور بہادر سپاہی جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت دین میں صرف کر دی.حضرت میر صاحب نے خلافت اوٹی میں دہلی سے اخبار "الحق" اور رسالہ احمدی اور خلافت ثانیہ میں قادیان میں اخبار " فاروق " جاری کیا جس کے ذریعہ سے وہ آخر دم تک مذاہب باطلہ کا مقابلہ کرتے رہے.علاوہ ازیں آپ نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف کیں جو سلسلہ کے لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہیں.بعض مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں.خلافت محمود دین الحق النبو وان خیر الامتہ تحفہ مستریاں ، بطالوی کا انجام، انیسویں صدی کا مرثی شدھی کی اشد ھی.سلسلہ تالیف و تصنیف میں ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ یادگار رہے گا کہ انہوں نے سال ہا سال کی محنت اور کوشش سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات صحیح ترتیب کے ساتھ جمع کر کے دس جلدوں میں شائع کئے اور احمدیت کی ابتدائی تاریخ کا ایک اہم حصہ محفوظ کر لیا.آزمودہ کار اہل قلم ہونے کے علاوہ آپ کو خداتعالی نے موثر اور دلچسپ تقریر کرنے کی قابلیت بھی بخشی تھی اور مخالفین بھی آپ کے بیان کی خوبی اور دلائل کی قوت کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے.(الفضل ۲۳.اپریل ۱۹۴۲ء صفحہ ) ولادت یکم ستمبر ۶۱۸۸۳ - ۱۵/ جنوری ۱۹۰۲ء کو منشی خادم حسین صاحب بھیر دی کی تحریک پر بذریعہ خط بیعت کی.۲۱/ جنوری ۱۹۰۲ ء کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے قلم سے لکھا ہوا آپ کو خط ملا کہ حضرت اقدس آپ کی بیعت قبول فرماتے ہیں.خط لکھتے رہا کریں." الحکم ۲۸/ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹ کالم سو پر آپ کا نام مبائعین میں درج ہے.سالانہ جلسہ دسمبر ۱۹۰۲ء میں پہلی مرتبہ قادیان کی زیارت کی اور حضور کے ہاتھ پر مسجد مبارک میں (دستی) بیعت کی.قاضی صاحب نے اردو قاری اور پشتو زبان میں جو تصانیف کی ہیں ان کی تعداد سو سے متجاوز ہے.آپ کے ذریعہ سے کئی سعید رو میں داخل احمدیت ہو ئیں.آپ ایک لمبا عرصہ تک صوبہ سرحد کی امارت کے فرائض نہایت کامیابی سے سرانجام دیتے رہے.ولادت ۸۷-۱۸۸۹ء.۱۹۰۲ء میں پہلی مرتبہ قادیان آئے اور ۱۹۰۴ء میں مستقل ہجرت کر کے اخبار الحکم کے عملہ میں شامل ہو گئے.جولائی 1999ء میں صدر انجمن احمدیہ میں ملازم ہوئے.۱۹۲۳ء میں تحریک چندہ خاص کو کامیاب بنانے میں خاص حصہ لیا.۱۹۳۱ء میں کشمیر ریلیف فنڈ کے فنانشل سکرٹری بنے.۱۹۳۲ء میں صدر انجمن احمد یہ کے آڈیٹر مقرر ہوئے.۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے مالی شعبہ کے انچارج بنے.۱۹۵۷ء میں تحریک جدید کی تئیس سالہ خدمات کے بعد ایک کامیاب و کامران وکیل المال کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے اور کے ماہ شہادت /۱۳۳۹اہش اپریل ۱۹۶۰ء کو انتقال کیا.ان کی آخری شاندار خدمت کتاب " تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین " کی تیاری اور اشاعت ہے.اس طرح انہوں نے i

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۵۹ اسلام کی فتح عظیم پچاس سال سے زائد عرصہ اس اخلاص اور جانثاری اور ونادرای اور محنت سے نبھایا جو ہر احمدی کے لئے قابل رشک ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کے متعلق ایک مرتبہ فرمایا ” چوہدری برکت علی صاحب ان چند اشخاص میں سے ہیں جو محنت کوشش اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اور جن کے سپرد کوئی کام کر کے پھر انہیں یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی." ( اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۲۱۹-۲۵۷ متولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان) تالیا اسی سال ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (متولف مجدد اعظم) بھی داخل سلسلہ ہوئے.آپ ۳/ اکتوبر ۶ ۷ ۱۸ء کو بمقام دھرم سالہ پیدا ہوئے.فروری ۱۸۹۲ء میں بمقام سیالکوٹ حضور کی پہلی بار زیارت کی.۱۹۱۴ ء میں جب سلسلہ احمدیہ میں اختلاف کا آغاز ہوا تو احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سرگرم ممبر بن گئے.۲۱ / اپریل ۱۹۴۳ء کو بمبئی میں وفات پائی.اور لاہور کے قبرستان میانی صاحب (احاطہ احمد یہ) میں سپرد خاک کئے گئے (پیغام صلح لاہور ۲۳ / جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۳) آپ کے قلم سے قبول احمدیت کے حالات اخبار پیغام صلح ۷ / ستمبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۱- ۱۳ میں شائع شدہ ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاثیرات قدی اور اعجاز مسیحائی کا پتہ چلتا ہے.اپنے حالات کے آخر میں آپ تحریر فرماتے ہیں میں تو حضرت مسیح موعود کی خدمت میں جب بیٹھتا تھا اور اس نورانی چہرہ پر میری نظر جمی ہوتی تھی تو اللہ تعالٰی کے شکر سے میرا قلب لبریز ہو جاتا تھا کہ اللہ اللہ جس شخص کی زیارت کی تمنا بڑے بڑے اولیاء کرتے چلے گئے مجھے گناہ گار کو اس کی زیارت اور بیعت نصیب کی یہ کس قدر جناب ابھی کا احسان ہے."

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ٢٩٠ ل تصنیف و اشاعت ماموریت کا بائیسواں سال مواہب الرحمٰن کی تصنیف و اشاعت اور مولوی کرم دین صاحب کے متعلق ایک پیش گوئی (۱۹۰۳ء) - مصری اخبار اللواء " کے ایڈیٹر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کیا تھا کہ آپ نے اپنے متبعین کو طاعون کے ٹیکہ کی ممانعت کر کے ترک اسباب کیا ہے جو قرآنی آیت "لا تلقوا بايديكم الى التهلكه " ( البقرہ : ۱۹۶) یعنی اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو کے منافی اور توکل کے خلاف ہے.اس اعتراض کے جواب میں حضور نے عربی میں ایک کتاب ”مواہب الرحمن " کے نام سے تصنیف فرمائی جو جنوری ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی.اس لطیف کتاب میں حضور نے اخبار "اللواء " کے ایڈیٹر کے اعتراض کا مسکت اور مدلل جواب دینے کے علاوہ اپنے عقائد درج فرمائے اور ان خارق عادت نشانات پر بھی روشنی ڈالی جو گزشتہ تین برسوں میں آپ کی صداقت کے ثبوت میں ظاہر ہوئے تھے.اس ضمن میں آپ نے مولوی کرم دین صاحب ساکن تھیں ( تحصیل چکوال) کے بارے میں یہ پیش گوئی درج فرمائی کہ.د من جملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے ایک نعیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت پر حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا.اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کرے گا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچائے.اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ گویا میں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں.اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد ؟ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت ہے اگر چہ کچھ مدت کے بعد ہو.اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بلارد کی جائے گی پس ان تمام خوابوں اور الہامات کو میں نے قبل از وقت شائع کر دیا.اور جن اخباروں میں شائع کیا ایک کا نام ان میں سے احکم اور دوسری کا نام "البدر" ہے.پھر میں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیش گوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی.پس جب ایک برس گزرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں (یعنی اس نے ناحق میرے پر فوج داری مقدمات دائر کئے ) پس اس کے مقدمات دائر کرنے سے پیش گوئی کا ایک حصہ تو پورا ہو گیا اور جو باقی حصہ ہے یعنی میرا اس کے مقدمات سے نجات پانا اور آخر اسی کا سزا یاب ہونا یہ بھی عنقریب پورا ہو جائے گا." (ترجمہ) گولڑہ سے ؟ مولوی کرم دین صاحب کا پہلا مقدمہ حضرت مسیح موعود کا سفر جہلم اور بریت جیسا کہ "نزول المسیح" کے حالات میں مفصل بیان ہو چکا ہے کہ مولوی کرم دین ساکن تھیں نے حضرت مسیح موعود اور حکیم فضل دین صاحب کے نام خطوط لکھے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی کتاب " سیف چشتیائی" در اصل مولوی محمد حسن فیضی کا علمی سرقہ ہے.موادی کرم دین صاحب نے اس امر کے ثبوت میں وہ کارڈ بھی حضرت مسیح موعود کو ارسال کیا جو پیر صاحب موصوف نے ان کے نام سے بھیجا تھا اور جس میں پیر صاحب موصوف نے محمد حسن صاحب فیضی کے نوٹوں کو اپنی کتاب میں درج کرنے کا اعتراف کیا تھا.حضرت مسیح موعود " نزول المسیح " لکھ رہے تھے کہ حضور کو یہ خطوط پہنچے جو حضور نے کتاب میں درج کر دئے.ایسا ہی ایڈیٹر اخبار الحکم نے بھی ان کی بناء پر ۷ / ستمبر ۱۹۰۲ء کو ایک مضمون شائع کیا جس میں ان خطوط کی نقول بھی درج کر دیں.مولوی کرم دین صاحب کا انحراف حق مولوی کرم دین صاحب نے پہلے تو خودی اصل واقعہ سے پردہ اٹھایا تھا مگر جب پریس میں اس کی اشاعت ہوئی تو وہ صاف مکر گئے اور اخبار "الحکم" کے مضمون کے جواب میں مولوی کرم دین صاحب نے ایک مضمون اور قصیدہ "سراج الاخبار " جہلم (مورخہ ۶/ اکتوبر ۱۹۰۲ء د ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۲ء) میں شائع کیا کہ یہ سب خطوط جعلی ہیں.نیز لکھا کہ مرزا غلام احمد (صاحب) کی اہلیت کی آزمائش کے لئے میں نے اسے دھو کہ دیا اور خلاف واقعہ خطوط لکھے اور لکھائے.اور ایک بچے کے ہاتھ سے نوٹ لکھوا

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مواهب الرحمن " کی تصنیف اشاعت و کر ان کو محمد حسن صاحب فیضی کے نوٹ ظاہر کئے.پھر اس دھوکے کے ذریعہ چھ روپے بھی حاصل گئے.نیز لکھا کہ مرزا صاحب کا تمام کاروبار (معاذ اللہ ) محض مکرو فریب ہے اور آپ اپنے دعویٰ میں (معاذ اللہ ) کذاب اور مفتری ہیں.12 مولوی کرم دین کے خلاف تین استغاثے حضرت اقدس کو یہ حق تھا کہ اپنی بریت ثابت کرنے اور ازالہ حیثیت عرفی کے لئے عدالت کی طرف رجوع کرتے لیکن آپ نے اپنے قدیم مسلک کے مطابق انتہائی صبر کیا اور منتظر رہے که مولوی کرم دین صاحب از خود اس مضمون کی تردید شائع کریں.لیکن ایک ماہ تک انہوں نے کوئی تردید نہ کی جس پر حکیم فضل دین صاحب مالک و مستم ”ضیاء الاسلام " پریس قادیان نے (جن کے نام مولوی کرم دین صاحب نے ابتدائی خطوط لکھے تھے ) ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء کو گورداسپور کی عدالت میں ان کے خلاف زیر دفعہ ۴۲۰ استغاثہ دائر کیا.اس مقدمہ کی شہادت استغاثہ ہو رہی تھی کہ حکیم فضل الدین صاحب کی شہادت کے دوران میں ۲۲ / جون ۱۹۰۳ء کو مولوی کرم دین صاحب نے زیر طبع کتاب "نزول المسیح کے اوراق پیش کئے اور مستغیث سے تصدیق کروانا چاہی جس پر حکیم فضل دین صاحب نے ۲۹ / جون ۱۹۰۳ء کو زیر دفعہ ۴۱۱ تعزیرات ہند دو سرا استغاثہ دائر کر دیا اور بیان دیا کہ یہ کتاب بحیثیت مهتم مطبع ضیاء الاسلام قادیان میری ملکیت تھی.اور چونکہ ابھی تک باضابطہ شائع نہیں ہوئی اس لئے یہ مال مسروقہ ہے اور ملزم (کرم دین صاحب) مال مسروقہ کو اپنے قبضہ میں رکھنے کا مجرم ہے.علاوہ ازیں چونکہ مولوی کرم دین صاحب نے شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم کے خلاف بھی زہر اگلا تھا اس لئے شیخ صاحب موصوف نے بھی مولوی کرم دین صاحب اور مولوی فقیر محمد صاحب ایڈیٹر و مالک سراج الاخبار " کے خلاف زیر دفعات ۵۰۲٬۵۰۱٬۵۰۰ از اله حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کر دیا.اس طرح مولوی کرم دین صاحب کے خلاف تین استغاثے دائر ہوئے." مولوی کرم دین صاحب کی طرف سے استغاثہ ان استفانوں کے جواب میں مولوی کرم دین صاحب نے بھی رائے سنار چند صاحب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر بہادر مجسٹریٹ درجہ اول جہلم کی عدالت میں زیر دفعات ۵۰۰ ۵۰۲٬۵۰۱ حضرت مسیح موعود - عبد اللہ صاحب کشمیری اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے نام ازالہ حیثیت عرفی کا استغاثہ دائر کر دیا.بنیاد یہ رکھی کہ میرے بہنوئی مولوی محمد حسن فیضی متوفی کی (جس کا جدی لحاظ سے بھی قرابت کا تعلق ہے) سخت تو ہین کی گئی ہے.اس مقدمہ پر حضور اور دوسرے

Page 280

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۶۳ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت د رفقاء کے نام وارنٹ جاری ہوئے اور عدالت میں پیشی کی تاریخ ۱۷/ جنوری ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی.دشمنوں کی خوشی حضرت اقدس کے خلاف مقدمہ دائر ہونے کی خبر پر مخالف اخبارات نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.چنانچہ لاہور کے اخبار ” پنجاب کا چار" نے لکھا کہ " مرزا قادیانی پر مالش ہے.ان کا طرز تحریر بھی جہاں تک پڑھا ہے ملک کے لئے کسی طرح مفید نہیں بلکہ بہت دلوں کو دکھانے والا ہے.اگر عدالت نالش کو سچا سمجھے تو مناسب ہے کہ سزا عبرت انگیز دیوے تاکہ ملک ایسے شخصوں سے جس قدر پاک رہے ملک اور گورنمنٹ دونوں کے لئے مفید ہے." ان الفاظ سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ دشمنان حق نے مقدمہ کی خبر پر کتنی خوشیاں منائی ہوں گی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ خدائے ذو العرش کی طرف سے اس مقدمہ کے پیچھے تائید و نصرت کے کیسے کیسے سامان کئے جارہے ہیں اور یہ سامان بھی اس انسان کے لئے جو ابتداء ہی سے خلوت نشینی کو شہرت پر ترجیح دیتا رہا ہے.چنانچہ حضور نے ۴/ جنوری ۱۹۰۳ء کو سفر جہلم کے سلسلہ میں فرمایا ” میری طبیعت ہمیشہ شور اور غوغا سے جو کثرت ہجوم کے باعث ہوتا ہے متنفر ہے...وہی وقت انسان کسی علمی فکر میں صرف کرے تو خوب ہے.خدا تعالیٰ نے ہماری اشاعت کا طریق خوب رکھا ہے کہ ایک جگہ بیٹھے ہیں نہ کوئی واعظ ہے نہ مولوی نہ لیکچرار جو لوگوں کو سناتا پھرے.وہ خود ہی ہمارا کام کر رہا ہے.بیعت کرنے والے خود آ رہے ہیں.بڑے امن کا طریق ہے." جہلم سفر جہلم کی تیاری میں اولین چیز " مواہب الرحمن " کی طباعت تھی.کیوں کہ اللہ تر جلی تعالیٰ کے جس عظیم الشان نشان کو پورا کرنے کے واسطے حضرت احمد مرسل یزدانی مسیح قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سفر اختیار کرنا تھا اس کی کنجی وہ پیش گوئی تھی جو اس کتاب میں درج تھی کہ اللہ تعالیٰ اس مقدمہ میں کامیاب و کامران فرمائے گا.۱۵/ جنوری ۱۹۰۳ء کو روانگی تھی اور ۱۴ / جنوری ۱۹۰۳ء کی شام کو ابھی کتاب کی گیارہ کا پیاں چھپنا باقی تھیں مگر کار پردازوں کے حسن انتظام اور جاں فشانی نے ہر ایک مشکل کو آسان کر دیا اور دوسرے روز ۱۵/ جنوری کو ظہر کے قریب کتاب "مواہب الرحمن " چھپ کر تیار ہو گئی.روانگی حضور پر نور تین بجے کے قریب اپنے خدام سمیت (جن میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کا بلی بھی شامل تھے ) روانہ ہوئے اور نصف میل تک خدام کے ساتھ پا پیادہ چل کر رتھ میں سوار ہو گئے.باقی خدام میں سے اکثریکوں پر بیٹھ گئے اور بعض نے حضور کے رتھ کے ساتھ پا پیادہ چلنے کو پسند کیا.یہ قافلہ چھ بجے کے قریب بٹالہ پہنچا اور حضور آٹھ بجے کے قریب ٹرین میں

Page 281

تاریخ احمدیت جلد ۲ سوار ہوئے.۲۶۴ حمن " کی تصنیف و اشاعت رین آٹھ بجے کے بعد بٹالہ سے چل کر امر تسر پہنچی تو امرتسر کے احمدی احباب امرتسر میں ورود کے علاوہ بعض دیگر احباب نے بھی جو کہ حسن عقیدت رکھتے تھے حضور کا استقبال کیا.ایک لیڈی جو جرنیل کی بیوی تھی ولایت سے آرہی تھی ہجوم کو دیکھ کر حیران رہ گئی اور میاں معراج دین صاحب عمر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اور ہجوم اس قدر کیوں ہے.انہوں نے جواب دیا یہ یسوع مسیح ہیں جو اپنی دوسری بعثت میں آئے ہیں.اس نے قریب جا کر ہاتھ ملانا چاہا مگر حضرت صاحب نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اس پر اس نے حضور کا فوٹو لے لیا.گاڑی امرتسر سے روانہ ہو کر گیارہ بجے کے قریب لاہور پہنچی.لاہور پہنچنا لاہور اسٹیشن پر بھی بہت زیادہ افراد حضور کے استقبال اور شرف دیدار کے لئے موجود تھے.لاہور میں حضور دہلی دروازہ کے باہر میاں چراغ دین لاہور میں قیام اور بشارت الہی صاحب رکھیں لاہور کے ایک نئے مکان میں مقیم ہوئے.یہاں قریباً چالیس آدمی بیعت میں داخل ہوئے جن میں امام و متولی مسجد چینیاں والی بھی شامل تھے.اگلے روز نماز فجر کے بعد آپ پا پیادہ اسٹیشن کو روانہ ہوئے.راستہ میں فرمایا کہ رات کو کثرت سے یہ الہام ہوا ہے اریک برکات من كل طرف یعنی میں ہر ایک جانب سے تجھے برکتیں دکھاؤں گا.گاڑی کے آنے میں دیر تھی اس لئے پلیٹ فارم پر ہی آپ کے لئے ایک کرسی بچھا دی گئی.لوگ بکثرت زیارت کے واسطے آنے شروع ہوئے.بعض فوجی افسر بھی دہلی کے دربار سے واپس ہوتے ہوئے لاہور ٹھہرے تھے اور اس ٹرین سے سفر کر رہے تھے حضور کی خدمت میں آئے.ان سب کو ایک ایک نسخہ کتاب "مواہب الرحمن " کا دیا گیا.اسی اثناء میں گاڑی آئی اور حضور سوار ہو گئے.جب تک گاڑی کھڑی رہی لوگ پروانوں کی طرح شوق زیارت میں آتے رہے.سے جہلم تک لاہور سے لاہور سے جہلم تک کا نظارہ قابل دید تھا.ہر اسٹیشن پر بڑا ہجوم ہو تا تھا اور ارد گرد کے مختلف دیہات سے خلقت اٹڈی چلی آتی تھی.مولوی عبد الواحد خان صاحب سیالکوٹی (حال کراچی) کا بیان ہے کہ ”وزیر آباد میں...حضور علیہ السلام کی ٹرین ہمارے سامنے دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی.لوگوں کا ہجوم بہت تھا اور ٹرین کے ڈبے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے.یہ دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی کہ ہم لوگ شاید اس میں سوار نہ ہو سکیں گے لوگ کثرت سے حضور کی زیارت کے لئے چلے آرہے ہیں.پلیٹ فارم پر ٹکٹ ٹکٹ کا شور مچ رہا

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۶۵ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت ہے.اتنے میں....اسٹیشن ماسٹر صاحب تشریف لائے اور بکنگ کلرک پر ناراض ہوتے ہوئے بولے ٹکٹ بند کرو گیٹ کھول دو.لوگوں کو جانے دو.ہجوم میں مرزا صاحب کی زیارت کا جوش ہے.کھڑکی جلدی بند کرو خطرہ ہے کہ لوگ کھڑ کی نہ تو ڑ دیں.گیٹ کے قریب ایک ادھیڑ عمر کی ہندو عورت کو کہتے سنا ” بڑی دنیا درشن واسطے آئی ہے.پر ما تمارا او تار ہے.نیڑے نہیں جا سکدی دوروں ہی دیکھ لواں گی." حضور علیہ السلام کی زیارت کا لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ ہجوم نے ٹرین روک لی اور اسٹیشن ماسٹر نے بھی گاڑی لیٹ کر دی." یہ تو صرف وزیر آباد کی بات ہے وگر نہ لاہور سے جہلم تک ہر اسٹیشن پر رجوع خلائق کا ایک نرالا رنگ نظر آتا تھا.جہلم میں آمد گاڑی دو بجے کے قریب جہلم پہنچی.جناب غلام حید ر خاں صاحب تحصیل دار جہلم نے (جو حفظ امن کے انتظام کے لئے متعین تھے) حضرت اقدس سے ملاقات کی اور نہایت عزت و احترام سے حضرت اقدس کو بحفاظت تمام گاڑی سے اتارا.اور شائقین کی تڑپ دیکھ کر حضرت اقدس سے درخواست کی کہ حضور دو ایک منٹ کے لئے گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہو کر اپنے منور چہرہ کی زیارت کرا دیں.چنانچہ حضور نے یہ درخواست قبول فرمالی اور زائرین حضور کے دیدار سے مشرف ہوئے.ازاں بعد حضور ایک گاڑی میں مجوزہ فرودگاه (بنگلہ سردار ہری سنگھ صاحب رئیں جہلم) کو چلے.ایک انبوہ کثیر اس وقت حضور کے ساتھ تھا اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے.اس قدر مخلوق تھی کہ اژدھام اور بھیٹر میں حضور کی گاڑی بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ چلتی تھی.حضرت مولوی برہان الدین صاحب علمی کی خوشیوں کا اس دن کوئی ٹھکانہ نہیں تھا.آپ اس دن ضعیف العمری کے باوجود کمر کے ساتھ چادر باندھے گاڑی کے آگے یہ کہتے جا رہے تھے کہ "پیلی ( چیونٹی) کے گھر نارائن (یعنی بروز خدا) آیا ہے." تین بجے گاڑی بنگلہ کے سامنے آکر رکی اور حضرت اقدس گاڑی سے اتر کر اندر بنگلے کے بڑے کمرہ میں ایک کرسی پر جلوہ افروز ہوئے.باہر بہت سے لوگ زیارت کی غرض سے کھڑے تھے لہذا یہاں بھی حضور سے عرض کیا گیا کہ لوگ حضور انور کو دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں.یہ دیکھ کر حضور کمرہ سے بنگلہ کی چھت پر تشریف لے گئے اور آرام کرسی پر بیٹھ گئے.ان دنوں مخالف علماء نے یہ خبر مشہور کر رکھی تھی کہ (معاذ اللہ ) مرزا صاحب جذام کی بیماری میں مبتلا ہیں.یہ بات چونکہ جہلم کے علاقہ میں بھی بکثرت پھیلائی گئی تھی اس لئے حضرت مولوی برہان الدین صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور جوں ہی حضور گری پر رونق افروز ہوئے انہوں نے حضرت اقدس کی آستینیں اٹھا کر لوگوں کو باز داور پاؤں

Page 283

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۶۶ "مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت دکھائے اور کہا کہ دیکھ لو دشمن جھوٹ بولتا تھا کہ اس مقدس انسان کے ہاتھ اور پاؤں پر معاذ اللہ کسی بیماری کے نشان ہیں.الخصر حضور پانچ منٹ کے بعد نیچے اترے اور ظہر و عصر کی نمازیں پڑھانے کے بعد اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.مغرب و عشاء کی نماز کے بعد (جو مولوی سید محمد احسن نے جمع کرادی تھیں) کئی لوگوں نے بیعت کی.رات کو امرتسر لاہور گوجرانوالہ سیالکوٹ و زیر آباد گجرات لالہ موسیٰ کھاریاں بھیرہ ، کشمیر وغیرہ سے بہت سے دوست پہنچ گئے.اگلے روز (۱۷/ جنوری کو دس بجے کے بعد ایک گاڑی میں بیٹھ کر حضرت اقدس" کچھری کو تشریف لے گئے.جو ہجوم کثیر خلقت کا گاڑی سے اترتے وقت آپ کے ہمراہ تھا اس سے زیادہ اب موجود تھا.حضرت اقدس" کچھری میں پہنچ کر باہر میدان حضرت اقدس عدالت کے میدان میں میں ایک کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور خدام ارد گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور کچھ دریوں پر بیٹھ گئے.حضور اس وقت حضرت مولوی سید عبد اللطیف صاحب سے فارسی میں گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں تقریر فرما ئیں جس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع فرمائی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مہدی کے منتظر ہیں.مگر مہدی نے تو بہر حال ایک شخص ہی ہو نا تھا اور وہ میں ہوں.اگر میں شیعوں سے کہوں کہ میں تمہارا مہدی ہوں جو کچھ تمہاری روایات میں درج ہے وہ صحیح ہے.اور اس طرح سینوں اور وہابیوں کو بھی کہوں تاکہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں تو یہ ایک منافقت ہے.ان کو اتنا معلوم نہیں کہ مہدی کا نام حکم عدل ہے وہ تو سب فرقوں کا صحیح فیصلہ کرے گا جس کی غلطی ہو گی اس کو بتائے گا تب وہ سچا ہو گا.بس یہی وجہ ہے کہ سب فرقے ہمارے دشمن ہو گئے ہیں ورنہ ہم نے ان کا اور کیا تصور کیا ہے.و کیا کیا جس شخص نے ایک ملزمانہ حیثیت میں ابھی کورٹ میں پیش ہوتا ہے کیا اس کو دینی نصائح لوگوں کو باہر سنانا سوچھ سکتا ہے ؟ مگر یہ خدا کا برگزیدہ اپنی اسی آن بان میں خدا کے پاک کلمات اس الھی مکتب کے طالب علموں کو سناتا رہا اور ان کو ترقی کے مراتب بتلاتا رہا.کچھری سے واپسی اسی دوران میں معلوم ہوا کہ مقدمہ دو بجے پیش ہونا ہے اس لئے آپ کچہری سے واپس تشریف لائے.ہجوم اسی طرح ساتھ تھا.بنگلہ میں آکر حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ادا فرما ئیں اور پھر کچھری کی طرف روانہ ہوئے.

Page 284

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۶۷ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت دوبارہ کچہری میں کچھری کے میدان میں آکر حضرت اقدس کی گاڑی ٹھری اور کثرت ہجوم کی وجہ سے حضرت اقدس گاڑی میں ہی تشریف فرما ر ہے.آدمی پر آدمی گرا پڑتا تھا.پولیس ڈنڈوں سے لوگوں کو پیچھے بناتی تھی مگر وہ شوق و ذوق کے عالم میں آگے ہی آگے بڑھتے جاتے تھے.تین بجے کے قریب حضرت اقدس نے عدالت میں قدم رکھا.عدالت کا کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا حتی کہ جس پلیٹ فارم پر مجسٹریٹ کی کرسی تھی.اس پر بھی لوگ کھڑے تھے.حضرت اقدس کرسی پر بیٹھے حضور کے ساتھ ایک بیرسٹر اور چار وکلاء اور مستغیث (کرم دین صاحب) کی طرف سے تین وکلاء دو ہندو اور ایک مسلمان حاضر عدالت تھے.حضور کے وکلاء نے سوال اٹھایا کہ قانون کی رو سے کیا مولوی کرم دین صاحب کو اس دعوی کے دائر کرنے کا استحقاق ہے ؟ اور کیا یہ متوفی کے ان قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں جو اس قسم کا استغاثہ دائر کر سکتے ہیں.عدالت نے کرم دین صاحب کے بیانات لئے تو معلوم ہوا کہ مولوی کرم دین صاحب در اصل متوفی محمد حسن کے برادر نسبتی ہیں.اس پر حضور کے وکلاء نے ثابت کیا کہ مسلمانوں میں بہنوئی کی وفات پر برادر نسبتی کا کوئی حصہ اس کے ترکہ میں سے نہیں رکھا گیا اور نہ رواج ہی نے برادر نسبتی کو کچھ دلایا ہے اس لئے کسی صورت میں یہ قریبی رشتہ داروں میں شمار نہیں ہو سکتے.اور ان کے پردادوں کا سگے بھائی ہونا بھی ان کو ایک خاندان ہونا ثابت نہیں کر سکتا.اور اس استدلال کی تائید میں بہت سے حوالہ جات قانونی فیصلے بھی دکھلائے.اور بحث کے آخر میں کہا کہ مستغیث کے وکلاء کو کوئی ایسی نظیر پیش کرنی چاہئے کہ کسی متوفی کے قریبی رشتہ داروں مثلاً بیوی ، بچہ اور باپ کی موجودگی میں برادر نسبتی یا کسی اور دور کے رشتہ دار نے حق کا دعویٰ کیا ہو اور عدالت نے اسے صحیح تسلیم کر لیا ہو.مستغیث کے وکلاء نے اس کے جواب میں بہت ہاتھ پیر مارے اور کہا کہ عام زبان زد خلائق ہے کہ.ساری خدائی ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف یه ترمیم شده شعر سن کر حاضرین میں ایک فرمائشی قہقہہ پڑا.عدالتی کارروائی پانچ بجے تک جاری رہی بالا خر مجسٹریٹ نے 19 جنوری ۱۹۰۳ء کو فیصلہ کا دن مقرر کیا اور کہا کہ اب فریقین کو جہلم میں نہ ٹھہرنے کی ضرورت ہے نہ دوبارہ آنے کی.ان کے وکلاء کے سامنے ۱۹/ جنوری ۱۹۰۳ء کو فیصلہ سنا دیا جائے گا.حضرت اقدس کی کچھری سے واپسی حضرت اقدس اجلاس ختم ہوتے ہی عدالت سے باہر تشریف لائے اور گاڑی میں سوار ہوئے.بنگلہ

Page 285

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۶۸ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت پر پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کر کے پڑھی گئیں.اس کے بعد پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوا اور لوگ جوق در جوق بیعت میں داخل ہونے شروع ہوئے.مردوں کی بیعت ہو چکی.تو حضرت اقدس اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں مستورات بیعت کے لئے آپ کی منتظر تھیں وہاں سے واپس تشریف لائے تو اور لوگ بیعت کے لئے موجود تھے.حضور نے ان کی بھی بیعت لی.اگر چہ جہلم میں حضور کی یہ آخری رات تھی اور صبح کو حضرت اقدس کی روانگی تھی مگر اس رات بھی بہت سے اور احباب بغرض ملاقات پہنچ گئے.اگلے روز ۱۸/ ۶ جنوری کو سورج کے طلوع کرتے ہی حضور سے درخواست کی گئی کہ لوگ بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی گھنٹے تک جاری رہا.ابھی بیعت کرنے والوں کی کثیر تعداد باقی تھی کہ عرض کیا گیا کہ مستورات بھی بیعت کے لئے جمع ہیں.چنانچہ حضور اندر تشریف لے گئے اور بیعت لی.بعد ازاں پھر مردوں کی بیعت ہونے لگی.کچھ وقت بعد پھر درخواست پہنچی کہ چند مستورات آئی ہیں اور بیعت کرنا چاہتی ہیں.چنانچہ حضرت اقدس دوبارہ زنان خانہ میں تشریف لے گئے.اس مقدمہ کی تقریب جماعت احمدیہ جہلم کی طرف سے مہمانوں کی مہمان نوازی کا پیدا ہونا جماعت احمدیہ جہلم کے لئے بڑی خوش نصیبی تھی.اور جیسے یہ مبارک موقعہ ان کو نصیب ہو ا ویسے ہی انہوں نے اس کی قدر کی.باوجودیکہ بعض اوقات ایک ہزار کے قریب بھی مہمان دستر خوان پر آئے مگر ان کی مهمان نوازی بڑی فراخ حوصلگی اور کشادہ دلی سے کی گئی.جماعت جہلم کو چار وقت دعوت کے انتظام کا موقعہ ملاجس میں انہوں نے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا.جہلم سے واپسی پروگرام کے مطابق ابجے کے بعد حضرت اقدس "بنگلہ سے روانہ ہوئے اور ۱۰ گیارہ بجے کے قریب گاڑی میں سوار ہوئے.لوگ پہلے کی طرح دیوانہ وار ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے کہ آپ کا چہرہ مبارک دیکھیں.کچھ دیر کے بعد گاڑی روانہ ہوئی جہلم واپسی پر بھی حسب سابق ہر اسٹیشن پر بڑا ہجوم ہو تا تھا.مرید کے اور کامونکے اسٹیشن کے درمیان حضور کو الہام ہوا.اثرک الله علی کل شی یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر شے پر تجھے ترجیح دی.عصر کے لاہور پہنچے.لاہور کے احمدی احباب استقبال کے لئے اسٹیشن پر حاضر تھے.حضور گاڑی پر سوار ہو کر میاں چراغ دین صاحب کے مکان میں ہی تشریف فرما ہوئے.اس موقعہ پر بھی کئی دوستوں نے بیعت کی.اگلے روز حضور بذریعہ ریل لاہور سے بٹالہ پہنچے اور اپنے رفقاء سمیت بخیریت دارد قادیان

Page 286

تاریخ احمدیت جلد ۲ ہوئے.۲۶۹ مواهب الرحمن " کی تصنیف و کا فیصلہ اور حضور کی بریت جہلم سے واپسی کے بعد عدالت نے حسب اعلان ۱۹/ جنوری ۱۹۰۳ء کو فیصلہ سناتے ہوئے حضرت مسیح موعود کو بری کر دیا اور مولوی کرم دین کے استغاثہ جات خارج کر دئے.فاضل مجسٹریٹ رائے سنسار چند نے اپنے فیصلہ میں تعزیرات ہند کی روشنی میں متعدد ایسی وجوہ تحریر کیں جن کی بناء پر مستغیث کو محمد حسن فیضی (متوفی) کی بیوہ باپ اور اولاد کی موجودگی میں استغاثہ دائر کرنے کا قانونا کوئی حق حاصل نہیں ہے خواہ وہ ان پڑھ ہیں یا پڑھے ہوئے.اس فیصلہ پر مولوی کرم دین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود ، حکیم فضل دین صاحب، مولوی عبداللہ صاحب اور ایڈیٹر الحکم کے خلاف سیشن جج بہادر جہلم کی عدالت میں نگرانی دائر کی جو خارج ہو گئی.الخقرار یک برکات من ار یک برکات من كل طرف " کا روح پرور نظارہ کل طرف کی عظیم الشان خوش خبری جو خدا تعالیٰ نے سفر جہلم کے آغاز میں دی تھی اس شان سے پوری ہوئی کہ اپنے اور بیگانے سبھی دنگ رہ گئے.اس سفر میں عوام کی طرف سے حضور کی زیارت کے لئے جس عظیم جذبہ کا مظاہرہ کیا گیا وہ ملکی تاریخ میں فقید المثال تھا.چنانچہ ایک مخالف اخبار " پنجنہ فولاد " نے لکھا.۱۵ جنوری کو دوپہر کے بعد جہلم کی واپسی پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی وزیر آباد پہنچے.باوجودیکہ نہ انہوں نے شہر میں آنا تھا اور نہ آنے کی کوئی اطلاع دی تھی اور صرف اسٹیشن پر ہی چند منٹوں کا قیام تھا پھر بھی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر خلقت کا وہ ہجوم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی.اگر سٹیشن ماسٹر صاحب جو نہایت خلیق اور ملنسار ہیں خاص طور پر اپنے حسن انتظامی سے کام نہ لیتے تو کچھ شک نہیں کہ اکثر آدمیوں کے کچلے جانے اور یقینا کئی ایک کے کٹ جانے کا اندیشہ تھا.مرزا صاحب کے دیکھنے کے لئے ہندو اور مسلمان یکساں شوق اور یکساں دلی کشش سے موجود تھے." حضرت اقدس مسیح موعود نے اس مبارک سفر کی تفصیل میں تحریر فرمایا.14 ” جب میں ۱۹۰۳ء میں کرم دین کے فوج داری مقدمہ کی وجہ سے جہلم جارہا تھا تو راہ میں مجھے الہام ہوا.اریک بركات من كل طرف یعنی میں ہر ایک پہلو سے تجھے برکات دکھلاؤں گا اور یہ الهام اسی وقت تمام جماعت کو سنا دیا گیا بلکہ اخبار الحکم میں درج کر کے شائع کیا گیا.اور یہ پیش گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمینا دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۷۰ تصنیف و اشاعت تھے.اور پھر ضلع کی کچھری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے.گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دو سو عورت بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تھے پیش کئے.اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالٰی نے نہایت صفائی سے وہ پیش گوئی پوری فرمائی." راستہ میں لاہور سے آگے گوجرانوالہ اور وزیر آباد اور گجرات وغیرہ سٹیشنوں پر اس قدر لوگ ملاقات کے لئے آئے کہ سٹیشنوں پر انتظام رکھنا مشکل ہو گیا.ٹکٹ پلیٹ فارم ختم ہونے کی وجہ سے لوگ بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر چلے گئے.اور بعض مقامات پر گاڑی کو کثرت ہجوم کی وجہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرایا گیا اور نہایت نرمی سے زائروں کو ملازمین ریل نے گاڑی سے علیحدہ کیا.بعض جگہ کچھ دیر تک لوگ گاڑی کو پکڑے ہوئے ساتھ چلے گئے.خوف تھا کہ کوئی آدمی نہ مرجاوے.ان واقعات کو مخالف اخباروں نے بھی مثل "پنجہ فولاد " کے شائع کیا تھا." حضرت اقدس مسیح موعود مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری کی قادیان میں آمد علیہ السلام نے اعجاز احمدی" میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو دعوت دی تھی کہ وہ " تحقیق کے لئے قادیان میں آدیں اور تمام پیش گوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہر ایک پیش گوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رو سے جھوٹی ثابت ہو ایک سو روپیہ ان کی نذر کریں گے....اور ہم آمد و رفت کا خرچ بھی دیں گے اور کل پیش گوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی تا آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جائے اور اسی شرط سے روپیہ ملے گا.اور ثبوت ہمارے ذمہ ہو گا " ساتھ ہی حضور نے یہ پیش گوئی فرمائی کہ وہ ” قادیان میں تمام پیش گوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہر گز نہیں آئیں گے اور کچی پیش گوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق ان کے لئے موت ہو گی." چنانچہ وہی کچھ ہوا جس کی خبر آپ نے قبل از وقت دے دی تھی.اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء کو حضور کو اطلاع تک دئے بغیر بٹالہ سے دو تین سپاہیوں کی معیت میں قادیان آئے اور آریہ سماج کے مندر میں ٹھہرے.حضرت اقدس کو یہ من کر بہت صدمہ ہوا کہ وہ براہ راست آپ کے پاس آنے کی بجائے آریہ سماج کے مندر ہی میں کیوں مقیم ہو گئے ؟ چنانچہ حضور نے ایک دو سرے موقعہ پر اس درد کا اظہار فرمایا کہ ” میں نے شاء اللہ کو ہرگز نہیں کہا کہ میرے مکان پر نہ آوے.....بلکہ وہ خودان آریہ سماج والوں کے مکان پر اترا جو ہمارے نبی

Page 288

تاریخ احمدیت - جلد ۲ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدہا گالیاں نکالتے تھے جن کے گندے رسالے اب تک موجود ہیں.ایک غیرت مند مومن کا کام نہیں کہ ایسے پلید گروہ دشمن اسلام کے گھر میں اترے....وہ میرے دروازہ پر نہیں آیا میں اس کی خاطر داری کرتا بلکہ دشمنان اسلام اور دشمنان نبی کریم کے دروازہ پر گیا." مغرب کے وقت ایک قاصد نے مولوی صاحب کا یہ رقعہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا خط حضور کی خدمت میں پیش کیا کہ " خاکسار حسب دعوت آپ F کے مندرجہ "اعجاز احمدی " صفحہ ۱ او ۳۳ قادیان میں اس وقت حاضر ہے...اس لئے امید ہے کہ آپ میری تقسیم کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کریں گے اور حسب وعدہ خود مجھے اجازت بخشیں گے کہ میں مجمع میں آپ کی پیش گوئیوں کی نسبت اپنے خیالات ظاہر کروں." قطع نظر اس امر کے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا آریہ سماج مندر میں قیام کرنا خود یہ واضح کر رہا تھا کہ ان کو حضرت اقدس سے کتنا ذاتی بغض و عناد ہے لیکن ان کی اس تحریر نے تو صاف واضح کر دیا کہ ان کا قادیان آنا حضور کی دعوت کے قبول کرنے کے نتیجہ میں نہیں تھا کیوں کہ حضور نے اپنی دعوت میں صاف طور پر دو باتیں لکھی تھیں.اول.مولوی صاحب موصوف تمام پیش گوئیوں کی تحقیق کے لئے قادیان آئیں (مناظرہ کے لئے نہیں کیوں کہ حضور خود انجام آتھم میں اس سے ہمیشہ کے لئے دستکش ہونے کا اعلان کر چکے تھے ) دوم.مولوی صاحب تحقیق سے قبل لکھ دیں کہ وہ منہاج نبوت کو تسلیم کرتے ہیں.لیکن مولوی صاحب نے ان دو امور کی صریحاً خلاف ورزی کی اور وہ تحقیق کی بجائے مناظرہ کے لئے پہنچے جیسا کہ ان کے سیرت نگار نے اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے.”مولانا بھلا کب چوکنے والے تھے فورا قادیان پہنچ گئے اور مرزا صاحب کو اطلاع بھیجوا دی کہ بندہ حاضر ہے مناظرہ کے لئے میدان میں آئیے." te ان حالات میں حضرت اقدس کا مولوی ثناء اللہ صاحب کے رقعہ کا حضرت اقدس کا جواب جواب دینا اور ان کو مخاطب کرنا اصولاً یا اخلاقاً کسی طرح واجب نہیں تھا مگر باوجود اس غم کے جو مولوی صاحب کے آریہ سماج کے ہاں قیام کے باعث آپ کو پہنچا تھا حضور نے دوسرے دن صبح ۱۱/ جنوری ۱۹۰۳ ء کو جوابی خط لکھا.میں ہمیشہ طالب حق کے شبہات دور کرنے کے لئے تیار ہوں.اگر چہ آپ نے اپنے اس رقعہ میں دعویٰ تو کر دیا ہے کہ میں طالب حق ہوں مگر مجھے تامل ہے کہ اس دعوئی پر آپ قائم رہ سکیں.کیوں کہ آپ لوگوں کی عادت ہے کہ ہر ایک بات کو کشاں کشاں بیہودہ اور لغو مباحثات کی طرف لے آتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے مباحثات ہرگز نہیں کروں گا سودہ

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۷۲ مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت طریق جو مباحثات سے بہت دور ہے وہ یہ ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اول یہ اقرار کر دیں کہ آپ منہاج نبوت سے باہر نہیں جائیں گے اور وہ اعتراض نہ کریں گے جو آنحضرت پر یا حضرت عیسی یا حضرت موسیٰ یا حضرت یونس پر عائد ہوتا ہے اور اس حدیث اور قرآن کی پیش گوئیوں پر زدنہ پڑتی ہو.دوسری شرط یہ ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے ہر گز مجاز نہ ہوں گے صرف آپ مختصر ایک سطر یا دو سطر تحریر دے دیں کہ میرا یہ اعتراض ہے پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا...تیسری شرط یہ ہے کہ ایک دن میں صرف ایک ہی اعتراض آپ پیش کریں گے کیوں کہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے...اور ہم ان دنوں میں باعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے..آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اگر بچے ITA دل سے آئے ہیں تو اس کے پابند ہو جائیں اور ناحق فتنہ و فساد میں عمر بسر نہ کریں.مولوی شاء اللہ صاحب کا تحقیق حق سے گریز مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری نے اس معقول طریق تحقیق کے جواب میں جو رقعہ لکھا اس میں انہوں نے حضور کی پیش کردہ کوئی شرط بھی تسلیم نہ کی حتی کہ یہ لکھ کر دینے سے بھی صریحاً گریز کیا کہ میں آپ کے دعوی کو پر رکھنے کے لئے منہاج نبوت سے باہر نہیں جاؤں گا.دوسری طرف پھر مناظرہ کی طرح ڈالتے ہوئے لکھا کہ ” میں اپنی دو تین سطریں مجمع میں کھڑا ہو کر سناؤں گا اور ہر ایک گھنٹہ کے بعد تین سطریں پانچ نہایت دس منٹ تک آپ کے جواب کی نسبت رائے ظاہر کروں گا." اس رقعہ نے ان کی مناظرانہ روش بالکل واضح کر دی.اس لئے مولوی سید محمد احسن صاحب نے انہیں حضور کی اجازت سے یہ جواب بھجوا دیا کہ " حضرت اقدس " انجام آتھم " میں اور نیز اپنے خط مرحومہ جواب رقعہ میں قسم کھا چکے ہیں کہ مباحثہ کی شان سے مخالفین سے کوئی تقریر نہ کریں گے خلاف معاہدہ الہی کے کوئی مامور من اللہ کیوں کر کسی فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے.طالب حق کے لئے جو طریق حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے کیا وہ کافی نہیں؟ لہذا آپ کی اصلاح جو بطر زشان مناظرہ آپ نے لکھی ہے وہ ہرگز منظور نہیں ہے اور یہ بھی منظور نہیں فرماتے ہیں کہ کل قادیان کے اہل الرائے وغیرہ مجتمع ہوں." مولوی ثناء اللہ صاحب اس مولوی صاحب کی قادیان سے واپسی اور پراپیگنڈا معقول جواب پر قادیان سے چلے گئے اور ”فتح قادیان" کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں لکھا کہ مرزا صاحب نے خود ہی

Page 290

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷۳ "مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت دعوت مناظرہ دی تھی اور خود ہی الہام کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا.انہوں نے اپنے پمفلٹ میں اعجاز احمدی" (صفحہ ۲۳٬۱۱) کے اقتباس بھی شامل کئے مگر وہ تمام فقرات جن میں دعوت کی شرائط یعنی تحقیق حق اور منہاج نبوت کا ذکر تھا.عمد احذف کر دئے اور ثابت کر دیا کہ ان کا جانا تحقیق حق کی خاطر نہیں تھا اور یہ کہ ان کو " منہاج نبوت" کے پیش نظر حضور کی کسی پیش گوئی پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہو سکی." ۲۲.جنوری ۱۹۰۳ء کو اللہ تعالٰی روسی حکومت کا عصا ملنے کی بذریعہ رو یا اطلاع نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بذریعہ خواب اطلاع دی کہ مستقبل میں روسی حکومت کا عصا آپ کی جماعت کو دیا جانا مقدر ہے.حضور نے اس رویا کی تفصیل بایں الفاظ بیان فرمائی." دیکھتا ہوں کہ زار روس کا سونا میرے ہاتھ میں ہے اور ایک عجیب سیاہ رنگ کا ہے جیسے انگریزی کارخانوں میں روغنی چیزیں بہت عمدہ اور نفیس بنا کرتی ہیں اور یہ حصہ اس کالو ہے کا ہے.اس سوئے میں ایک یا دو نالی بندوق کی بھی ہیں لیکن اس ترکیب سے بنی ہوئی ہیں کہ سونٹے میں مخفی ہیں اور جب چاہو تو اس سے کام بھی لے سکتے ہیں." پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بو علی سینا کے وقت میں تھا اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے.بو علی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شیر کو بھی شکار کیا." یہ عظیم پیش گوئیاں کب اور کسی شکل میں پوری ہونے والی ہیں ؟ یہ خدا کے علم میں ہے.حال کا مورخ اس بارہ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ سکتا کہ ع ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ کی ولادت ۲۸.جنوری ۱۹۰۳ء کو ۴ بجے صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ النصیر رکھا گیا.ولادت سے قبل الهام صاجزادی امتہ انصیر صاحبہ کی ولادت سے قبل حضور کو الہام ہوا کہ " غاسق الله " جس کے معنی یہ تھے کہ جو بچہ پیدا ہونے والا ہے وہ زندہ نہ رہے گا.یہ متوحش الہام آپ کو صاحبزادی کے پیدا ہونے سے قریباً چار گھنٹے پیشتر بوقت بارہ ایک بجے شب ہوا جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اٹھ کر مولوی محمد احسن صاحب امروہی

Page 291

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷۴ - "مواهب الرحمن " کی تصنیف و اشاعت کی کوٹھری میں تشریف لے گئے.دروازہ بند تھا.حضور نے دستک دی.مولوی صاحب نے لاعلمی سے پوچھا کون ہے ؟ حضرت اقدس نے جواب دیا غلام احمد.مولوی محمد احسن صاحب نے دروازہ کھولا.حضور نے فرمایا کہ مجھے ایک کشفی صورت میں خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر سے (یعنی حضرت ام المومنین) کہتی ہیں کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا.اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذر الہام ہو ا غاسق اللہ.مجھے اس کے معنی یہ معلوم ہوئے ہیں کہ جو بچہ میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے وہ زندہ نہ رہے گا اس لئے آپ دعا میں مشغول ہوں اور باقی احباب کو بھی اس کی تحریک کریں.د اللہ تعالٰی نے ان دعاؤں کے طفیل حضرت ام المومنین کو اس مصیبت کی گھڑی سے نجات وفات بخشی مگر صاجزادی امتہ النصیر صاحبہ کی موت سے متعلق خدا کا نوشتہ پورا ہوا اور صاحبزادی صاحبہ ۳.دسمبر ۱۹۰۳ء کو انتقال فرما گئیں اور اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کی گئیں.مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام صاجزادی امتہ النصیر صاحبہ کو قبرستان میں وفتانے کے لئے لے گئے اور خود اسے اٹھا کر قبر کے پاس لے گئے.کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر حضور نے فرمایا میں خود لے جاؤں گا.

Page 292

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷۵ تصنیف و اشاعت حواشی ا مواہب الرحمن صفحه ۱۲۹ ۱۳۰) ترجمه) از حقیقته الوحی صفحه ۲۱۵ ملخصا از تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحه ۲۵-۲۶ ملاحظہ ہو " مصدقہ مسل مقدمہ " مفصل بیان کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ کالم ۱.۲ بخوانہ الحکم ۳۱.جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ کالم البدر ۲۳-۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۳ کالم ۲ سفر جہلم کے اکثر حالات کے لئے ملاحظہ ہو البدر ۲۰٬۲۳ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ ۱۳ والبدر ۷.فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰ ۲۱ و اخبار الحکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸.میرة المهدی حصہ دوم صفحہ ۷۰۶۹ ، روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحه ۱۸۳ و جلد ۱۰ صفحہ ۱۸۷ الحکم ۷ / مئی ۱۹۳۵ ء د تذکرۃ الشہادتین صفحه ۴۳ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحه ۱۸۱-۱۸۳ مسودہ سیرت المہدی حصہ چہارم غیر مطبوعہ از رساله " خالد " جنوری ۱۹۵۷ء صفحه ۳۹ جامی موانع حضرت مولوی برہان الدین صاحب علمی (غیر مطبوعہ) صفحه ۲۹ از مولوی عبد المغنی صاحب علمی -۱۲ سوانح حیات حضرت مولوی برہان الدین صاحب علمی (غیر مطبوعہ) (صفحه ۵۹ از مولوی عبد المغنی صاحب کہتے ہیں کہ ان زائرین میں ایک بوڑھا سکھ بھی تھا جو زور زور سے منادی کر رہا تھا کہ نبیوں کا او تار آج جہلم میں موجود ہے لوگو اس کی زیارت کرلو.یہ مبارک وقت خدا نے تم کو دیا ہے روایت صحابہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۷ غیر مطبوعہ) ( روایات ماسٹر خلیل الرحمن صاحب متوطن موضع منجیری ریاست جموں) سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۷۹-۱۷۰ ان کے نام یہ ہیں.مسٹر آرٹیل پیر سٹرایٹ لاء لاہور.خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے ایل ایل بی پلیڈ ر پشاور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے پلیڈر ضلع گورداسپور - شیخ نور احمد صاحب پلیڈ ر ایبٹ آباد.میاں عزیز الدین صاحب امرتسری.البدر ۳۰٬۲۳ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸ کالم۱) البدر۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸ کالم ا فیصلہ کی مکمل نقل اخبار الحکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ - ۱۲ میں شائع شدہ ہے.الحکم ۱۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳۴۰ کالم ۲ 19 بحوالہ احکم ۱۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۳ ۲۰ حقیقته الوحی صفحه ۲۵۲ ۲۱- حقیقته الوحی حاشیه صفحه ۲۵۲ ۲۲- اعجاز احمدی صفحه ۲۳ ۲۳- اعجاز احمدی صفحه ۳۷ ۰۲ الحکم ۱۷/ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۶ کالم ۲۵- شکار پور (سندھ) سے ایک شخص مسمی عبد القادر بیدل نے چند سوالات کئے تھے جن کے جواب میں حضرت اقدس نے یہ لکھا تھا اخبار بدر ۲۲ جون ۱۹۰۵ صفحه ۴ کالم ۱-۲) ۲۶ - البدر ۱۷.جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۹ ۱۰۰ و الحکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ کے

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۷۶ تصنیف و اشاعت "سیرت ثنائی صفحه ۳۱۷۴۳۴ ( از مولوی عبد المجید صاحب سوہدری) FA مراد " مواہب الرحمن (مولف) ۲۹ احکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ کے.مواہب الرحمن صفحہ ۱۰۹.۱۶ میں حضور نے اس خط کا عربی ترجمہ بھی شائع فرما دیا.الحکم نے فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷-۸ الحکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۴۷ ۳۲.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴.۱۵ ۳۳- البدر / فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳ ۳۴ الحکم ۱۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۳ ۳۵ الحکم ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۵ کالم ۲ البدر ۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ حکم ۷ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم ۲-۳ ۳.غیر معمولی پر چه الحکم ۳ / د سمبر ۶۱۹۰۳ ۳۷ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۲۲۳ طبع دوم)

Page 294

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷۷ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د سفر مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر اور ہائی کورٹ میں بریت

Page 295

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷۸ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد خر مولوی کرم دین صاحب کادوسرا مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی حضرت مسیح موعود کے سفر گورداسپور اور چیف کورٹ میں بریت مولوی کرم دین صاحب کو جب اپنے پہلے مقدمہ میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے حضرت مسیح موعود اور حکیم فضل دین صاحب مالک مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے خلاف ۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء کو دوسرا فوج داری مقدمہ زیر دفعات ۵۰۲٬۵۰۱٬۵۰۰ تعزیرات ہند رائے سنسار چند صاحب مجسٹریٹ جہلم ہی کی عدالت میں دائر کر دیا.یہ مقدمہ " مواہب الرحمن " صفحہ ۱۲۹ کے ان الفاظ کی بناء پر تھا جس میں ان کے لئے کذاب الیم اور بہتان عظیم کے لفظ استعمال کئے گئے تھے.چنانچہ انہوں نے عدالت میں بیان ا دیا کہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء کو مرزا غلام احمد قادیانی نے کتاب مواہب الرحمن جو اس کی اپنی تصنیف ہے.اور جو ۱۴ / جنوری ۱۹۰۳ء کو ملزم نمبر ۲ ( مراد حکیم فضل دین صاحب.ناقل) کے مطبع ضیاء الاسلام میں چھپی تھی اس کے صفحہ ۱۲۹ پر ہتک آمیز الفاظ میری بابت درج کئے...اس عبارت میں جو کذاب حسین کا لفظ لکھا گیا ہے وہ قرآن شریف میں ایک خاص کا فرولید بن مغیرہ کی نسبت لکھا گیا ہے اور اس لفظ کے کہنے سے مجھے کو گویا اس کا فر سے تشبیہ دی گئی ہے." حضرت مسیح موعود کا پر شوکت اعلان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اس کی اطلاع ۳۱ / جنوری ۱۹۰۳ء کو پہنچی تو حضور نے فرمایا " اب یہ ان لوگوں کی طرف سے ابتداء ہے.کیا معلوم کہ خدا تعالی ان کے مقابلہ میں کیا کیا تدابیر اختیار کرے گا.یہ استغاثہ ہم پر نہیں اللہ تعالٰی پرہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مقدمات کر کے تھکانا چاہتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دے گا.اس وقت یہ پورے زور لگائیں گے تاکہ قتل کے مقدمہ کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھوٹ گیا.یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں.مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اگر اما

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۷۹ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د سفر عجیبا کیسے ہوتا ہے.انجام مقدمات کی نسبت قبل از وقت بشارات اور پیش گوئی مقدمہ ابھی بالکل حد ابتدائی مرحلے میں ہی تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس کے انجام کی بابت بھی اطلاع دینا شروع کر دی.چنانچہ ابتداء ۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء کی شام کو الہام ہوا." ان الله مع عباده یواسیک " یعنی خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ تیری غم خواری کرے گا.۲۹/ جنوری کی صبح کو الہام ہوا."ساکر مک اگر اما عجیبا - یعنی شاندار رنگ میں تیری عزت قائم کی جائے گی.20 / فروری ۱۹۰۳ء کو الہام ہوا.يَوْمُ الْاثْنَيْنِ وَفَتْحُ الْحُنَيْنِ " ( روز دو شنبہ اور حسین والی فتح) اس کے چھ ماہ بعد ۱۸/ اگست 1903ء کو پھر الہام ہوا." ساکر مک بعد توهینک " یعنی تیری اہانت کے بعد تجھے عزت عطا کی جائے گی.۲۸ / جون ۱۹۰۳ء کو درمیانی رات کو الہام ہوا.اِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقُوا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ فِيهِ آيَاتٌ للسائلین - کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس فریق کے ساتھ ہو گا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا جو پرہیز گار ہے اور خدا سے ڈر کر اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتا ہے اور بنی نوع کا وہ سچا خیر خواہ ہے.سو انجام کاران کے حق میں فیصلہ ہو گا.تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے ان کے لئے یہ ایک نشان بلکہ کئی ایک نشان ظاہر ہوں گے.ان الہاموں اور پیش گوئیوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ اول اس مقدمہ میں ایک ابتلاء پیش آئے گا یعنی اول عدالت کا فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہو گا مگر انجام کار ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہوں گے کہ آپ کی عزت ظاہر کی جائے گی مگر مخالف کی بے عزتی ہوگی.مولوی کرم دین صاحب نے ۲۶/ جنوری ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس اور حکیم مقدمہ کی سماعت فضل الدین صاحب کے خلاف جہلم میں استقالہ دائر کیا تھا وہ 19 جون ۲۹ / ۱۹۰۳ء کو منتقل ہو کر گورداسپور میں ایک کٹر اور متعصب آریہ لالہ چند ولال صاحب بی.اے مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں آگیا.جہاں دوسرے تین مقدمات بنام مولوی کرم دین چل رہے تھے.۱۸/ اگست ۱۹۰۳ء کو گورداسپور میں اس مقدمہ کی پیشی ہوئی.خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر نے حضرت اقدس کی طرف سے یہ درخواست پیش کی کہ عدالت گورداسپور (حضرت) مرزا صاحب کی اصالتنا حاضری کو معاف فرمائے مگریہ درخواست رد کر دی گئی.۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو مولوی کرم دین صاحب نے بیان دیا کہ میں اعوان قوم کا ممتاز فرد ہوں جو

Page 297

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۰ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د سفر حضرت علی کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے علوی کہلاتا ہے.اسلامی انجمنوں کے سالانہ جلسوں میں مجھے مدعو کیا جاتا ہے.مقامی حکام مجھ کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.سرکاری طور پر جو جلسے کئے جاتے ہیں اول میں بلایا جاتا ہوں.یہ نظر اس عزت کے جو پبلک کے دلوں میں میری نسبت ہے فقرہ جات استغاثہ میں میری سخت بے عزتی ہوئی ہے.۱۲/ نومبر سے ۱۶/ نومبر ۱۹۰۳ء تک پھر اس مقدمہ کی سماعت ہوئی جس میں مولوی کرم دین صاحب نے تمہ بیان کے علاوہ جرح کے جواب میں بھی متعد د بیان دئے جن میں عدالت کو بتایا کہ میں چار مسجدوں کا امام ہوں.فیصلوں کی یادداشت کے لئے سرکاری طور پر مجھے رجسٹر ملا ہوا ہے.ایک قصیدہ میں نے سرکاری جلسہ میں بھی پڑھا تھا جس پر انعام ملا.اور مینٹل کالج لاہور میں مولوی فاضل کی تعلیم پائی مگر امتحان میں شامل نہ ہوا اور نہ سند حاصل کی.۶ / اکتوبر ۱۹۰۲ء کے اخبار سراج الاخبار میں جو مضمون چھپا ہے وہ میرا نہیں ہے.میں نے کوئی خط حکیم فضل دین صاحب کو نہیں لکھا نہ لکھوایا.نہ میں نے شہاب الدین کو کوئی اطلاع دی کہ پیر صاحب نے فیضی صاحب کی کتاب سیف چشتیائی سرقہ کی ہے.۱۳/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کے سراج الاخبار میں جو نوٹوں کی نقل اور خط و کتابت اور خام نویس سے لکھائے جانے کی بابت لکھا ہے وہ جھوٹ ہے.انگریزوں کی ملاقاتوں میں مجھ کو کرسی ملتی ہے.رسم تاج پوشی کے دہلی کے دربار میں مجھے بلایا گیا." نیز بجواب جرح کہا.میں دروغ گو عالم کی عزت کروں گا اور اگر وہ معزز ہے.دروغ گوئی موجب نفی عزت نہیں.اگر وہ عادی جھوٹا ہو تو اس کی عالمانہ حیثیت میں کسی قدر فرق آجاتا ہے.ان ہی ایام میں مولوی شاء الله صاحب امرتسری بطور گواہ استغاثہ پیش ہوئے اور بیان دیا کہ میں مستغیث کو عالم مولوی اور مسلمانوں کا لیڈر سمجھتا ہوں لتیم سخت تحقیر کا کلمہ ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب کے بعد مولوی محمد علی صاحب کی گواہی ہوئی جس میں انہوں نے مختلف لغات اور تراجم قرآن سے کذاب اور نیم کے معنی واضح کئے.۱ دسمبر کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مستغیث مولوی کرم دین صاحب پر جرح کے وقت اپنے مخصوص عقائد کی ایک فہرست عدالت میں داخل فرمائی جس میں حضور نے تحریر فرمایا کہ.میں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مهدی محمود اور امام الزماں اور مجد دوقت اور علی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے." نیز لکھا کہ " مسیح موعود اس امت کے تمام گزشتہ اولیاء سے افضل ہیں."

Page 298

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۸۱ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد خر ۱۳ / جنوری ۱۹۰۴ء کی پیشی کے لئے حضرت حضرت مسیح موعود کا سفر گورداسپور اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ جنوری ۱۹۰۴ء کو قادیان سے بٹالہ کے راستہ سے گورداسپور کو روانہ ہوئے اور قریباً ساڑھے تین بجے کے قریب گورداسپور پہنچے.رات کو بہت سے احباب مختلف مقامات سے حاضر ہو گئے.اس دن خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود کی طرف سے ایک تحریری بیان پیش کیا جو چھپا ہوا تھا.مجسٹریٹ صاحب نے زبانی تسلیم کیا تھا کہ تحریری بیان دے دیں.مجسٹریٹ صاحب نے پہلے تو یہ بیان اپنے اقرار کے مطابق لے لیا لیکن پھر انہوں نے اس کا شامل مسل ہو نا نا منظور کر دیا.۱۴ جنوری ۱۹۰۴ء کو حضور عدالت میں تشریف نہ لے جاسکے اور ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ پر آپ کو حاضری عدالت سے ایک ماہ کی اجازت ملی اور حضور اسی روز شام کو بذریعہ ریل بٹالہ آئے.رات یہیں قیام فرمایا اور دوسرے دن (۱۵/ جنوری ۱۹۰۴ء کو قریباً دس بجے روانہ ہو کر قادیان تشریف لے N انتقال مقدمہ کے لئے درخواست اور مجسٹریٹ صاحب اب تک ہر مرحلہ پر جو اپنی جانب دارانہ بلکہ مخالفانہ روش کا مظاہرہ کرتے نا منظوری اور مقدمہ کا نازک ترین دور آ رہے تھے اس کی بناء پر ۴.فروری ۱۹۰۴ء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کی عدالت میں انتقال مقدمہ کی درخواست کی گئی جو ۱۲ / فروری ۱۹۰۴ء کو رد کر دی گئی.اس پر چیف کورٹ کی طرف رجوع کیا گیا.پیشی کے لئے ۲۲/ فروری ۱۹۰۴ء کا دن مقرر ہوا.گو ابھی چیف کورٹ کا فیصلہ نہیں ہوا تھا مگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے درخواست انتقال کی نا منظوری سے ہی مقدمہ نے انتہائی نازک صورت اختیار کر لی کیوں کہ مقدمہ پھر لالہ چند و لال صاحب ہی کی عدالت میں زیر سماعت آگیا اور وہ کھلم کھلاد شمنی پر اتر آئے.اور ا کا اثر تھا کہ یکا یک گورداسپور کا ماحول حضرت مسیح موعود اور حضور کے خدام کے خلاف خطا مخالفت کی آماجگاہ بن گیا اور اب اس میں برملا مختلف متوحش افواہیں پھیل گئیں.افواہیں بے وجہ نہیں حضرت مسیح موعود کو قید کرنے کا منصوبہ اور اس میں ناکامی تھیں بلکہ لالہ چندو لال صاحب فی الحقیقت یہ منصوبہ کر چکے تھے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواہ ایک دن کے لئے سی ضرور نظر بند کر دیا جائے مگر خدا تعالی ہی کی طرف سے کچھ ایسے سامان پیدا ہوئے کہ مجسٹریٹ صاحب کی یہ ناپاک سازش ناکام ہو گئی.چنانچہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کا بیان ہے.

Page 299

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۲ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین صاحب کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ دی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان میں آئے ہوئے تھے حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جا کر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں...جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب مرحوم کو آواز دی گئی کہ وہ نیچے آویں اور دروازہ کھولیں.ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپر ٹھرے ہوئے تھے.ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہو کر رونا اور چلانا شروع کر دیا.ہم نے کئی آواز میں دیں مگر وہ اسی طرح روتے رہے.آخری تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے.ہم نے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا.محمد حسین نے کور گورداسپور میں کسی کھری میں محر ریا پیش کار تھا اور سلسلہ کا سخت مخالف تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میں سے تھا.ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمد حسین منشی آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے.بعض آریہ اپنے دوستوں کو بھی جلسہ میں لے گئے تھے چنانچہ اس طرح میں بھی وہاں چلا گیا جلسہ کی عام کار روائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے اب لوگ چلے جائیں کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں.چنانچہ سب غیر لوگ اٹھ گئے.میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یا باہر انتظار کریں.چنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا.پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اٹھا اور مجسٹریٹ کو مرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یه شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے.اگر آپ نے شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے.اور اس قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں.مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جنم میں پہنچا دوں مگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسی ہوشیاری سے چلایا جا رہا ہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی.لیکن اب عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہو اس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا....ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیں سمجھے ہوں گے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے.محمد حسین نے کہا.ڈاکٹر صاحب! آپ جانتے ہیں کہ میں اس سلسلہ کا سخت مخالف ہوں مگر مجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و برباد ہوتے خصوصاً ہندوؤں کے ہاتھوں سے ذلیل ہوتے

Page 300

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۳ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر نہیں دیکھ سکتا.اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے.پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کرلیں.اور میرے خیال میں دو تجویز میں ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے.اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہو مگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش کر دیں.مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی خوف زدہ ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سنا دے.رات ہو چکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا اور گو کئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا انتا جوش تھا کہ کوئی یکہ نہ ملتا تھا.ہم نے چار گئے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا.آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باورچی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا.وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصراً عرض کیا.حضور نے بے پروائی سے فرمایا.خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں.خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیں گے ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیلی مقدمہ کے متعلق ان کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے.انہوں نے خبر دی کہ تبدیلی مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی.پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور رستہ میں خواجہ صاحب اور مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں دی جب آپ گورداسپور پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چار پائی پر جائیے.مگر اس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہو گا.حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا.میں گیا.اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے.میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا.میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیا ہے.اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا صرف دروازے پر میاں شادی خاں کھڑے تھے.میں نے سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسمعیل خاں صاحب کو روتے ہوئے پایا.پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا.حضور خاموشی سے سنتے رہے.جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.میں اس کا شکار ہوں ! میں شکار نہیں ہوں! میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو دیکھے.یہ الفاظ

Page 301

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۷ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د سفر کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہو گئے مگر کمرے کے اندر کوئی نہیں آیا.حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے.اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا.میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.پھر آپ محبت الہی پر تقریر فرمانے لگے اور تقریبا نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی تے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا.حضرت نے قے سے سر اٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جوتے کی وجہ سے پانی لے آئیں تھیں.مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے کیوں کہ آپ نے یکلخت جھک کرتے کی اور پھر سر اٹھا لیا.مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا تو حضور نے فرمایا.کیا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور تے میں خون نکلا ہے.تب حضور نے اس کی طرف دیکھا.پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے لوگ بھی کمرے میں آگئے اور ڈاکٹر کو بلوایا.ڈاکٹر انگریز تھا وہ آیا اور قے دیکھ کر خواجہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طرح خون کی قے آنا خطرناک ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیں کرتے؟ خواجہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریں مجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاں ڈال کر تنگ کرتے ہیں حالانکہ معمولی مقدمہ ہے جو یوں ہی طے ہو سکتا ہے.اس نے کہا اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں.کتنے عرصہ کے لئے سرٹیفکیٹ چاہیئے پھر خود ہی کہنے لگا.میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہئے.خواجہ صاحب نے کہا فی الحال ایک مہینہ کافی ہو گا.اس نے فورا ایک مہینہ کے لئے سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں ان کو کچھری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا.مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جائے.کیوں کہ دوسرے 12 دن پیٹی تھی اور حضور گورداسپور آکر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جا رہے تھے.مگر حضرت صاحب کے چہرہ پر بالکل اطمینان تھا.چنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے.بعد میں ہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نے سرٹیفکیٹ پر جرح کی اور بہت تلملایا اور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلوایا.مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا میرا سرٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میں اپنے فن کا ماہر ہوں.اس پر میرے فن کی رو سے کوئی اعتراض نہیں کر سکتا اور

Page 302

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۸۵ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر میرا سر ٹیفکیٹ تمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے.مجسٹریٹ بڑبڑا تار ہا مگر کچھ پیش نہ گئی." چیف کورٹ میں انتقال مقدمہ کی جو درخواست دی چیف کورٹ میں درخواست مسترد گئی تھی اس کی پیشی ۲۲ فروری ۱۹۰۴ء کو تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مسٹر آرٹیل بیر سٹرنے وجوہات انتقال پیش کئے لیکن چیف کورٹ نے ان کو نا کافی جان کر درخواست مسترد کردی.۲۴ مقدمہ پھر سے لالہ چند ولال کی عدالت میں اب مقدمہ پھر سے لالہ چندو لال کی عدالت میں آگیا.۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ء کو خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے بطور وکیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخطوں سے ایک بیان عدالت میں پیش کیا جس میں مقدمہ کے واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا تھا کہ اصول اسلام کے مطابق اس معاملہ کا ایک اور بھی پہلو ہے اور وہ یہ کہ جو شخص کسی مدعی نبوت اور رسالت کو جھوٹا سمجھتا ہے.کذاب ہے.یہ بات شہادت استغاثہ میں تسلیم کی گئی ہے.اب مستغیث نہایت اچھی طرح جانتا ہے کہ ملزم (یعنی حضرت مرزا صاحب) نے اس حیثیت یعنی نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا ہے.اور بار جود اس کے مستغیث نے اس کی تکذیب کی ہے.پس مذہب اسلام کی اصطلاح کی رو سے بھی مستغیث کذاب ہے.(ترجمہ) ۸ مارچ ۱۹۰۴ء کو خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنی چار گھنٹے کی تقریر میں مستغیث کے اپنے بیانات اور گواہوں کے بیانات سے استنباط کر کے ثابت کیا کہ یہ مقدمہ سرے سے ہمارے خلاف چل ہی نہیں سکتا.ابھی تقریر باقی تھی کہ عدالت برخواست ہو گئی لہذا ۹ / مارچ کو خواجہ صاحب نے اپنی تقریر ختم کی.۲۵ حضرت مسیح موعود کی طرف سے ڈاکٹری ۱۴/ مارچ کو بھی مقدمہ کی پیشی تھی مگر ۱۳/ مارچ سرٹیفکیٹ اور مجسٹریٹ کا ناروا رویہ ۱۹۰۴ء کو کیپٹن پی ایس سی مور) سول سرجن صاحب گورداسپور قادیان آئے اور انہوں نے حضرت اقدس کی عام حالت صحت کے لحاظ سے چھ ہفتہ تک سفر کرنے کے ناقابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا.لہذا حضور گورداسپور تشریف نہ لے گئے.لالہ چند و لال صاحب یہ سر ٹیفکیٹ دیکھ کر بہت سٹپٹائے اور انہوں نے سرٹیفکیٹ پر اجلاس دوسرے دن (۱۵/ مارچ ۱۹۰۴ء) کے لئے ملتوی کر دیا کہ سول سرجن صاحب عدالت میں شہادت دیں کہ واقعی مرزا صاحب بیمار ہیں.خواجہ صاحب نے عدالت کو توجہ دلائی کہ یہ شہادت ایکٹ شہادت" کے رو سے بالکل غیر متعلق ہے.اس

Page 303

ربیت - جلد ۲۸۶ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د ستر کے علاوہ پیر صر علی شاہ گولڑوی کے متعلق جب سرٹیفکیٹ پیش ہوتے رہے تو عدالت نے کبھی یہ تجویز نہیں کی کہ ڈاکٹر خود آکر حلفی شہادت دے مگر مجسٹریٹ صاحب نے اپنا فیصلہ بحال رکھا اور ۱۵/ مارچ ۱۹۰۴ء کو ڈاکٹر صاحب کی شہادت ہوئی جنہوں نے اپنے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی.اب لالہ چند ولال صاحب کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ وہ مقدمہ چند ہفتوں کے لئے ملتوی کر دیں.چنانچہ انہوں نے مقدمہ کی تاریخ ۱۰ / اپریل مقرر کردی.لاله چند و لال صاحب نے ۱۰ لالہ چند ولال صاحب کی تبدیلی اور عہدہ میں تنزل اپریل کی تاریخ تو اس خیال سے رکھی تھی کہ اب اس کے بعد اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر حضور کو نظر بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر عین اس وقت جب کہ ان کے مظالم کا پیمانہ انتہاء تک پہنچ چکا تھا اور سلسلہ کے دشمن متحد ہو کر اپنے بد ارادوں کو عملی شکل میں دیکھنے کو تیار بیٹھے تھے خدا کی غیرت اپنے مامور کی نصرت و تائید کے لئے ایکا یک جوش میں آئی اور خود حکومت نے اپنے مصالح کی بناء پر لالہ چند ولال کو موجودہ عہدہ سے معزول کر کے ان کا تبادلہ بطور منصف ملتان کر دیا.یعنی وہ اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر سے منصف بنا دئے گئے.پھر کچھ عرصہ بعد پنشن پاکر لدھیانہ آئے.یہاں ان کی حالت بہت خراب ہو گئی اور پھر دماغی خرابی میں مبتلا ہو کر کوچ کر گئے.لالہ چند ولال صاحب کی تنزلی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک دو ہرا چمکتا ہوا نشان تھا کیوں کہ آپ نے اس کے متعلق پیشگوئی بھی فرمائی تھی.چنانچہ جب ایک دفعہ چند ایک غیر احمدیوں نے حضور سے عرض کیا کہ حضور چندو لال کا ارادہ آپ کو قید کرنے کا ہے.آپ دری پر لیٹے ہوئے تھے اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ میں تو چند و لال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا.20 زوایمان افروز واقعات ہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے چند و لال صاحب سے متعلق دو ایمان افروز واقعات لکھے ہیں جو ذیل میں درج کئے جاتے ایک دفعہ دوران مقدمہ میں حضور کا بیان ہو نا تھا اور آدمیوں کی اس دن بہت کثرت تھی اس لئے چندو لال نے اس دن باہر میدان میں کچری لگائی اور حضرت صاحب کے بیان میں دریافت کیا.آپ کو نشان نمائی کا بھی دعوی ہے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں.اور تھوڑی دیر بعد آپ نے فرمایا جو نشان چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا.اس وقت وہ سنائے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا."

Page 304

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۷ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد مغر ایک دفعہ چند و حل نے عدالت میں حضور کے الہام انی مهین من اراد اهانتک کے متعلق سوال کیا کہ یہ خدا نے آپ کو بتایا ہے ؟ حضور نے فرمایا یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھے سے وعدہ ہے.وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل و خوار ہو گا.آپ نے فرمایا بے شک.اس نے کہا اگر میں کروں.فرمایا چاہے کوئی کرے.تو اس نے دو تین مرتبہ کہا.اگر میں کروں.تو آپ یہی فرماتے رہے چاہے کوئی کرے.پھر وہ خاموش ہو گیا." دوسرے مجسٹریٹ مہتہ آتما رام صاحب لالہ چند دلال کی جگہ جو مجسٹریٹ آیا وہ بھی ایک متعصب ہندو تھا جس کا نام مہتہ آتما رام تھا.اس کی تشدد آمیز پالیسی اور حضرت اقدس شخص نے پہلے مجسٹریٹ سے بھی زیادہ قشر دانہ کا گورداسپور میں دو ماہ تک قیام پالیسی اختیار کی اور ہندوؤں اور عیسائیوں کا آلہ کار بن کر کھلم کھلا تعصب اور جنبہ داری کا مظاہرہ کیا.اور ایک ایسے انسان کے کھڑے کئے ہوئے مقدمہ کو محض عداوت اور بغض کے باعث بہت لمبا کر دیا جس کا سرقہ دھوکہ دہی اور ازالہ حیثیت عرفی کا جرم بالکل واضح تھا.قبل ازیں حضور کو ہر عدالت میں باقاعدہ کری ملتی تھی مگر انہوں نے نہ صرف کرسی دینے سے انکار کیا بلکہ بعض دفعہ سخت پیاس کے باوجود پانی پینے کی بھی اجازت نہ دی.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقدمات کی تاریخیں اتنی قریب قریب مقرر کرنا شروع کر دیں کہ حضرت اقدس کو مئی ۱۹۰۴ء سے جولائی ۱۹۰۴ء تک متعدد بار گورداسپور کا سفر اختیار کرنا پڑا.اور پھر اس بارے میں اتنی سختی کی کہ بالاخر حضور نے وسط اگست ۱۹۰۴ء سے مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں ہی ٹھرنے کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ حضور ۱۳ / اگست کو دار الامان سے روانہ ہو کر بٹالہ سے گورداسپور تشریف لے گئے.مہمانوں کی رہائش کے لئے عارضی طور پر حضور کی فرودگاہ کے سامنے ایک بڑا شامیانہ نصب کر دیا گیا.اس طرح احاطہ کچھری میں بھی جب تک حضور وہاں قیام پذیر رہے حضور کے ملفوظات کا چشمہ جو قادیان میں رواں ہوا کرتا تھا گورداسپور میں بھی جاری رہا اور آپ تبلیغ حق کی سعی و جدوجہد میں ایک بہادر جرنیل کی طرح دیوانہ وار مصروف رہے.دو ماہ بعد ۱۱/ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو حضور قادیان تشریف لائے.یہ دن ساکنان قادیان کے لئے عید سے کم نہ تھا.مقدمہ میں حضرت مسیح موعود کے منصب عمومی واقعات کے بیان کے بعد اب ہم لالہ اتمارام کی سماعت کے زمانہ کی تفصیلات کی نبوت کے بارے میں بار بار وضاحت طرف آتے ہیں.لالہ آتما رام صاحب نے گورداسپور میں منتقل ہونے کے معا بعد ا/ اپریل ۱۹۰۴ء کو اس مقدمہ

Page 305

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۸ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر کی سماعت شروع کی.۱۰ مئی سے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے گواہ استغاثہ کا بیان و جرح شروع ہوئی مولوی صاحب نے ۱۳ مئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں یہ حلفیہ بیان دیا کہ.مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے.مرزا صاحب ملزم مدعی نبوت ہے.اس کے مرید اس کو دعوے میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں.پیغمبر اسلام مسلمانوں کے نزدیک سچے نبی ہیں اور عیسائیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں." انہوں نے ایک ماہ بعد ۱۶ / جون ۱۹۰۴ء کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں بجواب مستغیث دوبارہ حلفاً بیان دیا کہ.مرزا صاحب دعوی نبوت کا اپنی تصانیف میں کرتے ہیں.یہ دعوی نبوت اس قسم کا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لایا.ایسے مدعی کا مکذب قرآن شریف کی رو سے کذاب ہے.میلہ مدعی نبوت تھا.میں اس کی نبوت سے منکر ہوں.مسلمہ مجھے کذاب کہہ سکتا ہے اگر موجود ہو." مقدمہ میں مولوی ثناء اللہ امرتسری استغاثہ کے گواہ تھے چنانچہ انہوں نے بجواب مستغیث کہا کہ مرزا صاحب ملزم کا دعوی میرے نزدیک صحیح نہیں ہے.قرآن میں حضرت محمد صاحب کو خاتم الانبیاء کیا گیا ہے اور حدیث میں لکھا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا." " اس بیان کے جواب میں دونوں فاضل وکلاء ( خواجہ کمال الدین صاحب و مولوی محمد علی صاحب) نے "تحذیر الناس" وغیرہ کتابیں پیش کر کے ثابت کیا کہ تشریعی نبوت بند ہے مگر غیر تشریعی نبوت جاری ہے.غرض کہ اس مقدمہ میں حضرت اقدس کے دعوی نبوت کا ایسا کھلا اور واضح اعلان خود حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کے وکلاء خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے برا کہ آپ کے منصب نبوت کے بارہ میں کوئی شک وشبہ نہ رہا.جون کے آغاز میں حالات مصالحت کی کوشش اور حضور کا ایمان افروز جواب نے کروٹ لی.بات معمولی تھی مگر مقدمہ نے طول کھینچا.یہ صورت حال دیکھ کر گورداسپور کے بعض نیک دل اور دور اندیشن لوگوں نے خلوص کے ساتھ کوشش شروع کر دی کہ فریقین میں صلح ہو جائے.اور شریف مزاج اور ہمدرد مسلمانوں کا ایک وفد مولوی کرم دین صاحب کو دست برداری پر آمادہ کر کے حضور کی خدمت میں بغرض مصالحت پہنچا.حضور نے جواب دیا.صلح کی صورت صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کرم دین صاحب کہہ دیں کہ یہ میرے ہی خطوط ہیں.وفد کے ایک ممبر نے کہا کہ وہ مقدمہ سے دست بردار ہوتا ہے.حضور نے فرمایا.یہ مقدمہ ایماء الہی سے ہے جب تک کرم دین صاحب اپنے خطوط کا اقرار

Page 306

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۸۹ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد شفر نہ کریں کہ میرے ہیں جن کا اس نے عدالت میں انکار کیا تب تک کوئی صفائی نہیں.وفد نے کہا کہ حضور حکام کی نظر اچھی نہیں ہے.آپ نے فرمایا.حکام کیا کریں گے مجھے سزا دے دیں گے اور کیا کریں گے.یہ سن کر وفد واپس چلا گیا.مگر اس واقعہ کے بعد بھی وفد کی طرف سے مصالحت کی کوششیں جاری رہیں اور بالا خریہ قرار پایا که مولوی کرم دین صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیحدہ علیحدہ بیان لکھیں.حضور کا بیان یہ ہو کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے الفاظ کذاب بهتان و لتیم مولوی کرم دین کے متعلق یہ یقین کر کے لکھے تھے کہ خطوط محولہ مقدمات اور مضامین مندرجہ سراج الاخبار ۱۳۹۶ / اکتوبر ۱۹۰۲ء مولوی کرم دین کے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو." ای طرح مولوی کرم دین صاحب کے تحریری بیان کے الفاظ یہ ہوں کہ ”میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خطوط محولہ مقدمات جو میری طرف سے ظاہر کئے گئے اور مضمون سراج الاخبار مندرجہ ۶.اکتوبر و ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ء جو میرے نام پر اخبار میں شائع ہوئے ہیں میرے نہیں نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو." مصالحت کنندوں نے یہ مجوزہ مسودہ صحیح تسلیم کیا البتہ یہ کہا کہ اس میں لعنت کا لفظ بڑا سخت ہے اس کو کسی طرح بدل دیا جاوے.سو حضور نے اس کی بجائے یہ ترمیم کر دی کہ ”میں اس مقدمہ کو انصاف کے لئے خدا تعالٰی کی عدالت میں سپرد کرتا ہوں.لیکن جب یہ مسودہ مولوی کرم دین صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا.حالانکہ قبل ازیں رائے چندو لال کی عدالت میں وہ حلفیہ بیان دے چکے تھے.آخر یہ فیصلہ ہوا کہ بجائے خدا کی قسم کے اقرار صالح کا لفظ لکھا جاوے.چنانچہ مسودہ میں اس کے مطابق ترمیم کر دی گئی مگر بعد ازاں مولوی کرم دین صاحب نے یہ اعتراض اٹھا دیا کہ مسودہ سے خدا کی عدالت میں انصاف کے لئے سپردگی کے لفظ بھی نکال دئے جائیں جس کی وجہ یہ بتائی کہ میرے برخلاف پیش گوئیاں کی جائیں گی.سو اس کے متعلق بھی شرط مان لی گئی تھی لیکن وہ کسی طرح رضامند نہ ہوئے اور وفد کی طرف سے مصالحت کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں.مقدمہ کی کارروائی پھر شروع ہو گئی.اب مقدمہ کی کارروائی پھر سے شروع ہو گئی.چنانچہ ۱۶ ۱۷ جون کو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور مولوی ثناء اللہ کی باقی جرح ختم ہوئی.12 جون کو مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود کے وکلاء کے ایک سوال کے جواب میں بیان دیا کہ مفتی ہو نا لیاقت پر منحصر ہے اس لئے فتویٰ

Page 307

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹۰ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر دینے والا دنیاوی کاموں میں کتنا ہی جھوٹا ثابت ہو مجھے اس سے فتوئی لینے میں کوئی تامل نہ ہو گا.21 ۲۵ تا ۱۲۸ جولائی کو مولوی غلام محمد صاحب قاضی تحصیل چکوال کی شہادت صفائی اور اس پر جرح ہوئی.ای شهادت و جرح پر مقدمہ میں شہادت استغاثہ ختم ہوئی اور وہی فرد جرم جو بابو چند و لال صاحب سابق مجسٹریٹ نے لگایا تھا بحال رکھا گیا.پیر مہر علی شاہ صاحب کی گواہی کیلئے درخواست اور مجسٹریٹ کا انکار حضرت اقدس علیہ السلام کے وکلاء کی طرف سے قبل ازیں ۲۴ گواہوں کی ایک فہرست دی گئی تھی جن میں سب سے اہم جناب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی تھے مگر مجسٹریٹ صاحب نے صرف گیارہ گواہ بلانے منظور کئے اور دیگر گواہوں کے علاوہ پیر مہر علی شاہ صاحب کو چھوڑ دیا جس پر حکیم فضل دین صاحب نے مجسٹریٹ صاحب کو تحریری درخواست پیش کی کہ اس تمام مقدمہ میں کوئی واقعہ ثبوت طلب نہیں کہ جس کے متعلق گواہ نے کور کو ذاتی علم نہ ہو.پھر کتاب "اعجاز المسیح " مترو کہ محمد حسن متوفی کے نوٹوں کے بارے میں پیر صاحب کا بیان فیصلہ کن ہو گا.علاوہ ازیں یہ امر ثابت ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اور مستغیث کی خط و کتابت ہے اور مستغیث کے دستخط کو یہ جانتے ہیں اور چونکہ وہ سجادہ نشین ہیں اس لئے ممکن نہیں کہ وہ جھوٹی شہادت دیں.یہ بہت ہی ضروری ہے ہم اس کے عوض ایک اور گواہ بھی چھوڑنے کو تیار ہیں.لیکن مجسٹریٹ صاحب نے یہ درخواست رد کردی اور پیر صاحب موصوف کو جو اس مقدمہ کے ایک نہایت اہم گواہ تھے عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا.اس کے بر عکس // اگست کو حضرت اقدس کے وکیل نے درخواست کی کہ اب حضور کو حاضری عدالت سے معاف رکھا جائے تو مجسٹریٹ صاحب نے حکم دیا کہ آپ سے حاضری عدالت کے لئے مچلکہ دلایا جائے.چنانچہ اس وقت مچلکہ داخل کر دیا گیا.مقدمہ کا فیصلہ اور حضور کو قید کرنے غرض کہ اس نوعیت کی لمبی چوڑی عدالتی کارروائیوں کے بعد (جو ۲۴ / ستمبر ۱۹۰۴ء تک کی دوسری سازش میں مجسٹریٹ کی ناکامی ختم ہوئی ) آئندہ تاریخ یکم اکتوبر ۱۹۰۴ء مقرر کی گئی.چونکہ اس روز عام خبر تھی کہ فیصلہ سنایا جائے گا اس واسطے کچھری کے احاطہ میں بہت سے لوگ جمع تھے.خصوصاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اڑھائی تین سو خدام مقدمہ کا فیصلہ سننے کے لئے کراچی حیدر آباد سندھ ، پشاور ، وزیر آباد، راہوں ضلع جالندھر کپور تھلہ قادیان لاہور، امرتسر ، نارووال دینا نگر وغیرہ مقامات سے پہنچے ہوئے تھے.لیکن افسوس اس تاریخ کی for

Page 308

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹۱ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر بجائے مجسٹریٹ لالہ آتما رام صاحب نے ۸ / اکتوبر ۱۹۰۴ء کو فیصلہ سنایا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود کو پانچ سو روپیہ اور حکیم فضل الدین صاحب کو دو سو روپیہ جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ چھ ماہ قید کی سزادی.فیصلہ کے وقت اس نے اچھی طرح پولیس کا انتظام کیا ہوا تھا اور عدالت کے ارد گرد سپاہی کھڑے تھے جو کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھے.۸ اکتوبر کو ہفتہ کا دن تھا اور یہ دن مجسٹریٹ صاحب نے ایک خاص منصوبہ کے تحت مقرر کیا تھا اور وہ یہ کہ اگلے دن تعطیل تھی اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ فیصلہ برخاست عدالت سے صرف چند منٹ پیشتر سنایا جائے تا حضرت اقدس کی طرف سے جرمانہ کی فوری ادائیگی نہ ہونے پائے اور آپ کو کم از کم ہفتہ اور اتوار دو روز تو جیل خانہ میں رکھا جا سکے.قید سے بچاؤ کیلئے خدام کی ایک تجویز اور حضور کا ارشاد منشی احمد دین صاحب لدھیانوی ملازم نواب محمد علی خاں صاحب کا بیان ہے کہ میں ان دنوں گورداسپور آیا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور چند اور احباب مل کر مشورہ کر رہے تھے کہ اگر مجسٹریٹ نے قید کا حکم سنایا تو ہم اپیل کریں گے.مجھ سے انہوں نے دریافت کیا تو میں نے کہا کہ یہ مشورہ فضول ہے جب ایک دفعہ ہتھکڑی لگ جائے اور قید خانے میں چلے جائیں تو ہماری عزت کہاں.انہوں نے کہا آپ ہی بتائیں کیا کرنا چاہئے.میں نے مشورہ دیا کہ ایک آدمی تلاش کرو اور چار ہزار یا میں ہزار وغیرہ جتنی ضمانت مانگنے کا احتمال ہو سکتا ہے اتنی جائداد کا وہ مالک ہو اور بروقت ضمانت دے سکے اور ایک درخواست اپیل کی لکھ کر اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط کروائے جائیں اور اپیل چونکہ سیشن کورٹ امرتسر کی عدالت میں ہوگی اس لئے امرتسر میں ایک بیرسٹر کو ایک دن کی پوری فیس دی جائے اور وہ عدالت کے دروازے پر موجود رہے اور ایک موٹر اپنے قبضہ میں رکھنی چاہئے.حکم سنتے ہی فوری تار دیا جائے اور وہ بیرسٹر جو امرتسر سیشن جج کی عدالت کے دروازے پر کھڑا ہوا پیل داخل کر کے منظوری کی بذریعہ فوری تار اطلاع دے دے.یہ رائے سن کر سب عش عش کر اٹھے کہ یہ رائے بہت اچھی ہے.تب انہوں نے کہا کہ آپ ہی حضرت صاحب کے پاس جا کر اس رائے کو پیش کریں.چنانچہ میں گیا.حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے میں حضور کے پاؤں دابنے لگا.باتوں باتوں میں میں نے ذکر کیا معلوم ہوتا ہے حج دشمن ہے اور اس کی نیت نیک نہیں.آپ نے فرمایا ہاں ہے تو دشمن ہی.تو میں نے عرض کیا کوئی تدبیر کرنی چاہئے.اور پھر خود ہی اپنی پوری سکیم حضور کی خدمت میں پیش کر دی.سن کر بیٹھ گئے اور فرمایا "خشی صاحب یہ تو انتہائی تدبیر ہے اگر یہ کی جائے تو اس طرح خدا

Page 309

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹۲ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعد د سفر کا نشان متا ہے." یہ سن کر میں خاموش ہو گیا.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی طرف سے جرمانہ کی ادائیگی ادھر یہ بات ہوئی ادھر خدا تعالٰی نے حضور کے کئی خدام کے دل میں یہ تحریک کی کہ وہ فیصلہ کے دن روپے ساتھ لے گئے بلکہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے تو احتیاطا نو سو روپیہ فیصلہ سے ایک روز پیشتر ہی اپنے آدمی کے ہاتھ بھجوا دیا.چنانچہ جوں ہی فیصلہ سنایا گیا خواجہ کمال الدین صاحب نے اس رقم سے اسی وقت جرمانہ کی رقم ادا کر دی اور لالہ آتمار ام اور ان کے ساتھیوں کا سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا.۵۵ فیصلہ کی مزید تفصیلات مولف مجدد اعظم " کا بیان ہے کہ حضرت اقدس اور حکیم فضل " دین صاحب کو عدالت میں بلایا گیا اور عدالت میں پہرہ لگا دیا گیا اور سپاہیوں کو کہہ دیا گیا کہ سوائے مرزا صاحب اور حکیم فضل الدین کے کوئی دوسرا شخص عدالت کے کمرہ میں نہ آوے اور ایک سپاہی ہتھکڑیاں لے کر عدالت کے کمرہ میں کھڑا کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ جرمانہ کا حکم سنتے ہی اگر فوراً جرمانہ ادا نہ ہو تو دو نو صاحبوں کو فورا ہتھکڑیاں لگا کر جیل خانہ پہنچا دیا جائے.حضرت اقدس ان تمام منصوبوں سے بے خبر نہایت بے پروائی سے کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے اور ساتھ ہی حکیم صاحب بھی.خواجہ صاحب حوائج ضروریہ کے لئے گئے ہوئے تھے وہ واپس آئے تو دیکھا کہ حضرت اقدس عدالت کے کمرہ میں اکیلے داخل ہو رہے ہیں.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے فیصلہ سنانے کے لئے بلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ کوئی اور آدمی کمرہ میں نہ آوے.ان کا ماتھا ٹھنکا انہوں نے سمجھ لیا کہ خیر نہیں.بھاگ کر عدالت کے کمرہ کے دروازے پر پہنچے.اندر گھنے لگے تو دو سپاہیوں نے دروازہ پر دونوں طرف سے آگے بڑھ کر روکا.انہوں نے کہا کہ میں کیسے اندر نہ جاؤں میں ملزمان کا وکیل ہوں اور ساتھ ہی بغیر کسی جواب کے انتظار کے دونوں ہاتھ پھیلا کر دونوں سپاہیوں کو دروازہ کے باہر دھکیل دیا.ماشاء الله تنومند آدمی تھے سپاہی پھر نہ بولے.کمرہ کے اندر گئے تو مجسٹریٹ فیصلہ سنا رہا تھا.وہاں جو سات سو روپیہ جرمانہ سنا تو انہوں نے فوراسات سورد پیہ کے نوٹ جیب میں سے نکال کر عدالت کی میز پر رکھ دئے.مجسٹریٹ ہکا بکا رہ گیا.اس کا سارا منصوبہ حضرت اقدس کو قید کرنے کا خاک میں مل گیا.بہت تلملایا اور چہرہ سیاہ پڑ گیا لیکن نوٹوں کو دیکھ کر پھر چہرہ پر رونق آگئی اس زمانہ میں نوٹوں پر لاہور کلکتہ کراچی ، مدراس وغیرہ لکھا ہو تا تھا.باقی نوٹ دوکاندار قبول نہ کرتے تھے.خواجہ صاحب نے جو نوٹ عدالت کے آگے پیش کئے تھے ان پر " مدراس.کراچی "لکھا ہوا تھا.فورا مجسٹریٹ صاحب بولے کہ یہ نوٹ مدارس.کراچی کے ہیں یہاں قابل قبول نہیں.خواجہ صاحب

Page 310

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۹۳ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر نے کہا کہ آپ لکھ دیں کہ سات سو روپے کے نوٹ پیش کئے گئے تھے مگر چونکہ وہ مدارس کراچی کے تھے اس لئے عدالت نے قبول نہیں کئے.اس پر وہ عاجز آگیا.کیوں کہ گو بازار میں دوکاندار در اس.کراچی کے نوٹ نہ لیں لیکن گورنمنٹ اپنے نوٹ برٹش انڈیا کی حدود کے اندر لینے سے انکار نہیں کر سکتی.چار و ناچار اس نے نوٹ قبول کر لئے اور بصد حسرت و یاس حضرت اقدس اور حکیم صاحب کو جانے کی اجازت دے دی.۵۶ لاله آتما رام صاحب بھی اپنے پیش رو رائے لالہ آتمارام صاحب قبرالی کی زد میں چندو لال کی طرح قہر الہی کی زد سے نہ بچ سکے.۵۸ خدا کے مامور سے جو ظالمانہ اور انسانیت سوز سلوک انہوں نے روا رکھا اس کی پاداش میں دوران مقدمہ میں ہی خدا تعالی کی طرف سے یہ سزاملی کہ ان کے دولڑکے حضرت اقدس مسیح موعود کی پیش گوئی کے مطابق صرف ہیں پچیس دن کے مختصر سے وقفہ میں مرگئے اور ان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی.حضور پر بذریعہ کشف ظاہر کیا گیا تھا کہ آتما رام صاحب اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہوں گے.اور آپ نے یہ کشف پہلے سے اپنی جماعت کو سنا بھی دیا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا بیان ہے کہ (لالہ آتمارام) کا بیٹا ریا میں ڈوب کر مر گیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ وہ لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاج سے کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالی مجھے صبر کی توفیق دے.مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوتی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.چیف کورٹ میں حضرت اقدس کی مولوی کرم دین صاحب نے اپنے مقدمہ میں سب سے زیادہ زور اس امر پر دیا تھا کہ "تیم" بریت اور مولوی کرم دین صاحب کے کے لفظ کے معنی (جسے مرزا صاحب نے اس کے جرمانہ کی بحالی اور کذاب ہونے پر مہر متعلق استعمال کیا ہے) ولد الزنا کے ہیں.اور کذاب کے یہ معنی ہیں جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو.حضرت اقدس اور آپ کے وکلاء کا موقف یہ تھا کہ یہ لفظ ان معنوں پر مستعمل نہیں.پہلی عدالت نے یہی معنی تسلیم کئے اور اسی بناء پر جرمانہ کیا.مگر عین اس وقت جب مقدمہ زور شور سے جاری تھا اللہ تعالی کی طرف سے حضور کو الہام ہوا کہ "معنی دیگر نہ پسندیم ما جس کی تقسیم یہ ہوئی کہ دوسری عدالت میں یہ معنی قائم نہیں رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.۵/ نومبر ۱۹۰۴ء کو مسٹر اے.ای ہری صاحب ڈویژنل حج امر تسر کی عدالت میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کی گئی جس پر حکام نے مستغیث کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا اور دشمن

Page 311

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹۴ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد مستر کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہ رہی.مگر خدائی بشارت کے عین مطابق ڈویژنل جج صاحب امر تر نے تاریخ ۷ / جنوری ۱۹۰۵ ء حضرت اقدس کو ہر الزام سے بری کر دیا اور مولوی کرم دین صاحب کے تمام عذرات کو رد کر کے خاص طور پر اپنے فیصلہ میں لکھا کہ.مستغیث کذاب اور نسیم وغیرہ الفاظ کا بالکل مستحق تھا تاکہ عوام الناس اس امر کا اندازہ لگا سکیں کہ مستغیث کے فعل اور قول کی کیا وقعت ہونی چاہئے.؟" سراج الاخبار " میں شائع شدہ مضامین کے بارے میں لکھا کہ ان سے ایک دانستہ منصوبہ چال بازی اور خلاف بیانی اور جعل سازی کا ظاہر ہوتا ہے جس پر بے حیائی سے ایک عام اخبار کی سطروں میں دنیا کے سامنے فخر کیا گیا ہے...مستغیث نے ان کی تردید کے بارے میں یا ان کے نو سندہ ہونے سے انکار کرنے کی بابت کبھی کوئی تحریر اخبار میں نہیں بھیجی.اندرونی شہادت سے دلالت ہوتی ہے کہ سوائے مستغیث کے کسی اور نے یہ مضامین تحریر نہیں کئے.بے شک مرزا صاحب کا کوئی مرید ایسا کام نہیں کر سکتا.نو.سندہ اپنی چالا کی پر نمات خوش معلوم ہوتا ہے.اور غالبا اس کار روائی کی عزت کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا.مستغیث نے اس تحریر کو جو اس کی بیان کی جاتی ہے شناخت کرنے میں اس قدر ٹال مٹول کیا ہے کہ ہم اس پر کوئی اعتبار نہیں کر سکتے." اس فیصلہ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ " بہت ہی افسوس ہے کہ ایسے مقدمہ میں جو کارروائی کے ابتدائی مرحلہ پر ہی خارج کیا جانا چاہئے تھا اس قدر وقت ضائع کیا گیا ہے.لہذا ہر دو طرمان مرزا غلام احمد و حکیم فضل دین بری کئے جاتے ہیں.ان کا جرمانہ واپس دیا جائے گا." جرمانہ کی واپسی فیصلہ کے مطابق ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ء کو جرمانہ واپس ہوا.جو مولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے گورداسپور کے سرکاری خزانہ سے وصول کیا.مقدمہ کا ذکر سید نا حضرت مسیح موعود کے قلم مبارک سے ہونا حضرت صحیح موعود عليه الصلوة و السلام اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.کرم دین نام ایک مولوی نے فوجداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آتما ر ام اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جاکر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا.اور ان کو بڑی امید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کو جھوٹی

Page 312

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۹۵ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد شر خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتما رام نے اس مقدمہ میں اپنی ناضمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کے لئے مستور ہو گیا.اس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتما رام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا چنانچہ یہ کشف میں نے اپنی جماعت کو سنا دیا.اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس کے مر گئے.اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمار ام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا.اگر چہ فیصلہ لکھنے میں اس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اخیر پر خدا نے اس کو اس حرکت سے روک دیا لیکن تاہم اس نے سات سو روپیہ جرمانہ کیا.پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ میں بری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا مگر آتمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے.پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری نہ ہو سکی اور خدا تعالٰی کی اس پیش گوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہو چکی تھی میں بری کیا گیا اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اس نے بے جا دیا.مگر کرم دین کو جیسا کہ میں مواہب الرحمن میں شائع کر چکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اس کے کذاب ہونے پر مہر لگ گئی اور ہمارے تمام مخالف مولوی اپنے مقاصد میں نامراد رہے.افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نا مرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے.اگر بد قسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شرسے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اس سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچایا جائے گا اور ہر ایک مرتبہ اور ہر ایک مقدمہ میں خداتعالی مجھے خبر دیتا رہا کہ میں تجھے بچاؤں گا.چنانچہ وہ اپنے وعدے کے موافق مجھے محفوظ رکھتا رہا." tt مولوی کرم دین صاحب کے خلاف مقدمات مولوی کرم دین صاحب کے دائر شدہ مقدمہ کے واقعات کے بعد اب ان مقدمات کے مختصر حالات بیان کرتے ہیں جو خود مولوی کرم دین صاحب کے خلاف دائر تھے.پہلا مقدمہ حکیم فضل دین صاحب کے زیر دفعہ ۴۲۰ تھا.مولوی کرم دین صاحب پہلا مقدمہ نے اپنے خلاف جملہ مقدمات کے بارے میں عدالت عالیہ چیف کورٹ میں درخواست دی که یه گورداسپور سے فتقل کئے جائیں لیکن یہ درخواست نامنظور ہوئی.اور گورداسپور عدالت میں ہی ان کی کارروائی شروع ہوئی.چنانچہ استغاثہ کی طرف سے ۲۳ / جون ۱۹۰۳ء کو مفتی سلیم اللہ صاحب لاہور اور فقیر محمد صاحب مالک سراج الاخبار ۲۴ / جون ۱۹۰۳ء کو

Page 313

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹۶ سید نا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد سفر الحسن من ھیں ، شاه حسین گولڑوی، منشی لنگر گولڑہ بطور گواہ پیش ہوئے.۱۶/ جولائی ۱۹۰۳ء کو منشی غلام حیدر صاحب تحصیل دار اور مولوی عبد الکریم صاحب کی شہادتیں ہوئیں.مولوی عبد الکریم صاحب کا بیان مختصرا یہ تھا کہ (حضرت) مرزا صاحب کی خط و کتابت میں کرتا ہوں جو خطوط (حضرت) مرزا صاحب کی طرف سے آتے ہیں وہ براہ راست ان کی خدمت میں نہیں پہنچتے.ان میں سے اکثر خطوط کو میری طرف جواب دینے کے لئے بھیج دیتے ہیں.مرزا صاحب کی مجلس میں بیٹھنے کا وقت (ظهر) کی نماز سے کسی قدر پہلے ہے اور مغرب سے شام کی نماز پڑھ کر عشاء کی نماز تک برابر بیٹھے رہتے ہیں.جن خطوط کا تعلق عام بہتری اور مصالح کے ساتھ ہوتا ہے ان کو مجلس میں سنا دیتا ہوں.خط و کتابت کا کام میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے محض رضا کارانہ کرتا ہوں.قبل ازیں استغاثہ کی طرف سے پیر مہر علی شاہ صاحب کو بھی بلایا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے وکیل دیوان سنت رام ایڈووکیٹ گورداسپور کی طرف درخواست دی کہ میرے ہزاروں مرید ہیں اور کم از کم چار پانچ سو مرید میرے ساتھ آئیں گے اس لئے اندیشہ نقض امن ہے.دوسرے سائکل بیمار ہے اس لئے بذریعہ کمیشن شہادت کی جائے.مجسٹریٹ صاحب نے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ طلب کیا جو ۱۶ / جولائی ۱۹۰۳ء کو پیش کر دیا گیا اور ان کو حاضری سے معاف کر دیا گیا.اگلے دن ۱۷.جولائی ۱۹۰۳ء کو وکیل استغاثہ نے پیر صاحب کی شہادت کے لئے دوبارہ درخواست دی جو رد کر دی گئی.شہادت صفائی کے لئے ۱۹ / اگست ۱۹۰۳ء کی تاریخ مقرر تھی.ملزم نے اس شہادت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حکیم فضل دین صاحب کو مزید جرح کے لئے بلوایا تھا چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۱۷.اگست ۱۹۰۳ء کو نماز ظہر و عصر جمع کر کے گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( ایدہ اللہ تعالٰی) بھی تھے.۱۲ بجے کے قریب گورداسپور پہنچے.عدالت میں ایک نشان کا ظہور ۱۹ اگست کی صبح کو حضور کو الہام ہوا کہ یسئلونک عن شانك قل الله ذرهم في خوضهم يلعبون يعني تیری شان کے بارے میں پوچھیں گے کہ تیری شان اور تیرا مرتبہ کیا ہے.کہ اوہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے.پھر ان کو اپنی لہو و لعب میں چھوڑ دے.حضرت مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ جب یہ الہام ہوا تو حضور کے پاس صرف میں اور مفتی محمد صادق صاحب ہی تھے.حضرت اقدس لیٹے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہو تا تھا کہ سو رہے ہیں.اس حالت میں حضور نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے لکھ لیں.اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت

Page 314

تاریخ احمدیت.جلد ۲ الهام ۲۹۷ سیدنا حضرت مسیح موعود کے گورداسپور کی طرف متعدد شعر وہاں کوئی قلم و دوات بلکہ پنسل تک موجود نہ تھی آخر باورچی خانہ سے ایک کو ٹلہ لایا اور اس سے مفتی محمد صادق صاحب نے کاغذ پر لکھا.آپ پھر اسی طرح لیٹ گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر آپ نے لکھایا.غرض اسی طرح آپ نے اس وقت چند الہامات لکھوائے جن میں سے ایک یسئلونک عن شانک والا الہام بھی تھا.اس کے بعد حضور اقدس نے اپنے خدام کے سامنے جو چالیس سے کم نہ تھے یہ الہام سنا دیا.جن میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے.ای روز حضور اقدس کی گواہی تھی.چونکہ عدالت کو علم تھا کہ حضرت اقدس کی موجودگی سے شائقین زیارت بکثرت جمع ہوں گے اس لئے عدالت کی کرسی عمارت سے باہر باغ کے درمیان نصب کی گئی اور بنچوں اور کرسیوں وغیرہ کا کافی انتظام کر دیا گیا جس سے شائقین بڑے آرام اور عمدگی سے عدالتی کارروائی سن سکیں.اس موقعہ پر عدالت کے کل افسر اور گورداسپور کے رؤسا اور وکلاء موجود تھے.حکیم فضل الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کی مختصر شہادت لی گئی اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود کا بیان شروع ہوا.اور خدا کی قدرت !! فریق ثانی کے وکیل نے آپ سے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور مرتبہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تحفہ گولڑویہ 3 میں لکھا گیا ہے.حضور نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے.اسی نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے.چنانچہ سرکاری عدالت کی مقدمہ مسل میں حضرت اقدس کے بیان کا ایک حصہ ان الفاظ میں درج ہے.تحفہ گولڑویہ میری تصنیف ہے.یکم ستمبر ۱۹۰۲ ء کو شائع ہوئی.پیر مہر علی کے مقابلہ پر لکھی ہے.یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی.(سوال) جن لوگوں کا ذکر صفحہ ۱۴۸ لغایت ۵۰ اس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کے مصداق ہیں (جواب) خدا کے فضل اور رحمت سے اس کا مصداق ہوں...الخ." اس طرح وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کو ہوا تھا قریباً عصر کے وقت پورا ہو گیا اور ازدیاد ایمان کا موجب بنا.بیان ختم ہوا تو شام کو حضرت اقدس گورداسپور سے رخصت ہو کر بٹالہ تشریف لائے اور دوسرے دن ۲۰ / اگست کو ۸ بجے صبح قادیان پہنچ گئے.بالاخر ۱۴ / جنوری ۱۹۰۴ء کو رائے چند و لال مجسٹریٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا کہ مستغیث ( حکیم فضل الدین صاحب) کے پیش کردہ خطوط اور مضمون سراج الاخبار مولوی کرم دین یا اس کے شاگر د شہاب الدین کے ہی لکھے ہوئے ہیں لیکن جرم ثابت نہیں.اس لئے مقدمہ خارج کیا جاتا ہے.

Page 315

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۹۸ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه دوسرا مقدمہ حکیم فضل دین صاحب نے دفعہ ۴۱۱ کے تحت "نزول المسیح" کے دوسرا مقدمه دیا.تیرا مقدمه سرقہ کا دائر کر رکھا تھا.اس میں بھی عدالت نے ۱۶.مارچ ۱۹۰۴ء کو ملزم کو بری کر تیسرا مقدمہ ایڈیٹر الحکم شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی طرف سے دائر تھا.محولہ بالا مقدمات اور اس مقدمہ کے انتقال کی درخواست کی گئی تھی جو نا منظور ہوئی اور مقدمہ گورداسپور کی عدالت میں ہی دوسرے مقدموں کے ساتھ چلتا رہا.۱۹.اکتوبر ۱۹۰۳ء کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بجواب جرح بیان دیا کہ میں یعقوب علی مستغیث کا پیر بھائی ہوں.جو لوگ مرزا صاحب کو نہیں مانتے ان کو ہم کافر نہیں سمجھتے منکر خدا تعالی کی پیش گوئیوں کا اور قرآن و حدیث کے وعدوں کا سمجھتے ہیں.جو لوگ خدا تعالٰی کی پیش گوئیوں اور قرآن وحدیث کے وعدوں کے منکر ہیں ان کو ہم کافر سمجھتے ہیں.جو لوگ مرزا صاحب کے پیرو نہیں ہیں ان سے ہم سلام علیکم کرتے ہیں.ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں.ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے نہ ان کے جنازہ میں شامل ہوتے ہیں.اس مقدمہ میں بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کو استغاثہ کی طرف سے گواہ طلب کیا گیا تھا لیکن پیر صاحب نے لالہ سنت رام بیر سٹرایٹ لاء کے ذریعہ سے ۲۷ نومبر ۱۹۰۳ء کو میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے درخواست دی کہ سائل اپنی بیماری کی وجہ سے چند منٹ کے لئے بھی سوال و جواب سے معذور ہے.لہذ الالہ چندو لال نے ان کی پیشی ۱۶.دسمبر ۱۹۰۳ء کو رکھ دی.لیکن اس دن پھر ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پیش کر دیا گیا.لالہ چند و لال صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس حالت میں گواہ کو یہاں حاضر کرنے کے لئے مجبور کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا اور فی الحال بادی النظر میں اس کی شہادت کی بھی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی.اس مقدمہ کا فیصلہ ۸ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود کے خلاف دائر شدہ مقدمہ کرم دین سے پیشتر سنایا گیا کہ کرم دین اور فقیر محمد کا جرم ثابت ہے لہذ المزم نمبرا کو پچاس روپیہ جرمانہ بصورت عدم ادائے جرمانہ دو ماہ کی قید محض اور ملزم نمبر ۲ کو چالیس روپیہ جرمانہ بصورت عدم ادائے جرمانہ ڈیڑھ ماہ قید محض کی سزادی جاتی ہے.

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۲۹۹ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مد آریہ سماج قادیان" کی مخالفت اور تصنیف و اشاعت "نسیم دعوت " و " سناتن دھرم" مقدمات کی تفصیلات یکجا بیان کرتے ہوئے ہم ۱۹۰۵ ء تک پہنچ گئے تھے.لہذا اب ہم پھر ۱۹۰۳ء کے واقعات کی طرف پلٹتے ہیں.ابتداء ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ قادیان کے بعض نو مسلم دوستوں نے " آریہ کاج اور قادیان کا مقابلہ" کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں نہایت تہذیب ، متانت اور شائستگی سے آریوں ، ہندوؤں اور سکھ اصحاب کو مدعو کیا گیا تھا کہ وہ دعا اور مباہلہ یا ایک مذہبی کا نفرنس کے ذریعہ سے اپنے اپنے مذاہب کی صداقت کا اظہار کریں.یہ اشتہار حجتہ اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایماء سے شائع نہیں ہوا تھا بلکہ خود قادیان کے نو مسلم احباب نے محض ہمدردی اور خیر خواہی کی بناء پر اپنی قوم پر اتمام حجت کے لئے دیا تھا.اور یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس سے آریہ سماج کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز محاذ قائم کر لیا جائے گا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۸.فروری ۱۹۰۳ء کو الہام ہوا " حرب مهیجه " (جوش سے بھری ہوئی جنگ) تقسیم یہ ہوئی کہ آریہ سماج کو جو اشتہار نو مسلموں نے دیا ہے اس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاں دیں گے.چنانچہ یہ پیش گوئی اسی شام کو پوری ہو گئی جب کہ آریہ سماج کا ایک اشتہار نہایت گندہ اور گالیوں سے بھرا ہوا پہنچا.اس اشتہار پر سات فروری کی تاریخ درج تھی.اس کا عنوان تھا ” قادیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب " اس کے بعد آریہ سماج لاہور کے ایک انگریزی اخبار میں بھی اسی طرز کی تحریر چھپی.اور ایک اشتہار طوطی رام نام کی طرف سے شائع ہوا.ان سب اشتہارات میں درد بھری دعوت کا جواب گالیوں سے دیا گیا تھا.خصوصاً پہلے اشتہار میں سید و موٹی جناب رسول اللہ کی نسبت حضرت اقدس کی نسبت اور آپ کی معزز جماعت کی نسبت سخت الفاظ اور گالیاں دی گئی تھیں.علاوہ ازیں انہوں نے ۲۸.فروری دیکم مارچ ۱۹۰۳ء کو قادیان میں ایک مالانہ جلسہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا.حضور کا دل تو یہی چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جائے مگر وحی خاص سے آپ کو اس کے جواب کا حکم دیا گیا جس پر حضور نے ونیم دعوت " تصنیف فرمائی.چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں.تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں میں

Page 317

تاریخ احمدیت جلد ۳۰۰ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مد اکیلا نہیں.سو میں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اس کی روح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کہ خدا نے مجھے تائید دی میں نے کہیں چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے AF دی گئی ہیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لکھوں اور پھر یہ کاروبار خداتعالی کے سپرد کر دوں." رسالہ "نسیم دعوت " اپنے عالی مضامین اور جدید طرز بیان کی وجہ سے بجائے خود ایک معجزہ تھا جس کی تصنیف میں اللہ تعالی نے اپنے برگزیدہ رسول کی خاص تائید اور نصرت فرمائی.آریہ صاحبوں نے اپنے اشتہار میں سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا تھا کہ ان نو مسلموں کا مسلمان ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اول چاروں دید نہ پڑھتے ، پھر آریہ دھرم کا اسلام سے مقابلہ کرتے.حضرت اقدس نے وسیم دعوت میں پہلے اس امر پر روشنی ڈالی کہ تبدیلی مذہب کے لئے کس قدر معلومات درکار ہیں.چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا کہ تبدیلی مذہب کے لئے تمام جزئیات کی تفتیش کچھ ضروری نہیں صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے.اول یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا کیا تعلیم ہے یعنی اس کی توحید اور قدرت اور علم اور کمال اور عظمت اور سزا اور رحمت اور دیگر لوازم اور خواص الوہیت کی نسبت کیا بیان ہے ؟ دوم ہر نفس انسانی نیز بنی نوع اور قوم کے بارے میں وہ کیا تعلیم دیتا ہے.سوم - طالب حق کو یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ یہ مذہب کوئی مردہ اور فرضی خدا تو نہیں پیش کرتا جو محض قصوں اور کہانیوں کے سہارے پر مانا گیا ہو.ایسا خدا انسان کو پاک زندگی بخش نہیں سکتا اور نہ شبہات کی تاریکی سے باہر نکال سکتا ہے بلکہ ایک مردہ پر میشر سے ایک زندہ بیل بہت بہتر ہوتا ہے جس سے کاشت کاری کر سکتے ہیں.پس کوئی طالب حق کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہو سکتا جس میں زنده خدا اپنا جلوہ قدرت نہیں دکھلاتا اور اپنے جلال کی بھری ہوئی آواز سے تسلی نہیں بخشا.ان اصولی امور کے اظہار کے بعد حضور نے بڑی تفصیل سے نہایت زور دار پیرایہ میں ثابت کیا کہ یہ تینوں قسم کی خوبیاں محض اسلام میں پائی جاتی ہیں اور باقی جس قدر مذاہب رؤے زمین پر موجود ہیں کیا آریہ اور کیا عیسائی اور کیا کوئی اور مذہب والا وہ سب ان خوبیوں سے بالکل خالی ہیں.اس کتاب میں حضور نے آریوں کے مسئلہ نیوگ کا بھی ذکر فرمایا ہے.یہ کتاب ۲۸.فروری ۱۹۰۳ء کو ایک ہفتہ کے اندر اندر تصنیف و طبع ہو کر عین اس وقت شائع ہوئی جب کہ قادیان کی آریہ سماج کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا.یہ کتاب «نسیم دعوت" جب پنڈت رام مجدت تصنیف و اشاعت "سناتن دھرم" صاحب پریذیڈنٹ آریہ پرتی ندھی سمجھا پنجاب کے پاس آریہ سماج کے جلسہ قادیان میں پہنچی تو انہوں نے اپنی آخری تقریر میں حضور کا ذکر کر کے کہا کہ

Page 318

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٣٠١ مونوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه اگر وہ مجھ سے اس بارے میں گفتگو کرتے تو جو کچھ نیوگ کرانے کیفا ئدے ہیں سب ان کے سامنے بیان کرتا.حضرت اقدس کو جب ایک ذمہ دار آریہ سماجی لیڈر کی نیوگ جیسے مسئلہ کے بارے میں یہ رائے پہنچی تو حضور نے " سناتن دھرم " کے نام سے ۸.مارچ ۱۹۰۳ء کو ایک دوسرا مختصر رسالہ شائع فرمایا جو "نسیم دعوت " کا تمہ کہنا چاہئے.حضور نے " سناتن دھرم" میں نیوگ کی بناء پر آریہ سماج کی خوب قلعی کھولی.ساتھ ہی سناتن دھرمیوں کی تعریف بھی فرمائی کہ سناتن دھرم والے ان کی چند باتوں کو الگ کر کے آریہ سماجیوں سے ہزار ہا درجہ بہتر ہیں.وہ اپنے پر میٹر کی اس طرح بے حرمتی نہیں کرتے کہ ہم انادی اور غیر مخلوق ہونے کی وجہ سے اس کے برابر ہیں.وہ نیوگ کے قابل شرم مسئلہ کو نہیں مانتے.وہ اسلام پر بیہودہ اعتراض نہیں کرتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام کی باتیں سب قوموں میں مشترک ہیں.A " «نسیم دعوت " اور "سناتن دھرم کا انگریزی ایڈیشن چنده ماه بعد ان دونوں کتابوں کا انگریزی ایڈیشن بھی شائع کیا گیا اور ان کی متعدد کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں.ود مسجد الیست" و "بیت الدعا" کی تعمیر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن ہی سے ذکر الہی اور دعا سے جو عشق اور شغف تھاوہ اب آخری سالوں میں بڑھتا جا رہا تھا.چنانچہ اب آپ اکثر فرمایا کرتے کہ اب تبلیغ و تصنیف کا کام تو ہم اپنی طرف سے کر چکے ہیں اب ہمیں باقی ایام میں دعا میں مصروف ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دنیا میں حق و صداقت قائم فرمائے اور ہمارے آنے کی غرض پوری ہو.چنانچہ حضور نے اسی آرزو کی تکمیل کے لئے ۱۳.مارچ ۱۹۰۳ء کو جمعہ کے بعد بیت الفکر کے ساتھ غربی جانب ایک مقدس کمرہ کی بنیاد رکھی جس کا نام "مسجد الیت " اور "بیت الدعا" تجویز فرمایا.حضور نے "مسجد الیت " اور "بیت الدعا" کے بارے میں ایک بیت الدعا کی غرض و غایت فرمایا.دفعہ اپنے مخلص صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے "ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں.ستر سال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے.ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالٰی کا اذن اور نشاء نہیں.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ

Page 319

تاریخ احمدیت جلد ۲ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد الیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے." AS اس کمرہ کے سب اخراجات حضور کے مخلص مرید شیخ رحمت اللہ صاحب کمرہ کے اخراجات مالک بیٹی ہاؤس لاہور نے ادا کئے.و تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح مدرسہ تعلیم الاسلام جس کا آغاز یکم جنوری ۱۸۹۸ء کو پرائمری سکول سے ہوا تھا فروری ۱۹۰۰ء میں ہائی سکول بنا.اس کے تین سال بعد ترقی دے کر کالج بنا دیا گیا جو تعلیم الاسلام کالج " کے نام سے موسوم ہوا.تعلیم الاسلام کالج " کا افتتاح ۱۵.مئی ۱۹۰۳ء کو قرار پایا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناسازی طبع کے باعث ۲۸.مئی ۱۹۰۳ء کی تاریخ مقرر کی گئی.یہ موجودہ دنیا میں غالبا پہلا کالج تھا جس کی افتتاحی تقریب ہر قسم کی عرفی رسومات سے بالکل منزہ تھی.اس موقعہ پر اگر کالج کی طرف سے حکام کو دعوت دی جاتی تو وہ ضرور شریک ہوتے.مگر ایک ایسے مذہبی کالج کے افتتاح پر جس کے قیام کی واحد غرض اسلامی عظمت اور مذہبی تعلیم کی اشاعت ہے حکام کی شمولیت محض تکلف کبھی گئی.چنانچہ نہ اس میں دعوت کے کارڈ جاری ہوئے نہ اس میں کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا بلکہ سیدھے سادھے طریق پر محض دعا کے لئے ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا.۲۸.مئی ۱۹۰۳ء کو صبح ساڑھے چھ بجے کے بعد احاطہ سکول میں بورڈنگ ہاؤس اور اس کے درمیانی میدان میں ایک شامیانہ نصب کیا گیا.شامیانہ کے نیچے شمالی جانب ایک عارضی چبوترہ بنایا گیا جس پر اراکین مدرسہ اور دوسرے معززیں کے لئے کرسیاں بچھائی گئیں اور جنوبی طرف ایک میز رکھی گئی.میز پر دائیں جانب قرآن کریم اور بائیں جانب کرہ ارض رکھا تھا.میز کے سامنے طالب علموں کی ورزش کے لئے ایک ستون قائم کیا گیا.جلسہ کی اصل غرض تو صرف یہ تھی کہ حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام قدم رنجہ فرما کر دعا کریں اور اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد بھی فرما ئیں اور اس لئے پہلے بھی یہ جلسہ ملتوی کر دیا گیا تھا مگر افسوس اس روز بھی حضور خرابی صحت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے اور اپنی طرف سے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو اپنا پیغام دے کر بھجوایا.چنانچہ عین اس وقت جب کہ سب کی

Page 320

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٣٠٣ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدر نظریں دروازے کی طرف اپنے محبوب آقا کے استقبال کے لئے لگی ہوئی تھیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے کھڑے ہو کر حضرت اقدس کا پیغام سنایا.اور یہی پیغام جلسہ کی افتتاحی تقریر کہنا چاہئیے.انہوں نے فرمایا." حضرت اقدس نے مجھے ایک پیغام دے کر روانہ کیا ہے.میں نے خلیفہ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں تشریف آوری کے واسطے عرض کی تھی آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت بیمار ہوں حتی کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کر سکتا ہوں کہ ادھر جس وقت افتتاح کا جلسہ ہو گا میں بیت الدعا میں جا کر دعا کروں گا.یہ کلمہ اور وعدہ حضرت خلیفہ اللہ علیہ السلام کا بہت خوش کن اور امید دلانے والا ہے.اگر آپ خود تشریف لاتے تو بھی باعث برکت تھا اور اگر اب نہیں لائے تو دعا فرما دیں گے اور یہ بھی خیرو برکت کا موجب ہوگی." حضرت مولوی صاحب اس قدر تقریر فرما کر کرسی پر بیٹھ گئے.پھر حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب کی صدارت میں جلسہ کی باضابطہ کارروائی شروع ہوئی.اولاً تعلیم الاسلام کالج کے ڈائریکٹر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے مختصری تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ سکول نے جو فوق العادت ترقی کی ہے وہ حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کا نتیجہ ہے تاہم ظاہری اسباب کے لحاظ سے طلبہ ان کے والدین اور دوسرے احباب کو اس کی مالی اعانت میں ضرور حصہ لینا چاہئے.حضرت نواب صاحب کے بعد حضرت حکیم الامت نے نہایت لطیف اور با موقع برجسته صدارتی خطاب فرمایا.چنانچہ آپ نے میز پر رکھے ہوئے قرآن مجید اور کرہ ارضی نیز سائبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ تم کو اس قرب الھی کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے عرب کی نابود ہستی بود ہو کر نظر آئی وہ ذریعہ قرآن کریم ہے کہ جس سے اس کرہ پر ان کو حکمرانی حاصل ہوئی تھی.مگر اس کے ساتھ ہی اصل جڑھ یہ تھی کہ فضل الھی کا سائبان بھی ان پر تھا.کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی و دنیوی تربیت ہو مگر اول فضل کا سایہ ہو پھر کتاب پر دستور العمل ہو.اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے.اللہ تعالی تم کو توفیق دے کہ فضل خدا کا سایہ تم پر ہو.اس کی کتاب دستور العمل ہو.کرہ زمین پر عزت سے زندگی بسر کرو.حضرت حکیم الامت کی اس تقریر کے بعد مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب نے نظمیں پڑھیں.بعد ازاں دعا پر یہ افتتاحی رسم ختم ہوئی.جلسہ کے بعد حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں جلسہ کامیابی سے اختتام پذیر ہونے کی اطلاع دی تو حضور نے جو ابا تحریر فرمایا کہ رات سے مجھ کو دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا.لیکن میں نے اسی

Page 321

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۰۴ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه حالت میں بیت الدعا میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی.غالبا آپ کا وہ وقت اور میری دعاؤں کا وقت ایک ہی ہو گا.خدا تعالیٰ قبول فرما دے.کالج کا اسٹاف کالج کا ابتدائی اشاف یہ تھا.الم حضرت مولوی شیر علی صاحب (پرنسپل و پروفیسر انگریزی) -۲ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نیجرو پروفیسر منطق و سپرنٹنڈنٹ) حضرت حکیم مولوی عبید اللہ صاحب نبل (پروفیسر فارسی) حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب (پروفیسر دینیات) - حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (پروفیسر ادب عربی) مولوی محمد علی صاحب ایم.اے (پروفیسر ریاضی) مئوخر الذکر تینوں اصحاب محض آنریری طور پر یہ خدمت سر انجام دیتے تھے.( کالج میں تاریخ کا مضمون بھی تھا مگر اس کے پروفیسر کون تھے اس کا علم نہیں ہو سکا) کالج کے ڈائریکٹر جیسا کہ اوپر آچکا ہے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کالج کے ڈائریکٹر تھے جن کا قریباً سارا وقت کالج کے لئے وقف تھا.آپ سکول کے علاوہ کالج کو بھی گراں قدر عطیہ دیتے تھے بلکہ کالج کی بہت سی ضروریات کے کفیل آپ ہی تھے.ابتدائی طلبہ کالج کے بعض ابتدائی طلبہ کے نام یہ ہیں (حافظ صوفی) غلام محمد صاحب ( مبلغ ماریشس) ڈاکٹر غلام محمد صاحب (ایم.بی.بی.ایس.لاہور.غیر مبائع) شیخ عالم دین صاحب (بی.اے.ایل.ایل.بی.شیخوپورہ.غیر مبائع) مولوی محمد الدین صاحب (حال صدر صدر انجمن احمد یہ ربوہ) نے بھی چند روز تک اس ادارہ میں پرائیوٹ طور پر تعلیم حاصل کی.حضرت مولوی محمد الدین صاحب کی یادداشت کے مطابق در زی خانہ والا کمرہ کلاس روم تھا مگر اس کے علاوہ پرانے صحن مدرسہ کا مشرقی کمرہ بھی استعمال ہو تا رہا ہے.کالج میں کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی." تعلیم الاسلام کالج دو سال تک برابر کامیابی سے چلتا رہا.اس کے نتائج بھی عمدہ تھے مگر حکومت کے کالج یونیورسٹی کمیشن کی کڑی شرائط کے باعث اسے بند کر دینا پڑا.تاہم حضرت امام الزمان علیہ السلام کی دعائیں قریباً چالیس سال بعد پھر رنگ لائیں اور ۱۹۴۴ء میں قادیان میں ہی اس کا دوبارہ اجراء عمل میں آیا.

Page 322

تاریخ احمدیت جلد ۲ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه حواشی بیان مورخه ۲۸/ جنوری ۱۹۰۳ء مسل مقدمہ ورق نمبر ۱ (بحوالہ مصدقہ نقل صفحہ.یہ مصدقہ نقل جو ۱۹۲۳ء میں گورداسپور عدالت سے حاصل کی گئی تھی اور جس پر عدالت کی مہر تصدیق ثبت ہے خلافت لائبریری میں محفوظ ہے) الحکم ۱۴ / فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۵ کالم ۲( ترجمه عجیب اکرام) ۳- البدر۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ا کالم ۲ و الحکم ۳۱/ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ کالم ۲ الحکم ۳۱ / جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵ کالم ۲ و البدر ۲۳/۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹ کالم ۲ ه البدر ۲۰/ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹ کالم ۳ و الحکم ۱۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹ کالم ۳ البند ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵۳ کالم ۲۳ الحکم ۳۰/ جون ۱۹۰۳ء صفحه 1 البدر ۳/ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۸ کالم ۳ و ان کی تفصیل آگے آئے گی.-1• البد / ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵۶ کالم ۱ ورق ۳۴ تا ۳۶ ( بحواله مصدقه نقل صفحه ۲-۳) ورق مسل ۷۳٬۶۹۴۵۸٬۵۶٬۵۱ ۱۳- ورق مسل ۵۰۳ ۱ ورق مسل ۲۵۴ نقل صفحه ۲۰ ۱۵ مفصل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو نقل مسل مقدمہ نیز رسالہ "فرقان" جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۷۶ الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم ۴ ۱۷- الحکم ۱۸/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۲ کالم ۱۳ ۱۸ الحکم ۱۰/ فروری ۱۹۰۴ ء صفحه ۳ کالم ۲ الحکم کے فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ کالم ۴۴۳ - الحکم ۷ افروری ۱۹۰۴ء صفحه ۴ کالم ۳ ۲۱- یہ ڈاکٹر کیپٹن پی ایس سی مور (CAPTAIN P.SC MORE، سول سرجن گورداسپور تھے (مئولف) (ملاحظہ ہو نقل مسل مقدمه) ۲۲ یعنی ۱۶ / فروری ۱۹۰۴ء کو (متولف) ۲۳ سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۹۳-۹۸( طبع دوم) ۲۴- البدر یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۵ کالم -۲۵ تحریری بیان صفحه 1 ( مشموله فقل مسل مقدمه) ۲۶ - الحکم ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۱۶ کالم ۲ الحکم ۷ الر مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۲۸- مثلا مسٹر محمد اعظم اسٹنٹ سرجن لاہور نے ۱۴/ جولائی ۱۹۰۳ء کو اور ماسٹرین اسٹنٹ سرجن نے ۲۴ نومبر ۱۹۰۳ء کو پیر مہر علی / شاہ صاحب سے متعلق سرٹیفکیٹ جاری کئے ) نقل مقدمہ حکیم فضل دین صاحب بنام مولوی کرم دین صاحب).۲۹ کیپٹن پی ایس سی مور کا بیان ملحما) میں نے یہ سرٹیفکیٹ ۱۳/ مارچ ۱۹۰۴ء کو مرزا صاحب کے قادیان میں ملاحظہ کے بعد لکھا تھا میری اب بھی نہی رائے ہے جو میں سرٹیفکیٹ میں دے چکا ہوں.میری رائے میں ان کا گورداسپور کا سفر بحالت موجودہ صحت

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مولوی کرم دین صاحب کا دو سرا طویل مقدمه کے لئے خطرناک ہے.(بجواب جرح) اس سے قبل بھی دو مرتبہ گورداسپور میں ہی ان کا معائنہ کرچکا ہوں.پہلی دفعہ معائنہ آج سے دو ماہ قبل کیا تھا.جب میں نے دوبارہ ۱۶ / فروری ۱۹۰۴ء کو معائنہ کیا تو ان پر شدید قسم کی BRONCHIITIS کا حملہ ہوا تھا مگر میں نے سرٹیفکیٹ میں کسی بیماری کا ذکر نہیں کیا جس میں وہ اب مبتلا ہیں.۳۰ - الحکم ۱۷ مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۲ کالم ۲ مولف مجدد اعظم" نے لکھا ہے کہ گورداسپور جیل میں ایک مجرم کو پھانسی لگتی تھی.قاعدہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ایک مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگا رہتا ہے جو اپنے سامنے پھانسی لگواتا ہے.اس دفعہ لالہ چند دلال صاحب کی ڈیوٹی لگی.انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ میں بہت رقیق القلب ہوں کسی مجرم کو پھانسی لگتے دیکھ نہیں سکتا اس لئے مجھے معاف رکھا جائے.ڈپٹی کمشنر نے کسی دوسرے مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگادی لیکن ساتھ ہی گورنمنٹ میں رپورٹ کر دی کہ یہ شخص یعنی چند دلال اس قابل نہیں کہ اسے فوج داری اختیارات دئے جائیں.چنانچہ اس کی اس رپورٹ پر رائے چند و لال صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری سے تنزل ہو کر منصف بنادئے گئے." (مجد واعظم صفحہ ۹۷۶ - ۹۶۷) ۳۲.حکومت نے گورنمنٹ گزٹ ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۳۰۹ پر ان کی تنزلی کی ہدایت بایں الفاظ شائع کی."NOTIFICATON NO.--1985.Posting Lala Chandu Lal B.A.Munsif of the 1st grade, on reversion from the post of officiating Extra Assistant Commissioner is posted to Mooltan in the Civial District of Mooltan یعنی لاله چند و لال صاحب بی.اے منصف درجہ اول اپنے قائم مقامی عمدہ اکثرا اسٹنٹ کمشنری سے واپس ہو کر سول ڈسٹرکٹ ملتان کے مقام ملتان میں تعینات کئے گئے.(بحوالہ البدر ۲۴/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۵ کالم ۲) ۳۳- الحکم ۱۴ / جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۳۴ حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۲۱۶ نشان ۲۹ ۳۵ الحکم ۱۴ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۳۶ اصحاب احمد جلد چهارم صفحه ۱۰۷ ۳۷- الحکم ۱۰ / جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲ کالم ۴ ۳۸.اس دوران کے بعض سفروں کی تاریخیں یہ ہیں.مئی ۲۴۰ / مئی ۳۴۰ / مئی ۲۴۰ / جون ۱۷ جولائی (ملاحظہ ہو الحکم ۱۷ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم الحکم ۲۴/ مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۲ کالم ۲۱ حکم ۱۳۱ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ کے کالم ۲ ۱ حکم ۲۴ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ے کالم البدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ کالم ۴) الحکم ۳۱ جولائی ۱۰۴ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ کالم.۱۲ حکم ۱۰/۱۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحہ کالم ۲ مسل مقدمه کرم دین کا ورق ۱۳۹۵ نقل (۲۳) م ورق مسل ۱۳۸۱ نقل صفحه ۲۷) ۴۲ ورق مسل مقدمہ صفحہ ۳۶ بحوالہ الفرقان جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۱.۱۲ نقل صفحہ ۳۸) ۴۳- الحکم ۷/۱۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵ کالم ۴۴- ملحما الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۱۲ تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۴۴ تا ۷۲) ۴۵ البدر ۲۴ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۲۶- ملخصا ورق مسل صفحه ۴۹۹ ( نقل (۴۱) ۴۷- الحکم ۲۴۴۱۷/ اگست ۱۹۰۴ ء صفحه ۶ کالم ۲۴۱ -۴۸- الحکم ۱۷/۲۴ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ کالم ۲۱ الحکم ۲۴۴۱۷ / اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ کالم ۳۴۱

Page 324

۳۰۷ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمہ تاریخ احمد بیت - جلد ؟ ۵۰ سراج الاخبار بحوالہ اخبار "وطن ہی ہور ۲۸ / اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۷ (اصل اخبار خلافت لائبریری میں موجود ہے) ۰۵۱ الحکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ ء صفحہ ۷ کالم ۴ والبدر ۱۸ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم ۳ الحکم ۳۰/ نمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ کالم ۲-۳ ۵۳ - الحکم ۳۰ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ کالم ۲-۳ ۵۴ بحوالہ حضرت حافظ روشن علی صاحب (الحکم ۲۶/ مئی ۱۹۳۵ء صفحه ۱۶ کالم (۳) ۵۵- مسجد داعظم جلد دوم صفحہ ۱۹۷۷ پر بعض احباب کا یہ بیان لکھا ہے کہ کسی پرانے موکل نے خواجہ صاحب کو اسی روز سات سو روپے ان کی بقایا فیس کے ان کے عدالت میں داخل ہونے سے تین دن تحمل دئے.الخ یہ بیان درست نہیں.چنانچہ مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں.خواجہ کمال الدین مرحوم کے سات سو روپیہ کا قصہ محض غلط ہے.یہ سات سو نواب صاحب ہی کے روپے کا ایک جزو تھا اور احتیاطا خواجہ صاحب کو ایک ہزار دیا گیا تھا کہ امید یہی تھی کہ پانچ پانچ سو جرمانہ کرے اور ایک ہزار اور محفوظ رکھا گیا کہ ممکن ہے ہزار ہزار کر دے." ( اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۴۶۳) ۵۶- مجدد اعظم جلد دوم صفحه ۹۷۶-۹۷۷ ۵۷ حقیقته الوحی صفحه ۲۱ طبع اول انشان نمبر ۲۸ ۵۸- حقیقته الوحی صفحه ۱۲۱ - ۲۲۲ ۵۹- تفسیر کبیر (النور ) صفحه ۳۵۹ کالم ۲ الحکم ۱۲۲ مئی ۱۹۰۲ ء صفحہ ۲ کالم البدر یکم اگست ۱۹۰۴ ء کالم ۳ از مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام نواب محمد علی خان صاحب مورخه ۲۰ / دسمبر ۱۹۱۶ء مشمولہ "مکتوبات احمد یہ " جلد ہفتم حصہ اول صفحه ۵۳ - ۵۴ مفصل فیصلہ کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۴/ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۷.۸ ۶ - البدر یکم فروری ۱۹۰۵ء صفحه ۵ کالم ۲ ۱۳ حقیقته الوحی صفحه ۱۲۲۱۲۱ ۷۵- ایک غیر احمدی مولوی سمیع اللہ فاروقی صاحب مولوی کرم دین اور مسٹر آتمارام سے متعلق حضور کی پیش گوئی کے پورے ہونے کا اعتراف بایں الفاظ کرتے ہیں.”مولوی کرم دین صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا ایک دعوئی گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا.بنائے دعوئی مرزا صاحب کے یہ الفاظ تھے جو انہوں نے مولوی کرم دین کے خلاف استعمال کئے تھے یعنی تقسیم اور کذاب عدالت ابتدائی نے مرزا صاحب کو ملزم قرار دیتے ہوئے سزا دے دی لیکن مرزا صاحب کو اطلاع ملی "ہم نے تمہارے لئے لوہے کو نرم کر دیا.ہم کسی اور معنی کو پسند نہیں کرتے ان کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی." اس کے بعد مرزا صاحب نے اپیل دائر کی جس پر صاحب ڈویژنل جج نے لکھا کہ "کذاب اور لٹیم کے الفاظ کرم دین کے حسب حال ہیں.چنانچہ مرزا صاحب کو بری کر دیا." محولہ بالا مقدمہ مجسٹریٹ سماعت کنندہ مسٹر آتما رام کے متعلق مرزا صاحب کو اطلاع ملی کی اتمار ام اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہو گا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں پچیس دن کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے اس کے دو بیٹے وفات پاگئے." ( اظہار حق صفحہ ۲۰۱۲۱) ۶۹ - الحکم ۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ کالم ۲ البدر ۲۹ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۹ کالم ۳ ۶۸ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مسل مصدقہ الحکم ۷ ا/ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹ کالم ! البدر ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵۶ کالم ۱-۲ حقیقته الوحی صفحه ۲۶۵-۲۶۱ اے سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۴

Page 325

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۷۲ الید ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵۶ کالم ۲۱ مونوی کرم دین صاحب کا دو سرا طویل مقدمه ۷۳- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقتہ الوہی میں تحفہ گولڑویہ کی بجائے تریاق القلوب لکھا ہے جو سہو ہے.جیسا کہ عدالت کی مصدقہ نقل سے ثابت ہے کہ یہ تحفہ گولڑویہ سے متعلق ہی سوال تھا.ایک فیصلہ کن واقعاتی ثبوت اس امر کا یہ بھی ہے کہ صفحه ۴۸ تا ۵۰ تک کا زیر بحث مضمون تریاق القلوب میں نہیں تحفہ گولڑویہ میں ہے.علاوہ ازیں یہ کہ یکم معتبر ۱۹۰۲ء تحفہ گولڑ دیہ کی تاریخ اشاعت ہے نہ کہ تریاق القلوب کی.۷۴- مسیرت المہدی حصہ دوم میں صفحہ ۱۷ پر مزید سوالات کے جوابات بھی شائع ہو چکے ہیں.حقیقته الوحی صفحه ۲۶۶ ( طبع اول) البدر ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۶ کالم ۲ و البدر ۱۴ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۵۸ کالم ۲ اخبار "وطن" ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۷ -46 کائم تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نقل مسل مقدمہ و الحکم ۱۷/ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۳-۵ ۷۸ نقل مسل مقدمه ۷۹ نقل مصدقہ مسل موادی کرم دین صاحب کی زندگی کے آخری سال انتہائی دکھ میں گزرے اور کئی قسم کی ذلتیں انہیں اٹھانا پڑیں مثلا ۱۹۴۰ء میں انہوں نے ایک ساس اور داماد کا نکاح پڑھا جس پر ان کے گاؤں تھیں اور گردو نواح میں شور پڑ گیا اور انہی کے ہم عقیدہ مشہور علماء نے ان کے مقابلہ پر موضع تھیں جلسہ کیا جس میں دو سو افراد نے مولوی کرم دین صاحب کے عذرات کے بارے میں صفا گواہی دی کہ "مولوی کرم دین کی طرف رائی کے دانے کے برابر بھی صداقت نہیں بلکہ بناوت ہے جو طمع نفسانی کی خاطر ہاتھ پاؤں مار رہا ہے.جلسہ میں لوگوں نے بکثرت یہ شکایت کیں کہ فلاں جگہ میں مولوی کرم دین نے نکاح پر نکاح پڑھا ہے.ایک عالم نے دوران تقریر کہا کہ "مولوی کرم دین صاحب نے کس قدر تعصب اور عناد سے کام لیا ہے کہ خواہ مخواہ اہل السنہ والجماعت کے لوگوں کو شیعہ قرار دیا اور علماء کرام کو دھو کہ وا...العنه الله على الكاذبين " جلسہ کے بعد علماء نے مولوی کرم دین صاحب سے مناظرہ بھی کیا.مناظرہ کے بعد ان کو ”نگ اسلام " قرار دیتے ہوئے فتویٰ دیا گیا کہ اگر وہ عوام کے سامنے تو بہ نصوح نہ کریں تو دینی و دنیاوی معاملات میں نشست و برخاست علیک سلیک حرام قطعی ہے.اشتهار بعنوان "ننگ اسلام مولوی محمد کرم الدین صاحب کی عبرت آموز شکست) از قاضی محمد عابد کر تھی متصل نھیں مطبوعہ د سٹیم پریس راولپنڈی ( یہ اشتہار خلافت لائبریری میں موجود ہے).اس واقعہ کے اگلے سال ۷۶.جولائی ۱۹۴۱ء کی رات کو ڈو من تحصیل چکوال میں ان کا بیٹا مولوی منظور حسین چکوال کے ایس ڈی او کو قتل کر کے فرار ہو گیا جس پر پولیس نے مولوی کرم دین صاحب کو ۲۱.جولائی ۱۹۴۱ء کو ڈھاب کلاں تحصیل چکوال میں گرفتار کر لیا اور اسے شہر شہر لئے پھرتی رہی اور ان کی بیوی بھی کئی دن تک پولیس کی تحویل میں رہی.آخر جب مولوی منظور حسین کا کچھ سراغ نہ ملا تو ۲۵/ جولائی ۱۹۴۲ء کو مولوی کرم دین صاحب کی جائداد کی ضبطی یا نیلامی کا حکم دے دیا گیا تا دہشت زدہ ہو کردہ اپنا لڑ کا ناضر عدالت کر دیں مگر ان کالر کا ۲۹ نومبر ۱۹۴۲ء کو بنوں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا چنانچہ اخبار " پر بھات " میں یہ خبر شائع ہوئی."مسٹر چوہدری آئی.سی.ایس (SDG) چکوال کا ۶/۷/۴ کی درمیانی رات بمقام ڈر مین تحصیل چکوال میں قتل ہوا.اس کے قاتل عبد العزیز ولد حیات محمد اور منظور حسین ولد کرم دین تھیں تھے.ہر دو قاتل غیر علاقہ میں چلے گئے تھے.تقریباً ایک سال بعد بنوں میں پولیس سے مڈ بھیڑ ہو گئی.منظور حسین اس لڑائی میں مارا گیا." ہارو ان پے در پے صدمات نے ان کی کمر با لکل تو ڑ دی اور وہ بالا خر ۱۹۴۶ء میں حافظ آباد میں ایک چھت کی منڈیر سے گر کر ملک عدم کو سے گر کر چل ہے.(الفضل ۱۳ جون ۱۹۵۲ء صفحہ سے کالم.مضمون خواجہ محمد شفیع صاحب وکیل چکوال) الحاکم ۲۱.فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ کالم ۲ ۸۲ البدر ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵ البد ر ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸ ۸۳ نیم دعوت صفحه ۱ - ۲

Page 326

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ -Ar نسیم دعوت صفحہ ۱۰.۱۱ ۸۵ سناتن دھرم صفحه ۷ ۸۲ - الحکم سے ارجون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ کالم ۲۳ ۸۷ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ای ۳۰۹ مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا طویل مقدمه ۸۸- البد ۲۰ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ کالم اصحاب احمد جلد اول ضمیمہ صفحہ ۱۵ حکم ۲۱.مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۳ ۸۹ ذکر حبیب ، مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۱۰۹ - ۱۱۰ البدر ۱۰ / اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹۳ کالم ۲ البدر ۵ / جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۵ کالم ۹۲ الحکم ۲۴/ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۱-۲ ۹۳- البدر ۵ / جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴- ۱۹۴۱۵۵/ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۱ ۲۶۱۷۲/ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۶ الحکم ۲۴ جون ۴۱۹۰۳ -4 صفحه ۱۰-۱۳ الحکم ۲۴/ جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳ کالم ۲ ۹۵ دو ماہ تک آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کے برادر اکبر حضرت حافظ عبد العلی صاحب بھی انگریزی پڑھاتے رہے.۹۶ ۹۷ الحکم ۲۴/ جون ۹۰۳ء صفحہ ۱۳ کالم ۹۸ - ۱۷ - الحکم سے از مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم -94 الحام ۷ ار مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۷ ہم 100 " اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۸۲ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۱۸۲ ۱۰- الحکم ۷ ار مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۴ کالم ! ۱۰۳ اس کی تفصیل ۱۹۴۴ء کے حالات میں آرہی ہے.

Page 327

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ٣١٠ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت کائیل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت

Page 328

تاریخ احمدیت جلد ۲ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت (۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء مطابق ۱۸/ ربیع الثانی ۱۳۲۱ھ بروز منگل) دو مظلوموں کی شہادت کے متعلق برسوں قبل کی پیشگوئی سیدنا حضرت صحیح موعود عليه الصلوة والسلام کو شروع زمانہ ماموریت میں الہام ہوا.وَإِن لَّمْ يَعصِمُكَ النَّاسُ فَيَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ الْفِتْنَةٌ مُهُنَا.فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أولُو الْقَوْمِ شَاتَانَ تُذْبَحَانِ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا - أَلَيْسَ اللهُ بكَافٍ عبده - 1 یعنی اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا.اس جگہ فتنہ ہے.پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے.دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا.ست مست ہو اور غم مت کرو.کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے ؟ علم التعبیر میں "شاہ " کی تعبیر نہایت مطیع اور فرمانبردار رعایا بھی ہوتی ہے لنڈا بتایا گیا تھا کہ دو آدمی جو اپنے بادشاہ کے نہایت فرمانبردار اور مطیع ہوں گے.باوجودیکہ انہوں نے کوئی قانون شکنی نہ کی ہوگی وہ قتل کئے جائیں گے وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ اس کے بعد اس ملک پر ایک عام تباہی آئیگی المختصر اس الہام الہی میں مندرجہ ذیل خبریں دی گئی تھیں.حضرت اقدس کے خلاف قتل کے منصوبے کئے جائیں گے مگر ناکام رہیں گے.اس کے بعد ایک فتنہ اٹھے گا.آپ کے دو مرید شہید کئے جائیں گے.رہ قتل نا واجب ہو گا کسی سیاسی جرم کے متعلق نہیں ہو گا.

Page 329

تاریخ احمدیت جلد ۲ -1 ۳۱۲ کالم میں ب کی درد ناک شہادت اس شہادت کے بعد ملک میں عام تباہی آئے گی مگر یہ واقعہ خدا کے سلسلہ کی ترقی میں سد راہ نہیں بن سکے گا.اس پیشگوئی میں گو ملک وغیرہ کا کچھ نشان نہیں دیا گیا تھا مگر اس کی عبارت سے یہ ضرور معلوم ہو تا تھا کہ اول تو واقعہ انگریزی علاقہ میں نہیں ہو گا بلکہ کسی ایسے ملک میں ہو گا کہ جہاں عام ملکی قانون کی اطاعت کرتے ہوئے بھی لوگوں کے غصہ اور ناراضگی کے نتیجہ میں انسان قتل کئے جاسکتے ہیں.دوم دو نو شہادتیں اس ایک ہی علاقہ میں ہوں گی کیونکہ دونوں کو ایک ہی لفظ میں جمع کر دیا گیا ہے.یہ باتیں اس پیشگوئی کو بہت بالا کر دیتی ہیں.اس پیشگوئی کے بعد تقریباً میں سال تک کوئی ایسے آثار نظر نہ آئے جن سے یہ پیش گوئی پوری ہوتی معلوم ہو مگر جب کہ قریباً بیس سال اس الہام پر گزرے تو اس پیشگوئی کا ایک حصہ 1991ء میں مولوی عبد الرحمن صاحب کی شہادت سے پورا ہو گیا.الہام کے مطابق ایک اور شہادت باقی تھی جو اس سال کے وسط مین ۱۴ / جولائی ۱۹۰۳ء کو واقعہ ہوئی یعنی حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب جیسے بزرگ اور متدین انسان بھی محض حضرت اقدس پر ایمان کے جرم میں دردناک طور پر شہید کر دئے گئے.واقعہ یوں ہوا کہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف حضرت صاحبزادہ صاحب کا سفر قادیان صاحب آخر ۱۹۰۲ء میں حج بیت اللہ کے ارادہ سے اپنے وطن سے روانہ ہوئے.امیر حبیب اللہ خاں نے انعام واکرام سے رخصت کیا.آپ کابل سے خوست اور وہاں سے لاہور ہوتے ہوئے ۱۸- نومبر کو قادیان تشریف لائے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ مولوی عبد الجلیل صاحب اور سید عبد الستار صاحب اور ایک عالم بھی تھے جن کو وزیریوں کا مولوی کہا جاتا تھا.سید عبد الستار صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب پیدل ہی بٹالہ سے قادیان روانہ ہوئے.جب ہم قادیان پہنچے تو بلند آواز سے ياتون من كل فج عمیق و یا تیک من كل فج عمیق پڑھنے لگے ہم سب حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ملے.آپ نے ملاقات کے بعد فرمایا.صاحبزادہ عبد اللطیف کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا یہ آپ کے پاس بیٹھے ہیں تب مولوی نور الدین صاحب اٹھ کر حضرت صاحبزادہ صاحب سے بغلگیر ہوئے اور گفتگو فرمانے لگے.ظہر کی نماز کے بعد حضور علیہ السلام سے ملاقات کی.حضرت اقدس نے اس ملاقات کے بارہ میں اپنے تاثرات یوں لکھے ہیں.” جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے

Page 330

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۳۱۳ کامل میں حضرت سے احب کی درد ناک شہادت بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہو تا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا.اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی انکا دل مجھے نورانی معلوم ہو تا تھا." اخبار البدر - ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۵ کالم ۲ میں لکھا ہے ۱۸ - نومبر ۱۹۰۲ء سه شنبه...ظهر و عصر - ان دونوں میں حضرت اقدس نے نماز با جماعت ادا کی.چند ایک احباب معہ مولوی عبد الستار صاحب جو آج تشریف لائے تھے ان سے ملاقات کی ان کے تحفے تحائف لے کر انہوں نے حضرت اقدس کے بطور نذر پیشکش کئے تھے.فرمایا ان کا آنا بھی ایک نشان ہے اور اس الہام یا تو ن من كل فج عمیق کو پورا کرتا ہے." ملاقات کے بعد حضور نے صاحبزادہ صاحب اور آپ کے رفقاء کے قیام کا تسلی بخش انتظام فرمایا.حضرت صاحبزادہ صاحب یہاں ارادہ تو مختصر ملاقات کا لے کر آئے تھے مگر اس سے پہلے جو کتابوں کے ذریعہ سے سمجھا تھا چونکہ یہاں بہت کچھ زیادہ دیکھا اس لئے صفائی قلب کی وجہ سے نور الہی کی طرف ایسے جذب کئے گئے کہ سفر حج ملتوی کر کے کئی ماہ تک قادیان میں قیام کئے رکھا.احمد نور صاحب کاہلی کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود قیام قادیان کے بعض واقعات کے ساتھ جب ہم سیر کو جایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس آکر گھر میں داخل ہوتے تو شہید مرحوم اپنے کپڑے گردو غبار سے صاف نہیں کرتے تھے جب تک ذرا ٹھہر نہ جائیں اور اندازہ نہ لگالیں کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کپڑے جھاڑائے ہوں گے.شہید مرحوم کو الہام اور بکثرت صحیح کشف بھی ہوتے تھے.ایک روز مہمان خانہ میں سوئے ہوئے تھے کہ یکلخت اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ مجھ پر محمد نے چادر کی مانند بچھائے گئے کہ...بالکل جدا نہیں ہو سکتے اور یہ الہام ہوا کہ جِسْمُهُ مُنَوَّرَ مُعَمَّرَ مُعَطَّرَ يُضِيُّ كَاللُّولُو الْمَكْنُونِ نُور عَلَى نُور - اورید بھی کہا کہ یہ نور ہمارے اختیار میں ہے.چنانچہ ایک روز مولوی عبد الستار صاحب سے کہا کہ میرے چہرہ کی طرف دیکھو اور جھک گئے.مولوی صاحب دیکھنے لگے تو نہ دیکھ سکے.آنکھیں نیچی ہو گئیں.پھر جب شہید مرحوم کھڑے ہو گئے تو مولوی صاحب نے دیکھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھنا شروع کیا.وزیریوں کے مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے کیا دیکھا ہے.مولوی صاحب ہے اور کہا کہ بہت کچھ دیکھا ہے اور یہ بھی کہا کہ جب میں نے آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو ان کے چہرہ کی چمک نے جو کہ سورج کی مانند تھی میری نظر کو چندھیا دیا اور نیچے کر دیا.اور پھر جب انہوں نے سر اٹھایا تو میں دیکھنے

Page 331

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۱۴ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت کے قابل ہوا.اور دیکھا.شہید مرحوم نے وزیریوں کے مولوی صاحب سے کہا کہ تم میں تقومی کم ہے اس لئے تم نے نہیں دیکھا.شهید مرحوم پر عجیب و غریب احوال ظاہر ہوتے تھے.ایک روز بہشتی مقبرہ کی طرف جاتے ہوئے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم پیچھے رہ گئے ہو میرے ساتھ ملنے کی کوشش کرو.رسول اللہ ﷺ کے برکات و انوار مجھے عطا کئے گئے ہیں.پھر مولوی عبد الستار صاحب سے فرمایا کہ میرے چہرہ کی طرف ذرا دیکھو.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سورج جو کہ کافی اونچا تھا میں اس کی طرف دیکھ سکتا تھا.شہید مرحوم کی پیشانی کی طرف دیکھنا مشکل تھا.آپ کے چہرہ سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں کہ سورج سے کئی درجہ بڑھ کر تھیں.قریباً تین مہینے شہید مرحوم نے قادیان میں قیام کیا.حضرت مسیح موعود شہید مرحوم سے از حد محبت رکھتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میر کو تشریف لے جا رہے تھے اور شہید مرحوم اور چند ایک آدمی اور بھی ساتھ تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس گھر چلے آئے تو شہید مرحوم نے ہمیں مہمان خانہ میں آکر اور مخاطب ہو کر یہ کشفی نظارہ بیان فرمایا.آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے کہ جنت سے ایک حور اچھے خوبصورت لباس میں میرے سامنے آئی اور کہا کہ آپ میری طرف دیکھیں.میں نے کہا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے ساتھ ہیں ان کو چھوڑ کر تیری طرف میں نہیں دیکھوں گا.تب وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ میر کو جا رہے تھے پھر جب واپس گھر آئے تو شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ تم نے اپنے والد صاحب کو دیکھا؟ میں نے کہا.نہیں.آپ نے فرمایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ ساتھ اور حضرت مسیح موعود کے پیچھے آرہے تھے حالانکہ میرے والد صاحب کئی برس پہلے گزر چکے تھے.شهید مرحوم کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں دوزخ کا شور و غوغاسنتا ہوں اگر لوگ سنیں تو رہ بھی کھانا نہ کھا ئیں.ایک دفعہ عجب خاں تحصیل دار جو ہمارے یہاں آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت لے کر شہید مرحوم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی ہے لیکن مولوی نور الدین صاحب سے نہیں لی.شہید مرحوم نے فرمایا کہ مولوی صاحب سے جاکر ضرور اجازت لینا.حضرت مسیح موعود کے بعد یہی اول خلیفہ ہوں گے.چنانچہ جب شهید مرحوم جانے لگے تو مولوی صاحب سے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور ہم سے فرمایا کہ

Page 332

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۱۵ کالم میں حضرت سید عبداللطیف صاحب کی : سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت یہ میں نے اس لئے پڑھے ہیں کہ تا میں بھی ان کی شاگردی میں داخل ہو جاؤں.حضرت صاحب کے بعد یہ خلیفہ اول ہوں گے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب سفر جہلم اختیار فرمایا تو حضرت صاحبزادہ صاحب بھی حضور کے ہمرکاب تھے.مولوی عبد اللطیف صاحب قادیان میں ہی تھے کہ حضرت اقدس کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا علم دیا گیا.آپ کو الہام ہوا.قتل خَيْبَةٌ وَزِيدَ هَيْبَةٌ - " یعنی ایسی حالت میں شہید ہو کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا.دوسری طرف حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب پر بھی یہ امر بالکل منکشف ہو چکا تھا کہ کابل کی زمین آپ کے خون کی منتظر ہے چنانچہ مولوی عبد الواحد خان صاحب سیالکوٹی کی روایت ہے کہ جہلم کی بات ہے حضرت صاجزادہ صاحب رات کے وقت ہمارے کمرے میں تشریف لائے اور فرمایا کہ بار بار الهام می شود سریدہ سریدہ سریدہ کہ مجھے بار بار الہام ہوتا ہے کہ سردو سرور سرد و حضرت صاحبزادہ صاحب امیر کابل سے چھ ماہ کی رخصت لے کر قادیان سے کابل کو واپسی آئے تھے.جب روانگی کا وقت آیا تو صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود سے رخصت ہونے کی اجازت مانگی تو حضور نے فرمایا کہ جب آپ کو دوسرے سال حج کے لئے جانا ہے تو آپ یہیں ٹھہر جائیں مگر انہوں نے عرض کیا کہ حج کے لئے پھر آجاؤں گا.آخر حضور نے ان کے اصرار پر دو چار روز کے بعد اجازت دے دی.جب حضرت صاحبزادہ صاحب روانہ ہوئے تو حضور اور حضور کے خدام احمد نور صاحب کاہلی کے بیان کے مطابق ڈیڑھ میل تک اور بعض کے بیان کے مطابق و ڈالہ کی نہر تک چھوڑنے کے لئے تشریف لے گئے.یہ غالباً آخر جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے.صاحبزادہ صاحب رخصت ہونے لگے تو آپ جوش عقیدت سے حضرت اقدس کے قدموں پر گر پڑے اور دونوں ہاتھوں سے حضور کے قدم مبارک پکڑ لئے اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرما ئیں تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ اچھا میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں آپ میرے پاؤں چھوڑ دیں انہوں نے پاؤں نہ چھوڑنے پر اصرار کیا.حضرت اقدس نے فرمایا الامر فوق الادب - تب صاجزادہ صاحب نے یہ لفظ سنتے ہی پاؤں چھوڑ دیئے.حضور سے رخصت ہو کر آپ سیدھے بٹالہ آئے وہاں سے لاہور پہنچے.تمام راستہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے.لاہور پہنچ کر میاں چراغ دین صاحب کے پرانے مکان کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد میں تین چار دن قیام فرمایا.مکان تو آپ کے دوستوں کے بھی تھے مگر آپ نے خلوت پسندی کی خاطر مسجد کو ہی ترجیح دی.جمعہ کے دن آپ نے مسجد گئی والی میں نماز

Page 333

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ کابل میں حضرت سیدہ عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت جمعہ کے بعد ایک لطیف وعظ فرمایا.بعد ازاں باہر تشریف لے گئے اور کچھ کتابیں خرید کر ان کی جلدیں بند ھوا ئیں.جب تمام کتابیں مجلد ہو گئیں تو لاہور سے بذریعہ ریل کو ہاٹ پہنچے.اس سفر میں آپ کا معمول تلاوت قرآن ہی رہا.کو ہات سے آپ بذریعہ تم تم بنوں پہنچے.پھر دو ایک روز قیام کے بعد علاقہ خوست کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں آپ کو الہام ہوا."اذهب الى فرعون." مراجعت وطن مباحثہ اور شہادت کے اس کے بعد کیا ہوا؟ کس طرح شہادت کا درد انگیز واقعہ کی تفصیل حضرت مسیح دردانگیز واقعہ پیش آیا؟ اس کی تفصیل خود حضرت اقدس علیہ السلام کے قلم مبارک سے موعود علیہ السلام کے قلم سے درج کی جاتی ہے فرماتے ہیں." مولوی صاحب خوست علاقہ کابل سے قادیان میں اگر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے.پھر بعد اس کے جب آسمان پر یہ امر قطعی طور پر فیصلہ پاچکا کہ وہ درجہ شہادت پادیں تو اس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے.اب جیسا کہ معتبر ذرائع سے اور خاص دیکھنے والوں کی معرفت مجھے معلوم ہوا ہے قضاء و قدر سے یہ صورت پیش آئی کہ مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھر کر بریگیڈیر محمد حسین کو توال کو جو ان کا شاگرد تھا ایک خط لکھا کہ اگر امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں.بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لئے گئے کہ وقت سفر امیر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتا ہوں مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر تک ٹھہرنے سے پورا نہ ہو سکا اور وقت ہاتھ سے جاتا رہا.اور چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے اس لئے میری صحبت میں رہنا ان کو مقدم معلوم ہوا.اور ہمو جب نص اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا.اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آجائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس پہلے اہل اسلام میں انتظار ہے تو ہمو جب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جاسکتا.ہاں بااجازت اس کے دوسرے وقت میں جا سکتا ہے.غرض چونکہ وہ مرحوم سید الشہداء اپنی صحت نیت سے حج نہ کر سکا اور قادیان میں ہی دن گزر گئے.تو قبل اس کے کہ وہ سرزمین کابل میں وارد ہوں اور حدود ریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطا قرین مصلحت سمجھا کہ انگریزی علاقہ میں رہ کر امیر کابل پر اپنی سرگذشت کھول دی جائے کہ اس طرح پر حج کرنے سے معذوری پیش آئی.انہوں نے مناسب

Page 334

کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت سمجھا کہ برگیڈئیر محمد حسین کو خط لکھا تاوہ مناسب موقع پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں گوش گزار کر دیں اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگر چہ میں حج کرنے کے لئے روانہ ہوا تھا مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہو ا گئی.اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خدا اور رسول کا حکم ہے اس مجبوری سے مجھے قادیان میں ٹھہرنا پڑا.اور میں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا بلکہ قرآن اور حدیث کی رو سے اس امر کو ضروری سمجھا جب یہ خط برگیڈیر محمد حسین کو توال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا اور اس وقت پیش نہ کیا مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا خط ہے اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے.تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اور امیر صاحب کے آگے پیش کر دیا.امیر صاحب نے برگیڈیر محمد حسین کو توال سے دریافت کیا کہ کیا یہ خط آپ کے نام آیا ہے.اس نے امیر کے موجودہ غیظ و غضب سے خوف کھا کر انکار کر دیا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب شہید نے کئی دن پہلے خط کے جواب کا انتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کو توال کو لکھا.وہ خط افسر ڈاک خانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا.چونکہ قضا و قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی اور آسمان پرده برگزیده بزمرہ شہد اورداخل ہو چکا تھا اس لئے امیر صاحب نے ان کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور ان کی طرف یہ خط لکھا کہ آپ بلا خطرہ چلے آؤ.اگر یہ دعوی سچا ہو گا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا.بہر حال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہو گئے اور قضاء و قدر نے نازل ہو نا شروع کر دیا.راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھا کہ امیر صاحب نے اخوند زادہ صاحب کو دھوکا دے کر بلایا ہے.اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے کہ جب اخوند زادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے.اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوار خوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے کیونکہ ان کے خوست میں پہنچنے سے پہلا حکم سرکاری انکے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آپ کا تھا.غرض جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو بہت کچھ متغیر کر رکھا تھا اس لئے وہ بہت ظالمانہ جوش سے پیش آئے اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بو آتی ہے ان کو فاصلہ پر کھڑا کر و.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کر دو اور زنجیر غراغراب لگا دو.یہ زنجیر و زنی ایک من

Page 335

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۱۸ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت چوہیں سیر انگریزی کا ہوتا ہے.گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے.اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے.اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیڑی وزنی آٹھ مسیر انگریزی کی لگا دو.پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی.اگر تم اس خیال سے توبه کرد که قادیانی در حقیقت مسیح موعود ہے تمہیں رہائی دی جائے گی.مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں اور حق اور باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے.میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مسیح موعود ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں.شہید مرحوم نے نہ ایک دفعہ بلکہ قید ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا ہے بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بد تر سمجھتا ہے اس لئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا اور در حقیقت تعجب کا مقام تھا کہ ایسا جلیل الشان شخص جو کئی لاکھ روپیہ کی ریاست کابل میں جاگیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی اور بہت سا اہل و عیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا.پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے بد تر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اس روح کے گداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے اور جان کو ایمان پر فدا کرے.بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار بار ان کو پیغام پہنچتا تھا کہ اس قادیانی شخص کے تصدیق دعوئی سے انکار کر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤ گے مگر اس قومی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پروانہ کی اور بار بار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں.اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کر لیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کرلی اپنی موت کے خون سے اس کا انکار کردوں؟ یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہو گا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق پا لیا اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑنے کے لئے تیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں مگر حق میرے ساتھ جائے گا.اس بزرگ کے بار بار کے یہ جواب ایسے تھے کہ سرزمین کابل کبھی ان کو فراموش نہیں کرے گی اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمر میں یہ نمونہ ایمان داری اور استقامت کا کبھی نہ دیکھا ہو گا.اس جگہ یہ بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ

Page 336

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ٣١٩ کالم میں حضرت ماحب کی دردناک شہادت کابل کے امیروں کا یہ طریق نہیں ہے کہ اس قدر بار بار وعدہ معافی دے کر ایک عقیدہ کے چھڑانے کے لئے توجہ دلائیں.لیکن مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اس وجہ سے تھی کہ وہ ریاست کابل کا گویا ایک بازو تھا اور ہزار ہا انسان اس کے معتقد تھے.اور جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں وہ امیر کابل کی نظر میں اس قدر منتخب عالم فاضل تھا کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتا تھا.پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرور قتل کیا جائے گا.اور یہ تو ظاہر ہے کہ آجکل ایک طور سے عنان حکومت کابل کی مولویوں کے ہاتھ میں ہے اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کرلیں پھر ممکن نہیں کہ امیر اس کے برخلاف کچھ کر سکے.پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف اس امیر کو مولویوں کا خوف تھا اور دوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتا تھا.پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدت میں یہی ہدایت کر تا رہا کہ آپ اس شخص قادیانی کو مسیح موعود مت مانیں اور اس عقیدہ سے توبہ کر لیں تب آپ عزت کے ساتھ رہا کر دیے جاؤ گے.اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قید کیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا تا متواتر فہمائش کا موقعہ ملتا ر ہے.اور اس جگہ ایک اور بات لکھنے کے لائق ہے اور دراصل وہی ایک بات ہے جو اس بلا کی موجب ہوئی اور وہ یہ ہے کہ عبد الرحمن شہید کے وقت سے یہ بات امیر اور مولویوں کو خوب معلوم تھی کہ قادیانی جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے جہاد کا سخت مخالف ہے اور اپنی کتابوں میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد درست نہیں.اور اتفاق سے اس امیر کے باپ نے جہاد کے واجب ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا تھا جو میرے شائع کردہ رسالوں کے بالکل مخالف ہے اور پنجاب کے شرانگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحد یا اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے.غالبا ان کی زبانی امیر عبدالرحمن نے جو امیر حال کا باپ تھا میری ان کتابوں کا مضمون سن لیا ہو گا اور عبدالرحمن شہید کے قتل کی بھی یہی وجہ ہوئی تھی کہ امیر عبدالرحمن نے خیال کیا تھا کہ یہ اس گروہ کا انسان ہے جو لوگ جہاد کو حرام جانتے ہیں.اور یہ بات یقینی ہے کہ قضا و قدر کی کشش سے مولوی عبد اللطیف مرحوم سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ اس قید کی حالت میں بھی جتلا دیا کہ اب یہ زمانہ جہاد کا نہیں اور وہ مسیح موعود جو در حقیقت مسیح ہے اس کی یہی تعلیم ہے کہ اب یہ زمانہ دلائل کے پیش کرنے کا ہے تلوار کے ذریعہ سے مذہب کو پھیلانا جائز نہیں.اور اب اس کا پودا ہر گز بار آور نہیں ہو گا بلکہ جلد خشک ہو جائے گا.چونکہ شہید مرحوم سچ کے بیان کرنے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے اور در حقیقت ان کو سچائی کے پھیلانے کے وقت اپنی موت کا بھی اندیشہ نہ تھا اس لئے ایسے الفاظ ان کے منہ سے نکل گئے.اور عجیب بات یہ ہے ان کے بعض شاگر د بیان کرتے

Page 337

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے.اور در حقیقت وہ سچ کہتے تھے کیونکہ سر زمین کابل میں اگر ایک کرو ڑ اشتہار شائع کیا جاتا اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا ان میں ثابت کیا جاتا تو ان اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا.کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بیسرا لیتے ہیں.اب ہم اس دردناک واقعہ کا باقی حصہ اپنی جماعت کے لئے لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب چار مہینے قید کے گزر گئے تب امیر نے اپنے رو برو شہید مرحوم کو لا کر پھر اپنی عام کچری میں تو بہ کے لئے فہمائش کی اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے رو برو انکار کرو تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہو سکتا ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے چاہتا ہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے.اگر میں دلائل کے رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزاد کی جائے راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے.امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملا خان اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے اور ایک لاہوری ڈاکٹر جو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا.بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس بحث کے وقت موجود تھے.مباحثہ تحریری تھا صرف تحریر ہوتی تھی اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی اس لئے اس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا.سات بجے صبح سے تین بجے سہ پہر تک مباحثہ جاری رہا.پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں؟ تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اب وہ ہر گز واپس نہیں آئیں گے.قرآن کریم ان کے مرنے اور نہ آنے کا گواہ ہے.تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسی کی بات کو سن کر اپنے کپڑے پھاڑ دیئے تھے گالیاں دینے لگے اور کہا اب اس شخص کے کفر میں کیا شک رہا اور بڑی غضب ناک حالت میں یہ کفر کا فتویٰ لکھا گیا.پھر بعد اس کے اخوند زادہ حضرت شهید مرحوم اسی طرح پابہ زنجیر ہونے کی حالت میں قید خانہ میں بھیجے گئے.

Page 338

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۲۱ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی کہ جب شاہزادہ مرحوم کی ان بد قسمت مولویوں سے بحث ہو رہی تھی تب آٹھ آدمی برہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے.پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالا کی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا.یہ صاف اس بات پر دلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتوئی پر ہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے حالانکہ اس کو چاہئے تو یہ تھا کہ اس عادل حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کو چھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہو تا بالخصوص جب کہ وہ خوب جانتا تھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے تو اس صورت میں مقتضاء خداتری کا یہی تھا کہ بہر حال افتان و خیزاں اس مجلس میں جاتا.اور نیز چاہئے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہید مظلوم پر یہ تختی روانہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اس کو دبایا جاتا اور آٹھ سپاہی برہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پھر کھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اس کو ثبوت دینے سے روکا جاتا.پھر اگر اس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اس کا فرض تھا کہ کاغذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا بلکہ پہلے سے یہ تاکید کر دیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہیں اور نہ صرف اس بات پر کفایت کر تا کہ آپ ان کاغذات کو دیکھتا بلکہ چاہئے تھا کہ سرکاری طور پر ان کاغذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھو کیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مغلوب ہو گیا اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیح کے فوت ہونے کے بارے میں نہ دے سکا.ہائے !! وہ معصوم اس کی نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبیح کیا گیا اور باوجود صادق ہونے کے اور باجود پورا ثبوت دینے کے اور باوجود ایسی استقامت کے کہ صرف اولیاء کو دی جاتی ہے پھر بھی اس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.اے نادان ! کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے کی یہی سزا ہو ا کرتی ہے؟ تو نے کیا سوچ کر یہ خون کر دیا.سلطنت انگریزی جو اس امیر کی نگاہ میں اور نیز اس کے مولویوں کے خیال میں ایک کافر کی سلطنت ہے کس قدر مختلف فرقے اس سلطنت کے زیر سایہ رہتے ہیں.کیا اب تک اس سلطنت نے کسی مسلمان یا ہندو کو اس قصور کی بناء پر پھانسی دے دیا کہ اس کی رائے پادریوں کی رائے کے مخالف ہے؟ ہائے افسوس آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ مقابل پر

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۲۲ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک سعادت ایک بے گناہ معصوم با وجود صادق ہونے کے باوجود اہل حق ہونے کے اور باوجود اس کے وہ ہزا رہا معزز لوگوں کی شہادت سے تقویٰ اور طہارت کے پاک پیرایہ سے مزین تھا اس طرح بے رحمی سے محض اختلاف مذہب کی وجہ سے مارا گیا.اس امیر سے وہ گورنر ہزارہ درجہ اچھا تھا جس نے ایک مخبری پر حضرت مسیح کو گرفتار کر لیا تھا یعنی پیلاطوس جس کا آج تک انجیلوں میں ذکر موجود ہے کیونکہ اس نے یہودیوں کے مولویوں کو جب کہ انہوں نے حضرت مسیح پر کفر کا فتویٰ لکھ کر یہ درخواست کی کہ اس کو صلیب دی جائے یہ جواب دیا کہ اس شخص کا میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا.افسوس اس امیر کو کم سے کم اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھنا چاہئے تھا کہ یہ سنگساری کا فتوی کس قسم کے کفر پر دیا گیا اور اس اختلاف کو کیوں کفر میں داخل کیا گیا اور کیوں انہیں یہ نہ کہا گیا کہ تمہارے فرقوں میں خود اختلاف بہت ہے.کیا ایک فرقہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سنگسار کرنا چاہئے.جس امیر کا یہ طریق اور یہ عمل ہے نہ معلوم وہ خدا کو کیا جواب دے گا.بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا صبح روز دو شنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانہ یعنی خاص مکان دربار امیر صاحب میں بلایا گیا.اس وقت بھی بڑا مجمع تھا.امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے ان کے پاس ہو کر گزرے اور پوچھا کہ اخوند زادہ صاحب کیا فیصلہ ہوا.شہید مرحوم کچھ نہ بولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہو گیا.یعنی کفر کافتویٰ لگ گیا.پھر امیر صاحب جب اپنے اجلاس پر آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے اب کہو کہ کیا تو بہ کرو گے یا سزا پاؤ گے ؟ تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہا میں حق سے توبہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں.یہ مجھ سے نہیں ہو گا.تب امیر صاحب نے دوبارہ توبہ کرنے کے لئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا مگر شہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا.شہید مرحوم ہر ایک فہمائش کا زور سے انکار کرتا تھا اور وہ اپنے لئے فیصلہ کر چکا تھا کہ ضرور ہے کہ میں اسی راہ میں جان دوں.تب اس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا.یہ راقم کہتا ہے کہ یہ قول وحی کی بناء پر ہو گا جو اس وقت ہوئی ہو گی کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں شامل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے.تب فرشتوں سے یہ خبر پا کر ایسا اس نے کہا اور اس قول کے یہ معنے تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء او را بدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جو خدا کا دن آدے یعنی ساتواں دن میں

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۲۳ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت زندہ ہو جاؤں گا.اور یاد رہے کہ اولیاء اللہ اور خاص لوگ جو خداتعالی کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا تحسبن الذین قتلوا في سبيل الله امواتا بل احیاء یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندہ ہیں.پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا اور میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کائی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کائی گئی تھی اور پھر دوبارہ اگے گی.اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بار آور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھا دے گا اس طرف میں نے یہ خواب دیکھی اور اس طرف شہید مرحوم نے کہا کہ چھ روز تک میں زندہ کیا جاؤں گا.میری خواب اور شہید مرحوم کے اس قول کا مال ایک ہی ہے.شہید مرحوم نے مرکز میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور در حقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی.اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں اونی خدمت بجالاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے.حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی.بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے.اور جس قوت ایمان اور اتناء درجہ کے صدق و صفا کاوہ دعوی کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنی امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی لیکن خدا تعالی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ بچے دل سے ایمان لائے اور کچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہیں.لیکن جس نمونہ کو اس جوانمرد نے ظاہر کر دیا اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں.خدا سب کو وہ ایمان سکھادے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے.یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے.اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے.پھر ہم اصل واقعہ کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا

Page 341

اریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۴ کابل میں حضرت سید عبدالہ صاحب کی درد ناک شہادت اور اس میں مولویوں کا فتوئی درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اسی رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسی ڈالی گئی.(نوٹ از مولف- حضرت مسیح موعود کی خدمت میں جو روایات پہنچیں ان کے مطابق تو واقعہ یہی ہے لیکن بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ناک میں رسی ڈالنے کی بات ہرگز درست نہیں معلوم ہوتا ہے کہ دشمنوں کا یہ خواب شہید مرحوم کے مریدوں نے پوری نہیں ہونے دی) تب اس رسی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے اور نہیں اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہل کاروں کے یہ درد ناک نظارہ دیکھتا ہو ا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزار ہا مخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جب کہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیر ان کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی تجھے بچا لیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا.نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے اور جان (کی) کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جنکے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے کافر ہے اس کو جلد سنگسار کرو.اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے اور قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلا دیں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا.جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی.پھر بعد اس کے بد قسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کو ٹھہ پتھروں کا جمع گیا.پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ

Page 342

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۵ کالم میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت ہو جاؤں گا.اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے.بیان کیا گیا کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ / جولائی کو وقوع میں آیا.اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے.اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں شامل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شما گر د تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ امیر کے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روانہ رکھا.اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلافتہ لکھا ہے.ہر ایک قصہ میں اکثر مبالغہ ہوتا ہے لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈر کر اس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا.اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی.شاہزادہ عبد اللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے.اِنَّهُ مَنْ يَّاتِ رَبَّة مُجْرِ ما فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْى - افسوس که یه امیرزیر آیت من يقتل مومنا متعمدا داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا تعالی کا خوف نہ کیا اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لا حاصل ہے ایسے لوگ اکسیر احمد کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام HA کریں گے" صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جاتا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے (وَمَا رَتَيْنَا ظُلُما ا غَيْظُ مِنْ هَذَا ، لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبد الرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ جب شہید مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا تو انہیں دنوں میں سخت ہیضہ کابل میں پھوٹ پڑا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہو گئے اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے.مگر ابھی کیا ہے.یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کی زمین ! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا

Page 343

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۶ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین ! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے." عبد الاحد خاں صاحب کابلی سانحہ شہادت کے بعد ایک عجیب آسمانی نشان کا ظہور مرحوم و رویش قادیان اکثر سنایا کرتے تھے کہ جب حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کو سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا تو اس دن میرے بڑے بھائی کی ڈیوٹی دوسرے کئی سپاہیوں کے ہمراہ حضرت شہید مرحوم کی نعش کی حفاظت پر لگی ہوئی تھی.ایک وسیع میدان میں حضرت صاجزادہ صاحب کو سنگسار کیا گیا تھا.اس دن شام کے بعد سخت بارش ہونے لگی اور شدید آندھی آگئی.تمام سپاہی میدان چھوڑ کر قریبی بر آمدے میں چلے گئے بر آمدے کے اندر اسی وقت دوسرے سپاہیوں کے ہمراہ میرے بڑے بھائی صاحب نے بھی یہ نظارہ دیکھا کہ ایک بجلی کا ستون حضرت شہید مرحوم کے سر کے اوپر کے پتھر کے ڈھیر سے نکلا ہے اور آسمان کی طرف اونچا ہونا شروع ہوا.اور اسی طرح کا ایک بجلی کاستون آسمان کی طرف سے حضرت شہید مرحوم کے سر پر اترنا شروع ہوا.آخر زمین اور آسمان کے درمیان یہ دونوں بجلی کے ستون مل گئے.گویا کہ زمین سے آسمان تک بجلی کا ایک بہت بڑا ستون تیار ہو گیا اور اس وقت بہت زیادہ روشنی پھیل گئی.یہ نظارہ تھوڑی دیر رہا مگر اس سے وہاں موجود تمام سپاہیوں کے دل سہم گئے اور وہ بہت ڈر گئے اور کہنے لگ گئے کہ سنگسار کیا جانے والا تو کوئی ولی اللہ اور بزرگ معلوم ہوتا ہے." F+ حضرت سید عبد اللطیف صاحب شهید اخبار "وطن" میں اس دردناک واقعہ کی خبر کے درد ناک واقعہ کی خبر اخبار "وطن" لاہور (۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء) نے بایں الفاظ شائع کی." ایک احمدی کا قتل" علاقه خوست واقعہ سلطنت افغانستان میں ایک معزز خاندان صاحبزادگان کا رہتا ہے جو داتا گنج بخش صاحب کی اولاد میں سے ہیں جن کی زمین ضلع بنوں میں متصل سرائے نورنگ واقع ہے.ان کا ایک بزرگ ابتدائے حکومت امیر عبدالرحمن خاں صاحب مرحوم سے خوست میں رہتا ہے جس کو امیر صاحب سے پنشن ملا کرتی ہے.چنانچہ صاجزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب جو ہندوستان سے دینی تعلیم پاکر عرصہ سے یہاں آئے ہوئے تھے.اور وہ امیر صاحب کی طرف سے اول حد بندی میں شامل تھے اور ایک ہزار روپیہ آپ کو پنشن ملتی تھی اور خاص کابل میں امیر صاحب نے ان کو ایک جید عالم ہونے

Page 344

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۷ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت کی وجہ سے افسر عطاء مقرر کیا تھا.معلوم نہیں کہ ان کو مرزا صاحب قادیانی سے کس طرح جان پہچان ہو گئی کہ موسم سرما گزشتہ میں وہ خوست سے باجازت امیر حبیب اللہ خاں صاحب حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے اور بجائے حج کے مرزا صاحب کے پاس چلے گئے اور جب وہ دو تین ماہ وہاں رہ کر خوست میں واپس آئے تو مرزا صاحب کے چند رسالے و کتب مع اپنے عقیدہ تحریری کے سردار نصر اللہ خاں صاحب کی خدمت میں بھیج دیئے جس پر فور ابارہ سوار کابل سے آئے اور مولوی مذکور کو گرفتار کر کے لے گئے اور اس کو علماء کے سپرد کیا گیا.انہوں نے اس کو مرزائی عقیدہ سے تائب ہونے کے لئے کہا مگر وہ تائب نہ ہوا جس پر عام مجمع علماء اور رؤسا کے سامنے اس کو سنگسار کیا گیا.اس خاندان کے باقی اشخاص بھی اگر چہ مرزائی عقیدہ کے پیرو نہ تھے تاہم مردو زن وہ بھی گرفتار کئے گئے ہیں اور ان کا اثاث الیت نیلام ہو کر ان کو کابل جانے کا حکم ہوا ہے " حضرت شہید کا مزار مبارک سید عبد اللطیف صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مقتل پر تین روز تک سخت پہرہ رہا بعد اس کے سرکاری انتظام کیا گیا کہ حضرت شہید کی نعش کو کوئی نکال کر نہ لے جائے اور بظاہر کوئی صورت نعش کو نکالنے کی نہیں تھی کہ حضرت شہید کے ایک شاگرد سید احمد نور کابلی (جو حضرت شهید مرحوم کے سفر قادیان میں ان کے ساتھ رہے اور بیعت سے مشرف ہوئے اور جن کو حضرت شہید نے وصیت فرمائی کہ جب میں مارا جاؤں گا تو میرے مرنے کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دیتا یہ عزم کر کے کابل پہنچے کہ خواہ مجھے بھی بالا خر سنگسار ہونا پڑے میں حضرت شہید کی نعش مبارک نکال کر دفن کرنے کی کوشش کروں گا.وہ کابل میں ایک مزدور سے تابوت اور کفن دفن کا سامان وغیرہ اٹھوا کر آدھی رات کے وقت شہادت گاہ پر گئے.نعش کو پتھروں کے نیچے دبے ہوئے چالیس دن ہو گئے تھے.تھوڑی دیر بعد پلٹن کے ایک حوالدار بھی جو حضرت شہید کے دوست تھے امداد کے لئے چند اور ساتھیوں کے ساتھ پہنچ گئے.احتیاطا ایک آدمی کو پہرہ کے لئے مقرر کیا گیا اور باقیوں نے پتھر ہٹا کر صاف میدان کر دیا.جب نعش مبارک نظر آنے لگی تو ایک اعلیٰ درجہ کی خوشبو نے آپ کے جسد اطہر سے نکل کر فضا کو معطر کر دیا جب نعش زمین سے اٹھا کر کفن میں رکھی گئی تو سید احمد نور صاحب کو بذریعہ کشف دکھایا گیا کہ پہاڑی کے پیچھے پچاس آدمی اور ایک سوار گشت پر آرہے ہیں.اس زمانہ میں رات کے وقت پرہ ہوتا تھا اور اگر کوئی رات کو پکڑا جاتا تو اسے بلا تامل مار دیا جاتا تھا.چنانچہ اس کشف پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کو لاش سے بہٹ کر اوٹ میں آنے کے لئے کہا.تھوڑی دیر بعد واقعی بہت سے آدمی اور سوار آگئے جو کچھ دیر بعد پلٹ گئے.

Page 345

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۸ کائی میں حضرت سید عبد الطیف صاحب کی درد ناک شہادت تب یہ سب دوبارہ حضرت شہید کی لاش پر آگئے اور اسے تابوت میں رکھ دیا.اس وقت لاش اس قدر بھاری تھی کہ اٹھائی نہیں جاسکتی تھی.سید احمد نور صاحب کاہلی کا بیان ہے کہ اس وقت میں نے لاش کو مخاطب کر کے کہا کہ ”جناب یہ بھاری ہونے کا وقت نہیں.ہم تو ابھی مصیبت میں گرفتار ہیں کوئی اور اٹھانے والے نہیں آپ ہلکے ہو جائیں".اس کے بعد ہم نے ہاتھ لگایا تو لاش اتنی ہلکی ہو گئی تھی کہ میں نے کہا کہ میں اکیلا ہی اٹھاتا ہوں لیکن حوالدار نے کہا کہ نہیں میں اٹھاؤں گا.آخر وہ میری پگڑی لے کر اور تابوت کو اس کے ذریعہ سے اٹھا کر نزدیک کے ایک مقبرہ میں پہنچا کر رخصت ہوئے.صبح ہوتے ہی سید احمد نور صاحب نے مقبرہ کے ایک مجاور کو کچھ پیسے دے کر ساتھ کر لیا اور تابوت شہر کے اند رلائے اور شمال کی طرف ایک پہاڑی بالائی سار کے نام ہے جس کے دوسرے جانب واقع قبرستان میں دفن کر دیا.حضرت شہید کی نعش مبارک یہاں سید احمد نور صاحب کاہلی کے بیان کے مطابق ایک سال اور قاضی محمد یوسف صاحب مردان کی تحقیق کے مطابق صرف چند دن تک رہی اس کے بعد حضرت شہید کے ایک شاگر د میرود نام نے اسے اسکے گاؤں سید گاہ میں لے جا کر دفن کر دیا اور ایک نامعلوم سی قبربنائی.اتفاقاً خان عجب خاں صاحب احمدی (ساکن زیده ضلع پشاور) مرام شاه وزیرستان میں نائب تحصیلدار تھے انہوں نے اپنے خرچ پر ان کے روضہ کو پختہ اور خوبصورت بنا دیا.رفتہ رفتہ ملک خوست میں یہ خبر پھیل گئی اور حضرت شہید کے کثیر التعداد معتقدان کے مزار پر بغرض زیارت آنے لگے اور وہ مقام زیارت گاہ خاص و عام ہو گیا.یہ دیکھ کر حاکم خوست نے (نائب السلطنت سردار نصر اللہ خان کو اطلاع دی.انہوں نے شاہ خاصی محمد اکبر خان حاکم اعلیٰ خوست سمت جنوبی کو حکم دیا کہ فورا فوج کا ایک دستہ لے کر روضہ پر پہنچو اور راتوں رات تابوت نکال کر کسی غیر معروف مقام کی طرف لے جاؤ.چنانچہ جنوری ۱۹۱۰ ء میں شاہ خاصی نے تابوت کو رات کے اندھیرے اور فوج کی حفاظت میں نکال کر کسی نامعلوم جگہ میں دفن کر دیا.اس طرح خدائی مصلحت نے حضرت شہید کی قبر کو شرک کی آماجگاہ بننے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.

Page 346

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۲۹ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت ایک چشم دید شهادت الماء حاجی خواجہ محمد عمر هشتاد و هفت سال ساکن خوست حال مهاجر افغانستان کرم ایجنسی سده ر پاکستان من میر قلم را خوب می شناسم بسیار دوست ما بود.بجائے مامی آمد و من بجائے او می افتم.او عن بیان کرده بود که زمانه شهادت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب جوان بودم جنازه اش که می آورد در حد المراعی جدران خوست رسانید برائے من خبردار که شما چند نفراں برائے معاونت جنازہ صاحبزادہ صاحب مرحوم در المراعی جدران به آمده من همراه چند نفر دیگر در مواضع الراعی جدران رسیدم جنازه او را بشانه گرفتیم در خوست در مقام سید گاه بخانه خود صاحبزادہ صاحب مرحوم رسانیدیم و در مقبرہ آبائے آشان دفن کردیم بعد از دفن او که خبر مشهور شد ہر قسم مریضاں برائے شفاء بمرقد مبارک او می آمدند - شفا می یافتند - این آوازه بسیار مشهور شد - این خبر بہ امیر حبیب الله در کابل رسید - امیر حبیب اللہ برائے حاکم خوست خبر داد که تابوت او را از قبر بکشید بہ جائے نا معلوم دنی کنید که قبر او گم شود بعد آن حاکم خوست با قبرار بامدند - وقت نماز خفتن تابوت او از مدفن کننبه در مقبره قوم متون به دامن کوه دفن کردند و آثار قبراد را هموار کردند در حال قبراد معدوم الاثرات قبراء معلوم نمی شد - میر قلم خان این را گفته بود که جنازه صاحبزاده مرحوم بشانه خود گرفتیم از تابوت او خوشبوئی می آمد مایاں مانند عطر توی می کردند حالانکہ بالائے تابوت او عطرخ پاشیده نه شده بود از باطن تابوت برائے مایاں خوشبوی می آمد بیان بزبان میر قلم خان ختم شد - حاجی خواجہ محمد مزید می گوید که پس آران خود من بسیار کوشش کردم که قبر صاحبزادہ صاحب مرحوم معلوم کنم در آنجا گشتم مگر بار قبر صاجزادہ صاحب معلوم نه شد در حال قبراد معدوم الاثر است اکنون که در افغانستان قتل و قتل و تسلا شوروی شروع است سبب انتقام شهادت صاحبزاده صاحب مظلوم و مولوی عبد الرحمان صاحب

Page 347

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۰ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت مظلوم و مولوی عبدالحلیم صاحب و مولوی نعمت الله صاحب که شاگردگان صاحبزاده صاحب بودند شهادت ناحق ایشان است نیز میر قلم خان یکی از شاگردگان صاحبزادہ صاحب بود.ایناں صاحب رسوخ نه بودند از مین سبب محفوظ ماندند از ظلم کشتن و بندی شدن آنها را که شهید کردند سبب این بود که علماء بودند - صاحب رسوخ بودند - شاگردان داشتند تبلیغ احمدیت می کردند - هشت ده خانه احمدیان بودند حکومت تحریر کردند در شکنجه ظلم گرفته اند در حال مخالفین شناخته نمی شود که این احمدی است غیر از خانه میر قلم خان دمن خواجہ محمد خاں.حکومت قسم دادند که من احمدی نیستم.دریں سبب ست شدند - ضعیف الایمان شدند و می ترسید اظهار احمدیت نه توانند کرد بلے اولا د ہائے اوشاں زندہ میر قلم خان علی الاعلان می گفته اند که امام مهدی در قادیاں موجود است بر اوا ایمان به آورید قریباً پانزده سال بر او ایمان به آورید مگر خدا او را محفوظ کرده که اجل خود فوت شد - این مضمون من املاء کرده ام خواجہ محمد گواه شد عبد الرحیم صابر بقلم خود ترجمه بیان حاجی خواجہ محمد صاحب عمر ۸۷ سال ساکن خوست حال مهاجر افغانستان کرم ایجنسی پاکستان میں میر قلم خاں کو اچھی طرح جانتا ہوں.ہمارا گہرا دوست تھا.ہمارے ہاں آیا کرتا تھا.ہم اس کے ہاں جایا کرتے تھے.اس نے ہم سے بیان کیا تھا کہ میں حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے زمانہ میں جوان تھا.جب ان کے تابوت کو علاقہ خوست کے موضع المراعی جدران کے حدود میں لے کر پہنچا.مجھے اطلاع دی کہ آپ چند احباب حضرت صاحبزادہ مرحوم کے جنازہ کے سلسلہ میں میری مدد کے لئے موضع المراعی جدران آجائیں.ہم آپ کے جنازہ کو کندھوں پر اٹھا کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے گھر سید گاہ کے مقام پر لے آئے اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا.جب آپ کی تدفین کا چرچا عوام میں ہوا تو ہر قسم کے مریض بغرض شفاء یابی آپ کی قبر مبارک پر آتے تھے.اور صحت یاب ہو کر جاتے تھے.جب اس کا عام چرچا ہوا تو یہ بات امیر حبیب اللہ والی کابل تک پہنچی.اس نے حاکم خوست کو فرمان بھیجا کہ آپ کے تابوت کو قبر سے نکال کر کسی نامعلوم جگہ پر دفن کر دیا جائے.تاکہ قبر کا پتہ نہ چل سکے.حاکم خوست آیا اور نماز عشاء کے وقت ان کے تابوت کو

Page 348

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٣٣١ کابل میں حضرت سید عبدا ب کی دردناک شہادت دفن سے نکالا اور دامن کوہ میں قوم متوں کے قبرستان میں دفن کر کے قبر کے نشان کو نا پید کر دیا.اس وقت آپ کی قبر کے آثار نا پید ہیں اور معلوم نہیں کہ قبر کہاں ہے.میر قلم خاں نے یہ بات بیان کی تھی کہ جب ہم نے صاحبزادہ صاحب مرحوم کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا.آپ کے تابوت سے عطر کی مانند خوشبو آرہی تھی.جس سے ہمارے مشام معطر ہو رہے تھے.حالانکہ آپ کے تابوت پر کوئی عطر نہیں چھڑ کا گیا تھا.تابوت کے اندر سے ہم سب کو خوشبو آرہی تھی.میر قلم خاں کی زبانی سنا ہوا بیان ختم ہوا.حاجی خواجہ محمد مزید بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد میں نے خود ذاتی طور پر بہت کوشش کی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی قبر کا سراغ لگاؤں.اس جگہ گھومتا رہا.لیکن قبر کا نشان دریافت نہ ہو سکا.اور اس وقت آپ کی قبر معدوم الاثر ہے.اس وقت افغانستان میں جو روی تسلط اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے.یہ اللہ تعالی کی طرف سے ) صاحبزادہ صاحب شہید مظلوم اور ان کے مظلوم شاگردان شہید مولوی عبد الرحمن صاحب، مولوی عبد الحلیم صاحب مولوی نعمت اللہ صاحب کے قتل ناحق کا انتقام ہے.میر قلم خاں بھی حضرت صاجزادہ صاحب کے شاگردوں میں سے تھا.لیکن ایسے شاگرد با اثر نہ تھے.اس لئے قتل اور قید و بند سے بچ نکلے.جو شہید ہوئے وہ بدیں سبب کہ علماء میں شمار ہوتے تھے.اور صاحب اثر و رسوخ تھے.اور کافی تعداد میں شاگر د ر کھتے تھے اور احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے.احمدیوں کے آٹھ.دس گھرانے تھے.جنہیں حکومت نے ایذا اور تشدد کا نشانہ بنایا.اب مخالفت کے نتیجہ میں یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کون احمدی ہے.کیونکہ انہوں نے بجز میر قلم خاں اور خاکسار خواجہ محمد خاں کے حلفیہ طور پر حکومت کے سامنے احمدیت سے انکار کر دیا ہے.اسی وجہ سے وہ ست اور کمزور ایمان ہو گئے.اور خوف کی وجہ سے احمدیت کو ظاہر کرنا چھوڑ دیا ہے.ان کی اولادیں اب تک موجود ہیں.میر میر قلم خاں اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام قادیان میں موجود ہیں.ان پر ایمان لائیں.لیکن اس کے باوجود بھی اللہ تعالی نے ان کو محفوظ رکھا اور انہیں نے قریباً ۱۵ سال قبل طبعی طور پر وفات پائی.یہ مضمون میں نے املا کر وایا ہے (دستخط) خواجہ محمد گواه شد عبد الرحیم مهاجر بقلم خود 12 حضرت شہید کا حلیہ مبارک اور عادات و فضائل حضرت شہید کا قد اور جسم درمیانہ ریش مبارک بہت گھنی نہ تھی اور جیسا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہے عمر کے آخر تک آپ کے اکثر بال سفید ہو چکے تھے.

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۳۲ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت آواز بلند تھی.قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ سے نہایت درجہ عشق تھا.ہر وقت یاد الہی اور دینی باتوں میں گداز رہتے تھے.علوم مروجہ پر عبور حاصل ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ عالم ربانی کی حیثیت سے آپ کو جناب الہی سے علوم روحانیہ سے حصہ ملا تھا اور آپ صاحب کشف و الہام تھے.آپ بڑے مہمان نواز تھے.آپ کے مہمان خانہ میں ہیں چالیس آدمی ہر وقت رہتے تھے.قرآن و حدیث کا درس آپ کے یہاں جاری رہتا تھا.کئی ہزار حدیثیں آپ کو از بریاد تھیں.آپ بندوق چلانے کے بہت مشاق اور خوب ماہر تھے.شہادت کے وقت آپ کی عمر ساٹھ ستر برس کے درمیان تھی.حضرت شہید مرحوم کے بال حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے بعد سید احمد نور صاحب کاہلی ان کا ایک بال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لائے.حضور نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر یہ بوتل سر نمبر کر دی اور ناگہ باندھ کر اسے بیت الدعا کی کھونٹی سے لٹکا دیا اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا اسے آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے.خود حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.ایک بال ان کا اس جگہ پہنچایا گیا جس سے اب تک مشک کی خوشبو آتی ہے اور ہماری بیت الدعا کے ایک گوشہ میں شیشہ میں آویزاں ہے." یہ بوتل کئی سال تک بیت الدعا میں لٹکتی رہی.حضرت سید عبد اللطیف صاحب کے حضرت سید عبد اللطیف صاحب نے اپنی یادگار خاندان پر مظالم اور آپ کی اہلیہ ایک المیہ اور پانچ فرزند چھوڑے.المیہ اور صاحبہ کا نام شاہجہان بی بی اور صاحبزادوں کے نام اولاد کا قابل رشک صبر اور استقلال یہ تھے (1) صاجزادہ سید محمد سعید صاحب (۲) صاحبزادہ سید عبد السلام صاحب (۳) صاجزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی (۴) صاحبزادہ سید محمد عمر صاحب (۵) صاجزادہ سید محمد طیب صاحب.حادثہ شہادت کے بعد حکومت افغانستان کی طرف سے آپ کی اہلیہ اور بچوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انہوں نے قابل رشک صبر و استقلال کا نمونہ دکھایا.آپ کی اہلیہ ہر موقعہ پر یہی فرماتی رہیں کہ اگر احمدیت کی وجہ سے میں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے شہید کر دیئے جائیں تو میں اس پر خدا تعالی کی بے حد شکر گزار ہوں گی اور بال پھر بھی اپنے عقائد تبدیل نہ کروں گی.غرض کہ ان کے سامنے مصائب و آلام کے کوہ گراں آئے لیکن ان کے پائے استقلال کو متزلزل نہ کر سکے صاحبزادہ سید محمد سعید صاحب وسید محمد عمر صاحب انہی مشکلات کی تاب نہ لاکر افغانستان ہی میں

Page 350

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۳ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت دردناک شہید ہو گئے اور بالا خرقید و صعوبت و دیگر مصائب کا مسلسل نشانہ بننے کے بعد حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کے خاندان کا لٹا ہوا قافلہ افغانستان سے ہجرت کر کے بالا خر ۲ / فروری ۱۹۲۶ء کو علاقہ بنوں میں آگیا جہاں اس خاندان کی اپنی جاگیر موجود تھی.یہ قافلہ مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھا.(1) شاہجہان بی بی صاحبہ (المیہ (۲) صاحبزادہ سید عبد السلام صاحب مع دولڑکے (۳) صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب قدسی (۴) صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب (۵) صاحبزادہ سید محمد سعید صاحب مرحوم کا فرزند سید محمد ہاشم دو لڑکیاں اور ایک بیوی (۶) حضرت شہید کی ہمشیرہ صاحبہ اور ان کے دو صاحبزادے عبد القدوس اور عبد الرب تفصیل اولاد حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شهید مرحوم پوری تفصیل و ترتیب عمر کے اعتبار سے ہے.بیٹیوں اور ان کی اولاد کی تفصیل شامل نہیں).ا.صاحبزادہ سید محمد سعید صاحب مرحوم رہائش اولاد (شہید مرحوم کے سب سے بڑے صاحبزادے) سرائے نورنگ -1 سیدہ بی بی صاحبہ المیہ صاحبزادہ سید عبد الرب صاحب بنوں چھاؤنی ۲.ڈاکٹر صاحبزادہ سید محمد ہاشم صاحب رہائش -۳- سیدہ بی بی حلیمہ صاحبہ مرحومہ (ان کی شادی نہیں ہوئی تھی) ۲.صاحبزادہ سید عبد السلام صاحب مرحوم اولاو (شہید مرحوم کے صاحبزادے) سرائے نورنگ.صاحبزادہ سید ہبتہ اللہ صاحب ضلع بنوں پشاور ۲.صاحبزادہ سید حمایت اللہ صاحب صاحبزاده سید محمود احمد صاحب

Page 351

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۴ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت سرائے نورنگ ۴.صاحبزاده سید صدیق احمد صاحب سرائے نورنگ -۵ سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ بیگم صاحبزادہ سید محمد شفیع صاحب -۶- سیده شوکت خاتون صاحبه مرحومه (غیر شادی شده).صاحبزادہ سید ابوالحسن قدسی صاحب مرحوم رہائش اولاد کراچی (شہید مرحوم کے صاحبزادے) صاحبزادہ سید نعیم احمد قدمی صاحب واشنگتن امریکہ ۲.صاحبزاده سید فهیم احمد قدی کراچی لاہور رہائش ملائشیا صاحبزاده سید مودود احمد قدی ۴.صاحبزادہ سید شمیم احمد تدی صاحبزادہ سید انیس احمد قدی - سیدہ قدسیہ قدی اہلیہ مرزا انور بیگ صاحب صاحبزادہ سید محمد عمر صاحب مرحوم (شہید مرحوم کے صاحبزادے) ان کی شادی نہیں ہوئی تھی.دوران قید ہی شہادت پائی.صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب لطیف مرحوم اولاد (شہید مرحوم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے) ا.سیدہ امته الهادی لطیف صاحبہ المیہ مرزا مشتاق احمد ناصر صاحب مرحوم وفات شده صاحبزادہ سید محمد احمد لطیف صاحب مرحوم واشنگٹن امریکہ ۳.صاحبزاده سید مهدی لطیف صاحب صاحبزادہ سید طاہر لطیف صاحب

Page 352

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۵ کالم میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت کیلی فورنیا صاجزادہ سید راشد لطیف صاحب امریکہ کو ہاٹ پاکستان.صاحبزادہ سید بشیر احمد لطیف صاحب صاحبزادہ سید فاضل لطیف صاحب پشاور راولپنڈی کو ہات سائل امریکہ - سیده امتہ الحی لطیف صاحبہ المیہ صاجزادہ سید محمد رفیع صاحب صاحبزادہ سید محمد جمیل لطیف صاحب ۱۰.صاحبزادہ سید عبدالحی لطیف صاحب ٹورانٹو کینیڈا صاحبزادہ سید امجد لطیف صاحب کراچی نوٹ:.۱۲ سیدہ ناصرہ لطیف صاحبہ اہلیہ مرزا ہارون علی صاحب ۱۳ صاحبزادہ سید عبد اللطیف احمد ٹیپو مرحوم ہمارے ابا جان مرحوم نے تین شادیاں کیں سب سے بڑی ہماری امی جان ہیں.دوسری شادی سے اولاد نمبر ۵۴۳ اور ۸ ہیں.تیسری شادی سے صرف ایک بیٹا نمبر، صاحبزادہ عبد الحئی لطیف ہے.ہماری امی جان پشاور میں میرے بھائی صاحبزادہ فاضل لطیف کے پاس ہیں) سیده ناصره لطیف المیہ مرزا ہارون علی ۷۷۵/۸ عزیز آباد کراچی ۳۹" ظلم کی پاداش میں جبار و قہار خدا کی تجلیات اور قمری نشانات کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کے واقعات بیان کرتے ہوئے پیشگوئی کی تھی کہ شہید کا خون رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا.اور اس ملک کے حکمرانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور بیس سال پیشتر کے الہام میں بھی یہ خبر دی گئی تھی کہ اس ملک پر عام تبانی ے گی.چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا.اور جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شامل ہونے والوں کو سزا لی اسی طرح حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کے خون سے ہاتھ رنگنے والے بھی چن چن کر پکڑے گئے.پہلا قهری نشان اس ضمن میں پہلا قمری نشان یہ ظاہر ہوا کہ شہادت کے کے پہلے روز ۱۴/ جولائی کی شام کو 9 بجے کے قریب ملک میں ایک خوفناک آندھی کا غیر معمولی طوفان اٹھا.جو ظالمانہ موت کی آسمانی شہادت تھی.

Page 353

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۶ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی دردناک شہادت دوسرے روز یعنی ۱۵ جولائی کو شہر کابل اور ارد گرد کے علاقوں میں اچانک دوسرا قهری نشان اور خطرناک ہیضہ پھوٹ پڑا جس سے روزانہ کئی اموات ہونے لگیں.اور لوگوں پر سخت ہیبت طاری ہوئی اور لوگوں نے محسوس کر لیا کہ یہ بلا سید مظلوم کی وجہ سے ہم پر پڑی ہے.خود سردار نصر اللہ خاں کی بیوی اور نوجوان لڑکا ہیضہ کا شکار ہوئے اور بعض وہ ملا بھی جنہوں نے آپ کے خلاف فتویٰ کفر دیا تھا.22 تیسرا قهری نشان وہ شریر اہل حدیث پنجابی بھی کیفر کردار کوپہنچے جنہوں نے حضرت شہید کو قیدو بند دلائی اور آخر کار شہید کرو ا دیا.ان سب کے سرخنے ڈاکٹر عبد الغنی اور اس کے بھائی مولوی نجف علی اور محمد چراغ تھے.امیر حبیب اللہ خاں نے ان کو نمک حرامی کی سزا میں گیارہ سال تک امیر زنداں کر دیا.ڈاکٹر عبد الغنی دوران قید میں ہی تھا کہ اس کی بیوی لنڈی کو تل سرائے میں مرگئی اور اس کا نوجوان بیٹا شہر کابل میں دن دہاڑے قتل ہو گیا.پھر گیارہ سال جیل کاٹنے کے بعد وہ رہا ہوا تو ملک بدر کر دیا گیا.مولوی نجف علی نادر شاہ کے محمد حکومت میں ایک فارسی منظوم کتاب دره نادره " جس پر عدالت عالیہ نے اسے کا فرد مرتد قرار دیا اور حکم دیا کہ اس کو سنگسار کیا جاوے.آخر کار سفیر برطانیہ کی مداخلت سے کابل سے اسے ہندوستان واپس جانے کی اجازت ملی.اس کے ساتھ اس کا بھائی محمد چراغ بھی کابل سے نکال دیا گیا.حضرت شہید پر فتویٰ دینے والے قاضی عبدالرزاق اور قاضی عبدالروف چوتھا قتری نشان قندھاری تھے.قاضی عبد الرزاق افسر مدارس اور ملائے حضور کا عہدہ رکھتا تھا.امیر حبیب اللہ خاں نے ایک جرم کی بناء پر اسے ان سب عہدوں سے بر طرف کر دیا.اور اسے ایک ہزار روپے جرمانہ کیا.اس سزا کے بعد وہ کابل سے بالکل غائب ہی ہو گیا.قاضی عبد الرؤف بھی گمنامی کی حالت میں رخصت ہوا اور اس کا لڑکا اور جانشین قاضی عبد الواسع ۱۹۲۹ء میں نہایت بے رحمی سے ہلاک کیا گیا.ملاؤں کے فتویٰ کی تکمیل میں ایک بہت بڑا ہاتھ سردار حبیب اللہ خاں کے پانچواں قهری نشان بھائی سردار نصر اللہ خاں کا تھا.اس نے حضرت شہید کو پابہ جولاں کیا.اور قید میں رکھا.یہی سزا اسے ملی.وہ سردار امان اللہ خاں کے حکم شاہی فرمان سے پابہ جولاں کابل لایا گیا اور اسے نظر بند کیا گیا.کہتے ہیں کہ اس صدمہ سے اس کا دماغ مختل ہو گیا اور وہ کچھ عرصہ کے بعد رات کے وقت اس برج میں جہاں مقید تھا جس دم کر کے قتل کر دیا گیا اور جس طرح اس نے حضرت

Page 354

تاریخ احمدیت جلد ۲ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت شہید مرحوم کی قبر معدوم کرا دی تھی اس طرح امیر امان اللہ خاں نے اس کی قبر کا نام و نشان مٹا دیا.سردار نصر اللہ خاں کا نوجواں لڑکا قتل ہوا اور اس کی لڑکی عالیہ بیگم سے امیر امان اللہ خاں نے خفیہ نکاح کیا مگر بوقت معزولی اسے طلاق دے دی گویا اس کی آخری یادگار لڑکی کا انجام بھی خراب ہوا.امیر حبیب اللہ خاں کا حشر بھی نہایت عبرتناک ہو ا یعنی اسے ۲۰/ فروری ۱۹۱۹ء کو چھٹا قهری نشان نامہ کسی نا معلوم می نس نے پستول سے اڑا دیا.اور جس طرح اس نے حضرت شہید مرحوم کے جسد اطہر پر سنگ باری کی تھی ٹھیک اسی طرح علاقہ شنوار کے باغیوں نے جلال آباد پر حملہ کر کے اس کی قبر پر پتھروں کی بارش کی اور مرنے کے بعد رجم کیا.امیر حبیب اللہ خاں کے حکم سے حضرت شہید کے دو نوجوان فرزند حضرت محمد سعید جان اور حضرت محمد عمر جان جیل فیور سے شہید ہو گئے.خدا تعالٰی نے امیر حبیب اللہ خاں سے اس کا یوں انتقام لیا کہ خود اس کا جوان بیٹا سردار حیات اللہ خاں پھانسی چڑھا.کتاب ” زوال غازی " کا مصنف لکھتا ہے بچہ ستاؤ نے خفیہ ہی خفیہ اسے پھانسی دے کر ارک کی ایک دیوار کے نیچے دبادیا".غرضکہ کابل کے عوام سے لے کر امیر حبیب اللہ خان تک خدائے قہار کی قاہرانہ تجلیوں کا شکار ہوئے اور بالاخر ۱۹۲۹ء میں اس کی پاداش میں ایسا انقلاب آیا کہ بچہ سقہ جیسے ایک ادنی شخص نے حکومت افغانستان کا تختہ الٹ دیا اور امیر حبیب اللہ خان کے خاندان سے حکومت چھن گئی اور اس کے آخری تاجدار امیر امان اللہ خاں کو ملک سے بھاگ کر اٹلی میں پناہ لینا پڑی.تذكرة الشہادتین" کی تصنیف و اشاعت حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کا دل ہلا دینے والا حادثہ شہادت جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت درجہ اہمیت رکھنے والا اور ناقابل فراموش حادثہ تھا.لہذا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے اس کی تفصیلات بتانے اور جماعت کو حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید اور حضرت مولوی عبد الرحمن شہید کا اسوہ حسنہ تا قیامت پیش نظر رکھنے کی تحریک کرنے کے لئے "تذکرۃ اشہادتین " تصنیف فرمائی جو اکتوبر ۱۹۰۳ ء میں شائع ہوئی.حضرت اقدس کا ارادہ تھا کہ یہ کتاب ۱۶/ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو تألیف کر کے گورداسپور لے جائیں جہاں حضور پر فوجداری مقدمہ دائر تھا.لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کو سخت درد گردہ شروع ہو گیا.حضور کو خیال ہوا کہ یہ کام نا تمام رہ گیا.صرف د چار دن ہیں.اگر میں اسی طرح درد گردہ میں مبتلا رہا جو ایک مہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہو سکے گی.تب خدا تعالیٰ نے آپ کو دعا کی طرف توجہ دلائی.حضور نے رات کے وقت تین بجے کے قریب

Page 355

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۳۸ کامل میں حضرت سید عبدا حب کی درد ناک شہادت اپنے اہل بیت سے کہا کہ اب میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو.سو آپ نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی سید عبد اللطیف شہید کے تصور سے دعا کی کہ یا الہی اس مرحوم کے لئے میں لکھنا چاہتا تھا.تو ساتھ ہی حضور کو غنودگی ہوئی اور الہام ہوا.سلام قولا من رب رحیم یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے.حضور فرماتے ہیں پس تم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا ".یہ گویا مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی ایک جدید کرامت تھی جو ان کی وفات کے بعد "تذکرۃ الشہادتین " کی تکمیل کے ذریعہ سے ظاہر ہوئی.حضرت اقدس نے اس کتاب کے آغاز میں ایک لطیف پیرایہ کتاب کے مضامین کا خلاصہ میں اپنی صداقت پر روشنی ڈالی اور حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب کے سانحہ شہادت کے مفصل حالات لکھے.13 نیز جماعت کو نصیحت فرمائی کہ اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خداہر ایک قدم پر تمہارے ساتھ ہو گا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرد تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے." تین سو سال تک احمدیت کی عالمگیر روحانی اس کتاب کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں حضور نے نہایت واضح اور کھلے لفظوں میں حکومت کے قیام کی پر شوکت پیشگوئی پیشگوئی فرمائی ہے کہ احمدیت تین سو سال تک دنیا میں غالب آجائے گی اور نزول مسیح کا عقیدہ عیسائی اور مسلمان دونوں ترک کر دیں گے.چنانچہ حضور نے لکھا."اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ باد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی." " یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد ؟ ۳۳۹ کابل میں حضرت سید عبد الخلیف صاحب کی درد ناک شہادت باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.دنیا دو سرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے؟ تذکرۃ الشہادتین کے آخری " تذکره الشهادتین " کا عربی حصہ و علامات المقربین حصہ میں حضرت اقدس نے عربی میں ایک مضمون سپرد قلم فرمایا ہے جس کا عنوان ہے " الوقت وقت الدعاء لا وقت الملاحم و قتل الاعداء اس مضمون کے بعد آپ نے ایک مختصر عربی رسالہ بھی بطور ضمیمہ شامل کیا ہے جس کا نام علامات المقربین ہے اور جس میں مقربین کے صفات و علامات پر نہایت ایمان پرور الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے.ایک آسٹریلین نو مسلم قادیان میں محمد عبد الحق صاحب ایک آسٹریلین نو مسلم تھے جو سات سال سے مشرف بہ اسلام تھے.وہ آسٹریلیا سے لنڈن گئے اور سفیر روم سے اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.سفیر روم نے انہیں مصر کے دارالحکومت قاہرہ جانے کا مشورہ دیا مگر انگلستان کے ایک نو مسلم لارڈسٹینلے نے ان کو صلاح دی کہ ان کا مدعا بمبئی میں حاصل ہو گا.چنانچہ وہ ہندوستان کے سفر پر بذریعہ جہاز روانہ ہوئے رستہ میں انہیں رویا میں بتلایا گیا کہ تمہار اگو ہر مقصود ان پہاڑوں کی طرف ملے گا جو کہ ہندوستان میں کابل اور کشمیر کی طرف ہیں.اس اللی اشارے کے تحت انہوں نے پنجاب کی طرف رخ کیا.لاہور پہنچنے اور اس جستجو میں پھرنے لگے کہ کسی ایسے راستباز مسلمان سے ملاقات ہو جو مجسم اسلام ہو اور اسلام کے تمام خدو خال کا نقشہ اس میں موجود ہوتا اس کی حقیقی صحبت کی برکت سے وہ خود بھی ایک برگزیدہ بن جائیں اور وہ اسلام کی طرف سے ایک نشان اور حجت بن کر اپنے آپ کو مشرقی و مغربی دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.لاہور میں میاں معراج الدین صاحب عمر اور حکیم نور محمد صاحب احمدی کو ان

Page 357

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۴۰ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت کا پتہ چلا تو انہیں اپنے ساتھ قادیان چلنے کی تحریک کی جس پر وہ ۲۲/اکتوبر ۱۹۰۳ء کو قادیان گئے جہاں ان کا بڑے تپاک سے استقبال کیا گیا.عبد الحق صاحب نے قادیان میں دو دن قیام کیا.حضرت مولوی نور الدین صاحب کے درس قرآن کے معارف سے محظوظ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ملاقات کی.دوران ملاقات اس بات کا اظہار کیا کہ یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کی عرصہ سے مجھے تلاش تھی وہ قادیان ہی کے لوگ ہیں.رنگون میں میں نے آپ کے حالات سنے اور چند تصانیف بھی دیکھی تھیں مگر مجھے آپ کا پتہ معلوم نہ ہوا.اور یہ امید نہ تھی کہ اس قدر جلد زیارت میسر آجائے گی.مسٹر عبد الحق صاحب نے یہ بھی عرض کی کہ قرآن مجید کا ایک ترجمہ شائع کیا جائے یورپین لوگوں کو بہت ضرورت ہے.حضور نے فرمایا کہ میرا خود بھی یہ ارادہ ہے کہ ایک ترجمہ قرآن شریف کا ہمارے سلسلہ کی طرف سے شائع ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے سامنے اپنی اس دیرینہ آرزو کا بھی اظہار فرمایا کہ " یورپین لوگوں میں سے کوئی ایسا نکلے جو اس سلسلہ کے لئے زندگی کا حصہ وقف کرے.لیکن ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ صحبت میں رہ کر رفتہ رفتہ وہ تمام ضروری امور سیکھ لیوے جن سے اہل اسلام پر سے ایک ایک داغ دور ہو سکتا ہے اور وہ تمام قوت اور شوکت سے بھرے ہوئے دلا کل سمجھ لیوے جن سے یہ مرحلہ طے ہو سکتا ہے تب وہ دوسرے ممالک میں جا کر اس خدمت کو ادا کر سکتا ہے." عبد الحق صاحب نے معذرت کی اور کہا کہ میں کل یہاں سے رخصت ہوں گا اور ایک ضروری دورہ پر روانہ ہوں گا.اس دورہ کے بعد دیکھوں گا کہ مجھے کونسی راہ اختیار کرنی چاہئے.چنانچہ وہ اگلے روز ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو واپس چلے گئے پھر معلوم نہیں کہ کیا ہوئے بہر حال حضور نے ان تک پیغام صداقت پہنچانے کا حق ادا کر دیا نواب عبدالرحیم صاحب (ابن حضرت نواب محمد علی خاں صاحب) کی شفایابی کا معجزہ ۲۵/ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے عبد الرحیم صاحب (ابن حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی شفایابی کا معجزہ ظاہر ہوا جس کی تفصیل یہ ہے کہ نواب عبدالرحیم صاحب سخت بیمار ہو گئے چودہ روز مسلسل بخار رہا اور جو اس میں فتور اور بے ہوشی رہی آخر نوبت احتراق تک پہنچی.حضرت خلیفتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کو ہر روز دعا کے لئے عرض کی جاتی تھی اور

Page 358

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۴۱ کامل میں حضرت بد اللطیف صاحب کی درد ناک شاد حضور دعا کرتے تھے کہ اس روز حضور کی خدمت میں اطلاع پہنچی کہ عبدالرحیم صاحب کی زندگی کے آثار اچھے نظر نہیں آتے حضور نے تہجد میں دعا کی تو خدا کی وحی سے آپ پر کھلا کہ " تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر " حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا بیان ہے کہ "میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بالمواجہ مجھے فرمایا کہ جب خدا تعالی کی یہ وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا.اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الی اگر یہ دعا کا موقعہ نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں اس کا موقعہ تو ہے.اس پر معاومی نازل ہوئی.یسبح له من في السموت ومن في الارض من ذالذي يشفع عنده الا باذنه - اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت طاری ہوئی کہ میں نے بلا اذن شفاعت کی ہے.ایک دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی.انک انت المجاز.یعنی تجھے اجازت ہے.اس کے بعد حالا بعد حال عبد الرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اب ہر ایک جو دیکھتا اور پہچانتا تھا ات دیکھ کر خداتعالی کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کر تا کہ لاریب مردہ زندہ ہوا ہے".سیرۃ الابدال کی تصنیف و اشاعت ۱۴ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے "سیرۃ الابدال کے نام سے دسمبر ۱۹۰۳ء میں ایک عربی رسالہ شائع فرمایا.یہ رسالہ صرف پندرہ صفحات پر مشتمل اور آپ کے عربی رسائل میں سب سے مختصر تھا اور اس میں حضور نے اولیاء و اتقیاء کی تئیس اہم علامات بیان فرما ئیں.مثلاوہ عین ضرورت زمانہ کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں.انہیں قبل از وقت عروج و کمال کی بشارتیں عطا ہوتی ہیں.خدمت دین اور رضا الہی ان کا حقیقی مقصود ہوتا ہے.آسمانی تقدیروں سے وہ پہلے ہی مطلع کئے جاتے ہیں.وہ منصور ہوتے ہیں.ان کا فیض صحبت انسانوں کو فضائے روحانیت میں محو پرواز کر دیتا ہے اور ان کے اخلاق مثالی حیثیت رکھتے ہیں.وغیرہ وغیرہ." سيرة الابدال " اس لحاظ سے آپ کی تمام عربی کتابوں سے ممتاز ہے کہ اسے آپ نے نہایت فصیح و بلیغ مگر مشکل عربی عبارت میں لکھا ہے جس سے آپ کی زبر دست اعجازی قوت کا پتہ چلتا ہے.۱۹۰۳ء کے بعض صحابہ ۱۹۰۳ء کے بعض جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۴۴ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام - صوفی محمد حسن صاحب بروکن ہل آسٹریلیا.ماسٹر محمد علی صاحب اشرف - سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مولوی محمد جی صاحب - محمد چراغ الدین صاحب.اس سال سابق والی قلات میر خدا داد خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حلقہ غلامی میں شامل ہوئے.

Page 360

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۴۳ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت 1 براہین احمدیہ جلد چہارم صفحہ ۵۱۰-۵۱۱ طبع اول حواشی دعوة الامیر از حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صفحه ۱۹۷ ۱۹۸ ملحها - حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مردان کی رائے کے مطابق یہ غالبا رجب المرجب ۱۳۲۰ھ مطابق اکتوبر نومبر ۱۹۰۲ء کے ایام تھے.(عاقبتہ الکذبین مولفہ جناب قاضی صاحب موصوف صفحه ۳۹ حصہ (اول) اخبار البدر ۲۸۳- نومبر ۵دسمبر ۶۱۹۰۲ صفحه ۳۵ سے حضرت شہید مرحوم کی تاریخ ورود قادیان قطعی طور پر ۱۸ نومبر ۱۹۰۲ء ثابت ہوتی ہے.تذکرۃ الشہادتین صفحه ۱۰ ( طبع اول) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ " مہمان خانہ میں جہاں اس وقت جنوب کی طرف پہلا کمرہ ہے اس میں حضرت شہید مرحوم اور ان کے ساتھی ٹھہرے تھے اور جہاں اب کنواں ہے وہاں ہر صبح چارپائی پر رو قبلہ قرآن کا مطالعہ و تلاوت فرماتے رہتے اور خاکسار کنواں کے پاس شمال کی کی جانب پہلے کمرہ میں مقیم تھا ہر روز نماز با جماعت میں شامل ہونے کی غرض سے مسجد مبارک میں حاضر ہوتے حضرت شہید صف اول کے جنوبی کونے میں کھڑے ہوتے.بعد از نماز حضرت مسیح موعود کی مجلس میں بیٹھے رہتے اور موقعہ یہ موقعہ کچھ فرمایا بھی کرتے." (عاقبتہ المکذبین صفحه ۴۰ مولفه قاضی محمد یوسف صاحب) تذکرۃ الشہادتیں صفحہ الحکم کے مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ کالم نمبر ۳ شهید مرحوم کے چشم دید واقعات " صفحہ نے از سید احمد نور کابلی طبع اول اکتوبر ۱۹۲۱ء ضیاء الاسلام پر یس قادیان شہید مرحوم کے چشم دید واقعات متولفہ سید احمد نور صاحب کابلی صفحه ۱۴۸ حکم ۱۱۴ و سمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۱ حضرت شہید مرحوم نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں ایک فارسی قصیدہ بھی رقم فرمایا تھا جو آپ کی شہادت کے بود اخبار البد / اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۹ پر شائع ہوا.شهید مرحوم کے چشم دید واقعات صفحہ ۱۰۸ 9- تذکرۃ الشہادتیں صفحہ ۷۳ -A تاریخ ولادت ۷/۶ جنوری ۱۸۷۱ء میں بیعت غالبا فروری ۱۸۹۶ء " لیکچر سیالکوٹ ۱۹۰۴۴ ء کے انتظامات میں آپ کو بھی حصہ ملا رساله خالد (ربوہ) جنوری ۱۹۵۷ء صفحہ ۴۰ کالم ۲ چشم دید حالات صفحه ، ادعاقبته المنذ بین صفحه ۴۲ مولفه قاضی محمد یوسف صاحب تذکرہ اشعار تین صفحه ۱۹ طبع اول) ۱۳ چشم دید حالات صفحه، او عاقبته المکذبین صفحه ۴۲ مولفه قاضی محمد یوسف صاحب چشم دید حالات صفحہ ، او عاقبته المکذبین صفحه ۴۲ مئولفه قاضی محمد یوسف صاحب ۱۵ چشم دید حالات صفحہ ۱۱۰ الفضل ۱۷/ اگست ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲ ۱۷ شہید مرحوم کے چشم دید حالات صفحہ ۱۳ تذكرة الشهاد تین صفحه ۴۷ تا ۵۸ ( طبع دوم) تذکرة الشاور مزید کےلئے دید تذکرة الشهاد تین صفحہ ۷۲ ( طبع دوم) مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "شہید مرحوم کے چشم دید واقعات ".۲۰ الفضل ۱۹ تبوک / ۱۳۴۷ هش ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ ۲۱ اخبار " وطن " ۲۸/ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲ ۲۲.جس جگہ آپ کی شہادت ہوئی اسے ہند و سوزاں " کہا جاتا ہے ۲۳ شهید مرحوم کے چشم دید واقعات " صفحہ ۲

Page 361

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۴۴ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت -۲۴ شهید مرحوم کے چشم دید واقعات "صفحہ ۲۰-۲۶ " عاقبته المذبین صفحه ۵۷-۵۸ ۲۵ بروایت سعرت قاضی محمد یوسف صاحب ٢٦ سيرة المهدی حصہ دوم صفحه ۵۴ شهید مرحوم کے چشم دید واقعات صفحه ۲۵ الفضل ۲۲ مئی ۱۹۸۹ء صفحه ۴-۵ مقاله دوست محمد شاہد الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۹۰ء (مکتوب مولانا بشیر احمد خاں صاحب رفیق - انگلستان) ۲۷ حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۲۰۲ -۲۸ حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی چار بیویاں تھیں (الفضل ۲۶/ ماچ ۱۹۳۷ء صفحه ۴ کالم نمبر ۳ ۲۹ الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۹ ء صفحہ.۲ حضرت شاہجہان بی بی صاحبہ کا کیم نومبر ۱۹۲۹ء کو انتقال ہوا.مرحومہ صوم و صلوۃ کی پابند تھیں.انہوں نے ورثہ کے ۱/۳حصہ کی وصیت بھی کی تھی.۳۰.ان دردانگیز حالات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو صاحبزادہ ابو الحسن صاحب کا بیان (مطبوعہ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۲۶ء صفحه ۲) این درد کے لئے ابو الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۲۶ صفحه ۳-۴ ۳۲- "Under the Abaaulute Amir"(از فرینک اے مارٹن مطبوعہ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۰۲) ۳۳.مسٹرا مکس ہملٹن نے لکھا ہے:.۱۹۰۳ء میں افغانستان کے شہر کاہل اور شمالی و مشرقی صوبہ جات میں زور شور سے ہیضہ پھوٹ پڑا جو اپنی شدت کے سبب سے ۱۸۷۹ء کے وبائی ہیضہ سے بد تر تھا.سردار نصر اللہ خان کی بیوی اور ایک بیٹا اور خاندان شاہی کے کئی افراد اور ہزار ہا کابلی باشندے اس وباء کا شکار ہوئے اور شہر میں افرا تفری پڑگئی اور ہر شخص کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے." کتاب "افغانستان " بحوالہ عاقبتہ المکذبین صفح۵۷) اس خوفناک ہیضہ کا ذکر مسٹرا مگس ہملٹن کے علاوہ مسٹر فرینک اے مارٹن Frank A Martin نے بھی کیا ہے جو کئی سال تک افغانستان کی حکومت میں چیف انجینئر کے عمدہ پر ممتاز رہ چکے ہیں ملاحظہ ہو Under the Aholute Amir - مطبوعہ ۱۹۰۷ء شائع کردہ ہار پر اینڈ برادر زلندن- نیویارک (صفحه ۱۹۹-۲۰۱) زوال غازی صفحه ۳۸۱-۳۸۶ از عزیز بندی مطبوعہ شائی برقی پریس امر تسر طبع اول -۳۵ زوال غازی صفحه ۳۸-۳۸۶ از عزیز هندی -۳۶- حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کے حالات اور ان کے بعد کے ملکی انقلابات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ” عاقبتہ المكذبين " مولفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ہائے پشاور ڈویژن ۳۷.جو حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کے واقعات میں درج ہو چکے ہیں.۳۸- تذكرة الشهاد تین صفحه ۷۴-۲۵ ( طبع دوم) خدا کے عجیب تصرفات ہیں کہ ابھی تیسری صدی چھوڑ پہلی صدی بھی ختم نہیں ہوئی کہ مسلمان علماء اور عوام کا ایک مقبول طبقہ حیات اصبح کے عقیدہ سے سراسر بیزار ہو چکا ہے بلکہ اب تو بعض اور مسلمان اداروں کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ "نزول مسیح کا عقیدہ قرآن کریم سے تو ثابت نہیں.باقی رہیں روایات تو وہ بھی درایت اور موافق قرآن ہونے کا اصول تو ایک طرف) اصول روایت کے معیار پر بھی پوری نہیں اتر تھیں.لیزا جب تک یہ غیر قرآنی عقیدہ موجود ہے آپ قادیانی تحریک کو بمشکل شکست دے سکتے ہیں.قادیانی تحریک یا اسی قسم کی اور تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امت سے اس قسم کے غیر قرآنی عقائد کو ختم کیا جائے " ارسالہ طلوع اسلام لاہور اگست ۱۹۶۰ء صفحہ ۶۸) یہ تو مسلمانوں کی بیزاری کا اظہار ہے.جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے انہوں نے صحیح کے صعود کی آیات الحاقی پا کر انجیل کے متن سے خارج کر دی ہیں.یہی نہیں ۱۹۵۵ء میں بی بی سی ریڈیو اسٹیشن سے اپر ڈین یونیورسٹی کی ایک لیکچرار کی طرف سے تقریر ہوئی کہ حضرت مسیح واقعی ایک انسان گزرے ہیں جو یہودیوں میں وعظ کیا کرتے تھے.لیکن یہ ڈھونگ ہے کہ وہ خدا اور کنواری ماں کے بیٹے ہیں یا وہ وفات کے بعد زندہ آسمان پر اٹھ گئے." اخبار "نوائے وقت " مورخہ ۲۰/ جنوری ۱۹۵۵ء صفحه ۲ کالم نمبر ۳)

Page 362

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۴۵ کامل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت خدا کی شان !! کسے خبر تھی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی پر بھی نصف صدی ہی گزرنے پائے گی کہ لندن کا عالم گیر ریڈیو دنیا بھر میں مسیح کی وفات کا اعلان نشر کرنا شروع کر دے گا.یہ دشمنوں کے قتل کرنے اور جنگ کرنے کا وقت نہیں دعا کرنے کا وقت ہے.(ترجمہ) ۴۱ البدر ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۱۷-۲۹٬۳۱۸ / اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۲-۳۲۳ البدر ۲۹/ اکتوبر د ۸/ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۱) ایضاً حقیقه الوحی صفحه ۲۱۹ نشان نمبر ۲۴ طبع اول ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء ۴۳- ولادت ۷۶-۱۸۷۵ء وفات ۱۳ جولائی ۱۹۳۳ء جنوری فروری ۱۹۰۳ء میں قادیان جاکر حضرت اقدس کے ہاتھ پر بیعت کی.حضور نے بیعت لینے کے بعد فرمایا کہ فکر نہ کریں.آپ کے ہاں اللہ تعالی بہت جلد جماعت پیدا کر دے گا.سو یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت کریام کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی.حاجی صاحب سلسلہ کی خاطر مالی اور جانی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے (الحکم ۱۴/۷ نومبر ۱۹۴۰ء) مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو " اصحاب احمد " جلد دہم صفحہ ۷۵ تا ۱۳۲) -۴۴ بیعت ۳ اکتوبر ۱۹۰۳ء حضرت خلیفہ اول کے عہد مبارک میں قادیان آئے قریباً اہم سال تک آسٹریلیا آنریری طور پر نهایت درجہ اخلاص و محنت سے مبلغ اسلام کے فرائض سر انجام دیتے رہے.جزیرہ نجی میں بھی ان کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچا ۱۸/ اگست ۱۹۴۵ء کو انتقال فرمایا.(الفضل ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۵ کالم نمبر.۲ و رسالہ "اصحاب احمد " جلد دوم نمبر ۳ ۴ صفحه ۲۵ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ) ۴۵- ولادت ۱۹/ اکتوبر ۱۸۸۳ء وفات ۱۸ / جون ۱۹۶۰ء.حضرت خلیفہ المسیح لثانی ایدہ اللہ تعالی کے ہم مکتب تھے بدر کے جائنٹ ایڈیٹر بھی رہے.اردو اور پنجابی زبان میں سلسلہ کی تائید میں نظمیں کہا کرتے تھے.ہجرت کے بعد چنیوٹ میں آباد ہوئے اور یہیں انتقال فرمایا ( تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو ا الحکم ہے.نومبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۳.۱۳ و الحکم ۱۴/۷ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۷-۸) ولادت ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳۶۱۸۸۹ء سے ۱۹۰۸ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیم پائی اور حضرت مسیح موعود کے فیض صحبت سے فیضیاب ہوئے.۱۹۰۸ میں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا مگر 1910ء میں حضرت خلیفہ اول کے ارشاد پر آپ واپس قادیان آگئے اور حضرت خلیفہ اول کی شاگردی اختیار کر کے موطا امام مالک صحیح بخاری اور فوز الکبیر پڑھی.عربی صرف و نحو اور اصول شاشی کا علم حضرت حافظ روشن علی صاحب سے حاصل کیا اور منطق کی تحصیل حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب طلا پوری سے کی.۲۶/ جولائی ۱۹۱۳ء کو آپ اعلیٰ عربی تعلیم کے لئے بلاد عربیہ میں بھجوائے گئے اور آپ نے قاہرہ بیروت اور حلب کی مشہور درسگاہوں میں تکمیل تعلیم کی اور بیت المقدس کے صلاح الدین ایوبیہ کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے.نیز شام میں سلطانیہ کالج کے وائس پر نسل بھی ہے.اس دوران آپ کو انگریزوں نے نظر بند کر دیا ور ۲۶/مئی ۱۹۱۹ء کو رہا ہو کر آپ قادیان پہنچے.۲۷/ جون ۱۹۲۵ء کو آپ مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ تبلیغی مبصرد مبلغ کی حیثیت سے بلاد شام کی طرف روانہ ہوئے جہاں چند ماہ گزارنے کے بعد آپ کو عراق میں بھجوایا گیا جہاں آپ نے امیر فیصل اور ہائی کمشنر سے احمدیت پر پابندی اٹھائے جانے کے بارہ میں ملاقاتیں کیں اور بالاخر اپنے مشن میں کامیاب ہو کر ۱۰ سرمئی ۱۹۲۶ء کو وارد قادیان ہوئے.۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۶ء تک ناظر دعوة تبلیغ رہے.اسی دور میں آپ نے تحریک آزادی کشمیر میں بھی سرگرم حصہ لیا اور کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.بعد ازاں ناظر تعلیم و تربیت کے عہدہ پر فائز ہوئے.تمبر ۱۹۴۶ء سے اپریل ۱۹۴۸ء تک آپ بھارتی حکومت کی قید میں رہے بعد ازاں آپ ناظر دعوت و تبلیغ اور ناظر امور عامہ وغیرہ اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد یکم جون ۱۹۵۴ء کو پنشن یاب ہوئے.(وفات ۱۶- مئی (41971 آپ سلسلہ کے ان ممتاز علماء میں سے ہیں جو عربی زبان کے قادر الکلام ادیب ہیں." اسلامی اصول کی فلاسفی " کا ترجمہ آپ ہی نے کیا ہے جو بلاد عربیہ میں بہت مقبول ہے.اردو اور عربی میں آپ کی متعدد تصانیف ہیں.صحیح بخاری کے انیس جلدوں کی اردو شرح لکھ چکے ہیں جو " ادارۃ المصنفین ربوہ " کی طرف سے شائع کی جارہی ہے.اب تک بارہ اجزاء شائع ہو چکے ہیں ۴۷.من ولادت ۹۰ - ۱۸۸۹ء.مارچ ۱۹۰۳ ء میں پہلی مرتبہ قادیان گئے.حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین خلیفتہ البیع الاول کے خاص شاگردوں میں سے ہیں.آپ ایک لمبے عرصہ تک مدرسہ احمدیہ میں مدرس رہے اور سلسلہ کی تعلیمی خدمات بجالاتے

Page 363

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۴۶ کابل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب کی درد ناک شہادت رہے.آپ نے چوہدری غلام محمد صاحب بی.اے سیالکوٹی کے ساتھ مل کر مشہور عربی لغت "المنجد " کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے جو تسهیل العربیہ " کے نام سے چھپا ہو ا موجود ہے.(وفات ۱۳- جون کے ۱۹۲ء) حکیم محمد چراغ الدین صاحب منشی عبد الحق صاحب خوشنویس کے والد اور مکرم ابو المنیر مولوی نور الحق صاحب کے دادا تھے.نشی عبد الحق صاحب کو خدا تعالٰی نے ۱۸۹۷ء میں بیعت کی توفیق دی.حضرت حکیم صاحب متعدد بار قاریان گئے.لیکن بیعت کے لئے انشراع نہ ہوا.آخر جب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم کرم الدین کے مقدمہ کے سلسلہ میں تشریف لے گئے تو وہاں حکیم صاحب نے پہنچ کر بیعت کی.حضرت حکیم صاحب پابند صوم صلوۃ.قرآن مجید کے عاشق تھے اور خدمت خلق ان کے دل کی تسکین تھی.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے متعدد خطبات میں ان کی حضور ایدہ اللہ سے قادیان میں پہلی ملاقات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے.ہمارے مولوی نور الحق صاحب کے دادا بھی ایسے لوگوں میں سے تھے یعنی لمبی عمر پانے والے.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی جن دنوں فالج کے حملہ سے بیمار تھے اسی سال خدام الاحمدیہ کا دفتر ین رہا تھا.میں وہ دفتر دیکھنے جارہا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بڑا تیز تیز چل کر میری طرف آرہا ہے.وہ مجھے ملا اور اس نے مجھ سے مصافحہ کیا میں نے دریافت کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور کہا میں گجرات سے آیا ہوں.پھر انہوں نے پنجابی زبان میں کہا.میر ا غلام رسول و زیر آبادی کہلاند ائے میں اس واحال پوچھنے آیا ہوں.یعنی غلام رسول وزیر آبادی جو کہلاتے ہیں ان کا حال دریافت کرنے آیا ہوں.حافظ غلام رسول صاحب ہماری جماعت میں بہت بڑے محترم سمجھے جاتے تھے مگر انہوں نے اس بے تکلفی سے ان کا نام لیا تو میں نے پوچھا کہ حافظ صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے.انہوں نے بتایا کہ وہ میرے بھتیجے ہیں.میں نے کہا معلوم ہوتا ہے آپ کے والد نے آخری عمر میں دوسری شادی کی تھی جس سے آپ پیدا ہوئے اس لئے آپ کی عمران سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ جنوں غلام رسول دی او دا ویاہ ہو یاس میں اٹھارہ سال دا ساں.بعد میں وہ ۳- ایا ہے - اسال کی عمر میں فوت ہوئے اور وہ اس عمر میں خوب چل پھر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں ہیں ہیں پچیس پچیس میل پیدل چلا جاتا ہوں." ( الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۵۶ء) آپ کی وفات ۷ / اکتوبر ۱۹۴۲ء کو ہوئی.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرقی جانب واقعہ احاطہ قبور میں دفن کئے گئے.انہوں نے ارجون ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اپنی ارادت و عقیدت کا ایک خط بھی لکھا تھا جس کا عکس ” خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور حضرت مصلح الموعود کی تالیف مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ" کے صفحہ ۳۶ پر بھی چھپ چکا ہے اور تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحه ۳۹۶ پر بھی ولادت ۱۳۵۵ در ۴۰-۱۸۳۹ء).میر احمد خان دو تم بادشاہ اور نگ زیب کے ہمعصر اور قلات میں پرا ہوئی سلطنت - ت کے بانی تھے.میر خدا داد خان صاحب اسی مرد جری کی نسل میں سے تھے.آپ کے والد کا نام میر محراب ، خال دوم تھا آپ غدر ۱۸۵۷۰ء کے دوران تخت نشین ہوئے اور سترہ سال تک خطرات میں محصور رہے اور قبائلی سرداروں کی لگا تار بغاوتوں کو فرو کرتے رہے.آپ کی شاہی انگشتری میں خدادادگان را خدادارہ " اور " دین و دنیا مرا خدادا دست" کے الفاظ نقش تھے آپ واحد خان تھے جنہوں نے ریاست میں با قاعدہ فوج اور مرکزی خزانہ کی ضرورت محسوس کی.زمانہ حال کے بعض مورخین کے نزدیک " ہمت، استقلال ، خلوص، فراست رقابت اور بربریت آپ کی سیاسی کشتی کے چوتھے.آپ نماز اور دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی بہت التزام و اہتمام سے کرتے تھے اور عالمانہ مذاق رکھتے تھے.آپ ۳۷ سال تک حکمران رہے.اور بلوچستان کے انگریز ایجنٹ گورنر جنرل کی سازش سے مارچ ۱۸۹۲ ء میں معزول کر دئیے گئے اور تا جشاہی اگلے سال ۱۰مر نومبر ۱۸۹۳ء کو ان کے بیٹے محمود خان کو پہنا دیا گیا.آپ نے ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء کو پشین میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اسی جگہ سپر د خاک کئے گئے.آپ ایک عام مشتی گنبد کے نیچے ایک سادہی قبر میں مدفون دمکنون ہیں.ماخذ.۱.تاریخ بلوچستان صفحه ۱۳۰ / ۱۳۱ مصنفہ رائے بہادر ہو ر ام طبع اول ۱۹۰۷ طبع دوم ۱۹۸۵ء تاشر سنگ میل پبلی کیشنز اردو بازار لا ہور..بلوچ قوم کی تاریخ حصہ اول صفحہ ۱۷۴ ۲۵۷۲ مصنف محمد سردار خاں بلوچ.ترجمہ پروفیسر ایم انور روماں ڈائر یکٹر بیورو آف کریکولم بلوچستان ناشر نساء، ٹریڈرز جناح کلاتھ مارکیٹ کو سٹے طبع اول فروری ۱۹۸۰ء مؤخر الذکر کتاب کا انگریزی ایڈیشن ۱۹۵۸ء میں درج ذیل نام سے شائع ہوا."History of Baluchrace and Baluchistan"

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۴۷ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی ماموریت کا تیسواں سال ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت" کے متعلق پیشگوئی (۱۹۰۴ء) ۱۸۹۴ء کی چین اور جاپان کے درمیان جنگ کے بعد روس جرمنی اور فرانس کی مداخلت نے جاپان کو کو ریا پر قبضہ جمانے سے محروم کر دیا تھا.روس مانچوریا اور جزیرہ لیاؤ ٹونگ پر قبضہ جمالینے کے بعد کو ریا میں بھی نفوذ حاصل کرنے کا متمنی تھا.جاپان کو ریا کے بدلے مانچوریا پر روس کا حق ماننے کو تیار تھا.مگر روس نے یہ بات نہ مانی اس لئے جاپان کے شہنشاہ میکاڈو نے ۶ / فروری ۱۹۰۴ء کو روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا.ابھی یہ لڑائی شروع ہی ہوئی تھی اور ابھی جاپان نے کوئی میدان نہیں مارا تھا کہ حضرت اقدس کو الہام ہو ا " ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت." اس الہام میں یہ واضح خبر دی گئی تھی کہ ا.دوسری طاقتوں کے مقابل ایک خاصی زبر دست طاقت مشرق میں ظاہر ہوگی.کو ریا کی حالت نازک ہو جائے گی.چنانچہ اس الہام کے بعد اس جنگ میں روس کو پے درپے شکستیں ہو ئیں اور جاپان کا کوریا پر مکمل قبضہ ہو گیا اور جاپان دنیا میں " مشرقی طاقت " شمار ہونے لگا.ایک پاکستانی وقائع نگار لکھتا ہے " اس جنگ میں جاپان نے ثابت کر دیا کہ عسکری تنظیم ، جنگی صلاحیت، فوجوں کی قیادت اور جنگی چالوں میں جاپان کی تیاری یورپ کے ملکوں کی تیاریوں سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں.روس کو بالآخر ہار مانی پڑی اور امریکہ کی مداخلت سے روس اور جاپان کے درمیان پورٹس ماؤتھ کا معاہدہ طے ہوا جس کی رو سے روس نے لیا ؤ ٹونگ کا علاقہ جاپان کو دے دیا.کو ریا پر جاپان کی سیادت کا مکمل حق تسلیم کرلیا.پورٹس

Page 365

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ماؤتھ کا معاہدہ ۵ / ستمبر ۱۹۰۵ ء کو طے ہوا".F ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق بیٹھوئی حضرت اقدس کی اس پیشگوئی کا دوسری مرتبہ ظہور ۱۹۵۰ء میں بھی ہوا جب کہ جاپان مشرقی طاقت کی حیثیت سے ختم ہو گیا اور اشتراکیت کا علمبردار روس جو کبھی مغربی طاقت قرار دیا جاتا تھا ایک زبر دست مشرقی طاقت بن کر دنیا کے سامنے ظاہر ہوا اور شمالی کو ریا کی اشترا کی ریاست نے جنوبی کوریا پر حملہ کر کے کوریا کی حالت کو اتنا نازک کر دیا کہ تیسری عالمگیر جنگ کے چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا.چنانچہ وہی و قائع نگار کو ریا کی اس حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "شمالی کوریا کی اشتراکی ریاست نے جنوبی کوریا کی جمہوری ریاست پر حملہ کر دیا اور اس سرعت رفتاری کے ساتھ پیش قدمی کی کہ جنوبی کوریا کی ہستی کا خاتمہ یقینی نظر آنے لگا...امریکہ کی سرکردگی میں اقوام متحدہ کے اینگلو امریکی بلاک کی فوجیں شمالی کوریا کے اشتراکیوں کے خلاف لڑنے لگیں جن کی امداد کے لئے اشتراکی چین کے رضا کار بھی پہنچ گئے یہ جنگ اقوام عالم کی تیسری بڑی جنگ کا پیش خیمہ بنتی نظر آ رہی تھی." صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مئی ۱۹۰۴ء میں الہام ہوا " دخت کرام " چنانچہ اس الہی بشارت کے مطابق ۲۵ جون ۱۹۰۴ء کو صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پیدا ہو ئیں.کتاب " حقیقته الوحی صفحہ ۲۱۸ میں حضور نے ان کو اپنی صداقت کا چالیسواں نشان قرار دیا ہے.حضرت سیدہ موصوفہ کا نکاح حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے جو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی پہلی بیگم سے دوسرے صاحبزادے تھے ۷ / جون ۱۹۱۵ء کو مسجد اقصیٰ میں پندرہ ہزار روپے سر پر ہوا.حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق خطبہ نکاح حضرت مولوی غلام رسول صاحب "راجیکی نے پڑھا جو اس تقریب سعید پر لاہور سے مدعو کئے گئے تھے اور ۲۲/ فروری ۱۹۱۷ء کو آپ کی شادی کی مبارک تقریب عمل میں آئی.حضرت سیدہ کی اولاد حضرت سیدہ موصوفہ کے بطن سے تین فرزند اور چھ صاحبزادیاں پیدا ہو ئیں جن کے نام یہ ہیں.صاجزادی طیبہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۸ / مارچ ۱۹۱۹ء) خان عباس احمد خان صاحب (ولادت ۲/ جون ۱۹۲۰ء) صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳/ جون ۱۹۲۱ء) صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء) صاجزادی قدسیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۰ / جون ۱۹۲۷) صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳۱ / اکتوبر ۱۹۳۴ء) صاحبزادہ شاہد احمد خاں صاحب (ولادت ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۵ء) صاحبزادی

Page 366

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۴۹ " ایک مشرقی طاقت اور کو ریا کی نازک حالت " کے متعلق پیچھوئی فوزیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۲ نومبر ۱۹۴۱ء) میاں مصطفی احمد خاں صاحب (ولادت ۱۰/ جولائی ۱۹۴۳ء) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر لاہور اور لیکچر اس ملک کے موجودہ مذاہب اور اسلام " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب گزشتہ سال جنوری ۱۹۰۳ء میں سفر جہلم سے واپس تشریف لا رہے تھے تو حضور نے ایک روز لاہور میں قیام فرمایا.رات کے وقت جب کہ بہت سے حاضرین زیارت کے لئے جمع تھے.حضرت اقدس نے ایک نہایت ہی مئوثر تقریر کے دوران میں خود ہی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ کسی وقت لاہور میں چند روز ٹھہر کر اتمام حجت کے لئے تمام مخالفین اسلام کو بذریعہ ایک اعلان کے مدعو کر کے تبلیغ کی جاوے اور نیز جو جو بد گمانیاں ہماری نسبت ہمارے کم فہم مخالفوں نے عوام الناس کے دلوں میں بٹھا رکھی ہیں ان کے دور کرنے کے لئے کوشش کی جائے تاکہ یہ لوگ غلطی میں رہ کر جاہلانہ موت نہ مریں.ای ارادہ کی تکمیل کے لئے حضور نے پہلے آخر مارچ ۱۹۰۴ء میں لاہور جانے کا فیصلہ کیا مگر اسے شدید مصروفیات کے باعث ملتوی کرنا پڑا.پھر حضور نے ۲۰ / اگست ۱۹۰۴ء کو (جبکہ مقدمات گورداسپور زوروں پر تھے) سفر لاہور اختیار فرمایا.حضور بذریعہ ٹرین گورداسپور سے مع اہل بیت روانہ ہوئے بٹالہ اور امرتسر میں بعض اصحاب نے معیت اختیار کی.امرتسر اسٹیشن پر احمدی دوست اور دوسرے معززین کثیر تعداد میں زیارت و ملاقات سے مشرف ہونے کے لئے حاضر تھے.گاڑی دو بجے کے قریب لاہور پہنچی پلیٹ فارم پر حضور کی زیارت کے لئے کثرت سے لوگ موجود تھے اور مل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی.سب سے اول حضور کے اہل بیت کو گاڑیوں میں سوار کر کے حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت کے زیر اہتمام قیام گاہ تک پہنچایا گیا.بعد ازاں حضرت مسیح موعود ا در آپ کے دیگر مقتدر اصحاب گاڑیوں میں سوار ہوئے.حضور کی گاڑی بہت آہستہ آہستہ چلتی تھی تاان لوگوں کو جو حسن عقیدت کی وجہ سے پا پیادہ ہمراہ آرہے تھے تکلیف نہ ہو.حضور کے قیام کے لئے اس دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر احمدی رئیس کا مکان واقع بیرون دہلی گیٹ تجویز ہوا.باقی مہمانوں کے لئے میاں چراغ الدین صاحب رئیس کی ” مبارک منزل “ آراستہ کی گئی جہاں حضور نے سفر جہلم کے دوران قیام فرمایا تھا.

Page 367

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۳۵۰ " ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پچھوئی حضور کے یہاں پہنچنے کے تیسرے دن بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب (معہ اہل بیت) حضور کے ارشاد کے تحت لاہور تشریف لے گئے اور اس سے اگلے دن نواب محمد علی خان صاب بھی ایک جماعت کے ساتھ لاہور پہنچ گئے.چند دنوں میں زائرین کافی تعداد میں پہنچ گئے.لاہور میں حضور نے اتمام حجت کی غرض سے چار عظیم الشان لیکچر دئے.پہلا لیکچر ۲۱ / اگست ۱۹۰۴ء کو دیا.حضور ظہر کے وقت تشریف لائے اور نماز با جماعت ادا پہلا لیکچر پرانے کے بعد احباب کی درخواست پر ایک کرسی پر رونق افروز ہوئے.اس کے بعد آپ نے اصلاح نفس ، مذہب کی غرض ، وحدت جمہوری اور اپنے دعوئی مسیحیت و مهدویت پر نہایت ہی بصیرت افروز روشنی ڈالی.اس موقعہ پر وزیر آباد کے ایک متعصب مولوی صاحب نے بینجامد اخلت کی اور بیجا کلام کر کے مباحثہ کی طرح ڈالنے کی کوشش کی مگر حضور اول تو اسے نہایت حلیمی سے سمجھاتے رہے لیکن جب معلوم ہوا کہ اس کی غرض رفع شکوک و شبہات نہیں صرف مناظرے کا اکھاڑہ قائم کرنا ہے تو فرمایا کہ مباحثہ کا دروازہ تو ہم بند کر چکے ہیں اب اس میں پڑنا پسند نہیں کرتے.اس سلسلہ میں حضور نے مولوی صاحب مذکور کے بعض اعتراضات کا مفصل جواب دیا اور جماعت کو تقوی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی.دوسرا لیکچر حضور نے ۲۸/ اگست ۱۹۰۴ء کو صبح بوقت سات بجے دیا.ڈیڑھ ہزار سے دوسرا لیکچر زیادہ افراد حضور کے اس خطاب سے مستفید ہوئے.اس لیکچر میں حضور نے نہایت لطیف انداز میں حاضرین کو توبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے دعوئی کے زبر دست دلائل پیش فرمائے.پیسہ اخبار " لاہور نے (۳۰/ اگست ۱۹۰۴ء کو) اس لیکچر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا.اس تقریر کے وقت کوئی ڈیڑھ ہزار سے زائد آدمی موجود تھا.پولیس کا انتظام قابل تعریف تھا.آخر مرزا صاحب کے مریدوں اور دوسرے لوگوں نے مصافحہ شروع کیا.قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ لوگ مصافحہ کرتے رہے بعض لوگ ان ملاقاتیوں سے کسی قدر سختی سے پیش آنے لگے تو مرزا صاحب نے فرمایا.دیکھو مجھے خدا تعالیٰ نے ایسے وقت میں جب کہ کوئی آدمی میرے ساتھ نہ تھا اس زمانہ کی خبردی تھی کہ کثرت سے لوگ تیرے پاس آئیں گے تو ان سے تھکیو مت اور ان سے بد اخلاقی سے مت پیش آنا.پس میں اجازت نہیں دیتا کہ ایسا کیا جائے.جو آگے آنا چاہتے ہوں آنے دو کسی کو جھڑ کو مت اور رو کو نہیں.یہ معصیت ہو گی.پھر آپ مریدوں کے ایک لمبے حلقہ میں تشریف لے گئے.....مرزا صاحب کے مریدین اس وقت لاہور میں پانچ چھ سو کے قریب جمع ہیں اور لاہور کی جماعت احمدیہ ان

Page 368

تاریخ احمدیت جلد ۲ ہے.۳۵۱ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پینگوئی مہمانوں کی مہمانداری کر رہی ہے یہ اخوت، ہمدردی اور جوش ایثار سنجیدہ پبلک کی توجہ کے قابل ** تیسر الیکچر ۲ ستمبر کو جمعہ تھا.خطبہ جمعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے پڑھا.نماز جمعہ کے بعد حضرت اقدس زائرین اور مشتاقان زیارت کے اصرار و خواہش پر.اجلاس فرما ہوئے.حاضرین میں سے ہر ایک دوسرے سے پہلے آگے بڑھنا چاہتا تھا.ان کے بڑھے ہوئے جوش زیارت اور شوق ارادت میں انتظام کا ہونا کوئی آسان امر نہ تھا.دھکے پر دھکا کھاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے.آخر جب حضور کا حکم سنا کہ بیٹھ جاؤ تو جہاں کوئی کھڑا تھا وہیں بیٹھ گیا.حضور خاموش بیٹھے تھے کہ آپ کے ایک ارادت مند نے نہایت پر درد اور پر جوش لہجہ میں پنجابی کی ایک نظم پڑھی جس میں حضور کی لاہور میں آمد کا نہایت موثر پیرایہ میں ذکر تھا.نظم ختم ہونے کے بعد حضور نے ایک پر معارف اور زوردار تقریر فرمائی جس میں تبلیغ و تربیت کا حق ادا کر دیا.جب آپ اس مقام پر پہنچے کہ " قرآن شریف میں مسیح کی وفات کا ذکر موجود ہے مگر یہ حضرات ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدہ پر مخالف قرآن شریف آڑے آتے ہیں." تو حضور کی آواز اور تقریر میں ایک خاص جلال اور شوکت پیدا ہوئی جس سے آنحضرت ﷺ کی محبت و عظمت جو آپ کے دل میں تھی زبان سے اہل اہل کر سامنے آرہی تھی.چوتھا عظیم ۱۵ الشان پبلک لیکچر حضور کا چو تھا عظیم الشان لیکچر /ستمبر کو وقت ساڑھے سات بجے اس ملک کے موجودہ مذاہب اور اسلام" کے موضوع پر ہوا.یہ لیکچر دربار دا تا گنج بخش کے عقب کے منڈوہ میلا رام میں ہوا.اس لیکچر کے لئے احباب لاہور نے پہلے سے اشتہار دیا تھا اور اس کا بہت چرچا تھا.علماء نے بھی اس دن عوام کو حضور کی تقریر سننے سے روکنے کی ہر ممکن صورت اختیار کی.بیرون دہلی دروازہ سے لے کر شاہ محمد غوث اور داتا گنج بخش تک راستہ میں مختلف جگہ پر جلسے ہو رہے تھے.غیر احمدی ٹولیاں بنا کر کھڑے تھے اور چھاتیاں پیٹتے تھے اور کہتے تھے ” ہائے ہائے مرزا مگر خدا کا فضل ایسا ہوا کہ جب حضرت اقدس فٹن پر سوار ہو کر جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو رستہ میں جو لوگ مولویوں کی زہریلی تقریریں سن رہے تھے ان میں سے ایک کثیر تعداد حضور کے پیچھے ہولی اور جلسہ گاہ کی رونق میں اضافہ کا موجب بنی.باوجو د مولویوں کی مخالفانہ کوشش کے منڈوہ میں حضرت کا لیکچر سننے کے لئے بارہ ہزار سے زائد مجمع ہو گیا.حضرت اقدس نے جلسہ اعظم مذاہب کی طرح مجمع کے سامنے لیکچر بنانے کی خدمت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہی کے سپرد فرمائی.چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے مخصوص انداز

Page 369

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۵۲ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی میں یہ مضمون پڑھنا شروع کیا جو اپنے دلائل و حقائق کے لحاظ سے خود ہی بڑی جذب و کشش رکھتا تھا.مضمون کے پہلے حصے میں حضور نے اسلام اور دیگر مذاہب کا اس خوبی سے موازنہ فرمایا کہ زبانیں عش عش کر اٹھیں اور لفظ لفظ سے حق و صداقت کے چشمے پھوٹ پڑے.دوسرے حصہ میں حضور نے اپنے دعوئی مسیحیت و مهدویت کے ثبوت میں واضح اور صاف دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت اسلامی تفرقہ کے دور کرنے کے لئے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لئے اور دنیا میں گمشدہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے بلاشبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑوں کو پانی دیوے اور اس طرح بدی اور گناہ سے چھوڑا کر نیکی کی طرف رجوع دیوے.سو عین ضرورت کے وقت میں میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ میں ظاہر نہیں کر سکتا کہ بجز سخت متعصب کے کوئی اس سے انکار کر سکے.اس لیکچر کا اختتام اس دعوئی پر ہوا کہ میری پیشگوئیوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی صبر اور صدق سے سننے والا ہو تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ پیشگوئیاں اور نشان میری تائید میں ظاہر کئے گئے ہیں...میں امید رکھتا ہوں اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص چالیس روز بھی میرے پاس رہے تو کوئی نشان دیکھ لے گا یہ لیکچر تین گھنٹہ میں ختم ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب جب لیکچر پڑھتے تھے تو لوگوں پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا تھا.اور جب دوران لیکچر میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو لوگ لحن داؤدی سے جھوم جاتے اور مجمع پر ایک سناٹا سا چھا جاتا.لیکچر بخیر و خوبی ختم ہوا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور خود بھی کچھ ارشاد فرمائیں.حضور نے فرمایا مجھے زکام کی تکلیف ہے.خواجہ صاحب نے دوبارہ سہ بارہ درخواست کی کہ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ہم لوگ کرتے ہیں وگر نہ آپ خود نہ کچھ بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں.چنانچہ حضور تقریر کے لئے اٹھے تو لوگوں نے جو اتنا عرصہ خاموش تھے چیئر ز کے طور پر تالیاں بجانا شروع کر دیں اور ایک شور مچ گیا.سپر نٹنڈنٹ پولیس اور بہت سے سپاہی جو انتظام کے لئے آئے ہوئے تھے لوگوں کو خاموش کراتے رہے مگر غوغا کسی طرح کم نہ ہوا.حضور تو کھڑے ہی رہے مگر مولوی عبد الکریم صاحب نے بیٹھے بیٹھے تلاوت شروع کر دی اور سورہ الفرقان کا آخری رکوع پڑھنے لگے.ابھی پہلی ہی آیت پڑھی کہ جلسہ میں بالکل خاموشی ہو گئی اور پہلا سا سماں بندھ گیا.رکوع ختم ہوا تو حضرت اقدس نے سامعین سے ایک مختصر مگر وجد انگیز خطاب فرمایا جس میں ان کا صبر و سکون سے تقریر سننے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس طرف توجہ دلائی کہ مذہب تو اس لئے ہوتا ہے کہ اخلاق

Page 370

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۵۳ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق دیکھوئی وسیع کرے جیسے خدا کے اخلاق وسیع ہیں.پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہو سکتا.کوئی ہزاروں اسے گالیاں دے وہ اس پر پتھر نہیں برسادیتا.آخر میں حضور نے یہ قیمتی نصیحت فرمائی دل کو روشن کرو پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے زبان کھولو.اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نرمی زبان نہ ہو گی بلکہ دل پر دارومدار ہو گا.پس اپنے تعلقات خدا تعالٰی سے زیادہ کرو.یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے اور یہی میری نصیحت ہے " سٹیج پر جہاں حضور نے کھڑے ہو کر تقریر شروع فرمائی تھی.اس بات سے خوش ہو کر لوگوں نے میری بات سن لی ہے.آپ خوشی میں تقریر کرتے کرتے کوئی پانچ چھ قدم آگے بڑھ آئے تھے.اس موقعہ پر ایک نہایت عجیب واقعہ یہ ہوا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل (جو غیر احمدی تھے اور اس جلسہ میں موجود تھے ) کہتے ہیں کہ میں نے دوران تقریر میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا.اس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے کہا دیکھو وہ کیا چیز ہے.وہ دیکھتے ہی پکار اٹھے کہ یہ نور ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے.اس نظارہ کا شیخ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت اقدس کی بیعت کر لی.حضرت اقدس" کا تحریری لیکچر پہلے ہی ایک رسالہ کی شکل میں میاں معراج الدین صاحب عمر سیکرٹری انجمن فرقانیه و حکیم شیخ نور محمد صاحب مالک ہمدم صحت لاہور نے رفاہ عالم سٹیم پریس لاہور سے شائع کر دیا تھا.اور زبانی تقریر انہی دنوں الحکم میں چھپ گئی تھی.میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل کا چشم دید بیان ہے کہ جلسہ سے واپسی پر راستہ میں میں نے دیکھا کہ مولوی غلام اللہ قصوری صاحب (متوفی ۱۹۲۲ء) جو کہ سفید ریش تھے ایک جگہ وعظ کر رہے تھے.انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ مرزا صاحب کے پاس گیا.وہ چونکہ حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان کو جاتے ہی کہا کہ اگر آپ اس حجرے سمیت آسمان پر چلے جائیں پھر بھی میں آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا.بہر حال مخالفت کی اس شدت کے باوجود حضور کا یہ چوتھا لیکچر نہایت کامیاب ہوا اور آپ ہزاروں سعید روحوں تک پیغام حق پہنچانے میں کامیاب ہوئے.انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک سبز پوش فقیر نے اصرار کیا کہ آپ مجھے لکھ دیں کہ جو کچھ آپ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے سب سچ ہے.حضور نے فرمایا ایک ہفتہ بعد آؤ ہم لکھ دیں گے.جب ایک ہفتہ کے بعد وہ آیا تو حضور نے یہ الفاظ لکھ کر اور اپنی مہرلگا کر اسے دئیے.۱۲۵

Page 371

تاریخ احمدیت.جلد ۴ ۳۵۴ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جو جھوٹوں پر لعنت کرتا ہے یہ گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دعوئی کیا ہے یا جو کچھ اپنے دعوئی کی تائید میں لکھا ہے یا جو میں نے الہام الہی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں وہ سب صحیح ہے سچ ہے اور درست ہے.والسلام علی من اتبع الهدی الراقم خاکسار مرزا غلام احمد (مهر) واپسی حضرت اقدس نے لاہور میں ۲۰/ اگست ۱۹۰۴ء سے ۱۳ ستمبر ۱۹۰۴ء تک قیام فرمایا ۵ / ستمبر کو چونکہ مقدمہ کرم الدین کے سلسلہ میں گورداسپور کی عدالت میں پیشی تھی اس لئے حضور ہم / ستمبر کو لاہور سے روانہ ہو کر گورداسپور تشریف لے گئے.بہائی مبلغ حکیم میرزا محمود صاحب زرقانی اور بہائی دنیا پر اتمام حجت بابی و بهائی تحریک ایک ایرانی سید علی محمد باب (۶۱۸۱۹ تا ۱۸۵۰ء) نے جو شیعوں کے فرقہ شیخیہ کا ایک فرد تھا.۲۳ / مئی ۱۸۴۴ء کو دعوی کیا کہ میں امام مہدی کا باب یعنی دروازہ ہوں.اور تعلیم دینی شروع کی کہ گردنیں اڑا دی جائیں.کتابیں اور اوراق جلا دئیے جائیں.مقامات منہدم کر دئیے جائیں اور ایمان لانے اور تصدیق کرنے والوں کے سوا قتل عام کر دیا جائے.باب کی تعلیم کے نتیجہ میں ملک میں بدامنی اور انتشار پیدا ہو گیا جس پر حکومت ایران نے قیام امن کی خاطر اس پر بعض پابندیاں عائد کر دیں.باب نے ۱۳/ ستمبر ۱۸۴۷ء کو مسجد میں علماء کے مطالبہ کے مطابق اپنے دعویٰ سے تو بہ کا اعلان کیا.اور علماء کی دست بوسی کی نیز ناصرالدین شاہ ایران کو تحریری تو به نامه ارسال کیا مگر خود باب کے معقدوں نے حکومت کے خلاف شدت سے ٹکر لینا شروع کر دی.حکومت نے بالا خرباب کو ماکو میں نظر بند کر دیا.بابی یہ صورت حال دیکھ کر صحرائے بدشت میں جمع ہوئے اور انہوں نے ایک تو ماکو میں پہنچ کر باب کو بزور رہا کرنے کا فیصلہ کیا دوسرے تجویز کی کہ اسلامی شریعت کی تنسیخ کا اعلان کر دیا جائے.چنانچہ کتاب "اقتدار" میں لکھا ہے کہ "اگر اعتراض و اعراض اہل فرقان نبود هر آئینہ شریعت فرقان در این ظهور رخ نمے شود." یعنی اگر اہل اسلام باب سے اعتراض و اعراض نہ کرتے تو اسلامی شریعت ہرگز منسوخ نہ کی جاتی.قرآن مجید کی تنسیخ کے اعلان کے بعد سید علی محمد باب نے قلعہ ماکو میں ایک نئی شریعت لکھنی شروع کر دی.اس کا ارادہ تھا کہ وہ اپنی شریعت کو انیس حصوں پر تقسیم کرے گا اور ہر حصے میں انیس باب لکھے گا.مگر بھی اس نے صرف آٹھ حصے ہی مکمل کئے تھے کہ حکومت ایران نے ۹/ جولائی

Page 372

تاریخ احمد ۳۵۵ " ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی ۱۸۵۰ء کو علماء کے فتوئی اور سیاسی حالات کے تحت باب کو تبریز کے میدان میں گولی سے اڑا دیا.سید علی محمد باب کی ناکام موت کے کافی عرصہ بعد اس کے پیروؤں میں سے ایک شخص میرزا حسین علی (المعروف بہاء اللہ ۱۸۱۷ - ۱۸۹۲) نے ایک نئی شریعت اختراع کی جو کتاب اقدس میں درج ہے.اقدس کی اشاعت نہ بہاء اللہ کے وقت میں ہوئی اور نہ اس کے بعد آج تک بہائیوں نے اپنی ذمہ داری پر اسے شائع کیا ہے بلکہ بہاء اللہ کے بیٹے عبد البہاء نے اقدس " کی اشاعت کی ممانعت کرتے ہوئے یہ ہدایت بھی دی کہ "کتاب اقدس اگر طبع شود - نشر خواهد شد در دست اراذل متعصین خواهد افتاد و لهذا جائز نہ یعنی کتاب اترس اگر چھپ گئی تو پھیل جائے گی اور کمینے متعصب لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اس لئے اس کا چھوانا جائز نہیں.بابی اور بہائی تحریک کے میرزا محمود زرقانی کی خلاف عقل و فہم دعوت مباحثہ مختصر تعارف کے بعد اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن دنوں لاہور تشریف لائے لاہور میں ایک بہائی مبلغ میرزا محمود صاحب زرقانی بھی آئے ہوئے تھے.یہ صاحب ایک ہفتہ تک بالکل خاموش رہے مگر جب (گورداسپور کی عدالتی کارروائی میں شامل ہونے کے لئے) حضور کی روانگی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے بہاء اللہ کو مدعی مسیحیت کے طور پیش کر کے حضور کو دعوت مباحثہ دے دی.ضمناً یہ بتا نامناسب ہو گا کہ مباحثہ کی یہ دعوت سراسر خلاف عقل و فہم تھی.بہاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل میدان مسیحیت میں پیش ہی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ (1) وہ ایک ایسے شخص کے مہدی ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا جس کا جھوٹا اور مفتری ہونا واقعات نے ثابت کر دکھایا (۲) وہ مسیح الاسلام نہیں تھا بلکہ ناسخ الاسلام تھا.حالانکہ خود بہائیوں نے یہ حدیث پیش کی ہے کہ یقیمُ الدِّين و يُنفِعُ الروحَ فِي الْإِسْلَامُ يعز اللهُ بِهِ الْإِسْلَامَ بَعْدَ ذِلَّةٍ وَ يُحْيِيْهِ بَعْدَ مَوْتِهِ " یعنی مهدی بَ دین کو قائم کرے گا اور اسلام میں نئی روح پھونکے گا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے اسلام کو ذلت کے بعد عزت اور موت کے بعد زندگی عطا کرے گا.(۳) بہاء اللہ نہ صرف یہ کہ لفظی الہام کا قائل نہ تھا جس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام قائل تھے بلکہ وہ اپنے کلام کو ہی خدا کا کلام قرار دیتا تھا.گویا وہ خود ہی مدعی الوہیت تھا.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی طرح اس کی کتاب الاقدس " وغیرہ کی بھی کبھی عام اشاعت نہیں ہوئی نہ اس کی اشاعت کی اجازت دی گئی.(۵) یہ فتنہ بدشت سے شروع ہوا جو علاقہ خراسان میں واقع ہے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا." الدَّجَالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضِ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَان." یعنی دجال مشرق کی سرزمین RO

Page 373

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۵۶ " ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت" کے متعلق پیوئی سے جسے خراسان کہا جاتا ہے خروج کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آسان طریق فیصلہ اس ضمنی بحث کے بعد اب ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں.اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حکیم مرزا محمود صاحب زرقانی مبلغ بہائیت نے ایسے وقت میں جب کہ حضور لاہور سے واپس جانے والے تھے مباحثہ کی دعوت دی.اس دعوت کا علم حضور کو ۲/ ستمبر کو ہوا.اگلے دن ۳/ ستمبر کو حضور کا پبلک لیکچر پہلے ہی مقرر تھا اور ۱۴ ستمبر کو گورداسپور کی عدالت میں آپ کی پیشی تھی.ان حالات میں زرقانی صاحب کی دعوت مباحثہ تحقیق حق کی غرض سے نہیں ہو سکتی تھی تاہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حق و باطل میں امتیاز کے لئے یہ آسان طریق ان کے سامنے رکھا کہ کل ۳/ ستمبر کو جو جلسہ میں میرا مضمون پڑھا جائے گاوہ مضمون ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار بتمام و کمال شائع کر دیں.حکیم صاحب ( مراد زرقانی صاحب.ناقل) موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مضمون کے مقابلہ میں اسی اخبار میں اپنا مضمون شائع کرا دیں اور پھر خود پالک ان دونوں مضمونوں کو پڑھ کر فیصلہ کرلے گی کہ کس شخص کا مضمون راستی پر اور سچائی اور دلائل قویہ پر مبنی ہے اور کس شخص کا مضمون اس مرتبہ سے گرا ہوا ہے.میری دانست میں یہ طریق فیصلہ ان بد نتائج سے بہت محفوظ ہو گا جو آج کل زیادہ متوقع ہیں بلکہ چونکہ اس طرز میں روئے کلام حکیم صاحب کی طرف نہیں نہ ان کی نسبت کوئی تذکرہ ہے اس لئے ایسا مضمون ان رنجشوں سے بھی بر تر ہو گا جو باہم مباحثات سے کبھی کبھی پیش آجایا کرتے ہیں." لیکچر لاہور میں اسلام کی حقانیت کے دلائل چنانچہ اس اعلان کے مطابق حضور نے دو سرے روز ایک معرکتہ الاراء لیکچر دیا جس میں بہائیت کا آپ نے گو نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھی مگر اس میں اسلام کی حقانیت اور اپنے دعوی کی سچائی پر ایسے زبر دست نکات سامنے رکھ دیے کہ بہائی دنیا اور دیگر مذاہب آج تک اس کا جواب لانے سے قاصر ہیں.مثلاً آپ نے ثابت کیا کہ (۱) اسلام کی سچائی کی دلیل یہ ہے کہ اس نے توحید حقیقی اور خدا کے حقیقی حسن کا نقشہ ایسا کھینچا ہے جو کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں.(۲) سچاند ہب وہی ہے جو مکالمہ مخاطبہ تک پہنچائے اور اس کے ماننے والوں پر فرشتوں کا نزول ہو.اور یہ خصوصیت اسلام کی برکت سے مجھے حاصل ہوئی ہے اس لئے میں مسیح موعود ہوں اور خدا کے شرف مکالمہ مخاطبہ سے سرفراز.(۳) کامل تعلیم صرف قرآن نے دی ہے.(۴) جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کر کے بھیجا ہے اس وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو رہا ہے.یورپ اور امریکہ میں جو حضرت

Page 374

جلد ۲ ۳۵۷ " ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی عیسی کی خدائی کے دلدادہ تھے اب آہستہ آہستہ خود بخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں.(۵) خدا تعالیٰ نے میرے لئے رمضان میں مقررہ تاریخوں میں چاند سورج کے گرہن کا نشان دکھایا اور اس کے بعد سچائی کے ثبوت میں طاعون کا عذاب نازل ہوا.(۶) میری پیدائش چھٹے ہزار کے آخر میں ہوئی ہے جو میری صداقت پر برہان عظیم ہے.(۷) آیت انا نحن نزلنا الذکر میں مسیح الاسلام کی پیشگوئی تھی جس کے مطابق میں آگیا.(۸) مجھے ربع صدی سے مکالمہ الہیہ سے مشرف ہونے کا دعویٰ ہے.میں نے وہ الہام قبل از وقت اپنی کتابوں میں دنیا کے سامنے شائع کئے اور ان میں سے متعدد آج تک پورے ہو چکے ہیں.علاوہ ازیں ان الہامات کے بعد سے اس وقت تک خدا کی تائید میرے شامل حال ہے جو میرے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے.(۹) حضرت مسیح علیہ السلام حقیقت میں فوت شدہ ہیں اور ضروری تھا کہ سورہ تحریم کی پیشگوئی کے مطابق اس امت میں سے ابن مریم پیدا ہو.چنانچہ میرے ذریعہ سے یہ وعدہ پورا ہوا اور میرا نام عیسی رکھا گیا جو میری صداقت کا واضح ثبوت ہے.مرزا محمود زرقانی کی طرف جوابی مضمون اور حق کی فتح قرآن مجید کے کامل شریعت اور حضور کے دعوی کی سچائی کے ان زبردست دلائل کے جواب میں مرزا محمود صاحب زرقانی نے ایک بے ہنگم سا پیسه " اخبار (۱۵/ نومبر ۱۹۰۴ء) میں شائع کرایا جس میں انہوں نے ان دلائل کا رد کرنا تو کجا اکثر کو چھوا تک نہیں.البتہ دو تین پیشگوئیاں بہاء اللہ کی طرف منسوب کیں جو خود محتاج ثبوت تھیں.زرقانی صاحب نے اپنے جواب میں سب سے زیادہ زور اس امر پر دیا کہ بہاء اللہ کا ظہور مرزا صاحب سے پہلے ہے اس لئے انہی کو سچاند عی کہنا چاہیے مگر اس کی تردید انہوں نے اپنے قلم سے یوں کر دی کہ "جب حق کے ظہور فرمانے کا زمانہ نزدیک ہوا تو ہندوستان اور دوسرے ملک اور اقلیموں میں بہت سے جھوٹے مدعی...کھڑے ہوئے " جس کا ساف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو مدعی بچے سے پہلے دعوی کرے وہ بہر حال جھوٹا ہی ہوتا ہے.دہلی میں حضور کے ایک خادم کی مرزا محمود صاحب زرقانی لاہور کے بعد کلکتہ پہنی ، رنگون راولپنڈی اور سیالکوٹ وغیرہ کئی دعوت مباحثہ اور مرزا محمود زرقانی کا گریز شہروں میں مقیم رہ کے بالا خر۱۹۰۶ء میں دہلی گئے تو حضرت مسیح موعود کے ایک مخلص خادم میر قاسم علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ دہلی نے ان کو مباحثہ کا چیلنج دیا.مولوی عبد المجید صاحب دہلوی نے اس کے لئے مکان زینت محل تجویز کیا اور حفظ امن کی خود ذمہ داری اٹھائی اور کہا کہ فریقین مباحثہ کی شرائط طے کر لیں جب تصفیہ ہو چکے تو مجھے اس

Page 375

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۵۸ ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت " کے متعلق پیشگوئی کی اطلاع کر دی جائے میں اس کا اعلان شائع کر دوں گا.زرقانی صاحب نے اصرار کیا کہ تحسین یوم و مکاں میری رائے پر منحصر ہے.میر صاحب نے یہ بات بھی قبول کرلی اور آخر بڑی رد و قدح کے بعد ۲۵ ا جولائی ۱۹۰۶ء کو مغرب کے بعد کا وقت مباحثہ کے لئے مقرر ہوا.مقام مناظرہ مولوی عبد الحق صاحب دہلوی مولف تغییر حقانی کا مکان تجویز کیا گیا.شرائط مباحثہ کے لئے فریقین ۲۵ اور ۲۶ جولائی ۱۹۰۶ء کو مولوی عبد الحق صاحب حقانی کے مکان پر جمع ہوئے.حکیم رضی الدین صاحب خلف الرشید حکیم ظہیر الدین خاں آنریری مجسٹریٹ دہلی نے یہ تجویز پیش کی کہ اس وقت شرائط طے کر لی جائیں.میر قاسم علی صاحب نے اس تجویز سے پورا پورا اتفاق ظاہر کیا اور کہا کہ میں تو جملہ شرائط لکھ کر پہلے ہی دے چکا ہوں.ان شرائط کی روشنی میں تصفیہ ہو جائے اور زور دیا کہ مرزا محمود صاحب زرقانی اپناد عومی پیش کریں.لیکن زرقانی صاحب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا میں اپنا دعوئی پیش نہیں کروں گا.حکیم رضی الدین صاحب نے بہتیرا سمجھایا کہ زرقانی صاحب ایران سے محض اسی غرض کے واسطے ہندوستان تشریف لائے ہیں کہ اہل ہند کو اپنا مذ ہب سنا کر منوائیں.پس ان کو علی الاعلان اپنے دعاوی و دلائل کا بیان کرنا ضروری ہے.اور ہر شخص کو اس پر جرح کا حق دینا انصاف پر مبنی ہے لیکن زرقانی صاحب کسی طرح تیار نہ ہوئے اور مجلس برخاست ہو گئی.چند دن بعد میر قاسم علی صاحب میرزا محمود صاحب زرقانی کو دوبارہ ملے اور کہا کہ آپ اگر گفتگو کرنے سے ڈرتے ہیں تو کم از کم کسی جلسہ میں اپنے دعاوی و دلائل و عقائد بیان کر دیں یا اپنے مذہب کی کوئی کتاب ہمیں قیمت ہی دے دیں اگر آپ کے پاس کتاب نہیں تو ہم کو پتہ لکھ دیجئے ہم وہ کتابیں خود منگالیں گے مگر زرقانی صاحب نے جواب دیا کہ جلسہ دہلی میں نہیں ہو سکتا کیونکہ ٹاؤن ہال میں اجازت جلسہ ملنی مشکل ہے اور دوسری جگہ جلسہ کرنا مجھے منظور نہیں ہے.کتب مذہبی میرے پاس نہیں نہ کوئی ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہمارے مذہبی دعادی و دلائل جمع ہوں.بہائیت کے متعلق مضامین ۱۹۰۸۷ء میں بابی اور بہائی مذہب کے متعلق ریویو آف ریلیجز اردو و انگریزی میں متعدد مفصل مضامین شائع ہوئے جن سے اس نام نہاد مذہب کی حقیقت بالکل نمایاں ہو گئی اس طرح خود سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی اس کے علمبرداروں پر ہر طرح حجت پوری کر دی گئی.

Page 376

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۵۹ سفر سیالکوٹ سفرسیالکوٹ قیام لاہور کے دوران میں جماعت سیالکوٹ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سیالکوٹ تشریف لے جانے کے لئے عرض کیا.حضور نے یہ درخواست منظور فرمالی اور جماعت کے دوستوں نے نہایت مستعدی اور کمال جوش کے ساتھ سیالکوٹ میں جاکر مکانات وغیرہ کا انتظام شروع کر دیا.مقدمات سے فرصت پاکر حضور قادیان تشریف لے گئے تو میاں محمد رشید صاحب جماعت سیالکوٹ کی طرف سے بطور نمائندہ سفر سیا لکوٹ کی تاریخ کی تحسین کی غرض سے قادیان گئے.حضور کی طبیعت ان دنوں کچھ ناساز تھی اس لئے فرمایا کہ دو چار روز کے بعد جواب دوں گا.حضور کا منشاء استخارہ مسنونہ کا بھی تھا.آخر ۷ ۲/ اکتوبر ۱۹۰۴ء کی صبح تاریخ روانگی مقرر ہوئی.حضور نے روانگی کے لئے ایک ایسی گاڑی تجویز فرمائی جو رات کو سیالکوٹ پہنچتی تھی ادھر جماعت سیالکوٹ کی یہ خواہش تھی اور اس کے اظہار کے لئے انہوں نے کارڈ کے علاوہ ایک اور خاص آدمی بھی بھیجا کہ حضور کا داخلہ شهر سیالکوٹ میں دن کے وقت ہو اس لئے حضور ایسی گاڑی میں آئیں جو دن کو داخل ہو.مقصود یہ تھا کہ رات کو کثرت انبوہ میں انتظامی مشکلات نہ ہوں.دوسرے حضور کی زیارت کے مشتاق کثرت کے ساتھ سیالکوٹ میں جمع ہونے والے تھے اور کل شہر اس بابرکت دن کا انتظار کر رہا تھا اس لئے دن کو یہ نظاره دو سروں پر اثر انداز ہو سکتا تھا.کوئی دنیوی جادو ختم یا استقبال و نمائش کا بھو کا ہو تا یا گدی نشین ہو تا توہ اس رائے کو پسند کرتا مگر خدا کے اس برگزیدہ نے جو محض اللہ تعالٰی کے ساتھ تعلق میں ہی لذت و ذوق پا تا تھا اس صورت کے لئے تیار نہ ہوا اور حضور نے اپنے پروگرام میں کسی قسم کی ترمیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسی گاڑی سے سیالکوٹ جانے کا فیصلہ فرمایا جو رات کو وہاں پہنچتی تھی روانگی از قادیان تاریخ طے پا چکی تو سفر کے انتظام کے متعلق مختلف احباب کو مختلف خدمات سپرد کی گئیں.چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب گاڑی کے ریزرو کرانے اور سواری کا انتظام کرنے پر مامور ہوئے اور مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی منتظم اسباب

Page 377

یت - جلد ۲ فر سيالكوت مقررہ پروگرام کے مطابق حضور ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۴ ء کی صبح کو ۴ بجے کے قریب دار الامان سے روانہ ہوئے.اس وقت کا نظارہ ایک نہایت ایمان افروز اور قابل دید نظارہ تھا.قادیان کے قریباً تمام احمدی حاضر تھے.کچھ تو حضور کی مشایعت کے لئے اور کچھ حضور کے ہمراہ جانے کے لئے.مدرسہ کے بہت سے طلبہ اور استاد اور بہت سے دیگر دوست بٹالہ تک حضور کے ہمراہ چلنے پر آمادہ تھے.بہر حال ۴ بجے کے قریب حضور علیہ السلام اپنے خدام کے حلقہ میں دارالامان سے روانہ ہوئے.ایک درجن سے زیادہ یکے ساتھ تھے اس سفر میں حضور کے ہمراہ حضرت ام المومنین علیہا السلام اور آپ کے خاندان کے دوسرے افراد بھی تھے اس لئے رتھ کے علاوہ پالکی بھی ساتھ تھی.حضرت اقدس نے نصف راستہ پالکی میں طے کر لینے کے بعد پا پیادہ سفر اختیار فرمایا اور خدام کے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے آٹھ بجے کے قریب بٹالہ پہنچے.بٹالہ اسٹیشن بٹالہ اسٹیشن سے سیالکوٹ تک ایک سیکنڈ کلاس اور ایک تھرڈ کلاس ڈبہ ریزرو کرایا گیا تھا.بٹالہ اسٹیشن پر جماعت بٹالہ نے شرف نیاز حاصل کیا.ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی محنت و تکلیف اٹھائے بغیر کمال حاصل ہو جائے.اس پر حضور نے بڑا لطیف جواب دیا اور بتایا کہ حصول کمال کے لئے مجاہدہ شرط ہے.اس قسم کے ذکر و اذکار اور خدام کی ملاقات میں گاڑی کا وقت آپہنچا.دس بجے کے قریب گاڑی نے روانگی کا سل دیا.پلیٹ فارم پر خاصہ اژدہام تھا.قادیان کی جماعت جو حضور کو اسٹیشن تک چھوڑنے آئی تھی واپس روانہ ہوئی اور چند ہی منٹ کے اندر گاڑی اسٹیشن سے نکل کر آخر ان کی نظر سے غائب ہو گئی اور خدا کا محبوب امرتسر کی طرف روانہ ہوا.امر تسرریلوے اسٹیشن بٹالہ سے گاڑی روانہ ہو کر درمیانی سیشنوں سے گزرتی ہوئی گیارہ بجے کے قریب امرتسر پہنچی.گاڑی کے پہنچتے ہی ہر طرف سے لوگ روڑتے ہوئے سامنے آکھڑے ہوئے.موافق تو موافق مخالف بھی کچھے چلے آتے تھے حتی کہ خود جماعت امر تسر کو مصافحہ کرنا مشکل ہو گیا.اس مقام پر چند دوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل کیا.جماعت امر تسر نے حضور اور حضور کے خدام کے لئے گاڑی میں ہی کھانا پیش کیا.اس دعوت کے لئے انہوں نے حضور سے پہلے ہی منظوری لے رکھی تھی.۱۲ بجے کے قریب گاڑی نے امرتسر اسٹیشن چھوڑا اور بہت سی روحوں کو شوق زیارت میں مضطرب چھوڑ کر آگے نکل گئی.

Page 378

تاریخ احمدیت جلد ۲ سفر سیالکوٹ اٹاری اسٹیشن اس دن ریلوے لائن کے ارد گرد کے دیہات میں خود بخود ایسی رو چلی ہوئی تھی کہ ہر معمولی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم ہو تا تھا چنانچہ اٹاری اسٹیشن پر بھی غیر معمولی مجمع تھا.اٹاری کے احمدی بھائیوں نے اپنے سید و مولی امام کے حضور دودھ پیش کیا اور ساتھ ہی ٹکٹ لے کر خود بھی سوار ہو گئے.میاں میرا سٹیشن ایک بجے کے بعد گاڑی میاں میرا سٹیشن پر پہنچی.اناری کی جماعت یہاں اتر کر دوسری گاڑی میں واپس ہوئی.یہاں بھی بعض مخلصین زیارت سے مشرف ہوئے.لاہور اسٹیشن لاہور ریلوے اسٹیشن پر اس کثرت سے اژدھام تھا کہ وہاں کے پیسہ اخبار کو بھی مخالفت کے باوجود اس کا اعتراف کرنا پڑا.حالانکہ بہت سے لوگوں کو اندر آنے سے روکا گیا اور پلیٹ فارم ٹکٹ بھی بند کر دئے گئے.یہاں چونکہ گاڑی کو ذرا زیادہ دیر تک ٹھہرنا تھا اس لئے لاہور کی احمدی جماعت کو ملاقات کا اچھا موقع میسر آیا.۲ بجے کے قریب لاہور اسٹیشن کو بھی الوداع کہا.گوجرانوالہ اسٹیشن گاڑی بادامی باغ سے ہوتی ہوئی بالا خر گو جرانوالہ پہنچی.یہاں بھی حضور کے استقبال کے لئے کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے جن کی تعداد سات آٹھ سو سے کم نہ تھی.احمدی احباب نے مصافحہ کیا.وقت معینہ پر گاڑی گوجرانوالہ سے چل کے گکھڑ آئی.اس جگہ بھی پچاس سے زیادہ احباب شوق زیارت میں آئے ہوئے تھے.جس ذوق و شوق اور جوش و اخلاص سے یہ لوگ آتے اور گاڑی کی طرف لپکتے اور دوڑتے تھے وہ دیکھنے کی چیز تھی.تھوڑی دیر کے بعد گاڑی وزیر آباد کھڑی ہو گئی.وزیر آباد اسٹیشن وزیر آباد جنکشن ہے جہاں سے سیالکوٹ کی طرف گاڑی جاتی ہے.سیالکوٹ یہاں سے قریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے.وزیر آباد اسٹیشن پر بھی اس کثرت سے مجمع زائرین موجود تھا کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی تھی کیونکہ مقامی جماعت تو بہت تھوڑی تھی اور حافظ عبد المنان صاحب جیسے مخالف سلسلہ یہاں موجود تھے مگر اس کے باوجود لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ جب حضور کی ریزرو گاڑیوں کو کاٹ کر سیالکوٹ جانے والی ٹرین کے ساتھ لگانے کے لئے دور نالہ پلکھو کے پل تک لے جانا پڑا تو ریز رو گاڑی کے ساتھ ساتھ دونوں طرف مخلوقات دیوانہ دار بھاگتی چلی گئی.آخر حضور کی ریزرو گاڑیاں سیالکوٹ ٹرین سے لگا دی گئیں اور لوگوں کا ہجوم بدستور رہا.وزیر آباد کے احباب جماعت نے حضور اور حضور کے ہمرایوں کی سوڈا واٹر سے تواضع

Page 379

تاریخ احمدیت.جلد ۲ سفر سیالکوٹ کی.گاڑی کافی دیر ٹھہرنے کے بعد سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو گئی چونکہ کثرت مخلوق اور ہجوم میں بہت سے لوگوں کو حضرت اقدس سے مصافحہ کرنے کا شرف نہ مل سکا اس لئے اکثر احباب ساتھ ہی گاڑی میں سوار ہو گئے اور سیالکوٹ اور وزیر آباد کے درمیان اسٹیشنوں پر جہاں جہاں جس کو موقع ملا اس سعادت سے بہرہ اندوز ہوا.سیالکوٹ میں ورود آخر گاڑی سوہدرہ اور دوسرے اسٹیشنوں سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ اسٹیشن پر چھ بجے کے بعد پہنچی جب کہ آفتاب غروب ہو چکا تھا اور تاریکی اپنا اثر سطح زمین پر ڈال رہی تھی.ایسے وقت میں لوگوں کا اسٹیشن پر پہنچنا بڑا مشکل تھا اور اسی لئے جماعت سیالکوٹ نے صبح کی گاڑی کا پروگرام تجویز کیا تھا.سیالکوٹ کے علماء ایک ہفتہ سے وعظ کر رہے تھے کہ کوئی شخص مرزا صاحب کو دیکھنے کے لئے اسٹیشن پر نہ جائے ورنہ اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی لیکن ان مخالفتوں اور سراسر نا موافق حالات کے باوجو د سیالکوٹ کے لوگ ایسے کھینچے گئے کہ رک سکتے ہی نہیں تھے.جس طرف نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے جو حضرت اقدس کے جذب و کشش اور راستبازی اور حقانیت کا ایک عظیم الشان ثبوت تھا.اسٹیشن پر اس قدر انبوہ تھا کہ اگر مقامی حکام اور سپر نٹنڈنٹ پولیس کی طرف سے امن کا تسلی بخش انتظام نہ کیا جاتا توکئی حوادث کا ہوتا بالکل ممکن تھا.آنریری مجسٹریٹ سیالکوٹ سردار محمد یوسف صاحب خاص طور پر شکریہ کے مستحق تھے کہ وہ ہمہ تن انتظام میں مصروف رہے.مقامی جماعت نے اس پلیٹ فارم پر جہاں ریزرو گاڑیاں کھڑی ہو ئیں (اور جو احاطہ اسٹیشن کے دوسری طرف سرائے مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر کے متصل لب سڑک واقع ہے) روشنی کا عمدہ انتظام کر رکھا تھا.حضور کی آمد پر بطور خیر مقدم مہتابیاں بھی چھوڑی گئیں.شہر کی طرف روانگی کا نظارہ پلیٹ فارم کا ریز رو گاڑی والا حصہ بالکل خالی کرالیا گیا اور معین گاڑی کے دروازے پر حضور کی سواری کے لئے گاڑی لا کر کھڑی کر دی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین اور دو سرے افراد خاندان جدا جدا گاڑیوں میں سوار ہو گئے اور یہ شاندار جلوس پولیس اور مقامی حکام کے انتظام کے ساتھ شہر کی طرف روانہ ہوا.گاڑیوں کے آگے مہتابیاں چھوڑی جاتی تھیں.اسٹیشن سے فرودگاہ تک دکانوں“ مکانوں کی چھتوں اور بازار میں آدم زاد کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا تھا.خدا کا جری ایک کھلی گاڑی میں بیٹھا ہوا اس انبوه و اثر دھام میں جا رہا تھا اور لوگ اس کے دیدار کے لئے بھاگے جارہے تھے.اور یہ عجیب بات تھی کہ بعض لوگ باوجودیکہ وہ مخالف تھے محض زیارت کے لئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو مرید

Page 380

یخ احمدیت.جلد ۲ ہیں ہمیں نہ ہٹاؤ.فرودگاه سفر سیالکوٹ حضور کے قیام کے لئے جناب حکیم میر حسام الدین صاحب کا ایوان تجویز ہوا.چنانچہ حضور وہیں فروکش ہوئے.یہ وہی محلہ تھا جس میں حضور انتہائی گمنامی کی حالت میں قریباً چالیس برس پیشتر زمانہ ملازمت کے دوران قیام پذیر رہے.حضور کے علاوہ باقی خدام اور مہمانوں کے لئے حکیم صاحب کے محلہ میں کچھ ایسے انداز سے ملتے جلتے مکان خالی کرائے گئے تھے کہ وہ سارا محلہ جہاں یہ مہمان فروکش تھے ایک محلہ کی بجائے ایک ہی مکان کا حکم رکھتا تھا.جماعت سیالکوٹ کی وسیع پیمانے پر مہمان نوازی اس موقعہ پر جماعت سیالکوٹ نے حضور کے اس تاریخی سفر کے موقعہ پر مہمانوں کی آمد کا اندازہ کر کے بڑے وسیع پیمانے پر مہمان نوازی کا انتظام کر رکھا تھا اور حضور اور حضور کے مہمانوں کی تواضع ، دل جوئی اور آرام میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.انہوں نے اپنے گھر مہمانوں کے لئے خالی کر دیے.ہر مکان میں ضروری سامان پہلے سے مہیا کر دیا.کوئی کمرہ یا کو ٹھری ایسی نہ تھی جس میں روشنی اور پانی کا کافی انتظام نہ ہو.بیماروں کے لئے الگ کھانا تیار ہو تا تھا.بازار میں عطاروں کی دکانیں مخصوص کر دی تھیں جہاں سے مریض ہر وقت جو دوا چاہیں مفت لے سکتے تھے.حضور کے تشریف لاتے ہی مہمانوں کی کثرت بڑھتی گئی اور ہر آنے والی ٹرین مہمانوں کی ایک معقول تعداد لانے کا موجب بن رہی تھی مگر اہل سیالکوٹ کی میزبانی میں کوئی فرق نہیں آیا وہ برابرا هلا وسهلا و مرحبا کہنے کو تیار تھے.۲۸/ اکتوبر کو جمعہ تھا.حضرت مسیح موعود کی تقریر ۲۸/ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو جمعہ کے بعد اس دن لوگ نهایت کثرت سے اس مسجد میں جو حضور کی فرودگاہ سے بالکل ملی ہوئی تھی اور میر حکیم حسام الدین صاحب کی مسجد کہلاتی ہے وقت مقررہ سے پہلے ہی جمع ہو گئے.مولوی عبدالکریم صاحب نے (جو کئی دن قبل ہی سیالکوٹ میں تشریف لے آئے تھے) سورہ جمعہ پر خطبہ پڑھا اور نماز جمعہ پڑھائی.نماز جمعہ کے بعد بہت سے اصحاب نے بیعت کی.یہ نا ممکن تھا کہ سب لوگ حضور کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرتے اس لئے بارہ پگڑیاں مختلف سمتوں میں ڈال دی گئیں.اس طرح مختلف جماعتوں نے بیعت تو بہ کی.بیعت کے بعد حضور نے ایک پر جذب و تاثیر تقریر فرمائی جس میں حضور نے بیش قیمت نصائح فرما ئیں اور اپنے دعوی کی صداقت پر روشنی ڈالی.

Page 381

تاریخ احمدیت.جلد ۲ لام خر سیالکوٹ حضور اس روز کافی دیر تک انبوہ خلائق میں تشریف فرمار ہے اور تقریر کی وجہ سے واپسی کا ارادہ حضور کی طبعیت دوران سرو غیرہ سے ناساز ہو گئی اور آپ ۳۰٬۲۹ اکتوبر کو باہر نہ تشریف لا سکے.اس سلسلہ میں مہمانوں کی اور بھی کثرت ہو گئی اس لئے حضور کو خیال پیدا ہوا کہ یہ کثرت جماعت سیالکوٹ کے لئے ابتلا کا موجب نہ بن جائے لہذا حضور نے ۳۱ / اکتوبر کو واپسی کا ارادہ فرمایا.واپسی کی خبر پر مخلصین سیالکوٹ کے ہوش اڑ گئے.پاس ادب سے کچھ عرض کر نیکی جرات نہ کرتے تھے.دل تھا کہ اندر ہی اندر بیٹھا جاتا تھا.حیران تھے کہ کریں تو کیا کریں.میر حکیم حسام الدین صاحب نے حضور کے اس ارادہ کو بہت ہی محسوس کیا اور پیرانہ سالی میں اس سے بہت ہی مضمحل ہو کر حضور کی خدمت میں اس ارادہ کے التواء کے لئے عرض کیا اور سامان خوردو نوش کی کثرت کا ذکر کیا.جس پر حضور نے اپنا ارادہ ۳/ نومبر تک ملتوی فرما دیا.لیکچر کا ارادہ اب اس التواء ارادہ اور قیام سہ روزہ میں ۳۱ / اکتوبر کو تجویز ہوئی کہ حضور کی طرف سے اسلام پر ایک پبلک لیکچر دیا جاوے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی غرض و مقصد زندگی احیائے اسلام و تبلیغ اسلام ہی تھا.چنانچہ حضور نے ضعف اور دورہ مرض کے باوجود یہ امر پسند فرمایا اور ۲ / نومبر ۱۹۰۴ء کو یہ لیکچر دیا جانا تجویز ہوا.دو تین دن کے قلیل عرصہ میں لیکچر کا تیار کرنا آسان امر نہیں تھا لیکن خدا کی تائید اور نصرت جس شخص کے شامل حال ہو وہ سب تکلیفوں اور مشکلات پر فتح پالیتا ہے.زیارت کے لئے بیتانی ۱۳۱ اکتوبر تک حضور باہر تشریف نہ لاسکے اور اس عرصہ میں زائرین بیقرار و مضطرب ہو کر دیوانہ وار آپ کے ایوان کے نیچے بند کوچہ میں پھر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح چاہتے تھے کہ زیارت ہو جاوے مگر حضور کی ناسازی طبع اس پر بیعت کا سلسلہ پھر مضمون لیکچر لکھنے کا ارادہ سب باتیں مل ملا کر انہیں مایوس کر رہی تھیں.اور جوں جوں دیر ہوتی تھی اس قدر جوش زیارت بڑھتا جاتا تھا.آخر اس بڑھے ہوئے اضطراب اور جذبہ عشق نے اپنا کام کیا اور حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضور کی زیارت کے لئے بہت لوگ جمع ہیں اور سخت گبھرائے ہوئے ہیں.یہ ۳۱ / اکتوبر کا دن اور بعد دوپہر کا وقت تھا.حضور نے فرمایا کہ میں نے ابھی مضمون بھی شروع نہیں کیا اب میرا ارادہ ہے کہ اسے لکھوں اور بیعت کا سلسلہ بھی کثرت سے جاری ہے.اگر میں نیچے اتروں گا تو پھر مضمون رہ جائے گا.اس پر عرض کیا گیا کہ حضور صرف دو ایک منٹ کے لئے دریچہ میں رونق افروز ہوں لوگ گلی میں کھڑے ہو کر زیارت کر لیں.چنانچہ حضور کوئی ایک منٹ کے لئے دریچہ میں تشریف فرما رہے.اس وقت کو چہ سے لے کر بازار تک اور مسجد اور

Page 382

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۶۵ سفر سیالکوٹ مکانوں کی چھتوں پر آدمی ہی آدمی تھے.لیکچر کی تصنیف و طباعت حضور نے ۳۱/ اکتوبر کی دوپہر کے بعد لیکچر لکھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ۲ / نومبر کو یہ لیکچر چھپ بھی گیا.اس طرح لیکچر کی تیاری میں صرف ایک ہی دن صرف ہوا.لیکچر کے متعلق حکیم حسام الدین صاحب چوہدری محمد سلطان صاحب میونسپل کمشنر ، آغا محمد باقر خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ ، چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈر چوہدری محمد امین صاحب پلیڈر کی طرف سے ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا ” حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود کا لیکچر اسلام پر " اور اس میں پبلک کو اطلاع دی گئی تھی کہ "یہ لیکچر ۲ نومبر ۱۹۰۴ء کو بدھ کے دن صبح سات بجے بمقام سیالکوٹ سرائے مہاراجہ صاحب بہادر والی جموں و کشمیر سنایا جائے گا.مولوی عبد الکریم صاحب اس لیکچر کو پڑھ کر سنا ئیں گے اور حضرت میرزا صاحب خود بھی تشریف فرما ہوں گے سامعین کو چاہیے کہ ٹھیک وقت پر تشریف لاویں.کسی صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی.نہایت متانت اور خاموشی سے لیکچر کو سنتا ہو گا." لیکچر گاہ کی تیاری اور مخالفین کی لیکچر یکم نومبر کی شام کو لیکچر گاہ (یعنی مہاراجہ جموں و میں جانے سے روکنے کی کوششیں کشمیر کی وسیع سرائے متصل ریلوے اسٹیشن سیالکوٹ میں شامیانوں کا انتظام کیا گیا اور دریوں کا فرش بچھایا گیا.اور کرسیاں رکھی گئیں.در اصل لیکچر کے لئے پہلے اسی محلہ میں جہاں حضور فروکش تھے ایک خالی میدان تجویز ہوا تھا مگر وہ ناکافی تھا.اس لئے سب سامان وہاں سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لے جایا گیا اور لیکچر گاہ راتوں رات تمام ضروری سامان سے آراستہ کر دی گئی.لوگوں کو جگہ نہ ملنے کا اس قدر خیال تھا کہ بہت سے لوگ تو رات ہی کو وہاں سوئے اور اکثر علی الصبح اٹھ کر فجر کی نماز سے بھی پہلے وہاں جا پہنچے.دوسری طرف مخالف علماء نے لوگوں کو لیکچر میں شامل ہونے سے روکنے کی یہ صورت کی کہ ۲/ نومبر کی صبح کو چھ بجے سے یعنی حضور کے لیکچر سے ایک گھنٹہ قبل ہی شہر کے چار مختلف مقامات پر مجالس وعظ شروع کر دیں اور قبل از وقت ان مجالس کا اعلان بھی بذریعہ اشتہار کر دیا.اس منصوبے کا اثر بالکل الٹا پڑا اور سوائے بعض متعصب مخالفوں کے جو علماء کی تقریروں میں بیٹھے رہے سیالکوٹ کے عوام اس طرح جوق در جوق لیکچر گاہ میں پہنچے کہ خدائی تائید و نصرت کا ایک ایمان افروز منظر آنکھوں کے سامنے آگیا.•

Page 383

تاریخ احمدیت جلد ؟ سفر سیا لکوٹ حضور کی جلسہ گاہ کو روانگی حضرت اقدس" قریباً ساڑھے چھ بجے اپنے ایوان سے بیچے اترے ملاقات کرنے والے ایک دوسرے پر گرے پڑتے دبھی تھے.آخر یہ انتظام کیا گیا کہ مصافحہ کرنے والوں کو روک دیا جاوے.حضور ابھی مکان سے اترے نہیں تھے کہ ایک شخص نیاز علی نام نے میر حکیم حسام الدین صاحب کے توسط سے نہایت مجز و الحاح سے عرض کیا کہ حضور جب جلسہ گاہ کو تشریف لے چلیں تو میرے گھر میں قدم ضرور رکھ دیں تاکہ آپ کا مبارک قدم میرے گھر میں برکات کا موجب ہو یہ حسن ارادت و عقیدت حضرت کو اس کے گھر لے گیا اور حضور دو تین منٹ تک اس کے گھر کو اپنے قدموں سے برکت دے کر تشریف لائے اور دو گھوڑوں والی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے، حضور کے ہمراہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تھے.بازار میں گاڑیوں کا اچھا خاصہ سلسلہ تھا قریباً پندرہ سولہ گاڑیاں یکے بعد دیگرے کھڑی تھیں.سردار محمد یوسف صاحب سٹی مجسٹریٹ خاص اس انتظام کے لئے متعین تھے.وہ ابتدائے لیکچر سے اخیر تک جلسہ گاہ میں برابر کھڑے رہے.پولیس نے اس موقعہ پر قیام امن کا پورا اہتمام کیا تھا.چنانچہ انسپکٹر صاحب پولیس بھی حضور کی گاڑی کے ساتھ تھے.یہ بھی بڑا عجیب نظارہ تھا جب کہ خدا کا مسیح ہزاروں انسانوں کے درمیان گاڑی میں بیٹھا جارہا تھا اور اس کے راستہ کے تمام درو دیوار اور کوٹھے زن و مرد سے لدے ہوئے اس کا دیدار کر رہے تھے.دو رو یہ انسانوں کی سڑک میں جب یہ جلوس گزرا تو لوگ بھی گاڑی کے ساتھ بھاگے جاتے تھے اور ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.رستہ میں مخالفوں کے اڈوں میں جو وعظ ہو رہا تھا اس میں گالیوں کے علاوہ دوسری آواز یہ سنائی دیتی تھی کہ خبردار کوئی سرائے میں نہ جاوے.یہ شور مچانے والوں کی رگیں پھول پھول جاتیں تھیں مگر لوگ تھے کہ برابر دو ڑے چلے جاتے تھے.الغرض حضرت اقدس کا جلوس اسی شان سے گزرتا ہو ا بالاخر حضرت اقدس جلسہ گاہ میں بکھیر گاہ تک پنچا جہاں شہر کے ہرنہ ہب وملت کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں آپ کے لئے چشم براہ تھے.حضور جب جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو لوگوں میں ایک عجیب اضطراب اور کشمکش پیدا ہو گئی.ہر شخص اس کوشش میں تھا کہ میں ایسی جگہ بیٹھوں جہاں سے خدائے تعالی کے برگزیدہ مامور اور معزز لیکچر پڑھنے والے کو دیکھ سکوں.شامیانوں کے نیچے دریوں کا فرش تھا جس کے تین طرف معززین شہر کے لئے کرسیاں بچھی تھیں.اور حضور کی کرسی لکڑی کے ایک پلیٹ فارم پر تھی جہاں سے لوگ اطمینان سے زیارت کر سکتے تھے حضور اس وقت سرخ جبہ میں جلوہ افروز تھے.حضور کا نورانی اور خدا نما چہرہ غض بصر کا عملی سبق دینے والی آنکھیں سامعین کو اپنی طرف

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۶۷ سفر سيا لكوث خصوصیت سے متوجہ کر رہی تھیں.حضور کے ساتھ ہی ایک کرسی پر حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب اور دوسری کرسی پر ایک میز کے سامنے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تشریف فرما تھے.جلسہ کی کارروائی کا آغاز چاروں طرف قدرتی طور پر سناٹا اور خاموشی طاری تھی کہ جناب مسٹر فضل حسین صاحب بیر سٹرایٹ لاء نے جلسہ کی صدارت کے لئے حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کا نام پیش کیا جو متفق طور پر منظور ہوا.اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کی صدارت میں جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا.ابتداء" حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک مختصر مگر نهایت بصیرت افروز خطاب فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ دنیا میں بہت سے جلسے ہوتے ہیں بعض ملکی اور سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور بعض میں کسی خاص قوم کی اصلاح کے لئے غور کیا جاتا ہے مگر آج کا جلسہ ان سب سے ممتاز ہے کیونکہ اس میں ایک ایسے شخص کا کلام پیش کیا جا رہا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہو.اللہ تعالی آپ لوگوں کو سننے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے.حضرت حکیم الامت کی اس افتتاحی تقریر کے بعد حضرت اقدس کے لیکچر کا پڑھا جانا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں قرآن مجید کی چند آیات تیر کا تلاوت کیں.پھر حضور کے مطبوعہ لیکچر کو پڑھنا شرع کیا.اس لیکچر کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی تھی ” دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہو گا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے.اور یہ اس لئے نہیں کہ در حقیقت وہ تمام مذاہب ابتداء سے جھوٹ ہیں بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں " اس تمہید کے بعد حضور نے نہایت اچھوتے رنگ میں اپنے وجود کو اسلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش فرمایا اور اس ضمن میں پہلی دفعہ مجمع عام میں کرشن ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ " میرا اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں مینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے...وہ خداجو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے.اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ” ہے کرشن رودر گوپال تیری مہماگیتا میں لکھی گئی ہے.؟" یکچر کے آخر میں حضور نے فرمایا ” مجھے اس زمین سے ایسی N

Page 385

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۳۶۸ سفر سیالکوٹ ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے.کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گذار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں.میرے اس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میں میرا وجود تھا.اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانہ میں ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرنا کہ ایک گمنام کا آخر کار یہ عروج ہو گا کہ لاکھوں لوگ اس کے تابع اور مرید ہو جائیں گے اور فوج در فوج لوگ بیعت کریں گے اور بار جود دشمنوں کی سخت مخالفت کے رجوع خلائق میں فرق نہیں آئے گا بلکہ اس قدر لوگوں کی کثرت ہوگی کہ قریب ہو گا کہ وہ لوگ تھکا دیں کیا یہ انسان کے اختیار میں ہے اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکار کر سکتا ہے کہ چو میں سال پہلے تنہائی اور بے کسی کے زمانہ میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے." جلسہ کا اختتام اور فرودگاہ کو روانگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس روح پرور تقریر کے بعد حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب نے انتقامی خطاب فرمایا جس کے بعد جلسہ ختم ہو گیا لیکن لوگ کچھ ایسے اطمینان خاطر سے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ اٹھنا ہی نہیں چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ کچھ اور سنایا جائے.منتظمین نے نہایت عمدگی کے ساتھ راستہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گاڑی میں سوار کرایا کیونکہ ہزاروں ہزار آدمی موجود تھے اور شوق زیارت میں ہر ایک آگے بڑھتا تھا.حضرت اقدس کی گاڑی باہر نکل گئی تو مقامی حکام خصوصاً سردار یوسف خاں سرائے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور تھوڑی دیر کے لئے لوگوں کو باہر جانے کی اجازت دی.لوگ باہر نکل کر دوڑے تا ایک مرتبہ پھر زیارت ہو جائے.مخالفین جو باہر اڈے جمائے ہوئے شور مچا رہے تھے کہ لوگو! کوئی اندر نہ جائے.لیکن ایک یورپین انسپکٹر صاحب پولیس نے جو جلسہ میں آخر وقت تک موجود رہے باہر آکر مخالف واعطین سے کہا کہ ہم کو تعجب ہے کہ تم لوگ اس شخص کی مخالفت کیوں کرتے ہو.مخالفت تو ہمیں (عیسائیوں کو) یا ہندوؤں کو کو کرنی چاہئے جن کے مذہب کی وہ تردید کر رہا ہے اسلام کو تو وہ سچا اور حقیقی مذہب ثابت کر رہا ہے ابطال تو ہمارے مذہب کا کر رہا ہے اور تم یونسی مخالفت کر رہے ہو ؟ حضرت اقدس کی گاڑی جب بازار سے مکان کو واپس آئی تو پھر وہی پہلا سا ذوق و شوق عوام میں موجزن تھا.بیعت کرنے والوں کی کثرت چونکہ ۳/ نومبر کو حضرت اقدس کی تاریخ روانگی مقرر تھی اس لئے بیعت کرنے والوں میں جوش ارادت اتنہاء کو پہنچ

Page 386

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۶۹ خر سیالکوٹ گیا اور وہ کثرت سے حضور کی بیعت میں شامل ہوئے.کئی بار بیعت ہوئی اور حضور حسب معمول بیعت کے بعد لوگوں کو نصائح فرماتے رہے کہ " اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا کی محبت میں ذوق و شوق پیدا ہو اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں." بیعت کا سلسلہ حضور کی روانگی تک برابر جاری رہا.سیالکوٹ کی جماعت کے لئے حضرت اقدس کی جدائی شاق تھی مگر مجبور تھے.دار الامان کو روانگی دوسرے دن ۱۳/ نومبر کو جماعت سیالکوٹ نے 10 بجے تک کل مہمانوں کو کھانا کھلا کر فارغ کر دیا اور رخت سفر بندھنے لگا.سب سے پہلے مستورات کو حضرت میر ناصر نواب صاحب کے زیر انتظام اسٹیشن پر پہنچا دیا گیا.حضرت اقدس بارہ بجے کے قریب باہر تشریف لائے اس وقت بھی زائرین کے اشتیاق کی وہی کیفیت تھی جو پہلے سے طاری تھی.جیسے شمع پر پروانے گرتے ہیں اس طرح مخلوق کرتی تھی.میاں نیاز علی کی درخواست پر حضور دوبارہ ان کے گھر کو برکت دینے کے لئے تشریف لے گئے اور پھر گاڑی پر سوار ہو گئے اور جلوس کی شکل میں پوری شان کے ساتھ اسٹیشن تک پہنچے اور ایک ریز رو گاڑی میں تشریف فرما ہوئے اور دوسرے خدام دوسری گاڑی میں بیٹھے.حضور کے الوداع کے لئے اسٹیشن پر زائرین کا بہت بڑا مجمع موجود تھا.علماء جو مخالفانہ وعظ کر رہے تھے اس کا ایک نتیجہ اس وقت یہ بر آمد ہوا کہ بعض مخالفوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کے سامنے برہنہ تاچ کیا.چنانچہ اخبار اہلحدیث نے 11 / نومبر ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں لکھا.مسلمانوں نے قادیانی کرشن جی کی مہما میں اپنے اسلامی اخلاق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا.چلتی گاڑی کے وقت اسٹیشن سے ایک طرف پردہ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور مرزا صاحب کی مستورات کے سامنے جوش جنوں میں ننگے ہو کرنا چتے رہے.تاہم یہ حرکت اسلامی اخلاق سے بہت گری ہوئی ہے." گاڑی وزیر آباد اسٹیشن پر پہنچی تو زائرین کا پہلا سا ہجوم موجود وزیر آباد سے قادیان تک تھا.حافظ غلام رسول صاحب نے حضور اور حضور کے ساتھیوں کی لیمونیڈ اور سوڈا واٹر سے دعوت کی.اسٹیشن پر ڈسکہ کے مشنری پادری اسکاٹ نے بھی ملاقات کی اور حضور نے ان سے تبادلہ خیالات فرمایا.گاڑی ہی میں بہت سے آدمیوں نے بیعت توبہ کی.حضور کی ریزرو گاڑی گورداسپور کی گاڑی سے لگائی گئی.کچھ دیر بعد گاڑی روانہ ہو گئی.واپسی پر ہر اسٹیشن پر وہی مجمع اور وہی رونق تھی جو آمد کے موقعہ پر دکھائی دی تھی.گاڑی مغرب کے بعد لاہور پہنچی جہاں جماعت لاہور نے استقبال کیا اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کی طرف سے حضرت اقدس

Page 387

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۷۰ فرنيا الكون اور حضور کے ہمراہیوں کو کھانا پیش کیا گیا.گاڑی لاہور سے روانہ ہو کر بٹالہ پہنچی.اسٹیشن سے اترتے ہی جماعت بٹالہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خدام کی دعوت کی اور سرائے متصل اسٹیشن میں قیام کا انتظام کیا.قادیان سے بہت سے خدام بٹالہ پہنچ گئے تھے.حضرت اقدس اور حضور کے دوسرے خدام ۱۴ نومبر ۱۹۰۴ء بروز اتوار ۱۲ بجے کے قریب بخیرت قادیان دار الامان میں پہنچ گئے.حضور کی واپسی اور داخلہ دار الامان پر حافظ روشن علی صاحب ( تلمیذ حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین) نے خیر مقدم کے طور پر ایک عربی قصیدہ لکھا جس کے چند اشعار یہ تھے جاءَ الإمامُ فَابْشِرُوا يَا اخْوَتِي قوموا التى استقباله يا حبتي يَا مَنْ دَعوتَ النَّاسَ وَقتَ هَلَاكِهِمْ دَعْوَى الْمُحِب إِلَى جِنَانَ النِّعْمَةِ أعْطِيتَ مِنْ رَبِّ السَّمَاءِ رِسَالَهُ تُوجَتَ مِن مَولَاكَ تَاجَ الْعِزَّةِ يا قَمْرَ أَرْضِ الْهِنْدِ نَورُ أَرْضَنَا سَرَاج قُلُوبِنَا بِالْمِنَّةِ اشرج (ترجمہ) اے میرے بھائیو! تمہیں خوشخبری ہو کہ حضرت امام تشریف لے آئے ہیں.میرے پیار و اٹھو ان کے استقبال کو چلیں.اے وہ جس نے لوگوں کی ہلاکت کے وقت پیار کرنے والوں کی طرح نعمت کے باغوں کی طرف دعوت دی ہے.تجھے آسمان کے رب کی طرف سے رسالت عطا کی گئی ہے اور تیرے مولیٰ نے تجھے عزت کا تاج پہنایا ہے.اے سر زمین ہند کے چاند ! ہماری زمین کو روشن کر اور ہمارے دل اپنے احسان سے منور کر حضرت اقدس کی تقریریں جلسہ سالانہ ۱۹۰۴ء کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پر معارف تقریریں فرما ئیں وہ بعد کو حضرت اقدس" کی تقریریں" کے نام سے شائع کی گئیں.ان تقاریر میں حضور نے

Page 388

تاریخ احمدیت جلد ؟ حقیقت دعا صحبت صادقین کی ضرورت اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تاکید فرمائی.۱۹۰۴ء کے بعض صحابہ ۱۹۰۴ء کے بعض ممتاز صحابہ یہ ہیں.(1) چوہدری نصر اللہ خاں صاحب (۲) ماسٹر مولا بخش صاحب (۳) سید دلاور شاہ صاحب بخار کی (۴) چوہدری غلام محمد صاحب پوبلکہ مہاراں 21 (۵) شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ۵۰ سفر سیالکوٹ

Page 389

تاریخ احمدیت جلد ۳۷۲ خر سیالکوٹ • 4 تاریخ اقوام عالم صفحه ۷۷۷ از مرتضی حسن خان الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۲ تاریخ اقوام عالم صفحہ ۲۶۷-۲۲۸ حواشی ہ تاریخ اقوام عالم صفحه ۸۰۰-۸۰۱ - البدر ۸/۱۷ مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۱۰ ولادت یکم جنوری ۶۱۸۹۶- وفات ۱۸/ ستمبر ۱۹۹۶ء سلسلہ کے ان بزرگوں میں سے تھے جو نوابی میں بھی درویشی کا نمونہ تھے.انقلاب ہجرت کے بعد جب 11 ستمبر ۱۹۴۷ء کو صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی تشکیل ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور حضور نے آپ کو ناظر اعلیٰ نامزد فرمایا.چنانچہ آپ نے اس نہایت درجہ نازک اور اہم ذمہ داری کو کمال محنت و خلوص سے نبھایا.اسی دوران میں ۱۸ فروری ۱۹۴۹ء کو آپ پر دل کی بیماری کا شدید حملہ ہوا اور ساتھ ہی تشیخ کے دورے بھی پڑنے لگے علاج معالجہ سے کچھ افاقہ تو ہو اگر آپ مستقل طور پر صاحب فراش ہو گئے اور بالاخر اسی بیماری میں آپ کا انتقال ہوا.آپ کے روحانی مقام کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو وفات سے چار برس پیشتر ذ ریعہ رویا خبر دی جا چکی تھی کہ آپ کا 11 سال کی عمر میں وصال ہو گا.سو یہ رویا نہایت صراحت سے پوری ہوئی.آپ کی قبر مبارک ربوہ کے خاص قبرستان میں حضرت اماں جان کے مزار اقدس کی چار دیواری میں جنوب مشرقی حصہ میں واقع ہے.۷.الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۰۳ - البدر ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۹ کالم نمبرا البد (۱۶/ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۲ -|⚫ - ۱۳ الم ا حکم ۲۴/۱۷ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳ حکم ۱۴ ۱۰/ اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲ البد (۱۷/ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۳ الحكم ۱۳۰ تمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳-۲ مفصل تقریر البدر ۸-۱۲-۱۲۴ نمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۸۰۳ احکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۱ ( مفصل تقریر ) البد (۱۶/ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۲-۷ بحوالہ الحکم ۱۷/۲۴ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ نمبر ۱ - احکم ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱- ۵ و الحکم ۱۳۰ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱-۲ الحکم ۲۱ / اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۲ و الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲ الحکم کے ار نمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ے کالم نمیره -IA -19 لیکچر لاہور الحکم ۱۲۱ اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۲-۳ -۲۰ پیغام صلح ۱۲۵ مئی ۱۹۵۵ء صفحه ۳۱ کالم نمبر ۲ ۲۱- الحکم ۷ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ ( مفصل تقریر) و البدر ۲۴/ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۲ ۲۲ الفضل ۱۱۳ دسمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ کالم نمبرا ۲۳- تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم صفحه ۳۱۱ ۲۴ ملاحظہ ہو الحکم ۱۷/ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ ۲۵ - الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲ ۲۶ ذکر حبیب صفحه ۱۲۴

Page 390

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۷۳ سفر سیالکوٹ ۲۷- الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۸ کالم نمبر ۴ ۲۸ بہاء اللہ کی تعلیمات " صفحہ مطبوعہ اگره ( حوالہ " تحریک بہائیت پر تبصره از جناب مولانا ابو العطاء صاحب فاضل) ۲۹ مکاتیب عبد البہاء " جلد ۲ صفحہ ٢٦٦ میں لکھا ہے:.دریوم تظهور حضرت اعلیٰ منطوق بیان ضرب اعناق و حرق کتب و اوراق دیدم بقاع و قتل عام الامن آمن و صدق بود " الحراب مصنفہ استاذ محمد فاضل مطبوعہ مصر ۷۳ از بحوالہ بہائی تحریک پر تبصرہ صفحہ ۳۲) ۳۱ اقتدار صفحه ۴۷-۲۸ مولقہ بہاء اللہ ۳۲ الکواکب ۴۰۰ بہائی تحریک پر تبصرہ صفحه ۵۵ طبع اول ۳۳- بہاء الله و عصر جدید صفحه ۳۴ ۳۳۰ رسالہ ”جواب نامہ جمعیت لاہائی صفحہ ۳۷ مطبوع مصر بحوالہ بہائی تحریک پر تبصرہ ۲۵ - الفرائد صفحات بحوالہ تحریک بہائیت پر تبصرہ صفحہے اقدس صفحه ۱۸۱ مطبوع مطبع ناصری سمیتی ۱۳۷۳ء ۳۷ نقطه الكاف صفحه ۱۴۴ ۳۸ مشکوۃ المصابیح مطبوعہ مطبع محمدی بیتی.باب العلامات بین الساعة وذکر الدجال صفحه ۴۱۹ ۳۹- سرورق نمبر لیکچر لاہور اس روز مرزا محمود ایرانی کے ایک خط کے جواب میں اپنی سچائی کے ثبوت میں بالتفصیل بتایا کہ سورہ کہف میں آخری زمانہ میں ایک ذوالقرنین کے ظہور کی پیشگوئی ہے.یہ پیشگوئی مسیح موعود کے متعلق ہے جس کا مصداق دنیا کے پردے پر صرف میں ہوں کیونکہ میرے وجود نے مشہور و معروف صدیوں میں خواہ ہجری میں خواہ مسیحی خواو بکر، بیتی اس طور پر اپنا ظہور کیا ہے کہ ہر جگہ دو صدیوں پر مشتمل ہے.(لیکچر لاہور صفحہ ۵۳-۵۴) ا جواب لیکچر جناب قادیانی " صفحه ۲۴-۲۶ شائع کردہ انجمن اشاعت بہائیاں رنگون ۱۹۰۸ء جواب لیکچر جناب قادیانی " صفحہ سے شائع کردہ انجمن اشاعت بہائیاں رنگون ۱۹۰۸ء ۴۳ الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۷ء صفحه ۳ - ۸ کالم ۲ تا هم ۴۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ دعوئی گیتا کی پیشگوئی اور ضرورت زمانہ کے عین مطابق اور حضور کی صداقت کا ایک بھاری ثبوت تھا تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجز اردو مارچ ۱۹۳۴ء) ۳۵ حیات طیبہ " میں لکھا ہے کہ اس موقعہ پر پادری اسکاٹ کے ساتھ شیخ عبدالحق صاحب نو مسلم بھی تھے یہ صحیح نہیں.اس سفر کی پوری روداد شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے لکھی تھی.اور انہوں نے قطع یہ نہیں لکھا.صرف یہ لکھا ہے کہ پادری اسکات کے ساتھ شیخ عبد الحق صاحب نو مسلم کے تعلقات تھے.(الحکم ۷/۲۴ او سمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳) الحکم ۱۰/۱۷ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰۱ احکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳-۶- احکم ۱۳۰ تو میر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳-۱- الحکم ۳- ۲۴ دسمبر C_3419 ۳۷ ولادت ۱۸۷۳ء.حضرت چوہدری صاحب کو ابتداء ہی سے سلسلہ سے محبت تھی.وہ اکثر مولوی عبد الکریم صاحب کے درس میں شامل ہوتے اور اس درجہ متاثر تھے کہ خود مولوی صاحب اکثر فرماتے تھے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ چوہدری صاحب اس سلسلہ سے علیحدہ رہیں.مولوی مبارک علی صاحب کے خلاف احمدی ہونے کے باعث ایک مقدمہ دائر ہوا اور جماعت سیالکوٹ نے چوہدری صاحب کو وکیل مقرر کیا.مقدمہ کی پیروی کی خاطر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کرنا پڑا.اور آپ بڑے متاثر ہوئے.۱۹۰۴ء میں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مولوی کرم دین صاحب والے مقدمہ میں بطور گواہ صفائی بھی طلب کیا گیا جہاں انہیں پہلی بار حضرت مسیح موعود کی خدمت میں شرف باریابی حاصل ہوا اور آپ بہت خوشگوار اثر لے کر واپس آئے.اور بالاخر حضور کے قیام سیالکوٹ کے دوران بیعت کرلی.( آپ کی اہلیہ محترمہ نے اپنے کشف کی بناء پر چند دن پہلے بیعت کرنے کی سعادت پائی) بیعت کے بعد چوہدری صاحب میں ایک عظیم روحانی انقلاب

Page 391

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۷ فریسیا لکوٹ پیدا ہو گیا.آپ 1912 ء میں اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے.حضرت خلیفتہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالی نے نظارت علیا کے علاوہ صیغہ بہشتی مقبرہ کے فرائض سپرد فرمائے.اس منصب کو آپ نے آخری دم تک آنریری طور پر نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا.اکیرن کے معرکہ شدھی میں بھی آپ کو حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا.۱۹۲۴ء میں حج سے مشرف ہوئے.آپ کا ایک علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سے کتب کے جامع ایڈ کسی تیار کئے.۲ ستمبر ۱۹۲۶ء کو جب کہ آپ اپنے قابل فخر اور لائق فرزند چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں لاہور میں مقیم تھے انتقال فرما گئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کو آپ کے وصال کی خبر ڈلہوزی میں ملی جس پر حضور قادیان تشریف لائے اور ۱۴ تمبر ۱۹۲۶ء کو جنازہ پڑھایا اور چارپائی کو اٹھا کر لحد تک لے گئے اور آپ کی نعش کو مقبرہ بہشتی کی خاک کے سپرد کیا.بعد ازاں خود اپنے ہاتھ سے کتبہ کی عبارت تحریر فرمائی جس میں لکھا.نہایت شریف الطبع ، سنجیدہ مزاج ، مخلص انسان تھے.بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی.بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آخر میری تحریک پر وکالت کا پیشہ جس میں آپ بہت کامیاب تھے ترک کر کے دین کے کاموں کے لئے بقیہ زندگی وقف کی اور اعلیٰ اخلاص کے ساتھ جس میں خدا تعالٰی کے فضل سے ہمیشہ ترقی ہوتی گئی.قادیان آبیٹھے.اسی دوران میں حج بھی کیا.میں نے انہیں ناظر اعلیٰ کا کام سپرد کیا تھا جسے انہوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے پورا کیا.اللہ تعالی کی رضا کے ساتھ میری خوشنودی اور احمدی بھائیوں کا فائدہ اور ترقی کو ہمیشہ مد نظر رکھا.ساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ نگاہ دور بین تھی.باریک اشاروں کو سمجھتے اور ایسی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے کہ میرا دل محبت اور قدر کے جذبات سے بھر جاتا تھا اور آج تک ان کی یاد دل کو گرما دیتی ہے." (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ” میری والدہ " از حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱ - ۱۷۲ ستمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۵-۶-۱۲.نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۸-۱۹ ۱۹/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحه ۸-۹) ۴۸ ولادت ۱۸۷۶ء.مدرسہ احمدیہ کے قدیم اساتذہ میں سے تھے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی بچوں کو پرائیوٹ ٹیوٹر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے.۲۱/ اکتوبر۱۹۴۹ء کو سب ربوہ میں لو ئنڈل سکول کی ابتداء ہوئی تو آپ اس کے سب سے پہلے ہیڈ ماسٹر بنے 14 اگست ۱۹۵۰ء کو حرکت قلب بند ہونے سے وفات پائی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان کی وفات پر خطبہ جمعہ میں فرمایا " ماسٹر مولا بخش صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جو اسنائی ہوتے ہیں.باوجود اندھے ہو جانے کے ان کا پڑھانے کا شوق نہیں جاتا تھا جہاں بھی خدمت کا کوئی موقعہ نکلتا وہ اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کر دیتے.باوجود زور دینے کے میں نے دیکھا ہے کہ وہ پیسے نہیں لیتے تھے.میری بچیوں کو بھی انہوں نے پڑھایا ہے مگر باوجود زور دینے کے انہوں نے پیسے نہیں لئے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی.(از رساله اصحاب احمد جلد اول صفحه ۱ تا ۳) حضرت ماسٹر صاحب کے ایک فرزند مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب تھے جو عرصہ دراز تک سلسلہ کے مرکزی اداروں میں تعلیمی خدمات بجالاتے رہے اور ۲۴/ ظہور / اگست ۱۳۴۲/۱۹۶۳ ہش کو انتقال کر گئے.دوسرے فرزند مولوی عبد القادر صاحب ضیغم میں جو سالہا سال تک امریکہ میں مبلغ اسلام رہے اور اب نائب وکیل التبشیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں.۴۹- وفات ۶ / جون ۱۹۴۴ء کئی سال تک اخبار " سن رائز " میں قلمی خدمات بجالائے.ایک اچھی ملازمت آپ نے قومی خدمت کی خاطر ترک کر دی.راجپال کے مقدمہ میں آپ نے مسلم آؤٹ لک " کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر بڑی جرات سے تبصرہ کیا جس پر آپ کو چھ ماہ قید کی سزادی گئی.نہایت قانع بزرگ تھے اور مذہبی مسائل پر تقریر کرنے کا خاص سلیقہ اور جوش رکھتے تھے.۵- صاحب کشف والہام تھے.جب سے سیالکوٹ میں ضلع وار نظام قائم ہوا ہے وہ اپنے حلقہ میں میں اکیس جماعتوں کے امیر رہے.خلافت ثانیہ کی بیعت میں آپ کی مسابقت سے دوسرے احباب کو بھی خلافت سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی.۳۱ دسمبر ۱۹۶۰ء کو انتقال فرمایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۵۱ ولادت غالبا ۱۸۸۳ء دستی بیعت ۱۹۰۷ء.وفات ۳۰ ظهور / اگست ۱۳۴۷/۱۹۹۸ش ۱۹۲۳ء میں جہاد ما کانہ میں شرکت کی.تمبر ۱۹۳۵ء کے قریب ملازمت سے پنشن یاب ہو کر مستقل طور پر قادیان آگئے اور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۰ء تک سلسلہ کے متعدد انتظامی اداروں میں خدمات بجا لاتے رہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو آپ سے بہت محبت تھی.بہت دعا گو اور

Page 392

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۷۵ سفر سیالکوٹ علیم الطبع بزرگ تھے.(تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو.اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم صفحه ۵۷ تا ۱۳۶ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے دسمبر (۱۹۶۹ء)

Page 393

اریخ احمدیت جلد ۲ ۳۷۶ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ماموریت کا چوبیسواں سال زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز (۱۹۰۵ء) ملک میں طاعون زوروں پر تھی کہ حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ۱۹۰۳ء کے آخر سے مسلسل یہ خبر دی جانے لگی کہ خدا تعالی کے زور آور حملے زلازل کی شکل میں بھی ظاہر ہونے والے ہیں.چنانچہ حضور کو دسمبر ۱۹۰۳ء میں بذریعہ رویا " زلزلہ کا ایک دھکہ " آنے کی خبردی گئی.بعد ازاں الہام ہوا.إِنَّ اللهَ لَا يَضُرُّ - إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ اللہ تعالی ضرر نہیں پہنچائے گا.اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.اور نیکو کار ہوں) ۲۸ / اپریل ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا امن است در مکان محبت سرائے ، ہمار امکان جو ہماری محبت سرا ہے اس میں ہر طرح سے امن ہے).یکم جون ۱۹۰۴ء کو الہام نازل ہوا.سلام عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ عَفَتِ الدَيارُ مَحَلُّهَا وَمَقَامُهَا - ( یعنی تمہارے لئے سلامتی ہے.تم خوش رہو.عارضی رہائش کے مکانات بھی مٹ جائیں گے اور مستقل رہائش گاہیں بھی) اس کے ساتھ ہی دوبارہ یہ الہام ہوا " زلزلہ کا ر حکہ " ایک ہفتہ بعد پھر الہام ہوا.عَفَتِ الدَّيَارُ مَحَلَّهَا وَمَقَامُهَا إِنِّي أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ - " غرضکہ حضور کو بکثرت رویا اور الہامات کے ذریعہ سے اطلاع دی گئی کہ ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے اور الہام میں ایسی جگہ پر زلزلہ کے سب سے زیادہ تباہ کن ہونے کی خبر دی گئی جہاں کثرت سے عارضی رہائش گاہیں ہوں گی.یعنی کیمپ، ہوٹل، سرائیں اور فوجی بار کیں وغیرہ.ساتھ ہی یہ بتا دیا.گیا کہ زلزلہ کے اثرات سے حضور کا مکان بھی محفوظ رہے گا اور وہ لوگ بھی سلامت رہیں گے جو آپ کے ماننے والے اور متقی ہوں گے.

Page 394

اریخ احمدیت جلد ۲ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ۴.اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ میں قیامت خیز زلزلہ این ابھی شروں پر تھوڑا عرصہ گزرا الہی - تھا کہ یکا یک ۴ - اپریل ۱۹۰۵ء کو خدائی تقدیر اور اس کے فیصلہ کے مطابق کانگڑہ کی آتش فشاں اور خاموش پہاڑی جو بالکل بے ضرر سمجھی جاتی تھی اور جس کے متعلق علم طبقات الارض کے ماہرین کا خیال تھا کہ اس سے کسی تباہی کا خطرہ نہیں جنبش میں آگئی اور ۴.اپریل ۱۹۰۵ء کو صبح چھ بجے کانگڑہ اور اس کے ارد گرد سینکڑوں میل تک کی زمین میں زبر دست زلزلہ آ گیا جس سے کانگڑہ کا " دیوی " نامی قیمتی مندر جو دو ہزار سال سے موجود تھا بالکل نابود ہو گیا.دھر مسالہ کی چھاؤنی کی بیرکوں اور انگریزوں کی عالی شان کو ٹھیوں کی اینٹ سے اینٹ بچ گئی.ڈلہوزی اور کلوہ کی چھاؤنیوں کی عمارتیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں اور دیگر شہروں مثلاً شملہ مسوری - ڈیرہ دون - امرتسر دہلی - گوجرانوالہ کیتھل کرنال- جموں اور لاہور وغیرہ کو بھی سخت نقصان پہنچا.ہزاروں آدمی اس زلزلہ میں ہلاک ہوئے.اس زمانے کے اخبارات و رسائل میں اس زلزلہ کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قمرالی قیامت کا نمونہ تھا.چنانچہ اخبار "بھارت" نے لکھا."ہم.اپریل کی صبح ہندوستان اور دنیا کے بعض حصوں کو نہیں بھولے گی.وہ قیامت کا سماں وہ ہولناک سین جب آنکھوں کے آگے آجاتا ہے تو جان ہوا ہو جاتی ہے.باپ نے بیٹا نہیں سنبھالا.عورت نے خاوند کی پرواہ نہیں کی.اخبار ” اہلحدیث " نے لکھا.۴.اپریل کو سورج کے نکلتے ہی قیامت کا نمونہ قائم ہوا".اخبار "زمیندار" نے لکھا..اپریل کا زلزلہ اس خوفناک منظر کی شہادت دے رہا ہے جو قرب قیامت کی آئندہ خوفناک نشانیوں کے ظاہر ہونے پر دنیا کو دیکھنا ہو گا." پبلک میگزین نے لکھا اب ایک ایسے بھونچال سے ملک کو مقابلہ کرنا پڑا ہے کہ جس نے ہزاروں جانوں کو قتل اور زخمی کرنے کے علاوہ کروڑوں اربوں کی جائید ادتباہ کر دی ہے ".اخبار "وکیل" نے لکھا ” یہ زلزلہ اس قدر ہولناک اور صہیب تھا کہ اسے قیامت صغری کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا بلکہ جس وقت وہ اپنی پوری شدت پر خدائے قہار کا جلال ظاہر کر رہا تھا.اس وقت تو لوگوں کو عموما یہیں یقین آ گیا تھا کہ بس قیامت آہی گئی." دو عجیب خدائی تصرفات دھرم سالہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک ایک ہندو دوست پنڈت مولا رام ہوتے تھے ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت تھی.۳/ اپریل ۱۹۰۵ء کو یعنی زلزلہ آنے سے صرف ایک دن قبل ان کو حضور کا ایک خط پہنچا جس میں حضور نے لکھا تھا کہ خدا کا عذاب آسمان پر بھڑک رہا ہے اور اس کا عذاب سالوں میں نہیں مہینوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے.پنڈت صاحب نے شام کو یہ خط

Page 395

اریخ احمدیت جلد ۲ نازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز پڑھے بغیر سرہانے تلے رکھ دیا.صبح کو انہوں نے اسے پڑھنا شروع کیا.پنڈت صاحب یہ خط ابھی پڑھ ہی رہے تھے یا پڑھ چکے تھے کہ زلزلہ آگیا اور وہ خط پڑھتے پڑھتے اپنے مکان سے باہر نکل آئے اور حضور کے خط کی برکت سے اس کی جان بچ گئی.اس سے عجیب تر واقعه خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا.حضور ۴/ اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو "نصرة الحق" یعنی " براہین احمدیہ حصہ پنجم " کا مسودہ لکھ رہے تھے اس دوران میں جب حضور اس الہام تک پہنچے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا." حضور یہ الفاظ لکھ کر اس کے پورا ہونے کا ثبوت درج کرنے کو تھے کہ زلزلہ آگیا." حضرت مسیح موعود کی طرف سے اشتہار "الدعوت" حضور نے دوسرے ہی روز (۵ / اپریل ۱۹۰۵ء کو) الدعوت" کے نام سے ایک اشتہار دیا جس میں حضور نے دعوت و تبلیغ کرتے اور اس نشان کی طرف اہل ملک کو توجہ دلاتے ہوئے اتمام حجت فرمائی اور لکھا ” عزیز و شرم اور حیا کرو کہ خدا کے دن آگئے اور آسمان تمہیں وہ کرشمے دکھا رہا ہے جن کی تمہارے آباء و اجداد کو خبر نہ تھی مبارک وہ جو میرے بارے میں ٹھو کر نہ کھا دیں".قادیان.دھر مسالہ اور دوسری احمدی جماعتوں کی خدائی حفاظت الہامات میں حضور کے مخلص خدام کی زلزلہ کے نقصانات سے بچاؤ کی واضح خبر دی گئی تھی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.گو قادیان میں یہ زلزلہ تین منٹ تک پورا زور سے رہا.یہاں اس کا جھٹکا پہلے شرقا غربا اور پھر شمالاً جنوبا محسوس ہوا.اس کے بعد دن کے مختلف اوقات میں زلزلہ محسوس ہو تا رہا.مگر خدا کے فضل سے حضور یا سلسلہ عالیہ کے مکانات وغیرہ کو کوئی خفیف سا نقصان بھی اس سے نہیں ہوا.علاوہ ازیں دھرم سالہ کی احمد یہ جماعت بار جو دیکہ زلزلہ کے مرکز میں ہونے کے براہ راست زد میں تھی معجزانہ طور پر بالکل محفوظ رہی.بعض اور احمدی دوست بھی جو عارضی طور پر پالم پور گئے تھے.وہ بھی بچ گئے.یہی نہیں ضلع کانگڑہ کے بھی احمدی افراد بالکل صحیح و سالم رہے مکرم ماسٹر عطاء محمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ کا بیان ہے کہ " میرے محترم چچا حضرت مولوی وزیر الدین صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں سے تھے وہ سبحان پور ٹیرہ ضلع کانگڑہ کے ور نیکٹر مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.ان کے اہل وعیال میریاں

Page 396

احمدیت.جلد ۲ ۳۷۹ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ضلع ہوشیار پور میں مقیم تھے اور میں چا میاں کے ساتھ سبحان پور ٹیرہ میں رہتا تھا.۱۹۰۵ء کے غالبا فروری یا مارچ کے مہینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار بعنوان عفت الديار محلها و مقامها " چچا جان کو موصول ہوا جو دیواروں پر چسپاں کرنے کے لئے انہوں نے میرے سپرد کر دیا.میں سکول کے گیٹ اور دکانوں کی دیواروں پر یہ اشتہار چسپاں کر رہا تھا کہ وہاں ایک سادہ کار (ستار) حسن دین نام میرے پاس سے گزرا اور اشتہار دیکھ کر کہنے لگا کہ مرزائیوں کی صف لپیٹی جائے گی.یہ سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ احمدیوں کو تو نہیں البتہ تمہاری صف لیٹنے کا وقت آگیا ہے.وہ تو چلا گیا اور بات آئی گئی ہو گئی.۳/ اپریل ۱۹۰۵ء کو شام کو دو احمدی بابو محمد اسمعیل صاحب پوسٹ ماسٹر اور منشی امام دین صاحب لمبا گاؤں ضلع کانگڑہ جو سبحان پور کے قریب ہی ہے.اور ایک اور غیر احمدی صاحب جو زیر تبلیغ تھے ہمارے ہاں مہمان تھے اور ہم سب کی دعوت ایک صاحب کریم بخش صاحب رنگریز نے کر رکھی تھی.صبح کا گندھا ہوا آنا جو بچا ہوا تھا اسی طرح رکھا رہا اور اس کے پکانے کی نوبت نہ آئی.دعوت کھا کر رات دیر سے گھر آئے اور آتے ہی سو گئے.جس مکان میں محترم چچا جان رہتے تھے وہ سکول سے ملحقہ زمین میں بنا ہوا تھا.سکول کی عمارت دو منزلہ تھی.مچلی منزل سکول کے طور پر کام آتی تھی اور اوپر کی منزل بطور بورڈنگ ہاؤس.اس مکان میں میرے اور میرے چچا جان کے علاوہ تین مذکورہ بالا مہمان تھے.۱/۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو عین طلوع آفتاب کے وقت وہ قیامت خیز زلزلہ آیا جس سے ضلع بھر کی بستیاں اور شہرتہ و بالا ہو گئے.دریائے بیاس میں جو سبحان پور شیرہ شہر کے بالکل قریب بہتا تھا پہاڑ کی چوٹی کرنے سے بند لگ گیا اور پانی پہاڑ کی ترائی پر بنے ہوئے مکانوں اور انسانوں کی تباہی کا موجب ہوا.ڈاک اور تار کا سلسلہ یکسر منقطع ہو گیا.ہمارے مکان اور سکول کی بنیادیں تک اکھڑ گئیں اور شہر میں اس قدر تباہی مچی کہ دن چڑھتے ہی کہرام مچ گیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے گھر میں جس قدر افراد تھے سب کے سب معجزانہ طور پر محفوظ رہے.بورڈنگ ہاؤس کے بعض طالب علموں کی چارپائیاں نیچے سڑک یا گلی میں گر پڑیں ایسی حالت میں کہ لڑکا چارپائی پر پڑا ہے اور اس کی چارپائی پرو تر کی صورت میں ایک کڑی پڑی ہے جس کے نیچے بچہ بالکل محفوظ ہے.نہ صرف یہ بلکہ سکول میں جتنے ماسٹر صاحبان پڑھاتے تھے اور جس قدر طالب علم سکول میں پڑھتے تھے سب کے سب اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے محفوظ رہے اور کسی کو خراش تک بھی نہ آئی سوائے ایک ماسٹر دلیپ سنگھ صاحب کے جو نئے نئے آئے تھے اور انہوں نے ابھی چارج بھی نہ لیا تھا زلزلہ میں صرف ان کو چند معمولی چوٹیں آئیں.اس کے برخلاف وہ حسن دین جو کہتا تھا کہ مرزائیوں کی صنف پیٹی جائے گی اس کے اپنے خاندان کے بیس کے قریب افراد تھے جن میں سے ایک

Page 397

اریخ احمدیت جلد ۲ ٣٨٠ زلازل کے غیر معمولی سلسلے کا آغاز دو کے سوا باقی سب لقمہ اجل ہو گئے.شہر میں اس قدر موتا موتی لگی کہ بعض گھر جن میں 11 افراد تھے ان میں سے صرف ایک زندہ رہا اور باقی سب نهنگ اجل کا شکار ہو گئے.فاعتبر وا یا اولی الابصار - اس جگہ یہ بات بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جہاں میری چارپائی تھی وہاں سرہانے اور پائینتی کی طرف تھوڑی دیواریں کھڑی رہیں.اور چھت کے چار بالے بدستور اپنی جگہ قائم رہے اور میں بالکل محفوظ حالت میں اپنی چارپائی پر پڑا رہا.اور نہ صرف میں بالکل محفوظ رہا.بلکہ گھر کے دیگر افراد بھی ہر طرح خیرت سے رہے.اور گھر کی جملہ اشیاء کو اللہ تعالی نے اپنے حفظ و امان میں رکھا.t فالحمد لله رب العالمين - " غیروں کا اقرار یہ خطر ناک زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی واضح اور بین شہادت تھا کہ بعض متعصب اخبارات کو بھی صاف صاف اقرار کرنا پڑا کہ ” جب سے مرزا صاحب نے دعوی کیا ہے تب سے ایسے صدمات وبائی امراض اور زلزلے آنے لگے ہیں.اس سے پیشتر ایک صدی کی تاریخ کو بغور دیکھا جاوے تو اس صدی میں کسی ایسے صدمے کا آنا معلوم نہیں ہو تا.بایں ہمہ اس نشان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زلزلہ کی پیشگوئیاں کرنا جرم قرار دینا چاہیے." زلزلے کے بعد حضرت اقدس اور حضور کے خدام کی رہائش باغ میں حضرت صاجزاده مرزا بشیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ”جب ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تو....نواب محمد علی خاں صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ تھا اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے.جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کے بے تحاشہ اٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے...ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے.وہاں حضرت مسیح موعود اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے.ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعود کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے...کوئی ادھر کھینچتا تھا تو کوئی ادھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے.آخر بڑی مشکل سے آپ اور آپ کے ساتھ چھٹے ہوئے ہم سب بڑے صحن میں پہنچے.اس وقت تک زلزلے کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے.تھوڑی دیر کے بعد آپ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے.دوسرے احباب بھی باغ میں پہنچ گئے.وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کر والئے گئے اور کچھ خیمے منگوا لئے گئے اور پھر ہم سب ایک عرصہ باغ میں مقیم رہے.ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا.گویا

Page 398

اریخ احمدیت.جلد ۲ باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا" PAI زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز حضرت اقدس ۴ / اپریل ۱۹۰۵ء کو زلزلہ کے دوران میں باغ میں باغ سے اندار میں واپسی تشریف لائے رتھے.۳۰ / جون ۱۹۰۵ء کو آپ نے فرمایا کہ بہت جلد قادیان چلے جانے کا ارادہ ہے میں صرف اس امر کا منتظر ہوں کہ ذرا بارش ہو جائے.چنانچہ یکم جولائی ۱۹۰۵ء کی رات کو بارش شروع ہوئی اور حضور نے دوسرے روز ۲/ جولائی کی صبح کو کوچ کا حکم دے دیا.چنانچہ ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت اقدس خیریت کے ساتھ قادیان آگئے.باغ میں جو چہل پہل تھی وہ قادیان میں نظر آنے لگی اور احمدی محلہ از سر نو آباد ہو گیا.آئندہ زلازل کے متعلق خبریں حضرت اقدس کا ابتداء باغ میں آنے کا منشاء صرف یہ تھا کہ چند روز باغ میں چل کر دعائیں کریں مگر اس کے بعد آپ کو الہامات کے ذریعہ سے مسلسل خبریں ملنے لگیں کہ پھر زلزلے آنے والے ہیں.لہذا حضور کو مزید انکشافات تک نہیں رہنا پڑا.II حضرت اقدس کو ۸ / اپریل ۹۴٬۶۱۹۰۵/ اپریل ۱۹۰۵ء اور پھر ۲۹ اپریل ۱۹۰۵ء کو زلازل کے متعلق متعدد الہامات ہوئے جو آپ نے انہی دنوں مختلف اشتہارات کے ذریعہ سے اہل ملک تک پہنچادئیے.سوان پیشگوئیوں کے مطابق اگلے سال سے پھر زلازل شروع ہو گئے.چنانچہ ۱۹۰۶ء میں کیلیفورنیا اور واپریز اور چلی میں زبر دست زلزلے آئے.۱۹۰۷ ء میں جمیکا میں زلزلہ آیا.۱۰۰۸ء میں میسینا اور کلیریا میں ۱۹۱۴ء میں اٹلی میں ۱۹۳۴ میں بہار میں اور ۱۹۳۵ ء میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا.۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد عام طور پر خیال تھا کہ ہندوستان میں یہ آفت نہیں آئے گی.چنانچہ جاپان کا ایک پروفیسر اموری جو علم زلازل کا محقق اور مبصر تھا زلازل کی تحقیقات کے لئے ہندوستان آیا اور تحقیقات کے بعد بعد اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ یہاں اب دو سو سال تک اور کوئی زلزلہ نہیں آئے گا لیکن اگلے سال ہی ۲۷ / فروری ۱۹۰۶ ء کا دن گزرنے کے بعد رات کو ڈیڑھ بجے کے قریب ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ بہت سے گھر مسمار اور بہت سی جائیں تلف ہو گئیں.11 حضرت اقدس کو یہ الہام ہوا تھا کہ ع " پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی " اس کے بارے میں آپ کی تقسیم یہ تھی کہ ”بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والے ہے.وہ بہار کے دن ہوں گے." چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق یہ زلزلہ بہار ہی کے دنوں میں آیا.

Page 399

۳۸۲ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز اریخ احمد بیت - جلد ۲ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا بھی غیروں نے کھلا اعتراف کیا.چنانچہ مولانا عبد اللہ العمادی (ولادت ۱۸۷۴ء) نے اپنے رسالہ ” البیان " میں لکھا.” آٹھویں فروری کو جو زلزلہ آیا تھا اس کے متعلق قادیان کے مذہبی اخبار "بدر" نے ہمارے پاس ایک اشتہار شائع کرنے کو بھیجا ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ کی پیشین گوئی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بہت پیشتر کر چکے تھے.اور اسی زمانہ میں اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو چکی تھی.میرزا صاحب کی فراست ایمانی کے ہم بھی قائل ہیں اور ان کی پیشگوئیاں صحیح بھی ہوتی ہیں لیکن افسوس ہے کہ ایک طویل اشتہار شائع کرنے کی البیان میں گنجائش نہیں." " ९९ م م براہین احمدیہ حصہ پنجم نصرة الحق" کی تصنیف اور جنگ عظیم (زلزلہ عظیمہ) کی عظیم الشان پیشگوئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۰ ء سے کتاب ”براہین احمدیہ " کی اشاعت کا آغاز فرمایا تھا.خدا تعالی کی حکمت اور مصلحت سے ایسا اتفاق ہوا کہ براہین احمدیہ کے چار حصے آپ نے ۱۸۸۴ء تک شائع فرما دئیے.اس کے بعد اکیس برس تک اس کتاب کا چھپنا ملتوی رہا.اس مدت میں حضور اقدس نے اس کے قریب تالیفات فرما ئیں جن میں سے بعض بڑے بڑے حجم کی تھیں لیکن اس کتاب کی تکمیل کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی.کئی مرتبہ حضور کے دل میں یہ درد بھی پیدا ہوا کہ برا ہیں احمدیہ کے ملتوی رہنے پر ایک زمانہ دراز گزر گیا.اور باوجود اس کے خریداروں کی طرف سے کتاب کے مطالبہ کے لئے بڑا اصرار ہوا.اور اس قدر زمانہ التواء میں مخالفوں کی طرف سے بھی سخت سے سخت اعتراضات اٹھائے گئے مگر پھر بھی قضاء قدر کے مصالح سے اس کتاب کی تکمیل نہ ہو سکی 22 لیکن اس سال فروری ۱۹۰۵ء میں تصرف الہی سے حضور کا ذہن اس طرف مبذول ہوا اور آپ نے براہین احمدیہ" کے پانچویں حصہ کی تصنیف کر کے اس کی تکمیل کر دی.حضرت اقدس براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں کو عہد نامہ عتیق اور پانچویں حصے کو عہد نامہ جدید " قرار دیا کرتے تھے.یہ عظیم الشان تصنیف جو حضور کی وفات کے بعد شائع ہوئی ایک دیباچہ دو باب اور ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے.دیباچہ میں حضور نے کتاب کی تاخیر و التواء کے خدائی اسباب درج فرمائے ہیں.پہلا باب معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت کے بیان میں ہے.اور دو سرا ان نشانوں کے بیان میں جو بذریعہ ان

Page 400

اریخ احمدیت جلد ؟ ۳۹۳ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز پیشگوئیوں کے ظاہر ہوئے جو " براہین احمدیہ " میں شائع کی گئی تھیں اور بعد کو پوری شان سے پوری ہوئیں.کتاب کے ضمیمہ میں زلزلہ کی پیشگوئی کے متعلق بعض مخالفین کے اعتراضات کے جوابات کے علاوہ مشہور بنگالی عالم مولانا سید عبد الواحد صاحب برہمن بڑیہ کے سوالات کا بھی مکمل جواب دیا جو انہوں نے اس زمانہ میں حضور کی خدمت میں لکھ کر بھجوائے تھے.مولوی سید عبد الواحد صاحب پر ان جوابات نے حق بالکل منکشف کر دیا اور آپ یکم نومبر ۱۹۱۲ء کو حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کر کے داخل سلسلہ ہو گئے اور پھر پوری عمر تبلیغ حق میں گزار دی.اس کتاب میں حضور نے " زندہ مذہب اور سورۃ مومنون کی ابتدائی آیات پر ایسی لطیف روشنی ڈالی ہے کہ انسان اس علمی معجزہ کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے.کتاب میں حضور کی دو طویل مگر مئوثر اردو نظمیں اور ایک عربی نظم بھی شامل ہیں جن میں آپ کے دعادی اور ان کے دلائل اور نشانات کا نہایت عمدہ رنگ میں خلاصہ آگیا ہے.زلزلہ عظیمہ کی زبردست پیشگوئی ایک زلزلہ عظیم کے متعلق حضرت اقدس نے " النداء من السماء" اور دوسرے اور اس کا ظہور جنگ عظیم کی شکل میں اشتہارات میں جو پیشگوئیاں فرما ئیں تھی ان کو مزید تفصیلات حضور نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ایک نظم کے آخر میں درج فرما ئیں.چنانچہ آپ نے فرمایا اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ یہ ہو گا کہ تاباندھے آزار یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بخار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر وزیر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آب رود بار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چنار ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہو کر مست و بے خود راہوار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کنار اک نمونہ قمر کا ہو گا ربانی نشاں وہ ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیه ناشناس اس چہ ہے میری سچائی کا بھی دار و مدار

Page 401

یت - جلد ۲ زلازل کے غیر سلسلہ کا آغاز وحی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کہ میر ہو کر متقی اور بردبار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار اس زلزلہ عظیمہ کے بارے میں حضور نے اپنی نوٹ بک میں ایک نظم بھی درج فرمائی تھی جس کے چند اشعار یہ تھے.ومی حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار کچھ ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانے میں نظیر فوق عادت ہے کہ سمجھائے گا وہ روز شمار وہ تباہی آئے گی شہروں اور دیہات پر جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زنہار ایک دم میں غمکدے ہو جائیں عشرت کدے شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہو کر سوگوار ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار BA یہاں ایک اہم روایت کا درج کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ حضرت اقدس ایک اہم روایت نے براہین احمدیہ کی نظم میں " مضمحل ہو جا ئیں گے اس خوف سے سب جن وانس" کی بجائے دراصل یہ مصرعہ لکھا تھا کہ " مضمحل ہو جائیں گی اس خوف سے سب طاقتیں.مگر خواجہ کمال الدین صاحب کے اصرار پر حضور نے "طاقتیں " کا مفہوم " جن وانس" کے لفظ سے ظاہر کر کے مصرعہ بدل دیا.اس لطیف تصرف سے اصل مطلب میں تو کوئی فرق نہیں آیا مگر اس سے جن و انس کی ایک واقعاتی تعبیر نمایاں ہو گئی.وہ ورق جس پر پہلا مصرعہ چھپا تھا ر ہنے دیا گیا اور اس کی بجائے ترمیم کر کے دو سرا ورق شامل کتاب کر دیا گیا.(پہلا ورق شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ کے ریکارڈ میں محفوظ یہ زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جس کے متعلق زلزلہ عظیمہ میں الہام کے مطابق تأخیر پہلے آپ کو اطلاع ملی تھی کہ آپ کی زندگی میں آئے گا.حضور کی دعا کی برکت سے آپ کی زندگی میں ملتوی کر دیا گیا.چنانچہ ۲۹/ مارچ کو الہام ہوا.آخرة الله الی وقت مسمی " کہ اسے تاخیر میں ڈال دیا گیا ہے.مگر یہ تاخیر محض وقتی تھی.لہذاوہ بالاخر ۱۹۱۴/۱۸ ء میں پہلی جنگ عظیم کی شکل میں ظاہر ہوا جس میں الہام الہی کی تمام بیان شدہ علامات صفائی سے پوری ہو ئیں اور اس سے تمام دنیا پر حجت تمام ہوئی.کانگڑہ کے زلزلہ نے ثابت کیا تھا کہ اللہ تعالی کی حکومت زمین کی گہرائیوں سے لے کر اس کی سطح تک ہے مگر اس زلزلہ عظیمہ نے یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالٰی جس طرح جمادات و نباتات پر حکومت رکھتا ہے ان لوگوں کے دلوں

Page 402

ت جلد ۳۸۵ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز پر بھی وہی حاکم ہے جو حکومت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے آپ کو خدائی سے باہر سمجھتے ہیں.زلزلہ عظیمہ سے متعلق مختلف زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس کی ابتداء اس طرح ہوگی کہ کوئی مصیبت نازل علامات کا جنگ عظیم اول میں پورا ہونا ہو گی اور تمام دنیا پر زلزلہ آئے گا.چنانچہ اسی و قتل ہوا جس کے نتیجہ میں عالم گیر جنگ چھڑ گئی.طرح اس جنگ کی ابتداء ہوئی.۲۸ / جون ۱۹۱۴ء کو آسٹریا کا شہزادہ ( آرچ ڈیوک فرانس فرڈیننڈ) دوسری بات اس پیشگوئی میں یہ بتائی گئی تھی کہ اس آفت عظیمہ کا اثر ساری دنیا پر ہو گا.چنانچہ یہ بات روز روشن کی طرح پوری ہوئی.اس سے پہلے ایک بھی مصیبت ایسی نہیں آئی جس کا اثر اس وسعت کے ساتھ ساری دنیا پر پڑا ہو.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ پہاڑ اور شہر اڑائے جائیں گے اور کھیت برباد ہوں گے سوایسا ہی ہوا.بیسیوں پہاڑیاں کثرت گولہ باری اور سرنگوں کے لگانے سے مٹ گئیں اور بہت سے شہر برباد ہو گئے.جس ملک کی فوج آگے بڑھی اس نے دوسرے ملک کے کھیت اور شہر اجاڑ دیئے.سبزہ کا نام و نشاں باقی نہ چھوڑا.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ جانوروں کے ہوش و حواس اڑ جائیں گے.سو ایسا ہی ہوا.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ زمین الٹ پلٹ ہو جائے گی.پینا نچہ فرانس.سردیا اور روس کے علاقوں میں گولہ باری کی کثرت سے بعض جگہ اس قدر بڑے گڑھے پڑ گئے کہ نیچے سے پانی نکل آیا اور اسی طرح خندقوں کی جنگ کے طریق پر زور دینے کی وجہ سے ملک کا ہر حصہ کھو گیا.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ ندیوں کے پانی خون سے سرخ ہو جائیں گے اور خون کی ندیاں چلیں گی.سو بلا مبالغہ اسی طرح ہوا.بعض دفعہ اس قدر خون ریزی ہوتی تھی کہ ندیوں کا پانی فی الواقعہ میلوں میل تک سرخ ہو جاتا تھا.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ مسافروں پر وہ ساعت سخت ہوگی اور بعض ان میں سے راستہ بھولتے پھریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.جس وقت جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت ہزاروں لاکھوں آدمی دشمنوں کے ممالک میں گھر گئے اور بعض ہزاروں میل کا چکر لگا کر گھروں کو پہنچے اور جنگ کے درمیان بھی بہت دفعہ فوجی سپاہیوں کو بعض ناکوں کے دشمن کے قبضہ میں چلے جانے کی وجہ سے سینکڑوں میل کا سفر کر کے جانا پڑتا تھا اور انگریز سپاہی بوجہ فرانس میں مسافر ہونے کے راستہ بھول جاتے تھے.چنانچہ

Page 403

اریخ احمدیت جلد ۲ ۳۸۶ زلازل کے غیر معمولی - اس قسم کے حوادث کی کثرت کی وجہ سے آخر فرانسیسی زبان میں ان کی رجمنٹوں وغیرہ کے نام تختوں پر لکھ کر ان کے گلوں میں لٹکانے پڑے.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ یورپ جو کچھ عمارات تیار کرا رہا ہے وہ مٹا دی جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس جنگ نے علاوہ ظاہری عمارتوں کے گرانے کے یورپین تمدن کی بنیادوں کو بھی ہلا دیا.ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ تمام بیڑے اس وقت تیار رکھے جائیں گے.چنانچہ اس جنگ کے دوران میں برسر پیکار قوموں کے علاوہ دوسری حکومتوں کو بھی اپنے بٹیرے ہر وقت تیار رکھنے پڑتے تھے.ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ بحری تیاریاں بھی بڑے زور سے ہوں گی.چنانچہ جس قدر جہاز اس جنگ میں استعمال ہوئے اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی.ایک نشانی اس آفت کی یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اچانک آئے گی.چنانچہ بڑے بڑے مد بردں نے اقرار کیا کہ گو وہ ایک جنگ کے منتظر تھے مگر اس قدر جلد اس کے پھوٹ پڑنے کی ان کو امید نہ تھی ایک علامت یہ تھی کہ جس طرح خدا کا ذکر مٹ گیا ہے اس طرح گھر برباد کر دئیے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.سب سے زیادہ عیاشی میں مبتلا فرانس کا مشرقی علاقہ تھا.تمام یورپ کو شراب و ہیں سے بہم پہنچائی جاتی تھی اور عیش و عشرت کو پسند کرنے والے کل مغربی ممالک سے وہاں جمع ہوتے تھے.سواسی علاقہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا.جس طرح خدا کا ذکر وہاں سے مٹ گیا تھا وہاں کے در و دیوار اسی طرح مٹا دیئے گئے.ایک عظیم الشان علامت جو اپنے اندر کئی نشانات رکھتی ہے.یہ بتائی گئی تھی کہ اس جنگ میں زار کا حال بہت ہی خراب ہو گا جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی اس وقت کے حالات اس کے الفاظ کے پورا ہونے کے بالکل مخالف تھے.مگر پیشگوئی پوری ہوئی اور ہر ایک کے لئے حیرت کا موجب بنی.جس وقت روس میں فساد پھوٹا اس وقت زار روس سرحد پر فوجوں کے معائنہ کے لئے گیا ہوا تھا.زار روس نے لوگوں میں جوش کی حالت معلوم کر کے گورنر کو سختی کرنے کا حکم دے دیا.مگر اس دفعہ سختی نے خلاف معمول اثر کیا.لوگوں کا جوش اور بھی بڑھ گیا.بادشاہ نے اس گورنر کو بدل کر ایک اور گورنر مقرر کر دیا اور خود دار الخلافہ کی طرف چلا.مگر راستہ میں اسے اطلاع ملی کہ لوگوں کا جوش تیزی پر ہے اور یہ کہ اس کو اس وقت دار الخلافہ کی طرف نہیں آنا چاہیے.مگر بادشاہ نے اس نصیحت کی پرواہ نہ کی اور خیال کیا کہ اس کی موجودگی میں کوئی شور نہیں ہو سکتا اور آگے بڑھتا گیا.کچھ ہی دور آگے ٹرین گئی تھی کہ معلوم ہوا باغیوں نے دفاتر وزارت پر قبضہ کر لیا ہے اور ملکی حکومت قائم ہو گئی ہے.یہ سب

Page 404

احمدیت جلد ؟ ۳۸۷ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز کچھ ایک ہی دن میں ہو گیا.یعنی بارہ ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ء کی صبح سے شام تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اختیار رکھنے والا بادشاہ جو اپنے آپ کو زار کہتا تھا یعنی کسی کی حکومت نہ ماننے والا اور سب پر حکومت کرنے والا حکومت سے بیدخل ہو کر اپنی رعایا کے ماتحت ہو گیا اور پندرہ مارچ کو مجبورا اسے اپنے ہاتھ سے یہ اعلان لکھنا پڑا کہ وہ اور اس کی اولاد تخت روس سے دستبردار ہوتے ہیں اور حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق زاروں کے خاندان کی حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا.مگر ابھی اللہ تعالی کے کلام کے بعض حصوں کا پورا ہونا باقی تھا.نکولس ثانی ( زار روس) یہ سمجھتا تھا کہ وہ حکومت سے بیدخل ہو کر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچالے گا اور خاموشی سے اپنی ذاتی جائدادوں کی آمد پر گزارہ کرلے گا.مگر اس کا یہ ارادہ بھی پورا نہ ہو سکا.پندرہ مارچ کو وہ حکومت سے دستبردار ہوا اور ۲۱ / مارچ کو قید کر کے سکو سیلو بھیج دیا گیا.۲۲ / مارچ کو امریکہ نے ۲۴ / مارچ کو انگلستان.فرانس اور اٹلی نے باغیوں کی حکومت تسلیم کرلی اور زار کی سب امیدوں پر پانی پھر گیا.اس نے دیکھ لیا کہ اس کی دوست حکومتوں نے جس کی مدد پر اسے بھروسہ تھا اور جن کے لئے وہ جرمن سے جنگ کر رہا تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کی باغی رعایا کی حکومت تسلیم کرلی ہے اور اس کے لئے ایک کمزور سی آواز بھی نہیں اٹھائی.مگر اس تکلیف سے زیادہ تکلیفیں اس کے لئے مقدر تھیں تاکہ وہ اپنی زار حالت سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پورا کرے.گو وہ قید ہو چکا تھا مگر روس کی حکومت کی باگ شاہی خاندان کے ایک فرد شہزاد و لواد کے ہاتھ میں تھی جس کی وجہ سے قید میں اس کے ساتھ احترام کا سلوک ہو رہا تھا اور وہ اپنے بچوں سمیت باغبانی اور اسی قسم کے دوسرے شغلوں میں وقت گزار تا تھا.مگر جولائی میں اس شہزادہ کو بھی علیحدہ ہونا پڑا اور حکومت کی باگ کرنسکی کے ہاتھ میں دی گئی جس سے قید کی سختیاں بڑھ گئیں.تاہم انسانیت کی حدود سے آگے نہیں نکلی تھیں.لیکن سات نومبر کو بولشوک بغاوت نے کرنسکی کی حکومت کو بھی بیدخل کر دیا اب زار کی وہ خطر ناک حالت شروع ہوئی جسے سن کر سنگدل سے سنگدل انسان بھی کانپ جاتا ہے زار سکو سیلو کے شاہی محل سے نکال کر مختلف جگہوں میں رکھا گیا اور آخران مظالم کی یاد دلانے کے لئے جو وہ سائبیریا کی قید کے ذریعہ اپنی بیکس رعایا پر کیا کرتا تھا کیٹیرن برگ بھیج دیا گیا جو ایک چھوٹا سا شہر ہے جو جیل یورال کے مشرق کی طرف واقع ہے اور ماسکو سے ۱۴۴۰ میل کے فاصلہ پر ہے.اور اس جگہ وہ سب مشینیں تیار ہوتی ہیں جو سائبیریا کی کانوں میں جہاں روسی پولیٹیکل قیدی کام کیا کرتے تھے استعمال کی جاتی ہیں.گویا ہر وقت اس کے سامنے اس کے اعمال کا نقشہ رکھا رہتا تھا.صرف ذہنی عذابوں پر ہی اکتفاء نہیں کی گئی بلکہ سوویٹ نے اس کے کھانے پینے میں بھی تنگی کرنا

Page 405

اریخ احمدیت.جلد ۲ زنازی کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز شروع کر دی اور اس کے بیمار بچہ کو وحشی سپاہی اس کے اور اس کی بیوی کے سامنے نہایت بیدردی سے مارتے اور اس کی بیٹیوں کو بھی نہایت ظالمانہ طور سے دق کرتے.آخر ایک دن زارینہ کو سامنے کھڑا کر کے اس کی نوجوان لڑکیوں کی جبر ا عصمت دردی کی گئی.اور جب زارینہ اپنا منہ روتے ہوئے دوسری طرف کر لیتی تو ظالم سپاہی سنگینیں مار مار کو اس کو مجبور کرتے کہ وہ ادھر منہ کر کے دیکھے جدھر ظالم وحشیوں کا گروہ انسانیت سے گری ہوئی کارروائیوں میں مشغول تھا.زار اسی قسم کے مظالم کو دیکھتا اور ان سے زیادہ سختیاں برداشت کرتا ہوا جتنی کہ شاید کبھی کسی شخص پر بھی نازل نہ ہوئی ہوں گی ۱۶ جولائی ۱۹۱۸ء کو معہ کل افراد خاندان کے نہایت سخت عذاب کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے نبی کی بات پوری ہوئی کہ ع زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار " ایک غیر احمدی عالم کا اعتراف مولوی سمیع اللہ صاحب فاروقی اپنے رسالہ " اظہار الحق" میں لکھتے ہیں.اپریل ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ ” زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار " یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ زار اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ روس کے کروڑہا بندگان خدا پر خود مختارانہ حکومت کر رہا تھا.لیکن چند ہی سال بعد انقلاب روس کے موقعہ پر بالشویکیوں کے ہاتھ سے زار روس کی جو گت بنی وہ نہایت ہی عبرت انگیز ہے.دنیا کا سب سے بڑا خود مختار بادشاہ پائے بجولاں ہے.اس کے خاندان کے تمام ارکان پابند سلاسل ہیں اور باقی اپنی سنگینوں اور بندوقوں سے خاندان شاہی کے ایک ایک رکن کو ہلاک کرتے ہیں.جب زار کے تمام بچوں اور بیوی کو باغی تڑپا تڑپا کر مار چکتے ہیں تو زار کو نہایت بے رحمانہ طریق پر قتل کر دیتے ہیں." قادیان میں مولانا ابو النصر آہ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی آمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نیا علم کلام ہندوستان میں مقبول ہو رہا تھا جس سے حساس اور درد مند دل رکھنے والے مسلم حلقے متاثر تھے اور غیر مسلموں کے سامنے اسے پیش کرتے تھے.ان متاثرین میں مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء.۱۹۵۸ء) کے بڑے بھائی غلام یاسین مولانا ابو النصر آه (۱۸۸۲ء ۱۹۰۷ء) بھی تھے.مولانا ابو النصر سے صدہا آدمیوں نے بیعت کر رکھی تھی.وہ بمبئی میں دائی.ایم.ایس کے پر پچنگ ہال میں ہی ہفتہ جاتے اور غیر مسلموں سے نہایت سرگرم مباحث کرتے تھے.ان مباحثات میں وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لٹریچر سے استفادہ کرتے تھے.اور ان کی بڑی

Page 406

تربیت - جلد ۲ ۳۸۹ زلازل کے غیر معمول سلسلہ کا آغاز خواہش تھی کہ قادیان میں آکر کسی وقت حضور کی زیارت کا شرف حاصل کریں.حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب کا بیان ہے کہ ۱۹۰۲ ء میں مولانا ابو النصر نے ایک خواب دیکھا کہ میں اور میرا چھوٹا بھائی ابو الکلام قاریان گئے ہیں.ایک چھوٹی سی مسجد میں مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی.کچھ دینی مسائل میں مرزا صاحب سے گفتگو ہوئی.اس گفتگو کے دوران میں میرے بھائی ابو الکلام آزاد نے مرزا صاحب سے سخت کلامی کی.پاس ہی عینک لگائے ہوئے ایک بزرگ بیٹھے تھے ان کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے ابوالکلام کو ڈانٹ کر کہا ”چپ کسی ہستی کے ساتھ بے ادبانہ کلام کرتا ہے جس کی تعریف رسول اللہ ﷺ فرما گئے ہیں " اس عینک والے بزرگ کا بڑا زور دار آواز تھا اور اس کی آواز میں ایک ہیبت تھی جس سے فور امیری آنکھ کھل گئی.مولانا ابو النصر صاحب نے اپنا یہ خواب مجھے سنایا تو میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس ایک گروپ فوٹو ہے اس میں حضرت مرزا صاحب کی تصویر بھی ہے.میں خود بھی اس تصویر میں ہو.اگر میں آپ کو دکھاؤں تو آپ اس بزرگ کو پہچان لیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے انکا چہرہ اچھی طرح یاد ہے.دو چار دن کے بعد سیٹھ صاحب وہ فوٹو ان کے پاس لے گئے اور انہوں نے بڑے غور سے دیکھ کر اپنی انگلی سے ان کو بتایا کہ یہ مرزا صاحب ہیں اور عینک لگائے ہوئے بزرگ جنہوں نے میرے بھائی کو ڈانٹا تھا وہ یہ ہیں.تب سیٹھ صاحب نے ان کو بتایا کہ ان کا نام مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی ہے.ان کی آواز بہت بلند ہے اور ۱۸۹۶ء میں لاہور میں جو جلسہ مذاہب ہو ا تھا اس میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون سنانے والے یہی بزرگ ہیں.اس خواب کے تین سال بعد وہ اپنے چھوٹے بھائی ابو الکلام آزاد کو لے کر ( جن کی عمر اس وقت سترہ سال کی تھی) ہمیئی سے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شرکت کے لئے لاہور آئے جہاں سے فارغ ہو کر ۲ / مئی ۱۹۰۵ء کو نماز ظہر سے قبل قادیان پہنچے اور نہایت عقیدت کے ساتھ حضور کی خدمت میں باغ میں جہاں آپ مقیم تھے حاضر ہوئے حضرت اقدس ان کا حال دریافت فرماتے رہے.اس کے بعد حضور نے ان کو بہت قیمتی نصائح فرما ئیں.جن سے وہ بہت متاثر ہوئے اور بیعت کر لی.مولانا ابو الکلام صاحب آزاد قادیان کے سفر میں ان کے ساتھ نہیں تھے وہ ۲۵ / مئی ۱۹۰۵ء کو قادیان گئے.بہر کیف دونوں بھائی مختصر سے قیام اور انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شرکت کے بعد پنجاب سے واپس بمبئی پہنچے.یہاں مولانا ابو النصر آہ سیٹھ اسمعیل آدم صاحب سے ان کی دکان پر ملے اور بتایا کہ ہم قادیان گئے تھے.اور جو واقعہ خواب میں میں نے دیکھا تھا اسی طرح وقوع پذیر ہوا یعنی وہی چھوٹی سی مسجد ، مرزا صاحب کے ساتھ گفتگو اور میرے بھائی کی سخت کلامی اور مولوی عبد الکریم صاحب کا ڈانٹنا بالکل اسی طرح وقوع پذیر ہوا جیسا خواب میں دیکھا تھا.نیز یہ کہ میں حضرت

Page 407

۳۹۰ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز مرزا صاحب کی بیعت کر آیا ہوں مگر اخبار میں اعلان نہ کرنے کے لئے کہہ آیا ہوں.کیونکہ ایک تو والدہ صاحب کا خیال ہے اور دو سرے میرے بھائی ابو الکلام کا بیعت نہ کرنا ہے.11 مولانا ابو النصر آہ کے تاثرات مولانا ابو النصر آہ نے امرتسر کے اخبار "وکیل" میں انہی دنوں مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات شائع کئے.- ”میں نے اور کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی.مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے.میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذا ئیں نہیں کھا سکتا تھا مرزا صاحب نے (جب کہ دفعتا گھر سے باہر تشریف لے آئے) دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی.آج کل مرزا صاحب سے قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ میں (جو خود انہیں کی ملکیت ہے) قیام پذیر ہیں.بزرگان ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی تقریباً ۳ ہزار آدمیوں کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.راستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان آئی ہے اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے.آتے ہوئے مجھے یکہ میں جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لوٹتے وقت نصف کی تخفیف کر دی.اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہو تا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتا.اکرام الفین کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا.اور مولانا حاجی حکیم نور الدین صاحب جن کے اسم گرای سے تمام انڈیا واقف ہے.اور مولانا عبد الکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے.مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بد ر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں.جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی مرزا صاحب کے خسر ہیں.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایل ایل.بی ایڈیٹر ” ریویو آف ریلیجز " مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم.جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پرلے درجہ کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے.افسوس مجھے اور اشخاص کا نام یاد نہیں ورنہ میں ان کی مہربانیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا.میرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت فوری ہوتا ہے.آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈ انگر دلوں کو گرما دینے والا.بردباری کی شان نے انکساری کی کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہو تا ہے کہ گویا متبسم ہیں.رنگ گورا ہے.بالوں کو حنا کا رنگ دیتے ہیں.جسم مضبوط اور

Page 408

اریخ احمدیت جلد ۲ ٣٩١ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ہے.سر پر پنجابی وضع کی سپید پگڑی باندھتے ہیں.سیاہ یا خا کی لمبا کوٹ زیب تن فرماتے ہیں.پاؤں میں جراب اور ویسی جوتی ہوتی ہے.عمر تقریباً ۶۶ سال کی ہے.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا.میری موجودگی میں بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے تھے جن کی ارادت بڑے پایہ کی تھی اور بے حد عقیدت مند تھے.مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا " ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں." ( اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے) میں جس شوق کو لے کر گیا تھا ساتھ لایا.اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.واقعی قادیان نے اس جملہ کو اچھی طرح سمجھا ہے کہ حَسَنْ خُلْقَكَ وَلَوْمَعَ الْكُفَّارِ " میں نے اور کیا دیکھا؟ مگر قلمبند کرنے کا موقع نہیں.سٹیشن پر جانے کا وقت سر پر آچلا ہے.پھر کبھی بتاؤں گا کہ میں نے کیا دیکھا.راقم -- " مولانا ابوالکلام آزاد کے تاثرات مولانا ابو النصر آہ نے قادیان سے واپسی کے معا بعد اپنے تاثرات شائع کر دیئے مگر مولانا آزاد نے کافی عرصہ بعد اپنی سوانح لکھواتے ہوئے مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کو اپنے سفر قادیان کے حالات قلمبند کرائے جو ان کی وفات کے بعد کتاب "آزاد کی کہانی میں شائع ہوئے.جہاں مولانا ابو النصر کے تاثرات صاف واضع اور واقعات کے عین مطابق ہیں وہاں مولانا آزاد کے بیان میں شاید اس وجہ سے کہ برسوں بعد محض اپنی یادداشت سے مرتب کیا گیا تھا کئی خلاف واقعہ باتیں بھی آگئی ہیں." مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے شب گزشتہ کا یہ الہام سنایا کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین ".حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضور کو عمر بھر ایسا کوئی الہام نہیں ہوا.یہ بھی ممکن ہے کہ خود مولانا نے واقعات کو عمد امسح کر کے پیش کیا ہو (جیسا کہ ان کی اس خود نوشت سوانح حیات کے بارے میں رسالہ "الفرقان" بریلی نے تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ وہ سراسر غلط ہیں) افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سوانح میں اپنے بڑے بھائی کے قادیان میں جانے کا اشارہ تک ذکر کرنے سے بھی گریز کیا ہے.البتہ ان کے بیان سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کے دوران کوئی ایسا رنگ ضرور اختیار کیا جو حضرت اقدس علیہ السلام پر گراں گزرا.جیسا کہ مولانا ابو النصر آہ کو رویا میں دکھایا گیا تھا.بہر حال سفر قادیان سے متعلق انہوں نے اپنے تاثرات یہ لکھوائے کہ " سفر پنجاب میں قادیان بھی گیا.مرزا غلام احمد قادیانی کے

Page 409

احمدیت جلد ۲ ۳۹۲ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز tt دعاوی اور بعض رسالے دیکھ چکا تھا.طبیعت میں ہر نئی بات کے تنجس اور واقفیت کا شوق تھا ہی.خیال ہوا کہ انہیں بھی دیکھنا چاہیے.چنانچہ بٹالہ گیا اور وہاں سے قادیان روانہ ہوا.سخت گرمی شروع ہو چکی تھی اور سڑک بالکل کچھی تھی بڑی تکلیف ہوئی.وہاں پہنچا تو تھے کے باہر ہی ایک باغ میں اتارا گیا معلوم ہوا کہ مرزا صاحب اور ان کے وابستہ اشخاص میں مقیم ہیں.اس سال مشہور کانگڑے کا زلزلہ آیا تھا اور اس کے بعد عرصے تک کچھ کچھ وقفے کے بعد زلزلوں کا ظہور ہو تا رہا تھا.یہ زیادہ نقصان رساں نہ تھے لیکن آئندہ کے لئے کھٹکا پیدا ہو گیا تھا.زلزلے ہی کی وجہ سے مرزا صاحب عمارات چھوڑ کر باغ میں آگئے تھے.شام کو مغرب کے بعد پہنچا.یکے والا مرزا صاحب کا مرید تھا اس لئے وہ ٹھیک منزل مقصود پر لے گیا.انجمن کے جلسے میں قادیان کے کئی شخصوں سے ملاقات ہو گئی تھی.انہی میں مولوی یعقوب علی ایڈیٹر " الحکم بھی تھے.انہوں نے حسب عادت بہت اصرار کیا تھا کہ میں قادیان جاؤں.اور وعدہ لیا تھا کہ روانگی سے پہلے اطلاع دے دیتا لیکن میں نے کوئی اطلاع نہیں دی تھی.ایک درخت کے نیچے چارپائی پر مولوی عبد الکریم مرحوم بیٹھے تھے.میں نے ان کو بیساکھی سے جو پاس پڑی تھی پہچان لیا کہ مولوی عبد الکریم ہی ہیں کیونکہ میں پہلے سن چکا تھا.ان کے بعض عزیز والد مرحوم کے مرید تھے اور کلکتے میں ذکر کیا کرتے تھے میں ان سے ملا اور اپنے آنے کا مقصد مرزا صاحب کی ملاقات بتایا.وہ بڑے اخلاق سے ملے اور فور الوگوں سے کہا کہ میرے لئے کھانا لے آئیں.اور کہا کہ اکرام نیف" تو ہمارا فرض ہے.میں یکے کے سفر اور کچی سڑک کی وجہ سے ہچکولوں سے بالکل چور ہو رہا تھا.عشاء کی نماز مولوی عبد الکریم صاحب کے پیچھے پڑھ کے ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا اور صبح کو چار بجے اٹھا تو نماز کے چبوترے پر لوگوں کو نماز صبح کے لئے تیار پایا اور اس سے طبیعت متاثر ہوئی.نماز کے بعد مرزا صاحب باہر نکلے اور ایک چارپائی پر بیٹھ گئے.معتقدین نے ہر طرف سے ہجوم کیا.بعض لوگ پاؤں دبانے لگے.انہوں نے مولوی نورالدین مرحوم کو بلایا.میں ان کا نام مرزا صاحب کی جماعت کے ایک خاص کارکن کی حیثیت سے سن چکا تھا.وہ خضاب حنا کی وجہ سے ڈھاٹا باندھے آئے اور مرزا صاحب نے شب گزشتہ کے تازہ الہامات سنانا شروع کئے.ایک الہام یہ تھا."إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مولوی نور الدین مرحوم سے وہ پوچھتے تھے کہ اس کا مقصد کچھ سمجھ میں نہیں آتا.اس پر یاد نہیں کہ مولوی صاحب نے کیا جواب دیا.پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور میرے حالات پوچھتے رہے اور کہا کہ جب آپ آئے ہیں تو کم سے کم چالیس دن تک ضرور رہیے.اس طرح آنے سے اور جلد چلے جانے سے تو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اس کے بعد مرزا صاحب اندر چلے گئے اور مولوی عبد الکریم مرحوم نے مجھے پھر مولانا نور الدین صاحب مرحوم اور

Page 410

اریخ احمد بہت جلد ۲ ۳۹۳ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ جماعت کے بڑے لوگوں سے ملایا.نواب محمد علی مالیر کوٹلہ کے بھی وہیں تھے.جمعہ کی نماز د ہیں ایک میدان میں ہوئی.میں گیا تو لوگوں نے مجھے پہلی صف میں جگہ دی.اتنے میں مرزا صاحب آئے اور منبر کے جنب میں امام کے مصلے پر بیٹھ گئے.اس وقت مولوی عبدالکریم مرحوم نے خطبہ دیا.خطبے کا موضوع یہ تھا کہ بہت سی برکتیں انبیائے سلف میں نہیں آئیں.ان سے خدا نے مرزا صاحب کو سرفراز فرمایا.ازاں جملہ یہ کہ اعلان و تبلیغ رسالت کے یہ وسائل ان انبیاء کے زمانے میں کہاں تھے.ریل، تار، ڈاک گریموفون ، اخبارات پریس ان وسائل سے کس طرح پر صدا مشرق و مغرب میں پھیلائی جا سکتی ہے.وغیرہ وغیرہ.نماز بھی مولوی عبد الکریم نے پڑھائی اور مرزا صاحب صف سے آگے مگر ان سے دو انچ پیچھے تنا کھڑے رہے.نماز کے بعد پھر میری طرف ملتفت ہوئے اور اصرار کیا کہ میں چند دن قیام کروں.میں نے معذرت کی اور اسی دن روانگی کا ارادہ ظاہر کیا.میرا مقصود اس سفر سے صرف وہاں کا طور طریقہ دیکھ لینے کا تھا تا کہ معلومات سے باہر یہ معاملہ باقی نہ رہے.اس سے زیادہ کوئی خواہش نہ تھی.وہاں یہ کوشش تھی کہ میں کوئی معین خیال بھی ظاہر کروں.مرزا صاحب نے کئی باتیں اپنے دعاوی اور منصب کی نسبت ایسی کہیں جو سامع کو نیا یا اثباتا کسی جانب پر مجبور کرنے والی تھیں لیکن میں خاموش رہا.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری تمام کتابیں تم نے دیکھی ہیں؟ جو رسائل دیکھے ان کا ذکر کیا.اس پر انہوں نے چند کتابیں مجھے دینے کے لئے مولوی محمد صادق ایڈیٹر ” بدر" سے کہا جو اس صحبت کے نوٹ لے رہے تھے انہوں نے وفات مسیح کا بھی ذکر چھیڑا اور کہا کہ یہی مسئلہ ہے جس کے اعلان نے کسر صلیب کی خبر پوری کر دی.اس پر میں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے پہلے بعض مفسرین مثلا صاحب اسرار الغیب اور اس عہد میں مولوی چراغ علی اور سرسید اس کا بڑے زور شور سے اعلان کر چکے ہیں.یہ بات ان پر گراں گزری.انہوں نے کہا چراغ علی اور سرسید نے جو کچھ کہا وہ صرف مادی رنگ میں تھا اور میں نے اسے روحانی رنگ میں ثابت کیا.یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی لیکن میں بحث کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ اس طرح کا کوئی جذبہ اپنے اندر رکھتا تھا.میرے خیالات اس وقت سرسید کی تقلید پر مبنی تھے اس لئے ان کے مشن سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی.اس کے بعد کچھ دیر تک مولوی نور الدین مرحوم اور بعض دیگر وہاں کے اہلیان سے میں ملا.واپسی میں نواب محمد علی نے اپنی رتھ بٹالے تک کے لئے دے دی جو کچی سڑک پر بہت آرام دیتی ہے اور واپسی میں مجھے اس سے بہت آرام رہا." MA

Page 411

۳۹۴ " آه نادر شاہ کہاں گیا" زلازلی کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ۵ ر مئی ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود کو ایک رویا میں یہ الفاظ لکھے ہوئے دکھلائے گئے." آہ نادر شاہ کہاں گیا " یہ مختصر الفاظ اپنے اندر افغانستان کی حکومت کے متعلق ایک زبر دست انقلاب کی پیشگوئی پر مشتمل تھے جو ۸ / نومبر ۱۹۳۳ء کو پوری شان سے پوری ہوئی.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۹۲۹ء میں جب امیر امان اللہ خاں صاحب (ولادت ۱۸۹۲ء) والی افغانستان کی حکومت کا تختہ حبیب اللہ خاں صاحب نے الٹ دیا تو افغانوں نے نادر خاں صاحب (۶۱۸۸۰-۱۹۳۳ء) کو فرانس سے بلوا کر تخت حکومت ان کے سپرد کر دیا.اس دن سے نادر خاں صاحب نے اپنے خاندانی اور ملکی لقب " خان" کو چھوڑ کر شاہ " کا لقب اختیار کیا اور نادر شاہ کہلانے لگے جو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق ایک غیر معمولی تغیر تھا.EI اس کے تین سال بعد ۱۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت نادر شاہ کو عبد الخالق نامی ایک شخص کے ذریعہ سے مجمع عام میں قتل کر دیا گیا.اس طرح نادر شاہ صاحب کی بے وقت اور اچانک موت سے اہل عالم پکار اٹھے " آہ نادر شاہ کہاں گیا."

Page 412

اریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۹۵ زلزل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز حواشی البدر یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ، کالم نمبر ۳- الحکم ۷/۲۴ اد ممبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۵ - الحاکم ۳۱ متی ۱۹۰۴ء صفحہ ۹ کالم نمبر ۳- البدر یکم جون ۱۹۰۴ء صفحه ۱۵ -۳ اشتهار ۱۸ / اپریل ۱۹۰۵ و معقول از الحکم ۱۲۴ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳ الحکم ۱۰/۱۷ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۳ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں زیر لفظ "-KANGRA - لکھا ہے کہ اس زلزلہ میں کانگڑہ میں ۱۳۳۹ ء اور دوسرے مقامات پر ہیں ہزار جانوں کا نقصان ہوا.Records of the Geological Survey of India - جلد ۳۲ حصہ ۴ میں زلزلہ کا نگہ کی تباہ کاریوں کا مفصل تذکرہ ہے - بحوالہ الحکم ۱۷ار اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۴ ہے.بحوالہ الحکم ۲۴ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم نمبر ۲ بحوالہ کے ار اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ سے کالم نمبرا بحوالہ الحکم ۲۴ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱ اکالم نمبر ۴ بحوالہ الحکم ۱۷/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۳.ان اخبارات کے علاوہ پیسہ اخبار پر کاش ، تہذیب نسواں پولیس ایڈووکیٹ مجاز الاسلام ، سول اینڈ ملٹری گزٹ اور اردو اخبار وغیرہ نے بھی زلزلہ پر اسی طرز کے تبصرے لکھے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۷ - ۲۴۱۸ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۰ و ۳/ اپریل ۱۹۰۵ء نمبر ۱۲۱۰) ال سیرت المهدی حصہ دوم روایت نمبر ۳۳۴ ۱۲ تحریری بیان لالہ ڈھیروں مل گھڑی ساز مورخه ۹/ اکتوبر ۱۹۳۲ / منقول از سیرت المهدی حصہ سوم صفحه ۲۰۳ - ۲۰۲ الله البدر / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ کالم نمبر ۳ ۱۳ الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۵ و صفحه ۱۱۸ ۱۵ - الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۱۴۶ الحکم ۱۰ار اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۲ کالم نمبر ۱۷.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوا الفضل / اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۴ والفضل ۱۳۰ نومبر ۱۹۵۵ء صلح ۵ الحکم ۲۴/ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر ۲ - ۳ بدر ۴ / مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۸ کالم نمبر ۳ -IA ١٩ الفضل ۱۳ صلح / جنوری ۱۳۴۸۶۱۹۷۹ مش صفحه ۵ ۲۰ پیر اخبار بحوالہ الحکم ۱۲۴ مئی ۱۹۰۵ء صلحہ لا کالم نمیبرم ۲۱ چیه اخبار یکم مئی ۱۹۰۵ م بحوالہ احکم ار مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم نمبرا ۲۲ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۶ ۲ روایت ۳۲ ۲۳- الحکم ۳۰/ جون ۱۹۰۵ صفحه ۲ کالم نمبر ۴ ۲۴- احکم ۱۰/ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۸ -۲۵ الحکم ۱۰ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۲ کالم نمبر او الحکم ۱۳۰ اپریل ۱۹۰۵ ء صلحہ کالم نمیرسم انسائیکلو پیڈیا برٹینک زیر لفظ Earthquake) ۲۷.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہد ر ۳/مئی ۹۰۶اور پمفلٹ ”خدا کے تری نشان » صفحہ نمبرے از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بنصرة العزيز الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ء صلحہ کالم نمیر

Page 413

اریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹ اخبار پدر ۱۳ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۱۲ کالم نمبر ۲-۳ ۳۰- الوصیت صفحه ۱۳ ۳۱- رساله البیان جلد ۵ نمبر ۳ (۱۵/ مفر ۱۳۲۴ھ مطابق ۱۰ / اپریل ۱۹۰۱ء) ۳۲- براہین احمدیہ حصہ پنجم دریاچه البدر ۵ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم نمبر ۳ دلائل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز پدری / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲ کالم نمبر ۴ ، وفات ۲۰ مارچ ۱۹۲۶ء.بنگال میں بہت سی احمد یہ جماعتیں آپ کے ذریعہ سے قائم ہو ئیں.آپ نے اپنی بیعت کے مفصل حالات "جذبات الحق" نامی رسالہ میں لکھتے ہیں جو قابل دید ہیں (مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۹ الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳ و الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۴۳ء الفضل ۲۴ دسمبر۶۱۹۵۷ صفحه ۳۱) ۳۵ تاریخ ۱۵/ اپریل ۱۹۰۵ء -۳۶- حاشیہ خداتعالی کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہو گا جو نمونہ قیامت ہو گا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۃ اذا زلزلت الارض زلزالها اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کاذب ٹھہروں گا." ۳۷.براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۰ طبع اول ۳۸ در همین اردو ۳۹- الحکم ۳۱ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحہ اکالم نمبرا ۲۰ ملخصا از "دعوة الامیر ۲۳۴۴ تا صفحه ۲۴۳ جنگ عظیم کے متعلق ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹینک زیر لفظ World War۰ ۴۱- رساله اظهار حق صفحه ۲۱ -۴۲- آزاد کی کہانی ۱۸۱ به روایت مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی) ناشر حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی طبع اول اپریل ۱۹۵۸ء ۴۴- مولانا عبد المجید صاحب سالک اپنی کتاب یاران کهن " صفحہ ۴۱ میں آغا حشر، نظیر حسن سخا اور ابو نصر آہ کے متعلق لکھتے ہیں "مناظروں کے سلسلے میں انہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی بعض ایسی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں عیسائیوں اور آریوں کے مقابلے میں اسلام کی حمایت کی گئی تھی.یاروں کا یہ مجمع ایک دفعہ تو فیصلہ ہی کر چکا تھا کہ پنجاب جائیں اور مرزا صاحب سے لمیں".۴۴ مفصل ملاحظہ ہو.الحکم ۲۴/ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ نمبر۱ الحکم ۳۱/ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم نمبر ۳ پر گزشتہ ہفتہ کی خبروں میں لکھا ہے کہ ”سیاح قادیان کے بھائی مولانا آزاد بھی ایک روز کے لئے آئے اور واپس گئے." اور مولانا آزاد کے اپنے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ جمعرات کا دن تھا جو تقویم سنسی کی رو سے ۲۵/ مئی ہی قرار پاتا ہے.الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم نمبر ا حضرت سیٹھ صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں بھائی گویا ایک ساتھ قادیان گئے تھے جو صحیح نہیں ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے مولانا ابو النصر آہ ۲/ مئی ۱۹۰۵ء کو اور مولانا ابو الکلام آزاد ۲۵/ مئی ۱۹۰۵ء کو قادیان گئے تھے جب یہ حقیقت ہے تو مولانا ابو النصر نے اپنے خواب کے پورا ہونے کا جو تذکرہ کیا ہو گارہ اپنے بھائی مولانا آزاد کے بتانے پر ہی کیا ہو گا.اندریں صورت ہمیں تسلیم کرناپڑتا ہے کہ حضرت سیٹھ صاحب کو بیان کے اس قصہ میں یقینا سو ہوا ہے اور ان کی یادداشت میں مولانا ابو النصر آہ کے اصل الفاظ پوری طرح محفوظ نہیں رہ سکے.بایں ہمہ پو را بیان اصولی اعتبار سے ایک نا قابل تردید واقعہ ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت سیٹھ صاحب نے یہ واقعہ مولانا آزاد کو جون ۱۹۴۵ء میں بذریعہ خط لکھ کر بھیج دیا تھا اور اپنا یہ خط اخبار الفضل میں بھی شائع کرادیا.مولانا آزاد اس کے بعد تیرہ برس تک زندہ رہے مگر انہوں نے مولانا ابو النصر آہ کے اس خواب کے پورا ہونے کی بابت قطعا کوئی تردید شائع نہ کی.

Page 414

اریخ احمدیت.جلد ۲ زلازل کے غیر معمولی سلسلہ کا آغاز ۴۷- بحوالہ الحکم ۲۴ / مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰- الدبد ر۲۵/ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۸ ۴۸ آزاد کی کہانی صفحه ۳۳۹ تا ۳۴۲ ۳۹ - الحکم ۱۰ / مئی ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم نمبر ۴ ۵۰ دیکھو اخبار سیاست ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۹ء زوال غازی صفحہ ۴۲۰ - ۱۴۲۲ مولفہ عزیز ہندی.مطبوعہ ثنائی برقی پریس امرتسر من اشاعت ۱۹۳۳ء) الله سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین معاند اخبار " اہلحدیث " نے ۲۸ / فروری ۱۹۳۰ء کو (جبکہ نادر شاہ نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی.اور اخبار " الفضل " نے اس کے "نادر شاہ " کہلانے کو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت کیا لکھا " شاہ کے لفظ میں پیشگوئی ہے کہ نادر خاں آخر میں نادر شاہ بن جائے گا“ (الفضل ۳/ جنوری ۱۹۳۰ء) بات تو بہت معقول ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ افغانستان میں نادر شاہ بولا جاتا ہے.کیا افغانستان کی اصطلاح میں بادشاہ کو شاہ کے لقب سے کبھی یاد کیا گیا کیا کبھی عبد الرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ یا امان اللہ شاہ کے القاب کسی نے نے.وہیں تو شاہ کا لقب بادشاہ کے لئے ہے بھی نہیں بلکہ ہم کہیں گے کسی معتبر تحریر میں عبد الرحمن شاہ یا حبیب اللہ شاہ وغیرہ نہیں تھے.پس اگر یہ الہام افغانستان کے مافی الضمیر کی ترجمانی ہوتی تو شاہ کا لقب نہ اگر ہو تا بلکہ نادیہ خان کا لقب ہوتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نادر شاہ والا الہام کسی اور موقعہ کے لئے ہے." -۵۲- چنانچہ انقلاب نے لکھا او صد ہزار حسرت و آو کہ آج افغانستان اپنے بہترین خادم سے محروم ہو گیا (۱۱/ نومبر ۱۹۳۳ء) "سیاست" نے لکھا." آہ نادر شاہ خلد آشیاں".(۱۱/ نومبر ۱۹۳۳ء) اخبار ”مدینہ" نے لکھا ہندوستان کے ہوش و حواس پر یہ برقی خبر بجلی کی طرح گری کہ ۱۸ نومبر ۳ بجے اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی بادشاہ افغانستان کو کسی غدار وطن نے شہید کر دیا.تمام مسلمان غم دافسوس کی تصویر بن گئے (۱۳/ نومبر ۱۹۳۳ء) ۵۳ - سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے نادر شاہ کی موت پر " آہ نادر شاہ کہاں گیا ہی کے عنوان سے "الفضل (۲۳ نومبر ۱۹۳۳ء) میں ایک مفصل مضمون لکھا جو ٹریکٹ کی شکل میں شائع ہو گیا تھا.

Page 415

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۹۸ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا انتقال اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد

Page 416

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۳۹۹ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد مخدوم الملت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا انتقال ۱۹۰۵ء کا سال عام الحزن کہلانے کا مستحق ہے کیوں کہ اس سال جماعت کے کئی مقتدر عام الحزن بزرگ انتقال فرما گئے.مثلاً حضرت منشی عبد الحمید خان صاحب کپور تھلوی ( تاریخ وفات ۱۰/ مارچ ۱۹۰۵ء) بابو محمد افضل صاحب ایڈیٹر ” البدر " ( تاریخ وفات ۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء) مولوی جمال الدین صاحب سید واله ( تاریخ وفات ۲۲ / جولائی ۱۹۰۵ء) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب تاریخ وفات ۱۱/ اکتوبر ۱۹۰۵ء) حضرت مولوی برہان الدین صاحب ( تاریخ وفات ۳ / دسمبر ۱۹۰۵ء) ان کے علاوہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی بڑی اہلیہ فاطمہ صاحبہ ( تاریخ وفات ۲۸ / جولائی ۱۹۰۵ء) اور ان کے صاحبزادہ عبد القیوم صاحب ( تاریخ وفات ۲۱ / اگست ۱۹۰۵ء) بھی اسی سال فوت ہو گئے." یوں تو سلسلہ کو ان سب بزرگوں اور دوستوں کی جدائی کا نقصان پہنچا مگر مخدوم الملت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صافی اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جیسے بلند پایہ علماء اور خدام ملت بزرگوں کی مفارقت نے تو پوری جماعت کو سوگوار کر دیا.اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت ۱۲/ ستمبر ۱۹۰۵ء کو ان حوادث کے بارے میں حضور کو الہاما بتایا تھا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے " n نیز الہام ہوا " فزع عیسی و من معدہ " عیسی اور اس کے ساتھی گھبرا گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بالخصوص مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ چند دن گزرنے کے بعد حضور نے شام کے بعد دوستوں میں بیٹھنا چھوڑ دیا اور خدام کے عرض کرنے پر فرمایا کہ جب میں باہر دوستوں میں بیٹھا کرتا تھا تو مولوی عبد الکریم صاحب میرے دائیں بیٹھے ہوتے تھے.اب میں بیٹھتا ہوں اور مولوی صاحب نظر نہیں آتے تو میرا دل گھٹنے لگتا ہے اس لئے میں نے مجبورا یہ طریق چھوڑ دیا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضور نے معاذ اللہ ان کی وفات پر بے صبری کا اظہار فرمایا نہیں ایسا ہر گز نہیں.حضور کا تو یہ مقام تھا کہ آپ نے فطری غم کے باوجود دو سروں کو نصیحت فرمائی کہ ”مولوی عبد الکریم صاحب کی

Page 417

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۰۰ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد موت پر حد سے زیادہ غم کرنا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے.کیوں کہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے وہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے.خداتعالی ایک کو بلا لیتا ہے دوسرا قائم مقام اس کے کر دیتا ہے قادر اور بے نیاز ہے." چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کی وفات سے جو جگہ خالی ہوئی تھی اسے پر کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کو کھڑا کر دیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے مختصر سوانح آپ ۱۸۵۸ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے.آپ کا پیدائشی نام کریم بخش تھا جسے بعد کو حضرت مسیح موعود نے عبد الکریم میں تبدیل کر دیا.ابتدائی تعلیم اس زمانہ کے دستور کے مطابق مسجد کے مکتب میں پائی اور قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور پرائیوٹ طور پر ہی عربی اور فارسی علوم کا مطالعہ کر کے ان میں یہاں تک دسترس حاصل کی کہ امریکن مشن سیالکوٹ میں فارسی کے استاد مقرر کئے گئے.ایک روز آپ مشنری کلاس کو فارسی پڑھا رہے تھے کہ کسی طالب علم نے قرآن شریف کے متعلق کوئی گستاخی کا کلمہ کہا.حضرت مولوی صاحب یہ دیکھ کر جوش میں آگئے اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا چنانچہ اسی بات پر آپ کو سکول سے موقوف کر دیا گیا جس پر آپ نے بورڈ ٹڈل سکول میں ملازمت اختیار کرلی مگر یہاں بھی آپ نے استعفیٰ دے دیا اور پبلک و عظوں کا سلسلہ جاری کر دیا.سیالکوٹ کے راجہ بازار کا چوک آپ کا لیکچر گاہ تھا.یہ غالباً ۱۸۸۰ء کی بات ہے.آپ کی آواز اتنی دلکش اور موثر تھی کہ بعض اوقات ہندو سکھ بھی آپ کی تلاوت قرآنی کو سن کر از خود رفتہ ہو جاتے اور یوں معلوم ہو تا تھا کہ فرشتے آسمان سے اتر کر اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گارہے ہیں.علاقہ بھر میں آپ کا چرچا ہو گیا اور لوگ کثرت سے آپ کے نبادو بھرے وعظ میں شریک ہونے لگے.جو سنتا محور ہو جاتا.آپ بہت جلد اپنی خدادا طاقت سے ایک فصیح و بلیغ اور پر جوش مقرر بن گئے اور عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں آپ کو اتنی مہارت حاصل ہو گئی کہ ان زبانوں کے عالم بھی آپ کو داد فصاحت دینے لگے.آپ کی تقاریر سے عیسائی مشن تھرا گیا اور انہوں نے ہر چند کوشش کی کہ انہیں اپنی ملازمت میں دوبارہ لے سکیں مگر کامیابی نہ ہوئی.ایک عرصہ سے آپ کو حضرت مولوی نور الدین صاحب سے گہرا تعلق رہا بلکہ آپ ایک دفعہ مسلسل چھ ماہ تک کشمیر میں ان کی خدمت میں حاضر رہے.یہ تعلق مولوی عبد الکریم صاحب کو بالا خر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ کرنے کا موجب بنا.مارچ ۱۸۸۸ ء میں حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا.ستمبر ۱۸۹۸ء میں آپ مستقل ہجرت کر کے قادیان آپسے اور حضور کے مکان کے اس حصہ میں

Page 418

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۰۱ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رہائش اختیار کرلی جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ملحق ہے.اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا.یہاں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز کی امامت آپ ہی کے سپرد ہوئی جس کے فرائض آپ عمر بھر سر انجام دیتے رہے.آپ پہلے نیچری خیالات رکھتے تھے مگر حضرت اقدس کے فیض صحبت نے آپ کے نظریات کو یکسر پلٹ کر جلد ہی زبر دست عاشقانہ رنگ پیدا کر دیا تھا اور وہ قومی اور قلمی جہاد کے میدان کے لئے ایک جرنیل بن گئے اور آخر وقت تک وہ اس خدمت میں مصروف عمل رہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے آپ کی وفات پر اس زبر دست تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.” وہ اس سلسلہ کی محبت میں بالکل محو تھے.جب اوائل میں میرے پاس آئے تھے تو سید احمد کے معتقد تھے.کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں تھے.اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن علانیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں آج میں نے سب باتیں چھوڑ دیں.اس کے بعد وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اگر ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنے والے نہ تھے.ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی.کسی امر میں ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا وہ کفر سمجھتے تھے.ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصفہ میں سے ہو گئے تھے جن کی تعریف خدا تعالٰی نے پہلے سے ہی اپنی وحی میں کی تھی.ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دو سو روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزار دی.صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے ہوتے تھے ان کے دفاع میں اپنی عمر بسر کر دی باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی.ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا.مسلمانوں کا لیڈر میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابل رشک ہوا کیوں کہ ان کے ساتھ دنیا کی ملونی نہ تھی " زیا بیطس کا حملہ آپ کی شبانہ روز قلمی وعلمی مصروفیات کا نتیجہ تھا کہ زلزلہ کانگڑہ سے قبل آپ کو کثرت پیشاب کا شدید عارضہ ہو گیا.حضرت مسیح موعود کی دعا کی برکت سے افاقہ ہوا ہی تھا کہ ۱۲.اگست ۱۹۰۵ء کو آپ کی پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان ایک چھوٹی سے پھنسی نمودار ہوئی جو پہلے معمولی سمجھی گئی مگر بعد میں اس نے یکا یک خطر ناک صورت اختیار کرلی.ابتد اور اس میں کار بنگل (CARBUNCLE) کی علامات پوری پوری نہ پائی جاتی تھیں مگر چند روز بعد وہ

Page 419

ت جلد ۲ ۴۰۲ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد پورا کار بنکل بن گیا.ساتھ ہی آپ کی ڈاڑھ میں سخت درد شروع ہو گیا.ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب نے (جو تین ماہ کی چھٹی پر قادیان آئے ہوئے تھے صبح کو ڈاڑھ نکالی اور شام کو پھوڑے کا اپریش کیا.حضرت مولوی صاحب کو اس سے انتہائی تکلیف اور درد و کرب پہنچی اور آپ رات بھر سو نہ سکے.یہ رات حضرت اقدس کے لئے بھی انتہائی بے چینی کی رات تھی.باوجودیکہ ۲۰/ اگست ۱۹۰۵ء کو الماری کے تختے سے سر کو چوٹ لگنے سے بہت سا خون آپ کا نکل گیا تھا اور پہلے ہی سخت درد تھا نیز دوران سرکی بیماری کی شکایت بھی تھی لیکن حضور اقدس کو مولوی عبد الکریم صاحب کی تکلیف کا بے حد احساس تھا اور خود نہ صرف اس رات بلکہ کئی راتیں جاگتے گزاریں اور دعاؤں میں مصروف رہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی اس قسم کا اضطراب اور فکر میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی نہیں کیا.حضرت اقدس کی شبانہ روز دعا کا معجزہ اور مولوی صاحب کی کار بنکل سے بکلی شفایابی دعاؤں کا ایسا معجزانہ اثر ہوا کہ کار بنکل جیسی مہلک بیماری سے آپ بکلی شفایاب ہو گئے.حالانکہ ذیا بیطس کا مریض اگر کار بنکل کا شکار ہو جائے اور مریض بوڑھا ہو تو اس کا بچنا مشکل ہوتا ہے.ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب کا بیان ہے کہ "مولوی صاحب کی یہ ابتدائی بیماری بہت سخت اور خطرناک تھی.اس شدت سے اس کا دورہ ہوا کہ میں ایمان سے کہہ سکتا ہوں کہ مولوی صاحب کا اتنی لمبی معیاد یعنی ا۵ دن تک زندہ رہنا ایک معجزہ تھا.اور یہ محض حضرت اقدس کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.۱۴ ستمبر ۱۹۰۵ء کو حضرت مولوی صاحب کو کلورو نام سنگھا کر ان کا بڑا آپریش ہو ا جس سے ہاتھ پاؤں سرد اور نبض قریباً ساقط ہو گئی.حضور کو اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے لئے مشک بھیجوایا اور دعا میں مشغول ہو گئے.ادھر آپ نے دعا کے لئے سجدہ میں سر رکھا ادھر مولوی صاحب کی حالت جو نہایت خطرناک تھی اصلاح پکڑنے لگی اور ابھی حضور دعا سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ نبض بالکل درست اور مضبوط ہو گئی.اس حیرت انگیز معجزہ کو دیکھ کر ڈاکٹر دنگ رہ گئے.اس طرح کا واقعہ یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بھی پیش آیا جب کہ ان پر غشی کی کیفیت طاری تھی.کئی روز سے پیچش تھی کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا اور نبض نا معلوم ہی تھی.حضرت اقدس کو اطلاع ہوئی.آپ نے دوا بھی دی اور دعا بھی فرمائی.ابھی دوا اندر بھی نہ گئی تھی کہ نبض فور اطاقت میں آگئی اور آپ ہوش میں آگئے." المختصر دعاؤں نے اعجازی اثر دکھایا یہاں تک کہ خود مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب مجھے اصل بیماری سے بالکل صحت ہو گئی ہے اور انشاء اللہ دو تین روز تک چلنے پھرنے کے قابل ہو جاؤں گا.

Page 420

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۰۳ جماعت کے احباب میں بھی ان کی شفایابی نے خوشی اور مسرت کی ایک نئی لہر دوڑا دی.مدرسہ احمدیہ کی بنیاد الہامات کے مطابق اور بہشتی مقبرہ میں تدفین تحریہ ایک وقتی امیر تھا ورنہ در اصل آسمان پر شہنشاہ حقیقی کی طرف سے اپنے دربار میں بلاوے کا حکم صادر ہو چکا تھا اور اللہ تعالٰی کی طرف سے الہامات میں مولوی صاحب کی واپسی کی متواتر خبریں بھی دی جارہی تھیں.مثلا ۲ / ستمبر ۱۹۰۵ء کو خداتعالی کی طرف سے الہام ہوا.سینتالیس سال کی عمر انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ( مولوی صاحب کی عمر اس وقت ۴۷ سال کی تھی اسی روز دو سرا الہام یہ ہوا اس نے اچھا ہوتا ہی نہ تھا." A / ستمبر کو الہام ہوا کفن میں لپیٹا گیا." 9 ستمبر کو الہام ہوا.اِنَّ الْمَنَا يَا لَا تَطِيشُ سِهَا مُهَا " (یقینا موت کے تیر خطا نہیں جاتے).ان تمام الہامات میں آپ کی وفات کی اطلاعات موجود تھیں جو تقدیر مبرم تھی.اس لئے حضرت مولوی صاحب کو کار بنکل کی بیماری سے پورا فاقہ ہوا ہی تھا کہ آپ ذات الجنب کی بیماری میں مبتلا ہو گئے جس سے ۰۶ درجہ بخار ہو گیا اور آپ ۱۱ / اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بدھ کے دن اڑھائی بجے کے قریب عالم جاودانی کو رحلت فرما گئے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کی نعش حضرت اقدس کے حکم کے مطابق ۱۲ / اکتوبر کو قبل دو پھر ایک صندوق میں پہلے اما ختار فن کی گئی کیوں کہ حضور کا منشاء اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق "بہشتی مقبرہ" کے قیام کا تھا اور حضور سب سے پہلے آپ ہی کو اس میں سپرد خاک کرنا چاہتے تھے.۲۶ / دسمبر کو جب کہ بیرون جات سے احمدی دوست جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کثیر تعداد میں حاضر تھے نماز ظہر و عصر کے بعد احباب حضرت مولوی صاحب کا تابوت اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے باغ میں پہنچے.اگلے روز ۲۷ / دسمبر کی صبح کو دس بجے کے قریب حضور نے اپنے خدام کو لے کر نماز جنازہ پڑھی اور آپ کو "بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.اس طرح آپ کے مقدس وجود سے بہشتی مقبرہ کا باقاعدہ افتتاح ہوا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا کتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے کتبہ کے لئے ایک درد انگیز مرضیہ لکھا جو آپ کے مزار مبارک کی لوح پر آج تک موجود ہے.اس مرفیہ کے چند اشعار یہ ہیں.کے توان کردن شمار خوبی عبدالکریم آنکہ جاں داد از شجاعت بر صراط مستقیم حامتی دیں آنکہ یزداں نام او لیڈر نماد عارف اسرار حق گنجینه دین قویم گرچه جنس نیکواں ایس چرخ بسیار آورد کم بزاید مادری با این صفا در اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم 2 یتیم

Page 421

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۰۴ درسہ احمدیہ کی بنیاد یعنی عبد الکریم کی خوبیاں کیوں کر گنی جاسکتی ہیں جس نے شجاعت کے ساتھ صراط مستقیم پر جان دی.وہ جو دین اسلام کا حامی تھا اور جس کا نام خدا نے لیڈر رکھا تھا وہ خدائی اسرار کا عارف اور دین متین کا خزانہ تھا.اگر چہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت لاتا رہتا ہے مگر ایسا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جتا کرتی ہے.اے خدا اس کی قبر پر رحمت کی بارش نازل فرما اور نہایت درجہ فضل کے ساتھ اسے جنت میں داخل کر دے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ محب اور محبوب کی محبت کا پر کیف منظر عنہ کے عشق کا یہ حال تھا کہ بیماری کی عین شدت درد و اضطراب میں حضرت اقدس کی یاد میں ماہی بے آپ کی طرح تڑپتے تھے.ان کی اہلیہ صاحبہ کا بیان ہے کہ ”جب مولوی عبد الکریم صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف کے وقت نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے کے لئے جاؤں گا.گویا وہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں باہر ہوں اور حضرت صاحب قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زار و قطار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت کا چہرہ نہیں دیکھا تم مجھے حضرت صاحب کے پاس کیوں نہیں لے جاتے ابھی سواری منگواؤ اور مجھے لے چلو.ایک دن جب ہوش تھی کہنے لگے جاؤ حضرت صاحب سے کہو کہ میں مر چلا ہوں مجھے صرف دور سے کھڑے ہو کر زیارت کرا جائیں اور بڑے روئے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جاؤ میں نیچے حضرت صاحب کے پاس آئی کہ مولوی صاحب اس طرح کہتے ہیں.حضرت صاحب فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرا دل مولوی صاحب کے ملنے کو نہیں چاہتا ؟ مگر بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا.حضرت ام المومنین نے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لیتا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کر مجھے دورہ ہو جائے گا.خیر حضرت صاحب نے پگڑی منگا کر سر پر رکھی اور ادھر جانے لگے.میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلی گئی تاکہ مولوی صاحب کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں.جب میں نے مولوی صاحب کو جاکر اطلاع دی تو انہوں نے الٹا مجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی؟ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ میں نے کہا کہ آپ نے خود تو کہا تھا انہوں نے کہا وہ تو میں نے دل کا دکھڑا ر دیا تھا تم فور آ جاؤ اور حضرت صاحب سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں.میں بھاگی گئی تو حضرت صاحب سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کر رہے تھے.میں نے عرض کر دیا کہ حضور آپ تکلیف نہ فرمائیں."

Page 422

تاریخ احمدیت جلد 7 ۴۰۵ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد اخبار پنجہ فولاد لاہور میں مخدوم الملت مرحوم کی وفات پر حسب ذیل مراسلہ شائع ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب کی قادیان میں وفات زجام دھرتے کل من علیحا نان ہر آنکہ زاد نیا چار بلیدش شید افسوس کہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے 10 اکتوبر ۱۹۰۵ء کو قادیان میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ان کے طائر روح نے ناپائیدار دنیا کو یہ شعر عرفی مرحوم کا سنا کر بعالم آخرت پرواز کیا.ع مشتاب اے غم دنیا کہ مکردم نری یکن از دور دواعم که شتابان رفتم مولوی صاحب جو ان عمر تھے.اور سیالکوٹ کشمیری محلہ میں آپ کا مکان بالمقابل مکان راقم کے تھا.عہد طفولیت میں ہی عجیب قسم کے ذہین تھے.محلہ کے لڑکوں میں کبھی کھیل وکود میں شامل نہیں ہوئے.پہلے مرحوم سرسید کی تہذیب الاخلاق کے گرویدہ بنے رہے.پھر مرزا صاحب کی بیعت میں داخل ہو کر ایسے معتقدا در فنافی البعیت ہوئے کہ وطن سے ہجرت کر کے وہاں ہی سکونت اختیار کرلی اور آخر مرزا صاحب کے قدموں میں ہی جان قربان کر دی.ان کی زندگی لہو و لعب سے برکنار رہی علمی مجلس کے مشتاق تھے.ابتداء میں شعر و سخن کا شوق رہا.جب آپ نے پہلے پہل لاہور کو دیکھا تو لاہور کی تعریف میں ایک دلکش نظم فارسی کی لکھی.جس میں علاوہ اور صفتوں کے یہ بھی ثابت کیا گیا کہ لاہور کا نام دو زبان سے مرکب ہے لا بزبان عربی.ہور بزبان پنجابی.یعنی ایسا اور نہیں ہے اس نظم کا اس وقت صرف ایک شعر راقم کو یاد ہے.ماہر دیان بلنده لایا ہوں ول صافی ربوده اند یجور صافی آپ کا تخلص تھا.آپ کی ایک غزل فارسی کی راقم کے پاس ہے جو کسی آئندہ پرچہ میں شائع ہوگی.ایک دفعہ سیالکوٹ میں چند احباب کا مجمع تھا.اور اس شعر کا تذکرہ ہو رہا تھا.کو دن کی دوستی اک پل میں توڑی بھلا کیونکر کوئی تجھے سے کرے لے کریلے- کدو- توری سبزیات کا نام لے کر شاعر نے مضمون باندھا ہے.مولوی صاحب مرحوم نے بھی ایک شعر سنایا ( یہ معلوم نہیں کہ ان کا اپنا شعر ہے یا کسی اور شاعر کا ہے صاف سینا دیکھ کر درزن کو میں سینا دیا کچھ تو سینے وہ لگی اور کچھ تو میں سینے لگا را تم کو بھی ایک شعر مولوی سراج الدین احمد ایڈیٹر اخبار زمیندار کا ان کے والد مرحوم کی زبان سے جو راقم کے مہربان تھے سنا ہوا) یاد تھا جس کو سن کر مولوی صاحب بہت ہی محظوظ ہوئے اور بار بار پڑھتے تھے اور داد دیتے تھے.شعرینہ کو ریہ ہے.

Page 423

تاریخ احمدیت جلد ۲ Noy مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ہوا کم خواب ہونا اپنا خاصہ فراق یار میں نینوں کو مکمل کمخواب خاصہ - مینیون ململ کو کس طرح جدائی کے پیرایہ میں ادائے کیا گیا ہے.اکثر موسم گرما میں پچھلے پہر رات کے وقت جب آپ اپنی کو ٹھی پر اس مشہور قصیدہ کو ( مرحبا سید مکی مدنی العربی) اپنے شوق میں پڑھتے تھے.تو محلہ والے لوگ تاثیر آواز سے جو جادو سے کم نہ تھی.چونک پڑتے تھے.ایک دفعہ اس شعر پر شب معراج عروج نور افلاک گذشت ب مقامی که رسیدی نرسد بیج بنی.میرا ایک مہمان وجد کی حالت میں بے خود ہو گیا آپ کی خوش الحانی و جادو بیانی یاد کر کر بے اختیار دل سے یہ شعر نکل جاتا ہے.اناں کہ بعد زبان سخن گفتند آیا چه شنیدند که خاموش شدند مولوی صاحب جس وقت سیالکوٹ کے مہاراجہ والے بازار کے چوک میں با آواز بلند قرآن شریف پڑھ کر وعظ کرتے تھے.عام ہندو مسلمان عیسائی جمع ہو جاتے اور شوق سے سنتے تھے.قرآن شریف کے عاشق دلدادہ تھے.افسوس کہ ضعیف العمر والدین کے اکلوتے فرزند تھے.اور جہاں تک راقم کو معلوم ہے (اگر چہ قادیان چلے جانے کے بعد پھر ملاقات کا اتفاق نہیں ہوا) مرحوم لاولد تھے.مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کو ان کی دائمی جدائی کا سخت صدمہ پہنچا ہے اور ان کے دوستوں اور عام مسلمانوں کو عموماً سخت قلق ہے.مرزا صاحب کی طرف سے ہر چند دوا اور دعا کی گئی.مگر مقدر مبدل نہیں ہو سکتا.چوں مبدل شد اعتدال مزاج نہ عزیمت اثر کند نه علاج.زمانہ کئی انقلاب دیکھنے کے بعد کبھی جا کے اس دل و دماغ کا دوسرا پیدا کرے گا.اناللہ وانا الیہ راجعون سے یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے خداوند تعالی مرحوم کو مغفرت کرے اور اس کے متعلقین کو صبر جمیل بخشے." را قم لوہا خاں از گھر مل ضلع سیالکوٹ " (الحکم قادیان ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ 11) حضرت مصلح موعود مولانا عبد الکریم صاحب کے بے مثال عاشقانہ رنگ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مولوی عبد الکریم صاحب کو خاص عشق تھا اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمانہ کو دیکھا.دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے.وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر ۶ ۷ اسال تھی اور جس زمانہ سے میں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے.اس وقت میری عمر ۱۲ ۱۳ سال کی ہوگی.یعنی بچپن کی عمر تھی لیکن باوجود اس کے مجھ پر ایک ایسا گرانقش ہے کہ مولوی صاحب کی دو چیزیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں ایک تو ان کا

Page 424

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۴۰۷ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد پانی پینا اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی محبت.آپ ٹھنڈا پانی بہت پسند کرتے تھے اور اسے بڑے شوق سے پیتے تھے اور پیتے وقت غٹ غٹ کی ایسی آواز آیا کرتی تھی کہ گویا اللہ تعالٰی نے ان کے لئے جنت کی نعمتوں کو جمع کر کے بھیج دیا ہے.اس زمانہ میں اس مسجد اقصیٰ کے کنویں کا پانی بہت مشہور تھا.اب تو معلوم نہیں لوگ کیوں اس کا نام نہیں لیتے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کہتے بھئی کوئی ثواب کماؤ اور پانی لاؤ.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود موجود ہوتے تو اور بات تھی وگرنہ آپ سیڑھیوں پر آکر انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور پھر لوٹا لے کر منہ سے لگالیتے.دوسرے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھارہی ہیں اس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ برا رہا ہو تا تھا اور آپ کے چہرہ کا ذرہ ذرہ مسرت کی ہر پھینک رہا ہو تا تھا جس طرح مسکرا مسکرا کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے.دہ قابل دید نظارہ ہو تا.اگر اس کا تھوڑا سا رنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.غرض مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے لیکن مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں تو فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے." حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے."امیر حبیب اللہ خان صاحب نے کابل میں ایک دار ترجمہ قائم کیا اور اس میں قابل اور ماہر فن لوگوں کے جمع کرنے کی کوشش کی.حضرت مخدوم الملت فارسی - عربی.انگریزی زبانوں میں ایسے ماہر تھے کہ اہل زبان اور قادر الکلام لوگوں کی طرح ان زبانوں پر حکومت رکھتے تھے ایام الصلح کا فارسی ترجمہ مخدوم الملت کی قلم سے ہوا اور آئینہ کمالات میں جو حصہ تبلیغ ہے اس کا فارسی ترجمہ بھی حضرت مخدوم الملت نے کیا.غرض جب یہ دار الترجمہ قائم ہوا اور ہندوستان سے لائق آدمیوں کو جمع کرنے کا کام شروع ہوا تو حضرت مخدوم الملت کو مترجم کی اسامی پیش کی گئی اور ایک بیش قرار تنخواہ معاوضہ کے طور پر پیش ہوئی.ایسے موقعہ پر ہر شخص کی قدرتی طور پر خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ اس عزت کی اسامی کو ہاتھ سے نہ جانے دے.دربار کابل میں اس سے رسوخ بڑھتا تھا اور ایک بیش قرار معاوضہ ملتا تھا.کام محض علمی تھا جو خود ان کو پسند تھا مگر کیا اس تحریک نے مخدوم الملت کے دل پر کچھ بھی اثر کیا؟ ہرگز

Page 425

جلد ۲ ۴۰۸ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد نہیں.فرمایا " قادیان جو دولت ملتی ہے وہ دنیا کے کسی مقام پر آج نہیں پائی جاتی تیرہ سو برس کے بعد خد اتعالیٰ نے اپنی مرسل کو ہم میں بھیجا اس کی پاک صحبت کو چھوڑ کر سونے چاندی کے سکوں کے لئے نکل جانا مردار دنیا پر منہ مارتا ہے اور اعلیٰ کا ادنیٰ سے تبادلہ ہے.خدا کی قسم اگر دنیا کی ساری دولت میرے قدموں پر لا کر ڈھیر کر دی جائے اور اس کے بدلہ میں قادیان سے مجھے الگ ہونے کی خواہش کی جاوے تو میں سونے چاندی کے اس ڈھیر پر پیشاب بھی نہ کروں." غرض نہایت حقارت کے ساتھ اس آفر کو رد کر دیا.جیسا کہ مولوی صدرالدین صاحب نے بیان کیا وہ گرمی سے بہت گھبراتے تھے مگر مجھے کہا کرتے تھے.شیخ صاحب ایہ گرمی روح میں ایک سکینت اور برودت پیدا کرتی ہے حضرت کی صحبت اکسیر ہے اس کے پاس بیٹھ کر کوئی تکلیف اور غم آہی نہیں سکتا.ہم دنیا والوں کو کس طرح اس کیفیت کے کیف اور مزہ سے آگاہ کریں.یہ ذرتی بات ہے اور ایمان کے بغیر یہ لذت اور کیف حاصل نہیں ہوتا.القصہ آپ نے نہ تو اس بیش قرار مشاہرہ کی پرواہ کی اور نہ اس عزت و مرتبہ نے ان کو اپنی طرف کھینچا جو کاہل میں آپ کو میسر آسکتا تھا.آپ نے اپنے آقاء موٹی کی صحبت کے لئے دنیا کی حکومت اور دولت کو بیچ سمجھا اور قادیان سے نہ نکلے اور آئے تو پھر مر کر بھی یہاں ہی رہے.اللہ تعالٰی آپ کے مدارج اور مراتب میں لا انتہا تر قی فرمائے آمین." (الحکم ۱۴ اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۳) یہ تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے عشق و فدائیت کا عالم تھا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود نے ان کی بیماری کے دوران میں علاج اور توجہ میں جو نمونہ قائم کیا وہ انبیاء علیہم السلام کی ذات میں تو نظر آتا ہے لیکن کسی اور انسان میں دکھائی نہیں دیتا صبح و شام آپ مولوی صاحب کے لئے دعاؤں میں گویا وقف تھے.ہر لحہ حضور کی توجہ مولوی صاحب کی طرف رہتی.مولوی صاحب کا حال دریافت فرماتے جس چیز کے کھانے کی خواہش ظاہر کرتے یا جس دوا کی ضرورت ہوتی حضور فورا آدمی بھیج کر لاہو ریا امرتسر سے منگوا دیتے.حضرت اقدس نے مولوی صاحب کے علاج معالجہ کے لئے بے دریغ روپیہ خرچ کیا اور کوئی ایسی چیز باقی نہ رہ گئی جس کی نسبت خیال ہوا کہ مولوی صاحب کے علاج کے لئے مفید ہو گی ان کے لئے ہم نہ پہنچائی گئی ہو.حضرت اقدس مولوی صاحب کی تکلیف کو دیکھ نہ سکتے تھے چنانچہ باہر مسجد میں کئی دفعہ فرماتے تھے مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں ان کی تکلیف دیکھ نہیں سکتا.چنانچہ آخر مولوی صاحب اس مرض میں فوت ہو گئے مگر حضور ان کے پاس تشریف نہ لے جاسکے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی تالیفات یہ ہیں.۱.لیکچر گناہ ۲.لیکچر ( حضرت مسیح تالیفات موعود نے کیا اصلاح و تجدید کی) ۳.سیرت مسیح موعود ۴.اثبات خلافت شیخین ۵- خلافت راشده (حصہ اول)۶ - القول النصیح فی اثبات حقیقتہ المسیح ۷.دعوۃ الند ده ۸.خطبات کر یہ

Page 426

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۰۹ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد (مرتبہ عرفانی صاحب) ۹ - الفرقان (خلافت راشدہ حصہ دوم) حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی حضرت مولوی برہان الدین صاحب غالبا، ۱۸۳ء مختصر سوانح حیات اور اخلاص و فدائیت میں پیدا ہوئے.پچیس سال کی عمر میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے دہلی تشریف لے گئے اور سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے علم حدیث حاصل کیا.قریباً ۱۸۶۵ء میں وطن آکر اہلحدیث تحریک کے پر جوش علم بردار کی حیثیت سے اس مسلک کی اشاعت شروع کردی اور متعدد اہلحدیث جماعتیں قائم کیں.۱۸۶۷ء سے ۱۸۸۶ء تک مرد حق کی تلاش میں سرگرم عمل رہے اور اس سلسلہ میں پہلے موضع باؤلی شریف کے ایک بزرگ کی شاگردی اختیار کی پھر حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی صحبت میں کئی سال گزارے بعد ازاں حضرت پیر کو ٹھہ شریف سے اظہار عقیدت کیا لیکن آپ کو اپنا گوہر مقصود نہ مل سکا.آخر ۱۸۸۶ء میں آپ ہوشیار پور کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور اپنی فراست سے بیعت کے لئے عرض کیا.حضور نے فرمایا ابھی ت لینے کی اجازت نہیں.۱۸۹۱ء میں جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضور کے دعوئی مسیحیت پر فتویٰ کفر لکھا تو ان کے اصرار پر مولوی صاحب نے ایک مشروط فتویٰ لکھا.مگر جوں ہی آپ نے حضرت اقدس کی اصل تحریرات مطالعہ کیں تو شرح صدر سے ۲۰ جولائی ۱۸۹۲ء کو حضور کی بیعت کرلی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مولوی صاحب کے رجوع کا صاف طور پر علم ہو چکا تھا مگر انہوں نے پھر بھی مولوی صاحب کا فتویٰ شائع کر دیا بلکہ چند ماہ بعد انہیں ۲/ نومبر ۱۸۹۲ء کو ایک خط میں لکھا کہ یہ فتویٰ کا مشروط پہلو اڑا دیں اور صاف اور قطعی لکھیں کہ مرزا صاحب فتاوی علماء کے مطابق واقع میں کافر ہیں.حضرت مولوی صاحب نے اس خط کے جواب میں ایک مسکت اور مفصل مکتوب لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی کتابوں سے ہی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت اقدس کا دعوی بر حق ہے اور آپ جو چھ ماہ سے ان کے خلاف کمربستہ ہیں تو یہ آپ کی طرف سے محض مغلوب الغضی کا مظاہرہ ہے.اللہ آپ کو اہل اللہ کے لعن طعن سے بچائے.بیعت کرنے کے بعد حضرت مولوی صاحب ہر سال قادیان میں تشریف لے جاتے.حضور فرمایا کرتے کہ مولوی صاحب آپ کے آنے سے مجھے آرام ملتا ہے." حضرت اقدس جب سیر کر کے واپس گھر کی طرف آتے تو آپ آگے بڑھ کر حضور کی نعلین مبارک اپنی کندھے والی چادر سے صاف کر دیتے.مستری نظام الدین صاحب سیالکوئی سنایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب کا اخلاص جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولوی صاحب بھی

Page 427

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۱۰ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد وہاں پہنچ گئے.وہاں حضرت اقدس اپنے خدام کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ کسی عورت نے کھڑکی سے حضور پر راکھ ڈالی.حضور گزر گئے مگر راکھ مولوی صاحب کے سر پر پڑی.آپ پر محویت طاری ہو گئی اور نہایت خوشی سے فرمانے لگے ”پا اے مائے پا" یعنی بڑھیا اور راکھ ڈالو.حضرت اقدس جب سیالکوٹ سے واپس آئے اور آپ حضور کو الوداع کہنے کے بعد پیچھے رہ گئے تو بعض شریروں نے آپ کی بے عزتی کی بلکہ پکڑ کر منہ میں گوہر تک ٹھونس دیا لیکن آپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ فرمایا " او برہانا ایمہ نعمتاں کتھوں" یعنی اے برہان الدین یہ نعمتیں روز روز کہاں میسر آتی ہیں.ایک مرتبہ قادیان دار الامان میں حضرت اقدس شہ نشیں پر جلوہ افروز تھے اور حضور کے کلمات طیبات کا سلسلہ جاری تھا اور حضور حقایق و معارف بیان فرما رہے تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب ، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دوسرے بزرگ بھی مجلس میں بیٹھے تھے کہ مولوی صاحب نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور بے اختیاری کی وجہ سے ہچکی بندھ گئی.حضرت اقدس نے پوچھا کیا بات ہے آپ کیوں روتے ہیں.لیکن حضور جتنا پوچھتے آپ اتنا ہی زور سے رونے لگ جاتے.آخر بار بار پوچھنے اور تسلی دلانے پر مولوی صاحب نے عرض کیا حضور سب سے پہلے میں باؤلی شریف والوں کی خدمت کرتا رہا پھر مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی خدمت میں رہا.اس کے بعد پیر صاحب کو ٹھہ شریف کے پاس گیا اور اب حضور کا خادم اور مرید بنا ہوں.خدا تعالٰی کا مسیح آگیا.یہ خدا تعالی کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اسلام کے لئے قربان کر سکوں (حالانکہ وہ غریب ہی اس لئے ہوئے تھے کہ وہ احمد کی ہو گئے تھے ) ہم سنا کرتے تھے کہ مسیح آئے گا تو خزانے لٹائے گا اور حضور نے خوب خزانے لٹائے.اور پھر کہنے لگے کہ میں تو پھر بھی جھڈو کا جھڈو " ہی رہا.یعنی اب تک ناکارہ کا نا کارہ ہوں.یہ کہہ کر پھر چھینیں مار کر رونے لگے.اس پر حضور نے نہایت شفقت اور محبت سے فرمایا " آپ گھبرائیں نہیں اور کوئی فکر نہ کریں آپ نے جہاں پہنچنا تھا آپ پہنچ گئے ہیں اب رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے." مولوی صاحب جب بھی قادیان آتے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس خواہش کا ضرور اظہار فرماتے کہ آپ قادیان میں ہی آجائیں مگر مولوی صاحب عرض کرتے کہ حضور میں نالائق ہوں اس قابل تو نہیں کہ حضور کی خدمت کر سکوں الٹا اپنا بوجھ آپ پر ڈالوں." مولوی صاحب قادیان سے واپسی پر ہمیشہ امر تسر لا ہو ر وغیرہ احمدی جماعتوں کا دورہ کرتے اور اپنے دوستوں کو تبلیغ کرتے ہوئے جہلم آتے تھے.حضرت مولوی صاحب تمام دینی علوم تغییر، حدیث، فقہ نحو غیرہ کے متجر عالم تھے.طب یونانی

Page 428

تاریخ احمدیت.جلد ۲ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد میں خاص ملکہ حاصل تھا.اردو فارسی، عربی اور پشتو کے ماہر اور تحریر و تقریر میں یکتائے روزگار تھے.مناظروں میں ہمیشہ فریق مخالف آپ کے دلائل سے ساکت و لاجواب ہو جاتے تھے.علم حدیث میں آپ کے بہت شاگرد ہوئے جن میں حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی، مولوی محمد عرفان صاحب ڈونگا گلی مری، مولوی حشمت علی صاحب را جوردی، مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی مولوی عبد الرحمن صاحب کھیوال، مولوی محمد قاری صاحب علمی بہت ممتاز ہیں.اللہ تعالی نے مئوخر الذکر تین اصحاب کو قبول احمدیت کی سعادت بھی بخشی.متوکل انسان تھے اور بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے.مرض الموت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی طرح آپ کسی بھی بیماری میں جلا نہیں ہوئے بلکہ مختصری علالت سے اچانک وفات پائی.حضرت مولوی صاحب نے T جب یہ الہام نا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے " تو انہوں نے ایک شہتیر مولوی عبد الکریم صاحب کو اور دو سرا شہتیر اپنے آپ کو سمجھا.آپ رمضان شریف کو ۲۰ تاریخ (بمطابق ۱۹/ نومبر ۱۹۰۵ء) اعتکاف میں بیٹھے.اعتکاف کے ایام میں قرآن شریف کا ان کو پہلے سے بھی زیادہ شغف ہو گیا اور دن رات قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے.اعتکاف میں یہ الہام ہوا.انا کفینَاكَ الْمُسْتَهْزِنِينَ.اور بعد اس کے ایک اور الہام ہوا جس کا خلاصہ یہ تھا امام الوقت تو ایک طرف رہے اب تو ان کے مریدوں کو بھی الہام ہونے لگے.پھر ہم اس بچے سلسلہ کی تائید کیوں نہ کریں؟ (۲۸/ نومبر کو) اعتکاف سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے.کھانا کھانے کے بعد فرمایا مجھے سردی کی لگی ہے اور رات کو سخت بخار ہو گیا.یکم دسمبر بروز جمعہ آپ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی.مسجد میں آئے اور بیٹھ کر جمعہ پڑھا.۲/ دسمبر کی رات کو پھر بخار ہو گیا.مگر آپ آدھی رات تک مغرب کی طرف منہ کر کے زبانی قرآن شریف پڑھتے رہے.۲ بجے کے قریب آپ سو رہے اور تین بجے اٹھے.صبح کی نماز پڑھی اور پھر فرمانے لگے کہ دونوں دروازے کھولو کہ مجھے انتظار ہے.پوچھا گیا کس کی؟ جواب نہ دیا.اور پھر دو دفعہ پاخانہ کی حاجت ہوئی اور پھر آپ چارپائی پر لیٹ گئے اور آنکھیں کھولیں.کلمہ شریف پڑھا اور دو منٹ کے اندر آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.ساڑھے چار بجے شام آپ کا جنازہ پڑھا گیا جس میں ۱۳۰۰ احباب نے شرکت کی اور آپ کو جہلم کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا.12 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی برہان الدین صاحب کو ۱۹۰۳ء میں ارشاد حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا مقام فرمایا " آپ اپنی پہلی حالت کو یاد کریں جب کہ

Page 429

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۱۴ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد آغاز سال ۱۸۸۶ء میں صرف حبتہ اللہ کا جوش آپ کو کشاں کشاں یہاں لایا تھا اور آپ پا پیادہ افتاں خیزاں اس قدر دور فاصلہ سے پہلے قادیان پہنچے تھے اور جب ہم کو اس جگہ نہ پایا تو اسی بے تابی و بے قراری کے جوش میں نگاہو کر کے پیدل ہی ہمارے پاس ہوشیار پور جاپہنچے تھے.اور جب وہاں سے واپس ہونے لگے تو اس وقت ہم سے جدا ہونا آپ کو بڑا شاق گزرتا تھا." ازاں بعد آپ کی وفات پر فرمایا.”مولوی صاحب ایک صوفی مشرب آدمی تھے.اکثر فقراء اور بزرگوں کی خدمت میں جایا کرتے تھے.مولوی عبداللہ صاحب کے استاد کے پاس بھی ایک مدت تک رہے تھے.ان کو ایک نقر کی چاشنی تھی.قریباً بائیس برس سے میرے پاس آیا کرتے تھے.پہلی دفعہ جب آئے تو میں ہوشیار پور میں تھا.اس جگہ میرے پاس پہنچے.ایک سوزش اور جذب ان کے اندر تھا اور ہمارے ساتھ ایک مناسبت رکھتے تھے.انہوں نے مجھ سے ایک دفعہ قرآن شریف پڑھنا شروع کیا تھا مگر صرف چند سطریں پڑھی تھیں.ایک صوفیانہ مذاق رکھتے تھے." r ایک عظیم الشان درس گاہ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہما کی وفات سے جماعت میں جو زبر دست خلاء پیدا ہو گیا اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت تشویش ہوئی اور حضور کا ذہن خدائی تصرف کے تحت اس طرف منتقل ہوا کہ آئندہ جماعت میں قادر الکلام اور خدمت دین کرنے والے علماء پیدا کرنے کا کوئی مستقل انتظام ہونا چاہئے.چنانچہ حضور نے ۶ / دسمبر ۱۹۰۵ء کو فرمایا کہ ہماری جماعت میں سے اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب جو ایک مخلص آدمی تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے.اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں فوت ہوئے مگر افسوس کہ جو مرتے ہیں ان کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا.پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج ہی پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی.اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھا.ہم تو چاہتے ہیں کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں.احباب سے مشورہ چنانچہ حضور نے اس صورت حال کا جائزہ لینے اور مزید اصلاحی قدم اٹھانے کے لئے بہت سے احباب بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ "مدرسہ ( تعلیم الاسلام) میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور علماء پیدا ہوں جو آئندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جو گزرتے چلے جاتے ہیں.سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ

Page 430

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۱۳ درسہ احمدیہ کی بنیاد میں رکھا جاوے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ اور علماء پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں.حضرت اقدس کے اس ارشاد پر بعض احباب نے تو یہ رائے دی کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو توڑ کر ایک خالص مذہبی مدرسہ کی بنیاد رکھی جائے.خود مدرسہ کے ارباب حل و عقد اس بات پر متفق تھے کہ مدرستہ ختم کر دیا جائے.مگر حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس خیال کی مخالفت کرتے ہوئے مدرسہ کے قیام و بقا کے لئے انتہائی جدوجہد کی اور حضرت اقدس کے منشاء مبارک کے مطابق یہی مشورہ دیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام قائم رہے مگر اس میں ایسی تبدیلی کر دی جائے کہ حقیقی مقصد کی تکمیل ہو سکے.حضور کا فیصلہ اس ضمن میں متعدد تجاویز اور ان پر اعتراضات بھی حضور کے سامنے رکھے گئے مگر حضرت اقدس نے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت صاحبزدہ صاحب کے خیال کو پسند فرماتے ہوئے مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہی دینیات کی ایک شاخ کھولنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے حضور نے ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۵ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں نہایت قیمتی ہدایات بھی دیں.چنانچہ حضور کے ارشاد سے یہ "شاخ دینیات " جنوری ۱۹۰۶ء کے آخر میں کھل گئی اور اسی شاخ کے قیام سے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد پڑی."" مدرسہ احمدیہ" یا "شاخ مدرسہ احمدیہ کا آغاز "شاخ دینیات" کی شکل میں دینیات" کا آغاز نهایت مختصر رنگ میں ہوا.ابتداء میں حضرت قاضی سید امیر حسین شاہ صاحب (اول مدرس) اور مولوی فضل دین صاحب (کھاریاں) دو استاد مقرر ہوئے ان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی اس میں مدرس ہو گئے."شاخ دینیات " میں پنجم پرائمری پاس طلبہ داخل کئے جاتے تھے.اس کی پہلی جماعت میں ۱۰ طلب داخل ہوئے جس کا اسی سال امتحان ہوا.اور ان میں سے نو پاس قرار دئے گئے.علاوہ ازیں پانچ طلبہ مزید داخل ہوئے اس طرح ۱۹۰۶ ء میں پہلی اور دوسری جماعت کے طلبہ کی مجموعی تعداد ۱۴ ہو گئی.جماعت اول کے دینیات کا نصاب یہ تھا.ترجمہ قرآن شریف ، بلوغ المرام ، رسالہ جات عربی شائع کرده انجمن حمایت اسلام مفتاح الادب، بد تہ الصرف، دروس النحویہ.اس کے علاوہ طب اور انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی مگر یہ لازمی مضامین نہیں تھے.بعض طلبہ طب پڑھتے تھے اور بعض انگریزی طب میں " تشریح الطب" اور "طب احسانی " پڑھائی جاتی تھیں اور انگریزی کا ہی کورس - تھا جو اول مڈل کے لئے ان دنوں مقرر تھا.انگریزی پڑھنے کے لئے طلبہ کو ٹال کی کلاس میں جانا پڑتا

Page 431

مدرسہ احمدیہ کی بنیاد تھا.جماعت دوم کے لئے یہ کتابیں بطور نصاب مقرر تھیں.شمائل ترندی مالا بد منہ عجالہ نافعہ اصول شامی دروس نحویه چهار حصص ، آجرومیہ، قدوری ، سراجی، حساب اردو گوہر منظوم فارسی طب تكسيف الحکمته قانونچه شرح رباعیات یوسفی ، انگریزی میں دوم منڈل کا کورس تھا جو ٹول کے ساتھ مل کر پڑھایا جاتا تھا."شاخ دینیات" کے طلبہ مدرسہ کے دوسرے لڑکوں کی طرح باقاعدہ ورزش میں بھی شامل ہوتے تھے.مدرسہ احمدیہ کی عمارت کا ابتدائی نقشہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالی کابین ہے اس وقت یہ عمارتیں بورڈنگ مدرسه احمدیہ کی نہ تھیں بلکہ یہاں پانی ہو تا تھا اور اس جگہ لوگ نہاتے تھے.صرف ایک عمارت تھی جس میں چند کلاسیں پڑھتی تھیں اس میں وہ دو کمرے جو راستہ کی طرف ہیں ، نہیں تھے.صرف چار کمرے تھے جو کنوئیں کے سامنے ہیں.اب بازار کی طرف جو کمرے ہیں وہ بعد میں بنائے گئے.اس وقت نہ بینچ تھے نہ کرسیاں نہ ڈیکس ہوتے تھے نہ میزیں صرف تپر (ٹاٹ) ہوتے تھے اور وہ بھی ایلین ملز کے بنے ہوئے نہیں بلکہ عام تپڑ جو چوہڑے چمار بنا کر بیچتے ہیں.وہ عرض میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی معمولی جسم والا انسان بھی ان پر بیٹھے تو اس کا آدھا جسم نیچے ہو جاتا ہے.جانماز استاد کی جگہ ہوتی تھی." یہ مدرسہ احمدیہ جیسی عظیم الشان درس گاہ کی ابتداء تھی جس نے آئندہ چل کر خدا کے فضل اور امام وقت کی روحانی توجہ کی بدولت بر صغیر ہند و پاکستان میں بڑے بڑے مقتدر علماء پیدا کئے جنہوں نے اکناف عالم میں اشاعت اسلام کی خدمات سرانجام دیں اور اب بھی سرانجام دے رہے ہیں.اخبار وطن" کی ایک تحریک اور اس کا انجام ۱۹۰۵ء کے آخر میں اخبار "وطن" کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں (۱۸۶۸ - ۱۹۲۸) نے ریویو آف ریلیج کی مقبولیت اور عالمگیر اثر دیکھ کر اچی کسی خارجی مصلحت کے مد نظر تحریک کی کہ اگر آئندہ اس رسالہ میں حضرت مرزا صاحب اور آپ کے مشن کا ذکر نہ ہو تو وہ مسلمانوں کو بھی اس کے بذریعہ اخبار اعانت کی طرف توجہ دلائیں گے اور خود بھی اس کی اشاعت کے لئے دس روپیہ ماہوار ادا کرتے رہیں گے.مولوی انشاء اللہ خان کی اس تحریک پر خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو کے اتفاق رائے سے ان کو اطلاع دی کہ "آپ سے اور آپ کے ہم رائے EN

Page 432

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۱۵ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد " دوستوں سے اس حد تک تو متفق ہوں کہ ریویو آف ریلیجز کو بلالحاظ فرقہ شائع کیا جائے اور کل مسلمان جو احمدی یا غیر احمدی ہوں اسے اپنا آرگن سمجھ کر اشاعت دین اسلام میں کوشش کریں.ایڈیٹر اور دیگر مدیران رسالہ ہذا کا فرض ہو گا کہ آئندہ اس کے صفحات کو خاص دعاوی حضرت مرزا صاحب سے خالی رکھیں." انہوں نے ساتھ ہی یہ تجویز کی کہ ریویو آف ریلجینز" کے علاوہ ایک ضمیمہ شائع کیا جاوے جو الگ سرورق کے ساتھ شائع ہو.اس کی قیمت بھی الگ ہو.اس میں جو مضامین احمد یہ مذاق کے مطابق ہوں.وہ شائع ہوا کریں.یہ ضمیمہ صرف احمدی احباب کے لئے شائع ہو گا یا جو خود دعاوی حضرت مرزا صاحب سے آگاہی حاصل کرنا چاہیں.خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال اصحاب کی یہ تجویز جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچتی تو حضور نے اسے اس بناء پر رد کر دیا کہ مجھ کو چھوڑ کر کیا مردہ اسلام پیش کرو گے.علاوہ ازیں یہ خط و کتابت جب الحکم میں شائع ہو کر جماعت کے سامنے آئی تو جماعت نے بھی اپنے ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف زیر دست آواز بلند کی.یہ پہلا موقعہ تھا کہ مرکزی اخبار میں مرکزی کارکنوں کی طرف سے غلط قدم دیکھ کر جماعت کی طرف سے منتظم رنگ میں زبر دست صدائے احتجاج بلند کی گئی بلکہ حضرت اقدس کے مخلص مرید حبیب الرحمن صاحب حاجی پور نے ۲۸ فروری ۱۹۰۶ء کو حضرت مسیح موعود کی خدمت میں باقاعدہ اس کے خلاف ایک اپیل بھیجوائی جس میں عرض کیا کہ میری سمجھ میں نہیں آنا کہ اگر یہ لوگ اس زمانہ کے رسول کے خیالات اور تعلیم اور وہ کلام ربانی جو اس رسول پر نازل ہوتا ہے کو چھوڑ دیں گے تو وہ اور کون سی باتیں ہیں جن کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں.کیا اسلام کوئی دوسری چیز ہے جو اس رسول سے علیحدہ ہو کر بھی مل سکتا ہے.کیا احمد سے علیحدہ ہو کر محمد ﷺ کا راستہ مل سکتا ہے.پھر کیا ایسا معاہدہ کرنے والے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانا چاہتے ہیں یا منشی انشاء اللہ خاں کے دو سو خریدار ہم پہنچانے پر ریکھے گئے ہیں ؟ کیا اس خدائی سلسلہ کی اشاعت انشاء اللہ خان کی امداد پر منحصر ہے.ریویو پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے.یہ ترقی اور مقبولیت مولوی انشاء اللہ خان کی وجہ سے ہوئی ہے.ہرگز نہیں.خدا تعالی ہی سب کچھ کر رہا ہے.اور حضور کی دعائیں ہیں اور بس.ریویو صرف اس واسطے ہے کہ یورپ اور امریکہ میں عیسائیوں کے بناوٹی خدا کو انسان بنا دے جس نے بالا خروفات پائی.کیا یہ عقیدہ ظاہر کرنے کے واسطے ان کے پاس کوئی اور راہ ہے جب کہ وہ مسیح موعود کی پاک تعلیم کو ریویو سے علیحدہ کرلیں گے.اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر منشی انشاء اللہ خاں کے بہم پہنچائے ہوئے خریدار قائم رہ جائیں گے.ہرگز نہیں.کیا ریویو کے مضامین کی مقبولیت اور قابل تعریف ہونا جناب ایڈیٹر صاحب و مینجر صاحب نے اپنی ذات

Page 433

تاریخ احمدیت جلد ۲ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد تک ہی محدود سمجھ لیا ہے.اگر ان کا ایسا خیال ہے تو غلط ہے اور بالکل غلط ہے.بلکہ یہ سب کچھ حضور ہی کی برکت کا نتیجہ ہے.یوں ان کو اختیار ہے کہ وہ علیحدہ رسالہ جاری کر دیں.لیکن وہ بھی دوسرے اسلامی رسالوں کی طرح بے مغز اور بے برکت ہوگا...خدا کے لئے مینجر صاحب ریویو کو حکم دے دیویں کہ وہ اپنے ان خیالات کو چھوڑ دیں ورنہ جو رسالہ یا کتاب یا اخبار ہمارے سردار حضرت مسیح موعود کے ذکر اور تعلیم سے خالی ہے وہ ہمارا نہیں." Ar مولوی انشاء اللہ خان کی مخالفت مولوی انشاء اللہ خان نے جب اپنی تجویز کا یہ حشر دیکھا کہ جماعت کا کوئی مخلص فردان کی تحریک پر رضامند ہونے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جماعت احمدیہ پر تنگ ظرفی کا الزام دے کر مخالفت شروع کر دی اور اخبار میں لکھا کہ ان کی تحریک کے باعث بہت سے لوگوں نے ریویو کی اعانت کے چندے قادیان بھیج دئے ہیں.مطلب یہ تھا کہ گویا چندوں کی بھاری رقوم تھیں جو ہضم کرلی گئیں.حالانکہ اصل واقعہ تھا کہ اخبار "وطن" کی تحریک پر چندہ دینے والے صرف چار اصحاب تھے جن میں سے دو تو احمدی تھے.تیسرے شخص منشی امام بخش صاحب تھے جنہوں نے جو ابا لکھا کہ ”میں نے جو چندہ دیا وہ حب اسلام کی خاطر تھا اور میں ہر گز اس کو واپس لینے پر آمادہ نہیں بلکہ اس کو باعث شرم سمجھتا ہوں." چوتھے کو لکھا گیا کہ چندہ واپس لے لیں مگر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.مولوی انشاء اللہ خال پر فتویٰ کفر مولوی انشاء اللہ خان کی تحریک اور مخالفت دونوں دراصل محض ذاتی مصالح کی بناء پر تھیں.خدمت اسلام کا جذبہ اس میں کار فرما نہیں تھا.وہ خالص دنیا دار آدمی تھے اور دین کے نام پر دنیا کمانے کے فن میں ماہر.چنانچہ ایڈیٹر صاحب اخبار "الحکم" نے مولوی انشاء اللہ خاں کے صلح پسند مسلمان اور ہمدرد اسلام ہونے کی قلعی کھولنے کے لئے ۷ ار ستمبر ۱۹۰۶ء کو ایک کھلی چٹھی میں یہ راز کھولا کہ مولوی انشاء اللہ خار اپنے تئیں تبلیغ اسلام کے شیدائی اور مسلمانوں کے حامی بتا کر اشاعت کفر کر رہے ہیں اور وہ اس طرح کہ وہ اسلام کے بدترین مخالف پادریوں مثلاً میور اور ٹسڈل وغیرہ کی دل آزار کتابوں کی محض روپیہ کے لالچ میں اصل قیمت سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت کر کے کفر و الحاد کو ملک میں پھیلا رہے ہیں.مولوی انشاء اللہ خان کی اس نازیبا حرکت کے واضح ہونے پر روزنامہ " پیسہ اخبار " (۱۵/ اکتوبر ۱۹۰۶ء) اور اخبار "زمیندار" ( یکم اکتوبر و ۶ / اکتوبر ۱۹۰۶ء) نے مولوی انشاء اللہ خاں پر سخت تنقید کی.اس کے چند دن بعد الہ آباد کے نامی علماء محمد بشیر صاحب، سید محمد عبد السلام صاحب سید محمد صاحب، عبد الوہاب صاحب ابو محمد عبد الحق صاحب اور تلطف حسین صاحب نے

Page 434

تاریخ احمدنات - جلد ۲ ۴۱۷ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد صریح طور پر ایڈیٹر " وطن پر کافر ضال و مضل اور دشمن اسلام ہونے کا فتویٰ دے دیا.ایڈیٹر ” وطن " کار جوع ۱۹۰۶ ء میں ایڈیٹر "وطن" نے ریویو کے متعلق معاہدہ کی تنسیخ کو تنگ دلی پر محمول کیا تھا مگر ۱۹۱۲ء میں انہوں نے اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا.بات یہ ہوئی کہ یورپ میں تبلیغ اسلام کی کوششوں کو تیز تر کرنے کی خاطر نظارت المعارف القرآنیہ دہلی نے دو کنگ مشن کی اعانت کے لئے دو مسلمان واعظ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر ایڈیٹر ” وطن " نے لکھا." ضرور غیر احمدی واعظوں کا احمدی واعظ و مناد کے ساتھ مل کر کام کرنا منتج خرابی ہو گا اور جو کچھ اس کام پر سرمایہ لگایا جا رہا ہے وہ سب ضائع ہو جائے گا...نظارت المعارف القرآنیہ دہلی اپنے واعظوں کو کسی اور ملک میں بھیجے یا وہ ملک کے اندر ہی کرد رہا جاہل اور دین دریانت سے غافل لوگوں کا سدھار کرے تو اچھا ہے." OA

Page 435

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ MA مدرسہ احمدیہ کی بنیاد حواشی بدر ۱۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم الحکم ۱۰/ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم پر یہ الہام ان الفاظ میں شائع ہوا دو شہتیر ٹوٹ جائیں گے " بدر ۱۷/ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲ الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۵ کالم ۳ در ساله "جامعہ احمدیہ " سالنامه ۱۹۳۰ء صفحه ۳ م بدر ۱۳/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۳ -1 الفضل ۱۱۸ دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۵ کالم ۳ در ساله "جامعہ احمدیہ " سالنامه ۱۹۳۰ء صفحه ۳ رسالہ "اصحاب احمدیہ جلد اول صفحہ ۲- ۳ رسالہ "جامعہ احمدیہ " (سالنامه ۱۹۳۰ء) تاریخ احمدیت حصہ دوم میں ۱۸۹۳ء سن ہجرت لکھا گیا تھا مگر بعد میں خود حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا 11/ جولائی ۱۹۰۳ء کا ایک عدالتی بیان ملا ہے جس میں انہوں نے اپنی مستقل ہجرت کا زمانہ ستمبر ۱۸۹۸ ء بتایا.اس بیان میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے قبل بھی میں قادیان میں آیا کرتا تھا اور بسا اوقات سات آٹھ مہینے تک بھی رہتا تھا (ملاحظہ ہو نقل مسل مقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی کرم دین) سیرت المہدی طبع دوم صفحه ۲۸۹ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۴۷ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے اس عاشقانہ رنگ کی ایک عجیب مثال مکرم فضل دین صاحب پیشنر سپرنٹنڈنٹ ہائی کورٹ نے مولف ہذا سے یہ بیان کی کہ ان کے والد حضرت میاں فیروز الدین صاحب (۱۸۷۳- ۱۹۵۴) ساکن شہر سیالکوٹ نے ان کو بتایا کہ میاں نظام الدین صاحب آف سیالکوٹ نے ان سے ذکر کیا کہ قریباً ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مسجد مبارک سے متصل کمرہ میں تشریف فرما تھے اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ سید نا محمود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالی سامنے سے گزرے.میں نے عرض کیا کہ صاحبزادہ کہاں پڑھتے ہیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بیساختہ جواب دیا جہاں ان کے والد پڑھتے ہیں.(یعنی آسمانی آقا کی درس گاہ میں) پدر ۱۲/ جنوری ۱۹۰۶ ء صفحہ ۳ کالم الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۱-۳ الحکم ۳۱ / اگست ۱۹۰۵ء دا حکم ۳۱ / جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۴ الحکم ۲۴/ اگست ۱۹۰۵ء صفحه اکالم ۳ نیز ۳/ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۱ -۱۴ مخزن حکمت مولفہ ڈاکٹر حکیم شمس الاطباء غلام جیلانی صاحب زیر لفظ شب چراغ الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ کالم ۱-۲ ۱- التحام ۳۱/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحه ۴ کالم ۲ الحکم ۱۰.ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ کالم ۱۸- تخمه "حقیقته الوحی صفحه ۲۶ ۱۵ ا -۲۰ - ۱۹ بدر / ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ الحکم ۱۰/ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۲۱- الحکم ۳۱ / جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۴ کالم ۴ ۲۲ - الحکم ۱۷/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ا کالم ) ۲۳- الحکم ۱۷/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ۴ ۲۲ - الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶ کالم ۲.۳ ۲۵- الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ا کالم

Page 436

تاریخ احمدیت.جلد ۲ سیرة المحمدی جلد اول ( طبع اول) صفحه ۲۸۸ ۲۷- الفضل میر جون ۱۹۳۳ء صفحہ 4 ۲۸- احکم ۱۰/ فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۴-۵ ۲۹- سیرة المهدی (طبع دوم) صفحه ۲۸۸ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ۳۰.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "آئینہ کمالات اسلام " میں آپ کے نام ۳۹ نمبر پر اور ضمیمہ انجام آنھم میں ۸۴ نمبر پر درج فرمایا ہے.الفضل ۱۷/ دسمبر ۱۹۴۵ء صفحه ۵-۶ ۳۲- غیر مطبوعه سوانح مولانا برہان الدین صاحب از مولوی عبد المغنی صاحب امیر جماعت جسلم خلف الرشید مولوی برہان الدین صاحبت با خوز ۳۳.غیر مطبوعه سوانح مولانا برہان الدین صاحب از مولوی عبد المغنی صاحب امیر جماعت جهلم خلف الرشید مولوی برہان الدین صاحب سے ماخوذ ( یہ سوانح ماہنامہ "انصار اللہ " اگست ستمبر۱۹۷۷ء میں شائع ہوئے) - الحکم ۷ار دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۶ کالم ۳-۴ ۳۵ - البدر یکم اد ممبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۲ کالم ۳ ۳۶- پدر ۸/ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ کے کالم ۲.۳ ۳۷ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۶۲ ۳۸ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ۳ صفحه ۱۲ - ۱۳ مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۳۹ الحکم جوبلی نمبر صفحه ۶۵ کالم ۴ ا حکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۲ کالم -1+ بار ۱۲/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ کالم ہو حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مکتب میں ہمیشہ پانچ دس طلباء کی کلاس آپ سے دینیات کی تحصیل کرتی رہتی تھی جو اس شاخ کے علاوہ تھی چنانچہ ۱۹۰۵ء کے بعض طلبہ یہ تھے.مولوی غلام نبی صاحب حافظ روشن علی صاحب ، میاں غلام محمد صاحب کشمیری، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سید عبدالحی عرب صاحب عبد الرحمن صاحب و اتوی محمد جی صاحب ہزاروی ، محمد شاہ صاحب ابو سعید عرب صاحب محمد یار صاحب (بدر ۱۲ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ کالم ۳) ۴۲- الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ کالم ۱-۲ ۲۳ رساله " تعلیم الاسلام " جلد ا صفحه ۲۰۰-۲۰۱ رسالہ تعلیم الاسلام " جلد ۲ صفحہ ۳۲۲ و الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۹ کالم ۱-۲ ۴۵ رساله " تعلیم الاسلام " جلد اول نمبر۵ صفحه ۲۰۱-۲۰۲ جلد دوم صفحه ۳۲۲ الفضل ۲۲ / دسمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۶ کالم ۱-۲ ۴۷.خلافت اوٹی میں چونکہ اس درس گاہ کو مستقل ادارہ کی حیثیت حاصل ہوئی اس لئے اس کے مفصل کوائف کا تذکرہ بھی خلافت اولی کے حالات میں کیا جا رہا ہے انشاء اللہ تعالی.احکم کے ار مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ کالم ۲ ۴۹ احکم سے الر مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم ۲ الحکم ۲۴ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶ کالم ۲-۳ -0° ۵۱ الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه ۱ کالم ۲ ۵۲ - الحکم ۷ ا/ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۴۴۲ مارچ ۱۹۰۶ء کالم او ۱۰.مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ ہم ۱-۲ ۵۳ - الحکم ۱۰/ مارچ ۱۹۰۶ء صفحه ۳ کالم ۳-۴

Page 437

تاریخ احمد بیت جلد ۲ ۵۴ ریویو آف ریلیجی، اردو - نومبر ۱۹۰۶ء صفحه ۴۳۹ ده ۵۶ الحکم ۱۷/ تمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ، کالم ۱-۲ ۵ - الحکم ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۹ - ۱۰ بحوالہ الفضل / مارچ ۹۴ به صفحه ۳ کالم ۳ -QA ۴۲۰ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد

Page 438

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۲۱ آخری سفر د ہلی لدھیانہ اور امرتسر میں پبلک لیکچر مفرد علی که میانہ اور امرتسر

Page 439

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۲ کروم سفر و علی لدھیانہ اور امرتسر سفر دہلی اور لدھیانہ اور امرتسر میں پبلک لیکچر حضرت میر ناصر صاحب دہلی سے ہجرت کر کے قادیان آچکے تھے اور برسوں سے کوئی تقریب ایسی پیدا نہ ہو سکی تھی کہ حضرت ام المومنین اپنے عزیز و اقارب سے مل سکیں.حضور نے کئی بار سفر کا ارادہ بھی کیا مگر اسے ملتوی کر دینا پڑا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد حضور نے دوبارہ سفر دہلی کا فیصلہ فرمایا جس کا ایک محرک یہ بھی تھا کہ ان دنوں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن بھی دہلی کے ڈفرن ہسپتال میں متعین تھے.۲۱ / اکتوبر کی رات حضور نے رویا میں دیکھا کہ ” دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں.پھر دیکھا کہ ان پر قفل لگے ہوئے ہیں.پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی چیز میرے کان میں ڈالتا ہے.میں نے کہا تم مجھے دکھ کیا دیتے ہو.رسول اللہ ا کو اس سے زیادہ دکھ دیا گیا ہے." روانگی حضور پروگرام کے مطابق ۲/ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو صبح آٹھ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہوئے حضور کے اہل بیت اور خادمات کے علاوہ مندرجہ ذیل خدام کو آپ کے ہم سفر ہونے کا شرف حاصل ہوا.(۱) مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی (۲) سیٹھ عبدالرحمن صاحب مالک ساجن کو بھی مدراس (۳) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن شاہ پور (۴) مولوی عبدالرحیم صاحب میر تھی (۵) مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹرید ر (۲) خلیفہ رجب الدین صاحب لاہوری (۷) شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم (۸) بابو نور الدین صاحب کلرک ڈاک خانہ (۹) شیخ حامد علی صاحب (۱۰) شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم.مخلصین حضور کی مشایعت میں دور تک ساتھ آئے.اور بعض طالب علم تو حضرت اقدس کی سواری کے ساتھ ساتھ بٹالہ تک دوڑتے چلے گئے.بٹالہ اسٹیشن حضرت اقدس کی روانگی کی خبر کسی طرح سیکھواں بھی پہنچ گئی تھی اور وہاں سے میاں جمال دین صاحب اور منشی عبد العزیز صاحب پٹواری بھی شرف زیارت کے لئے آگئے.حضرت اقدس دس بجے کے بعد بٹالہ پہنچے.یہاں حضور اور دیگر احباب نے کھانا کھایا اور

Page 440

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۲۳ مفرد یلی لدھیانہ اور امرتسر مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہوی کی اقتداء میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع و قصر کر کے پڑھیں.بٹالہ سے گاڑی ایک بج کر ۳۵ منٹ پر روانہ ہوئی.روانگی سے پہلے صرف بٹالہ سے امرتسر دہلی روانگی کا تار دیا گیا کیوں کہ کچھ عرصہ قبل جب کہ احباب کو حضور کے سفر دہلی کی اطلاع ملی پھگواڑہ پھلور لدھیانہ کے اسٹیشنوں پر کئی کئی دن تک خدام ، حاضر رہے اور آخر انتظار کے بعد بنگہ ضلع جالندھر کی جماعت قادیان میں آپہنچی تھی.حضرت اقدس نے اسی بناء پر کسی اور جگہ اطلاع دینے کی اجازت نہ دی.گاڑی بٹالہ سے امرتسر پہنچی.ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کپور تھلہ سے منشی ظفر احمد صاحب اور منشی اروڑا خاں صاحب اور ڈاکٹر فیض قادر صاحب حاضر ہوئے.جماعت امرتسر کے مخلص فرد ڈاکٹر عباد اللہ صاحب کو خبر ہوئی.وہ روڑے ہوئے اسٹیشن پہنچے اور حضور کی خدمت میں جماعت امر تسر کی طرف سے کھانے کی درخواست کی جسے حضور نے قبول فرما لیا اور وہ نماز مغرب کے وقت پر تکلف کھانا تیار کر کے لے آئے.دہلی کو روانگی رات کے نو بجے کے قریب گاڑی امرتسرا سیشن سے دہلی کو روانہ ہوئی اور مختلف منازل طے کرتی ہوئی بالا خر دو سرے روز (۲۳/ اکتوبر کو) قریباً تین بجے بعد دو پسر دہلی پہنچی.دہلی میں ورود دہلی میں اس وقت میر قاسم علی صاحب، ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڈیانوی اور دیگر چند احمدی تھے جنہوں نے اگر چہ الف خاں سیاہی والے کا مکان (واقع چتلی قبر متصل مسجد سید رفاعی صاحب) کرایہ پر پہلے سے لے لیا تھا.مگر چونکہ ان کو بٹالہ سے روانگی کے وقت کا تار نہیں مل سکا تھا اس لئے اسٹیشن پر کوئی صاحب استقبال کے لئے بھی موجود نہ تھے.مزید یہ کہ حضور کی تشریف آوری سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی) حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب تو دہلی سے پہلی ٹرین سے واپس قادیان کی طرف روانہ ہو گئے تھے.امر تسر اسٹیشن پر ان کو پتہ چلا کہ حضرت اقدس تو دہلی تشریف لے گئے ہیں چنانچہ وہ اگلی گاڑی سے دہلی واپس آئے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دہلی اسٹیشن پر قدم رکھا تو خاندان یا جماعت کے افراد میں سے کوئی موجود نہ تھا جس پر باقی ہمراہی تو بہت حیران ہوئے مگر حضور کو کچھ بھی ملال نہ ہوا اور آپ پلیٹ فارم پر اپنے اہل بیت کے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے ٹھر گئے.پھر آہستہ آہستہ شہر کو چل پڑے تھوڑی دور گئے تھے کہ ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں صاحب گو ڈیانوی بھی آملے.جب الف خاں سیاہی والے کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ سب ہی دروازے بند ہیں.مکان بالکل خالی پڑا تھا مگر ڈاکٹر صاحب نے پوری مستعدی سے تمام ضروری اشیاء کا انتظام کر دیا.

Page 441

تاریخ احمدیت جلد ۲ سفرد علی لدھیانہ اور امرتسر بزرگان امت کے قبور کی زیارت دوسرے روز صبح مفتی صاحب نے بعض احباب کی خواہش پر سیر دہلی کی اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں یہ فضول بات ہے میں اس کو پسند نہیں کرتا.ہاں یہاں اکثر اولیاء اللہ اور اکابر امت کے مزار ہیں ان پر جانے کا ہمارا بھی ارادہ ہے وہاں ہو آئیں.ایک فہرست ان مزاروں کی تیار کرلی جائے.چنانچہ مندرجہ ذیل بزرگوں کے نام لکھوائے گئے.(۱) خواجہ باقی باللہ صاحب (۱۵۲۴ - ۱۵۷۴ء) (۲) خواجہ میر درد صاحب (وفات ۱۷۸۵ء) (۳) شاہ ولی اللہ صاحب (۱۷۰۳ ۱۷۷۳ء) (۴) خواجہ نظام الدین اولیاء صاحب (۱۲۳۸-۶۱۳۲۵) (۵) جناب خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی (وفات ۶۱۲۳۵) (۶) مخدوم نصیر الدین محمود چراغ دہلی (وفات (۱۳۵۶) فہرست تیار ہونے پر گاڑیاں منگوائی گئیں اور حضرت اقدس اپنے بعض خدام کے ساتھ جن میں حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی تھے روانہ ہوئے.راستہ میں فرمایا.قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لئے سنت ہے.یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے اور اس سے اس کے دل پر عمدہ اثر پڑتا ہے.انسان اس دنیا میں ایک مسافر ہے آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے السّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْشَاءَ اللهُ بِكُمْ للاحقون انسان قبر پر جا کر اہل قبر کی مغفرت اور ترقی درجات کے لئے دعا کرے.درود شریف بھی ایک دعا ہے.حضور کچھ وقت کے بعد قبرستان تک پہنچ گئے.وہاں بہت سی قبریں ایک دوسری کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے.حضرت باقی باللہ کے مزار پر پہنچ کر حضور نے دونوں ہاتھ اٹھا کر لمبی دعا کی.دعا کے بعد مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کیا کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہئے.فرمایا صاحب قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اپنے واسطے بھی خدا سے دعا کرنی چاہیئے.انسان ہر وقت دعا کرنے کا محتاج ہے.قبر کے سرہانے کی طرف خواجہ صاحب کے متعلق ایک نظم لکھی تھی جو حضور کی ہدایت پر مفتی صاحب نے نقل کرلی.حضرت اقدس نے اس موقعہ پر فرمایا خواجہ باقی باللہ بڑے مشائخ میں سے تھے.شیخ احمد سرہندی کے پیر تھے.نیز فرمایا.خواجہ باقی باللہ صاحب کی عمر بہت تھوڑی تھی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بھی کم عمر پائی تھی.الغرض حضور خواجہ صاحب کے مزار پر دعا کر کے واپس اپنی فرودگار پر تشریف لے آئے.اگلے دن ۲۵ / اکتوبر کو حضور کی طبیعت کسی قدر ناساز تھی اس لئے باہر تشریف نہ لے گئے.۲۶/

Page 442

۴۲۵ سفر د یلی لدھیانہ او ر ا مر تر اکتوبر کو حضور خواجہ میر درد کے مزار پر جماعت کو ساتھ لے گئے اور لمبی دعا کی.وہاں سے فارغ ہو کر حضرت ولی اللہ شاہ صاحب اور آپ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم (۱۹۴۴ء.۱۷۱۹ء) کے مزار پر گئے اور بہت دیر تک دعا میں مصروف رہے.۲۹/ اکتوبر کو شاہ نظام الدین صاحب محبوب الهی قدس اللہ سرہ کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے.اس وقت وہاں کے سجادہ نشینوں میں سے صاحبزادہ سید غلام معین الدین نظامی کے علاوہ خواجہ حسن نظامی صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے نہایت محبت و خلوص سے تمام مقامات دکھائے اور ہر مقام کے تاریخی حالات عرض کئے اور اپنے خاص حجرے میں بھی حضرت اقدس اور خدام کو لے گئے اور ایک کتاب بنام " شواہد نظامی " پیش کی بلکہ حضور کے وہاں تشریف لے جانے سے پیشتر مکان پر آکر یہ بھی عرض کی.آپ جب وہاں آئیں تو اپنے اصحاب کے ساتھ میری دعوت قبول فرمائیں (خواجہ صاحب حضور کی دہلی سے روانگی کے وقت پر بھی اسٹیشن پر موجود تھے) حضرت اقدس نے شاہ نظام الدین صاحب اولیاء اور امیر خسرو (۱۲۵۳-۱۳۲۵ء) کے مزار پر فاتحہ پڑھا.ای روز حضرت حضرت مولوی نور الدین صاحب کی آمد کا ایمان افروز واقعہ مولوی نور الدین صاحب قادیان سے دہلی پہنچے.حضور کو نقرس کی تکلیف ہو گئی تھی اس لئے ان کو تار دیا گیا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب آپ کے مفرد علی کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول میں اللہ کو تار دلوائی کہ فورا دلی پہنچ جائیں.تار لکھنے والے نے تار میں انیجی ایٹ (immediate یعنی بلا توقف کے الفاظ لکھ دئے.حضرت خلیفہ اول کو جب یہ تار پہنچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے.تار کے ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا توقف بلایا ہے میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سید ھے اڈہ خانہ کی طرف روانہ ہو گئے.کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ.گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمیل تو کسی شخص کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور شاید اس وقت گھر میں کوئی رقم ہوگی بھی نہیں.اڈہ خانہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اول نے یکہ لیا اور بٹالہ پہنچ گئے مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا.چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا آپ خدا پر توکل کر کے اسٹیشن پر ملنے لگ گئے.اتنے میں غالبا ایک ہندور کیس آیا اور حضرت خلیفہ اول میں شر کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے آپ تکلیف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور اسے میرے گھر پر دیکھ آئیں.حضرت خلیفہ اول ہیں انھوں نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلی جا رہا

Page 443

تاریخ احمدیت.جلد ۲ فرد یلی لدھیانہ اور امرتسر ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے میں اس وقت نہیں جاسکتا.اس نے منت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں سٹیشن پر لے آتا ہوں آپ اسے نہیں دیکھ لیں.آپ نے فرمایا اگر یہاں لے آؤ اور گاڑی میں کچھ دشت ہوا تو میں دیکھ لوں گا.چنانچہ وہ اپنی بیوی کو سٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا.یہ ہندور میں چپکے سے گیا اور دلی کا ٹکٹ لا کر حضرت خلیفہ اول کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی." IF بعض علماء کا حضور کی مجلس میں آنا دیلی میں قیام کے دوران میں بعض علماء بھی حضور کی آسمان پر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.۲۴ / اکتوبر ۱۹۰۵ ء بعد نماز ظهر ایک صاحب عبد الحق صاحب چند طالب علموں کے ساتھ آئے.چند اور بھی دہلی والے آموجود ہوئے.عبد الحق صاحب نے اپنی تشفی کے لئے سوال کیا کہ کیا آپ خود مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی ہیں ؟ حضور نے اس کا بڑا لطیف جواب دیا اور ان کو توجہ دلائی کہ اس وقت عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے.آیا عیسوی مذہب کی بیخ دین اس سے اکھڑ سکتی ہے کہ ہم عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کو تسلیم کریں یا اس طرح کہ ہم عیسائیوں کے سامنے ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود مانتے ہو وہ دوسرے انبیاء کی طرح مدفون ہے اور اس کی قبر بھی موجود ہے.اس بات کا عبد الحق صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے کھڑے ہو کر حضور کے ہاتھ چوم لئے اور کہا کہ میں سمجھ گیا ہوں.آپ اپنا کام کئے جائیں انشاء اللہ تعالی ضرور کامیاب ہوں گے.اگلے روز (۲۵/ اکتوبر کو ایک اور مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے.آپ نے اپنا فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے ؟ حضور نے اس سوال کے جواب میں مفصل تقریر فرمائی اور بتایا کہ ”جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں میں کوئی بدعت نہیں لایا جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمدی کے نام میں اسلام اور اسلام کے بانی احمد ان کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں.احمد آنحضرت ا کا نام ہے.اسلام احمدی ہے اور احمد ی اسلام ہے.بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے.احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے.آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا.خدا کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمد کی ہیں." ۲۱ اکتوبر کو حضرت اقدس نے ایک لمبی تقریر فرمائی.چند مولویوں نے تقریر کے بعد حضرت اقدس سے ایک تحریر لکھوائی کہ حضور کیوں مسیح کی وفات کے قائل ہیں ؟ ۱۵

Page 444

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۴۲۷ مفرد علی لدھیانہ اور امرتسر حضور کے سفر دہلی کی خبر سن کر لاہور ، مظفر نگر ، میرٹھ گڑھی پختہ (ضلع دہلی میں خدام کی آمد مظفر گڑھ یوپی) پٹیالہ انبالہ لدھیانہ اٹاوہ امروہہ شاہ آباد ضلع ہر دوئی بلب گڑھ ضلع دہلی لارنس پور رعیہ ضلع سیالکوٹ اور بعض دیگر مقامات کے بہت سے خدام پہنچ گئے.لدھیانہ سے مولوی عبد القادر صاحب بطور نمائندہ آئے اور درخواست کی کہ حضور واپسی پر لدھیانہ بھی قیام فرما دیں جسے حضور نے منظور فرمالیا.جماعت پٹیالہ کی طرف سے منشی عبد الغنی صاحب آفیسر فراش خانہ نے بھی پٹیالہ میں قیام کی درخواست کی.حیرت صاحب کا بیہودہ چیلنج یکم نومبر ۱۹۰۵ء کو مرزا حیرت صاحب دہلوی نے کرزن گزٹ " میں حضرت اقدس کے خلاف سخت زہر اگلا اور مناظرہ کا چیلنج بھی دیا.حضرت اقدس نے ان کی گزشتہ آزاد اسلامی اور نمائشی طبیعت کو دیکھ کر اعراض ہی مناسب سمجھا.البتہ جماعت دہلی کی طرف سے اشتہار دیا گیا کہ مرزا حیرت صاحب محض ایک اخبار نویس ہیں لہذا ان کے ساتھ حیات و وفات مسیح" کے موضوع پر ایڈیٹر اخبار الحکام وبدر مناظرہ کرنے کو تیار ہیں.مرزا حیرت صاحب نے جوابی اشتہار دیا کہ میں ایسی بحثوں کو بیکار سمجھتا ہوں.حضرت مسیح ایک بار نہیں سو بار فوت ہو جائیں.ہاں ایک شخص کو خواہ مخواہ عیسی ابن مریم تسلیم کر لینا بحث طلب ہے.حق یہ ہے کہ یہ بحث طلب " معالمہ بھی جسے موضوع بحث بنانے کے لئے انہوں نے یہ اشتہار دیا تھا ان کی نگاہ میں اصولی نہیں تھا اور نہ چنداں اہمیت تھی.کیوں کہ وہ خود ہی ایک سال قبل ۲۳/ اپریل ۱۹۰۴ ء کو اپنے اخبار "کر زن گزٹ" میں لکھ چکے تھے " جو جدید مسائل مرزا صاحب اب تک پیش کر چکے ہیں.ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں اس لئے کہ ہم ان مسائل کو بہت معمولی سمجھتے ہیں.اگر چہ مرزا صاحب کے حریفوں نے بہت سی ضخیم ضخیم کتابیں ان مسائل میں لکھ دی ہیں اور مرزا صاحب سے کئی سال تک ان کی بابت تو تو میں میں رہی مگر ہمارے خیال میں وہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ذکر بھی کیا جاوے.ہم نہایت فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے ان معاملات میں مرزا صاحب ہی کو ڈگری دیتے ہیں." نیز لکھا." تیسری بات یہ ہے کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو مثیل مسیح کہتے ہیں.اچھا ہم تسلیم کرتے ہیں آپ مثیل مسیح ہی سہی جب کہ حضور انور ﷺ کی مرحوم امت کا ہر فرد مثل انبیاء بنی اسرائیل کے ہے اور ہو سکتا ہے پھر اگر مرزا صاحب مثیل مسیح ہو گئے تو کیا غضب ہو گیا ہمیں اس کی تردید کی کیا ضرورت ہے."

Page 445

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۲۸ مفرود علی لدھیانہ اور امرتسر دہلی میں حضور کا کوئی پبلک لیکچر نہیں ہوا.ہاں عام تقریر میں دیلی کے دروازے بند رہے ضرور ہوئیں.ایک درجن کے قریب بیعتیں بھی ہو ئیں.بھائی عبدالرحیم صاحب کا بیان ہے کہ ایک شخص بیعت کے لئے آیا اور اس نے عرض کی کہ حضور یہاں بیعت کرنا اپنی بیوی کو طلاق دینا ہے اس لئے بیعت سے پہلے گھر جا کر اپنی بیوی سے فیصلہ کرلوں.وہ گھر گیا اور اس نے اپنی بیوی کے پاس ذکر کیا.اس نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ بیعت کرلوں گی.اس طرح ہر دو نے بیعت کی.دہلی میں احباب کے اصرار پر حضرت حکیم الامت نور الدین صاحب کے لیکچر کی تجویز ہوئی.۳/ نومبر کو اس کی اجازت کے لئے کوشش کی گئی مگر معلوم ہوا کہ کسی وجہ سے اتوار تک لیکچر نہیں ہو سکتا.الغرض دہلی والوں نے اس موقع سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھایا اور جیسا کہ حضور کو قبل از وقت بتا دیا گیا تھا دہلی کے دروازے مقفل ہی رہے.حضور ۴/ نومبر ۱۹۰۵ء کی شام کو دہلی سے روانہ ہو کر ۵ / نومبر ۱۹۰۵ء کو ا ابجے کے قریب واپسی لدھیانہ پہنچے.لدھیانہ میں قیام اور لیکچر دہلی کے بر عکس لدھیانہ میں حضور کی زیارت کے لئے اسٹیشن پر استقبال کرنے والے ہزاروں لوگ ہر طبقہ ہر عمر اور ہر مذاق کے موجود تھے.چنانچہ ایک مقامی اخبار نے لکھا کہ ایک میلہ لگا ہوا تھا اور پولیس والے بھی عاجز آگئے.حضور انور ایک بڑی کو ٹھی میں (جو سڑک کے کنارے واقع تھی) مقیم ہوئے.یہاں بھی لوگوں کا ہر وقت تانتا بندھا رہتا تھا.گردو نواح کے اضلاع سے بہت سے احمدی جمع ہو گئے.جماعت لدھیانہ نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا.مخالفین کی طرف سے سب و شتم سے بھرے ہوئے اشتہار شائع ہوئے جن کا جواب ایڈیٹا لحکم نے بذریعہ اشتہار دیا.اسی روز (۵/ نومبر کی شام کو یہ تجویز ہوئی کہ حضرت اقدس کا ایک پبلک لیکچر ہو.راتوں رات جماعت احمدیہ لدھیانہ نے پوری مستعدی اور ہوشیاری کے ساتھ اشتہار چھپوا کر چسپاں کروائے اور علی الصبح تقسیم بھی کر دیا.وقت مقررہ پر ہزاروں لوگ متصل مکان آریہ سکول محاذ کمیٹی باغ کے احاطہ میں جہاں لیکچر قرار پایا تھا جمع ہو گئے.حضرت اقدس نے ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک اسلام کی خوبیوں اور سلسلہ احمد یہ حقہ کی صداقت پر ایک پر معارف تقریر فرمائی.حضور کی تقریر کے آخری الفاظ یہ تھے.”میرے نشانات تھوڑے نہیں.ایک لاکھ سے زیادہ انسان میرے نشانوں پر گواہ ہیں اور زندہ ہیں.ro

Page 446

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۲۹ مفرد یلی لدھیانہ اور امرتسر میرے انکار میں جلدی نہ کرو ورنہ مرنے کے بعد کیا جواب دو گے؟ یقین یا درکھو خدا سر پر ہے اور وہ صادق کو صادق ٹھہرا تا اور کاذب کو کا ذب." حضور کے لیکچر کے بعد مولوی عبد الصمد پٹیالوی نے ایک نظم حضور کی تصدیق میں پڑھی.ازاں بعد مصری شاہ صاحب ساکن نواں شہر ضلع جالندھرنے اپنا یہ رویا حلفاً بیان کیا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے حضرت مسیح موعود کے مدارج کو سنا اور تصدیق فرمائی تھی.12 امرتسر میں قیام اور لیکچر حضرت اقدس ۸/ نومبر کی صبح کو لدھیانہ سے روانہ ہوئے اور امرتسر تشریف لائے جہاں حضور نے دو روز تک اس مکان میں قیام فرمایا جہاں ۱۸۹۳ء کے مباحثہ جنگ مقدس کے دوران ٹھہرے تھے.9 نومبر کی صبح امر تسر میں بھی حضور کی ایک تقریر ہونا قرار پائی.جماعت امر تسر نے اس لیکچر کے لئے اشتہار بھی دیا کہ عالی جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے ہماری درخواست پر ایک ، پبلک وعظ اسلام کے زندہ مذہب ہونے اور اس کے انوار و برکات کے بارے میں کرنا منظور فرما لیا ہے.چونکہ یہ جلسہ محض تبلیغ حق کی خاطر ہو گا اور اس سے کوئی غرض مباحثہ یا مناظرہ نہیں ہے اس لئے کسی شخص کو اس میں بولنے کی اجازت نہ ہو گی.لیکچر کے لئے رائے کنھیا لال صاحب وکیل کا لیکچر ہال لیا گیا تھا.۸ بجے کے بعد حضور نے تقریر شروع فرمائی پہلے یہ بیان فرمایا کہ قریباً چودہ سال پہلے مجھے پر کفر کا فتوی دیا گیا اور مولوی عبدالحق غزنوی نے میرے ساتھ مباہلہ کیا جس کے بعد خدا تعالٰی نے میری بہت مدد فرمائی.تین لاکھ سے زیادہ آج میرے مرید ہیں اور کثرت سے مخلصین میرے ساتھ ہیں.مخالفوں کی زبر دست کوششوں اور منصوبوں کے باوجود خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کیا.غرض پون گھنٹہ کے قریب حضور نے تقریر فرمائی.اس کے بعد حضور نے اسلام کی خوبیوں کا ذکر شروع کرنا چاہا تو مخالفین نے (جون میں غزنوی گروہ اور مولوی شاء اللہ صاحب کی پارٹی کے لوگ شامل تھے اور جو پہلے سے منصوبہ کر کے آئے تھے ) ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا.بعض نے تالیاں بجائیں ، بیٹیاں ماریں اور نخش گالیاں دینا شروع کر دیں.امرتسر کے رؤساء نے کھڑے ہو کر بار بار ان کو سمجھایا مگر کسی نے ایک نہ سنی اور اس قدر شور برپا کیا کہ لیکچر بند کرنا پڑا.حضور گاڑی میں سوار ہوئے تو ہر طرف سے پتھر اور انہیں برسانا شروع کر دیں.عین سنگ باری کے دوران میں ایک آدمی نے زور سے السلام علیکم کہا.حضور نے فرمایا وعلیکم السلام.اس نے کہا میں نے وہ سلام پہنچایا ہے جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب مہدی آئے تو اس کو میرا سلام پہنچانا.

Page 447

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۳۰ سفرد علی لدھیانہ اور امرتسر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا الحمد اللہ کہ رسول کریم کی پیش گوئی پوری ہو گئی.پتھر بھی قوم نے بر سائے اور السلام علیکم بھی پہنچ گیا.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کا چشم دید بیان حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب کا بیان ہے کہ اہل امر تسر کچھ حاصل نہ کر سکے.لوگ لیکچر سنے کے لئے آئے.اپنے ساتھ اینٹیں ، پتھر اور ٹوٹے ہوئے جوتے لائے.اور بڑے بڑے مولویوں کے سکھانے پر لوگ شور کرتے رہے.چونکہ حضور علیہ السلام سفر میں تھے اس واسطے روزہ نہیں رکھا تھا.ابھی گھنٹہ بھر لیکچر نہ ہو ا تھا کہ مفتی فضل الرحمن صاحب نے ایک چائے کی پیالی پیش کی.جوں ہی حضور علیہ السلام نے اسے اٹھایا اور گھونٹ پیا تمام لوگوں نے شور ڈال دیا.بعض رئیسوں نے کہا کہ ہمارے شہر والواد یکھو تم کیا نمونہ دکھلا رہے ہو یہ بہتر نہیں.مگر کون سنتا تھا اس طرح شور پڑ تا رہا.آخر حضور علیہ السلام اٹھ کر ایک راستہ سے تشریف لے گئے اور کہلا بھیجا اب ہم ان کو کوئی لیکچر نہ سنائیں گے اس لئے تمام لوگ اس مکان سے نکال دئے گئے.تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی لائی گئی تاکہ حضور علیہ السلام اپنے ڈیرہ کو تشریف لے جائیں.لوگ دکانوں پر چڑھے ہوئے تھے سب کے ہاتھ میں اینٹ پتھر اور پرانے جوتے تھے.جوں ہی حضور علیہ السلام بند گاڑی میں سوار ہوئے گاڑی پر پتھروں " اینٹوں جوتوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی.گاڑی نکل گئی اور جماعت احمدیہ کے تمام آدمی پیچھے رہے.راستہ میں بڑے سخت حملے ہوئے.چنانچہ ایک شخص نے لاٹھی سے بڑے زور سے گاڑی پر حملہ کیا.بابو غلام محمد صاحب ٹائم کیپر لاہوری جو کہ گاڑی کے پائد ان پر کھڑے تھے فورا آگے آگئے.ان کو کسی قدر چوٹ لگی.مولوی محمد علی صاحب اپنا سونٹا لئے ہوئے پیچھے بھاگ رہے تھے لوگوں نے یہ سمجھا کہ کوئی مخالف مرزا صاحب پر حملہ کرنے کے لئے لاٹھی لے کر بھاگ رہا ہے اس لئے وہ بھی بچ گئے ورنہ نہ معلوم کیا ہو تا کیوں کہ وہ اکیلے تھے.تمام مخالف دکانوں پر چڑھے ہوئے اینٹیں پتھر برسا رہے تھے اور جہاں سے گزرتے تھے وہ سب گاڑی کے پیچھے ہو لیتے تھے.حضرت میاں محمود احمد صاحب (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے تھے کہ ہم گاڑی کی کھڑکی بند کرتے تھے ادھر اس پر پتھر پڑتا تھا اور پھر کھل جاتی تھی.الغرض گاڑی والا اینٹ کھاتا ہوا گاڑی کو بھگا کر لے گیا.شیخ رحمت اللہ صاحب کو بھی ایک دو ٹوٹی ہوئی جوتیاں لگیں.حکیم محمد حسین مرہم عیسی کے لڑکے کے سر پر بھی اینٹ لگی مگر یہ سب خفیف تھیں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے ناخن پر بھی ضرب آئی تھی مگر یہ سب ضر ہیں کچھ نہ تھیں..خیر یہ ایک سنت باقی تھی وہ محمد اللہ پوری ہوئی اور کسی کو ضرب نہ آئی.لیکچر حضور علیہ السلام نے یہاں سے شروع فرمایا تھا.میں خدا تعالیٰ کا بڑا شکر کرتا ہوں.میں یہاں

Page 448

تاریخ احمدیت جلد ؟ سفر دہلی لدھیانہ اور امرتسر چودہ سال کے بعد آیا ہوں.پہلے جب میں آیا تھا تو اتنے مرید تھے جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے اور اب میں چار لاکھ سے زیادہ مرید لے کر آیا ہوں.یہ وہ کامیابی ہے جو غزنوی کے مباہلہ کا انجام ہوا.الغرض نشان بیان کرتے کرتے طاعون کا ذکر فرما رہے تھے کہ لیکچر ختم ہوا.دہلی میں حضور علیہ السلام نے رویا میں سخت زلزلہ دیکھا جس کی تعبیر حضور علیہ السلام نے غم ، رنج اور ہم فرمائی تھی.پھر دیکھا تھا کہ تالی (چابی) گم ہو گئی تھی.اس کے متعلق حضور علیہ السلام نے ایک خط میں (جو مولوی محمد علی صاحب کے نام لکھا تھا، تحریر فرمایا تھا کہ خطرہ ہے کہ راستہ میں کوئی امر مکروہ پیش نہ آوے.یہ رویا بھی پوری ہوئی.احباب امرتسر کی مہمان نوازی امرتسرکی غریب جماعت نے حضور اور حضور کے خدام کی مهمان نوازی کا حق ادا کر دیا.حضور کے لیکچر کی خبر سن کر اطراف سے بہت سے دوست امر تسر میں جمع ہو گئے تھے.جماعت امر تسرنے بھی نہایت ہمت حوصلہ اور فراخ دلی کے ساتھ سب کی خدمت کی.کھانے پینے اور رہائش گاہ کے انتظامات سب خاطر خواہ قادیان کی طرف مراجعت حضور اسی روز امر تسر سے بٹالہ تشریف لے گئے اور دوسرے بجے کے قریب دار الامان پہنچے.لازالة روز ۱۰/ نومبر کو بٹالہ سے ۸ بجے صبح روانہ ہو کر بخیر و عافیت ۱۲ مسلمانان عالم کے بین الاقوامی اتحاد کے لئے الہام ۲۰/ نومبر۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود پر الہام نازل ہوا اِلَی مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ سب مسلمانوں کو جو روے زمین پر ہیں جمع کرو " على دِینِ وَاحِدٍ " اس مبشر الہام میں حضور کوبتایا گیا کہ "FA مسلمانان عالم میں بین الاقوامی اتحاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا ایک عظیم مقصد ہے جو حضور کی جماعت کے ذریعہ سے بالا خر پوری شان و شوکت کے ساتھ پورا ہو کر رہے گا.انشاء اللہ - 2

Page 449

-Y ریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۳۲ حواشی الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ کالم ۱ - ۱۳ بدر ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه او در ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ کالم ۱-۲ بدر ۲۷/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم ۴ الحکم ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴ کالم ہو الحکم ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۵ کالم ۲ الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم او در ۱/۲۷اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۳ الحکم ۱۴/۲۱ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم) الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم.۱۲ حکم ۳۱ / اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۳ ۹ بدر۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ الحکم ۳۱ / اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۲ سفرد علی لدھیانہ اور امرتسر پدر ۱۲۴ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ کالم جب حضرت اقدس دہلی سے قادیان واپس آئے تو حضور نے خواجہ حسن نظامی صاحب کے زبانی اصرار اور تحریری درخواست کے جواب میں (جو انہوں نے بعد کو بذریعہ ڈاک قادیان بھیجی تھی مندرجہ ذیل تحریر بھجوائی.بسم الله الرحمن الرحیم نحمد و نصلى على رسوله الكريم - الحمد لله والصلوة والسلام على رسوله خاتم النبين وآله واصحابه و جميع عبادة الصالحین اما بعد شعبان المبارک ۱۳۲۳ھ میں مجھے جب دہلی جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے ان صلحاء اور اولیاء الرحمن کے مزاروں کی زیارت کا شوق پیدا ہوا جو خاک میں سوئے ہوئے ہیں.کیوں کہ جب مجھے دہلی والوں سے محبت اور انس محسوس نہ ہوئی تو میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق و صفا اور عاشقان حضرت موٹی جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت ساجور و جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے ان کی متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کرلوں.پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین ولی اللہ یا اللہ کے مزار متبرک پر گیا.اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کی متبرک مزاروں پر بھی.خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے.آمین ثم آمین" الراقم عبد الله الصمد غلام احمد الصحیح الموعود من الله الاحد القادیانی ۱۲/ نومبر ۱۹۰۵ء ( بدر ۱۲۴ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم) الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحه ۴-۵ بدر ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ ۱۵ پدر ۳/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳-۴ بدر ۱۳ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳-۴ تحریر کا متن بد ر۶/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴ پر شائع ہوا.۱۸- الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۲.گڑھی پختہ ایک قصبہ ہے جو تحصیل کیرانہ ضلع مظفر نگر (یوپی) میں واقع ہے اور تھانہ بھون کے قریب ہے.19 الحکم ۱۲۴ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۱-۳ ۲۰ الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۱-۳ ۲۱ مکتوب بھائی عبد الرحیم صاحب مرقومه آخر ۱۹۰۵ء ( اصل خط قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری کے ریکارڈ میں ہے) ۲۲ - الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ الالم ۲۳- الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ۲

Page 450

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ السلام سفرد علی لدھیانہ اور امرتسر ۲۴ الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه و سیرة المهدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۷۲ مفصل اشتہار کے لئے ملاحظہ ہو پدر ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم ۲.۲۵ بر ۱۰.نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۲ 2 الحکم ۳۰ / نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۶ کالم - بدر ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ کالم ۲ ۲۸- الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ا کالم ۳ ۲۹ مفصل اشتہار کے لئے ملاحظہ ہو بدر ۲۴ / نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ کالم ۳ ۳۰ بدر ۱۵- نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴ کالم ۲-۳ ۳۱- (روایت حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سیرة احمد صفحہ ۲۱ مرتبہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ۳۲- خط حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب مرقوم آخر ۱۹۰۵ء اصل قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے ۳۳- بدر ۱۵/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴ کالم ۲ ۳۴- از خط حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب نیز الحکم ۱۷/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ اکالم ۲ ۳۵- بدر ۲۴/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲.الحکم ۲۴/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱ ۳۶ حضرت اقدس نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے انہی دنوں فرمایا."یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روے زمین پر ہیں جمع کرد علی دین واحد - یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امردو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو زکوۃ دو خون نہ کرو وغیرہ اس قسم کے اوامر میں ایک پیش گوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے.جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف و مبدل نہ کرتا.یہ بتاتا ہے کہ بعض ان میں سے کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.دوسرا امر کوئی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضاء و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قلنا یا نار کونی بردا وسلاما اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا.اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ مسلمانان روے زمین علی دین واحد جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں." (الحکم ۳۰/ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۳۷- مولوی ظفر علی خاں صاحب لکھتے ہیں."جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی جس کی زندگی کا ایک بڑا مقصد آپ کے متعدد دعادی کے لحاظ سے جو چیز تحریر میں آچکے ہیں مسلمانوں میں وحدت قائم کرنا تھا." (ستارہ صبح ۸ / دسمبر ۱۹۱۶ء بحوالہ رسالہ ”ظفر علی خاں کی گرفتاری صفحه ۵ مرتبه حبیب الرحمن عرف خان کا بلی احمد افغانی مطبوعہ ۲۷ مارچ ۱۹۳۷ء)

Page 451

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۳۴ قرب وصال سے متعلق الهامات تحریک الوصیت کی بنیاد اور نظام خلافت کے قیام کی پیشگوئی قرب وصال سے متعلق العلامات

Page 452

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۵ قرب وصال سے متعلق الہامات قرب وصال سے متعلق الهامات و رویا.”الوصیت کی تصنیف و اشاعت اور نظام خلافت کے قیام کی پیش گوئی اللہ تعالی نے ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا کہ آخری اللہ زندگی کا یہی ہے جو اب گزر رہا ہے.چنانچہ ۱۸/ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو حضور نے رویا میں دیکھا کہ ”ایک کو ری ٹنڈ میں ساتھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور مقطر پانی ہے." اس کے ساتھ ہی الہام ہوا " آب زندگی " " پھر الہام ہوا " خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا گئی " دسمبر ۱۹۰۵ء میں صاف بتایا گیا قرب اجلک المقدر یعنی تیری اجل مقدر آگئی ہے) B بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہو گا یہ ہو گا یہ ہو گا بعد اس کے تمہارا واقعہ ہو گا.تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.دسمبر۷ ۱۹۰ء میں خدا تعالی کی طرف سے مزید اس حادثہ کی تحسین میں یہ الہام ہوا " ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق الله خير وابقى "B الوصیت" کی تصنیف ان المی خبروں کی بناء پر حضور نے ۲۰/ دسمبر ۱۹۰۵ء کو "الوصیت" کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں ان الہامات کا تذکرہ کر کے حضور نے جماعت کو نہایت شفقت بھرے الفاظ میں اپنے اندر روحانی انقلاب برپا کرنے کی تلقین فرمائی اور اپنے بعد قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کے ظہور کی خوش خبری دی چنانچہ لکھا." یہ خدا تعالی کی سنت ہے.اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کتب الله لا غلبن انا ورسلی (خدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے ) اور غلبہ سے

Page 453

تاریخ احمدیت جلد ۲ قرب وصال سے متعلق الہامات مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی محبت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راست بازی کو دہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظا ہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو نہی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کو دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول.خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کو ہاتھ دکھلاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بد قسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.خدا تعالٰی دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت ا کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ تُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ ! لَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسیٰ "مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدے کے موافق منزل مقصود تک پہنچا میں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معالمہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.سواے عزیزو ! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین

Page 454

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۳۷ قرب و سال سے متعلق الهامات مت ہو.اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جاویں کیوں کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیوں کہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دو سروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدے کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا.اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دو سری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے." "الوصیت" میں حضور نے جماعت کو یہ وصیت بھی." دین واحد پر جمع کرنے کی وصیت فرمائی کہ خدا تعالی چاہتا ہےکہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالٰی کا مقصد ہے جس کے لئے دنیا tt میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے." بہشتی مقبرہ کا قیام آنحضرت ﷺ نے مسیح محمدی کے متعلق پیش گوئی فرمائی تھی يُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ یعنی وہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کے جنت میں درجات کے بارے میں اطلاع دے گا.اس پیش گوئی میں مخبر صادق ا نے نہایت لطیف پیرایہ میں ایک بہشتی مقبرہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا جو مسیح موعود کے زمانہ میں مقدر تھا.چنانچہ عین اس خبر کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو ۱۸۹۸ء کے قریب ایک کشف ہو ا جس کی تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ تھی " مجھے ایک جگہ

Page 455

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۳۸ قرب : مال سے متعلق الہامات دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے.پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی.تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں." فرمایا کہ حضور نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے نام ۶ / اگست ۱۸۹۸ء کو ایک مکتوب میں تحریر ”میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طور پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا.بقول شیخ سعدی کہ ”بداں را به نیکاں محمد کریم " یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیا ہے.اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے.امید ہے کہ خدا تعالی کوئی جگہ میسر کر دے گا اور اس کے ارد گرد ایک دیوار چاہیئے." اس لحاظ سے آپ ۱۸۹۸ء سے ایک خاص قبرستان کی بنیاد کے لئے کوشاں تھے مگر چونکہ موقعہ کی عمدہ زمینیں بہت قیمت سے ملتی تھیں اس لئے یہ غرض مدت دراز تک معرض التواء میں رہی.بالاخر اللہ تعالی کی مصلحتوں کے ماتحت اس کا قیام دسمبر ۱۹۰۵ء کے آخر میں عمل میں آیا جس کا فوری موجب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا انتقال اور خود حضور کے قرب وصال کے الہامات تھے.حضور نے اپنی ملکیتی زمین بہشتی مقبرہ اور اس میں دفن ہونے کی شرائط کا اعلان الی حکم کی تعمیل میں مقبرہ کے لئے وقف فرما دی اور رسالہ الوصیت میں اس میں دفن ہونے والوں کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا اعلان فرمایا."چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا انزل فيها كُلّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتار دی گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں.اس لئے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا ئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہو سکیں جو اپنے صدقی اور کامل راست بازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں.سورہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجالاتا ہو گا." اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن اس احاطہ کی

Page 456

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۳۹ قرب وصال سے متعلق الہامات جمیل کے لئے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت اند از اہزار روپیہ ہوگی اور اس کے خوش نما کرنے کے لئے کچھ درخت لگائے جائیں گے اور ایک کنواں لگایا جائے گا.اور اس قبرستان سے شمال کی طرف بہت پانی ٹھہرا رہتا ہے جو گزر گاہ ہے اس لئے وہاں ایک پل تیار کیا جائے گا اور ان متفرق مصارف کے لئے دو ہزار روپیہ درکار ہو گا.سو کل یہ تین ہزار روپیہ ہوا جو اس تمام کام کی تجمیل کے لئے خرچ ہو گا.سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض ان لوگوں سے طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے.بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نور الدین صاحب کے پاس آنا چاہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا.اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتا فوقتا جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں.دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا تو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہو گا.اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہو گا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے.لیکن اس سے کم نہیں ہو گا.اور یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپرد رہے گی اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے حسب ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گے.اور خدا تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا.اس لئے امید کی جاتی ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے ایسے مال بھی بہت اکٹھے ہو جائیں گے اور ہر ایک امرجو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہوں گے.اور جب ایک گروہ جو متکفل اس کام کا ہے فوت ہو جائے گا تو وہ لوگ جو ان کے جانشین ہوں گے ان کا بھی یہی فرض ہو گا کہ ان تمام خدمات کو حسب ہدایت سلسلہ احمدیہ بجالا دیں.ان اموال میں سے ان قیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.اور جائز ہو گا کہ ان اموال کو بطور تجارت کے ترقی دی جائے یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال

Page 457

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۰ام بهم قرب وصال سے متعلق جمع کیوں کر ہوں گے اور ایسی جماعت کیوں کر پیدا ہو گی جو ایمان داری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانے کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھا دیں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہو گا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ محمد ان کو بطور مدد خرچ ان میں سے دیا جائے.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو.ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا.اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے." الوصیت میں حضور نے یہ بھی لکھا کہ "میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ان کو ان شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہو گا." نیز تحریر فرمایا " یہ انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اس سے ان کی پردہ دری ہوگی اور بعد موت وہ مرد ہوں یا عورت اس قبرستان میں ہر گز دفن نہ ہوں گے." "الوصیت" میں حضور نے اس مقبرہ کی غرض یہ لکھی کہ " خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے مقبرہ کی غرض کہ ایسے کامل الایمان ایک جگہ دفن ہوں تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں اور تا ان کے کارنامے یعنی جو خدا کے لئے انہوں نے دینی کام کر ہمیشہ کے لئے قوم پر ظاہر ہوں." نظام الوصیت کے متعلق ایک عظیم الشان پیش گوئی حضور نے الوصیت میں ہی پیش گوئی فرمائی " یہ مت خیال کرد که به صرف دو ر از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیوں کر ہوں گے اور ایسی جماعت کیوں کر پیدا ہو گی جو ایمان داری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر د ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں."

Page 458

تاریخ احمدیت.جلد ۲ قرب وصال سے متعلق الهامات نظام نو کی بنیاد تحریک الوصیت در اصل دنیا کے نظام نو کی بنیاد ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے نائب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے ۱۹۴۲ء میں اس کی وضاحت میں فرمایا تھا ” جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹادیا جائے گا.انشاء اللہ.یتیم بھیک نہ مانگے گا.بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی.بے سامان پریشان نہ پھرے گا.کیوں کہ وصیت بچوں کی ماں ہو گی.جوانوں کی باپ ہو گی.عورتوں کا سماگ ہوگی.اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا." صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد te "بہشتی مقبرہ " کی آمد کی حفاظت اسے فروغ دینے اور خرچ کرنے کے لئے حضور نے ایک انجمن بنائی جس کا نام " انجمن کار پردازان مصالح بهشتی مقبره تجویز فرمایا اور اس سلسلہ میں بعض خاص ہدایات دے کر الوصیت کے ساتھ بطور ضمیمہ درج کر کے لکھا کہ ” یہ ضروری ہو گا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیوں کہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے." یہ امجمن کوئی دنیوی یا جمہوری طرز کی کوئی انجمن نہیں تھی بلکہ ان اموال کی حفاظت اور توسیع اور اشاعت اسلام کی غرض سے بنائی گئی تھی جو نظام الوصیت کے نتیجہ میں جماعت کو عطا ہونے والے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب نے مشورہ دیا کہ بہشتی مقبرہ والی انجمن کو قانونی وسعت دے کر دوسرے جماعتی اداروں ( مثلا ریویو آف ریلیجز اور تعلیم الاسلام وغیرہ) کو بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا جائے اور اس کا نام صد را انجمن احمد یہ رکھا جائے.جماعتی تنظیم کے اعتبار سے یہ ایک معقول اور مفید تجویز تھی اس لئے حضور نے اسے قبول بھی فرمالیا اور ۳۱/ جنوری ۱۹۰۶ء تک اس کے قواعد و ضوابط تجویز کر لئے گئے جو ۱۰ / فروری ۱۹۰۶ ء کی ا حکم اور ۱۶ / فروری ۱۹۰۶ ء کے "بدر" میں جماعت کی اطلاع کے لئے شائع بھی کر دئے گئے.اس طرح اصل انجمن کار پرداز مصالح قبرستان میں ہی دوسرے تمام جماعتی ادارے مدغم کر کے موجودہ صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد پڑی.اور قواعد ضوابط کے مطابق پہلی وصیت بابا محمد حسن صاحب او جلوی کی منظور کی گئی.مدرسه

Page 459

جلد ۲ ۴۴۴ قرب : حال سے متعلق الہامات انجمن کا نظم و نسق صدر انجمن احمدیہ کے زیر انتظام چار مجالس انتظامی قواعد میں شامل کی گئیں.مجلس اشاعت اسلام.مجلس کار پردازان مصالح قبرستان - مجلس تعلیم ، مجلس انتظام امور متفرقہ.مجلس معتمدین کے ارکان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس معتمدین کے مندرجہ ذیل عہدیدار ارکان نامزد فرمائے.ا.حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی پریذیڈنٹ) ۲.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایل.ایل.بی (سیکرٹری) ۳.خواجہ کمال الدین صاحب وکیل چیف کورٹ پنجاب ( قانونی مشیر) -۴ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (رکن) ۵- مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی (رکن) ۶.خان صاحب نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ (رکن) ے.سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراس (رکن) - مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پشاور (رکن) ۹ - میر حامد شاہ صاحب سپرنٹنڈنٹ عدالت ضلع سیالکوٹ (رکن) ۱۰.شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویر ہاؤس لاہور (رکن) 11.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن لاہور (رکن) ۱۲.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسٹنٹ سرجن (رکن) ۱۳.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اسٹنٹ سرجن (رکن) ۱۴.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب اسٹنٹ سرجن (رکن) المختصر " صدر انجمن احمدیہ " جماعت کا محض انتظامیہ ادارہ تھا جس جماعت کا انتظامیہ ادارہ کے ذمہ بہشتی مقبرہ اور دوسرے صیغوں کے اموال کی حفاظت کا کام کیا گیا.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے پہلے جنرل سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب نے انجمن کی پہلی سالانہ رپورٹ میں یہ بات واضح کرتے ہوئے لکھا تھا ” اس مجلس کے چودہ ممبر ہیں جن کو حضرت صاحب نے خود مقرر فرمایا اور ان کے امیر یعنی میر مجلس اپنی فراست سے اس عظیم الشان انسان کو قرار دیا جو علم الی میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہونے والا تھا اور جو اس وقت ہم سب کے امیر اور مقتدر ہیں.اس مجلس کے سپرد حضرت اقدس نے اس سلسلہ کے کل انتظامی کاروبار کو کیا." " اشتهار تبلیغ الحق" iti حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی شخص نے حضور کے کسی نادان مرید کے متعلق یہ افسوس ناک خبردی کہ اس نے سید الشہداء حضرت امام حسن علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے.حضرت اقدس کو آنحضرت ﷺ سے عشق کامل تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کو حضرت ابو بکر

Page 460

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۴۳ قرب وصال سے متعلق الہامات ریق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت فاطمتہ الزہرا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے بے نظیر محبت و عقیدت تھی اور آپ ان کے بارے میں خفیف کی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.ایک دفعہ کسی نے حضور سے پوچھا کہ کیوں نہ ہم آپ کو مدارج میں شیخین سے افضل سمجھا کریں.اس کے جواب میں حضور نے چھ گھنٹے تک ایک پر جلال تقریر فرمائی اور بتایا کہ " میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں (صحابہ) کا مداح اور خاک پا ہوں جو جزئی فضیلت خدا تعالٰی نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص پا نہیں سکتا.کب دوباره محمد رسول الله و دنیا میں پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقعہ ملے جو جناب نتیجھیں علیهم السلام کو ملا." اسی طرح پنج تن پاک کے متعلق تو آپ کا مشہور شعر ہے.جان و دلم فدائے جمال محمد " است حاکم شار کو چند آل محمد " است یعنی میرے جان و دل محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال پر فدا ہیں اور میری خاک کو چنہ آل محمد پر نثار !! ای الفت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے حضور نے ۸/ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ” تبلیغ الحق" کے عنوان سے ایک مفصل اشتہار دیا جس میں اس نام نہاد مرید کی اس حرکت پر انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا." مجھے یہ امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راست باز کے منہ سے ایسے خبیث کلمے نکلے ہوں مگر ساتھ اس کے دل میں یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرہ اور لعن و طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہمانہ بات کہہ دی ہو...بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہ تھے...بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں ؟ دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین نے طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالٰی اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے.اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیارہ

Page 461

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۴۴ قرب : صال سے متعلق الہامات دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندرلیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیوں کہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین ان سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین اے کی تحقیر کیا جائے اور جو حسین یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیوں کہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے." احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے" ۲۶ دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمان خانہ جدید کے بڑے کمرے میں احباب جماعت کا ایک اجلاس اس غرض کے لئے منعقد ہوا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام" کی اصلاح کے مسئلہ پر غور و فکر کیا جائے متعدد احباب نے اس اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.ضمناً ایک احمدی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف مسئلہ حیات د وفات مسیح کا فرق ہے اس کے سوا کوئی امر اصولی طور پر موجب نزاع نہیں ہے.۲۴ حضور نے اگرچہ اس اجلاس کے آخر میں دو پہر سے قبل ایک مبسوط تقریر فرمائی جس میں آپ نے زیر بحث سوال کے علاوہ جماعت کے مقام و منصب اور بعض متفرق امور پر مبسوط روشنی ڈالی مگر خصوصاً اس شبہ کے ازالہ کے لئے دوسرے روز یعنی ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۵ء کو نماز ظہر و عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں ایک پر معارف تقریر فرمائی جو بعد میں احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے " کے عنوان سے شائع ہوئی.اس تقریر میں حضور نے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ وفات مسیح میں اسلام کی زندگی ہے " متعدد ایسی علمی اور عملی غلطیوں کی نشان دہی کی جن کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا اور واضح کیا کہ "بہت سی باتیں ہیں جو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خدا تعالیٰ ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ سے بالکل مخالف ہیں.اس واسطے اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان

Page 462

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۴۵ متعلق نہیں جانتا جب تک کہ وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجا دیں.اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں ان سب غلطیوں کو دور کر کے اصل اسلام پھر دنیا میں قائم کروں.یہ فرق ہے ہمارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان.ان کی حالت وہ نہیں رہی جو اسلامی حالت تھی.یہ مثل ایک خراب اور نکتے باغ کے ہو گئے.ان کے دل ناپاک ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ نئی قوم پیدا کرے جو صدق اور راستی کو اختیار کر کے بچے اسلام کا نمونہ ہو." ۱۹۰۵ء کے بعض صحابہ ۱۹۰۵ء کے بعض جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں.چوہدری احمد الدین صاحب پلیڈ ر گجرات.بابو فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر چوہدری غلام محمد صاحب سیالکوئی.مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری چوہدری علی محمد صاحب بی.اے بیٹی

Page 463

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۴۶ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی ماموریت کا پچیسواں سال انقلاب ایران سے متعلق پیش گوئی +1904 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ۱۵ / جنوری ۱۹۰۶ء کو الہام نازل ہوا." تزلزل در ایوان کسری متاد " یعنی شاه ایران کے محل میں تزلزل پڑ گیا.جب یہ الہام ہوا شاہ ایران مظفرالدین شاہ (۱۸۵۳ - ۱۹۰۷ء) کی حالت بالکل محفوظ تھی کیوں کہ وہ ۱۹۰۵ء میں عوامی مطالبات قبول کر کے پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر چکے تھے اور ایران بھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ شاہ نے کسی قسم کی خون ریزی کے بغیر ملک کو حقوق نیابت عطا کر دئے ہیں.باقی دنیا بھی اس نئے تجربے پر جو جاپان کو چھوڑ کر باقی ایشیائی ملکوں کے لئے بالکل نیا تھا.شوق و امید کی نظریں لگائے بیٹھی تھی.ایران اپنی نئی آزادی پر اور شاہ مظفر الدین اپنی قبولیت پر خوش ہو رہے تھے کہ اکتوبر ۱۹۰۶ ء میں قومی اسمبلی کا افتتاح ہوا.شاہ اس کے چند ماہ بعد ۸/ جنوری ۱۹۰۷ ء کو رحلت کر گئے.اور مرزا محمد علی تخت نشین ہوئے.محمد علی مرزا نے تخت پر بیٹھتے ہی مجلس کے استحکام اور نیابتی حکومت کے دوام کا اعلان کیا لیکن چند دن بعد ہی ایران میں فتنہ و فساد کے آثار نظر آنے لگے اور بادشاہ نے تہران چھوڑنے کا ارادہ کر لیا.اس تغیر مکانی کے وقت بادشاہ کی محافظ فوج اور قوم پرستوں کے درمیان اختلاف ہو گیا جس پر بادشاہ نے پارلیمنٹ موقوف کردی.نتیجہ یہ ہوا کہ جمہوریت کے دلدادوں نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور خانہ جنگی شروع کردی.بادشاہ نے خزانہ اور اسباب روس میں بھیجنا شروع کر دیا اور پورا زور لگایا کہ بغاوت فرد ہو جائے مگر یہ ملکی فساد اور بڑھتا گیا.جنوری 1909 ء میں اصفہان کے علاقہ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی اور بختیاری سردار بھی قوم پرستوں کے ساتھ مل گئے اور شاہی افواج کو سخت شکست ہوئی.بادشاہ نے مجبو ر ا حکومت نیابتی کی حفاظت کا عہد کیا اور بار بار اعلان کئے کہ وہ استبدادی حکومت کو ہرگز قائم نہیں کرے گا مگر خدا کے وعدے کب مل سکتے تھے ایوان کسرئی میں گھبراہٹ بڑھتی گئی حتی کہ بادشاہ کی محافظ فوج بھی بادشاہ کو

Page 464

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۴۷ انقلاب ایران کے تعلق پیش گوئی چھوڑ کر خود باغیوں سے مل گئی اور بادشاہ کو اپنے حرم سمیت ۱۵ / جولائی ۱۹۰۹ء کو روسی سفارت گاہ میں پناہ گزین ہونا پڑا.اس طرح اڑھائی سال کے بعد حضرت مسیح موعود کا الهام " تزلزل در ایوان کسری فتار نہایت واضح طور پر پورا ہو گیا.مرزا محمد علی نے معزول ہونے کے بعد اپنا تخت دوبارہ حاصل مرز امحمد علی کا حملہ اور نا کامی کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور بالا خری۱۷ جون 1911ء کو بحیرہ کیسپین کے کنارے واقع شہر GUMESH TEPE) پر اترا.عین اس وقت اس کے بھائی سالار الدولہ نے بھی یکایک کردستان میں بغاوت کے شعلے بلند کر دئے اور دونوں نے دو اطرافی سے دار الخلافہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا مگر جلد ہی دونوں کی فوجیں پسپا ہو گئیں.حضرت سید محمد اسحق صاحب کی شادی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۴ فروری ۱۹۰۶ء کو رویا میں دیکھا کہ سید محمد الحق صاحب (خلف الرشید حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ خاتون صاحبہ (بنت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب) کے نکاح کی تیاری ہو رہی ہے.اسی قسم کی رؤیا حضرت ام المومنین کو بھی ہوئی حالانکہ قبل ازیں اس تعلق میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس رویا کی بناء پر صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب کو تحریک فرمائی اور دوسرے ہی دن (۵/ فروری) کو نکاح کی تقریب عمل میں آگئی.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے نماز ظہر و عصر کے جمع کرنے کے بعد مسجد اقصیٰ میں ایک خاص جوش کے ساتھ خطبہ نکاح پڑھا.حضرت اقدس بھی اس وقت رونق افروز تھے.یہ موقعہ جماعت کے لئے دوہری خوشی کا تھا کیوں کہ اس دن عید الاضحیٰ بھی تھی اور کپورتھلہ لاہور ، امر تبر، سیالکوٹ، رعیہ ضلع سیالکوٹ، بہبو والی ضلع ہوشیار پور اور دوسرے مقامات سے کئی احباب قادیان میں حاضر تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے ماموں کی شادی پر فی البدیہ ایک دعائیہ نظم بھی کی.حضرت صالحہ خاتون صاحبہ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی.اولاد FA سیده نصیرہ بیگم صاحبہ ۲۴- سیده سیدہ بیگم صاحبہ ۳۴.سیده بشری بیگم صاحبہ ۴.سید داؤد احمد صاحب ۵- سید مسعود احمد صاحب ۶.سید محمود احمد صاحب ے.سیدہ آنسہ بیگم صاحبہ.

Page 465

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۴۸ تقسیم بنگال کی تنسیخ کے متعلق خبر انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی لارڈ کرزن نے ۱۹۰۵ء میں صوبہ بنگال کو مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کر دیا.انڈین نیشنل کانگرس نے لارڈ کرزن سے اس اعلان کی واپسی کا پر زور مطالبہ کیا مگر لارڈ کرزن نے جواب دیا کہ ”یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی." اس پر ملک میں جابجاد ہشت انگیز اور انقلاب پسند انجمنیں قائم ہو گئیں.ہم سازی اور یورپین افسروں کے قتل کی سازشیوں نے زور پکڑا.لارڈ منٹو نے یہ ہنگامے دیکھ کر ہندوستانیوں کو بعض حقوق دینے کا فیصلہ کر لینے کے باوجود مطالبہ تنیخ ماننے سے بالکل انکار کر دیا.جو کلام عین اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 11/ فروری ۱۹۰۶ء کو الہاما بتایا گیا." پہلے بنگالہ کی نسبت جو حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دل جوئی ہوگی." پیش گوئیوں پر ہندوؤں کا تمسخر به العام اس درجہ مخالف ماحول اور بالکل غیر متوقع فضا میں ہوا کہ بعض ہندوؤں نے اس کا برملا تمسخر اڑایا.چنانچہ اخبار " پر کاش" نے اپنی فروری ۱۹۰۶ ء اور ۶ / مارچ ۱۹۰۶ ء کی اشاعتوں میں لکھا." تقسیم بنگال منسوخ ہو جائے گی " ناظرین اس نوٹ کی سرخی کو دیکھ کر حیران ہوں گے اور پوچھیں گے کہ کیا مسٹر جان مارلے نے کوئی تار بھیجا ہے کہ یہ تقسیم منسوخ کر دی جائے گی ؟ ہم ان کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ گورنمنٹ نے اپنے عمل سے کوئی اپنی امید نہیں دلائی بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو الہام ہوا ہے کہ تقسیم بنگال کے متعلق لوگوں کی دلجوئی کی جائے گی.سوال پیدا ہو گا کہ جب بنگالی گورنمنٹ کی خدمت میں پروٹسٹ بھیج چکے کوئی نہ سنی گئی جلسے کر چکے تقریریں کر چکے کوئی شنوائی نہ ہوئی بطور دھمکی کے وہ انگریزی اشیاء کا استعمال بھی قطعانا جائز قرار دے چکے پھر بھی کچھ نہ بنا تو مرزا صاحب کے اس ڈھونگ سے کچھ بن جائے گا.ہم جانتے ہیں کہ مرزا صاحب کا الہام اس بارے میں کچھ نہیں کر " ہندوستان کی پولیٹیکل امیدوں کا خاتمہ ہو گیا ہے.پچھلے منگل وار کو مسٹر ہربرٹ رابرٹس نے تقسیم بنگال کے سوال پر ترمیم پیش کی.مسٹر مار لے وزیر ہند نے سوال کو از سر نو چھیڑنے سے انکار کر دیا.وجہ جو دی ہے اس کو پڑھ کر تو ایک بچہ بھی ہنس دے گا.آپ فرماتے ہیں کہ گو تقسیم بنگال کی تجویز لوگوں کی خلاف مرضی پاس کی گئی ہے لیکن چونکہ اب جوش کم ہو جانے لگا ہے اس لئے اس سوال کو میں چھیڑنے کی اجازت نہیں دیتا.ملک کو اب آرام اور چین کی ضرورت ہے.حیرت ہے کہ جب جوش کی

Page 466

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۴۹ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی وجہ دور نہ ہوئی تو جوش کیسے ٹھنڈا پڑے گا."مسٹر مار لے کے جواب کے ساتھ ایک اور معاملہ کا تعلق ہے اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی پیش گوئی بابت بنگال ہے.اس جواب نے مرزا صاحب کی پیش گوئی کو قطعی طور پر غلط ثابت کر دیا ہے.مرزا صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ بنگالیوں کی دل جوئی ہوگی.ان کو شاید یہ الہام اس لئے ہوا تھا کہ لبرل گورنمنٹ طاقت میں آگئی تھی لیکن کیا خیال تھا کہ ان کے سر پر اتنی جلدی آفت نازل ہوگی اور انہیں دنیا کے سامنے روسیاہ ہونا پڑے گا.گورنمنٹ نے تقسیم بنگال کے متعلق اتنی دل جوئی ضرور کی کہ ان کی پولی ٹیکل امیدوں کا ہی بالکل خاتمہ کر دیا.پیش گوئی کا پورا ہونا خدائی پیش گوئی پر یہ تمسخر اور نہی جاری تھی کہ چار سال بعد حالات نے یکایک ایسا پلٹا کھایا کہ " تقسیم بنگال " جسے حکومت اور عوام دونوں ایک " طے شدہ " مسئلہ قرار دئے بیٹھے تھے اللہ تعالٰی کے زبردست ہاتھ سے منسوخ کر دی گئی اور وہ اس طرح کہ شہنشاہ ہند جارج پنجم (۱۸۶۵ - ۱۹۳۶ء) ۷ / دسمبر ۱۹۱ء کو ہندوستان کے قدیم دارالسلطنت دہلی میں پہنچے اور ۱۲ دسمبر ۱۹۱۱ء کو ایک عظیم الشان دربار منعقد کر کے اس میں تقسیم بنگال کی منسوخی کا از خود اعلان کر کے ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیوں کہ ہندوستان کے عوام تو رہے ایک طرف خود برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شہنشاہ معظم اپنے خصوصی اختیارات سے ایسی اہم تبدیلی کریں گے.چنانچہ جب اس تاریخ کو دار العلوم اور دار الامراء میں یہ شاہی اعلان سنایا گیا تو دار الامراء کے ممبر لارڈ لینڈوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں اہم اچانک اور جلد بازی سے عمل میں لائی گئی ہیں.زیادہ اہم یہ اس لئے ہیں کہ وہ خاص شہنشاہ کی حسب مرضی کی گئی ہیں." ایک انگریز مصنف کا بیان ہیرلڈ نکلسن (Herald Nicholson) ایک انگریز مصنف لکھتا ہے ” دربار کے خاتمہ پر مجب وائسرائے نے اپنی تقریر ختم کی تو حاضرین کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ ملک معظم خود اٹھے اور انہوں نے بلند آواز اور واضح الفاظ میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اعلان کیا." ( ترجمہ ) اخبارات کی رائے ہندوستان کے اخبارات نے بھی اس اعلان پر صاف تسلیم کیا کہ (جیسا کہ مامور وقت کی پیش گوئی میں بتایا گیا تھا) واقعی بنگالیوں کی دلجوئی ہوتی ہے.مناک کام دوسری بار دلجوئی تقسیم بنگال کی تلفی مسلمانوں کو طبعا ناگوار گزری کیوں کہ بنگال کی تقسیم سے وہ سمجھتے تھے کہ لازمی طور پر مشرقی بنگال کے پامال شدہ حقوق نمایاں حیثیت اختیار کر لیں گے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دل جوئی کا سامان یوں کیا کہ حکومت نے ڈھاکہ یونیورسٹی

Page 467

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵۰ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی قائم کر دی اور کونسل میں کچھ نشستیں بھی ان کے لئے بڑھا دیں جس سے مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو گئی.چشمه مسیحی " کی تصنیف و اشاعت " بانس بریلی کے ایک ناواقف مسلمان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں اس نے عیسائی پادری کی کتاب "ینابیع الاسلام" سے متاثر ہو کر اسلام پر اپنے شک کا اظہار کیا تھا.حضرت اقدس نے اس خط کے جواب میں ۹ / مارچ ۱۹۰۶ ء کو "چشمہ مسیحی " کے نام سے ایک لطیف تصنیف شائع فرمائی جس میں ” ینابیع الاسلام" کے وساوس کا مسکت جواب دیا اور لکھا.میں سخت متعجب ہوں کہ آپ ایسے شخص کی تحریروں سے کیوں متاثر ہوئے.یہ لوگ ان ساحروں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے موسیٰ نبی کے سامنے رسیوں کے سانپ بنا کر دکھا دئے تھے مگر چونکہ موسیٰ خدا کا نبی تھا اس لئے اس کا عصا ان تمام سانپوں کو نکل گیا.اسی طرح قرآن شریف خدا تعالیٰ کا عصا ہے وہ دن بدن رسیوں کے سانپوں کو نکلتا جاتا ہے اور وہ دن آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان رسیوں کے سانپوں کا نام و نشان نہیں رہے گا.صاحب ینابیع الاسلام نے اگر یہ کوشش کی ہے کہ قرآن شریف فلاں فلاں قصوں یا کتابوں سے بنایا گیا ہے یہ کو شش اس کی اس کوشش کے ہزارم حصہ پر بھی نہیں جو ایک فاضل یہودی نے انجیل دریافت کرنے کے لئے کی ہے.اس فاضل نے اپنے خیال میں اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ انجیل کی اخلاقی تعلیم یہودیوں کی کتاب طالمود اور بعض اور چند بنی اسرائیل کی کتابوں سے لی گئی ہے.اور یہ چوری اس قدر صریح طور پر عمل میں آئی ہے کہ عبارتوں کی عبارتیں بینہ نقل کر دی گئی ہیں اور اس فاضل نے دکھلا دیا ہے کہ در حقیقت انجیل مجموعہ مال مسروقہ ہے.در حقیقت اس نے حد کر دی اور خاص کر پہاڑی تعلیم کو جس پر عیسائیوں کو بہت کچھ ناز ہے طالمود سے اخذ کرنا لفظ بلفظ ثابت کر دیا ہے اور دکھلا دیا ہے کہ یہ ظالموں کی عبارتیں اور فقرے ہیں اور ایسا ہی سری کتابوں سے وہ مسروقہ عبارتیں نقل کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے." کتاب کے خاتمہ میں حضور نے نجات حقیقی کے بیان میں ایک مفصل نوٹ لکھا جس سے اسلام کی رو " فضیلت پر نہایت عمدہ پیرایہ میں روشنی پڑتی ہے.حضور نے بالاخر مسلمانوں کو توجہ دلائی.ہمارے نبی ﷺ اور ہمارے سید و مولی ( اس پر ہزار سلام) اپنے افاضہ کی رو سے تمام انبیاء سے سبقت لے گئے ہیں کیوں کہ گزشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہو گیا اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مردہ ہیں.کوئی ان میں زندگی نہیں مگر آنحضرت ا کا روحانی فیضان قیامت تک جاری

Page 468

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۵۱ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی ہے اس لئے باوجود اس فیضان کے اس امت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنیٰ انسان کو صحیح بنا سکتا ہے جیسا کہ اس نے اس عاجز کو بنایا." کلامی

Page 469

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۵۲ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی ዙ + حواشی ریویود سمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴۸۰ بدر ۸/ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه اکالم ۲ بدر ۲۰/ اکتوبر ۶۱۹۰۵ صفحه ۳ کالم ۳ و الحکم ۲۴/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه - پد ۱۸ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ و الحکم ۱۰/ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱ الوصیت و الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ سے کالم -Y بدر ۱۹ دسمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ ۵ و الحکم ۲۳ دسمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ بہ الوميته صفحه ۱۶۴ محکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۷-۸ الومیت صفحه ۱۸ حکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ کالم صحیح مسلم جلد ۲ مصری صفحہ ۵۱۵ ( اس کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو مضمون مولوی محمد احسن صاحب امردی بد را ۳/ جنوری ۱۹۰۷ء صفحه) اس کشف کے بارے میں ۱۸۹۸ء کی تعیین کا اندازہ حضور کے خط مطبوعہ مکتوب احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ ۸۶ سے کیا گیا ہے.الوميت مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحه ۸۶ الوصیت -۱۳- بعد میں اعتراض کیا گیا کہ اس نوع کا قبرستان رسول خدا کے زمانہ میں کیوں نہ بنایا گیا؟ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے مئی ۱۹۲۶ء میں اس کا مفصل جواب دیا.ملاحظہ ہو الفضل ۸/ جون ۱۹۶۳ء صفحہ ۵-۶ - الوصیت صفحه ۱۶-۱۱۸ حکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰-۱۱ ۱۵- الوصیت ۷/۱۶ و الحکم ۷ ا/ ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ا کالم ۲ الوصیت صفحه ۱۹ ۱ حکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۰.۱۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت کا مسودہ تحریر کر کے خواجہ کمال الدین صاحب کو دیا.خواجہ صاحب جب پڑھتے پڑھتے اس عبارت تک آئے تو وہ بے خود ہو گئے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر کہنے لگے.واہ واہ مرزاتو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے (بحوالہ نظام نو " تقریر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ.نظام نو تقریر حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرموده ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۲ء صفحه ۱۱۲ ۱۱۳ 19 الحکم ۱۰ / اگست ۱۹۰۶ ء صفحہ.یاد رہے کہ الوصیت کی اشاعت کے معابعد ہی وصیتوں کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور عملاً پہلی وصیت نور الدین صاحب ولد اللہ بخش صاحب آف لاہور نے کی تھی.(الحکم ۱۳/ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۲۰ پدر ۲۳ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۷۶ ۲۱- سالانہ رپورٹ صد را انجمن احمدیه ۸-۱۹۰۷ء صفحه ۲ ۲۲ اخبار الحکم کے ار اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۵ کالم ۲۳ الحکم ۱۰/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲ دید ر۱۳/ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳ ۲۴- الحکم سے ار ضروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۵ حضور کی یہ مفصل تقریر ۳۴۲۴۴۱۷/ جنوری و ۱۰ / فروری ۱۹۰۶ء کے احکم میں چھپی - بدر ۲۳/ فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۳ کالم ۲-۳ ۲۷- ولادت ۱۸۷۸ء وفات ۲۴/ مئی ۱۹۵۷ء.صاحب کشف و الہام بزرگ تھے.آپ نے ایک خواب کی بناء پر احمدیت قبول کی.

Page 470

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵۳ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی آپ نے خواب میں دیکھا کہ گویا پیغمبر خدا اللہ کا روضہ ہے اور حضور ﷺ حضرت مرزا صاحب کی شکل میں باہر تشریف لائے اور مجھ سے معانقہ کیا.آپ عمر میں بارہ سالہ نوجوان معلوم ہوتے ہیں.انہوں نے خیال کیا حضور ا کس طرح زندہ ہو گئے ہیں تو خود ہی سوچا کہ مرزا صاحب جو بروز کا دعوی کرتے ہیں.وہ یہی واقعہ نہ ہو.آپ برسوں تک گجرات کے امیر جماعت کے کامیاب فرائض سر انجام دیتے رہے.(الفضل ۲۴٬۲۳ / جولائی ۱۹۵۷ ء روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۱۰ صفحه ۲۶ - (<• والد جناب مولوی نذیر احمد علی صاحب رئیس التبلیغ افریقہ.ولادت ۱۸۷۹ء وفات ۱۳/ دسمبر ۱۹۵۹ء نشی عبد الغنی صاحب او جلوی نے ان کو حضور کا اشتہار " الانذار " بھجوایا جس سے متاثر ہو کر بذریعہ خط انہوں نے بیعت کرلی.نومبر ۱۹۰۵ء میں پہلی مرتبہ قادیان آئے اور حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے ( روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۸ صفحہ ۱۸۱-۱۸۵) قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر آپ ہی تھے.نیکی ، تقوئی دیانت داری اور راست بازی میں آپ ایک مثالی ریلوے ملازم مشہور تھے.(تفصیلی حالات اصحاب احمد جلد سوم طبع دوم متولقہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے میں ملاحظہ ہوں).۲۹ ولادت کے ۱۸۷ ء وفات کے / اگست ۱۹۶۱ء.بیعت سے دو برس بعد مسیح موعود علیہ السلام کی قادیان میں زیارت کی.الہ آباد یونیورسٹی سے بی.اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹/ مئی 1999ء سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور مدرس متعین ہوئے اور ۱۹۳۸ء تک ابتداء مدرس پھر ہیڈ ماسٹر بعد ازاں منیجر نصرت گر از سکول کی حیثیت سے تعلیمی و انتظامی خدمات سرانجام دیتے رہے.آپ نے مولوی محمد جی صاحب فاضل کی مدد سے ایک لغت " تسہیل العربیہ" کے نام سے شائع کی جو مقبول ہوئی.(اصحاب احمد جلد (۸) ۳۰ ولادت اکتوبر ۱۸۷۳ ء وفات ۱۷/ امان ۱۳۴۳ اهش (۱۷/ مارچ ۱۹۶۴ء) سلسلہ احمدیہ کے صاحب کشف و الہام بزرگ تھے جن کی پوری زندگی تبلیغ اسلام و احمدیت میں گزری.۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۲ء تک پنجاب میں تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک سندھ کے پہلے امیر ا تبلیغ کی حیثیت سے سرفروشانہ کارنامے سر انجام دئے اور ساٹھ کے قریب جماعتیں قائم کیں.حضور نے اس زمانہ میں آپ کو بیعت لینے کی اجازت بھی دے دی تھی.۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۸ء تک آپ مرکز میں ابتد اء واعظ مقامی پھر متفرق کلاس کے معلم اول رہے.۱۹۳۸ ء میں ریٹائرڈ ہوئے.آپ نے اپنی سوانح اور تبلیغی جد وجہد کے حالات حیات بقاپوری" کے نام سے اپنی زندگی میں شائع فرما دئے تھے جو بہت ایمان افروز اور معلومات افزاء ہیں.(مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۲۱۱ - ۲۳۴) ۳۱- ولادت ۱۸۹۲ء من زیارت ۲۳/ اگست ۱۹۰۷ء ماسٹر صاحب کو قریباً نصف صدی تک سلسلہ احمدیہ کی علمی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے ۱۹۱۳ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازم ہوئے اور ۱۹۴۶ء میں سیکنڈ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے.اس درمیانی عرصہ میں آپ کو پرائیوٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح الثانی ، نائب ناظر تعلیم اور نائب نا ظر امور عامہ وغیرہ عہدوں پر بھی وقتاً فوقتا کام کرنا پڑا.ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجز " افسر لنگر خانہ، نائب ناظر تألیف و تصنیف اور لیکچرار جامعہ نصرت کا لج ربوہ کے فرائض بھی سرانجام دئے ہیں.(وفات ۱۴.جنوری ۱۹۷۹ء) ۳۲- الحکم ۲۴.جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ اکالم ۴ ۳۳ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا ( زیر لفظ مظفر الدین) ۳۴- ملخصا از دعوۃ الا میر صفحه ۲۰۴-۲۰۵ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا بر شنیکا "زیر لفظ Persian) -۳۵.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ (Persia) ۳۶- بدر ۹/ فروری ۱۹۰۶ء حصہ ۲-۵ ۳۷- بدر ۹/ فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۲-۵ ۳۸- الحکم ۱۰ / فروری صفحہ ۱ اکالم ۲-۳ ۳۹- سلسلہ احمدیہ کی نہایت بلند مقام رکھنے والی خاتون تھیں.اپنے قابل فخر شوہر کی زندگی میں ان کے شانہ بشانہ خدمت دین ، خلق اللہ کی فلاح، بینائی اور مساکین کی نگہداشت اور غرباء کی امداد کے لئے مصروف رہیں.ان کی وفات کے بعد بھی اپنے اس عظیم

Page 471

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۵۴ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی الشان مشن کو آخر دم تک جاری رکھا.خدا تعالٰی نے ان کو رویاء کشوف کی نعمتوں سے بھی نوازا تھا.علم و فضل کے اعتبار سے آپ کی شخصیت جماعت کی خواتین میں مسلمہ طور پر بڑی ممتاز حیثیت رکھتی تھی.سال ہا سال تک "لجنہ اماءاللہ " کی نائب صدر رہیں اور احمدی عورتوں کی تعلیم اور اخلاقی اور دینی ترقی میں نمایاں حصہ لیا.جلسہ سالانہ پر عورتوں کے قیام و طعام کے جملہ انتظامات آپ ہی کی نگرانی میں ہوتے تھے.غرض کہ اپنی عظمت دو جاہت کے لحاظ سے مد نبوی کی حمایت کایا جاتا نمونہ اور جاعت کی نہایت برگزیدہ ہتی تھیں.۸/ستمبر ۱۹۵۷ء کو آپنے نقل فرمایا اور ربوہ کے مقبرہ خاص میں دفن ہو ئیں.حیات محمد علی جناح از سید رئیس احمد جعفری کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ نے بھی انہیں تاثرات کا اظہار کیا تھا.امه کتاب "LIFE AND TIMES OF TILAK کے صفحہ ۵۰ میں لکھا ہے کہ لارڈ کرزن کے فیصلہ تقسیم بنگال کے طول و عرض میں ایک زبر دست آگ لگادی تھی.۴۲ تاریخ ہند صفحه ۲۳۰ ۴۳- "بدر ۱۶ / فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم 1 حکم ۱۷ / فروری ۱۹۰۷ء صفحہ اکالم 1 -۴۴ بحوالہ اخبار بدر ۱۴ جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۳-۴ ۴۵ بحوالہ الحکم ۲۱ دسمبر ۱۹ ء - King George v his life and reigin صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ کانسٹیل اینڈ کمپنی لنڈن ۴۷ اخبار "عام " نے لکھا.حضور شہنشاہ معظم نے دیکھ لیا کہ اہل بنگال کی بیزاری نہ تو مصنوعی ہے اور نہ ہی بے جا ہے اور دوبار کارو نمیشن ( تاج پوشی کی رعایتوں میں اس کے متعلق ایسی دل جوئی فرمائی ہے گویا کہ ایک اشارہ سے تمام بنگالہ میں شب تاریک کو روز روشن کا ہنس مکھ نظارہ بنا دیا ہے."پایونیر الہ آباد) نے لکھا." تقسیم بنگال منسوخ ہو گئی ہے اور بنگالیوں کی منہ مانگی مراد ملی ہے."لیڈ ر الہ آباد نے لکھا " تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان کیا گیا ہے گویا بنگالیوں کے زخمی دل پر مرہم رکھ دیا گیا ہے." انڈین ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا ” معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم بنگال کی منسوخی کے سوال پر غور کرتے ہوئے بنگالیوں کی دلجوئی کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے ورنہ ہمارا خیال ہے کہ اگر لبرل فریق کی بجائے آج کسر ویو فریق بر سر حکومت ہو تا تو تقسیم بنگال کی منسوخی کا فیصلہ ہر گز نہ کیا جاتا.(بحوالہ اخبار الحکم ۲۱ دسمبر ۶۱۹ ) ایک غیر احمدی عالم کا اقرار مولوی سمیع اللہ صاحب فاروقی لکھتے ہیں.۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا.وائسرائے بہادر کے اس اقدام سے بنگالی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ بنگال کو دوبارہ متحد کر دیا جائے.وائسرائے نے انکار کیا.بنگالیوں نے انار کی شروع کر دی.چنانچہ صوبہ بنگال میں تشدد کا دور دورہ شروع ہو گیا.انارکسٹ پارٹی نے ہم سازی اور بم باری شروع کر دی.کئی انگریزوں کی جانیں ضائع ہوئیں.پولیٹیکل ڈاکوؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا الغرض بنگال کی حالت بے حد خطر ناک ہو گئی لیکن وائسرائے صاحب نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ وہ تقسیم بنگال کو ہرگز منسوخ نہ کریں گے.اس حالت میں کون سمجھ سکتا تھا کہ وائسرائے کا یہ حکم منسوخ ہو جائے گا اور بنگالیوں کی دل جوئی ہوگی.مگر قارئین متعجب ہوں گے کہ ۱۹۰۲ء میں مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ "پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی اس کے بعد بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ اس حکم میں کوئی ترمیم نہ ہوگی.لیکن 1916ء میں شاہ جارج پنجم ہندوستان میں تشریف لائے اور آپ نے تقسیم بنگال کو منسوخ کر کے بنگالیوں کی دلجوئی کر دی.گویا پانچ سال بعد خود بادشاہ سلامت کے ہاتھوں مرزا صاحب کی پیش گوئی پوری ہو گئی.یقینا اس پیش گوئی کے پورا ہونے میں صاحب نظر لوگوں کے لئے ایک سبق ہے اور اصحاب دانش کے لئے غورو فکر کا موقعہ ہے." (اظہار حق صفحہ ۱۸) پاکستان کے مشہور اہل علم جناب رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں." حکومت نے تقسیم کا اعلان منسوخ کر دیا لیکن دل ہی دل میں وہ نادم بھی تھی.اپنی کمزوری اور بزدلی کو محسوس بھی کر رہی تھی.اپنی مفت کو مسلمانوں کی اشک شوئی کر کے منانا چاہتی تھی.

Page 472

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵۵ انقلاب ایران کے متعلق پیش گوئی چنانچہ ڈھا کہ یونیورسٹی قائم کی اور اس یونیورسٹی کو اقامتی درس گاہ کی حیثیت سے قائم کیا.ساتھ ہی ساتھ اس یونیورسٹی میں علوم مشرقیہ و دینیہ کی تعلیم کا کافی بندو بست کیا.علاوہ ازیں کونسل میں ان کی کچھ نشستیں بھی بڑھا دیں اور نسبتا ان کے ساتھ مراعات اور دل جوئی کا طریقہ اختیار کیا." (حیات محمد علی جناح متولفہ رئیس احمد جعفری) ۲۹ چشمه مسیحی صفحه ۷۵ ( طبع اول)

Page 473

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۴۵۶ تشحید الاذہان کا اجراء رسالہ حمید الاذہان کا اجراء

Page 474

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵۷ رسالہ حمید الاذہان کا اجراء رسالہ "تشحمید الاذہان کا اجراء یکم مارچ ۱۹۰۶ ء سے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ادارت میں ایک سہ ماہی رسالہ کا اجراء ہوا جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجمن شعید الاذہان " ہی کے نام پر " شعید الاذہان " رکھا.اس رسالہ کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد تھے.اسلام کا نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا.۲.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ نصائح جو گھر میں کہے جاتے ہیں شائع کرنا.اسلام اور خصوصاً سلسلہ احمدیہ پر اعتراضات کا تہذیب کے ساتھ رد کرنا.مشاہیر اسلام کی سوانح عمریاں درج کرنا.مسائل شرعیہ کا اندارج تا ناواقف لوگ واقفیت حاصل کریں.اس رسالہ سے کوئی مالی فائدہ ہرگز ہرگز متصور نہیں ہو گا اور جو آمد بھی ہوگی اشاعت اسلام میں خرچ کی جائے گی.اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے پر جوش خیر مقدم ریویو آپ ریلی و " کی طرح " بیگانوں کی طرف سے گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا.چنانچہ.اس رسالہ کا بھی اپنوں اور ا.مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا."رسالہ شعید الاذہان قادیان سے سہ ماہی نکلنا شروع ہوا ہے جس کا پہلا نمبر یکم مارچ کو شائع ہو گیا ہے اس سلسلہ کے نوجوانوں کی ہمت کا نمونہ ہے.خدا تعالٰی اس میں برکت دے.چندہ سالانہ ۱۲ / ( آنے) ہے.اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین

Page 475

تاریخ احمد بیت.۴۵۸ رسالہ شمعید الاذہان کا اجراء دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے." اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہو گا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.صرف اس موقعہ پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ دلی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے.چنانچہ ابھی میر محمد اسحاق کے نکاح کی تقریب پر چند اشعار انہوں نے لکھے تو ان میں یہی دعا ہے کہ اے خدا توان دونوں اور ان کی اولاد کو خادم دین بنا.برخوردار عبدالحی کی آمین کی تقریب پر اشعار لکھے تو ان میں یہی دعا بار بار کی ہے کہ اسے قرآن کا سچا خادم بنا ایک اٹھارہ برس کے نوجوان کے دل میں اس جوش اور امنگوں کا بھر جانا معمولی امر نہیں کیوں کہ یہ زمانہ سب سے بڑھ کر کھیل کو د کا زمانہ ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا ؟ جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی.اگر ایک انسان افتراء کرتا ہے تو اگر چہ وہ باہر کے لوگوں سے افتراء کو چھپا بھی لے مگر اپنے ہی بچوں سے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں چھپا نہیں سکتا.وہ اس کی ہر ایک حرکت اور سکون کو دیکھتے ہیں.ہر ایک گفتگو کو سنتے ہیں.ہر موقع پر اس کے خیالات کو ظاہر ہو تا ہوا دیکھتے ہیں.پس اگر افتراء ہو تو ضرور ہے کہ وہ افتراء کسی نہ کسی وقت اس کے اپنے بچوں یا بیوی پر ظاہر ہو جائے.اے بد قسمت لوگو! غور کردیا کیا مفتری کی اولاد جو اس کے افتراء کے زمانہ میں پرورش پائے ایسی ہوا کرتی ہے؟ کیا تمہارے دل انسانی دل نہیں جو ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے اور ان بچے خیالات کا ان پر کچھ اثر نہیں ہو تا.کیوں تمہاری سمجھیں الٹی ہو گئی ہیں.غور کروا کہ جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھل ہے وہ کاذب ہو سکتا ہے.اگر وہ کاذب ہے تو پھر دنیا میں صادق کا کیا نشان ے؟" مولوی عبد اللہ العمادی نے لکھا.مارچ ۱۹۰۷ء سے یہ رسالہ قادیان ضلع گورداسپور سے ماہوار اردو میں شائع ہوتا ہے.جس غرض کے لئے یہ رسالہ جاری ہوا ہے وہ نہایت اہم ہے لیکن جس طرز پر اس کی ابتداء ہوئی ہے اس سے امید ہوتی ہے کہ اپنے مقصد میں ضرور اس کو کامیابی ہوگی.مضامین زور دار ہیں اور

Page 476

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۵۹ رسالہ حمید الا زبان کا اجراء بڑی قابلیت سے لکھے گئے ہیں.اس رسالہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک پیشوائے مذہب کے گھر سے شائع ہوتا ہے اور امام وقت کے صاحبزادے اس کو ایڈٹ کرتے ہیں." اخبار " نیر اعظم ( مراد آباد) نے لکھا.بلا مبالغہ اسلامی رسالوں میں ریویو آف ریلیجز کے بعد اس کا شمار کرنا چاہئے.مذہب اسلام کو اس کے اجراء سے بہت مدد ملے گی." شعید الاذہان کی خدمات یہ رسالہ ابتداء میں سہ ماہی تھا مگر اگلے ہی ال ماہ وار کر دیا گیا اور قوم کی توقعات کے عین مطابق بہت جلد کامیاب رسالوں کی صف اول میں شمار ہونے لگا.اس زمانہ میں آپ کے زیر ادارت بڑے بڑے معرکتہ الاراء مضمون نکلے.۱۹۱۴ء میں "شمیذ الاذہان کے ایڈیٹر قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل آف گو لیکے مقرر ہوئے جنہوں نے آٹھ سال تک ادارتی فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دئے.آخر مارچ ۱۹۲۲ء میں اسے ریویو آف ریلیجز "اردو میں مدغم کر دیا گیا.چراغ الدین جمونی کی ہلاکت کا نشان ایک شخص چراغ الدین جمونی نے جو پہلے احمدی تھا ۱۹۰۲ء میں احمدیت کو چھوڑ کر نبی و رسول ہونے کا ادعا کیا.حضرت مسیح موعود کو الہا ، بتایا گیا کہ اگر اس نے توبہ نہ کی تو ہلاک ہو جائے گا.اس آسمانی خبر کے کچھ عرصہ بعد اس نے حضور کے خلاف مباہلہ کی ایک دعا لکھی.خدا کی قدرت مضمون مباہلہ کی کاپی کاتب کے لکھنے کے بعد ابھی پتھر پر بھی نہیں جھی تھی کہ اس کے دونوں لڑکے طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئے اور آخر ۴ / اپریل ۱۹۰۶ ء کو وہ خود بھی طاعون کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا.عبدالحکیم پٹیالوی کا جماعت سے اخراج اس کی پیش گوئی اور انجام ریاست پٹیالہ کا ایک شخص ڈاکٹر عبدالحکیم چراغ الدین جمونی کی طرح پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل تھا جس نے یہ عقیدہ قائم کر لیا کہ معاذ اللہ نجات اخروی کے حصول کے لئے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک جو خدا کو وحدہ لا شریک جانتا ہے گو آنحضرت ا کا مکذب ہے وہ نجات پائے گا.یہ عقیدہ چونکہ احمدیت کی تعلیم کے سراسر منافی اور گستاخانہ تھا اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۰ / اپریل ۱۹۰۶ء کو اعلان شائع کیا کہ اس سے بکلی قطع تعلق کر

Page 477

تاریخ احمدیت جلد ۲ رسالہ حمید الاذہان کا اجراء لیں.نیز " حقیقتہ الوحی " میں اس کے اس عقیدہ کا ابطال کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اعلان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلان کا مکمل متن یہ تھا.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم تمام جماعت احمدیہ کے لئے اعلان چونکہ ڈاکٹر عبدالحکیم اسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے جو پہلے اس سلسلہ میں داخل تھا نہ صرف یہ کام کیا کہ ہماری تعلیم سے اور ان باتوں سے جو خدا نے ہم پر ظاہر کیں منہ پھیر لیا بلکہ اپنے خط میں وہ سختی اور گستاخی دکھلائی اور وہ گندے اور ناپاک الفاظ میری نسبت استعمال کئے کہ بجز ایک سخت دشمن اور سخت کینہ ور کے کسی کی زبان اور قلم سے نہیں نکل سکتے.اور صرف اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بے جا تہمتیں لگائیں اور اپنے صریح لفظوں میں مجھ کو ایک حرام خور اور بندہ نفس اور شکم پرور اور لوگوں کا مال فریب سے کھانے والا قرار دیا اور محض تکبر کی وجہ سے مجھے پیروں کے نیچے پامال کرنا چاہا.اور بہت سی ایسی گالیاں دیں جو ایسے مخالف دیا کرتے ہیں جو پورے جوش عداوت سے ہر طرح سے دو سرے کی ذلت اور توہین چاہتے ہیں.اور یہ بھی کہا کہ پیش گوئیاں جن پر ناز کیا جاتا ہے کچھ چیز نہیں.مجھ کو ہزا رہا ایسے الہام اور خوابیں آتی ہیں جو پوری ہو جاتی ہیں.غرض اس شخص نے محض تو ہین اور تحقیر اور دل آزاری کے ارادہ سے جو کچھ اپنے خط میں لکھا ہے اور جس طرح اپنی ناپاک بد گوئی کو انتہاء تک پہنچا دیا ہے ان تمام تہمتوں اور گالیوں اور عیب گیریوں کے لکھنے کے لئے اس اشتہار میں گنجائش نہیں.علاوہ اس کے میری تحقیر کی غرض سے جھوٹ بھی پیٹ بھر کے بولا ہے مگر مجھے ایسے مفتری اور بدگو لوگوں کی کچھ پروا نہیں.کیوں کہ اگر جیسا کہ مجھے اس نے دغا باز حرام خور مکار فریبی اور جھوٹ بولنے والا قرار دیا ہے اور طریق اسلام اور دیانت اور پیروی آنحضرت ا سے باہر مجھے کرنا چاہا ہے اور میرے وجود کو محض فضول اور اسلام کے لئے مضر ٹھہرایا ہے.بلکہ مجھے محض شکم پرور اور دشمن اسلام قرار دیا ہے.اگر یہ باتیں سچ ہیں تو میں اس کیڑے سے بھی بد تر ہوں جو نجاست سے پیدا ہوتا اور نجاست میں ہی مرتا ہے.لیکن اگر یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں تو میں امید نہیں رکھتا کہ خدا ایسے شخص کو اس دنیا میں بغیر مواخذہ کے چھوڑے گا جو مرید ہو کر اور پھر مرتد ہو کر اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو ذلیل سے ذلیل زندگی بسر کرنے والے جیسے چوہڑے اور چہار جو شکم پرور کہلاتے ہیں اور مردار کھانے سے بھی عار نہیں رکھتے ان کی مانند مجھے بھی محض شکم پرست اور بندہ نفس اور حرام خور قرار

Page 478

تاریخ احمدیت.جلد ۲ دیتا ہے.رسالہ شعید الاذہان کا اجراء اب میں ان باتوں کو زیادہ طول دیتا نہیں چاہتا اور خدا کی شہادت کا منتظر ہوں.اور اس کے ہاتھ کو دیکھ رہا ہوں اور اس اشارہ پر ختم کرتا ہوں.إِنَّمَا اشْكُوا بَثْ وَحُزْنِي إِلَى اللهِ وَاعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ اب چونکہ یہ شخص اس درجہ پر میرا دشمن معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عمر بن ہشام آنحضرت ا کی عزت اور جان کا دشمن تھا.اس لئے میں اپنی تمام جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس سے بکلی قطع تعلق کرلیں.اس کے ساتھ ہر گز واسطہ نہ رکھیں ورنہ ایسا شخص ہرگز میری جماعت میں سے نہیں ہو گا.ربنا افتح بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَانتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ - آمين آمين آمين - المشتهر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب حکیم کی پیش گوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو۱۹۰۵ء سے قرب وصال کے مسلسل عبدالحکیم الہامات ہو رہے تھے بلکہ جیسا کہ اوپر مفصل ذکر آچکا ہے.یہاں تک بتایا جا چکا تھا کہ آپ کی زندگی کے صرف دو تین گھونٹ باقی ہیں اور اسی لئے حضور نے " الوصیت بھی شائع فرما دی تھی.عبد الحکیم نے اپنی ولایت کا سکہ جمانے کے لئے یہ موقعہ غنیمت سمجھا اور ان الہامات کی بناء پر اپنی طرف سے بھی ایک پیش گوئی شائع کر دی کہ " مرزا مسرف کذاب اور عیار ہے.صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود نے ۱۶/ اگست ۱۹۰۶ء کو ” خدایچے کا حامی اشتہار "خدایچے کا حامی ہو " ہو" کے عنوان سے ایک اشتہار دیا جس میں حضور نے خدا سے علم پا کر اس کی نسبت یہ الہامی پیش گوئی شائع فرمائی " خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا.فرشتوں کی کھچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے.پر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا رَبِّ فَرَقَ بَيْنَ صَادِقِ وَ كَاذِبِ أَنْتَ تَرَى كُلَّ مُصْلِحِ وَ صَادِقٍ - 1 پہلی پیش گوئی کی منسوخی یہ الہام شائع ہوا تو عبدالحکیم نے اپنی پہلی پیش گوئی منسوخ کر کے ایک اور پیش گوئی کی کہ اللہ تعالٰی نے اس کی شوخیوں اور

Page 479

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسالہ حمید الاذہان کا اجراء نافرمانیوں کی سزا میں سہ سالہ میعاد میں سے جو ا / جولائی ۱۹۰۹ء کو پوری ہوئی تھی دس مہینے اور گیارہ دن کم کر دئے اور مجھے یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو الہا نا فرمایا " مرزا آج سے ۱۴ ماہ تک، سزائے موت ہادیہ میں گرایا جائے گا." حضرت مسیح موعود کا اشتہار اللہ تعالی نے حضور کو بتایا کہ دشمن اپنی اس خبر میں بھی ناکام و نا مراد رہے گا.چنانچہ آپ نے اس خدائی بشارت کے ماتحت ۵ نومبر۷ ۱۹۰ء کو ایک اور اشتہار دیا جس میں یہ خدائی وعدہ شائع کیا کہ دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی کے ۱۹۰ء سے چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیش گوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھا دوں گا." نیز فرمایا " یہ عظیم الشان پیش گوئی ہے جس میں میری فتح اور دشمن کی شکست اور میری عزت اور دشمن کی ذلت اور میرا اقبال اور دشمن کا ادبار بیان فرمایا ہے اور دشمن کے ساتھ غضب اور عقوبت کا وعدہ کیا ہے مگر میری نسبت لکھا ہے کہ "دنیا میں تیرا نام بلند کیا جائے گا اور نصرت اور فتح تیرے شامل حال ہو گی." پیش گوئی کی بار بار منسوخی اس اشتہار کے بعد ڈاکٹر عبد الحکیم نے اپنی دوسری پیش گوئی کو بھی منسوخ قرار دے کر ایک تیسری پیش گوئی شائع کی کہ " مرزا ۲۱ سادن ۱۹۴۵ مطابق (۴ / اگست ۱۹۰۸ء) تک ہلاک ہو جائے گا." مگر عبد الحکیم اس تیسری پیش گوئی پر بھی قائم نہ رہا اور ۴ / اگست ۱۹۰۸ء مطابق ۲۱ سادن ۱۹۴۵ تک کی میعاد بھی منسوخ کی گئی.عبدالحکیم کی نئی پیش گوئی اب عبد الحکیم نےاپنی تیسری پیش گوئی کو بھی مضوع کرتے ہوئے ایک نئی اور آخری پیش گوئی یہ شائع کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ۴/ اگست تک نہیں ۴/ اگست کو واقع ہو گی.چنانچہ لکھا.لکھا.10 " مرزا ۲۱ / ساون سمت ۱۹۴۵ کو مرض ملک میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جائے گا." مولوی ثناء اللہ نے اپنے اخبار " اہل حدیث" میں ڈاکٹر عبدالحکیم کے یہ الہامات شائع کر کے ہ ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ ہمارا اس خبر کے شائع کرنے سے دل دکھتا ہے مگر کیا کریں واقعات کا اظہار ہے.ہمارا ما تھا تو اس وقت اس بد خبر کے سننے کے لئے ٹھنکا تھا جب مرزا صاحب نے اپنا آخری وصیت نامہ شائع کیا تھا." ان الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم کی اس طرز کی پیش گوئیوں میں کوئی قدرت و ندرت کا اظہار نہیں تھا بلکہ جب سے حضور علیہ السلام نے وصیت شائع فرمائی مولوی

Page 480

تاریخ احمدیت.جلد ۲ رسالہ حمید الاذہان کا اجراء ثناء اللہ صاحب جیسے معاند بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ حضور کی وفات کا وقت اب قریب آگیا ہے.پس عبد الحکیم کی پیش گوئی کرنا محض سرقہ ، شرارت اور چالا کی کا ایک مظاہرہ تھا.ڈاکٹر عبدالحکیم کا جھوٹا ہونا کھل گیا ڈاکٹر عبدالحکیم کی اس آخری خود ساختہ پیش گوئی کے " در حقیقت دو اجزاء تھے.اول.حضرت اقدس ۳/ اگست تک یقینی طور پر زندہ رہیں گے.دوم - ۴ / اگست ۱۹۰۸ء کو بہر حال فوت ہو جائیں گے.خدائے حکیم و خبیر نے جو اپنے پیارے مسیح سے یہ وعدہ کر چکا تھا کہ میں دشمنوں کو جھوٹا کروں گا.عبدالحکیم کی پیش گوئی کے دونوں اجزاء کو یوں باطل کر دیا کہ حضور اپنے بعض گزشتہ الہامات کی بناء پر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو انتقال فرما گئے اور صاف طور پر واضح کر دیا کہ عبدالحکیم کاذب و مفتری انسان ہے.حقیقت اتنی واضح اور نمایاں تھی کہ پیسہ اخبار " کے ایڈیٹر کے علاوہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی اس کا اقرار کیا.چنانچہ لکھا " ہم خدا لگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی چودہ ماہیہ پیش گوئی کر کے مرزا کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا.چنانچہ ۱۵.مئی ۱۹۰۸ء کے اہل حدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ ۲۱ / ساون یعنی ۴/ اگست کو مرزا مرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جو معزز ایڈیٹر پیسہ اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر چبھتا ہوا کیا ہے کہ ۲۱ / ساون کو کی بجائے ۲۱ / ساون تک ہو تا تو خوب ہو تا." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد عبدالحکیم نے پیش گوئی کی کہ (۱) یعقوب ( مراد شیخ یعقوب علی صاحب تراب.ناقل) کی موت قریب ہے.(۲) مولوی نور الدین صاحب / جنوری ۱۹۱۱ء تک فوت ہو جائیں گے مگر یہ مفتریا نہ بات بھی سرا سر غلط نکلی." عبرت ناک موت عبد الحکیم نے ۳۰ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو اپنا یہ الہام شائع کیا کہ ”مرزا پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہو گیا." حضرت اقدس کو تو باوجود انتہائی علمی مشاغل و مصروفیات کے خدا نے اس مرض سے محفوظ رکھا مگروہ خود یکم جون ۱۹۲۰ء کی شب کو گمنامی کی حالت میں سل کی مرض میں چند ماہ مبتلا رہ کر اپنے الہامات کی صریح ناکامی اور سلسلہ احمدیہ کی کامیابی دیکھتا ہوا چل بسا.عبد الحکیم کو بیماری اور موت کی حالت میں دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ نہایت ہی خوف ناک اور دل ہلا دینے والا نظارہ تھا.مرنے سے پہلے ہی بہت تعفن پیدا ہو گیا تھا اور موت کے بعد تو یہ حالت تھی کہ کوئی شخص غسل تک دینے کو تیار نہیں ہو تا تھا.

Page 481

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ تحمید الا زبان جلد انمیرا سر ورق ۴ ریویو اردو مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ کے 11 119 رسالہ البیان لکھنو جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۰۴ شعید الاذہان جلد نمبر ۲ صفحه ج ۵- الفضل ۹ / مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۹ دافع البلاء صفحه ۲۳ حاشیه ۱-۲ حواشی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حقیقتہ الوحی صفحہ ۷ ۳۷-۳۷۸( طبع اول) حقیقته الوحی صفحہ 9 او الذکر الحکیم نمبر ۴ اخبار الحکم نمبر ۵ ۱جلد ۱۰-۳۰/ اپریل ۱۹۰۶ء صفحه ۲ کا نار جال صفحه ۵۰ الله الحکم ۱۷/ اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۷ کالم ۲ اعلان و اتمام الحجه و عملہ صفحہ ، مولفہ ڈاکٹر عبد الحکیم خال الحکم 10 نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ 4 ۱۳ اعلان الحق صفحه ۸ ۱۵ چیه اخبار لاہور ۱۵ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم ۲ ءصفحہ.اہل حدیث ۱۵ / مئی ۱۹۰۸ء صفحه ا د اعلان الحق صفحه ۹ از عبد الحکیم پٹیالوی ے.اہل حدیث ۱۲ / جون ۱۹۰۸ء ۱۸- ضمیمہ الحکم ۱۴/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۲ ۱۹ اعلان الحق صفحه ۸ الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحه ۴۰۳ رسالہ حمید الاذہان کا اجراء

Page 482

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۶۵ حقیقۃ الوحی" کی تصنیف حقیقت الوحی " کی تصنیف و اشاعت

Page 483

تاریخ احمدیت جلد ؟ 044 " حقیقته الومی " کی تصنیف و اشاعت حقیقہ الوحی کی تصنیف و اشاعت ۱۹۰۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دور مسیحیت کے سب سے ضخیم اور جامع کتاب "حقیقته الوحی تصنیف کرنا شروع فرمائی جس میں قرآنی حقائق و معارف کے علاوہ اپنی صداقت کے دو سو سے زائد آسمانی نشانات درج فرمائے.یہ بے نظیر کتاب ۱۵/ مئی ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئی.وجہ تصنیف اس عظیم الشان کتاب کی وجہ تصنیف حضور کے الفاظ میں یہ تھی." اس زمانہ میں جس طرح اور صدہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہو گئی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں خواب یا الهام قابل اعتبار ہو سکتا ہے اور کن حالتوں میں اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا.اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الرب...سو ان کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی فضل کی بارشیں ان پر ہوتی ہیں اور خدا کی قبولیت کی ہزاروں علامتیں اور نمونے ان میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہم اس رسالہ میں انشاء اللہ ذکر کریں گے.لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ابھی شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہیں مگر پھر بھی خوابوں اور الہاموں پر بھروسہ کر کے اپنے نار است اعتقادوں اور ناپاک مذہبوں کو ان خوابوں اور الہاموں سے فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ بطور شہادت ایسی خوابوں اور الہماموں کو پیش کرتے ہیں....یہ وہ خرابیاں ہیں جو اس ملک میں بہت بڑھ گئی ہیں اور ایسے لوگوں میں بجائے دین داری اور راست بازی کے بے جا تکبر اور غرور پیدا ہو گیا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ رسالہ لکھوں." یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک عظیم شاہکار ہے جس سے حضور کی سچائی بھی سورج کی طرح ثابت ہو جاتی ہے اور اسلام کا زندہ مذہب ہونا بھی !

Page 484

خطبہ الہامیہ کی مبارک تقریب کا گروپ فوٹو پ فوٹو (11) اپریل ۱۹۰۰ ء ) (+19+0111) شیخ عبدالرزاق صاحب ولد شیخ عبدالرحمن صاحب دائیں سے بائیں بیٹھے ہوئے.حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب.حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاد ر صادق صاحب مرزا خدا بخش صاحب.کرسیوں پر.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب.حضرت سیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری - حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب (خلیفہ اسی الاول) - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( مولانا موصوف کی گود میں ) کھڑے ہوئے.عبدالحمید ابن شیخ رحمت اللہ صاحب حکیم فضل الہی صاحب لاہوری مینشی تاج الدین صاحب.حضرت میر ناصرنواب صاحب.حضرت میر حامد شاہ صاحب.ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹی.حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب (خلیفہ اسی الثانی)

Page 485

دائیں سے بائیں کھڑے ہوئے نیچے.۱.۲۲.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ۳ مفتی فضل الرحمن صاحب ۴.حضرت پیر منظور محمد صاحب ۵.حضرت حکیم فضل دین صاح کرسیوں پر دائیں سے ہیں.۱.؟ ۲.حضرت چوہدری مولا بخش صاحب سیالکوئی ۳.سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام مع صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب -۴ حضرت شیخ نور احمد صاحب ریاض ہند پریس ۵ مستری فیض احمد صاحب.نیچے بیٹھے ہوئے.۱.حضرت حکیم شمس الدین سیالکوٹی ۲.حضرت پیر سراج الحق نعمانی کے ایک عزیز ۳ پیر سراج الحق صاحب نعمانی " م محمد یہ جموں ت حکیم محد حسین صاحب قریشی مفرح عنبری -۵ حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی مفرح عنبری لاہور

Page 486

دائیں طرف سے ( کھڑے ہوئے ) ۱.۳۲۲۲-۴۴.شیخ غلام حسین - حاجی پورہ سیالکوٹ ۵.میاں بشارت احمد صاحب کلرک ڈاکخانہ سیالکوٹ -۶- سیدار شاد شاہ صاحب سیالکوئی ۲۷ - حضرت حکیم فضل دین بھیروی صاحب ۹.میاں غلام محمد صاحب کا تب ۱۰.شیخ محمد اکبر صاحب حاجی پورہ سیالکوٹ.میاں خدا بخش صاحب سیالکوٹ چھاؤنی ۱۲ شیخ مولا بخش سیالکوٹی ( کرسیوں پر ( ۲۱ ۲۲ ۳- حضرت منشی اللہ دتہ صاحب سیالکوٹ موری دروازہ ۴.حضرت میاں نظام دین صاحب سیالکوٹ ۵.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام -۶.حضرت حکیم حسام الدین صاحب ( گود میں حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) ہے.میاں فضل دین صاحب زرگر سیالکوٹی ( گود میں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) (فرش پر ( ۱ ۲ ۲ مستری شہاب الدین صاحب جموں منشی محمد عبد اللہ صاحب سیالکوئی ۴.میاں محمد دین صاحب کانسٹیبل سیالکوئی - منشی رحیم بخش صاحب سیالکوٹی ( گود میں حضرت میر محمد الحق صاحب ) ۲- شیخ جان محمد صاحب وزیر آبادی ہے.حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب

Page 487

دائیں سے ائیں ( کھڑے ہوئے ) ۱.۲۲.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۲۳-۴- حضرت چوہدری مولا بخش صاحب ۶۲۵- حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب ( کرسیوں پر) ۱.حضرت منشی عبد العزیز صاحب دہلوی مصنف حیرت کی حیرانی ۲- حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانی - سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام -۴ حضرت مرزا یعقوب بیگ صاحب ۵.حضرت مرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری.(نیچے بیٹھے ہوئے ) ۲۱ ۲.حضرت نشی رستم علی خاں صاحب مدار ضلع جالندھر ۳ حضرت منشی روژا خان صاحب کپور تھلوی -۴- حضرت منشی کرم علی صاحب کا تب -۵ چوہدری فضل

Page 488

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب ابن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود

Page 489

المصله سیدنامحمود الصلح الموعود یہ تصویر ۱۹۰۴ء کے وسط آخر کی ہے جبکہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں مولوی کرم دین کے مقدمہ کے دوران مقیم تھے.سیدنا محمود اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کی دسویں جماعت میں پڑھتے تھے.

Page 490

دائیں سے بائیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود -۲- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب -.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۴.صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه ۵- صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ

Page 491

حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ولید: سید ناصر نواب صاحب مسکن و عالی / قادیان وان دست : ۱۸ جولائی ۱۸۸۱ء وقات: ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ء حضرت سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مسکن : مالیر کوٹا / قادیان ولادت تحکیم جنوری.A وفات : ۱۰ فروری ۱۹۴۵ء حضرت میر محمد اسحاق صاحب

Page 492

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ میں سے بعض رفقاء حضرت منشی روژا خان صاحب مسکن کپورتھلہ وفات : ۱۹۱۹ء حضرت منشی ظفر احمد صاحب مسکن: کپورتھلہ وفات : ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مسکن: سیالکوٹ حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین صاحب مسکن : بھیر ضلع شاہ پور بیعت : ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء

Page 493

حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی مسکن بھیرہ وفات 9 اپریل ۱۹۱۰ء حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی ولد : حضرت صوفی احمد جان مسکن : لدھیانہ حضرت میاں عبداللہ صاحب پٹواری حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب

Page 494

حضرت سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مسکن : مالیرکوٹلہ قادیان ولادت : کیم جنوری ۱۸۷۰ء وفات : ۱۰ فروری ۱۹۴۵ء حضرت مفتی محمد صادق صاحب مسکن : بهیره دفات : ۱۳ فروری ۱۹۵۷ء حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ولد: سید ناصر نواب صاحب مسکن : دہلی قادیان ولادت: ۱۸ جولائی ۱۸۸۱ء وفات: ۱۸ جولائی ۱۹۴۷ء حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب (سابق مہتہ ہریش چندر صاحب ) مسکن قادیان ولادت: ۱۸۷۹ء

Page 495

ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے نانا جان ) مسکن : لاہور سید مهدی حسین صاحب مسکن : پٹیالہ وفات : ۳۱ اگست ۱۹۴۱ء حضرت خلیفہ نور دین صاحب جموں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب

Page 496

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر بلند پایہ رفقاء حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب مدیر و بانی الحکم بیعت ۷فروری ۱۸۹۲ء حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہان پوری بیعت ۱۸۹۲ء حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل ( بیعت : ۱۸۹۲ء) حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی و حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری ( بیعت : ۱۹۰۴ء ) بیعت : ۱۸۹۴ء

Page 497

حضرت مولوی امام دین صاحب حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب بیعت: ۱۸۹۷ء حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بیعت : ۱۸۹۷ء حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب بیعت: ۱۸۹۷ء حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بیعت قبل ۱ مارچ ۱۸۹۷ء

Page 498

حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت بابو فخر الدین صاحب آف گھوگھیاٹ بیعت : ۱۸۹۷ء بیعت : ۱۸۹۸ء حضرت الحاج مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری حضرت منشی عبد الحق صاحب کا تب بیعت : ۱۸۹۸ء

Page 499

حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بیعت : ۱۸۹۹ء حضرت حافظ روشن علی صاحب بیعت نومبر ۱۸۹۹ء حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید رئیس اعظم خوست افغانستان بیعت ١٩٠٠ء شهادت: ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء حضرت میاں احمد نور صاحب کا بلی ( شاگرد صاحبزادہ عبداللطیف شہید ) کابل.افغانستان

Page 500

حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی سیالکوٹی بیعت : ۲۸ ستمبر ۱۹۰۰ء حضرت مولا ناز والفقار علی گوہر صاحب رامپوری بیعت ١٩٠٠ء حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب بیعت: ١٩٠٠ء حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر بیعت: ١٩٠١ء

Page 501

حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب کلرسیداں ضلع راولپنڈی ( نانا جان خلیفة اصبح الرابع ) بیعت : ۱۹۰۱ء حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بیعت : ١٩٠١ء حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی حضرت میاں محمد یوسف صاحب بیعت : ۱۹۰۱ء بیعت: ۱۹۰۱ء

Page 502

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیعت : ١٩٠٣ء حضرت محمد حسن موسیٰ صاحب ابن حاجی موسیٰ خان صاحب ترین.کراچی بیعت : ١٩٠٣ء حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ زیارت: ۱۹۰۳ء حضرت میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالے بنگہ ضلع جالندھر بیعت: ١٩٠٣ء

Page 503

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی بیعت : ۱۹۰۴ء حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ڈسکہ.سیالکوٹ : ستمبر ۱۹۰۴ء حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب ابن چوہدری نصر اللہ خان صاحب ڈسکہ.سیالکوٹ بیعت ۱۶ر تمبر ۱۹۰۷ء حضرت سید ڈاکٹر غلام غوث صاحب بیعت : ۱۹۰۵ء

Page 504

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بیعت: ۱۹۰۵ء حضرت مولوی عبد الرحیم درد صاحب ولادت ۱۸۹۴ء (پیدائش) حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب آف جده بیعت : ١٩٠٧ء

Page 505

خاندان سیکھواں برادران میاں محمد ابراہیم صاحب خسر محمد صادق بٹ صاحب احمد نگر.میاں محمد حسین بٹ صاحب والد احمد حسین بٹ صاحب درویش.میاں شہاب دین صاحب صحابی والد جلال دین بٹ صاحب.بشیر احمد صاحب ابن میاں امام دین صاحب برا در کلاں علامہ جلال الدین شمس صاحب.امیر بی بی صاحبہ عرف مائی کا کو صحابیہ (۳۱۳) منشی چراغ دین صاحب والد نور دین مشیر صاحب.میر ولی محمد صاحب آف لدھیانہ والد علی محمد نجم صاحب.میاں خیر دین سیکھوانی صاحب صحابی (۳۱۳) والد مولوی قمر دین صاحب علامہ جلال الدین نفس صاحب.میاں امام دین سیکھوانی صاحب صحابی (۳۱۳) والد علامہ جلال الدین شمس صاحب.محمد ابراہیم صاحب (شمسی صاحب کی بڑی ہمشیرہ ہاجرہ بیگم آف کھلی کے بانگر کے صاحبزادے) نوردین صاحب میر ولد منشی چراغ دین صاحب.حکیم محمد اسماعیل صاحب ابن میاں جمال دین صاحب سیکھوائی صحابی (۳۱۳) شس صاحب کے تایاز اور بھائی مولوی قمر دین صاحب الد میاں خیر دین صاحب چوہدری وزیرمحمد صاحب آف پیالہ والد امتہ الحمید صاحب ایم اے.

Page 506

AITUD-DUA PRAYER ROOM WISED MESSIAN PEACE SE HOME SMALL ROOM BUILT ON 19TH ZUHA ENSIVELY AND PEACE SCITY AND ARMS WITH T ECESSAR DT BAITUONA PRAYER ROOM بيت الدعا الدار‘ میں بیت الدعاء کا مقدس کمرہ

Page 507

مسجد مبارک کی غربی کھٹر کی حضرت مسیح موجود حضرت مسیح موعود کے کمرے کی ایک کھٹر کی بیت الڈ عا کے اوپر کا کمرہ يف الدعا ی فوٹو با ہر کوچہ کی طرف سے لیا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس مکان کا ایک روح پرور منظر

Page 508

جہلم کی کوٹھی جہاں حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۳ء میں قیام فرمایا تھا.مکان ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ ( واقع احمد یہ بلڈنگ لاہور ) کا منظر ( ۲۷ مئی ۱۹۶۲ء)

Page 509

یہ رتھ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ سے قادیان لائے تھے اور حضور علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے دوران اس میں بیٹھ کر کئی دفعہ گورداسپور تشریف لے گئے.

Page 510

ڈیورنڈ لائن کے موقع پر افغانی اور انگریزی نمائندوں کا ایک گروپ فوٹو (۱۸۹۴ء) پہلی قطار بائیں سے دائیں.۱.سر عبد القیوم خان آف ٹوپی - -۲- سر مارٹمر ڈیورنڈ -۳ سرندل خان گورنر خوست.ان کے بعد چوتھے نمبر پر جو بزرگ کھڑے ہیں وہ صاحبزادہ سعید جان مرحوم کی اہلیہ (شہید مرحوم کی بڑی بہو) کی رائے میں قطعی طور پر حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب ہیں.شعبہ تاریخ احمدیت کی طرف سے مزید تحقیق جاری ہے.

Page 511

وہ میدان جہاں صاحبزادہ صاحب شہید کئے گے (نشان شهادت گاه ) حضرت مولوی عبدالستار صاحب المعروف بزرگ صاحب

Page 512

ایک نہایت مقدس اور قدیم دستاویز حضرت مسیح موعود نے ۳۰ ستمبر ۱۸۸۴ء کو ایک سائل کے جواب میں ایک مفصل خط رقم فرمایا تھا جس کے دو صفحات کا عکس ذیل میں دیا گیا ہے.حضور کی شان مجددیت و ماموریت کسی درجہ بلند ہے؟ اس پر حضور کی یہ نہایت قدیم اور نایاب تحریر بہت کچھ روشنی ڈالتی ہے.اصل مخط مولف کے پاس محفوظ ہے.(۴) حضرت مجدد الف مالی جواب این حكومات میں میں تی.ہے کہ جوموگ میری عمردانی در این حضور حضرت احدیت کے لان من است خیر اور علاقات مشین میں اتنے افضل شرمردان اور وہ میری عمر د میں نتے ہے کہ موجدت حمد و صاب بہتر ہے اور موریت اولیاں سے کے ر کار نبوی سے ریاست یا موید بار مجد واب مورد نماید در رہنے اور ایسا کچھا گیا ہے ملیکر سروده درست انجا نیا پرستی در قاری اسامی انبه اليم

Page 513

)) صدر تھائی He کے پہر کا ور نہیں پی خداوند کرم محض ارسی فصل ہے وحی کے لفظ سے بالا ہے اور نیز دوسری سے خون کے جنتی نسکا ہے اور رات ہی مر کے اور حضرت رتی فنکات علمی ہے رس پانکارہ کو ناح در یے تمام زمین کے بائن وہ ہے حد تک س سوال کی و سی میں جو حکیم اوقات اور دینی وضع پر این اله یک میں کئی ہاتھی اور سلہ چلے انتج " الهدی

Page 514

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ایک خط کا عکس ب آپ کی سمت قبول فرمایا INDIA POST CARD TRESS 4NLY 19.9 WALTON ON SIDE بیت کوئی ندی PESHA

Page 515

مزار مبارک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت المصلح الموعود اپنے خدام کے ساتھ دعا کر رہے ہیں.(مارچ ۱۹۴۴ء)

Page 516

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۶۷ "حقیقت الوحی " کی تصنیف و اشاعت کتاب کے چار باب وچی کی حقیقت واضح کرنے کے لئے حضور نے یہ کتاب چار ابواب میں تقسیم فرمائی.باب اول ان لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوا ہیں آتی ہیں یا بعض بچے الہام ہوتے ہیں لیکن ان کو خداتعالی سے کچھ بھی تعلق نہیں.باب دوم ان لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات کچی خوابیں آتی ہیں یا بچے الہام ہوتے ہیں اور ان کو خدا تعالٰی سے کچھ تعلق ہے لیکن بڑا تعلق نہیں.باب سوم ان لوگوں کے بیان میں جو خدا تعالٰی سے اکمل اور اصفی طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہوتا ہے اور خواہیں بھی ان کو فلق الصبح کی طرح کچی آتی ہیں اور خدا تعالٰی سے اکمل اور اتم اور اصفی تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ خدا تعالٰی کے پسندیدہ نبیوں اور رسولوں کا تعلق ہوتا ہے.باب چہارم حضور کے اپنے حالات کے بیان میں کہ خدا تعالٰی کے فضل اور کرم نے حضور کو ان اقسام ثلاثہ میں سے کس قسم میں داخل فرمایا ہے؟ سوالات کے جوابات اور تعریف نبوت میں تبدیلی کا واضح ترین بیان شاه جهان پور میں ایک عالم ابو یکی مولوی محمد صاحب رہتے تھے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ( حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری کے توسط سے نو سوالات لکھ کر بھیجوائے اور نہایت انکسار سے ان کے جواب کی درخواست کی.اپنے خط میں انہوں نے مصلح اپنا نام منشی برہان الحق " لکھا.2 حقیقته الوحی ان دنوں زیر تصنیف تھی اس میں مولوی محمد صاحب کے سوالات کے بھی مفصل جواب دئے.حضرت اقدس کی طرف سے دئے ہوئے سب ہی جوابات اپنے اندر ایک خاص شان رکھتے تھے.مگر پہلے سوال کے جواب کو یہ بھاری خصوصیت حاصل تھی کہ حضور نے اس میں ایک غلطی کا ازالہ " کے بعد تعریف نبوت میں تبدیلی کا دوسری بار واضح ترین اعلان فرمایا.نیز آیت و اخرین منهم لما يلحقوا بهم (سورۃ الجمعہ) کی تفسیر لکھتے ہوئے لکھا.اس سے یہ ثابت ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت ا کا بروز ہو گا....بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیش گوئی ہے.ہر ایک جانتا ہے کہ منہم کی ضمیر اصحاب ان کی طرف راجع ہے لہذا وہی فرقہ منعم میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسار سول موجود ہو کہ جو آنحضرت کا بروز ہے." حضرت اقدس علیہ السلام نے اسلام اور فقہائے ملت خیر الانام تک دعوت حق پہنچانے الاستفاء کے لئے فصیح و بلیغ عربی میں ایک رسالہ " الاستفتاء "لکھا اور اسے "حقیقتہ الوحی" کے

Page 517

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۶۸ حقیقت الوحی " کی تصنیف و اشاعت آخر میں بطور ضمیمہ شامل فرمایا."الاستفتاء " میں حضور نے نہایت درجہ درد کے ساتھ اپنی تائید میں نشانات سماوی کے ظہور کی مثالیں دے دے کر ان سے فتویٰ طلب فرمایا ہے کہ کیا ایسا انسان بھی مفتری قرار دیا جاسکتا ہے جس کی تائید میں آسمانی نشانات بکثرت نازل ہو رہے ہوں ؟ یادری احمد مسیح کی مباحثہ میں ناکامی اور مباہلہ سے گریز دہلی میں ایک صاحب احمد مسیح تھے جو بشپ جارج ایلفرڈ لیفرائے کے ذریعہ سے اسلام چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے.پادری صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص مرید میر قاسم علی صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ دہلی سے مباحثہ ہو ا جس کا موضوع تھا." آیا مسیح علیہ السلام واقعی صلیب پر قتل ہوئے یا نہیں ؟ " میر صاحب نے پر زور دلائل سے ثابت کر دیا کہ مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے زندہ سلامت اترے اور اپنی طبعی عمر پا کر کشمیر میں آکر مرے اور یہیں دفن ہوئے.مباحثہ کے چیئرمین مسٹر مارٹن تھے.اس مباحثہ میں پادری احمد مسیح کو یہاں تک شکست فاش ہوئی کہ نہ صرف سامعین نے بالاتفاق تسلیم کیا کہ پادری احمد مسیح صاحب بالکل لاجواب ہو گئے بلکہ خود پادری صاحب کو اپنی تقریر میں اقبال کرنا پڑا کہ میں ہار گیا ہوں.چنانچہ انہوں نے کہا ” صاحبو! میرا ہار جانا ایسا نہیں ہے جو میرے لئے باعث ندامت ہو کیوں کہ میں تو سرے سے اندھا ہوں اور اندھے بے حیا ہوتے ہیں.شرم و حیا کے محسوس کرنے کے واسطے آنکھوں کی ضرورت ہے جو ندارد ہیں پر مجھے ہار جانے کا کیا غم." پھر کہا " آپ نے بغیر سوچے جلدی سے سید صاحب کی ڈگری تو کر دی مگر یہ نہ جانا کہ اس ڈگری دینے سے ہم کو سید صاحب کے مذہب اور عقائد کا مان لینا بھی ضروری ہو گیا.پس میں بھی سید صاحب کو ہی ڈگری دیتا ہوں کہ آپ نے ایک کثیر جماعت سے عقائد احمدیہ کو منوالیا." اس اعتراف شکست کے باوجود پادری احمد مسیح نے یہ تعلی کی کہ ”اگر میں ہار گیا تو میرے پر دین مسیح کے دلائل ختم نہیں ہوئے.میرا ہار نا قوم کا ہارنا نہ سمجھا جائے اور لوگ مسیحی قوم میں بڑے بڑے فاضل ہیں وہ ہر ایک بحث کو بخوبی طے کر سکتے ہیں." میر قاسم علی صاحب نے کھلا چیلنج دیا کہ کوئی نامی گرامی پادری صاحب میدان مقابلہ میں آئیں میں | (+ ان سے بھی مباحثہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر کسی پادری کو سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی.

Page 518

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۶۹ حقیقه صنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود کو پادری احمد آخر جب دلائل و براہین کے ذریعہ سے حجت مسیح کی دعوت مباہلہ اور حضور کی پوری ہو گئی تو میر قاسم علی صاحب نے پادری احمد مسیح کو مباہلہ کے لئے للکارتے ہوئے ۱۲ / طرف سے منظوری کا اعلان اپریل ۱۹۰۶ء کو ایک اشتہار شائع کیا.پادری احمد مسیح نے اس کے جواب میں اشتہار لکھا کہ " مباہلہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے ہو گا." یہ اشتہار حضور کی خدمت میں ۱۲ جون ۱۹۰۶ ء کو پہنچا جس پر حضور نے ۵ / جون ۱۹۰۶ء کو درخواست >1 مباہلہ منظور" کے عنوان سے مفصل اشتہار دیا کہ دہلی کے سوا دوسری جگہ کے تو شاید احمد مسیح کے نام سے بھی واقف نہ ہوں پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گم نام آدمی سے مباہلہ کا کیا فائدہ ہو گا.وہ اپنے مباحثہ کا اثر صرف اپنی ہی ذات تک مانتا ہے تو مباہلہ کا اثر اس کی قوم پر کیوں کر سمجھا جاوے گا.اور علاوہ بریں وہ تو پہلے ہی سے اندھا ہے اور احمد صیح اپنے اس درخواست میں کوئی وجہ نہیں بتاتا کہ میر قاسم علی صاحب سے کیوں مباہلہ نہیں کرتا جب کہ مباحثہ اس سے کیا ہے...احمد مسیح کو اگر مباہلہ کرنا ہی ہے تو وہ میرے مرید میر قاسم علی صاحب سے بطور خود کرے جس نے اس کو دعوت کی ہے.لیکن اگر میرے ساتھ ہی مباہلہ ضروری ہے تو میں اس کی درخواست کو اس صورت میں منظور کر سکتا ہوں جب لاہور کلکتہ مدراس اور بمبئی کے بشپ صاحبان (جو اپنے عمدہ واقفیت ، رسوخ اور اثر کی وجہ سے زیادہ قابل قدر ہیں) ایسی درخواست کریں.کیوں کہ اس صورت میں مباہلہ کا اثر تمام قوم پر ہو گا نہ کہ فرد واحد پر." چھ روز کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے حق و باطل کے فیصلہ کی غرض سے یہ اعلان بھی کر دیا کہ آپ پادری احمد مسیح سے براہ راست بھی مباہلہ کرنے کو تیار ہیں بشرط یہ کہ چاروں بشپ صاحبان یا پھر کم از کم لاہور کے بشپ صاحب ہی اخبار پاؤ نیر" یا "سول" میں اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ احمد مسیح کا مغلوب ہونا ہمارا مغلوب ہونا سمجھا جائے گا.مگر پادری احمد صیح صاحب جو قبل ازیں مباحثہ میں اپنی شکست کو خود اقرار کر چکے تھے درخواست مباہلہ کر کے فرار اختیار کر گئے اور عیسائی دنیا پر ایک بار پھر حجت تمام ہوئی.صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب کی ولادت اور وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قریباً ۱۸۶۵ء سے الہام ہو چکا تھا کہ تری نسلا بعید ا یعنی تو دور کی نسل بھی دیکھے گا.۲۶.دسمبر ۱۹۰۵ء اور اپریل ۱۹۰۶ء میں وحی نازل ہوئی "انا

Page 519

تاریخ احمدیت جلد ۲ قیقہ الوحی " کی تصنیف و اشاعت نَبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٌ لكَ یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو " نافلہ" ہو گا.حضور نے اس کی تعبیر میں فرمایا " ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیوں کہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں." ان الی بشارتوں اور پیش گوئیوں کے مطابق ۲۶/مئی ۱۹۰۶ء کو بوقت کے بجے شام صاحبزادہ مرزا محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاں صاحبزادہ نصیر احمد پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "حقیقتہ الوحی " میں اس نشان کا بیالیسویں نمبر پر تذکرہ فرمایا.تری نسلا بعیدا" کی پیش گوئی کا پورا ہونا گو صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب نے چند ماه بعد وفات پائی تاہم اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامِ نَافِلَةٌ لَک کے الہام کی یہ تعبیر کہ سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالی کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا پوری شان سے پوری ہو گئی.مگر چونکہ پیش گوئیاں زوالوجوہ ہوتی ہیں اس لئے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ اس کا ظہور کس رنگ میں ہو گا.کیوں کہ انا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامِ نَافِلَةٌ لَكَ کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے یہ ہو سکتے ہیں کہ ہم تمہیں ایک ایسے پوتے کی بشارت دیتے ہیں جو عظیم الشان ہو گا.ولَعَلَّ اللَّهُ يَحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا - العام تری نس دعا کے مطابق خدا کے فضل سے حضور کی نسل بعید نومبر ۱۹۶۱ء تک ۱۸۵ کی تعداد تک پہنچ چکی ہے.حضرت سید محمد اسمعیل صاحب کی شادی حضرت سید محمد اسحاق صاحب کی شادی کے چھ ماہ بعد اسی سال ان کے بڑے بھائی حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن سے ہوئی.برات جو میر محمد اسمعیل صاحب ، حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت مولوی سید سردار شاہ صاحب پر مشتمل تھی سکندرہ راؤ ضلع علی گڑھ گئی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اس جگہ شادی پر راضی نہ تھے جس پر حضور نے ان کو خط لکھا ” میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو اور اس کو قبول کر لو.اور اگر تم نے ایسا کیا تو میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.چنانچہ انہوں نے بسر و چشم حضور کے فرمان کی تعمیل کی.اس کے بعد حضرت میر صاحب کی دوسری شادی حضرت مرزا محمد شفیع صاحب کے ہاں ہوئی جس سے آپ کے ہاں یہ اولاد پیدا ہوئی.ا.سیده مریم صدیقہ صاحبہ -۲- سید محمد احمد صاحب -۳ سید سید احمد صاحب -۴- سید امین احمد tt

Page 520

تاریخ احمدیت.جلد ۲ حقیقتہ الوحی " کی تصنیف و اشاعت صاحب -۵ سیده امتہ اللہ صاحبہ ۶ سیدہ طیبہ صاحبہ ۷.سیدہ امتہ القدوس صاحبه ۸ سیده امته الهادی صاحبہ.سیدہ امتہ السمیع صاحبہ ۱۰.سیدہ امتہ الرفیق صاحبہ تجلیات البیہ" کی تصنیف اور سلسلہ احمدیہ کے عالم گیر غلبہ کی پیش گوئی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ مسیحی کے ساتھ وسط مارچ میں " تجلیات الہیہ " کے نام سے ایک اور مختصر رسانہ بھی تالیف فرمایا جو نا مکمل رہا اور حضور کی زندگی میں شائع نہ ہوا.آخر کئی سالوں کے بعد ۲۹ جون ۱۹۲۲ء کو اسی نا مکمل صورت میں شائع ہوا.یہ مختصر رسالہ نا مکمل ہونے کے باوجود اتنے حقائق و معارف پر حاوی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور خدائی تجلیات کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے.آئندہ پانچ زلازل کے متعلق پیش گوئی ، چار لاکھ حقیقی مسلمانوں کا آپ کے ہاتھ پر معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کرنے اور اپنے دعویٰ نبوت کی دلیل وغیرہ امور کے واضح بیان ہے.اور یہ عظیم الشان پیش گوئی فرمائی ہے کہ." خدا تعالی نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا." رسالہ تعلیم الاسلام" کا اجراء جولائی ۱۹۰۶ء میں قادیان سے ایک اور رسالہ تعلیم الاسلام" جاری ہوا.اس سے قبل یہاں

Page 521

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۷۲ قیقہ الوحی " کی تصنیف و اشاعت سے تین رسائل " ریویو آف ریلیجز" (اردو انگریزی طبیب حاذق " اور " تشحذ الاذہان " نکل رہے تھے اب ان کی تعداد چار ہو گئی.اس رسالہ کے ایڈیٹر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب تھے اور یہ ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اہتمام سے شائع ہو تا تھا.رسالہ کی اصل غرض و غایت تفسیر قرآن تھی.حضرت مولوی نور الدین صاحب کے درس کے نوٹ اور آپ کی عربی تفسیر کا خلاصہ اور حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی تفسیر اس میں درج ہوتی تھی.علاوہ ازیں حضرت اقدس کے الہامات اور مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق خبریں بھی ہوتی تھیں.مئی ۱۹۰۷ ء میں یہ رساله ریویو آف ریلیجنز " کے ساتھ بطور ضمیمہ چھپنے لگا.افسوس یہ قیمتی تفسیر صرف سورۃ انعام تک 11 شائع ہو سکی.احیائے موتی کا ایک نشان اس سال حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کی شفایابی کا اعجازی نشان ظاہر ہوا.اس نشان کی تفصیل حضرت اقدس ہی کے الفاظ میں یہ ہے."میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمن تاجر در اس.ان کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کار بنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مسلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں.چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اول درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اس لئے ان کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردد ہوا.قریبا ؟ بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جھک گیا اور معاخدائے عزوجل کی طرف سے وحی ہوئی کہ "آثار زندگی." بعد اس کے ایک اور تار در اس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں.لیکن پھر ایک اور مخط آیا کہ جو ان کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اس سے ذیا بیٹس کی بھی شکایت تھی.چونکہ ذیا بیطیس کا کار بنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اس لئے دوبارہ غم اور فکر نے استیلاء کیا اور غم انتماء تک پہنچ گیا.اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبدالرحمٰن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنود کی خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور ان کا حق تھا کہ ان کے لئے بہت دعا کی جائے.آخر دل نے ان کے

Page 522

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۷۳ حقیقت الوحی " کی تصنیف و اشاعت لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیا رات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہا تب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مملک مرض سے سیٹھ عبدالرحمن صاحب کو نجات بخشی گویا ان کو نئے سرے سے زندہ کیا.چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سے بڑا معجزہ دکھلایا اور نہ زندگی کی کچھ بھی امید نہ تھی.اپریشن کے بعد زخم کا مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا جس نے پھر خوف اور تہلکہ میں ڈال دیا تھا.مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کار بنکل نہیں.آخر چند ماہ کے بعد بکلی شفا ہو گئی.میں یقینا جانتا ہوں کہ یہی مردہ کا زندہ ہوتا ہے.کار بنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیا بیٹیس اور عمر پیرانہ سالی اس خوف ناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہو نا غیر ممکن ہے.ہمارا خد ابرار حیم وکریم ہے.اور اس کی صفات میں سے ایک احیاء کی سنت بھی ہے.سید محمد یوسف بغدادی سیاح اور شیخ محمد چٹو صاحب کی قادیان میں آمد حکیم محمد حسین صاحب قریشی کے دادا شیخ محمد چٹو صاحب ابتداء سرگرم اہل حدیث تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے حسن ظن ہوا..مگر عمر کے آخر میں چکڑالوی ہو گئے تھے.قریشی صاحب اخیر اکتوبر ۱۹۰۶ ء میں اپنے دادا اور دو اور چکڑالویوں کو جن میں سے ایک سید محمد یوسف بغدادی سیاح کہلاتے تھے قادیان میں لائے شیخ محمد چٹو صاحب نے حضرت اقدس سے آپ کے دعوئی امامت کا ثبوت قرآن شریف سے مانگا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جن دلائل سے آپ نے قرآن شریف کو سچا مانا ہے انہی دلائل کے ذریعہ سے پھر میری سچائی کو پرکھ لیں.شیخ محمد چٹو صاحب تو اس کا کوئی جواب نہ دے سکے البتہ سیاح صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کہ میں مباہلہ کرتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ آپ پہلے میری ایک کتاب پڑھ لیں پھر بڑے شوق سے مباہلہ کر لیں.سیاح صاحب نے کہا کہ ابھی میں دو گھنٹہ میں کتاب پڑھ لیتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ آپ بے شک وگھنٹہ میں مطالعہ کرلیں میں بعد ازاں چند ایک سوال کرلوں گا جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ آپ مضمون کتاب کو سمجھ گئے ہیں.اس پر سیاح صاحب نے معذرت کر دی اور قادیان میں مزید قیام کا ارادہ ملتوی کر کے واپس چلے آئے اور لاہور میں آکر رسالہ اشاعت القرآن " میں اصل واقعات کو چھپا کر لکھ دیا کہ مرزا صاحب مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے ساتھ مباحثہ کرلیں..

Page 523

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۷۴ حقیقته الومی " کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف سے یہ نا انصافی دیکھی تو ان کو دوبارہ دعوت مباہلہ دی اور مباحثہ کے متعلق مفتی محمد صادق صاحب نے لکھا کہ حضرت اقدس اپنی کتاب "انجام آتھم " میں مباحثات بند کر چکے ہیں.ہاں اگر مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی اپنے شبہات کا ازالہ کرانا چاہیں تو وہ مہذب رنگ میں درخواست کریں اور بتائیں کہ حضور کا دعویٰ قرآن مجید کے کن نصوص قطعیہ کے خلاف ہے ؟ مگر عبد اللہ صاحب چکڑ والوی اس تجویز سے آمادہ نہ ہوئے اور شیخ محمد چٹو صاحب اس کے بعد جلد ہی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے.نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی دوسری بیوی محترمہ امتہ الحمید بیگم کا ۲۷.اکتوبر ۱۹۰۶ ء کو انتقال ہوا تھا.ان کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحب اپنی اکلوتی بیٹی بو زینب بیگم صاحبہ کی شادی کے متعلق بہت متفکر تھے.خود حضرت مسیح موعود کو بھی اس معاملہ میں بہت خیال تھا اور اکثر فکر کے ساتھ اس کا گھر میں ذکر فرمایا کرتے تھے.ایک روز حضرت اقدس کو اس طرف خاص توجہ پیدا ہو گئی.حضور نے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق حضرت نواب صاحب کو پیغام دیا جسے انہوں نے بسر و چشم قبول کر لیا.حضرت نواب صاحب کے غیر احمدی بھائی اور دوسرے عزیز بہت ناراض ہوئے مگر حضرت نواب صاحب نے اس کی قطعا پروانہ کی اور فرمایا."اگر شریف احمد ٹھیکرالے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا اور دوسری جانب ایک بادشاہ رشتہ کا خواست گار ہو تاتب بھی میں شریف احمد ہی کو بیٹی دیتا."aam ۱۵ نومبر ۱۹۰۶ء (بمطابق ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ ) بعد نماز عصر نئے مہمان خانے کے صحن میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی.اس تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے قادیان میں موجود خدام موجود تھے.حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے ایک ہزار روپیہ صر پر نکاح پڑھا اور ایک لطیف اور نکاح پر از معارف خطبہ ارشاد فرمایا.شادی.fe حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی شادی ۹.مئی 1909ء کو ہوئی اور ولیمہ 10.مئی 1909ء کو.P3- حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ " بو زینب بیگم صاحبہ کار خصمانہ نہایت سادگی سے ہمارے دار المسیح سے ملحق مکان سے عمل میں آیا.حضرت اماں جان نے سامان کپڑا زیور وغیرہ ہمارے

Page 524

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۷۵ حقیقت الوحی " کی تصنیف راشاعت ہاں بھجوا دیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہ کی طرح رخصتانہ ہو.سود لین تیار ہو گئی تو نواب صاحب نے پاس بٹھا کر نصائح کیں اور پھر مجھے کہا کہ حضرت ام المومنین کی طرف چھوڑ آؤں.سیدہ ام ناصر صاحبہ والے صحن میں جو سیدہ ام و سیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں وہاں حضرت اماں جان نے استقبال کیا اور دلہن کو دار البرکات میں لے گئیں." اولاد صاحبزادی بوزینب بیگم صاحبہ کے بطن سے مندرجہ ذیل اولاد ہوئی.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (ولادت ۱۳/ مارچ ۱۹۱۱ء) صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب (ولادت ۱۰ / جولائی ۱۹۱۳ء) صاحبزادہ مرزا داد و احمد صاحب (ولادت ۲۰/ اگست ۱۹۱۴ء) - صاجزادی امتہ الود و د صاحبہ (ولادت ۱/۱۵اکتوبر ۱۹۱۸ ء وفات ۲۰ جون ۱۹۴۰ء) صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ (ولادت ۱۷/ اکتوبر ۱۹۲۸ء) صاجزادی امته الوحید بیگم صاحبہ (ولادت ۲۱ / اگست ۱۹۳۵ء) ۱۹۰۶ء کے بعض صحابہ ۱۹۰۶ء کے بعض جلیل القدر صحابہ یہ ہیں.۱.حضرت صاجزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ۲.مولوی علی احمد صاحب بھاگل پوری E سردار محمد یوسف صاحب (سابق سورن سنگھ ) ۴.مولوی علی احمد صاحب حقانی - ماسٹر محمد علی صاحب اظہر - هم

Page 525

+ تاریخ احمدیت جلد ۲ حقیقت الوحی صفحه ۱ - ۲ حقیقة الوحی صفحه ۵۰۴ ۴۷۶ حقیقت الوحی کی تصنیف و اشاعت حواشی اہل حدیث تھے.حدیث کی سند سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے طب حکیم اجمل خان صاحب کے بڑے بھائی عبد الجہ کے ہے صاحب سے حاصل کی تھی.درس و تدریس اور مطلب کا مشغل تھا.شاہ جہان پور میں دفن ہیں اس لئے حقیقت الوحی صفحہ ۱۳۸ پر یہی نام درج ہے ه حقیقت الوحی ( طبع اول) حقیقت الوحی تجمه صفحه ۲۷ ے.بشارت الهند و پاکستان صفحه ۲۱۹ بحوالہ الحکم ۱۳۰ اپریل ۱۹۰۷ ء صفحه ۳ کالم ۲۱ بحوالہ احکم ۱۳۰ اپریل ۱۹۰۷ و صفحه ۳ کالم ۱-۲ بحوالہ الحکم ۱۳۰ اپریل ۱۹۰۶ء صفحه ۴ کالم ۱-۲ الحکم سے ار اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ کالم ۱-۲ ۱۳ - الحکم کے ارمنی 1904 ء صفحہ کالم میں الحكم وار می ۱۹۰۶ء صفحه 11 باره ارامتی ۱۹۰۷ صفحات ۳ و الحکم ار مئی ۱۹۰۶ ء صفحه ی ۱۵- الحکم کار می ۱۹۰۶ء صفحه اربعین نمبر ۳ مطبوعہ ۱۹۰۰ء صفحه ۲۹ ۳۰ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۰ طبع اول پدر ۲۹ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ و الحکم ۱۰/ جنوری ۱۹۰۲ء صفحه الحکم ۱۰ / اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ اکالم ۲ 49 الحکم ۱۰ لر اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ا کالم ۲ ۲۰- الحکم اور منتی ۱۹۰۶ء صفحه ۲ کالم ۲۱.اس کی تفصیل یہ ہے.ہوتے ۳۰ پوتیاں ۱۸ پڑ پوتے ۲۸ پڑ پوتیاں ۴۴ نواسے ۵ نواسیاں لا کپڑا نو ا سے پڑ نواسیاں ' پوتیوں کے بیٹے 10 پوتوں کی بیٹیاں پڑپوتوں کے بیٹے پڑپوتوں کی بیٹیاں پڑ پوتیوں کے بیٹے ۲ نیوتوں کے نواسے از ملاحظہ ہو " شجرہ طیبہ " شائع کردہ قریشی محمد حنیف محمر علوی سائیکل سیاح متوطن موضع کندور ضلع میر پور آزاد کشمیر حال ربوه - تاریخ اشاعت ۲۰ انو میر (۱۹۹) ۲۲ تو میر ۱۹۷۱ء سے جون ۱۹۷۱ء تک خاندان مسیح موعود علیہ السلام میں قریباً پچاس وجودوں کا اضافہ ہوا.۲۳- بدر ۱۹ / جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ اوبر ۲۶ / جولائی ۱۹۰۶م صفحہ کے ۲۴ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۲۲۸-۲۳۱ ۲۵- تجلیات الله صفحه ۲۱ ( طبع اول) ۲۶- رسالہ تعلیم الاسلام جلد ا نمیرے صفحہ ۲۷۹ ۲۷.حقیقته الوحی صفحه ۳۲۵-۳۲۷) طبع اول) ۲۸ انجمن مسلم اہل الذکر القرآن ماہنامہ جو مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے خیالات کا ترجمان تھا اور مولوی صاحب کے بعد عرصہ تک مولوی حشمت العلی صاحب دہلوی کی زیر ادارت بازار سرنا نوالہ لاہور سے شائع ہوتا رہا.

Page 526

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۹ بار کے الرجنوری کے ۱۹۰ ء ۳۰ الحکم ۱۲۴ اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۵۶ ۳۲ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۵۶ ۴۷۷ الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۷ ( مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو بدر ۱۳ / دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸) ۳۴- پدر ۱۳ مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲ کالم حقیقتہ الوحی کی تصنیف و اشاعت ۳۵.شیخ صاحب موصوف کی عمر کے آخری ایام چکڑالویوں سے لڑنے جھگڑنے میں گذرے پوری تفصیل رسالہ اشاعت القرآن ۱۵- اپریل د مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۸-۲۹ میں مذکور ہے) ۳۶- اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۶۹ ۳۷.اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۳۰۱ ۳۸- ولادت ۳/ اکتوبر ۱۸۹۰ء حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے فرزند اور سیدنا حضرت مسیح موعود کے پوتے احضرت اقدس کو آپ کی بیعت کے بارے میں سات برس قبل ۲۰/ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو یہ خواب دکھایا گیا کہ " ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سرپر سلطان کا لفظ ہے.وہ لڑکا کھڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا.میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سالڑ کا گورے رنگ کا ہے (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴ صفحه ۲ از اشتهار ۲۲/ اکتوبر ۱۸۹۹ء) سواس خواب کے مطابق مارچ ۱۹۰۶ء میں حضرت صاحبزادہ موصوف نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کرلی (الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ان کی بیعت کا پیغام لے کر حضور کی خدمت میں گئے تھے اور حضور نے اس پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا الفضل سے مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ) کالم (۲) اور غالبا دوسرے ہی روز اپنے گھر میں ان کی دعوت کی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت میر محمد الحق صاحب بھی شامل تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کا بیان ہے دو تخت بچھے ہوئے تھے ان پر ایک چاندنی بچھی ہوئی تھی ہم نے وہاں کھانا کھایا.حضرت ام المومنین کھانا نکال کر دے رہی تھیں اور حضرت صاحب پاس ہی مل رہے تھے اور جہاں تک مجھے یاد ہے نہایت خوش نظر آتے تھے.یقین سے تو نہیں کہ سکتا مگر کچھ یاد آتا ہے کہ حضرت اقدس نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت خلیفہ ثانی سے کہا " محمود یہ تمہارا بھتیجا ہے " صاجزادہ موصوف کو حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر الدین صاحب کی برات میں بھی شمولیت کا فخر حاصل ہو ا روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلدے صفحہ ۲۷۹۷۷/ فروری ۱۹۳۰ء کو آپ کا نکاح محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ (بنت حضرت میر محمد الحق صاحب سے ہوا.خطبہ نکاح خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ( الفضل کے / مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱۸) آپ ایک لمبا عرصہ ایک ممتاز فرض شناس اور دیانت دار افسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت میں رہے اور بالاخر اے.ڈی.ایم کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے.۱۲ / جولائی ۱۹۴۹ء سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت صدر المجمن احمد یہ پاکستان کے ناظر اعلیٰ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں (اب کتاب کی طبع ثانی کے دوران مئی ۱۹۷۱ء (اجرت ۱۳۵۰ ش) سے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ اس خدمت سے سبکدوش ہوئے اور آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف کے لئے ۱۲ ہجرت کو ایک الوادعی تقریب منعقد کی گئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالی نے بھی شرکت فرمائی.(وفات ۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء) ولادت ۱۸۷۹ء وفات ۲۲ / جون ۱۹۵۷ء.طالب علمی کے زمانہ میں جب کہ آپ میٹرک کا امتحان دے رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی پر ایمان لانے کا بھری مجلس میں اعلان کیا جس پر آپ کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا.مگر آپ آخر دم تک نہایت پامردی اور ثابت قدمی سے حق و صداقت پر قائم رہے.بڑے منکسر المزاج، خلیق اور ملنسار بزرگ تھے.میاں عبدالرحیم احمد صاحب ایم.اے.جن کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی سے شرف دامادی حاصل ہوا آپ ہی کے فرزند ہیں.مقبرہ خاص ربوہ کے خاص قطعہ صحابہ میں آپ کا مزار ہے.سے مسیح ۴۰ سکھوں سے مسلمان ہوئے.وسط ۱۹۰۶ء میں قادیان اگر حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.حضرت مولوی

Page 527

۴۷۸ حقیقتہ الوحی " کی تصنیف و اشاعت نور الدین صاحب نے ان کو حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور ان کے مسلمان ہونے کے حالات سے بہت محفوظ ہوئے اور فرمایا کہ ان کا لیکچر ہونا چاہئے چنانچہ انہوں نے ۱۲۹ جون ۱۹۰۶ء کو مسجد اقصی میں لیکچر دیا.جو آپ کا پہلا لیکچر تھا ( روایات صحابہ رجسٹرا صفحہ ۱۹۷ ۲۰۰ د بدر ۱۲ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی تصنیف "چشمہ معرفت " میں سکھ مذہب کے لئے جو مواد مطلوب تھاوہ اکثرو بیشتر شیخ صاحب ہی نے مہیا کیا جس پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.شیخ صاحب کی پوری عمر سکھوں کو تقریر و تحریر کے ذریعہ سے پیغام اسلام پہنچاتے ہوئے گزری.آپ نے ہندی اور گورمکھی دونو زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اور رسول مقبول ﷺ کی سیرت مقدسہ شائع کی جو بہت مقبول ہوئی.علاوہ ازیں دو در جن کے قریب کتب بھی لکھیں.خلافت اوٹی کے محمد میں آپ نے سکھوں میں تبلیغ اور سکھ مسلم اتحاد کی غرض سے ایک اخبار تور " شروع کیا جو ۱۹۳۸ء کے آغاز تک آپ کی ادارت میں باقاعدہ جاری رہا.قادیان سے آپ ہجرت کر کے گوجرانوالہ میں پناہ گزین ہوئے اور ابھی اخبار کے دوبارہ اجراء پر تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ ۶/ مئی ۱۹۵۲ء کو عمر ۲۴ سال آپ کا انتقال ہو گیا.ام ولادت ۱۸۶۵ء وفات ۲۵ / فروری ۱۹۱۷ء - سلسلہ کے ایک پر جوش مقرر مخلص خادم اور بلند پایہ شاعر اور دبلے پہلے اکرے جسم اور متوسط قد کے نہایت سنجیدہ و متین بزرگ تھے.آپ کا کلام " گلدستہ حقانی " کے نام سے شائع ہو چکا ہے.عمر بھر محکمہ تعلیم کی ملازمت میں رہے.آپ کی نیکی ، تقوی شعاری کا یہ اثر تھا کہ آپ کے بہت سے شاگر د سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جماعت احمد یہ راولپنڈی کے پریذیڈنٹ اور امام الصلوۃ بھی تھے.(رساله رفیق حیات اگست ۱۹۲۰ء صفحه ۴۱) ۴۲ ولادت غالبا ۷ ۱۸۸ء قریباً بائیس سال تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور ٹیچر کام کیا.اس دوران میں کئی سال تک ٹیوٹر بھی رہے.یکم نومبر ۱۹۶۲ء کو انتقال فرمایا اور ربوہ کے خاص قبرستان میں دفن ہوئے.بڑے مخلص متدین اور سادہ طبیعت بزرگ تھے.تبلیغ کا بڑا جوش تھا.آپ کے ایک فرزند قریشی سعید احمد صاحب اظہر سلسلہ کے مربی ہیں.

Page 528

تاریخ احمدیت جلد ۲ ٤٤٩ طاعون کا اثر معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت ་ ماموریت کا چھبیسواں سال طاعون کا اشد معاندین سلسلہ پر سخت حملہ اور ان کی پے در پے ہلاکت (819*2) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق ملک میں طاعون کا زور ہر طرف بڑھتا جارہا تھا اور مرنے والوں کی سالانہ تعداد پچھلے چند سالوں میں ہزاروں سے نکل کر لاکھوں تک پہنچ چکی تھی.اس عام تباہی کے علاوہ طاعونی حملے کا حیران کن پہلو یہ تھا کہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے افراد عموماً اور "الدار " خصوصاً بالکل محفوظ و مصون تھے مگر دوسری طرف سلسلہ حقہ کے اشد مخالفین نهایت تیزی کے ساتھ اس کی زد میں آرہے تھے ان میں سے ایک کثیر حصہ ان معاندین کا تھا جنہوں نے حضور علیہ السلام کے خلاف مباہلہ کیا یا بد دعا کی اور پھر خود ہی طاعون سے ہلاک ہو گئے.بعض معاندین جو ہلاک ہوئے.مولوی رسل بابا امر تری جس نے حضور" کے خلاف - گندی کتاب لکھی اور بد زبانی سے کام لیا تھا.طاعون کا شکار ہوا.۲.موضع بھڑی چٹھ تحصیل حافظ آباد میں ایک شخص نور احمد رہتا تھا جس نے معلی کی کہ طاعون ہمیں نہیں مرزا صاحب کو ہلاک کرنے آئی ہے.اس پر ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ وہ مرگیا.۳.مولوی زین العابدین نے ایک احمدی سے مباہلہ کیا.تھوڑے دنوں کے بعد وہ خود اس کی بیوی داماد وغیرہ گھر کے ستر افراد طاعون کا شکار ہو گئے.۴.حافظ سلطان سیالکوئی اپنے خاندان کے نو دس افراد سمیت طاعون سے رخصت ہوا.۵.حکیم محمد شفیع سیالکوئی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرگئے.۶.مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ دہنی اور شوخی میں بڑھ گیا تھا طاعون میں مبتلا ہوا.ے.چراغ الدین جمونی اپنی گستاخیوں کی پاداش میں ہلاک ہوا.۸.مولوی محمد ابو الحسن نے حضرت اقدس کے خلاف کتاب ” بجلی آسمان بر سر دجال

Page 529

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۴۸۰ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت قادیانی لکھی جس میں کئی مقامات پر کاذب کی موت کے لئے بددعا کی آخر جلد ہی طاعون سے مرگیا.ابو الحسن عبد الکریم نام نے جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا چاہا تو وہ بھی طاعون کا شکار ہو گیا.۱۰.اسی طرح ایک شخص فقیر مرزا دوالمیال ضلع جہلم کا رہنے والا تھا.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بہت کچھ بد زبانی کر کے یہ تحریری پیش گوئی کی کہ ” میرزا غلام احمد صاحب کا سلسلہ ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ تک ٹوٹ پھوٹ جاوے گا اور بڑی سخت درجہ کی ذلت وارد ہو گی جسے تمام دنیا دیکھے گی".یہ پیش گوئی ۷ / رمضان کو لکھی گئی تھی سو اگلے سال جب دو سرار مضان آیا تو اس کے محلہ میں طاعون نمودار ہو گئی اور پہلے اس کی بیوی پھر خود فقیر مرزا سخت طاعون میں مبتلا ہو گیا اور آخر پورے ایک سال بعد عین ۷ / رمضان کو بتاریخ ۱۷/ نومبر ۱۹۰۴ء نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھتے ہوئے اٹھ گیا.غرض کہ جو بھی حضور کے مقابل آیا د ہی مارا گیا.جس نے حضور کے خلاف طاعون پڑنے کی بد دعا کی وہ بد دعا خود اسی پر پڑی.یہ تو ۱۹۰۷ء سے قبل کی بعض اموات ہیں.اس کے بعد گو طاعون کی عام تباہ کاریاں نسبتاً کم ہو گئیں مگر اب اس کا زور سلسلہ احمدیہ کے اشد معاندین کی طرف پہلے سے بھی بڑھ گیا اور ان کا جلد جلد خاتمہ ہونے لگا چنانچہ ۱۹۰۷ء میں جو کمفر و مکذب طاعون سے ہلاک ہوئے ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں."شجھ چتک " اخبار کا پورا عملہ (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) مولوی الهی بخش صاحب اکو شنسٹ عبد القادر صاحب پنڈوری ، ظفر احمد صاحب پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور.سعد اللہ لدھیانوی کی ہلاکت ۱۹۰۷ء میں جو معاند طاعون کا شکار ہوئے ان میں سب سے زیادہ بدگو مولوی سعد اللہ لدھیانوی نو مسلم تھا جس کی وفات جنوری ۱۹۰۷ ء کے پہلے ہفتہ میں ہوئی.اس شخص نے ابتداء ہی سے سلسلہ کی مخالفت انتہاء تک پہنچادی تھی اور سب و شتم سے بھری ہوئی تحریرات نظم و نثر میں شائع کیں.اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے سعد اللہ لدھیانوی نے اپنی کتاب "شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب" میں حضور کی ہلاکت و تباہی کی پیش گوئی کی کہ.اخذ یمین و قطع و تین است بهر تو بے رونقی و سلسلہ ہائے مزوری اکنوں یا صطلاح شما نام ابتلا است آخر بروز حشر و پایین دار خاسری یعنی خدا کی طرف سے تیرے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگ جاں کاٹ دے گا.تب تیرے مرنے کے بعد یہ تیرا جھوٹا سلسلہ تباہ ہو جائے گا.اور اگر چہ تم لوگ کہتے ہو کہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں مگر آخر تو حشر کے دن نیز اس دنیا میں نامراد رہے گا.

Page 530

تاریخ احمدنت جلد ۲ طاعون کا مشا ندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ۲۹/ ستمبر ۱۸۹۴ء کو بذریعہ الہام خبر دی کہ "ان شانئک هو الابتر - " یعنی (سعد اللہ تیرا دشمن خود ابتر اور مقطوع النسل مرے گا.سعد اللہ یہ پیش گوئی غلط ثابت کرنے کے لئے بارہ برس تک اپنی کثرت اولاد اور حضور کی موت اور تباہی کے لئے دعائیں کرتا رہا.اس حسرت پر اس کے یہ اپنے اشعار کافی ہیں جو اس نے ” قاضی الحاجات " کی سرخی سے شائع کئے.زازواج جگر گوشہ باداری اے بے نیاز دلے چند زاں یا گرفتی تو باز دل من بنعم البدل شاد کن بلطت از غم غصہ آزاد کن و اولادم اے ذوالمنن بود ہریکے قرة العین من جگر پار ہائے که رفتند پیش زمبور کی شان دلم ریش ریش یعنی اے خدائے بے نیاز تو نے تو مجھے اولاد تو بخش مگر ان میں سے بعض کو واپس بلا لیا.اب ان کے عوض اور اچھی اولاد دے کر میرا دل خوش کر دے اور اپنے لطف وکرم سے مجھے رنج و غم سے آزاد کر.اے محسن میری ازواج و اولاد میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے.اور جو جگر کے ٹکڑے مجھ سے آزاد ہو چکے ہیں ان کے غم سے میرا دل پارہ پارہ ہو چکا ہے.ان درد ناک اشاعت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اولاد نہ ہونے اور ہو کر مرجانے سے کس قدر حسرتیں سعد اللہ کے دل میں بھری ہوئی تھیں اور کس طرح اس کی زندگی بے قراری اور اضطراب میں سے گزر رہی تھی.حقیقتہ الوحی میں حضور کی طرف سے سعد اللہ کو چیلنج حضرت اقدس نے "حقیقتہ الوحی" میں سعد اللہ کے ابتر رہنے کی پیش گوئی کو اپنا ایک سو ستاسٹھواں نشان قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا " سعد اللہ پر فرض ہے کہ اس پیش گوئی کی تکذیب کے لئے یا تو اپنے گھر اولاد پیدا کر کے دکھلاوے اور یا پہلے لڑکے کی شادی کر کے اولاد حاصل کر اکر اس کی مردمی ثابت کرے.اور یاد رکھے کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات اس کو ہر گز حاصل نہیں ہوگی کیوں کہ خدا کے کلام نے اس کا نام ابتر رکھا ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو وہ ابتر ہی مرے گا."

Page 531

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۴۸۲ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت خواجہ کمال الدین صاحب کی گھبراہٹ حقیقتہ الوحی کا یہ حصہ ابھی پریس میں بھی نہیں گیا تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وکیل گھبرائے اور حضرت اقدس کا بصیرت افروز جواب ہوئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قانونی نقطہ نگاہ سے اس کی اشاعت مناسب نہیں.حضور نے سعد اللہ کے متعلق ابتر تحریر فرمایا ہے.حالانکہ ابھی وہ خود زندہ ہے اس کا لڑکا بھی زندہ ہے.اور حضور نے لکھ دیا ہے کہ وہ لڑکا اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے آگے نسل چل سکے.اس پر اگر وہ چاہے تو عدالت میں استغاثہ کر سکتا ہے.پھر قانون کی سزا سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور حکومت ضرور سزا دے گی اس لئے یہ وحی مصلحت پر وہ اختفاء میں رکھی جائے.حضور نے ایک گونہ خفگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا خواجہ صاحب آپ کوئی فکر نہ کریں اگر مقدمہ ہمارے خلاف چل بھی گیا تو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے.نیز فرمایا کہ میرے نزدیک تو صحیح راہ یہی ہے کہ الہام کی تعظیم مقدم ہے اور اس کا اخفاء اللہ تعالی کی معصیت اور کمینگی !! یاد رکھو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور اللہ کے حکم کے بعد مجھے حکام کے عتاب کی قطعاً پروا نہیں ہے.ہم جناب الٹی میں (جو ہر فضل کا سرچشمہ ہے) دعا کریں گے.اور اگر قضاء و قدر میں ہمارے لئے مصیبت لکھی ہے تو ہم اسی ذلت کی زندگی پر ہی راضی ہیں مگر خدا کی قسم وہ اس شریر کو مجھ پر ہرگز مسلط نہیں کرے گا.اس پر خدا کی آفت نازل ہوگی اور میں جو اس کی پناہ کا طالب ہوں محفوظ رہوں گا.اس واقعہ کے بعد حضور نے تین روز تک سعد اللہ کی موت کے لئے دعائیں کیں جس پر حضور پر وحی نازل ہوئی کہ رُبَّ اشْعَثَ اغْبَرَ لَوْ ا قسَمَ عَلَى اللهِ لا بد یعنی بعض لوگ جو عوام کی نگاہ میں پراگندہ مو اور غبار آلود ہوتے ہیں جناب ابھی میں وہ مقام رکھتے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا جا ئیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری کر دیتا ہے.سعد اللہ کی ابتر موت حضور کی بددعا اور اس الہام پر ابھی صرف چند راتیں ہی گزریں تھی کہ سعد اللہ کو جنوری ۷ ۱۹۰ ء کے پہلے ہفتہ میں پلیگ ہوا.اور وہ ہزار حسرتوں کے ساتھ اس جہاں سے چل بسا.اس کے لڑکے کی نسبت حاجی عبدالرحیم کی دختر سے ہو چکی تھی اور عنقریب شادی ہونے والی تھی مگر اسے یہ بھی نصیب نہ ہوا کہ اپنے اکلوتے لڑکے کی شادی دیکھ لیتا.سعد اللہ کی موت کے بعد اس کے بیٹے نے گو شادی کرلی مگر لمبا عرصہ زندہ رہنے کے باوجود تمام عمر لا ولد رہ کر ۱۲ جولائی ۱۹۲۶ء کو موضع کرم کلاں (ضلع لدھیانہ) میں فوت ہوگیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 532

تاریخ احمدیت.جلد ۲ WAY طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی بلاکت پیش گوئی ہر لحاظ سے لفظاً لفظاً پوری ہو گئی.قادیان کے آریوں کی گندہ دہنی اور تصنیف و اشاعت رسالہ " قادیان کے آریہ اور ہم " 33 قادیان کے آریہ سماج اگر چہ ابتداء ہی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زور شور سے مخالفت کرتے آرہے تھے مگر ۶ - ۱۹۰۵ ء میں ان کی شوخی اور بے باکی انتہاء کو پہنچ گئی.ایک تو انہوں نے مدرسہ تعلیم الاسلام" کو ناکام کرنے کے لئے دیا نند جوبلی سکول کھولا.دوسرے سلسلہ احمدیہ کو بد نام کرنے اور اس کے مقدس پیشوا کی ہتک کے لئے قادیان سے "شجھ چتک" کے نام سے ایک اخبار جاری کیا.سو مراج اس اخبار کا ایڈیٹر مقرر ہوا.اچھر چند اس کا مینجر اور بھگت رام اس کا بھائی سرگرم معاون! اس اخبار نے گالیوں اور گستاخیوں کی حد کر دی.بعد ازاں تیسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ عین جلسہ سالانہ (۲۷/ دسمبر ۱۹۰۶ء) کے موقعہ پر جب کہ حضرت اقدس اپنے دو ہزار کے قریب فدائیوں اور جاں نثاروں کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں مصروف نماز تھے ایک زبان دراز آریہ نے حضور اور حضور کے خدام کو نہایت مغلظ گالیاں دینا شروع کر دیں اور جب تک نماز جاری رہی وہ دریدہ دہن بھی برابر بد زبانی کرتا اور گند اچھالتا رہا.اور یہ سب کچھ بٹالہ کے ڈپٹی انسپکٹر پولیس کی موجودگی میں ہوا.حضرت اقدس کی طرف سے صبر کی نماز ختم ہوئی تو حضور نے یہ دیکھ کر ان گالیوں نے بہت سے دلوں کو مجروح کیا ہے بڑی مئوثر تلقین اور آریوں پر اتمام حجت تقریر فرمائی جس کا ملخص یہ تھا کہ سب رنج و غم دلوں سے نکال دو.خدا تعالی دیکھتا ہے اور وہ ظالم کو آپ سزا دے گا اور قادیان کے ہندو سب سے زیادہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں کیوں کہ انہوں نے خدا کا یہ عظیم الشان نشان دیکھا ہے کہ آج سے چھبیس سال قبل جب کہ میں بالکل گوشہ گمنامی میں تھا خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ ہزاروں لاکھوں انسان ہر ایک راہ سے تیرے پاس آدیں گے یہاں تک کہ سڑکیں گھس جائیں گی اور ہر ایک راہ سے مال آئے گا.یہ پیش گوئی کس شان سے پوری ہو رہی ہے.قادیان کے آریہ بالخصوص لالہ شرمیت اور ملاوائل اس پر گواہ ہیں.پس قادیان کے آریوں پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی ہے مگر یہ لوگ پھر بھی اس زبر دست طاقتوں والے خدا سے نہیں ڈرتے جو ایک دم میں معدوم کر سکتا ہے.

Page 533

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۸۴ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت اخبار "شجھ چتک" کی تکذیب اور اخبار "شجھ چتک" نے حضرت اقدس" کی اس تقریر یر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ قادیان کے آریہ اور ہم" کی تصنیف بالکل کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور نہ یہ لالہ صاحبان ہی ان کے گواہ ہیں چنانچہ اس پر حضور نے ایک فیصلہ کن رسالہ ”قادیان کے آریہ اور ہم " کے نام سے ۲۰/ فروری ۱۹۰۷ء کو شائع فرمایا.اس رسالہ میں حضور نے بطور نمونہ چند نشانات پیش کر کے ملاد امل اور لالہ شرمیت کو چیلنج دیا کہ وہ خدا کی قسم کے ساتھ مجھ سے فیصلہ کریں اور خواہ مقابل پر اور خواہ تحریر کے ذریعہ سے اس طرح پر خدا کی قسم کھا ئیں کہ فلاں فلاں نشان جو نیچے لکھے گئے ہیں ہم نے نہیں دیکھے.اور اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو خدا ہم پر اور ہماری اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے.نیز لکھا کہ " یہ لوگ اس طرح پر قسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے.تب بھی میں امید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں ہی خدا ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.کیوں کہ خدا تعالی کی پیش گوئی کی بے عزتی خدا کی بے عزتی ہے." اخبار "شجھ چتک" کے عملہ کی طاعون سے ہلاکت اس ماہ یعنی فروری ۱۹۰۷ء میں جب کہ یہ کتاب شائع ہوئی اچھر چند مینجر اخبار اور سیکرٹری آریہ سماج قادیان نے ایڈیٹر الحکم شیخ یعقوب علی صاحب تراب سے ایک گفتگو کے دوران میں کہا کہ میں بھی مرزا صاحب کی طرح دعوی کرتا ہوں کہ طاعون سے کبھی نہیں مروں گا.خدا کی قدرت! چند روز کے اندر اندر "شبھ چتک" کا پورا عملہ طاعون کا شکار ہو گیا اور خدا کے اس قہرنے ان کی اولاد اور اہل و عیال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا.چنانچہ سب سے پہلے سو مراج اور بھگت رام کی زینہ اولاد لقمہ طاعون ہوئی پھر بھگت رام اور اچھر چند چل ہے.باقی رہا سو مراج وہ بھی اپنے گھر اور اپنے جگری دوستوں کی تباہی وبربادی کا دردناک نظارہ دیکھنے کے بعد سخت بیمار ہو گیا.اس نے گھبرا کر حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل کو کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں آپ مہربانی فرما کر علاج کریں.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک عریضہ لکھ کر پوچھا کہ سو مراج نے مجھ سے علاج کرنے کے لئے درخواست کی ہے حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا " آپ علاج ضرور کریں کیوں کہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے مگر میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ یہ شخص بچے گا نہیں." چنانچہ حکیم بسمل صاحب کے ہمدردانہ ردیہ کے باوجود سو مراج کی حالت بد تر ہوتی گئی اور وہ آخر دوسرے روز ۴ بجے کے قریب اپنے ا

Page 534

تاریخ احمد بیت جلد ۲ ساتھیوں سے جا ملا.۴۸۵ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت ایڈیٹر شجھ چتک" کی آخری تحریر پنڈت سومراج نے ایک دوسرے آریہ اخبار " پر کاش" کے نام ایک چٹھی بطور معذرت لکھی تھی جو ٹھیک اس دن شائع ہوئی جس روز پنڈت سو مراج اس دنیا سے رخصت ہوا.یہ چٹھی بجائے خود ان مصائب و حوادث کا ایک خاکہ ہے جو پنڈت سو مراج پر وارد ہو ئیں.چنانچہ اس نے لکھا.یکا یک مہاشہ اچھر چند کی استری اور عزیز بھگت رام برادر لالہ اچھر چند کالڑکا بیمار ہو گئے.خیران کی استری کو تو آرام ہو گیا لیکن لڑکا گزر گیا.اس تکلیف کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا تھا کہ میری استری اور میرا چھوٹا لڑکا عزیز شوراج بیمار ہو گئے.میری استری تو ابھی بہارہی ہے مگر ہو نہار لڑکا پلیگ کا شکار ہو گیا.اس مصیب کو ابھی بھول نہیں گئے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت اور سر آپڑی.اور وہ یہ تھی کہ عزیز بھگت رام جس کے لڑکے کے گزر جانے کا اوپر ذکر کیا ہے بیمار ہو گیا اور چھ روز بیمار رہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گیا.یہی وجہ ہے کہ اب کے ہم گورو کل میں بھی نہیں جاسکے اور اخبار بھی دو ہفتہ سے بند ہے.اور ابھی اپریل کا کوئی پرچہ نکلنے کی آشا نہیں ہے کیوں کہ لالہ اچھر چند جی تو اول کئی ہفتے اسی صدمے سے کام کرنے کے قابل نہیں رہے." احیائے موتی کا بے نظیر نشان گزشتہ سال کی طرح اس سال (۱۹۰۷ء میں) بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ سے احیائے موتی کا ایک بے نظیر نشان ظاہر ہو ا جس نے دنیا کے خصوصی ماہرین امراض کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.اس نشان کی تفصیل خود حضرت اقدس کے الفاظ میں یہ ہے.عبد الكريم نام ولد عبد الرحمن ساکن حیدر آباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے قضاء اور قدر سے اس کو سنگ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا کسولی میں علاج ہو تا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گزرنے کے بعد پھر اس میں آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوف ناک حالت پیدا ہو گئی تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہو گئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مرجائے گا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسوئی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دیا اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی

Page 535

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۸۶ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت علاج بھی ہے.اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیوں کہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مرگیا تو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء ہو گی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالی کی طرف سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالی کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آ گئی.اور جب وہ توجہ انتہاء تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو در حقیقت مردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوف ناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک که چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا.میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہو گئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ ناخدا کا نشان ظاہر ہو اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے." مولوی شاء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ" حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "انجام آتھم " (مطبوعہ جنوری ۱۸۹۷ء) میں جن علماء کو مباہلہ کی دعوت دی تھی ان میں گیارہواں نمبر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا تھا.مولوی صاحب اس پہلی دعوت مباہلہ پر خاموش رہے.البتہ جن دنوں حضور اعجاز احمدی" تصنیف فرما رہے تھے حضور نے ان کی ایک دستخطی تحریر دیکھی جس میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ میں اس طور پر کسی فیصلہ کے لئے خواہش مند ہوں کہ فریقین یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہی مرجائے.جس پر حضور نے اس کتاب میں تحریر فرمایا.اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مرجائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے."

Page 536

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۸۷ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی بلاکت مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کے جواب میں لکھا.چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا.میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ان باتوں پر جرات نہیں." مولوی شاء اللہ صاحب کی پھر مباہلہ پر اس انکار کے بعد انہوں نے اہل حدیث “ میں آمادگی اور اس کی منظوری کا اعلان دوبارہ مہالمہ پر آمدگی کا اعلان شائع کیا.1 جس پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب " ایڈیٹر اخبار بدر قادیان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے اس چیلنج کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ." ۲۵ مولوی ثناء اللہ صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے.وہ بے شک قسم کھا کر بیان کریں کہ یہ شخص (یعنی حضرت مسیح موعود.ناقل ) اپنے دعوئی میں جھوٹا ہے اور بے شک یہ بات کہیں کہ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو لعنتہ اللہ علی الکا زمین.مباہلہ کی بنیاد جس آیت قرآنی پر ہے اس میں تو صرف لعنتہ اللہ علی الکا زمین ہے." البتہ ان کے مقام مباہلہ کے بارہ میں لکھا کہ قرآن کریم نے فتنہ سے بچنے کی تاکید کی ہے.امر تسریا بٹالہ میں مباہلہ کے لئے جمع ہونا فتنہ کو برپا کرنا ہے.کیا ان کو ۱۹۰۵ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر امرتسر میں پتھر برسائے جانے کا واقعہ بھول گیا ہے ؟ کیا اس شہر میں اب مباہلہ تجویز ہو نا مناسب ہے؟ اگر آپ نے امر تسریا بٹالہ کو مقام مباہلہ تجویز کرنے میں گریز کی بنیاد نہیں رکھی تو پھر کیا حرج ہے کہ تحریری مباہلہ ہو جائے.لیکن اگر ان کو زبانی مباہلہ پر ہی اصرار ہے تو ہمیں یہ بھی منظور ہے وہ قادیان شریف لے آئیں.ان کو دس افراد ساتھ لانے کی اجازت ہے.ان کو اخراجات سفر بھی ادا کر دئے جائیں گے اور حفظ امن کی ذمہ داری ہم پر ہوگی.مبالہ کرنے سے پہلے ہمارا حق ہو گا کہ ہم دو گھنٹہ تک اپنے دعاوی اور ثبوت کی تبلیغ کریں اور مولوی صاحب خاموشی سے سنتے رہیں اور بعد میں وہ حلفاً اعلان کریں کہ میں اس تبلیغ کے سننے کے بعد بھی مرزا غلام احمد کے دعاوی کو صحیح نہیں سمجھتا.اگر آخر الذکر مباہلہ کو مولوی ثناء اللہ صاحب پسند کریں تو جب چاہیں وہ آسکتے ہیں.مسودہ مباہلہ کی اشاعت حضرت اقدس کے قلم سے اب مولوی ثناء اللہ صاحب خوف زدہ ہو کر مباہلہ کی بجائے قسم پر آمادہ ہوئے جس پر آپ کو تحریک ہوئی.کہ آپ خود ہی مسودہ مباہلہ شائع فرما ئیں.

Page 537

تاریخ احمد بیت جلد ۲ ۴۸۸ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلا کر حضرت اقدس " اعجاز احمدی" کے زمانہ سے یہ دعا کر رہے تھے کہ مباہلہ کی صورت میں جھوٹے فریق کو عذاب انسانی ہاتھوں سے نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے ۱۴ / اپریل ۱۹۰۷ء کو آپ پر الہام نازل کیا کہ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ " یعنی میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں.مطلب یہ کہ اگر یہ مباہلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ حضور کو زندہ رکھے گا اور فریق مخالف کو ایسا عذاب دے گا جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہو گا.سو حضرت اقدس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو میدان مباہلہ میں لانے کے لئے از خود ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء کو اپنی طرف سے مسودہ مباہلہ شائع کیا جس کا عنوان ہی یہ رکھا کہ مسوده مباہلہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ " مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ " بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ : نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ يَسْتَنْبُونَكَ أَحَقُّ مُرَ - قُلْ إِلَى وَرَنِي إِنَّهُ لَحَقُّ بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب - السَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے.ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردد در کذاب و دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کاذب اور دجال ہے.اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے.میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا.مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے میں مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور ان تمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا.اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا.کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے.اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے.پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ ملک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی دارد نہ ہوئی تو میں خدا کی طرف سے

Page 538

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۸۹ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت نہیں.یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیش گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے.اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے.جو میرے دل کے حالات سے تو واقف ہے.اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات انتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے.آمین.مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر.مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون رہیضہ وغیرہ امراض ملکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے تو بہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھ کو دکھ دیتا ہے.آمین یا رب العالمین.میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بد زبانی حد سے گزر گئی.وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بد تر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہو تا ہے اور انہوں نے ان تمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ علم پر بھی عمل نہیں کی اور تمام دنیا سے مجھے بد تر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دوکان دار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے.سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہیں تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا اور اے میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے.اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتیجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما.اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے.یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر.اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَانْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ - آمِين - بالا خر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس تمام مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں.اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے.الراقم - عبد اللہ الصمد میرزا غلام احمد

Page 539

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۴۹۰ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلا کہ مسیح موعود عافاه الله واید مرقومه ۱۵/ اپریل ۱۹۰۷ء یکم ربیع الاول ۱۳۲۵ھ " * اس دعائے مباہلہ کی اشاعت پر مولوی ثناء اللہ صاحب کا مباہلہ سے انکار و فرار مولوی ثناء اللہ صاحب کو اپنی موت نظر آنے لگی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اگر میں مقابلہ پر موکد عذاب قسم کھاؤں گا تو ہلاک ہو جاؤں گا.چنانچہ انہوں نے نہایت لجاجت سے لکھا کوئی ایسا نشان رکھاؤ جو ہم بھی دیکھ کر عبرت حاصل کریں.مر گئے تو کیا دیکھیں گے." "میرا مقابلہ تو آپ سے ہے.اگر میں مرگیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجت ہو سکتی ہے جب کہ (بقول آپ کے ) مولوی غلام دستگیر قصوری مرحوم مولوی اسمعیل علی گڑھی مرحوم اور ڈاکٹر ڈوئی امریکن اسی طرح سے مرگئے تو کیا لوگوں نے آپ کو سچا مان لیا ہے.ٹھیک اسی طرح اگر یہ واقعہ tt بھی ہو گیا تو کیا نتیجہ." نیز لکھا.یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے." تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی." پھر ساتھ ہی نائب ایڈیٹر کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ بھی شائع کیا کہ :- " قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے.سنو مَنْ كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا )) (((۸) اور اِنَّمَا نَعَلى لَهُمْ لِيَزْدَ ا دُو إِثْمَا ( ۹۴۳) اور وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (پ ۳ ۸۴)...جن کے صاف یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغا باز مفسد اور نا فرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کرلیں." مولوی صاحب نے نائب ایڈیٹر کے اس بیان کو درست تسلیم کیا اور اخبار میں ہی شائع کیا کہ ” میں اس کو صحیح جانتا ہوں.جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کے نزدیک بھی جھوٹے دغا باز مفسد اور نا فرمان کی لمبی عمریں ہوا کرتی ہیں تاکہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام ۳۵ کرلیں.مولوی ثناء اللہ نے مرقع قادیانی بابت ماہ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ 9 میں یہ بھی لکھا "آنحضرت علیہ السلام باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال کر گئے.مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے

Page 540

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۹۱ طاعون کا اشد معالدین پر حملہ اور ان کی ہلاکت صادق سے پیچھے مرا." حضرت اقدس کی طرف سے ایک غلطی کا ازالہ مسودہ مباہلہ کی اشاعت کے چند ماہ بعد کسی غیر احمد ی کا سوال حضور کی خدمت میں پیش ہوا کہ "آپ نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے یہ درست نہیں کیوں کہ مسیلمہ کذاب آنحضرت ﷺ کے بعد فوت ہوا تھا" حضرت اقدس نے فرمایا کہ: صرف جھوٹا نہیں بلکہ جھوٹا مباہلہ کرنے "یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مر جاتا ہے ہم نے تو اپنی تصانیف میں ایسا نہیں لکھا.والا بچے کی زندگی میں ہی بلاک ہو جاتا ہے از پیش کرو وہ کون سی کتاب ہے جس میں ہم لاؤ نے ایسا لکھا ہے.ہم نے تو یہ لکھا ہوا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے.مسیلمہ کذاب نے تو مباہلہ کیا ہی نہیں تھا.آنحضرت ﷺ نے اتنا فرمایا تھا کہ اگر تو میرے بعد زندہ بھی رہا تو ہلاک کیا جائے گا سو ویسا ہی ظہور میں آیا.مسیلمہ کذاب تھوڑے ہی عرصہ بعد قتل کیا گیا اور پیش گوئی پوری ہوئی.یہ بات کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں مرجاتا ہے یہ بالکل غلط ہے.ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ بچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تو وہ بچے کی زندگی میں ہی ہلاک ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے ساتھ مباہلہ کرنے والوں کا حال ہو رہا ہے ".- اللہ تعالیٰ نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو مولوی شاء اللہ صاحب کو منہ مانگانشان دیا گیا خودان کے پیش کردہ معیار اور منہ مانگی خواہش کے مطابق نشان یہ دیا کہ انہیں حضرت اقدس" کی وفات کے بعد ایک لمبا عرصہ زندہ رکھا.انہوں نے عمر بھر احمدیت کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا.متعدد مناظرے کئے اور اتنی کثرت سے مخالفانہ لٹریچر لکھا کہ خود کہا کرتے تھے.قادیان کے متعلق میری کتابیں اتنی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار یاد نہیں " مگر وہ احمدیت کی حیرت انگیز رفتار ترقی کو روکنے میں سرا سر نا کام رہے.

Page 541

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۹۲ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت حواشی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۸۹۶ء سے اپریل ۱۹۰۹ء تک ہندوستان میں طاعونی اموات کی تعداد یہ تھی.۱۸۹۶ء ۲۲۱۹ ۱۸۹۷ء ۴۴۷۹۷۴ ۱۸۹۸ء ۸۹۲۶۵، ۱۸۹۹ء ۱۰۲۲۶۹ ۷۳۵۷۶۶۱۹۰۰ ۱۹۰۱ء ۲۳۶۲۳۶ ۱۹۰۲ء ۴۵۲۹۵۵ ۹۴۰۸۲۱۶۱۹۰۵۴۹۳۸۰۱۰۶۱۹۰۴۴۶۸۴۴۵۶۱۹۰۳ تا اپریل ۳۰۰۳۵۵۴۱۹۰۶.(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا) زیر لفظ پلیگ.حقیقته الوحی صفحہ ۲۲۶ ۳۶۷۱۲۲۷-۳۷۸ د تخمه صفحه ۱۵۹ انعامی اشتهار تین ہزار صفحه ۱۲ مشمولہ انوار الاسلام محمد داعظم جلد دوم صفحه ۱۱۲۴ الانتحاء مشمولہ حقیقته الوحی صفحه ۳ ( طبع اول) - ذکر حبیب صلح ۷۱ اتقریر حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب وذکر حبیب صفحه ۱۵۶ متولقه حضرت مفتی محمد صادق صاحب ا الاستفتاء صفحہ ٣٦ حقیقته الوحی تخمه ( طبع اول صفحه ۲۴۴۲۳۴۵ الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ اور الر جون کے ۱۹۰ء صفحہ ۸ کالم ۲ در سالہ تعلیم الاسلام جلد اول صفحه ۲۳۳ 10 احکم ا ر اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ 19 تفصیل کے لئے دیکھیں تمہ حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۵۲-۱۵۳ قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۳ ۱۰ ( طبع اول) قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۲۴ طبع اول) قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۳۸ ( طبع اول) ۱۳ تخمه حقیقته الوحی صفحه ۱۵۴( حاشیه) - تخمه حقیقته الوحی صفحه ۱۵۴ حاشیه) الحکم الر اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۲۰- در منشور صلح ۶۳ - ۶۴ تقریر حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۰ء بحوالہ الحکم سے ۱ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵ کالم ۲ وه بڑے خلوت پسند اور بڑے متدین انسان تھے.۱۸۹۱ء کے قریب پیدا ہوئے.۱۹۰۶ء میں حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب حیدر آبادی کے ذاتی خرچ پر بغرض تعلیم قادیان آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام کی چوتھی جماعت میں داخلہ لیا.اگلے سال شروع ۱۹۰۷ ء میں ان کے ساتھ باؤلے کتے کے حملے کا وہ حادثہ پیش آیا جس کی تفصیل او پر متن میں ہے.۱۹۰۸ء کی موسمی تعطیلات میں مستقل طور پر اپنے وطن چلے گئے.٩ / رمضان ۱۳۵۸ صبح بمطابق ۲۴ / اکتوبر ۱۹۳۹ء کو انتقال کیا اور احمد یہ قبرستان یاد گیر میں دفن ہوئے ( تفصیل کے لئے دیکھئے اصحاب احمد متولفہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان جلد اول صفحہ ۲۶۱-۲۷۲) 19 تار کے انگریزی الفاظ یہ تھے:.Sorry nothing can be done for Abdul Karim" افسوس ہے عبد الکریم کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا.(تمہ حقیقتہ الوفی صفحہ ۴۸) تار کا عکس الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۸۴ء صفحہ سہ میں شائع ہو چکا ہے.۲۰ تتمہ حقیقته الوحی صفحہ ۴۷۴۶ ۰۲۱ اعجاز احمدی صفحه ۱۲ ۲۲- اعجاز احمد ی صفحه ۳۷ ۲۳ - الهامات مرزا صفحه ۸۵ ( طبع دوم) ۲۴ اہل حدیث ۲۹/ مارچ ۶۱۹۰۷ ۲۵- بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم ۲۱

Page 542

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۹۳ طاعون کا اشد معاندین پر حملہ اور ان کی ہلاکت بدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ کالم (شخص) ۲۷- بدر ۲۵/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۲ ۲۸- بدر ۲۵/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۲ ۲۹- بدر ۱/۱۸ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ کالم " الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ کالم ۱ ۳۰ یه اشتهار قطعی طور پر مسوده مسالہ تھا جس کے متعدد ثبوت ہیں.مثالی (۱) حضرت اقدس نے اس اشتہار کو آخری فیصلہ" سے موسوم فرمایا جو خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی اصطلاح میں مباہلہ ہی کا دوسرا نام ہے.(ملاحظہ ہو تفسیر ثنائی جلد ۲ صفحہ ۴۰ زیر آیت مباہلہ ) (۲) اشتہار کے عنوان میں ” مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ کالفظ بھی اس کے مسودہ مباہلہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے اور یک طرفہ دعا کی نفی.(۳) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بھی اس کے مسودہ مباہلہ ہونے کا اقرار ہے.وہ لکھتے ہیں:.(۱) کرشن قادیانی نے ۱۵/ اپریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار کیا تھا."" وجال قادیانی پر میرے مباہلہ کا اثر " " ان واقعات کو ملحوظ رکھ کر کوئی دانا کہہ سکتا ہے کہ مرزا جی کی دعائے مباہلہ کا اثر کچھ ظاہر ہوا.ابو الوفا کے ساتھ مسالمہ کا اعلان کیا تو اس کا برا اثر بھی آپ ہی پر پڑتا رہا.(ملاحظہ ہو مرقع قادیانی بابت ماہ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸- ۲۴).(ب) " مرزا جی نے میرے ساتھ مباہلہ کا ایک طولانی اشتہار دیا تھا." ( مرقع تاریانی بابت ماہ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) (ج) "وہ اپنے اشتہار مباہلہ ۱۵ / اپریل سے ۱۹۰ ء میں شیخ اٹھا تھا کہ اہل حدیث نے میری عمارت کو ہلا دیا ہے (اہل حدیث ۱۹ / جون ۱۹۰۸ء) (د) آج تک مرزا صاحب نے کسی مخالف سے ایسا کھلا مباہلہ نہ کیا تھا بلکہ ہمیشہ گول گول رکھا کرتے تھے." اشتہار مولوی ثناء اللہ صاحب بعنوان " مرزا صاحب قادیانی کا انتقال اور اس کا نتیجہ ) (۴) مولوی ثناء اللہ صاحب کے سوانح نگار کو بھی یہ مسلم ہے کہ یہ دعا مسودہ مباہلہ تھی.چنانچہ مولوی عبد المجید صاحب سوہدروی سیرت ثنائی صفحہ ۷۲ او پر لکھتے ہیں ” میرزا صاحب قادیانی نے اس مباہلہ سے متعلق جو اشتہار شائع کئے...وہ تاریخی اشتہار ذیل میں بھنہ نقل کرتے ہیں " اس کے بعد انہوں نے "مولوی شاء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ " کے اشتہار کا مکمل متن درج کیا ہے جو اس کے مسودہ مباہلہ ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے.لیکن چونکہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کوئی اعتراض دارد نہیں ہو سکتا تھا اس لئے انہوں نے سراسر خلاف واقعہ یہ بات بھی لکھ دی کہ حضرت مولانا مرحوم (یعنی مولوی شاء الله صاحب.ناقل ) نے یہ مباہلہ قبول کیا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مرزائے قادیان ۲۶ / مئی ۱۹۰۸ء کو ہلاک ہو گئے." (سیرت ثنائی صفحہ ۱۷۲) ۱ اخبار بد ر نمبر جلد ۶ - ۱۸ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ۳۲ اخبار وطن ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۱۱ ۳۳ اخبار اہل حدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۵ - اخبار اہل حدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۵ -۳۵ اخبار اہل حدیث ۲۶ / اپریل ۱۹۰۷ء صفحه ۵ صفحه ۲ حاشیه اخبار اہل حدیث ۳۱/ جولائی ۱۹۰۷ ء.مزید تحقیق و تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نا نظر اشاعت و تصنیف کا تحقیقی مقاله "آخری اتمام حجت "ناشر نظارت اشاعت لٹریچرو تصنیف ربوہ.دسمبر ۶۱۹۷۳ ۳۷- الحکم ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۹ کالم ۳۱ ۳۸ اہل حدیث کا مذہب شائع کردہ " جمیعتہ اہل حدیث لاہور " ۳۹ خود مولوی صاحب کی زندگی کے آخری ایام کسی درجہ بے بسی اور غم و اندوہ میں گزرے اس کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو "سیرت ثنائی صفحه ۳۸۸ تا ۱۳۹۷ متولفه مولوی عبد المجید صاحب سوہد روی) یہ حالت پڑھ کر دل کانپ اٹھتے اور صاحب بصیرت انسان عبرت حاصل کرتے ہیں.

Page 543

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۹۴ مکمکلی شورش میں جماعت کو نصیحت ملکی شورش میں حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصیحت " تقسیم بنگال" کے نتیجہ میں جو شورش اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس نے ۱۹۰۷ء کے آغاز میں زیادہ خطرناک صورت اختیار کرلی.لہذا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۷ / مئی ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار میں اپنی جماعت کو پر زور نصیحت و ہدایت فرمائی کہ وہ ملکی شورش سے بالکل الگ رہے.اس سلسلہ میں ۱۲ / مئی ۱۹۰۷ء کو ۵ بجے شام ایک جلسہ بھی منعقد کیا گیا جس میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے جلسہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی صدر جلسہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے قیام امن پر تقاریر فرمائیں.حضرت حکیم الامت نے باالخصوص اس طرف توجہ دلائی کہ حکومت سے سب سے زیادہ فائدہ ہندوؤں نے اٹھایا ہے کروڑوں کی جائداد ہر سال مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوؤں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے.سرکاری ملازمتوں میں دیکھو تو تمام بڑے بڑے عہدے علی العموم ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں اور کیا مجال ہے کہ کسی مسلمان کو معمولی دفتر کی کلر کی بھی لینے دیں ہاں چپڑاسی وغیرہ مسلمان رکھ لئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہندوؤں ہی نے سب سے زیادہ ناشکری کی اور ان سے اس سے زیادہ کچھ امید بھی نہیں ہو سکتی کیوں کہ جو مشرک اپنے حقیقی محسن خالق مالک کو چھوڑ کر ایک پتھر کے آگے سرجھکاتا ہے اس سے کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کے احسان کو شکریہ کے ساتھ دیکھے گا؟ الواح الهدی" کی تجویز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو روز و شب یہ فکر رہتا تھا کہ کسی طرح دنیا میں تقوی و نیکی قائم ہو.شاید ہی حضور کی کوئی تصنیف ایسی ہو جس میں تزکیہ نفس کے ذرائع نہ بیان کئے گئے ہوں اور اخلاق حسنہ کے حصول کے وسائل کا تذکرہ نہ ہو مگر اس سال حضور کے دل میں یہ تجویز آئی کہ احمد بی تقوی اور تزکیہ نفس کے ضروری اصول لکڑی کے تختیوں پر لکھ کر دیواروں یا دروازوں پر لٹکا دیں تا ان پر ہر وقت نظر پڑتی رہے اس تجویز کا چر چاچند روز تک رہا مگر دیگر ضروری کاموں کے سبب پھر اس طرف توجہ نہ رہی.

Page 544

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۴۹۵ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت سفر بٹالہ حضرت ام المومنین اور حرم حضرت مولوی نور الدین صاحب اپنے صاحبزادگان سمیت حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ تبدیلی آب وہوا کی غرض سے ۴/ جولائی ۱۹۰۷ء سے لاہور گئے ہوئے تھے اور انہیں ۱۴ / جولائی ۱۹۰۷ ء کو ایک بجے کی گاڑی سے بٹالہ واپس پہنچنا تھا لہذا حضرت اقدس ان کے استقبال کے لئے چند خدام کے ہمراہ ۱۴ جولائی کی صبح کو بٹالہ تشریف لے گئے.حضور صبح پانچ بجے کے قریب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے اور دس بجے کے قریب بٹالہ پہنچے اور اسٹیشن کے قریب قیام فرمایا.تحصیل دار بٹالہ رائے جسمل صاحب حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور بتایا کہ میں شہر سے باہر رہتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ باہر رہنا بہتر ہے کیوں کہ شہر میں اکثر طاعون کا خوف ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگ اصلاح عمل کی طرف توجہ نہیں کرتے اور جب تک کہ اصلاح عمل نہ ہو گا یہ عذاب دور نہ ہوگا.ایک دفعہ ایک انگریز اور ایک دیسی افسر ٹیکہ لگانے کے واسطے قادیان میں آئے.تب ہم نے اپنی کتاب "کشتی نوح " کا ایک نسخہ اس کو بھیجا تھا جس کا انگریزی میں ترجمہ سن کر انگریز نے کہا کہ سچ تو یہی ہے جو اس کتاب میں لکھا ہے باقی تو سب حیلے ہی ہیں.اصلی علاج یہی ہے.پس یہ آسمانی اور روحانی باتیں ہیں اور زمینی لوگ ان کو نہیں سمجھ سکتے.غرض حضور نے بڑے لطیف پیرایہ میں ان تک پیغام پہنچایا.واپسی حضور بٹالہ میں چند گھنٹہ قیام فرمار ہے اور شام کو اپنے اہل بیت سمیت دار الامان پہنچ گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات جیسا کہ ۱۸۹۹ء کے حالات میں گزر چکا ہے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولادت سے قبل ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے متعلق الهاما خبر دی گئی تھی کہ اتن اسْقُطُ مِنَ اللهِ وَأصيب - یعنی میں رو بخدا ہوں گا یا جلد فوت ہو جاؤں گا.علاوہ ازیں ان کی ولادت کے بعد حضور کوے.۱۹۰۶ ء میں بھی مختلف الہامات و کشوف کے ذریعہ سے بار بار ان کی وفات کی اطلاع ملی.چنانچہ ان آسمانی خبروں کے عین مطاب حضرت صاحبزادہ صاحب ۱۶/ ستمبر۷ ۱۹۰ء کو بوقت صبح انتقال فرما گئے.

Page 545

تاریخ احمد بیت - جلد ۴ ۴۹۶ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت صبر کاشان دار نمونه صاحبزادہ صاحب حضرت اقدس کے سب سے چھوٹے بچے تھے اس لئے حضور کو بھی طبعا ان سے بہت محبت تھی.مگر حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات پر حضور نے صبر و تحمل کا بے نظیر نمونہ دکھایا.حضرت صاحبزادہ صاحب بیمار ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات ان کی تیمارداری میں مصروف رہتے تھے اور بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ ان کے علاج میں مشغول رہتے تھے.اور چونکہ حضرت صاحب کو ان سے بڑی محبت تھی اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ فوت ہو گئے تو حضرت صاحب کو بڑا صدمہ گزرے گا جس وقت صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہونے لگے تو وہ سوئے ہوئے تھے.حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے ان کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ نبض میں بہت کمزوری ہے کچھ کستوری دیں.حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے.مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے.اس وقت در اصل مبارک احمد فوت ہو چکے تھے مگر حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آکر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب فوت ہو چکے ہیں.اس پر حضور نے انا للہ و انا اليه راجعون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور بڑے جذبہ کے ساتھ بیرونی احباب کو خط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے اور ہم کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا چاہئے.اور مجھے بعض الہاموں سے بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکا یا تو بہت خدا رسیدہ ہو گا یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا.سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہئے کہ خدا کا کلام پورا ہوا.باغ میں تقریر حضرت صاجزادہ صاحب کا جنازہ مدرسہ میں پڑھا گیا اور نعش مبارک بہشتی مقبرہ میں دفن کرنے کے لئے لے گئے.قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی اس لئے حضور قبر سے کچھ فاصلہ پر باغ میں بیٹھ گئے اور ایک ایمان افروز تقریر فرمائی جس کے لفظ لفظ سے صبرو رضا کی جھلک نمایاں ہوتی تھی.حضور نے فرمایا میں تو اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی.گھر کے آدمی اس کی بیماری میں بعض اوقات بہت گھبرا جاتے تھے.میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ آخر نتیجہ موت ہی ہونا ہے یا کچھ اور ہے.مجھے بڑی خوشی اس بات کی بھی ہے کہ میری بیوی کے منہ سے سب سے پہلا کلمہ جو نکلا ہے وہ ہی تھا کہ انا للہ وانا اليه راجعون اور کوئی جزع فزع نہیں کی.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ

Page 546

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۴۹۷ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی کوشش اور محنت سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اسی واسطے ادعونی استجب لکم میں اللہ تعالٰی نے کوئی بشارت نہیں دی مگر ولنبلونکم بشيئي...الا یہ میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی کی طرف بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا کو راضی کر سکتا ہے نہیں تو اگر خدا کے ساتھ شریک بن جاوے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے چلانا چاہے تو یہ ایک خطرناک راستہ ہو گا جس کا انجام ہلاکت ہے.ہماری جماعت کو منتظر رہنا چاہئے کہ اگر کوئی ترقی کا ایسا موقع آجاوے تو اس کو خوشی سے قبول کیا جاوے." A اخلاق و شمائل حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب نہایت درجہ تشکیل اور پاک صورت و سیرت تھے اور اپنی صغرسنی کے باوجود روحانی اور دینی باتوں میں اتنا شغف اور لگاؤ تھا کہ لوگ اکثر انہیں ولی قرار دیتے تھے.وفات سے ایک رات قبل حضرت صاحب زادہ صاحب نے حضرت اقدس کو بلایا اور حضور سے مصافحہ کیا جیسے کوئی رخصت ہوتا اور آخری ملاقات کرتا ہے.ان کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ ۱/۴ اپریل ۱۹۰۵ ء والے خوف ناک زلزلہ سے قبل ان کی زبان پر اکثر دفعہ " زمین مل گئی" کے الفاظ جاری رہتے تھے.بیماری کے دوران کسی نے خواب دیکھا کہ آپ کی شادی ہو رہی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں موت مل جاتی ہے چنانچہ حضور کے ارشاد پر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے (۳۰/ اگست ۱۹۰۷ء کو نماز عصر کے بعد) صاجزادہ صاحب کا نکاح مریم بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب سے پڑھا مگر خدا کا کلام پورا ہوا اور آپ داغ مفارقت دے گئے.آپ کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رقت آمیز نظم کی جو آپ کے لوح مزار پر درج ہے جو یہ ہے:.جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھے کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اس پہ اے دل تو جاں فدا کر

Page 547

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۴۹۸ ”وقف زندگی کی پہلی منتظم تحریک ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت احمدیت کا پیغام اب تک محض خدا تعالٰی کے خاص تصرفات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب وغیرہ سے پہنچ رہا تھا.واعظین کا کوئی باقاعدہ نظام اس غرض کے ئے موجود نہیں تھا.لیکن اب چونکہ سلسلہ کا کام بہت بڑھ چکا تھا اور ایک تنظیم کے ساتھ اندرون ملک اور بیرونی دنیا کو حق پہنچانے کی ضرورت شدت محسوس ہو رہی تھی اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر ۱۹۰۷ء میں جماعت کے سامنے ”وقف زندگی " کی پر زور تحریک فرمائی.ابتدائی واقفین زندگی اس تحریک پر قادیان میں مقیم نوجوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کی درخواستیں حضور کی خدمت میں پیش کیں.حضرت اقدس کی ڈاک کی خدمت ان دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد تھی اس لئے حضرت اقدس نے مفتی صاحب ہی کو ہدایت فرمائی کہ ایسے واقفین کی فہرست بنا ئیں چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے ایک رجسٹر کھول دیا.ابتداء جن اصحاب نے زندگی وقف کی ان کے نام یہ ہیں.شیخ محمد تیمور صاحب طالب علم علی گڑھ کالج ( ان کی درخواست پر حضور نے لکھا ” بعد پورا کرنے تعلیم بی.اے اس کام پر لگیں " ۲.چوہدری فتح محمد صاحب سیال (ان کی درخواست پر حضور نے تحریر فرمایا منظور ) ۳- مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (ان کی درخواست پر حضور نے لکھا " آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں ) ۴.میاں محمد حسن صاحب دفتر رساله ریویو آف ریلیجنز ان کی درخواست پر حضور نے لکھا ” قبول ہے ) ۵.مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر ( حضور نے ان کی درخواست پر تحریر فرمایا " منظور ۶.صوفی غلام محمد صاحب طالب علم بی.اے (حضور نے ان کی درخواست پر لکھا بی.اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد اس کام کے واسطے طیار ہو جائیں " ے.مولوی محمد دین صاحب طالب علم علی گڑھ کالج ( ان کی درخواست پر حضور نے لکھا ” نتیجہ کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں.شیخ عبدالرحمن صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ ( ان کی درخواست پر حضور نے لکھا سلسلہ کی پوری واقفیت پیدا کرلیں) ۹ - اکبر شاہ خان صاحب نائب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام ہائی سکول ( ان کی درخواست پر حضور نے لکھا ” وقت پر آپ کو یاد کیا جائے گا") ۱۰ مولوی عظیم اللہ صاحب ساکن نامجہ (ان کی درخواست پر حضور نے تحریر فرمایا "وقت پر آپ کو یاد کیا جائے گا.مولوی فضل دین صاحب -۱۲ خواجہ عبد الرحمن صاحب ۱۳.قاضی محمد درسه

Page 548

۴۹۹ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت عبد اللہ صاحب ( ان کی درخواست پر حضور نے تحریر فرمایا ” خط کے مضمون سے آگھی ہوئی.امید ہے آپ کو انتظام کے وقت میں یاد کروں گا اور مناسب جگہ میں خدمت دین کے لئے بھیجوں گا.مناسب ہے اپنا نام مفتی صاحب کے رجسٹر میں درج کرا دیں.والسلام مرزا غلام احمد ) حضرت اقدس نے ان سب درخواستوں پر اظہار خوشنودی فرمایا اور ۲۵ اور ۲۹/ ستمبر ۱۹۰۷ء کو اس سلسلہ میں نہایت قیمتی نصائح فرما ئیں جو مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں.حضور کی سکیم یہ تھی کہ ابتداء میں ۲ او اعطین کا انتخاب کیا جائے جو قریبی اضلاع میں متعین ہوں اور دو ایک ماہ تبلیغ میں باہر گزار دیں پھر دس پندرہ روز کے لئے مرکز میں آجایا کریں.کچھ لٹریچر ان کے پاس موجود ہو تا جہاں مناسب سمجھیں وہاں تقسیم کریں.وقف زندگی کی شرائط حضرت اقدس صحیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے " وقف زندگی" کی تحریک کا اعلان کرنے کے بعد میر حامد شاہ صاحب سے اس کی شرائط لکھوائیں اور کچھ اصلاح کے ساتھ ان کو پسند فرمایا.ان شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ " میں کوئی معاوضہ نہ لوں گا.چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا." ہوگی.ایک ضروری ہدایت حضور نے یہ دی کہ واقفین کو ہر ہفتہ باقاعدگی سے اپنی رپورٹ بھیجوانی HA تحریک " وقف زندگی کی بنیاد گو حضرت اقدس علیہ السلام ہی کے ہاتھ سے رکھی گئی.مگر حضور کی زندگی میں اپنے نام پیش کرنے والے واقفین کو اندرون ملک یا بیرون ملک میں بغرض تبلیغ مقرر کرنے کی نوبت نہیں آسکی.تاہم حضور کے مشاء مبارک کی تکمیل خلافت ثانیہ کے زمانہ میں ہوئی جس کا تفصیل کے ساتھ ذکر انشاء اللہ تعالی خلافت ثانیہ کے عہد کے واقعات میں کیا جائے گا.آریہ سماج لاہور وچھووالی کی مذہبی کانفرنس کے لئے حضرت اقدس کا مضمون آریہ سماج لاہور وچھو والی نے نو میرے ۱۹۰ ء میں اپنے تیسویں ۲۳ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک نے ہی کانفرنس منعقد کرنے کا اشتہار دیا اور لکھا کہ مختلف مذاہب کے دوران نہایت مہنہ بانہ رنگ میں اس سوال پر روشنی ڈالیں گے کہ کیا کوئی کتاب الہامی ہو سکتی ہے.اور اگر ہو سکتی ہے تو کون سی؟

Page 549

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۰ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت سیکرٹری آریہ سماج ڈاکٹر چہ نجیو بھاردواج نے اس اشتہار کے علاوہ حضور کی خدمت میں کئی انکسار کے خط لکھنے اور عاجزانہ درخواست کی کہ آپ بھی ان سوالات کے جواب لکھیں کہ ہم لوگ آپ کے درشن کے بھی مشتاق ہیں مگر حضور کو چونکہ اس ملمع دار اشتہار اور انکساری کے خطوط پر اعتماد نہیں تھا اس لئے آپ نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا.مزید براں اخبار الحکم (۱۰/ نومبر۷ ۱۹۰ء) نے نوٹ شائع کیا کہ اشتہار کے مطابق مذہبی کانفرنس کے لئے صرف چند گھنٹے مخصوص کئے گئے ہیں.آریہ سماج کو اگر نہ ہی شوق تھا تو وہ کئی دن اس غرض کے لئے رکھ سکتی تھی.پس یہ اشتہار محض نمائشی ہے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا اصرار اس نوٹ کی اشاعت کے بعد آریہ سماج لاہور اور حضور کی طرف سے رضامندی نے مذہبی کا نفرنس کے لئے چار دن (۴۴۳۴۲ ۵- دسمبر ۱۹۰۷ء) مقرر کر دئے.اس دوران میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن لاہور بھی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آریہ سماج کا سیکرٹری میرا دوست ہے اس نے پختہ یقین دلایا ہے کہ اس جلسہ میں مذاہب کے متعلق کوئی دل شکنی کی بات نہ ہو گی بلکہ وہ اس بات کے لئے گویا قسم کھانے کو بھی تیار ہو گئے.Wa حضرت اقدس نے ان کی طرف سے جو اس قدر اصرار دیکھا تو جلسہ میں مضمون بھجوانے کے لئے رضامند ہو گئے اور اپنے خدام کو بھی اطلاع دے دی کہ وہ آریہ صاحبوں کے جلسہ پر حاضر ہوں اور ان کو تسلی دی کہ وہ بڑی شرافت و تہذیب سے مضمون سنائیں گے.۱۸۹۶ء کے جلسہ مذاہب کی طرف جماعت کے افراد نے اس کا نفرنس میں بھی شرک کے لئے بڑے زور شور سے تیاری شروع کر دی.لاہور کی مقامی احمد یہ انجمن نے احمدی مہمانوں کے قیام کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کی جدید کو ٹھی عزیز منزل (واقع کیلیانوالی سڑک پر انتظامات مکمل کر لئے بلکہ ریلوے کے رعایتی ٹکٹوں کا بھی انتظام کر لیا گیا.حضرت اقدس کی طرف سے مضمون کا حضرت اقدس نے ۱۳۰/ نومبر۷ ۱۹۰ء کو قلم اٹھایا لکھا جانا اور اس کے سنائے جانے کی تجویز اور ۱۲ دسمبر کی صبح تک آپ نے 49 صفحہ کا ایک مبسوط اور پر معارف مضمون مکمل کر لیا.مضمون ختم کر چکے تو الہام ہوا.إِنَّهُمْ مَا صَنَعُوا هُوَ كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى انْتَ متن بمنزلة رُوحِي أَنتَ مِنَى بِمَنْزِلَةِ النَّجْمَ الثَّابِ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ - یعنی جو کچھ انہوں نے بتایا ہے وہ جادو گر کی تدبیر ہے اور جادو گر کسی راہ سے بھی آئے کامیاب نہیں ہو گا تو مجھ سے بمنزلہ میری روح کے ہے تو مجھ سے بمنزلہ اس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر

Page 550

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۰۱ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت حملہ کرتا ہے.حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.حضور نے یہ الہام مضمون کے آخر میں درج فرما دے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ ایک عام مجمع میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پڑھا جانے کو تھا اور ابھی حضرت اقدس نے مضمون لکھا بھی نہ تھا کہ مضمون کے پڑھنے کا سوال پیدا ہو گیا.حضور کی خدمت میں مختلف نام پیش کئے گئے.حضرت اقدس نے فیصلہ کرنے کے لئے مسجد مبارک میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے مضمون پڑھوا کر سنا اور بالاخر حضور نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کا انتخاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت اگر مولوی عبد الکریم صاحب زندہ بھی ہوتے تو بھی میں مولوی صاحب ہی کو ترجیح دیتا.اور یہ بھی فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب بھی مولوی صاحب ہی کے شاگر د تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جمہیر الصوت تھے اس لئے وہ حضرت حکیم الامت کے مددگار قرار پائے.۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو ابجے کے قریب حضرت اقدس نے حضرت حکیم الامت کو روانہ فرمایا اور خود بھی مشایعت کے لئے باہر تشریف لے گئے حضرت مولوی صاحب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر ناصر نواب صاحب ، شیخ یعقوب علی صاحب تراب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ابو سعید صاحب عرب اور قادیان کے اور کئی اصحاب بھی قادیان سے لاہور پہنچ گئے.یہاں انبالہ لدھیانہ کپور تھلہ امرتسر ، اجماله وزیر آباد گوجرانوالہ سیالکوٹ اور دوسرے اضلاع سے بھی کئی سو احمد کی پہنچے ہوئے تھے.حضرت اقدس کا مضمون پڑھا جانا ۲ دسمبر۷ ۱۹۰ ء کو سناتن دھرم اور عیسائیوں کی طرف سے مضامین پڑھے گئے اور ۳/ دسمبر کا دن پر ہموؤں اور مسلمانوں کے لئے مخصوص تھا.حضرت اقدس کے لئے آریہ سماج نے ۳ / د کمبر۷ ۱۹۰ ء کی شام کو بجے سے ۱۰ بجے تک کا وقت مقرر کر رکھا تھا.جہاں پہلے اجلاسوں میں حاضری معمولی تھی وہاں اس رو زلوگ ۵ بجے ہی آنا شروع ہو گئے اور 4 بجے تک آریہ مندرو چھودالی (جہاں جلسہ ہو رہا تھا ) کا صحن کمرے اور گیلری سب پر ہو گئے.۶ بجے جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی اور سب سے پہلے ماسٹر رگھوناتھ سہائے نے برہمو سماج کے نمائندہ کی حیثیت سے ایک گھنٹہ لیکچر دیا.یہ لیکچر ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ داخلہ کے ٹکٹ بند کر دینا پڑے.سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں نے قبل ازیں قلمی اشتہار چسپاں کر دئے تھے کہ لوگ اس جلسہ میں نہ جائیں.مگر اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ لوگ اس قدر کثرت سے پہنچے کہ

Page 551

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۲ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.ماسٹر رگھوناتھ کا لیکچر ختم ہوا تو حضرت مولوی نور الدین صاحب پیج پر تشریف لائے اور نہایت درجہ بلند آواز سے لیکچر پڑھنا شروع کیا.جب کوئی آیت آپ تلاوت فرماتے تو مجلس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی.مضمون کا ابتدائی حصہ حضرت مولوی صاحب نے اور آخری حصہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھا.یہ مضمون سوا دو گھنٹے تک جاری رہا.PA حضرت اقدس نے اپنے مضمون میں ابتداء الہام کے متعلق لوگوں کے عقائد کا ذکر کیا اور پھر الہام کے ماننے والوں میں سے ان کا ذکر کیا جو کہتے ہیں کہ اب نہیں ہوتا.اس کے بعد الہام کے متعلق اپنا مذہب بیان فرمایا.اس کے ضمن میں اسلام کی عالم گیر تعلیم اور تمام قوموں میں نبیوں کی بعثت پر لطیف بحث فرمائی اور آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن مجید کی ہدایت اور وحی کی شوکت اور جلال کو ا پر شوکت الفاظ میں ادا کیا اور ثابت کیا کہ صرف اور صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس کے ذریعہ اس زمانہ میں نبوت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.اس بحث میں امن عامہ کے قیام اور عام رواداری و صلح کاری کی اسلامی تعلیم نہایت اچھوتے انداز میں پیش فرمائی اور اسلامی مسئلہ جہاد کے متعلق پیدا شدہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اسلام کے حقیقی نظریہ کی وضاحت فرمائی.معرفت اور نور سے بھرا ہوا یہ مضمون دس بجے کے قریب ختم ہو گیا.مضمون مضمون کا اختتام کے آخر میں الہامات درج تھے جن کے ترجمہ کے متعلق عام لوگوں نے شدید خواہش ظاہر کی جس پر کھڑے ہو کر حضرت مولوی صاحب نے ترجمہ بیان کیا.نیز اپنی جماعت کی طرف سے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس پر غور کریں گے.آپ کے بعد صدر جلسہ لاله کاشی رام دید نے حضرت مولوی صاحب سے درخواست کی کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ ہم کو بھی ہدایت نصیب ہو.اس کے بعد جلسہ بر خواست ہوا.اخبارات کا تبصرہ سلسلہ کے قدیم مخالف پیسہ اخبار نے ۱۳ دسمبر۱۹۰۷ء کے مذکورہ جلسہ " کے متعلق مندرجہ ذیل رائے دی." ذہبی مباحثہ کا جلسہ بر سر پرستی آریہ سماج شہر لاہور ۳ / دسمبر کی شام کو سماج مذکور کے مندر واقع و چھو والی میں ٹھیک 4 بجے شروع ہوا اور ۱۰ بجے شب تک قائم رہا.خلقت کا ہجوم پہلے دن سے کہیں زیادہ اور اس قدر عظیم تھا کہ مندر کا سارا صحن دالان کمرے بالائی بر آمدے اور سب سے اوپر والی چھت کے کنارے لوگوں سے بھر گئے اور کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.آخر کار ٹکٹ بند کر دینے

Page 552

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۳ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت پڑے.اتنے بڑے اژدہام میں خوش انتظامی تو دشوار تھی تاہم غنیمت ہے کہ کسی قسم کی بد مزگی نہ ہونے پائی.کارروائی جلسہ کا افتتاح مسٹر روشن لال صاحب پریذیڈنٹ کی ایک مختصر تقریر سے ہوا.اور پہلے گھنٹہ میں پر ہمو سماج کے ایک قائم مقام نے اپنا لیکچر بلند آواز سے پڑھا جو جملہ مذاہب کی کتب مقدسہ کو قابل قدر ماننے کے خیالات پر مشتمل تھا.اس کے بعد حکیم مولوی نور الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے بالترتیب ایک ایک گھنٹہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا ایک مطبوعہ لیکچر جس کی ضخامت ۶۴ صفحہ تھی سنایا.جس کے ابتدائی حصہ میں اسلام کی عالم گیر تعلیم صلح جوئی دامن پسندی پر قابل تعریف بحث کی گئی تھی اور مذاہب غیر کو توجہ دلائی گئی تھی کہ وہ اسلام جس طرح اپنے پیروؤں کو سابق پیغمبروں کی تعظیم اور کتب ہائے مقدسہ کی تکریم کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ بزرگان اسلام کو ناگوار لفظوں میں یاد کر کے مسلمانوں کا دل نہ دکھائیں." ولایت کے مشہور ماہنامہ " ریویو آف ریویوز نے اس لیکچر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا." را قم مضمون بہت سے قرآن شریف کی آیات حوالہ میں پیش کرتا ہے جن کی بابت اس کا یہ دعوی ہے کہ یہ آیات تمام مسلمانوں پر فرض عین قرار دیتی ہے کہ وہ تمام انبیاء علیهم السلام پر ایمان لادیں جن کو دنیا کے کثیر حصہ نے قبول کر لیا ہے.یہ تحمل کا بہت ہی وسیع اصل اور قاعدہ ہم اپنے آزاد خیال عیسائی بھائیوں کے سامنے بطور سفارش پیش کرتے ہیں.در حقیقت یہ ایک بالکل نئی بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ مذہب جو اب تک تمام مذہبوں سے زیادہ متعصب اور غیر متحمل خیال کیا گیا تھا اپنے تمام ودشمنوں اور مقابل کے لوگوں کے مشن کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے." ۲ دسمبر ۱۹۰۷ ء کا دن آریہ سماج نے اپنے سیکرٹری آریہ سماج کی دشنام آلود تقریر لئے مخصوص کیا تھا.عیسائیوں ، سنانیوں اور دوسرے غیر مذاہب کے نمائندوں کی تقریر میں کوئی خلاف تہذیب و شائستگی بات نہ تھی.اور حضور کا مضمون تو سر تا پا صلح و امن کا پیغام تھا.مگر افسوس اس روز ہی ڈاکٹر چہ نجیو بھاردواج (جس نے بار بار تہذیب و شائستگی کا یقین دلایا تھا) کھڑا ہوا اور اپنے مضمون میں نہایت شوخی اور بے باکی سے پاکوں کے سردار حضور سرور کائنات نخر موجودات کی مقدس ذات بابرکات پر ایسی ایسی تہمتیں لگائیں کہ مسلمانوں کے جگر پاش پاش ہو گئے.اجلاس کے پریذیڈنٹ نے اگر چہ بعد ازاں معذرت کی کہ یہ لیکچر ہم نے پہلے نہیں دیکھا تھا.مگر یہ عذر گناہ بد تر از گناہ تھا.وہ چاہتے تو لیکچر کے دوران تقریر میں ہی روک سکتے تھے.در حقیقت یہ پرلے درجہ کی شرارت اور بد گوئی ایک سوچی سمجھی انتقامی سازش کے ساتھ عمل میں لائی گئی تھی جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ دسمبر ۱۸۹۶ ء میں جلسہ اعظم مذاہب کے موقعہ پر

Page 553

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۴ کی شورش میں جماعت کو نصیحت اسلام کو حضرت اقدس کے ذریعہ سے جو شان دار فتح نصیب ہوئی تھی اس پر پردہ ڈال دیا جائے.مگر ان ناشائستہ حرکات سے ان کی مزید ذلت ورسوائی ہوئی اور خدا کا وہ الہام جو حضور نے اپنے مضمون کے آخر میں درج فرما دیا تھا دوسرے ہی روز پورا ہو گیا اور آریہ سماج کی یہ مکروہ کارروائی اسلام کی سچائی کا ایک چمکتا ہو انشان بن گئی جسے ہزاروں نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا.گالیوں کی مجلس میں بیٹھے رہنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین صاحب محمود حضرت مسیح موعود کی اظہار خفگی احمد خلیفتہ الحی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ( کا بیان ہے کہ ”میری عمر اس وقت سترہ سال کی تھی مگر میں اس بد گوئی کو برداشت نہ کر سکا اور میں نے کہا میں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا.میں یہاں سے جاتا ہوں.اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے مولوی صاحب (حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب.ناقل ) تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اٹھ کر باہر جارہے ہیں.اگر یہ غیرت کا مقام ہو تا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی ؟ میں نے کہا کچھ ہو مجھ سے تو یہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم ﷺ کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.وہ کہنے لگے آپ کو کم سے کم نظام کی تو اتباع کرنی چاہئے.مولوی صاحب اس وقت ہمارے لیڈر ہیں اس لئے جب تک وہ بیٹھے ہیں اس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کو اٹھ کر باہر نہیں جانا چاہئے.ان کی یہ بات اس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا.جب ہم واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو...آپ کو اس قسم کا غصہ پیدا ہوا کہ ویسا غصہ آپ میں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے.آپ بار بار فرماتے.دوسرے مسلمان تو مردہ ہیں ان کو کیا علم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی کیا شان ہے.لیکن ہم نے تو اس طرح اسلامی تعلیم کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کے فضائل اور آپ کے کمالات کو روشن کیا ہے کہ اس کے بعد یہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری جماعت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ رسول کریم کی کیا شان ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تمہیں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جگہ پر بیٹھنا نہیں چاہئے تھا.بلکہ جس وقت اس نے یہ الفاظ کے تھے تمہیں اسی وقت کھڑے ہو جانا چاہئے تھا اور اس ہال سے باہر نکل آنا چاہئے تھا.اور اگر وہ تمہیں نکلنے کے لئے راستہ نہ دیتے تو پھر اس ہال کو خون سے بھرا ہوا ہونا چاہئے تھا.یہ کیوں کر تم نے بے غیرتی دکھائی کہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموشی سے بیٹھ کر ان گالیوں کو سنتے رہے.حضرت خلیفہ اول اس وقت آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے.وہ جماعت کے ایک بڑے آدمی

Page 554

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۵ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت تھے مگر وہ بھی سر ڈالے بیٹھے رہے.آپ بار بار فرماتے تمہاری غیرت نے یہ کیوں کر برداشت کر لیا کہ تم اس جگہ پر بیٹھے رہو جہاں رسول کریم کی بنک ہو رہی ہے تب مولوی محمد احسن صاحب امرد ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور جس طرح حضرت ابو بکر نے رسول کریم ﷺ کی ایک ناراضگی کے موقعہ پر یہ الفاظ کے تھے کہ رضیت بالله ربا و بالاسلام دينا وبمحمد رسولا اس قسم کے الفاظ انہوں نے کے اور پھر کہا حضور ذہول ہو گیا یعنی ہر آدمی سے بعض موقعوں پر غلطی ہو جاتی ہے ہم سے بھی ذہول کے ماتحت یہ غلطی ہوئی ہے حضور درگزر فرمائیں.آخر بہت دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غصہ فرد ہوا اور آپ نے اس غلطی کو معاف فرمایا."

Page 555

મ تاریخ احمدیت جلد ؟ پدر و ر مئی ۱۹۰۷ و صفحه ۵۰۶ ملکی شورش میں جماعت کو نصیحت حواشی بدر ۱۶ / مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ کالم ۱ - ۲ و بد ر ۱۳۰ مئی ۱۹۰۷ء صفحه ۵ تا ۸ بدر ۱۲۷ جون کے ۱۹۰ ء صفحہ ۴ کالم اوز کر حبیب صفحہ ۱۴۹ از حضرت مفتی محمد صادق صاحب امه بدر ۱۸ جولائی کے ۱۹۰ء صفحہ ۵ کالم پدر / تمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ ۴ کالم ۲۲ محکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ا ب سیرت المہدی حصہ اول صفحا ۱۷ ۱۷۷ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۷ ۱۷۷ الحکم ۱۲۴ تمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۵ کالم ۱-۲ الحکم ۲۴/ تمبر ۱۹۰۷ء صلحا کالم ۱-۲ 10 بدر 19/ تمبر 1906ء صفحہ ۴۲ کالم ۱۳ و الحکم ۲۴ / تمیر ۷ ۱۹۰ء صفحہ ۵ کالم ۱-۲ بدر ۱۵ ستمبر۷ ۱۹۰ء صفحه و الحکم ۱۳۱ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۵- اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۹ در ۱/۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم ۳۲ ۱۳ بدر ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۷ ء ذکر حبیب صفحه ۱۵۳٬۱۴۷ از حضرت مفتی محمد صادق صاحب 주 ا ذکر حبیب صفحہ ۷ ۱۴ ۱۴۸ متولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب.ان خطوط میں سے بعض کا عکس رسالہ "انصار اللہ ربوہ کے بعض ابتدائی نمبروں میں چھپ چکا ہے.بدر ۳/ اکتوبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۴ کالم ۴ بدر ۱۳ اکتوبر سے ۰ام صفحہ ہر کالم سو بیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مندرجہ " الفضل ۲۴۴ / د ممبر ۱۹۴۴ء صفحه ۵ کالم ۲ پدر ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم ۳ الحکم 10 تو میرے 190 و صلح در کالم ۳ ۲۰- چشمه معرفت صفحب ج ۰۲۱ الحکم ۱۲۴ تو میرے 190 ء صفحہ ہم کالم ا ۲۳ چشمه معرفت صفحب ج ۴۳۳ چشمه معرفت صفحه ب - ج ۲۴- الحکم ۱۳۰ تو میرے ۱۹۰ ء صفحہ ۱۳ کالم ۲۳ ۲۵ الحکم ۱۰ دسمبر۷ ۱۹۰م صفحه ۳ و چشمته معرفت ضمیمہ صفحہ ۲۸ احکم ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۴ کالم ۱ - ۲ و الفضل / جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ اکالم ۲-۳ ۲۷- الحکم 10 ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ کالم ۲ و پر بر۲ و میر ے ۱۹۰ ء صفحہ ۲ کالم -۲ ۲۸ الحکم وارد سمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۴ تاین بدر ۱۱۳ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳ کالم ۳۰ کو الہ الحکم ار دسمبر 190 ء صلحا ہے ۳۱ بحوالہ ریویو آف ریلی و اردو مئی ۱۹۰۸ و صفحه ۱۹ ۱۹۲ ۳۲- چشمه معرفت صفحج و صفحه ۵۲ دید / ۱۲ / دسمبر۷ ۱۹۰ء صفحہ کالم ٣٣ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۲ کالم -۳.میرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۱۹ ۲۲۰

Page 556

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۷ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسه

Page 557

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۸ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ ۱۹۰۷ء کا سالانہ جلسہ ۱۹۰۷ء کا سالانہ جلسہ تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ آخری جلسہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں ہوا.مہمانوں کی آمد جلسہ سالانہ ۱۹۰۷ ء کے لئے احباب کی آمد 19 / دسمبر سے شروع ہو گئی تھی.چند ایک دوست اس سے بھی پہلے دار الامان میں پہنچ چکے تھے مگر سب سے پہلے آنے والی جماعت دوالمیال کی تھی جو اپنے امیر مولوی کرم دار صاحب کے ہمراہ قادیان پہنچی تھی.اس کے بعد ہر روز ملک کے چاروں طرف سے بکثرت احباب کی آمد شروع ہو گئی.۲۴ / دسمبر کی شام اور اس کے بعد سیالکوٹ ، جموں، وزیر آباد گوجر انوالہ، جہلم ، گجرات، لاہور، امرتسر کپور تھلہ لودھیانہ جالندھر، دہلی اور دیگر مختلف اطراف کی جماعتیں وارد ہوئیں.۲۶ - ۲۷ دسمبر کو بھی مہمانوں کی بکثرت آمد ہوئی.۲۵ دسمبر کادن - شعید الازبان کا جلسہ ۲۵/ دسمبر کو نماز ظہر کے بعد شعید الاذہان کا ایک عام اجلاس ہوا.سب سے اول حافظ عبدالرحیم صاحب نے سالانہ رپورٹ پڑھی.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے زمانہ کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے نوجوان کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے (جو اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام کے طالب علم تھے.) اپنا مضمون پڑھا اور اکبر شاہ خان صاحب اور نعمت اللہ صاحب گوہر نے نظمیں سنائیں.آخری تقریر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے واعظ کے مزکی ہونے کے بارے میں فرمائی.

Page 558

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۰۹ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ ۲۶ / دسمبر کا دن حضرت مسیح موعود علیہ ۲۶ / دسمبر کی صبح کو حضرت اقدس باہر میر کے السلام کی سیر کا ایمان افروز نظارہ واسطے تشریف لے گئے.خدام جوق در جوق ساتھ ہوئے اور پروانوں کی طرح زیارت کے واسطے آگے بڑھتے تھے.اس قدر ہجوم تھا کہ سیر پر جانا مشکل ہو گیا.حضرت اقدس گاؤں کے باہر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور اپنے خدام کو قریب دو گھنٹے مصافحہ کا شرف بخشا.اس وقت کا نظارہ قابل دید تھا.ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ سب سے پہلے میں آگے بڑھوں اور زیارت کروں.ایک دیہاتی دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ اس بھیڑ میں سے زور کے ساتھ اندر جا اور زیارت کر.اور ایسے موقعہ پر بدن کی بوٹیاں بھی اڑ جائیں تو پروانہ کر.مفتی محمد صادق صاحب نے یہ دیکھ کر کہا لوگ بیچارے بچے ہیں کیا کریں.تیرہ سو سال کے بعد ایک نبی کا چہرہ دنیا میں نظر آیا ہے.پروانے نہ بنیں تو کیا کریں.ظہر و عصر کی کارروائی ظہر اور عصر ہر دو نمازیں مسجد اقصیٰ میں جمع کر کے پڑھی گئیں.نماز کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب نے بعض نکاح پڑھے اور خطبہ میں نکاح کے مقصد پر ایک لطیف تقریر فرمائی.نکاح کے بعد میر قاسم علی صاحب نے ایک منظوم مبارک نامہ پڑھا.۲۷/ دسمبر کا دن.حضرت اقدس کی پہلی تقریر ۱۲۷ مبر کو مجھ اتنی میں جمہ پڑھا گیا جمعہ کے موقت مسجد اقصیٰ کے اندر اور باہر کا صحن پوری طرح بھر گیا اور خدام نے ارد گرد کی دوکانوں گھروں اور ڈا کھانہ کی چھتوں پر نماز جمعہ ادا کی.کل حاضری تین ہزار کے قریب ہو گی.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے خطبہ پڑھا.نماز جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر بھی جمع کی گئی.اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدام سے نہایت روح پرور خطاب فرمایا.جس میں حضور نے سورہ فاتحہ کی لطیف تفسیر بیان فرمانے کے بعد جماعت کو تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا.تزکیہ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق و مخلوق دونوں طرف کے حقوق کی رعائت کرنے والا ہوں.خدا تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ جیسا زبان سے اسے وحدہ لا شریک مانا جائے ایسا ہی عملی طور سے اسے مانیں اور مخلوق کے ساتھ برابر نہ کیا جاوے.اور مخلوق کا حق یہ ہے کہ کسی سے ذاتی بغض نہ ہو.بیشک خدا کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہنچانے کا آئینہ کہ خدا کا حق ادا کیا جارہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق بھی ادا کر رہا ہے یا نہیں جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھ سکتا.وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا.دیکھو آنحضرت ا کی جماعت نے بیشمار فتوحات پالیں مگر کس لئے کہ منزلہ جان واحد

Page 559

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۱۰ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ ہو گئے.خانہ خدا اس کو نہ کہیں گے جو بت خانہ ہو.انسان کا دل خدا کا گھر ہے یہ خدا کا گھر اس وقت کہلائیگا اور اس وقت فرشتوں کا طواف گاہ بنے گا جب یہ اوہام باطلہ و عقائد فاسدہ سے بالکل پاک و صاف ہو.جب تک انسان کا دل صاف نہ ہو اس کی عملی حالت درست نہیں ہو سکتی.دیکھو یہ وقت ہے جو کچھ کرنا ہے کر لو ایسا نہ ہو کہ بوجہ مخالفت دنیا سے بھی رہو اور دین سے بھی خالی چلے جاؤ.کسی کو کیا معلوم کہ کون آئے گا.مو تا موتی لگ رہی ہے تو بہ و خشوع و خضوع سے کام لو.تقریر کے بعد احباب حضور سے مصافحہ کرتے رہے.۲۸ / دسمبر کادن حضور کی سیر ۱۲۸ دسمبر کو صبح حسب معمول میر کے لئے حضور تشریف لے گئے.احباب بہت کثرت سے ساتھ تھے مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب چوہدری مولا بخش صاحب ملک محمد حیات صاحب ، حکیم محمد عمر صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے ایسا انتظام کیا کہ تمام دوستوں نے نہایت اطمینان کے سات حضور کی زیارت کا شرف حاصل کر لیا.حضرت اقدس میدان میں ایک جگہ بیٹھ گئے.اس وقت پہلے ایک امرتسری دوست نے بعد ازاں ابو یوسف مولوی مبارک علی صاحب نے نظمیں سنائیں.اس دن ظہر و عصر کی نمازیں مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئیں.حضرت اقدس کی دوسری تقریر بعد ازاں حضرت اقدس نے دوسری تقریر فرمائی جس کی ابتداء میں حضور نے فرمایا " جو کچھ کل میں نے تقریر کی تھی اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا کیونکہ بسبب علالت طبع تقریر ختم نہ ہو سکی اس واسطے آج پھر میں تقریر کرتا ہوں.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں جس قدر لوگ آج اس جگہ موجود ہیں معلوم نہیں ان میں سے کون سال آئندہ تک زندہ رہے گا اور کون مر جائے گا.؟" ان درد انگیز الفاظ کے بعد جو دلوں کو ہلا دینے والے تھے حضور نے اپنے خدام کو نہایت لطیف پیرائے میں شرح وبسط کے ساتھ صبر کی تلقین فرمائی.علاوہ ازیں ان کو اور بھی قیمتی نصائح سے نوازا.اور یہ سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی تقریر ان الفاظ پر ختم ہوئی.کیا پہلے سے نہیں کہا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں ایک قرناء آسمان سے پھو کی جائے گی.کیا دمی خدا کی آواز نہیں.انبیاء جو آتے ہیں وہ قرناء کا حکم رکھتے ہیں.نفخ صور سے یہی مراد تھی کہ اس وقت ایک مامور کو بھیجا جائے گاوہ سنادے گا کہ اب تمہارا وقت آگیا ہے.کون کسی کو درست کر سکتا ہے.جب تک که خدا درست نہ کرے.اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ایک قوت جاز بہ عطا کرتا ہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں.خدا کے کام کبھی ضبط نہیں جاتے.ایک قدرتی کشش کام کر

Page 560

محمدیت.جلد ۲ ۵۱۱ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ دکھائے گی.اب وہ وقت آگیا ہے جس کی خبر تمام انبیاء ابتداء سے دیتے چلے آئے ہیں.خدا تعالٰی کے فیصلہ کا وقت قریب ہے اس سے ڈرو اور توبہ کرو." کانفرنس صد را انجمن احمدیه ای روز ۲۸ دسمبر ۱۹۰۷ءکو بعد از نماز مغرب صدر انجمن احدید کی کانفرنس ہوئی جس میں بیرو نجات کی اکثر انجمنوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ شامل ہوئے سیکرٹری صاحب کی پیش کردہ رپورٹ مختلف صیغوں کی پڑھی گئی اور اس کے بعد بجٹ برائے ۱۹۰۸ ء پیش ہوا.بجٹ کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے تمام ضروری امور پر ایک مفصل بحث کی.ازاں بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ قرآن شریف کی رو سے کس قسم کی انجمنوں کا بنانا جائز ہے.اس تقریر سے ظاہر ہو تا تھا کہ قرآن شریف علوم کا ایک ایسا سمند رہے کہ اس میں ہر ایک ضروری چیز پائی جاتی ہے.ایام جلسہ میں ہر روز بیعت کا سلسلہ جاری رہا.بیعت کرنے والوں کی تعداد بعض اوقات بیعت اتنی بڑھ جاتی کہ لوگوں کا حضور تک پہنچنا اور معمول کے مطابق حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا نا ممکن ہو جاتا اس لئے گڑیوں کے ذریعہ بیعت کی جاتی اور اس کا طریق یہ ہو تاکہ لوگ اپنی پگڑیاں اتار کر مختلف سمتوں میں پھیلا دیتے اور بعض پگڑیوں کو ایک دوسری سے باندھ کر دور دور تک پہنچا دیا جاتا.ان پگڑیوں کا ایک سرا ان بیعت کرنے والوں کے ہاتھ میں ہو تا.جو حضرت اقدس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کر رہے ہوتے تھے اور دو سرے بیعت کرنے والے ان پگڑیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیتے اس طرح گویا بظاہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان بیعت کرنے والوں میں روحانی رو کا تسلسل قائم کیا جاتا.بیعت کے الفاظ دو ہراتے وقت چونکہ حضور کی آواز بھی دور بیٹھے ہوئے بیعت کرنے والوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی اس لئے مجمع میں دو تین خدام کھڑے ہو جاتے جو حضرت اقدس کی اتباع میں بیعت کے الفاظ بلند آواز سے دوہراتے ہوئے دوسرے بیعت کرنے والوں تک پہنچاتے تھے.لنگر خانہ کا انتظام اور الہام اطعموا الجائع والمعتر بما يتوب على صاحب، عليكم شیخ فضل الدین صاحب مفتی فضل الرحمن صاحب قاضی امیر حسین صاحب نیز مدرسہ کے دوسرے اساتذہ اور طلباء نے بطور والنٹیرز مہمانوں کے کھانا کھلانے میں بہت محنت سے کام کیا.لیکن مہمانوں کی آمد اندازے سے بہت ہی زیادہ بڑھ گئی تھی.ایک دن بعض مہمانوں کو ناگزیر وجوہ کی بناء پر بہت دیر سے کھانا ملا.اور بعض مہمان تو بغیر کھانا کھائے بھوکے ہی اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے.نہ تو انہوں نے شکایت کی نہ کسی سے ذکر

Page 561

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۱۲ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ کہ کوئی ان سے ہمدردی کرتا.مگر جب انہوں نے صبر کیا اور کسی سے ذکر تک نہ کیا تو خود رب العرش نے جس کے وہ مہمان تھے اپنے فرستادہ نمائندہ کو الہام کیا ا طعموا الجائع والمعتر " بھوکے اور منظر کو کھانا کھلاؤ.صبح سویرے حضور نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بعض مہمان رات بھوکے رہے.اس وقت حضور نے لنگر کے منتظمین کو بلایا اور بہت تاکید فرمائی کہ مہمانوں کی ہر طرح سے خاطر تواضع کی جائے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.A ۱۹۰۷ء کے بعض ممتاز صحابہ ۱۹۰۷ء کے بعض ممتاز صحابہ کے نام یہ ہیں.ا.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ( حال صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ) حاجی ابو بکر یوسف صاحب جده - ۳.شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس -

Page 562

تاریخ احمدیت - جلد ۲ ۵۱۳ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کامخری سالانہ جلسہ مامورت کا ستائیسواں ۲۷ سال چشمه معرفت کی تصنیف و اشاعت (۱۹۰۸ء) وجہ تالیف آریہ سماج نے اپنی مذہبی کا نفرنس میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ناپاک حملے کئے تھے.اور گو آریہ سماج نے جب اس کانفرنس کے " مضامین شائع کئے تو اس میں سے قابل اعتراض حصے حذف کر دیئے.مگر جن گندی باتوں کو ہزاروں افراد نے سنا ان کا ازالہ کرنا از بس ضروری تھا.لہذا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شروع جنوری ۱۹۰۸ ء میں ہی اس کے جواب میں چشمہ معرفت" کے نام سے ایک مبسوط اور جامع کتاب تالیف فرما دی جو ۱۵ / مئی ۱۹۰۸ء کو شائع ہوئی.یہ کتاب اپنے نام کی طرح معرفت کا ایسا پاک چشمہ ہے جس سے اسلام کی خوبیاں اور کمالات بحر مواج کی طرح دکھائی دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ چشمہ معرفت کی خصوصیت اور اس کا خلاصہ مضمون السلام کی کتابوں میں سے چشمہ معرفت " میں بہت ہی لطیف مضامین ہیں.اور اس میں خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں بہت سے مضامین نہایت جامعیت کے ساتھ چند سطروں میں آجاتے ہیں اور چند سطروں کے بعد ایک نیا مضمون سامنے آجاتا ہے.چشمہ معرفت کے دو حصے ہیں.پہلے حصہ میں حضور نے ان دعاوی کا رد فرمایا ہے جو ڈاکٹر بھارد واج سیکرٹری آریہ سماج لاہور نے دید کے بارے میں کئے تھے.دوسرے حصہ میں ان حملوں کا رد ہے جو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے گئے تھے.خاتمہ کتاب میں حضور علیہ السلام نے بادا ناتک صاحب کی اسلام کی نسبت گواہی لکھی اور چولہ صاحب اور سکھوں کی کتاب سے بادا صاحب کے مسلمان ہونے کے قطعی ثبوت دیئے.کتاب کے آخر میں حضور کا وہ معرکتہ الاراء مضمون شامل کیا گیا ہے جو آریہ سماج کی مذہبی کا نفرنس میں پڑھا گیا تھا.

Page 563

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۱۴ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ غیر مذاہب کو چیلنج حضور علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں بھی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے متعلق تمام غیر مذاہب کو چیلنج کیا اور لکھا کہ ” میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا.مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اسکے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں." گورو ہر سہائے ضلع فیروز پور میں بادا نانک کے تبرکات میں " قرآن شریف کا انکشاف الله اس سال حضرت مسیح موعود کا بادا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کی ایک نئی شہادت ملی اور وہ یہ کہ گورد ہر سہائے واقع ضلع فیروز پور میں سکھوں کے ایک نہایت معزز خاندان کے قبضہ میں بادا نانک صاحب اور بعد کے گدی نشین کو روؤں کے چند تبرکات چلے آتے تھے جن میں باو ا صاحب کی ایک تسبیح ، پوتھی ، قرآن شریف اور چند دیگر اشیاء بھی تھیں.یہ قرآن شریف اور دیگر تبرکات نہایت ادب کے ساتھ بہت سے ریشمی غلافوں میں بند تھے اور گوروبشن سنگھ صاحب کے پاس تھے جن کے مورث اعلیٰ سکھوں کے چوتھے گورو رام داس تھے.امرتسر کا مشہور "سنہری مندر ان ہی گورو صاحب سے موسوم ہے.ان تبرکات کے سبب یہ خاندان سکھ قوم میں ہمیشہ ممتاز اور بڑی بڑی جاگیروں کا مالک رہا ہے.چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ گوشتہ مہاراجہ والی ریاست فرید کوٹ بھی وہاں گئے اور ایک ہاتھی اور ایک ہزار روپیہ نقد ان تبرکات کے سبب گورو صاحب کی نذر کیا.گورو ہر سائے کے لئے وفد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ معلومات پہنچیں تو آپ کو بہت خوشی ہوئی اور آپ نے مزید تحقیق کے لئے ایک وفد بھیجوایا جس کے ممبر یہ تھے.ا مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بد ر قادیان.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجزہ قادیان..حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایڈیٹر رسالہ شیخذ الاذہان.- سید امیر علی شاہ صاحب سب انسپکٹر جلال آباد.

Page 564

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۱۵ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ - حکیم ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری مالک کارخانہ ہمدم صحت لاہور.شیخ عبد الرحیم صاحب نو مسلم (سابق جگت سنگھ ).۷.چوہدری فتح محمد صاحب (سیال) طالب علم گورنمنٹ کالج لاہور.وفد نے گورو ہر سائے میں پہنچ کر ۴ / اپریل ۱۹۰۸ء کو گورو بشن سنگھ صاحب کے ذریعہ سے یہ قرآن شریف کھول کر پڑھا جو دراصل ایک نہایت خوشخط لکھی ہوئی حمایل شریف تھی.جس کا سائز تخمینا تین انچ چوڑا اور ساڑھے چار انچ لمبا تھا.ہر صفحہ پر ارد گرد سنہری لکیریں پڑی تھیں اور بعض مقامات پر سنہری بیل تھی گورد بشن سنگھ صاحب نے بتایا کہ پرانے گورو صاحبان سے یہ قرآن شریف بطور تبرک چلا آتا ہے.ایک سکھ دروان اس وفد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” وفد کے تمام ممبر تعلیم یافتہ تھے.قرآن ان کے نوک زبان تھا.پو تھی دیکھ کر اسے قرآن کہنے میں انہیں کوئی مغالطہ نہیں لگا." 140 وند نے واپس آکر جب قرآن شریف کے موجود ہندو اور سکھ اصحاب پر اتمام حجت ہونے کی تصدیق کر دی تو حضور علیہ السلام نے چشمہ معرفت " میں یہ تمام تفصیلات درج فرما کر لکھا کہ ” بادا ناتک صاحب" کا وجود تمام ہندوؤں پر خدا تعالی کی ایک حجت ہے خاص کر سکھوں پر جو ان کے پیرو کہلاتے ہیں.خدا نے آریوں میں سے ایک ایسا مقدس شخص پیدا کیا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اسلام سچا ہے اور جو تکذیب کرتے ہیں وہ ان کے منہ پر تھوکتے ہیں.پس اے وہ تمام لوگو! جو اس مقدس گرد کے سکھ ہو خدا سے ڈرو! صرف میں ہی تم کو ملزم نہیں کرتا بلکہ وہ مقدس بزرگ بھی تم کو ملزم کر رہا ہے جس کی پیروی کا تم کو دعوئی ہے.اگر تم اس مقدس گرد کے بچے سکھ ہو تو ہندوؤں کا تعلق چھوڑ دو جیسا کہ اس نے چھوڑ دیا تھا.اور اس پاک مذہب کی روشنی سے تم بھی نور حاصل کرو جس کے نور سے وہ بزرگ سر تاپا روشن ہو گیا تھا." نکاح حضرت سیده مبارکه بیگم صاحبہ مدظلها T ۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رکھیں مالیر کوٹلہ سے چھپن ہزار روپیہ صریر مسجد اقصیٰ میں ہوا.خطبہ نکاح حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے پڑھا.نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق یہ دستور تھا کہ کئی کئی لاکھ روپیہ مقرر کیا جاتا تھا اور انہوں نے اپنی خاندانی رسم کی وجہ سے اب بھی یہی کہا تھا کہ مہر زیادہ رکھا جائے مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے اسے پسند نہ فرمایا.البتہ مر کے متعلق

Page 565

تاریخ احمد میت - جلد ۲ ۵۱۶ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ تحریر کو با قاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر شہادتیں ثبت کروادیں جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت نواب صاحب موصوف کی جائداد سرکار انگریزی کے علاقے میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق تنازعات اور پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا اس لئے مہر نامہ کو بقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا گیا.دوسرے ریاست مالیر کوٹلہ میں بیوی قانوناً محروم الارث ہوتی ہے لہذا نواب صاحب موصوف کی جائداد میں شرعی لحاظ سے جتنا حصہ حضرت سیدہ موصوفہ کا متعین ہوتا تھا اسی کے مطابق مہر تجویز کر دیا گیا.نکاح کی مبارک تقریب میں شمولیت کے لئے لاہور کے میاں چراغ دین صاحب، ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب، حکیم محمد حسین صاحب قریشی، بابو غلام محمد صاحب ، مستری محمد موسیٰ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور خلیفہ رجب دین صاحب اور بعض دیگر احباب بھی قادیان پہنچ گئے.رخصتانه رخصتانہ کی تقریب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ۱۴/ مارچ ۱۹۰۹ء کو بروز اتوار منعقد ہوئی.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا بیان ہے کہ ر خصمانه نهایت سیدھی سادھی طرز سے ہوا.مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت ام المومنین علیها السلام نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے ام المومنین علیها السلام مبارکہ بیگم صاحبہ کو اپنے ساتھ لے کر میرے مکان پر ان سیڑھیوں کے راستہ سے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں ، تشریف لا ئیں.میں چونکہ مسجد میں تھا اسلئے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا.اور جب بعد نماز میں آیا تو مجھ کو بلا کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھری آواز سے کہا کہ ”میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں" اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فورا السلام علیک کر کے تشریف لے گئیں." حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے اگلے دن ۱۵ / مارچ ۱۹۰۶ء کو قادیان کے تمام احمدیوں اور قصبہ کے بعض عمائدین کو دعوت ولیمہ دی.اولاد حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی:.نواب محمد احمد خاں صاحب (ولادت 11 جولائی ۱۹۱۰ء) صاحبزادی منصوره بیگم صاحبہ (ولادت ۲۷ / ستمبر ۱۹۱۱ء) نواب مسعود احمد خاں صاحب (ولادت ۱۷/ اپریل ۱۹۱۳ء) صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۵/ اگست ۱۹۱۸ء) صاحبزادی آصفه مسعوده بیگم صاحبہ (ولادت ۲/ ستمبر ۱۹۲۹ء)

Page 566

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۱۷ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل کی بیعت ماموریت کے اس آخری سال میں جو بزرگ صحابہ کے مقدس زمرہ میں شامل ہوئے ان میں سب سے ممتاز مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل حلال پوری تھے.آپ نے ۱۷ / فروری ۱۹۰۸ء کو تحریری اور ۱۳ / اپریل ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.قبول احمدیت کی راہ میں آپ کو بڑی بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑیں مگر آپ اس پامردی اور استقلال سے ایمان پر قائم رہے کہ کئی پہلے انے والوں سے بھی اپنے اخلاص و فدائیت میں بہت آگے نکل گئے.و ذلك فضل الله يوتيه من يشاء.مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل کے علاوہ پنجابی کے مشہور شاعر مولوی محمد دلپذیر صاحب اور ان کے بیٹے ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھی حضور کی بیعت کر کے زمرہ صحابہ میں شامل ہوئے.سر جیمز ولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب کا دورہ قادیان سر جیمز ولسن صاحب فنانشل کمشنر پنجاب ایک روزہ دورہ پر ۲۱ / مارچ ۱۹۰۸ء صبح گیارہ بجے قادیان آئے.ان کے ہمراہ کنگ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور مستم بند و بست اور پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے.معزز مہمانوں کا استقبال معزز مہمانوں کے استقبال کے لئے مدرسہ تعلیم الاسلام کی مجوزہ زمین کے کھلے میدان میں خیمے نصب کئے گئے.داخلہ کے لئے ایک دروازہ بھی بنایا گیا جس پر سنہری حروف میں (Welcome) یعنی خوش آمدید لکھا ہوا تھا ۲۰ / مارچ کی شام کو خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ فنانشل کمشنر کے استقبال کے لئے آگے جانا چاہیے.حضور نے فرمایا مجھے ان تکلفات سے نفرت ہے.باقی TA استقبال وغیرہ کرنا کمیٹیوں کا کام ہے.آپ چند آدمی اپنے ساتھ لے لیں اور ان کا استقبال کریں.چنانچہ خواجہ صاب موصوف حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور خواجہ جمال الدین صاحب کے ساتھ ۲۱ / مارچ کی صبح کو گھوڑوں پر سوار ہو کر قادیان سے بغرض استقبال گئے.کوئی گیارہ بجے صبح ڈپٹی کمشنر ضلع اور پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ قادیان میں داخل ہوئے.خیمہ کے ساتھ مدرسہ تعلیم الاسلام کے طلبہ دورویہ قطار میں کھڑے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم

Page 567

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۱۸ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخر کی سالانہ جلسہ السلام نے جو (جو صف کے سرے پر کھڑے تھے) استقبال کیا.کمشنر صاحب نے ان سے مدرسہ کے حالات دریافت کئے.آگے چبوترہ پر جماعت احمدیہ کے معزز اراکین بیٹھے تھے جن میں سے اکثر وہ تھے جو خاص طور پر اس تقریب کے لئے باہر سے آئے تھے.مولوی محمد علی صاحب نے ان کا تعارف کروایا اور خواجہ کمال الدین صاحب نے جماعت کی طرف سے شام کے کھانے کی پیش کش کی جسے انہوں نے قبول کر لیا.چنانچہ حضور کے ارشاد کے مطابق لنگر سے پکا پکا یا کھانا کیمپ میں پہنچا دیا گیا.حضرت اقدس نے فنانشل کمشنر صاحب کی ملاقات اثنائے گفتگو میں فنانشل کمشنر صاحب نے حضرت اقدس سے ملاقات کے لئے خواہش کا اظہار کیا تھا.چنانچہ حضور اپنے بعض خدام کے ساتھ شام کے پانچ بجے تشریف لے گئے.اس وقت عجب نظارہ تھا کیمپ کے ارد گرد مخلوق خدا کا کا ایک تانتا بندھا تھا فنانشل کمشنر صاحب نهایت اخلاق و اکرام سے احتراما آگے آئے اور اپنے خیمہ کے دروازہ پر حضور کا شایان شان استقبال کیا.حضرت اقدس اور دوسرے احباب کرسیوں پر بیٹھ گئے اور نہایت اچھے ماحول میں سلسلہ کلام شروع ہوا.حضور پون گھنٹہ تک اسلام کی خوبیوں اور اپنے سلسلہ کے اغرض و مقاصد مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے.فنانشل کمشنر صاحب حضور کی ملاقات پر بہت ہی خوش ہوئے.زاں بعد حضور واپس تشریف لے آئے.واپسی پر اتنا ہجوم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے.خدام نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے ارد گرد حلقہ بنالیا.حضور بہت ہشاش بشاش تھے.رستہ میں حضور نے خود ہی بتایا ہم نے خوب کھول کھول کر فنانشل کمشنر کو اسلام کی خوبیاں سنائیں اور اپنی طرف سے حجت پوری کر دی.مہدی خونی کے کے بارے میں بھی صاحب نے سوال کیا ہم نے بتایا کہ ہمارے فلاں فلاں رسالہ کو دیکھو.ہم خونی مہدی کے عقیدہ کو غلط سمجھتے ہیں ہمارا ایسی عقیدہ ہے کہ دین اسلام دلائل قویہ اور نشانات آسمانی سے پھیلا ہے اور اسی سے آئندہ پھیلے گا.اور جو جنگیں اسلام میں ہو ئیں وہ سب دفاعی تھیں.اسلام کا تلوار سے پھیلنے کا غلط عقیدہ مخالفوں کی اختراع ہے.صاحب فنانشل کمشنر نے اور بھی باتیں کرنا چاہیں وہ دنیاوی باتیں تھیں.میں نے کہا آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کے لئے روحانی حاکم بنایا ہے جس طرح آپ کے وقت کاموں کے مقرر ہیں اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہو گیا.ہم کھڑے ہو گئے.فنانشل کمشنر بھی کھڑے ہو گئے اور خوش خوش ہمارے ساتھ خیمہ تک باہر آئے اور ٹوپی اتار کر سلام کیا اور ہم چلے آئے.|rr|

Page 568

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۱۹ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ امریکن سیاح قادیان میں ۷ اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان میں شکاگو کے ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی لیڈی مس بارڈون اور ایک سکاچ مین ، مسٹر بانسر کے ہمراہ قریبا دس بجے قادیان آئے.مسجد مبارک کے نیچے دفاتر میں ان کو بٹھایا گیا.اور چونکہ انہوں نے حضرت اقدس سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی اس لئے حضرت اقدس بھی رہیں تشریف لے آئے.ڈپٹی مجسٹریٹ علی احمد صاحب ایم.اے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ترجمان بنے.سیاح نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے مسٹرڈوئی کو کوئی چیلنج دیا تھا.کیا یہ درست ہے؟ اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے.ہم نے ڈوئی کو چیلنج دیا تھا.اس کے بعد سوال و جواب کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا.کچھ دیر بعد امریکن سیاح نے سوال کیا کہ آپ نے جو دعوی کیا ہے اس کی سچائی کے دلائل کیا ہیں ؟ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ خود آپ کا اتنے دور دراز ممالک سے یہاں اک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ہماری صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کہ ہم بالکل گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو ا يَا تُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے اور خدا کی مدد ایسی راہوں سے آئے گی کہ وہ لوگوں کے بہت چلنے سے گہرے ہو جائیں گے سیاح نے سوال کیا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے ؟ حضور نے مفصل جواب دیا.اس گفتگو کے بعد ان کے سامنے کھانا رکھا گیا.اس دوران میں انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد کیا ہو گا.مفتی صاحب نے کہا ” وہ ہو گا جو خدا کو منظور ہو گا اور جو ہمیشہ انبیاء کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے." کھانے کے بعد یہ لوگ مدرسہ تعلیم الاسلام میں گئے جہاں ایک طالب علم نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور رخصت ہو کر بٹالہ چلے گئے.121

Page 569

تاریخ احمدیت به جلد ۲ د ۲۹ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳۲ پد ۹۷/ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمبر ۲-۳ ۵۲۰ حواشی حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ بار / جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمبر ۳۰۲ - بدر ۹/ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۱۲ کالم نمبر.۱۲ صفحہ ۲ کالم ، مفصل تقریر بدر کے علاوہ الحکم ۲ تا ۱۴/ جنوری ۱۹۰۸ء کے نمبروں میں بھی -4 چھپ گئی تھی پدر / جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمبر ۳ کالم نمبرا بد // جنوری ۱۱۹۰۸ صفحه ۸۰۴ بحث کا خلاصہ بدر ۹/ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم نمبر پر چھپ گیا جس کے مطابق ۱۹۰۸ء کے لئے مجوزہ آمد کی میزان ۶۳۸۷۵ اور مجوزہ خرچ کی میزان ۲۲۵۵۹ تھی پدر ۹/ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳ ولادت پر فروری ۱۸۹۳ء بمقام سیالکوٹ.آپ داخل احمدیت کیسے ہوئے؟ اس پر خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں (ستمبر ۱۹۰۳ء میں) " جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید میں تھی.جو اثر بھی میرے دل پر اس وقت ہوا وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے وہ سچ ہے.اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہو گئی.میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی.بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے ہیں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کرہی مانا تھا اور وہی اثرات اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہیں اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں ۳/ ستمبر ۱۹۰۴ء کے دن سے ہی احمد ہی ہوں." قادیان کی پہلی مرتبہ زیارت نمبر ۱۹۰۵ء میں نصیب ہوئی اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ۱۶ ستمبر ۱۹۰۷ء کو بیعت کی جیسا کہ آپ خود لکھتے ہیں.جب ستمبر ۱۹۰۷ء میں میں والد صاحب کے ساتھ قاریان آیا تو حضرت خلیفتہ المسیح اول کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے خودی ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرلی.اور یہ ۶/ ستمبرے ۱۹۰ ء کا دن تھا." (سورہ سیرت المہدی حصہ چهارم غیر مطبوعہ صلح ۴۹۳/۳۹۱/۲۴۱/۴۳۹/ " تحدیث نعمت " صفحہ ۸۷ متولفہ حضرت چوہدری صاحب طبع اول ستمبر اے 19 زمانہ تعلیم کے بعد (جس میں سنگہ کالج کیمبرج میں حصول تعلیم کا زمانہ بھی شامل ہے) آپ کی قانونی زندگی کا آغاز ۱۹۱۶ء میں ہوا.برطانوی ہند میں آپ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۱ء تک وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن رہے.۱۹۳۹ ء میں لیگ آف نیشنز کے اجلاس میں ہندوستانی وفد کی قیادت کا فرض ادا کیا.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے مسلم لیگ کے کیس کی وکالت کی.قیام پاکستان پر آپ کو قائد اعظم نے وزیر خارجہ مقرر کیا.۱۹۵۲ء میں آپ اولاً عالمی عدالت انصاف کے حج اور بعد ازاں اس کے نائب صدر بنے.۱۸ ستمبر ۱۹۶۲ء کو بھاری اکثریت سے جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے.چوہدری صاحب موصوف کی حمایت میں مصر سمیت تمام عرب ممالک نے روٹ دیئے.آپ کے مد مقابل سیلون کے پروفیسر بالا سکیر اکو با ضابطہ سو روٹوں میں سے صرف ۲۸ ووٹ لے.ووٹروں میں کمیونسٹ ممالک کیوبا یوگو سلاویہ اسرائیل بھارت اور سیلون وغیرہ شامل تھے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے صحیح اسلامی تعلیم کو دنیا کے بین الاقوامی علمی اور سیاسی حلقوں تک پہنچانے میں بڑے شاندار کارنامے سر انجام دیے ہیں جن کا مفصل تذکرہ خلافت ثانیہ کے دور

Page 570

۵۲۱ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ میں آرہا ہے.(وفات 8 ستمبر ۱۹۸۵ء) - ولادت قریبا ۱۸۷۵ ء وفات ۱۰ جنوری ۱۹۵۵ء پہلی مرتبہ ۱۵/ تمبر۷ ۱۹۰ء کو قادیان گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہو کر ۲ ستمبر ۱۹۰۷ء کو اپنے اصلی وطن جدہ کی طرف روانہ ہو گئے.حضرت اقدس نے ان کو محکم معظمہ اور جدہ کے علماء میں تقسیم کرنے کے لئے "استتاء " اور " تفسیر سورہ فاتحہ " کے دس دس نسخے عطا فرمائے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حرم خاص حضرت سیدہ عزیزہ بیگم (ام وسیم احمد) آپ ہی کی صاحبزادی ہیں الله ولادت ۱۸۸۷ء مرحوم شیخ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف محمد بخش صاحب تھائید ارٹالہ کے بیٹے تھے.شیخ صاحب کی اہلیہ صاحبہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود ہتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ایک کپڑا مجھے دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑا تمہیں کس نے دیا ہے؟ پھر فرمایا.یہ اس کے بیٹے نے دیا ہے جس نے تمہارے ٹرنک لیکھرام کی تلاشی کے وقت توڑے تھے.بہر حال حضور انور کو اس خیال سے کس قدر روحانی سردر حاصل ہوا ہو گا کہ اللہ تعالٰی کس طرح مخالفین کی اولاد کو پکڑ پکڑ کر حضور کے قدموں میں گرا رہا ہے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۲۰۰ طبع اول) شیخ صاحب پولیس کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہو کیا ۱۹۴ء میں مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور کچھ عرصہ تک آپ نے افسر حفاظت کے فرائض بھی سرانجام دیئے.۲۴ / جولائی ۱۹۵۳ء کو ربوہ میں فوت ہوئے اله رسالہ کا نام " الہام " ہے جو خلافت لائبریری ربوہ کے ہندو لٹریچر میں موجود ہے ۱۳ چشمه معرفت " ( طبع اول صفحه ۳۲۴-۳۲۵ ایک سکھ دروان لکھتے ہیں:.گورو ہر سائے میں ایک قرآن شریف پڑا ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ وہ قرآن شریف ہے جس کو گورو نانک صاحب سکے اور مدینے کے سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے تھے." ( خالصہ کا چار ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء بحوالہ سکھ مسلم اتحاد کا گلد اردو مولفه صاحبزادہ مرزا د سیم احمد صاحب ناظردعوت و تبلیغ (تاریان) -۵ ان کے مختصر حالات کے لئے ملاحظہ ہو " تذکر و روسائے پنجاب (اردو) جلد اول صفحہ ۳۴۸-۳۵۱ فیروز پور گزٹ مطبوع ۱۸۸۶ء - ۱۷ چشمه معرفت " ( طبع اول) صفحه ۳۳۷۳۳۶ ۱۸ در چشمه معرفت صفحه ۳۳۶-۳۳۷ (ترجمہ) پر اچین بیٹر ان صفحہ ۱۸ ۲۰ چشمه معرفت صفحه ۳۳۸-۳۳۹ ۱ بدر ۲۷ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ ۲۲ سیرت المهدی حصہ دوم صفحه ۵۳ الفضل ۲۵/۲۴ نومبر ۱۹۶۰ء ( خطبہ نکار ۲۴ ۲۵ اصحاب احمد " جلد دوم صفحه ۲۵۳ ايضا صفحه ۳۰۲ ۲۷ نومبر ۱۸۸۳ء کو پیدا ہوئے.نومبر ۱۹۰۴ ء میں بمقام لاہور حضور علیہ السلام کی پہلی مرتبہ زیارت کی.۲۸/ جنوری ۱۹۰۹ء سے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور مدرسہ احمدیہ میں مدرس مقرر ہوئے.۱۹۳۹ء میں جامعہ احمدیہ میں سالہا سال تک پروفیسر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے.سلسلہ احمدیہ کے اعلیٰ پایہ کے عالم بہت بڑے محقق علوم شرقیہ کے ماہر نہایت منکسر المزاج بے نفس اور بالغ نظر بزرگ تھے.سلسلہ کے بہت سے مبلغین بلکہ متعدد افراد خاندن مسیح موعود کو آپ کی شاگردی کا فخر حاصل ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ اللہ تعالی نے تقویم ہجری رسمی کے لئے جو کمیٹی مقرر کی تھی اس میں سب سے اہم کام کرنے والے رکن اپ تھے.اسی طرح کشوف و الہامات مسیح موعود کی ترتیب و تدوین میں آپ نے نمایاں حصہ لیا بلکہ اس اہم خدمت کے اصل انچارج اور زمہ دار آپ ہی تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کے ساتھ بہت سے سفروں میں ہمرکاب رہے کیونکہ آپ کو علوم عربی کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں اور سلسلہ کے خصوصی مسائل پر غیر معمولی عبور

Page 571

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۲۲ حضرت مسیح موعود کے مبارک دور کا آخری سالانہ جلسہ تھا.آپ نے متعدد کتابیں لکھیں جو احمد یہ لٹریچر میں عمدہ اضافہ ہیں.مثلا "تنویر الابصار "" درود شریف - " "محامد خاتم النبین" تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب " اہل پیغام کے بعض خاص کارنا ہے " نشان رحمت ".۸ / مارچ ۱۹۴۰ء کو آپ کا انتقال ہوا ۲۸ سیرت احمد صفحه ۵۴-۲۶) مولفه مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری) ۲۹- ان کے نام بد ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ ء صفحہ ۲ کالم نمبر ٢ پر چھپ گئے تھے ۳۰ بدر ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲ دا حکم ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۱ ام "سیرت احمد صفحه ۲۶ ۲۶۲ ۳۲- ایضا صفحہ ۵۸۵۷ ۳۳- "حیات طیبہ " طبع دوم میں لکھا ہے کہ حضور نے خیمہ سے باہر آنے پر دیکھا کہ بہت سے احمدی جمع ہیں اور مصافحہ کے خواہشمند.اس پر حضور قادیان کی آبادی کے باہر ایک جگہ کھڑے ہو گئے اور سب خادموں کو مصافحہ کا شرف بخشا." سلسلہ کے قدیم اخبارات سے اس امر کی تائید نہیں ہوتی.اور ویسے عقل بھی اسے صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ حضورہ بجے شام کیمپ میں تشریف لے گئے.پون گھنٹہ تک آپ نے گفتگو فرمائی.انداز اپونے چھ بجے ایسے وقت میں روانہ ہوئے جب کہ شام کی نماز کا وقت ہو چکا تھا.جیسا کہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی عینی شہادت ہے.اندریں صورت آپ کا قادیان کی آبادی سے باہر سب خادموں کو مصافحہ کا شرف عطا فرمانا درست معلوم نہیں ہوتا.خصوصاً جب کہ اس وقت ایک جم غفیر موجود تھا و الله اعلم بالصواب ۳۴ الحکم ۱۰ر اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ.۲ بد ر ۹/ اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۲-۱۵

Page 572

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو را حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لاہور!

Page 573

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۲۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سطر لا ہو را حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لاہور " چشمہ معرفت کی اہم تصنیف اور دوسرے مسلسل علمی و دینی مشاغل کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی صحت پر بہت اثر پڑا تھا.مزید بر آن حضرت ام المومنین کی طبیعت بھی ان دنوں نا ساز تھی اور ان کی باصرار خواہش تھی کہ لاہور جاکر کسی ماہر لیڈی ڈاکٹر سے علاج کرائیں.حضور نے حضرت سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے فرمایا کہ مجھے ایک کام در پیش ہے دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.چنانچہ انہوں نے رویا میں دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نور الدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابو بکر ہوں.دوسرے دن حضرت سیدہ موصوفہ نے حضور کو یہ خواب سنائی تو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا " یہ خواب اپنی اماں کو نہ سنانا." اس خواب کے علاوہ ۲۶ / اپریل ۱۹۰۸ء بوقت چار بجے صبح یعنی تیاری سے صرف ایک روز قبل خود حضرت اقدس علیہ السلام پر الہام بھی ہوا.مباش ایمن از بازی روزگار" ان آسمانی خبروں کی بناء پر حضور کو احساس ہو چکا تھا کہ اس سفر میں حضور کو سفر آخرت بھی پیش آنے والا ہے اور اسی لئے حضور لا ہور تشریف لے جانے میں بہت متامل تھے.قادیان سے روانگی لیکن خدائی نقد یہ چونکہ میں تھی النا حضور علیہ السلام ۷ ۱۲ اپریل ۱۹۰۸ء یہی کی صبح کو قادیان سے بٹالہ روانہ ہو گئے.حضور کے ہمراہ اس سفر میں گیارہ افراد تھے.روانگی سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آخری عمر میں حضور تصنیف فرمایا کرتے تھے.حضور نے یہ حجرہ بند کرتے ہوئے کسی کو مخاطب کرنے کے بغیر فرمایا " اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے." بٹالہ پہنچے تو خلاف توقع ریز رو گاڑی نہ مل سکی.حضور اقدس علیہ السلام نے ریزرو گاڑی کے

Page 574

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۲۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو ر 1 انتظار میں ایک روز قیام فرمایا.اور ۲۹ / اپریل ۱۹۰۸ء کو بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہوئے.گاڑی امر تسر اسٹیشن پر پہنچی تو مخلصین امر تسر نے حضور سے مصافحہ کیا.اس وقت جذب و کشش کا یہ عالم تھا کہ اسٹیشن پر جس انسان کے کان میں آپ کا نام پہنچا شوق زیارت میں بھاگا چلا آیا.اسی اثناء میں ایک معزز غیر احمدی دوست چند احباب کے ساتھ تشریف لائے.حضرت اقدس نے ان کو گاڑی کے اند ر بلا کر بیٹھا لیا اور نہایت محبت بھرے الفاظ میں ان کو مسئلہ وفات مسیح کے بارے میں قرآنی شہادت پیش فرمائی.اتنے میں گھنٹی بجی اور گاڑی لاہور کو چل دی.حضور بالا خر بخیریت لاہور پہنچ گئے.احمد یہ بلڈ مگس میں قیام اور مخلصین کی آمد لاہور میں حضور ابتداء خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ، ایل ایل بی وکیل چیف کورٹ کے مکان میں فروکش ہوئے.بعد ازاں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اسٹنٹ کیمیکل ایگزیمیز پنجاب کے مکان میں منتقل ہو گئے.اخبار بد ر کا دفتر ساتھ ہی نبی بخش صاحب احمدی کے زیر تعمیر مکان میں کھولا گیا اور یہیں سے اس کی طباعت و اشاعت کا انتظام ہونے لگا.حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب نے احمد یہ بلڈ مکس کے میدان میں روزانہ قرآن شریف کا درس بھی جاری فرما دیا.حضرت اقدس کی لاہور میں آمد کی خبر سن کر حضور کے خدام کثیر تعداد میں پہنچنے لگے.سینکڑوں احمدی احباب دور و نزدیک سے اگر احمد یہ بلڈ مگس میں ڈیرے ڈالے پڑے رہتے اور وسیع میدان میں گھاس پر چٹائیاں بچھا کر سو رہتے تھے.جماعت لاہور نے عزم کر رکھا تھا کہ جب تک حضور علیہ السلام کا قیام رہے گاوہ جملہ اخراجات برداشت کرے گی.مگر مقامی جماعت کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے چند دن بعد ایک نانبائی کی صاف ستھری دکان کا بھی انتظام کر لیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور یہاں بتانا مناسب ہو گا کہ ان دنوں حضور کی میں جائے رہائش اور اس کا ماحول رہائش گاہ جس حلقہ میں تھی وہ احمد یہ بلڈ مگس 11 کے نام سے موسوم ہوتا تھا.ان دنوں احمد یہ بلڈ مگس میں مختلف احمدیوں کے دو چار چھوٹے چھوٹے مکانات کے علاوہ تین بڑی عمارتیں تھیں.ا.سید محمد حسین شاہ صاحب کا وسیع دو منزلہ مکان اسلامیہ کالج گراؤنڈ کے سامنے جو کیلیانوالی سڑک (برانڈرتھ روڈ) کے کنارے واقع تھا.اسی مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالاخر رہائش پذیر ہوئے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ ”جہاں کیلوں والی سڑک پر ہماری گاڑی کھڑی ہوتی تھی جنوب کی جانب وہاں لکڑی کی سیڑھی چڑھ کر ہم اوپر (سید محمد حسین شاہ صاحب

Page 575

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۲۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری مقر لا ہو را کے مکان میں.ناقل) جاتے تھے اور داخل ہوتے ہی سامنے جو کمرے تھے ان میں دائیں ہاتھ کے کمرے میں حضرت اقدس کا دن میں قیام رہتا تھا اور دوسرا کمرہ جس میں آخری وقت چار پائی تھی یہ خالی تھا مگر اس میں آپ شملتے بھی تھے اور گزرگاہ یہی تھا اس سے صحن میں جانا ہو تا تھا.باہر سے آکر بھی اس کمرے میں گزرنے کا راستہ تھا...اس کمرہ کے سرہانے کی جانب (مغرب میں) ایک چھوٹے چھوٹے کمروں کا سلسلہ تھا.دو تین یا شاید چار ہوں ان میں حضرت بڑے بھائی صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی.ناقل ) اور منجھلے بھائی صاحب (حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.ناقل ) وغیرہ رہتے تھے.ان کے سامنے چھجے بھی تھے.اس کے ساتھ صحن میں آپ رات کو سوتے تھے." الله ۲.اس مکان کے مشرقی جانب خواجہ کمال الدین صاحب کا مکان تھا.دونوں کے درمیان گلی تھی جس کے اوپر دونوں مکانوں کے الحاق کے لئے ایک پر وہ والا پل بنا ہوا تھا جس کے دروازے عموماً بند رہتے تھے اور صرف نماز کے وقت حضور کے تشریف لانے پر کھلتے تھے.نمازیں خواجہ صاحب کے مکان کی بالائی منزل میں ہوتی تھیں..تیسرا مکان کو ٹھی کی طرز کا ڈاکٹر مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب کا تھا جس کے مشرق میں بعد از ان خلافت اولی میں احمد یہ بلڈ مکس کی مسجد تعمیر ہوئی.لاہور میں حضرت اقدس کی مصروفیات.تقاریر اور نصائح کا سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی ہمیشہ معمور الاوقات رہی مگر یہاں تو حضور کی مصروفیات کا رنگ ہی اور ہو گیا تھا.اور گو آپ بظاہر تبدیلی آب و ہوا کی نیت سے یہاں آئے تھے مگر یہاں تشریف لاتے ہی آپ اس طرح پیغام حق میں مصروف ہو گئے کہ یوں نظر آتا تھا کہ گو یا عظیم فاتح جرنیل ہے جو ایک دوسری منزل پر روانہ ہونے سے قبل اپنا کام تیزی سے ختم کرنے کی فکر میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے.حضور علیہ السلام حسب معمول نمازوں کے اوقات میں باہر تشریف لاتے.خدام اور زائرین کا ان اوقات میں ایک ہجوم ہو جاتا اور حضور اپنی پاک مجلسوں میں ایمان و عرفاں کے نکات بیان فرماتے.ملاقات کرنے والوں میں رؤساء ، سیاسی لیڈر مسلمان، سکھ اور ہندو غرمکہ ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوتے اور فیض اٹھاتے.اور جن سعید روحوں پر حق کھل جاتا وہ آپ کی بیعت میں شامل ہو جاتے.چنانچہ ان دنوں اتنی کثرت سے لوگ بیعت میں داخل ہوئے کہ اخبار "بدر" میں ان کی اشاعت مشکل

Page 576

تاریخ احمدیت.جلد ؟ ہو گئی.۵۲۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو رہا قیام لاہور کا پہلا دن ۳۰/ اپریل ۱۹۰۸ء حضور کے قیام لاہور کا پہلا دن تھا جب کہ ابھی پوری طرح یکسوئی اور سکون میسر نہیں آسکا تھا مگر اس دن سے ہی حضور نے پوری قوت سے پیغام پہنچانا شروع کر دیا.چنانچہ اس روز فرمایا." ہمیں خدا نے ایک پکا وعدہ دیا ہے اس میں ذرا بھی شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.نیز فرمایا.جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خداتعالی اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے.ہمیں تبلیغ کرتے ہوئے چھبیس سال ہوئے.اور جہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کر چکے ہیں.اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ te دکھلا دے گا اور فیصلہ کرے گا." ۱۵ شہزادہ سلطان ابراہیم صاحب اور مسٹر محمد علی صاحب جعفری کی ملاقات ان دنوں شیرانوالہ گیٹ لاہور میں احمد شاہ ابدالی کی نسل میں سے ایک دوست رہتے تھے جن کا نام شہزادہ سلطان ابراہیم تھا.۲ / مئی کو نماز عصر کے بعد شاہزادہ صاحب موصوف حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے ان کو فارسی زبان میں تبلیغ فرمائی اور دوران ملاقات خلیفتہ المسلمین ترکی کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی کہ "بادشاہ اور خلیفتہ المسلمین اور امیر المومنین کہلا کر بھی خدا کی طرف سے بے پروائی اچھی بات نہیں.مخلوق سے اتناؤ ر نا کہ گویا خدا کو قادر ہی نہیں سمجھنا یہ ایک قسم کی سخت کمزوری ہے.لوگ کہتے ہیں کہ وہ خادم الحرمین ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ حرمین اس کے حافظ ہیں.حرمین کی برکت اور طفیل ہے کہ اب تک وہ بچا ہوا ہے."یہ الفاظ بعد میں جس شان سے پورے ہوئے اس پر ایک عالم گواہ ہے.ای روز مسٹر محمد علی جعفری ایم.اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج بھی ملاقات کے لئے آئے تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے حضور نے ایک پر معارف تقریر فرمائی.نیز بتایا ”ہم نے زبانی اور تحریری

Page 577

تاریخ احمدیت.جلد ۲ APA حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر نا ہو رہ طور پر اپنا کام پورا کر دیا ہے اور دنیا میں شاید ہی کوئی کہہ سکے کہ اسے ہماری تبلیغ نہیں ہوئی یا ہمارا دعویٰ نہیں پہنچا." A جماعت کو نصائح اور توحید کا وعظ قیام لاہور کے دوران حضور نے جماعت کو اپنی تربیت و اصلاح کی طرف بھی بار بار توجہ دلائی.چنانچہ ۴/ مئی کو ارشاد فرمایا کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح تم بھی مسلمان کہلاتے ہو مگر اللہ صرف دعووں سے خوش نہیں ہو تا جب تک اس کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو.بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اند ریچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے.اسی طرح 19 مئی کو توحید کے مسئلہ پر ایک لطیف وعظ میں فرمایا ” مسلمانوں کو توحید کا فخر ہے.توحید سے مراد صرف زبانی توحید کا اقرار نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عملی رنگ میں حقیقتاً اپنے کاروبار میں اس امر کا ثبوت دے دو کہ واقعی تم موحد ہو اور توحید تمہارا شیوہ ہے." پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی ملاقات اور اس کا اثر پہلی ملاقات انگلستان کے ایک ماہر بیت دان پروفیسر ریگ ان دنوں ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے.مفتی محمد صادق صاحب نے ان سے ملاقات کی اور حضرت اقدس کے د عادی اور دلائل وغیرہ ان کو سنائے جس پر پروفیسر صاحب نے حضرت اقدس سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا.چنانچہ ۱۲ / مئی ۱۹۰۸ء کو قبل ظہران کو شرف باریابی نصیب ہوا.پروفیسر صاحب نے دوران ملاقات میں حضور سے کئی سوالات کئے.مثلاً جب خدا کی مخلوق بے شمار اور غیر محدود ہے تو اس کے فضل کو کیوں صرف اس حصہ زمین یا کسی مذہب وملت میں محدود رکھا جائے؟ گناہ کیا چیز ہے ؟ شیطان کسے کہتے ہیں؟ آئندہ زندگی کس طرح سے ہوگی اوروہاں کیا کیا حالات ہوں گے ؟ مسٹر ریگ کے ساتھ ایک لیڈی بھی تھی جس نے یہ سوال کیا کہ کیا مردوں سے رابطہ قائم کر کے ان کے صحیح حالات دریافت کئے جاسکتے ہیں ؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے ان تمام سوالات کے نہایت لطیف، مسکت اور جامع جوابات دیئے جنہیں سن کر مسٹرریگ از حد متاثر ہوئے اور حضور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ " مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے کامل

Page 578

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۲۹ اطمینان ہو گیا اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی میں نہیں." دوسری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری مغرل ہو رہا مسٹر ریگ ۱۸/ مئی کو دوبارہ حاضر ہوئے اور اس دفعہ بھی حضور سے کئی سوالات کئے.مثلاً کیا خدا محدود ہے یا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.اس میں کوئی شخصیت یا جذبات پائے جاتے ہیں؟ اس کی کوئی شکل بھی ہے؟ دنیا میں اس نے ادنی اعلیٰ کا تفاوت کیوں رکھ دیا؟ کیا بائبل کے بیان کے مطابق پہلا انسان بیجوں میحوں میں پیدا ہوا تھا؟ کیا حضور مسئلہ ارتقاء کے قائل ہیں؟ سپر بچو لزم کی رائے ہے کہ زندگی چاند سے پہنچی ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ مکھیوں یا ادنیٰ قسم کے جانوروں میں جو زندگی پائی جاتی ہے اس کو کس نام سے تعبیر کیا جائے گا.وغیرہ ذلک.غرضکہ علوم جدیدہ کے ماہرین کے دلوں میں جن باتوں سے خلش ہوتی ہے وہ مسٹر ریگ نے دل کھول کر حضور کے سامنے رکھیں.حضور نے ہر سوال کے جواب میں ایسی مختصر مگر جامع روشنی ڈالی کہ وہ وجد میں آکر کہنے لگے میں تو خیال کرتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے جیسا کہ عام طور پر علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے.حضور نے فرمایا یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنا ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اسلام کے اصولوں کو ہرگز ہر گز نہ جھٹلا سکے گی.اس ملاقات کے بعد پروفیسر ریگ کے خیالات ہمیشہ پروفیسر ریگ کے خیالات میں تبدیلی میں جاری تبدیلی واقع ہوگئی.چنانچہ پہلے وہ پیش اپنے لیکچروں میں مسیح کی مصلوب تصویر پیش کر کے کہا کرتے تھے کہ یہ مسیح کی تصویر ہے جس نے تمام دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو کر اپنی کامل محبت اور رحم کا ثبوت دیا مگر اب وہ صرف یہ الفاظ کہتے کہ یہ تصویر صرف عیسائیوں کے واسطے موجب خوشی ہو سکتی ہے کچی تعریف اور ستائش کے لائق وہی سب سے بڑا خدا ہے.ا پر وفیسر صاحب بعد میں احمدی ہو گئے تھے اور مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے اور ان کے خطوط حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے پاس آتے رہے.مسٹر فضل حسین صاحب کی ملاقات مسلمانوں کے مشہور روشن خیال سیاسی لیڈر فضل حسین صاحب بیر سٹرایٹ لاء (متوفی ۱۹۳۶ء) ایک دوسرے بیرسٹر کے ہمراہ ملاقات کے لئے ۱۵ / مئی کو حاضر ہوئے.مسٹر فضل حسین صاحب نے

Page 579

تاریخ احمدیت.جلد ۲ الله حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو را متعدد سوالات کئے جن کا حضور نے مفصل جواب دیا.مثلاً ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کے خود کا فرنہ بن جائے.جب میں نے مامور ہونے کا دعوی کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میرے خلاف فتویٰ کفر شائع کیا.اب یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کے وہ کافر ہوتا ہے.پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کر سکتے ہیں ؟ پبلک لیکچر اور رؤسائے لاہور کو تبلیغ ۷ از مئی ۱۹۰۸ء کا دن قیام لاہور کے عرصہ میں ایک یادگاری دن تھا.کیونکہ اس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق لاہور کے عمائد و رؤساء کو کھانے پر مدعو کیا گیا.حضور کی طبیعت ۱۷/ مئی کی شب کو اسہال کے باعث بہت ناساز ہو گئی تھی اور یہ امید نہ رہی کہ حضور خود تقریر فرما سکیں گے.چنانچہ اسی خیال سے حضور نے حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب گوار شاد فرمایا کہ معزز مہمانوں کو کچھ سنا دیں اور انہوں نے تقریر شروع بھی کر دی تھی.مگر صبح کو اللہ تعالی نے بشارت دی که انى مع الرسول اقوم میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں) چنانچہ حضور وعدہ الہی کے مطابق غیبی طاقت و قوت پا کر بنفس نفیس تشریف لے آئے اور ا ابجے سے ایک بجے بعد دوپہر تک بڑی پر زور اور موثر تقریر فرمائی.بارہ بجے حضور نے فرمایا گر آپ چاہیں تو میں تقریر بند کر دوں آپ کھانا کھالیں.مگر تمام معزز سامعین نے یک زبان ہو کر عرض کیا کہ نہیں آپ تقریر جاری رکھیں وہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں مگر یہ روحانی غذا پھر کہاں میسر آئے گی.الغرض ایک بجے کے بعد حضور کی یہ پر معارف تقریر ختم ہوئی.اس تقریر میں حضور نے صوبہ کے صدر مقام کے معزز مسلمانوں اور تعلیمیافته رو سا پر اتمام حجت کر دی.اس جلسہ دعوت میں لاہور کے بڑے بڑے رؤساء امراء ، وکلاء بیرسٹر اور اخبارات کے ایڈیٹر مدعو تھے جن میں سے اکثر غیر احمدی تھے.حضرت اقدس کی بے نظیر تقریر سے وہ بہت متاثر ہوئے.یہ جلسہ سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے نچلے صحن میں منعقد ہوا اور کھانے کا انتظام خواجہ.کمال الدین صاحب کے مکان میں کیا گیا تھا.TA دعوی نبوت کی وضاحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ میں اپنے دعوی کی وضاحت میں فرمایا کہ " میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا

Page 580

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۳۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو ر ا اخفاء نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے.اور خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے.اس کا نام نبوت ہے.مگر حقیقی نبوت نہیں.یہ تو نزاع لفظی ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے.دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا یہ قول کہ قولوا انه خاتم النبين ولا تقولو الانبي بعدہ اس امر کی صراحت کرتا ہے نبوت اگر اسلام میں موقوف ہو چکی ہے تو یقین جانو کہ اسلام بھی مر گیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے." اخبار عام کی غلط رپورٹ اور حضور کی تردید اخبار عام ۲۳ / مئی ۱۹۰۸ ء نے حضور کے پبلک لیکچر کی خبر دیتے ہوئے یہ غلط رپورٹ شائع کی کہ گویا حضور نے جلسہ میں اپنی نبوت سے انکار کیا ہے جس پر حضور نے اسی دن ایڈیٹر صاحب اخبار عام کو ایک مفصل تردیدی خط لکھا کہ.اس جلسہ میں میں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا.اور اپنا علیحدہ کلمہ علیحدہ قبلہ بنا تا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں یہ لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوئی نہیں اور یہ سرا سر میرے پر تمت ہے.اور جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں.وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا ہے.اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ

Page 581

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۵۳۲ حضرت مسیح موعود علیہ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں.میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے...میں خود ستائی سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جاؤں اور کوئی امرایسے پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا اغلبہ دے گا.اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہو گا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا.بس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے." آخری تقریر ۳۵ اہلحدیث عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے حضور کی خدمت میں رقعہ بھجوایا کہ وہ مسائل متنازعہ فیہ میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں.حضرت اقدس "پیغام صلح" لکھنے میں مصروف تھے اس لئے حضور نے ۲۵ / مئی ۱۹۰۸ء کو مولوی محمد احسن صاحب کو تبادلہ خیالات کرنے کا ارشاد فرمایا.رقعہ ملنے کے وقت چونکہ حضور اپنے خدام میں تشریف فرما تھے اس لئے حضور نے اسی وقت حیات مسیح کے رد میں ایک مفصل تقریر بھی کی جس کے آخر میں فرمایا.عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عیسی محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے." یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری تقریر تھی جو آپ نے بڑے زور اور خاص جوش سے فرمائی.دوران تقریر حضور کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہو جاتا تھا کہ نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جاتا تھا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اور جذب تھا.رعب ہیبت اور جلال اپنے کمال عروج پر تھا.بعض خاص خاص تحریکات اور موقعوں پر ہی یہ شان دیکھنے میں آئی ہوگی جس کا ظهور اس دن ہو رہا تھا.اس تقریر کے بعد حضور نے کوئی تقریر نہیں فرمائی.حضرت میاں جہاں خان صاحب آف مانگٹ اونچا تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ آخری صحابی آخری صحابی ہیں جنہیں دستی بیعت کا شرف حاصل ہوا.آپ کی تحریری بیعت اخبار بد ر ۲۵- اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ا ا پر شائع ہوئی.انہوں نے ایک بار خود بیان فرمایا کہ " حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب لاہور تشریف لائے تو انہوں نے حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر دستی بیعت کی تھی " (مکتوب حضرت سید نا خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی بنام مولف کتاب مورخہ ۱۷

Page 582

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۳۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو رہ - جون ۱۹۹۴ء - لندن) مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ”حیات قدی" جلد ۳ صفحه ۵ از حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی) قیام لاہور کا ایک ایمان افروز واقعہ بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہور اور میاں عبد العزیز صاحب مغل کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب کہ حضور لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالی نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہیے.چنانچہ ہم نے گاڑی والے سے کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو آج گاڑی ہم کھینچیں گے.کوچ مین نے ایسا ہی کیا.جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان قوموں کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے.فرمایا فور اگھوڑے جو تو !! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.اتحاد اقوام کے لئے ”پیغام صلح کی تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قیام لاہور کے دوران میں صرف تقاریر کے ذریعہ سے ہی اتمام حجت نہیں فرمائی بلکہ حضور نے ان دنوں ایک عظیم الشان رسالہ "پیغام صلح " بھی لکھا جو حضور کی آخری تصنیف تھی.حضور کے لکھے ہوئے مسودہ کو ساتھ ہی ساتھ کاتب بھی لکھتا جاتا تھا.ایک مرتبہ نماز عصر کے بعد حسب معمول تشریف فرما تھے اور احباب جھرمٹ ڈالے بیٹھے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب بھی موجود تھے.کاتب مضمون لکھ رہا تھا اور خواجہ صاحب اپنی نگرانی میں لکھوا رہے تھے.حضور نے پوچھا کہ خواجہ صاحب مضمون کا کیا حال ہے؟ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور کاتب لکھ رہا ہے.حضور نے فرمایا کہ ”خواجہ صاحب جلدی کیجئے.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری صحت کا کیا حال

Page 583

تاریخ ام tt.جلد ۲ ۵۳۴ حضرت مسیح موعود ہے.بہر حال مشیت الہی میں جتنا حصہ لکھا جانا مقدر تھا وہ جب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا حضور کی وفات نہیں ہوئی."1 پیغام صلح" میں حضور نے ملک کی دو بڑی قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں کو صلح و آشتی کا شاندار پیغام دے کر اتحاد و اتفاق کی ایک مضبوط و مستحکم بنیاد قائم کر دی اور ہندو مسلم کشمکش کے مسئلہ کے خاتمہ کے لئے ایک نیا دروازہ کھول دیا.معاہدہ کی تجویز چنانچہ حضور نے اس میں خدا تعالٰی کی عالمگیر صفت ربوبیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ہندوؤں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہندو اور آریہ صاحبان اگر ہمارے نبی کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین و تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر تیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور دید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے.اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہو گی ہندو صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے.اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کر دیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہو گا کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے.اور اگر ہم ایسانہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہو گی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے." اعلان حق اس تجویز کے ساتھ ہی حضور نے صاف صاف لفظوں میں لکھا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں.

Page 584

تاریخ احمدیت - جلد ۲ ۵۳۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لا ہو رہا حواشی مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۲۰۴ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۷۷ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۳۷ بدر ۲۰ / اپریل ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمیبرا.سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۳۷ اصحاب احمد جلد نهم صفحه ۹۷ او حاشیہ - روایت حضرت اماں جی (سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۲۶۲) -9 سلسلہ احمدیہ صفحے کے اندر ۳۰/ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ دبدر ۲۴/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحه ۲ کالم نمبرا بٹالہ میں حضور کا قیام ریلوے روڈ پر واقع سرائے مائی اچھراں دیوی میں تھا جو " رائل فونڈری بٹالہ " کے قریب بازار کے مشرقی حصہ میں ہے.اس سرائے کے دروازے پر تحریر ہے کہ اس کی بنیاد ۱۵/ اگست ۱۸۹۳ء کو رکھی گئی تھی.سرائے کا دروازہ سڑک کی طرف کھلتا ہے.دروازہ کے اندر داخل ہوتے ہی سیڑھیاں دائیں جانب سے اوپر کو چڑھتی اور ایک کمرہ کے سامنے جا کر ختم ہو جاتی ہیں.یہ کمرہ دوسری منزل پر ہے اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمرے تھے.یہیں سے حضور اقدس ام المومنین کو لے کر علی وال بھی تشریف لے گئے.(اصحاب احمد جلد 9 صفحہ ۱۹۷) ا حکم ۶/ اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲-۳ ۱ بدر ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر.۲۶۲ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ نمبرے کالم نمبر ۲ احمد یہ بلڈ کس کی بنیاد ۱۹۰۶ ء میں رکھی گئی.یہ زمین چوہدری اللہ یار صاحب کی ملکیت تھی جن سے ابتداڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب نے غالبا نتا نوے سال کے لئے کرایہ پر حاصل کی اور مکانات تعمیر کئے بعد ازاں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور میاں نبی بخش صاحب نے بھی عمارات تعمیر کیں.(پیغام صلح ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۲۶-۲۷) - حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ۱۹/ جون ۱۹۶۲ء کا مکتوب گرامی جو حضرت سیدہ موصوفہ نے مولف کتاب " تاریخ احمدیت کو ارسال فرمایا مکمل خط کا چر یہ کتاب ہذا کے آخر میں شامل کیا گیا ہے.۱۳ روایت مکرم صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت احمدیہ سکھر ( ملاحظه ۱۲/ جون ۱۹۷۳ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۳.۴) ۱۴ بدر ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء صفحہ سے کالم نمبرا ۱۵- الحکم ۲۶ / اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۱۳ کالم نمرا ۳ تذکرہ رؤسائے پنجاب جلد اول صفحہ ۴۷۶ طبع دوم میں غالبا انہی کے حالات درج ہیں ۱۷ مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو ا حکم ۱۴/ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ تا ۷ الحکم ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵ تائے 19 الحکم ۱۸/ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ ۲ کالم نمبر ۴ الحکم ۱۳۰ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر -۲ الحکم ۱۳۰ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲ ۲۲ - الحکم ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶-۸ ۲۳ بدر ۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم نمبر ۲ ۲۴- الحکم ۳۰/ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴ تاک ۲۵ الحکم ۶ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۲-۳ ۲۶ الحکم ۶/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۳۲

Page 585

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۲۷ پدر ۲۴/ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲-۳ ۲۸ الحکم ۱۴ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ نمبرا -۲ مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو محکم ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ء ۵۳۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری مقرن ہو را ۳۰- حیات قدسی رجسٹر سوم (غیر مطبوعه) صفحه ۷۰۵ از حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ۳۱ روایت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب پٹیالوی الحکم ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۲ کالم نمبر ۲ ۳۳ پد را ارجون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۲ ۳۴ یه خط حضور کی وفات کے بعد شائع ہوا ۳۵ اس کا ذکر اگلے صفحہ پر آ رہا ہے ۳۶- بدر / جون ۱۹۰۸ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲ - ۴۳ محکم ۱۸ ؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷-۸ ۳۷- حیات طیبہ (طبع دوم) صفحه ۴۵۶-۴۵۷ مولفہ جناب شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسله احمد یه وبد را ۲/ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۳ روایت حضرت صاحب دین صاحب الحکم ۱۲۸ مئی ۱۹۳۹ء صفحه ۱۰ کالم نمبرا -۳۹- اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اور دی انڈین پیٹریاٹ مدراس (۷ ستمبر ۱۹۰۸ء) نے پیغام صلح پر زبر دست خراج تحسین ادا کیا -۲۰ پیغام صلح طبع اول مطبوعہ تو کشور پریس لاہور ) صفحہ ۲۵-۲۶ ۴۱ پیغام صلح صفحه ۲۷ تا ۳۱ ۴۲- حضور کا یہ آخری مقدس پیغام عوام تک پہنچانے کے لئے ۲۱ / جون ۱۹۰۸ء کو پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں رائے پر تول چندر صاحب حج چیف کورٹ کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں خواجہ کمال الدین صاحب نے "پیغام صلح کا مطبوعہ مضمون نهایت بلند آواز اور موثر لہجے میں پڑھا جسے حاضرین نے بہت سراہا.اندرون ملک میں ”پیغام صلح کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود ہندوؤں نے اس کی تائید کی اور اس پر عمدہ رائے کا اظہار کیا.چنانچہ اخبار ہندو پیٹریٹ مدر اس نے لکھا وہ عظیم الشان طاقت اور اعلیٰ درجہ کی ہمدردی جو قادیان کے بزرگ کے اس آخری پیغام صلح سے ظاہر ہوتی ہے وہ یقیناً ایک خاص امتیاز کے ساتھ اسے ایک عظیم الشان انسان ثابت کرتی ہے...ایسی ایل ایسے عظیم الشان انسان کی طرف سے یونہی ضائع نہیں جانی چاہیے اور ہر ایک محب وطن ہندوستانی کا مدعا ہونا چاہیے کہ وہ مجوزہ صلح کو عملی رنگ پہنانے کی کوشش کرے " (بحوالہ ریویو آف ریلیجنز " اردو ۱۹۰۸ء صفحه ۴۲۰-۴۴۴).ایک غیر مسلم دوست پی پی سنگھ نے لکھا کتاب پیغام صلح نے مجھ پر حیرت انگیز اثر کیا ہے.میں اسلام کو اچھانہ سب خیال نہیں کرتا تھا.اسلام کے متعلق مسلمانوں کا جو تھوڑا بہت لٹریچر میں نے مطالعہ کیا ہے اس سے بھی مجھے پر میں اثر ہوا تھا کہ اسلام جارحانہ منہ اب ہے میں اسے کبھی رواداری کا مذہب نہیں سمجھتا تھا جیسا کہ اب سمجھتا ہوں." (بحوالہ الفضل ۱۲۹ مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲) مسٹر پر ہم دست ڈیرہ دون نے لکھا " چالیس برس پیشتر یعنی اس وقت جب کہ مہاتما گاندھی ابھی ہندوستان کے افق سیاست پر نمودار نہ ہوئے تھے (حضرت) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے ۱۸۹۱ء میں دعوئی مسیحیت فرما کر اپنی تجاویز رسالہ "پیغام صلح کی شکل میں ظاہر فرمائیں جن پر عمل کرنے سے ملک کی مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے.آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری اخوت اور محبت کی روح پیدا ہو.بے شک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل بعید کے کثیف پردے میں سے دیکھا اور (صحیح راستہ کی طرف رہنمائی فرمائی (اخبار فرنیٹر میل ۲۲/ دسمبر ۱۹۴۸ء (بحوالہ تحریک احمدیت صفحه ۱۲ - ۱۳ متولفہ جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی (قادیان) ”پیغام صلح کو مغربی ممالک میں بھی خاص عظمت و وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا.چنانچہ مشہور انگریزی رساله ریویو آف دی ریویوز نے اس پر تبصرہ لکھا کہ "یہ پیغام ایک سنہری پل کا کام دے سکتا ہے جس پر سے ہو کر مسلمانان ہند قانون اساسی کے خیمہ میں پہنچ سکتے ہیں.پیغام صلح شروع میں ہی تمام ہندوستانیوں کے ایک ہونے کو تسلیم کرتا ہے.وہ بات جس سے اس کی خواہش کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ تمام

Page 586

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۳۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر نا ہو رہ نبیوں کو خدا کی طرف سے مان کرنے ہی اتفاق اور اتحاد کی بنیاد رکھی جائے اس پیغمبر صلح کی یہ نرالی تجویز ہے." ترجمہ (بحوالہ ریویو آن پیج اردو ۱۹۰۸ء صفحه ۲۳۸ ۲۲۰)

Page 587

احمدیت جلد و ۵۳۸ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازہ تدفین سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال مبارک جنازه و تدفین ا اخبارات کے تبصرے

Page 588

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۳۹ سید نا حضرت مسیح موعود کار صال مبارک جنازہ ، تدفین وفات کے متعلق بار بار واضح الہامات فرائض ماموریت و نبوت کی تکمیل کے بعد وہ وقت آگیا کہ برگزیدہ اور خد انما وجود اس دنیا کو خیر باد کہہ دے.جیسا کہ ہم نے بتایا ہے سفر لا ہو ر سے پیشتر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام اطلاع ہو چکی تھی کہ یہ سفر سفر آخرت کا پیش خیمہ ثابت ہونے والا ہے.لاہور میں ۹ / مئی ۱۹۰۸ء کو الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ " کا الہام نازل ہوا تو حضور علیہ السلام نے حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحب کی اہلیہ محترمہ کو بلایا کہ جس جگہ ہم مقیم ہیں اس میں آپ آجائیں اور ہم آپ والے حصہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا نے الہام میں "الرحیل " فرمایا ہے جسے ظاہر میں بھی نقل مکانی سے پورا کر دینا چاہیے " اور معذرت بھی فرمائی کہ اس نقل مکانی سے آپ کو تکلیف تو ہو گی مگر میں اس خدائی الہام کو ظاہر میں بھی پورا کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ خواجہ صاحب والا مکان بدل کر حضور سید محمد حسین شاہ صاحب دالے مکان میں تشریف لے گئے.ایک ہفتہ بعد ۱۷ / مئی ۱۹۰۸ء کو مکمن تکیه بر عمر نا پائدار " کا الہام ہوا جس میں صاف طور پر وفات کی خبر تھی.اس کے بعد ۲۰ / مئی کو جبکہ حضرت اقدس ”پیغام صلح " کی تصنیف میں مصروف تھے آخری الہام ہوا کہ 14 الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ وَالْمَوْتُ قَرِيبٌ.یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا لیکن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دانستہ اس کی کوئی تشریح نہیں فرمائی تاہم ہر سمجھدار شخص سمجھتا تھا کہ اب وقت مقدر سر پر آگیا ہے.اس پر ایک دن حضرت ام المومنین نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود سے کہا کہ اب قادیان را پس چلیں.حضور نے فرمایا اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا.اور آپ بدستور پیغام صلح کا

Page 589

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۴۰ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازه و تدفین مضمون لکھنے میں مصروف رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سرعت اور توجہ کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا.بالا خر ۲۵ / مئی کی شام کو آپ نے اس مضمون کو قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپرد کر دیا.حضور عصر کی نماز سے فارغ ہو کر حسب طریق سیر کے خیال سے باہر تشریف لائے.آخری سیر ایک کرایہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگائی گئی تھی.آپ نے اپنے نہایت مخلص رفیق شیخ (بھائی) عبد الرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں وہ ہمیں صرف اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے.اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قدر ضعف تھا اور غالباً آنے والے حادثہ کے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.مرض الموت کا آغاز حضرت اقدس میر سے واپس بخیرت سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان تک پہنچے.حضور نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں...پھر تھوڑا سا کھانا تناول فرمایا اور آرام کے لئے لیٹ گئے.حضور کو اسمال کی بیماری بہت دیر سے تھی اور جب آپ کوئی دماغی کام زور سے کرتے تھے تو یہ عارضہ ہو جاتا تھا جس سے نبض ساقط ہو جاتی تھی اور عموماً مشک کے استعمال سے واپس آجاتی تھی.لاہور اگر بھی دو تین دفعہ اس بیماری کا حملہ ہوامگر پھر طبیعت بحال ہو گئی لیکن اس روز (۲۵/ مئی کی شام کو حضور نے کھانے کے چند نوالے ہی کھائے تھے کہ اسہال کی حاجت ہوئی.اس کے بعد تھوڑی دیر تک حضور کو دبایا جاتا رہا اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور حضرت ام المومنین بھی سوگئیں.لیکن تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی.کوئی گیارہ بارہ بجے کے قریب طبیعت بے حد کمزور ہو گئی.حضور نے حضرت ام المومنین کو جگایا آپ اٹھیں اور حضور کے پاؤں مبارک کو دبانا شروع کیا.کچھ وقت کے بعد حضور کی حالت ضعف سے بہت نازک ہو گئی جس پر حضرت ام المومنین نے پوچھا کیا مولوی صاحب حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بلالیں؟ حضور نے فرمایا.بلالو.نیز فرمایا.محمود کو جگالو - D

Page 590

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۴۱ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنا ز و و تدفین علاج کی کوشش چنانچہ حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب حاضر ہو گئے.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلوا لیا گیا.حضور نے فرمایا کہ مجھے سخت دورہ اسمال کا ہو گیا ہے آپ کوئی دوا تجویز کریں.پھر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ ”حقیقت میں تو دوا آسمان پر ہے آپ دوا بھی کریں اور دعا بھی." علاج شروع ہوا مگر کمزوری لحظه به لحظہ بڑھتی گئی.زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے بولنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی مگر جو کلمہ اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان لفظوں میں محدود تھا اللہ میرے پیارے اللہ " اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا " حضور کے سب خدام اس وقت مضطرب الحال تھے کچھ دوا د غیرہ میں مصروف تھے اور اکثر نماز تسجد پڑھ رہے تھے.صبح کے وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اقدس کے چرہ مبارک پر نظر ڈالی تو ان کا دل بیٹھ گیا کیونکہ آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ مرض الموت ہے.اس وقت حضور بہت کمزور ہو چکے تھے.ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد.سب سمجھے کہ وفات پاگئے.یکدم سب پر ایک سناٹا سا چھا گیا مگر تھوڑی دیر بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی مگر حالت بدستور نازک ہوتی گئی.کوئی پانچ بجے کے قریب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب بھی آپہنچے.اس وقت حضور کا بدن گرم تھا اور گبھراہٹ تھی مگر جو اس پوری طرح قائم تھے.آہستہ آہستہ بولتے تھے.نواب صاحب کے پہنچنے پر حضور نے دو ایک دفعہ کروٹ بدلی.آنکھ مبارک کھولی اور ان کی طرف دیکھا.نواب صاحب نے السلام علیکم عرض کیا جس کے جواب میں حضور نے و علیکم السلام فرمایا.اتنے میں صبح ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چارپائی کو باہر صحن سے اٹھا کر اندر کمرے میں لے آئے.جب ذرا روشنی ہو گئی تو حضور نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟ عرض کیا گیا کہ حضور ہو گیا ہے اس پر حضور نے بشر پر ہی ہاتھ مار کر تم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی.اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہو گئی اور نماز پوری نہ کر سکے.تھوڑی دیر بعد حضور نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے.آپ نے پھر نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد نیم بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا تھا وہی الفاظ اللہ میرے پیارے اللہ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بلخظ بڑھتا جاتا تھا.غالباً آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے (اور ایک روایت کے مطابق ساڑھے سات بجے) ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر حضور زبان سے جواب نہ دے سکتے تھے اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور حضور نے بائیں ہاتھ پر سہارا

Page 591

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۴۲ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازه و تدفین لے کر بستر سے کچھ اٹھ کر لکھنا چاہا مگر مشکل چند الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھٹتا ہوا چلا گیا اور حضور پھر لیٹ گئے.کاغذ پر جو غالباً حنائی رنگ کا تھا حضور نے یہ لکھا تھا کہ " تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی کوئی دوا دی جائے." یہ الفاظ سید مهدی حسین صاحب (جو اس وقت پلنگ کے سرہانے کھڑے تھے) کاغذ پر تحریر دیکھے بغیر قلم کی روانی اور حرکت کی وجہ سے ساتھ کے ساتھ پڑھتے گئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال نو بجے کے بعد حضور کی حالت زیادہ تشویشناک ہو گئی اور تھوڑی دیر کے بعد نزع کی حالت طاری ہو گئی.غرغرہ میں کوئی آواز وغیرہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھی کھینچ کر آتا تھا.حضرت ام المومنین اس وقت دعا میں مصروف تھیں.کبھی سجدہ میں گر جاتیں اور بار بار یہی کہتی تھیں کہ اے حی و قیوم خدا.اے میرے پیارے خدا اے قادر مطلق خدا.اے مردوں کے زندہ کرنے والے خدا تو ہماری مدد کر.اے واحد لا شریک خدا.اے خدا میرے گناہوں کو بخش میں گنہگار ہوں.اے میرے خدا میری زندگی بھی تو ان کو دیدے میری زندگی کس کام کی ہے یہ تو دین کی خدمت کرتے ہیں.میری زندگی بھی ان کو دیدے.بار بار یہی الفاظ آپ کی زبان پر تھے.اور اخیر میں جبکہ نزع کا آخری وقت بالکل قریب تھا آپ نے فرمایا.اے میرے پیارے خدا یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو.اور کئی بار یہ کہا.تھوڑی دیر غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانس کے درمیان کا وقفہ لمبا ہو تا گیا حتی کہ قریباً ساڑھے دس بجے دو ایک دفعہ لمبے سانس آئے.روح قفس عصری ہی سے پرواز کر گئی اور خدا کا برگزیدہ قرآن کا فدائی اسلام کا شیدائی، محمد ملنے کا عاشق اور دین محمدی" کا فتح نصیب جرنیل جس نے اپنی پوری عمر علمی و قلمی جہاد کی قیادت میں بسر کی تھی ، اپنے اہل بیت اور اپنے عشاق کو سوگوار اور افسردہ چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا کے دربار میں حاضر ہو گیا.إنا لله وانا اليه راجعون وفات کے وقت حضور کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی.دن منگل کا تھا اور سنسی تاریخ ۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء تھی جو (ڈاکٹر محمد شہید اللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی مشرقی پاکستان کی) جدید تحقیق کے مطابق آنحضرت ا کا یوم وصال بھی ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا چشمدید بیان ہے.

Page 592

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۴۳ سید نا حضرت مسیح موعود کا وصال مبارک جنازه و تدفین لاہور میں آپ پیغام صلح لکھ رہے تھے چونکہ وہاں مسافرت کا مقام تھا.جلد واپس آنے کا بھی خیال تھا پیغام صلح کے لیکچر کی بڑے زور شور سے تیاری ہو رہی تھی.اشتہار شائع ہو گئے مضمون بہت زبردست تھا.غیر قومیں مخاطب تھیں اس واسطے بہت توجہ سے آپ اس مضمون کے لکھنے میں مصروف ہوئے اور رات دن اسی کام میں لگے رہتے.شام کی سیر بھی ترک کی ہوئی تھی.کئی روز تک متواتر کام کرتے رہے.آخری دن جس دن مضمون ختم ہوا تو فرمایا آج ہم نے اپنا کام ختم کیا اس شام کو سیر کے واسطے بھی تشریف لے گئے مگر طبیعت پر اس محنت کی کوفت کا اثر نمایاں تھا.عصر کی نماز میں ایک ملاں نے مباحثہ کارنگ اختیار کیا.اس کو آپ بہت سمجھاتے رہے جب اس نے بہت ضد کی تو بالا خر فرمایا کہ ہم تو اپنا کام پورا کر چکے ہیں اب تم جاؤ جو تمہارا جی چاہے کرتے پھرو.اسی رات کو عشاء کے قریب آپ پر وہی دوران سر اور ہاتھ پاؤں کے سرد ہونے کا دورہ پڑا.اور اسمال ہوا.پہلے اس کو اکثر نے معمولی سمجھا اور علاج معالجہ ہو تا رہا.مگر طبیعت ساعت بساعت زیادہ خراب ہوتی گئی.فجر کی نماز کے وقت میں پاؤں دبارہا تھا.صاحبزدہ محمود احمد صاحب سرہانے بیٹھے تھے.تب آپ نے آہستگی سے فرمایا " نماز " صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ مجھے نماز پڑھنے کے واسطے فرماتے ہیں انہوں نے عرض کی کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے آپ نے پھر فرمایا " نماز" اور دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھا تب ہم نے جانا کہ خود نماز پڑھتے ہیں.اس کے بعد جلد آپ کو بے ہوشی ہوئی اور اپنے خدا سے جاملے.اس دنیا میں آپ کا آخری کام بھی خدا کی عبادت ہی تھا.میں آپ کے قدموں میں حاضر تھا." et حضرت سیدہ نواب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک ایمان افروز خواب مبارکہ بیگم صاحبه مد ظلہ العالی کا بیان ہے کہ "آپ (سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناقل) وسط صحن میں بستر پر بیٹھ کر آخری شام دیر تک (پیغام صلح کا ناقل) مضمون لکھتے رہے تھے.آپ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص جوش اور ایک خاص سرخی تھی اور قلم معمول سے زیادہ تر تیز تھا.مجھے اس وقت آپ کے بیٹھ کر اس انہماک اور تیزی سے لکھنے پر اپنا خواب یاد آیا تھا جو میں آپ کو سنا چکی تھی اور و ہم آیا جس کو بار بار دل سے دور کرنے کی کوشش کی تھی.یہی خیال آتا تھا کہ اس خواب میں آپ اسی طرح بستر پر بیٹھے اس رنگ میں لکھ رہے تھے میں نے لاہور آنے سے کچھ عرصہ ہی پہلے خواب دیکھا تھا کہ میں نیچے اپنے صحن میں ہوں اور گول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تو وہاں بہت سے لوگ ہیں جیسے

Page 593

تاریخ احمدیت جلد ۲ مسم سید نا حضرت مسیح موعود کا وصال مبارک جنازه رند نمین کوئی خاص مجلس ہو.مولوی عبد الکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ تشریف لائے ہیں آپ کو بلاتے ہیں.میں اوپر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے تھے اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرہ پر ہے پر نور اور پر جوش.میں نے کہا ابا مولوی عبد الکریم" کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا کہ جاؤ کہو" یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا." ٹھیک میں الفاظ تھے اور وہی نظارہ میری آنکھوں میں اس آخری شام کو پھر گیا.“ (مکتوب ۱۹- جون ۱۹۷۹ء بنام مولف) اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى إِلى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ سیدنا حضرت مسیح موعود کے عشاق کی حالت کا درد ناک منظر حضور کی وفات کی خبر بجلی طرح شہر میں پھیل گئی.احمد یہ جماعتوں کو بذریعہ تار اس حادثہ کی اطلاع دے دی گئی اور انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ جنازہ کے لئے قادیان پہنچیں.اسی دن یا دو سرے روز اخبارات کے ذریعہ سے تمام ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر ملی.یہ محض خبر نہیں تھی ایک قیامت تھی جو آنا فانا آئی جس نے حضور کے خدام کے دل و دماغ پر ایک زلزلہ طاری کر دیا.ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور بار جو دیکہ خدا کا پیارا انہیں خدائی الہامات سنا سنا کر اپنی واپسی کی متواتر اطلاع دیتا آرہا تھا اور دو سال پہلے الوصیت بھی لکھ دی تھی مگر اس کے پروانے یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ہمارا شاہد ہمارا رازداں، مجسمہ رحم و شفقت محبوبوں کا محبوب ، باپ سے بڑھ کر شفیق د غمگسار، جس کے نورانی چہرہ پر ایک نظر سے غموں کی گھٹا میں پاش پاش ہو جاتی تھیں.

Page 594

احمد بیت - جلده ۶ 545 ہونا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک بناز وہ تدفین نقشه مقام وصال سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (بمطابق ماه مئی ۱۹۰۸ء) نوٹ : یہ سرسری خاکہ دوسری منزل کا ہے جو سلسلہ کے متعدد قدیم بزرگوں کی مجموعی شہادتوں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے.اس کی تیاری میں حضرت قمر الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بد قلما العالی نے خاص طور پر مدد دی ہے.فجزاهم الله تعالی کیلوں والی سڑک گراوٹ اسلامیہ کا نیچ بظروف استیش رواقره و مکڑی کا پیر نماز اور ملاقات کا کمرو دیواره رہائشی کمره پیلنگ بوقت صال + # دروازه دروازه دروازه عزیز منزل مکان خواجہ کمال الدین صاحب بنی.۲۵ مئی کی شام کو پلنگ یہاں رکھا تھا.حضور نے اسی وان مغرب و عشاء کی نمازیں خود اس جگہ پڑھائی تھیں بالائی صحن و مسکان سید محمد حسین شاه صاحب اس کیمیکل دیگر این نایاب جہاں عام طور پر حضور علیہ السلام کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی.دروازه ایل ایل بی وکیل چینی کورٹ پنجاب حضرت حکیم الامت مولوی اور ادیان شنان اور حضرت پیر منظور محمد صاحبان کے اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کے سائٹی کرے اسی کو مسٹر لفضل حسین صاحب کی ملاقات اس جگہ ہوئی تھی اس وقت گلی میں چار پائیاں بھاری گئی تھیں (ہدایت مولوی فضل الدین صاحب وکیل را حکم ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحه ۵) لتا (ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی روایت کے مطابق) ، امئی کو روسائے لاہور کی دعوت طعام کا انتظام اس کمرہ میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی اطلاع پر حضرت مولوی نور الدین صاحب اس کرنے میں آئے اور حضور کی پیشانی مبارک کو بوسہ دے کر باہر تشریف لے گئے.جو نبی حضرت مولوی صاحب کا قدم اس دروازه است با هر اوا، مولوی سید محمد احسن صاحب نے رقت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا انت سدیقی.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا مولوی صاحب یہاں یہ سوال رہنے دیں قاریان جا کر فیصلہ ہوگا.(سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحه ۱۴)

Page 595

ریسته جلد ۲ ۵۴۶ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازه و تدفین اور جس کا ہر لفظ زندگی کی ایک نئی روح پیدا کر دیتا تھا ہم سے کبھی جدا ہو سکتا ہے.یہاں تک کہ جو تار بیرونی جماعتوں کی اطلاع کے لئے لاہور سے دیئے گئے تھے اور استدعا کی گئی تھی کہ لوگ جنازہ کے لئے فور آقادیان پہنچ جائیں انہیں بھی اکثر لوگوں نے چھوٹ سمجھا اور گودہ قادیان آئے مگر صرف احتیاط کے طور پر آئے اور اس خیال سے آئے کہ جھوٹ کا پول کھولیں.) اہل قادیان کی یہ حالت تھی کہ یہاں خواجہ کمال الدین صاحب کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو شام کے پانچ بچے کے قریب تار مل گیا تھا اس کے باوجود کسی کو حضور کی وفات کا یقین نہ آتا تھا بلکہ شبہ گزرا کہ شاید یہ کسی دشمن کا تار ہو.کسی نے کہا کہ کوئی آدمی بٹالہ بھیجا جائے جو لاہور سے بذریعہ تار اصل حالات معلوم کرے.اسی دوران مسجد مبارک میں ایک مجمع ہو گیا.عین اس وقت چوہدری نعمت اللہ صاحب گوہر جو صبح نو بجے تک احمد یہ بلڈ نگس ہی میں تھے لاہور سے صبح دس بجے کی گاڑی سے چل کر قادیان پہنچ گئے انہوں نے حضور کی شدید علالت کا کھول کر ذکر کیا اور وہ الہامات جو حضور علیہ السلام کو دو تین روز پیشتر ہوئے تھے حاضرین کو سنائے تب کہیں لوگوں کو یقین آیا که حضور فی الواقعہ انتقال فرما گئے ہیں.یہ معلوم کر کے قادیان اس طرح غم کدہ بن گیا جس طرح صبح ساڑھے دس بجے احمد یہ بلڈ نگر کی سرزمین بن گئی تھی.مغرب کی نماز میں مسجد مبارک کی چھت پر آه و بکا اور گریہ وزاری سے محشر سا بپا تھا اور نمازیوں کے منہ سے نماز کے فقرات بھی پوری طرح نہیں نکل سکتے تھے.آنسوؤں کی شدت گلے میں گرہ ڈال دیتی تھی.غرض کہ جہاں جہاں یہ خبر پہنچی حضور کے خدام مارے غم کے دیوانے ہو گئے اور وہ سچ سچ سمجھتے تھے کہ ہم یتیم ہو گئے ہیں.کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو اور کوئی دل نہ تھا جو شدت غم سے پارہ پارہ نہ ہو رہا ہو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو خود بخود بہتا آرہا تھا.اس درد ناک منظر کا نقشہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ "آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو مختلف مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار و ناگوار تھا کہ ان کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے.پہلے مسیح کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب سے زندہ اتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششد ر تھے.ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ہوا ؟ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم انسین ہو کر آیا تھا اس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ

Page 596

محمد بیت ، جلد ۲ صداقت بھرا شعر کہا تھا کہ :- ۵۴۷ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازه و تدلین كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلَيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحاذِرُ (ترجمہ) تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی.اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرے ہمیں اس کی پروا نہیں کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے.آج تیرہ سو سال کے بعد اس نبی کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اسے پہچان لیا تھا ان کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہو گئی اور ان کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی...خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ دن ان کو کبھی نہیں بھول سکتے جب کہ خدا تعالٰی کا پیارا رسول ان کے درمیان چلتا پھرتا تھا".14 حضرت مسیح موعود کے اہل بیت کا بیمثال صبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عقیدت رکھنے والے عشاق جو جماعت کی ذمہ داری کو سمجھتے اور وقت کی نزاکت کو پہنچانتے تھے اپنے دلوں کے جذبات کو روکے ہوئے تھے اور چشم پر آب ہونے کے باوجود انہوں نے اس وقت صبر و تحمل کا قابل رشک نمونہ دکھایا حتی کہ لاہور کے مخالفین نعش کی طرف آتے تھے تو حیران ہو کر واپس چلے جاتے تھے اور یقین نہ کرتے تھے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں کیونکہ ان کو چیخیں مار کر روتا ہوا اور آہ و بکا میں مصروف کوئی نہ دکھائی دیتا تھا.بالخصوص حضرت اقدس کے اہل بیت نے اس عظیم ترین صدمہ میں جس رضا بالقضاء کا ثبوت دیا اس کی مثال نہیں ملتی.ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی کے آخری لمحات کے وقت حضرت ام المومنین نے بجائے دنیا دار عورتوں کی طرح رونے چیخنے اور بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنے کے صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گر کے سجدہ میں نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دعائیں مانگنے کا پاک نمونہ دکھایا.جب اخیر میں لیس پڑھی گئی اور حضور کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی تو حضرت ام المومنین نے فرمایا اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور بس خاموش ہو گئیں کسی قسم کا جزع فزع نہیں کیا.اندر بعض مستورات نے رونا شروع کیا آپ نے ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو.یہ صبر و استقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو ناز و نعمت میں پلی ہو اور جس کا ایسا روحانی بادشاہ اور ناز اٹھانے والے مقدس خاوند انتقال کر جائے ایک زبر دست اعجاز تھا.

Page 597

تاریخ احمدیت - جلد ۲ 548 سید نا حضرت کا موعود کار سال مبارک جنازه در تدفین میں نہیں.حضرت ام المومنین نے حضور کی وفات کے وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں نصیحت بھی فرمائی کہ :.بچو گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان ر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا." P حضرت صاحبزادہ مرزا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا عمد بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالی نے اس موقعہ پر نہ صرف صبر کا عدیم النظیر نمونہ دکھایا بلکہ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا کہ : " اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی خالفت اور دشمن کی پرواہ نہیں کروں گا." ☑ شرفاء کی ہمدردی اور اشد مخالفین کا افسوسناک مظاہرہ ملک کے مسلم و غیر مسلم ملتے جو مسلک و عقیدہ کے اختلاف کے باوجود حضور کی روحانی عظمت ، شان اور علمی قابلیت کے دل سے معترف تھے انہوں نے آپ کی وفات پر اظہار ہمدردی کیا اور ہمدردی کے خطوط لکھے.علاوہ ازیں ملکی پریس نے حضرت اقدس کی وفات پر نہایت عمدہ ریویو لکھے اور آپ کی وفات کو ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا.مگر بعض مخالفین نے اس موقعہ پر انتہائی افسوسناک مظاہرہ کیا.چنانچہ احمد یہ بلڈ نگس کے نزدیک ہی جہاں اس خدا کے فرستادہ کی نعش مبارک رکھی تھی دکھی اور زخم رسیدہ دلوں کی نمک پاشی کے لئے شہر کے آوارہ مزاج بڑی تعداد میں جمع ہو گئے اور انہوں نے نہایت بے شرمی کے ساتھ سامنے کھڑے ہو کر خوشی کے گیت گائے ، مسرت کے ناچ تا ہے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے.وہ تو اوباشوں کی بعض اخبار نویسوں کی طرف سے سلسلہ کی تباہی کی پیشگوئی حرکات تھیں جو عین نعش کے سامنے کی گئیں لیکن اس کے بعد بعض کم ظرف اخبار نویسوں نے بھی اپنے اخبارات میں آپ کی وفات پر بڑی خوشی کا اظہار کر کے اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا.اور پبلک کو یقین دلایا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا.

Page 598

تاریخ احمدیت - جلد ۲ 549 سیدنا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جناز وہ تدفین نعش مبارک کا لاہور سے قادیان لایا جانا حضور کا وصال ساڑھے دس بجے کے قریب ہو ا تھا.انتقال کے معمولی رقفہ کے بعد لاہور میں تمام موجود احمد بی یکے بعد دیگرے آئے اور حضرت اقدس کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیتے گئے.کچھ دیر کے بعد حضور کے خدام ذرا باہر بیٹھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب لاہور کے سول سرجن صاحب کے پاس سرٹیفکیٹ کے لئے گئے.سرٹیفکیٹ میں سول سرجن صاحب نے سان لکھا تھا کہ حضرت اقدس نے اسماء کی خراش سے انتقال کیا ہے.ہمالہ کے لئے ریزرو گاڑی کا انتظام کیا گیا.اڑھائی بجے تک غسل اور کفن سے فراغت ہو گئی.غسل دینے والے بھائی عبدالرحیم صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک اور احمدی دوست تھے.II ایک کثیر جماعت نے جنازہ پڑھا اور اس کے بعد جوق در جوقی احمدی اور غیر احمدی زیارت کے واسطے آتے رہے حضرت اقدس کی شکل مبارک نهایت منور تھی اور کسی قدر سرخی بھی رخسار پر تھی.چار بجے کے قریب پہلے مستورات اسٹیشن کی طرف روانہ ہو ئیں بعد ازاں احمد یہ بلڈ نگس سے چار پائی پر جنازہ اٹھایا گیا.اسٹیشن پر پہنچ کر تابوت گاڑی میں رکھا گیا.یہاں آکر اس خطرناک سازش کا پتہ چلا کہ کسی مخالف نے ٹریفک سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ مرزا صاحب ہیضہ سے فوت ہوئے ہیں اس لئے جنازہ گاڑی سے نہیں جانا چاہیے.چنانچہ اسٹیشن ماسٹر نے نعش بھیجوانے سے انکار کر دیا جس پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے سول سرجن کا سرٹیفکیٹ دکھلایا.اسے مجبورا اجازت دینا پڑی اور مخالفوں کا یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا.10 ہونے چھ بجے کے قریب گاڑی لاہور سے بٹالہ کو ردا نہ ہوئی.گاڑی میں جنازہ کے ساتھ اہل بیت حضرت اقدس ، حضرت مولوی نور الدین صاحب ، حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے علاوہ حضرت اقدس کے بہت سے خدام بھی تھے.جناب عبد المجید صاحب سالک کے بیان کے مطابق مولانا ابو الکلام آزاد امر ترتے لاہور آئے اور یہاں سے مرزا صاحب کے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک گئے.گاڑی لاہ درست امر تسر پہنچی تو یہاں سے بھی بہت سے احمد کی دوست مثلاً میاں نبی بخش صاحب سور اگر اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب اور احباب کپور تحمله شهر مثلاً حضرت منشی ظفر احمد صاحب جنازہ کے ساتھ ہوئے.گاڑی رات دس بجے کے قریب بٹالہ پہنچی نفش مبارک ریز روڈ بہ میں ہی رہی جس کے پاس خدام موجود رہے.دو بجے کے قریب حضور کا جسد مبارک صندوق سے نکال کر ایک آم کے

Page 599

تاریخ احمدیت ، جلد ۲ ۵۵۰ سید نا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنا زور تدفین درخت کے نیچے چارپائی پر اور صندوق و برف گڈے پر رکھے گئے.مستورات تو دو گھنٹہ بعد نو بجے قادیان پہنچیں مگر احباب جنازہ کو شانہ بشانہ اٹھا کر قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.دیوانی والی کے تکیہ میں دوستوں نے صبح کی نماز ادا کی.نہر کے پل کے قریب جماعت قادیان کے دوست بھی آشامل ہوئے.کوئی آٹھ بجے جنازہ قادیان پہنچا اور حضور کی نعش مبارک بہشتی مقبرہ سے ملحق باغ میں واقعہ پکے مکان میں رکھ دی گئی.الله الله Pri صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حادثہ کی الہامی اطلاع سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے ایام میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جالندھر میں افسر مال کی حیثیت میں متعین تھے.حضور کی وفات سے پیشتر آپ باہر اپنے حلقہ میں دورہ پر تھے.دورہ ختم کر کے آپ واپس گھوڑے پر سوار جالندھر کی طرف تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں آپ کو یکا یک الہام ہوا " ماتم پرسی " آپ گہری سوچ میں پڑ کر بدستور چلتے چلے گئے کہ راستہ میں دوبارہ یہی الہام ہوا.اب خیالات بہت پراگندہ ہو گئے قیاس کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو مگر ابھی گھوڑے پر سوار چلتے گئے کہ تیسری مرتبہ پھر الہام ہو ا " ماتم پرسی جس پر آپ سخت خوفزدہ ہو گئے اور فورا گھوڑے سے اتر کر راستہ میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور سخت پریشانی میں سوچنے لگے کہ اس الہام کا مطلب کیا ہے.آخر گہرے سوچ بچار کے بعد دل میں یہ سوال اٹھا کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ماتم پرسی ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اور ارفع ہستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہو.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ کو قطعی یقین ہو گیا کہ بس یہ حضرت والد صاحب ( مسیح موعود ) کا ہی وصال ہے.یہ خیال راسخ ہوتے ہی آپ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اور اسی غم وحزن کی حالت میں بجائے اپنے بنگلہ پر جانے کے سیدھے انگریز ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھری کے بنگلہ کو تشریف لے گئے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات ہوئی تو ان کو اطلاع دی کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے فورا رخصت دے دی جائے میں جا رہا ہوں اور یہ بھی بتلایا کہ میں اس غرض سے دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آیا ہوں.صاحب موصوف نے دریافت کیا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی خبر آپ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی اطلاع موصول ہوئی ہے یا کوئی آدمی آیا ہے.مگر آپ نے جواب دیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی اور نہ کسی اور ذریعہ سے اطلاع ہوئی ہے صرف خدائی تار آیا ہے اور صاحب موصوف کے دریافت کرنے پر آپ نے اپنے راستہ کا تمام ماجر اسنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کر لیا اور کہا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے یونہی آپ کو وہم ہو گیا ہے آپ اطمینان رکھیں ایسا کوئی حادثہ نہیں ہوا

Page 600

تاریخ احمدیت جلد ۲ اهد سیدنا حضرت مسیح موعود کار سال مبارک جنازہ تدفین ہے آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں اور گھبرا میں نہیں.لیکن آپ بدستور اپنے یقین کامل سے رخصت پر مصر رہے مگر صاحب بہادر کے اصرار پر اپنے بنگلہ پر واپس تشریف لے آئے.تھوڑی دیر بعد ہی آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات حسرت آیات کا تار بھی موصول ہو گیا.چنانچہ آپ وہ تارلے کر صاحب کے بنگلہ پر دوبارہ گئے اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے بنگہ پر آگیا وہ خدائی اطلاع کی بناء پر تھا.اب یہ تار بھی آگیا ہے.صاحب بہادر یہ کیفیت دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششدر رہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین اور وثوق اور ایمان ہے اور صاحبزادہ صاحب کو رخصت دے دی.چنانچہ حضرت صاجزادہ صاحب موصوف فورا قادیان روانہ ہو گئے.جب آپ جالندھر سے امر تسر پہنچے تو اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ بھی پہنچ چکا تھا.

Page 601

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ 552 حواشی -1 حواشی ۲۸ مئی ۱۹۰۸ ملی کالم نمبر ۳ فیلم ۱۳۰ مئی ۱۹۰۸ صفحہ کالم میرا مؤلف محمد داعظم نے نقل مکانی کی یہ وجہ لکھی ہے جو خلاف واقعہ ہے کہ " حضرت اقدس کی زوجہ محترمہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں جو تشریف لے گئیں تو وہ مکان انہیں زیادہ پسند آیا " سلسلہ امر یہ مسلح ۷۸ امیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ان تذکره حواله پدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صلحه ۳ کالم نمبرز تذکرہ بھی اللہ ہے ہر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم نمبر.اس مصرعہ سے تاریخ وفات (۱۳۶۶) بھی نکلتی ہے سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۸۱ ۱۸۲ ہے.سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۸۲ سيرة المهدي حصہ اول صلح طبع دوم اصحاب احمد جلد ۳ ( ڈائری نواب محمد علی صاحب اخبار الحکم ضمیمہ ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء دار سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ میں ضمیمہ الحکم ۱۳۰ مئی ۱۹۰۸ و بعنوان " وفات مسیح صفحه ۱۴ ا سلسلے اتے ہے مسلح ۱۸۳ الحکم ۱۲۸ گی ۱۹۳۹ در مسلح ۱۰ میرا ۱۴ سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم) صلح ۹ - ۱۰ اصحاب احمد بلد دوم صفحہ ۵۸۶ - ۵۸۷ ۱۲ سلسلہ احمدیہ صفحه ۱۸۳ ندار سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۰ ۱۸ سیرت المحمدی حصہ اول صفحہ 10 ۱۰ 1 الحکم ۱۲۸ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۰ کالم نمبر ۲ ۲۰ بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ نمبر ۴ کالم نمبر ۲ از ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب - ۰۲۱ سلسلہ احمد به صفحه ۸۴اد سیرت المهدی دهه اول صفحہ نمبرلا چنانچہ ڈاکٹر محمد عمید اللہ صاحب لکھتے ہیں:.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن میں اتفاق ہے کہ یہ دو شنہ یہ تھا لیکن تاریخ کے متعلق اختلافات ہیں.راندی.ابن سعد اور ابن اسحاق (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگار کی رائے میں یہ تاریخ تار ربیع الاول تھی.ابن مقبہ ابو نعیم ایسٹ اور خوارزی کے مطابق یہ تاریخ کیم ربیع الاول تھی.ابر تخلف کہیں اور سلیمان ایتی کی رائے میں یہ دو سر کی ربیع الاول ہے.حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں اور حافظ معمل طاقی در سری تاریخ قبول کرتے ہیں.مولانا شبلی نعمانی نے کیم ربیع الاول ثابت کی ہے.یہ متفق علیہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج 4 / ذی الحج کو ہو ا تھا اور وہ جمعہ کا روز تھا.یہاں سے شروع کر سکے اللہ کی بارہ ربیع الاول تک حساب لگایا جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ بارہ ربیع الاول تک کس کس تاریخ میں پیر کار از آتا ہے ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ قمری مہینہ یاترہ سو دن کا ہو تا ہے یا ہارن کا.ذیل میں ہم وادر ۳۹ ان کا ہر حساب شمار کریں گے.ہم چھٹی ساتھ میں آٹھویں اور نویں تاریخوں کو نظر انداز کرتے ہیں کیو نکہ کسی نے ان تاریخوں کا ذکر نہیں کیا.ہے.ہم بارھویں تاریخ کو بھی نہیں لے سکتے ہیں کیونکہ کسی حساب سے اس تاریخ میں دو شنبہ نہیں ہو سکتا ہے.دوسری ربیع الاول قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے متواتر ۳ ، ۲۹۰ روز کے ہونے یا ہیں.مولانا سلیمان منصوری ۱۳ در ایچ النادل بناتے ہیں.اگر چہ اس سے پہلے یہ تاریخ کسی نے نہیں بنائی ہے اس کو بھی نظر انداز کر دینا چاہتی ہے

Page 602

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 553 حواشی کیونکہ تین ماه متواتر ۳۰ روز کے اوں تب یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ غیر ممکن ہے.اس رحمت ہم راہ کی کیم ربیع الاول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی تاریخ قبول کرنے پر مجبور ہیں اور مولانا شیلی نے اسے قبول کیا ہے.کہیں اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے ایک واقعہ سے اس تاریخ کی تصدیق ہوتی ہے.ابن ابی حاتم ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنمات روایت کرتے ہیں کہ سورہ بقرہ کی ۲۸ عدد کی آیت (و انفرا پر ماترجعون فيه الى الله کا نزول آخری حج کے روز ہو اتھا.اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم A روز حیات رہے.اب حساب لگا ہے اور ذی الحجہ سے کم ربیع الاول اللہ تک یعنی ۱۲۹۰۳۰۰۲۱-۸۱ اس میں نویں ذی الحجہ اور یکم ربیع الاول شمار کی گئی ہیں اور ذی الحجہ کا مہینہ ۲۹ روز کا مانا گیا ہے یہ بھی قبول کیا گیا ہے.اب نعیسوی تاریخ ایک حساب سے نکالتے ہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نے ۱۰ھ کی ۲۹ شوال کو انتقال فرمایا تھا.اس روز آفتاب گرہن میں تھا.اب علم بہیت کے ذریعہ سے حساب کیا گیا ہے کہ یہ تاریخ ۱۳۲ ء کی نے ۲/ جنوری تھی.۲۹ شوال ۱۰ ۲۷ جنوری ۶۳۲ ۲۰۰۰ شوال ۱۰ - ۲۸ جنوری ۶۳۲ م ذی قعده (۳۰ دن) - ۲۹/ جنوری است ۲۷ فروری ء ذی الحجہ (۲۹ دن ۲۸۰ / فروری سے ۲۷ / مارچ ۱۳۲ و لیپ کا سال) حرم (۳۰ رن) - ۲۸ مارچ ۳ ۲۷ / اپریل ۰۹۳۲ سفر ( ۲۹ رن) - ۲۷/ اپریل ست ۲۵ / مئی ۱۳۲، گیم ربیع الاول - ۲۶/ مئی ۶۶۳۲.اس حساب سے اللہ کی کیم ربیع الاول پیر کے خان عیسوی حساب سے ۲۶۰۶۳۲ / مئی ہو تا ہے.اکثر بیان کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخ ۶۳۲ کی ۷ جون تھی یہ صحیح نہیں ہو سکتی." اخبار " جنگ "کراچی ۲۸/ تمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۷ عید میلاد ایڈیشن) ۲۳ بر رلاد کمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۰ ۲۳ سلسلہ احمد پی سلمہ ۱۸۵- اتاب احمد جلد ۱۳ صفحه ۳۰۲-۳۰۳ مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے نا شہر احمد یہ بک ڈپو رہوں دسمبر ۹۷ -۲۵ روایات صحابہ جلد ۱۴ صفحه ۳۱۱) غیر مطبوعہ) ۰۲۶ الحكم ۱۲۸ مئی ۱۹۳۹ء مصالحها ۲۷- احکام جوبلی نمبر صلحه ۱۶ کالم نمبر ۲ ۰۲۸ شرح میدان حسان بن ثابت مطبوعہ مصر میں علی کی بجائے ملیک کا لفظ ہے.خود حضرت مسیح، وعود نے حقیقتہ الومی اور ضمیمہ نزول اصسبیح میں جہاں یہ شعر لکھا ہے علیک ہی درج فرمایا ہے ۲۹ سیرت مسیح موعود علیہ السلام صفحه ۵۸ اسلحه ۱۵۱ از حضرت خلیفه امت ۰۳۰ پدر ۲۲ جون ۱۹۰۸ و سفحه نمبر ۳ و الحکام ضمیمه ۳۰ / تی ۱۹۰۸ء المی الثانی الفضل 10 جنوری ۱۹۹۳ء صفحہ ۵ا کالم نمبر ۲ در دایت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبه به ظلها) ۳۲- احکام جوبلی نمبر صالحہ ا کالم - ۲ ۳۳ مدله احمد به صفحه ۱۸۵ اظہار امل فقه امر تسر نے ایک مضمون لکھا کہ " ہمیں تو امید تھی کہ احمدی مرزا صاحب کی لاش کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے".ریویو ان دیوار در ۱۹۰۸ء صلی ۲۸۴) مولوی ثناء اللہ صاحب نے ۱۳ / جون ۱۹۰۸ء کے اظہار کیل امرتسر میں لکھا ہم تے کوئی ہو جاتے تو ہم خدا لگتی کہنے کو تیار ہیں کہ مسلمانوں سے ہو سکے تو مرزا صاحب کی کل کتابیں سمندر میں نہیں کسی جلتے شور میں جھونک دیں.اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مؤرخ تاریخ : ند یا تاریخ اسلام میں ان کا نام تک نہ لے." ( بحوالہ انتقام ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ کالم تم میری اخبار سر جدید" نے کو نمائشی جنازے اور سوانگ وغیرہ حرکات کے خلاف نفرت کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی " قادیانی تحریک کا خاتمہ " کے عنوان سے لکھا " قادیانی تحریک بلحاظ ایک مستقل دین کے جس کے لئے ایک ، سول امام اور موعود مودی آیا تھا الکل فنا ہو گئی.اب صرف پیری مریدی اور عمل بالحدیث اور صوفیت ظاہر یت اور باطنیت کے درمیان ایک فرقہ رہ گیا ہے جس کے خصوص حالات روز نماز ملقور ہوتے جائیں گے." (رسالہ " حصر بہ یا " جون ۱۹۰۸ء صلحہ ۲۱۹.ایک مٹر خواجہ نظام التقلین بی اے

Page 603

تاریخ احمد بیت ، جلد ۲ ۵۵۴ سید نا حضرت مسیح موعود کار صال مبارک جنازه ، ترنمین اے ایل ایل بی وکیل ہائی کورٹ) ۴.اس وقت کی مخالفت کی رو سے خواجہ حسن نظامی صاحب جیسے انسان بھی متاثر ہوئے.انہوں نے لکھا.جناب مرزا صاحب نے مسیحیت و مہدویت کا دعویٰ محض ایک حکمت پر کیا تھا.کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ قوم میں کام کرنے کا جذبہ بغیر کسی حکیمانہ طرز کےپیدا ہونا نا ممکن ہے اس لئے انہوں نے اپنی نیت کو خیر کیبنیاد پر قائم کر کے ایسے دعوے کر دیے جن کی عدم واقعیت کو وہ خود اچھی طرح جانتے تھے.اب ان کی نیت کا نتیجہ ظاہر ہو گیا اور کام چل نکلا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک ہے اصل معاملے پر اڑے رہیں اور موجودہ وقت کی ضرورتوں میں مشغول ہو کر اسلامی خدمت نہ کریں.ورنہ اندیشہ ہے کہ مرزا صاحب جیسے سمجھ دار اور منتظم مشخص کی عدم موجودگی کے سبب احمدی جماعت مخالفین کی شورش کو برداشت نہ کر سکے گی اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا." (پیسہ اخبار لاہور ۵ / جون ۱۹۰۸ء بعنوان " قادیانی مشن بحوالہ اختبار بد ر ۱۸/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۳ کالم ۳۵ نام مسٹر مسلم.ملاحظہ ہو ڈائری حضرت نواب محمد علی خان صاحب ( اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۸۷-۵۸۸) بلعم ثانی صفحه مولفہ حضرت میر قاسم علی صاحب "مجدد اعظم " نیز حیات طیبہ " میں سرٹیفکیٹ دینے والے صاحب کا نام میجر سدر لینڈ پرنسپل میڈیکل کالج بتایا گیا ہے.ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی خلف اکبر حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کا بیان ہے کہ ڈاکٹر سدر لینڈ دراصل معالج تھے اور ڈاکٹر سلیم صاحب سول سرجن لاہور مجاز تھے.ڈاکٹر سدرلینڈ کی تصدیق پر یہ سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا خط محرر ه ۱۹/ مارچ ۱۹۷۲م) ۳۶ ریویو آف ریلیجرہ اردو جولائی ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۷ ۳۷.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی رائے میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے نچلے صحن میں ہوا تھا ( الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲) مگر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی ڈائری (مشمولہ اصحاب احمد جلد نمبر ۲) کے مطابق خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں ! ۳۸ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۷ ۵۸ - ۵۸۸ روایت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ۳۹- بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ کالم نمبر پر بعض نام ملاحظہ ہوں.۴۰ یاران کهن صفحہ ۴۲.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب آئینہ صداقت صفحہ ۱۳ اسے بھی (جو جولائی ۱۹۰۸ ء میں شائع ہوئی) پتہ چلتا ہے کہ خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس و آنریری مجسٹریٹ اور مولانا ابو الکلام آزاد اسٹیشن تک آئے.اسٹیشن سے مراد امرتسر کا اسٹیشن ہے یا لاہور کا.اس کی وضاحت نہیں.ام یہ آم کا درخت جو بٹالہ اسٹیشن سے باہر سیڑھیاں اتر کر مڑک کے ساتھ ہی غربی طرف واقع ہے اب تک موجود ہے (اصحاب احمد جلد نہم صفحہ ۱۹۶ ۱۹۷) طبع اول اپریل 1971ء ۴۲.حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی ڈیوٹی حضرت سیدۃ النساء ام المومنین کی رتھ کے ساتھ تھی.حضرت سیدۃ النساء مالہ سے قادیان تک خاموشی کے ساتھ ذکر اذکار اور دعاؤں میں مشغول رہیں.جب رتھ نہر کے پل پر سے گزر کر آگے بڑھی تو حضرت سیدہ نے ایک پر سوز اور رقت آمیز آواز سے فرمایا ”بھائی جی پچیس سال گزرے میری ڈولی اس سٹرک پر سے گزری تھی.آج میں ہوگی کی حالت میں اس سڑک پر سے گزر رہی ہوں." رتھ مسجد فضل کے سامنے والی گلی سے ہوتی ہوئی سیدھی بڑے باغ میں پہنچی (اصحاب احمد جلد نہم صفحہ ۲۷۵-۲۷۶ والفضل ۲۳/ جنوری ۱۹۵۵ء صفحه ۱) ۴۳ - الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲ ۴۴ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۵۸۸ ۴۵ سیرت المہدی حصہ چہارم (غیر مطبوعہ) حضرت صاحبزادہ نے یہ پورا واقعہ امر تسر اسٹیشن پر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کو خود سنایا تھا.

Page 604

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۵۵ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجتماع جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع خلافت کے لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب پر اتفاق انتخاب اور بیعت نعش مبارک کے قادیان پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام جو سلسلہ کے مقتدر بزرگوں نے اس وقت کیا وہ خلافت کے لئے حضرت مولوی نور الدین صاحب کا انتخاب تھا.چنانچہ جماعت کے دوست اکٹھے ہوئے اور مشورہ ہوا تو سب کی نظریں حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طرف اٹھیں.چنانچہ جب متفقہ فیصلہ ہو چکا تو اکابر سلسلہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے اور مناسب رنگ میں بیعت خلافت کے لئے درخواست پیش کی.آپ نے کچھ تردد کے بعد فرمایا ” میں دعا کے بعد جو اب دوں گا چنانچہ وہیں پانی منگایا گیا آپ نے وضو کیا اور غربی کوچہ کے متصل دالان میں نماز نفل ادا کی.اس عرصہ میں یہ وفد باہر صحن میں انتظار کرتا رہا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا چلو ہم سب وہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسد اطہر ہے اور جہاں ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی معیت میں تمام حاضرین باغ میں پہنچے.1 حضرت مفتی محمد صادق صاحب سب دوستوں کے سامنے جو باغ میں اپنے محبوب آقا کی نعش کے پاس جمع تھے کھڑے ہوئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں بطور نمائندہ مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنا ئیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُ، وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَاتِمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدَ الْمُصْطَفى وَ عَلَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خَاتُمُ الْأَوْلَيَاءِ اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے مطمئن ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی

Page 605

تاریخ احمدیت جلد ۲ 556 جماعت کا خلافت پر پلار اجماع م نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم او را تھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں.جیسا کہ آپ کے شعر.چه خوش بودے اگر ہر یک زاست نور دیں بورے نہیں بودے اگر هریک پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے.کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمد کی جماعت موجودہ اور آیندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آیندہ ایسا ہی ہو.جنہما کہ حضرت اقدس تایج موجود به ندی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.12 حضرت مولوی نور الدین صاحب کی درد انگیز تقریر حضرت مفتی محمد صادق..صاحب جب نمذکورہ بالا تحریر سنا چکے تو حضرت مولوی نور الدین صاحب کھڑے ہوئے اور تشبه و تعوز اور آیت ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنکر کی تلاوت کے بعد ایک دردانگیز تقریر کی جس میں فرمایا.میری پچھلی زندگی پر غور کر لو.میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم امام السلوة بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے.میں دنیا میں ظاہرداری کا خواہشمند نہیں.میں ہر گزایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا موٹی مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں اور تاریان بھی اس لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اسی فکرہ میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی اس لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں.اول میاں محمود احمد دہ میرا بھائی بھی ہے میرا بیٹا بھی.اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ارب کا مقام ہیں.تیرے قریبی نواب محمد علی خاں صاحب ہیں.اسی طرح خدمت گذاران دین میں سے اور کبھی کئی اصحاب ہیں." پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن نما مکہ کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام

Page 606

تاریخ احمدیت جلد ۲ 557 ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارۃ گرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے." آخر میں فرمایا اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہو گی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاًر کرنا اس بوجھ کو اٹھا تا ہوں.دہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے قرآن کو سیکھنے اور زکواۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے ہم پہنچانے اور ان امور کو جور تنا تو تمنا اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات ، دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہو گی.اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا د لتكن منكم امة يدعون الى الخير - یاد رکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رکیں نہیں رہ مرچکی.فقط " حضرت خلیفتہ المسیح اول کی بیعت حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاول کی اس تقریر پر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم آپ کے احکام مانیں گے.آپ ہمارے امیر ہیں اور ہمارے نسیخ کے جانشین ہیں.چنانچہ باغ میں ہی قریبا بارہ سو احباب نے بیعت کی.EA صد را مجمن کی طرف سے جماعتوں کو اطلاع ۲۸ / مئی ۱۹۰۸ء کو انکم کا ایک غیر معمولی پرچہ شائع کیا گیا جس میں خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی وفات اور حضرت خلیفہ السبیع الاول کے انتخاب کی اطلاع مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوئی:.حضور علیہ الصلوة والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا یا مندرجہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمدیه موجوده قاریان را قرباء حضرت مسیح موعود و با جازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نور الدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجو د تھے.مولانا حضرت سید محمد احسن صاحب صاجزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب - مولوی محمد علی صاحب - ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین

Page 607

۵۵۸ جماعت احمدیہ کا خلافت ہے.پہلا اجماع شاہ صاحب - خلیفہ رشید الدین صاحب و خاکسار (خواجہ کمال الدین) موت اگر چہ بالکل اچانک تھی اور اطلاع دینے کا بہت ہی کم وقت ملا تاہم انبالہ - جالندھر.کپور تھلہ.امرتسر.لاہور.گوجرانوالہ.وزیر آباد.جموں.گجرات.بٹالہ.گورداسپور وغیرہ مقامات سے معزز احباب آگئے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ ایک کثیر جماعت نے قادیان اور لاہور میں پڑھا.حضرت قبلہ حکیم الامت مسلمہ کو مندرجہ بالا جماعتوں کے احباب اور دیگر کل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالاتفاق خلیفتہ المسیح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفتہ المسیح والمهدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں." الغرض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر جماعت کا سب سے پہلا اجتماع خلافت پر ہوا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول قرار پائے.جنازہ آخری زیارت اور تدفین بیعت خلافت ہو چکی تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے کچھ وقفہ بعد حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کے مملوکہ باغ میں کنوئیں کے قریب نماز جنازہ پڑھائی.اس وقت رقت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے گریہ و زاری کی آواز اٹھ رہی تھی.نماز عصر کے بعد سب خدام نے یکے بعد دیگرے حضور کے نورانی چہرہ کا آخری دیدار کیا.آخری زیارت کرانے کی یہ خدمت حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی کے حصہ میں آئی.حضور کا جسد اطہر اس وقت اس مکان کے درمیانی کمرہ میں جنوبی دیوار کے دونوں مغربی دروازوں کے درمیان رکھا ہوا تھا جو بہشتی مقبرہ کے شمال مغرب کی طرف ہے.نعش مبارک اس چارپائی پر رکھی ہوئی تھی جو لاہور سے ساتھ لائی گئی تھی.حضرت بھائی صاحب چار پائی کے شمال میں حضور کے سر مبارک کی طرف زمین پر بیٹھ گئے.پہلے مردوں نے پھر مستورات نے زیارت کی.احباب صحن کی طرف مغربی دیوار کے جنوبی حصہ میں لگے ہوئے دروازہ سے صحن میں اور صحن سے کمرہ میں آتے اور زیارت کر کے کمرہ کے شمالی دروازہ سے باہر نکلتے جاتے.حضور کے چہرہ مبارک پر نور برس رہا تھا اور جسم مقدس پر گرمی کے اثرات کا کچھ بھی اثر نہ تھا.حضرت ام المومنین اس وقت صحن کے جنوب مغربی حصہ میں خواتین کے مجمع میں تشریف فرما تھیں.آخری زیارت کے بعد نعش مبارک صحن کے مشرقی دروازہ سے نکال کر مدفن تک لے جائی گئی اور کوئی چھ بجے کے قریب حضور کا جسد مبارک سینکڑوں اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دلوں کے ساتھ

Page 608

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۵۹ بہشتی مقبرہ کی خاک مقدس کے سپرد کر دیا گیا.man یف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل میر ندیدم که بهار آخر شد جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع حضرت اقدس کا مزار مبارک بالکل کچا رکھا گیا اور مزار مبارک کتبہ اور چار دیواری محض شناخت کے لئے قبر کے سرہانے چونے کی دیوار پر سیاہی سے عارضی طور پر یہ الفاظ لکھ دیئے گئے ” جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی رئیس قادیان مسیح موعود و مجد و صدی چہار دہم تاریخ وفات ۲۶ / مئی ۱۹۰۸ مستقل کتبہ کے لئے مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے جو افسر بہشتی مقبرہ تھے ۲۱ فروری ۱۹۰۹ء کے الحکم میں ایک بہت لمبا کتبہ لکھنا جس میں مسیح دقت و مهدی و مجدد جری اللہ فی حلل الانبیاء اور نبی وغیرہ القاب سے یاد کیا گیا تھا مگر خلافت اوٹی میں اس کے لکھنے کی نوبت نہ آئی.خلافت ثانیہ میں جب کہ بارشوں کی وجہ سے دیوار کی سیاہی کے الفاظ دھل گئے تو سنگ مرمر کا مستقل کتبہ نصب کیا گیا جس پر یہ الفاظ درج کئے گئے.مزار مبارک حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مهدی مسعود علیه و علی مطالعه محمد الصلوة والسلام تاریخ وفات ۲۴ / ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ بمطابق ۲۶ / مئی ۱۹۰۸ - انا لله و انا اليه راجعون میمی کتبہ آج تک موجود ہے.نومبر ۱۹۲۵ء میں حفاظت کی غرض سے مزار کے ارد گرد چار دیواری بھی تعمیر کر دی گئی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اخبارات کے تبصرے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسی بین الاقوامی شخصیت کا انتقال جس نے مذہبی دنیا میں اپنے فولادی قلم زبر دست مقناطیسی جذب و کشش مقدس تعلیمات اور غیر معمولی قوت قدسی کے ساتھ ربع صدی سے زائد عرصہ تک تہلکہ مچائے رکھا کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا کہ اس پر خاموشی اختیار کی جاسکتی.ادھر یہ چونکا دینے والی خبر سنی گئی ادھر ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پریس میں ایک شور پڑ گیا اور اخبارات نے حضور کی وفات کی خبر شائع کرتے ہوئے آپ کو

Page 609

560 اخبارات کے تبصرے خراج عقیدت پیش کیا.ان اخبارات میں مسلمان ہندو اور عیسائی وغیرہ ہر قسم کے مکتبہ خیال کے لوگ شامل تھے.ہندوستان کے جن مسلم اخبارات نے اس موقعہ پر تبصرے شائع کئے ان میں سے اخبار وکیل امرتسر البیان لکھنو - تہذیب نسواں لاہور زمیندار لاہور.اخبار کرزن گزٹ دہلی.البشیر ( اٹاوہ).یونین گزٹ بریلی میونسپل گزٹ لاہور.علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ - صادق الاخبار ریواڑی.خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اخبار "وکیل" امرتسر مسلمان اخبارات میں سب سے زور دار موثر اور حقیقت افروز ریویو اخبار "وکیل" امرتسر کا تھا جو مولانا ابو الکلام آزاد کے قلم ست نکالنا.انہوں نے لکھا.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹیاں تھیں.وہ شخص جو نہ ہی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جارے اور مٹانے کے لئے اس امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں." " میرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دناری اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے ہار جو ر ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیمیافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جنرل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا.آیندہ بھی جاری رہے." " مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی تدرد عظمت آج

Page 610

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۶۱ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نیا منسیا نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی بڑی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا...غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے.قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے.مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جابجا آغاز کی تھی ، ان کا تعاقب شروع کر دیا.ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا.جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دئیے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انیسویں صدی کے ہندو ریفار مرکا چڑھایا ہو المع اتارنے میں مصروف رہے.ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعوئی پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریر میں نظر انداز کی جاسکیں.فطری ذہانت مشق و مهارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے.تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب

Page 611

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۶۲ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع کسی قابلیت یا کسی مشرب وملت کا ہو ان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گرے فکر میں پڑ جاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں اس کی نظیر غالبا دنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی.مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں.لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا.آئندہ امید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے." (دوسرا تبصرہ) اخبار وکیل امرتسر مورخہ ۳۰/ مئی ۱۹۰۸ء ص ۱) مرزا غلام احمد مرحوم ۲۲ مئی ۱۹۰۸ ء کی صبح ہندستان کی جدید مذہبی تاریخ میں دیر تک اہمیت سے دیکھی جائے گی.جب کہ دس بجے کے قریب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بعارضہ ہیضہ یا بقول بعارضہ درد گردہ انتقال کیا.مرحوم آجکل اپنی اہلیہ کے علاج اور تبدیل آب و ہوا کی غرض سے لاہور میں مقیم تھے.مگر وہ خدائی حکم جو ایک ادنی فرد اور زیر دست تاجدار پر اور ایک فقیر اور اولو اعزم نبی پر یکساں عمل کرتا ہے آپہنچا اور اس سے ایک ایسے شخص کے وجود پر بد نیتی کا پردہ ڈال دیا جس نے اپنے عبرتناک دعاوی سے مذہبی دنیا میں تلاطم برپا کر دیا.مرزا صاحب کی لائف (سوانح عمری میں ابتدائی دنوں کے سوا آپ کو ایسے تھوڑے ہی صفحے میں گے جو حیرت انگیز واقعات سے معنون اور تعجب خیز کیفیتوں سے مزین نہ ہوں.خواہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں دشمنان اسلام کے ساتھ نبرد آزمائی کر رہے ہوں خواہ قادیان میں بیٹھے ہوئے پیروان رسول پر مخالفت کی آگ برسا رہے ہوں.خواہ یورپ میں مادہ پرست عیسائیوں کو مذہب اسلام کی برکتوں سے آگاہ کر رہے ہوں.

Page 612

ریت - جلد ۴ ۵۶۳ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع اگرچہ مرزا صاحب نے علوم مروجہ اور دینیات کی باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی مگر ان کی زندگی اور زندگی کے کارناموں سے کے مطالعہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خاص فطرت لے کر پیدا ہوئے تھے جو ہر کس رنا کس کو نصیب نہیں ہو سکتی.انہوں نے اپنے مطالعہ اور فطرت سلیم کی رو سے مذہبی لٹریچر پر کافی عبور حاصل کیا.۱۸۷۷ء کے قریب جبکہ ان کی ۳۶/۳۵ سال کی عمر تھی ہم ان کو ایک غیر معمولی مذہبی جوش میں سرشار پاتے ہیں.وہ ایک بچے اور پاکباز مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.اس کا دل دیوی کششوں سے غیر متاثر ہے.وہ خلوت میں انجمن اور انجمن میں خلوت کا لطف اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے.ہم اسے بے چین پاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے جس کا پتہ فانی دنیا میں نہیں.اسلام اپنے گہرے رنگ کے ساتھ اس پر چھایا ہوا ہے.کبھی وہ آریوں سے مباے کرتا ہے.کبھی حمایت و حقیقت اسلام میں وہ کتابیں لکھتا ہے.۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور آریوں سے جو مباحثات انہوں نے کئے تھے ان کا لطف اب تک دلوں سے محو نہیں ہوا.غیر مذاہب کی تردید اور اسلام کی حمایت میں جو نادر کتا ہیں انہوں نے تصنیف کی تھیں ان کے مطالعہ سے جو وجد پیدا ہوا وہ اب تک نہیں اترا.ان کی ایک کتاب براہین احمدیہ غیر مسلموں کو مرعوب کر دیا.اور اسلامیوں کے دل بڑھا دیئے اور مذہب کی پیاری تصویر کو ان آلائشوں اور گردو غبار سے صاف کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جو مجاہیل کی تو ہم پرستیوں اور فطری کمزوریوں نے چڑہا دیئے تھے.غرضکہ اس تصنیف نے کم از کم ہندوستان کی مذہبی دنیا میں ایک گونج پیدا کر دی تھی جس کی صدائے بازگشت ہمارے کانوں میں اب تک آ رہی ہے.گو بعض بزرگان اسلام اب براہین احمدیہ کے برا ہونے کا فیصلہ دیدیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بہت کی پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ ما تقدم اپنے آئندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالحہ فراہم کر لیا تھا.لیکن اس کے بہترین فیصلہ کا وقت ۱۸۸۰ء تھا جب کہ وہ کتاب شائع ہوئی.مگر اس وقت مسلمان بالاتفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے.یہ دوسری بات ہے کہ اس کے بعد مرزا صاحب نے اپنے تئیں اس کا مستحق نہ دکھایا.کیریکٹر کے لحاظ سے ہمیں مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی غرض کہ مرزا صاحب کی زندگی کے ابتدائی پچاس سالوں نے کیا بلحاظ اخلاق و عادات اور پسندیدہ اطوار کیا بلحاظ مذہبی خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا."

Page 613

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۶۴ جماعت احمد یہ کا خلافت پر پہلا اجماع " تهذیب النسواں " لاہور سید ممتاز علی صاحب امتیاز نے لکھا:." مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت با خبر عالم بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں نہ ہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے تھے لیکن ان کی ہدایت و رہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی." اخبار "زمیندار" لاہور منشی سراج الدین صاحب (والد مولوی ظفر علی خاں صاحب) ایڈیٹر " اخبار "زمیندار" نے لکھا:.مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۲۰ء یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ۲۴ سال کی ہوگی اور ہم چشمدید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہو تا تھا، عوام سے کم ملتے تھے.۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محود مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.۱۸۸۱ء یا ۱۸۸۲ ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا اعلان کر دیا اور ہم اس کتاب کے اول خریداروں میں سے تھے.ہم بارہا کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ آپ کے دعاوی خواہ دماغی استغراق کا نتیجہ ہوں مگر آپ بناوٹ اور انتزاء سے بری تھے.مسیح موعود یا کرشن کا اوتار ہونے کے دعاوی جو آپ نے کئے ان کو ہم ایسا ہی خیال کرتے ہیں جیسا کہ منصور کا دعویٰ انا لحق تھا....گو ہمیں ذاتی طور پر مرزا صاحب کے دعادی یا الہامات کے قائل اور معتقد ہونے کی عزت حاصل نہ ہوئی مگر ہم ان کو ایک پکا مسلمان سمجھتے تھے."البشیر "اٹاوہ نے لکھا کہ :.والبشیر اٹاوہ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت اقدس اس زمانہ کے نامور مشاہیر میں سے تھے.اس ترقی علوم و فنون کے زمانہ میں در حقیقت یہ امر کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے کہ ان کے کئی لاکھ راسخ الاعتقاد مرید ایسے تھے جو ان کے ہر ایک حکم کو ہر ایک پیشگوئی کو وحی خیال کرتے اور بلا چون و چرا تسلیم کرتے تھے.ان مریدوں میں عوام الناس اور جہلا پڑھے لکھے ، غریب و امیر عالم و فاضل اور نئے تعلیمیافتہ غرضکہ ہر درجہ اور ہر حیثیت کے مسلمان موجود ہیں جو درجہ کہ حضرت اقدس مرزا صاحب کو اپنے مریدوں میں حاصل تھا اور جو اثر کہ حضرت اقدس کا اپنے مریدوں کی جماعت پر تھا اس میں کچھ کلام

Page 614

تاریخ احمدیت جلد ۳ 040 جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں نہ یہ اثر کسی مولوی اور نہ عالم و فاضل کو اپنے معتقدوں پر تھا اور نہ کسی صوفی اور ولی اللہ کا اپنے مریدین پر تھا اور نہ کسی لیڈر اور نہ کسی ریفارمر کا اپنے مقلدین پر.چونکہ وہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت کے پیشوا اور امام برحق تھے لہذا تہذیب مجبور کرتی ہے کہ ہم ان کی عزت کریں اور ان کے انتقال پر افسوس ظاہر کریں.علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ " علیگڑھ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ " علی گڑھ نے لکھا کہ." مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے.۱۸۷۴ء سے ۱۸۷۷ء تک شمشیر قلم عیسائیوں ، آریوں اور برہمو صاحبان کے خلاف خوب چلایا.آپ نے ۱۸۸۰ء میں تصنیف کا کام شروع کیا.آپ کی پہلی کتاب اسلام کے ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپیہ انعام رکھا تھا.آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسی ۸۰ کتابیں پیچھے چھوڑی ہیں جس میں سے میں عربی زبان میں ہیں...بیشک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا." "صادق الاخبار " ریواڑی ¦ 14 ¦ " صادق الاخبار " ریواڑی نے لکھا کہ :.مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام اور معین المسلمین فاضل اجل عالم بے بدل کی ناگہانی اور بیوقت موت پر افسوس کیا جائے." tt کرزن گزٹ دہلی یونین گزٹ بریلی "کردن گزٹ" دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا کہ :.33 مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا...اگر چه مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں...اس کا پر زور لٹریچر اپنی

Page 615

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۶۶ جماعت یہ کا خلافت پر پہلا اجتماع et شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے...اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صافت کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا." یونین گزٹ " (بریلی) میں بھی میرزا حیرت دہلوی کا یہ تبصرہ معمولی تخفیف الفاظ کے ساتھ شائع ہوا.ان اخبارات کے علاوہ ملت.پیسہ اخبار لاہور.نسیم آگرہ - E نیر اعظم " مراد آبادی روہن کھنڈ بریلی وغیرہ بیسیوں اخباروں میں حضور علیہ السلام کی وفات پر عمدہ مضامین شائع ہوئے.غیر مسلم اخبارات یہ تو ہندوستان کے اسلامی جرائد و رسائل کا تذکرہ تھا جہاں تک غیر مسلم اخباروں اور رسالوں کا تعلق ہے انہوں بھی اس موقعہ پر بڑے مئوثر اور زور دار ادار لیے لکھے مثلا میونسپل گزٹ لاہور - آریہ پتر کا لا ہو ر - اند رسول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور.امر تا بازار پتر کا.برہم پر چارک پاونیر الہ آباد - جیون نت یونٹی کلکتہ بنگالی کلکتہ - " میونسپل گزٹ" چنانچہ " میونسپل گزٹ" نے لکھا کہ :.مرزا صاحب علم و فضل کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے تھے.تحریر میں بھی روانی تھی.بہرحال ہمیں ان کی موت سے بحیثیت اس بات کے کہ وہ ایک مسلمان عالم تھے نہایت رنج ہوا ہے.اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک عالم دنیا سے اٹھ گیا."آریہ بستر کا " آپ یہ پتر کا" نے لکھا کہ..عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی نسبت آپ کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے.مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستانہ نہیں ہوئے.اور جب ہم آریہ سماج کی گزشتہ تاریخ کو یاد کرتے ہیں تو ان کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے." ود اندر لاہور اندر " لاہور نے لکھا کہ :.اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو مرزا غلام احمد صاحب ایک صفت میں حضرت محمد ( ) صاحب سے بہت مشابہت رکھتے تھے.اور وہ صفت ان کا استقلال تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا.اور

Page 616

تاریخ احمدیت جلد ؟ 844 جماعت کا خلافت پر پہلا اجماع ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی." " FA سول اینڈ ملٹری گزٹ " لاہور سول اینڈ ملٹری گزنٹ لاہور نے لکھا کہ:.مرزا غلام احمد خاں صاحب ساکن قاریان ضلع گورداسپور....ایک مشہور و معروف اسلامی واعظ اور سلسلہ احمدیہ کے بانی تھے انہوں نے مذہبی اور تعلیمی کام میں مشغول ہونے کی خاطر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا.وہ لاہور میں ہندو مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق کے بڑھانے کے لئے ایک انجمن قائم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے " ( ترجمہ ) امر تا بازار پتر کاکلکتہ.....امرتا بازار پتر کا کلکتہ نے لکھا: وہ فقیرانہ طور پر زندگی بسر کرتے تھے اور سینکڑوں آدمی روزانہ انکے لنگر سے کھانا کھاتے تھے.ان کے مریدین میں ہر قسم کے لوگ فاضل.مولوی.بااثر.رئیں.تعلیم یافتہ آدمی.امیر اور سوداگر ہیں." " بر مجھ پر چارک" " بر مجھ پر چارک " نے لکھا کہ :.ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کیا بلحاظ لیاقت اور کیا بلحاظ اخلاق اور شرافت کے ایک بڑے پایہ کے انسان تھے.." " یا و نیر الہ آباد اخبار پاؤ نیر الہ آباد نے لکھا کہ :.....اگر پچھلے زمانہ کے اسرائیلی نبیوں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر دنیا میں اس وقت تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں نہ ہو گا جیسے کہ مرزا غلام احمد قادیانی معلوم ہوتے تھے مرزا غلام احمد صاحب کو اپنے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان کو خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے.انہوں نے بشپ ویلڈن (بشپ لیفرائے چاہیے.ناقل ) کو چیلنج دیا کہ نشانوں میں ان کا مقابلہ کریں...اور اس مقابلہ کا یہ نتیجہ قرار دیا کہ تا فیصلہ ہو کہ سچاند ہب کونسا ہے.بہر حال قادیان کا نبی ایک ایسا انسان تھا جو ہر روز دنیا میں پھر نہیں آیا کرتے ان پر سلامتی ہو." rr

Page 617

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۶۸ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہنا اجتماع "جيون تت "ديو سماج جیون نت " میں دیو سماج کے سیکرٹری نے لکھا:.وہ اسلام کے مذہبی لٹریچر کے خصوصیت سے عالم تھے.سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے تھے.کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے.مرزا صاحب اپنے خاص عقائد اور ارادہ کے پکے تھے اس لئے انہیں اپنی راہ میں بہت سخت مخالفین اور بدنامیاں سہنی پڑیں مگر وہ ان پر قائم رہے." دی یونٹی اینڈ دی مسٹری " کلکتہ دی یونٹی اینڈ دی مسٹری " کلکتہ نے لکھا کہ :." مرحوم ایک عالم آدمی تھے اور آپ صرف اپنے ہی مذہب سے پوری پوری واقفیت نہ رکھتے تھے بلکہ عیسائیت اور ہندومذہب کے بھی خوب جانے والے تھے.آپ کا میگزین جس کا نام ریویو آف ریلیجز ہے اور جس کو بڑی قابلیت سے چلایا جاتا ہے آپ کی طاقت تنقید کی باریکی کو ظاہر کرتا ہے.ان کو بھی مذہبی اتحاد کا خیال تھا.لیکن آپ نے عیسائیت کے بعض مسائل کی خوب دل بھر کر قلعی کھوئی ہے.....ایسے آدمی کی وفات قوم کے لئے افسوسناک ہے.( ترجمہ ) "بنگالی کلکتہ " " _ " بنگالی " کلکتہ نے لکھا کہ :.مرزا صاحب مذہب اسلام کے مجدد تھے." سٹیٹس میں کلکتہ سٹیٹس میں " کلکتہ نے لکھا کہ :.مرزا صاحب ایک مشہور مقدس اسلامی واعظ اور فرقہ احمدیہ کے بانی تھے." جہ! ان کے علاوہ اور بھی کئی اخبارات مثلاً اخبار ” عام " (لاہور) اخبار ” ٹائمز" (لندن) وغیرہ نے بھی تبصرے کئے مگر ان کے درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

Page 618

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۶۹ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجتماع الفضل ۱۲۳ فروری ۱۹۵۵ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲ حواشی اس درخواست پر بہت سے احباب کے دستخط تھے جن کے نام پدر ۲ / جوان ۱۹۰۸ء صفحہ کالم نمبر پر لکھتے ہیں:.تاریخ رحمت اللہ صاحب (مالک انگلش ویر ہاؤس لاہور) (صاحبزادہ) مرزا محمود احمد صاحب.مفتی محمد صادق صاحب عنی اللہ عنہ.سید محمد احسن صاحب امروہی.سید محمد حسین اسٹنٹ سرجن لاہور.(مولوی) محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجز خواجہ کمال الدین صاحب (ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب احمد دین صاحب اپیل نویس گوجر انوالہ.(مولوی) ماسٹر شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام (ڈاکٹر عباد الله صاحب امرتسری اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی (نواب) محمد علی خاں صاحب اور میں مالیر کوٹلہ).سید احمد نور صاحب کاہلی.سید حیدرشاہ صاحب قصور.(صاحبزادہ) مرزا بشیر احمد صاحب.(حضرت میرا با عصر نواب صاحب.اس سلسلہ میں آپ نے حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی اور مولوی محمد علی صاحب کا ان کی شاندار دینی خدمات کے باعث خاص طور پر ذکر فرمایا بعد ازاں حضرت سید حامد شاہ صاحب اور حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب کا نام لیا.بدر ۲ / جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ - ۸ کالم نمیه ۳ ۵- اصحاب جلد دوم صفحه ۵۸۹ 6 یہ پہلی بیعت باغ کے کسی حصہ میں ہوئی؟ اس بارہ میں اختلاف ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور بعض دیگر جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ ربوہ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی رائے میں پہلی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں ہوئی تھی جو خلوط باغ کے جنوبی حصہ میں مقبرہ بہشتی کے ساتھ متصل ہے.خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اید و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا غالب خیال بھی یہی ہے اس کے بر عکس بالخصوص حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب تاریانی جیسے ممتاز صحابہ حتمی طور پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ کو بیعت اولی کا مقام قرار دیتے تھے.ایک صحابی جناب محمد اسمعیل صاحب معتبر کا بیان ہے کہ بیعت اوٹی دونوں مقامات پر ہوتی ہے پہلے حضرت مسیح موعود کے باغ میں پھر حضرت صاحبزادہ مرزا سلط ابن احمد صاحب کے باغ میں (الفضل ۲۳۰۴/ فروری ۱۹۵۵ء) ضمیر الحکم ۱۲۸ مئی ۱۹۰۸ ء و بدر ۲ / جنون ۱۹۰۸ ء صفحه نمبرا الفضل ۲۳ / فروری ۱۹۵۵ء صفحہ نمبر ۲ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۸۸ اصحاب احمد جلاد نیم ۱۰۲ ۱۰۳ الحکم ۲۸/ مئی ۱۹۰۸ء اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۵۸۹ اصحاب احمد جلد نہم صفحہ ۷۷ ۲ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب میر عمارت صدرا انجمن احمد یہ اس وقت تدفین کے انغرام و انتظام پر متعین تھے.آپ کی خواہش تھی کہ تختوں کے اوپر کی ڈاٹ پختہ اینٹوں کی بنائی جائے تا قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ نہ ہو مگر چونکہ حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ الصحیح الاول نے اس کی جازت نہ دی اس لئے دنمور کا جسد اطہر بغیر تابوت صندوق یا بکس کے صرف کفن میں لپیٹا: واقبر میں اتار گیا جس کے فرش پر کچھ ریت بچھادی گئی تھی.قبر کے گڑھے کے اندراینٹ کی دیواروں پر لاہور آئے ہوئے بکس کے تختے ڈال کر چھت دیا گیا اور ان کے اوپر سے کچھی اینٹوں کی ڈاٹ لگادی گئی پھر اس کے اوپر مٹی ڈال دی گئی ہدایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی - مرقومه الفضل ۱۸۲ وقار جولائی ۱۹۴۴/۱۳۲۱ء مش صفحه ۴) الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ سے کالم نمبر ۳ الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۴ کانم نمبر ۳ یاران کهن صفحه ۴۲ از مولانا عبد المجید سالک ( طبع اول) بعض حضرات نے یہ شذرہ مولانا عبد اللہ العمادی کا بتایا ہے جو صحیح نہیں

Page 619

تاریخ احمدیت جلد ۲ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع کیونکہ اس شذرہ کا انداز تحریر اپنی قوت و شوکت کے اعتبار سے خود نشاندہی کر رہا ہے کہ اس کے لکھنے والے مولانا ابوالکلام آزاد ہی ہیں.علاوہ ازیں مولانا آزاد کی خود نوشت سوانح " آزاد کی کمائی آزاد کی زبانی " (صفحہ ۳۱۰۰۳۰۹) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاء آن ، آپ ہی ان دنوں اخبار "وکیل" کے ایڈیٹر تھے مگر مولانا عبد اللہ العمادی لکھنو میں رسالہ ” البیان کی ادارت کر رہے تھے اور انہوں نے ان دنوں الگ حضرت اقدس کی وفات پر اداریہ سپرد قلم کیا ( ملاحظہ ہو البیان، جولائی ۱۹۰۸ء).قریباً پچاس برس پہلے جماعت احمد یہ کلکتہ نے مولانا آزاد کے نام سے یہ شذرہ اشتہار کی شکل میں شائع کیا اور مولانا آزاد کو خاص طور پر بھیجوایا.مگر اس وقت انہوں نے اس کی قطعا تردید نہیں کی.(مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی چی نے اس تاریخی واقعہ سے متعلق ایک فیصلہ کن نوٹ لکھا تھا جو الفضل / جون ۱۹۱۳ء اور ان کی تالیف "حیات قمر الانبیاء" کے صفحہ ۲۷ تا ۲۸۱ میں شائع شدہ ہے.حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جناب شیخ صاحب کی تحقیق کے بارہ میں لکھا " آپ کے معلومات بہت پختہ اور یقینی معلوم ہوتے ہیں ") ۱۵ بحواله بدر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۲-۳- اخبار مت لاہور / جنوری ۱۹۱ ء صفحه ۱۳ تان حواله اختبار الحکم جلد ۱۵ نمبرا - بحوالہ شعید الاذہان جلد ۳ نمبر ۰ ۱ صفحه ۳۸۳-۱۹۰۸ء حواله در ۲۵/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر ۲ بحوالہ پدر ۲۰/ اگست ۱۹۰۸ء صفحه، کالم نمبر ۲۱ بحوالہ شعید الا زبان جلد ۳ نمبر ۱۹۰۸۰۸ء صفحه ۳۳۲ ۲۰ بحوالہ حمید الا زبان جلد ۳ نمبر ۱۰ صفحه ۳۸۲ ہو.حوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱۸۹ ۲۲ مفصل تبصرہ ملاحظہ ہو الحکم ۷/۱۴ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ کالم نمبر ۲ ۲۳ شهید الازمان ۱۹۰۸ء صفحه ۳۳۶ -۲۲ مردایت حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ۲۵ بروایت حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری -۲۶ بحوالہ حمید الاذہان جلد ۳ نمبر ۱۹۰۸۰۱۰ء صفحه ۳۸۲ ے ہو.بحوالہ شعید الازمان ۱۹۰۸ء صفحه ۳۳۴ ۲۸ بحوالہ شعید الازمان ۱۹۰۸ء صفحه ۳۳۴ ۲۹ بحوالہ شعید الا زبان ۱۹۰۸ء صفحه ۳۳۳ ۳۰ بحوالہ شعید الاذہان صفحه ۳۸۳ ۳۱ بحوالہ حمید الا زبان صفحه ۳۸۲ ۲ بحوالہ شعید الاذہان جلد ۳ نمیبره صفحه ۳۸۰-۳۸۲ ۳۳- بجواله پدر ۲ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ اکالم نمبر ۲-۳ ۳۴ بحوالہ عید الازمان ۱۹۰۸ء صفحه ۳۳۱-۳۳۲ ۳۵ بحوالہ حمید الازبان ۳۸۳ ۳۶- بحوالہ شعید الاذہان صفحه ۳۸۳ ۳۷- سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر خدا کے فضل سے حضور کی جلیل القدر شخصیت اور عظیم الشان خدمات کے اعتراف کا سلسلہ آج تک جاری ہے بلکہ جوں جوں صداقت کی روشنی پھیلتی جاتی ہے حضور کی مقدس ذات دنیا کی گری توجہ اور خاص دلچسپی کا مرکز بنتی جارہی ہے اور عالمی رحجانات بڑی تیزی سے اس حقیقت کی طرف آرہے ہیں کہ بیسویں صدی کی کوئی نہ ہی تاریخ آپ کے ذکر کے بغیر مکمل ہی نہیں کبھی جاسکتی بطور نمونہ چند آراء درج ذیل کی جاتی ہیں جن سے یہ بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضور کے وجود نے صفحہ عالم پر کتنے گہرے اور روشن نقوش قائم کر دیئے

Page 620

تاریخ احمدیت جلد ۲ ہیں.۵۷۱ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع پروفیسر سید عبد القادر صاحب ایم اے: نضرت مرزا غلام احمد نے مذہبی دنیا میں نہایت عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا.ایسے وقت میں حضرت مرزا صاحب آئے جب کہ مسلمانوں کی مذہبی حالت نہایت بری ہو چکی تھی.ایسی حالت میں حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کو ابھارا اور مذہب کی طرف لوٹنے کی ترغیب دی.اس مقصد میں انہیں کس قدر کامیابی ہوئی اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں." (حوالہ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۳) خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی:.مرزا غلام احمد صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل بزرگ تھے.آپ کی تصانیف کے مطالعہ اور آپ کے ملفوظات کے پڑھنے سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم آپ کے تبحر علمی اور فضیلت و کمال کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے." اخبار منادی ۲۷/ فروری و ۴ / مارچ ۱۹۳۰ء) ۳.مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب: اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنئے جو اپنے فرقے میں ہی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقے والے خدا جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے.یہ کون ہے ؟ جناب مرزا غلام احمد قادیانی پانی فرقہ احمدیہ.ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں.اس لئے یہ جب کبھی دلی آتے تو مجھے ضرور بلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے.چنانچہ دو تین دفعہ ان سے میرا لمنا جو انگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ کہا جاسکے.میں اس زمانہ میں ایف اے میں پڑھتا تھا.زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ہو تا تھا اور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں.اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہوگی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے.میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ تھا.یہ بڑے فقیر دوست تھے.تمام ہندوستان کا سفر فقیروں سے ملنے کے لئے کیا بڑی بڑی سخت ریاضتیں کیں.چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجئے کہ تقریباً ۲۰ سال تک یہ رات کو نہیں سوئے.صبح کی نماز پڑھ کر دو ڈھائی گھنٹے کے لئے سو جاتے ورنہ سارا وقت یا دائمی میں گزارتے.ایک دن میں جو مرزا غلام احمد صاحب کے یہاں جانے لگا تو چا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا.” بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کردو.اور وہ کام یہ ہے کہ جن صاحب سے تم ملنے جا رہے ہو ان کی آنکھوں کو دیکھو کس رنگ کی ہیں.میں سمجھا بھی نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی آنکھوں کو دیکھتا رہا.میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے.اسی سلسلے میں میں نے خود بھی انکو ذرا غور سے دیکھا کیونکہ اس سے پہلے جو میں ان کے پاس جا تا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کر کے بیٹھتا تھا.اس دفعہ میں نے دیکھا ان کا چہرہ بہت بارونق تھا.سر پر کوئی دو انگل کے بال ہیں.داڑھی خاصی نیچی ہے.آنکھیں جھکی جھکی ہیں.بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں مگر بعض وقت جھلا بھی جاتے ہیں.سر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کئے.فرمت دیکھو اس شخص کو برابھی نہ کرنا.فقیر ہے اور یہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں میں نے کہا یہ آپ نے کیونکر جانا.فرمایا کہ جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں ہر وقت غرق رہتا ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آجاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک لہران میں دوڑ رہی ہے.میں نے اس وقت تو ان سے وجہ نہ پوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہل طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سبز ہے اس کا عکس آپ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے." (عالمی ڈائجسٹ کراچی بابت اکتوبر ۱۹۷۸ صفحه ۷۳ - ۷۴) مولوی ظفر علی خان صاحب ہندو اور عیسائی مذہبوں کا مقابلہ مرزا صاحب نے نہایت قابلیت کے ساتھ کیا ہے.آپ کی تصانیف "سرمہ چشم آریہ" چشمہ مسیحی " وغیرہ آریہ سماجیوں اور مسیحیوں کے خلاف نہایت اچھی کتابیں لکھی ہیں." (زمیندار ۱۲ ستمبر ۱۹۲۳ء) - مولوی عبد المساجد صاحب دریا بادی

Page 621

تاریخ احمدیت.جلد ۲ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہنا اجماع مرزا صاحب تو بہر حال اپنے تئیں مسلمان اور خادم اسلام کہتے ہیں اور مسیحیوں ، آریوں ملحدوں کے جواب میں اور تائید اسلام میں سینکڑوں ہزاروں صفحے لکھے گئے ہیں." اخبار یچ منقول از اخبار پیغام صلح ۲۲ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ اکالم نمبر ۳) - مولوی نور محمد صاحب نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع دہلی ولایت کے انگریزوں نے روپے کی بہت بڑی مدد کی اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر ڈا تلاطم برپا کیا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور پادری اور اس کی جماعت سے کہا کہ عینی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہوچکا ہے اور جس معینی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں اس ترکیب سے اس نے نصرانیوں کو اتنا تنگ کیا کہ اس کے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دیدی " دریاچه صفحه ۳۰ بر ترجمہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی).چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار " آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بیان تھا جس میں تبلیغی جس مفقود ہو چکی تھی مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصر کی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا.جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے." فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں طبع دوم صفحه ۲۳) - مولانا نیاز احمد خاں نیچوری تھیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب جھوٹے انسان نہیں تھے.وہ واقعی اپنے آپ کو مہدی موعود سمجھتے تھے اور یقین انہوں نے یہ دعوی ایسے زمانہ میں کیا جب قوم کی اصلاح و تنظیم کے لئے ایک بہادی و مرشد کی سخت ضرورت تھی." (رسالہ نگار لکھنؤ اگست ۱۹۵۹ء صفحه (۴) وہ صحیح معنی میں عاشق رسول تھے اور اسلام کا بڑا مخلصانہ درد اپنے دل میں رکھتے تھے.لوگ منزل تک پہنچنے کے لئے راہیں ڈھونڈنے میں برسوں سر گردان رہتے ہیں اور ان میں صرف چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو منزل کو پالیتے ہیں.میں سمجھتا ہوں انہیں میں سے ایک مرزا غلام احمد قادیانی بھی تھے." (نگار بابت جولائی صفحہ نمبر دسمبر ۱۹۹۰ء صفحہ ۲۱ - ۲۲) کر شعرائے پنجاب میں لکھا ہے:.میرزا ند کوره در جواب تبلیغات ضد اسلامی قیام نموده و بادلائل بسیار محکم و قاطع دشمنان اسلام را شکست داده " ( تذکره شعرائے پنجاب صفحہ ۲۶۰ ۲۶۱ مرتبہ خواجہ عبد الرشید صاحب ناشر بی.اے ڈار مجید اقبال اکادمی کراچی ۲۹/ اکتوبر ۱۹۶۷ء) مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھتے تھے.ان کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقینا قابل تحسین ہے.صرف ایک مقناطیسی جذب اور دلکش اخلاق رکھنے والا شخص ایسے لوگوں کی دوستی اور روناداری حاصل کر سکتا ہے جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقاید کے لئے جان دے دی مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا.“ (ترجمہ احمدیہ موومنٹ) لارنس ایمی براؤن پروفیسرز میات مانچسٹر یونیورسٹی " مرزا غلام احمد صاحب قادیانی پنجاب کے رہنے والے کئی امور میں ہمیں خود محمد ال ) کی یاد دلاتے ہیں.دونوں نے ایک ایسے مضبوط روحانی تجربے کو اس طرح محسوس کیا کہ اس کے زیر اثر وہ دنیا کی اصلاح پر مامور کئے گئے ہیں.(دی پراسپیکٹس آن اسلام ۱۲- یکی رسالہ "هما" جبلپور جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم نے سلسلہ احمدیہ مدعی موجود دم وا نہیں تک ایک طرف مسیحی مناظرین سے نبرد آزما تھے دوسری طرف قرآنی الفاظ کی عجیب و غریب صرفی و نحو موشگافیاں کر کے دیگر مسائل کی طرح وفات مسیح کے مسئلہ پر بڑے بڑے

Page 622

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۵۷۳ جماعت احمدیہ کا خلافت پر پہلا اجماع صاحب جبہ و دستار مولویوں کو اپنی غیر معمولی قرآنی بصیرت اور علم کلام پر عبور ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے جید علماء اسلام کو اپنے دلائل وبراہین کی ندرت اور معقولات و مقولات پر بے پناہ قدرت و دستگاه سے حواس باختہ کر دیا تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہر مکتب فکر کے ملاؤں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور اپنے پیچھے ایک بڑی فعال رجال نار جماعت دنیا میں چھوڑ گئے." ( هما اکتوبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۵)

Page 623

تاریخ امی ۵۷۴ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیه

Page 624

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۷۵ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیه حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ حلیہ مبارک اور ذاتی خصائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اعلیٰ درجہ کے مردانہ حسن کے مالک تھے اور فی الجملہ آپ کی شکل ایسی وجیہ اور دلکش تھی کہ دیکھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا.ایک دفعہ مردان کا ایک شخص قادیان آیا.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا.اور اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمد یہ محلہ سے باہر لیا.ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو دیکھنا پسند نہیں کیا مگر ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ.وہ اس بات کے لئے رضامند ہو گیا مگر یہ شرط کی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں.چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے.جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بیتاب ہو کر حضور کے قدموں میں اگر ا اور اسی وقت بیعت کرلی.آپ کا چہرہ کتابی تھا اور رنگ سفیدی مائل گندمی تھا اور خد و خال نہایت متناسب تھے.سر کے بال بہت ملائم اور سیدھے تھے مگر بالوں کے آخری حصہ میں کسی قدر خوبصورت خم پڑتا تھا.داڑھی گھندار تھی مگر رخسار بالوں سے پاک تھے.قد درمیانہ تھا اور جسم خوب سڈول اور مناسب تھا اور ہاتھ پاؤں بھرے بھرے اور ہڈی فراخ اور مضبوط تھی.چلنے میں قدم بہت تیزی سے اٹھتا تھا مگر یہ تیزی ناگوار نہیں معلوم ہوتی تھی.زبان بہت صاف تھی مگر کسی لفظ میں کبھی کبھی خفیف سی لکنت پائی جاتی تھی جو صرف ایک چوکس آدمی ہی محسوس کر سکتا

Page 625

تاریخ احمدیت جلد ۲ 024 حلیہ مبارک ، خصائل وشمائل اور اخلاق عالیہ تھا.پچھتر سال کی عمر پائی مگر کمر میں غم نہیں آیا اور نہ ہی رفتار میں فرق پڑا.دور کی نظر ابتداء سے کمزور تھی مگر پڑھنے کی نظر آخر تک اچھی رہی اور یوم وصال تک تصنیف کے کام میں مصروف رہے.کہتے ہیں ابتداء میں جسم زیادہ ہلکا تھا مگر آخر عمر کسی قدر بھاری ہو گیا تھا.آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے یا یونہی بلا ضرورت ادھر ادھر نظر اٹھانے کی عادت بالکل نہیں تھی بلکہ اکثر اوقات آنکھیں نیم بند اور نیچے کی طرف جھکی رہتی تھیں.گفتگو کا انداز یہ تھا کہ ابتداء میں آہستہ آہستہ کلام شروع فرماتے تھے مگر پھر حسب حالات اور حسب تقاضائے وقت آواز بلند ہوتی جاتی تھی.چہرہ کی جلد نرم تھی اور جذبات کا اثر نور ظاہر ہونے لگتا ہے.لباس ہمیشہ پرانی ہندوستانی وضع کا پہنتے تھے یعنی عموماً بند گلے کا کوٹ یا جبہ.دیسی کاٹ کا کرتہ یا قمیص اور معروف شرعی ساخت کا پاجامہ جو آخری میں عمر میں عمو با گرم ہو تا تھا.جو تا ہمیشہ دیسی پہنا کرتے تھے اور ہاتھ میں عصا ر کھنے کی عادت تھی.سر پر اکثر سفید ململ کی پگڑی باندھتے تھے جس کے نیچے عموما نرم قسم کی رومی ٹوپی ہوتی تھی.کھانے میں نہایت درجہ سادہ مزاج تھے اور کسی چیز سے شغف نہیں تھا بلکہ جو چیز بھی میسر آتی تھی ہے تکلف تناول فرماتے تھے اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے تھے.غذا بہت کم تھی اور جسم اس بات کا عادی تھا کہ ہر قسم کی مشقت برداشت کر سکے.اپنے خدا داد مشن کے متعلق کامل یقین جہاں تک ان اخلاق کا سوال ہے جو دین اور اور آنحضرت کے ساتھ بے نظیر محبت ایمان سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود میں دو خلق خاص طور پر نمایاں نظر آتے تھے.اول اپنے خدا داد مشن پر کامل یقین دو سرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بینظیر عشق و محبت.یہ دو اوصاف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں ان کا پر زور جلوہ نظر آتا تھا.بسا اوقات اپنے خداداد مشن اور الہامات کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ یقین ہو سکتا ہے.اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی اور اگر وہ پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر بر سر عام پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے تاکہ میرا وجود دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو.ایک جگہ اپنے منشور کلام میں فرماتے ہیں.یہ مکالمہ الیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کا فر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جاوے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہو ا یقینی اور قطعع ہے اور جیسا

Page 626

تاریخ احمدیت جلد ۲ حلیہ مبارک ، خصائل و شمائل اور اخلاق عالیه کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے.ایسا ہی میں اس کلام میں شک نہیں کر سکتا جو خداتعالی کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر آنحضرت ا کے ساتھ اپنی محبت و عشق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم شار کوچه آل محمد است دیدم بعین قلب شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جمال محمد است یعنی میرے جان و دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خداداد پر قربان ہیں.اور میں آپ کے آل وعیال کے کوچہ کی خاک پر نثار ہوں میں نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہوش کے کانوں سے سنا ہے کہ ہر کون و مکاں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کی ندا آرہی ہے.پھر فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمد محترم جانم فدا شود بره دین مصطفی گر کفر این بود بخدا سخت کافرم اینست کام دل اگر ایک میرم A آید یعنی خدا سے اتر کر میں محمد ﷺ کے عشق کی شراب سے متوالا ہو رہا ہوں.اور اگر یہ بات کفر میں داخل ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.میرے دل کا واحد مقصد یہ ہے کہ میری جان محمد کے دین کے راستے میں قربان ہو جائے.خدا کرے کہ مجھے یہ مقصد حاصل ہو جائے.پھر فرماتے ہیں.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے.اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ره دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا کی ہے آنحضرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی یہ والہانہ محبت محض کاغذی یا نمائشی محبت نہیں تھی بلکہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کی ایک زندہ اور زبردست جھلک نظر آتی تھی.ایک دفعہ آپ علیحدگی میں ملتے ہوئے آنحضرت ا کے درباری شاعر حسان بن ثابت کا یہ ﷺ شاعرحسان شعر تلاوت فرمارہے تھے اور ساتھ ساتھ آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جا رہے تھے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتَ أَحَاذِرُ یعنی اے محمد ﷺ تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس تیری وفات سے میری آنکھ اندھی ہو گئی ہے.سو

Page 627

تاریخ احمدیت - جلد ۲ ۵۷۸ علیہ مبارک خصائل ، شمائل اور اخلاق عالیہ اب تیرے بعد جس شخص پر چاہے موت آجارے مجھے اس کی پروا نہیں کیونکہ مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی.رادی بیان کرتا ہے کہ جب آپ کے ایک مخلص رفیق نے آپ کو اس رقت کی حالت میں دیکھا تو گھبرا کر پوچھا کہ حضرت ایہ کیا معاملہ ہے ؟ " آپ نے فرمایا " کچھ نہیں میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا.قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے.وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں.پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہو تا تو اس کا سر پھوڑ دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیساختہ فرمایا " نہیں نہیں.ایسا نہیں چاہئیے.ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے.پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہر ہو رہے تھے.جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ ! یہ کیا بات ہے.آپ کے پیر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی برا بھلا کے تو آپ فور امباہلہ کے ذریعہ اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں! پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر صبر کس نے کیا ہے ؟ اور کس نے کرنا ہے ؟ مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشق رسول اور غیرت ناموس رسول کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی.خان بهادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے لڑکے تھے جو ڈپٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور دنیا کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر حضور کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے گو بعد میں انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے زمانہ میں بیعت کر لی.بہر حال خان بہادر مرز ا سلطان احمد صاحب کے غیر احمدی ہونے کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا ” ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذرای بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی شخص آنحضرت کی شان کے خلاف ذراسی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فورا ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا ایسا عشق میں نے کسی

Page 628

تاریخ احمدیت.جلد ۲ 069 حلیمہ مینا شمائل اور اخلاقی عالیه شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دہرایا.ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت کچھ نا ساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا اور حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا.حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے حج کو چلنا چاہیے.اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا " یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا." یہ ایک خالصتہ گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اس اتھاہ سمندر کی طغیانی بریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسول کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں.حج کی کس بچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاک (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں.رسول پاک ﷺ کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل و اولاد اور آپ کے صحابہ کے ساتھی بھی بے پناہ محبت تھی.چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے.آپ نے مبارکہ بیگم سلمها اور مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ” آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں" پھر آپ نے بڑے دردانگیز انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے.آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.اس درد ناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا " یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم" کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا.اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاک کے عشق کی وجہ سے تھا.

Page 629

تاریخ احمدیت جلد ۲ عید مبارک ، خصائل و شمائل او ائل اور اخلاق عالیہ مگر آنحضرت کی محبت کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ مذہبی بزرگوں کا احترام دوسرے بزرگوں کی محبت سے خالی تھے بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت کی محبت نے آپ کے دل میں دوسرے پاک نفس بزرگوں کی محبت کو بھی ایک خاص جلا دے دی تھی اور آپ کسی بزرگ کی ہتک گوارا نہیں کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری ہے اور امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے.اس پر حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ آپ نے فورا فرمایا ”نہیں نہیں ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں اور ہم ہر گز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی." اسلام کے گزشتہ مجددین کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی غیرت رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جہانگیر کا شاندار مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا.اس پر حضرت مسیح موعود نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا."میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کے لئے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پر نہ کھڑا ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجددالف ثانی کی ہتک کی تھی." تین سو سال سے زائد زمانہ گزرنے پر بھی ایک مسلمان بادشاہ کے ایسے فعل پر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں گویا ایک عام واقعہ ہے کیونکہ مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں ایسے کئی واقعات گزر چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس قدر غیرت ظاہر کرنا اور مجددالف ثانی کے لئے بھائی جیسا پیار لفظ استعمال کرنا اس یگانگت اور محبت اور عقیدت کی ایک بہت روشن مثال ہے جو آپ کے دل میں امت محمدیہ کے صلحاء کے لئے موجزن تھی.اسی طرح آپ کو غیر مسلم قوموں کے بزرگوں کی عزت کا بھی بہت خیال تھا اور ہر قوم کے تسلیم شدہ مذہبی بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالی کسی شخص کے نام کو عزت کے ساتھ دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس کی بزرگی کا خیال بٹھا دیتا ہے اور اس کے سلسلہ کو استقلال اور دوام حاصل ہو جاتا ہے تو ایسا شخص جسے اس قدر قبولیت حاصل ہو جاوے جھوٹا نہیں ہو سکتا اور ہر انسان کا فرض ہے کہ بچوں کی طرح اس کی عزت کرے اور کسی رنگ میں اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہو.اس معاملہ میں خود اپنے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.

Page 630

یا ہے غمبران را MAI چاکریم ہمچو خاکے حلیہ مبارک خصائل : شمائل اور اخلاق عالیہ اوفتاده پروری ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قربان برای حق پروری.یعنی میں ان تمام رسولوں کا خادم ہوں جو خدا کی طرف آتے رہے ہیں اور میرا نفس ان پاک روحوں کے دروازے پر خاک کی طرح پڑا ہے.ہر رسول جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آیا ہے (خواہ وہ کسی زمانہ اور کسی ملک میں آیا ہو ) میری جان اس خادم دین پر قربان ہے.روحانی مصلحوں کا دستہ پھولوں کی حضرت مسیح موعود کا صبر و استقلال اور شجاعت سیج میں سے نہیں گزر تا بلکہ انہیں فلک بو تر ، پہاڑیوں اور بے آب و گیاہ بیابانوں اور مہیب سمندروں میں سے ہو کر اپنی منزل مقصود تک پہنچنا پڑتا ہے.بلکہ جتنا کسی رسول کا مشن زیادہ اہم اور زیادہ وسیع ہوتا ہے اتنا ہی اس کے راستے میں ابتلاؤں اور امتخانوں کی بھی زیادہ کثرت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود اپنی ان مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ولات آر ہرزہ گو کچھ خدمت آساں نہیں ہر قدم پر کوہ ماراں ہر گذر میں دشت خار مگر آپ کو وہ چیز حاصل تھی جس کے سامنے یہ ساری مشکلات بیچ ہو جاتی ہیں.فرماتے ہیں:.عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آب دار اور دل بھی آپ کو خدا نے وہ عطا کیا تھا جو دنیا کی کسی طاقت کے سامنے مرعوب ہونے والا نہیں نظر تھا.فرماتے ہیں.سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں، ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک آریہ نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ بات قانون قدرت کے خلاف بیان کی ہے کہ جب دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا تو خدا کے حکم سے آگ ان پر ٹھنڈی ہو گئی.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے اس اعتراض کے جواب میں یہ لکھا کہ یہاں آگ سے حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ دشمنی اور شرارت کی آگ مراد ہے.مگر جب حضرت مولوی صاحب کے اس جواب کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ ”مولوی صاحب کو اس تاویل کی ضرورت نہیں تھی.خدا کے بنائے ہوئے قانون قدرت کا احاطہ کون کر سکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود نے اس موقعہ پر صرف ایک حقیقت اور ایک فلسفہ کا ہی اظہار نہیں فرمایا بلکہ ایک ربانی مصلح اور ذاتی مشاہدہ سے مشرف انسان کی حیثیت میں بڑے وثوق

Page 631

تاریخ احمدیت جلد ۵۸۲ حلیہ مبارک خصائل وشمائل اور اخلاق عالیہ اور جلال کے ساتھ یہ بھی فرمایا.حضرت ابراہیم کا زمانہ تو گزر چکا اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں.ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہو گی.چنانچہ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک نظم میں بھی فرماتے ہیں.ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصان نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اللہ یہ صرف ایک خالی دعوئی نہیں تھا بلکہ جب سے کہ آپ نے خدا سے الہام پا کر مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا اس وقت سے لے کر اپنے یوم وصال تک آپ کی زندگی صبر اور استقلال اور شجاعت کا ایسا شاندار منظر پیش کرتی ہے جو سوائے خدا کے خاص الخاص بندوں کے کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا یہی وہ منظر تھا جس نے دشمنوں تک کے دل کو موہ لیا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ خواہ مرزا صاحب کے عقائد سے ہمیں کتنا ہی اختلاف ہو مگر اسمیں شبہ نہیں کہ اس نے مخالفتوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا." محنت اور انہماک جس وقت سے کہ آپ نے خدا کے حکم کے ماتحت ماموریت کے میدان میں قدم رکھا اس وقت سے لے کر یوم وفات تک آپ کی زندگی کا ہر لحہ اس IT سپاہی کی طرح گزرا جسے کسی عظیم الشان قومی خطرے کے وقت میں کسی نہایت نازک مقام پر بطور نگران سنتری مقرر کیا گیا ہو اور اس کی چوکسی یا غفلت پر قوم و ملک کی زندگی اور موت کا انحصار ہو.یہ تشبیہ قطعا کسی مبالغہ کی حامل نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ تشبیہ اس حالت کا صحیح صحیح نقشہ کھینچنے سے قاصر ہے جو ہر دیکھنے والے کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں نظر آتی ہے.آپ کی زندگی گویا ایک مقابلہ کی دوڑ تھی جس کا ہر قدم اس احساس کے ماتحت اٹھایا جاتا ہے کہ اس قدم کے اچھا اٹھ جانے پر اس مقابلہ کی ساری کامیابی یا ناکامی کا دارمدار ہے بسا اوقات کام کے انہماک میں حضرت مسیح موعود کھانا اور سونا تک بھول جاتے تھے اور ایسے موقعوں پر آپ کو کھانے کے متعلق بار بار یاد کروا کے احساس پیدا کرنا پڑتا تھا.کئی مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ تصنیف کے کام میں آپ نے ساری ساری رات خرچ کر دی اور ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہیں کیا.اس قسم کے واقعات شاز کے طور پر نہیں تھے بلکہ کام کے زور کے ایام میں کثرت کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ آپ کی خلقت میں کس پاک مٹی کا خمیر ہے کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں اپنے نفس کے ہر آرام کو فراموش کر رکھا ہے.لیکن چونکہ آپ نے ہر جہت سے لوگوں کے لئے ایک پاک نمونہ بنا تھا اس لئے آپ کا یہ شغف اور یہ انہماک دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں

Page 632

تاریخ احمدیت جلد ۲ حلیہ مبارک خصائل و شمائل او ر اخلاق عالیه دخل انداز نہیں ہو تا تھا اور سب لوگوں کے حقوق کو ایک مذہبی فریضہ کے طور پر احسن صورت میں ادا فرماتے تھے بلکہ اپنے نفس کی قربانی میں بھی جب آپ یہ دیکھتے تھے کہ یہ قربانی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بشری لوازمات کے ماتحت خود کام کا نقصان پہنچنے کا احمال ہے تو آپ فورا چوکس ہو کر اپنے نفس کے حقوق کی طرف بھی توجہ فرماتے تھے اور اس طرح آپ نے اپنی زندگی کے ہر فعل کو ایک مقدس عبادت کا رنگ دے لیا تھا.بہرحال آپ کی زندگی مصروف اور فرائض منصبی کے لحاظ سے ایک بے نظیر نمونہ پیش کرتی تھی اور صحیح اور کامل معنوں میں معمور الاوقات تھے اور آپ کے متعلق خدا کا يه الهام که انتَ الشَّيْعُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه یعنی تو وہ برگزیدہ صحیح ہے جس کا کوئی وقت بھی ضائع جانے والا نہیں.آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ افروز تھا.عبادت الہی جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود کی زندگی ایک مجسم عبادت تھی کیونکہ آپ کا ہر قول و فعل خواہ وہ بظاہر اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی کے لئے تھایا اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں اور دوستوں اور مہمانوں اور ہمسایوں کے آرام کی خاطر تھا یا کسی اور غرض سے تھا اس میں آپ کی نیت صرف رضائے الہی کی جستجو تھی اور آپ اپنے آقا اور مخدوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک ارشاد کا عملی نمونہ تھے جس میں آنحضرت ا نے یہ فرمایا ہے کہ ہر اچھا کام جو انسان رضائے الہی کے خیال سے کرتا ہے وہ عبادت میں داخل ہے.حتی کہ اگر کوئی انسان اپنی بیوی کے منہ میں اس نیت کے ساتھ لقمہ ڈالتا ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ بیوی کے آرام کا خیال رکھو تو اس کا یہ فعل بھی ایک عبادت ہے.اس معنی میں اور اس تشریح کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی یقینا ایک مجسم عبادت تھی مگر عبادت کے معروف مفہوم کے لحاظ سے بھی آپ کا پایہ نہایت بلند تھا.جوانی کی زندگی جو نفسانی لذات کے زور کا زمانہ ہوتی ہے وہ آپ نے ایسے رنگ میں گزاری کہ دیکھنے والوں میں آپ کا نام "مستر مشہور ہو گیا تھا جو پنجابی زبان میں ایسے کو کہتے ہیں جو اپنا بیشتر وقت مسجد میں بیٹھ کر عبادت الہی میں گزار دے.قرآن شریف کے مطالعہ میں آپ کو اس قدر شغف تھا کہ گویادہ آپ کی زندگی کا واحد سہارا ہے جس کے بغیر جینا ممکن نہیں ہے.شخص اور قرآن شریف کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں..دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے پنجگانہ نماز تو خیر فرض ہی ہے جس کے بغیر کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو مسلمان نہیں رہ سکتا نفل نماز کے موقعوں کی بھی حضرت مسیح موعود کو اس طرح تلاش رہتی تھی جیسے ایک پیاسا انسان پانی کی تلاش کرتا ہے.تہجد کی نماز جو نصف شب کے بعد اٹھ کر ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق حضرت

Page 633

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۸۴ علیہ مبارک ، خصائل وشمائل اور اخلاق عالیہ مسیح موعود کا دستور تھا کہ با قاعدہ شروع وقت میں اٹھ کر ادا فرماتے تھے.اور اگر کبھی زیادہ بیماری کی حالت میں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی تو پھر بھی وقت پر جاگ کر بستر میں ہی اس مقدس عبادت کو بجالاتے تھے.جوانی کے عالم میں ایک دفعہ مسلسل آٹھ نو ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ خوراک کو اس قدر کم کر دیا کہ دن رات میں چند تولہ سے زیادہ نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا کے فضل سے اپنے نفس پر اس قدرت حاصل ہے کہ اگر کبھی فاقہ کرنا پڑے تو قبل اس کے مجھے ذرا بھی اضطراب ہو ایک موٹا تازہ شخص اپنی جان کھو بیٹھے.بڑھاپے میں بھی جب کہ صحت کی خرابی اور عمر کے طبعی تقاضے اور کام کے باری بوجھ نے گویا جسمانی طاقتوں کو تو ڑ کر رکھ دیا تھا.روزے کے ساتھ خاص محبت تھی اور بسا اوقات ایسا ہو تا تھا کہ سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے اور دن کے دوران میں ضعف سے مغلوب ہو کر جبکہ قریبا غشی کی سی حالت ہونے لگتی تھی خدائی حکم کے ماتحت روزہ چھوڑ دیتے.مگر جب دو سرا دن آتا تو پھر شوق عبادت میں روزہ رکھ لیتے.زکوۃ آپ پر کبھی فرض نہیں ہوئی یعنی آپ کے پاس کبھی اس روپیہ جمع نہیں ہوا کہ آپ پر زکوۃ فرض ہوتی بلکہ آپ نے اپنے محبوب آقا اور مخدوم نبی کی طرح جو بھی ملا ا سے خدا کی راہ میں اور دین کی ضروریات میں بے دریخ خرچ کر دیا اور دنیا کے اموال سے اپنے ہاتھوں کو خالی رکھا اور مقدس بانی اسلام کی طرح اس اصول کو حرز جان بنایا کہ الفقر فخری یعنی فقر کی زندگی گزار نا میرے لئے فخر کا موجب ہے.حج بھی آپ باو جود خواہش کے کبھی ادا نہیں کر سکے کیونکہ اسلام نے حج کے لئے جو شرطیں مقرر کی ہیں وہ آپ کو میسر نہیں تھیں یعنی اول تو آپ کے پاس کبھی بھی حج کے مصارف کے لئے کافی روپیہ جمع نہیں ہوا.دو سرے ان خطرناک فتوؤں کے پیش نظر جو اسلامی دنیا میں آپ کے خلاف لگ چکے تھے آپ کے لئے حج کا رستہ یقین پر امن نہیں تھا مگر خدا نے آپ کی اس خواہش کو بھی خالی نہ جانے دیا چنانچہ آپ کی وفات کے بعد حضرت ام المومنین نے آپ کی خواہش کو اس طرح پورا فرما دیا کہ اپنے خرچ پر ایک شخص کو مکہ مکرمہ میں بھجوا کر آپ کی طرف سے حج کروا دیا.غرض آپ ہر جہت سے عبادت الہی میں ایک بہترین نمونہ تھے..تقویٰ اللہ اور اطاعت رسول حضرت مسیح موعود کو تقویٰ کی باریک درباریک راہوں پر نگاہ رہتی تھی اور ہر قدم اٹھاتے ہوئے آپ کی نظر اس جستجو میں گھومتی تھی کہ اس معاملہ میں خدا اور اس کے رسول کا کیا ارشاد ہے؟ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں

Page 634

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۸۵ حلیہ مبارک ، خصائل ، شمائل اور اخلاق عا جن میں ایک عام انسان کو یہ خیال تک نہیں جاتا کہ اس معاملہ میں بھی شریعت کا کوئی حکم ہو گا ان میں بھی ہر قدم پر قرآن وحدیث کا حکم مستحضر رہتا تھا اور آپ اس حکم کو رسم و عادت یا چٹی کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقدس فرض کے طور پر رحمت کے احساس کے ساتھ بجالاتے تھے.میں بڑی باتوں کو دانستہ ترک کرتے ہوئے ایک نہایت معمولی واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے اہل ذوق آپ کے اطاعت رسول کے جذبہ کا کسی قدر اندازہ کر سکتے ہیں.گورداسپور میں جب کہ مولوی کرم دین جہلمی کی طرف سے آپ کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ دائر تھا.ایک گرمیوں کی رات میں جب کہ سخت گرمی تھی اور آپ اس روز قادیان سے گورداسپور پہنچے تھے آپ کے لئے مکان کی کھلی چھت پر پلنگ بچھایا گیا.اتفاق سے اس مکان کی چھت پر صرف معمولی منڈیر تھی اور کوئی پردہ کی دیوار نہیں تھی، جب حضرت مسیح موعود بستر پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا کہ " میرا بستر اس جگہ کیوں بچھایا گیا ہے کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے." اور چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے باوجود شدت گرمی کے کمرہ کے اندر سونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں.آپ کا یہ نہ اس خوف کی وجہ سے نہیں تھا کہ ایسی چھت پر سونا خطرے کا باعث ہے بلکہ اس خیال سے تھا کہ آنحضرت ا نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے.ایک اور موقعہ پر جب کہ آپ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور اس وقت دو تین باہر سے آئے ہوئے احمدی بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کسی شخص نے دروازہ پر دستک دی.اس پر حاضر الوقت احباب میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا.حضرت مسیح موعود نے یہ دیکھا تو گھبرا فعل کر اٹھے اور فرمایا ” ٹھہریں ٹھہریں میں خود کھولوں گا.آپ دونوں مہمان ہیں اور آنحضرت ا نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے." غرض حضرت مسیح موعود کو نہایت چھوٹی باتوں میں بھی قال اللہ اور قال الرسول کا انتہائی پاس تھا اور زندگی کے ہر قدم پر خواہ وہ بظاہر کیسا ہی معمولی ہو آپ کی نظر لاز ماسید بھی خدا اور اس کے رسول کی طرف اٹھتی تھی.اس ضمن میں آپ نے جو تعلیم اپنے متعین کو دی ہے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.فرماتے ہیں."جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے کسی حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز داخل نہ ہو گا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ اور شعشہ قران شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے نا تم اس کے لئے پکڑے نہ جاؤ." اور مخصوص طور پر تقوی اللہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں..عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک.وہ ہے جس کا کام تقویٰ

Page 635

تاریخ احمدیت جلد ۲ سنو ہے حاصل اسلام تقوی مسلمانو! بتاؤ نام تقوی ۵۸۶ حلیہ مبارک " خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ خدا کا عشق سے اور جام تقویٰ کہاں ایماں اگر ہے خام تقومی 10 یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدادی فسبحان الذي اخزى الاعادي راست گفتاری کی صفت تقویٰ و طہارت ہی کا ایک حصہ ہے لیکن چونکہ اس پر راست گفتاری ایک روحانی مصلح کے دعوی کی بنیاد ہوتی ہے اس لئے اس کے متعلق ایک علیحدہ نوٹ نا مناسب نہ ہو گا.حضرت مسیح موعود کی راست گفتاری نہایت نمایاں اور مسلم تھی.ظاہر ہے کہ عام حالات میں ہر شخص ہی سچ بولتا ہے اور بلا وجہ کوئی شخص راستی کے طریق کو ترک نہیں کرتا.پس اس معاملہ میں انسان کا اصل امتحان عام حالات میں نہیں ہو تا بلکہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایسے حالات میں بھی صداقت پر قائم رہے جب کہ ایسا کرنے میں اس کی ذات یا اس کے عزیز و اقارب یا اس کے دوستوں اور تعلق داروں یا اس کی قوم و ملک کو کوئی نقصان پہنچا ہو.ان حالات میں راست گفتاری حقیقتہ ایک بڑی قربانی کا درجہ رکھتی ہے اور وہی شخص اسے اختیار کر سکتا ہے جو سچائی کے مقابلہ پر ہر دنیوی نفع اور ہر دیوی رشتہ کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور سچائی کے اختیار میں بظاہر جتنا زیادہ نقصان ہو یا جتنا زیادہ خطرہ درپیش ہو اتنی ہی اس کے مقابلہ پر اس قربانی کا درجہ نہایت بلند ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کے لئے چونکہ ایک روحانی مصلح بنا مقدر تھا اس لئے آپ کی زندگی میں ایسے متعدد موقعے پیش آئے کہ جب راستی کو اختیار کرنا آپ کے لئے بظاہر بہت بڑے نقصان یا خطرے کا باعث تھا مگر آپ نے ہر ایسے موقعہ پر اپنے نفع اور فائدہ کو پر پیشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح صداقت اور راستی پر قائم رہے اور ہر قسم کے نقصان اور خطرے کو برداشت کیا مگرسچ کا دامن نہیں چھوڑا.تکلفات سے پاک زندگی حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کا ایک اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ کی زندگی کلیتہ تکلفات سے پاک تھی یعنی نہ صرف جیسا کہ اس باب کے شروع میں بتایا گیا ہے.آپ خوراک اور لباس وغیرہ کے معاملہ میں بالکل سادہ مزاج تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ اور اخلاق کے ہر پہلو میں آپ کا ہر طریق ہر جہت سے سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے بالا تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ آپ کے اعلیٰ اخلاق تمام مصنوعی آرائشوں سے آزاد ہو کر اپنے قدرتی زیور میں جلوہ افروز ہیں.کھانے میں پینے میں سونے میں جاگنے میں کام میں ، آرام میں تکلیف میں آسائش میں سفر میں حضر میں عزیزوں میں بیگانوں میں گھر کے اندر گھر کے باہر غرض زندگی کے ہر پہلو میں آپ کے اخلاق و عادات اپنے فطری بہاؤ پر چلتے تھے اور ان میں تکلف کی

Page 636

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۸۷ علیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیه کوئی دور کی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی.خوراک لباس وغیرہ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادات نہایت درجہ سادہ تھیں، جو کھانا بھی آپ کے سامنے رکھ دیا جاتا آپ اسے بے تکلفی سے تناول فرماتے اور کبھی کسی کھانے پر اعتراض نہیں کیا اور نہ کبھی کھانے پینے کے شوقین لوگوں کی طرح کسی خاص کھانے کی خواہش کی.یہ نہیں کہ ملامتی فرقہ کے لوگوں کی طرح آپ کو اچھے کھانے سے پر ہیز تھا اور ضرور ادنی کھانا ہی کھاتے تھے بلکہ جو کھانا بھی میسر آتا آپ اسے خوشی کے ساتھ کھاتے اور عموماً سادہ غذا کو پسند فرماتے.اسی طرح جو لباس بھی گھر میں تیار کروا دیا جاتا یا باہر سے تحفتہ " آجاتا.آپ اسے خوشی کے ساتھ استعمال فرماتے تھے مگر سادہ لباس پسند تھا اور کسی قسم کے فیشن وغیرہ کا خیال تک نہ آتا تھا.ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنے ایک غریب رشتہ دار کو جسے کوٹ کی ضرورت تھی اپنا ایک استعمال شدہ کوٹ بھجوایا.میر صاحب کے اس عزیز نے اس بات کو بہت برا منایا کہ مستعمل کوٹ بھیجا گیا ہے اور ناراضگی میں کوٹ واپس کر دیا.جب خادم اس کوٹ کو واپس لا رہا تھا تو اتفاق سے اس پر حضرت مسیح موعود کی نظر پڑ گئی.آپ نے اس سے حال دریافت فرمایا.اور جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ کوٹ میر صاحب کو واپس جا رہا تو حضرت مسیح موعود نے اس خادم سے یہ کوٹ لے لیا اور فرمایا واپس کرنے سے میر صاحب کی دل شکنی ہو گی تم مجھے دے جاؤ میں خود یہ کوٹ پہن لوں گا اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ کوٹ ہم نے اپنے لئے رکھ لیا ہے.یہ ایک بہت معمول ساگھر یلو واقعہ ہے مگر اس سے حضرت مسیح موعود کے اعلیٰ اخلاق اور بے تکلفانہ زندگی پر کتنی روشنی پڑتی ہے.پیروں اور سجادہ نشینوں میں یہ ایک عام مرض ہے کہ کوئی مرید پیر کے برابر ہو کر نہیں بیٹھ سکتا.یعنی ہر مجلس میں پیر کے لئے ایک مخصوص مسند مقرر ہوتی ہے اور مریدوں کو اس سے ہٹ کر مچلی جگہ بیٹھنا پڑتا ہے بلکہ پیروں پر ہی حصر نہیں دنیا کے ہر طبقہ میں مجلسوں میں خاص مراتب ملحوظ رکھے جاتے ہیں اور کوئی شخص انہیں توڑ نہیں سکتا لیکن حضرت مسیح موعود کی مجلس میں قطعا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ مل کر اس طرح ملے جلے بیٹھتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں.اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود بظاہر اوٹی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو اچھی جگہ مل جاتی تھی.مثلاً بیسیوں مرتبہ ایسا ہو جاتا تھا کہ چارپائی کے سرہانے کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھا ہے اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ہیں.یا تنگی چارپائی پر آپ ہیں اور بستر والی چارپائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہے.یا اونچی جگہ میں کوئی مرید ہے اور نیچی جگہ میں آپ ہیں مجلس کی اس صورت کی وجہ سے بسا

Page 637

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۸۸ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ اوقات ایک نو دارد کو دھو کہ لگ جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کون ہیں ؟ اور کہاں بیٹھے ہیں ؟ مگر یہ ایک کمال ہے جو صرف انبیاء کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی نہیں پیدا ہوتی تھی بلکہ ہر شخص کا دل محبت اور ادب و احترام کے انتہائی جذبات سے معمور رہتا تھا.خادموں تک سے پوری بے تکلفی کا برتاؤ تھا.گھر کے کام کاج میں بھی حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت درجہ سادہ اور تکلفات سے آزاد تھی.ضرورت کے موقعہ پر نہایت معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے اور کسی کام میں عار نہیں محسوس کرتے تھے.مثلاً چار پائی یا بکس وغیرہ اٹھا کر ادھر ادھر رکھ دینا یا بستر بچھانا یا کسی مہمان کے لئے کھانے یا ناشتہ کے برتن لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ وغیرہ.وبائی امراض کے ایام میں بسا اوقات حضرت مسیح موعود خود بھنگن کے سر پر کھڑے ہو کر نالیوں کی صفائی کرواتے تھے اور بعض اوقات نالیوں میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بہا کر فینا کل وغیرہ ڈالتے تھے.غرض حضرت مسیح موعود کی زندگی ہر جہت سے بالکل سادہ اور تکلفات کی آلائش سے بالکل پاک تھی.بیوی بچوں سے سلوک قرآن شریف نے بار بار اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ شفقت و احسان کا سلوک کریں اور آنحضرت ا حدیث میں فرماتے ہیں خیر کم خیر کم لا هله یعنی اے مسلما نو ا تم میں سے خدا کی نظر میں بہترین اخلاق والا شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے.اس معیار کے مطابق حضرت مسیح موعود یقیناً ایک خیر الناس وجود تھے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت درجہ پاکیزہ اور حسن و احسان کی خوبیوں سے معمور تھا.حضرت مسیح موعود ایک بہترین خاوند اور بہترین باپ تھے اور گھر کے اس بہشتی ماحول اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مستورات اپنے خانگی تنازعات میں حضرت مسیح موعود کو اپنا ایک زبردست سہارا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک نہایت مضبوط ستون خیال کرتی تھیں کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ ہماری ہر شکایت نه صرف انصاف بلکه رحمت و احسان کے جذبات کے ساتھ سنی جائینگی ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کے عہد حکومت میں ایک دفعہ ایک معزز احمدی نے کسی خانگی بات میں ناراض ہو کر اپنی بیوی کو سخت ست کہا.بیوی بھی حساس تھیں وہ خفا ہو کر حضرت مسیح موعود کے گھر میں آگئیں اور حضرت مسیح موعود تک اپنی شکایت پہنچائی.دوسری طرف وہ صاحب بھی غصہ میں جماعت احمدیہ کے ایک نہایت معزز فرد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود تک اپنے حالات پہنچانے چاہے.حضرت

Page 638

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۸۹ حلیہ مبارک ، خصائل، شمائل اور اخلاق عالیه مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذہین اور بازاق تھی ان دوست کی بات سن کر کہنے لگے ”میاں تم جانتے ہو کہ آج کل ملکہ کا راج ہے پس میرا مشورہ یہ ہے کہ چپکے سے اپنی بیوی کو منا کر گھر واپس لے جاؤ اور جھگڑے کو لمبا نہ کرو." چنانچہ ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور گھر کی ایک وقتی ناراضگی پھر امن اور خوشی کی صورت میں بدل گئی.لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے جو یہ کہا کہ آج کل ملکہ کا راج ہے اس سے ان کی یہ مراد تھی کہ جہاں آج کل حکومت انگریزی کی باگ ڈور ایک ملکہ کے ہاتھ میں ہے وہاں جماعت احمدیہ کی روحانی بادشاہت میں بھی جہاں تک اس قسم کے خانگی امور کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود گھر والوں کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں اور عورتوں کی ہمدردی اور ان کے حقوق کا ان کو خاص خیال رہتا ہے.رو سری طرف حضرت مسیح موعود کے احسان اور شفقت کا یہ نتیجہ نہیں تھا کہ ہماری والدہ صاحبہ (یعنی حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا.ناقل) کے دل میں حضرت مسیح موعود کے ادب و احترام یا آپ کی قدرو منزلت میں کوئی کمی آجاتی بلکہ حضرت مسیح موعود کے لئے ان کا رویہ نہایت مخلصانہ اور نہایت درجہ مودبانہ تھا.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر اپنے لئے ایک نکاح ثانی کی پیشگوئی فرمائی تو گو یہ پیشگوئی بعض شرائط کے ساتھ مشروط تھی مگر پھر بھی چونکہ اس وقت اس کا ظاہر پہلو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک نکاح کی پیشگوئی ہے اور لڑکی کے والدین اور عزیز و اقارب حضرت مسیح موعود کے سخت خلاف تھے تو ایسے حالات میں حضرت والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کیں کہ "خدایا تو اپنے مسیح کی سچائی کو ثابت کر اور اس رشتہ کے لئے خود اپنی طرف سے سامان مہیا کر دے.اور جب حضرت مسیح موعود نے ان سے دریافت کیا کہ اس رشتہ کے ہو جانے سے تو تم پر سو کن آتی ہے پھر تم ایسی دعا کس طرح کرتی ہو ؟ " تو حضرت ام المومنین نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کچھ بھی ہو میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہو جائے.اس چھوٹے سے گھر یلو واقعہ سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بینظیر حسن سلوک اور عدیم المثال شفقت نے آپ کے اہل خانہ پر کس قدر غیر معمولی اثر پیدا کیا تھا؟ الغرض آپ کا اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایسا اعلیٰ سلوک تھا کہ جس کی نظیر تلاش کرنا بے سود ہے !! دوستوں کے ساتھ سلوک حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالٰی نے ایسا دل عطا کیا تھاجو محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا.آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اس کو گرانے میں کبھی پہل نہ کی.ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے گو آپ کے دعوئی مسیحیت

Page 639

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۹۰ حلیہ مبارک اخصائل و شمائل اور اخلاق عالیه پر آکر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو تو ڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہو گئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی.مگر حضرت مسیح موعود کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی.اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا.چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں..قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسْنَاءُ فِي الصَّبَا وَلَيْسَ فَوَادِي فِي الْوَدَادِ يُقَصِرُ یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا.مگر میرا دل محبت کے معاملہ میں کو تاہی کرنے والا نہیں ہے.دوستی اور وفاداری کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقتہ " بے نظیر جذبات کا حامل تھا چنانچہ آپ کے مقرب حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب " روایت کرتے ہیں کہ.حضرت مسیح موعود نے ایک دن فرمایا.میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عمد دوستی باندھے مجھے اس کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا.ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں.ورنہ ہمارا نہ ہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلا خوف لو مه لا ئم اسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا.عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہیے اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگواربات پیش آئے اس پر اغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہیے." اس روایت کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے تھے کہ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود نے یہ بھی فرمایا تھا اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے گا تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تاکہ وہ ہمیں |12 دیکھ کر شرمندہ نہ ہو.اپنے دوستوں اور خادموں کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجسم عفو و شفقت تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنی تصنیف ”سیرت مسیح موعود میں لکھتے ہیں.

Page 640

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۹۱ حلیہ مبارک ، خصائل : شمائل او ر اخلاق عالیه ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام کا عربی لکھ رہے تھے.حضور نے مولوی نور الدین صاحب خلیفہ (اول) کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے وہ ایسا مضمون تھا کہ اس خداداد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا.مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعا فکر پیدا ہوا اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہو رہی ہے معلوم نہیں کیا بات ہے.یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی نورالدین صاحب کا رنگ فق ہو گیا.کیونکہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا.بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے.حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گبھراہٹ کا اظہار کرنا تو درکنار الٹا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے.میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گمشدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرما دے گا." اس لطیف واقعہ سے ایک طرف حضرت مسیح موعود کے غیر معمولی جذبہ شفقت اور دوسری طرف اپنے آسمانی آقا کی نصرت پر غیر معمولی توکل پر خاص روشنی پڑتی ہے.غلطی حضرت مولوی صاحب سے ہوئی تھی کہ ایک قیمتی مسودہ کی پوری حفاظت نہیں کی اور اسے ضائع کر دیا مگر حضرت مسیح موعود کی شفقت کا یہ مقام ہے کہ خود پریشان ہوئے جاتے ہیں اور معذرت فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو مسودہ گم ہونے سے اتنی تکلیف ہوئی ہے.اور پھر تو کل کا یہ مقام ہے کہ ایک مضمون کی فصاحت و بلاغت اور اس کے معنوی محاسن پر ناز ہونے کے باوجود اس کے کھوئے جانے پر کس استغناء کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں خدا ہمیں اس سے بہتر مضمون عطا فرمادے گا!! یہ شفقت اور توکل اور یہ تحمل خدا کے بندوں کے سوا کسی اور میں پایا جانا ممکن نہیں ہے.جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک بند گلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جائے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از حد صدمہ پہنچتا تھا.ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر

Page 641

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۹۲ حلیہ مبارک ، خصائل و شمائل س و شمائل اور اخلاق عالیہ بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آئین میں اپنے دوستوں کے آنے کا بھی ذکر کیا اور پھر ان کے واپس جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہار فرمایا.چنانچہ فرماتے ہیں..مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہونچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سبحان من برانی دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے، آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی اوائل میں آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر مکان کے مردانہ حصہ میں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور یہ مجلس اس بے تکلفی کی ہوتی تھی اور ہر قسم کے موضوع پر ایسے غیر رسمی رنگ میں گفتگو کا سلسلہ رہتا تھا کہ گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دستر خوان بچھ جاتا تھا.ان موقعوں پر آپ ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے اور اس بات کی نگرانی فرماتے کہ ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جاوے.عموماً ہر مہمان کے متعلق خود دریافت فرماتے تھے کہ اسے کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے پان وغیرہ کی عادت تو نہیں اور پھر حتی الوسع ہر اک کے لئے اس کی عادت کے مطابق ہر چیز مہیا فرماتے.جب کوئی خاص دوست قادیان سے جانے لگتا تو آپ عموماً اس کی مشایعت کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو میل تک اس کے ساتھ جاتے اور بڑی محبت اور عزت کے ساتھ رخصت کر کے واپس آتے تھے.آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان آئیں وہ حتی الواسیع آپ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقعہ مل سکے غنیمت سمجھنا چاہیے.اس طرح آپ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹا رہتا تھا.مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے.ایک بہت شریف اور غریب مزاج احمدی سیمی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دوکان کیا کرتے تھے انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا.سمردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا.رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح

Page 642

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۹۳ علیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ موعود کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی.سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اٹھ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں ؟ یہ خدا کا برگزیدہ صیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا ہے اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے !! حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر اوپر آچکا ہے وہ بہت ممتاز صحابہ میں سے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعود کی قریب کی صحبت کا بہت لمبا موقعہ میسر آیا تھا وہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا.میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آگئی.حضور اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے.میں چونک کر جاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے.میں گھرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے بڑی محبت سے پوچھا.مولوی صاب ! آپ کیوں اٹھ بیٹھے ؟ میں نے عرض کیا حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سو سکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا..آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.اللہ اللہ.شفقت کا کیا عالم تھا !! ؟ دلداری اور غریب نوازی کا ایک اور واقعہ بھی بہت پیارا اور نہایت ایمان افروز ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا.حتی کہ وہ ہٹتے ہٹتے جو تیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھائیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا " آؤ میاں نظام دین ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھا ئیں." یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کو ٹھڑی کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.اس وقت میاں نظام دین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ

Page 643

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۵۹۴ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ گئے تھے وہ شرم سے کئے جاتے تھے.دشمنوں کے ساتھ سلوک قرآن شریف فرماتے ہے لا یجر منكم شنان قوم على ان لا مسلمانو چاہیے تعدلوا اعدلوا هوا قرب للتقوى- (الحجرات) یعنی اے ہے کہ کسی قوم یا فرقہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے معاملہ میں عدل و انصاف کا طریق ترک کردو بلکہ تمہیں ہر حال میں ہر فریق اور ہر شخص کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے.قرآن شریف کی یہ زریں تعلیم حضرت مسیح موعود کی زندگی کا نمایاں اصول تھی.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں بلکہ جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے ایک والدہ مہربان اپنے بچوں سے کرتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول."..یہ ایک محض زبانی دعوئی نہیں تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ مخلوق خدا کی ہمدردی میں گزرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو آپ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے اور بڑے ذہین اور نکتہ رس بزرگ تھے.روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک دن میں اس موذی مرض کا شکار ہو رہے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محو حیرت ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں.اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ منے والے کا پتہ پانی ہو تا تھا اور آپ اس طرح آستانہ الہی پر گریہ وزاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردزہ سے بیقرار ہو.میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق خدا کے واسطے طاعون سے نجات کے لئے دعا فرمار ہے..اور کہہ رہے تھے کہ الہی ! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا." " قادیان کے بعض آریہ سماج حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف تھے اور آپ کے خلاف ناپاک پراپیگنڈے میں حصہ لیتے رہتے تھے مگر جب بھی انہیں کوئی تکلیف پیش آتی یا کوئی بیماری لاحق ہوتی تو

Page 644

تاریخ احمد بیت - جلد ۲ ۵۹۵ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ وہ اپنی کارروائیوں کو بھول کر آپ کے پاس دوڑے آتے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردانہ اور محسنانہ سلوک کرتے اور ان کی امداد میں دلی خوشی پاتے.چنانچہ ایک صاحب قادیان میں لالہ بڈھامل ہوتے تھے جو حضرت مسیح موعود کے سخت مخالف تھے.جب قادیان میں منارۃ المسیح بننے لگا تو ان لوگوں نے حکام سے شکایت کی.اس پر ایک مقامی افسر یہاں آیا اور اس کی معیت میں لالہ بڑھائل اور بعض دوسرے مقامی ہندو اور غیر احمدی اصحاب حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.گفتگو کے دوران میں آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ اب یہ لالہ بڈھامل صاحب ہیں.آپ ان سے پوچھئے کہ کیا کبھی کوئی موقعہ ایسا آیا ہے کہ جب یہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہوں اور انہوں نے اس موقعہ کو خالی جانے دیا ہو.اور پھر انہی سے پوچھئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقعہ مجھے ملا ہو اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو؟ حضرت مسیح موعود کی اس گفتگو کے وقت لالہ بڑھا مل اپنا سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے اور آپ کے جواب میں ایک لفظ تک منہ پر نہیں لا سکے.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دل میں بلا امتیاز قوم و ملت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور دلداری کا جذبہ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ ایک پہاڑی چشمہ کی طرح جو اوپر سے نیچے کو بہتا ہے ہمیشہ اپنے طبعی بہاؤ میں زور کے ساتھ بہتا چلا جاتا تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم جو حضرت مسیح موعود کے ایک بہت پرانے اور مقرب صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو (غیر احمدی) مهمان حضرت مسیح موعود کا نام سن کر حضور کو ملنے کے لئے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتار نے اور چارپائی بچھانے کو کہا لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ که کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتار دیں چار پائی بھی آجائے گی.ان تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے.مگر جب حضور کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نہایت جلدی ایسی حالت میں کہ جو تا پہننا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے چند خدام بھی ساتھ ہو گئے حضور اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے دو اڑھائی میل پر نہر کے پل کے پاس انہیں جالیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے آنے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے.آپ یکہ پر سوار ہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوار نہ ہو سکے اور حضور انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کر ان کا سامان اتارنے کے لئے حضور نے خود اپنا ہاتھ یکہ کی طرف

Page 645

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۹۶ حلیہ مبارک ، خصائل وشمائل اور اخلاق عالیہ بڑھایا مگر خدام نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا.اس کے بعد حضور ان کے پاس محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور کھانے وغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھانا پسند کرتے ہیں اور کسی خاص کھانے کی عادت تو نہیں؟ اور جب تک کھانا نہ آیا حضرت ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے.دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضور نے دودھ کے دو گلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت کے ساتھ پیش کئے اور پھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستہ والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اور اپنے یکہ پر سوار کرا کے واپس تشریف لائے.۲۲ الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک رحمت تھا.وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے ہمسائیوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے اور رحمت تھا سائلوں کے لئے اور رحمت تھا عامتہ الناس کے لئے اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں بلکہ میں کہتا ہوں وہ رحمت تھا اسلام کے لئے جس کی خدمت اور اشاعت کے لئے اس نے انتہائی فدائیت کے رنگ میں اپنی زندگی کی ہر گھڑی اور اپنی جان تک قربان کر رکھی تھی.بالاخر ایک جامع نوٹ پر اس حضرت مسیح موعود کے اخلاق و شمائل پر ایک جامع نوٹ مقالہ کو ختم کرتا ہوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود کے اخلاق و اوصاف کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا اس مضمون میں فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے یعنی آپ نہایت رؤف رحیم تھے.سخی تھے.مہمان نواز تھے.اشجع الناس تھے.ابتلاؤں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے گئے.عضو - چشم پوشی.فیاضی.دیانت - خاکساری.صبر.شکر.استغناء.حیا.غض بصر.عفت - قناعت وفاداری.بے تکلفی.سادگی.شفقت.ادب الہی.ادب رسول و بزرگان دین.حلم - میانہ روی ادائیگی حقوق.ایفائے عہد.چستی.ہمدردی.اشاعت دین.تربیت.حسن معاشرت.مال کی نگہداشت و قار - طہارت - زندہ دلی اور مزاح.رازداری - غیرت.احسان حفظ مراتب - حسن ظنی.ہمت اولوالعزمی خود داری.خوشروئی اور کشادہ پیشانی کظم غیظ.کف ید و کف لسان - ایثار - معمور الاوقات ہونا.انتظام.اشاعت علم و معرفت.خد اور اس کے رسول کا عشق کامل اتباع رسول.یہ مختصرا آپ کے اخلاق و عادات تھے.

Page 646

تاریخ احمدیت جلد ۲ ۵۹۷ حلیہ مبارک خلاق عالی آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا.ایک عجیب کشش تھی.رعب تھا.برکت تھی...موانست تھی.بات میں اثر تھا.دعا میں قبولیت تھی.خدام پروانہ دار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے اور ولوں سے زنگ خود بخود دھلتا جاتا تھا.غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دنیا کے سامنے پیش کیا جو معجزانہ تھا.سراپا حسن تھے.سراسر احسان تھے.اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول الله الل ہے دیس.آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق میں نے دیکھا کہ میں اس کی مثال بیان کر سکتا ہوں.یہ نہیں کہ میں نے یونہی کہہ دیا ہے میں نے آپ کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ۲۷ سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر آپ سے زیادہ خلیق آپ سے زیادہ نیک آپ سے زیادہ بزرگ.آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا.اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی.اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات بچی کی تھی کہ "كَانَ خُلُقَةَ القُرآن تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ.كَانَ خُلُقَهُ حُبّ مُحَمد وَ أَتْبَاعِهِ - عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ

Page 647

تاریخ احمدیت.جلد ۲ ۵۹۸ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیہ t حواشی یہ باب اول سے آخر تک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی مقدس تحریرات (مندرجہ سلسلہ احمدیہ در منشور سیرت طیبہ در مکنون اور سیرت المہدی حصہ اول تا سوم) سے ماخوذ ہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب ہی کے مبارک الفاظ میں ہے - قمری لحاظ سے ۷۵ سال ۶ ماه دس دن (ولادت ۱۴ شوال ۱۳۵۰ھ وفات ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۳۹ھ - تجليات البيه اشتهار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء ازالہ اوہام قادیان کے آریہ اور ہم مصنفہ ے ۱۹۰ ء روایات حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ روایات حضرت سیدہ نواب مبارک بیگم صاحبہ روایات میاں عبد العزیز صاحب مغل مرحوم سراج منیر تتمہ حقیقته الوحی غیر احمدی اخبار "کرزن گزٹ " دیلی ۱۳ تذکره صفحه ۳۶۶ ( طبع اول) صفحه ۴۰۱ ( طبع دوم) ۱۴ کشتی نوح ۱۵- در همین اردو ۱۶- براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۹۰۵ء ۱۷ سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحه ۴۶ ۱۸ در نشین اردو 19 سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحه ۳۶ ۲۰ اربعین نمبر صفحه ۲ ۲۱ سیرت مسیح موعود شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحه ۳۹۵ مئولفه حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ۲۲ اصحاب احمد جلد چهارم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان

Page 648

تاریخ احمد بہت جلد ؟ ۵۹۹ علیہ مبارک فصائل (شمائل اور اخلاق عالیہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک ایمان افروز مکتوب (مولف کتاب " تاریخ احمدیت" کے نام) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا کی خدمت میں راقم الحروف نے ایک عریضہ لکھا تھا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام وصال کا ایک نقشہ بھی بغرض نظر ثانی ارسال کیا نیز درخواست کی کہ " تاریخ احمدیت " حصہ چہارم کے لئے مواد فراہم کیا جا رہا ہے از راہ شفقت "شعبه تاریخ احمدیت کو حضرت خلیفہ المسیح الاول کے حالات سے نواز کر ممنون فرمائیں.حضرت سیدہ موصوفہ نے اس خط کے جواب میں اپنے قلم سے ایک نہایت معلومات افروز مکتوب ارسال فرمایا جس کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے: پام دیوہ ڈیوس روڈ لاہور ۱۹ جون ۶۶۲ برادرم مکرم علیکم اللہ تعالی السلام علیکم.آپ کا خط ملا تھا.میری صحت کچھ عرصہ سے ٹھیک نہیں جو جواب نہ دے سکی.اس مکان کا نقشہ اور ایک ایک جگہ مجھے خوب یاد ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری سفر لاہور میں قیام فرمایا اور جہاں آپ کا وصال ہوا.مگر نقشہ ٹھیک تحریر نہیں کر سکتی کسی وقت ربوہ آنے پر حضرت منجھلے بھائی صاحب کے سامنے آپ کو بتلا سکتی ہوں ان شاء اللہ.جہاں کیلوں والی سڑک پر ہماری گاڑی کھڑی ہوتی تھی جنوب کی جانب وہاں لکڑی کی سیڑھی چڑھ کر ہم اوپر جاتے تھے اور داخل ہوتے ہی سامنے جو دو کرے تھے ان میں دائیں ہاتھ کے کمرے میں حضرت اقدس کا دن میں قیام رہتا تھا اور دوسرا کرہ جس میں آخری وقت چار پائی تھی یہ خالی تھا مگر اس میں آپ ملتے بھی تھے اور گذرگاہ یہی تھا اس سے صحن میں جانا ہو تا تھا باہر سے آکر بھی اسی کمرے میں سے گذرنے کا راستہ تھا.نقشہ میں چارپائی کی جگہ بالکل ٹھیک ہے مگر ذرا نیچے ہٹ کر تھی یعنی صحن کی جانب دیوار سے قریب لیکن کمرہ کے وسط میں قریباً اسی کمرہ کے سرہانے کی جانب مغرب میں) ایک

Page 649

تاریخ احمد بیت.جلد ۲ حلیہ مبارک خصائل و شمائل اور اخلاق عالیه چھوٹے چھوٹے کمروں کا سلسلہ تھا دو تین یا شاید چار ہوں ان میں حضرت بڑے بھائی صاحب اور منجھلے بھائی صاحب وغیرہ رہتے تھے.ان کے سامنے مجھے بھی تھے ایک دو نقشہ میں جو کمرہ ہے جس میں چارپائی آپ کی وقت و صال دکھائی ہے اس کے ساتھ صحن میں آپ رات کو سوتے تھے اور کمرے کے قریب کے رخ پلنگ تھا جس وقت آپ علیل ہوئے.صحن سے ہی راستہ جاتا تھا جہاں سے آپ نیچے نماز کو تشریف لے جاتے تھے اسی راستہ کے دائیں ہاتھ پر کمرے تھے جن میں حضرت خلیفہ اول اور پیر منظور محمد صاحب رہتے تھے.- اگر کوئی مجھے اس گھر میں اسی رخ لے جائے اور وہ صحن وہ کمرے اسی حالت میں ہوں تو ایک ایک جگہ ٹھیک بتا سکتی ہوں.آپ صحن میں بستر پر بیٹھ کر آخری شام دیر تک مضمون لکھتے رہے تھے.آپ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص جوش اور ایک خاص سرخی تھی اور قلم معمول سے زیادہ تر تیز تھا مجھے اس وقت آپ کے بیٹھ کر اس انہماک اور تیزی سے لکھنے پر اپنا خواب یاد آیا تھا.جو میں آپ کو سنا چکی تھی اور و ہم آیا جس کو بار بار دل سے دور کرنے کی کوشش کی تھی یہی خیال آتا تھا کہ اس خواب میں آپ اسی طرح بستر پر بیٹھے اسی رنگ میں لکھ رہے تھے.میں نے لاہور آنے سے کچھ عرصہ ہی پہلے خواب دیکھا تھا کہ میں نیچے اپنے صحن میں ہوں اور گول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تو وہاں بہت لوگ ہیں جیسے کوئی خاص مجلس ہو مولوی عبد الکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ تشریف لے آئے ہیں آپ کو بلاتے ہیں میں او پر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے ہیں اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرہ پر ہے پر نور اور پر جوش میں نے کہا کہ ابا مولوی عبد الکریم کہتے ہیں رسول کریم صحابہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا کہ جاؤ کہ یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا " ٹھیک یہی الفاظ تھے اور وہی نظارا میری آنکھوں میں اس آخری شام کو پھر گیا.بس اب زیادہ لکھا نہیں جارہا جو ہو سکا لکھ دوں گی یا جو کچھ مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے متعلق زبانی بتادوں گی انشاء اللہ ضرور فقط مبارکه

Page 650

اشاریہ جلد ۲ (مرتبہ :- ریاض محمود باجوہ شاہد ) اسماء صفحه ۳ تا ۲۳ مقامات صفحہ ۲۵ تا ۳۲ کتابیات صفحه ۳۳ تا ۴۰

Page 651

اشاری اسماء جلد دوم ابوالحسن عبد الكريم ۴۸۰ آتما رام لاله ۳۰۷۲۹۳٬۲۹۴۲۸۷ ابوالحسن علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ۱۵۶ آتھم، عبد اللہ آرشیل، مسٹر آصفه مسعوده بیگم آل حسن قنوجی، مولوی سید ابوالحسن قدی، سید ۲۸۵٬۲۷۵٬۳۱ ابوالحسن محمد اسماعیل ۵۶ 10° ۳۳۴۳۳۲ PA ابوالکلام آزاد ۳۸۸٬۳۸٬۷۶ تا ۳۹۹۳۹ ۵۷۰٬۵۶۰٬۵۵۳٬۵۴۹ انسه بیگم سیده آئی سی ایس چوہدری ابن خلدون ابن سعود سلطان ابن طولون ابن قیم امام ابو اسحاق محمد دین ابوالاعلیٰ مودودی ابوالحسن بزوار مولوی ابوالحسن تبتی ۴۴۷ ٣٠٨ PI الله 10° ۲۱۹ ۲۸۲۷ ابوالفداء اسماعیل بن عمرو دمشقی ابوالمدور نور الحق ابوالنصر آه مولانا ابوالہاشم خان خان بہادر ابو جعفر طبری امام ابو سعید عرب ابوبکر صدیق ابویوسف سیٹھ ابو محمد زبیر غلام رسول ابو محمد عبد الحق، مولوی ابویحی محمد مولوی 10° ۳۹۷۴۳۹ ۳۸۸ ۲۱ ۱۵۰ ۵۰۵٬۴۴۲۱۷۳ ۵۱۲۲۲۶ ۳۵ ۴۱۶

Page 652

اشاریه جلد دوم ابویوسف محمد مبارک علی سیالکوئی ۳۰۳٬۲۲۰ اسماعیل آدم سیٹھ ۳۹۷۳۸۹ اسماعیل شہید مولانا اچھر چند ۳۸۳تا۲۸۵ اسماعیل علی گڑھی، مولوی maťres'ırm احمد اللہ امرتسری احمد اللہ ناگپوری، حافظ ۴ اصغر علی مولوی احمد بخش، میاں ۲۳۸ اسلام چندہ دہندگان برائے منار المسیح ۱۲۲تا۱۲۴ اصغر علی حسین.گوڑ گانواں ۲۳۰ ۶۲ ۲۲۵ jet ۲۱۳ اظهر احمد مرزا اعظم یار جنگ، نواب افتقار احمد پیر افضل بیگ، مرزا افضل حق چوہدری.مفکر احرار اکبر شاه خان نجیب آبادی ۵۶۹٬۵۰۸٬۵۰۴٬۴۹۸ اللہ بخش چوہدری ۵۰ اللہ رکھا عبد الرحمان مدراسی، سیٹھ ۱۸۰٬۴۴ الہی بخش اکو نٹنٹ ۱۸ تا ۷٬۱۹۱۱۳۹٬۵۹٬۲۰ ۳۸۰٬۲۰ ۲۱۳۶۸۶۵ ۲۱۵٬۸۱٬۸۰٬۷۵٬۷۳ ۴۴۵ ۲۳۸ ۲۹۱ ۴۲۴ ۵۲۷ ۹ ۲۲۷ CHCHA 40 احمد دین' چوہدری.گجرات احمد دین امرتسری، خواجہ احمد دین لدھیانوی، منشی احمد رضا خاں بریلوی احمد سرہندی، شیخ احمد شاہ ابدالی احمد شاہ شائق احمد علی آف پیلووال نزد مد احمد مسیحی پادری احمد مسیح، مولوی.ولی احمد نور کاہلی ۵۶۹۴۳۳۲٬۳۲۸٬۳۲۷٬۳۱۵ امام الدین سیکھوائی میاں امام بخش، منشی امام دین مرزا امام دین، منشی.لمبا گاؤں ۴۲۳ ۲۳ اروڑا خاں کپور تھلوی، منشی اسکاٹ پادری اسماعیل راجہ

Page 653

جلد دوم اشاری امام دین قادیانی' میاں امتة النصیر صاجزادی.بنت حضرت مسیح موعود ۲۷۴ امان اللہ خان سردار ۳۹۴٬۳۳۷۱۳۳۶ امته النصیر بیگم بنت حضرت مصلح موعود ۲۲۶ امته الوحيد بيگم ۴۷۵ امة الورود امد الهادی، سیده اللحم امیر حسین قاضی امیر علی شاه سید DIPIF ۴۷۵ ۲۲۵ ۲۲۶ ۳۴۸ ۲۲۵ امة الباری امة الباسط امته الجميل امتہ الحفیظ بیگم نواب امته الحلیم بیگم امتہ الحمید بیگیم اہلیہ نواب محمد علی خان ۴۷۴ امین احمد سید امتہ الحمید بیگم بنت مرزا بشیر احمد ایم.اے ۲۲۳ انشاء اللہ خان، مولوی ۲۲۵ ۱۸۲ مهم مهم مهم امتہ الحی بیگم انگسن بملئن امته الرشید بیگم ۲۲۵ ایڈمنڈ ای.پادری ۹۸ امته الرفیق، سیده ام ایشور کور رانی بم بهم امته السلام بیگم ۲۲۳ ایوب بیگ، مرزا 0194 ۵۱۹ ۵۹۵ mám.۳۳۱۸۸ بار ڈون، مس باقی باللہ خواجہ بانسر، مسٹر بڑھامل، لالہ براؤن ڈبلیو.وکیل برکات احمد را جیکی، مولوی ۲۲۵ ۴۷۱ PM ۲۲۳ امته السميع امه القدوس امہ القیوم بیگم امته اللطیف بیگم امه الله سیده امتہ المتین، سیده امته المجید بیگم

Page 654

اشاریہ મ برکت علی چوہدری.گڑھ شنکر ۲۵۹٬۲۵۶ بھگت رام برکت علی خاں سید.رئیس لاہور برکت علی دماوی، منشی برہان الدین جہلمی، مولانا ۱۳۵ HA'142°• ۲۰۹ تا ۱۹۳۱۲ بر ہم دت، مسٹر ۵۳۶ بشارت احمد، ڈاکٹر ۲۵۹۲۵۶۹۴۷ بشری بیگم سیده (مر آپا) ۲۲۶ بھگوان داس ملک جلد دوم madūñar پاور پادری پکٹ کا بیٹا - ۲۵۸ پریس.پادری پکٹ کی بیوی ۲۵۸٬۲۵۷ بگٹ، پادری پیلاطوس ron[rom'var're.سوم بشری بیگم بنت سید میر محمد اسحاق صاحب ۴۴۷ تاج دین.تحصیلدار بٹالہ بشن سنگھ گورو ۲۲ ۵۱۵ تاج دین لاہوری، منشی ۲۱۳۱۸۰۷۶۱۳۹۳۶ بشیر احمد ایم.اے مرزا ۲۰۱۱۹۴۴۸۲٬۶۶۴۵ ۵۶۹٬۵۴۵٬۵۴۳۱٬۵۲۶٬۵۰۱٬۴۳۰۳۸۰٬۲۲۳۴۲۱۳ تلطون حسین، مولوی تیمور امیر بشیر الدین محمود احمد مرزا - المصلح الموعودا تیمور صبیح ۳تا۲۲۳٬۶۰٬۴۵٬۵تا۴۲۳۴۱۸۴۴۱۳٬۲۹۶۲۲۵ ۵۰۸۵۰۴۴۵۰ ۴۹۴۳ ۴۵ ۴۴ ۴۴۴۴۴۲۵ 04'04-'079′002'001'^''Q1z بوڑے خاں، ڈاکٹر A تسلل شاء اللہ امرتسری، مولوی རེ \\8**l*2*\\\ ۳۶۳ ۳۶۲۲۸۹۲۸۰۲۷۲۲۷۰۳۳۳۳۹ Qo'y بوزینب بیگم بوعلی سینا پیکر کار سی.ڈی.ٹی م ج جارج الفريد لما رائے ۲۵۷ جارج پنجم

Page 655

جلد دوم ٣٩٣ ۵۰۰ ۱۵۷ چراغ دین کلرک، میاں چراغ علی مولوی چہ نجیو بھاردواج، ڈاکٹر چین بادشاہ سید چند ولال، لالہ.مجسٹریٹ ۳۰۶۲۹۸۴۹۳۲۹۰٬۲۸۷۲۸۶ ረ ۲۴۸ ۵۱۳۷ ۱۵۰۱۲۶۱۵ اشاریہ جنوچ ترنر جان مار لے جان مرے ڈوئی جان بار ملے جلال الدین را تا.انسپکٹر پولیس جلال الدین سیوطی رح جمال الدین بی.اے، خواجہ جمال الدین، مولوی سیدواله ۳۹۹ حامد شاہ سیالکوٹی، میرے ۵۶۹٬۴۹۹٬۴۴۲٬۲۱۳۱۸۰۱ مهم مهم اسهم الا حاکم علی چوہدری چک ۹ پنیار حامد علی شیخ.تھہ غلام نبی ۴۲۲٬۲۸۳٬۲۱۳۱۹ حبیب الرحمن ۴۱۵ بیب الرحمن، شیخ QA حبیب الرحمن ملک ۲۳ حبیب اللہ قاضی.لاہور ۱۹۸ حبیب اللہ خان امیر ۴۰۷۳۳۷۳۳۹۳۲۹۳۱۲ مهم ۶۵ حسام الدین سیالکوٹی، میر حسن امام حسن حیدر آبادی، شیخ سیٹھ حسن دین سنار ۵۷۱٬۵۵ ۴۴ ۴۳۳۴٬۴۲۵ جمال الدین سیکھوائی میاں جمیل سنگھ ، سردار ۴۲۲٬۲۱۳٬۸۷٬۶۸٬۶۵ لدلم Y ۵۳۲ ۵۸۰ ۵۱۷ ۲۴۸ ۴۷۹۳۵۹ جوتی پر شاد' لالہ جهان خاں میاں جهانگیر، بادشاه جیمز ولسن، سر جومل.ڈوئی کالڑکا چ چٹو لاہوری میاں چراغ الدین جمونی چراغ دین ، میاں رئیس لاہور ۵۱۶۴۳۴۹٬۳۱۵۳۶۸ حسن نظامی، خواجہ

Page 656

جلد دوسم ۳۲۵ 10+ ۲۲۵ ۳۲ خسرو امیر خطیب بغدادی، علامہ خلیل احمد ' مرزا خلیل الرحمن المنان خیر الدین سیکھوائی میاں ۲۱۳۶۸۶۵٬۴۴ 109 ۴۷۵ ۴۴۵ ۴۴۴ 749 ۵۶ 14-104 149°140°02 3-3-9 داد محمد خان وارد احمد مرزا داؤد احمد سید میر درد، خواجہ میر دلاور شاہ بخاری، سید ولاور، شهزاده دلیپ سنگھ، ماسٹر دیانند سوامی ڈانلڈ جے ایس ڈکسن کی ڈکسن ایف ٹی ڈگر ڈلس ، میجر A ۱۰۸ ۳۵۵ ۵۴۵ ۶۵ ۴۷۶۳۲ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۶ اشاریہ حسین امام حسین احمد مدنی حسین علی مرزا.بہاء اللہ حشمت اللہ خان، ڈاکٹر حشمت اللہ خان پنیالوی حشمت علی، فقیر دہلوی حمزه النقوى الدبلوى حمید احمد اول، مرزا حمید احمد ثانی مرزا حمید اللہ مولوی.لاصوات حنیف احمد مرزا حیات اللہ خان سردار حیدر شاه قصوری، سید ۵۶۹ حیرت دہلوی، مرزا خ خادم حسین بھیروی، منشی ۲۵۸ خدا بخش، مرزا ۶۵۶۴۶۲ POS´IA•ʻIPT'||ZʻAÍYA خدا بخش، منشی خدا داد خان میر ۳۷۵۳۷۱

Page 657

جانده دوم ۵۵۸۵۱۰۳۴۲ ۳۵۸ ۵۰۲ ۴۵۴ ۳۸۸٬۳۸۷۲۷۳ 069 Q-A'r'19 ۲۲۶ کے نام هم ٣٣٩ 000 ۵۶۴٬۴۰۵ ۴۷۹ ۲۲۳ १ اشاریہ ڈوئی ، ڈاکٹر جان الیگز میڈر ۲۴۰ تا ۵۱۹٬۴۹۰٬۲۵۴٬۲۵ ڈوئی، جی ایم ۴۷۳۸ تا ۴۹ رضی الدین حکیم رفیع احمد مرزا رکھو ناتھ ، ماسٹر روشن علی حافظ رئیس احمد جعفری زار زکیہ بیگم صاحبزادی زین الدین محمد ابراہیم.بمبئی زین العابدین، مولوی ۳۹۵ ۱۵۷ ۴۴۸ onferr'irr j-j ڈھیر و علی لالہ ڈیورنڈ سرمار ٹیمر ذوالفقار علی خاں کو ہر خان را برش، ہربرٹ رام بهجدت را نلڈ میتھیوز رجب دین خلیفه رحمت الله شیخ ۱۸۰۱۷۶۷۲٬۴۹۴۸ ۳۵۳٬۳۰۲٬۲۱۳ زین العابدین ولی اللہ شاہ سید س- ش ساره بیگم اسیده سالاد الدول سپلے کارڈ سدر لینڈ میجر ڈاکٹر سراج الحق نعمانی، پیر سراج الدین ، مولوی سردار بیگ سیالکونی، مرزا ۲۱۲ ۱۵۰ TIFʻIA• PIF'A ۴۷۹ ۴۴ رحمت اللہ خان شاکر رحمت اللہ کیرانوی مولوی رحمت علی خان ، ڈاکٹر رستم علی، منشی رسل بلبلا مرتسری رسول بیگ، مرزا - کلانور رشید احمد گنگوہی رشید الدین ' ڈاکٹر خلیفہ ۱۹۲۱۸۰۹۹۷ ۲۲۳٬۲۱۳ تا ۲۲۶ سرد در سوط اشته

Page 658

اشاریه جلد وه هم سعد الله لدھیانوی ۳۸۰ تا ۴۸۲ سیدہ بیگم سیده منم سعدی شیخ ۴۳۸ شادی خاں، میاں سعید احمد اظہر قریشی MZA شاهجهان بی بی باس اسم سلم سلیم شعر سکندر علی کلانوری، منشی شاه حسین گولڑوی ۲۹۶ سلطان ابراهیم، شهزاده ۵۲۷ ۳۴۸ سلطان احمد مرزا ۵۷۹٬۵۷۸٬۵۶۹٬۵۵۰ ۳۴۸ شاہد احمد خاں، نواب شاہدہ بیگم صاجزادی سلطان سیالکوٹی، حافظ سلطان محمود حکیم.راولپنڈی سلیم اللہ مفتی.لاہور سلیمان ندوی سید شاہ دین بابو ۲۳۸ ۱۳ شاه نواز حکیم IMM ۲۹۵ شبلی نعمانی، مولانا ۵۵۳٬۵۵۲٬۲۱۹٬۱۰۸ شبیر حسین سید سمیع اللہ شاہ سید ۲۳ شر سمت رائے لالہ ۳۸۴۲۸۳۱۹۳ سمیع اللہ فاروقی ۴۵۴٬۳۸۸٬۳۰۹ شرندل خان سردار ۱۵۷ تا ۱۲۰ من ناشر شریف احمد مرزا ۴۷۴۱۹۴٬۵۷٬۵۴ سنت رام دیوان شکر داس ڈپنی سنسار چند رائے شهاب الدین، میاں.ساکن بھین ۱۶۹ ۱۷۰ ۲۹۷٬۲۸۰ سو مراج، پنڈت ۲۸۰ تا ۴۸۵ شیر علی، مولانا سید احمد سید ۵۹۰٬۵۶۹٬۵۱۷٬۳۰۳۱۲۹۳۷۴ سید احمد بریلوی سید احمد خان سر سید محمد مولوی [0 F&F'M4°•Z*«*P شیر محمد خان راجہ ص.ض صالح محمد مدراسی، سیٹی

Page 659

جلدووم عباس احمد خاں نواب عباس علی لدھیانوی، میر عبد الاحد مولوی ۱۵۵ عبدالاحد کمیدان کابل عبد الجبار عزنوی ۱۳۲۱۳۰۳۵٬۳۱٬۳۰ ۱۳۷ ۱۳۹ ۲۰۸ عبد الجلیل مولوی افغانی ۳۱۲۱۵۷ عبدالحکیم پیالوی mariños عبد الحق ، صبیح ۳۷۳ عبدالحق، قاضی عبد الحق، مولوی.دہلی عبد الحق اکومنٹنٹ، منشی ۵۹ ۲۴۶ Ar'roʻri'r.ام ☑ r⚫A 11 ۴۴۷ 10 ۲۰۰۷ ۲۲۵ ۲۲۵ ۳۴۸ ✔ 144 ۳۴۸ ۴۸۰ b-b اشاری صالحہ خاتون صدیق حسن خان نواب ضیاء الدین، قاضی طاہر احمد.اول طاہر احمد ، مرزا.خلیفہ المسیح الرابع طاہر بیگم سیده طوطی رام طیبه سیده طیبہ بیگم ظفر احمد، پروفیسر ظفر احمد کپور تھلوی، منشی ۵۹۵٬۴۳۲٬۲۸۶٬۱۷۲ عبد الحق خوشنویس، منشی عبد الحق غزنوی عبدالعلیم ، مولوی - افغانستان عبد الحمید خان کپور تھلوی عبد التی لکھنوی ، مولانا عبد الخالق، مولوی عبد الخالق - افغانی عبدالرب نواسہ صاحبزادہ عبداللطیف شهید ۳۳۳ ۴۹۸ عبد الرحمن، خواجہ all'err'i ۳۳۷ ۵۳۱ ۴۲۳ 3 ظفر الدین قاضی پروفیسر ظفر علی خاں مولوی عالم دین شیخ عالیہ بیگم عائشہ صدیقہ عباداللہ امرتسری ، ڈاکٹر عبادت علی ع - غ

Page 660

اشاری عبد الرحمان مولوی.افغانستان ۳۱۹۱۷۷۱۵۷ عبد الرحیم درو، مولانا عبد الرحمان انور ۳۲۹۳۳۷ ۲۰۰ عبد الرحیم صابر عبدالرحیم میرا قاضی جلد دوم PIP'AL ۳۳۰ ۵۶۹ عبد الرحمان جالند هری مار ۳۹۸٬۲۳۳٬۱۹۸۴ عبدالرحیم میرٹھی، مولوی عبد الرحمان خان امیر ۱۷۷۱۵۷۳۷ ۳۲۶۱۷۸ عبدالرحیم نیر مولوی عبدالرحمان دا توی عبد الرحمان قادیانی بھائی عبدالرحمان کھیوال، مولوی عبد الرحمان مصری شیخ ۴۱۹ ۵۶۹۵۵۴٬۵۴۰ ☑I 144 عبدالرزاق' خواجہ - بلند شهر عبد الرزاق قاضی عبدالرشید سیالکوٹی، میر عبدالروف قاضی.قندھار عبدالروف بھیروی ، ماسٹر عبدالرحیم ، حاجی.سعد اللہ لدھیانوی کا بیٹا ۳۸۲ عبد السلام ، چوہدری ۴۴۲ ۲۰۰ ۹۷ علم موسم ب سوسم لا gave gone Y ۵۰ 14+ عبد الرحیم ، حافظ ۵۰۸ عبدالرحیم شاہ شاہ ولی اللہ کے والد ۴۲۵ عبدالرحیم بھائی شیخ ۵۵۴٬۵۱۵٬۳۳۰٬۴۲۸٬۸۱٬۵ عبدالرحیم ، خشی.مالیر کو ٹلہ عبد الرحیم ، میاں.داروغہ عبدالرحیم نواب عبدالرحیم ایم.اے میاں عبدالرحیم باورچی.گورداسپور عبدالرحیم بھٹی ، قاضی 19° ۱۳۳ E ۲۸۳ عبد السلام ، صاحبزادہ سید م اسلم کا مسلم علم و سلام عبدالستار مولوی المعروف بزرگ صاحب ۱۷۸۱۵۷ ۳۱۲ تا ۳۱۴ عبد الستار شاہ ، ڈاکٹر سید عبد الصمد خیالوی عبد العزیز میاں.المعروف مغل ۵۹۸٬۵۳۳٬۳۵۳ عبد العزیز او جلوی، میاں عبد العزیز خان ، ماسٹر وم عبد العزیزی لدھیانوی، مولوی ۳۳۳۰

Page 661

جلد دوم ۳۶۵۳۶۴۳۵۱٬۳۵۰٬۳۴۱۳۰تا۳۸۹۳۶۷ ۳۹۸٬۳۹۳٬۳۹۲٬۳۹۰ تا ۴۱۸۴۱۲٬۴۱۱۴۰۸٬۴۰۰ ۲۰۰٬۵۹۴٬۵۹۳ ۵۹۰٬۵۰ ۱۴۳۹٬۴۲۲۳۲۲ ۴۸۶٬۴۸۵ عبد الكرنيم ولد عبد الرحمن عبد اللطیف شهید صاحبزاده سید ۱۵۶ تا ۱۶۴ ۲۶۶٬۲۶۳ ۳۱۰ تا ۳۳۵٬۳۱۹٬۳۱۷۳۱۵۴۳۱۲ تا ۳۴۴۴۳۳۸ عبدالله العمادی، مولوی ۵۷۰٬۵۶۹٬۴۵۸٬۳۸۳ عبد اللہ بوتالوی 192 عبد اللہ بغدادی، سید 96 عبداللہ چکڑالوی مولوی ۲۳۸۲۳۴۴۲۳۳ ٣٣ rir ۵۷ ۲۲۸ MI عبید اللہ خاں.کوئٹہ ۳۲ ۳۳۶ Mor ۱۳۳ ۲۷۵ ۲۳ ۳۷۴ *A* اشاره عبد العلی حافظ عبد الغفور مدرس عبد الغنی ، ڈاکٹر افغانی عبد الغنی، منشی پیالہ عبدالغنی او جلوی، منشی عبد القادر، پروفیسر سید عبد القادر، مشی عبد القادر بیدل عبد القادر خان اخوند عبد القادر هینم، مولوی عبد القادر لدھیانوی، مولوی عبد القادر پنڈوری عبد القدوس.نواسہ حضرت صاحبزادہ سید عبداله عبداللہ خان پھر ایوانی شهید عبد القدیر نیاز صوفی عبدالقیوم ابن حضرت خلیفہ المسیح الاول عبدالقیوم خاں صاحبزادہ سر ۲۱۲ ۳۹۹ ۱۵۷ عبداللہ سنوری عبد اللہ کو نیلم - نور پول عبد الماجد بھا گلپوری عبد الماجد دریا آبادی عبدالکریم سیالکوئی مولانا ۷۸٬۵۵٬۴۷۳۷۳ عبد المجید دہلوی عبدالمجید سوید ریوی عبد المحى عرب سید ۲۹۸۲۳۹۶٬۲۵۸٬۲۱۹٬۲۱۳١٩٤٤٩٣ ١٩٨

Page 662

جلد دوم ۲۳۰ Fir علی حائری مولوی علی احمد حقانی ، مولوی علی شاه امام علی کرم اللہ وجہ علی محمد سید.المعروف باب علی محمد اجمیری مولوی علی محمد بی.اے بی.نی ۴۴۵ ۲۱۲ عمر بن الخطاب عنایت الرحمان، سردار ۶۶ عنایت اللہ بیگ، مرزا انه حضرت عیسی علیہ السلام ۲۱۲ PPA'Z غلام احمد ایم.اے مرزا غلام احمد پرویز حضرت غلام احمد قادیانی مرزا صیح موعود و مهدی معمود ۹۷۹۶۶۴۱۳۹٬۳۸٬۳۵۱۷۶ ۶۲۱۲۵۵٬۲۵۱۲۲۳۹٬۲۴۵٬۲۰۵۱۳۳۱۶ Far Pio'r ٢١٦ ۱۲۷ I' ۴۴۳ ۲۷۵ ۲۴۶ ۲۲۶ ۵۰ PLA CHA Pzoʻraoʻrom'tar'pa•"pza'pop'r¶¶ ۴۷۰۴۶۹۶۱ ۴۴۹٬۴۴۸٬۴۲۹۴۳۹۱۴۳۸۲ ۵۶۰٬۵۵۹٬۵۰۴ ۴۹۹٬۳۸۹٬۴۸۷۴۸۰ ۲۳۲ ۲۰۱۵ ۴۷۵ اشاریہ عبد الواحد سید عبد الواحد خان سیالکوئی عبد الواسع قاضی افغانی عبد الوہاب ، مولوی.الہ آباد عبدالهادی بینہ اللہ بہل ، حکیم عبید اللہ بل ، مولانا عثمان غنی عزیز احمد مرزا عزیز الدین مرتسری ، میاں عزیز اللہ شاہ سید عزیز بخش ، مولوی.ڈیرہ غازیخاں عزیزه خاتون عطاء اللہ خان، راجہ عطاء الرحمان طالبيه عطاء مجھے ماسٹر عظیم اللہ مولوی.نامہ علی احمد الشیخ علی احمد ایم.اے.ڈپٹی مجسٹریٹ علی احمد بھا گلموری

Page 663

جلد دوم ۴۴۵ ٢٩٠ بوم A ۴۲۵ ۵۹۲ ۲۱۳ ١٥ ۵۶۲ تا ۶۰۰۲۵۷۵٬۵۷۲٬۵۷۱٬۵۷۸۳۵۶۷۵۶۴ نظام مجھ سیالکوٹی، چوہدری غلام محمد قاضی مولوی غلام محمد منشی غلام محمد مولوی غلام محی الدین ، مولوی ۳۴۲ Prinz ۳۵۲ fir غلام احمد کریام حاجی غلام احمد واعظ شیخ غلام الله تصوری مولوی غلام امام مولوی - برهما غلام حسن خان پشاوری مولوی ۲۲۲ ۵۶۹۴۴۲٬۲۲۳ غلام مرتضی، مرزا غلام معین الدین نظامی غلام نبی، سیٹھی غلام نبی شیخ غلام نبی مصری، مولوی فاطمہ الزہرا " ۴۴۳ فاطمہ صاحبہ المیہ حضرت خلیفہ المسیح الاول فتح علی شاہ سید ۱۳۵۵۹ فتح محمد سیال چوہدری ۵۱۵٬۴۹۸ ۱۸۹ ۱۶۰۶۵ لح محمد مولوی 10° ۵۰ ۲۱۴ فخرالدین رازی علامه فخر الدین کھو گھیات موسوی فرحت اللہ بیگ، مرزا فرزند علی خاں مولوی ۳۶۵٬۴۸٬۴۷ ۲۱۵ ۵۳ 18 ۲۱۳ ۱۳۵ orr'on'rr.۳۰۴ Fa'r'r.غلام حیدر، راجہ غلام حیدر، مرزا غلام دستگیر قصوری، مولوی غلام رسول شیخ غلام رسول را جیکی ، مولانا نظام رسول وزیر آبادی، حافظ غلام غوث ، ڈاکٹر سید غلام فرید ایم.اے ملک غلام محبوب سبحانی، شیخ غلام محمد بابو غلام محمد چوہدری.پوبلکہ مہاراں غلام محمد حافظ صوفی غلام محمد ڈاکٹر غلام محمد میگوی

Page 664

جلد دوم 12° ۲۹۶ ۸۰ TOA'YOZ'AA ۲۰۰ ۵۲۲٬۵۳٬۵۰ ۶۴ ۴۲۴ ۵۰۲ ۵۰۸ 14A ☑ شارید ویٹ لیفٹینٹ (امریکہ) ۹۸ فضل احمد چوہدری ۲۳ فضل احمد بٹالوی، شیخ ۳۷ فضل الدین معمار فیض احمد مولوی فیض الحسن بھیس فیض الرحمان گورداسپور فیض اللہ خاں فضل الرحمان، مفتی فیض علی صابر ، ڈاکٹر فضل الہی لاہوری ، حکیم فیض قادر ، ڈاکٹر فضل حق مولوی ۵۳ فضل حسین سر orofor ق قاسم علی، میر فضل دین مولوی.کھاریاں ۴۱۳۴ فضل دین بھیروی، حکیم قدرت اللہ مولوی ۲۷۸٬۲۶۹۲۶۴۴۶۱۳۳۲۱۸۰تا۲۸۰ قدرت اللہ سنوری ، مولوی ۲۹۳۲۹۱۲۹۰تا۲۹۸ ۵۱۱۳۹۸ قدسیہ بیگم صاجزادی فضل دین وکیل لاہور قطب الدین حکیم فضل شاہ لاہوری سید قطب الدین بختیار کاکی فقیر الله ماسٹر ک گ فقیر علی بابو ۴۴۵ کاشی رام لاله فقیر محمد مولوی.ایڈیٹر سراج الاخبار ۲۹۸٬۲۹۵٬۲۶۳ کرزن لارڈ کرم داد ، مولوی - دولمیال کرم داد خان سردار ۴۸۰ 10+ ۳۴۹ | کرم دین ، مولوی، ساکن بھیس ۱۷۰ ۱۸۱ ۲۶۰٬۲۱۰ تا ۲۶۲ فقیر مرزا.دوالمیال فنذل پادری فوزیہ بیگم صاحبہ !

Page 665

۳۹۴٬۲۹۲٬۳۸۹٬۲۸۸٬۲۸۰۲۷۷۳۶۹۴۳۷ جلد دوم مبارک احمد صاجزادہ مرزا ۲۹۵٬۵۵ تا ۳۹۷ ۳۰۷٬۲۹۷٬۲۹۵ ۳۴۷٬۳۰۸ مبارک احمد خاں ، حکیم - ایمن آباد ۲۲ مبار کہ بیگم سیده نواب ۵۲۴٬۵۱۲٬۵۱۵٬۴۷۴٬۹۹۴ ۲۲۳ ۲۲۴ DAI ۲۲۳ TEA F ۵۹۹٬۵۴۵٬۵۴۳٬۵۳۵٬۵۲۵ ors'ora اشاری کلیمنٹ ریگ پروفیسر کمال الدین خواجه ۱۸۰۱۲۹۱۷۵۸۷٬۸۰٬۷۷۴۰۳ میر احمد اول مرزا مبشر احمد ثانی مرزا مجدد الف ثانی مجید احمد ، مرزا محسب الحق بهاری، حافظ محب الرحمان محسن الملک نواب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۵۴۲٬۵۳۴٬۴۳۷ ۴۱۵٬۲۸۸٬۲۴۸٬۲۰۵ ۵۸۰٬۵۷۷۵۷۳٬۵۶۶٬۰۰۱٬۵۳۴٬۵۵۲ ۳۳۰۳۳۹ ۲۳ t ۴۴۵ ۵۳۲ ۳۰۷۲۹۴۲۹۳۲۹٬۲۸۸٬۳۸۳ ۲۸۳۲۷۹۲۷۵ 'cap'mar'cer'cri'cı'nırʻtar nor ۴۲۹ ۲۰۵ ۲۵۷ خواجه محمد ابراہیم، صوفی محمد ابراہیم، میاں ۲۱ تا ۳۸۲۴۳۳ محمد ابراہیم به پوری مولوی محمد ابراہیم سیالکوئی مولوی محمد ابوالحسن، سید ۳۴۴ کنگ کننگھم ڈاکٹر کنھیا لال رائے کونٹ ٹالسٹائے گلزار خان گلوری.پاوری پیگمٹی کا بیٹا ل لارنس ایمی براؤن پروفیسر لد ہے خاں لیکھرام پنڈت مارٹن فرینک اے

Page 666

جلد دوم 17 ۳۰۵ Perry'ırı PTA Porint ۲۶۵ 10+ 'ra ۴۹۸ 16 اشاریہ محمد ابوالحسن، مولوی محمد احسن ' میاں ٤٤٩ ۲۳۸ IA محمد اصغرخاں قریشی خان محمد اعظم.لاہور اسٹنٹ سرجن) محمد احسن ا مردنی سید ۱۳۸ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۷۲۱۹۷ محمد افضل کیا ہو.مشرقی افریقہ ۲۱۳۹۱۱۷ ۲۲۰ ۲۲۴ ۲۷۳ ۴۲۲٬۲۷۴ محمد اقبال، ڈاکٹر سر ۴۳۴ ۴۳ ۴۴ ۵۵٬۵۳۲٬۵۰۵ ۵۰۰ ۵۵ ۲۹ محمد اکبر خاں محمد الیگزنڈر رسل محمد امین چوہدری ۴۷۰ ANY محمد باقرخان آقا ۴۷۰۲۴۷۳۱۸ محمد بخش.انسپکٹر پولیس پیالہ FPA محمد بخش جعفر زنلی میر بخش، میاں.لاہور محمد بشیر، مولوی.الہ آباد محمد بن عمرز مخصوی علامه محمد تیمور ، شیخ محمد جعفر شاه پھلواری، مولوی محمد جی مولوی.محمد چند هیچ محمد چراغ افغانی ۱۴۶ arr'ariaz ۲۸۳ ۲۸۲ ۳۲۲٬۲۲۶۴۴۲۴۸۵ ۴ محمد احمد سید محمد احمد خاں، نواب مجمد ادیب و مشقی محمد اسحاق، سید میر محمد اسلم جیراجپوری، حافظ محمد اسماعیل 'باہو محمد اسماعیل پشاور نید اسماعیل پانی چی هیچ محمد اسماعیل حلالپوری محمد اسماعیل خان ، ڈاکٹر محمد اسماعیل ، ڈاکٹر میر محمد اسماعیل سرساوی هیچ محمد اسماعیل گوڈیائی ڈاکٹر ۴۲۳٬۲۱۳٬۵۷٬۳۵٬۳۰ محمد چراغ الدین حکیم ، محمد حسن صوفی.بروکن بل ه م 099 محمد اسماعیل معتبر

Page 667

جلد دوم محمد سرور شاہ سید ۲۲۶٬۲۲۰٬۵۴تا۴۱۳۲۸۱٬۲۳۰ ۳۲۷۳۳۳۳۳۲ 14A 197 ۳۲ ۹۰ ١٩٨ 72-196 oor'orr محمد سعید سید محمد سعید سعدی میاں محمد سلطان' چوہدری محمد شاه محمد شاه تونسوی محمد شریف میاں ۴۹۸ ۴۴۱ ۱۳ ۲۹۰ ۲۸۰۳۷۹ FFY'rm TAP'TAT اشاریہ محمد حسن، میاں محمد حسن او جلوی بالا محمد حسن فیضی ساکن بھین محمد حسین حکیم.مرہم عیسی محمد حسین ' ڈاکٹر سید محمد حسین الملشی محمد حسین بٹالوی ۲۹ تا ۲۹ ۳۲ تا or ori۴۴۲ محمد شفیق مرزا ۱۰۹ ۱۰۷ ۱۳۰ تا ۱۳۳ ۱۳۹۳ ۱۹۴۶۴۴ محمد شفیع سیالکوئی ، حکیم محمد شفیعی وکیل خواجہ ۳۱۷۳ محمد شہید اللہ ' پروفیسر ڈاکٹر محمد صادق مفتی ۵٬۵۳٬۴۹٬۴ AN'<'IF' ۲۹۷۲۹۶۲۵۴۲۴۴ ۲۳۳ ۲۳۲ ۲۲۴ ۲۲۱۴ ۲۱۸ ۱۹۲ ۲۲۲ 146 ۵۲۰۵۱۳ ۲۰۱ محمد ضیاء الدین ' چوہدری محمد طفیل بٹالوی ڈاکٹر محمد طیب لطیف اسید محمد ظفر اللہ خان' سر چوہدری محمد حسین کو توال محمد حسین قریشی ، حکیم محمد مد حفیظ بتا پوری محمد حنیف قمر علوی.سائیکل سیاح محمد دلپذیر مولوی - پنجابی شاعر 016 محمد دین مولوی ۵۶۹٬۴۹۸۳۰۴٬۳۱۲۱۹ ۲۳ ١٣٣ ۲۱۲ ۲۰۹٬۲۰۸ محمد دین.کتب فروش لاہور محمد شید میاں محمد رشید رضا السيد

Page 668

جلد دوم ۲۸۴٬۲۸۳ ۲۸۰۲۷۵٬۳۳۳۲۳۳۳۱۸۴۲۱۷ ۲۱ ۳۵۹٬۲۱۲ ۵۶۹٬۵۵۷٬۵۴۶٬۵۱۸٬۵۱۴۴۹۴۴۵ ۴۴۲ محمد علی پاری محمد علی خان نواب ۱۸۰٬۶۸٬۶۵٬۵۸٬۸۱۴۱۳ ۹۲ تا ۱۹۴ ۴۳۸٬۳۹۳٬۳۸۰٬۳۵۰ 014'002'001 or PH 01- ۳۳۷۳۳۴ ۳۳۲ ٦٦ محمد علی جعفری ایم.اے.لاہور مجمد علی کانپوری ، مولوی سید محمد علی کلرک ، صوفی محمد محمد حکیم ۴۱۶۳۲ ACK PRATE Fir اشاریہ محمد ظہور الدین اکمل، قاضی محمد عبد الحق.آسٹریلین نو مسلم محمد عبد السلام سید محمد عبد الغفار ابو السيار محمد عبد الغنی اللہ آبادی محمد عبد الله المعروف پروفیسر صاحب محمد عبد الله قاضی ۱۳۴۳۰۳۵۳۲۳۰ حمن عبد الله ملک محمد عبد الله بغدادی، حکیم سید محمد عبد اللہ ٹوکی محمد عبد اللہ خاں نواب عبد الله کشمیری ۲۲۰٬۵۳ ۳۰۳٬۲۶۹۴۲۶۲۲۲۷ محمد عمر سید محمد غازی ، مولوی محمد فریدون خان محمد قاری جهنمی، مولوی محمد قاسم مولوی ۵۶۱ محمد موسیٰ مستری ۵۱۶ محمد موسی، مولوی ۵۴ محمد نذیر حسین دہلوی سید سم م م م م ۴۰۹۲۰۸ ۱۳۹۰ F⚫A TTA'TIFIQY ۳۱۳ ۳۴۲ ۴۷۵ 1*29*9*9*07 محمد عبده مفتی محمد عجب خان.زیدہ محمد علی مرزا - شاه ایران محمد علی میاں.لاہور محمد علی اشرف ماسٹر مجھد علی اظہر ٹاسٹر محمد علی ایم.اے مولوی

Page 669

جلد دوم ۲۳ ۳۷۳۳۵۸۳۵۴ ۲۳۷ ۲۳۴۴۳۳۳ off: ۲۲۵ OM 144 ۳۴۹ ۲۱۲ ۲۲۳ 는 FIF ۱۳۴٬۵۷ محمود اللہ شاہ سید محمود زرقانی علکیم مرزا ۳۳۲۴۳۳ IA+ ۳ محمودہ بیگم سیده ام ناصر) محمودہ بیگم نواب مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ سید مریم بیگم سیدہ ام طاہر مریم صدیقہ ' سیدہ ام متعین ) مسعود احمد خان نواب ۳۳۳ ۳۲ ۱۴۵ ۳۲ PEATEY اشاریہ کم نصیب شیخ محمد نواب خاں منشی محمد وصیت نعی محمد ہاشم سید محمد ہدایت اللہ.کانپور محمد یکی دیگرانی، حکیم محمد یعقوب مولوی محمد یعقوب میاں محمد یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا ۵۰۰۴۲۲٬۴۰۲۴٬۲۱۳٬۵۷ صبیح الله صحیح مسیلمہ کذاب مصطفی احمد خان نواب مطیع الرحمن بنگالی صوفی مظفر احمد، مرزا مظفرالدین بنگالی، چوہدری ۵۶۹٬۵۵۷٬۵۴۹٬۵۴۱٬۵۳۵٬۵۲۶٬۵۱۰٬۵۰۰٬۵۰۱ or ۴۵ ۳۶۶۳۶۲ محمد یعقوب طاہر مولانا محمد یوسف حافظ محمد یوسف سردار.سابق سورن سنگھ محمد یوسف سردار - مجسٹریٹ سیالکوٹ محمد یوسف ، قاضی مردان ۳۴۳٬۳۲۸٬۲۵۸٬۲۵۶٬۲۳۸ مظفرالدین شاه شاه امیران معراج دین عمر میاں ror'red'prácʻpríımdır.۳۲۰ CAM CAR ۵۶۴ ۲۳۸۲۲۷ ۲۲۶ ۳۲ ملاخان خان ک هم هم لاوائل لاله 16 ممتاز علی امتیاز سید محمد یوسف میاں محمد یوسف بغدادی، سید محمد یونس - مدرسی محمود احمد سید میر محمود الحسن ، مولانا

Page 670

جلد دوم poyfrenŭrev'raoʻraqpurr.FTA ۳۴۷ MY 101 5 recʻrecʻrry +ra'r rom ۲۳ ۴۴۸ اه ٣٠٨ میکار و شهنشاه م ۲۱۳ ۶۰۰۴۴ مور نانو وچ - روی سیاح نادر شاه ناصر احمد ، مرزا.خلیفہ المسیح الثالث HA'AIT ۳۵۰٬۲۲۵۳۲۲۳٬۲۱۸۱۹۵ ناصرالدین شاه ایران ناصر شاہ اوور سیٹر سید ناصر نواب سید میر ۵۷۹٬۵۲۹٬۵۵۶٬۵۳۹٬۵۰۱۴۷۰ ۴۲۴ ۳۲۲ ۳۳۵ ۲۷۵ ۳۲۴ ۲۱۳ FFF ناصره لطیف ،سیده نصر اللہ خان، چوہدری نعیم احمد ، مرزا تور احمد بھٹی چشمہ نور احمد پلیڈ ر هیچ نور الدین باہو نور الدین خلیفہ نور الدین الحاج حکیم مولانا لا 010141 ۲۳ A* ۵۴۲ الثمارية منٹو لارڈ منظور احمد ، ڈاکٹر منظور حسین ولد کرم دین مولوی منظور محمدی منصور احمد مرزا منصوره میگم صاحبزادی منیر احمد مرزا مور ڈاکٹر حضرت موسیٰ علیہ السلام مولا تالش، هیچ 14'11429 Iratiroicz مولا بخش، ماسٹر مولا بخش بھٹی سیالکونی مولا رام پنڈت مهتاب خان مهتاب علی جالندهری مهد فی حسن مرزا مهدی حسین سید مهدی حسین نواب عماد الملک مهر علی شاہ گولڑوی، پیر

Page 671

ولیم ہنٹر ، ڈاکٹر جلد دوم ۲۰۵ ۴۵ ۲۹۳ ۲۶۵ ۲۵۷ بالسما پروفیسر گردگی ست ہری ہے.ای ہری سنگھ، سردار جہلم اشاریہ ۳۳۵۴۳۱۴۴۳۰۴۳۰۳۲۲۵۲۲۲۲۱۳۱۹۵۱۸۰ ۴۲۵٬۴۱۹۴۴۱۳۳۹۹٬۳۹۳٬۳۹۲٬۳۶۷۳۵۱۴۳۵۰ ۵۰۹٬۵۰۸٬۵۰۳٬۵۰۳۵۱۴۹۴۴۷۴۴۷۲۴۴۳۸ ۵۴۹٬۵۳۵٬۵۳۱٬۵۴۰٬۵۳۰٬۵۲۴٬۵۱۵۵۱۱ ۵۵۵ تا ۵۸۱٬۵۵۸ ۲۰۰٬۵۹۹٬۵۹ ہنری جیمز پرنس ہنری مارٹن کلارک ، ڈاکٹر ۴۷٬۴۳٬۳۱۴۳۸٬۳۶۱۵ ہیرلڈ نکلسن ۴۳ ۱۳ میرودوس یار محمد مولوی یعقوب علی عرفانی هیچ ۲۳۳٬۲۳۲٬۲۳۰ ۲۲۹۴۲۲۰٬۲۱۵۱۸۰۱۷۸٬۱۴۲۷۵ ۴۸۴٬۴۲۳٬۴۰۷۳۹۰۳۰۷۲۹۸۴۲۵۴۲۶۲۲۳۶ یوسف شاه خواجه FIF نور الدین بی.اے نور محمد حافظ - گڑھی اماز کی Dit'aioʻror'rrefpvm'èz ۵۷۲ Pyaʻppy ori'air ሰፊ 146 ۲۱۹ E ۴۴۵ ۴۴۴۴ MZA نور محمد ڈاکٹر نور محمد نقشبندی مولوی نیاز احمد خاں نیاز فتح موری نیاز علی میاں.سیالکوٹ نیاز محمد شیخ.انسپکٹر پولیس والٹرایم.اے وزارت حسین مونگهبری سید و قار الملک نواب اکٹر الیگزنڈر بروس اللجن ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ ولید بن مغیره

Page 672

اشاری آسٹریلیا أسترا اگره اٹاری الحلوه انگی اٹھوال اجتال افغانستان مقاء ۳۴۵٬۳۳۹٬۲۴۱ TAQ ۲۲۵ ۴۲۷ TAL'Pre ۲۳۳ Q-IPPA'VYZ 74,4h,70) 70 76 واسه خانه اه الله والله اله الله الله ان ها ام لا الجيريا المرامی جدران الہ آباد امرد ہوں امریکہ ۳۳۰٬۳۲۹ ror'ry V+A,TAN ۲۴۰ تا ۳۳۵٬۳۵۸۲۵۳٬۲۵۱٬۳۵۰٬۲۴۷۲۳۵٬۲۴۳۳ 744,V44,104,274,7V امرتر جلد دوم ۲۶۴۲۳۳ ۲۳۰۲۲۷ ۲۲۰٬۲۰۸٬۳۰۷۱۵۵ ۲۲۱۴۳۱۰٬۳۰۸۲۷۷۳۶۰۲۹۳۲۹۰۲۶۶ تا ۴۲۴ ۵۵۷٬۵۴۹٬۵۲۵٬۵۰۸٬۵۰۱٬۴۸۷۴۴۷۴۳۱۳۲۹ ابالله انگلستان امنٹ آباد ایران ایشا باره موله بانس بریلی باؤل شریف مان so^*oor DOA'D''''A ۲۰۵٬۲۰۰٬۹۸٬۶۹ ۵۲۸٬۳۸۷۳۳۹٬۳۵۸۲۵۷۲۵۵ له لا والله له ال7 ۲۵۰ 07 ۴۵۰ لعالم لد اولاده , hd, ,,, لا اله اله الا الله والد الله الله

Page 673

۵۵۸٬۵۵۴٬۵۴۹٬۵۳۵٬۵۲۵٬۵۲۴٬۵۲۱٬۵۱۹ ۱۳۹۵ بدوملہی بڑا ہیر برد کن مال بری بستی بزوار بستی رندان بستی مندرانی یکلوه بلب گڑھ بلند شهر بیتی بنارس بنگال ینگه بنوں بوبک ۵۹۶ الم المرة ۳۴۲ ۲۱۹ العالم العالم 774 712 اه اه والله ۳۶۹٬۳۸۸٬۳۵۷۳۳۹٬۸۳ لم والد ولد له ولد له اوله له لمن لدي ۴۲۳ kalakalakak ۲۲ بهبودالي بیرات بھڑی چٹھ بھیرا ببین پارا چنار پاکستان پالم پور پنی پیار چھا نموت پشاور پھگواڑہ بطور جلد دوم العلم و ۳۳۵ $72 ۲۶۶۷۳٬۵۲ PHÉPY-FI+HA 106 701 LA 14 10,4V,HV¸7ås,tha لم؟ AP'62'-'M ۳۳۵۴۳۳۳٬۲۹۰٬۲۲۲۳ ۱۶۵ ۱۳۰۹۰۳۴۱۳٬۹۸ prʻror'rer'rreroo'roŕlatior s 4A ۴۲۴ وم

Page 674

جلد دوم ۲۴۵ ་ ༣༥ royroa ۲۷۳ موسم.104'10'101 2-2 ¥71,did,him,7im,hakandi, það verið, mark and حیدر آباد خراسان خوارزم خورجہ خوست ر مشق دوالمیال دھاریدال و - ؤ - ر - ڑ د حرم ساله ۷٬۲۵۹ ۳۷۸٬۳۷ دھرم کوٹ دہلی الحمد الله ۴۸۰ نه الولد والهم الله والدا الاله راه 7, الاول ۲۳۳ ۴۱۷ ۴۰۹۳۷۷۳۵۸٬۳۵۷۲۶۴۱۲۰۸ ٧٠ ولد مقاله ٧٨ ولد لده ف وله الله له ولد له اوله لأنه لا ۳۹۰ 7),4³,774 دینا نگر 7A ۳۵۵ ٣٣٥ 2-2 الداله على الله له وانه له 7 ۵۲۱ rroro wh,744 ۵۵۸٬۵۰۸۳۷۷٬۸۳٬۴۰۱۵ تبریز تهم غلام نبی ٹورانٹو جاپان جالندهر جده جرمنی جگر اول جلال آباد جموں جوڑا کلاں ٧٠٠ له ٧- له الولداء السن الدور 174,074,01 A ۷۲ له کے نام سلام ولوزی جھنگ چک چنیار چنیوٹ چین

Page 675

جلد دوم ۲۴۱ TOA کے رسم ۲۵۷ Ar'ar'or ۲۲۵ rqy'roq'ar'ar'or'o'r سکاٹ لینڈ سکندره راز سکنڈے ہویا سکو سیلو تربیت منده سنور سوڈان سائل سیالکوٹ ۳۶۱۳۵۹۳۵۷ تا ۴۰۰۳۷۴۳۷۳۳۶۹۴۳۶۴ ۲۸ 866 NM ٢٩٠ ۲۲۴ ۴۴۷٬۴۲۷ roc'rr.PAD'Pre ۵۶۳٬۵۰۸٬۵۰۱۴۴۷ ۴۱۸٬۳۱۰ ۳۰۹۴۴۰۶۴۴۰۵ 104 ۳۳۸۱۵۶ ۴۲۴۲۳۳ ۳۴۵۱۷۳۱۹۳۱۲۵ Ar Ar یدگاه سیکھواں شام شاه آباد شاه پور شاهانپور شعیر PAO ༔ اره رون رام پور راولپنڈی راہوں ریده رتر جهر رڑکی رگون رغل روس زیره سان فرانسسکو مابوو سیمان پور نیره سرائے نورنگ سروی رینگر س - ش - ص

Page 676

اشاری شکار پور شکاگو شمله شلوار مع الباتری صحون عراق علی گڑھ ۲۷۵ 774 السلام الله ولا اطوله الله له وله الدا ٣٣ ra•Ïtrarmı Iro ۴۴ فی ۳۳۵ فرانس ۳۸۵٬۳۴۷تا۳۸۷ فلپائن ۱۳ يصل آباد (لانلهور) *** ق قادیان انا ۳۷۳۶۲۵۲۰۱۸٬۱۶۳ 47 ال 10,790 الد لا اله الا الله واله الله ها ۲۲۱ ۲۲۰ ۲۱۸۲۰۷٬۲۰۳ ۱۹۲ ۱۹۵ ۱۸۰ ۱۷۹ ۲۹ جلد دوم ۲۷۰٬۲۶۸٬۲۵۸٬۳۳۳۲۲۵ تا ۳۸۱۲۷ تا ۲۸۴ ۳۱۳٬۳۰۵٬۳۰۴٬۳۰۰٬۲۹۹۲۹۷۲۹۰٬۳۸۷ تا ۳۱۷ ۳۲۰۳۵۹٬۳۴۵٬۳۴۰۳۳۹۳۳۱۳۳۰۳۲۷ ۳۶۸تا۳۹۷۴۳۹۳۳۸۸٬۳۸۱۳۷۸٬۳۷۴۳۷۰ الدم له اوله ٧ له له ولد المولد ال أولد ve والد قاله لاله الا الله ولد اسما ولد ولد الدوله الله الهام الدهل والده.ortora'orr'arr{D}'0\Z'DIT®O+A asolowʻaza'012'04'baz'bar'coları تا بره ک گ ۳۴۵٬۳۳۹ ۳۲۳۴۲-۲۰۳۱۵٬۳۱۱٬۳۱۰۶۴ کامل (+¿¨rrrrr¶rre'prv°rr='rrørro کا موع کا شور کپور تھلہ کراچی MA F14 لده او له والدول لاله لن 7, 97 ۵۵۸٬۵۳۹٬۵۰۸٬۵۰۱٬۳۴۷۲۹۰٬۲۰۰ prc'rarʻrer're<^{\p

Page 677

اشاری کردستان کرم کلاس کرنال کسوئی کشمیر در کوریا کوت قیصرانی کو ٹھ شریف له الله 7 MAT 772 ۴۸۵ ۳۹۹۳۵۷ ۴۹۳۴۱۹۲۰۸ ۲۰۱۸ کو ہات كيتهل کیشیون برگ کیلی فورنیا کھاریاں کھنڈہ گجرات گروهی امازئی گدهی پخته لله ابدا لله ۱۶۴ Froʻrn 77 ۳۸۷ گوجرانوالہ ۳۳۵ گورو اسپور M لم والعلم جلد دوم ,,, V_,+№,17,17,07,17 +74,14,774,i+0¸V+0,voc ۲۹۴۲۹۱ تا ۵۵۸۳۵۴٬۳۳۹٬۳۰۲۰۳۰۵۳۹ گورو ہر سہائے المط ليه الله لله والله 7 گوڑگانواں گواره کارتن پور لاله موسی لاہور ۴۲۷ ۲۶ 70 له اولهه الله والده واه وله irelirr'ırı'amlarʻq='ar'ar´or*q= roª°r•A°r•z°r«r{}^{\A='\\F\\¢r' Akd,whd,khd,Vhd,474,AVA, BA‚AbÁ‚Ä\A ۳۵۶٬۳۵۴٬۳۵۳۳۵۱٬۳۳۸٬۳۳۹٬۳۳۴٬۳۱۶۳۱۵ ۴۲۷٬۴۰۸٬۴۰۵٬۳۸۹٬۳۷۷۳۷۰۳۶۱۳۵۹٬۳۵۷ ۵۳۰۲۵۲۳٬۵۰۸٬۵۰۲٬۵۰۱۴۹۵۴ ۷۳۴۶۹۴۴۷

Page 678

جلدووم ori MA 14415272 ۴۲۷ ori'rr Fre F-'Ar ۲۹۰ or مراکش مردان مرید کے مسوری مصر مظفر نگر یک مکیریاں طايا انمان مکانه مونگهیر میاں میر میر تھ نارووال ناصر آباد ناگپور ۵۹۳٬۵۰۸٬۵۰۱٬۳۲۸٬۳۲۷۳۲۳۳۳۳۹۳ ra ۳۳ ۴۴ ۳۵۴ 106 raz'ro'or AP'TA'P ۳۴۷ ۵۳۲ 'prop mzrʻmua'r¶r³parʻar لداخ لد عيانه دکتر لمبا گاؤں لندن لنڈی کوتل لیاؤ ٹونگ لیل ماسکو ما کھو مائیر کو ٹلہ مانجو ریا مانت اونچا مدراس

Page 679

جلد دوم ۵۶۳۴۴۱۲۰۴۰۹ ۳۸۷ ۲۴۲٬۲۴۰٬۲۰۵۱۶۵۱۹۳۵۷۵۶ ہوشیار پور یاد گیر یاری پوره ید علم یورال ورپ ۵۶۳٬۳۸۶٬۴۵۶۲۵۴٬۳۵۱۴۲۵۰٬۲۳۷۲۳۵۲۲۲۳ ۳۲ ۲۵ ۲۱۹ 站 ندوه نصبين عمری نونیال ۲۳٬۶۰تا۱۹۴۱۹۲۶۵ F ۴۲۹ 101 ۲۲۴ ۳۱۵ ۳۲۸ نوان شهر نینی تال واشنگتن رچھو والی رڈالہ وزیر آباد وزیرستان ہر جوال ہندوستان ۴۰۷٬۳۸۸٬۳۷۸٬۳۵۷ ۳۳۹۳۲۶۴۲۵۵٬۲۵۱۳۳۶ ۵۷۲٬۵۶۵٬۵۶۲٬۵۶۰٬۵۳۷٬۵۳۰٬۴۵۴ ۴۴۹۱۴۴۸

Page 680

تفسیر ثنائی تفسیر کبیر (سوره نور) تفسیر دیا چه بر ترجمہ مولوی اشرف علی تھانوی کتابیات ۳۸۸۱۴۸ الاستفتاء ابلاغ الوميت جلد دوم HIGATIAC ۳۸۴٬۳۸۲٬۳۷۸٬۱۸۶ الهدى والتبصرة لمن يرى ۵۴۳٬۵۳۹٬۵۳۶٬۵۳۴۵۲۲ ۲۲۰۳۱۹ Ar TI ۲۹۷۱۷۱۱۴۵ ۴۴.۳۳۹٬۳۳۷۱۸۲ IZA انجام آتھم ايام الصلح ایک غلطی کا ازالہ بر امین احمدیه پیغام صلح تجليات الهيم ۲۴ ۳۴ IAI A ۳۷۳ ترندی سنن ابودا تور صفح الباری مسلم شریف مسند احمد بن فضیل کتب حضرت مسیح موعود تحفه الندوة آئینہ کمالات اسلام 04'7.2'102 تحفه غزنوید احمدی اور غیر احمد کی میں کیا فرق ہے هم م م تحفہ قیصریہ اعجازا المسیح اربعین ازالہ اوہام اعجاز احمدی ۲۲۹ تا ۳۸۸۳۸۲۲۷۳۲۷۱۲۷۰٬۲۳۱ تذكرة الشهادتين توضیح مرام تحفہ گولزدید IZA تریاق القلوب

Page 681

چشمه میکی چشمه معرفت حقيقه العيدي الوجی حمامه البشری خطبه الهامي واقع البلاء و معیار ابل الاصطفاء راز حقیقت ستاره قیصره Dir o'z IZA 7+6 كشف الغطاء گور نمنت انگریزی اور جہاد لمجد النور لیکھر لاہور صبح ہندوستان میں مواہب الرحمن نجم الهدى نزول المسیح جلد دوم ۱۳۵۶۵٬۶۰ ۲۱ p¶p*Pq{*7!**{£**\49 نیم دعوت برکات خلافت کتب خلفاء سلسله مسلسل سرمه چشم آرید سناتن دھرم ۲۰۱۲۹۹ حقيقها سيرة ابدال ۳۴۱ ضرورت الامام آئینه صداقت مصنفين.فتح اسلام KA احمدی جنتری قادیان فریاد درد ** اثبات خلافت شیمین قادیان کے آریہ اور ہم ۴۸۴۴۸۳۲۵۰ اصحاب احمد کتاب البريه ▼ التشريع الصحيح کشتی نوح ۱۳ ۲ تا ۲۹۵۲۵۴۲۱۷ القول النصيح في اثبات حقيقه المسيح oor IF A ۴۰۸ ۱۳۸ ۳۰۸

Page 682

جلد دوم ۵۹۰٬۳۰۸۹۷ YOA ۲۵۳ ۲۵۲ 162 ۲۳۹ ۴۲۵ Sli ง 161 iti سیرت مسیح موعود شد می کی اشد همی شی بازنه شید مرحوم کے چشمدید حالات عاقبه المكذبين عبرت ناک انجام تحقيق الهاد اسلامیات (فقہ تصوف) ترجمان رہا یسید تقویم الدین درباره تحریک تنقیحات حجج الكرامه رسائل و مسائل سور شواہد نت ر نظای فتاویٰ نذیریہ فتوی صراط مستقیم مثنوی مولانا روم مجموعہ فتاوی ۳۵ ۲۵۸ TAA ۲۵۸ FOA TOA ☑• 44 Arr 04° ۴۰۸ TOA ۳۰۸۲۳۰ POA KI * النبوة في خير الامه انیسویں صدی کا مرثی بطالوی کا انجام بہائی مذہب کی حقیقت تحریک جدید کے پرانی ہزاری مجاہدین تحفہ مستریاں جماعت مبایعین کے عقائد صحیحہ جواب کلمہ فضل رحمانی حیات حسن حیات قدی حیات قمر الانبياء خطبات کریمه خلافت را شد خلافت محمود دعوة الندوة دین الحق ذکر سوانح احمدی سیرت احمد

Page 683

དྭཱ 14Y 2 حیات محمد علی جناح داستان تاریخ وی اندین مسلمان دی پر اس کٹس آف اسلام روضه الصفا جلد دوم ۴۵۵ | ī 70 ༢ 100 06* ۲۳۸۰ ۵۶۹٬۵۵۴ زاد المسار زوال غازی موانع خواجہ حسن نظامی سید عطاء اللہ شاہ بخاری سیرت ثنائی شیخ سنوی ظفر نامه " 101 剕 101 06-r4y'r 17 ۵۷۲ 160 IAT مخون عرفانی نصرت الابرار نظم البدر في سلك السير ہدا یتہ السائل سیرت و تاریخ آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی احمدیہ تحریک احمد یہ موومنٹ اسباب بغاوت ہند بلاد فلسطین و شام بلوچ قوم کی تاریخ تاریخ افاغنه تاریخ اقوام عالم تاریخ بشارت الهند و پاکستان ۹۸ تاریخ بلوچستان ۳۷۲ مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات ۳۷۵ معجم البلدان منتخبات التاريخ ند مشق موج کوثر نفس حیات یاران کهن ۵۳۵ ۵۷۲ ۱۴ تذکرہ رؤسائے پنجاب تذکرہ شعرائے پنجاب تمدن عرب حیات جاوید

Page 684

کتب مخالفین سلسله انجیل اظهار مخادعت مسیلمہ قادیانی اعات الحق بہاء اللہ کی تعلیمات وم بماء الله و عصر جدید محملی آسمانی بر سرد بحال قادیانی ۴۷۹ جواب نامہ جمعیت لاہائی تکذیب براہین احمدیہ م خالصہ کا چہار سیف چشتیائی جواب لیکچر جناب قادیانی شمس الهدایة فی اثبات حیات المسیح ۱۲۶ ۱۳۸ ۱۳۹ المود شهاب ثاقب بر مسیح کا ذب ۴۸۰ عصائے موسی فتح قادیان مرقع قادیانی سرتیر کتب دیگر مذاہب افزار اقدى افراب بالقراند الكواب امہات المومنین ۴۹۰ 12" Terror ۳۷۳۳۵۵ Pzr + مكاتيب عبد البهاء میران الحق نقط الكاف يتابع الاسلام متفرق کنند جلد دوم PzF ۳۷۳ اد ا سکے اسلام ۴۵۰ 10° ۴۵۰ اظهار الحق.۳۸۸ اسلامی انسائیکلوپیڈیا ۲۰۵۱۴۷ انسائیکلو پیڈیا آف برٹین کا ۴۵۳۳۰۵٬۳۵۳٬۲۵۲ تسهيل العربية حریری دیوان حماسه ÷ ry

Page 685

قاموس المشاهير ہدانی ۱۴۷ جلد دوم اخبار امرتا بازار پتر کا.کلکتہ رساله انجمن مسلم اہل الذکر و القرآن لاہور ۴۷۶ اخبارات و رسائل اخبار اندر.لاہور ۵۶۶ ۲۵۳٬۲۴۸ 奇心 ۹۵ *762°49'7 ۴۸۸٬۴۸۷۴۶۲٬۳۹۷ دد ۵۶۷۵۶۶ ۵۲۸٬۵۲۶ رسالہ انڈی پینڈنٹ اخبار انڈین ڈیلی ٹیلی گراف اخبار انڈین وکٹیٹر اخبار انقلاب.لاہور اخبار اہل حدیث - امرتسر اخبار اہل فقہ.امرتسر رساله ایمان (پی) اخبار بر لنگشن فری پریس OYY ۲۴۴ ۲۲۲۲۲۱ انبا ہی پکا.لاہور اخبار ارگونات سان فرانسسکو رسالہ اشاعه السنہ.بٹالہ رسالہ اشاعت القرآن.لاہور اخبار البدر بدر - قادیان ۵۳۲٬۵۳۶٬۵۲۵٬۳۸۲٬۳۱۳۶ ۵۷۰٬۵۶۰٬۳۸۲٬۲۰۳ ۵۲۴٬۵۲۰ ۲۵۸ رسالہ البیان.لکھنؤ اخبار البشير - اناوه اخبار الحق.دہلی اخبار الحکم - قادیان ۱۷۰٬۱۳۸٬۵۷٬۵۵٬۵۰٬۲۶۹ اخبار پر ہم پر چارک ۲۲۳۱۹۱۹۹۰ تا ۵۵۹٬۵۵۷۲۶۹٬۲۶۱۳۲۳ اخبار بنگان.کلکتہ خبار الفضل.قادیان اخبار القاديان اخبار اللواء مصر رساله المسار مصر ر ساله امت مسلمہ ۲۰۹۳۰۸۳۰۳۱۸۱ ۲۳۸ اخبار بوسٹن ہیرلڈ اخبار پاؤ نیر الہ آباد رساله پبلک میگزین اخبار اچار.اخبار پنجشه فولاد

Page 686

اخبار پیسہ اخبار - لاہور اخبار تسقیم.لاہور ۳۵۰۸ ۲۳۹ ۲۰۲ تا ۴۱۴٬۲۱۰۲۰۵ تا ۴۷۲٬۴۵۹٬۴۵۷۴۱۶ رساله ریویو آف ریویوز - لندن ۵۳۶٬۵۰۳٬۲۰۵ اخبار زمیندار - لاہور رساله تشحين الا زبان قادیان ۴۷۲٬۴۵۲٬۴۵۷٬۴۵۶ اخبار ست دهرم رسالہ تعلیم الاسلام قادیان اخبار تہذیب نسواں.لاہور اخبار ٹائمز - لندن 075'07* OYA اخبار سٹیسٹمین - کلکتہ اخبار سیچ اخبار سراج الاخبار - جہلم ۵۶۳٬۵۷۰۴۱۶۳۷۷۱۱۲ ۵۲۸٬۵۶۶ our ۲۶۱۲۴ اخبار زدتھ سیکر.امریکہ رساله جامعہ احمدیہ قاریان اخبار جیون نت رسالہ چٹان لاہور اخبار حریق فیملی - انگلستان ۲۰۵ اخبار چودھویں صدی را ولپندی رسالہ دی مسلم ہیرلڈ.لنڈن اخبار دی انڈین پریات - مدراس ۲۴۸ ory ۲۵۸ اخبار سنڈے سرکل.انگلستان اخبار سن رائز اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور ۲۵۵ ۳۷۴ ۵۶۷٬۵۷۷٬۵۳۶٬۴۶۹ اخبار سیاست - لاہور اخبار شبه چنتک - قادیان ۳۸۰تا۲۸۵ اخبار شکاگو ریبون ۲۴۸ اخبار صادق الاخبار - ریوازی اخبار دی ایوننگ نیوز.لنڈن رسالہ رفیق حیات.قادیان اخبار روہن کھنڈ.بریلی ۵۶۶ رساله طبیب حاذق - قادیان ر سال طلوع اسلام - کراچی رساله ریویو آف ریال مجنز - قادیان ۱۹۰٬۱۶۶۱۶۵٬۵۷ رسالہ عالمی ڈائجسٹ.کراچی

Page 687

جلد دوم ۵۶۶ ۳۴۴ اخبار نیم.اگرہ رسالہ نگار ب لکھنو اخبار نوائے وقت.لاہور اخبار نور - قادیان اخبار نورافشاں.لدھیانہ اخبار نیر اعظم.مراد آباد اخبار نیویارک ورلڈ اخبار وطن.لاہور اخبار وکیل.امرتسر اخبار ہلال قاہرہ رسالہ ہما.جملہور اخبار ہندو پیٹریٹ.مدراس اخبار دی یونٹی اینڈ دی مسٹری.کلکتہ ۵۶۲٬۵۶۰٬۳۹۰٬۳۷۷ ۵۷۳٬۵۷۲ ۵۶۸٬۵۷۶ ۵۲۲٬۵۲۵٬۵۶۰ اخبار یونین گزت.بریلی ۵۶۸٬۵۳۶۲ ۵۵۳ ۵۲۵٬۵۶۰ ۲۵۸ ۵۳۶ 719 ۵۶۵٬۵۶۰٬۳۲۷ ۲۰۴ ۲۴۵ ۲۳ ۳۹۷ اخبار عام لاہور اخبار عصر جدید - کلکتہ اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ.علی گڑھ اخبار فاروق - قادیان اخبار فرنٹیر میل رساله قطع الوتین اخبار کر زن گزرٹ.دہلی اخبار کر سینٹ.اور پول اخبار گلاسگو ہیرلڈ.امریکہ اخبار گزار ہند.لاہور اخبار لیوز آف پیلنگ.شکاگو اخبار مخبر.دکن اخبار مدینہ.بجنور اخبار مسلم آؤٹ لک رسالہ معارف اعظم گڑھ اخبار لمت.لاہور ۲۰۴ اخبار منادی.وہلی اعد اخبار مناظر.قاہرہ اخبار میونسپل گزٹ.لاہور 277'07*

Page 687