Tarikh-eAhmadiyyat V01

Tarikh-eAhmadiyyat V01

تاریخ احمدیت (جلد 1)

ابتداء سے لے کر 1897ء تک۔
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

(پرانے ایڈیشن کے مطابق جلد اوّل اور دوم)


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد اوّل ابتداء سے لے کر ۱۸۹۷ء تک مؤلفہ دوست محمد شاہد

Page 2

تاریخ احمدیت جلد اول مولانا دوست محمد شاہد 2007 : 2000 نظارت نشر و اشاعت قادیان پرنٹ ویل امرتسر : نام کتاب مرتبہ طباعت موجودہ ایڈیشن تعداد شائع کرده مطبع ISBN - 181-7912-108-9 TAAREEKHE-AHMADIYYAT (History of Ahmadiyyat Vol-1 (Urdu) By: Dost Mohammad Shahid Present Edition : 2007 Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian-143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at: Printwell Amritsar ISBN-181-7912-108-9

Page 3

لس الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم دیباچه تاریخ احمدیت کی تدوین کا آغاز سید نا واما منا حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953 ء میں ہوا.اور ادارۃ المصنفین کی کوشش سے اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں اور دوسری 1959 ء میں منظر عام پر آئی.اس وقت تک اس کی انہیں جلدیں شائع ہو چکی میں جو ابتدا اسے لے کر 1957 تک کے حالات پر مشتمل ہیں.سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز کے ارشاد مبارک پر اس کی مطبوعہ جلدوں کو سیٹ کی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے.موجودہ جلد جو سابقہ ابتدائی دوجلدوں پر مشتمل ہے اس سکیم کی پہلی کڑی ہے.موجودہ ایڈیشن کی بعض خصوصیات یہ ہیں.(1) نئی تحقیقات کی روشنی میں اس کے متن اور حواشی میں مفید اضافے کئے گئے ہیں.(2) حواشی فٹ نوٹ کی بجائے باب یا فصل کے آخر میں دیئے گئے ہیں.(3) کتاب کے آخر میں مفصل اشاریہ بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے.سید نا حضرت مصلح موعود نے ابتداء ہی سے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ جو نبی کوئی جلد شائع ہو قارئین کی قیمتی آراء اور مشوروں کے بارے میں فائل کھول دی جائے.یہ مفید سلسلہ شعبہ تاریخ کی طرف سے پورے التزام کے ساتھ جاری ہے.اور زیر نظر جلد پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے.حديث نبوى من لم يشكر الناس لم يشكر الله.( جامع الصغیر للسیوطی) کے مطابق یہ تذکرہ ضروری ہے کہ مولانا ریاض محمود باجوہ صاحب مربی سلسله ( شعبه تاریخ احمدیت ) اور مولانا نعمت اللہ بشارت صاحب ( سابق مربی ڈنمارک) نے کتاب کی پروف ریڈنگ اور اشاریہ تیار کرنے میں نہایت درجہ محنت اور عرقریزی سے کام کیا ہے.اس طرح مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب سابق انچارج خلافت لائبریری ربوہ اور جناب حبیب الرحمن صاحب زیروی انچارج خلافت لائبریری اور ان کے جملہ معاونین کا گراں قدر تعاون بھی باعث تشکر و امتنان ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی برکات کے عطر سے ممسوح کرے.آمین.خدا کے فضل و کرم اور اس کی دی ہوئی توفیق سے شعبہ تاریخ 1983 ء کی وقائع نگاری کے مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے.احباب دعا کریں کہ شعبہ تاریخ جلد از جلد سلسلہ کی سوسالہ تاریخ کی تدوین اور اشاعت کی توفیق پاسکے.اور یہ کتاب ہر اعتبار سے بابرکت ثابت ہو.وما توفيقنا الا بالله العلى العظيم - ناشر

Page 4

بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل فرماتے ہوئے اس زمانہ کے مصلح امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا کی.قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے کس طرح دُنیا کی کایا پلٹ دی اس کا تذکرہ تاریخ اسلام میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ہے.تاریخ اسلام پر بہت سے مؤرخین نے قلم اٹھایا ہے.کسی بھی قوم کے زندہ رہنے کیلئے اُن کی آنے والی نسلوں کو گذشتہ لوگوں کی قربانیوں کو یا درکھنا ضروری ہوا کرتا ہے تا وہ یہ دیکھیں کہ اُن کے بزرگوں نے کس کس موقعہ پر کیسی کیسی دین کی خاطر قربانیاں کی ہیں.احمدیت کی تاریخ بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے الہی ثمرات سے لدی ہوئی ہے.آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھ سکیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر وہ بھی قربانیوں میں آگے بڑھ سکیں اس غرض کے مد نظر ترقی کرنے والی تو میں ہمیشہ اپنی تاریخ کو مرتب کرتی ہیں.احمدیت کی بنیاد آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل پڑی.احمدیت کی تاریخ مرتب کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں پیدا فرمائی.اس غرض کیلئے حضور انور رضی اللہ عنہ نے محترم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کو اس اہم فریضہ کی ذمہ داری سونپی جب اس پر کچھ کام ہو گیا تو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری ادارۃ المصنفین پر ڈالی جس کے نگران محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.بہت سی جلدیں اس ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں بعد میں دفتر اشاعت ربوہ نے تاریخ احمدیت کی اشاعت کی ذمہ داری سنبھال لی.جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہو چکی ہیں.ابتدائی جلدوں پر پھر سے کام شروع ہوا اس کو کمپوز کر کے اور غلطیوں کی درستی کے بعد دفتر اشاعت ربوہ نے

Page 5

اس کی دوبارہ اشاعت شروع کی ہے.نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۱.۲.کو ایک جلد میں شائع کیا گیا اس طرح جلد نمبر ۳ نئے ایڈیشن میں جلد نمبر ۲ ہے.اسی طرح نئے ایڈیشن میں سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ہر جلد کا ایک نمبر پیچھے آیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان سفر کے دوران تاریخ احمدیت کی تمام جلدوں کو ہندوستان سے بھی شائع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان بھی تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ کو شائع کر رہی ہے ایڈیشن اول کی تمام جلدوں میں جو غلطیاں سامنے آئی تھیں ان کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے.اس وقت جو جلد آپ کے ہاتھ میں ہے یہ جلد اول کے طور پر پیش ہے.دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس اشاعت کو جماعت احمد یہ عالمگیر کیلئے ہر لحاظ سے مبارک اور با برکت کرے.آمین.خاکسار برہان احمد ظفر درانی ( ناظر نشر و اشاعت قادیان)

Page 6

فہرست مضامین کتاب ” تاریخ احمدیت جلد اول مضمون باب اول سلسلہ احمدیہ کا مختصر تعارف صفحه مضمون صفحه باب چهارم ( تخمینا ۱۸۵۰ء - ۱۸۵۴ء) قیام کا مقصد نصب العین، دیگر مسلم تحریکات پہلی شادی کے مقابل اس کی امتیازی خصوصیات اور خلوت نشینی خدمت دین کی ابتدائی مہم اس کے عظیم الشان دینی کارناموں پر ایک طائر ملمنه نظر باب دوم حضرت مسیح موعود کے خاندانی حالات قرآن مجید کا کثرت سے مطالعہ صحت کی خرابی خدمت خلق اور غرباء پروری ۶۴ ۶۴ ۲۵ YY سمر قند سے ہجرت پنجاب میں ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام اور قادیان کی تاسیس حضرت مرزا گل محمد صاحب کا دور اقتدار حضرت مسیح موعود کے خود نوشت خاندانی حالات سر لیپل گریفن اور کرنل میسی کی شہادت نجرة نسب باب سوم (۱۸۳۵ - ۱۸۵۳ء) پاکیزہ بچپن M ۳۲ ۳۵ ۳۹ ؟ ۵۱ ۵۳۳ (۱۸۵۴ - ۱۸۶۳ء) مقدمات کی پیروی.راست گوئی مقدمات میں آپ کی امتیازی خصوصیات منكسر المزاجی اور حسن خلق کے نادر اور بے مثال نمونے مقدمات میں انقطاع الی اللہ باب ششم سیالکوٹ میں قیام اور تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز (۱۸۶۴ ء - ۱۸۶۷ء) ملازمت میں خدائی حکمتیں سیالکوٹ میں آپ کی قیام گا ہیں اور حفاظت الہی کی زیارت ۵۷ کے نظارے ۶۹ ۸۰

Page 7

مضمون صفحه 2 صفحہ مضمون سرکاری ملازمت میں آپ کا معمول اور شان استغناء ۸۲ ایک نہایت اہم خدائی بشارت | دفتری اوقات کے بعد آپ کے مشاغل و معمولات ۸۴ عیسائیت کی روک تھام سیالکوٹ میں بعض پیشگوئیوں کا ظہور اور قیام مولوی قدرت اللہ کا ارتداد اور واپسی لالہ شرمیت کے لئے ایک آسمانی نشان کے مختصر حالات حضرت اقدس کی طرف سے تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز ۸۷ پورے ہندوستان کو عیسائیت کے زیر نگیں کرنے کی برطانوی سازش سیالکوٹ مشن کی خصوصیت سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود کا عیسائیت کے خلاف تبلیغی محاذ اور پادری بٹلر سے تبادلہ خیالات آپ کی پاکیزہ جوانی کے متعلق چند شہادتیں ^^ 4+ ۹۳ باب ہشتم (۱۸۷۲ء تا ۱۸۷۶ء) قلمی جہاد کا آغاز ملکی اخبارات میں مضامین کی اشاعت.مولوی اللہ دتہ صاحب اودھی منگل سے مسئلہ حیات النبی وغیرہ پر مذاکرہ }}1 11 ۱۱۵ IIA 114 ۱۸۷۲ء میں آپکی روزمرہ زندگی کی ایک جھلک مولوی سید میر حسن صاحب سیالکونی کے قلم سے سلسل تعلیم و تدریس حضور کے زمانہ سیالکوٹ سے مفصل حالات ملازمت سے استعفیٰ ۹۵ **] آپ کی والدہ حضرت چراغ بی بی صاحب کا انتقال | ۱۰۱ حضرت کی والدہ ماجدہ کے اخلاق و شمائل تاریخ وفات کی تعیین بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان شعری کا امہ کی ابتداء اور دیوان کی تسوید ایک مقدمہ میں آسمانی نشان کا ظہور آسمانی بادشاہت درویشوں کی جماعت اور ۱۳۴ ۱۲۴ مزار مبارک باب ہفتم (۱۸۶۷ء تا ۱۸۷۱) اقتصادی کشائش عطا ہونے کی بشارت مسجد اقصی کی تعمیر روزوں کا عظیم مجاہدہ اور عالم روحانی کی سیر حضرت میر ناصر نواب صاحب کی قادیان میں حضرت مولانا عبید اللہ خزر نوئی اور دوسرے ریاست کپورتھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری سے پہلی بار آمد اور تعلقات کا آغاز انکار اور یاد الہی کے لئے حضرت والد صاحب یادا سے کلینہ فراغت کی درخواست ۱۱۰ اہل اللہ سے ملاقات ۱۲۵۰ ۱۲۵ ۱۲۸ ۱۳۰

Page 8

3 مضمون صفحه مضمون مولا نا غزنوی کی وفات کے متعلق قبل از وقت خبر ۱۳۳ با وانا رائن سنگھ صاحب میدان مقابلہ میں باب نهم (۱۸۷۶ء تا ۱۸۷۷ء) والد ماجد کے انتقال کی قبل از وقت خبر والد ماجد کا انتقال ۱۳۷ ۱۳۸ پنڈٹ کھڑک سنگھ سے مباحثہ اس کا فرار اور اسلام کی دوسری فتح آریہ سماجی لیڈروں کو دوسرا چیلنج پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری کا تبصرہ اور اسلام کی تیسری فتح حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کا حلیہ مبارک اور سیرت ۱۳۸ اسلام کی چوتھی فتح کا اور خدا تعالیٰ کا ان سے غیر معمولی سلوک آپ کی زندگی کا شاندار کارنامہ والد کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی کفالت کثرت مکالمات و مخاطبات کی ابتداء ۱۴۲ ۱۴۲ ۱۴۴ مرزا غلام قادر صاحب کی جانشینی اور دور ابتلاء ۱۴۴ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف پہلا مقدمہ ۱۴۶ سفر سیالکوٹ منشی سراج الدین صاحب مرحوم بانی اخبار زمیندار کا قادیان میں ورود IMA ۱۴۸ پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری کا فیصلہ ایک آریہ سماجی مصنف کا بیان صفحه ۱۵۴ 100 ۱۵۶ ۱۵۷ 109 ۱۵۹ آریہ سماج کے بعد بر ہمو سماج سے تحریری مباحثہ ۱۶۳ بر ہموسماج تحریک کی ناکامی ایک رات میں بے مثال روحانی انقلاب وری شاندار اسلامی خدمات کا اعتراف باب یازدهم ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۴ء قادیان سے ایک سیاہ کار سادھو کا اخراج براہین احمدیہ کی انقلاب انگیز تصنیف و اشاعت ۱۴۹ نعمۃ الباری کی تصنیف کا ارادہ ۱۴۹ براہین احمدیہ کی تالیف کا پس منظر اور باب دہم حضور کا ایک کشف براہین احمدیہ کو ملک بھر سے مسلم حلقوں کی ۱۶۵ ۱۲۵ 16.۱۷۲ ۱۷۹ IAF (۱۸۷۹۳۶۱۸۷۸ء) طرف سے بے مثال خراج عقیدت آریہ سماج اور برہمو سماج کے خلاف جہاد مخالفین اسلام کے کیمپ میں کھلبلی حضرت مسیح موعود کا انعامی چیلنج اور اسلام کی حضرت اقدس کی بے سرو سامانی اور تائید نہیں کے پہلی فتح ۱۵۳ لئے دعا اور خدائی بشارت

Page 9

مضمون صفحه مضمون عامتہ المسلمین اور رؤساء کو تحریک ۱۸۴ حضرت مولانا نورالدین صاحب شاہی ط خدا پر ایمان افروز توکل ۱۸۴ قادیان کی طرف پہلا تاریخی سفر کتاب کی اشاعت میں جذبہ خدمت دین کی ماموریت کا دوسرا سال (۱۸۸۳ء) نمایاں جھلک امراء کی انتہا درجہ سرد مہری ۱۸۵ مسجد مبارک کی تعمیر ۱۸۶ قدیم مسجد مبارک کا اندرونی منظر اور بالائی منزل ۲۱۸ € نواب صدیق حسن خان صاحب کا براہین کے مسجد کی توسیع متعلق ناروا طرز عمل ۱۸۸ حضرت اقدس کی دعا سے نواب صدیق حسن خان 'براہین احمدیہ کی اشاعت ایک معجز تھی ۱۸۸ صاحب کے خطابات کی بحالی ابتدائی تصنیف کا مسودہ نقل، کتابت اور طباعت (۱۸۹) مرزا غلام قادر صاحب ( برادر اکبر ) کی رحلت ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ براہین احمدیہ کے مختلف حصص کا بن اشاعت ۱۹۱ مقام ماموریت سے متعلق بعض مزید تفصیلات ۲۲۶ مسلمانان عالم کے روشن مستقبل سے متعلق ایک خبر ۲۲۷ +41 زمانہ براہین احمدیہ مسلسل جہاد تھا بانی آریہ سماج پر آخری اتمام حجت برا مین احمدیہ کے اگلے حصوں کی اشاعت میں التواء اور کتاب کی قیمت کی واپسی کا اعلان ماموریت کا تیسرا سال (۱۸۸۴ء) ١٩٢ ۲۲۸ ۲۳۱ الہامات کے لئے روز نامچہ نویس کا تقریر الدھیانہ کے عقیدت مندوں کا اصرار لدھیانہ میں تشریف آوری اور بے مثال استقبال ۲۳۲ اس زمانہ کی عظیم الشان پیشگوئیاں اور نشانات ۱۹۴ اس زمانہ کی عظیم الشان پیشگوئیاں اور نشانات ۱۹۴ لدھیانہ میں معمولات اعجازی شفاء کا ایک نشان 190 الدھیانہ کا دوسرا سفر سفر مالیر کوٹلہ ماموریت کا پہلا سال (۱۸۸۲ء) سفر انبالہ پٹیالہ وسنور خلعت ماموریت سے سرفرازی ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد ماموریت کا پہلا الہام ١٩٩ دوسری شادی مبشر اولاد دنیا میں نشان نمائی کی پہلی باطل شکن دعوت ۲۰۵ برات کی دہلی روانگی اور قادیان واپسی قادیان کی تمنام حالت اور رجوع خلائق کا آغاز ۲۰۷ پہلی بیوی سے حسن سلوک ۲۳۷ ۲۳۸ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۵۰ صفحہ

Page 10

مضمون صفح مضمون ماموریت کا چوتھا سال (۱۸۸۵ء) پر موعود اور جماعت کی ترقی سے متعلق دعوی ماموریت اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت ز بر است پیشگوئی پیشگوئی کا ردعمل صاحبزادی عصمت کی پیدائش اور بشیر اول کی منشی اند ر من صاحب مراد آبادی کا فرار ۲۵۴ وفات پر طوفان بے تمیزی پنڈت لیکھرام کا مصلحت آمیز کارروائیوں کے سبز اشتہار“ کی اشاعت ساتھ فرار پادری سوفٹ کا گریز ۲۵۲) بشیر پانی اور محمود کی ولادت با سعادت ۲ کامل انکشاف کے بعد اطلاع حضرت مسیح موعود کی طرف سے چالیس روزہ اکابر جماعت احمدیہ کا قطعی مسلک میعاد کا تعین ۲۶۳ پسر موعود کے متعلق مبینہ علامات کا خارق عادت مقامی ہندوؤں کی طرف سے نشان نمائی کی رنگ میں ظہور اور زبردست شہادتیں درخواست بیت اللہ شریف اور میدان عرفات میں ۲۶۳ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا پیشگوئی مصلح موعود اور مولف مجدد اعظم " صفحه ۲۷۹ MAN PAP ۲۸۵ ۲۸۹ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی درد انگیز دعا ماستر مرلی دھر صاحب آف ہوشیار پور سے مباحثہ ۲۹۶ حضرت صوفی احمد جان صاحب کی زبان سے ۲۶۴ مه چشم آرید کی تصنیف و اشاعت رمه فی کے کشفی چھینٹوں کا حیرت انگیز نشان ۳۶۷ حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسمان صورت اور نشان کے متعلق حضرت منشی صاحب کا حلفیہ بیان ۲۶۸ دعوت مباہلہ شبب ثاقبہ کا آسمانی نظارہ ۲۶۹ سفر انبالہ ماموریت کا پانچواں سال (۱۸۸۶ء) موریت کا چھٹا سال (۱۸۸۷ء ) Mi ہوشیار پور کا مبارک سفر آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی اور پسر موعود" کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی تصنیف واشاعت شحنه حق گزشتہ نوشتوں میں پسر موعود کی پیشگوئی ۲۷۳ رسالہ قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ" ہوشیار پور کا مبارک سفر ۳۷۴ ہجرت کا ارادہ ۳۰۵

Page 11

6 مضمون صفحہ مضمون امریکہ میں آپ کی دعوت نشان نمائی کی مرزا سلطان محمد صاحب کا اظہار حق بازگشت.مسٹر الیگزینڈر رسل ویب سے محمدی بیگم کی ایک خواب خط و کتابت اور ان کا قبول اسلام حضرت مولانا حسن علی کے بیان کردہ واقعات ۳۰۸ سفر انبالہ تصدیق براہین احمدیہ کی تصنیف خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت صفحہ ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۵ ۳۱۱ مرزا سلطان محمد صاحب کے بیٹے کا اعلان بیعت ۳۲۵ ۳۱۲ پادری فتح مسیح کی طرف سے روحانی مقابلہ کی £ £ £ ۱۳۳۵ ۳۳۷ ماموریت کا ساتواں سال (۱۸۸۸ء) دعوت اور شکست کا اعتراف حضرت اقدس مسیح موعود کے جدی خاندان سفر پٹیالہ سے متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان واپسی پر ایک حادثہ مولوی محمد امام الدین صاحب سے مخط و کتابت ۳۱۵ ماموریت کا آٹھواں سال (۱۸۸۹ء) آپ کے جدی خاندان کی طرف سے مخالفین اشتہار تکمیل تبلیغ اور لدھیانہ میں بیعت اولی ۳۱۶ بیعت کے لئے حکم الہی اسلام کی پشت پناہی ایک روح فرسا واقعہ اور نشان نمائی کا مطالبہ ۳۱۷ اشتہار تحمیل تبلیغ وگزارش ضروری حضرت مسیح موعود کی دعا اور الہی خبر ۳۱۷ الدھیانہ میں ورود مرزا احمد بیگ کی دختر محمدی بیگم سے متعلق بیعت کے لئے لدھیانہ پہنچنے کا ارشاد کے لئے لدھیانہ پہنچنےکا خدائی تحریک پیشگوئی کا پبلک حیثیت اختیار کرنا نور افشاں کا طوفان بے تمیزی اور حضرت اقدس کا جواب مسلمانوں کی طرف سے پیشگوئی کے ظہور کیلئے دعا ئیں ٣١٩ ہوشیار پور میں شیخ مہر علی صاحب کی ایک تقریب ۳۲۰ میں شمولیت ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولی کا آغاز ۳۲۰ خاکہ دار البیعت لدھیانہ عورتوں کی بیعت ۳۳۱ دوسرے ایام میں بیعت پیشگوئی کے بعض حیرت انگیز پہلوا در پیشگوئی کا ظہور ۳۲۲ بیعت کے بعد نصائح علماء کو دعوت مباہلہ اور پر شوکت اعلان ۳۲۳ رجسٹر بیعت اولی کی مکمل فہرست ۱۳۳۸ ٣٣٩ ۳۴۰ ۳۴۲ ۳۴۲ ۳۳

Page 12

7 مضمون صفحه مضمون بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر کے بارہ سعید روحوں کی خدائی جماعت میں شمولیت میں جدید تحقیق قیام لدھیانہ کے دو واقعات سفر علی گڑھ ۳۶۲ مباحث الحق لدھیانہ صفحه ۳۷۴ مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت کا واقعہ ۲۰۶ ۳۷۶ مباحثے کا آغاز.ایک معجزہ ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جوابات ۳۷۸ مباحث کے تفصیلی کوائف بیان کردہ ۱۸۸۹ء کے بعض دیگر صحابہ ۳۷۸ پیر سراج الحق صاحب ماموریت کانواں اور دسواں سال میر عباس علی صاحب کا ارتداد (۱۸۹۰ ء - ۱۸۹۱ء) شدید علالت دعوی مسیحیت ۱۳۸۴ می الفت کا طوفان اور آپ کے خلاف فتوی تکفیر ۱۳۸۷ قتل کرنے کی سازش ۳۱۹ حضرت مسیح موعود کا سفر امرتسر اور ایدھیانہ میں دوبارہ تشریف آوری ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت لفظ توفی اور الدجال کے بارے میں ایک ہزار روپیہ کا انعامی اعلان ۴۰۸ ۳۰۹ ۴۱۳ اسم ۴۱۷ مغرب است آفتاب اسلامہ کے طلوع کی پیشگوئی ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۱۹ مسلمانان ہند کے روشن خیال عنا صر کا ردعمل ۳۹۱ فتنہ دجال کی حقیقت سفر لدھیانہ ایک عجیب انکشاف نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق الہام اور پادریوں کو دعوت نمذاکرہ سفر امرتهم و لدھیانہ علما ء وقت کو تحریریں مباحثہ کی دعوت ۱۳۹۵ ۱۳۹۵ ۴۰۰ توفی اور الد جال کے بارہ میں ایک ہزار روپے کا انعامی اشتہار مسیح اور مہدی ایک ہیں دیلی کا سفر ۴۲۰ ۴۲۰ سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی عبد الحق مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا تحریری مباحثہ سے انکار دہ سجادہ نشینوں کو دعوت مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو تقریری مبادیشه کی دعوت اور ان کا انکار ۴۰۳ صاحب کو مباحثہ کی دعوت جامع مسجد دہلی میں اجتماع دیلی کے ہر طبقے کی طرف سے مخالفت علی جان والوں کی طرف سے مولوی محمد بشیر صاحب ۴۲۲ سوم ۴۲۸

Page 13

00 8 کو دعوت مباحثه مضمون مولوی محمد بشیر صاحب دلی میں مباحثے کا آغاز سفر لدھیانه و پٹیالہ صفحہ ۴۳۰ ایک ضمنی نوٹ صفحه مضمون ۴۳۲ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی مخالفانہ کوشش ۴۳۳ اور نا کامی ۴۳۵ سفر کپورتھلہ' جالندھر الدھیانہ مولوی محمد اسحاق صاحب پر اتمام حجت ۴۳۶ نشان آسمانی“ کی تصنیف و اشاعت آسمانی فیصلہ“ کی تصنیف و اشاعت اور علماء کو مکفر علماء کو مباہلہ کی پہلی دعوت روحانی مقابلہ کی پہلی عام دعوت پہلا سالانہ جلسہ ۴۳۵ حضرت اقدس میدان مباہلہ میں اور ۴۴۰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا گریز مستقل رنگ میں سالانہ جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ ۴۴۱ مباہلے کے بعد مبانے کا چیلنج اور علماء کا فرار ۱۸۹۲ء کے دوسرے جلسہ کی روداد ۱۸۹۲۴۴۲ء کے بعض صحابہ ۴۶۵ INYA سالانہ جلسہ کے اجراء میں مشکلات اور تائید نیبی (۴۴۴ ماموریت کا بارھواں سال (۱۸۹۳ء) سالانہ جلسے کے سو سالہ اعداد و شمار ۴۴۵ آئینہ کمالات اسلام اور التبلیغ کی اشاعت ۴۷۲ ۱۸۹۰-۹۱ء کے بعض صحابہ ۴۴۸ سرور کونین کی شان اقدس میں مدحیہ قصیدہ ماموریت کا گیارھواں سال (۱۸۹۲ء) فارسی نعت سفر لاہور میں ایک فائر العقل شخص کا حملہ ۴۵۴ ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام حضرت اقدس کی طرف سے صبر کا ایک حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف بے نظیر نمونہ جلسہ عام میں حضرت اقدسن کی تقریر ۴۵۴ کا خراج عقیدت ۴۵۶ پنڈت لیکھرام سے متعلق پیشگوئی ۱۴۷۵ ۴۷۵ ۱۴۷۷ مولوی عبد الحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ ۴۵۷ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ۴۷۸ تقدیر کے مسئلہ پر تقریر سفر سیالکوٹ زائرین کا ہجوم اور پاک مجلس ۴۵۸ حضرت صاحبزادہ صاحب کی بلند پایہ تالیفات ۴۵۸ اور عظیم الشان علمی کارنامے ۴۵۹ تصنیف و اشاعت " بركات الدعاء ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور ان کے والد ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے مباحثہ کا اور بردار اکبر کی عقیدت و بیعت سے متعلق چیلنج اور رسالہ "حجۃ الاسلام" اور رسالہ

Page 14

9 مضمون صفحه مضمون سچائی کا اظہار“ کی تصنیف و اشاعت ۴۸۲ سر الخلافہ کے ذریعہ سے ایک ہی رات میں ۳۸۳ انقلاب عظیم بعض علماء کی عیسائیت نوازی جنگ مقدس.ایک ایمان افروز واقعہ ۴۸۴ رجوع الی الحق کے باعث آتھم کو مہلت اور ۳۸۵ اخفائے حق کی پاداش میں ہلاکت ۱۵۰۳ ۱۵۰۴ ۴۸۹ انوار الاسلام اور ضیاء الحق کی تصنیف دا شاعت ۵۰۴ باطل فریق کے لئے پیشگوئی سفر جنڈیالہ اور قادیان کو واپسی تحفہ بغداد " کرامات الصادقين اور مکذب علماء کا مظاہرہ شہادۃ القرآن“ کی اشاعت ۴۸۹ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف منشی عطاء محمد صاحب کے لئے نشان کا وعدہ ۴۹۱ چاچڑاں شریف کا ایمان افروز جواب قادیان کی طرف ( مستقل رنگ میں ) ہجرت حضرت مسیح موعود کی طرف سے آتھم کو کا آغاز دوستوں سے مل کر رہنے کی خواہش ۴۹۲ انعامی چیلنج ۴۹۳ ایک سال کا یقینی اور قطعی وعدہ اور آتھم حضرت مولانا نورالدین کی ہجرت کا ایمان کی ہلاکت افروز واقعہ سفر فیروز پور ۱۸۹۳ء کے بعض صحابہ ۴۹۴ عیسائیوں کی عالمی کانفرنس میں تحریک احمدیت ۴۹۵ کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار ۴۹۵ حضرت مسیح موعود کے خلاف متحدہ سیاسی محاذ اور بغاوت کا الزام ماموریت کا تیرھواں سال (۱۸۹۴ء) مرکز اسلام ( مکہ مکرمہ ) میں حضرت مسیح موعود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا انگریزی کی آمد کے تذکرے ۵۰۶ ۱۵۰۸ ۵۰۸ ۵۰۰ ۵۰۹ ۵۱۰ حکومت کو انتباہ اور حضرت مسیح موعود کا دفاع ۵۱۳ ۱۸۹۴ء کے بعض صحابہ حمامة البشری "نور الحق (حصہ اول) کی تصنیف و اشاعت ۴۹۹ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہے.رمضان میں کسوف و خسوف کا نشان ۵۰۱ (۱) عربی زبان اُمُّ الالب نورالحق (حصہ دوم) کی تصنیف و اشاعت ۵۰۲ (۲) حضرت باد! ناتک مسلمان تھے.اتمام الحجہ کی تصنیف اشاعت ۵۰۳ (۳) حضرت مسیح ناصری کا سفر کشمیر اور محکمہ خانیار سر الخلافہ" کی تصنیف و اشاعت ۵۰۳ میں مزار ۵۱۴ ۵۱۷

Page 15

10 مضمون صفحه مضمون قادیان میں ضیاء الاسلام پریس مطب اور آریہ دھرم کی تصنیف و اشاعت کتب خانے کا قیام ماموریت کا چودھواں سال (۱۸۹۵ء) مباحثات کے لئے آئینی تحریک اور مسلمانان ۵۱۸ ناموس مصطفوی اللہ کے دفاع اور مذہبی بند کی طرف سے پر زور تائید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ولادت الدار میں کنواں ۵۱۹ ۵۲۰ مخالفین اسلام کے نام کھلا نوٹس نواب محسن الملک کا مکتوب صفح ۱۵۳۷ lora ۱۵۳۸ لده عربی زبان کے اُم الالسنہ ہونے کی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی غیر اسلامی روش ۵۴۰ ۱۸۹۵ء کے بعض صحابہ زبر دست تحقیق اور من الرحمن کی تالیف ۵۲۰ ۵۴۱ عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے عملی مہم ۵۲۲ ماموریت کا پندرھواں سال (۱۸۹۶ء) حضرت مسیح ناصری کے سفر کشمیر اور مزار کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پرزور مخالفت ۵۴۷ انکشاف ۵۲۲ امیر کابل کے نام تبلیغی خط ۵۲۳ مخالف علماء اور سجادہ نشیوں کو مباہلے کی دعوت واقعہ صلیب کی چشم دید شہادت حضرت مسیح کے کفن سے متعلق جرمن حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں سائنس دانوں کا حیرت انگیز انکشاف ۵۲۵ شریف کی تصدیق مسیح کے آسمان پر جانے کی انجیلی آیات الحاقی حضرت پیر صاحب العلم“ کی شہادت ثابت ہوئیں برطانوی سیاح کا انکشاف مسلم محققین کا اعتراف حق یسوع کے پیروکار ۵۲۷ جلسه مذاہب عالم کا پس منظر اور کانفرنس کے ۵۲۸ لئے انتظامات ۵۲۹ اشتہار واجب الاظہار ۵۳۰ مذاہب کے نمائندے ۵۴۸ ادد ۵۵۱ ۵۵۵ ۱۵۵۶ ۱۵۵۸ ۱۵۵۹ ۵۶۰ ۵۶۱ نورالقرآن حصہ اول و دوم کی تصنیف و اشاعت ۵۳۱ حضرت مسیح موعود کی طرف سے اپنے مضمون خدا کی طرف سے کشف تصویر چولہ بابا نانک ۵۳۲ کے بالا رہنے کی قبل از وقت پیشگوئی ۵۳۴ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا تاثر ست بچن“ کی تصنیف اشاعت ۵۳۶ جلسہ کی کارروائی کا آغاز - حضرت اقدس کا ست بچین " کار د مل سکھ قوم کی طرف = ۵۳۶ مضمون اور سامعین کا ذوق و شوق

Page 16

مضمون صفح 11 مضمون صفحه مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی استدعا ۱۵۶۴ پنڈت لیکھرام کا قتل ۲۸ دسمبر کی کارروائی اور مولوی محمد حسین پنڈت دیو پر کاش صاحب بٹالوی کی دوسری تقریر ۵۲۵ با بوگهای رام صاحب ایم اے ایل ایل بی کے بیانات رام ایم ۵۹۰ ۵۹۱ ۲۹.دسمبر کو حضرت اقدس کے بقیہ مضمون کی گونج ۵۲۵ اور پنڈت مدن گوپال سناتن دھرمی کا واضح اقرار ۵۹۲ ر مضمون بالا رہا ۵۶۷ ہندوؤں کی شورش اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ آبزرور اور اخبار ہندو اخبارات کی زہر چکانی چودھویں صدی کا ریویو جلسه اعظم مذاہب میں اسلام کی شاندار فتح سے اقدس کی طرف سے ہندوؤں کو چیلنج متعلق کلکتہ کے اخبار جنرل و گوہر آصفی کا تبصرہ ۵۶۹ حضرت مسیح موعود کی طرف سے اتمام حجت لیکچر کا غیر زبانوں میں ترجمہ اور عالمگیر مقبولیت ۵۷۳ اور آریوں کو چیلنج اسلامی اصول کی فلاسفی مغربی مفکرین کی نظر میں ۵۷۳ گنگا بشن صاحب کی آمادگی اور قرار ۵۷۵ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی آریوں کی ۵۶۷ حضرت اقدس کو قتل کی دھمکیاں اور حضرت ۱۸۹۶ء کے بعض صحابہ طرف سے نمائندگی ماموریت کا سولھواں سال (۱۸۹۷ء) حضرت اقدسن کی خانہ تلاشی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پر شوکت چیلنج اور تصنیف و اشاعت انجام آتھم“ آنحضرت ﷺ کی ایک پیشگوئی کا ظہور اور ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست علماء کے نام عربی مکتوب OLA ۱۵۷۸۱ ۱۵۸۳۱ ۱۵۹۳ ۱۵۹۳ ۱۵۹۴ ۱۵۹۵ ۱۵۹۷ ۱۵۹۸ ۵۹۹ سراج منیر اور استفتاء کی تصنیف و اشاعت ۶۰۱ سکھوں کی طرف سے مخالفت اور اتمام حجت اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پر شوکت چیلنج ۵۸۴ اشتهارِ مُسْتَيْقَنًا بِوَحْيِ اللَّهِ الْقَهَّارِ ۱۵۸۵ حسین کامی کا قادیان میں ورود اور حضرت اقدس سے ملاقات اور سلطنت روم کی نسبت کشفی خبر حسین کامی کا ناظم الہند میں غضب آلود مراسلہ اور عام مخالفت چودھویں صدی کا بزرگ عیسائیوں کو ایک ہزار روپیہ انعام کی پیشکش ۵۸۵ اشتہار ” خدا کی لعنت اور کسر صلیب شیخ محمد رضا طہرانی نجفی کی اشتہار بازی حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت حسین کامی کی مجرمانہ خیانت اور اپنے عہدہ د ۱۵۸ DAY سے برطرفی "قسطنطنیہ کی چٹھی" ۶۰۲ ۲۰۴ ۲۰۵ ۶۰۸

Page 17

مضمون صفح 12 مضمون سلطنت ترکی میں انقلاب اور سلطان عبد الحمید عبد الحمید کا مشتبہ بیان اور مسٹر ڈگلس کو کشفی ۶۰۹ نظاروں کے ذریعہ سے راہ نمائی صفى ۶۳۰ ثانی کی معزولی حجۃ اللہ کی تصنیف دا شاعت محمود کی امین ۶۱۰ عبدالحمید کو پولیس کی تحویل میں دیئے جانے کا حکم ۶۱۱ | سازش کا انکشاف ساٹھ سالہ جو بلی پر ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام حضور کی الزام قتل سے بہت اور دشمن کو عفو عام ۶۱۴ مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور اور تحفہ قیصریہ کی تصنیف لندن میں جلسہ مذاہب کے انعقاد کی تجویز لالہ دینا ناتھ ایڈ بٹر ہندوستان کے تاثرات اور ملکہ کے لئے حضرت مسیح ناصری کی ملاقات کا کتاب البریہ کی تصنیف و اشاعت، مسیح محمدی ۶۱۵ اور مسیح ناصری کے مقدموں میں سات آسمانی تحفہ نشان نمائی کی پیشکش ۶۱۶ حیرت انگیز مشابہتیں قادیان میں جشن جو بلی کے موقعہ پر احباب کا جلسہ ۶۱۶ پیلاطوس ثانی کا شاندار کارنامہ ملکہ وکٹوریہ کے مسلمان ہونے کے لئے دعا ۱۷ سفر ملتان سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۶۱۷ واپسی پر لاہور میں قیام ہندوستان کے مشائخ وصلحاء سے خدا کی قسم جماعت احمدیہ کے سب سے پہلے اخبار "الحلم" دے کر ایک درخواست ۱۷ کا اجراء ۶۳۲ ۱۶۳۲ ۱۶۳۳ ۶۳۵ ١٨٣٦١ ۶۳۷ ۶۳۸ ۶۴۱ پادری ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ ا قدام ۱۸۹۷ء کے بعض صحابہ قتل اور الہام کے مطاق حضور کی بریت ۱۸۹۷ء کے صحابہ کی ایک نایاب فہرست کتاب البریہ کی تصنیف و اشاعت ۶۲۰ " تاریخ احمدیت کے متعلق عزت مآب حضرت اقدس کی بٹالے میں گواہی کے لئے مکرم و محترم حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت کی رائے ۲۵۵ تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت خوشخبری حضرت اقدس عدالت میں مولوی محمد حسین صاحب بنالوں کی گواہی اور عبرتناک حالت ۶۲۵ ۶۲۵ ۶۲۶

Page 18

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام

Page 19

تاریخ احمدیت جلدا باب اول لمع ل العين السمع محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم -:- والسلام على عبده المسيح الموعود سلسلہ احمدیہ کا مختصر تعارف سلسلہ احمدیہ کا تعارف قیام کا مقصد نصب العین دیگر مسلم تحریکات کے مقابل اس کی امتیازی خصوصیات اور اس کے عظیم الشان دینی کارناموں پر ایک طائرانہ نظر احمدیت ایک بین الاقوامی اور آسمانی سلسلہ ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے قدیم نوشتوں کے مطابق مسیح وقت و مهدی دوراں سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم ہوا.اس الہی سلسلہ کا حقیقی مشن اس کے سوا کچھ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا وہ قانون اور دستور جو دادی بطحاء میں سرتاج اولین و آخرین فخر الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی ای کے مقدس ترین وجود پر نازل ہوا.اور اپنے اصولوں کی حقانیت ، فلسفہ احکام کی قوت و صولت اور دلائل و براہین کی مقناطیسی کشش کے باعث دنیا پر غالب آگیا تھا اور بعد کو خود مسلمانوں ہی کی سرد مہری سے وہ صرف قرآن مجید کے اوراق ہی میں سمٹ کے رہ گیا.ایک مرتبہ پھر پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہو جائے.اور نہ صرف یہ کہ دنیا کی تمام قومیں اور ممالک ہی اسے اپنا ملکی قانون بنانا اپنے لئے موجب فخر سمجھیں بلکہ ہر قلب و دماغ پر اس کی فرمانروائی ہو.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تحریک سے وابستہ ہونے والے ہر فرد کو جن دس بنیادی شرائط کی پابندی کا ارشاد فرمایا ان میں ایک اہم ترین شرط یہ قرار دی کہ حلقہ بیعت سے منسلک ہونے والا ہر شخص یہ پختہ عہد کرلے کہ وہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے اوپر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ

Page 20

تاریخ احمدیت.جلدا میں دستور العمل قرار دے گا".سلسلہ احمدیہ کا تعارف پہلا امتیاز بلاشبہ خدا کے فضل سے ہر مکتب فکر کے داعی مسلمانوں میں اسلامی حکومت کے قیام کا جذ بہ روز افزوں ترقی پر ہے اور پین اسلام ازم طرز کی مختلف تحریکات بھی ابھر آئی ہیں مگر احمدیت بنیادی طور پر کئی پہلوؤں سے ان سب پر امتیازی شان رکھتی ہے مثلاً اول تو قیام احمدیت کے بعد اسلامی دنیا کے افق پر نمودار ہونے والی یہ کرنیں ہی صاف بتا رہی ہیں کہ یہ انقلاب حضرت امام الزمان کی بعثت کے ان مخفی تاثیرات اور فیضان کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر ہر مصلح آسمانی کی روحانی توجہ سے پیدا ہوتے ہیں.تحریک احمدیت وحی الہی سے قائم ہوئی ہے.بالفاظ دیگر اس کی پشت پر الہامی قوت دوسرا امتیاز بھی کار فرما ہے اور روحانی نظام بھی ---- رسول اللہ ﷺ کی یہ حیرت انگیز پیشگوئی تھی کہ اِذَا عَظُمَتْ أُمَّتِي الدُّنْيَا عَتْ مِنْهَا هَيْبَةُ الإِسْلَامِ وَإِذَا تَرَكَتِ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ حَرَمَتْ بَرَكَةُ الْوَحْيِ وَإِذَا تَسَابَتْ أُمَّتِي سَقَطَتْ مِنْ عَيْنِ اللَّهِ عنى مخبر صادق نے فرمایا کہ جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت اور وقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی.اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جلشانہ کی نگاہ سے گر جائے گی.دوسری طرف تاریخ کی یہ ناقابل تردید شہادت ہے کہ ”جب لوگوں نے خدا کے بھیجے ہوئے احکام و ضوابط کو ترک کر کے خود ساختہ طریقوں کو اختیار کر لیا تو ان میں ہر طرح کی عملی و اخلاقی خرابی پھیل گئی اور سارا ملک فتنه و فساد اور فسق و فجور کا گہوارہ بن گیا."محرومی و بد بختی کے اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد اس قوم کی حالت میں پھر اسی وقت انقلاب ہو ا جب اس میں کوئی خدا کا رسول مبعوث ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ”نبی (علیہ السلام) کی صحبت میں یہ طاقت اور تاثیر ہوتی ہے کہ کافر ملحد اور مشرک اس کی بدولت مومن بلکہ موحد کامل بن جاتا ہے".اللہ تعالی اس نبی کی ذات کو چراغ بنا کر مبعوث کرتا ہے تاکہ اس سے دو سرے چراغ روشن ہو سکیں.سب جانتے ہیں چراغ چراغ ہی سے روشن ہو سکتا ہے اور کوئی صورت نہیں.تقریروں خطبوں کتابوں وعظوں ، باتوں، تجویزوں، مجلسوں ، پوسٹروں سے سب کچھ ہو سکتا ہے مگر چراغ روشن نہیں ہو سکتا ".اس واضح حقیقت کی روشنی میں جب عصر حاضر کی ہلاکت آفرینیوں کی طرف نگاہ کی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ کفر و الحاد کے موجودہ سیلاب میں خدائی تحریک کا قائم ہونا ضروری تھا اور وہی اس کا رخ پھیرنے میں کامیاب ہو سکتی تھی.چنانچہ موجودہ زمانے میں انسانیت کے گم کردہ راہ

Page 21

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف قافلے نے جس طرح اللہ کے برگزیدوں اور فرستادوں کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیا ہے اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.ہندومت، عیسائیت ، بدھ اور یہودیت کے علمبردار اس بارے میں متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ کے احکام کو پس پشت ڈالنے کے بعد دنیا کے بسنے والے لوگ اب ضلالت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں، ظلمتیں مسلط ہیں اور روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اور بالخصوص عالم اسلام آج سے نہیں اٹھارہ صدی عیسوی سے مسلسل اور پیم چیخ پکار کر رہا ہے اور مسلم قوم کی حالت زار پر نوحہ کناں ہے.عوام سے لے کر علماء تک کے سب ہی طبقے خواہ ان کا تعلق کسی مکتب خیال سے ہو وہ خطابت کے جری ہوں یا قلم کے شہسوار، تصوف کے پرستار ہوں.یا علم کلام کے شیدائی علماء ہوں یا سیاسی لیڈر بے نوا فقیر ہوں یا کجکلاہ بادشاہ بلا تفریق امت مرحومہ کے مرضیه خواں نظر آتے ہیں اور بزبان حال و قال کہہ رہے ہیں کہ جو تاریکی چھٹی صدی عیسوی میں جہالت نے پھیلائی تھی جبکہ اسلام کا ظہور ہو ا تھا ویسی ہی تاریکی اور ظلمت آج پھر پوری شدت سے عود کر آئی ہے.اخلاق و تمدن معیشت و اقتصاد اور عقائد و روحانیت کا کوئی ایسا خوفناک مرض نہیں جس نے خود مسلمانوں کے قومی جسم کو مضمحل نہ کر دیا ہو.پھر ان کے لیڈر صرف اس حقیقت ہی کا اعتراف نہیں کر رہے بلکہ ان کا اکثر و بیشتر طبقہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی آنے والے مامور اور فرستادہ کا بھی منتظر ہے جس طرح قحط سالی کے ایام میں نگاہیں آسمان کی طرف لگ جاتی ہیں اسی طرح مسلم قوم مدتوں سے فی الحقیقت آسمان کی پہنائیوں میں سے کسی مرسل کی آمد کے لئے چشم براہ ہے چنانچہ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بھی اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ غرض دنیا کے مشرق و مغرب اس وقت تاریکیوں کی زد میں ہیں اور کسی برقی تجلی کے انتظار میں سرگردان عجیب بات ہے کہ یہ حقیقت اس قدر واضح اور مبرہن ہو کر سامنے آگئی ہے کہ الحاد زدہ مغربی دماغ کو بھی اس کا کھلم کھلا اعتراف ہے.یورپ کا ایک مفکر سیاح مارس انڈس جسے چند سال قبل اسلامی ملکوں کی سیاحت کا موقعہ ملا ایک مستقبل کی تلاش میں " کے عنوان پر عرب ممالک کے متعلق اپنے تاثرات بایں الفاظ بیان کرتا ہے....بلاشبہ یورپ عرب کلچر کا مرہون منت ہے.اسلامی ملکوں کی سیاحت میں میں نے عراقیوں کو یہ بات بار بار دہراتے سنا.ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ عرب شہنشاہی کے کارناموں کو دہرا کر پرانی عظمت و شان کو دوبارہ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہوں.عراقیوں کو ایسے خوابوں کی صحیح اور حسب مراد تعبیر نکلنے کی مخالفت نہ تو علم الحیات کرتا ہے اور نہ تاریخی دلائل سے ہوتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہوگی کہ عرب دنیا عہد نبوی کی طرح ایک بار پھر حرکت میں

Page 22

تاریخ احمدیت.جلدا "1 سلسلہ احمدیہ کا تعارف آجائے اوراسی طرح مستحکم بھی ہو جائے.عرب قوم نے جن اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور قوتوں کا ثبوت اس زمانہ میں دیا وہ صلاحیتیں اور قوتیں عرب دماغ میں آج بھی ہونی چاہئیں.آج عرب دنیا سوئی ہوئی ہے اسے کسی محمد کی ضرورت ہے جو اسے نیا الہام دے کر حرکت میں لے آئے".مارس انڈس نے صرف عرب ممالک تک ہی اپنی نظر محدود نہیں رکھی بلکہ وہ تمام دنیا پر گہری نظر ڈالنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ دمشق ، بیروت ، بغداد ، مکہ طہران، قاہرہ اور ان کے ساتھ لنڈن اور واشنگٹن بھی ایک پیغمبر کے انتظار میں ہیں جو سماجی مقصد اور اصلاح کا جھنڈا لئے ہوئے عیسی کی طرح کاشتکار کو صرف یہ کہہ کر ہوش میں لائے کہ جاگ جاگ 11 اور طاقت کا مظاہرہ کر " لو تھری ٹاڈرڈ (Loth Ro toddard) اٹھارہویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے: مذہب بھی دیگر امور کی طرح پستی میں تھا.تصوف کے طفلانہ تو ہمات نے خالص اسلامی توحید پر پردہ ڈال دیا تھا.مسجد میں ویران اور سنسان پڑی تھیں.جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے اور تعویذ گنڈے میں پھنس کر فقیروں اور دیوانے درویشوں پر اعتقاد رکھتے تھے اور ان بزرگوں کے مزاروں پر زیارت کو جاتے جن کی پرستش بارگاہ ایزدی میں شفیع اور رولی کے طور پر کی جاتی...قرآن مجید کی تعلیم نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی...یہاں تک کہ مقامات مقدسہ بد اعمالیوں کے مرکز بن گئے تھے.فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی...اگر حضرت محمد الے پھر دنیا میں آتے تو وہ اپنے پیروؤں کے ارتداد اور بت پرستی پر بیزاری کا اظہار فرماتے " اسی طرح یورپ کے ایک مشہور پروفیسر میکنزی اپنی کتاب ”انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی" میں لکھتے.ہیں : کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کے کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور اس غرض کے لئے محض عرفان اور حقیقت آگاہی کافی نہیں بلکہ ہیجان اور تحریک کی قوت بھی ضروری ہے جسے یوں کہنا چاہئے کہ یہ معمہ حل کرنے کے لئے ہم نور و حرارت دونوں کے محتاج ہیں.غالبا عہد حاضر کے معاشرتی مسائل کا فلسفیانہ فہم و ادراک بھی وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں.ہمیں معلم بھی چاہئے اور پیغمبر بھی.ہمیں آج رسکن یا کارلائل یا ٹالسٹائی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ضمیر کو زیادہ تشدد اور سخت گیر بنانے اور فرائض کے دائرے کو زیادہ وسیع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں.غالباً ہمیں ایک مسیح کی ضرورت ہے...یہ قول صحیح ہے کہ عہد حاضر کے پیغمبر کو محض " بیابان کی صدا نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ عہد حاضر کے ” بیابان آباد شہروں کے گلی کوچے ہیں جہاں ترقی کی مسلسل و پیم جد و جہد کا بازار گرم ہے.اس

Page 23

تاریخ احمدیت جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف عہد کے پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ہنگامہ زار میں وعظ و تبلیغ کرے " پاکستان کے ایک مسلمان عالم لکھتے ہیں.” عالم مادی کے اس ارتقائی اور بظا ہر نورانی دور میں جبکہ انسان تسخیر شمس و قمر کے خواب دیکھتے ہوئے اصل مقصد تخلیق سے غافل اور جذبہ پوشیدہ " انا" پر متکبر ہو کر سفینہ حیات عالم کو بحر ضلالت و گمراہی کے تموج خیز گرداب تک پہنچا چکا ہے...آج ابلیس اپنے وعدے کی صداقت پر خندان و شاداں اور نگاہ عالم و خداوند حقیقی منتظر و نگران ہے ایک ایسے خلاصہ انبیاء کی جانب جس کی غیبت مثل یوسف رجعت مثل عیسی طول عمر مثل خضر اور خلق و خلق مثل محمد مصطفیٰ ہے ".مشہور عالم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو د ركن عربي اکیڈیمی دمشق لکھتے ہیں ” مسلمانوں پر عام طور پر یاس و نومیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا.۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی و عسکری تحریکوں کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور علم اور موید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی.کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے.مجلسوں میں زمانہ آخر کے فقتوں اور واقعات کا چرچا تھا ".نیز لکھتے ہیں.” عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا.اس کے چہرہ کا سب سے بڑا داغ وہ شرک جلی تھا جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا.قبریں اور تعزیے بے محابا بج رہے تھے.غیر اللہ کے نام کی صاف صاف رہائی دی جاتی تھی.بدعات کا گھر گھر چر چاتھا.خرافات اور توہمات کا دور دورہ تھا.یہ صورت حال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے جو پوری وضاحت اور جرات کے ساتھ تو حید وسنت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ الا لله الدین الخالص کا نعرہ بلند کرے".پس موجودہ کار زار عالم میں ایک آسمانی قیادت کی ضرورت تھی جو مسیح وقت حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ذریعہ سے پایہ تکمیل کو پہنچی.اسی لئے آپ فرماتے ہیں: اے بندگان خدا آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باراں ہو تا ہے اور ایک مدت تک مینہ نہیں برستا تو اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کو ئیں بھی خشک ہونے شروع ہو جاتے ہیں پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیدا کرتا ہے اسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی

Page 24

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ پانی ہے (یعنی خدا کی وحی ) وہ سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے.سو یہ زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج تھا.میں اپنے دعوئی کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں مین ضرورت کے وقت خدا تعالٰی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا.اور نہ صرف تقویٰ اور طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو حضرت عیسی کے وقت تھے سچائی کے دشمن ہو گئے.تب بالمقابل خدا نے میرا نام مسیح رکھ دیا.نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بلایا ہے " موجودہ جدید تحریکات کے مقابل احمدیت کو تیسرا عظیم الشان امتیاز یہ حاصل ہے کہ تیسرا امتیاز احمدیت کا پیش کردہ نصب العین خالص روحانی نہایت درجہ بلند اور قابل صد فخر ہے.بطور مثال چین اسلام ازم ہی کو لے لیجئے (جس کے بانی علامہ جمال الدین افغانی کو مجد دوقت بھی قرار دیا گیا ہے ) اس تحریک کا منتہائے مقصود صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک کا ایک تیسرا بلاک معرض ظهور میں آجائے جو موجودہ اینگلو امریکن بلاک اور روسی بلاک کے دوش بدوش کھڑا ہو سکے.چنانچہ بانی تحریک لکھتے ہیں: و مسلمانوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے ان اصولوں کو جاننا ضروری ہے کہ جن کے ذریعہ سے اپنی مدافعت کر سکیں.دوسرے یہ کہ بوقت ضرورت وہ اتفاق رائے اور مستقل مزاجی سے کام لیں اور تیسرے یہ کہ وہ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے افکار و آراء سے ربط و تعلق پیدا کریں اور ملت پر آنے والے خطرات کا احساس کر کے متحد ہو جائیں.کیا آپ روسیوں کو نہیں دیکھتے کہ ان میں ان تین اصولوں کے سوا اور کوئی بات نہیں پائی جاتی.لنون وصنائع کی ترقی کے اعتبار سے یہ قوم تمام یورپی قوموں میں سب سے پیچھے تھی.ان کے ملک میں دولت و ثروت کے ذرائع بھی موجود نہ تھے اور اگر یہ موجود ہوتے تب بھی وہاں ایسی صنعتیں بھی نہ تھیں جن سے وہ ان ذرائع سے استفادہ کر سکتے.اس لئے افلاس ، تنگدستی کی مصیبت میں مبتلا ہیں مگر اس کے باوصف جب ان کی قوم پر کوئی مصیبت آئے تو وہ اس سے خبردار ہو کر اس کے دفع کرنے کی تدبیریں کرتے اور وسائل ترقی پر اتفاق کرتے ہیں.ان کے خیالات میں ہم آہنگی اور ربط ہونے کی وجہ سے وہ یورپ کی تمام سلطنتوں میں ایک عظیم الشان شہنشاہیت کے مالک ہو گئے ہیں.روس میں آلات حرب تیار کرنے کے بڑے کارخانے نہیں لیکن اس کے باوجود اس کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہ سکا.روس کے ہمسایہ ملکوں میں فنون حرب کو جتنی ترقی ہوئی اتنی خود روس میں نہیں ہوئی تھی.لیکن اس کے باوجود اپنی فوجوں کی تربیت کے لئے دوسری قوموں سے ماہروں کے حاصل کرنے سے انہیں کوئی

Page 25

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف روک نہ سکا.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اس کی فوجوں کی یہ حالت ہے کہ یورپ کی طاقتیں اس کی قوت سے خوف کھاتیں اور اس کے حملہ سے ڈرتی رہتی ہیں".او رنا سے لے کر پشاور تک کا علاقہ اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ ہے.ان سب کا عقیدہ ایک ہے ان کو ایک مرکز پر جمع کرنے والا قرآن موجود ہے.ان کی تعداد آٹھ کروڑ سے کسی طرح کم نہیں ہے.دنیا کی تمام قوموں میں شجاعت اور بسالت کے لحاظ سے ان کا درجہ ممتاز ہے.کیا ان کے لئے یہ ممکن 35 نہیں ہے کہ وہ مدافعت اور اقدام کے لئے متحد ہو جائیں جس طرح کہ تمام قو میں متحد ہو چکی ہیں"."میرے اس کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان تمام امور میں ایک شخص واحد ہی کا حکم چلا کرے.کیونکہ اکثر حالتوں میں یہ ایک نہایت مشکل کام ہو گا.لیکن میں چاہتا ہوں کہ ان سب پر قرآن ہی کی حکومت ہو اور وہ اتحاد کا ذریعہ اپنے دین کو بنا ئیں.ہر ملک کی حکومت اپنے ہم مذہب دوسری حکومت کی حفاظت کی تاحد مقدور کوشش کرتی رہے.کیونکہ ایک کی زندگی دوسرے کی زندگی اور ایک کی بقاء دوسرے کی بقاء پر منحصر ہے.اس سے خبردار رہو کہ یہ ان کے دین کی اساس و بنیاد ہے جس سے خاص کر موجودہ زمانے میں اجتماعی ضرورتیں اور سیاسی احتیاجیں پوری ہوتی ہیں".تحریک کی افادیت و اہمیت سے کوئی انکار نہیں مگر مندرجہ بالا الفاظ نماز ہیں کہ اسکے پیچھے محض مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا جذبہ کام کر رہا ہے اور فقط مسلمانوں کی ”سیاسی احتیاجیں " مد نظر ہیں.پس یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ یہ ایک خالص سیاسی تحریک ہے جو مغربی طاقتوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوئی ہے.بلا شبہ یہ تحریک اس خیال کی بھی علمبردار ہے کہ سب مسلمانوں پر قرآن ہی کی حکومت ہو اور وہ اتحاد کا ذریعہ اپنے دین کو بنا ئیں".اسلامی تنظیم کے لئے ایک قابل اطاعت مرکزی شخصیت کا ہونا ضروری ہے.مگر اس بارے میں بانی تحریک ہی کی رائے ہے کہ ”میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ تمام امور میں ایک شخص واحد ہی کا حکم چلا کرے یہ ایک نہایت مشکل کام ہو گا “.علاوہ ازیں اس کی منزل صرف یہ تجویز کی گئی ہے کہ اسلامی ملک اپنا ایک مستقل بلاک قائم کرلیں.حالانکہ یہ کوئی ایسا مقصد حیات نہیں کہ جس پر کوئی درد مند مسلمان روحانی لحاظ سے کوئی فخر محسوس کر سکے.مادی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے اس کی اہمیت مسلم ہے.مگر بہر حال اسے مسلم قوم کا مطمع نظر قرار دینا ظلم ہو گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم ممالک کی سیاسی ترقی اور سیاسی اتحاد ایک ضروری چیز ہے جسے موجودہ زمانے میں نظر انداز کرنے کے معنی قومی خود کشی کے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مطمع نظر ایسا ہو سکتا ہے جس سے مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑنے لگے ؟ دنیا کی موجودہ آبادی قریبا دو ارب اکتیس کروڑ نوے لاکھ انیس ہزار ہے جن میں مسلمانان عالم کی تعداد کم و بیش چونتیس کروڑستادن لاکھ

Page 26

تاریخ احمدیت جلدا A سلسلہ احمدیہ کا تعارف پیتالیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے.پس مسلم بلاک کے قیام کے معنی صرف یہ ہوئے کہ اسلام ربع مسکون کی صرف چھٹے یا ساتویں حصہ آبادی پر حکمران ہو سکے گا.اس صورت میں رسول خدا اور قرآن کے عالمگیر غلبہ کی یہ کوئی خوشکن تعبیر نہیں قرار دی جاسکتی ہے.لکھا اس کے مقابل ( حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں آکر یہ اصول پیش فرمایا کہ تمہارا یہ مطمع نظر نہایت ادنی ہے.تمہیں اپنے افکار کو بلند کرنا چاہئے کہ تمہارا کیا منصب ہے اور کون سا کام ہے جو خدا نے تمہارے سپرد کیا ہے.بے شک سیاست کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اصلاح ضروری ہے.بے شک دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو ترقی کی ضرورت ہے.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی غرض یہ تھی کہ اسلام کو روحانی طور پر دنیا پر غالب کیا جائے.اب اس کی تشریح کرو.اس عظیم الشان مقصد کے معنی یہ بن جاتے ہیں کہ اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے دلائل اتنی طاقت پکڑ جائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت وہ کنی کترانے لگیں.آج یورپ میں جو بھی لٹریچر شائع ہوتا ہے اس میں یہ آ ہوتا ہے کہ اسلام میں فلاں نقص ہے اور فلاں خرابی ہے.لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رہنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں بات بہت اعلیٰ ہے مگر عیسائیت اس سے بالکل خالی...آج کا مغرب زدہ مسلمان یورپ کی ڈیما کریسی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ قرآن سے بھی کچھ کچھ ایسے اصول ثابت ہوتے ہیں اور یہ خوبی ہمارے اندر بھی پائی جاتی ہے.یہ اپالوجی (Apalogy) ہے جو آج کا مسلمان پیش کر رہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کارن نہیں.اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہو گا جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پر دہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے مسیح نے بھی جو فلاں بات کہی ہے اس سے کی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا پردہ ہونا چاہئے اسلام کے لئے فخر کارن وہ ہو گا جب یورپ اور امریکہ کا عیسائی اپنی تقریروں میں یہ کہے گا کہ کثرت ازدواج کا مسئلہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں بے شک یہ بڑا اچھا مسئلہ ہے اور عیسائیوں نے کسی زمانہ میں اس کے خلاف بھی کہا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا.اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگ جو پہلی صدی میں گذرے ہین انہوں نے بھی دو دو تین تین شادیاں کی ہیں.پس کثرت ازدواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے.جس دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑا ہو کر ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کرے گا وہ دن ہو گا جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آگیا اب ہمیں اپالوجی (Apalogy) کی ضرورت نہیں.اب دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں

Page 27

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف ان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں.یہ ہو گا اسلام کا غلبہ اور یہ ہو گا محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا دن.محمد رسول اللہ اس کی عظمت کا دن وہ ہو گا جب دو ارب چالیس کروڑ کی دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان نہیں ہو گا بلکہ دو ارب مسلمان ہو گا اور چالیس کروڑ غیر مذاہب کا پیرو ہو گا".اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ کلیم (پارہ ۲۸ سورۃ الصف (۱۰) خدا ہی ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دنیا میں بھیجا ہے ہدایت دے کر دین حق دے کر الظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله تاکہ وہ سارے دینوں پر اسے غالب کرے سارے ملکوں پر نہیں کیونکہ ملکوں پر قبضہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.بڑی بات یہی ہے کہ دلوں پر قبضہ ہو...ولوں کو بدل دینا اور ان کو فتح کر لینا یہ بڑی بات ہے.فرض کرو پاکستان کسی وقت اتنی طاقت پکڑ جائے کہ وہ حملہ کرے اور سارے امریکہ کو فتح کرلے اور امریکہ کے لوگ ہمیں ٹیکس دینے لگ جائیں لیکن امریکہ کا آدمی اسلام اور قرآن پر لعنتیں ڈالتا ہو تو یہ بڑی فتح ہوگی یا امریکہ آزاد ر ہے لیکن امریکہ کے ہر گھر میں رات کو محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج کر سونے والے لوگ پیدا ہو جا ئیں تو یہ بڑی فتح پر ہو گی".احمدیت کو جدید مسلم تحریکات کے مقابل چوتھی امتیازی خصوصیت یہ حاصل ہے کہ چوتھا امتیاز جماعت احمدیہ کا یہ عظیم الشان نصب العین محض تخیل پرستی کا کرشمہ نہیں بلکہ خدا تعالی کی ان بھاری بشارتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ اله لاة والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی ان رقت آمیز دعاؤں اور پر سوز التجاؤں کے نتیجہ میں بتائی گئیں کہ.اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا کی ہے میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار چنانچہ آپ کو عرش سے اسلام کی ترقی اور سربلندی کی خبریں دیتے ہوئے بتایا گیا کہ : قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام سب حربے ٹوٹ جائیں گے.مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک و جالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس 1

Page 28

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۰ سلسلہ احمدیہ کا تعارف کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے.بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نو را تارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی".سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الہاما یہ بھی انکشاف فرمایا گیا کہ اسلام کا یہ عالمگیر غلبہ تین سو سال میں مقدر ہے.حضور اقدس کے خلاف اشتعال انگیزی کے خطرناک طوفان اٹھائے گئے بلکہ انگریزی حکومت سے یہاں تک کہا گیا کہ : گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں...ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا " مگر حضور نے اس آتشیں فضا میں بھی ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے اسلام کی عالمگیر حکومت قائم فرمانا چاہتا ہے اور اس نے مجھے وہ بادشاہ بھی دکھائے ہیں جو میرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور اسلام کی عظمتوں کا نشان بنیں گے - نظام کفر میں نظام حق کا یہ نعرہ اولو العزمی جانبازی اور اسلامی حمیت و غیرت کا اتنا شاندار مظاہرہ ہے کہ مسلمانوں کا وہ اہل قلم طبقہ جسے احمدیت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے اس کی جلالت شان کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکا.چنانچہ لکھا ہے: مرزا صاحب نے تقدس کی دکان ابتداء محض شکم پروری کے لئے کھولی تھی.لیکن ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہونے کا لائحہ عمل بھی شروع سے ان کے پیش نظر تھا اورانہیں آغاز کار سے اس مطلب کے الہام بھی ہوا کرتے تھے چنانچہ...مرزا صاحب کا پہلا الهام جو ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ ء میں ہوا یہ تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے...خود مرزا صاحب نے نہ صرف اس الہام کا بڑے طمطراق سے براہین میں تذکرہ فرمایا بلکہ عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی مرزا صاحب کی "مقدس بارگاہ" میں پیش کر دیئے گئے جو ان کے بیان کے بموجب ان کے پیرو ہونے والے تھے.گو بادشاہوں کی متابعت کا کشف یا خواب کبھی پورا نہ ہوا، لیکن اس سے کم سے کم قادیانی صاحب کی ذہنی کیفیت ان کے خیالات کی بلند پروازی اور ان کی اولوالعزمی کا ضرور پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ قیام سلطنت کے اصل داعی و محرک مرزا صاحب ہی تھے.آخر کیوں نہ ہو تا قوم کے مغل تھے اور رگوں میں تیموری خون دوڑ رہا تھا.میرے خیال میں مرزا صاحب نے قیام سلطنت کی جن آرزوؤں کو اپنے دل میں پرورش کیا تھا وہ قابل صد ہزار تحسین تھیں".

Page 29

تاریخ احمدیت جلدا I سلسلہ احمدیہ کا تعارف جماعت احمد یہ اپنی اس خوش بختی پر جس قدر ناز کرے کم ہے کہ خدا تعالٰی کے فضل و کرم سے اس نے اپنے قیام کے روز اول ہی سے عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کے متعلق اپنے نصب العین کو ایک لمحہ اوجھل نہیں ہونے دیا.بالخصوص انگریزی دور حکومت میں تو اس نے یہ نعرہ حق بلند کرنے میں ہمیشہ ہی ایک پاکباز مومن اور جانباز مجاہد کی طرح اعلان عام کیا کہ : "ہم نے تو کبھی یہ بات نہیں چھپائی کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پر قائم کر کے رہیں گے ".ہاں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساتھ ہی یہ تصریح بھی فرماتے رہے کہ "ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ یہ کہ تلوار اور فتنہ و فساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کو مسلمان بنادوں.وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کردوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بھی مسلمان بنا کر وہاں اسلامی حکومت قائم کر دوں تو میں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا؟ میں تو ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ فوراً ان لوگوں کو مسلمان بنا کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کر دوں.لیکن یہ چونکہ میرے بس کی بات نہیں اس لئے میں کر نہیں سکتا.ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقیناً میرے دل کی یہ خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ بھی مسلمان ہو جائیں، زراء بھی مسلمان ہو جائیں، پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہو جائیں اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہو جائیں اس میں اگر دیر ہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں بلکہ اس لئے دیر ہے کہ ان کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں اور اس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی ورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے میرے دل میں تو اتنی زبر دست خواہش ہے کہ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا.اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا.اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے وہ حصے کس طرح پورے ہو سکتے ہیں جن کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے.کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اس کا گھر ادھورا رہے.اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ وہ ادھورا رہے تو خدا تعالٰی کے گھر کے متعلق وہ یہ امرکب پسند کرے گا؟ اس میں کیا شک ہے کہ جب تک دنیا مسلمان نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسلام کی عمارت کافی رہتی ہے اور اپنی عمارت کا کانا ہونا کون پسند کر سکتا ہے.ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے تو کب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم

Page 30

تاریخ احمد بیت - جلد ا مسلہ احمدیہ کا تعارف اسلام کی عمارت کو کانا رکھنا پسند کریں گے.اگر انگریز عیسائی ہی رہیں، ہندو ہندو ہی رہیں تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی.ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک ہی طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ کام ہوا کرتا ہے.اگر کوئی شخص کا نا ہی اور وہ کسی دوسرے سو جاکھے کی آنکھ نکال کر اپنے کانا پن کو دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اسے بے وقوف سمجھیں گے کیونکہ دوسرے کی آنکھ نکال کر اس کا کانا پن دور نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر کوئی ہو قوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو مار کر یا فتنہ و فساد پیدا کر کے وہ اسلامی حکومت قائم کر سکے گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے".پس یہ طریق بالکل نادرست ہے اور میں ہمیشہ اس کی مخالفت کر تا رہا ہوں لیکن جائز اور پر امن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرنا ہماری دلی خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہئے کہ ہم موجودہ طرز حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں.یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے.ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے.میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے تبلیغی اور پر امن ذرائع اختیار کرتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور جبر و تشدد ہے.بہر حال یہ خواہش یقینا ایک دن پوری ہو گی دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی روکیں مل کر بھی اس میں حائل نہیں ہو سکتیں".جس چیز کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے وہ آخر ہو کر رہے گی.چاہے اس پر عیسائی برا منائیں چاہے موسائی بر امنا ئیں ، چاہے سکھ بر امنا ئیں.یہ خدا تعالیٰ کی قضا ہے کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور جو چیز ایک دن ہونے والی ہوا سے ہم نے چھپانا کیا ہے اور اس پر اگر کوئی برا مناتا ہے تو ہم اس کا علاج کیا کر سکتے ہیں.ان بصیرت افروز بیان میں اسلامی حکومت کے عالمگیر قیام کے لئے اگر چہ دو اصولی ذرائع کا ذکر کیا گیا ہے (۱) تبلیغ (۲) دیگر آئینی ذرائع لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کا تعلق ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک تبلیغ کو ابتداء ہی سے اولیت حاصل رہی ہے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے وقت کے تقاضے کے عین مطابق ہر مسلمان کو پوری قوت سے کفر کا علمی مقابلہ کرنے کی دعوت دی.چنانچہ آپ نے فرمایا: ہر ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے اس کے دور کرنے میں کچھ حصہ لے.بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنے کو دور کرنے میں کچھ نہ کچھ حصہ لے.اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں چاہئے کہ اپنی تقریر اور علم کے ذریعہ سے اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے مخلصانہ کوشش کے ساتھ ان باتوں کو دنیا سے اٹھارے".

Page 31

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف حضور نے اپنی جماعت کو بالخصوص یہ نصیحت فرمائی کہ : ee یہ مقام دار الحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہم ہرگز بے کار نہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو بلے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذو الفقار علی فرمایا.اس میں یہی سر ہے کہ یہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں ہے بلکہ قلم کا زمانہ ہے.پھر جب یہ بات ہے تو یاد رکھو کہ حقائق اور معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی.اس لئے تقویٰ اختیار کرو " " فتح اسی کو ملتی ہے جس سے خدا خوش ہو.اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق اور اعمال میں ترقی کریں اور تقویٰ اختیار کریں تاکہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور محبت کا فیض ہمیں ملے.پھر خدا کی مدد کو لے کر ہمارا فرض ہے اور ہر ایک ہم میں سے جو کچھ کر سکتا ہے.اس کو لازم ہے کہ وہ ان حملوں کے جواب دینے میں کوئی کوتاہی نہ کرے.ہاں جواب دیتے وقت نیت یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو " تقوی اخلاص اور ایمان کی چمکتی ہوئی تلواروں کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف قلمی ولسانی جہاد.یہی آپ کی پوری دعوت کا لب لباب اور خلاصہ تھا اور یہی اس اسلامی عمارت کی بنیاد تھی جسے دنیا بھر میں تعمیر کرنے کے لئے آپ اس جہان میں تشریف لائے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی زندگی میں اپنے مشن کی تکمیل میں کتنی شاندار کامیابی ہوئی اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ تحریک احمدیت کے قیام سے صرف پانچ برس بعد ۱۸۹۴ء میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس کے سامنے لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ نے نہایت درجہ گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ : اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آ رہا ہے اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں...یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے جن کی بناء پر محمد کا مذہب ہماری نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جا رہی ہے یہ نئے تغیرات با آسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں".یہ تو آپ کی زندگی کا واقعہ ہے آپ کی وفات کے بعد (متحدہ) ہندوستان کے بڑے بڑے مذہبی اور

Page 32

تاریخ احمدیت.جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف سیاسی لیڈروں نے آپ کے مجاہدانہ کارناموں کو خراج عقیدت پیش کیا اور غیر مذاہب پر آپ کی نمایاں کامیابی کا واضح لفظوں میں اقرار کیا.چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد نے (جو بعد کو امام الہند سے موسوم ہوئے ) لکھا: " مرزا صاحب کی اس رحلت نے ان کے بعض دعاوی اور معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا.کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پائمال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے ".اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا." غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا "." مرزا صاحب کا دعوی تھا کہ میں حکم و عدل ہوں...لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابل پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں مخصوص قابلیت تھی".خلافت اولی کے زمانہ میں کاروان احمدیت اور آگے بڑھا اور مسلمانوں کے مختلف عناصر کو محسوس ہونے لگا کہ اسلام کی آئندہ ترقی جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے.چنانچہ امرتسر کے ایک نامور جرنلسٹ ( مسٹر محمد اسلم) محض اس خیال کا اندازہ لگانے کے لئے قادیان پہنچے.سیدنا نور الدین کے درس سے فیض یاب ہونے کے علاوہ جماعت احمدیہ کے افراد کا قریب سے مطالعہ کیا اور پھر واپس آکر ایک طویل مضمون میں اپنے تاثرات قلمبند کئے جن میں لکھا کہ : عالم اسلام کی خطرناک تباہ انگیزیوں نے مجھے اس اصول پر قادیان جانے پر مجبور کیا کہ احمدی جماعت جو بہت عرصہ سے یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ دنیا کو تحریری و تقریری جنگ سے مغلوب کر کے

Page 33

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۵ اسلام کا حلقہ بگوش بنائے گی آیا وہ ایسا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟" سلسلہ احمدیہ کا تعارف مسٹر اسلم نے قادیان میں جا کر کیا دیکھا اس کی تفصیل میں انہوں نے بتایا کہ : جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا وہ خالص اور بے ریاء توحید پرستی تھی اور جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قران نظر آتا تھا.غرض قادیان کی احمدی جماعت کو عملی صورت میں اپنے اس دعوئی میں کہیں بڑی حد تک سچاہی سچا پایا کہ وہ دنیا میں اسلام کو پر امن صلح کے طریقوں سے تبلیغ و اشاعت کے ذریعے ترقی دینے کے اہل ہیں اور وہ ایسی جماعت ہے جو دنیا میں عموماً قرآن مجید کے خالصتا اللہ پیرو ہیں اور اسلام کی خدائی ہے اور اگر تمام دنیا اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان یورپ میں اشاعت اسلام کے ان اداروں کی عملاً مدد کریں تو یقینا یورپ آفتاب اسلام کی نورانی شعاعوں سے منور ہو جائے گا اور اس خونخوار مسیحیت کو جو اپنے مادہ پرست نام لیوا بچوں کی بو الہوسی کو پورا کرنے کی خاطر اسلامی ممالک تاخت و تاراج کرنے اور اسلام کا نام دنیا سے مٹانے پر تلی پڑی ہے اس طریقے سے شکست فاش ہو گی".سید نا حضرت خلیفہ اول بھی اللہ کے وصال کے بعد موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ الودود سریر آرائے خلافت ہوئے تو اسلام کی تبلیغ واشاعت کا ایک عالمگیر نظام قائم ہو گیا اور اب امریکہ، یورپ، افریقہ آسٹریلیا اور ایشیا غرضیکہ بھی براعظموں میں حکومت اسلامی کی روحانی بنیادیں نہایت سبک رفتاری سے ابھر رہی ہیں.دوسری جانب عیسائیت کے تعمیر کردہ آہنی قلعے ایک ایک کر کے مسمار ہو رہے ہیں جن کا اقرار خود عیسائی مشنوں کو ہے اور وہ اپنی شکست کے آثار دیکھ کر ہر طرف عجیب سراسیمگی، اضطراب اور وحشت کا اظہار کر رہے ہیں.چند تاثرات ملاحظہ ہوں: افریقہ (مشہور پادری ڈاکٹر زویم مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین قوموں سے کھلے جنگ کے حامی تھے ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ گئے ہیں اور ان کی جگہ اب فرقہ احمدیہ لے رہا ہے جس نے لیگوس ،نائیجیریا اور مغربی افریقہ کے مرکز سے تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جمالیا ہے".سیرالیون میں امریکن مشن کے پادری مسٹرو یو ر ڈگار نے لکھا: "جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے جو اسلامی کمک یہاں پہنچی ہے اس سے رو کو پور کے نواحی علاقہ میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہو گئی ہے اور اب عیسائیت کے مقابلہ میں تمام تر کامیابی اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا " شہر کامیہ میں امریکن عیسائی مشن بند کرنا پڑا.

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد - 14 سلسلہ احمدیہ کا تعارف ایس جی - ولیم سن (S.G.WILLIAMSON) گولڈ کوسٹ کے شمالی علاقوں میں بڑے بڑے چرچ رومن کیتھولک چرچ کے سوا اب تک حضرت محمد مصطفی کے پیروؤں کے لئے میدان خالی کر چکے ہیں.گولڈ کوسٹ پر سن بائی ٹیرین چرچ اب شمال کی جانب کھسکنا شروع ہو گئے ہیں.اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت اب تک نفع میں ہے.لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خاص کر ساحل کے ساتھ ساتھ تحریک احمدیت بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے.گولڈ کوسٹ کے متعلق جو عام طور پر یہ امید تھی کہ یہ علاقہ جلدی عیسائیت قبول کر لے گا.اب یہ امید جتنا کہ ہم خیال کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ خطرہ میں ہے.ڈاکٹر پیرنڈر کہتے ہیں کہ جنوب میں بت پرستی مر رہی ہے اور اسلام بڑھ رہا ہے اور اکثریت حاصل کر رہا 177-"< اس ضمن میں بالخصوص افریقہ میں جماعت احمدیہ کی کامیاب تبلیغی مساعی کے متعلق امریکہ کے اخبار لائف کی یہ تازہ شہادت ہے کہ : حال ہی میں کچھ عرصہ قبل دنیا میں تبلیغ اسلام کی کوئی منتظم تحریک موجود نہ تھی.مسلمانوں میں خدا اور بندے کے درمیان کسی اور کو واسطہ تسلیم نہ کرنے کے شدید جذبہ کی وجہ سے اسلام میں پاپائیت کبھی سر نہ اٹھا سکی.ہر مسلمان اپنے انفرادی ایمان کی بدولت اپنی ذات میں اسلام کے ایک مبلغ کی حیثیت رکھتا تھا تا ہم اسلام خود اپنے جذبہ تفاخر کا اس رنگ میں شکار ہو تا رہا کہ اس نے دوسرے معتقدات کی تحقیر میں نئے اور عجمی افکار و نظریات کے ساتھ علاقہ پیدا کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف کوئی توجہ نہ دی.لیکن موجودہ زمانے میں اب مسلمانوں کے اندر ایسے آثار ظاہر ہوئے ہیں کہ جن سے ایک رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ رجحان یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی اب نمیسائیوں کی تبلیغی تنظیم اور ان کے فنکارانہ اسلوب میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے...حتی کہ قاہرہ کی الانی ورسٹی بھی جسے اسلام کے ایک علمی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور جو مغربی اثرات کا شدت سے مقابلہ کرتی رہی ہے.اب ہر سال بعض طلبہ کو اس غرض سے تیار کرتی ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کر سکیں.مزید برآں اسلام کے بعض دوسرے فرقوں میں بھی زندگی اور قوت کے آثار روز بروز نمایاں ہو رہے ہیں.ان میں سب سے زیادہ پیش پیش ایک نیا فرقہ ہے جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے.اس کا صدر مقام پاکستان میں ہے اور یورپ، افریقہ امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک میں اس کے باقاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں...احمدیت کی تحریک گذشتہ نصف صدی کے اندر اندر ہندوستان میں معرض وجود میں آئی.بعض دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح اس کی ابتداء بھی غیر

Page 35

تاریخ احمدیت جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف معمولی حالات میں ہوئی.۱۸۹۰ء میں (حضرت) مرزا غلام احمد نامی ایک مصلح نے پنجاب میں قادیان کے مقام پر صاحب الہام ہونے کا دعویٰ کیا.اور کہا کہ خدا تعالٰی نے نئے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نئے نئے معارف ان پر کھولے ہیں.انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ ان کی بعثت کی خیربائیل اور قرآن دونوں میں موجود ہے.انہوں نے مسیح اور مہدی ہونے کا بھی اعلان کیا اور اس کے ثبوت میں اس امر کو خاص طور پر دنیا کے سامنے رکھا کہ خودان میں اور مسیح میں خوبو اور اوصاف کے لحاظ سے مماثلت پائی جاتی ہے.گو بعد میں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ بلحاظ مرتبہ صبیح سے افضل ہیں.ان کی تعلیم نرمی اور آزاد خیالی پر مبنی تھی.انہوں نے تعلیم دی کہ اسلام جہاد کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنی باطنی خوبیوں کے ذریعہ دنیا میں پھیلے گا اور تلوار نہیں بلکہ خالصتا تبلیغی جد و جہد اس کی اشاعت کا ذریعہ بنے گی".۱۹۰۸ء میں مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد ان کے ماننے والے دو گروہوں میں بٹ گئے.ان میں سے اصل گروہ جو ابتداء - معرض وجود میں آیا تھا قادیانی کہلاتا ہے اور ان کے دعوئی ماموریت پر ایمان رکھتا ہے.علیحدہ ہونے والے گروہ نے جو اس خیال کا حامی نہیں تھا لاہور میں اشاعت اسلام کے نام سے ایک انجمن قائم کرلی ہے.آج کل دونوں جماعتیں دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہیں.قادیانی جماعت کا جس نے افریقہ کو خاص طور پر اپنی توجہ اور جدوجہد کا مرکز بنا رکھا ہے دعوئی ہے کہ وہ اب تک وہاں ساٹھ ہزار بتی باشندوں کو اسلام میں داخل کر چکی ہے.دنیا میں جہاں کہیں بھی رنگ اور نسل کے بارے میں سفید نام اقوام کے تعصبات انسانی برادری سے متعلق مسیح کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اس کی تردید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہاں اب (عیسائیت کی جگہ اسلام پھیل رہا ہے.دین عیسوی اور دین موسوی کی طرح اسلام کا آغاز بھی بحیرہ روم کے جنوب مشرقی کونے میں سامی النسل لوگوں کے درمیان ہی ہو ا تھا.چنانچہ یورو علم کی قدیم پہاڑی جو ساتویں صدی عیسوی کے زمانہ سے مسلمانوں کے لئے ایک متبرک عبادت گاہ کا درجہ رکھتی ہے عیسائیت کے نمودار ہونے سے قبل یہودیوں کے لئے بھی اسی طرح متبرک تھی اور وہ وہاں اپنے جانوروں کی قربانی دیتے تھے.اگر چہ مسلمانوں نے خود اس غرض کے لئے اس جگہ کو کبھی استعمال نہیں کیا لیکن آج دنیا میں مسلمانوں کی آبادی مختلف رنگ اور نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے اور اس کی ایک بھاری اکثریت سامی نسل کے علاوہ کلیتہ دوسرے نسلی گروہوں سے تعلق رکھتی ہے.ان میں سے تین چوتھائی کے قریب ایشیا میں آباد ہے اور باقی کا اکثر حصہ افریقہ میں پھیلا ہوا ہے.جہاں لاکھوں لاکھ حبشی باشندے جن کی تعداد وہاں

Page 36

تاریخ احمدیت جلد JA سلسلہ احمدیہ کا تعارف کی اصل آبادی کے پانچویں حصہ کے برابر ہوگی اسلام قبول کر چکے ہیں.بعض علاقوں میں جہاں آج کل عیسائی مشنری اور مسلمان مبلغ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک شخص کے مقابلے میں دس عبشی اسلام قبول کرتے ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر جیشیوں کا مذہب قرار دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت وہاں صرف سفید فام لوگوں کا مذہب بن کر رہ گئی ہے ".امریکہ میں احمد یہ مشن قائم ہوئے صرف پینتیس سال ہوئے ہیں مگر اس مختصر سی مدت میں امریکہ خدا تعالٰی نے اسلام کو جو غیر معمولی قبولیت بخشی ہے اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ملک کے اداروں یونیورسٹیوں ، کالجوں اور لائبریریوں میں اسلام کے عام چرچے ہیں.بلکہ اب تو حکومت کی طرف سے پچھلے دنوں ملک میں باقاعدہ ایک اسلامی مرکز بھی تعمیر کیا گیا ہے.یہ انقلاب عظیم اس لحاظ سے خدائی معجزہ کہلانے کا مستحق ہے کہ ۱۹۲۰ء میں اسلام کے پہلے امریکی مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحب میں اللہ کے داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی.جس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اسلام امریکہ میں ضرور داخل ہو گا کیونکہ امریکی حکومت خدائی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی.امریکہ میں احمدیت کے ذریعہ سے اسلام کے اثر و نفوذ کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے مشہور ترجمان پند ما " نے جنوری ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں یہ انکشاف کیا کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ایک ہزار امریکن حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں.یورپ میں احمدیت کے جانباز مجاہد کس بے جگری سے اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں اس کا یورپ کسی قدر اندازه ذیل کے اقتباس سے بخوبی لگ سکتا ہے.اخبار نیروبی ۵- جولائی ۱۹۴۸ ء ر قم طراز ہے: ”جہاں تک مہشرین کی آمدروفت کا تعلق ہے امام جماعت احمدیہ کے مبلغین نے ہوا کا رخ بالکل پھیر کر رکھ دیا ہے.پہلے عیسائی مشنری مغرب سے مشرق کی طرف آتے تھے اب مبلغین اسلام مشرق سے مغرب کی طرف جا رہے ہیں.اسلام کے یہ منادی آج کل یورپ میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے وسیع انتظامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمہ تن مصروف ہیں".مصر کا اخبار الفتح ( جمادی الاولی ۱۳۵۱ھ) لکھتا ہے: احمدیت ایک عظیم الشان تحریک ہے جس کے ممبروں نے اکناف عالم میں زر کثیر خرچ کر کے اپنی

Page 37

تاریخ احمدیت جلدا 19 سلسلہ احمدیہ کا تعارف دعوت کو مختلف زبانوں میں پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ آج ان کے مشن ایشیاء امریکہ و افریقہ میں قائم ہو چکے ہیں.اور چونکہ ان کے پاس حقائق اسلام اور اس کے احکام کا ایک پیش بماذخیرہ موجود ہے اس لئے تاثیر اور فلاح کے لحاظ سے نصاری کی ترقی ان کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی.جو شخص ان کے جلیل القدر کارناموں کو دیکھے گا وہ حیرت زدہ رہ جائے گا.کہ کس طرح اس چھوٹے سے فرقے نے وہ کام کر دکھایا ہے جس کو کروڑوں مسلمان کرنے پر قادر نہیں ہو سکے.(ترجمه) " بر صغیر ہند و پاکستان کے ایک مسلم لیڈر جناب محی الدین غازی لکھتے ہیں: یورپ و امریکہ کی مذہب سے بیزار اور اسلام کی حریف دنیا میں علم تبلیغ بلند کرنے کی کسی عالم دین یا کسی علمی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی.اگر علم تبلیغ ہاتھ میں لے کر اٹھا تو وہ یہی...قادیانی فرقہ تھا کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے بھی تو یہی رند قدح خوار ہوئے اس جماعت نے تبلیغی مقاصد کے لئے پہلے اس سنگلاخ زمین کو چنا اور یورپ و امریکہ کا رخ کیا اور ان کے سامنے اسلام کو اصلی و سادہ صورت میں اور اس کے اصولوں کو ایسی قابل قبول شکل میں پیش کیا کہ ان ممالک کے ہزار ہا افراد و خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللہ افوا جا کا سماں آنکھوں میں پھر گیا".افریقہ امریکہ اور یورپ میں تبلیغ اسلام کی یہ مم جتنی قوت سے جاری ہے.اتنی قوت سے ایشیا کے تمام ممالک میں بھی جاری ہے.اور ہر جگہ احمدیت اپنے حقیقی نصب العین کی طرف برق رفتاری سے بڑھتی جارہی ہے اور لادینیت پسپا ہوتی جارہی ہے.اس ضمن میں پاکستان کے ایک نامور ادیب شیخ محمد اکرام صاحب کے تاثرات قابل مطالعہ ہیں.آپ لکھتے ہیں: احمدی جماعت کے فروغ کی ایک وجہ ان کی تبلیغی کوششیں ہیں.مرزا صاحب اور ان کے معتقدوں کا عقیدہ ہے کہ اب جہاد بالسیف کا زمانہ نہیں.جہاد بالقلم کا زمانہ ہے ان کے عقیدہ سے عام مسلمانوں کو اختلاف ہے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ جہاد بالسیف کی اہلیت نہ احمدیوں میں ہے اور نہ عام مسلمانوں میں.طاقت جلوه سینا نه تو داری و نه من عام مسلمان نہ تو جہاد بالسیف کے عقیدہ کا خیالی دم بھر کے نہ عملی جہاد کرتے ہیں نہ تبلیغی جہاد.لیکن احمدی...دوسرے جہاد یعنی تبلیغ کو فریضہ نہ ہی سمجھتے ہیں.انہیں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے ".

Page 38

تاریخ احمدیت جلدا سلسلہ احمدیہ کا تعارف تحریک احمدیت کی ان زیر دست کوششوں کا نتیجہ ہے کہ وہ مسلمان جو اٹھارہویں صدی میں اپنی موت پر دستخط کئے ہوئے تھے خدا کے فضل سے اپنے اندر زندگی کی ایک برقی ار محسوس کرتے ہوئے اعلان عام کر رہے ہیں کہ یہ بیسویں صدی ہر جگہ مسلمانوں کے لئے نشاۃ ثانیہ کہئے یا بیداری کا آغاز ہے؟

Page 39

تاریخ احمدیت جلدا M سلسلہ احمدیہ کا تعارف حواشی اشتهار تحمیل تبليخ 1 جمادی الاول ۰۷ سه مطابق ۳- جنوری ۱۸۸۹ء) - یاد ر ہے ہیں اسلام ازم کی تحریک کا نظریہ امید جمال الدین افغانی نے اپنی زندگی کے آخری پانچ چھ سالوں میں پیش کیا تھا اور ان کی وفات ۱۸۹۷ ء میں ہوئی تھی " (مقام جمال الدین افغانی شائع کردہ نفیس اکیڈیمی کراچی نمبر اطبع دوم صفحه ۲۸۴۷۴۹) ۳ در مشور عن الحکیم الترنزی (کتاب السیر شرح جامع الصغیر مصری جلد اول صفحہ اور الشیخ الامام الكامل عبد الروقي المنادی رحمتہ اللہ علیه) اخبار کو ہستان لاہور ۳۰ ستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ڈاکٹر اقبال کی شنوی پس چہ بہانہ کرد" کی شرح مولفہ پر وفیسر یوسف سلیم صاحب پشتی کو الہ رسالہ خدام الدین ہے.جوری ۱۹۵۸ء صفحه ۱۸) بحوالہ "رسالہ نگار " (بھارت) جنوری فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۷۲ د صفحہ ۲۰ The New world of Islam p:25-26 (New York Charles Ceribner Son 1921) - sup میں تھرڈ مکلون بانٹ (Wilfred Seaven Blunt) نے بھی کتاب The Future of Talam کے آخر میں مسلمانان عالم کے زوال کا ذکر کیا ہے.بحوالہ " مجموعه مکاتیب اقبال " صفحه ۴۶۳٬۴۶۲ مرتبہ شیخ عطا اللہ ایم.اے شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور) آثار قیامت صفحه ۱۲ مولفه سید محمد عباس قمر زیدی الواسطی شائع کرده زیدی برادرس عید گاہ روڈ کراچی طبع اول اگست (۱۹۵۳ قادیانیت صفحہ ے اور مولانا سید ابو الحسن علی ندوی) مکتبہ دینیات ۱۳۴ شله عالم مارکیٹ لاہور طبع اول ۱۹۵۹ء قادیانیت صفحه ۲۱۹ بر این احمدیہ حصہ پنجم (مطبوعہ ۱۹۰۸ ) و پیغام صلح ( مطبوع ۱۹۰۸ء) کیا و مجموعه مکاتیب اقبال " حصہ دوم صفحه ۲۳۱ ۱۵ مقالات جمال الدین افغانی " ( صفحه ۲۱۰ تا ۲۱۵) شائع کردہ نفیس اکیڈیمی.بلاس اسٹریٹ کراچی طبع دوم جون ۱۹۵۲ء مترجم سید مبارزالدین رفعت ایم اے.تعارف صفحہ اے نے شائع کردہ حاجی کریم بخش شاہ ولی تاجران کتب انار کلی لاہور.چشمه هدایت صفحه ۴۴۴۳ ناشر جماعت احمد یه حلقه دیلی دروازہ لاہور ( تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۵۷ء) " الاشتهار مستيقنا بر حى الله القهار ۱۳۰ جنوری ۱۸۹۷ء صفحه ۲- و تذکره طبع اول صفحہ ۱۳۸۶ مجموعه الهامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام) - تذكرة الشهادتین صفحه ۱۵۷۳ طبع اول اکتوبر ۱۹۰۳ ء ۲۰ رسالہ اشاعت اللہ جلده صفحه ۲۲۸ تذکره طبع دوم صفحه ۱۹ مجموعه الهامات و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام) ۲۲ اخبار آزاد لاہور ۲۴ نومبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۲ کالم ۲۶ ۲۳ خطبه حضرت امام جماعت احمدیہ فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۳۶ء صفحه ۳ بحواله الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۳ ۲۲ خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۳۶ء صفحه ۴۰۳

Page 40

۲۲ سلسلہ احمدیہ کا تعارف تاریخ احمدیت جلدا ۲۵ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صفحہ ۳۷۷۳۷ شائع کرده بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان طبع اول ۲۶- احکم ۱۷ جون ۱۹۰۱۷ ء صفحہ ۲ The official report of the conference of the anglicon communion ۲۸ اخبار وکیل مئی ۱۹۰۸ء 1894 page 64 ۲۹- بدر ۳ مارچ ۱۹۱۳) ( کواله " تاثرات قادیان" طبع اول صفحه ۱۳۴۰ مرتبہ جناب ملک فضل حسین صاحب مطبوعہ پر تنگ پریس لاہور و سمبر (۱۹۳۸) ۳۰.رسالہ مسلم ورلی (ترجمہ) ام اخبار ویسٹ افریقین فروری ۱۹۴۷ء Methodist Book Depot-Capcoast St - Christ or Muhammed -*T The Comfield Press St.Albans Great Britain : مطبوعہ ۱۹۵۳ء پولیس : ۳۳ جماعت احمدیہ میں اختلاف کا آغاز ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اصحیح اول مولانا نور الدین برنیہ کی وفات کے بعد ہوا تھا جبکہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ان کے رفقاء نے مرکز و خلافت سے علیحدگی اختیار کر کے لاہور میں ایک نئی انجمن کی بنیاد ڈالی.(مرتب) ۳۴.حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا لاہوری فریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امور تو تسلیم کرتا ہے مگر آپ کے دعوی نبوت کا قائل نہیں.-۳۵ رساله لا تف ۸- اگست ۶۱۹۵۵ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحه ۱۲ (ترجمه) ۳۷ پژاما (جنوری ۶۵۲) جلد ۳ نمبر (۲۰) کی اس خبر کا متن یہ تھا : "About 12,000 Muslims live in the United States, Including 1,200 Pakistanis 10,000 from other Eastern countries, and 1,000 American Converts to Islam by Ahmdia* - بحواله الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۳۲ء تاثرات مرتبہ اے آرا نجم جرنلسٹ) مطبوعہ حیدر آباد سندھ - ۱۲- اگست ۱۹۵۳ ۶ صفحه ۱۷-۱۸ ۲۰ موج کوثر " مرتبہ شیخ محمد اکرام بی اے صفحہ ۱۹۴۴۱۹۳ ناشر فیروز سنز لاہور طبع دوم ۶۱۹۵۸ ام ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم (۱۸۹۵ - ۱۹۵۹ء) ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ (پاکستان) کا ایک بیان مطبوعہ رسالہ " استقلال لاہور ۱ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۱۰

Page 41

تاریخ احمدیت جلدا ۲۳ خاندانی حالات باب دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندانی حالات بانی سلسلہ احمدیہ جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مهدی مسعود علیہ الصلوة والسلام مشہور ایرانی قوم بر لاس کے درخشندہ گوہر تھے اور آپ کا خاندان ایک شاہی خاندان تھا.جس کے فارسی قالب کو دست قدرت کی طرف سے اپنی نہاں در نہاں مصلحتوں سے ترکی چینی اور فاطمی خون کا لطیف امتزاج بخشا گیا تھا.حضرت کا خاندان کو مغلیہ خاندان کہلاتا ہے مگر آپ پر الہامامیہ انکشاف کیا گیا کہ آپ دراصل فارسی النسل ہیں اور حدیث نبوی " لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجل او رجال من هولاء " کے مصداق یہ عجیب تصرف الہی ہے کہ اگر چہ حضور کی زندگی میں اس دعوئی کا کوئی تاریخی ثبوت مہیا نہیں ہو سکا.مگر آپ کے انتقال پر ربع صدی گزرنے کے بعد متعدد ایسے انکشافات ہوئے کہ آپ کا فارسی الاصل ہونا تاریخ کی روشنی میں بھی بالکل نمایاں ہو گیا.اس تحقیق میں گو ابھی مزید تحقیق و تفتیش کی کافی گنجائش ہے لیکن بہر حال موجودہ صورت میں بھی اصولی طور پر پانچ نقطہ ہائے نگاہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فارسی النسل ہو نا بالبداہت ثابت ہے.اول : کتاب " پنجاب کا رواج زمینداره " (مطبوعہ ۱۸۳۹ء) میں لکھا ہے کہ ” قادیان کا مغل برلاس خاندان زمیندارہ رواج کا نہیں بلکہ اسلامی شریعت کا پابند ہے ".اسی طرح بند و بست مال ۱۸۷۵ء کے کاغذات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا جو شجرہ نسب منسلک ہے اس میں (حضرت) مرزا غلام مرتضی و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین کے دستخطوں سے یہ نوٹ درج ہے کہ : عرصہ چورہ پشت کا گذرا کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت برلاس مورث اعلیٰ مالکان دیسه...

Page 42

تاریخ احمدیت جلدا خاندانی حالات یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان پر لاس کی نسل سے ہے.اور بر لاس قوم کے متعلق ہیرلڈلیم (HaroldLamb) ایسے مغربی محقق کی رائے یہ ہے کہ وہ ایشیا کے سطح مرتفع کی ایک قوم تھی جسے گذشتہ زمانے میں تمھین کہتے تھے اور بعض ترک بھی بولتے تھے.مغلوں کے ساتھ وہ شمالی میدانوں سے آئے تھے اور اس زرخیر پہاڑی ملک میں آباد ہو گئے".اور انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھا ہے.تمام میتھین قوم ایرانی الاصل تھی."The Entire Community Being of Iranian Originy” پس جب ممین لوگ ایرانی تھے تو ہر لاس قوم کا ایرانی ہونا بھی خود بخود ثابت ہو گیا.بر لاس قوم کے ایرانی ہونے کا علم الالسنہ کی رو سے ایک بھاری ثبوت یہ ملا ہے کہ جہاں قدیم منگولی اور ترکی لغات میں بر لاس کا لفظ قریباً نا پید ہے وہاں فارسی لغات میں یہ لفظ بکثرت موجود ہے بلکہ عجیب تر بات یہ ہے کہ فارسی لغات نویسوں نے برلاس کے وہی معنی بتائے ہیں جن پر "فارس" کا عربی لفظ التزامی رنگ میں مستعمل ہے یعنی شجاع بالنسب.اس ضمن میں چند فارسی لغات نویسوں کے نام یہ ہیں.آئی آئی پی ڈ مینز (II.Desmaisons) ایف ٹین گاس (F.Stein gas) شیخ ابو الفضل وغیرہ.روم دو سرا نقطہ نگاہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مرد فارس ہوناپایہ ثبوت تک پہنچتا ہے یہ ہے کہ ہیرالڈلیم (Harold Lab) اے ویمبرے (A.Vambery) ایچ جی ریورٹی (H.G.Raverty) اور سرپرسی سائیکس (Sir Perey Sykes) اور دوسرے مغربی مورخین نے تسلیم کیا ہے کہ امیر تیمور برلاس قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا باپ اس قبیلے کار کیس تھا.اسی طرح ترک تیموری" (Memoris of Tamur میں تیمور کے باپ کی یہ دعا بھی لکھی ہے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عطا کر جو قبیلہ بر لاس کی عزت و شہرت کو دوبالا کرنے والا ہو".یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ صاحبقران تیمور بر لاس خاندان ہی کا ایک فرد تھا بلکہ جیسا کہ اس کے شجرہ نسب سے ثابت ہے وہ امیروم جی بر لاس کی چھٹی پشت میں تھا اور حاجی برلاس مورث اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حقیقی بھتیجا تھا، اب تیمور کے خاندانی کوائف پر بار یک نگاہ ڈالی جائے تو دہ سلا خالص ایرانی معلوم ہوتا ہے.یہ صحیح ہے کہ تیمور کے بعض سوانح نگاروں نے مغل " لفظ کونا واجب وسعت دیتے ہوئے اسے رشتہ کے اعتبار سے چنگیز خاں سے ملا دیا ہے.لیکن بالا خر خود مورخین

Page 43

تاریخ احمدیت جلدا ۲۵ خاندانی حالات ہی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہ صریحاً جھوٹ بلکہ مفروضہ داستان ہے جو مدت ہوئی باطل قرار دی جاچکی ہے.بلکہ انہیں یہ بھی مسلم ہے کہ چودھویں صدی میں تیمور کی فتوحات کے بعد اس کے خوشامدیوں نے تیموری شجرہ نسب کو چنگیز خاں سے منسلک کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی.ابن الیاس نے تاریخ رشیدی کے ترجمے کی تمہید میں لکھا ہے ”لفظ مغل" کے معنی غلط سمجھے گئے ہیں اور بعض وقتوں میں اس قدر وسیع کرلئے گئے ہیں کہ بہت سی قومیں جو دراصل ترکی النسل ہیں مغل ہی سمجھ لی گئی ہیں.یہاں تک کہ بہت سے لوگ جو دراصل مغل نہیں تھے وہ بھی مغل ہی مشہور ہو گئے.پہلے پہل چنگیز خاں اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں اس کا رواج نظر آتا ہے.بعد ازاں ہندوستان میں چغتائیوں کے عروج کے زمانے میں جو عام طور پر مغل کہلاتے ہیں - تیمور کے مغل خاندان سے نہ ہونے کی ایک زبردست شہادت یہ بھی ہے کہ تیمور نے جب مختلف قبائل کو تمنے دینے چاہے اور ان کے نام لئے تو یہ لاس کو مغل قبیلے سے الگ بیان کیا ہے.نہیں نہیں تاریخ سے اس کا مغلوں کے خلاف یورش کرنا بھی ثابت ہے چنانچہ " تاریخ اقوام عالم " میں لکھا ہے." تیمور..برلاس خاندان کا سردار تھا.تیمور نے گھڑ سوار ترکوں کا ایک لشکر جرار منظم کیا اور ترکستان کے چغتائی مغلوں کو اپنا مطیع بنانے کے بعد اس نے دشت قیچاق پر چڑھائی کی جس کے شمالی اضلاع میں اردوئے زریں والے مغل خان حکومت کر رہے تھے.مغلوں کا اردوئے زریں شمال کی طرف پسپا ہو گیا.تیمور نے ان کا تعاقب کیا.ان کے مرکز سرائے کو تاراج کیا اور دریائے والگا کے بالائی حصوں میں پہنچ کر انہیں شکست دی.تیموری لشکر روس کی سرزمین کو پامال کرتا ہوا ماسکو کے قریب سے گذرا.تیمور نے اس شہر سے تعرض نہ کیا کیونکہ وہ چنگیز خانی مغلوں کی طرح شہروں کو بلا وجہ تاراج کرنے کے حق میں نہ تھا".بهر حال تیمور کو چنگیزی نسل سے قطعا کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ اس بارے میں محققین کی چند آراء یہ ہیں: et - (1) سکرائن (Skrine) اور "راس" (Ross) لکھتے ہیں." تیمور کے پہلے مورخین اس کا شجرہ نسب چنگیز خاں کے ساتھ ملانے پر خاص خوشی کا اظہار کرتے تھے لیکن یہ محض ایک فسانہ ہے جس کا بھانڈا مدت سے چوراہے میں پھوٹ چکا ہے." 1 (۲) میلکم کا کہنا ہے کہ " تیمور کے خوشامدی مورخوں نے اس کا نسب مغل بادشاہ کے ساتھ ملا دیا ہے.تیمور کو چنگیزی نسل سے منسلک کرنے والوں کے برعکس ایک گروہ لی آن کیم

Page 44

تاریخ احمدیت جلد ۲۶ خاندانی حالات Lean Cam) اور اے میرے (A.Vambery) سرڈی راس (Sir D.Ross) بلکہ سکرائن بھی شامل ہیں جو تیمور کو ترک قرار دینے پر مصر ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ بھی پہلے اسی قسم کی غلطی کا شکار ہوا ہے جس کا ارتکاب پہلا گروہ کر چکا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق نے " مغل" کے دائرہ میں کھینچ تان کی ہے اور دوسرے نے " ترک" میں.جس کا لازمی اور طبعی نتیجہ یہ یر آمد ہوا کہ تیمور کی شخصیت ہی نہیں خود بر لاس نسل کی بیت و صورت ہی "مغل" اور "ترک " پردوں میں پوشیدہ ہو گئی ہے.بایں ہمہ یہ حقائق چھپائے چھپ نہیں سکتے.کہ تیمور کے سکوں ہتھیاروں اور مہروں کے نشان اور تیمور کے شاہی محل کی طرز میں قدیم ایرانی روایات بالکل نمایاں تھیں.کلاویکو (Clavijo) جو تیمور کے دربار میں ہنری سوم (Henry III) کی طرف سے بطور سفیر بھیجا گیا تھا تیمور کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے.وہ ہتھیار جو امیر تیمور بیگ لگاتا ہے وہ تین دائروں میں ہیں.انگریزی حرف اور ہ کی طرح اور ان کی شکل اس طرح کی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ دنیا کی تین اطراف کا مالک ہے.تیمور کا حکم تھا کہ یہ نشان سکوں پر بھی لگایا جاوے اور ہر ایک چیز پر جو اس کے پاس تھی.امیر نے اپنی مہروں پر بھی یہ نشان لگانے کا حکم دے رکھا ہے اور اس کا یہ بھی حکم ہے کہ تمام وہ لوگ جو سلطنت تیموریہ کے باجگزار ہیں اپنے اپنے ملک کے سکوں پر یہ نشان لگارہیں.وہیرے (Vambery) اس مخصوص نشان کو قدیم ایرانی نشان تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے: " و تیمور کے اپنے ہتھیار تین حلقوں میں تھے جن پر راستی کا مائو تھا...یعنی انصاف ہی طاقت ہے.یہ نشان اس کی طاقت کے اظہار کے لئے تھا جو شمال، جنوب اور مغرب تین دائروں پر مشتمل تھے.مگر گمان غالب یہی ہے کہ وہ قدیم ایران کے ہتھیاروں کے نشانات سے مستعار لئے گئے ہیں کیونکہ حلقے جو طاقت اور اتحاد کا نشان سمجھے گئے ہیں وہ ساسانی بادشاہوں کے مقبروں پر بھی دیکھے جاتے ہیں.دیمبرے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ : محل دس سال سے ایرانی معماروں کے ہاتھ سے تیار ہو رہا تھا.انہوں نے اپنی قومی طرز عمارت کو یہاں تک ملحوظ رکھا کہ سورج اور شیر ببر کے بازو عمارت کی پیشانی پر ڈال دیئے اور اس طرح تو رانی فاتح کے محل پر شاہاں ایران کے نشان بنادیئے ".تیمور کا قدیم ایران کے نشان کو (جو کوئی وجہ نہیں کہ قومی نشان نہ ہو) یوں سختی سے قائم کرنا اور اپنی باجگزار ریاستوں تک کو اس کی پابندی کا حکم دیتا اس کے فارسی النسل ہونے کا واضح ثبوت ہے اور پھر تورانی فاتح کے محل پر شاہان ایران کا شاہی نشان تو صاف واضح کر رہا ہے کہ تیمور اور اس کا قبیلہ

Page 45

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۷ خاندانی حالات بر لاس ایرانی عظمتوں کی یاد گار تھے اور وہ جہاں جہاں گئے مقبروں سے محلات تک ایرانی نشان کے قیام و احیاء کی تڑپ لے کر گئے.ورنہ اگر یہ ایرانی خون کے کرشمے نہیں تھے تو تیمور کی قومی حمیت و غیرت نے کیسے گوارا کر لیا کہ وہ ایک مفتوح قوم کے مٹے ہوئے نقوش کو از سر نو اجاگر کرنے کی منظم تحریک اٹھائے اور ایرانی نشان جو فقط ساسانی مقابر کی زینت بن کر رہ گیا تھا ایک زندہ اور قومی نشان کی شکل میں اس کے پورے نظام ریاست پر امرا جائے.پس تیمور نہ صرف خالص ایرانی النسل انسان ثابت ہوتا ہے بلکہ اپنی قومی شرکت در فعت کا بہت بڑا دلدادہ بھی.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بر لاس قوم کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فارسی النسل ہونا قطعی اور یقینی امر ہے.سوم مورخین بالاتفاق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چھٹی صدی ہجری میں برلاس قبیلہ سمرقند اور کش کے علاقہ میں آباد تھا.چنانچہ ترک تیموری (Memoirs of Tamur) میں لکھا ہے کہ قراچار نے جو اپنی قوم میں پہلا فرد تھا جس نے اسلام قبول کیا) کش کے میدانوں کو اپنے قبیلہ بر لاس کے لئے مقرر کر دیا تھا.دیمبرے لکھتا ہے کہ برلاس قبیلے کے لوگوں نے کش اور نخشب میں اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کرلی تھی.اور مار ثم صاف کہتا ہے کہ تیمور کے جد امجد قراچار نے قبیلہ بر لاس کو سمرقند کے قریب کش کے ارد گرد حکومت دے دی تھی.تاریخ رشیدی کے ترجمہ انگریزی میں ہے کہ علاقہ کش اپنے ماتحت علاقوں سمیت امیر قراچار کے ماتحت تھا (یہ ظفر نامہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے) غرض که تاریخ سے ثابت ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں کشی اور سمرقند کے علاقوں میں بر لاس قوم آباد TA یہ کشی اور سمرقند کا علاقہ قدیم زمانے سے ایرانی نسل کی آماجگاہ تھا.پرانے زمانے میں سوند یا نہ یا سعد (Sadiana) کہلاتا تھا.قدیم ایرانی سلطنت اشامی نیٹن کا ایک صوبہ تھا جس کی بنیاد ایک معزز ایرانی سردار اشامینی نے ڈالی تھی.اور سائرس اور دارا اسی سے تعلق رکھتے تھے.سمرقند اس صوبے کا دار الخلافہ تھا.اور سمرقند کے متعلق ای شولر E.Schuler اپنی کتاب ترکستان میں لکھتا ہے کہ مقامی روایت کے مطابق اس کی بنیاد افراسیاب نے رکھی.اصلی نام سمرقند ایرانی معلوم ہوتا ہے اور یہ کہ اس کی تمام بڑی بڑی عمارتیں ایرانی معماروں یا ان کے شاگردوں کی بنائی ہوئی ہیں.(کیونکہ کتوں سے یہی ظاہر ہے ) یہی نہیں خود سندی قوم کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ یہ لوگ ایک ایرانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ امر بھی پایہ ثبوت تک پہنچ چکا ہے کہ قدیم اصطلاح کے مطابق ماوراء النہر کے آگے بھی ایرانی بستیاں آباد تھیں.چنانچہ تاریخ کی اس قطعی

Page 46

تاریخ احمدیت جلدا VA خاندانی حالات شہادت کی تائید میں چند محققوں کی آراء یہ ہیں: کمیرہ فرز کے میدان میں رہنے والی وحشی قوموں کے حملے سے بہت پیشتر ایرانی لوگ ماوراء النہر میں بود و باش رکھتے تھے.اے ویمبرے: ور او اشہر کے اکثر باشندے ایرانی تھے.اور عرب سامانی ، سلجوق اور خوارزم بادشاہوں کے زمانے میں بخارا فرغانہ اور خوارزم کی عام زبان فارسی تھی".یہ بات کہ دریائے بیجوں کے دوسری طرف کے ممالک میں قدیم زمانے میں خالص ایرانی نسل کے لوگ آباد تھے.ایرانیوں کے نہایت قدیم یادگار دندی داد سے بھی ظاہر ہوتی ہے.زیلی کا ایم.اے: " تازک جو سمرقند اور فرغنہ کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ خالص ایرانیوں کی اولاد تھے".- گب ۷۲۰ عیسوی تک عرب حملہ آوروں کا مقابلہ (ماوراء النہر کے مقامی بادشاہ ہی کرتے رہے اور ان کی فوجیں قریباً سب کی سب ایرانی سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھیں " یہ اقتباسات بتاتے ہیں کہ ماوراء النہر کے علاقوں تک ایرانی نسل پھیلی ہوئی تھی.اب ذراگری تحقیق کی جائے تو ان علاقوں سے آگے بھی ایرانی لوگ بستے نظر آتے ہیں.چنانچہ ای شولر (E.Schuyler) لکھتا ہے.ایرانی لوگ امو اور سر کے درمیانی علاقے کے رہنے والے ہی نہیں تھے جسے قدیم زمانے میں ماوراء النہر کہتے تھے.بلکہ دریائے سر پر دائیں کنارے قوقند اور کاشغر میں بھی آباد تھے.فردوسی نے اپنے شاہنامے میں پہلی دفعہ ایران اور توران کے درمیان دریائے امو کو حد فاصل قرار دیا ہے.لیکن پروفیسر گری گوریف نے صاف لکھا ہے کہ یہ اصطلاحیں جغرافیائی معنوں میں استعمال کی گئی ہیں نہ کہ علم الانساب کی رو سے.اور ایران اور توران کے درمیان جو جنگ تھی وہ دو مختلف قوموں کے درمیان نہ تھی بلکہ ایک ہی نسل کے دو قبائل کے درمیان تھی.بعد کے زمانے میں تو ر ان کے معنی ترک کے ہو گئے اور یہ لفظ تمام ترکی نسل کے لوگوں کے لئے عام طور پر بولا جانے لگا بلکہ ہر ایک قوم کے لئے اور اس چیز کے لئے جس کی اصل زبان دانوں اور علم الانساب کے ماہروں کو معلوم نہ ہو سکتی تھی.پروفیسر ایچ اے آر کب نے بھی اسی نظریے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "دریائے بیجوں روایتی سرحد ہے تاریخی نہیں...ساسانیوں کے زمانے سے جس کا مورخین نے

Page 47

تاریخ احمدیت جلدا ۲۹ خاندانی حالات ذکر کیا ہے اور فروری کی نظم شاہنامے کی رو سے دریائے جیحوں ایران اور توران کے درمیان سرحد قرار پائی.مگر فتوحات کے زمانوں میں سفر اور دریائے بیجوں کی دادی کے رہنے والوں نے ایرانی زبان اور ایرانی اداروں کو قائم رکھا اور وہ حقیقت میں ایرانی ہی رہے " ایرانی نسل مادر او النہر کے علاوہ موجودہ ترکستان میں بھی آباد تھی چنانچہ M.A.Czapleka لکھتی ہے.اگر چہ ہم پہلی صدی عیسوی میں بھی جنوبی روس میں ترکوں کا نام سنتے ہیں مگر وہ صرف چوتھی صدی میں ترکستان میں آباد ہوئے تھے اور اس لئے یہ ملک اس نام سے مشہور ہوا ہے حالانکہ اس سے پہلے اس کا نام ایران تھا اور اسے ایرکستان بھی کہتے تھے یعنی ایرانیوں کا ملک اور مغرب میں اس کی حد موجودہ ایران تک پھیلی ہوئی تھی".ان تفصیلات سے واضح ہے کہ ایرانی نسل ماوراء النہر کے علاقے ہی میں نہیں ترکستان تک بھی پہنچ گئی تھی بلکہ ابتداء میں ترکستان ایران ہی کا ایک حصہ تھا اور سمرقند اور بخار اتو بالخصوص بر لاس قوم کا مسکن تھے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اب وجد سمر قندی بخارا کے رہنے والے تھے تو حضور کا فارسی النسل ہونا مسلمہ حقیقت بن جاتی ہے.اس بارے میں تاریخی حقائق ایک کھلے ورق کی حیثیت میں بتا رہے ہیں کہ حضور کے مورث اعلیٰ سمرقند سے ہندوستان میں ہجرت کر کے فروکش ہوئے تھے.چنانچہ " تذکرہ رؤساء پنجاب میں (جسے سر لیبل گریفین نے تالیف کرنا شروع کیا اور مسٹر میں اور مسٹر کریک نے پایہ تکمیل تک پہنچایا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے خاندان کے متعلق ایک نوٹ لکھا ہے: در شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل بادی بیگ باشندہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودوباش اختیار کی.اس کے علاوہ بعض غیر از جماعت اور غیر مسلم سوانح نگاروں نے حضور کے مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ کا سمرقند سے ضلع گورداسپور میں فروکش ہونا تسلیم کیا ہے.مثلاً پادری ایچ ڈی گرس دولڈ فورمین کر چچن کالج لاہو ر لکھتے ہیں: " مرزا صاحب مغلوں کی نسل سے ہیں.آپ کے بزرگ علاقہ سمرقند ملک ترکستان سے بابر بادشاہ کے عہد میں پنجاب میں آئے تھے ".چهارم ظفر نامه مولانا شرف الدین یزدی انساب الترک ابو الغازی خاں - الانساب مغل روخته الضبط - حبیب السیر اکبر نامه منتخب اللباب ، خامی خان وغیرہ تواریخ میں بالاتفاق یہ تسلیم کیا گیا

Page 48

تاریخ احمدیت.جلدا خاندانی حالات ہے کہ صاحبقران تیمور کا شجرہ نسب حضرت نوح کے فرزند حضرت یافث سے ملتا ہے.اور حضرت یافث کے متعلق مشہور فارسی لغات غیاث اللغات " میں لکھا ہے کہ شیخ ابن حجر شارح صحیح بخاری گفته است که فارسی منسوب بفارس بن غمامور ابن یافث بن نوح علیہ السلام" یعنی صحیح بخاری کے شارح حضرت شیخ ابن حجر فرماتے ہیں کہ فارس حضرت نوح کے پوتے اور حضرت یافث کے بیٹے فارس کی طرف منسوب ہے.پنجم : علم الاقوام کے ماہرین (مثلای رمکس (E.Reclus جارج رالن من الم George Rawlin Son) اور اے کی ہیڈن (A,C, Haddon) وغیرہ نے مصری ، کلدانی، آشوری، فینقی ایرانی یونانی اور رومی مشہور تاریخی قوموں کے قدیم حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بالاتفاق تسلیم کیا ہے کہ چوڑی پیشانی لمبی اور گھنی ڈاڑھی ، بلند ناک گول ٹھوڑی ، چہرہ بیضوی اور سنجیدہ بال گھنے اور بکثرت جلد سفید گلابی یا تانبے کے رنگ کی مانند ایرانی نسل کی امتیازی خصوصیات ہیں.دوسری طرف انہوں نے چینی، جاپانی، منگولی تبتی اور ترکستانی نسل کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا رنگ اور چھڑا زرد ، آنکھیں چھوٹی اور دھنسی ہوئی اور بال سخت ہوتے ہیں.یہ نسل ایشیا کے شمال و مشرق میں کوہ قاف سے چین و جاپان تک پھیلی ہوئی ہے.اس تحقیق کی روشنی میں جب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خاندان کی جسمانی ساخت شکل و شباہت اور چہرے مہرے کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہاں منگولی یا ترکی صفات ہرگز موجود نہیں.مگر ایرانی نسل کے تمام تر او قاف آپ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.پس جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فارسی النسل ہونا نیر النہار کی طرح ظاہر وباہر ہو جاتا ہے.چنانچہ مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں.” مولف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے ".مندرجہ بالا تحقیقات سے اس سربستہ راز پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ حضور کا خاندان ایرانی النسل ہونے کے باوجود کس طرح چینی اور ترکی خون سے مرکب ہوا.کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کے جد امجد قرا چار نے جو ایروم جی بر لاس کے پوتے تھے چغتائی خان کی لڑکی سے شادی کی تھی اور اس طرح ترکی چینی خون کی آپ کے خاندان میں آمیزش ہوئی.اس پہلو کے سمجھنے کے لئے قبیلہ بر لاس کے شجرہ نسب پر فقط ایک نگاہ ڈالنا کافی ہے.ایروم جی برلاس سوغو چیچن

Page 49

تاریخ احمدیت جلدا ۳۱ قراچار نویاں امیل خان امیرا لنگر اخاں امیر بر کل حاجی برلاس مورث اعلیٰ طراعات خاندانی حالات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امیر تیمور صاحبقران سمرقند سے پنجاب تک جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے.قراچار نے قبیلہ بر لاس کوکش کے علاقہ میں آباد کر دیا تھا.لیکن جب تیمور کا اقتدار بڑھا تو اس کے چچا حاجی برلاس کش سے بے دخل ہو کر خراسان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور یہیں فوت ہوئے.II بعد کو خود تیمور نے خراسان کی ریاست زیر نگین لانے کے بعد حاجی برلاس ہی کے خاندان کو بطور جاگیر سونپ دی اور اس طرح یہ شاہی خاندان خراسان ہی میں مقیم ہو گیا.یہاں تک کہ اس خاندان کے ایک مقتدر بزرگ مرزا ہادی بیگ نے اپنے افراد خاندان سمیت خراسان کو خیر باد کہہ دی اور اپنے آبائی وطن کش میں دوبارہ بود و باش اختیار کرلی جہاں قومی تفرقہ اور خصومت کے نتیجے میں ملک میں ایسے انقلابات ہوئے کہ آپ اس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اپنے خاندان اور توابع اور خدام کے دو سو افراد پر مشتمل ایک قافلہ لے کر کش سے پنجاب کی سرحد میں داخل ہو گئے.یہ تاریخی ہجرت ۱۵۳۰ء مطابق ۹۳۸ھ میں ہوئی جبکہ ہندوستان میں تیمور کا پوتا اور سلطنت مغلیہ کا پہلا تاجدار ظہیر الدین محمد بابر گھاگرا کی لڑائی میں آخری فتح حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا.اور بزم تصوف وارشاد میں حضرت شیخ عبد القادر ثانی رحمتہ اللہ.حضرت شیخ عبد القدوس گنگوری ، حضرت شیخ بہاؤ الدین جون پوری ، حضرت سلطان جلال الدین ، حضرت شیخ جمال قدس سرہ ، حضرت شیخ زین الدین اور حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری شکاری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ایسے اکابر صوفی اور خدارسیدہ بزرگ رونق افروز تھے.بعض مورخین نے لکھا ہے کہ : " 40 or سلطان بابر نے ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی سلطان ہند کو شکست دی اور دہلی میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی...سلطان محمد بابر کے ساتھ بھی بہت سے چغتائی سردار دارد ہند ہوئے.چنانچہ ہند میں مرزا یان چغتائیہ کی تعداد مغلان برلاس سے زیادہ ہو گئی.اور تاحال زیادہ ہے....چغتائی وہ مغل ہیں جو چنگیز کے بیٹے چغتائی خان کی اولاد سے ہیں اور ان کے اجداد امیر تیمور اور سلطان

Page 50

تاریخ احمدیت جلدا ۳۲ خاندانی حالات محمد باہر کی افواج کے ذریعہ وارد ہند ہوئے اور یہیں مقیم ہو گئے.اور بر لاس خاص شاہان مغلیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.یہ اولاد امیر تیمور گورگانی سے ہیں...اور امیر تیمور کے خروج کے بعد ان کے اجداد متن، تاشقند اور بلخ کے حاکم تھے اور اس واسطے سے یہ تیموری اور بابری لشکروں کے ساتھ دارد بند ہو کر یہاں سکونت پذیر ہو گئے".حضرت مرزا ہادی بیگ پنجاب میں ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام اور قادیان کی تاسیس نہ صرف ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے بلکہ خود باہر سے انہیں خاندانی قرابت حاصل تھی.آپ کے یہاں قدم رنجہ فرماتے ہی پنجاب کی قسمت جاگ اٹھی اور ماجھا کے علاقہ میں نہ صرف ایک نئی بستی ابھر آئی بلکہ ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام بھی معرض عمل میں آگیا.جو ۱۵۳۰ء (مطابق ۹۳۸ھ) سے ۱۸۰۲ء ( مطابق ۱۲۱۷ھ) تک کم و بیش پونے تین سو سال تک قائم رہی اور پھر سکھوں کی پر چھا گردی کا شکار ہو گئی.یہ الشان ریاست آخر میں ۸۴-۸۵ دیہات میں محدود ہو گئی.لیکن اس وقت بھی اس کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ تھی.جیسا کہ "شمشیر خالصہ " میں لکھا ہے کہ: ۱۸۶۳ء بکرمی میں اس کا چچا تارا سنگھ مرگیا تو اس کے بیٹے دیوان سنگھ نے جودھ سنگھ سے لڑ کر اپنی جائیداد علیحدہ کرلی اور تعلقہ قادیان کے ۸۴ دیہات پر جن کی آمدنی آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ تھی قابض ہو گیا " - 1 حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کے وصال کے حضرت مرزا ہادی بیگ کے وصال کے بعد بعد ان کے خاندان کی شاہانہ عظمت اور جلال و تمکنت میں اضافہ ہو تا رہا.یہاں تک کہ جب ان کی نویں پشت میں حضرت مرزا فیض محمد صاحب پیدا ہوئے تو ان کے عہد اقتدار میں قادیان کی ریاست کے مغلیہ سلطنت سے اور بھی گہرے تعلقات و روابط قائم ہو گئے.چنانچہ ۱۷۱۶ء میں محمد فرخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان کی طرف سے انہیں ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منسلک کر کے عضد الدولہ کا عظیم الشان قابل فخر اور ممتاز خطاب دیا گیا.تاریخ سے ثابت ہے کہ ہفت ہزاری منصب شاہان مغلیہ کے زمانہ میں بہت واقیع درفیع سمجھا جاتا تھا.اور ہفت ہزاری امراء میں مسلک کنے کے یہ ہی تھے کہ وہ اپنی رات میں سات ہزار جوانوں کی فوج رکھ سکتے ہیں جو اس زمانہ میں ایک بڑی جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی.حضرت مرزا گل محمد صاحب کادو را قتدار حضرت مرزا فیض محمد صاحب کے وصال کے بعد حضرت مرزا گل محمد صاحب ایسے ولی اور پارسا

Page 51

شجرہ نسب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت مرز آبادی بیگ ( مورث اعلی جو سمر قند سے ہندوستان میں آئے ) محمد المدين محمد سلطان محمد اکبر عظمت بینگ بہادر بیگ ناصر بیک محمد فاضل عبد الکریم نائن بیگ فتح محمد نور یک صفوبیک محمد ایک چاند بیگ افضل ایک محمد یک عبد الباقي رحیم بیگ عبد النبی عد الله یک عظمت اللہ بیگ رحیم بیگ کریم ایک عابد بیگ جعفر ایک غازی بیگ عبد العبد عبد الخالق تھی ایک زاہدہ ایک زین العابدين محمد بیگ مرة الاحمد مرزا افضل حیدر بیگ تقی بیگ عبد العزيز عبد الحميد بہاؤ الدین الله دین عزیز الدین الہ اسماعیل محمد ضياء نواب بیگ عبد الرحیم محمد زاہد محمد جان گلاب بیگ جانی بیک محمد دلاور محمد فاضل فیض اللہ مالی بیگ صادق بیگ سیف الله بیگ قاسم بیگ مراد بیگ محمد حیات لطیف الله محمد افضل محراب بیگ محمد صادق حقیق الله محمد فاضل گاماں بیگ پیر بیگ دانو د نیک عظیم بیگ فضل احمد سندھی بیک محمد ایک شریف ایک عظم ایک محمد زمان ل (ی شاخ پر ٹی کی طرف منتقل ہو گئی تھی ) گدائی ایک محمد بیگ ی شاری کسی وجہ سے محروم الارث قرار پائی تھی) محمد قائم شادی بیگ عبد القادر نور محمد اولیاء بیگ مرزا فیض محمد محمد حسین دین محمد مرزا تصدق جیلانی تھو بیگ فیض اللہ بیگ اخلاص ایک غلام رسول غلام مهمانی غلام جیلانی الا چی بیگ عبد اللہ بیگ ستار بیگ غفار بیگ مرز انگل محمد مرزا قائم بیگ مرز انحلام خوت مرزا غلام محی الدین مرزا عطا محمد غلام حیدر (یہ باپ کی زندگی میں ہی مفقود اکبر ہو گئے تھے ) ا وفات یکم شعبان ۱۲۸۳ھ مطابق ۹ / دسمبر ۱۸۶۶ء مرزا غلام مصطفی مرزا غلام مرتضی مرز اعلام محمد مرزا غلام کی الدین " مرزا غلام حیدر (قلمی روز تا چه خاندان حضرت مسیح موعود ) مرزا امام الدین مرزا نظام الدین مرزا کمال الدین مرزا غلام حسین (یہ بھی مفقود الخبر ہو گئے تھے ) مرز الغلام قادر لي في عصمت وفیات میر صفر ۷ ۷ ۲ تھے عبد القادر موز النظام احمد وفات ۲۹ محرم ۵۱۲۸۵ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ) به هر ۴ سال بمطابق ۱۹ راست ۱۸۶۰ ء به مر ۶ ماه بمطابق ۲۳ مئی ۱۸۶۸ء ( قلمی روز نامچه خاندان حضرت مسیح موعود ) سے ماخور ) سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم اشاعت ۱۹۳۵ صفحه ۱۱۶ مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے ماخوذ

Page 52

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۳ خاندانی حالات حکمران اور اعلیٰ درجہ کے جرنیل جانشین ہوئے اس وقت غالبا عالمگیر ثانی کا دور اقتدار شروع تھا.دہلی کی مغلیہ حکومت کی جڑیں خانہ جنگیوں اور چند در چند اسباب و وجودہ سے کھو کھلی ہو چکی تھیں اور مغل شہزادے آپس میں قتل وغارت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے.لیکن تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عالمگیر ثانی (۶۱۷۵۴-۱۷۵۹ء) اس کے جانشین شاہ عالم ثانی (۶۱۷۵۹-۱۸۰۶ء) کے قادیان کی ریاست اور حضرت مرزا گل محمد صاحب سے گہرے مراسم قائم تھے.اور سلطنت مغلیہ کے یہ تاجدار انہیں خط و کتابت میں نجابت وصالی پناه عالیجاہ رفیع جایگاه اخلاص و عقیدت دستگاه اور عمدۃ الاماثل والا فرمان ایسے عظیم القاب سے مخاطب کیا کرتے تھے.قادیان کی اسلامی ریاست سلطنت مغلیہ کے زوال کے باوجود پورے عروج پر تھی.اور اگر تقدیر الہی مخالف نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ سکھوں اور مرہٹوں کا سیلاب رک جاتا اور ہندوستان کے شمال میں آپ ایک زبر دست اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے.حضرت مرزا گل محمد صاحب بھی اللہ اور ان سے قبل ان کے والد مرزا فیض محمد صاحب فرخ سیر، محمد شاہ شاہ عالم ثانی اور عالمگیر ثانی چاروں بادشاہوں کو برابر توجہ دلاتے رہے کہ پنجاب میں سکھ شورش کے جو شرارے پوری شدت سے اٹھ رہے ہیں اس میں تنہا ہم ہی لڑرہے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ اس فتنے کا کامیاب مقابلہ کر سکیں.اس لئے ہماری امداد کے لئے جلد مرکزی فوج روانہ کی جائے.مگر افسوس ان چاروں نے اس بروقت انتباہ کو نا قابل التفات سمجھا.البتہ سکھوں کے خلاف اس ریاست کی اسلامی خدمات کا خلوص دل سے اقرار کرتے ہوئے یہ وعدہ ضرور کرتے رہے کہ شاباش تم خوب مقابلہ کر رہے ہو ہم بھی آنے کا ارادہ کر رہے ہیں.مگر ان میں سے کسی کو پنجاب آنے اور سکھوں کے بڑھتے ہوئے اثر و اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کی توفیق نہ مل سکی.نتیجہ یہ ہوا کہ سکھا شاہی پورے پنجاب پر مسلط ہو گئی اور خود مغل شہزادوں کی سہل انگاری سے پنجاب کا خطہ اسلامی حکومت کی آغوش سے نکل کر سکھ حکومت کے زیر نگیں ہو گیا.حضرت مرزا گل محمد صاحب ہی کے زمانہ میں سلطنت مغلیہ کا ایک وزیر مملکت غیاث الدولہ قادیان میں آیا تو وہ ان کے مجاہدانہ عزائم نا قابل تسخیر ولولوں مدبرانہ طریق استقلال اور حیرت انگیز قوت تدبر اور پروقار دربار کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا اور چشم پر آب ہو کر کہنے لگا کہ "اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کر تاکہ ایام کسل اور نالیا قتی اور بد و صفی موک چغتائیہ میں اس کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے ".لیکن اب پانی حد سے بڑھ چکا تھا.اس

Page 53

تاریخ احمدیت جلدا ۳۴ خاندانی حالات لئے سلطنت مغلیہ کی بساط سیاست الٹ گئی اور ۱۸۰۳ء میں انگریز مرہٹوں کو دلی سے نکال کر خود مسند اقتدار پر بیٹھ گئے.اور پہلے تو شاہ عالم ثانی (۱۷۵۹-۱۸۰۶) اور اکبر شاہ ثانی (۱۸۰۶-۱۸۳۷) انگریزوں کے وظیفہ خوار بنے اور پھر سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ثانی (۱۸۳۷-۱۸۵۷) کے ہاتھوں سلطنت مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا.حضرت مرزا گل محمد صاحب تخمینا ۱۸۰۰ء میں انتقال فرما گئے - Ka آپ کے انتقال کے بعد عین اس زمانہ میں جبکہ دہلی کا تخت عملا مغل شہزادوں سے نکل کر انگریزوں کی طرف منتقل ہو رہا تھا.قادیان کی اسلامی ریاست سکھ اقتدار کے زیر نگیں ہو گئی.عمدۃ التواریخ میں لکھا ہے کہ ”دیو سنگھ پر تارا سنگھ ملک کو تاخت و تاراج کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے تعلقہ قادیان مغلاں کو جہاں ( مرزا) عطا محمد پسر مرزا گل محمد مقیم تھے زبردستی لے لیا اور مغلوں کو اپنے گھروں سے نکال دیا - حضرت مرزا گل محمد صاحب کے جانشین مرزا عطا محمد صاحب اپنے خاندان سمیت کپور تھلہ کی ریاست میں ہمقام بیگووال پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گئے.یہ ۱۸۰۲ء یا ۱۸۰۳ء کا حادثہ ہے جبکہ ریاست راجہ فتح سنگھ کے قبضہ میں تھی.راجہ فتح سنگھ نے مرزا عطا محمد صاحب کو دو گاؤں کی پیشکش کی لیکن انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر یہیں رو پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی بہت پست ہو جائے گی اور اپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال ان کے دل سے جاتا رہے گا.تخمینا ۱۸۱۴ ء میں دور جلاوطنی کی گیارہ سالہ سختیاں اور مصائب جھیلنے اور دکھ اٹھانے کے بعد وہ بالا خر کپور تھلہ ہی میں انتقال فرما گئے.اور یہ خاندان بظاہر بالکل بے سہارا رہ گیا.اور یہ نا گفته به حالت کم و بیش ہیں برس تک قائم رہی.لیکن اب چونکہ امام الزمان کی ولادت کا وقت آرہا تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے قادیان کی واپسی کا از خود غیبی سامان کر دیا.اور وہ اس طرح کہ ۱۸۳۴ء.۱۸۳۵ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حضرت مرزا عطا محمد صاحب کے فرزند اور بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو قادیان کی ریاست کے پانچ گاؤں واپس کر دیئے جو چودہ سال تک اس شاہی خاندان کے پاس رہے.پھر جب ۲۹ مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کا سلطنت انگریزی سے الحاق عمل میں آگیا تو جہاں اکثر و بیشتر سکھ خاندانوں کے حقوق و اعزاز بدستور قائم رکھے گئے.بلکہ بعض کو قیمتی جاگیروں سے نوازا گیا.وہاں بعض "باغی" سرداروں کی جاگیروں کے ساتھ قادیان کی جاگیر بھی چھن گئی.اور اشک شوئی کے لئے سات سو روپیہ کی پنشن منظور کردی گئی.کیونکہ شورش کے ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے فرنگی حکومت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا اس موقعہ پر سکھ وزیر نے بھا گودال کے ایک وزیر کے ذریعہ سے انہیں پیغام بھی

Page 54

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۵ خاندانی حالات بھیجا کہ انگریز طاقت ور ہیں ان سے صلح کر لو خواہ مخواہ آدمی نہ مرد اؤ.مگر انہوں نے حکومت وقت سے بے وفائی گوارا نہ کی.اور معتوب ہو گئے.اس کے بعد جب انگریزی حکومت با قاعدہ قائم ہو گئی تو انہوں نے اسلامی تعلیم کے مطابق حکومت وقت سے وفاداری کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.بایں ہمہ بڑے بڑے مقدمات کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کا کچھ حصہ واپس مل سکا.حضرت بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خود نوشت خاندانی حالات احمدیہ نے "کتاب البریہ " میں قادیان کی اسلامی ریاست اور اپنے خاندانی حالات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے.آپ فرماتے ہیں: ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں نے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریبا دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل و عیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا جو لاہور سے تخمینا پچاس کوس بگوشہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہو گئے.جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام اسلام پور رکھا جو پیچھے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا.اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کے کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور پھر اس سے بگڑ کر قادیان بن گیا اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے.ان دنوں میں سب کا سب ماجعہ کہلاتا تھا.غالبا اس وجہ سے اس کا نام ماجمعہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں.اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی.اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے.مجھے کچھ معلوم نہیں کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمرقند سے اس ملک میں آئے.مگر کاغذات سے یہ پتہ ملتا ہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا.پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیران کو ملے.چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہو گئی.سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پر دادا صاحب مرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے جن کے پاس اس وقت ۸۵ گاؤں تھے اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے.تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں

Page 55

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶ خاندانی حالات سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں.غرض وہ اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے.ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے.جنکے کافی وظیفے مقرر تھے.اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہو تا تھا اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو.یہاں تک کہ چکی پینے والی عورتیں بھی پنج وقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں.اور گردو نواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا، مکہ کہتے تھے.کیونکہ اس پر آشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی.اور دو سری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی.میں نے خود اس زمانہ سے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ اس قدر قادیان کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویادہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا جس میں حامیان دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے اور اس نواح میں یہ واقعات نہایت مشہور ہیں کہ مرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں اور صاحب خوارق اور کرامات تھے.جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور فضلاء قادیان میں جمع ہو گئے تھے.اور عجیب تریہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے.غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے.اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارعب آدمی تھے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے مختصر دربار کو عقلمند اور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پر پایا.تب وہ چشم پر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بد و صفی ملوک چغتائیہ میں اس کو تخت

Page 56

تاریخ احمدیت جلدا دہلی پر بٹھایا جائے.۳۷ خاندانی حالات اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ میرے پردادا صاحب موصوف یعنی مرزا گل محمد نے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی.بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالبا اس سے فائدہ ہو گا مگر جرات نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں.آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا.تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کی قضاء و قدر پر راضی ہوں.آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے.موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یاد گار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا.موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا.افسوس ان نوابوں اور امیروں اور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بھلی لا پرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے تو ڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور ناپاک کر کے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہو کر جلد تر مر جاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں.(صفحہ ۱۴۴ تا ۱۵۴ حاشیہ طبع اول) حضرت اقدس" ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: " مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے.اگر اس وقت مشیت الہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العزم آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کر کے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس میں قائم کر دیتا.جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گاؤں تھے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلائے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں.تو کیا ایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں ؟ جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گاؤں باقی تھے اور ہزار کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی.اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اس وقت کی شہادتوں سے یہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہہ نازل ہو اس لئے مرزا صاحب

Page 57

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۸ خاندانی حالات مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے.اور مرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے.اور ان کے بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہو گئے تھے.یہ بات شاز و نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو.لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادات ان سکھوں کے منہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے تھے.اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدان جنگ میں نکل کر ان پر فتح پالیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے نزدیک آسکے.اور ہر چند جان تو ڑ کر دشمن کا لشکر کوشش کرتا تھا کہ تو پوں اور بندوقوں کی گولیوں سے ان کو مار دیں مگر کوئی گولی یا گولہ ان پر کارگر نہیں ہو تا تھا.یہ کرامت ان کی صدہا موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے منہ سے سنی گئی ہے.جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سندا بیان کی تھی.لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں.اکثر لوگ زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف ساز غم بھی تلوار یا بندوق کا ان کے بدن کو نہیں پہنچتا.سو یہ کرامت اگر معقولی طور پر بیان کی جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے ان کو بچاتا رہا.تو کچھ حرج کی بات نہیں.اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پر ہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عابد تھے اور معمور الاوقات اور متشرع تھے " اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پر دادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد صاحب فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے.ان کے وقت میں خداتعالی کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے.دادا اصاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضاء و قدر ان کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے.یہاں تک دادا صاحب مرحوم کے پاس ایک قادیان رہ گئی اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا.اس کے چار برج تھے اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے.اور چند تو ہیں تھیں اور فصیل بائیں فٹ کے قریب اونچی اور اسی تدرچوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جا سکتے تھے.اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلا تا تھا اول غریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی

Page 58

تاریخ احمدیت جلد؟ ۳۹ خاندانی حالات قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے.اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا.اور بعض مسجد میں جن میں اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں پانچ سو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا.اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مرد و زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے.تھوڑے عرصہ کے بعد انہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہر دی گئی.پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضی قادیان میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے.کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے.پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں مشہور رئیس تھے.گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے.۱۸۵۷ء میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے معہ پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دیئے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو اس قسم کی مدد کا عند الضرورت و عدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں چنانچه سریپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے.اور بسا اوقات ان کی دلجوئی کے لئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر ان کے مکان پر ان کی ملاقات کرتے تھے " سریپل گریفین اور کرنل میسی کی شہادت سر لیپل گریفین اور کرنل میسی نے (جن کی طرف مندرجہ بالا سطور میں اشارہ ہے) اپنی مشهور و معروف انگریزی کتاب " پنجاب چیفس یا چیفس اینڈ فیمیلیز آف نوٹ ان دی پنجاب میں حضرت اقدس کے خاندانی حالات پر ایک نوٹ لکھا ہے جس کا مستند ترجمہ درج ذیل ہے.(اس نوٹ سے بالخصوص اس حقیقت پر نمایاں روشنی پڑتی ہے کہ پنجاب کے الحاق کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی جاگیر باغی سرداروں" کے ساتھ ضبط کر لی گئی تھی اور حضور

Page 59

تاریخ احمدیت جلدا ۰ خاندانی حالات کا خاندان اس وقت تک ملکی حکومت کا خیر خواہ رہا جب تک کہ پورا ملک برطانوی اقتدار کے زیر نگیں نہیں آگیا).شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مسمی بادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودوباش اختیار کی یہ کسی قدر لکھا ڑھا آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اس نے آباد کیا.اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا.اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنہیا مسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گردو نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی.اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضی کو قادیان واپس بلا لیا.اور اس کی جدی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اسے واپس دے دیا.اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں.نو نہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا.۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارہ کے مفسدہ میں اس نے کار ہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے بڑا.اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جا رہا تھا.تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیر داران لنگر خاں ساہیوال اور صاحب خانہ ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحبدیاں کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی.ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مر گئے.الحاق کے موقعہ پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی.مگر سات سو روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکانہ رہے.اس خاندان نے غدر۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں غلام مرتضی نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جبکہ افسر

Page 60

تاریخ احمدیت.جلدا ام خاندانی حالات موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر ۴۶ مینٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا.غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا ۱۸۷۶ ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا.اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصے تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا.اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا تھا.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ تک ترقی پائی.یہ قادیاں کا نمبردار بھی تھا.مگر اس نمبر داری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا نظام الدین کرتا تھا جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا.مرزا سلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں پانچ مربعہ جات اراضی عطا ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اس کا انتقال ہو گیا.اس کا سب سے بڑا لڑکا مرزا عزیز احمد ایم اے اب خاندان کا سر کردہ اور پنجاب میں اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہے.خان بہادر مرزا سلطان احمد کا چھوٹا بیٹا رشید احمد ایک اولو العزم زمیندار ہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیا ہے.نظام الدین کا بھائی امام الدین جس کا انتقال ۱۹۰۴ء میں ہوار ہلی کے محاصرہ کے وقت ہاؤسن صاحب کے رسالہ میں رسالدار تھا ، اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا".سر لیپل گریفن نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذاتی حالات بھی بیان کئے ہیں.چنانچہ لکھتا ہے: یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو مرزا غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا ہے مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا.یہ شخص ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوا.اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی -۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب اسلام مهدی یا مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.چونکہ یہ عالم اور منفاقی تھا اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہو گئے اور اب احمد یہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے.مرزا عربی فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا.جن میں اس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی.اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیا ہے.مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا.کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے.لیکن اپنی وفات سے پہلے جو ۱۹۰۸ ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ

Page 61

تاریخ احمدیت.جلدا خاندانی حالات حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے.اس فرقہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتا ہے.مرزا غلام احمد کا خلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نور الدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے.اس خاندان کے سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقہ داری حاصل ہیں.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا بیان ہے.AP میں نے حضرت مسیح موعود سے ان کی (مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب ناقل) تعریف سنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گاؤں واپس کیا....بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی.جب انگریزوں سے لڑائیاں ہو ئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجود ہیں.یہاں سے پندرہ ہیں میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گاؤں بھاگو وال ہے وہاں سکھ سردار ہیں.مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا.کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی.اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا.تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کئے تھے پھر وہ کہاں گئے ؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کرلئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان کی غداری نہیں کر سکتے بھاگووال کے ایک اسی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے داد ا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ.مگر ہمارے داد ا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا.مگر کیا ملا.قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی.باقی بھینی.ننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قرار دے دیا گیا مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے داد ا صاحب نے غداری پسند نہ کی....تاریخ

Page 62

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۳ خاندانی حالات سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرد کیا تھا اور اس وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی ورنہ سری گوبند پور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے پہلے کی بات ہے ".(خطبہ جمعہ غیر مطبوعہ ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)

Page 63

تاریخ احمدیت جلد خاندانی حالات حواشی - -6 حقیقہ الوحی صفحہ ۲۰۱ حاشیہ طبع اول- تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۸-۱۹ طبع اول تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۸-۱۹ طبع اول- اربعین نمبر ۲ حاشیہ صفحہ سے اطبع اول چشمہ معرفت صفحہ ۳۱۶.حقیقته الوحی صفحہ ۷۷ و صفحه ۷۸- مشکوة جلد نمبر ۲ صفحه ۴۸۳ و بخاری کتاب التفسیر جز ثالث مصری صفحه ۱۲۵ اس قابل قدر تحقیق کا سہرا مولوی عبدالرحیم صاحب درد بی کر (۶۱۸۹۴-۱۹۵۵ء) کے سر ہے.جنہوں نے انگلستان میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے علاوہ برٹش میوزیم وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے وسیع تحقیق کی اور اپنی قیمتی معلومات ریویو آف ریلیجز اردو ( قادیان) دسمبر ۱۹۳۴ء کے شمارے میں شائع کیں.مولف "مجد واعظم" نے اپنی تالیف میں اگر چہ درد صاحب بھی ہے کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا اقرار بھی کیا ہے مگر انہوں نے مستشرقین کے نام نقل کرنے میں پوری احتیاط سے کام نہیں لیا.(مثلاً صفحہ ۴۳ ولیم ارسکائن کی بجائے "ارسکن لکھ دیا گیا ہے بعض جگہ حوالے کسی اور نام کی طرف منسوب کر دیے گئے مثلاً صفحه ۵ پر انسائیکلو پیڈیا آف رینجز اینڈ اینتکس کے ایک مضمون کو جو ایک خاتون MA Czeplica کالکھا ہوا ہے مستر بیٹنگز کا ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ یہ انسائیکلو پیڈیا ایک نہایت مشہور کتاب ہے جسے انہوں نے مرتب کیا ہے تصنیف نہیں کیا.چنانچہ ریویو دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۳ میں صاف یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ " T.IIaatinga.Edited by علاوہ ازیں خود ریویو آف ریلینجز کے کاتب نے پروفیسر سب کو گیل بنا دیا ہے.اس لئے یہ فرو گذاشت بھی لازمنا " مجدد اعظم " جلد اول ( صفحه ۵-۲) کی طرف منتقل ہو گئی ہے.سیرت المهدی حصہ اول صفحه ۲۸ طبع ثانی مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (سن اشاعت ۲۲ دسمبر ۱۹۳۵ء) ایضا "کتاب البریه " طبع اول صفحه ۱۳۴ حاشیه ناشر احمد یہ کتاب گھر قادیان "Zamer Lame-(مطبوعہ نیو یارک-۱۹۲۸ء) زیر لفظ "Seythians جلد نمبر 1 1 مطبوعہ USA 1880ء عربی زبان میں فارس کے معنی ہیں ”گھوڑے کا سوار اور بہادر " (بیان اللسان عربی اردو ڈکشنری مرتبه قاضی زین العابدین سجاد میر تھی شائع کردہ مکتبہ علمیہ قاضی واڑہ میرٹھ - فرس عربی زبان میں گھوڑے کو کہتے ہیں جس کی کنیت اہل عرب کے نزدیک ابو شجاع ہے (لطائف اللغہ مولفہ احمد بن مصطفی ( مشقی) صفحه (۲۳).اس نے فارسی فرانسیسی لغات میں لکھا ہے جو ۱۹۰۸ء میں روما سے شائع ہوا.شیخ ابو الفضل نے اکبر نامہ (فارسی مطبوعہ کلکتہ ۱۸۷۷ء) میں بر لاس کے معنی شجاع نسب ہی کے لکھے ہیں.Zamer Lane -۱۲ - HHistory of Bukhara- صفحہ ۶۳ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۳ء.اس کتاب کا اردو ترجمہ ۱۹۵۹ء میں مجلس ترقی ادب لاہور نے " تاریخ بخار " کے نام سے شائع کیا ہے.-۱۴ طبقات ناصری صفحه ۱۰۹۴ تالیف منہاج الدین عثمان Perala پر شیار مطبوعہ آکسفورڈ ۱۹۲۳ء - ایضا انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا.ابن عرب شاه ( مطبوعه ۱۸۱۸ء کلکته) صفحه ۱۰ ۱۳۳۵ء میں سمرقند کے پچاس میل جنوب ایک قصبہ کش میں پیدا ہوا) تاریخ ہند) Ilistory of Mongols صفحہ ۱۴ مصنفہ ہاور تھ (Iloverth) مطبوعہ پیرس ۱۸۳۴ء ۱۸ صفحه ۹۳ -19 Institution of Tamur مترجمہ ڈیوی آکسفورڈ مطبوعه ۱۷۸۳ء صفحه ۳۰۸ تاریخ اقوام عالم ( از مرتضی احمد خان) طبع دوم صفحه ۴۲۲ شائع کردہ " مجلس ترقی ادب لاہور

Page 64

تاریخ احمدیت جلدا ۲۱ ہارٹ آف ایشیار قلب ایشیا) مطبوعه ۱۸۹۹ء صفحه ۱۷۸ ۲۲- ہسٹری آف پر شیا( تاریخ فارس) خاندانی حالات ۲۳- Tistory of Bkhara نیز ملاحظہ ہو پروفیسر آرتھر کرشن سین پروفیسر السنہ شرقیہ ڈنمارک کی کتاب "ایران بعد ساسان" صفحہ ۲۷۶۰۲۷۵ متر جمہ ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسر اور نیشنل کالج لاہور شائع کردہ انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۷ء.۲۴- شاہنامے میں ایران کے ایک قدیم شاہی جھنڈے کا ذکر ہے جس پر شیر بیر کی تصویر ہے (شاہنامہ طبع نولرس جلد ا صفحہ ۴۷۸ شعر ۷۳۴) پروفیسر آرتھر کرسٹن لکھتے ہیں کہ شاعر نے اکثر قدیم بہادروں کے جھنڈوں کو بیان کیا ہے.چونکہ یہ بیانات ساسانی ماخذوں سے لئے گئے ہیں لہذا یقینی بات ہے کہ ساسانی جھنڈوں کو نمونے کے طور پر پیش نظر رکھا گیا ہو گا".(ایران بعد ساسان صفحه ۳۷۶) Memoirs of Tamur Page 28 -ro History of Bukhara Page 63 - ۲۷ دیباچہ دربار تیمور میں سفارت " مصنفه سی آر مرخم مطبوعہ لندن صفحه ۱۲ -۲۸ تاریخ رشیدی کا ترجمہ انگریزی مطبوعہ لنڈن ۱۸۹۸ء صفحه ۱۸ باب پنجم ۲۹ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا ۳۰ ترکستان (انگریزی) جلد اول مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۶ء صفحہ ۲۳۶ امیریا نہ اینٹی کار Ariana Antigua) صفحه ۱۴۱ ۳۲- ہسٹری آف بخار اصفحه ۳۵د صفحه ۵ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۳ء- ۳۳- "ترک وسطی ایشیا میں صفحہ ۳۴ ۳۴.وسط ایشیا میں عربوں کی فتوحات " مطبوعہ ۱۹۲۳ء.۳۵ " ترکستان " جلد اول صفحه ۱۰۵ مطبوعہ ۶ ۷ ۰۶۱۸ ۳۶.وسط ایشیا میں عربوں کی فتوحات صفحہ مطبوعہ ۱۹۲۳ء.۳۷.انسائیکلو پیڈیا آف ریلینجز اینڈ اینٹ کس زیر لفظ " ترک ".۳۸.یہ صاحب ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنز اور بھوپال اور راجپوتانہ کی ریاستوں کے ریذیڈنٹ کے عہدہ پر بھی رہے ہیں.-۳۹ تاریخ ہندوستان جلد سوم صفحه ۲ از مولا از کاء اللہ خان مطبوعہ ۱۹۱۶ء مطبع انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ.۴۰ غیاث اللغات صفحه ۳۱۵ مولفہ مولانا سراج علی خاں آرزو مطبوعہ لکھنو.ام بین الاقوامی جغرافیہ) صفحه ۲۳۵ :Universal Geography) ۴۲- The Great Orcental Monarchy- صفحه ۲۴- - The Races of Man and their distribution (نسل انسانی اور اس کی تقسیم) صفحہ ۲۷ مطبوعہ کیمرج ۰۶۱۹۲۴ " تاریخ ملل قدیمه " صفحه ۵۰۴ مصنفه سینولیس (فرانسیسی) مترجم سید محمود اعظم نمی شائع کرده دفتر انجمن ترقی اردو اورنگ آباد ۱۹۲۱ء - " مقدمه تاریخ بند قدیم صفحه ۲۹ (از اکبر شاہ خان نجیب آبادی) مطبوعہ جولائی ۱۹۳۳ء مکتبہ عبرت نجیب آباد یوپی.۴۵- رسالہ اشاعت السنہ " جلد ۷ صفحه ۱۹۳ مقام اشاعت بٹالہ ضلع گورداسپور ولادت ۳۰ مارچ ۱۲۳۵ء مطابق ۲۵ شعبان ۵۷۳۶ تاریخ ہند وستان جلد سوم مرتبہ شمس العلماء مولا ناز کاء اللہ خاں.۴۷- یه شجره نسب تاریخ ہندوستان جلد سوم مرتبه شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ خان دہلوی مطبوعہ ۱۹۱۴ء سے ماخوذ ہے.۴۸ تیموری ۸۰ ھ مطابق ۱۴۰۴ء میں بغداد ہندوستان روم اور مصر کی فتوحات حاصل کرنے کے بعد ماوراء النہر کے علاقے میں داخل ہوا اور تینتیس برس کی عمر میں قریباً ۱۳۶۸ء میں سمرقند کی سلطنت پر قابض ہوا.تاریخ وفات ۱۷- فروری ۱۴۰۵ء توفیقات الهامیه مطبوعه مصر صفحه ۴۰۴- تاریخ هندوستان از مولاناز کاء اللہ خان جلد سوم صفحه ۰۲۱-۲۵ و تاریخ ہند و پاکستان صفحه ۱۹۷

Page 65

تاریخ احمدیت جلدا MY خاندانی حالات -۲۹ گھاگرا کی لڑائی ۲ مئی ۱۵۲۹ء کو ہوئی اور بابر کا انتقال ۳۶ - دسمبر ۱۵۳ء کو ہوا ( تاریخ ہند و پاکستان) من وفات ۹۴۰ رود کوثر " مرتبه شیخ محمد اکرم ایم اے ناشر تاج آفس بندر روڈ کراچی.من وفات ۹۳۵ ( تذکره اولیاء ہند و پاکستان از مرزا اختر د لوی ناشر ملک سراج الدین بازار کشمیر کی لاہور مطبوعہ ۱۹۵۴ء ۵۲- من وفات ۷ ۹۴ (ایضاً) ۵۳- من دفات ۵۹۴۸ ( ایضا) ۵۴ - من وفات ۹۴۲ (ایضاً) ۵۵- من وفات ۵۹۴۳ (ایضاً) ۵۶- رود کوثر » صفحه ۲۳٬۲۲ کے تعارف » صفحه ۲۳۰-۲۳۱- ۵۸ مطابق ۶۱۸۰۶ و ۱۲۲۱؎ ( تقویم عمری از حضرت میاں معراج دین عمر مطبوعہ ۱۹۰۶ ء نیز توفیقات الهاميه تأليف اللواء المصرى محمد مختار باشا طبع اول بالمطبعہ المیرید بولاق مصر المحميه ۱۳۱ھ صفحہ ) ۵۹ شمشیر خالصہ یا تواریخ گورو خالصه جلد سوم ۲۸۴ مولفہ بھائی گیان سنگھ مطبوعہ ۱۸۹۳ء- ال "سیرت المهدی حصہ سوم صفحہ ۱۴۷ تا ۱۵۲ طبع اپریل ۱۹۳۹ ء یک ڈیو تالیف و اشاعت قادیان : - "مسيرة المهدی " حصہ اول صفحه ۱۲۹ ۶۳.حضرت مرزا گل محمد صاحب کے حالات کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۷ ۱۴۴ جون ۶۱۹۴۲- "سیرت المهدی" حصہ اول صفحه ۴۱۴۴۰- "حیات النبی جلد اول صفحه ۲۴ تا ۷ ۲ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی طبع اول اکتوبر ۱۹۱۵ ء ہندوستان سٹیم پریس لاہور الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۳۸ء " ستارہ قیصریہ صفحہ ۶ الحکم ۳۰- نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲- احکم ۱۴- جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۴۵.عمدة التواریخ دفتر اول صفحه ۲۰ از لالہ سوہن لعل مطبع آریہ پریس لاہور ۱۸۸۵ء ایضاد نتر موم حصہ اول صفحہ ۷۶ ۶۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء.صفحہ ۲۰ ۶۶ " قادیان " صفحه ۷۸ h ۶- شمشیر خالصہ حصہ سوم صفحہ ۷۰۹ طبع اول (۱۸۹۲ء) از بھائی گیان سنگھ گیانی یادر ہے کہ ان لڑائیوں کے دوران میں پنجاب کے ہزاروں سکھ انگریزوں کے ساتھ مل گئے تھے " "بہادر شاہ ظفر اور ان کا عمد " از رئیس احمد جعفری ندوی صفحه ۱۳۲ ناشر کتاب منزل کشمیری بازار لاہور) الحاق پنجاب کے وقت باغی سرداروں کی جاگیریں ضبط کر کے ان کی پنشن مقرر کر دی گئی تھی.( تاریخ ہند و پاکستان) حصہ دوم صفحه ۱۷۵ ۷۰ یہ حصہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایک غیر مطبوعہ خطبہ (فرمودہ ۲۲- نومبر ۱۹۳۵ء) سے ماخوذ ہے جو شعبہ زرو نویسی (ربوہ) کے ریکارڈ میں موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے اب وجد سمرقند سے ملک ہند میں جب وارد ہوئے تو پہلے دہلی گئے تھے.چنانچہ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں.بابر بادشاہ کے وقت میں کہ جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا بزرگ اجداد اس نیاز مندالی کے خاص سمرقند سے ایک جماعت کثیر کے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا ہجرت اختیار کر کے دلی میں پہنچے.اور دراصل یہ بات ان کاغذوں سے اچھی طرح واضح نہیں ہوتی کہ کیا وہ بابر کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے یا بعد اس کے بلا توقف اس ملک میں پہنچ گئے.لیکن یہ امر اکثر کا غذات کے دیکھنے سے بخوبی ثابت ہو تا ہے کہ وہ ساتھ ہی پہنچے ہوں یا کچھ دن پیچھے آئے ہوں مگر انہیں شاہی خاندان سے کچھ ایسا خاص تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ کی نظر میں معزز سرداروں میں سے شمار کئے گئے تھے “.(ازالہ اوہام حاشیہ صفحہ ۱۲۱-۱۳۲ طبع اول) مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر ذی الحجہ ۰۵۱۳۰۸

Page 66

تاریخ احمدیت جلدا ۴۷ خاندانی حالات ازالہ اوہام طبع اول ۱۸۹۱ء صفحه ۱۲۸ تا ۱۳۰ ۷۳.قادیان کے قلعہ میں آنے جانے کے لئے چار دروازے تھے.جن کے نام یہ ہیں بٹالی دروازہ پہاڑی دروازه موری دروازہ اور ننگل دروازه ( قادیان " مرتبہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی صفحہ ۶ طبع اول) عالمگیر الیکٹرک پریس سید میٹھا بازار لاہور طبع اول ۷۴ تخمیناً ۱۸۰۲ء " قادیان صفحه ۷۹).۷۵ کپور تھلہ."کتاب البریہ طبع اول حاشیه ۱۴۴ تا ۱۴۶ (نوٹ) حضرت اقدس نے اپنے خاندانی حالات مندرجہ ذیل کتب میں بھی بیان فرمائے ہیں.ازالہ اوہام " بار اول صفحه ۱۲۰ ۱۳۳ آئینہ کمالات اسلام " حصہ عربی صفحه ۴۹۸ تا ۵۱۶ ستاره قیصره " طبع سوم ۳۰۲ "کشف الغطاء " بار دوم صفحه ۲-۳ لجه النور " صفحہ ۶- تحفہ قیصریہ " طبع اول ۱۸-۱۹ نیز ملاحظہ ہو ا حکام ۱۴- جون ۶۱۹۴۳ ۱۴۴ جنوری ۱۹۳۹ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات از معراج الدین صاحب عمر حیات النبی جلد اول ۲۳۳ " سيرة المهدی" اول صفحه ۷٬۳۵ ۴۳٬۴۰۴۳ " حیات احمد " جلد دوم رسوم صفحه ۸۵٬۸۴ " سيرة المهدی اول صفحہ ۱۳۸۱۲۸ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب مطبوعہ اسلامی پریس حیدر آباد دکن دسمبر ۱۹۵۰ء- ے.یہ ترجمہ سید نوازش علی پیشنر مترجم محکمہ عالیہ پنجاب گورنمنٹ نے ۱۹۴۱ء میں گورنمنٹ کی خاص اجازت سے ضروری اضافوں کے ساتھ تذکرہ روسائے پنجاب" کے نام سے شائع کیا.۷۸ آپ نہایت درجہ زی علم و فہیم بزرگ تھے.جیسا کہ لیپل گریفن کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہے.۷۹.یہاں حاشیہ میں لکھا ہے کہ ”پنجابی زبان میں جسے ضاد بولتے ہیں اکثر عربی زبان میں دال سے بدل جاتا ہے.چناچہ گنبض، گنبد استاد استاض ۰۸۰ یہ ۱۸۳۴ء کا واقعہ ہے کتاب " قادیان مولفه شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم صفحہ ۷۹ کا " شیخ احمد صفحه - تذکرہ رؤسائے پنجاب " جلد دوم صفحہ ۶۷ تا ۶۹.۸۲ صحیح تحقیق کے مطابق تاریخ ولادت ۱۳- فروری ۱۸۳۵ء ہے (ناقل) ۸۳- "ترجمہ پنجاب چیفس " طبع اول- بحوالہ "سیرت مسیح موعود " نوشته حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود يده الله تعالى بنصره العزيز صفحه ۵-۶-

Page 67

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۸ ولادت بچپن اور تعلیم باب سوم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ولادت مبارک پاکیزہ بچپن اور دور تعلیم (۶۱۸۵۳-۶۱۸۳۵) بانی سلسلہ احمدیہ سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام حضرت چراغ بی بی کے بطن مبارک سے ۱۴- شوال ۱۲۵۰ھ بمطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء (بروز جمعہ طلوع فجر کے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تحسین کے سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصے سے زیر غور چلا آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تصریح فرمائی ہے.کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے.اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳) کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی.جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا.البتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض ایسے امور بیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ کی عمر کی تحسین کی جاتی رہی ہے.ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتا ہے.اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتا ہے.اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیر بحث چلا آیا ہے صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے ؟.میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیا ہے.اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے.لیکن حق یہ ہے.کہ گو مجھے یہ خیال غالب رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ء عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے.مگر ابھی تک کوئی معین تاریخ معلوم نہیں کی جاسکی تھی.لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں.جین یقینی طور پر معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے.جو بروز جمعہ ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳- فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱ بکرمی ہے.اس تعیین کی وجوہ یہ ہیں: - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں.کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی (دیکھو تحفہ گولڑو یہ بار اول صفحہ ۱۰ حاشیه) ۲- ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو تھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے.اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا.کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش بھا گن کے مہینہ میں ہوئی تھی.-۳ مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے.مثلا یہ کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے (حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی.( تریاق القلوب صفحہ ۶۸) وغیرہ وغیرہ.میں نے گزشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے.اور دوسروں سے بھی کرایا ہے.تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینے میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کس کس سن میں اکٹھے ہوتے ہیں.اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ↓

Page 68

تاریخ احمدیت جلدا ولادت بچین اور تعلیم بعد) قادیان ضلع گورداسپور (بھارت) میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح آپ کی یدائش میں بھی ندرت اور معجزانہ رنگ تھا.کیونکہ آپ عالم اسلام کے مشہور صوفی کی تاریخ پیدائش ۱۴ شوال ۱۲۵۰ هجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی ہے جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہو گا.تاریخ اور سن عیسوی تاریخ چاند معه من اجری دن تاریخ ہندی مینه معه من بکرمی ۴ فروری ۱۸۳۱ ۲۰- شعبان ۱۲۴۶ هجری جمعہ ۱۷- فروری ۱۸۳۲ء.رمضان کے ۱۲۳ ہجری ے پھاگن ۱۸۸۷ بکرم یکم بھا گن ۱۸۸۸ بکرم ۸ فروری ۱۸۳۳ء ۱۲۲۸/۱۷ ہجری ۴.بھاگن ۱۸۸۹ بکرم ۲۸ فروری ۶۱۸۳۴ ۱۸ شوال ۱۲۴۹ هجری ۵- بھاگن ۱۸۹۰ بکرم ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ۱۳ شوال ۱۳۵۰ هجری یکم.پھاگن ۱۸۹۱ بکرم ۵- فروری ۱۸۳۶ء ۱۷ شوال ۱۲۵۱ هجری ۳- بھاگن ۱۸۹۲ بکرم ۲۴ فروری ۱۸۳۷ء ۱۸- ذیقعده ۱۳۵۲ ہجری ۹- فروری ۱۸۳۸ء ۲۰ ذیقعده ۱۳۵۳ هجری ۴- پھاگن ۱۸۹۳ یکرم ۷- پھاگن ۱۸۹۴ بگرم یکم فروری ۱۸۳۹ء ۱۵ ذیقعده ۱۲۵۴ هجری ۲۱ فروری ۶۱۸۳۰ ۱۶ ذی الحج ۱۳۵۵ هجری بھا گن ۱۸۹۵ یکرم بھاگن ۱۸۷۶ بکرم توفیقات الهامیه مصری و تقویم عمری ہندی) اس نقشہ کی رو سے ۱۸۳۲ء عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جاسکتی ہے مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے.صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ء عیسوی میں ہوئی تھی.پس ۱۳- فروری ۱۸۳۵ و عیسوی مطابق -۱۴ شوال ۱۳۵۰ هجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے اور اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴.ربیع الثانی ۱۳۳۹ هجری (اختبار الحکم ضمیمہ مورخہ ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء) میں ہوئی.آپ کی عمر پورے ۷۵ سال 4 ماہ اور دس دن بنتی ہے.میں امید کرتا ہوں.کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کی تاریخ معین طور پر معلوم ہو گئی ہے.ہمارے احباب اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اسی تاریخ کو بیان کیا کریں گے.تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے.اور ہم لوگ اس بارے میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں.اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی عمر اسی یا اس سے پانچ چار کم یا پانچ چار زیادہ ہوگی (حقیقتہ الوحی صفحہ ۹۹) اگر اس الہام الہی کے لفظی معنی لئے جائیں تو آپ کی عمر پچھتر ۷۵ چھتر یا اسی یا چوراسی.پچاسی سال کی ہونی چاہئے بلکہ اگر اس الہام کے معنی کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے چھتریا اس یا ساڑھے چوراسی سال کی ہونی چاہئے اور یہ ایک عجیب قدرت نمائی ہے کہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال بنتی ہے.اسی ضمن میں یہ با تبھی قابل نوٹ ہے کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے.کہ میری ولادت ہوئی اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سور والعصر کے اعداد سے آنحضرت کا زمانہ نکلتا ہے جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹ سال بنتا ہے (دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۵٬۹۴۹۳ حاشیہ) یہ زمانہ اصولاً اجرت تک شمار ہونا چاہئے.کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے.اب اگر یہ حساب نکالا جائے.تو اس کی رو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۳۵۰ھ بنتا ہے.کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے انکالنے سے ۵۹۸۹ رہتے ہیں اور ۵۹۸۹ میں سے ۳۹ ۴۷ منہا کرنے سے ۱۲۵۰ بنتے ہیں.گویا اس جہت سے نبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتا ہے.(مطبوعہ " الفضل " قادیان الساگست ۱۹۳۶ء صفحه ۳) نصوص الحکم صفحہ ۳۶ ترجمہ مولانا الفاضل محمد مبارک علی مطبوعہ ۵۱۳۰۸

Page 69

تاریخ احمدیت.جلدا ولادت ، بچپن اور تعلیم حضرت محی الدین ابن عربی کی ایک پیشگوئی کے مطابق تو ام پیدا ہوئے تھے.آپ پانچ بہن بھائی تھے.سب سے بڑی آپ کی ہمشیرہ حضرت مراد بیگم تھیں جو مرزا محمد بیگ کے عقد زوجیت میں آئیں اور بڑی عابدہ اور صاحب رویا و کشف خاتون تھیں.ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے.ان سے چھوٹے آپ کے ایک اور بھائی تھے جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے.ان سے چھوٹی حضور کے ساتھ تو ام پیدا ہونے والی بہن تھیں جن کا نام جنت تھا اور جو بہت جلد فوت ہو گئیں.حضرت اقدس" کے بھائی بہنوں میں قریباً دو دو سال کا تفاوت تھا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت سے تین برس پیشتر مجدرصدی میزدہم حضرت سید احمد بریلوی اور اسمعیل شہید بالاکوٹ میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے اور آپ کی ولادت کے وقت عیسائیت کا سیلاب جو ۲۲ جون ۱۸۱۳ء سے اشاعت تبلیغ کے اجازت نامے کے بعد (پنجاب کے سوا) پورے ہندوستان کو محیط ہو رہا تھا.پنجاب کے کناروں تک آپہنچا تھا چنانچہ ٹھیک ۱۸۳۵ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بٹنگ کی رائے اور برطانوی سکیم کے عین مطابق پادری جے سی لوری نے انگریزی مملکت کی سرحد پر لدھیانہ میں پنجاب کا پہلا عیسائی مشن قائم کیا.جہاں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ریڈ (Captain Wade) نے پہلے سے ایک عیسائی سکول قائم کر رکھا تھا.پس کیا ہی عجیب خدائی تصرف ہے کہ جو نہی جے سی لوری "باب لد یعنی لدھیانہ تک پہنچے خدا تعالٰی نے کا سر صلیب پیدا کر دیا.ادھر زہر پیدا ہوئی اور ادھر اس کا تریاق نمودار ہو گیا.پنجاب میں جہاں حضور کی پیدائش ہوئی مہاراجہ رنجیت سنگھ بر سر اقتدار تھا.جس نے ۱۸۰۲ء میں بھنگی مسل کے سرداروں سے امرت سر پر قبضہ کر کے مہاراجہ کا لقب اختیار کر لیا.اور پھر قصور ، جموں کانگڑہ ، اٹک ، جھنگ ، ملتان ، ہزارہ، بنوں اور پشاور تک کے علاقے زیر نگیں کرلئے.۱۸۱۶-۱۸۱۷ء میں رام گڑھیوں کو شکست دے کر قادیان کی ریاست بھی اپنی عملداری میں شامل کرلی.لیکن حضرت بانی کی پیدائش سے چند ماہ قبل حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کو قادیان کے ارد گرد کے پانچ گاؤں ان کی خاندانی ریاست میں سے انہیں واپس کر دیے.اس طرح چند ماہ قبل آپ کے خاندانی مصائب و مشکلات کے دور کو فراخی اور کشائش میں بدل ڈالا اور آپ کی پیدائش خاندان کے لئے مادی اعتبار سے بھی باعث صد برکت ثابت ہوئی.چنانچہ حضرت اقدس کی والدہ ماجدہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میر آگئی.اور اسی لئے وہ آپ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں.

Page 70

تاریخ احمدیت جلدا ۵۱ ولادت بچین اور تعلیم حضرت کا پاکیزہ بچپن حضرت اقدس علیہ السلام کا بچپن ملی ماحول کی بے شمار آلودگیوں کے باوجو معجزانہ طور پر نہایت درجہ پاکیزہ اور مقدس تھا.آپ کو کم سنی میں قادیان اور اس کے مضافات کے علاوہ اپنے تمال ایمہ ضلع ہوشیار پور میں بھی کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا.مگر آپ جہاں بھی تشریف لے گئے دوسرے تمام بچوں سے ممتاز پائے گئے.متانت سنجیدگی، تنہا پسندی اور گہرے غور و فکر کی قوت ابتداء ہی سے قدرت نے آپ کو ودیعت کر رکھی تھی اور آپ بچپن ہی سے ایک نرالی دنیا کے فرد نظر آتے تھے.موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک سر بر آوردہ شخص کی گواہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کے گاؤں آئے تھے یہ گاؤں ان کی جاگیر تھا." مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتے وہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحب نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ہم عمر ہندو کی شہادت ہے کہ ” میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے (علیہ السلام) میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں.سچا امانت دار اور نیک.میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پر میشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کر کے زمین پر اتر آیا ہے اور پر میشور اپنے جلوے دکھا رہا ہے".حضرت اقدس اپنے عہد طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی.اس وقت آپ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا.آپ نے اس سے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو.اس نے کہا میاں ! میری بکریاں کون دیکھے گا؟ آپ نے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا.چنانچہ آپ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خداتعالی نے نبیوں کی سنت آپ سے پوری کرادی.اٹھارہویں صدی کی ہلاکت آفرینیوں نے دنیا میں الحاد و دہریت اور فسق و فجور کا ایک تند و تیز سیلاب بہار کھا تھا اور بڑے بڑے متدین خاندان اس کی زد میں آچکے تھے بلکہ خود آپ کے خاندان میں بے دینی کی ایک رو چل نکلی تھی.لیکن حضرت کے قلب صافی میں ابتداء ہی سے خدا تعالی کی عبادت اور اس سے محبت کے جذبات موجزن تھے اور دنیا کی کوئی دلکشی اور رنگینی آپ کے اس والہانہ عشق میں حائل نہیں ہو سکی.

Page 71

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲ ولادت بچین اور تعلیم ایک معمر ہندو جاٹ کی شہادت ایک معمر ہندو جاٹ کی (جس نے آپ کو گود میں کھلایا بھی ہے) شہادت ہے کہ : ” جب سے اس ( مراد حضرت مسیح پاک - ناقل) نے ہوش سنبھالا ہے بڑا ہی نیک رہا.دنیا کے کسی کام میں نہیں لگا.بچوں کی طرح کھیل کود میں مشغول نہیں ہوا.شرارت ، فساد، جھوٹ ، گالی کبھی اس میں نہیں.ہم اور ہمارے ہم عمر اس کو ست اور سادہ لوح اور بے عقل سمجھا کرتے تھے کہ یہ کس طرح گھر بہائے گا.سوائے الگ مکان میں رہنے کے اور کچھ کام ہی نہیں تھا.نہ کسی کو مارا نہ آپ مار کھائی.نہ کسی کو برا کہا نہ آپ کو کہلوایا.ایک عجیب پاک زندگی تھی مگر ہماری نظروں میں اچھی نہیں تھی.نہ کہیں آنا نہ جانا.نہ کسی سے سوائے معمولی بات کے بات کرنا.اگر ہم نے کبھی کوئی بات کہی کہ میاں دنیا میں کیا ہو رہا ہے تم بھی ایسے رہو.اور کچھ نہیں تو کھیل تماشہ کے طور پر ہی باہر آیا کرو تو کچھ نہ کہتے ہیں کے چپ ہو رہتے.تم عقل پکڑو کھاؤ کماؤ کچھ تو کیا کرو.یہ سن کر خاموش ہو رہتے آپ کے والد مجھے کہتے.نمبر دارا غلام احمد کو بلا لاؤ سے کچھ سمجھا دیں گے.میں جاتا بلالا تا.والد کا حکم سن کر اسی وقت آ جاتے اور چپ چاپ بیٹھ جاتے اور نیچی نگاہ رکھتے.آپ کے والد فرماتے بیٹا غلام احمد ا ہمیں تمہارا بڑا فکر اور اندیشہ رہتا ہے تم کیا کر کے کھاؤ گے) اس طرح زندگی تم کب تک گذارد گے.تم روزگار کرد کب تک دامن بنے رہو گے.خورونوش کا فکر چاہئے.دیکھو دنیا کماتی کھاتی پیتی ہے کام کاج کرتی ہے.تمہارا بیاہ ہو گا بیوی آرے (می) بالک بچے ہوں گے وہ کھانے پینے پہننے کے لئے طلب کریں گے.ان کا تعمیر تمہارے ذمہ ہو گا.اس حالت میں تو تمہارا بیاہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے.کچھ ہوش کرو.اس غفلت اور اس سادگی کو چھوڑ دو.میں کب تک بیٹھا رہوں گا.بڑے بڑے انگریزوں، افسروں، حاکموں سے میری ملاقات ہے وہ ہمار الحاظ کرتے ہیں.میں تم کو چٹھی لکھ دیتا ہوں تم تیار ہو جاؤ یا کہو تو میں خود جاکر سفارش کروں.تو مرزا غلام احمد کچھ جواب نہ دیتے.وہ بار بار اسی طرح کہتے.آخر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ ابا بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو ا د ر اپنے رب العالمین کا فرمانبردار ہو.اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پروا ہے.ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں.مرزا غلام مرتضی صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جاؤ.اپنا خلوت خانہ سنبھالو.جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے کہ یہ میرا بیٹا ملاں ہی رہے گا.میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کر دوں جو دس میں من دانے ہی کما لیتا مگر میں کیا کروں یہ تو ملاگری کے بھی کام کا نہیں.ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا.ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے پھر آبدیدہ ہو کر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے.یہ شخص زمینی

Page 72

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳ ولادت بچین اور تعلیم نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے " حضرت اقدس کو شروع سے نماز کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگاؤ تھا جو عمر کے آخر تک گویا ایک نشہ کی صورت میں آپ کے دل و دماغ پر طاری رہی.تحریک احمدیت کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے آپ کے ابتدائی سوانح میں یہ عیب واقعہ درج کیا ہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی سے (جو بعد کو آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ ” نا مرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے ".یہ فقرہ بظاہر نہایت مختصر ہے مگر اس سے عشق الہی کی ان لہروں کا پتہ چلتا ہے جو ما فوق العادت رنگ میں شروع سے آپ کے وجود پر نازل ہو ، رہی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اپنی فطری رجحانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پر لکھا ہے کہ : المَسْجِدُ مَكَانِى وَالصَّالِحُونَ اِخْوَانِي وَذِكرُ اللَّهِ مَالِي وَ خَلْقُ اللهِ عَمَالِي فرماتے ہیں کہ ادائل ہی سے مسجد میرا امکان صالحین میرے بھائی یاد الہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے.حضور کی یہ پاکیزہ فطرت اور خد انما عادات و خصائل ہی کا نتیجہ تھا کہ جس نے بھی بصیرت کی نگاہ سے دیکھا آپ کا والہ و شیدا ہو گیا.میاں محمد یاسین صاحب احمدی ٹیچر بلوچستان کی روایت ہے کہ ” مجھے مولوی برہان الدین صاحب میں میر نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے.اس مجلس میں کچھ باتیں ہو رہی تھیں.باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے فرمایا کہ اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہو تا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے.انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی.مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا.مکرم مولوی غلام محمد صاحب سکنہ بیگووالہ ضلع سیالکوٹ نے بتایا کہ میں نے یہ بات اپنے والد محمد قاسم صاحب سے اسی طرح سنی تھی" حضرت مسیح موعود دورِ تعلیم میں "النبی الامی" کا قابل فخر خطاب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے تنہا آنحضرت ا کو عطا ہوا اور باقی انبیاء کو بچپن میں کچھ نہ کچھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا پڑی.اس خدائی دستور کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ابتدائی عمر میں تین اساتذہ سے چند ابتدائی علوم پڑھنے کا موقعہ ملا.سکھا شاہی کے جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے.ہر طرف جہالت کی تاریکی مسلط تھی اور عوام

Page 73

تاریخ احمدیت جلدا ۵۴ ولادت بچین اور تعلیم ہی نہیں رؤساء بھی علم کے نور سے محروم تھے.چنانچہ یہ بات مشہور ہے کہ خطوط اکثر مدت تک یونسی بغیر پڑھے رکھے رہتے اور ایک عرصہ کی محنت مشقت اور تلاش کے بعد ان کے مضمون سے آگاہی ہو سکتی.لیکن چونکہ اللہ تعالٰی نے آپ سے اصلاح خلق کا ایک بہت بڑا کام لیتا تھا اس لئے اس نے آپ کے والد بزرگوار کے دل میں آپ کی تعلیم کا خاص شوق پیدا کر دیا.چنانچہ انہوں نے دنیوی تفکرات اور اقتصادی مشکلات کے باوجود مناسب حال ابتدائی تعلیم دلانے میں گہری دلچسپی لی چنانچہ حضور اپنے ذاتی سوانح میں لکھتے ہیں: بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھا ئیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگ آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے.اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے.اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا.اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا.اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے استاد فضل الہی صاحب قادیان کے باشندے اور خفی المذہب تھے.دوسرے استاد مولوی فضل احمد صاحب فیروزوالہ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے اور اہلحدیث تھے.مولوی مبارک علی صاحب جو ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے اور پھر غیر مبایعین کی رو میں بہہ گئے ، آپ ہی کے بیٹے تھے.اور تیسرے استاد مولوی گل علی شاہ صاحب بٹالہ کے رہنے والے اور مذ ہبا شیعہ تھے.m حضور کے زمانہ طالب علمی میں قادیان کا وہ کچا دیوان خانہ جس میں بعد کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب ہی کے مکانات تعمیر ہوئے پرائیویٹ درسگاہ تھی جہاں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی بدولت نہ صرف آپ کے فرزندی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ گاؤں کے دوسرے بچوں کو بھی استفادہ کی کھلی اجازت HA

Page 74

تاریخ احمدیت جلدا ۵۵ ولادت بچین اور تعلیم تھی.بچوں کی شوخی، ہنسی مذاق اور چلبلا پن مشہور ہے اور یہ درسگاہ بھی ان باتوں سے خالی نہ تھی.آپ کوہ و قار تھے اور متانت و سنجیدگی کی مجسم تصویر دوسرے بچے جو طفیلی رنگ میں استفادہ کرتے تھے اپنے اساتذہ کا مذاق اڑاتے مگر آپ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے.وہ تعلیمی اوقات میں تفریح اور دل لگی کا سامان پیدا کرتے اور آپ اپنا سبق یاد کرنے میں مستغرق رہتے.آپ کا معمول یہ تھا کہ اپنا سبق ہمیشہ خود پڑھتے اور دو یا تین دفعہ دہرا لینے کے بعد بالا خانہ میں تشریف لے جاتے اور وہاں تنہائی میں پوری یکسوئی سے یاد کرتے.اگر کچھ بھول جاتا تو نیچے آکر اپنے استاد سے براہ راست پوچھتے اور پھر اوپر چلے جاتے.آپ کی عادت مبارک میں بالخصوص یہ امر بھی داخل تھا کہ اگر کوئی بچہ اپنا سبق بھول جاتا تو آپ اسے یاد کرا دینے میں کبھی تامل نہ فرماتے.ان دنوں میں عام طور پر کشتی کیڈی اور مگدر اور موگری اٹھانے کے کھیل مروج تھے اور بٹیر بازی اور مرغ بازی کی وبا عام تھی.مگر آپ بالطبع ان سب فضولیات سے منظر اور قطعی طور پر بیزار تھے." تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے.آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے.اسی طرح اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے.مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخر عمر تک قائم رہی.آپ کئی کئی میل تک میر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے ".یہ تو محض صحت کی درستی کی غرض سے تھا ورنہ ابتداء ہی سے آپ کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف.مسجد ہی میں عموماً ٹلتے رہتے.اور ملنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہو کر اتنا ملتے کہ جس زمین پر ملتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمتیز ہو جاتی.مولوی فضل الہی صاحب اور مولوی فضل احمد صاحب تو آخر ملازمت تک قادیان ہی میں مقیم رہے اور سلسلہ تعلیم نہیں جاری رہا.مگر مولوی گل علی شاہ صاحب قادیان میں مختصر قیام کے بعد بٹالہ میں چلے آئے.اس لئے حضور انور کو بھی کچھ عرصہ کے لئے بغرض تعلیم بٹالہ میں فروکش ہو نا پڑا.بٹالہ میں حضور کے خاندان کی دکانیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی (جو بعد میں مقدمات کے نتیجہ میں فروخت ہو گئی حضور نے اسی بڑی حویلی میں قیام فرمایا.ان دنوں آپ کے ہم مکتبوں میں مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور لالہ بھیم سین بھی شامل تھے جنہیں آپ کی خدا نما شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہ ہزار جان سے آپ کے فریفتہ ہو گئے.آپ کا ذکر الہی میں استغراق، شب بیداری امارت میں فقیرانہ شان نورانیت سے معمور چہرہ اور عشق رسالت میں ڈھلی ہوئی معصومیت ان کے قلب و نظر کا گم گشتہ فردوس تھے.لالہ بھیم سین اور ان کے فرزند لالہ

Page 75

تاریخ احمدیت جلدا ۵۶ ولادت چین اور تعلیم کنور سین کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک حضرت اقدس سے بے حد الفت و عقیدت رہی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ کی اشاعت پر اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلدے میں ہم کتی کے انہی ایام کی یاد میں لکھا." مولف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے حاضرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مولف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے.اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیے جانے کے قابل ہے".اپنے اس لمبے اور ذاتی تعارف کی بناء پر مولوی صاحب نے بڑی تحدی کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی جلالت مرتبت کا بایں الفاظ اقرار کیا کہ : اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے ۲۵ جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دلر با شخصیت اور تقدس کے انہی گہرے نقوش کا اثر تھا کہ مولوی صاحب دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہو گئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا.مگر اس وقت بھی ان کی حضور سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضور کا جو تا آپ کے سامنے سیدھا کر کے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے " چنانچہ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کا چشم دید واقعہ ہے کہ : دعوئی سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مولوی محمد حسین صاحب ٹالوی کے مکان واقعہ بٹالہ پر تشریف فرما تھے.میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا.کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے.حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا".دعوئی مسیحیت کے بعد جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے بلکہ اول المکذبین بن کر آپ کے خلاف پہلا اور منتظم محاذ قائم کر لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہندوستان بھر کے تمام علماء کو چیلنج دیا کہ وہ آپ کی دعویٰ سے قبل کی زندگی کے کسی گوشہ کو داغ دار ثابت کر دکھائیں.اس زبر دست تحدی نے مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے ہم خیال علماء

Page 76

تاریخ احمدیت جلدا ۵۷ ولادت چین اور تعلیم اور سجادہ نشینوں پر سکوت مرگ طاری کر دیا اور وہ حضور کی بے لوث زندگی پر انگشت نمائی کرنے سے سراسر قاصر رہے.یہ تو آپ کے ہم مکتبوں کا تاثر تھا ورنہ زمانہ طالب علمی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فہم و فراست اور تقوی شعاری اور علم لدنی کا بعض مواقع پر آپ کے اساتذہ کو بھی معترف ہونا پڑا.چنانچہ ایک دفعہ دوران تعلیم میں حضور کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان ہے جو دھواں دھار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہو رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر آنحضرت ا ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس (مکان) کا محاصرہ کیا ہوا ہے.استاد نے یہ بھی بتایا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتا ہے.پس اس نے جو آپ کو دیکھا ہے تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا".حضور کا یہ جواب سن کر آپ کے وہ استاد بہت متعجب بھی ہوئے اور خوش بھی.اور کہنے لگے کہ "کاش! ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو وہ شاید ارتداد سے بچ جاتا " آنحضرت الله کی زیارت رور FA تعلیم کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آغاز جوانی میں بذریعہ رویاء سرتاج مدینہ نور دو عالم حضرت محمد مصطفی الله کے رخ انور کی زیارت کا شرف نصیب ہوا.اس زیارت کے بعد جب تک زندہ رہے عشق رسول میں فتا ر ہے اور کو بعد میں آپ نے کشفی رنگ میں اپنے آقا فداہ ابی رامی کی متعدد بار بیداری میں ملاقات بھی کی.اور کئی حدیثوں کی تصدیق بھی آپ سے براہ راست کی لیکن اس زیارت میں رسول خد امحمد عربی کے نورانی مکھڑے نے آپ کو کچھ ایسا مستانہ بنا دیا کہ آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے تیز نگاہ سے گھائل ہو گئے.آپ نے اپنی پوری دنیا بھلادی مگر یہ عظیم الشان محمد ی جلوہ فراموش نہیں کر سکے.دربار رسالت کی اس ابتدائی حاضری کا دلکش اور وجد آفرین نقشہ کھینچتے ہوئے حضور آئینہ کمالات اسلام اور براہین احمدیہ حصہ سوم میں تحریر فرماتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام کی اصل عبارت عربی کی ہے جس کا ترجمہ درج کیا گیا ہے): اوائل ایام جوانی میں ایک رات میں نے (رویا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا ذکر اور چرچا ہو رہا ہے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور کہاں تشریف فرما ہیں.انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا.چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر چلا گیا.اور جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور

Page 77

تاریخ احمدیت جلدا ۵۸ ولادت بچین اور تعلیم بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا.آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پر شفقت و پر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی.آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا.اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا.اس وقت آپ نے مجھے فرمایا اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی.میں نے عرض کیا حضور یہ میری ایک تصنیف ہے".آنحضرت ﷺ نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ اس کتاب کا میں نے قطبی نام رکھا ہے...غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اس میدہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مردہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے اکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زیر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما ر ہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا.اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں.اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی اونچی ہو گئی ہے حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعائیں پڑ رہی ہیں اور میں ذوق اور وجد کے ساتھ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو بہہ رہے تھے.پھر میں بیدار ہو گیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا اور اللہ تعالٰی نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا- اللهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ ་ حميد مجيد.

Page 78

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹ ولادت بچین اور تعلیم حواشی عالمی اعدادو شمار کے مطابق توام ولادت کی عام شرح ۵۰-۶۰-۷۰ یا ۰ ایس سے ایک ہے.مگر جاپان اور چین میں اس کی نسبت بہت کم ہے یعنی جاپان میں ۹۳ میں سے ایک چین میں ۱۲۹ میں سے ایک بچہ جڑواں ہوتا ہے اور منگول نسل کے لوگوں میں تو اس رنگ کی پیدائش نہایت درجہ قلیل اور شاذ ہوتی ہے.لہذا منگول نسل کی آمیزش کے باوجود حضرت مسیح موعود کا توام پیدا ہونا ایک غیر معمولی بات ہے.(از ڈاکٹر شاہ نواز صاحب) سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۳۸ و حصہ دوم صفحه ۱۰۹ یوم شہادت ۶ - مئی ۱۸۳۱ء سیرت احمد شهید صفحه ۱۳۱۴ مرتبہ مولانا غلام رسول میرا Merris Wherry" کی کتاب "Qur Missions in India صفحہ شائع کرده The Stratford Company Bostan مطبوعه ۶۹۲۹ ے متحدہ پنجاب مراد ہے.-4 التبلیغ ( آئینہ کمالات اسلام) سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۱۵ کتاب البریه صفحه ۱۳۶ و ۱۳۷ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۳ طبع اول 10 الحکم ۱۴ جون ۱۹۳۶ء صفحه ۹ تذكرة المهدی حصہ دوم صفحه ۳۴ مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی (طبع اول) مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان دسمبر ۶۱۹۲۱ - سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۵۰ طبع ثانی (مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ (تعالی) تذكرة المهدی حصہ دوم صفحه ۳۳٬۳۲ -لاله کنور سین صاحب کے والد کا بیان ہے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے گھر میں ایک ولی پیدا ہوا ہے.(سیرۃ المہدی غیر مطبوعه حصه چهارم روایت نمبر ۱۲۹۶) ۱۳ سیرة مسیح موعود جلد اول نمبر دوم سیرت مسیح موعود حصہ سوم صفحه ۱۳۸۷ از حضرت عرفانی) منقول از " روایات صحابه " غیر مطبوع جلد ۱۲ صفحه ۱۰۵٬۱۰۴ یہ روایات جو نظارت تالیف و تصنیف قادیان کی نگرانی میں کئی سال محنت و کاوش کے بعد جمع ہو کر چودہ جلدوں میں مرتب ہوئیں.لائبریری صدرانجمن احمد یہ ربوہ میں موجود ہیں.حضرت مولوی غلام رسول صاحب کے حالات زندگی ملاحظہ ہو " تاریخ الحدیث " صفحہ ۴۴۸ مولفہ مولانا میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی ناشر اسلامی پبلشنگ کمپنی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ۱۹۵۳ء تذکرہ علمائے پنجاب حصہ دوم صفحہ ۲۴۸ تا ۲۵۲ مصنفہ جناب اختر رای صاحب ۳۶ رحمانیہ اردو بازار لاہور ۱ کتاب البریه صفحه ۱۵۰٬۱۴۸) حیات النبی جلد اول صفحہ ۱۵۲ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ) ۲۰ حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۳۸ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۲۱ سلسلہ احمدیہ صفحه ۱ مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مطبوعہ ۹۳۹اء و احکم " مسیح موعود نمبر مئی جون ۱۹۴۳ء -۲۲ حیات النبی جلد اول صفحه ۵۲ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ۲۳- حیات احمد ۲۲.لالہ تعمیم سین کے ناناڈپٹی مکھن لال بٹالہ میں اکٹر اسٹنٹ تھے انہوں نے ہی لالہ صاحب کو مولوی گل علی شاہ صاحب کے تلمیذ میں دیا تھا.لالہ بھیم سین نے سیالکوٹ میں وکالت کی پریکٹس شروع کر دی تھی.لالہ کنور سین (لالہ ھم سین کے بیٹے لاء کالج

Page 79

تاریخ احمدیت جلدا ۶۰ ولادت بچین اور تعلیم کے پرنسل تھے.(حیات النبی صفحہ ۷۸ تاہے جلد اول) ۲۵ اشاعۃ السنہ جون جولائی اگست ۱۸۸۴ء الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه الدحیات احمد صفحه ۸۸ ۲۷ سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۴ طبع اول تا شریک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان اپریل ۱۹۳۹ء- ۲۸- ازالہ اوہام صفحه ۱۳۵۸ و سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۵۴۲۵۰ طبع دوم روایت حضرت مولوی شیر علی صاحب ۹ حضور نے براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۹٬۲۴۱ حاشیه در حاشیہ نمبر میں اس رویا کی تاریخ ۱۸۷۶۵ء لکھی ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ یہ اس زمانہ کی رویا ہے جبکہ یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا.لیکن حضور کی کتاب تریاق القلوب سے چونکہ معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجا سنگھ کی وفات (۱۸۷۲ء) کے دنوں کا واقعہ ہے.اس لئے یہ رویا در اصل ۱۸۷۳ ء سے کئی سال قبل کی معلوم ہوتی ہے.۳۰ سیرة المهدی حصہ سوم صفحه ۵۲ ۱ ترجمه آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۴۹٬۵۴۸ ۳۲.یہاں سے براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۲۹٬۲۳۸ حاشیه در حاشیہ نمبر کی عبارت شروع ہوتی ہے.۳۳ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۹ کی ، کرت کا متن ختم ہوتا ہے.۳۴ ترجمه آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۴۹٬۵۴۸

Page 80

تاریخ احمدیت جلدا 41 شادی انتطاع الی اللہ باب چهارم دوم شادی انقطاع الی اللہ ناموس مصطفی اللہ کے لئے ایک فیصلہ کن روحانی جنگ کی تیاری کثرت مطالعہ خدمت خلق اور دیگر مشاغل تخمیناً ۱۸۵۰ تا ۱۸۵۴) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی تعلیمی دوری میں قدم رکھتے تھے کہ کم پہلی شادی و بیش پندرہ سولہ برس کی عمر میں ازدواجی کشمکش سے دو چار ہو گئے.آپ کے ایک سگے ماموں مرزا جمعیت بیگ تھے ان کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی.لڑکے کا نام مرزا علی شیر تھا اور لڑکی حرمت بی بی.مرزا علی شیر کا نکاح مرزا احمد بیگ ہو شیار پوری کی ہمشیرہ سے ہوا.اور حرمت بی بی آپ کے نکاح میں آئیں.یہ آپ کا پہلا نکاح تھا جس سے دو فرزند مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب بالترتیب قریباً ۱۸۵۳ء اور ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے.یہ عجیب خدائی تصرف ہے کہ جہاں آپ کے بڑے بھائی کی شادی بڑے دھوم دھڑکے سے ہوئی کئی دن جشن رہا اور ۲۲ طائفے اور ارباب نشاط جمع ہوئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریب شادی نہایت درجہ سادگی اور اسلامی ماحول میں ہوئی اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم اور بدعات نہیں ہو ئیں..خلوت نشینی نشد ہمارے یہاں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ نوجوان شادی کے بعد اپنی تعلیمی ذمہ داریوں سے عہدہ پر آہونے سے قاصر رہ جاتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خلوت نشینی اور عزلت پسندی میں وہ کمال حاصل تھا کہ شادی آپ کے سلسلہ تعلیم پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکی.قادیان کے پاس کے گاؤں کا ایک معمر ہندو جاٹ بیان کیا کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب سے ہیں سال بڑا ہوں.بڑے مرزا صاحب کے پاس میرا بہت آنا جانا تھا میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا

Page 81

تاریخ احمدیت جلدا ۶۲ شادی انتطاع الی الله کہ کوئی بڑا افسر یار کیں بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب آپ کے بڑے لڑکے (یعنی مرزا غلام قادر) کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا.وہ جواب دیتے تھے کہ ”ہاں میرا دو سرالڑ کا غلام قادر سے چھوٹا ہے تو سہی پر وہ الگ ہی رہتا ہے.پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلواتے تھے چنانچہ آپ آنکھیں نیچی کئے ہوئے آتے اور والد صاحب کے پاس ذرا فاصلہ پر بیٹھ جاتے اور یہ عادت تھی کہ بایاں ہاتھ اکثر منہ پر رکھ لیا کرتے تھے اور کچھ نہ بولتے اور نہ کسی کی طرف دیکھتے.بڑے مرزا صاحب فرماتے اب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا.بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا سیتر ہے نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ ہنس کر کہتے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں ملا کر وا دیتا ہوں.دس من وانے تو گھر میں کھانے کو آجایا کریں گے آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ کیا بادشاہ بنا بیٹھا ہے اور سینکڑوں آدمی اس کے در کی غلامی کے لئے دور دور سے آتے ہیں ".شادی سے قبل ایک دفعہ حضور نے ایک ہندو سے (جو آپ کے والد بزرگوار کے سامنے بیٹھا ہوا اپنی تلخ کامیاں اور نا مرادیاں بیان کرتا تھا اور سخت کراہ رہا تھا) فرمایا کہ ”لوگ دنیا کے لئے کیوں اس قدر دکھ اٹھاتے اور ہم و غم میں گرفتار ہیں؟ ہندو نے کہا کہ ” تم ابھی بچے ہو جب گرہستی ہو گے تب تمہیں ان باتوں کا پتہ لگے گا".کم و بیش پچیس سال کے بعد کسی تقریب پر اسی ہندو کو آپ سے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہوا تو حضور نے اسے گذشتہ واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تو میں گرہستی ہوں".اس نے کہا " تم تو ویسے ہی ہو".خدمت دیں کی ابتدائی مہم چونکہ شادی محض سنت رسول کی تھیل میں تھی.اس لئے جناب الہی سے آپ کو ایسا جذب عطا ہوا کہ شادی کے بعد آپ کے دل میں محبوب حقیقی کی محبت کا جذبہ طوفان بن کر اٹھا اور آندھی کی طرح آپ کے رگ و ریشہ پر چھا گیا.دینی مطالعہ کا شغف اور شوق پہلے سے ترقی کر گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے دل و دماغ آنحضرت کے نشہ عشق سے ایسے مخمور ہوئے کہ آپ دین مصطفیٰ کی بے بسی اور غیر مذاہب کی نا قابل برداشت چیرہ دستیوں سے دلفگار رہنے لگے.چنانچہ اسی وقت سے آپ نے معاندین اسلام کے ان اعتراضات کو جمع کرنے کی مہم شروع کر دی جو سرور کائنات ﷺ کی ذات ستودہ صفات پر چاروں طرف سے کئے جا رہے تھے اور جنہیں سن سن کر آپ کا دل کباب ، سینہ چھلنی اور آنکھیں اشکبار ہو ہو جاتی تھیں.آپ خود فرماتے ہیں: میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے "

Page 82

تاریخ احمدیت جلدا ури شادی انتطاع الی اللہ اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت اللہ پر کرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے".بالفاظ دیگر شادی کی مسرتوں میں رسول اللہ ﷺ کے دین کی مظلومیت کا غم تازہ ہو گیا جس طرح حضرت عائشہ کے سامنے فتح شام کی خوشی میں وہاں کے میدے کی روٹیاں پیش کی گئیں تو آپ کی آنکھیں اس غم سے ڈبڈبا آئیں کہ اگر رسول اللہ ﷺے اس وقت زندہ ہوتے تو میں یہ روٹیاں آپ کی خدمت میں پیش کرتی.بہرحال آپ نے شادی کے ابتدائی ایام میں ہی اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ آپ آنحضرت ﷺ اور حضور کی پیش کردہ تعلیمات کے پاک اور منور چہرے سے دشمنوں کے پر دے چاک کر کے رہیں گے اور دنیا کو اس مقدس وجود کی حقیقی شکل پیش کئے بغیر چین نہ لیں گے.یاد رہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جبکہ چرچ مشنری سوسائٹی لنڈن نے ہندوستان میں اپنے کارکنوں کو خفیہ ہدایات جاری کیں اور لکھا کہ ”ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایک نجات دہندہ کی آمد کی خوشخبری عیسائی حکومت کے شروع ہونے کے ساتھ ہی لوگوں میں پھیلائی جائے تو عیسائیت کے حق میں ایک زبر دست اور ترقی پذیر تحریک ہوئی "- آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس سے شروع ہی سے آپ کو اس درجہ والہانہ عشق تھا کہ حضور کے متعلق ذراسی بات بھی آپ برداشت نہیں کر سکتے تھے.اور اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان مبارک میں ذراسی بات کہتا تو آپ کا چہرہ مبارک یکا یک سرخ ہو جاتا اور آنکھیں متغیر ہو جاتیں.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت ) سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا".آپ اپنے پہلو میں اسلام اور رسول خدا ﷺ کا جو غم چھپائے عالم کتمان سے عالم ظہور میں آئے تھے وہ ہر لمحہ سیل رواں کی طرح بڑھتا ہی گیا اور پھر جوں جوں عمر میں پختگی اور تجربہ میں وسعت پیدا ہوتی گئی آپ اسلام کی حالت دیکھ کر ہر وقت مضطرب اور بے چین رہنے لگے.چنانچہ حضرت مولوی فتح الدین صاحب دھرم کوئی حضور کے ابتدائی زمانہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ : میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کر تا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کو نہ سے دوسرے کو نہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے.میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں

Page 83

تاریخ احمدیت جلدا ۶۴ شادی ، انقطاع الی اللہ پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ حالت جاتی رہی.صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ”میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی قلبی کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.دین و تقویٰ تم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر بے بسی سے ہم پڑے ہیں کیا کریں کیا اختیار میرے آنسو اس غم دلوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویران ہے دنیا کے ہیں عالی منار اے رے پیارے مجھے اس سیل غم سے کر رہا ور نہ ہو جائے گی جاں اس درد سے تجھ پر نثار قرآن مجید کا کثرت سے مطالعہ شادی کے بعد سے آنحضرت پر اعتراضات کے غور و فکر کرنے کی مہم شروع ہوتی ہے اس مہم کو سر کرنے اور معاندین اسلام کے دعوؤں کا ابطال کرنے نیز خدا تعالٰی سے براہ راست تعلق قائم کر کے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آپ علاوہ دعاؤں کے قرآن مجید کا کثرت سے مطالعہ فرماتے تھے بلکہ سب سے زیادہ انہماک آپ کو ان دنوں قرآن مجید کے مطالعہ ہی میں تھا.حتی کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے آپ کو جب بھی دیکھا قرآن ہی پڑھتے دیکھا چنانچہ پٹیالہ کے ایک غیر احمدی تحصیلدار منشی عبد الواحد صاحب (جو کثرت سے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس قادیان میں آتے تھے اور جنہیں بچپن میں حضور کو بارہا دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا) کی شہادت ہے کہ حضور چودہ پندرہ سال کی عمر میں سارا دن قرآن شریف پڑھتے تھے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور مرزا غلام مرتضی صاحب فرماتے کہ یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن ریف پڑھتا رہتا ہے ".ابتدائی زمانہ کے متعلق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضور قرآن مجید کے علاوہ بخاری ، مثنوی رومی اور دلائل الخیرات ، تذکرۃ الاولیاء، فتوح الغیب اور سفر السعادت پڑھتے اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے.مگر بہر حال اکثر توجہ قرآن مجید کے مطالعہ کی طرف تھی.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی یہ بھی روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا

Page 84

تاریخ احمدیت جلدا ۶۵ شادی انقطاع الی اللہ اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو.یہ مطالعہ سطحی نہیں ہو تا تھا بلکہ آپ قرآن مجید کے لفظ لفظ کی باریکیوں تک پہنچنے کے لئے یہاں تک گہرا غور و فکر فرماتے کہ دنیا جہان سے بیگانہ ہو کر قرآن مجید کی وسعتوں میں گم ہو جاتے اور آپ کے والد بزرگوار کو بار بار کہنا پڑتا کہ مطالعہ میں اس درجہ انہماک صحت پر برا اثر ڈالے گا کیونکہ آپ بحیثیت طبیب دیکھ رہے تھے کہ آپ کی غذا نہایت قلیل ہے مگر دوسری طرف مطالعہ کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ زمانے میں اس کی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ مرزا اسماعیل بیگ کی روایت ہے کہ کبھی حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مجھے بلاتے اور دریافت کرتے کہ ”سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے میں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں.اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے.پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے؟ میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں.اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں.اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دیئے ہیں میں اوروں سے کام لیتا ہوں.دوسرا بھائی کیسالا ئق ہے مگردہ معذور ہے ".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مطالعہ میں یہ انہماک اور دلی شغف حضور کے والد صاحب کی وفات تک بدستور قائم رہا.چنانچہ ۱۸۷۷۶۱۸۷۵ء کے زمانہ کے متعلق پنڈت دیوی رام کی شہادت ہے کہ آپ ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ فرماتے رہتے تھے.اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا.انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی.مرزا صاحب مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے.آپ کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں.جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے.حضور خود بیان فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آدے ".A حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا قیاس درست نکلا یعنی شب بیداری شبانه صحت کی خرابی روز دماغی محنت اور اسلام کے درد کے غیر معمولی اثر نے آپ کی صحت پر اسی زمانہ سے نہایت ناخوشگوار اثر ڈالا اور یہ اثر دینی مصروفیات کے ساتھ ساتھ روز بروز بڑھتا گیا.حتی کہ ۱۸۶۵ ء سے یعنی عنفوان شباب ہی میں آپ کے بال سفید ہونے شروع ہو گئے.رفتہ رفتہ دوران سر اور ذیا بیطس کے عوارض لاحق ہو گئے.اپنے والد بزرگوار مرحوم کے زمانہ میں حضور کو ایک مرتبہ سل بھی ہو گئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے.۱۸۸۰ء میں تو لنج زحیری کے مرض میں اس شدت سے بتلا

Page 85

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۶ شادی انقطاع الی اللہ ہوئے کہ چراغ سحری کی طرح جھلملانے لگے.خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آپ کو دوبارہ زندگی بخشی.یہ مرض تو دور ہو گئی مگر دوسرے عارضے بدستور قائم رہے اور پھر بشیر اول کی وفات سے تشیخ کی بیماری کا حملہ شروع ہو گیا اور کثرت سے دورے ہونے لگے.غشی طاری ہو جاتی ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے بدن کے بیٹھے کھچ جاتے خصوصاً گردن کے اور سر میں چکر ہو تا تھا.اس حالت میں آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے.شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے.پھر اس کے بعد کچھ دوروں کی ایسی سختی نہ رہی اور کچھ طبیعت بھی عادی ہو گئی.بہر حال آپ پوری عمر مختلف عوارض میں مبتلا رہے.مگر خد اتعالیٰ کی قدرتوں کا یہ نشان ہے کہ نہ دنیوی تفکرات آپ کو اپنی راہ سے ہٹا سکے نہ بیماریاں آپ کو اپنے فرض منصبی سے جدا کر سکیں.آپ کی پوری زندگی معمور الاوقات تھی.اور اوائل زمانہ کے حالات سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آپ کی باطنی آنکھ کو نظام عالم میں روحانی انقلاب برپا کرنے کا ایک نقشہ دکھایا گیا ہے اور آپ اس نقشہ کے مطابق فرشتوں کی رہنمائی میں معرکہ کفر د اسلام کے سر کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں اور حوادث و مصائب کے طوفانوں سے گذر کر دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں.اس عہد تابل میں آپ نے خلوت کو جلوت پر ترجیح دی.خدمت خلق اور غرباء پروری اور باوجودیکہ آپ ایک نہایت عالی خاندان کے درخشندہ گوہر تھے اپنی اس گوشہ نشینی کی وجہ سے کوئی شخص آپ کو نہیں جانتا تھا اس تنہائی اور تخلیہ کی زندگی میں آپ کے رفیق بعض چھوٹے بچے تھے.جن میں اکثریتائی ہوتے.آپ کے کھانے میں وہ برابر کے شریک ہوتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کھانے کے وقت موجود نہ ہو تا تھا تو حضور پہلے اس کا حصہ نکال کر رکھ لیتے تھے.اس زمانہ میں آپ بعض کو سبق بھی پڑھا دیا کرتے تھے.مگر عام طور پر آپ کا کام یہ ہو تا تھا کہ خود بھی نمازوں کی پابندی کرتے کثرت سے درود شریف کا ورد کرتے اور ان کو بھی نماز اور درود شریف پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے جن کو اس قابل پاتے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں ان کو طریق استخارہ بھی سمجھا دیتے اور ہدایت فرماتے کہ اگر وہ کچھ دیکھیں تو صبح کو بیان کریں.آپ ان کے خواب سنتے اور تعبیریں بتاتے.یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ عمر بھر جاری رہا.گو اس کی صورت تبدیل ہو گئی.حضور ان ایام میں بالا خانے پر رہتے تھے.کھانا نہایت قلیل مقدار میں تناول کرتے اور اکثر بھنے ہوئے دانوں پر ہی اکتفا فرماتے.خادمہ جب کھانا لاتی تو آپ اوپر سے ہی ایک برتن لٹکا دیتے خادمہ اس میں کھانا رکھ دیتی تو آپ او پر کھینچ لیتے جس میں سے کچھ تو خود تناول فرماتے اور باقی اپنے ہمجولیوں اور

Page 86

تاریخ احمدیت.جلدا 46 شادی انتطاع الی الله ضرورت مندوں کو دے دیتے.چنانچہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار کا چشم دید بیان ہے کہ ایک دفعہ میں حضور کے ساتھ حضور کے گھر چلا گیا.دیکھا کہ ایک رسی کے ساتھ ایک برتن بندھا ہوا ہے.جب خادمہ کھانا لاتی ہے تو حضور اسے لٹکار دیتے ہیں.چنانچہ میرے سامنے خادمہ کھانا لائی.حضور نے اسے نیچے لٹکایا اور اوپر کھینچ لیا اور حضور کے ہاتھ میں کتاب تھی.حضور کتاب پڑھتے جاتے اور نیچے سے لقمہ لے کر کھاتے جاتے تھے.ایک لڑکے نے جس کا نام حکم دین تھا چپکے سے روٹی پیچھے ہٹائی.حضور نے دو ایک دفعہ ہاتھ نیچے کر کے لقمہ لینے کا قصد کیا مگر روٹی نہ ملی.حضور نے نیچے دیکھا تو معلوم ہوا کہ حکم دین نے کھسکالی ہے.چنانچہ حضور نے کمال شفقت و محبت سے فرمایا." اچھا تم کھانا چاہتے ہو ہاں کھالو ".et

Page 87

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۸ شادی انتفاع الی اللہ حیات النبی جلد اول صفحه ۰۵۳ حواشی (شادی انتطاع الی اللہ اور دیگر مشاغل) مرزا سلطان احمد صاحب کی ولادت کے وقت حضور کی عمر اندازا اٹھارہ برس کی تھی.(سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۱۵ طبع اول) رفات ۶۱۹۳۱ مرز افضل احمد مرزا سلطان احمد کے دو سال بعد تولد ہوئے.لائف آف " احمد " (مولا نادر و صاحب بھی ان صفحه ۳۱ انگریزی - سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۳۳ طبع دوم - تذکرة المهدی حصہ دوم صفحه ۳۰ دسیرت المهدی حصہ دوم صفحه ۸۰ -A -4 ا- شادی شده الحکم ہے.اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴ کالم ۲ الحکم ۳۰ اپریل ۱۹۰۰ و صفحه ۲ The Miaalon by R.clark London,1904 P203 بحوالہ انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ " (مرتبہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد) ناشر احمد یہ کتابستان ربوه سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۱۹ سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۱۹ - سیرة المهدی حصہ سوم صفحہ ۲۹ ریویو آف ریلیجنز اردو قادیان جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۹ م حیات النبی جلد اول صفحہ ۱۰۹۴۱۰۸ ۱۵- حیات احمد جلد اول نمبر سوم صفحہ ۹۱ ( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) - سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۷۸ تا ۱۸۲ حاشیہ کتاب البریہ طبع اول صفحه ۱۵۰ ۱۸- ميرة المهدی حصہ دوم صفحہ 1 سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۴۲ روایت نمبر ۶۳ ۲۰ ایضا صفحہ کے اطبع اول.حیات احمد صفحه ۱۹۵ جامد اول نمبر ۳ ۲ روایات صحابہ جلد نم صفحه ۱۹۴۱۹۰ غیر مطبوعه

Page 88

تاریخ احمدیت.جلدا 49 مقدمات کی پیروی باب پنجم مقدمات کی پیروی اور دنیاوی علائق میں راست گفتاری، منکسر المزاجی اور تعلق باللہ (۱۸۵۴ تا ۱۸۷۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی عمر کی پندرھویں منزل میں ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ ملتان ، چیلیانوالہ اور گجرات کی فیصلہ کن جنگوں کے بعد سکھ حکومت کو شکست فاش ہوئی اور ۲۹- مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کا علاقہ بھی انگریزی حدود مملکت میں شامل کر لیا گیا.سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو 50 ہزار پاؤنڈ مینشن دے کر انگلستان روانہ کر دیا گیا اور پنجاب کے ان رؤسا کی جاگیریں ضبط کرلی گئیں جنہوں نے انتقال حکومت کے وقت غیر ملکی حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا.جیسا کہ ابتداء میں ذکر آچکا ہے ان رؤساء میں چونکہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اور آپ کے بھائی بھی تھے اس لئے ان کی جاگیر بھی جو قادیان کی مثالی ریاست کے آثار باقیہ سے تھی ضبط کرلی گئی اور اشک شوئی کے طور پر فقط سات سو روپے کی سالانہ پنشن انہیں دی جانی منظور کی گئی جو ظاہر ہے کہ ان کے گذشتہ شاہانہ ٹھاٹ بات کے لحاظ سے چنداں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کو قادیان کی بستی سے اپنے بزرگوں کی مقدس یادگار ہونے کی وجہ سے نہایت درجہ عقیدت تھی اور آپ اکثر اس کا اظہار فرماتے اور اکثر کہتے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے.یہی وجہ ہے کہ حکومت انگریزی کی طرف سے بے دخلی کے اعلان پر آپ نے انگریزی عدالتوں تک پہنچنے کا فیصلہ کر کے مقدمات کا ایک وسیع سلسلہ شروع کر دیا.جس میں آپ نے کشمیر میں ملازمت اور بعد کے عرصہ میں جمع کی ہوئی ستر ہزار کے قریب رقم پانی کی طرح بہادی.حالانکہ اس زمانے میں اس قدر مصارف سے سو گنے بڑی جائیداد از سر نو خرید کی جا سکتی تھی.بایں ہمہ بڑی زبردست جدوجہد کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کے ایک حصہ پر عمل دخل ملا.اور اس کے ماحول میں بھینی ، نگل اور کھارا کے دیہات کی ملکیت کے رسمی حقوق واپسی ہوئے جو

Page 89

تاریخ احمدیت جلدا مقدمات کی پیروی ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ ہجرت تک بدستور قائم رہے.البتہ حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کے انتقال کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کے زمانے میں قادیان کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے خاندان کی طرف منتقل ہو گیا جو بالا خر پینتیس برس کی کشمکش کے بعد آپ ہی کے خاندان کی طرف واپس آ گیا.مقدمات شروع ہوئے تو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم نے اپنے بیٹوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہا.حضرت اقدس کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنے دنیا دارانہ رنگ کی وجہ سے مقدمات کی پیروی میں گہری دلچسپی لینے لگے مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فطری طور پر ان امور سے کوئی علاقہ ہی نہ تھا.آپ کے والد اور بڑے بھائی کو جس قدر انہماک اور شغف ان دنیاوی مشاغل میں تھا آپ اس قدر ان سے متنفر تھے اور یہ جاننے کے باوجود متنفر تھے کہ ان مقدمات کے نتیجے میں اگر کامیابی ہوئی تو بالا خر خود آپ ایک بہت بڑی جائیداد پر قابض ہوں گے تاہم ضروری تھا کہ جب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے آپ اپنی زندگی وقف کئے ہوئے تھے تو اس کی ہدایت کے مطابق اپنے والد کے حکم کی بھی تعمیل کریں خواہ آپ کی طبیعت اس سے کس درجہ کراہت رکھتی ہو.چنانچہ آپ کو مقدمات سے (جو آپ کے لئے ایک ابتلائے عظیم اور آزمائش کا ایک سنگین مرحلہ تھے) کم و بیش سترہ سال الجھنا پڑا.حضور فرماتے ہیں: ” میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت سارقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا.اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ بنا رہتا تھا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو بہ خلق بنادیں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی.ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان میں آنا چاہا.میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئے.مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا.پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا.اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا.مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا

Page 90

تاریخ احمدیت جلد مقدمات کی پیروی تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف.صحیح اور سچ بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں ".لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا داری کے معاملات میں بسر ہوئی تھی اس لئے افسوس کا پہلوہی غالب رہتا اور آپ کے مستقبل کے متعلق ہمیشہ تشویش میں رہتے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب مرحوم اکثر اوقات افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ "میرا ایک بچہ تو لائق ہے مگر دو سرالڑ کا نالائق ہے.کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے.مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے ".اور بعض دفعہ افسردہ ہو کر کہتے تھے کہ "یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا".یہ مقدمات جو قادیان کی جائیداد کے حقوق، مقامی مقدمات کے لئے تیاری اور سفر زمینداروں کے لگان میں اضافہ یا درختوں کی کٹائی وغیرہ کے متعلق ہوتے تھے.آپ ان کے لئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ہر ممکن تیاری کرتے.ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کاغذات اور شواہد کا خلاصہ ضبط تحریر میں لاتے اور مشمولہ کاغذات کی نقول محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تا عند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو.حضرت مسیح موعود کو اس سلسلے میں بٹالہ گورداسپور ڈلہوزی امرت سر اور لاہور تک کے متعدد سفر اختیار کرنا پڑے.بالخصوص ڈلہوزی تک تو آپ کو ایک مرتبہ یکہ میں اور اکثر مرتبہ پا پیادہ سفر بھی کرنا پڑا.ان دنوں میدانی سفر کی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں اور یہ تو پہاڑوں کا دشوار گزار راستہ تھا جس کے طے کرنے میں یقیناً غیر معمولی بہادری ، ہمت اور جفاکشی درکار تھی اور جسے آپ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے محض رضاء الہی کی خاطر اختیار کیا.مقدمات میں ہر قسم کا مکر و فریب ، دغا بازی مقدمات میں آپ کی امتیازی خصوصیات اور چالبازی روا رکھی جاتی ہے اور فریق مخالف کو شکست دینے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مقدمات کی پیروی کا انداز ہی بالکل جدا بالکل نرالا اور بالکل انوکھا تھا.آپ کو ہار جیت سے تو کوئی تعلق ہی نہیں تھا صرف اطاعت والد کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی رضاء مقصود تھی.ان دنوں آپ کا یہ اکثر معمول تھا کہ جس صبح کو مقدمہ پر جانا ہو تا آپ اس سے قبل عشاء کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کے بعد فرماتے " مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر

Page 91

تاریخ احمدیت.جلدا ۷۲ - مقدمات کی پیروی سکتا.دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جائے اور مجھے مخلصی ملے.میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو".اس کے بعد حضور خود بھی دیر تک مصروف دعا ر ہتے اور حاضرین بھی A ایک ہند و مدرس پنڈت دیوی رام کا ( جو ۲۱.جنوری ۱۸۷۵ء کو قادیان آئے اور چار سال تک مقیم رہے) بیان ہے کہ "جب کسی تاریخ مقدمہ پر جانا ہو تا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دے دیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری نور ابخوشی چلے جاتے تھے.مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے.مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے.ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ لاہور چیف کورٹ میں ایک مقدمہ دائر تھا اور آپ لاہور میں اس کی پیروی کی غرض سے سید محمد علی شاہ صاحب محکمہ جنگلات کے ہاں فروکش تھے.شاہ صاحب کا ملازم آپ کے لئے چیف کورٹ میں ہی کھانا لے جایا کرتا تھا.ایک دن نوکر کھانے لئے واپس آیا اور انہیں اطلاع دی آپ نے فرمایا.کہ گھر پر ہی آکر کھاتا ہوں.تھوڑی دیر کے بعد آپ خوش اور بشاش گھر پہنچے تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں کیا فیصلہ ہوا ؟ فرمایا مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے مگر خد اتعالیٰ کا شکر ہے کہ آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہو گیا.شاہ صاحب کو تو اس خبر سے سخت تکلیف ہوئی مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر نہ صرف حزن و ملال کے چنداں کوئی آثار نہیں تھے بلکہ آپ بہت خوش تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ مقدمہ کے ہارنے کا کیا غم ہے !! آپ کے دور مقدمات کی تین خصوصیات بالکل نمایاں تھیں.اول راست گفتاری دوم منکسر المزاجی تواضع اور حسن خلق سوم تعلق باللہ.مقدمات میں راست گفتاری آپ نے جن مقدمات کی پیروی کی وہ زیادہ تر پیچیدہ نہیں ہوتے تھے اور دروغ گوئی سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہو تا تھا کیونکہ پٹواری کی شہادت کافی ہوتی تھی اور سرکاری کاغذات پر فیصلہ ہو جاتا تھا تاہم ان مقدمات میں متعدد مرحلے ایسے آجاتے تھے جن میں کوئی دوسرا شخص ہو تا تو اس کے قدم ڈگمگا جاتے.مگر آپ نے کمال جرات اور بہادری سے ہر موقعہ پر دنیوی مصلحتوں کو پایہ استحقار سے ٹھکرا دیا.اکثر دفعہ اپنے والد کی خفگی کا نشانہ بھی بنے اور شماتت اعداء کے چر کے بھی برداشت کئے.مگر گوارا نہیں کیا تو راست گفتاری کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا.ایک دفعہ جبکہ حضرت اقدس کی عمر پچیس تیس برس کی تھی آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہو گیا.آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں اس لئے انہوں نے موروثیوں پر دعوئی دائر کر

Page 92

تاریخ احمدیت.جلدا ۷۳ مقدمات کی پیروی دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا.آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے حضرت اقدس جب نہر سے گذر کر پتھنا نوالہ گاؤں پہنچے تو راستے میں ذرا ستانے کے لئے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا.ابا جان یو نہی زبر دستی کرتے ہیں درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ اگر کاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے.بہر حال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں.ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں.موروثیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا.چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کرلیں.چنانچہ مجسٹریٹ نے حضور سے پوچھا حضور نے فرمایا کہ میرے نزدیک درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے.ویسے ہی درختوں میں بھی ہے.چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا.اس کے بعد جب حضور واپس قادیان تشریف لائے تو حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب نے آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے.اس نے کہا کہ میں تو باہر تھا مرزا صاحب اندر گئے تھے ان سے معلوم ہو گا.اس پر حضرت صاحب کو بلایا گیا.حضور نے سارا واقعہ بلا کم و کاست بیان کر دیا جسے سن کر آپ کے والد بزرگوار سخت برہم ہوئے اور ملاں ماں " کہہ کر کوسنے لگے اور کہا کہ گھر سے نکل جاؤ اور گھر والوں سے تاکید کہا کہ ان کو کھانا ہرگز نہ دو.حضور دو تین دن تو قادیان ہی میں رہے اور آپ کی والدہ صاحبہ محترمہ آپ کو کھانا بھیجواتی رہیں لیکن بعد کو آپ کے والد صاحب کی مزید ناراضگی کی وجہ سے قادیان سے بٹالہ چلے گئے جہاں کوئی دو ماہ تک " پناہ گزین " رہنا پڑا.اور پھر بیمار ہونے پر والد صاحب مرحوم نے حضور کو واپس بلالیا.دو اور حیرت انگیز مثالیں یہاں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قلم سے دو اور مثالیں بھی درج کرنا ضروری ہیں جو اگر چہ براہ راست اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتیں.مگر آپ کے مقدمات میں آپ کے معمول پر گہری روشنی ڈالتی ہیں.حضور آئینہ کمالات اسلام " میں تحریر فرماتے ہیں: ”میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا.جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑ تب فریق مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح دین صاحب سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھرا.اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی

Page 93

تاریخ احمدیت جلدا ۷۴ مقدمات کی پیروی تھا.اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے.میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر ہے اور سچ ہے.تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچھری جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جاؤں.سودہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابْتِغَاءَ لَمَرَضَاتِ الله مقدم رکھ کر مالی نقصان کو بیچ سمجھا".دوسری مثال حضور خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روایت ہے کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اس مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں.اس چبوترہ کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہو اور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کے لئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں.اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کر دیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی صاحب کو بلا کر گواہی لی جائے.اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہو گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ ہاں !! اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلت محسوس کیا اور بہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب امر واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتا ہوں؟ ان مقدمات میں منکسر المزاجی اور حسن خلق کے نادر اور بے مثال نمونے حضور کی منکر المزاجی، درویشانہ طبع اور حسن خلق کے متعدد اور بے مثال نمونے ظاہر ہوئے.جس نے آپ کے ساتھ ہم رکاب ہونے والوں کو بے حد متاثر کیا اور وہ آپ کے وجود میں اخلاق محمدی کا جلوہ دیکھ کر انگشت بدنداں ہو جاتے تھے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ " والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گذاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری " یہ فقرہ جو آپ کی پوری زندگی کی مختصر مگر جامع

Page 94

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۴ ۷۵ مقدمات کی پیروی تصویر ہے ، آپ کے زمانہ مقدمات پر بھی پوری شان سے حاوی ہے.قادیان کے کنہیا لعل صراف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا.آپ نے مجھے فرمایا کہ ایک یکہ کرا دیا جائے.حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے یکہ والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے.یکہ والے کو پل پر اور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہو گیا اور مرزا صاحب غالبا پیدل ہی بٹالہ گئے.تو میں نے یکہ والے کو بلا کر پیٹا اور کہا کہ کم بخت اگر مرز انظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتا.لیکن چونکہ وہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تو ان کو چھوڑ کر چلا گیا.جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تم اس سے معافی مانگو تم نے کیوں اسے مارا.وہ مزدور آدمی تھا وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتا اسے مزدوری مل گئی اور چلا گیا.میں نے کہا حضرت میں اسے ماروں گا اس نے کیوں ایسا کیا.لیکن حضرت اقدس بار بار یہی فرماتے رہے.نہیں اس سے معافی طلب کرو ".حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا معمول تھا کہ جب مقدمات کے لئے قادیان سے روانہ ہوتے تو اپنے ساتھ اصطبل میں سے سواری کے لئے گھوڑا بھی لے لیتے.ان سفروں میں آپ کے ہمراہ ان دنوں آپ کے قدیم خدام میں سے مرزا اسماعیل بیگ صاحب (ساکن قادیان) یا مرزا دین محمد صاحب (ساکن لنگروال) یا میاں غفار ایکہ بان ہوتے تھے.جنہیں آپ گاؤں سے نکل کر سوار کر لیتے اور پھر نصف راسته حضور سوار ہوتے اور نصف راستہ وہ سواری کرتے اور بٹالہ پہنچنے پر اپنی حویلی میں قیام فرماتے تھے.اور جو جو لاہا اس حویلی کی دیکھ بھال کے لئے مقرر تھا اسے اپنے کھانے سے دیتے اور خود حسب معمول بہت کم کھاتے تھے.چنانچہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہو تا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہو تا تھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے.میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے.آپ فرماتے کہ "ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے ".جب حضور قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کرتے.جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہو جاتا تو میں اتر جاتا اور آپ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کرتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے.جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اسی چال سے اسے چلنے دیتے".آپ کے دوسرے قدیم خادم مرزا دین محمد صاحب مرحوم آف لنگروال کا بیان ہے کہ :

Page 95

تاریخ احمدیت جلدا 64 مقدمات کی پیروی میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے واقف نہ تھا.یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی.خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے.لیکن چونکہ وہ صوم و صلوۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے.یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا.جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے اور بٹالہ جاکر اپنی حویلی میں باندھ دیتے.اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا آپ اس میں قیام فرماتے.اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولا ہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا.آپ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے.یہ اپنے لئے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے.باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اس جو لا ہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لئے چار آنہ دیتے تھے.آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی 12- عادت نہ تھی".جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہو تا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے.صبح کا کھانا آپ گھر سے کھا جاتے....آپ نے تحصیل میں چلے جانا میں باہر بیٹھتا تھا.دوپہر کے وقت جو وقفہ ہو تا تھا اس میں آپ باہر تشریف لاتے اور مجھے چند پیسے دیتے کہ بھوک لگی ہوگی کوئی چیز کھالو قادیان کی واپسی پر آپ کبھی موڑ پر اتر پڑتے اور کبھی قادیان کے نزدیک ایک باغ میں ( جو محلہ دارالصحت کے قریب تھا) قادیان میں کبھی سوار ہونے کی حالت میں آپ تشریف نہیں لائے".ان مقدمات میں سب سے نمایاں امر آپ کا انقطاع الی اللہ مقدمات میں انقطاع الی اللہ تھا.جو ہر موقعہ پر خود بخود ظاہر ہوتا تھا آپ سفر میں ہوتے یا حضر میں عدالت میں ہوتے یا اپنی رہائش گاہ پر یاد الہی سے آپ ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتے تھے.بلکہ زندگی کا ہر تغییر آپ کو خد اتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنتا تھا.ڈلہوزی کے سفروں کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ "جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تو پہاڑوں کے سبزہ زار حصوں اور بہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کا جوش پیدا ہو تا اور عبادت میں ایک مزہ آتا اور میں دیکھتا تھا کہ تنہائی کے لئے وہاں اچھا موقعہ ملتا ہے".14 عنفوان شباب میں بہاریں لوٹنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے تصور میں یوں کھوئے جانا آپ کے اس عشق کا پتہ دیتا ہے جو آپ کے قلب صافی میں بحر مواج کی شکل میں ہردم موجزن رہتا تھا.آپ دست با کار اور دل بایار کی مجسم تصویر اور عالم جوانی میں عشق الہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا نفیس قالب تھے

Page 96

تاریخ احمدیت.جلدا مقدمات کی پیروی جس کے چہرہ مہرہ ، طرز گفتگو اور کردار سے روحانیت کا نور برستا تھا جو ایک اجنبی انسان کو بھی مبہوت کر دیا کرتا تھا.چنانچہ ڈلہوزی ہی کے سفر کا ایک واقعہ ہے کہ آپ ایک مقدمے کے سلسلہ میں پہاڑ پریکہ میں بیٹھے سفر کر رہے تھے کہ راستہ میں بارش آگئی.آپ اپنے ہم سفر ساتھی سمیت یکہ سے اترے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا.آپ کے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا.اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو کر گالیوں پر اتر آیا.حضرت صاحب یہ تکرار سن کر آگے بڑھے.جو نہی آپ کی اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ آپ کچھ فرماتے اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ”میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں سمجھنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں".مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ اہم اور آپ کی ذات یا خاندان کے لئے دور رس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدم رکھتے تھے.چنانچہ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی.عین کچہری میں نماز کا وقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں کوئی اور کام آپ کے مد نظر نہیں ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خد اتعالیٰ کے حضور کھڑے عجز و نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق توکل علی اللہ اور حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح وزاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے.چنانچہ خود فرماتے ہیں: میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا.نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا.چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا.مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس رعدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی.میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو.مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں".m عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ انقطاع دابتال کے نتیجہ میں نمودار ہوا.1

Page 97

تاریخ احمدیت.جلد) LA حواشی مقدمات کی پیروی F- سیرة المهدی حصہ اول صفحہ ۳۶ ۱۸۵۴۲ء تا ۶۱۸۶۳ و ۱۸۶۸ء تا ۶۱۸۷۷ ۳ کتاب البریه صفحه ۱۵۰ ۱۵۲۴۱۵۴ حاشیه - بردایت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی الحکم سیرت مسیح موعود نمبر صفحه ۵ - مئی جون ۶۱۹۴۳ حیات النبی صفحہ ۱۸۶ جلد اول نمبر دوم طبع اول ۱۴- دسمبر ۶۱۹۱۵- سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۱۸۲ حیات النبی جلد اول صفحہ ۵۷ دور مقدمات میں ۱۸۵۳ء تا ۱۸۶۳ء اور ۱۸۷۳ء تا ۱۸۷ء دونوں زمانے شامل ہیں.۹ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۰۴ " روایت میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار از روایات صحابه " حصه نهم صفحه ۱۹۲ ۱۹۳ ا آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۰۰٬۲۹۹ ۱۲ الفضل جلد ۲۴ نمبر ۴۹ صفحه ۴ بحوالہ الحکم ۲۱/۲۶ مئی ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ سیرت المهدی حصہ اول طبع دوم صفحه ۲۱۹ - الحکم سیرت مسیح موعود نمبر مئی جون ۶۲۳ صفحه ۲۹ -۱۵ مرزا دین محمد صاحب کا بیان ہے کہ وہ قریباً ۱۸۷۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ین بیعت (۱۹۱۸ء) روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد اول صفحه ۹۳ مرتبه نظارت تألیف و تصنیف قادیان الحکم ۲۱/۲۸ مئی ۱۹۳۲ء حیات احمد جلد دوم صفحه ۱۹۶ -۱۸ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد اول صفحه ۹۶ ۱۹ حیات النبی جلد اول صفحه ۵۵ ۲۰ سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه طبع دوم ال حیات النبی جلد اول صفحہ ۵۶

Page 98

تاریخ احمدیت جلدا 49.قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام باب ششم سیالکوٹ میں قیام اور تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز (۱۸۶۷ - ۱۸۶۴) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ابھی تعلیمی دور ہی میں تھے کہ آپ کے والد بزرگوار کو یہ خیال دامن گیر ہو گیا کہ آپ کو کسی موزوں سرکاری ملازمت میں جگہ دلا دیں بلکہ ۱۸۵۲ء میں جب بند و بست شروع ہوا تو انہوں نے دینا نگر میں جہاں ضلع گورداسپور کے بندوبست کا مرکزی دفتر قائم ہوا تھا آپ کو ملازم بھی کرا دیا.مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو چونکہ ابتداء ہی سے ان امور سے بالطبع سخت نفرت تھی اس لئے آپ صرف ایک دن کے قیام کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے.آپ کا زمانہ تعلیم ختم ہو ا تو ان کے دل میں یہ خیال پھر چٹکیاں لینے لگا.اسی اثناء میں ضلع گورداسپور میں ایک انگریز افسروارد ہو ا جس سے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کو پہلے سے تعارف اور راہ و رسم تھی.انہوں نے یہ موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے کاہلواں کے ایک سکھ جھنڈا سنگھ سے کہا کہ ”جاؤ غلام احمد کو بلا لاؤ.ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے اس کا منشاء ہو تو کسی اچھے عہدے پر نوکر کرادوں".جھنڈا سنگھ کا بیان ہے کہ ” میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھا کہ چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کر رہے ہیں.میں نے بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب مرحوم - ناقل) کا پیغام پہنچا دیا.مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ” میں تو نوکر ہو گیا ہوں" بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہو گئے ہو ؟ مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیا ہوں.اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ اچھا اگر نو کر ہو گئے ہو تو خیر ہے ".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب کا صاف مطلب یہی تھا کہ مجھے کسی دنیاوی حکومت کی نوکری کی ضرورت نہیں کیونکہ میں آسمانی بادشاہت اور اس کے گورنر جنرل حضرت محمد عربی ﷺ کا نوکر ہو گیا ہوں.یہ مختصر جواب اتنا پر کیف تھا کہ آپ کے والد بزرگوار خاموش ہو گئے.اور پھر یہ معلوم کر کے کہ ان سے انگریزی حکومت کی ملازمت کی توقع عبث ہے آپ کو زمینداری

Page 99

تاریخ احمدیت جلدا A.قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام امور کی نگرانی اور مقدمات کی پیروی کے کام سپرد کر دیے.لیکن کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے شدت محسوس کیا کہ ان مخمصوں سے بھی ان کی طبیعت کو کوئی مناسبت نہیں ہے اور جو کچھ توجہ اس میں ہے محض امتثال حکم کی خاطر ہے تو انہوں نے ایک بار پھر ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور ایک برادر زادہ کی تحریک پر حضور کو سید محمد علی شاہ صاحب کلانوری کے ہمراہ ریاست جموں میں ملازمت کے لئے بھجوا دیا جہاں آپ خود ایک معزز عہدہ پر رہ چکے تھے.چنانچہ حضرت اقدس اور سید محمد علی صاحب کلانور کے رستہ جموں تشریف لے گئے.سفر میں آپ کی توجہ الی اللہ اور استغراق اور محویت کا یہ عالم تھا کہ کلانور کے نالے سے گذرتے ہوئے آپ کی جوتی کا ایک پاؤں نکل گیا مگر آپ کو پتہ بھی نہ چلا جب تک بہت دور جا کر آپ کو یاد نہیں کرایا گیا.آخر جموں پہنچے.یہاں جتنے دن رہے نماز اور قرآن شریف کی تلاوت میں وقت گزارا.چند روز بعد حضور کا ایک رشتہ دار جموں پہنچا اور دونوں کو واپس قادیان لے آیا.اب تک اگر چہ آپ کے والد پر آپ کے طبعی رجحانات اور ملازمت سے حقارت آمیز جذبہ کا علم پوری طرح کھل کر سامنے آچکا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے ارادہ کی تکمیل پر اور زیادہ مصر ہو گئے اور بالا تر ۱۸۷۴ء میں انہوں نے حضور کو سیالکوٹ میں متفرقات کی اسامی پر ملازم کر ہی دیا.اس زمانہ میں آپ کو دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس وقت حضور کی میں بھیگ رہی تھیں " ملازمت میں خدائی صمتیں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا یہ فیصلہ بے وجہ نہیں تھا یا بلکہ خدا تعالیٰ کی عمیق در عمیق حکمتوں کا کرشمہ تھا.کیونکہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ آپ اصلاح خلق کرنے کے لئے عدالتی جھمیلوں اور مقدمہ بازی کے مختلف انسانی شعبدوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد دنیا داری کے اس گندے ماحول کو بھی دیکھ لیں جو نوکری پیشہ لوگوں کا ماحول ہے.اور جس میں خدا کے بندے تو خال خال نظر آتے ہیں مگر کسب حرام کے مکروہ اور شرمناک ہتھکنڈے استعمال کرنے والوں میں کمی نہیں ہے.حضور خود فرماتے ہیں: اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم و صلوۃ کے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں جو ابتلاء کے طور پر ان کو پیش آتے رہتے ہیں میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال و متاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہوں یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد

Page 100

تاریخ احمدیت جلدا Al قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام کر کے اخلاق فاضلہ علم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی خلق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں.بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پرواہی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پائے اور چونکہ خدا تعالی کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک تم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا.اس کے علاوہ ایک زبر دست حکمت الہی جو اپنی شان میں بڑی عظمت و اہمیت رکھتی تھی) آپ کے قیام سیالکوٹ کی یہ تھی کہ سولہ سترہ برس کی عمر سے جس معرکے کی تیاری میں مصروف تھے اس کی پہلی مہم آپ کو سیالکوٹ میں سر کرنا تھی یعنی نصرانیت کے دفاع کے لئے جدوجہد کا آغاز - اسی طرح اللہ تعالٰی کی ایک بڑی مصلحت یہ کار فرما تھی کہ آپ اپنے گاؤں کی چار دیواری اور خاندان کے حلقہ سے نکل کر ایک شہری آبادی میں اقامت گزین ہوں جہاں آپ کے پاکیزہ شباب اعلیٰ کیریکٹر ، ہمدردی خلق، غمخواری دین، تعلق باللہ اور عشق قرآن ہونے کے شاہد مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں میں پیدا ہو جائیں اور آپ کی صداقت پر زندہ گواہ ہوں.قادیان کے لوگ آپ کے مزارعہ تھے اور ان پر اکثر آپ ہی کے خاندان کا عمل ودخل اور قبضہ و اقتدار تھا.اس لئے ان کی شہادت پر تو رد و تدرج کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر سیالکوٹ کے رہنے والے ایک دوسرے شہر کے آزاد باشندے تھے جن کی چشم دید گواہیاں طمع و نفسانیت پر مبنی قرار نہیں دی جا سکتیں.سیالکوٹ میں آپ کی قیام گا ہیں اور حفاظت الہی کے نظارے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام سیالکوٹ میں تشریف لائے تو آپ نے سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چوبارے پر قیام فرمایا.ایک دفعہ حضور پندرہ سولہ افراد کے ساتھ اس چوبارے میں آرام فرمارہے تھے کہ شہتیر سے تک تک کی آواز آئی.اس پر آپ نے ساتھیوں کو سختی سے نکلنے کا حکم دیا جب آپ کے ساتھی نکل گئے تو آپ نے باہر آنے کا قصد کرتے ہوئے ابھی دوسرے زینہ پر ہی قدم رکھا تھا کہ اس کی چھت دھڑام سے اگری اور آپ معجزانہ طور پر بچ گئے.حضور نے اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان فرمائی: ایک دفعہ رات میں ایک مکان کی دوسری منزل پر سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہئے.انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہو گا خوف کی بات

Page 101

تاریخ احمدیت جلدا 사 قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی.تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا.مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور وہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اور سب بچ گئے " چوبارہ گرنے کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام حافظ محمد شفیع صاحب قاری آف سیالکوٹ کے نانا فضل دین صاحب کے مکان واقع کشمیری محلہ 8 میں اقامت گزین ہو گئے.اس کے بعد ( بروایت میرحسن صاحب سیالکوٹی) آپ سیالکوٹ کی جامع مسجد کے سامنے حکیم منصب علی صاحب وثیقہ نویس کے ہمراہ ایک بیٹھک میں رہنے لگے اور غالبا یہیں آخر تک مقیم رہے.یہ سبھی مقامات مکانیت کے لحاظ سے مختصر اور بے رونق سے تھے جن میں کوئی ظاہری کشش اور دلچسپی نہیں تھی جس سے حضور کی غیر معمولی سادگی اور خلوت پسندی کا پتہ چلتا ہے.فضل الدین صاحب کی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدائی حفاظت کا ایک یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ ”ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا.ایک دن بارش ہو رہی تھی.جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی.لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گبری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا.بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا".سرکاری ملازمت میں آپ کا معمول اور شان استغناء آپ جب سرکاری ملازمت میں آئے تو عام اہلکاروں میں تھے مگر جلد ہی آپ کی خداداد قابلیت کا عوام پر ہی نہیں حکومت کے سر بر آوردہ افسروں پر بھی سکہ بیٹھ گیا اور ضلع بھر میں آپ کی علمی شان اور محققانہ طبیعت کے غلغلہ بلند ہونے شروع ہو گئے.دوسرے سرکاری ملازموں کی اکثریت جہاں ملک و قوم کے لئے موجب ننگ تھی اور اپنی تمام تر کوشش اور سعی میں دنیا پرستی ، رشوت رنا اور فریب میں مبتلا تھی وہاں آپ ہر قسم کی آلودگیوں سے بالکل پاک تھے.آپ دفتر میں اپنا مقبوضہ کام پوری توجہ دیانتداری محنت اور ذمہ داری سے ادا فرماتے مگر دفتری اوقات کے بعد کچھری کے معالمات سے آپ یوں دستکش ہوتے کہ گویا ان امور سے آپ کو زندگی بھر سابقہ ہی نہیں پڑا.چنانچہ حافظ محمد شفیع صاحب کا بیان ہے کہ ان کے نانا فضل دین صاحب بتایا کرتے تھے کہ حضرت اقدس جب کچھری سے واپس آتے تو چونکہ آپ اہلمد تھے.مقدمہ

Page 102

تاریخ احمدیت جلدا AF قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آجاتے.تو حضور پر نور ہمارے نانا کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں.چنانچہ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچھری میں ہی کر دیں گے.یہ زمانہ جو آپ نے یوسفی شان سے ملازمت میں بسر کیا آپ اسے قید خانہ سے کسی طرح کم نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی والدہ محترمہ نے قادیان کے ایک حجام حیات نامی کے ذریعہ سے آپ کو کپڑوں کے چار جوڑے سیالکوٹ بھجوائے.آپ کی فیاض طبیعت نے اسے خالی ہاتھ بھجوانا گوارا نہ کیا اور انہی نئے جوڑوں میں سے ایک جوڑا اس کے حوالے کر دیا.حالانکہ وہ خاص اہتمام سے آپ ہی کے لئے بھجوائے گئے تھے.حجام نے برسبیل تذکرہ ملازمت کے متعلق عرض کیا کہ آپ کو پسند ہے؟ حضرت نے بے ساختہ فرمایا قید خانہ ہی ہے ".اس تاثر کا نتیجہ تھا کہ آپ دفتری معاملات میں باوجود تندہی کے ایک بے مثال شان استغناء کے مالک تھے جس کو خاندانی وجاہت اور دماغی صلاحیتوں نے اور بھی نکھار دیا تھا.ان دنوں ضلع سیالکوٹ کے دفاتر کا سپر نٹنڈنٹ ایک شخص پنڈت سج رام تھا.یہ شخص اسلام کا بد ترین معاند اور سخت کینہ پرور انسان تھا.وہ اس خود فریبی کا شکار تھا کہ آپ چونکہ میرے ماتحت ایک سرشتہ میں ملازم ہیں اس لئے انہیں دفتری معاملات میں ہی نہیں، مذہبی معاملات میں بھی دب کر رہنا ہو گا.یہ بد بخت اکثر اپنی سیہ باطنی کی وجہ سے اسلام پر اعتراض کرتا اور آنحضرت ﷺ پر زبان طعن دراز کرتا رہتا تھا.مگر عاشق رسول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آقا کی توہین ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے.اور نہ کر سکتے تھے.اس لئے ہر قسم کے عواقب اور خطرات سے بے نیاز ہو کر ایک بے باک مجاہد کی حیثیت سے ڈٹ کر جواب دیتے.آپ کے زبر دست دلائل سے لاجواب اور مبہوت ہونے کے بعد زچ ہو جاتا تو اپنی بے بسی کی کسر نکالنے کے لئے دفتری معالمات کا سہارا لے کر آپ کو تکلیف دینے کی کوئی نئی سے نئی صورت پیدا کر لیتا اور اس مخالفت میں وہ اخلاق و شرافت کے ادنی ترین تقاضوں کو بھی پامال کر دینے سے دریغ نہیں کرتا تھا.یہ کشمکش دو ایک دن کے لئے نہیں تھی بلکہ مسلسل چار سال تک قائم رہی.ایک طرف شوخ چشمی کی حد تھی تو دوسری طرف ابراہیمی صبر کا امتحان ہو رہا تھا.حضور کے ہندو دوست لاله محیم سین (جنہیں آپ سے بٹالہ میں ہم مکتب ہونے کے نیاز حاصل تھے اور آپ پر جان چھڑکتے تھے ) یہ صورت حال دیکھ کر اکثر مشورہ دیتے کہ دنیا دی طور پر آپ کی ترقی سپر نٹنڈنٹ ہی سے وابستہ ہے اس لئے اگر اس کی طرف سے ایسی مخالفانہ کارروائی ہو تو الجھنے کی بجائے ٹال دیا کیجئے ورنہ اس مزاحمت میں آپ کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا.لیکن خدا کے جانباز جرنیل کی نگاہ میں دنیا کے اس

Page 103

تاریخ احمدیت جلدا ۸۴ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام ذلیل چیتھڑے کی بھلا حیثیت ہی کیا ہو سکتی تھی ؟ حضور لالہ صاحب کا مشورہ سنا ان سنا کر دیتے.اپنے فرائض منصبی میں کو تاہی آپ کی فطرت و طینت کے خلاف تھی مگر خدائے واحد کے مقابل کسی انسان کو معیشت کا سرچشمہ قرار دینا بھی آپ کو کب گوارا ہو سکتا تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جب تک سیالکوٹ میں رہے سج رام کے تیر اور نشتر تائید اسلام کے "جرم" کی پاداش میں برداشت کرتے رہے.مگر جب مستعفی ہو کر واپس قادیان آئے تو وہی پنڈت سیج رام سیالکوٹ سے بدل کر امرت سر کی کمشنری میں سررشتہ دار بنا اور خدا تعالی کے قمری تیروں کا شکار ہو گیا اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبل از وقت اس کی ناگہانی موت کی خبر بذریعہ کشف دے دی جس نے سننے والوں کو انگشت بدنداں کر دیا.حضرت اقدس حقیقتہ الوحی میں خداتعالی کے اس خاص نشان کے متعلق فرماتے ہیں: ایک شخص سمج رام نام امرت سر کی کمشنری میں سررشتہ دار تھا اور پہلے وہ سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث رکھا کرتا تھا.اور دین اسلام سے فطرتا ایک کینہ رکھا کرتا تھا.اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے.ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ الٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سبح رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا.جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرا دو.میں نے اس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں اور ساتھ ہی خدا تعالٰی نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی.بعد اس کے میں نیچے اثرا.اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی نوکری کے بارے میں باتیں کر رہے تھے.میں نے کہا اگر پنڈت سبح رام فوت ہو جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ " کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو " دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اسی گھڑی سبج رام ناگہانی موت سے اس دنیا سے گذر گیا.دفتری اوقات کے بعد آپ کے مشاغل اور معمول دفتری فرائض کی سر انجام رہی تو دفتری اوقات میں ہوتی تھی.باقی پور اوقت آپ کا تلاوت قرآن مجید ، عبادت گذاری شب بیداری خدمت خلق اور تبلیغ اسلام ایسے اہم دینی مہمات میں گذر تا تھا.

Page 104

تاریخ احمدیت جلدا ۸۵ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام آپ کا اکثر معمول تھا کہ آپ گھر سے باہر اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے اور تلاوت قرآن مجید صرف اتنا حصہ چرہ کا کھلا ر کھتے جس سے راستہ نظر آئے.جب کچھری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کر لیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الہی میں مصروف ہو جاتے.آپ کے اس طریق مبارک سے بعض متجسس طبیعتوں کو خیال پیدا ہوا کہ یہ ٹوہ لگانا چاہئے کہ آپ کو اڑ بند کر کے کیا کرتے ہیں.چنانچہ ایک دن " سراغ رسان "گروہ نے آپ کی خفیہ سازش کو بھانپ لیا یعنی " انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلیٰ پر رونق افروز ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی اور رقت اور الحاج وزاری اور کرب وبلا سے دست بدعا ہیں کہ "یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں".مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب مرحوم کی روایت ہے کہ "آپ کی عادت تھی کہ جب کچھری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے.مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا.ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا.میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے.مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جاکر قرآن پڑھتے رہتے.میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے کہ زمین تر ہو جاتی ہے ".اسی طرح میاں بوٹا صاحب کشمیری کی شہادت ہے کہ جب حضرت مرزا صاحب ہمارے مکان میں رہتے تھے تو مکان کے صحن میں ملتے رہتے.اور قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے".خدمت خلق سیالکوٹ میں قیام کے دوران میں آپ نے خدمت خلق کے پہلو کی طرف بھی خاص توجہ مبذول رکھی.آپ قادیان کی طرح یہاں بھی غرباء پروری کا خاص اہتمام فرماتے.جو تنخواہ لاتے اس میں سے معمولی سبارہ کھانے کا خرچ رکھ کر باقی رقم سے محلہ کی بیواؤں اور محتاجوں کو کپڑے بنوا دیتے یا نقدی کی صورت میں تقسیم فرما دیتے.علم طب میں آپ کو کافی درک تھا اور آپ اس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے سے کبھی دریغ نہیں فرماتے تھے.آپ علاج کے ساتھ مریض کے لئے دعا بھی فرماتے اور شافی مطلق آپ کے دست مبارک سے شفا کا سامان بھی پیدا کر دیتا.یہی طب روحانی تھی.جس پر آپ اپنی پوری عمر کار بند رہے.میاں بوٹا کشمیری (جن کے گھر میں بھی حضور عرصہ تک قیام فرمار ہے) شہادت دیتے ہیں کہ " میں تو ان کو ولی اللہ جانتا ہوں ایک دفعہ میرے والد صاحب بیمار ہو گئے تمام ڈاکٹر اور حکیم جو اب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا اور علاج کرنا فضول ہے لیکن ہم نے حضرت مرزا صاحب کو بلایا آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا.اللہ تعالٰی

Page 105

تاریخ احمدیت جلدا АЧ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام نے آپ کی دعا سے میرے والد صاحب کو شفا دی اور بہت سی ان کی دعا ئیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں".تعلیم و تدریس کا وہ سلسلہ جو قادیان میں آپ نے جاری کر رکھا تھا سیالکوٹ میں بھی (گو محدود وقت میں ہی سہی) بند نہیں ہونے دیا.سیالکوٹ میں آپ کی بیٹھک کے ساتھ حکیم حسام الدین صاحب مرحوم مطب کرتے تھے.جب انہیں حضور سے تعارف ہوا تو انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے طیابت میں راہ نمائی کی درخواست کی جسے آپ نے منظور فرماتے ہوئے قانونچہ اور موجز کا کچھ حصہ انہیں پڑھا دیا.سیالکوٹ میں عظیم الشان پیشگوئیوں کا ظہور قیام سیالکوٹ کے عرصہ میں حضور کی بعض عظیم الشان پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہیں: لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں.ایک مرتبہ میں نے خواب کے پہلی پیشگوئی ذریعہ سے راجہ نجاستے کی موت کی خرپا کران کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا تھے جن کو سنگھ سیالکوٹ کے دیہات کی جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات معہ اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہو گئے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پر نسب صاحب کمشنر امرت سرنا گہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹر منیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہو گئے ہیں.تب لالہ مھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پا کر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہو گئی".دوسری پیشگوئی: " ایک مرتبہ جب انہوں نے (یعنی اللہ حکیم سین صاحب وکیل نے.ناقل ) اس ضلع سیالکوٹ - ناقل) میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے ان کو بتلایا کہ خدا تعالٰی کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے لیل ہو جائیں گے مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں کامیاب ہو جاؤ گے اور یہ خبر میں نے تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا نیل کئے گئے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہو گئے ".

Page 106

تاریخ احمدیت جلدا ۸۷ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ذکر سیالکوٹ میں قیام کے بعض مختصر حالات فرمایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایک مرہٹہ گوپی ناتھ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا.اس کے متعلق انگریزی حکومت نے اعلان عام کر رکھا تھا کہ اگر اس کو تحصیلدار پکڑے تو اسے اسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا.اور کے اگر ڈپٹی کمشنر پکڑلے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا.چنانچہ جب وہ مرہٹہ گرفتار ہوا تو اس کا بیان آپ نے قلمبند فرمایا کیونکہ اس کا مطالبہ تھا کہ میں اپنا بیان ایک معزز خاندانی شریف افسر یا حاکم کو لکھواؤں گا.ملازمت کے دوران میں آپ نے خود بھی محض خلق خدا کو قانونی الجھنوں سے بچانے اور ان کے شہری حقوق دلانے کے لئے مختاری کے امتحان کی تیاری کی اور قانون کا ابتدائی لٹریچر بھی مطالعہ فرمایا مگر چونکہ آپ دنیا والوں کے کیس لڑنے کے لئے نہیں آئے تھے محض اسلام کی وکالت کے لئے پیدا کئے گئے تھے اس لئے آپ اس کے امتحان میں تو کامیاب نہیں ہو سکے مگر آپ نے بعد کو اسلام کے وکیل ہونے کا حق اس خوبی سے سر انجام دیا کہ عالم اسلام عش عش کر اٹھا اور پھر خدا تعالٰی نے یہاں تک عرش پر خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے فروعی اختلافات کو دور کرنے کے لئے آپ کو حکم عدل یعنی منصف حج کے منصب پر سرفراز کر دیا.بہر حال مشیت ایزدی کا معاملہ جدا ہے جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے مختاری کے امتحان کی تیاری میں بھی مفلوک الحال انسانیت کی خدمت کا جذبہ کا بہ کار فرما تھا جو ہمیشہ ہی آپ کا طرہ امتیاز رہا.امتحان میں کامیاب نہ ہونے کی ایک ظاہری وجہ یہ پیدا ہوئی کہ بائیس امیدوار شامل امتحان ہوئے تھے جن میں سے ایک نارائن سنگھ نامی امیدوار امتحان میں شرارت کرتے پکڑا گیا جس کی وجہ سے سب ہی امیدوار فیل کر دیے گئے ".حضرت اقدس کی طرف سے تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز قبلا میں کم و بیش تیرہ tt سال سے آپ ناموس مصطفی ال کے تحفظ کے لئے جس معرکہ کی تیاری کر رہے تھے.سیالکوٹ کی سرزمین اس کا سب سے پہلا " میدان جنگ بنی.ان دنوں حضور علیہ السلام لالہ مھیم سین سے مذہبی مسائل پر اکثر گفتگو فرماتے تھے بلکہ آپ نے تحریری رنگ میں بھی قرآن مجید کی سچائی ثابت کر کے ان کا حق رفاقت ادا کیا.چنانچہ ایک عرصہ ہو الالہ صاحب آنجہانی کے بیٹے جناب لالہ کنور سین صاحب نے پرانے کاغذات سے حضور کا ایک تبلیغی مکتوب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بھجوایا تھا جس میں حضور نے سورہ فاتحہ کی روشنی میں بت پرستی کے مسئلہ پر زبردست تنقید فرمائی ہے.پیغام حق پہنچانے کی دوسری مثال سبح

Page 107

تاریخ احمدیت جلد AA قیام سیالکوٹ اور تاریخ اسلام رام کے متعلق اوپر گذر چکی ہے جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے.لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیالکوٹ میں آپ کی تبلیغی جدوجہد کا مرکز اکثر و بیشتر اس وقت کے جغادری عیسائی پادری اور متاد ہوتے تھے.پورے ہندوستان کو عیسائیت کے زیر نگیں کرنے کی برطانوی سازش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تبلیغ اسلام کی زبردست جدوجہد کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیت کی پشت پر برطانوی حکومت کی پوری مشینری کام کر رہی تھی اور ہندوستان میں پنجاب کو اور پنجاب میں لدھیانہ اور سیالکوٹ کو عیسائیت کا مرکز بنا کر عیسائیت کا جال پھیلانے کی سر توڑ کوششیں جاری تھیں.انگریزی پالیسی انگریز ہندوستان میں ابتداء ہی سے یہ پالیسی لے کر آئے تھے کہ وہ دولت و ثروت کے بل بوتے پر اس بر صغیر پر قابض ہو جائیں اور یہاں اپنا دائمی اثر و اقتدار قائم کرنے کے لئے ایسا طبقہ پیدا کر دیں کہ جو رنگ و خون کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر اپنے مذاق اپنی را رائے، معاشرتی الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو.Z برطانوی حکومت نے اس پالیسی پر ابتداء میں جس طرح عمل کیا وہ اس کی ڈپلومیسی کا شاہکار تھا.سرسید مرحوم نے اسباب بغاوت ہند میں ان کارروائیوں کو بڑی تفصیل سے بے نقاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادریوں کو مقرر کیا ہے ان کو تنخواہ دی جاتی ہے.دیگر اخراجات اور تقسیم کتب کے لئے بڑی بڑی رقمیں دی جاتی ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں.حکام شہر اور فوج کے افسر ماتحتوں سے مذہبی گفتگو کرتے تھے.اپنی کو ٹھیوں پر بلا بلا کر پادریوں کا وعظ سنواتے تھے.غرضکہ اس بات نے یہاں تک ترقی پکڑی تھی کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عملداری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا".ہندوستان کو عیسائیت کی آغوش میں دینے کی پالیسی جو ابھی تک خفیہ طور پر اختیار کی جاتی تھی ۱۸۵۷ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجنے لگی.چنانچہ پارلیمانی ممبر مسٹر - لنگس نے ان دنوں ایک تقریر میں کہا : " خداوند تعالٰی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے تاکہ عیسی مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک برائے ہر شخص کو اپنی تمام

Page 108

تاریخ احمدیت جلد ٨٩ قیام سیالکوٹ اور تاریخ اسلام تر قوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئے اور اس میں کی طرح تساہل نہیں کرنا چاہئے " ہنگامہ ۵۷ء کے فرد ہوتے ہی انگریزی حکمرانوں نے جس امر کی طرف مسلسل توجہ دی وہ تبلیغ عیسائیت کا معاملہ تھا ایک چرچ مشنری ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ندر کی آگ کے بعد زیادہ مستحکم طور پر ایس پی جی نے دہلی میں اور سی ایم ایس نے لکھنو میں اپنے مرکز قائم کئے.اودھ میں مشنری خدمت کے لئے ہندی لارنس چیف کمشنر نے لکھنو میں لکھا جنہوں نے بنارس سے لیوپولٹ کو بھیج دیا.اور ۲۴.ستمبر ۱۸۵۸ء کو منگمری نے ایک جلسہ کر کے ۵,۰۰۰ پونڈ جمع کرلئے اور اودھ مشن کو تقویت پہنچائی".۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پا مرسٹن اور وزیر ہند چارلس وڈ کی خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دار العلوم اور دار الامراء کے رکن اور دوسرے بڑے بڑے لوگ شامل تھے.انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹریری نے اس وفد کا تعارف کرایا.وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ : میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے" وزیر اعظم لارڈ پا مرسٹن نے یہ بھی کہا کہ : میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں.یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہو سکے فروغ دیں.اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلا دیں " ان الفاظ کے بعد اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جانا کہ ہندوستان سے انگلینڈ تک کے سب ہی انگریز افسر اپنی حکومت کے استحکام کا تمام تر راز عیسائیت کے فروغ میں سمجھتے تھے.پنجاب کو عیسائیت کیلئے قدرتی BASE قرار دیا گیا سبھی مشنریوں کی رپورنوں سے مسیحی ثابت ہے کہ وہ وسط ایشیا میں عیسائیت کی ترقی کے لئے پنجاب کو قدرتی بنیاد (Base) یقین کرتے تھے.چنانچہ رابرٹ کلارک نے لکھا ہے: پنجاب کی سرحدی لائن سے اور اسے اپنے کام کی بنیاد (Base) بنا کر عیسائیت ان مقامات تک

Page 109

تاریخ احمدیت جلد 9.قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام پھیل سکتی ہے جہاں ابھی اس کا نام تک نہیں پہنچا.وسط ایشیا میں عیسائیت کے تبلیغی کام کے لئے پنجاب ایک قدرتی بنیاد (Base) معلوم ہوتا پنجاب کو صلیب کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے مرکزی مشن ابتد اولدھیانہ میں قائم کیا گیا.جس کے بعد پنجاب میں اگر چہ دیکھتے ہی دیکھتے صوبہ کے تمام مشہور شہروں میں مسیحی مشنوں کا قیام عمل میں آیا.گرجے تعمیر ہوئے اور لٹریچر کی اشاعت شروع ہو گئی.سیالکوٹ مشن کی خصوصیت لیکن سیالکوٹ مشن کو ان میں ایک بھاری خصوصیت حاصل تھی کیونکہ یہ مشن (جو اسکاچ مشن تھا) ملک کی ایک دفاعی سکیم کے ماتحت جاری ہوا تھا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے فوجی افسروں کے مشورہ اور ایماء پر قائم Fi- کیا گیا تھا.چنانچہ ایک چرچ مشنری معترف ہیں کہ : ۱۸۵۷ء میں فوجی افسروں کی درخواست پر سکاچ مشن نے پنجاب کا رخ کیا جہاں دس سال کے اندر سیالکوٹ کو مرکز بنا کر گرد و نواح کے پچاس میل دائرہ کے شہروں اور قصبوں میں سکول ، یتیم خانے اور ڈسپنسریاں قائم کر دیں اور گردو پیش کے گاؤں میں تبلیغ کی جانے لگی " چنانچہ عیسائیت نے بالخصوص سیالکوٹ کے حلقہ میں دس سال کے اند ریعنی ۱۸۶۶ء تک اپنی جڑیں مضبوط کرلیں.دراصل پورے پنجاب میں سیالکوٹ ہی ایک ایسا مقام تھا جس نے انگریزوں کے خلاف بغاوت میں ڈٹ کر حصہ لیا تھا.اس لئے انگریزوں کا قدرتی طور پر مفاد اسی میں تھا کہ پنجاب کے اس بازوئے شمشیر زان" کو مفلوج کرنے کے لئے عیسائیت کی بکثرت اشاعت کریں.ملکہ وکٹوریہ نے ۱۸۵۷ء کے انہی واقعات سے متاثر ہو کر عفو عام مساوات اور مذہبی آزادی کا ایک تاریخی اعلان کیا.جس کی رو سے ہندوستان میں ہر مذہب وملت کو اپنے دینی عقائد پر عملدرآمد کرنے اور اشاعت و تبلیغ کرنے کی مکمل اجازت دی گئی تھی.انگریزی حکومت سیاسی لحاظ سے خواہ کس قدر فتنوں کے بہالانے کا باعث ہوئی ملکہ کا یہ تاریخی اعلان ملک کے اہل فہم اور دینی مزاج رکھنے والے سنجیدہ طبقوں میں تشکر کے گہرے جذبات سے سنا گیا.یہ مذہبی آزادی ہر فرقہ کے لئے مسادی تھی جس سے ہر فرقہ نے اپنے مذہب کی ترقی و اشاعت کے لئے فائدہ اٹھایا.لیکن انگریزی حکومت بھی فرقوں کو نہ ہی آزادی دینے کے بعد اگر عیسائیت کی پشت پناہی کا خیال ترک کر دیتی تو اسے اپنی موت پر دستخط کرنا پڑتے.وہ بخوبی جانتی تھی کہ عیسائیت انگریزی اقتدار کا سہارا لئے بغیر اس برق رفتاری سے ہندوستان پر چھا نہیں سکتی.جس کا انگریزی حکومت کے مفاد تقاضا کرتے ہیں.

Page 110

تاریخ احمدیت.جلدا 91 قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام در اصل ۱۸۵۷ء نے انگریز کو پوری طرح محسوس کروا دیا تھا کہ اگر عیسائیت کے فروغ کے لئے پوری جدوجہد کی جاتی تو ملک کی اکثریت عیسائیت کی چوکھٹ پر آجاتی اور اس قسم کے واقعات کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی.یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے پوری قوت سے اور صاف کھل کر عیسائیت کی پشت پناہی شروع کر دی اور پادریوں کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا.ایک پاکستانی ادیب لکھتے ہیں انگریزوں کی غدر میں فتوحات کے بعد عیسائی مشنریوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے ".یہ ای صورت حال کا لازمی نتیجہ تھا کہ خود ملک کے بعض منصف مزاج اور خدا ترس پادری بر ملا تسلیم کرتے تھے کہ اگر ۱۸۵۷ء کی مانند پھر مندر ہوا تو عماد الدین ایسے بدسگالوں کی بد زبانیوں اور بے ہودہ گوئیوں سے ہوگا.چنانچہ ۱۸۶۴ء میں ہنری لارنس کو جو قبل از میں چیف کمشنر تھا اور ابتداء ہی سے عیسائیت کی ترقی و اشاعت میں دیوانہ وار کوشش کرنا اپنا سیاسی فرض سمجھتا تھا ہندوستان کا وائسرائے بنا دیا گیا.یہ وہ شخص تھا جس کی قطعی رائے تھی کہ : " غدر کے بھڑکانے میں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ برطانیہ حسب عادت اپنے مذہب کے معاملہ میں بزدلی دکھاتا رہا.وہ سر ہربرٹ ایڈورڈز کے اس نظریہ کا پر جوش حامی تھا کہ "غدر کے برپا ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ کی گئی.بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ نہیں کی گئی " ہنری لارنس ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۹ء تک وائسرائے رہا اور اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائیت کے پھیلانے کی زبردست جدوجہد کی جس کا اعتراف خود فاضل مسیحی محققین کو ہے.ایک چرچ مشنری لکھتے ہیں کہ : جب ہنری لارنس وائسرائے مقرر ہوئے تو انہوں نے مسیحی تبلیغ کی اور وسیع کوشش کی بہر حال یہ تھا سیالکوٹ کے تبلیغی "میدان جنگ" کا نقشہ اور ملکی سیاست کا ماحول.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان سے سیالکوٹ تشریف لائے اور ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس برطانوی اقدام کے خلاف تن تنها پر جوش محاذ قائم کر لیا.اس زمانہ میں عیسائیت کے دفاع میں آپ کا ایک مناظر و با اشبہ حکومت وقت کے آئین سے نہیں اس کے مخصوص مفادات سے بغاوت " کے مترادف تھا.جمعیتہ العامیا و زید نے ایک سابق ناظم مولانا سید محمد میاں صاحب لکھتے ہیں: " رد عیسائیت بظاہر ایک واعظانہ اور مناظرانہ چیز ہے جس کو سیاست سے بنتا ہر کوئی تعامل نہیں لیکن غور کرو جب حکومت عیسائی گر ہو.جس کا نقطہ نظر ہی یہ ہو کہ سارا ہندوستان عیسائی مذہب اختیار کرلے اور اس کی تمنا دلوں کے پردوں سے نکل کر زبانوں تک آ رہی ہو اور بے آئین اور جابر

Page 111

تاریخ احمدیت جلدا قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام حکومت کا فولادی پنجہ اس کی امداد کر رہا ہو تو یہی تبلیغی اور خالص مذہبی خدمت کس قدرسیاسی اور کتنی زیادہ سخت اور صبر آزما بن جاتی ہے.بلاشبہ رد عیسائیت کے سلسلہ میں ہر ایک مناظرہ ہر ایک تبلیغ ہر ایک تصنیف اغراض حکومت سے سراسر بغاوت تھی".سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود اس زمانہ میں مسیحی مشن چونکہ نی نیا پنجاب میں کا عیسائیت کے خلاف تبلیغی محاذ آیا تھا اس لئے مسلمان اس کے علم کلام اور دلائل سے اکثر نا آشنا تھے اور عیسائیت سے اکثر شکست کھا جاتے تھے.لیکن اس کے بر عکس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے مرد مجاہد سے جس مسیحی کی گفتگو ہوئی اسے خاموش ہونا پڑا.آپ صحیح معنوں میں سیالکوٹ کی پوری مذہبی فضاء پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائی پادری آپ کے مدلل اور مسکت مباحثوں سے بالکل لاجواب ہو جاتے تھے.آپ کی بیٹھک کے قریب ہی ایک بوڑھے دکاندار فضل دین کی دکان تھی جہاں شام کو شہر کے اچھے اچھے سمجھدار لوگوں کا ایک ہجوم سا رہتا تھا.گاہے گاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تشریف لاتے اور مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر نصر اللہ نامی عیسائی سے مذہبی امور پر معلومات افزاء گفتگو فرماتے.ان دنوں حاجی پورہ میں ایک دیسی پادری الائشہ صاحب بھی ایک کو ٹھی میں رہتے تھے.ایک دفعہ ان سے آپ کا ایک مختصر سا مگر فیصلہ کن مباحثہ بھی ہوا.پادری صاحب نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے دعوی کیا کہ عیسائیت قبول کئے بغیر نجات کا حصول ممکن نہیں.حضرت اقدس نے جرح میں صرف یہ فرمایا کہ نجات کی مفصل تعریف بیان کیجئے.آپ کا بس اسی قدر فرمانا تھا کہ وہ صاحب دم بخودرہ گئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ” میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سیالکوٹ میں جن نادری بٹلر سے تبادلہ خیالات پادریوں سے مذہبی تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا تھا ان میں پادری بٹر ایم اے ممتاز تھے.پادری بنگر سکاچ مشن کے بڑے نامی گرامی اور فاضل پادری تھے.ایک دفعہ حضرت اقدس سے ان کی اتفاقاً ملاقات ہو گئی.اثنائے گفتگو میں بہت کچھ مذہبی گفتگو ہوتی رہی.آپ کی تقریر اور دلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایسا گھر کر لیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کا بہت شوق پیدا ہو گیا.اکثر ایسا ہوتا کہ پادری صاحب دفتر کے آخری وقت میں حضور کی خدمت میں آجاتے اور پھر آپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کی فرودگاہ تک پہنچ جاتے اور بڑی خوشی سے اس چھوٹے سے مکان میں جو عیسائیوں کی خوش منظر اور عالی شان کو ٹھیوں کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا سا تھا بیٹھے رہتے اور بڑی توجہ اور محویت و عقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت

Page 112

تاریخ احمدیت جلدا ۹۳ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام کے تکلفات کو بھی اس جگہ بھول جاتے.بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کو اس سے روکا اور کہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایا کریں.لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور متانت سے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اس کو نہیں سمجھتے میں خوب سمجھتا ہوں"." پادری بٹلر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پر نور شخصیت بے مثال متانت و سنجیدگی اور زبردست قوت استدلال کا اس درجہ گہرا اثر تھا کہ جب وہ ولایت جانے لگے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الوداعی سلام کئے بغیر سیالکوٹ سے جانا گوارا نہ کیا.چنانچہ وہ دفتر کے اوقات میں محض آپ کی آخری زیارت کے لئے کچھری آئے اور ڈپٹی کمشنر کے پوچھنے پر بتایا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے.اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے.مذہبی تبادلہ خیالات کے دوران میں اکثر ضد و تعصب کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لیکن آپ کچھ ایسے دلکش اور پیارے الفاظ میں عیسائیت کے متعلق گفتگو فرماتے کہ خود عیسائیوں میں سے حق پسند طبقہ کو لطف آجاتا اور وہ اختلاف رائے کے باوجود آپ کا گرویدہ ہو جاتا.ان دنوں مرزا مراد بیگ صاحب جالندهری مدیر اخبار " وزیر ہند" (جو ابتداء مرزا شکسته تخلص کرتے تھے لیکن عیسائیوں سے مباحثات کے بعد مرزا موجد کہلائے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے اور آپ کے علم کلام اور مسکت و معقول دلائل سے فیض یاب ہو کر اس سے اپنے رنگ میں اخباری دنیا کو روشناس کراتے.مرزا موحد حضرت اقدس کے جوش ایمانی اچھوتے طرز استدلال اور ناقابل تردید براہین پر حد درجہ فریفتہ تھے.جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ سے تشریف لے آئے تو وہ قادیان میں بھی کئی بار آپ کی زیارت و استفادہ کے لئے حاضر ہوتے رہے.وہ مسلمان، ہندو اور آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کے متعلق چند شہادتیں سکھ یا عیسائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ ملازمت میں کچھری کے عملہ میں شامل تھے آپ کی امانت و دیانت ، تقوی اور نیکی کے دل سے قائل تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کا ثنا خواں اور مداح نہ ہو.ضلع کا سب سے بڑا افسر (ڈپٹی کمشنر) آپ کو نایت درجہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا تھا.بلکہ ایک روایت سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور

Page 113

تاریخ احمدیت.جلدا ۹۴ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام استعفی دے کر واپس قادیان آنے لگے تو اس نے آپ کی مشایعت کے اعزاز میں تعطیل عام کر دی تھی کہ ایساپاکباز شخص ان کے عملے سے مستعفی ہو کر جارہا ہے.سرکاری افسروں اور ملازموں کے علاوہ سیالکوٹ کا ہر وہ شخص جسے آپ سے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی صالح اور درویشانہ طبیعت سے متاثر تھا.جن لوگوں کے مکانوں میں آپ نے ان دنوں قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے سیالکوٹ کے علمی طبقہ میں تو آپ کو علم و فضل کا ایک نمایاں مقام حاصل تھا.اس زمانہ کی چند شہادتیں درج ذیل ہیں.پہلی شہادت سیالکوٹ میں ایک صاحب حکیم مظہر حسین صاحب تھے جو اگر چہ حضرت مسیح موعود کے دعوئی ماموریت پر دشمنان احمدیت کی صف اول میں چلے گئے تاہم حضور کے زمانہ سیالکوٹ کی پاکیزہ یا دوہ مخالفت کے ہجوم میں بھی فراموش نہیں کر سکے چنانچہ لکھتے ہیں: ثقہ صورت عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علو ہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا.اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لئے پانی مانگا اور وضو سے فراغت پا نماز ادا کی یا وظیفہ میں تھے.در و دو خائف کا لڑکپن سے شوق ہے مکتب کے زمانہ میں تحفہ ہند تحفہ النور خلعت النور وغیرہ کتابیں اور سنی اور شیعہ عیسائی مناظرہ کی کتابیں دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب کے خلاف اسلام کی تائید میں کتابیں لکھ کر شائع کریں.دوسری شہادت دوسری شادت مشہور مسلم لیڈر مولوی ظفر علی صاحب آف زمیندار کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب مرحوم کی ہے: » مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء (؟) کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲- ۲۳ سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہو تا تھا.عوام سے کم مل تھے".تیسری شہادت جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے شمس العلماء مولانا سید میر تیسری شهادت حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی کی ہے.مولانا صاحب سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتداء میں آپ ہی سے شرف تلمذ رکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا.جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضور سے اکثر ملاقات کا موقعہ ملتا تھا.مولوی صاحب نے اس زمانہ میں حضور کو

Page 114

تاریخ احمدیت جلدا ۹۵ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا.وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضور کی بزرگی تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدس کی بے حد عزت کیا کرتے تھے.ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ادنی تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں؟ M-A- tt ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سیالکوٹ میں ان سے ملے تو انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا: افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی.ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کر سکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی.بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالی کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں".مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کے قلم سے حضور کے زمانہ سیالکوٹ کے مفصل حالات مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم نے حضور کے قیام سیالکوٹ کے متعلق دو مفصل بیانات بھی لکھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے اور جنہیں کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ میں یہ قیمتی معلومات بنیادی لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں.پہلا بیان (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم سیالکوٹ میں اور ان کا زمانہ قیام بتقریب ملازمت" کے عنوان سے) حضرت مرزا صاحب ۱۸۶۴ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا.چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی تھی آپ پسند نہیں فرماتے تھے لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا مٹھن لال صاحب بٹانہ میں اکسٹرا اسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا.پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے.اور

Page 115

تاریخ احمدیت جلدا ۹۶ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام چونکہ لالہ صاحب سلیم طبع اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی.مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچھری والے آگاہ نہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پر کسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہو گئے تھے) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا.ترجمان کی ضرورت تھی.مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے.اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھواتے جاؤ.مرزا صاحب نے اس کام کو کما حقہ ادا کیا اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی.اس زمانہ میں مولوی الہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے) کچھری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچھری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں.ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسٹنٹ سرجن پیشنر ہیں استاد مقرر ہوئے.مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں.مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا.چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا.ایک دفعہ پادری الائشہ صاحب (سے) جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں ایک کو ٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا.پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟ مفصل بیان کیجئے.پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا.پادری بٹر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہ گار تھا بری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہ گار ہوا.پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.

Page 116

تاریخ احمدیت جلدا 94 قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام پادری بنگر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی.چنانچہ پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچری میں تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس لئے ان سے آخری ملاقات کروں گا.چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے.چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات و انجیل کی تغییر لکھی ہے آپ ان سے خط و کتابت کریں اس معالمہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی.چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا.کچری کے منشیوں سے شیخ اللہ دار صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت انس تھا اور نہایت پکی اور کچی محبت تھی.شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے مرزا صاحب کو دلی محبت تھی.چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سر بازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطلب رکھتے تھے.اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا.چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا.چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیونکر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے.بیج ہے.ہر کسے را برے کاری ساختند ان دنوں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی.اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی.جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی.میں نے ان کی خدمت میں عرض کی آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کے لحاظ سے نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے.فرمایا میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اور

Page 117

تاریخ احمدیت جلد ۹۸ قیام پالکوٹ اور تاریخ اسلام علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں.میں اس آیت کی وعید سے بہت ڈرتا ہوں اُحْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَازْوَاجَهُمُ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے.ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا.ایک مرتبہ لباس کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا.ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں.دوسرے نے کہا کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ : بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے اور اس میں پردہ زیادہ ہے.کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے.سب نے اس کو پسند کیا.آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے.ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے.ای سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تغییر شروع کی تھی.تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی.جب میں اور شیخ اللہ دار صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ ھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثنائے گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا.اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا.راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے.فرمایا کل جب آپ آدیں تو تفسیر لیتے آنویں ، جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا.اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمینا ۲۴ سے کم اور ۲۸ سے زیادہ نہ تھی غرضکہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸ سے متجاوز نہ تھی.راقم میرحسن " ۵۴ حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ دو سرابیان کے بہت قریب ہے عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے کچھری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر کھڑے ہو کر شملتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.حسب عادت زمانہ - صاحب حاجات جیسے اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں ان کی خدمت میں

Page 118

تاریخ احمدیت جلدا 99 قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام بھی آجایا کرتے تھے اس عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل الدین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا آپ بلا کر فرماتے.میاں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا دو کہ یہاں نہ آیا کریں نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں اور نہ میرے وقت کو برباد کیا کریں.میں کچھ نہیں کر سکتا.میں حاکم نہیں ہوں.جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے کچھری میں ہی کر آتا ہوں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے.مولوی عبد الکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقربین میں شمار کئے گئے.اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمعہ منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے.وہ (یعنی منصب علی - خاکسار (مؤلف) وثیقہ نویس کے عہدہ پر ممتاز تھے.بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل الدین نام بوڑھے دکاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے ان کے اکثر احباب شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے.کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے آجایا کرتے تھے.مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی.مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے.مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے.مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو.چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے.جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہو تا تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اور ہو تو فرمایا خود سعی اور محنت کرنی چاہئے.اللہ تعالٰی فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا مولوی محبوب عالم صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی.دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیش روی تو عیاں ہے مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی.اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچھری برخواست ہونے کے بعد جب اہل کار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا.ہر ایک نے دعوی کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں.آخر ایک شخص بلا سنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے.آخر شیخ اللہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچھری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاؤں دوڑو - جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر

Page 119

تاریخ احمدیت جلدا قیام سیالکوٹ اور تاریخ اسلام بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا.مرزا صاحب اور بلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے.جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا".دد ملازمت سے استعفیٰ سیالکوٹ کا زمانہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک روحانی ٹریننگ کا زمانہ تھا.جس میں آپ کے ہاتھوں پادریوں سے معرکہ آرائی کا آغاز ہونا مقدر تھا.اس لئے جب اللہ تعالٰی کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق یہ چار سالہ دور ختم ہونے کو آیا تو ۱۸۶۷ ء میں آپ کے والد بزرگوار کے دل میں جدائی کا زخم جو آہستہ آہستہ مندمل ہو گیا تھا کا ایک تازہ ہو گیا اور انہوں نے ایک آدمی بھیجوا کر اپنے چہیتے فرزند کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس آجانے کی فوری ہدایت دی.یہاں کیا دیر تھی چار سال کی طویل مدت میں ایک ایک گھڑی اسی انتظار میں گذر رہی تھی کہ واپسی کا فرمان آئے تو اس دور امیری کا خاتمہ ہو.چنانچہ آپ یہ ارشاد ملتے ہی ملازمت سے مستعفی ہو کر سیالکوٹ سے قادیان کو چل دیئے اور اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں کہ : آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے مطابق تھا میں نے استعفی دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا...بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے من بهر جمعتے نالاں شدم جفت خوشحالاں و بد حالمان شدم ہر کے از ظن خود شد یار من وز درون من نجت اسرار من 1 -

Page 120

تاریخ احمدیت جلدا N قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام حضرت چراغ بی بی صاحبہ رحمہا اللہ کا انتقال حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے جب حضور کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا تو حضور کی والدہ ماجدہ سخت بیمار تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام سنتے ہو انور آسیا لکوٹ سے روانہ ہو گئے.امرت سر پہنچے تو قادیان کے لئے تانگہ کا انتظام کیا.اسی اثناء میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لئے امرت سر پہنچ گیا.اس آدمی نے یکہ بان سے کہا کہ یکہ جلدی چلاؤ کیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہو گئی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ سنتے ہی یقین ہو گیا کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو چکا ہے.چنانچہ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق و مهربان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو چکی ہیں D حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے "حیات النبی" میں یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ " میران بخش حجام کو آپ کے پاس بھیجا گیا اور اسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یک دم حضرت والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر حضرت مسیح موعود کو نہ سنائے چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضور کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبردی یکہ پر سوار ہو کر جب قادیان کی طرف آئے تو اس نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو.حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو ؟ اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی.پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلدی لے چلو.تب پھر پوچھا.اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی.خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہو جائیں.پھر حضرت خاموش ہو گئے.آخر اس نے پھر یکہ والا کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کر دیتے کیا معاملہ ہے.تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہو گئی تھیں اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہو یک دم خبر نہیں دی.حضرت نے سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ دیا اور یہ خدا کی رضاء میں محو اور مت قلب اس واقعہ پر ہر چند کہ وہ ایک حادثہ عظیم تھا سکون اور تسلی سے بھرا رہا ".حضرت کی والدہ ماجدہ کے اخلاق و شمائل حضرت چراغ بی بی صاحبہ " ایمہ ضلع - ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں.قناعت ، شجاعت، عفت مروت، وسعت حوصلہ استغناء ، فیاضی اور مہمان نوازی آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں.شہر کے مفلوک الحال اور پسماندہ طبقہ کی ضروریات کے مہیا کرنے میں انہیں خاص قلبی و روحانی مسرت حاصل ہوتی تھی.غرباء کے مردوں کو کفن ہمیشہ ان کے ہاں سے ملتا

Page 121

تاریخ احمدیت جلدا ۱۰۲ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام تھا.ان کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی مشہور تھی.وہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب ہمیں لے کے لئے بہترین مشیر اور غمگسار تھیں اور آپ بھی اپنی ہیبت اور شوکت و جلال کے باوجود خانہ داری کے معاملات میں ان کی خلاف مرضی کوئی بات نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چونکہ ابتداء ہی سے خلوت گزینی ، ذکر الہی اور مطالعہ سے ہر لحہ شغف تھا اور اپنے والد صاحب کے دنیوی مشاغل اور دوسرے کا روبار میں حصہ لینے سے طبعا متنفر تھے اس لئے گھر میں ملاں "کہلاتے تھے.لیکن آپ کی والدہ محترمہ کو آپ سے بڑی محبت تھی.وہ آپ کی نیکی ، تقوی شعاری، پاک زندگی اور سعادت مندی پر سو جان سے قربان ہو جاتیں اور آپ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھیں.چنانچہ ان کی زندگی میں آپ کو کبھی کچھ کہنے کی نوبت نہیں آئی.کیونکہ وہ ابتداء ہی سے جانتی تھیں کہ آپ اپنے گھر کے دوسرے افراد کے مقابل بالکل درویش طبع ہیں اور اپنی ضروریات کا کسی سے اظہار کرنا آپ کو ہرگز پسند نہیں.جب تک زندہ رہیں آپ کے لئے (ظاہری لحاظ سے) سپر بنی رہیں.والد خفگی کا اظہار کرتے تو ماں کی مامتا فرط محبت سے جوش میں آجاتی.حضور جب والد بزرگوار کے اصرار پر سیالکوٹ آگئے تو باقاعدہ آپ کے لئے کپڑے وغیرہ بنا کر بھجواتی رہیں.غرضکہ ان کا وجود آپ کے لئے سایہ رحمت تھا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی.جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا چشم دید بیان ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مرتبہ میر کی غرض سے اپنے پرانے خاندانی قبرستان کی طرف نکل گئے.راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعا فرمائی.حضور جب کبھی حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے تو آپ چشم پر آب ہو جاتے حضرت والدہ صاحبہ نہایت خدا رسیدہ اور بزرگ خاتون تھیں.ان کی ایک کرامت حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ” جب بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت کے والد - ناقل) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی.دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے".حضرت مریم صدیقہ سے معنوی مشابہت حضرت سیدہ چراغ بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا روحانی مقام تو اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے بطن مبارک سے مسیح محمدی ایسا عظیم الشان وجود پیدا ہوا جس سے آفاق عالم روشن ہو گئے

Page 122

تاریخ احمدیت جلدا قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام لیکن ایک حیرت انگیز معنوی مشابہت آپ کو حضرت مسیح موسوی کی والدہ (حضرت مریم) سے بھی حاصل تھی.اور وہ یہ کہ مریم کے ایک معنی "سمندر کا ستارا" کے بھی ہیں اور آپ کا اسم مبارک چراغ بی بی تھا.روشنی اور نور کے مفہوم میں متحد ہونے کے باوجود ان دونوں ناموں میں کھلا کھلا تفاوت ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ حضرت مسیح کی آمد بنی اسرائیل میں دور نبوت کے خاتمہ پر ہوئی تھی اور وہ موسوی سلسلہ کی آخری کڑی تھے.اس لئے حضرت مسیح ناصری کی والدہ ستارہ تھیں جو فی نفسہ روشن ہوتا ہے مگر کسی اور وجود میں اپنی روشنی منتقل نہیں کر سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے چونکہ قیامت تک ہزاروں اور کروڑوں شمعوں کا روشن ہونا مقدر تھا.اس لئے حضور کی والدہ ماجدہ کا نام آسمان پر چراغ بی بی رکھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں.خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد یہ بریاد بشارت تو نے مجھے کو بار ہا دی فسبحان الذي اخری الأعادي تاریخ وفات کی تعیین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک قلمی روزنامچہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جس کے اکثر اندراجات مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے قلم سے ہیں.انہوں نے اس میں حضرت والدہ صاحبہ کی تاریخ وفات ۱۲- ذی الحج ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸ اپریل ۱۸۷۷ء) لکھی ہے.مزار مبارک آپ کا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم خاندانی مقبرہ میں موجود ہے جو مقامی عید گاہ کے پاس ہے اور قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے اس قبرستان کے ایک حصہ کا خاکہ یہ ہے: -1 احاطہ مزار شاہ عبداللہ غازی و فرزند شاہ صاحب موصوف -۲- مائی صاحب جان صاحبہ - بیوہ مرزا غلام حیدر صاحب چی حضرت اقدس مرزا غلام قادر صاحب بر اور کلاں حضرت اقدس -۴- حضرت چراغ بی بی صاحبہ - حضرت مرزا گل محمد صاحب پر دادا حضرت مسیح پاک 00000

Page 123

تاریخ احمدیت جلدا ۱۰۴ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام - مرزا غلام محی الدین صاحب چا حضرت اقدس ہے.مراد بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت اقدس - جنت بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت اقدس -۹ مرزا غلام حیدر صاحب چچا حضرت اقدس -۱۰.المیہ مرزا گل محمد صاحب پر دادی حضرت اقدس 11- مائی لاڈلی بیگم صاحبہ عرف مائی لاڈو اہلیہ مرزا عطا محمد صاحب ۱۲ مرزا عطا محمد صاحب وفات ۲۷.ربیع الاول ۱۲۸۰ھ بمطابق ۱۲- ستمبر ۱۸۶۲ء (قلمی روز نامچه خاندان مسیح موعود)

Page 124

تاریخ احمدیت جلدا قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام حواشی قادیان سے دو میل کے فاصلے پر ایک گاؤں میرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۸ طبع اول و تذكرة المهدی صفحه ۳۲ حصہ دوم سل "حیات النبی جلد اول صفحہ ۵۸ سیرة المهدی حصہ سوم صفحه ۹۲ - ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کا غذات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کا محمدہ بائب شیرف کا تھا.(سیرت المہدی حصہ چہارم صفحه ۳۹ ۷ غیر مطبوعہ) ه کتاب البریہ صفحه ۱۵۳ ۱۵۳ طبع اول ۱۸۹۸ء ضیاء الاسلام پر لیس قادیان سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۳ یہ مکان بعد میںماسٹر عبد العزیز صاحب مرحوم نے خرید لیا تھا.مسٹر صاحب جماعت سیالکوٹ کے ایک فرد تھے اور اب بہشتی مقبرہ میں آرام فرما ر ہے ہیں.حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه 1 او سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۹۳ سیرت المهدی حصہ سوم صفحه ۲۳۶٬۲۳۵ ۱۰ ايضا صفحه ۹۳-۹۴ الله حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۷۰ حقیقته الومی طبع اول صفحی ۲۹۷ حیات النبی جلد اول نمبر ۲ صفحہ ۱۰ ور سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۹۳ الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحه کالم ۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ الفضل ۸- اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه کالم نمبر ۳ تریاق القلوب صفحه ۵۷ تصنیف ۱۸۹۹ء- اشاعت ۱۹۰۲ء و براہین احمدیہ طبع اول صفحه ۲۵ مطبوعہ ۱۸۸۰ء تریاق القلوب صفحه ۷ ۵ ویر امین احمدیہ طبع اول صفحه ۲۵۷ ۳۰ سیرة المهدی صفحہ ۷۹ احصہ سوم بروایت پنڈت دیوی رام ايضا ۲۲- حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۷۳ ۲۳- تاریخ التعلیم صفحه ۸۷ از میجر یا سو بحوالہ "علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے " صفحه ۳۸ از سید محمد میاں صاحب ناظم جمعیتہ العلماء ہند اشاعت ستمبر ۱۹۴۷ء ۲۴- "علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنا ہے " مرتبہ مولانا سید محمد میاں صاحب ناظم جمعیتہ العلماء ہند صفحہ ۲۶۲۵ مطبوعہ دلی پر تنگ ور کس دلی.۲۵ تاریخ بشارت الهند و پاکستان صفحه ۱۲۵ شائع کردہ پنجاب ریلیجنس بک سوسائٹی ۱۹۴۹ء - The Mission by R.Clark London صفحه ۲۳۴ (مطبوع ۱۹۰۴ء) حواله انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ مولفہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد ۲۷- ايضا

Page 125

تاریخ احمدیت جلدا ۲۸ ایشان صفحه ۲۳۵ 1-4 قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام ۲۹- سکاچ مشن ۱۸۲۹ء میں سکاٹ لینڈ کے ایک مشنری الگزنڈرڈف کے ذریعہ سے ہندوستان میں قائم ہو اتھا ر بشارت الہند و پاکستان صفحہ ۲۳۷) یادر ہے کہ ۱۸۵۷ء سے ہنگامہ میں سیالکوٹ چھاؤنی میں جو انواج متعین تھیں ان کے بڑے بڑے انگریز فوجی افسروں میں پادری ہنٹر کا نام بھی شامل ہے ( روزنامہ امروز ۱۲ مئی ۱۹۵۷ء) ۱ ( تاریخ بشارت الهند و پاکستان صفحه ۲۴۱) -۳۲ سید عطاء اللہ شاہ بخاری " مولقه شورش کا شمیری صفحه ۱۸۷ تا شر کتبہ چٹان لاہور طبع اول ستمبر ۱۹۵۷ء ۳۳- شمس الاخبار لکھنو با تمام پادری کر یونی صاحب حوالہ کتاب البریہ صفحه ۱۰۴ -۳۴ مصنفه رابرت کلارک مطبوعه لندن ۸۸۵ صفحه ۲۹ Punjab and Sindh Mission The Missions by R.Clark -۳۵ بشارت الهند و پاکستان صفحه ۲۷۵ ۳۷.علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنا ہے ".صفی ہو ۳۸- حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات " مشموله بر این احمدیہ حصہ اول طبع چهارم صفحه ۱۲ ( مرتبہ معراج الدین صاحب ) نیز احکم ۷- اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ نمبر ۳ ۳۹ سیرت مسیح موعود (مولفه حضرت خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالی صفحه ۲ طبع چہارم حیات احمد " جلد اول نمبر ۲ صفحه ۴۱-۱۴۲ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ام روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد دہم صفحہ ۱۳۴ الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحه ۶ ۴۳.احکم ہے.اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ میں -۴۴ اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء کواله بدر ۲۵ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۱۳ ۲۵ ولادت ۱۸ اپریل ۱۸۴۴ ء وفات ۲۵ دسمبر ۱۹۲۹ء ان کی وفات پر ڈاکٹر اقبال نے مادہ تاریخ نکالا " ما ارسلنک الا رحمته اللعلمين" ٢٤٣٩- ذکر اقبال (مولانا عبد المجید صاحب (مالک) طبع اول صفحہا ۴۷۲ ایضا صفحه ۲۷۸ - ناشریزم اقبال کلب روڈ لاہور ۱۹۵۵ء.۴۸ مکتوب ۲۹ نومبر ۱۹۲۳ء بنام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالٰی منقول از سیرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۷۰ طبع دوم ۰۶۱۹۳۵ ۴۹ الحکم ہے.اپریل ۱۹۳۲ء صفحه ۳ یہ ایک نسبتی تبصرہ ہے جس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس وقت سیالکوٹ کے ایک خاص حلقہ میں حضرت اقدس کی عربی استعداد دوسروں کی نسبت اچھی تھی اور آپ ایک حد تک عربی میں اپنا مافی الضمیر ادا کر سکتے تھے کیونکہ آپ نے حصول علم کے لئے کسی پڑے مرکز یا شہر کا سفر اختیار نہیں کیا تھا.الله اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انگریزی خواں تھے.صرف یہ مطلب ہے کہ آپ کو حروف شناسی آگئی تھی کیونکہ ابتدائی زمانہ میں انگریزی کی جو پہلی کتاب ہوتی تھی اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروائی جاتی تھی اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر آسان الفاظ بنانے کی ابتدائی مشق ہوتی تھی.حقیقت یہ ہے کہ حضور کو ابتداء ہی سے انگریزی زبان سے کوئی مناسبت اور دلچسپی نہیں تھی.دعوئی مسیحیت کے بعد ایک مرتبہ محض تبلیغ اسلام کی غرض سے آپ کو انگریزی پڑھنے کا ضرور خیال آیا.یہ تجویز بھی فرمائی کہ انجیل متی کی انگریزی عبارت کو اردو حروف میں لکھا جائے اور ہر لفظ کے نیچے اس کے معنی دیتے جائیں.اس غرض کے لئے انجیل متی کے دو چار باب بعض انگریزی خواں دوستوں میں تقسیم بھی کئے گئے تھے لیکن کچھ عرصہ کے بعد خودہی فرمایا کہ ”میں نے خود انگریزی پڑھنے کے ارادہ کو ترک کر دیا ہے تاکہ یہ ثواب ہمارے انگریزی خواں دوستوں کے

Page 126

تاریخ احمدیت جلدا قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام واسطے مخصوص رہے".(ذکر حبیب صفحه ۴۴٬۴۳ مولفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب و سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحه ۱۵۹) نیز یہ بھی فرمایا کہ " انگریزی چالیس تجد کی نمازوں میں آجاتی ہے ".(حیات النبی جلد اول نمبر ۲ صفحه ۱۷۲) -۵۲ مشور محمدی ۱۵ صفر المظفر ۱۳۰۰ھ صفحہ ۴۲ میں ان کا ایک قصیدہ شائع ہوا ہے جس میں ان کا نام یوں لکھا گیا عالم اعلم فاضل افضل " مولا تا مرز ا موجد صاحب جالندھری اخبار نویس" ۵۳ حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوئی بھی اللہ کے والد بزرگوار جنہیں ۱۸۷ء سے حضرت مسیح موعود سے والہانہ عقیدت تھی اور آخر وقت تک رہی.آپ نے چونکہ حضور کی عملی زندگی کا بچشم خود مشاہدہ کیا ہوا تھا اس لئے حضور کی زبان مبارک سے دعوئی ماموریت کا اعلان سنتے ہی حضرت کے غلاموں میں شامل ہو گئے.حضرت اقدس نے لیکچر سیالکوٹ میں انہیں اس زمانہ کے مخلص دوست اور بزرگ قرار دیا تھا.۵۴ سيرة المهدی حصہ اول صفحه ۱۵۳ طبع اول دسمبر ۱۹۲۳ء) و حیات النبی جلد اول صفحه ۲۲۰۵۹ (مطبوعہ اکتوبر ۱۹۱۵ء) ۵۵- سیرت المہدی حصہ اول طبع ثانی صفحه ۲۷۰-۲۷۲ ۵۶ کتاب البریہ طبع ثانی صفحه ۱۵۳ ۱۵۵ حاشیه ۵۷ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۴۳-۴۴ طبع ثانی) بروایت حضرت ام المومنین نور اللہ مرتد ہا.-09 حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۳۲ حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۳۲٬۱۴۰ حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۴۳ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۷ ۸۴ طبع دوم ۷۳۰- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو صداقت مریمہ صفحہ ۳۲ مولفہ میاں معراج الدین صاحب عمر طبع اول مطبوعہ ۱۹۱۵ء ہلالی پریس دہلی معراج الدير ۶۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۷

Page 127

تاریخ احمدیت جلدا قادیان میں دینی مصروفیات باب ہفتم سیالکوٹ کے بعد قادیان میں حضرت اقدس کی دینی مصروفیات (۱۸۷۷ تا ۱۸۷۱) سیالکوٹ سے واپسی کے بعد حضرت اقدس" کو آپ کے والد بزرگوار نے پھر زمینداری کے کاموں اور مقدمات وغیرہ میں لگا دیا اور یہ سلسلہ کم و بیش آٹھ نو برس تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا.یہاں تک ان کی وفات (۱۸۷۶ء) کے بعد قریباً منقطع ہو گیا مقدمات کے اس دوسرے دور میں بھی بعض آسمانی نشانات کا ظہور ہوا.مثلاً (۱۸۶۸ء) ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مقدمہ کے متعلق (جو آپ کے والد بزرگوار کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق دائر کیا گیا تھا) بذریعہ خواب ڈگری ہونے کی خبر دی گئی جو غیر معمولی رنگ میں پوری ہوئی.اسی طرح ایک مقدمہ میں دعا کے بعد آپ کو ایک حفیظ نامی لڑکا کھایا گیا.چنانچہ وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا.وغیرہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم نے جب ابتداء مقدمات میں قدم رکھا تو اس وقت انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی کا قوی امکان ہو سکتا تھا.لیکن اب جو ایک عرصہ تک ان مقدمات کی کشمکش میں الجھنے کے بعد جب انہیں صریح ناکامی ہوئی اور جائیداد بھی عمارت ہوتی دکھائی دینے لگی تو نہ صرف بشاشت کا پہلا سا رنگ نہ رہا بلکہ اس کے برعکس وہ سخت غمگین رہنے لگے.اپنی رفیقہ حیات کے ہمیشہ کے لئے جدا ہونے کا غم مزید بر آن تھا.اقتصادی اور معاشرتی صدمات میں چور چور تھے.اور ان کی گذشتہ کوششوں کے بھیانک اور تلخ نتائج ان کے سامنے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سیالکوٹ سے واپس آکر جہاں گذشتہ دستور کے مطابق قرآن و حدیث کا خود مطالعہ جاری رکھا وہاں آپ اس مطالعہ میں اپنے والد بزرگوار کو شریک کرتے ہوئے انہیں بھی قرآن و حدیث سنانا شروع کر یا.باپ اور بیٹے کی یہ قال اللہ اور قال الرسول کے وعظ و تلقین کی عجیب مجلسیں کتنی پر کیف ہوتی ہوں گی قلم ان کا نظارہ کھینچنے سے قاصر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان کوششوں اور

Page 128

تاریخ احمدیت جلدا 1.9 قادیان میں دینی مصروفیات گذشتہ ناکامیوں پر مخلوط تاثرات و جذبات کا نتیجہ تھا کہ عمر کے آخری دور میں آپ دنیا داری کے ان جھمیلوں سے سخت دل برداشتہ ہو کر سابقہ بے التفاتی کی تلافی کی طرف متوجہ ہو گئے.جوں جوں عمر گزرتی گئی دنیا داری کے خلاف نفرت و حقارت میں بھی اضافہ ہوتا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اپنی سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں: اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بد ستوران ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے مدیر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہو تا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتا بیں سنایا بھی کرتا تھا.اور میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا جس کا انجام آخر نا کامی تھا.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہو تا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چه حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی.مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا.اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.عمر بگذشت و نماندست جزایا می چند به که در یاد کے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے: از در تو اے کی ہر بے کے نیست امیدم اور کبھی درد دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے.روم نا امید باب دیده عشاق و خاکپائے کے مرا دلے ست کہ درخوں تید بجائے کسے A

Page 129

تاریخ احمدیت جلدا 11.قادیان میں دینی مصروفیات ریاست کپور تھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری سے انکار حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام سیالکوٹ سے ملازمت ترک کر کے قادیان تشریف لائے تو کچھ عرصہ بعد آپ کو ریاست کپور تھلہ کی طرف سے سررشتہ تعلیم کی افسری کی پیشکش کی گئی جسے حضور نے ٹھکرا دیا اور حضرت والد صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیا.میں کوئی نوکری کرنی نہیں چاہتا ہوں دو جوڑے کھدر کے کپڑوں کے بنا دیا کرو اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو".یہ فیصلہ جب ان تک پہنچا تو انہوں نے ایک شخص میاں غلام نبی کو نہایت رقت بھرے دل کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا ” میاں غلام نبی میں خوش تو اسی پر ہوں کچی راہ تو یہی ہے جس پر یہ چل رہا ہے".یا دالٹی کیلئے حضرت والد صاحب سے کلیتہ فراغت کی درخواست جب آپ دنیوی مقدمات اور ملازمت وغیرہ کے جھمیلوں سے تنگ آگئے تو آپ نے اپنے والد صاحب مرحوم کی خدمت میں درخواست لکھی کہ آپ کو حیات مستعار کے بقیہ دن یاد الہی میں بسر کرنے کی اجازت دی جائے اور دنیاداری کے معاملات میں شرکت سے بالکل مستثنیٰ قرار دیا جائے.آپ نے یہ درخواست اس زمانہ کے دستور کے مطابق فارسی زبان میں لکھی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں: حضرت والد مخدوم من سلامت مراسم غلامانه و قواعد فدویانہ بجا آورده معروض حضرت والا میکند - چونکہ دریں ایام برای العین سے بینم و بچشم سر مشاہدہ میکنم که در همه ممالک و بلاد ہر سال چناں دبائے مے افتد که دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشان جدا میکند و پیچ سالے نے بینم کہ ایس نائرہ عظی چنیں حادثہ الیم در آن سال شور قیامت نیفگند نظر برای دل از دنیا سرد شده است و رو از خوف جان زرد و اکثر ایں دو مصرعہ شیخ مصلح الدین شیرازی بیاد می آیند واشک حسرت ریخته میشود مکن تکیه بر عمر ناپائے دار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرعه ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود سه بدنیائے دوں دل میبند اے جواں کہ وقت اجل نے رسد ناگہاں لہذا میخواهم که بقیه عمر در گوشه تنهائی نشینم و دامن از صحبت مردم چینم و بیا داد سبحانه مشغول شوم مگر گذشته را عذرے و مافات را تدار کے شود.

Page 130

تاریخ احمدیت.جلدا HI قادیان میں دینی مصروفیات عمر بگذشت و نماند است جز از گام چند یہ کہ دریاد کے صبح کنم شام چند کہ دنیا را اسا سے محکم نیست و زندگی را اعتباری نے واپس من خاف على نفسه من أُفَةٍ غيره والسلام ترجمہ: مخدومی حضرت والد صاحب سلامت غلامانہ مراسم اور فدویانہ آداب کی بجا آوری کے بعد آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دنوں یہ امر مشاہدہ میں آ رہا ہے اور ہر روز یہ بات دیکھی جارہی ہے کہ تمام ممالک اور قطعات زمین میں ہر سال اس قسم کی وباء پھوٹ پڑتی ہے جو دوستوں کو دوستوں سے اور رشتہ داروں کو رشتہ داروں سے جدا کر دیتی ہے اور ان میں دائی مفارقت ڈال دیتی ہے اور کوئی سال بھی اس بات سے خالی نہیں گذرتا کہ عظیم الشان آگ اور المناک حادثہ ظاہر نہ ہوتا ہو یا اس کی تباہی کی وجہ سے شور قیامت بپا نہ ہو تا ہو.یہ حالات دیکھ کر میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ غم سے زرد اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے یہ دو مصرعہ زبان پر جاری رہتے ہیں اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں لمن تکیه بر عمر ناپائے دار مباش ایمن از بازی روزگار نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر اور زمانے کے کھیل سے بے خوف نہ ہو) نیز فرخ قادیانی کے دیوان سے یہ دو مصرعہ بھی میرے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں) بدنیائے دوں دل مبند اے جواں که وقت اجل نے رسد ناگہاں اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا کیونکہ موت کا وقت ناگہاں پہنچ جاتا ہے) اس لئے میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشہ تنہائی اور کنج عزلت میں بسر کروں اور عوام اور ان کی مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اللہ تعالٰی سبحانہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤں تا تلافی مافات کی صورت پیدا ہو جائے.عمر بگذشت و نماند است جزایا می چند به که در یاد کے صبح کنم شامے چند (عمر کا اکثر حصہ گذر گیا ہے اور اب چند دن باقی رہ گئے ہیں.بہتر ہے کہ یہ چند روز کسی کی یاد میں بسر ہوں) کیونکہ دنیا کی کوئی پختہ بنیاد نہیں.زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور حیات مستعار پر کوئی اعتماد نہیں ہے جس شخص کو اپنا فکر ہوا سے کسی آفت کا کیا غم) - 1 محض اللہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ۱۸۷۸ ۶ و ۱۸۶۹ء کا واقعہ ہے کہ مولوی محمد حسین سے مناظرہ سے دست کشی اور مستقبل کے صاحب بٹالوی جب دلی سے تحصیل علم کر کے واپس اپنے وطن بٹالہ آئے تو اہل حدیثوں کے متعلق ایک نہایت اہم خدائی بشارت خلاف ہندوستان کے دوسرے مقامات میں جو

Page 131

تاریخ احمدیت جلدا ١١٢ قادیان میں دینی مصروفیات عوامی جذبات تھے وہ بٹالہ میں بھی ابھر آئے.اور حنفیوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.مگر ان معرکوں میں اکثر مولوی صاحب کا پلہ بھاری رہتا.اسی دوران میں حسن اتفاق یہ ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ میں مقیم ہوئے.آپ کو اس نوعیت کے مذہبی اکھاڑوں سے چنداں کوئی دلچسپی نہ تھی.لیکن ایک شخص کے اصرار پر آپ کو بھی تبادلہ خیالات کے لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان پر جانا پڑا.دیکھا کہ مولوی صاحب اور ان کے والد مسجد میں ہیں اور سامعین کا ایک ہجوم مباحثہ کے لئے بیتاب ہے.حضور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے سامنے بیٹھ گئے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میرا دعوئی یہ ہے کہ قرآن مجید سب سے مقدم ہے.اس کے بعد اقوال رسول کا درجہ ہے اور میرے نزد یک کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کے مقابل کسی انسان کی بات قابل حجت نہیں ہے.حضور نے یہ سن کر بے ساختہ فرمایا کہ آپ کا یہ اعتقاد معقول اور ناقابل اعتراض ہے.حضور کا یہ کہنا ہی تھا کہ لوگوں نے دیوار دار شور مچادیا کہ ہار گئے ہار گئے.جو شخص آپ کو ساتھ لے گیا تھا وہ سخت طیش سے بھر گیا کہ آپ نے ہمیں ذلیل اور رسوا کیا.مگر آپ کو ارقار بنے رہے اور اس ہنگامہ آرائی کی ذرہ بھر پر دا نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا میں یہ کہوں کہ امت کے کسی فرد کا قول حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قول پر مقدم ہے؟ اور اس طرح محض خدا کی خاطر سلسلہ بحث سے گریز اختیار کر لیا.جو دنیا کے مناظرہ میں اپنی طرز کی پہلی مثال ہے.چونکہ آپ نے یہ دستکشی خالصتا خدا اور رسول کی رضاء کے لئے کی تھی اس لئے خالق کائنات نے بھی عرش سے اس پر خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے آپ کو الہانا خبر دی.تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " اس کے بعد کشفی رنگ میں حضور کو وہ بادشاہ بھی دکھائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے ان بادشاہوں میں ہندوستان، عرب، ایران، شام اور روم کے بادشاہ بھی شامل تھے.اس نظارہ کے بعد آپ کو خدا تعالی کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے یاد رہے یہ وہی بٹالہ ہے جہاں حضور کو بچپن میں والد بزرگوار کی خفگی کے باعث دو ماہ تک پناہ گزین رہنا پڑا تھا.بہر حال اس الہام میں ( جو موجودہ تحقیق کی رو سے اولین الہامات میں سے ہے) اسلام کے شاندار اور عالمگیر غلبہ اور عروج و اقبال کی خبر دی گئی ہے جو اگرچہ اس وقت تک پردہ غیب میں ہے.لیکن زمین و آسمان کے

Page 132

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۳ قادیان میں دینی مصروفیات شہنشاہ کی خاص تقدیروں میں سے ہے جسے دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی اپنی تدبیروں سے بدل نہیں سکتی اور ہرگز نہیں بدل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعد میں الہاما یہ بھی انکشاف فرمایا گیا کہ اسلامی غلبہ و استیلاء کا یہ زمانہ تین سو سال کے اندراندر بہر حال آجائے گا.خدا کا یہ نوشتہ کب اور کس شکل میں پورا ہو گا یہ قبل از وقت بات ہے جس کی تفصیل مستقبل کا مورخ ہی بیان کر عیسائیت کی روک تھام ۱۸۷۷ء میں جبکہ حضور سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے بابو یو خانم مسیحی کے ذریعہ سے (جو میزان الحق کے مصنف ڈاکٹر فنڈر کی وساطت سے حلقہ بگوش عیسائیت ہو ا تھا ) بٹالہ میں عیسائی مشن قائم ہوا اس مشن نے قائم ہوتے ہی مسلمانوں میں ارتدار کا جال پھیلانا شروع کر دیا.سیالکوٹ کے دور کے بر عکس یہاں آپ نے ابتداء میں براہ راست عیسائی پادریوں سے کسی مباحثہ میں حصہ نہیں لیا.بلکہ آپ کی زیادہ تر کوشش یہی رہی کہ آپ کے ماحول میں کچھ ایسے لوگ تیار ہو جائیں جو عشق رسول کا جذبہ لے کر آگے آئیں اور اشاعت حق و توحید کے لئے ہر وقت چوکس اور بیدار رہیں.بٹالہ میں ان دنوں منشی نبی بخش صاحب پٹواری رہا کرتے تھے جنہیں بڑی مذہبی غیرت تھی اور عیسائیوں سے گفتگو کرنے کا شوق بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں تردید عیسائیت میں بعض الزامی اور تحقیقی جوابات سکھائے اور انہیں اجازت دی کہ وہ بے شک ایک عیسائی مناظر کی حیثیت سے دل کھول کر اعتراض کریں اور آپ سے ہر مسئلہ میں جواب حاصل کریں.اگر تسلی نہ ہو تو دوبارہ پوری قوت سے اس پر جرح کریں.حضور کے اس آزادانہ طریق کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں حضور کی خاص توجہ اور التفات سے عیسائیوں سے مباحثہ کرنے کی ایک قوت پیدا ہو گئی.میاں نہیں بخش صاحب مرحوم کہتے تھے کہ حضرت اقدس کے پاس مرزا پور کی چھپی ہوئی بائبل تھی جسے آپ نے کئی مرتبہ پڑھا تھا.حضور بعض اوقات خود بائبل پر نشان کرتے یا اقتباسات الگ تحریر فرما دیتے تھے جنہیں میں خوب یاد کر لیتا اور لکھ لیتا تھا.حضرت اقدس مجھے کو عیسائیوں کے اعتراضات کے الزامی اور تحقیقی دونوں پہلوؤں پر مشتمل جوابات بتاتے تھے الزامی جوابات کے متعلق آپ کا ارشادیہ ہو تا تھا کہ جب تم کسی جلسہ عام میں پادریوں سے مباحثہ کرو تو ان کو ہمیشہ الزامی جواب دو.اس لئے کہ ان لوگوں کی نیت نیک نہیں ہوتی اور لوگوں کو گمراہ کرنا.اسلام سے بد ظن کرنا اور آنحضرت ﷺ پر حملہ کرنا مقصود ہے.پس ایسے موقعہ پر الزامی جواب ان کا منہ بند کر دیتا ہے.اور عوام جو اس وقت محض تماشے کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں ایسے جواب سے متاثر ہو کر ان کے رعب میں نہیں آتے.لیکن اگر کسی ایسے شخص سے گفتگو کرو جو ان سے متاثر ہو تو اس کو ہمیشہ

Page 133

تاریخ احمدیت جلدا ۱۱۴ قادیان میں دینی مصروفیات تحقیقی جواب پہلے دو اور اس پر مقابلہ کر کے دکھاؤ کہ اسلام اور عیسائیت کی تعلیم میں کیا فرق ہے.ایسے لوگوں کو اگر الزامی جواب پہلے دیا جائے تو وہ ٹھو کر کھا سکتے ہیں کہ حقیقی جواب کوئی نہیں.مولوی قدرت اللہ کا ارتداد اور واپسی اسی اثناء میں آپ کو یہ خبر سن کر دلی صدمہ ہوا کہ بٹالہ کے ایک مولوی قدرت اللہ نامی نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی ہے.حضور نے منشی نبی بخش صاحب ہی کو جو یہ خبر لانے والے تھے کافی دیر تک تا کیدی ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب کو سمجھا کر واپس اسلام میں لائیں اور اگر میری ضرورت ہوئی تو میں خود وہاں جانے کو تیار ہوں.منشی صاحب نے عرض کیا کہ ان کے بپتسمہ لینے میں کچھ دنیوی اغراض لیٹی ہوئی ہیں اور قبول عیسائیت کا یہ قصہ حق و صداقت کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے.لیکن حضور نے فرمایا کہ اگر مالی مدد بھی دینی پڑے تو چندہ کر لو.میں بھی شریک ہو جاؤں گا.اس کے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ ہے عوام پر اس کا برا اثر پڑتا ہے.منشی نبی بخش صاحب نے عرض کیا کہ اگر ان سے مباحثہ کرنے میں کچھ سختی کرنا پڑی تو کیا کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کرلوں.حضور نے فرمایا کہ سختی کرنے سے بعض اوقات دل سخت ہو جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کا واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے نرمی اور تالیف قلوب کا سلوک کرو.یہ ضدی طبع ہوتے ہیں اپنی ضد میں آکر حق اور ناحق کی پروا نہیں کرتے.منشی صاحب کو مولوی صاحب کے حق کی طرف رجوع دلانے کی بار بار تاکید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اسلام سے کسی کا مرتد ہو جانا ایک بڑا امر ہے جس کو سرسری نہیں سمجھنا چاہئے.ہمیں تو دوسروں کو اسلام میں لانا چاہئے اگر ہماری غفلت سے مسلمان مرتد ہو جائے تو ہم سب خدا تعالٰی کے حضور اس کے لئے جواب دہ ہوں گے.منشی نبی بخش صاحب مرحوم کو حضور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ تم جاکر کوشش کرو میں دعا کروں گا.اور تم اس سے تنہا لو.لوگوں کے سامنے نہ ملنا اور بحث نہ کرنا.منشی نبی بخش صاحب کا بیان ہے کہ میں نے حضور کی قیمتی نصائح رہدایات پر عمل کیا چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ بالا خر مولوی قدرت اللہ صاحب واپس اسلام میں آگئے جس سے حضرت اقدس کو بڑی خوشی ہوئی.اس زمانہ میں حضور کی توجہ سے جنہیں صلیبی تحریک کے دفاع کی طرف توجہ پیدا ہوئی ان میں آپ کے صاحبزادے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم بھی تھے.وہ بالالتزام اور پورے ذوق و شوق سے " منشور محمدی" و غیره اخبار میں مضامین لکھنے لگے اور موقعہ ملنے پر عیسائی مشنریوں سے مباحثہ بھی کر لیتے تھے.II حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ " شرک کے خلاف حضرت کو اس قدر جوش تھا کہ اگر ساری دنیا کا جوش ایک پلڑے میں اور حضرت کا جوش دوسرے پلڑے میں ہو تو

Page 134

تاریخ احمدیت جلدا ۱۱۵ قادیان میں دینی مصروفیات آپ کا پلڑا بھاری ہوگا".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان بالواسطہ سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر چہ قادیان میں عیسائی مشنری پادری بیٹ وغیرہ آجایا کرتے تھے مگر انہیں حضرت اقدس سے مذہبی گفتگو کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی.بلکہ وہ یہاں آتے اور بازاروں میں وعظ کر کے واپس چلے جاتے تھے.وہ اس بات سے مایوس تھے کہ قادیان میں بھی کوئی شخص عیسائی ہو جائے گا.پادری بیٹ مین کو توقع پیدا ہوئی کہ قادیان کا بھائی کشن سنگھ عیسائیت قبول کرلے گا.لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے راہ درسم رکھتا ہے تو اس نے صاف کہہ دیا کہ کشن سنگھ کے خیالات مرزا صاحب نے بگاڑ دیتے ہیں مطلب یہ کہ حضرت مرزا صاحب کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کشن عیسائیت کا شکار ہر گز نہیں ہو سکتا.قادیان میں جو ہندو حضرت مسیح موعود علیہ لالہ شرعیت کے لئے ایک آسمانی نشان الصلوة والسلام کے پاس اکثر حاضر ہوا کرتے |14| تھے.ان میں قادیان کی آریہ سماج کے سیکرٹری لالہ شرمیت اور لالہ ملاوائل بالخصوص قابل ذکر ہیں.یہ دونوں اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعدد آسمانی نشانوں کے گواہ بنے اور آپ نے اپنی کتابوں میں ان کی شہادتیں درج فرمائیں جن سے وہ آریوں کے شدید دباؤ کے باوجود آخری وقت تک انکار نہ کر سکے.۱۸۷۰ء میں اللہ تعالی نے لالہ شرمیت کو اسلام کی سچائی کا ایک ایسا زبردست نشان دکھایا کہ انہیں اسلام کی عظمتوں کا اعتراف کرنا پڑا.اس نشان کی تفصیل یہ ہے کہ لالہ شرمیت کا ایک بھائی لالہ شمبر داس اور ایک اور ہندو لالہ خوشحال چند نامی ایک مقدمہ میں ناگہانی طور پر ماخوذ ہو کر قید کر لئے گئے.عدالت عالیہ میں ان دونوں کی اپیل دائر تھی.کہ لالہ شرمپت رائے نے جو شدت عناد کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے معجزات کو محض مفروضہ داستانیں قرار دیتا تھا.ایک دن حضور سے کہا کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلا سکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.حضرت اقدس نے جواب دیا کہ غیب تو خاصہ خدا ہے اور خدا کے پوشیدہ بھیدوں سے نہ کوئی نجوئی واقف ہے نہ رمال نہ فال گیر.ہاں خدا جو آسمان و زمین کی ہر ایک بات سے واقف ہے اپنے کامل اور مقدس رسولوں کو اپنے ارادہ و اختیار سے بعض اسرار فیہ پر مطلع کرتا ہے اور نیز کبھی کبھی جب چاہتا ہے تو اپنے سچے رسول کے کامل تابعین پر جو اہل اسلام ہیں ان کی تابعداری کی وجہ سے اور نیز اس وجہ سے کہ وہ رسول خدا کے علوم کے وارث ہیں.بعض اسرار پوشیدہ ان پر کھولتا ہے تا ان کے صدق مذہب پر ایک نشان ہو.لیکن

Page 135

تاریخ احمدیت جلدا رو 114 قادیان میں دینی مصروفیات سری قومیں جو باطل پر ہیں جیسے ہندو اور ان کے پنڈت وہ سب ان کامل برکتوں سے بے نصیب ہیں.حضرت اقدس کی اس حق گوئی پر لالہ شر میت کو چڑی پیدا ہو گئی اور اس نے آپ سے نشان نمائی کا بار بار مطالبہ شروع کر دیا.تب آپ کے دل میں خدا تعالی کی طرف سے یہ جوش ڈالا گیا کہ یہ دشمن اسلام اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب ہو جائے گا اور آپ نے اپنی غیبی جوش سے خدا کے حضور دعا کی کہ : "اے خداوند کریم تیرے نبی کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشگوئیوں سے جو تو نے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے پر یہ لاجواب ہو سکتا ہے.اور تو ہر بات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں".اللہ تعالی نے رات کے وقت بذریعہ کشف آپ پر یہ منکشف فرمایا کہ چیف کورٹ سے مقدمے کی مثل سیشن کورٹ میں واپس آئے گی.جہاں اس کے بھائی کی تو نصف قید معاف ہو جائے گی.لیکن اس کا دوسرا ساتھی پوری سزا بھگتے گا.چنانچہ آپ نے یہ اطلاع پاتے ہی ایک جماعت کثیر کے علاوہ اس ہندو کو بھی خبر دے دی اور قادیان میں ایک عام چرچا ہو گیا.اس کے بعد جب شمبر و اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو قادیان میں یہ افواہ آگ کی طرح پھیل گئی کہ اپیل منظور ہو گئی ہے اور شمبر و اس بری ہو گیا ہے.اس افواہ سے آریوں میں خوشی کی ایک برقی لہردوڑ گئی.لیکن آپ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا غم واندوہ کی اس نا قابل بیان کیفیت میں آپ خدا تعالٰی کے سامنے سر بسجود ہو گئے.تب آپ کو الہام ہوا کہ لَا تَحْزَنَ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعلى یعنی غم نہ کر بجھی کو غلبہ نصیب ہو گا اور ان دشمنان اسلام کی خوشی پامال ہو جائے گی.چنانچہ بعد میں جلدی ہی یہ حقیقت کھل گئی کہ یہ افواہ بالکل بے بنیاد ہے.محض اپیل لئے جانے کو شمبر د اس کی بریت کی خبر سے مشہور کر دیا گیا ہے اور بعد کے واقعات نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کی ہر پہلو سے تصدیق کر دی.لالہ شرمیت جیسے دشمن اسلام نے جب خدا تعالی کا یہ نشان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو اس نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہیں اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کر دیں.

Page 136

تاریخ احمدیت جلد 11 قادیان میں دینی مصروفیات حواشی ۱۸۷۶ء میں جب حضرت اقدس کو اپنے والد ماجد کی وفات کی اطلاع ملی تو آپ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم تھے.(ذکر حبیب صفحه ۲۲۴) تذکره طبع دوم صفحه ايضا صفحه ۲۵۳ آپ کے مطالعہ میں ہمیشہ بے حد محویت اور استغراق کا عالم ہو تا تھا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ " جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی میاں ان کو (یعنی حضرت صاحب کو کیا ہوش ہے یا کتابیں ہیں یادہ ہیں ".(سیرت المہدی حصہ اول روایت (۲۳۴) صفحه ۲۳۴ طبع ثانی (۲۲- دسمبر ۶۳۵) ۵ کتاب البریہ طبع دوم صفحه ۱۷۹ ۷۱) حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۸۵ ے دعوۃ الامیر اردو صفحہ ۳۶ د سیرت المہدی حصہ اول (طبع دوم) صفحه ۲۵۷٬۲۵۵.حضرت مسیح موعود د ھوئی سے قبل فرخ تخلص کرتے تھے.یہ قیمتی خط حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو حضرت مسیح موعود کے پرانے دستاویزات میں سے ملا تھا جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے انہیں دی تھیں.اس مخط پر کسی تاریخ کا اندراج نہیں ہے (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۲۵) ا حکم ۷۴ارے جون ۱۹۴۳ء یرا امین احمدیہ (طبع اول) حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰ ۵۲۴ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ و برکات الدعا صفحه ۳۰ طبع اول رمضان ۱۳۱۰ د و تجلیات الیہ صفحہ ۲۱.مطیع ضیاء الاسلام قادیان ۲۹ جون ۶۱۹۲۲ ۱۲- الحکم ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ء صلحه ۱۰ ۱۳ ( ترجمه البجه النور صفحه ۳ ۴ طبع اول مطبع ضیاء الاسلام قاریان، جنوری 10 تاریخ بشارت الهند و پاکستان صفحه ۲۰۱ ۱۵ تاریخ بشارت السند و پاکستان صفحه ۱۱۹۸ مصنفہ خورشید عالم پادری) سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی قدرت اللہ کے ارتداد کا باعث امر تسر کا مسیحی مسکول تھا.ایک مضمون ملاحظہ ہو.منشور محمدی ۲۵ صفر ۱۳۰۰ھ ۱۷ حیات احمد صفحه ۲۵۳ حیات احمد جلد اول نمبر ۳ صفحه ۲۷۴ صفحه ۵۷۵۵.پیدائش ۱۹۱۳ ء گرمی مطابق ۱۸۵۷ (۷) کف آل احمد صفحه (۱۵) تاریخ رفات ۶۱۹۵۱ پیدائش ۱۸۵۵ ء من رفات ۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء (لا کف آف احمد صلح (۱۳) ۲۱ براہین احمدیہ حصہ موم صفحه ۲۵٬۲۵۰ حاشیه در حاشیہ نمبرا اینا صفحه ۵۵۱۷۵۵۰ ماشیه در حاشیه (طبع اول) و سراج منیر صفحہ ۱۳۲ قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۳۳۱۳۵ ( طبع اول)

Page 137

تاریخ احمدیت جلدا A قلمی جہاد کا آغاز باب ہشتم قلمی جہاد کا آغاز (۱۸۷۲ تا ۱۸۷۶) مضامین کی اشاعت ملکی اخبارات میں آپ کی ایک گونہ پاک زندگی کی ابتداء کو سیالکوٹ میں ہو چکی تھی لیکن اس کا حقیقی معنوں میں آغاز قریباً ۱۸۷۲ء سے ہوا جبکہ آپ نے ملک کے مختلف اخبارات میں اپنے مضامین کا سلسلہ جاری کر کے قلمی جہاد میں حصہ لینا شروع کیا.ابتداء میں آپ کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا بعض دوسرے ناموں سے اپنے مضامین چھپوا دیتے تھے حضور کے اپنے نام سے جو مضامین ملکی اخبارات میں شائع ہونے شروع ہوئے ان میں موجودہ تحقیق کے مطابق سب سے پہلا مضمون غالبا بنگلور کے دس روزہ اخبار منشور محمدی ۲۵- ذی قعده ۱۲۹۴ھ مطابق ۲۵ اگست ۱۸۷۲ء میں شائع ہوا.یہ تاریخی مضمون در اصل ایک نہایت اہم اعلان تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذاہب عالم کو اپنے ہیں سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر یہ زبردست چیلنج کیا کہ تمام انسانی معاملات اور تعلقات میں سچائی ہی تمام خوبیوں کی بنیاد اور اساس ہے.اس لئے ایک بچے مذہب کی نشان دہی کا آسان طریق یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس نے سچائی پر کار بند ہونے کی کہاں تک زور دار اور موثر طریق پر تلقین کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے یہ زبر دست معیار قائم کرتے ہوئے پورے وثوق سے یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہر اس غیر مسلم کو پانچ سو روپیہ کی رقم بطور انعام پیش کرنے کے لئے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے ان تعلیمات کے مقابل آدمی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کر دے جو آپ اسلام کی مسلمہ اور مستند مذہبی کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے.خدا کے شیر کی یہ پہلی للکار تھی جسے سن کر پورے ہندوستان میں خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور کسی شخص کو حضرت

Page 138

تاریخ احمدیت جلدا 119 قلمی جہاد کا آغاز اقدس کا یہ زبردست چیلنج قبول کرنے کی جرات نہیں ہو سکی.ضمنا یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ منشور محمدی (بنگلور) کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اوائل زمانہ میں وکیل ہندوستان سفیر ہند امرت سر - نور افشاں لدھیانہ - برادر ہند لاہور.- وزیر ہند سیالکوٹ.ودیا پر کاش امرت سر آفتاب پنجاب لاہور.ریاض ہند امرت سر اور اشاعہ السنہ منگوایا کرتے تھے.اور بعض میں مضامین بھی لکھتے تھے.زمانہ ماموریت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے شروع ہوئے جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے ہاں پہنچتے آپ جستہ جستہ مقامات سے ان کا ترجمہ سنتے اور اگر ان کے کالموں میں اسلام کی تردید میں کوئی مضامین آتے تو اس کا جواب لکھوا کر شائع فرماتے.اور جو خود مطالعہ فرما سکتے وہ ضرور پڑھتے.اخبارات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا آپ کا معمول تھا.آخری زمانہ میں آپ لاہور کے روزنامہ " اخبار عام " کو بڑے شوق سے خریدتے اور خاص دلچسپی سے پڑھتے اور اس کی بے لاگ اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے -¿ مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل قادیان کے پاس لودھی نگل میں ایک مولوی سے مسئلہ حیات النبی وغیرہ پر مذاکرہ صاحب اللہ دتہ نامی رہا کرتے تھے جنہیں ان دنوں حضرت اقدس نے اپنے صاحبزادوں کی " تعلیم کے لئے بلوایا تھا.مولوی صاحب ( بعض اپنے مذہبی عقائد یا دیگر نا معلوم وجوہ کی بناء پر ) قادیان میں مختصر قیام کے بعد واپس اپنے گاؤں چلے گئے.جب تک وہ قادیان میں رہے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے مسئلہ حیات النبی " اور دوسرے مسائل پر مذاکرہ جاری رکھا اور واپسی کے بعد انہی مسائل کے متعلق ایک منظوم فارسی خط لکھا.جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی.ستمبر ۱۸۷۲ء کو ایک پر کیف اور مبسوط فارسی نظم انہیں بھجوائی.اس نظم سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ کو ابتداء ہی سے حضرت رسول اکرم ا سے نہایت والہانہ عقیدت تھی اور آپ آنحضرت ﷺ کو دل و جان سے ابدی حیات کے تخت پر رونق افروز ہونے والا زندہ نہی یقین کرتے.حضور کے چشمہ فیوض و برکات کو اپنے دل میں رواں رواں پاتے.اور حضور ﷺ کی عظمتوں اور برکتوں کی منادی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.پوری نظم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی کتاب حیات احمد جلد اول نمبر ۳ صفحه ۲۰۹٬۲۰۵ پر شائع کی ہے اور قابل دید ہے.صرف چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل کرتا ہوں سے سپاس آن خداوند یکتائے را پھر و عالم آرائے را

Page 139

تاریخ احمدیت جلدا جہاں جملہ فار مرده قلمی جہاد کا آغاز یک زنده او هست از کردگار و زار ست چنین است ثابت بقول سردش اگر ور اگر راز معنی نیابی خموش گر بر سر آب یا بگذری ہوا ہمچو مرغان پری 3 و گر ز آتش آئی سلامت بروں و گر خاک را زرکنی از فسوں اگر مشکری از حیات رسول سراسر زیان است و کار فضول ۱۸۷۲ء میں آپ کی روز مرہ زندگی کی ایک جھلک اب اگرچہ آپ پلک زندگی میں قدم رکھ چکے تھے.لیکن آپ کی ان جلوتوں میں بھی خلوتوں کا رنگ چھایا ہوا تھا چنانچہ ان ایام کے متعلق مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال کی چشم دید شہادت ہے کہ : قریباً ۱۸۷۲ء کا ذکر ہے میں چھوٹا تھا مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میرے پھو پھی زاد بھائی ہیں.اس وقت اہل حدیث کا بہت زور تھا.میرے والد صاحب بھی اہل حدیث تھے.شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہاں بہت آیا کرتے تھے میں عام طور پر حضرت مرزا صاحب کے والد صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا.میں ان کے پاس عام طور پر رہتا تھا مگر حضرت مرزا صاحب کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتا تھا کہ مرزا غلام مرتضی صاحب کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے.مگر مسجد میں میں مرزا صاحب کو بھی دیکھتا.میر نا صر نواب صاحب آیا کرتے تھے.ایک دن میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مکان میں تشریف لے جارہے ہیں.دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آپ نماز پڑھ کر گھر میں تشریف لے جارہے ہیں میں آپ کے والد صاحب کے پاس بیٹھا تھا.میں بھی جلدی سے اٹھ کر آپ کی طرف گیا.آپ اپنے کمرہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے لگے تھے کہ میں بھی جا پہنچا.آپ نے دروازہ کھول دیا اور دریافت کیا کہ کیا کام ہے؟ میں نے کہا میں ملنا چاہتا ہوں.آپ نے مجھے وہاں بٹھایا اور دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ لنگر وال سے.اس کے بعد مجھے آپ کی واقفیت ہو گئی.آپ ایک بالا خانہ پر عبادت میں مصروف رہتے تھے.اور گھر سے جب روٹی آتی تو اس کی ایک کھڑکی سے بذریعہ چھینکا روٹی اوپر لے لیتے.اس کے بعد آپ سے مجھے انس ہو گیا اور گھر سے آپ کی روٹی میں لایا کرتا.میں آپ کے پاس ہی رہتا تھا اور اسی کمرہ میں سوتا تھا.آپ نے استخارہ بھی سکھایا.عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بعد گفتگو نہیں کرنی ہوتی تھی.صبح کو جو خواب آتی میں وہ آپ کو بتلا دیتا.آپ کے پاس فارسی کا ایک تعبیر نامہ بھی تھا آپ اسے دیکھتے تھے.آپ نے مجھے یہ بھی کہا کہ دونوں

Page 140

تاریخ احمدیت.جلدا ١٢١ قلمی جہاد کا آغاز گھروں میں (مرزا امام دین اور آپ کا مکان مراد تھا) استخارہ کا طریق بتلا دو.اور اس طریق سے وہ سویا کریں.اور یہ بھی آپ نے کہا تھا کہ صبح جاکر ان کی خواہیں سنا کرو.مجھے روٹی بھی بہت دفعہ آپ ساتھ ہیں کھلاتے.حافظ معین الدین صاحب عرف ماہناں بھی آپ کے پاس آتے.مجھے آپ ان کی روٹی لانے کے لئے کہتے چنانچہ میں لا دیتا.آپ کا گھرانا بہت بڑا تھا جو بھی آتا اسے روٹی مل جاتی.اس عام روٹی سے میں میاں ماہناں کی روٹی لاتا.حضرت مرزا صاحب اس وقت تک انتظار کرتے اور جب میاں ماہناں کی روٹی آجاتی تو اپنا سالن اس کے سالن میں ملا دیتے.پھر اسے روٹی دیتے اور کہتے کھائیں.اور خود آپ بہت آہستہ آہستہ روٹی شروع کرتے.جب میاں ماہناں اپنی روٹی کھالیتے.تو آپ دریافت کرتے اور بھی چاہئے.وہ کہتے اگر ہے تو دے دیں تو بہت دفعہ حضور اپنا کھانا اور میرا بھی ان کو دے دیتے اور وہ سب کھا جاتے ایسے موقعہ پر تیرے پر پھر آپ مجھے پیسے دیتے کہ جاکر کابلی چنے بھنو الاؤ.اس وقت بہت سستے ہوتے تھے ایک پیسے کے بھی بہت آجاتے تھے.اور میں اور حضور وہ کھا لیتے.آپ بہت آہستہ آہستہ کھاتے تھے.آپ ایک دو دانے ہی منہ میں ڈالتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ باتیں بشاشت سے کرتے اور اکثر رانوں پر ہاتھ مارتے تھے"." آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے.سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے.اس کے بعد قرآن مجید پڑھنا.مٹی کا دیا آپ جلاتے تھے.تلاوت فجر کی اذان تک کرتے.جس کمرہ میں آپ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا اس میں ایک چارپائی اور ایک تخت پوش تھا.چار پائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پوش پر سوتے تھے.فجر کی اذان کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے.ایک دفعہ میں نے دریافت کیا کہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگا دیتے.آپ نے فرمایا حضور رسول کریم کا یہی طریقہ تھا اس سنت پر میں کام کرتا ہوں تاکہ جاگنے میں تکلیف محسوس نہ ہو.نماز فجر کے بعد آپ واپس آکر کچھ عرصہ سو جاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصہ عبادت الہی میں گذرتا تھا".سلسلہ تعلیم و تدریس زندگی کے اس دور سے جبکہ آپ قادیان میں زاہدانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں مقدمات کی پیروی کے لئے جانا پڑتا تھا اپنے چشمہ علم و عرفان سے دوسروں کو بہرہ ور کرنا شروع کر دیا تھا.چنانچہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے عربی نصاب کی کتا بیں نحو میر، تاریخ فرشتہ اور شاید گلستان و بوستان بھی آپ سے پڑھیں 2 میاں علی محمد صاحب مرحوم کو گلستان و بوستاں کے کچھ سبق پڑھائے.مرزا دین محمد صاحب آف لنگر دال کی روایت کے مطابق ۱۸۷۲ ء میں کشن سنگھ - ملاوائل اور شرمیت

Page 141

تاریخ احمدیت جلدا قلمی جہاد کا آغاز آپ سے حکمت اور قانون وغیرہ کی کتابیں پڑھا کرتے تھے.بلکہ خود انہیں بھی حضور انور نے ایک فارسی کتاب پڑھانی شروع کی تھی.بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان ہے کہ : " لوگ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم سے جرات کر کے کچھ نہ کہہ سکتے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بلا تکلف جو چاہتے کہ لیتے تھے.میں نے اس لئے ان سے پڑھنا شروع کیا.مجھے زمانہ طالب علمی میں یہ تجربہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب بھی کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے.ان کی خدمت میں جاتے ہوئے ہم کو ذرا بھی جھجک اور حجاب نہ ہو تا تھا.ہم بے تکلف جس وقت چاہتے چلے جاتے تھے اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ آپ نے اپنی مصروفیت یا آرام کرنے کا عذر کر کے ٹال دیا ہو.بعض اوقات آپ نے سوتے اٹھ کر دروازہ کھولا ہے مگر برا نہیں منایا کہ تم نے میرے آرام میں آکر خلل پیدا کیا.چونکہ دروازہ عموماً بند ہو تا تھا کبھی کبھی میں اوپر سے کنکر ہی پھینک دیتا تھا اور آپ اس کی آہٹ سے اٹھ کر دروازہ کھول دیتے.کبھی ایسا بھی اتفاق ہو تا تھا کہ میں سبق پڑھا کرتا اور آپ کھاتے جاتے اور پڑھاتے بھی جاتے تھے.اسی حالت میں بعض اوقات میری کتاب میں کوئی غلطی ہوتی تو آپ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور مستند کتاب نکال کر لاتے اور اس غلطی کی اصلاح یا مشکوک امر کو درست فرماتے.میں ہر چند عرض کرتا کہ آپ تکلیف نہ اٹھا ئیں کھانا کھا لیں بعد میں دیکھا جائے گا.مگر آپ میری اس درخواست کو منظور نہ فرماتے اور کہہ دیتے کہ تمہارا ہرج ہو گا یہ ٹھیک نہیں.وہ اپنے آرام کی پروانہ کرتے اور کتاب نکال کر مجھے درست کرا دیتے".میں طب اکبر پڑھ رہا تھا اور اس میں مالیخولیا کی بیماری پر بحث میرے سبق میں آئی.طب اکبر میں اس مرض کی علامات اسباب وغیرہ پر مفصل بحث تھی.اس میں خلوت نشینی کو بھی ایک حد تک داخل کر دیا ہے.اس پر آپ نے فرمایا بیبیوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا.دیکھو جو لوگ خلوت نشین ہوں ان کو بھی مجنوں کہہ دیتے ہیں".میں نے آپ سے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے آپ کو بھی کہتے ہیں.آپ ہنس پڑے اور مجھے کسی قسم کا زجر نہ فرمایا.گو مجھے کہہ دینے کے بعد بہت افسوس ہوا اور شرم محسوس ہوئی کہ میں نے غلطی کی.لیکن میں نے کوئی عذر کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ مرزا صاحب اس قسم کی بات دل میں نہیں رکھتے.اور کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اسلام شعری کلام کی ابتداء اور دیوان کی تسوید کی کی جنگ میں فتح نصیب جرنیل کی حیثیت

Page 142

تاریخ احمدیت جلدا ۱۲۳ تھمی جہاد کا آغاز سے دنیا میں آئے تھے اس لئے قدرت نے ابتداء ہی سے آپ کو قلم کی لازوال قوتوں سے مسلح کر کے بھیجا تھا.اور نہ صرف نثر نگاری کے وسیع و عریض میدان کے آپ شہسوار تھے بلکہ اقلیم سخن کو آپ کی تاجداری پر ناز تھا.حضور علیہ السلام نے اپنے ہم عصر مسلمان شعراء کی طرح شعر و شاعری کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا.بلکہ اسے ذکر الٹی ، آنحضرت ﷺ سے عشق و فدائیت کے اظہار کا ایک موثر ذریعہ قرار دیا اور پھر اپنی خداداد روحانی و اخلاقی صلاحیتوں کی بدولت اس میں اپنے مسیحائی انفاس سے وہ روح پھونکی کہ الفاظ گویا اسلام کی ایک پر شوکت فوج میں بدل گئے اور تخیلات و تصورات زیر دست روحانی اسلحہ خانوں میں ڈھل گئے جو قیامت تک کفر و ضلالت کے فولادی قلعوں کو پاش پاش کرتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک عالی خاندان کے فرد تھے جسے بجا طور پر مخنوروں کا گہوارہ قرار دیا جانا چاہئے.آپ کے والد ماجد نے بھی طبیعت رساپائی تھی وہ فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے ایک دفعہ ان کا کلام بلاغت نظام حافظ عمر د ر از صاحب ایڈیٹر ” پنجابی اخبار کو دیا تھا مگر وہ فوت ہو گئے اور ان کے ساتھ یہ قیمتی خزانہ بھی معدوم ہو گیا.ایک ایرانی شاعر نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ان کا فارسی کلام ایرانی شعراء کی طرح نصیح و بلیغ ہے.اسی طرح حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کو بھی ذوق سخن تھا اور وہ مفتون تخلص کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعری کلام کی ابتداء کس سن میں ہوئی ؟ اس بارے میں احمدی مورخین کوئی قطعی رائے قائم نہیں کر سکے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خلافت ثانیہ کے ابتداء میں مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم سے شعروں کی ایک کاپی ملی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنے دست مبارک سے شعر درج کئے تھے.اس کاپی میں کئی شعر نامکمل تھے اور بعض شعر نظر ثانی کے لئے بھی چھوڑے ہوئے تھے.یہ کاپی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بیان کے مطابق بہت پرانی معلوم ہوتی ہے جو غالبا جوانی کا کلام تھا اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوانی میں کلام کہنا شروع کیا تھا اور جوانی کے زمانے کا سب سے ابتدائی کلام جو معین تاریخ کے ساتھ کہتا ہے وہ ۱۸۷۳ء کا فارسی کلام ہے جس کا تذکرہ اوپر کے صفحات میں کیا جا چکا ہے.آپ ابتداء میں فرخ تخلص کیا کرتے تھے.جسے زمانہ ماموریت کے چند سال بعد بالکل ترک کر دیا.ان دنوں آپ اگر چہ اردو اور عربی شعروں میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے لیکن آپ کی زیادہ تر توجہ اپنی خاندانی زبان فارسی کی طرف تھی.یہ تو ابتدائی زمانہ کی بات ہے

Page 143

تاریخ احمدیت جلد ۱۲۴ قلمی جہاد کا آغاز در نه منصب ماموریت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کو اسلام کی منادی کا ذریعہ بنا لیا.آپ کا کلام الگ الگ تینوں زبانوں میں درثمین کے نام سے چھپا ہوا ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی زندگی بھر کے اہم واقعات ، دعاوی اور علم کلام اس میں پوری شان جامعیت کے ساتھ موجود ہیں.۱۸۸۰ء سے پہلے جبکہ آپ کی مستقل تصانیف کی اشاعت شروع نہ ہوئی تھی.آپ کبھی کبھی اپنا کلام ملک کے بعض اخبارات میں بھی بھجوا دیتے تھے.چنانچہ " منشور محمدی" میں ایک اردو نظم جو حضور نے قادیان سے ۸- محرم ۱۲۹۵ھ مطابق ۱۲ جنوری ۱۸۷۸ء کو رقم فرمائی اور نیاز نامہ متعلقہ جواب الجواب" کے عنوان سے تھی شائع ہوئی." حضرت اقدس علیہ السلام نے دعوئی مسیحیت سے قبل ”دیوان فرخ قادیانی" کے نام سے اپنی غزلیات اور قطعات کا ایک مجموعہ بھی مرتب فرمایا تھا جو آپ کی وفات کے آٹھ سال بعد دسمبر ۱۹۱۷ء میں ”ور مکنون" کے نام سے پہلی دفعہ منظر عام پر آیا.اس مجموعہ کلام میں حمد الہی ، شان مصطفی ، غیر مذاہب کے رو اسلام کی حقانیت اصلاح نفس ، ذکر اولیاء نشان اولیاء علامات اولیاء اخراج نبوت از یهود، ترک دنیا دعا ایمان مذمت کبر ، نفس امارہ مرتبہ سلوک، نزمت شرک اور مذمت گور پرستی و غیره علمی و روحانی مسائل اور تصوف کے قیمتی اسرار و نکات بیان کئے گئے تھے.اس دیوان کے زمانہ تصنیف کا تعین اس وقت تک نہیں کیا جا سکا.سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے نزدیک اس کا زمانہ تصنیف قیام سیالکوٹ کے دور سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سیالکوٹ سے واپسی کے بعد خود مجموعہ میں چار مقامات پر ۱۷- اکتوبر ۶۱۸۷۳-۳۱- اگست ۲۱-۶۱۸۷۶- تمبر ۱۸۷۶ء اور ۱۶ نومبر ۱۸۸۸ء کی تاریخیں درج ہیں.اور اقیاسات اور تخمینوں سے الجھے بغیر علی وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجموعہ ۱۸۷۳ء سے ۱۸۸۸ء تک کے پندرہ سالہ عرصہ کو محیط ہے.ایک مقدمہ میں نشان آسمانی کا ظہور تخمینا ۱۸۷۳ء کا واقعہ ہے کہ کمشنر کی عدالت میں آپ زمینداروں کے خلاف ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے امرت سر تشریف لے گئے.فیصلہ سے ایک روز قبل کمشنر کا رویہ بہت سخت معاندانہ تھا اور اس نے زمینداروں کی ناجائز حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ غریب لوگ ہیں تم ان پر ظلم کرتے ہو.رات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب میں ایک انگریز کو ایک چھوٹے سے بچے کی شکل میں دیکھا کہ اس کے سر پر حضور ہاتھ پھیر رہے ہیں.چنانچہ حضور دوسرے دن جب

Page 144

تاریخ احمدیت جلدا ۱۲۵ قلمی جہاد کا آغاز عدالت میں پہنچے تو اس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز نہیں تھا.اس نے زمینداروں کو سخت ڈانٹ پلائی اور آپ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے سارا خرچہ بھی ان پر ڈال دیا.آسمانی بادشاہت درویشوں کی جماعت اور ۱۸۷۴ء میں آپ کو خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دکھائی دیا جو ایک اونچے اقتصادی کشائش عطا ہونے کی بشارت چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا.اس کے ہاتھ میں DIA ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا.وہ نان آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس نے کہا " یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے کے لئے ہے " اس نظارہ میں آپ کو رزق کی کشائش کے علاوہ درویشوں کی ایک جماعت عطا کئے جانے کی بشارت دی گئی.نیز آسمانی بادشاہت عطا ہونے کی خبر بھی دی گئی تھی.کیونکہ انجیل کے محاورہ میں روٹی سے مراد آسمانی بادشاہت کا قیام ہے.یاد رہے یہ اس زمانہ کی بشارت ہے جب آپ قاریان ایسے کو ردیہ میں اقتصادی مشکلات سے دو چار گوشہ نشینی اور خلوت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ کے حلقہ بیعت سے کوئی ایک شخص بھی وابستہ نہیں تھا.اور عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ بشارت ٹھیک اس زمانہ میں دی گئی جبکہ دانیال نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کی آمد مقدر تھی (یعنی ۱۲۹۰ھ مطابق ۱۸۷۳-۱۸۷۴ء میں) چنانچہ مسٹر رو تھر فورڈ انجیل کی پیشگوئیوں کی روشنی میں ۱۸۷۴ء کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "The facts hereinbefore considered show that the lord was present from 1874 "The in this that he was doing a special work concerning his church, to forward, restoring to them the great fundamental truths that had been covered and wit by the ecelesiastical part of the Devil's Organization, and preparing to hid gather the saints” ☎ یعنی حقائق بتاتے ہیں کہ ۱۸۷۴ء کے بعد مسیح اس دنیا میں موجود ہے اور اپنے کلیسیا کے متعلق ایک خاص کام سرانجام دے رہا ہے.اور وہ بنیادی صداقتیں جنہیں طاغوتی نظام نے ڈھانپ رکھا ہے اور دنیا کی نظروں میں روپوش کر رکھا ہے.وہ انہیں دوبارہ آشکار کر کے نیک اور پار سالوگوں کو اپنے گرد جمع کر رہا تھا.مسجد اقصیٰ کی تعمیر اب چونکہ وہ زمانہ تیزی سے آرہا تھا جس میں آپ کے گرد پار ساد رویش طبع لوگ پروانوں کی طرح جمع ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالٰی نے پہلے یہ خوشخبری دی اور پھر اگلے سال (۱۸۷۵ء) میں

Page 145

تاریخ احمدیت جلدا ۱۲۶ قلمی جہاد کا آغاز قادیان میں مسجد اقصیٰ ایسی عظیم الشان جامع مسجد کی بنیاد خود آپ کے والد ماجد کے ہاتھوں رکھوادی.عمر بھر کی ناکامیوں کی وجہ سے چونکہ آپ کے والد ماجد کو مسلسل اور پیم صدمات سے دوچار ہونا پڑا تھا اور دل زخم رسیدہ ہو چکا تھا.اس لئے زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے مافات کی تلافی کے لئے قادیان میں ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا.اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کی از حد کوشش کی جسے رام گڑھیہ سکھوں نے بالجر قبضہ کر کے دھرم سالہ بنا دیا تھا.لیکن جب خود مقامی مسلمانوں کی مخالفانہ شہادتوں نے اس کی بازیافتگی کا رستہ مسدود کر دیا تو آپ نے اس کے نزدیک ہی قصبہ کے وسط میں ایک اور جگہ انتخاب کی جو اس وقت سکھ کارداروں کی حویلی تھی.لیکن اس حویلی کی نیلامی کا مرحلہ آیا تو اہل قریہ نے ایک بار پھر آپ کو زمین سے محروم کرنے کی کوشش کی اور مقابل پر قیمت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا.لیکن آپ نے خدا تعالی کے حضور یہ پختہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر باقی جائیداد بھی فروخت کرنا پڑے تو میں یہ زمین لے کر مسجد ضرور بناؤں گا.اس لئے آپ نے مالیات کے سبھی پہلو نظر انداز کر کے چند روپوں کی مالیت کا قطعہ ۷۰۰ روپے کی قیمت پر خرید لیا.اور اخلاص و ندامت بھرے دل کے ساتھ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.گاؤں میں چونکہ پہلے کئی مساجد موجود تھیں.اور یہ مسجد ان سب سے بڑی بنائی جارہی تھی اس لئے اس وقت ایک شخص نے کہا کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی.کس نے نماز پڑھنی ہے اس مسجد میں چنگار ڑہی رہا کریں گے اور یہ بات گاؤں کی مختصر ی مسلم آبادی کے لحاظ سے ہر شخص کو معقول نظر آتی تھی.لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کام خدائی تحریک اور اس کے تصرف سے ہو رہا ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب اسے دنیا بھر میں ایک ممتاز شان حاصل ہوگی.مسجد اقصیٰ کی تعمیر یہ جامع مسجد جواب مسجد اقصی سے موسوم ہے تخمینا ۱۸۷ء کے آخری دنوں سے تعمیر ہونی شروع ہوئی اور جون ۱۸۷۶ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی اور اس کے پہلے خادم اور امام میاں جان محمد صاحب مرحوم مقرر ہوئے.اس ابتدائی مسجد کی پرانی مسقف عمارت اور اس کا صحن اور کنواں اپنی اپنی جگہ پر بدستور موجود ہیں.البتہ ابتدائی صحن مختصر اور پختہ پرانی قسم کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہوا تھا.شمالی دروازہ کے اند ر کنوئیں کا منہ پہلے اوپر مسجد کے صحن کے فرش کے برابر تھا اور جہاں محسن کا فرش ختم ہو تا تھا وہاں مشرقی کنارہ پر اینٹوں کی ایک منڈیر تھی جس پر نمازی وضو کیا کرتے تھے اور نالی سے مستعمل پانی نیچے بازار کی گلی میں جاکر تا تھا.چنانچہ پنڈت دیوی رام ساکن دو رو چک تحصیل شکر گڑھ کی (جو ۲۱- جنوری ۱۸۷۵ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گئے اور چار سال تک انہیں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا) معینی شہادت ہے کہ " ( آپ کے)

Page 146

تاریخ احمدیت جلدا ۱۲۷ قلمی جہاد کا آغاز گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگر اکیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے.ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے.قمار بازی میں مشغول رہتے تھے.مسلمانوں کی آبادی کم تھی.نیکی تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی صاحب مسلمانوں میں مشہور تھے.مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے.معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے.مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنج وقت نماز پڑھتے دیکھا ہے".۲۴۱ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے والد ماجد کے آخری عمر کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا پس منظر یوں بیان فرماتے ہیں: حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی.بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی.ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے.تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا.جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے.یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کھوتا ہے.یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہو گیا اور پھر آنکھ کھل گئی.اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپے کی طرح ہے.اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گزرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر نا کامی تھی.اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پر دار ا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ع "جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے" اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے.اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزو جل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت ہمہ وجوہ مکمل ہو گئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہو گئے اور اسی مسجد کے اس گوشہ

Page 147

تاریخ احمدیت.جلد IPA قلمی جہاد کا آغاز میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا دفن کئے گئے.اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ وَادْخِلْهُ الْجَنَّةَ آمين ای یا پچاسی برس کے قریب عمر پائی " - 10 روزوں کا عظیم مجاہدہ اور عالم روحانی کی سیر تلاوت قرآن کریم ، ذکر الی اصلاح خلق ، خلوت گزینی اور درود شریف کی کثرت آپ کی زندگی کا معمول بن چکا تھا.اب ۱۸۷۵ء کے آخر میں جناب الہی سے آپ کو روزوں کے ایک عظیم مجاہدہ کا از شاد ہوا.چنانچہ اس کی تعمیل میں آپ نے آٹھ یا نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے.روزوں کا یہ مجاہدہ بالکل مخفی طور پر اختیار کیا گیا اور اس کے لئے حضور نے یہ التزام فرمایا کہ گھر سے جو کھانا آتا وہ بعض بچوں میں تقسیم فرما دیتے اور خود روٹی کے چند لقموں یا چنوں پر گزار کر لیتے.یہ دن انوار الٹی کی بارش کے تھے جن میں آپ کو عالم روحانی کی سیر کرائی گئی اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کے مختلف نظارے دکھائے گئے بعض گذشتہ انبیاء اور چوٹی کے صلحاء امت سے ملاقاتوں کے علاوہ آنحضرت حضرت سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا حضرت علی حسن و حسین علیہم السلام کی عین بیداری میں زیارت بھی نصیب ہوئی.یہ گویا آپ ایسے بے نظیر عاشق رسول کا ایک معراج تھا جو مسلسل کئی ماہ تک جاری رہا.آنحضرت ا تو شب معراج میں خدا تک پہنچے تھے اور آپ اس روحانی سیر میں مصطفیٰ تک پہنچے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود تحریر فرماتے ہیں: حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ شمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا.اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا نہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا.مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانه نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا.اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذار تا اور بجز خدا تعالی کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں.بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں.سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ میں تمام رات دن

Page 148

تاریخ احمدیت.جلدا ١٣٩ قلمی جہاد کا آغاز میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کر نا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا.خدا تعالٰی نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا.اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف کا شفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول الله مع حسنین و علی جی علی و فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی.غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہو ئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا.اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے.یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی.لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.غرض اس حد تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے." ایک دفعہ فرمایا جب میں تین ماہ کے قریب پہنچا تو ایک شخص قد آور جسم ، رنگ سرخ میرے سامنے یہ الفاظ کہتا تھا.قرت- قرت- قرت نفس کشی اور ریاضت شاقہ کی اس کٹھن منزل کے طے کرنے سے جہاں آپ کو آسمانی عجائبات دیکھنے کا موقعہ ملا 21 - وہاں پہلی مرتبہ اپنے نفس کی حیرت انگیز قوت برداشت کا تجربہ ہوا.نیز اس نتیجہ پر پہنچے کہ آرام طلبی کی زندگی کو ترک کئے بغیر روحانیت کے مدارج کا حصول ممکن نہیں ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فریبی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے

Page 149

تاریخ احمدیت جلدا علمی جہاد کا آغاز کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے.اور جب تک کسی کا جسم ایسا سخت کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا.لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالٰی سے اطلاع پا کر جسمانی محنت کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا " حضرت میر ناصر نواب صاحب کی قادیان ان دنوں دلی کے مشہور عالی قدر سادات خاندان میں پہلی بار آمد اور تعلقات کا آغاز کے چشم و چراغ ، شہرہ آفاق صوفی مرتاض خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ کے نبیرہ اور ان کے روحانی کمالات کی یادگار ایک بزرگ جن کا اسم گرامی میر ناصر نواب تھا، امرت سر سے منتقل ہونے کے بعد قادیان کے نزدیک موضع مثلہ میں نہر کے اوور سیر کی حیثیت سے متعین تھے.انہیں تبلیغ اسلام کا بڑا جوش تھا.ان کے دست مبارک پر اکتوبر ۱۸۷۴ء کو سٹھیالی کا ایک ہندو بنسی دھر حلقہ بگوش اسلام ہوا جس کا نام عبد الحق رکھا گیا.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں سب سے پہلے حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سے تعارف ہوا.ایک دفعہ حضرت میر صاحب کی زوجہ محترمہ کی طبیعت علیل ہو گئی تو مرزا غلام قادر صاحب نے انہیں اپنے والد حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب سے طبی مشورہ کے لئے قادیان جانے کی تحریک کی.چنانچہ حضرت میر صاحب پہلی مرتبہ قادیان آئے.یہ انداز ۱۸۷۶ء کے اوائل کا واقعہ ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حرم محترم کی روایت ہے کہ مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے.جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں مرزا غلام قادر صاحب مجلس لگائے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کو ٹھری میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے تھے.میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے.اوپر کی منزل میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب تھے.انہوں نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا.اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے.انہوں نے حضرت میر صاحب کو قادیان میں اور ٹھرنے کے لئے کہا مگر ہم نہیں ٹھر سکے.کیونکہ (ام المومنین) نصرت جہاں بیگم کو اکیلا چھوڑ آئے تھے حضرت میر صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قادیان میں یہ پہلی آمد تھی جو قریباً ۱۸۷۶ء

Page 150

تاریخ احمدیت جلدا (۳۱ قلمی جہاد کا آغاز کے اوائل میں ہوئی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات کا آغاز غالبا اگلے سال ۱۸۷۷ء کے بعد ہوا.جبکہ حضرت میر صاحب کے اہل و عیال قادیان میں رہائش پذیر ہوئے.چنانچہ آپ کے حرم کا بیان ہے کہ اس کے بعد جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جارہی تھی.چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا.اس دفعہ مرزا غلام قادر صاحب نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تلہ (قادیان سے قریب ایک گاؤں) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہوگی اور وہ گاؤں بھی ہر معاش لوگوں کا گاؤں ہے.بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجا ئیں میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہو گی.چنانچہ میر صاحب مان گئے اور ہم یہاں آکر رہنے لگے غالبا اسی دوران میں حضرت میر صاحب ہمیں ان کی مرزا غلام قادر مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلی ملاقات ہوئی تھی حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بیان کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت اقدس " براہین احمدیہ " لکھ رہے تھے حضرت میر صاحب کے زیادہ مراسم گو آپ کے بڑے بھائی سے تھے لیکن ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقوی شعاری ، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہو گئی جس کا کبھی کبھی گھر میں آکر اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ " مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے چند ماہ بعد ان کی تبدیلی قادیان سے لاہور میں ہو گئی تو وہ چند روز کے لئے اپنے اہل خانہ کو حضور کے مشورہ کے احترام میں بے تامل آپ ہی کے ہاں چھوڑ گئے اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو پھر انہیں لے گئے.ان کا کہتا ہے کہ میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ مرزا صاحب کے گھر میں رہے مرزا صاحب کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے.اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا.وہ بھی عجب وقت تھا حضرت صاحب گوشہ نشین تھے ، عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے.لالہ شرعیت اور ملاوائل کبھی کبھی حضرت صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے کشف اور الہام سنا کرتے تھے بلکہ کئی کشوف اور الہاموں کے پورے ہونے کے گواہ بھی ہیں.اس وقت یہ بچے اور نرم دل تھے ".حضرت میر صاحب ابتداء قادیان میں رہائش پذیر ہوئے تو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا اور وہ نماز کے بعد حضور سے علمی اور فقہی مسائل پر بھی مذاکرہ کیا کرتے تھے.چنانچہ پنڈت دیوی رام ساکن دو دو چک تحصیل شکر گڑھ) کی چشم دید شہادت ہے

Page 151

! تاریخ احمدیت جلدا قلمی جہاد کا آغاز کہ میر صاحب چونکہ اہل حدیث مسلک رکھتے تھے اس لئے رفع یدین- آمین بالجھر ہاتھ باندھنے اور تکبیر پڑھنے کے متعلق تبادلہ خیالات جاری رہتا تھا ا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حضرت میر صاحب کے ابتدائی تعلقات کا یہ مختصر سا نقشہ ہے.جس کے بعد ان میں روز روز اضافہ ہوتا گیا.یہاں تک کہ سات سال بعد وہ بھی دن آگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شادی ان کے جگر گوشہ حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا سے ہوئی.وہ نانا جان کہلائے اور ان کی مقدس صاجزادی خدا کی ازلی تقدیروں کے باعث " خدیجہ" کے آسمانی خطاب سے سرفراز ہو کر ام المومنین کے نام سے موسوم ہوئیں.(اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی) حضرت مسیح موعود حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی اور دوسرے اہل اللہ سے ملاقات عليه الصلوة والسلام کی زندگی کے اس دور کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ آپ ان دنوں بعض اہل اللہ کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے.سیالکوٹ میں آپ کا ایک بزرگ مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم سے خاص تعلق پیدا ہو گیا تھا.وہاں سے واپسی کے بعد آپ نے ایک خدارسیدہ صوفی حضرت میاں شرف الدین صاحب کی ملاقات کے لئے متعدد بار سم شریف متصل طالب پور ضلع گورداسپور کا سفر اختیار فرمایا.تاریخ سے آپ کے یہاں بعض لوگوں کا آنا بھی ثابت ہے.مثلاً ایک صاحب کے شاہ نام ساکن لیل متصل وهاری دال قادیان آتے اور آپ ہی کے پاس قیام کرتے تھے ان کے علاوہ حضرت کو جس باخدا اور صاحب ولایت بزرگ سے آخر وقت تک بے حد الفت رہی وہ مولانا مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ ” آپ غایت درجہ کے صالح...مردان خدا میں تھے اور مکالمہ اللہ کے شرف سے بھی مشرف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سنت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرغی رکھنے والے تھے.اور ان صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خداتعالی نے اپنی طرف کھینچا ہوا ہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے امرت سر اور اس کے نواحی گاؤں خیروی میں ملاقات فرمائی.اس سفر میں جو موسم سرما میں اختیار کیا گیا تھا.حضور کے پاس فنڈر کی مشہور کتاب " میزان الحق" (مطبوعہ ۱۸۶۱ء) تھی جس سے آپ نے آخر شب پانی گرم کرنے کا کام لیا.آپ فرماتے تھے کہ اس وقت میزان الحق نے خوب کام دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے قلم سے ان ملاقاتوں کا احوال یوں بیان فرماتے ہیں کہ :

Page 152

تاریخ احمدیت جلدا قلمی جہاد کا آغاز ” جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیر دی میں اور دوسری دفعہ امرت سر میں ان سے میری ملاقات ہوئی.میں نے انہیں کہا کہ آپ علم ہیں ہمارا ایک دعا ہے اس کے لئے آپ دعا کریں.مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے.انہوں نے کہا کہ در پوشیدہ داشتن برکت است و من انشاء الله دعا خواهم کرد و الهام امر اختیاری نیست.اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو.بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا.تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھ کو ملا جس میں لکھا تھا کہ ”اس عاجز برائے شما دعا کرده بود القاشد وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفِرِينَ - فقیر را کم اتفاق سے اختند که بدیں جلدی القا شود این از اخلاص شما می بینم" یہ تو ابتدائی انکشافات تھے ورنہ اسکے بعد تو آپ نے ایک مخلص ارادتمند (منشی محمد یعقوب صاحب) کو بازن الہی یہاں تک بتا دیا کہ حضرت مرزا صاحب میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے مامور کئے جائیں گے.نیز اپنی وفات سے چند دن قبل (فروری ۱۸۸۱ء میں اللہ تعالٰی سے بذریعہ کشف خبرہا کر یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ " ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوامگر افسوس میری اولاد اس سے محروم رہ گئی" ۴۵ م آپ کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی نسبت بھی الہاما بتایا گیا تھا کہ اس میں کوئی عیب ہے.بٹالوی صاحب نے وضاحت چاہی مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ اللہ تعالٰی کی حیا مانع ہے.دراصل آپ کو عالم رویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بٹالوی صاحب کے کپڑے چاک چاک ہو گئے ہیں ان صریح اور واضح پیشگوئیوں سے جو بعد میں پوری وضاحت و صراحت سے پوری ہو ئیں.حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی حیرت انگیز قوت کشفی کا اندازہ ہوتا ہے.مولاناغزنوی کی وفات کے متعلق قبل از وقت خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام گورداسپور میں تھے کہ حضور کو قبل از وقت بذریعہ رویا خبر دی گئی کہ ان کا زمانہ وفات قریب ہے چنانچہ وہ ۱۵- ربیع الاول ۱۲۹۸ھ بمطابق ۱۵ فروری ۱۸۸۱ء کو انتقال فرما گئے اور امرت سر میں بیرون دروازہ سلطان دنڈ میں دفن ہوئے E حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی وفات کے بعد بھی ان سے کشفی عالم میں ملاقات فرمائی تھی.جس میں انہوں نے حضرت اقدس کو خبردی کہ خدا تعالی آپ سے بڑے بڑے کام لے گا.آپ روحانی انوار و برکات کے ذریعہ سے مخالفین حق پر عقلی دلائل اور روحانی انوار و برکات دونوں ذریعہ سے اتمام حجت کریں گے.اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ دنیا میں مجھے امید تھی کہ خدا تعالٰی میرے بعد ضرور ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر مولانا غزنوی " حضور کو ایک وسیع مکان کی طرف

Page 153

تاریخ احمدیت جلدا ۱۳۴ قلمی جہاد کا آغاز لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی.لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی خدمت بجا لانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں

Page 154

تاریخ احمدیت جلدا ۱۳۵ قلمی جہاد کا آغاز 4 حیات النبی صفحه ۲۷۳ حواشی منشور محمدی کے ایڈیٹر ایک متدین عالم مولانا محمد شریف صاحب تھے.اور یہ اخبار مطبع بحر الاسلام بنگلور سے چھپتا تھا.لائف آف احمد مولفہ مولانا عبد الرحیم صاحب درد ہمیں یہ صفحہ ۶۲ پادری رجب علی کا اخبار ه شو نرائن اگنی ہوتری کا رسالہ - سیرت مسیح موعود حصہ اول صفحه ۶۴ مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت حافظ معین الدین صاحب جی کے مفصل حالات زندگی ملاحظہ ہوں.الحکم ۲۱ فروری ۱۹۳۳ء ۲۸ فروری ۱۹۳۴ء ہے.مارچ ۱۹۳۲ در روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد ۱ صفحه ۹۵٬۹۳ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱ ۲۱ ملالہ ملاوائل کے بیان ( مرقومہ حیات النبی صفحہ ۱۳۷) سے ثابت ہے کہ وہ پہلی دفعہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.لہذا مرزا دین محمد صاحب مرحوم کی یادداشت کا یہ حصہ صحیح معلوم نہیں ہو تا یا لخصوص جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتاب البریہ حاشیہ صفحہ ۱۵۸ میں صاف لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ حضرت والد صاحب قبلہ کی وفات سے چھ ماہ قبل تعمیر ہو چکی تھی اور ان کی وفات سرکاری کاغذات کی رو سے ۱۸۷۶ء میں ہوئی.حیات احمد جلد اول نمبر ۳ صفحه ۲۰۰٬۱۹۹ ا سیرة المهدی جلد اول صفحہ ۲۲۸ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرقانی نے حیات النبی صفی ہر ان کا تخلص محزون لکھا ہے.سیرت الحمدی جلد اول صفحه ۲۳۲ ۲۳۳ 10 بحوالہ الحکم ۱۹۳۲ء صفحه م 주 الحکم بما جون ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳ بحوالہ تذکره طبع دوم صفحه ۱۸ ۱۷ ، نزول المسیح صفحه ۲۰۷٬۲۰۶ طبع اول مطبع ضیاء الاسلام قادیان اگست 1909ء ا یوحنا باب ۶ آیت ۵۱۴۷۳۵٬۳۲ 19 Creation صفحه ۳۰۴ مولفه رو تھر فورڈ (Rutherford) شائع کردہ انٹر نیشنل بائیل سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ۲۲۴۰ ٹاور بائیل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی بروکلین نیویارک (امریکہ) ۲۰ حضرت شیخ نور احمد صاحب مختار عام کی روایت کے مطابق اس جگہ سکھوں کا جیل خانہ تھا الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲) حافظ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ باریس کا بیان ہے کہ یہاں سکھوں کا دار القضاء تھا.(روایات صحابہ جلدی صفحه ۲۷۳ غیر مطبوعہ) ۲۱ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۳۴ ۲۲ حیات النبی جلد اول صفحہ ۴۲.۲۳- روایات صحابہ جلدی صفحه ۲۷۳( غیر مطبوعہ) ۲۴۰ سیرت المہدی جلد سوم صفحه ۱۸۴ ۲۵ کتاب البریہ حاشیہ صفحه ۱۵۷ تا ۱۵۹ ۲۷ کتاب البریہ صفحه ۱۶۷ طبع دوم

Page 155

تاریخ احمدیت جلدا قلمی جہاد کا آغاز الفضل جلد نمبر ۷۸ صفحه ۳۰۳ دسمبر ۱۹۳۳ ء وا حکم ہمارے جون ۱۹۴۳ء صفحے ۲۸ کتاب البریہ صفحہ ۱۲۷۴۱۷۳ حاشیہ طبع اول ۹ روایات صحابه (غیر مطبوع) جلد ۵ صفحه ۱ و الحکم ۲۱ اگست ۱۹۳۵ء صفحا او تے کی طبع دوم صفحہ ۷۵۴ ۳۰.احکم میں اس الہام کا ترجمہ بھی درج ہے کہ تجھ کو قدر والا کیا.تجھ کو قدر والا کیا.تجھ کو قدر والا کیا.ممکن ہے اصل لفظ و قرت ہو جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے.۳۱ کتاب البریہ صفحہ ۱۶۶ ۱۷ ( حاشیہ) طبع اول ۳۲ ولادت ۶۱۸۴۵-۱۸۴۶ء وفات ۱۹ ستمبر ۱۹۲۴ء (سیرت ام المومنین حصہ اول صفحه ۲۳۴٬۲۷ مرتبه شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم) اخبار منشور محمدی ۲۵ اکتوبر ۱۸۷۴ء ۳۲ سیرت المهدی حصہ دوم صفحه ۱۰۹۴۱۰۸ لائف آف احمد صفحاه وسیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۳۸ ۳۵ سیرة المهدی حصہ دوم صفحه ۲۰۱۰۹ ۳۶ ۳۷ حیات ناصر صفحه از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب مطبوعہ انقلاب سٹیم پریس لاہور دسمبر۱۹۲۷ء ۳۸ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۷۰ ۳۹ حیات ناصر صفحہ کے ۳۰ سیرت المندی حصہ سوم صفحه ۱۸۲ دیوان فرخ الموسوم "در مکنون " صفحہ ۱۵۱ پر " فرخ در صحبت درویشاں" کے عنوان سے حضرت اقدس نے ایک نظم بھی کسی ہے جس کے صرف چند صفحه قبل ۲۱ تمبرا ۷ ۱۸ء کی تاریخ درج ہے.(مرتب) ۴۲ حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ ۱۲۳۰ھ بمطابق ۶۱۸۸۴-۱۸۱۵ء میں ضلع غزنی (افغانستان) کے ایک گاؤں گیرد نامی میں پیدا ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح آپ بھی بچپن ہی سے گوشہ تنہائی میں عبادت و ذکر اٹھی میں محو رہتے تھے.جب بلوغت کو پہنچے تو خواب میں صحیح بخاری کو غبار آلود دیکھا اور خواب ہی میں اسے صاف کرنا شروع کیا.چنانچہ آپ نے صحیح بخاری کے مطالعہ و عمل پر توجہ شروع کی تو غزنی کے ظالم طبع علماء نے وہابی مشہور کر کے ہولناک تکلیف دینی شروع کر دیں.کفر کا فتونی لگایا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کر کے جلاوطن کر دیا جس پر آپ ہجرت کر کے امرت سر میں تشریف لائے اور پھر کچھ عرصہ کے لئے خیروی مقام پر بھی بود و باش رکھی.دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب شیخ الکل سے حدیث کی سند لی.شیخ الکل کہا کرتے تھے کہ عبد اللہ نے مجھ سے حدیث پڑھی اور میں نے اس سے نماز سیکھی (سیرت ثنائی مرتبہ مولانا عبد المجید صاحب خادم سوہدری مدیر اہلحدیث صفحه ۱۳۶۹ دفتر " اہل حدیث " سوہدرہ ضلع گوجر انوالہ ۱۹۵۲ء ۳۳ حیات النبی جلد اول صفحه ۸۰ سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی مطبوعہ مطیع القرآن والسنہ امر تسر رسالہ تو رحم نمبر صفحہ 11) ۴۴ حقیقت الوحی طبع اول صفحه ۲۴۰٬۲۳۹ ۴۵ حیات النبی جلد ا صفحه ۸۲٬۸۰ ۴۶ الحکم ۳۱ اگست ۱۹۰۱ء در ساله نور احمد نمبرا از شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند امر تسر طبع دوم لاہور ۱۹۵۷ء ناشر حکیم M عبد اللطیف صاحب شاہد.۴۷- تریاق القلوب طبع اول صفحه ۹۵- نزول المسیح طبع اول صفحه ۲۳۷ - سیرت ثنائی صفحہ ۳۶۹ و اشاعتہ السنہ جلد ۴ نمبر ۲۴ ۴۹ ازالہ اوہام صفحه ۹۲٬۸۵ حاشیه ( طبع اول)

Page 156

تاریخ احمدیت جلد ۱۳۷ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات باب نہم والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات و مخاطبات کی ابتداء (۱۸۷۶ تا ۱۸۷۷) والد ماجد کے انتقال کی قبل از وقت خبر حضرت بانی سلسلہ علیہ الصلوۃ والسلام اوائل جون ۱۸۷۶ء میں چیف کورٹ میں دائر ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور تشریف فرما تھے کہ آپ کو عالم رویا میں خبر دی گئی کہ آپ کے والد ماجد سفر آخرت پر روانہ ہونے والے ہیں.یہ اطلاع پاتے ہی آپ لاہور سے قادیان پہنچے اور دیکھا کہ اگر چہ وہ زمیر کے عارضہ میں جتلا ہیں لیکن مرض کی شدت کم ہو چکی ہے.دوسرے دن (۲- جون ۱۸۷۶ء) جبکہ آپ چوبارہ پر استراحت فرمارہے تھے اور ایک خادم جمال کشمیری آپ کے پاؤں مبارک دربار ہا تھا آپ پر الہام نازل ہوا " وَ السَّمَاءِ وَ الطَّارِقِ " کہ آسمان کی قسم ہے اور رات کے حادثہ کی قسم ہے.اور اس کی تقسیم یہ ہوئی کہ حضور کے والد ماجد آج غروب آفتاب کے وقت اس جہان سے رحلت کر جائیں گے یہ دراصل خالق کائنات کی زبان سے تعزیت تھی جو رونما ہونے والے حادثہ سے قبل ہی تسکین قلب کی خاطر آپ سے کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود تحریر فرماتے ہیں: " مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے.میں اس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا.تب میں جلدی سے قادیان میں پہنچا اور ان کو مرض زیر میں مبتلا پایا لیکن یہ امید ہر گز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم آرام کر لو.کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی.میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور

Page 157

تاریخ احمدیت جلدا ۱۳۸ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہو او السَّمَاءِ وَ الطَّارِق یعنی تم ہے آسان کی جو قضا و قدر کا منبع ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو گا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پر سی خدا تعالٰی کی طرف سے ہے.اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا.سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہو ا فوت ہوا ہے اس کی وفات کو عزا پر سی کے طور پر بیان فرماتا ہے.اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالٰی کی عزا پرسی کیا معنی رکھتی ہے.مگر یاد رہے کہ حضرت عزو جل شانہ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالٰی کا ہنسنا بھی حدیثوں میں آیا ہے ان ہی معنوں کے لحاظ سے "< والد ماجد کا انتقال چنانچہ وَالسَّمَاءِ وَ الطَّارِقِ کی آسمانی خبر کے مطابق آپ کے والد ماجد کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اور وہ اپنی وصیت کے مطابق مسجد اقصیٰ کے صحن میں دفن کئے گئے.وفات کے وقت ان کی عمر اسی پچاسی سال کے قریب تھی.حلیہ مبارک عادات و اخلاق حضرت اقدس کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نہایت وجیہہ اور دلکش شکل و صورت رکھنے والے بزرگ تھے.قد در از رنگ گندمی، آنکھیں موٹی اور سرخ ریش مبارک دراز اور چہرے مرے سے شماری سطوت و جلال ٹپکتا تھا.دب کر صلح کرنے یا کسی بڑے سے بڑے حاکم سے مرعوب ہو کر خوشامد کرنے یا اس کے سامنے سر جھکانے کو اپنی شاندار خاندانی عظمت و وجاہت کی توہین سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سکھ اور انگریز دونوں کے زمانہ اقتدار میں بھاری نقصانات برداشت کئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کے اب وجد کی پوری ریاست ضبط کرلی اور صرف چند دیہات واپس کئے اور انگریزی حکومت نے تو باقی ماندہ دیہات بھی ضبط کرلئے اور ان کے ذرائع آمد بالکل محدود ہو کے رہ گئے.لیکن بہر نوع انہوں نے کسی دور میں بھی اپنی خاندانی روایات پر آنچ نہیں آنے دی.ایک دفعہ بٹالہ کے راجہ تیجا سنگھ بیمار ہوئے.ان کو کار بنکل کی قسم کا ایک پھوڑا تھا.بہت معالجات کئے گئے کوئی صورت فائدہ کی نہ ہوئی آخر ان کی طرف رجوع کیا گیا اور وہ اللہ تعالٰی کے فضل سے شفایاب ہو گئے.راجہ صاحب نے بطور ہدیہ ایک کثیر رقم اور خلعت کے علاوہ ان کی آبائی ریاست کے رد گاؤں شتاب کوٹ اور حسن پوریا حسن آباد بطور جاگیر پیش کرنا چاہے.مگر آپ نے حقارت آمیز لہجہ میں انکار کرتے

Page 158

تاریخ احمدیت جلدا والد ماجد کار صال اور کثرت مکالمات ہوئے جواب دیا ” میں ان دیہات کو علاج میں لینا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے موجب ہتک سمجھتا ہوں".ایک مرتبہ مہاراجہ شیر سنگھ کاہنوراں کے منصب میں شکار کے لئے گئے.آپ بھی ان کے ہم رکاب تھے.مہاراجہ کے بازدار کو جو قوم کا جولاہا تھا کام ہو گیا.آپ نے اس کو چند پیسوں کا ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ اس کے استعمال سے فورا اچھا ہو گیا.اس کے بعد خود راجہ صاحب اسی عارضہ میں مبتلا ہو گئے تو آپ نے تمہیں چالیس روپے کا ایک قیمتی نسخہ ان کے لئے تجویز کیا.مہاراجہ نے کہا کہ اس تفاوت کی کیا وجہ ہے؟ بے ساختہ جواب دیا " شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے ".اس جرات مندی پر مہاراجہ شیر سنگھ بہت ہی خوش ہوئے اور آپ کی عزت افزائی کے لئے اس زمانہ کے دستور کے موافق کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی.بے باک حق گوئی یہ تو سکھ فرمانرواؤں کے زمانہ کا تذکرہ ہے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے انگریزی حکومت کے ابتدائی دور میں بھی (جو ہندوستانیوں کے لئے بڑا صبر آزما دور تھا اور بڑے بڑے رؤسا ادنی انگریز سے بھی سمے رہتے تھے) بے باک حق گوئی اور وضع داری میں سرمو کوئی فرق نہیں آنے دیا.انہیں اپنی زندگی میں بڑے بڑے انگریز حکام سے ملاقات کا موقعہ ملا.اور وہ ان سے نہایت بے تکلفی اور آزادی سے گفتگو فرماتے تھے اور اگر کسی موقعہ پر وہ اپنی خودداری اور شاہانہ عظمت کو داغ دار ہو تا محسوس کرتے تھے تو عواقب کی پروا کئے بغیر کھری کھری سنا دیتے تھے.tt ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے.راستے میں انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ گاؤں چل کر جواب دوں گا.جب قادیان پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ ”یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہوئے ہیں.مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں.ان کی خود داری اور خاندانی وجاہت کا اس سے عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر سے ملاقات کے لئے گئے.باتوں باتوں میں اس نے پوچھا کہ قادیان سے سری گویند پور کتنی دور ہے ؟ انہیں یہ سوال نشتر معلوم ہوا.اور وہ نور ابولے میں ہرکارہ نہیں اور سلام کہہ کر رخصت ہونا چاہا.رابرٹ نے کہا مرزا صاحب آپ تو ناراض ہو گئے.انہوں نے جواب : یا کہ "ہم آپ سے اپنی باتیں کرنے آئے ہیں اور آپ ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے ہیں.جو آپ نے مجھے سے پوچھا وہ میرا کام نہیں ہے ".نتیجہ یہ ہوا کہ کمشنر ان کی منتیں کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ ناراض نہ

Page 159

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۰ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے".ان کی اولوالعزمی اور جوانمردی زباں زد خلائق تھی.جب ان کے اولوالعزمی اور جوانمردی والد کپور تھلہ میں انتقال فرما گئے تو ان کی عمر صرف سولہ سترہ سال کی تھی.انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کی نعش مبارک قادیان ہی میں دفن کریں گے.لوگوں نے کہا کہ وہاں سکھ قابض ہیں جو شدید مزاحمت کریں گے مگر وہ نہ مانے اور لاش لے کر راتوں رات قادیان پہنچے.یہاں سکھ مانع ہوئے مگر رعایا کو ان سے ہمدردی ہو گئی اور وہ اپنے والد کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کرنے میں کامیاب ہو گئے.اس وقت بے سرو سامانی کی یہ حالت تھی کہ کسی سے پانچ سیر دانے قرض لے کر گھر میں دیئے اور گھر سے پیدل ہی طبابت سیکھنے کے لئے دلی روانہ ہو گئے کہ عزت پا کر وطن واپس آؤں گا.وہاں قیام و طعام کی بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور فاقوں تک نوبت پہنچی.نگرده پوری جوانمردی استقلال اور دل جمعی سے تحصیل علم طب میں مشغول رہے اور ولی کے مشہور محمد شریف صاحب سے طبابت میں یہاں تک دستگاہ حاصل کرلی کہ ان کا شمار چوٹی کے حکماء میں ہونے لگا.واپس آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کی گم گشتہ ریاست کے ۸۴ گاؤں میں سے سات واگذار کردیئے اور فوج میں جنرل کے عہدہ پر مقرر کر دیا.استغناء اور خودداری استغناء اور خودداری کا یہ جذبہ عمر کم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا اور آخری عمر میں عروج تک پہنچ گیا.چنانچہ لکھا ہے کہ مرض الموت میں آپ وفات سے صرف ایک گھنٹہ پہلے قدیمہ کی طرف جانے کے لئے اٹھے تو ایک لازم نے آپ کو سمارا دینا چاہا مگر آپ نے پیرانہ سالی اور مرض کی شدت کے باوجود نہایت سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا اور فرمایا کہ مجھے سہارا کیوں دیتے ہو".اس شاہانہ مزاج علو ہمتی اور جلالت شان کے باوجو د ده نهایت با مروت اور وسیع الاخلاق انسان تھے.جن کے اعلیٰ کیریکٹر اور وسعت حوصلہ کے متعدد واقعات ہیں.نیک نیتی، صاف باطنی اور حسن خلق کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور خدمت خلق ان کا حسن خلق قومی شعار تھا.وہ ایک موسم میں غرباء میں غلہ کی تقسیم کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے باوجودیکہ تحصیل حکمت میں انہوں نے بڑی بڑی مشکلات برداشت کی تھیں اور غریب الوطنی میں برداشت کی تھیں لیکن انہوں نے فن طبابت کو بطور پیشہ اختیار کرنا کبھی گوارا نہیں کیا.اور ان کی پوری زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں ان کا حکمت کے لئے معاوضہ وصول کرنا ثابت ہو ان کا چشمہ فیض ہر غریب اور فقیر کے لئے جاری رہتا تھا.ایک مرتبہ قادیان میں بھنگیوں

Page 160

تاریخ احمدیت جلدا IM والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات میں ہیضہ پھوٹ پڑا.آپ ان دنوں بٹالہ میں تھے.جونہی آپ کو اطلاع ملی آپ فورا قادیان پہنچے اور ان کی جھونپڑیوں کے پاس آکر ٹھہر گئے اور نہایت شفقت آمیز لہجہ میں ان کو تسلی دی اور وہاں ہی کھڑے کھڑے حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ، کٹے ، گڑ اور نمک لیتے آویں.چنانچہ تعمیل کی گئی.اور آپ نے یہ اشیاء مٹکوں میں ڈلوادیں اور ہدایت کی کہ جو چاہے گڑ ڈال کر پیئے اور جو چاہے نمکین پیئے.دوسرے دن قادیان کی فضا ہیضہ کی وباء سے صاف ہو گئی.غرباء کے حقوق بحال کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کے لئے وہ حکومت کے بڑے بڑے افسروں تک پہنچتے اور اپنے مطالبات منوا کر آتے تھے.ایک مرتبہ بٹالہ کے ایک حجام نے ان سے درخواست کی کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے.فنانشل کمشنر (ایجرٹن) سے (جو بعد کو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب ہو گئے تھے میری سفارش کر دیں.چنانچہ آپ اسے ساتھ لے کر لاہور گئے.اس وقت شمالا مار باغ میں جلسہ ہو رہا تھا.جب جلسہ ختم ہوا تو آپ نے فنانشل کمشنر سے کہا کہ آپ اس شخص کی بانہ پکڑ لیں.فنانشل کمشنر نے ہر چند کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ مگر آپ نے یہی فرمایا کہ نہیں اس کی بانہ پکڑ لو.آخر وہ آپ کے اصرار پر مجبور ہوا.جب انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا تب کہا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جس کی بانسہ یعنی ہاتھ پکڑ لیتے ہیں پھر خواہ سر چلا جائے اس کو چھوڑتے نہیں.اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا ہے اس کی لاج رکھنا اور پھر کہا کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے کیا معافیاں دے کر ضبط کیا کرتے ہیں؟ فنانشل کمشنر کو آپ کے جذبہ انسانیت کے سامنے سپر انداز ہونا پڑا اور اس نے دوسرے ہی دن حجام کی مسل طلب کر کے معافی بحال کر دی حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کے حالات زندگی میں دنیا داری رحمت خداوندی پر نظر کار ایک صاف نمایاں ہو تا تھا.اس اعتبار سے دو حضرت صیح موجود رنگ وہ علیہ الصلوۃ و السلام کی طبیعت کے بالکل ضد واقع ہوئے تھے جس کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے وہ اکثر اپنا یہ شعر پڑھا کرتے تھے.کردیم تا کرونی ہمہ عمر اے والے ہما کہ ما چه کردیم لیکن اپنی تھی دامنی کے مقابل خدائی رحمتوں کی وسعتوں کا احساس ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر حاوی رہتا تھا اور وہ اس کے آستانہ سے کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے.ایک دفعہ ایک بغدادی مولوی صاحب قادیان آئے تو آپ نے ان کی بڑی عزت کی اور ان کی خاطر مدارت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا انہوں نے کہا مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے.جواب دیا قصور ہے مگر خاموش ہونے کی بجائے اور زیادہ اصرار سے پوچھنے لگے کہ آپ نماز نہیں پڑھتے اور آپ ہر مرتبہ کہہ دیتے کہ قصور ہے.آخر

Page 161

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۲ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات مولوی صاحب نے کہا " آپ نماز نہیں پڑھتے خدا تعالٰی آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا اس فقرہ پر انہیں جوش آگیا اور فرمایا کہ ” تم کو کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے دوزخ میں ڈالے گا یا کہاں؟ میں اللہ تعالی پر ایسا بد ظن نہیں میری امید وسیع ہے.اس نے فرمایا کہ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ تم مایوس ہو گئے.میں نہیں.میں خدا تعالیٰ کے رحم و کرم پر بھروسہ کرتا ہوں یہ تمہاری بد اعتقادی ہے تم کو خداتعالی پر ایمان نہیں".خدا تعالیٰ کا ان سے غیر معمولی سلوک اسی حسن اعتقاد ہی کی بدولت اللہ تعالٰی بھی ان کے ساتھ بعض اوقات غیر معمولی سلوک کرتا اور خصوصی احسانات سے نوازتا تھا.ان کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے اور بیماری بہت طوالت پکڑ گئی.اسی اثناء میں ان کے ہاں ایک ملاں آیا اور اس نے سمجھا کہ مرض کا بہت زور ہے تو وہ باہر نکل کر کواڑ کے پیچھے اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کب دم نکلتا ہے اور عورتیں رونا شروع کرتی ہیں.وہ دیر تک اسی حالت میں کھڑا تھا کہ اچانک آپ کی نظر اس پر پڑ گئی.فرمانے لگے ملاں چلے جاؤ ابھی تو میرے میں سال باقی ہیں تو کب تک انتظار کرے گا چنانچہ سچ سچ آپ اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے.اسی طرح آپ کے برادر زادہ مرزا امام الدین نے ( جو آخر وقت تک اس خاندان کا جانی دشمن رہا) ایک دفعہ آپ کے خلاف قتل کی ناپاک سازش کی جسے خدا تعالٰی نے خاص تصرف سے ناکام بنا دیا.سوچیت سنگھ کا (جسے اس ملعون کام کی تکمیل کے لئے آلہ کار بنایا گیا تھا) بیان ہے کہ بڑے مرزا صاحب بالا خانے میں رہتے تھے.میں کچے دیوان خانہ کی دیوار سے ان تک پہنچنے کے لئے کئی دفعہ اوپر چڑھا اور ہر مرتبہ ان کے پاس مجھے دو محافظ نظر آئے.یہ دیکھ کر میں خوفزدہ ہو گیا اور بالاخر میں نے اس ارادہ بد سے توبہ کرلی.دراصل خدا تعالی کی قدرت نمائی کا کرشمہ تھا کہ اسے ہر دفعہ دو پہرہ دار دکھائی دیے.درنہ یہ حقیقت ہے کہ آپ کے پاس اس وقت کوئی محافظ موجود نہیں تھا آپ کی طبیعت شگفتہ تھی.شجاعت، راست گوئی ، جرات استقلال د وفاداری عہد اور دوستی میں سلف صالحین کا پاک نمونہ تھے.شعر و شاعری میں خاص دسترس تھی اور علمی تشنگی بجھانے کے لئے انہوں نے ایک وسیع لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی جس میں قیمتی کتابوں کا ایک نایاب ذخیرہ تھا اور بعض کتابیں اپنے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں.آپ کی زندگی کا شاندار کارنامہ آپ کی زندگی کا آخری اور شاندار کارنامہ مسجد اقصی کی تعمیر ہے جہاں آپ اس وقت ابدی نیند سو رہے ہیں اور

Page 162

تاریخ احمدیت جلدا والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات جو آپ کے خلوص و ایمان حسن خاتمہ اور دربار خالق میں قبولیت کی دائمی یادگار ہے.اللهُمَّ اجْعَلْ مَثْوَهُ فِي الْجَنَّةِ وَادْخِلُهُ فِي عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ چونکہ خاندانی معاش کے اکثر و جوہ آپ کے والد کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی کفالت والد ماجد ہی سے وابستہ تھے اور انہیں حکومت کی طرف سے پیشن وغیرہ ملتی تھی جو ان کی زندگی سے مشروط تھی.اس لئے طبعی طور پر آپ کو اپنے والد کے انتقال کی آسمانی خبر پر سخت صدمہ ہوا.اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے.یہ خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں آپ کے دل میں گذرا تھا کہ اسی وقت غنودگی طاری ہوئی اور اللہ تعالی نے آپ کو ایک دوسرے الہام "الیس الله بکاف عبدہ " کے ذریعہ سے بشارت دی کہ آپ کو یوں مشوش ہونے کی ضرورت نہیں.سایہ پدری سے محرومی کے بعد زمین و آسمان کا خدا آپ کو خود اپنی کفالت میں لے لے گا.حضور علیہ الصلوۃ و السلام اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلاء ہمیں پیش آئے گا.تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا اليس الله بکاف عبدہ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے؟ اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا.پس مجھے اس خدائے عزو جل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز متکفل نہیں ہو گا.میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں.اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہو گئے.یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسا رحمت کا نشان دیکھا جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو " - 1 یہ الهام چونکہ ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل تھا جو آئندہ ایک زبر دست نشان بن کر ظاہر ہونے والی تھی.اس لئے آپ نے اسی وقت لالہ ملاوائل صاحب کو تفصیلات سے آگاہ کر دیا اور امرتسر میں حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کی طرف بھیجا کہ وہ ان کی معرفت یہ الفاظ کسی نگینہ میں کندہ کرالا ئیں.چنانچہ لالہ ملاوائل صاحب امرت سر گئے اور مبلغ پانچ روپیہ میں انگشتری تیار کرو الائے اور اسی طرح لالہ ملاوامل صاحب اور حکیم مولوی محمد شریف صاحب کلانوری دونوں اس چمکتے

Page 163

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۴ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات ہوئے نشان کے شاہد ناطق بن گئے جو بعد میں حیرت انگیز رنگ میں ظاہر ہوا اور قیامت تک پورا ہوتا رہے گا.آسمانی باپ نے کس طرح آپ کی کفالت فرمائی.اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضور ایک نظم میں فرماتے ہیں.ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یاد غمگسار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں جس کو تو نے کر دیا ہے قوم و دیں کا انتظار کثرت مکالمات و مخاطبات کی ابتداء حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کا انتقال فرمانا ہی تھا کہ آپ پر بڑے زور و شور سے مکالمات و مخاطبات کا نزول شروع ہو گیا.آپ خود فرماتے ہیں: ایک طرف ان کا (یعنی حضرت والد ماجد کا.ناقل ) دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور و شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کون سا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالٰی کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رک نہیں سکتی.سو یہ اسی کی عنایت ہے ".کثرت مکالمات الیہ کے اس ابتدائی زمانہ میں آپ پر کئی عظیم الشان اخبار غیبیہ کا انکشاف ہوا.انگریزی الہامات کی ابتداء ہوئی اور مختلف مواقع پر آپ کی تائید میں کئی چمکتے ہوئے آسمانی نشان ظاہر ہوئے.۲۵ مرزا غلام قادر صاحب کی جانشینی اور دور ابتلاء اب آپ اگر چہ براہ راست اللہ تعالی کے آغوش شفقت و محبت میں آچکے تھے اور وہی ہر لحظہ آپ کا حقیقی سرپرست مربی مونس و غمخوار اور معین و مددگار تھا لیکن اس کی حکیمانہ مصلحتوں اور پر حکمت تقدیروں کے مطابق ابھی آپ کے لئے اقتصادی لحاظ سے ایک شدید دور ابتلاء میں سے گذرنا ضروری تھا.اس لئے آپ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد جو نہی آپ کے بڑے بھائی (مرزا غلام قادر صاحب مرحوم) جانشین ہوئے آپ کی زندگی میں امتحان اور آزمائش کی ایک دوسری منزل شروع ہوئی جو ان کے سات سالہ زمانہ جانشینی (۱۸۷۶ء سے ۱۸۸۳ء) تک جاری رہی.

Page 164

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۵ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کے والد ماجد کو قادیان کے سالم گاؤں پر حقوق مالکانہ حاصل تھے.اور اس کے علاوہ بٹالہ امرت سر اور گورداسپور میں مکانات اور دو کانات کی شکل میں معقول جائیداد بھی موجود تھی.اور چونکہ آپ دو بھائی تھے اس لئے شرعاً اور قانوناً آپ ان کی مترو کہ جائیداد کے برابر کے حصہ دار تھے اور اگر آپ چاہتے تو اسے تقسیم کراسکتے تھے.لیکن آپ اپنے والد ماجد مرحوم کی وفات کے بعد جائیداد سے بالکل بے نیاز ہو کر عبادت، مطالعہ کتب اور اعلائے کلمہ الاسلام میں مشغول ہو گئے.اور پوری جائیداد بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے سپرد فرما دی اور اپنا یہ معمول بنالیا کہ حتی الوسع کسی قسم کی ضروریات کا اظہار نہ فرماتے.جو کچھ پہنے کو ملا عجب شان بے نیازی سے پہن لیتے اور جو کھانا آتا وہ اپنے گذشتہ دستور کے مطابق مرزا مہتاب بیگ، حسینا کشمیری جمال کشمیری ، غفارا اور حافظ معین الدین صاحب وغیرہ کو دے دیتے اور خود ایک پیسے کے پنے منگوا کر گزارا کر لیتے.اور جب یہ بھی نہ ہو تا تو فاقہ کر لیتے.غرض کہ ان دنوں آپ نہایت سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کر رہے تھے.اور صبح شام ذکر الہی اور اشاعت حق اور تربیت و اصلاح کے مشاغل میں گذرتے تھے.بے شبہ آپ کے بڑے بھائی آپ کا ادب و احترام بھی کرتے اور آپ سے محبت کی وجہ سے آپ کی ضروریات مہیا کرنے میں ایک گونہ خوشی بھی پاتے تھے مگر دنیا داری کے رنگ میں پوری طرح رنگین ہونے کے سبب وہ اکثر اظہار افسوس ہی کرتے رہتے تھے کہ آپ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.بلکہ ان کی نگاہ میں ایک لمبے عرصہ سے اور غالیا اپنے والد ماجد کے تاثرات کے تحت آپ کے متعلق یہ نظریہ ہو چکا تھا کہ آپ زمانہ کے تقاضوں سے غافل اور دنیاوی معاملات میں بالکل ست ہیں.آپ کا مطالعہ کتب اور دوسرے دینی مشاغل ان کے نزدیک محض ضیاع وقت تھے.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ کسی اخبار کے منگوانے کے لئے ان سے ایک نہایت قلیل رقم منگوائی تو انہوں نے آپ کی جائیداد پر قابض ہونے کے باوجود صاف انکار کر دیا اور کہا یہ اسراف ہے.کام تو کچھ کرتے نہیں اور یونہی بیٹھے کتب راخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں.ان کا یہ طرز عمل اور دنیا دارانہ سلوک گو بہت حوصلہ شکن اور صبر آزما تھا لیکن مصیبت کی حد یہ تھی کہ وہ خود تو گورداسپور میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازم تھے اور اکثر گورداسپور میں رہتے تھے لیکن ان کی غیر حاضری میں گھر کے منتظمین آپ کو اونی اونی معاملات میں بھی تنگ کرنے میں کوشاں رہتے تھے.وہ حضور کو اپنا دست نگر سمجھتے اور آپ کے خلاف یہاں تک بائیکاٹ ساکر رکھا تھا کہ اگر دوسرا کوئی حضور کی خدمت میں کوئی چیز بھجواتا تو علم ہونے پر ان کا غم و غصہ انتہا تک پہنچ جاتا تھا.وسط ۱۸۷۷ء کا واقعہ ہے کہ جب حضرت میر ناصر نواب صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے مشورہ پر قادیان رہائش پذیر ہوئے.مرزا غلام قادر صاحب جب

Page 165

تاریخ احمدیت جلدا والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات گورداسپور سے آتے تو ان کے لئے پان لاتے.اور ان کی زوجہ محترمہ (یعنی حضرت نانی جان مرز اغلام قادر صاحب مرحوم کے واسطے اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھیں) ایک دفعہ جو حضرت نانی اماں نے شامی کباب ان کے لئے تیار کئے اور بھیجنے لگیں تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں.چنانچہ انہوں نے نائن کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ کباب بھیجوا دیے اور اس کے بعد آپ ہر دو سرے تیسرے دن حضور کو کچھ کھانا وغیرہ بنا کر بھیج دیا کرتی تھیں اور حضور بڑی خوشی سے تناول فرمالیتے تھے.حضرت نانی اماں کا بیان ہے کہ بعد میں جب اس بات کی اطلاع المیہ صاحبه مرزا غلام قادر صاحب کو ہوئی تو وہ بہت خفا ہوئیں.کہ میں کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں.دراصل وہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سخت مخالف تھیں.اور چونکہ گھر کا سارا انتظام انہی کے ہاتھ میں تھا اس لئے وہ ہر بات میں حضور کو تکلیف پہنچاتی تھیں.اس وقت پورے خاندان میں صرف حضرت اقدس کی ممانی (صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی نانی) کو آپ سے محبت تھی.باقی سب مخالف تھے.اور آپ کو بد دعائیں دیتے اور برا بھلا کہتے رہتے تھے المختصر یہ زمانہ نہایت درجہ حسرت اور تنگی کا زمانہ تھا.لیکن حضرت اقدس نے اسے ایک خدائی آزمائش سمجھتے اور انعام و برکت قرار دیتے ہوئے بے حد صبر و تحمل سے گزارا.آپ مسلسل سات سال تک مختلف مظالم کا تختہ مشق بنے اور زبان پر حرف شکایت نہ لائے.بد دعا ئیں سنیں اور دعاؤں میں مصروف رہے اور صبرو تحمل کا وہ کامیاب نمونہ دکھایا کہ رحمت دو عالم حضرت رسول اکرم ﷺ کے زمانہ کی یاد تازہ ہو گئی.حضرت والد ماجد مرحوم کے انتقال حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف پہلا مقدمہ کے دوسرے سال ۱۸۷۷ء میں آپ کے خلاف ایک عیسائی رلیا رام نے مقدمہ دائر کیا جو آپ کی زندگی میں آپ کے خلاف پہلا مقدمہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً پانچ سال سے تبلیغ اسلام کی غرض سے قلمی جنگ کر رہے تھے کہ اس سلسلہ میں حضور نے اسلام کی تائید میں امرت سر کے ایک پریس کو اشاعت کی غرض سے پیکٹ میں ایک مضمون ارسال فرمایا اور اس میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی.اس لئے پریس کے عیسائی مالک رلیا رام وکیل جو امرت سر کے عیسائی مشن کی روح رواں سمجھا جاتا تھا اور مسیحیت کو اعلیٰ طبقہ تک پہنچانے میں اسے گہرا عمل و دخل تھا سخت مشتعل ہوا چنانچہ اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک موقعہ ہاتھ آگیا.کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً [PA]

Page 166

تاریخ احمدیت جلدا والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات ایک جرم تھا.اور ایسے جرم کی سزا میں ڈاک خانہ کے قوانین کی رو سے پانچ سوروپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید تھی جس کی حضرت اقدس کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی.لیکن رلیا رام نے مخبر بن کر ڈاک کے افسروں کے ذریعہ سے حضور پر عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا.اور قبل اس کے کہ حضور کو اس مقدمہ کے متعلق کچھ خبر ہو رویا میں اللہ تعالیٰ نے حضور پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے مچھلی کی طرح مل کر واپس کر دیا ہے.غرض اس جرم میں حضور گورداسپور میں طلب فرمائے گئے.اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ جھوٹ کے بغیر اور کوئی راہ نجات نہیں.اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دیں کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا تھا، رلیا رام نے خود ڈال دیا ہو گا.نیز بطور تسلی کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی.ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.مگر حضور نے سب ہی وکلاء کو جواب دیا.کہ میں کسی حالت میں سچائی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، جو ہو گا سو ہو گا.چنانچہ شیخ علی احمد صاحب کی (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقدمہ میں وکیل و پیرو کار تھے ) شہادت ہے کہ میں نے ہر چند چاہا کہ مرزا صاحب انکار کر دیں کہ یہ خط اس میں نہیں رکھا تھا.میرے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ خط اس پیکٹ میں سے بر آمد ہوا.اور اس کے متعلق شہادت قوی نہ تھی.بوجہ اختلاف مذہب خود رلیا رام کی شہادت بھی آئینی لحاظ سے چنداں قابل پذیرائی نہ تھی.میں جس قدر اصرار کرتا تھا اسی قدر مرزا صاحب انکار کرنے سے انکار کرتے تھے.میں نے ان کو ہر چند ڈرایا کہ نتیجہ اچھا نہ ہو گا اور خواہ نخواہ ایک معزز خاندان پر فوجداری مقدمہ میں سزا پانے کا داغ لگ جائے گا مگر وہ میری بات نہ مانے اور میں نے یہ سمجھ کر کہ میری پیروی میں مقدمہ ہار گیا تو بڑی بد نامی خاندان کی طرف سے ہوگی.اس لئے حضرت مرزا صاحب کے انکار نہ کرنے کے اصرار سے فائدہ اٹھا کر میں نے کہا کہ اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو میں پیروی نہیں کرتا.میرا خیال یہ تھا کہ مقدمہ میں سزا ہوگی اور الزام ان پر رہ جائے گا کہ وکیل کے مشورہ کے خلاف عمل کرنے سے ایسا ہوا.میں اس طرح اپنی ناراضی کا اظہار کر کے پیش نہ ہوا اور میری غیر حاضری میں مقدمہ پیش ہو گیا.بهر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک انگریز کی عدالت میں پیش ہوئے اور آپ کے مقابل ڈاک خانہ جات کا افسر سرکاری مدعی کی حیثیت سے حاضر ہوا.اس وقت حج نے اپنے ہاتھ سے حضور کا بیان قلمبند کیا اور سب سے قبل حضور سے سوال کیا کہ کیا یہ خط آپ نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور پیکٹ تمہارا ہے ؟ حضور نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے

Page 167

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۸ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا.مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی بج کی بات تھی.یہ بات سنتے ہی خدا تعالٰی نے اس انگریز کے دل کو حضور کی طرف پھیر دیا.حضور کے مقابل پر ڈاک خانہ جات کے افسر نے بہت شور مچایا اور اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے انگریزی میں لمبی لمبی تقریریں کیں مگر وہ حاکم ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں نو نو (No No) کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر اپنے تمام وجوہ پیش کر کے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر حضور سے کہا کہ آپ کے لئے رخصت.اور مقدمہ خارج کر دیا.حضرت اقدس عدالت کے کمرہ سے باہر تشریف لائے اور اپنے حقیقی کا شکر بجالائے جس نے حضور کو راست گفتاری کی برکت سے اس معرکہ میں شاندار فتح بخشی.حضور اقدس نے مقدمہ سے قبل یہ خواب بھی دیکھی تھی.کہ ایک شخص نے حضور کی ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا.حضور نے فرمایا کیا کرنے لگا ہے.تب اس نے ٹوپی حضور ہی کے سر پر رہنے دی اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے".حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس غیر معمولی کامیابی پر حضور کے وکیل شیخ علی احمد صاحب جو فیصلہ میں سزا کا یقین کر کے عدالت ہی سے غائب ہو گئے تھے حیرت زدہ رہ گئے اور آخر دم تک حضور کی فوق العادت راست گفتاری کے عمر بھر مداح رہے.سفر سیالکوٹ اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حکیم میر حسام الدین صاحب کی دعوت پر سیالکوٹ کا سفر اختیار کیا اور اپنے مخلص ہندو دوست لالہ ھیم سین ا صاحب کے ہاں قیام فرمایا.منشی سراج الدین صاحب مرحوم بانی ای سال بر صغیر ہند و پاکستان کے مشہور صحافی سیاسی لیڈر اور قومی شاعر ظفر علی خان صاحب اخبار زمیندار کا قادیان میں درود کے والد منشی سراج الدین صاحب بانی اخبار "زمیندار" غالبا مرزا موحد بیگ صاحب جالندھری کی معیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے اور ایک رات کے مختصر سے قیام کے بعد واپس آگئے.اس ملاقات میں وہ آپ کے استغراق اور انقطاع الی اللہ سے بے حد متاثر ہوئے اور عمر بھر اس کی یاد سے لطف اندوز ہوتے رہے.چنانچہ اپنے اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء میں لکھا: ۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں

Page 168

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴۹ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محود مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے ای سال قادیان میں ایک سیاہ کار سادھونے قادیان سے ایک سیاہ کار سادھو کا اخراج ڈیرہ لگا لیا.یہ سادھو بڑی وزنی موگریوں سے ورزش کیا کرتا تھا.ہندو عوام تو خوش اعتقادی سے اسے شہ زوری میں ہنومان کا مثیل سمجھنے لگے تھے اور وہ تقدس کے پردہ میں عصمتوں کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف رہتا تھا.آبروریزی کا یہ سیلاب ابھراہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک اس کی خبر پہنچ گئی.حضور نے سنتے ہی چوکیدار کے ذریعہ سے اس بد باطن سادھو کو حکم دیا کہ یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ وہ ہیبت زدہ ہو کر اپنا بستر بوریا اور موگریاں وغیرہ اٹھائے گاؤں سے بھاگ گیا اور پھر کبھی دکھائی نہ دیا.2 نعمۃ الباری " کی تصنیف کا ارادہ غالبا اس دور میں حضور نے ایک کتاب نعمة الباری" کی تصنیف کا ارادہ فرمایا.اور فارسی اشعار میں اس کا خطبہ بھی لکھا لیکن بعد میں خود ہی بتایا کہ جب میں نے قلم لے کر لکھنا شروع کیا تو یکا یک باران رحمت کا نزول ہوا.اور میں نے محسوس کیا کہ ہر ایک قطرہ بارش اپنے ساتھ لا انتہاء برکات اور فیوض لے کر آتا ہے اس کو دیکھ کر اور اس احساس کے بعد میں نے قلم رکھ دیا کہ میں خدا تعالٰی کی نعمتوں اور فضلوں کو گن نہیں سکتا.جیسے بارش کے ان قطرات کا شمار میرے امکان سے باہر ہے اسی طرح یہ امر بھی میرے امکان سے خارج ہے کہ میں خدا تعالٰی کے ان انعامات کا جو مجھ پر ہوئے ہیں گن سکوں.ساری دنیا اور اس کا ایک ایک ذرہ اور نظام عالم کو میں نے اپنی ذات کے لئے دیکھا اور معرفت کا دفتر مجھ پر کھولا گیا.اور میں نے سمجھا کہ یہ بارش کا نزول محض اس لئے تھا کہ میں اس حقیقت کو پاؤں کہ میں افضال الہی اور انعام الہی کو شمار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اور یہ راز منکشف ہو گیا.کہ اگر تم خدا تعالٰی کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو ہر گز نہ کر سکو گے.اس طرح یہ کتاب ہمیشہ کے لئے معرض التواء میں چلی گئی.11

Page 169

تاریخ احمدیت جلد) ۱۵۰ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات حواشی ا ذکر حبیب صفحه ۲۲۴ مولفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب ناشر بکڈپو تالیف دا شاعت قادیان دسمبر ۱۹۳۶ ء و تذکره طبع دوم صفحه (۲۳) گورنمنٹ کی دستاویزات میں ان کی تاریخ وفات -۲ جون ۷۲ ۱۸ ء ہی درج ہے.ملاحظہ ہو سابق فنانشل کمشنر پنجاب سر رابرٹ ایمرٹن کا مکتوب (مطبوعہ حیات النبی صفحہ (۳) لرحبیب صفحہ ۲۲۴ میں چوبارہ کی بجائے ڈیوڑھی لکھا ہے جو صحیح نہیں.کتاب البریہ صفحه ۱۵۹ تا ۱۷ حاشیه کتاب البریه حاشیه صفحه 404 بعض دوسرے قرائن کے مطابق آپ کی پیدائش قریب ۷ ۱۷۹ء میں ہوئی اور وفات ۷ ۸ے سال کی عمر میں کیونکہ مرزا عطا محمد صاحب قریباً ۱۸۷۳ء میں فوت ہوئے تھے اور اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی تحقیق کے مطابق ان کی عمرے ۱۱ برس کی تھی "قادیان صفحه ۷۸- الحکم ۷/۳ جون ۱۹۳۳ء) ه احکم ۱۰ جنوری ۱۹۳۷ء صفحه الحکم ہمارے جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۴ کالم ۲ سیرت المندی جلد اول صفحه ۲۲۷- حیات النبی صفحہ ۳۱ ايضا صفحه ۳۷ سیرت المہدی (حصہ اول طبع ثانی صفحه ۲۳۰ و حیات النبی صفحہ ۳۷ سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۲۴ لینا صفحه ۲۹٬۲۲۸ و حیات النبی جلد اول صفحہ ۳۹ و الحکم صفحه ۷/۳ جون ۱۹۴۳ء صفحه ۳ و الفضل ۲۷- تمبر ۱۹۳۸ ء صفحه ۴۰۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ ء صفحه ۲۱ و سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۰۰۳۵ طبع دوم روایت نمبر ۳۸۱۹۳۳ الحکم ۷/۱۳ جون ۱۹۳۳ء صفحہ ۷ ميرة المهدی حصہ اول صفحه ۲۲۷ طبع دوم ۱۵ الحکم ہمارے جون ۶۴۳ صفحه ۴ 1 سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۸۱ و ۱۸۳۴ شہادت پنڈت دیوی رام حیات النبی جلد اول صفحہ ۳۰ ۱۸ اینا صفحه ۳۸ و سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۲۸ طبع دوم 19 حیات النبی جلد اول صفحه ۴۱ ۲۰ ا حکم ۲۱ تو میر ۱۹۳۴ و صفحه حیات النبی جلد اول صفحه ۲۰۰۳۹ وسیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۳۰ طبع دوم ۲۲- کتاب البریه صفحه ۱۷۲ ۱۷۳ ۲۳- اس پہلی تاریخی انگوٹھی نیز حضور کی دوسری انگوٹھیوں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سیرت مسیح موعود ( از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) صفحہ ۳۱ ( حکیم صاحب کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے پوتے جناب محمد صادق صاحب ہاشمی نے قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا) ۲۴ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۹۷ ۹۸ طبع اول اکتوبر ۱۹۰۸ء انوار احمدیہ مشین پریس قادیان ۲۵ کتاب البریه صفحه ۱۶۳ حاشیه وفات 9 جولائی ۱۸۸۳ء بوقت سات بجے شام (قلمی روز نامچہ خاندان حضرت مسیح موعوداً

Page 170

۱۵۱ والد ماجد کا وصال اور کثرت مکالمات تاریخ احمدیت جلدا ۲۷- الحکم ۷/۳ جون ۱۹۲۳ء صفحے وسیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۲۰ و سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۳۴۰ و سیرت مسیح موجود مولفه حضرت خلیختہ اصبح بانی ایدہ اللہ صفحہ ۲۰۱۹ حیات النبی جلد اول صفحه ۲۳۰٬۲۲۹ ۲۸ تاریخ بشارت السند و پاکستان صفحه ۱۹۹ دیکھو ۱۸۶۶ء کا ایکٹ نمبر ۴ دفعہ ۵۷٬۱۲ نیز گورنمنٹ آف انڈیا کانوٹیفکیشن نمبر ۲۴۴۲ مورخہ ہے.دمیرے ۱۸۷ء وقعہ ۲۳ کو الہ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه 4 ۳۰ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۹۹۴۲۹۷ طبع اول فروری ۱۸۹۳ء مطبع ریاض بند قادیان احمدی و غیر احمدی میں کیا فرق ہے صفحہ ۹۸ تقریر ۲۷ دسمبر ۶ ۱۹۰ ء و سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ما حیات احمد جلد اول صفحه ۲۳۵۲۳۴ ۳۱ حوالہ حیات احمد جلد اول صفحہ ہیں.۳۲ بحوالہ حیات احمد جلد اول صفحه ۱۳۵ ۳۳- حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۴۵ ۳۵٬۳۴ یہ خطبہ در مکنون صفحہ ۱۰۶ میں موجود ہے.اور چونکہ اس سے چند اوراق قبل ۱۰ شعبان ۱۳۸۳ھ مطابق دسمبر ۱۸۷۷ء کی تاریخ درج ہے اس لئے قیا سے اس کتاب کا تذکرہ ۱۸۷۷۱۸۷۷ء کے دورمیں کیا گیا ہے.۳۶ حیات النبی صفحه ۲۴۴

Page 171

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۲ آریہ سماج کے خلاف جہاد باب دہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آریہ سماج کے خلاف میدان جہاد میں اور اسلام کی مسلسل فتوحات (۱۸۷۸ تا ۱۸۷۹) ۱۸۵۷ء میں ہندو حکومت کے قیام کی سازش کی ناکامی کے اٹھارہ سال بعد سوامی دیانند نے آرید سماج جیسی قومی اور نسلی تحریک کی بنیاد رکھی.یہ خطر ناک تحریک بمقام بمبئی جنوری ۱۸۷۵ء میں قائم ہوئی.اور اس کے قیام کا تنہا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں آریوں کو اقتدار مطلق حاصل ہو جائے.اس سیاسی پروگرام کو بروئے کار لانے کے لئے سوامی جی نے مرہٹی لیڈروں مثلاً مسٹر را ناڈے پنڈت گوپال راؤ مریشی لکھ وغیرہ کے مشورہ سے یہ پروگرام تجویز کیا کہ بالخصوص اسلام اور بانی اسلام پر دوسرے مخالفین کی ہم نوائی میں پوری بے باکی سے حملے کئے جائیں اور ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کی فضاء قائم کر کے حب الوطنی اور قومی ترقی کے نام سے ہندوؤں کی وسیع پیمانہ پر تنظیم کی جائے اور انہیں بر سر اقتدار لانے کے لئے انگریزی علوم سے مسلح کیا جائے.اس پروگرام میں سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ دید جو ہندوؤں کی اجتماعی تحریک کی بنیاد بن سکتے ہیں موجودہ روشنی کے زمانہ میں اس کی محرف و مبدل اور مضحکہ خیز تعلیمات کا چراغ نہیں جل سکتا تھا.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ویدوں کی سنسکرت کے الفاظ سے بے نیاز ہو کر عجیب و غریب اور نئی تفسیر تیار کی گئی اور دیدوں کو کھینچ تان کر ایسا سائنٹفک رنگ دینے کی کوشش کی کہ ویدوں کے نام پر نئے دید تصنیف ہو گئے.جن میں اگنی ، وایو ادیت اور انگرہ دیوتاؤں کی بجائے اسلامی توحید کا پوند لگایا گیا.بے ہودہ اور لاطائل قصوں سے سائنس کی جدید تھیوریاں ثابت کی گئیں.اور بے حقیقت اور محرف و مبدل تعلیم قلم کی ایک ہی جنبش سے علم و حکمت کا خزینہ دکھائی دینے لگی..یہ تحریک کو بمبئی میں اٹھی.لیکن ابتداء میں اسے سب سے زیادہ کامیابی صوبہ پنجاب میں ہوئی.جہاں یہ تحریک آگ کی شکل میں ابھری اور چند ماہ کے اندر اندر ہندوؤں کے سب ہی طبقوں میں پوری سرعت سے پھیلنی شروع

Page 172

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۳ آریہ سماج کے خلاف جہاد ہو گئی.خود سوامی دیانند جی نے ۱۸۷۷ ء میں صوبہ پنجاب کے متعدد مشہور اصلاح کا ایک طوفانی دورہ کیا.مباحثات کئے اور لٹریچر تقسیم کیا.جس کے نتیجہ میں اسی سال لاہور امرت سر اور راولپنڈی میں آریہ سماج کی مضبوط شاخیں قائم ہو گئیں.اسلام کے خلاف ایک بے پناہ طاقت پہلے ہی نبرد آزما تھی.اب اس میں آریہ سماج کی فتنہ سامانیوں کا بھی اضافہ ہو گیا.اور نہتے اور بے کس مسلمان بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے فتنوں سے گھر گئے.لیکن پنجاب میں آریہ سماج کی زہریلی کچلیوں نے سر نکالا ہی تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام جو " منشور محمدی" بنگلور اور دوسرے ملکی اخبارات کے ذریعہ سے پہلے ہی قلمی جنگ میں مصروف تھے.میدان جہاد میں کود پڑے.اور دلائل و براہین کی شمشیر برہنہ سے باطل کا سرباش پاش کر دیا.اور نہ صرف پنجاب کی آریہ سماج کے بلیدانوں نے شیر اسلام کی ایک ہی للکار سے دہشت زدہ ہو کر ہتھیار ڈال دیئے.بلکہ خود سوامی دیانند جی مہاراج پر بھی سکوت مرگ طاری ہو گیا.اور اسلام کو حضور کے ہاتھوں مسلسل فتوحات نصیب ہو ئیں.واقعہ یوں ہوا کہ ۷.دسمبر۱۸۷۷ء کے آریہ سماجی لیڈر کا روح کے متعلق اعلان "" وکیل ہندوستان" وغیرہ اخبارات میں آریہ سماجی لیڈر سوامی دیانند نے روح کے متعلق اپنا یہ عقیدہ شائع کیا کہ : ارواح موجودہ بے انت ہیں اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میٹر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.اس واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے اور پاتے رہیں گے مگر کبھی ختم نہیں ہو دیں گے ".حضرت مسیح موعود کا انعامی چیلنج اس باطل عقیدے کا پبلک میں آنا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے خالق کی یہ شرمناک تو ہین اور اہانت دیکھ کر دیوانہ دار آگے بڑھے اور سفیر ہند (۹- فروری تا ۹ مارچ ۱۸۷۸ء) میں اس کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک زبر دست سلسلہ مضامین شروع کر کے یہ باطل شکن انعامی چیلنج دیا.کہ جو صاحب منجملہ توابع سوامی دیانند سرسوتی صاحب سوال ہذا کا جواب دے کر ثابت کرے کہ ارواح ہے انت ہیں اور پر میشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں.تو میں اس کو مبلغ پانچ سو روپیہ انعام دوں گا.اسلام کی پہلی فتح یہ مذہبی دنیامیں آریہ سماج کے خلاف پہلا انعام تھا جو آپ نے پیش کیا جس نے آریہ کاج کیمپ میں کھلبلی مچادی اور لاہور آریہ سماج کے سیکرٹری لالہ جیون " د اس کو سوامی دیانند کی عمومی لیڈر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے نہایت بد حواسی میں یہ اعلان کر کے پیچھا چھڑانا پڑا کہ یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے.اگر کوئی ممبر آریہ سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہئے اور اسی کو جواب دینا لازم ہے.چونکہ اس

Page 173

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۴ آریہ سماج کے خلاف جہاد اشتہار سے لوگوں کو یہ مغالطہ پیدا ہو تا تھا کہ آریہ سماج والے سوامی دیانند صاحب کے پیرو اور تابع ہیں حالا نکہ یہ بات نہیں اس لئے بغرض اشتباہ اور مغالطہ مذکور کے یہ تحریر عمل میں آئی " لاہور آریہ کاج نے تو دہشت زدہ ہو کر باد انارائن سنگھ صاحب میدان مقابلہ میں معرکہ حق وباطل میں ابتداء ہی میں اپنے ہاتھ سے شکست کے دستخط کر دیئے لیکن امرت سر آریہ سماج کے پر جوش سیکرٹری بادا نارائن سنگھ صاحب نے پہلے تو اخبار آفتاب مورخہ ۱۸- فروری ۱۸۷۸ء کے کالموں کے کالم سیاہ کئے اور روحوں کے انادی ہونے پر عجیب و غریب دلائل دیتے ہوئے تان اس پر توڑی کہ کیا تردید کرتا ہے یہ تو توہمات ہیں.اور اس کے بعد اخبار سفیر ہند مورخہ ۲۳ فروری ۱۸۷۸ء کے مباحثہ سے فرار ہونے کے لئے عجیب در عجیب موشگافیاں کیں.مثلاً لکھا کہ اشتہار میں انعام کی بجائے جرمانہ کا لفظ لکھا جائے.اور اشتہار کی ایک نقل آپ کے دستخطوں سے انہیں دی جائے.اپنے فاتح ہونے پر پیشگی اعتماد کرانے کے لئے کہا کہ روپیہ کی وصولی کی تسلی بخش صورت تجویز ہونی چاہئے تا ان کے کامیاب ہونے کی صورت میں وہ انعام غت ربود نہ ہو جائے.بار انار ائن صاحب نے جواب کا جائزہ لینے کے لئے از خود ایک بورڈ بھی تجویز کر لیا.جس کے ممبر سرسید احمد خان مرحوم فش کنہیالال صاحب اور منشی اندر من صاحب مراد آبادی نامزد کئے.کوئی دوسرا شخص ہوتا تو باد انرائن سنگھ صاحب کی الٹی سیدھی توجیہات کو ناقابل تم قرار دے کر بحث مباحثہ سے انکار کر دیتا اور ایسا کرنا بالکل معقول ہوتا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام چونکہ باطل کا سر کچلنے کا مصمم ارادہ فرما چکے تھے اور چاہتے تھے کہ آریہ سماج پر ہر طرح سے اتمام حجت کر دی جائے اس لئے آپ نے باد صاحب کے جواب الجواب کا دندان شکن جواب دیا بلکہ آئندہ مباحثہ پر آمادگی کے لئے ان کی ہر شرط سے رضامندی کا اعلان فرما دیا.انعام کے لفظ کی معقولیت کو مسکت دلائل سے ثابت کرنے کے باوجود اسے جرمانہ میں بدل دیا.اشتہار کو باقاعدہ انتشام کے اقرار نامہ کی صورت دینے پر بھی صاد کر لیا.روپیہ کی وصولی کے لئے یہ صاف طریق رکھا کہ بادا صاحب اپنا ایک نمائندہ بٹالہ بھیج کر جائزہ لیں کہ ہزاروں روپیہ کی مالیت کی جائیدادوہاں موجود بھی ہے یا نہیں ؟ مجوزہ بورڈ کے نامزد ممبروں کو خوشی سے قبول کرتے ہوئے تین اور ناموں کا اضافہ کیا اور اس اضافہ میں یہاں تک فراخدلی کا ثبوت دیا کہ حکیم محمد شریف صاحب امرت سری اور مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے علاوہ خود سوامی دیانند سرسوتی کا نام بھی بورڈ کے ممبروں میں شامل کر دیا.جو اس پوری بحث میں سب سے بڑے حریف اور مد مقابل تھے.جو آپ کی زبر دست روحانی قوت اور فاتحانہ شان کا نا قابل تردید ثبوت تھا.

Page 174

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۵ آریہ سماج کے خلاف جہاد پنڈت کھڑک سنگھ سے مباحثہ ، اس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور کا فرار اور اسلام کی دوسری فتح بادا نارائن سنگھ صاحب کے درمیان مقابلہ جاری تھا کہ آریہ سماج امرت سر کے ایک ممبر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب حضرت اقدس سے بحث کی طرح ڈالنے کے لئے قادیان آئے اور مستدعی بحث ہوئے.یہاں انکار کا سوال ہی کیا ہو سکتا تھا.حضور نے اطلاع ملتے ہی آمادگی کا اظہار فرما دیا.مقام مناظرہ سرکاری پرائمری سکول کے پاس بڑھن شاہ کا تکیہ قرار پایا اور موضوع مناظرہ " تاریخ اور مقابله دید و قرآن تجویز ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے ابطال تاریخ پر اپنا معرکتہ الاراء مضمون پڑھ کر سنایا.جس میں اپنے مخصوص علم کلام کے تحت دعوئی اور دلائل دونوں قرآن سے پیش کئے تھے.یہ مضمون پیش کرنے کے بعد حضور نے مطالبہ فرمایا کہ وہ التزام کے مطابق دیدوں سے تاریخ کا ثبوت پیش کریں.تا قرآن کے مقابل دیدوں کی حقیقت کھل جائے.پنڈت کھڑک سنگھ جن کے متعلق قادیان کے آریہ کاج نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ ایسے نامی گرامی پنڈت ہیں کہ انہیں چاروں دید کٹھ ہیں ایسے دم بخود ہوئے کہ بحث کو دوسرے دن پر ٹالنے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا.لیکن جب دوسرا دن آیا اور سامعین بڑے اشتیاق اور بے تابی سے جمع ہوئے اور جواب کے منتظر ہوئے تو اصل سوالات سے گریز کر کے کچھ اور ہی کتھا سنانا شروع کر دی.اور دلائل دید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کرتے ہوئے صرف دو شرتیاں رگوید سے پیش کیں.جن کا تاریخ سے سرے سے کوئی علاقہ ہی نہیں تھا.آخر کہا گیا کہ اگر بحث منظور ہے تو برعایت آداب مناظرہ سیدھا جواب دینا چاہیئے اس پر انہوں نے چند بے ہودہ اور لاطائل فسانے چھیڑ دیئے.مکرر توجہ دلائی گئی کہ اگر ہو سکتا ہے تو کچھ جواب دیجئے گا ورنہ ہم کتھا سنے تو نہیں آئے.اس مرحلہ پر پنڈت صاحب زچ ہو کر بولے ” جواب دینا کیا مشکل ہے اگر ہم چاہیں تو پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں لیکن گھر میں کام ہے اب فرصت نہیں " یہ گفتگو جاری تھی کہ بھائی کشن سنگھ کے بیان کے مطابق اثنائے تقریر میں آنحضرت ﷺ کے متعلق بعض اعتراضات پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے کئے اور ان کا لب و لہجہ ایسا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رنج ہوا اور حضور کے کلام میں تیزی پیدا ہو گئی.کیونکہ حضور میں بے حد غیرت دینی تھی اور خصوصاً آنحضرت ﷺ کے خلاف تو بے ادبی کا کلمہ سن کر بے تاب ہو جاتے تھے اور برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے.آخر جب فضا بگڑنے لگی تو بحث بند کر دی گئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے تشریف لے آئے.اور عدد رسول کو گھر تک پہنچانے کے لئے ایک تحریری سوال نامہ لکھا جس کا عنوان یہ تھا کہ ”سوال اور جواب کہ جس کے

Page 175

تاریخ احمدیت جلد 104 آریہ سماج کے خلاف جہاد جواب دینے سے اگر پنڈت کھڑک سنگھ خاموشی اختیار کرے گا تو اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گا“.سوال نامہ میں بطور نمونہ قرآن مجید کے اٹھارہ احکام درج کرتے ہوئے حضور نے پنڈت کھڑک سنگھ کو چیلنج دیا کہ اگر یہ پہلو دید یا بائیبل سے دکھا دے تو اسے پانچ سو روپیہ نقد انعام دیا جائے گا.جواب کے لئے آپ نے دس میں روز کی مہلت کا وعدہ بھی کیا اور پنڈت دیا نند کو مدد گار بنانے کی اجازت بھی دی.نیز نہایت جلال آمیز لہجہ میں آنحضرت ﷺ کے خلاف اس کی زبان درازی اور دریدہ دہنی پر سخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کو اگر حضرت خاتم الانبیاء پر کچھ اعتراض ہے تو زبان تہذیب سے وہ اعتراض جو سب سے بھاری ہو تحریر کر کے پیش کرو.ہم تحریر کر دیتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض تمہارا صحیح ہوا تو ہزار روپیہ ہم تم کو دیں گے.پنڈت کھڑک سنگھ جو عملا پہلے ہی میدان چھوڑ چکا تھا آپ کے اس چیلنج کی تاب نہ لاکر قادیان سے ہی بھاگ گیا.مگر اپنی خفت اور شرمندگی چھپانے کے لئے اپنے گاؤں اردو کی سے ایک مجمل ساجواب لکھ بھیجا اور پھر دید کو سلام کر کے اصطباغ لے لیا.اور ریاض ہند اور چشمہ نو را مرت سر میں اپنے لیکچر چھپوائے اور صاف لکھا کہ وید علوم الہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے.اور آریوں کا دیدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے بارے میں ایک باطل خیال ہے.اس نازک بنیاد پر وہ حال اور ابد کے لئے اپنی امیدوں کی عمارت اٹھاتے ہیں اور اس ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے ساتھ زندگی اور موت پر خوش ہیں.آریہ سماجی لیڈروں کو دوسرا چیلنج اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میدان مقابلہ کو کھڑک سنگھ تک محدود رکھنے کی بجائے آریہ کاج کے چوٹی کے لیڈروں تک وسیع کر دیا.اور ابطال تاریخ کے متعلق گذشتہ پانچ سو روپیہ کے انعامی چیلنج کے ساتھ اخبار ہندو باند ھو" میں شائع کر دیا.اور سوامی دیانند صاحب، پنڈت کھڑک سنگھ ضاحب ، بادا نارائن سنگھ صاحب، مشی جیون راس صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، مشی بختاور سنگھ صاحب ایڈیٹر ” آریہ در پن" باید ساروا پر شاد صاحب، منشی شرمیت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان ، منشی اندر من صاحب مراد آبادی کو دعوت عام دی کہ وہ اسلام اور ویدک دھرم کی اس مقدس جنگ میں مرد میدان بن کر سامنے آئیں اور انعام حاصل کریں.جواب کے موازنہ کے لئے حضور نے پادری رجب علی صاحب اور پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری کو مقرر فرمایا.سفیر ہند میں آپ کے پہلے انعامی مضمون نے آریہ سماجیوں پر سکتہ کا عالم طاری کر دیا تھا.اب جو یہ دوسرا چیلنج شائع ہوا تو دو طرفہ حملہ سے ان کے چھکے ہی چھوٹ گئے.بادا نارائن سنگھ صاحب جو پنڈت کھڑک سنگھ سے متعلق مباحثہ اور دوسرے انعامی چیلنج سے پہلے

Page 176

تاریخ احمدیت جلدا 104 آریہ کاج کے خلاف جہاد بڑے زور و شور سے شرائط مباحثہ پر الجھ رہے تھے اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے.اور کچھ عرصہ بعد آریہ سماج کے پلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شاندار کامیابی پر مہر لگادی.منشی کنہیا لال منشی بختاور سنگھ صاحب مدیر آرید درین اور بایو ساروا پر شاد میں سے بھی کسی کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی.البتہ قادیان آریہ سماج کے سیکرٹری لالہ شرمیت صاحب کو (جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرے انعامی چیلینج میں خاص طور پر مخاطب کیا تھا) اخباری دنیا میں آنے کا شوق چرایا.اور انہوں نے ابطال تاریخ کے مضمون یا پہلے چیلینج کا جواب دینے کی بجائے باد انارائن سنگھ کی خط و کتابت پر مفروضہ ثالث کی حیثیت سے ایک محاکمہ لکھ ڈالا اور اسے اگنی ہوتری کے رسالہ ہندو باند ھولا ہو ر میں بغرض اشاعت بھیجوا دیا.پنڈت شو نرائن اگنی نے شرمیت پنڈت شو نرائن اگنی کا تبصرہ اور اسلام کی تیسری فتح رائے کے مضمون کو تو اپنے رسالہ میں جگہ دے دی لیکن ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معرکتہ الاراء مضمون پر ادارتی نوٹ میں شاندار تبصرہ لکھتے ہوئے شرمپت رائے کے مضمون کے وہ بجتے ادھیڑے کہ پھر انہوں نے مرتے دم تک اخباری دنیا کا رخ نہیں کیا.اور اس طرح آریہ سماج کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ہاتھوں تیسری مرتبہ شکست فاش ہوئی.پنڈت اگنی ہوتری کے اس تاریخی تبصرہ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں.پنڈت صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابطال تاریخ والے مضمون اور چیلنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ہم نے نہایت خوشی کے ساتھ اس مضمون کو درج رسالہ کیا تھا اور یہ امید دل میں قائم کی تھی کہ اگر مرزا صاحب کے دلائل جو نہایت صاف اور اصول منطق پر مبنی ہیں مذکورہ بالا صاحبان کی سمجھ میں آجا ئیں گے تو وہ بشرط اپنے اس اصول پر صادق رہنے کے کہ "راستی کے قبول کرنے اور ناراستی کے چھوڑنے کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہئے".ضرور ہے کہ عام اور علانیہ طور سے وہ خدا کی خالقیت اور ابطال تاریخ کو تسلیم کر کے "راستی" کی تقلید کی واقعی مثال قائم کریں گے.اور اگر ان کی رائے میں مرزا صاحب کے دلائل بے بنیاد اور بے اصل ہیں تو اس بچے طریق کے ساتھ جو حق الامر کی تحقیقات کے لئے محققوں نے قائم کیا ہے مرزا صاحب کے دلائل کو اسی طرح نمبردار جس طرح مرزا صاحب نے انہیں رقم کیا ہے.کل کو یا ان میں سے کسی حصہ کو غلط ثابت کر کے اپنے عقیدہ کو تقویت دیں گے.باوجود اس کے کہ ہم نے مرزا صاحب کے مضمون کا پہلا حصہ اپنے اپریل کے رسالہ میں ختم کر دیا تھا اور یہ یقین کیا تھا کہ اثبات دعوئی کے لئے جس قدر دلائل وہ اس مضمون میں رقم کر چکے ہیں بخوبی

Page 177

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۸ آریہ سماج کے خلاف جہاد کافی ہیں.مگر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور ایک دوسرا حصہ اور تیار کر کے ہمارے پاس چھپنے کے لئے بھیج دیا ہے.اس حصہ کو ہم نے ہنوز رسالہ میں درج نہیں کیا با میں خیال کہ جو دلائل مرزا صاحب پہلے حصہ میں مشتہر کر چکے ہیں اگر انہیں کے رو کرنے کے لئے اہل آریہ تیار نہیں ہیں تو پھر مضمون مذکورہ کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ طول دینا بالفعل کچھ ضرور نہیں.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری امید بالکل خالی نہیں گئی.لالہ شرمپت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں ایک مضمون اثبات تاریخ پر ہمارے پاس بر اور ہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے.چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں.کس حیثیت کا وہ مضمون ہے اور اس کا نفس مضمون کسی سانچہ کاڑھلا ہوا ہے.اور اس کی طرز عبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے.اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا نا موافق ہے.اس کا فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں.ہاں چند کلے بطریق ہدایت دوستانہ لالہ صاحب اور نیز ان کے ہم خیال صاحبوں کے لئے یہاں پر درج کرنا مناسب خیال کرتے ہیں.اول: ہر ایک کام کے لئے اس کے موافق انسان میں ایک خاص مادہ ہونا ضروری ہے.اصول مناظرہ یا بحث بھی اس قاعدہ سے خالی نہیں.پس پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہنے یا لکھنے کی جرات کریں.ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے تئیں اصول مذکورہ کی صفت سے متصف بنالیں اور یہ کوئی آسان بات نہیں.برسوں کی تعلیم اور خاص قسم کی تربیت سے یہ ملکہ پیدا ہوتا ہے.اگر یہ ملکہ نہیں تو پھر صرف بولنا کون نہیں جانتا.حیوانات بھی ضد سے آواز بر آمد کر سکتے ہیں.دوم کسی اخبار یا رسالہ میں جس کے ہزاروں پڑھنے والے ہوتے ہیں.جب کوئی مضمون چھپوانا منظور ہو تو اس میں بالخصوص اصول مذکور کے مد نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے.کیونکہ بے سروپا نکو اس کے ساتھ کاغذ کو سیاہ کر کے ناظرین کے خیالات کو بگاڑنا ان کی طبیعت کو منتشر کرنا اور خواہ مخواہ ان کی تضیع اوقات کرنا نہ صرف راقم مضمون کے لئے بے جا ہے بلکہ ایڈیٹر کے لئے بھی (جو اندراج مضامین کے لئے پورا پور ازمہ وار ہے) یہ امرنا واجب ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ لالہ شرمیت صاحب نے کہاں تک ان اصولوں کی پابندی کی ہے.اول : جو مضمون مرزا صاحب کا ابطال تاریخ پر ہمارے رسالہ میں مشتہر ہوا ہے لالہ صاحب نے اس کا جواب مطلق نہیں دیا.دوم : باوجود مرزا صاحب کی طرف سے یہ طلب جواب خود مخاطب کئے جانے کے مضمون مذکورہ پر بطور ثالث کے رائے ظاہر کرتے ہیں ".وغیرہ پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری نے تبصرہ کے اختتام پر اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ "اگر لالہ صاحبان

Page 178

تاریخ احمدیت جلدا ۱۵۹ آریہ سماج کے خلاف جہاد عقل سلیم کو کام میں لا کر اپنے فرضی عقیدہ سے تائب ہونے کے لئے تیار نہیں تو مرزا صاحب کے وجوہ کو ہی اصول مناظرہ و منطق سے غلط ثابت کر دکھائیں.ورنہ مفت کی بے سروپا اور بے ڈھنگی بکو اس کا سلسلہ قائم رکھنا عقلمندوں کے نزدیک ایک حرکت لغو شمار کی جاتی ہے".لالہ جیون داس ، بادا نارائن سنگھ اور لالہ ٹرمپت رائے وغیرہ ایک ایک کر کے میدان سے ہٹ گئے تو آخر میں چنیوٹ مڈل سکول کے آریہ سماجی مدرس منشی گردیال صاحب نے محض تحقیق حق کے لئے اخبار آفتاب (۱۶- مئی ۱۸۷۸ء) میں چند استفسارات روحوں کے انادی ہونے کے متعلق آپ کے سامنے پیش کئے اور با ادب درخواست کی کہ ان کے شکوک کا ازالہ فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دندان شکن مضامین سے آریہ سماجی دنیا پر سکوت مرگ طاری ہو چکا تھا.اس لئے اب مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی.لیکن علمی تحقیق کی غرض سے آپ نے ایک بار پھر قلم اٹھانا ضروری سمجھا اور ان کے استخارات کا مدلل اور مسکت جواب دے کر حق تبلیغ ادا کر دیا.اسلام کی چوتھی فتح اسلام اور آریہ سماج کی اس علمی جنگ کو چھپڑے کئی ماہ ہوگئے لیکن اس دوران میں سوامی دیانند جی مہاراج جنہیں اشتہار میں باقاعدہ نام لے کر مقابلہ کی بار بار دعوت دی گئی تھی خاموش تماشائی بنے رہے اور ان پر حق کا رعب اس درجہ چھایا رہا کہ کچھ کہنے کی سکت نہ پاسکے.اور آخر مہینوں کے شدید انتظار کے بعد حضور کی خدمت میں تین آریہ سماجیوں کو یہ پیغام دے کر بھجوایا کہ اگر چہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں لیکن تاریخ اس طرح پر ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی سے باہر نکالی جاتی ہیں".سوامی دیانند کے اس کھلے اعتراف سے اسلام کو چو تھی نمایاں فتح نصیب ہوئی.پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری کا فیصلہ چنانچہ پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری نے مباحثہ کا ذکر کرتے ہوئے زور دار الفاظ میں یہ فیصلہ لکھا: سوامی دیانند سرسوتی مذہب کا جس قدر وعظ کرتے ہیں اور اس کے متعلق جن مسائل کا بیان فرماتے ہیں وہ سب دید کے موافق کہتے ہیں.ان کے مقلد یہ یقین کر کے اور وید کو خدا کا کلام مان کر اندھا دھند جو کچھ سوامی صاحب کے منہ سے سن لیتے ہیں وہ خواہ کیسا ہی علم و عقل کے مخالف ہو مگر اس کے پیرو ہو جاتے ہیں.چنانچہ چند ماہ سے بعض آریہ کاج کے لائق ممبروں اور ہمارے رسالہ کے مضمون نگار صاحب کے درمیان جو کچھ مباحثہ جاری ہے.اس سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں.سوامی صاحب کے مقلد باوجود خدا کے قائل ہونے کے سوامی جی کی ہدایت کے موافق یا یوں کہو کہ دید کے احکام کے موافق اپنا یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ ارواح بے انت یعنی لا انتہاء ہیں اور خدا ان کا پیدا

Page 179

تاریخ احمدیت.جلدا آریہ سماج کے خلاف جہاد کرنے والا نہیں ہے.اور جب سے خدا ہے تب ہی سے ارواح بھی ہیں.یعنی وہ انادی ہیں اور نیز خدا کو ارواح کی تعداد کا علم نہیں ہے ماسوائے کسی روح کو نجات ابدی حاصل نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ تاریخ یعنی اواگون کے سلسلہ میں جتلا رہتی ہے.ہم اگر چہ ان میں سے کسی مسئلہ کے قائل نہیں ہیں اور حقیقت کے مخالف ہونے کے باعث ان کو محض بے ہودہ اور لغو خیال کرتے ہیں تاہم اس رنج طبعی سے بھی ہم اپنے آپ کو بری نہیں دیکھتے کہ ہمارے بہت سے ہم وطن باوجود علم و عقل رکھنے کے پھر ان کے فیض سے فیض یاب نہیں ہوتے.اور مثل ایسے لوگوں کے جن کے دماغ علم و عقل سے خالی ہیں محض تقلید کی غلامی کرتے ہیں.باوجو د دولت رکھنے کے پھر اس کو کام میں نہیں لاتے اور مفلسانہ زندگی بسر کرتے ہیں.باوجود سو جا کے ہونے کے آفتاب نیمروز کی روشنی میں بھی اندھوں کی طرح حرکت کرتے ہیں.ابھی تک آریہ سماج والے ارواح کے بے انت ہونے کا یقین کرتے رہے ہیں.اور بائیں خیال کہ اس مسئلہ کو بھی مثل اور مسئلوں کے سوامی جی نے انہیں وید کی ہدایت کے موافق بتلایا تھا اس پر نہایت مضبوطی کے ساتھ دعوی کرتے رہے ہیں.مگر اب ہمارے مضمون نگار مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لا چار سوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں.لیکن تاریخ صحیح ہے خیر کچھ ہی ہو.مگر اس موقعہ پر ہم اپنے ناظرین پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ سوامی جی کے اس اقرار سے چار باتیں ان پر صادق آتی ہیں.اول جب کہ وہ وید کی ہدایت کے موافق آریہ سماج میں اپنے مقلدوں کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ ارواح انادی اور لا انتہاء ہیں.پھر اس کے خلاف اس مسئلہ کے باطل ثابت ہونے پر یہ اقرار کرنا کہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں.صاف دلالت کرتا ہے کہ جس کتاب کی ہدایتوں کو وہ خدا کا کلام یقین کرتے ہیں اس کے مخالف انہوں نے اپنا یقین ظاہر کیا.دوم- اگر یہ پایا جاوے کہ در حقیقت دید میں ہی لکھا ہے کہ جو انہوں نے پیچھے سے اپنا یقین ظاہر کیا ہے تو پھر اس سے یہ ضرور لازم آتا ہے.کہ ان میں خود دید کے سمجھنے کے لئے بہت بڑی لیاقت موجود ہے اور نیز دیدوں کے سمجھانے کا بھی خوب ملکہ حاصل ہے یعنی ایک وقت میں دید سے جس قسم کی ہدایت ظاہر کی جاتی ہے دوسرے وقت حسب موقعہ ٹھیک اس کے برعکس بھی بتلائی جا سکتی ہے.سوم : اگر فی الواقع یہ مسئلہ ہی دید میں موجود نہیں ہے اور سوامی جی نے صرف اپنی رائے کے موافق ہی اپنے مقلدوں کو بتلایا تھا.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوامی جی کا یہ دید عجیب ہے کہ جس میں ریلوے اور تار برقی کے علوم تک کا تو ذکر ہو.مگر خاص دھرم کے متعلق جو مسائل ہیں ان کا کچھ بیان نہ ہو.اور باوجود وید کے مقلد رہنے کے ان کو پھر اسی بچے دید کی ہدایت کا

Page 180

تاریخ احمدیت جلدا 191 آریہ سماج کے خلاف جہاد محتاج ہونا پڑے جس کو عقل کہتے ہیں.چہارم : سوامی جی کے اس برتاؤ سے کہ جس میں وہ اپنے کسی یقین کے غلط ثابت ہونے پر اس کو چھوڑ صحیح یا راست امر کی طرف رجوع کرتے ہوئے معلوم ہوتے رہے ہیں.ان کی اس عمدہ خوبی کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ ان میں انصاف پسندی کی عادت پائی جاتی ہے.چنانچہ یہ ایک مذکورہ بالا حرف اول ہے مثال نہیں ہے جس میں انہوں نے اپنے یقین کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس سے پہلے بارہا ایسا کر چکے ہیں.چند سال ہوے کان پور میں جب انہوں نے ایک اشتہار اپنا دستخطی مشتہر کیا تھا تو اس میں انہوں نے اول اول اکیس شاستروں کو ایشر کرت" (خدا کے اپنے تصنیف کئے ہوئے) قرار دیا تھا.پھر رفتہ رفتہ جب انہوں نے ان میں بہت سی خرابیاں دیکھیں تو سب کو چھوڑ چھاڑ صرف چار ویدوں کو ایشر کرت" بتلانے لگے.پھر اس کے بعد جب ویدوں کا ایک حصہ جس کو برہمن کہتے ہیں ان کی نظروں میں صحیح ثابت نہیں ہوا تو اب صرف اس کے اس حصہ کو جس کو منتر بھاگ کہتے ہیں، الہامی کہتے ہیں.اس سے اگر چہ ان کی کسی قدر متلون مزاجی بھی ظاہر ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس کے طبیعت میں راستی پسندی کا بھی ثبوت پایا جاتا ہے.ہاں اس میں صرف ایک بہت بڑی کسر یہ باقی ہے کہ وہ اول ایک چیز کی نسبت پہلے سے ایک یقین پیدا کر لیتے ہیں.پھر جب کبھی حسب اتفاق اس یقین کا بطلان انہیں معلوم ہو جاتا ہے تب اس کو چھوڑتے ہیں.مگر اس قسم کی تحقیقات کے محققوں کے اصول تحقیقات سے بالکل مخالف ہے.کیونکہ جب تم نے پہلے ہی ایک قسم کا یقین اپنے دل میں قائم کر لیا تو پھر اس میں خواہ مخواہ تمہاری طبیعت کا یہ مقتضی ہو جاتا ہے کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ سوچتے ہو رہ زیادہ تر وہی ہوتا ہے جو تمہاری طبیعت کے موافق ہو کر تمہارے پہلے قائم کئے ہوئے یقین کی اعانت کرتا ہے.پس اگر وہ یقین غلط قائم ہو گیا ہے تو اس سے نکلنا ایک دفعہ نہایت مشکل بلکہ عنقریب ناممکن ہو جاتا ہے.پس اگر سوامی جی واقعی اپنے تئیں ایک بچے محقق کی مثال بنانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ وہ پیشتر اس کے کہ تحقیقات ختم ہو کسی چیز کے موافق یا نا موافق یقین پہلے ہی سے پیدانہ کرلیں.بلکہ ثالث بالخیر ہو کر مثل ایک بچے (محقق کے) جب مقدمہ کی کل تحقیقات ختم ہو جائے تب فیصلہ کو دخل دیں.کاش کہ ہمارے فاضل سوامی جی اب بھی دیدوں کے منتر بھاگ کو پہلے سے ہی الہامی ماننے سے گریز کریں.اور بعد تحقیقات کامل کے کہ جو انیسویں صدی میں چنداں مشکل نہیں ہے پھر حسب نتیجہ اپنی رائے کو قائم کریں.نیز اب ہم یہ جانا چاہتے ہیں کہ امرت سر آریہ سماج کے لائق سیکرٹری باد انرائن سنگھ صاحب اور نیز ان کے دیگر دید بھائیوں نے پہلے جس زورو شور کے ساتھ سوامی جی کی ہدایت کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کا دم بھرتے تھے اسی سرگرمی اور شدومد کے ساتھ وہ اپنے پہلے یقین کے بر عکس سوامی جی کے پچھلے اقرار کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کے مسئلہ

Page 181

تاریخ احمدیت جلد 197 آریہ سماج کے خلاف جہاد پر یقین کرنے کو مستعد ہیں یا نہیں ".سوامی دیانند جی نے اعتراف حقیقت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مباحثہ کی دعوت دی جسے حضرت اقدس نے ۱۰ جون ۱۸۷۸ء کو بلا تامل منظور فرمالیا اور سوامی جی کو یہ اختیار دیا کہ وہ مباحثہ کے مقام و تاریخ خود ہی معین کر کے اخبار میں اعلان کر دیں.لیکن سوامی دیانند جنہوں نے پہلے از خود دعوت دی تھی خود ہی میدان مباحثہ سے گریز کر گئے.ایک آریہ سماجی مصنف کا بیان ایک آریہ سماجی اپنی کتاب " آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا میں اس فرار کی ایک فرضی وجہ بیان کرتے اور آریہ سماجی تحریک کے خوفناک اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: اجمیر سے چل کر سوامی دیانند چاند پور پہنچے اور مسلمانوں سے زبر دست مناظرہ کیا.مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی عبد المنصور صاحب پیش ہوئے اور ان کی مدد کے لئے بہت سے مولوی جمع تھے.لیکن سوامی جی مہاراج کے ساتھ صرف منشی بختاور سنگھ اور منشی اندرمن مراد آبادی تھے.سوامی جی نے اعتراضات کی اس قدر بھر مار کی کہ مولوی ان کا کوئی جواب نہ دے سکے اور میدان چھوڑ کر بھاگ گئے.جس کا یہ اثر ہوا کہ مولوی نور اللہ صاحب کئی مسلمانوں کے سمیت آریہ ہو گئے.انہی ایام میں ایک ہزار کے قریب اور مسلمان بھی آریہ ہو گئے.آریہ ویروں نے جگہ جگہ شدھی سبھا قائم کر کے مسلمانوں میں پر چار کرنا شروع کر دیا.اگر آریہ سماجی دوست اس پو تر کام کو جاری رکھتے تو مسلمانوں کا ایک کثیر حصہ ویدک دھرم کی شرن میں آجاتا.لیکن آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو موقع مل گیا.اس نے آریہ سماج کے خلاف سفیر ہند امرت سر میں مضامین کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا اور اس میں سوامی دیانند جی مہاراج کو بھی چیلنج دیا.چونکہ سوامی دیانند جی مہاراج ان دنوں راجستھان کا دورہ کر رہے تھے.اس لئے انہوں نے بختاور سنگھ اور منشی اند ر من مراد آبادی سے کہا کہ وہ ان کا چیلنج منظور کرلیں.لیکن افسوس ہے کہ انہی ایام میں بعض وجوہ کی بناء پر سوامی جی نے اندر من مراد آبادی کو آریہ سماج سے نکال دیا.اس لئے یہ مناظرہ نہ ہو سکا.مرزا غلام احمد نے اس اور گھٹنا سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آریوں کے خلاف ایساز ہر بلا لٹریچر لکھا کہ جس نے مسلمانوں کے دلوں میں آریہ دھرم کے متعلق سخت نفرت پیدا کر دی.حقیقت یہ ہے کہ یہ توجیہہ محض سوامی جی کے فرار پر پردہ ڈالنے کے لئے ہے.رسالہ جیون دھرم (۱۵- جولائی ۱۸۸۶ء) لکھتا ہے کہ "پنڈت دیا نند صاحب جاتے وقت اشاروں کنایوں سے بعض معزز برہمو صاحبوں کو سمجھا گئے تھے کہ اب میرا ایمان دیدوں پر نہیں رہا.پس جب سوامی صاحب

Page 182

تاریخ احمدیت جلدا 147 آریہ سماج کے خلاف جہاد حضرت مسیح موعود کے زبر دست مضامین کے باعث) دیدوں سے در پردہ محرف ہو گئے تھے تو وہ میدان مناظرہ میں قدم رکھنے کی جرات ہی کیسے کر سکتے تھے.؟؟ آریہ سماج کے بعد برہمو سماج سے تحریری مباحثہ آریہ سماج کے قیام سے پچپن برس پیشتر مشہور ہندو لیڈر راجہ رام موہن رائے نے پر ہمو سماج کے نام سے ایک جدید مذہب اختراع کیا جس کی تمام تر بنیاد عقل کی قیادت اور الہام کے انکار پر تھی راجہ رام موہن رائے کے بعد بر ہمو سماج تحریک متعدد شاخوں میں منقسم ہو گئی.اور ابتداء میں ان کے لیڈر مرشی و بند رو ناتھ ٹیگور ، بابو کیشب چندرسین اور غالیا با یوراج نرائن بوس بنے.پنجاب میں بر ہمو سماج کے مشہور اور سرگرم پر چارک پنڈت نرائن اگنی ہوتری تھے.جن کے اخبار ” ہندو باند ھو " کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آریہ سماج کے مقابلہ کے لئے منتخب فرمایا تھا.اور جس میں پنڈت صاحب موصوف نے ثالث کی حیثیت سے آریہ سماج کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل کی برتری کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا تھا.اب جو آریہ سماجی لیڈر چاروں شانے چت گر چکے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خود پنڈت اگنی ہوتری سے ضرورت الہام کے متعلق پرائیویٹ تحریری مباحثہ شروع ہو گیا.جو ۲۱ - مئی ۱۸۷۹ء سے ۱۷- جون ۱۸۷۹ء تک جاری رہا.دوران مباحثہ میں پنڈت صاحب نے لکھا کہ اس پرائیویٹ گفتگو کو اخبار میں شائع کرنا شروع کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے یہ تجویز پیش فرمائی کہ ایک فاضل نامی گرامی بر ہمو سماجی مثلاً مسٹر کیشپ چند رسین اور ایک انگریز کو بطور ثالث نامزد کر کے ان کی رائے بھی شامل اشاعت کی جائے جو محض اس قدر فیصلہ پر اکتفانہ کریں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یادہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل اپنے بیان سے توڑیں یا بحال رکھیں تا قارئین کو اصل نتیجہ تک پہنچنے میں آسانی ہو.پنڈت شو نرائن کو جب یہ تجویز پہنچی تو وہ سنائے میں آگئے.اور بار جو دیکہ حضرت اقدس نے ثاثوں میں برہمو سماجی لیڈر اور ایک غیر جانبدار انگریز رکھا تھا اور کسی مسلمان کو اس میں شامل نہیں کیا تھا بلکہ ان کی نامزدگی کا معاملہ بھی انہی پر چھوڑا تھا.مگر انہوں نے یہ معقول اور سراسر مفید تجویز تسلیم کرنے کی بجائے صرف گذشتہ خط و کتابت ہی شائع کر کے بالکل سکوت اختیار کر لیا.پھر آٹھ سال گزرے تو ۱۶- فروری ۱۸۸۷ء کو برہمو سماج کو خیر باد کہہ دیا اور ایک تیسرا فرقہ دیو سماج " نامی قائم کر لیا.پہلے تو وہ فقط ضرورت الہام کے قائل نہیں تھے.اب حق و صداقت کے مقابلہ کا عبرت ناک انجام یہ ہوا کہ " مہامانیہ پوجنیه بر شری دیو گورد بھگوان بن کر خدا کے بھی منکر ہو گئے " - 1 31

Page 183

تاریخ احمدیت.جلدا 14 آریہ سماج کے خلاف جہاد برہمو سماج تحریک کی ناکامی آریہ سماج کی طرح برہمو سماج تحریک کو ناکام بنانے کا سہرا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سر ہے.چنانچہ برہمو سماج کے ایک مشہور اپدیشک دیو نند رناتھ سہائے لکھتے ہیں: "برہمو سماج کی تحریک ایک زبر دست طوفان کی طرح اٹھی اور آنا نانا نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہو گئیں.بھارت میں نہ صرف ہندو اور سکھ ہی اس سے متاثر ہوئے بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی.روزانہ بیسیوں مسلمان برہمو سماج میں پر دلیش یعنی داخل ہوئے اس کی دیکھتا لیتے ہمیں معلوم ہے کہ بنگال کے بڑے بڑے مسلم خاندان برہمو سماج کے ساتھ نہ صرف سمت تھے بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر تھے.لیکن عین انہی دنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جو مسلمانوں میں ایک بڑے عالم تھے ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھیں اور ان کو مناظرے کے لئے چیلنج دیا.افسوس ہے کہ برہمو سماج کے کسی دروان نے اس چیلنج کی طرف توجہ نہیں کی.جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو کہ برہمو سماج کی تعلیم سے متاثر تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ باقاعدہ برہمو سماج میں داخل ہونے والے مسلمان بھی آہستہ آہستہ اسے چھوڑ گئے ؟ ایک اور برہمو سماجی رام داس گوڑا اپنی کتاب ”ہندو تو " میں لکھتے ہیں: یر ہمو سماج نے ہندو سنکرتی کی بندھی مریادا کو رستہ و سترت (عام) کر دیا کہ بر ہمو سماج کے ممبر عیسائی اور مسلمان بھی ہو سکتے ہیں.اگر چہ بعض لوگوں کو اس میں اختلاف تھا.یہی کا رن تھا کہ اس میں دو فریق ہو گئے تھے.ایک فریق کا کہنا تھا کہ سکرتی کو بدل کر ایسا بنانا چاہئے کہ سب مذاہب والے اس میں آسانی سے رہ سکیں.لیکن دوسرا فریق اس کی مخالفت کرتا تھا.اس کا کہنا تھا کہ ہمیں غیر مذاہب والوں کو اپنے اندر شامل کرتے ہوئے ہندو سکرتی کو بھولنا نہیں چاہئے.راجہ رام موہن رائے کی زبر دست شخصیت نے انگلستان اور امریکہ میں برہمو سماج کو یونی ٹیرین چرچ کی شکل میں قائم کیا اور سینکڑوں خاندانوں نے آپ کے ہاتھ پر برہمو سماج کی دیکھثالی.لیکن افسوس ہے کہ بھارت کے مسلمانوں پر قادیانی سمپر دائے (فرقہ) کی وجہ سے بہت برا پر بھار پڑا.اور مسلمانوں میں سے شردھالو جو برہمو سماج کے نیموں سے پر بھاوت ہو چکے تھے قریب قریب پیچھے ہٹ گئے ".غالباً اسی سال کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح ایک رات میں بے مثال روحانی انقلا • موعود عليه الصلوۃ والسلام ایک سفر کے دوران میں گورداسپور میں تشریف فرما تھے کہ آپ کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ مولانا مولوی عبد اللہ

Page 184

تاریخ احمدیت جلدا 140 آریہ سماج کے خلاف جہاد غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ وفات قریب ہے آنکھ کھلنے کے بعد آپ نے محسوس کیا کہ ایک آسمانی کشش آپ کے اندر کام کر رہی ہے.یہاں تک کہ وحی الہی کا سلسلہ جاری ہو گیا اور پھر ایک ہی رات میں آپ کے اندر بے مثال روحانی انقلاب برپا ہو گیا چنانچہ خود فرماتے ہیں: وہی ایک رات تھی جس میں اللہ تعالٰی نے تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہو گئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہو سکتی تھی".۲۵ اس دور کی حضرت مسیح موعود علیہ اس دور کی شاندار اسلامی خدمات کا اعتراف الصلوة والسلام کی اسلامی خدمات عیسائیت ، آریہ سماج اور برہمو سماج کے ابطال میں اتنی بلند پایہ رفع القدر اور شاندار تھیں کہ آج تک غیر از جماعت مسلم لیڈر بھی ان کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں.مثلاً سید حبیب صاحب سابق مدیر "سیاست" تحریک قادیان" میں لکھتے ہیں: ندر ۱۸۵۷ء کی تمام ذمہ داری بے جا طور پر مسلمانوں کے سرمنڈھ دی گئی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارباب حکومت کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے بغض پیدا ہو گیا ادھر مسلمانوں کے علماء نے حکومت انگلشیہ سے ہر قسم کے تعاون کو گناہ قرار دے کر اعلان کر دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے.نیز بین الاقوامی معاملات نے بھی ایسی صورت اختیار کرلی کہ مسلمانوں اور انگریزوں کے تعلقات اچھے نہ رہے.مسلمانوں نے علماء کے فتاری کے باعث انگریزی مدارس سے جو تعلیم کی روشنی کو واپس لانے والے تھے ، اجتناب کیا.مساجد اجڑی پڑی تھیں.مکاتب کا نشان مٹ چکا تھا.صوفیاء کے تکیئے حدیث شریف و قرآن مجید کے مسائل کی جگہ بھنگ نواز دوستوں کی گپ باز می کا مرکز بن چکے تھے.غرض حالت یہ تھی کہ مسلمان حکام وقت کا چور بنا ہوا تھا.حکومت اس کے ہاتھوں سے چھن چکی تھی.تجارت سے اس کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا.تعلیم اس کے ہاں سے غائب ہو چکی تھی.اور جاہل ماں باپ، جاہل تر اولاد پیدا کر رہے تھے.بے کاری ، مفلسی اور حکومت کے عتاب نے مسلمانوں کو ایک قابل نفرت چیز بنا دیا تھا.مسیحی پادری ہمیشہ تسلیم کرتے رہے ہیں کہ دنیا میں ان کے عقائد کے لئے اگر کوئی خطرہ موجود ہے تو اس کا نام اسلام ہے.وہ اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو بہکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے.انہوں نے اس وقت کو غنیمت اور اس موقعہ کو بے حد مناسب جان کر مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ایک عالمگیر جد و جہد شروع کی جس کا سلسلہ ۱۸۶۰ء سے لے کر ۱۹۰۳ء کے بعد تک بڑے زور و شور سے قائم رہا.بے کار مسلمان مسیحی ہو کر روزگار حاصل کر لیتے تھے.تلاش مسلمان مالی لحاظ سے بہتر حالت میں ہو

Page 185

تاریخ احمدیت.جلدا 194 آریہ سماج کے خلاف جہاد جاتے تھے.اور غداری کا داغ جو ان کے لئے بے حد پریشان کن تھا.وہ بپتسمہ کے پانی کے ساتھ ان کی پیشانی سے دھل جاتا تھا.یہ ترغیبات کچھ معمولی نہ تھیں.زر ، حکومت اور ثروت کی ترغیب سے اگر کسی اور دین کا واسطہ پڑتا تو مٹ جاتا.یہ اسلام ہی کا کام تھا کہ وہ اس بے پناہ حملہ سے محفوظ رہا.و الحمد لله علی ذالک عیسائیوں کے ان حملوں سے ہندو بھی محفوظ نہ تھے.لیکن اول تو وہ جدید تعلیم حاصل کر کے پرانی جہالت کے ازالہ میں مصروف ہو گئے تھے.دوسرے ان کے پاس تجارت اور دولت موجود تھی.لہذا یہ نہ قلاش و مفلس تھے نہ بے روزگار.تیسرے یہ حکومت کے عتاب سے محفوظ تھے.بلکہ یوں کہئے کہ اس کے لطف کا نشانہ بنے ہوئے تھے.لہذا انہیں وہ خطرات درپیش نہ تھے جو مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو چکے تھے.مسلمانوں کو بہکانے کے لئے عیسائیوں نے دین حقہ اسلام اور اس کے بانی پر بے پناہ حملے شروع کر دیے جن کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا.آخر زمانہ نے تین آدمی ان کے مقابلہ کے لئے پیدا کئے.ہندوؤں میں سے سوامی شری دیانند جی مہاراج نے جنم لے کر آریہ دھرم کی بنیاد ڈالی اور عیسائی حملہ آوروں کا مقابلہ شروع کیا مسلمانوں میں سرسید علیہ الرحمہ نے سپر سنبھالی اور ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں اترے.سرسید احمد علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کے سر سے غداری کا الزام دور کرنے کی کوشش کی اور انہیں تعلیم جدید کی طرف متوجہ کیا اور ساتھ ہی مسیحیوں کے حملوں کا جواب دے کر شریعت حقہ کی حمایت کرنے لگے.غدر کا الزام آج تک مسلمانوں کے سر پر موجود ہے.البتہ جدید تعلیم کی ترویج میں سرسید کو غیر معمولی کامیابی ہوئی.ان کی سیاسی رہنمائی بھی صحیح ثابت ہوئی اور مسلمان ایک عرصہ تک اس رہنمائی سے روگردانی کرنے کے بعد آج پھر لاچار ہو کر انہی کے اصولوں کو اختیار کر کے کامیاب ہو رہے ہیں.مذہبی جملوں کا جواب دینے میں البتہ سرسید کامیاب نہیں ہوئے.اس لئے کہ انہوں نے ہر معجزے سے انکار کیا اور ہر مسئلہ کو بزعم خود عقل انسانی کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی.نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں بچے کھچے جو علماء بھی موجود تھے ان میں اور سرسید میں ٹھن گئی.کفر کے فتوے شائع ہوئے اور بہت غلاظت اچھلی نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی پرو پیگنڈہ زور پکڑ گیا اور علی گڑھ کالج مسلمانوں کی بجائے ایک قسم کے محمد پیدا کر نے لگا.یہ لوگ محض اتفاقی پیدائش کی وجہ سے مسلمان ہوتے تھے ور نہ انہیں اسلام پر کوئی اعتقاد نہ ہو تا تھا....

Page 186

تاریخ احمدیت.جلدا 146 آریہ سماج کے خلاف جہاد اس وقت کہ آریا اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے.اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے.وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا.اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے.اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریا اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا.میں مرزا صاحب کے ادعائے نبوت وغیرہ کی قلعی کھول چکا ہوں لیکن بقولیکه ع عیب دی جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو.مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں.کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیے."اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لاجواب ہیں اور میں کہ سکتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب اپنی کامیابی سے متاثر ہو کر نبوت کا دعوی نہ کرتے تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم مانتے.لیکن افسوس ہے کہ جس کی ابتداء اچھی تھی انتہا ء وہ نہ رہی جو ہونا چاہئے تھی.مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو اپنے خدام کی قدر کرتی ہے.عیسائیوں اور آریاؤں کے مقابلہ میں مرزا صاحب کی خدمات کی وجہ سے مسلمانوں نے انہیں سر پر بٹھایا اور دلوں میں جگہ دی.مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم اور مولانا ثناء اللہ امرتسری جیسے بزرگ ان کے حامی اور معترف تھے اور ان ہی کے نام کا ڈنکا بجاتے تھے.غرض مرزا صاحب کی کامیابی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جبکہ جہالت مسلمانوں پر قابض تھی اور اسلام مسیحی اور آریہ مبلغین کے طعن و تشنیع کا مور د بنا ہوا تھا.مرزا صاحب نے اس حالت سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف سے سینہ سپر ہو کر اغیار کا مقابلہ کیا".

Page 187

تاریخ احمدیت جلدا 14A آریہ سماج کے خلاف جہاد 4 - حواشی ۱۸۵۷ء کے حالات پر بہت کچھ رنگ آمیزی کی گئی ہے.لیکن بعض مستند واقعات اور قرائن سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہے کہ اس "انقلاب" میں بہادر شاہ ظفر اور دوسرے مسلمان محض آلہ کار بنائے گئے تھے.دراصل اس تحریک کے اٹھانے والے ہندو تھے اور تلنگوؤں کی بغاوت کے پیچھے ہندو راج کے قیام کا منصوبہ کار فرما تھا.چنانچہ مشہور مورخ مولاناز کاء اللہ لکھتے ہیں."اول حکم بادشاہ کا جو صادر ہوا وہ یہ تھا کہ گائے ذبح نہیں کی جائے گی.9 جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منہ سے اڑایا جائے گا.بقر عید کو گائے کی قربانی منع کی گئی.اگر بادشاہ کو اختیار ہو نا تو وہ کیوں ہندو راجہ کے سے احکام دیتا مگر تلنگوں کے ہاتھ سے مجبور تھا جو اس نے اپنی مرضی اور مذہب کے خلاف یہ حکم دیئے مسلمانوں کو یہ بادشاہی احکام ناگوار گزرے اور انہوں نے کہا یہ اسلام کی بادشاہی نہیں یہ تو ہندوؤں کا راج ہے.مسلمانوں نے ایک دفعہ اپنا محمد کی جھنڈا ہندووں پر جہاد کے لئے لگایا.دوسری دفعہ مولوی محمد سعید نے جامع مسجد میں یہ جھنڈا کھڑا کیا تو بادشاہ نے ان سے کہا کہ یہ کس کے لئے ہے.انگریز تو شہر میں باقی نہیں.تو انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کے لئے لگایا ہے.بادشاہ نے ان کو یہ سمجھا کر اس جھنڈے کو اکھڑوا دیا کہ سارے تلنگے ہندو ہیں ان سے بے چارے مسلمان کیا لڑیں گے " ( تاریخ عروج عهد سلطنت انگلشیہ ہند صفحه ۶۷۰ مطبوعه ۱۳۲۲ھ / ۱۹۰۴ء مشمس المطابع دہلی) اس غرض کی تکمیل کے لئے سوامی دیانند نے ستیارتھ پرکاش " جیسی رسوائے عالم کتاب لکھی.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سوامی دیانند اور ان کی تعلیم " مرتبہ مولانا خواجہ غلام الحسنین پانی پتی مطبوعہ ۱۹۳۲ء شائع کرده اور نینٹل پبلک لائبریری پانی پت - صفحہ ۱۲۲٬۱۱۹ ۲۹۶۲۹۱۷۷۱۷۵- نام "لا کف آن احمد " صفحہ 1 تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۲۱ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب مطبوعہ اپریل ۱۹۱۸ ء اسی دوران میں حضور نے آریہ سماجی عقیدہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے ایک نظم بھی لکھی تھی جو منشور محمدی میں شائع ہوئی (ملاحظہ ہو الحکم ۷ تا ۲۸.مئی ۱۹۴۲ء صفحه ۴) حیات النبی جلد اول نمبر ۲ صفحه ۱۱۳ و تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۸ -۷ پرانی تحریریں صفحہ ۲۷ تا نے ۱۳ طبع سوم بیڈ پر تالیف و اشاعت قادیان دسمبر ۱۹۲۵ء) و تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۲ تا ۶ ايضا و مکتوبات احمد یہ جلد دوم نمبر ۳ مجدد اعظم " جلد اول صفحہ ۸۲ پر لکھا ہے کہ " سردار سنت سنگھ صاحب مسلمان ہو کر عبدالرحمن بن چکے اور ان کی بیوی بھی مسلمان ہو چکیں.ادھر حضرت مرزا صاحب کے مضامین نے اخبارات میں دھوم مچارکھی تھی اور آریہ سماج کے دھرے بکھیر دیئے تھے تو قادیان کے آریوں نے پنڈت کھڑک سنگھ کو حضرت مرزا صاحب سے مبالے کے لئے بلایا.ان الفاظ میں سردار سنت سنگھ کے قبول اسلام کے واقعہ کو پنڈت کھڑک سنگھ کی آمد کی ایک وجہ بتایا گیا ہے جو تاریخی لحاظ سے غلط ہے.کیونکہ اسی صفحہ پر قبول اسلام کی معین تاریخ ۲۳ جمادی الاولی ۱۳۰۱ھ درج ہے جو سمسی حساب کے مطابق ۲۲ فروری ۱۸۸۴ء بنتی ہے التوفیقات الالہامیہ ) پس فروری ۱۸۸۴ء کا واقعہ ۱۸۷۸ء کی کسی دعوت و تحریک کا موجب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے.؟؟ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۴۱ تا ۴۷ شحنه حق صفحه ۲۴۰ طبع اول ریاض ہند پریس امرتسر ۱۸۸۸ء حیات احمد جلد اول نمبر ۳ صفحه ۲۳۵٬۲۱۹٬۲۱۵٬۲۱۲ تا ۲۴۰ - مکتوبات احمد یہ جلد دوم نمبر ۲ صفحه ۷۱٬۵۹۴٬۵۳٬۴۴۱ ۷۵ ۷۸۴ حیات احمر صفحه ۲۴۰٬۲۳۸٬۲۳۶ شحنه حق صفحه ۲۴ پرانی تحریریں صفحہ ۱ تا ۱۴ حیات النبی صفحہ ۱۲۰ ۱۲۲ ۱۳۱۴۱۲۳ تبلیغ رسالت صفحه ۶۰۲ ۱۳ متن میں وسموا چھوٹ گئی ہے.مرتب)

Page 188

تاریخ احمدیت جلدا ۱۴ بحوالہ حیات احمد صفحه ۲۲۱ تا ۲۲۴ -10 149 پرانی تحریریں صفحہ ۲۰۰۳۸ ناشر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان دسمبر ۱۹۲۵ء- آریہ سماج کے خلاف جہاد حاشیه تبلیغ رسالت جلد نمبر صفحہ کے طبع اول اپریل ۱۹۱۸ء د مکتوبات احمدیہ جلد ۲ نمبر ۳ صفحه ۷۰ اے ناشر بدر ایجنسی قادیان دسمبر ۰۶۱۹۱۲ ا بر اور ہند جولائی ۱۸۷۸ء بحوالہ حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۴-۱۸ AM کتاب " آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا صفحه ۱۳ مولفہ مباشہ دیورت).۱۹ بحوالہ سرمه چشم آریہ طبع دوم صفحه ۱۳۴ ۲۰ پر ہمو سماج کے متعلق معلومات کے لئے اخبار پیغام صلح -۵- جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۲-۳ ملاحظہ ہو.نیز سوامی دیانند اور ان کی تعلیم صفحه ۸۳ ۲۱ ولادت ۱۸۳۸ ء وفات جنوری ۶۱۸۸۳ ۲۲ ویو آتما اور اس کا الولک جیون برت" (مطبوعہ نول کشور گیس پر تنگ در کس لاہور دسمبر 1911ء) انسانی دنیا میں ایک لاثانی ظهور " (مطبوعہ اگست ۱۹۰۹ء) "دیو سماج کے بارے میں مختصر بات چیت ۳ مطبوعہ اگست ۱۹۱۲ء ۲۳ رساله "کومدی " کلکته اگست ۱۹۲۰ء ( ہندی سے ترجمہ ) مترجم ماشہ محمد عمر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ -۲۴ ہندو تو صفحه ۹۸۲ مصنفہ رام داس گوڑ ہندی سے ترجمہ) " ۲۵- نزول اصیح صفحه ۲۳۷ ۲۶ " تحریک قادیان" از مولانا سید حبیب صاحب سابق مدیر "سیاست ۳ مطبوعہ ۱۹۳۳ء مقبول عام پریس لاہور صفحہ ۷ ۲۱۰۲۰

Page 189

تاریخ احمدیت جلد براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت باب یازدهم براہین احمدیہ کی انقلاب انگیز تصنیف و اشاعت دنیائے مذاہب میں زبر دست تہلکہ (۱۸۸۰ تا ۱۸۸۴) بالخصوص آریہ سماج کے خلاف قلمی جنگ کے دوران براہین احمدیہ کی تالیف کا پس منظر میں آپ کے دل میں یکا یک یہ غیبی تحریک پیدا ہوئی کہ معرکہ حق و باطل کے اس نازک ترین دور میں جبکہ عیسائیت ، آریہ سماج ، برہمو سماج وغیرہ منظم شکل میں اسلام پر حملہ آور ہیں.دین مصطفیٰ کے دفاع کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے جس میں باطل کے اس مرکب حملہ کا علمی اور عملی، عقلی اور منقولی سب ہی ہتھیاروں سے دندان شکن جواب دیا جائے.اور اپنے روحانی تجربات اور حقانیت اسلام کے تازہ نشانوں کو پیش کر کے اسلام کی فضیلت اور خاتم النبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت اور قرآن مجید کی فوقیت اور برتری کے ثبوت میں اندرونی اور بیرونی ماضی اور حال کے زبردست دلائل کی ایک ایسی عظیم الشان صف بستہ فوج کھڑی کر دی جائے کہ دشمن کے مورچے بے کار ہو جائیں اور اسلام فاتحانہ شان کے ساتھ ہر قلب سلیم میں داخل ہو جائے.چنانچہ یہ خیال آتے ہی دین حق کے سپہ سالار نے ہاتھ میں قلم لیا اور روح القدس کی تائید سے نہایت مختصر وقت میں ایک معرکتہ الاراء کتاب تصنیف کر ڈالی.یہ کتاب آپ کی پہلی اور شہرہ آفاق تصنیف " براہین احمدیہ " تھی.براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق حضور کا ایک کشف میں وہ مبارک کتاب تھی جس یہی کے متعلق مدتوں قبل عالم شباب میں بذریعہ کشف آپ کو خبر دی گئی تھی کہ قطبی نام کی ایک کتاب لکھنا آپ کے لئے مقدر ہے - 1 اس کتاب کو قطبی اس لئے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے مضبوط دلائل اور مستحکم اور غیر متزلزل براہین اور انوار و برکات کے لحاظ سے قطب ستارہ کی حیثیت میں افق پر طلوع ہوگی اور جس طرح قطب ستارہ سے قبلہ

Page 190

تاریخ احمدیت.جلدا براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کی تعین کی جاتی ہے اسی طرح دنیا بھر کو یہ کتاب کعبتہ اللہ کے روحانی پیکر اسلام کی طرف راہ نمائی کرنے کا موجب بنے گی.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس مایہ ناز تصنیف کے دلائل و براہین کے ناقابل تردید اور اٹل ہونے پر اس درجہ یقین اور ایمان تھا کہ ۱۸۸۰ء میں جب اس کتاب کا پہلا حصہ شائع ہوا تو اس میں آپ نے مذاہب عالم کو دس ہزار روپیہ کا انعامی چیلنج دیتے ہوئے یہ پر شوکت اعلان فرمایا کہ جو شخص حقیقت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے ان دلا کل کا جو قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش فرمائے ہیں اپنی الہامی کتاب میں آدھایا تھائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ ہی نکال کر دکھلائے.یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو حضور ہی کے دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو آپ بلا تامل اپنی دس ہزار کی جائیداد اس کے حوالہ کر دیں گے.بشرطیکہ تین جوں پر مشتمل مسلمہ بورڈ یہ فیصلہ دے کہ شرائط کے مطابق جواب تحریر کر دیا گیا ہے.واقعاتی لحاظ سے بھی براہین احمدیہ ہر جہت سے قطبی ثابت ہوئی اور غیر مذاہب کے مقابل اسلام کی ترقی و سرفرازی کا موجب بنی.براہین احمدیہ سے قبل کفر و الحاد کا سیلاب جو نہایت تیزی سے بڑھ رہا تھا اس کے منصہ شہود پر آتے ہی یکسر پلٹ گیا اور عیسائیت کا وہ فولادی قلعہ جس کی پشت پناہی ۱۸۵۷ء کے بعد حکومت کی پوری مشینری کر رہی تھی پاش پاش ہو گیا.اور ہمیں یقین ہے کہ مستقبل میں اسلام کی طرف سے کفر کے خلاف آخری جو روحانی جنگ ہونے والی ہے وہ انہی ہتھیاروں سے لڑی جائے گی جو براہین احمدیہ کے روحانی اسلحہ خانہ میں پہلے سے موجود ہیں.اور بالا خراسی قطب ستارہ کی قیادت میں دنیا کا قافلہ اسلام کی طرف روانہ ہو گا.اور اس طرح کشف مذکورہ کا وہ حصہ بھی پورا ہو جائے گا.جس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے ہاتھ سے دین مصطفیٰ کو پھر سے شان و شوکت بخشے گا اور دائمی غلبہ عطا کرے گا.مشہور برطانوی مورخ پروفیسر آرنلڈ ٹوئن کی اپنے لیکچر " دور حاضر کا چیلنج" (The Challang of our era) میں کہتے ہیں.” وہ وقت قریب آرہا ہے جب دہریت عنقا ہو جائے گی اور تمام دنیا پھر نہ ہی بھیس میں جلوہ گر ہوگی مگر کہا نہیں جا سکتا کہ وہ کس مذہب کو قبول کرے گی".دراصل یہ دنیا کے حقیقی مذہب اسلام کی آمد کا ایک نظارہ ہے جو دنیا کے بڑے بڑے سائینسدانوں کو مستقبل کے دھندلکوں میں افق سے دور آج بھی دکھائی دے رہا ہے.مادی دنیا گو ابھی اپنی کو تاہ نظری اور بے بصیرتی کے باعث ابھی آنے والے شہنشاہ کو شناخت نہیں کر سکی تاہم وہ جلد یا بذیر اسے دل کی روشنی سے پہچانے گی.اس کا گرم جوشی سے استقبال کرے گی اور اپنی آنکھیں اس کے لئے فرش راہ کر دے گی.اور یہی وہ وقت ہو گا جبکہ خدائی کشف کے مطابق حضرت محمد مصطفیٰ ابدی جاہ و جلال کے تخت پر پوری شان سے جلوہ گر ہوں گے.1

Page 191

تاریخ احمدیت.جلدا براہین احمدیہ کو ملک بھر کے مسلم " حلقوں براہین احمدیہ اشتهاري براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت " کا پہلا حصہ اگر چہ اکثر و بیشتر مشتمل تھا.لیکن اس کا منظر عام پر آنا ہی کی طرف سے بے مثال خراج عقیدت تھا کہ ملک کے طول و عرض میں ایک زبر دست تہلکہ مچ گیا.مسلمانان ہند نے جو کفر کے پے در پے حملوں سے نڈھال ہو بیٹھے تھے خوشی اور مسرت سے تمتما اٹھے اور حضور کو بے مثال خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے اسلامی مدافعت کا زبر دست شاہکار قرار دیا.tt براہین احمدیہ کے محاسن و کمالات پر سب سے مبسوط اور زور دار ریویو ملک کے اہل حدیث لیڈر ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ ” اشاعتہ السنہ " جلد ہفتم (نمبر 4 -11) میں لکھا.جو قریبا دو سو صفحات کو محیط تھا.اور اس میں اس کتاب کو اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد اسلامی خدمت قرار دیا گیا تھا.یہ تبصرہ اس لحاظ سے خاص وقعت رکھتا تھا کہ یہ ملک کے ایک چوٹی کے ذمہ دار عالم کے قلم سے نکلا جس کا اس زمانہ میں طوطی بول رہا تھا اور جس کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی.یہ تاریخی تبصرہ ان الفاظ سے شروع ہو تا تھا: ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں- لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑا اٹھا لیا ہو.اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعوی کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو.وہ ہمارے پاس آکر تجربہ و مشاہدہ کرلے.اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو".حضرت اقدس کے الہامات کے متعلق غیروں کی شہادت سے لکھا کہ : مولف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کے رد سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پر ہیز گار اور صداقت شعار ہیں.اور نیز شیطانی القاء اکثر جھوٹ نکلتے ہیں اور الہامات مولف براہین سے (انگریزی میں ہوں خواہ ہندی و عربی وغیرہ) آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا

Page 192

تاریخ احمدیت.جلدا براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت (چنانچہ ان کے مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے گو ہم کو ذاتی تجربہ نہیں ہوا) پھر وہ القاء شیطانی کیونکر ہو سکتا ہے.کیا کسی مسلمان متبع قرآن کے نزدیک شیطان کو بھی یہ قوت قدسی ہے کہ وہ انبیاء و ملائکہ کی طرح خدا کی طرف سے مغیبات پر اطلاع پائے اور اس کی کوئی خبر غیب صدق سے خالی نہ ہو جائے.ما شاء و کلا".تبصرہ کے آخری الفاظ یہ تھے: اس کتاب کی خوبی اور بحق اسلام نفع رسانی اس کتاب کو بچشم انصاف پڑھنے اور ہمارے ریویو کو دیکھنے والوں کی نظروں میں مخفی نہ رہے گی.لہذا حکم "هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانِ " کافه ابل اسلام پر (اہل حدیث ہو خواہ حنفی شیعہ ہوں خواہ سنی وغیرہ) اس کتاب کی نصرت اور اس کی مصارف طبع کی اعانت واجب ہے.مولف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے اور مخالفین اسلام سے شرطیں لگا لگا کر تحدی کی ہے.اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کر دی ہے کہ جس شخص کو اسلام کی حقانیت میں شک ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اس کی صداقت دلائل عقلیہ قرآنیہ و معجزات نبوت محمدیہ سے (جس سے وہ اپنے الہامات و خوارق مراد رکھتے ہیں) بچشم خود ملاحظہ کرلے"- براہین احمدیہ کے دوسرے تبصرہ نگار لدھیانہ کے مشہور اور باکمال صوفی مرتاض حضرت صوفی احمد جان صاحب اللہ تھے.جو ر تڑ چھتر ( ضلع گورداسپور میں بارہ چودہ برس تک سلوک کی منازل طے کرنے کے بعد دعوت رشد و ہدایت کی اجازت لے کر لدھیانہ محلہ جدید میں دھونی رمائے بیٹھے تھے.اور جن کے عقیدت مندوں کا حلقہ دور دور تک بڑی سرعت سے پھیل رہا تھا.اور ان کے روحانی کمالات اور توجہ کی برکات کی دھوم مچی ہوئی تھی.ان کی دینی عظمت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ لدھیانہ کے بڑے بڑے علماء مثلاً مولوی محمد صاحب لدھیانوی وغیرہ ان کے خاص ارادتمندوں میں شامل تھے.اور انہیں " مجمع فیوض سبحانی منبع علوم روحانی قدوة الواصلين زبدة المحققین صوفی باصفا زاہد اتقی فیاض زمان مسیحائے دور ان کے خطابات سے یاد کیا جاتا تھا".حضرت صوفی صاحب کو جب پہلی مرتبہ براہین احمدیہ کی زیارت نصیب ہوئی تو وہ اپنی دور بین نگاہ سے حضرت کا مقام بلند اور عالی مرتبہ نور ابھانپ گئے اور ہزار جان سے فریفتہ ہو کر پکار اٹھے.سب مریضوں کی ہے تمہیں تم مسیحا بنو خدا کے نگاه لئے حضرت صوفی صاحب الله نے اشتہار واجب الاظهار " کے نام سے نہایت والہانہ انداز میں ایک مفصل ریویو شائع کیا جس میں براہین احمدیہ کے متعلق بڑے پر شوکت اور دلاویز الفاظ میں اپنے

Page 193

تاریخ احمدیت.جلدا تاثرات سپرد قلم کئے: براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت " عالی جناب - فیض رسان عالم - معدن جود و کرم - حجتہ الاسلام ، برگزیده خاص دعام حضرت مرزا غلام احمد صاحب دام بر کا تم رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب نے ایک کتاب مسمی براہین احمدیہ سلیس اردو زبان میں جس کی ضخامت قریب تین سو جز کے ہے.چاروں دفتر جو کہ قریبا ۳۵ جزر ہیں نہایت خوشخط چھپ بھی گئے ہیں اور باقی وقتا فوقتا چھپتے جائیں گے اور خریداروں کے پاس پہنچتے رہیں گے.یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ ﷺ اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی آریہ نیچر یہ ہنود اور برہمو سماج و غیره جمیع مذاہب مخالف اسلام کو از روئے تحقیق رد کرتی ہے.حضرت مصنف نے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا شمس تک بھی رد کر دے تو مصنف صاحب اپنی جائیداد دس ہزار روپے کی اس کے نام منتقل کر دیں گے.چنانچہ یہ اشتہار براہین احمدیہ کے حصہ اول میں درج ہے.یہ کتاب مشرکین و مخالفین اسلام کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑتی ہے اور اہل اسلام کے اعتقادات کو ایسی قوت بخشتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اسلام کیا نعمت عظمی ہے اور قرآن شریف کیا دولت ہے.اور دین محمدی کیا صداقت ہے اور آیات قرآن مجید کا اس کتاب میں اپنے اپنے موقعوں پر حوالہ دیا گیا ہے.۲۰ سیپاروں کے قریب ہیں.منکروں کو معتقد اورست اعتقادوں کو چست اور غافلوں کو آگاہ مومنوں کو عارف کامل بناتی ہے.اور اعتقادات قویہ اسلامیہ کی جڑ قائم کرتی ہے اور جو وساوس مخالف پھیلاتے ہیں ان کو نیست و نابود کرتی ہے.اس چودھویں صدی کے زمانہ میں کہ ہر ایک مذہب وملت میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے.بقول شخصے کا فرنئے نئے ہیں مسلماں نئے نئے.ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہ.اس کے مولف جناب محد و منامولانا میرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں جو ہر طرح سے دعویٰ اسلام کو مخالفین پر ثابت کرنے کے لئے موجود ہیں جناب موصوف عامی علماء اور فقراء میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملم اور مخاطب الہی ہیں.صد ہا بچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رویاء صالحہ اور امرائی اور اشارات اور بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان عربی فارسی اردو انگریزی وغیرہ میں ہیں.حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا.چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کر کے کتاب میں درج کئے گئے ہیں جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے اور یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف صاحب بے شک

Page 194

تاریخ احمدیت.جلدا 140 براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت امرانی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے.بموجب حدیث نبوی ﷺ کے عن أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلِ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينها (رواه ابوداد...مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد امت میں سے ہیں.اس دوسری حدیث نبوی یعنی عَلَمَاء أُمَّتِي كَانَبِيَاء بَنِي إِسْر اتیل اس کی تائید میں ہے.اس موقعہ پر چند اشعار فارسی اس کتاب کے لکھتا ہوں.جن کو پڑھ کر ناظرین خود جناب ممدوح کا مرتبہ دریافت فرما لیں گے اور یقین ہے کہ خلوص دل اور صدق عقیدت سے یہ شعر زبان حال سے فرما ئیں گے کہ : سب مریضوں کی ہے تمہیں تم مسیحا نگاه بنو خدا کے لئے....مسن شریف حضرت کا قریباً چالیس یا پینتالیس ہو گا.اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے.نہایت خلیق صاحب مروت و حیاء ، جوان رعنا.چہرہ سے محبت الہی ٹپکتی ہے.اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد رقت اور طالباں سلوک کے لئے کبریت احمر ا د ر سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکرین اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجتہ بالغہ ہیں.یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا.آگاہ ہو کہ امتحان کا وہ آگیا ہے اور حجت الہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالمتاب کی طرح بدلا کل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہے کہ بچوں کو نور بخشے اور ظلمات وضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے".براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد اگر آپ کے پاس کوئی مرید ہونے کو آتا تو آپ فرماتے "سورج نکل آیا ہے اب تاروں کی ضرورت نہیں جاؤ حضرت صاحب کی بیعت کرد " حالانکہ ان کی زندگی میں حضرت اقدس نے سلسلہ بیعت کا آغاز نہیں فرمایا.براہین احمدیہ کے تیسرے تبصرہ نگار مولوی محمد شریف صاحب بنگلوری تھے جو مسلمانان ہند کے نهایت دیندار اور تقوی شعار صحافی اور مشہور مسلم اخبار منشور محمدی بنگلور کے مدیر شہیر تھے.مولانا محمد شریف صاحب نے " جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" کے عنوان سے اپنے مبسوط اور پر زور تبصرے میں لکھا: منافقوں اور دشمنوں کے سارے حملے دین اسلام پر ہو رہے ہیں.ادھر د ہر یہ پن کا زور ادھر لا مذہبی کا شور کہیں برہمو سماج والے اپنے مذہب کو فیلسوفانہ تقریروں سے دین اسلام پر غالب کیا چاہتے

Page 195

تاریخ احمدیت جلدا 124 براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت ہیں.ہمارے عیسائی بھائیوں کی ساری پوری ہمت تو اسلام کی استیصال پر مصروف ہے.اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ جب تک آفتاب اسلام اپنی پر تاب شعائیں دنیا میں ڈالتا رہے گا تب تک عیسوی دین کی ساری کوششیں بیکار اور تثلیث تین تیرہ رہے گی.غرض سارے مذہب اور تمامی دین والے یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کا چراغ گل ہو...مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اہل اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو.اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر آنحضرت ﷺ کی ثبوت نبوت پر قائم ہوں.خدا کا شکر ہے کہ یہ آرزو بھی بر آئی.یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی.براہین احمدیہ عقب به البرامين الاحمدیہ علی حقیقتہ کتاب الله القرآن والنبوة المحمدیہ جس میں مصنف زاد قدره اللهم متع المسلمين بطول حیاتہ نے تین سو براہین قطعیہ عقلیہ سے حقیت قرآن اور نبوت محمدیہ کو ثابت کیا ہے.افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگه صمد جناب مولوی میرزاغلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کی تصنیف ہے.سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہو رہا ہے ہر ہر لفظ سے حقیقت قرآن و نبوت ظاہر ہو رہی ہے.مخالفوں کو کیسے آب و تاب سے دلائل قطعیہ سنائے گئے ہیں.دعوئی ہی مدلل و براہین ساطعہ ثبوت ہے.مثبت بہ دلائل قاطعہ تاب دم زدنی نہیں.اقبال کے سوا چارہ نہیں.ہاں انصاف شرط ہے ورنہ کچھ بھی نہیں.ایھا الناظرین امید وہی کتاب ہے جو فی الحقیقت لاجواب ہے.اور دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کا جواب ممکن نہیں.اگر مخالف بشرائط مندرجہ اشتہار جواب لکھیں تو پھر دس ہزار روپیہ مفت نذر ہے.اور حال یہ ہے کہ اگر مخالفوں کو کچھ بھی خدا ترسی ہو تو ان کو عجر و مطالعہ اس کتاب کے جواب یہی دینا چاہئے کہ لا إله إلا الله حق اور مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ بر حق ہم تو فخریہ یہ کہتے ہیں کہ جواب ممکن نہیں.ہاں قیامت تک محال ہے.مخالفوں سے ہمارا بھی یہی سوال ہے کہ اگر اپنے مذہبوں کو حق مانتے ہوں تو آئیے ہمیں گوئے ہمیں میدان ہے اگر جواب براہ صواب لکھا جاوے تو دس ہزار روپیہ کا انعام ہے وعدہ مصنف لا کلام ہے.لیجئے ہم بھی ایک ہزار مزید بر آں کرتے ہیں.دیکھیں ہمارے مخالف بھائی اب بھی حمیت کو کام فرماتے ہیں یا اپنے ہی لکیر کو پیٹتے ہیں اب روئے کلام مسلمانوں کی طرف ہے.بھائیو! کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے کہ جس کا ثانی نہیں.مصنف نے اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت

Page 196

تاریخ احمدیت جلدا 164 یر امین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوت پیغمبر آخر الزمان حق ہے.دین اسلام منجانب اللہ اور اس کا پیرو حق آگاہ ہے.عقلی دلیلوں کا انبار ہے.خصم کو جو نہ جائے گریز اور نہ طاقت انکار ہے.جو دلیل ہے بین ہے جو برہان ہے روشن ہے.آئینہ ایمان ہے.لب لباب قرآن ہے.بادی طریق مستقیم - مشعل راہ قدیم مخزن صداقت معدن ہدایت- برق خرمن اعداء - عدد سوز ہر دلیل ہے.مسلمانوں کے لئے تقویت کتاب الجلیل ہے.ام الکتاب کا ثبوت ہے.بے دین حیران ہے مبہوت ہے".کئی ماہ کے بعد پھر لکھا: اس کتاب کی زیادہ تعریف کرنی ہماری حد امکان سے باہر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس تحقیق و تدقیق سے اس کتاب میں مخالفین اسلام پر حجبت اسلام قائم کی گئی ہے وہ کسی کی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہم حاجت مشاطه نیست روئے دلارام را مگر اتنا تو کہنے سے ہم بھی دریغ نہیں کر سکتے کہ بلاشبہ کتاب لاجواب ہے اور جس زور شور سے ولا کل حقہ بیان کئے گئے ہیں اور مصنف مد ظلہ نے اپنے کشوفات و الہامات کو بھی مخالفین اسلام پر ظاہر کر دیا ہے.اس میں اگر کسی کو شک ہو تو مکاشفات الہی اور انوار نامتناہی جو عطیہ الہی میں ان سب کو فیض صحبت مصنف سے مستفیض ہو کر پاوے اور عین الیقین حاصل کرلے.اثبات اسلام و حقیت نبوت و قرآن میں یہ لاجواب کتاب اپنا نظیر نہیں رکھتی...یہ وہ عالی مضامین اور قاطع دلائل ہیں جن کے جواب کے لئے مخالفین کو دس ہزار کی تحریص دلائی گئی ہے.اور اشتہار دیئے ہوئے عرصہ ہو چکا.مگر کسی کو قلم اٹھانے کی اب تک طاقت نہ ہوئی.یہ تو فقط وہ ریویو ہیں جو اس زمانہ میں طبع ہو کر پبلک کے سامنے آئے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ درد اسلام رکھنے والے جس جس مسلمان تک یہ تصنیف پہنچی وہ پہلی نظر ہی میں اس کی بے نظیر خوبیوں کا قائل ہو گیا.صوفی میر عباس علی شاہ صاحب لدھیانوی نے براہین دیکھی تو کہنے لگے ” اس کتاب کی عبارت سے شان نبوت کی بو آتی ہے ".m مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے ایک مخلص ارادت مند اور عالم مولوی محمد یوسف صاحب اشتہار پڑھتے ہی بول اٹھے کہ یہ شخص کوئی بڑا کامل ہے اور اپنے بھانجے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سے کہا کہ اگر تمہیں زیارت کے لئے جانا ہے تو ان کے پاس جاؤ.دہلی کے نہایت فاضل علوم شرقیہ سے باخبر عالم اور اردو فارسی کے نامور شاعر نواب ضیاء الدین احمد خان صاحب (لوہارو ) براہین احمدیہ کو دیکھتے ہی فریفتہ ہو گئے اور یہاں تک وارفتگی کا عالم ہوا

Page 197

تاریخ احمدیت جلدا ICA ۱۴ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کہ ہفتہ عشرہ میں پوری کتاب ختم کر کے دم لیا اور فرمایا " نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے.اور مجھے یقین ہے کہ اسکے مصنف کو یا تو لوگ پاگل کہیں گے یا اس سے اگلی صدی کا مجدد ہو گا ".اسی طرح ان کے تو اسے اور ملک کے نامور شاعر ابو المعظم نواب سراج الدین احمد صاحب سائل نے اسے بڑی معر کے کی کتاب قرار دیا.بعض مقامات مثلاً سرادہ میں براہین احمدیہ جب سنائی جاتی تھی تو سامعین ہے ساختہ کہتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف بے بدل انشاء پرداز ہے.مولانا ابو الحسن علی ندوی " براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ دور مذہبی مناظروں کا دور تھا اور اہل علم کے طبقہ میں سب سے بڑا زوق مقابلہ مذاہب اور مناظرہ فرق کا پایا جاتا تھا.عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ دعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے.حکومت وقت جس کا سرکاری مذہب مسیحیت تھا ان کی پشت پناہ اور سرپرست تھی.وہ ہندوستان کو یسوع مسیح کا عطیہ اور انعام سمجھتی تھی.دوسری طرف آریہ سماجی مبلغ جوش و خروش سے اسلام کی تردید کر رہے تھے انگریزوں کی مصلحت (جو ۱۸۵۷ء کی متحدہ کوشش اور ہندوستان کے اتحاد کی چوٹ کھا چکے تھے) یہ تھی کہ ان مناظرانہ سرگرمیوں کی ہمت افزائی کی جائے.اس لئے کہ ان کے نتیجہ میں ملک میں ایک کشمکش اور ذہنی و اخلاقی انتشار پیدا ہو تا تھا اور تمام مذاہب اور فرقوں کو ایک ایسی طاقتور حکومت کا وجود غنیمت معلوم ہوتا تھا جو ان سب کی حفاظت کرے اور جس کے سایہ میں یہ سب امن وامان کے ساتھ مناظرہ و مباحثہ کرتے رہیں.ایسے ماحول میں جو شخص اسلام کی مدافعت اور مذاہب غیر کی تردید کا علم بلند کرتا وہ مسلمانوں کا مرکز توجہ و عقیدت بن جاتا.مرزا صاحب کی حوصلہ مند طبیعت اور دوربین نگاہ نے اس میدان کو اپنی سرگرمیوں کے لئے انتخاب کیا.انہوں نے ایک بہت بڑی ضخیم کتاب کی تصنیف کا بیڑہ اٹھایا ہے جس میں اسلام کی صداقت ، قرآن کے اعجاز اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کو بدلائل عقلی ثابت کیا جائے گا اور بیک وقت مسیحیت، سناتن دھرم ، آریہ سماج اور برہمو سماج کی تردید ہوگی.انہوں نے اس کتاب کا نام براہین احمدیہ تجویز کیا....معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے بہت سے علمی و دینی حلقوں میں اس کتاب کا پر جوش استقبال کیا گیا.حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب بہت صحیح وقت پر شائع ہوئی تھی.مرزا صاحب اور ان کے دوستوں نے اس کی تشہیر و تبلیغ بھی بہت جوش و خروش سے کی تھی.اس کتاب کی کامیابی اور اس کی تاثیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں دوسرے مذاہب کو چیلنج کیا گیا تھا.اور کتاب جواب دہی کے بجائے حملہ آورانہ انداز میں لکھی گئی تھی.اس کتاب کے خاص معترفین اور پر جوش تائید کرنے والوں میں مولانا

Page 198

تاریخ احمدیت جلدا 149 براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت محمد حسین صاحب بٹالوی کو خاص اہمیت حاصل ہے.انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں اس پر ایک طویل تبصرہ یا تقریظ لکھی جو رسالہ کے چھ نمبروں میں شائع ہوئی ہے.اس میں کتاب کو بڑے شاندار الفاظ میں سراہا گیا ہے اور اس کو عصر حاضر کا ایک علمی کارنامہ اور تصنیفی شاہکار قرار دیا گیا → ایک مشہور سکھ لیڈر ارجن سنگھ صاحب ایڈیٹر "رنگین " امرت سر لکھتے ہیں: اس وقت کے مسلمان عالم یہ سمجھتے تھے کہ میرزا صاحب نے براہین احمدیہ لکھ کر اسلام کی کوئی بڑی خدمت کی ہے.چنانچہ گھر گھر براہین احمدیہ کا چر چاتھا اور تمام پڑھے لکھے مسلمان اس کتاب کے مطالعہ کو ضروری سمجھتے تھے.کیونکہ مسلمان عالموں کا خیال تھا کہ اس کتاب میں آریہ اور عیسائیوں کے تمام اعتراضوں کا جواب آچکا ہے.ہر ایک مسلمان مناظر اس کتاب کو ایک نظر دیکھ لینا ضروری خیال کرتا تھا.الغرض اس کتاب کی تصنیف کی وجہ سے جہاں میرزا صاحب ایک طرف ہندوستان کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بن گئے وہاں آپ کو عیسائیوں اور آریوں میں بھی کافی شہرت حاصل ہو گئی اور عیسائیوں اور آریوں نے جواب در جواب کی جانب توجہ کی یہاں تک کہ نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی اور مباہلوں اور بد دعاؤں پر ختم ہوئی".مخالفین اسلام کے کیمپ میں کھلبلی یہ تو مسلمانوں کی طرف سے خیر مقدم کانظارہ تھالیکن دوسری طرف مخالفین اسلام کے کیمپ میں براہین احمدیہ کے اشتہار کی اشاعت ہی نے کھلبلی مچادی.وہ قادیان کی گمنام بستی سے اسلام کی تائید میں اٹھنے والی پر شوکت آواز پر بوکھلا اٹھے اور انہوں نے اخبار ”سفیر ہند “ ” نور افشاں اور رسالہ "وریا پر کا شک" میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صریح بجو آمیز الفاظ میں یاد کرتے ہوئے براہین احمدیہ کا رد لکھنے کے لئے بڑے پر جوش اعلانات شائع کر دیے اور اسلام کی طرف سے لڑنے والے سپہ سالار کی مدافعت کے لئے پوری طرح متحد ہو گئے.خدا کا شیر ان گیدڑ بھبکیوں سے بھلا کیسے ڈر سکتا تھا.آپ نے ان لوگوں کی دعوت مبارزت (جو اصل مضمون پڑھنے بلکہ چھینے سے پہلے ہی رد لکھنے کا مضحکہ خیز اعلان کر کے اپنے ہاتھوں انصاف کا جنازہ نکال چکے تھے فورا منظور کرلی.اور انہیں خدا کی قسم کا واسطہ دے کر گر جتی ہوئی آواز سے للکارا: سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں.افلاطون بن جاویں بیکن کا او تار دھاریں.ارسطو کی نظر اور فکر لاویں.اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں.پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے الہ باطلہ "

Page 199

تاریخ احمدیت جلد (A.براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت اس چلینج نے دشمنان دین کے حوصلے پست کر دیے.ان کے قلم ٹوٹ گئے.اور وہ کوئی معقول جواب لکھنے پر قادر نہ ہو سکے.برہمو سماج لیڈر اگنی ہوتری کو اپنی طلاقت لسانی پر بڑا غرہ تھا.اور انہوں نے اس کا رد لکھنے کا اعلان بھی کیا.لیکن حق کی قوتوں سے مرعوب ہو کر انہیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہونا پڑا.اور وہ ”جیون دھرم میں چند سطروں کے سوا کچھ نہ لکھ سکے.اور جو کچھ لکھا اس کا جواب حضرت اقدس نے براہین احمدیہ ہی میں تحریر فرما کر اس کی غیر معقولیت اور بے ہودگی ثابت کر دکھائی.بعض دو سرے پر ہمو سماجیوں نے پرچہ رفاہ عام میں حصہ سوم کے رد کی طرح ڈالی.لیکن آپ کی قبل از وقت پیشگوئی کے مطابق وہ ذلیل و رسوا ہوئے.اور خدا کے دین کی عظمت و صداقت اور نمایاں ہو گئی"." IA آریہ سماجی لیڈر سوامی دیانند براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد تین برس تک زندہ رہے اور براہین احمدیہ کے جواب کی جرات نہ کر سکے.دوسرے آریہ سماجی لیڈروں پر بھی سکوت مرگ طاری رہا.البتہ پشاور آریہ سماج کے ایک رسوائے عالم شاتم رسول اور دریدہ دہن شخص پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے جواب دینے کی ناکام کوشش کی.مگر جواب کی بجائے ہنر لیات و فضولیات کا مجموعہ کہلانے کا مستحق تھا.جو حضرت مولانا حکیم نور الدین ان کی تصدیق براہین احمدید" کے باطل شکن گرز سے ریزہ ریزہ ہو گیا.چند دن تک پادری ایل ایل ٹھاکر داس صاحب نے بھی ” براہین احمدیہ کے خلاف شور و غونم بلند کئے رکھا.مگر پھر تاب مقابلہ نہ لا کر دم بخود ہو گئے.امر تسر اور لدھیانہ کے بعض حضرات کا افسوسناک مظاہرہ براہین احمدی خرمن کفر و ضلالت پر بجلی بن کر گری تھی.اس لئے مخالفین اسلام کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف محاذ قائم کر لینا کوئی خلاف توقع امر نہیں تھا.لیکن اسلامی دنیا یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئی کہ مسلمانان ہند تو اس لاجواب اور معرکہ کی تصنیف پر نعرہ ہائے تحسین بلند کر رہے ہیں اور امرت سر اور لدھیانہ کے بعض مسلم حلقوں نے اس کے بلند پایہ مصنف کی مخالفت کا محاذ قائم کر رکھا ہے.امرت سر کے بعض علماء کے نزدیک حضور کے الہامات غیر ممکن غیر صحیح اور ناقابل تسلیم تھے.اور اس کا سبب (جیسا کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ " جلدے صفحہ ۷۰ میں لکھا ہے) ان کی ناضمی ، بے ذوقی اور کسی قدر عموماً اہل اللہ اور اہل باطن سے گوشہ نعصبی تھا یہی وہ مقام ہے جہاں بعد میں حضرت اقدس پر یہ قرار داد "جرم" بھی لگائی گئی کہ آپ نے آنحضرت کی شان مبارک میں غلو اور مبالغہ آمیزی کا ارتکاب کیا ہے.

Page 200

تاریخ احمدیت جلدا JAI بر این احمدیہ کی تصنیف و اشاعت دراصل آنحضرت اللہ کی شان اقدس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ذاتی اعتقاد (جو آپ نے انہی دنوں حضرت صوفی احمد جان صاحب کے ایک سوال کے جواب میں میر عباس علی صاحب کو لکھا) یہ تھا کہ : اس کتاب (براہین احمدیہ - ناقل) میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی ہے.سو وہ دونوں دریائے بے انتہاء ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل ان کی تعریف کرتے رہیں تب بھی حق تعریف ادا نہیں ہو سکتا.چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے.ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القاء ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی ہیں.اور اسی وقت تک کوئی دوسرا ان کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی متابعت کرے اور جب متابعت سے ایک ذرہ منہ پھیرے تو پھر تحت الثریٰ میں گر جاتا ہے.ان الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے".امرت سر کے بعد مخالفت کا دوسرا مرکز لدھیانہ تھا.جس میں مولوی محمد صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب وغیرہ مخالفین اسلام کے خلاف مورچہ قائم کرنے کی بجائے آپ کی تکفیر اور مخالفت پر آمادہ ہو گئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے علماء لدھیانہ کی ناقابل فہم روش دیکھی تو وہ تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس کے پیچھے محض بغض و عداوت اور جہالت کار فرما ہے.چنانچہ انہوں نے حقیقت سے نقاب اٹھاتے ہوئے مخالفت کے دو سبب بتائے.ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت (نہ اسلام کی ہدایت) سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہار و بغاوت کو ناجائز لکھا ہے.لہذادہ لوگ اس کتاب کے مولف کو منکر جہاد سمجھتے ہیں.اور از راہ تعصب و جہالت اس کے بغض و مخالفت کو اپنا نہ ہی فرض خیال کرتے ہیں.مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف و اقبال کے خوف سے علانیہ طور پر ان کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے اور نہ عام مسلمانوں کے روبرو اس وجہ سے ان کو کافر بنا سکتے ہیں لہذا وہ اس وجہ کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے) کسی پر ظاہر نہیں کرتے.اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرایہ میں کرتے ہیں.اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفریہ (دعوی نبوت اور نزول قرآن اور تعریف آیات قرآنیہ) پائی جاتی ہیں.اس لئے اس کا مولف کا فر ہے “.اور حد یہ تھی کہ ایک طرف یہ حامیان دین متین " آپ کو منکر جہاد قرار دیتے تھے اور دو سری طرف براہین احمدیہ کو ضبط کروانے اور آپ کو قانونی شکنجہ میں جکڑنے کے لئے پالک میں زور و شور سے یہ پراپیگنڈہ کر "

Page 201

تاریخ احمریت- جلدا یر امین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت رہے تھے کہ یہ کتاب گورنمنٹ کے مخالف ہے اور اس کے مولف نے پیشوائی مذہب کے علاوہ پولیٹیکل سرداری کا بھی اس میں دعوی کیا ہے.اپنے آپ کو مسیح قرار دیا ہے اور اپنے غلبہ اور فتح کی بشارتیں اور اپنے مخالفین (یعنی مخالفین اسلام - ناقل) کی شکست و ہزیمت کی خبریں اس میں درج کی tt ہیں.دوسرا سبب مولوی محمد حسین صاحب نے یہ بیان کیا کہ : انہوں نے باستعانت بعض معزز اہل اسلام لودھیانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک و سلطنت میں کوئی شک نہیں) بمقابلہ مدرسہ صنعت کاری انجمن رفاہ عام لودھیا نہ ایک مدرسہ قائم کرنا چاہا تھا اور اس مدرسہ کے لئے لودھیانہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا کہ انہی دنوں مولف براہین احمدیہ باستد عا اہل اسلام لودھیانہ میں پہنچ گئے.اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور شرف صحبت سے مشرف ہوئے.ان کی برکات داثر صحت کو دیکھ کر اکثر چندہ والے ان کی طرف متوجہ ہو گئے.اور اس چندہ کے بہت سے روپیہ طبع و اشاعت براہین احمدیہ کے لئے مولف کی خدمت میں پیشکش کئے گئے اور مولوی صاحبان نے کور تہی دست ہو کر ہاتھ ملتے رہ گئے.اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑکایا اور مولف کی تکفیر پر آمادہ کیا.جن کو ان باتوں کے صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے ہم لودھیانہ سے عمدہ اور واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کرا دیں گے".یہ حضرات اپنی سرگرمیوں کا دائرہ لودھیانہ سے دلی.دیوبند اور گنگوہ تک پھیلانے کے لئے مدرسہ دیوبند کی تقریب دستار بندی میں بھی پہنچے اور بڑے بڑے مرصع فتوے لکھ کر دیو بندی اور گنگوہی علماء کے سامنے پیش کئے اور ان پر تصدیق کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.مگر کوئی ایک عالم بھی تکفیر بازی میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہ ہوا.چنانچہ خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا بیان ہے کہ موقع جلسه دستار بندی مدرسہ دیو بند پر یہ حضرات بھی وہاں پہنچے اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مولف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیو بندو گنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط و مواہیر ثبت کرنے کے خواستگار ہوئے.مگر چونکہ وہ کفران کا اپنا خانہ ساز کفر تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر پایا نہ جاتا تھا اندا دیو بند و گنگوہ نے ان فتوؤں پر مرد ستخط کرنے سے انکار کیا.اور ان لوگوں کو تکثیر مولف سے روکا اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا.جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے.اور كَانَهُمْ حُرُ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَتْ مِنْ قَسُورَةٍ کے مصداق ہے".

Page 202

تاریخ احمدیت جلدا ١٨٣ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام نے ” براہین براہین احمدیہ کے زمانہ میں حضرت اقدس کی بے سرو سامانی کی تصنیف کے لئے جب قلم اٹھایا تو دشمنان دین کی چیرہ دستیوں اور اسلام کی درد ناک حالت نے آپ کے اندر بجلیاں بھر دیں.اور آپ نے اسی بے پناہ جوش اور روحانی قوت کے عالم میں اپنے اقتصادی حالات اور مستقبل کے حالات سے بے نیاز ہو کر نہایت قلیل عرصہ میں ایک لاجواب عدیم النظیر کتاب مرتب فرمائی.لیکن اب جو اس کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو قدم قدم پر مشکلات کے بڑے بڑے پہاڑ سد راہ بنے.آپ شہری آبادی سے دور ایک گمنام لبستی میں رہنے والے ایک گوشہ نشین انسان تھے اور براہین احمدیہ " ایسی ضخیم کتاب جس کی نہایت عمدہ نہایت اعلیٰ اور معیاری طباعت و کتابت کا آپ قطعی فیصلہ کر چکے تھے ، اشاعتی کاموں کا ایک لمبا اور گہرا تجربہ چاہتی تھی جو آپ کو سرے سے حاصل ہی نہیں تھا.کیونکہ یہ آپ کی پہلی تصنیف تھی.پھر اس کی اشاعت میں بھی آپ کے مد نظر محض دین مصطفیٰ کی خدمت اور ملت بیضاء کی سربلندی کا پاکیزہ اور بے لوث مقصد تھا.اور آپ کو یہ ہرگز گوارا نہیں تھا کہ کوئی شخص محض تجارتی نقطہ نظر سے اس کی خریداری اختیار کرے.آپ کی یہ دلی خواہش تھی کہ عامتہ المسلمین کے ہاتھوں تک یہ کتاب ضرور پہنچ جائے.اور وہ معاندین اسلام کے مقابل اس کے ناقابل تردید دلائل سے مسلح ہو جائیں.لیکن آپ عامتہ المسلمین سے جو عموماً غرباء کا طبقہ تھا اصل لاگت سے بہت کم قیمت پر کتاب پہنچانا چاہتے تھے تا ان پر گراں نہ ہو.بلکہ آپ کا یہاں تک نشاء مبارک تھا کہ عدم استطاعت رکھنے والے طالب حق غیر مسلموں میں اس کی مفت اشاعت کی جائے.ظاہر ہے کہ ان عظیم الشان عزائم کی تکمیل کے لئے بھاری اخراجات درکار تھے.لیکن آپ درویٹی کے جس صبر آزما امتحان میں سے گزر رہے تھے اس کے لحاظ سے ان کا مہیا ہو جانا معجزہ سے تو ممکن تھا.خارجی اور مادی اسباب کے لحاظ سے ممکن نہیں تھا.آپ کو قانونا دس ہزار سے زائد جائیداد کے مالک تھے مگر عملاً تمام تر خاندانی جائیداد پر آپ کے بڑے بھائی قابض و متصرف تھے اور خود آپ کے پاس کتاب کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا دوسری طرف پردہ گمنامی تھا اور آپ تھے.ان نا مساعد حالات میں براہین احمدیہ ایسی ضخیم کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوتی تو کیونکر.اور دنیا آپ کے علم و عرفان سے فیض یاب ہوتی تو کیسے ؟ تائید غیبی کیلئے دعا اور خدائی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تھی دستی کے عالم میں جناب الہی میں تائید غیبی کے لئے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ ” بالفعل نہیں " یعنی مسلمانوں کی طرف سے عدم توجہی رہے گی.لیکن پھر کچھ

Page 203

تاریخ احمدیت جلدا ۱۸۴ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت عرصہ کے بعد آپ پر الہام نازل ہو ا مر اليْكَ بِجِذْعِ النَّخَلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبَا جَنيَّا ( کھجور کا تنہ ہلا تجھ پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی یہ خدائی بشارت ملنے پر آپ نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا".عامتہ المسلمین اور رؤساء سے تحریک چنانچہ حضرت احدیت کے اس علم کی تعمیل میں حضور نے ملک میں اشتہارات شائع فرمائے.اور خصوصاً امراء اور رؤساء کو تحریک کی غرض سے سب سے اول جناب خلیفہ سید محمد حسن خاں صاحب مرحوم وزیر اعظم ریاست پٹیالہ سے اور پھر بعض دوسرے رؤساء سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ اسلام پر آنے والی قیامت خیز مصیبتوں کا احساس کریں اور دینی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس علمی جہاد میں آپ کا ہاتھ بٹائیں حساب کی رو سے کتاب کے اصل مصارف پچیس روپے کے قریب بنتے تھے.مگر آپ نے اعلان فرمایا کہ اس کتاب کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لئے صرف دس روپے کا برائے نام ہدیہ مقرر کیا جاتا ہے اور امید ظاہر فرمائی کہ اگر امراء اسلام اپنے مطبخ کے ایک ایک دن کا خرچ بھی بطور امانت پیش کریں تو یہ عظیم الشان کتاب سهولت شائع ہو جائے گی اور اس طرح نقصان کی تلافی کی صورت بھی نکل آئے گی جس سے ہزار ہا بندگان خدا فائدہ اٹھا سکیں گے.یہ تو اشاعت سے قبل آپ نے بذریعہ اشتہارات تحریک فرمائی.اس کے بعد جب کتاب کا پہلا حصہ چھپا تو آپ نے ڈیڑھ سونے ملک کے بڑے بڑے امیروں، دولتمندوں اور رئیسوں کو بھی اس خیال سے بھجوائے کہ اگر وہ کتاب کی خریداری منظور کر کے کم از کم معمولی مقررہ قیمت ہی پیشگی ارسال کر دیں تو کتاب کے اگلے حصوں کا انتظام کیا جائے.نیز اپنے قلم سے ڈیڑھ سو کے قریب خطوط بھی لکھے اور انہیں حقیقت حال سے اطلاع بھی دی.دا پر ایمان افروز توکل غرض کہ آپ نے خدائی ارشاد کے مطابق تبلیغ و تحریص کا حق ادا کر دیا اور عوام اور امراء دونوں کو اس دینی خدمت سے وابستہ کرنے کی کوئی ممکن صورت نظر انداز نہیں ہونے دی.البتہ سنت مامورین کے مطابق بے شک ظاہری سامانوں کے لئے تدبیر اختیار فرمائی.مگر تو کل اور بھروسہ تنہا خدا پر رکھا جس نے پہلے سے امداد کی بشارت دے رکھی تھی.اور تحریک کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ صاف بتاتے چلے گئے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف کا کام خدائی منشاء اور مصلحت کے مطابق ہو رہا ہے.اس لئے وہ ضرور اس کی اشاعت کے غیبی سامان پیدا کرے گا.چنانچہ فرمایا " رہا یہ فکر کہ اس قدر روپیہ کیونکر میسر آدے گا.سو اس سے تو

Page 204

تاریخ احمدیت جلد ۱۸۵ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت ہمارے دوست ہم کو مت ڈرا دیں اور یقین کر کے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور اپنے موٹی کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسہ ہے کہ جو ممسک اور خسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے.سود ہی قادر و توانا اپنے دین اور اپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا".نیز فرمایا : اس قدر ہم نے برعایت پر لکھا ہے ورنہ اگر کوئی مدد نہیں کرے گا یا کم توجہی سے پیش آئے گا.حقیقت میں وہ آپ ہی ایک سعادت عظمی سے محروم رہے گا.اور خدا کے کام رک نہیں سکتے اور نہ کبھی رکے.جن باتوں کو قادر مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں.12 ظاہر کتاب کی اشاعت میں جذبہ خدمت دین کی نمایاں جھلک پر امین احمدیہ شائع ہوئی تو الہ تعالٰی نے لدھیانہ کے ایک صوفی میر عباس علی شاہ صاحب کے دل میں اس قابل قدر اور نایاب تصنیف کی اشاعت کے لئے دلی تڑپ پیدا کر دی اور انہوں نے حضرت اقدس سے براہین احمدیہ کے کچھ نسخے حاصل کر کے اپنے ہاں محلہ صوفیاں میں اس کی فروخت کے لئے ایک شاخ کھول دی جو قادیان سے باہر براہین احمدیہ کی واحد ایجنسی تھی.جہاں سے اس وقت یہ کتاب دستیاب ہو سکتی تھی.یہ ایجنسی کوئی تجارتی اصولوں پر قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے سبھی معاملات سرتاپادین تھے.اس میں نہ تو کسی کمیشن کا قضیہ تھانہ حق تالیف و تصنیف کا سوال ابس یہی ایک دھن لگی ہوئی تھی کہ اسلام کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کفر کے بھرے ہوئے طوفانوں سے بچ کر کسی طرح ساحل عافیت تک پہنچ جائے اور مسلمان اپنے مذہبی اور دینی اصولوں کی برتری کے لحاظ سے پھر سے عظمت رفتہ کا مالک بن جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میر صاحب موصوف کو یہ اصولی ہدایت دے رکھی تھی کہ : چونکہ یہ کام خالصتاً خدا کے لئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ ایسا کوئی خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید و فروخت پر نظر ہو.بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے.کیونکہ در حقیقت یہ کوئی خرید و فروخت کا کام نہیں.غرض آں مخدوم اس سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکل کر کے صادق الارادت لوگوں سے مدد لیں.اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے.ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں.وہ جو قادر مطلق ہے وہ جب چاہے گا تو اسباب کا ملہ خود بخود میسر کر دے گا کون سی بات ہے جو اس کے آگے آسان نہ ہو.

Page 205

تاریخ احمدیت جلدا 1^Y براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت تحقیق حق کا جذبہ رکھنے والے غیر مسلموں کے متعلق حضور کا ارشاد یہ تھا کہ : اگر کوئی ہندوفی الحقیقت طالب حق ہے تو اس سے رعایت کرنا واجب ہے.بلکہ اگر ایسا شخص ہے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت دے سکتے ہیں.غرض اصلی اشاعت دین ہے نہ کہ خرید و فروخت جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کہ بھیجی جاوے".یہی نہیں کتاب کی آمد پر کڑی نگرانی رکھنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میر صاحب کو یہاں تک کھلی اجازت عنایت فرما دی کہ : " آپ کو کلی اختیار ہے کہ جو کچھ قیمت کتاب میں جمع ہو اس کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہیں.خداوند کریم نے آپ کی سعی میں برکت ڈالی ہے اور آپ وہ کام کر رہے ہیں کہ جس میں ہریک کہ آپ کی طرح توفیق نہیں دی گئی " - 11 ایک موقعہ پر میر صاحب نے براہین احمدیہ کے لئے غرباء سے چندہ جمع کرنے کی تجویز پیش کی تو حضور نے اسے ٹھکرا دیا اور انہیں لکھا کہ : غرباء سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے.جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردہ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جائے گا جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو سر انجام دے گا.تجویز چندہ کو موقوف رکھیں".امراء کی انتہاء درجہ سروصری یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں موجزن ایثار قومی لوص نیت اور خدمت دین کے پر جوش جذبات کا عالم تھا.لیکن امراء نے جنہیں اسلامی مہم کی شاندار تحمیل کے لئے براہین احمدیہ کی اشاعت کے سب ہی اخراجات ادا کرنے کی از خود پیشکش کرنا چاہئے تھی اس نازک موقعہ پر بار بار کی یاد دہانی کے باوجود نہایت درجہ سرد مہری اور افسوسناک فرض ناشناسی کا ثبوت دیا.اور صرف چند گفتی کے خدا ترس رؤساء میدان میں نکل سکے.جنہوں نے اس آسمانی دعوت پر لبیک کمی جن میں سر فہرست جناب خلیفہ محمد حسن خان صاحب مرحوم وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ تھے ، جن کا حضور نے بھی براہین احمدیہ حصہ اول میں تذکرہ خاص فرمایا.ان کے علاوہ عہدیدار محمد افضل خان نواب اقبال الدولہ صاحب حیدر آباد ابراہیم علی خاں صاحب نواب صاحب مالیر کوٹلہ، شیخ محمد بہاؤ الدین صاحب مدار المهام جونا گڑھ ، فخرالدولہ نواب مرز ا علاء الدین خان صاحب فرمانر رائے ریاست لوہارو.سردار عطر سنگھ رئیس اعظم لدھیانہ اور مولوی چراغ علی خاں صاحب معتمد دار المهام دولت آصفیه حیدر آباد دکن اور محمود علی خاں صاحب چھتاری وغیرہ بھی کسی قدر اس کار خیر میں شریک ہوئے.مگر باقی

Page 206

تاریخ احمدیت جلدا (AL یر امین احمدیہ کی تصنیف دا شاعت امراء اور والیان ریاست نے اس طرف ذرا التفات نہیں کی اور سخت دنیا داری کا نمونہ دکھایا.ان مسلمان رئیسوں کی زر پرستی اور دینی کاموں سے نفرت و حقارت کا یہ پہلا تجربہ اتنا تلخ اور نا خوشگوار تھا کہ حضور اسے اپنی زندگی کے آخر تک بھلا نہ سکے.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ اسلام کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا: مردم ذی مقدرت مشغول عشر تمائے خویش خرم و خندان نشسته بابتان نازنین اے مسلما ہیں چه آثار مسلمانی ہمیں است دیں چنیں ابتر شما در جیفہ دنیا رہیں جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.حضرت اقدس نے ڈیڑھ سو مسلمان دولتمندوں اور رئیسوں کو براہین احمدیہ کا پہلا حصہ بھیجوا دیا تھا اور متعدد خطوط کے علاوہ ڈاک کے مصارف بھی اپنی گرہ سے ادا کئے تھے اور یہ امید ظاہر کی تھی کہ وہ کتاب کی فقط معمولی قیمت پیشگی بھجوا کر اعانت میں حصہ دار بن جائیں گے.اور ہزار ہا بندگان خدا اس روحانی چشمہ سے فیض یاب ہو سکیں گے.لیکن آپ کا یہ خیال صحیح نہ نکلا اور چند عالی ہمت امراء کے سوا کتابوں کا واپس کرنا تو درکنار انہوں نے جواب دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی.اور بالا خر آپ کو غم و اندوہ بھرے دل سے لکھنا پڑا کہ : اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا افسوس جو ہم کو معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی.اگر یہی حمایت اسلام ہے تو کار دیں تمام ہے.ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں.ہم اس کو عطیہ عظمیٰ سمجھیں گے.اور احسان عظیم خیال کریں گے.ورنہ ہمار ا بڑا خرج ہو گا اور گمشدہ حصہ کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا.کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضائع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو.ہر ایک حصہ کتاب کا ایک ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے.برائے خدا ہمارے معزز اخوان سرد مری اور لاپرواہی کو کام میں نہ لائیں.اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزاء کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس پر چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیو نکرلیں گے کام ابتر پڑ جائے گا.اور دین کے امر میں جو سب کا مشترک ہے ناحق کی دقت پیش آجائے گی".اس دردمندانہ اپیل پر بھی جب دو سال کا عرصہ بیت چکا تو آپ نے انہیں ایک بار پھر توجہ دلائی.لیکن اب کے بھی سات آٹھ افراد کے سوار جنہوں نے کچھ تھوڑی بہت توجہ دی) باقی سب غریبوں میں داخل ہو گئے - اور رئیس ہونے کے باوجود پانچ پانچ یا دس دس روپیہ کی قلیل اعانت پر ہی |☑

Page 207

تاریخ احمدیت جلد IAA براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت مطمئن ہو بیٹھے کہ بس دینی فریضہ ادا ہو گیا ہے.نواب صدیق حسن خان صاحب کا براہین کے متعلق ناروا طرز عمل ان حضرات میں " سب سے زیادہ ناروا طرز عمل نواب صدیق حسن خاں صاحب نے دکھایا.نواب صاحب موصوف اہل حدیث فرقہ کے مشہور عالم تھے جنہیں ان کے بعض عقیدت مند ان کی وسیع اسلامی خدمات اور عالمانہ شان کی وجہ سے " مجد دوقت بھی قرار دیتے تھے.چونکہ انہوں نے والیہ ریاست نواب شاہ جہاں بیگم سے شادی کرلی تھی اس لئے پوری ریاست کی باگ ڈور عملاً انہی کے سپرد تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں ایک درد مند دل رکھنے والے مسلمان رئیس کی حیثیت سے اعانت کی طرف جب پہلی مرتبہ توجہ دلائی تو انہوں نے پہلے تو رکھ رکھاؤ کا طریق اختیار کرتے ہوئے پندرہ میں نسخوں کی خرید پر آمادگی کا اظہار کیا.مگر پھر دوبارہ یاد دہانی پر محض گورنمنٹ برطانیہ کے خوف سے دست کش ہو گئے اور یہ مصلحت آمیز جواب دیا کہ ”دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا انہیں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے.اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں ".اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے انہوں نے براہین احمدیہ " کا پیکٹ وصول کرنے کے بعد اسے چاک کر کے آپ کو واپس کر دیا.( حافظ حامد علی صاحب کا بیان ہے کہ ) جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس اپنے مکان میں چہل قدمی کر رہے تھے.کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے.حضور کا چہرہ مبارک متغیر اور غصہ سے سرخ ہو گیا.عمر بھر میں حضور کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا گیا.آپ کے چہرہ کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو تا تھا کہ آپ میں ناراضگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے.آپ بدستور ادھر ادھر ٹہلتے تھے اور خاموش تھے کہ یکایک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے "اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کرلو".نیز یہ دعا کی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.اس کے بعد جب براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ حضور نے تحریر فرمایا تو اس میں بھی حضرت اقدس نے نواب صاحب کے اس غیر اسلامی فعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے " (حضور کے یہ الفاظ کس طرح ایک انداری پیشگوئی کی شکل اختیار کر گئے.اس کا بیان دوسری جلد میں آ رہا ہے) براہین احمدیہ کی اشاعت ایک معجزہ تھی ان حالات میں جبکہ اپنوں اور بیگانوں کی زبر دست مزاحمت نے براہین احمدیہ کے منظر

Page 208

تاریخ احمدیت جلدا ١٨٩ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت عام پر آنے کے بھی اسباب مسدود کر دیئے تھے یقیناً براہین احمدیہ کی اشاعت ایک محیر العقول معجزہ تھی جو خداتعالی کی پہلے سے عطا کردہ بشارتوں اور حضور کی تحریرات کے عین مطابق ظہور میں آیا.براہین احمدیہ ایسی ضخیم اور معرکتہ الاراء تصنیف کی طباعت و اشاعت در اصل ایک وسیع پیمانے پر چلنے والے اسلامی اداره یا ایک منظم جماعت کا کام تھا.جو اللہ تعالی کی تائید خصوصی سے آپ نے تن تنہا کر دکھایا.ابتدائی تصنیف کا مسودہ اس مقام پر " براہین احمدیہ " کی ترتیب - کتابت اور اشاعت کے متعلق بعض تاریخی کوائف کا بھی ذکر ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپریل ۱۸۷۹ء تک براہین احمدیہ کی تصنیف فرما چکے تھے اور مسودات کا حجم دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا.اور اس میں حضور نے اسلام کی صداقت میں تین سو ۳۰۰ ایسے زبر دست دلائل تحریر فرمائے کہ جن کے متعلق آپ کا دعوئی تھا کہ ان سے قرآن مجید کی سچائی اور رسول اکرم ا کی جلالت شان نیر النہار کی طرح روشن ہو جائے گی.اور آپ نے ابتداء ہی میں یہ فیصلہ فرما لیا تھا کہ اشاعت کے مرحلے پر اصل مسودہ میں ایک حصہ بعض تمہیدی امور اور اہم حواشی وغیرہ کا اضافہ کیا جائے گا.کتاب کے ابتداء میں انعامی اشتہار کا لگانا بھی شروع سے آپ کے مد نظر تھا چنانچه موجودہ شائع شده براہین احمدیہ کا اشتہار حصہ اول مقدمہ حصہ دوم اور حواشی سب دوران زمانہ اشاعت کے ہیں.اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ چند صفحات سے زیادہ نہیں آسکا.مسودہ کو خوشخط نقل کرنے کے لئے آپ نے میاں خوشخط نقل اور کتابت کے مرحلے شمس الدین صاحب (جو آپ کے استاد فضل الہی صاحب کے بیٹے تھے) کی خدمات حاصل کرلی تھیں.جب وہ مسودہ صاف اور شستہ خط میں نقل کر لیتے تو اسے منشی امام الدین صاحب کا تب امرت سری کو دے دیا جاتا.جو امرت سر سے قادیان آگر حضور کی نگرانی میں کتابت کا کام کیا کرتے تھے.جب کا پیاں تیار ہو جاتیں تو ان پر نظر ثانی فرماتے اور تصحیح کرنے کے بعد انہیں پریس تک پہنچانے کے لئے اکثر خود ہی امرت سر تشریف لے جاتے بعد میں حضور کو جب کا پہیوں کو پتھر پر جمادینے کی اطلاع دی جاتی تو پھر بنفس نفیس تشریف لے جاتے اور پروف پڑھنے کے لئے کئی روز تک حکیم محمد شریف صاحب کلانوری مرحوم وغیرہ کے یہاں قیام پذیر ہو نا پڑتا.اس سفر میں آپ کے ساتھ کبھی کبھی لالہ ملاوائل اور لالہ شرمپت رائے ہوتے تھے.بعض اوقات لالہ ملاوائل صاحب ہی کو کاپیاں دے کر بھیجوا دیا جاتا.II حصہ چہارم کی طباعت کا زمانہ آیا تو پروف اور کاپیوں کو گاہے گاہے بذریعہ ڈاک بھی بھجوا دیتے تھے.لیکن اس میں خاص احتیاط کرنا پڑتی تھی.حضرت اقدس خود بھی رجسٹری کرتے اور پریس کے مہتم کو بھی یہ ہدایت تھی کہ وہ کاپیاں اور پروف رجسٹری

Page 209

تاریخ احمدیت جلدا بھیجوایا کرے.19.براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت براہین احمدیہ کس کس پریس میں چھپی براہین احمدیہ کی طباعت کا انتظام شروع میں حضور نے پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند میں فرمایا.کیونکہ اختلاف مذہب کے باوجود پادری موصوف کو دلی شغف تھا کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے اور حضرت اقدس کا منشاء مبارک بھی " براہین احمدیہ " کو کتابت و طباعت کے لحاظ سے معیاری اور دیدہ زیب بنانے کا تھا.بلکہ ایسی بے جا کفایت شعاری کو جو کتاب کے ظاہری حسن کو ماند کر دے آپ شرک قرار دیا کرتے تھے اس لئے مطبع کے گراں نرخ اور بھاری اخراجات کے باوجود آپ کی نظر انتخاب اس پر پڑی.چنانچہ کتاب کا حصہ اول اسی مطبع میں چھپا اور اس کے پہلے پر نٹر شیخ نور احمد صاحب نے جو فن طباعت میں بہترین ماہر مانے جاتے تھے اور جنہیں کچھ عرصہ قبل پادری رجب علی صاحب نے مراد آباد سے خاص طور پر بلا کر ان کے سپرد اپنے مطبع کا اہتمام کر رکھا تھا.حصہ اول کی اشاعت کے بعد چونکہ شیخ نور احمد صاحب نے مطبع "سفیر ہند" چھوڑ کر مطبع ریاض ہند" کے نام سے قریب ہی اپنا ذاتی مطبع قائم کر لیا تھا اس لئے پادری رجب علی صاحب نے کتاب کو گذشتہ معیار پر قائم رکھنے کے لئے شیخ نور احمد صاحب ہی کو کچھ اجرت پر اس کی طباعت کا کام دے دیا.اور اس طرح اگلے دو حصے (حصہ دوم و حصہ سوم ) عملا تو "ریاض ہند میں طبع ہوئے مگر ان پر نام سفیر ہند " کا درج کیا گیا.اسی رنگ سے کتاب کا حصہ سوم ریاض ہند میں چھپ رہا تھا کہ پادری صاحب نے حضرت صاحب سے روپے کا بار بار مطالبہ کرنا شروع کر دیا.حالانکہ حضرت اقدس تو انہیں پیشگی روپیہ دے دیتے.مگروہ کام کو معرض تأخیر میں ڈالتے جاتے تھے.جب ان کے تقاضوں نے سخت تنگ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کچھ رقم لے کر قادیان سے امرت سریال بازار پہنچے.جہاں چھاپہ خانہ دریافت کیا تو بتانے والے نے مطبع ریاض ہند کا پتہ بتا دیا.چنانچہ حضور اس مطبع میں داخل ہوئے یہاں براہین احمدیہ کا تیسرا حصہ چھپ رہا تھا.حضرت اقدس نے سمجھا کہ رجب علی کا یہی پریس ہو گا.ملازموں سے آپ نے فرمایا کہ پادری رجب علی صاحب کو بلاؤ.شیخ نور احمد صاحب (مہتمم مطبع) کا گھر قریب ہی تھا.جب انہیں اطلاع ہوئی تو وہ جلد آگئے اور السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا.حضرت صاحب رجب علی صاحب کو تو جانتے تھے لیکن ان سے تعارف نہیں تھا.ان کو دیکھ کر متعجب سے ہوئے اور فرمایا یہ پریس رجب علی کا ہے ؟ انہوں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ ہی کا ہے.پھر فرمایا کہ رجب علی صاحب کا پریس کہاں ہے اور یہ ہماری کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی؟ انہوں نے اصل واقعہ عرض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ساری کتاب میں نے اپنے مطیع میں

Page 210

تاریخ احمدیت جلدا - 191 یر امین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت چھاپی ہے.صرف پہلا حصہ پادری صاحب کے پریس میں چھپا ہے اور وہ بھی میں نے ہی چھاپا ہے.اب ان کا پریس بند ہے اور وہ خیر الدین کی مسجد کی پیچھے رہتے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ رجب علی صاحب ہمیں جنگ کرتے ہیں.پیشگی روپیہ لے لیتے ہیں اور وقت پر کام نہیں دیتے.اب ہم ان کو روپیہ دینے آئے ہیں اور کتاب ابھی چھپی نہیں.اگر پہلے سے ہمیں معلوم ہو تا تو آپ ہی سے چھواتے.ہمیں اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان کے مطبع میں کتاب چھپ رہی ہے.اور ہمارا یہ منشاء ہے کہ جلد چہارم آپ ہی چھا ہیں اور چھپنے کے بعد جب کتاب مکمل ہو جائے تو ایک ماہ کے بعد بتدریج آپ کو روپیہ دیں.کیا آپ یہ انتظام کر سکتے ہیں؟ شیخ نور احمد صاحب نے عرض کیا مجھے منظور ہے.آپ ایک ماہ کے بعد روپیہ بتدریج عنایت فرمانا شروع کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر اظہار خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ کاغذ بھی اپنے پاس سے لگا ئیں اور چھپائی اور ترتیب اور کٹائی اور سلائی سب کام تیار کرا کے اور مکمل کر کے ہمیں دیں.نیز فرمایا کہ ہم کام عمدہ چاہتے ہیں.کوئی نرخ چھپائی یا کاغذ وغیرہ کا ان سے نہیں پوچھا اور اس طرح آئندہ براہ راست "ریاض ہند میں کتاب کی طباعت کا سلسلہ منتقل ہو گیا.چنانچہ کچھ عرصہ بعد حضرت اقدس نے شیخ صاحب کو قادیان بلایا اور انہیں جلد چہارم کا ابتدائی خوشخط لکھا ہوا مسودہ اشاعت کے لئے عنایت فرمایا اور براہین حصہ چہارم چھپنا شروع ہو گئی.بعد میں حضور نے آہستہ آہستہ دوسرا مضمون بھی دستی یا بذریعہ ڈاک بھیجوا دیا.سرورق محمد حسین صاحب مراد آبادی نے لکھا.اس کا ایک جز چھپنا باقی تھا کہ شیخ نور احمد صاحب سفر بخار اپر روانہ ہو گئے اور بقیہ حصہ جناب محمد حسین صاحب مراد آبادی کی عمرانی میں چھپا اور براہین احمدیہ مکمل طور پر تیار ہو کر حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچ گئی.براہین احمدیہ کے مختلف حصص کا سن اشاعت "برامین احمدیہ " کے " پہلے دو حصے اور چوتھا حصہ ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا." ۱۸۸۰ء میں تیسرا حصہ ۱۸۸۲ء میں زمانہ براہین احمدیہ " مسلسل جہاد تھا براہین احمدیہ " سے تعارف کے لئے ملکی پریس میں تحریک ملک کے مسلمان رؤساء اور دوسرے لوگوں سے خط و کتابت اور پھر اس کی ترسیل وغیرہ امور میں سے ہر امر بجائے خود ایک دفتر اور عملہ کا مقتضی تھا.لیکن آپ نے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی ایک فرض شناس اور بیدار مغز انسان کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا.کتاب کی تحریک کے لئے ملکی رسائل و جرائد سفیر ہند" اشاعت السنہ" اور "منشور محمدی " وغیرہ میں مضامین تحریر فرمائے.ملک کے مسلم دوست رؤساء &

Page 211

تاریخ احمدیت جلدا ۱۹۲ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت اور امراء کو سینکڑوں دستی خطوط لکھے.کتاب کی روانگی کے لئے ایک مفصل فہرست مرتب فرمائی.حضور خود اپنے ہاتھ سے پیکٹ تیار کرتے.ان پر اپنے ہاتھ سے مرسل الیہ کا پتہ تحریر فرماتے المختصر آپ کی زندگی کا یہ دور مسلسل جہاد تھا.براہین احمدیہ کا التواء ۱۸۸۴ء میں براہین احمدیہ کا حصہ چہارم چھپا اور اسی حصہ کے آخر میں آپ نے یہ اطلاع شائع کی کہ ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرت اللہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے انی انار بک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہر و باطنا حضرت رب العالمین ہے".چنانچہ اللی منشاء کے ماتحت تئیس سال تک براہین احمدیہ معرض التواء میں رہی اور آخر ۱۹۰۵ ء میں اس کا پانچواں اور آخری حصہ تصنیف ہو کر اکتوبر ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا.یہ حصہ مضمون کے اعتبار سے ابتدائی حصوں کے تسلسل میں نہیں تھا.کیونکہ اس تئیس سالہ دور میں آپ ماموریت کے تاج سے سرفراز ہو کر قرآنی صداقتوں کے لاکھوں نشانوں کا جلوہ گاہ بن گئے تھے اور براہین احمدیہ " کے موعودہ تین سو دلائل کا ذکر ہی کیا آپ کے قلم و زبان سے اسلام اور قرآن مجید کی سچائی کے علمی اور عملی زندہ اور درخشاں دلائل کا ایک غیر محدود سمندر اور بکرنا پیدا کنار ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دے رہا تھا.اس لئے براہین احمدیہ کے حصہ پنجم پر قلم اٹھانے کی تحریک ہوئی تو براہین احمدیہ کے باقی ماندہ مضمون کو جس کے بغیر یہ تصنیف اب تک بالکل نا تمام صورت میں پڑی تھی شامل اشاعت کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی.اس کے بر عکس اس میں معجزہ کی حقیقت اور اپنے دعاوی کے متعلق دوسرے مباحث بیان کرتے ہوئے فقط ان پیشگوئیوں کا ذکر فرما دیا گیا جو ابتدائی حصوں میں کی گئی تھیں.اور پھر برسوں کے بعد ناموافق بلکہ سراسر مخالف حالات میں بڑی شان سے پوری ہو ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس لطیف اور پر حکمت اسلوب و انداز نے اسے پہلی تصنیف سے بھی مربوط کر دیا اور دنیا پر اتمام حجت بھی قائم ہو گئی اور یہی براہین احمدیہ کی تصنیف اور آپ کی آمد کا حقیقی مقصد تھا.براہین احمدیہ کی تعویق پر بعض لوگوں کی طرف سے قیمت کتاب کی واپسی کا اعلان اعتراضات ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی دفعہ یکم مئی ۱۸۹۳ ء میں.اور اس کے بعد کئی مرتبہ اعلان فرمایا کہ جن خریداروں کو اس خدائی

Page 212

تاریخ احمدیت.جلدا ١٩٣ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت توقف پر شکوہ اور سوء ظن ہو وہ کتاب واپس کر کے اپنی قیمت لے سکتے ہیں.چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت میں جتلا تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور حضرت اقدس نے انہیں قیمت واپس کردی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب اور خستہ حالت میں واپس کیا مگر آپ نے قیمت کی واپسی میں ایک لحہ کے لئے بھی تامل نہیں کیا.بلکہ بعض بگڑی ہوئی زہنیتوں کی روش دیکھ کر یہاں تک کہا کہ وفات شدہ خریداروں کے درثاء بھی کتاب واپس کرنا چاہیں تو وہ چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق بھجوا دیں انہیں بھی فی الفور قیمت ادا کر دی جائے گی.دوسری طرف براہین احمدیہ کی آڑ میں گند اچھالنے والوں کے لئے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ”میں ایسے صاحبوں کی بد زبانی اور بد گوئی اور دشنام دہی کو بھی محض اللہ بخشتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے.E براہین احمدیہ کی تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے ہم ۱۸۸۴ء تک جاپہنچے تھے.اب دوبارہ مضمون کے ۵۴ تسلسل میں ۱۸۸۰-۱۸۸۱ء کی طرف پلٹتے ہیں.الہامات کیلئے روزنامچہ نویس کا تقرر اس وقت تک حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا معمول یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے حضور کو جو اہم خبریں ملتیں وہ اپنے حلقہ احباب تک پہنچادیتے.قادیان میں آپ ہندوؤں میں سے لالہ ملا وامل لالہ شرمپت رائے اور کشن سنگھ کو اور مسلمانوں میں سے میاں جان محمد مرحوم امام مسجد کو ان سے آگاہ رکھتے تھے اور بعض بیرونی احباب مثلا لالہ عظیم سین صاحب وکیل اور حافظ ہدایت علی صاحب ڈپٹی ضلع وغیرہ کو بھی وقتا فوقتا ان سے تحریری اطلاع دیتے رہتے تھے.لیکن اب آپ نے الہامات لکھنے کے لئے بطور روزنامچہ نویس ایک نو کر رکھ لیا جس کا نام پنڈت شام لال تھا اور جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا.یہ برہمن نژاد فارسی اور ناگری میں اپنے دستخطوں کے ساتھ حضرت کے الہامات و مکاشفات روزنامچہ میں درج کرتا رہتا تھا.یہ شخص ایک عرصہ تک اس عہدہ پر متعین رہا.لیکن جب پنڈت لیکھرام قادیان میں آیا تو اس نے اسے دباؤ ڈال کر اس خدمت سے الگ کرالیا.اور گوہ علیحدگی کے بعد بھی مخفی طور پر ملازمت کرتا رہا.مگر خدا کے زندہ اور روشن نشانوں کے لکھنے میں آپ کے مد نظر اتمام حجت کی جو غرض تھی اس کے لئے اس طرز کی پوشیدہ ملازمت سراسر بے فائدہ اور بے کار تھی.اس لئے حضرت اقدس نے خود ہی اسے بر طرف کر دیا اور پھر ایک اور ہندو برہمن کالیہ ہوار اس کو یہ خدمت سپرد کردی.لیکن جب زمانہ ماموریت میں مکالمات اللہ کی شہادت کا میدان پورے ملک کو محیط ہو گیا تو اس التزام کی ضرورت ہی نہ رہی.

Page 213

تاریخ احمدیت جلدا 190 براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت روزنامچہ نویس کے زمانہ میں قادیان اور بیرون کے ہندو مسلمان اصحاب کو خدائی کلام سے وقتاً فوتنا مطلع کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری رہا.اور اس میں اور زیادہ وسعت اور با قاعدگی پیدا ہو گئی.کیونکہ اس زمانہ میں ملک کا ایک طبقہ صدق و عقیدت کے ساتھ آپ کی طرف مائل ہو چکا تھا.اور آپ انہیں بذریعہ مکتوبات اپنے الہامات سے باخبر رکھتے تھے.خصوصاً میر عباس علی صاحب لدھیانوی سے تو اس ضمن میں باقاعدہ ایک سلسلہ خط و کتابت جاری رہتا تھا.بلکہ حضرت اقدس کا طریق مبارک تھا کہ کسی شخص کے نام مراسلت فرماتے تو اس کی ایک کاپی میر عباس علی صاحب کو بھیجوا دیتے جسے وہ باوضو ہو کر نہایت عقیدت کے ساتھ اپنے رجسٹر میں محفوظ کر لیتے.اور یوں قدرت نے انہی کے ہاتھوں اس گیج گراں مایہ کی حفاظت کا سامان کیا.۵۶ اس زمانہ کی عظیم الشان پیشگوئیاں اور نشانات یہ زمانہ آسمانی تجلیات کا ایک خاص زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مستقبل کے متعلق بڑی عظیم الشان خبریں دی گئیں.جو بعد میں بڑی آب و تاب سے پوری ہو ئیں.مثلاً آپ کو بتایا گیا کہ ایک شریف اور عالی نسب خاندان سے آپ کا تعلق قائم ہونے والا ہے اور اس دوسری شادی کے لئے بھی انتظامات اللہ تعالیٰ اپنے معجز نما ہاتھ سے کرے گا اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی.نیز ایک مبارک نسل کا وعدہ بھی آپ کو دیا گیا اور ایک حسین فرزند کی قبل از وقت اطلاع بھی حضور کا مشہور تاریخی اور پر شوکت الهام " انتي مهين مَنْ اَرَادَ اهانتگ بھی اسرہ زمانہ میں نازل ہوا جو ہزاروں دفعہ پورا ہوا.اور واقعات نے ہر رنگ میں اس کی سچائی پر شہادت دی اور مخالفین تک نے کھلے لفظوں میں تسلیم کیا کہ "جب تک وہ انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں.ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہو گا جس پر مرزا صاحب کا الهام انتي مهين من اَرَادَاهَا نَتَكَ صادق آئے گا".اس زمانہ میں جہاں مستقبل کے متعلق یہ اہم خبریں دی گئیں وہاں متعدد نشانات بھی ظہور پذیر ہوئے.سردار محمد حیات خاں عرصہ کی معطلی کے بعد آپ کی خواب کے مطابق بحال ہوئے اور لالہ لاوائل جو دق کے مسلک اور جا نگر از مرض میں مبتلا ہو گئے تھے محض آپ کی دعا اور خدائی بشارت کے مطابق ایک ہفتہ کے اندر اندر مکمل طور پر شفایاب ہو گئے اور پچانوے سال کی عمر بائی جو ایک بے مثال معجزہ ہے اور جس کی مثال طبی دنیا میں تلاش کرنا مشکل ہے.اس زمانہ کے نشانات کو ایک عجیب خصوصیت یہ حاصل تھی کہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو قبل از وقت یہ اطلاع دے دی جاتی تھی کہ فلاں شخص آپ کو اس قدر رقم بھجوا رہا ہے چنانچہ جب ہندو اور مسلمان ڈاک خانہ سے پتہ کرتے تو

Page 214

تاریخ احمدیت جلدا ۱۹۵ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت آپ کی اطلاع درست نکلتی اور وہ بالکل مبہوت ہو کر رہ جاتے.DA براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت قولنج زجیری کا خطرناک حملہ اور اعجازی شفاء کا نشان کے کام میں حضرت اقدس نے اپنی صحت سے بے نیاز ہو کر جان کی بازی لگادی تھی.لیکن اس مسلسل جہاد میں آپ کے صبر و رضاء کا ایک درد انگیز امتحان بھی مقدر تھا جو اسی سال ایک شدید بیماری کی شکل میں ظاہر ہوا.۱۸۸۰ء میں ایک مرتبہ قادیان اور بٹالہ کے ماحول میں قولنج زمیری کی وباء پھوٹ پڑی اور متعدد اموات ہو ئیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی اس کا خطرناک حملہ ہوا.آپ کے ساتھ ہی قادیان میں ایک اور شخص (محمد بخش حجام نامی) بھی بیمار ہوا اور اگرچہ اس کی بیماری آپ کے مقابل میں نسبتاً زیادہ سخت نہیں تھی لیکن وہ آٹھ دن میں ہی راہی ملک عدم ہو گیا حضرت اقدس برابر سولہ روز تک اس ملک مرض میں مبتلا رہے اور پے در پے خونی اجابتوں نے آپ کی حالت یہاں تک نازک کردی که خویش و اقارب نے ایک دو دفعہ نہیں متواتر تین مرتبہ یہ سمجھ کر کہ آپ کا سفر آخرت آن پہنچا ہے مسنون طریق پر سورہ یسین سنائی.سولہویں دن جب تیسری باریس پڑھی گئی تو دیواروں کے پیچھے وہ زارو قطار رونے لگے اور انہیں پختہ یقین ہو گیا کہ آپ آج شام تک قبر میں ہوں گے.جب بیماری اس درجہ تشویشناک صورت اختیار کر گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو تسبیح و تحمید اور درود شریف کی ایک دعا سکھائی گئی سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ محمد اور حکم ملا کہ یہ دعا پڑھتے ہوئے دریا کے پانی اور ریت میں ہاتھ ڈالکر اسے اپنے بدن پر پھیریں اس سے آپ شفاء پائیں گے.چنانچہ دریا سے پانی اور ریت منگوائی گئی.اس وقت آپ کا پورا جسم درد ناک جلن میں مبتلا تھا اور ایک ایک بال سے آگ نکل رہی تھی اور طبیعت بے اختیار اس بات کی طرف مائل تھی کہ اس حالت سے موت بہتر ہے.مگر جونہی آسمانی معالج اور حکیم مطلق کا علاج شروع ہو ا طبیعت میں رکا ایک خوشگوار انقلاب پیدا ہو گیا.جوں جوں آپ یہ کلمات پڑھ کر پانی کو بدن پر ہرتے آپ کو محسوس ہوتا کہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور مرض میں افاقہ اور طبیعت میں سکون ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ آپ کو اعجازی رنگ میں شفا عطا ہوئی اور آپ بکلی صحت یاب ہو گئے.بیماری کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عیادت کے لئے ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے والد مولوی رحیم بخش صاحب بھی آئے اور انہوں نے تسلی دلانے کی بجائے اس خبر سے اور بھی تشویش پیدا کر دی کہ میں ابھی بٹالہ میں ایک شخص کا جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا ہے.

Page 215

تاریخ احمدیت.جلدا 194 یر امین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت دراصل بچپن سے آپ کی صحت اچھی نہیں تھی اور آپ مختلف امراض و عوارض کے شکار رہتے تھے.پہلے سل اور اب قولنج زمیری ایسی مہلک بیماریوں میں بھی آپ جتلا ہوئے مگر جونہی آپ کی زندگی کے آثار بظاہر منقطع ہونے کو آئے غد اتعالٰی کے فرشتے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کو موت کی آغوش سے نکال لاتے تھے.یہ خارق عادت سلوک صاف اشارہ کر رہا تھا کہ تجدید دین کا وہ روحانی قافلہ جو حضرت عمر بن عبد العزيرية ، حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی حضرت محی الدین ابن عربی" حضرت امام غزالی حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں بریلی کی سرزمین تک پہنچا تھا آپ کی قیادت میں ایک نئی شان و شوکت کے ساتھ شاہراہ عالم پر گامزن ہونے والا ہے.

Page 216

تاریخ احمدیت جلدا 196 براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت دیکھو حالات ۶۱۸۷۳-۶۱۸۶۵ حواشی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی براہین احمدیہ سے پہلے ایک انعامی اشتہار دیا تھا جس میں رفع یدین اور آمین وغیرہ مسائل تھے اور جواب کے لئے فی مسئلہ دس روپے انعام مقرر کیا تھا.اس مسائل تھے.حضرت اقدس کو جب یہ اشتہار ما تو فرمایا دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے.جب نماز ہر طرح ہو جاتی ہے.تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے.اس وقت ہمیں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے.نہ ان مسائل میں بحث کی " (سیرة المهدی حصہ سوم صفحه ۳۵٬۴۴) اشاعتہ السنہ " جلد ختم نمبر صفحه ۱۷۰۲۹۹ ایسا مسلح ۲۸۳ اشاعتہ السنہ جلد ہفتم نمیره صفحه ۳۳۸ - طب روحانی صفحه ۲۸٬۲۷ طبع اول مطبوعه رحیمی پریس لدھیانہ الفضل ۲۳ جون ۱۹۳۱ء (مکمل متن اشتهار) انعامات خداوند کریم " مولفہ حضرت پیر افتخار احمد صاحب مطبوعہ قادیان - منشور محمدی بنگور ۲۵ رجب المرجب ۱۳۰۰ صفحه ۲۱۷٬۲۱۴ منشور محمدی - جمادی الاخراء ۱۳ھ صفحه ۱۹۲۱۹۵ ا حکم ۱۳ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۳ حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحہ ۸۸ الحکم ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء صفحه ۲ ریویو آف ریلی اردو " جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۹۰۸ و " قادیانیت "صفحه ۵۱۰۴۵ طبع اول از سید ابو الحسن ندوی خلیفه قادیان صفحه ۲۳ ۱۵ از ارجن سنگر صاحب دیر اخبار ر تین امر تر ناشر راجپوت یک ایجینسی کمرہ جمیل سنگھ امرتسر براہین احمدیہ حصہ دوم سردرق صفحه ۱ ۳ ۴۴ ۱۸ مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۱۳ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مطبوعہ دسمبر ۱۹۰۸ء انوار احمد یه مشین پریس قادیان - اس کتاب میں آنحضرت ﷺ پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے تھے " پیسہ اخبار " لاہور نے حکومت سے اس کی ضبطی کا مطالبہ کیا.لیکھرام کے مختصر کوائف ولادت (۱۸۵۸ء) آریہ سماج میں شمولیت (۱۸۸۰ء) آریہ گزٹ کی ادارت (۱۸۸۷ء تا ۱۸۹ء) اشاعت تکذیب برا این احمدیہ (۱۸۸۷ء) قتل (۶- مارچ ۶۱۸۹۷) ۲۱- کتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۳ ۲۲ اصل عبارت میں تحریف کی بجائے " تعریف ہی لکھا ہے.مرتب ۲۳- ایضاً صفحه ۱۷۴-۱۷۵ ۲۳ اشاعۃ السنہ جلدے نمبر صفحہ ۱۷۰ ۱۷۱ ۲۲۴۲۵ نقل مطابق اصل ۲۷ بر این احمد بہ حصہ سوم صفحه ۲۲۶٬۲۲۵ حاشیه در حاشیہ نمبرا در حاشیه به ۲۸ حقیقت الوحی صفحه ۳۳۷

Page 217

تاریخ احمدیت جلدا ۱۹۸ براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت براہین احمدیہ جلد اول سرورق صفحه ۳ و تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۸ ۳۰ براہین احمدیہ حصہ دوم صفحه و تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۸ ۳۱ ایسا صفحه ۲۹ -۳۲ اشتہار مندرجہ کتاب بر امین احمدیہ صفحہ اور جلد دوم ۳۳- اشتهار مندرجه سردرق بر این احمد به جلد سوم ( مطبوعه سفیر ہند پریس امرتسری م حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحه ۴۰ مکتوب مورخه ۲۸ اکتوبر ۱۸۸۲ء ۳۵ حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحه ۳۷ ۳۶ مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحه ۲۹-۳۰ ۳۷- ایسا صفحہ ۴۷ ۳۸ براہین احمدیہ حصہ اول صفحه ۱ و حصہ سوم صفحه ۲۵۵ ۲۵۶ و حصہ چهارم صفحه ج حیات احمد جلد دوم صفحه ۵۴۴۵۵۱۲۹۴۲۸ ۳۹ براہین احمدیہ جلد دوم ( صفحه اتاد) ۱۸۸۰- اشتہار مندرجہ ٹاکل براہین احمدیہ جلد سوم مثلا نواب اقبال الدولہ صاحب حیدر آباد عمده دار محمد افضل خان نواب صاحب مالیر کو نمله و غیره بر این احمدیہ جلد چهارم صفحهج ۳۲ ایضا ۴۳- تخمه حقیقته الوحی صفحه ۳۷ -۲۴ سرورق بر این احمدیہ حصہ اول - تبلیغ رسالت حصہ اول صفحه ۸/ج ۳۵ سیرت المہدی حصہ اول صفحه مکتوبات بنام مولوی عبد اللہ صاحب سنوری صفحہ ہ ۲۷ صرف حصہ چہارم کے ایک حصہ کی کتابت حضرت شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی نے کی باقی سبھی حصے منشی صاحب موصوف نے لکھے.(حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحه ۳۷) ۴۸ حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحه ۴۲۴۴۴۳ ۴۹ اینا صفحه ۴۰ ۵۰- حیات احمد جلد دوم نمبر صفحہ ۱۳۶ ۵۱ ايضا صفحه ۳۸ ۵۲ رسالہ نور احمد نمبر صفحہ ہے ۵۳ حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحہ ۴۲ ۵۵٬۵۳ - تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۲۹ تا ۳۹ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب اشاعت نمبر ۱۹۲۰ و حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۵۹ ۵۶ حیات احمد جلد دوم نمبر صفحه ۱۷۴۷۴ و مکتوبات احمد یہ جلد اول و الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۳ ۵۷ ملاحظہ ہو اخبار المنیر " (فیصل آباد) لائلپور ۱۰- اگست ۶۱۹۵۵ و ۳۳- فروری ۶۱۹۵۷- ۵۸ برا این احمد یه صفحه ۵۵۸ و شحنه حق طبع دوم صفحه ۵۵ و تریاق القلوب صفحه ۵۹٬۵۸٬۳۲ و بر این احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۵۲ حاشیه در حاشیہ نمبرباد صفحه ۲۲۸٬۲۲۷ حاشیه در حاشیه نمبرا و نزول المسیح صفحه ۲۰۲ ۵۹ تریاق القلوب صفحه ۳۸۴۳۷ د حیات احمد جلد دوم نمبر صفحه ۸۱- سیرت مسیح موعود مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ

Page 218

تاریخ احمدیت جلدا - 199 خلعت ماموریت سے سرفرازی ہم اللہ الرحمن الرحيم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم و على عبده المسيح الموعود ماموریت کا پہلا سال خلعت ماموریت سے سرفرازی (۱۸۸۲ء) ماموریت کا پہلا الہام اوائل کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں کشفا دکھایا گیا کہ ایک باغ لگایا جا رہا ہے اور میں r اس کا مالی مقرر ہوا ہوں ".یہ دراصل ماموریت کی پہلی بشارت تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آپ کو گلشن محمد ( ﷺ) کی باغبانی کا فریضہ سپرد ہونے والا ہے.اس کشف کے ایک عرصہ بعد جب کہ آپ براہین احمدیہ (حصہ سوم) کا حاشیہ تحریر فرما رہے تھے.آپ پر یکا یک ربودگی کا عالم طاری ہوا اور حالت کشف میں آنحضرت رونق افروز ہوئے اور آپ کو شرف معانقہ بخشا.اس وقت ا آنحضرت کا روئے مبارک چودھویں رات کے چاند کی مانند چمک رہا تھا.آپ نے دیکھا کہ حضور انور کے مقدس چہرے سے نور کی کرنیں نکل نکل کر آپ کے اندر داخل ہو رہی ہیں آپ یہ نور ظاہری روشنی کی طرح مشاہدہ کر رہے تھے اور پورے یقین کے ساتھ سمجھتے تھے کہ آپ صرف باطنی آنکھوں ہی سے نہیں بلکہ ظاہری نظر سے بھی اس نظارہ سے محظوظ ہورہے ہیں.آنحضرت ﷺ سے معاشقے کے بعد آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو گیا کہ آیا آنحضرت ا آپ سے الگ ہوئے ہیں یا تشریف لے گئے ہیں.زیارت مصطفوی ﷺ کی اس عظیم الشان تجلی کے بعد جو ۱۸۸۲ عیسوی کے آغاز میں ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الہام الہی کے دروازے کھول دیئے گئے اور خدا تعالی کی طرف سے

Page 219

تاریخ احمدیت جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی ماموریت کا پہلا اور تاریخی الهام نازل کیا گیا جو کم و بیش ستر فقرات پر مشتمل تھا اور جس کے ابتدائی کلمات یہ تھے.يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَالكِنَّ اللَّهُ رَى الرَّحْمٰنُ عَلَمَ القران لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَا اَبَاءهُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلَ الْمُجْرِ مِيْنَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا اول المُؤْمِنِينَ.یعنی اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے جو کچھ تو نے چلایا وہ تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا.خدا نے تجھے قرآن سکھایا تا ان لوگوں کو تو ڈرائے جن کے باپ دادا کو انذار نہیں کیا گیا اور تا خدا کی حجت پوری ہو اور مجرموں کی راہ کھل جائے.کہہ دے میں خدا کی طرف سے مامور اور اول المومنین ہوں.ماموریت کا یہ الہام جماعت احمدیہ کے قیام میں سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے.اس الہام میں جہاں آپ کی پوری زندگی کے اہم واقعات مثلاً مستقبل میں منتظم مخالفت کے باوجود آپ کی شاندار کامیابی اور آپ کی طرف تصرف الہی کے تحت ایک عالم کے مجھے آنے سے متعلق قبل از وقت خبریں دی گئیں وہاں آپ کی شان ماموریت کو رسالت و نبوت سے تعبیر کرتے ہوئے بتا دیا گیا کہ آپ قرآنی پولی - هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کے مصداق ہیں اور آپ ہی کے ہاتھوں دین خدا کو دلائل وبراہین کے ذریعہ سے بھی ادیان عالم پر روحانی ہونا ! غلبہ نصیب ہو نا مقدر ہے اور یہ سب کچھ رسول اکرم ﷺ کی اتباع و غلامی کے طفیل ہو گا جیسا کہ آپ کو الہاما تایا گیا.كُل بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَمَ وَتَعَلَّمَ - یعنی مِنْمُ ہر ایک برکت محمد ﷺ کے افاضہ سے عطا ہوئی ہے پس معلم (یعنی رسول عربی ال ) بھی مبارک اور منظم (یعنی مسیح موعود) بھی.اسی لئے آپ فرماتے ہیں مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے غرضیکہ ماموریت کے اس پہلے الہام ہی میں اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کے حقیقی منصب کی نشاندہی کر دی گئی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ فنافی الرسول کی انتہائی منزلیں طے کر کے اس آخری حد تک پہنچ گئے تھے جہاں انسان کی اپنی ہستی محمد یت کے بحر بیکراں میں ہمیشہ کے لئے فنا ہو جاتی ہے اور ہر طرف آنحضرت لا کا مقدس وجود ہی جلوہ گر ہوتا ہے اس لئے آپ نے براہین احمدیہ " میں الہام ماموریت درج کر کے صاف لکھا " تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کا دم مارنے کی جگہ نہیں.چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو خداوند کریم نے اس

Page 220

تاریخ احمدیت جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول ﷺ کی برکتیں ظاہر ہوں اور نا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کر رکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدیہ کے جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑ کر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں خدا ان کو فانی اور ایک مصفا شیشہ کی طرح پا کر اپنے رسول مقبول ﷺ کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں حقیقت میں مرجع تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ﷺ ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اس کے لائق ہوتی ہیں اور وہی ان کا مصداق اتم ہوتا ہے.مگر چونکہ قبع سفن آن سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجود باجود حضرت نبوی ہے مثل کل کے ٹھہر جاتا ہے اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار السیہ پیدا اور ہویدا ہیں.اس کے کل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اس کے اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے ".اس حقیقت کی روشنی میں آپ زیادہ سے زیادہ یہی سمجھے کہ آپ کے سپرد تجدید دین اور احیائے شریعت کی خدمت کی گئی ہے اور یہ کہ آپ چودھویں صدی کے مجدد ہیں.چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں.” جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالٰی نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ الرحمنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اوَلُ الْمُؤْمِنِينَ " كتاب البریہ صفحہ ۱۶۸ حاشیہ) اس انکشاف پر بھی آپ نے دنیا کے سامنے باقاعدہ کوئی دعوئی نہیں کیا یہاں تک کہ ۱۸۸۵ء میں جب براہ راست جناب الی کی طرف سے آپ کو اس کی تحریک ہوئی تو آپ نے محمد دیت کا اعلان فرمایا اور یوں پہلی مرتبہ آپ محض ایک مجدد کی حیثیت میں دنیا سے روشناس ہوئے حالانکہ جیسا کہ خود آپ کو بھی بعد میں تدریجا بتایا گیا چودھویں صدی کا مجدد محض مجدد نہیں قرار دیا جا سکتا تھا کیونکہ خدائی نوشتوں میں تیرھویں صدی کو جو نمایاں خصوصیت حاصل تھی اس کے لحاظ سے چودھویں صدی کا مامور اور محمد دا اپنے مقام کے اعتبار سے امت میں ایک ممتاز شخصیت تسلیم کیا گیا ہے.چنانچہ انیسویں صدی تک کے مستند اسلامی

Page 221

تاریخ احمدیت جلد خلعت ماموریت سے سرفرازی لٹریچر میں یہ نظریہ قطعی طور پر پایا جاتا ہے کہ تیرھویں صدی کا زمانہ حضرت امام مہدی کی پیدائش کا زمانہ ہے جو چودھویں صدی کا کامل مجدد ہو گا.چنانچہ حدیث نبوى - الأياتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ - کی تشریح میں امت کے مشہور محدث حضرت ملا علی قاری (متوفی ۱۵۷۳ء) نے بالوضاحت لکھا ہے کہ تیرھویں صدی میں امام مہدی پیدا ہوں گے.(مرقاۃ شرح مشکواۃ جلد پنجم صفحه ۱۸۵ مطبوعہ مصر، اسی طرح بارھویں صدی کے شہرہ آفاق مجدد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۲-۱۷۷۲) اور حضرت شاہ عبد العزیز (۱۷۴۶-۱۸۲۴) اور حضرت سید اسماعیل شہید (متوفی مئی ۱۸۳۱ء) ایسے بلند پایہ بزرگوں کی قطعی رائے تھی کہ تیرھویں صدی کے شروع میں حضرت مہدی کی پیدائش اور اس کے آخر میں آپ کا ظہور ہو گا."ار بعين في احوال المهديين - صفحه ۴۴ مطبوعه مصری تنیج کلکته ۵۱۲۶۸ مولفہ حضرت سید اسماعیل شہید) نامور علماء میں سے نواب صدیق حسن خان صاحب (۱۷۳۵-۱۸۸۹) قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی (متوفی ۱۸۱۰ء) اور حضرت حافظ برخوردار صاحب بھی اس خیال کے زبر دست مرید تھے.ان کے علاوہ امت کے دوسرے علماء و صوفیا ء ولادت مہدی کے زمانہ کی آخری حد تیرھویں صدی تک قرار دیتے آئے ہیں اور کوئی اندازہ اس زمانہ سے آگے نہیں بڑھنے پاتا.(ملاحظہ ہو " اقتراب الساعة " صفحه ۳۴۵ و " حج الكرامه " صفحه ۳۹۳-۳۹۴) حضرت مسیح موعود ای حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " حدیث " الایات بعد الماتین " کی تشریح بہت سے متقدمین اور متاخرین نے یہی کی ہے.جو ماتین کے لفظ سے وہ ماتمین مراد ہیں جو الف کے بعد ہیں یعنی ہزار کے بعد.اس طرح پر معنے اس حدیث کے یہ ہوئے کہ مہدی اور مسیح کی پیدائش جو آیات کبری میں سے ہے تیرھویں صدی میں ہوگی اور چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہو گا یہی معنی محققین علماء نے کئے ہیں اور انہی قرائن سے انہوں نے حکم کیا ہے کہ مہدی معہود کا تیرھویں صدی میں پیدا ہو جانا ضروری ہے تا چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو سکے.چنانچہ اسی بناء پر نیز کئی اور قرائن کے رو سے بھی مولوی نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اپنی کتاب بھیج الکرامہ میں لکھتے ہیں کہ ” میں بلحاظ قرائن قویہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی پر مہدی معہود کا ظہور ہوگا اور ان قرائن میں سے ایک یہ ہے کہ تیرھویں صدی میں بہت سے دجالی فتنے ظہور میں آگئے ہیں".پس بلا شبہ تیرھویں صدی کے آخر میں مامور ہونے والا محض مجدد کے اسم سے موسوم نہیں ہو سکتا وہ تو ایک مخصوص شان کا موعود ہے اور ان تمام پیشگوئیوں کا مصداق جو اس زمانہ میں آنے والے مامور کے متعلق بتائی گئی تھیں.یہ موجود قرآنی اشارات کے مطابق رسول اور احادیث نبوی کے

Page 222

تاریخ احمدیت جلدا ۲۰۳ خلعت ماموریت سے سرفرازی مطابق امام مهدی عینی اور نبی اللہ بلکہ گذشتہ تمام انبیاء مرسلین کا بروز کامل قرار دیا گیا ہے بلکہ حدیث میں آنحضرت ﷺ کی امت کے فضائل کے متعلق یہاں تک لکھا ہے کہ "موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے رب مجھ کو اس امت کا نبی بنادیجئے.ارشاد ہوا اس امت کا نبی اس میں سے ہو گا.عرض کیا کہ تو مجھ کو ان (محمد ﷺ کی امت میں سے بنادیجئے.ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہو گئے وہ پیچھے ہوں گے.البتہ تم کو اور ان کو دار لجلال (جنت) میں جمع کر دوں گا".ماموریت کے پہلے الہام کے بعد اگلے سال ہی آپ کو مسیح موعود نبی اور نذیر کے نام سے یاد کیا گیا مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مقام فنائیت اس درجہ کامل تھا کہ آپ کا ذہن پھر بھی اس طرف نہیں گیا کہ آپ کس شان کے حامل ہیں.اور توجہ بھی کیسے ہوتی جب کہ اپنے لئے کسی عہدے کے خواہاں نہیں تھے اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ رکھتے تھے چنانچہ خودہی فرماتے ہیں.اس وقت مجھے مسیح موعود ٹھہرایا گیا جب کہ مجھے بھی خبر نہ تھی کہ میں مسیح موعود ہوں".30 یہ صورت مسلسل آٹھ سال تک جاری رہی اس دوران میں آپ سے باصرار درخواست کی گئی کہ جب آپ محمد د وقت ہیں تو اپنے دست مبارک پر ہمیں بیعت کا شرف بخشیں.لیکن آپ نے یہی جواب دیا میں اذن الہی کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہوں.پھر جب خدا کا حکم آگیا تب بیعت کی اجازت دی.اس کے بعد ۱۸۹۰ء میں آپ پر تواتر کے ساتھ یہ حقیقت کھول دی گئی کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام طبعی موت سے فوت ہو چکے ہیں اور آپ کو اللہ تعالٰی نے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے.اس آسمانی حکم کی تعمیل میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوئی تو پورے زور سے کر دیا مگر اب بھی آپ کی تحریرات میں اپنے لئے لفظ ”نبی " کا استعمال مجازی رنگ ہی میں مستعمل رہا کیونکہ حضور ابھی تک عامتہ المسلمین کی طرح یہی مسلک رکھتے تھے کہ نئی شریعت لانا یا شریعت سابقہ کے بعض حصوں کی ترمیم و تنسیخ کرنا یا کم از کم کسی نبی کے فیض کے بغیر براہ راست اس منصب تک پہنچنالازمی ہوتا ہے.اور آپ تو پیغمبر خدا ﷺ کی غلامی کے طفیل ہی دین اسلام کی تجدید واشاعت کے لئے مامور ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی کفش برداری کو تخت شاہی سے افضل سمجھتے اور اپنے لئے سب سے بڑا فخر قرار دیتے تھے.لہذا اپنے متعلق حدیث نبوی یا اپنے الہام میں وارد ہونے والے نبی اللہ " کے خطاب کی وضاحت یہ فرمائی کہ اس سے مقصود فقط کثرت مکالمہ و مخاطبہ کا شرف ہے جسے محمد ثیت.موسوم کرنا چاہیے نہ کہ نبوت سے.چنانچہ ۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۰ ء تک آپ اسی مسلک پر قائم رہے اور اپنے مقام کو جزوی یا ناقص نبوت سے تعبیر کرتے رہے.لیکن اس کے بعد مکمل رنگ میں آپ پریشان

Page 223

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۰۴ خلعت ماموریت سے سرفرازی ماموریت کا انکشاف کیا گیا یعنی آپ کو خبر دی گئی کہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ الیہ کے جس شرف کو آپ محمد ثبت قرار دے رہے ہیں وہ خدا تعالٰی کی اصطلاح میں نبوت ہے.اس انکشاف پر آپ نے اپنے متعلق جزوی یا نا قص نبوت یا محد ثیت کے الفاظ کا استعمال ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا اور صاف لفظوں میں اعلان فرمایا کہ ” میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں".نیز گذشتہ مسلک کے بر عکس ایک دوسرا جامع تصور نبوت امت کے سامنے آپ نے یہ پیش فرمایا کہ ”مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور فیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت سے موسوم ہوتا ہے".اس دعوئی کو آپ نے بار بار نهایت زور دار لفظوں میں بیان فرمایا اور آیت فَلا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رسول (الجن : ۱۲۸۰۲۷ کی روشنی میں یہاں تک لکھا کہ میں اس دعوئی میں منفرد نہیں بلکہ جملہ انبیاء علیم السلام کا اس پر اتفاق ہے.بلکہ خود اللہ تعالٰی کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے".اس انقلاب آفریں تصویر سے جہاں آنحضرت ﷺ کی اس خبر کی سچائی نصف النہار کی طرح ثابت ہو گئی جس میں مسیح محمدی کو نبی اللہ کہا گیا تھا وہاں اس سے اتحاد اسلامی کی بنیادیں بھی نہایت درجہ مضبوط ہو گئیں وہاں اس کے نتیجہ میں صاف کھل گیا کہ نہ صرف ختم نبوت کے باب میں تحریک احمدیت کا نقطہ نگاہ جمہور امت سے ہرگز علیحدہ نہیں بلکہ اس تحریک کا قیام ہی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ہوا ہے.حضرت اقدس نے اسی حقیقت کی طرف مسلمانان عالم کو بھی توجہ دلائی اور لکھا." مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الیہ ہے جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و د مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں" اس وضاحتی بیان نے اگر چہ الجھاؤ کی کوئی صورت نہیں چھوڑی تھی تاہم اس عاشق رسول نے تعریف نبوت کی اس الہامی تبدیلی کے بعد اب بھی فقط نبی ک لفظ اپنے لئے گوارا نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ امتی" کے لفظ کا اضافہ ضروری سمجھا.چنانچہ آپ نے لکھا " شریعت آنحضرت پر ختم ہے اور آنحضرت ا کے بعد کسی پرنی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے.جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہ راست " - ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ ماموریت کے پہلے الہام میں آپ کا جو حقیقی مقام متعین کیا گیا تھا |JA

Page 224

تاریخ احمدیت جلدا ۲۰۵ خلعت ماموریت سے سرفرازی بنیادی لحاظ سے آخر وقت تک اس میں نہ کوئی اضافہ ہوا نہ ترمیم.وہی دعاوی تھے اور وہی اغراض و مقاصد - لہذا بعد کو اگر کوئی ارتقائی رنگ پیدا ہوا تو وہ محض ذاتی یا نظریاتی تھا و اقعاتی ہرگز نہیں تھا جو خدا تعالی کی قدیم سنت کے عین مطابق وقوع میں آیا.دنیا میں نشان نمائی کی پہلی باطل شکن دعوت اسلامی دنیا میں اس وقت غیر مذاہب کے مقابلہ میں محض عقلی اور نقلی دلائل کا سہار ا لیا جاتا تھا.جو اس کار زار عالم میں چنداں مفید نہیں تھا.منطق ، فلسفہ، خطابت اور تحریر کی قوتوں میں ایک مسلم اور کافر دہریہ اور خدا پرست دونوں ہی شریک ہو سکتے ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ کفر کے نمائندے کی پشت پر اگر اقتدار اور دولت کام کر رہی ہو تو اس کے قلم و زباں میں غیر معمولی قوت و شوکت پیدا ہو جائے اور یہ امکان اس زمانے میں واقعاتی شکل میں موجود تھا.عیسائی مناد آریہ سماجی اور برہمو سماجی پر چارک قوت و ثروت کے بل بوتے پر پورے ملک پر چھا چکے تھے اور مسلم علماء جواب کی تاب نہ لاکر ایک کونے میں سے بیٹھے تھے اور جو تھوڑے بہت خدا کے حق پرست بندے علمی مدافعت میں مصروف تھے ان کے دلائل میں کوئی جان کوئی عظمت اور کوئی شوکت نہیں تھی.اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے بھیجا تھا اس لئے ادھر آپ مامور ہوئے اور ادھر آپ نے کفر و اسلام کی جنگ کا اسلوب ہی بدل دیا.آپ نے علماء ظواہر کے پامال اور فرسودہ ہتھیاروں کی بجائے اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کو زندہ ثابت کرنے کے لئے اپنا وجود پیش کیا اور دنیا بھر میں منادی کرادی کہ اگر کوئی طالب حق قرآن مجید کی سچائی کے زندہ نشانات دیکھنا چاہتا ہے تو آپ کے پاس آئے اور آپ کی صحبت میں صحت نیت کے ساتھ رہے تو وہ اپنی آنکھوں سے نشانات دیکھے گا اس کے بر عکس قرآن کے مخالف اپنے مذہب کی سچائی میں ہر گز کوئی نشان نہیں دکھا سکیں گے اور صرف گذشتہ زمانے کے حوالہ پر ہی اکتفاء کریں گے جو ان کے غلطی خوردہ ہونے کی فیصلہ کن دلیل ہے.نشان نمائی کی یہ باطل شکن دعوت آپ نے پہلی مرتبہ ۱۸۸۲ء میں براہین احمدیہ حصہ سوم کے ذریعہ سے کی چنانچہ آپ نے فرمایا." آج تک کوئی ایسی صدی نہیں گزری جس میں خدا تعالٰی نے مستعد اور طالب حق لوگوں کو قرآن شریف کی پوری پوری پیروی کرنے سے کامل روشنی تک نہیں پہنچایا اور اب بھی طالبوں کے لئے اس روشنی کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے.یہ نہیں کہ صرف کسی گذشتہ صدی کا حوالہ دیا جائے جس طرح بچے دین اور ربانی کتاب کے حقیقی تا بعد اروں میں روحانی برکتیں ہونی چاہیں اور اسرار

Page 225

تاریخ احمدیت.جلدا 14- ۲۰۶ خلعت ماموریت سے سرفرازی خاصہ الیہ سے علم ہونا چاہیے وہی برکتیں اب بھی جوئندوں کے لئے مشہور ہو سکتی ہیں جس کا جی چاہے صدق قدم سے رجوع کرے اور دیکھے اور اپنی عاقبت کو درست کر لے.انشاء اللہ تعالٰی ہر ایک طالب صادق اپنے مطلب کو پائیگا اور ہریک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا مگر کون ہمارے سامنے آکر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے اور جس نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت اور افضیلت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے وہ بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنی شامل حال رکھتا ہے.کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اس سرے تک ایسا متنفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے.کوئی نہیں ایک بھی نہیں ".نیز فرمایا ” اس زمانہ کے پادری اور پنڈت اور برہمو اور آریا اور دوسرے مخالف چونک نہ اٹھیں کہ وہ برکتیں کہاں ہیں وہ آسمانی نور کدھر ہیں جن میں امت مرحومہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی میسیج اور موسیٰ کی برکتوں میں شریک ہے اور ان نوروں کی وارث ہے جن سے اور تمام قومیں اور تمام اہل مذاہب محروم اور بے نصیب ہیں اس ثبوت دینے کے ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں پس اگر کوئی پادری یا پنڈت یا برہمو کہ جو اپنی کو رباطنی سے منکر ہیں یا کوئی آریہ اور دوسرے فرقوں میں سے سچائی اور راستی سے خدا تعالٰی کا طالب ہے تو اس پر لازم ہے کہ بچے طالبوں کی طرح اپنے تمام تکبروں اور غروروں اور نفاقوں اور دنیا پرستیوں اور ضروں اور خصومتوں سے بکلی پاک ہو کر فقط حق کا خواہاں اور حق کا جو یاں بن کر ایک مسکین اور عاجز اور ذلیل آدمی کی طرح سیدھا ہماری طرف چلا آوے اور پھر صبر اور برداشت اور اطاعت اور خلوص کو صادق لوگوں کی طرح اختیار کرے تا انشاء اللہ اپنے مطلب کو پاوے".ا اس اعلان پر کسی غیر مسلم کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ وہ یہ فیصلہ کن آسمانی دعوت قبول کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں پہنچا اور اسلام کی صداقت کے نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتا اور دنیا حق و باطل میں کھلا امتیاز کر لیتی.التبہ بعض الٹی کھوپڑیوں میں یہ خبط کا گیا کہ نشان نمائی کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ کے پیش کردہ نشانات کی تکذیب میں سر دھڑ کی بازی لگادی جائے.چنانچہ بد زبان پنڈت لیکھرام جو ان دنوں صوابی ضلع پشاور میں محکمہ پولیس میں ملازم تھا اور اپنی دشنام طرازی اور گندہ دہنی میں سوامی دیانند صاحب سے بھی گوئے سبقت لے گیا تھا اس موقعہ پر پہلی مرتبہ میدان مقابلہ میں اترا اور اس نے لالہ ملاوائل اور لالہ شرمپت رائے پر خط و کتابت کے ذریعہ سے ہر ممکن دباؤ ڈالا کہ اپنی مصدقہ شہادتوں سے دستکش ہونے کا اعلان کریں.مگر انہوں نے پوری اخلاقی جرات سے کام لیتے

Page 226

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۰۷ خلعت ماموریت سے سرفرازی ہوئے لیکھرام کے بھرے میں آنے سے صاف انکار کر دیا.اور اس کی یہ خفیہ سازش پوری طرح ناکام ہو گئی.قادیان کی گمنام حالت اور رجوع خلائق کا آغاز اس زمانہ میں قادیان ایک انتہائی بے رونق گاؤں تھا.چنانچہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی چشم دید شہادت ہے کہ جب آپ ۱۸۸۲ء میں قادیان گئے تو یہ بستی ویران پڑی تھی جس کے بازار خالی پڑے تھے اور بہت کم آدمی چلتے پھرتے نظر آتے تھے بعض دکانیں ٹوٹی پھوٹی اور بعض غیر آباد خالی پڑی تھیں اور دو تین یا کم و بیش دکانیں نون مرچ کی تھیں وہ بھی ایسی کہ اگر چار پانچ آنے کا مصالحہ خریدنے کا اتفاق ہو تو ان دکانوں سے بجز دو چار پیسہ کے نہیں مل سکتا تھا اور تھوڑی تھوڑی ضرورتوں کے واسطے بٹالہ جانا پڑتا تھا علی ہذا القیاس اور چیزوں کا بھی یہی حال تھا.دودکان حلوائیوں کی بھی تھی لیکن ان کی بے رونقی اور کم مائیگی کا یہ حال تھا کہ شاید دو تین پیسہ کی ریوڑیاں گڑ کی جن سے دانتوں کے بھی ٹوٹنے کا احتمال ہو اگر کوئی خرید لے تو خریدے ورنہ اور مٹھائی کے لئے مصالحہ کی طرح بٹالہ ہی یاد آئے.مجھے اب تک وہ دکان یاد ہے کہ جس میں کسی قدر نون مرچ اور کچھ تیل کے علاوہ دو چار تھان کپڑے کے بھی رکھے تھے ایک تھان گاڑھے اور ادھو تر کا جس کو پنجابی میں کھد رکھتے ہیں اور ایک دو تھان کھیل قند سرخ کے جس کو الو ان بھی کہتے ہیں اور شاید ایک دو تھان نکمی سی سوسی اور بھری کی چھینٹ کے بھی رکھے ہوئے تھے جن کو جٹیوں کے سوا اور کوئی خریدنے کا نام تک نہ لے.اناج کی منڈی.سبزی کی منڈی یا اور کسی قسم کے فواکہ اور میوے کا تو ذکر کیا گھی چاول دودھ کمیاب اور دیگر اشیاء ضروری مفقود - قصائی کی ایک دکان ایسی تھی کہ اگر قصاب کبھی شامت سے ایک بکرا ذبح کر لیتا تھا تو وہ بکرا اس کی جان کا وبال ہو جاتا تھا اگر گرمیوں کا موسم ہے تو گل سڑ کر خراب ہو گیا اور جو سردیاں ہو ئیں تو چار پانچ روز تک رکھ کر کچھ یہاں کچھ دیہات میں اناج کے بدلے بمشکل تمام بیچ کھوچ کر پورا کیا.جس میں نفع نقصان برابر سرا بر جس طرف دیکھو کچے مکان اور بے مرمت مکان پڑے تھے.ہاں حضرت اقدس و اکرم کا مکان پختہ تھا یا آپ کے بڑے بھائی کا لیکن وہ کچے مکانوں کی طرح مکان تھے.جو بعض حصہ ان کا زمین روز تھا.اندر کا پانی باہر جانا برسات میں دشوار تھا جس کا نمونہ اب تک موجود ہے کہ حضرت اقدس کے مکان کے ملحق مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کا مکان ہے حضرت اقدس جس مکان میں جلوہ افروز تھے وہ ایک چھوٹا سا حجرہ تھا اور اب بھی ہے اس میں دس پندرہ آدمیوں کے سوا زیادہ نہیں آسکتے تھے اس حجرہ کا نام بیت الفکر ہے اس مجرے کے آگے ایک دالان تھا اور نیچے کے

Page 227

تاریخ احمدیت جلدا خلعت یا موریت سے سرفرازی مکان میں بھی ایک دالان تھا اور ایک دو مکان اور مختصر سے تھے اور ایک طرف کی عمارت خام تھی اور ایک گول کمرہ تھا جس کو تیار کر لیا جاتا تھا یعنی کچھ حصہ اس کا بن چکا تھا اور کچھ بن رہا تھا اور مسجد مبارک بھی اس وقت نا تمام تھی.معمار مزدور لگ رہے تھے اور اب تو اس مکان میں بہت سے مکان عمارت پختہ عالی شان بن گئے ہیں.آپ کے ہاں لوگوں کی آمدروفت بہت کم تھی یہاں تک کہ بعض دو دو چار چار یا دس دس کوس کے آدمی بھی آپ سے کم واقفیت رکھتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ اس وقت دو چار نمازی آپ کے ساتھ ہوتے تھے اکثر حضرت اقدس نماز پڑھایا کرتے تھے اور کبھی میں ایک ہی مقتدی ہو تا تھا اور آپ امام اور کبھی میں امام اور آپ مقتدی.سیر کا بھی یہی حال تھا کہ کبھی ایک دو آدمی ساتھ ہوتے تھے اور کبھی آپ اکیلے ہی سیر کو تشریف لے جاتے تھے.ایک دو ہندو اس زمانہ میں آیا کرتے تھے.وہ ہندو آپ کے الہامات کو جو خداتعالی کی طرف سے ہوتے تھے لکھا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کی پیشگوئیوں کی تگ ودو میں لگے رہتے تھے کہ آیا یہ پیشگوئی پوری ہوئی یا نہیں".غرضیکہ اس وقت قادیان ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا جس پر چاروں طرف نمار کی سی تاریکی اور خاموشی مسلط تھی اور ۱۸۸۰ء تک خود حضرت اقدس حد درجہ پردہ گمنامی میں تھے اور آپ کا حلقہ احباب نہایت محدود تھا.اس زمانہ میں حضرت اقدس کی گمنام حالت کا مکمل نقشہ صرف شیعہ بزرگوں کے ان الفاظ میں کھینچا جا سکتا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ امام قائم نمار سے ظاہر ہو گا آپ ان دنوں سچ سچ "صاحب الغار " تھے اور چند گنتی کے اصحاب کے سوا جن میں میاں جان محمد صاحب مولوی رحیم بخش صاحب تلونڈی، جھنگلاں، مرزا دین محمد صاحب، مرزا غلام اللہ صاحب مرزا اسمعیل بیگ صاحب حافظ حامد علی صاحب II حافظ معین الدین صاحب ، میاں جمال الدین سیکھوائی ، میاں امام الدین صاحب سیکھوانی ، میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ، حافظ نبی بخش صاحب فیض اللہ چک - حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک 121 ، حضرت میر ناصر نواب صاحب - میر حامد شاہ صاحب - مولوی سید میر حسن صاحب (۱۸۴۴-۱۹۲۹) میر عباس علی صاحب اور مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی (متوفی جنوری ۱۹۲۵ء) کا نام قابل ذکر ہے.حضرت اقدس کے نام سے بھی کوئی متعارف نہیں تھا.ان کے علاوہ آپ کے دلی محبوں میں حضرت مولوی عبد اللہ صاحب عزنوی بھی تھے مگر وہ اب داغ مفارقت دے کر اگلی دنیا میں جاچکے تھے.لد یہ گویا ایک مختصر سا روحانی ہالہ یا دائرہ تھا جو سینتالیس برس میں خدا کے اس مقدس چاند کے ارگرد قائم ہو سکا.۱۸۸۰ء میں آپ کی پہلی تصنیف (براہین احمدیہ) معرض ظہور میں آئی اور آپ کا نام ملک میں گونجنے لگا.۱۸۸۲ء میں اللہ تعالی نے آپ کو یہ خبر دی کہ لوگ دور دور سے تیرے پاس آئینگے اور

Page 228

تاریخ احمدیت جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی تیری مدد کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کو آسمانی تحریک ہوگی..چنانچہ فی الواقعہ اس خدائی خبر - کے بعد ملک میں یکایک ایک جنبش پیدا ہوئی اور لوگ آہستہ آہستہ آپ کی زیارت کے لئے قادیان کی طرف کشاں کشاں آنے شروع ہو گئے اس سلسلہ میں (جدید تحقیق کے مطابق ابتداء آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی سرسادی اور حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری تھے جو ۱۸۸۲ ء میں حضور کے شرف زیارت سے فیضیاب ہوئے.ان بزرگوں کے بعد ایک رو پیدا ہو گئی اور پھر آنے والوں میں روز بروز اضافہ ہونے لگا.مثلاً ۱۸۸۴ء میں مدار ضلع جالندھر سے حضرت چودھری رستم علی خاں صاحب 22 اور حضرت سید ناصر شاہ صاحب ایسے مخلص شیدائی حضور کے قدموں میں آئے.اسی سال منشی الہی بخش صاحب اکو شنٹ آئے.منشی ro الہی بخش صاحب کے ہمراہ ان کے ساتھیوں میں منشی عبدالحق صاحب اکو شنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب امرتسری بھی جو حضرت مولانا عبد اللہ صاحب عزنوی کے مرید تھے اکثر حاضر ہوا کرتے تھے.ریویو جنوری ۱۹۴۲ء صفحہ ۱۱) ۱۸۸۵ء میں حضرت مولانا نور الدین شاہی طبیب جیسی برگزیدہ ہستی جموں سے دیوانہ وار قادیان پہنچی.اسی زمانہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ( جو آئندہ آپ کے مخالفین کی صف اول میں شمار ہوئے) ۸/۱۷ سال کی عمر میں محض شوق زیارت میں بٹالہ سے پا پیادہ تنہا قادیان آئے.۱۸۸۶ء میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب رجسر ا ر ہائیکورٹ کپور تھلہ حضرت خان محمد خان صاحب افسر بگھی خانہ کپور تھلہ اور حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب تحصیل دار کپور تھلہ ایسے عشاق قدم بوسی کی سعادت کے لئے قادیان پہنچے.اسی سال مولانا برہان الدین صاحب جھلمی بھی پہلی مرتبہ قادیان تشریف لائے لیکن حضور سے ملاقات ہوشیار پور میں ہوئی.۱۸۸۷ء میں حضرت پیر افتخار احمد صاحب حضرت پیر منظور محمد صاحب ، پیر صاحب العلم کے دو مریدوں عبد اللطیف صاحب اور حاجی عبداللہ صاحب اور مشہور مسلم مشنری مولوی حسن علی صاحب کو قادیان میں شرف باریابی نصیب ہوا.یہ تو زمانہ بیعت سے قبل رجوع خلائق کا نظارہ ہے زمانہ بیعت کے بعد جب دور مسیحیت کا آغاز ہوا تو ہندوستان کے گوشے گوشے سے اس کثرت سے لوگ آپ تک پہنچے کہ اپنے اور بیگانے دنگ رہ گئے.-

Page 229

تاریخ احمدیت جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی حضرت مولانا نورالدین صاحب شاہی دعوئی مسیحیت سے قبل جو بزرگ قادیان آئے طبیب کا قادیان کی طرف پہلا تاریخی سفر ان میں حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب کی قادیان میں اولین تشریف آوری اپنے اندر ایک خاص تاریخی شان رکھتی ہے.تاریخ احمدیت میں آپ کا تذکرہ کئی جگہ آئے گا.اس لئے مختصر ایہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت حافظ حاجی الحرمین مولانا نور الدین صاحب بھیروی شاہی طبیب حضرت عمر فاروق ( وفات یکم محرم ۲۴ھ) کے شجرہ طیبہ کے ایک شیریں ثمر دین حق کے جری پہلوان اور آسمان علم و حکمت کے آفتاب تھے.قرآن مجید، حدیث ، فقہ کلام منطق اور فلسفہ وغیرہ اسلامی علوم میں ان کے تبحر علمی کا کوئی جواب نہیں تھا.قلم کے دھنی اور میدان تقریر کے شہسوار - مذاہب عالم پر اتنی وسیع نظر تھی کہ مسلمان ہی نہیں ، ہندو، سکھ، عیسائی ، برہمو و ہر یہ بھی حیرت زدہ ہو جاتے اور عش عش کر اٹھتے تھے.مد مقابل پر لبوں کی ایک ہی جنبش سے مر سکوت لگا دینا آپ کی نکتہ آفرینی اور حاضر دماغی کا ایک ادنی کرشمہ سمجھا جاتا تھا.کئی سال تک مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رہے اور دیار حبیب کی برکتوں سے فیضیاب ہوئے.ابتداء میں حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مجددی مهاجر مکی و مدنی (خلف الصدق حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی متوفی ۱۲۹۶ھ ) حضرت محمد جی بخاری مولوی عبد القیوم صاحب سے بیعت ہوئے.حالانکہ خود ان کا مقام اتنا بلند تھا کہ تو کل اور رضاء الہی میں ضرب المثل تھے.علی گڑھ تحریک کے قابل احترام بانی سرسید احمد خاں مرحوم (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء) کہا کرتے تھے کہ جاہل جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے جب اور ترقی کرتا ہے تو فلسفی کہلاتا ہے پھر ترقی کرے تو صوفی بن جاتا ہے مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو مولانا نور الدین بن جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور ہونے کے بعد اکثر دعا کیا کرتے تھے کہ اپنی جناب سے اس دینی خدمت کا بوجھ اٹھانے کے لئے کوئی شریک سفر پیدا فرما.چنانچہ آپ کو آنحضرت ا کی طرح ایک فاروق کی بشارت دی گئی.یہ فاروق حضرت مولانا نور الدین شاہی طبیب تھے.0 ۱۸۸۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نشان نمائی کی دعوت کا ایک اشتہار شائع فرمایا حضرت مولانا نور الدین صاحب بھیروی ریاست جموں کے شاہی طبیب کی حیثیت سے جموں میں مقیم تھے.کہ یہیں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار ملا اور آپ حضرت کی زیارت کے لئے دیوانہ وار جموں سے قادیان روانہ ہو گئے.آپ کے اس پہلے سفر کی مفصل کی روداد ذیل میں خود حضرت مولانا نورالدین کے حقیقت افروز قلم سے لکھتا ہوں.فرماتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کا خیال مجھے پہلے پہلے اس بات سے پیدا ہوا کہ ایک بڑا انگریزی تعلیم یافتہ

Page 230

تاریخ احمدیت.جلدا ٢١١ خلعت ماموریت سے سرفرازی اور بہت بڑا عہدہ دار شخص جو کہ مسلمان کہلاتا تھا میرا اس سے حضرت نبی کریم ﷺ کی نبوت کے معاملہ میں مباحثہ ہوا کیونکہ وہ ایسے دعاوی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا.آخر کار دوران گفتگو میں اس نے تسلیم کیا کہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں.لہذا اس معاملہ میں میں اب بحث نہیں کرتا.اس پر میں نے اس سے پوچھا بھلا ختم نبوت کی کوئی دلیل تو بیان کرو کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس شخص نے اس وقت یہ اقرار صرف پیچھا چھڑانے کی غرض سے کر لیا ہے چنانچہ میرا وہ خیال درست نکلا اور اس نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ کی کمال دانائی اور عاقبت اندیشی اس امر سے مجھے معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے ختم نبوت کا دعویٰ کیا.کیونکہ آپ زمانہ کی حالت سے یہ یقین کر چکے تھے کہ لوگوں کی عقلیں اب بہت بڑھ گئی ہیں اور کہ آئندہ ایسا زمانہ اب نہیں آئے گا کہ لوگ آئندہ کسی کو مرسل یا مبط وحی مان سکیں.اس بناء پر آپ نے (نعوذ باللہ ) دعوی کر دیا کہ میں ہی خاتم النبیین ہوں.اور یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو بڑے اعلیٰ درجہ کا دانا اور عاقبت اندیش انسان مانتا ہوں میں نے اس دلیل کو سن کر بہت ہی رنج کیا اور میرے دل کو سخت صدمہ اور دکھ پہنچا کہ یہ شخص بڑا ہی محجوب ہے اور بے باک ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ اولیائے کرام کے حالات سے بھی نابلد محض ہے.اب چونکہ ایک طرف تو اس سے مباحثہ ہوا تھا اور اس کا صدمہ دل پر ابھی باقی تھا دوسری طرف وہیں کے پرائم منسٹر نے مجھے حضرت اقدس کا پہلا اشتہار دیا.جس میں اس سوفسطائی کا ظاہر اور بین جواب تھا جو نہی کہ پرائم منسٹر نے مجھے وہ اشتہار دیا میں فوراً اسے لے کر اس عہدہ دار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ دیکھو تمہاری وہ دلیل کیسی غلط اور ظنی ہے.اس وقت بھی ایک شخص نبوت کا مدعی موجود ہے.اور وہ کہتا ہے خدا مجھ سے کلام کرتا ہے یہ سن کر وہ نہایت گھبرایا اور متحیر ہو کر بولا.اچھا دیکھا جاوے گا.میں تو چونکہ مجھے ایک تازہ چوٹ اس وقت لگئی تھی فورا اس اشتہار کے مطابق اس امر کی تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑا اور روانگی سے پہلے اور دوران سفر میں اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپا دینے والے دل سے دعائیں کیں.جب میں قادیان پہنچا.تو جہاں میرا یکہ ٹھہرا وہاں ایک بڑا محراب دار دروازہ نظر آیا جس کے اندر چارپائی پر ایک بڑازی وجاہت آدمی بیٹھا نظر آیا.میں نے یکہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کونسا ہے جس کے جواب میں اس نے اسی رشائل مشبہ داڑھی والے کی طرف جو اس چارپائی پر بیٹھا تھا اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں مگر خدا کی شان اس کی شکل دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکے والے سے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور وہاں میں نے تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہر نا گوارا نہ کیا.اس شخص کی شکل ہی میرے واسطے ایسی صدمہ وہ تھی کہ جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.آخر طو عاد

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد ۲۱۲ خلعت ماموریت سے سرفرازی کر ہا میں اس مرزا کے پاس پہنچا.میرا دل ایسا منقبض اور اس کی شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیک تک بھی نہ کسی کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہیں کرتا تھا.الگ ایک خالی چار پائی پڑی تھی اس پر میں بیٹھ گیا اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جس کے بیان کرنے میں وہم ہو تا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھیں.بہر حال میں وہاں بیٹھ گیا.دل میں سخت متحیر تھا کہ میں یہاں آیا کیوں.ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں.تب اس نے جواب میں کہا کہ آپ کا نام نورالدین ہے ؟ اور آپ جموں سے آئے ہیں؟ اور غالباً آپ مرزا صاحب کو ملنے آئے ہوں گے ؟ بس یہ لفظ تھا جس نے میرے دل کو کسی قدر ٹھنڈا کیا.اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتایا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہیں.میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں.میں نے کہا ہاں اگر آپ مجھے مرزا صاحب کے مکانات کا پتہ دیں تو بہت ہی اچھا ہو گا.اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہے اتنے میں حضرت اقدس نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے وقت آپ ملاقات کریں.یہ بات معلوم کر کے میں معا اٹھ کھڑا ہوا اور اس جگہ نہ ٹھہرا".چنانچہ آپ اس وقت سیڑھیوں سے اترے تو میں نے دیکھتے ہی دل میں کہا کہ بس یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جاؤں".حضرت اقدس تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میں ہوا خوری کے واسطے جاتا ہوں کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں.چنانچہ آپ دور تک میرے ساتھ چلے گئے اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ امید ہے کہ آپ جلد واپس آجائیں گے حالانکہ میں ملازم تھا اور بیعت وغیرہ کا سلسلہ بھی " نہیں تھا.چنانچہ میں پھر آگیا.اور ایسا آیا کہ یہیں کا ہو رہا.مومن میں ایک فراست ہوتی ہے".رستے میں میں نے ایک رؤیا بیان کیا جس میں میں نے نبی کریم اے کو دیکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ کیا حضرت ابو ہریرہ کو آپ کی احادیث بہت کثرت سے یاد تھیں؟ اور کیا وہ آپ کی باتوں کو ایک زمانہ بعید تک بھی نہیں بھولا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں.میں نے عرض کیا.کیا کوئی تدبیر ہو سکتی ہے کہ جس سے آپ کی حدیث نہ بھولے آپ نے فرمایا کہ وہ قرآن شریف کی ایک آیت ہے جو میں تمہیں کان میں بتا دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے اپنا منہ مبارک میرے کان کی طرف جھکایا اور دوسری طرف معاً ایک شخص نور الدین نام میرے شاگرد نے مجھے بیدار کر دیا اور کہا ظہر کا وقت ہے آپ اٹھیں.

Page 232

تاریخ احمدیت - جلدا ۲۱۳ خلعت ماموریت سے سرفرازی یہ ایک ذوقی بات تھی کہ میں نے مرزا صاحب کے سامنے اسے پیش کیا کہ کیوں وہ معاملہ پورا نہ ہوا ؟ اس پر آپ کھڑے ہو گئے اور میری طرف منہ کر کے ذیل کا شعر پڑھا.من ذره از آفتابم هم از آفتاب گویم شم نه شب پرستم که حدیث خواب گویم پھر فرمایا کہ جس شخص نے آپ کو جگایا تھا اسی کے ہم معنی کوئی آیت قرآن کریم کی ہے اور وہ یہ ہے- لا يمسه الا المطهرون غرض یہ تو ایک پہلا بیج تھا جو میرے دل میں بویا گیا اور حضرت مرزا صاحب کی سادگی جواب اور وسعت اخلاق اور طرز ادا نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا.حضرت مولانا ملاقات کرتے ہی واپس جموں تشریف لے گئے اور پھر دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کی راہ میں مجاہدہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجاہدہ یہی ہے کہ عیسائیوں کے مقابل پر ایک کتاب لکھو.آپ نے عرض کیا کہ بعض سوال اس قسم کے ہوتے ہیں جن میں الزامی جواب ہی دشمن کو خاموش کرتا ہے.لہذا اگر ان کے بعض اعتراضات میں صرف الزامی جواب دیا جائے تو کیا آپ اس طریق کو پسند فرما ئیں گے.فرمایا بڑی ہی بے انصافی ہو گی اگر ایک بات جسے انسان خود نہیں مانتا دو سرے کو منوانے کے واسطے تیار ہو.ہاں اگر کوئی ایسا ہی مشکل سوال آپ کی راہ میں آجائے جس کا جواب ہر گز آپ کی سمجھ میں نہ آسکے تو مناسب طریق یہ ہے کہ آپ یہ سوال نہایت ہی خوشخط اور جلی قلم سے لکھ کر اپنی نشست گاہ کے سامنے جہاں ہمیشہ نظر پڑتی رہے لٹکا دیا کریں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے خاص فضل سے فیضان نازل فرمائے اور یہ عقدہ حل ہو جائے.حضرت مولانا فرماتے تھے کہ اس طریق دعا کا میں پہلے ہی قائل تھا کہ مجھے اس کی مضبوط چٹان پر حضرت اقدس نے کھڑا کر دیا.ان ابتدائی ملاقاتوں کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کا با قاعدہ سلسلہ مراسلت قائم ہو گیا جو قادیان کی ہجرت تک جاری رہا اور پھر تو آپ نہیں کے ہو رہے.

Page 233

تاریخ احمدیت.جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی حواشی حیات النبی جلد اول نمبر دوم صفحه ۱۹۲ - " براہین احمدیہ حصہ سوم ( طبع اول) صفحه ۲۳۸-۲۴۲ حاشیه در حاشیه او آمینه کمالات اسلام صفحه ۵۵۰ - سوره صف : ۱۰ ( ترجمہ : وہ خدا ہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تا اسے تمام ادیان پر غالب کر " براہین احمدیہ " جلد سوم ( طبع اول) صفحه ۲۴۳-۲۴۴ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶-۲۷ ( طبع اول) - سورة صف و سوره جمعه مشهور ترکی عالم موسیٰ جار اللہ لکھتے ہیں کہ " و معنى هذة الايه الكريمه الثالثه هو الذي بحث في الاميين رسولا و بعث في الاخرين دسلا من آخرين فكل امه لها رسول من نفسها و هولاء الرسل هم رسل الاسلام في الامم الكتاب فی حروف اوائل السور " شائع کردہ بیت الحکمہ مطبوعہ ۷ افروری ۱۹۴۲ء) یعنی اللہ تعالٰی نے جس طرح امیوں میں رسول مبعوث فرمایا اسی طرح آخرین میں بھی بھیجے گا.اور یہ عہد اسلام کے رسول ہیں.مسلم مصری جلد دوم صفحه ۵۱۶ ( حدیث نواس بن سمعان).بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۰۲ باقر مجلسی) مطبوعه ایران ۵۱۳۰۲ الرحمة المهداة صفحه ۳۳۸ بحوالہ حلیہ مرتبہ مولانا سید نور الحسن قنوجی مطبوعہ ۱۳۰۱ھ " نشر الطیب ۱۲۶۳۳ از مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ) شائع کرده تاج کمپنی و " ترجمان السنه " جلد اول ۱۳۲۴ از استاذ الحدیث مولانا بدر عالم صاحب رفیق ندوۃ المصنفین) ايضا " الخصائص الکبری حصہ اول صفحه ۱۳ از علامہ حضرت جلال الدین سید علی ) مطبوعہ حیدر آباد دکن ۵۱۳۱۹ -4 to " تریاق القلوب " طبع اول صفحه ۱۹ را آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۵۱ الحکم ۱۷- اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲ ۱۳ بدر - جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰ کالم نمبرا الوصیت صفحه الطبع اول مطبوعه ۲۲ دسمبر ۱۹۰۵ء "b ۱۴ (ترجمہ) اللہ تعالی صرف اپنے برگزید در سولوں کو ہی اپنے غیب پر غالب کرتا ہے ۱۵- الوصیت صفحہ 1 الطبع اول چشمه معرفت صفحه ۳۲۵ ۱۷ تخمه حقیقته الوحی صفحه ۶۸ ۱۸- " تجلیات الهیه " حاشیه صفحه ۹ ۱۹ براہین احمدیہ حصہ سوم ( طبع اول حاشیه در حاشیه صفحه ۲۶۱ د صفحه ۳۶۲) " ۲۰ براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیہ نمبر صفحہ ۲۴۷ ۲۱- احکم ۱۳۰ اپریل ۱۹۰۲ء صفحه ۹ ۲۲ حافظ صاحب کا شمار ان اصحاب کبار میں ہے جنہیں ایک لیے عرصہ تک حضرت مسیح موعود کی خدمت کی توفیق ملی.اور وہ سفرد حضر میں ہمیشہ اپنے آقا کے ہمرکاب رہے.نماز پنجگانہ کی پابندی میں وہ اپنی مثال آپ تھے حضرت اقدس نے انکے اس جذبہ روحانی کی بڑی تعریف کی ہے اور انہیں متدین "" "متقی " اور " وفادار " کے لقب سے نوازا ہے (ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۷۰۸۱۳ طبع اول) ان کو یہ عظیم خصوصیت بھی حاصل ہے کہ ان کی عظیم الشان خدمات کے باعث حضرت مسیح موعود نے بشارت دی تھی.جو خدمت میری شیخ حامد علی صاحب نے کی ہے کسی دوسرے نے نہیں کی اور یہ میرے ساتھ ہمیشہ رہا ہے اور جنت میں بھی میرے ساتھ اسی طرح ہو گا ".(الحکم مارچ ۱۹۳۴ء وفات ۸ ستمبر ۱۹۱۹ء)

Page 234

PIA تاریخ احمدیت.جلدا خلعت ماموریت سے سرفرازی ۲۳- نابینا تھے مگر بصیرت کی آنکھیں روشن تھیں بڑے عابد بڑے زاہد سقیم حالت کے باوجود حضرت مسیح موعود کی ہر تحریک میں حصہ لیتے تھے.حضور کو دابنا آپ کا معمول تھا ان کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی کہ حضور انہیں اپنے یہاں بلا کر لے گئے اور فرمایا حافظ صاحب ہمارے پاس رہا کریں.انہوں نے عرض کیا میں معذور ہوں مجھ سے کوئی کام نہیں ہو سکے گا.حضرت نے جواب دیا.کہ ہم اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے اور تو قرآن شریف یاد کیا کر.ایک لحاظ سے آپ " اصحاب الصفہ" کے پہلے فرد ہیں جنہیں آپ کے قدموں میں رہنے کی سعادت عطا ہوئی.حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر پر انہیں یقین نہیں آتا تھا لیکن جب یقین ہوا تو کہنے لگے." میں آج یتیم ہو گیا ہوں".وفات ۱۲ جولائی ۱۹۱۹ء (ا حکم ۲۱ فروری تا مارچ ۱۹۳۴ء) ۲۳ تا ۲۶ قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب سیکھواں نامی ایک گاؤں ہے.یہ تینوں بزرگ قدیم ترین صحابی اور سگے بھائی اسی جگہ کے رہنے والے تھے.حضرت اقدس کے ساتھ انہیں ایک فدائیا نہ تعلق تھا سلسلہ کے مشہور اور نامور عالم مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق مبلغ بلاد عربیه و انگلستان میاں امام الدین صاحب کے فرزند ہیں اور مولوی قمر الدین صاحب فاضل میاں خیر الدین صاحب کے.ان بزرگوں کی وفات علی الترتیب ۱۵۱۴ اگست ۱۹۲۲ء ۸- مئی ۱۹۳۱ ء اور ۱۷.مارچ ۱۹۴۹ء کو ہوئی.۲۷- احمد یہ نائیجریا مشن کے کامیاب مبلغ اور جانباز مجاہد حکیم فضل الرحمن صاحب رحمہ اللہ علیہ کے والد ماجد - آپ حافظ حامد علی صاحب کے رشتہ دار تھے.فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کی تو اس کے بعد اس قدر عشق پیدا ہوا کہ حضور کے دیدار کے بغیر چین نہیں آتا تھا.(الحکم ۷.دسمبر ۱۹۳۴ء صفحه ۵) تاریخ وفات ۲۳ مارچ ۱۹۴۲ء ۲۸ آپ کے حضرت اقدس کی خدمت میں لانے کے محرک حافظ حامد علی صاحب تھے وہ جب قادیان آئے تو ابھی مسجد مبارک کی تعمیر کا آغاز نہیں ہو ا تھا ( الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴ء) آپ کا انتقال ۷ ۲دسمبر ۱۹۴۵ء کو ہوا.۲۹- صاحب کشف و الہام تھے اور شعر گوئی میں ایک خاص ملکہ حاصل تھا جو آخر وقت تک تائید دین کے لئے وقف کئے رکھا.ان کا مقام خلوص و اطاعت حضرت اقدس کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے اس کا اندازہ نہیں کر سکتا" ازالہ اوہام صفحہ ۷۸۴ (وفات ۱۵- نومبر ۱۹۱۸ء) ۳۰ براہین احمدیہ حصہ سوم ( طبع اول) صفحه ۲۴۰ ۳۱.ان کا سلسلہ نسب کنی واسطوں کے ساتھ صحیح کبیر حضرت فرید گنج شکر کے خلیفہ قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد ہانسوی (متوفی ۶۵۹ھ) تک جا پہنچتا ہے.بڑے مقتدر گدی نشین تھے.اور انکی بڑی مارتا تھی لیکن جب حضرت مسیح موعود نے دعوئی ماموریت فرمایا تومسند امارت چھوڑ کر نا مور وقت کی غلامی اختیار کرلی.حضرت اقدس نے انہیں اکابر مخلصین کا خطاب دیتے ہوئے لکھا ہے.صافی باطن یک رنگ اور علمی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلاء کلمہ حق کے لئے بدل و جان ساعی دسر گرم ہیں.(ازالہ ارہام حصہ دوم صفحہ ۸۰۲) آپ نے حضور کے عہد مبارک کے چشم دید واقعات اپنی زندگی میں ہی " تذکرۃ المہدی " کے نام سے It شائع فرما دیئے تھے جو نہایت ایمان افروز ہیں.۳.جنوری ۱۹۳۵ء کو آپ کا وصال مبارک ہوا.(احکم ۱۴ جنوری ۱۹۳۴ء) ۳۲.نہایت بلند پایہ اور جلیل القدر صحابی تھے.سرخ چھینٹوں کے کشفی نشان کے حامل براہین احمدیہ (حصہ چہارم) کی طباعت کے مخلص کارکن اور سفر ہوشیار پور میں حضرت کے دنادار خادم.مرشد کامل کی تلاش میں تھے کہ اپنے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم سے حضرت کا ذکر سن کر قادیان پہنچے اور پہلی ملاقات میں ہی امیر محبت ہو گئے تین روز کے قیام کے بعد اجازت لے کر بٹالہ تک گئے اور پھر واپس آگئے حضور نے واپسی کا سبب پوچھا تو عرض کیا حضور میرا جانے کو دل نہیں چاہتا.ریاست پٹیالہ کے قصبہ سٹور میں ۱۸۶۱ ء میں پیدا ہوئے اور ے اکتوبر۱۹۲۷ء کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے (الفضل ۱۴ تا ۲۵ اکتوبر۱۹۲۷ء- حیات احمد جلد دوم نمبر اول صفحه ۸۸-۸۹) حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کے متعلق لکھا ہے کہ " یہ جو ان صالح اپنی فطری مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا".(ازالہ اوہام صفحه ۷۹۶) ۳۳.آپ مدار ضلع جالندھر کے ایک معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے.ابتداء محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے اور ترقی کر کے کورٹ انسپکٹر کے عہدہ تک پہنچے.آپ شروع سے ایک بد نام محکمہ میں ہونے کے باوجود دینی شہرت رکھتے تھے براہین احمدیہ کے مطالعہ نے تو ان کی کایا ہی پلٹ دی اور وہ حضرت اقدس کے ارادتمندوں میں شامل ہو گئے اور پھر وہ مقام حاصل کیا کہ

Page 235

M1Y خلعت ماموریت سے سرفرازی تاریخ احمدیت جلد خدا نے عرش سے انہیں چودھری رستم علی" کے پیارے نام سے یاد کیا.(الحکم - ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء) آخری وقت میں آپ تبدیل ہو کر گورداسپور میں آگئے تھے جس کی وجہ سے انہیں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کا بہت موقعہ ملتا تھا.ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دیار حبیب میں آگئے.جہاں حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کی خدمت کرتے ہوئے 11 جنوری ۱۹۰۹ء کو ابدی نیند سو گئے (حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحہ ۳۶) حضرت اقدس مسیح موعود نے ان کے اخلاص و عقیدت پر خوشنوری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے.”یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اول درجہ کے دوستوں سے ہے ان کے چہرے پر ہی علامت غربت و بے نفسی واخلاص ظاہر ہے کسی ابتلاء کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے".(ازالہ اوہام صفحہ ۸۰۶ (A.Z ۳۴ نهایت وجیہہ اور بلند قامت بزرگ تھے.یکم جنوری ۱۹۳۶ء کو انتقال فرمایا.ایک دفعہ جب کہ آپ کشمیر میں ایس.ڈی.اد کے طور پر تعینات تھے آپ کو عالم رویا میں خبر دی گئی کہ حضرت مسیح موعود کو آپ کی ضرورت ہے قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ کتاب نزول امسیح " کی اشاعت روپیہ نہ ہونے کے باعث معرض التوا میں ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت ڈیڑھ ہزار کی رقم جو حج بیت اللہ کے لئے جمع کر رکھی تھی حضور کی خدمت میں پیش کر دی.نیز وعدہ کیا کہ طباعت کے بقیہ اخراجات کشمیر جا کر ارسال کر دونگا.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے جو بے مثال الفت تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ ان کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.شاہ صاحب حضرت صاحب جس طرح آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اسے دیکھ کر خدا کی قسم ہمیں تو رشک آتا ہے ".آبائی وطن لاہور تھا (احکم ۲۸٬۲۱ جنوری ۱۹۳۹ء) ۳۵- عصائے موسی صفحہ ۳ ۱ یہ صاحب بعد کو اپنے رفقاء سمیت اشد مخالفین میں شامل ہو کر خدا کی قمری تجلی کا شکار ہوئے.۳۶ تاریخ مرزا صفحه ۵۳ طبع دوم (متولفہ جناب مولوی شاء اللہ صاحب امرتسری.ولادت جون ۱۸۶۸ء وفات ۱۹۴۸ء) ، سیرت ثنائی صفحہ ۶۹-۳۹۷ مولفہ عبدالمجید صاحب خادم سوہدروی ناشر دفتر اہلحدیث سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ اپریل ۱۹۵۲ء مجسم ایثار و فدائیت 1911 سال کی عمر ہو گی کہ آپ کو کپور تھلہ کے سیشن جج حاجی ولی اللہ صاحب سے براہین احمدیہ مل گئی جسے آپ دوسروں کو سناتے سناتے حضرت مسیح موعود کے والہ وشیدا بن گئے اسی دوران میں جالندھر میں حضرت اقدس کی زیارت نصیب ہوئی کپور تھلہ میں واپس آکر اپنے دوستوں میں سے منشی محمد اروڑ خان صاحب (وفات ۲۵.اکتوبر ۱۹۱۹ء) اور محمد خان صاحب (وفات جنوری ۱۹۰۴ء) سے اپنے تاثرات بیان کئے تو انہیں بھی اشتیاق پیدا ہو گیا اور پھر جلد ہی یہ تینوں بزرگ بیعت کا عزم لے کر قادیان پہنچے حضرت اقدس نے فرمایا.مجھے بیعت کا حکم نہیں لیکن ہم سے ملتے رہا کرد چنانچہ اس کے بعد یہ بہت دفعہ قادیان گئے.اور جب بیعت کا حکم ملا تو شمع احمدیت کے گرد پر دانوں کی طرح جمع ہو گئے لدھیانہ پہنچے اور بیعت کرلی.اور پھر اخلاص د فدائیت میں مسابقت کی وہ قابل فخر مثال قائم کی کہ عمدہ اول کے صحابہ کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی.حضرت اقدس مسیح موعود نے ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں اپنے محسین کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا نمایاں رنگ میں ذکر فرمایا ہے.چنانچہ محمد اروڑا خان صاحب کے متعلق فرمایا کہ ان کو اس عاجز سے ایک عشق ہے ".خان محمد خاں صاحب کی نسبت لکھا ہے کہ و جس قدر انہیں میری نسبت عقیدت وارادت و محبت و نیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا اور منشی ظفر احمد صاحب کو ان تعریفی کلمات سے یاد کیا ہے کہ ”یہ جو ان صالح کم گو اور خلوص سے بھر دقیق نہم آدمی ہے.استقامت کے آثار و انوار اس میں ظاہر ہیں " تاریخ وفات ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء ( حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے خود نوشت حالات و روایات کے لئے ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیز اردو جنوری ۱۹۴۲ ء و اصحاب احمد جلد چهارم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان) آپ کے تفصیلی حالات جلد سوم میں آئیں گے یہاں صرف انکی پہلی ملاقات کا دلچسپ واقعہ درج کرتا ہوں جو ان کی فراست و بصیرت پر ابدی برہان ہے.فرمایا کرتے تھے کہ میں ہوشیار پور گیا لیکن حضرت صاحب ہوشیار پور میں (چلہ کشی کے لئے شیخ سر علی صاحب کے مکان میں فروکش تھے.حامد علی صاحب مکان کے دروازہ پر بیٹھے تھے اور اندر نہیں جانے دیتے تھے مگر باغ میں چھپ کر دروازہ تک پہنچ ہی گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت جلدی جلدی لمبے لمبے قدم اٹھارہے ہیں میں جھٹ پیچھے کو مڑا اور میں نے اس تیز گامی سے سمجھ لیا کہ یہ شخص صادق ہے ضرور اسے کسی دور کی منزل تک پہنچنا ہے.۲.دسمبر ۱۹۰۵ء کو رحلت فرمائی (الحکم ۷ / ۱۴

Page 236

تاریخ احمدیت.جلدا جون ۱۹۴۳ء صفحه ۹) 31 ۲۱۷ خلعت ماموریت سے سرفرازی ۳۹.حضرت صوفی احمد جان صاحب کے بڑے بیٹے! انسایت باخد ابزرگ تھے.حضرت اقدس کی پہلی زیارت لدھیانہ میں ۱۸۸۴ء میں کی مگر قادیان آنے کا اتفاق بشیر اول کے عقیقہ کی تقریب پر ۱۸۸۷ء میں ہوا.ایک لمبے عرصے تک حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ ثانی کے خطوط نویس رہے.۸.جنوری ۱۹۵۱ء میں اٹھاسی سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ( الفضل 11 جنوری ۱۹۵۱ء) حضرت مسیح موعود ان کے بارے میں فرماتے ہیں.یہ جو ان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں اور بمقتضائے الولد سرلا بیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے تھے".(ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۳) ۴۰ حضرت صوفی احمد جان صاحب کے دوسرے فرزند جو " قاعدہ میسر نا القرآن" کے موجد کی حیثیت سے ملک بھر میں مشہور ہوئے آپ نے بھی عقیقہ بشیر اول کے موقعہ پر ہی قادیان کا پہلا سفر اختیار کیا تھا ان کے مزاج میں تصوف کا رنگ بہت غالب تھا انہوں نے صرف اسی شوق میں خوشنویسی سیکھی تا حضور کی کتابوں کی کتابت حضور کے منشاء کے مطابق بہترین ہو سکے.چنانچہ حضرت اقدس کی بہت سی کتابوں کے پہلے ایڈیشن آپ ہی کے لکھے ہوئے ہیں جو خوشنویسی کا دلاویز مرقع اور الفت و محبت کی ابدی یادگار ہیں.تاریخ وفات ا۲ جون ۱۹۵۰ء (الفضل ۲۳- جون ۱۹۵۰) مفصل کو ائف آئندہ صفحات میں آرہے ہیں.-۴۲ مرقاۃ الیقین صفحه ۱۹۱ طبع اول صفحہ ۱۳۳۱۰۱۹۱ھ مولفه اکبر شاہ خان نجیب آبادی مطبوعہ قادیان ۱۳۳۱ھ / ۱۹۱۳ء -۴۳ مکتوب سرسید احمد خان مورخه ۸ مارچ ۱۸۹۷ء (الحکم ۱۴- اپریل ۱۹۳۴ء) ۴۴ آئینہ کمالات اسلام " طبع اول صفحه ۵۸۱-۵۸۳ ۴۵ اس اشتہار کا ذ کر ۱۸۸۵ء کے واقعات میں آرہا ہے.کتاب "مجدد اعظم" میں اس کی بجائے یہ فرضی واقعہ لکھا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے ایک دو اجو عطار کی دکان سے منگوائی اس نے جس کاغذ میں دوار کھ کر بھیجی وہ براہین احمدیہ کا اشتہار تھا.(مسجد داعظم صفحه ۱۳۶ حصہ اول) ناشر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور - طبع اول دسمبر ۱۹۳۹ء ۴۷- امام دین (مرتب) ۴۸ الحکم -۲۲ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ ۳ دالحکم ہے.فروری ۱۹۱۰ ء صفحہ ۷ الحکم ۲۲- اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر ۳.۵۰ مکتوبات بنام خلیفہ المسیح اول " (مرتبہ عرفانی الکبیر)

Page 237

تاریخ احمدیت.جلدا PIA مسجد مبارک کی تعمیر ماموریت کا دوسرا سال مسجد مبارک کی تعمیر (۱۸۸۳ء) قادیان میں مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں کسی اور مسجد کی بظاہر ضرورت نہیں تھی کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور معدودے چند افراد کے سوا اس میں کوئی نمازی ہی نہیں تھا.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود معمور الاوقات انسان تھے اور مستقبل قریب میں آپ کے سپرد تحریک احمدیت کی قیادت ہونے والی تھی اور آپ کے ہاتھوں اسلام کی تائید میں عالمگیر قلمی جنگ کے آغاز کا زمانہ قریب آچکا تھا اس لئے حضور کو پیش آنے والی اور وسیع علمی و روحانی سرگرمیوں کے لئے ایک ایسے بیت الذکر کی ضرورت تھی.جو آپ کے تاریخی چوبارے کے پہلوہی میں جو الہام میں ” بیت الفکر " کے نام سے موسوم ہوا اور جس میں آپ نے براہین احمدیہ ایسی عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی) موجود ہو.تا کہ تصنیف و تالیف کی مصروفیات کے دوران میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر نمازوں کے التزام کے علاوہ جب چاہیں اپنے مولائے حقیقی کے آستانہ پر بالحاح و زاری مجزو نیاز کر سکیں.چنانچہ اس نوع کی متعدد آسمانی مصلحتوں کے مطابق حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھاری بشارتوں کے ساتھ ایک مسجد کے قیام کی تحریک ہوئی.یہ مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے آج بھی پوری شان و 33 عظمت کے ساتھ قادیان میں موجود ہے اور عالمگیر شہرت کی حامل ہے.مسجد مبارک کی تعمیر مسجد مبارک کی بنیاد (حضرت پیر سراج الحق صاحب کی گذشتہ عینی شہادت کے مطابق) ۱۸۸۲ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی تحقیق کے مطابق ۱۸۸۳ء میں رکھی گئی تھی.حضرت اقدس کے چوبارے کے ساتھ جہاں اس

Page 238

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۱۹ مسجد مبارک کی تعمیر مسجد کی تاسیس ہوئی دراصل کوئی موزون جگہ موجود نہیں تھی.کیونکہ "بیت الفکر " کے عقب میں گئی تھی اور گلی کے ساتھ آپ کے چچا مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کے کھنڈر پڑے ہوئے تھے اور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بوسیدہ ہی دیوار کھڑی تھی.حضور نے اس دیوار اور اپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے مسقف تیار کرایا.اینٹوں کی فراہمی کے لئے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی اور مسجد کی تعمیر آپ کے خاندانی معمار پیراں دتا نے شروع کر دی ۳۰ اگست ۱۸۸۳ء میں مسجد کی سیڑھیوں کے بننے کا مرحلہ آیا.مسجد کا اندرونی حصہ حتمی طور پر ۹ - اکتوبر ۱۸۸۳ء تک ایک گونہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا لیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی.قدیم مسجد مبارک کا اندرونی منظر مسجد مبارک کی اندرونی عمارت کے تین حصے تھے پہلا اور غربی حصہ امام کا محرابی گوشہ تھا جس کے مغرب اور شمال میں دو کھڑکیاں اور شرقی دیوار میں ایک دروازہ تھا جو لکڑی کے تختے سے بند ہو کر دو ایک فرد کی خلوت نشینی کے لئے ایک نہایت مختصر مگر مستقل حجرہ بن جاتا تھا.وسطی حصے میں چھ چھ نمازیوں کی دو صفوں کی گنجائش تھی.اسی حصے میں "بیت الفکر " کو کھڑکی کھلتی تھی مقابل کی جنوبی دیوار میں ایک کھڑکی روشنی کے لئے نصب تھی اور باہر کے مشرقی حصہ سے الحاق کے لئے ایک دروازہ لگا دیا گیا تھا.مسجد کا شرقی حصہ وسطی حصہ سے نسبتاً بڑا تھا یعنی اس میں بعض اوقات تین حصوں میں کم و بیش پندرہ آدمی نماز پڑھ سکتے تھے اس حصے سے باہر ایک طرف زینہ تھا اور دوسری طرف نمازیوں کے وضود غیرہ کے لئے جگہ اور ایک غسل خانہ بھی بنایا گیا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گرمیوں میں استراحت بھی فرماتے تھے اور اسی میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان بھی ظاہر ہوا a - شرقی حصے میں تین دروازے تھے پہلا شمالی دیوار میں تھا جو حضرت اقدس کے مکان سے متصل تھا.دوسرا ز ینے سے مسجد تک داخلہ کے لئے اور تیسرا غسل خانے کی جانب جاتا.مسجد کے دونوں دروازوں پر آیت تان الدينَ عِنْدَ الله الاسلام".درود شریف اور مسجد کے متعلق الہامات درج تھے.اس تفصیل کے مطابق (قدیم) مسجد مبارک کے اندرونی حصے کا خاکہ یہ تھا.یہ تو مسجد کی اندرونی عمارت کا نقشہ تھا.جہاں تک بالائی منزل کا تعلق ہے وہ مسجد کی بالائی منزل اس سے بھی سادہ اور مختصر تھی.یعنی گوشہ امام والا حصہ چھوڑ کر باقی چھت کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تھے اور وہاں پہنچنے کے لئے سرخی کے نشان والے کمرے

Page 239

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۰ مسجد مبارک کی تعمیر کی چھت پر دو سیڑھیوں کا ایک چوبی زینہ رکھا رہتا.قیام جماعت احمدیہ کے بعد جب حضرت مولانا نور الدین صاحب ، حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تو اس کے غربی حصے پر شہ نشین بنا دیا گیا جہاں حضرت اقدس نماز مغرب کے بعد اپنے خدام میں رونق افروز ہوتے اور علم و عرفان کے موتی بکھیرتے تھے یہ پاک اور روح پرور محفل "دربار شام“ کے پیارے نام سے یاد کی جاتی تھی.مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں نماز ادا فرمانے لگے.ابتداء میں اکثر خود ہی اذان دیتے اور خود ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے.مسجد کی توسیع مسجد مبارک کی یہ ابتدائی عمارت چوبیس سال تک اپنی پہلی حالت میں بدستور قائم رہی.اس دوران میں صرف یہ خفیف سی تبدیلی کی گئی کہ سرخی کے نشان والا کمرہ جو دو ایک فٹ نشیب میں واقع تھا مسجد کی عام سطح کے برابر کر دیا گیا اور پھر۷ ۱۹۰ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نگرانی میں جنوبی طرف پہلی مرتبہ توسیع کی گئی جس کے نتیجہ میں اس کے جنوب مغربی کونے کا مینار قائم نہ رہ سکا.اور دو مینار شمالی دیوار میں جذب ہو گئے ایک مینار آج تک اصلی صورت میں موجود ہے.مسجد مبارک کی دوسری مرتبہ توسیع خلافت ثانیہ کے عہد میں دسمبر ۱۹۴۴ء میں مکمل جوئی جس سے یہ مسجد ۱۹۰۷ء کی عمارت سے اپنی فراخی اور کشادگی میں دو چند ہو گئی.اس مرتبہ تعمیر کی نگرانی کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سرانجام دیا

Page 240

تاریخ احمدیت جلدا ا میرا ۲۲۱ نواب صدیق حسن خان صاحب کو سزا اور حضرت اقدس کی دعا سے خطابات کی بحالی مسجد مبارک کی تعمیر نواب صدیق حسن خاں صاحب کی طرف سے براہین احمدیہ " کی بے حرمتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بددعا کا جو دلخراش واقعہ صفحہ 188 پر میں بیان ہو چکا ہے وہ اسی زمانہ (۱۸۸۳ء) میں وقوع پذیر ہوا تھا.نواب صاحب مولوی سید اولاد حسن صاحب قنوجی کے فرزند تھے انہوں نے علوم دینی علمائے بیمن وہند سے حاصل کئے.پھر ریاست بھوپال کی ملازمت اختیار کرلی اور بتدریج ترقی کر کے وزارت و نیابت پر فائز ہو گئے یہاں تک کہ ان کا بھوپال کی والیہ شاہجہان بیگم صاحبہ سے ۱۸۷۱ء میں عقد ہو گیا جس کے بعد وہ عملاً ریاست کے فرمانروا بن گئے تھے.اور حکومت برطانیہ نے انہیں "نواب والا جاہ ".رالملک اور معتمد المهام" کے خطابات سے نواز دیا.نواب صاحب اپنی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور علو مرتبت میں بھی اسلام کی تحریری خدمت سر انجام دے رہے تھے.اور ان کی علمی تصانیف کا ہندوستان کے طول و عرض میں ایک شہرہ تھا.اور مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی تو انہیں مسجد دوقت تسلیم کرتے تھے.حضرت مسیح موعود نے ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے ان کی اسلامی خدمات پر حسن ظن کرتے ہوئے انہیں " براہین احمدیہ " بھجوائی تھی.مگر انہوں نے یہ کتاب پھاڑ کر واپس کر دی اور لکھا کہ ”مذہبی کتابوں کی خریداری حکومت وقت کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے اس لئے ریاست سے کچھ امید نہ رکھیں".حضرت مسیح موعود نے کتاب کی یہ صورت دیکھی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے دعا کی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.خدا کی قدرت دیکھئے اس واقعہ پر ابھی دو تین سال کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ ۱۸۸۶ء میں اسی حکومت نے (جس کی خوشنودی کے لئے انہوں نے براہین احمدیہ " کی توہین کی تھی) ان پر بعض مقدمات دائر کر دیے اور وہ جرائم پیشہ انسانوں کی طرح ریاست میں معصوموں کے خون بہانے سوڈانی مہدی کو امداد بھجوانے اور اپنی مختلف تصانیف میں انگریزی گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑ کانے کے سنگین الزامات میں ماخوذ ہو گئے اور حکومت نے ان پر سر لیپل گریفین کا تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ان کے نوابی کے خطابات چھن گئے اور یہاں تک بے آبروئی ہوئی کہ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ نے حکومت پر زور دیا کہ اس سیاسی مقدمہ میں ان سے ذرہ بھر رعایت روانہ رکھی جائے اور ان جرائم کی پاداش میں "

Page 241

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۲ مسجد مبارک کی تعمیر تختہ دار پر لشکار یے جائیں یا کالے پانی بھیج دیئے جائیں.حتی کہ خود مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو نواب صاحب کے دفاع میں ایک مبسوط مضمون ” اشاعت السنہ" میں لکھنا پڑا.اور گورنر ڈفرن اور سریپل گریفین کے حضور میں " نہایت عاجزی کے ساتھ التجا کرنا پڑی کہ وہ نواب صاحب موصوف کے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان کا خطاب بحال فرما ئیں.وہ گورنمنٹ کے حقیقی اور دلی خیر خواہ ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا شمار حکومت انگریزی کے دلی خیر خواہوں اور حقیقی وفاداروں میں ہو تا تھا اور حکومت کی نگاہ میں ان کی شہادت بڑی وقیع اور پختہ سمجھی جاتی تھی.لیکن ان کی یہ اپیل بالکل ناقابل التفات سمجھی گئی اور حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی.اسی لئے پنڈت رام نے مارچ ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا " آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اور آپ کی دعا تو تقدیر معلق کو باسلوبی ٹال سکتی ہے.صدیق حسن خاں معزول ہیں اور ان کی نسبت جو جو مقدمات اور غبن مال سرکاری دائر ہیں ان سے نہایت ملول ہیں....جناب بیگم صاحبہ والی بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ دے کر خارج کرنا چاہتی ہیں ان کا ارادہ شیخ کیجئے".خدا کی شان پنڈت لیکھرام نے تو یہ بات طنزا کسی تھی مگر آپ ہی کی دعا کی برکت سے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معالمہ تشویشناک صورت اختیار کرتا دکھائی دیا تو خود نواب صاحب موصوف نے سر تا پا عجز و انکسار بن کر حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست دعا لکھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدس کی خدمت میں ان کی خدمات پیش کرتے اور دعا کی سفارش کا پیغام بھجواتے ہوئے حافظ محمد یوسف صاحب کو قادیان روانہ کیا.حافظ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے جب حاضر ہو کر حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست پیش کی تو حضرت اقدس نے اولادعا کرنے سے انکار کر دیا اور براہین کا واقعہ بیان کر کے یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کرلیں.موحد ہونے کا دعوئی کر کے ایک زمینی حکومت کے خوف اور وہ بھی دین کے معاملہ میں جس میں خود اس حکومت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے اس پر بہت دیر تک تقریر فرماتے رہے.چونکہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے.میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا عرض کرتا ہی رہا.نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی آخر حضرت صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا اور میں تو اسی غرض سے آیا تھا جب تک آپ نے دعانہ کر دی اور یہ نہ فرمایا کہ میں نے دعا کر دی ہے وہ تو بہ کریں خدا تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم کرے گا حکومت کے اخذ سے وہ بچ جائیں گے.خود حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ واقعہ اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ (نواب صاحب موصوف

Page 242

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۳ مسجد مبارک کی تعمیر نے.ناقل ) " بڑی انکساری سے میری طرف خط لکھا کہ میں ان کے لئے دعا کروں.تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کی تو خدا تعالٰی نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی.میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط ان کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو ان دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی.چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضعدار نهر حال پیشنز ساکن امرت سر اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی ہیں.حافظ صاحب کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے ” براہین احمدیہ کی خریداری کے لئے نواب صاحب کی طرف سے درخواست کی آپ نے اس کو منظور نہ فرمایا.ہر چند عرض کیا گیا آپ راضی نہ ہوئے فرمایا میں نے رحم کر کے ان کے لئے دعا کر دی ہے اور خدا تعالٰی کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے ایسے شخص کو جس نے کتاب کو اس ذلت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا.یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے.ان لوگوں کو جو میں نے تحریک کی تھی خدا تعالی کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کر کے کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ انہیں کسی اور نیکی کی توفیق دے.ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امید گاہ نہیں بنایا.ہماری امید گاہ تو اللہ تعالی ہی ہے.اور رہی کافی ہے نواب صاحب سنگین مقدمہ میں پانچ سال تک مبتلا رہے اور بالاخر اللہ تعالٰی نے اپنے وعدہ کے موافق انہیں حکومت کے مواخذہ سے بھی بچالیا اور ان کے خطابات بھی بحال کر دئیے گئے.لیکن افسوس وہ بحالی کی خبر ملنے سے پہلے ہی اس دار فانی سے چل ہے.مرزا غلام قادر صاحب (برادر اکبر) کی رحلت حضرت مسیح موعود کی شفیق والدہ آپ سے ۱۸ اپریل ۱۸۷۷ء کو اور والد بزرگوار ۲- جون ۱۸۷۶ء کو جدا ہو چکے تھے اب ۱۸۸۳ ء میں والد بزرگوار کے انتقال کے سات سال بعد آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بھی 9 جولائی کو رحلت فرما گئے.وفات کے وقت ان کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھی ورنہ وہ تو پندرہ سال پہلے ہی لقمہ اجل ہو چکے ہوتے کیونکہ انہیں کم و بیش چالیس سال کی عمر میں ایک شدید بیماری لاحق ہو گئی تھی اور وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے اور نقاہت کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ چارپائی پر لیٹتے تو کسی کو احساس تک نہ ہوتا کہ یہاں کوئی شخص پڑا ہے.ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت اقدس کے والد بزرگوار نے جو ایک حاذق طبیب تھے صاف کہدیا کہ اب یہ چند دن کا مہمان ہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود کو بھی

Page 243

تاریخ احمدیت جلدا ۲۲۴ مسجد مبارک کی تعمیر قبل از میں الہاما بتایا جا چکا تھا کہ پندرہ دن تک ان کی عمر کا خاتمہ یقینی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں کا نظارہ کرنے کے لئے جناب اللی کی طرف توجہ کی چنانچہ خدا کے فضل اور آپ کی روحانی توجہ اور دعا کی برکت سے پندرہ دن پندرہ سالوں میں بدل گئے اور مرزا غلام قادر صاحب جو اپنی زندگی کے دن پورے کر چکے تھے "زندہ ہو کر چند روز تک بالکل صحت یاب ہو گئے اور اس کے بعد پندرہ برس تک بقید حیات رہے.مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کا فوری سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مرزا اعظم بیگ لاہوری سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے آپ کی خاندانی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے نالش دائر کر دی.اور مرزا غلام قادر صاحب اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے مقدمہ کی پیروی میں مصروف ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بھی اور خاندان کے دوسرے تمام افراد کو بھی کھول کھول کر سنا دیا تھا کہ ہمارے لئے مقدمہ میں فتح یابی مقدر نہیں ہے اس لئے اس سے دستبردار ہونا چاہیے.لیکن وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں.اگر پہلے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ بے حقیقت بات تھی.دراصل انہیں اپنی کامیابی کا ابتداء سے کامل یقین تھا اور ماتحت عدالت میں کامیاب بھی ہو گئے مگر بالا خر چیف کورٹ میں ان کے خلاف ڈگری ہوئی اور تمام عدالتوں کا خرچہ بھی ان کے ذمے پڑا.اور پیروی مقدمہ میں جو بھاری قرضہ اٹھایا تھا وہ بھی ادا کرنا پڑا.جس وقت ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تھے مرزا غلام قادر صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیا اور کہا ” لے غلام احمد جو تو کهند ای او ہوائی ہو گیا اے".یعنی دیکھو غلام احمد جو تم کہتے تھے وہی ہو گیا ہے.اور پھر غش کھا کر گر گئے.بہر حال انہیں ڈگری سے شدید صدمہ ہوا.اور وہ اس غم میں سخت بیمار ہو گئے اور یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی.آپ تقریباً دو سال اس بیماری میں مبتلا رہے.جس دن آپ کی وفات مقدر تھی.اس کی صبح کو حضرت اقدس کو الہام ہوا کہ ”جنازہ " اور شام کے بجے وہ انتقال کر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد الہی اور خدمت دین میں جس درجہ استغراق تھا اسی قدر شیفتگی اپنے والد بزرگوار کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کو دنیوی معاملات میں تھی.ایک کا دل اسلام کی گم گشتہ حکومت کو دنیا بھر میں قائم کرنے کے لئے ہر لمحہ مضطرب اور بے قرار تھا اور دوسرے کے مد نظر فقط قادیان کی مٹی ہوئی ریاست کے باقی ماندہ نقوش کا رنگ و روغن اور ان کی حفاظت تھی.مطرح نظر کا یہ بعد المشرقین ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مسلک

Page 244

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۵ مسجد مبارک کی تعمیر ہمیشہ ناگوار گزرتا تھا لیکن اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح کشفی آنکھ سے کبھی یہ دیکھ پاتے کہ جس جائیداد کی واپسی کی خاطر وہ اپنی عمر د دولت ضائع کر رہے ہیں وہی آپ کے چھوٹے بھائی کی روحانی برکتوں کے طفیل کچھ عرصہ بعد خود بخود ان کے خاندان میں منتقل ہو جائے گی اور پھر حضرت مسیح موعود اور آپ کے خاندان کی روحانی عظمت کا سکہ ساری دنیا پر بیٹھ جائے گا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس حقیر اور معمولی مقصد کا خیال تک دل میں لاتے.انہیں حضرت مسیح موعود نے مقدمہ میں ناکامی کی قبل از وقت خبر بھی دی مگر وہ اپنی افتاد طبع کے باعث اپنی رائے بدلنے پر قادر نہیں ہو سکے.اس خالص دینی نقطہ نگاہ سے قطع نظر وہ بڑے منطنے کے انسان تھے شکل و شباہت نہایت درجہ پر رعب پائی تھی انہوں نے محکمہ شہر اور ضلع گورداسپور کے دفتر میں ایک لمبا عرصہ ملازمت کی اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے اور معاملہ ضمی سے حکومت کے بڑے بڑے افسروں کو اپنا مداح بنا لیا.وہ شجاعت اور غریب پروری کی نہایت اعلیٰ صفات سے پوری طرح متصف تھے.آپ کو اگرچہ حضرت اقدس کے روحانی مشرب سے کوئی مناسبت نہیں تھی مگر آپ حضور کا احترام کرتے تھے.آپ کے روحانی کمالات شب بیداری اور دعاؤں کی قبولیت کے قائل تھے.خاندانی مذاق کے موافق شعر و شاعری میں بھی درک تھا اور مفتون مخلص کرتے تھے.مرزا غلام قادر صاحب مرحوم لا ولد تھے اور ان کی جائیداد کے بھی آپ ہی وارث تھے ان کے درثاء میں آپ کے سوا کوئی اور شخص ہو تا تو اپنے بھائی کی وفات کے معا بعد اس جائیداد پر قابض ہو جا تا مگر آپ نے اس موقعہ پر یہ شاندار نمونہ پیش فرمایا کہ آپ نے اپنی بھاوج حرمت بی بی صاحبہ کی دلداری کے لئے جائیداد پر قبضہ نہیں کیا بلکہ پوری جائیداد اپنے فرزند اور ان کے متبنی حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے زیر انتظام کر دی اور خود بدستور اعلائے کلمتہ الاسلام ہی میں مصروف رہے.بعد کو جب وہ ملازم ہو گئے اور جائیداد تقسیم ہو کر نصف ترکہ آپ کے نام درج ہو گیا تب بھی آپ کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.مرزا اسمعیل بیگ صاحب یا دو سرے خدام اس کی نگرانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ لا دیتے حضرت اقدس تحقیق کئے بغیر وصول کرلیتے.بعض اوقات ایسا ہوتا کہ بعض ہوشیار کارندے چالاکی سے آپ کو نقصان بھی پہنچادیتے.مگر آپ ان باتوں سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنی دینی خدمت میں مستغرق رہتے تھے.در اصل بات یہ تھی کہ آپ کی بھاوج نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو رسمی طور پر مبنی قرار دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اسے نصف حصہ دے دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تہنیت کے سوال پر تو صاف صاف کہدیا کہ اسلام میں یہ جائز نہیں ہے.مگر محض ان کی دلداری کی خاطر آدھی جائداد مرز اسلطان احمد صاحب کے

Page 245

تاریخ احمدیت.جلدا مسجد مبارک کی تعمیر نام لکھ دی اور یہ سمجھ لیا کہ آپ نے ان کا حصہ اپنی زندگی میں ادا کر دیا ہے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے اپنی زندگی میں ڈگری ہونے کے باوجود فریق مخالف کو جائیداد سپرد نہیں کی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات کے بعد جہاں مرزا سلطان احمد صاحب کو نصف جائیداد دی وہاں انہیں بلا کر قبضہ دے دینے کا ارشاد بھی فرمایا.نیز اراضی کی تقسیم کے متعلق نصیحت فرمائی کہ شرکاء جس طرح چاہیں تقسیم کر لیں تم دخل نہ دینا اور تسلیم کرلینا.چنانچہ اس موقعہ پر خاندان کے ایک قدیم کارکن کی طرف سے (جو اس وقت مرزا اعظم بیگ ہی کے ملازم تھے ) اگر چہ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ دہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی طرح تقسیم قبول کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہوں.مگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں فریق مخالف کو قبضہ بھی دے دیا اور جائیداد کا ایک حص نہایت سستے داموں فروخت کر کے اخراجات مقدمہ میں ادا کر دئیے مقام ماموریت سے متعلق بعض مزید تفصیلات ماموریت کا وہ منصب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۲ء میں عطا ہوا تھا اس کے متعلق بعض مزید تفصیلات اس سال آپ پر ظاہر کر دی گئیں اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ محدث اللہ عیسی دوران اور خدا کے نبی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودی تاریخ کے مطابق حضرت مسیح ناصری اپنے متبوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ٹھیک ۱۲۷۲ برس بعد پیدا ہوئے تھے اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی رسول اکرم ﷺ کے دعوئی رسالت سے ٹھیک ۱۲۷۲ برس بعد "عیسی " کے عہدے پر سرفراز فرمایا گیا.آنحضرت ا نے ۶۱۰ء میں دعویٰ نبوت فرمایا اور ٹھیک ۱۲۷۲ سال بعد ۱۸۸۳ء میں یہ الہامات نازل ہوئے گویا مسیح موسوی کا جسمانی اور مسیح محمدی کا روحانی ظہور اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی سال میں وقوع میں آیا.الر جیسا کہ ابتدا میں بتایا جا چکا ہے ان الہامات کے نزول کے ساتھ تصرف الہی سے یہ ہوا کہ آپ پر اپنی بعثت کے ابتدائی ایام میں یہ راز بالکل نہیں کھلا کہ اللہ تعالی نے آپ کو مسیح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم میں یہ رسمی عقیدہ بھی درج فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے.حضرت مسیح موعود کا اس زمانہ میں اپنے قلم سے مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کا اقرار کرنا خدائی مصلحت کے مطابق اور حضور کی سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک چمکتا ہوا نشان تھا.چنانچہ بعد کو جب دعوئی مسیحیت کے وقت آپ پر حیات مسیح کے متعلق گذشتہ عقیدہ کی آڑ میں اعتراضات کئے گئے تو آپ نے صاف جواب دیا کہ ”جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دلائی اور بار بار نہ

Page 246

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۷ مسجد مبارک کی تعمیر سمجھایا کہ تو مسیح موعود ہے اور عیسی فوت ہو گیا ہے تب تک میں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے اسی وجہ سے کمال سادگی سے میں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے.جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو میں اس عقیدہ سے باز آگیا.میں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دل پر محیط ہو گیا اور مجھے نور سے بھر دیا.اس رسمی عقیدہ کو نہ چھوڑا.حالانکہ اسی براہین میں میرا نام عیسی رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ تو ہی کسر صلیب کرے گا.اور مجھے بتلایا گیا تھا تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے.هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله نیز فرمایا.پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسی کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا.جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے.پس جب اس بارہ میں انتہاء تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا فا صدع بما تو مر یعنی جو مجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روز روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیا تب میں نے یہ پیغام لوگوں کو سنا دیا یہ خدا کی حکمت عملی میری سچائی کی ایک دلیل تھی.اور میری سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک نشان تھا اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جڑ ہوتی تو میں، براہین احمدیہ کے وقت میں ہی یہ دعوی کرتا کہ میں مسیح موعود ہوں".مسلمانان عالم کے روشن مستقبل کے متعلق ایک خبر انیسویں صدی کا ربع آخر دنیائے اسلام کے لئے نہایت درجہ مایوس کن ، جگر سوز اور روح فرسا دور تھا.ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مغلیہ خاندان کی بساط سیاست پلٹ چکی تھی.ترکی اور ایران کی منڈیوں پر یورپ کے سرمایہ دار قابض تھے.مصر نہر سویز کے جاری ہونے پر برطانوی اقتدار کے شکنجے میں آچکا تھا اور وہاں احمد عربی پاشا کی قیادت میں فرنگی اور ترکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک اٹھ چکی تھی اور برطانیہ کی امداد کے لئے ہندوستانی فوج کی نئی کمک پہنچ رہی تھی عرب قبائل والی نجد کے خلاف خانہ جنگی میں مصروف تھے.ٹیونس ، الجیریا اور مراکش فرانسیسی اثر کے زیر نگین تھے اور ایران میں ہر طرف بد نظمی اور ابتری کا دور دورہ تھا.اور یورپ کی سیاسی قوتیں جو طوفان بن کر اٹھی تھیں ہر طرف آندھی بن کر چھا چکی تھیں اور اسلامی دنیا مرد بیمار کی طرح سکتے

Page 247

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۸ مسجد مبارک کی تعمیر ہوئے بزبان حال پکار رہی تھی..وہ بیمار قریب مرگ ہے، اسلام واویلا مسیحا کو نہیں ہے جس کی امید شفا باقی اللہ تعالی نے اسلامی دنیا کی زہرہ گداز اور درد انگیز کس مپرسی کے اس دور میں مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ رویا خبر دی کہ " عنایت الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہے اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کریگا.کہ ہر یک برکت ظاہری اور باطنی اسی کے ہاتھ میں ہے ".مسلمانوں کی از سر نو ترقی اور عروج کے بارہ میں یہ تاریخی الہام بھی نازل ہوا کہ " بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد" یعنی خوش ہو کہ تیری ترقی کا وقت قریب آپہنچا اور مسلمانوں کا قدم ایک بہت بلند مینار پر مضبوط پڑا.اس الہام الہی میں مسلمانان عالم کے عظیم الشان اور روشن مستقبل کی خبر دی گئی تھی.اللہ تعالیٰ کی ان بشارتوں کے مطابق اس کے فضل سے نہ صرف ۱۴- اگست ۱۹۴۷ء سے پاکستان ایسی عظیم الشان اسلامی مملکت معرض ظہور میں آچکی ہے بلکہ دنیا کے مسلمان پستی کی حالت سے نکل کر آہستہ آہستہ شان و شوکت کے اس مضبوط اور بلند مینار کی طرف آرہے ہیں جس کی خبر آپ کو دی گئی تھی.ایران - مصر- ٹیونس ، مراکش اور لیبیا اب غیر ملکی چنگل سے آزاد ہو چکے ہیں.سوڈان خود مختار ہو چکا ہے.انڈونیشیا میں مسلمان حکومت قائم ہو چکی ہے.ترکی بڑی تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے.الجیریا وغیرہ ممالک کو ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں ہیں مگر ان کی تحریک آزادی عالمی رائے کا مرکز بن رہی ہے.غرض ۱۸۸۳ء کے مایوس کن اور خطرناک حالات کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے اور اس کی جگہ ایک حوصلہ افزا ماحول نے لے لی ہے.(جولائی ۱۹۶۲ ء میں الجیریا بھی آزاد ہو چکا ہے) بانی آریہ سماج پر آخری اتمام حجت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء ہی سے تبلیغ دین کا ایک پر جوش اور بے پناہ جذبہ عطا ہو ا تھا اور آپ غیر مذاہب کے سر بر آوردہ رہنماؤں کو اسلام کا پیغام پہنچانا اور ان کی ملحدانہ تعلیمات و عقائد کا رد کرنے کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے.آپ نے ۱۸۷۸ ء میں "پنڈت دیا نند جی سرسوتی " کو روحوں کے ان گنت ہونے کے متعلق چیلنج دے کر خط و کتابت کی جو طرح ڈالی تھی اس کا مقصد وحید بھی یہی تھا کہ وہ ایک جدید ہندو فرقہ کے بانی تھے.اگر وہ اپنے غلط اور بے بنیاد عقائد سے رجوع کر کے آپ کی

Page 248

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۲۹ مسجد مبارک کی تعمیر طرف متوجہ ہو جاتے تو شاید ہندو جاتی میں اسلام کے متعلق ایک عام رو پیدا ہو جاتی لیکن افسوس پنڈت جی نے داعی حق کی آواز سن کر چپ سادھ لی.اور پوری عمر اپنے غلط بے حقیقت اور خود ساختہ عقائد 21 کے پر چار میں بسر کر دی اور اسی بے خبری میں ۳۰ اکتوبر ۱۸۸۳ء کو اس جہان سے کوچ کر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات سے صرف چھ ماہ قبل ان پر آخری دفعہ اتمام حجت کرنے کے لئے متعدد رجسٹری خطوط لکھے جنمیں صاف لفظوں میں یہ انتباہ کرتے ہوئے کہ دنیا چند روزہ ہے اور آخر کار خدا سے معاملہ پڑنے والا ہے.انہیں از راہ شفقت و محبت توجہ دلائی کہ وہ اپنے باطل خیال پر تعصب و عناد سے جمے رہنے کی بجائے قرآن مجید کی صداقت کے عقلی دلائل اور اس کی روحانی برکات ملاحظہ کرنے کے لئے حضور کی تصنیف براہین احمدیہ " کا مطالعہ کریں.نیز یہ وعدہ بھی فرمایا کہ اگر وہ حق و صداقت کی جستجو میں اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر رضامند ہوں تو انہیں یہ قیمتی کتاب مفت ارسال فرما دیں گے.آپ نے انہیں یہ پیشکش بھی فرمائی کہ کتاب کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کے بعد بھی ان کی نظر میں اسلام کی صداقت مشکوک رہے تو وہ مزید تسلی و تشفی کے لئے قادیان آئیں اور انکی آمد و رفت اور قیام کے واجبی اخراجات آپ خود برداشت کریں گے.پنڈت دیا نند جی نے ان خطوط کی رسید بھجوادی مگر اپنی گزشتہ روایات کے مطابق اس بارہ میں آخر وقت تک بالکل ساکت رہے پنڈت جی کی یہ اتنی بڑی کھلی شکست تھی کہ انکے سوانح نگاروں نے جہاں ان کی زندگی کے واقعات پر تفصیلی قلم اٹھایا وہاں اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ تک کرنے کی جرات نہیں کر سکے.پنڈت دیا نند کی وفات کے متعلق بھی آپ کو قبل از وقت اطلاع دی گئی تھی جسے آپ نے قادیان کے ہندوؤں اور آریوں کو بتا دیا تھا.اس طرح پنڈت دیا نند کی زندگی تو ان کی ہزیمت و شکست کا ثبوت تھی ہی ان کی موت بھی اسلام کی زندگی کا نشان بن گئی

Page 249

تاریخ احمدیت جلدا مجھے مبارک کی تعمیر حواشی ملاحظہ ہو " براہین احمدیہ حصہ چهارم طبع اول صفحه ۵۵۸-۵۵۹ اس نشان کی تفصیل آئیندہ اوراق میں ملاحظہ ہو.حیات احمد جلد چهارم صفحه ۵۸۰-۵۸۱ " حیات احمد " جلد دوم نمبر دوم صفحه ۲۸۰۲۱- "مسيرة المهدی" حصہ سوم صفحه ۳۷۰۰۳۶۸- در ضمیمہ اصحاب احمد " جلد اول صفحه ۷-۱۸ لائف آف احمد - صفحہ ۹۲-۹۳ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۵ء صلحه ۴۰۳ اشاعۃ السنہ " جلدہ صفحہ ۷۴ ان کے بیٹے نواب محمد علی حسن خان سابق ناظم ندوۃ العلماء نے " ماثر صدیقی " میں ان کی مستقل کتابوں کی فہرست شائع کی ہے، جو ۲۲۲ کتابوں پر مشتمل ہے."حقیقت الوحی " تتمہ صفحہ ۳۷ "کلیات آریہ مسافر صلحه ۳۸۵ مطبوعہ ۱۹۰۴ء) له " تتمہ حقیقت الوحی صفحہ ۳۷ به حیات احمد " جلد دوم نمبر دوم صلحه ۴۷۰۴۴- اشاعۃ السنہ " جلد 9 صفحہ ۱-۲ (مطابق ۱۸۸۶ء) مذاهب اسلام صفحه ۶۲۰۶۱۶ مولفه حکیم مولانا محمد نجم الغنی صاحب رامپوری مطیع نو کشور لکھنو - موج کوثر " مرتبہ شیخ محمد اکرام صاحب ایم.اے طبع اول صفحه ۵۰۰۴۹ حضرت مسیح موعود کو الہام ہو ا " تائی آئی " سو اسی کے مطابق حرمت بی بی صاحبہ نے مارچ ۱۹۱۶ء میں حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی الفضل ۴ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱) آپ ۳۰ نومبر ۱۹۳۷ء کو قریباً ۱۰۰ سال کی عمر میں فوت ہو ئیں بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کا مزار مبارک ہے.(الفضل ۶ - دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۱) تاریخ وفات ۲ جولائی ۱۹۳۱ء ۱۲- "حقیقته الوحی " طبع اول صفحہ ۲۴۳-۲۵۴-۲۵۵- "حياة النبی الا " جلد دوم نمبر دوم صفحه ۵۹-۷۴ - "سیرت المهدی حصہ اول طبع اول صفحه ۰۲۱ ۲۲-۳۶-۳۷.سیرت مسیح موعود ( مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی) احکم ۱۴- جنوری ۱۹۳۶ء صفح ملاحظہ ہو " براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اول صفحہ ۷ ۵۵۸۰۵۵- " ایک غلطی کا ازالہ " -۱۴ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجو اردو ستمبر ۱۹۴۵ و ۱۵ اعجاز احمدی طبع اول صفحہ ۷۶ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو " تاریخ انقلابات عالم " مرتبہ ابو سعید بزمی ناشر کتاب منزل لاہور) ۱۷- محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس ۱۸۹۱ء بحوالہ ریویو آف ریلیجز، اردو - اگست ۶۱۹۴۵ ۱۸ مکتوبات احمد یہ " جلد اول صفحه ۱۹-۲۰ براہین احمدیہ حصہ چہارم ۱۵۳۵/۵۳۶ حقیقته الوحی صفحہ ۱۲۲ نزول المسیح صفحه ۱۵۸ مکتوبات احمدیہ جلد دوم ۳۰۱ حیات احمد " جلد دوم نمبر دوم صفحه ۲۸-۳۳

Page 250

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۳۱ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ ماموریت کا تیسرا سال حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ (۱۸۸۴ء) مدھیانہ کے عقیدت مندوں کا اصرار بر امین احمد میہ کی اشاعت نے یوں تو ملک بھر میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا مگر لدھیانہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ یہاں حضرت اقدس کے عقیدت مندوں کی ایک جماعت قائم ہو گئی تھی جس میں حضرت صوفی احمد جان صاحب قاضی خواجہ علی صاحب نواب علی محمد صاحب آف مھجر مولوی عبد القادر صاحب شہزادہ عبد المجید صاحب میر عباس علی صاحب وغیرہ بہت سے نفوس شامل تھے.یہ بزرگ آپ کے حلقہ ارادت میں آنے کے بعد ہزار جان سے چاہتے تھے کہ حضرت اقدس ان کے ہاں لدھیانہ تشریف لائیں اور اس غرض سے ان کی طرف سے ۱۸۸۲ء میں باصرار درخواست بھی حضور انور کی خدمت میں پہنچی اور حضور نے اسے از راہ شفقت منظور فرماتے ہوئے وعدہ بھی کر لیا.لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہو گئے کہ مختلف اوقات میں عزم سفر کرنے کے باوجود اس سال وہاں جانے کی نوبت نہ آسکی.۱۸۸۴ء کے آغاز میں لدھیانہ کے دوستوں نے ایک دفعہ پھر میر عباس علی صاحب کے ذریعہ سے (جو ان دنوں لدھیانہ میں گویا حضرت اقدس کے نمائندے تھے اور جن کے متعلق حضرت اقدس نے یہاں تک حکم دے رکھا تھا کہ لدھیانہ سے جو دوست حضور کی ملاقات کے لئے آئیں پہلے ان سے مل کر آئیں تا تسلی رہے) بار بار اپنی اس دلی تمنا کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اذن الہی کے بغیر کوئی قدم اٹھانا معصیت خیال کرتے تھے اس لئے آپ نے میر عباس علی صاحب کو ۱۸ جنوری ۱۸۸۴ء کو تحریر فرمایا کہ "کچھ خداوند کریم ہی کی طرف اسباب آپڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں.نہیں معلوم حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے عاجز بندہ بغیر اس کی مشیت کے قدم اٹھا نہیں سکتا".نیز لکھا کہ "لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور

Page 251

تاریخ احمدیت جلدا حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ ارادت کہ جو لغزش اور ابتلاء کے مقابلہ پر کچھ ٹھر سکے.لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتا ہے ".اس سلسلہ میں انہیں اپنا ایک رویا بھی لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میر عباس علی صاحب کی باطنی کیفیت کے متعلق یہ نظارہ دکھایا گیا تھا.کہ آپ ایک مکان میں ہیں اور بعض نئے نئے آدمی آپ سے ملنے آئے ہیں اور میر عباس علی صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں اور یہ سب حضور سے بیزار ہو کر ایک دوسرے مکان میں جابیٹھے حضور ان لوگوں میں جن میں شاید میر صاحب بھی ہیں امامت کی غرض سے تشریف لے گئے لیکن پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں تب حضور نے ان سے کنارہ کش ہو کر باہر نکلنے کے لئے قدم اٹھایا معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو میر صاحب تھے اس غیبی اطلاع پر تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت عطا کر دی گئی تو آپ نے میر عباس علی صاحب کو جو انہی دنوں حضور کی خدمت میں قادیان آئے ہوئے تھے یہ ہدایت فرمائی کہ لدھیانہ میں آپ کے لئے کوئی ایسی قیام گاہ تجویز کی جائے جس میں تخلیہ اور ملاقات کے لئے الگ الگ کمرے ہوں اور ان میں مختصر ضروری سامان بھی موجود ہو.میر صاحب حضرت کا فرمان سن کر خوشی خوشی لدھیانہ پہنچے اور حضور کے استقبال کے لئے تیاریاں ہونے لگیں.لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مریدوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا انہیں آپ نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کی خصوصی اطلاع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ کثیر تعداد میں اسٹیشن پر حاضر ہوں.محلہ صوفیاں میں جہاں میر عباس علی صاحب سکونت رکھتے تھے انہیں کے اعزہ واقارب سے ایک دوست ڈپٹی امیر علی صاحب تھے جن کا مکان حضرت کی فرودگاہ کے لئے بہت موزوں تھا.مکان کی چابی ڈپٹی صاحب کے چچا میر نظام الدین صاحب کے پاس تھی جب انہیں بتایا گیا کہ اس مکان پر حضرت اقدس کے قیام فرمانے کی تجویز ہے تو انہوں نے بخوشی چابی دے دی.انہیں کہا گیا کہ وہ مکان میں سے تکلفات کا سامان اٹھا لیں کیونکہ علہی محفل ہے اس میں غریب و امیر آئیں گے.ہم یہاں چٹائیاں بچھا دیں گے مگر انہوں نے جواب دیا کہ میرے سامان کو قدم بوسی کی برکت نصیب ہو گی اسے نہیں رہنے دیا جائے ہم اسے اپنے ساتھ تھوڑا ہی لے جائیں گے حضرت صوفی احمد جان صاحب نے اپنی فراست کی بناء پر اپنے مریدوں کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ احادیث میں اس زمانہ کے مامور کا حلیہ موجود ہے اس لئے اگر چہ میں نے حضرت کی پہلے کبھی زیارت نہیں کی میں آپ کو از خود پہچان لونگا.غرضکہ اہل لدھیانہ حضرت لدھیانہ میں تشریف آوری اور بے مثال استقبال اقدس کی تشریف آوری کے

Page 252

تاریخ احمدیت جلدا ۲۳۳ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ لئے نہایت بے قراری سے چشم براہ تھے کہ حضور اطلاع کے مطابق اپنے تین خدام حافظ حامد علی صاحب مولوی جان محمد صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب کی رفاقت میں لدھیانہ اسٹیشن پر تشریف لے آئے.یہ ۱۸۸۴ء کی پہلی سہ ماہی کا واقعہ ہے.اسٹیش پر زائرین کا بے پناہ ہجوم تھا یوں معلوم ہو تا تھا کہ پورا شہر امڈ آیا ہے.لدھیانہ کے دوستوں میں میر عباس علی صاحب کے سوا کوئی بھی حضور کی شکل مبارک سے واقف نہیں تھا اس لئے جب گاڑی کا وقت قریب آیا تو میر صاحب اور انکے ساتھ بہت سے دوست پلیٹ فارم کے اندر چلے گئے اور لوگوں کی نظریں اس طرف جم گئیں کہ میر صاحب جس بزرگ سے مصافحہ کریں گے وہی حضرت اقدس ہوں گے لیکن اتفاق یہ ہوا کہ حضور اپنے خدام کے جھرمٹ میں گاڑی کے اگلے ڈبوں سے اتر کر پھاٹک کی طرف تشریف لے آئے.پھاٹک پر اس وقت سید میر عنایت علی صاحب کھڑے تھے - جو یہ خیال کر کے پہلے ہی سے یہاں آگئے تھے کہ حضرت اقدس بہر حال یہیں سے گزریں گے.اور گو انہیں حضور کی زیارت کا قبل ازیں موقعہ نہیں ملا تھا مگر آنے والے مسافروں میں سے جونہی ان کی نظر حضور کے مقدس اور نورانی چہرے پر پڑی وہ نورا بھانپ گئے کہ حضرت اقدس ہی ہیں اور جھٹ مصافحہ کرتے ہوئے دست بوسی کر لی.اس موقعہ پر حضرت صوفی احمد جان صاحب نے بھی جیسا کہ انہوں قبل از وقت بتا دیا تھا اسٹیشن پر حضور کو دیکھتے ہی بتا دیا کہ حضرت اقدس یہ ہیں حضرت صوفی صاحب کے ساتھ اس وقت ان کے دونوں فرزند یعنی حضرت پیر منظور محمد صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور متعدد مرید شاگرد مثلاً مولوی اب الدین صاحب بھی موجود تھے جو ان دنوں تحصیل علم کی خاطر لدھیانہ میں مقیم تھے.مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ حضور کو دیکھتے ہی میری زبان سے نکلا هذَا لَيْسَ وَجْهُ كَاذِب اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو باہر تشریف لاچکے تھے مگر میر عباس علی صاحب اور ان کے ساتھی ابھی تک آپ کی تلاش میں سرگرداں تھے.جب انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ بھی مختصر وقفہ کے بعد باہر آگئے اور حضور کو دیکھتے ہی مصافحہ کے لئے لیکے ان کا مصافحہ کرنا ہی تھا کہ زائرین شوق دیدار میں ٹوٹ پڑے.نواب علی محمد صاحب رئیس آف میجر نے میر عباس علی صاحب سے کہا کہ میری کو ٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے بہت لوگ حضرت اقدس کی زیارت کے لئے آئیں گے.اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرالیا جائے.میر صاحب نے کہا کہ آج کی رات یہ مبارک قدم میرے غریب خانے پر پڑنے دیں کل آپ کو اختیار ہے.نواب صاحب موصوف مان گئے اور حضرت اقدس علیہ السلام قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر محلہ صوفیاں میں ڈپٹی

Page 253

تاریخ احمدیت جلدا ۲۳۴ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ امیر علی صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوئے.حضرت اقدس کے ساتھ اس وقت ایک بڑا مجمع تھا گویا ایک جلوس کی سی شکل تھی.جب مکان پر پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا.حضور نے پہنچتے ہی وضو کیا اور آخر میں اپنی مالیدہ کی جرابوں پر مسح کیا.بعض لوگوں نے جو موجود تھے جب آپ کو پاؤں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا آپس میں اس کے جواز کے متعلق سرگوشیاں کیں.حضرت اقدس جب وضو کر کے مسجد محلہ صوفیاں کے اندر تشریف لائے تو مولوی موسیٰ صاحب نے استفسار کیا کہ حضور اس پر مسح جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا جائز ہے.امامت کے لئے عرض کیا گیا تو فرمایا نہیں نماز مولوی عبد القادر صاحب پڑھا ئیں گے چنانچہ جب تک حضرت اقدس کالدھیانہ میں قیام رہا نماز فجر کے سوا جس میں حضور خود امامت کراتے تھے) باقی سب نمازیں مولوی صاحب ہی نے پڑھا ئیں.بعض لدھیانوی علماء کی ہنگامہ آرائی! پہلے روز شام کو میر عباس علی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں کھانا پیش کیا.دوسرے دن صبح کو قاضی خواجہ علی صاحب اور شام کو احمد جان صاحب کے ایک مرید منشی رحیم بخش صاحب نے دعوت کی.لدھیانہ کی فضا اس وقت تک پر سکون تھی اور ابھی تک کوئی ناخوشگوار اور تلخ صورت پیدا نہیں ہوئی تھی.لیکن اب شام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی رحیم بخش صاحب کے ہاں تشریف لے گئے تو لدھیانہ کے بعض خدا نا ترس علماء کی ایک افسوسناک کارروائی سامنے آئی.واقعہ یوں ہوا کہ حضرت اقدس آٹھ دس اصحاب کے ہمراہ منشی صاحب کے گھر پہنچے جہاں آپ کو پہلے تو ایک کھلے کمرے میں تشریف رکھنے کے لئے کہا گیا لیکن جب کھانا تیار ہو گیا تو حضور کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھا دیا گیا.کھانا کھا چکے تو مولوی عبد العزیز لدھیانوی نے ہنگامہ آرائی کے لئے اپنا ایک ایلچی بھیج دیا.جس نے آتے ہی حضرت صوفی احمد جان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مولوی عبد العزیز صاحب کہتے ہیں قادیان والے مرزا صاحب یا ہمارے ساتھ بحث کریں یا کوتوالی چلیں.حضرت صوفی صاحب نے جواب دیا کہ ہم کیوں کو توالی چلیں کیا ہم نے کسی کا قصور کیا ہے ؟ اگر تمہارے مولوی صاحب نے کوئی بات دریافت کرنی ہے تو اخلاق و انسانیت کے ساتھ محلہ صوفیاں میں جہاں حضرت اقدس ٹھہرے ہوئے ہیں دریافت کرلیں حضرت صوفی صاحب نے اپنا جواب ختم کیا ہی تھا کہ خود میزبان یعنی منشی رحیم بخش صاحب نے انہیں یہ خبر سنائی کہ جس کمرہ سے آپ پہلے اٹھ کر آئے ہیں وہاں بعض لوگ جمع ہیں اپنے شکوک پیش کرنا چاہتے ہیں.حضرت صوفی صاحب نے انہیں سمجھایا کہ حضرت صاحب کو سفر کی وجہ سے تکان ہے یہ لوگ حضرت اقدس کی قیام گاہ محلہ صوفیاں پر آجائیں لیکن حضرت مسیح موعود نے یہ سن کر فرمایا کہ نہیں ہم بیٹھیں گے اور ان لوگوں کی بات سنیں گے کہ وہ

Page 254

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۳۵۰ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ کیا کہتے ہیں.یہ کہکہ حضرت اقدس اپنے خدام کے ساتھ پہلے کرے کی طرف چل دیئے یہاں آئے تو دیکھا کہ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہے اور تل دھرنے کو جگہ نہیں.حضور اور آپ کے ساتھیوں کو بمشکل جگہ ملی.ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شکوک پیش کریں.چنانچہ وہ اعتراضات کرتے رہے اور حضرت مسیح موعود انکے جوابات دیتے رہے لیکن ان شوریدہ سروں کو تحقیق حق تو مقصود نہیں تھی وہ تو لدھیانہ کے بعض مولویوں کی اشتعال انگیزی پر اپنے جوش غضب کا مظاہرہ کرنے کو آئے تھے جو کرتے رہے.اسی موقعہ پر ایک شخص نے یہ سوال بھی کیا کہ آپ بھی پیشگوئیاں فرماتے ہیں اور نجومی اور رمال بھی کرتے ہیں ہمیں صداقت کا پتہ کس طرح لگے ؟ حضور نے فرمایا کہ الہی نصرت نجومیوں اور رمالوں کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام اور مامورین کو نصرت اور کامیابی ملتی ہے وہ اور ان کی جماعت روز بروز ترقی کرتی اور ان کا اقبال ترقی کرتا ہے خدا کے مامور کا حوصلہ دیکھو کہ میر عباس علی صاحب تو لدھیانہ والوں کا بے جاجوش دیکھ کر گبھرا جاتے مگر حضرت کے چہرے پر قطعا مال کے آثار نہیں تھے اور آپ پوری تسلی اور اطمینان کے لب ولہجہ میں انہیں فرماتے تھے کہ یہ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے دو.آخر تھوڑی دیر بعد جب منشی رحیم بخش صاحب نے دیکھا کہ معاملہ طول کھینچ رہا ہے اور مخالفت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے تو انہوں نے کمال عقل مندی سے کہدیا کہ میں حضرت صاحب کو زیادہ تکلیف نہیں دینا چاہتا آپ لوگوں کے شکوک کے جواب حضرت صاحب نے کافی طور پر دے دیتے ہیں حضور کو تکان ہے چنانچہ حضرت اقدس واپسی کا قصد کر کے اٹھے تو صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے میر عباس علی صاحب کو مشورہ دیا کہ مولوی عبد العزیز صاحب فساد کے خوگر ہیں دوسرے رستہ سے چلنا چاہئے.حضرت اقدس نے جو قریب ہی کھڑے سن رہے تھے.اس موقعہ پر بھی کوہ استقلال بن کر ارشاد فرمایا نہیں اسی راستہ سے چلیں گے جس راستہ سے اندیشہ کیا جاتا ہے غرض فورا حضور اسی راستہ سے ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان تک تشریف لائے اور راستہ میں کسی شخص کو مزاحم ہونے کی جرات نہیں ہو سکی.چوڑے اور اونچے بازار کے سرے تک پہنچے تو لالہ ملا وامل نے میر عباس علی صاحب کو وہ رؤیا یاد دلایا جو حضور نے لدھیانہ والوں کی مخالفت کے متعلق لکھا تھا اور ان سے پوچھا کہ وہ رویا پورا ہو گیا ؟ میر عنایت علی صاحب نے جو اس وقت حضرت اقدس کے ہمراہ تھے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فی الواقع میر صاحب کے سوا اور کوئی نہیں تھا.اس وقت خود میر عباس علی صاحب نے کھلا اقرار کیا کہ حضور کی رو یا کمال صفائی سے پوری ہو گئی ہے.اگلے دن صوفی احمد جان صاحب کے ہاں دعوت کا انتظام تھا دعوت ختم ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وہ بھی مزید برکت کے لئے ہمراہ ہو گئے.رستہ میں انہوں نے حضرت کے استفسار پر عرض کیا کہ میں نے بارہ چودہ سال رنز چھتڑ کی گدی میں مجاہدات

Page 255

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۳۶ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ کئے ہیں جن سے میرے اندر اتنی زبر دست طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ اگر میں اپنے پیچھے آنے والے آدمی پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عادت مبارک کے مطابق اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا.صوفی صاحب اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا اور اس کو کیا فائدہ ہو گا ؟ صوفی صاحب اہل باطن میں سے تھے یہ نکتہ سن کر پھڑک اٹھے اور اسی وقت حضور کے سامنے علم توجہ سے ہمیشہ کے لئے توبہ کر لی بلکہ اپنی معرکہ الاراء کتاب طب روحانی کو جس میں انہوں نے توجہ کے کمالات اور برسوں کے تجربات پر اتنی مفصل روشنی ڈالی تھی کہ لدھیانہ والوں نے انہیں مسیح دوران کے خطابات دے رکھے تھے) نہ صرف مرتے دم تک خود اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اپنے مریدوں میں اشتہار دے دیا کہ علم توجہ اسلام سے مخصوص نہیں ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید ا سے دین اسلام کا جزو سمجھ کر استعمال نہ کرے.حضرت صوفی صاحب نے طب روحانی " میں اعلان کیا تھا کہ اس سلسلہ میں نجات جاودانی" اور کمالات انسانی" کے نام پر دو مزید حصے بھی شائع ہوں گے اور عملاً ان کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن اس کے بعد آپ نے وہ مسودہ لے کر چاک کر ڈالا بعض لوگوں نے جو "طب روحانی" سے بے حد متاثر تھے بڑے اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ وہ چیرا پھاڑا ہوا مسودہ ہی بھیج دیں تا اسی کو مرتب کر کے معلوم ہو سکے کہ کیا لکھا ہے لیکن آپ نے جواب دیا کہ " آن قدح شکست و آں ساقی نماند " پنجاب میں ایک آفتاب نکلا ہے جس کے سامنے ستارے رہبری نہیں کر سکتے.اس آفتاب کا نام مرزا غلام احمد ہے انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ " لکھی ہے اسے منگوا کر پڑھو"." زائرین کا ہجوم اور حضور کی مجلس علم و عرفان بهر کیف زبر دست مخالفت کے باوجود جو آپ کی آمد پر اٹھائی گئی تھی لدھیانہ کے گرد و نواح سے روزانہ ہی صبح و شام بڑی کثرت سے لوگ حاضر ہوتے تھے.علماء اور رؤساء کا تو ایک تانتا بندھا رہتا تھا.بالخصوص حضرت صوفی احمد جان صاحب نقشبندی ، مولوی شاه دین صاحب مولوی محمد حسن صاحب رئیس اعظم لدھیانہ نواب علی محمد خان صاحب حجر، پیر سراج الحق صاحب نعمانی تو پروانوں کی طرح آپ کے گرد رہتے تھے.حضرت صوفی احمد جان صاحب خود ایک بڑی جماعت کے روحانی پیشوا تھے لیکن وہ حضرت اقدس کی مجلس میں نہایت اخلاص وارادت کے ساتھ دو زانو ہو کر با ادب بیٹھتے اور عقیدت مند مریدوں کی طرح آپ کے کلمات طیبات سنتے اور فیض اٹھاتے.یہی حال پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا تھا.حضرت کی مجلس میں ہر قسم کے دینی مسائل کا تذکرہ ہو تا تھا اور حضور بڑی دیر تک حقائق و معارف کے خزانے لٹاتے اور لوگ مالا مال ہوتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ حضور

Page 256

تاریخ احمدیت جلدا ۲۳۷ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ نے اس امر پر لطیف روشنی ڈالی کہ ایمان اور یقین لانے کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کچھ اخفاء بھی ہو اگر معاملہ ایسا صاف اور روشن ہو جائے جیسا کہ نصف النہار کے وقت ہوتا ہے اس وقت ایمان لانے کا ثواب نہیں ہو تا.اجر اسی وقت ہے کہ یومِنُونَ بِالْغَیب کے مطابق کچھ غیبوبت بھی ہو اور ایمان لایا جائے ایک دن کسی شخص کے سوال پر حضور نے مسئلہ توحید پر تقریر فرمائی جو کئی گھنٹے تک جاری رہی.حضور کی اعجازی تقریروں میں روحانیت کا دریا بہتا ہوا نظر آتا تھا اور کسی کو آج تک ان آسمانی علوم و حقائق و نکات سننے یا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.اسی دوران میں شہر کے بعض علماء مثلاً مولوی عبد القادر صاحب نے بھری مجلس میں حضور سے استدعا کی کہ حضور ان کی بیعت قبول فرمائیں.مگر حضور نے بلا تامل جواب دیا - لست بما مور میں مامور نہیں ہوں) اور پھر اس مجلس میں ٹھہرنا ہی گوارا نہ فرمایا.اور فور ابا ہر سیر کے لئے چل دئیے.حضرت کے اس طرز جواب پر آپ کے ارادتمند دل مسوس کر رہ گئے.مگر جواب مختصر ہونے کے باوجود ہر پہلو سے مکمل تھا اس لئے پھر کسی کو آپ کے سامنے بیعت کی درخواست کرنے کی جرات نہیں ہو سکی.حضرت صوفی احمد جان صاحب اور میر عباس علی صاحب نے بعد کو مولوی عبد القادر صاحب سے کہا آپ بہت سادہ ہیں ایسی بات علیحدگی میں کرنا چاہیے تھی.قیام لدھیانہ کے دوران میں حضرت اقدس اپنے معمول کے مطابق اکثر لدھیانہ میں معمول میر کو بھی تشریف لے جاتے تھے ایک مرتبہ جنگل میں نماز عصر کا وقت آگیا.عرض کیا گیا نماز کا وقت ہو گیا ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا نہیں پڑھ لیں.غرض وہیں مولوی عبد القادر صاحب نے نماز پڑھائی.ٹمپرنس سوسائٹی میں تقریر کرنے سے انکار لدھیانہ میں ٹمپرنس سوسائٹی کا جلسہ تھا جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.مختلف فرقوں کے لوگ جمع تھے حاضرین نے آپ سے تقریر کے لئے پر زور درخواست کی مگر آپ نے منظور نہ فرمایا.جب اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور آپ سے انکار کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا اگر میں تقریر کرتا تو ضرور تھا کہ میں بیان کرتا کہ شراب سے روکنے والوں کے سردار محمد رسول اللہ اللہ ہیں جن کے ذکر کی یہ لوگ اجازت نہ دیتے اور میری کیفیت یہ ہے کہ میں اس تقریر کو جس میں میرے آقا کا نام لیا جانے کی اجازت نہ ہو پسند نہیں کرتا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام تین چار روز تک علم و عرفان کی بارش برساتے اور اہل واپسی لدھیانہ کی روحانی تشنگی بجھاتے ہوئے واپس قادیان تشریف لے گئے.

Page 257

تاریخ احمدیت.جلدا لدھیانہ کا دوسرا سفر ۲۳۸ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ لدھیانہ کے اس اولین سفر کے بعد حضور کو میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے اسی سال ۱۴- اکتوبر کو دوبارہ لدھیانہ تشریف لانا پڑا.حضور نے اس دفعہ قبل از وقت محض سرسری سی اطلاع دی تھی تاہم قاضی خواجہ علی صاحب مولوی عبد القادر صاحب اور نواب علی محمد خان صاحب آن مھجر حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.حضور کا قیام بہت مختصر تھا.صرف دو ایک دن آپ ٹھہرے اور سنت نبوی ( ا ) کی تعمیل میں عیادت کا اسلامی فریضہ ادا کرنے کے بعد قادیان واپس تشریف لائے.II سفر مالیر کوٹلہ نواب محمد ابراہیم علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کو ان دنوں اپنے بڑے بیٹے عشق علی خان کی وفات وغیرہ صدمات کی وجہ سے خلل دماغ کا عارضہ لاحق تھا اور انہوں نے ریاستی امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی ان کی والدہ صاحبہ کو حضرت اقدس کی آمد کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے یہ موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ سے اپنے ہاں تشریف لانے اور اپنے بچے کی شفایابی کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی.چنانچہ حضور قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر میر عنایت علی صاحب اور دوسرے آٹھ دس خدام کے ہمراہ مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور دعا کرتے ہی لدھیانہ پلٹ آئے.میر عنایت علی صاحب کا بیان ہے کہ اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی.میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا.حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہلکاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لاکر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرما ئیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خاں کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا.حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے.جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تا کہ آپ باغ میں جا کر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے.چنانچہ آپ پیدل ہی گئے اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا.جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے نواب صاحب کو ٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت صاحب سے السلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا.اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں.چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کو بھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر

Page 258

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۳۹ حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ رہے.چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہو ئیں.اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی مسجد کی طرف چلے گئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے.مسجد میں پہنچ کر حضور نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں.اور ہم بھی دعا کرتے ہیں.غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے سفرانبالہ پٹیالہ و سنور ۱۸۸۴ء میں حضرت نے انبالہ چھاؤنی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب مقیم تھے.سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں غلام قادر صاحب ( ولد اللہ بخش) عبد الرحمن صاحب ( ولد اللہ بخش) اور منشی عبداللہ صاحب سنوری پر مشتمل ایک وفد بھجوایا تا حضور کو سنور تشریف لانے کی دعوت دیں.چنانچہ منشی عبد اللہ صاحب سنوری کی درخواست پر حضور واپسی کے وقت سنور تشریف لے گئے.رستہ میں پٹیالہ میں بھی مختصر سا قیام فرمایا.آپ پٹیالہ سٹیشن پر پہنچے تو بے شمار لوگ آپ کی زیارت کے لئے موجود تھے.وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب خان بہادر سی آئی ای وزیر اعظم T پٹیالہ نے جو آپ کے خاص ارادت مندوں میں سے تھے آپ کو شاہی بگھی میں بٹھایا اور اپنی کو ٹھی میں لے گئے.حضرت اقدس نے پٹیالہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی اور کہا کہ یہ تمہارے وزیر شیعہ نہیں ہیں اہل سنت والجماعت میں سے ہیں ان کے لئے تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے اس کے بعد حضرت نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور بگھی پر سوار ہو کر سنور تشریف لے گئے.دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد ظہر و عصر کی نمازوں کے لئے مسجد شیخاناں گئے.خدام نے حضرت اقدس سے بار بار عرض کیا کہ آپ نماز پڑھا ئیں مگر آپ نے یہی جواب دیا کہ اس مسجد کا امام جماعت کرائے.آخر کار حد درجہ اصرار ہوا تو پھر آپ ہی نے نماز پڑھائی.حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی اس وقت منشی صاحب کے داد امحمد بخش صاحب بقید حیات تھے انہیں حضرت اقدس سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل ہوا.بعد ازاں پٹیالہ سے ہوتے ہوئے واپس انبالہ چھاؤنی روانہ ہو گئے.اس سفر میں منشی عبد اللہ صاحب سنوری بھی آپ کے ہمراہ تھے.

Page 259

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۴۰ حوا واشی حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ ☑ -2 جماعت لدھیانہ کے روح رواں اور حضرت اقدس کے قدیم عشاق میں سے تھے حضرت نے ازالہ اوہام صفحہ ۷۹۳-۷۹۴ میں اپنے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے متعلق تحریر فرمایا ہے " اس عاجز کے ایک منتخب دوستوں میں سے ہیں.محبت و خلوص و وفاء صدق و صفا کے آثار ان کے چہرہ پر نمایاں ہیں خدمت گزاری میں ہر وقت کھڑے ہیں.اور ایام سکونت لدھیانہ میں جو چھ چھ ماہ تک بھی اتفاق ہوتا ہے ایک بڑا حصہ مہمانداری کا خوشی کے ساتھ وہ اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور جہاں تک ان کے قبضہ قدرت میں ہے وہ ہمدردی اور خدمت اور ہر ایک قسم کی غمخواری میں کسی بات سے فرق نہیں کرتے.لدھیانہ سے مالیر کوٹلہ تک ان کی شکر میں چلتی تھیں عمر کے آخر میں قادیان آگئے تھے اور مہتمم لنگر خانہ کے فرائض نہایت درجہ استقلال و امانت سے سنبھال لئے.۲۴ اگست ۱۹۱۲ء کو لدھیانہ میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے ( الحکم ۱۴۴۷.ستمبر ۲۸٬۶۱۹۱۲- اگست ۱۹۳۵ء) انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد ترک وطن کر کے لدھیانہ میں جاگزیں ہو گئے حضرت اقدس کے بڑے خدائی تھے ایک مرتبہ انہوں نے حضور کی خدمت میں ایک خط اور منی آرڈر بھجوایا جس کے متعلق تحمیل از وقت حضور کو خدا تعالیٰ نے اطلاع دے دی جو انکے اخلاص پر ایک آسمانی شہادت تھی.وفات ۱۸۹۱ء (الحکم ۳۱ مارچ ۱۹۳۲ء صفحه ۹) حکیم محمد عمر صاحب کے والد ما جدا آپ نے ۳۱- دسمبر ۱۹۲۰ء کو ۸۰ سال کی عمر میں انتقال فرمایا.آپ کو قبول صداقت کے بعد بہت سی مالی اور اعزازی قربانیاں دینی پڑ ہیں.مگر آپ مضبوط چٹان کی طرح اپنے عقیدہ پر تادم آخر مستحکم رہے.۳۱۳- اصحاب کبار میں آپ کا نام ۱۳۱ نمبر پر ہے سید نا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے آپ کو بیعت لینے کی بھی اجازت دے رکھی تھی.(الفضل ۲۰-۱۷- اپریل ۱۹۳۲ء) کابل کے مشہور شاہی خاندان درانی سے تعلق رکھتے تھے اور شاہ شجاع کی نسل میں سے تھے.اس خاندانی عظمت کے باوجود ان کی پوری زندگی تو کل سے معمور درویشی میں گزری.خلافت ثانیہ کے آغاز میں جب حضرت مصلح موعود نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو حضرت شہزادہ صاحب نے اپنا مکان فروخت کر دیا اور اپنے خرچ پر تبلیغی جہاد پر جانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.اس وقت آپ کو بھجوایا نہ جاسکا اور جب کچھ عرصہ بعد انہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایران جانے کا ارشاد فرمایا تو وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے.لیکن انہوں نے اس امر کا اشارہ بھی اظہار کرنا گوارا نہیں کیا.اور اسی بے سرو سامانی کی حالت میں ایران کی طرف چل دیئے.اور پیرانہ سالی اور کس میری کے باوجود چار سال تک تبلیغ حق میں مصروف عمل رہے اور اسی جہاد میں اپنی زندگی ختم کر دی.اور ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء کو انتقال فرمایا.آپ کی شہادت کی خبر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ نے فرمایا کہ تسلسلینہ خوش قسمت ہے کہ وہ حضرت ایوب انصاری کا مدفن بنا.اور ایران کو یہ فخر نصیب ہوا کہ وہاں خدا نے ایک ایسے شخص کو وفات دی جسے لوگ اس کی زندگی میں ولی اللہ کہتے تھے.(الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۲۸ء صفحه - الحکم نمبر ۲ تا ۳۶ جلد ۱۹۳۴-۳۷ء - الفضل ۲۸- دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۸۶) مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۷۲ ناشر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب دسمبر ۱۹۰۸ء انوار احمدیہ مشین پریس قادیان - قادیان کے ایک نیک مزاج مولوی صاحب احضرت اقدس سے ان کا گہرا تعلق تھا اور وہی مسجد اقصیٰ کے اولین امام تھے ان کا ایک بھائی غفار اجو بالکل جاہل تھا بعض اوقات حضور کی خدمت میں رہتا تھا.(سیرت المہدی حصہ اول - طبع ثانی - صفحہ ۲۲۰-۲۲۱) بیعت اولی کی تاریخی تقریب میں نویں نمبر پر بیعت کی اور اپنے چچا اور خسر میر عباس علی صاحب کے ارتداد کے باوجود آخر دم تک حق و صداقت کے پر جوش داعی و علمبردار رہے.بڑے مستجاب الدعوات اور صاحب کشف تھے.لدھیانہ کے سجادہ نشینوں میں سے تھے.خانقاہ کے ساتھ کافی زمین ورثہ میں پانی تھی.مگر آپ وہاں کبھی جا کر کھڑے بھی نہیں ہوئے.نتیجہ یہ ہوا کہ خانقاہ کے جاروب کش ہی مالک بن بیٹھے مریدوں سے اکثر فرمایا کرتے کہ ہم تو خود اصل سرکار کے مرید ہیں.ولادت ۱۸۵۸ء وفات ۳.ستمبر ۱۹۴۳ الفضل ۲۲٬۲۱ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۳)

Page 260

تاریخ احمدیت جلدا +11 حضرت اقدس کا پہلا سفر لدھیانہ حضرت اقدس کے قدیم اور درویش طبع صحابی جو طبیب بھی تھے اور خوش الحان واعظ بھی.سفر نمیسین کے لئے جو وند حضرت مسیح موعود نے تجویز فرمایا تھا اس کے ایک رکن آپ بھی نامزد ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے آپ کو ہندوستان کے مختلف مقامات پر پیغام احمدیت پہنچانے کا موقعہ ملا.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضور ہی کے جاری کردہ مطب میں بیٹھ گئے اور ربع صدی سے زائد عرصہ تک اپنے مایہ ناز استاد حضرت خلیفہ اول) کے چشمہ حکمت سے مخلوق خدا کو فیض یاب کیا.راولپنڈی میں ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.(الفضل -۲- نومبر ۱۹۴۸ء اور ۹ جنوری ۱۹۴۹) ایک قسم کا پیشینہ کا کپڑا جو مل کر ملائم کیا جاتا ہے.(فرہنگ آصفیہ) روایات صحابه " (غیر مطبوعہ جلد ہشتم صفحه ۲۸۴-۲۸۵ الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ الحکم ۷ - مارچ ۱۹۲۰ صفحہ۱- ۳ " سیرت المہدی " حصہ اول طبع ثانی صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۷- "سیرت ه سوم صفحه ۳۴ - صفحه ۹۹-۱۰۰- روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ہفتم صفحه ۱-۲- الحکام ۲۱ مئی تا ۱۴ جون ۱۹۴۳ء صفحه ۹۴۸ المهدي" روایات صحابہ "غیر مطبوعہ جلد یازدهم صفحه ۵۷ ۳ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد پنجم صفحه ۸۴ رات صحابہ غیرما حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۱۹ صفحه ۲۰ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۲۸٬۲۷ و روایات صحابہ جلد اول صفحه ۱۲۲٬۱۲۱ حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۴۳۴۴۲ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مطبوعہ اسلامی پریس حیدر آبادد کن دسمبر ۱۹۵۱ء ولادت ۱۸۳۰ء وفات ۱۸۹۵ء آپ کا شمار روشن خیال اہل قلم میں ہوتا ہے آپ نے ۱۸۸۹ء میں قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کے ثبوت میں اعجاز التربیل" کے نام سے ایک مبسوط کتاب شائع کی جو آپ کے علمی ذوق کی آئینہ دار ہے.۱۵ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلدا اصفحہ ۳۲ " مکتوبات بنام مولوی عبد اللہ صاحب سنوری صفحه ۴۹ "لائف آف احمد " مرتبه مولانا عبد الرحیم صاحب درد صفحه ۱۰۱

Page 261

تاریخ احمدیت جلدا ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد دوسری شادی ، مبشر اولاد اور ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد دنیا میں اسلام کے عالمگیر نظام روحانی کے قیام اور امام عصر حاضر کے لائے ہوئے آسمانی انوار و برکات کو جہان بھر میں پھیلا دینے کے لئے ازل سے یہ مقدر تھا کہ ہندوستان کے صوفی مرتاض اور ولی کامل حضرت خواجہ محمد ناصر کی نسل سے ایک پاک خاتون مهدی موعود کی عقد زوجیت میں آئیگی جس کے نتیجہ میں ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد رکھی جائے گی جو خدا کے دین کا جھنڈا بلند کر کے کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گا اور نہایت شان و شوکت سے قیامت تک سرسبز رہے گا.چنانچہ اٹھارھویں صدی کے آغاز میں خود حضرت خواجہ محمد ناصر رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۱۶۹۳ء وفات ۲۹- اپریل ۱۷۵۸ء) کو برسوں کی سخت ریاضتوں اور مجاہدات کے بعد ایک مکاشفہ میں حضرت امام حسین کی روح نے خبر دی کہ ” نانا جان نے مجھے خاص اس لئے تیرے پاس بھیجا تھا کہ میں تجھے معرفت اور ولایت سے مالا مال کر دوں.یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتداء تجھ پر ہوتی ہے اور انجام اس کا مہدی علیہ الصلوۃ والسلام پر ہو گا " 1 سو جب اس موعود نعمت کے عطا ہونے کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بار بار اطلاع دی کہ ہم تیرے اب وجد کے سلسلے کو منقطع کر کے تجھے سے ایک نئی نسل اور نئے خاندان کی ابتدا کرنے والے ہیں بلکہ آپ کو قبل از وقت یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کی یہ دوسری شادی دلی کے ایک مشہور سادات خاندان میں مقدر ہے.حضرت ایک عرصہ سے عملاً تجرد کی زندگی بسر کر رہے تھے.اور مسلسل علمی مشاغل شب بیداری کے باعث ضعف قلب و دماغ ذیا بیطس اور دوران سر و غیرہ امراض سے طبیعت انتہا درجہ کمزور ہو چکی تھی.عمر پچاس سال تک پہنچ رہی تھی جو ہمارے ملک کی اوسط عمر کے مطابق پیرانہ سالی میں شمار ہوتی ہے اور اقتصادی مشکلات اور اہل خاندان کی مخالفت الگ ایک مستقل مصیبت تھی ان حالات میں جب کہ شادی کی راہ میں قدم قدم

Page 262

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۳۳ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد پر ایسے موانع تھے.کہ آپ کو ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی لیکن چونکہ خدائی منشاء میں نکاح ثانی کا ہونا ضروری تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے (غالبا ۱۸۸۱ء میں آپ کو نئی شادی کی تحریک فرمائی اور یہ خوشخبری بھی دی کہ تمہیں تشویش کی قطعا ضرورت نہیں.شادی کا سب سامان ہم اپنے دست قدرت سے کریں گے.چنانچہ آپ کو الہام ہوا.ہر چہ باید تو عروس رایمان سامان کنم وان چه مطلوب شما باشد عطائے آں کنم یعنی جو کچھ دلہن کے لئے فراہم ہونا چاہیے وہ میں فراہم کرونگا اور تمہاری ہر ایک ضرورت پوری کروں گا.اس خدائی بشارت کے تین سال بعد نومبر ۱۸۸۴ء میں خواہبہ محمد ناصر رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کے ہاں آپ کی دوسری شادی ہوئی اور ان کی دختر نیک اختر نصرت جہاں بیگم خدیجہ بن کر آپ کے حرم میں داخل ہو ئیں اور لاکھوں مومنوں کی روحانی ماں ہونے کی وجہ سے ام المومنین " کا ابدی خطاب پایا.حضرت اقدس کی دوسری شادی کا یہ خدائی سامان اس طرح ہوا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ۱۸۷۶ء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارادت مندوں میں شامل اور آپ کی خدا نما شخصیت کے مداح تھے.جب " براہین احمدیہ " شائع ہوئی تو انہوں نے بھی اس کا ایک نسخہ خریدا اور پھر جذبات عقیدت میں چند امور کے لئے حضرت سے دعا منگوانے کے لئے خط لکھا جن میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ دعا کریں مجھے خدا تعالیٰ نیک اور صالح داماد عطا فرمائے.اس وقت چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے رشتہ کی تحریک ہو چکی تھی اور یہ بھی بتایا جا چکا تھا کہ رشتہ دلی کے عالی نسب سادات خاندان میں مقدر ہے اس لئے جب حضرت میر صاحب کا یہ خط پہنچا تو حضور نے خداداد فراست سے درخواست دعا کو خدائی اشارہ پاکر انہیں جواب دیا.کہ میرا تعلق اپنی بیوی سے عملاً منقطع ہے اور میں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے کہ جیسا تمہارا اعمدہ خاندان ہے ایسا ہی تم کو سادات کے معزز خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا تمہیں کچھ تکلیف نہ ہوگی.نیز یہ بھی لکھا کہ تا تصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں اور رد کرنے میں جلدی نہ کریں.حضرت میر صاحب جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتے تھے کہ انہیں کوئی نیک اور صالح داماد عطا ہو یہ جواب پڑھ کر گرے فکر میں پڑ گئے اور کچھ تامل کیا کیونکہ اول تو ان کی بیٹی ۱۸/۱۷ سال کی تھیں اور حضرت کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی.دوسرے پہلی بیوی اور دو بچے بھی موجود تھے.خاندان بھی دوسرا تھا او ر تمدنی ماحول کی پیچید گہاں الگ نظر آ رہی تھیں بایں ہمہ خدا نے یہ تصرف کیا کہ حضرت کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے انہوں نے اپنے دل میں یہ پختہ

Page 263

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۴۴ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد فیصلہ کر لیا کہ اسی نیک مرد سے میں اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کروں گا.تاہم انہوں نے اس ڈر کی وجہ سے کہ مبادا انکی اہلیہ صاحبہ انکار کر دیں اس خط کا مضمون اپنے تک محدود رکھا اور ان سے ذکر تک نہیں کیا.دل کی بات دل ہی میں رہ گئی.اس کے بعد حضرت میر صاحب ملازمت کے سلسلہ میں ضلع لاہور سے منتقل ہو کر چند ماہ کے لئے پٹیالہ اور مالیر کوٹلہ میں قیام فرماتے ہوئے ملتان گئے اور پھر ملتان سے رخصت پر اپنے وطن دلی جاپہنچے اس عرصہ میں کئی جگہ سے رشتہ کے پیغام آتے رہے اور سلسلہ جنبانی ہو رہا تھا.لیکن خدا کی شان خود ان کی اہلیہ محترمہ یعنی حضرت نانی اماں سید بیگم صاحبہ کی کسی جگہ تسلی نہیں ہوئی.حالانکہ پیغام دینے والوں میں بعض بڑے اچھے اچھے آسودہ حال بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے حضرت نانی اماں کے بیان کے مطابق اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی زیر تجویز آیا لیکن وہ عمر کے تفاوت اور خصوصاً پنجاب والوں کے خلاف دہلوی تعصب کی وجہ سے یہاں بھی مطمئن نہ ہو سکیں.مگر اب جو حضرت میر صاحب دلی آئے تو اللہ تعالٰی نے ان کے دلی ارادے کی تکمیل کے لئے خود ہی حضرت نانی اماں کا شرح صدر کر دیا.ایک دن نانی اماں سے رشتہ کی بابت تذکرہ جاری تھا کہ حضرت میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ سے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار سے درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی.اسے رشتہ دے دو.انہوں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی.تو انہوں نے صاف انکار کر دیا.جس پر حضرت میر صاحب نے خفگی کے لہجے میں کہا لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر ا سے یونہی بٹھا چھوڑو گی ؟ حضرت نانی اماں نے جواب دیا کہ " ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے".حضرت میر صاحب نے جو اس سنہری موقع کے بے تابی سے منتظر تھے جھٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط نکال کران کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا بھی خط آیا ہوا ہے جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے ".حضرت نانی اماں نے کہا کہ "اچھا پھر غلام احمد کو لکھ دو.چنانچہ حضرت میر صاحب نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھ دیا اور نکاح کا دن (حضرت ام المومنین کی روایات کے مطابق) ۲۶ - محرم ۱۳۰۲ھ مقرر کر دیا.جسے حضرت مسیح موعود کے ایماء پر ۲۷- محرم ۱۳۰۲ھ بروز سوموار ( مطابق ۱۷ نومبر ۱۸۸۴ء) کر دیا گیا.تاریخ طے پاگئی تو آسمانی دولها یعنی حضرت مسیح موعود کی برات دلی میں اور واپسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولی جانے کے لئے حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب کی معیت میں لدھیانہ سٹیشن پر دارد ہوئے.جہاں لدھیانہ کے مخلصین حضرت صوفی احمد جان صاحب اور ان کے فرزند صاحبزادہ پیر

Page 264

تاریخ احمدیت جلدا ۲۴۵ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد منظور محمد صاحب اور صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب ، میر عباس علی صاحب اور دوسرے حضرات موجود تھے حضرت صوفی صاحب نے ایک تھیلی جس میں کچھ رقم تھی آپ کی نذر کی.حضرت اقدس نے یہاں میر عباس علی صاحب سے برات میں شمولیت کی خواہش ظاہر فرمائی مگر انہوں نے خرابی صحت کا عذر کر کے معذرت کر دی.اور آپ دو خدام کی مختصری برات لے کر دلی پہنچے.خواجہ میر درد کی مسجد میں عصر و مغرب کے درمیان مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی نے گیارہ سو روپیہ مہر پر نکاح پڑھا جو ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے تھے.اور ڈولی میں بیٹھ کر آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موقعہ پر مولوی صاحب کو ایک مصلیٰ اور پانچ روپے بطور ہدیہ دیتے حضرت میر صاحب نے رشتہ کا معاملہ اپنے خاندان بلکہ اپنی والدہ ماجدہ وغیرہ سے بھی مخفی رکھا تھا.حضرت پہنچے تو انہیں بھی خبر ہو گئی اور وہ بھڑک اٹھے کہ ایک بوڑھے شخص اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے.اور کئی افراد خاندان تو اسی غصہ اور ناراضی میں نکاح میں شامل نہیں ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کے اخراجات کے لئے منشی عبد الحق صاحب اکو ٹسٹ سے پانچ سو روپیہ بطور قرض لے لیا تھا (جسے انہوں نے بعد میں " سراج منیر" کی اشاعت کی مد میں دے دیا) اور دو تین سو کی رقم حکیم محمد شریف صاحب کلانوری نے پیش کر دی تھی.شادی بیاہ کے ملکی دستور کے مطابق حضور کو دلہن کے لئے قیمتی زیور اور پار چات ضرور لے جانا چاہیے تھے مگر حضرت اپنے دینی منصب کے لحاظ سے یہ تقریب اسلامی تمدن و معاشرت کی روشنی میں نہایت سادہ اور پر وقار طریق پر انجام دینا چاہتے تھے اس لئے رسم و رواج کی پابندیوں سے عجیب شان بے نیازی دکھاتے ہوئے آپ اس موقعہ پر کوئی کپڑا اور زیور ساتھ نہیں لے گئے تھے صرف ڈھائی سو روپیہ کی رقم حضرت میر صاحب کے حوالے کی کہ جو چاہیں بنوالیں.حضرت میر صاحب کی برادری نے اس طرز عمل پر سخت لے دے کی.کہ اچھا نکاح ہوا کہ کوئی زیور کپڑا ساتھ نہیں آیا.انہیں جواب دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں اور گھر کی عورتیں ان کی مخالف ہیں اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں اس حالت میں وہ زیور کپڑا کہاں سے بنوا لاتے ؟ مگر بعض برادری والے سختی پر اتر آئے اور بعض دانت پیس کر رہ گئے.بہر حال اس ماحول میں نکاح کے بعد رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی.جس میں تکلف یا رسم و رواج نام کو بھی نہیں تھا.جہیز کو صندوق میں بند کر کے کنجی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دی گئی اور حضور دوسرے دن حضرت سیدۃ النساء ام المومنین نصرت جہاں بیگم کو ساتھ لے کر دلی سے روانہ ہوئے اور قادیان تشریف لے آئے.نئی دلہن کی سسرال میں پہلی آمد پر خوشی اور طرب کے بڑے بڑے جشن منعقد کئے جاتے ہیں مگر

Page 265

تاریخ احمدیت جلدا ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد حضرت ام المومنین تو ایسی جگہ تشریف لائی تھیں جہاں ہر طرف بیگانے ہی بیگانے تھے.اور حضرت مسیح موعود کی پہلی خوشدامن محترمہ چراغ بی بی صاحبہ کے سوا باقی سب رشتہ دار شدید مخالف اور بالخصوص اس دوسری شادی پر طیش میں آئے ہوئے تھے.زبان - طرز معاشرت اور ماحول بھی بالکل نئے تھے.پھر کجا دلی جیسا با رونق اور پینتالیس میل کی وسعتوں کو محیط ایک شاندار اور بارونق تاریخی شهر اور کجا دنیا کی آبادی سے دور ایک گمنام سا گاؤں نہ لال قلعہ نہ شاہی محلات نہ بلند و بالا مساجد - نہ پر شکوہ اور سمر بلک عمارتیں نہ بلند و بالا مینار - نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت نصرت جہاں بیگم اس عالم تنہائی میں سخت گبھرا گئیں.چنانچہ حضرت نواب مبارکہ بیگم کا بیان ہے کہ اماں جان نے ایک دفعہ ذکر فرمایا جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں سب کنبہ سخت مخالف تھا.دو چار خادم مرد تھے.گھر میں عورت کوئی نہ تھی صرف میرے ساتھ فاطمہ بیگم تھیں.وہ کسی کی زبان نہ سمجھتی تھیں نہ ان کی کوئی سمجھے.شام کا وقت بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے.تنہائی کا عالم ، بیگانہ وطن - دل کی عجیب حالت تھی.اور روتے روتے میرا برا حال ہو گیا تھا.نہ کوئی اپنا تسلی دینے والا نہ منہ دھلانے والا نہ کھلانے پلانے والا کنبہ نہ ناطہ - اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کر اتری.کمرے میں ایک کھری چارپائی پڑی تھی جس کی پائینتی پر ایک کپڑا پڑا تھا.اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہو گئی.یہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہان کا بستر عروسی تھا اور سسرال کے گھر میں پہلی رات تھی.مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ "اے کھری چارپائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن دیکھ تو سی دو جہان کی نعمتیں ہوں گی اور تو ہو گی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے خادموں سے لگے ہوں گے انشاء الله اصبح حضرت مسیح موعود نے ایک خادمہ کو بلوا دیا اور گھر میں آرام کا سب بند و بست کر دیا ".بایں ہمہ حضرت ام المومنین طبعی طور پر ایک اجنبی ماحول دیکھ کر سخت حزن و ملال میں مبتلا ہو گئیں اور آشفتگی میں انہوں نے دلی خط لکھے کہ " میں سخت گبھرائی ہوئی ہوں اور شاید میں اسی غم اور گبھراہٹ سے مرجاؤں گی.ان خطوط کا پہنچا تھا کہ حضرت میر صاحب کے خاندان نے اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی.اور کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تو اس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیوں تباہ کی.یہ صورت حال دیکھ کر حضرت میر صاحب اور حضرت نانی اماں بھی کچھ گھبرا گئے.چنانچہ رخصتانہ سے ایک مہینہ کے بعد حضرت میر صاحب قادیان آئے اور حضرت ام المومنین کو دلی لے گئے جب وہ دلی پہنچے تو حضرت نانی اماں نے فاطمہ بیگم سے پوچھا کہ لڑکی کیسی رہی؟ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہو گی.ورنہ مرزا صاحب نے ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور بہت اچھے آدمی ہیں.خود حضرت ام المومنین نے بھی بتایا کہ

Page 266

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۴۷ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد " مجھے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا مگر میں انہی گھر گئی تھی".حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح پر جہاں حضرت مسیح موعود کے خاندان اور دلی کی برادری میں غم و غصہ کی لہردوڑ گئی تھی وہاں خود حضرت کے بعض قدیم اور مخلص رفقاء نے بھی آپ کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر اظہار افسوس کیا.چنانچہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے خط بھیجا کہ " مجھے حکیم محمد شریف صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ باعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے.اگر یہ امر آپ کی روحانی قوت سے تعلق رکھتا ہے تو میں اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ میں اولیاء اللہ کے خوارق اور روحانی قوتوں کا منکر نہیں ورنہ ایک بڑے فکر کی بات ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی ابتلا پیش آدے".غرض اپنے تو ابتلاء میں پڑ گئے اور بیگانوں نے خوب کھل کرچہ میگوئیاں کیں مذاق اڑایا.مگر خدا نے عرش سے آپ کو ۱۸۸۶ء میں یہ جاں فزا بشارت دی کہ." تیرا گھر برکت سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا.اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لاولد ہو کر ختم ہو جائے گی اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا.یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا.لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں ارگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا.اور ایک ڈراؤ ناگھر برکتوں سے بھر دے گا - تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا".چنانچہ اس وعدہ کے مطابق حضرت ام المئومنین کے ذریعہ سے ایک مبارک نسل کا آغاز ہوا اور آپ کے بطن مبارک سے پانچ صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں پیدا ہو ئیں جن کے اسماء گرامی یہ ہیں.-f - صاحبزادی عصمت (ولادت ۱۵- اپریل ۱۸۸۶ء- رفات جولائی ۱۸۹۱ء) بشیر اول (ولادت ۷ - اگست ۱۸۸۷ء بعد از نصف شب وفات ۴- نومبر ۱۸۸۸ء (سبز اشتهار) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ء دس گیارہ بجے شب) صاحبزادی شوکت (ولادت ۱۸۹۱ء چار بجے شام - وفات ۱۸۹۲ء)

Page 267

تاریخ احمد بیت.جلدا ۳۴۸ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد حضرت صاجزادہ مرزا بشیر صاحب ایم.اے سلمہ ربہ (ولادت ۲۰- اپریل ۱۸۹۳ء طلوع آفتاب کے بعد) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب (ولادت ۲۴- مئی ۱۸۹۵ء طلوع آفتاب سے قبل) حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲ مارچ ۱۸۹۷ء پہلی رات کے نصف اول میں) - حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (ولادت سہ پہر کے وقت ۱۴- جون ۱۸۹۹ء وفات ۱۷ ستمبر۷ ۱۹۰ء) -4 -/+ صاجزادی سیدہ امته النصیر (ولادت ۲۸ جنوری ۶۱۹۰۳- وفات ۳- دسمبر ۱۹۰۳ء) حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۵ جون ۱۹۰۴ء.عشاء کے بعد ) مبارک نسل کے اس خدائی وعدہ کے علاوہ جو ۱۸۸۶ء میں عمومی رنگ میں حضرت مسیح موعود کو دیا گیا آپ کا ہر بچہ قبل از وقت الهامی اطلاع اور بھاری آسمانی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوا.حضور خود فرماتے ہیں.” ہر ایک لڑکا جو میرے گھر میں اس بیوی سے پیدا ہوا موعود ہے ".اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المؤمنین کو شعائر اللہ یقین کرتے.ان کی دلداری کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ " ایک دن کا ذکر ہے کہ کسی دیوار کے متعلق حضرت ام المومنین کی رائے تھی کہ یوں بنائی جائے اور مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے خلاف تھی چنانچہ مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدس سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے اس لئے میں اسے شعائر اللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو رہ کے مان لیتا ہوں".حضرت کو اپنی بصیرت اور باطنی قوتوں کی بناء پر آپ کے نام " نصرت جہاں بیگم " میں بھی خدائی نصرتوں کے انوار نظر آتے تھے اور آپ فرماتے تھے: چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا.اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان ( میر درد - ناقل) کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی

Page 268

تاریخ احمدیت جلدا پیشگوئی مخفی ہوتی ہے ".ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد جماعت کے بزرگ حضرت اقدس کی زندگی میں آپ کو ام المومنین " کہتے تھے.ایک دفعہ مخالف حلقوں میں آپ کے ام المومنین " کہلانے پر طنز کیا گیا تو حضور نے فرمایا."نبوں یا ان کے اظلال کی بیویاں اگر امہات المومنین نہیں ہوتی ہیں تو کیا ہوتی ہیں ؟ خدا تعالیٰ کی سنت اور قانون قدرت کا اس تعامل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ کبھی کسی نبی کی بیوی سے کسی نے شادی نہیں کی ہم کہتے ہیں ان لوگوں سے جو اعتراض کرتے ہیں کہ ام المومنین کیوں کہتے ہو پوچھنا چاہیے کہ تم بتاؤ جو مسیح موعود تمہارے ذہن میں ہے اور جسے تم سمجھتے ہو کہ وہ آکر نکاح بھی کرے گا کیا اس کی بیوی کو تم ام المومنین کہو گے یا نہیں ؟ مسلم میں تو مسیح موعود کو نبی ہی کہا گیا.اور قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کی بیویوں کو مومنوں کی مائیں قرار دیا ہے".۱۹۰۵ء کے آخر میں اللہ تعالٰی کے حکم سے جماعت کے برگزیدہ لوگوں کی آخری آرام گاہ کے لئے "بہشتی مقبرہ " کا قیام عمل میں لایا گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ام المومنین اور اپنی مبشر اولاد کے متعلق وصیت فرمائی کہ میری نسبت اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ہو ان کو ان شرائط کی پابندی لازم ہوگی.اور شکایت کرنے والا منافق ہو 10-"6 حضرت ام المومنین اٹھارہ سال کی عمر میں نومبر ۱۸۸۴ء میں قادیان آئیں اور حضرت کے ہر دعوی اور ہر بات پر غیر متزلزل ایمان لائیں اور جیسا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی سیرت مسیح موعود میں لکھا ہے.سخت سے سخت بیماریوں اور اضطراب کے وقتوں میں جیسا اعتماد انہیں حضرت کی دعا پر ہے کسی چیز پر نہیں.وہ ہر بات میں حضرت کو صادق و مصدوق مانتی ہیں جیسے کوئی جلیل سے جلیل اصحابی مانتا ہے".حضرت سیدۃ النساء حضرت اقدس کی بشارتوں سے خوش ہوتیں اور انذارات سے ترساں و لرزاں ہوتی تھیں اور حضرت اقدس کے مشن کی تکمیل اور جماعت کی ترقی بہبود اور غمگساری کے لئے تو ہمہ اوقات وقف اور سر تا پا عمل و ج اد بنی رہیں.حضرت اقدس کا وصال ۱۹۰۸ء میں ہوا اور جماعت غیبی مصلحتوں کے مطابق خدا کے جری پہلوان اور افواج اسلام کے سپہ سالار کی براہ راست قیادت سے محروم ہو گئی مگر ان کی بدولت حضرت اقدس کے انوار و برکات کا سایہ انتالیس سال تک قادیان میں اور پانچ سال تک پاکستان میں ممتد ہو گیا.بلکہ دراصل خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ان کے وجود میں زندہ رہے.بالاخر ۲۱۲۰.اپریل ۱۹۵۲ء ساڑھے گیارہ بجے شب آپ کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور جماعت مسیح موعود کی یہ مقدس

Page 269

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۵۰ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد یاد گار بھی کھو بیٹھی.اب وہی فیض بلا انتطاع حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے چشمہ صافی سے جاری ہے.اللهم متعنا بطول حياته واطلع شموس طالعہ اللہ تعالٰی نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہما کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود کو جو مبارک نسل عطا فرمائی اسے الہی بشارات اور حضور کی رقت آمیز دعاؤں کے نتیجہ میں جو غیر معمولی ترقی ہوئی ہے وہ ایک خارق عادت نشان ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا.پہلی بیوی سے حسن سلوک حضرت ام المؤمنین کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل ہی سے پہلی بی بی سے بے تعلقی ہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضور کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا میلان ان کی طرف تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے آپ نے ان سے خصوصی تعلقات ترک کر دیے تھے.ہاں حسن معاشرت میں آپ نے کبھی فرق نہیں آنے دیا.اور انہیں اخراجات وغیرہ با قاعدہ دیا کرتے تھے.نکاح ثانی کے بعد حضرت اقدس نے انہیں کہلا بھیجا.اب میں نے دوسری شادی کرلی ہے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا تو میں گنہگار ہوں گا.اس لئے اب دو باتیں ہیں.یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اوریا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو.میں تم کو خرچ دیئے جاؤں گا انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی.بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں.چنانچہ حضرت اقدس نے ان کی یہ خواہش منظور فرمالی.اور وسط ۱۸۹۱ء تک انہیں برابر خرچ ملتا رہا.لیکن بعد کو جب وہ اپنے بے دین رشتہ داروں کے ساتھ حضور کی مخالفت میں کھلم کھلا شامل ہو گئیں تو حضور نے محض دینی غیرت کے تحت ان کو طلاق دے دی.طلاق دینے سے پہلے حضور نے ۲.مئی ۱۸۹۱ء کو اپنے ایک اشتہار میں انہیں مخالفانہ سرگرمیوں سے دستکش ہونے کی ہدایت فرماتے ہوئے آخری بار اختباہ بھی کیا لیکن انہوں نے کچھ پروا نہیں کی.تب مجبور احضرت اقدس کو بھی ان سے کلیتہ قطع تعلق کا فیصلہ کرنا پڑا.حضور نے طلاق کے بعد بھی خدمت خلق کے اسلامی تقاضوں کے مطابق انہیں اپنی نوازشوں سے محروم نہیں رکھا.بلکہ گاہے گاہے ضرورت کے وقت حضرت ام المؤمنین کے توسط سے انہیں امداد بھی دیتے رہے.چنانچہ حضرت ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ :- ایک دفعہ مرزا سلطان احمد کی والدہ بیمار ہو ئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی.واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ یہ تکلیف ہے.آپ خاموش رہے.میں نے دوسری دفعہ کہا تو فرمایا.میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ.مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا.اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارہ کنایہ مجھ پر ظاہر کیا

Page 270

تاریخ احمدیت جلدا ۲۵۱ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں.سو میں کر دیا کرتی تھی " - 1

Page 271

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۵۲ ایک نہایت مبارک اور مقدس خاندان کی بنیاد حواشی میخانه در و " صفحه ۲۵ مرتبه سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی) "شحنه حق طبع اول صفحه ۴۳ حضور علیہ السلام کو اس شادی سے تین برس قبل یہ الہام ہوا تھا ، شکر نعمتی رایت خد بجتی " " براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۵۹) یعنی میری نعمت کا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ دیکھی.-۴- وفات ۲۳- نومبر ۶۱۹۳۲ ۰ عمر ۸۰ سال ۱۲ ۱۳ سال کی عمر میں حضرت میر صاحب سے شادی ہوئی.آپ کے شکم سے ۱۳ بچے پیدا ہوئے سب سے پہلے حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم اور پھر پانچ بچوں کے بعد حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور پھر پانچ بچوں کے بعد حضرت میر محمد اسحق صاحب کی ولادت ہوئی.سخاوت انکسار اور مورت آپ کا طرہ امتیاز تھے ۱۸۹۴ء میں ہجرت کر کے قاریان آئیں.حضرت مسیح موعود کو جب دوران تالیف میں کسی لفظ کے متعلق تحقیق مطلوب ہوتی تو آپ کے پاس تشریف لے جاتے یا ان کو بلوا لیتے تھے.زبان اردو کے بارے میں حضور علیہ السلام حضرت میر صاحب سے زیادہ آپ ہی کو مستند سمجھتے تھے.(الفضل ۲۲- دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۰۰۹) ۱۲۲۰۵ھ میں سور جگڑھ ضلع بہار میں پیدا ہوئے علم حدیث کی چپل آپ نے شاہ محمد اسحق صاحب نبیرہ شاہ عبد العزیز دہلوی سے کی.پاکستان کے اکثر علماء اہلحدیث کا سلسلہ استناد آپ تک پہنچتا ہے اس لئے آپ شیخ الکل کے نام سے موسوم ہوتے ہیں ۱۸۹۷ء میں انگریزی حکومت سے شمس العلماء کا خطاب ملا.اور ۱۰ برس کی عمر میں وفات پائی.(سیرت ثنائی صفحہ ۹۷ موج کوثر صفحہ ۵۰ طبع حیات ناصر " صفحہ ۷ - 9 " سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۵۷-۵۸ و حصہ دوم ۱۰۹-۱۱۲-۲۳۴ " سیرت ام المومنین " جلد اول صفحه ۲۹۸ از شیخ محمود احمد عرفانی "لائف آف احمد " صفحہ ۱۰۳ " روایات صحابہ "غیر مطبوعہ جلدی صفحه ۳۱۲- حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۹۸ " تریاق القلوب " صفحه ۳۵ ( طبع اول) ۹٬۸ اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء بشموله " آئینہ کمالات اسلام " حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۱۷۵ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی "سیرت المہدی " حصہ اول صفحه ۵۳ سیرت المهدی " حصہ دوم صفحه ۵۰ تریاق القلوب " طبع اول صفحہ ۷۲ تریاق القلوب طبع اول صفحه ۶۴-۶۵ ۱۳ بطور مثال ملاحظہ ہو."گلدستہ کرامات "صفحه ۸ (مطبع افتخار دیلی) و " اشارات فریدی " جلد اول صفحه ۹ مطبوعه مفید عام آگره - ان کتابوں میں حضرت عبد القادر صاحب جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ اور قطب وقت حضرت جمال الدین مانسوی کی اہلیہ کو ام المومنین " کے خطاب سے یاد کیا گیا ہے.۱۴- الحکم ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۱ء - صفحه 1 الوصیت صفحه ۲۹ سیرت ام المومنین حصہ اول و حصہ دوم " سیرت المہدی " حصہ اول صفحه ۳۴ "سیرت مسیح موعود ( از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) حصہ سوم صفحہ ۳۶۳-۳۷۴ سیرت مسیح موعود ( از حضرت مولوی عبد الکریم صاحب)- "حیات احمد " جلد دوم نمبر سوم- صفحه ۶۵-۹۹ محمود کی آمین".

Page 272

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۵۳ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت ماموریت کا چوتھا سال دعوی ماموریت اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت (۱۸۸۵ء) مارچ ۱۸۸۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اپنے مامور اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان عام فرمایا کہ آپ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں تانبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کریں.نیز یہ کہ آپ کو جناب الہی سے یہ علم بھی دیا گیا ہے کہ آپ مجدد وقت ہیں.اور روحانی طور پر آپ کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دو سرے سے شدت مناسبت و مشابہت ہے اور آپ کو خواص انبیاء در سل کے نمونہ پر محض بہ برکت و متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل ال ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں.ماموریت و مجددیت کے اس عظیم الشان دعوئی کے ساتھ ہی آپ نے مذاہب عالم کے سر بر آوردہ لیڈروں اور مقتدر رہنماؤں کو الہی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی کہ اگر وہ طالب صادق بن کر آپ کے یہاں ایک سال تک قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے دین اسلام کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کر لیں گے اور اگر ایک سال رہ کر بھی وہ آسمانی نشان سے محروم رہیں تو انہیں دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے چوہیں سو روپیہ بطور ہرجانہ یا جرمانہ پیش کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دعوت کی عالمگیر اشاعت کے لئے خدائی تحریک کے مطابق خاص اہتمام فرمایا.چنانچہ حضرت اقدس نے ہیں ہزار کی تعداد میں اردو انگریزی اشتہارات شائع کئے.

Page 273

تاریخ احمدیت جلدا ۲۵۴ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت بروں اور ایشیا یورپ اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں، فرمانرواؤں ، مہاراجوں، عالموں، ، مصنفوں اور نوابوں کو باقاعدہ رجسٹری کر کے بھیجوا دئیے اور اس زمانہ میں کوئی نامور اور معروف شخصیت ایسی نہیں چھوڑی جس تک آپ نے یہ خدائی آواز نہ پہنچائی ہو.اس دعوت سے بیرونی دنیا میں اس وقت بظاہر کوئی خاص جنبش پیدا نہیں ہوئی.مگر ہندوستان میں جو مذاہب عالم کا عجائب خانہ تھا.اس نے ایک زبر دست زلزلہ پیدا کر دیا اور غیر مذاہب اس درجہ مبہوت اور دہشت زدہ ہو گئے کہ کسی کو آپ کی دعوت کے مطابق اسلام کی سچائی کا تجربہ کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی.آتھم صاحب امرتسر کے ایک منجھے ہوئے مشہور پادری تھے.حضرت اقدس نے انہیں مولوی قطب الدین صاحب کے ذریعہ سے اشتہار بھجوایا تو پادری عماد الدین صاحب اور بعض دوسرے پادری نیز امرت سر کے بعض رؤساء مثلاً غلام حسن ، یوسف شاہ وغیرہ بھی ان کی کو ٹھی میں جمع ہوئے اور پادری آتھم اور دوسرے پادریوں کو قادیان جانے سے روک دیا.ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی میں سے جن لوگوں نے قادیان کی روحانی تجربہ گاہ سے آزمائش پر بظاہر رضامندی ظاہر کی وہ صرف تین تھے.منشی اند ر من مراد آبادی - پادری سوفٹ.پنڈت لیکھرام مگر جیسا کہ آئندہ واقعات نے کھول دیا یہ آمادگی بھی محض نمائش اور قریب تھی.منشی اندر من صاحب مراد آبادی کا فرار منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے اس دعوت کے جواب میں سر ہیرا سنگھ سی ایس آئی مہاراجہ نابھہ کے اشارہ پر پہلے نا بھہ اور پھر لاہور سے حضرت اقدس کو لکھا کہ وہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے ایک سال تک ٹھہرنا منظور کرتے ہیں مگر اس شرط پر کہ سات دن کے اندراندرچوہیں سو روپیہ ان کے لئے سرکاری بینک میں بطور پیشگی جمع کرا دیا جائے.گو پیشگی رقم کے مطالبہ کا حضرت اقدس کی اصل دعوت سے کوئی تعلق نہیں تھا.مگر حضرت اقدس چونکہ دل سے خواہاں تھے کہ ادیان باطلہ کا کوئی علمبردار میدان امتحان میں آئے اس لئے آپ نے چند ضروری اور ناگزیر شرائط کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور لاہور میں مقیم اپنے ارا تمندوں یعنی منشی عبد الحق صاحب ، منشی الہی بخش صاحب اکو شٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب کو فوری طور پر ہدایت فرمائی کہ وہ مطلوبہ رقم مہیا کر کے منشی صاحب کو اطلاع دیں اور آپ کا جواب بھی ان تک پہنچا دیں.مقررہ میعاد کے اختتام میں صرف ایک رات باقی تھی.اس لئے جو نہی حضرت اقدس کا خط لاہور میں پہنچا.حافظ محمد یوسف صاحب روپیہ کی تلاش میں راتوں رات اپنے ایک اہلحدیث دوست منشی سزاوار خاں صاحب پوسٹ ماسٹر کے ہاں جنرل پوسٹ آفس میں پہنچے اور حضور کی ہدایت کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا روپیہ موجود ہے مگر گھر پر ہے میں

Page 274

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۵۵ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت اس وقت جا نہیں سکتا تم چابی لے جاؤ اور جا کر روپیہ لے لو.اس پر حافظ صاحب ان کے گھر گئے اور ان کا پیغام دے کر چو ہمیں سو روپیہ لے آئے اور اپنے دوستوں سے کہا یہ مرزا صاحب کی تائید ربانی کا کھلا کھلا ثبوت ہے.صبح ہوئی تو یہ اصحاب مطلوبہ رقم سمیت مرزا امان اللہ صاحب منشی امیرالدین صاحب خلفیہ رجب دین صاحب II اور غالبا با با محمد چٹو وغیرہ لاہور کے دوسرے سرکز وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر منشی اند ر من صاحب مراد آبادی کی موعود جائے قیام پر پہنچے لیکن وفد کو یہاں اگر معلوم ہوا کہ منشی صاحب تو لاہور سے اسی روز فرید کوٹ چلے گئے ہیں.جس روز انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں مطلوبہ رقم کے لئے خط لکھا تھا.حضرت اقدس نے یہ ناشائستہ حرکت دیکھ کر ۳۰.مئی ۱۸۸۵ء کو ان کے فرار کا واقعہ اور اصل خط جو آپ نے وفد کے ذریعہ سے منشی صاحب کو بھجوایا بلا کم و کاست پبلک کے سامنے رکھ دیا.خشی اندر من صاحب نے یوں بر سر عام اپنی ذلت دیکھی تو ہندوؤں کی اشک شوئی کرنے اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے بے سروپا اور مغالطہ انگیز اشتہار شائع کرڈالا اور لکھا کہ پہلے مرزا صاحب نے خود ہی مجھ سے بحث کا وعدہ کیا اور جب میں اسی نیت سے مشقت سفر اٹھا کر لاہور میں آیا تو پھر میری طرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ ایک اشتہار میں بڑی تفصیل سے منشی صاحب کی عہد شکنی کنارہ کشی اور حق پوشی پر روشنی ڈالتے ہوئے بالاخر پر میشر کے نام پر انہیں اپیل کی کہ "اگر آپ طالب صادق ہیں تو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کو تاہی نہ کریں.آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آکر ایک سال تک ٹھہریں اور اس عرصہ میں جو کچھ وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طور پر رفع کراتے جائیں.پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قد رفح کی بات ہے کہ آپ کو چو ہیں سو روپیہ نقد مل جائے گا اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی حاصل کریں گے “.حضرت اقدس نے منشی صاحب سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی نیت سے آنے کا ارادہ ظاہر کریں تو مراد آباد سے قادیان تک کا کل کرایہ بھی انہیں بھیج دیں گے.اور جو میں سو روپیہ کسی بنگ سرکاری میں الگ جمع کر دیا جائے گا.لیکن منشی صاحب تو مہاراجہ صاحب نابھہ کے آلہ کار بن کر محض ڈرامائی انداز میں ایک شور و غوغا بلند کرنے آئے تھے.وہ بھلا اس دعوت کو کیسے قبول کر لیتے.چنانچہ حضرت اقدس کے جواب الجواب پر بالکل خاموش ہو گئے اور بظاہر یہ خط و کتابت بالکل بے نتیجہ ثابت ہوئی.مگر کرشمہ قدرت ملاحظہ ہو کہ اس کے چودہ پندرہ برس بعد لاله نرائن داس صاحب پلیڈر مراد آباد کے فرزند اور منشی اندر من صاحب کے نواسے بھگوتی سہائے نے قبول اسلام کر کے آنحضرت ا کی

Page 275

تاریخ احمدیت.جلدا FAY نشان نمائی کی عالمگیر دعوت صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی.پنڈت لیکھرام کی آمادگی اور مصلحت دوسرا شخص جس نے حضرت اقدس کی دعوت پر بظاہر آمادگی کا اظہار کیا پنڈت لیکھرام تھا.پنڈت آمیز کارروائیوں کے ساتھ فرار لیکھرام نے امرتسر میں کسی سے حضرت اقدس کا اشتہار (مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہور) پڑھا اور ۳- اپریل ۱۸۸۵ء کو منشی اندرمن جیسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان دعوت میں خود ساختہ رنگ بھرتے اور نئے معنے ڈالتے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ وہ قادیان میں ایک سال تک رہنے اور نشان دیکھنے کا خواہاں ہے بشرط کہ آپ اول بحساب دو سو روپیہ ماہوار) کے کل ۲۴۰۰ روپیہ ایک سال کا داخل خزانہ سرکار فرما دیو ہیں.اور اقرار نامہ تحریر کر دیویں کہ اگر ایک سال تک آپ کی ہدایت اور آسمانی نشانات و معجزات و غیره سے تسلی نہ پا کر آپ کے دین کو قبول نہ کروں تو وہ مبلغان مجھ کو مل جاویں اور وہ روپیہ تا انقضائے ایک سال کے خزانہ سرکاری میں مکفول رہے اس کے واپس لینے کا آپ کو اختیار نہ ہو گا".دعوت نشان نمائی میں حضرت اقدس کا روئے سخن چونکہ محض غیر مذاہب کے چیدہ ، منتخب اور مشہور رہنماؤں کی طرف تھا اس لئے حضور علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اپنی قوم میں معزز اور سر بر آوردہ ہیں.جن کا ہدایت پانا ملک کے ایک کثیر طبقہ پر موثر ہو سکتا ہے مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں.اور اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتداء و پیشوائے قوم ہیں تو صرف اتنا کریں کہ قادیان لاہور، پشاور ، امرت سر اور لدھیانہ کی آریہ سماج کی طرف سے یہ حلفیہ بیان بھجوا دیں کہ یہ صاحب ہمارے پیشوا ہیں.اور اگر اس بروحانی مقابلہ میں مغلوب ہو کر نشان آسمانی مشاہدہ کر لیں تو ہم سب بلا توقف حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے.پنڈت لیکھرام نے اس معقول مطالبہ کو پورا کرنے کی بجائے اخبارات میں حضور کو بد نام کرنے کی مہم شروع کر دی کہ جس حالت میں میں آریہ سماج کا ایک مشہور لیڈر ہوں اور پھر طالب حق تو پھر مجھے آسمانی نشان دکھانے اور اسلام کی حقیقت مشاہدہ کرانے سے کیوم محروم رکھا جاتا ہے اور کیوں چوبیس سو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں رہ کر نشان آزمانے کی اجازت نہیں دی جاتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا یہ غایت درجہ اصرار دیکھا تو آپ نے اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ میں جہاں چاہیں.۲۴۰۰ کی موعود رقم جمع کرانے کو تیار اور مستعد ہوں مگر چونکہ آپ نے دعوت نامہ کی شرائط سے تجاوز کر کے یہ رقم کسی بنک میں محفوظ کر الینے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی فقط اس لئے کہ نشان آسمانی کے دیکھنے کے بعد

Page 276

تاریخ احمد بیت - جلدا ۲۵۷ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کہیں اپنے مشرف باسلام ہونے کے عہد سے برگشتہ نہ ہو جائیں آپ سے اتنا ہی روپیہ کسی مہاجن کی دکان پر پیشگی جمع کرالوں تا جس کو خدا تعالی فتح بخشے اس کے لئے یہ روپیہ فتح کی ایک یاد گار رہے.نیز لکھا ” یہ انتظام نہایت عمدہ اور مستحسن ہے کہ ایک طرف آپ وصولی روپیہ کے لئے اپنی تسلی کرلیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندو بست کرلوں کہ در حالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں.اگر آپ اسلام کے قبول کرنے میں صادق النیست ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں.کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جا ئیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سروکار نہیں ہو گا.بلکہ یہ روپیہ تو صرف اس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جاوے گا کہ جب عہد شکنی کر کے اسلام کے قبول کرنے سے گریز یا روپوشی اختیار کریں گے.سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہو گا.اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہو گا نہ کسی اور حالت میں ".پنڈت لیکھرام سمجھا کہ اس کے نامعقول مطالبہ کا جواب قطعی طور پر نفی میں ملے گا اور وہ اسے اچھالتے ہوئے اپنی شہرت کا موجب بنالے گا.مگر جب حضور نے ہر طرح آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس کے مطالبہ کی تکمیل کے لئے ایک معقول طریق بھی سامنے رکھ دیا تو اس نے لکھا کہ " آپ کو واجب تھا کہ پہلے ہی اشتہار میں صاف لفظوں میں شرط باندھتے کہ بطور قمار باز ان کے چوبیس سو روپیہ لگایا جاوے گا.تا کہ شرائط کی ترمیم تنسیخ نہ کرنی پڑتی " نیز لکھا " میں باز آیا محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا.مگر آخری اپنا فرض دوستانہ ادا کرنا بھی واجب جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ سچاند جب خدا کی طرف سے عالمگیر ہے اور جس کی صداقت کی شعائیں ہمیشہ آفتاب کی طرح جہان کو روشن کر رہی ہیں.وہ آریہ دھرم ہے.پس بخیال نیک نیتی کے دعوت کی جاتی ہیں کہ جس طرح اور کئی علماء و فضلاء دین محمدی اچھی طرح سوچ سمجھ کردید مقدس پر ایمان لائے ہیں آپ کو بھی اگر صراط المستقیم پر چلنے کی دلی تمنا ہے تو صدق دلی سے آریہ دھرم کو قبول کرد " لیکھرام کی تحریرات سے معلوم ہو تا ہے کہ اس مرحلہ پر حضرت مسیح موعود نے اسے جاہل سمجھ کر منہ لگانا ہی چھوڑ دیا.مگر تین ماہ بعد جب اس نے آپ کی خدمت میں ایک پوسٹ کارڈ لکھا تو حضرت نے جو ابا لکھوایا کہ قادیان کوئی دور نہیں ہے آکر ملاقات کر جاؤ امید ہے کہ یہاں پر باہمی ملنے سے شرائط طے ہو جاویں گی.حضرت اقدس کے خاندان کا ایک طبقہ جس میں آپ کا ایک چچازاد بھائی مرزا امام الدین اپنے ملحدانہ خیالات اور بے دینی میں پیش پیش تھا.ابتداء ہی سے نہ صرف حضور کے دعاوی و الہامات کا مذاق اڑاتا تھا بلکہ اسلام اور رسول خدا اللہ اور قرآن مجید کے خلاف ہرزہ سرائی اس کا ایک عام

Page 277

تاریخ احمدیت جلدا ۲۵۸ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت مشغلہ بن چکا تھا اس کی مقدس تعلیمات پر نشتر چلانے میں اسے ایک خاص لذت محسوس ہوتی تھی چنانچہ اب جو حضور نے نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی تو مرزا امام الدین نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام اور دوسرے دشمنان دین کی پیٹھ ٹھونکتے اور محض زبانی بیہودہ گوئی پر اکتفانہ کرتے ہوئے اگست ۱۸۸۵ء میں ”قانونی ہند پریس" اور "چشمہ نور امرت سر سے آپ کے خلاف نهایت گندے اشتہار شائع کئے.نیز جب حضرت اقدس نے پنڈت لیکھرام کو قادیان آنے کی دعوت دی تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی تحقیق کے مطابق) یہ معاند اسلام خود گیا اور پنڈت لیکھرام کو قادیان لے آیا.پنڈت لیکھرام کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی دعوت پر آیا اور اسے شرائط طے کرنے کے لئے حضرت اقدس سے بہر حال ملاقات کرنا چاہیے تھی مگر مرزا امام الدین وغیرہ کو جو محض اپنے ذوق بے دینی کی تسکین کے لئے تماشائی بنے ہوئے تھے.لیکھرام کا اظہار خیالات کے لئے حضرت اقدس کی مجلس میں جانا کیو نکر پسند ہو سکتا تھا.چنانچہ مرزا امام الدین نے لیکھرام کو اپنے اشاروں کے مطابق چلانے کے لئے یہ مکروہ چال چلی کہ وہ اپنے لگے بندھے بعض نام نہاد مسلمانوں مثلاً ملاں حسیناں اور مراد علی وغیرہ کے ساتھ آریہ سماج میں داخل ہو گئے اور یوں خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں قادیان آریہ سماج کی توسیع ہوئی.لیکھرام جب اس طرح مرزا امام الدین کے دام تزویر میں الجھ گیا تو اسے ہر جھوٹے اور مکروہ پرو پیگنڈے کا شکار بنانا چنداں مشکل نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا امام الدین اور مقامی ہندوؤں کی فتنہ انگیزی سے حضرت اقدس کے خلاف لیکھرام میں دشمنی اور بغض و کینہ کے جذبات ہر لمحہ شدید تر ہو گئے.حالانکہ ابتداء میں اس کی حالت اتنی خطرناک نہیں تھی.یہ تبدیلی قادیان آنے کے بعد پیدا ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں.” قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی ان نالائق ہندوؤں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اس کو سنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بد صحبتوں کی وجہ سے روز بروز وہ ردی حالت کی طرف گر تا گیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ابتداء میں اس کی ایسی ردی حالت نہ تھی صرف مذہبی جوش تھا جو ہر اہل مذہب حق رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کی پابندی میں پابندی حق پرستی و انصاف بحث کرے.بہر حال لیکھرام کے ماحول پر مرزا امام الدین اور قادیان کے ہندو پوری طرح چھائے ہوئے تھے اس لئے وہ حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے تو نہ آیا البتہ اس نے نہایت شوخی اور بے باکی کے رنگ میں حضرت اقدس سے سلسلہ خط و کتابت شروع کر دیا.یہ خط و کتابت اکثر بھائی کشن سنگھ اور گاہے گاہے پنڈت موہن لال ، پنڈت نہال چند اور حکم دیا رام کے ذریعہ سے ہوتی تھی.پنڈت موہن لال کا بیان ہے کہ حضرت صاحب بڑی مہربانی فرماتے تھے اور ہنستے

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد ۲۵۹ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت ہوئے ملتے تھے اور کبھی خالی ہاتھ نہ آنے دیتے.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے نہایت عمدہ سیب دیئے.میں لے کر گیا.پنڈت لیکھرام کا بھی معمول ہو گیا تھا.کہ جب میں واپس جاتا تو ضرور پوچھتا کیا لائے ہو ؟ میں نے جب کہا کہ سیب لایا ہوں تو اس نے گویا للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہالا ؤ لاؤ میں کھاؤں.میں نے ان کو ہنسی سے کہا کہ دشمن کے گھر کی چیز تم کو نہیں کھانی چاہیے.تو اس نے جھٹ میرے ہاتھ سے سیب لے لیا اور کھانا شروع کر دیا.لیکھرام اپنی تحریر اور مجلس میں نہایت رکیک اور سوقیانہ حملے کرتا تھا.مگر آپ ان کو نظر انداز کر کے تحقیقی جوابات دیتے تھے اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ دیانتدارانہ روش اختیار کر کے آپ کی دعوت نشان نمائی پر رضامندی اختیار کرے.دوران خط و کتابت میں آپ نے اسلام کی صداقت کا قائل کرنے کے لئے اس کے سامنے اپنا وہ مخصوص علم کلام بھی پیش کیا.جس نے دنیائے اسلام میں زبردست انقلاب برپا کر رکھا تھا یعنی دعوئی اور دلیل دونوں مذہبی کتاب سے پیش کرنے چاہیں.لیکن جب لیکھرام کے مذہبی لیڈر اور آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو اس جری پہلوان کے سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی تو لیکھرام کو کیا جرات ہوتی؟ لیکھرام ہر دفعہ نہایت چالاکی سے اس آسمانی حربہ کی زد سے بچنے کی خاطر صرف نشان دکھائے جانے کا مطالبہ دہرا دیتا اور اپنے ہزلیات کے فن میں مشاقی کے جو ہر دکھانے میں ہی کامیابی سمجھتا تھا.پنڈت لیکھرام ۱۹- نومبر ۱۸۸۵ء کو قادیان آیا اور کم و بیش دو ماہ I قادیان میں رہا اس عرصہ میں اس نے مرزا امام الدین کا آلہ کار بن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگا تار سوقیانہ حملے کئے.ایک مرتبہ تو یہاں تک نوبت آ پہنچی کہ اس کی زبان درازی کو دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب ایسے مرنجان مرنج طبعیت انسان نے اسے مباحثے کا چیلنج دے دیا.بلکہ پورے جوش کے عالم میں ہندو بازار تک جاپہنچے.مگر ہندو ان کی یہ جرات دیکھ کر سہم گئے اور لیکھرام کو باہر نہ نکلنے دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا.۱۳ د سمبر کو اس نے ایک خط میں لکھا." مرزا صاحب کندن کوہ (اس کے آگے ایک شکستہ لفظ تھا جو پڑھا نہیں گیا.ناقل ) افسوس کہ آپ قرآنی اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں.میں نے ویدک اعتراض کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے.اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو".حضرت اقدس نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا.” جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق

Page 279

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶۰ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت نہیں کرتے.بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں آپ لکھتے ہیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان ما نگیں یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلے ہیں گویا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بیباکوں کو تنبیہ کر سکتا ہے باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر کرتا ہے.یہ خود آپ کی نا سمجھی ہے مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں.اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے اونچا اور جلال رکھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں.پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے آپ عربی سے بے بہرہ ہیں آپ کو مکر کے معنے بھی معلوم نہیں.مکر کے مفہوم میں کوئی ایسا نا جائز امر نہیں ہے جو خداتعالی کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے لغت دیکھو پھر اعتراض کرد - میں اگر بقول آپ کے دید سے امی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلم اصول کو ہاتھ میں لے کر بحث کرتا ہوں مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں صاف افتراء کرتے ہیں.چاہئے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور سے مانا گیا ہے اول مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے اور ایسا ہی مکر کے معنے اول پوچھتے پھر اعتراض کرتے.اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلا دے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.پنڈت لیکھرام کم و بیش دو ماہ تک قادیان میں رہا اس عرصہ میں خط و کتابت کے نتیجہ میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی کہ ۲۰۰ روپیہ ماہوار کی بجائے میں روپیہ ماہانہ رقم پر آگیا.مگر اس کے مقابل اس کی بد لگامی اور بیہودہ سرائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا.اور وہ اپنی ضد پر آخر وقت تک قائم رہا.مرزا امام الدین کا آلہ کار بن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سوقیانہ حملے کرتا رہا.پنڈت لیکھرام کی یہ مخالفانہ کارروائی سال کے آخر تک پوری طرح جاری رہی.اگلا سال ۱۸۸۶ء آیا تو حضرت مسیح موعود پر فروری ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام اور منشی اندر من مراد آبادی کے متعلق بعض انکشافات ہوئے مگر آپ نے خدائی منشاء کے مطابق پہلے ان ہر دو سے پوچا کہ کیا ان کا اظہار کر دیا جائے.مراد آبادی صاحب تو خاموش رہے مگر لیکھرام نے افتاد طبعیت کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت درجہ بے باکی سے تحریری اجازت بھجوادی.یہی نہیں جب حضرت مسیح موعود کا ماسٹر مرلی دھر ہوشیار پوری سے مباحثہ سرمہ چشم آرید" کے نام سے شائع ہوا تو اس کی شرر انگیزیاں ریکا یک بڑھ گئیں اور اس نے اپنی کتاب "خبط احمدیہ میں پر میشور سے بچے فیصلہ کی درخواست کرتے ہوئے کھلے لفظوں میں لکھا." میں نیاز

Page 280

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶۱ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت التیام لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ ور سالہ ہذا اقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اول سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا.میں اپنے جگت پتا پر میشور کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ.......اس سرٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پر ماتما نے دیدوں کو شرعی اگنی شری وایو شری آدت شری انگرہ جیو چار رشیوں کے آتماؤں میں الہام دیا مگر جبرئیل یا کسی اور چھٹی رسان کی معرفت نہیں بلکہ خودی...آریہ ورت سے ہی تمام دنیا نے فضیلت سیکھی.آریہ لوگ ہی سب کے استاد اول ہیں.کیونکہ تواریخ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے.آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ( ۵-۶ ہزار سال میں آئے ہیں اور توریت زبور انجیل - قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں میں ولی یقین سے ان ہستکوں کے مطالعہ کرنے سے اور سمجھنے سے (باستثنائے ان باتوں کے جو دید مقدس اپ شدوں یا شاستروں میں درج ہیں) ان کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی.اصلی الہام کو بد نام کرنے والی تحریر میں خیال کرتا تحریریں..لیکن میرا دوسرا فریق مرزا غلام احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے اے پر میشور ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر...کیونکہ کا ذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا " - 1 گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لیکھرام کے متعلق بعض انکشاف ہو چکے تھے اور لیکھرام نے ہو اس کی اشاعت پر بھی پابندی نہیں لگائی تھی مگر آپ الہی منشاء کے ماتحت پانچ برس تک اس بارہ میں بالکل خاموش رہے اور پھر اذن خداوندی پا کر ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو آپ نے لیکھرام کے عبرتناک انجام کے متعلق پیشگوئی کا اعلان فرما دیا.جس کے مطابق وہ ۶ - مارچ ۱۸۹۷ء کو رب العرش خیر الماکرین کی پر اسرار تدبیر کے تحت لاہور میں قتل ہوا.اور اس کی زبان جو خنجر کی طرح چلتی تھی تیغ محمدی میں متشکل ہو کر اس کے پارہ پارہ کرنے کی موجب بن گئی.مگر اس کے بیان کا یہ موقعہ نہیں.اس عظیم الشان نشان کی تفصیل ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آئے گی.پادری سوفٹ کا گریز تیرے صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی دعوت پر قادیان آنے اور نشان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا پادری سوفٹ تھے جو ریاست گوالیار کے باشندے اور عیسائی مدرسہ الہیات (سہارنپور) سے فارغ التحصیل ہو کر ان دنوں گوجرانوالہ میں متعین تھے.انہیں دوسرے پادریوں کی نسبت مسیحی دینیات کا بڑا ناز تھا حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر انہوں نے بذریعہ ڈاک ایک خط لکھا جس میں حضرت مسیح کی خدائی کا لاطائل فسانہ چھیڑنے کے بعد دعوت کو نمائشی رنگ میں قبول کرتے ہوئے دو شرائط لکھیں جن میں پہلی

Page 281

تاریخ احمدیت.جلدا نشان نمائی کی عالمگیر دعوت شرط یہ تھی کہ چھ سو رو پید یعنی تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجی جائے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام حضور کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی وقت پیش آئے تو فور اوہ گوجرانوالہ کو واپس ہو جائیں گے اور جو روپیہ انہیں مل چکا ہو اس کی واپسی کا حضرت اقدس کو استحقاق نہیں ہو گا.دوسری شرط یہ لکھی کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہیے ، جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہوتا ہے.حضور کو یہ خط ملا تو آپ کو افسوس ہوا کہ حضور کی زبر دست سعی وجد وجہد کے باوجود عیسائیت کے علمبرداروں میں سے کوئی مرد میدان بن کر آگے نہیں آنا چاہتا.اور جس نے آگے آنے کی حامی بھری تو محض دنیا پرستی کی تکمیل اور نام و نمود کے لئے.بہر حال حضرت اقدس مایوس نہیں ہوئے.چنانچہ آپ نے اپنے جواب میں ” الوہیت مسیح" کے بچھائے ہوئے جال کو اپنے قلم سے پارہ پارہ کرتے ہوئے انہیں نہایت احسن رنگ میں لکھا کہ آپ کے اطمینان قلب کے لئے روپیہ کسی سرکاری بنک یا مہاجن کے پاس جمع کر دیا جائے گا اور جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت تسلی کرلیں مگر جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پا جائے آپ کو پیشگی روپیہ لینے کا اصرار نہیں کرنا چاہیے مکان کے بارہ میں انہیں اطمینان دلایا کہ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی.اور جس طرح ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتی الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہیے اسی طرح ان کی بھی کیجائیگی.ہاں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ " یہ عاجز مسیح کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے کسی باغ میں امیرانہ کو بھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا.جس کی طرف دنیا پرستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں".دوسری شرط کے متعلق فرمایا "اقلیدس میں بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں.جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے.اور انسان کو بجز ا سکے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا.سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو ان عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں چہ نسبت خاک را با عالم پاک اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی رہے گا.بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا.اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا".خط کے آخر میں اسے خدائے کامل اور صادق کی قسم دیتے ہوئے غیرت دلائی کہ " آپ ضرور تشریف لاویں ضرور آئیں اگر وہ قسم آپ کے دل پر موثر نہیں تو پھر اتمام الزام کی نیت سے آپ کو

Page 282

تاریخ احمدیت.جلدا YчP نشان نمائی کی عالمگیر دعوت حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں.تاحق اور باطل میں جو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے.۲۴ غرض حضرت اقدس نے پادری سوفٹ پر ہر پہلو سے اتمام حجت کر دیا.کوئی حق کا طالب ہو تا تو اس مرد خدا کی زیارت کو دیوانہ وار چل پڑتا.مگر پادری صاحب کو محض سستی شہرت مطلوب تھی جب انہیں یہ گوہر مقصود نہ ملا تو ان کی زبان پر ابدی قفل لگ گئے.حضرت مسیح موعود کی طرف سے چالیس روزہ میعاد کا تعین علامہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعوت پر مذاہب عالم میں سے کسی کو میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی تاہم مزید اتمام حجت کے لئے آپ نے ستمبر ۱۸۸۶ء میں سال کی شرط اڑا کر اس کی بجائے چالیس روز مقرر کر دیئے.اور بالخصوص منشی جیون داس لالہ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور، منشی اندرمن مراد آبادی، مسٹر عبد اللہ آتھم ، پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکر داس کو ایک بار پھر دعوت دی اور فرمایا کہ اس عرصہ میں اگر ہم کوئی خارق عادت پیشگوئی پیش نہ کریں یا پیش کریں مگر بوقت ظهور وہ جھوٹی نکلے یا وہ اس کا مقابلہ کر کے دکھا دیں تو مبلغ پانسور روپیہ نقد بلا توقف ادا کر دیں گے لیکن اگر وہ پیشگوئی بپا یہ صداقت پہنچ گئی تو مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا.مگر یہ آواز بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور اس معرکہ میں اسلام کو ایک بار پھر فتح نصیب ہوئی.مقامی ہندوؤں کی درخواست نشان نمائی یہ تو بیرونی دنیا کا ذکر ہے خود قادیان میں اس کی باز گشت ایک لحاظ سے خوشگوار رنگ میں سنائی دی اور وہ اس طرح کہ غالبا اگست ۱۸۸۵ء میں قادیان کے دس ہندوؤں نے (جن میں ساہوکار وغیرہ شامل تھے ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بارب درخواست کی کہ ہم آپ کے ہمسایہ لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ آسمانی نشان دیکھنے کے حقدار اور مشتاق ہیں.ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے سعادت از لی تو خدا کی توفیق اور فضل سے عطا ہوتی ہے اس لئے مسلمان ہو جانے کی شرط تو ہم سے موقوف رکھی جائے البتہ ہم پر میشر کی قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جو نشان آپ سے بچشم خود مشاہدہ کر لیں گے اخبارات میں بطور گواہ اسے شائع کرا دیں گے اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے.اور ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہو کر ہر قسم کی پیشگوئی پر بقید تاریخ دستخط کریں گے اور کوئی نامنصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی.درخواست کے لفظ لفظ سے چونکہ سراسر انصاف و حق پرستی اور خلوص ٹپکتا تھا.اس

Page 283

نشان نمائی کی عالمگیر دعوت تاریخ احمدیت.جلدا لئے حضور نے نہایت درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلا تامل قبول فرمالیا اور ایک با قاعدہ تحریری معاہدہ کی شکل میں شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان نے اسے شائع بھی کر دیا اور ستمبر ۱۸۸۵ء سے ستمبر ۱۸۸۶ء تک اس کی میعاد قرار پائی.خدا تعالیٰ کی قدرت ابھی میعاد شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ ۵- اگست ۱۸۸۵ء کو آپ پر الهاما منکشف ہوا کہ آج سے اکتیس ماہ تک مرزا امام الدین اور نظام الدین جو اس وقت آپ کی مخالفت میں اہم حصہ لے رہے تھے ) ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہوں گے.یعنی ان کے اہل و عیال میں سے کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے گا.جس سے انہیں سخت تکلیف پہنچے گی.حضرت اقدس نے یہ خبر پاتے ہی اس پر معاہدہ میں شامل چار ہندوؤں کے دستخط کرالئے.چنانچہ ٹھیک اکتیسویں مہینے (یعنی فروری ۱۸۸۸ء میں) مرزا نظام دین کی بیٹی اور مرزا امام الدین کی بھتیجی ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی اور خدا کی بات پوری آب و تاب سے پوری ہوئی مگر افسوس معاہدہ کے مطابق مقامی ہندوؤں کی طرف سے نہ صرف اس نشان کی اشاعت نہ کی گئی بلکہ اصل میعاد کے ختم ہونے سے چند روز پہلے ہی یہ شور و غوغا مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور جب پیشگوئی کا ظہور ہو گیا تو انہوں نے چپ سادھ لی.اور اعتراف حق کرنے کی ان کو توفیق نہ مل سکی.یہ تو وہ پیشگوئی ہے جس پر ان ہندوؤں کے دستخط موجود تھے اس کے علاوہ اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صداقت اسلام کے ایک زندہ و تابندہ نشان کی بھی خبر دی گئی جس سے قرآن مجید اور رسول پاک ﷺ کی سچائی صرف قادیان کے ہندوؤں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہو گئی.میری مراد مصلح موعود کی پیشگوئی سے ہے جو حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی اور اکتیس ماہ کی میعاد کے اندر کی گئی جس کی تفصیل ۱۸۸۶ء کے واقعات میں بیان ہوگی.بیت اللہ شریف اور میدان عرفات میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درد انگیز دعا ۱۸۸۵ء کے اوائل میں حضرت صوفی احمد جان صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے جب سفر حج پر روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود نے اپنے قلم سے انہیں ایک دردانگیز دعا تحریر فرمائی اور لکھا ” اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یا د ر کھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالٰی نصیب ہو.تو اس مقام محمود مبارک کی انہیں لفظوں سے مسکنت اور غربت

Page 284

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۱۶۵ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے ہاتھ بحضور دل اٹھا کر گزارش کریں".نیز یہ ہدایت فرمائی کہ " آپ پر فرض ہے کہ انہیں الفاظ سے بلا تبدیل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے دعا کریں " چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے حضرت کے ارشاد کے تعمیل میں یہ دعا بیت اللہ شریف میں بھی اور پھر 9- ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ کو (بمطابق ۱۹ ستمبر ۱۸۸۵ء) میدان عرفات میں بھی پڑھی.آپ کے پیچھے اس وقت ان کے ۲۲/۲۰ خدام اور عقیدت مند تھے جن میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب مبلغ ایران حضرت خان صاحب محمد امیر خاں صاحب اور حضرت قاضی زین العابدین صاحب سرہندی اور حضرت صوفی صاحب کے فرزند حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بھی شامل تھے.صوفی صاحب میدان عرفات میں حضرت مسیح موعود کا مکتوب مبارک ہاتھ میں لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا میں یہ خط بلند آواز سے پڑھتا ہوں تم سب آمین کہتے جاؤ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.اس تاریخی دعا کے الفاظ یہ تھے.ا ارحم الراحمین ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے اسکی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کر جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں مجھے اٹھا.اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضاء میں پہنچا اور اپنے نبی اللہ اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر - آمین یا رب العالمین" حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر لدھیانہ اور حضرت صوفی احمد جان صاحب کی وفات حضرت صوفی احمد جان صاحب زیارت کعبہ اور حج بیت اللہ شریف کے برکات سے فیضیاب ہو کر

Page 285

تاریخ احمدیت جلد؛ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت وسط و سمبر ۱۸۸۵ ء میں لدھیانہ پہنچے اور یکا یک سخت بیمار ہو گئے.چنانچہ ابھی تیرہ دن ہی واپسی پر گزرے تھے کہ ۱۹- ربیع الاول ۱۳۰۳ھ (بمطابق ۲۷- دسمبر ۱۸۸۵ء) کو پیغام اجل آگیا.اور آپ لدھیانہ کے قبرستان گور غریباں میں دفن ہوئے.تھوڑا عرصہ بعد حضرت اقدس بنفس نفیس تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے.آپ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر تھوڑی دیر قیام فرمایا.والد صاحب مرحوم کی محبت اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی.حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود کے ان اولین عشاق میں سے تھے.جنہوں نے اپنے کثیر ارادت مندوں اور عقیدت مندوں کی پروانہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے دامن سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور شاہی پر غلامی کو ترجیح دی.حضرت کو بھی آپ سے دلی محبت والفت تھی جس کا ذکر اکثر ان کی وفات کے بعد فرمایا کرتے تھے چنانچہ مارچ ۱۸۸۹ء میں جب بیعت اوٹی ہوئی تو حضرت اقدس نے اس مقدس تقریب کے لئے حضرت صوفی صاحب رضی اللہ عنہ ہی کے مکان کا انتخاب فرمایا.پھر اس کے بعد جب ازالہ اوہام کی تصنیف فرمائی تو اس میں اپنے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تحریر فرمایا.جبی فی اللہ منشی احمد جان صاحب مرحوم اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پر درد قصہ مجھے لکھنا پڑا کہ اب یہ ہمارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے.اور خداوند کریم درحیم نے بہشت بریں کی طرف بلالیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وانا بفراقه لمحزونون.حاجی صاحب مغفور و مرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور ان کے مریدوں میں آثار رشد و سعادت و اتباع سنت نمایاں ہیں اگر چہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پاچکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے در حقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا.چنانچہ انہوں نے اس میں سیرۃ صالحین پر اپنا تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اور لکھا کہ میں آپ کے علی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہو گیا ہوں اور پھر کسر نفسی کے طور پر اپنے گذشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا.اس دوست کاره آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہوا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھر اس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک

Page 286

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶۷ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی.حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادر آدمی تھے.بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسرشان ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پروا نہیں اور نہ مریدوں کی حاجت " - HD طور پر سرخی کے کشفی چھینٹوں کا حیرت انگیز نشان ۱۰ جولائی ۱۸۸۵ء (بمطابق ۲۷ - رمضان (۱۳۰۲ھ ) کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام طلوع آفتاب کے وقت حسب معمول مسجد مبارک کے مشرقی جانب حجرہ میں جو غسل خانہ کے ر استعمال ہو تا تھا شرقا غربا بچھی ہوئی ایک چارپائی پر آرام فرما رہے تھے تازہ پلستر کی وجہ سے حجرہ کی فضا میں خنکی سی تھی.چار پائی پر نہ کوئی بستر تھا نہ تکیہ اور حضرت اقدس با ئیں کروٹ لیٹے بائیں کہنی سر کے نیچے رکھے اور چہرہ مبارک دائیں ہاتھ سے ڈھانچے ہوئے تھے اور حضور کے مخلص خادم منشی عبداللہ صاحب سنوری نیچے بیٹھے حضور کے پاؤں داب رہے تھے کہ حضرت اقدس نے کشفی عالم میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء و قدر حضرت نے اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہو گا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے.اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل میں متمل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو آپ کی طرف چھٹڑ کا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا اور اس سے قضاء و قدر کی کتاب پر دستخط کر دیئے خدا کی معجز نمائی کا نشان دیکھو ادھر عالم کشف میں قلم کی سرخی چھڑ کی گئی اور ادھر یہ سرخی وجود خارجی میں منتقل ہو گئی.منشی صاحب نے سخت حیرت زدہ ہو کر بچشم خود دیکھا کہ حضور کے ٹخنے پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا ہے انہوں نے اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس قطرہ پر رکھی تو وہ قطرہ نخنے اور انگلی پر بھی پھیل گیا.تب ان کے دل میں یہ آیت گزری صبغه الله و من احسن من الله صبغه.انہوں نے سوچا کہ جب یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں خوشبو بھی ہوگی مگر اس میں خوشبو نہیں تھی.ابھی وہ اسی حیرت و استعجاب میں تھے کہ انہیں حضور کے کرتے پر بھی سرخی کے چند تازہ چھینٹے دکھائی دیئے وہ مبہوت ہو کر آہستہ سے چار پائی سے اٹھے اور انہوں نے ان قطرات کا سراغ لگانے کے لئے چھت کا گوشہ گوشہ پوری بار یک نظر سے دیکھ ڈالا انہیں اس وقت یہ بھی خیال ہوا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹنے سے خون نہ گرا ہو.مگر وہ تو دست قدرت کا کشفی معجزہ تھا خارج میں اس کا کھوج کیا ملتا نا چار وہ چارپائی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ پاؤں دابنے کی خدمت میں مصروف ہو گئے.تھوڑی دیر بعد حضور عالم کشف سے بیدار ہو کر I

Page 287

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶۸ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت اٹھے اور مسجد مبارک میں تشریف لے آئے.منشی صاحب پھر داہنے لگے اور اس دوران میں انہوں نے حضرت سے سوال بھی کر دیا کہ حضور آپ پر یہ سرخی کہاں سے گری ہے ؟ حضور نے بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہو گا.دوبار عرض کیا گیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے اس پر حضور نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا."کتے ہے " یعنی کہاں ہے.منشی صاحب نے کرتے پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے.اس پر حضور نے کر تہ سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنا سر ادھر پھیر کر قطرہ کو دیکھا اور پھر (منشی صاحب کے بیان کے مطابق) پہلے بزرگوں کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ " خدا کی ہستی وراء الواراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کے بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوں کو دکھائی دیئے جاتے ہیں.2 رویت باری تعالی اور کشفی امور کے خارجی ظہور پریوں واقعاتی روشنی ڈالنے کے بعد حضرت نے انہیں کشف کی پوری تفصیل سنائی بلکہ اپنے دست مبارک سے کشف میں قلم کے جھاڑنے اور دستخط کرنے کا نقشہ بھی کھینچا اور اسی طرز پر جنبش دی اور ان سے پوچھا کہ اپنا کرتہ اور ٹوپی دیکھیں کہیں ان پر بھی سرخی کا قطرہ تو نہیں گرا.انہوں نے کر نہ دیکھا تو وہ بالکل صاف تھا مگر ململ کی سفید ٹوپی پر ایک قطرہ موجود تھا.منشی صاحب نے عاجزانہ درخواست کی کہ حضور اپنا یہ اعجاز نما کر یہ انہیں قبر کا عنایت فرمائیں.حضرت اقدس کا سلوک اپنے خدام ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی فیاضانہ تھا لیکن آپ نے منشی صاحب کی یہ درخواست ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ہمارے بعد اس سے شرک پھیلے گا.اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا کر اس کی پوجا شروع کر دیں گے.انہوں نے عرض کیا.رسول اللہ ا کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جو تبرک جس صحابی کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جاؤں گا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.”ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو.چنانچہ حضرت نے جمعہ کے لئے کپڑے بدلے اور یہ کرتہ منشی صاحب کے سپرد کر دیا اس اعجازی کرتے کا کپڑا نیو کہلاتا ہے اور سرخی کا رنگ ہلکا اور گلابی مائل تھا جس میں تینتالیس برس کی طویل مدت گزرنے کے باوجو د خفیف سا تغیر بھی نہیں ہوا.حضرت منشی صاحب کو اس نشان کے متعلق حضرت منشی صاحب کا حلفیہ بیان نشان آسمانی پر اس درجہ بصیرت و ایماں حاصل تھا کہ ان کی زندگی میں ایک دفعہ مشہور اہلحدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اس کشفی نشان پر تنقید کی تو حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری نے نہ صرف اپنی

Page 288

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶۹ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت مفصل حلفیہ شہادت شائع کی بلکہ انہیں مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا مولوی صاحب نے چیلنج سے تو گریز اختیار کیا البتہ لکھا کہ ہمارے محلہ کی مسجد میں آکر قسم کھا ئیں چنانچہ وہ سلسلہ کے بعض اکابر کو ہمراہ لے کر بے کھٹکے امرت سر پہنچے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد میں اپنا مطبوعہ حلفیہ بیان ایسے درد انگیز رنگ میں پڑھ کر سنایا کہ سامعین پر ایک لرزہ طاری ہو گیا نیز کہا کہ مولوی صاحب کے نزدیک یہ حلف کافی نہ ہو تو وہ جن الفاظ میں چاہیں مجھ سے قسم کھلائیں.میں اپنی اولاد اپنے مال اور اپنی جان غرضکہ ہر چیز کی قسم کھانے کے لئے تیار ہوں میں نے اس سرخی کے نشان کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ٹخنہ پر پڑا تھا اپنی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا تھا اس سے میری انگلی کو بھی سرخی لگ گئی تھی.اگر میں یہ جھوٹ کہتا ہوں تو میری انگلی کیا میرے جسم کا ذرہ ذرہ جہنم میں ڈالا جائے.اور سب سے بڑا جو عذاب ہے وہ مجھ پر نازل کیا جائے ".حضرت منشی صاحب ایک عرصہ تک لوگوں کو یہ کرتہ دکھانے سے احتراز کرتے تھے.لیکن جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہیں ارشاد فرمایا کہ اسے بہت کثرت سے دکھاؤ تا اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جائیں تو وہ دکھانے لگے.اور یوں ہزاروں نفوس کو اسے پچشم خود دیکھنے کا موقعہ مل گیا.حضرت منشی صاحب نے عمر بھر اعجازی کرتہ کی حفاظت کی اور سفر و حضر میں ہمیشہ اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے.بالا خرے.اکتوبر ۱۹۲۷ء کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور یہ قیمتی یادگار بھی حضرت اقدس کی وصیت کے مطابق بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دی گئی.شهب ثاقبہ کا آسمانی نظارہ tt حضرت مسیح ناصری نے اپنی آمد ثانی کے متعلق ایک یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ " اس وقت آسمان سے ستارے گریں گے اور جو قو تیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی.چنانچہ ۲۸.نومبر ۱۸۸۵ء کی شب کو آسمان پر شب ثاقبہ کا یہ غیر معمولی نظارہ نمودار ہوا.اس وقت آسمان کی فضا میں ہر طرف اس درجہ بے شمار شعلے چل رہے تھے.کہ گویا ان کی بارش ہو رہی تھی.یورپ امریکہ اور ایشیا میں اس سے حیرت کی زبر دست اردو ڈگئی اور اخباروں میں ان کی خبر نمایاں رنگ میں شائع ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح نے اشارہ بتایا تھا.یہ تصویری زبان میں اس امر کا اعلان تھا کہ آسمانی قوتیں اسلامی انقلاب کے لئے ہلا دی گئی ہیں اور اب خدائی افواج کے سپہ سالار کی قیادت میں کفر و باطل کے قلعوں پر حملہ آور ہونے والی ہیں.شب کی بارش کا یہ آسمانی نظارہ ابتدائے شب سے شروع ہو گیا تھا جسے آپ بہت دیر تک دیکھتے اور خدائی بشارتوں کا تصور کر کے لطف اند روز ہوتے رہے.اس موقعہ پر آپ پر بار بار ” مار منتَ

Page 289

تاریخ احمدیت جلد ۲۷۰ نشان نمائی کی عالمگیرد ھوت اِذرَ.إذ رَمَيْتَ وَالكِنّ اللہ رکھی" کا الہام ہوا اور القاء کیا گیا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے ".1 اس موقعہ پر حضور کو ( کشفا) دکھایا گیا کہ آپ اور حضرت سید عبد القادر" برابر برابر کھڑے ہیں.نیز آپ نے دیکھا کہ حضرت شیخ سعدی اور حضرت سید عبد القادر ایک باغ میں سیر کر رہے ہیں.اس آسمانی نظارہ کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت نکلا تھا.اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ ستارہ بھی آپ کی صداقت کے لئے ایک دوسرا چمکتا ہو انشان ہے.

Page 290

تاریخ احمدیت جلدا ۲۷۱ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۱-۲۱ حواشی "سیرت المهدی " حصہ دوم صفحه ۱۳-۱۴ مکتوبات بنام مولوی عبد اللہ سنوری صفحه ۳-۴۰ طبع اول بیرونی دنیا میں اس کے اثرات ۱۸۸۷ء میں ظاہر ہونے شروع ہوئے.جب مسٹر ا لگزنڈر سل وب نے امریکہ سے خط و کتابت شروع کی.اور بالاخر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے جیسا کہ آئندہ ذکر آرہا ہے.روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد پنجم صفحه ۸۴ ۵ ولادت اے ۱۸ ء وفات ۱۹۱۱ء ( تذکرہ روسائے پنجاب طبع دوم ۶۸۴) ۳۱۳ اصحاب میں تھے ان کی صاحبزادی خواجہ کمال الدین صاحب بانی اور کنگ مشن کے عقد میں آئیں.- حضرت میخ چاک کے مشہور صحابی حضرت قریشی محمد حسین صاحب (وفات ۱۷ اپریل ۱۹۳۲ء) موجد مفرح شہری لاہور کے دادا جو پہلے اہلحدیث تھے مگر آخر عمر میں مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کے ہم خیال بلکہ دست راست بن گئے.۰۸ محترم مولف صاحب "مجدد اعظم" نے مٹی اندر من مراد آبادی کے متعلق سو ا لکھا ہے کہ اس نے "سرمہ چشم آریہ" کی اشاعت پر مقابلہ کی ٹھرائی مگر انعام پہلے مانگا کہ کسی کے پاس رکھوا دیا جائے.جب مرزا صاحب کے آدمی زیر انعام لے کر پہنچے تو اندر من لاہور چھوڑ کر ہی بھاگ گیا ( مجدد اعظم جلد اول صفحه ۱۷۰) یہ واقعہ پیش ضرور آیا.مگر "سرمہ چشم آریہ" کے انعامی اشتہار سے قبل نہ کہ بعد - جیسا کہ ۱۰ مئی ۱۸۸۵ء کے اشتہار بلکہ سرمہ چشم آریہ " سے ملحق اشتہار " صداقت انوار " سے بھی ظاہر ہے.(دیکھئے صفحہ ۲۵۹ طبع اول) - تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۴۸- -- - " مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحه ۹۱-۹۳ و جلد دوم صفحه ۶-۱۰- حیات احمد جلد دوم نمبر سوم صفحه ۱۲۰-۱۲۳ -[• -11 الم اخبار "عام " بحوالہ الحکم ۲۴- اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۸ کالم نمبر ۳- کلیات آریہ مسافر صفحه ۴۰۸-۲۱۴ طبع اول شائع کردہ ستیہ دھرم پر چارک پریس ہردوار ضلع سہارنپور - ايضا مرزا امام الدین کے الحادو دہریت کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ اس کی مجلس میں بھنگ اور چرس پینے والے جمع ہوتے جو اباحتی فقیروں کی طرح شریعت پر لغو اعتراضات کی بوچھاڑ کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کے دعوی کا چرچا دیکھ کر اس نے اپنے تئیں چماروں کا ہادی قرار دے لیا اور ایسی ایسی نا گفتنی باتیں کہیں کہ خدا کا کوئی پاک باز نبی اس کی تضحیک سے محفوظ نہ رہا.مثلاً کہا.ایک پیغمبر دو سرے پیغمبر کو جھٹلاتا اور منسوخ کرتا ہے اگر میٹی صاحب کو سچا جا ئیں تو محمد ال صاحب کی غلطی معلوم ہوتی ہے اور اگر محمد صاحب کو راستی پر سمجھیں تو عینی صاحب کا اعتبار جاتا ہے".(ملاحظہ ہو اس کی کتاب "گل شگفت " صفحہ ۱۷ مطبوع چشمه نور) "آئینہ کمالات اسلام "صفحه ۲۸۵ و "کلیات آرید مسافر صفحه ۳۱۴-۳۱۵مه ۱۵ لیکھرام کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالنیا 19 نومبر ۱۸۸۵ء کو قادیان آیا تھا.بحوالہ "حیات احمد " جلد دوم نمبر دوم صفحہ -10 ۴۰ مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۲۸۸ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحه ۴۰-۴۱) مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) "حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۲۸۸ و "کلیات آرید مسافر - صفحه ۴۱۵ ۱۹ نقل مطابق اصل ۲۰.حیات احمد " جلد دوم صفحه ۴۲ - ۴۳- مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.

Page 291

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۰۲ نشان نمائی کی عالمگیر دعوت "خبط احمدیہ ۳۴۴۴-۳۴۷ مطبوعہ ۶۱۸۸۸ ۲۲- "حیات احمد " جلد دوم نمبر سوم صفحه ۱۳۵ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب صاحب عرفانی) یہ شخص ہندوؤں سے عیسائی ہوا اصلی نام رام چند تھا "لائف آف احمد صفحه ۶ ۸ از مولوی عبد الرحیم صاحب (درد) ۲۳ نقل مطابق اصل ۲۴ مکتوبات احمدیہ جلد سوئم صفحہ ۱۰۰ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) ۲۵ « تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۷ ۷۹۰۷ ۲۶ ان ہندوؤں کے نام یہ تھے کچھمن رام پنڈت بھار امل بشن داس ولد رعد ا سا ہو کار منشی تارا چند کھتری پنڈت نهال چند سنت رام فتح چند پنڈت ہر کرن.پنڈت پیج ناتھ بشن داس ولد بیرانند بر همن ( تبلیغ رسالت جلد اول صفحه (۵۲) ۲۷- " تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۵۴ -۲۸ آپ کو ۳۱۳ صحابہ کبار میں شامل ہونے کا فخر بھی حاصل ہے.۲۹- الحکم ۱۳۶۶- اگست ۶۱۸۹۸ - انعامات خداوند کریم صفحه ۱۱۴ مرتبہ حضرت پیر افتخار احمد صاحب) اور روایات صحابہ مطبوعہ جلد ہفتم ۳۰ اخبار الحکم ۱۳۶ اگست ۱۸۹۸ء میں متبعین کی بجائے مجین کا لفظ ہے.۳۱ مکتوبات امام همام " قلمی جلد اول صفحہ ۶ - ۱۸۹۲ء حضرت مسیح موعود اکثر اپنے خطوط کی نقول میر عباس علی صاحب کو بھیجوا دیا کرتے تھے چنانچہ اسی نقول سے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب نے ۱۸۹۲ء میں یہ مکتوب بھی لکھا تھا اس کے چھ سال بعد حضرت پیر منظور محمد صاحب نے اصلی خط سے اس کی نقل لے کر الحکم ۱۳۶۶ اگست ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۲- ۱۳ میں چھپوادی تھی.مگر خط کے بعض نقوش مدھم یا بالکل محو ہو چکے تھے.اس لئے اس کی اشاعت نا تمام شکل میں ہو سکی اور انہوں نے خالی مقامات پر نقطہ ڈال دیئے.مگر "مکتوبات امام ہمام " کے قلمی نسخہ میں (جو خلافت لائبریری میں محفوظ ہے) اس دعا کا پور استن موجود ہے.مکتوبات امام ہمام " کے مرتب حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب (رئیس حاجی پورہ ریاست کپور تھلہ) تھے جو ۳۱۳ اصحاب کبار میں سے تھے.مشہور مبلغ اسلام حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر آپ ہی کی تبلیغ سے داخل سلسلہ ہوئے.سرسید احمد خاں مرحوم کے سوانح دیکھ کر ان کے دل میں زبردست تڑپ پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس زندگی کے مفصل حالات میری زندگی میں قلمبند ہو جائیں.اس خواہش کی تکمیل کے لئے انہوں نے جماعت کے ایک اہل قلم بزرگ کو سلسلہ کا بہت سالٹریچر بھی فراہم کر کے دیا.مگر افسوس زندگی نے وفا نہ کی اور آپ کیکم دسمبر ۱۹۳۰ء کو ۶۳ سال کی عمر میں وصال فرما گئے.(احکام جلد ۳۸ صفحه ۲۷ تا صفحه ۳۳-۱۹۳۵ء) ۲ روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد ہفتم صفه ۳-۴ ۳۳ ازالہ اوہام " حصہ دوم صفحہ ۷۹۱-۷۹۳ طبع اول نم گذشته اولیاء کے سوانح میں کشفی امور کے مادی رنگ پکڑنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں.مثلاً حضرت حسن بصری نے خواب میں شمعون سے ایک خط لیا جب بیدار ہوئے تو اسے خارج میں بھی موجود پایا.حضرت عبد اللہ بن جلال نے عالم رویا میں آنحضرت کے دست مبارک سے ایک روٹی لی اور آدھی کھائی تھی کہ بیدار ہو گئے اور دیکھا کہ باقی نصف ٹکڑا ان کے ہاتھ میں ہے " تذكرة الاولياء "مترجم صفحه ۳۸ صفحه ۴۹۸ مولفه حضرت خواجہ فرید الدین صاحب عطار شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنزلاہور - ) مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ " ریویو آف ریلیجز "اردو جولائی ۱۹۳۲- ۳۵ سرمه چشم آرید " صفحه ۱۳۱-۱۳۲ الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۱۶ء " سیرت مسیح موعود " مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حصہ اول صفحه ۳۰ سیرت المهدی حصہ اول صفحه ۸۰-۸۵ ، حصہ دوم صفحه ۷ ۱۰-۱۰۸ ۳۶ مرقس ۲۲:۱۳ ۲۵-." آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۱۰-۱۱۱ ۳۸- " تذکره " طبع اول صفحه ۷۵۶

Page 292

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۷۳ سفر ہوشیار پور وو ماموریت کا پانچواں سال ہوشیار پور کا مبارک سفر پسر موعود " کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کا انکشاف (۱۸۸۲ء) گذشتہ نوشتوں میں پسر موعود کی پیشگوئی اب ہم ۱۸۸۶ء میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ احمدیت میں ایک نہایت درجہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دین اسلام کے شرف اور آنحضرت ا کی صداقت و عظمت کے اظہار کے لئے ایک " پسر موعود " کی عظیم الشان خبر دی گئی گو یہ پیشگوئی اپنی تفصیلات کے اعتبار سے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود پر منکشف ہوئی مگر اپنی اصولی شکل میں وہ ہزاروں برس سے موجود تھی.چنانچہ مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء بنی اسرائیل کے سامنے یہ منادی کی گئی تھی کہ مسیح موعود کے انتقال کے بعد اس کا فرزند اور پوتا اس کی (آسمانی) بادشاہت کا وارث ہو گا.بعد ازاں جب نعمت نبوت بنی اسمعیل کی طرف منتقل ہوئی تو پیغمبر دو عالم ﷺ نے مسیح موعود کے متعلق یہ خبردی - يَتَزَ و حريولد له " یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی.اب صاف ظاہر ہے کہ محض شادی اور اولاد کا وجود تو کسی مامور اللی کی سچائی پر برہان نہیں بن سکتا.جب تک وہ اپنے اندر بھاری نشان نہ رکھتے ہوں.پس بے شبہ مخبر صادق کا مقصود یہ تھا که مسیح موعود ایک موعود شادی کریگا جو ایک زبر دست آیت اللہ ہوگی جس کے نتیجے میں اسے ایک بلند مقام رکھنے والا صالح فرزند عطا کیا جائیگا جو اس کے روحانی کمالات کا نظیرو مثیل ہو گا اور جانشین بھی ! وہ ہر امر میں اس کا مطیع ہو گا.اس کا شمار درگاہ الہی کے معزز بندوں میں ہو گا اور وہ دین اسلام کی حمایت کرے گا.

Page 293

تاریخ احمدیت جلدا سفر ہو شیار پور اب چونکہ اس موعود کے ظہور کا زمانہ قریب آرہا تھا اس لئے خدا تعالی کی طرف سے اسلام کے مختلف با کمال بزرگوں کو بھی اطلاع دے دی گئی.چنانچہ روم میں مولوی جلال الدین (۱۲۰۷- ۱۲۷۳) ہندوستان میں حضرت نعمت الله ن دلی ہانسوی ۱۶۵ اء اور شام میں حضرت محی الدین ابن عربی (۶۱۲۴۰-۱۱۶۴) نے کشفی آنکھ سے اس موعود کو دیکھا اور اپنے اپنے زمانہ میں اس کی خبر دیتے رہے بلکہ پانچویں صدی ہجری کے شامی بزرگ حضرت امام یحی بن عقب" نے تو کھلے لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ و محمُودُ سَيَظْهَرُ بَعْدَ هَذَا وَ يَمْلِكُ الشَّامَ بِلا قِتَالِ : یعنی مسیح موعود اور ایک عربی انسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہو گا جو ملک شام کو کسی (مادی) جنگ کے بغیر فتح کرے گا.بعض ائمہ شیعہ کو بھی بتایا گیا کہ ایک آنے والے موعود کا اسم گرامی "محمود" ہو گا.ہوشیار پور کا مبارک سفر ان قدیم نوشتوں کے جلد پورا کرنے کے لئے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں قادیان سے باہر چلہ کشی کرنے کی تحریک اٹھی اور آپ نے ۱۸۸۴ء میں سو جان پور کا فیصلہ کر کے اپنے عقید تمند منشی عبداللہ صاحب سنوری کو اپنی منشاء سے اطلاع بھی دے دی مگر حضور کو الہاما بتایا گیا کہ آپ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور I میں ہو گی.سو حضور پہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے ۲۲.جنوری ۱۸۸۶ء کو ہوشیار پور تشریف لے گئے اور چلہ کشی کے نتیجے میں مصلح موعود اور پردہ غیب میں پوشیدہ جماعت کے شاندار مستقبل کے متعلق بھاری بشارتیں پانے اور تبلیغ اسلام کی مہمات میں حصہ لینے کے بعد ۱۷.مارچ ۱۸۸۶۳ء کو بانیل مرام واپس قادیان پہنچے.حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری (جنہیں اس موقعہ پر ابتداء سے آخر تک ہمسفر رہنے کا شرف نصیب ہوا اس مبارک سفر کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جا کر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے.چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سو جان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں اور اس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ بھی مجھے روانہ فرمایا.میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں.حضور نے منظور فرما لیا.مگر پھر حضور کو اس سفر سوجان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہو شیار پور میں ہوگی.چنانچہ آپ نے سو جان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا.اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا.جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء میں

Page 294

تاریخ احمد بیت - جلد ! ۲۷۵ سفر ہوشیار پور ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قاریان بلالیا.اور شیخ سر علی رئیس ہوشیار پور کو مخط لکھا کہ میں دوماہ کے واسطے ہو شیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو.شیخ صر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروا دیا.حضور پہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے تشریف لے گئے.میں اور شیخ حامد علی اور فتح خاں ساتھ تھے.فتح خاں رسولپور متصل ” ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہو گیا.حضور جب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اٹھا کر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا.دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبد اللہ کامل کی صحبت اس سفردریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے.میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خان مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی.خیر ہم راستہ میں فتح خان کے گاؤں میں قیام کرتے ہوئے دو سرے دن ہو شیار پور پہنچے وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرما دیے.چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا.فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا و غیرہ لایا کرے شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آدیں.اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں.ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں میں دن اور ٹھہروں گا.ان ہیں دنوں میں ملنے والے ہمیں دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال و جواب کرلیں.اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے.میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے.میرا کھانا او پر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں.خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں.نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھالیا کرو.جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو.جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں.چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی.وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے.اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے ".

Page 295

تاریخ احمدیت جلدا ۲۷۶ سفر ہوشیار پور میں کھانا چھوڑ نے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا.میاں عبد اللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی درق ہو جا دیں...پسر موعود کے متعلق الہامات بھی اسی چلہ میں ہوئے تھے اور بعد چلہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کا اعلان فرمایا تھا جب چالیس دن گزر گئے تو پھر آپ حسب اعلان ہیں دن اور وہاں ٹھہرے.ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ نے ہی تبادلہ خیالات کے لئے آئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے انہی دنوں میں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا.جو رمہ چشم آریہ میں درج ہے جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ہو شیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سا لگا ہوا تھا وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کے لئے پہلی سے اتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہو گیا.اور شیخ حامد علی اور فتح خاں بلی کے پاس رہے آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ” جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا.انکی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے ".پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں.چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا.اس نے کہا میں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گزر گیا ہے.ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا؟ وہ کہنے لگا سنا ہے سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں.پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے"- پسر موعود اور جماعت کی ترقی سے متعلق زبر دست پیشگوئی سفر ہوشیار پور کے ان اجمالی حالات میں حضور کی چلہ کشی پسر موعود کی پیشگوئی اور مباحثہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا تفصیلی ذکر اب کیا جاتا ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام (جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ) ہوشیار پور میں محض چلہ کشی کے

Page 296

تاریخ احمدیت.جلدا и ۲۷۷ سفر ہوشیار پور لئے تشریف لے گئے تھے اور شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان کی بالائی منزل میں آپ چالیس روز تک دعاؤں میں مصروف رہے اس دوران میں حضور کی خلوت نشینی کا عجیب رنگ تھا.شہر والوں سے تو دستی اشتہارات کے ذریعہ سے ملاقات کی ممانعت تھی اور اپنے تینوں خادموں کو بھی جو آپ کے مسفر تھے زبانی یہ حکم دے دیا تھا کہ ڈیوڑھی کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور کوئی شخص گھر میں بھی مجھے نہ بلائے میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اتناہی میری بات کا جواب دے جتنا ضروری ہے کھانا پہچانے کے لئے بھی حضور سے انہیں اوپر اجازت لے کر جانا پڑتا تھا.اللہ تعالی کی طرف سے اس عرصہ میں مکالمات و مخاطبات کا وسیع سلسلہ جاری ہوا.چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری ایک دفعہ جب کھانا لے کر او پر گئے تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے." بورک من فيها و من حولها " اور حضور نے تشریح فرمائی کہ من فیھا سے تو میں مراد ہوں اور من حولها سے تم لوگ.اسی طرح ایک دو سرے.موقعہ پر فرمایا.” مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میں ان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کر دوں تو یہ جو معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں “.ان سب الہامات میں اہمیت اس پیشگوئی کو حاصل ہے جس میں آپ کو پسر موعود کی خبرد یگئی.اسی لئے جب چلہ ختم ہوا تو حضرت اقدس نے اپنے قلم سے ۲۰.فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار تحریر فرمایا.جو اخبار ریاض ہند امرت سریکم مارچ ۱۸۸۶ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہو چنانچہ آپ نے لکھا.پہلی پیشگوئی بالهام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزو جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے ( جل شانہ و عزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے اے مظفرا تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پادیں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آدیں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور ناحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تاوہ یقین لائیں.میں کہ تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور

Page 297

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۷۸ سفر ہو شیار پور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی اسی کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے تے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائیگا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گاوہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے ، وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئیگا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گاوہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا ( اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ - فرزند دل بند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالآخَرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاءِ كَانَ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا.پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائیگی اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کریگا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ا

Page 298

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۷۹ سفر ہوشیار پور ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی و نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے تو مجھے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی علی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھے ایسا ہے جیسی میری توحید - تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالیگا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہر گز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نا فرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.فقط " اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس کو مزید بتایا گیا کہ ایسا لڑ کا بموجب وعدہ الہی ؟ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.نیز چند روز بعد -- اپریل ۱۸۸۶ء کو جناب الہی کی طرف توجہ کرنے پر منکشف ہوا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.تاہم یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہو گا یہی پسر موعود ہے یادہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.پسر موعود سے متعلق پیشگوئی کا رد عمل حضرت اقدس کی طرف سے پر موعود سے متعلق یہ پیشگوئی شائع ہوئی تو ملک میں ایک

Page 299

تاریخ احمدیت.جلدا.۲۸۰ سفر ہوشیار پور شور برپا ہو گیا.آپ کے عقیدت مند نہایت بے تابی سے آنے والے کا انتظار کرنے لگے.اور مخالفین اسلام میں جو حضرت اقدس کے نشان نمائی کے چیلنج کے مقابلہ میں شکست فاش اٹھا چکے تھے اس "نشان رحمت" کی تضحیک کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ پنڈت لیکھرام نے ۱۸- مارچ ۱۸۸۷ء کو نہایت گستاخانہ لب وہ لہجہ میں ایک مفتریا نہ اشتہار شائع کیا جس میں حرف بحرف خدا تعالیٰ کے حکم سے لکھنے کا ادعا کر کے جواب دیا کہ "آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی".نیز کہا کہ اگر کوئی لڑکا پیدا بھی ہوا تو وہ آپ کی پیشگوئی میں بیان شدہ صفات سے بر عکس رحمت کا نشان نہیں زحمت کا نشان ثابت ہو گا.وہ مصلح موعود نہیں مفسد موعود ہو گا چنانچہ اس بد زبان نے پسر موعود سے متعلق پیشگوئی کی ایک ایک صفت کو اپنے تجویز کردہ الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر پوری بے حجابی سے لکھا.”خدا کہتا ہے جھوٹوں کا جھوٹا ہے میں نے کبھی اس کی دعا نہیں سنی اور نہ قبول کی"."خدا اس سفر کو نہایت منحوس بتلاتا ہے“.”خدا کہتا ہے میں نے قہر کا نشان دیا ہے "." خدا کہتا ہے اس کا نام عزرائیل اور شریر بھی ہے "." ناپاک اور پلید روح دی گئی ہے ".” وہ دیجور کھلم کھلا ہے "." خدا کہتا ہے وہ آسمانی گولا نہایت منحوس ہے جو پاتال کو جاتا ہے "." آج تک مرزا دی فرقہ میں عموماً اور مرزا صاحب پر خصوصاً قہر کا سایہ تھا جو اس مغضوب ربانی کے سبب جہان میں آیا تھا"." شاید وہ صاحب ذلت و نحوست و نکبت ہو گا"." خدا کہتا ہے وہ مرزا کی طرح دنیا میں آکر اعزاز شیطانی نفس اور روح منحوس کی نحوست سے بہتوں کو دائم المریض کر کے واصل فی النار کرے گا اور آخر کو خود بھی اس میں پڑیگا.اور اس کا نام خرد جال ہو گا "." خدا اسے ناپاک بتلاتا ہے جس کو شیطان نے اپنی شیطنت اور بے قمیتی سے بھیجا ہے "."خدا کہتا ہے وہ نہایت غلیظ القلب ہو گا اور علوم صوری و معنوی سے محروم رہے گا.خدا کہتا ہے غلام جان بد بخت خسرة الدنيا والاخره مصدر باطل و العاطل " - "كان الشَّيْطَانُ وَرَدَ عَنِ الْفَلَكِ..” اس میں شیطان کی روح پڑیگی اور خدا کا غضب اس پر برسے گا".وہ جلد جلد بڑھیگا کے متعلق خدا کہتا ہے کہ محض جھوٹھ ہے " "خدا کہتا ہے وہ دائم الحبس ہو گا".اس رذیل کا نام قادیان میں بھی بہت سے نہ جائیں گے.اب تک تو آپ کے خالص اور دلی محبوں کا گروہ گھٹتا رہا ہے آئندہ بھی خدا کہتا ہے خسرہ الدنیا والاخرة رہیں گے ".اس اشتہار کے آخر میں لکھا.قادیانی خدا کا ارشاد ہے کہ میں نے تجھ پر کچھ فضل و احسان نہیں کیا نہ کوئی رحمت کا نشان بھیجا یہ سب تیری کار سازی ہے اور سراسر جعلسازی.اور خدا کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں نے جو فضل واحسان کیا ہے سب آریوں پر کیا ہے اور وقتا فوقتا انہیں کو الہامات اور رغبت کی خبروں سے اطلاع دی ہے اور سب فرقے جھوٹے مدعی ہیں." قطعی

Page 300

تاریخ احمدیت جلدا ۲۸۱ سفر ہو شیار پور پنڈت لیکھرام کی اس ہرزہ سرائی کے علاوہ پنڈت اندر من مراد آبادی نے بھی نکتہ چینی کی کہ نو برس کی حد جو پسر موعود کے لئے بیان کی گئی ہے بڑی گنجائش کی جگہ ہے ایسی لمبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو ہی سکتا ہے.یہ تو دشمنان اسلام تھے ان کے لئے یہ مخالفت تعجب کا محل نہ تھی.حیرت اس بات پر ہے کہ قادیان کے بعض نام نہاد مسلمانوں (حافظ سلطان کشمیری وصابر علی نے عدوان اسلام کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے یہ مشہور کر دیا کہ لڑکا تو ڈیڑھ ماہ سے پیدا ہو چکا ہے.ایک شخص محمد رمضان نے پنجابی اخبار (۲۰ مارچ ۱۸۸۶ء) میں ایک تہذیب و شائستگی سے گرا ہو ا مضمون بھی لکھا.III حضرت مسیح موعود نے لیکھرام کے تعفن آلودا اشتہار کا فیصلہ تو مستقبل پر چھوڑا.البتہ اندر من کو جواب دیا کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گونو برس سے بھی دو چند ہو تی اس کی عظمت و شان میں فرق نہیں آسکتا.آپ نے ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں یہ بھی لکھا کہ "یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف رحیم محمد مصطفی ﷺ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے.جولوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا".صاحبزادی عصمت کی پیدائش اور بشیر یہ نوک جھوک جاری تھی کہ ۱۵ اپریل ۱۸۸۶ء کو صاحبزادی عصمت پیدا ہو گئیں جس پر اول کی وفات پر طوفان بے تمیزی ہندووں اور عیسائیوں کی طرف سے طوفان بے تمیزی برپا کیا گیا کہ پیشگوئی غلط نکلی لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی.بحالیکہ حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر صاف طور پر پسر موعود کے لئے نو سالہ میعاد مقرر فرمائی تھی اور اسے موجودہ حمل سے متعلق نہیں کیا تھا بلکہ اس کے بر عکس پہلے سے یہ بتا دیا تھا کہ ایک لڑکا قریب حمل میں پیدا ہونے والا ہے معلوم نہیں کہ وہی پسر موعود ہے یا وہ بعد کو اپنی مقررہ میعاد کے اندر پیدا ہو گا.اور جیسا کہ حضور نے اس وقت لکھا کہ لڑکی کی پیدائش میں بھی بڑی حکمت اور مصلحت تھی.کیونکہ اگر ابتدا ہی میں لڑکا پیدا ہو تا تو ایسے لوگوں پر کیا اثر پڑ سکتا تھا جو پہلے ہی کہتے تھے کہ قواعد طبی کی رو سے حمل موجودہ کی علامات سے ایک حکیم بھی بتا سکتا ہے کہ کیا پیدا ہو گا.لیکن ابھی ہندؤوں اور عیسائیوں کے فتنے کا انتہائی مرحلہ باقی تھا.سوا سال بعد اس خدائی خبر کے عین مطابق جو حضور نے ۸ - اپریل ۱۸۸۶ ء میں شائع فرما دی تھی..اگست ۱۸۸۷ء کو بشیر اول کی پیدائش ہوئی اور خدا کا نشان پھر ظاہر ہوا.بشیر اول ۴- نومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہو گئے.اور مخالفین کو

Page 301

تاریخ احمدیت جلد ؟ ۲۸۲ سفر ہوشیار پور ہنگامہ آرائی کا موقعہ ہاتھ آگیا.بالخصوص پنڈت لیکھرام جس نے صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر سخت طنز و استہزاء کیا تھا بشیر اول کی وفات پر نہایت درجہ سخت کلامی پر اتر آیا." سبز اشتہار " کی اشاعت حضور نے پنڈت لیکھرام اور اسی قسم کے دوسرے معاندین کی غلط بیانیوں کا ازالہ کرنے کے لئے "سبز اشتہار " (مطبوعہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء) شائع کیا جس میں حضور نے چیلنج دیا کہ وہ ہمارے اشتہارات میں سے کوئی ایسا حرف پیش کر دکھا ئیں جس میں یہ دعوی کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بشیر اول کی وفات سے ۲۰.فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کا وہ حصہ پورا ہوا ہے.جس میں لکھا ہے کہ بعض بچے کم عمری میں بھی فوت ہوں گے.حضرت اقدس نے پیشگوئی کے ایک لفظ "عمان" کی طرف اشارہ کر کے الہام الہی سے لکھا کہ اس پیشگوئی کی ابتدائی عبارت " مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے" کے فقرہ پر ختم ہوتی ہے اسی مہمان (بشیر اول) کے متعلق تھی اور اس میں در حقیقت دو لڑکوں کی پیشگوئی مخفی تھی اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دو سرا نام اس کا محمود اور تیرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے.اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التواء میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے.اور بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ا رہاص تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا"." اس الهامی نشان کے ساتھ حضور نے پسر موعود کو خدائی الہام کے مطابق بشیر ثانی اور محمود اور مصلح موعود کے نام سے یاد کرتے ہوئے بڑی تحدی کے ساتھ لکھا دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے پیدا نہیں ہو ا مگر خد اتعالیٰ کے وعدے کے موافق میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا زمین و آسمان مل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن ہیں ؟ et نیز فرمایا.سواے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو.بلکہ خوش ہو

Page 302

تاریخ احمدیت جلدا ٢٨٣ سفر ہوشیار پور اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئیگی".بشیر ثانی اور محمود کی ولادت باسعادت پنڈت لیکھرام نے اپنے اشتہاروں میں لکھا تھا کہ تین سال تک آپ کی ذریت منقطع ہو جائے گی.یہ خدا تعالیٰ کے خلاف چیلنج تھا جس سے رحمت الہی میں ایک خاص جوش پیدا ہو گیا.اور وہ بشیر ثانی جس کی میعاد 4 سال رکھی گئی تھی.اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت لیکھرام کی پیشگوئی کو باطل ثابت کرنے کے لئے ۱۲- جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہو گیا.یہ بشیر ثانی جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں جن کے پیدا ہوتے ہی حضور نے اشتہار " تحمیل تبلیغ میں اہل عالم کو اطلاع دی کہ : " خدائے عزو جل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء د اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دو سرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہو گا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آج ۱۲- جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق ۹- جماری الاولی ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی".حضرت اقدس نے سفر ہوشیار پور کے بعد ۱۸۸۶ء میں ایک کامل انکشاف کے بعد اطلاع رسالہ "سراج منیر" لکھنا شروع فرمایا تھا.حضور نے اس ۲۴ " رسالہ کے چھاپنے میں صرف اس لئے توقف فرمایا کہ ” جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جائے تب اس کا مفصل و مبسوط حال لکھا جائے ".چنانچہ جب الهامی طور پر کامل انکشاف ہو گیا تو جہاں پہلے حضور نے محض تفاؤل کے طور پر پیدا ہونے والے فرزند کو بشیر اور محمود قرار دیا تھا وہاں اب سراج منیر میں کسی شک وشبہ کے بغیر حقیقی رنگ میں اسے سبز اشتہار کی پیشگوئی کا مصداق قرار دے کر لکھا کہ : پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا.اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں میں تقسیم ہوئے تھے چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا.اور اب نویں سال میں ہے ".نیز لکھا." سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہو گیا.

Page 303

مية.تاریخ احمدیت جلدا ۲۸۴ ee سفر ہوشیار پور کس قدر پیشگوئی عظیم الشان ہے خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو ".سراج منیر" کے علاوہ حضور نے اپنی وفات تک کئی بار پیم اور مسلسل مخالفین اسلام کے سامنے خدائے عزو جل کے اس عظیم الشان نشان کے ظہور کی منادی کی.چنانچہ " سر الخلافہ " میں فرمایا.انَّ لِي كَانَ إِبْنَا صَغِيرًا وَكَانَ اسْمُهُ بَشِيرًا فَتَوَفَّاهُ اللَّهُ فِي آيَامِ الرَّضَاعِ فَالْهِمْتُ من ربي انا رُدُّ إِلَيْكَ تَفَضُّلَا عَلَيْكَ وَكَذَالِكَ رَاتْ أُمُّهُ فِي رُؤْيَا مَا أَنَّ الْبَشِيْرَ قَدْ جَاءَ وَقَالَ إِلَى أَمَانِكِ أَشَدَّ الْمُعَانَقَةِ وَلَا أَنَا رِقُ بِالسُّرْعَةِ فَاعْطَانِيَ اللَّهُ بَعْدَهُ إِبْنَا أَخَرَ وَهُوَ خَيْرُ الْمُعْطِينَ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ هُوَ بَشِيرُ وَ قَدْ صَدَقَ الْخَبِيرُ فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِهِ وَارَى حُلْيَهُ الْأَوَّلَ وَقَدْ في جسمه ".یعنی میرا ایک چھوٹا بیٹا جس کا نام بشیر (اول) - مرتب) تھا.اللہ تعالیٰ نے اسے شیر خواری میں ہی وفات دے دی.تب مجھے اللہ تعالٰی نے الہا نا فرمایا کہ ہم اسے از راه احسان تمہارے پاس واپس بھیج دیں گے.ایسا ہی اس بچے کی والدہ نے رویا میں دیکھا کہ بشیر آگیا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ سے نہایت محبت کے ساتھ ملوں گا.اور جلد جدانہ ہوں گا.اس الہام و رویا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرا فرزند عطا فرمایا.تب میں نے جان لیا کہ یہ وہی بشیر (موعود) ہے اور خداتعالی اپنی خبر میں سچا ہے چنانچہ میں نے اس بچے کا نام بشیر ہی رکھا اور مجھے اس کے جسم میں بشیر اول کا حلیہ دکھائی دیتا ہے.ضمیمہ انجام آتھم میں لکھا." محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود کے نام کے موجود ہے"." تریاق القلوب" میں تحریر فرمایا.محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز شیار سیم دسمبر ۱۸۸۸ ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا.پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا.پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء مطابق ۹- جمادی الاولی ۱۳۰۶ ء میں بروز شنبه محمود پیدا ہوا".اور بالاخر حقیقتہ الوحی میں نہایت صراحت کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد کو سبز اشتہار

Page 304

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۸۵ سفر ہوشیار پور کا موعود قرار دیتے ہوئے بتایا.” میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں ایک دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو کیکم ستمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہو ا مگر خد اتعالٰی کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالٰی زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے " اکابر جماعت احمدیہ کا قطعی مسلک ان تصریحات ہی کا نتیجہ تھا کہ ابتداء ہی سے جماعت کے اکابر بزرگوں نے جب بھی جماعت کے سامنے پسر موعود کی پیشگوئی کا تذکرہ کیا قطعی طور پر اسی مسلک کا اظہار کیا کہ حضرت صاجزادہ مرزا محمود احمد ہی سبز اشتہار کی پیشگوئی کے مصداق ہونے کی وجہ سے حقیقی معنوں میں پسر موعود ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولانانور الدین (خلیفہ المسیح اول) کی شخصیت پوری جماعت کے لئے مطاع کل تھی بالخصوص اس لئے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے متعلق لکھا تھا کہ وہ مشکوۃ نبوت سے منور ہیں اور اپنی پاک طینتی اور شان جوانمردی کے مناسب آنحضرت ﷺ کے نور سے نور لیتے ہیں اور آپ کے لبوں پر حکمت بہتی ہے اور آسمان کے نور نازل ہوتے ہیں.اس برگزیدہ ہستی کی خدمت میں جب عمر کے آخری ایام میں حضرت پیر منظور محمد صاحب نے یہ عرض کیا کہ مجھے آج حضرت اقدس مسیح موعود کے اشتہارات پڑھ کر معلوم ہو گیا ہے کہ پسر موعود میاں محمود احمد صاحب ہی ہیں تو آپ نے فرمایا ” ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں.مزید توثیق کے لئے اپنے قلم مبارک سے آپ نے یہ لکھا.." یہ لفظ میں نے برادرم منظور محمد سے کیے ہیں" اس تاریخی دستاویز کا چربہ پیر صاحب موصوف نے مئی ۱۹۱۴ء کے شعید الاذہان صفحہ ۲۵ میں شائع کر دیا.حضرت مولانا نور الدین خلیفہ المسیح اول نے اشارہ النبی نے اشارہ الہی.ہ الہی سے یہ حیرت انگیز خبر بھی دی کہ مصلح موعود ۱۹۴۲ء کے بعد ظاہر ہو گا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بذریعہ رویا جنوری ۱۹۴۴ء میں بمقام لاہو ر بتایا گیا کہ آپ ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے " محمود کی خواہ کوئی کتنی شکایتیں ہمارے پاس کرے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہمیں تو اس میں وہ چیز نظر آتی ہے جو ان کو نظر نہیں آتی.یہ لڑکا بہت بڑا بنے گا اور اس سے خدا تعالیٰ

Page 305

تاریخ احمدیت.جلدا ули کر ہوشیار پور ۳۵ عظیم الشان کام لے گا.یہی وجہ ہے کہ آپ جب 1911 ء میں بیمار ہوئے تو آپ نے وصیت فرمائی کہ آپ کے بعد محمود خلیفہ ہو گا.حضرت خلیفہ اول تو حضرت مسیح موعود کے مزاج شناس اور ترجمان حقیقت تھے اس لئے ان کا یہ مسلک ناگزیر تھا لیکن یہ تو ایسی کھلی حقیقت تھی جس کے متعلق جماعت میں عام چرچے رہتے تھے.مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کی ۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ کی تقریر دلپذیر سن کر جماعت کے نامور عالم مولانا محمد احسن صاحب امروہی بے ساختہ پکار اٹھے کہ : ایک یہ بھی الہام تھا کہ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ مَظهَرِ الْحَقِّ وَالْعُلاء...الخ جو اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے کہ یتزوج و یو لد له یعنی آپ کے ہاں ولد صالح عظیم الشان پیدا ہو گا.چنانچہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجود ہیں".پسر موعود کے متعلق مبینہ علامات مندرجہ بالا واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا کا خارق عادت رنگ میں ظہور | حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود ! میں ابتداء ہی سے پسر موعود کی جھلک نمایاں طور پر جماعت کے سامنے آچکی تھی مگر خدائی نوشتوں کے مطابق جب آپ حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کے متعلق آسمانی وعدوں کا ایک ایک جز نهایت برق رفتاری سے پورا ہونا شروع ہو گیا اور ابھی آپ کے عہد خلافت پر تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ ایک عالم کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور بالاخر مسلم و غیر مسلم حلقے بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ آپ موجودہ دنیا کی ایک عظیم ترین ہستی ہیں اور اب جب کہ یہ تاریخ مرتب ہو رہی ہے بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ پیشگوئی پسر موعود کی کوئی بھی اہم علامت ایسی نہیں جس کے آپ میں پائے جانے کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی رنگ میں غیروں کی زبان و قلم سے اقرار نہ کیا جا چکا ہو.زبردست شہادتیں اس ضمن میں بطور مثال صرف چند شہادتیں درج کی جاتی ہیں.پہلی شہادت: ایک معزز غیر احمدی عالم مولوی سمیع اللہ خاں صاحب فاروقی نے قیام پاکستان سے قبل اظہار حق" کے عنوان سے ایک ٹریکٹ میں لکھا." آپ کو (یعنی حضرت مسیح موعود کو.ناقل) اطلاع ملتی ہے کہ ” میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کریگا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے "

Page 306

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۸۷ سفر ہو شیار پور اس پیش گوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچے ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہ کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا.چنانچہ اس وقت اکثریت نے حکیم نور الدین صاحب کو خلیفہ تسلیم کر لیا جس پر مخالفین نے محولہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے.خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی خلیفہ نور الدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریباً دنیا کے ہر خطہ تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد ۱۹۳۱ ء کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہو گی بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں".الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی من وعن پوری ہوئی".دوسری شهادت:- ہندوستان کے ایک غیر مسلم سکھ صحافی ارجن سنگھ ایڈیٹر " رنگین " امرتسر نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب نے ۱۹۰۱ء میں جب کہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا دور اس سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا کروں گا " هم بشارت کیا فسبحان - ہے اک دل کی غذا دی الذي اخزى الأعادي یہ پیشگوئی بے شک حیرت پیدا کرنے والی ہے 1901 ء میں نہ میرزا بشیر الدین محمود کوئی بڑے عالم و فاضل تھے اور نہ آپ کی سیاسی قابلیت کے جو ہر کھلے تھے اس وقت یہ کہنا کہ تیرا ایک بیٹا ایسا اور ایسا ہو گا ضرور کسی روحانی قوت کی دلیل ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ میرزا صاحب نے ایک دعوی کر کے گدی کی بنیاد رکھ دی تھی.اس لئے آپ کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کا سہرا میرے لڑکے کے سر پر رہے گا لیکن یہ خیال باطل ہے اس لئے کہ میرزا صاحب نے خلافت کی یہ شرط نہیں رکھی کہ

Page 307

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۸۸ سفر ہوشیار پور وہ ضرور مرزا صاحب کے خاندان سے اور آپ کی اولاد سے ہی ہو.چنانچہ خلیفہ اول ایک ایسے صاحب ہوئے جن کا میرزا صاحب کے خاندان سے کوئی واسطہ نہ تھا پھر بہت ممکن تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول کے بعد بھی کوئی اور صاحب خلیفہ ہو جاتے.چنانچہ اس موقعہ پر بھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور خلافت کے لئے امیدوار تھے لیکن اکثریت نے میرزا بشیر الدین صاحب کا ساتھ دیا اور اس طرح آپ خلیفہ مقرر ہو گئے.اب سوال یہ ہے کہ اگر بڑے میرزا صاحب کے اندر کوئی روحانی قوت کام نہ کر رہی تھی تو پھر آخر آپ یہ کس طرح جان گئے کہ میرا ایک بیٹا ایسا ہو گا جس وقت مرزا صاحب نے مندرجہ بالا اعلان کیا ہے اس وقت آپ کے تین بیٹے تھے آپ تینوں کے لئے دعا ئیں بھی کرتے تھے لیکن پیشگوئی صرف ایک کے متعلق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک فی الواقع ایسا ثابت ہوا ہے کہ اس نے ایک عالم میں تغیر پیدا ۳۹ کر دیا ہے".تیسری شہادت:- پسر موعود کی آمد کا مقصود یہ تھا کہ ” تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو".بر صغیر ہند و پاکستان کے مشہور مسلم لیڈر اور شعلہ نواشاعر مولوی ظفر علی خاں آف "زمیندار" (۱۸۷۳-۱۹۵۷ء) نے کھلے لفظوں میں اعتراف کرتے ہوئے کہا.”کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے...تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا...مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارے پر اس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے...مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں، مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے لدي چوتھی شہادت : پسر موعود سے متعلق وعدہ الہی تھا کہ وہ "اولو العزم" ہو گا.نیز یہ کہ وہ " علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.چنانچہ ہندوستان کے نامور صوفی خواجہ حسن نظامی دہلوی (۱۸۷۸- ۱۹۵۵) نے آپ کی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے لکھا.اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں.انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا.اور یہ بھی کہ مغل ذات کار فرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے.سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و غم میں بھی قوی ہیں.اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں.یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں ".پانچویں شہادت:.خدا تعالی نے خبر دی تھی کہ پسر موعود سخت ذہین و فہیم ہو گا.اس حقیقت ام

Page 308

تاریخ احمد مینت جلدا ۲۸۹ سفر ہوشیار پور کو بھی بیگانوں نے تسلیم کیا.چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق (۱۸۹۲ء- ۱۹۴۲ء) نے آپ کے متعلق لکھا.جس قدر روپے احرار کی مخالفت میں قادیان خرچ کر رہا ہے اور جو عظیم الشان دماغ اس کی پشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے کے لئے کافی تھا.چھٹی شہادت : پسر موعود کے متعلق ایک اہم خبر یہ دی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا".یہ پیشگوئی جس حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی اس نے انسانی عقل کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تحریک آزادی کشمیر اس پر شاہد ناطق ہے.کیونکہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کا سہرا " آل انڈیا کشمیر کمیٹی" کے سر ہے.یہ مشہور کمیٹی حضور کی تحریک اور ہند وپاکستان کے بڑے بڑے مسلم زعماء مثلاً سر ذو الفقار علی خاں (وفات ۱۹۳۳ء) ڈاکٹر سر محمد اقبال (۱۸۷۳-۱۹۳۸ء) خواجہ حسن نظامی دہلوی (۱۸۷۸- ۱۹۵۵ء) سید حبیب مدیر اخبار "سیاست" وغیرہ کے مشورہ سے ۲۵.جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں قائم ہوئی اور اس کی صدارت حضور کو سونپی گئی تھی.آپ کی کامیاب قیادت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانان کشمیر جو مدتوں سے انسانیت کے ادنیٰ حقوق سے بھی محروم ہو کر غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے.ایک نہایت قلیل عرصے میں آزادی کی فضاء میں سانس لینے لگے ان کے سیاسی اور معاشی حقوق تسلیم کئے گئے.ریاست میں پہلی دفعہ اسمبلی قائم ہوئی اور تقریر و تحریر کی آزادی کے ساتھ انہیں اس میں مناسب نمائندگی ملی.جس پر مسلم پریس نے حضرت مصلح موعود کے شاندار کارناموں کا اقرار کرتے اور آپ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ "جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اور اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا انہوں نے کام کی کامیابی کو زیر نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا.اس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا.تو تحریک بالکل ناکام رہتی.اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچا " عبد المجید سالک (۱۸۹۴-۱۹۵۹ء) تحریک آزادی کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”شیخ محمد عبد اللہ (شیر کشمیر) اور دوسرے کارکنان کشمیر مرزا محمود احمد صاحب اور ان کے بعض کار پردازوں کے ساتھ.....اعلانیہ روابط رکھتے تھے اور ان روابط کی بناء محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی وجہ سے تحریک کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے اور کارکنان کشمیر طبعا ان کے ممنون " ro-"¿ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا" آسمانی کلام دقیق بھی ہوتا ہے اور ذو المعارف بھی.اور اس کے اسرار و غوامض کا سلسلہ نہایت درجہ وسیع ہوتا ہے اور ہر طلوع ہونے والی صبح اس کی عظمتوں پر ایک نئی گواہی پیش کرتی ہے اس نقطہ نظر کے مطابق

Page 309

تاریخ احمدیت.جلدا سفر ہوشیار پور اگر پسر موعود کی پیشگوئی دیکھی جائے تو اس کا لفظ لفظ بحر مواج نظر آتا ہے.جس کا سطحی سااندازہ اوپر کی سطور سے باسانی لگ سکتا ہے.اسی طرح ” وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.کہنے کو تو اس تاریخی پیشگوئی کے الفاظ میں ایک مختصر سا فقرہ ہے مگر دست قدرت نے اس میں " تین " کے لفظ کو عمومیت کا رنگ دے کر واقعات کی ایک دنیا آباد کر دی اور بتایا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں اس خدائی خبر کا ظہور کئی بار مقدر ہے تا ایک لمبے عرصے تک اتمام حجت کے تقاضے پوری آب و تاب سے پورے ہوتے رہیں.چنانچہ پہلی اور دوسری بار اس کا ظہور سید نا حضرت مصلح موعود کی ولادت با سعادت کے وقت ہوا جب کہ حضور ایک تو پیشگوئی کے انکشاف سے چوتھے سال یعنی ۱۸۸۹ء میں جلوہ افروز عالم ہوئے.دوسرے آپ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرزا افضل احمد صاحب اور بشیر اول کے بعد پیدا ہوئے اور چوتھے فرزند تھے.اس خبر کا تیسری بار ظهور ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت کے ذریعہ ہوا مرزا سلطان احمد صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حرم اول سے فرزند اکبر تھے اور انہیں حضور کی مقدس زندگی کا ایک بہت بڑا دو ر دیکھنے کی سعادت ملی اور وہ آپ کو بصدق دل عاشق رسول اور عاشق قرآن یقین کرتے تھے مگر وہ حضور کی زندگی میں بیعت میں شامل نہ ہوئے حضرت خلیفہ اول کو مرزا صاحب موصوف سے انتہا درجہ کی محبت و الفت تھی اور وہ اکثر حضرت اقدس کے سامنے آپ کی بعض کتب کی تعریف کیا کرتے تھے اور منشاء یہ ہو تا تھا کہ حضور کی نظر کرم صاجزادہ صاحب کی طرف ہو جائے اور ان کے لئے دعا فرما ئیں.ایک دفعہ آپ نے اپنے معمول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے مرزا سلطان احمد صاحب کی ایک کتاب کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا.”مرزا سلطان احمد سے کہو کہ خدا سے صلح کرلے.لیکن صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت اقدس کی زندگی میں اپنے مقدس باپ کی بیعت کا موقعہ میسر نہ آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کے بعد خلافت اولی کا زمانہ آیا.مگر اب بھی حضرت خلیفہ المسیح اول سے خاص عقیدت کے بار صف صاجزادہ صاحب سلسلہ احمدیہ میں داخل نہ ہوئے.اس کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی خلافت کا دور شروع ہو گیا.اور اب بظا ہر مرزا سلطان احمد کے حق کی طرف آنے کا امکان یکسر ختم ہو گیا.کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی آپ کے چھوٹے بھائی تھے اور با ہم عمر کا تفاوت اس درجہ تھا کہ مرزا سلطان احمد صاحب کی برات اسی دن گئی تھی جس دن حضرت مسیح موعود دوسری شادی کے لئے ولی تشریف لے گئے تھے.چنانچہ وہ خود بھی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے خلافت ثانیہ کے ابتداء میں یہ تذکرہ کیا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کی

Page 310

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۹۱ CA سر ہو شیار پور بیعت کر لیتا.اب میں اپنے چھوٹے بھائی کی بیعت کیا کروں.چنانچہ اسی تذبذب میں خلافت ثانیہ کے بھی ۱۵ سال گزر گئے اور عمر کا آخری حصہ آپہنچا.ہاتھ پاؤں جواب دے گئے اور پاؤں کو باسانی ہلانے کی سکت بھی باقی نہ رہی کہ یکا یک انہوں نے دسمبر ۱۹۳۰ ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصطلح الموعود ایدہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میں تو چل نہیں سکتا آپ کسی وقت آکر میری بیعت لے لیں.چنانچہ حضور نے اسی دن ان کی بیعت لی.حضور ان کی چارپائی کے قریب ہی بیٹھ گئے اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنا ہاتھ بیعت کے لئے بڑھا دیا.اور بیعت کرلی اور اس طرح مصلح موعود کی بدولت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین زندہ صلیبی و روحانی بیٹوں ( حضرت مصلح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب) میں مرزا سلطان احمد صاحب کا بھی اضافہ ہو گیا.عجیب بات یہ ہے کہ خود مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی مدتوں قبل بذریعہ رویا یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں اور وہ بھی حضور کے پاس ہیں اور وہاں ایک جگہ پر چار کرسیاں بچھی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ ایک کرسی پر تم بیٹھ جاؤ" تین کو چار کرنے والا چوتھی بار ظہور ہمارے سامنے پاکستان میں ربوہ ایسے عظیم الشان مرکز احمدیت کے قیام سے ہوا.چنانچہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ اور قادیان کے اسلامی مراکز پہلے سے موجود تھے.حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے ربوہ بسا کر ان تین مراکز میں ایک اور کا اضافہ فرما دیا.اور اس طرح آپ تین کو چار کرنے والے بن گئے.خود ” تین کو چار کرنے والا ہو گا" کی عبارت کے سیاق و سباق میں اس نئے اور چوتھے مرکز کی بعض اہم خصوصیات کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا تھا.مثلاً " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ" کے الفاظ میں اس مرکز کے یوم افتتاح کی خبر دی گئی تھی اور اس سے قبل "علوم باطنی " کے الفاظ کو اس صفت سے پیوست کر کے یہ اطلاع دی گئی تھی کہ مصلح موعود کو اس چوتھے مرکز کے قیام کی قبل از وقت بذریعہ کشف و رویا خبر دی جائے گی جو مسلمہ طور پر علوم باطنی کا سر چشمہ اور ماخذ ہوتے ہیں.چنانچہ اس خبر کے عین مطابق نہ صرف ربوہ کا افتتاح ۲۰.ستمبر ۱۹۴۸ء کو ہوا.جو دو شنبہ تھا بلکہ اس کے افتتاح سے سات برس پیشتر آپ کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک نئے مرکز کے قیام کا کشفی بشمارہ دکھا دیا گیا.د غرضکہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا" کی صفت حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی ذات میں متعدد رنگ میں پوری ہوئی اور اس طرح مصلح موعود کی الہامی پیشگوئی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جو خارق عادت رنگ میں پورا نہ ہو چکا ہو.

Page 311

تاریخ احمد بیت - جلدا ۲۹۲ سفر ہوشیار پور پیشگوئی مصلح موعود اور مؤلف "مجدد اعظم" جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مولف " مجدد اعظم" نے " پیشگوئی مصلح موعود بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت مرزها صاحب کے لڑکوں میں مصلح موعود کوئی بھی نہ ہوا".نیز کہا ہے کہ " مصلح موعود لڑ کا کسی آئندہ نسل میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا پیدا ہو گا.اسی طرح یہ بھی قیاس آزمائی کی ہے کہ "یہ بھی ممکن کیا بلکہ اغلب ہے کہ بیٹے سے مراد روحانی بیٹا ہو " یہ بھی اجتہاد کیا ہے کہ چوتھی صدی اس سلسلہ کے غلبہ کی صدی ہے اور غالنہا وہی وقت ہو گا جب کوئی شخص دنیا کو راہ راست پر لانے والا آئے گا.بہر حال اس سے پہلے تو آ نہیں سکتا.مولف صاحب " مجدد اعظم" نے اس تمام تر مفروضے کی بنیاد اس امر پر رکھی ہے کہ "اگر کوئی اس پیشگوئی کا مصداق ہو سکتا تھا تو وہ حضرت صاحب کا چوتھا لڑ کا مبارک احمد ہو سکتا تھا.کیونکہ ان کی ولادت سے پہلے دوبارہ اس ”تین کو چار کرنے والے لڑکے کی آمد کے متعلق الہام ہوا تھا مگران کے فوت ہو جانے سے اللہ تعالٰی کے فعل نے ثابت کر دیا کہ وہ بھی اس کے مصداق حقیقی نہ تھے ".اپنا یہ نظریہ صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ایک عبارت تصنیف کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کردی اور لکھا کہ حضرت اقدس تریاق القلوب میں نہایت صاف الفاظ میں یہ تحریر فرماتے ہیں.یہ پیشگوئی تین کو چار کرنے والے کی جو پہلے ۲۰- فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں شائع ہوئی اور بعد میں تین لڑکوں یعنی محمود بشیر اور شریف کے پیدا ہو جانے کے بعد انجام آتھم اور ضمیمہ میں خدا نے پھر اطلاع دی کہ وہ تین کو چار کرنے والا یعنی مصلح موعود اب آئے گا".حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ” تریاق القلوب" میں ہرگز موجود نہیں.اور خود ساختہ ہیں.تنہا اس ایک مثال سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے تاریخ احمدیت ایسے اہم اور نازک موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے کہاں تک ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے 111

Page 312

تاریخ احمدیت - جلد ! ۲۹۳ حواشی المور" باپ پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۸ء (از جوزف بہار کے) میں لکھا ہے.سفر ہو شیار پور "It is also sald that he (the Messiah) shall die and his Kingdom descend to his son and grand son* مشکوۃ مجتبائی باب نزول عیسی بن مریم آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۷۸ طبع اول فروری ۱۸۹۳ء) "حمامته البشری " صفحه ۹۶ ( طبع اول ۱۸۹۳ء) اور حقیقتہ الوحی" (مطبوعہ مئی کے ۱۹۰ء) صفحه ۳۱۲ مثنوی مولانا روم " دفتر ششم صفحه ۲۲۱ مطبوعہ کانپور.کتاب "اربعین فی احوال المسد - بین " (متولفہ سید اسمعیل شہید) میں آپ کا جو تقصیدہ درج ہے اس میں یہ شعر بھی ہے.أو چوں شود تمام بکام پرش یادگار بینم التوحات کمیه " بحوالہ نوید یکی از آغا عبد العزیز ناروقی) حضرت ابن عربی چین کے مقام مرسیا میں پیدا ہوئے مگر آخری عمر میں ہجرت کر کے شام میں مستقل طور پر مقیم ہو گئے تھے.دمشق میں ان کا شمس المعارف مصری صفحه ۳۴۰ مولفہ شیخ احمد بن علی البونی ناشر مصطفی البابی الحلی و اولاده عصر ۰۵۱۳۲۵ بحار الانوار جلد ۱۳ صفحہ ہے.مولفہ محمد باقر مجلسی."ميرة المهدي " حصہ اول صلح ہو رہ ستمبر ے م مصلحہ، کالم نمبر پر حضرت کی زندگی میں یہ الہام ان الفاظ میں شائع ہوا کہ ایک معالمہ کی عقدہ کشائی ہو شیار پور میں ہوگی " یا کف آل احمد اصلحه ۱۰۸۰۱۰۹ مطبوعہ ۱۹۳۹ء ( متولقہ مولانا عبد الرحیم در و صاحب ایم.اے) بسیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۱۰۶۹ ۱ سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۷۲ طبع دوم یادر ہے یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جب کہ سرے سے جماعت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.کیونکہ جماعت کی تاسیس -۲۳ - ماریچ ۱۸۸۹ء کو ہوئی اور یہ فروری ۱۸۸۷ء کی پیلوتی ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اس وقت فرمایا کہ آپ کو ایک جماعت عطا ہو گی اور ساتھ می خبر دی کہ جب یہ جماعت اقلیت میں ہوگی.تو دنیا اپنی کثرت کے نشہ میں اسے مٹانے کی کوشش کرے گی مگر فرماتا ہے ہم ابھی سے یہ خبر دے دیتے ہیں کہ خدا تعالٰی کی تقدیر کے مطابق انجام کار یہ انقلاب برپا ہو گا کہ کثرت " قلت " میں اور " قلت " کثرت " میں تبدیل ہو جائے گی.(مرتب) اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مشموله آلو " آئینہ کمالات اسلام " ( طبع اول) ۱۵ اشتهار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۷۳ ( مطبوعہ چشمہ فیض قادری بماله) ۱۲ اشتهار صداقت آثار ۰۸ اپریل ۱۸۸۶ مطبوعہ چشمہ فیض قادری پریس بٹالہ ( تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۷۵-۷۲) ۱۷ نقل مطابق اصل ۱۸ کلیات آریہ مسافر ، صفحہ ۴۹۳-۴۹۹- شائع کردہ رائے صاحب منشی گلاب لگے اینڈ سٹر مطبع مفید عام مطبوعہ ۱۹۰۴ تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۸۹ ۲۰ اینا صلح ۷۵۰۷۳ ۲۱- سبز اشتهار اصلی ۲۳ سیز اشتہار" ۲۳ تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۷ ۱۴ تا ۱۴۹ حاشیه

Page 313

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۴ ایضا صفحه ۱۲۴ " سبز اشتهار صفحه ۲۶۴۲۵ سراج منیر صفحه ۳۱ حاشیه ( طبع اول ۱۸۹۷م) بر سر الخلافہ طبع اول صفحه ۵۳ مطبوعه ۱۸۹۴ء ۲۸ دو قیمہ انجام آنظم " صفحہ ۱۵ مطبوعہ ۱۸۹۷ء ۲۹ تریاق القلوب طبع اول صفحه ۳۲ مطبوعہ ۱۸۹۹ء ۳۰ حقیقت الوحی صفحہ ۳۶۰ طبع اول (مئی ۶۱۹۰۷ ) ۳۱ ترجمه از " آئینہ کمالات اسلام " طبع اول صفحه ۵۸۴-۵۸۷ ۳۲ په ۸- دسمبر ۹۱۳ و کار اقعہ ہے (مرتب) ۲۹۴ ۳۳ اصل تحریر کا عکس رساله فرمان ( قادیان) مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۴ پر چھپ چکا ہے.۳۴.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل یکم فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۰۱ ۳۵ الفضل ۲ اگست ۱۹۳۷ء صفحه ۴ ۳ بر ۲ جنوری 1911 ء صفحہ - درسالہ ”حقیقت اختلاف " مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے) صفحہ ۶۹ ۳۷- ضمیمه اخبار بد ۲۶ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۲ اظہار الحق صفحه ۱۷۰۱ مطبوعہ نذیر پر هنگ پریس امرتها تمام سید مسلم حسن صاحب زیدی).۳۹ رساله " خلیفہ قادیان " طبع اول صفحه ۸۰۷ از ارجن سنگھ ایڈیٹر رنگین امرت سر ۴۰ " ایک خوفناک سازش صفحه ۱۹۶ مظہر علی اظهر) ام اخبار " عادل ویلی ۲۴ اپریل ۱۹۳۳ء ( بحوالہ " خالد " نومبر ۱۹۵۵ء) ۴۲ اخبار مجاہد ۱۵ اگست ۱۹۳۵ء ( حواله الفضل ۲۹۴ اگست ۱۹۳۵ء) ۳۳ سرگزشت" صفحه ۲۹۳ (از عبد المجید سالک) اخبار سیاست ۱۸- مئی ۱۹۳۳ء ۴۵ "ذکر اقبال" صفحه ۱۸۸ (از عبد المجید سالک) الفضل " یکم جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴ کالم ۳۰۲ سفر ہوشیار پور ۲۷ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کی روایت ہے جو آپ نے خاکسار مرتب کے سامنے ایک مجلس میں بیان فرمائی تھی.-۴۸- "الفضل ۱۳- اپریل ۱۹۵۸ صفحه ۴ ۴۹ الفضل ۱۵- فروری ۱۹۱۲ء ۵۰ الفضل ۲۱- دسمبر ۱۹۴۱ء ۵۱- حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف لفظوں میں تحریر فرماتے ہیں الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑ کے پیدا ہونگے اور ایک کو ان میں سے ایک مرد خدا مسیح صفت السلام نے بیان کیا ہے سوخد اتعالٰی کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے " ( تریاق طبع اول ۱۹۰۲ء) نیز فرماتے ہیں.بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا صفحه ۲ جو ہ گا ایک دن محبوب میرا بشیر احمد و شریف احمد د مبارکہ کی آمین مطبوعہ ۱۹۰۱ء) علاوہ ازیں الہام الہی میں صاف خبر دی گئی ہے کہ وہ لڑکا تیرے ہی قسم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا.یہ الفاظ چو نکہ صاف بتا

Page 314

تاریخ احمدیت جلدا ۲۹۵ سفر ہوشیار پور رہے تھے کہ مصلح موعود کا براہ راست آپ ہی کی ذریت رنسل ہونا مقدر ہے اس لئے مولف مجد داعظم نے سرے سے پیشگوئی پسر موعود کی الہامی عبارت ہی درج نہیں فرمائی.۵۲- صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے متعلق حضرت اقدس کو ۱۸۸۳ء میں ایک الگ الہام ہوا تھا کہ ”تین کو چار کرنے والا مبارک ( نزول المسیح صفحہ ۱۹۶) پس اگر یہ الہام ان کی پیدائش سے قبل دوبارہ بھی نازل ہوا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ مصلح موعود کی پیش گوئی کے مصداق ہو سکتے تھے.خصوصاً جب کہ ان کی ولادت نو سالہ میعاد کے بعد ہوئی اور جونہی آپ پیدا ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دے دی گئی.کہ یہ جلد فوت ہو جائینگے.( تریاق القلوب صفحہ ۲۰ طبع اول) پس در حقیقت مصلح موعود کی پیشگوئی اور صاحبزادہ مبارک احمد کے متعلق الہام " تین کو چار کرنے والا الگ الگ حیثیت رکھتے ہیں دونوں کو مانا کسی طرح بھی صحیح نہیں.۵۳ مجد داعظم " جلد اول طبع اول صفحہ ۱۵۲

Page 315

تاریخ احمد بیت - جلدا ۲۹ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ " سرمہ چشم آریہ " ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ اور سرمہ چشم آریہ" کی تصنیف و اشاعت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور میں چلہ کشی اور پینگوئی " پسر موعود" کے بعد دوسرا اہم واقعہ مباحثہ مرلی دھر ہے.ماسٹر مرلی دھر صاحب جو آرید ماسٹر مرلی دھر صاحب آف ہو شیار پور سے مباحثہ سماج ہوشیار پور کے ایک متناز رکن تھے) حضرت اقدس کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر چند سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں.خدا کا پہلوان تو مدت سے للکار رہا تھا کہ کوئی آریہ سماجی لیڈر مرد میدان ہے.چنانچہ اب جو خود آریہ سماج کی طرف سے ایک تحریری مذہبی مباحثہ کی طرح ڈالی گئی تو حضور نے اسے بسر و چشم قبول فرمالیا.اور اس دینی مذاکرہ کو غیر جانبدارانہ سطح پر لے جانے کے لئے یہ تجویز کی کہ ماسٹر صاحب ایک نشست میں اسلام پر اعتراضات کریں اور آپ ان کے جوابات دیں.اور دوسری نشست میں حضور آریہ سماج کے مسلمات پر سوال کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے.ماسٹر صاحب نے اس تجویز سے اتفاق ظاہر کیا.بحث کے لئے حضرت اقدس کی فرودگاہ تجویز ہوئی.اور مباحثہ کی دو نشستوں کے لئے گیارہ مارچ کی شب اور چودہ مارچ کا دن قرار پایا.اور دونوں بحثوں سے متعلق یہ بات بھی طے ہوئی کہ بحث کا خاتمہ جواب الجواب کے جواب سے ہو.اس سے پہلے نہ ہو چنانچہ گیارہ مارچ ۱۸۸۶ء کی پہلی نشست میں ماسٹر صاحب اسلام پر چھ سوالات کرنے کی تیاری کر کے آئے تھے اور اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا مگر ابھی انہوں نے معجزہ شق القمر کے متعلق ہی اپنا پہلا مایہ ناز اعتراض پیش کیا تھا کہ ان کی علمیت کا سارا بھرم کھل گیا اور وہ اپنی ناکامی کا داغ مٹانے کے لئے عین اس وقت جب کہ حضور کی طرف سے جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا تو معاہدہ کے خلاف محض رات کی طوالت کے بہانے سے جانے کا قصد کرنے لگے.اکثر ہندو حاضرین بالخصوص والی ریاست سوکیت

Page 316

تاریخ احمدیت جلدا ۲۹۷ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ " سرمه چشم آریہ " کے بڑے بیٹے میاں شترو گھمن صاحب نے جو اس مجلس میں موجود تھے کئی بار ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ جواب الجواب کا جواب لکھنے دیں ہم لوگ بخوشی بیٹھیں گے ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی.آخر حضرت اقدس نے فرمایا یہ جواب تحریر ہونے سے رہ نہیں سکتا.اگر آپ اس کو اس وقت ٹالنا چاہتے ہیں تو یہ رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائیگا.اس پر انہوں نے بادل ناخواستہ اس کا شامل رسالہ کیا جانا تسلیم کر لیا.لیکن جواب کا اس مجلس میں تحریر ہو کر پیش ہو نا چونکہ ان کو ناگوار تھا اس لئے وہ اٹھ کر چل دیئے.پہلی نشست کا تو یوں حشر ہوا اب دوسری نشست کی کیفیت سنئے.اس دن حضرت اقدس کا حق تھا کہ پہلے اپنے اعتراض پیش فرماتے.مگر ماسٹر صاحب نے وقت ضائع کرنے کے لئے پہلی نشست کی بحث سے متعلق ایک فضول جھگڑا شروع کر دیا.اور یہ چند سطریں لکھ کر اور ان پر اپنے دستخط کر کے جلسہ عام میں ایک بڑے جوش سے کھڑے ہو کر بنائیں کہ "آج پہلے اس کے کہ میں کوئی سوال پیش کروں مرزا صاحب کی پہلے روز کی تقریر میں سے وہ حصہ جو انہوں نے فرمایا کہ ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے کہ روحیں اوس پر پھلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں پیش کرتا ہوں.یہ ستیار تھے پر کاش میں کسی جگہ نہیں.اگر ہے تو ستیارتھ پر کاش میں دیتا ہوں اس میں سے نکال کر دکھلا دیں تا کہ سچ اور جھوٹ کی ترقی لوگ کر لیں.اس کے جواب میں حضور نے کہا کہ پہلے روز کی تقریر اسی روز کے ساتھ ختم ہو گئی.آپ کو چاہئے تھا کہ اسی دن یہ مطالبہ پیش کرتے مگر ماسٹر صاحب سراسر مجادلہ کی راہ سے مصر پتھے کہ جب تک اس امر کا تصفیہ نہ ہولے دوسری گفتگو نہیں کر سکتے.اس پر مولوی الہی بخش صاحب وکیل نے بھی انہیں بہت سمجھایا کہ اس موقعہ پر گذشتہ قصوں کو لے بیٹھنا بے جا ہے آج کے دن آج ہی کی بحث ہونی چاہیے.آخر جب کافی رد و قدح ہو چکی تو حضرت اقدس نے قضیہ ختم کر کے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے یہ تحریر لکھ دی کہ جب ہم یہ بحث شائع کریں گے تو اس مقام پر ستیارتھ پر کاش کا حوالہ بھی لکھ دیں گے اس حکمت عملی سے یہ جھگڑا رفع دفع ہوا.اور اصل کار روائی شروع ہوئی.چنانچہ اس کے بعد حضور کی طرف سے آریہ سماج کے اس اصول کے متعلق تحریزی اعتراض پیش ہوا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ کہ پر میٹر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ وہ کسی کو خواہ کوئی کیسا ہی راست باز اور سچا پر ستار ہو ابدی نجات بخشے گا.خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت دونوں کے صریح منافی ہے جب یہ زبردست اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر صاحب پر ایک عجیب حالت طاری ہوئی جس کی کیفت ماسٹر صاحب ہی کا جی جانتا ہو گا.انہیں اس وقت کچھ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ اس کا کیا جواب

Page 317

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۹۸ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ " سرمہ چشم آریہ" دیں.اسی لئے گھنٹہ سوا گھنٹہ تک یہی عذر پیش کرتے رہے کہ یہ سوال ایک نہیں دو ہیں.حضور نے بتلایا کہ حقیقت میں سوال ایک ہی ہے یعنی خدا تعالٰی کی خالقیت سے انکار کرنا.اور میعادی مکتی (نجات) تو اس خراب اصول کا ایک بد اثر ہے.جو اس سے الگ نہیں ہو سکتا.اس جہت سے سوال کے دونوں ٹکڑے حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ جو شخص خدا تعالی کی خالقیت سے منکر ہو گا اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ہمیشہ کی نجات کا اقرار کر سکے.سو انکار خالقیت اور انکار نجات جاودانی با ہم لازم ملزوم ہیں.پس جو شخص یہ ثابت کرنا چاہے کہ خدا تعالٰی کے رب العالمین اور خالق نہ ہونے میں کوئی حرج نہیں.اس کو یہ ثابت کرنا بھی لازم آجائے گا کہ خدا تعالی کے کامل بندوں کا ہمیشہ جنم مرن کے عذاب میں مبتلا رہنا اور کبھی دائمی نجات نہ پانا یہ بھی کچھ مضائقہ کی بات نہیں.غرض بار بار سمجھانے کے بعد ماسٹر صاحب کچھ سمجھے اور جواب لکھنا شروع کیا.اور تین گھنٹہ میں سوال کے ایک ٹکڑے کا جواب قلمبند کر کے سنایا اور دوسرے حصہ سوال کے متعلق جو مکتی کے بارے میں تھا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب ہم اپنے مکان سے لکھ کر بھیج دیں گے.حضور نے ایسا جواب لینے سے انکار کر کے فرمایا کہ آپ نے جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے روبرو تحریر کریں.اگر گھر میں بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس مباحثہ کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ مگر ماسٹر صاحب تو محض رفع الوقتی کے لئے آئے تھے وہ کیونکر مانتے.حضور نے جب ان کی یہ ہٹ دھرمی دیکھی تو فرمایا جس قدر آپ نے لکھا ہے وہی ہمیں دے دیں تا اس کا ہم جواب الجواب لکھیں.ماسٹر صاحب جو پہلی نشست میں جواب الجواب کے جواب سننے پر دہشت زدہ ہو گئے تھے.اب جواب الجواب لکھنے پر بوکھلا گئے اور معذرت کی کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے ہم بیٹھ نہیں سکتے.ماسٹر صاحب نے ابتداء میں جب بہت سا وقت ادھر ادھر کی باتوں میں ضائع کر کے بہت آہستگی اور دھیما پن سے جواب لکھنا شروع کیا تھا تو حضرت اقدس اسی وقت سمجھ گئے کہ ان کی نیت بخیر نہیں اور اسی لئے حضور نے پہلے ان سے احتیاط یہ کہا تھا کہ بہتر یوں ہے کہ جو ورق آپ لکھتے جائیں وہ مجھے دیتے جائیں تا میں اس کا جواب الجواب بھی لکھتا جاؤں.ماسٹر صاحب کے ایک ساتھی لالہ لچھمن صاحب نے حضرت اقدس کی بات سن کر کہا کہ میں آپ کی غرض سمجھ گیا لیکن ماسٹر صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے.چنانچہ وہی بات ہوئی اور اخیر پر مباحثہ نا تمام چھوڑ کر انہوں نے سماج کا عذر کر دیا جو محض بہانہ تھا.اصل موجب تو سراسیمگی اور گبھراہٹ تھی جو اعتراض سنتے ہی ان کے دل و دماغ پر چھا گئی اور وہ کچھ ایسے مبہوت ہو گئے کہ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں اور ناکارہ عذرات پیش کر کے یہ چاہا کہ جواب دیئے بغیر ہی اٹھ کر چلے جائیں.یہی وجہ تھی کہ سامعین بھی مایوس ہو کر منتشر ہو گئے اور بعض یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب کیا بیٹھیں اب تو بحث ختم ہو گئی.یہ رنگ دیکھا تو ماسٹر صاحب نے شرم و ندامت سے کچھ لکھا جس کا

Page 318

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۹۹ ماسٹر مرلی د هر صاحب سے مباحثہ " سرمہ چشم آرید" آدھا حصہ تو کاغذ پر اور آدھا ان کے دل میں رہا.بہر حال وہ اپنے جواب کو اس صورت میں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے.حضور نے ماسٹر صاحب سے اس مرحلہ پر یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ اس وقت ٹھہرنا مصلح مناسب نہیں سمجھتے ہیں تو میں دو روز اور اس جگہ ہوں اور اپنا دن رات اسی خدمت میں صرف کر سکتا ہوں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیں.اس جواب پر حضور کو سخت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ جو کچھ معاہدہ ہو چکا تھا.اسے تو ڑ دیا.نہ آپ نے پورا جواب لکھا اور نہ ہمیں اب جواب الجواب لکھنے دیتے ہیں.بہر کیف یہ جواب الجواب بھی مجبور ابطور خود تحریر کر کے رسالے کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا.یہ بات سنتے ہی ماسٹر صاحب اپنے رفقاء سمیت اٹھ کر چلے گئے اور حاضرین جلسہ پر صاف کھل گیا کہ ماسٹر صاحب کی یہ تمام تر کار روائی سر تا پا گریز اور کنارہ کشی کے لئے ایک بہانہ تھی.اس نشست میں سامعین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی.صدہا مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے.اور صحن مکان حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.جن میں شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور، ڈاکٹر مصطفی علی صاحب ، بابو احمد حسین صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ہو شیار پور مولوی اللی بخش صاحب وکیل ہوشیار پور میاں عبد اللہ صاحب حکیم، میاں شہاب الدین صاحب دفعدار لاله نرائن داس صاحب وکیل ، پنڈت جگن ناتھ صاحب وکیل لالہ کچن سنگھ صاحب ہیڈ ماسٹر لدھیانہ بابو ہرکشن داس صاحب سیکنڈ ماسٹر لالہ گنیش و اس صاحب وکیل، لاله سیتارام صاحب مہاجن میاں شترو گهن صاحب ، میاں شترنجی صاحب ، منشی گلاب سنگھ صاحب سررشتہ دار مولوی غلام رسول صاحب مدرس مولوی فتح دین صاحب مدرس خاص طور قابل ذکر ہیں."سرمه چشم آریہ " کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس نے یہ مباحثہ چند ماہ بعد ہی تمبر ۱۸۸۶ء میں "سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع فرما دیا.جس میں آپ نے ستیارتھ پر کاش کا مطلوبہ حوالہ اور اس کے علاوہ وہ جوابات 12 بھی جو مباحثے میں نا تمام رہ گئے تھے اس خوبصورتی سے شامل کر دیے کہ کتاب کو ایک تاریخی شاہکار کی حیثیت حاصل ہو گئی.حضور نے اس کتاب میں آریہ سماج پر زبردست تنقید کی اور معجزات و خوارق قرآنی عجائبات عالم ، روح کے خواص کشف قبور انسان کامل اور قانون قدرت جیسے اہم مسائل پر بھی بڑی لطیف روشنی ڈالی اور بالخصوص بتایا کہ خدائی قانون کا احاطہ جب کسی انسان کے لئے ممکن نہیں تو کسی معجزہ کو قانون قدرت کے منافی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کتاب کا رد لکھنے والے کے لئے

Page 319

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۰۰ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحث " سرمہ چشم آریہ" حضور نے پانچ سو روپیہ کا انعامی اشتہار بھی دیا.اور لطف یہ کہ اس کے لئے منشی جیون راس صاحب سیکرٹری آریہ سماج کو ثالث تجویز فرما دیا کہ اگر وہ قسم کھا کر شہادت دے دیں کہ کتاب کا جواب دے دیا گیا ہے تو محض ان کی شہادت پر حضور یہ انعام دیدیں گے.اس انعامی چیلنج پر آریہ سماج نے بالکل چپ سادھ لی.لیکھرام نے نسخہ خبط احمدیہ" کے ذریعہ سے اس کے رد کی جو ناکام کوشش کی وہ اس قابل نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے.سرمه چشم آریہ ایسی معرکہ الاراء کتاب کی اشاعت پر اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ " اشاعۃ السنہ" میں ریویو کرتے ہوئے لکھا.” یہ کتاب لاجواب مولف ” براہین احمدیہ " مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی تصنیف ہے.اس میں جناب مصنف کا ایک ممبر آریہ سماج سے مباحثہ شائع ہوا ہے جو معجزہ شق القمر اور تعلیم دید پر بمقام ہوشیار پور ہوا تھا اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجوہات سے معجزہ شق القمر ثابت کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں آریہ سماج کی کتاب (دید) اور اس کی تعلیمات و عقائد (تاریخ وغیرہ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے حمیت و حمایت اسلام تو اس میں ہے کہ ایک ایک مسلمان دس دس ہیں ہیں نسخہ خرید کر ہندو مسلمانوں میں تقسیم کرے.اس میں ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اصول اسلام کی خوبی اور اصول مذہب آریہ کی برائی زیادہ شیوع پائے گی اور اس سے آریہ سماج کی ان مخالفانہ کارروائیوں کو جو اسلام کے مقابلہ میں وہ کرتے ہیں روک ہوگی.دو سرا فائدہ یہ ہے کہ اس کتاب کی قیمت سے دوسری تصانیف مرزا صاحب (سراج منیر و غیره) کے جلد چھپنے اور شائع ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگی.ہم نے سنا ہے کہ اس وقت تک سراج منیر کا طبع ہونا عدم موجودگی زر کے سبب معرض التوا میں ہے اور اس کے مصارف طبع کے لئے آمد قیمت سرمہ چشم آرید کا انتظار ہے.یہ بات صحیح ہے تو مسلمانوں کی حالت پر کمال افسوس ہے کہ ایک شخص اسلام کی حمایت میں تمام جہان کے اہل مذہب سے مقابلہ کے لئے وقف اور خدا ہو رہا ہے پھر اہل اسلام کا اس کام کی مالی معاونت میں یہ حال ہے.شاید ان خام خیالوں کو یہ خیال ہو گا کہ مرزا صاحب اپنے دس ہزار روپیہ کی جائیداد جس کو انہوں نے مخالفین اسلام کو مقابلہ پر انعام دینے کے لئے رکھا ہوا ہے فروخت کر کے صرف کرلیں تو پیچھے کو وہ ان کو مالی مدد دیں گے.ان کا واقعی یہی خیال ہے تو ان کا حال اور بھی افسوس کے لائق ہے.مشهور عیسائی اخبار نور افشاں (۶- جنوری ۱۸۸۷ء) نے سرمہ چشم آریہ" پر ان الفاظ میں تبصرہ لکھا.کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کرتے ہوئے اسے "

Page 320

تاریخ احمدیت.جلدا " ۳۰۱ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مبارہ سرمہ چشم آریہ پاش پاش کر دیا ہے کتاب کے فیصلہ کن دلائل کا رد کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے.D سرمہ چشم آریہ" میں آریہ سماج کے بنیادی اصولوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کی یاد خود ماسٹر مرلی دھر آخر دم تک بھلا نہیں سکے.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اس رائے کا اظہار کیا کہ ”مرزا صاحب غیر معمولی علم رکھتے ہیں میں نے علمائے اسلام میں وہ چیز نہیں دیکھی جو ان میں ہے "." سرمہ چشم آریہ" سے متعلق جواب دیا." واقعات درست ہیں نتائج اپنے طرز پر مرزا صاحب نے پیدا کر لئے ہیں اور ہر شخص رائے قائم کر سکتا ہے ".حضرت عرفانی نے کہا کہ نتائج ان واقعات سے ہی پیدا ہوتے ہیں تو کہا کہ اپنا اپنا خیال ہے.آپ نے کہا کہ آپ رد کریں تو کہا ضرورت نہیں.ایک غیر احمدی عالم (مولوی سید ابو الحسن علی ندوی) نے اس عظیم الشان کتاب کے متعلق حال ہی میں اپنی یہ رائے شائع کی ہے کہ.۱۸۸۷ء میں مرزا صاحب نے ہوشیار پور میں مرلی دھر آریہ سماج سے مناظرہ کیا.اس مناظرہ کے بارے میں انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام " سرمہ چشم آریہ " ہے یہ کتاب مناظرہ مذاہب و فرق میں ان کی دوسری تصنیف ہے.پہلے دن کے مناظرہ کا موضوع بحث " معجزہ شق القمر کا عقلی و نقلی ثبوت " تھا.مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات انبیاء کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے.انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور اس کائنات کے احاطہ کا دعوی کریں وہ بار بار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدود و مختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب و عقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے اور اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں اس لئے کہ عقل غیر محیط ہے ".حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت اور دعوت مباہلہ " سرمہ چشم آریہ " میں حضرت اقدس نے آریوں کو حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت بتائی کہ وہ کافی غور و فکر کے بعد قرآن مجید سے متعلق دو تین ایسے زبر دست اعتراضات بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب سے قوی ہوں پھر آپ اگر ان کا مسکت جواب دینے سے قاصر رہے تو فی اعتراض پچاس روپیہ بطور جرمانہ ادا کر دیں گے لیکن اگر فریق مخالف کے اعتراضات

Page 321

تاریخ احمدیت جلدا ۳۰۲ باشر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ " سرمہ چشم آریہ" لغو ثابت ہوئے تو اسے بلا توقف مسلمان ہو نا پڑے گا.اس آسان طریق فیصلہ کے علاوہ حضرت اقدس نے اتمام حجت کی غرض سے آریہ سماج کے مشہور اور نامور ممبروں بالخصوص لالہ مرلی دھر، لالہ جیون راس اور منشی اندر من مراد آبادی کو دعوت مباہلہ بھی دی اور فرمایا کہ فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہو گی.پھر اگر ایک برس گزرنے کے بعد مجھ پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوا یا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں پانچ سو روپیہ تاوان ادا کر دیں گے اس دعوت کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے بطور نمونہ مباہلہ کی دعا بھی شائع فرما دی.خیال تھا کہ اس فیصلہ کن طریق سے گریز نہیں کیا جائے گا.مگر افسوس آریہ سماج نے گذشتہ روایات کے مطابق اس دعوت مباہلہ پر بھی سکوت ہی اختیار کیا.البتہ پنڈت لیکھرام نے ۱۸۸۸ء میں اپنی کتاب نسخہ "خبط احمدیہ " میں دعائے مباہلہ کرتے ہوئے لکھا.ے پر میشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا.اللہ تعالی نے ۶.مارچ ۱۸۹۷ء کو وہ فیصلہ کر دکھایا جو لیکھرام نے اپنے منہ مانگا تھا " جس سے آریہ سماج کے بطلان اور اسلام کی سچائی پر ابدی مہرلگ گئی (اس کی تفصیل اسی جلد میں آگئے آرہی ہے) سفر انبالہ اس سال (۱۸۸۶ء کے وسط میں) حضرت اقدس نے انبالہ کا سفر بھی اختیار فرمایا اور قریباً ایک ماہ تک محمد لطیف صاحب کی کوٹھی واقع صد ر انبالہ احاطہ ناگ پھنی میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۵.نومبر ۱۸۸۶ء کو قادیان تشریف لائے.

Page 322

تاریخ احمدیت جلدا ۳۰۳ ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ " سرمہ چشم آر حواشی سرمه چشم آریہ " صفحه ۴-۱ و صفحه ۲۶۰۷۳ طبع اول مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر بعض مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی تالیف و تصنیف تو حضور نے اپریل ۱۸۸۶ء تک مکمل کرلی تھی مگر طباعت کی متعدد مشکلات کے باعث اس کے چھپنے کا کام ستمبر میں ختم ہوا.ان مکتوبات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو آٹھ سورہ پیہ جمع تھاوہ سب رمہ چشم آریہ کی طباعت پر صرف ہو گیا.(الحکم ہے.فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۵) اشاعۃ السنہ جلد ۹ نمبر ۶ صفحه ۱۴۵-۱۵۸ و تراب عبد الحق صاحب ایڈیٹر اہلسنت امر تسر نے اخبار " اہلسنت " (۲۰) فروری دیکم مارچ ۱۹۲۱ء) میں لکھا.حضرت محمد کو اللہ تعالی نے جیسے قرآن مجید خود معجزہ عطا کیا د یسے دیگر معجزات بھی عطا فرمائے تھے جیسے معجزہ شق القمر جس کے متعلق مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مناظرہ پنڈت مرلی دھر سے ہوا تھا جس کی تفصیل " سرمہ چشم آریہ میں موجود ہے اور پنڈت ہی لاجواب ہو گئے تھے اور شکست اٹھائی تھی".(بحوالہ الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۲۱ صفحه ۴) بحوالہ "لائف آف احمد صفحه ۱۲۱ حیات احمد " جلد دوم نمبر سوم صفحه ۲۶۳ " قادیانیت صفحه ۶۲ ۶۳ ( از مولوی سید ابو الحسن علی ندوی) "خبط احمدیہ صفحه ۱۳۴۴ بحوالہ حقیقته الوحی طبع اول صفحہ ۳۱۹) مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۲۰-۲۴

Page 323

تاریخ احمدیت جلدا آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی ماموریت کا چھٹا سال آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی اور تصنیف و اشاعت شحنه حق» (۱۸۸۷ء) آریہ سماج نے ” براہین احمدیہ " اور " سرمہ چشم آریہ " کی اشاعت کے بعد حق و صداقت کی تاب نہ لا کر حضرت مسیح موعود کے خلاف ملک میں مخالفت کی ایک آگ لگادی.پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ " نامی کتاب لکھ کر اس آگ پر تیل کا کام دیا.اور دوسرے آریہ ساجیوں نے لاجواب ہو کر نہایت اشتعال انگیز گندے اور گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہارات اور رسالوں سے ملک کی فضا مکدر کر دی اور یہاں تک بد اخلاقی پر اتر آئے کہ بار بار گمنام خطوط اور اشتہاروں کے ذریعہ سے حضور کو قتل کر دینے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ آریہ سماج کے یہ خونی عزائم دیکھ کر خاموش رہیں چنانچہ آپ نے اس باطل فرقے کی ان جارحانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے مقابل دیدوں کی ماہیت بتانے اور تکذیب براہین احمدیہ " پر اصولی رنگ میں کاری ضرب لگانے کے لئے قلم اٹھایا اور چار پانچ گھنٹہ میں " شحنہ حق ایسی بلند پایہ کتاب تصنیف کردی جس نے آریہ سماج کے عقائد کا قلع قمع کر دیا.حضرت اقدس نے آریہ سماج کی دھمکیوں کا جواب جن ایمان افزا الفاظ میں زیادہ آپ کے زبر دست جوش ایمانی کا پتہ دیتے ہیں آپ نے فرمایا یاد رہے کہ ہم حق کے اظہار میں ایسے اعلانوں سے ہرگز نہیں ڈرتے.ایک جان کیا اگر ہماری ہزار جان ہو تو یہی خواہش ہے کہ اس راہ میں خدا ہو جائے اور گو ہم جانتے ہیں کہ یہ تحریریں کن حضرات کی ہیں اور کن اندرونی اور بیرونی سازشوں اور مشوروں اور با ہم خط و کتابت کے بعد کسی قوی

Page 324

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۰۵ آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی امید سے کسی اسی جگہ کے یہودا اسکر یوطی یا بگڑے ہوئے سکھ کی دم دہی سے جاری کئے گئے ہیں مگر ہمیں کچھ ضرور نہیں کہ مجازی حکام کو اس کی اطلاع دیں.کیونکہ جو کچھ یہ لوگ ہماری نسبت بد ارادے کر رہے ہیں ہمارے حاکم حقیقی کو ان کا علم پہلے ہی سے حاصل ہے.ہم متعجب ہیں کہ ان کی ان تیزیوں کا کیا باعث ہے کیا رام سنگھ کے کوکوں کی روح تو ان میں کہیں گھس نہیں آئی.اے آریو ہمیں قتل سے تو مت ڈراؤ ہم ان ناکارہ دھمکیوں سے ہر گز ڈرنے والے نہیں.جھوٹ کی بیخ کنی ہم ضرور کریں گے اور تمہارے دیدوں کی حقیقت ذرہ ذرہ کر کے کھول دیں گے.نمی ترسیم از مردن چنین خوف از دل انگندیم.که ما مردیم زان روزی که دل از غیر برکندیم دل و جان در ره آن داستان خود فدا کردیم اگر جان ما زما خواهد بصد دل آرزو مندیم صبر و شکیب تو ہمار اشعار ہے مگر ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ دیا نندی فرقہ کی کس قدر خطر ناک پالیسی ہے اور لاجواب ہونے کی حالت میں کیا عمدہ تدبیر سوچ رکھی ہے کہ قتل کی دھمکی دی جائے یوں تو کون شخص ہے کہ ایک دن نہیں مرے گا مگر یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ ایسی دھمکیاں ان لوگوں کے دلوں پر کیا کار گر ہو سکتی ہیں جن کو کتاب الہی نے پہلے ہی سے یہ تعلیم دے رکھی ہے قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِرْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی مخالفین کو کہدے کہ میں جان کو دوست نہیں رکھتا میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا خدا کے لئے ہے وہی مقدار خدا جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے ہاں یہ دھمکیاں ان دلوں پر کارگر ہو سکتی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دنیا نہیں چاہتے کیونکہ اس کی طرح قدیم اور انادی اور غیر مخلوق بنے بیٹھے ہیں اور اس کو اس قابل نہیں سمجھتے.کہ اس حق گزاری کے لائق ہو"."رسالہ قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ" " آریوں کے رسالہ سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن فریب غلام احمد کی کیفیت کو دیکھ کر حضرت اقدس کو خیال ہوا کہ باطل کی سرکوبی کے لئے ایک ماہنامہ جاری کرنا چاہیئے جو ویدوں کے مقابل قرآن مجید کی عظمت و وقعت کا سکہ بٹھارے حضور نے اس کا نام ” قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ" تجویز فرمایا اور "شحنہ حق" میں جون ۱۸۸۷ء سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا اعلان بھی کر دیا لیکن بعد کو یہ تجویز ملتوی کر دی گئی.

Page 325

تاریخ احمدیت.جلدا ہجرت کا ارادہ آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی آریہ سماج کی اس شورش میں چونکہ قادیان کے بعض آریہ سماجی لیکھرام کی شہ پر در پردہ شامل ہو چکے تھے اس لئے حضرت اقدس نے قادیان سے کسی دور کے شہر کی طرف ہجرت کرنے کا قصد کر لیا چنانچہ آپ نے "شحنہ حق میں ہی لکھا ”ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف بنی بلکہ بجزا اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتا.اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ مَنْ بُهَا جِرُ فِي سَبِيلِ اللهِ يَجِدْ فِى الْأَرْضِ مُوا لَمَا كَثِيرًا وَسَعَةٌ يعنی جو شخص اطاعت الہی میں اپنے وطن کو چھوڑے تو خدائے تعالی کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائے گا جن میں بلا حرج دینی خدمت بجالا سکے.سوائے ہم وطنوا ہم تمہیں عنقریب الوداع کہنے والے ہیں ".اس فیصلے کے بعد جب آپ پر مسیح موعود ہونے کا انکشاف کیا گیا تو اگر چہ مخالفت نہایت درجہ منظم شکل اختیار کر گئی اور آپ کو ۱۸ ستمبر ۱۸۹۴ء میں "داغ ہجرت " کا الہام بھی ہو مگر عملاً ہجرت کی نوبت نہیں آئی اور یہ الہام خلافت ثانیہ میں پورا ہوا جب جماعت کے ایک حصے کو ۷ ۱۹۴ء کے ملکی فسادات کے باعث پاکستان میں چلا آنا پڑا.امریکہ میں آپ کی دعوت نشان نمائی کی بازگشت.مسٹر الیگزنڈر رسل وب سے خط و کتابت اور ان کا قبول اسلام ملک اور بالخصوص قادیان میں تو آپ پر یوں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا کہ آپ ہجرت پر آمادہ ہو چکے تھے.مگر فرشتے امریکہ میں سعید روحوں کو آپ کی طرف کھینچ رہے تھے.چنانچہ انہی فتنہ سامانیوں کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ سے عیسائی گروہ کے ایک گر جا کے لاٹ پادری اور امریکہ کے مقبول عام روزنامہ ڈیلی گزٹ کے ایڈیٹر مسٹر الیگزنڈر رسل وب کا حضور کی خدمت میں خط موصول ہوا کہ میں نے اسکاٹ صاحب ہمہ اوستی کے اخبار کے ایک تازہ پرچہ میں آپ کا خط پڑھا جس میں آپ نے ان کو حق دکھانے کی دعوت دی ہے اس لئے مجھ کو اس تحریک کا شوق ہوا.میں نے بدھ اور ہندومت کی بابت بہت کچھ پڑھا ہے اور کسی قدر زردشت اور کنفیوشس کی تعلیمات کا بھی مطالعہ کیا ہے لیکن محمد صاحب کی نسبت بہت کم...میں راہ راست کی نسبت سخت متردد اور حق کا طلب گار

Page 326

تاریخ احمدیت جلدا ۳۰۷ آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی ہوں اور آپ سے اخلاص رکھتا ہوں.اس مراسلہ پر حضور نے انہیں ۱۷- دسمبر ۱۸۸۶ء کو مکتوب لکھا اور پھر با قاعدہ خط و کتابت جاری ہو گئی جس کے نتیجہ میں مسٹر الیگزنڈر دب مسلمان ہو گئے.اور یوں امریکہ کی تاریخ میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی پہلی مہم کا آغاز ہوا.مسٹروب کے اسلام کا جب ہندوستان میں چرچا ہوا تو بیٹی کے متدین مسلمان اور میمن تاجر حاجی عبد اللہ صاحب اشاعت اسلام کے شوق میں ان کے پاس فیلا (فلپائن) پہنچے اور انہیں سفارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر رضامند کر لیا.اور خود واپس آکر ہندوستان کے مشہور مسلم مشنری حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوری D کے ذریعہ سے حیدر آباد میں ایک بھاری جلسہ منعقد کر کے چھ ہزار کا چندہ کیا اور روب صاحب کو استعفیٰ دے کر ہندوستان بلوا بھیجا.وہاں کیا دیر تھی فورا استعفاء دیا بمبئی سے اترے حیدر آباد آئے تو انہوں نے مولوی صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت مرزا صاحب میرے محسن ہیں اور انہی کے طفیل میں مسلمان ہوا ہوں اور ان کی زیارت کرنا چاہتا ہوں.اس وقت چونکہ علماء پنجاب کی مخالفت اور عوام کی شورش شروع ہو چکی تھی اس لئے وب صاحب کو مولوی صاحب اور حاجی صاحب نے یہی رائے دی کہ ایک ایسے بد نام شخص " سے ملاقات کر کے اشاعت اسلام کے کام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.چنانچہ اب صاحب لاہور تک آئے جہاں انہیں بعض لوگوں نے حضرت اقدس سے ملاقات کی ترغیب بھی دلائی مگروہ قادیان میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے بغیر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے امریکہ واپس پہنچے اور تبلیغ کا کام شروع کر دیا.مگر تبلیغ اسلام تو مامور وقت کے روحانی فیض اور اطاعت کی بدولت ہی ممکن تھی.محض مسلمانوں کی مالی اعانت کے بل بوتے پر اس کام میں کیا خیرو برکت ہوتی.نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اعانت کا وعدہ کیا تھا انہوں نے صریح بے رخی اختیار کرلی.اور مسٹر وب اپنے مشن میں ناکام ہو گئے.جس سے ان کے دل پر سخت چوٹ لگی اور حضرت اقدس کی یاد تازہ ہو گئی چنانچہ انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق کے نام ایک خط میں حضرت اقدس کی زیارت سے محرومی پر نہایت ندامت اور شرمساری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا.جب میں ہندوستان گیا تو مجھے یقین تھا کہ مسلم بھائی میری مقدور بھر اعانت کریں گے لیکن جو نہی یہاں کے عیسائیوں کی مخالفت کی خبر ہندوستان پہنچی وہاں کے ” بے ایمان مسلمان " میرے مخالف ہو گئے.اور ہر طرح مجھے تکلیف پہنچانی چاہی.میرے ساتھ جو وعدے انہوں نے کئے تھے ان سب کو بھلا دیا.لیکن اب میری سمجھ میں آیا ہے کہ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا.در اصل بات یہ ہے کہ ان کا مذہبی علم صرف سطحی ہے اگر یہ لوگ میرے ساتھ وفاداری کا تعلق قائم رکھتے.تو باوجو د میری کوششوں کے یہاں بھی اسلام کی ایک ایسی ہی بگڑی ہوئی شکل قائم ہو جاتی جیسی کہ ان لوگوں میں ہے.تاہم یہ

Page 327

تاریخ احمدیت جلد آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی حقیقت ہے کہ اہل امریکہ کو سمجھتے ہیں کہ اسلام عرب میں پیدا ہوا تھا مگر اس کی تعلیم کے لئے ان کی نگاہیں ہندوستان ہی کی طرف اٹھ رہی ہیں اس کے بعد مسٹروب جب تک زندہ رہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان سے عقیدت مند رہے اور آخر دم تک سلسلہ مراسلت جاری رکھا.انہی کے ذریعہ سے امریکہ کے نو مسلم مسٹر اینڈرسن حضرت مفتی صاحب سے خط و کتابت کر کے ۲۶ - ستمبر ۱۹۰۴ء کو داخل اسلام ہوئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا اسلامی نام احمد تجویز فرمایا انہیں حضرت اقدس کی وفات کی خبر سن کر سخت صدمہ ہوا اور انہوں نے لکھا." مرزا صاحب نے ایک بڑا کام پورا کیا اور سینکڑوں کے دلوں میں نور صداقت پھیلایا.جن تک غالبا صداقت کسی طرح نہ پہنچ سکتی تھی...لاریب اس شخص کو خدا تعالٰی نے اس بڑے کام کے واسطے برگزیدہ کیا تھا جو انہوں نے پورا کر دکھایا ہے.اور مجھے اس میں شک نہیں کہ وہ فردوس بریں میں اولیاء و انبیاء کی رفاقت سے لطف اندوز ہونگے".ایسے عظیم الشان اور نیک انسان کی وفات غمگین کرنے والی ہے لیکن چونکہ وہ اپنا کام ختم کر چکے تھے قادر مطلق کی مرضی یہی تھی کہ ان کی دنیوی زندگی ختم ہو.انہوں نے ایک عظیم الشان کام کیا ہے اس لئے ان کا اجر بھی عظیم الشان ہو گا".حضرت مولانا حسن علی کے بیان کردہ واقعات ہندوستان کے مشہور مسلم مشنری حضرت مولوی حسن علی نے اپنی کتاب " تائید حق" میں مسٹر محمد الیگزینڈ روب اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کے ابتدائی حالات لکھے ہیں جن کا یہاں درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.آپ لکھتے ہیں." حاجی عبد اللہ عرب ایک میمن تا بز ہیں جو کلکتہ میں تجارت کرتے تھے.جب اللہ تعالٰی نے لاکھ دو لاکھ کی پونجی کا ان کو سامان کر دیا تو ہجرت کر کے مدینہ میں جائے.وہاں باغوں کے بنانے میں بہت کچھ صرف کیا.بہت عمدہ عمدہ باغ تیار تو ہو گئے.لیکن عرب کے بدوؤں کے ہاتھوں پھل ملنا مشکل.آخر بیچارے پریشانی میں مبتلا ہو گئے.جدہ میں آکر ایک مختصری پونچی سے تجارت شروع کر دی بمبئی سے تجارتی تعلق ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں بھی کبھی کبھی آجاتے ہیں.یہ بزرگ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مومن ہے.اللہ نے اس شخص کو مادر زاد ولی بنایا ہے.اس کمال و خوبی کا مسلمان میری نظروں سے بہت ہی کم گزرا.مثل بچوں کے دل گناہوں سے پاک وصاف - خدا پر بہت ہی بڑا تو کل ہمت نہایت بلند - مسلمانوں کی خیر خواہی کا وہ جوش کہ صحابہ یاد آجائیں.اے خدا اگر عبد اللہ عرب کے سے پانچ سو مسلمانوں کی جماعت بھی تو قائم کر دے تو ابھی مسلمانوں کی دنیا ہی بدل جائے.خدا نے اپنے فضل وکرم سے مجھ کو بھی کچھ تھوڑا سا جوش

Page 328

تاریخ احمدیت.جلدا ٣٠٩ آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی اہل اسلام کی خیر خواہی کا عنایت فرمایا ہے.لیکن جب میں عبد اللہ عرب کے جوش پر غور کرتا ہوں تو سر نیچا کر لیتا ہوں مجھ کو عبد اللہ عرب کے ساتھ بڑا نیک ظن ہے اور وہ بھی مجھے محبت سے ملتے ہیں مجھ کو عبد اللہ عرب کے ساتھ رہنے کا عرصہ تک موقعہ ملا ہے اگر میں ان کی روحانی خوبیوں کو لکھوں تو بہت طول ہو جائے گا.اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس آخری زمانہ میں بھی اس قسم کے مسلمان موجود ہیں.مکہ معظمہ میں نہر زبیدہ کی اصلاح کے لئے قریب چار لاکھ روپیہ چندہ ایک عبد اللہ عرب صاحب کی کوشش سے جمع ہوا تھا.بمبئی میں عبداللہ عرب صاحب نے الیگزنڈر رسل وب سفیر امریکہ کے مسلمان ہونے کا حال سنا تو فوراً انگریزی میں خط لکھوا کر وب صاحب کے پاس روانہ کیا.وب صاحب نے بھی ایسے ہی گرم جوشی کے ساتھ جواب دیا.اور خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ کسی طرح فیلا آسکتے ہیں تو امریکہ کے کام میں کچھ صلاح و مشورہ کیا جاتا.حاجی عبداللہ عرب صاحب کو حضرت پیرسید اشہد الدین جھنڈ یو الے سے بیعت ہے شاہ صاحب کی بڑی عظمت عبد اللہ عرب کے دل میں ہے.مجھ سے اس قدر تعریف ان کی بیان کی ہے کہ مجھ کو بھی مشتاق بنا دیا ہے کہ ایک بار پیر سید اشہد الدین صاحب کی ملاقات ضرور کروں.جب کوئی اہم کام پیش ہوتا ہے تو حاجی عبد اللہ عرب صاحب اپنے پیرو مرشد سے صلاح ضروری لے لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے مرشد سے میلا جانے کے بارے میں استفسار کیا.استخارہ کیا گیا شاہ صاحب نے کہا کہ ضرور جاؤ.اس سفر میں کچھ خیر ہے عبد اللہ عرب صاحب نے مجھ کو خط لکھا کہ تو بھی میلا چل.میں انگریزی نہیں جانتا اور وب صاحب اردو نہیں جانتے ایک مترجم ضروری ہے.اور ایک نو مسلم سے ملنا ہے نہ معلوم کہ اس بیچارے کو دین اسلام کے بارے میں کیا کچھ پوچھنے کی حاجت ہو.میں اس زمانہ میں کٹک میں تھا.کلکتہ میں حاجی صاحب میرا بہت انتظار کرتے رہے.مسلمانان کٹک نے مجھ کو جلد رخصت نہ دی آخر وہ ایک یوریشین نو مسلم کو لے کر منیلا چلے گئے.اس سفر میں حاجی صاحب کا ہزار روپیہ سے بالا صرف ہوا.وب صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ بات طے پائی کہ اب صاحب سفارت کے عمدہ سے استعفیٰ داخل کریں اور اشاعت اسلام کے لئے حاجی عبداللہ عرب صاحب چندہ جمع کریں.حاجی صاحب نے ہندوستان واپس آکر مجھ سے ملاقات کی اور میرے ذریعہ سے ایک جلسہ حیدر آباد میں قائم ہوا.جس میں چھ ہزار روپیہ چندہ بھی جمع ہوا.لیکن میں نے حاجی صاحب سے کہدیا کہ ابھی دب صاحب کو عمدہ سے علیحدہ ہونے کو نہ لکھو جب تک چندہ پورا جمع نہ ہوئے.حاجی صاحب نے اپنے جوش میں میری نہ سنی اور بمبئی سے تار دیا کہ سب ٹھیک ہے تم نوکری سے استعفاء داخل کردو.چنانچہ اب صاحب نے ویسا ہی کیا اور ہندوستان آئے.میں بمبئی سے ساتھ ہوا.بمبئی - پونہ - حیدر آباد اور مدارس ساتھ رہا.حیدر آباد میں وب صاحب نے مجھ سے کہا

Page 329

تاریخ احمدیت.جلدا آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی که جناب مرزا غلام احمد صاحب کا مجھ پر بڑا احسان ہے انہی کی وجہ سے میں مشرف باسلام ہوا.میں ان سے ملنا چاہتا ہوں.مرزا صاحب کی بدنامی کا جو قصہ میں نے سنا تھا ان کو سنایا - وب صاحب نے مرزا صاحب کو ایک خط لکھوایا جس کا جواب آٹھ صفحوں کا انہوں نے لکھا.اور مجھ کو لکھا کہ لفظ بلفظ ترجمہ کر کے وب صاحب کو سنا دیتا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.وب صاحب نہایت شوق و ادب کے ساتھ حضرت اقدس کا خط سنتے رہے.خط میں حضرت اقدس نے اپنے اس دعوی کو معہ دلیل کے لکھا تھا پنجاب کے علماء کی مخالفت اور عوام بہ ، شورش کا تذکرہ تھا.حضور نے یہ بھی لکھا تھا کہ مجھ کو بھی تم سے (یعنی وب صاحب سے ملنے کی بڑی خواہش ہے.وب صاحب ، حاجی عبد اللہ عرب اور میری ایک کمیٹی ہوئی کہ کیا کرنا چاہیئے.رائے کہی ہوئی کہ مصلحت نہیں ہے کہ ایسے وقت میں کہ ہندوستان میں چندہ جمع کرتا ہے ایک ایسے بد نام شخص سے ملاقات کر کے اشاعت اسلام کے کام میں نقصان پہنچایا جائے اب اس بد فیصلہ پر افسوس آتا ہے اب صاحب لاہور گئے تو اسی خیال سے قادیان نہ گئے لیکن بہت بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک شخص نے اب صاحب سے پوچھا کہ آپ قادیان حضرت مرزا صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتے تو انہوں نے یہ گستاخانہ جواب دیا کہ قادیان میں کیا رکھا ہوا ہے.لوگوں نے وب صاحب کے اس نا معقول جواب کو حضرت اقدس تک پہنچا بھی دیا غرض ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کر کے رب صاحب تو امریکہ جا کر اشاعت اسلام کے کام میں سرگرم ہو گئے.دو ماہ تک میں وب صاحب کے ساتھ رہا.وب صاحب حقیقت میں آدمی معقول ہے اور اسلام کی سچی محبت اس کے دل میں پیدا ہو گئی ہے.مجھ سے جہاں تک ہو سکا ان کے معلومات بڑھانے خیالات کج کو درست کرنے اور مسائل ضروری کی تعلیم میں کوشش کی اور شیخ محمد میرا ہی رکھا ہوا نام ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا ویسا ہوا.ہندوستان کے مسلمانوں نے چندہ کا وعدہ تو کیا لیکن ادا ہو تا ہوا کہیں سے نظر نہیں آتا تھا.حاجی عبد اللہ عرب صاحب نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے لیکن نرود میخ آہنی در سنگ.لاکھوں روپیہ خلاف شرع شریف خرچ کرنے میں مسلمان مستعدد سرگرم ہی رہے اور اس بہت بڑے کام میں کچھ بھی نہ دیا.صرف رنگوں اور حیدر آباد دکن سے تو کچھ کیا گیا.کل روپے جو میرے خیال میں بھیجے گئے وہ میں ہزار ہوں گے جس میں حاجی عبداللہ صاحب عرب کا سولہ ہزار ہو گا.بیچاره غریب حاجی اس نیک کام میں پس گیا.جب حاجی عبد اللہ عرب صاحب چندہ کے فراہم نہ ہونے سے سخت بے چینی میں مبتلا ہوئے.تو اپنے پیر کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت سید اشہد الدین صاحب کی خدمت میں جاکر عرض کیا حضرت پیر صاحب نے استخارہ کیا.معلوم ہوا کہ انگلستان اور امریکہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے

Page 330

تاریخ احمدیت.جلدا Fll آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی روحانی تصرفات کی وجہ سے) اشاعت ہو رہی ہے ان سے دعا منگوانے سے کام ٹھیک ہو گا.دوسرے دن حاجی صاحب کو پیر صاحب نے خبر دی اس پر حاجی صاحب نے بیان کیا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب کی علماء پنجاب و ہند نے تکفیر کی ہے ان سے کیونکر اس بارہ میں کہا جائے اس بات کو سن کر شاہ صاحب نے بہت تعجب کیا اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور استخارہ کیا خواب میں جناب حضرت محمد مصطفیٰ اس کو دیکھا اور حضور نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد اس زمانہ میں میرا نائب ہے وہ جو کہے وہ کرو.صبح کو اٹھ کر شاہ صاحب نے کہا کہ اب میری حالت یہ ہے کہ میں خود مرزا صاحب کے پاس چلوں گا.اور اگر مجھے کو امریکہ جانے کو کہیں تو میں جاؤں گا.جب کہ حاجی عبد اللہ عرب صاحب نے اور وی کرے صاحبوں نے خواب کا حال سنا اور پیر صاحب کے ارادہ سے واقف ہوئے تو مناسب نہ سمجھا کہ پیر صاحب خود قادیان جائیں سب نے عرض کیا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں آپ کی طرف سے کوئی دوسرے صاحب مرزا صاحب کے پاس جاسکتے ہیں چنانچہ پیر صاحب کے خلیفہ عبد اللطیف صاحب اور حاجی عبد اللہ عرب صاحب قادیان گئے اور سارا قصہ بیان کر کے خواستگار ہوئے کہ حضرت اقدس اس طرف متوجہ ہوں تا کہ اشاعت اسلام کا کام امریکہ میں عمدگی سے چلنے لگے.بیان مذکورہ بالا میں نے خود حاجی عبد اللہ عرب صاحب سے سنا ہے اور جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں حاجی صاحب کو میں ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا باخدا آدمی سمجھتا ہوں اس لئے اس خبر کو جھوٹ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جس حالت میں مرزا صاحب ایک بد نام شخص ہو رہے ہیں اور جھنڈے والے پیر صاحب ایک نامی آدمی ہیں عبد اللہ عرب صاحب کوئی وجہ نہیں ہے کہ اپنے مرشد کے بارے میں ایک ایسا قصہ تصنیف کریں جس سے ظاہرا ان کا نقصان ہی نقصان ہے حاجی عبد اللہ عرب صاحب سے مجھ کو ایک اور عجیب بات معلوم ہوئی کہ قسطنطنیہ میں سید فضل صاحب ایک باکمال بزرگ رہتے ہیں جن کو سلطان روم بہت پیار کرتے ہیں.سید فضل صاحب کے بزرگوں میں ایک شیخ گزرے ہیں جو صاحب کشف و کرامات تھے وہ اپنے ملفوظات میں لکھ گئے ہیں کہ آخری زمانہ میں مہدی علیہ السلام تشریف لادیں گے اور مغربی ملکوں میں ایک بہت بڑی قوم گورے رنگ والی حضرت مہدی علیہ السلام کی بڑی معین و مددگار ہو گی.اور وہ سب داخل اسلام ہوگی.واللہ اعلم بالصواب "- سفر انبالہ جون ۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین (نور اللہ مرقدہا) کی والدہ ماجدہ کی شدید بیماری کی خبر سن کر بغرض عیادت انبالہ چھاؤنی تشریف لے گئے.قادیان سے انبالہ

Page 331

تاریخ احمدیت.جلدا آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی جاتے ہوئے حضور اہل و عیال سمیت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان پر ایک رات ٹھہرے تھے اور مولوی صاحب نے حضرت اقدس اور آپ کے اہل بیت کی پر تکلف دعوت بھی کی تھی تصدیق براہین احمدیہ کی تصنیف پنڈت لیکھرام کی کتاب " مذیب براہین احمدیہ " کا ذکر اوپر آچکا ہے چونکہ اس اشتعال انگیز کتاب کی تالیف و اشاعت میں ہندوؤں نے سرگرم حصہ لیا تھا.اور ہر طرف مسلمانوں کے خلاف جوش پھیل گیا تھا اس لئے اس کتاب کا تدارک از بس ضروری تھا.حضور دوسری خدمات دینیہ میں مصروف تھے جواب کے لئے حضرت اقدس کی نظر انتخاب حضرت مولانانور الدین پر پڑی.چنانچہ حضور نے انہیں اس کی تحریک کرتے ہوئے ۲۶ - جولائی ۱۸۸۷ء کو لکھا " آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمتہ الاسلام کے لئے فکر میں ہے.وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے".اس ارشاد پر مولانا نے تصدیق براہین احمدیہ " ایسی لاجواب کتاب کی تصنیف فرمائی جو ۱۸۹۰ء میں شائع ہوئی.۱۵

Page 332

تاریخ احمدیت.جلدا آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی حواشی ۲۷- جولائی ۱۸۸۶ء کا ایک اشتہار جو مطبع چشمہ نور افشاں امرتسر میں چھپا اس کا عنوان تھا " بیل نہ کو داکو دی گون".ایک رسالہ کا عنوان تھا " سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن غریب غلام احمد کی کیفیت " (بحوالہ "شحنه حق " صفحه ۲ طبع دوم) (ترجمہ اشعار) ہم موت سے نہیں ڈرتے ہم نے ایسا خوف دل سے نکال دیا ہے ہم تو اسی دن سے مر چکے ہیں جس دن سے ہم نے غیر سے اپنا دل ہٹا لیا ہے ہم نے اس پیارے (خدا) کی راہ میں جان دول خد ا کر دیا اگر وہ ہماری جان بھی مانگے تو ہم شوق سے حاضر کر یا ہے ہم نے دیں گے.شحنه حق صفحه ۴۰۳ حاشیه (طبع دوم) "شحنه حق صفحهج تحمید الاذہان جون و جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۴ "شحنه حق مشهور ہے.مسٹر محمد الیگزنڈر رب کی مختصر سوانح حیات - ۱۸۴۶ء میں امریکہ کے شہریڈ سن علاقہ نیو یارک میں پیدا ہوئے.والد ایک م صحافی اور ملکی اخبار کے مدیر تھے اس لئے کالج کی تعلیم کے بعد صحافت ہی کے میدان کا انتخاب کر کے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا اور جلد ہی قبولیت عامہ کی سند حاصل کی اور مشہور روزنامہ " جوزف مسوری ڈیلی گزٹ کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی گئی اس کے بعد کئی اور اخبارات ان کے سپرد ہوئے اور پھر اب صاحب کی سیاسی قابلیت اور علمی شہرت ولیاقت کی یہاں تک دھوم مچی کہ حکومت امریکہ نے انہیں فلپائن میں اپنا سفیر مقرر کر دیا.۱۸۷۲ء میں وہ عیسائیت سے برگشتہ ہو گئے اور برسوں لادینی کی حالت میں رہے دنیا کے مختلف مذاہب مثلا بدھ مت وغیرہ کا مطالعہ کیا مگر کہیں تسلی نہیں ہوئی اسی زمانے میں حضور کا انگریزی اشتہار ملا جب داعی حق کی یہ آواز سنی تو امید کی کرن دیکھ کر حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع کر دی اور بالاخر اسلام لے آئے.(ماخوذ از رساله " تائید حق " صفحه ۸۳-۸۴ طبع سوم مرتبہ مولانا حسن علی) ولادت ۲۲ اکتوبر ۱۸۵۲ء وفات ۴۱۸۹۶ - ۳۱۳ اصحاب کہار میں آپ کا نام 41 نمبر پر درج ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ وال سے آپ کے متعلق ایک دفعہ فرمایا."مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری گریجوایٹ نہ تھے مگر انگریزی کی ان میں اتنی قابلیت تھی کہ ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے تھے اور ان کی تقریر سنتے تھے وہ اسی طرح بغیر کسی معاوضہ کی دین کی خدمت کے لئے پھرتے تھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے لئے بطور شاہد کے تھے".(الفضل ۳.جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ سے کالم نمبر) نیز فرمایا.انہوں نے ایک کتاب " تائید حق بھی لکھی ہے.جو نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے.میں نے ایک دفعہ اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا.تو میں اس وقت تک سویا نہیں جب تک کہ میں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کر لیا.مولوی صاحب شروع شروع میں ایمان لائے پھر احمد بیت کی تبلیغ کے لئے ملک کے مختلف علاقوں میں پھرتے ہے".(الفضل 11 جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۱۳ کالم ۴) پروفیسر آرنلڈ نے اپنی کتاب The Preaching of Talam (اشاعت اسلام صفحہ ۲۸۳) میں اخبار مسلم کرانیکل (۴) اپریل ۱۸۹۶ء) کے حوالہ سے ان کی مختصر سوانح بھی درج کی ہے اور ان کی شاندار تبلیغی خدمات کا تذکرہ کیا ہے.۹ ذکر حبیب " صفحه ۳۸۱ تا ۳۹۰ از حضرت مفتی محمد صاق صاحب ) ترجمه مکتوب ۳۰- اگست و ۳- ستمبر ۱۹۰۸ء ( حوالہ "حیات احمد " جلد دوم نمبر ۳ صفحه ۲۰۷-۲۰۸) یہ پیر صاحب ضلع حیدر آباد سندھ تحصیل ہالہ میں رہتے ہیں ان کے لاکھوں لاکھ مرید ہیں اور علاقہ سندھ میں لوگ ان کی بڑی قدر کرتے ہیں ان کی کرامات بزرگی کے سب قائل ہیں.منہ و تائید حق " صفحه ۸۴-۸۹ ( طبع سوم) سوال کف آن احمد صفحه ۱۲۴ "مسيرة المهدی حصہ دوم صفحه ۹۵

Page 333

تاریخ احمدیت.جلدا م اسم ۱۵ حیات احمد " جلد دوم نمبر سوم ۲۰۹ صفحه ۲۱۰ آریہ سماج کا طوفان بے تمیزی نکو در ضلع جالندھر کے ایک عرائض نویس شہاب الدین غوری نے بھی اس کے جواب میں ایک کتاب تائید براہین احمدیہ " لکھی جو ۱۸۹۱ء میں قیصری پریس جالندھر سے طبع ہوئی.( " لائف آف احمد " صفحہ ۱۲۴)

Page 334

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۱۵ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمربی نشان ماموریت کا ساتواں سال حضرت اقدس مسیح موعود کے جدی خاندان متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قهری نشان (۱۸۸۸ء) مولوی محمد امام الدین صاحب سے خط و کتابت منٹگمری میں ایک صاحب مولوی محمد امام الدین "فاتح الكتاب المسين" ہوتے تھے جو مسلمانوں میں یہ ملحدانہ عقیدہ پھیلانے میں مصروف رہتے تھے کہ قرآن شریف سے قبل کی آسمانی کتابیں ہنوز قابل عمل ہیں اور قرآن شریف کے نزول سے منسوخ نہیں ہو ئیں.اس سلسلہ میں انہوں نے بعض اہل اسلام کی تحریک پر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی ۲۲ - اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک خط لکھا.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ۲۸ - اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں آپ نے اس فتنہ انگیز خیال کی تردید میں لکھا.”میری دانست میں آپ نے ایک ایسا فضول اور بے بنیاد دعوئی اپنے ذمہ لے لیا ہے جس کا ثبوت آپ کے لئے محال اور ممتنع ہے.بینات قرآنی سے آپ کیوں بھاگتے ہیں.کیا کبھی قرآن شریف کی تلاوت کا بھی اتفاق نہیں ہوا.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةَ فِيهَا كُتُب قيمة.سو جس حالت میں اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے کہ تمام پاک صداقتیں جو پہلی کتابوں میں تھیں اس کتاب میں درج ہیں تو آپ ایسی جامع کتاب کو کیوں نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں آپ کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ چند پاک صداقتیں کسی پہلی کتاب کی جو آپ کے گمان میں قرآن شریف میں نہیں پائی جاتیں اس عاجز کے سامنے پیش کریں پھر اگر یہ عاجز قرآن شریف سے وہ صداقتیں دکھلانے میں قاصر رہا تو آپ کا دعویٰ خود بخود ثابت ہو جائیگا کہ ایسی ضروری

Page 335

تاریخ احمدیت.جلد ۳۱ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان اور پاک صداقتیں قرآن شریف میں نہ پائی گئیں.ورنہ آپ کو اس غایت درجہ کی بے ادبی سے توبہ کرنی چاہیئے کہ جس کتاب کا نام اللہ جل شانہ نے جامع الکتاب اور نور مبین رکھا ہے آپ اس کتاب کو ناقص ٹھراتے ہیں " n اگلے سال ۳۰ ستمبر ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس نے ان کے نام ایک اور مکتوب میں بائیل کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا."انجیل اور توریت کی حالت کی نسبت یہ آیت نہایت موزون معلوم ہوتی ہے.وَاتْعُهُمَا اكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِکا انہوں نے اپنی قوم کو جن کے ہاتھ میں صد ہا سال سے یہ کتابیں ہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے.جو آپ کو بھی پہنچا ئیں گی جن کے گندے اور غیر مہذب بیانات کے بڑے فاضل انگریز جان پورٹ ولا ئل وغیرہ جیسے قائل ہو گئے ہیں آپ نے ان میں کیا دیکھ لیا کہ آپ قائل نہیں ہوتے.خداتعالی رحم کرے ".حضرت اقدس کے ان زبر دست دلائل سے مولوی امام الدین صاحب دم بخود رہ گئے.آریہ قوم پوری آپ کے جدی خاندان کی طرف مخالفین اسلام کی پشت پناہی بے حجابی سے ہے.آنحضرت ا اسلام اور آپ کے خلاف دشنام طرازی اور گندہ دہنی کا مظاہرہ کر رہی تھی کہ عیسائی پادری سستی شہرت کی خاطر میدان مقابلہ میں اتر آئے.حضور نے نشان نمائی کا جو چیلنج دے رکھا تھا چونکہ مسیحی دنیا اس کے جواب سے بالکل عاجز اور بے بس تھی.اس لئے وہ آپ کے دعوی الہام و کلام پر تنقید کر کے اسلام کی سچائی مخدوش ثابت کرنے کے لئے کسی موزوں موقعہ کی تلاش میں تھی.جو مئی ۱۸۸۸ء میں حضور کے نام نہاد خاندان نے پیدا کر دیا.جیسا کہ اوپر اشارہ ذکر آچکا ہے کہ حضرت اقدس کے چازاد بھائی مرز انظام الدین امام الدین اور ان کے لگے بندھے احمد بیگ وغیرہ اسلام کے بدترین مخالف تھے.اور رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات بلکہ گندی گالیوں کا استعمال ان لوگوں کا عام شیوہ ہو چکا تھا.ہر نوع کی رسوم قبیحہ کے خوگر ، عقائد باطلہ کے عاشق اور بدعات شنیعہ میں مستغرق رہنے کو فخر محسوس کرتے تھے اور اسلام کے معاندین کی صف اول میں شامل تھے.وہ خدا جس نے صنم کدوں سے کھجے کے پاسبان پیدا کر ڈالے اس نے اس زمانہ میں بھی کفر کے اس گہوارہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا.اور دیگر تمام مذاہب پر اسلام کو ابدی غلبہ بخشنے کے لئے آپ کو خلعت ماموریت سے سرفراز فرمایا.جس پرید ظالم آتش زیر پا ہو کر آپ کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوئے.اور نہ صرف آپ کو ایک مکار اور فریبی قرار دیا.بلکہ یہاں تک کہا کہ ہم کسی کلام کرنے والے یا قضاء و قدر کے مالک اور وحی کنندہ خدا کو نہیں جانتے.یہ محض ڈھونگ اور مکرو فریب ہے جو شروع سے چلا آیا ہے اور قرآن محمد )

Page 336

تاریخ احمدیت.جلدا کی تصنیف ہے خدا کا الہام نہیں ہو سکتا.۳۱۷ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق تهری نشان ایک روح فرسا واقعہ یہ بد زبانیاں پورے زوروں پر تھیں کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں روتا چلاتا پہنچا.حضرت اقدس نے گبھرا کر پوچھا کہ کیا کسی فوت شدہ کی خبر آئی ہے ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر.چنانچہ اس نے بتایا کہ میں ان عدوان دین کے پاس تھا کہ ان میں سے ایک بد بخت نے آنحضرت ﷺ کی شان مبارک میں وہ گندے الفاظ استعمال کئے کہ ایسے کلمات کسی کافر سے بھی نہیں سنے گئے.یہی نہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی شان اقدس میں بھی قبیح الفاظ کے اور قرآن مجید کو نہایت بے دردی سے اپنے پاؤں تلے روند کر بے حرمتی کی.حضرت اقدس نے اسے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی ان کے پاس بیٹھنے سے منع کیا تھا.پس خدا سے ڈرو اور توبہ کرو - پھر ان کی خدا نا ترسی کی انتہا یہ ہوئی کہ ان کی شوخی اور بد زبانی کا حلقہ نشان نمائی کا مطالبہ پرائیویٹ مجالس سے نکل کر پبلک کے اخبارات تک وسیع ہو گیا.چنانچہ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.وہ حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر ہندوؤں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے لیکھرام کو خود بلا کر قادیان لائے اور سخت فتنہ کھڑا کیا اور اگست ۱۸۸۸ء میں اخبار " چشمہ نور امرتسر" سے آپ کے خلاف ایک انتہائی دل آزار اور زہریلا خط بھی شائع کیا جس میں انہوں نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں نہایت بے باکی کے ساتھ اپنے متعلق نشان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اسی نشان کو نشان قرار دیں گے جو اللہ تعالیٰ ان کی ذات کے متعلق ظاہر کرے گا.یہ خط چونکہ آنحضرت اور قرآن مجید کے خلاف گالیوں سے پر تھا.اس لئے ہندستان کے غیر مسلموں بالخصوص عیسائیوں نے اسے خوب اچھالا اور ملک کے طول و عرض میں بڑے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی.حضرت مسیح موعود کی دعا اور الہی خبر اسلام کے خلاف اپنے رشتہ داروں کی یہ منتظم مخالفت دیکھ کر حضور کو شدید تکلیف پہنچی.اشتہار کے ایک ایک لفظ سے شرارت ٹپکتی تھی.اور مضمون اتنا گندہ تھا کہ آسمان پھٹ جاتا تو بعید نہ تھا اور جسے اسلام کا کوئی ادنی ہمدرد بھی پڑھتا تو قطعا برداشت نہ کر سکتا.پھر آپ جو عظیم ترین عاشق رسول تھے وہ کیونکر برداشت کر سکتے.چنانچہ جو نہی حضور نے یہ اشتہار دیکھا آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.آپ نے دروازہ بند کر لیا اور آہ و بکا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئے اور یہ پر زور دعا کی کہ اے رب ! اے رب ! اپنے بندے کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے اے میرے رب میری التجا سن اور اسے قبول فرمایہ کب تک تیرا اور تیرے رسول

Page 337

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۱۸ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قبری نشان کا مذاق اڑائیں گے.کہاں تک تیری کتاب کی تکذیب کریں گے اور تیرے نبی ا کو گالیاں دیتے رہیں گے.اے ازلی ابدی اے مددگار خدا میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں".اللہ تعالٰی نے یہ گریہ وزاری سن کر آپ کو الہاما بتایا کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی ہے میں ان پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کر دونگا.اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں.میں ان کی عورتیں بیوہ ان کے بچے یتیم اور ان کے گھرویران کر ڈالوں گا.اور اس طرح وہ اپنی باتوں اور کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے.لیکن میں انہیں یکایک ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجا پکڑوں گا تا انہیں رجوع اور تو بہ کا موقعہ ملے.میری لعنت ان پر ان کے گھروں پر ان کے چھوٹوں اور بڑوں پر ان کی عورتوں اور مردوں پر (بلکہ) ان کے گھر میں داخل ہونے والے مہمان پر بھی نازل ہوگی.اور ان تمام پر لعنت بر سے گی اور صرف انہی لوگوں پر رحم کیا جائے گا جو ایمان لائیں.مناسب حال عمل کریں.ان سے تعلقات منقطع کرلیں.اور ان کی مجالس سے کنارہ کش ہو جائیں".اس کے بعد سفر ہوشیار پور میں آپ کو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا احمد بیگ کی خواشد امن کے متعلق الہام ہوا.رَنَيْتُ هَذِهِ الْمَرْأَةَ وَاثَرَ الْبُكَاءِ عَلَى وَجْهِهَا فَقُلْتُ أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُوبِى تُو بِي فَانَّ الْبَلاء عَلى عَقِبِكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِلَابُ مُتَعَدِدَةٌ.أ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدا کا یہ انذاری پیغام اصولی رنگ میں اپنے رشتہ داروں تک پہنچا دیا.لیکن وہ تو بہ کرنے کی بجائے اور زیادہ خود سری پر اتر آئے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ ہم انہیں رلانے والے نشانات دکھا ئیں گے اور ان پر عجیب و غریب هموم و امراض نازل کریں گے.ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیں گے وہ پے در پے آفات کا نشانہ بنیں گے اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہو گا.چنانچہ ان کی تباہی کے موعودہ آثار شروع ہو گئے خدا تعالٰی نے مختلف غموں اور قرضوں کے بوجھ سے ان کی کمریں تو ڑ دیں.موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیے.اور وہ قسم قسم کے مصائب میں گھر گئے یہ حالت دیکھ کر بھی یہ بد زبان باز نہ آئے.بلکہ ان کے دلوں کی کجی میں اور بھی اضافہ ہو گیا.اب آسمانی قضاء کے نزول کا وقت بالکل قریب آگیا اور بظا ہر کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں تھی مگر خد اتعالیٰ نے جو محض ان کے رجوع اور توبہ کی غرض سے اپنے عذاب میں تاخیر فرمائی.اس میں اپنی صفت رحیمیت کے تحت ایک آخری اور مشروط مگر عجیب صورت پیدا کر دی.

Page 338

تاریخ احمدیت جلدا ۳۱۹ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان مرزا احمد بیگ کی دختر محمدی بیگم سے متعلق خدائی تحریک یہ لوگ اسلامی تعلیم کے خلاف اور ہندو تہذیب کے زیر اثر یہ خیال کرتے تھے کہ کسی لڑکی کا اس کے غیر حقیقی یعنی رشتہ کے ماموں سے نکاح حرام ہے اور صاف کہتے تھے کہ ہمیں اسلام اور قرآن سے کچھ غرض نہیں.نیز وہ آنحضرت ا سے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کے نکاح پر بھی سخت معترض تھے.وہ خدا جس نے تبنیت کی رسم مٹانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ زید کی مطلقہ بیوی کو اپنے نکاح میں لائیں.اسی طرح یہ رسم مٹانے کے لئے کہ کسی لڑکی کا غیر حقیقی ماموں سے نکاح حرام ہے اس نے آنحضرت ا کے حقیقی خادم حضرت مرزا غلام احمد کو بھی یہ حکم دیا کہ آپ مرزا احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی محمدی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کریں اور اس سے کہہ دیں کہ تمام سلوک و مردت تم سے اس شرط پر کیا جائے گا.اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں.لیکن اگر انحراف کیا.تو اس کا دوسری جگہ نکاح نہ لڑکی کے لئے مبارک ثابت ہو گا نہ تمہارے لئے اور اگر تم باز نہیں آؤ گے تو کئی مصیبتیں تمہارے خاندان پر وارد ہوں گی اور آخری مصیبت تیری موت ثابت ہو گی تو نکاح کے تین سال کے اندر اندر مر جائے گا.تو غافل ہے مگر تیری موت تیرے قریب ہی منڈلا رہی ہے اسی طرح تیری لڑکی کا خاوند بھی اڑھائی سال کے اندراندر لقمہ اجل بن جائے گا.اور ان دونوں کی موت کے بعد ہم یہ لڑکی آپ کی طرف واپس لائیں گے.رو سری شادی اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے آپ کو ناگوار خاطر تھی.اور آپ نے ابتداء ہی سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ " کیساہی موقعہ پیش آوے جب تک اللہ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جاؤں تب تک کنارہ کش رہوں کیونکہ تعدد ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں.اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہی لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جل شانہ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اٹھانے کے لئے مامور کرتا ہے.تب اس میں بجائے مکروہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں".لیکن اب جو یہ خدائی تحریک ہوئی تو حضور نے محض خدائی حکم کی تعمیل کے لئے مرزا احمد بیگ کو خط لکھا جس میں آپ نے الہی حکم پہنچاتے ہوئے لکھا کہ میں یہ مکتوب اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالی کے حکم سے لکھ رہا ہوں اسے محفوظ رکھو کہ یہ صددق و امین خدا کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ میں اس بارہ میں سچا ہوں اور جو کچھ میں نے وعدہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور میں نے

Page 339

تاریخ احمدیت جلدا ۳۲۰ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان از خود نہیں کہا بلکہ خدائے تعالٰی نے الہام کے ذریعہ سے مجھ سے کہلوایا.اور یہ میرے رب کا حکم تھا سو میں نے پورا کر دیا.مجھے تیری اور تیری بیٹی کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ مجھ پر کوئی تنگی ہے اور عورتیں تیری بیٹی کے علاوہ بہت ہیں.اور اللہ تعالی صالحین کا والی ہے.پس اگر مدت مقررہ گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو.(یعنی تمہاری موت دکھ وغیرہ ظاہر نہ ہوں تو میری گردن میں رسی اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا اور مجھے وہ دکھ دینا جو کسی کو نہ دیا گیا ہو تم نے خدا تعالیٰ سے نشان طلب کیا تھا.پس یہ تمہارے لئے خدا کا نشان ہے.پیشگوئی کا پبلک حیثیت اختیار کرنا اس مرحلے پر مرزا احمد بیک اور اس کے دست راست مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کی مخالفت انتہا تک پہنچ گئی اور مرزا نظام الدین نے حضرت اقدس کا پہلا خط جو محض پر ائیو بٹ رنگ میں تھا عیسائیوں کے اخبار نور افشان (۱۰- مئی ۱۸۸۸ء) میں شائع کرا دیا جس سے اس پیشگوئی کو ایک پبلک حیثیت حاصل ہو گئی.حالانکہ حضرت اقدس نے محض خط پر ہی اکتفاء فرمایا تھا اور آپ کو ان کی دل شکنی کے خیال سے اسے پبلک میں لانے کا خیال تک بھی نہیں تھا.نور افشاں" کا طوفان بے تمیزی اس خط کا ہاتھ آنا تھا کہ عیسائیوں نے (جو اسلام اور حضرت اقدس کا جواب کے زندہ مذہب ہونے کے متعلق آپ کے چیلنج سے تنگ آکر کسی موقعہ کی تلاش میں تھے) اس کی آڑ میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا.خود ایڈیٹر اخبار نورافشاں نے اس پر عجیب طرح کی زبان درازی کی.اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا.اور تعدد ازدواج کو زنا اور حرامکاری قرار دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۰.جولائی ۱۸۸۸ء کو اشتہار شائع فرمایا.جس میں " نور افشاں " کی بد لگائی پر بائبل کی روشنی میں دندان شکن جواب دیئے اور پیشگوئی کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا کہ یہ پیش گوئی ایسی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت ظاہر کی گئی ہے بلکہ مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے.اب منصف مزاج آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہو یہ تفصیل اور وہ اجمال تھی.اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی اور اس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی.سمجھدار آدمی کے لئے یہ کافی ہے کہ پہلی

Page 340

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۲۱ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق پیش گوئی اس زمانہ کی ہے کہ جب کہ ہنوز وہ لڑکی نابالغ تھی اور جب کہ یہ پیش گوئی بھی اس شخص کی نسبت ہے جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی.یعنی اس زمانہ میں جب کہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی.تو اس پر نفسانی افترا کا گمان کرنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے.؟" نیز فرمایا " ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی.سب ضرورتوں کو خداتعالی نے پورا کر دیا تھا اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا.بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا.جس کا نام محمود احمد ہو گا.اور اپنے کاموں میں اولو العزم نکلے گا پس یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی ہے محض بطور نشان کے ہے تاخد اتعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلاوے اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلاؤں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں لیکن اگر وہ رد کریں تو ان پر قہری نشان نازل کر کے ان کو متنبہ کرے.تاریخ سے ثابت ہے کہ ماموروں کے جسمانی رشتہ داروں پر بھی اس مامور کی وجہ سے فضل و رحم ہوتا ہے چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب مختلف خواتین کو اپنے نکاح میں لیا تو ان کے خاندانوں پر یہ رحمت و برکت ہوئی کہ انہیں ہدایت نصیب ہو گئی.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب (وفات ۵۵۰ ) اور قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ (وفات ۵۰ھ) سے عقد کیا تو ان کے خاندان کے اکثر افراد بلکہ بعض کی پوری قوم حلقہ بگوش اسلام ہو گی اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کے خاندان پر بھی اس رنگ میں رحمت و برکت نازل کرنے کا ارادہ فرمایا اور حضرت اقدس نے احمد بیگ کو پہلے خط میں الہام الہی کے مطابق صاف صاف خبر دیدئی کہ "اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ سے دور کر دیگا اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھ کر برکت پر برکت دے گا.اور اگر رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہو گا.اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق اور کذب معلوم ہو سکتا ہے (اب جس طرح چاہو آزمالو) 2 الم مرزا احمد بیگ سے مسلمانوں کی طرف سے پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں اور کی متعلق پیشگوئی چونکہ کفر و اسلام کا ایک بہت بڑا معرکہ تھا.اس لئے اس زمانہ میں مسلمان اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں کرتے تھے چنانچہ (سلسلے کے ایک شدید مخالف قاضی فضل احمد صاحب کی روایت کے

Page 341

تاریخ احمدیت جلدا ۳۲۲ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان مطابق حضرت اقدس ۱۷- جولائی ۱۸۹۰ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.” ہزاروں پادری شرارت سے نہیں بلکہ حماقت سے منتظر ہیں کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے تو ہمار اپلہ بھاری ہو.لیکن یقینا خدا تعالٰی ان کو رسوا کرے گا.اور اپنے دین کی مدد کرے گا.میں نے لاہور میں جاکر معلوم کیا کہ ہزاروں مسلمان مساجد میں نماز کے بعد اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے بصدق دل دعا کرتے ہیں سو یہ ان کی ہمدردی اور محبت ایمانی کا تقاضا ہے ".پیشگوئی کے بعض حیرت انگیز پہلو مرزا احمد بیگ کی وفات سے متفق تو پہلے ہی اجمالی طور پر خبر موجود تھی.مگر قدرت نے جب تفصیلات کی گرہیں کھولیں تو اس میں ضمناً کئی حیرت انگیز پیش گوئیاں نکل آئیں.مثلاً اول - نکاح سے انحراف ضرور ہو گا.دوم- نکاح کے وقت تک حضرت اقدس زندہ رہیں گے.سوم - نکاح کے وقت تک مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہے گا.چہارم.نکاح کے وقت تک محمدی بیگم بھی زندہ رہے گی.پنجم - نکاح کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر اندر مر جائے گا.ششم.اس پیشگوئی کے سلسلے میں صرف ایک شخص کی موت واقع ہو گی.ہفتم.اغیار اپنی کج نظری کے باعث تمسخر اور استہزاء کریں گے.چنانچہ یہ سب پیشگوئی پیشگوئیاں اس درجہ خارق عادت رنگ میں پوری ہو ئیں کہ عقل محو حیرت ہو جاتی ہے.کی کا ظہور پیشگوئی کے مطابق جب تک مرزا احمد بیگ نے نکاح نہیں کیا حضرت اقدس بھی زندہ رہے مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہا.اور اس کی بیٹی محمدی بیگم بھی زندہ رہی یہ گویا خدائے قادر کی طرف سے تین افراد کی زندگی کی ضمانت تھی جو چار سال تک معجزانہ طور پر صحیح ثابت ہوئی.لیکن اس کے بعد جب مرزا احمد بیگ نے ۷ے.اپریل ۱۸۹۲ء کو اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح مرز اسلطان محمد صاحب آف پٹی سے کر دیا تو وہ مرزا احمد بیگ جسے خدا تعالٰی نے پیشگوئی کے بعد چار سال تک زندہ رکھا تھا.نکاح کر دینے کے چھٹے ہی مہینے ۳۰.ستمبر ۱۸۹۲ء کو مطابق پیشگوئی ہلاک ہو گیا.مرزا احمد بیگ کا اس دنیا سے گزرنا ہی تھا کہ پورے خاندان میں صف ماتم بچھ گئی.اد وہ کہرام مچا کہ الامان ! الحفیظ! اور افراد خاندان بلکہ مرزا احمد بیگ کے گاؤں والے بھی سخت دہشت زدہ ہو گئے.اور سخت ماتم پڑا حتی کہ عورتوں نے اپنی چیخ پکار میں یہ الفاظ بھی کہ دیئے.کہ ”ہائے وہ باتیں کچی نکلیں.آج ہمارا دشمن جس نے ہمارے لئے پیشگوئی کی تھی سچا ثابت ہو گیا".یہ اتنا عظیم الشان قهری نشان تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی (جواب اول المکفرین ہونے کی وجہ سے تمام مخالفین ہند کے سرخیل بن چکے تھے ) اعتراف کیا کہ اگر چہ یہ پیشگوئی تو پوری ہو گئی مگر یہ الہام نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی.١٦

Page 342

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۲۳ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان غرض پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ کی موت نے ان کے پورے خاندان کو مجسم غم واندوہ بنا دیا ان کے داماد مرزا سلطان محمد صاحب کا سب سے زیادہ متاثر ہونا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ جب دو شخصوں کے لئے ہلاکت کی پیشگوئی ہو.اور ایک پیشگوئی کی میعاد مقررہ پوری ہونے سے بہت پہلے ہی ہلاک ہو جائے تو دوسرے پر جو گزرے گی اور وہ جتنا بھی متفکر و متردد اور ترسان و لرزاں ہو جائے گا وہ محتاج بیان نہیں.چنانچہ مرزا سلطان محمد صاحب نے بھی زاری اور دعا کی اور دل سے یقین کر لیا کہ ان کے خسر مرزا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالٰی نے مرزا سلطان محمد صاحب کو موت کی سزا سے بچالیا.علماء کو دعوت مباہلہ مرزا سلطان محمد صاحب جب تک میعاد مقررہ کے دوران میں زندہ رہے حضرت اقدس کی پیشگوئی کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا.مگر اس کے بعد جب یہ میعاد ختم ہو گئی اور مرزا سلطان محمد صاحب تائب ہونے کی وجہ سے بچ گئے تو چاروں طرف سے شدید مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی.حالانکہ صدقہ دعا اور گریہ وزاری سے بڑے بڑے عذابوں کا ( خواہ وہ تقدیر مبرم ہی کا حکم کیوں نہ رکھتے ہوں) ٹل جانا خدا تعالٰی کی ازلی ابدی سنت سے ثابت ہے اور خصوصاً قرآن مجید اور احادیث اور اکابر امت کا لٹریچر تو اس کی شہادتوں سے بھرا پڑا ہے.اور اس پیشگوئی میں تو بار بار تو بہ کرنے پر مصائب کے ٹل جانے کا مسلسل تذکرہ تھا.لیکن عیسائی ، آریہ اور ان کی پشت پناہی میں آپ کے مخالف علماء نے صرف اس وجہ سے کہ مرزا سلطان محمد تو بہ کی وجہ سے بچ گیا تھا.یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ معاذ اللہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی.حضرت اقدس نے خدا کے نشان کی یوں تکذیب دیکھی تو آپ نے تین بڑے علماء (شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو انعامی چیلنج دیا کہ وہ ایک جلسہ عام میں الہامی پیشگوئیوں کے عذاب موت کی معین تاریخوں کے ٹل جانے کے متعلق دو گھنٹہ تک کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کتب سابقہ کی نصوص صریحہ ہم سے سنیں.اور پھر اگر اس مجمع میں تین بار حلفاً کہہ دیں کہ اے خدائے قادر ذو الجلال جو جھوٹوں کو سزا دیتا اور بچوں کی حمایت کرتا ہے.میں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب دلا کل باطل ہیں اور تیری یہ ہرگز عادت نہیں کہ وعید میں کسی کی تو بہ یا خائف اور ہراساں ہونے سے تاخیر کر دے بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ یا شیطانی ہے اور ہرگز تیری طرف سے نہیں.اور اے تا در خدا اگر تو جانتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو مجھے ذلت اور دکھ کے عذاب سے ہلاک کر.اس کے بعد بلا توقف آپ قسم کھانے والے کو غیر مشروط طور پر دو سو روپیہ نقد انعام دے دیں گے.

Page 343

تاریخ احمدیت.جلد؟ ۳۲۴ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان - علاوہ ازیں حضور نے تین سال بعد یہ پر شوکت اعلان بھی فرمایا کہ فیصلہ تو پر شوکت اعلان آسان ہے احمدبیگ کے دامادسلطان محمد کو کو کہ مذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خد اتعالیٰ مقرر کرے.اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بیباک کر دیوے.سو اگر جلدی کرتا ہے تو اٹھو اور اس کو بیباک اور مہذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تما شاد کھو".اس اعلان پر آریوں نے لیکھرام کے قتل اور عیسائیوں نے آتھم کی موت کے باعث مرزا سلطان محمد صاحب کو بڑی بڑی رقموں کی پیش کش کی تاوہ کسی طرح حضرت اقدس پر مالش کر دیں.مگر حضور کی سچائی سے متعلق ان میں اتنا زبردست اثر پڑ چکا تھا کہ انہوں نے اس پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا - a حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ایک دفعہ مرزا مرزا سلطان محمد صاحب کا اظہار حق سلطان محمد صاحب نے ۲۱ - مارچ ۱۹۱۳ء کو ایک تحریر بھی لکھ کر دی جس کا عکس جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں برسوں سے شائع شدہ ہے.اس تحریر میں انہوں نے لکھا.کہ ”میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک- بزرگ- اسلام کا خدمت گزار - شریف النفس - خدایاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہا ہوں.مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا.۱۹۲۱ء میں حافظ جمال احمد صاحب ( مبلغ ماریشس ) ان سے موضع پٹی میں ملے تو انہوں نے حلفیہ بیان دیا.کہ انہیں حضرت اقدس کی اس پیشگوئی یا آپ کے دعوی کی سچائی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے.اس پر حافظ صاحب نے کہا پھر آپ بیعت کیوں نہیں کرتے.مرزا سلطان محمد صاحب نے جواب دیا.اس کے وجوہات کچھ اور ہی ہیں جن کا اس وقت ذکر کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں.میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جاؤں کیوں کہ مجھے حضرت میاں صاحب کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں.پھر چاہے وہ شائع بھی کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر گولی لگنے کی وجہ سے جو اب مجھے لاٹھیوں پر چلنے کی وقت ہے.یہ وہاں جانے میں روک ہو جاتی ہے.خیال آتا ہے کہ اس ہیئت کے ساتھ میں کیا جاؤں.باقی رہی بیعت کی بات میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں.اتنا نہیں ہو گا ".

Page 344

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۲۵ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان یہ تو مرز اسلطان محمد صاحب کی بات ہے خود محمدی بیگم کے ایمان کی محمدی بیگم کی ایک خواب کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے خود بیان کیا کہ جنگ عظیم اول میں جب ” فرانس سے ان کو (مرزا سلطان محمد صاحب کو گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہوئی.اور میرا دل گھبرا گیا.اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رویا میں نظر آئے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہے اور مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے تو فکر نہ کر.اس سے مجھے اپنے خاوند کی خیریت کے متعلق اطمینان ہو گیا".خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد خدا تعالی کے اس عظیم الشان نشان کا اثر صرف کی جماعت احمدیہ میں شمولیت مرزا سلطان محمد صاحب اور محمدی بیگم صاحبہ کی عقیدت تک ہی نہیں رہا.بلکہ خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.چنانچہ مرزا احمد بیگ کی اہلیہ اس کا بیٹا (مرزا محمد بیگ) اس کی تین بیٹیاں (سردار بیگم ، عنایت بیگم محمودہ بیگم) اس کا پوتا (مرزا محمود بیگ) نواسہ مرزا محمد اسحاق پسر محمدی بیگم) اور داماد ( مرزا محمد احسن) سب حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.ان کے علاوہ مرزا نظام الدین کے بیٹے اور بیٹی بلکہ مرزا غلام قادر مرحوم کی اہلیہ محترمہ "تائی صاحبہ " وغیرہ بھی حضرت مسیح موعود کے دعوئی ماموریت پر ایمان لے آئے.(اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا) خصوصاً محمدی بیگم کے بیٹے محمد اسحاق صاحب نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر کے حضرت مسیح موعود کو اپنا روحانی باپ تسلیم کر لیا جو آسمانی نکاح" کے ظہور میں آنے کا واضح ترین ثبوت ہے.اس سلسلے میں یہاں مرزا محمد اسحاق مرز اسلطان محمد صاحب کے بیٹے کا اعلان بیعت بیگ صاحب کا وہ بیان درج کرنا ضروری ہے جو انہوں نے ۱۹۳۳ء میں اپنی بیعت کے وقت شائع کیا.انہوں نے لکھا.احباب کرام! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا بیان کروں.یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا دیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوا.بلکہ خدا تعالی کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوئی میں صادق اور مامور من اللہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا.آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہو ئیں یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہو ئیں مثلا ان میں ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب

Page 345

تاریخ احمدیت جلدا ۳۲۶ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو.حالا نکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی.میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی اندازی پینگوئیاں خدا تعالٰی اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے.وما نر سل بالایات الا تخویفا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں اس میں اللہ تعالٰی نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے.کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں.جب وہ قوم اللہ تعالٰی سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالٰی اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ.نیز حضرت موسیٰ کی قوم کی حالت ولَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرَّجُزُ (اعراف: ۱۳۵) سے ظاہر ہے.اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا.یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے.کہ جب حضرت مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی یہاں تک کہ خدا تعالی کی ہستی سے انکار کیا.نبی کریم اور قرآن پاک کی بنک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے تو اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے اپنے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی.اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور و رحیم کے ماتحت قہر کو رحم سے بدل دیا یہاں تک کہ انہوں نے (یعنی مرزا سلطان محمد صاحب نے ) ( حضرت اقدس) مرزا صاحب سے حسن عقیدت کے متعلق مختلف اوقات پر اپنا اظہار خیال بذریعہ خطوط فرمایا نہ صرف خیال ظاہر فرما دیا بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے پر انہیں صاف جواب دے دیا.مثلاً ہندوؤں عیسائیوں اور مسلمانوں نے ہزاروں روپے کا لالچ دے کر اس بات کی کوشش کی.کہ آپ اس امر کا اعلان کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈرے لیکن آپ نے ہرگز ان کی بات نہ مانی.احمدیت کے متعلق ان ( مراد مرز اسلطان محمد صاحب ناقل) کی حسن عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے والد ابو طالب بعض دینوی مشکلات کی وجہ سے نبی کریم کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے تھے.لیکن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بیعت کر لینے نہیں روکا تھا.اسی طرح جب میں بھی خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوا تو آپ بجائے کسی قسم کی طعن و تشنیع کرنے کے خوش ہوئے.اگر چہ میرے والد صاحب کا تاحال احمدیت میں داخل نہ ہونا اس پیشگوئی کے پورے ہونے میں کسی طرح بھی مانع نہیں ہو سکتا تھا سے

Page 346

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۲۷ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان تا ہم خدا تعالیٰ نے یہ روک بھی دور کر دی.اور مجھے اللہ تعالٰی نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائى فالحمد لله علی ذالک میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیش گوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی.اور ان کا انکار نبی کریم ال کا انکار ہے ".|TA- ان تفصیلات سے عیاں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اگر ظاہری طور پر اس دنیا میں محمدی بیگم کا نکاح ہو جاتا تو وہ اتنا زبردست نشان نہ ہو تا جتنا ز بر دست نشان وہ اس دوسری صورت میں ہو گیا کہ اس خاندان کا ایک بڑا حصہ (جو حضرت اقدس کی اسلامی دعوت و تبلیغ کے خلاف مسلسل دس سال تک مخالفت پر ڈٹا رہا تھا.اور آپ کے خلاف ہندوؤں اور عیسائیوں سے ساز باز کر تا رہا تھا) بالا خر خدا تعالیٰ کے اس قمری نشان سے راہ راست پر آگیا اور جو لوگ اپنی مخالفت پر قائم رہے وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے.آپ کے جدی بھائیوں کی ہر شاخ کاٹی گئی اور آپ کی مبارک نسل اور جماعت خدائی دعدوں کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے دنیا پر ایک تناور درخت کی طرح چھا گئی.جس وقت حضور نے دعوی کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے.لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی اگر کوئی اور پیش گوئی نہ ہوتی تو فقط یہی ایک نشان اسلام محمد عربی الیہ اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں کافی تھا.پادری فتح مسیح کی طرف سے روحانی مقابلہ کی دعوت اور شکست کا اعتراف مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری سے متعلق پیشگوئی کے واقعات پر یکجائی نظر ڈالنے کے بعد اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف آتے ہیں.اوپر بتایا جا چکا ہے کہ عیسائی مرزا احمد بیگ کے خط کی اشاعت پر ایک بار پھر میدان مقابلہ میں اترے.یہ مقابلہ صرف خط و کتابت کی اشاعت تک محدود نہیں رہا بلکہ عیسائیوں نے حضور کو نشان نمائی میں مقابلہ کا چیلنج بھی دیا.مگر بالا خر کھلا فرار اختیار کر گئے.۱۸ مئی ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بشیر اول کے علاج معالجہ کے

Page 347

تاریخ احمدیت جلدا ۳۲۸ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان سلسلہ میں بٹالہ میں نبی بخش صاحب ذیلدار کے مکان پر فروکش تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک پادری فتح مسیح نامی حضور کی فرودگاہ پر آیا.اور ایک مجلس میں جس میں پچاس سے کچھ زیادہ مسلمان اور ہندو وغیرہ جمع تھے.حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر دعویٰ کیا کہ جیسے آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ میری اکثر دعا ئیں جناب الہی میں پایہ قبولیت پہنچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ تعالی بذریعہ اپنے الہام خاص کے اطلاع دیتا ہے اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کرتا ہے یہی مرتبہ ملم ہونے کا مجھ کو بھی حاصل ہے اور خدا تعالی مجھ سے بھی ہمکلام ہو کر اور میری دعائیں قبول کر کے پیش از ظهور مجھے کو اطلاع دے دیتا ہے.اس لئے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں.جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیاں عام جلسہ میں آپ تحریر کر کے پیش کریں گے اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے میں بھی پیش کروں گا اور فریقین کی پیشگوئیاں اخبار ” نور افشاں" میں شائع کرادوں گا.اور پھر خود ہی ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کی تاریخ اس مقابلہ کے لئے مقرر کی.حضرت اقدس نے پادری فتح مسیح کی یہ دعوت فورا منظور فرمائی اور اسی دن بذریعہ اشتہار یہ اعلان شائع فرما دیا کہ ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو پادری فتح مسیح روح القدس کا فیض اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتانے کے لئے ہمارے مکان پر آئیں گے پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں گے اور پھر اس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہو گا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں.پس جو صاحب اس مقابلہ کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دس بجے تک ہمارے مکان پر پہنچ جائیں.پھر اگر میاں فتح مسیح بر طبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آموجود ہوئے اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی گم ہو چکی ہے تازہ کر دکھا ئیں اور ان پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آجائے تو بلا شبہ عیسائیوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہو گی.کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالٰی نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو فتح نہ دی.لیکن اگر ہماری پیشگوئیاں کچی نکلیں اور اسی میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی.تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے اس بے نظیر مقابلہ کی اہمیت بتانے کے علاوہ آپ نے اس اشتہار میں صریح الفاظ میں لکھ دیا کہ چونکہ ہم یقیناً جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسیا برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے اور سارا گزارہ لاف و گزاف اور یاوہ گوئی پر ہے اور تمام برکتیں اسلام سے ہی خاص ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لئے کہ کہاں تک عیسائیوں میں دروغ گوئی اور بے باکی نے رواج پکڑ لیا ہے بالمقابلہ کر امت نمائی

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد کے لئے اجازت دی جائے.۳۲۹ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان تاسیہ روئے شود هر که درد غش باشد چنانچہ ۲۱ - مئی ۱۸۸۸ء کو حضرت اقدس کی قیام گاہ پر بٹالہ کے معزز مسلمان اور ہندو رئیس اور عیسائی نہایت ذوق و شوق کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے.تا اسلام اور عیسائیت کے اس فیصلہ کن روحانی مقابلہ کا نظارہ دیکھیں.مگر ہوا وہی جو حضرت اقدس نے قبل از وقت بتا دیا تھا.فتح مسیح اپنے چند عیسائی دوستوں کے ساتھ دس بجے کے بعد جلسہ میں پہنچے.اور اپنے وعدہ کے مطابق پیشگوئیاں پیش کرنے کی بجائے انہوں نے سراسر لا طائل اور بیہودہ باتیں چھیڑ دیں جن کا موضوع سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا.آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہندو نے ان سے کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیش گوئیاں پیش کرنے کے لئے منعقد ہوا ہے اور یہی آپ کا اقرار ہے اور اسی شوق میں سب لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں سو اس وقت الهامی پیشگوئیاں بیان کرنا چاہئے.اس کے جواب میں پادری صاحب نے بر سر عام کہا.”اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعوئی الہام نہیں ہے اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یونہی فریق ثانی کے دعوے کے بالمقابل پر ایک دعوی کر دیا تھا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا جھوٹا دعوی ہے سو ایسے ہی میں نے بھی ایک دعوی کر دیا.پادری صاحب کی زبان سے جھوٹ کا یہ کھلا کھلا اعتراف سن کر حاضرین جلسہ نے ان پر سخت لے دے کی.خصوصاً رائے شمبر داس صاحب رئیس بٹالہ ، بابو گوردت سنگھ صاحب مختار عدالت اور منشی محمد بخش صاحب مختار عدالت نے انہیں ملزم کیا کہ یہ دروغ گوئی نیک چلنی کے برخلاف تم سے وقوع میں آئی اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے تو خلاف واقعہ علم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا.پادری صاحب اس شرمناک دروغ گوئی اور کذب طرازی پر سخت معتوب ہوئے اور جلسہ برخاست ہو گیا.اس روحانی مقابلہ اسلام کی زبردست فتح اور عیسائیت کی شکست بالکل نمایاں ہو گئی.فتح مسیح دیسی پادری تھا مگر حضرت اقدس نے یورپین پادری ہر برٹ وائٹ بر سخٹ سٹائن (انچارچ بٹالہ مشن) پر خصوصاً اور دوسرے یورپین پادریوں پر عموماً اتمام حجت کے لئے دوسرا اشتہار شائع کیا جس میں روحانی مقابلہ کی زبر دست دعوت دی اور اسی غرض سے برابر ایک ماہ تک بٹالہ میں قیام بھی فرمایا.پادری فتح مسیح نے جو اپنی زبان سے شکست کا اعتراف کر چکا تھا اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اخبار "نور انشاں" (۷ - جون ۱۸۸۸ء) میں یہ افترا کیا کہ میں نے الہام کا دعویٰ نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے پادری وائٹ پر سخٹ کے نام اپنے ہاتھ سے ایک چٹھی میں صاف لکھا کہ میں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.پادری فتح مسیح نے اب کے نورافشاں میں لکھا کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ

Page 349

تاریخ احمدیت جلدا ۳۳۰ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان کر سکتے ہیں کہ ایک جلہ.منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہاما بتایا جائے.حضرت اقدس نے یہ طریق مقابلہ بھی قبول فرمالیا.مگر فرما یا فتح مسیح کہ جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہرگز قابل التفات نہیں ہے.ہاں اگر پادری وائٹ بر سخٹ صاحب ایک عام جلسہ میں یہ حلفا اقرار کریں کہ اگر کسی بند لفافہ کا مضمون جو میری طرف سے پیش ہو دس ہفتہ تک مجھے بتلا دیا جائے تو میں دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جاؤں گا.اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرا دو نگا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جائے گا.اس تحریری اقرار اور نور افشاں میں اس کی اشاعت کے دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلا دیا تو ان کا روپیہ ضبط ہو گا اور اگر ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھالیں گے".rr پادری فتح مسیح تو شملہ بھاگ گیا تھا اور پادری بر سخٹ اس مقابلہ کے لئے آمادہ نہ ہو سکے اس طرح عیسائیت کے دیسی اور یورپین پادریوں کی حق پوشی بالکل نمایاں ہو گئی.اور اسلام کو ایک بار پھر شاندار فتح نصیب ہوئی.سفر پٹیالہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس روحانی مقابلے کے چند روز بعد وزیر الدولہ دبیر الملک خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کی درخواست پر (جون ۱۸۸۸ء) میں پٹیالہ تشریف لے گئے.خلیفہ صاحب موصوف حضرت اقدس کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے.جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہو گئے اور اس کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا.آپ بصد ذوق و شوق براہین پڑھتے دوسروں سے پڑھوا کر سنتے اور گھنٹوں محظوظ ہو کر زبان سے بار بار فرماتے فی الحقیقت یہ شخص علماء ربانی میں سے ہے".حضرت اقدس کے سفر پٹیالہ کے ایمان افزا حالات جناب مرتضی خان حسن صاحب نے اخبار پیغام صلح ۲۶.مئی ۱۹۵۴ ء میں شائع کئے تھے جو درج کئے جاتے ہیں.لکھتے ہیں "وزیر صاحب کی دعوت پر حضرت اقدس جون ۱۸۸۸ء میں پٹیالہ تشریف لے گئے.آپ حضرت کی آمد پر جامے میں پھولے نہ سماتے تھے.ریاست میں اعلان کیا کہ ہمارے ایک عالم ربانی تشریف لا رہے ہیں ان کی زیارت کے لئے سب کو آنا چاہیے..حضرت تشریف لائے تو آپ کا استقبال اس شان و شوکت سے کیا جس طرح

Page 350

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۳۱ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان بڑے بڑے را جاؤں اور نوابوں کا کیا جاتا ہے ریاست کے دستور کے مطابق ہاتھی اور گھوڑے لے کر اسٹیشن پر گئے اور ایک شاندار جلوس حضرت اقدس کے استقبال کے لئے مرتب کیا.وزیر صاحب فرماتے دنیا کے لوگوں کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اصل عزت کے لائق تو یہ لوگ ہیں جو دین کی جائے پناہ ہیں.استقبال کے وقت لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے.لوگ شوق زیارت سے ایک دو سرے پر گرے پڑتے تھے.کہتے ہیں کہ اس قدر خلقت کا اژدہام تھا کہ پٹیالہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر حضرت ہیں کہ اس ظاہری شان و شوکت کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے.نہ کسی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں نہ کوئی فخر ہے نہ غرور نہ تکبر.رہی سادگی وہی منکسر المزاجی جو جبلت میں خدا نے ودیعت فرمائی تھی اب بھی عیاں ہے آنکھیں حیا سے نیچے جھکی ہیں لب ہائے مبارک پر ہلکاہلکا تبسم ہے چہرہ پر انوار الٹی کی بارش ہو رہی ہے.گویا ابھی غسل کر کے باہر نکلے ہیں.دیکھنے والوں کی نظر آپ پر پڑتی ہے.تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں.چاروں طرف سے السلام علیکم ! السلام علیکم کی آواز آتی ہے آپ کمال وقار سے ہر ایک کا جواب دیتے اور دونوں ہاتھوں سے اور کبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں..جتنے دن آپ پٹیالہ میں مقیم رہے زائرین کا تانتا بندھا رہا.آپ اپنے مواعظ حسنہ سے طالبان ہدایت کو فیضیاب کرتے رہے.مختلف مجالس میں مختلف مسائل کا ذکر ہوتا تھا بالخصوص آریوں اور عیسائیوں کے متعلق اور ان کی خلاف اسلام کارروائیوں کا اکثر ذکر ہو تا تھا.انہی دنوں میں آپ قریب کے ایک سنور میں بھی تشریف لے گئے جو آپ کے مخلص دوست مشهور و معروف مولوی عبد الله صاحب سنوری کا مولد و مسکن تھا یہ حضرت کے اخلاق کریمانہ کے تقاضے سے تھا کہ آپ ایک بڑے آدمی کی دعوت پر پٹیالہ گئے تو اپنے ایک غریب دوست کو بھی جس کی دیوی حیثیت پٹواری سے زیادہ نہ تھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا.جو شخص شاہی مہمان ہو اور جس کا اس قدر تزک و احتشام سے استقبال کیا گیا ہو اس کا ایک غریب شخص کے گھر پر چلے جانے میں عار نہ سمجھنا فی الحقیقت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ شخص اخلاص کا بے انتہا قدر دان ہے.حضرت اقدس کا اصول تھا کہ اپنے مخلص دوستوں کی خواہ وہ ریوی حیثیت میں کتنے ہی ادنی ہوں بے پناہ عزت اور محبت کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے.ع قدیمان خود را بیفزائے قدر م حضرت والا مولانا محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم و مغفوران دنوں پیالہ میں ہی تھے چنانچہ سب سے پہلی دفعہ آپ کو اسی جگہ حضرت اقدس سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.آپ نے اس ملاقات کا

Page 351

تاریخ احمدیت جلدا ۳۳۲ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان اپنی خود نوشته سوانح حیات میں جو فارسی میں ہے.ذکر فرمایا ہے یہ ۱۳- جون ۱۸۸۸ء کی تحریر ہے حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ اور آپ کے چیلنج کا جو اس کتاب میں مخالفین اسلام کے نام مفصل ذکر کرتے ہوئے اخیر میں تحریر فرماتے ہیں.۱۳- جون ۱۸۸۸ء چوں ، مقصبه سنور که متصل پیاله است تشریف اوردند مشرف بزیارت گشتم میانہ قد - گندم گوں - کشادہ پیشانی ریش مخضب مخضاب - عمر قریب چهل سال داشتند - سلام گفته مصافحه کرده بشتم خلقه بزیارت اینان گرد آمده بود.از چهره اش آثار بزرگی و جلال الهی نمودار.....و ظاهرش با حکام شریعت موافق و استوار و الباطن معلمه الله حلم و حیا بسے غالب - نماز پیشین در پس اینان ادا کردم......هر چند که استعداد شناختن این چنیں مردم ندارم مگر وجود باجود ایتان بمنزله رحمت الهی و برائے اسلام و اسلامیان تقویت لامتناهی است از مجدد بودن ایناں انکار کردن بحجر جهل و نادانی چیزی دیگر نیست سلمہ اللہ " غرضکہ یہ سفر بخیر و خوبی طے ہوا مہینوں پٹیالہ کے لوگوں میں حضرت کی تشریف آوری کا چرچا ہوتا رہا.۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس کو پھر پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا".واپسی پر ایک حادثہ سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہو گا اور کچھ ہم و غم پیش آئیگا.چنانچہ جب حضرت اقدس پٹیالہ سے واپسی پر لدھیانہ آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ آپ نے نماز ادا فرمانے کے لئے اپنا چغہ اتار کروزیر اعظم کے ایک نوکر کو دیا تا وضو کریں.پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے بندھے ہوئے تھے وہ گر گیا ہے.پھر حضور جب گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراہہ پر حضور کے ایک ساتھی کو کسی مسافر انگریز نے محض دھو کہ رہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہدیا کہ لدھیانہ آگیا ہے.چنانچہ اس جگہ آپ اور دیگر ساتھی اتر پڑے لیکن جب ریل چل دی تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا.اس طرح الہام کے دونوں حصے پورے ہو گئے.۳۵

Page 352

+ تاریخ احمدیت جلدا ۳۳۳ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قهری نشان حواشی "رساله مخط و کتابت " مطبوعہ ۱۸۹۹ء مطبع عزیزی لاہور.ايضا آئینہ کمالات اسلام » صفحه ۵۶۸ طبع اول - آئینہ کمالات اسلام ۳ صفحه ۵۷۶-۷۵۰ ( طبع اول) - ترجمه از آئینہ کمالات اسلام " صفحه ۵۶۹ طبع اول داشتهار ۲۰ فروری ۶۱۸۸۷ - تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۲۰ ( حاشیہ) (ترجمہ از مرتب) میں نے اس عورت کو دیکھا کہ گریہ وزاری کے آثار اس کے چہرے پر تھے تب میں نے اس سے کہا کہ اے عورت تو بہ کر توبہ کر.کیونکہ بلاء تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا اور کئی سنگ سیرت لوگ پیچھے رہ جائیں گے.تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۹ حاشیه رشتہ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمدی بیگم کے غیر حقیقی ماموں ہوتے ہیں.کیونکہ وہ حضور کی چچازاد بہن عمر النساء کی لڑکی اور مرز انظام الدین وغیرہ کی حقیقی بھانجی ہے.آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۷۳- سرد رق کرامات الصادقین مکتوب بنام حضرت مولانا نور الدین ۲۰ جون ۱۸۸۲ء آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۷۲ تا ۵۷۴( طبع اول) " تبلیغ رسالت " جلد اول صفحہ ۱۱۸ تبلیغ رسالت " جلد اول ۱۱۹-۱۲۰ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۸۰( طبع اول) -۱۵ کتاب "کلمه فضل رحمانی صفحه ۱۲۴ - ضمیمه انجام آتھم صفحه ۵۳ و آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۷۵-۵۷۶ ۱۷ اشاعۃ السنہ جلد ۵ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳۹- جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۰-۸ بطور مثال دیکھئے "کنز العمال " جلد ا صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ دائرۃ المعارف التظامیہ حیدر آباد ۱۳۱۲ھ ۲۰- چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ " ماكانت الهام في هذه المقدمه الاوكان معه شرط - انجام آنقم " صفحه ۲۲۳ مطبوعہ ۱۸۹۷ء) یعنی اس باب میں جو الہام بھی ہو ا مشروط تھا.-۲۱ اشتہار ۷ ستمبر ۱۸۹۴ء) تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۲۰-۱۲۱) ۲۲- انجام آتھم صفحه ۳۲ حاشیه -۲۳ الفضل ۹۱۳ - جون ۱۹۲۱ء صفحه ۱۰ (بیان مرزا سلطان محمد صاحب) ۲۴.ملاحظہ ہور سالہ شعید الاذہان مئی ۱۹۱۳ء -۲۵ یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز الفضل ۹۱۳- جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۰-۱۱ ۲۷- حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ”نبی کی پیشگوئی کو ہمیشہ اس کے خارق عادت مفہوم کی رو سے دیکھنا چاہیے.اور اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ہو اور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر جو اس پیشگوئی کا فارق عادت ہوتا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے.اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا.اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے".(براہین احمدیہ حصہ پنجم (ضمیمہ) صفحہ ۹۰۰۸۹ ( طبع اول) اس امر کی ایک

Page 353

۳۳۴ حضرت اقدس کے جدی خاندان سے متعلق قمری نشان و تاریخ احمدیت جلدا عجیب مثال تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد صاحب بر طوی (۱۷۸۶-۱۸۳۱) کی سوانح میں یہ لکھی ہے کہ انہیں الہا بتایا گیا کہ ملک پنجاب ضرور میرے ہاتھ پر فتح ہو گا اور اس فتح سے پہلے مجھ کو موت نہ ہوگی " (تواریخ مجیبه صفحه ۱۸۰ بحوالہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی از مولوی نور احمد فریدی ملتان لیکن ہوا یہ کہ حضرت سید صاحب بالاکوٹ میں شہید ہو گئے.اور پنجاب پر انگریز حکمران ہو گئے صاحب تواریخ مجیبہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.سلطنت پنجاب متعصب اور ظالم سکموں کے ہاتھ سے نکل کر ایک ایسی عادل اور آزادلانہ ہب قوم کے ہاتھ میں آگئی جس کو ہم مسلمان اپنے ہاتھ پر فتح ہو نا تصور کر سکتے ہیں اور غالبا سید صاحب کے الہام کی صحیح تعبیر یہی ہوگی جو ظہور میں آئی".(بحوالہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی صفحه (۱۳) در اصل بات یہ ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ (۱۵۶۴- ۱۶۲۴) نے بڑی تصریح کے ساتھ اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ "قضاء معلق دو طرح پر ہے ایک وہ قضاء ہے جس کا معلق ہو نا لوح محفوظ میں ظاہر کر دیا جاتا ہے اور فرشتوں کو اس پر اطلاع دے دی جاتی ہے.اور دوسری وہ قضا ہے جس کا معلق ہونا صرف خدا تعالی ہی کے پاس ہوتا ہے اور لوح محفوظ میں قضاء مبرم کی حیثیت رکھتی ہے.اور قضائے معلق کی اس دوسری قسم میں بھی پہلی قسم کی طرح تبدیلی کا احتمال ہے".(ترجمہ مکتوب ۲۱۷ دفتر اول) بالا خریہ نکتہ بھی یادر ہے کہ آسمان پر پڑھے جانے والے نکاح کا زمین پر پڑھا جانا ضروری نہیں ہوتا.مثلا آنحضرت کا حدیث نبوی کے مطابق مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے آسمان پر نکاح پڑھا گیا تھا ( فتح البیان جلد کے صفحہ ۹۹) لیکن دنیا میں یہ ظہور پذیر نہیں ہوا.اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی کو الہام ہوا کہ ان حضرت یحیی علیہ السلام سے بیاہی گئی ہیں.اور وہ چند لمحے بعد فوت ہو گئیں.(ملاحظہ ہو " حدیقہ محمودیہ " صفحہ ۱۰۲ کی بیٹی کلثوم مطبوعہ ریاست فرید کوٹ) الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۳ء صفی ۹ ۲۹- الحکم ۷۱۴ - جون ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۰.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب " پیش گوئی دربارہ مرزا احمد بیگ " از جناب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) - ۳۱ تبلیغ رسالت جلد اول -۳۲ اسی دوران میں حضرت اقدس نے عید الفطر کی نماز عید گاہ بٹالہ میں پڑھی اور پادری وائٹ پر سخٹ کے متعلق آپ کا ایک اشتہار بھی اس موقعہ پر پڑھا گیا.چنانچہ اخبار "ریاض ہند " نے ۱۸- جون ۱۸۸۸ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی ”بنالہ میں اہل اسلام کی عید الفطر اس موقعہ پر خر اسلام جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان جو بٹالہ میں فروکش تھے اسی عید گاہ میں رونق افروز ہوئے.آدمی قریب چار ہزار کے جمع تھے اول جناب حضرت مخدوم مکرم بنده مولوی محمد قدرت اللہ صاحب سلمہ اللہ تعالٰی نے اپنی پر زور تقریر اور پر تاثیر و عظ سے حاضرین کو فیض بخشی فرمائی اور محفوظ کیا.اس کے بعد حاجی غلام محمد صاحب نے ایک اشتہار عنوانی پادری وائٹ برینٹ کے لئے اتمام حجت اور فتح مسیح کی درو نگوئی کو بڑی فصاحت سے سنایا "."ریاض ہند کا یہ فائل خلافت لائبریری صدرانجمن احمد یہ ربوہ میں محفوظ ہے) ۳۳ تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۰۵ تا ۱ ۳۴- (فارسی عبارت کا ترجمہ) حضور جب شہر پٹیالہ سے متصل قصبہ سنور میں تشریف لائے تو مجھے آپ کی زیارت نصیب ہوئی.میانہ تر گندم گوں.کشادہ پیشانی - ڈاڑھی خضاب کی ہوئی عمر چالیس سال کے قریب رکھتے تھے سلام کہہ کر مصافحہ کیا بیٹھ گیا.بہت مخلوق آپ کے دیدار کے لئے آئی ہوئی تھی.آپ کے چہرے سے بزرگی اور جلال الہی کے آثار نمایاں تھے.آپ کا ظاہر احکام شریعت کے موافق اور باطن اللہ جانتا ہے.علم وحیا آپ پر بہت غالب تھے.نماز ظہر آپ کے پیچھے ادا کی.ہر چند کہ ایسے لوگوں کی استعداد شناخت نہیں رکھتا.مگر ان کا وجود مبارک منزلہ رحمت الہی اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے غیر محدود قوت کا موجب ہے.ان کے مجدد ہونے سے انکار سرا سرا جہل و نادانی ہے.اللہ تعالی ان کو سلامت رکھے.۳۵ نزول اصسبیح صفحه ۲۳۲/۲۳۱) طبع اول)

Page 354

تاریخ احمدیت جلدا ۳۳۵ جماعت کا سنگ بنیاد ماموریت کا آٹھواں سال اشتهار و تکمیل تبلیغ اور لدھیانہ میں بیعت اولیٰ (۱۸۸۹ء) بیعت کے لئے حکم الہی جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے.اگر چہ مخلصین کے قلوب میں برسوں سے یہ تحریک جاری تھی کہ حضرت اقدس بیعت لیں.مگر حضرت اقدس ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ لَسْتُ بِمَا مُورِ " (یعنی میں مامور نہیں ہوں) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبد القادر صاحب کو صاف صاف لکھا کہ "اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور.....چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں.اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ اَمْرًا.مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں.اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہو گا " - 1 آخر چھ سات برس بعد ۱۸۸۸ء کی پہلی سہ ماہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا.یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچارہ یہ تھے.إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ باعْيِنِنَا وَوَحْيِنَا الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَا بِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ " یعنی جب تو عزم کرلے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت (نظام جماعت کی) کشتی تیار کر جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے.اللہ تعالٰی کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہو گا.حضرت اقدس کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہر قسم کے رطب و بیعت کا اعلان یا بس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں.اور دل یہ چاہتا تھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جنکی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور کچے نہیں ہیں.اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا.کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کر دکھلائے.سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت و رحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر ۱۸۸۸ ء میں بشیر اول کی وفات

Page 355

تاریخ احمدیت.جلدا جماعت کا سنگ بنیاد سے پیدا کر دی.ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہو کر الگ ہو گئے لہذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا.اور آپ نے کیم دسمبر ۱۸۸۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرما دیا." اس اعلان کے ساتھ جو بیعت سے متعلق اشتهار تحمیل تبلیغ وگزارش ضروری" پہلا اعلان تھا حضور نے بیعت کے لئے معین رنگ میں کوئی خاص شراط نہیں تحریر کئے تھے.مگر ادھر حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۲- جنوری ۱۸۸۹ء کو دس گیارہ بجے شب (بیت الذکر نمبرا کے زیر سقف کمرہ سے متصل مشرقی کمرہ میں) پیدا ہوئے.ادھر آپ نے " تکمیل تبلیغ کا اشتہار تحریر فرمایا.اور اس میں بیعت کی وہ دس شرطیں تجویز فرما ئیں جو جماعت میں داخلہ کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں.اس طرح جماعت احمدیہ اور پسر موعود کی پیدائش تو ام ہوئی یہ دس شرائط بیعت حضرت اقدس کے الفاظ میں یہ ہیں.اول :- بیعت کنندہ بچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم :- یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آدے.سوم : یہ کہ بلاناغہ پنجو کہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کر تا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالٰی کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر رو زور و بنا لیگا.چهارم: یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جو شوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.جم :- یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عمر اور سیر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی مقضا ہو گا.اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا.اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا.بلکہ آگے قدم بڑھاے گا.

Page 356

تاریخ احمدیت جلدا ۳۳۷ جماعت کا سنگ بنیاد م : یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سرپر قبول کرے گا.اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے ہفتم :- یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا.اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم: یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.ہم :.یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا.اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.لدھیانہ میں ورود دہم :- یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دبیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو".حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں.اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے.یہاں سے آپ نے ۴.مارچ ۱۸۸۹ء کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا.” یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے.تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو.اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں.اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور نبی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں.تیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح خدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمد روی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور

Page 357

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۳۸ جماعت کا سنگ بنیاد ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوع اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور نبی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا.اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشو و نمادے گا.یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی.اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے"- بیعت کے لئے لدھیانہ پہنچنے کا ارشاد اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت پہنچ جائیں.کرنے والے اصحاب ۲۰- مارچ کے بعد لدھیانہ ہوشیار پور میں شیخ مہر علی صاحب انہی دنوں شیخ مر علی صاحب رکیں ہوشیار پور کی ایک تقریب میں شمولیت کے لڑکے کی شادی کی تقریب تھی جس میں شمولیت کے لئے انہوں نے درخواست کر رکھی تھی.اس لئے بیعت لینے سے قبل حضرت اقدس کو ایک مرتبہ ہوشیار پور بھی جانا پڑا.اس سفر میں منشی عبد اللہ صاحب سنوری - میر عباس علی صاحب لدھیانوی اور حافظ حامد علی صاحب آپ کے قدیم خادم آپ کے ساتھ تھے.شیخ صر علی صاحب نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤساء کے واسطے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے لئے الگ.مگر حضرت اقدس کا قاعدہ یہ تھا کہ اپنے خدام کو کمرے میں پہلے داخل کرتے پھر خود داخل ہوتے تھے.اور ان کو اپنے دائیں بائیں بٹھاتے تھے.ان دنوں وہاں مولوی محمود شاہ صاحب مجھے ہزار دی کا وعظ ہونے والا تھا حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا اشتہار بیعت پڑھ کر سنادیں.اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آؤں گا.

Page 358

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۳۹ جماعت کا سنگ بنیاد انہوں نے وعدہ کر لیا.چنانچہ حضرت اقدس اس کے وعظ میں تشریف لے گئے.لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہونے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہو گئے تھے.حضرت اقدس کو اس پر بہت رنج ہوا.فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہو گی.ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی.اس نے وعدہ خلافی کی ہے.خدا کے بندوں کی خفگی رنگ لائے بغیر نہیں رہتی.چنانچہ یہ مولوی تھوڑے عرصہ کے اندر ہی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو محلہ جدید میں بیعت اولیٰ کا آغاز حضرت اقدس کے اشتہار پر جموں، خوست، بھیرہ سیالکوٹ گورداسپور گوجرانوالہ جالندھر، پٹیالہ مالیر کوٹلہ انبالہ کپور تھلہ اور میرٹھ وغیرہ اضلاع سے متعدد مخلصین لدھیانہ پہنچ گئے.بیعت اوٹی کا آغاز لدھیانہ میں حضرت منشی عبد اللہ سنوری کی روایات کے مطابق ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت صوفی احمد جان کے مکان واقع محلہ جدید میں ہوا.وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار ہوا.جس کی پیشانی پر یہ لکھا گیا.” بیعت تو بہ برائے حصول تقویٰ و طہارت".رجسٹر میں ایک نقشہ تھا جس میں نام ولدیت اور سکونت درج کی جاتی تھی.حضرت اقدس بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کو ٹھری II میں (جو بعد کو دار البیعت کے مقدس نام سے موسوم ہوئی) بیٹھ گئے اور دروازے پر حافظ حامد علی صاحب کو مقرر کر دیا اور انہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے کمرہ میں بلاتے جاؤ.چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کو بلوایا.حضرت اقدس نے مولانا کا ہاتھ کلائی پر سے زور کے ساتھ پکڑا اور بڑی لمی بیعت لی.ان دنوں بیعت کے الفاظ یہ تھے." آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور بچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور میری سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا.اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لذات پر مقدم رکھوں گا اور ۱۲- جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کاربند رہوں گا.اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں استَغْفِرُ اللهَ رَبّى اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى - اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَاتُوبُ إِلَيْهِ أَشْهَدُ انْ لَا ال NANGAN الله وحده لا شريكَ له وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولَهُ.لَهُ رب إني ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفَتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا انْتَ

Page 359

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۴۰ (خاکہ دار البیعت لدھیانہ) شمال کمرہ بیعت جماعت کا سنگ بنیاد شرق کچا صحن مغرب پکا محن (جنوب) حضرت صوفی احمد جان صاحب کا مکان

Page 360

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۴۱ جماعت کا سنگ بنیاد حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کے بعد میر عباس علی صاحب شیخ محمد حسین صاحب خوشنویس مراد آبادی نیز چوتھے نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور پانچویں نمبر پر مولوی عبد اللہ صاحب ساکن تنگی علاقہ چار سدہ (صوبہ سرحد) نے بیعت کی.ان کے بعد غالبا منشی اللہ بخش صاحب الدھیانہ کا نام لے کر بلایا اور پھر شیخ حامد علی صاحب سے کہدیا کہ خود ہی ایک ایک آدمی کو بھیجتے جاؤ.اس کے بعد آٹھویں نمبر پر قاضی خواجہ علی صاحب نویں نمبر پر حافظ حامد علی صاحب اور دسویں نمبر پر چوہدری رستم علی صاحب اور پھر معا بعد یا کچھ وقفے کے ساتھ ) منشی اروڑا خاں صاحب نے بیعت کی.ستائیسویں نمبر پر رحیم بخش صاحب سنوری کی بیعت ہوئی.اس طرح پہلے دن باری باری چالیس افراد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ "سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا.تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے.منشی اروڑا صاحب نور الدھیانہ کو روانہ ہو گئے دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کرلی.نشی عبد الرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے کیونکہ انہوں نے استخارہ کیا.اور آواز آئی "عبدالرحمن آجا.ہم سے پہلے اس دن آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے.بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے اشتہار پہنچنے سے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی پہلے منشی اروڑا صاحب نے.پھر میں نے.میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا.کہ آپ کے رفیق کہاں ہیں؟ میں نے عرض کی.منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کرلی ہے اور محمد خاں صاحب نما رہے ہیں کہ نہا کر بیعت کریں.چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی.اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی.منشی عبدالرحمن صاحب.منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت کر کے واپس آگئے کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے میں پندرہ ہیں روز لدھیانہ ٹھہرا رہا.اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے.حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے.بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقت طاری ہو جاتی تھی.اور دعا بعد بیعت بہت لمبی فرماتے تھے." پیر سراج الحق صاحب نعمانی شیخ یعقوب علی صاحب تراب I اور مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی اس دن لدھیانہ میں موجود تھے.مگر پہلی بیعت میں شامل نہ ہو سکے.پیر سراج الحق صاحب کا منشاء قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے حضرت اقدس نے منظور فرمالیا.اور ۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت لی.باقی حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے انہی ایام میں بیعت کرلی تھی.حضرت اقدس نے مولانا نور الدین صاحب کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں مولانا عبد الکریم صاحب کا ہاتھ رکھا اور ان ہر دو کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر مولانا عبد الکریم

Page 361

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۴۲ جماعت کا سنگ بنیاد صاحب سے بیعت کے الفاظ کہلوائے.ان ایام میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نیچری خیالات رکھتے تھے.لیکن چونکہ وہ بچپن ہی سے حضرت مولانا نور الدین سے راہ و رسم رکھتے تھے اس لئے انہوں نے محض آپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بیعت کرلی.بیعت کے بعد اتنا زبردست تغیر ہوا کہ خود ہی فرمایا کرتے تھے.” میں نے قرآن بھی پڑھا تھا.مولانا نور الدین کے طفیل سے حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا.گھر میں صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتا تھا.مگر ایمان میں وہ روشنی وہ نور معرفت میں ترقی نہ تھی.جو اب ہے اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربے کی بناء پر کہتا ہوں کہ یاد رکھو اس خلیفہ اللہ کے دیکھنے کے بدوں صحابہ کا سازنده ایمان نہیں مل سکتا.اس کے پاس رہنے سے تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ کیسے موقع موقع پر خدا کی وحی سناتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہے تو روح میں ایک محبت اور اخلاص کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے.جو ایمان کے پودے کی آبپاشی کرتا ہے." et مردوں کی بیعت کے بعد حضرت گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت عورتوں کی بیعت کی.سب سے پہلے حضرت مولانا نور الدین صاحب کی اہلیہ محترمہ حضرت صغری بیگم نے بیعت کی.حضرت ام المومنین ابتداء ہی سے آپ کے سب ہی دعاوی پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں اس لئے آپ نے الگ بیعت کی ضرورت نہیں کبھی.بیعت کے بعد اجتماعی کھانا اور نماز میاں رحیم بخش صاحب سنوری کا بیان ہے کہ "بیعت کے بعد کھانا تیار ہوا تو حضور نے فرمایا.اس مکان میں کھانا کھلاؤ کیونکہ وہ مکان لمبا تھا.غرض دستر خوان بچھ گیا اور سب دوستوں کو وہیں کھانا کھلایا گیا کھانے کے وقت ایسا اتفاق ہوا کہ میں حضور کے ساتھ ایک پہلو پر بیٹھا تھا حضور اپنے برتن میں سے کھانا نکال کر میرے برتن میں ڈالتے جاتے تھے.اور میں کھانا کھاتا جاتا تھا.گا ہے حضور بھی کوئی لقمہ نوش فرماتے تھے.کھانے کے بعد نماز کی تیاری ہوئی.نماز میں بھی ایسا اتفاق پیش آیا کہ میں حضور کے ایک پہلو میں حضور کے ساتھ کھڑا ہوا.اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اس وقت کون امام تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں ۱۸ اپریل دوسرے ایام میں بیعت ۱۸۸۹ء تک مقیم رہے.ابتداء محلہ جدید میں پھر محلہ اقبال منبج میں تاہم بیعت کا سلسلہ بدستور جاری رہا.پہلے بیعت اکیلے اکیلے ہوتی رہی پھر خطوط کے ذریعہ سے پھر مجمع عام میں.

Page 362

تاریخ احمدیت جلد ! ۳۴۳ جماعت کا سنگ بنیاد بیعت کے بعد نصائح حضرت اقدس کا اکثر یہ دستور تھا کہ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے تھے.چند نصائح بطور نمونہ درج ذیل ہیں.اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہیے.کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے.پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے“.ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہوتا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر تو کل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار - رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہیے.کہ شرک لازم نہ آئے.ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں.دست در کار دل بایار والی بات ہونی چاہیے؟."دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نبھانا مشکل ہے.کیونکہ شیطان اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لا پروا کر دے دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور.اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بد تر ہو جاتا ہے اگر خدا کو راضی کرتا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو".فتنہ کی کوئی بات نہ کرو.شرنہ پھیلاؤ - گالی پر صبر کرو - کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آؤ.شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ کچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے.اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا.مقدمات میں سچی گواہی دو.اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے " - HD بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کرتے تھے کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرما ئیں.اس کا جواب اکثر یہ دیا کرتے تھے کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں.اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں.آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ استغفار کیا کریں.سورہ فاتحہ پڑھا کریں.درود شریف لاحول اور سبحان اللہ پر مداومت کریں.اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں.رجسٹر بیعت ابتداء حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی رجسٹر بیعت اولیٰ کی مکمل فہرست اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد) جماعت کا سنگ بنیاد میں سے ملا تھا جو انہوں نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو دے دیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کی عظیم الشان اہمیت کے پیش نظر اسے خلافت لائبریری ربوہ میں منتقل فرما دیا ہے.اس قیمتی دستاویز کا پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکا.ذیل میں اس کی مکمل فہرست درج کی جاتی ہے اس فہرست میں مبائعین کی ترتیب مد نظر نہیں رکھی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دستخطی پرچیاں کسی ترتیب سے نہیں رکھی جاتی تھیں.یہ بھی یادر ہے کہ ۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء کو ۱۸- رجب ۱۳۰۶ھ کی قمری تاریخ تھی.تاریخ تاریخ نام مع وطن موجوده کیفیت سکونت شمار مجری عیسوی ولدیت olt-y * (مرتب) #{ عبد الله ولد گرم باش ا رجب ۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء حافظ حامد علی و اصطلاح محمد نشی ر معظم علی ولد شباب خاں موضع دار ضلع جالندهر تحصیل جانند هر سنور محلہ کنواں ٹوٹ گڑھ تھانہ گمانوں ملازمت پٹواری تمہ غلام نبی صلع گورداسپور تاریان کاشت ا نمره ملازمت پولیس علاقہ قیصری ڈپٹی انسپکٹر پولیس کا منکره ریاست میاره تحصیل سربند ریاست پٹیالہ حسین ریاست پیالہ صاحب نمبر ۴ 11 لازمت 11 جموں لازمت مهر عنایت علی داد میر ولایت علمی لدھیانہ محلہ صوفیاں شهاب دین ولد مناسب دین حمد غلام نبی ضلع گورداسپور شیخ نور الدین ولد شیخ جان محمد تصبه نیست ضلع مظفر نگر مالیر کوٹلہ طالع محمد خان ولد محمد بخش خاں ما شیر کو محلہ عبد الحق خلف عبد السميع لدھیانہ محلہ رنگریزاں ریاست پیاله لدھیانہ محلہ بیٹریاں لازمت ریاست کو ٹلہ ریاست کو طله 11 پیشه نوکری لماز مست درسی ریاست خیاله محمد یوسف داد کریم بخش مهور محله تنبوان محمد بخش ولد عبد الله کتب فروشی جمائن شاه داور گلاب شماه اکبر پورے ضلع مالیر کو ملے کاشت میران بخش داد بهادر خان کھیر د ریاست پٹیالہ تحصیل امر گڑھ نمبردار علی محمد ولد احمد شاه رام سنگر والد ند هها نبی بخش ولد و الحمد کو نہ مانیر کمیر و علاقه شیرپور قضاء مختار کاری کاشت علی محمد ولد گلاب خان کمیر و علاقہ پیالہ ڈا کھانہ شیر پور مولوی فتح علی داد فضل الدین موضع دا نانوالی وضع خیری ریاست جموں توکل تحصیل سیالکوٹ جاگیر را پر امر سنگھ " " 1 " " "1 10 ۱۲ [I] 16 = = = = = IA 14 ۲۰ ۲۴ ۲۵

Page 364

۳۴۵ جماعت کا سنگ بنیاد روڈاون چیون کپور حملہ محلہ نصابی نقشہ نویسی جوڈ مشکل عدالت کپور تھل رحیم بخش وند کریم باش سنور محمد خوشا بیان ریاست پٹیال کارمت حشمت الله ولد فیض بخش منور ریاست پنیالہ ملازمت مدرس ریاست خیاله محله مانه محمد باش ولد عبد الرحیم سیالکوٹ خاص دوکانداری برازی و غیره علی محمد ولد اللہ بخش سٹور محله مجاوران ملازمت زنبور چی 11 عرف عيد الحمد ریاست خیاله ریاست پیاله ریاست پیالہ ابراہیم ولد علی اللہ بخش سنور محله نیواں لازمت دروس ریاست ریاست خیاله شمار محمد ابراہیم ولد نفی کریم بخش ولی محمد ولد عبد الله 要看 پیالہ محلہ ایک بازار احمد حسن خلف محمد اکبر پیاله پاره ور می خورد خلیفہ محمد عیسی ولد میاں جی فضل علی سنور ریاست پٹیالہ ملازمت پٹواری ریاست خیاله متوکل مستعفی لازمت محور کو ٹھ کچھ ریاست پٹیالہ ملازمت ریاست پنیالہ محرر باشن جان محمد ولد وولد و خدابخش و ادر در گاری محله مانه پیالہ بارہ دری خورد پیالہ قریب دروازه ملازم ندیل سامی چین باشیان شیرانوالہ تاریخ احمدیت.جلدا 1 " II = 14 11 1t TA FL 31 11 " "I " "L FI 21..II 11 ۲۲ ra PY 11 FL PA 11 ۲۲ " ۴۳ $$ ۴۴ 11 34 ra..۴۶ 11 مرزا سعادت بیگ ولد مرزار مسلم بیگ مرز امحمد یوسف بینگ دارد ولد مرزار ستم بینگ مرزا محمد ابراہیم بینگ ولد مرزا یوسف بیگ محمد حفیظ بیگ ولد منور بیگ الله دین داد کریم بخش عبد الکریم اولد محمد سلطانین سالانہ علاقہ پیالہ محلہ اندر کوٹ عرف امام گڑھ III **** 1114 لازمت تجارت = 11..بھیرہ ضلع شار پور چھاؤنی ضلع شاہ پور عرض نویسی صدر شاهپور سیالکوٹ سید عبد الرزاق دلده علی محمد کرام تھا نہ راہوں کریانہ تھانہ باطور مسماة مناں زوجہ علی بخش فرزند حسین ولعه علی نواز ۲۷ رجب بر زن ۲۲ مارچ ۰۸ اللہ دین ولد جیو نے خاص ضلع جالندهر منیت ضلع اند همانه IIII ا چھٹی داره لدھیانہ محلہ اگریزاں لد حياته 11 دری متوکل زمینداری لازمت بورڈ سکول ما بیا داد پر مالش محبوٹ گڑھ ریاست خیاله تعلقہ کمانوں زمینداری ھوٹ گڑھ تا در بخش ولد نیا و تن گڑھ تھانہ سائیوال رتن گڑھ ضلع در میانه زمینداری " بیگار اور مادر گھڑ لیں پور تحصیل گھر میں چار جمع ١٣٠٦ " ** FA tt te 11 看看 11 1311 ۵۰

Page 365

تاریخ احمدیت.جلدا 11 Ar 15 ۳۴۶ رو پر ضلع انبالہ امیرالدین ولد فضل الدین جسووال تھانہ ما همیواره II " B " Ar حافظ نور احمد ولد قادر بخش جماعت کا سنگ بنیاد جسوران خیاطی ضلع له میانه لدھیانہ محلہ موچه پوره زمینداری لود همیانه تجارت نیا والدین دند قاضی غلام احمد کوٹ قاضی محمد جان کوٹ قاضی محمد جان معلم امام مسجد تحصیل و زمر آباد ضلع گوجر انوالہ " 11 ۵۴..00 AY ง محمد تقی دند محمد یوسف محمد مصطفے والد محمد ابراہیم ۲۱ - رجب ۲۳ مارچ ۲۸۷ | محمد خلیل ولد محمد سلطان روز شنبه 19 "I [1 QA 04 11 منور ریاست پٹیالہ شور محله تنبوان عمره اسان 监督 {t گھر کا سائے لدھیانہ محلہ اقبال منج برنج خشان محلہ اقبال سنج پوار گری و میر محلہ اپیل نویسی محکمہ کپور تھلے جس کی ظفر احمد ولد محمد ابراهیم و ڈھانہ ضلع مظفر گر کپور تھلہ محمد خان ولد ولا در خان ریاست رام پور کپور تھلہ محلہ شیر گره امحمد فوجداری محکمہ انٹ مجسٹریٹ کپور تھلہ عبد الرحمن ولد حبیب اللہ سرادہ تحصیل پانچ ٹر کپور تھلہ املہ محکمہ جرنیلی ریاست ضلع میں تھ کپور تھلہ II 14 ۶۰ حاجی عبد الرحیم چھاؤنی الہالہ صدر تجارت المطلع تعلق ولی مدیرا..یروز حقه اسماعیل ولد صدر الدین موضع چهار تخانه را جوره زمینداری " = 11 عبد الکریم داد امیر علی ۶۳ ۲۲- رجب ۲۴ مارچ ۲۸۹ مرزا احمد بیگ اور مرزا ستانه ضلع بلند شہر روز کی ضلع سار شور ملازمت کریم بیگ ۶۴ مور زاد الالش اولد مرزا محمد ضلع جھنگ محله باحوالہ ضلع لاہور دروازه کیدیواله ملازمت ماسٹر کالج روڑ کی محترم چیف کورٹ پنجاب لاہور 10.محمد ابراہیم ولد محمد خان 11 ** منظر حق ولد صو به شماه دیلی بازار الف خاں کنده شیخ جراند موضع آلووال تحصیل و ضلع خود باشه پندار عبد القادر ولد اماموں خان موضع منگن تحصیل بود یا نه موضع جمال پور تحصیلی لودیانه زمینداری دري $111 5175 11 ۲۸ فتح دین ولد گاری موضع برج ہری سنگھ تحصیل جنگراواں = ۲۳ رجب ۲۵ مارچ دو ہمشیرہ صاحبزادہ افتخار احمد یعنی بھیرہ ضلع شاہ پور جمون HAAL زوجہ حکیم نور الدین صاحب مجھے سید سردار علی ولد تراب علی غلام محمد ولد روشن موضع جمالپور کھلے والا تحصیل موریانه کریانہ ضلع جالند مهر لود یا نه تحصیل بطور لازمت زمینداری محرر چو گل محلہ صوفیاں

Page 366

تاریخ احمدیت جلدا 11 ۷۳ " ۳۴۷ It عبد الحق والده عمرا حمد اللہ دین ولد عمر الدین لاہور کٹر ولی شاه در خانه پیر بخش جماعت کا سنگ بنیاد "4 کمپازیٹر گورنمنٹ سنٹرل پریس کیمپ شملہ کالی نویس ۲۴ رجب سه شنبه ۲۶ عبد الحمید ولد ستار خاں سل ریاست پٹیالہ لودیا نہ محلہ...کائی تولیس ابو حمید الله احمد تنکے بروزائے پلے هشت محمد ضلع پشاور و منظور تعلیم قرآنی مارچ ۸۹ ۲۵ رجب ۲۸ مارچ ۸۹ | ابو الخبير عبد الله ولد آستاز و جه حاکم ولد...حمت ضلع و تحصیل بود یا نه روز پنج شنبه ۷۷ روز دو شنبه یکم اپریل ۶۸۹ اسمعیل ولد سردارا LA موضع چانگان تحصیل نود یانه زراعت علی گڑھ سرشته دار یکشنبه ۷ اپریل ۲۱۸۸۹ | مولوی محمد تفضل حسین صاحب ار چوه علی گڑھ ولد مولوی الطاف حسین صاحب مرحوم رئیس او ناره و سرشته دار کلکنار ۹ چهارشنبه - اپریل محمد ابو القاسم ولد قاضی احمد حسین ادشاه محله پیرون توله A+ اینا ايضا علی صادق حسین ولد حیکم وارث علی ايضا سلکی علی گڑھ زمینداری خاری Al Ar Ar CAL ۸۸ت ات جمعہ ١٣- ايضاً مولوی قادر باش صاحب ایضا محلہ چوکٹ کو آن معلی ولد شیخ محب الله اینا ايضا محمد جان دله قاسم جانی ایضا لله ايضا عرضی نویسی متصل اٹاد ايضا ايضا....علی ولد بشارت ايضاً تجارت ايضا امیر علی ولد میر علی ايضا تجارت ايضا ايضا خشی محمد اکرام حسین وند شیخ محمد فضل صاحب ایضا محله نور تنگ آباد علی گڑھ ملازمت محرم زمینداری چهار شنبه ۱۷ اپریل مولوی نور محمد ولد مولوی عبد الله موضع ما نحت ضلع نور میانه ۱۰۲۳میں مولوی سید محمد احسن ولد امرد به ضلع مراد آباد محلہ بھوپال دار الریاست مہتمم مصارف 14 ٹکڑی "I 11 محله ساعدوان سید مرادن علی محمد السبحان ولد عبد الغفار کشمیری ماکن لاہور محلہ سا بدواں شاہ علی سرائے ریاست بھوپال ملازم ریلوے پولیں.لاہور لازمت "I ملازم ریح ہے - "1 فتح بخش ولد فیض بخش قوم قریشی لاہور موچی دروازہ یکشنبه ۲۹ اپریل باید محکم دین دند منشی امام دین ٹی ضلع لاہور PLAA چهار شنبه یکم مئی ۱۸۸۹ء مولوی خدا بخش صاحب ولد ستی شیخ ضلع جالندهر میاں صوفی جیوں ساکن بستی هیچ ضلع جالندهر یکشنبه امتی ۱۸۸۹ء | مولوی محمد عبد الله صاحب فخری کا ہند کہ ضلع مظفر محمر مختار امرتسر مولوی پرٹی لاہور میں کمپازیٹر ملازمت متوکل تدریس لما زست

Page 367

تاریخ احمدیت جلدا ولو میان مراسم علی صاحب ساکن کا ہندو نہ ་ 10 لا ۹۸ 11 ☑ ۱۰۴ بیا جمعہ ضلع مظفر نگر بشود دوستان ۳۴۸ متی ۱۸۸۹ء مفتی محمد جلال الدین صاحب میرفتی موضع برانی تحصیل کھاریاں رجمنٹ نمبر ۲ مقیم چھاؤنی متمان ضلع گجرات پنجاب ۲۴ مئی ۲۱۸۸۹ مولوی محمد یعقوب ولد اصل سکونت موضع پر تھ کانته نواح سیار پور جماعت کا سنگ بنیاد نوکری لازمت امامت مسجد حافظ محمد سعید خان صاحب حالی مسکونت بطور مستقل ویر رون بعد ترک وطن محله ༥.بمقام ڈر دون دها مانواله و معلمی محله و عالمانوالہ ور جی خدا بخش صاحب اصل سکونت نجیب آباد مود اگری ولید میراں محمد رمضان ضلع بجنور حال ساکن نجیب آباد ضلع بجنور سکونت از عرصه در از بطور حال سکونت مستقل به مقام زمره دون مستقل بمقام زیره دوان محله دها ما نواله سه شنبه ۲۸ مئی ۱۸۸۹ء کریم بخش پواری ساکن قصبہ سنور اصل سکونت قصبہ سنور چیشه پنواری حال متعینه پیائش موضع شاه پودر خورد ۲۹ مئی ۱۸۸۹ء مولوی نجف علی طالب علم بی اے اصل سکونت بمقام جلال طالب علم گورنمنٹ کالج کلاس گورنمنٹ کالج ولد مولوی محمد پور جناں ضلع گجرات میں و سوند می ساکن موضع جلال پور ہے اور اب لاہور میں بی جناں ضلع محجرات حال وار دلاہور اے گلاس کے طالب علم ہیں.۱۴ جون ۱۸۸۹ء میاں جان محمدند میاں ساگر قادیان قادیان ضلع گورداسپور ۲۰ جوان ۱۸۸۹ء میاں سید عبد الله ولد معظم شاه ضلع گوجر انوالہ امام مسجد کلان زمینداری محل وحا الواليه "I ساکن نو گھر ضلع گوجرانوالہ سید شماه دلد فضل شاه ساکن نو کھر ضلع گوجر انوالہ زمینداری ۲۵- جون میاں عبد العزیز خاں نا تک سیالکوٹ چھاؤنی ملازمت سیالکوٹ چھاؤنی ولد میاں عابد خان ساکن اپنے گھر علاقہ ضلع بنارس حال سکونت سیالکوٹ یعنی پشن نمبر ۲ کمپنی ۴ نائک پشن نمبر ۲۳ کمپنی ۱۴ ۲۸ جون ۱۸۸۹ء نشی عبد العزیز معروف نبی بخش ولد ناله ضلع گورداسپور ہاتھی دروازه "1 میاں محمد بخش ساکن بٹالہ ہاتھی دروازه فاطمہ المیہ حکیم فضل دین صاحب بھیرہ ضلع شاه بود بھیرہ ضلع شاه پور زمینداری زمینداری جولائی ۱۸۸۹ء منشی محمد اسحاق صاحب ملازم پھوپای دار الرواست ملازم ریاست بھوپال اریاست بھوپال

Page 368

جماعت کا سنگ بنیاد ۳۴۹ تاریخ احمدیت جلد ۱۰۵ ۲۵ جولائی ۲۵ جولائی ۱۸۸۹ حشمت علی خان متوطن خان سلمانه علاقہ ریاست پیاله تحصیلدار سر بند علاقہ پنیالہ ۱۰۲ ۳ اگست ۳ اگست ۱۸۸۹م عبد العلیم خان ولد وزیر خان ++A +1AA4 ماکن سامانه روز یکشنبه علاقہ ریاست پٹیالہ حال سکونت بطور عارضی لاجور سیان علاقه ریاست پٹیالہ سلنه جم الدین دند احمد یاد ساکن بحیرہ ضلع شانه ای در بھیرہ پر اور بی بندی مولوی حکیم نوردین صاحب چراغ علی داد مطاعمہ قوم گے زئی حمد غلام نبی ضلع گورداسپوره علی اعلام طا ہر و ندای علی ساکن سنور علاقہ ریاست و خیاله نوکری نوکری حال طالب علم اسٹنٹ سرجن کلاس میڈ یکل کالج لاہور نوکری زمینداری نوکری 11 عد اگست شور محلہ تھانوں کا علاقہ یوم شنبه ریاست میاره سمات حسین ہے عرف مینے سلمانه علاقه HAAL.اگست زوجه نظام علی خان ناظم مرحوم ہمشیرہ کلاں مرز امحمد یوسف بیگ ریاست بنیاد ساکن سامانه علاقہ ریاست خیاله مسمات حسن بی حرف حسینے زوجہ حشمت علی خاں تحصیلدام ہمشیرہ ثانی مرزا محمد یوسف بیگ سامانه علاقہ ریاست پنیال مسمات فیض ہے عرف منفے زوجہ شجاعت بیگ همشیره خورد مرزا محمد یوسف بیگ سامانه پنیالہ مسمات افضل انساء دختر اشجاعت یعنی 11 11 همشیره زادی مرزا یوسف بیگ سامانه سامنے علاقہ علاقہ ریاست پنیالہ سمات علیمه دختر شجاعت بیگ یعنی ہمشیرہ زادی مرزا یوسف بیگ سامانه علاقہ پیالہ مسمات میکینه دختر شجاعت بیگ یعنی ہمشیرہ زادی مرزا یوسف بیگ سامانه علاقہ ریاست پیالہ مسمات حمیده دختر مرزا شجاعت بیگ یعنی برادر زادی مرزا یوسف بیگ مسمات عنایت فی زوجہ مرزا محمد یوسف بیگ سامانه علاقہ ریاست پٹیالہ ریاست خیاله.."I "I مسمات سردار بی دختر الف بیگ مرحوم خوش دامن مرزا محمد یوسف بیگ 刺 LIA لا HA

Page 369

تاریخ احمدیت جلدا ۳۵۰ جماعت کا سنگ بنیاد ۲۰ ۱۲۳ مسمات صغرنی بیگم دختر مرزا عظیم بیگ برادر حقیقی مرزا محمد یوسف بیگ مسلمان کریم زوجہ مرزا اشرف بیگ مرحوم برادر حقیقی مرزا محمد یوسف بیگ مرحوم tr اگست ۱۸۸۹ء برکت علی ولد احمد علی قوم گئے زی ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے از والحجہ یعنی عبد القادر خان خان بهادر خلف الصدق قاضی محفل قا در خان شاور خاص الملعب کا نماخان ابن اعلم العلماء قاضی محمد حسن خان المقلب عمان العلماء خاص رئیس شہر پشاور پشنز گورنمنٹ سابق وزیر افغانستان ذات افغان یوسف زری محله با قرشاه اہاں زری قوم قاضی خیلاں پشنز ے محرم الحرام فیاض علی ولد رسول بخش قوم قریشی ساکن سرادہ ضلع میرٹھ محلہ مرادہ ضلع میرٹھ حال ملازم یعنی نوکری یعنی محرری فوج د ۱۳ قریشیاں حال ملازم یعنی محرر فوج ریاست کپور تصله محمود نوج ریاست پٹیالہ ریاست کپور تھلہ ۷۱۲۴- تمبر ۱۸۸۹ء مولوی شیر محد ولد میاں غلام مصطفی از میندار ساکن موضع بین تحصیل موضع من تحصیل بھیرہ ضلع طبابت و زمینداری ہم محرم ۱۳۰۷ھ بھیرہ ضلع شاہ پور شاه بود ۳۵ ۱۲ محرم ۱۳۰۷ھ سلیمان ولد شیر علی ساکن اید کے ضلع مکری تحصیل گوگیرہ موضع اینو کے تحصیل گوگیرہ ضلع شگری ۱۳۹ ۱۲ محرم ۱۳۰۷ھ مولوی عنایت اللہ گئے زئی دلد میاں نورانی ساکن نوشہرہ تحصیل پسرور نوکری و طالب علم نوشہرہ تحصیل پسرور በረ ٣٨ ۱۳۱ ضلع سیالکوٹ سکونت عارضی امر تسر صحبت مولوی احمد اللہ صاحب ضلع سیالکوٹ سکونت عارضی ستمبر ۱۸۸۸ء چوہدری اللہ بخش ولد ساکن لیل خاص تحصیل گورداسپورو عبد الله ولد رییس ساکن لیل تحصیل گورداسپوره $1 II ۱۳۴ ۱۳۴ " ۱۳۵ t IPV Irz ۱۳۸ I ۱۳۰ KT * مهردین ولد کرم الہی قوم آرا میں زمیندار ساکن لیل تحصیل گود اسپوره محمد دین والد الہی بخش قوم آرا ئیں ساکن لیل تحصیل و ضلع گورداسپوری حاکم ولد کرم الی قوم ارا میں ساکن لیل تحصیل و ضلع گورداسپوره فرزند علی ولد مهر علی قوم قریشی ساکن لیل تحصیل و ضلع گورداسپوره رحیم بخش دند سود اگر قوم آرائیں ساکن لیل تحصیل و ضلع گورداسپوری سزا دار و گھٹیا قوم ارائیں ساکن شاہ پور تحصیل و تله ضلع گورداسپوره گو ہر داد محمد بخش قوم زمیندار ساکن را ادان ضلع و تحصیل گورداسپوره قطب الدین ولد و زیر دین ساکن بد یچه تحصیل و ضلع گورداسپور قوم کشمیری امام بخش دند منگا قوم درزی ساکن روا...حال ڈاراں تحصیل و ضلع گورو اسپوره نعمت اللہ ولد عبادت علی شاہ قوم سید ساکن ڈڈواں تحصیل و ضلع گورداسپوره عمر اللہ ولد سید اقوم مجام ساکن ڈڈواں تحصیل و ضلع گورداسپوره فضل دین ولد محمد بخش قوم در زی ساکن ڈڈواں تحصیل و ضلع گورداسپوری حکم دین ولد نقو قوم ادائیں ساکن روال تحصیل و تالہ ضلع گورداسپوره برکت علی ولد فضل شاه قوم سید ساکن ڈاواں تحصیل و ضلع گورداسپوره امرتسر صحبت مولوی احمد الله تحصیل گودا سپور 11 11 زمینداری نوکری زمینداری " " " " 11 " " "1 زمینداری زمینداری زمینداری " در زنی گرمی ہم مقام دھاری وال در زی گرمی.زمینداری زمینداری " درزی گری گری دوزی گری در کارخانه مالی گھر

Page 370

تاریخ احمدیت.جلدا H w ۴۴ عبد الله ولد نور محمد ساکن سولان تحصیل و ضلع گورداسپور، کشمیری 10 نمبر ۱۸۸۲ء میر عطا محمد ولد میر سلطان محمد قوم سید ساکن بود میانه محکمہ صوفیاں حال ملازم نوکری ریل یعنی گارڈ متعینه می بند ۱۳۵ ۱۹ ستمبر ۱۸۸۱ء قاضی نظام مرتضی صاحب ولد قاضی محمد روشن این صاحب اصل متوطن احمد پور اسٹرا اسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ ضلع جھنگ حال ساکن قریه دین پور قریب مظفر گڑھ پنجاب ۲۱ ستمبر ۱۸۸۲ء میاں حافظ نور محمد ولد شیخ مراد علی گلے زئی ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپورہ ڈا کھانہ کانوں وان ۱۳۷ ۱۸- نومبر ۱۸۸۹ء | حافظ امین الدین عرف حافظ ماه ساکن تقدیان....۱۳۸ ۲۲ نومبر ۱۸۸۹ء میاں عبد الله ولد مراد ساکن مصنفہ شیر گازیریں ضلع منگری تھا نہ چوچک قوم کھولی تھانہ چوچک ماز جمعه اصل پہ میاں عبد اللہ مقام سیدوالا ضلع منگری زمینداری معرفت مولوی جمال الدین عبد الله جماعت کا سنگ بنیاد پیشه کشمیریان میاں عبد اللہ اس وقت 10 سمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں آیا ہوا ہے ۱۳۹ ۲۳ نومبر ۱۸۸۶ء میاں جمال الدین دلاد محمد صدیق قوم دا ئیں عرف کشمیری موضع سیکھواں کشمیری موضوع کو ان شمینا بانی 10+ ة JAI for for ۱۵۴ ماز جمعه ضلع تحصیل گورداسپور بقلم خود اينا اینا امام الدین ولد محمد صدیق قوم دائیں عرف کشمیری موضع سیکھواں ضلع تحصیل ثال بانی گورداسپو رده بنظام خود امام دین امام اندین ولد محمد صدیق قوم دائیں طرف کشمیری موضع سیکھواں ضلع تحصیل گورداسپوره بقلم خود امام دین ۱۰۲۲ کمپر ۱۸۸۹ء جانی والد نبی بخش سکونت خاص کپور تحصله ملازم توپ خانه مشهور مستری جانی ۳۳ و کمپر از ۱۰ صاحبزادہ سراج الحق صاحب خلف شاہ حبیب الرحمن صاحب ** 100 متوطن سر ساده متوکل سر ساده ضلع سانپور مولوی عبد الرحمن خلف مزمل علی شاہ صاحب قوم سید ساکن موضع دو لودلی ضلع سیالکوٹ تحصیل ڈسکہ مولوی احمد دین خلف مولوی کریم بخش صاحب متوطن سیالکوٹ شال بانی مشہور مستری جائی از اولاد حضرت محمد وم بہاؤ الدین شدر ہالوکی نبیره قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد و حضرت امام المسلمین نعمان ابو حنیفہ کوفی رحمتہ اللہ علیم پیشه تجارت و تعلیم ۱۵۶ ها ۱۵۸ 109 IN محله میانه پوره محی ۲۸- مبر ۱۸۸۶ منشی فضل حسین وند عملی نظام کی الدین اصل متوطن علی گڑھ حال سکونت مستقل کپور تعد یکم جنوری ۱۸۹۰ء میاں نور محمد ولد صدیق ساکن موضع نندی مرگ علاقه کشمیر ریاست جموں.۱۴ جنور کی ؟ شیخ فتح محمد ولد شیخ امیر بخش ساکن سیالکوٹ حال وارد جموں مریو ڈھاولد دار ا ساکن منگل باغبانان......DL ۱۵- جنوری ۱۸۹۰ء عبد الحق ولد مولوی غلام احمد صاحب ، ماکن ولا در ضلع گوجرانوالہ ۱۸- جنور کی ۶۱۸۹۰ تحصیل وزیر آباد میاں علی گو ہر دلعہ جہا نگیر خان افغان عرف پنکه ساکن شهر جالندھر کوٹ ، شکیاں کیم جمادی الثانی ہجری | سید محمد عسکری خان ابن سید محمد مادر کیس کٹر ضلع الہ آباد پیشه تدریس اتینین تو هنوانه ریاست کپور تھلہ پیشه زمینداری جوان طالب علم پیشہ نوکری زمیندار کیا طالب علم تو ممر سب پوسٹ ماسٹر ڈا کھانہ کپور تھلہ کپور تصله سابق آسترا است و مدار المهنام

Page 371

تاریخ احمدیت.جلدا MA NA E ง 14° 121 ۱۷۲ 16 140 121 144 IZA (A° 33 IAF IAM IAO ۳۵۲ جمادی الثانی ہے ۱۳۰ھ مولوی اتنی پخش زند میاں محمد ساکن شاہ پر رگو را به حال سکونت فروری ۱۸۹۰ء میں ضلع گورداسپور ایرانیم ولد عبد الله ساکن لیل ضلع گورداسپور 11 11 میران بخش ولد محمر بخش ساکن کلانور ۵ فروری ۲۱۸۹۰ محمد دین ولد حسن محمد ساکن بدر کے ضلع گوجرانوالہ فروری ۹۰ شیخ احمد ولد فیض علی ملازم به است کپور حمله فروری ۹ سید عبدالکریم والد سید عبد الواحد ساکن را گوٹ تحصیل جنگرانوں ضلع نور میانه و خیرا نے ولد بڈھا قوم جٹ ملازم فراش خانه بعده نائب جمعدار کپور حمله ۲ فروری ۱۸۹۰ء محمد المجید خان ولد اعلام کئی الدین خان سکونت اورنگ آباد تحصیل جنگاو برای نمبردار ۲۸ فروری ۲۱۸۹۰ منصور ند دیدار مالش سکونت سامانه علاقہ ریاست پٹیالہ محمود علی خان والد محمد موسیٰ خان از خاندان نوابان معجر سکونت " اور بیانه منائت الله ولد سکندر خان ساکن پخته موجود ضلع سیالکوٹ تحصیل رعیه محمد کرم الی ولد شبح الله بخش سکونت خاص پنیالہ امام علی ولد شیخ عبد السمیع پیر مردد الد شیخ عبد الحق بیعت ساکن اور میانہ حال کو ٹلہ مالیمر عبد الرحمن ولد دیدار بخش ساکن سنور علاقہ ریاست پنیالہ برادر میاں عبد اللہ سنوری - ۳ مارچ ۹۰ء ید عبد الهادی خلف سید شده و از صاحب ساکن با چھپواز و ضلع لود یا نہ تحصیل سمبراله ۴ مارچ ۹۰ و بروز سه شنبه نور محمد ولد ر کھا نمبردار ٹوٹ گڑھ تحصیل سرہند تھانہ کھاتوں ریاست پنیاله ۴ مارچ ۶۹۰ حسن خان ولد شیر خان ساکن سامانه قوم راجپوت علاقہ ریاست پیاله سردار خان ولد ولاو بر خان سکونت کپور تصله بر اور محمد خان ۱۰ مارچ ۶۱۸۱۰ شیخ نبی بخش ولد شیخ کریم بخش ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ۶- اپریل ۱۸۹۰ء مولوی محی الدین ولد حافظ بهاء الدین ساکن موضع پھو کر تحصیل چکوال تھانہ ڈو من ضلع جعلم حال بخدمت مولوی حکیم نور دین صاحب باراده استفاده مطلب ۸ - اپریل ۱۸۹۰ عبد الله ولد فضل دین ساکن نو شمره تحصیل پسر در ضلع سیالکوٹ محمد دین دند مراد علی ساکن نوشهر، ضلع سیالکوٹ تحصیل پسرور مولوی شیخ احمد حسن بن مولوی حافظ رحمت اللہ ساکن چھاؤنی نصیر آباد راجپوتانہ ضلع اجمیر اپریل ۱۸۹۰ جماعت کا سنگ بنیاد ریاست بھوپال حال سنٹر جگو ر نمنٹ پیشه طابت گوراب امامت مسجد چیشه درزی پیشه زمینداری لازمت نوکر ریاست کپور تھلہ نائب جمعدار لمبردار در زی گری کلارک استیشن ریل راولپنڈی زمینداری و لازمت ملازمت یعنی ریکارڈ کلارک را پوره اسٹیشن ڈاک بنگلہ سرکار وظیفه از بیگمات کوٹله زمینداری و ملازمت سب اور میٹر فشری پولیس بلالی علاقہ کو نہ ملک بلوچستان نمبرداری و زراعت کا تنبیل پولیس دہلی ملازمت نوج ریاست کپور تھلہ ر قعد او رساله پیشه ملازمت بالفعل چوکیدار پهره پیشه طبابت قضا نو شهره زمینداری نقل نویس عدالت دیوانی نصیر آباد و مستم مدرسه حقانی و سیکرٹری انجمن اہل حدیث نصیر آباد

Page 372

تاریخ احمد بیت.جلدا IAL IMA JAC ۱۰- اپریل ۱۸۹۰ مسجات حبیب نور بنت عبد اللہ خان زوجه مولوی شیخ احمد حسن سعد اطفال بنت نظر میگیر ۳۵۳ اپریل ۱۸۹۰ حسین شاه وند گلاب شاہ ساکن موضع نو کھر تحصیل ضلع گجرانوالہ تھانہ قلعہ دیدار سنگی ۱۳ اپریل ۱۸۹۰ شهاب الدین ولد خان محمد ساکن موضع شیخوپور ضلع گجرانوالہ تحصیل حافظ آباد ۲۵ اپریل ۱۸۹۰ عبد الکریم خان د اروزی خان باشندہ قصبہ ہے علاقہ ریاست پنیالہ جماعت کا سنگ بنیاد زوجہ شیخ مولوی احمد حسن احمد حسن معه اطفال هفت نفر دیگر پیشه ملازمت 144 عبد الکریم خان ولد وزیر خان باشنده قصبه یسے علاقہ ریاست پٹیالہ ۰۲۶ اپریل ۱۸۹۰ مولوی غلام جیلانی والد میاں فوٹ علی ساکن لومون تحصیل رو پر ضلع انبال سکونت عارضی کرو تو ہے ۱۷- متنی ۱۸۹۰ء میاں انوار الحق ولد میاں جان عالم ساکن میرٹھ قریب کو توالی امتی ۹۰ نظام حسن ولده جهانخان سکونت اصلی میانوالی ضلع بنوں سکونت عارضی پشاو ر المشهور مولوی غلام حسن ۱۷ مئی ۱۸۹۰ ء د ر لاہور مولوی حکیم غلام احمد ابن محمد خان ساکن ضلع شاه پور ا مئی ۱۸۹۰ و یعنی ڈاک خانہ نو شہرہ خاص سکونت مقام کھیس کے ضلع شاہ ہو ر ہمقام لاہور بیعت کی تھی بروقت پیشه داری مکان کرد نوجه علاقہ ریاست خیاله پیشه ملازمت و غیره پیشه ملازمت حال مدرس گورنمنٹ اسکول پشاور یعنی میو نیل بورڈ سکول پشاور پیشه طبابت و غیره تقریب بیماری این عاجز گی ۹۰ تحصیل چنیوٹ پیشه زمینداری ۱۹۵ ۱۹۶ ۲۵- مئی ۱۹۹۰ حافظ جمال الدین ولد میاں نور محمد ساکن مشکل بانہا ہیں ۴- جوان ۶۱۸۹۹ علی احمد شاوردند میاں ہی بخش ساکن نور پور ضلع کا کمرہ مترجم انگریزی کشنری ضلع جالندهر چیشه توکل علی الله پیشه ملازمت یعنی حریم کشنری ضلع جالندهر جولائی ۱۸۹۰ء برکت علی شاہ ولد عمری شاه ساکن خوش گڑھ تحصیل سی سند تھانہ کمانوں ریاست پٹیالہ چیشه توکل علی الله 142 11 ICA 194 ۲۰۰ غلام قادر ولد منگتا نمبر دار ساکن نوگانوه تحصیل می بند تھانہ کمانوں ریاست پٹیالہ ۲۵ جولائی ۱۸۹۰ کرم الهی و لد مارا ساکن موضع خوٹ گڑھ تھانہ کمانوں تحصیل کر ہند ریاست پنیالہ کرم الہی ثانی و لد فتح محمد ساکن نوٹ گڑھ تھا نہ کمانون تحصیل سرمند ریاست پنیاله زراعت پیشه زراعت ti to Et For پیشه زمینداری عطاء الہی ولد فتح محمد ساکن فوٹے گڑھ تھانہ کمانوں تحصیل سرہند ریاست پٹیالہ محمدی داد مامون ساکن غوث گڑھ تھا نہ کمانون تحصیل سربند ریاست پٹیالہ ۲۵- جولائی ۱۸۹۰ نور محمد ولد بوشناک نمبردار ساکن نموث گڑھ تھانہ سمانوں تحصیل می بند ریاست پٹیالہ چشه زمینداری تحوش گڑھ ریاست پٹیالہ تھانہ کمانوں تحصیل سرمند نمبرداری و زمینداری

Page 373

تاریخ احمدیت جلدا ۳۵۴ جماعت کا سنگ بنیاد r+o 11 مراد ولد عظیم تالش ستمبر ۱۸۹۰ء میاں نور احمد اصل باشنده چنیوٹ ضلع بجنگ حال دوکاندار در شهر کلکته محملہ کو بلو ٹولہ کو بھی نمبر ۳۳ ولد حاجی قاسم الدین ۲۰۲ ۲۰ تیر ۱۸۹۰ مانه محمد د اور برادر زاده شیخ نوردین صاحب تحصیلدار کو ٹلہ مالیر حال سکونت کو ملے ۲۰۷ ۵ اکتوبر ۲۱۸۲۰ قاضی احمد شاہ صاحب والد میاں محمد عبد الباقی ساکن منصور پور علاقہ ریاست پیاله سرشته دار نظامت را جوره ۲۰۸ ۱۰- اکتوبر ۱۸۹۰ حافظ محمد یوسف صاحب ولد حافظ محمد اور ہر اور شیخ نور دین سکونت حال بالیر کو لله ۱۳۲۰۹ اکتوبر ۱۸۹۰ خیر الدین خان ولد زیر دست خان قوم افغان ساکن کو عملہ مالی سوار ترب ششم مقیمی نیرا زیور ۳۱۰ ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء خان صاحب محمد علی خان داد تو اب غلام محمد خان قوم پچھان شیردانی رئیس مائیر کو محلہ ۲ دسمبر ۱۸۹۰ء شیخ عبد الرحمان نو مسلم والد د موندی رام ساکن ریلی عمر پانزده سال ۲۱ ۲ دسمبر ۲۱۸۹۰ قاضی عبدالرحمن صاحب ولد قاضی عبد الکریم صاحب ساکن چشاور محتله با قرشاه کلارک دفتر ۲۱ ۲۲ دسمبر ۱۸۹۰ء سید ماده شمار ولد سید حسام الدین صاحب مساكن سیالکوت خاص ۲۲۷۳ جنوری ۱۸۹۰ء سید فضل شاه ولد محمد شاه ساکن لاهور در اول حکومت علاقہ جموں جنوری میاں محمد علی ولد میاں نفع دین ساکن و زیر آباد ضعیف همراه Fla HAH "I سال سکونت عارضی جموں کام ٹھیکہ داری مر علی داد رحیم بخش قوم گے زئی ساکن تہ غلام نبی خوشہ گڑھ تھانہ کمانوں تحصیل اسی شده بر ریاست پیاله اصل باشند، چنیوٹ ضلع جھنگ زمینداری و زار است حال کلکتہ محلہ کی مولولہ کوٹھی نمبر ۳۳ دوکانداری پیشه طلبا بیست در کوله مالمیر پیشه ملازمت پیشه توکل پیشه سوار ترب فلم فیروز پور مالیر کومله ما تحت ضلع بود یا نه ریاست و جاگیرداری دیلی طالب العلم ساکن پشاور محمله با قر شماه سیالکوٹ خاص الحميد بالكون لاہور کار مست وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ مفتی محمد صادق ولد مفتی عنایت الله ساکن خاص بھیرہ ضلع شاهپور ۳۱- جنور کی ان ۱۸م خان غلام قاسم محمد بخش ساکن پیار پور ضلع دایره اسماعیل خان ڈا کھانہ پیار ہو ر Pi TIA HANGJI.....۲۱۹ ** علی حبیب الرحمن پر اور زادہ حافظہ حاجی ولی اللہ صاحب اصل سکونت سراد، ضلع بر گفته وارد حال کپور تحمله میاں روشن دین داد فلانی ساکن کپور تھلہ قصہ غلام نبی ضلع گورداسپوره بمیره حال خانه نشینی مگر پیشه ملازمت انه نشین پیشه ملازمت ۲۲ محبوب عالم درویش تو عمر محبوب عالم درویش هر هفتهد سال داد بذهن شاه عمر بفتند و ساله ساکن کپور تصله ۲۲۱ خشی غلام قادر فصیح والد میاں عبد الله ماتی ساکن سیالکوٹ ۲۷- تاریخ ۱۸۹۱ It ۲۲۲ ۲۲۴ Fr ۲۲۵ 751 میر محمود شاہ والد میر حسام الدین صاحب ساکن سیالکوٹ - امپریل ۱۸۹ء علی بخش ولد صو با ساکن چک علاقہ ریاست پنیالہ مولوی محمود حسن خان صاحب والعدد زیر محمد خان ساکن کہے پالے علاقہ ریلی ۲۸ مئی ۱۸۹۱ء حال مدرس موضع جنانوالی علاقہ پنیالہ مولوی حکیم سید محی الدین عربی الاصل ولد سید محمد حسین صاحب ریاست میسور مولوی مبارک علی ولد استازی مولوی مولوی فضل احمد صاحب مرحوم و مغفور خانه نشین پروپرائیٹر واؤ مٹر اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ نقل نویس دفتر صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ زمیندار معرفت میاں عبد الله دوس سکونت خاص لشکور علاقه بریاست میسور ہائی سکول فارسی اردو منشی سکونت غوث گڑھ معرفت

Page 374

تاریخ احمدیت.جلدا زمیندار ضلع پنیالہ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ " ۲۳۰ TEL ۱۳۲ FA ICC ۱۳۵ IPX ۱۳۷ IPA ۴۲ དྷྭ ཉཱ ཏུ དྭེ 174 ۱۳۳ ۱۴۴ ۱۴۸ 10+ ۳۵۵ جماعت کا سنگ بنیاد میاں عبد الله مستور الی بخش عمر چارده ساله و لاد کرم بخش ساکن خوش گڑھ قوم زمیندار ضلع پنیالہ سکونت نخوت گڑھے معرفت میاں عبد اللہ سنور رحمت الله طفل عمره چهارده ساله و ند احمد غوث گڑھ علاقہ ریاست پنیاله نشی رحمت اللہ ولد شیخ عبد الکریم قوم قا نو عموئی ساکن گجرات حمر سال نمبر میونسپل کمیٹی مولوی غلام نبی ساکن خوشاب ضلع بھیرہ سید امیر علی داماد حکیم حسام الدین صاحب سیالکولی نام اصل علاالدین عرف امیر علی شاہ ولد سید ہدایت شاہ قوم سید سکته اصل نانومی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ ۴- جوان ۲۱۸۹۱ مولوی محمد حسین دلد روڑا ساکن بھا گوارا ئیں ریاست کپور تصله همه سال لا مز اندام سیای ما ئل رحمت ۱۵- جون ۴۱۸۹ میر نا صر تو اب داهوی خسر این عاجز نقشه نویس دفتر نهر مولوی تاج محمد ند نجم الدین اصل سکونت موضع سید ہانڈی ་་ ریاست پنجه متعلق ریاست کشمیر معه برادران نور دین سید محمد بالفعل سکونت موضع پوکری تحصیل بود همانند ساینه دال مضلع لود یا نه ۲۸ جون ۸۹ام میاں عطاء الر حمن ولد عبد الر حمن ساکن والی محله چنگ دروازه متصل مدرسه علی جان پیشه عطاری ۲۸- جون مولوی محمد الدین ولد غلام عید به قوم علماء ساکن مسند انوالہ حال سیالکوٹ کو چہ حکماں میاں نور محمد ولد ولی محمد ساکن هانسی معرفت صاحبزاده سراج الحق صاحب 1t اجزادہ سراج الحق صاحب ساتھ تھے جولائی ۱۸۹۱ء سید حیات علی الد سید ہدایت علی ساکن موضع مالومی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ اپنی انسپکٹر پولیس ضلع گجرات پنجاب " "I = خشی غلام محمد ولد فضل الدین ساکن سیالکوٹ محلہ حکیم حسان الدین صاحبزادہ افتخار احمد صاحب خلف منشی حامی احمد جهان صاحب 1 جولائی A1 شیخ محمد بن شیخ احمد کی من حارہ شعب عامر ۱۲ جولائی ۱۸۹۱ء علی بخش ولد موئی قوم را اول ساکن پھر اردو تحصیل بھگوار و ضلع جالند هر پیر مرد ضیعت العمر.جولائی در امور محمد حسین ولد الہی بخش پو تہ میاں محمد چند ساکن لاہور جوان معمر یا تئیس سائیں ۱۲- جولائی ۱۸۹ء میاں معراج الدین دارث میاں محمد سلطان ساکن لاہور لنگے منڈی ولد میاں الہی بخش شیخ عبد الرحمن ولد شیخ رمضان ساکن لاہور کیکم اگست ALAA عبدالکریم والد مولی بخش ساکن سیالکوٹ 1 مولی بخش ولد نوپی شاه ساکن بود همیانه اگست ۱۸۹ء کرم ای ولد حسو ساکن بود حیا نہ فتح محمد ولد ملک شاہ نو مسلم ساکن پندوری ضلع ہوشیار پور اد ۲۲- اگست ۱۸۹۱ء بڈھے نمان ولد محمد بخش ساکن بیری ضلع گورداسپورو سکونت خوش گڑھ معرفت میاں عبد الله سکونت گجرات مقام اود همانه بیت خوشاب ضلع بھیرہ حال مقیم سیالکوٹ حال مقیم سیالکوٹ لازم پولیس سارجنٹ در چه موئم سکونت موضع بھا گوارا ئیں تحصیل سلطان پور علاقہ ریاست کپودر شعله سکونت و علی پیشه نوکری چیشه و عطای مولویت پیشہ عطاری لودھیانہ میں دہلی سے اگر مرید ہوئے طالب العلم لود بیانہ میں اگر بیعت کی اور صاحبزادہ 11 کی کن جارو شعب کا مرہ چیشه دوکانداری پیشہ تجارت لاہور کے ایک معزز خاندان کا نمبر ہے ht لازمت مدرس بود یا نه کرم الھی ولد حسوسا کن ندهیا نه قوم آرائیں ملازم پولیس حکیم فتح محمد ولد ملک شاہ نو مسلم ساکن پند دری ضلع ہوشیار پور پیشہ حکمت Et زمینداری

Page 375

تاریخ احمد بیت جلد) ۳۵۶ جماعت کا سنگ بنیاد tor 10 104 106 IOA 101 MW IWF ✓ no FF 5 E F ۳۰ اگست تا از این کار اور مولوی رحیم الله والد مولوی حبیب اللہ قوم راجپوت ساکن لاہور محلہ لگی منڈی اسماعیل ولد میر اسا کن ناندا تمبر ۱۸ اسماعیل ولد محمد یار خیاط ساکن سیالکوٹ محفلہ وہاب کشمیری حال دارد چھاؤنی مانند عریشن نمبر ۳ کشمیر ان انا اور : = ۲۳ تیر ۸۹ ۲۵ کشمیر ۱۸۹۶ وازم سالک رام گر..سالہ نظام الدین ولد محکم ساکن بھا گوا آرا میں تحصیل سلطان پو ر ریاست کیپور تحمله پیشه زمینداری عبد الکریم حرف گلو ولد پو لوستقا سا کن امیر کو طله پیشه مقه همشیر خاین حرف الله و تاولد اعظم خان ساکن سیالکوٹ پیشه ملازمت پیشه و حفظ اسماعیل روند پیر اماکن تاند اقوم جٹ تحصیل سمرالہ صلح بود بیا نہ قوم جٹ لڑکا و عمر حمر عرصه سال حکیم اللہ بخش ولد میاں ایم بخش ساکن کو لالہ غیر ریاست مرزا انه اش صاحب کے امراہ اگر بیعت کی محمر ا کبیر خان ولد فلک محمد خان ساکن منور پیشه از مست محمد حسن خان ولد محمد عمر خان ساکن سنور " مولوی مردان علی ساکن حیدر آباد دکن منتظم و نشتر مکاسب سرکار نظام شماه در آباد میاں کریم بخش ولد غلام رسول ساکن جمال پور قوم ارائیں پیشہ زمینداری میران قادر بخش بوادر عظمت علی ساکن اور یا نہ پیشہ ملازمت گهر جوان ۲- اکتوی PLAN یر کمت علی ولد محمد طالب کا شیری اصل حکومت ہریانہ ضلع ہوشیار پورحال لازم د یکسی نیٹر فتاخانه ریلی مولوی محمد تقلیل ولد لکھے خان ساکن لاہور ۱۵- تو میر به ۱۸ د شیخ رحیم بخش ولد شیخ احمد جان صاحب ایم اے رس اسکول لاہور اصل باشند، جالندھر امتحان داده ایم اے تو میر ان ۱۸ علی محمد ولد شاہ محمد ساکن کانہ کوٹے ضلع گورو اسپوره 11 11 کے اور ممبر اء 140 "I 12 "1 122 tt * * * * IZA حسین شاہ ولد حاکم علی شاہ قوم سید سکنہ کھٹیالہ تحصیل مقالہ سارجنٹ پولس گورداسپورہ عبد العزيز ولد محمد یعقوب نوجوان انگریزی خواص عمر میں سال اصل ساکن انبالہ حال دارد کپور تھلہ میاں عبد الرحمان نو مسلم ساکن بورد یه متصل قادیان حکیم محمد اشرف ولد شیخ محمد علی مرحوم ذات ہاشمی خطیب پیالہ پیشہ طبابت میان قطب الدین ولد شیر محمد مرحوم قوم افغان ساکن امر تسر پیشه من گری مصطفی شاه ولد عبد الله شاه ذات سید موضع چھنی ضلع بھمبر ریاست کا شمیر سافه فضل احمد ولد میاں نور احمد ساکن گجرات پنجاب حال دارد لازم دختر اگزیز رہے ہے کہ سیٹھیاں دروازہ بھائی.نی بخش ولد عبد الله ساکن روالپنڈی حال لازم و فتر اگر یمیز صاحب بہار بر ریلوے لاہور شیخ عبد الرحمن بی.اے برادر شیخ رحمت اللہ صاحب جو پہلے اس سے سلسلہ بیعت میں داخل ہیں.ساکن گجرات حالی دارو لاہور نعمت علی ولد محمد علی ہاشمی عباسی خطیب بٹالہ ضلع گورداسپور حافظ محمد اکبر ولد محمد صدیق قوم کشمیری ساکن حال لاہور چیشد امامت مسجد نظام محمد وند میاں دین محمد امام مسجد محله کرده ولی شاہ لا ہو ر بخانہ منشی کرم الهی - کمیر الام خلیفہ نور الدین ولد میاں عبد الله مشهور میاں موجدین ساکن جموں تاجر کتب مستری محمد مردند ساکن جلال پور جٹاں ضلع گجرات مال لازم جموں

Page 376

تاریخ احمدیت جلدا Ar Ar LA..MAY * * * * * % 阐 ۱۹۳ 14 ۱۹۴ 146 144 194 MA KI ۲۰۲ " ۳۵۷ شیخ محمد جان ولد محمد بخش سکنه و زیر آباد ملازم محال چوب راجہ امر سنگھ صاحب قاضی محمد اکبر داد قاضی سلطان بلکل ساکن کشور به حال ساکن جموں فضل الرحمن ولد مفتی شیخ عبد الله ساکن بھیرہ حال جموں بخانہ مولوی نور الدین صاحب احمد الله ولد مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم ساکن بھیرہ حال ملازم محکمہ پر مست در جنون دوست محمد ولد حکیم غلام احمد ساکن بھیرہ ضلع شاہ پور حال وارد جموں ملازم محکمہ پولیس جون ۲ جنوری ۱۸۹۳ خلیفه و شیدالدین ولد خلیفہ حمید الدین نامور موچی دروازہ طالب علم میڈیکل کالج ۲ جنوری ۱۸۹۳ سید عنایت علی شاہ واللہ حکیم سید کرم علی شاہ مرحوم ساکن لاہور لوہاری منڈی کو چہ ہیں پھولا ކ ر مفضل حسین ولد سید نیاز علی شاہ مرحوم سکنہ مرحوم سوتر منڈی "I "I جماعت کا سنگ بنیاد سید محمد ناظر حسین ناظم او یٹر یا ظلم السند سفیر گورنمنٹ لاہور ولد سید ولایت حسین خان ساکن باہره سادات وارد حال لاہور انار کلی تحمیہ المی والا ۹ جنوری ۱۸۹۳ میان سردار خان ولد مولوی نظام احمد صاحب برادر زادہ مولوی حکیم نور الدین صاحب ساکن لون سیمانی ۱۰ جنوری ۱۸۹۳ء عهد المرور تکمیل پانزده ساله ولد میاں چراغ دین دارت میاں سلطان مرحوم ٹھیکیدار سکونت لاہور محلہ نگی منڈی متصل تالاب حویلی میاں الہی بخش ۱۲ جنوری ۱۸۹۳ سید حسن شاہ ولد سید غلام فرید سکونت سابق را در ضلع سکونت حال موضع قادر آباد تھانہ کچھو نکل ضلع و تحصیل امرتسر میان قادر بخش ولد میاں محمد بخش ساکن قادر آباد تھانہ کشو نشل تحصیل و ضلع امرتسر ۱۳- جنور کی ۱۸۹۳ء سردار ویٹ خان ولد مسٹر جان ویٹ قوم انگریز ساکن ایت نمل حاله مدارس حال مقیم کرنوں ڈسٹرکٹ منصف کرنول ضلع کرنول حاله مدارس ۱۸ جنوری ۱۸۹۳ء شیر دین ولد سو ہنے خان قوم راجپوت ساکن کشمیلہ تحصیل نالہ ضلع گورداسپوره ۲۰ جنوری ۱۸۹۳ء نظام محمد بن خد املش متوطن بھیرہ ضلع شاهپور = = = = غلام قادر داد بو جا ساکن تحصیل زیره ضلع فیروز پور مقام کٹھ بار شاه واله مولوی محمد صادق ولد مولوی محمد عبد الله ساکن موضع سرگل تحصیل وڈاک خانہ شکر گڑھ ضلع گورداسپوری فارسی سے رس ہائی سکول جنوں فضل بیگ پر کریم بیگ ساکن موضع کبیر پور مغلاں تحصیل ہوشیار پو ر ڈاک خانہ ہریانہ مرزا محمد علی ولد مرزا حسین بیگ ساکن پٹی ضلع لاہور تحصیل قصور ۲۵ جنوری ۱۸۹۳ء اله بخش ولد محمد بخش قوم ساکن خاص لاہور رشتہ دار میاں محمد پٹو " F+ "I ۲۰۵ ۲۰۸ F+A ۲۱۰ FIF محمد خان دند قاسم خان ساکن نیرو زیور ضلع گوجر انوالی ہوئے خان ولد شرف دیں ساکن فیرو زیور ضلع گوجر انوالہ محمد یعقوب و او رحمت علی شاہ ساکن رائے کوٹ ضلع لودھیانہ تحصیل جگر انوالہ ۲۹ جنوری ۳۱۹۹۲ احمد دین ولد شیر محمد قوم جنجوعه ساکن پلیواله تحصیل گوجر انواله حال ملازم لانه برکت رام وکیل چیف کورٹ محمد الدین ولد فضل دین قوم بھٹی ساکن اروپ تحصیل گوجر انوالہ حال محرر معائنہ محله بند دبست تحصیل گوجر انوالہ امیر تالش ولد حسین بخش ذات راجپوت سکنہ گڑھ شکر ضلع ہوشیار ہو..بیعت بذریعہ کارڈ یکم فروری ۱۸۸۲ و شیخ نور احمد مستم مطبع ریاض بندوند شیخ بهادر علی ساکن حال امرتسر ་་ نور احمد وند محمد سلطان ساکن امر تسر مغل دروازه پیشه می گری فضل این دنده علی محمد قوم زرگر سکنہ سیالکوٹ یکم فروری ۹۲ در امور نظام محمد داد میاں جمعہ مرحوم ذات قصاب ساکن بھیرہ شیخ نیاز احمد ولد شیخ غلام قادر سوداگر وزیر آباد ضلع گوجر انوالہ

Page 377

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۵۸ rir " 11 11 ria " FO 11 MZ PIA ۲۲۰ 1 شیخ محمد دین والد جیون قوم قریشی کنسٹیل ملازم ہونس ساکن سیالکوٹ شیخ مولا بخش ولد نبی بخش بوت فروش ساکن سیالکوٹ شیخ الله مالش سود اگر ساکن صدر بازار چھاؤنی سیالکوٹ محمد صدیق ولد مع فضل کریم...نائب تحصیلدار ایوب بیگ داد مرزا نیاز بیگ طالب علم جماعت چهارم انگرس مدرستہ العلوم لاہور مکند کلانور ضلع گورداسپور محمد پانزده سال شادی خان ولد جیون خان مرحوم ساکن سیالکوٹ ملازم راجہ امر سنگھ جموں نور احمد وند غلام غوث ساکن شمرده اند هر یراسته محله پنگواره ۵ فروری ۱۸۹۲ يعقوب بیگ ولد مرزا نیاز بیگ طالب علم درستہ العلوم لاہور پر دار کنان ایو ب بیگ * ۲۲۲ ۲۲۳ LE ۲۲۴ " ۲۲۵ " ۲۲۶ 11 محمد بخش ولد میاں قطب الدین قوم کشمیری سکنہ موضع کر یا نوالہ ڈاک خانہ خاص موضع مذکور تحصیل و ضلع گجرات پنجاب حال دارد کمک بلوچستان مقام پھر جمیله کدری معرفت...صاحب انجیر نیاز احمد ولد شهاب الدین پال سکونت نوشهر در یاست جموں عارضی طور پر وزیر آباد تظام نہیں رند شیخ نیاز علی قوم گے زئی ساکن تو شعرہ تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ اللہ رکھا ولد امیر بخش قوم سلم یا ساکن نوشہرہ تحصیل پسرور مضلع سیالکوٹ جیون جان ولد خیر الدین ساکن لاہور مولا بخش میان چٹو ساکن نا ہور ہے.فروری ۱۸۸۲ منشی تاج الدین ولد منشی چراغ الدین سکنہ لا ہورا کو منٹ محکمہ ریلوے مولا بخش دلف سلطان بخش کلرک ایگز امیر آنی اکو شٹ شمالی مغربی ریلوے لاہور يعقوب علی ولد محم علی منتظم اول سکول لاہور سکنہ حاشتہ کلاں ضلع جالندھر تحصیل نواشر ITA 11 Frq ۲۳۲ EEEEE ۲۲۴ EEEEEEEE ۲۴۲ ۲۴۳ YEA = 11 "" تھانہ برا ہوں فتح محمد ولد امام الدین خان راجپوت سکنه موضع ضلع و تحصیل اور یا نہ تھانہ دیر گنه و اگه حال لاہور عنایت الله فرزند مرز الطف الله صاحب مرحوم طازم دفتر اکاونٹ جنرل پنجاب شاب الدین ولد امام الدین ساکن موضع ڈاک خانہ اسکہ ضلع سیالکوٹ امام دین ولد رمضان قوم علماء ساکن موضع تحصیل دڈاک خانہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ امام الدین ولد امیر ساکن موضع باناں والا ضلع و تحصیل گجرانوالہ قوم ماچھی وار دلاہور محلہ ستان دروازہ بھائی مولوی محمد عالم الدین ولد حاجی ولد احمد یار ساکن بھیرہ ضلع شاہ پور قوم قریشی محلہ عبد الرب مرحوم فیروزه بیگم زوجہ سید حامد شاه سیالکوٹ محمودہ بیگم زوجہ امیر علی شاد سیا لکوٹ زينب لي لي زوجہ مولوی عبد الکریم سیالکوٹ 31 حشمت بی بی وانده مولوی عبد الکریم" نذیر بیگم دختر حامد شماه محمد بی بی زوجه شاه محمد مرحوم صفر بیگم زوجه محمود شاه سید ابن حکیم حسام الدین صاحب حکیم احمد لي لي زوجہ احمد شاہ مرحوم سید سیا لکوٹ احمد ليالي دختر محمد بخش هم مولوی عبد الکریم سیالکوٹ تاب بی بی زوجہ سید عمر شاه سیالکوٹ عزیز الدین ولد گلاب حکیم ساکن پسرور ۱۲ فروری ۱۸۹۲ء امیر بخش دند صو با قوم مسلم یا سکته نوشی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ جماعت کا سنگ بنیاد

Page 378

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۵۰ ral $1 Far "1 For ۲۵۵ " TOY " 906." TOA ۲۵۹..۲۶۰ " +9 ۲۶۲ ۶۲۴ ۳۵۹ میران بخش داد کرم اسی قوم گلے زئی نوشہ تحصیل و ضلع سیالکوٹ غلام محمد ولد اللی بخش ساکن نو شمرو تحصیل و ضلع سیالکوٹ جماعت کا سنگ بنیاد عبد الرسول ولد عباد الله قوم اعوان ساکن ملک دال تحصیل تھانہ ملا منگ ضلع جسلم ساکن جموں معلم کے رسہ سرکاری منظور محمد برادور مانزاده افتخار احمد ولد عملشی احمد جان صاحب مرحوم اسلامه و نشتر خان بهادر ساحب ممبر کو نسل محمد اسماعیل ولد مرزا بد با بیگ ساکن تکدیان تصدق حسین ولد غلام نبی قوم را انجها ساکن نورخان دالہ تحصیل بھیرہ ضلع شاہ پور تھانہ چک برابر اس محمد شفیع ولد محمد الدین قوم علماء ساکن ڈوگر انوالہ تحصیل ضلع و علاقہ گوجر انوالہ نظام الدین دند میان نظام علی قوم اعوان مسکنه رنگ پور تحصیل و ضلع مظفر گره پنجاب امیر الدین دند میان امام الدین ٹھیکید ار ساکن گجرات امیرالدین ولد نور الدین ساکن ممرات محلہ خوجانو الله لعل محمد ولد میاں جانی خان ساکن گجرات محلہ خو جانوالہ چوہدری عبد الله خان ولد چه به مری مولار ارزات جوزه ساکن گجرات نظام محمد ولد رجب علی قوم کشمیری سیکرٹری انجمن حمایت اسلام جائے تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ چراع الدین ولد احمد دین قوم گجر مشهور علماء ساکن...علاقہ ریاست جنون احمد دین ولد حکیم نظام حید ر قوم قریشی سمند با نوالیه حال دارد سیالکوٹ ملازم مکہ بند و بست بعمده و نائب نقشه نگار - فروری ۱۸۹۳ء منشی تاج الدین ملازم دفتر اگر یمز نارتھ ویسٹرن ریلے سے لاہور.فروری ۱۸۹۲ء بمقام لاہور ۱۸ فروری ۱۸۹۳ء نجم الدین و غلام جیلانی پسران محمد بخش مرحوم قوم صحیح المعروف علی ساکن کو ر دوال رکھ سمروال تحصیل و ضلع سیالکوٹ " ۲۶۶ ** " MA 10 *6* غلام محمد ولد میاں محمد علی ساکن گجرات محملہ قانون گویاں مولوی احمد الدین ولد محمد حیات موضع متار و ضلع مسلم تحصیل پنڈ دادن خان قطب الدین ولد شرف الدین موضع کو اللہ متصل چھاؤنی جسلم عبد الله ولد نظام الدین ساکن ملکھا نوالہ ضلع سیالکوٹ تحصیل ڈسکہ مولوی نگر شریف ولد سید مصطفی صاحب سکونت پسرور ضلع سیالکوٹ ۲۰ فروری ۶۹۳ چرام دین ولد قطب الدین معمار سکونت پسرور ضلع سیالکوٹ LU 11 ۲۷۳ ۲۷۵ " 866 TZA 1 724 *A* $1 FAI TAP فضل دین ولد الست خان سکنه نار تنگه تحصیل ظفر وال ضلع سیالکوٹ الی باش ولد فضل سکونت الر تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ فضل دین ولد ہدایت کشمیری ساکن سیالکوٹ غلام مرتضی ولد پیر شاه قوم سید ساکن موضع مو با رے تحصیل سیالکوٹ صیح الد عادلہ اللہ جو ایا شیخ خواجہ ساکن ہے رہ ہیراں منبر کہتے ضلع سیالکوٹ نبی بخش ولد بد ایت الله اوان ساکن مهاتراج تحصیل ظفر وال ضلع سیالکوٹ حال سارجنٹ سوم پولیس سیالکوٹ احمد دین پسر شادی خان قوم گئے زلی ساکن میانی ضلع شاہ پور احمد علی شاه ولد ہدایت شاه سید ساکن موضع الوسی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کرم بخش ولد اکبر قوم کشمیری رنگ ساز ساکن سیالکوٹ متصل محله حکیم حسام الدین مظفر الدین ولد محمد فوٹ سکونت خاص لاہور اگریمز آفس معرفت عبد الحق تاجر کتب لاہور حافظ محمد کو بر ولد عبد الله ساکن پسرور ضلع سیالکوٹ امام الدین ولد محمد - محمد سلطان ساکن پسرور ضلع سیالکوٹ

Page 379

جماعت کا سنگ بنیاد ٣٩٠ سید محمد طلع نظام الدین حاجی ہم رو طاقہ سیالکوٹ حاکم دین دند گرم و دو ساکن ملکھا نوالہ ضلع سیالکوٹ محمد حیات داند خیرالدین ساکن گڈی آواں ضلع گوجر انوالہ حال لازم پولیس سیالکوٹ سید احمد شاه داد میربادشاہ ساکن پشاور خاص بازار قصہ خوانی در گلو میاں محمد شله سراج الدین ولد اللہ دین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجر انوالہ امیر علی شاه داد سید امام شاه ساکن موضع میدان والی ضلع سیالکوٹ نواب شاہ ولد سید شاہ محمد ساکن سیا لکوس محمد اسماعیلی داد جن ساکن ۱۰۰۰۰انوالہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ نی بخش داد بهادر ساکن ریچوره تحصیل ضلع سیالکوٹ سارجنٹ پولس سیالکو حافظ کو ہر ساکن پسرور محمد علی ولد فقیر الله ساکن سیالکوٹ محله صور انوالہ تاریخ احمدیت جلدا.." TAP TAO PAY TAL 醫聲 FA π+ ۲۹۰ " " PF "L ۲۱ فروری ۲۱۸۹۲ محمد امیر خان ولی جو ہر خان ساکن بنور ریاست پنیالہ میم سیاره نپور ہم تمام کپور تھلہ زین العابدین ولد غلام حسین خان پور ریاست پٹیالہ ڈاک خانہ سرہند علی احمد ولد حافظ محمد زبیر ساکن رائے پور ریاست نامہ تھانہ المرور مرزا رحمت الله ولد مرز اخد انخش ساکن نور میباشد نظام الدین اند پیر محمد ساکن کپور حملہ قوم راجپوت پیشه بافنده عبد الله ولد نظام الدین قوم راجپوت سکنہ کپور تحله چیشه بافنده عبد الرحمن ولد قوم بانند ، ساکن کپور تھلہ ماده تا باوند قلبا قوم روغن گر ساکن کپور تھلہ حافظ صیح الدین ولد ذات اوا میں ساکن شیر پور تا بانوالہ ضلع فیرد زیر در It 11 146 196 MA F40 ۲۳ 1 2 2 2 2 [ * * ≥ ≥ 2 2 E It **.." 56 " 11 r 1 حال دارد کپور حمله بیوی کلان منشی فیاض علی صاحب کیپور تعلہ ندی خورد خشی فیاض علی صاحب " ہمشیر، منشی فیاض علی صاحب اہوئی میاں محمد خان صاحب لازم ریاست کپور تحله بیوی میان سردار خان صاحب ملازم ریاست کپور حملہ والدہ میاں محمد خان صاحب ملازم ریاست کپور تھلہ حکیم متاب علی صاحب ولد غیر شاہ سید ساکن جاند هر حال ملازم ریاست کپور تھلے عبد الرحمن ولد غلام قادرجت ساکن پنڈوری کنکوریاں تحصیل و ضلع ہوشیار پور حافظ امام الدین ولد ابراہیم قوم ارا میں ساکن کپور تھلہ امام مسجد حاجی صاحب خشی محمد امیر ملی کچری اول تعلق دار مطلع در نگل ریاست نظام دکن ۰۵ مارچ ۲۱۸۹۲ گلاب خان ولد میران بخش نقشه نوی...ساکن سیالکوٹ پورن دروازه ۸- مارچ ۱۸۹۲م حمد الجيد ولد محمد خان قوم افغان ساکن کپور تصله Et H ۳۱۷ PIA ۲۱۹ # ۲۲۰ سید محمد سعید ولد سید محمد ابراہیم مرحوم ساکن دیل از اقارب قریبه میر ناصر نواب صاحب ہے اور اہلیہ این عاجز حسن محمد ولد محمد بخش قوم تقسیم ساکن بین تحصیل بھیرہ ضلع شاہ پور حاجی شاہزادہ عبد المجيد ولد عبد الواحد قوم شاہزادہ ساکن اور بیانہ محلہ اقبال منیج امیر بخش ولد حید ر باش دلت راجپوت سکنہ گڑھ شکر ضلع ہوشیار پور نور احمد ولد حاجی قائم الدین اصل سکونت چنیوٹ ضلع جھنگ سکونت عارضی مدارس

Page 380

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۲۴ ۳۲۵ EEEEE " " دین محمد محال داره نزول علاقه جمروت ریاست ضلع گوردا سپوره احمد دین نشی لاله پر کرت رام وکیل چیف کورٹ مقام گوجر انوالہ ہے.فروری ۱۸۹۳ء بو علی بخش داد بومی خان ساکن کپور تھلہ پیشہ نوکری منشی حبیب الرحمان صاحب لح دین خان ولد میشه چیڑ ای کپورتھلہ ساکن کپور تھلہ 夥 ۲۳- مارچ ۱۸۹۲ء جناب علی ولد کریم باقش ساکن بستی میران منتطق جانند هر مستقل سکونت موضع اسی ضلع جالندھر تحصیل نمودار سمانپور محلہ میں کورٹ پر مکان مرزا من بیک وکیل ۱۳ اپریل ۶۱۸۹۲ مظهر الحق ولد زین العابدین سکونت ماجرای ضلع انبالہ تحصیل سربند 带 امام الدین ولد خد انگش ساکن را ی ضلع پنیاله و تحصیل پنیالہ پیشه معماری جماعت کا سنگ بنیاد ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳۰ اپریل ۶۱۸۹۲ ملکه میان زوجه صاحبزادہ افتخار احمد صاحب در میانه ماس محمود احمد صاحب عبد العزیز سابق نار سر جنگلات پنجاب ساکن شهر سیالکوٹ محله خیمه دوزان متصل مسجد حیات ادھر ۲۲۱ 11 FFT ۲۳۲ ۳۲۴ ۳۳۵ Fry ۲۴۵ £ £ £ £ E E E E E E Y { { { @ FFA سردار خان ساکن رانی پور ضلع نمازی ہر رحال ملی پو ر بذریعہ خط مولوی نظام امام عزیز الواحسین لازم صاحب ملی پور قاسم خان ساکن موضع باری ضلع نمازی پور حال منی پور لازم صاحب منی پور بهادر خان ساکن ساکن نمازی پور H عبد الرحیم عربی طراحی ساکن بازه را ولپنڈی وارد منی پور مئی و یہ پیر جی قد انخش والد میاں محمد رمضان اصل باشند، نجیب آباد ضلع بجنور حال ساکن ایر دارون ضیح درباره بیعت سوداگر - سن رسیدہ آدمی اہل حدیث ہیں مولوی محمد یعقوب خان پر جوش داد حافظ محمد سعید خان اصل باشنده موضع ضلع سارنپور ساکن زیره دون رفیق پیر جی خود انگلش مئی ۱۸۹۲ء غلام قادر دلداله بخش ساکن سٹور پنواری MAY فتح دین دلداله بخش سکونت خاص بھیر، محلہ مذ کر تو معمر عمر ۱۸ سال طالب علم انگریزی و غیرو جب ہم ۱۵- مئی ۱۹۲ء کو لدھیانہ سے آئے یہ شخص امر تسر ملا اور پھر قاریان بصراہ آیا اور بیعت کی کتون ۱۸۹۳ء مولوی غلام امام عزیز الواعطین این شاه محمن محمود شاه ساکن جمالپوری حال منی پور ملازم صاحب 11 11 11 I * عبد الرحیم عرف طراحی سکنہ روالپنڈی حال منی پور رحمت ثمان ساکن باری ضلع غازی پور حال منی پور عبد الرحیم ساکن انبالہ حال منی پور علی مردان خان ساکن اللہ آباد حال منی پور رمضان ساکن چننہ - حال منی پور قربان علی ساکن حال منی پور بلے شاہ ساکن سیالکوٹ حال ملی پور شیخ عبد الله ساکن نجیب آباد حال منی پور کرامت الله ساکن شاه منبج حال منی پور امام بخش ساکن شاه جهان پور حال منی پور معرفت مولوی غلام امام صاحب نبی بخش ولد مولا بخش ساکن شاه جهان پو ر حال نا کا پھل رفیع الدین ساکن گولا گھاٹ حال منی پور دولت خان ولد فتح محمد خان ساکن بگوره مشهور تجوریاں تحصیل نواشهر ضلع جالندھر ر حمست خان داد بها د ر خان ساکن ایضاً ۲۷ جون ۶۱۸۹۲ حشمت خان ولد فتح محمد خان ساکن بگوره مشهور میگوریاں بے اور حقیقی دولت خان طالب علم در کپور تصله

Page 381

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۴۲ ۲۴۲ ۳۴۴ ۳۴۵ ۲۴۶ ۲۴۷ ۳۴۸ ٣٢٩ ۳۵۰ ۳۶۲ ۱۰- جولائی ۶۱۸۲ کرده ادخان ولد علم دین ساکن دھنگ ضلع گجرات تحصیل کھاریاں مرزا کریم بیگ ولد ستار بیگ ساکن کبیر پو ر مطلان ریاست کپور تھلہ تحصیل ہونگا پنشن یافتہ ۱۲- جولائی ۹۲ رای محمد دخان داده امر خان لڑکا نو عمر ساکن کپور تھلہ محلہ شیر گڑھ غلام محمد ولد نور محمد ساکن سا سوال تحصیل سلطان پور ریاست کپورتھلہ "1 - جولائی ۱۸۹۲ء لی محمد اسماعیل نقشه نویس و فوتوگرافر صدر بازار کیمپ انباله رشته دار منشی عبد العزیز ۲۰- :ولائی ۱۸۹۲ مولوی برہان الدین صاحب ولد مولوی یاسین صاحب جهلم شهر امام مسجد شیخ نظام الدین ولد محمد باشم سابق دکاندار شهر جسلم : "I شیخ قراند من ولد حیات بخش سابق دکاندار جمسلم جماعت کا سنگ بنیاد ۱۳ اگست ۱۸۹۲ میاں عبد الحمید ولد میاں ابراہیم برادر زاده مولوی برہان الدین صاحب ساکن جسلم ۱۴ اگست ۱۹۹۲ مولوی منشی صفدر علی صاحب والد محی الدین صاحب ساكن ضلع میدک علاقه ملک سرکار نظام ۱۴ اگست ۱۸۹۲ منفی عنایت اللہ نائب مدرس پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ یہ شخص حسب تحریر ۲۷ ستمبر ۱۸۹۲ء اپنے اعتقاد سے پھر گیا ہے ۲۸ تیر ۱۳۹۲..ros "I For 11 ۳۵۴ r&a ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۱ ۳۵۲ For Par نہوں نے آنے ماہوار چندہ مقرر کیا ہے.ڈاکٹر فیض احمد ویکسی نیٹر ضلع جملم ساکن لگیا الی ضلع گوجر انوالہ خش کلاب الدین درس مدرسہ زنانہ رہتاس ضلع مسلم.انہوں نے ۲ کا ہواری چندہ بھی مقرر کیا ہے.سید محمد جمال الدین محاسب محکمہ کلکٹری ضلع در نکل ریاست دید در آباد نظام بذریعه شط مولوی فضل الدین ولد حافظ عبداللہ قوم گو جر ساکن کھاریاں تحصیل ایضا ضلع گجرات خود آکر بیعت کی.۲۴ ستمبر ۱۸۹۲ مولوی حافظ احمد الدین ولد حافظ فضل الدین ساکن موضع چک اسکندر متصل دھور یہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات پیشه زمینداری اکتور ۱۸۹۴ مسمى الله و تا ساکن رہتاس ضلع جہلم معرفت منشی گلاب دین مدرس ۹ اکتوبر ۱۸۹۲ سمی غلام حسین ساکن رہتاس ضلع جمسلم معرفت منشی گلاب دین، درس ۸- نومبر ۱۸۹۳ حافظ محمد وند کمال ساکن پشاو ر ہشت نگری دروازہ کو نہ لیل باناں F1 عبد الله ولد حافظ محمد ساکن شهر و محلمه " ۲۸ نومبر ۱۸۹۳ یونس پر اور زادہ حافظ جمال الدین مرحوم بالفعل ساکن مشکل..مسی فضل دین ولد قطب الدین موضوع...تھانہ میر گڑھ چوڑیاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور رساله الفرقان بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر کے بارہ میں جدید تحقیق ربوہ مئی 1921ء (صفحہ ۱۷-۳۱) میں بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجر سے متعلق مولف کتاب ہذا کا حسب ذیل نوٹ شائع ہوا : " سلسلہ احمدیہ میں لدھیانہ کی بیعت اولی کو جو تاریخی اہمیت حاصل ہے وہ کسی احمدی سے قطعاً پوشیدہ نہیں.اور یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ اہم واقعہ (جس نے آئندہ چل کر نہ ہی دنیا پر ایک ہمہ گیر اور انقلاب انگیز اثر ڈالا) مارچ ۱۸۸۹ء میں پیش آیا جبکہ حاجی الحرمین الشریفین حضرت حکیم الامت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی ا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلواۃ و السلام کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کا شرف حاصل کیا.علاوہ ازیں اس پر بھی اتفاق رائے ہے کہ اس آسمانی اور بابرکت تقریب کے پہلے روز چالیس قدوسیوں کا پاک نهاد صاف باطن اور خوش نصیب قافلہ بیعت امام الزمان کر کے داخل سلسلہ ہوا تھا.مگر اس بیعت اوٹی کا آغاز سٹی و

Page 382

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶۳ سفر علی گڑھ قمری اعتبار سے کس معین تاریخ کو ہوا؟؟ یہ مسئلہ جماعت احمدیہ کے علمی حلقوں میں ابھی تک زیر تحقیق چلا آرہا ہے اور ایک معرکہ الاراء موضوع بنا ہوا ہے.میرے نزدیک اس خالص علمی مسئلہ میں تحقیق و تفحص کے ذریعہ سے کسی نتیجہ خیز اور صحیح منزل کو پانے کے لئے مندرجہ ذیل حقائق بہترین مشعل راہ اور روشنی کا مینار ہیں.اول : حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ الصلوة والسلام نے ایک طرف اپنے اشتہار ۴.مارچ ۱۸۸۹ء میں بیعت پر مستعد اصحاب کے لئے یہ اعلان عام فرمایا :- تاریخ ہذا سے جو ۴- مارچ ۱۸۸۹ ء ہے ۲۵- مارچ تک یہ عاجز لودیا نہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لو دیا نہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجاویں".تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۵۰ حاشیه مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب) دوسری طرف حضور انور نے حکیم الامت حضرت مولانا حکیم نورالدین کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی کہ :- " بجائے ہیں کے بائیں کو آپ تشریف لاویں.....یہ عاجزا رادہ رکھتا ہے کہ ۱۵.مارچ ۱۸۸۹ء لادیں.کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹ مارچ یا ۲۰ مارچ کو بہر حال واپس آجاؤں گا".(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمر ۲ صفحه ۶۲ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم) اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا منشاء مبارک بائیس مارچ کے بعد سلسلہ بیعت کہ آغاز کا تھا ورنہ حضور علیہ السلام حضرت مولوی صاحب کو جو ان دنوں جموں میں قیام فرما تھے جموں سے بائیس مارچ کو پہنچنے کا حکم نہ دیتے بلکہ بائیس مارچ سے پہلے وار دلدھیانہ ہونے کی تاکید فرماتے خصوصاً اس لئے بھی کہ حضرت مولوی صاحب نے ایک عرصہ سے حضور کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو جناب الہی سے بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلے بیعت آپ کی لی جائے اور حضور اس درخواست و از راہ شفقت قبول فرما چکے تھے.دوم - حضرت مولانا عبد اللہ صاحب سنوری سیدنا امسیح الموعود علیہ السلام نے نہایت جلیل القدر اور مشہور صحابی ، سرخ چھینٹوں کے کشفی نشان کے حامل ، براہین احمدیہ کی طباعت میں مخلص معاون اور مشہور سفر ہوشیار پور ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خصوصی خادم تھے.حضور نے اپنے قلم مبارک سے ازالہ اوہام میں ان کے لئے بہت تعریفی کلمات لکھتے ہیں.حضور نے تحریر فرمایا ہے ” یہ جو ان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا وہ متفرق وقتوں میں دودو "

Page 383

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۶۴ تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا.....یہ نوجوان در حقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے.الغرض میاں عبد اللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے".(ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۹۶) حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ نے بیعت اوٹی میں چوتھے نمبر پر بیعت کی اور جیسا کہ آپ فرمایا کرتے تھے جہاں دوسرے مبائعین کو حضور کے حکم سے شیخ حامد علی صاحب نے کمرہ بیعت میں جانے کی آوازدی وہاں حضور انور نے خود آپ کو نام لے کر بلایا تھا.(الفضل ۲۱- اکتوبر ۱۹۲۷ء) et اس شان کے خد انما بزرگ اور مسیح محمدی کے منتخب محب کا واضح اور قطعی بیان یہ ہے کہ :- پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳- مارچ ۱۸۸۹ء تھی.(سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۷۷ مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب طبع اول ۱۰- د کمبر ۱۹۲۳ء - طبع ثانی ۱۴- نومبر ۱۹۳۵ء) سوم - حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تراب (عرفانی) کانام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں.آپ کا مقام سلسلہ احمدیہ کے پہلے صحافی اور پہلے مورخ کے لحاظ سے نہایت بلند ہے.حضرت عرفانی گو پہلے دن بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے مگر وہ ان ایام میں لدھیانہ میں تھے اور انہیں دنوں داخل بیعت ہو گئے تھے.حضرت شیخ صاحب موصوف بھی حضرت مولانا عبد اللہ سنوری کی تائید میں یہ نظریہ رکھتے تھے کہ بیعت کا اصل دن ۲۰- رجب ۱۳۰۶ مطابق ۲۳ - مارچ ۱۸۸۹ء ہی ہے.(حیات احمد جلد سوم صفحه (۲۸) چهارم - حضرت سید نا المصلح الموعود ان کی فطعی رائے تھی کہ بیعت اولی ۲۳.مارچ ۱۸۸۹ء کو ہوئی تھی بلکہ حضور نے صرف اسی بناء پر ۲۳- مارچ ۱۹۴۴ء کا دن جلسہ مصلح موعود لدھیانہ کے لئے مقرر فرمایا اور پھر اس میں بنفس نفیس شرکت کی اور اپنے روح پرور خطاب کی ابتداء ہی ان مبارک کلمات سے فرمائی کہ :- اس شہر لدھیانہ میں ۲۳- مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام......نے بیعت لی تھی.(الفضل ۱۸- فروری ۱۹۵۹ء) پنجم.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا مسلک بھی اس کے مطابق تھا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:- سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ کے مقام پر سب سے پہلی بیعت ۲۳ - مارچ ۱۸۸۹ء کو لی تھی اور جماعت احمدیہ کا قیام معرض وجود میں آیا تھا.

Page 384

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶۵ سفر علی گڑھ الفضل ۱۸- مارچ ۱۹۵۹ء صفحه ۲) ششم - دار البیعت لدھیانہ میں ۱۹۱۲ء سے ۱۹۴۷ء تک جو کتبہ بطور یادگار نصب رہا اس پر بھی ۲۳.مارچ ۱۸۸۹ ء ہی کی تاریخ ثبت تھی.ریویو آف ریلیجز اردو جون جولائی ۶۹۴۳ صفحه ۲۹ تا ۳۹) ہفتم.سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ خلافت کے آخری دور میں "یوم مسیح موعود کی بنیاد پڑی اور ساتھ ہی حضور پر نور کی اجازت و استصواب کے بعد مرکز احمدیت سے مسلسل اعلان کیا گیا کہ بیعت اوٹی کی تاریخ ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء ہے.(الفضل ۴- امان ز مارچ ۱۳۲۷ بهش / ۱۹۵۸ء صفحه)) ہم.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے (سلسلہ احمدیہ کے نامور مولف و محقق کی قطعی رائے بھی اسی تاریخ کے حق میں تھی.چنانچہ آپ اپنی کتاب "لائف آف احمد " میں تحریر فرماتے ہیں:.THE FORMAL INITIATION BEGAN ON MARCH 23RD, 1889 (20 RAJAB, 1306.A.H.) ( صفحه ۱۵۴ مطبوعه ۱۹۴۹ء مطابق ۱۳۲۸ ش) تہم - خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے یوم جمہوریہ پاکستان کے موقعہ پر ۲۳- مارچ ۱۹۵۷ء کو ایک مضمون سپرد قلم کیا جس میں نہ صرف محولہ بالا تاریخ بیعت کی مکمل تائید کی بلکہ یہ نہایت ایمان افروز اور لطیف نکتہ بھی بیان فرمایا کہ:- "ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر کوئی پتہ بھی ہل نہیں سکتا.پس اس لحاظ سے کوئی واقعہ اتفاقی نہیں ہے.بلکہ ہر کام ، حادثہ اور ہر سانحہ اللہ تعالیٰ کے علم اور عظیم حکمت کے ماتحت وقوع پذیر ہوتا ہے.الہی تصرفات میں سے یہ عجیب تصرف ہے کہ ۲۳- مارچ کو ہی اس زمانہ کے مامور نے روحانی جماعت کا علمی طور پر سنگ بنیاد رکھا اور اسی تاریخ کو مادی دنیا میں ارض مقدسہ (پاکستان) بنے پر اس کے جمہوریہ اسلامیہ قرار پانے کا اعلان کیا جاتا ہے.بہر حال جماعت احمدیہ کے لئے ۲۳- مارچ کی تاریخ نہایت ہی اہم اور خوشی کی تاریخ ہے “.(الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۵ کالم ۴) سید نا المصلح الموعود کی ہدایت خاص، حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے چشم دید بیان حضرت عرفانی کے تائیدی نظریہ حضرت مصلح موعود کے واضح فرمان حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد اور مولانا ابو العطاء صاحب کی حتمی رائے ، دار البیعت کے یادگاری کتبہ اور جماعت احمدیہ کے اجماعی مسلک سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا کہ ۲۰- رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تھا.اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو.یعنی ان محرکات و عوامل کا تجزیہ کیجئے جو اس صاف اور دو ٹوک

Page 385

تاریخ احمدیت جلدا سفر علی گڑھ نتیجہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.اس تعلق میں بنیادی طور پر صرف دو امور پیش کئے جاسکتے ہیں.قدیم رجسٹر بیعت میں مندرجہ تاریخ.حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی بیان رمودہ قمری و شمسی تاریخوں میں عدم موافقت.اول الذکر سے بظاہر اس خیال کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے کہ سلسلہ بیعت در اصل ۲۱ مارچ ۱۸۸۹ ء سے جاری ہو چکا تھا اور قادیان کانگڑہ ، غوث گڑھ ، جموں مالیر کوٹلہ شاہ پور کڑیا نہ جمنٹ اور لدھیانہ وغیرہ کے چھیالیس بزرگ بیعت ہو چکے تھے.ثانی الذکر امر یہ بھاری شبہ ڈالتا ہے کہ بیعت اولیٰ کی ابتدا ء ۱ ۲ یا ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کی بجائے ۲۲- مارچ کو ہوئی تھی کیونکہ مصری فاضل محمد مخار باشا کی تقویم التَّوْفِيْقَاتُ الْإِلْهَا مِيَةِ " سے ثابت ہوتا ہے کہ ۲۰.رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲.مارچ ۱۸۹۹ء کا دن تھا.قدیم رجسٹر جو تاریخ احمدیت کی ایک مقدس دستاویز اور بیعت اوٹی کے دور کی نہایت بیش قیمت یاد گار ہے آج تک خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.یہ رجسٹر حضرت اقدس مسیح موعود کے حکم سے تیار کیا گیا تھا اور اس کا نام ” بیعت تو بہ برائے حصول تقویٰ و طہارت تجویز فرمایا گیا.اس رجسٹر کی تحریر مختلف ہاتھوں میں رہی.بعض نام حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے لکھے بعض حضرت مولانانور الدین اور دوسرے بزرگوں نے.اس رجسٹر کا پہلا ورق چونکہ ضائع ہو چکا ہے اس لئے اس کے ابتدائی ناموں کا پتہ نہیں چلتا.اپریل ۱۹۳۹ء میں قمر الا نبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پہلی بار اس کے ابتدائی ۶۲ اندراجات اپنی کتاب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں شائع فرمائے تو اس کے پہلے آٹھ نام بعض زبانی اور مستند روایات سے قیاسا درج کر کے اس کے پہلے نمبر پر ۱۹- رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۱ - مارچ ۱۸۸۹ء کی تاریخوں کا اس لئے اضافہ فرما دیا کہ رجسٹر میں سینتالیسویں نمبر پر پہلی تاریخ جو بطور یادداشت درج تھی وہ ۲۰ - رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۲ مارچ ۱۸۸۹ ء تھی.سیرت المہدی حصہ سوم کی اس فہرست سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹.رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱- مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو یوم الیعت تسلیم کیا جانا چاہئے جیسا کہ حال ہی میں بیرون پاکستان کے ایک فاضل دوست نے راقم الحروف کے نام اپنے ایک تازہ مکتوب میں لکھا ہے اور زور دیا ہے کہ رجسٹر کی اندرونی شهادت کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا ؟ بلا شبہ یہ قدیم رجسٹر بیعت ایک مستند وقیع قابل استناد اور ثقہ شہادت سابقون الاولون کے اسماء مبارکہ کی ہے اور کوئی احمدی محقق خواہ وہ کتنی عظیم علمی شخصیت کا حامل ہو اور تاریخ نویسی اور وقائع

Page 386

تاریخ احمدیت.جلدا سفر علی گڑھ نگاری میں سند عام کا درجہ حاصل کرنے اس سے بے نیاز ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا.بایں ہمہ قابل غور و فکر پہلو یہ ہے کہ یہ شہادت کس نوعیت کی ہے؟ اگر یہ شہادت اس بات کی ہے کہ سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے والے قدیم ترین فدائیوں کے نام اور کوائف کیا تھے تو یہ سو فیصد درست ہے اور اگر شہادت سے مراد یہ ہے کہ اس سے بیعت کرنے والوں کی ٹھیک ٹھیک عملی ترتیب اور صحیح صحیح تاریخ کی نشاندہی ہوتی ہے تو قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہما جیسے اکابر محققین احمدیت کی رائے میں بھی اس کا جواب یکسر نفی میں ہے حتی کہ سرے سے اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس میں مندرجہ تواریخ ہجری رسمی عین بیعت کے وقت لکھی گئی تھیں.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں فرماتے ہیں.بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فورا اندراج کر لیا جاتا تھا یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء اکٹھے درج کر لئے جاتے تھے.موخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتا ہے.بلکہ بعض اندراجات سے شبہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور اندراج میں کافی اختلاف ہے “.(صفحہ ۴۱) حضرت قمر الانبياء او نور اللہ مرقدہ) نے مندرجہ بالا تحریر میں جس "کافی اختلاف" کی طرف سے نہایت اجمالی مگر تبلیغ رنگ میں اشارہ فرمایا ہے اس کی بعض نہایت واضح مثالیں بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہاء حضرت سید نا المصلح الموعود، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور دوسرے اکابر سلسلہ اس رائے پر متفق ہیں کہ پہلے دن چالیس بزرگوں نے بیعت کی تھی.(سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۸ سیرت مسیح موعود از حضرت مصلح موعود - سلسلہ احمدیہ صفحه ۲۹ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - ذکر حبیب صفحہ 9 مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیروی) اس مسلمہ حقیقت کے باوجود رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق میں چالیس کی بجائے چھیالیس کے نام لکھے ہیں.رجسٹر بیعت میں تینتالیسویں نمبر پر حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی ان کا اسم گرامی و نام نامی درج ہے حالانکہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ( بروایت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب سنوری) لکھا ہے کہ ” بیعت اولی کے دن مولوی عبد الکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر بیعت نہیں کی.(سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحه (۷۸)

Page 387

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶۸ سفر علی گڑھ دنیائے احمدیت کے نہایت ممتاز مخلص اور فدائی بزرگ اور حضرت مسیح موعود کے عاشق صادق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی سوانح اور روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت کے لئے اشتہار دیا تو اگر چہ حضرت منشی روڑا خان صاحب اشتہار بیعت ملتے ہی لدھیانہ روانہ ہو گئے تھے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت میاں محمد خان صاحب کپور تھلوی دو سرے دن چل کر تیسرے دن صبح لدھیانہ پہنچے مر کپور تھلہ کی ان تینوں بلند پایہ شخصیتوں نے بیعت اوٹی کے پہلے روز ہی بیعت کرلی تھی.پہلے حضرت منشی روڑا خان صاحب بیعت ہوئے.پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور بعد ازاں حضرت محمد خان صاحب ( اصحاب احمد جلد چهارم طبع اول صفحه (۹) مگر اس واقعہ کے بر عکس رجسٹر بیعت میں ۲۰.مارچ کی تاریخ کے تحت ہمیں صرف حضرت منشی روڑا خان صاحب کا نام ملتا ہے اور بقیہ دو عشاق مسیح موعود کے مبارک اسماء ۲۳.مارچ میں درج کئے گئے ہیں.سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان عالی مقام ، مجسم اخلاص اور سرتا پا ندائیت وجودوں اور شمع مسیح کے زندہ جاوید اور بے مثال پروانوں کی واقعاتی شہادتوں اور رجسٹر بیعت کے اس حیرت انگیز اور بالکل کھلے کھلے تفاوت و اختلاف کی آخر وجہ کیا ہے ؟ اور کیا ان میں مطابقت کی کوئی صورت ممکن نہیں ؟ یہ نا چیز جو ابا عرض کرتا ہے کہ اگر گہری تحقیق سے کام لیا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ رجسٹر بیعت کے اندراجات کی اصل اور بنیادی ترتیب بیعت اوٹی کے مبائعین کی عملی بیعت کے اعتبار سے نہیں ابلکہ قبل از وقت بیعت کی اطلاع دینے والوں یا بیعت کی خاطر حضرت اقدس کی خدمت میں لدھیانہ پہنچ جانے والوں کے اعتبار سے ہے.یہ محض قیاسی یا اجتہادی امر نہیں بلکہ اس کا سراغ براہ را است سید نا المسیح الموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اشتہار سے بخوبی ملتا ہے جو حضور نے بیعت اوٹی سے قبل شائع فرمایا اور جس میں رجسٹر بیعت کی غرض و غایت پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار مارچ ۱۸۸۹ء میں بیعت کے لئے مستعد اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا."اے اخوان مومنین (أَيَّدَ كُمُ اللهُ بِرُوحِ مِنْهُ) آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً ، مطلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں واضح ہو کہ بالقاء رب کریم و جلیل (جس کا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع و اقسام کے اختلاف اور غل اور حقد اور نزاع اور فساد اور کینہ اور بغض سے جس نے ان کو بے برکت و نکما کر دیا ہے نجات دے کر فاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کا مصداق بنا A

Page 388

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶۹ سفر علی گڑھ دے) مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیار کر کے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتد بہ گروہ ہو جائے تو ایسا ہی ان کے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبالکین معنے داخلین بیعت میں شائع کی جائے اور ایسا ہی ہو تا رہے.جب تک ارادہ الہی اپنے اپنے انداز مقدرہ تک پہنچ جائے.مگر چونکہ یہ کارروائی بجز اس کے باسانی و صحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی کہ خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں اس لئے ہر صاحب کو جو صدق دل اور خلوص نام سے بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ تحریر خاص اپنے پورے پورے نام و ولدیت و سکونت مستقل و عارضی وغیرہ سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں".(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۲) حضور انور کے محولہ بالا الفاظ سے ایک گم شدہ کڑی پر اطلاع ملتی ہے اور یہ صداقت نمایاں ہو کر ابھر آتی ہے کہ رجسٹر بیعت میں ناموں کا اندراج بیعت اولی کے انعقاد سے بھی قبل شروع کیا جا چکا تھا لہذا یہ سمجھنا کہ اس رجسٹر میں مین بیعت اولی کے وقت یا اس کے دوران یا معا بعد اندراج ہوا یا اس میں درج شدہ تاریخ لازماً بیعت کی تاریخ ہوگی جہاں تک بیعت اوٹی کے پہلے دن کا تعلق ہے) یقیناً صحیح نہیں ہو سکتا ہاں استثنائی طور پر یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی بزرگ کی لدھیانہ پہنچنے، بیعت سے مشرف ہونے اور رجسٹر میں اس کے اندراج کی تاریخ ایک ہی ہو مگر یہ ایک اتفاقی چیز ہے جس کو بہر کیف کلیہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا.اس وضاحت سے یہ عقدہ لا نخل اور سربستہ راز بھی خود بخود منکشف ہو جاتا ہے کہ رجسٹر بیعت میں پہلے دن کی تاریخ میں بیعت کرنے والے چالیس بزرگوں کی بجائے چھیالیس بزرگوں کا کیوں ذکر ہے؟ اور جب حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پہلے دن بیعت ہی نہیں کی تو پہلی تاریخ میں ان کا نام کیسے درج ہو گیا ؟ اسی طرح جب کپور تھلہ کے تینوں بزرگوں نے پہلے ہی دن بیعت کا اکٹھا شرف حاصل کیا تھا تو

Page 389

تاریخ احمدیت جلدا ٣٧٠ سفر علی گڑھ ان کے نام مبارک ۲۱ اور ۲۳ مارچ کی دو الگ الگ تاریخوں میں کیوں لکھے گئے ؟ یہ اور اس نوعیت کی سب الجھنیں ، دشواریاں اور پیچیدگیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا وضاحتی اشتہار کی برکت سے بیک جنبش قلم ختم ہو جاتی ہیں اور گویا دن چڑھ جاتا ہے اور اب ہم اس کی بدولت یقین کی فولادی چٹان پر کھڑے ہو کر بلا تامل بنا سکتے ہیں کہ رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق تو محض یہ راہ نمائی کرتے ہیں کہ کون کون سے بزرگوں نے بیعت پر آمادگی کی اطلاع دی یا بیعت کی خاطر بیعت اولیٰ کے انعقاد سے قبل لدھیانہ تشریف لے آئے.یہی اور صرف یہی وجہ ہے کہ ۲۲- مارچ سے قبل حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سمیت لدھیانہ آنے والے چھیالیس بزرگوں کے نام مبارک ریکارڈ کئے گئے.بعینہ اسی حکمت سے حضرت منشی روڑا خان صاحب کا نام ان کے درود لدھیانہ کے بعد ۲۱ مارچ کو اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت محمد خان صاحب کے اسماء مبارکہ کا نام ۲۳- مارچ کو درج رجسٹر کیا گیا.اس وضاحت سے ضمنا یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب اللہ نے اپنے بیان کے مطابق چونکہ لدھیانہ پہنچتے ہی بیعت اوٹی کے پہلے روز دو سرے مخلصین کپور تھلہ کے ساتھ بیعت کی تھی اس لئے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کی جو تاریخ ان کے نام کے ساتھ مندرج ہے حتمی طور پر رہی تاریخ بیعت اولیٰ کے آغاز کی ہے.الخضرار جسر بیعت کے ابتدائی اوراق کی فہرست ہرگز ہرگز مبائعین کی واقعاتی ترتیب و تاریخ کے مطابق تیار اور مرتب نہیں ہوئی لہذا ۱۹ - رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱ - مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولی کا دن قرار دینے کا کوئی جواز نہیں.تحقیق طلب صرف یہ دوسرا امر رہ جاتا ہے کہ حضرت مولانا عبد الله صاحب سنوری الله عنه نے بیعت اوٹی کی قمری تاریخ ۲۰ رجب ۱۳۰۷ھ اور شمسی تاریخ ۲۳- مارچ ۱۸۸۹ء متعین کی ہے حالانکہ "التوفيقات الالهاميه" کی رو سے ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲.مارچ ۱۸۸۹ء کا دن بناتا ہے.اس صورت میں آیا قمری تاریخ کو درست سمجھا جائے یا کسی تاریخ پر اعتماد کیا جائے ؟؟ اس ضمن میں یہ عاجز محض خدا کے فضل و کرم سے علی وجہ البصیرت اس رائے پر قائم ہے کہ حضرت مولانا سنوری رحمتہ اللہ علیہ کی دونوں بیان فرمودہ تاریخیں ہی صحیح ہیں اور اگر کوئی سہو" یا "غلطی" ہے تو وہ مصری تقویم "التوفيقات الالهاميه" کی ہے جس میں ۱۳۰۶ھ کے جمادی الثانی کو انتیس دن کا شمار کر کے یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۳.مارچ ۱۸۸۹ء سے شروع کیا گیا ہے جو واقعہ کے خلاف ہے.حق یہ ہے کہ اس سال جمادی الثانی انتیس کی بجائے تمہیں کا تھا اور یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۴.مارچ

Page 390

تاریخ احمدیت جلدا سفر علی گڑھ ۱۸۸۹ء کی اور ۲۰.رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۳.مارچ ۱۸۸۹ء کی تاریخ تھی جیسا کہ حضرت میاں معراج دین صاحب عمر ا ن کی مشہور و معروف ” ایک سو پچیس برس کی جنتری" سے ثابت ہے.یہ جنتری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مبارک میں یکم ستمبر ۱۹۰۶ء کو اشاعت پذیر ہوئی تھی اس جنتری کے صفحہ ۲۱۷ پر مارچ ۱۸۸۹ء کا عیسوی، ہجری ، فصلی اور بکری کیلنڈر حسب ذیل صورت میں درج ہے:.۱۳۰۶-۶۱۸۸۹ - ۹۲۶اف - سمت ۱۹۴۵ء يوم مارچ جمادی الثانی رجب پھاگن فصلی پھاگن سمت جمعه rɅ Ꮵ ۱۵ بدی 10 ۲۹ مدی ۲ A ١٨ 14 ۲۰ ۳۰ شنبه یک شنبه دو شنبه رجب ۲۱ A ۲۲ ۲۴ A 1.۲۵ ۲۶ ا.۱۲ - چهار شنبه نجشنبه شنبه یک شنبه رو شنبه سه شنبه چهار شنبه

Page 391

ا.سفر علی گڑھ ན ۱۴ བ ها بدی چیست ► ۲۷ ۲۸ ۳۷۲ ۲۹ ۱۳ ۱۴ لا 10 ۱۸ 19 ۱۷ ۲۰ > ۱۸ 19 ۲۲ ۲۰ ۲۳ ۲۱ ۲۴ A ۲۲ ۲۵ ۲۳ > ۲۴ ۲۷ ۱۲ ۲۵ ۲۸ ۲۶ ۱۴ ۲۷ ۱۵ ۲۸ 10 تاریخ احمدیت.جلدا پنجشنبه جمعہ شنبه یک شنبه دو شنبه سه شنبه چهار شنبه نجشنبه جمعہ شنبه یک شنبه دوشنبه سه شنبه چهار شنبه پنجشنبه شنبه یک شنبه مندرجہ بالا کیلنڈر کی رو سے صاف کھل جاتا ہے کہ ۲۳- مارچ ۱۸۸۹ء کو یقینا ۲۰- رجب ۱۳۰۶ھ

Page 392

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۷۳ سفر علی گڑھ کی تاریخ تھی.پس حضرت مولانا عبد اللہ سنوری کی قمری رسمی تاریخوں میں مکمل موافقت پائی جاتی ہے اور کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں.بنا بریں اختلاف و تضاد" کے مفروضہ پر ۲۲- مارچ ۱۸۸۹ء کو یوم البیعت تجویز کئے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا.چنانچہ قمر الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اللہ اپنے ایک حقیقت افروز نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:."میاں عبداللہ صاحب سنوری نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰- رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳- مارچ (۱۸۸۹ء) بیان کی ہے مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹- رجب اور ۲۱ مارچ ظاہر ہوتی ہے.یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں میں مقابلہ بھی غلط ہو جاتا ہے.اس اختلاف کی وجہ سے میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰.رجب کو ۲۳.مارچ ثابت ہوتی ہے.پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہو گیا ہے اور یا اس میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه به مطبوعہ ۳ فروری ۱۹۳۹ء) حضرت میاں صاحب کا یہ ناطق فیصلہ (کہ جنتری کی رو سے ۲۰- رجب کو ۲۳.مارچ کی تاریخ ثابت ہوتی ہے) اپنی پشت پر حقیقتوں اور صداقتوں کی ایک زبر دست طاقت رکھتا ہے.چنانچہ اگر ۱۸۸۹ء کے جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے بھی اس فیصلہ کی مزید توثیق ہوتی ہے.مثلاً اس وقت میرے سامنے امرتسر کے ہفت روزہ "ریاض ہند " کا فائل ہے.اس اخبار کے مالک و مہتمم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص و قدیم صحابی حضرت شیخ نور احمد صاحب تھے جن کے " مطبع ریاض ہند میں نہ صرف حضرت مسیح موعود کی شہرہ آفاق کتاب ” براہین احمدیہ کے تین حصے چھپے بلکہ دعوی مامورت و مسیحیت کے بعد کی بہت ہی کتابیں اور اشتہارات بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئے اور یہ سلسلہ نہایت با قاعدگی کے ساتھ ۱۸۹۵ ء میں ضیاء الاسلام پریس " قادیان کی تنصیب تک جاری رہا.حضرت شیخ صاحب کے اخبار "ریاض ہند کو بر صغیر کی صحافت میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہی وہ اخبار تھا جس میں ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کا مشہور عالم اشتہار شائع ہوا.اسی میں جماعت احمدیہ کے سنگ بنیاد سے بھی برسوں قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریروں اور سفروں وغیرہ کی اکثر خبریں شائع ہوا کرتی تھیں اور جہاں تک موجودہ تحقیق کا تعلق ہے "ریاض ہند" واحد اخبار ہے جس میں حضرت سیدنا المصلح الموعود کی ولادت با سعادت کی خبر شائع ہوئی.یہ اخبار اپنے سرورق پر ہمیشہ قمری اور شمسی تاریخوں کے اندراج کا خاص التزام کیا کرتا تھا.ماہ مارچ ۱۸۸۹ء میں اس اخبار کے چار نمبر شائع ہوئے.جن پر بالترتیب حسب ذیل تاریخیں موجود ہیں :-

Page 393

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۷۴ سفر علی گڑھ - مارچ ۱۸۸۹ء یکم رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دو شنبه 11 مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۸ - رجب المرجب ۱۳۰۷ھ یوم دو شنبه ۱۸ مارچ ۱۸۸۹ ء مطابق ۱۵ رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دو شنبه ۲۵ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق -۲۲ - رجب المرجب ۱۳۰۶ ھ یوم دو شنبه محولہ بالا نقشہ سے جو اخبار "ریاض ہند کے چار پر چوں سے مرتب کیا گیا ہے اس نظریہ پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے کہ التوفیقات الالهاء ، " میں یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو جو ۳.مارچ ۱۸۸۹ء کا دن شمار کیا گیا ہے وہ ہر گز درست نہیں.بلکہ اس کے برخلاف یہ ۴.مارچ ۱۸۸۹ء کا دن تھا اور ظاہر ہے کہ اس حساب کے مطابق ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ کو شمسی تاریخ ۲۳.مارچ ہی تھی جیسا کہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب سنوری کی روایت ہے.خلاصه تحقیق الغرض جس نقطہ نگاہ اور زاویہ خیال سے بھی دیکھا جائے اندرونی اور بیرونی علمی اور واقعاتی شہادتوں اور عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں یہ حقیقت نیر النہار کی طرح ایک قطعی اور فیصلہ کن صورت اختیار کر جاتی ہے کہ بیعت اولی لدھیانہ کی اصل اور صحیح تاریخ ۲۰ - رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ ء ہے اور یقینا یہی دن سلسلہ احمدیہ جیسی مقدس اور عالمی تحریک کی جماعتی زندگی کا پہلا اور مبارک دن ہے جو رہتی دنیا تک یوم الفرقان کی حیثیت سے یاد گار رہے گا اور فرمان ایزدی " تحر هِمْ بِأَيَّامِ اللہ" کا مصداق و مورد سمجھا جائے گا اور سلسلہ بیعت سے بھی قبل کی یہ خدائی پیشگوئی ہر زمانہ میں پوری شان و شوکت سے پوری ہوتی رہے گی که: اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشود نمارے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے".اشتهار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء مشموله تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۵۵) قیام لدھیانہ کے دو واقعات قیام لدھیانہ کے دوران دو واقعات کا تذکرہ ضروری ہے.پہلا واقعہ : حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ آیا آپ

Page 394

تاریخ احمدیت.جلدا وه ۳۷۵ سفر علی گڑھ آنحضرت میر کی زیارت بھی کرا سکتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسب شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے.اسی رات میں نے آنحضرت میم کو خواب میں دیکھا".دوسرا واقعہ : دو سرا واقعہ یہ ہے کہ ایک سائل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا ایک عزیز فوت ہو گیا ہے اور میرے پاس کفن دفن کے لئے کچھ انتظام نہیں ہے اور اس نے کچھ سکے چاندی اور تانبے کے رکھے ہوئے تھے یہ دکھانے کے لئے کہ کسی قدر چندہ ہوا ہے اور ابھی اور ضرورت ہے.حضرت اقدس نے قاضی خواجہ علی صاحب سے فرمایا کہ ”قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا انتظام کر دو.حضرت اقدس کی اس قسم کی عادت مبارک نہیں تھی بلکہ عام طور پر جو مناسب سمجھتے نہایت درجہ فیاضی سے دے دیتے.اس ارشاد سے خدام کو تعجب ہوا.حضرت قاضی صاحب نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا دے دوں.بلکہ وہ ساتھ ہی ہو گئے.سائل قاضی صاحب کو لے کر رخصت ہوا.تھوڑی دیر بعد حضرت قاضی صاحب مسکراتے ہوئے واپس آئے اور کہا حضور وہ تو بڑا دھوکہ باز تھا راستہ میں جاکر اس نے میری بڑی منت خوشامد کی کہ خدا کے واسطے آپ نہ جاویں جو کچھ دیتا ہے دے دیں.میں نے کہا کہ مجھے تو خود جانے کا حکم ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ مجھے دو جو کچھ خرچ آئے گا میں کروں گا.آخر جب اس نے دیکھا کہ میں ٹلتا ہی نہیں تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ندامت کے ساتھ کہا کہ نہ کوئی مرا ہے اور نہ کوئی کفن دفن کی ضرورت ہے.یہ میرا پیشہ ہے.اب میری پردہ دری نہ کرو.تم واپس جاؤ.میں اب یہ کام نہیں کرونگا ".

Page 395

تاریخ احمدیت جلدا سفر علی گڑھ سفر علی گڑھ علی گڑھ میں ایک بزرگ سید محمد تفضل حسین صاحب تحصیلدار رہتے تھے.جنہیں زمانہ " براہین احمدیہ " سے حضرت اقدس کے ساتھ عقیدت تھی.وہ کئی مرتبہ حضرت اقدس کی خدمت میں علی گڑھ میں تشریف لانے کی درخواست کر چکے تھے.جسے حضور نے قبول فرمایا.اور آپ اپریل ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ سے علی گڑھ تشریف لے گئے.اس سفر میں حضور کے ہمراہ آپ کے خدام میں سے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری.میر عباس علی صاحب اور حافظ حامد علی صاحب تھے حضرت اقدس سید محمد تفضل حسین صاحب تحصیلدار کے ہاں ٹھرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے علی گڑھ میں ان دنوں ایک مولوی صاحب محمد اسمعیل نامی رہتے تھے انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں نہایت انکسار سے رعظ کے لئے درخواست کی اور کہا کہ لوگ مدت سے آپ کے مشتاق ہیں بہتر ہے کہ سب لوگ ایک مکان میں جمع ہوں اور آپ کچھ دعظ فرما ئیں.حضرت اقدس ضعف دماغ کے باعث جس کا قادیان میں بھی کچھ مدت پہلے دورہ ہو چکا تھا اس لائق نہیں تھے کہ زیادہ گفتگو اور کوئی دماغی محنت کا کام کر سکتے.مگر چونکہ آپ کو ہمیشہ یہی عشق اور یہی دلی خواہش رہتی تھی کہ حق بات لوگوں پر ظاہر فرما ئیں کہ اسلام کیا چیز ہے اور اب لوگ اسے کیا سمجھ رہے ہیں اس لئے حضور نے لیکچر منظور فرمالیا.کہ انشاء اللہ اسلام کی حقیقت بیان کی جائے گی چنانچہ اشتہار بھی شائع کر دیا گیا اور سب تیاری مکمل ہو گئی.لیکچر کا وقت قریب آیا تو آپ الماما دو عظ سے روک دیئے گئے اور آپ نے لیکچر دینے کا ارادہ ترک کر دیا.سید متفضل حسین صاحب نے عرض کیا کہ حضور اب تو سب کچھ ہو چکا ہے بڑی بدنامی ہو گی.حضور نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے.پھر اور لوگوں نے بھی حضور سے بڑے اصرار سے عرض کیا.مگر حضرت اقدس نے فرمایا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں خدا کا حکم چھوڑ دوں.اس کے حکم کے مقابل میں مجھے کسی ذلت کی پروا نہیں.مولوی محمد اسمعیل صاحب نے اس معذرت کی آڑ لے کر جمعہ کے بعد حضرت اقدس کے خلاف نہایت زہریلی اور کذب و افتراء سے پر تقریر کی اور کہا میں نے ان سے کہا کہ کل جمعہ ہے وعظ فرمائیے اس کا انہوں نے وعدہ بھی کیا مگر صبح کو رقعہ آیا کہ میں بذریعہ الہام وعظ کرنے سے منع کیا گیا ہوں.میرا خیال ہے کہ یہ سبب عجز بیانی و خوف امتحانی انکار کر دیا.یہ شخص محض نالائق ہے علمی لیاقت نہیں رکھتا.میں نے الہام کے بارے میں چند سوال کئے کسی قدر بے معنی جواب دے کر سکوت اختیار کیا.ہر گز یقین نہیں ہو سکتا کہ ایسی عمدہ تصانیف کے یہی حضرت مصنف ہیں.سید احمد صاحب عرب جن کو میں ثقہ جانتا

Page 396

تاریخ احمد بیت - جلدا ۳۷۷ سفر علی گڑھ ہوں وہ مجھ سے بیان کرتے تھے کہ میں دو ماہ تک ان کے پاس ان کے معتقدین خاص کے زمرہ میں رہا.اور وقتا فوقتا بنظر تنجس و امتحان ہر ایک وقت خاص طور پر حاضر رہ کر جانچا تو معلوم ہوا کہ در حقیقت ان کے پاس آلات نجوم موجود ہیں وہ ان سے کام لیتے ہیں.مجھے فقرات الہام پر غور کرنے سے ہرگز یقین نہیں آتا کہ وہ الہام ہیں.مدعی ہونا کرامات کے خلاف ہے اور یہ کہنا کہ جس کو انکار ہو تو وہ آکر دیکھے یہ دعادی باطلہ ہیں.میں ملاقات کرنے سے بالکل بے عقیدہ ہو گیا ہوں میری رائے میں جو موحد ان سے ملاقات کرے گا ان کا معتقد نہ رہے گا.نماز ان کی اخیر وقت ہوتی ہے.جماعت کے پابند نہیں وغیرہ وغیرہ یہ تقریر اس نے چھاپ کر شائع بھی کر دی.اور حضرت اقدس نے اپنی تصنیف ”فتح اسلام میں اس کے ایک ایک الزام کا دندان شکن جواب دیتے ہوئے اسے " آلات نجوم" کے متعلق بهتان طرازی پر دعوت مباہلہ دی.جس پر اس نے ایک کتاب لکھی اور اس میں آپ کے خلاف بد دعا کی.مگر ابھی یہ کتاب ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ دار فانی سے کوچ کر گیا.علی گڑھ میں ایک تحصیلدار نے جو سید محمد تفضل حسین صاحب کے واقف تھے.حضرت اقدس کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معززین کو بھی مدعو کیا.حضور تشریف لے گئے اور میاں عبد اللہ صاحب سنوری ، میر عباس علی صاحب اور شیخ حامد علی صاحب کو اپنے دائیں بائیں بٹھایا.تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا.اور لوگ ان کے ارد گرد بیٹھ گئے.چوکیوں پر شیشے کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے جب کھانا شروع ہوا تو میر عباس علی صاحب نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے حضرت صاحب نے ان سے دریافت فرمایا آپ کیوں نہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوں کے طریق کا کھانا ہے حضرت صاحب نے کہا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیں ہے میر صاحب نے کہا حضور آپ کھائیں میں نہیں کھاتا.غرض میر عباس علی صاحب نے کھانا نہیں کھایا حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوری یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ جب میر عباس علی صاحب مرتد ہوئے تو یہ مجھے بات یاد آگئی کہ وہ در اصل اسی وقت سے کٹ چکے تھے.حضرت اقدس علی گڑھ میں قریباً ایک ہفتہ قیام فرمار ہے اور پھر لدھیانہ واپس آگئے اور دوسرے ہفتے کے شروع ہی میں قادیان تشریف لے آئے.10-

Page 397

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۷۸ ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جوابات سفر علی گڑھ مئی یا جون ۱۸۸۹ء میں ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے پاس تین سوالات بغرض جواب بھیجے.انجمن نے ان کے جواب کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولانا نور الدین دونوں سے درخواست کی.ہر چند کہ حضرت اقدس کو فرصت نہ تھی اور طبعیت بھی اچھی نہیں تھی محض عشق رسول کے جوش سے ان سوالوں کا جواب تحریر فرمایا.انجمن نے ان جوابات کو ایک عیسائی کے تین سولواں کے جواب" کے عنوان سے شائع کر دیا.حضرت اقدس کا یہ معرکتہ الاراء اور لطیف جواب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے مکتوبات احمد یہ جلد سوم ( صفحہ ۳۴-۷۹) میں درج کر دیا ہے.جو تشکیت پرستی کے خلاف ایک کامیاب ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے اس میں ایک جگہ فرماتے ہیں.قرآن شریف صحیفہ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کو یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرار خامنہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور بر خلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ در حقیقت اس کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے.برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خد ا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کی گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دکھ اٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک اس کی عمر کاتو منزه عن الجسم وعن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا کسی نہ معلوم بد بختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے بجسم اور تحیر کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہو گئے اور اس تجسم کی وجہ کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہیگا.انواع و اقسام کے اس کو دکھ اٹھانے پڑے.آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا.اور پھر زندہ ہوا اور اس جسم نے پھر آکر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اس کو اب پکڑے رہے گا.کبھی مخلصی نہیں ہو گی.اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کا شنس اس کی شہادت دے سکتا ہے ".۱۸۸۹ء کے بعض دیگر صحابہ tt YA حصہ لدھیانہ میں بیعت اولی کے موقعہ پر جن خوش نصیب بزرگوں نے بیعت کی رجسٹر بیعت سے ان کی فہرست او پر درج ہو چکی ہے.جیسا کہ رجسٹر بیعت اولی سے ثابت ہے ۱۸۸۹ء کے دوران بعد میں بھی

Page 398

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۷۹ سفر علی گڑھ 21 متعدد اصحاب شامل جماعت ہوئے جن میں حسب ذیل بلند پایہ بزرگ بھی تھے.حضرت مولوی محمد متفضل حسین صاحب علی گڑھ - II حضرت منشی صادق حسین صاحب مختار انادی حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی متم مصارف ریاست بھوپال - بابو محکم دین صاحب پٹی.حضرت منشی محمد جلال الدین صاحب بلانوی.حضرت مولوی شیر محمد صاحب موضع بمن ضلع شاہ پور - حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک - حضرت حافظ معین الدین صاحب - حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی.حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی.

Page 399

تاریخ احمد بیت - جلدا سفر علی گڑھ حواشی - حیات احمد " جلد دوم نمبر دوم صفحه ۱۲-۱۳ اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء صفحه ۱۲ تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۴۵) سیرت المهدی" جلد دوم صفحه ۵۰د ضمیمه " اصحاب احمد " جلد اول اشتہار " تحمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء " و تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۵۰۰۱۴ tt حیات احمد جلد سوم حصہ اول صفحہ تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۵۰-۱۵۵ سیرت المدی " حصہ اول صفحہ ۷۶ ۷۷ روایت نمبر ۹۲ ( طبع ثانی ۱۹۳۵ء) - سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ے سے ضیع دوم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رجسٹر بیعت کے لحاظ سے بیعت کے پہلے دن کی تاریخ ۲۱ مارچ قرار پاتی ہے جو کسی طرح صحیح نہیں قرار دی جاسکتی کیونکہ جیسا کہ راقم الحروف نے رسالہ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۷۱ء کے مفصل مقالہ میں ثابت کیا ہے.رجسٹر بیعت میں ناموں کا اندراج بیعت کے انعقاد سے قبل ہی شروع کیا جا چکا تھا اور اس کے ابتدائی اوراق صرف یہ بتاتے ہیں کہ بیعت پر آمادگی کی اطلاع دینے والے بزرگ یا عمل از وقت لدھیانہ پہنچنے والے بزرگ کون کون سے تھے؟ اس سے یہ ہر گز نتیجہ نہیں نکلتا کہ بیعت اوٹی کا آغاز ۲.مارچ کو ہوا.اسی طرح ۲۲ مارچ کو بھی بیعت کا آغاز قرین قیاس نہیں ہو سکتا.کیونکہ انہیں دنوں حضرت مسیح موعود نے حضرت مولانا نور الدین کو ہدایت فرمائی تھی کہ " بجائے ہیں کے بائیس مارچ کو آپ تشریف لادیں.یعنی یوم یکشنبہ میں" (احکم ۳۱.مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲ - البدر ۱۲- جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷ کالم نمبر ۳) انڈا حضرت مولانا نور الدین کو جب ۲۲ مارچ کو لدھیانہ پہنچنے کا ارشاد ثابت ہوا تو اس روز کی بجائے اس سے اگلے ان ۲۳ مارچ ہی یوم بیعت قرار پاتا ہے اور یہی وہ تاریخ ہے جو حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوری نے بیان کی ہے اور یہی ۱۹۱۷ء سے دار البیعت لدھیانہ کے کتنے پر ثبت ہے.ریویو آف ریلیجمرہ اردو جون جولائی ۱۹۴۳ء) علاوہ ازیں اسی بناء پر حضرت مصلح موعود نے ۲۳- مارچ ۱۹۴۴ء کو لدھیانہ کا جلسہ مصلح موعود مقرر فرمایا ( الفضل -۱۸ فروری ۱۹۵۹ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰.رجب کو ۲۳ مارچ ثابت ہوتی ہے" (سیرت المبد کی حصہ سوم صفحه (۴) -/+ الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۵ء صفحه به تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۵۱-۱۵۲ یہ کو ٹھری در اصل حضرت صوفی احمد جان کا جاری کردہ لنگر خانہ تھا.جسے دار البیعت کا شرف حاصل ہوا.حضرت صوفی صاحب کے صاحبزادوں نے کچھ عرصہ بعد رہائشی مکان فروخت کر دیا.اور دار البیعت صد را مجمن کے نام ہے کر دیا.صد را مجمن نے اس کا انتظام مقامی جماعت کے سپرد کر دیا.1919ء میں اس کی پہلی شکل میں کچھ تبدیلی کر کے جانب شمال ایک لمبا اور پختہ اور ہوادار کمرہ تیار کروایا گیا.جس کی شمالی دیوار کی بیرونی سطح پر دار البیعت کا نام اور تاریخ بیعت کا کتبہ مثبت کیا گیا اور صحن میں پختہ اینٹوں کا کوئی بالشت بھر اد نچا چبوترہ اور ایک محراب بنوا کر نماز کے لئے مخصوص کر دیا گیا.دسمبر ۱۹۳۹ ء میں نماز گاہ پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی تعمیر ہوئی.بجلی کے قمقمے آویزاں کئے گئے.صحن میں نلکہ نصب ہوا اور غسل خانہ جائے ضرور تیار کی گئی.ایک لیے کمرے کو دو میں تبدیل کر کے مشرقی کمرہ میں احمد یہ لائبریری قائم کی گئی.اس کمرے کی مشرقی دیوار کے جنوبی کونے کے پہلو میں وہ مقدس جگہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیٹھ کر پہلی بیعت لی تھی.اور جماعت کا قیام عمل میں آیا تھا.ریویو آف ریچر اردو جون جولائی ۱۹۳۳ ء صفحہ ۲۶-۳۹) ۱۹۴۷ء کے ملکی فسادات میں یہ تاریخی یادگار ہندوستان میں رہ گئی -۱۳ بدر ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۲ء ( کلام امیر صفحه ۲۵) ۱۳- "سیرة المهدی حصہ اول صفحہ ۷۷ ۷۸۰ ( طبع ثانی ۱۹۳۵) مکتوبات مسیح موعود بنام مولوی عبد اللہ صاحب سنوری دسمبر ۱۹۲۱ و

Page 400

تاریخ احمدیت.جلدا ٣٨١ سفر علی گڑھ ما مجدد اعظم " حصہ اول ( صفحہ ۲۱۸-۲۱۹) میں حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے متعلق دو سمائی روایات درج ہیں جن میں سے پہلی حضرت خلیفہ اول کے مطبوعہ ملفوظات میں نہیں مل سکی.اسلئے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ کہاں تک درست ہے البتہ دوسری روایت " مرقاة الیقین " ( طبع اول صفحہ ۱۴۸ پر درج ہے مگر وہ بیعت اوٹی کے موقعہ کی نہیں قادیان میں آپ کی پہلی بار آمد سے متعلق ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ اول کے ان الفاظ سے عیاں ہے کہ ”جب میں قادیان سے یہ حکم لے کر اپنے وطن پہنچا ہی نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول نے الحکم ۲۲ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲- ۳ میں صاف طور پر یہ حکم " حضرت کی پہلی ملاقات سے وابستہ قرار دیا ہے پس اسے بیعت اوٹی کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں.۱۵ بروایت حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ ے سے طبع ثانی حیات احمد جلد سوم صفحہ ۷ ۲ و الحکم ۲۱ - مئی ۱۹۲۴ء صفحه ۳۶ "سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ؟ ۱۸ الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ (وفات ۷ ۲- نومبر ۱۹۳۹ء) - حضرت ام المومنین حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق کے مطابق چالیس افراد ہی نے بیعت کی تھی (ملاحظہ ہو " سیرت المہدی ؟ " حصہ اول صفحہ ۱۸ " ذکر حبیب " صفحه سلسلہ احمدیہ صفحہ ۲۹) (دوسرے ایام کے متعلق) حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن میں ہیں پچیس افراد کے قریب بیعت کرتے تھے (ریویو آف ریلیجر اردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۳) ۲۰ ریویو آف ریجو اردو (جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۳) ۰۲۱ حضرت شیخ صاحب ان دنوں تراب کہلاتے تھے مگر بعد کو عرفانی سے موسوم ہوئے.۲۲- "سیرت المہدی جلد دوم صفحہ ۵ و "حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحہ ۴.۲۳- ذکر حبیب صفحه ۹ ۲۴- "حیات احمد " جلد سوم صفحه ۲۳- ۲۵- "ذکر حبیب صفحه ۹ -۲۶ مرقاة الیقین صفحه ۲۲۳) مولفه اکبر شاه خان نجیب آبادی) ۲۷- الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۶ صفحه ۷ ۲۸ حضرت صوفی احمد جان کی دختر تھیں حضرت مولانا نور الدین کی زوجیت کے لئے خود حضرت مسیح موعود نے ان کا انتخاب فرمایا تھا غالبا ۱۸۸۸ء میں وہ حضرت مولانا کے نکاح میں آئیں حضرت اقدس بنفس نفیس برات میں شامل ہوئے تھے.۷.اگست ۱۹۵۵ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال فرمایا آخری آرامگاہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے.(الفضل ۹- اگست ۱۹۵۵ء) te ۲۹ سیرت المهدی حصہ اول طبع اول صفحہ ۱۸-۱۹ ۳۰- الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۵ء صفحه ۴ ا دولا کف آن احمد صفحه ۱۵۳ ۳۲- الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۵ء صفحه ۵ ۳۳- "ذکر حبیب " صفحه ۴۳۶ تا ۴۳۹ ۳۴ سیرت المهدی" جلد سوم صفحہ ۱۴ بروایت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب صاحب) ۳۵- "حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحہ ۲۳- اس رجسٹر کی تیاری کے متعلق حضرت اقدس نے پہلی مرتبہ ۴.مارچ ۱۸۸۹ء کو بذریعہ اشتهار اعلان فرمایا اور ہدایت دی که خود میبالعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا نام پستہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں " " تبلیغ رسالت " جلد اول صفحه ۱۵۲) ۳۶- پڑھا نہیں گیا (مرتب) ۳۷.لفظ پڑھا نہیں گیا.

Page 401

تاریخ احمدیت جلد ۳۸۲ سفر علی گڑھ ۳۸- حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوئی مراد ہیں.اس نام کا اندراج حضرت مولوی نور الدین کے قلم کا معلوم ہوتا ہے.۳۹ سابق مبلغ انگلستان حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے والدہ آپ کی وفات پر (جو ۵ - مئی ۱۹۰۴ء کو ہوئی) حضرت اقدس نے فرمایا.” بہت عمدہ آدمی تھے.قریبا بیس سال سے محبت رکھتے تھے " (بد / ۱۷- ۸ مئی ۱۹۰۴ء - الحکم ۱۴- ۷ اپریل ۶۱۹۴۳ ) وفات ۲۶ جنوری ۱۹۳۷ء ام مصنف " عسل مصطفی (مرتب) -۴۲- پڑھا نہیں گیا (مرتب) ۲۳- وفات ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء (مرتب) ۴۴.پڑھا نہیں گیا ۴۵ آپ پہلے احمدی تھے جنہیں حضرت اقدس مسیح موعود نے ۲۹.اپریل ۱۸۸۹ء کو دو سروں سے بیعت لینے کی تحریری اجازت دی تھی (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم صفحہ ۱۲۲) ۴۶ پڑھا نہیں گیا ( مرتب) ۴۷.اس نام پر لکیر ڈال دی گئی ہے.۴۸ نقل مطابق اصل ۴۹ غالبا چهره ۵۰ نقل مطابق اصل ا نقل مطابق اصل ۵۲ نقل بمطابق اصل ۵۳ نقل مطابق اصل ۵۴ خدا کی قادرانہ تجلیات کا یہ بھی عجیب نظارہ ہے کہ قرار داد پاکستان ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء ہی کو پاس کی گئی تھی.افتبارک اللہ احسن الخالقين ۵۵ جماعت احمدیہ میں اس پہلو کی طرف غالب رحجان ۱۹۶۳ء کے آخر میں پیدا ہوا جبکہ سیدی قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجلس مشاورت میں ارشاد فرمایا.مزید تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دراصل بیعت اوٹی ۲۳.مارچ کو نہیں بلکہ ۲۲ مارچ کو ہوئی اور چاند کے حساب سے وہ ۲۰- رجب کا دن تھا.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۶ هش / ۱۹۷۳ء صفحه ۵۶ - نقل مطابق اصل (ناقل) ۵۷ بیعت ۶۱۸۹- وفات ۲۸ جولائی ۱۹۴۰ء ۵۸ - اخبار ریاض ہند نے اپنی ۱۴ جنوری ۱۸۸۹ء کی اشاعت میں صفحہ پر لکھا.بڑی خوشی کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب کے گھر ۲.جنوری کو لڑکا پیدا ہوا.خدا کرے یہی عمر پانے والا موجود ہے.۵۹ ریویو آف ریلیجر " جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۳-۱۴ "حیات احمد " جلد سوم صفحه ۳۶ ۳۷ حاشید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۹-۸۲۰ ( طبع اول) میں لکھا ہے.”مولوی صاحب موصوف ایک بزرگ عارف باللہ کے خلف رشید ہیں اور پوری نور اپنے اندر مخفی رکھتے ہیں...یہ عاجز جب علی گڑھ میں گیا تھا تو دراصل مولوی صاحب ہی میرے جانے کا باعث ہوئے تھے اور اس قدر انہوں نے خدمت کی کہ میں اس کا شکریہ نہیں ادا کر سکتے".۶۲- «فتح اسلام" حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحه ۲۹-۳۵

Page 402

تاریخ احمدیت جلدا ۶۴ "سیرت المہدی حصہ اول (طبع دوم) صفحه ۷۸-۷۹ ۷۵- حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحہ ۳۶ سفر علی گڑھ - مغربی پاکسان کا مشہور نعیمی و ترینی اسلامی ادارہ جسکی بنیاد ۲۳- تمبر ۱۸۸۴ء کو قاضی خلیفہ حمید الدین صاحب کی قیادت میں بعض مخلص مسلمانوں نے رکھی تھی حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحه ۴۱-۴۲ ان جوابات کا انگریزی ترجمہ وکالت تبشیر کی طرف ہے جون ۱۹۷۲ء میں چھپ چکا ہے.انجمن حمایت اسلام کی درخواست پر حضرت مولانا نور الدین خلیفتہ المسیح اول نے بھی ان سوالوں کے جواب سپرد قلم فرمائے جودہ بھی انجمن نے شائع کر دیئے.مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجہ اردو اگست ۶۱۹۲۲ ۷۸ مکتوبات احمدیہ " جلد سوم صفحہ ۷۰ ۶۹- تاریخ بیعت ۷- اپریل ۱۸۸۹ - ۱۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام ۱۳۷ نمبر پر ہے تاریخ بیعت - اپریل ۱۸۸۹ء اصحاب کبار کی فہرست میں ۱۳۸ نمبر پر آپ کا نام ہے ا تاریخ بیعت ۲۳ اپریل ۱۸۸۹ء آپ کے متعلق حضرت اقدس کو الہام ہو ا تھا..از پی آن محمد احسن را تارک روزگار بینم (حقیقۃ الوحی طبع اول صفحه ۳۳۳) عمر کے آخری دور میں جب ان کے قومی معمل ہو چکے تھے وہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے وابستہ ہونے پر مجبور کردئے گئے تھے بایں ہمہ انہیں حضرت خلفیتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے الفت و محبت تھی اور وہ حضرت کی خدمت میں اکثر خطوط لکھتے اور وفات کے قریب حضور کو بار بار یاد کرتے تھے بلکہ انہوں نے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ سے درخواست بھی کی کہ کوئی آدمی بھیجا جائے حضور نے قادیان میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا." ایسی حالت میں جب کہ وہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارتے تھے انہوں نے جو کرور علی کھائی وہ قابل معافی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے کو بعد میں ان کو ہمارے ساتھ اختلاف ہو گیا مگر جو عقیدت اور اخلاص ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام سے تھا وہ اپنے رنگ میں خاص تھا " الفضل ۳- اگست ۱۹۲۶ء) ۱۵- جولائی ۱۹۲۶ء کو انتقال ہوا (پیغام صلح ۲۱ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۳) امروہہ میں مدفون ہیں ۷۲- تاریخ بیعت ۲۹- ایریل ۶۱۸۸۹ ۷۳- بیعت مئی ۱۸۸۹ء- ۳۱۳ صحابہ کبار میں پہلا نام آپ ہی کا ہے ۱۹۰۲ ء میں وصال ہوا.حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کے متعلق فرمایا ”ہمارے یکتا اور بے نظیر دوست تھے.(الحکم) ہے.اپریل ۱۹۳۹ء) ۷۴ تاریخ بیعت ہے.تمبر ۱۸۸۹ ء - اصحاب کہار میں آپ کا نام ۲۱۹ نمبر پر درج ہے.۷۵- تاریخ بیعت ۲۱ ستمبر ۶۱۸۸۹ تاریخ بیعت ۱۸- نومبر ۶۱۸۸۹ ۷۷ (تاریخ بیعت ۲۲ نومبر ۱۸۸۹ء) ۷۸- ايضا و ايضا

Page 403

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۸۴ دعوی مسیحیت د ۲۴ ماموریت کانواں اور دسواں سال فتح اسلام اور توضیح مرام کی تصنیف و اشاعت اور دعویٰ مسیحیت (A91-1^4+ شدید علالت ۱۸۹۰ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کئی ماہ تک شدید بیمار رہے حتی کہ بظا ہر زندگی کی امید منقطع ہو گئی.بیماری کا یہ حملہ مارچ ۱۸۹۰ء کے آخری ہفتہ میں ہوا.مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے.آپ کی طبیعت ایک مرض دوری کے باعث اکثر بیمار رہتی تھی اور ضعف تشویشناک حد تک بڑھ گیا تھا شروع جولائی میں آپ تبدیلی آب و ہوا کے لئے عازم لدھیانہ ہوئے اور محلہ اقبال گنج میں پر مکان شهزاده حیدر فروکش ہوئے.یہ ساری تفصیلات حضور انور کے ان خطوط سے ملتی ہیں جو انسی دنوں آپ نے اپنے مخلص مرید حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے نام تحریر فرمائے اور جو مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحہ ۱۰۶ تا ۱۰۹ میں شائع شدہ ہیں.۱۸۹۰ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم الشان انکشاف ہوا کہ حضرت مسیح ناصری جن کو مسلمانوں نے آسمان پر زندہ سمجھ رکھا ہے اور جن کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانہ میں وہ اپنے خاکی جسم کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس تشریف لا ئیں گے ، وفات پاچکے ہیں اور ان کے مثیل کی شکل میں آپ کو دنیا کی ہدایت اور اسلام کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے.اس انکشاف پر آپ نے فتح اسلام اور پھر " توضیح مرام " کے نام سے دو کتابیں شائع فرما ئیں جن میں اپنے دعوئی مسیحیت کا اعلان فرمایا.اور لکھا کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ "

Page 404

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۸۵ دھونی مسیحیت السلام کی زندگی اور ان کی بجد عصری واپسی کا عقیدہ جو عام مسلمانوں میں پھیل گیا ہے اسلامی کتب میں اس کا نام و نشان بھی نہیں.یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ کئی بے جا جائے لگا دیئے ہیں اور بے اصل موضوعات سے اس کو رونق دی گئی ہے حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا صحیح اس است میں سے ہو گا.بلکہ آنحضرت ﷺ نے تو مسیح اول اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے دونوں مسیحوں کا جدا جدا حلیہ بیان فرمایا ہے.جو اس امر کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ مسیح اول اور ہے اور صحیح ثانی اور نیز مسیح ثانی کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے ورنہ وہ در حقیقت امت محمدیہ میں سے ایک امام ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فتح اسلام" کی کتابت کے سلسلہ میں شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس ہال بازار امرت سر کو تحریر فرمایا کہ ایک کاتب ہمارے پاس بھیج دیں ایک چھوٹا سار سالہ لکھواتا ہے ان دنوں شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم ان کے ہاں کام کرتے تھے.شیخ نور احمد صاحب نے انہی کو بھیج دیا اور حضرت اقدس نے ان سے فتح اسلام" کا رسالہ لکھوایا.شیخ محمد حسین صاحب مرحوم کتاب کی کاپیاں لے کر امرت سرواپس آئے اور شیخ نور احمد صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس نے اس کو چھاپنے کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے ان کا خیال تھا کہ نہ معلوم یہ رسالہ چھا ہیں یا نہ چھاپیں.کیونکہ سلطنت بھی عیسائی ہے اور پادری حضرت مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا کہنے والے موجود ہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کی طرف سے کوئی باز پرس یا عتاب ہو یا یہ رسالہ ہی ضبط ہو جائے.اور پریس والے اور کاتب بھی گرفتار ہوں.یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو.شیخ نور احمد صاحب نے اسے دیکھ کر کہا کہ میں اس کو ضرور چھاپوں گا.چنانچہ انہوں نے یہ دور سالے بڑی عقیدت مندی کے ساتھ اپنے مطبع میں چھاپے اور قادیان پہنچا رہے.مخالفت کا طوفان رسالہ "فتح اسلام " ابھی امرتسر میں چھپ ہی رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اتفاقاً امر تسر پہنچے اور انہوں نے اس رسالہ کے پروف مطبع ریاض ہند سے منگوا کر دیکھے.اور دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گئے.انہیں غصہ اس بات پر تھا کہ مجھ سے اپنے دعوئی سے متعلق آپ نے مشورہ کیوں نہیں کیا.چنانچہ انہی دنوں جب ایک شخص نے انہیں بتایا کہ حضور ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفات مسیح کا ذکر ہے تو وہ کہنے لگے کہ انہوں نے ہم سے تو کوئی ذکر نہیں کیا.سر حال فتح اسلام" میں آپ کا دعویٰ مسیحیت پڑھتے ہی ان کی عقیدت کا گذشتہ رنگ اڑ گیا.اور انہوں نے لکھا کہ اس

Page 405

تاریخ احمدیت.جلدا دھوئی مسیحیت رسالہ کے دیکھنے اور سننے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ نے اس میں یہ دعوی کیا ہے کہ مسیح موعود ( جن کے قیامت سے پہلے آنے کا خدا تعالٰی نے اپنے کلام مجید میں اشارہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلام مبارک میں جو صحاح احادیث میں موجود ہے صراحتہ وعدہ دیا ہے وہ) آپ ہی ہیں.اگر آپ کا یہی دعویٰ ہے تو آپ صرف "ہاں" تحریر فرما دیں زیادہ توضیح کی تکلیف نہ اٹھا میں اور اگر اس دعوئی سے کچھ اور مراد ہے تو اس کی توضیح کریں.حضرت اقدس نے ۵.فروری ۱۸۹۱ء کو لکھا کہ آپ کے استفسار کے جواب میں میں صرف "ہاں" کافی بجھتا ہوں.اس جواب پر مولوی صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور آپ سے طویل سلسلہ مراسلت شروع کر دیا جس کی نقل انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر 1 میں شائع کر دی) بٹالوی صاحب نے لکھا کہ آپ اگر اس دعوئی میں حضرت خضر کی طرح معذور ہیں تو میں اس کے انکار میں حضرت موسیٰ کی طرح مجبور ہوں.حضرت اقدس نے فتح اسلام " اور " توضیح مرام " کا ایک ایک نسخہ انہیں بھجواتے ہوئے لکھا کہ " مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں...کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں.اور خدا میرے ساتھ ہے.اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا ان معی ر بی سپهدین.سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالی اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا.میں آپ کے لئے دعا کروں گا مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے".مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو فتح اسلام اور توضیح مرام کے نسخے پہنچے تو انہوں نے اپنے دلی بغض و عناد کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کا اعلان کر دیا کہ " (اشاعۃ السنہ) کا فرض اور اس کے ذمہ یہ ایک قرض تھا کہ اس نے جیسا اس کو (یعنی سید نا حضرت مسیح موعود کو ناقل) دعادی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے اس کو زمین پر گرا دے".A نیز مسلمانان ہند کو اشتعال دلانے کے لئے لکھا کہ فتنہ قادیانی ابھی فتنہ ہے کوئی دن میں قیامت ہو گا.اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مذہب وامن میں زبر دست انقلاب واقع ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اشاعۃ السنہ کا رسالہ اس کی سرکوبی کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ اعلان منظر عام پر آنا تھا کہ ملک بھر میں مخالفت کا طوفان بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا.شیخ نور احمد صاحب کا (جن کے مطبع ریاض ہند امرت سر میں ابتدائی کتابچے شائع ہوئے) بیان ہے کہ لوگ میرے مطبع میں آتے اور کہتے کہ تم کو کیا ہو گیا تم نے یہ کتاب کیوں چھاپی ؟ عیسی علیہ السلام تو آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں

Page 406

تاریخ احمدیت جلدا ۳۸۷ دھوٹی مسیحیت گے اور یہ ہندوستان ہے.مرزا صاحب کیسے مسیح موعود ہو سکتے ہیں تم نے مسلمانوں کے خلاف مرزا صاحب کو کیوں مسیح موعودمان لیا.علماء اور ان کے زیر اثر سب لوگ مجھ پر ناراض ہوئے.اور کہا کہ یہ محض ایک گاؤں کا رہنے والا اور بے علم ہے.کسی مدرسہ کا تعلیم یافتہ نہیں اور نہ کسی عربی تعلیم گاہ کا دستار بند ہے.امر تسر والوں نے انہیں بہت پریشان کیا لیکن انہوں نے ان کی کچھ پروانہ کی.سارا دن یہ لوگ ان کا مطبع اور مکان گھیرے رکھتے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے." حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فتویٰ تکفیر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی آواز دبانے کا فیصلہ کر کے ہر لحہ حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں وقف کر دیا اور اپنی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اس پرانے حربے کو آزمانے کی ٹھانی جو ہر مامور اور امام ربانی کے وقت استعمال ہو تا آرہا ہے یعنی انہوں نے اول المکفرین بن کر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک طوفانی دورہ کیا اور فتح اسلام " اور " توضیح مرام " کی بعض عبارتوں میں قطع و برید کا سہارا لے کر ایک استفتاء تیار کیا.علماء سے آپ کے کفر وارتداد کے فتوے حاصل کئے اور پھر اسے اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۱۲ میں شائع کر دیا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی ان معاندانہ سرگرمیوں کے متعلق انہی دنوں خود لکھا تھا کہ ” جون ۱۸۹۱ء سے مارچ ۱۸۹۲ء تک جو اشاعتہ السنہ کا کوئی پرچہ نہیں نکلا تو کیا اس سے وہ غیر حاضر اور اپنے منصبی فرض اور قوم کی خدمت ادا کرنے میں قاصر متصور ہو سکتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.اس عرصہ میں جو خدمت قلمے.قدمے اور درے اس نے کی ہے وہ اپنے زمانہ خدمت چودہ سال میں کبھی نہیں کی.جون ۱۸۹۱ء میں وہ نمبر ۱ ۲ ۳ جلد ۱۳ میں کیفیت گریزد فرار کادیانی اور اس کے فرضی حواری حکیم نور الدین جمونی کی رپورٹ کر کے پھر جولائی ۱۸۹۱ء سے اس اسلام و مسلمانوں کے دوست نما دشمن عقائد قدیمہ اسلامی کے رہزن و بیخ کن ( کاریانی) کے تعاقب میں رہا اور بمشکل و لطائف الحیل جولائی ۱۸۹۱ء بمقام لدھیانہ اس کو جا پکڑا اور بارہ دن تک خوب رگیدا اور چتھاڑا اور ۳۱.جولائی ۱۸۹۱ء کو ذلت کی شکست دے کر بھگا دیا.پھر ہندوستان پہنچ کر اس کے عقائد و مقالات کی نسبت ایک استفسار مرتب کیا اور ایک لمبا سفر اختیار کر کے مختلف بلاد ہندوستان کے علماء و فضلاء کا فتویٰ اس کے حق میں حاصل کیا اور خاص دعوام ہندوستان و پنجاب کو اس فتویٰ اور اپنے زبانی بیانات اور مواعظ کے ذریعہ سے اس کے عقائد باطلہ پر آگاہ کر کے اس سے بچنے کے لئے ہو شیار کر دیا.پھر جب ماہ اکتوبر ۱۸۹ء میں قادیانی نے دہلی پہنچ کر سر اٹھایا.اور وہاں کے اکابر کے مقابلہ میں جو اس کو مخاطب کرنے کے لائق نہ

Page 407

تاریخ احمدیت جلدا دعوتی مسیحیت سمجھتے تھے مل من مبارز کا نعرہ بلند کیا تو یہ خادم دہلی پہنچا اور وہاں اس کو پچھاڑا پھر جب وہ لاہور و سیالکوٹ پہنچاتو وہاں اس کا پیچھا کیا اور مباحثہ سے صاف صریح انکار کرا کے بھگا دیا - ان الفاظ سے جہاں بٹالوی صاحب کی ان سرگرمیوں پر روشنی پڑتی ہے جو ابتداء میں انہوں نے شمع صداقت بجھانے کے لئے اختیار کیں وہاں فتویٰ کفر سے متعلق ان کے وسیع پیمانے پر ملکی دورہ کا بھی پتہ چلتا ہے.یہ فتوی کم و بیش ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھا.اور اس میں دلی، آگرہ، حیدر آباد دکن بنگال، کانپور، علی گڑھ ، بنارس ، اعظم گڑھ، آره، غازی پور ترہٹ، بھوپال ولدھیانہ امرتسر سو جانپور لاہور بٹالہ پٹیالہ لکھو کے ضلع فیروز پور ، پشاور ، سوات راولپنڈی، ہزارہ ، جہلم حجرات سیالکوٹ وزیر آباد سوہدرہ کپور تھلہ گنگوہ دیوبند سہارنپور لکھنو مراد آباد پٹنہ کان پور غرضکہ ، (متحدہ) ہندوستان کے تمام اہم مقامات کے علماء کے فتاری درج تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس فتوے کی اشاعت میں ناروا ہتھکنڈے استعمال کر کے بعض خداترس علماء کا نام بھی از خود لکھ دیا.حالانکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قطعا فتوئی نہیں دیا تھا.مثلاً حافظ عظیم بخش صاحب پٹیالہ جن کا نام مولوی محمد حسین صاحب نے خود ہی شامل فتوئی کر لیا اور حافظ صاحب کے احتجاج کے باوجود اسے اپنے فتوئی سے خارج نہیں کیا.حافظ صاحب نے ۲۴.مئی ۱۸۹۲ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں اصل واقعہ لکھ دیا اور ایک فارسی نظم بھی بھجوائی جس میں نہایت عمدہ پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص وارادت کا اظہار کیا گیا جسے حضور نے اپنی کتاب " نشان آسمانی میں شائع کر دیا.مولوی محمد حسین صاحب نے یہی چال حافظ صاحب کے استاد مولوی محمد عبد اللہ خاں پروفیسر عربی مندر کالج پٹیالہ سے متعلق چلی تھی.اس لئے انہیں بھی اس کی تردید میں اشتہار دینا پڑا.اس سے بڑھ کر مولوی فیض احمد صاحب علمی کا واقعہ ہے کہ گو ابتداء میں تو انہوں نے فتوی دیا تھا مگر ازالہ اوہام کی اشاعت پر تائب ہو کر انہوں نے بٹالوی صاحب سے اپنا فتوٹی واپس طلب کیا لیکن بٹالوی صاحب نہ مانے.اور ان کا پہلا فتویٰ جس سے وہ رجوع کر چکے تھے شائع کر کے دم لیا.فتوی دینے والے علماء میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب علمی بھی شامل تھے مگر انہوں نے فتوی کو محدود اور مشروط اور محتاط رنگ میں پیش کر کے لکھا کہ ” نہ مطلقاً بلکہ مقید الکھا جاتا ہے کہ اگر مرزا ایسے اعتقادات کا معتقد و مدعی ہے جو سوال میں درج ہیں تو بے شک وہ انہیں فتاوی کا مستوجب و مستحق ہے جو علماء ربانیین نے اس کے حق میں لگائے ہیں.اور عیاذ باللہ کہ کسی کے حق میں تقلید اور سمعا کوئی فتویٰ دوں اور لکھوں.اسی فروتنی انکسار اور خدا ترسی کا نتیجہ تھا کہ جب بعد کو انہوں نے

Page 408

تاریخ احمدیت جلد ! ٣٨٩ دعوئی مسیحیت حضرت مسیح موعود کی اصل کتابیں ”فتح اسلام " توضیح مرام اور ازالہ اوہام وغیرہ دیکھیں تو آپ پر حق کھل گیا.اور آپ اگلے ہی سال حضرت امام الزمان کے قدموں میں آگئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر کی جو قرار داد جرم تیار کی اس کا ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز پہلو یہ تھا کہ انہوں نے ایک طرف تو یہ لکھا کہ مرزا صاحب اپنے تئیں محدث لکھتے ہیں.حالانکہ حدیث شریف میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ مسیح موعود قطعی طور پر نجی اللہ ہو گا اور دوسری طرف یہ لکھا کہ نصوص کے لحاظ سے جو شخص آنحضرت کے بعد دعویٰ نبوت کرے چاہے محدث ہی کیوں نہ کہلا تا ہو) وہ دجال و کذاب ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم نوا علماء نے فتویٰ تکفیر کے بعد مخالفت کا کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ابتداء میں قادیان کی ناکہ بندی کے لئے بٹالہ اسٹیشن سے قادیان والی نہر تک اپنے ایجنٹوں کا گویا ایک جال بچھا رکھا تھا.جو اسٹیشن سے اترتے ہی قادیان جانے والوں کو روکتے تھے.ان ایجنٹوں نے ایک کیمپ سالگا رکھا تھا جہاں جانے والوں کے لئے حقہ کا انتظام ہو تا تھا.چنانچہ بعض صحابہ کا بیان ہے کہ شروع شروع میں جب ہم قادیان جایا کرتے تھے تو بٹالہ کے اسٹیشن اور قادیان کی سڑک پر میل میل کے فاصلے سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آدمی بٹھا دیا کرتے تھے.ہر شخص کے ہاتھ میں ایک بڑار جسٹر ہوا کرتا تھا جس پر جانے والوں کے نام اور جانے کی غرض درج کی جاتی تھی.کبھی کبھی مولوی محمد حسین صاحب خود بھی یہ " خدمت انجام دیتے تھے اور قادیان جانے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم کیوں اور کس لئے جاتے ہو ؟ جب لوگ کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے جاتے ہیں تو وہ ہر ممکن کوشش سے رو کا کرتے اور واپس جانے کے لئے کہتے.کئی آدمی انہوں نے واپس بھی گئے.اس زمانہ میں عوام مولوی محمد حسین صاحب کی وجہ سے بھی جانے سے ڈرتے تھے.نیز وہ سمجھتے تھے کہ یہ رجسٹر جو رکھے جاتے ہیں گورنمنٹ کے حکم سے رکھے جاتے ہیں.اور ہمارے خلاف ضرور کوئی کارروائی کی جائے گی.قتل کرنے کی سازش بیرونی کوششوں کی ناکامی دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی چنانچہ مولوی عمرالدین صاحب شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور حافظ عبد الرحمن صاحب سیاح امرتسری آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو.حافظ عبد الرحمن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں.مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ میں مباحثہ نہیں کروں گا.اب انہیں مباحثہ کا چیلنج دیدو.اگر تو وہ تیار ہو گئے تو انہیں کا قول یاد دلا کر نادم

Page 409

تاریخ احمدیت جلدا ٣٩٠ دھوٹی مسیحیت کیا جائے.کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں.اور اگر مباحثہ سے انکار کیا تو ہم یہ اعلان کر دیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں.مولوی عمرالدین صاحب نے کہا مجھے کہو تو میں انہیں جا کر مار آتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہو جائے.اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا یہ سنتے ہی مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں حضور کی صداقت کا یقین ہو گیا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار کر کے اور عیسائی حکومت کو آپ کے قتل پر اکسا کر۱۸۹۷ء میں لکھا." حکومت و سلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے.اسی وقت آپ کا سرکاٹ کر آپ کو مردار کرتے.بچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد ہے.جس کا جواب بجر قتل اور کوئی نہیں.مگر کیا کریں مجبور ہیں.سلطنت غیر اسلامی ہے اس کے ماتحت رہ کر ہم اس فعل کے مجاز نہیں اور سلطنت کو جو (عیسائی کہلاتی ہے ) اس امر کی پروا نہیں ہے.رہے پادری جو مذہب ہی کی خدمت و حمایت کے صدقہ د طفیل سے ٹکڑا کھاتے ہیں سو (وہ) بھی اپنی تنخواہ سے کام رکھتے ہیں حمیت و غیرت مذہب کو خیر باد کہہ چکے ہیں.اب آپ شوق سے جس قدر چاہیں حضرت مسیح کو یا کسی اور نبی کو گالیاں دیں کوئی پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں ہے ".m بهر حال مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود کے خلاف فتنہ تکفیر کھڑا کر کے آپ کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا.اور اس طرح صلحاء امت کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی کہ صبیح موعود پر علماء کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور ایسا ہوتا اس لئے بھی ضروری تھا کہ امت کا بیشتر حصہ صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہو چکا تھا.چنانچہ عراق کے ایک عالم شیخ محمد رضا یسی ﷺ فرماتے ہیں الالَيْتَ شِعْرِى مَا تَرَى رُوحُ أَحْمَدَ إذَا طَالعَتْنَا مِنْ عَل أو اطلت واكْبَرُ ظَنِّي لَوْانَانَا مُحَمَّد تلاقى الَّذِي لَاقَاهُ مِنْ أَهْلِ مَكَةِ عدلنَا مِنَ النُّوْرِ الَّذِي جَاءَ نَا بِهِ كما عَدَلَتْ عَنْهُ قُرَيْشٍ فَضَلَّتِ اذن لَقَضَى لَا مَنْهَجَ النَّاسِ مَنْهَجِي وَلَا مِلَةُ الْقَوْمِ إِلَّا وَاخِرُ مِلَّتِي (ترجمہ) اگر احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ سلم کی روح عالم بالا پر ہمارے حالات سے واقف ہو جائے یا ہمیں جھانکے اور دیکھ پائے تو معلوم نہیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے.میرا ظن غالب ہے کہ محمد آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اس قسم کے مصائب اور انکار حق سے دوچار ہونا پڑے گا.جس طرح اہل مکہ کے ہاتھوں دو چار ہوئے (کیونکہ) ہم اس نور حق سے جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے تھے اسی طرح رو گردانی کر چکے ہیں جس طرح قریش ☑ -

Page 410

تاریخ احمدیت جلدا ۳۹۱ دعوتی مسیحیت نے اس سے منہ پھیرا تھا اور گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے تھے.پیغمبر خدا ہماری زبوں حالی اور راہ حق سے بیزاری دیکھ کر یقینا یہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ میرا بتایا ہوا رستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق ڈال رکھا ہے وہ میرا مذ ہب ہرگز نہیں ہے.مسلمانان ہند کے روشن خیال عناصر کارد عمل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر علماء ظواہر کے فتویٰ تکفیر نے عامتہ المسلمین میں زبر دست ہیجان پیدا کر دیا تھا مگر مسلمانوں کے روشن خیال اور سنجیدہ عناصر اکثر و بیشتر اس ہنگامہ آرائی میں غیر جانبدار رہے.یہی نہیں بعض مشہور مسلم زعماء نے تو اختلاف عقیدہ کے باوجود عمر بھر حضور اور حضور کی جماعت کی خدمات کو سراہا.اس غیر جانبدار طبقہ میں ملک کے چوٹی کے ادیب، صحافی، شعراء ، سیاسی اور مذہبی لیڈر وغیرہ شامل تھے اس ضمن میں چند قابل ذکر شخصیتوں کے نام یہ ہیں.خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی (۱۸۳۷-۱۹۱۴) اکبر حسین رضوی اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶ ۱۹۲۱) سید علی محمد شاد عظیم آبادی (۱۸۴۶-۱۹۲۷) سید ریاض احمد ریاض خیر آبادی (۱۸۵۳-۱۹۳۴) سر سید احمد خاں بانی علی گڑھ کالج (۱۸۱۷-۱۸۹۸) مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محل (۱۸۷۹-۱۹۲۹) مولانا سید امتیاز علی صاحب امتیاز (۱۸۷۰-۱۹۳۵) منشی محمد دین صاحب فوق (ولادت ۱۸۷۷ء) حکیم مولونی عبد الکریم صاحب پر ہم گورکھپوری (۱۸۶۷-۱۹۲۹) مولوی سراج الدین صاحب والد مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار "زمیندار" (متوفی ۱۹۰۹ء) محسن الملک نواب مهدی علی خاں (۱۸۳۷ - ۱۹۰۷) مولانا محمد علی جو ہر (۱۸۷۸ - ۱۹۳۱) مولانا شوکت علی (۱۸۷۳-۱۹۳۸) مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷-۱۹۱۴) نواب و قار الملک سید مشتاق حسین (۱۸۳۹ - ۱۹۱۷) مولوی عبدالحلیم شرر (۱۸۷۹-۱۹۲۱) یہ محض دعوئی ہی نہیں بلکہ ادبی اور مذہبی لٹریچر میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں.چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی جو عمر بھر صلح پسندی اور اسلامی رواداری میں سرسید مرحوم کے نقش قدم پر گامزن رہے حیات جاوید " جلد دوم صفحہ ۴۳۷ پر سرسید کے متعلق لکھتے ہیں.ایک شخص نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی نسبت ایک طول طویل خط سرسید کو لکھا.اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں نادان ہیں وہ جو ان سے جھگڑا کرتے ہیں ایک اور شخص نے مرزا صاحب کے خیالات کی مخالفت میں کچھ لکھنے کا ارادہ سرسید سے ظاہر کیا اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں آپ جو رسالہ نسبت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لکھنا چاہتے ہیں کیا آپ کو کچھ مالیخولیا ہو گیا ہے اس لغو حرکت سے کچھ فائدہ نہیں ".جناب اکبر الہ آبادی نے ایک مرتبہ اپنی محبت و الفت کا ثبوت دیتے ہوئے صاف لفظوں

Page 411

تاریخ احمدیت جلدا ۳۹۲ دعوتی مسیحیت میں کہا."اگر آج میں مرزا صاحب کو پاتا تو قبول کرتا.خدا کی قسم میں ان کو مانتا ہوں اور یہی میری بیعت ہے.نیز کہا.مرزا صاحب اگر خود نبی ہو کر چلے جاتے تو مجھ کو افسوس ہو تا.وہ تو ہر ایک کو امید دلا گئے ہیں کہ وہ مسیح بن سکتا ہے اور یہ جوش ایسا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنا مکان عشرت منزل چھوڑ دوں مجھے کو مرزا صاحب کی تحریر سے یقین ہو گیا کہ مسیح مرگئے اور مہدی کا کوئی وجود نہیں ".ان کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی - اخبار "الفضل " ۲۸ - اکتوبر ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا تھا.سید ممتاز علی صاحب اور مولوی سراج الدین صاحب آف زمیندار نے حضرت مسیح موعود کے وصال پر جو شذرہ لکھا وہ ان کے خیالات کا آئینہ دار ہے.نواب محسن الملک کا ایک مکتوب اسی کتاب میں درج ہے جس میں انہوں نے حضرت اقدس کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا ہے.مولانا محمد علی جو ہر اور حکیم عبد الکریم بر ہم تحریک احمدیت کے متعلق جو جذبات رکھتے تھے ان کا اظہار انہوں نے بالترتیب اخبار " ہمدرد اور " مشرق" کے ذریعہ سے کیا ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات " مولفہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے) اسی طرح مولانا شبلی نے اس رائے کا اظہار کیا.میں نے کوشش کی کہ انگریزی خوان عربی پڑھیں دیندار ہوں مگر میں ناکام رہا یہ کامیابی مرزا صاحب کو حاصل ہوئی.(الفضل 11 - مارچ ۱۹۱۷ ء ) مولانا عبد الحلیم صاحب شرر فرماتے ہیں احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے.خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے.اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی اسلام کی کچی اور پر جوش خدمت ادا کرتے ہیں.جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے".(رساله دل گر از بابت ماه جون ۱۹۰۶ء) سفر لدھیانہ دعوئی مسیحیت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کا پیغام پہنچانے اور بالخصوص مسلمانوں پر اتمام حجت کی غرض سے لدھیانہ امرتسر، دلی پٹیالہ، لاہور، سیالکوٹ، جالندھر اور کپور تھلہ کے سفر اختیار فرمائے.جن سے آپ کی دعوت کا ملک میں خوب چرچا ہو گیا.اس تعلق میں آپ کا سب سے پہلا سفر لدھیانہ کا ہے جو حضور نے ۳.مارچ ۱۸۹۱ء کو اختیار کیا.لدھیانہ میں آپ نے محلہ اقبال گنج مکان شہزادہ غلام حیدر میں قیام فرمایا.حضرت اقدس کے ساتھ حضرت حافظ حامد علی صاحب اور پیراں دیا تھے.حضرت اقدس بیمار تھے.اس لئے حضور نے یہاں خطوط کے جوابات کے لئے منشی عبداللہ صاحب سنوری کو بلا بھیجا.III اور خود بیماری کے باوجود پیغام

Page 412

تاریخ احمدیت ادا ۳۹۳ دعوئی مسیحیت آسمانی پہنچانے میں مصروف ہو گئے.لدھیانہ کے علماء (مولوی محمد صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب وغیرہ) جو " براہین احمدیہ " کی اشاعت کے زمانے سے مخالفت کرتے چلے آرہے تھے اب اس دعوے پر پہلے سے بھی زیادہ مشتعل ہو گئے اور انہوں نے آپ کے درود لدھیانہ پر آپ کے خلاف مخالفت کی آگ لگادی.ان کے حو صلے یہاں تک بڑھے کہ وہ مسلمانوں کو آپ کے قتل پر کھلم کھلا اکساتے.ایک دفعہ ایک واعظ نے بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش سے کہا کہ مرزا کا فر ہے اور اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے.جو کوئی اس کو قتل کر ڈالے گاوہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا.اور سیدھا بہشت کو جائیگا.ایک گنوار جو ہاتھ میں ایک لٹھ لئے کھڑا اس کی تقریر سن رہا تھا اس وعظ سے بہت متاثر ہوا اور چپکے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکان پوچھتا ہوا آپ کی قیام گاہ پر پہنچ گیا.وہاں کوئی دربان نہیں ہوتا تھا ہر ایک شخص جس کا جی چاہتا اندر چلا آتا اتفاق سے حضرت اقدس اس وقت دیوان خانے میں بیٹھے تقریر فرما رہے تھے اور چند آدمی جن میں کچھ ارادت مند اور کچھ غیر از جماعت تھے ارگرد بیٹھے حضور کی باتیں سن رہے تھے.وہ گنوار بھی اپنا لٹھے کاندھے پر رکھے ہوئے کمرہ میں داخل ہوا.اور دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر آپ پر قاتلانہ حملہ کے لئے مناسب موقعہ کا انتظار کرنے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی اور اپنی تقریر جاری رکھی وہ بھی سننے لگا.چند منٹ کے بعد اس کے دل پر اس تقریر کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر زمین پر آگیا اور وہ مزید تقریر سننے کے لئے بیٹھ گیا اور سنتا رہا.یہاں تک کہ حضور نے یہ سلسلہ گفتگو بند کر دیا.مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور آپ کا دعوی میری سمجھ میں آگیا ہے.اور میں حضور کو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں.اس پر وہ گنوار بھی آگے بڑھ کر بولا کہ میں ایک واعظ سے اثر پا کر اس ارادہ سے اس وقت یہاں آیا تھا کہ آپ کو قتل کر ڈالوں اور جیسا کہ واعظ صاحب نے کہا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جاؤں.مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے.اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھر گیا.اور آپ کی باتیں سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جاد شمنی سے بھرا ہوا تھا.آپ بے شک بچے ہیں اور میں بھی آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں.حضرت اقدس نے اس کی بیعت قبول فرمائی.اس وقت بیعت ایک علیحدہ کمرہ میں ہر ایک کی الگ الگ ہوتی تھی.لدھیانہ کے مخالف علماء میں سے مولوی سعد اللہ نو مسلم پیش پیش تھا.ہر روز کبھی دوسرے روز ایک اشتہار مخالفت میں گالیوں سے بھرا ہوا شائع کرتا تھا جس میں کبھی چوری کا الزام ہوتا اور کبھی بغاوت کا.اسی طرح اور کئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے اور بات بات میں جھگڑا

Page 413

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۹۴ دھوٹی مسیحیت کرتے اور الجھتے رہے.بعض امتحان اور آزمائش کے لئے اور بعض صرف دیکھنے کے لئے آتے تھے.ایک روز مخالفوں نے پانچ آدمیوں کو بہکا کر بھیجا اور کہا کہ اس مکان میں ایک شخص ہے جو تمام نبیوں کو گالیاں دیتا ہے اور قرآن اور رسول کو نہیں مانتا.وہ لوگ سخت غضب میں بھرے ہوئے یکدم مکان میں چلے آئے.اس وقت ایک احمدی حضرت اقدس سے ایک آیت کے معنے دریافت کر رہا تھا.حضور نے ایسی تغییر فرمائی کہ وہ لوگ بہت دیر تک چپ بیٹھے رہے.جب حضور خاموش ہوئے تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے مصافحہ کیا اور آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا جو آپ کو کافر کہتے ہیں وہ خود کا فر ہیں اور اگر آپ مسلمان نہیں تو کوئی بھی مسلمان نہیں.وہ لوگ باہر آئے.تو لوگوں نے کہا کہ مرزا جادو گر ہے جو اس کے پاس جاتا ہے وہ اس کا ہو رہتا ہے اس کے پاس کوئی نہ جائے.ri واقعات لدھیانہ میں سے ایک اہم نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات واقعہ حضرت نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات ہے.نواب صاحب موصوف حکمت تصوف اور علوم شرعیہ میں ید طولی رکھتے تھے.اہل اللہ کے بڑے معتقد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے.ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے.انہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی شخص ہے تو یہی ہے اس کی تحریر میں نور اس کے کلام میں نور اور اس کے چہرہ میں نور ہے.حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب بھی آپ سے ملنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں تشریف رکھتے تھے بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں آخری وقت آتا جاتا تھا آدھ آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ حضور اس وقت لدھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقعہ ملا.جب حالت نزع طاری ہوئی تو وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تا کہ میری نجات ہو نواب صاحب مرحوم کا انتقال ہو گیا تو لدھیانوی علماء نے نواب صاحب کے اقرباء کو جو ان کے زیر اثر تھے کہلا بھیجا کہ اگر مرزا صاحب جنازہ پر آئے تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گئے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا.اور جو آئندہ ان میں سے

Page 414

تاریخ احمدیت.جلدا ۳۹۵ دعوی مسیحیت مرے گا اس کی نمازہ جنازہ کوئی نہیں پڑھے گا.نواب صاحب کے اقرباء ان کی اس بات سے ڈر گئے اس لئے حضرت اقدس نے ان کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر ہی ادا فرمائی اور نواب صاحب مرحوم کے لئے مغفرت و رحمت کی بہت بہت دعا کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق الهام (شہزادہ عبد الجيد صاحب کی روایت کے مطابق قیام لدھیانہ میں انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق بھی خبر دی گئی اور الہام ہوا کہ.تا هشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اختلال یعنی برطانیہ کی شان و شوکت کا زمانہ آٹھ سال تک ہے اس کے بعد ضعف و انحطاط کے آثار پیدا سلطنت برطانیہ ہو جائیں گے.پیر سراج الحق صاحب نے اس الہام کے متعلق حضرت اقدس سے عرض کیا کہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے.یعنی آٹھ سال کے بعد سلطنت برطانیہ کی مذہبی طاقت یعنی عیسائیت میں ضعف رونما ہو جائے گا اور بچے مذہب یعنی اسلام اور احمدیت کا غلبہ شروع ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو ہو گا وہ ہو رہے گا ہم پیش از وقت کچھ نہیں کہہ سکتے.22 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰.مئی ۱۸۹۱ء کو پادریوں کے پادریوں کو دعوت مذاکره مقابل اشتہار دیا کہ خدا تعال نے مجھ پر انکشاف فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو مانے بغیر چارہ نہیں.اس اشتہار میں آپ نے پادری صاحبان کو تبادلہ خیالات کی دعوت دی.مگر کوئی پادری آپ کے مقابلہ میں نہ آیا - BA حضرت اقدس ادائل جولائی ۱۸۹۱ء میں بعض سفر امر تسر اور لدھیانہ میں دوبارہ درود احباب اور امرتسر کے رؤساء کی خواہش پر چند دن کے لئے لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے گئے.وہاں اہلحدیث کے دو فریق ہو چکے تھے ایک فریق مولوی احمد اللہ صاحب کا تھا اور دوسراغز نویوں کا.مولوی احمد اللہ صاحب بڑے شریف الطبع انسان تھے.غزنوی گروہ چاہتا تھا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتوی لگا ئیں مگر وہ گریز کرتے تھے جس پر مولوی صاحب مسجد سے نکال دئے گئے اور ان کے معتقدین انہیں اپنی دوسری مسجد میں لے آئے.اس سفر میں حضرت اقدس نے مولوی احمد اللہ صاحب کو اپنے دعوئی سے متعلق ۷.جولائی ۱۸۹۱ء کو تحریری مباحثہ کی دعوت دی مگر انہوں نے آمادگی کا اظہار نہ کیا اور گو انہوں نے

Page 415

تاریخ احمدیت جلدا د موٹی مسیحیت بیعت نہیں کی مگر ان کی اس خاموشی کو دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھیوں نے انہیں " مرزائی " مشہور کر رکھا تھا.ان کے بعض معتقدین جن میں مولوی محمد اسمعیل صاحب، میاں نبی بخش صاحب ، مولوی عنایت اللہ صاحب اور میاں چراغ الدین صاحب شامل تھے.بالاخر سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.حضرت اقدس امرتسر میں مختصر قیام کے بعد واپس لدھیانہ تشریف لے گئے.

Page 416

تاریخ احمدیت جلدا ۳۹۷ دعوتی مسیحیت 4 + م توضیح مرام صفحه ۱۲ حواشی خود حضرت القدس نے فتح اسلام " میں ان کے متعلق تحریر فرمایا کہ اس وقت مراد آباد سے قادیان میں آکر اس مضمون کی کاپی محض اللہ لکھ رہے ہیں.شیخ صاحب ممدوح کا صاف سینہ مجھے ایسا نظر آتا ہے جیسا آئینہ وہ مجھ سے محض اللہ غایت درجہ کا خلوص و محبت رکھتے ہیں.ان کا دل حب اللہ سے پر ہے.اور نہایت عجب بادہ کے آدمی ہیں میں انہیں مراد آباد کے لئے ایک شمع منور سمجھتا ہوں.رسالہ نور احمد نمبرا مرتبہ حضرت شیخ نور احمد صاحب مطبع دوم صفحه ۲۰۵ و صفحه ۱۳ ہ رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحه ۳۵۴ الحکم ۷۱۳ - جون ۱۹۳۳ صفحه ۱۳ روایت حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله تعالی) - رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحه ۳۵۶۳۵۴ ایضا د مکتوبات احمدیہ جلد چهارم صفحه ۲ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۴۲ 10 مولوی سید حسین احمد صاحب بانی صدر حمیتہ العلماء ہند نے بر صغیر ہند و پاکستان کے فضائل کے متعلق ایک کتابچہ میں گذشتہ آثار و روایات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ یہ سرزمین آفتاب نبوت کا پہلا مشرقی بنی اور اسی خطہ میں پہلے خلیفہ اللہ حضرت آدم کا ظہور ہوا تھا اور چونکہ حضرت آدم انسانوں کے ابو الانبیاء تھے اس لئے جملہ انبیاء علیہم السلام اور تمام انسانوں کے روحانی اور مادی اصل و اصول کا شمیر ہندوستان ہی سے بنایا گیا.بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ ہرنی سے آئندہ نبی پر ایمان لانے کا مشتاق بھی اس ارض مقدس میں لیا گیا تھا.(ملاحظہ ہو رسالہ "ہمار ا ہندوستان اور اس کے فضائل " شائع کردہ ناظم دفتر جمیعہ علماء ہند گلی قاسم جان دہلی ) اگر یہ تصریحات حقیقت پر مبنی ہیں تو مسیح موعود کا اسی خطے میں مبعوث ہونا ضروری تھا.خصوصاً جب کہ رسول کریم ﷺ نے مہدی کو سلطان مشرق قرار دیتے ہوئے ان کے انصار کو ہندی بتایا ہے (ابن ماجہ و نسائی) رسالہ "نور احمد نمبر صفحہ اشاعۃ السنہ جلد کا نمبر ا صفحه ۲ " ۱۳ خوشی کفر کے بارے میں علماء ربانی کا کیا طریق عمل رہا ہے اس کے متعلق بطور مثال حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی پانی مدرسہ دیوبند کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے خان بہادر ڈاکٹر شیخ عبد اللہ صاحب ایڈووکیٹ علی گڑھ سرسید کا نہ ہب" کے عنوان سے لکھتے ہیں.” مولویوں نے ان (سرسید - ناقل) کے خلاف طوفان برپا کر دیا.کفر کے فتوے دیئے دلخراش مضامین لکھے، سرسید کے چھوٹے سے فوٹو پر گز بھر کی ڈاڑھی لگا کر اس کے اوپر لکھا ”شیطان الرجیم.لیکن بڑے بڑے جید علماء نے کفر کے فتووں پر دستخط نہیں کئے.حضرت مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ بانی مدرسہ دیو بند سے علماء نے کہا کہ سرسید کے خلاف کفر کے فتوے پر آپ بھی دستخط کر دیجئے.انہوں نے فرمایا کہ میں تحقیقات کرلوں کہ آیا وہ کافر ہیں یا نہیں.چنانچہ مولانا محمد قاسم مرحوم و مغفور نے تین سوالات لکھ کر سرسید کے پاس بھیجے وہ مع جوابات کے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں (1) سوال خدا پر آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ جواب خداوند تعالی ازلی ابدی مالک و صانع تمام کائنات کا ہے (۲) سوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ جواب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر (۳) سوال قیامت کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ جواب: قیامت برحق ہے.اس کے بعد مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ نے ان لوگوں سے کہا کہ تم اس شخص کے خلاف دستخط کرانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے".ر ساله "البصیر" ( چنیوٹ) جلد ۲ شمارہ نمبر ۲۰۱) تاریخ وفات فروری ۱۹۰۶ء (از جنتری با بو منظور الی صاحب ۱۹۲۱ء) مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو اخبار ”پیغام صلح " لاہور

Page 417

تاریخ احمدیت جلد جنوری و فروری ۱۹۵۹ء ۳۹۸ والد بزرگوار مولوی مرتضی حسن خاں صاحب (غیر مبائع) آپ کا اشتہار بھی "نشان آسمانی " میں موجود ہے.یہ تفصیلات حضرت مولوی برہان الدین صاحب علمی کے قلم سے اشاعتہ السنہ جلد ۱۴ کے حاشیہ صفحہ ۳۶۳ پر درج ہیں.۱۷ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۱ - ۲ صفحہ ۱۱۳-۱۹۵ -14 ۱۸ ایسا صفحه ۱۸۰ رجر " روایات صحابہ "غیر مطبوعہ جلد اصفح ۴۲ روایات ڈاکٹر علم دین صاحب ساکن کڑیانوالہ ضلع گجرات ۲۰ "روایات صحابہ " غیر مطبوعہ جلد ۹ صفحه ۲۵۶-۲۵۷ الفضل ۱۷- جنوری ۱۹۲۱ء صفحہ ۵ ۲۲ اشاعۃ السنہ جلد ۱۸ نمبر ۳ صفحه ۹۵-۹۶ -۲۳ حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں اذا خرج هذا الامام المهدى فليس له عد و مبين الا الفقهاء خاصه التومات یکه جلد سوم صفحه ۳۷۴) یعنی جب امام مهدی آئیگا.تو علماء زمانہ سے بڑھ کر ان کا کوئی شدید دشمن نہیں ہو گا.اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی نے لکھا ہے."علماء ظواہر مجترات او علی نیناد علیه الصلوة و السلام از کمال وقت و غموض ماخذ انکار نمایند و مخالف کتاب و سنت دانند - (مکتوبات جلد دوم صفحه ۱۰۷ مکتوب نمبر ۵۴) یعنی علماء ظواہر مسیح موعود کے اجتہادات کا انکار کر کے ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیں گے کیونکہ ان کے اجتہادات کے ماخذ نہایت لطیف و رقیق ہوں گے.۲۴ ولادت ۱۳۰۷ /۱۸۸۹ء وفات ۱۳۸۵ھ / ۱۹۶۵ء ( رساله العربی الکویت فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۷۴ تا۸۲) -۲۵ دیوان انیسی صفحه ۱۰۷ ناشر مطبع لجنه التاليف والترجمه والتبشير ۵۱۳۵۹/۶۱۹۴۰ ۲۶ مشهور المحمدیث عالم جناب نواب محمد صدیق الحسن خان صاحب تحریر کرتے ہیں کہ "علماء وقت که خوگر تقلید فقهاء واقتداء مشائخ و آباء خود باشند گویند این مرد خانه براند از دین و ملت است و مخالفت برخیزند محسب عادت خود حکم تکفیر و تقلیل دے کنند (حج الکرامہ مطبوعہ بھوپال صفحہ ۳۶۳) یعنی علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ واباء کی تقلید و اقتداء کے خوگر ہیں (حضرت مہدی کے متعلق کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین وملت کو برباد کر دینا چاہتے ہیں وہ مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے اور حسب عادت اس کی تضلیل و تکفیر کا فتوی دیں گے.۲۷ یه تاریخ اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحہ ۳۶۸( حاشیہ) سے ماخوذ ہے.۲۸ ذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۱۳) ۲۹ مکتوبات مسیح موعود ( بنام منشی عبداللہ صاحب سنوری صفحہ ۲۳ اس زمانہ میں حضرت اقدس کے شدت ضعف کا یہ عالم تھا کہ مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بیعت سے قبل حضور کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے تو یہ تاثر لے کے باہر آئے کہ لوگوں نے یونسی مخالفت کا شور مچارکھا ہے مرزا صاحب تو صرف چند دن کے مہمان ہیں".(سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۷۹ ۳۰- "ذکر حبیب "مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ ۱۴ تذكرة المهدی" جلد اول صفحہ ۱۵۲- ۱۵۳ ) مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی سید نا حضرت مسیح موعود سعد الله لدھیانوی کی نسبت تحریر فرماتے ہیں کہ " مجھے ہر گز امید نہیں کہ ابو جہل نے آنحضرت ﷺ کی نسبت دو بد زبانی کی ہو بلکہ میں یقینا کہتا ہوں کہ جس قدر خدا کے نبی دنیا میں آئے ان سب کے مقابل پر کوئی ایسا گندہ زبان دشمن ثابت نہیں ہو تا جیسا کہ سعد اللہ تھا.الخ.(حقیقتہ الوحی طبع اول صفحہ ۲۰ تتمہ) اس کی ناپاک گالیوں کا نمونہ دیکھنے کے لئے اس کی منظوم کتاب "انزام کاریانی " کا مطالعہ کافی ہے یہ کتاب ۱۳۱۰ھ میں انڈین آرمی پریس لدھیانہ سے شائع ہوئی تھی.۳۲- تذكرة المهدی" جلد اول صفحه ۱۰۴ تا ۱۰۸ ۳۳.حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کے بیان کے مطابق یہ الہام اس زمانہ سے بہت قبل آپ کو ہو چکا تھا مگر شہزادہ عبد المجید صاحب اسے قیام لدھیانہ کے زمانہ کا بتاتے ہیں (سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر ۹۶)

Page 418

٣٩٩ دعومی مسیحیت تاریخ احمدیت جلد ۳۴ حضرت نشی عبداللہ صاحب سنوری نے اپنی روایت میں ہشت کی بجائے ہفت کا لفظ بتایا ہے جو سمو ہے کیونکہ انہوں نے خود اسی روایت میں لکھا ہے کہ حافظ حامد علی صاحب نے یہ الہام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بتا دیا تھا جسے انہوں نے مخالف ہوتے ہی اپنے رسالہ میں شائع کر دیا.چنانچہ بٹالوی صاحب نے پہلی مرتبہ اپنے رسالہ اشاعتہ اہستہ جلد کا نمبر ۳ صفحہ سپر اس کی طرف ہشت سالہ میعاد کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ الہام میں بہشت کا لفظ ہی ہے (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۹) ۳۵ « تبلیغ رسالت " جلد دوم صفحه ۱۳۰۳ حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحہ ۹۹-۲۰۰

Page 419

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۰۰ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت حضرت اقدس کا یہ سفر چونکہ اتمام حجت کی غرض سے تھا اس لئے حضور نے لدھیانہ سے ۲۶.مارچ ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ تمام مشہور علماء بالخصوص مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی (۱۸۲۸ - ۱۹۰۵) مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی (۱۸۵۲ - ۱۹۱۳) مولوی عبد الرحمن صاحب لکھو کے والے مولوی شیخ عبدالله صاحب تبتی مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا اور لکھا کہ میرا دعوئی ہرگز قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف نہیں اگر آپ حضرات مقام و تاریخ مقرر کر کے ایک عام جلسہ میں مجھ سے تحریری بحث نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالٰی اور اس کے راست باز بندوں کی نظر میں مخالف ٹھہریں گے.حضرت اقدس کے اس اشتہار پر لدھیانہ کے مولوی دبک گئے اور بحث کے لئے آمادہ نہ ہوئے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے ایک مرید اور دست و بازو مولوی شاہ دین صاحب تھے انہوں نے اپنے پیرو مرشد (مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی) کو لکھا کہ میں مرزا صاحب سے مباحثہ کروں تو کس طرح کروں اور کسی مسئلہ میں کروں.جواب آیا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا تمہارا کام نہیں اول تو ٹال دینا اور جو بات نہ ملے اور مباحثہ ہو ہی جائے تو وفات وحیات مسیح علیہ السلام میں ہر گز بحث نہ کرنا.اس میں تمہارا یا کسی کا ہاتھ نہیں پڑے گا.ہاں نزول میں بحث کر لیتا اس مسئلہ میں ہماری کچھ جیت ہو سکتی ہے.چنانچہ مولوی شاہ دین کو جب بحث کے لئے اصرار سے کہا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مرزا صاحب بے علم ہیں.میری شان سے بعید ہے کہ ایک بے علم آدمی سے بحث کروں.لدھیانہ میں ایک اور مولوی مشتاق احمد صاحب امیٹھوی تھے جنہیں اپنی حدیث دانی پر بڑا ناز تھا یہ صاحب گنگوہ پہنچے ان کو بھی وہاں سے وہی جواب ملا جو مولوی شاہ دین کو ملا تھا، لدھیانہ دیو بند سہارنپور، گنگوہ میں اس بارہ میں خفیہ مشورے ہوئے کہ کیا کرنا چاہے لیکن مباحثہ کے لئے کوئی آمادہ نہ

Page 420

تاریخ احمد بیت - جلدا ہوا.۴۰۱ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا مباحثہ تحریری سے انکار اسی دوران میں پیر سراج الحق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ سب لوگوں کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں.فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو.چنانچہ انہوں نے اس بارہ میں ایک خط لکھ کر گنگوہ بھجوا دیا.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور پیر صاحب موصوف ہمزلف بھی تھے اور ویسے بھی ان سے تعلقات رکھتے تھے لیکن جوں ہی ان کو یہ خط پہنچا مولوی صاحب اور ان کے معتقدوں اور شاگردوں نے ایک شور برپا کر دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ میں بحث کو مرزا صاحب سے منظور کرتا ہوں لیکن تقریری اور صرف زبانی.تحریری مجھ کو ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہو گی اور وفات وحیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہو گی بلکہ بحث نزول مسیح میں ہوگی جو اصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خط دیکھ کر پیر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ اس کے جواب میں یہ لکھ دیں کہ بحث تحریری ہونی چاہیے.تا حاضرین کے علاوہ غائبین کو بھی پورا پورا حال معلوم ہو جائے.اس طرح فرمایا کہ وفات و حیات فرع کس طرح ہوئی اصل مسئلہ تو وفات وحیات مسیح ہی ہے اگر حیات مسیح ثابت ہو گئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ثابت ہو گئی تو مسیح کا بجسد عصری نزول خود بخود باطل ہو گیا.ہمارے دعوی کی بنیاد یہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے.تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اور فرع کو اصل قرار دیتے ہیں.بہر حال تقریری کی بجائے تحریری مباحثہ میں نہیں کرتا.دو سجادہ نشینوں کو دعوت یہاں سے مایوس ہو کر پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے دو من دو مشہور سجادہ نشینوں (میاں اللہ بخش صاحب تونسوی سنکھڑی اور شاہ نظام الدین صاحب بریلوی نیازی کی طرف توجہ کی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علمی یا روحانی طریق سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی.یہ دعوت نامہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسند فرمایا اور اپنے دستخط کر کے یہ تحریر فرمایا کہ میں روحانی باطنی اور علمی مقابلہ کے لئے تیار ہوں اور جو کچھ

Page 421

تاریخ احمدیت جلدا ۴۰۲ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دھوت صاجزادہ صاحب نے لکھا ہے درست ہے اور میں مسیح موعود او را امام مہدی معہود ہوں.مسیح بے شک فوت ہو چکے ہیں وہ اب نہیں آئیں گے.چونکہ آپ گدی نشین ، سجادہ نشین ، صوفی اور پیر ہیں اس معاملہ میں خواہ تحریری خواه باطنی قوت قلبی یا دعا سے مقابلہ کریں تا حق ظاہر ہو اور باطل مٹ جاوے سنگھڑ سے تو اس خط کا کوئی جواب موصول نہ ہوا البتہ بریلی سے شاہ نظام الدین صاحب نے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ "فقیر میں اتنی قوت نہیں ہے کہ جو مقابلہ کر سکے یا اس باطنی و روحانی طور سے مقابل پر کھڑا ہو سکے.یہ کام تو مولویوں اور علماء کا ہے آپ بھی تو صوفی اور درویش اور چار قطب ہانسوی اور امام اعظم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے پوتے ہیں ہمیں آپ پر حسن ظن ہے.اور جیسا کچھ اللہ تعالی کو منظور ہو گا.وہ ہو رہے گا.مجھے آپ معاف فرما ئیں" - مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو حضرت اقدس نے یہ خط پڑھ کر فرمایا.تونسوی متکبر کو دیکھو کہ جو اب تک نہیں دیا.مگر یہ کیسے تقریری مباحثہ کی دعوت اور ان کا انکار منکسر المزاج ہیں.نیز حضور نے پیر سراج الحق صاحب سے فرمایا کہ مولوی رشید احمد صاحب کو لکھ دیا جائے کہ اچھا ہم بطریق تنزل تقریری مباحثہ منظور کرتے ہیں مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر لکھتا جائے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو.دوسرا فریق یا کوئی اور دوران تقریر میں نہ بولے.پھر دونوں تقریریں شائع ہو جائیں لیکن بحث لاہور میں ہو.کیونکہ لاہور علوم و فنون کا مرکز ہے.پیر صاحب نے حضرت اقدس کا یہ پیغام مولوی صاحب کو بھیج دیا.وہاں سے جواب آیا کہ تقریر صرف زبانی ہوگی.لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہو گی.اور حاضرین میں سے جس کے جی میں جو آئے گاوہ رفع اعتراض و شک کے لئے بولے گا.میں لاہور نہیں جاتا.مرزا صاحب بھی سہارنپور آجا ئیں اور میں بھی سہارنپور آجاؤں گا.حضرت اقدس نے فرمایا.سہارنپور میں مباحثہ کا ہو نا مناسب نہیں ہے سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے.لاہور آج دار العلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اور ہر مذہب وملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں.آپ لاہور چلیں میں بھی لاہور چلا جاتا ہوں اور آپ کا خرچ آمد و رفت اور قیام لاہور ایام بحث تک اور مکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گا یہ مضمون پیر صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط سے گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہور نہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں.اور تحریری بحث مجھے منظور نہیں اور تقریر بھی کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا.

Page 422

تاریخ احمدیت جلدا ۴۰۳ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خط پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجا ئیں گے آپ سرکاری انتظام کرلیں میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا.اور ایک اشتہار اس مباحثہ کے لئے شائع کر دیا جائے گا تا لا ہو ر وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور مباحثہ سے دلچپسی رکھنے والے اصحاب سہارنپور آجائیں.رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہوگی.کثرت رائے پر ہم اور آپ کا بند ہو جائیں گے.بهر حال آپ مباحثہ ضرور کریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں.مولوی رشید احمد صاحب نے اس دعوت کا صرف یہ جواب دیا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا.اور پھر بار بار یاد دہانی کے باوجود چپ سادھ لی.سعید روحوں کی خدائی جماعت میں شمولیت لدھیانہ ان دنوں مخالفت کا مرکز بنا ہوا تھا مگر اس آتشین فضاء میں بھی خدا کے فرشتے سعید روحوں کو کھینچ کھینچ کر خدا کے مامور کی جماعت میں لا رہے تھے.لاہور سے ایک عالم مولوی رحیم اللہ صاحب آئے اور آتے ہی انہوں نے حضور کی بیعت کر لی.50 ان سے قبل مولوی غلام نبی صاحب ساکن خوشاب لدھیانہ میں آئے اور آتے ہی حضرت اقدس کی مخالفت میں تقریریں کرنے لگے.شہر میں ان کے لیکچروں کی دھوم مچ گئی اور ہر جگہ ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا ایک روز اتفاق سے مولوی صاحب کا وعظ اسی محلہ میں تھا جس میں حضور تشریف فرما تھے وعظ اتنا ز بر دست تھا کہ تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہونے لگے.اور مرحبا کا شور چاروں طرف سے اٹھا.اس وعظ میں لدھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے.اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کر رہے تھے.مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے ڈ بھیٹر ہو گئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے جواب میں وعلیکم السلام کہ کر مصافحہ کیا.ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود رفته ہوئے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے آپ کے ساتھ سیدھے مردانہ میں چلے آئے اور حضرت کے سامنے دو زانو بیٹھ گئے.باہر تمام لوگ حیرت میں کھڑے تھے.علماء نے عوام کو جو مختلف چہ میگوئیاں کر رہے تھے یقین دلایا کہ مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے گئے ہیں وہاں انہیں نیچا

Page 423

تاریخ احمدیت جلدا ۴۰۴ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت دکھا کر آئیں گے لیکن ارادہ الہی میں کچھ اور ہی مقدر تھا.جب مولوی غلام نبی صاحب اندر گئے تو مولوی صاحب نے پوچھا.حضور آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے ؟ حضرت اقدس ! قرآن شریف حدیث شریف اور علماء ربانی کے اقوال سے.مولوی صاحب ! کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیح کے بارے میں ہو تو بتلائیے.حضرت اقدس نے قرآن شریف کے دو مقام پر کاغذ کا نشان رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا.ایک مقام تو سورہ آل عمران ع۶ اور دوسرا سورہ مائدہ کے آخری رکوع کا تھا.پہلے میں آیت يا عينى اني متوفیک اور دوسرے میں آیت فَلَمَّا توقینی تھی.مولوی صاحب دونوں آیات دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور کہنے لگے یو مِن أجور ہم بھی تو قرآن شریف میں ہے اس کے کیا معنے ہوں گے؟ حضور اقدس نے فرمایا.یہ اور باب سے ہے اور وہ اور باب سے.مولوی صاحب دو چار منٹ حیران ہو گئے اور سوچ کر کہنے لگے.معاف فرمائیے میری غلطی تھی.جو کچھ آپ نے فرمایا صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضرت اقدس فرمانے لگے جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں؟ مولوی صاحب یہ سن کر رو پڑے یہاں تک کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور عرض کیا یہ خطا کار گنہگار بھی حضور کے ساتھ ہے اس کے بعد مولوی صاحب پھر روتے رہے اور سامنے مودب بیٹھے رہے.اندر تو مولوی صاحب کے خیالات میں یہ انقلاب واقع ہوا اور باہر کئی ہزار آدمی کھڑا اس انتظار میں خوش ہو ہو کر تالیاں بجا رہا تھا کہ آج مرزا قا بو آیا.آج مرزا کو تو بہ کرنی پڑے گی.بہر کیف جب بہت دیر ہو گئی تو لوگ آواز میں دینے لگے کہ جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے.مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا جب شور زیادہ بلند ہوا تو مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جاؤ میں نے حق دیکھ لیا اور پالیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے اگر تم اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آجاؤ اور اس امام کو مان لو.میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہو سکتا ہوں.جو اللہ تعالٰی کا مامور اور آنحضرت کا موعود ہے.جس کو آنحضرت نے سلام بھیجا.مولوی صاحب اس حدیث کے الفاظ پڑھکر حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے سامنے یہ حدیث شریف دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت کا سلام پہنچا تا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے.اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا اور ہی

Page 424

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۰۵ علماء دقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت نقشہ تھا اور حاضرین و سامعین پر بھی ایک عجیب وجد و سرور کی کیفیت طاری تھی.با ہر مجمع کو مولوی صاحب کا جب یہ پیغام پہنچا کہ میں نے حق پالیا ہے تو سب کی زبان سے کافر کافر کا شور بلند ہوا اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ منتشر ہو گئے.اس کے بعد علماء کی طرف سے مولوی غلام نبی صاحب کے پاس مباحثہ کے پیغام آنے لگے مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ منظور کیا.لیکن مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا مولوی غلام نبی صاحب نے اشتہار مباحثہ بھی شائع کیا کہ میں تیار ہوں.جس کو علم کا دعوئی ہو وہ مجھ سے بحث کرے اس کے بعد مولوی غلام نبی صاحب نے یہ اشتہار دیا کہ جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی (جسمانی) زندگی کے ثبوت میں قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو ہر آیت اور ہر حدیث پر دس روپے انعام دوں گا.اور روپے پہلے بنک میں جمع کروا دئیے جائیں گے یہ اشتہار دیکھ کر بھی کسی کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی.اب تو مولوی غلام نبی صاحب بس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہی ہو رہے اور ان کا ایسا بحر کھلا کہ جو کوئی مولوی یا کوئی شخص آتا اس سے بات کرنے اور مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے اور حضرت اقدس کا چرہ ہی دیکھتے رہتے اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے.مولوی صاحب کہیں ملازم تھے وہاں سے خط آیا کہ جلد آؤ ورنہ ملازمت جاتی رہے گی اور نام کٹ جائے گا.مولوی صاحب نے ملازمت کی کچھ بھی پروانہ کی اور کہا کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت میں شرط کی ہے.مجھے نوکری کی کوئی پروا نہیں ہے.ایک روز یہ ذکر آگیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خود ملازمت کو چھوڑنا نہیں چاہیے.اس میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے.ہاں خود بخود ہی اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مصلحت سے علیحدہ کر دے تو اور بات ہے ملازمت پر چلے جانا چاہیے.پھر رخصت لے کر آجاتا.حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد سنگر مولوی صاحب مجبور اچلنے کو تیار ہو گئے اور دوبارہ بیعت کی تجدید کی.جب وہ رخصت ہو کر چلنے لگے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا دل جانے کو نہیں چاہتا دیکھو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے یہ معنے ہیں.مولوی صاحب چل دیے.مگر کچھ دیر بعد دیکھا تو وہ ہنستے ہوئے اور خوشی خوشی بغل میں گٹھری دبائے واپس چلے آتے ہیں.سب حیران ہوئے.اور حضرت اقدس بھی مسکرائے.مولوی صاحب نے بتایا میرے جاتے جاتے ریل چل دی.بعض لوگوں نے کہا بھی کہ سٹیشن پر ٹھرو دو سرے وقت چلے جانا.میں نے کہا جتنی دیر اسٹیشن پر لگے اتنی دیر حضور کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے اسٹیشن پر ٹھہرنے سے کیا فائده ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو

Page 425

تاریخ احمدیت.جلد ۴۰۶ علماء دقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اس میں کچھ حکمت الہی ہے یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ تم اپنی ملازمت پر حاضر ہو جاؤ اور اگر کسی وجہ سے نہ آسکو تو رخصت کی ایک درخواست بھیج دو تارخصت مل جائے.اور میں کوشش کر کے رخصت دلوادوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الہی تھی.اب رخصت کی درخواست بھیج دو.مولوی صاحب نے حسب الارشاد ایک درخواست بھیج دی اور وہ بھی منظور ہو گئی.مولوی صاحب کو بہت روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت اٹھانیکا موقع میسر آگیا.مباحثه "الحق" لدھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباحثہ پر اور کوئی سامنے نہ آیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اپنے علم پر بہت گھمنڈ تھا اور وہ ابتداء ہی سے حضرت اقدس کو مغلوب کرنے کا فیصلہ کر کے حضور سے خط و کتابت کرنے کے علاوہ حضرت مولانا نور الدین صاحب سے بھی نوک جھونک جاری رکھے ہوئے تھے.اس ترنگ میں وہ شملہ سے لدھیانہ پہنچے اور آتے ہی شہر میں یہ شور مچا دیا کہ مرزا صاحب کو چاہیے کہ وہ مجھ سے مباحثہ کر لیں.حضرت اقدس تو مباحثہ کے لئے پہلے ہی تیار تھے رات کے وقت مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری اور مولوی نظام الدین صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سخت بد زبان ہے.مگر آپ نے فرمایا بحث ہونے دو اس کی علمیت کی پوری حقیقت کھول دی جائے گی اور وہ جان جائے گا کہ بحث اس کا نام ہے.پھر مولوی عبد اللہ صاحب نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ میں ہوگی فرمایا وفات مسیح میں بحث ہوگی.اور یہی اصل ہے انہوں نے عرض کیا کہ سنا ہے وہ یہ مسئلہ نہیں چھیڑیں گے وہ تو نزول مسیح کے مسئلہ میں گفتگو کریں گے.آپ نے فرمایا.نزول مسیح کی بحث سے کیا تعلق.نزول مسیح تو ہم خود مانتے ہیں.اگر نزول مسیح ہم نہ مانتے تو ہمارا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کب چل سکتا تھا.اصل مسئلہ جس پر بنیادی طور پر بحث ضروری ہے وہ تو وفات و حیات مسیح کا ہی مسئلہ ہے.مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت کا واقعہ دوسرے روز صبح آٹھ نو بجے مولوی نظام الدین صاحب مولوی محمد حسین صاحب اور دو تین اور اشخاص کی مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر آپس میں گفتگو ہوئی.مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح کی زندگی پر بھی قرآن شریف میں کوئی آیت ہے.

Page 426

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۰۷ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت مولوی صاحب نے کہا کہ میں آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں.مولوی نظام الدین صاحب فورا حضرت اقدس کی مجلس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کے پاس کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قرآن شریف ہے مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ ہونے کی کوئی آیت موجود ہو تو آپ مان لیں گے ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.ہاں ہم مان لیں گے.مولوی صاحب نے کہا میں ایک دو نہیں میں آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسی کی زندگی پر لے آؤں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.میں کیا اگر آپ ایک ہی آیت لے آئیں گے تو میں قبول کرلوں گا.ساتھ ہی فرمایا.مولوی صاحب یا د رہے آپ کو یا کسی اور کو ایک آیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کی نہیں ملے گی.مولوی نظام الدین صاحب نے کہا آپ اپنی بات پر پکتے رہیں.میں ہیں آیتیں ابھی لائے دیتا ہوں.چنانچہ وہ مولویوں کے پاس پہنچے اور کہا میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں.مولوی صاحبان یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا مولوی صاحب مرزا صاحب کو کس طرح ہرا آئے؟ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ میں حیات مسیح کے ثبوت میں میں آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں.اب مجھے میں آیتیں قرآن شریف سے نکال دیں مولوی محمد حسین صاحب بولے کہ آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم احادیث سے حیات مسیح کا ثبوت پیش کر دیتے ہیں انہوں نے کہا ایسا کہنے کی کیا ضرورت تھی.کیونکہ مقدم قرآن شریف ہے مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر اور گھبرا کر عمامہ سرسے پھینک دیا اور کہا کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیا ہمیں ہرا آیا اور ہمیں شرمندہ کیا.میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لا رہا ہوں اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتا ہے.قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی کے متعلق ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے.ہم تو حدیثوں پر زور دے رہے ہیں.تب مولوی نظام الدین صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا کہ جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں تو استناد عویٰ تم نے کیوں کیا تھا.اور کیوں نہیں آیتوں کے دینے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا.اب میں کیا منہ لے کے مرزا صاحب کے پاس جاؤں گا.اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں مرزا صاحب کے ساتھ ہے تو میں بھی مرزا صاحب کے ساتھ ہوں تمہارے ساتھ نہیں.چنانچہ مولوی نظام الدین صاحب وہاں سے چلے اور حضرت اقدس کی خدمت میں آکر اور شرمندہ سے ہو کر بیٹھ گئے.حضرت اقدس نے فرمایا.مولوی صاحب آیتیں لے آئے؟ مولوی نظام الدین صاحب نے دو چار مرتبہ دریافت کرنے پر رو کر عرض کیا کہ حضور وہاں تو یہ معاملہ گزرا اب تو جدھر قرآن شریف ہے ادھرہی میں ہوں.اور یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کرلی.

Page 427

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۰۸ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت مباحثے کا آغاز ان حالات میں حضرت اقدس کا مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ شروع ہوا.یہ مناظرہ تحریری تھا اور ۲۰ سے ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ء تک یعنی دس روز جاری رہا.مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بخاری شریف رکھ لیتے اور قلم برداشتہ لکھتے جاتے جب مضمون تیار ہو جاتا تو پڑھ کر سنا دیا جاتا.مگر ادھر بڑی مشکل سے مضمون تیار کیا جاتا.اور بڑی وقت سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنا مضمون تیار کر کے سناتے.یہ مباحثہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر ہو تا تھا لیکن بعد کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدس سے کہا کہ ہم آپ کے مکان پر آتے ہیں آپ ہمارے مکان پر نہیں آتے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام مولوی محمد حسن صاحب رئیس آنریری مجسٹریٹ کے مکان پر (جہاں بٹالوی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے ) تشریف لے جانے لگے.حضرت اقدس کی سواری کے لئے ایک صاحب منشی میراں بخش صاحب اکو شٹ محکمہ نہر نے اپنی ثم تم پیش کی لیکن حضور نے فرمایا.ہم پیدل ہی جائیں گے.جس راستہ سے حضور گزرتے ہندو بھی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے کہ کس قدر نورانی چہرہ ہے.مسلمان کیوں ان کے مخالف ہو گئے ہیں.(حضرت پیر سراج الحق صاحب کی روایت کے مطابق) اس مباحثہ کے دوران میں ایک معجزہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا.اس وقت وہ حوالہ حضرت اقدس کو یاد نہیں تھا.اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا.مگر حضرت اقدس نے بخاری شریف کا نسخہ منگایا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلد جلد اس کا ایک ایک ورق الٹنے لگے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور فرمایا.لو یہ دیکھ لو.دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا.اس لئے میں ان کو جلد جلد الٹا تا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا.اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ اس جگہ کے سوا جہاں حوالہ درج تھا باقی تمام اوراق آپ کو خالی نظر آئے.حضرت شیخ یعقوب عرفانی کا بیان ہے کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا نہیں لاہور کا ہے مولوی عبدا صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محدثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود نے محد ثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دیا.مولوی عبد الحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا بلکہ بخاری خود

Page 428

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۰۹ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت بھیج دی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا.آخر حضرت مسیح موعود نے خدائی تصرف کے نتیجہ میں خود نکال کر پیش فرما دیا جسے دیکھ کر فریق مخالف پر ایک موت دارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اس پر مباحثہ ختم کر دیا.یہ واقعہ خواہ لدھیانہ میں ہوا ہویا لاہور میں بہر کیف دونوں جگہ یہ ایک نشان تھا.جو خداتعالی کا اپنے بندے کے لئے ظاہر ہوا.یہ مباحثہ انہی دنوں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب نے ایک محققانہ دیباچہ کے ساتھ سیالکوٹ سے شائع کر دیا تھا جو " الحق لدھیانہ کے نام سے مشہور ہے.اس مباحثہ پیر سراج الحق صاحب کے بیان کردہ مباحثہ کے تفصیلی کوائف میں حضرت اقدس کے مضمون کو نقل کرنے کی خدمت حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد تھی.حضرت پیر صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی (حصہ اول) میں جہاں سفر لدھیانہ کے تفصیلی حالات بیان کئے ہیں وہاں مباحثہ کے مفصل حالات بھی لکھے ہیں جو قابل ذکر ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ قرار پایا اور مباحثہ کا دن مقرر ہوا.مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے اور ساتھ پانچ سات اور شخص بھی آئے اور ایک سوال لکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا.اور مجھے سے فرمایا کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم لکھتے جائیں اس کی نقل کرتے جاؤ چنانچہ میں نقل کرنے لگا ا ، آپ لکھنے لگے جب سوال و جواب اس دن کے لکھ لئے گئے تو مولوی محمد حسین صاحب نے غلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ عقیدہ یہ چاہیے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.کیونکہ قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے پس وہی فیصلہ کن ہے.خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے اور مولوی صاحب نے اس معاہدہ کے خلاف تقریر کی ہے سو اب میرا بھی حق ہے کہ میں بھی کچھ زبانی تقریر کروں.پھر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا.اور حدیث کے جمع کرنے کا ایسا انتظام نہیں تھا.اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھی.پس وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے.کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی

Page 429

تاریخ احمدیت.جلدا ہے.۱۰م علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت اس بیان اور تقریر پر نیز اس تحریری پرچہ پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے چاروں طرف سے راہ را کے اور سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے.بلکہ سعد اللہ اور مولوی محمد حسین صاحب کے سوا ان کی طرف کے لوگ بھی بے اختیار سبحان اللہ کہہ اٹھتے تھے.مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے کہ لوگو تم سننے کو آئے ہو یا واہ وا سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو.اس مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف کے مقام پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے.چھ سات روز تک یہ مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر ہوا.اب مولوی صاحب نے رنگ بدلا.اور کہا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا اب میری فرودگاه (یعنی مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر مباحثہ ہونا چاہیے.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرمالیا.اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر مباحثہ رہا جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا ورنہ مجھے بلوا لیتے.اس مباحثے میں مولوی محمد حسین صاحب نے بہت چالاکیاں کیں بلکہ ایک پرچہ بھی اڑا لیا جس کا مباحثے میں حوالہ دیا گیا ہے دس روز تک یہ مباحثہ رہا.آخر باہر سے خطوط آنے لگے اور لدھیانہ کے لوگوں نے بھی شور کیا.کہ اصل بحث تو وفات و حیات مسیح پر ہونی چاہیے.حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار بار فرمایا که مباحثه تو وفات و حیات مسیح میں ہونا ضروری ہے تاکہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے مگر مولوی صاحب اس مسئلہ کی طرف نہ آئے جب آخری روز مباحثہ کا آیا تو عیسائیوں مسلمانوں اور ہندوؤں کا بہت ہجوم ہو گیا.میں نواب علی محمد خاں آف مھجر کی کوٹھی پر تھا اور روانگی کا ارادہ کر رہا تھا حضرت اقدس مولوی عبد الکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح اور قاضی خواجہ علی صاحب اور الہ دین صاحب واعظ وغیرہ کے ہمراہ مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے اور میرے پاس مولوی نظام الدین صاحب مرحوم اور مولوی عبد اللہ صاحب مجتہد مرحوم کو بھیجا کہ جلد صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو لے آؤ.یونکہ مضمون میرے پاس تھا.اور میں نے رات بھر میں مضمون کی نقل کرلی تھی.اس واسطے اور بھی حضرت اقدس کو میرا انتظار ہوا.جب میں آیا تو دروازہ بند پایا.دروازہ پر سینکٹروں آدمی تھے بمشکل تمام دروازه مولوی نظام الدین صاحب مرحوم نے کھلوایا.میرے ساتھ سب آدمی اندر گھس گئے اور مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب کا چہرہ زرد ہو گیا.مجھ سے مولوی محمد حسن صاحب نے کہا کہ تم کیوں آگئے ؟ میں نے کہا ہم کیسے نہ آئیں.کاتب مباحثہ میں ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے

Page 430

تاریخ احمدیت.جلدا علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت مضمون سنانے سے پہلے فرمایا کہ مولوی صاحب اب یہ مباحثہ طول پکڑ گیا ہے.اس کی اب کوئی ضرورت نہیں.وفات وحیات مسیح علیہ السلام میں بحث ہوئی مناسب ہے مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے.جب حضرت اقدس علیہ السلام نے پرچہ سنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑ گیا اور ایسی گبھراہٹ ہوئی اور اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے روات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور رجب یہ حدیث آئی کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو حدیث معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے.اور قرآن کو لے لیا جائے تو اس پر مولوی محمد حسین صاحب کو نہایت غصہ آیا اور کہا یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.اور جو یہ حدیث بخاری میں ہو تو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے اور کچھ نہ بن پڑا.اور بعد کو کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں پڑی.اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے.پہلے تو چند لوگوں کو اس کی خبر تھی لیکن اب مولوی صاحب ہی نے ہزاروں کو اس کی اطلاع کر دی غرضکہ مولوی صاحب کو اس مباحثہ میں ہر لحاظ سے شکست ہوئی.مگر مولوی صاحب کی دیدہ دلیری کہ اپنی خفت مٹانے کے لئے انہوں نے یکم اگست ۱۸۹۱ء کو ایک لمبا چوڑا اشتہار شائع کیا جو ہر قسم کے مفتریات کا مجموعہ تھا.کئی ماہ بعد جبکہ یہ مباحثہ شائع ہو چکا تھا.دلی میں ایک جلسہ منعقدہ ہوا.جس میں بہت سے علماء نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر زبردست تنقید کی کہ تم نے جو مرزا صاحب سے لدھیانہ میں مباحثہ کیا ہے اس میں تم نے کیا کیا اور کیا کر کے دکھایا اصل بحث تو کچھ بھی نہ ہوئی بٹالوی صاحب نے جواب دیا کہ اصل بحث کس طرح کرتا.اس کا پتہ ہی نہیں.قرآن شریف میں مسیح کی حیات یا رفع الی السماء کا کوئی ذکر نہیں.حدیثوں سے صرف نزول ثابت ہوتا ہے میں مرزا صاحب کو حدیثوں پر لاتا تھا اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے.پھر ان علماء نے کہا کہ مرزا صاحب نے تو بحث چھاپ دی تم نے اب تک کیوں نہ چھاپی.بٹالوی صاحب نے کہا اشاعتہ السنہ میں چھاپوں گا.انہوں نے کہا اس بحث کو الگ رسالہ کی شکل میں مکمل کر کے چھپوانا تھا.اس طرح علماء نے انہیں بہت شرمندہ کیا.IA میر عباس علی صاحب کا ارتداد میر عباس علی صاحب بظاہر تو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی نظر آتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس سے ان کی عقیدت سفر علی گڑھ کے دوران ہی میں روبہ تنزل ہو چکی تھی.اور وہ

Page 431

تاریخ احمدیت.جلد ۴۱۲ علماء دقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت لمحہ بہ لمحہ حضور سے دور ہوتے جارہے تھے.مباحثہ لدھیانہ کے دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب کا جو پرچہ نقل کے بعد منگوایا جاتا تھا وہ لینے کے لئے میر صاحب ہی جاتے تھے اور بد قسمتی سے اس آمد درخت نے ان کی رہی سہی عقیدت بھی ختم کر دی.بات یہ ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی محمد حسن صاحب انہیں پھانسنے کے لئے بڑی خاطر تواضع کرتے اور جب جاتے تو سروقد تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میر عباس علی صاحب تم تو سید ہو آل رسول ہو تمہارا تو وہ مرتبہ ہے کہ لوگ تم سے بیعت ہوں مگر افسوس تم مرزا کے مرید ہو گئے امام مہدی تو سیدوں میں سے ہو گا یہ مغل کہاں سے بن گیا یہ دونوں مولوی میر عباس علی صاحب کے ہاتھ چومتے اور دو ایک روپیہ نذرانہ بھی دیتے اور کہتے کہ تمہاری شان تو وہ ہے کہ تم درود میں شریک ہو مگر افسوس تم کس کے مرید ہو گئے میر عباس علی صاحب تو پہلے ہی منافقت آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے تھے.اب جو ان حیلہ گروں کی یہ ارادتمندی دیکھی تو باچھیں کھل گئیں.اعتقاد متزلزل ہو گیا اور ایمان کی دولت یکسر کھو بیٹھے.ایک روز وہ حضور کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ایسا دعویٰ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم کو.شرمندہ ہونا پڑتا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ میر صاحب میں نے جھوٹا دعویٰ نہیں کیا.اللہ تعالٰی میری بات پر گواہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو مسیح موعود اور مہدی معہود کیا اور بنایا ہے اور میں اللہ تعالٰی کو حاضر ناظر جان کر اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور سچا ہوں.کیا اتنے روز سے تم نے میرا کوئی جھوٹ سنایا مجھ کو جھوٹ بولتے دیکھایا میں نے کوئی افتراء کیا یا منصوبہ باندھا.میں مسیح موعود اور مہدی موعود ہوں.یہ تقریر سن کر حضرت مولانا نور الدین پر ایسا اثر ہوا کہ ان پروجد طاری ہو گیا.لیکن میر صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا.میر صاحب اس کے بعد روز بروز معاندانہ سرگرمیوں میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ اسی سال ۱۲ دسمبر ۱۸۹۱ء کو انہوں نے ایک مخالفانہ اشتہار بھی شائع کیا جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود نے آسمانی فیصلہ میں اس اشتہار کا کو جواب دیا مگر ان کے زمانہ عقیدت و اخلاص کو نظر انداز نہیں ہونے دیا.بلکہ اپنی جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کے حق میں دعا کریں اور میں بھی دعا کروں گا.نیر فرمایا.” یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت کچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفتہ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا.آج اس کی کیا حالت ہے پس خدا تعالیٰ سے ڈرواد ر دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے" نیز فرمایا " مجھے اگر چہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے بہت رنج ہوا.لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح

Page 432

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۳ علماء دقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہو تا.یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے.جن کی تعریف میں وحی الہی بھی نازل ہو گئی تھی.آخر مسیح سے منحرف ہو گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر امرتسر اور لدھیانہ میں دوبارہ تشریف آوری مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے شکست کھانے کے بعد اپنی ندامت چھپانے کے لئے لدھیانہ میں ایک شورش سی برپا کر دی.لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں فساد نہ ہو جائے اس لئے ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دیدیا.اس کام کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب نے ڈپٹی دلاور علی اور کریم بخش تھانہ دار کو مقرر کیا.ان لوگوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سنایا اور وہ لدھیانہ سے چل دیئے.پھر وہ حضرت اقدس کی طرف آئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی حضرت اقدس نے ان کو اجازت دے دی.اور اندر بلالیا.وہ ڈپٹی کمشنر کا یہ پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہتر ہے کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سر دست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ، ہم ڈپٹی کمشنر سے کہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہو گئی.اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے.جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا.اور بعض خاندانی خطوط کی نقول بھی منسلک فرما دیں.چٹھی کا انگریزی ترجمہ منشی غلام قادر صاحب فصیح نے کیا.دراصل ڈپٹی دلاور علی کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سمجھنے میں غلطی ہو گئی تھی.ڈپٹی کمشنر صاحب کا منشاء صرف مولوی محمد حسین صاحب کے اخراج کا تھا.تاہم یہ چٹھی ارسال کرنے کے بعد حضرت اقدس احتیاطاً لدھیانہ سے امر تسر تشریف لے آئے.اس سفر میں حضور نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی ہدایت کی.صبح کے وقت گاڑی

Page 433

تاریخ احمدیت.جلدا علماء وقت کو تحریر کی مباحثہ کی دعوت امرتسر کے سٹیشن پر پہنچی.شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند سٹیشن پر موجود تھے انہوں نے فورا ایک مکان کا انتظام کیا جو ہال بازار کے قریب غربی جانب کے راستوں میں سے ایک راستہ پر تھا.اور کنھیا لعل کے ٹھیٹر کے قریب ایک گلی میں چھوٹا سا مکان تھا.اوپر کے کمرے میں حضرت اقدس کے اہل بیت فروکش ہوئے اور خود حضور اپنے تین چار خادموں کے ساتھ نیچے ٹھہرے.امرتسر میں آپ کی آمد کا شہرہ ہو گیا.اور لوگ آپ کی زیارت کے لئے آنے لگے.امرتسر کے کسی معزز دوست نے حضرت مسیح موعود اور آپ کے خدام کی دعوت بھی کی جس میں مولوی احمد اللہ صاحب بھی مدعو تھے.دعوت کی تقریب پر مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدس کے سامنے یہی مسئلہ پیش کیا کہ آپ کی بعض تحریروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو ٹھو کر لگتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی کہ میری مراد نبوت سے کیا ہے جس پر مولوی صاحب نے عرض کیا اچھا آپ تحریر کر دیں کہ آپ کی تحریرات میں جہاں کہیں نبوت کا لفظ ہے وہ ایسا نہیں کہ جو ختم نبوت کے منافی ہو اور اس سے مراد محد ثیت ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں لکھے دیتا ہوں.چنانچہ اس وقت حضور نے ایک تحریر لکھ کر مولوی صاحب کو دے دی.جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی تا ان لوگوں کو دکھا ئیں جو اس وجہ سے حضرت اقدس پر کفر کافتویٰ لگاتے تھے.مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدس سے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ اہلحدیث آپ کا یہ شعر پیش کر کے آپ پر شرک کا الزام لگاتے ہیں کہ.شان احمد را که داند جز خدا وند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتاد میم اس کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت اقدس نے جواب دیا چونکہ آنحضرت اللہ تعالٰی کے مظہر اتم ہیں اس لئے جس طرح اللہ تعالی خالق ہونے کے اعتبار سے "احد" ہے اسی طرح رسول کریم ال اس کا مظہر اتم ہونے کے باعث تمام مخلوقات میں "احد" ہیں.انہی دنوں ایک دفعہ بعض شریر لوگوں نے حضرت اقدس کے مکان پر حملہ کر کے بالا خانہ پر چڑھنا چاہا.مگر آپ کے چند خدام نے بڑی ہمت سے سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر ان شریروں کو روکا.اور بعد کو پولیس کے پہنچنے سے پہلے وہ منتشر ہو گئے.حضرت اقدس کے امرت سر تشریف لانے کی خبر پر بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے پہنچ گئے.کپور تھلہ سے منشی محمد خاں صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب بھی آگئے اور بہت دنوں ٹھہرے رہے.

Page 434

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۱۵ علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت حضور کچھ دن امرتسر میں مقیم رہے.پھر لدھیانہ سے ڈپٹی کمشنر کی یہ چھٹی موصول ہونے پر کہ آپ کو لدھیانہ میں ٹھہرنے کے وہی حقوق حاصل ہیں جیسا کہ دیگر رعایا سرکار انگریزی کو حاصل ہیں.حضور لدھیانہ واپس تشریف لے گئے.جہاں کچھ عرصہ قیام فرما کر قادیان آگئے.

Page 435

تاریخ احمدیت جلادا علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت - حیات احمد " جلد سوم حصہ اول صفحه ۹۰ تذكرة المحمدي " حصہ اول صفحه ۱۷۵-۲۱۶ تذكرة المحمدى " حصہ اول صفحه ۷ ۱۷-۱۸۱ " تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۱۸۱-۱۸۳ حواشی ۷۵- "تذکرة المدى " حصہ اول صفحه ۱۸۴-۱۸۵- پیر سراج الحق صاحب نے ان کا نام مولوی رحیم بخش لکھا ہے جو سمو ہے کیونکہ رجسٹر بیعت میں (۱۸۹ء کے مبائعین میں لاہور کے عالم مولوی رحیم اللہ صاحب کی بیعت کا ذکر کہتا ہے اور انہی کو حضور نے اپنے ۳۱۳ اصحاب میں نمبر ۱۳۴۲ پر شامل کیا ہے آپ انجام آتھم کی اشاعت سے قبل فوت ہو چکے تھے.رجسٹر بیعت میں مولوی غلام نبی صاحب کی تاریخ بیعت ۲۹ مئی ۱۸۹۱ ء درج ہے (مرتب) تذکرة المهدی حصہ اول صفحه ۱۸۹-۲۰۰ حضرت اقدس نے مولوی صاحب کا ذکر خیر ازالہ اوہام صفحہ ۷۸۷۰۷۸۵ طبع اول پر کرتے ہوئے لکھا ہے.”وہ دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اور علوم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں.اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالف الرائے تھے.لیکن آخر سعادت از لی کشاں کشاں ان کو عاجز کے پاس لے آئی اور مخالفانہ خیالات سے تو بہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے".۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں حضرت اقدس نے ان کا نام ۱۳۲ نمبر پر درج فرمایا.آپ بھی مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری کی طرح انجام آتھم کی اشاعت سے قبل رحلت فرما چکے تھے.اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۲ میں تفصیل ملاحظہ ہو.- مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مباحثہ لدھیانہ کے ایام میں یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ اگر قرآن سے مرزا صاحب کا دعویٰ ثابت ہو جائے تو میں قرآن ہی چھوڑ دونگا.(تذکرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۳۰) -fl تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۱۸-۳۲۳ روایات صحابه " جلد اول صفحه ۱۵-۱۶ غیر مطبوعه (روایات حضرت میر عنایت علی صاحب) ۱۳ - سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۵ ۱۴- یہ حدیث بخاری باب مناقب عمر بن الخطاب مصری جلد ۲ صفحہ 9 اپر ہے.۱۵- سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحه ۵-۶ خفیف سے تغیر کے ساتھ تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۲۵-۲۳۲ سے ماخوذ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ازالہ اوہام حصہ دوم تذکرة المهدی حصہ اول ۳۵۶ 19 تذكرة المهدى " حصہ اول صفحه ۳۳۲-۲۳۵.الحکم ۷/۱۴- جون ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۰ ۲۰- " آسمانی فیصلہ " "مسيرة المهدی " حصہ دوم صفحه ۱۴۵-۱۴۶- ۲۲- "ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادقی صاحب صفحه ۱۳-۱۴ ۲۳- بد را ۲- نومبر ۱۹۰۲ء ۲۴- " ذکر حبیب "صفحه ۱۹۱۸ مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب

Page 436

تاریخ احمدیت.جلدا ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت لفظ توفی اور الدجال کے بارے میں ایک ہزار روپیہ کا انعامی اعلان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اپنے دعوئی کے ثبوت میں ازالہ اوہام " کے نام سے ۱۸۹۱ء کے وسط میں ایک نہایت مدلل و مبسوط اور جامع و مانع کتاب شائع فرمائی.یہ تصنیف لطیف جو حضور نے چند ہی ماہ کے قیام لدھیانہ میں لکھی تھی.آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کے رموز و اسرار اور حقائق و معارف کا ایک بحرز خار ہے.اس میں قرآن مجید کی تمیں آیات بینات سے وفات حضرت مسیح کا ایسا ثبوت پیش کیا اور اپنے مسیح موعود ہونے کے ثبوت میں دلائل عقلیہ و نقلیہ کا استاذ خیرہ جمع کر دیا گیا ہے کہ خدا ترس حق پسند طالبان تحقیق کے لئے سر تسلیم جھکانے اور بے انصافوں کے لئے معقول جواب سے محروم رہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.حضرت مسیح کی وفات اور حضرت مسیح موعود کے دعوے سے متعلق جو شکوک وشبہات اور وساوس دا ر ہام پیش کئے جاتے ہیں ان کا اس شان سے قلع قمع کیا گیا جس نے حقیقت کو آئینہ اور ازالہ اوہام کو اسم با مسمی بنادیا.یہی وہ کتاب ہے جس میں حضرت اقدس نے مسلمانان عالم کو یہ اہم وصیت فرمائی کہ "تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ در حقیقت صحیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف پیسٹ دو گے؟ حیات مسیح ناصری کا عقیدہ جیسا کہ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا عیسائیوں کی سازش کے تحت امت مسلمہ کے اعتقادات میں داخل ہوا تھا.1 جسے پارہ پارہ کرنا مسیح محمدی کے ذریعہ سے مقدر تھا.اس وقت تو علماء اور عامتہ المسلمین نے حضرت مسیح موعود کی اس وصیت پر عمل پیرا ہونے کی بجائے احتجاج کیا اور اسے مسیح علیہ السلام کی بہتک سے تعبیر کیا.مگر رفتہ رفتہ خود زمانہ نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ "

Page 437

تاریخ احمدیت.جلندا ۴۱۸ ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت اس نظریے کا اعتراف کرلیں.چنانچہ ایک مدت سے ہر طرف اس کی تائید میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں.از ہر یونیورسٹی کے پروفیسر محمود شلتوت 7 شیخ الجامعہ الازہرا اور عرب مصر شام فلسطین اور لبنان کے دیگر جید علماء مثلاً علامہ محمد عبده مفتی مصر، الشيخ عبد القادر المغربي الاستاذ مصطفى المراغى الاستاذ عبد الوہاب النجار الاستاذ احمد محی الدین العجوز اور عبد اللہ التشادی الغزی نے بھی مسیح کی وفات کا اعلان کر رکھا ہے اس سے بڑھ کر یہ کہ بر صغیر ہند و پاکستان کی ان مخصوص جماعتوں کی طرف سے بھی جو محض جماعت احمدیہ کی مخالفت کا مقصد لے کر اٹھتی رہی ہیں گاہے گاہے حضرت مسیح کی وفات کا اعلان ہوتا رہتا ہے.مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸-۱۹۵۸ء) ایسے بلند پایہ عالم بھی بالا خرید تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ (حیات مسیح کا) عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل و لباس میں نمودار ہوا ہے".اس کے علاوہ حال ہی میں پاکستان کے ایک عالم مولانا عبد القیوم ندوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کا ترجمہ شائع کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح کے متعلق حدیث نبوی میں جو نازل ہونے کی پیشگوئی لکھی ہے اس کے معنے پیدا ہونے کے ہیں.اس حیرت انگیز تبدیلی کے نتیجہ میں بعض علماء کھلم کھلا اعتراف کر رہے ہیں کہ ”ہماری قوم کی حالت زار کے مسیحا اسی نوخیز نسل کی صفوں سے جنم لیں گے " یہ حضرت اقدس کے علم کلام کی شاندار فتح ہے.لیکن بہر حال حضور کی وصیت پر عمل پیرا ہونے اور آپ کے اس نظریہ سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کی توفیق جماعت احمدیہ ہی کو مل رہی ہے.جس کے عظیم الشان نتائج ایک عالم کے سامنے ہیں کہ عیسائیت ہر جگہ دم توڑ رہی ہے.اور اسلام کے روشن سورج کی ضیاء پاشیوں سے شرق و غرب بقعہ نور بنتے جاتے ہیں.مغرب سے آفتاب اسلام کے طلوع کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں سورج مغرب سے طلوع ہو گا.II حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام " میں بذریعہ کشف اس کی یہ تعبیر فرمائی کہ " ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا....اور میری تحریر میں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کا شکار ہو جائینگے در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے.گویا خد اتعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی.اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا.اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدا تعالٰی ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے ".

Page 438

تاریخ احمدیت.جلد ! ۴۱۹ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت اس کشف کی یہ حیرت انگیز صداقت ہے کہ مغربی ممالک میں آج اللہ تعالٰی کے فضل سے اسلام بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے اور ان ممالک میں اسلام کی منظم تحریک قائم ہو چکی ہے.چنانچہ زمانہ حال کے ایک مسلمان محقق و مورخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم.اے لکھتے ہیں." احمد یہ جماعت کی تبلیغی کوششیں صرف انگلستان تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی دوسرے ممالک میں بھی اپنے تبلیغی مرکز کھولے ہیں.دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں اور قادیانیوں نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زمانہ ہے لیکن عیسائی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا موقعہ بھی حاصل ہے جو مذہب کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے........اب روز بروز بر صغیر پاک وہند کے مسلمان بھی اس خیال کے پابند ہوتے جاتے ہیں کہ اسلامی دنیا کی مصلحت اس میں نہیں کہ پاک وہند کے مسلمان ترکی یا مصر یا کسی اور مختصر سے اسلامی ملک کے " تابع معمل " بنے رہیں بلکہ اسلامی مصلحتوں کا تقاضا ہے کہ علمی اور تبلیغی بلکہ اقتصادی اور تمدنی امور میں بھی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان دنیائے اسلام یا کم از کم اسلامی ایشیا کی راہنمائی کریں.یہ خیال قوم کے مطمع نظر کو بلند کر کے ایک نئی روحانی زندگی کا باعث ہو گا.لیکن اس کے ایک حصے کی عملی تشکیل سب سے پہلے احمدیوں نے کی؟ te احادیث میں زمانہ مسیح موعود کی جو علامات لکھی ہیں.ان میں دجال m فتنہ دجال کی حقیقت کے ظاہر ہونے کی خبر بڑی اہمیت رکھتی ہے حضور نے ازالہ وہام میں اس خبر سے پر دہ حقیقت اٹھا کر لکھا کہ قرآن مجید میں مغربی اقوام کے جس سیاسی فتنہ کو یا جوج وماجوج کے نام سے یاد کیا گیا ہے حدیث میں اسی کے مذہبی پہلو کو دجال کہا گیا ہے جو عیسائیت ہے اور جس کا خروج حدیثوں کے مطابق گرجے سے ہونا مقدر تھا.اس طرح آپ نے موجودہ دنیا کے ایک خطرناک ترین فتنے کی نشان دہی کر کے عالم اسلام کو اس کی فتنہ سامانیوں سے بچنے کی دعوت دی اور یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف مہدی ومسیح کی آمد سے متعلق نشانیوں کے پورے ہونے کا اقرار اب مسلم علماء کر رہے ہیں بلکہ دجال وغیرہ کے ظہور سے متعلق آپ کی توجیہ بھی مقبولیت حاصل کر رہی ہے.ایک عجیب انکشاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں قدیم نوشتوں اور اپنے الہامات کی بناء پر یہ عجیب انکشاف بھی فرمایا کہ ازل سے مقدر تھا کہ ہزار ہفتم کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ ایک آدم موعود مبعوث کرے گا.اور وہ آدم میں ہوں.اس وقت اس خیال کا مذاق اڑایا گیا لیکن اب آثار قدیمہ سے خود حضرت آدم علیہ السلام کی یہ پیشگوئی برآمد ہو گئی ہے کہ ساتویں ہزار میں ایک دو سرا آدم برپا ہو گا جو جلیل القدر نبی ہوگا.یہ پیشگوئی جو پتھر کے لوح پر

Page 439

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۴۰ کنندہ ہے حال ہی میں پروفیسر سمتھ کو اہرام مصر سے اتفاقا دستیاب ہوئی ہے.ازالہ اریام " کی تصنیف و اشاعت توفی اور الدجال کے بارہ میں ایک ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار قرآن مجید نے وفات حضرت مسیح علیہ السلام کی خبر میں تو نی کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنے محض قبض روح یا وفات دینے کے ہیں.لیکن چونکہ علمائے وقت آپ کے توجہ دلانے پر بھی توفی کے اسی لفظ سے جو حضرت مسیح کی طبعی موت کا اعلان کر رہا تھا، ان کی جسمانی زندگی کا استدلال کر رہے تھے.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں یہ زبر دست انعامی چیلنج دیا کہ اگر کوئی قرآن کریم یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قدیم و جدید عربی لٹریچر سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خداتعالی کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذی روح کی نسبت استعمال کیا گیا ہے قبض روح اور وفات دینے کے علاوہ قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا.اور آئندہ اس کے کمالات حدیث رانی اور قرآن دانی کا اعتراف کرلوں گا.ایسا ہی اگر وہ یہ ثابت کر دیں کہ الدجال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجز دجال معہود کے کسی اور دجال کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد تاوان کے طور پر دوں گا.حضرت اقدس" کا یہ وہ عظیم الشان چیلنج ہے جسے قبول کرنے کی جرات آج تک کسی کو بھی نہیں ہو سکی.ازالہ اوہام " کی تصنیف کے دوران میں حضرت اقدس پر یہ بھی مسیح اور مہدی ایک ہیں انکشاف ہوا کہ حدیثوں میں مسیح اور مہدی کی آمد سے متعلق جو پیشگوئیاں موجود ہیں ان کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو بعض اوصاف کے لحاظ سے مسیح ہو گا اور بعض اوصاف کے لحاظ سے مہدی.اور وہ مسیح و مہدی آپ ہی ہیں.چنانچہ آپ نے ازالہ اوہام " میں بڑی وضاحت سے لکھا کہ یہ خیال بالکل فضول ہے کہ مسیح ایسی عظیم الشان شخصیت کے ظہور کے وقت کسی اور مہدی کا آنا بھی تسلیم کیا جائے کیا وہ خود مہدی نہیں ہے ؟ ازالہ اوہام " کی طباعت کے دوران میں شیخ نور احمد صاحب کو ایک عجیب ایک عجیب واقعہ واقعہ پیش آیا جو شیخ صاحب کے الفاظ میں درج ذیل ہے.کتاب ازالہ اوہام " جب میرے مطبع میں چھپ رہی تھی تو حضور اس کا مسودہ لدھیانہ میں لکھتے تھے اور میرے پاس بھیجتے جاتے تھے.میں نے ازالہ اوہام " میں جب یہ پڑھا کہ مردے زندہ ہو کر نہیں آتے اور نہ

Page 440

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۲۱ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح نے کسی حقیقی مردہ کو زندہ کیا تو مجھے بظاہر قدیم عقیدہ کی بناء پر تعجب ہوا.کہ حضرت صاحب نے یہ بات کیسی لکھی.گو میں نے اس بات کو تسلیم تو کر لیا مگر کوئی دلیل میرے پاس نہ تھی.پس میں اسی وقت تحقیق کی نیت سے لدھیانہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا....آپ شہزادہ غلام حیدر صاحب کے مکان پر تشریف رکھتے تھے.آپ نے مجھے دیکھتے ہی سلام مسنون کے بعد فرمایا کہ کتاب کی بڑی ضرورت تھی آپ کیوں چلے آئے ؟ میں نے عرض کیا.مجھے ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے وہ پوچھ کر آج ہی واپس چلا جاؤں گا چنانچہ میں نے عرض کیا حضور نے ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا ہے کہ کوئی مردہ زندہ نہیں ہوا اور نہ حضرت مسیح ناصری ہی نے کسی مردہ کو زندہ کیا اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف پر تو ہر ایک مسلمان کا یقین اور ایمان ہے کہ یہ کامل کتاب ہے اور خدا کا کلام ہے.اگر کوئی مردہ زندہ ہوا ہو تا یا زندہ ہو سکتا تو قرآن کریم ورثہ اور ترکہ میں اس کا حق ضرور رکھتا.جیسا کہ زندوں کا حق رکھا ہے.اب نعوذ باللہ یا تو قرآنی تعلیم کو ناقص ماننا پڑے گا کہ جس نے مدت کے بعد زندہ ہونے والوں کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا یا پھر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ جسمانی طور پر مردے کبھی زندہ ہو کر واپس نہیں آتے.یہ جواب سن کر میری تسلی ہو گئی اور میں اسی روزامر تسر واپس آگیا.سفر ولی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعوی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے دوسرا سفر ہندوستان کے قدیم دارالسلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی کی طرف فرمایا.حضور مع ام المومنین و میر محمد اسمعیل صاحب و غیره قادیان سے روانہ ہو کر ۲۹ ستمبر ۱۸۹ء کو دلی پہنچے اور نواب لوہارو کی دو منزلہ کو ٹھی واقع محلہ بیماراں میں قیام فرما ہوئے.پہلی منزل میں مرد اور دوسری یعنی بالائی منزل میں حضرت ام المومنین مقیم ہوئیں.حضور کے دلی میں وار ہوتے ہی چاروں طرف یہ خبر پھیل گئی.اہل دلی کے ایک طبقہ نے جو مخالف و متشدد علماء کے زیر اثر خطرناک غلط فہمیوں میں مبتلا تھا.خدا کے مسیح سے ویسا ہی سلوک روا رکھا جیسا ماموران الہی کے ساتھ منکرین حق ابتداء سے کرتے چلے آئے ہیں.اور حضرت مسیح ناصری سے یہود نا مسعود نے کیا تھا.حضور جس کو ٹھی میں مقیم تھے اس کے نیچے بازار میں شوریدہ سر اور آتش مزاج لوگ نہایت بیباکی و خود سری سے گندی گالیاں دیتے اور کو بھی پر خشت باری کرتے تھے.

Page 441

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۲۲ ازالہ اوہام " کی تصنیف و کی تصنیف و اشاعت سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی عبدالحق صاحب کو مباحثہ کی دعوت حالات میں ۲.اکتوبر کو شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب (۱۸۰۵ - ۱۹۰۲) اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب حقانی (۱۸۴۹-۱۹۱۲) کو بذریعہ اشتہار قرآن و حدیث صحیح سے وفات مسیح پر تحریری بحث کی کھلی دعوت دی اور لکھا کہ امن قائم رکھنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کرا دیں کیونکہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب !! اشتہار میں آپ نے یہ حلفیہ اقرار بھی کیا کہ اگر میں اس بحث میں غلطی پر ثابت ہوا تو میں اپنے دعوے سے دست بردار ہو جاؤں گا.اس اشتہار کے نکلنے پر مولوی شمس العلماء مولوی عبد الحق صاحب کی معذرت عبد الحق صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کیا کہ حضرت میں تو آپ کا بچہ ہوں.آپ میرے بزرگ ہیں آپ کا مقابلہ بھلا مجھ جیسا نا چیز آدمی کیا کر سکتا ہے.میرا نام اشتہار سے کاٹ دیں.میں ایک فقیر گوشہ نشین اور ایک زاویہ گزین درویش ہوں اور مباحثات سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ اچھا آپ ہی اپنے ہاتھ سے کاٹ دیں.چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے اپنا نام کاٹ دیا.شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب کا انکار مولوی عبدالحق صاحب نے تو ہوں پہلو بچایا ممکن تھا کہ مولوی نذیر حسین صاحب بھی خاموش رہتے.مگر حضرت اقدس کی آمد سے ایک دن پہلے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پہنچ گئے.بٹالوی صاحب نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اپنے متشد د خیالات سے متاثر کرنا شروع کیا.مولوی نذیر حسین صاحب نے ان سے ایک دفعہ کہا بھی کہ بڑھاپے میں مجھے رسوا نہ کرو اور اس قصے کو جانے ہی دو حضرت مسیح کی جسمانی زندگی کا کہیں بھی ثبوت نہیں مل سکتا.لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے ان سے کہا کہ اگر آپ ایسے کلمات زبان پر لا ئیں گے تو سب لوگ آپ سے پھر جائیں گے شیخ الکل عمر رسیدہ تھے اپنے شاگرد کی زبان سے یہ سن کر خوفزدہ ہو گئے اور مجبور ا حضرت اقدس کے مقابلے پر کمربستہ ہونا پڑا.اب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے بعض دوسرے شاگردوں نے یہ شرارت کی کہ حضرت اقدس کو براہ راست کسی قسم کی کوئی اطلاع دئے بغیر مباحثے کا ایک دن مقرر کر لیا اور عین وقت پر حضرت اقدس کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثے کے لئے تشریف

Page 442

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۲۳ ازالہ اوہام " کی " صنیف و اشاعت لائیے.اور ساتھ ہی دلی کے عوام کو بے بنیاد اتہامات سے مشتعل کر کے اسی دن آپ کی کوٹھی کا محاصرہ کرا دیا.حضرت اقدس کے لئے اخلاقا اس یکطرفہ جلسہ میں پہنچنا ضروری نہیں تھا.مگر پھر بھی حضور نے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا.لیکن مین جلسہ کے وقت جب مفسد لوگوں نے صورت حال ہی بدل دی.تو مجبور امیہ حالت دیکھ کر حضور بالا خانے پر چلے گئے.ہجوم نے کواڑوں پر حملہ کر دیا اور کچھ لوگ مکان کے اندر بھی داخل ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض سرکش بالا خانے میں بھی پہنچ گئے.ان حالات میں حضرت اقدس میں جواب دے سکتے تھے.اور آپ نے یہی جواب دیا کہ خود بخود فریق ثانی کی منظوری اور شرائط کے تصفیہ کے بغیر مباحثہ کا اعلان کر دیا گیا ہے.اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکار نہ ہوتا.مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکٹروں بدلگام میرے مکان کے ارد گرد شرارت کی نیت سے جمع ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگیز الفاظ کمه کهہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں.پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کا انتظام نہ کرلوں میں نہیں جا سکتا.اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے شیخ الکل کے شاگرد فرار کے لئے کسی بہانہ کی تلاش میں تھے اب جو حضرت اقدس کی طرف سے یہ جواب ملا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا.اور اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجاتے ہوئے شور مچانے لگے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے ہیں.ساتھ ہی یہ مشورہ بھی ہوا کہ آپ کے اشتہار چھپنا بند کر دو.یہ بڑی مشکل تھی مگر خد اتعالیٰ نے جلد ہی اس منصوبے کا تدارک بھی کر دیا.دلی میں ایک اہل حدیث عالم کی طرف سے ایک اشتہار نکلا کہ غلام احمد وغیرہ نام رکھنا شرک میں داخل ہے فتح پور کے ایک بڑے حنفی عالم مولوی محمد عثمان صاحب نے اس کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا کہ علماء اہلحدیث نے اس اشتہار میں دراصل ہم سب مقلدین پر طنز کی ہے کیونکہ ہمارے نام اس قسم کے ہیں.اور ہم ان ناموں کو جائز سمجھتے ہیں.پھر وہ خفیہ طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا.اللہ تعالیٰ کی قسم ہے میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسی اپنی جان سے.ان لوگوں نے بڑی شرارت کی ہے میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں گو میں آپ کو سیح موعود نہیں مانتا مگر میں آپ کی طرف ہوں آپ جو اشتہار وغیرہ چھپوانا چاہیں میری معرفت چھپوا ئیں میرا ایک شاگر د عمدہ کاپی نویس ہے اور ایک مطبع والا میرا شاگرد ہے.میں اس کے مطبع میں چھپوا دوں گا.سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا نا ترس علماء کی مغالطہ انگیزیوں کا پردہ چاک کرنے اور عوام تک اصل واقعات پہنچانے کے لئے ۱۷ اکتوبر کو انہی کے ذریعہ سے ایک اشتہار دیا کہ

Page 443

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۲۴ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت میں نے اب حفاظت کا انتظام کر لیا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب جہاں چاہیں بحث کے لئے حاضر ہو جاؤں گا اور ہرگز تخلف نہ کروں گا.وَلَعْنَةُ اللهِ عَلى مَنْ تَخَلَّف.اس اشتہار میں حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اللہ تعالٰی کی قسم دے کر لکھا کہ وہ مرد میدان بنیں اور حیات مسیح کے متعلق تحریری مباحثہ کر لیں.اس اشتہار میں حضور نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اگر آپ کسی طرح بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل سن کر تین مرتبہ قسم کھا کر کہدیں کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امریکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسده العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور یہی میرا عقیدہ ہے اس پر اگر ایک سال کے اندراندر آپ خدا کے عبرتناک عذاب سے بچ نکلیں تو میں جھوٹا ہوں.مولوی نذیر حسین صاحب نے چند روز قبل (۱۳- اکتوبر ۱۸۹ء) حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا تھا کہ آئندہ آپ مجھے خط وکتابت سے معاف رکھیں جو کچھ کہنا ہو میرے تلامذہ مولوی عبد المجید صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے کہیں اور انہی سے جواب لیں.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ بقول بٹالوی صاحب شیخ الکل ہیں.گویا آپ سارے جہان کے مقتدا ہیں اور بٹالوی صاحب اور عبد المجید صاحب جیسے آپ کے ہزاروں شاگرد ہوں گے.اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے تو اس کا کیا اثر ہو گا.2 اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی دلی والوں میں کھلبلی مچ گئی.آخر انہوں نے بات یہ بنائی کہ مولوی نذیر حسین صاحب بہت بوڑھے ہیں.مرزا صاحب نے دیکھ لیا کہ اب مرنے والے تو ہیں ہی چلو ایسا اشتہار دے دو یہ مر جائیں گے اور ہماری بات بن جائے گی ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے اور نہ مولوی نذیر حسین صاحب یہ بات مان سکتے ہیں.مگر دلی کے شریف اور متین طبقے نے ان کی یہ روش دیکھ کر زور دینا شروع کیا کہ مولوی نذیر حسین صاحب قسم کھا ئیں.سچ اور جھوٹ میں واقعی تمیز ہو جائے گی.چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ۲۰ - اکتوبر ۱۸۹۱ء کو عصر کی نماز کے بعد مباحثہ ہو یا قسم اٹھائی جائے.جو لوگ دیانتداری سے حق و باطل کا فیصلہ چاہتے تھے وہ اس دن کا شدت انتظار کرنے لگے.لیکن مخالف عصر نے جس کی تعداد زیادہ تھی یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو مسجد ہی میں قتل کر دینا چاہیے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ۲۰ - اکتوبر کی صبح ہی جامع مسجد دلی میں اجتماع سے یہ پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد میں ہر گز نہ جائیں فساد کا [ra]; اندیشہ ہے.دلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں.یہ بات بالکل صحیح تھی.مگر حضرت اقدس علیہ السلام بار بار فرماتے تھے کہ کوئی پروا نہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واللہ

Page 444

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۲۵ " ازالہ اوہام " کی تصنیف را اشاعت يعصمك من الناس - اللہ تعالی کی حفاظت کافی ہے.ظہر و عصر کی نماز ظہر کے وقت ہی جمع کی گئی.اور دو تین بگھیاں کرایہ کی منگائی گئیں.ایک بگھی میں حضرت اقدس علیہ السلام سید امیر علی شاہ صاحب مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور ایک اور بزرگ - ایک بگھی میں پیر سراج الحق صاحب غلام قادر صاحب فصیح سیالکوئی اور محمد خاں صاحب کپور تھلوی اور ایک اور بزرگ اور تیسری میں حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور بعض اور بزرگ بیٹھ گئے جن سب کی تعداد حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے حواریوں کی مانند بارہ تھی ان بزرگوں میں سے باقی چھ کے نام یہ ہیں.شیخ رحمت اللہ صاحب منشی اروڑا خان صاحب حافظ حامد علی صاحب.میر محمد سعید صاحب (حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے) سید فضیلت علی صاحب منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی.راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھ گئے کہ بندوق سے حضور پر فائر کر دیں.لیکن خدا تعالی کی قدرت !! کہ جس راہ سے حضرت اقدس اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے.گو یا خد اتعالیٰ نے اپنی حکمت سے بگھی والوں کے دل میں مخالفت ڈال دی اور بفضلہ تعالیٰ حضور بخریت مسجد جامع کے جنوبی دروازہ کی سیڑھیوں تک پہنچ کر جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھیں.گاڑی سے باہر تشریف لائے.خدام کچھ حضور کے دائیں بائیں ہو گئے اور کچھ عقب میں اور حضور نهایت متانت و وقار سے سیڑھیاں طے فرما کر دروازہ مسجد کے اندر داخل ہوئے.اور صحن مسجد سے گذر کر وسطی محراب مسجد میں رونق افروز ہو گئے.مسجد میں بھی ہزاروں کا مجمع تھا.جس کی تعداد اس ہجوم کی تعداد کو جو سیڑھیوں پر تھا شامل کر کے پانچ ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہوگی.حضور کے دائیں بائیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب وغیرہ بیٹھے اور سامنے حضرت پیر سراج الحق صاحب اور قریب ہی کتب متعلقہ مباحثہ رکھ دی گئی تھیں.اس اثنا میں یوروپین سپرنٹنڈنٹ پولیس اپنے ہمراہ انسپکٹر پولیس اور ایک سو سے زیادہ دردی پہنے ہوئے سپاہیوں کو لے کر آگیا.اور حضرت اقدس کو معہ خدام حلقہ میں لے لیا.تھوڑے وقفہ کے بعد شیخ الکل جناب مولوی سید نذیر حسین صاحب اور انکے شاگرد ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبد المجید صاحب انصاری دہلوی وغیرہ علماء مسجد کے شمالی دروازے سے داخل ہو کر اسی دالان میں بیٹھ گئے جس کا سلسلہ دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد ان لوگوں نے مسجد میں آکر نماز عصر ادا کی اور پھر اسی دالان میں جہاں پہلے بیٹھے تھے چلے گئے.حضرت اقدس کی طرف جو مع خدام مسجد میں تشریف رکھتے تھے نہ آئے.اب مولوی عبد المجید صاحب انصاری وغیرہ جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی شامل نہیں تھے اپنی

Page 445

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۶ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت اپنی جگہ سے اٹھے اور باقی علماء کے نمائندے بن کر پولیس افسر جو دالان کے باہر قریب ہی موجود تھا باتیں کرنے لگے.مولوی سید نذیر حسین صاحب اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے اور ان کے چہرے سے سخت پریشانی کے آثار ظاہر ہو رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب مولوی محمد نذیر حسین صاحب کو ایک رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں موجود ہوں اب آپ جیسا کہ اشتہار ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے حیات و وفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو یہ قسم کھالیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم کا زندہ بحد عصری آسمان پر اٹھایا جانا قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بینہ سے ثابت ہے اس قسم کے بعد اگر ایک سال تک آپ اس جھوٹے حلف کے اثر بد سے محفوظ رہے تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا.مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدس کے رقعہ کا تو کوئی جواب نہ دیا.ہاں اپنے نمائندے کے ذریعہ سے پولیس افسر تک مباحثہ نہ کرنے کا یہ عذر پہنچا دیا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے جب تک اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کر لے ہم حیات و وفات مسیح علیہ السلام کے بارہ میں اس سے ہرگز بحث نہ کریں گے.حضرت اقدس نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اس کے استفسار پر یہ جواب دیا کہ یہ ان (مولوی نذیر حسین صاحب) کے فہم کا قصور ہے.ورنہ میرے تمام عقیدے اہل سنت و جماعت کے بنیادی عقائد کے بالکل مطابق ہیں ان سے انکار کرنے والے کو میں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اس صورت میں ان تمام عقائد مسلمہ میں بحث کیا کروں بحث تو اختلاف کی صورت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں.پس اصل اختلافی مسئلہ حضرت مسیح کی حیات و وفات ہے لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگرد اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس بحث سے بار بار انکار کرتے رہے.پھر قسم کے بارے میں گفتگو ہوئی اس سے بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا کہ مولوی صاحب بوڑھے اور ضعیف ہیں ہم نہ قسم کھا ئیں اور نہ اس پر مولوی صاحب کو آمادہ کریں.ان کے اس قسم کے عذرات سن کر خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل اور آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ حضرت اقدس کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنے عقائد لکھ دیں.لوگوں کا گمان ہے کہ آپ کے عقائد خلاف اسلام ہیں.آپ کا لکھا ہوا میں سنادوں گا.اور ایک نقل اس کی علی گڑھ بھی لے جاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی وقت اپنے عقائد سے متعلق ایک بیان لکھ کر انہیں دے دیا.جو خواجہ محمد یوسف صاحب نے بلند آواز سے پڑھ کر سنا دیا.اور پھر اس بات پر زور دیا کہ جب ان عقائکہ

Page 446

تاریخ احمدیت جلدا ۴۲۷ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت میں در حقیقت کوئی نزاع ہی نہیں فریقین بالاتفاق مانتے ہیں تو پھر ان میں بحث کیونکر ہو سکتی ہے ؟ بحث کے لائق تو وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں یعنی وفات و حیات مسیح کا مسئلہ.جس کے طے ہونے سے سارا فیصلہ ہو جاتا ہے بلکہ حیات مسیح کے ثبوت کی صورت میں مسیح موعود ہونے کا دعوئی ساتھ ہی باطل ہو جاتا ہے.اور بار بار حضرت اقدس کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص بینہ قرآن و حدیث سے حیات مسیح ثابت ہو گئی تو میں مسیح موعود ہونے کے دعوے سے دست بردار ہو جاؤں گا.الغرض خواجہ صاحب نے بہت کوشش کی کہ علماء اس مسئلہ کی طرف آئیں.مگر علماء کو تو اس مسئلہ میں بحث منظور ہی نہیں تھی وہ کیوں اس طرف آتے.انہوں نے صاف انکار کر دیا.اس وقت ایک شخص نے کھڑے ہو کر بڑے درد سے کہا کہ آج تو شیخ الکل صاحب نے دہلی کی عزت خاک میں ملادی اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا.بعض نے کہا کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہو تا تو اس شخص سے ضرور بحث کرتا.یہ تو نزدیک والوں کے خیالات تھے لیکن جو نادان اور جاہل دور کھڑے تھے اور جنہیں معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے وہ مشتعل ہو گئے.اور اپنے خونی پروگرام کی تکمیل کے لئے آمادہ ہونے لگے.پولیس افسر نے یہ دیکھ کر کہ اب فساد ہوا چاہتا ہے اپنے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ مجمع منتشر کر دو.چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ کوئی مباحثہ نہیں ہو گا.سب چلے جائیں.اس اعلان پر حضرت اقدس نے اٹھنے کا قصد فرمایا مگر منشی ظفر احمد صاحب کے یہ عرض کرنے پر کہ مولوی نذیر حسین صاحب وغیرہ بھی تو رخصت ہوں رک گئے بحالیکہ مولوی صاحب موصوف اور ان کے رفقاء اسی دالان میں بیٹھے تھے جس میں دروازہ ہے.اس لئے وہ چلے جانے کا اعلان ہوتے ہی دروازے سے باہر ہو سکے تھے یہ معلوم ہونے پر حضرت اقدس سبھی مع خدام اٹھے.صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس حضور کے ہمراہ تھے.حضور کے بارہ خادموں نے حضور کے گرد حلقہ کر لیا.اور ان کے گرد پولیس کے جوانوں نے.بگھیوں کا دو طرفہ کرایہ ادا کر دیا گیا تھا لیکن باہر آکر معلوم ہوا کہ ایک بگھی بھی موجود نہیں ہے.کیونکہ ایذا رساں بگھی والوں کو بہکا کر پہلے ہی بھگا چکے تھے.اور دوسری تمام مجھیاں وغیرہ مسجد کی سیڑھیوں تک آنے سے روک دی گئی تھیں.حضرت اقدس کو مع خدام کچھ دیر اس انتظار میں رکنا پڑا کہ کوئی بگھی یا گاڑی آجائے.شوریدہ سروں نے جو حضرت اقدس کو دیکھا تو حضور کی طرف بڑھنا شروع کیا.صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہ رنگ دیکھا تو حضور سے کہا ان لوگوں کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے.آپ میری گاڑی میں تشریف لے جائیں حضور مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر اس گاڑی میں بیٹھ گئے تو صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کوچ مین سے کہا کہ جہاں تک جلد ممکن ہو گاڑی کو کو ٹھی میں پہنچاؤ.حضور کے تشریف لے جانے پر لوگوں نے حضور کے خدام سے بحث کرنی چاہی.چونکہ وہ موقع

Page 447

تاریخ احمدیت جلدا ۴۲۸ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت ایسا نہیں تھا اس لئے اعراض کیا گیا.جب تک حضرت اقدس " کو کو ٹھی پر پہنچا کر گاڑی واپس نہیں آگئی صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس مسجد کی سیڑھیوں پر ٹھہرے رہے.اس کے بعد حضور کے خدام روانہ ہوئے تو یہ فرض شناس پولیس افسر لوگوں کو منتشر کرتا رہا.آخر سب خدام بھی بخیرت حضور کی خدمت میں پہنچ گئے.وہلی کے ہر طبقے کی طرف سے مخالفت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اہل دلی کے بعض طبقات میں سے حق پسندی و منصف مزاجی سے تعلق نہ رکھنے اور اپنے معتقدات کے خلاف کچھ سنتے ہی بھڑک اٹھنے والے تو ابتداء ہی سے خلاف انسانیت حرکات میں مشغول تھے لیکن مسجد جامع کے واقعہ نے ان طبقات کے آشفتہ دماغ آتش مزاج اشخاص کو بھی ان کی قیام گاہوں سے نکال کر میدان مخالفت میں کھڑا کر دیا.جو اب تک پہلے مخالفت کرنے والوں کے ساتھ شامل نہیں تھے.بحالیکہ مخالفت کی کوئی معقول وجہ نہ تو پہلے موجود تھی نہ اب.اور اب تو وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے.کہ جس مسئلہ پر بحث کے لئے اور بحث نہ کرنے کی صورت میں قسم کھا کر دلائل وفات مسیح کو غلط اور اپنے عقیدہ حیات مسیح کو صحیح قرار دینے کا مولوی محمد نذیر حسین صاحب سے مطالبہ کیا گیا تھا.وہ انہوں نے پورا نہیں کیا ہے یعنی نہ تو مسئلہ مذکورہ میں بحث کی ہے اور نہ حسب مطالبہ قسم کھائی ہے.اس حالت میں حضرت اقدس کے خلاف جوش و خروش کی تو ان کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اپنے شیخ الکل پر غصہ کرنے یا کم از کم ان کی اس حالت پر کہ نہ انہوں نے بحث کی ہے اور نہ مطالبہ قسم پورا کیا ہے متاسف ہونے کا موقعہ تھا.اگر وہ اس امر پر ایک طالب تحقیق کی طرح غور کرتے کہ مولوی سید نذیر حسین صاحب جیسے شہرہ آفاق عالم نے مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث کیوں نہیں کی اور بحث نہ کر سکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کیوں نہ کھائی عقیدہ حیات مسیح کی حقیقت ان سے مخفی نہ رہتی.اور ان کی سمجھ میں آجاتا کہ جب شیخ الکل نے اس مسئلہ میں بحث نہیں کی اور حسب مطالبہ قسم نہیں کھائی تو ہمارے شور مخالفت برپا کرنے سے کیا ہاتھ آئے گا اور اس سے حیات مسیح کا عقیدہ کسی طرح صحیح ثابت ہو جائے اس اختلافی مسئلہ کی صحت و عدم صحت معلوم کرنے کا ذریعہ تو از روئے آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ مبادلہ خیالات ہی ہے نہ اختلاف رکھنے والے کے خلاف شور و غونما اور طوفان مزخرفات اور یہ سمجھ کر وہ اپنے ہنگامہ بے جا و حرکات نارو اسے باز آجاتے.لیکن چونکہ وہ مخالف علماء کے لگائے ہوئے غلط الزاموں اور باطل اتہاموں سے اتنے متاثر و مشتعل ہو چکے تھے کہ ان میں حضرت اقدس کے خلاف ہنگامے برپا کرنے اور اشتعال پھیلانے کے سوا کسی اور امر کی طرف توجہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی تھی.اس لئے وہ مخالفت ہی میں سرگرم

Page 448

تاریخ احمدیت جلدا ۴۲۹ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت رہے اور یہ مخالفت خاص خاص طبقات کے شورش پسند افراد تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے پیروں فقیروں اور مغربیت زدہ وغیرہ گروہوں کے افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا.اور پہلے پچھلے دونوں قسم کے مخالف اپنی اپنی مناسبت طبع اور ذوق فطری کے مطابق جو ہر دنائت و سفاہت کا مظاہرہ کرنے اور شرافت و انسانیت کو شرمانے لگے اس موقعہ پر ان کی کارستانیوں اور کرتوتوں کی بہت سی گوناگوں مثالوں میں سے صرف ایک ہلکی سی مثال پیش کی جاتی ہے.اور یہ مثال ہے بھی ان کی جو مشہور صحافی بھی ہیں اور بہت سی کتابوں کے مولف و مصنف بھی اور جنہوں نے قرآن شریف اور بخاری شریف کا ترجمہ بھی کیا ہے اور جن کا نام ہے مولوی امراء مرزا صاحب حیرت دہلوی (۱۸۵۸ - ۱۹۲۸) آپ مغربیت کے دلدادہ اور اس پر فخر کرنے والے بھی تھے.اور زمرہ علماء میں سے ہونے کا غرہ رکھنے والے بھی.آپ نے بعض اور علماء کے مشورہ سے اس مضمون کا ایک اشتہار چھپوایا.کہ اصل مسیح میں ہوں جو آسمان سے اترا ہوں اور دلی میں دجال آیا ہوا ہے اور آپ یہ اشتہار لے کر فتح گڑھ کے منار پر چڑھ گئے اور وہاں سے یہ اشتہار پھینکنے لگے.حضرت اقدس نے حیرت صاحب کی اس سفلہ خوئی پر اشتهار مورخه ۲۳ - اکتوبر ۱۸۹۱ء میں دلی والوں کو بڑی شرم دلائی ہے.پھر یہی مرزا حیرت صاحب ایک روز پولیس افسر بن کر حضرت اقدس کے پاس آئے اور کہا میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں.اور مجھے ہدایت ہوتی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کسی غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھریں گے.اور اگر کوئی فساد ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہے.آپ مجھے اپنا بیان لکھوا دیں بلکہ یہاں تک کہا کہ سرکار سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے فورا چلے جاؤ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہو گا.حضرت اقدس نے مرزا حیرت کی طرف ذرہ بھی التفات نہ کیا.صرف سید امیر علی شاہ صاحب نے جو اہلکار پولیس تھے ان سے کچھ دریافت کرنا چاہا.تو وہ گبھرائے اور اپنا بھرم کھلتا دیکھ کر چلتے بنے.اس مثال سے قیاس ہو سکتا ہے کہ جو شخص بہت سی کتابوں کا مصنف و مولف ہو اور قرآن کریم اور بخاری شریف کے مترجم ہونے کا حوصلہ رکھنے والا بھی ہو جوش مخالفت میں ایسی ذلیل و شرمناک حرکتوں سے باز نہ رہ سکا تو اسی جیسا علم اور دل و دماغ رکھنے والوں اور پھر عوام کالانعام کا کیا حال ہو گا.اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے طبائع کا فرق بھی کتنا عجیب ہے جہاں ولی کے ہزاروں آتش مزاجوں اور شورش پسندوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ خیال نہ ہوا کہ مطالبہ تو مسئلہ حیات و وفات حضرت مسیح علیہ السلام میں مباحثہ کا ہے اور وہ پورا ہو سکتا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب کے مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ کر لینے یا نہ کر سکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کھالینے سے ہماری زشت کاریوں اور خشت باریوں اور تمسخر و استہزاء وغیرہ سے وہ کس طرح پورا ہو جائیگا وہاں دلی ہی کے شریف و شائستہ متین و

Page 449

تاریخ احمدیت جلدا ۳۰م ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت سنجیدہ اور امن پسند لوگوں کو ابتداء ہی سے یہ خیال تھا.کہ ایک معزز شخص اپنے چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر ہندوستان کے قدیمی دار السلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی میں وارد ہوا ہے اور اس نے علمی لحاظ سے اس شہر کی عظیم شخصیت سے مسئلہ حیات و وفات حضرت مسیح میں مباحثہ کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی شائع کر دیا ہے کہ اگر از روئے آیات قرآنیہ دو احادیث صحیحیہ حیات حضرت مسیح ثابت کر دی گئی تو اس نے وفات حضرت مسیح کے ثبوت میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ جلا دے گا.اور حیات حضرت مسیح ثابت کرنے والے کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا.کیا انصافا یہ مطالبہ ایسا ہے جو اینٹ پتھر گالی گلوچ اور تمسخر و استہزاء یا اسی قسم کی اور حرکات بے جا و ناروا کے ذریعہ ٹال دیا جائے ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ ہر گز ایسا نہیں بلکہ یہ تو ایسا مطالبہ ہے جس کا پورا کیا جانا اشد ضروری ہے اور مسئلہ متنازعہ حیات و وفات مسیح میں ضرور مباحثہ ہونا چاہیے.لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور طالب مباحثہ کی جائے قیام پر یورش اور کو اڑ تو ڑ کر اندر گھنے اور حسب حوصلہ دل کی بھڑاس نکالنے کا جوش و خروش ٹھنڈا نہ ہو گیا اور چند مسافر مصائب مسلسل کو برداشت نہ کر کے مباحثہ کئے بغیر ہی شہر سے نکل جانے پر مجبور ہو گئے تو نتیجہ نہایت افسوسناک ہو گا.دنیا اسے کبھی اچھی نظر سے نہ دیکھے کی علماء کے اعتبار و وقار میں فرق پڑے گا.حیات مسیح کے عقیدے میں تزلزل پیدا ہو جائیگا بہت سے اسے چھوڑ دیں گے اور بہت سے تذبذب میں پڑ جائیں گے ان تمام امور کے لحاظ سے مباحثہ ہو جانے کی بے حد ضرورت ہے اور کوشش ہونی چاہیے کہ مباحثہ ضرور ہو جائے چنانچہ ایسے ہی خیال والوں میں سے ایک معاملہ فہم و محل شناس انسان کو مباحثہ کا انتظام کر دینے کی توفیق مل گئی.علی جاں والوں کی طرف سے مولوی علی جان والوں کو جو دلی میں ٹوپیوں کی ایک بڑی محمد بشیر صاحب کو دعوت مباحثہ فرم کے مالک اور مذہبا المحدیث تھے اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر ابتدا ہی سے یہ علم تھا کہ دلی کے علماء خواہ وہ احناف میں سے ہوں یا اہلحدیث میں سے - آپ کے ساتھ مسئلہ حیات و وفات مسیح میں مباحثہ کرنے کے لئے حقیقتاً ایک بھی آمادہ نہیں.اشتہار شائع کئے جائیں گے تقریریں ہونگی مگر مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ ہر گز نہ کیا جائے گاوہ خود یہی یقین رکھتے تھے کہ حیات حضرت مسیح کا عقیدہ ایک اسلامی عقیدہ اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے پھر اس میں مباحثہ نہ کرنا کیا معنے.انہیں بڑا دکھ تھا کہ اس مسئلہ میں مباحثہ نہ کئے جانے سے تو عقیدہ حیات مسیح کو بڑی ٹھیس لگے گی.اور یہ بالکل ہی متزلزل ہو جائے گا.علماء دلی سے وہ مایوس چکے تھے اس مسئلہ میں مباحثہ کو ضروری سمجھتے تھے.اس حالت میں وہ مجبور ہو گئے کہ باہر کے علماء میں سے کسی کو اس مباحثہ کے لئے آمادہ کریں اور باہر والوں میں سے ان کی

Page 450

تاریخ احمدیت جلدا ۴۳۱ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت نظر مولوی سید محمد بشیر صاحب سوانی کے سوا اور کسی کی طرف کہاں جاسکتی تھی وہ اس زمانے کے بہت بڑے عالم بھی تھے اور علی جان والوں کے ہم مذہب بھی.آخر اس مباحثہ کے لئے ان کی منظوری حاصل کرلی گئی.مولوی سید محمد بشیر سواں ضلع بدایوں کے رہنے والے اور اہل حدیث کے ایک مشہور و جید عالم تھے اور بعض دوسرے علماء اہل حدیث کی طرح نواب سید محمد صدیق حسن خاں رئیس بھوپال کے قائم فرمائے ہوئے اشاعتی ادارے سے وابستہ اور مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی کی طرح اس کے ممتاز رکن تھے.اور حضرت اقدس" کی کتاب ” براہین احمدیہ " کی اشاعت کے بعد حضور کی فضیلت علمی اور وجاہت و عظمت روحانی کا جو اثر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ کثیر علماء پر ہوا تھا اس سے یہ دونوں موصوف الصدر علماء بھی خالی نہیں تھے لیکن جب حضرت اقدس نے یہ اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موسوی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اور امت محمدیہ میں جس مسیح کی آمد کا مردہ دیا اور وعدہ کیا گیا تھا وہ مسیح میں ہوں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس نہایت ہی عجیب و غریب خیال کی بناء پر کہ اس اعلان سے پہلے مجھ سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا.سرکشی و سرتابی اختیار کرلی اور بڑے جوش و خروش سے مخالفت شروع کر دی.مگر باقی دونوں مذکورہ علماء حضرت اقدس کے دعویٰ پر علیحدہ علیحدہ بھی غور کرنے لگے.اور باہم مبادلہ خیالات کے ذریعہ سے بھی دونوں صاحبوں میں گفتگو تو ہواہی کرتی تھی مگر کسی مقررہ مقام پر نہیں.آخر مولوی محمد بشیر صاحب کے اس مشورہ پر کہ ان مسائل میں بر ملا گفتگو مناسب نہیں.عوام الناس میں مخالفت پیدا ہوتی ہے.مناسب یہی ہے کہ خلوت میں گفتگو ہوا کرے.اور مولوی صاحب موصوف ہی کی تجویز و خواہش پر یہ مبادلہ خیالات مولانا محمد احسن صاحب کے مکان پر خلوت میں ہونے لگا.یہ مبادلہ خیالات مناظرانہ و مخالفانہ نہیں بلکہ محققانہ و محبانہ تھا اور دونوں حضرات نے اس قسمیہ عہد کے بعد شروع کیا کہ جو امر صحیح ثابت ہو گا وہ ضرور قبول کر لیا جائے گا.پہلے روز مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے غیر مطبوعہ رسالہ اعلام الناس جو آپ نے وفات مسیح کے ثبوت اور مولوی عبدالحق غزنولی کے رد میں لکھا تھا مولوی محمد بشیر صاحب کو سنانا شروع کیا.تاجس امر سے انہیں اختلاف ہو اس پر مبادلہ خیالات ہو جائے.مولوی محمد بشیر صاحب نے صرف ایک جگہ اختلاف کیا اور اتنا مضمون مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے رسالہ سے خارج کر دیا.باقی تمام مضمون سے اتفاق کیا.اور نہ صرف اتفاق بلکہ جابجا تائیدی مضمون بھی بیان کئے جو مولوی محمد احسن صاحب نے اس رسالے میں شامل کر لئے.باقی امور میں مبادلہ خیالات جاری تھا کہ اس خلوت کے مبادلہ خیالات کا دوسرے لوگوں کو علم ہو کر عام چر چاہو گیا اور ابھی اس مبادلہ خیالات کے صرف تین ہی جلسے ہو پائے

Page 451

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۳۲ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت تھے کہ یہ سلسلہ ختم کر دینا پڑا اور مولوی محمد بشیر صاحب جس بات سے ڈرتے تھے وہ ہو کر رہی اور جابجا ذکر ہونے لگا کہ یہ دونوں مولوی قادیانی خیالات کے ہو گئے ہیں ان کی وجہ سے یہاں قادیانیت پھیلنے کا سخت خطرہ پیدا ہو گیا ہے.مولانا سید محمد احسن صاحب نے تو اس کی پروا نہ کی.اور حضرت اقدس کی بیعت کر لی.لیکن مولوی محمد بشیر صاحب یہ جرات نہ کر سکے.مولانا محمد احسن صاحب کے بیعت کر لینے سے عوام کے اس خیال کو بڑی تقویت حاصل ہو گئی کہ دونوں مولوی قادیانی ہو گئے ہیں اور کہا جانے لگا کہ ایک تو بے نقاب ہو گئے دوسرے جو کسی مصلحت سے رکے ہوئے ہیں حشران کا بھی وہی ہوتا ہے جو پہلے کا ہو چکا ہے.مولوی محمد بشیر صاحب لوگوں کے ان خیالات و مقالات سے بے خبر نہیں تھے انہوں نے لوگوں کو ان خیالات سے روکنے کے لئے حضرت اقدس کے خلاف تقریر میں شروع کر دیں اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ علی جان والوں نے ان سے دلی تشریف لا کر حضرت اقدس سے مسئلہ حیات و وفات حضرت مسیح علیہ السلام میں بحث کرنے کی درخواست کی اور مولوی صاحب نے یہ سمجھ کر کہ دلی پہنچ کر اس مسئلہ میں بحث کرنے سے وہ الزامات جو ان پر عائد کے گئے اور کئے جارہے ہیں بڑی صفائی سے دور ہو جائیں گے اور ہم جس چیز کو حاصل کرنے کی دنوں سے کوشش کر رہے ہیں وہ بڑی آسانی سے حاصل ہو جائے گی.بڑی خوشی سے منظور کر لی تھی.اور جب دلی والوں نے انہیں بلایا تو وہ دلی پہنچ گئے.مولوی محمد بشیر صاحب دلی میں مولوی صاحب موصوف جب دلی تشریف لے آئے تو غیر مقلد و مقلد دونوں قسم کے علماء نے جو مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث ہو نا کسی طرح مناسب نہیں سمجھتے تھے اور جس طرح بھی ٹال سکے اب تک اسے ٹالتے آئے تھے.جمع ہو کر ان سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس حیات مسیح پر وہ کونسی قطعی الدلالت آیت ہے جو آپ (حضرت اقدس) مرزا صاحب کے مقابلے میں پیش کریں گے مولوی محمد بشیر صاحب نے آیت وان من اهل الكتب الاليو منن به قبل موتہ پڑھی.علماء نے کہا مولوی صاحب! اس آیت شریفہ سے تو اشار تا کنا.یہ بھی حیات مسیح نہیں نکلتی.مولوی صاحب نے کہا میں تو یہی آیت پیش کروں گا.تمام علماء نے کہا کہ ہم اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں اور آپ کی فتح و شکست کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا.مگر مولوی صاحب نے اس کی کچھ پروا نہیں کی.اور ان سے بالکل بے نیاز ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست بھیج دی.کہ آپ مجھ سے مسئلہ حیات و وفات اور نزول مسیح پر مباحثہ کرلیں.حضور نے وہ منظور فرمانی اور مباحثے کی پانچ ضروری شرائط بھی بھجوادیں کہ مباحثہ تحریری ہو گا.فریقین کی طرف سے پانچ پانچ پرچے ہونگے اور پہلا پرچہ آپ کا ہو گا اور سب سے قبل

Page 452

تاریخ احمدیت جلدا ۴۳۳ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت مسئلہ حیات و وفات مسیح پر مباحثہ ہو گا.اس کے بعد نزول مسیح اور پھر آپ کے مسیح موعود ہونے کی بحث ہوگی.مباحثہ کی تاریخ ۲۳- اکتو بر ۱۸۹۱ء مطابق ۱۹- ربیع الاول ۱۳۰۹ھ قرار پائی مباحثے کا آغاز دوسرے دن صبح ۲۳ اکتوبر کو مباحثے کا اہتمام شروع ہوا.ایک بڑا لمباد الان تھا جس کے ایک کمرے میں مولوی عبد الکریم صاحب منشی عبد القدوس صاحب (اخبار " صحیفہ قدی" کے غیر احمدی ایڈیٹر) منشی ظفر احمد صاحب، پیر سراج الحق صاحب اور حضور کے بعض دوسرے خدام بیٹھے تھے کہ مولوی محمد بشیر صاحب بھی اپنے چند رفقاء سمیت آگئے.حضور علیہ السلام مولوی محمد بشیر صاحب کی آمد کی اطلاع پر بالا خانے سے نیچے تشریف لائے.السلام علیکم اور و علیکم السلام کے بعد مولوی محمد بشیر صاحب نے مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی.اس کے بعد حضرت اقدس اور تمام حاضرین بیٹھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ شروع ہونے سے قبل اپنے دعویٰ سے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے رفقاء کو مخاطب کر کے ایک پر معارف تقریر فرمائی.حضور کی یہ تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ مولوی محمد بشیر صاحب دوران تقریر ہی میں بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں والان کے پر لے گوشے میں جا بیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں.دالان میں بہت سے آدمی علی جان والوں کے ساتھ بیٹھے تھے.حضرت اقدس نے فرمایا.بہت اچھا!! چنانچہ مولوی صاحب دالان کے اس گوشہ میں جابیٹھے اور جو مضمون گھر سے لکھ کر لائے تھے نقل کروانے لگے.Ba حالا نکہ شرط یہ تھی کہ کوئی اپنا پہلا مضمون نہ لکھے بلکہ جو کچھ لکھنا ہو گا وہ اسی وقت جلسہ بحث میں لکھنا ہو گا.اس خلاف ورزی پر مولانا عبد الکریم صاحب نے کہا یہ تو خلاف شرط ہے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں مولوی صاحب سے کہہ دوں کہ آپ لکھا ہوا تو لائے ہیں یہی دے دیجئے.تاکہ اس کا جواب لکھا جائے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی بکراہت اجازت دے دی.انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب لکھے ہوئے مضمون کو نقل کرانے کی کیا ضرورت ہے دیر ہوتی ہے لکھا ہوا مضمون دے دیجئے.تاکہ ادھر سے جلدی جواب لکھا جائے.اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہیں جب آپ سوال لکھ کر ہی لائے ہیں تو وہی دے دیں تا حضور جواب لکھیں.مولوی صاحب نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے گھبرا کر جواب دیا.نہیں نہیں میں مضمون لکھ کر تو نہیں لایا صرف نوٹ لکھ لایا تھا.جنہیں مفصل لکھ رہا ہوں.حالانکہ وہ مضمون کو حرف بحرف ہی لکھوا رہے تھے اس کے جواب میں پیر صاحب نے کچھ کہنا چاہا.مگر حضرت اقدس نے انہیں روک دیا.اور حضور نے منشی ظفر احمد صاحب سے یہ فرما کر کہ جب مولوی صاحب

Page 453

تاریخ احمدیت.جلدا مام ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت مضمون دیں تو مجھے بھیج دیا جائے.بالا خانے پر تشریف لے گئے اور مولوی صاحب کے مضمون دینے پر منشی صاحب نے وہ لے جاکر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.حضرت اقدس نے مولوی صاحب کے مضمون پر پہلے صفحہ سے لے کر آخر صفحہ تک بہت تیزی سے نظر فرمائی اور اس کا جواب لکھنا شروع کر دیا.جب مضمون کے دو ورق تیار ہو گئے تو حضور منشی ظفر احمد صاحب کو نیچے نقل کرنے کو دے آئے.ایک ایک ورق لے کر مولوی عبد الکریم صاحب اور عبد القدوس صاحب نے نقل کرنا شروع کیا.اسی طرح منشی صاحب حضرت صاحب کا مسودہ لاتے اور یہ دونوں صاحب نقل کرتے رہتے.حضرت اقدس اتنی تیزی سے لکھ رہے تھے کہ عبد القدوس صاحب جو خود بھی بڑے زور نویس تھے متحیر ہو گئے.اور حضور کی تحریر پر انگلی کا پورا لگا کر سیاہی دیکھنے لگے کہ یہ کہیں پہلے کا لکھا ہوا تو نہیں.منشی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہو گا.کہ جواب پہلے سے لکھا ہوا ہے.حضرت اقدس کی یہ حیرت انگیز قوت تصنیف دیکھ کر مولوی محمد بشیر صاحب کو حضور کی خدمت میں درخواست کرنی پڑی کہ اگر آپ اجازت دیدیں تو میں کل اپنے جائے قیام ہی سے جواب لکھ لاؤں.حضور نے بے تامل اجازت دیدی اور پھر مولوی صاحب نے مباحثہ کے ختم ہونے تک یہی طریقہ رکھا.کہ حضرت اقدس کا مضمون ملنے پر حضور سے اجازت لے کر اپنے جائے قیام پر چلے جاتے اور مضمون وہیں سے لکھ کر لاتے انہوں نے سامنے بیٹھ کر کوئی مضمون تحریر نہیں کیا.اب فریقین کے تین تین پرچے ہو چکے تھے اور مولوی صاحب کے اس مسئلہ سے متعلق جو ذخیرہ تھا وہ ختم ہو چکا تھا جو کچھ انہوں نے کہنا تھا وہ انہوں نے کہہ لیا تھا.اور حضرت اقدس نے ان کی ہر دلیل کا جواب دید یا تھا اور جو پرچے لکھے جاچکے وہ ہر منصف مزاج طالب تحقیق کے لئے کافی تھے.مباحثہ کو خواه مخواه طول دینا وقت کو ضائع کرنا تھا.اور جب مولوی صاحب نے سامنے بیٹھ کر لکھنے کی شرط پر عمل کرنے سے روگردانی کرلی تھی مضمون گھر سے لکھ کر لاتے تھے اور اس قسم کا مباحثہ اپنے اپنے مقام پر موجود رہ کر بھی ہو سکتا تھا اس کے لئے حضور کے دلی میں مقیم رہنے کی ضرورت نہیں تھی.اس لئے حضور نے فریقین کے تین تین پر چے تحریر ہو جانے پر مباحثہ ختم کر دیا.اور مولوی صاحب سے فرمایا کہ جب آپ کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں رہی تو پھر خواہ مخواہ تحریر بڑھانے سے کیا فائدہ؟ بحث ختم ہو جانے پر مولوی محمد بشیر صاحب حضرت اقدس سے ملنے آئے اور کہا کہ میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے آپ کو اس بحث کے لئے جو تکلیف دی ہے اس کی معافی چاہتا ہوں.اس مباحثہ کی روداد " الحق دہلی" کے نام سے شائع ہوئی ۱۴۵۱

Page 454

تاریخ احمدیت.جلد ۴۳۵ ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت سفر لدھیانہ مباحثہ دلی کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت لدھیانہ تشریف لائے اور یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب فرمایا.سیالکوٹ وغیرہ شہروں سے بہت سے خدام آئے ہوئے تھے.تقریر کے بعد منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے عرض کیا کہ حضور ہماری مسجد کا مقدمہ دائر ہے.شہر کے تمام رئیس اور کپور تھلہ کے جملہ حکام فریق مخالف کی امداد کر رہے ہیں اور ہم چند احمدیوں کی بات بھی کوئی نہیں سنتا.حضور دعا فرمائیں.منشی فیاض علی صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے جلالی رنگ میں فرمایا.اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آئے گی، منشی صاحب نے یہ پیشگوئی مدعا علیہم اور شہر والوں کو سنادی.اور مسجد میں ایک تحریر بھی لکھ کر چسپاں کر دی.اب اتفاق یہ ہوا کہ چیف کورٹ کے جج نے پہلی ہی پیشی میں فریقین کی موجودگی میں کہہ دیا.کہ مسجد کا بانی غیر احمدی تھا.لہذا احمدی اپنی مسجد علیحدہ بنالیں.میں پرسوں مسل پر حکم لکھ دوں گا.حج کے اس زبانی فیصلہ پر غیروں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر خوب مذاق اڑایا.لیکن تیسرے ہی دن ان کی ساری خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ عین اس وقت جب کہ یہ حج عدالت میں جانے سے قبل گھر میں حقہ کی انتظار میں بیٹھا تھا اس کی حرکت قلب بند ہو گئی اور وہ مسل پر حکم لکھنے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے کر کوچ کر گیا.اس حادثہ کے بعد چیف کورٹ کی طرف انگریزی علاقہ سے ایک آریہ بیرسٹر کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس سے مقدمہ کے بارے میں رائے طلب کی گئی اس موقعہ پر فریق مخالف نے حصول مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگروہ نا کام رہا.اور بالاخر ۱۹۰۵ء میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیدیا گیا اور مسجد احمدیوں کو مل گئی.سفر پٹیالہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانے سے پٹیالہ تشریف لے گئے جہاں حضور کے خسر میر ناصر نواب صاحب ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے.حضور کے یہاں درود فرماتے ہی مولوی محمد اسحاق صاحب وغیرہ نے آپ کے خلاف عوام میں مخالفت کی آگ سی لگادی.وہ قیام پٹیالہ کے دوران میں ایک دن (۳۰- اکتوبر) حضرت اقدس کی فرودگاہ پر آئے اور حضور سے وفات مسیح کے متعلق بالمشافہ گفتگو کی.مولوی محمد اسحاق صاحب نے دوسرے علماء کے مسلک سے کچھ اختلاف کرتے ہوئے کہا.کہ

Page 455

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶ ازالہ اوہام کی تصنیف و اشاعت اس قدر تو ہم بھی مانتے ہیں.کہ بعض احادیث میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہو گئے تھے مگر وہ پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے.اور پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے.حضرت اقدس نے اس کے جواب میں ایک نہایت مبسوط تقریر فرمائی.اور قرآن و حدیث کے متعدد دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام یقینی طور پر فوت ہو چکے ہیں.مولوی محمد اسحاق صاحب کے ہمراہ ایک دوسرے عالم مولوی غلام مرتضی صاحب بھیردی بھی آئے تھے جنہوں نے ایک مسئلہ کی تحقیق میں استہزاء شروع کر دیا.اس پر مولوی محمد عبد اللہ صاحب پروفیسر مہندر کالج پٹیالہ نے (جو اس وقت احمدی نہیں تھے ) کہا.مولوی صاحب آپ نے تہذیب سے کام نہیں لیا.آپ کی مولویانہ شان سے بعید ہے کہ ایسی سوقیانہ باتیں کریں.بعد میں حضرت اقدس نے مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے دریافت فرمایا کہ یہ کون صاحب تھے جنہوں نے مولوی غلام مرتضیٰ صاحب کو ڈانٹا.ان سے ایمان کی خوشبو آتی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پروفیسر محمد عبد اللہ صاحب اپنے خاندان سمیت بیعت میں داخل ہو گئے مولوی محمد اسحاق صاحب اور ان کے رفقاء نے مولوی محمد اسحاق صاحب پر اتمام حجت حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے مشہور کر دیا کہ انہوں نے اس گفتگو میں فتح پائی ہے.حضرت اقدس نے پٹیالہ کے عوام کو اس گمراہ کن پراپیگنڈہ سے بچانے کی غرض سے ۳۱- اکتوبر کو ایک اشتہار میں اصل واقعات لکھ دیے اور مولوی محمد اسحاق صاحب کو تحریری مباحثہ کا کھلا چیلنج دیا.مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی.حضرت اقدس علیہ السلام پٹیالہ میں مختصر قیام کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے.

Page 456

تاریخ احمدیت جلدا ۴۳۷ حواشی ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت عام تغییر و فتح البیان جلد ۲ صفحه ۴۹ الرساله مصر ۱۱ مئی ۱۹۴۲ء جلد ۱۰ صفحه ۶۴۲ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۰-۱۱- اپریل ۱۹۵۸ء ملاحظہ ہو رسالہ چٹان لاہور یکم دسمبر ۱۹۵۸ ۶ و ۱۹ جنوری ۲۶۴ جنوری ۲ فروری ۱۹۵۹ء - اخبار آزاد " لاہور نے ۱۲- اکتوبر ۶۱۹۵ کو " داستان حرم " کے عنوان سے الحاج ابو ظفر نازش رضوی کی ایک نظم شائع کی جس کا ایک شعر یہ تھا.جناب موسیٰ و عیسی کے بعد دنیا سے ہوئے رسول معظم بھی سوئے خلد رحیل تعلیم یافتہ مسلمانوں کا رحجان اس نظریہ کے بارے میں کتنی تیزی سے بدل رہا ہے اس کا اندازا اس سے کیجئے کہ حال ہی میں لاہور کے مشهور اشاعتی اداره مکتبہ جدید نے بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ " پر ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کے صفحہ ۲۳۴ پر حضرت مسیح کی وفات کا سال بھی معین رنگ میں درج کیا گیا ہے یعنی ۳۰ء ۵ نقش آزاد صفحه ۱۰۲ مرتبه مولانا غلام رسول مہر ناشر کتاب منزل لاہور چنانچہ خطبات نبوی صفحه ۲۴۱ ( شائع کرده تاج کمپنی) میں لکھا ہے اس کے بعد عیسی بن مریم علیہ السلام میری امت میں انصاف کرنے والے حاکم کی حیثیت میں پیدا ہو نگے".رساله تذکره "کراچی مارچ ۱۹۵۸ صفحه ۲۰ آزاد کی کہانی مولانا آزاد کی زبانی " صفحہ ۱-۱۳ مطبوعہ حالی و پیشنگ ہاؤس دہلی) ترندی مصری جلد ۲ صفحه ۲۸ ازالہ اوہام " طبع اول صفحه ۵۱۵-۵۱۶ موج کوثر ، طبع دوم ۲۰۳ الله بخاری مصری جلد ۴ صفحه ۱۵۴ بطور ثبوت ملاحظہ ہو خواجہ حسن نظامی دہلوی کی کتاب " الامر " نیز " حکمت بالغہ " مولفہ ابو الجمال احمد مکرم عباسی مطبوعہ حیدر آباد ۰۵۱۳۳۲ - Iluman origin مصر Lalng 9 صفحہ ١٣٦ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۳ - اپریل ۱۹۵۸ء ۱۴ سوره مانده رکوع آخرمی ۱۵- ازالہ اوہام صفحه ۹۱۸-۹۱۹ ( طبع اول) خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ مسیح کے سوا کوئی مہدی نہیں (ابن ماجہ جلد ۲ مصری صفحه ۲۵۷) ازالہ اوہام صفحہ ۵۱۸-۵۱۹) طبع اول) ۱۸- رساله نور احمد نمبر صفحه ۱۳-۱۵ مرتبہ حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس ہال بازار امرتسرا ریویو آف ریلیجز، اردو جنوری ۱۹۴۲ و صفحه ۴۷ ۲۱ تذكرة المهدى حصہ اول صفحه ۳۰۲/۳۳۹ ریویو آف ریلیجز اردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۴۷ تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۲۶۰۲۳ ۲۲- تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۲۴-۳۲۶ ۲۳ ايضا صفحه ۳۳۴ -۲۴ " تبلیغ رسالت " جلد دوم صفحه ۳۴-۳۵ و سیرت المهدی حصہ دوم صفحه ۷ ۸ ( روایت ۴۱۹) ۲۵ تذكرة المهدی " حصہ اول صفحه ۳۲۲۰۳۴۱ " تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۳۸

Page 457

تاریخ احمدیت جلدا ۳۸ تبلیغ رسالت " جلد دوم صفحه ۳۲ " تذكرة المهدی" جلد اول صفحه ۳۲۳ ۲۸ زكرة المهدي " جلد اول صفحه ۳۳۳ "ذكرة المهدي " حصہ اول صفحه ۳۴۳-۳۴۴ ۳۰ سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۸۷ و تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۴۴ ا تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۴۴-۳۴۵ ۳۲- تاریخ وفات ہے.اپریل ۱۹۱۵ء ۳۳ ریویو آف ریلیجر " اردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۵۵ روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب ee ۳۴- " تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۴۰ ۳۵ تذكرة المهدی حصہ اول ۳۴۳ تا ۳۴۹ تذكرة الممدی حصہ اول صفحه ۳۴۹-۳۵۰ ۳۷- ايضا ۳۸ و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۴۵۰۴۳ ازالہ اوہام " کی تصنیف و اشاعت ۳۹ " تذكرة المهدى " حصہ اول صفحه ۳۵۲۰۳۳۵ و " ریویو آف ریلیجه "اردو جنوری ۱۹۴۲ صفحه ۵۴-۵۵ - تذكرة المهدی حصہ اول صفحه ۳۲۳-۳۲۴ و ریویو آف ریلیجرز اردو ۱۹۴۲ء صفحه ۴۸ ۱ ریویو آف ریلی اردو - جنوری ۱۹۳۲ صفحه ۴۸ ۴۲ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۷ ۱۷۸۰۱۷- و " الحق " ریلی ۴۳.حیات احمد جلد سوم صفحہ ۱۷۹-۱۸۰ ۴۴ اسی دن مولانا سید محمد احسن صاحب نے بھوپال سے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا تھا کہ مولوی محمد بشیر صاحب چھ مہینے سے مضمون لکھ رہے ہیں ان کی کل کمائی بس یہی ہے.یہ بات اس دن درست نکلی جب انہوں نے اپنا لکھا ہوا مضمون لکھوانا شروع کر دیا.۴۵ مباشہ کے تفصیلی واقعات "الحق دہلی " تذکرة المدى " حصہ اول صفحه ۳۱۷-۳۵۶٬۳۲۱.ریویو آف ریلیجر " اردو جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۳۸ تا ۵۱ اور روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) جلد اول صفحہ ۲۰۹ سے ماخوذ ہیں.م الفضل ۲۹ - جولائی ۶۱۹۵۸ صفحه ۳-۴- بدر ۱۲- جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۸ کالم نمبر ۲ ۴۷.حیات احمد " جلد سوم صلح ۱۸۴ ۴۸ اشتهار واجب الاظهار " مندرجه تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۵۶-۵۷

Page 458

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۳۹ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت آسمانی فیصلہ کی تصنیف و اشاعت اور علماء کو روحانی مقابلہ کی پہلی عام دعوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دسمبر ۱۸۹۱ء میں ایک لطیف رسالہ " آسمانی فیصلہ" تصنیف فرمایا.اس وقت تک حضور روحانی مقابلہ کا چیلنج غیر مذاہب والوں کو دیا کرتے تھے اب آپ نے اس رسالہ میں تمام کفر علماء مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہمنوا دوسرے مولویوں ، صوفیوں ، پیرزادوں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کو بھی اس میں شامل کر دیا اور لکھا کہ وہ آپ سے کامل مومنوں کی قرآنی علامات مثلاً امور غیبیہ کا اظہار، دعاؤں کی قبولیت اور معارف قرآن کا انکشاف وغیرہ کی روشنی میں روحانی مقابلہ کرلیں.اور ساتھ ہی یہ تجویز بھی فرمائی کہ اس مقابلہ کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے لئے پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں ایک انجمن قائم کی جائے اور اس کے ممبر فریقین کی رضامندی سے مقرر ہوں.یہ انجمن ایک سال تک ان علامات سے متعلق فریقین کے کوائف کا ریکارڈ رکھے اور کثرت کی صورت میں اس روحانی معرکہ آرائی میں حق و صداقت کا فیصلہ کیا جائے.اس ضمن میں حضور نے یہ شرط بھی عائد کی کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں کوئی فریق وفات پا جائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص ارادہ سے اس کے کام کو نا تمام رکھا نا کہ اس کا باطل پر ہونا ظاہر کرے.

Page 459

تاریخ احمدیت.جلدا پہلا سالانہ جلسه تشکیل ہم ۴۴۰ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت سالانہ جلسہ کی بنیاد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے " آسمانی فیصلہ" میں مجوزہ انجمن کی مزید غور کرنے کے لئے جماعت کے دوستوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ۲۷- دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان پہنچ جائیں چنانچہ اس تاریخ کو مسجد اقصیٰ میں احباب جمع ہوئے.بعد نماز ظہر اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.سب سے قبل مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس کی تازہ تصنیف (آسمانی فیصلہ) پڑھ کر سنائی.پھر یہ تجویز رکھی گئی کہ مجوزہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان ہوں.اور کس طرح اس کی کارروائی کا آغاز ہو.حاضرین نے بالاتفاق یہ قرار دیا کہ سر دست یہ رسالہ شائع کر دیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کر کے متراضی فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں.اس کے بعد جلسہ ختم ہوا.اور حضرت اقدس سے دوستوں نے مصافحہ کیا.یہ جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا تاریخی اجتماع اور پہلا سالانہ جلسہ تھا جس میں مندرجہ ذیل ۷۵ احباب شامل ہوئے تھے.نشی محمد رد را صاحب نقشہ نویس محکمہ مجسٹریٹ کپور تھلہ منشی تابدین صاحب اکو شنٹ دفتر اگزیمز منشی محمد عبد الرحمن صاحب محرر محکمہ جرنیلی کپورتھلہ منشی نبی بخش صاحب کلارک دفتر اگزیمز لاہور مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گمشی منشی محمد حبیب الرحمن صاحب رئیس کپور حملہ حافظ فضل احمد صاحب دفتر اگزیمز نشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس کپور حمله مولوی رحیم اللہ صاحب نشی شمس الدین صاحب کلرک دفتر ایگزیمز منشی محمد خان صاحب اہلمد فوجداری کپور تھلہ منشی عبدالرحمن صاحب کلارک لوکو آفس منشی سردار خان صاحب کو رٹ دفعدار کپور تھلہ نشی امداد علی صاحب محرر سرشتہ تعلیم کپور تھلہ مولوی عبدالرحمن صاحب مسجد چینیاں مولوی محمد حسین صاحب کپور تھلہ کپور تھلہ منشی کرم الہی صاحب حافظ محمد علی صاحب کپور تھلہ کپورتھلہ سید ناصر شاہ صاحب سب او در مسیر اوور حافظ محمد اکبر صاحب مرزا خد ابخش صاحب اتالیق نواب مالیر کو ٹلہ نشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے لاہور ڈپٹی حاجی سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار حاجی خواجہ محمد الدین صاحب رئیس میاں محمد چٹو صاحب رکیں لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک و مہتمم سیالکوٹ پنجاب پریس و میونسپل کمشنر لاہور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ لاہور میر حامد شاہ صاحب اہلمد معافیات سیالکوٹ

Page 460

تاریخ احمدیت.جلدا امام سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت خلیفہ رجب الدین صاحب رئیس منشی محمد دین سابق گرد آور حکیم فضل الدین صاحب رئیس بھیرہ میاں نجم الدین صاحب رئیس بھیرہ لاہور میر محمود شاہ صاحب نقل نویس سیالکوٹ حاجی نظام الدین صاحب شیخ عبد الحق صاحب نشی احمد اللہ صاحب محالدار محکمہ پر مٹ جموں مولوی محکم الدین صاحب مختار امر تسر جموں شیخ نور احمد صاحب مالک مطیع ریاض ہند سید محمد شاہ صاحب رئیس مستری عمر الدین صاحب جموں خشی غلام محمد صاحب کاتب مولوی نور الدین صاحب حکیم خاص ریاست جموں میاں جمال الدین صاحب ساکن موضع خلیفہ نور الدین صاحب صحاف قاضی محمد اکبر صاحب سابق تحصیلدار جموں میاں امام الدین صاحب جموں میاں خیر الدین صاحب شیخ محمد جان صاحب ملازم را جه امر سنگھ صاحب وزیر آباد میاں محمد عیسی صاحب مدرس مولوی عبد القادر صاحب مدرس جمالپور میاں چراغ علی صاحب سیالکوٹ لدھیانه لدھیانہ امرتسر سیکھواں سیکھواں سیکھواں نوشهره ساکن تحد غلام نبی شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات شیخ شهاب الدین صاحب ساکن تھہ غلام نبی شیخ عبدالرحمن صاحب بی.اے منشی غلام اکبر صاحب یتیم کلرک اگریمز آفس منشی دوست محمد صاحب سارجنٹ پولیس گجرات میاں عبداللہ صاحب لاہور حافظ عبد الرحمن صاحب جمون دارو نه نعمت علی صاحب ہاشمی عباسی بٹالوی ساکن موبل ساکن موہیاں مفتی فضل الرحمن صاحب ، کیس جموں حافظ حامد علی صاحب ملازم مرزا صاحب خشی غلام محمد صاحب خلف مولوی دین محمد لاہور حکیم جان محمد صاحب امام مسجد قادیانی اہ میں شیر شاہ صاحب مجذوب صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جموں بابو علی محمد صاحب رکھیں بٹالہ قاضی خواجه علی صاحب مهیایدار شکرم لدھیانہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب قادیانی لدھیانہ میاں بڑھے خان نمبردار بیری حافظ نور احمد صاحب کارخانه دار پیشینه لدھیانہ میرزا محمد علی صاحب رئیس پٹی شہزادہ حاجی عبد المجید صاحب حاجی عبد الرحمن صاحب شیخ شهاب الدین صاحب لدھیانہ شیخ محمد عمر صاحب خلف حاجی غلام محمد صاحب بٹالہ لدھیانه لدھیانه مستقل رنگ میں سالانہ جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ حضرت اقدس نے ۱۸۹۱ء میں جلسہ کے معابعد بذریعہ اشتہار تمام جماعت کو اس فیصلے کی اطلاع دی کہ آئندہ ہر سال ۲۹٬۲۸٬۲۷- دسمبر کی تاریخوں میں جماعت کا جلسہ منعقد ہوا کرے گا.

Page 461

تاریخ احمدیت جلدا ۴۲ ہم سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت ۱۸۹۲ء کے دوسرے جلسہ کی روداد چنانچہ اگلے سال دسمبر ۱۸۹۲ء سے یہ بابرکت اجتماع مستقل طور پر شروع ہوا.جس کا سلسلہ خدا تعالٰی کے فضل سے پوری کامیابی سے اب تک جاری ہے.۱۸۹۲ء کا جلسہ جو بڑا جلسہ کہلاتا ہے ڈھاب کے کنارے ایک وسیع چبوترہ پر ہوا.جو ڈھاب کی بھرتی سے جلسہ گاہ کے قریب ہی تیار ہوا تھا.یہی وہ چبوترہ ہے جس پر بعد کو مدرسہ احمدیہ مہمان خانہ اور حضرت خلیفہ المسیح اول کا مکان تیار ہوا.مگر جلسے کے وقت ان عمارتوں کی فقط بنیادیں اٹھی تھیں.۱۸۹۲ء کی جلسہ گاہ کے متعلق خفیف سا اختلاف ہے.حضرت منشی محمد جلال الدین صاحب بلانوی کی روایت کے مطابق ۱۸۹۲ء کا جلسہ ڈاکٹر غلام غوث صاحب کے مکان سے ملحق مہمانخانہ کی جگہ پر ہوا.لیکن حضرت مرزا برکت علی صاحب نے اپنے نقشے میں جو اصحاب احمد جلد اول ضمیمہ صفحہ ۱۴ میں شائع ہوا ہے اس کا مقام مهمانخانہ اور قدیم مطبع ضیاء الاسلام (یعنی موجودہ بک ڈپو) کے درمیان قرار دیا ہے چنانچہ ان کا نقشہ یہ ہے.شمال مطبع ضیاء الاسلام مقام جلسہ سالانه ۶۱۸۹۲ مهمان خانه جنوب پہلے دن کی کارروائی ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو جلسہ گاہ میں ایک اونچے چوبی تخت پر حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے قالین بچھا دیا گیا اور حضور اس پر جلوہ افروز ہوئے

Page 462

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۴۳ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت اور چاروں طرف احباب فرش پر بیٹھے.سامنے شمال کی طرف حضرت مولانا نور الدین صاحب اور مغرب کی طرف حضرت مولانا برہان الدین صاحب جعلمی اور گوشہ مغرب و جنوب میں پیر سراج الحق " -2 صاحب نعمانی اور ان کے داہنی طرف مولانا سید محمد احسن صاحب فاضل امرد ہوی بیٹھ گئے.سب سے پہلے حضرت مولانا نور الدین نے وفات مسیح کے متعلق ایک پر معارف تقریر کی.ازاں بعد سید حامد شاہ صاحب نے ایک قصیدہ مدحیہ منایا.اس کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے توضیح مرام " کا وہ مقام نکالا جس پر مولویوں نے ملائکہ کی بحث پر نادانی سے اعتراض کیا تھا اور بڑی شرح وبسط سے ایک روح پر در تقریر فرمائی.جس سے حاضرین کے دل پگھل گئے اور سب پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی.اس ایمان افروز خطاب کے علاوہ حضور نے عصر اور مغرب کے بعد بھی اپنے خدام کو روح پر در کلمات سے نوازا.دوسرے دن ۲۸- دسمبر ۱۸۹۲ء کو یورپ اور امریکہ میں تبلیغ دوسرے دن کی کارروائی اسلام کے لئے ایک مجلس شوری منعقد ہوئی جس میں معزز حاضرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور قرار پایا کہ ایک رسالہ جو ضروریات اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ نمایاں کرتا ہو.یورپ اور امریکہ میں مفت تقسیم کیا جائے اس کے بعد قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے کے لئے تجاویز پیش ہو ئیں اور ایک فہرست ان اصحاب کے چندہ کی مرتب کی گئی جو مطبع کے لئے چندہ بھیجتے رہیں گے.یہ بھی قرار پایا کہ ایک اخبار اشاعت حق اور ہمدردی اسلام کے لئے جاری کیا جائے نیز تجویز ہوئی کہ مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی اس سلسلے کے واعظ مقرر ہوں او روہ پنجاب اور ہندوستان کا دورہ کریں.مجلس شوری میں سالانہ جلسہ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور دیگر انتظامات کی غرض سے ایک کمیٹی بھی تجویز کی گئی جس کے صدر حضرت مولانا نور الدین صاحب اور سیکرٹری مرزا خدا بخش صاحب بنے اور شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر محجرات.منشی غلام قادر صاحب فصیح میونسپل کمشنر سیالکوٹ اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ممبر قرار پائے.مجلس شورٹی کے ان اہم فیصلوں کے بعد دعا پر جلسہ برخاست ہوا.اس جلسہ میں کم و بیش چالیس افراد نے بیعت کی.سالانہ جلسہ کہاں کہاں منعقد ہوا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ۱۸۹۲ء کے سالانہ جلسہ کے سوا (جو ڈھاب کے کنارے ہوا) باقی جلسے مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوئے.خلافت اولی کے ابتدائی پانچ برسوں میں بھی ان کا انعقاد مسجد اقصیٰ ہی میں ہو تا رہا.لیکن ۱۹۱۳ء ] سے ۱۹۲۳ء تک مسجد نور جلسہ گاہ رہی.اس کے بعد ۱۹۲۴ء میں

Page 463

1 تاریخ احمدیت.جلدا سهم سهم سهام سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت سامعین کی کثرت کے پیش نظر مسجد نور سے باہر میدان میں اس مبارک اجتماع کا آغاز ہوا اور ۱۹۴۶ء تک ۲۲ جلسے اس سرزمین میں منعقد ہوئے.ملکی تقسیم کے بعد قادیان میں ۱۹۴۷ء کا جلسہ سالانہ دوبارہ مسجد اقصیٰ ہی میں منعقد ہوا.اور پھر وہ ۱۹۴۸ء میں باب الانوار کے پرانے زنانہ جلسہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا.چنانچہ قادیان کا جلسہ سالانہ اب اسی مقام پر ہوتا ہے.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد قادیان کی نیابت میں لاہور میں ایک جلسہ ہوا اور پھر ۱۹۴۸ء کا جلسہ بجائے دسمبر کی مقررہ تاریخوں کے اپریل ۱۹۴۹ء میں ربوہ میں ہوا.بعد ازاں دسمبر ۱۹۴۹ء سے دسمبر ۱۹۸۳ء تک باقاعدگی کے ساتھ ربوہ میں ہر سال جلسه منعقد ہو تا رہا ۱۹۸۵ء سے اس کا انعقاد اسلام آباد لنڈن میں ہو رہا ہے.۱۸۹۳ء کا سالانہ جلسہ بعض وجوہ سے ملتوی کرنا سالانہ جلسہ کی کارروائی کی رپورٹیں پڑا.اس کے بعد ۱۸۹۶ء تک کے سالانہ جلسہ کی روداد کی اشاعت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا.اس لئے ان کی تفصیل کا ریکارڈ موجود نہیں.البتہ ۱۸۹۷ء کے جلسے پر (جو ۲۵ دسمبر ۱۸۹۷ء سے یکم جنوری ۱۸۹۸ء تک جاری رہا) مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے اس کی طرف پہلی مرتبہ توجہ دلائی جس پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے ۱۸۹۷ء کے سالانہ جلسہ کی مفصل رپورٹ " تحفہ سالانہ" کے نام سے جنوری ۱۸۹۹ء میں شائع کی.اس کے بعد چونکہ اخبار الحکم اور البدر کا اجراء عمل میں آچکا تھا.اس لئے انکے کالموں میں ہر جلسہ کی رپورٹیں پورے اہتمام سے شائع ہوتی رہیں.پھر خلافت ثانیہ کا دور شروع ہوا تو اخبار الفضل نے مستقل طور پر یہ مقدس ذمہ داری اٹھالی.سالانہ جلسہ کا آغاز مشکلات کے سالانہ جلسہ کے اجراء میں مشکلات اور تائید غیبی ہجوم میں ہوا.حضرت اقدس" کے خلاف فتویٰ کفر نے ملک بھر میں مخالفانہ فضا قائم کر دی تھی.علاوہ ازیں مسجد چینیانوالی لاہور کے امام مولوی رحیم بخش صاحب نے زور شور سے فتوی دیا کہ ایسے جلسے میں جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.مذہبی اعتبار ہی سے نہیں بلکہ اقتصادی اعتبار سے بھی اس اجتماع کا سلسلہ جاری رہنا بظا ہر نا ممکن تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جہاں قدم قدم پر تائید و نصرت فرمائی وہاں پردہ غیب سے اس مبارک تقریب کے جاری رہنے کے سامان بھی پیدا کر دیے.چنانچہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کا بیان ہے کہ " ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا.ان دنوں سالانہ جلسہ کے لئے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب

Page 464

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۷۴۵ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سالن نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کرلیں.چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا.دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں.فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا.اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا.اگلے دن آٹھ یا نو بجے جب چھٹی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا چھٹی رسان کے ہاتھ میں دس یا پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے سو سو پچاس پچاس روپے کے.اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور رہیں.مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں آپ نے وصول فرما کر توکل پر تقریر فرمائی.کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا.اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے.اور ایسا ہی ہوتا ہے.کہ جب ضرورت ہوتی ہے.تو فورا خدا تعالٰی بھیج دیتا ہے".سالانہ جلسے کے سو سالہ اعدادو شمار سالانہ جلسہ کے کوائف ختم کرنے سے پیشتر ۱۸۹ء سے ۱۹۹۱ء تک کے جلسہ میں شامل ہونے والے حاضرین کے اعداد و شمار کا مفصل خاکہ درج ذیل کیا جاتا ہے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بابرکت اجتماع خدائی نصرتوں کا کتنا ز بر دست تاریخی نشان ثابت ہو رہا ہے.(نوٹ :- ؟ اس علامت کا مطلب یہ ہے کہ مولف کو اب تک اس سال کے اعداد و شمار سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر سے فراہم نہیں ہو سکے)

Page 465

تاریخ احمدیت جلدا جلسه تعداد حاضرین 070 ۶۱۸۹۳ (جلسہ ملتوی ہو گیا) ۹۵ - ۱۸۹۴ء ؟ ملتوی FIARY FIASZ C $1Ʌ49 *14++ 51901 ۴۶ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت جلسه ۱۹۳۰ء ۴۱۹۳۲ ۶۱۹۳۳ تعداد حاضرین ۷۳۱۶ سے زیادہ ۱۸۷۷۶ قريباً ۲۰۷۵۲ قربان ۹۱۴۳ سے زیادہ تا ؟ ۱۹۳۵ء ۲۱۲۷۸ قريبا ۲۵۸۵۴ قريبا ۲۷۹۹۸ قريبا ۳۲۴۷۹ قریباً ه ۳۹۹۵۰ قربان ۳۳۷۸۳ قربان ۳۰۰۰۰ قریبا قربان ۲۳۷۶۰ قریباً قربان ۲۷۲۵۶ قريبا ۵۴۱ ۲۳۶۰۰ قریبان ده ۶۱۹۴۵ +1974 ۳۲۴۴۵ قربان ۳۹۷۸۶ قربان Fler A ۲۵۰۰ ۴۱۹۳۹ ؟ ۶۱۹۴۰ ۶۱۹۴۱ ۶۱۹۴۲ ۶۱۹۴۳ ۶۱۹۰۲ ١٩٠٣ ۴۱۹۰۴ *19*0 لمتوي.؟ ؟ ؟ ۱۵۰۰ تریبا *19*2 +19+A ۶۱۹۰۹ *1910 +1911 ۴۱۹۱۲ ۶۱۹۱۳ F19:1 +1910 ۳۰۰۰ قریباً ت ۲۵۰۰ قريباً ۳۰۰۰ سے زیادہ ۲۵۰۰ سے زیادہ ۳۰۰۰ سے زیادہ مرد ۲۲۰۰ مستورات ۵۱۰۵ 11 1☑*** مرد ۳۵۰۰ خواتین ۴۰۰ سے زیادہ ۴۰۰۰ سے زیادہ اء ۵۰۰۰ سے زیاده +1912 ۶۱۹۱۸ ؟ ۵۰۰۰ سے زیادہ ۷۷ ہزار قريباً ۱۹۲۰ ۱۹۲۱ ۶۱۹۲۲ ۱۹۲۳ ۶۱۹۲۴ Fiero ايضا ۷۱۹۲ قريبا ۹۰۰۰/ ۸۰۰۰ قربان ۱۲۰۰۰ ۱۱۰۰۰ قریباً ۱۵۰۰۰ قريباً ۱۳۹۴ سے زائد ۳۵ ۱۲۱۱۷ قریبات کے ۱۹۲ء ۴۱۹۲۹ ۱۲۸۸۵ قريبا ۱۷۳۱۶ قریباً 2 er ۶۱۹۴۹ ا قادیان مقامی له درویش قریباً ۳۰۰ غیر مسلم سامعین ۲۰ (لاہور ۶۲۵۰ قریباً 184 لاہور (۲۸ مارچ ۴۲۵۰ (۲۷-۲۵ دسمبر) قاریان ۱۴۰۰ قریبات ربوہ کا پہلا جلسہ ۱۲۰۰۰ سے زائد ریوه دو سرا جلسه) ۳۰۰۰۰ قریباً قادیان) ٬۰۰۰ات زیاده 4190° ربوه) ۲۵٬۰۰۰ (مرد) سے زیادہ ( قادیان) ۱۳۴۷ سے زیادہ (ربوہ) ۱۸۴۴۶ سے زیادہ قاریان ۱۱۲۵) (مرد) سے زیا: ۳۰ ۱۹۵۲ء ربوه ۲۹۰۰۰ ( مرد ) ۱۳۶۰۰ (خواتین) ۱۹۵۳ قادیان ۱۹۴۲ ربوه؟ 41900 ( قادیان گزشتہ سال سے زیادہ ربوه) ۵۰/۰۰۰ ۱۹۵۵ء ( قادیان) ۲۶۲ (مهمان) a ربوه) ۵۰,۰۰۰ 15 قاد یان ۱۰۰۰ پہلے روز )

Page 466

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۹۵۷ء $140A (ربوہ) ۶۰٬۰۰۰ سے زیادہ ( قادیان) ۱۹۲۵ ( ریکارڈ جلسه سالانه قادیان) ریوه ۷۰٬۰۰۰ قربا (قادیان) ۱۹۸۰ ( ریکارڈ جلسه سالانه (قادیان) ۴۴۷ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت (ربوہ کا جلسہ نہیں ہوا) ۱۹۷۲ء ( قادیان) ۳۱۹۰ ( ریکارڈ جلسہ سالانہ ) اء رو ۲۵۰۰۰ ۱ قریات (قادیان) ۳۲۹۹ ( ریکارڈ جلسہ قادیان) ربود ۱۲۵۰۰۰ قریباً قادیان ک۳۴۱۷ ( ریکارڈ جلسہ سالانہ ) ریوه ۲۵۰۰۰ است زیاده ( قادیان) ۳۴۵۰ ( ریکارد جلسه قادیان) ریوه ۲۵۰۰۰ ۱ سے زیادہ ( قادیان) ۳۵۴۲ ( ریکارڈ جلسه (قادیان) ریوه ۲۵۰۰۰ سے زیادہ قاریان ۳۰۰۰/۴۰۰۰ ربوه ۱٬۵۰۰۰۰ قرباً ( قادیان) ۳۵۴۴ ( ریکارڈ جلسه قادیان) ربوه ۷۰۰۰۰ قریباً (قادیان) ۲۴۰۰ ( بھارتی مہمان) ۲۰۰ غیر ملکی ربوہ ۱۵۰٬۰۰۰ سے زیادہ ( قادیان) ۳۶۸۵ ( ریکارڈ جلسه (قادیان) ربوه ۷۵۰۰ ای (قادیان) ۳۷۲۸ ( ریکارڈ جلسه قاریان) ربوه ۲٬۰۰۰۰۰ سے زیادہ (قادیان) ۳۷۶۰ ریکارڈ جلسہ قادیان) ربوه ۲٬۲۰۰۰۰ ۳ قاریان ۳۸۱۵ ( ریکارڈ جلسه قادیان) ربوہ ۴٬۷۵۰۰۰ سے زیادہ ( قادیان) ۴۰۵۰ ( ریکارڈ جلسه قادیان) ربوہ کا جلسہ سالانہ نہیں ہوا (اسلام آباد لندن) ۴۵۰۰ (دوسرے روز) ( قادیان) ۳۹۳۵ (ریکار و جلسه قادیان) (اسلام آباد لندن) ۵۸۰۰ دوسرے روز) ( قادیان) ۴۰۴۰ ( ریکارڈ جلسه قادیان) +1927 ۴۱۹۷۵ 71929 *1966 FI9ZA ۶۱۹۸۰ +191 ۶۱۹۸۲ FISAN FISAM ۶۱۹۸۵ FIQAY ربوہ ایک لاکھ قریباً LA ١٩٥٩ء ( قادیان) ۱۲۰۰ قریباً ربوه ۷۰٬۰۰۰ قريبا 51990 (قادیان) ۲۰۰) (احمدی ربوه) ۳۷۵۰۰۰ ( قادیان) ۷۰۰ احمدی ریوه ۸۵۰۰۰ ( قادیان) ۱۶۰۰ سے زیاده ربوه ۹۰۰۰۰ قریباً ۵ قادیان ۲۸۳۷ ( ریکارڈ جلسه ) ربوہ ایک ناکھ قریباً ( قادیان) ۲۰۰۰ ربوہ ۱۰۰٬۰۰۰ سے زیادہ قادیان) ۶۰۰ احمدیوں کی تعداد 0 ربوہ ۸۰٬۰۰۰ سے زیادہ قادیان ۳۰۰/۴۰۰ بھارتی احمدی ۱۹۶ پاکستانی غیر ملکی ربوه ۸۵٬۰۰۰ ( قادیان) ۳۰۵۲ ( ریکارڈ جلسه (قادیان) ربود ۱۰۰۰۰۰۰ قربان قاریان ۳۱۵۲ ( ریکارڈ جلسه قاریان) ربوه ۱۰۰٬۰۰۰ قربان (قاریان) ۳۲۴۰ ( ریکارڈ جلسه قاریان ربوه ۱۰۰٬۰۰۰ ریکارڈ) ( قاریان) ۳۳۵۰ ( ریکارڈ جلسه قاریان) ربوه ۱۰۰۰۰۰۰ قریباً ( قادیان) ۳۱۰۵ ( ریکارد جلسه قادیان) +1941 ۶۱۹۶۲ ۶۱۹۶۳ ۶۱۹۶۴ ۶۱۹۶۵ 51977 41996 ۶۱۹۶۹ Y *196+ *192

Page 467

۴۷۸ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت تاریخ احمدیت جلدا AZ FISAA +1441 +1441 (قادیان) ۳۳۱۰ ( ریکارڈ جلسہ قادیان) اسلام آباد (لندن) ۷۰۰۰ (اسلام آباد لندن) ۵۱۹ قادیان ؟ اسلام آباد لندن ۱۴۰۰۰ سے زائد قادیان ؟ اسلام آباد لندن ۸۰۰۰ مرد و زن (پهلاون) قادیان ؟ اسلام آباد لندن ۸۵۰۰ تاریان ۲۲۴۰۰۰ RIA ۹۱ - ۱۸۹۰ء کے بعض صحابہ دعوئی مسیحیت کے ابتدائی دو سالوں میں حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کرنے والے بعض صحابہ کے نام یہ ہیں.۱۸۹۰ ۶ (۱) حضرت سید محمد عسکری خاں صاحب رئیس کڑا ضلع الہ آباد (۲) حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری (۳) حجتہ اللہ " حضرت نواب محمد علی خان صاحب 21 مالیر کوٹلہ (۴) حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوئی.(۶۱۸۹۱) (۵) حضرت سید فضل شاہ صاحب ملازم جموں (۶) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (۷) حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب سراده (۸) حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب - (۹) حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی (۱۰) حضرت میر ناصر نواب صاحب (11) حضرت سید فضیلت علی شاہ صاحب (۱۲) حضرت شیخ محمد بن شیخ احمد مکی (۱۳) حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر (۱۴) حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب لاہور (۱۵) حضرت مولوی مردان علی صاحب حیدر آباد دکن (۱۶) حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی (۱۷) حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب (۱۸) حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب نو مسلم سابق مہر سنگھ.

Page 468

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۴۹ سالانہ جلسے کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام وحوت الحکم.اپریل ۹۳۵ حواشی حاضرین کے پنوں کے لئے ملاحظہ ہو م آسمانی فیصلہ " (سولفہ سید نا حضرت مسیح موعوداً کے لے ملاحظ جو آسمانی فیصلہ متولدہ میر موعوداً به اصحاب احمد جلد ۲ صفحہ ۷۳ رساله تور احمد صفحه ۲۴ چه واصحاب احمد جلد ۲ صفحه ۷۰ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) طبع اول مرزا برکت علی صاحب نے اسے ۱۸۹ء کے جلسہ کا مقام ہی بتایا ہے جو سمو ہے کیونکہ پہلا جلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہو اتھا ملاحظہ اس دور کے ہو( آسمانی فیصلہ) تذكرة الحمیدی حصہ اول صفحه ۲۰۱۵۹ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے تذکرۃ المہدی میں لکھا ہے کہ حضرت اقدس کی تقریر کے بعد حضرت مولانا نور الدین صاحب نے وعظ کیا یہ صحیح نہیں ہے.حضرت مولانا نور الدین صاحب کا وعظ حضور کی تقریر سے تحمل ہو اتھا ( ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام" م) كرة المبدي " حصہ اول صفحه ۲۰۱۵۹ آئینہ کمالات اسلام " ضمیمه " آئینہ کمالات اسلام صفحه ۷۵ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء الفضل ۳- جنوری ۱۹۲۵ء آئینہ کمالات اسلام " بعنوان " قیامت کی نشانی" ریویو آف ریایی اردو جنوری ۱۹۳۲ صفحه ۴۵۴۴ آسمانی فیصلہ میں حاضرین کی فہرست درج ہے.جو متن میں بھی شامل ہے.آئینہ کمالات اسلام صفحه ۷۳ تا ۳۸ و نیمه صفحه ۱۸ ۷ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۲ الحکم 10 جنوری ۱۹۰۰ مسلحتها تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۵۱ ۲۰ الحکم جنوری سے معبو صفوره پدر ۹ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲ و احکم سے جنوری ۱۹۰۹ و صفحه ۲۳ بد را ۳ مارچ ۱۰ صلح ۲۴ پدر ۵- جنوری ۱۹۸ صفحه ۲۵ پدر ۳- جنوری ۱۹۱۳ء صفحه الحکم جنوری ۱۹۳ صفحه ۸- بدر ۹ جنوری ۱۹۱۳ صفحه ۲۷- الفضل ۳۱ دسمبر ۹۳ صفحه ۲۸ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۸۳ صفحه ۲ ۲۹ الفضل یکم جنوری ۱۹۷ صفحه ۳۰ الفضل ۳۰ دسمبر ۶ ۱۹ صفحه ۲

Page 469

تاریخ احمدیت جلدا ۳۱ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۷۹ء صفحه) الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۰ء صفحه) الفضل ۳- جنوری ۱۹۲۱ء صفحه ۲ ۳۴- الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحه ۲۹ ۳۵- الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء صفحه ۲ ۳۶ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۴ صفحه ۲ ۳۷- الفضل ۳- جنوری ۱۹۲۵ء صفحه ۱ ۳۸ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۷ء صفحه ۱۹ و الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۲۶ء صفحه ۱۶ الفضل ۳- جنور کی ۱۹۲۷ء صفحه ۱۲ ام الفضل ۳- جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۲ الفضل ۳- جنوری ۱۹۳۰ء صفحه ۲ ۴۳- الفضل یکم جنوری ۱۹۳۱ء صفحه ۲ ۴۴- الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۳۱ء صفحه ۲ ۲۵ الفضل یکم جنوری ۱۹۳۲ء صفحه ۲ الفضل ۳۱ - جنوری ۱۹۳۳ء صفحه ۲ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۳۶ء صفحه ۲ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۸ و الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۸ الفضل ۳- جنوری ۱۹۴۰ء صفحه ۲ الله الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۵ ۵- الفضل یکم جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۶ الفضل ۳- جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۶ ۵۴ - الفضل یکم جنوری ۱۹۴۴ صفحه ۳ ۵۵ - الفضل یکم جنوری ۱۹۴۵ صفحه ۳ ۵۲ الفضل یکم جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۳ ۵۷- الفضل یکم جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۳.۵۸ ریکارڈ دفتر حفاظت مرکز ۵۹ - الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۴۷ء صفحه ۴ ۱ - الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۴۸ء صفحه ۵ الفضل -۴- جنوری ۱۹۴۹ء صفحه ۲ ۶- الفضل ۲۳- اپریل ۱۹۴۹ء صفحه ۲ ۶۳ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه1 ۶۵ - الفضل ۶- جنوری ۱۹۵۰ء صفحه ۳ رپورٹ صدرا من احد یه ربود ۵-۶۱۹۵۰ صفحه ۲۳ الفضل ہے.جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ ۴۵۰ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت

Page 470

تاریخ احمدیت.جلدا رپورٹ صد را مجمن احمد یہ ربوہ ۵۲-۱۹۵۱ء الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۲ء صفحه ۲ رپورٹ صد را مجمن احمد یه ۵۳-۱۹۵۲ء صفحه ۸۲ صدر احمد ال الفضل ۳- جنوری ۱۹۵۳ء صفحه ۲ -4* ۴۵۱ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت ۷۲ بدرے جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۲ الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۵۴ء صفحه ۷ -27 ۷۳ بدری.جنوری ۱۹۵۶ ۷۴ - الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۱ ۷۵- بدر ۳۰- اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۷ - الفضل ۳۰- دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۱ ۷۷.الفضل یکم جنوری ۱۹۵۸ء صفحه) ۷۸ - الفضل ۲۱- دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ا ۷- بدر ۲۴ دسمبر ۱۹۵۹ء صفحه ۱ الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ا - بدر ۲۹ دسمبر ۱۹۹۰ء صفحه ۲ ۸۲ - الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۸۳ بدر ۲۸ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحه ۲ ۸۳ - الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۲ ۸۵- بدر ۳- جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۲ - الفضل یکم جنوری ۱۹۶۳ء صفحه ۳ - بدر ۳۱- دسمبر ۶۱۹۶۳ صفحه ۱ ۸۸ ۲۱- جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۲۱- ۸۹- بدر ۲۳- دسمبر ۶۱۹۶۵ صفحه ۲ و الفضل ۲۴- دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه) - بدر ۱۵- دسمبر ۱۹۹۶ء صفحه ۴ ۹۲- الفضل یکم فروری ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ! ۹۴- الفضل یکم جنوری ۱۹۷۹ء صفحه) -- الفضل یکم جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۴ الفضل ۳- جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۸ ۹- الفضل ۲- جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۱ الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۷۳ء صفحه ۱ ۹۹ - الفضل ۳۰- دسمبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۱.الفضل ۲۹- دسمبر ۱۹۷۵ء صفحہ ۱ صفحہ ١٠٠ - الفضل ١٣- دسمبر ۱۹۷۶ء صبا الفضل ۲۷ دسمبر۷ ۱۹۷ء صفحہ ۲ ۱۰ - الفضل ۳۱- دسمبر۱۹۷۷ء صفحہ ) 10- الفضل ۳۰- دسمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۱

Page 471

تاریخ احمدیت جلدا بارے جو نمبر ۷ صفحها الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحا ١٠٦ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۸ صفحه الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۸۱ صفحه ۱۰۸ الفضل یکم جنوری ۱۹۸۳ء صفحه ۱۰۹ الفضل یکم جنوری ۱۹۸۳ و صلحها و ضمیمه رسالہ "خالد "ریده اگست ۱۹۸۷ء صفحه ۲۱ ۴۵۲ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت بخت روزه " وطن لندن ۲۶۱۹ جولائی سے ۱۹۸ اخبار "ایشین ٹائمز ۲۰۱۳ اگست ۷ ۱۹۸ ن تیمیہ ماہی اللہ تحریک جدید جولائی ۱۹۸۸ ء صفحہ 1- الفضل ۲۶ اگست ۱۹۸۹ صفحه الفضل -۲۲ اگست ۱۹۹۰ء صفحه ۳ الفضل ۳۰ جولائی 1991 و صفحه الفضل ۳ مارچ ۱۹۹۳ صفحه ۴ کا اصحاب کبار میں شامل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بیعت سے بھی پہلے نیاز حاصل تھے (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صلح ) مسلہ احمدیہ کے ایک بلند پایہ بزرگ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے خسر ولادت ۱۸۵۲ء تاریخ بیعت ۱۷ مئی ۱۸۹۰ ء وفات یکم فروری ۱۹۳۳ - الفضل ۲ فروری و ۱۳ فروری ۱۹۳۳) حضرت اقدس نے ان کے متعلق لکھا " و نادار مخلص ہیں اور لا يخافون لومه لا ئم میں داخل ہیں.فطرت نورانی رکھتے ہیں" (ازالہ اوہام صفحہ ۸۸۳-۸۸۴ طبع اول) سلسلہ کی اس نہایت بزرگ شخصیت آپ کے مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو " اصحاب احمد جلد دوم ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰ء تاریخ بیعت نومبر ۱۸۹۰ ء وفات ۱۰ فروری ۱۹۳۵ء وفات ۲.تو میر ۱۹۱۸ء ( الحکم ۲۶ نومبر ۱۹۸۸) تاریخ بیعت ۲- جنوری ۱۸۹ ء وفات یکم فروری ۱۹۲۴ء حضرت اقدس کے مشہور صحابی جو اخبار پور کے دوسرے ایڈیٹر اور احمد یہ مسلم مشن امریکہ کے بانی تھے.آپ نے پوری زندگی تبلیغی جہاد میں وقف کئے رکھی.تاریخ بیعت ۳- جنوری ۲۱۸۹۷ ۱۳ فروری ۱۹۵۷ء کو انتقال فرمایا.مالک انگش دیر ہاؤس لاہور روفات منہ مارچ ۱۹۲۲ء حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کو سلسلہ احمدیہ کی بالی خدمات کی توفیق ملی 194ء میں گو آپ غیر مبالعین سے منسلک ہو گئے مگر مخالفت میں کبھی عملی حصہ نہیں لیا.تاریخ بیعت ۲۹ مئی ۱۸۹ء ۱۳۱- ولادت ۱۸۴ ء وفات - ستمبر ۶۱۹۲۴ ۲۲ حضرت اقدس نے ۹- تمبر ۱۸۹۸ء کو ان کا جنازہ پڑھایا ( جنتری منظور الی) تاریخ بیعت جولائی ۶۱۸۹ حضرت اقدس نے آپ کے متعلق ازالہ اوہام میں لکھا." یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں صلاحیت اور رشد اور سعادت کے آثار ان کے چہرہ پر ظاہر ہیں.اپنے وطن خاص مکہ معظمہ سے زادہ اللہ محمد اور شرفا بطور سیرو سیاحت اس ملک میں آئے.انہوں نے ۱۳۰۵ھ میں خواب دیکھا کہ مینی آسمان سے نازل ہو گیا.جس پر انہوں نے دل میں کہا کہ انشاء اللہ القدر میں اپنی زندگی میں بیٹی کو دیکھ لوں گا.تاریخ بیعت 10 جولائی ۱۸۹ء.۲۴ وفات ۲۸ جولائی ۶۱۹۳۰ ۵ جماعت احمد یہ حیدر آباد دکن کی بنیاد آپ کے اور مولوی ظهور علی صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد کے ذریعہ سے پڑی تھی تفصیل کے لیئے ملاحظہ ہو ا حکم ۲۱۲۸- مئی ۲۱۹۲۴) تاریخ بیعت ۲۳- تمبر ۱۸۹۸ء حضرت اقدس جب مولانانور الدین کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تھے تو آپ ہی کے مکان پر حضور نے قیام فرمایا تھا.تاریخ بیعت ۷ دسمبر ۱۸۹۸ء تاریخ وفات ۲- ستمبر ۶۱۹۴۲ ۳۷.سکھ قوم سے اسلام لائے.احمدیت کے پر جوش مبلغ اور صاحب کشف والہام تھے.کرنل ڈگلس کمشنر کی تحریک پر ۱۹۱۵ء میں انریمان کے گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے آپ کی تبلیغ سے انڈیمان میں جماعت کا قیام ہوا.انڈیمان سے واپسی

Page 472

تاریخ احمدیت جلد ! کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں ایک عرصہ تک بطور درس خدمات انجام دیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالٰی نے ان کی نسبت فرمایا." ہسٹر عبد الرحمن صاحب کار آمد کارکن ہیں.تبلیغ کا انہیں ایسا جوش ہے کہ بعض لوگوں کی نظروں میں جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے ایسے آدمی ست لوگوں کو ہو شیار کرنے کے لئے بہت مفید کام کرتے ہیں".(وفات ۴.جون ۱۹۵۲ء عمر ۸۰ سال) ۴۵۳ سالانہ جلسہ کی بنیاد اور علماء کو روحانی مقابلہ کی عام دعوت

Page 473

تاریخ احمدیت جلدا ۴۵۴ مقرنا ہوں ماموریت کا گیارھواں سال سفر لاہور (۱۸۹۲ء) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۸۹۲ء کے تیسرے ہفتہ میں لاہور والوں پر اتمام حجت کے لئے سفرلاہور اختیار فرمایا.حضور لاہور اسٹیشن سے قیامگاہ تک یکے میں سوار ہو کر پہنچے.ابتداء حضور نے منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر لاہور کی کوٹھی واقع چونا منڈی میں قیام فرمایا.لیکن جب وہ جگہ کافی نہ رہی تو آپ محبوب رایوں کے مکان واقع ہیرا منڈی میں تشریف لے گئے.ایک فاتر العقل شخص کا حملہ حضرت اقدس قیام لاہور کے دوران میں مسجد مولوی رحیم اللہ صاحب میں جو (لنگے منڈی میں میاں چراغ الدین صاحب کے مکانات کے سامنے تھی) نمازیں ادا فرماتے تھے.ایک روز حضور ظہر یا عصر کی نماز پڑھ کر سیدھا مٹھا بازار کی طرف تشریف لے جارہے تھے جہاں حضور محبوب رایوں کے مکان میں مقیم تھے.حضور کے پیچھے خدام دس گز کے فاصلے پر تھے.کہ ایک شخص اچانک آکر لپٹ گیا اور شور مچانے لگا کہ مہدی تو میں ہوں تم نے کیوں دعویٰ کیا ہے ؟ وہ نہ تو آپ کو اٹھا سکا نہ گر اسکا.حضرت اقدس کے بعض خدام نے اسے پکڑ کر الگ کر دیا.وہ اسے مارنا چاہتے تھے مگر حضور نے مسکرا کے ارشاد فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو جانے دو.معذور ہے وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عمدہ میں نے سنبھال لیا ہے.حضرت اقدس کی طرف سے صبر کا ایک بے نظیر نمونہ حضرت اقدس " جہاں ٹھرے تھے وہاں لاہور کے مسلمان ہندو مرد عورت ہر مذہب وملت کے لوگ بڑی کثرت سے آتے مختلف سوال کرتے تھے.حضرت اقدس ان کے شافی جوابات دیتے اور وہ بارب سنتے تھے.ایک مرتبہ حضرت اقدس مجلس میں

Page 474

تاریخ احمدیت جلدا ۴۵۵ سفر لاہور تشریف فرما تھے اور منشی شمس الدین صاحب جنرل سیکرٹری حضور کے ارشاد سے رسالہ "آسمانی فیصلہ" سنا رہے تھے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے کسی بد زبان مرید نے حضور کو نہایت گندی گالیاں دینا شروع کر دیں.حضور خاموش سر جھکائے اور ریش مبارک پر ہاتھ رکھے سنتے رہے.جب وہ خاموش ہو گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ کچھ اور بھی کہنا ہے تو کہہ ڈالو اس پر وہ بہت نادم ہو کر معافی کا خواستگار ہوا.جب وہ چلا گیا تو حاضرین میں سے ایک تعلیم یافتہ بر ہمو سماجی لیڈر نے کہا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تحمل کے متعلق تو بہت کچھ پڑھا تھا مگر جو نمونہ آج دیکھنے میں آیا ہے یہ یقیناً آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے.委 لاہور کے پیسہ اخبار (۲۲- فروری ۱۸۹۲ء) نے لکھا: " جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں.مرزا صاحب دو ہفتے سے لاہور میں تشریف رکھتے تھے.لاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں.ہر شخص گھر میں ہر دکان بازار میں.دفتر میں مرزا صاحب اور ان کے دعوئی مماثلت مسیح کا ذکر کرتا ہے.آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں.مگر ہم نے عمداً اس بحث کو نہیں چھیڑا.جس کی بڑی وجہ یہ ہے پیسہ اخبار کوئی مذہبی اخبار نہیں.مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہو گیا ہے.اور کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے.اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کرتے ہیں.مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے.کوئی مسلمان زنا کرے چوری کرے.الحاد کا قائل ہو.شراب پئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے کبھی علمائے اسلام اس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے.مگر ایک باخدا مولوی جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتا ہے بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانا جاتا ہے.گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ دارد وائے گر از پس امروز بود فردائے ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کرلے.لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں جواب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے.

Page 475

تاریخ احمدیت جلدا ۴۵۶ منزل ہوں ہر کس از دست غیر ناله کند سعدی از دست خوشتن فرماد اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے.اور یہ بات ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے.اگر اہل ہنود خصوصاً آریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور و شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا ہے جانہیں تھا.مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوتی ہیں.جیسا کہ ان کی مشهور تصنیفات براہین احمدیه سرمه چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں".۳۱- جنوری ۱۸۹۲ء کو منشی میراں بخش صاحب کی جلسہ عام میں حضرت اقدس کی تقریر کوٹھی کے احاطے میں حضور کا ایک عظیم الشان لیکچر ہوا خلقت کا ازدحام اس کثرت سے تھا کہ کسی صورت میں بھی حاضرین کی تعداد دس ہزار سے کم نہ ہوگی.ہر طبقہ کے لوگ موجود تھے.کوٹھی کے صحن کے علاوہ آس پاس کے مکانوں کی چھتوں اور گلیوں میں بھی بڑا ہجوم تھا.حضرت اقدس نے اپنی تقریر میں اپنے دعادی سے متعلق زیر دست دلائل دیئے.اور خصوصیت سے ان آسمانی نشانوں کا تذکرہ فرمایا جو خدا تعالٰی نے آپ کی نصرت کے لئے بارش کی طرح نازل فرمائے تھے اور بتایا کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آکر میرے خلاف کفر کا فتوی دیتے ہیں.ایک مومن کو کافر کہہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں.قرآن کریم نے مومن اور غیر مومن کے لئے کچھ نشان مقرر کر دیتے ہیں.میں ان کا فر کہنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان کا قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرالیں.حضرت اقدس تقریر فرما چکے تو حضرت مولانانور الدین سے ارشاد فرمایا کہ آپ بھی تقریر کریں.یہ کہ کر حضور انور تو اندر تشریف لے گئے اور حضرت حکیم الامت نے ایک دل ہلا دینے والی تقریر فرمائی.حضرت حکیم الامت کا یہ خطاب کو مختصر تھا مگر جب آپ نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا.کہ کیا میں اس عمر میں بھی جھوٹ بولنے کی آرزو کر سکتا ہوں؟ تو یہ الفاظ تیر بن کر دلوں کے پار ہو گئے کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہوئی ہو.ہر طرف آمریکا کا شور بلند ہو گیا.تقریر کے بعد چند ہندو معززین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک دفعہ دہی کلمہ پھر پڑھتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہو گئے.آپ کے مخالفوں نے اس موقعے پر لوگوں کو جلسہ میں شامل ہونے سے بڑی سختی سے منع کیا.اس وقت بازار میں اتنا بڑا انبوہ ہو گیا کہ آمد و رفت رک گئی.مگر

Page 476

تاریخ احمدیت جلدا سفر لاہور خدا تعالٰی کے مسیح کی آواز منہ کی پھونکوں سے بند کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ قیام لاہور کا ایک اہم ترین واقعہ مباحثہ مولوی عبدالحکیم کلانوری ہے مولوی عبدالحکیم صاحب کلانور ضلع گورداسپور کے باشندے تھے اور الور میں رہتے تھے.انہوں نے حضرت اقدس سے توضیح مرام کی اس عبارت پر کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے چند روز تک تحریری مباحثہ کیا.جو -- فروری تک جاری رہا.ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ میرے دعوٹی کی بنیاد اس امر پر ہے کہ مسیح ابن مریم نبی ناصری فوت ہو چکے ہیں اور جس صبح کے آنے کا وعدہ ہے وہ میں ہوں.اگر مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہو جائے تو میرا د عوٹی خود بخود غلط ہو جائے گا.مگر مولوی عبدالحکیم صاحب نے اس راہ سے ہٹ کر ایک دوسرا طریق اختیار کیا.یعنی کہا کہ میں اس بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا.پہلے آپ کا مسلمان ہونا تو ثابت ہو.آپ نے نبوت کا دعومی کر کے اسلام سے خروج کیا ہے.اور مسیح ابن مریم کے نزول کا عقیدہ اسلام کے خلاف نہیں وہ اس امت میں ہو گا.حضرت اقدس نے فرمایا.مجھ پر دعویٰ نبوت کا الزام سراسر افترا ہے.حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا.کہ میرے مسلمان اور مومن ہونے کا ثبوت ان معیاروں سے دیکھا جا سکتا ہے.جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں اور جن کو میں نے رسالہ " آسمانی فیصلہ " میں لکھا ہے.مگر مولوی عبدالحکیم صاحب اپنی بات پر اڑ گئے.جس پر تحریری مباحثہ شروع ہوا.حضور نے اپنے جواب میں یہ بنیادی نکتہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمات و مخاطبات کا سلسلہ امت محمدیہ میں قیامت تک جاری ہے اس دعوے کے ثبوت میں حضور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث لکھی لَقَدْ كَانَ فِي مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إسْرَائِيلَ رِجَالُ يُكَلِّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدُ فَعُمَرَ.جونہی یہ حدیث پڑھی گئی مولوی احمد علی صاحب نے جو مولوی عبدالحکیم صاحب کے کاتب کے فرائض انجام دے رہے تھے شور مچانا شروع کر دیا کہ بخاری شریف سے یہ حدیث نکال کر پیش کریں.حضرت اقدس نے فرمایا مضمون ختم ہونے دیں.میں حدیث نکال کر پیش کر دوں گا مگر وہ بار بار بخاری حضرت اقدس کی طرف پیش کرتے کہ لیجئے اور نکالئے.غرضکہ ان کا مطالبہ بڑی شدت اختیار کر گیا.مولانا سید محمد احسن صاحب ایسے محدث نے حوالہ کی تلاش میں بخاری کی پوری باریک نظری سے ورق گردانی کی مگر حوالہ نہ مل سکا.اور فریق مخالف کے حو صلے اور بھی بڑھ گئے تب حضرت اقدس نے

Page 477

تاریخ احمدیت جلد) ۴۵۸ سفر لاہور خود بخاری لے کر چند ورق الٹے اور آخر حوالہ معجزانہ رنگ میں مل گیا اور اس پر مباحثہ ختم ہو گیا.مبانے کے اختتام پر حضرت اقدس" کا ایک تحریری بیان جس پر آٹھ افراد کے دستخط تھے پڑھ کر سنایا گیا.اس میانے کے اصل پرچے مولوی عبدالحکیم صاحب ساتھ لے کر چلے گئے تھے اور مطالبے کے باوجود انہوں نے آخر دم تک واپس نہیں کئے.مولوی صاحب ایک دفعہ مباحثہ کے بعد قادیان بھی آئے تھے.حضور کو اطلاع ہوئی تو وہ نواب صاحب کے مکان میں ٹھہرائے گئے اور حضور نے ان کی خاطر تواضع کے لئے حکم دیا.اس موقعہ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے ان سے بڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ کے پاس مباحثے کے پرچے ہیں مہربانی کر کے مجھے دیدیں آپ کے کام کے نہیں اور اگر اپنے پرچے نہ بھی دیں تو حرج نہیں مگر حضرت اقدس کے پرچے ضرور دے دیں انہوں نے اس وقت وعدہ کیا کہ جاتے ہی بھیج دونگا.مگر اس کے ایفا کی ان کو توفیق نہ مل سکی انہی دنوں ایک برہمو سماج کا سیکرٹری جو ایم.اے تھا حاضر خدمت تقدیر کے مسئلہ پر تقریر ہوا.اور اس نے ذکر کیا کہ تقدیر کا مسئلہ میں نے اپنی تحقیق کی بناء پر اس طرح حل کیا ہے کہ میرے خیال میں شاید اس سے بہتر کوئی اور تسلی بخش بیان نہ کر سکے.آپ نے یہ سن کر مسئلہ تقدیر پر تقریر شروع فرما دی.وہ شخص حیران ہو گیا اور اس نے کھڑے ہو کر کہا کہ میری معلومات اس بارے میں بیچ ہیں اور آپ سے بہتر دنیا میں کوئی اور شخص مسئلہ تقدیر کو نہیں سمجھتا.اور کچی بات یہ ہے کہ آپ میں پر میشر کی شکتی ہے انسان سے آدمی گفتگو کر سکتا ہے مگر جو پر میٹر کا روپ رکھتا ہو.اس کے آگے کیا پیش جا سکتی ہے پھر وہ نہایت ادب سے ہاتھ باندھ کر سلام کر کے الٹے پاؤں یہ کہتا ہوا چلا گیا.کہ بڑی قوت ہے بڑی قوت ہے.اس کے جانے کے بعد نواب فتح علی خاں صاحب قزلباش کہنے لگے کہ آپ اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں.ظالم کا لفظ سن کر آپ نے بڑے جوش میں ایک زبرست تقریر فرمائی.نواب صاحب اس تقریر سے بڑے متاثر ہوئے اور پھر اجازت لے کر السلام علیکم کہہ کر چلے گئے.ان کے جانے کے بعد حضور نے فرمایا کہ ہمارے نواب صاحب سے پرانے تعلقات ہیں.انہیں ایسی مجالس میں شریک ہونے کا کہاں موقعہ ملتا ہے.اتفاقیہ آگئے میں نے ضروری سمجھا کہ انہیں نصائح آمیز تبلیغ کر دوں.تا اگر غور کریں تو ہدایت یاب ہوں.A سفر سیالکوٹ جماعت احمدیہ سیالکوٹ کی دلی خواہش تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں

Page 478

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۵۹ سفر لاہور دوبارہ رونق افروز ہوں اور انہیں زیارت سے فیضیاب فرما ئیں.چنانچہ اب جو حضور لاہور تشریف لائے.تو مولانا عبد الکریم صاحب نے احباب سیالکوٹ کی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں سیالکوٹ آنے کی دعوت پیش کی.چنانچہ اس دعوت کو آپ نے شرف قبولیت بخشا اور فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حکیم حسام الدین صاحب کے مکان میں فروکش ہوئے.زائرین کا ہجوم اور پاک مجلس حضرت اقدس کے تشریف لانے کی خبر سن کر سیالکوٹ اور اس کے نواح سے زائرین کا ایک ہجوم امڈ آیا اور لوگ ذوق د شوق سے حضور کا چہرہ مبارک دیکھنے اور پاک مجلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آنے لگے.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا بیان ہے کہ ” میں مع ایک دوست کے تیسرے پر آپ کو دیکھنے کے لئے شہر گیا.اس وقت حکیم حسام الدین صاحب کے کوچہ میں لوگوں کا بے حد اثر دہام تھا.ہم دونوں نوجوان لڑکے تھے گھتے ہھتے آخر اس قطار تک پہنچ گئے جو عین دروازے کے سامنے کھڑی تھی.حضرت اقدس ایک دروازے سے نکلے اور کوچہ عبور کر کے دوسرے مکان کے دروازہ میں چلے گئے.مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک نور کا جھکڑ ا نظروں کے سامنے آکر یکا یک گم ہو گیا.میں اپنے تخیل میں کسی بزرگ کی مقدس شکل کا جو بہتر سے بہتر تصور قائم کیا کرتا تھا یہ ویسا ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ تھا.میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ نوارنی شکل جھوٹے کی نہیں ہو سکتی.یہ شخص سچا ہے.اس کے بعد ہم حکیم حسام الدین والی مسجد کے اندر گئے اور حضرت اقدس نے عصر کی نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی.نماز کے بعد آپ مسجد کے درمیانی در میں جنوبی ستون کے ساتھ لگ.میٹھ گئے اور مسجد کا اند را در صحن سب لوگوں سے بھرا ہوا تھا صحن کے سامنے کی طرف ایک شہ نشین تھا پر میں اور مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھے ہوئے تھے میری نظریں حضرت اقدس کے چہرہ پر جمی ہوئی تھیں.اتنے میں مولوی عبد الکریم صاحب بولے کہ دیکھو چہرہ پر کس قدر نور برس رہا ہے میں نے کہا واقعی اس قدر نورانی چہرہ میں نے کبھی نہیں دیکھا لوگ مختلف مذہبی سوالات کرتے تھے جن کے آپ ایسے معقول جواب دیتے تھے کہ نہ صرف دل کو لگتے تھے بلکہ مجھے نہایت تعجب ہو تا تھا کہ مذہبی لوگوں سے ایسی معقول باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں.کسی شخص نے ایک مرگی زدہ کی شفا کے لئے دعا بھی کروائی.چنانچہ آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی.اتنے میں مولوی عبد الکریم صاحب نے نزدیک ہو کر دریافت کیا کہ حضرت عرش کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس سے مراد سلطنت اور نفاذ ا مر بھی ہیں لیکن حال اور صاحب باطن لوگوں کی نظر میں یہ وہ مقام ہے جہاں مادی اور روحانی ہر طرح کی مخلوق کی حد ختم ہو

Page 479

تاریخ احمدیت جلد سٹر لاہور جاتی ہے اور صرف ذات باری تعالٰی ہی جلوہ گر ہوتی ہے.غرضکہ آپ نے عرش پر ایسی لطیف تقریر فرمائی کہ سننے والوں کو وجد آگیا.شام ہو گئی.نماز مغرب کے بعد میں مع اپنے دوست کے واپس چلا آیا.ہم دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ شخص صادق ہے.دوسرے دن ہم دونوں آدمی پھر نماز ظہر کے وقت گئے حضرت اقدس نے نماز ظہر کے بعد ایک تقریر کی جس میں سورۃ فاتحہ کی تغییر فرمائی جو ایسی لطیف اور پر از معارف تھی کہ ہم دونوں عش عش کر گئے اس سے قبل یہ حقائق و معارف کہاں سنے تھے بہت عالموں کے وعظ سنے تھے مگر یہاں بات ہی کچھ اور تھی.ان دنوں آریہ سماج کا بڑا زور تھا اس تقریر کے دوران میں ہمارے لئے ایک نئی بات یہ بھی ہوئی کہ حضرت صاحب نے آریہ سماج کے ایسے پر نچے اڑائے کہ آریہ سماج کا جتنا رعب ہمارے جیسے نو عمر طالب علموں پر تھا وہ سب بہاء منشور ا ہو گیا اور اسلام کی عظمت اور شوکت آنکھوں کے سامنے ہویدا ہو گئی.تقریر کے بعد چند جٹ زمیندار حضرت اقدس کے گرد جمع ہو کر زور زور سے باتیں کرنے لگے.جنہیں بھیڑ کی وجہ سے میں نہ سمجھ سکا.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور ان کے یہاں ضمناً یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.کہ والد اور برادر اکبر کی عقیدت و بیعت (شاعر مشرق) ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب (۱۸۷۷ء ۱۹۳۸) کے والد بزرگوار شیخ نور محمد سے متعلق ایک ضمنی نوٹ صاحب (متوفی ۱۹۲۹ء) نے مولانا عبدالکریم صاحب اور سید حامد شاہ صاحب کی تحریک پر ۹۲-۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.اور ان کے دونوں فرزند شیخ عطا محمد صاحب اور ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بھی اپنے آپ کو جماعت میں شمار کرتے تھے.اور حضرت اقدس سے ارادت مندانہ تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ہی کا بیان ہے کہ "سفر سیالکوٹ کے موقعہ پر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو مسجد کی ڈیوڑھی کی چھت پر چڑھے بیٹھے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں".یہ اسی عقیدت کا نتیجہ تھا کہ دو ایک سال بعد جب سعد اللہ لدھیانوی نے حضرت اقدس کی ذات پر نهایت گندے اور لغو اعتراضات کئے تو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو ان دنوں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں ایف اے کے طالب علم تھے حضرت اقدس پر سوقیانہ حملے برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اس کے جواب میں ایک نظم لکھی جس میں حضور گو " آفتاب صدق تسلیم کیا.چند سال بعد شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور میں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا.لہذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں تاہم انکے فرزند شیخ عطا محمد صاحب

Page 480

تاریخ احمدیت جلدا سفر لاہور عمر بھر نہایت اخلاص کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہے.شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے شیخ اعجاز احمد صاحب خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں (کتاب کے اس جدید ایڈیشن کے دوران آپ انتقال فرما گئے.تاریخ وفات ۲- جنوری ۱۹۹۴ء) مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کے بیان کے مطابق خود ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے بھی پانچ سال بعد ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی تھی.اور حضرت اقدس کی زندگی میں اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضور کے متعلق صاف صاف لکھا کہ آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں.نو سال بعد ( ۱۹۱۰ء میں) انہوں نے علی گڑھ میں ایک تقریر میں کہا کہ ” پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں ".ان کے بعض سوانح نگاروں کے بیان کردہ حالات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ ۱۹۱۳ء تک وہ جماعت قادیان سے ربط ضبط رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک نجی مسئلے میں فتوی حاصل کرنے کے لئے اپنے ایک گہرے دوست کو حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں قادیان بھیجا تھا.لیکن اس کے بعد جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے وہ سلسلہ قادریہ سے منسلک ہو گئے تھے.اور عمر کے آخر میں جمال الدین صاحب افغانی کو مجدد سمجھنے لگے تھے.بایں ہمہ وہ ۱۹۳۲ء تک جماعت احمدیہ کے اشاعت اسلام کے دینی جوش و خروش کے بہر نوع مدح رہے.چنانچہ انہوں نے ے.اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ "اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریق ہیں.میرے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے وہ زمانہ حال کی طبائع کے لئے موزوں نہیں ہے ہاں اشاعت اسلام کا جوش جو ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے " ان کی وفات سے تین سال قبل (۱۹۳۵ء میں) بعض سیاسی حلقوں میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ اٹھا تو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کی تائید میں خالص فلسفیانہ رنگ میں مضامین لکھے اور دراصل فلسفہ ہی وہ موضوع تھا جس کے متعلق خود ان کی رائے تھی کہ ”میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں".ڈاکٹر صاحب اور ان کے والد بزرگوار کا ضمنی تذکرہ کرنے کے بعد دوبارہ سفر سیالکوٹ کا ذکر کیا جاتا ہے.حضرت مسیح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی مخالفانہ کوشش اور ناکامی موعود علیہ السلام

Page 481

تاریخ احمدیت جلدا ۶۲ مقر لاہور سیالکوٹ تشریف لائے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچے.اور مختلف مساجد میں حضرت اقدس کے خلاف گمراہ کن وعظ کئے اور عوام کو آپ کے خلاف بھڑ کانے کی ہر رنگ کوشش کی مگر جن آنکھوں نے اس نورانی چہرہ کو اٹھائیس برس قبل دیکھا تھاوہ بھلا ان کی باتوں سے کیونکر دھوکا کھا سکتی تھیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اس مخالفت میں انہیں سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.اور لوگ ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے.سفر کیور تھلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد کپور تھلہ تشریف لے گئے جہاں حضور نے دو ہفتہ قیام فرمایا اور میاں سردار علی صاحب کے مکان میں فروکش ہوئے یہ حضور کا کپور تھلہ کی طرف تیسرا اور آخری سفر تھا.حضور نے کپور تھلہ کا پہلا سفر منشی محمد اروڑا صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کی درخواست پر زمانہ بیعت کے قریب اختیار فرمایا تھا اس وقت کپور تھلے تک ریل نہیں تھی.حضور یکے سے اتر کر کپور تھلے کی مسجد فتح والی میں تشریف لے گئے.حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے.مسجد سے حضور نے خادم مسجد کو بھیجا کہ منشی اروڑا صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو.منشی ظفر احمد صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب کچرنی میں تھے.خادم مسجد نے انہیں اطلاع دے دی کہ مرزا صاحب مسجد میں ہیں اور انہوں نے مجھے اطلاع دینے کے لئے بھیجا ہے.نشی محمد اروڑا صاحب نے بڑی حیرت سے اسے پنجابی میں کہا.”دیکھ تاں تیری مسیت وچ آکے مرزا صاحب نے ٹھبر ناسی" یعنی کیا تمہاری مسجد میں ہی آکر مرزا صاحب نے ٹھرنا تھا.منشی ظفر احمد صاحب نے کہا چل کر دیکھا تو چاہیے.پھر منشی صاحب جلدی سے پگڑی باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑے.مسجد میں جا کر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے.منشی محمد اروڑا خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف لانا تھا تو ہمیں اطلاع فرماتے ہم کرتار پور اسٹیشن پر حاضر ہوتے.حضور نے جواب دیا اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا.وہ پورا کرنا تھا.بهر حال حضرت اقدس" کپور تھلہ کے محلہ قائم پورہ کے اس مکان میں جہاں بعد میں پرانا ڈاک خانہ رہا ہے فروکش ہوئے.وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہو گئے جن میں کرنیل محمد علی خاں صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے کر نیل صاحب نے ایک سوال پیش کیا جس کے جواب میں تضور نے تصوف کے رنگ میں ایک تقریر فرمائی جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.مولوی غلام محمد

Page 482

تاریخ احمدیت جلدا ۶۳ سفر لاہور صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے ہاتھ بڑھایا کہ میری بیعت لے لیں.مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کر دیا.وہاں صرف ایک ہی دن قیام فرمایا اور قادیان تشریف لے آئے.حضرت اقدس نے دوسرا سفر زمانہ بیعت کے بعد اختیار فرمایا آپ اس وقت علی گوہر صاحب افسر ڈاک خانہ کے ہاں ٹھرے تھے.اور تین دن قیام فرمایا تھا.اور تیسرا سفر اب اختیار فرمایا.جو دعوئی مسیحیت کے بعد تھا.آپ اس کے بعد کپور تھلہ تشریف نہیں لے گئے سفر جالندھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کپور تھلہ سے واپسی پر کرتار پور تک بگھی میں سفر کیا اور جالندھر تشریف لے گئے اس سفر میں کپور تھلہ کے مخلص خدام مثلاً منشی عبدالرحمن صاحب اور نشی ظفر احمد صاحب حضور کے ہمرکاب تھے.بعض لوگوں نے جالندھر کے انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کی کہ ایک شخص قادیان سے آیا ہوا ہے اور کہتا ہے میں مسیح موعود ہوں.اس کے قیام سے یہاں فساد کا اندیشہ ہے اسے حکم دیا جائے کہ وہ یہاں سے چلا جائے.چنانچہ اسی شکایت کی بناء پر یہ انگریز افسر صبح سویرے ہی حضور کی قیام گاہ پر پہنچا.بہت سے مخلصین جمع تھے.حضور نے اس کے واسطے کرسی منگوائی اور دوسری کرسی پر خود تشریف فرما ہوئے.اس نے پوچھا آپ یہاں کیسے آئے ہیں.حضور علیہ السلام نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے کہا جب تک آپ کی مرضی ہو یہاں قیام فرما ئیں اور یہ کہ کر اور سلام کر کے وہ واپس چلا گیا اس کے بعد اس کا یہ معمول ہو گیا کہ جب حضور میر کو تشریف لے جاتے اور وہ راستے میں گھوڑے پر سوار مل جاتا تو وہ ٹوپی اتار کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتا سفر لدھیانہ حضرت اقدس میچ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جالندھر میں قریباً ایک ماہ قیام فرما کر لدھیانہ تشریف لے گئے.حضور نے ازالہ اوہام " میں مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت دے رکھی تھی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ ( جلد ۱۴ نمبر ۲ صفحہ ۵۱-۵۲) میں ایک فرضی صوفی

Page 483

تاریخ احمدیت جلدا سفر لاہور کی طرف سے یہ مضحکہ خیز اعلان شائع کیا کہ اگر مرزا کو درگاہ الہی میں اپنے مقبول ہونے اور دیگر علماء کے مردود ہونے کا زخم ہو تو وہ کرامت دکھائے.کرامت ایسی ہونی چاہیے کہ اس کے جزئی و کلی حالات پوری تشریح سے شائع ہوں اور ہر خاص و عام اس تشریح کے مطابق ان کا پورا ہونا اچھی طرح دیکھ لے.یہ کرامت دس ہفتہ میں دکھلائی جائے اور اگر اس میعاد میں مرزا ایسی کرامت دکھانے سے عاجز آجائے تو اس کے اقرار عجز کے بعد انشاء اللہ تعالی میں وہی کرامت اور آسمانی نشان جو مرزا طلب کرے گا اس کو پانچ ہفتہ کے اندر دکھا دوں گا.حضرت اقدس جب جالندھر سے لدھیانہ آئے تو میر عباس علی صاحب نے اس فرضی صوفی کی وکالت میں حضور کو لکھا کہ ان سے مقابلہ کریں.حضور پر نور نے بذریعہ اشتہار جواب دیا کہ اگر یہ پردہ نشین صوفی در حقیقت موجود ہے تو اسے اپنا نام شائع کرنا چاہیے.اور اگر اس کے پاس حق ہے تو حق لے کر میدان میں آجائے مجھے جب کوئی معین شخص سامنے نظر نہیں آتا تو میں کس سے مقابلہ کروں؟ حضور کے اس مطالبے پر نہ میر عباس علی صاحب لدھیانوی کچھ بولے اور نہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ] حضور مئی کے تیسرے ہفتے میں واپس قادیان آگئے اور اس طرح آپ کے دعوئی مسیحیت کے سلسلہ میں ابتدائی سفر بخیرو خوبی ختم ہوئے اور آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی.نشان آسمانی" کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفر جالندھر کے بعد لدھیانہ میں مقیم تھے تو حضور نے "نشان آسمانی " کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کادوسرا نام ”شہادت المسلمین " بھی ہے اس کتاب میں حضرت اقدس نے آنحضرت ﷺ کے علاوہ نعمت اللہ صاحب ولی اور جمال پور ضلع لدھیانہ کے ایک درویش بزرگ مجذوب گلاب شاہ صاحب کی اہم پیش گوئیوں کا شرح و سط سے ذکر فرمایا.جو انہوں نے سالہا سال قبل مسیح و مہدی کے متعلق کر رکھی تھیں اور جو آپ کی آمد سے روز روشن کی طرح پوری ہو ئیں."نشان آسمانی " میں حضرت اقدس نے اپنے دعوی کی صحت معلوم کرنے کے لئے قوم کے سامنے ایک آسان تجویز یہ بھی رکھی کہ وہ آپ کے بتائے ہوئے طریق کے کہ وہ آپ کے بتائے مطابق دو ہفتہ تک خدا تعالٰی سے استخارہ کریں.

Page 484

تاریخ احمدیت جلدا ۴۶۵ کفر علماء کو مباہلہ کی پہلی دعوت سفر لاہور حضرت اقدس مسیح موعود اس وقت تک علماء کو اپنے دعوی کی سچائی کے لئے قرآن وحدیث کے علاوہ آسمانی نشان کی طرف توجہ دلا رہے تھے لیکن اب جب کہ آپ تبلیغ حق کا ایک ابتدائی مرحلہ طے کر چکے تھے آپ کو اللہ تعالٰی نے حکم دیا کہ آپ ان تمام علماء کو جو آپ کو محض جزئی اختلاف یا اپنی سج فہمی کے باعث ابھی تک کافر کے جاتے ہیں مباہلہ کا چیلنج دیں.چنانچہ حضرت اقدس نے ۱۰- دسمبر ۱۸۹۲ء کو علماء وقت کو مباہلہ کی پہلی دعوت عام دی.اور مباہلہ کے لئے چار ماہ کی مہلت دی.اس دعوت میں آپ کے اولین مخاطب شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور ان کے انکار کی صورت میں شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی تھے یہ دعوت حضور نے فردا فردا تمام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت کفر علماء کو بھیجی.مگر ان میں سے کسی کو مرد میدان بنے کی جرات نہ ہوئی.صرف مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے آمادگی کا اظہار کیا.مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے بعض علماء کو شریک مباہلہ کرنے کی در پردہ بڑی جدوجہد کی مگر غزنوی خاندان کے اکابر خود بھی گریز کر گئے اور ان کو بھی منع کیا.حضرت اقدس مسیح موعود نے ان کی آمادگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے ۱۰ ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷ مئی ۱۸۹۳ء کا دن مباہلہ کے لئے تجویز فرمایا.اور امرت سر کی عید گاہ متصل مسجد خان بهادر حاجی محمد شاہ مقام مباہلہ مقرر کیا.نیز مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت کے لئے اشتہار شائع کیا کہ وہ اس تاریخ کو اگر شامل مباہلہ نہ ہوئے تو سمجھا جائیگا کہ انہوں نے اپنے فتویٰ تکفیر سے رجوع کر لیا ہے.اس اشتہار پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مجبور آچند شرائط پر مباہلہ کرنا منظور کر لیا.اور حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ خط وہ الفاظ بھی بھیجوا دئیے جن میں وہ مباہلہ کرنا چاہتے تھے.حضور نے بذریعہ اشتہار امرتسر کے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ بکثرت میدان مبالہ میں حاضر ہوں میں یہ دعا کروں گا کہ "جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول اللہ کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کا فر بے ایمان پر نہ کی ہو.اور آپ لوگ کہیں آمین".

Page 485

تاریخ احمدیت جلدا ۴۶۶ سفر لاہور حضرت اقدس میدان مباہلہ میں اور حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا گریز وقت مقررہ (۲ بجے) پر عید گاہ تشریف لے گئے عید گاہ میں یہ معرکہ حق و باطل دیکھنے کے لئے مسلم اور غیر مسلم کثیر تعداد میں جمع تھے.مگر کفر علماء میں سے خال خال ہی تھے.حضرت اقدس ایک درخت کے نیچے عام انبوہ خلائق کے حلقے میں بیٹھ گئے.کچھ دیر بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی پہنچ گئے اور عید گاہ کے منبر پر بیٹھ کر گالیوں بھرا " وعظ کرنے لگے.حالانکہ اپنے خط میں یہ شرط تسلیم کر چکے تھے کہ مباہلے کے سوا کوئی فریق کوئی وعظ کرنے کا مجاز نہ ہو گا.عام لوگوں کو ان کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری کہ آئے کس غرض سے تھے اور کرتے کیا ہیں.آخر کار خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرت سرہجوم میں سے ہوتے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں آئے اور کہا کہ مولوی محمد حسین صاحب کہتے ہیں کہ آپ اس طرح دعا کریں کہ الہی میں نے جو اپنی کتابوں میں نبوت کا دعوی کیا ہے ملائکہ سے انکار کیا ہے اگر ان سب کفریات میں میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر لعنت بھیج.یہ احمقانہ بات سن کر سب لوگ ہنس پڑے اور خود خواجہ صاحب بھی مسکرا دئیے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ ہی سوچئے کہ میں تو اپنے آپ کو امت محمدیہ کا ایک فرد سمجھتا ہوں اور ایسی باتوں کا منہ پر لانا خود کفر جانتا ہوں پھر یہ کیسے کہوں.یہ کہہ کر حضرت اقدس نے وہ خط خواجہ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا کہ یدانسی کی تحریر ہے آپ ان کو دکھا ئیں.اور چونکہ وقت گزرتا جاتا ہے اس لئے مباہلہ پر آمادہ کریں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک شاگر د شیخ عبد العزیز صاحب نے جو یہ خط دیکھا تو کہا کہ یہاں تو صاف لکھا ہے کہ مباہلے کے سوا کسی فریق کو وعظ کرنے کی اجازت نہ ہوگی.اور وہ خواجہ صاحب اور نشی غلام قادر صاحب فصیح کو ساتھ لے کر مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور انہوں نے اور دیگر معزیزین نے بہت زور لگایا مگر مولوی صاحب کی تو مباہلہ سے جان جاتی تھی وہ بھلا کیسے تیار ہوتے.عوام میں ان کے اس کھلے گریز کے بڑے چرچے ہوئے.حضرت اقدس نے یہ دیکھا تو خود ہی مولوی عبد الحق صاحب کے ساتھ مباہلہ کرنے کھڑے ہو گئے.سب مرید اور دوسرے لوگ صف بستہ پیچھے کھڑے تھے.حضور نے اس وقت ایسے درد ناک پیرایہ میں تین بار بلند آواز سے دعا کے الفاظ دہرائے کہ عید گاہ آہ و فغاں سے میدان حشر کا نمونہ بن گئی اور کئی آدمی بخش کھا کر گر پڑے.حضور نے اس مباہلے میں مولوی عبدالحق صاحب کے خلاف کوئی بددعا نہیں کی.صرف اپنے متعلق خدا تعالٰی سے یہ دعا کی کہ اگر میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالٰی مجھے ہلاک کر دے.اور پھر اپنے معتقدات پر ایک زبردست تقریر فرمائی آپ کی یہ تقریر اتنی موثر تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے ایک

Page 486

تاریخ احمدیت جلد ۴۶۷ سفر لاہور شاگرد منشی محمد یعقوب صاحب سابق اور سیر محکمہ نہر کی تو شیخ نکل گئی.اور وہ ہاتھ پھیلائے حضور کے قدموں میں جاگرے اور مجمع عام میں بیعت کر لی.حضرت اقدس کے مباہلہ اور تقریر کی یہ فوری تاثیر ایک عظیم الشان نشان تھا جس نے لوگوں کے دل میں حضور سے ایک عقیدت پیدا کر دی اور وہ بٹالوی صاحب سے بدظن ہو گئے.چونکہ وقت بہت ہو چکا تھا.اس لئے انسپکٹر پولیس نے جو عید گاہ میں موجود تھا حضرت اقدس سے بھی تشریف لے جانے کی درخواست کی اور بٹالوی صاحب سے بھی.عید گاہ سے آنے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ہر چند کوشش کی کہ انہیں مسجد خیر الدین (امرتسر میں ہی وعظ کرنے کا موقعہ مل جائے مگر شہر کے عوام اور رؤساء کو ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ تھا.وہ انہیں کیوں موقعہ دیتے.مولوی صاحب نے یہ ذلت ورسوائی دیکھی تو خود ہی امرت سرسے چلے گئے.مباہلے کے بعد علماء نے شور مچایا کہ ہم مباہلے کے بعد مباحنے کا چیلنج اور علماء کا فرار سے بحث ہونی چاہیے.اس پر حضرت اقدس نے ایک اشتہار شائع فرمایا کہ جن مولوی صاحب کو بحث کرنا ہو وہ کوئی مقام تجویز کریں ہم آج سے تیسرے روز یہاں سے چلے جائیں گے پھر کوئی عذر نہ رہے گا لیکن مولوی صاحبان خاموش رہے.اس پر خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرتسر نے مولویوں سے کہا کہ اب آپ بحث کیوں نہیں کرتے جب کہ مرزا صاحب نے بحث منظور کرلی ہے.مولویوں نے جواب دیا کہ ہم بحث کریں گے پہلے باہم مشور کرلیں چنانچہ وہ مشورہ کی غرض سے محمد جان کی مسجد کے ایک حجرے میں جمع ہوئے اور موزن سے کہہ دیا کہ حجرے کا دروازہ مقفل کر کے چابی اپنے پاس رکھے اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ کہیں دعوت پر گئے ہیں دیر میں آئیں گے.خواجہ یوسف شاہ صاحب مولویوں کو تلاش کرتے ہوئے وہاں آگئے.موزن سے پوچھا کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں ؟ اس نے کہا دعوت میں گئے ہیں.پھر خواجہ صاحب موصوف مولوی عبد الجبار صاحب کے ہاں گئے وہاں سے بھی یہی جواب ملا اس پر خواجہ صاحب مولویوں کی تلاش میں نکلے اور پتہ لگایا کہ کس کے ہاں دعوت ہے اور دوبارہ محمد جان کی مسجد کی طرف آئے تو اچانک کسی نے تبا دیا کہ تمام مولوی اس مسجد کے نیچے کے حجرہ میں جمع ہیں اور باہر سے قفل لگا ہوا ہے تاکسی کو پتہ نہ لگے.خواجہ صاحب نے موزن سے پھر پوچھا.کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ موزن نے پھر یہی جواب دیا کہ دعوت میں گئے ہیں.خواجہ صاحب نے کہا کس کے ہاں ؟ اس کا جواب اس نے خوفزدہ ہو کر دیا کہ مجھے معلوم نہیں.اس پر خواجہ صاحب نے اس سے کنجی لے کر حجرہ کھولا.جب اندر جا کر دیکھا تو سب مولوی حجرہ کے اندر بیٹھے ہوئے پائے.خواجہ صاحب کہنے لگے.آج تو بحث کا دن ہے اور آپ چھپ کر بیٹھے ہیں کل کو مرزا صاحب چلے جاویں گے تو بحث کس سے ہوگی.

Page 487

تاریخ احمدیت.جلدا شقولا ہوئے مولویوں نے کھسیانے ہو کر کہا کہ ہاں ہم مشورہ کر رہے ہیں تھوڑی دیر میں آپ کو اطلاع دی جائے گی آپ تسلی رکھیں.خواجہ صاحب تاکید کر کے چلے گئے.مگر جب مولویوں نے خواجہ صاحب کو کچھ نہ بنایا تو خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ مولوی صاحبان بحث نہیں کر سکتے.اور کچی بات بھی یہی تھی.اس پر خواجہ صاحب خاموش ہو گئے.البتہ جب حضرت اقدس قادیان واپسی کے لئے تیار ہوئے تو مولوی صاحبان نے آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ایک مطبوعہ اشتہاز آپ کی سواری کے پیچھے پیچھے تقسیم کرنا اور دیواروں پر چسپاں کرنا شروع کر دیا جس کا عنوان تھا." مرزا بھاگ گیا".امرتسری علماء د و چهار روز بعد مباحثہ کرنے والے عالم کا انتخاب کرنے کے لئے دوبارہ جمع ہوئے مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا.آخر مولوی غلام اللہ صاحب قصوری بولے کہ بحث سے تو انکار نہیں کرنا چاہیے.ہاں یہ لکھ دو کہ مقام مباحثہ کابل یا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ ہو گا.نہ وہاں جائیں گے نہ مباحثہ ہو گا.۱۸۹۲ء کے بعض صحابہ ۱۸۹۲ء کے بعض مشہور صحابہ یہ ہیں.(۱) حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۲) حضرت میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل (۳) حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب (۴) مرز الیعقوب بیگ صاحب (۵) حضرت منشی شادی خاں صاحب سیالکوئی.(۲) حضرت پیر منظور محمد صاحب (۷) حضرت حاجی شہزادہ عبدالمجید صاحب (۸) حضرت خان عبد المجید صاحب کپور تھلوی (۹) حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور (۱۰) حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی (11) منشی گلاب دین صاحب رہتای - (۱۲) حضرت مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں (۱۳) حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب (۱۴) حضرت صوفی نبی بخش صاحب (۱۵) حضرت میاں عبد العزیز صاحب او جلوی ) (۲) حضرت پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری (۱۷) حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب لگتی (۱۸) حضرت حکیم محمد حسین ( مرہم عیسی ) (9) حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری (vi)

Page 488

تاریخ احمدیت جلدا ۴۶۹ مقر لاہور ه تاریخ وفات مئی ۱۹۳۷ء حواشی صحیح بخاری باب مناقب عمر یعنی تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے مرد گزرے ہیں جو نبی تو نہیں تھے مگر انہیں مکالمہ مخاطبہ کا شرف حاصل تھا.اگر میری امت میں کسی کو یہ مقام حاصل ہے تو وہ عمر ہیں.عرفانی سابق وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان جناب مظفر علی صاحب قزلباش کے پردادا "حیات احمد " جلد سوم صفحہ ۲۰۶-۲۳۹٬۲۱۸-۲۵۰- تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۹۴-۱۹۲ حکم ۴- اکتوبر ۱۹۳۴ء صفحه ۳ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۲-۱۳- میرت مسیح موعود ( از حضرت عرفانی صاحب م صفحه ۱۵۷-۲۰۷۱۵۸-۴۰۷ محمد داعظم جلد اول صفحه ۳۳۲-۳۳۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۲۳۹ مجدد اعظم جلد اول صفحه ۳۳۳ آئینه حق نما" (مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب) صفحہ ۱۰۷ ۱۰۸ پر بھی یہ نظم ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کی زندگی میں شائع ہو چکی ہے."سیرت المهدی " حصہ سوم صفحه ۲۴۹ الله مولانا عبد المجید سالک لکھتے ہیں.علامہ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد نے علامہ کو اعلیٰ تعلیم دلائی.یورپ بھیجا.حضرت علامہ بھی اپنے بڑے بھائی کے مداح اور فریفتہ تھے.شیخ عطا محمد نے بیاسی سال کی عمر بائی ۱۹۴۰ء میں انتقال فرمایا.شیخ صاحب احمدی عقائد رکھتے تھے.(ذکر اقبال صفحہ ۱۰۹) اخبار " نوائے وقت ۵- نومبر ۱۹۵۳ء و "پیغام صلح ۱۸- نومبر ۱۹۵۳ء ۱۳- رسالہ انڈین اینٹی کو بری " جلد ۲۹ ستمبر ۱۹۰۰ ء صفحه نمبر ۲۳۹ ملت بیضا پر ایک ممرانی نظر " صفحہ ۱۸ مطبوعہ انجمن معین الاسلام لاہور کی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے آفتاب اقبال کو تعلیم کی غرض سے بڑے بڑے علمی مراکز چھوڑ کو قادیان بھیجوایا.چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ بڑی حسرت سے کہا." میں نے اسے قادیان بھیجا تھا تا دین سیکھ لے مگر وہ وہاں نہ رہا " الفضل ۲ اگست (۱۹۳۵ ذکر اقبال صفحه ۷۰ ( از مولانا عبد المجید سالک) ۷ مکاتیب اقبال " مرتبہ شیخ عطاء اللہ صاحب ایم.اے) حصہ اول صفحہ ہے.۱۸ مکاتیب اقبال " حصہ دوم صفحه ۳۱ ۲ ۱ صفحه ۲۳۳ " مکاتیب اقبال جلد اول صفحه ۴۷ ۲۰ حیات احمد " جلد سوم صفحه ۲۲۱-۲۲۶- " ریویو آف ریلیجز "اردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۴-۱۵ ام حیات احمد جلد سوم ریویو آف رینجرز اردو جنوری ۱۹۴۳ صفحه ۲۴-۲۶ ۲۲ « تبلیغ رسالت " جلد دوم صفحه ۱۰۲ -۲۳ کتاب "اربعین فی احوال المد حسین میں حضرت نعمت اللہ ولی سے متعلق لکھا ہے." مرد صاحب باطن راز اولیاء کامل در ہندوستان مشهور اند وطن اوشان در اطراف دهلی است زمانه شان پانصد و شصت هجری (۵۶۰) از دیوان اوشان معلوم می شود و در آن این ابیات در هندوستان مشهور و معروف است.آپ کی شخصیت اور آپ کے قصیدے سے متعلق تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ " تائید نشان آسمانی " ( از مولانا جلال الدین

Page 489

تاریخ احمدیت جلدا سفر لاہور صاحب عم محضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ " مولفہ قمر اسلام پوری (قلمی نام دوست محمد شاہد) ناشر کتب پاکستان شمس لاہور.طبع اول ۶۱۹۷۲ ۲۴ تاریخ رسالت جلد دوم صفحه ۱۲۱-۱۳۳۰ ۲۵- حیات احمد جلد چهارم صفحه ۴۰۲ ۲ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۵۵ ۲۷ و تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۵۴ ۲۸- حیات احمد جلد چهارم صفحه ۴۰۴-۴۰۸ -۲۹ " رساله نور احمد نمبرا (مولفه شیخ نور احمد صاحب) صفحه ۳۳-۳۵ -۳۰ تاریخ بیعت -۲ جنوری ۱۸۹۲ء تاریخ وفات یکم جولائی ۱۹۳۶ء ۳ تاریخ بیعت ۱۰ جنوری ۶۱۸۹۲- تاریخ وفات یکم مارچ ۱۹۳۳ء عمر ۶۸ سال ۳۲ ولادت اگست ۱۸۷۵ء وفات ۲۸ اپریل ۱۹۰۰ء تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو " اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۶۳ - ۱۰۴ ۳۳ ولادت ۱۸۷۲ ء وفات ۱۲ فروری ۱۹۳۶ء ۳۴- حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے خسر- تاریخ وفات ۱۹ مارچ ۱۹۳۸ ء عمر ۷۲ سال ۳۵ حضرت منشی محمد خاں صاحب کپور تھلوی کے صاحبزادے.آج کل آپ ماڈل ٹاؤن لاہور میں قیام پذیر ہیں.(۴- جنوری ۱۹۶۳ء کو انتقال فرما گئے.مرتب) ۳۶ آسام کے مشہور صحابی ۳۱۳ کی فہرست میں ان کا نام ہی نمبر پر درج ہے، خلافت ثانیہ کے ابتداء میں آپ کلو صال ہوا.۳۷- تاریخ وفات ۲۳ نومبر ۶۱۹۲۰ ۳۸- ولادت ۱۸۵۴ء وفات ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۲ء " ازالہ اوہام " سے متاثر ہو کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں قادیان پہنچے اور بیعت کرلی.آپ کے ذریعہ سے ضلع گجرات میں متعددنی احمدی جماعتیں قائم ہو گئیں.جب مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی تو حضرت مسیح موعود نے آپ کو دینیات کا مدرس مقرر فرمایا آپ صاحب کشف و الہام بھی تھے.۳۹ وفات 1 اپریل ۱۹۴۹ ۴۰ ولادت کے کے ۱۸ ء وفات ۲۲ جون ۶۱۹۵۷ عمر ۸۰ سال اوقات ۳- جون ۱۹۵۷ء عمر ۸۵ سال ۴۲ تاریخ وفات ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۴ء عمر ۹۳ سال ۴۳ حضرت حافظ صاحب کے شامل احمدیت ہونے کا موجب ” آئینہ کمالات اسلام" کے ان چند اوراق کا مجموعہ ہوا ہے.جن میں حضرت اقدس نے آیات شریفہ تم اور ثناء الكتب الذين اصطفينا اوران منكم الا واردھا اور ووجدک ضالا فهدی وغیرہ کی تغییر فرمائی تھی.یہ مجموعے اوراق حسن اتفاق سے آئینہ کمالات اسلام کی طباعت کے دوران ہی میں حضرت اقدس کی ان کتب کے ساتھ شامل ہو کر پہنچ گیا تھا جو خان عبد المجید خان صاحب ریٹائڈ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپور تھلہ کے والد بزرگوار حضرت محمد خان صاحب نے آپ کے والد ماجد حضرت مولوی حافظ سید علی میان صاحب کو اپنے قریبی رشتہ دار جناب رسالدار میجر بهادر عبد الکریم خان رئیس شاہجہانپور کے ذریعہ سے بھیجی تھیں.حضرت حافظ صاحب کو ان دنوں خشی اندر من مراد آبادی و غیره معاندین اسلام کے اس اعتراض کی وجہ سے بڑی ایذا پہنچ رہی تھی کہ بانی اسلام کیلئے تو خود قرآن میں قبال کا لفظ موجود ہے جس کے معنی گمراہ کے ہیں اور اس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا تھا وہ آپ کے نزدیک کافی اور علمی لحاظ معترضین کا دم بند کر دینے والا نہیں تھا.اور آپ کو بے چینی کے ساتھ ایسے جواب کی فکر و تلاش تھی.اللہ تعالٰی کا فضل در تم کہ جس وقت مذکورہ کتابیں پہنچیں تو آپ بھی اپنے والد کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے جو چیز ان میں سے اٹھائی وہ مجموعہ اوراق ہی تھا اور جب آپ نے اسے کھولا تو نظر کے سامنے وہ صفحہ تھا جس پر تخلط جلی لکھا تھا.ووجدک ضالا فیدی.آپ نے اسی مقام سے پڑھنا شروع کر دیا.اس مضمون میں لفظ ضال کی معنوی تشریح اور ہادی اعظم ﷺ کی شرین میں اس کے دارد ہونے کی دل کشا و روح افزا وجہ ایسے

Page 490

۴۷۱ سفر لاہور تاریخ احمدیت جلدا معقول ومدلل اور دل نشین ووجد آفرین انداز سے بیان کی گئی تھی کہ سبحان الله و صل علی اور یہی وہ چیز تھی جس کی آرزوئے مسلسل میں دنوں سے آپ کا دل جناب اور آپ کی روح بے قرار تھی.ادھر اس مضمون باطل سوز و حق افروز کا مطالعہ ختم ہوا.اور ادھر یہ امر آپ کے دل میں پوری قوت سے رائج ہو گیا کہ صاحب مضمون سید نا حضرت محمد مصطفی کے عاشق جان نثار اور قرآن مجید کے ماہر کامل اور حقائق و معارف قرآنی کے بحر ذخار ہیں.اور اسی وقت سے آپ حضرت اقدس کے زمرہ حلقہ بگوشان میں شامل ہیں.

Page 491

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۷۲ آئینہ کمالات اسلام" کی تصنیف و اشاعت ماموریت کا بارھواں سال آئینہ کمالات اسلام" کی تصنیف و اشاعت (۶۱۸۹۳) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو قرآن مجید کے کمالات اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے واقف کرانے کے لئے ۱۸۹۲ء میں ایک کتاب لکھنی شروع کی جو " آئینہ کمالات اسلام " کے نام سے فروری ۱۸۹۳ ء میں شائع ہوئی.اس کتاب کی تحریر کے دوران میں آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مرتبہ زیارت ہوئی.اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تالیف پر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.اس معرکتہ الاراء تصنیف میں متعدد اہم مباحث مثلاً مقام فنا بقا لقاء روح القدس کی دائمی رفاقت اور ملائک و جنات کے وجود کے ثبوت پر جدید زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے.کتاب میں وہ قوت و شوکت ہے کہ سطر سطر سے تائید حق کا جلوہ صاف نظر آتا ہے."آئینہ کمالات اسلام کی طباعت حضرت اقدس علیہ السلام نے ابتداء ہی میں کتاب آئینہ کمالات اسلام لکھنے کا ارادہ فرمایا تو شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر سے ارشاد فرمایا کہ اپنا پر میں قادیان لے آئیں.چنانچہ وہ امرتسر سے اپنا پریس قادیان لے آئے اور اسے گول کمرے میں نصب کر دیا.حضرت اقدس ساتھ ساتھ مضمون لکھتے اور ساتھ ہی ساتھ کاپی لکھی جاتی تھی.کاتب امام الدین صاحب لاہوری تھے جن کو حضور کا لکھا ہوا خط پڑھنے کی خوب مہارت ہو گئی تھی.وو التبليغ 1 جنوری ۱۸۹۳ء کو جب کتاب کا اردو حصہ مکمل ہو چکا تو مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے -

Page 492

تاریخ احمدیت جلدا ۴۷۳ آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت ایک مجلس میں حضرت اقدس سے عرض کی کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان فقراء اور پیرزادوں پر اتمام حجت کے لئے ایک خط بھی شائع ہونا چاہیے.حضور نے یہ تجویز بہت پسند کی.آپ کا ارادہ تھا کہ یہ مخط اردو میں لکھا جائے لیکن رات کو بعض اشارات الہامی میں آپ کو عربی میں لکھنے کی تحریک ہوئی.اور اللہ تعالی کے حضور دعا کرنے پر آپ کو رات ہی رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا گیا چنانچہ آپ نے اسی الہامی قوت سے التبلیغ " کے نام سے فصیح و بلیغ عربی میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہندوستان ، عرب، ایران ، ترکی ، مصر او ر دیگر ممالک کے پیرزادوں ، سجادہ نشینوں ، زاہدوں صوفیوں اور خانقاہ نشینوں تک پیغام حق پہنچا دیا."التبلیغ " کے بعد عربی زبان میں حضور نے وہ بے نظیر لٹریچر پیدا کیا کہ فصحائے عرب و عجم کی زبانیں اس کے مقابلہ میں گنگ ہو گئیں."التبلیغ " کے متعلق ایک عرب فاضل نے کہا کہ اسے پڑھ کر ایسا وجد طاری ہوا کہ دل میں آیا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان پہنچوں.D طرابلس کے ایک مشہور عالم السید محمد سعیدی شامی نے اسے پڑھتے ہی بے ساختہ کہا.واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا.اور بالاخر اسی سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کرلی.حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے.کہ ہماری جتنی عربی تحریریں ہیں یہ سب ایک رنگ کی الہامی ہی ہیں کیونکہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں.فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتا ہوں.مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے.پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوں تو پتہ لگتا ہے.ان کتابوں کا یہ اعجازی رنگ دیکھ کر مخالف علماء کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ آپ کی تالیفات ہیں وہ قطعی طور پر سمجھتے تھے کہ آپ نے اس غرض کے لئے علماء کا کوئی خفیہ گروہ ملازم رکھا ہوا ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب اس خفیہ گروہ " کا سراغ لگانے کے لئے قادیان آئے اور رات کے وقت مسجد مبارک میں گئے.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ان دنوں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں مقیم تھے مولوی صاحب نے حضرت منشی صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوں گے اور وہ وقت رات ہی کا ہو سکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں حضرت منشی صاحب نے کہا مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین صاحب ضرور آپ کے پاس رہتے ہیں یہی علماء رات کو امداد کرتے ہوں گے.حضرت اقدس کو منشی صاحب کی یہ آواز پہنچ گئی اور حضور بہت ہے.کیونکہ مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین الدین صاحب دونوں حضور کے ان پڑھ ملازم تھے اس کے بعد مولوی صاحب موصوف اٹھ کر چلے گئے.اگلے روز جب حضور بعد عصر مسجد میں حسب معمول بیٹھے تو مولوی صاحب موصوف بھی موجود تھے.حضور نشی

Page 493

تاریخ احمدیت.جلدا انگیز کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت صاحب کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا وہ رات والے علماء انہیں دکھلا بھی تو دو.اس وقت حضور نے مولانا عبد الکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ سنایادہ بھی پہنے لگے حضرت منشی صاحب نے محمد چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب موصوف کے سامنے کھڑا کر دیا وہ مولوی صاحب ان دونوں علماء " کو دیکھ کر چلے گئے اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے آئے اور اپنے بارہ ساتھیوں سمیت حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لی."التبلیغ" کے آخر میں سرور کونین ﷺ کی شان اقدس میں قصیدہ مدحیہ حضرت مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی رقم فرمایا جو چودہ سو سال کے اسلامی لٹریچر میں آپ ہی اپنی نظیر ہے.جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا یہ قصیدہ جناب الہی میں قبول ہو گیا اور خدا تعالٰی نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول ( آنحضرت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا.اور اپنا قرب عطا کروں گا.السید محمد سعیدی شامی کو جب یہ قصیدہ دکھایا گیا توہ پڑھ کر بے اختیار رونے گئے اور کہا.خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا.مولانا نیاز محمد خاں نیاز منچوری نے اس قصیدے کے متعلق لکھا ہے.اب سے تقریباً ۶۵ سال قبل ۱۸۹۳ء کی بات ہے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوی تجدید و مہددیت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی.اور مخالفت کا ایک طوفان ان کے خلاف بر پا تھا.آریہ عیسائی اور مسلم علماء بھی ان کے مخالف تھے اور وہ تن تنہا ان تمام حریفوں کا مقابلہ کر رہے تھے.یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے مخالفین کو هل من مبارز " کے متعدد چیلنج دیئے اور ان میں سے کوئی سامنے نہ آیا.ان پر منجملہ اور اتہامات میں سے ایک اتمام یہ بھی تھا کہ وہ عربی و فارسی سے نابلد ہیں اسی اتہام کی تردید میں انہوں نے یہ قصیدہ نعت عربی میں لکھ کر مخالفین کو اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی لیکن ان میں سے کوئی بروئے کار نہ آیا.مرزا صاحب کا یہ مشہور قصیدہ -۲۹ اشعار پر مشتمل ہے اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب و غریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا.ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب تہہ نہ کیا تھا کیو نکر ایسا فصیح و بلیغ قصیدہ لکھنے پر قادر ہو گیا.اسی زمانہ میں ان کے مخالفین یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان کی عربی زبان کی شاعری غالبا ان کے مرید خاص مولوی نور الدین کی ممنون کرم ہے لیکن اس الزام کی لغویت اس سے ظاہر ہے کہ مولوی نور الدین خود مرزا صاحب کے بڑے معتقد تھے اور اگر مرزا صاحب

Page 494

تاریخ احمدیت جلدا.۴۷۵ آئینہ کمالات اسلام" کی تصنیف و اشاعت کے عربی قصائد وغیرہ اپنی کی تصنیف ہوتے تو مرزا صاحب کے اس کذب و دروغ پر کہ یہ سب کچھ خود انسی کی فکر کا نتیجہ ہے سب سے پہلے مولوی نور الدین ہی معترض ہو کر اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے.حالانکہ مرزا صاحب کے بعد وہی خلافت کے مستحق قرار دیئے گئے یہ قصیدہ نہ صرف اپنی لسانی وفتی خصوصیات بلکہ اس والہانہ محبت کے لحاظ سے جو مرزا صاحب کو رسول اللہ سے تھی بڑی پر اثر چیز ہے یہ قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے.يا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يسعى اليْكَ الْخَلْقُ كَالثَّمَانِ اور اختتام اس شعر پر ہوتا ہے :- فارسی نعت جسمي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقِ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قَوَّةُ الطَّيَرَانِ.اس عربی قصیدہ کے علاوہ جو "التبلیغ میں شامل تھا حضرت اقدس نے "آئینہ کمالات اسلام میں ایک بلند پایہ فارسی نعت بھی رقم فرمائی اس نعت کا مطلع یہ ہے.عجب عجب نوریست لعلیست جان محمد ور كان یہی وہ نعت ہے جس کے ایک شعر سے متعلق جماعت احمدیہ کا ایک شدید مخالف اخبار "آزاد" بھی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ کی تعریف و توصیف میں گزشتہ انبیاء و مرسلین سے لے کر صلحائے امت تک نے بہت کچھ کہا ہے مگر حقیقی تعریف اسی شعر میں بیان کی گئی ہے که اگر محمد خواری دلیلے عاشقش باش بست برہان مجھ تبلیغ " کا فارسی ترجمہ مولانا عبد الکریم صاحب کا کیا ہوا ہے ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں ملکہ وکٹوریہ (۱۸۱۹ - ۱۹۰۱) کو ایک خط کے ذریعہ سے دعوت اسلام دی جس میں آپ نے آنحضرت ﷺ کے حقیقی خادم ہونے کی حیثیت سے ملکہ وکٹوریہ کو انہی الفاظ میں حق کا پیغام پہنچایا.جن الفاظ میں آنحضرت نے

Page 495

تاریخ احمدیت جلدا آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف و اشاعت ۷۲۸ء کے آخر میں قیصر و کسری کو پہنچایا تھا.یعنی آپ نے لکھا.” یا ملیکہ الارض اسلمی تسلمين " اے ملکہ مسلمان ہو جا تو اور تیری سلطنت محفوظ رہے گی.خط کے آخر میں حضور نے اسے محض اللہ نصیحت فرمائی کہ اے ملکہ مسلمانوں کی طرف خاص نظر کرنا اور ان کی اکثریت کو حکومت کے معاملات میں اپنا مقرب و مصاحب بنانا کیونکہ تو ان کی اس ریاست پر قابض ہوئی ہے جس پر وہ ایک ہزار سال تک اپنا پرچم لہراتے رہے ہیں پس خدا کے اس انعام پر اپنے رب کا شکر ادا کر اور مسلمانوں پر فدا ہو جا کہ خدا تصدق ہو جانے والوں کو پسند فرماتا ہے.حکومت کا اصل مالک خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا.اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے.ملکہ وکٹوریہ کو جب یہ دعوت ملی تو اس نے حضرت اقدس کی خدمت میں شکریہ کا خط ارسال کیا اور خواہش ظاہر کی کہ حضور اپنی تمام تصانیف انہیں بھجوائیں.عمر کے آخری حصہ میں ملکہ کو اسلام سے خاص محبت و الفت پیدا ہو گئی تھی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم کرتی تھیں.اور انہوں نے ایک ذی علم مسلمان سے اردو بھی پڑھنا شروع کر دیا تھا.حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کا خراج عقید تبلیغ اسلام کا میں وہ مجاہدانہ کارنامہ تھا جسے چاچڑاں شریف سابق ریاست بہاولپور کے ایک صاحب کشف بزرگ خواجہ غلام فرید صاحب نے (جن کے ارادتمندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے) بہت سراہا.چنانچہ آپ نے فرمایا.”ہمہ اوقات مرزا صاحب عبادت خدا عزو جل میگذارند یا نماز می خواند یا تلاوت قرآن شریف میکنند یا دیگر شغل اشغال مینماید و بر حمایت اسلام و دین چناں کمر همت بسته که ملکه زمان لندن را نیز دعوت دین محمدی کرده است و بادشاه روس و فرانس و غیر ہمارا ہم دعوت اسلام نموده است و همه سعی و کوشش اوا نیست که عقیده مثلیت و صلیب را که سراسر کفر است بگذارند و تبوحید خداوند تعالی بگردند - و علماء وقت را به بینید که دیگر گروه مذاہب باطله را گذاشته صرف در پے ایس چنین نیک مرد که از اهل سنت و جماعت است و بر صراط مستقیم است در راه برات می نماید افتاده اند و بردی حکم تکفیر می سازند - کلام عربی او به بینید که از طاقت بشریه خارج است و تمام کلام او مملو از معارف و حقائق است" یعنی حضرت مرزا صاحب اپنے تمام اوقات عبادت الہی دعا نماز تلاوت قرآن اور اسی نوع کے دوسرے مشاغل میں گزارتے ہیں.دین اسلام کی حمایت کے لئے آپ نے ایسی کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کو لندن میں دعوت اسلام بھیجی ہے اسی طرح روس فرانس اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دیا ہے.آپ کی تمام تر سعی جد و جہد یہ ہے LA -

Page 496

تاریخ احمدیت جلدا ۴۷۷ آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف و اشاعت کہ تثلیث و صلیب کا عقیدہ جو سراسر کفر و الحاد ہے.صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور اس کی بجائے اسلامی توحید قائم ہو جائے.مگر علماء وقت کو دیکھو کہ باقی تمام باطل مذاہب کو چھوڑ کر اس نیک مرد پر کفر کے فتوؤں سے ٹوٹ پڑے ہیں جو اہل سنت و الجماعت میں سے ہے خود بھی صراط مستقیم پر گامزن ہے اور دوسروں کو بھی اسی کی راہنمائی کر رہا ہے.آپ کا تمام عربی کلام دیکھا جائے تو انسانی قدرت سے بالا معارف و حقائق سے لبریز اور سر تا پاہدایت ہے.پنڈت لیکھرام سے متعلق پیشگوئی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالٰی سے خبر پا کر پنڈت لیکھرام کے متعلق اگر چہ سات سال قبل (فروری ۱۸۸۶ء) سے اعلان کر رکھا تھا کہ اس شاتم رسول کے لئے ایک عبرتناک سزا مقدر ہے.مگر اس کی تفصیلات آپ کو ۱۸۹۳ء میں بتائی گئیں.چنانچہ اس سال مختلف اوقات میں نازل ہونے والے الہامات و کشوف کے ذریعہ سے آپ کو لیکھرام کی عبرتناک سزا کے بارے میں تفصیلا بتایا گیا کہ اول : لیکھرام ایک ایسے عبرتناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جس کا نتیجہ ہلاکت ہو گا.دوم یہ عذاب چھ سال کے عرصہ میں آئے گا.سوم:- یہ عذاب عید کے دن سے ملے ہوئے دن میں آئے گا.چہارم :- اس کی ہلاکت ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے مقدر ہے جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہو گا.(جیسا کہ آپ کو ایک کشف میں دکھایا گیا) م: وہ تیغ برہان محمد " یعنی رسول اکرم ﷺ کی تیز تلوار سے کیفر کردار کو پہنچے گا.تم:.اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے سے کیا گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا.پھر اسے جلا کر اس کی راکھ دریا میں ڈال دی گئی تھی.حضور نے یہ تفصیلی پیشگوئیاں آئینہ کمالات اسلام ، برکات الدعا اور کرامات الصادقین میں شائع فرمائیں.زبر دست تحدی حضور نے لیکھرام سے متعلق یہ پیشگوئی شائع کرتے ہوئے ملک بھر کے مسلمانوں ، آریوں اور عیسائیوں کے سامنے یہ زبردست تحدی کی کہ "اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الی بیت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالی کی طرف سے نہیں

Page 497

تاریخ احمدیت جلدا آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف دا شاعت اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے.اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا بھگتے.لئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے ".نیز لکھا اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے مل جائے".حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی ولادت آئینہ کمالات اسلام" (صفحہ ۲۶۶) میں حضرت اقدس نے خدا تعالٰی سے اطلاع پا کر یہ پیشگوئی شائع فرمائی کہ "يَاتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ يَنَاتُهُ يَسُرُّ اللَّهُ وَ جَهَكَ وَيُنيرُ بُرْهَانَكَ سيولد لكَ الوَلَدُ وَيدْنى مِنكَ الْفَضْلُ إِنْ نُورِى قَریب یعنی نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا مدعا حاصل ہو جائیگا.خدا تیرے منہ کو بشاش اور تیری برہان کو روشن کر دیگا.تجھے عنقریب ایک لڑکا عطا ہو گا اور فضل تیرے نزدیک کیا جائیگا.یقینا میرا نور قریب ہے، سو اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے.جو خاندان حضرت مسیح موعود کے عالی گہر اور خدا تعالٰی کے ایک زندہ نشان ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن میں ایک مرتبہ آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہو گیا پلکیں گر گئیں تھیں.آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا.کئی سال تک انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.بلکہ حالت اور زیادہ تشویشناک ہو گئی.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو حضور کو الہام ہوا - برق طفلی بشیر (میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں، چنانچہ اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالٰی نے آپ کو کامل شفا بخشی.اور نہ صرف آنکھیں بالکل درست ہو گئیں بلکہ بصیرت کی آنکھیں بھی ایسی روشن ہوئیں کہ مادی اور روحانی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی بلند پایہ تالیفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور تمنا تھی کہ آپ کو ایم.اے کرایا جائے.حضور کا منشائے مبارک اس وصیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تا آپ بیسویں صدی میں اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں.چنانچہ 1914 ء میں آپ ایم.اے کا امتحان پاس کرتے ہی قلمی میدان میں آگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایسا شاندار لٹریچر پیدا کر دیا کہ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی آپ کے قلم کا لوہا مانے پر مجبور ہوئے.حضرت صاجزادہ صاحب کو چونکہ ابتداہی سے علم حدیث اور تاریخ اسلام سے ایک خاص فطری تعلق رہا ہے اس لئے ابتدا آپ نے اسلام کی مستقل خدمت کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ

Page 498

تاریخ احمدیت جلدا ۴۷۹ آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف و اشاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح مبارک ہیں.جو آپ نے " سیرۃ خاتم النبین " جیسی بلند پایہ کتاب کی شکل میں تحریر فرمائی.اس بلند پایہ تالیف کی اشاعت نے ملک کے اسلامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی اور انہوں نے اچھوتے مضامین دلاویز اسلوب بیان اور علم سیرت نبوی اور علم کلام کے نادر امتزاج اور دوسرے محاسن و کمالات پر دل کھول کر خراج تحسین ادا کیا..چنانچہ سیٹھ عبداللہ ہارون ایم ایل اے نے لکھا ” میری رائے میں اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرہ کی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ان میں سے یہ ایک بہترین کتاب ہے امید ہے کہ یہ کتاب مسلمانان ہند کے لئے نہایت مفید ثابت ہو گی.شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا.اس تصنیف میں بعض اہم مباحث پر عمدہ بحث کی گئی ہے ".نواب اکبر یار جنگ بہادر حج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن نے اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا."میری نظر میں یہ بے مثل کتاب ہے".مولانا سید سلیمان ندوی نے کہا.اس میں شک نہیں کہ اس تصنیف میں محنت اٹھائی گئی ہے ".مولانا عبد الماجد صاحب ایڈیٹر اخبار " سچ لکھنو نے اس پر مفصل ریویو کرتے ہوئے لکھا."سیرۃ خاتم النبین حصہ دوم بہت مفصل و مشرح ہے اور اس میں علاوہ واقعات تاریخی کے مسائل کا حصہ بھی کثرت سے آگیا ہے.قانون ازدواج و طلاق - غلامی - تعدد ازدواج - جهاد و غیرہ کے مباحث خصوصاً مفصل ہیں اور انگریزی خوان نوجوان کے حق میں مفید - معجزات پر بھی شانی بحث ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان مسائل پر بحث کرتے وقت مصنف کا قلب تحقیقات فرنگ سے مرعوب ودہشت زدہ نہیں جیسا کہ بد قسمتی سے اکثر متکلمین حال کا حال ہے...سرور کائنات کی ذات پر جمال تو وہ ہے جس نے خدا معلوم کتنے بیگانوں تک کے دلوں کو موہ لیا ہے اہل قادیان تو بہر حال کلمہ گو ہیں ان کے کسی مصور کے قلم نے اگر اس حسین و جمیل کی ایسی دلکش تصویر تیار کر دی ہے تو اس پر حیرت بے محل ہے ".سیرت خاتم النبین " کی تالیف کے دوران ہی میں آپ کی توجہ حضرت مسیح موعود کی سیرت و سوانح سے متعلق صحابہ کرام کی روایت جمع کرنے کی طرف ہوئی.چنانچہ آپ کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجہ میں ”سیرت المہدی " کا قیمتی ذخیرہ شائع ہو کر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.سلسلہ کی بعض گمشدہ کڑیوں کا سراغ اسی سے ملتا ہے اس کے چوتھے حصہ کا مواد بھی فراہم ہو چکا ہے مگر اس کی اشاعت کی نوبت ابھی نہیں آسکی.تاریخ سلسلہ کی تدوین کے سلسلہ میں آپ کی معرکتہ الاراء تالیف " سلسلہ احمدیہ " ہمیشہ یادگار رہے گی.جو آپ نے خلافت جوبلی کی تقریب پر ۱۹۳۹ء میں شائع فرمائی.یہ کتاب جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ کارناموں کی مختصر مگر جامع اور مستند تاریخ ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس میں سلسلہ

Page 499

تاریخ احمدیت جلد ۴۸۰ آئینہ کمالات اسلام" کی تصنیف و اشاعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اس کے اغراض و مقاصد اور مستقبل پر بھی مخصوص انداز میں سیر حاصل روشنی ڈالی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے.ان تالیفات کے علاوہ جو اسلام و احمدیت کا انسائیکلو پیڈیا کہلانے کی مستحق ہیں آپ نے سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں سینکٹروں مضامین لکھتے ہیں.اور متعد ولا جواب کتابیں اور رسائل تالیف کئے ہیں.مثلاً " کلمتہ الفصل" (مطبوعہ ۱۹۱۵) تصدیق المسیح" (مطبوعہ ۱۹۱۷ء) "الجنه البالغه" (مطبوعہ (۱۹۷۱ء) ہمارا خدا" (مطبوعہ ۱۹۲۷ء) " تبلیغ ہدایت" (مطبوعہ ۱۹۲۷ء) ایک اور تازہ نشان" (مطبوعہ ۱۹۳۴) امتحان پاس کرنے کے گر “.(مطبوعہ ۱۹۳۴ء) "مسئلہ جنازہ کی حقیقت" (مطبوعہ ۱۹۴۱ء) " قادیان کا خونی روز نامچه" (مطبوعه ۱۹۸۴ء) " اشتراکیت اور اسلام"."چالیس جواہر پارے (مطبوعہ ۱۹۵۰ء) اسلامی خلافت کا نظریہ " (مطبوعہ ۱۹۵۱ء) ” اچھی مائیں ".." ختم نبوت کی عظیم الشان عملی کارنامے -- حقیقت" (مطبوعہ ۱۹۵۳) جماعتی تربیت اور اس کے اصول " " روحانیت کے دو زبر دست ستون" (مطبوعہ ۱۹۵۶ء) احمدیت کا مستقبل " " قرآن کا اول و آخر " - (مطبوعہ ۱۹۵۷ء) ” نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں".(مطبوعہ (۱۹۵۸) سیرت طیبہ " (مطبوعہ ۱۹۷۰) " تربیتی مضامین " (مطبوعہ ۱۹۶۰ء) ان میں سے ہر ایک تالیف یا مضمون کو اپنے موضوع کے اعتبار سے مشعل راہ کی حیثیت حاصل ہے.یہ تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی علمی خدمات کا ایک مختصر سا خاکہ ہے انتظامی اور عملی لحاظ سے بھی آپ کا مقدس وجود جن عظیم الشان برکتوں کا موجب ثابت ہوا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں.بلاشبہ آپ کو ہ وقار اور پیکر جہاد و استقلال ہیں.آپ کی خاموش اور بے ریا زندگی خدمت دین کے بے شمار کارناموں سے معمور ہے جن کی تفصیل کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے.مختصراً اتنا بتانا ضروری ہے کہ حضرت صاجزادہ صاحب کے عملی کارناموں کا آغاز مولانا نور الدین حضرت خلیفہ اول کے زمانہ سے ہوتا ہے جب کہ آپ کو حضرت خلفیہ اول نے صدر انجمن احمدیہ " کی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا.خلافت اوٹی کا دور آپ نے زیادہ تر تعلیمی مصروفیات میں گزارا.لیکن خلافت ثانیہ کے ابتداء ہی سے آپ کا ایک ایک لمحہ خدمت دین کے لئے وقف ہو گیا.چنانچہ شروع میں آپ نے " الفضل " کی ادارت کے فرائض سرانجام دیئے اس کے بعد ریویو آف ریلیجہ " کی خدمت ایک عرصہ تک آپ کے سپرد رہی.مدرسہ احمدیہ ایسے اہم جماعتی ادارہ کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے.سالہا سال تک سلسلہ احمدیہ کے متعدد صیغوں مثلاً تألیف و تصنیف امور عامہ اور تعلیم و تربیت کی نگرانی کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ ناظر اعلیٰ بھی رہے." انگریزی ترجمہ القرآن" کے کام میں بھی نمایاں حصہ لیا.پھر قیام

Page 500

تاریخ احمدیت.جلدا آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت پاکستان کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کے تحت آپ نے شاندار خدمات انجام دیں.جن کا مفصل ذکر اپنے مقام پر آرہا ہے.۳۱.اگست ۱۹۴۷ء کو جب حضرت اقدس مصلح موعود ہجرت کر کے قادیان سے پاکستان تشریف لائے تو حضور نے آپ کو امیر مقامی نامزد فرمایا حضرت صاحبزادہ صاحب نے قادیان میں ۲۳ - ستمبر۷ ۱۹۴ء تک نہایت احسن رنگ سے نیابت کے فرائض ادا کئے اور پھر حضور کے خاص ارشاد کے تحت پاکستان تشریف لے آئے.یہاں حفاظت مرکز کا اہم شعبہ آپ کے سپرد ہوا.جس کی زمام قیادت آپ اب تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہیں.اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آپ نے وقت کے ہراہم جماعتی تقاضے کو پورا کرنے میں انتہائی معالمہ فہمی اور بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب مرکز سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو حضور آپ کو ہی امیر مقامی تجویز فرماتے ہیں.غرضکہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی اسلام و احمدیت کے لئے مسلسل جہاد اور تاریخ احمدیت کا زریں ورق ہے.اللہ تعالٰی آپ کو صحت و توانائی کے ساتھ لمبی عمر بخشے.آمین.(جدید ایڈیشن سے قبل آپ وصال فرما چکے ہیں.تاریخ وفات ۲- ستمبر ۱۹۶۳ء) تصنیف و اشاعت "بركات الدعاء" سرسید احمد خاں مرحوم ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے مسلمانوں کی کمپری سے مضطرب ہو کر ان کی رفاہ و بہبود کا بیڑا اٹھایا اور تعلیمی و معاشرتی اصلاح کے لئے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا.جس نے دیوی اعتبار سے مسلمانان ہند کو بڑے بڑے فوا مکہ پہنچائے مگر بد قسمتی سے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے پاکیزہ جذبہ کے جوش میں مغربیت اور اسلام کی صلح کرانے کے لئے اسلام کے اہم بنیادی اصول مشار وحی کو اندرونی خیالات کا نام دیگر استجابت دعاء غیرہ کا انکار کر دیا اور اپنے خیالات کی اشاعت کے لئے قرآن مجید کے ایک حصے کی تغیر شائع کی اور پھر رسالہ "الدعاء والاستجابه " اور " تحریر فی اصول التفسیر " کے ذریعہ سے اپنے نظریات دہرائے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو دنیا میں وحی اور دعا کی قبولیت کا مجسم نشان بن کر آئے تھے آپ بھلا ایسے خیالات کو کب برداشت کر سکتے تھے چنانچہ حضور نے اپریل ۱۸۹۳ء کو ” برکات الدعاء " جیسی لطیف تصنیف شائع فرمائی اس رسالے میں حضور نے سرسید احمد خاں کو پنڈت لیکھرام کے عبرت ناک انجام کے بارہ میں اپنی دعا کے قبول ہونے کی قبل از وقت خبر دیتے ہوئے یہ زبر دست پیشگوئی بھی فرمائی کہ جب تک لیکھرام کی موت واقع نہ ہوگی وہ زندہ رہیں گے جیسا کہ حضور نے فرمایا

Page 501

تاریخ احمدیت جلدا ۴۸۲ آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت ہاں مکن انکار میں اسرار قدرت ہائے حق قصہ کو تہ کن ہیں از ما دعائے مستجاب چنانچہ ایسا ہی ہوا سر سید احمد خاں اس وقت تک زندہ رہے جب تک لیکھرام کی موت واقع نہیں ہوئی.ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج اور رسالہ حجتہ الاسلام اور رسالہ "سچائی کا اظہار " کی تصنیف و اشاعت جنڈیالہ (ضلع امرت سرا میں عیسائیوں کا بھاری مشن تھا.۱۸۸۲ء میں ڈاکٹر کلارک امرتسر میں طبی مشن کے انچارج بنے تو انہوں نے یہاں طبی شاخ کھول کر عیسائیت کے فروغ کا نیا دروازہ کھول دیا.اور عیسائی منار جابجا وعظ کرنے لگے.جنڈیالہ کے ایک غیور مسلمان میاں محمد بخش پاندہ نے جو یہ صورت حال دیکھی تو وہ معمولی تعلیم رکھنے کے باوجود مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے.عیسائی پادریوں سے جب کوئی معقول جواب نہ بن سکا تو انہوں نے مشن انچارچ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب سے شکایت کی جس پر مارٹن صاحب نے جنڈیالہ کے مسیحیوں کی طرف سے مسلمانوں کو مباحثہ کا تحریری چیلنج دے دیا.اور کہا کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و بزرگان دین کو میدان میں لا کر دین حق کی تحقیق کریں ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموش ہو جائیں.میاں محمد بخش صاحب نے یہ چیلنج ملتے ہی علماء کو خط لکھے کہ پادریوں سے بحث کرنے کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں.نیز اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھی لکھا کہ آنجناب اللہ اہل اسلام جنڈیالہ کی امداد فرما ئیں.دوسرے مولویوں نے تو پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے قیام و طعام اور سفر خرچ غیرہ کا کیا انتظام ہو گا.مگر حضرت اقدس یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک شکار بھیجا ہے.چنانچہ حضور نے ۲۳ اپریل ۱۸۹۳ء کو جنڈیالہ اطلاع بھیجوائی کہ حضور اس دینی کام کے لئے بالکل تیار ہیں.11 نیز در سرے ہی دن قادیان سے اپنے خدام کا ایک وفد پادری مارٹن کلارک صاحب کے پاس امرت سر بھجوایا پادری صاحب کو تھی پر موجود تھے انہوں نے اردلی کو تو حکم دیا کہ کرسیاں بر آمدہ میں رکھ دو اور خود دوسرے دروازہ سے پادری عبد اللہ آتھم صاحب کی کوٹھی پر پہنچے اور انہیں اپنی کو ٹھی پر لے آئے رات کے گیارہ بجے تک گفتگو جاری رہی اور بالاخر اتفاق رائے سے ایک مفصل تحریری شرائط نامہ پر فریقین کے دستخط ہو گئے.مباحثہ کے لئے ۲۲ - مئی سے ۵ - جون ۱۸۹۳ء کی تاریخیں مقرر ہو ئیں.مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود اور عیسائیوں کی طرف

Page 502

تاریخ احمدیت.جلدا ۸۳ " آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت سے پادری عبد اللہ آتھم مناظر قرار پائے.بعض علماء کی عیسائیت نوازی جب امرتسر اور بٹالہ کے بعض مولویوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آتھم صاحب کی کوٹھی پر جا کر کہا کہ تم نے دو سرے علماء سے بحث کیوں منظور نہ کی مرزا صاحب سے کیوں بحث پر رضامندی ظاہر کی ان کو تو تمام علماء کا فر کہتے ہیں اور ان پر اور ان کے مریدوں پر کفر کے فتوے لگ چکے ہیں.آتھم صاحب تو پہلے ہی حضرت اقدس سے خوفزدہ تھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے کہنے لگے کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا آسان نہیں.اب یہ موقع اچھا ہاتھ آگیا ہے.مرزا صاحب کو جواب دے دو اوران مولویوں سے بے شک مباحثہ کر لو کوئی حرج نہیں چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے ۱۲ - مئی ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار دیا کہ مرزا صاحب کو علماء نے کافر قرار دیا ہے.لہذاوہ اسلام کے وکیل نہیں ہو سکتے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں خط لکھا کہ اب آپ کا انکار درست نہیں.آپ لوگوں کی تحریریں اور وعدے اور منظور کردہ شرائط ہمارے پاس ہیں پس آپ کو یا تو بحث کرنا ہوگی یا پھر شکست تسلیم کرنی پڑیگی اگر یہ بات اخباروں میں شائع کرد و او راپنی شکست کا اعتراف کر لو پھر تمہیں اختیار ہے جس مولوی سے چاہو بحث کر لو.نیز فرمایا تم ہمیں کفر کے فتووں کا طعنہ دیتے ہو حالانکہ یہ فتاوی کفر ہم پر چسپاں نہیں ہو سکتے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے بچے مسلمان ہیں اور ایک خدا تریس عالم فاضل مسلمانوں کی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور کفر کے فتوے تو آپ لوگوں پر بھی لگ چکے ہیں پروٹسٹنٹ کیتھولک مذہب والوں کو کا فر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں.پھر تو آپ بھی عیسائیت کے وکیل نہیں ہو سکتے.پس فتاری کفر میں ہم اور تم برا بر ہیں.بحث تو دراصل حق اور باطل میں ہے کہ آیا حق آپ کی طرف ہے یا ہم حق پر ہیں.اس میں کفر کے فتوؤں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.ہم نے اسلام او بر قرآن کریم کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی بھلا اس کو فتاوی کفر سے کیا تعلق " ۳۵ حضرت اقدس نے مناظرہ کی ابتدائی خط و کتابت، مارٹن کلارک کا چیلنج ، پائندہ صاحب کا خط مناظرہ کے شرائط اور دیگر تمہید کو الف منظر عام پر لانے کے لئے حجتہ الاسلام " اور "سچائی کا اظہار " نامی رسالے شائع کئے.حجتہ الاسلام میں حضور نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اول المکفرین مولوی محمد حسین بٹالوی سے متعلق یہ خبر دی کہ وہ مرنے سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کرلیں گے اور تکفیر سے رجوع کر لیں گے.چنانچہ یہ پیشگوئی ۱۹۱۴ء میں پوری ہو گئی جب کہ مولوی صاحب نے ضلع گوجرانوالہ کے حج لالہ دیو کی نندن کی عدالت میں حلفیہ شہادت دی کہ فرقہ احمد یہ بھی قرآن و حدیث کو مانتا ہے اور ہمارا

Page 503

تاریخ احمدیت جلدا آئینہ کمالات اسلام" کی تصنیف و اشاعت فرقہ کسی ایسے فرقہ کو جو قرآن اور حدیث کو مانے کافر نہیں کہتا دیکھو مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ بعد الت لاله دیو کی نندن مجسٹریٹ درجہ (اول) ایک غیر احمدی عالم اس نشان کے پورا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں.”مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے.حتی کہ آپ نے مرزا کفر کے فتوے لگائے عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کرلیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور مولوی صاحب کو عدات میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعت مرزائیہ کو مطلقاً کافر نہیں کہتا یہ ایک ایسا بد یہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا.صاحب ہے جنگ مقدس طے شدہ شرائط کے مطابق -۲۲ - مئی سے ۵- جون ۱۸۹۳ء تک امرتسر میں مباحثہ ہوا.جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا ہوا موجود ہے.یہ مباحثہ مسٹر ہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی میں ہوا.مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح (وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ) نے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے صدر کے فرائض سرانجام دیئے.حضور کے ساتھ معاونین کے طور پر حضرت مولانا نور الدین صاحب مولانا سید محمد احسن صاحب اور شیخ اللہ دیا صاحب لدھیانوی تھے.اور عیسائی مناظر آنھم کے معاون پادری ہے.ایل ٹھاکر داس ، پادری عبد اللہ اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے.کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ جو عیسائیت اختیار کر چکے تھے عیسائیوں کی طرف بیٹھتے.ایک طرف حضرت اقدس اور دوسری طرف عبد اللہ آتھم صاحب بیٹھتے تھے.دونوں فریقوں کے درمیان خلیفہ نورالدین صاحب جمونی اور منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مباحثہ کی کارروائی نوٹ کرتے.اسی طرح عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے.مباحثہ کے دوران میں ایک عجیب ایمان افزا واقعہ پیش آیا جس نے ایک ایمان افروز واقعہ اپنوں اور بیگانوں کو حیران کر دیا.عیسائیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے یہ صورت نکالی کہ ایک دن چند لولے لنگڑے اور اندھے اکٹھے کر لئے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں.مجلس میں ایک سناٹا سا چھا گیا.اور مسلمان نہایت بے تابی سے انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں اور عیسائی اپنی اس کارروائی پر پھولے نہیں سماتے تھے لیکن جب حضور نے اس مطالبہ کا جواب دیا تو ان کی فتح شکست سے بدل گئی اور

Page 504

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۸۵ آئینہ کمالات اسلام کی تصنیف و اشاعت سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی اور معقولیت کے قائل ہو گئے آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا انجیل میں لکھا ہے ہم تو اس کے قائل ہی نہیں ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا.یہ تو انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے.لیکن اسی انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی برابر بھی ایمان ہو گا تو تم مجھ سے بھی بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو.پس ان مریضوں کو پیش کرنا آپ لوگوں کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب میں ان مریضوں کو جو آپ نے نہایت مہربانی سے جمع کرلئے ہیں آپ کے سامنے پیش کر کے کہتا ہوں کہ براہ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہے تو ان مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جاؤ.اگر یہ اچھے ہو گئے تو ہم یقین کرلیں گے کہ آپ اور آپ کا مذہب سچا ہے.حضرت اقدس کی طرف سے یہ برجستہ جواب سن کر پادریوں کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مباحثہ میں یہ اصول پیش کیا کہ فریقین مباحثے کا اثر کولازم ہو گا کہ جود عولی کریں وہ دعوئی اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جائے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں وہ دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سنہری اصول کا التزام کرتے ہوئے قرآن کریم کی صداقت جس خوبی سے نمایاں کر کے دکھائی ہے اس کا لطف اصل پر چے دیکھنے سے ہو سکتا ہے.اس کے مقابل عیسائی مناظر اس میں سراسر نا کام ہوئے یہ اس فتح عظیم کا نتیجہ تھا کہ کر نیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ جو مباحثہ میں عیسائیوں کی صف میں بیٹھتے تھے آخری دن حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے اور عیسائیت سے تائب ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے.مباحثہ کا آخری دن (۵ - جون ۱۸۹۳ء) بڑے معرکے کا دن تھا باطل فریق کے لئے پیشگوئی کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے علم پا کر باطل فریق کے متعلق یہ زبر دست پیشگوئی فرمائی کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمد ا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور کچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاوے گا.اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اس کے بعد حضور نے مسٹر آتھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل (صفحہ ۷۰ ۷۵۴) میں معاذ اللہ وجال کے لفظ سے آپ یاد کرتے

Page 505

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۸۶ آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت ہیں محکم دلیل ٹھرے گی یا نہیں ؟ یہ ہیبت ناک پیشگوئی سن کر مسٹر آئھم کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے اور انہوں نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے جیسا کہ ایک خائف ملزم تو بہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے.اور بار بار لرزتی ہوئی زبان سے کہا تو بہ توبہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز دجال نہیں کہا.aa سفر جنڈیالہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مناظرہ سے فارغ ہونے کے بعد مسلمانان جنڈیالہ کی درخواست پر ایک دن کے لئے جنڈیالہ تشریف لے گئے.قصبہ کے اکثر معزز لوگوں نے جو حضور کی زیارت کے مشتاق تھے آپ کا گرمجوشی سے استقبال کیا.اور ایک نئے مکان میں حضور کا قیام ہوا.مکان کے ایک دالان اور کوٹھری میں فرش بچھا ہوا تھا.کو ٹھری میں تو حضرت اقدس فروکش ہوئے اور چند خدام حضرت مولانانور الدین صاحب کے ساتھ مکان کی ملحقہ مسجد میں آکر بیٹھ گئے.اہل جنڈیالہ نہایت شوق سے مسجد میں جمع ہوئے اور مناظرہ کے کوائف سنتے رہے حضرت مولانا بڑی دیر تک وعظ فرماتے اور حالات سناتے رہے.اہل جنڈیالہ اس دن اس قدر خوش تھے کہ گویا ان کے واسطے عید کا دن تھا.دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر حضرت اقدس سبھی مسجد میں تشریف لے آئے اور دیر تک اپنے مقدس کلمات سے نوازتے رہے.حضور نے بڑی تفصیل سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو علماء نے پھیلا رکھی تھیں اور نصوص قطعیہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت کی جس سے لوگوں کی خوب تسلی ہوئی اور وہ نہایت شکر گزار ہوئے.حضرت اقدس عصر کی نماز تک جنڈیالہ میں مقیم رہے اور عصر کے بعد تھوڑی دیر بیٹھ کر امر تسر تشریف لے آئے.قادیان کو واپس جنڈیالہ سے آنے کے بعد چند روز حضور نے مزید امرتسرمیں قیام فرمایا اور جون کے دوسرے ہفتہ میں قادیان تشریف لے آئے.

Page 506

تاریخ احمدیت جلدا ۱۳۸۷ آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف دا شاعت -0 - ال- ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام " طبع اول صفحه ۴ رسالہ "نور احمد نمبر ا صفحه ۴۰-۴۴ آئینہ کمالات اسلام طبع اول صفحه ۳۵۹-۳۶۰ حواشی سیرت المهدی حصہ دوم صفحہ ۳۱۰۳۰ ابن ماجہ (مصری) جلد دوم ۲۶۹ پر پہلے سے یہ حدیث موجود ہے کہ اللہ تعالی مہدی میں ایک رات کے اندر انقلاب پیدا کر دے گا.اخبار الحکم ۲۱-۲۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ الحکم ۲۴ اکتوبر ۶۱۹۰۰ "سچائی کا اظہار " حضرت اقدس مسیح موعود نے ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ان کا نام ۵۵ نمبر پر لکھا ہے.سیرت المهدی حصہ سوم صفحه ۲۰۸-۲۰۹ در نشین عربی مترجم صفحه سچائی کا اظہار صفحہ ۵ رساله " نگار " لکھنو اپریل ۱۹۶۰ ء صفحه ۵۲ ملاحظہ ہو اخبار آزاد (لاہور) ۲۹- دسمبر ۱۹۵۰ء صفحه ۲ ۱۳ بخاری کتاب الجھاد باب دعاء النبی الی الاسلام و تاریخ کامل (علامہ ابن اثیر جوزی جلد ۲ صفحہ ۸۰) ۶۱۸۵۷۶۷۱۲-۱۳ ۱۵- "حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۲۶۴ نور القران جلد دوم ۱۷- ولادت ۲۱- نومبر ۱۸۳۵ ء وفات ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء آخری آرام گاہ ضلع ڈیرہ غازیخان کے قصبہ مٹھن کوٹ میں ہے.۱۸ اشارات فریدی حصہ سوم صفحہ ۷۰۰۶۹ ( مطبوعہ مفید عام پریس اگر ۵۱۳۲۰۰) افسوس " اشارات فریدی" کے ترجمہ سے جو " " مقابیس المجالس" کے نام پر بزم اتحاد المسلمین لاہور نے ۱۴۱۱ھ میں شائع کیا ہے حضرت مسیح موعود سے متعلق سب تعریفی کلمات حذف کر دئے گئے ہیں.آئینہ کمالات اسلام طبع دوم صفحه ۶۵۰-۶۵۱ ۲۰ تریاق القلوب صفحه ۴۲ ۲۱- نزول اصحیح صفحه ۲۳۰ ۲۲ الفضل ۱۸- جون ۱۹۱۹ء ۲۳."میرة خاتم انبین " کے اس وقت تک تین حصے چھپ چکے ہیں.حصہ اول ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا حصہ دوم ۱۹۳۰ء میں اور حصہ سوم ۱۹۴۹ء میں.-۲۴ تاریخ اشاعت حصہ اول ۲۲-۱۹۲۱ء - حصہ دوم - ۱۹۲۴ء - حصہ سوم ۱۹۳۹۴ء ۲۵- اس کا انگریزی ایڈیشن Qadian Diary کے نام سے چھپا ہے.۲۶- یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب موصوف کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جو متفرق طور پر الفضل میں شائع ہوتے رہے یہ ہیں.۲۷ اپریل ۱۹۲۰ء سے حضرت خلیفہ المسیح اثانی ایدہ اللہ تعالی نے اس شبے کا نام " نظارت خدمت در دیشاں منظور فرمایا ہے (مرتب) ۲۸ (ترجمہ) خدا کی قدرتوں کے بھیدوں کا انکار نہ کر بات ختم کر اور لیکھرام کے متعلق ہماری ایک قبول شدہ دعادیکھنے

Page 507

تاریخ احمدیت جلدا ۴۸۸ آئینہ کمالات اسلام " کی تصنیف و اشاعت -۲۹ تاریخ بشارت المندر پاکستان صفحه ۱۲۰۰ از پادری خورشید عالم چه چ مشنری سوسائٹی گوجرہ) ۳۰ مفصل متوب کے لئے ملاحظہ ہو " حجتہ الاسلام صفحہ ۱۷۰۱۴ ۳۱.اس وفد میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب منشی غلام قادر صاحب فصیح اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی وغیرہ اصحاب شامل تھے.۳۲ حجتہ الاسلام صفحه تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۳۷ ۳۳.ملاحظہ ہو "حجتہ الاسلام" ۳۴ سچائی کا اظہار " -۳۵ رسالہ "نور احمد نمبر صفحہ ۲۰ تا۲۶ امرتسر کے مسلمانوں کی طرف سے ایک اشتہار چھپا جس میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے یہاں تک لکھا کہ میں اس جنگ میں اس طرح حضرت مرزا صاحب کے زیر قیادت کھڑا ہونیکا اعلان کرتا ہوں جس طرح حضرت معاویہ نے حضرت علی کے ماتحت لڑنے کا اعلان کیا تھا ( حیات احمد جلد چہارم صفحه ۳۶۲ مطبوعه حیدر آباد دکن ۱۹۵۳ء) -۳۶- اظهار حق صفحه ۱۴ از مولوی سمیع اللہ خان ناروتی جالندهری مطبوعہ نذیر پرنٹنگ پریس امرت سر ۳۷ ریویو آف ریلیم اردو - جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۱۹ ۳۸ یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲ ۳۹ سیرت حضرت مسیح موعود از حضر خلیفہ المی اثانی بیت المهدی حصہ اول صفحه ۲۰۱۷ ریویو آن ر یلیز اردو جنوری ۱۹۳۲ء صفحه 1 ۲۰ ریویو آف ریلی اردو جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۲۰-۲۱ ۴۱- جنگ مقدس ۴۳- "نزول امسیح » صفحه ۱۲۵-۱۷۷ سلم ۴ مباحثے کے متفرق حالات کے لئے ملاحظہ ہو (رسالہ "نور احمد نمبرا) -۴۴ حیات احمد جلد چهارم صفحه ۳۹۷-۴۱۴۳۹۸-۴۱۲ ۴۵- ايضا

Page 508

تاریخ احمدیت جلدا ۴۸۹ " تحفہ بغداد " "کرامات الصادقین " اور " شمارۃ القرآن " " تحفہ بغداد"."کرامات الصادقین" اور شهادة القرآن" کی تصنیف و اشاعت مباحثہ امرت سر سے واپسی کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے ۱۸۹۳ء کے آخر تک تحفہ بغداد" - "کرامات الصادقین " اور "شہادۃ القرآن" کے نام سے تین اور تصانیف فرمائیں.جو اسی سال شائع بھی ہو گئیں.اس کتاب کی وجہ تصنیف یہ ہوئی کہ بغداد کے ایک شخص سید عبدالرزاق قادری تحفہ بغداد نقشبندی نے "التبلیغ " پڑھ کر حیدر آباد سے ایک عربی اشتہار شائع کیا جس میں نہایت درجہ دریدہ دہنی سے کام لیا.حضرت اقدس نے اس اشتہار کے پہنچتے ہی اس کے جواب میں (محرم ۱۳۱۱ھ بمطابق جولائی ۱۸۹۳ء کو) " تحفہ بغداد" کے نام سے ایک لاجواب رسالہ شائع فرمایا.جس میں آپ نے اصل اشتہار اور مکتوب درج کر کے نہایت فصیح بلیغ عربی میں علماء کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا بڑی خوبی سے رد کیا.اپنے دعویٰ سے متعلق زیر دست دلائل دیئے اور اسے نہایت محبت بھرے الفاظ میں تبلیغ فرمائی.سید عبدالرزاق نے اپنے اشتہار میں لکھا تھا کہ تین مہینے میں آئینہ کمالات اسلام کا رد لکھ کر اسے مران و بغداد میں پھیلا دوں گا.لیکن اب جو " تحفہ بغداد پہنچا تو اسے دم مارنے کی مجال نہ ہوئی.کرامات الصادقین جب سے حضرت اقدس نے خدا کے حکم سے دعوئی مسیحیت فرمایا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بڑے زور شور سے آپ کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ یہ شخص نعوذ باللہ اس قدر جاہل اور علوم عربیہ سے بے بہرہ ہے کہ ایک صیغہ بھی صحیح طور پر اس کے منہ سے نہیں نکل سکتا.جب یہ پراپگینڈا عروج پر تھا اللہ تعالٰی نے حضور کو بشارت دی کہ اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کوئی دوسرا ان کا ہم مشرب مقابلہ پر آئے تو شکست فاش اٹھا کر سخت ذلیل ہو گا.جس پر حضور نے ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء کو بذریعہ اشتہار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو چیلنج دیا کہ وہ چالیس دن آپ کے مقابل قرعہ اندازی سے قرآن مجید کی کسی سورۃ کی فصیح بلیغ اور مقفی عربی عبارت میں تفسیر لکھیں جس میں معارف جدیدہ ہوں.اگر مولوی صاحب حقائق و معارف کے بیان کرنے اور فصیح و بلیغ عربی لکھنے میں آپ کے برابر بھی رہے تو آپ اپنی خطا کا اقرار کر لیں گے.اور اپنی کتابیں جلا دیں گے لیکن اگر حضور غالب ہوئے تو مولوی

Page 509

تاریخ احمدیت جلدا ۴۹۰ " تحفه بغداد "، "کرامات الصادقین " اور " شهادة القرآن " محمد حسین صاحب کو تو بہ کا اعلان کرنا ہو گا.I بٹالوی صاحب نے جب اپنی علمیت کا راز فاش ہو تادیکھا تو نہایت بودی شرطوں سے اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کی.جس D سے صاف کھل گیا کہ بٹالوی صاحب علم تفسیر و ادب میں محض نابلد ہیں.اور لعن طعن اور سب وشتم کے سوا کچھ نہیں جانتے.تاہم حضور نے ان پر اتمام حجت کی غرض سے از خود "کرامات الصادقین" کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں فصیح و بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں چار قصائد رقم فرمائے.یہ قصائد اگرچہ ایک ہفتہ میں بمقام امر تسر زیب قرطاس ہوئے تھے.مگر آپ نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے تمام ہم مشرب علماء کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر وہ اس رسالہ کی اشاعت سے ایک ماہ کے عرصہ تک اس کے مقابل پر اپنا فصیح و بلیغ رسالہ شائع کر دیں.جس میں ایسے ہی حقائق اور معارف اور بلاغت کے التزام سے سورہ فاتحہ کی تفسیر ہو جو اس رسالہ میں لکھی گئی ہے تو ان کو ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا." "کرامات الصادقین " کا شائع ہونا تھا که مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہمنواؤں کی زبان پر مہر لگ گئی اور انہیں عمر بھر اس کے جواب میں قلم اٹھانے کی جرات نہ ہو سکی.کرامات الصادقین " میں حضرت اقدس نے اپنی سچائی پر ایک بار پھر حلفیہ بیان شائع کیا.چنانچہ لکھا:." مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کافر نہیں - G ENGLAND A LANGUAGENDANA KALA NEW رسول الله میرا عقیدہ ہے اور الكِنَّ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن پر آنحضرت ﷺ کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالٰی یہی پلہ بھاری ہو گا".

Page 510

تاریخ احمدیت جلدا و تحفہ بغداد " " كرامات الحصاد تین " اور " شمادة القرآن" شهادت القرآن کی تصنیف و اشاعت ایک صاحب منشی عطا محمد صاحب نے جو امرت سر کی ضلع کچری کے اہلمد تھے.اگست ۱۸۹۳ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ احادیث زمانہ دراز کے بعد مدون ہونے کے باعث پایہ اعتبار سے ساقط ہیں اور اکثر مجموعہ احاد- اس لئے آپ قرآن مجید سے اس بات کی دلیل دیں کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا انتظار کرنا مسلمانوں کے لئے واجب و لازم ہے.یہ ایک نہایت اہم سوال تھا.جس کے لئے آپ نے کتاب "شہادۃ القرآن" تصنیف فرمائی.حضرت اقدس نے اس کتاب میں سوال کا تجزیہ کر کے اسے تین پہلوؤں پر تقسیم کیا اور پھر ہر پہلو پر زبر دست روشنی ڈالی.برسوں کی آویزش اور کشمکش میں علماء کی ناکامی اور بے بسی دیکھ کر زمانہ حاضرہ کے بعض جدید خیال مسلمان مجبوراً اپنا رخ بدل کر ان خیالات کا اظہار کر رہے ہیں کہ قرآن میں کسی مسیح کی آمد کا ذکر ہی موجود نہیں.اور احادیث موضوع و محرف ہیں.مرزا صاحب انہی احادیث کا سہارا لے کر مسیح موعود بنے ہیں.اس لئے ان کا دعوی کیونکر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے.مگر علم کلام کے اسلحہ خانہ کا یہ کوئی نیا تیر نہیں تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "شہادت القرآن" میں اپنے مسیح موعود ہونے کے وہ قرآنی شواہد پیش کئے ہیں کہ ساٹھ سال ہو گئے آج تک کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی ان کا جواب نہیں بن پڑا.نشی عطا محمد صاحب کے لئے نشان کا وعدہ حضرت اقدس نے منشی عطا محمد صاحب کے سامنے فیصلہ کا ایک سہل طریق سبھی رکھا کہ وہ اشتہار شائع کریں کہ میری تسلی اس رسالہ سے نہیں ہوئی اور میں ابھی تک آپ کے دعوئی کو افتراء سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری نسبت کوئی نشان ظاہر ہو تو میں انشاء اللہ ان کے بارہ میں توجہ کروں گا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی مخالف کے سامنے مجھے مغلوب نہیں کرے گا.کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کے دین کی تجدید کے لئے اس کے حکم سے آیا ہوں.لیکن منشی صاحب نے خاموشی غنیمت سمجھی اور اس طرف جیتے جی انہوں نے رخ تک نہ کیا.(یاد رہے کہ منشی صاحب موصوف علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کے والد ماجد تھے)

Page 511

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۷۹۲ " تحفہ بغداد " "کرامات الصادقین " اور " شہادۃ القرآن" قادیان کی طرف (مستقل رنگ میں) ہجرت کا آغاز گود عوئی مسیحیت کے بعد ہی قادیان کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.مگر مستقل رنگ میں پہلی ہجرت اسی سال حضرت مولانا نور الدین صاحب نے کی.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں اول المهاجرین قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.” سب سے پہلے مولوی نور الدین صاحب نے اس راز کو سمجھا ہے اور وہ محض خدا کی رضامندی کے واسطے اور دین کو حاصل کرنے کے واسطے یہاں اگر جنگل میں بیٹھے ہیں.انہوں نے بہت بڑی قربانی کی ہے اپنی جائیدادیں اور املاک چھوڑیں اور ایک جنگل کی رہائش اختیار کی.میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولوی صاحب جیسی قابلیت اور لیاقت کا آدمی اگر لاہو ریا امرتسر میں رہتا تو بہت بڑا د یوی فائدہ اٹھا سکتا تھا.اور کئی بار لاہور اور امر تسر والوں نے چاہا بھی کہ وہ یہاں آکر رہیں مگر انہوں نے کبھی یہاں کے رہنے پر دوسری جگہ کی آمدنی اور فوائد کو ترجیح نہیں دی." حضرت مولانا نور الدین صاحب کے بعد خدا کے مسیح کی مقدس بستی کی طرف ہجرت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا.چنانچہ آپ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جن بزرگوں نے ہجرت کی ان میں سے چند کے نام یہ ہیں.نام من ہجرت نام من ہجرت حضرت مولانا عبد الکریم صاحب ۱۸۹۳ء غالبیان حضرت مفتی محمد صادق صاحب جولائی ۱۹۰۰ ء ما حضرت شیخ محمد اسمعیل صاحب سرساوی ۱۸۹۴ء حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ۱۶۱۸۹۵ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب ۱۶۱۸۹۵ ۱۸۹۵ء ايضا حضرت پیر افتخار احمد صاحب حضرت میر مهدی حسین صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب ايضا حضرت حافظ روشن علی صاحب ١٨٩٩ء حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب B۶۱۸۹۷ 171941 مولوی محمد علی صاحب جون ۱۸۹۹ء حضرت بابو محمد الفضل صاحب حضرت منشی قدرت اللہ خان صاحب شاہجہانپوری ۶۱۸۹۹ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل - ۱۹۰۶ ۶۱۹۰۲ حضرت قاضی امیر حسین صاحب ، حضرت حکیم فضل الدین صاحب - حضرت سید ناصر شاہ صاحب

Page 512

تاریخ احمدیت جلدا ۴۹۳ " تحفہ بغداد "کرامات الصادقین " اور "شہادۃ القرآن " اور متعدد بزرگوں نے بھی حضرت اقدس کی زندگی میں مستقل طور پر ہجرت کی مگر ان کی ہجرت کے سال کی تعیین نہیں ہو سکی.دوستوں سے مل کر رہنے کی خواہش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے خدام سے والہانہ محبت تھی.حضور فرمایا کرتے تھے کہ میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے.یہ اسی جذبہ کا نتیجہ تھا کہ ابتداء میں آنے والے مہاجرین حضوری کے مکان میں سکونت رکھتے تھے.چنانچہ پیر افتخار احمد صاحب کے لئے ایک کو ٹھری حضرت اقدس کے گھرہی میں تھی.اور اس کے اوپر کی کوٹھری میں مولانا عبد الکریم صاحب رہا کرتے تھے.حضرت مولانا نور الدین صاحب فرماتے تھے جب میں قادیان آیا.تو حضرت اقدس نے ایک بر آمدے میں رسی باندھ کر اس پر پردہ ڈال دیا.ایک طرف خود ہو گئے.دوسری طرف مجھے جگہ دے دی.پھر مولوی عبد الکریم صاحب آئے تو آپ نے ایک اور رسی باندھ دی.اور پردہ ڈال کر کچھ جگہ ان کو دیدی.مولوی محمد احسن صاحب آئے.آپ نے ان کو بھی جگہ دی.اسی طرح جو مہمان آتا آپ سمٹ جاتے اور مہمان کے لئے جگہ بنا دیتے.سید ناصر شاہ صاحب حضرت اقدس کے ہاں ہی رہتے تھے.ایک دفعہ پرائمری سکول کے پاس مکان کے لئے جگہ نکلی.حکیم فضل دین صاحب نے انہیں اس کے خریدنے کی طرف توجہ دلائی.حضور کو علم ہوا تو فرمایا وہ جگہ دور ہے اور ابھی آپ ملازمت پر ہیں اور آپ کے بھائی اور بھاوج بھی باہر ہیں جب آپ آئیں گے پھر دیکھا جائے گا.اور جب وہ وقت آئے گا ہم آپ کا مکان اپنے پاس بنوا ئیں گے.حضرت اقدس نے پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا مکان خود بنوایا تھا لیکن جب وہ نئے مکان میں منتقل ہوئے تو واپس اپنے مکان میں بلوالیا.ان کا بیان ہے کہ میں تقریبا دس ماہ سے حضرت اقدس کے مکان میں رہتا تھا...صحن اتنا بھرا ہوا تھا کہ حضور کے لئے چلنے پھرنے کو جگہ نہ رہی تھی لیکن پھر بھی پ نے میرا علیحدہ مکان میں رہنا پسند نہ فرمایا.حضرت میر ناصر نواب صاحب جب ہجرت کر کے تشریف لائے تو انہوں نے گول کمرہ کے آگے دیوار بنوا کر پر وہ کر لیا اور اس میں اپنی رہائش رکھ لی.جنوری 1900 میں حضرت اقدس کے مکان میں جس کثرت سے ” اصحاب الصفہ " مقیم تھے.اس کا نقشہ مولانا عبد الکریم صاحب بایں الفاظ کھینچتے ہیں.کہ "مکان اندر اور باہر نیچے اور اوپر مہمانوں سے

Page 513

تاریخ احمدیت.جلدا ۹۷ " تحفہ بغداد "کرامات الصادقین " اور " شہادۃ القرآن" ة کشتی کی طرح بھرا ہوا ہے اور حضرت اقدس کو بھی بقدر حصہ اسدی بلکہ تھوڑا سا ایک حصہ رہنے کو ملا ہوا ہے اور آپ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میں کوئی گزارہ کرتا ہے.اور اس کے جی میں کبھی نہیں گزرتا کہ یہ میری کو ٹھڑی ہے ".حضرت مولانا نورالدین کی ہجرت کا ایمان افروز واقعہ حضرت مولانانور الدین اپنی ہجرت کا ایمان افروز واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ (ریاست کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ) بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں وہاں میں نے ایک مکان بنایا ابھی وہ نا تمام ہی تھا اور غالبا سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں اس واسطے میں قادیان آیا.چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا.اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا.یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لے کر رخصت ہوں آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے ہیں.میں نے کہا ہاں اب تو فارغ ہی ہوں.یکہ والا سے میں نے کہدیا کہ اب تم چلے جاؤ.آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے کل پر سوں اجازت لیں گے اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہو گی آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں.میں نے حسب الار شاد بیوی کے بلانے کے لئے خط لکھ دیا.اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیں.جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوالیں.تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلالیں.لیکن مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نور الدین کے متعلق الہام ہوا ہے اور وہ شعر کچھ تبدیلی کے ساتھ ) حریری میں موجود ہے.У تصبون الى الوطن فيه تهان و تمتحن حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے یہ بھی فرمایا کہ اپنے وطن کا خیال تک بھی نہ کرنا.چنانچہ خدا تعالٰی کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میرے واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا.پھر تو ہم قادیان کے ہی ہو گئے.سفر فیروز پور

Page 514

تاریخ احمد بیت.جلدا ۴۹۵ " تحفہ بغداد " "کرامات الصادقين " اور " شہادۃ القرآن" حضرت مسیح موعود نے نومبر ۱۸۹۳ء میں فیروز پور چھاؤنی کا سفر اختیار فرمایا.جہاں حضرت میر ناصر نواب صاحب محکمہ نہر میں ملازم تھے.اہل بیت کے علاوہ آپ کے ہمراہ منشی غلام محمد صاحب خوشنویس امرتسری - سید محمد سعید صاحب اور حامد علی صاحب بھی تھے کیونکہ عربی رسائل کی تالیف و تصنیف کا کام جاری تھا.۱۴- دسمبر ۱۸۹۲ء کو حضور فیروز پور سے روانہ ہوئے.حضرت اقدس فیروز سے واپسی پر دوران سفر میں لاہور اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا اور اگر سلام کیا مگر حضور نے کچھ جواب نہیں دیا.اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا.مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی.اس کے بعد حاضرین میں سے ایک خادم نے کہا کہ حضور ا پنڈت لیکھرام نے سلام کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنتے ہی بڑے جوش سے فرمایا.اسے شرم نہیں آتی.ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور سے گاڑی میں امرت سر پہنچے اور شیخ نور احمد صاحب کے ہاں فروکش ہوئے.حضور کے درود کی خبر فور اتمام شہر میں پھیل گئی اور لوگ بکثرت ملاقات کے لئے آنے لگے اور آپ کے دعوئی سے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.حضرت اقدس نے حضرت مسیح ناصری کی وفات سے متعلق کئی آیات پیش فرما ئیں.ایک شخص نے عرض کیا آج کل مولود شریف کی مجالس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو لوگ تعظیماً کھڑے ہو جاتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں.حضور نے فرمایا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نظر آجا ئیں.وہ بے شک کھڑا ہو جائے.حضور یہاں دو ایک روز قیام فرمانے کے بعد قادیان تشریف لے گئے.۱۸۹۳ء کے بعض صحابہ ۱۸۹۳ء میں جو وجود آسمانی تحریک سے وابستہ ہوئے.ان میں سے حضرت قاضی امیر حسین صاحب بھیروی اور حضرت میر مهدی حسین صاحب بالخصوص قابل ذکر ہیں.

Page 515

تاریخ احمدیت جلدا " تحفہ بغداد " "کرامات الصادقین " اور " شمادة القرآن" حواشی -1 تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۱-۱۵ ملاحظہ ہو اشاعتہ السنہ جلد ۱۵ نمبر ۸ صفحہ ۱۹۱۹۰ "کرامات الصادقین " طبع اول صفحہ ۶-۷ مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ "کرامت الصادقین طبع اول صفحه ۲۵ مطبوعہ پنجاب پرئیس سیالکوٹ "حرف محرمانہ صفحہ ے ے (مولفہ ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برقی) کتاب منزل لاہور الحام 10 فروری 1901ء حضرت مولانا عبد الکریم صاحب اگر چه جنوری ۱۸۹۳ء میں التبلیغ کے ترجمہ فارسی کے لئے قادیان میں ہی مقیم تھے.مگر جیسا کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بلکہ حضرت مولانا نور الدین صاحب کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے آپ کی ہجرت حضرت مولانا نور الدین صاحب کے بعد ہے نہ کہ پہلے (ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۵۹ ذکر حبیب صفحہ ۲۲ الحکم ۲۴٬۲۸- مئی ۱۹۳۴ء) ۸ - الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ و صفحه ۵ روایات صحابہ جلد پنجم صفحه ۱۷۵ - * ۱ - "حیات ناصر "صفحہ ۱۳ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) - 11 الفضل - مئی ۱۹۵۸ء ۱ - ا حکم 19 ستمبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۸ کالم نمیرا ۱۳ - مجدد اعظم حصہ اول صفحہ ۷۳۶ ۱۳ - ذکر حبیب صفحه ۳۵۲ ۲۰۱۵ اصحاب احمد " جلد ششم صفحه ۲۴ "روایات صحابہ " غیر مطبوعہ جلد ششم صفحه ۲۱۷ و " اصحاب احمد " جلد دوم صفحه ۱۲۴ و ۲ " روایات صحابہ "غیر مطبوعہ جلد نمبر ۱۴ صفحه ۲۳۴ و انعامات خداوند کریم ۲۱ - "اصحاب احمد " جلد پنجم صفحه ۹۹ ۲۲ - اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ نے قادیان سے البدرجاری کیا ۲۳ - "روایات صحابہ " جلد ا ا صفحه ۲۵۱ ۲۲۰ - روایات صحابہ جلد پنجم صفحه ۱۸۲ ۲۵ - حضرت مسیح موعود کے ایک سیرت نگار نے ان مہاجرین میں حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہی کا نام بھی لکھا ہے مگر یہ درست نہیں.مولانا کو اپنے وطن امروہہ سے آکر کئی کئی ماہ قادیان میں فروکش رہتے تھے مگر انہوں نے مستقل ہجرت کبھی اختیار نہیں فرمائی جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے "حیات احمد " جلد سوم صفحہ ۳۵۱ پر لکھا ہے -۲۶ - سیرت مسیح موعود طبع اول صفحه ۱۳۸ از مولانا عبد الکریم صاحب) ۲۷ - الا زہار لذوات الحمار صفحه ۴۰۷ ۲۸ - الحکم ۲۱-۲۸ مئی ۱۹۳۳ء صفحه ۲۸ ۲۹ - الحکم ۲۱٬۲۸ مئی ۱۹۳۲ء صفحه ۲۸ rq ۳۰ - ايضا ۳۱ - "سیرت المہدی " حصہ سوم صفحه ۱۲۶-۱۲۷ ۳۲ - "سیرت مسیح موعود طبع اول صفحه ۱۳۸ از حضرت مولانا عبد الکریم صاحب)

Page 516

تاریخ احمدیت جلدا " ۴۹۷ " تحفہ بغداد " "کرامات الصادقین " اور " شہادۃ القرآن" ۳۳ - ( ترجمہ ہوطن کی طرف واپس جانیکا کبھی خیال بھی نہ کر کیونکہ اس میں تیری اہانت ہوگی اور تجھے تکلیفیں اٹھانا پڑیں گی.۳۴ ۳۵ باری - جنوری ۱۹۰۹ء و مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۷۹ ( طبع اول) - ۳۶ - "حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۴۲۲ ۴۲۳ ۳۷ - "سیرت المهدی " حصہ اول صفحہ ۲۷۲ ۳۸ - رسالہ "نور احمد نمبر صفحہ ۱۵-۱۶ ۳۱ - سلسلہ احمدیہ کے زیر دست عالم اور محدث ۳۱۳۱۱ اصحاب میں داخل تھے.۸۲ سال کی عمر پائی - ۲۴- اگست ۱۹۳۰ء کو انتقال فرمایا.اور بہشتی مقبرے میں دفن ہوئے.میں ۴۰.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عرصہ تک حضور کے کتب خانہ کے مہتم رہے.۳۱۳ کی فہرست میں آپ کا نام ۶۷ نمبر پر درج ہے.( تاریخ وفات ۳۱- اگست ۱۹۴۱ء)

Page 517

تاریخ احمدیت.جلدا ۴۹۸ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے مرکز اسلام (مکہ مکرمہ) میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے اور چاند سورج گرہن کا آسمانی نشان

Page 518

ماریخ احمدیت.جلدا ۴۹۹ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے ماموریت کا تیرھواں سال مرکز اسلام (مکہ مکرمہ میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے (۱۸۹۴ء) تحفہ بغداد اور کرامات الصادقین کے ذریعہ سے اب آپ کی آواز ہندوستان سے نکل کر عالم اسلام تک پہنچنا شروع ہو گئی تھی.اور شام کے متبحر عالم السید محمد سعیدی الشامی الطرابلسی اور سید علی بن شریف مصطفیٰ عرب بلکہ خاص مرکز اسلام مکہ معظمہ میں محمد بن احمد مکی ایسے زبردست فاضل آپ کے دعوئی پر ایمان لا چکے تھے.الشیخ محمد بن احمد مکی نے جب بیعت کی تو وہ ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے جب آپ سفر ختم کر کے مکہ معظمہ میں پہنچے تو آپ نے ۲۰- محرم ۱۳۱۱ھ بمطابق ۴- اگست ۱۸۹۳ء کو شعب عامر مکہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دی اور لکھا کہ میں جب سے یہاں آیا ہوں ہر مجلس میں حضور کا تذکرہ کرتا ہوں کچھ لوگ تعجب کرتے ہیں اور کچھ تصدیق اور کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں ان کا چہرہ مبارک دکھا.اس خط میں انہوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ میں نے اپنے ایک دوست علی طائع کو جو شعب عامر کے بڑے رئیس ہیں.حضور کے دعوے کی مفصل خبر دی.تو وہ اس بیان سے بہت خوش ہوئے اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مکہ کب تشریف لا ئیں گے میں نے ان سے کہا کہ جب اللہ چاہے گا.فی الحال حضور نے کچھ عربی کتابیں اپنے دعوے کے ثبوت میں لکھی ہیں جو یہاں بھیجنا چاہتے ہیں.جب میں نے خط روانہ کرنا چاہا.تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضور سے یہ بھی عرض کر دیں کہ جلد یہاں تشریف لائیں اور اپنی مولفقہ کتابیں جلد میرے نام ارسال فرما دیں.میں خود ان کو تقسیم کروں گا.اور شرفاء و علماء مکہ تک پہنچادوں گا حمامہ البشری" کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جونسی الشیخ محمد بن احمد مکی کا خط ملا.حضور نے اسے مرکز اسلام

Page 519

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۰۰ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے تک تبلیغ حق کا ایک غیبی سامان سمجھتے ہوئے "حمامہ البشری" کے نام سے عربی زبان میں ایک معركته الاراء کتاب تصنیف فرمائی.یہ کتاب آپ نے ۱۸۹۳ء میں ہی تصنیف فرمائی تھی مگر اس کی اشاعت فروری ۱۸۹۴ء مطابق رجب ۱۳۱۱ھ میں ہوئی.حضرت اقدس نے اس میں اہل مکہ کے لئے مسئلہ نزول مسیح اور اپنے دعوئی سے متعلق خوب وضاحت فرمائی اور بتایا کہ آپ کی آمد سے گزشتہ تمام نوشتے پورے ہو گئے ہیں.یہ کتاب بلاد عربیہ میں مفت تقسیم کی گئی.یہی نہیں بلکہ اسکے بعد جو عربی تصانیف حضور نے فرما ئیں وہ بھی حجاز ، شام ، عراق ، مصر اور افریقہ کے مسلمانوں کو مفت بطور ہد یہ روانہ کی گئیں.نور الحق (حصہ اول) کی تصنیف و اشاعت " جنگ مقدس میں عیسائیت کو جو شکست فاش ہوئی ہندوستان کے پادری اس سے گھبرا گئے.چنانچہ اپنی ناکامی اور مفت پر پردہ ڈالنے کے لئے مشہور دریدہ دہن اور زبان در از پادری عماد الدین نے تو زین الا قوال" کے نام سے ایک نہایت اشتعال انگیز کتاب لکھی جس میں قرآن مجید اور فخر کائنات رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر نہایت درجہ ناپاک، رکیک اور گندے حملے کئے.اس کتاب نے ہندوستان میں بڑا اشتعال پیدا کر دیا.مگر اس کا جواب دینے کی توفیق کسی اور مسلمان عالم کو تو نہ ہوئی البتہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے چند دنوں میں اس کا نا قابل تردید جواب لکھا.جس میں حضور نے پادری عماد الدین اور دوسرے تمام مولوی کہلانے والے پادریوں کو میدان مقابلہ میں آنے کے لئے للکارا.اور اعلان کیا کہ اگر وہ سب مل کر بھی اس کتاب کا حقیقی جواب تین ماہ میں لکھ دیں.تو انہیں پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا لیکن اگر وہ نہ تو جواب لکھیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سے باز آئیں تو خدا کی ان پر ایک ہزار لعنت ہو.حضرت اقدس کا یہ جواب ۱۸۹۴ء کے آغاز میں "نور الحق " حصہ اول کے نام سے طبع ہو ا جو نہایت مقفی و مجمع اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے.حضور نے اس کتاب میں صلیبی فتنہ کی تباہی کے لئے درد انگیز دعابھی کی جواب شاندار طریق سے پوری ہو رہی ہے چنانچہ جس وقت آپ نے یہ دعا کی عیسائیت کا خوفناک طوفان ہر طرف چھایا ہوا تھا مگر آج یہ رنگ نہیں اور اس کا پہلا نہ ہی جوش بہت حد تک ختم ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور روحانی برکات و تاثیر کی بدولت ہے.

Page 520

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۰۱ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے رمضان میں کسوف و خسوف کا نشان گذشته صحیفوں بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صلحائے امت محمدیہ نے خبر دے رکھی تھی کہ مسیح موعود کی سچائی کے لئے آسمان پر چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کی واضح حدیث تھی کہ اِن لِمَهْدِينَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالأَرْضِ يَنكَسِفُ الْقَمَرُ لاَ وَلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفَ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنذُ خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالأَرْضَ.A یعنی ہمارے مہدی کی تائید و تصدیق کے لئے دو نشان مقرر ہیں جو زمین و آسمان کی پیدائش سے اب تک کسی مدعی کی صداقت کے لئے ظاہر نہیں ہوئے اور وہ یہ کہ چاند کو رمضان میں گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات یعنی تیرھویں تاریخ کو اور سورج کو گرہن کی تاریخوں میں سے ) درمیانی تاریخ یعنی اٹھا ئیسویں کو گرہن لگے گا.اور جب سے کائنات پیدا ہوئی ہے ایسا کسی مدعی (مہدویت) کے وقت میں نہیں ہوا کہ اس کے دعوئی کے وقت میں رمضان کی ان تاریخوں میں خسوف و کسوف ہوا ہو.علاوہ ازیں حضرت نعمت اللہ صاحب ولی اور بعض گذشته علماء مولوی حافظ محمد صاحب لکھو کے نے بھی خسوف کسوف کے ظہور کی اطلاع دی تھی.بلکہ ملتان کے ایک مشہور ولی کامل حضرت شیخ محمد عبد العزیز بہاروی نے تو از روئے الہام یہ بھی خبر دے دی تھی کہ یہ نشان ۱۳۱۱ھ میں ظاہر ہو گا.سو آپ کی سچائی کی شہادت کے لئے اس پیشگوئی کے عین مطابق مشرقی ممالک میں ۲۱ مارچ ۱۸۹۴ء کو چاند گرہن اور ۶.اپریل ۱۸۹۴۷ء کو سورج گرہن ہوا.اگلے سال امریکہ میں بھی مجوزہ تاریخوں میں کسوف و خسوف ہوا.یہ کسوف و خسوف اپنے اندر خاص ندرت رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے مشاہدہ کے لئے سائنسدانوں نے ہندوستان میں خاص طور پر ایک رصد گاہ تعمیر کی اور امریکہ اور یورپ اور دیگر ممالک سے بھی بہت سے منجم اسے دیکھنے کے لئے آئے.تصویری زبان میں گویا یہ ایک آسمانی نظارہ تھا جس میں اللہ تعالٰی کی طرف سے انتباہ کیا گیا تھا کہ امت کے آفتاب و ماہتاب یعنی علماء بے نور ہو چکے ہیں.اخبار " سول اینڈ ملٹری گزٹ " لاہور (۱۸۹۴ء) میں ان گرہنوں کو عجیب قرار دیا گیا.سورج گرہن کے موقعہ پر قادیان میں کئی دوست گرہن دیکھنے میں مشغول تھے.ابھی خفیف سی سیاہی شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے عرض کیا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے آپ نے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی.حضور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا

Page 521

تاریخ احمدیت جلدا ۵۰۲ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے مسیح کہ یہ گرہن ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائیگا اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائیگا.تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتیٰ کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہو گیا.اس موقع پر حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امرد ہوی کے قلم سے اشتہار جلاء البصر فى انحسانف الشمس و القمر " شائع ہوا.جس میں اس عظیم آسمانی نشان کے ظہور پر خوب روشنی ڈالی گئی تھی.یہ اشتہار امرتسر کے ریاض مند پریس میں چھپا تھا نماز کسوف بھی حضرت مولوی صاحب نے پڑھائی جو مسجد مبارک، قریباً تین گھنٹہ جاری رہی.جب خسوف و کسوف کا نشان ظاہر ہوا تو بالخصوص اہل مکہ خوشی سے اچھلنے لگے کہ اب اسلام کی ترقی کا وقت آگیا اور امام مہدی پیدا ہو گئے.علاوہ ازیں تمام اسلامی ممالک میں بھی بڑی خوشیاں منائی گئیں."نور الحق" (حصہ دوم) کی تصنیف و اشاعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو چاند اور سورج گرہن کا نشان ہدایت و رہنمائی کے لئے ظاہر ہوا تھا.مگر محرومان ازلی نے اس کو گرا ہی کا ایک ذریعہ بنالیا.چنانچہ ایک مولوی صاحب نے جب گرہن دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پر خوش ہونے کی بجائے مغموم ہو کر کہنے لگے کہ اب دنیا گمراہ ہوگی.اور لوگ مرزا صاحب کو مہدی تسلیم کرلیں گے.دوسرے نام نہاد علماء نے بھی عملا اسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا اور یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ گرہن حدیث کی بتائی ہوئی تاریخوں میں نہیں ہوا.اسے چاند کی پہلی تاریخ کو ہونا چاہیے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان حضرات کی یہ افسوس ناک روش دیکھی تو آپ نے مئی ۱۸۹۳ء کو نور الحق حصہ دوم کتاب لکھ کر ان حضرات کے اس اعتراض کا یہ مسکت جواب دیا کہ حدیث میں قمر کا لفظ ہے جو پہلی رات کے چاند پر اطلاق نہیں پاتا.پہلی رات کا چاند تو عربی میں ہلال کہلاتا ہے.حضور نے اس کتاب میں تحدی فرمائی کہ خدا تعالیٰ نے یہ نشان تنها میری صداقت کے لئے ظاہر کیا ہے.ورنہ تاریخ عالم سے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرو کہ کسی شخص نے خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور پھر اس کے زمانہ میں رمضان کی ان معین تاریخوں میں خسوف و کسوف کا نشان ظاہر ہوا ہو.اگر ایسی مثال پیش کر سکو تو میں ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.مگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش نہ کر سکا.

Page 522

تاریخ احمدیت جلدا ۵۰۳ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے اتمام الحجہ کی تصنیف و اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ " اتمام الحجہ " جون ۱۸۹۴ ء میں شائع کیا یہ رسالہ امرتسر کے مشہور مخالف مولوی غلام رسول عرف مولوی رسل بابا صاحب کی کتاب "حیات المسیح" کے جواب میں تصنیف ہوا تھا.حضور نے اتمام الحجہ " میں قرآن، حدیث اور سلف صالحین کے اقوال غرض ہر جہت سے مسیح کی وفات پر مختصر مگر جامع بحث کی ہے یہ رسالہ روسائے امرتسر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رسل بابا صاحب کو رجسٹری کر کے بھجوا دیا گیا لیکن مولوی رسل بابا صاحب نے جتنے زور شور سے علمی جنگ کا اعلان کیا تھا اتنی ہی بے دلی سے ہتھیار ڈال دیئے.مولوی رسل بابا صاحب کے معقدوں میں کئی کشمیری ارباب اثر تھے جنہوں نے مولوی صاحب پر چیلنج قبول کرنے کے لئے دباؤ بھی ڈالا مگر وہ مختلف حیلوں بہانوں سے پہلو بچا گئے.اس پر ان میں سے بعض نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی.مولوی رسل بابا صاحب نے جو یہ ذلت و رسوائی دیکھی تو انہوں نے امرت سر کے احمدیوں کے خلاف مخالفت کی آگ اور زیادہ تیز کردی- مگر مولوی رسل بابا صاحب بھی خدا تعالٰی کی گرفت سے نہ بچ سکے.اور بالا خر ۸- دسمبر ۱۹۰۲ء کو طاعون کا شکار ہو کر کوچ کر گئے.وسر الخلافہ" کی تصنیف و اشاعت سر الخلافہ بھی حضرت اقدس کی ایک عربی تصنیف ہے جو جولائی ۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی.اس بلند پایہ کتاب میں آپ نے حکم و عدل کے فرائض انجام دیتے ہوئے مسئلہ خلافت پر فیصلہ کن رنگ میں روشنی ڈالی.حقیقت یہ ہے کہ سر الخلافہ خلافت کے موضوع پر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بے نظیر تصنیف ہے جس کی مثال اسلام کے چودہ سو سال کے لٹریچر میں تلاش کرنا بے سود ہے.سر الخلافہ کے ذریعہ سے ایک ہی رات میں انقلاب عظیم اس قابل قدر کتاب سے سنی اور شیعہ علماء نے کیا تاثر لیا اس کا تو علم نہیں البتہ اس نے شیعہ مذہب کے مشہور عالم ، زبان فارسی کے فقید المثال شاعر اور ارجح المطالب فی مناقب اسد اللہ الغالب" کے نامور متولف مولانا عبید اللہ صاحب بل پر بجلی کی طرح اثر کیا اور ان کے خیالات کی دنیا ایک ہی دن میں یکسر بدل ڈالی.اور انہیں

Page 523

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۰۴۰ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے IA سر الخلافہ پڑھتے ہوئے رات کو سید نا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی.اور دیکھا کہ سید الشہداء ایک بلند مقام پر رونق افروز ہیں اور فرما رہے ہیں کہ مرزا صاحب کو خبر کرو کہ میں آگیا ہوں چنانچہ مولانا بسمل دوسرے ہی دن حاضر کر حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف ہو گئے.رجوع الی الحق کے باعث آتھم صاحب کو مہلت اور اخفائے حق کی پاداش میں ہلاکت انوار الا سلام " اور " ضیاء الحق" کی تصنیف و اشاعت علماء کی قبل از وقت غوغا آرائی کسی پیشگوئی کی مقرر میعاد سے قبل اس پر اعتراض کرنا کسی خدا ترس انسان کا کام نہیں ہو سکتا مگر علماء وقت کی خداناتری کہ ادھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۳ء میں خدا تعالٰی سے خبر پا کر آتھم سے متعلق پیشگوئی فرمائی اور ادھر انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا.کہ اگر یہ پیشگوئی پوری بھی ہو گئی تب بھی ہم آپ کو سچا ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے.اور عیسائیوں اور مسلمانوں کو بھی یقین رکھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی الهام رحمانی سے نہ تھی بلکہ ایک درو نگوئی ولاف زنی تھی جو اتفاقا مطابق واقعہ نکلی.ایسی پیشگوئیاں تو کاہن نجومی رمی جو تشی.فلاسفر مسمرائز رقیافہ شناس روحانیت کی تسخیر کے عالم اور انکل باز بھی کرتے ہیں.جو بعض اوقات صحیح نکلتی ہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے یہ بھی لکھا." اس پیشگوئی میں فریق مخالف حق کے فوت ہو جانے کی صریح لفظ موت سے خبر نہیں دی.صرف یہ کہا کہ وہ بار یہ یعنی جہنم میں ڈالا جائے گا جو ہر ایک مخالف حق کا ٹھکانہ ہے ".اس پر اپیگینڈے کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمان اور عیسائی ابتداء ہی سے ایسے مسموم کر دیئے جائیں کہ وہ کسی حال میں بھی اس پیشگوئی سے فائدہ نہ اٹھا ئیں.عیسائیت نواز علماء کا یہ تمسخر د استهزاء جاری ہی تھا کہ امرت سرمشن کے روح رواں اور عیسائی آنریری مشنری پادری رائٹ ہاول عین جوانی میں اس جہاں سے کوچ کر گئے.ان کی موت سے پادریوں کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے ہاتھی کپڑے پہن لئے.اور ایک پادری کی زبان سے گرجے میں تقریر کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی نکل گئے.کہ آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بے خبری میں ہم کو قتل کیا.اس کے علاوہ خاص جنڈیالہ میں جہاں مباحثے کی بنیاد پڑی تھی.ڈاکٹر یو حنا صاحب جو مباحثے کی طباعت کے منتظم تھے اور اپنی خدمات کے باعث عیسائیوں میں ایک رکن اعلیٰ متصور ہوتے تھے اس جہان سے رخصت ہو گئے.رہے عیسائی مناظر عبد اللہ آتھم صاحب سو خدائی تلوار پورے پندرہ

Page 524

تاریخ احمدیت جلدا ۵۰۵ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے مہینے تک ان کی آنکھوں کے سامنے ایسے عجیب رنگ میں موجود رہی کہ جس کا وہم و گماں بھی نہیں ہو کتا تھا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مباحثے کے معا بعد عبد اللہ آتھم صاحب حواس باختہ سے ہو گئے اور انہیں خدائی تصرف کے تحت مختلف دہشتناک نظاروں میں خونی سانپ نظر آنے لگے جن کی نسبت انہوں نے یہ بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ " سانپ تھے.جن کو مرزا صاحب کی جماعت نے میرے ڈسنے کے لئے چھوڑ رکھا تھا.یہ پیشگوئی کی عظمت و ہیبت کی ابتداء تھی جس نے بالاخر انہیں اس درجہ خوف زدہ کر دیا.کہ وہ اپنی عالی شان کو ٹھی چھوڑ کر امر تسر سے لدھیانے چلے جانے کو جہاں ان کا داماد رہتا تھا مجبور ہو گئے لدھیانے میں ان کو سانپ دکھائی نہیں دیئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک خوفناک حالت پیدا ہو گئی کہ بعض نیزوں سے مسلح آدمی انہیں نظر آنے لگے اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ قریب ہی آپہنچے ہیں.اور انہیں قتل کیا چاہتے ہیں.اس نظارہ کے بعد آتھم صاحب گریہ وزاری میں جتلا ہو گئے.اور ہر وقت ایک پوشیدہ ہاتھ کا خوف ان پر مسلط رہنے لگا.یہاں تک کہ انہیں اس کو ٹھی سے بھی وحشت ہونے لگی اس پر وہ اپنے دوسرے داماد کی طرف دوڑے جو فیروز پور میں تھا.لیکن یہاں بھی انہیں چین نصیب نہ ہوا بلکہ یہاں وہ نظارے پہلے سے بہت زیادہ ہیبت ناک شکل اختیار کر گئے.مسٹر آتھم ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ سرکاری افسر تھے جو ایک مدت دراز تک اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر کے عہدہ پر فائز رہے تھے.وہ چاہتے تو چارہ جوئی کر کے سرکاری طور پر اپنے حریف سے باضابطہ مچلکہ لکھوا سکتے تھے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور دوسرے عیسائیوں نے انہیں بار بار اس طرف توجہ دلائی.مگر چونکہ ان کا دل جانتا تھا کہ سانپوں اور نیزے والوں کے ان نظاروں میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس کے جواب میں دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے.عیسائیوں نے جب یہ حال دیکھا تو انہوں نے انہیں شراب پلا پلا کر مد ہوش رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا.اسی دوران میں ہادیہ سے متعلق پیشگوئی کی میعاد کا آخری دن آگیا.اس دن آتھم صاحب کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام جس انسپکٹر پولیس کے سپرد تھا اس نے بعد کو بیان کیا کہ کوٹھی کے اندر آتھم صاحب کے دوست پادری وغیرہ تھے اور باہر چاروں طرف پولیس کا پہرہ تھا اس وقت آتھم صاحب کی حالت سخت گھبراہٹ کی تھی.اتفاقا با ہر دور سے کسی بندوق کے چلنے کی آواز آئی.اس پر آتھم صاحب کی حالت یک لخت دگرگوں ہو گئی.آخر جب ان کا کرب اور گھبراہٹ انتہاء کو پہنچ گئی تو ان کے دوستوں نے ان کو بہت زیادہ شراب پلا کر بے ہوش کر دیا وہ آخری رات آتھم صاحب نے اسی حالت میں گزاری.صبح ہوئی تو ان کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنائے اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر جلوس نکالا.اس دن لوگوں میں شور

Page 525

تاریخ احمدیت جلدا 0.4 مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے تھا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.مگر ہم سمجھتے تھے کہ جو حالت ہم نے آتھم صاحب کی دیکھی ہے اس سے تو ان کا مرجانا ہی اچھا تھا.اس پندرہ ماہ کی میعاد میں آتھم صاحب میں ایک بڑا بھاری تغیر یہ پیدا ہوا کہ وہ پہلے تو الوہیت مسیح کے مسئلے پر بحث کرتے رہے تھے.مگر اب وہ اپنی گذشتہ روش سے ہٹ کر اسلام کے رد اور عیسائیت کی تائید سے کنارہ کش ہو گئے.اور یہ اقرار کر لیا کہ میں عام عیسائیوں کے عقیدہ امنیت والوہیت مسیح کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ (یعنی حضرت مرزا صاحب ناقل) کے ساتھ کچھ بیہودگی کی ہے".مكذب علماء کا مظاہرہ صاف ظاہر ہے کہ ان حالات میں پادری آتھم صاحب کے ہلاک نہ ہونے پر عیسائی فریق کے جلوس اور شادمانی در حقیقت ایک شکست خوردہ فریق کی شادمانی تھی.کیونکہ خدا کے غضب کی لاٹھی ان پر چل چکی تھی ان کے دو جانباز پہلوان معرکہ حق و باطل میں کھیت رہے تھے.اور تیسرے نے حق کی طرف رجوع کرنے سے جان کی امان پائی تھی.کیونکہ عذاب کی پیشگوئی میں اس شخص کے جس کے حق میں عذاب آنے کی پیشگوئی کی گئی ہو.حق کی طرف رجوع کرنے سے میعاد معینہ کے اندر عذاب نہ آنا اور اس رجوع سے انحراف کرنے پر عذاب آجانا یا رجوع کرنے والے کے ہمیشہ کے لئے رجوع پر قائم رہنے سے اس پر کبھی عذاب نہ آنا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے او رپادری عبد اللہ آتھم صاحب سے معالمہ اسی حقیقت کے مطابق ہوا تھا.انہوں نے حق کی طرف رجوع کیا اس لئے معیار معینہ کے اندران پر عذاب نہ آیا.اور جب انہوں نے رجوع الی الحق سے انحراف کیا تو عذاب نے انہیں آلیا.اور حق کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے کچھ مدت کے لئے عذاب ملتوی ہو جانا تو کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہاں رجوع کا ثابت ہونا بے شک ضروری ہے.تا تسلی ہو جائے کہ عذاب سنت مستمرہ المیہ کے مطابق ملتوی ہوا ہے.اس لئے اس پر اعتراض بے جاو نا روا ہے اور جب رجوع کا ثبوت نہ مل جائے تسلی نہیں ہو سکتی.تو رجوع کا ثبوت خود پادری عبد اللہ آتھم صاحب کے حرکات و سکنات اور حالات و مقالات میں موجود ہے جس کا ذکر اوپر بھی آچکا ہے.اور نیچے بھی آئے گا.مگر مکذب علماء کی حق پوشی و ناحق کوشی دیکھئے کہ جب عیسائی فریق کے جس کے لئے عذاب کی پیشگوئی تھی.دور کن لقمہ اجل ہو گئے تو عیسائیوں میں تہلکہ پڑ گیا.اور پادری رائٹ ہاول کی جواں مرگی پر تو پادریوں نے ماتمی لباس پہن لیا.اور شدت صدمہ و اندوہ سے شیخ اٹھے.کہ "آج رات خدا کے غضب کی بے وقت لاٹھی ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بے وقت ہمیں قتل کیا ہے " مگر مکذب علماء اپنے ایڈووکیٹ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرح اس خیال پر

Page 526

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۰۷ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے جسے رہے کہ اس پیشگوئی میں کسی کے فوت ہونے کی صریح لفظ موت سے خبر نہیں دی گئی ہے ".اور ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ اقرار نہیں کیا کہ عیسائیوں کے دونوں رکن پیشگوئی کے مطابق مرے ہیں لیکن جب پادری آتھم نے حق کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے کچھ دنوں زندہ رہنے کی مہلت پا لی تو انہوں نے بہت خوش ہو ہو کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ آتھم صاحب کے لئے جو موت کی پیشگوئی تھی.وہ پوری نہیں ہوئی اور اسے کتابوں اخباروں رسالوں اور اشتہاروں میں شائع کیا اور ان میں سے بعض نے تو اپنے مقام پر خوشی کے اظہار کو کافی نہ سمجھ کر عیسائیوں کے اس جلوس میں شریک ہونا بھی ضروری خیال کیا.جو انہوں نے پیشگوئی پوری نہ ہونے اور مسٹر آتھم کے موت سے بچ جانے پر خوشی و شاد بانی ظاہر کرنے کے لئے نکالا تھا.عیسائی فریق مباحثہ پر حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی حالت میں عذاب آنے کی پیشگوئی کے مطابق جب اس کے دو رکن پیشگوئی کی میعاد معینہ کے اندر مرجاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس پیشگوئی میں تو کسی کے فوت ہونے کی صریح لفظ موت سے خبر ہی نہیں دی گئی تھی.پھر ان دونوں کے مرجانے کا پیشگوئی سے کیا تعلق.اور جب عیسائی فریق کا ایک فرد رجوع کی شرط پر عمل کرنے کی وجہ سے پیشگوئی کی میعاد معینہ کے اندر نہیں مرتا تو کہا جاتا ہے کہ اس کے تو مرنے کی پیشگوئی تھی جو اس کے میعاد پیشگوئی کے اندر نہ مرنے کی وجہ سے جھوٹی نکلی بحالیکہ دونوں مرنے والوں اور تیسرے نہ مرنے والے کے لئے علیحدہ علیحدہ دو پیشگوئیاں نہیں تھیں بلکہ پیشگوئی صرف ایک ہی تھی اور اس کی عبارت بھی ایک اور مرنے والے اور نہ مرنے والا تینوں اسی ایک عبارت کے تحت ہیں اس حالت میں دو مرنے والوں کے لئے تو عبارت سے موت مراد نہ لینا اور تیسرے کے لئے موت مراد لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے.لیکن چونکہ مکذب علماء کا مقصد بہر حال پیشگوئی کو جھٹلانا تھا.اس لئے انہیں جس موقعہ پر جو صورت اپنے مقصد کی تکذیب کے لئے مفید نظر آئی انہوں نے حق و ناحق اور درست و نادرست کے خیال کو بالائے طاق رکھ کر وہی صورت اختیار کرلی.حقیقت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں فریق مخالف کے لئے بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے موت ہی کی خبر دی گئی تھی.اور حضرت اقدس نے اس وقت اس کی صراحت بھی فرما دی تھی کہ فریق مخالف کے ہادیہ میں ڈالے جانے سے یہ سزائے موت ہادیہ میں ڈالا جانا مراد ہے بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے چونکہ آتھم صاحب نے حق کی طرف رجوع کیا اس لئے وہ کچھ دنوں بڑے ہادیہ میں پڑنے سے بچے رہے اور جب اس سے رو گردانی کی تو ہادیہ میں جا پڑے.اور ان کے حق کی طرف رجوع کرنے کا ثبوت او پر بھی گزر چکا ہے اور آگے بھی آتا ہے.

Page 527

تاریخ احمدیت جلدا ۵۰۸ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے حضرت خواجہ غلام فرید صاحب یہ زمانہ تاریخ احمدیت میں ایک بڑا ہی نازک زمانہ تھا جسے بشیر اول کی وفات پر اٹھنے والی چاچڑاں شریف کا ایمان فروز جواب مخالفت کے بعد اپنی نوعیت کارو سرا خطر ناک ابتلاء قرار دیا جانا چاہیے.لیکن اس نشان سے اہل اللہ کے ایمان میں اور بھی اضافہ ہوا.چنانچہ انہیں ونوں نواب صاحب بہاولپور (نواب صادق محمد خاں صاحب) کے دربار میں حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کا ذکر چھڑ گیا اور مصاحسین نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب نے آتھم کی موت سے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ جھوٹی نکلی.یہ ہنسی اور مذاق دیر تک ہوتا رہا یہاں تک کہ اس میں خود نواب صاحب بھی شریک ہو گئے اور کہا کہ واقعہ میں یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.یہ سنا تھا کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف جو نواب صاحب موصوف کے پیرو مرشد تھے.اور دیر سے خاموش بیٹھے یہ سب کچھ سن رہے تھے.جوش میں آگئے اور فرمانے لگے ”کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آرہی ہے ".TA حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود کی طرف سے آتھم صاحب کو انعامی چیلنج علیہ السلام نے جب اسلام کی اس شاندار فتح پر ظالمانہ طور پر تکذیب ہوتے دیکھی.تو آپ نے ۹.ستمبر ۱۸۹۴ء کو عبد اللہ آتھم صاحب کو چیلنج دیا.کہ اگر اس عرصہ میں اس پر اسلام کی ہیبت طاری نہ ہوئی.اور وہ ٹیکسٹ کے عقیدہ سے ذرہ بھر بھی متزلزل نہیں ہوا.اور اس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا.تو وہ قسم اٹھا دے اسے ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا.۲۰ ستمبر ۱۸۹۴ء کو آپ نے دس ہزار کی تعداد میں ایک اور اشتہار کے ذریعہ سے یہ انعامی رقم دو چند کر دی اور لکھا کہ یہ تو دو خداؤں کی لڑائی ہے اب وہی غالب ہو گا.جو سچا خدا ہے جب کہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی یہ ضرور قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہو جائیں گے.اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس نے ۵- اکتوبر ۱۸۹۴ء کو ایک اور اشتہار شائع کیا.جس میں انعامی رقم تین ہزار کر دی اس کے بعد حضور نے ۲۷- اکتوبر ۱۸۹۴ء کو ایک اشتہار میں انعامی رقم چار ہزار روپیہ تک بڑھا دینے کا اعلان کر دیا.عیسائیوں نے قسم کے مطالبہ کے جواب میں نہایت شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ یہ عذر بھی پیش کیا تھا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے.حضور نے اس اشتہار میں پر زور دلائل سے ثابت کیا کہ پطرس نے قسم کھائی پولوس نے قسم کھائی.نبیوں نے قسم کھائی.فرشتوں نے قسم کھائی.بلکہ خود مسیح نے قسم کھائی.پھر انگریزی حکومت کے بھی بڑے افسر وزراء

Page 528

تاریخ احمدیت.جلد ۵۰۹ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے پارلیمنٹ کے ممبر بلکہ گورنر جنرل تک اپنا عہدہ سنبھالتے وقت قسم اٹھاتے ہیں.ایک سال کا یقینی اور قطعی وعدہ اور آتھم صاحب کی ہلاکت اس اشتہار میں حضرت اقدس نے آتھم صاحب پر آخری بار اتمام حجت کر کے صاف لفظوں میں انہیں خبر دی کہ اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے.اور اگر قسم نہ کھا دیں.تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اختفاء کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا.لیکن آتھم صاحب نے قسم نہ کھائی اور آخر ۷ ۲- جولائی ۱۸۹۶ء کو فیرزو پور میں وفات پاگئے.اور اسلام کی فتح کا ایک اور زبردست نشان ظاہر ہوا.جس کا ایک عجیب پہلو یہ تھا کہ حدیث میں پہلے سے اسلام اور عیسائیت کے اس معرکہ کی خبر موجود تھی.چنانچہ لکھا تھا."يُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ الْحَقِّ فِي الِ مُحَمَّدٍ وَيُنَادِى مِنَ الْأَرْضِ أَنَّ الْحَقِّ فِي الِ عِيسى...إِنَّمَا الْأَسْفَلُ كَلِمَةُ الشَّيْطَانِ وَالصَّوْتُ الأعلى كَلِمَةُ اللَّهِ الْعُلْيَا.یعنی آسمان سے پکارا جائے گا حق محمد ﷺ کے متبعین میں ہے مگر زمین سے پکارا جائے گا کہ حق عیسی کے متبعین میں ہے مگر یا د رکھو جو زمین کی طرف سے آواز آئے گی.وہ شیطانی آواز ہے اور جو اوپر سے آواز آئے گی وہ اللہ تعالی کا کلمہ ہے جو ہمیشہ بلند ہے.آتھم صاحب کی موت کے بعد حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کے سامنے کسی نے اعتراض کیا کہ آتھم میعاد کے بعد مرا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لے کر فرمایا کہ اس بات کی کیا پروا ہے میں جانتا ہوں کہ آ تم انہی کی دعا سے مرا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اہم پیشگوئی کی وضاحت کے لئے تین مستقل تصانیف فرما ئیں.انوار الاسلام".ضیاء الحق" اور "انجام آنقم " ان کتابوں کی اشاعت بالترتیب ستمبر ۱۸۹۴ء مئی ۱۸۹۵ء اور جنوری ۱۸۹۷ء میں ہوئی.عیسائیوں کی عالمی کانفرنس میں تحریک احمدیت کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار یہ معرکہ گو ہندوستان میں ہوا تھا مگر اس نے دنیا بھر کے عیسائی لیڈروں کو شدت محسوس کروا دیا کہ عیسائیت کے خلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرنے والی ایک زبر دست

Page 529

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۱۰ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے جماعت پیدا ہو رہی ہے جو ان کے لئے مستقبل میں بہت بڑا خطرہ ثابت ہو گی.چنانچہ اسی سال ۱۸۹۴ء میں لندن میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ نے احمدیت کے متعلق نہایت درجہ تشویش و اضطراب کا اظہار کر کے دنیا بھر کے عیسائیوں کو مطلع کیا کہ اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے.اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں.یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے جن کی بناء پر محمد کامذ ہب ہماری نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جاری ہے.یہ نئے تغیرات باسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.(انگریزی سے ترجمہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف متحدہ سیاسی محاذ اور بغاوت کا الزام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مدتوں سے برطانوی افسروں سے بڑے گہرے مراسم تھے اور حکومت کے اونچے طبقے میں تو انہیں دوسرے علماء کے مقابل یہاں تک عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا کہ غدر ۱۸۵۷ء کے حالات کے باعث وہابی فرقہ بے حد معتوب تھا.مگر محض ان کی ذاتی کوشش اور درخواست پر ۱۹ - جنوری ۱۸۸۷ء کو ان کی جماعت کے لئے سرکاری نام " اہلحدیث " تسلیم کیا گیا.اور سرکاری کاغذات میں لفظ وہابی کا استعمال خلاف قانون قرار دیا گیا.ان کا اپنا بیان ہے کہ اس کی معروضات بحق اہلحدیث گورنمنٹ میں عزت و اعتبار سے سنی جاتی تھیں".یہی وجہ ہے کہ مارچ ۱۸۸۷ء میں جب سی.یوایچیسن لفٹنٹ گورنر پنجاب عمدہ گورنری سے رخصت ہوئے تو انہوں نے مولوی صاحب کو ایک خصوصی سرٹیفکیٹ دیا کہ ابو سعید محمد حسین فرقہ اہلحدیث کے ایک سرگرم مولوی اور اس فرقہ اسلام کے وفادار اور ثابت قدم وکیل ہیں.ان کی علمی کوششیں (یعنی تصانیف) لیاقت سے ممتاز ہیں.نیز وہ ملکہ معظمہ کی وفادار رعایا میں سے ہیں.مولوی محمد حسین صاحب نے گورنمنٹ انگریزی کی جو خدمات سرانجام دی تھیں وہ اتنی شاندار تھیں کہ حکومت نے

Page 530

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۱۱ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے اس کے صلہ میں بطور انعام چار مربع زمین کی جاگیر بھی عطا فرمائی.اسی بناء پر بعض نامور اہلحدیث علماء کو اعتراف کرنا پڑا کہ " پنجاب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے انگریزی حکومتوں سے تعاون کر دیا اور بظاہر وہ انگریزی نظام کے ثنا خواں ہو گئے...اس لئے یہ ناخوشگوار اعتراف کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ مرحوم مولانا محمد حسین جید عالم اور دور اندیش مفکر ہونے کے باوجود اپنے دو سرے رفقاء کی طرح مقام عزیمت پر قائم نہ رہ سکے.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق ہمارے بعض دوست ہمیں طعن دیتے ہیں کہ تحریک اہل حدیث انگریز کے ہاتھ میں بک گئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی وفاداری کا سکہ جمانے اور انگریز کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے جہاں اور کئی طریقے اختیار کئے وہاں یہ تدبیر بھی کی کہ انہوں نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف منظم مخالفت کا بیڑہ اٹھایا.بلکہ اپنے اثر و رسوخ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو بار بار اشتعال دلایا کہ یہ شخص جو مسیح و مہدی ہونے کا مدعی ہے در پردہ حکومت کا باغی ہے.اس کی سرگرمیوں پر کڑی پابندی عائد کی جانی چاہیے.جب جنگ مقدس کا وقت آیا تو اس شرانگیز پراپیگنڈہ میں پادری بھی شامل ہو گئے اور پادری عماد الدین نے ” تو زمین الا قوال " میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بغاوت کا کھلا کھلا الزام لگاتے ہوئے بڑا ز ہرا گلا.جس سے متاثر ہو کر نیم سرکاری اور سیاسی اخبار ” سول اینڈ ملٹری گزٹ " نے بھی ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۴ء کو ” ایک خطر ناک مذہبی دیوانہ " کے عنوان سے ایک اشتعال انگیز مضمون لکھا جس میں تحریر کیا کہ "A Dangerous Fanatic™ "There is a well-known fanatic in the punjab, he is now, We believe, in the Gurdaspur district, who calls himself Musalman and also the Messiah.His prophecies regarding the death of a native Christian gentleman in Amritsar kept up an excitement in the city for some months; but fortunately his utterances were so badly charged that they have hung fire miserably and the doomed is still alive.A fanatical vision of this sort is doubtless under the surveilance of the Police.Whenever he the peace of preaches abroad serious disturbances imminent, for he has a numerous following who are only less fanatical than himself.are Of course no political danger can be apprehended from the vain imaginings of such a man; but there is method in his madness.He has undoubted literary ability and his writings are voluminous and learned ; all the elements present for forming a dangerous rallying point, of course among the

Page 531

تاریخ احمدیت جلد ۵۱۲ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے Orthodox he is anathema morantha.His fame has spread as far as even as distant Madras.We give an extract from the Mohammedan, an English daily published in that city."Deep religious conviction, such as that ascribed to the Qadian, is no matter for idle gibe, but we are afraid that even granting his mental health' it is so intermixed in the reformmer' with a narrowness of view as to constitute him a crude reactionist.His convictions inform all his moods and impart a sickly hue to all his environments.Glimpses afforded by his writings, proclaim, him hostile to modern civilization, which as accidentally associated with Christianity, he hates with a perfect hatred.In warring with the one he needs must war with the other, they are one and indivisible.A railway train is as HATEFUL to him as the doctrine of the Trinity, because it is device of the Trinitarians.In one place he thus delivers himself: the -- "Thus it is evident that these Christian races" mark the words."These supporters of the Trinity, have played such wonderful feats and cut a complete system of magic" italics are ours "that none but a first class dajjal could exhibit”.It is all "damned sophisticated sorcery”, in his eyes the evil principle opposed to the good.God on the one side; the devil on the other.It is impossible to determine the limits of this eccentric extremes, should he pass out of the region of contemplation to that of action.There is a subdued ferocity in his utterances that marks out as dangerous possible crescentader, and no mere ipos dixit of any of his admirers.who possibly may have an inkling of what it all means will.convince us more especially after the distingenuousness characterising the present controversty- to the contrary”.་ The Maulvi of Qadian has beem under our observation for.several years, and we can endorse the above from our own knowledge of the man and his works.He is gaining strength and it may probably become our duty in the near future to treat him at more length”.(TheCiviland Military Gaztte) " پنجاب میں ایک مشہور مذہبی دیوانہ ہے.ہمارا خیال ہے کہ اب وہ ضلع گورداسپور میں ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور صحیح بھی.اس کی پیشگوئیوں نے جو اس نے امرت سر کے ایک ہندوستانی عیسائی کی موت کے متعلق کی تھیں کئی ماہ تک شور برپا رکھا.لیکن خوش قسمتی سے اس کی باتیں ایسی بے اثر نکلیں کہ جس عیسائی کو موت آنا تھی ابھی تک زندہ ہے اس قسم کا وہمی اور مذہبی

Page 532

تاریخ احمدیت جلدا ۵۱۳ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے دیوانہ بیشک پولیس کی نگرانی میں ہے.جب کبھی وہ باہر تبلیغ کے لئے جاتا ہے امن عامہ میں بڑے فساد کا نوری خطرہ ہوتا ہے.کیونکہ اس کے مانے والے بے شمار ہیں اور وہ مذہبی جنون میں اس سے کچھ ہی کم ہیں.اس نوع کے انسان کے لئے بے معنی تصورات سے کسی سیاسی خطرہ کا اندیشہ تو نہیں ہو سکتا.لیکن اس کی دیوانگی میں بھی ایک سلیقہ ہے.اس کی ادبی قابلیت مسلمہ ہے.اس کی تصنیفات بہت ہیں اور عالمانہ ہیں.اس میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی ترکیب سے ایک خطر ناک مرکز بنا کرتا ہے".اس کی نظر میں سب کچھ ملعون جادوگروں کا طلسم ہے.بدی اور نیکی کا مقابلہ ہے.خدا ایک طرف ہے اور شیطان دوسری طرف.اگر وہ عالم خیال سے نکل کر میدان عمل میں قدم رکھ لے.تو اس کی عجیب انتہا پسندیوں کی حدود کا تعین کرنا ممکن نہیں ہو گا.اس کی باتوں میں ایک دبی ہوئی دہشت ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امکانی طور پر وہ ایک خطر ناک ہلالی ہے اور جیسے اس کے سب مراح سمجھتے ہیں وہ صرف ایک سادہ آدمی نہیں ہے.ممکن ہے اس کے مداحوں کو اس کا کچھ مطلب معلوم ہو.(خصوصاً موجودہ سرسری بحث کے بعد) اور ہمیں اپنی رائے کے خلاف قائل کر سکیں ، قادیان کا مولوی سالہا سال سے ہمارے زیر نظر رہا ہے.اور ہم اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر جو ہمیں اس کی ذات اور اس کے کام کے متعلق حاصل ہیں مندرجہ بالا رائے کی پوری طرح تائید کرتے ہیں.ہمارے نزدیک وہ طاقت پکڑ رہا ہے اور غالبا مستقبل قریب میں ہم پر یہ فرض عائد ہو جائے گا کہ ہم اس کی طرف زیادہ تفصیل سے توجہ دیں".اب چونکہ متحدہ محاذ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا انگریزی حکومت کو اختاه امام ہو چکا تھا.اور نیم سرکاری پریس میں بھی حضرت اقدس کے خلاف پر زور آواز اٹھنی شروع ہو گئی تھی.اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے پادریوں کا سہارا لے کر حکومت کو کھلم کھلا اختیاہ کرنا شروع کیا کہ گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے.ورنہ اس مہدی کاریانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا.حضرت مسیح موعود کا دفاع یہ خطر ناک پراپیگنڈہ جب زور پکڑ گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کا دفاع کرنے کے لئے قلم اٹھایا.چنانچہ حضور نے ابتداء " شہادت القرآن" پھر "نور الحق" کے ذریعہ سے حکومت کو اس بے بنیاد الزام کی طرف توجہ دلائی.نیز اشاعۃ السنہ (۱۸۸۴ء جلد نمبر ۷ - ۲) سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی تحریر کا وہ اقتباس شائع کیا.جس میں انہوں نے حضور کے آباء و اجداد کی خدمات کا تذکرہ کر کے انگریزی حکام کی

Page 533

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۱۴ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے مندوں پر نقول درج کی تھیں.اس کے بعد جب اس پراپیگنڈہ نے زیادہ وسعت اختیار کرنا شروع کی.تو آپ نے ملکہ وکٹوریہ گورنر جنرل اور لفٹنٹ گورنر پنجاب اور دیگر حکام کے نام ۱۰- دسمبر ۱۸۹۴ء کو با قاعدہ ایک اشتہار شائع کرتے ہوئے یہ تاریخی حقائق دوبارہ پیش کئے.مگر صورت حال نازک ہوتی چلی گئی.یہاں تک کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ مرزا صاحب کے خطوط کا جواب تو رہا ایک طرف انگریزی حکام آپ کے تردیدی بیانات کو قابل التفات ہی نہیں سمجھتے D اس رویہ نے آپ کے خلاف سیاسی محاذ قائم کرنے والوں کو بڑی تقویت پہنچائی.اور وہ متحد ہو کر آپ کے خلاف خطرناک منصوبے سوچنے لگے.۱۸۹۴ء کے بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ۱۸۹۴ء میں ایمان لانے والے بعض بزرگوں کے نام یہ ہیں:- (۱) حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی - (۲) حضرت مولانا حسن علی صاحب مسلم مشنری م م (۳) حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب سابق جگت سنگھ - E (۴) حضرت منشی امام دین صاحب پٹواری - (۵) جناب خواجہ کمال الدین صاحب 1

Page 534

تاریخ احمدیت جلدا ۵۱۵ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے سچائی کا اظہار "صفحہ ۸۰۵ حماته البشرعی" م حیات احمد جلد چهارم صفحه ۳۵۲ ۵ نور الحق (اول) صفحه ۱۵۳ حواشی مولوی کرم دین ، مولوی نظام الدین مولوی الهی بخش - مولوی حمید اللہ خاں.مولوی نور الدین مولوی سید علی مولوی عبد الله بیگ مولوی حسام الدین مولوی قاضی صفدر علی وغیرہ سینکڑوں پادری عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مسلمان تھے اس لئے وہ پادری ہونے کے باوجود اپنے تئیں مولوی سے موسوم کرتے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود نے انسی پادریوں کو "نور الحق حصہ اول میں مخاطب کیا اور انگریزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کذابوں کو مولوی کہلانے سے منع کرنے.انجیل متی باب ۲۴ آیت ۲۹ دار قطنی جلد اول صفحه ۱۸۸ مطیع انصاری دلی "اربعین فی احوال المحمد حسین" احوال الآخرة" بادر ۱۴ مارچ کے ۱۹۰ ء صفحہ ۸ "TIIE STORY OF ECLIPSES (چارچ ایک چمرزا صفحه ۳۳ مطبوعہ لنڈن ۱۹۰۲ء ضمیمہ انجام آنقم و تحفہ گولڑدیہ صفحه ۴۰ طبع اول اصحاب احمد " جلد اول صفحه ۸۰-۸۱ ۱۵- تحفه گواردیه صفحه ۲۰ ممتاز عالم از هر مولوی سعد محمد محسن نے المہدیہ فی الاسلام صفحہ اے ا پر تسلیم کیا ہے کہ یہ نشان کسوف و خسوف حضرت اقدس کے زمانہ میں ہی وقوع پذیر ہوا.یہ کتاب دار الکتاب العربی مصر سے ۱۳۷۳ ۵ - ۱۹۵۳ء میں شائع ہوئی ہے..حیات احمد جلد چهارم صفحه ۴۵۵-۴۵۶ ۱۷ - ولادت قریباً ۱۸۳۸ ء وفات ۲۹- ستمبر ۱۹۳۸ء ( مفصل حالات کے لئے دیکھئے الحکم ۲۴۷.نومبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۹۴۴ ۱۸ - یوم ولادت ۵- جون ۶۳۶ ۶ یوم شہادت ۱۰- اکتوبر ۶۸۰ -14 ۱۹ - سیرت المحمدی حصہ سوم صفحہ ۹۹-۱۰۰ و الحکم ہلائے.تو میر ۱۹۳۸ء صفحہ کے - ۲۰ اشاعۃ السنہ جلد ۱۵/ نمبر ۱ صفحه ۲۳۸/۲۳۹ ۲۱ اشاعۃ السنہ جلد ۱۵ نمبر، صفحه ۲۳۵- صلحه ۲۳۸ ۲۲ - انوار الاسلام صفحہ ۱۹۴۸( طبع اول) ۲۳ - انوار الاسلام حاشیه صفحه ۲ ۲۴ - "ضیاء الحق" ۲۵ - سیرت المهدی حصہ اول طبع دوم صفحه ۱۸۴ ۲۶ - نور افشاں ۲۱ - ستمبر ۱۸۹۴ء بحواله تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۳۰ ۲۷ - متوفی ۱۸۹۹ء ۲۸ - الحمام ۲۱-۲۸ جون ۱۹۴۳ء صفحه ۳-۴۰ کالم نمبر ۳ ۲۹ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۲۲-۱۳۸ - ۳۰ تبلیغ رسالت " جلد سوم صفحه ۱۳۴-۱۳۵

Page 535

تاریخ احمدیت جلد تبلیغ رسالت " جلد سوم صفحے ۱۷ ۳۲- حلیہ الی نعیم (بحوالہ اقرب الساعة) متحد ۱۳۸ ۵۱۶ مرکز اسلام میں حضرت مسیح موعود کی آمد کے تذکرے ۳۳- اشارات فریدی حصہ سوم صفحہ پر لکھا ہے کہ مرز اعلام احمد صاحب قادیانی عبد اللہ آتھم پادری که معاندی بود اعتماد حضور خواجه اتجاه الله تعالی بیان فرموند که اگر چہ عبد الله انتم از حد در اندازه مدت پینگوئی مرزا غلام احمد قادیانی که نسبت موت ہی کہ وہ بود مردان افتاده است چنانچه بعد میعار پیشگوئی فوت شده گر به نفس مرزا صاحب مرده است.The Official Report Of the Missonary Conference of the Anglican Communion- 1″**** 1894.P.64.۳۵ - الشاعۃ السنہ " جلد نمیرے صفح ۹۷ ۳۷۳ اشاعۃ السنہ نمبر ۳ صفحه ۲۹ ۳۸ - خود مولوی محمد حسین صاحب بیالوی نے بھی اشاعتہ الہ جدا نمیرہ ملے پر اس جاگیر کا تذکرہ کیا ہے.۳۹ - اخبار الاعتصام (گوجر انوالہ ) اکثر بی ۵۷ و صلحنا ۲۰.سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۲۴- اکتوبر ۱۸۹۴ء صفحه ۳ کالم نمبر ۳ (انگریزی سے ترجمہ) بحوالہ اپنی سلسلہ احمدیہ اور انگریز مصلح ے ہے طبع اول ( از مولانا عبد الرحیم صاحب (درد) ۴۱ - ولادت ۱۸۴۸ء وفات ۲۱ جون ۱۸۸۵ء مفصل سوانح کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ”مہدی سوڈانی " متولفہ آغا رفیق - ۴۲ اشاعۃ السنہ جلد ۱ ۱ صفحه ۲۳۸ اشاعۃ السنہ جلد ۱۹ نمبر صفحہ ۳۷ ۴۴ - ۱۳۱۳ اصحاب کہار میں آپ کا نمبر ۲۹ ہے.خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور میں فوت ہو گئے.حضرت سیٹھ صاحب سلسلہ احمدیہ کے ان عظیم مجاہدین میں سے ہیں جنہیں حضرت مسیح پاک کے زمانے میں بڑی بڑی مالی قربانیوں کی توفیق ملی.حضرت اقدس نے آپ کو نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے.ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں ".(اشتہار الانصار ۴.اکتوبر ۱۸۹۹ء) ۴۵ - صاحب کشف والہام تھے اور عالم صوفی بھی.۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے.اور ۹- جولائی ۱۹۵۷ء کو ربوہ میں انتقال فرمایا.- ولادت ۱۸۷۳ء میں وفات ۲۶ جولائی ۱۹۳۹ء) متصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول صفحه ۹۷ تا ۱۵ ۴۷ - ولادت ۱۸۷۰ء وفات ۲۸- د کمبر ۱۹۳۲ء آپ طالب علمی کے زمانہ میں اسلام سے متنفر ہو کر عیسائیت اختیار کر لینے کا فیصلہ کر چکے تھے کہ انہیں کہیں سے براہین احمدیہ "ہاتھ لگ گئی.اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ تمام شکوک شبہات دور ہو گئے قادیان پہنچے اور حضرت اقدس کی بیعت کر کے اسلام پر قائم ہو گئے اور پھر حضور کی برکت سے لارڈ ہیڈلے سر عبد اللہ آرچی ٹائٹر لیمٹن ، سر عمر ہیوبرٹ ر لیکن مسٹر محمد ار ماڈیوک پکتھال اور دوسرے کئی انگریزوں کو مسلمان کرنے کی سعادت پائی.

Page 536

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۱۷ تین عظیم الشان علمی انکشافات تین عظیم الشان علمی انکشافات عربی زبان ام الالسنہ ہے.حضرت باوا نانک علیہ الرحمتہ مسلمان تھے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا سفر کشمیر اور محلہ خانیار میں مزار

Page 537

تاریخ احمدیت جلدا ۵۱۸ تین عظیم الشان علمی انکشافات ماموریت کا چودھواں سال قادیان میں ”ضیاء الاسلام پریس" مطب اور کتب خانے کا قیام ۶۱۸۹۵ اب چونکہ ضروریات سلسلہ بہت بڑھ چکی تھیں اس لئے اس سال ۱۸۹۵ء میں پریس مکتب خانہ مہمان خانہ اور مطب کی بنیادیں رکھی گئیں.یہ سب ادارے قادیان کی منہدم فصیل کی جگہ پر کچی عمارتوں میں قائم ہوئے تھے.سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو بیڑی کو ٹھریاں شمالی جانب نے ہوئیں.ایک بڑے کمرے میں جو بعد کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالی کا موثر خانہ بنا.ضیاء الاسلام پر لیں نصب کیا گیا اور دوسرے کمرے میں حضرت مولانا نور الدین مدت العمر مطب کرتے رہے.مطلب سے متصل شرقی جانب کی کو ٹھری میں مہمان خانہ کا قیام ہوا.ضیاء الاسلام پریس اگرچہ قادیان میں مرکزی پریس قائم کئے جانے کی تجویز تو ۱۸۹۴ء کے سالانہ جلسے میں باتفاق رائے منظور ہو چکی تھی.لیکن اس کا قیام اس سال ۱۸۹۵ء میں عمل میں آیا.پریس میں سب سے پہلے جو کتاب طبع ہوئی وہ "ضیاء الحق " تھی ابتداء میں تو اس کی براہ راست نگرانی حضرت اقدس خودہی فرماتے تھے.اور چھاپنے کا کام حضور کے مخلص خادم مرزا اسمعیل بیگ صاحب 3 اور ان کے اعزہ کرتے تھے.لیکن جب حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی ہجرت کر کے قادیان آگئے.تو حضرت اقدس نے اپنی دینی مصروفیات کی وجہ سے نگرانی کی ذمہ داری بھی مکرم حکیم صاحب کے سپرد فرما دی تھی.اور انہوں نے تجریہ و فراست کی وجہ سے مطبع کا انتظام بخوبی سنبھال لیا اور قادیان میں طباعت و اشاعت کی آسانی پیدا ہو گئی.مهمان خانه گول کمرہ جو مسجد مبارک کے بعد تعمیر ہوا.ابتداء مہمان خانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا خود حضرت ام المومنین کھانا پکانے کا انتظام فرمائیں.اور حضرت اقدس علیہ السلام

Page 538

تاریخ احمدیت جلدا ۵۱۹ تین عظیم الشان علمی انکشافات مہانوں سے ملاقات فرماتے تھے.لیکن جب اس سال کے دوران میں حضرت میر ناصر نواب صاحب ہجرت کر کے آگئے تو مہمان خانہ گول کمرہ سے فصیل کی جگہ پر تیار شدہ عمارت میں منتقل ہو گیا اور حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ نے اس کے آگے دیوار کھینچ کر بود و باش اختیار کرلی.کتب خانہ بھی فصیل کی جگہ پر نئی عمارت میں قائم ہوا.جس کے اولین مہتمم حکیم کتب خانہ فضل دین صاحب بھیروی قرار پائے.گو نام کے لحاظ سے تو یہ حضرت مولانا نور الدین صاحب کا مطلب کہلاتا تھا مگر عملاً اسے بھی مستقل ادارہ کی حیثیت حاصل تھی.جو حضرت حکیم الامت کے طبی اور روحانی کمالات کی تجربہ گاہ بھی تھا اور درسگاہ بھی.باوجود یکہ غریبوں اور حاجتمندوں کا علاج یہاں بالعموم مفت کیا جاتا A اور بڑی بیش بہا ادویہ مفت دے دی جاتیں.مگر پھر بھی اس کا فیض عام ہمیشہ جاری رہتا.اور وہ وہ غیبی برکتیں ظہور میں آئیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے.یہ ادارہ حضرت خلیفتہ المسیح اول کی زندگی میں ملک بھر کے مریضوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مد ظلہ العالی کی ولادت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مقابل نصرت و تائید کے نشان کے طور پر ۱۸۹۴ء میں بشارت دی گئی تھی کہ آپ کو ایک فرزند عطا کیا جائیگا اور آپ نے انوار الاسلام" (صفحہ ۲۹ حاشیہ) میں تحمیل از وقت اس کی خبر بھی شائع فرما دی.چنانچہ اس کے عین مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب سلمہ اللہ تعالٰی ۲۷ ذیقعده ۱۳۱۲ھ مطابق ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء کو تولد ہوئے.آپ کی پیدائش پر عالم کشف میں حضور نے دیکھا کہ آسمان سے ایک روپیہ اترا اور آپ کے ہاتھ پر رکھا گیا.روپیہ پر " معمر الله" کے الفاظ لکھے تھے.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور بھی کئی بشارتیں ہوئیں.چنانچہ حضور لکھتے ہیں " ایک دفعہ ہم نے عالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھے اور ہم چلتے ہیں.اس کشف کے چند سال بعد حضور کو آپ کے متعلق ایک اور خواب دکھایا گیا.جس کی تفصیل حضور نے یہ بیان فرمائی کہ " شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ بادشاہ آیا.دوسرے نے کہا ابھی تو

Page 539

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۰ تین عظیم الشان علمی انکشافات اس نے قاضی بنتا ہے".حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موجودہ فرزندوں میں سب سے کم عمر کے ہیں.آپ کو حدیث و تاریخ اور علم کلام سے خاص مناسبت ہے.برسوں تک آپ جماعت کے مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت کے ناظر رہ چکے ہیں.اور اب نظارت " اصلاح و ارشاد " کے ایڈیشنل ناظر ہیں.( آپ ۲۶- دسمبر ۱۹۷۱ء کو انتقال فرما چکے ہیں) الدار میں کنواں حضرت اقدس کے گھر میں اسی سال کنواں لگا یا گیا جو احمدی آبادی کے حلقہ میں (مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کے علاوہ) سب سے پہلا کنواں تھا.اس کے بعد دوسرے نمبر پر وہ کنواں بنا جو ہے رسہ احمدیہ کے جانب شمال اور بک ڈپو کے عقب میں ہے.پیشتر از میں آپ کے چچا زاد بھائیوں کے دیوان خانہ اور تائی صاحبہ مرحومہ کے کنوؤں سے پانی لیا جاتا تھا.ایک دفعہ ہر دو جگہ سے حضرت اقدس کے مقہ کو گالیاں دے کر منع کر دیا گیا اور حضور کے گھر اور آپ کے خدام کو بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا.جس پر یہ پہلا کنواں تیار کیا گیا.11 عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کی زبر دست تحقیق اور من الرحمن" کی تالیف ۱۸۹۵ء کا سال علمی اکتشافات کا ایک مثالی سال ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین عظیم الشان انکشافات کا اعلان فرمایا جس نے علمی دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا یعنی.1- عربی زبان "ام الالسنہ" ہے ۲ حضرت باد ا نا تک رحمتہ اللہ علیہ مسلمان تھے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صلیبی زخموں کے لئے مرہم عیسی " تیار کیا گیا تھا اور اس کے استعمال سے آپ تندرست ہونے کے بعد کشمیر تشریف لائے اور سرینگر محلہ خانیار میں دفن ہوئے.من الرحمن کی تالیف پہلا انکشاف عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے سے متعلق تھا.اس بارے میں آپ نے نہایت وسیع پیمانے پر تحقیق فرمائی اور پھر اس سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے فن الرحمن " تالیف فرمائی.اس تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حضرت اقدس کے جن خدام نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے حصہ لیا ان کے اسمائے گرامی یہ

Page 540

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۱ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہیں (۱) حضرت مولانا نور الدین صاحب (۲) مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی (۳) جناب منشی غلام قادر صاحب فصیح (۴) جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے (۵) مرزا خدابخش صاحب (۲) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (۷) منشی غلام محمد صاب سیالکوٹی (۸) حضرت میاں محمد خان صاحب کپور تھلوی حضرت اقدس نے "فن" الرحمن " میں ان خدام کے نام اپنے قلم سے درج کرتے ہوئے لکھا کہ اس بارے میں سب سے زیادہ محنت اور جانفشانی مولانا حکیم نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے کی ہے.حضرت مولانا نور الدین صاحب نے اس موقعہ پر نہ صرف کتابوں کا مطالعہ کر کے قیمتی معلومات مہیا کیں بلکہ اس کام کے لئے انگریزی لٹریچر کا ایک قیمتی ذخیرہ بھی خرید کر مہیا کر دیا.کتاب "فن الرحمن ایسی محققانہ تصنیف قریباً ڈیڑھ ماہ میں ہوئی.جو بجائے خود ایک معجزہ ہے.چنانچہ اپریل ۱۸۹۵ء کے کچھ دن گزرے یہ کام شروع ہوا اور مئی ۱۸۹۵ء سے قبل انجام کو پہنچ گیا.اور پھر اس محنت کے دنوں میں پورا دن اس کام کے لئے کبھی صرف نہیں ہوا بلکہ زیادہ سے زیادہ تیرا یا چوتھا حصہ اس کام میں صرف ہو تا رہا.اس کتاب میں آپ نے پانچ قطعی اور زیر دست دلائل سے ثابت کر دکھایا ہے کہ عربی زبان ہی ام الالسنہ اور کامل اور الہامی زبان ہے.ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے.اول :- عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے یعنی انسانی ضرورتوں کو وہ مفردات پوری مدد دیتے ہیں اور دو سری لغات اس سے بے بہرہ ہیں.دوم :- عربی میں اسماء باری و اسماء ارکان عالم و نباتات و حیوانات و جمادات و اعضائے انسان کی وجوہ تسمیہ بڑے بڑے علوم حکمیہ پر مشتمل ہیں.دوسری زبانیں ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.سوم :.عربی کے مواد الفاظ کا تسلسل بھی ایک مستقل نظام رکھتا ہے اور اس نظام کا دائرہ تمام افعال اور اسماء کو جو ایک ہی مادہ کے ہیں ایک سلسلہ حکمیہ میں داخل کر کے ان کے باہمی تعلقات دکھلاتا ہے اور یہ بات اس کمال کے ساتھ دوسری زبانوں میں پائی نہیں جاتی.چهارم عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معافی زیادہ ہیں یعنی زبان عربی الف لام اور تنویوں اور تقدیم و تاخیر سے وہ کام نکالتی ہے جس میں دوسری زبانیں کئی فقروں کے جوڑنے کی محتاج ہوتی ہیں.پنجم :- عربی زبان ایسے مفردات اور تراکیب اپنے ساتھ رکھتی ہے کہ جو انسان کے تمام باریک در بار یک دلی خیالات کا نقشہ کھینچنے کے لئے کامل وسائل ہیں.بظاہر یہ ایک علمی تحقیق تھی مگر باریک نظری سے دیکھا جائے تو اس کے ذریعہ سے آپ نے اسلام کی فتح کی بنیاد رکھ دی.کیونکہ دنیا کے ماہرین لسانیات اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ "ام الالسنہ " صرف عربی

Page 541

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۲۲ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہے تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اٹھی کتابوں میں سے اعلیٰ ارفع اتم اکمل اور خاتم الکتب قرآن مجید اور رسولوں میں سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.افسوس کتاب "فن الرحمن " نا تمام حالت میں رہ گئی اور اس کی اشاعت کا مرحلہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے عہد میں جون ۱۹۲۲ء میں آسکا.مگر اس تحقیق سے متعلق آپ کے بعض خدام نے اپنی خدمات جاری رکھیں.عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے عملی مہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں عربی کی اشاعت و ترویج کے لئے ایک عملی مہم بھی شروع فرمائی.یعنی اپنی جماعت کے دوستوں کو تحریک فرمائی کہ وہ عربی زبان ہمیں اور اسے اپنی روزہ مرہ گفتگو میں اظہار خیال کا ذریعہ بنا ئیں.آپ کے نزدیک کسی زبان کے سیکھنے کی صورت یہ نہیں تھی کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے بلکہ بہتر طریقہ یہ تھا کہ اسے بولا جائے.بولنے سے ضروری صرف و نحو خود بخود آجاتی ہے.چنانچہ اسی لئے حضرت اقدس نے ۱۸۹۵ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو (جو اس وقت ۱۴ برس کے تھے) عربی کا قریباً ایک ہزار نقره ترجمہ سے لکھوایا.حضور روزانہ پندرہ ہیں کے قریب فقرے لکھو اور یتے اور دوسرے دن سبق من کر اور لکھو دیتے.پیر سراج الحق صاحب نعمانی بھی حضرت میر صاحب کے ہم سبق تھے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے سفر کشمیر اور مزار کا انکشاف IA صليب حضرت اقدس مسیح موعود نے اس سال دو سرا انکشاف یہ فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زخموں سے " مرہم جیسی " یا " مرہم حواریین " کے استعمال سے شفایاب ہونے کے بعد کشمیر تشریف لے آئے اور وفات کے بعد سرینگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے جو اصل شہر سے قریبا تین میل کے فاصلہ پر عام خلائق کی زیارت گاہ اور "یوز آسف نبی " کی قبر سے موسوم ہے.اس انکشاف کا منظر عام پر آنا تھا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کی طرف اس کی زبر دست مخالفت شروع ہو گئی.عیسائی پادریوں نے تو اس قبر کو محض ایک چبوترہ قرار دیتے اور حضور کے دلائل کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ بعض عیار تکیہ دار جہلاء کے سامنے مشہور کر دیتے ہیں کہ فلاں مقام پر کسی ولی یا شہید کا مزار ظاہر ہو گیا تاکہ عورتیں منتیں مانا اور چادریں چڑھانا شروع کر دیں.یہ خانیار کا چبوترہ

Page 542

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۳ تین عظیم الشان علمی انکشافات گویا مرزا صاحب کی امامت و مهدویت کی اساس ناسپاس ہے ".مگر خدا تعالی جب اپنے مامور کی زبان سے کسی حقیقت کا اعلان کرواتا ہے تو اس کی گواہی کے لئے خارق عادت رنگ میں شواہد بھی پیدا کر دیتا ہے یہی معاملہ یہاں بھی ہوا.جو نہی آپ نے یہ انکشاف فرمایا زمین سے نہایت قیمتی دستاویزات اور اہم آثار قدیمہ بر آمد ہونے کا ایک غیر معمولی سلسلہ شروع ہو گیا.چنانچہ ہندوستان میں دو سکے دستیاب ہوئے جن میں سے ایک پر حضرت مسیح علیہ السلام کا نام پالی زبان میں کندہ تھا.اور دوسرے پر آپ کی تصویر تھی.جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد اس ملک میں ضرور تشریف لائے تھے.پھر سکندریہ سے اسیری فرقہ صوفیاء کا ایک خط یہ آمد ہوا جس میں صاف لفظوں میں یہ ذکر تھا کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ اتارے گئے تھے اور امیری فرقہ کے لوگوں نے ان کے بچانے اور علاج معالجہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور آپ شفایاب ہونے کے بعد ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر پر روانہ ہو گئے.مگر شہر میں یہ افواہ مشہور ہو گئی کہ یسوع بادلوں میں اٹھایا گیا اور آسمان پر چلا گیا ہے.اس خط کا انگریزی ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی انڈو امریکی بک کمپنی شکا گونے "The Crucifixion by an Eye - Witness" · کے نام سے شائع کر دیا.واقعہ صلیب کی چشم دید شهادت اس کتاب کا اردو ترجمہ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر نے واقعہ صلیب مسیح کی چشمدید شهادت" کے نام سے مارچ ۱۹۱۳ء میں شائع کیا تھا.زمانہ حال کے ایک مشہور مسلمان لیڈر علامہ محمد عنایت ان خاں مشرقی اس اہم دستاویز کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام شخصیت کے متعلق حال میں ایک عجیب و غریب شہادت دستیاب ہوئی ہے جو اس اولو العزم نبی ٹی حیثیت کو صحیح طور پر سمجھنے میں بہت کچھ مدد دیتی ہے.یہ شہادت ایک لوح مکتوب میں درج ہے جو حضرت مسیح کے ایک ہمعصر اور واقعہ صلیب کے عینی شاہد نے اپنے سلسلہ کے احباب کو مصر میں لکھا اور جو سکندریہ کے ایک پرانے مکان میں ملک حبش (ابی سینیا) کی ایک تجارتی شرکت کے رکن کو دوران سیاحت میں ملا.محکمہ آثار قدیمہ مصر نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ پرانا مکان زمانہ قدیم میں "امیری" فرقے کا مسکن تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں علمائے فطرت کا ایک مقتدر باخدا اور باعمل خفیہ گروہ تھا.اسی مکان کے اندر اس فرقے کا الواحی کتب خانہ بھی تھا اور یہ پتھر بھی اسی کتب خانہ کا بقیہ ہے اور بظاہر غیر مشکوک اور اصلی ہے.اور یہ لوح فری میسن جماعت کی وساطت سے

Page 543

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۴ تین عظیم الشان علمی انکشافات المانیہ (جرمنی) کی ایک علمی انجمن کے قبضے میں ہے اور چونکہ اس کے اندر حضرت عیسی کے صلیب پر جان دینے اور تمام عالم کے گناہوں کے کفارہ ہونے کی عیسائی عقائد کی تغلیط ہوتی ہے.اس لئے عیسائی پادریوں کی دستبرد سے فی الجملہ محفوظ ہے.مکتوب میں راقم نے اس امر کا دعوی کیا ہے کہ وہ حضرت عیسی کے مصلوب ہونے کے وقت عینی شاہد تھا.حضرت مسیح کو یہود کے سامنے پلا طوس حاکم کلیل کے فرمان کے مطابق صلیب دی گئی.لیکن چونکہ یوم سبت کی رات ہونے کی وجہ سے ان کو سر شام چند گھنٹوں کے بعد صلیب سے اتار لیا گیا اور ان کی ہڈیاں بھی نہیں توڑی گئیں.اس لئے وہ مرے نہیں.اگر چہ یہود کو اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ مرگئے ہیں اور پہرہ دار نے بھی اس امر کی تصدیق کر دی تھی.جلاد پاہیوں کا حضرت عیسی کے بدن میں پر چھی کا چھونا اور اس سے خون اور پانی کا نکلنا بھی (جس کا ذکر انجیل میں ہے) اس امر کی تصدیق ہے کہ حضرت مسیح دراصل مرے نہیں تھے.لیکن یہود کو گمان ہو گیا تھا.کہ وہ مرگئے ہیں.قرآن حکیم سے اس واقعہ کی حیرت انگیز طور پر تصدیق ہوتی ہے اور تیرہ سو برس کے بعد اس کا ایک ہمعصر شہادت سے مصدق ہونا صاحب نظر کے لئے قرآن کے انسانی کلام نہ ہونے کی ایک مبرہن دلیل ہے.وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا المَسيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَالِكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتباع العَنِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا (النساء: ۱۵۸) راقم مكتوب اس امر پر زور دیتا ہے.کہ نقاد کس حکیم نے جو امیری فرقے کا ایک اعلی رکن تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کو مناسب علاج سے یوسف کے باغ والی قبر میں اچھا کیا.وہ تیسرے دن اسی جسم اور بدن سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باوجود انتہائی نقاہت کے اپنے حواریوں سے ملے وغیرہ وغیرہ.جو فرشتے سفید لباس میں اس اثناء میں (از روئے انجیل) قبر کی حفاظت کرتے رہے وہ بھی امیری فرقہ کے خفیہ فرمسندے تھے.جو ان کی تیمارداری پر متعین کئے گئے.راقم کہتا ہے کہ یہ خط اس لئے لکھا گیا ہے کہ وہ اختلاف جو حضرت مسیح کی وفات کے متعلق عوام میں پڑ گیا ہے.اور جس کی وجہ سے طرح طرح کے اوہام باطلہ جہلا میں پھیل گئے ہیں دور ہو جائیں و إِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَةٍ مِنْهُ.جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے لیکن اس حکایت سے قطع نظر جس کے جزئیات کا انجیل کے بیان سے حیرت انگیز طور پر تطابق ہے جو مستقل سبق اس مکتوب سے اخذ ہوتا ہے یہ ہے کہ یہ امیری فرقہ جس کے حضرت عیسی علیہ السلام ایک مقتدر رکن تھے علم حقائق الاشیاء میں حیرت انگیز طور پر ماہر اور قانون فطرت سے بڑا با خبر گردہ تھا.خدمت عباد اس کے عمل کا جزو اعظم تھا.روئے زمین کے ہر قریے میں اس کے کارندے موجود تھے.ان کے باضابطہ اجلاس ہوتے تھے.کئی برس کے مسلسل سعی و عمل اور علمی مجاہدوں کے بعد ایک شخص کو اس کا رکن اعلیٰ بنا نصیب

Page 544

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۵ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہو تا تھا.اکثر یا علم لوگ اس خفیہ اخوت کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے.خود پیلاطوس اس کی طرف مائل تھا.اور عیسی علیہ السلام کو سبت سے ایک دن پہلے صلیب دینا اور ان کی نعش کا یوسف کے سپرد کر دیتا بھی اسی وجہ سے تھا.اگرچہ اس فرقے کا بظا ہر ادعا ہی تھا.کہ حکومت وقت کی سیاسیات میں دخل نہ دے.مگر قانون فطرت سے باخبرادر صاحب علم ہونے کی وجہ سے حکومت اس زیر دست اخوت سے ہر دم خوفزدہ رہتی تھی.چنانچہ عیسی علیہ السلام سے خوفزدہ رہتا اس وجہ سے تھا.تصلیب یسوع کے فرمان میں بھی جو پانتیس پلا طوس نے حکومت وقت کے ایماء سے جاری کیا.حضرت پر نمادی ، مفتری علی اللہ اور کذاب ہونے کے علاوہ باغی حکومت اور قیصری قوانین و آئین کے دشمن ہونے کا الزام لگایا گیا تھا.اور تصلیب کی اصلی وجہ حتما یہی تھی محکوم یہودیوں کو خوش کرنا اس قدر ضروری نہ تھا.علاوہ ازیں عوام میں مسیح کے دنیاوی بادشاہت قائم کرنے کا انتظار اور چر چا " تا نباشد چیز کے مردم نه گوید چیز یا کا مصداق ہے جو ہر صاحب نظر پر عیاں ہے اس مکتوب میں درج ہے کہ صحیح علیہ السلام نے پہاڑی پر سے مصر کی طرف کوچ کرنے اور عوام کی نظروں میں فرشتوں کی معیت میں بادلوں میں غائب ہو جانے) سے پہلے حواریوں کے سامنے کہا کہ میرا کام یہ ہے کہ خدا کی بادشاہت " زمین پر قائم کروں."تذکرہ" (متولقہ محمد عنایت اللہ خان المشرقی الہندی) صفحہ ۱۶ - ۱۷ حاشیه مطبوعه ۱۹۲۴ء مطبع وکیل امر تر حضرت مسیح کے کفن سے متعلق جرمن اس دستاویز کے بعد متعدد اکتشافات اور ہوئے سائنس دانوں کا حیرت انگیز انکشاف مثلاً حضرت مسیح کی جوانی اور بڑھاپے کی تصویریں بھی انسائیکلو پیڈیا برٹیک" سے مل گئیں.جن سے یہ صداقت پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظریہ حرف بحرف صحیح ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور یہ سب شواہد اپنے اندر بڑی اہمیت رکھتے ہیں چنانچہ حال ہی میں جرمن سائنسدانوں کے اس انکشاف نے دنیا بھر میں زلزلہ سا بپا کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا دوہزار سالہ پرانا کفن اٹلی کے شہر جو رن سے مل گیا ہے جو تصویر کشی کی مدد سے پوری طرح کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.سکنڈے نیویا کے اخبار Tidingen Stockholm کے ایڈیٹر "Christer Iderland" نے اپنے اخبار کی ۲ اپریل ۱۹۵۷ء کی اشاعت میں ایک مفصل مضمون بھی شائع کیا.جس میں بڑی وضاحت سے لکھا کہ جرمن سائنسدانوں کا ایک گروہ آٹھ سال سے مسیح کے کفن کے متعلق تحقیق کر رہا تھا جس کا نتیجہ حال ہی میں پریس کو بتایا گیا ہے.مسیح کا دو ہزار سالہ

Page 545

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۶ تین عظیم الشان علمی انکشافات پرانا کفن اٹلی کے شہر جوان (Jurin) میں ملا ہے اس پر مسیح کے جسم کے نشانات ثبت ہیں.سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے پوپ کو مطلع کیا ہے مگر پوپ اب تک خاموش ہے.کیونکہ اس تحقیق کے نتیجہ میں کیتھولک چرچ کی نہ ہی تاریخ کا اہم راز منکشف ہو کر رہ گیا ہے تصویر کشی کے فن کی مدد سے سائنس والوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس چیز کو لوگ دو ہزار سال سے معجزہ خیال کرتے تھے وہ بالکل طبعی واقعہ ہے اور وضاحت سے ثابت کیا ہے کہ مسیح ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.مسیح کے کفن کا مسئلہ ایک ہزار سال تک زیر بحث رہا ہے ۴۳۸ء میں ملکہ Endoxi نے یہ کپڑا قسطنطنیہ بھیجا.اس سے قبل یہ کپڑا اصحاب الکہف کے پاس تھا.سات سو سال تک یہ قسطنطنیہ میں ہی رہا.آخر کار Delaroche نے حملہ کر کے یہ کپڑا چھین لیا.جب آگ لگی تو یہ کپڑا چاندی کے صندوق میں بند تھا.چاندی کے پگھلنے سے کچھ دھندلا سا ہو گیا.مگر مسیح کے جسم کے دوسرے نشانات پھر بھی اس پر باقی رہے.اہل فرانس نے اس کپڑے کی نمائش سے خوب دولت کمائی.فرانس سے یہ کپڑا جو درن (Jurin) منتقل کیا گیا.اور ہر ۳۳ سال کے بعد اس کی نمائش ہوتی رہی.۱۸۹۸ء میں اٹلی کے ایک وکیل پیا (PIA) نے اس کپڑے کی تصویر لی جب تصویر کو ممتد (Develop) کرنے کے بعد سورج کی روشنی میں عکس منفی (Negative) کو دیکھا تو اسکی حیرت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ یہ بعینہ مسیح کی شبیہ تھی جب منفی (Negative) کو مثبت (Positive) میں تبدیل کیا گیا تو یہ وہی شخص تھا جس کی شکل ۱۹۰۰ سال سے کسی نے نہیں دیکھی تھی.۱۹۳۱ء میں کپڑے کی دوبارہ نمائش ہوئی تو Enric Guisepe فوٹو گرافر نے ایک بہت بڑے پادری کی موجودگی میں ۶۰۰۰ اور ۲۰۰۰۰ والٹ بجلی کی روشنی کی مدد سے پھر تصویر لی.اس فوٹو نے ایک سنسنی خیز حقیقت کا انکشاف کیا اور یہ بات دوبارہ ثابت کر دی جو پیا ( PIA) نے ظاہر کی تھی.فوٹو میں دی ہوئی تصویر بعینہ وہی ہے جو دو ہزار سال سے آج تک چرچ آرٹ مسیح کی شبیہ کے متعلق بیان کرتا آیا ہے.جب ایک انسان اس تصویر کو دیکھتا ہے جو کتاب Kurt Berna Daslinner Stultgart میں ہے تو بہت آسانی سے چرچ کے رد عمل کا مطالعہ کر سکتا ہے.پوپ (Puisxl) نے کہا.” یہ تصویر کسی انسانی ہاتھ نے نہیں بنائی " سائنسدان کہتے ہیں کہ تاریخ اور کپڑا تائید کرتے ہیں کہ یہ مسیح کا فوٹو ہے.کپڑے کے دھاگوں کی ساخت اور تانا بانا بتاتا ہے کہ یہ کپڑا ویسا ہی کپڑا ہے جو پوم پی آئی میں پائے گئے تھے.کپڑے کے دو ہرے نشانات ظاہر کرتے ہیں کہ کپڑے کا نصف حصہ مسیح کے جسم پر لپیٹا گیا اور باقی نصف سر پر.پھر مسیح کے جسم کی گرمی اور دوائی کے عمل نے جسم کے نشانات مصنفہ Hans Naber Verlag

Page 546

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۲۷ تین عظیم الشان علمی انکشافات کپڑے میں نقش کر دیئے.اور صحیح کا تازہ خون کپڑے میں جذب ہو کر نشان بن گیا.کانٹوں کا تاج پہننے اور گدی پر جو نشانات آئے.صحیح کا متورم دایاں کلہ.دائیں پہلو پر بھالے کا گہرا نشان کیل کے زخموں سے نکلے ہوئے خون کے نشان کمر پر صلیب کی رگڑ کے نشان یہ سب چیزیں فوٹو میں دیکھی جاسکتی ہیں.مگر سب سے تعجب انگیز حقیقت یہ ہے کہ منفی فوٹو نے مسیح کی بند آنکھوں کو دو کھلی آنکھوں میں ظاہر کیا ہے.تصویر یہ بھی بتاتی ہے کہ کیل ہتھیلی میں نہیں بلکہ کلائی کے مضبوط جوڑوں میں لگائے گئے تھے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بھالے نے مسیح کا دل ہر گز نہیں چھوا.بائیل کہتی ہے کہ مسیح نے جان دیدی.مگر سائنسدان مصر ہیں کہ دل نے عمل کرنا بند نہیں کیا تھا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک گھنٹہ تک مسیح کے بیجان لٹکے رہنے سے خون خشک ہو کر ختم ہو جانا چاہیے تھا.اور اس صورت میں خون ہر گز کپڑے میں نہ آتا.مگر کپڑے کا خون جذب کرنا بتاتا ہے کہ مسیح صلیب پر سے اتارے جانے کے وقت زندہ تھے".(ترجمہ) صحیح کے آسمان پر جانے کی انجیلی آیات الحاقی ثابت ہو ئیں مذہبی تعلیمات کی بین الاقوامی مسیحی " سوسائٹی کی طرف سے بائیل پر نظر ثانی کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں امریکہ میں اعلیٰ سطح کا ایک مستند ترین ادارہ قائم کیا گیا.جس میں دنیا کے تیس مسیحی فاضل محققین نے کام کیا.یہ محققین وسیع پیمانے پر ریسرچ کرنے اور برسوں کی محنت شاقہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت مسیح کے آسمان پر جانے کے متعلق آیات الحاقی ہیں.جس پر یہ آیات انجیل کے متن سے خارج کر دی گئیں.بائیبل کا یہ مستند نسخہ جو "Revised Standard Version" کے نام سے مشہور ہے نیو یارک سے تھامسن نیلسن اینڈ سنز نے شائع کیا ہے.اس نئے ایڈیشن نے عیسائیت کے تمام حلقوں میں صف ماتم بچھادی ہے.چنانچہ پاکستان کے بعض مسیحی لیڈروں نے نہایت خوفزدہ ہو کر لکھا ہے کہ.مترجمین کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ جہاں تک ہو سکے کلام مقدس میں سے وہ تمام آیات حذف کر دی جائیں جن سے خداوند یسوع مسیح کا بجسم الوہیت کفارہ مردوں میں سے زندہ ہونا اور آسمان پر صعود فرمانا ثابت ہوتا ہے تاکہ خداوند یسوع مسیح کی دوبارہ آمد مشکوک ہو جائے اور خداوند کو وہی حیثیت حاصل رہے جو دوسرے انبیاء کو حاصل ہے.اور انہوں نے اس طرح خداوند مسیح کی الوہیت اور پاکیزگی اور فوق البشر ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ ایک ایسی مذموم جسارت ہے کہ اس کی موجودگی میں مسیحیت کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے“.(ماہنامہ "کلام حق" گوجرانوالہ بابت اپریل ۱۹۷۸ء صفحہ ۷) یہ تو حضرت مسیح کے صلیب سے زندہ اتر آنے اور آسمان کی بجائے کسی دور کے سفر پر روانہ

Page 547

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۸ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہونے سے متعلق جدید تحقیقات کا بیان ہے لیکن جہاں تک حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ہندوستان میں آنے اور سرینگر محلہ خان یار میں مدفون ہونے کا تعلق ہے اس کے متعلق بعض اور قدیم ماخذ بھی حاصل ہوئے ہیں.اور حضرت مسیح موعود کا یہ انکشاف اب حقائق و شواہد کے میدان میں اس جہ نکھر گیا ہے کہ اور تو او روہ عیسائی محقق جو کبھی محلہ خانیار کی قبر کو " یار خاں کا چبوترہ " اور فرضی قرار دیتے تھے اب ۶۳ سال کی مسلسل کشمکش کے بعد اسے "مزار عینی " تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.وہ قبائل جواب سرحد میں پائے جاتے ہیں ان کی پشت میں ایک مرتبہ مسیحی نور کی ضیاء پاشی ہوئی ہے.اور محلہ خانیار میں جو مزار عیسی ہے اور عیسی خیل.یہ مقدس تو ما کی اس مہم کا ہی صحیح نتیجہ ہو سکتے ہیں.عینی...ایسو کا مترادف و معرب لفظ ہے اور یہ نام اول عیسوی عام مستعمل تھا" - موزانہ مذاہب کے مشہور ہسپانوی سکالر اے غیر قیصر (A.Faber Kaiser) تبریخ کی تحقیق کے لئے خود کشمیر گئے اور انتہائی محنت و قابلیت سے قابل قدر تاریخی معلومات فراہم کر کے ایک ضخیم کتاب شائع کی جس کا نام ہی یہ رکھا کہ (Jesus Died In Kashmir) یسوع کشمیر میں فوت ہوئے.(ناشر : Gordon Cremones لنڈن) برطانوی سیاح کا انکشاف ایک برطانوی سیاح میکائیل برک (Michael Burke) نے انکشاف کیا ہے کہ ہرات میں انہوں نے ایک قدیم عیسائی فرقہ دیکھا جن کا مذہبی لیڈر با نیچی ہے.اس فرقہ کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ اتر آئے اور ہجرت کر کے کشمیر تشریف لے گئے اس لئے آپ عیسی بن مریم ناصری کشمیری کہلائے.برطانوی سیاح لکھتا ہے :- THE FOLLOWERS OF JESUS The followers of Isa, son of Maryam - Jesus the son of Mary.generally call themselves Moslems and inhabit a number of villages scattered throughout the Western area of Afghanistan whose centre is Herat.I had heard of them several times, but considered that they were probably people who had been converted by European missionaries from Eastern Persia, or else that they were a relic of the times When Herat had been a flourishing bishopric of the Nestorian rite, before the Arabs conquered Persia in the seventh and eight centuries.But, form their own accounts and what I could observe, they seem to come from some much older source.I found them through one of the deputies of the Mir of Gazarga, the descendant of Mohammad under whose protection they are.Gazarga is the shrine where Abdullah Ansar, a Sufi

Page 548

تاریخ احمدیت جلدا ۵۲۹ تین عظیم الشان علمی انکشافات mystic and great local saint, is buried in a magnificent tomb formerly much visited by the emperors of India and other notables.There must be about a thousand of these Christians.Their chief is the Abba Yahiyya (Father John), who can recite the succession of teachers through nearly sixty generatons to · Isa, son of Mary' of ‘nazara, the Kashmiri.According to these people, Jesus escaped from the Cross, was hidden by friends, was helped to flee to India, where he had been before during his youth, and settled in Kashmir, where he is revered as an ancient teacher, Yuz Asaf.It is from this period of the supposed life of Jesus that these people claim to have got their message.(AMONG THE DERVISHES P: 107 An account of travels in Asia and Africa, and four years studying the Dervishes, Sufis and Fakirs, by living among them.THE OCTAGON PRESS LONDON (1984 3RD EDITION(طبع سوم) (ترجمہ) (حضرت) عیسی بن مریم کے پیرو عموماً اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں یسوع کے پیرو کار اور افغانستان کے غربی علاقے میں پھیلی ہوئی ان متعدد بستیوں میں آباد ہیں جن کا مرکز ہرات ہے.میں نے ان کی نسبت کئی بار سنا تھا لیکن میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ شرقی ایران کے وہ لوگ ہیں جنہیں یورپی مشنریوں نے عیسائی بنالیا تھا یا وہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب ساتو میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایران پر عربوں کے تسلط سے قبل ہرات نسطوری سلطنت کا حصہ ہوا کر تا تھا.لیکن ان کے اپنے بیان کے مطابق بلکہ میں خود بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ کسی اور زیادہ قدیم قوم سے تعلق رکھتے ہیں.مجھے ان کا علم میر آف گزر گا کے ایک کارندے کے ذریعہ ہوا.میر (حضرت) محمد کی اولاد میں سے ہے اور یہ لوگ اسی کی زیر حفاظت رہتے ہیں.گزر گا ایک خانقاہ ہے جہاں ایک مقامی صوفی بزرگ (حضرت) عبداللہ انصار کا نہایت شاندار مزار واقع ہے اور جو ہندوستان کے کئی بادشاہوں اور معززین کی زیارت گاہ رہا ہے.ان عیسائیوں کی تعداد ضرور ایک ہزار تک ہو گی.ان کے سردار کا نام ابا نیچی ہے جو عیسی بن مریم ناصری کشمیری تک اپنے رہبروں کی گزشتہ ۶۰ پشتوں تک کے نام گنوا سکتا ہے.

Page 549

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳۰ تین عظیم الشان علمی انکشافات ان لوگوں کے نزدیک (حضرت) یسوع مسیح صلیب سے زندہ اتر آئے تھے اور اپنے حواریوں کی مدد سے پوشیدہ طور پر ہندوستان کی طرف ہجرت کر گئے.ان دنوں آپ جو ان ہی تھے.آپ کشمیر میں ہی آباد ہو گئے جہاں انہیں یوز آصف کے نام سے ایک قدیم بزرگ شخصیت کے طور پر نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں (حضرت) یسوع مسیح کی مفروضہ زندگی کے اسی دور میں ان کا پیغام پہنچا تھا.مسلم محققین کا اعتراف حق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس انکشاف کی تائید میں اب خصوصاً ممالک عربیہ سے پر زور آواز اٹھنے لگی ہے.چنانچہ عرصہ ہوا مصر کی مشہور علمی شخصیت اور مفتی مصر محمد عبدہ کے خاص شاگرد علامہ رشید رضا (۱۸۲۵ - ۱۹۳۵ء) مدیر المنار نے لکھا کہ "فَفِرَارَهُ إِلَى الْهِنْدِ وَ مَوتُهُ فِي ذَالِكَ الْبَلَدِ لَيْسَ بعيد عقلا ونقلا - 2 حضرت مسیح علیہ السلام کا ہندوستان میں ہجرت کر کے (شہر سرینگر) میں وفات پانا عقل و نقل سے بعید نہیں ہے.مصر کے ایک نامور عالم ادیب محمود عباس عقاد نے اپنی کتاب ”حیات المسيح وكشوف العصر الحدیث میں قبر مسیح کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ یہ انکشاف ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا.ایک اور عالم ڈاکٹر احمد زکی ابو شادی نے چند سال ہوئے ارجنٹائن کے کثیر الاشاعت ماہوار عربی رسالہ "المواہب " (ماہ مارچ ۱۹۵۵ء) میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس میں واضح رنگ میں اعتراف کیا کہ " اسلام کے نزیک خدا تعالیٰ کی ہستی ہر جگہ موجود ہے وہ آسمان و زمین کا نور ہے لہزار فع الی اللہ کی عبارت ہر گز کوئی مادی معنی نہیں رکھتی.جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اٹھائے گئے بلکہ رفع کے معنے اپنی حفاظت میں لینے کے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو دشمنوں کے شر سے نجات دی.آپ کے شاگردوں نے رات کے وقت آپ کو لحد سے نکال لیا اور آپ کا خفیہ طور پر علاج کیا گیا.جب آپ صحت یاب ہو گئے تو مشرقی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے.جہاں بلند ترین انسانی اغراض و مقاصد کی تبلیغ کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات آسمان پر tt دے دی.(ترجمہ) ۲۴ عرصہ ہو ا غزہ فلسطین کے بہت بڑے عالم الشیخ عبداللہ التشادی نے ڈنمارک کے پادری الفریڈ نیلسن سے اس موضوع پر تحریری مباحثہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اتارے گئے اور اپنی طبعی موت سے فوت ہوئے یہ مباحثہ فریقین کے اخراجات سے ۱۹۳۹ء میں شائع کر دیا گیا.۲۵

Page 550

تاریخ احمدیت جلدا ۵۳۱ تین عظیم الشان علمی انکشافات نور القرآن حصہ اول و دوم کی تصنیف و اشاعت ر "نور القرآن" کا پہلا حصہ -۱۵ جون ۱۸۹۵ء کو اور دوسرا حصہ ۲۰- دسمبر ۱۸۹۵ء کو شائع ہوا.یہ تالیف عیسائیت کے خلاف ایک علمی اسلحہ خانہ ہے اور قرآن مجید کی سچائی کے لئے ایک روشن مینار - " نور القرآن حصہ اول میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ضرورت زمانہ کی شہادت پیش کرتے ہوئے انتہائی خوبی اور جامعیت سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں دنیا میں بھیجے گئے جب دنیا زبان حال سے ایک عظیم الشان مصلح کا تقاضا کرتی تھی اس دعوئی کے ثبوت میں حضور نے نہ صرف چھٹی صدی عیسوی کی مسیحی دنیا کی اخلاقی اور عملی حالت کا نقشہ فنڈل ، ڈیون پورٹ ، پادری باس در تھ ، پادری بٹلر اور جاہلیت کے عیسائی شاعر اخلل کے قلم سے بلکہ اس برطانوی حکومت کے پایہ تخت لنڈن کے موجودہ اخلاقی ماحول کے متعلق بھی کوئی لگی لپٹی بات نہیں رہنے دی.نور القرآن حصہ دوم پادری بی سی نے شیر گڑھ ضلع گورداسپور سے حضرت اقدس کو دو فتح مسیح خط لکھے جن میں اس بد باطن نے رسول کائنات حضرت محمد مصطفیٰ کو گالیاں دیتے ہوئے امام الطیبین و سید المعصومین پر معاذ اللہ زنا تک کی شرمناک تهمت سیدا لگائی.ان دشنام آلود خطوط کے جواب میں حضور نے "نور القرآن" (حصہ دوم) لکھا پادری لوگ چونکہ ایک عرصہ سے رسول خدا ﷺ کی ناموس و حرمت پر بے دریغ حملے کر رہے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود نے بالخصوص نور القرآن حصہ دوم کی تالیف سے ان کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی روک تھام کرنے کے لئے الزامی رنگ کے جوابات کی ضرورت محسوس کی اور انجیل کے بیان کردہ ” یسوع مسیح کانوٹو پیش کرنا شروع کر دیا.علم کلام کا یہی الزامی طریق تھا.جسے حضرت اقدس نے اپنے آقا کی تو ہین کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے لٹریچر میں جابجا استعمال فرمایا.پادری فتح مسیح نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آج ایسا شخص جیسے آنحضرت ا تھے گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہو تا تو گورنمنٹ اس سے کیا سلوک کرتی ؟ حضرت اقدس نے اس سوال کا جو پر شوکت جواب دیا.وہ تاریخ میں ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا.حضور نے لکھا."اگر وہ سید الکونین اس گورنمنٹ کے زمانہ میں ہوتے تو یہ سعادت مند گورنمنٹ ان کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتی جیسا کہ قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا".

Page 551

تاریخ احمدیت جلد ۵۳۲ تین عظیم الشان علمی انکشافات بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کا انکشاف سفر ڈیرہ نانک "ست بچن " اور "آریہ دھرم کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس علیہ السلام نے اس سال تیسرا انکشاف یہ فرمایا کہ بابا نانک جو سکھ مذہب کے پہلے گورو تسلیم کئے جاتے ہیں ایک مسلمان ولی اور بزرگ انسان تھے.خدا کی طرف سے کشف اس عظیم الشان انکشاف کی بنیاد در اصل ایک کشف پر تھی.جو حضور نے قریباً ۱۸۷۸ء میں دیکھا تھا.اس کشف میں آپ نے حضرت بابا نانک کو ایک مسلمان کی شکل میں دیکھا اور آپ کو بتایا گیا کہ بابا بانگ نے بھی آپ کی طرح اسلام ہی کے چشمہ صافی سے پانی پیا ہے.حضرت اقدس نے یہ کشف اسی وقت متعدد ہندوؤں کو سنا دیا.حضور کو یقین تھا کہ اس کشف کی واقعات سے بہر حال تصدیق ہو جائے گی.چنانچہ ایک مدت کے بعد یکا یک حق سے اس کا سامان پیدا ہو گیا.یعنی حضرت اقدس کو معلوم ہوا کہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور کے گور دروارہ میں بابا نانک صاحب کا ایک چولہ ایک مقدس یادگار کے طور پر محفوظ ہے.جس کے متعلق سکھ اصحاب اپنی مذہبی روایات کی بناء پر بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ یہ چولہ صاحب آسمان سے بابا صاحب کے لئے اترا تھا اور قدرت کے ہاتھ سے تیار ہوا تھا اور قدرت کے ہاتھ ہی سے بابا صاحب کو پہنایا گیا تھا.حضرت اقدس کو جب یہ بات پہنچی آپ نے مفصل تحقیقات کے لئے اپنے چار خدام یعنی مرزا یعقوب بیگ کلانوری - منشی تاج الدین صاحب اکو شنٹ دفتر ریلوے لاہور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے اور میاں عبدالرحمن صاحب لاہوری کو ڈیرہ ٹانک بھیجا.جنہوں نے ڈیرہ ٹانک میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سچ سچ وہاں کابلی مل کی اولاد کی تحویل میں ایک چولہ موجود ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور ایسا ہی کئی اور آیات بھی.وفد نے واپس آکر حضرت اقدس کی خدمت میں اپنی مفصل رپورٹ پیش کی.حضور نے رپورٹ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اسے بچشم خود ملاحظہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ تحقیق سماعی نہ رہے.بلکہ عینی شہادت کا رنگ پکڑ لے.چنانچہ حضرت اقدس استخارہ مسنونہ کے بعد ۳۰ - ستمبر ۱۸۹۵ء بروز پیر صبح سویرے بٹالہ کی طرف روانہ ہوئے اس سفر میں حضور کے ساتھ آپ کے یہ دس خدام تھے (1) حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب (۲) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی (۳) مولانا سید محمد احسن صاحب امرد ہوی (۲) شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی (۵) منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی (۶) حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کلانوری (۷) حضرت شیخ

Page 552

تاریخ احمدیت جلدا انگشانات عبد الرحیم صاحب نو مسلم (۸) حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی (۹) حضرت میر محمد اسمعیل صاح (۱۰) حضرت شیخ حامد علی صاحب تھہ غلام نبی.یہ سفر یکوں پر ہوا.حضرت اقدس اور میر محمد اسمعیل صاحب ایک سیکے میں سوار ہوئے اور باقی خدام در سرے سیکوں میں.حضور قریبا دس بجے ڈیرہ بابا نانک پہنچے اور وہاں ایک بڑ کے نیچے آرام کیا.قریبا گیارہ بجے ایک مخلص کی نہایت درجہ کی کوشش اور سعی سے چولہ صاحب دیکھنے کا ایسا زریں موقعہ ملا کہ اس جگہ کے لوگوں نے بیان کیا کہ جہاں تک ہمیں یاد ہے.ایسا موقعہ آج تک کسی کو نہیں ملا.یعنی چولہ صاحب کی تمام تحریرات پر آپ کو اطلاع ہو گئی.اور آپ کے لئے وہ بہت ہی اچھی طرح کھولا گیا.چولہ صاحب پر تین سو کے قریب یا کچھ زیادہ رومال لیٹے ہوئے تھے اور بعض ان میں سے بہت نفیس اور قیمتی تھے جب حضرت اقدس جا کر بیٹھے تو ایک گھنٹہ تک تو یہ رومال ہی اترتے رہے پھر وہ کپڑا نمودار ہوا جو چولہ صاحب کے نام سے موسوم ہے.در حقیقت یہ نہایت مبارک کپڑا ہے جس میں زری کے کام کی بجائے آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں یہ کپڑا کھلانے والوں کو کچھ شرم سی دامنگیر ہوتی جاتی تھی اور وہ حتی المقدور نہیں چاہتے تھے کہ اصل حقیقت سے لوگ اطلاع پائیں.کیونکہ جو عقیدہ بابا صاحب نے اس کپڑے یعنی چولہ صاحب کی تحریروں میں ظاہر کیا ہے وہ ہندو مذہب کے بالکل مخالف ہے اور اسی وجہ سے جو لوگ چولہ صاحب کی زیارت کراتے ہیں وہ بڑی احتیاط کرتے ہیں.اور اگر کوئی اصل بھید کی بات دیکھنا چاہے تو ان کا دل پکڑا جاتا ہے.مگر چونکہ ناخواندہ محض ہیں اس لئے کچھ طمع دینے سے دکھلا دیتے ہیں.کہاں ہیں جو بھرتے ہیں الفت کا دم اطاعت سے سر کو بنا کر قدم ادھر آئیں دیکھیں یہ تصویر ہے میں پاک چولہ جہانگیر ہے

Page 553

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳۴۷ تین عظیم الشان علمی انکشافات کہاں ہیں جو ہر تے دریفت کادم اطاعت ہوس کو بنا کر قدم رادر آئین یکمین تصویر ہے یہی پاک حوالہ جہانگیر ہے ه الا الله محمد رسول الله - و آه رست قدر صداقت خوب و کیلا یا اثر ہو گیا نانک شمار دین احمد سر به ر اسے گرا ہی تیا ہوں واسعد الله الصمد لم يلد ولم يو العنا ب الناس يع يغنون في قولعا نسته محمد رات اذاجاء نصر الله والفتح استغفره انه كان تواب ب شمالی معاوہ فتح گئی ہوتے نے لوگوں کو کیا جوتے کہ ر کر ان میں موج در فوج داخل ہوتے ہیں ہیں اپنے مہ کو پانی کے کرنے والے.مان الارض من ذا الذي يشفع عنده الاباد الخلفية ها السموات تحفظ الموقم ن الان اليكم السلام لان الان اليوم ال المسلم دیکھو اپنے دیں کوکس کی صدق ک کھل گیا، وہ بہادر تھانہ رکھتا تھا کسی شمن سے ڈر وہ شیمن

Page 554

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳۵ تین عظیم الشان علمی انکشافات چنانچہ حضور نے جب چولہ دیکھنا چاہا تو اول تو انہوں نے صرف لپٹا ہوا کپڑا دکھایا مگر کچھ تھوڑا سا کنارہ اندر کی طرف کا نمودار ہو ا جس کے حرف مٹے ہوئے تھے اور پشت پر ایک اور باریک کپڑا چڑھا ہوا تھا.اور اس کی نسبت بیان کیا گیا کہ یہ وہ کپڑا ہے کہ جس کو گوردار جن صاحب کی بیوی نے اپنے ہاتھ سے سوت کات کر اور پھر بنوا کر اس پر لگایا تھا.اور بیان کرنے والا ایک بڑھا بیدی بابا صاحب کی اولاد میں سے تھا جو چولہ دکھلا رہا تھا اس نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ اس پر لکھا ہوا ہے وہ انسان کا لکھا ہوا نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے تب حضور نے بہت اصرار سے کہا کہ وہ قدرتی حروف ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں جو خاص پر میشر کے ہاتھ کے ہیں اور اسی لئے ہم دور سے آئے ہیں تو پھر اس نے تھوڑا سا پردہ اٹھایا جس پر بسم الله الرحمن الرحیم لکھا ہو ا تھا اور پھر اس بڑھے نے چاہا کہ کپڑا بند کرے مگر پھر اس سے زیادہ اصرار کیا گیا اور ہر یک اصرار کرنے والا ایک معزز آدمی تھا اور اس وقت غالبا ہیں کے قریب آدمی ہوں گے.اور بعض اسی شہر کے معزز تھے جو حضور کو ملنے آئے تھے تب اس بڑھے نے ذرا سا پردہ اٹھایا تو ایک گوشہ نکلا جہاں موٹے قلم سے بہت جلی اور خوشخط لکھا ہوا تھا.لا اله الا الله مُحَمَّد رَسُولُ الله پھر اس بڑھے نے دوبارہ بند کرنا چاہا مگر فی الفور شیخ رحمت اللہ صاحب نے تین روپے اس کے ہاتھ پر کر رکھ دیئے.جن میں سے دو روپے ان کے اور ایک روپیہ مولانا محمد احسن صاحب کی طرف سے تھا.اور شیخ صاحب اس سے پہلے بھی چار روپے دے چکے تھے تب اس بڑھے نے ذرا سا پردہ اور اٹھا یا ایک دفعہ سب کی نظر ایک کنارے پر جا پڑی.جہاں لکھا ہوا تھا.اِنَّ الدِّينَ عِندَ الله الاسلام یعنی سچا دین اسلام ہی ہے اور کوئی نہیں.پھر اس بڑھے میں کچھ قبض خاطر پیدا ہو گئی.تب پھر شیخ صاحب نے فی الفور دو روپیہ مولانا حکیم نور الدین صاحب کی طرف سے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے.اور پھر اس کے خوش کرنے کے لئے شیخ صاحب نے چار روپیہ اور اپنی طرف سے بھی دے دیئے اور ایک روپیہ ایک اور مخلص دوست کی طرف سے دیا.تب یہ سب رو پے پا کر وہ بڑھا خوش ہو گیا اور احباب چولہ صاحب بے تکلف دیکھنے لگے.یہاں تک کہ کئی پر دے اپنے ہاتھ سے بھی اٹھا دئیے.دیکھتے دیکھتے ایک جگہ یہ لکھا ہوا نکل آیا - اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُولُه.پھر شیخ صاحب نے اتفاقا دیکھا کہ چولہ کے اندر کچھ گردو غبار سا پڑا ہے.تب انہوں نے بڑھنے کو کہا کہ چولہ اس گرد سے صاف کرنا چاہئے لاؤ ہم ہی صاف کر دیتے ہیں یہ کہہ کر باقی تمہیں بھی اٹھا دیں اور ثابت ہو گیا کہ تمام جگہ قرآن ہی لکھا ہوا ہے اور کچھ نہیں.کسی جگہ سورہ فاتحہ لکھی ہوئی ہے.اور کسی جگہ سورہ اخلاص اور کسی جگہ قرآن شریف کی یہ تعریف تھی کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اسے ناپاک ہاتھ نہ لگائیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے لئے بابا صاحب کا ایسا سینہ

Page 555

تاریخ احمدیت جلدا ۵۳۶ تین عظیم الشان علمی انکشافات کھول دیا تھا کہ وہ اللہ اور رسول کے عاشق زار ہو گئے تھے.چولہ صاحب جس کمرہ میں تھاوہ زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.درمیان میں ایک بھاری گٹھری پڑی ہم تھی جو قریباً گز بھر اونچی ہوگی.چولہ صاحب اس کے اند ر تھا.جب بہت سے رومال کھل چکے تو چند سکھ جو اس وقت وہاں موجود تھے احترام رعقیدت سے سرنگوں ہو گئے اور چولہ صاحب پر نظر پڑتے ہی سجدے میں جا پڑے."ست بچن " کی تصنیف و اشاعت الفرض بابا نانک کا تاریخی چولہ اور ان کے مسلمان ہونے کی زندہ شہادت بچشم خود ملاحظہ فرمانے کے بعد حضرت اقدس قادیان راپس تشریف لائے اور سکھوں پر اتمام حجت کی غرض سے "ست بچن تصنیف فرمائی جو نومبر ۱۸۹۵ء میں شائع ہوئی.اس بے نظیر تصنیف میں آپ نے اپنے سفر ڈیرہ بابا نانک کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے حضرت بابا نانک کے مسلمان ہونے پر زبر دست دلائل دیئے.جن میں سب سے زیادہ اہمیت چولہ صاحب ایسی عظیم الشان یادگار کو حاصل تھی.حضرت بابا نانک کے اسلام پر یہ واضح تاریخی شہادتیں بھی پیش فرمائیں کہ انہوں نے برکت و روحانیت کے حصول کے لئے اسلام کے مشہور صلحاء و اکابر مثلاً حضرت شاہ عبد الشکور رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ (۶۱۱۳۸-۶۱۲۳۵) اور حضرت فرید الدین بابا شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ (۱۱۷۳- ۱۲۶۵) کے مزاروں پر چلہ کشی کی اور پھر مکہ معظمہ میں فریضہ حج بجالائے اور پھر مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوئے.اور فارغ ہو کر ملتان میں چالیس روز تک اپنے مرشد حضرت شمس الدین محمد تبریزی رحمتہ اللہ علیہ (۱۱۲۱۰۱۰۷۸) کے روضہ مبارک میں بھی خلوت نشین ہوئے.حضور علیہ السلام نے ان واضح تاریخی شہادتوں کے علاوہ سکھوں کی مذہبی کتابوں گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھی کی اندرونی گواہیوں سے بھی بابا نانک کے مسلمان ولی ہونے کی زبر دست تحقیق پایہ ثبوت تک پہنچادی."ست بچن کا رد عمل سکھ قوم کی طرف سے آیت سمجھا " جیسی انقلاب انگیز کتاب کا پبلک میں آنا تھا کہ ملک میں ہل چل مچ گئی.انفرادی لحاظ سے تو اس معرکتہ الاراء تحقیق کا اثر سکھوں پر بڑا خوشگوار ہوا.چنانچہ ست بچین" کے اکٹر نسخے سکھوں ہی نے خریدے.اور متعدد اس کا مطالعہ کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے.مگر قومی اعتبار سے اس کا رد عمل بڑا ہی افسوسناک تھا.سکھ دروانوں کو سب سے زیادہ تشویش چولہ صاحب کے سنسنی خیز انکشال سے پیدا ہوئی جس کے ازالہ کے لئے وہ پنڈت لیکھرام کی

Page 556

تاریخ احمدیت.جلد ۵۳۷ تین عظیم الشان علمی انکشافات طرف دوڑے.مگر وہ ایک ناقابل تردید حقیقت کا جواب کیا لکھتا.ناچار اس نے اپنی بے بسی کا ثبوت دیتے ہوئے جواب " کے لئے اولین شرط یہ لگائی کہ پہلے چولہ صاحب کو نذر آتش کر دیا جائے.چنانچہ پنڈت لیکھرام کی سوانح میں لکھا ہے کہ (پنڈت لیکھرام) نے ذکر از کار کرتے ہوئے کہا کہ مرزا قادیانی نے اس چولہ کی جو گر د نا تک مکہ سے ہمراہ لائے تھے کچھ روپے مہنت کو دے کر اس پر عربی آیات وغیرہ کی نقل کرلی ہے.اب مرزا صاحب گورو نانک جی کو مسلمان قرار دے رہے ہیں.معزز سکھوں نے کہا تھا کہ آپ اس کا جواب تحریر کریں تو میں نے ان سے یہ شرط پیش کی تھی کہ آپ مہنت مذکور سے چولہ لے کر میرے حوالہ کریں.میں جلسہ کر کے رو بروئے عام لوگوں کے اس کو ماچس لگا کر جلاؤوں گا.بعد اس کے جواب لکھوں گا.انہوں نے منت سے چولہ لینے کی معذوری ظاہر کی.اور میں نے خاموشی اختیار کی ".سکھ اصحاب پنڈت لیکھرام سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے چولہ صاحب سے متعلق نئی نئی روایات اختراع کرنا شروع کر دیں.اور پھر لاجواب ہو کر جنم ساکھی کے نئے ایڈیشن میں جو سمت ۴۲۸ نانک شاہی میں شائع ہوا چولہ صاحب سے متعلق لکھ دیا.کہ " وہ چولہ آسمان پر اڑ گیا.پھر کبھی نہ آیا.اس کھلی تحریف کے علاوہ ۱۸۹۶ ء یعنی اگلے سال جو جنم ساکھی شائع ہوئی اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ متعدد اقتباسات کو اپنے مطلب کے مطابق تبدیل کر دیا گیا.تحریف کا یہ دروازہ کھلنا ہی تھا کہ چند برسوں کے اندر اندر سکھ لٹریچر کا ایسا حلیہ بگڑا کہ سکھ دروان پکار اٹھے کہ روزانہ نئی نئی بنادیں بنا کر سکھ تاریخ میں ناخوشگوار اور عجیب و غریب تبدیلیاں کی جارہی ہیں سکھ تاریخ کو حسب پسند سانچا میں (جس کا سچائی سے بالکل کوئی واسطہ ہی نہیں) ڈھالا جا رہا ہے ".اس زرق تحریف کا نتیجہ بالا خریہ رونما ہوا کہ بعض سکھ اصحاب نے سرے سے جنم ساکھی بھائی بالا ہی کو جو سکھ مذہب میں قدیم سے مستند اور مقدس کتاب تعلیم کی جاتی تھی.فرضی اور جعلی قرار دے دیا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی بے مثال فتح تھی.۱۳۵.آریہ دھرم " کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس مسیح موعود نے "ست بچن " کے ساتھ ایک ہی جلد میں ایک کتاب " آریہ دھرم " بھی شائع فرمائی.اس کی وجہ تصنیف یہ ہوئی کہ قادیان کے آریہ سماجیوں نے پادری فتح مسیح کی طرح اسلام اور رسول خدا ﷺ پر نہایت گندے الزامات لگائے اور انہیں ایک اشتہار کی شکل میں شائع کیا جس کے جواب میں حضرت اقدس نے قلم اٹھایا.اور ان کے مذہب کی قلعی کھولنے کے علاوہ اسلامی نظام اخلاق و تمدن کی فضیلت روز روشن کی طرح ثابت کر دکھائی.

Page 557

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳۸ تین عظیم الشان علمی انکشافات مجد داعظم جلد اول صفحہ ۴۴۱ میں آریہ دھرم " کے حالات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے ایک اشتہار کے ذریعہ سے گورنمنٹ کو توجہ دلائی کہ "اگر گورنمنٹ کسی اور طریق سے اپنے گورہ سپاہیوں کی اخلاقی حالت درست نہیں رکھ سکتی اور انہیں زنا سے روک نہیں سکتی تو پھر چاہیے کہ ولایت سے یورپین کسیاں لا کر چھاؤنیوں میں رکھے.ہماری دیسی عورتوں کو گوروں کی شہوت رانیوں کے لئے استعمال نہ کیا جائے".یہ امر غلط فہمی پر مبنی ہے.حق یہ ہے کہ حضرت اقدس نے خود ایسا کوئی اشتہار کبھی شائع نہیں فرمایا.اور حضور نے کتاب " آریہ دھرم " کے آخری صفحات میں "قانون دکھائی" کے عنوان سے جو مضمون درج فرمایا ہے وہ حضور کا نہیں بلکہ " اخبار عام " (۹- نومبر ۱۸۹۵ء) کا اقتباس ہے.ناموس مصطفوی کے دفاع اور مذہبی مباحثات کے لئے آئینی تحریک اور مسلمانان ہند کی طرف سے پر زور تائید حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات پر ملک میں چاروں طرف جو حملے ہو رہے تھے حضرت مسیح موعود ان کے دفاع کے لئے اب تک پوری قوت سے علمی جنگ لڑ رہے تھے اور ملک میں جہاں بھی کوئی شخص سید المعصومین امام المتقین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کے خلاف بد زبانی کرتا آپ کا قلم نور احرکت میں آجاتا.لیکن ۱۸۹۵ء کے آخر میں آپ کے اس دفاع نے ایک نئی شکل اختیار کرلی.یعنی آپ نے مذہبی مناظرات کی اصلاح کے لئے وائسرائے ہند سے درخواست کرتے ہوئے (۲۲.ستمبر ۱۸۹۵ء کو بذریعہ اشتہار ) یہ آئینی تحریک اٹھائی کہ حکومت تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۸ میں توسیع کرتے ہوئے یہ قانون پاس کرے کہ آئندہ مذہبی مباحثات میں ہر فرقہ پابند ہو گا کہ.(اول): وہ ایسا اعتراض کسی دوسرے فرقہ پر نہ کرے جو خود اس کی الہامی کتاب یا پیشوا پر دارد ہوتا ہو.T (دوم) : دوسرے فرقہ کی صرف انہی کتابوں پر اعتراض کرے جو اس کے نزدیک مسلم ہوں.مخالفین اسلام کے نام کھلا نوٹس اس تحریک کے ساتھ ہی آپ نے مخالفین اسلام کو بھی نوٹس دیا کہ ہماری معتبر کتابوں میں اول قرآن شریف

Page 558

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۳۹ تین عظیم الشان علمی انکشافات ہے مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جن پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں.کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو.غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں.پس ہر ایک معترض پر لازم ہو گا.کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم : دوسری کتابوں میں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں اول درجہ صحیح بخاری ہے جسکی وہ تمام احادیث ہمارے لئے قابل حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور انہیں میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں.کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو.اور تیسرے درجہ پر صحیح ترندی - ابن ماجہ - موطا- نسائی - ابو داؤد دار قطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں.یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں.اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے.اب ہم قانونی طور پر آپ لوگوں کو ایسے اعتراضوں سے روکتے ہیں.جو خود آپ کی کتابوں اور آپ کے مذہب پر وارد ہوتے ہیں...اور اگر آپ لوگ اب بھی یعنی اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد بھی اپنی خیانت پیشہ طبیعت اور عادت سے باز نہیں آئیں گے تو دیکھو ہم آپ کو ہلا ہلا کر متنبہ کرتے ہیں کہ اب یہ حرکت آپ کی صحت نیت کے خلاف سمجھی جائے گی اور محض دلازاری اور توہین کی مد میں متصور ہوگی اور اس صورت میں ہمیں استحقاق ہو گا کہ عدالت سے اس انتراء اور توہین اور دلازاری کی چارہ جوئی کریں.بر صغیر ہند و پاکستان موجودہ زمانے میں بھی مذاہب عالم کی جولان گاہ ہے مگر اس زمانے میں تو خاص طور پر یہاں ایک زبر دست رسہ کشی جاری تھی جس میں اسلام کی مخالف سبھی طاقتیں متحد تھیں اور مسلمان بالکل بے دست وپا تھے.اور کسی ایسی آواز کے منتظر تھے جو انہیں ناموس مصطفیٰ اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے متحد کر دے.چنانچہ جو نبی حضرت اقدس کی طرف سے یہ آئینی تحریک شروع ہوئی.ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بسنے والے ہر خیال کے مسلمانوں نے آپ کی پر زور تائید کی اور مختصر وقت میں بڑی گرمجوشی سے درخواست پر ہزاروں دستخط ہو گئے.دستخط کرنے والوں میں ملک کے نامی گرامی علماء سرکاری افسر وکلاء، تجار وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے.برطانوی ہند کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا.جب کہ مسلمان اختلاف مسلک کے باوجود ایک قومی مسئلہ پر مجتمع ہوئے اور اتحاد کا انتہائی خوشکن نظارہ دیکھنے میں آیا.

Page 559

تاریخ احمدیت جلدا تین عظیم الشان علمی - مشافات اس موقعہ پر نواب محسن الملک سید مهدی علی خاں - a نواب محسن الملک کا مکتوب (۱۹۰۷-۱۸۳۷ء) نے حضور کی اسلامی خدمات سراہتے ہوئے ۲- اکتوبر ۱۸۹۵ء کو سمیٹی سے مندرجہ ذیل مکتوب لکھا." جناب مولانا و محدو منار امت بر کاتم ابعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ آپ کا چھپا ہوا خط مع مسودہ درخواست کے پہنچا.میں نے اسے غور سے پڑھا اور اس کے تمام مالہ و ما علیہ پر خیال کیا.در حقیقت دینی مباحثات و مناظرات (میں) جو دل ممکن اور جیسی درد انگیز باتیں لکھی اور کی جاتی ہیں وہ دل کو نہایت بے چین کرتی ہیں.اور اسے ہر شخص کو جسے ذرا بھی اسلام کا خیال ہو گا.روحانی تکلیف پہنچتی ہے.خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے دلی جوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے.یہ کام بھی آپ کا منجملہ اور بہت سے کاموں کے ہے.جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں.یہ تجویز جو آپ فرماتے ہیں گورنمنٹ سے منظور ہو جاوے تو اس میں شبہ نہیں کہ وہ ملک بیماری جو رہا کی طرح پھیل رہی ہے اور جس سے ایک نے ہی آدمی کو بہت تکلیف پہنچتی ہے جاتی رہے.لیکن بلحاظ اصول سیاست گورنمنٹ کے مجھے امید نہیں کہ گورنمنٹ ایسا قانون جاری کرنا پسند کرے.اور ان دو شرطوں کو جن کا آپ نے مشروط ہونا تجویز فرمایا ہے.برٹش گورنمنٹ قانون کے پیرایہ میں ظاہر کر سکے.یہ صرف میری ہی رائے نہیں ہے.بلکہ ہر شخص جس کو گورنمنٹ کے قانون بنانے کے اصول سے واقفیت ہے یہی خیال رکھتا ہے.اور جب کہ گورنمنٹ سے اس کی منظوری کی امید نہیں ہے.تو درخواست سے کیا فائدہ.اگر یہ خیال نہ ہو تا تو میں حضرت کے بھیجے ہوئے کاغذ پر دستخط کر کے نور اواپس کرتا.مجھے امید ہے کہ اس معاملہ میں جو کچھ آپ کا خیال ہو گا اس سے وقتا فوقتا آپ مجھے مطلع فرمائیں گے.آپ یقین رکھیے کہ میں ایسے کاموں میں جن سے اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں وہ رد کے جائیں اور مسلمان کو جو تکلیف پہنچائی جاتی ہے اس میں تخفیف ہو دل و جان سے مدد کرنے کے لئے موجود ہوں.فقط زیادہ نیاز و بس - آپ کا خادم محسن الملک " - A مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی غیر اسلامی روش مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تنہا وہ انسان تھے جنہوں نے مخالفت کا برملا اور تحریری اظہار کیا اور بجائے تائید کرنے یا کم از کم خاموش رہنے کے "دجال کا دیانی کی نئی چال" کے عنوان سے ایک ٹریکٹ شائع کر ڈالا.جس میں یہ مخالفانہ پراپیگنڈا کیا.کہ کاریانی کا مقصود اس تجویز سے مسلمانوں کو اپنی خیر خواہی جتانا اور اس ذریعہ سے ان کا مال مارتا ہے.اور اس تجویز کا اس کے ہاتھ سے انجام پذیر ہونا در وجہ سے ناممکن ہے.اول یہ کہ وہ خود اس جرم کا

Page 560

تاریخ احمدیت جلد ! ۵۴۱ تین عظیم الشان علمی انکشافات مرتکب ہے جس کو اس درخواست سے ہٹانا چاہتا ہے.دوم یہ کہ اس کی لائٹی (وفاداری) مشتبہ ہے.کوئی مسلمان وفادار گورنمنٹ یہ کام کرے تو یہ انجام پذیر ہو سکتا ہے.EI نیز لکھا کہ یہ کام فقط مجھ ہی سے کامیاب طریق پر انجام پذیر ہو گا.کسی دوسرے سے نہیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ بیان حضرت اقدس کی خدمت میں ۲۱ - اکتوبر ۱۸۹۵ء کو پہنچا.حضور کے پیش نظر تو اپنے آقا و موئی نبی کریم ﷺ کی عزت و ناموس کا کام تھا.کوئی کریڈٹ لینا مقصود نہیں تھا.چنانچہ آپ نے اسی دن اشتہار شائع کرتے ہوئے اعلان کر دیا.کہ میں یہ مقدس ذمہ داری مولوی صاحب موصوف کو سونپتا ہوں.یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا.جب کہ یہ تحریک پنجاب اور ہندوستان کے کونے کونے میں پورے زور شور سے جاری تھی اور اس پر دستخط کر کے بھجوانے والوں کی تعد اردو ہزار پچھتر تک پہنچ چکی تھی.اور ابھی بہت سے شہروں سے اطلاعات آنا باقی تھیں اور اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.مگر افسوس مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جنہیں یہ اہم دینی خدمت سپرد کی گئی تھی اس تحریک سے کھلی غداری کی اور ایک اہم کام کھٹائی میں پڑ گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی فضا بد سے بد تر صورت اختیار کر گئی اور معاندین اسلام پہلے سے بھی زیادہ بے باکی کا مظاہرہ کرنے لگے.چنانچہ ۱۸۹۷ء میں ایک متعصب عیسائی احمد شاہ شائق نے " امہات المومنین " جیسی اشتعال انگیز کتاب لکھ کر مسلمانوں میں آگ لگادی.حضرت اقدس نے یہ صورت دیکھ کر حکومت کو پھر توجہ دلائی کہ وہ مذہبی مباحثات کی اصلاح کے لئے قانون کی توسیع کرے بلکہ ہنگامی حالات کے پیش نظر یہ بھی تجویز پیش فرمائی کہ وقتی طور پر یہ قانون بنا دیا جائے کہ کوئی فریق کسی دوسرے فریق پر حمدہ کرنے کا مجاز نہیں اسے محض اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی اجازت ہے.لیکن حکومت اب بھی اس طرف متوجہ نہ ہوئی.اور اصلاح احوال کے لئے اس نے کوئی قدم نہ اٹھایا.جس کا خمیازہ مسلمانوں کو آگے چل کر کتاب ”رنگیلا رسول اور رسالہ ” در تمان" کی شکل میں بھگتنا پڑا.اور فرقہ وارانہ کشیدگی خطرناک شکل اختیار کر گئی.۱۸۹۵ء کے بعض صحابہ ۱۸۹۵ء کے واقعات بیان ہو چکے ہیں.اب آخر میں بعض خاص بزرگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.(۱) حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی.اے مبلغ ماریشس - MA

Page 561

تاریخ احمدیت جلد تین عظیم الشان علمی انکشافات (۲) حضرت بابا محمد حسن صاحب واعظ ) (۳) حضرت مرزا محمد اشرف صاحب - E - (۴) حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی

Page 562

تاریخ احمدیت.جلدا -1 سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۷ وفات ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۵ء عمر ۷ سال ۵۴۳ حواشی تین عظیم الشان علمی انکشافات "میرت مسیح موعود حصہ سوم صفحه ۳۲۵-۳۲۶ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۲۶- ۱۲۷ ۵- بدر ۱۲ جنوری ۱۹۰۶ء صفحه ۸ کالم نمبر ۳ -1 ۹ "ضياء الحق" اخبار بدر ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ ء صفحه ۳ سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۲۲۷-۲۲۷ -۱۰ مشہور کتاب " عسل مصفی " کے مصنف وفات ۵- اپریل ۱۹۳۸ء - # - ۱۳ من الرحمن " صفحه ۱۹-۱۷ اس حقیقت کے بر عکس " مجدد اعظم" کے مؤلف جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے لکھا ہے کہ تحقیق کرنے والے احباب میں خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم سب سے پیش پیش تھے.(مجدد اعظم جلد اول صفحہ ۴۱۷) ۱۳ - من الرحمن " صفحه ۱۲ ۱۴ - فن الرحمن " صفحہ ۱۰-۱۱ ۱۵ - خواجہ کمال الدین صاحب نے اس تحقیق کا محض ابتدائی تعارف کرانے کے لئے ایک مختصری کتاب "ام الالسنہ " لکھی مگر حضرت اقدس کی قائم کردہ بنیادوں پر مفصل ریسرچ کرنے کی سعادت مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائلپور خلف الرشید حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے حصہ میں آئی جنہوں نے برسوں کی محنت و کاوش سے دنیا کی مشہور زبانوں مفکرت انگریزی، لاطینی، جرمنی، فرانسیسی ، چینی ، فارسی اور ہندی کے گہرے اشتراک اور عربی کے ام الالسنہ ہونے کا نظریہ پورنی شرح و سط سے نمایاں کیا ہے اور حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ اصول د اشارات کی روشنی میں ان زبانوں کے ہیں ہزار الفاظ کے حل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کرتی ہے آپ کی تحقیق کا ایک ابتدائی حصہ ماہنامہ " الفرقان اپریل مئی ۱۹۵۶ء میں شائع ہو چکا ہے اور اب اس کی اشاعت رسالہ " ریویو اف ریلیجہ " انگریزی میں بھی ہو رہی ہے.آپ کے قلم سے اس سلسلہ میں بیش بہا - It لڑ پچر چھپ چکا ہے.حضرت سیدۃ النساء ام المومنین رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بھائی اور حضرت مسیح موعود کے اکابر صحابہ میں سے تھے ۱۸- جولائی ۱۸۸۱ء کو پیدا ہوئے اور ۱۸- جولائی ۱۹۴۷ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.حضرت میر صاحب کے علو مرتبت کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ آپ کے مزار مبارک کا کتبہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کا تحریر فرمودہ ہے جس میں حضور نے لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے بہت محبت تھی.اور ان کے تمام کاموں میں آپ دلچسپی لیتے تھے اسی طرح حضرت میر صاحب کا بھی آپ کے ساتھ عاشقانہ تعلق تھا.بھائیوں میں حضرت ام المومنین کو میر محمد اسمعیل صاحب سے زیادہ محبت تھی.نہایت ذہین اور زکی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب خطبہ الہامیہ دیا تو آپ نے اس ارشاد کو سن کر کہ لوگ اسے یاد کریں انہوں نے چند دنوں میں ہی سارا خطبہ یاد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنا دیا تھا.باوجود نہایت کامیاب ڈاکٹر ہونے کے اور بہت بڑی کمائی کے قابل ہونے کے زیادہ تر پریکٹس سے بچتے رہے اور غرباء کی خدمت کی طرف اپنی توجہ رکھتے تھے پنشن کے بعد قادیان آگئے لیکن بوجہ صحت کی خرابی کے کوئی باقاعدہ کام سلسلہ کا نہیں لے سکے بلکہ جب طبیعت اچھی ہوتی تھی الفضل میں مضامین لکھ دیا کرتے.بہر حال میر محمد اسمعیل صاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے صحابہ میں سے تھے اور آپ کے منظور نظر تھے.آپ کی وفات کے بعد تمام ابتلاؤں میں سے گزرتے ہوئے سلسلہ کی

Page 563

تاریخ احمدیت.جلدا -14 ۵۴۴ تین عظیم الشان علمی انکشافات بہت سی خدمات بجا لانے کا آپ کو موقعہ ملا.اللہ تعالٰی نے ان کے روحانی مدارج کو بلند فرمائے".(الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ( ۱۷ - "سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۷ او صفحه ۲۰۱ - 14 مرہم عینی " کا جب انکشاف ہوا تو حکیم محمد حسین صاحب (ابن حضرت میاں چراغ الدین صاحب رئیس اعظم لاہور) نے ایک انگریزی طبی ڈکشنری سے مرہم کا اصل نسخہ حاصل کر کے مرہم تیار کی اور اشتہار دیا کہ حضرت مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتے تھے مگر اس مرہم نے حضرت مسیح کو تندرست کر دیا.اس اشتہار پر حکیم محمد حسین صاحب پر انگریزی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا.جب یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش ہوا.تو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے ایک مدلل بیان تحریر فرمایا جس کا انگریزی ترجمہ خواجہ کمال الدین صاحب نے کیا تھا.خواجہ صاحب نے جب عدالت میں یہ بیان پڑھ کر سنایا تو پادری اور عیسائی حیران رہ گئے.حضرت مسیح موعود کو قبل از وقت الهانا خبر دی گئی تھی کہ "حسین کو ٹیپوؤں کے شرسے بچایا گیا ہے ".سو ایسا ہی عمل میں آیا.اور بڑی بحث کے بعد حج کو یہ فیصلہ دینا پڑا.کہ " مرہم عیسی کا اشتہاری نام تو ضرور ہے مگر وجہ تسمیہ بدل دی جائے اس کا میابی پر اسلامی اخبارات نے مبارک باددی اور حکیم صاحب کا نام مرہم عیسی مشہور ہو گیا مقدمہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو "طبی ماۃ عامل " مولفہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عینی) ملاحظہ ہو "نور القرآن " و " ست بچین" ۲۰- رساله " ضربت عیسوی مطبوعہ ۱۹۰۳ء صفحه (۱۳۹) شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی انکار کلی لاہور.۲۱ - " مسیح ہندوستان میں " میں طبع دوم صفحہ ۵۱ ۲۲ - " تاریخ بشارت المندر پاکستان صفحه ۱۲ شائع کردہ پنجاب ر سیلیس بک سوسائٹی لاہور ۲۳ - رسالہ "المنار " جلد ۱۵ صفحه ۹۰۰-۹۰۱ ۲۴ - الفضل ۱۰-۱- اپریل ۱۹۵۸ء اور ۴.جولائی ۱۹۵۹ء سے ماخوذ -۲۵ رساله البشری حیفا فلسطین جلد ۲۱ ۱۹۵۵ء ۲۶ - التزامی جواب علم کلام کی تاریخ میں ایک پر انا مگر کامیاب حربہ ہے جسے آپ سے پہلے متعدد بزرگوں نے استعمال کیا ہے.چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز (۱۷۴۶-۱۸۲۳ء) کے متعلق لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک پادری ان کی خدمت میں آیا اور سوال کیا کہ آپ کے پیغمبر حبیب خدا ہیں؟ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا تو پھر انہوں نے امام حسین کے قتل کے وقت خدا سے فریاد کیوں نہ کی.یا یہ فریاد سنی نہ گئی؟ فرمایا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فریاد تو کی تھی لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے.لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسی کا صلیب پر چڑھنا یاد آرہا ہے".(رود کوثر طبع سوم صفحہ ۵۲۷.۵۷۸ ( از جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم.اے) ۲۷ - "نور القمر آن حصہ دوم طبع اول صفحه ۵- " ۲۸ - "نزول المسیح صفحه ۲۰۴ ۲۹ - "ست بچن " صفحه ۲۶-۳۳ طبع اول و "سیرت المهدی " حصہ سوم صفحه ۱۷۳ ۳۰."ست بچن " طبع اول صفحه ۳۲-۳۶ ۳۱- "سیرت المهدی " حصہ سوم صفحه ۱۷۳ ۳۲ - الحکام ۱۰- جون ۱۹۰۱ء صفحه ۱۵ ۳۳ - ایک سکھ فاضل بھائی دیر سنگھ ڈی لٹ نے ۱۸۹۹ء میں لکھا تھا کہ ”ست بچن کے اثر سے کئی سکھ شیخ صاحب میں تبدیل ہو چکے ہیں.لملاحظہ ہو اخبار خالصہ کا چار امرت سر ۸- دسمبر ۱۸۹۹ ء و اخبار خالصہ کا چار ارده شتابدی نمبر ۱۹۵۰ء ۳۴ - سوانح عمری پنڈت لیکھرام آریہ مسافر صفحه اء مصنفہ گنڈارام بحوالہ "تحریک احمدیت کا سکھوں پر اثر مولفه گیانی واحد حسین صاحب) ۳۵ - جنم ساکھی بھائی بالا صفحہ ۴۳۸ مطبوعہ مفید عام پریس لاہور-

Page 564

تاریخ احمدیت جلدا ۳۶- ترجمه از گورید نرنے حصہ دوم صفحه ۴ ۵۴۵ تین عظیم الشان علمی انکشافات تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب " تحریک احمدیت کا اثر سکھوں پر " ( مطبوعه ۱۹۴۵ء شائع کرده مکتبه احمد یہ قادیان) - تبلیغ رسالت " جلد چهارم صفحه ۲۸ حاشیه ۹ - "دفعہ ۲۹۸ جو کوئی شخص سوچ بچار کر ذہب کی نسبت کسی شخص کھول دکھانے کی نیت سے کوئی بات کے یا کوئی آواز نکالے جس کورہ شخص سن سکے یا اس شخص کے پیش نظر کوئی حرکت کرے یا کوئی شے اس کے پیش نظر رکھے تو شخص مذکور کو دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی قید کی سزادی جائے گی جس کی میعاد تین ہفتے تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں".(مجموعه قوانین تعزیرات ہند یعنی ایکٹ (۴۵-۶۱۸۷۰) ۴۰ - آریه دهرم صفحه ۱۹ طبع اول - آریہ دھرم صفحه ۷۴ ۷۵ طبع دوم M - ۴۲ - ۷۰۴ در خواست کنندگان کی ایک ابتدائی فہرست حضرت اقدس نے " آریہ دھرم " میں بھی شائع فرمائی.۳۳ - سرسید احمد خاں مرحوم کے سیاسی جانشین، علی گڑھ کالج اور ایجوکیشنل کانفرنس کے مہتم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سیکرٹری تھے.مفصل سوانح کے لئے دیکھئے "موج کوثر " (از شیخ محمد اکرام ایم.اے) ۴۴ - یہ لفظ اصل خط میں سوارہ گیا ہے.(مرتب) ۴۵ - الحکم ۷ - اگست ۱۹۳۴ء صفحه ۹ - اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۲ صفحه ۳۶۱ ۴۷ - اشتهار ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۱۲ ۲۸ - ولادت ۱۸۸۸ء وفات ۱۸۴۱۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء آپ ان خوش قسمت وجودوں میں سے تھے جنہوں نے سے 190 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک وقف زندگی پر لبیک کسی اور پھر خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں ۱۲ سال تک ماریشس میں تبلیغ حق کی جہاد کی توفیق پائی.حضرت صوفی صاحب حافظ قرآن بھی تھے اور ان کی آواز میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کا مخصوص وجد آفرین رنگ پایا جا تا تھا آپ ابھی بچے ہی تھے کہ باپ کا سایہ سرسے اٹھ گیا اور آپ حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی کفالت میں آگئے.اور انہی کے طفیل قادیان میں تعلیم پائی اور سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے.۴۹ - حضرت منشی عبد العزیز صاحب او جلوی کے بھائی اور احمد یہ مشن انڈو نیشیا کے پہلے مبلغ مولانا رحمت علی صاحب کے والد ماجد !! آپ ابتداء سلسلہ کے شدید مخالف تھے لیکن بالاخر مسلسل دعاؤں کے نتیجہ میں انہیں بذریعہ رویا قادیان اور مسجد اقصیٰ کا حقیقی منظر دکھایا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور بتایا گیا کہ حضور ہی امام الزمان ہیں.اب چونکہ حق پوری طرح کھل چکا تھا اس لئے آپ اپنے بھائی کے ہمراہ نور قادیان پہنچے اور بیعت کر کے آسمانی سلسلہ میں شامل ہو گئے.۱۹۰۲ء میں قادیان کی مستقل ہجرت کی.آپ کو موصی نمبرا ہونے کا قابل فخر اعزاز بھی حاصل ہے حضرت مسیح موعود کی تحریک وقف زندگی میں آپ نے بھی اپنا نام پیش کیا تھا.چنانچہ آپ نے اس عہد کو نباہتے ہوئے پوری مرد عظ و تلقین میں گزار دی.وفات ۲۰.جولائی ۱۹۴۹ء کو بمقام چنیوٹ ہوئی.ولادت ۱۸۶۸ء وفات ۱۴- نومبر ۱۹۴۷ء - حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی کے فرزند تھے ۱۹۰۶ء میں قادیان کی ہجرت اختیار کی.آپ کو ربع صدی سے زائد عرصہ تک سلسلہ کی جلیل القدر خدمات کی توفیق ملی یکم جنوری ۱۹۰۷ء کو جب کہ صدر انجمن احمدیہ کے دفتر محاسب میں محرر متعین ہوئے اور پھر اپنے ذہن رسا اور حسن کارکردگی کی بدولت ۱۹۱۲ء میں آڈیٹر بنے.اور پھر ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۲ء تک محاسب کے عہدے پر فائز رہے.مئی ۱۹۳۲ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے.لیکن اس کے بعد جب اراضیات سندھ کا کام شروع ہوا تو ستمبر ۱۹۳۲ء میں آپ کو ناظم جائیداد مقرر کیا گیا اور اس عہدہ پر آپ نے مزید پانچ سال تک خدمات سرانجام دیں.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایده الله بنصرہ العزیز نے آپ کے ریٹائر ہونے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا " مرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے ہیں.جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور وہ اس سے کس -0°

Page 565

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۴۶ تین عظیم الشان علمی المشافات طرح بہتر سے بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں میں سب کام نپٹالوں.ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو.اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی رو بھی اسی طرف ہے اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی.ٹور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ ہلیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو صحیح طور پر چلا رہا ہے ".(الفضل -۲۲ مئی ۱۹۳۲ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا ذکر تمہ حقیقتہ الوحی (صفحہ ۵۷) میں فرمایا ہے.- من ولادت ۱۱۸۱۸۷۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے بچے عاشق جسم اخلاص اور فدائیت کی روح سرکھنے والے بے نفس بزرگ ہیں.ہندوؤں میں سے مسلمان ہوئے پہلا نام مہتہ ہریش چندر تھا.سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ۱۹۲۴ء کے پہلے سفر یورپ میں ان کو ساتھ لے گئے تھے ایک لمبے عرصہ تک سلسلہ کے متعدد اخبارات وسائل کے طالع و ناشر رہے انہوں نے اپنے قبول اسلام و احمدیت کے ایمان افروز حالات اخبار الحکم (۲۱- اپریل تا ۱۴- جون ۱۹۳۸ء) میں بڑی شرح و سط سے شائع کر دیے ہیں.جن سے حضرت اقدس مسیح موعود کے مقدس زمانے کا دلکش نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.حضرت بھائی صاحب ان دنوں دیار حبیب ( قادیان) میں درویشانہ زندگی بسر کر رہے ہیں.(یہ بابرکت وجود ۵۶- جنوری ۱۹۷۱ ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملا)

Page 566

تاریخ احمدیت جلدا - ۵۴۷ تعطیل جعہ کی تحریک ماموریت کا پندرھواں سال تعطیل جمعہ کی تحریک (۱۸۹۶ء) ۱۸۹۶ء کا آغاز ایک دوسری تحریک سے ہوا جو تعطیل جمعہ سے متعلق تھی.جمعہ کی عظمت و فرضیت قرآن و احادیث سے نمایاں اور مسلمانان عالم کے نزدیک مسلم ہے جہاں جہاں اسلامی حکومتیں قائم رہیں انہوں نے اس شعار اسلامی کے قیام و بقاء کا خاص خیال رکھا.اسی طرح جس وقت سے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی اسی وقت سے جمعہ کی تعطیل بھی جاری ہوئی اور آخر تک جاری رہی بلکہ مسلمان حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی مدت تک بعض ہندو ریاستوں میں جمعہ کی سرکاری تعطیل ہوتی رہی.لیکن جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو اتوار کی تعطیل شروع ہو گئی اور مسلمان بالعموم اس مقدس دن کی برکتوں سے محروم رہ گئے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ احیائے دین کے لئے تشریف لائے تھے اس لئے آپ نے یکم جنوری ۱۸۹۶ء کو مسلمانان ہند کی طرف سے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا جس میں اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعہ کی اہمیت واضح کر کے درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل قرار دیں.اس سے قبل مسلمانوں نے کئی دفعہ اس تجویز کا ارادہ کیا لیکن یہ سوچ کر کہ ایک غیر اسلامی گورنمنٹ سے اس کے قبول کرنے کی امید نہیں ہو سکتی وہ دستکش ہو گئے.1 حضرت اقدس نے یہ تحریک مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پر زور مخالفت اٹھاتے ہوئے بالخصوص علماء کو توجہ دلائی کہ " وہ بھی دستخط کرنے سے ثواب آخرت حاصل کریں.یہ فرض کیا کہ ہم ان کی نظر میں کا فراد ر بے دین ہیں.مگر اس بے دلیل خیال سے اس نیکی سے محروم نہ رہ جائیں یو نہی سمجھ لیں کہ کبھی دین کو خداتعالی فاسقوں کے ذریعہ سے بھی مدد دیتا ہے.لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان

Page 567

تاریخ احمدیت جلدا ۵۴۸ تعطیل جمعہ کی تحریک کے زیر اثر علماء نے اس موقعہ پر بھی اختلاف کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا پورا زور صرف کر دیا.چنانچہ لکھا.چونکہ وہ در پردہ دشمن اسلام اور دہریہ ہے اور موجودہ بیت اسلام و مسلمانوں کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے لہذا کچھ بعید نہیں کہ یہ درخواست اس نے اسی غرض سے تجویز کی ہو کہ یہ درخواست گورنمنٹ سے نامنظور ہو تو موجودہ حالت (افسران بالا دست کی خاص اجازت بھی جاتی رہے اور جمعہ جماعت کا بکھیڑا دور ہو تا نظر آوے." مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی اس حاسدانہ کارروائی سے وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی مگر بالا خر مولانا نور الدین حضرت خلیفتہ اصحیح اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں حکومت نے یہ تجویز منظور کر لی- امیر کابل کے نام تبلیغی خط سلام : سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء مطابق شوال ۱۳۱۳ھ میں والٹی کابل امیر عبد الرحمن خاں (۱۸۴۴-۱۹۰۱ء) کے نام ایک تبلیغی خط بھیجا ت یہ خط حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب شہید لے کر گئے تھے.جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار "منادی" میں لکھا تھا کہ امیر کابل نے اس خط کے موصول ہونے پر فقط یہ جواب دیا کہ.پنجابیا".اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعوی کرو.تو نتیجہ معلوم ہو جائے گا.لیکن اس کا کوئی قطعی ثبوت معلوم نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات سے صرف اتنا ثابت ہو تا ہے.کہ بعد کو جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کابل گئے تو انہوں نے امیر کابل کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا.چنانچہ مولوی صاحب نے واپس آنے کے بعد یہ مشہور کر دیا.کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آسکیں گے.بعض علماء کا کہنا ہے کہ امیر کابل کو جب حضرت مسیح موعود کا تبلیغی خط پہنچا.تو انہوں نے کہا "مارا عمر باید نه عیسی - عیسی در زمان خود چه کرده بود که بار دیگر آمد خواهد کرد".یعنی ہمیں حضرت عمر فاروق کی ضرورت ہے.حضرت عیسی کی ضرورت نہیں.انہوں نے بعثت اوٹی میں کیا کامیابی حاصل کی تھی ؟ مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کو مباہلے کی دعوت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعوئی الہام پر بیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا جو

Page 568

تاریخ احمدیت جلدا ۵۴۹ تعطیل جمعہ کی تحریک آپ کی صداقت کا کھلا کھلا خدائی نشان تھا.جب آپ نے الہام پانے کا دعوی کیا تو آپ جوان تھے لیکن اب آپ بوڑھے ہو چکے.آپ کے بہت سے دوست اور عزیز جو آپ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور آپ کو اللہ تعالٰی نے عمر در از بخشی اور ہر میدان میں آپ کی نصرت و تائید فرمائی.اور ہر مشکل میں آپ کا متکفل و متولی رہا.مگر آسمانی عدالت کا یہ عملی فیصلہ دیکھ کر بھی چونکہ خدا ناترس علماء اور سجادہ نشین ابھی تک آپ کے مفتری و کذاب ہونے کی رٹ لگا رہے تھے اس لئے حضور نے خدا کے حکم سے اس سال ہندستان کے تمام قابل ذکر مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کا نام لے لے کر ان کو مباہلہ کی فیصلہ کن دعوت دی.اس دعوت کے ساتھ حضور نے مباہلہ کے الفاظ بھی از خود لکھ دیئے.چنانچہ لکھا الفاظ مباہلہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ یا الٹی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں.تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بد تر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے.اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر یک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے.کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے در اصل کذاب اور مفتری اور کا فر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افتراء ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں.اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر.

Page 569

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۵۰ تعطیل جمعہ کی تحریک اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سنگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین 1 اس کے ساتھ ہی حضور نے یہ شرط بھی درج فرمائی کہ ”میری بددعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جارے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آدیں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی نہ کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا.اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.حضرت اقدس نے یہ دعوت باقاعدہ مطبوعہ شکل میں تمام مشہور علماء اور سجادہ نشینوں کو بذریعہ رجسٹری ارسال فرمائی.اور ان کے ناموں کی لمبی فہرست دے کر آخر میں یہ بھی احتیاطاً لکھا کہ ان حضرات میں سے اگر اتفاقا کسی صاحب کو یہ رسالہ نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے.اس دعوت کے بعد آپ نے علماء و مشائخ کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ ان میں سے ہر شخص اپنے ہاں بیٹھے بٹھائے اشتہارات کے ذریعہ سے بھی مباہلہ کر سکتا ہے.لیکن افسوس کہ اس درجہ سہولت اور غیرت دلانے والے الفاظ کے باوجود حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف اور حضرت پیر صاحب العلم سندھ کے سوا کوئی شخص ایسا نہ نکلا جو کھلم کھلا حضور کی تصدیق کرتا.دعوت مباہلہ مجسم نشان کی حیثیت اختیار کر گئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعوت میں لکھا تھا.کہ میں مباہلہ میں دعا کروں گا کہ "اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں.ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی بار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر." اور گو مباہلہ کی نوبت نہیں آئی.لیکن یہ عجیب کرشمہ قدرت ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ بے اثر ثابت نہیں ہوئے.بلکہ جو معاند علماء یا گدی نشین اپنی مخالفت پر بدستور قائم رہے انہیں اپنے جرم کی پاداش میں ان سزاؤں میں سے کسی نہ کسی سزا کو ضرور بھگتنا پڑا.چنانچہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی پہلے اندھے ہوئے پھر سانپ کے

Page 570

تاریخ احمدیت جلدا ۵۵۱ تعطیل جمعہ کی تحریک ڈسنے سے مرے.مولوی عبد العزیز صاحب اور مولوی محمد صاحب لدھیانوی جو مشہور مکفرین میں سے تھے صرف تیرہ دن کے وقفے سے یکے بعد دیگرے اس جہان سے کوچ کر گئے اور ان کا پورا خاندان اجڑ گیا.مولوی سعد اللہ صاحب تو مسلم اور مولوی رسل بابا صاحب طاعون کا شکار ہوئے.مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری نے اپنی کتاب "فتح رحمانی " صفحہ ۲۶-۲۷ میں آپ کے خلاف بد دعا کی تھی وہ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اجل کے ہاتھوں پکڑے گئے.غرض ان مخالفانہ کاروائی جاری رکھنے والوں میں سے اکثر آپ کی زندگی میں ہی تباہ و برباد ہوئے.چنانچہ ۱۹۰۶ ء تک ان مخالفین کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جو زندہ تھے.وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار تھے.آپ کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سلسلہ احمدیہ کے عروج کا مشاہدہ کرنے کے لئے دیر تک زندہ رہے اور بالاخر پے در پے صدمات سہ کر فالج سے راہی ملک عدم ہوئے.حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی تصدیق جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ان عالموں اور سجادہ نشینوں کے حلقے میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے کھلے لفظوں سے آپ کی تصدیق فرمائی.چنانچہ انہوں نے دعوت مباہلہ کا اشتہار ملتے ہی ۲۷- رجب ۱۳۱۴ھ (مطابق جنوری ۱۸۹۷ء) کو حضرت اقدس کے نام عربی میں عقیدت مندی کے جذبات سے مکتوب بھیجا کہ مباہلہ کا سوال ہی کیا ہے میں تو ابتدا ہی سے حضور کی تعظیم کرتا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو.اور کبھی میری زبان پر تعظیم و تکریم اور رعایت آداب کے سوا آپ کے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.حضرت اقدس نے یہ خط ضمیمہ " انجام آتھم " میں شائع فرما دیا.اور آپ کی بڑی تعریف فرمائی کہ ہزاروں میں سے انہوں نے پر ہیز گاری اور تقویٰ شعاری کا نور دکھلایا.آپ کا یہ کارنامہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتا.یہ خط چھپا تو پہلے مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری اور پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان کے گاؤں پہنچے اور غزنوی خاندان کے بعض علماء نے انہیں مکذب بنانے کے لئے خطوط بھی بھیجے مگر آپ چونکہ بزرگ اور پاک باطن تھے اور خدا تعالٰی نے آپ پر صحیح کی صداقت پوری طرح منکشف کر کے آپ کا سینہ نور صداقت سے منور کر رکھا تھا اس لئے آپ نے کسی کی بھی پروا نہ کی اور ان خشک ملاؤں کو ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ وہ ساکت ہو گئے اور خدا تعالی کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا.دوسرے مصدق حضرت پیر صاحب العلم تھے حضرت پیر صاحب العلم " کی شہادت پر سندھ کے مشہور مشائخ میں س تھے اور جن پیر جو

Page 571

تاریخ احمدیت جلدا ۵۵۲ تعطیل جمعہ کی تحریک کے مرید ایک لاکھ سے بھی متجاوز تھے انہوں نے آپ کی نسبت گواہی دی کہ میں نے رسول اللہ کو عالم کشف میں دیکھا.میں نے عرض کیا.یا رسول اللہ ( ا ) یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے کیا یہ مفتری ہے یا صادق ؟ حضور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالی کی طرف سے ہے.چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں حضرت اقدس مرزا صاحب کو ان کے دعوے میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف معلوم ہوا ہے اور دوسری طرف انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں عقیدت مندانہ پیغام بھیجا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے.اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہو گا.اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے.پس اگر آپ یہ ارشاد فرما ئیں کہ امریکہ میں چلے جائیں تو ہم رہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردار پائیں گے.یہ باتیں ان کے خلفیہ عبد اللطیف صاحب اور شیخ عبداللہ صاحب عرب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود عرض کی تھیں.

Page 572

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۵۳ حواشی تعطیل جمعہ کی تحریک - Y - A ۱۲ تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحه ۱۰۰۷ اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۲ صفحه ۳۷۲-۳۷۳ تبلیغ رسالت جلد چهارم صفحه ۳۷۳۸ و جلد پنجم صفحه ۲ اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۲ صفحه ۳۷۳ تفصیل "خلافت اولی " کے واقعات میں آئے گی.مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو " الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۷ ء صفحہ ۸-۱۳ حیات احمد جلد چهارم صفحه ۵۴۲-۵۴۴ حقیقته المهدی طبع اول صفحه ۳ عاقبتہ الکذبین " جلد اول صفحہ ۷ امطبوعہ ۲۰ اکتوبر ۱۹۳۶ء (مولفه قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی مردان) علماء وقت تو ۱۸۹ء سے آپ کو مباہلہ کا چیلنج دے رہے تھے لیکن حضور کو اس میں ایک عرصے تک تامل رہا.کیونکہ حضور مباہلہ کے لئے اتمام حجت ضروری سمجھتے تھے.دوسرے جز کی اختلاف کی وجہ سے جس کی بناء اجتہاد پر ہو مباہلہ کرنا آپ کے نزدیک مرے سے جائز ہی نہیں تھا چنانچہ حضور نے نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں لکھا.کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی بھی شافعی حق پر اور کسی میں اہلحدیث.اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کے جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں.اور خدا تعالٰی اس پر جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے ہور کئے جائیں اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استعمال کرناپڑتا ہے وہ خدائے تعالی کے نزدیک جو حامی اسلام اور مسلمین ہے کیو نکر جائز ہو گا (کمکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر جهارم صفحه (1) چند مخاطب عالموں اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں.شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی عبدالحق صاحب دہلوی متولف تغییر معانی - مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی مولوی عبد الواحد صاحب غزنوی مولوی عبدالحق صاحب غزنوی مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری مولوی عبداللہ صاحب ٹو گی.حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی.غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین نیاز احمد صاحب بریلوی.خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف صادق علی شاہ صاحب رتر چهتر ( ضلع گورداسپور سید حسن شاہ صاحب مودودی دہلوی انجام آنقم طبع اول صفحه ۶۵-۲۷ انجام آنهم به طبع اول صفحه ۶۴-۶۷ انجام آتھم - صفحه ۷۲ ۱۵ ضمیمه انجام آنهم (حاشیه صفحه ۳۳-۳۵) " حقیقت الوحی طبع اول صفحه ۷ ۲۲-۳۰۰ " عاقبته المکذبین صفحه ۳۳-۱۳۴ متولقہ حضرت شاہزادہ عبد المجید صاحب لدھیانوی -۱۷ سیرت ثنائی صفحہ ۳۷۲ حاشیه و صفحه ۳۹۷ حاشیه (مولفہ جناب مولوی عبد المجید صاحب سوہدروی ۱۸ حقیقت الوحی طبع اول صفحه ۷ ۱۲۰ " اشاعۃ السنہ " جلد ۱۸ نمبر ۵ صفحه ۱۳۹۱۳۸ 19 انجام آتھم صفحہ ۶۰

Page 573

تاریخ احمدیت جلدا ۵۵۴ جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کی شاندار فتح لاہور میں "جلسه مذاهب عالم" اور اسلام کی شاندار فتح

Page 574

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۵۵ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کی شاندار فتح اور تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی" ۱۸۹۶ء کا انتقام جلسہ مذاہب عالم " ایسے عظیم الشان واقعہ سے ہو ا جس میں دنیا کے ایک مشترکہ مذہبی پلیٹ فارم پر اسلام کو اور اسلام کے کامیاب وکیل ہونے کی حیثیت سے حضرت مسیح موعود کو ایسی شاندار فتح نصیب ہوئی کہ رہتی دنیا تک یاد گار رہے گی.جلسہ کا پس منظر ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چندر نامی تھے.جنہیں بچپن سے ہی مذہب کی طرف میلان تھا.ابتدائی عمر میں کچھ عرصہ ملازمت اختیار کی مگر پھر سادھو بن گئے اور کنجاہ (گجرات) کے ایک فقیر سے ان کا تعلق ہو گیا.جس کے حکم پر وہ تین چار سال تک ہندوؤں کی کائستہ قوم کی اصلاح و خدمت کا کام کرتے رہے.آخر ۱۸۹۲ء میں دفعہ انہیں خیال آیا کہ جب تک سب لوگ اکٹھے نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں ہو گا وہ اس فکر میں رہے اور آخر یہ تجویز دل میں آئی کہ ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جائے چنانچہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ اجمیر میں ہوا.اس کے بعد وہ دوسری کا نفرنس کے لئے لاہور کی فضاء کو موزون سمجھ کر یہاں اس کی تیاری میں لگ گئے.کانفرنس کے لئے انتظامات سوامی صاحب نے اسے عملی جامہ پہنانے اور جلسہ کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ ماسٹر درگا پر شاد اور چیف سیکرٹری ہائیکورٹ لاہور کے ایک ہندو پلیڈ ر لالہ دھنیت رائے کی اے ایل ایل بی تھے.کمیٹی نے جلسہ کے لئے پانچ سوالات تجویز کئے.: اول :- انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں.دوم: انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبی.سوم:- دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے ؟ چهارم: - کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے ؟ پنجم : علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں ؟

Page 575

تاریخ احمدیت جلد ۵۵۶ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح کا نفرنس کے لئے ۲۶-۲۷-۲۸ دسمبر ۱۸۹۷ء کی تاریخیں قرار پائیں اور جلسہ گاہ کے لئے انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہائی سکول کا احاطہ ( متصل مسجد مولوی احمد علی شیرانوالہ دروازہ) حاصل کیا گیا.جلسہ کی کارروائی کے لئے مندرجہ ذیل چھ موڈریٹر صاحبان نامزد کئے گئے.(۱) رائے بہادر ہا ہو پر تول چند صاحب بج چیف کورٹ پنجاب (۲) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سال کا کورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جموں (۴) حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب طبیب شاہی (۵) رائے بوانی داس صاحب ایم.اے اکسٹرا سٹلمنٹ آغیر جہلم (۶) جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کمیٹی لاہور - 2 اشتہار واجب الاظهار سوامی شو کن چند ر صاحب نے کمیٹی کی طرف سے جلسہ کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ ان کے نامی علماء ضرور اس جلسے میں اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان فرما ئیں چنانچہ انہوں نے لکھا.”اس وقت یہ بندہ کل صاحبان مذہب کی خدمت میں جو اپنے اپنے مذہب کے اعلیٰ درجہ کے واعظ اور پنی نوع کی ہمدردی کے لئے سرگرم ہیں ادب و انکسار سے گزارش کرتا ہے کہ جو جلسہ اعظم مذاہب کا بمقام لاہور ٹاؤن ہال قرار پایا ہے.جس کی تاریخیں ۲۶-۲۷-۲۸ دسمبر ۱۸۹۷ء مقرر ہو چکی ہیں.اس جلسہ کے اغراض ہی ہیں کہ بچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع مہذبین میں ظاہر ہو کر اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جائے اور اس کے دلائل اور براہین کو لوگ بخوبی سمجھ لیں اور اس طرح پر ہر ایک مذہب کے بزرگ واعظ کو موقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائیاں دوسروں کے دلوں میں بٹھا دے اور سننے والوں کو بھی یہ مبارک موقع حاصل ہو کہ وہ ان سب بزرگوں کے مجمع میں ہر ایک تقریر کا دوسرے کی تقریر کے ساتھ موازنہ کریں اور جہاں حق کی چمک پادیں اس کو قبول کر لیں.اور پھر یہ سب تقریریں ایک مجموعہ میں چھپ کر پبلک کے فائدہ کے لئے اردو اور انگریزی میں شائع کر دی جائیں.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ آج کل مذاہب کے جھگڑوں سے دلوں میں بہت کچھ ابال اٹھا ہوا ہے اور ہر ایک طالب حق کے مذہب کی تلاش میں ہے اور ہر ایک دل اس بات کا خواہشمند ہے کہ جس مذہب میں در حقیقت سچائی ہے وہ مذہب معلوم ہو جائے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہو اس سوال کے جواب میں جہاں تک فکر کام کر سکتا ہے یہی احسن طریق معلوم ہوتا ہے کہ تمام بزرگان مذہب جو وعظ اور نصیحت اپنا شیوہ رکھتے ہیں ایک مقام میں جمع ہوں اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے بیان فرمائیں.پس اس مجمع اکا برمذہب میں جو مذہب بچے پر میشر کی طرف

Page 576

تاریخ احمدیت بلاد ۵۵۷ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح سے ہو گا ضرور وہ اپنی نمایاں چمک دکھلائے گا.اسی غرض سے اس جلسہ کی تجویز ہوئی ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو کسی مذہب کو اس پر اعتراض ہو.سراسر بے تعصب اصول پر مبنی ہے.لہذا یہ خاکسار ہر ایک بزرگ واعظ مذہب کی خدمت میں بانکسار عرض کرتا ہے کہ میرے اس ارادہ میں مجھ کو مدد دیں.اور مہربانی فرما کر اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے تاریخ مقررہ پر تشریف لاویں.میں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ خلاف تہذیب اور بر خلاف شرائط مشتہرہ کے کوئی امر ظہور میں نہیں آئے گا.اور صلح کاری اور محبت کے ساتھ یہ جلسہ ہو گا اور ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ خوب جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اس غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو خدا نے ان کو اس غرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے.جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا میرا دل اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کی دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں کہ جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو وہ ہاتھ سے دیدے اور ذرا اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیو نکر کوئی عذر قبول کروں کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسرے کو ایک مسلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعوی بھی کرتا ہے وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے جتلاتے ہیں وہ پہلو تہی کرے میرا دل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذ ہب در حقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس بچے جوش کو بیان کر سکوں.میرا قوموں کے بزرگ واعظوں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کے لئے ایک عاجزانہ التماس ہے.میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر بادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنا مذ ہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقعہ پر اپنے اس نبی کی عزت کے لئے جس کے فداشدہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں.اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نهایت ادب اور انکسار سے میری التماس ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو فی الواقعہ سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ پر ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لادیں.میں نے جیسا کہ مسلمانوں کو قسم دی ہے ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیح کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری

Page 577

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۵۸ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کی عزت کے لئے ضرور اس جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لادیں.ایسا ہی اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میٹر کی قسم دے کر جس نے وید مقدس کو اپنت کہا عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر دید مقدس کی خوبیاں بیان کرے اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبوں وغیرہ کی خدمت میں اس قسم کی التماس ہے.پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک یہ فائدہ بھی حاصل ہو گا کہ ان تمام قوموں میں کسی قوم کو در حقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کیا.تو بلا شبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار کرتا ہے.المشتهر شومن المعروف سوامی شو من چندر دھرم مهو تسو او پدیشک لاہور) اس اشتہار پر مندرجہ ذیل حضرات نے دعوت قبول کی (1) حضرت مذاہب کے نمائندے اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیه السلام (نمائندہ اسلام) (۲) مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی (نمائندہ اسلام) (۳) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری (نمائندہ اسلام) (۴) مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی (نمائندہ اسلام) (۵) مولوی ابویوسف مبارک علی صاحب ( نمائنده اسلام) (۲) ایشری پرشاد صاحب ( نمائندہ سناتن دھرم) (۷) پنڈت گوپی ناتھ صاحب سیکرٹری سناتن دھرم سبھا لا ہور (نمائندہ سناتن دھرم) (۸) پنڈت بھانورت صاحب ممتحن پنجاب یونیورسٹی (نمائندہ سناتن دھرم) (۹) رائے برودہ کنٹہ صاحب پلیڈ رو زیر ریاست فرید کوٹ (نمائندہ تھیو سافیکل سوسائٹی) (۱۰) بابو بیجا رام چٹرجی صاحب سکھر (نمائندہ آریہ سماج ) - (۱۱) ماسٹر ورگا پر شاد صاحب (نمائندہ آرید سماج) ۱۳ - پنڈت گوردھن داس صاحب (نمائندہ فری تھنکر ) (۱۳) سردار جواہر سنگھ صاحب.ایم.اے (نمائندہ سکھ مذہب) (۱۴) ماسٹر رامجید اس صاحب (نمائندہ ہارمونیکل سوسائٹی) (۱۵) لاله کانٹی رام صاحب سیکرٹری برہمو سماج لاہور (نمائندہ برہمو سماج (۱۶۰) مسٹر جے ماریسن صاحب بہادر جر نلسٹ لاہور (نمائندہ عیسائیت) ۱۷۰) مسٹر رو صاحب بہادر سابق ہیڈ ماسٹر ایچی سن ہائی سکول لاہور (نمائدہ عیسائیت) مفتی محمد عبد اللہ صاحب اور مسٹر رو صاحب عملاً شریک جلسہ نہیں ہو سکے اس لئے ان کا وقت دوسرے مقررین کو دے دیا گیا.

Page 578

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۵۹ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح حضرت مسیح موعود کی طرف سے اپنے سوامی شوگن چندر صاحب جلسہ کا اشتہار دینے پہلے قادیان بھی آئے تھے اور حضرت مضمون کے بالا ر ہنے کی قبل از وقت پیشگوئی اقدس سے عرض کیا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں سے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے.حضرت اقدس نے اپنی بیماری کے باعث عذر کیا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ضرور لکھیں چونکہ آپ یقین رکھتے تھے کہ آپ بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتے.اس لئے آپ نے جناب اٹھی میں دعا کی کہ وہ آپ کو ایسے مضمون کا القاء کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے آپ نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت آپ کے اندر پھونک دی گئی اور آپ نے آسمانی قوت کی ایک زبر دست جنبش اپنے اندر محسوس کی.آپ کو ان دنوں اسمال کا عارضہ تھا آپ نے ناسازی طبع کے باعث لیے لیٹے ہی قلم برداشتہ مضمون لکھنا شروع کیا.آپ ایسی تیزی اور جلدی سے لکھتے تھے کہ نقل کرنے والوں کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی سے اس کی نقل کر سکیں.جب حضور مضمون لکھ چکے تو خدا تعالی کی طرف سے الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا.یہ الٹی خوشخبری پاتے ہی آپ نے ۲۱- دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار لکھا جس کا عنوان تھا.سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری".اس اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا.جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں ۲۶ - ۲۷- ۲۸- دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے.جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے.اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا.میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا.اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ مادہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کسی قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت کرتے ہیں.مجھے

Page 579

تاریخ احمدیت جلدا ۵۶۰ جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کی شاندار فتح خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.اور ہر گز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں.خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا.اور اس کے چھونے سے...اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا.اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا - الله اکبر خربت خیبر - اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں.جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا گیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا ان الله معک ان الله يقوم اینما قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے.جہاں تو کھڑا ہوتا ہے.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا ہرج بھی کرکے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے.والسلام علی من اتبع الهدی خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱- دسمبر ۶۱۸۹۶ B حضرت اقدس کا یہ اشتہار بڑی کثرت سے شائع ہوا.اور ہندوستان کے دور دراز مقامات تک پھیلا دیا گیا.جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا تاثر جناب خواجہ کمال الدین صاحب جلسے کے انتظامات میں گہری دلچسپی لے رہے تھے.آپ انہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اقدس نے اپنا مضمون

Page 580

تاریخ احمدیت.جلدا 041 جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح خواجہ صاحب کی خواہش پر ان کو پڑھنے کے لئے دیا تو انہوں نے اس پر کچھ نا امیدی کا اظہار کر کے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے گا.اور خواہ مخواہ نہس کا موجب ہو گا.چنانچہ خود حضرت اقدس مسیح موعود نے ایک دفعہ فرمایا." مہوتسو کے جلسہ اعظم مذاہب کے واسطے جب ہم نے مضمون لکھا تو طبعیت بہت علیل تھی اور وقت نہایت تنگ تھا.اور ہم نے مضمون جلدی کے ساتھ اس تکلیف کی حالت میں لیٹے ہوئے لکھا.اس کو سنکر احباب میں سے ایک نے کچھ نا پسندیدگی کا منہ بنایا.اور پسند نہ کیا کہ مذاہب کے اتنے بڑے عظیم الشان جلسہ میں وہ مضمون پڑھا جائے.جلسے کی کارروائی کا آغاز بهر حال ۲۶ - دسمبر ۱۸۹۶ء ٹھیک دس بجے انجمن حمایت اسلام کے ہائی سکول واقع شیر انوالہ کے وسیع احاطہ میں جلسہ شروع ہوا حضرت اقدس کا مضمون دوسرے دن ڈیڑھ بجے کی دوسری نشست میں پڑھا جانا تھا.اس لئے اس سے قبل ایشری پر شار صاحب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی اور برد دا کنٹہ صاحب، مولوی شاء اللہ صاحب امرت سری ، بابو بیجارام صاحب اور پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریریں ہو ئیں.اس زمانے میں ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا طوطی بول رہا تھا اور ہر طرف ان کی بڑی شہرت تھی.اور مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب ابھی نوجوان تھے اور نئے نئے منظر عام پر آئے تھے لیکن مولوی ابو سعید صاحب کی تقریر مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی.حضرت اقدس کا مضمون اور سامعین کا ذوق و شوق جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے حضرت اقدس کے مضمون کے لئے دوسرے دن کی دوسری نشست مقرر تھی.جس کا وقت اگر چہ ڈیڑھ بجے شروع ہو نا تھا مگر مخالفت کے باوجو د دلوں میں ایسی تحریک پیدا ہو گئی کہ پہلی نشست میں بیٹھنے والے بھی اپنی اپنی جگہ پر جسے رہے اور ہزاروں سامعین چاروں طرف سے امڈ پڑے.نتیجہ یہ ہوا.کہ کار روائی سے قبل ہی جلسہ کا پنڈال کھچا کھچ بھر گیا اور سینکڑوں اشخاص جن میں ملک کے بڑے بڑے سر بر آوردہ افراد رؤسا معہ ڈاکٹر اور وکلاء شامل تھے کھڑے ہونے پر مجبور ہو گئے آخر حضرت مولانا عبد الکریم صاحب جیسے فصیح البیان نے اپنی دلکش و دل نشین آواز سے حضرت اقدس کا مضمون پڑھنا شروع کیا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا تائید روح القدس سے لکھا ہوا مضمون اور مولانا عبد الکریم صاحب کی شیریں زبان نے ہزاروں کے اس تاریخی اجتماع پر کیف و سرور کاوہ عالم طاری کر دیا کہ فلک نے آج تک سرزمین ہند میں کبھی نہ دیکھا ہو گا.ایسا نظر آتا تھا کہ گویا ملا ئک آسمان سے نور کے طبق لے کے حاضر ہو گئے ہیں اور ایک دست غیب اپنی مقناطیسی جذب و کشش سے ہر دل کو کشاں کشاں عالم وجد کی

Page 581

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۶۲ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح طرف لے جا رہا ہے.دل و دماغ اس آسمانی مائدہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یکا یک مضمون کا مقررہ وقت ختم ہو گیا.یہ دیکھ کر مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے اعلان کیا کہ میں اپنا وقت بھی حضرت اقدس کے مضمون کے لئے دیتا ہوں.اس اعلان نے مجمع میں خوشی اور مسرت کی برقی لہردو ژادی اور پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اور پھر علم و حکمت کے موتی لٹنے لگے.مضمون ابھی باقی تھا کہ وقت پھر ختم ہو گیا اب کی دفعہ چاروں طرف سے شور برپا ہوا کہ جلسہ کی کارروائی اس وقت تک ختم نہ کی جائے جب تک یہ مضمون ختم نہ ہوئے اور جلسہ کے منتظمین کو یہی کرنا پڑا.سامعین نے یہ سن کر پھر تالیوں کے ذریعہ سے اپنی مسرت ظاہر کی اور مضمون نہایت ذوق و شوق اور یکساں دلچسپی سے شام کے ساڑھے پانچ بجے تک مسلسل چار گھنٹہ تک جاری رہا.سامعین کی بے خودی اور محویت یہاں تک بڑھی کہ انہوں نے یہی سمجھ لیا کہ پانچوں سوالات کے جوابات پڑھ دیئے گئے ہیں لیکن حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے بلند آواز سے فرمایا کہ حضرات جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ صرف پہلے سوال کا جواب ہے چار سوالوں کے جوابات ابھی باقی ہیں.مولانا کا یہ کہنا تھا کہ سامعین نے یک زبان ہو کر بڑے زور شور سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب چار سوالوں کے جواب ابھی باقی ہیں تو جلسہ کے لئے ایک اور دن کیوں نہ بڑھا دیا جائے یہ زبردست مطالبہ چاروں طرف سے اتنی شدت سے بلند ہوا کہ منتظمین جلسہ کو اعلان کرنا پڑا کہ سامعین کی خاطر جلسہ کے لئے ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے.اس اعلان پر پبلک نے جس جوش و خروش سے اظہار شادمانی کیا وہ دیکھنے کی چیز تھی الفاظ اس کا نقشہ پیش کرنے سے قاصر ہیں.حلے کے منتظمین کا بیان ۲۷- دسمبر کے دن کی اس کارروائی سے متعلق منتظمین جلسہ کے بیانات درج ذیل ہیں.پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شا ئقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا.ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع میدان جلد جلد بھرنے لگا.اور چند ہی منٹوں میں تمام میدان پر ہو گیا اس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا.مختلف مذاہب و ملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتد بہ اور ذی علم آدمی موجود تھے.اگر چہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صدہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا.اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء عمامہ پنجاب - علماء فضلاء- بیرسٹر- وکیل - پروفیسر اکسٹرا اسٹنٹ.ڈاکٹر غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.ان لوگوں

Page 582

تاریخ احمدیت جلدا ۵۶۳ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی.مصنف تقریر اصالتا تو شریک جلسہ نہ تھے.لیکن خود انہوں نے اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو مضمون کے پڑھنے کے لئے بھیجا ہوا تھا.اس مضمون کے لئے اگرچہ اس کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون نہ ختم ہو تب تک کار روائی جلسہ کو ختم نہ کیا جائے.ان کا ایسا فرمانا عین اہل جلسہ اور حاضرین جلسہ کے منشاء کے مطابق تھا.کیونکہ جب وقت مقررہ کے گزرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دیدیا.تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا.جلسہ کی کارروائی ساڑھے چار بجے ختم ہو جانی تھی لیکن عام خواہش کو دیکھ کر کار روائی جلسہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی کیونکہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوا اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا".د اگر چہ اس مضمون کے ختم ہوتے ہوتے شام کا وقت قریب آگیا لیکن یہ ابھی پہلے سوال کا جواب تھا اس مضمون سے حاضرین جلسہ کو بلا استثناء احدے ایسی دلچسپی ہو گئی کہ عام طور سے ایگزیکٹو کمیٹی سے استدعا کی گئی کہ کمیٹی اس جلسہ کے چوتھے اجلاس کے لئے انتظام کرے جس میں باقی سوالات کا جواب سنایا جاوے کیونکہ حسب اعلان ایگزیکٹو کمیٹی جلسہ کے تین ہی اجلاس ہونے تھے.اور تیسرے اجلاس کے سپیکر پہلے ہی سے مقرر ہو چکے تھے جلسہ کا دن بڑھانے کے لئے موڈریٹر صاحبان کی خاص رضامندی تھی.علاوہ ازیں سناتن دھرم کی طرف سے اور آریہ سماج کی طرف سے بھی استدعا تھی کہ ان کی طرف سے اور زیادہ ریپریز لٹیشن ہو اس لئے ایگزیکٹو کمیٹی نے انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ صاحب سے جو وہاں موجود تھے چوتھے دن کے لئے استعمال مکان کی اجازت لے کر میر مجلس کو اطلاع دی کہ وہ چوتھے دن کا اعلان کر دیں.مضمون ساڑھے پانچ بجے ختم ہوا.جس پر ذیل کے الفاظ میں میر مجلس نے آج کے اجلاس کی کارروائی کو ختم کیا.میرے دوستو! آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب مرزا صاحب کی طرف سے سنا.ہمیں خاص کر جناب مولوی عبد الکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہیے.جنہوں نے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا.میں آپ کو مردہ دیتا ہوں کہ آپ کے اس فرط شوق اور دلچپسی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے

Page 583

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۶۴ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صاحبان اور دیگر علما کد و روساء کی خاص فرمائش سے ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کر لیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے.اب نماز مغرب کا وقت قریب آگیا ہے.اور میں زیادہ وقت آپ کا لینا نہیں چاہتا.1• مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی استدعا دوسری طرف مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کی مئے.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاه جهانپوری کا بیان ہے کہ ۲۷- دسمبر کی کارروائی کے خاتمے پر میں اپنے بزرگوں کے ساتھ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے در دولت پر جہاں میرا قیام تھا واپس آگیا اس رات حضرت خلیفہ صاحب موصوف کے بڑے بھائی کی طرف سے جن کا نام خلیفہ عماد الدین صاحب تھا چند معززین کی دعوت تھی.ان میں جناب خان بہادر خدا بخش صاحب حج بھی شامل تھے جنہوں نے ایک وقت جلسہ کی صدارت بھی فرمائی تھی اور جو جلسہ کے ماڈریٹروں میں سے تھے.موجود الوقت حضرات میں اس وقت عام طور پر جلسے کی تقریریں ہی زیر بحث تھیں.تعریف سب کی زبان پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے مضمون کی تھی.اسی اثناء میں ایک شخص نے آکر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ تحریری پیغام جناب حج صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کیا کہ جلسے کا ایک دن بڑھا دیا گیا ہے.اگر جناب میری تقریر کے لئے بھی وقت دیئے جانے کی طرف توجہ فرما ئیں گے تو بڑی مہربانی ہوگی.جناب حج صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ ”مولوی ابو سعید صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں کونسا تیر مارا تھا جو ان کی دوسری تقریر کے لئے وقت رکھا جائے".مولوی محمد حسین صاحب نے یہ صورت دیکھی تو انہوں نے مضمون پڑھنے کے لئے ایک اور طریق نکالا - ۲۸- دسمبر کے پروگرام میں پہلی تقریر مولوی مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور کی تھی.اور اس کے بعد پورا وقت غیر مسلم نمائندوں کے لئے مخصوص تھا.اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مفتی صاحب موصوف سے درخواست کی کہ وہ اپنا وقت انہیں دے دیں جسے انہوں نے منظور کر لیا.اس پر مولوی صاحب شیخ خدا بخش صاحب حج کے پاس آئے اور ان کو بھی مفتی صاحب کا پیغام دے کر رضامند کر لیا.چنانچہ وہ ان کو ہمراہ لے کر قریباً ساڑھے آٹھ بجے صبح پنڈال میں پہنچ گئے.جلسے کی کارروائی کو دس بجے شروع ہو نا تھا.ساڑھے دس بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے کہ خان بہادر صاحب موصوف نے انتظامیہ کمیٹی کے چند ممبروں سے بیان کیا کہ جناب مفتی صاحب چند اتفاقات کے باعث آج نہیں آسکیں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وقت مولوی محمد حسین صاحب کو

Page 584

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۶۵ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح دے دیا جائے.لہذا اب کمیٹی میں یہ تبدیلی منظور کرائیں.چنانچہ کمیٹی کے اجلاس میں جب یہ معاملہ پیش ہوا تو مفتی صاحب کے پیغام سے ایک قسم کی مایوسی ہوئی کیونکہ یہ کمیٹی کا فرض تھا کہ ہر مذ ہب کی طرف سے مختلف وکیل جلسے میں پیش کرے.سیکرٹری صاحب اس تبدیلی کے مخالف تھے لیکن جب مسلمان ممبروں نے اس بات پر زور دیا تو بہت بحث کے بعد یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مفتی صاحب کا وقت دیا جاوے - ۲۸ - دسمبر کی کارروائی اور مولوی محمد ۲۸- دسمبر ۱۸۹۷ء کو جلسہ دس بجے شروع ہو نا تھا لیکن جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے لوگ وقت حسین صاحب بٹالوی کی دوسری تقریر مقررہ پر بہت ہی کم آئے.اس لئے قریباً ساڑھے دس بجے کارروائی کا آغاز ہوا پہلی تقریر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی.جس میں گزشتہ تقریر کے الجھاؤ کا رنگ اور زیادہ نمایاں ہو گیا اور ان کی زبان سے یہ سن کر تو مسلمانوں کی گرد مین مارے شرم کے جھک گئیں کہ انبیاء فوت ہو چکے.امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے بے شک وارث انبیاء ولی تھے وہ کرامت رکھتے اور برکات رکھتے تھے وہ نظر نہیں آتے زیر زمین ہو گئے آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے اور ہم کو گزشتہ اخبار کی طرف حوالہ کرنا پڑتا ہے ہم نہیں دکھا سکتے".- دسمبر کو حضرت اقدس کے بقیہ مضمون کی گونج ۲۹ - دسمبر ۱۸۹۶ء کو جلسے کا آخری اجلاس منعقد ہوا.اس دن اگر چہ جلسہ کی کارروائی دستور سابق کے خلاف نو بجے صبح رکھی گئی تھی لیکن ابھی تو بھی نہ بجنے پائے تھے کہ سامعین کا ہجوم شروع ہو گیا.ٹھیک مقررہ وقت پر مولانا عبد الکریم صاحب نے حضرت اقدس کے پر معارف مضمون کا بقیہ حصہ اپنی گذشتہ شان کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اور پھر ۲۷- دسمبر کا سماں بندھ گیا.ہر شخص ہمہ تن گوش بنا سن رہا تھا.اس بقیہ مضمون کی ایک اعجازی خصوصیت یہ تھی کہ جلسہ میں غیر مسلم مقررین کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی صداقتوں پر جو اہم اعتراضات دارد کئے گئے تھے ان کا شافی جواب اس مضمون کے اندر موجود تھا.بلکہ مسلمانوں کے بعض دوسرے نمائندوں نے اسلام کے مقدس چہرے پر جو گردو غبار ڈالنے کی کوشش کی تھی اس کی صفائی بھی اس حصہ سے ہو گئی.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک دن قبل اپنی تقریر میں اسلام جیسے زندہ مذہب کی طرف جو معجزات سے خالی ہونے کا اتمام لگایا تھا اس کا رد بھی اس حصہ میں آگیا جس نے مجمع کو بے خود کر دیا.اکثر لوگ زار زار روتے تھے اور لذت سے دل وجد کر رہے تھے.حضرت

Page 585

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۶۶ جلسه مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح اقدس نے تحریر فرمایا تھا.کہ ”میں بنی نوع انسان پر ظلم کروں گا اگر میں اس وقت ظاہر نہ کروں کہ وہ مقام جس کی میں نے یہ تعریفیں کی ہیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی میں نے اس وقت تفصیل بیان کی وہ خدا کی عنایت نے مجھے عنایت فرمایا ہے تا میں اندھوں کو بینائی بخشوں اور ڈھونڈنے والوں کو اس گم گشتہ کا پتہ دوں.اور سچائی قبول کرنے والوں کو اس پاک چشمہ کی خوشخبری سناؤں.جس کا تذکرہ بہتوں میں ہے اور پانے والے تھوڑے ہیں.میں سامعین کو یقین دلاتا ہوں کہ جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی اپیروی کے ہر گز نہیں مل سکتا.کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑیں.اور حقیقت کی طرف دوڑیں".میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں.سو یقینا سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتا ہے اور یقیناً سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں.اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.|| میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو".اب کی دفعہ پھر تقریر کے دوران میں ہی وقت مقررہ ختم ہو گیا اور پبلک اور صدر صاحبان دونوں نے اصرار کے ساتھ وقت کے اضافہ کا مطالبہ کیا.جلسہ کی مجلس عاملہ نے اس مطالبہ کو بخوشی پورا کر کے ہزاروں دلوں کو خوشی اور شادمانی سے بھر دیا - D غرضکہ یہ مضمون پوری شان و شوکت سے ختم ہوا.سب لوگوں نے مسلمانوں مضمون بالا رہا کو مبارک باددی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی طوعاد کرنا قائل ہو گئے کہ یہ تمام تاثیر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.اور یہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا.ملک بھر میں اس مضمون کی دھوم مچ گئی اور ہر طرف اس کے چرچے ہوئے.اور مسلمان بے اختیار بول اٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہو تا تو آج اسلام کو سیکی اٹھانی پڑتی.اور ہر ایک کہتا تھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی اور حضور کا مضمون ہی بالا رہا.اس شاندار فتح کا اعتراف ملک کے بیس کے قریب اخبارات مثلا سول اینڈ ملٹری گزٹ " پیسہ اخبار "چودھویں صدی " (راولپنڈی " سراج الاخبار مشیر ہند " لاہور." صادق الاخبار " (بہاولپور) " مخجرد کن پنجاب آبزرور " " وزیر ہند" (سیالکوٹ) اور "جنرل و گوہر آصفی "

Page 586

تاریخ احمدیت جلدا ۵۶۷ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح (کلکتہ) نے کیا.اور بڑے نمایاں انداز میں اس کی خبر شائع کر کے آپ کو خراج تحسین ادا کیا.اور اس مضمون کی تعریف میں کالموں کے کالم بھر دیے.وو اخبار سول اینڈ ملٹری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ" اور "آبزرور " کار یویو مزے" (لاہور) نے لکھا: اس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں.اس لیکچر کے سننے کے لئے دور نزدیک سے مختلف فرقوں کا ایک جم غفیر امڈ آیا تھا.اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچران کے ایک لائق شاگرد منشی عبد الکریم صاحب فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا - ۲۷- تاریخ کو یہ لیکچر تین گھنٹہ تک ہو تا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجہ سے اس کو سنا.لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی حصہ بھی سنادوں گا.اس لئے مجلس انتظامیہ اور صدر نے یہ تجویز منظور کرلی ہے کہ ۲۹- دسمبر کا دن بڑھا دیا جائے“.(ترجمہ) اخبار " پنجاب آبزرور " نے بھی انہیں الفاظ میں حضرت اقدس کے مضمون کی رپورٹ شائع کی 14 اخبار ”چودھویں صدی " روالپنڈی نے لکھا ”ان اخبار "چودھویں صدی " کاریویو لیکچروں میں سب سے عمدہ اور بہترین لیکچر جو جلسہ کی روح رواں تھا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے پڑھا.یہ لیکچر دو دن میں تمام ہو اے ۲.دسمبر کو قریباً چار گھنٹے اور ۲۹ کو ۲ گھنٹہ تک ہو تا رہا.کل چھ گھنٹہ میں یہ لیکچر تمام ہو ا جو حجم میں سو صفحہ کلاں تک ہو گا.غرضکہ مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے.فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین سے فرمائش کی جاتی تھی.عمر بھر کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سنا.دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے.سچ تو یہ ہے کہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے.عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم مس کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اس میں جاندار بات ایک آدھ ہی ہوتی.تقریریں عموماً کمزور سطحی خیالات کی تھیں.بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو ان سوالات کا علیحدہ علیحدہ مفصل اور مکمل جواب تھا

Page 587

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۶۸ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں نہ ان سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح کا شنس اس کو روا رکھ سکتا ہے مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول و فروع اسلام کو دلائل عقلیہ اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا.پہلے عقلی دلائل سے الہیات کے ایک مسئلہ کو ثابت کرنا.اور اس کے بعد کلام الہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجب شان دکھاتا تھا.مرزا صاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآنی کی فلالوجی اور فلاسوفی بھی ساتھ ساتھ بیان کردی غرضکہ مرزا صاحب کا لیکچر بہ بیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بیشمار معارف و حقائق و حکم واسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر رہ گئے.کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت - تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا.اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے.مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آگری جیسے شہد پر لکھیاں.مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹے بیٹھے اٹھ جاتے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا.وہی ملانی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سنتے ہیں اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے حصہ لیکچر کے وقت پر کئی لوگ اٹھ کر چلے گئے تھے.مولوی مدروح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی لیکن مرزا صاحب کے لیکچر پورا کرنے کے لئے لالہ درگا پر شاد صاحب نے آپ سے آپ دس پندرہ منٹ کی اجازت دے دی.غرضکہ وہ لیکچر ایسا پر لطف اور ایسا عظیم الشان تھا کہ بجز سننے کے اس کا لطف بیان میں نہیں آسکتا.مرزا صاحب نے انسان کی پیدائش سے لے کر معاد تک ایسا مسلسل بیان فرمایا اور عالم برزخ اور قیامت کا حال ایسا عیاں فرمایا کہ بہشت و دوزخ سامنے دکھا دیا.اسلام کے بڑے سے بڑے مخالف اس روز اس لیکچر کی تعریف میں رطب اللسان تھے چونکہ وہ لیکچر عنقریب رپورٹ میں شائع ہونے والا ہے اس لئے ہم ناظرین کو شوق دلاتے ہیں کہ اس کے منتظر رہیں.مسلمانوں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کا طرز بیان بھی کسی قدر اچھا تھا.لیکن لیکچر عموماً وعظ کی قسم کا تھا.فلسفیانہ ڈھنگ کا نہیں تھا جس کی جلسہ کو ضرورت تھی.....بہر حال اس کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا رہا.

Page 588

$ تاریخ احمدیت جلدا " ۵۶۹ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح اور تمام غیر مذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا.گو زبان سے وہ اقرار کریں یا نہ کریں".الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہوئی اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا.یہ مقابلہ اس مقابلے کی مانند تھا جو حضرت موسیٰ کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا.سب مذاہب والوں نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جب خدا نے مسیح موعود کے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پر معارف تقریر کے پیرائے میں ان کے مقابل چھوڑا تو وہ اژدھا بن کر سب کو نگل گیا جلسہ اعظم مذاہب میں اسلام کی اخبار "جنزل و گو ہر آصفی" (کلکتہ) نے ۲۴.شاندار فتح سے متعلق کلکتہ کے جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں صفحہ ۲ پر " جلسہ اعظم مذاہب" منعقدہ لاہور اور "فتح اسلام" اخبار جنرل و گوہر آصفی کا تبصرہ کے در ہرے عنوان سے لکھا."چونکہ ہمارے اخبار کے کالم اس جلسہ کے متعلق ایک خاص دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں لہذا ہم اپنے شائق ناظرین کو اس کے درجہ آخر مختصر حالات سے اطلاع دینی ضروری سمجھتے ہیں.جہاں تک ہم نے دریافت کیا ہے ہر ایک طالب حق کو اس جلسہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے بڑا ہی شائق پایا ہے کون دل ہو گا جو حق کا متلاشی نہ ہو گا.کون آنکھ ہو گی جو حق کی چمک دیکھنے کے لئے تڑپتی نہ ہو گی ؟ کون دماغ ہو گا جو حق کی جانچ پڑتال کی طرف مائل نہ ہو گا.پھر ہم یہ کیونکر امید نہیں کر سکتے ، اپنے ناظرین کی روحیں اس جلسہ کی کارروائی کی دریافت کے لئے مضطرنہ ہونگی.کیا اس ا نظرار کو دفع کرنا ہمارا فریضہ نہیں.بیشک ہے اور ضرور ہے اور اسی لئے ہے جو ہم نے خاص انتظام کر کے اس جلسہ کے حالات کو دریافت کیا ہے جنہیں ہم اب ہدیہ ناظرین کیا چاہتے ہیں پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیسا کہ اس کے ناظرین پر واضح ہو گا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں اسلامی وکالت کے لئے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا.ہمارے ایک معزز لائق نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہو کر اور حق کو مد نظر رکھ کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا.جس کے ساتھ ہمارے اور ایک مکرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں تو اردا اتفاق ظاہر کیا تھا.جناب مولوی سید محمد فخر الدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت جو اپنی آزاد مدلل اور بیش قیمت رائے پلک کے پیش فرمائی تھی اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان- جناب سرسید احمد صاحب آف علی گڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا

Page 589

تاریخ احمدیت جلدا ۵۷۰ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالا تھا.جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی - جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحب کانپوری اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی.یہاں یہ ذکر کر دینا بھی نا مناسب نہ ہو گا.کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنف تغییر حقانی کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا تھا ہم اپنے ناظرین کو یہ بھی معلوم کرانا چاہتے ہیں کہ سوامی شو کن چندر نے انعقاد جلسہ سے پہلے اپنے اشتہار واجب اظہار کے ذریعے علمائے مذاہب مختلف ہند کو بہت عار دلا دلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے طلب کیا تھا اور جس جوش سے اور عار دلانے والے طریق سے انہوں نے طلب کیا تھا اس کا ٹھیک اندازہ انہیں کی عبارت سے کیا جا سکتا ہے.وہ فرماتے ہیں.ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی کو ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اسی غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں.تو خدا نے ان کو اس فرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہو تا.میرا دل اس بات کو قبول کر نہیں سکتا.کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کی دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو ہاتھ سے دیدے اور ذرہ اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیوں کر کوئی عذر قبول کروں.کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مملک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دو میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے.وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بلاتے ہیں وہ دانستہ پہلو تہی کرے.میرا دل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذ ہب در حقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس بچے جوش کو بیان کرسکوں.میرا قوموں کے بزرگ واعظوں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں.صرف ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کے لئے ایک عاجزانہ التماس ہے.میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر با ادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنا مذ ہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقع پر اپنے اسی نبی کی عزت کے لئے جس کے فدا شدہ وہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں.اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نهایت ادب اور انکساری سے میری التماس ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو فی الواقع سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس

Page 590

تاریخ احمدیت جلدا جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح موقعہ پر ایک اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لا دیں.میں نے جیسا کہ مسلمانوں کو قسم دی ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیح کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری کے ساتھ عرض پرواز ہوں.کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کی عزت کے لئے ضرور اس جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے تشریف لادیں.ایسا ہی میں اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میشر کی قسم دے کر جس نے دید مقدس کو ا پنت کیا عاجزانہ عرض کرتا ہوں.کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر دید مقدس کی خوبیاں بیان کرے.اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبان وغیرہ کی خدمت میں اسی قسم کے ساتھ التماس ہے پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک فائدہ بھی حاصل ہو گا کہ ان تمام قوموں میں سے کس قوم کو در حقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کی تو بلا شبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار ہے ".انھی.اب ہمارے ناظرین کو غور کرنا چاہیے کہ اس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کن کن علمائے ہند کی رگ حمیت نے مقدس دین اسلام کی وکالت کے لئے جوش کھایا.اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑا اٹھا کر مجھ و براہین کے ذریعے فرقانی ہیبت کا سکہ غیر مذاہب کے دل پر بٹھانے کے لئے کوشش کی ہے.ہمیں معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنان جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کے لئے خط لکھا تھا تو حضرت مرزا صاحب نے گو علالت طبع کی وجہ سے بنفس نفیس شریک جلسہ نہ ہو سکے مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قرات کے لئے مقرر فرمایا.لیکن جناب سرسید نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی یہ اس بنا پر نہ تھا کہ وہ معمر ہو چکے اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں اور نہ اس بناء پر تھا کہ انہیں ایام میں ایجو کیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہو چکا تھا بلکہ یہ اس بناء پر تھا کہ مذہبی جلسے ان کی توجہ کے قابل نہیں.کیونکہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں.یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری - جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے

Page 591

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۷۲ جلسه مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح اس جلسہ کی طرف کوئی جو شیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرہ علماء سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا.ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کر کے ما نحن فيها میں قدم رکھا.مگر الٹا.اس لئے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی.یا بے سروپا کچھ ہانک دیا.جیسا کہ ہماری آئندہ کی رپورٹ سے واضح ہو گا.غرض جلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے.اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقرر کرنے میں پشاور - روالپنڈی جہلم - شاہ پور بھیرہ - خوشاب - سیالکوٹ - جموں وزیر آباد - لاہور - امرت سر گورداسپور- لودھیانہ شملہ - دہلی- انبالہ - ریاست پٹیالہ - کپور تھلہ - ڈیرہ دون- الہ آباد - مدراس ہیتی - حیدر آباد دکن.بنگلور وغیرہ بلاد ہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزین بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا.حق تو یہ ثابت ہوتا ہے.کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہو تا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے رو برو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا.مگر خدا کے زبر دست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا.بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی کچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے.بالا ہے.صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الا مر معاندین کی زبان پریوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی.جو انتخاب تیر بہدف کی طرح روز روشن میں ٹھیک نکلا.اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں.بلکہ وہ ہمارے فخرو ناز کا موجب ہے اس لئے اس میں اسلامی شوکت ہے اور اسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے.اگر چه جلسه اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اس نے اپنی شان و شوکت اور جاہ و عظمت کی رو سے سارے ہندستانی کانگرسوں اور کانفرنسوں کو مات کر دیا ہے ہندوستان کے مختلف بلاد کے رؤسا اس میں شریک ہوئے.اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں.کہ ہمارے مدراس نے بھی اس میں حصہ لیا ہے جلسہ کی دلچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا.انعقاد جلسہ کے لئے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامیہ کالج تجویز کیا لیکن خلق خدا کا ازدحام اس قدر تھا کہ مکان کی (وسعت) غیر متفی ثابت ہوئی.جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ اور ہائیکورٹ آلہ آباد کے آنریبل مجز

Page 592

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۷۳ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح بابو پر تول چند ر صاحب اور مسٹر بینر جی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے.اس جلسے کے لئے سابق چھ پریذیڈنٹ مقرر ہو چکے تھے جن کے نام نامی یہ ہیں (۱) رائے بہادر بابو پر تول چندر چٹرجی چیغکورٹ پنجاب (۲) خان بهادر شیخ خدابخش صاحب حج اسمال کا زکورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈ ر چیف کورٹ و سابق گورنرجموں (۴) سردار دیال سنگھ صاحب رئیس اعظم مجیٹھ (۵) رائے بہادر بھوانید اس صاحب افسر بند و بست ضلع جہلم - (۶) مولوی حکیم نور الدین صاحب سابق طبیب شاہی مہاراجہ صاحب بہادر والی کشمیر اور یہی مولوی صاحب تھے جو اختتام جلسہ پر خاتمہ کی تقریر کرنے کے لئے مقرر کئے گئے تھے ".لیکچر کا غیر زبانوں میں ترجمہ اور عالمگیر مقبولیت ۱۸۹۷ء میں پہلی دفعہ یہ شہرہ آفاق رکتابی شکل میں بزبان اردو شائع ہوا.لیکن جلد ہی اسے مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کی ضروررت محسوس ہوئی.چنانچہ اب دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں مثلاً عربی - فارسی، انگریزی ، جرمنی ، انڈو نیشی ، ہسپانوی، برمی ، چینی اور سہیلی کے علاوہ کنیاری ، ہندی اور گور لکھی میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں اور جیسا کہ حضرت اقدس کو کشف میں بتایا گیا تھا.دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا موثر ترین ذریعہ بن رہے ہیں.اور بالخصوص مغربی ممالک میں اسلامی تعلیمات کے وسیع اور مقبول ہونے میں تو اس لیکچر کو بڑا بھاری دخل ہے سینکڑوں غیر مسلم اس کا مطالعہ کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اور ایک عالم اس کے پاک انوار سے حق و صداقت کی روشنی کی طرف کھچا آرہا ہے اسلامی اصول کی فلاسفی " کا انگریزی ترجمہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے کیا تھا.اور اس پر نظر ثانی مسٹر محمد الیگزنڈر رسل ویب (امریکہ) حضرت مولوی شیر علی صاحب بی اے اور چودھری غلام محمد صاحب سیالکوٹی نے کی تھی.یہ ترجمہ ۱۹۱۰ء کے وسط میں لنڈن میں چھپا تھا.اسلامی اصول کی فلاسفی مغربی مفکرین کی نظر میں امریکہ و یورپ میں جب " اسلامی اصول کی فلاسفی" کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی تو اسے زبر دست مقبولیت نصیب ہوئی.اور مغربی مفکرین نے اس لیکچر کو بے حد سراہا.چند آراء بطور مثال درج ذیل ہیں.نامور روسی مفکر اکاؤنٹ ٹالسٹائی نے کہا.: "The ideas are very profound and very true“.یہ خیالات نہایت گہرے اور نیچے ہیں.

Page 593

تاریخ احمدیت.جلدا - "تھیو سافیکل بک نوٹس" نے لکھا.: ۵۷۴ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح *Admirably calculated to appeal to the student of comparative religion, who will find exactly what he wants to know as Mohammedan doctrines on souls and bodies, divine existence, moral law and much else".مارچ ۱۹۱۲ء) :Theosophical Book Notes قابل تعریف جچا تلا انداز جو مقابلہ مذاہب کے ایسے طالب علم کو بہت متاثر کرتا ہے جسے اس میں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو وہ محمدی قوانین کی روشنی میں روح جسم، روحانی زندگی اخلاقی قوانین اور دیگر بہت سے متعلقہ امور کے بارے میں جاننا چاہتا ہے.(مارچ ۱۹۱۲ء) دی انگلش میل" نے یہ رائے دی کہ : "A summary of really Islamic Ideas".(۲۷- اکتوبر ۱۹۱۱ء):The English Mail " حقیقی اسلامی خیالات کا خلاصہ " (۲۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء) دی برسٹل ٹائمز اینڈ مرر " نے تبصرہ کیا کہ : "Clearly it is no ordinary person who thus addresses himself to the West".The Bristol Times and Mirror: یقیناوہ شخص جو اس رنگ میں مغرب کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں.۵- دی ڈیلی نیوز (شکا گو) نے لکھا.character of the author is apparent".The devout and earnest ( ١ مارچ ۱۹۱۲ء) -: Chicago The Daily News, - اس مصنف کا نہایت پر خلوص اور حقیقت پر مبنی کردار بالکل عیاں ہے.-۶- دی اینگلو میلمین ٹائمز( برسلز) نے کتاب پر درج ذیل خیالات کا اظہار کیا.: The Teaching of Islam turns out a wonderful commentary on the Quran (the Muslim Scripture) itself.The author,s method has a further moral, and this is one which, to our mind, all writers on religion will do well to consider.It is that a religious treatise should be affirmative rather than negative in character.It should insist on the beauties of the one system rather than on the defects of another.The Teaching of Islam demonstrates the principle in a pre- eminent degree, and the.

Page 594

تاریخ احمدیت جلدا ۵۷۵ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح result is that the author has been able, without being in the least bitter towards any non.Muslim system, to guide the reader to an appreciation of Muslim fundamentals such as would have been impossible otherwise.The book rings with sincerity and conviction ".The Anglo.Belgian Times, Brussels: ٹیچنگ آف اسلام" مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن کریم کی ایک نہایت عمدہ تفسیر ہے.مصنف کا اسلوب بیان ایک مزید اخلاقی معیار قائم کرتا ہے.جسے ہمارے نزدیک مذہب پر لکھنے والے تمام مصنفین کو مد نظر رکھنا چاہئے.اور وہ یہ ہے کہ ایک مذہبی تصنیف کا انداز منفی نہیں بلکہ مثبت ہوتا چاہئے.اسے کسی بھی سسٹم کی خوبیاں واضح کرنی چاہئیں نہ کہ محض دو سرے کی خامیاں - کتاب " ٹیچنگ آف اسلام " یہ اصول نہایت واضح طور پر قائم کرتی ہے جس کی بنا پر اس کا مصنف قاری کو اسلام کے بنیادی اصولوں کی ستائش کی ترغیب کی خاطر کسی اور غیر مسلم سٹم کے خلاف تلخ رویہ اختیار نہیں کرتا.اور یہ بات کوئی اور طرز زبان اختیار کرنے سے ممکن نہ تھی.الغرض یہ کتاب خلوص اور حق الیقین کا مرقع ہے.۱۸۹۶ء کے بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض جلیل القدر صحابہ جنہوں نے ۱۸۹۶ ء میں.حقہ میں شمولیت اختیار کی یہ ہیں.(1) حضرت ملک نورالدین صاحب - (۲) حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں ضلع گورداسپور - 2 (۳) حضرت ڈاکٹر بو ریخاں صاحب قصور - 1 (۴) حضرت مولوی عبد المغنی صاحب جہلم (۵) حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ۲۷ حضرت مولوی امام الدین صاحب گولیکی ۹۷-۱۸۹۶ء میں داخل سلسلہ ہوئے.آپ کا مختصر تذکرہ پہلے آچکا ہے

Page 595

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۷۶ جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح - F حواشی رپورٹ جلسه اعظم مذاہب "صفحہ ۲۵۳-۲۵۴- مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور ۱۸۹۷ء ايضا ابتد اعلاہور کے ٹاؤن ہال ہی میں اس جلسہ کے منعقد ہونے کا فیصلہ ہو اتھا) تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحہ ۷۷) رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ ب بحوالہ الفضل ۵- جولائی ۱۹۵۲ء صفحہ ۵-۷ حقیقته الوحی ( طبع اول) صفحه ۲۷۸-۲۷۹ تبلیغ رسالت "جلد پنجم صفحہ ۷۷-۷۹ - اخبار الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۹ کالم نمبرا رپورٹ جلسه اعظم مذاہب "صفحه ۷۹-۸۰ رپورٹ جلسه اعظم مذاہب " صفحه ۴۰) -9 - 1 11 - - ۱۲ اگلے اجلاس کی صدارت کے فرائض شیخ صاحب موصوف سر انجام دینے والے تھے اس لئے یہ استد عا انہی سے کی گئی تھی.رپورٹ جلسه اعظم مذاہب " طبع اول صفحه ۱۴۰-۱۴۱ ۱۳ - " رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب " صفحہ ۱۴۷ ایضا اشاعۃ السنہ جلد ۱۸ صفحه ۱۶۱ رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحه ۲۰۳-۲۰۴( طبع اول) - IM ۱۵ - رپورٹ جلسه اعظم مذاہب صفحہ ۲۱ ۱۶ ۱۷ ضمیمه انجام آنقم صفحه ۳۲- صفحه ۳۳ طبع اول- ۱۸ - حقیقته الوحی صفحه ۲۷۹ د سراج منیر صفحہ ۳۱ طبع اول ضمیمه انجام آنقم صفحه ۳۲ حاشیه -14 - ۲۰ دیکھو پنجاب آبزرور ۲- جنوری ۹ جنوری صادق الاخبار بہاولپور مشیر ہند لاہور وغیرہ.منہ ۲۱ - اخبار چودھویں صدی " یکم فروری ۱۸۹۷ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲-۱ اصل اخبار خلافت لائبریری میں موجود ہے) ۲۲ - (مقدمه) “Lugae and Co 46, Great (&) "The Teachings of Islam" Russell Street London ۲۳ - "سلسلہ احمدیہ صفحہ اے - ۷۲ (مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ذکر حبیب صفحه ۳۹۹ - ۴۰۱ مطبوعه قادیان از حضرت مفتی محمد صادق صاحب رساله ریویو آف ریلیجز انگریزی جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۰ تا صفحه Ahmad the Promised World Teacher.P: 484 485 - - Compiled by Abdullah Allah DinSecunderabad (India)-1922 ۲۴ - ولادت ۱۸۶۷ء وفات ۳۱ - اکتوبر ۱۹۳۴ء آپ کا حضرت مولانا نور الدین صاحب کے خاندان سے رضاعت کا تعلق تھا.اس لئے حضرت مولانا بھی ان کو بہت محبت سے دیکھتے تھے.عرصہ تک راولپنڈی میں ملازم رہے.۱۹۲۸ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے اور سلمہ کی متعدد آنریری خدمات سرانجام دیں.وفات سے ایک سال قبل حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے.۲۵ - والد ماجد ابو البشارت مولانا عبد الغفور صاحب فاضل اے.نومبر ۱۹۵۶ء کو انتقال کیا.بیعت کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی عمر ہ س سال ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں جب انہوں نے اس کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا.خدا تعالٰی اسے دگنی کرنے پر بھی قادر ہے.چنانچہ 9 سال کی عمر میں ہی آپ کا وصال ہوا.اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.۲۶ - ۳۱۳ اصحاب میں آپ کا نام ۱۶۰ نمبر پر ہے.جولائی ۱۸۹۹ء میں انتقال ہوا.آپ کی نماز جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 596

تاریخ احمدیت جلدا 844 جلسہ مذاہب عالم " میں اسلام کی شاندار فتح پڑھائی.احمد یہ جنتری ۱۹۲۱ء صفحہ ۶۱ مولفہ محمد منظور الی صاحب احمد یہ بلڈ مکس لاہور مطبع اسلامیہ سٹیم پریس لاہور.۲۷ - آپ حضرت مولوی برہان الدین کے فرزند تھے اور ۳۱۳ اصحاب میں سے (نمبر ۱۹۰) تاریخ وفات - جون ۱۹۷۷ء- ۲۸ - تاریخ ولادت ۲۴ جون ۱۸۷۶ء حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب پشاوری سے کتاب ازالہ اوہام " لے کر مطالعہ کی اور احمدیت میں آگئے.اگلے سال قادیان کی طرف ہجرت اختیار کی جہاں مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول سپر نٹنڈنٹ بورڈنگ مینجر ریویو آف ر یلیز اردو و انگریزی نائب محاسب صدر انجمن احمدیہ اور دفاتر کے سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے سالہا سال تک سلسلہ کی خدمت میں سرگرم عمل رہے.۱۹۱۴ ء سے ۱۹۴۴ء تک احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے منسلک ہو کر انجمن کے مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے.مگر جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی نے اللہ تعالٰی کے حکم سے مصلح موعود ہونے کا دعوئی فرمایا تو آپ دوبارہ خلافت اور مرکز احمدیت سے وابستہ ہو گئے اور (۱۰- مارچ ۱۹۴۴ء کو) حضرت مصلح موعود کی بیعت کرلی.اس وقت تحریک جدید کے افسر امانت ہیں.(۹- اگست ۱۹۶۵ء کو انتقال فرمایا)

Page 597

تاریخ احمدیت جلد ۵۷۸ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج ماموریت کا سولھواں سال اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پر شوکت چیلنج اور تصنیف و اشاعت انجام آتھم" (۱۸۹۷ء) مسٹر عبد اللہ آتھم ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو فوت ہوئے تھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پبلک کو اسلام کی صداقت کے اس زندہ نشان کی طرف دوبارہ توجہ دلانے کے لئے ایک مفصل کتاب انجام آتھم " تصنیف فرمائی جو ۲۲- جنوری ۱۸۹۷ء کو شائع ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کا ظہور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ امام مهدی کدعہ نامی گاؤں سے ظاہر ہو گا.خدا تعالیٰ اس مہدی کی اپنے نشانات کے ذریعہ تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے اصحاب جمع کرے گا جن کی تعداد اہل بدر کی طرح تین سو تیرہ ہو گی اور ان کے نام ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے.رسول خدا ﷺ کی یہ عظیم الشان خبر اگرچہ " آئینہ کمالات اسلام" کے ذریعہ سے بھی (جس میں حضور نے اپنے ۳۲۷ اصحاب کے نام شائع کئے تھے) پوری ہو چکی تھی.مگر معین شکل میں یہ پیشگوئی انجام آتھم کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوئی.کیونکہ اس میں آپ نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست شائع فرمائی جو آپ کے دعوئی مہدویت پر ایک آسمانی نشان تھا.حضور نے اس فہرست میں بر صغیر ہند و پاکستان کے مختلف اصحاب کے علاوہ شام ، طائف بغداد ممباسہ (افریقہ) بخارا اور لندن کے بعض خدام کے نام بھی درج فرمائے.۳۱۳- اصحاب کبار کی فہرست یہ فہرست چو نکہ آنحضرت ﷺ کی ایک عظیم الشان پیھوئی کو پورا کرتی ہے اس لئے ذیل میں درج کی جاتی ہے :-

Page 598

تاریخ احمدیت.جلدا منشی جلال الدین صاحب ، شنز.سابق میر منشی رجمنٹ نمبر ۱۲- موضع بلانی.کھاریاں ۲ مولوی حافظ فضل دین صاحب".میاں محمد دین پٹواری بلانی قاضی یوسف علی نعمانی معہ اہل بیت.تشام ه میرزا امین بیگ صاحب معہ اہل بیت بیالوجی - مولوی قطب الدین صاحب - بدو ملی.ے.منشی روژا صاحب ۸- میاں محمد خان صاحب.449 اسلام کے زندہ مذ ہب ہونے کا چیلنج ۳۰.میاں جمال الدین سیکھواں کو روا مپور معہ اہل بیت.ضلع گجرات ۳۱ میاں خیر الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہل بیت ضلع گجرات ۳۲ میاں امام الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہل بیت ضلع گجرات ۳۳.میاں عبد العزیز پیزاری گورداسپور معہ اہل بیت حسار ۳۴- منشی گلاب دین- رہتاس- جے پور ۳۵- قاضی ضیاء الدین صاحب سيالكوت ۳۶.میاں عبد اللہ صاحب پٹواری.ستوری کپور تحصله ۳۷ شیخ عبد الرحیم صاحب نو مسلم سابق لیس کپور حملہ دفعہ اررسالہ نمبر ۳- چھاؤنی جهام قاضی کوئی سیالکوٹ منشی ظفر احمد صاحب کپور تصله ۳۸- مونوی مبارک علی صاحب امام سیالکوٹ منشی عبد الرحمن صاحب کپور تحله ۳۹- میرزه انیاز بیگ صاحب کلانوری کلانوری -H منشی فیاض علی صاحب - مولوی عبد الکریم صاحب ۱۳- سید حامد شاہ صاحب ۱۳ منشی وزیر الدین صاحب 怕 منشی گوہر علی صاحب مولوی غلام علی صاحب اپنی رہتاس ۷ میاں نبی بخش صاحب ، لوگر.۱۸- میاں عبد الخالق صاحب رفوگر.19.میاں قطب الدین خان صاحب مس گر ۲۰ مولوی عبد الحمید صاحب، حیدر آباد مولوی حاجی حکیم نورالدین صاحب معه ہر دو زوجہ ۲۴- مولوی سید محمد احسن صاحب امروہہ ۲۳ مولوی حامی حافظ حکیم فضل دین صاحب معہ ہر دو زوجہ ۲۴- صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی.سابق سرسادی - معہ اہل بیت ۲۵- سید ناصر نواب صاحب دہلوی - حال قادیانی ۲۶ ماهزاده افتخار احمد صاحب لدھیانوی معہ اہل بیت قادیانی ۲۷.صاحبزادہ منظور محمد صاحب - لدھیانوی معہ اہل بیت قادیانی ۲۸ حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان معہ اہل بیت قادیانی ۲۹.سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا معہ اہل بیت دراس کپور حمله ۴۰.میرزا یعقوب بیگ صاحب........سیالکوٹ ام میرزا ایوب بیگ صاحب موراہل بیت" سیالکوٹ کانگڑہ جالندهر میرزاخه ابخش صاحب معہ اہل بیت سردار نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کلانوری جھنگ مالیر کو محلہ ۴۴- سید محمد عسکری خان صاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ اللہ آباد جهلم ۲۵ میرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانه ریاست امرت سر امر تر ۳۶ شیخ شهاب الدین صاحب......۴۷.شہزادہ عبد المجید صاحب امرت کر ۳۸ منشی حمید الدین صاحب دکن ۴۹ میاں کرمانی صاحب ۵۰- قاضی زین العابدین صاحب خانپور - بھیرہ ضلع شاہ پور ۵۱ - مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار ضلع مراد آباد ۵۲- محمد انوار حسین خاں صاحب شاه آباد ۵۳ شیخ فضل الى صاحب بھیرہ ضلع شاه پور ۵۴ میاں عبد العزیز صاحب..۵۵- مولوی محمد سعید صاحب ۵۶- مولوی عصبیب شاہ صاحب ۵۷- حاجی احمد صاحب...۵۸- حافظا نور محمد صاحب ۵- شیخ نور احمد صاحب........- مولوی جمال الدین صاحب ال - میاں عبد اللہ صاحب ۶۲- میاں اسمعیل صاحب......۱۳- میاں عبد العزیز صاحب تو مسلم ۶۴ خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے مع اہل بیت پیالہ لد صيانه کی منتظر " پشاور ہردوئی فیض اللہ چک دیلی شامی طرابلسی خوشاب بخارا فیض اللہ چک امرت کر میدواله خصصه شیر کا کر ساوه قادیان لاھور

Page 599

تاریخ احمدیت.جلد ۶۵ - مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ ۶۶ - شیر محمد خان صاحب بكر " ۷۷- منشی محمد الحفل صاحب لاہور - حال ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب گو ژیانی لازم ۶۹- میاں کریم الدین صاحب مدرس ۷۰ سید محمد اسمعیل دہلوی طالبظام اے.باید تاج الدین صاحب اکو شٹ ۷۲ - شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر Renert ی شیخ نبی بخش صاحب """" ۷۴.منشی معراج الدین صاحب " ۷۵ صحیح مسیح الله صاحب........トロ ۷.منشی چوہدری نبی بخش صاحب مع اہل بیت ۷۷.میاں محمد اکبر صاحب ۷۸ شیخ مولا بخش صاحب ڈنگہ ۷۹ سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ ۸۰ میاں محمد جان صاحب.......ال۸۱.میاں شادی، خان صاحب ۸۲- میاں محمد نواب خان صاحب تحصیل دار ۸۳- میاں عبداللہ خان صاحب برادر نواب خان صاحب ۸۴ - مولوی برہان الدین صاحب ه شیخ غلام فی صاحب.....۰۸۵ ۸ - بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک ۸۷ منشی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر ۸۸- منشی عبد الحق صاحب کرانچی والا.۸۹ حافظ فضل احمد صاحب.......4- قاضی امیر حسین صاحب......ال مولوی حسن علی صاحب مرحوم.....مولوی فیض احمد صاحب تنگیا نوالی ۹۳- سید محمود شاه صاحب مرحوم ۹۴ مولوی غلام امام صاحب عزیز انوا همین منی پور ۹۵ - رحمان شاه صاحب ناگپور ضلع چانده ۹۶.میاں جان محمد صاحب مرحوم ۹۷- منشی فتح محمد معہ اہل بیت بزوارلیه ۹۸ شیخ محمد صاحب..44- حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم ۵۸۰ اسلام کے زندہ مذ ہب ہونے کا چیلنج ضلع شاه پور ۱۱ شیخ عبد الرحمن صاحب نو مسلم...۱۰۲ - حاجي عصمت اللہ صاحب.....ضلع شاه پور ممباسہ ۱۰- میاں پیر بخش صاحب.....ممبار ۱۰۰ نشی ابراہیم صاحب قلعہ سوبھا سنگھ ۵- منشی قمرالد من صاحب حال قادیان ١٠٦- حاجی محمد امیر خان صاحب......لاہور لاہور لاہور لاہور شاہجہانپوری اللہ شال مجرات حاجی عبدالرحمن صاحب مرحوم ۱۰۸- قاضی خواجہ علی صاحب.........۰۹ منشی تاج محمد خان صاحب.......م سید محمد ضیاء الحق صاحب....شیخ محمد عبد الرحمن صاحب عرف شعبان...- خلیقه رجب دین صاحب تاجر.....۱۱۳- پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم ۱۴- حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب سیالکوٹ ۱۵- شیخ چراغ علی نمبردار...وزی آباد محمد اسمعیل غلام کبریا صاحب فرزند رشید سیالکوٹ جهام مولوی محمد احسن صاحب امروش احمد حسن صاحب فرزند رشید مولوی قادیان لدھیانه لد حياته لم حياته لدھیانه سارپور لد میانه لد میانه لد هيات کالمی لاہور ڈیرہ دون تھ غلام نبی جہلم محمد احسن صاحب امروہی.جہلم ۱۱۸.سیٹھ احمد صاحب عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا راولپنڈی تاجر مدراس چھاؤنی انبالہ 114 سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا لد حيان ۲۰.سیٹھ ابراہیم صاحب صالح محمد حاجی اللہ رکھا تاجر درای ۱۲۱.سیٹھ عبد الحمید صاحب حاجی ایوب حاجی اللہ رکھا تاجر به رای لدھیانہ لاہور بھیرہ ۱۲۴- مولوی سلطان محمود صاحب میلاپور تاجر در راس ۱۲۲- حاجی مهدی صاحب عربی بغدادی نزیل ۱۲۳.سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ رکھا.مدراس درای درای دراس دراس عراس بھاگلپور گوجر انوالہ ۱۲۵- حکیم محمد سعید صاحب " سیالکوٹ ۲۷ منشی قادر علی صاحب" آسام ۱۲۷ منشی غلام دستگیر صاحب " واژه قادیان 11 " دراس ۱۳۸- منشی سراجدین صاحب تر مل کھیڑی" ۱۲۹- قاضی مرتضی صاحب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر حال پیشنر مظفر گڑھ جمالپور - لدھیانہ ڈیر اسماعیل خان ۱۳۰- مولوی عبد القادر خان صاحب سکی ۱۳۱- مولوی عبد القادر صاحب خاص لدهیانه لدھیان ۱۳۲- مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم تا ہو کہ ۱۰۰ منشی پیر بخش صاحب مرحوم...جالندهر ۱۳۳- مولوی غلام حسین صاحب

Page 600

تاریخ احمدیت جلدا ۱۳۴- مولوی غلام في صاحب مرحوم ۱۳۵- مولوی محمد حسین صاحب ۱۳۶- مولوی شهاب الدین صاحب ۵۸۱ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج خوشاب، شاہ پور مولوی حکیم نور محمد صاحب........علاقہ ریاست کپور تھلہ 114- حافظ محمد بخش مرحوم........غزنوی کا ہلی ۱۷۰ چوہدری شرف الدین صاحب کو ٹلہ فقیر ۱۳۷- مولوی سید تحفل حسن صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ علی گڑھ ضلع فرخ آباد ۱۷.میاں رحیم بخش صاحب...۱۳۸ منشی صادق حسین صاحب مختار ۱۳۹ شیخ مولوی فضل حسین صاحب احمد آبادی ۱۴۰- میاں عبد العلی موضع عبد الرحمن الا، منشی نصیر الدین صاحب کوئی ۱۴ قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ ۱۴۳- قاضی فضل الدین صاحب" قاضی سراج الدین صاحب 11 ۳۵ قاضی عبدالرحیم صاحب فرزند رشید قاضی ضیاء الدین صاحب کوٹ قاضی ۱۴۶.شیخ کرم الہی صاحب کلرک ریلوے ۷ سید میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم ۴۸- میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم ۱۴۹- میاں غلام محمد طالب علم مچھر اله........۱۵۰ مولوی محمد فضل صاحب چنگا.۱۵- ماستر قادر بخش صاحب.........۱۵۲ منشی اله بخش صاحب............۱۵۳- حاجی ملا نظام الدین صاحب.....۱۵۴- عطاءالمی، فوث گڑھ.۱۵۵ مولوی نور محمد صاحب مانگ.....۱۵۶ مولوی کریم اللہ صاحب......۱۵۷- سید عبد الهادي صاحب سولن...........۱۵۸- مولوی محمد عبد الله خان صاحب ۱۵۹- ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب.....۱۲۰.ڈاکٹریو ریخان صاحب.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب لاہور ۱۶۲، غلام محی الدین خان صاحب فرزند ڈاکٹر یوڑے خان صاحب ۱۹۳ مولوی صفدر حسین صاحب ۱۶۴.خلیفه نور دین صاحب...۱۲۵ میاں الله و تا صاحب........۱۲۶ منشی عزیز اند مین صاحب ۲۷ - سید مهدی حسین صاحب الحمود جہلم ۷۲:.مولوی محمد افضل صاحب کملہ ۱۷۳- میاں اسمعیل صاحب...ضلع شاه پور ۱۷- مولوی غلام جیلانی صاحب گھڑو نواں.حال حیدر آباد ۷۵- منشی امانت خان صاحب - نارون گوجرانوالہ "I ۱۷۶- قاری محمد صاحب....ے میاں کرم داد معه اهل بیت...حافظ نور احمد ۱۷۹- میاں کرم الہی صاحب...گوجر انوالہ ۱۸۰- میاں عبد الصمد صاحب...پنیار ۱۸۱- میاں غلام حسین معہ المیہ سامانه پنیالہ ۱۸۳ میاں نظام الدین صاحب......."1 لاہور ۱۸۳- میاں محمد صاحب...۱۸۴- میاں علی محمد صاحب...گوجر خاں ۱۸۵- میاں عباس خان کھو ہار.اد میانه ۱۸۶ میاں قلب الدین صاحب کو ٹلہ فقیر الدحيان ۱۸۷- میاں اللہ و ما خان صاحب اڈیالہ له میانه ۱۸۸- محمد حیات صاحب چک جانی پیالہ پیالہ محمد دم مولوی محمد صدیق صاحب ۱۹۰- عبد المغنی صاحب فرزند رشید امرت سر مونوی برہان الدین صاحب علمی محمله پنیالہ پیار 191 قاضی چراغ الدین کوٹ قاضی ۱۹۴- میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ ۱۹۳- میاں علم الدین صاحب کو اللہ فقیر تصور ضلع ناجور ۱۹۴- قاضی میر محمد صاحب حال چکراته ۱۹۵- میاں الله و تا صاحب نت ١٩٦- میاں سلطان محمد صاحب....ے 14 مولوی خان ملک صاحب....حیدر آباد دکن ۱۹۸- میاں اللہ بخش صاحب علاقہ بند 44.مولوی عنایت اللہ صاحب مدرس ۲۰۰.منشی میران بخش صاحب........جھوں جھوں کا نگره ۲۰۱ - مولوی احمد جان صاحب مدرس علاقہ پنیالہ ۲۰۲ مولوی حافظ احمد دین چک سکندر موکل کوٹ قاضی جسام امرت سر گجرات امرت سری جالند همر کانگری جہلم قادیان لد حياته لاہور ارووال رہتاس جملم جہلم " گجرات جرام " "" بھیرہ گوجر انواله جام کوٹ کھلیان گوجر انوالہ کھیواں امرت سر مانانوالہ گوجرانوالہ گجرات "

Page 601

تاریخ احمدیت.جلدا ۲۰۳ مولوی عبد الرحمن صاحب کھیوال.۲۰- میاں صردین صاحب.........۲۰۵.میاں ابراہیم صاحب پنڈوری ۲۰۶۰ - سید محمود شاہ صاحب رح پور ۲۰۸- منشی شاه دین صاحب دینا.....مرد.......۲۰۹ - منشی روشن دین صاحب ڈنٹروسٹ ۲۱۰ حکیم فضل الى صاحب...۲۱ شیخ عبد اللہ دیوانچند صاحب کیونڈر ۲۱۲ - منشی محمد علی صاحب.........۲۱۳ - منشی امام الدین صاحب کرک...۵۸۲ جہلم ۲۳۹- سید افضل شاه صاحب....اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج لالہ موسی ۲۴۰ سید ناصر صاحب اوور میر جہلم ۲۳۱ منشی عطا محمد صاحب چنیوٹ مجرات ۲۴۲ شیخ نور احمد صاحب جالندهر امرت کر ۲۴۳.منشی سرفراز خان صاحب.....چهلم ۲۳۴.مولوی سید محمد رضوی صاحب لاجور اوری کشمیر جھنگ حال ممباسہ جھنگ ۲۳۵ مفتی فضل الرحمن صاحب مع اہلیہ حیدر آباد بھیره لاہور ۲۴۶- حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ حال لندن لاجور بدین صاحب بمیره TI "1 ƒ...་་ ۲۱۲ - منشی عبد الرحمن صاحب " ۲۱۵- خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے.-۲۱ منشی مولا بخش صاحب کلرک.......۲۱۷ شیخ محمد حسن صاحب مراد آبادی.11 11 ۲۳۸، مستری عبد الکریم صاحب ۲۴۹ مستری غلام الی صاحب ۲۵۰- میان عالم دین صاحب لاہور حال جموں ۲۵۱- میاں محمد شفیع صاحب لاجور خیاله ۲۵۲- میاں نجم الدین صاحب ۲۵۳- میاں خادم حسین صاحب گجرات ۲۵۴ ابو غلام رسول صاحب شاہ پور ۲۵۵ شیخ عبد الرحمن صاحب تو مسلم مون میانی 11 "1 11 11 ۲۱۸ - عالم شاہ صاحب کھاریاں.....۲۱۹.مولوی شیر محمد صاحب ہو جین...۲۲۰.میاں محمد اسحق صاحب اور میر بھیرہ ۲۲۱.میرزا اکبر بیگ صاحب...۲۲۲- مولوی محمد یوسف صاحب....۲۲۳- سیالیا عیدا العميد صاحب...۲۲۴ منشی عطا محمد صاحب..۲۲۵ - شیخ مولا بخش صاحب ۲۲۶- سید فصیلت علی شاہ صاحب اپنی انسپکٹر ۲۲۷، منشی رستم علی صاحب کو رٹ انسپکٹر ۲۲۸- سید احمد علی شاہ صاحب ۲۲۹.ماسٹر غلام محمد صاحب...۲۳۰.حکیم محمد دین صاحب...۲۳۱.میاں غلام محی الدین صاحب.۲۳۲- میاں عبد العزیز صاحب.....۲۳۳- منشی محمد الدین صاحب.....۲۳۴.منشی عبد المجید صاحب او جله - ۲۳۵.میاں خدابخش صاحب بٹالہ ۲۳۶- منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور ۲۳۷- محمد حسین صاحب تنگیاں دائی.۲۳۸.منشی زین الدین محمد ابراہیم انجینئر "" حال ممیاسه ۲۵۶- مولوی سردار محمد صاحب کلانور ۲۵۷- مولوی دوست محمد صاحب سفور ۲۵۸- مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ حال کشمیر ستور ۲۵۹- مولوی شیخ قادر بخش صاحب احمد آباد شاه بود خوشاب خوشاب کانپور سیالکون ۲۷۰ منشی اللہ داد صاحب کلرک چھاؤنی سیالکوٹ دنگه ۲۶۱- میاں حاجی و ریام.صاحب......۲۶۲- حافظ مولوی فضل دین صاحه گورو اسپوره ۴۶۳- سید دلدار علی صاحب بلمور سیالکوٹ ۲۶۴- سید رمضان علی صاحب بالصور سیالکوٹ ۲۶۵ - سید جیون علی صاحب پول 重量 11 11 ۲۷۶ - سید فرزند حسین صاحب چاند پور ۲۹۷، سید اہتمام علی صاحب موہر و غذا ۲۶۸ - حاجی نجف علی صاحب کٹرہ محلہ ۶۹ - شیخ گلاب صاحب" گورداسپور ۲۷۰ شیخ خدابخش صاحب " ۷۱ ۲- حکیم محمد حسین صاحب......کپور تھلہ ۷۲ - میاں عطا حم صاحب........گوجر انوالہ ۲۷۳- میراں محمد دین صاحبہ بیتی ۲۷- میاں محمد حسن صاحب 11 حال اللہ آباد " 14 الله آباد " 11 لاہور سيالكوث جھوں له میانه

Page 602

تاریخ احمدیت جلدا ۲۷۵- سید نیاز علی صاحب بدایوں.۲۷۶- ڈاکٹر عبدالشکور صاحب.....۲۷۷ شیخ حافظ الہ دین صاحب بی.اے.۲۷۸ میاں عبدالسبحان..۲۷۹- میان شهامت خان......۲۸۰ مولوی عبدالحلیم صاب دبار وار علاقه ۲۸۱- قاضی عبد اللہ صاحب ۲۸۲ - عبد الرحمن صاحب پنداری ۲۸۳ - برکت علی صاحب مرحوم ۲۸۴- شهاب الدین صاحب ۲۸۵- صاحب دین صاحب شمال ۲۸۷- مولوی غلام حسن مرحوم....۲۸- نواب دین مدرس ۲۸۸- احمد دین صاحب..۲۸۹- عبد الله صاحب قرآنی...۲۹۰- کرم الہی صاحب کمپازیر....۲۹۱ - سید محمد آفندی....MIMI ۲۹۲.عثمان عرب صاحب...۲۹۳.عبد الکریم صاحب مرحوم ۲۹۴- عبد الوہاب صاحب.......۵۸۳ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج حال را سپور ۲۹۷- محمد العزیز صاحب عرف عزیز الدین...۲۹۷- حافظ غلام محی الدین صاحب بھیر، حال چھاوریاں ۲۹۸- محمد اسمعیل صاحب نقشہ نویس لاہور بارون ۲۹۹ - احمد دین صاحب ۳۰۰ - محمد امین کتاب فروش بیتی کوٹ قاضی ۳۰۲ محمد رحیم الدین ۳۰۱.مولوی محمود حسن خان صاحب د رس ملازم سنوری ۳۰۳.شیخ حرمت علی صاحب کراری تصد غلام نبی ۳۰۴، میاں نور محمد صاحب غوث گڑھ.11 1 نارنگ قادیان کا انکار یلوی چک کھاریاں جہلم پیالہ حبيب وال الہ آباد پنیالہ ۳۰۵- مستری اسلام احمد صاحب بھیرا گجرات ۳۰۶- حسینی خان صاحب الله آباد دینا نگر ۳۰۷- قاضی رضی الدین صاحب.....اکبر آباد دینا نگر ۳۰.سعد اللہ خان صاحب....الہ آباد ستاره مولوی عبد الحق صاحب ولد مولوی لاہور فضل حق صاحب د راس سامانه پیاله ۳۱۰- مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم ترکی محافظ دفتر یع لس.جام..طائف شریف ۳۸ - رجب علی صاحب پیشنز ساکن جھونی کهنه ضلع اللہ آباد چمارو بغدادی ۲۹۵.میاں کریم بخش صاحب مرحوم و مغفور جهانپور ضلع لدميان ۳۱۲.ڈاکٹر سید منصب علی صاحب شر ۳۳.میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولس الہ آباد جام اس وقت مندرجہ بالا ۳۱۳ اصحاب میں سے حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی (۱۰۱) حضرت مولوی عبد المغنی صاحب علمی (۱۹) اور حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ (۲۸۱) خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں.اور مبائعین میں شامل ہیں.ان مخلصین کے علاوہ فہرست میں شامل چند اور اصحاب بھی گو بقید حیات ہیں.مگر وہ مبایعین سے متعلق نہیں رہے.(افسوس موجودہ ایڈیشن کے وقت ۳۱۳ اصحاب میں سے کوئی بزرگ زندہ نہیں.اس مبارک گروہ کے آخری فرد حضرت قاضی صاحب تھے جن کا انتقال ۷ ۲.فروری ۱۹۷۲ء کو ہوا) - انجام آتھم " میں حضرت اقدس نے علماء پر اتمام حجت کے لئے علماء کے نام عربی مکتوب تصیح وبلیغ عربی میں ایک فصل مکتوب بھی تحریر فرمایا جو آپ کے روحانی اور علمی کمالات کا مرقع اور آپ کی سچائی پر ابدی برہان ہے.

Page 603

تاریخ احمدیت جلدا ۵۸۴ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج کتاب کے ضمیمہ میں حضور نے اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پر شوکت چیلنج اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے پر ایک پر شوکت چیلنج دیتے ہوئے اعلان فرمایا : بالاخر میں پھر ہر ایک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں.وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.مجھے بھیجا گیا ہے.تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذاہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں.میں ہر یک مخالف کو وکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے.موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسی کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ.میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنا اور کچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علوم فیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے.ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں.اے نادانوا تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے ؟ اور مردار کھانے میں کیا لذت ؟!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے.جہاں خدا بول رہا ہے وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ ہمیشہ کلام کرتا تھا.اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں کہ اس بات کو پر کھے.پھر اگر حق کو پارے تو قبول کر لیوے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ کیا ایک مردہ کفن میں لپیٹا ہوا.پھر کیا ہے ؟ کیا ایک مشت خاک - کیا یہ مردہ خدا ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرا آتا ہاں العنت ہے تم پر اگر نہ آؤ اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نه کرد.دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا.ناپاک ہے وہ دل جو بچے ارادہ سے نہیں آزماتے اور پھر انکار کرتے ہیں اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف.

Page 604

تاریخ احمدیت جلدا ۵۸۵ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ.میں اتمام حجت کر چکا.اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو تمہارے پاس کوئی جواب نہیں.خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچاول لے کر میرے پاس آوے کیا ایک بھی نہیں.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا.اشتهار مستيقنا بوحى الله القهار یہ پر شوکت چیلنج آپ نے بالخصوص عیسائی پادریوں کو مخاطب کرتے ہوئے ۱۴.جنوری ۱۸۹۷ء کو الاشتهار مستيقنا بوحى الله القهار " کے ذریعہ سے بھی دیا.اس روحانی مقابلہ کے لئے آپ نے چالیس دن مقرر فرمائے.اشتہار کا ایک ایک لفظ تثلیث پرستی کے لئے شمشیرو سنان کا حکم رکھتا ہے.عیسائیوں کو ایک ہزار روپیہ انعام کی پیشکش اس اشتہار کے چودہ دن بعد ۲۸.جنوری ۱۸۹۷ء کو ایک اور اشتہار میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ میرا دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ہیں.اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قومی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا.2 پادریوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ان اشتہاروں سے لاجواب اور مبہوت ہو کر یہ جواب دیا کہ انجیل کی رو سے جھوٹے رسول اور جھوٹے مسیح بھی ایسے بڑے نشان دکھلا سکتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر دیں.حضرت اقدس کو یہ جواب پہنچا.تو آپ نے ۲۸.فروری ۱۸۹۷ء کو ایک اور اشتہار دیا.جس میں لکھا کہ انجیل کا جو سہارا انہوں نے لیا ہے وہ ان کے لئے کچھ فائدہ بخش نہیں بلکہ اس سے وہ خود زیر الزام آتے ہیں کیونکہ جس حالت میں اسی قسم کے نشانوں پر بھروسہ کر کے یسوع کو خد ابنا دیا گیا ہے تو یہ بڑا ظلم ہو گا کہ دوسرا شخص ایسے ہی نشان بلکہ بقول یسوع بڑے بڑے نشان بھی دکھلا کر ایک سچا ملم بھی نہ ٹھہر سکے.اس اشتہار کے بعد ۶ - مارچ ۱۸۹۷ء کو آپ نے اشتہار " خدا کی لعنت اور کسر صلیب" خدا کی لعنت اور کسر صلیب" کے عنوان سے ایک اور زبر دست اشتہار دیا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ لغت کی رو سے لعنت کے معنے راندہ درگاہ

Page 605

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۸۶ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج عالی اور شیاطین کے ہیں.مگر عیسائیوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گئے تھے.بنا بریں آپ نے سوال کیا کہ اگر معاذ اللہ جناب یسوع پر واقعی کچھ دنوں تک لعنت پڑ گئی تو ان کا خدا تعالٰی سے انیت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتا تھا جب کہ بیٹا ہوتا تو الگ رہا خود پیارا ہونا بھی لعنت کے منافی ہے.شیخ محمد رضا طهرانی نجفی کی اشتہار بازی شیخ محمد رضا طهرانی نجفی ایک شیعہ مجتہد تھے.جنہوں نے سستی شہرت اور اپنے علم و فضیلت کا سکہ جمانے کے لئے حضرت اقدس کے خلاف اشتہار بازی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے حق و کذب کے فیصلے کا یہ مضحکہ خیز طریق پیش کیا کہ ہم دونوں لاہور کی شاہی مسجد کے منارے سے چھلانگ لگا ئیں.جو صادق ہو گا.وہ بچ جائے گا.نیز حضرت اقدس کے دعوئی الہام و نشان کا مذاق اڑاتے ہوئے تعلی کی کہ میں چالیس لمحوں میں نشان دکھا سکتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے یکم فروری ۱۸۹۷ء کو بذریعہ اشتہار ان کے شاہی مسجد سے چھلانگ لگانے کے مطالبے کا تو یہ لطیف جواب دیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں اس طرز کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ہے.شیخ نجدی نے حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا اور اب شیخ نجفی مجھ سے یہ تقاضا فرما رہے ہیں.پس میں بھی انہیں رہی جواب دیتا ہوں جو حضرت مسیح نے شیخ نجدی کو دیا تھا.کہ میں اپنے خدا کی آزمائش نہیں کرنا چاہتا.شیخ نجفی کے دعوئی نشان نمائی کے جواب میں حضور نے فرمایا.کہ چالیس روز کے اندر اگر ہم سے نشان ظاہر ہو گیا اور وہ جو چالیس لمحوں میں کرامت دکھانے کا ادعا کرتے ہیں.چالیس دنوں میں بھی کچھ نہ رکھا سکے.تو صادق و کاذب کی خود بخود شناخت ہو جائے گی.سو چالیس دن کے اندر لیکھرام پشاوری کی ہلاکت کا نشان وقوع میں آگیا.جس پر حضور نے ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء کو اشتہار دیا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت پر چمکتا ہو انشان ظاہر کر کے شیخ نجفی کا کذب کھول دیا ہے اور اب کسی مقابلہ کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی.تاہم تنزل کے طور پر راضی ہیں کہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلا دیں.حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ مدظله العالی کی ولادت -۲ مارچ ۱۸۹۷ء مطابق ۲۷ - رمضان ۱۳۱۴ھ کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم مدظلہ العالی کی پیدائش ہوئی.آپ کی ولادت سے قبل حضرت اقدس کو الہاما خبر دی گئی کہ " تنشا فی الحلیه" که یه دختر

Page 606

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۸۷ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا چیلنج نیک اختر زیورات میں نشو و نما پائے گی.پھر ا۱۹۰ء میں الہام ہوا.” نواب مبارکہ بیگم " ان الہامات اور بعض رویا کی روشنی میں حضور نے (حضرت صاحبزادہ) مرزا بشیر احمد صاحب (حضرت صاحبزاده) مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سیدہ موصوفہ کی آئین کے موقع پر خصوصاً آپ سے متعلق فرمایا.اور ان کے ساتھ دی ہے ایک دختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر خدا کا فضل اور رحمت سراسر ہے مقدر ہوا اک خواب میں مجھے پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پادے وہ مقرر نہیں روز ازل سے چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادی صاحبہ حجتہ اللہ " حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم ریاست مالیر کوٹلہ سے بیاہی گئیں.۱۷- فروری ۱۹۰۸ء کو آپ کی تقریب نکاح عمل میں آئی اور ۱۴ مارچ ۱۹۰۹ء کو رخصتانہ ہوا.خطبہ نکاح حضرت مولانا نور الدین نے پڑھا.جس میں کہا ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدرجہاں کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی.اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا.مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خاں صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے".حضرت سیدہ موصوفہ سلسلہ کی ان بزرگ ہستیوں میں شامل ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست تعلق و نسبت کا فخر بھی بخشا ہے اور بلند پایہ اور لطیف روحانی اور ادبی ذوق سے بھی نوازا ہے.آپ کا شعری کلام تصوف و روحانیت کی نازک خیالیوں اور لطافتوں سے لبریز اور سوز و گداز میں ڈوبا ہوتا ہے.آپ کی شعری خدمات کا سلسلہ ۱۹۲۴ء سے شروع ہوتا ہے جب کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی یورپ کے پہلے سفر پر روانہ ہوئے تھے.آپ کی روح پر در نظموں کا مجموعہ " الشركه الاسلامیه " ربوہ نے " در عدن " کے نام سے دسمبر ۱۹۵۹ء میں شائع کیا ہے نظم کی طرح نثر میں بھی مخصوص طرز نگارش رکھتی ہیں.زبان نہایت نفیس پاکیزہ اور شگفتہ ہے جو حضرت مسیح موعود کی دعا اور حضرت ام المئومنین نور اللہ مرقدھا کی حسن تربیت کا فیض ہے.(حضرت سیدہ ۲۳- مئی ۱۹۷۷ء کو انتقال فرماگئیں)

Page 607

تاریخ احمدیت.جلد ۵۸۸ حواشی ا ایران اسرار از لی لی مرین ملی لک الوی مولفه اتمی تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۸-۱۹ تبلیغ رسالت صفحه ۲۰۱۷ کر چیچن ایڈوکیٹ بحوالہ اخبار عام ۲۳ فروری ۱۸۹۷ء و تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۲۹ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۲۹ ضمیمه اخبار مجرد کن بدر اس ۱۱ مارچ ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۳۳ شیخ نجدی شیطان کا لقب ہے ( جدید لغات کشوری) انجیل متحاب ۴ آیت ۷۰۵ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۴۱۰۷ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۳۹ حقیقت الوحی طبع اول صفحہ ۲۱۷ ۱۳ الحکم ۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳ ۳۰۴.میرا - اخبار بد ر۲۷ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۲ اسلام کے زندہ نہ ہب ہونے کا چیلنج

Page 608

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۸۹ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھر اس کا عبرتناک انجام

Page 609

تاریخ احمدیت.جلد ) ۵۹۰ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام شاتم رسول پنڈت لیکھرام کا قتل خانہ تلاشی اور آریوں کے خطرناک منصوبے ” استفتاء “ اور "سراج منیر کی تصنیف و اشاعت پنڈت لیکھرام کا قتل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شاتم رسول پینٹ لیکھرام کی عبرتناک موت سے متعلق جو مفصل پیشگوئی فروری ۱۸۹۳ء سے کر رکھی تھی اس کی چھ سالہ میعاد مقرر تھی جو اب انتقام کو پہنچ رہی تھی اور مارچ کے مہینہ میں عید الفطر کا دن بھی آرہا تھا جو اس واقعہ کی معین علامت بتائی گئی تھی اس لئے جوں جوں یہ دن نزدیک آرہا تھا پبلک کی بیتابی میں بھی اضافہ ہوتا جاتا تھا.دوسری طرف پنڈت لیکھرام کو بھی دھڑکا لگا ہوا تھا اور اس نے دو تنخواہ دار سپاہی اپنی حفاظت کے لئے اپنے مکان واقعہ محلہ وچھو والی لاہور میں تعینات کر لئے تھے.مگر یہ انتظامات خدا تعالیٰ کے عذاب سے کیونکر بچا سکتے تھے ؟۵- مارچ کو عید الفطر کا دن تھا.جو بظا ہر سکون سے گزارا.لیکن اگلے دن (۶- مارچ کو سات بجے شام لیکھرام مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے پنڈت دیا نند کی سوانح عمری لکھ رہے تھے اور ایک شخص جو آریہ سماجیوں کے بیان کے مطابق شدھ ہونے کے لئے پاس بیٹھا تھا اور جس کے لئے آریہ سماج کے.مارچ ۱۸۹۷ء کو شدھی کی پہلی تقریب منانے کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کرنے والی تھی) پاس بیٹھا تھا.اس دوران میں پنڈت لیکھرام تصنیف کے کام سے تھک کر ذرا آرام کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور انگڑائی لی.جس پر " شدھ ہونے والے شخص نے ان پر خنجر سے بھر پور دار کیا.کہ انتڑیاں باہر نکل آئیں.اور پنڈت لیکھرام کے منہ سے بیل کی طرح نهایت زور کی آواز نکلی جسے سن کر اس کی بیوی اور والدہ اوپر گئیں.لوگ جمع ہو گئے.لیکھرام کو لاہور کے میو ہسپتال میں پہنچادیا گیا.شام کا وقت تھا.ہسپتال میں اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب (جو اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم پاتے تھے ڈیوٹی پر تھے.مگر انگریز سرجن ڈاکٹر پیری موجود نہ تھا.جب سرجن ڈاکٹر کے آنے میں تاخیر ہوئی تو پنڈٹ لیکھرام نے بار بار یہ کہنا شروع کیا."ہائے میری قسمت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں جو ہر دا ".یعنی ڈاکٹر بھی نہیں پہنچتا.آخر بہت انتظار کے بعد قریباً نو بجے ڈاکٹر پیری et

Page 610

تاریخ احمدبیت - جلدا ۵۹۱ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام بھی آپہنچا.اپریشن سے پہلے اس نے مرزا یعقوب بیگ صاحب کو کئی مرتبہ جو " مرزا صاحب" کہہ کے پکارا.تو لیکھرام کانپ اٹھا کہ ہائے وہ مرزا صاحب یہاں ہسپتال بھی آپہنچے.ڈاکٹر پیری نے زخم کیسے لیکن قریبا بارہ بجے جب وہ انتڑیاں وغیرہ صاف کر کے اور پیٹ سی کر ہا تھ دھونے لگاتو ٹانکے چھوٹ گئے اور ان کو دوبارہ سینا پڑا.اس وقت پولیس والوں نے پنڈت لیکھرام کا بیان لینا چاہا جسے ڈاکٹر پیری نے روک دیا.کہ اس میں جان کا خطرہ ہے.اس طرح آخر شب ہو گئی اور بالاخر لیکھرام تڑپ تڑپ کر ۴ بجے صبح چل بسا.اور جس طرح پیشگوئی میں قبل از وقت بتایا گیا تھا سامری کے بچھڑے کی طرح اس کی ار تھی جلائی گئی.اور اس کی راکھ دریا میں بہادی گئی.پنڈت دیو پر کاش کابیان مشہور آریہ سماجی پنڈت دیو پرکاش نے اپنی کتاب رافع الا دہام میں پنڈت لیکھرام کے واقعات قتل پر مفصل روشنی ڈالی ہے جس کے لفظ لفظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ہر حصہ کے پورے ہونے کی شہادت ملتی ہے پنڈت صاحب لکھتے ہیں.(۳).فروری یا ۱۴- فروری ۱۸۹۷ء کو ایک شخص لالہ ہنسراج جی کے پاس گیا پھر دوسرے روز دیا نند کالج ہال میں دکھائی دیا.وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کر تا تھا.پھر پنڈت جی کو ملا.اس نے ظاہر کیا کہ وہ پہلے ہندو تھا.عرصہ دو سال سے مسلمان ہو گیا تھا.اب پھر اپنے اصل دھرم میں واپس آنا چاہتا ہے...وہ پنڈت جی کے ساتھ سایہ کی طرح رہنے لگا.کھانا بھی عام طور سے پنڈت جی کے گھر ہی کھایا کرتا تھا یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے.۵- مارچ کو عید کا دن تھا.قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر ریلوے سٹیشن آریہ پرتی ندھی سبھا کے دفتر ۱۸ یا ۱۹ چکر لگائے.مگر پنڈت جی ۵- مارچ کو ملتان سے نہ آسکے.اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا.4.مارچ کو صبح ہی پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پرتی ندھی کے دفتر سے ہوتا ہوا ریلوے اسٹیشن پر گیا.اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے.قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا یہ حالت دیکھ کر پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے.اس نے کہا ہاں.ساتھ کچھ درد بھی ہے تب پنڈت جی اسے ڈاکٹر شند اس کے پاس لے گئے.ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکار نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی پینے کی دوار پیجئے.تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا.اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدا اور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ ہی تھا.جس مکان میں پنڈت جی کام کرتے تھے وہ گلی وچھو والی لاہور میں واقع ہے اور اس کا نقشہ حسب ذیل ہے زینہ چڑھتے ہی چھت پر اس کے ساتھ لگا ہوا ایک برآمدہ ہے.اس میں پنڈت جی کام کیا کرتے تھے.

Page 611

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۲ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام دو طرف دیوار.ایک طرف اندرونی کمرہ کا دروازہ جس میں ان کی ماتا اور دھرم پتنی بیٹھی تھیں اور کواڑ بند تھا.چوتھی طرف بالکل کھلی ہوئی تھی پنڈت جی چارپائی پر جابیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر (سوانح عمری) کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہو گئے اور سفاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا....عین اس وقت جب کہ پنڈت جی نے مرغی کے جیون کے اس آخری حصہ کو جس وقت کہ انہوں نے اپنی زندگی کو دیدک دھرم کے راستہ میں قربان کیا اور کہا کہ ایشور تیری اچھیا ( خواہش) پورن (پوری) ہو ختم کیا اور تھکاوٹ کے سبب اٹھ کر ے بجے شام کے وقت انگڑائی لی.اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا نور اٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں.پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انٹریوں کو تھاما اور ایک سے چھری چھین لی.تب پنڈت جی کی ماتا اور دھرم چینی اس کی طرف دوڑیں اس وقت اس بے رحم ظالم نے پنڈت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب سے بے ہوش ہو کر گر گئیں.اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہو گیا.کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہو گئے اور پنڈٹ جی کو ہسپتال لے گئے ڈاکٹر صاحب نے زخموں کا ملاحظہ کیا اور سینے میں مصروف رہے اور کہا کہ اگر صبح تک بچ گئے تو امید زیست ہے ورنہ نہیں.پنڈت جی جب تک ہسپتال میں جیتے رہے دید منتروں کا پاٹھ کرتے رہے اور آخر ایک بجے رات کے اپنی آخری وصیت کہ آریہ سماج سے تحریر کا کام بند نہ ہو کر کے آپ کی پاک روح قفس فانی سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی".با بو گھانسی رام صاحب ایم.اے.ایل ایل بی کا اعلان حق ایک دوسرے آریہ سماجی با بو گھانی رام صاحب ایم.اے.ایل.ایل بی کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں ”صوبہ پنجاب کے دارالخلافت لاہور میں یہ قتل ہوا.مگر پولیس قاتل کا پتہ چلانے میں ناکامیاب رہی اتفاق دیکھئے.غلام احمد کی پیشگوئی پوری ہوئی اور پنڈت لیکھرام کو شہادت نصیب ہوئی اس بات کو پر میشر ہی جان سکتا ہے کہ یہ اس کا بھیجا ہو ا عذاب تھا یا انسان کا ".پنڈت مدن گوپال سناتن دھرمی کا واضح اقرار یہ تو ایک آریہ سماجی صاحب کا بیان ہے اب ایک سناتن دھری فاضل کا واضح اقرار درج کیا جاتا ہے.جناب مدن گوپال مدن پارا شر سابق ایڈیٹر " رندھیر " پٹی ضلع لاہو ر لکھتے ہیں د لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت پیشنگوئی اور الزام قتل سے انجام کار اپنے بری ہونے کی پیشنگوئی پوری ہوئی".

Page 612

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۳ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام ان تین ناقابل تردید بیانات سے واضح ہے کہ ایک عرصہ کے بعد آریہ سماجی اور سناتن دھرمی دونوں حلقے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پنڈت لیکھرام سے متعلق خدا کا چمکتا ہو انشان پوری شان سے ظاہر ہوا.ہندوؤں کی شورش اس عظیم الشان پیشگوئی کے واضح رنگ میں پورے ہونے پر چاہیے تو یہ تھا کہ ہندو اسلام اور پیغمبر خدا کی سچائی پر ایمان لے آتے مگر افسوس اس موقع پر ان کی قساوت قلبی میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زبر دست شورش برپا کر دی.خصوصاً لاہور میں جہاں یہ واقعہ ہوا تھا ہندوؤں نے کئی مسلمان بچوں کو مٹھائی وغیرہ میں زہر دے دیا.جب ایسی متعدد واردات ہو ئیں تو مسلمانوں نے ایکا کر لیا کہ وہ ہندوؤں کے ہاتھوں سے نہیں کھائیں گے اور اس طرح کئی دکانیں مسلمانوں کی کھل گئیں.آریہ لوگوں نے ملک میں اپنے جاسوسوں کا جال بچھا دیا اور ملک کا چپہ چپہ چھان مارا اور قاتل کے گرفتار کرنے والے کے ا لئے بڑے بڑے انعام رکھے گئے مگر اس شورش کا حقیقی اور تمام تر رخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات مقدس کی طرف تھا.چنانچہ ہندو اخباروں نے آپ کے خلاف عوام اور حکومت دونوں کو مشتعل کرنے میں کوئی دقیقہ فرد و گذاشت نہیں کیا.اور ملک بھر میں ایک زبر دست آگ لگادی.اور صریح لفظوں میں آپ کو قتل میں شریک قرار دیا.ہندو اخبارات کی زہر چکائی چنانچہ " اخبار عام ۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء نے حکومت کو مخاطب " کرتے ہوئے لکھا."اگر ڈپٹی صاحب یعنی آتھم کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا جس کا خمیازہ لیکھرام کو بھگتنا پڑا تب اور صورت تھی".یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے.جس کی تجاویز امرت سر اور گورداسپورہ کے نزدیک اور ادھر دہلی اور ہمیئی کے ارد گرد مدت سے ہو رہی تھیں.کیا یہ غیر اغلب ہے کہ اس سازش کا جنم ان اشخاص سے ہوا ہو جو علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مار ڈالیں گے اور مزید بر آں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن ایک درد ناک حالت میں مرے گا.کیا آریہ دھرم کے مخالف چند ایک کتب کے ایک خاص مصنف کو اس سازش سے کوئی تعلق نہیں "..ائیں ہند میرٹھ (۱۰ مارچ ۱۸۹۷ء) نے لکھا ”ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے لیکھرام کی موت کی نسبت پیشگوئی کی تھی.کیا اس کو علم غیب تھا".

Page 613

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۴ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام حضرت اقدس کو قتل کی دھمکیاں بھی نہیں ہندوؤں نے حضور کو بر طا قتل کی دھمکیاں دیں چنانچہ اخبار " رہیں ہند " لا ہو ر ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴انے لکھا.کہ " کہتے ہیں کہ ہند و قادیان والے کو قتل کرائیں گے".ایک ہندو شیشرو د اس نے اخبار آفتاب ہند (۱۸ مارچ ۱۸۹۷ء صفحه ۵) پر " مرزا قادیانی خبردار" کے عنوان سے ایک مضمون میں صاف صاف لکھا کہ " مرزا قادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے.آج کل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں پس مرزا قادیانی کو خبردار رہنا چاہیے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاؤے ".اس در پرده خونی منصوبے کی تکمیل کے لئے ایک خفیہ انجمن بھی قائم کی گئی.چنانچہ حضور کی خدمت میں پنجاب کے مختلف مقامات سے بکثرت یہ اطلاعات بھی پہنچ گئی تھیں انہیں دنوں گو جرانوالہ کے ایک معزز رئیس نے آپ کو لکھا کہ اس جگہ دو دن تک جلسہ ماتم لیکھرام ہو تا رہا.اور قاتل کے گرفتار کنندہ کے لئے ہزار روپیہ انعام قرار پایا.اور دو سو اس کے لئے جو نشان دہی کرے.نیز سنا گیا ہے کہ ایک خفیہ انجمن آپ کے قتل کے لئے منعقد ہوئی ہے اور اس انجمن کے ممبر قریب قریب کے شہروں کے لوگ (جیسے لاہور امرت سر بٹالہ اور خاص گوجرانوالہ کے ہیں) منتخب ہوئے ہیں.بیس ہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست ہو بھی گیا ہے باقی دوسرے شہروں اور دیہات سے وصول کیا جائیگا مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس مشورہ قتل کے سرگروہ اس شہر کے بعض وکیل اور چند عہدہ دار سرکاری اور لاہور کے بعض آریہ رئیس بھی ہیں".حضرت اقدس کی طرف سے ہندؤں کو چیلنج کوئی اور ہوتا تو قل کا نام سنتے ہی دہشت زدہ ہو جاتا.مگر حضرت اقدس تو خدا کے مامور تھے آپ تو ان مخالفتوں اور شورشوں کی آگ ہی میں اب تک اپنے خدا کا پیغام پہنچار ہے تھے.آپ کو یہ دھمکیاں کیا ڈرا سکتی تھیں.ایک صاحب مستان شاہ کابلی امرت سر میں قیام پذیر تھے جو حضرت اقدس کے مخالف اور آپ کی پیشگوئی کے مکذب تھے.لیکھرام کی ہلاکت سے دو ایک روز قبل انہوں نے شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند سے کہا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہو گی.لیکن جب لیکھرام کے قتل کی دہشتناک خبر پہنچی تو مستان شاہ کا چہرہ یہ سنتے ہی سیاہ پڑ گیا اور ان کے ایک مرید نے جو گورنمنٹ سکول امرت سر میں ریاضی پڑھاتے تھے شیخ صاحب سے کہا کہ کل شام کو پنڈت لیکھرام قتل ہو گیا.مرزا صاحب کی پیشگوئی تو پوری ہو گئی لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے ہمدردی ہے کہ کہیں ان کی جان پر کوئی آفت نہ آجائے اسی وقت مرزا صاحب کو خط لکھ دیں کہ آئندہ کوئی بات نے

Page 614

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۵ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام اس پیشگوئی سے متعلق نہ لکھیں اور نہ کوئی ایسی پیشگوئی کریں لاہور میں بڑا تہلکہ بپا ہے اور چاروں طرف شور و غل مچ رہا ہے.وہ بار بار اصرار سے کہتا تھا.کہ پیسے مجھ سے لے لو اور خط لکھدو.احتیاط اچھی چیز ہے.لگا بیگانوں کی دہشت کا یہ عالم ہو تو لاہور کی احمد یہ جماعت پر کیا گزری ہوگی.لیکن خدا کے بہا در پہلوان کو دیکھو کہ ادھر یہ اطلاع سنی ادھر آریوں کو اسلام کے اس چپکتے ہوئے نشان کی طرف توجہ دلانے کے لئے اشتہار لکھا کہ اگر چہ انسانی ہمدردی کی رو سے ہمیں افسوس ہے کہ اس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور ناگہانی حادثہ کے طور پر مین جوانی کے عالم میں ہوئی.لیکن دوسرے پہلو کی رو سے ہم خدا تعالی کا شکر کرتے ہیں جو اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہو ئیں.سو یہ خدا تعالی کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ اس نے چاہا کہ اس بندہ کی تحقیر کرنے والے متنبہ ہو جائیں اور اپنی جانوں پر رحم کرین ایسا نہ ہو کہ اسی حجاب میں گزر جائیں".اس اشتہار کا عنوان تھا.کرایت گرچه بے نام و نشان است اس اشتہار کے تین روز بعد آپ نے سرسید احمد خان پر اتمام حجت کے لئے بھی اشتہار دیا اور انہیں بتایا کہ "بركات الدعا" میں لیکھرام سے متعلق قبل از وقت جس دعائے مستجاب کی اطلاع دی گئی تھی وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے کمال صفائی سے پوری ہو گئی ہے اس لئے اب آپ ایسے منصف مزاج کو اپنے اس خیال سے رجوع کر لینا چاہیے کہ دعا محض عبادت ہے جو قبول نہیں ہوتی.جیسا کہ رسالہ "الدعاء والاستجابت " میں ظاہر کیا گیا ہے.بیا بنگر ز غلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف یہ پیشگوئی جس خارق عادت رنگ میں اپنی ایک سے اتمام حجت اور آریوں کو چیلینج ایک شق کے ساتھ پوری ہوئی تھی اس کو دیکھ کر ہر سعید الفطرت ورطہ حیرت میں پڑ گیا مگریہی بات آریوں کے لئے انکار و تکذیب کا موجب بن گئی.چنانچہ انہوں نے ملک بھر میں مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب نے پنڈت جی کو قتل کروا دیا ہے اور ثبوت یہ پیش کیا کہ آپ نے برسوں قبل اس کی ہلاکت کے بارے میں جو کچھ خبر دی تھی یہ حادثہ عین اسی رنگ سے وقوع میں آگیا ہے.حضور نے تکذیب د استهزاء کا یہ رنگ دیکھا تو آپ نے اشتہاروں پر اشتہار دیئے اور تحدی کے ساتھ ان کو بتایا کہ لیکھرام کے قتل میں کسی انسانی منصوبہ کا ہر گز دخل نہیں ہے.اسلام اور آریہ مذہب کا خدا تعالی کی درگاہ میں برسوں سے ایک مقدمہ دائر تھا سو آخر ۶ - مارچ ۱۸۹۷ء کے اجلاس میں اس عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کی نہ کوئی اپیل اور نہ مرافعہ - آریہ صاحبوں کو چاہیے کہ اب گورنمنٹ کو تکلیف نہ دیں.مقدمہ صفائی سے فیصلہ پاچکا.

Page 615

تاریخ احمدیت جلدا ۵۹۶ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام نیز لکھا.”ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرنا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرنا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتا.تو مجھے اللہ تعالٰی کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی وہ زندہ ہو جاتا.وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں.اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی".آپ نے سازش کا الزام لگانے والوں سے پوچھا.کہ آپ لوگوں میں بھی بڑے بڑے اوتار گزرے ہیں جیسے راجہ را چند ر صاحب اور راجہ کرشن صاحب.کیا آپ لوگ ان کی نسبت یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے پیشگوئی کر کے پھر اپنی عزت رکھنے کے لئے ایسا حیلہ کیا ہو کہ کسی اپنے چیلہ کی منت سماجت کی ہو کہ اس کو اپنی کوشش سے پوری کر کے میری عزت رکھ لے پس کیونکر ممکن ہے کہ دعوئی تو یہ ہو کہ میں وقت کا عینی ہوں اور جھوٹی پیشگوئی کو اس طرح پورا کرنا چاہے کہ مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کسی طرح میری پیشگوئی پوری ہو.کیا ایسا مردار ایک پاک جماعت کا مالک ہو سکتا ہے.کہاں ہے تمہارا پاک کا شنس.اے مہذب آریو.اور کہاں ہے فطرتی زیر کی.اے آریہ کے دانشمند ر ا ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرد اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کو چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا.تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیز گاری سیکھنے کے لئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں.میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح It چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمار اشکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں ".آریوں کی بدگمانیوں کا ہر پہلو سے ازالہ کر کے آپ نے ان کے سامنے بالاخر فیصلہ کا یہ آسان طریق رکھا کہ اگر اب بھی کسی کا خیال ہے کہ میں نے لیکھرام کے قتل کی سازش کی ہے.تو ایسا شخص میرے سامنے قسم کھائے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بد دعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے

Page 616

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۷ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہیے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے - گنگا بشن صاحب کی آمادگی اور فرار حضرت اقدس کے اس چینل پر آریہ سماج دم بخودرہ گئی.اور کسی بہادر کلیجہ والے آریہ کو آپ کے سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی.البتہ ایک صاحب گنگا بشن نامی نے ” پنجاب کا چار ۳ اپریل ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے پر آمادگی کا اظہار کیا.اور لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں بائیں شرط کہ (۱) پیشگوئی پوری نہ ہونے کی حالت میں آپ کو پھانسی دی جائے (۲) میرے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کرا دیا جائے اگر میں بد دعا سے بیچ رہوں تو وہ روپیہ مجھے مل جائے (۳) جب میں قادیان میں قسم کھانے کے لئے آؤں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ لیکھرام کی طرح قتل نہ کیا جائے گا جسے حضور نے فورا گنگا بشن کی تینوں شرطیں منظر فرمالیں اور لکھا.میں تیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھروں تو مجھ کو پھانسی دیا جائے.میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے پس ہرگز ممکن نہیں ہو گا کہ میں پھانسی ملوں یا ایک خرمہرہ بھی کسی تکذیب کرنے والے کو دوں.بلکہ وہ خدا جس کے حکم سے ہر جنبش و سکون ہے اس وقت کوئی اور ایسا نشان دکھائے گا جس کے آگے گردنیں جھک جائیں".۱۴ یہ اشتہار پڑھ کر لالہ جی کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے فضول عذرات سے جان چھڑانے کی کوشش کی.مثلاً کہا کہ " ایک سال کو میں نہیں مانتا.بلکہ چاہتا ہوں کہ فور از مین میں غرق کیا جاؤں یا یہ کہ مہینہ اور گھنٹہ موت کا مجھے بتلایا جائے " حضرت اقدس نے جواب دیا کہ " یہ آپ کے پہلے اقرار کے خلاف ہے علاوہ اس کے میں خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوں.اس کے حکم سے زیادہ نہیں کر سکتا.اور نہ کم.ہاں اگر میعاد کے اندر کوئی زیادہ تشریح خداتعالی کی طرف سے کی گئی تو میں اس کو شائع کر دوں گا.مگر کوئی عہد نہیں.آپ اگر اپنی بہادری پر قائم ہیں تو ایک سال کی شرط قبول کرلیں.میں یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ صرف اس حالت میں یہ نشان نشان سمجھا جائے گا.کہ جب کسی انسانی منصوبہ سے آپ کی موت نہ ہو اور کسی دشمن بد اندیش کے قتل کا شبہ نہ ہو".لالہ گنگا بشن صاحب نے اب کی دفعہ یہ شرط بھی زائد کی تھی کہ اگر آپ کو جھوٹا نکلنے کی صورت میں پھانسی دی جائے تو لاش گنگا بشن صاحب کے حوالہ کی جائے جو چاہیں تو جلادیں یا دریا برد کر دیں.حضرت اقدس نے اس شرط کی منظوری کا بھی اعلان کر دیا اور ساتھ ہی لکھا کہ ”میرے نزدیک بھی

Page 617

تاریخ احمدیت جلد ۵۹۸ پنڈت لیکھرام کا صبر تاک انجام جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلت کے لائق ہے اور یہ شرط در حقیقت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگا بشن صاحب کو عین موقعہ پر یاد آگئی.لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرائط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں.ہم نے مناسب نہیں دیکھا کہ ابتداء اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیں.مگر اب چونکہ لالہ گنگا بشن صاحب نے بخوشی خود یہ شرط قائم کر دی اس لئے ہم بھی نہ دل سے شکر گزار ہو کر اور اس شرط کو قبول کر کے اسی قسم کی شرط اپنے لئے قائم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب گنگا بشن صاحب حسب منشا پیشگوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر کسی عام منظر میں یا لاہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے ".اب لالہ جی کے لئے کوئی راہ فرار باقی نہیں تھی.حضرت اقدس ان کی شرطوں کو تسلیم کرتے ہوئے بار بار للکار رہے تھے کہ میدان میں آؤ.مگر لالہ گنگا بشن صاحب کو تو اپنی لاش سامنے نظر آرہی تھی.وہ مرد میدان کیسے بنتے.ناچار ایک اشتہار میں اپنی لاش دینے سے انکار کر کے ہمیشہ کے لئے چپ سادھ لی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی اب آریہ سماج پر تو سناٹا چھا گیا مگر خدا جانے آریوں کی طرف سے نمائندگی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو کیا سوجھی کہ وہ آریوں کی نمائندگی کرتے اور ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے میدان مقابلہ میں آگئے اور اشاعتہ السنہ" میں الہامی قاتل" کے عنوان سے مضمون لکھا کہ وہ لیکرام کے قتل میں آپ کا سازشی ہاتھ ہونے پر قسم کھانے پر آمادہ ہیں مگر ایک برس کی میعاد سے ڈرتے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قدر مدت میں مر جائیں یا کوئی اور عذاب نازل ہو جائے اس لئے قسم کے لئے فوری نتیجہ پر آنکھ ہونا چاہیے.یہ شرط چونکہ خلاف سنت و الہام تھی اس لئے حضرت اقدس نے ان کی حیلہ بازیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا.IA ایک ایسے شخص کے ساتھ کہ اپنی ذکر کردہ بنیاد الہام ٹھراتا ہے ضد کرنا حماقت ہے.صاحب الہام کے لئے الہام کی پیروی ضروری ہوتی ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ چند ہفتہ میں ان پر عذاب نازل کرے مگر ہماری طرف سے ایک برس کی ہی میعاد ہو گی.اب اس سے ان کا منہ پھیرنا اپنے درو نگو ہونے کا اقرار کرتا ہے".اس جواب نے مولوی صاحب کے حدیث و سنت کے عالم ہونے کے دعاوی پارہ پارہ کر دئیے.اور

Page 618

تاریخ احمدیت.جلدا ۵۹۹ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام وہ گنگا یشن کی طرح میدان سے فرار اختیار کر گئے.حضرت اقدس کی خانہ تلاشی آریہ سماجیوں کے جذبات مشتعل دیکھ کر انگریزی حکومت کی مشیزی حرکت میں آگئی.چنانچہ اس نے قاتل کے حلیہ کا اشتہار شائع کیا.خفیہ پولیس نے دوڑ دھوپ کر کے کئی افراد کو شبہ میں گرفتار کر لیا.ایک شخص کشمیر سے پکڑ کر لاہور لایا گیا.اس شخص کا حلیہ مشتہرہ حلیہ کے مطابق تھا لیکن آخر جب پنڈت لیکھرام کی والدہ اور بیوی نے اسے دیکھا تو کہا یہ وہ شخص نہیں اس کی آواز قاتل کی آواز جیسی نہیں ہے جس پر وہ چھوڑ دیا گیا.اسی طرح ایک احمدی با بود زیر خاں صاحب بھی (جو برما میں کام کرتے تھے ) زیر حراست کرلئے گئے مگر تفتیش کرنے پر وہ بھی رہا کر دئیے گئے.اس پکڑ دھکڑ کے علاوہ قتل کا سراغ لگانے کی غرض سے وسیع پیمانے پر تلاشیاں بھی ہو ئیں.چنانچہ اس سلسلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی بھی ہوئی یہ ۸- اپریل ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے.حضرت اقدس پولیس افسروں کے آنے سے چند منٹ پیشتر "سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہے تھے.جس میں یہ مضمون تھا کہ لیکھرام کے قتل سے آپ پر ویسا ہی ابتلاء آیا.جیسے مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے موقعہ پر آیا تھا.یہ مضمون پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں یکا یک خیال آیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمنوں نے خود بھی ایذا رسانی کی کوششیں کی تھیں اور گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی تھی.مگر میرے معاملے میں تو اب تک صرف ایک پہلو ہے کیا اچھا ہو تاکہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک مسٹر یمار چند سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور میاں محمد بخش انسپکٹر بٹالہ اور ہیڈ کانٹیل اور پولیس کی جمعیت نے قادیان پہنچ کر حضور کے گھر کا محاصرہ کر لیا.قبل ازیں صبح کے وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب نے کہیں سے پولیس کے آنے کی خبر سن لی.تو وہ سخت گھبرائے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے اور سخت پریشانی کے عالم میں کہا کہ پولیس گرفتاری کے لئے آرہی ہے.حضرت اقدس نے مسکراتے ہوئے فرمایا.” میر صاحب (دنیادار) لوگ خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں.ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالٰی کی راہ میں لوہے کی کنگن پہن لئے.پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا.مگر ایسا نہ ہو گا.کیونکہ خدا تعالی کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں.اس وقت حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب بھی بیٹھے تھے.انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس پر پولیس کی اطلاع کا خفیف سا اثر بھی نہ ہوا.اور بدستور کاپی پڑھتے رہے.لیکن جب پولیس نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے کام بند کر دیا اور فور اجا کر دروازہ کھول دیا.مسٹر بیمار چند نے ٹوپی اتار کر کہا کہ " مجھے حکم آگیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی لوں"

Page 619

تاریخ احمدیت.جلدا 4.پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام تلاشی کا نام سن کر آپ کو اس قدر خوشی ہوئی جتنی اس ملزم کو ہو سکتی ہے جس سے کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہو گی.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آپ اطمنان سے تلاشی لیں اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں.اس کے بعد آپ انہیں دوسرے افسروں سمیت مکان میں لے گئے اور پہلے مردانہ اور پھر زنانے مکان میں تمام بستے وغیرہ انہوں نے دیکھے.اس وقت مرزا امام دین بھی شرار تا پولیس کے ساتھ تھا.اللہ کی قدرت !! جب ایک بستہ کھولا گیا تو سب سے پہلے جو کاغذات برآمد ہوئے وہ پنڈت لیکھرام کے لکھے ہوئے تھے جو اس نے نشان نمائی کے مطالبہ کے لئے اپنے قلم سے حضور کے نام لکھے تھے.تلاشی بہت دیر تک جاری رہی.بعض ٹرنکوں کے قفل تو ڑ کر بھی سامان دیکھے گئے.اور پولیس نے گھر کا کونہ کو نہ چھان مارا.مگر کچھ بر آمد نہ ہوا.تلاشی کے دوران میں حضرت اقدس کے روئے منور پر کسی قسم کی فکر و تشویش کے آثار قطعا نہیں تھے.بلکہ آپ بالکل مطمئن و مسرور تھے.حضور کے گھر کی تلاشی کے بعد مہمانخانہ ، مطبع اور حضرت مولانا نور الدین کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی.دیواری الماریاں بھی دیکھیں گئیں.اور پتھر کی سل تک لوٹ پوٹ کی گئی.مگر پولیس کے ہاتھ کچھ نہ آیا.اس موقعہ پر تلاشی کے واقعات کے متعلق حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی عینی شہادت کا درج کرنا ضروری ہے.آپ نے فرمایا ( حضرت سیدہ نواب) مبارکہ کا چلہ نہانے کے دو تین دن بعد میں اوپر کے مکان میں چارپائی پر بیٹھی تھی اور تم ( مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی) میرے پاس کھڑے اور بھیجو گھر کی ایک خادمہ کا نام بھی پاس تھی.کہ تم نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہا."اماں اور پائی.میں نہ سمجھی.تم نے دو تین دفعہ دہرایا اور نیچے کی طرف اشارہ کیا.جس پر بیجو نے نیچے دیکھا تو ڈیوڑھی کے دروازے میں ایک سپاہی کھڑا تھا.پھیجو نے اسے ڈانٹا.کہ یہ زنانہ مکان ہے.تو کیوں دروازے میں آگیا ہے.اتنے میں مسجد کی طرف کا دروازہ بڑے زور سے کھنکا.پتہ لگا کہ اس طرف سے بھی ایک سپاہی آیا ہے حضرت صاحب اندر دالان میں بیٹھے کچھ کام کر رہے تھے.میں نے محمود (حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ان کی طرف بھیجا کہ سپاہی آئے ہیں اور بلاتے ہیں حضرت صاحب نے فرمایا کہو کہ میں آتا ہوں.پھر آپ نے بڑے اطمینان سے اپنا بستہ بند کیا اور اٹھ کر مسجد کی طرف گئے.وہاں مسجد میں انگریز کپتان پولیس کھڑا تھا.اور اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی تھے.کپتان نے حضرت صاحب سے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لیکر ام کے قتل کے متعلق آپ کے گھر کی تلاشی لوں.حضرت صاحب نے کہا آئے اور کپتان کو معہ دوسرے آدمیوں کے جن میں بعض دشمن بھی تھے.مکان کے اندر لے آئے.اور تلاشی شروع ہو گئی.پولیس نے مکان کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا تھا.ہم عورتیں اور بچے ایک طرف ہو گئے.سب کمروں کی باری باری تلاشی ہوئی اور حضرت صاحب کے

Page 620

تاریخ احمدیت جلدا 4+1 پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام کاغذات وغیرہ دیکھے گئے تلاش کرتے کرتے ایک خط نکلا جس میں کسی احمدی نے لیکھرام کے قتل پر حضرت صاحب کو مبارک باد لکھی تھی.دشمنوں نے اسے جھٹ کپتان کے سامنے پیش کیا کہ دیکھئے اس سے کیا نتیجہ لکھتا ہے ؟ حضرت صاحب نے کہا کہ ایسے خطوں کا تو میرے پاس تھیلا رکھا ہے اور پھر بہت خط کپتان کے سامنے رکھ دیئے.کپتان نے کہا نہیں کچھ نہیں...جب کپتان نیچے سرد خانے میں جانے لگا.تو چونکہ اس کا دروازہ چھوٹا تھا اور کپتان لمبے قد کا آدمی تھا اس کا سر اس زور کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرایا کہ بیچارہ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا.حضرت صاحب نے اس سے اظہار ہمدردی کیا اور پوچھا کہ گرم دودھ یا کوئی اور چیز منگوائیں.اس نے کہا نہیں کوئی بات نہیں...حضرت صاحب خود اسے ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف لے جاتے تھے اور ایک ایک چیز دکھاتے ” سراج منیر " اور "استفتاء" کی تصنیف و اشاعت حضرت اقدس نے آریہ سماج کے پراپیگنڈا کی قلعی کھولنے "1 - کے لئے انہی دنوں "سراج منیر " اور "استفتاء " کے نام سے دو اہم کتابیں تصنیف فرما ئیں.سراج منیر ۲۴ مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھی گئی اور مئی ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی.اس لاجواب تصنیف میں حضرت اقدس نے اپنی صداقت کے ۳۷ نشانات درج فرمائے جو لیکھرام کی ہلاکت سے قبل آفتاب نیم روز کی طرح پورے ہو چکے تھے.اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر آسمانی گواہ تھے.رسالہ استفتاء " ۱۲- مئی ۱۸۹۷ء کو شائع ہوا.جو لیکھرام کی پیشگوئی سے مخصوص تھا.اور جس میں حضرت اقدس نے اس نشان کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے اور اس میں الہی قدرت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے ملک کے اہل الرائے اصحاب سے دریافت کیا ہے کہ کیا خدا تعالٰی کی یہ پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی ہے یا نہیں ؟ اس کتاب میں حضرت اقدس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ پیشگوئی ابرس قبل براہین احمدیہ " میں بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے اور براہین کی تالیف کا وہ زمانہ تھا کہ لیکھرام اس وقت غالبا ۱۲/۱۳ برس کا ہو گا جو اس بات کا نا قابل تردید ثبوت ہے کہ یہ نشان خدا تعالی کی قدرت نمائی سے ظہور میں آیا ہے کسی انسانی منصوبہ کا اس میں ہر گز دخل نہیں.

Page 621

تاریخ احمدیت جلدا ۶۰۲ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام سکھوں کی طرف سے مخالفت اور اتمام حجت حضرت اقدس کی مخالفت میں ہندوستان کی تمام بڑی بڑی مذہبی قومیں متحد ہو چکی تھیں صرف سکھ علیحدہ نظر آتے تھے مگر وہ بھی "ست بچن " کی تصنیف سے بگڑ گئے اور عین اس وقت میدان مقابلہ میں آئے جب پنڈت لیکھرام کے قتل نے ملکی مطلع غبار آلود کر رکھا تھا.اور وحشت و جنون کے گھٹا ٹوپ بادل چھار ہے تھے.چنانچہ ایک صاحب سردار راجندر سنگھ نے "خبط قادیانی کتاب لکھی جس میں آنحضرت کی شان اقدس میں گستاخانہ حملے کئے اور بادا نانک کے مسلمان ہونے پر غم و غصہ کا اظہار کیا.حضرت اقدس کو سکھ قوم سے حسن ظن تھا جو اس کتاب سے مجروح ہوا آپ کو ہر گز یہ خیال نہیں تھا کہ سکھ قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو رسول خدا ﷺ سے متعلق بے باکی کرتے ہیں.چنانچہ آپ نے ۱۸- اپریل ۱۸۹۷ء کو اس کے جواب میں مفصل اشتہار لکھا.اور فرمایا.کوئی برا مانے یا بھلا.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان تمام نہ ہوں میں سچ پر قائم وہی مذہب ہے جس پر خدا کا ہاتھ ہے.اور وہی مقبول دین ہے جس کی قبولیت کے نور ہر ایک زمانے میں ظاہر ہوتے ہیں یہ نہیں کہ پیچھے رہ گئے ہیں.سو دیکھو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خدا کی تائید میں ہر وقت شامل ہیں کیا ہی بزرگ قدروہ رسول ہے جس سے ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے.جس کی محبت سے روح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے ".حضور نے اس اشتہار میں سکھوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے سردار راجندر سنگھ کو اسی آسمانی فیصلہ کی طرف بلایا جو آپ کے جوش ایمان اور منصب ماموریت کا ابتداء ہی سے طرہ امتیاز تھا.یعنی آپ نے انہیں دعوت دی کہ آپ اگر بادا نانک کو مسلمان نہیں سمجھتے تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم کھا دیں کہ در حقیقت بادا نانک صاحب دین اسلام سے بیزار تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا سمجھتے تھے اور اگر دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں تو اے قادر کر تار مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سزا دے.حضرت اقدس نے یہ وعدہ فرمایا کہ کسی اخبار میں یہ قسم شائع ہونے کے بعد ہم ان کے لئے پانچ سو روپیہ جمع کرا دیں گے جو ان کے ایک سال تک زندہ رہنے کی صورت میں انہیں فی الفور دے دیا جائے گا.نیز یقین دلایا کہ اگر کسی انسان کے ہاتھ سے آپ کو تکلیف پہنچے تو وہ ہماری بددعا کا اثر ہرگز نہیں سمجھا جائے گا.لیکن سردار راجندر سنگھ خدا کے شیر کی ایک ہی گرج سے ایسے دم بخود ہوئے کہ زندگی بھر انہوں نے اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیا.

Page 622

تاریخ احمدیت جلدا ۶۰۳ پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام -1 - A الحکم ۱۲۸ تمبر ۱۹۳۸ء صفحہ یہ کالم تمہیر مو حواشی حقیقة الوحی طبع اول صفحه ۲۸۱-۲۹۳- احکام ۲۸- تمبر ۱۹۳۸ء ذکر حبیب مولفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحه ۶۲ - وافع الادعام مصنفہ دیو پرکاش صفحه ۱ بحواله الفضل ۳ مارچ ۹۴۹ صفحه ۱۰) مسافر آگرہ کا شہید نمبر 4 مارچ ۱۹۳ ء اہنسا کا لوتار " مولفه مدن گوپال مدن پاراشر مطبوعه را نا آرٹ پریس امرت سرا نومبر ۱۹۳۹ء) مدن گوپال صاحب نے اس رسالہ میں یہاں تک لکھ دیا ہے.کہ میں نے احمدیت کا مطالعہ تو اس کی مخالفت کرنے کی غرض سے شروع کیا تھا لیکن نتیجہ اس کے بالکل ہی بر عکس یہ آمد ہوا.میں جو کبھی احمدیت کا نام سن کر چڑھ جایا کرتا تھا احمدیت کا تھوڑا بہت مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا قائل ہو گیا کہ احمدیت ان مومنوں کی جماعت ہے جو اخوت کے علمبردار اور آنہا کے پجاری ہیں اور جس کی بنیاد ان اصولوں پر قائم کی گئی ہے.جو پر ماتما کے بنائے ہوئے ہیں اور جنہیں بنا لینے سے منش کا کلیان ہو سکتا ہے".(صفحہ ۴۳) - ARTADHARM : 14 BY KENNETTI W JONES - مطبوعہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس بارکلے لاس اینجلز لنڈن - A ہندو اخبارات کے مقتبسات "سراج منیر " حاشیہ صفحہ ۴۳-۲۲ طبع اول سے ماخوذ ہیں.و تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۴۶ نور احمد طبع دوم حصہ اول صفحه ۳۹ ۱۰ اشتار ۹ مارچ ۱۸۹۷ء (بحواله تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۳۸۰۳۶ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۳۲-۷۵ ۱۳ - تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۵۲ " تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحہ ۷۷ ۱۵ - تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۸۸ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه - تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۰۰ ۱۸ - اشاعۃ السنہ جلد ۱۸ نمبر ۳ - 19."حیات احمد جلد چهارم صفحه ۳۰۲۰۳۰۰ ۲۰ حیات احمد جلد چهارم صفحه ۲۷۹ - ۲۱ - الحکم ہے.جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۳ ۲۲ - حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۲۸۶ ۲۳ - سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۴۳ طبع دوم ۲۴ - دوران تلاشی حضور نے میاں محمد بخش صاحب انسپکٹر پولیس سے فرمایا " آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی " (روایات جلد ۱۳ صفحہ ۱۳۲ غیر مطبوعہ) چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.۲۵ - تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۹۲-۹۸

Page 623

تاریخ احمدیت جلدا ۶۰۴ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی نائب سفیر سلطان ترکی حسین کامی کی قادیان میں آمد اور سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی مخالفین کا شور و شغب پورے زوروں پر تھا کہ مئی میں آپ کے خلاف مہم چلانے کا ایک نیا بہانہ ان کے ہاتھ آگیا.حسین کامی کا قادیان میں درود اور حضرت اقدس سے ملاقات واللہ یہ ہوا کہ حسین کامی وائس قونصل ترکی لاہور آئے اور مسلمانان لاہور کی طرف سے خلیفتہ المسلمین سلطان عبد الحمید ثانی سے گہری عقیدت وارادت کے باعث ان کا پر جوش استقبال ہوا اور ڈپٹی برکت علی خاں صاحب شاہجہانپوری صدر انجمن اسلامیہ لاہور کی کوٹھی بیرون موچی دروازہ میں ان کے قیام کا انتظام کیا گیا.جماعت احمدیہ لاہور کے بعض اصحاب نے ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملاقات کی ، پیغام حق پہنچایا اور جماعتی لٹریچر بھی دیا جس سے انہوں نے متاثر ہو کر حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے نہایت عاجزی کے ساتھ تحریری درخواست کی اور اس میں حضور علیہ السلام کو ” جناب مستطاب معلی القاب قدرة المحققین قطب العارفین حضرت پیر دستگیر" کے القاب سے یاد کیا.حسین کامی ۱۰ یا امئی ۱۸۹۷ کو نماز عشاء کے قریب قادیان پہنچے.دوسرے روز حضرت اقدس اپنے طریق کے خلاف ان کی درخواست پر تخلیہ میں ان سے ملے.انہوں نے سلطان ترکی کے لئے ایک خاص دعا کی تحریک کی اور یہ بھی چاہا.کہ آئندہ ان کے لئے جو کچھ قضا و قدر سے آنے والا ہے اس سے مطلع کیا جائے.حضرت اقدس پر اول ملاقات میں ہی جناب اٹھی کی طرف سے ان کی منافقانہ کیفیت بے نقاب کر دی گئی.اور ان کی دنیا پرستی کا رنگ آپ پر عیاں ہو گیا.سلطنت روم کی نسبت کشفی خبر حضرت القدس اگر چہ سلطان عبدالحمید ثانی کی تعریف کرتے ہوئے ان کا یہ واقعہ ہمیشہ سنایا کرتے تھے کہ

Page 624

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۰۵ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی انہوں نے ایک جنگ کے موقعہ پر یہ کہا تھا کہ کوئی خانہ خدا کے لئے بھی خالی رکھنا چاہیے.لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے بوقت ملاقات صاف کہہ دیا کہ "سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے انکے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں".نیز اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا ہے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بر بادی کو چاہتی ہے تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ 1 علام حضرت اقدس حسین کامی کا ناظم الہند میں غضب آلود مراسلہ اور عام مخالفت کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر حسین کامی صاحب (جنہوں نے قادیان میں اکثر وقت لہو و لعب اور شطرنج میں گزارا) سخت جزبز ہوئے اور واپس آکر اخبار "ناظم الہند میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک غضب آلود مراسلہ شائع کیا جس نے عداوت کی ایک نئی بنیاد ڈال دی اخبارات نے اسے خوب اچھالا اور بڑی کثرت سے اشتہارات میں اس کا چرچا ہوا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس قسم کے موقعہ کی ہمیشہ تاک میں رہتے تھے ” خلیفتہ المسلمین " کی عقیدت و الفت کا واسطہ دے کر مسلمانوں کے جذبات سے خوب کھیلے اور اشتعال انگیزی کی حد کر دی.چودھویں صدی "کا بزرگ چین کامی صاحب کے خط پر (ضلع راولپنڈی) کے ایک وقع عالم اور رئیس اعظم راجہ جہاں داد خاں صاحب بھی پرا را پیگنڈا کی رو میں بہہ گئے اور نازیبا کلمات آپ کی شان میں کے اور گو انہوں نے از خود تو کوئی مضمون آپ کے خلاف نہ لکھا مگر اخبار "چودھویں صدی " نے انہی کا سہارا لے کر ۱۵- جون ۱۸۹۷ء کے اخبار میں حضرت اقدس کے متعلق نا واجب کلمات لکھے.حضرت اقدس کو اس کے رد میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ عجیب بات ہوئی کہ جب یہ اخبار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پڑھا گیا تو اس کے دوران میں یہ عبارت بھی آگئی کہ " ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار پڑھا تو بے ساختہ ان کے منہ سے یہ شعر نکل گیا.چوں خدا خواهد که پرده کسی درد میلش اندر طعنه پاکان برد اس مقام پر پہنچ کر حضرت اقدس کی روح میں بد دعا کے لئے ایک خاص جوش اٹھا تب آپ نے اس شخص کے بارے میں جس کو اخبار میں " بزرگ" کے لفظ سے یاد کیا گیا تھا دعا کی کہ "یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں کذاب ہوں اور اور تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے tt

Page 625

تاریخ احمدیت.جلدا 4.4 سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی لملعون اور مردود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں.تو میں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کر ڈال.اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اس شخص کے پردے پھاڑ دے جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیان میں آکر مجمع عام میں تو بہ کرے تو اسے معاف فرما تو رحیم و کریم ہے.اس بد دعا میں حضرت اقدس نے یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے یکم جولائی ۱۹۹۸ء تک اللہ تعالٰی سے فیصلہ کی درخواست کی.حضرت اقدس کی دعا قبول ہو گئی جس کی حضرت اقدس کی طرف سے اطلاع عام اطلاع عام کے لئے آپ نے ۲۵- جون ۱۸۹۷ء کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں یہ سب واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ” میرے اشتہار کا بجز اس کے کیا مطلب تھا کہ رومی لوگ تقویٰ اور طہارت اختیار کریں کیونکہ آسمانی قضاء قدر اور عذاب سماوی کے روکنے کے لئے تقویٰ اور توبہ اور اعمال صالحہ جیسی اور کوئی چیز قوی تر نہیں کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں" - B چودھویں صدی کے " بزرگ کی معافی اب "حسین کامی کی ملاقات کے نتیجہ میں تین پیشگوئیاں پبلک میں آگئیں.چودھویں صدی" کے بزرگ کی توبہ نہ کرنے کی صورت میں ایک سال میں تباہی.و حسین کامی کی منافقت اور غداری.اندرونی نظام کی خرابی کے نتیجے میں سلطنت ترکی میں انقلاب".بظاہر حالات ایسے نہیں تھے کہ ان میں سے کوئی پہلو بھی ظاہر ہو تا.مگر دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ یہ تمام پیشگوئیاں مختصر سے وقفہ کے ساتھ بڑی شان سے پوری ہو گئیں.پہلی پیشگوئی چودھویں صدی کے بزرگ سے متعلق تھی.سو راجہ جہاں داد صاحب نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے چند ماہ کے بعد معافی کی عاجزانہ درخواست کی.چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے ۲۹ اکتوبر ۱۸۹۷ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں حد درجہ فروتنی انکسار اور تذلل سے ایک مفصل خط لکھا.یہ خط ان الفاظ پر ختم ہو تا تھا.: اس وقت تو میں ایک مجرم گنگار کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہو تا ہوں اور معافی مانگتا ہوں

Page 626

تاریخ احمدیت جلدا ۶۰۷ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیٹھو کی (مجھ کو حاضر ہونے میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں ظاہری حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں شاید جولائی ۱۹۹۸ ء سے پہلے حاضر ہی ہو جاؤں.امید کہ بارگاہ قدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے کہ نسی و لم نجد له عز ما قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمد او جان بوجھ کر نہ کیا جائے وہ قابل راضی نامہ و معافی کے ہوتا ہے.فاعفوا واصلحوان الله يحب المحسنين.میں ہوں حضور کا مجرم (دستخط بزرگ) روالپنڈی ۲۹ اکتوبر ۴۶۹۴ راجہ جہاں داد خاں نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ خط بھیجوانے کے علاوہ ہاتھا کام راولپنڈی کے اخبار چودھویں صدی ۸- نومبر۱۸۹۷ء ( صفحہ ۳-۴) میں بھی شائع کروا دیا.حضرت اقدس نے اس خط پر ۲۰- نومبر ۱۸۹۷ء کو بذریعہ اشتہار اعلان فرمایا کہ خدا تعالی اس بزرگ کی خطا معاف کرے اور اس سے راضی ہو.میں اس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اس کے حق میں دعائے خیر کرے " - 1 دوسری پیشگوئی خود حسین کامی کی مجرمانہ خیانت اور اپنے عہدہ سے بر طرفی حسین کامی کی نفاق آمیزی کی نسبت تھی جو خارق عادت رنگ میں پوری ہوئی.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسی سال یونانیوں نے ترکی کے مقبوضات میں سے ایک جزیرہ کریٹ پر قبضہ کر کے اس کے مسلمان باشندوں کا بے دردی سے قتل عام کیا کہ پورے عالم اسلام پر قیامت گزر گئی اور ہر جگہ چندے ہونے لگے.مسلمانان ہند نے بھی اپنے مظلوم بھائیوں کی اعانت میں دل کھول کر حصہ لیا اور مدراس کے ترکی سفیر عبد العزیز کے علاوہ حسین کامی مقیم کراچی کو بھی یہ چندہ دیا کہ پہنچا دیں مگر یہ صاحب مظلومان کریٹ کا کل چندہ خود ہی ہضم کر گئے اور ایک کوڑی تک ان ستم رسیدوں تک نہیں پہنچنے دی.حکومت ترکی کو جب اس قومی غداری کا علم ہوا تو اس نے حسین کامی کو عمدہ سے بر طرف کر کے اس کی جائیداد ضبط کرلی.اس راز کا انکشاف مشہور ہندی سیاح حافظ عبدالرحمن صاحب امرت سری (۱۸۴۰-۱۹۰۷ء) پر تنطنطنیہ کی سیاحت کے دوران میں ہوا.جس پر انہوں نے اخبار ” نیر آصفی مدراس کو نامہ نگار کی حیثیت سے اس خبر کی پوری تفصیلات بھیجوا دیں جو ۱۲ اکتوبر۱۸۹۹ء کے ایشوع میں ایک ادارتی نوٹ کے ساتھ بایں الفاظ شائع ہو ئیں." چندہ مظلومان کریٹ اور ہندوستان" ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک معزز اور لائق نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطنیہ والی

Page 627

تاریخ احمدیت.جلد 4.A سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی چٹھی ملی ہے جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ منتظم اور مہذب اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بیدردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے کانوں سے سنا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن الهندی نزیل قسطنطنیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ حسین بک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرقریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا.مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پر عدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یا نہیں.ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کارروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہے "قسطنطنیہ کی چٹھی" te ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دو سالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عساکر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چنده تمام و کمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل کرانچی کو جو ایک ہزار چھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرت سر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ” پیسہ اخبار " نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہنچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو انہوں نے بڑی جاں فشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی اور اس کے اراضی مملوکہ کو نیلام کراکر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں نین کی خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا.اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرما ئیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدر روپیہ چندہ کا بھیجا گیا تو اس کو اپنے جریدہ میں مشتہر کرا ئیں اور نام مع عنوان کے ایسا مفصل لکھیں کہ بشرط ضرورت اس سے خط و کتابت ہو سکے".اس خبر نے "ناظم البند اور دوسرے تمام اخبارات پر بجلی سی گرا دی.یہ وہ اخبارات تھے جنہوں نے حسین کامی کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے یہاں تک لکھ ڈالا تھا کہ یہ نائب خلیفتہ

Page 628

تاریخ احمدیت.جلدا 4-9 سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں اس لئے قادیان میں بلائے گئے ہیں تاکہ مرزائے قادیان اپنے افتراء سے اس نائب الخلافت یعنی مظہر نور الہی کے ہاتھ پر تو بہ کرے اور آئندہ اپنے تئیں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آجائے".لیکن قدرت حق نے جلد ہی حسین کامی کے چہرے سے نقاب اٹھادی اور خدا کی بات کمال صفائی سے پوری ہو گئی.اب سلطنت سلطنت ترکی میں انقلاب اور سلطان عبد الحمید ثانی کی معزولی ترکی کی نسبت سنے.حضرت اقدس نے خبر دی تھی کہ " سلطان روم کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا.اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں".اور بتایا تھا کہ ترکی گورنمنٹ میں کئی ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت رکھنے والے ہیں.گو حضرت اقدس کا دینی عقیدہ یہ تھا کہ سلطان ترکی حرمین کا محافظ نہیں بلکہ حرمین اس کے محافظ ہیں تاہم اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے معتمات میں سے بجھتے تھے.اس لئے آپ کو طبعا صدمہ ہوا اور آپ رقت اور درد سے بھر گئے.آپ کا یہ کرب و اضطراب درگاہ الہی میں پہنچا اور بالاخر جنوری ۱۹۰۴ء میں آپ کو الہاما بتایا گیا کہ غلبت الروم فی أدنى الارض وهم من بعد غلبهم سيغلبون" کہ اہل روم نزدیک کی زمین میں مغلوب کئے جائیں گے اور وہ عنقریب مغلوب ہونے کے بعد غلبہ پائیں گے.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں ہی سلطنت ترکی کے انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے.اور اس کے کچے دھاگوں کے ٹوٹنے اور اندرونی نظام کے کھو کھلا ہونے کی خبریں بڑی کثرت سے منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں.جس پر اخبار وکیل ۲۷- اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۲ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.” نہایت افسوس کی بات ہے کہ جس عادت زبون نے ترکوں کو یہ دن دکھایا اور عیسائی سلطنتوں کے ہاتھوں اسے برباد کر ایا دہ عادت ابھی تک ان میں کم و بیش پائی جاتی ہے اور یہ عادت ملک و قوم کی اغراض پر اپنی اغراض کو ترجیح دیتا ہے.حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہ تباہی بخش مرض عام لوگوں کے طبقہ سے گذر کر مقتدر اور سر بر آوردہ طبقہ کے اشخاص میں بھی گھر کر گیا ہے کوئی دن ایسا نہیں جانا کہ کسی نہ کسی نمک حرام ترک افسر کی غداری کی خبریں مشہور نہ ہوتی ہوں.اب جو شخص ملک و قوم کی اغراض کو ایک طرف پھینک کر غداری کے میدان میں نکلا ہے کمال الدین پاشا فرزند عثمان پاشا ہے یہ نوجوان (سلطان المعظم کا - ناقل) داماد تھا مگر کچھ عرصہ سے اس کی ہوا ایسی بگڑی ہے کہ کسی دشمن نے اس پر ایسا جادو چلایا ہے کہ وہ علانیہ سرکشی پر کمربستہ ہو گیا.یہ حالت دیکھ کر دختر سلطان

Page 629

تاریخ احمدیت جلد 41- سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی 10 المعظم نے اس سے کنارہ کر لیا اور زوجیت کے تمام تعلقات منقطع کر دیئے.اب یہ نوجوان برو سائیں نظر بند کیا گیا ہے اور اس کے تمام تمغہ جات و جاگیر وغیرہ ضبط ہو گئی.کیسا درد ناک سبق ہے کہ جس شخص کو سلطنت کی ترقی.اقبال میں سائی ہونا چاہیے تھا وہ سازش کے جرم میں زندان میں ڈالا جائے.جب تک ترکوں میں اس قسم کے آدمی ہیں وہ اپنے آپ کو کبھی بھی خطرہ سے باہر نہیں نکال سکتے.ان پے در پے غداریوں اور سازشوں نے ملکی نظام درہم برہم کر دیا.جس نے ملک میں سخت ابتری پھیلا دی اور سلطان عبد الحمید ثانی کو ۱۹۰۹ ء میں تخت سے اتار دیا گیا اور ان کے بھائی سلطان محمد پنجم بادشاہ ہو گئے.سیاسی بحران اس وقت انتہاء کو پہنچ چکا تھا خزانہ لٹ چکا تھا نہ فوج کی حالت درست تھی نہ ملکی نظم و نسق ہی ٹھیک تھا اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کر لیا.ساتھ ہی بلقان میں لڑائی چھڑ گئی.یہ ختم ہوئی تو پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی.اور ترکی کو جرمنی کے حلیف کی شکل میں اس میں حصہ لینا پڑا.لڑائی جاری تھی کہ سلطان محمد پنجم انتقال کر گئے اور سلطان عبد الوحید تخت پر بیٹھے.۱۰- اگست ۱۹۱۸ ء کو جرمن نے ہتھیار ڈال دئے.اور اتحادیوں نے انتقام لینے کے لئے ظالمانہ طور پر ترکی سلطنت کے حصے بخرے کر کے اسے آپس میں بانٹ لیا.حجاز ، عراق ، فلسطین اور ار دون انگریزوں نے ہتھیائے.فرانس نے شام و لبنان پر قبضہ کیا.ایشیائے کو چک یونان کو ملا.اور باقی حصہ مشترک ملکیت قرار پایا.اور بظاہر ترکی سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی.لیکن خدا تعالٰی نے اپنے فرستادہ اور برگزیدہ کی دعاؤں کے طفیل اور اپنے الہام کے مطابق اس کے مردہ قالب میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے نوجوان ترک مصطفی کمال پاشا روف بے اور ڈاکٹر عدنان کو کھڑا کر دیا.جنہوں نے تھوڑی بہت فوج جمع کر کے جنگ شروع کر دی.خلیفہ عبد الوحید سے اتحادیوں نے حکم لکھوایا تھا کہ مصطفیٰ کمال وغیرہ باغی ہیں اور قتل کے مستحق.مگر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہم نہ خلیفہ عبد الوحید کو خلیفہ جانتے ہیں نہ اس کی حکومت کو صحیح حکومت - آخر خدا کے فضل سے یونان نے شکست کھائی اور سارا ایشیائے کو چک اتحادیوں کے پنجہ ت نکل کر ترک جھنڈے کے نیچے آگیا.۲۲- اکتوبر ۱۹۲۲ء کو قسطنطنیہ پر بھی قبضہ ہو گیا.اس انقلاب کے بعد یکم مارچ ۱۹۲۴ء کو مصطفی کمال پاشا نے جدید ترکی حکومت قائم کرلی.اور آخری " خلیفتہ المسالمين " حکومت کے ایک گھنٹہ کے نوٹس پر حدود ترکی سے بھاگ کر انگریزوں کے زیر سایہ مالٹا میں پناہ گزیں ہو گیا.حجتہ اللہ " کی تصنیف و اشاعت چند ماہ پیشتر مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے " ضرب النعال على وجه الدجال" کے

Page 630

تاریخ احمدیت.جلدا سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی J عنوان سے حضرت اقدس کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا تھا جس میں آپ کی بعض پیشگوئیوں پر شرمناک اعتراضات کئے اور اپنی عربی لیاقت و قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے عربی زبان میں مباحثہ کی دعوت دی.حضرت اقدس نے جوابا " ضمیمہ انجام آتھم " میں لکھا کہ ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ تم اقرار کرد که اگر تم باجود اتنے دعوئی فضیلت اور عربی دانی کے میرے جیسے انسان سے صاف شکست کھا جاؤ - (جس کی نسبت تمہیں اسی اشتہار میں اقرار ہے کہ اس شخص کو عربی دانی کی ہر گز لیاقت نہیں) تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہو جاؤ گے.حضرت اقدس نے ایک عرصہ تک انتظار کیا.مگر جب غزنوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا.تو آپ نے نجفی اور غزنوی دونوں کی سرکوبی کے لئے فصیح و بلیغ عربی میں حجتہ اللہ " ایسی اعجازی تصنیف فرمائی جو ۱۷.مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھنی شروع ہوئی اور ۲۶- مئی ۱۸۹۷ء کو چھپ گئی.حضرت اقدس نے حجتہ اللہ " میں غزنوی صاحب کو کھلے لفظوں میں چیلنج دیا کہ اس دن کہ یہ رسالہ ان کے پاس پہنچ جائے اس مضمون کی نظیر اس کے حجم اور ضخامت کے مطابق اس کی نظم اور نثر کے موافق بالمقابل شائع کر دے اور پروفیسر عربی مولوی عبداللہ صاحب یا کوئی اور پروفیسر جو مخالف تجویز کریں ایسی قسم کھا کر جو موکد معذاب الہی ہو جلسہ عام میں کہدیں کہ یہ مضمون تمام مراتب بلاغت اور فصاحت کے رو سے مضمون پیش کردہ سے بڑھ کر یا برابر ہے اور پھر قسم کھانے والا میری دعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الہی میں ماخوذ نہ ہو تو میں اپنی کتابیں جلا کر جو میرے قبضہ میں ہوں گی ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور اس طریق سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابل پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہیے کہ وہ جھوٹا ہے".اس چیلنج نے ان صاحب کی عربی دانی کی سب حقیقت عریاں کر دی ان کا بھرم کھل گیا اور وہ آخر دم تک اس علمی معجزہ کے جواب پر قلم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے اور اللہ کی حجت تمام ہوئی.محمود کی آمین جون ۱۸۹۷ء میں سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ختم قرآن کی مبارک تقریب منعقد ہوئی جس میں باہر سے بھی احباب شامل ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام نے اس خوشی کے موقعہ پر تمام حاضرین کو پر تکلف دعوت دی.حضرت ام المومنین نے چند روز قبل جناب شیخ نور احمد صاحب کی اہلیہ صاحبہ سے ارشاد فرمایا کہ

Page 631

تاریخ احمدیت جلدا لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا 414 سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی ایک مطبوعہ آمین امرت سر سے منگار میں میاں محمود نے قرآن مجید ختم کیا ہے.جس پر جناب شیخ نور احمد صاحب امرت سر سے ایک آئین خرید لائے جس کے ہر شعر کے آخر میں "سبحان من یرانی " آتا تھا.شیخ صاحب نے یہ آمین حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دی صبح کو حضور نے ایک اور آمین بنا کرانہیں دی اور ارشاد فرمایا کہ اس کو جلد چھپوا دیں.چنانچه یه ای روز (ے.جون کو چھپ گئی اور اس تقریب پر پڑھ کر سنائی گئی.اندر زنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اور با ہر مرد اور بچے پڑھتے تھے.یہ آمین نہایت درجہ سوز و درد میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ ہے اور اپنی مبشر اولاد بالخصوص سید نا محمود ايدة الله الودود سے متعلق حضور کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے.حضرت اقدس کے سینہ میں عشق قرآن کا جو عظیم جذبہ موجزن تھا وہ اس کے لفظ لفظ سے ٹپک رہا ہے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں.تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری شائیں گایا صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سبحان من برانی اس کے ہیں دو برادران کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر یه روز که مبارک سبحان میں یرانی ا واحد یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی یہ تینوں تیرے چاکر ہو دیں جہاں کے رہبر یہ ہادی جہاں ہوں ہو دیں نور یکسر مرجع شہاں ہوں یہ ہو دیں مہر انور یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی حضرت حافظ احمد اللہ صاحب کو یہ شرف نصیب ہوا کہ انہوں نے حضرت سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو بچپن میں قرآن شریف پڑھایا.حضور کے دوسرے فرزندوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب و حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضور کی دختر نیک اختر حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه اور حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعده سیسرنا القرآن سے قرآن شریف پڑھا تھا.

Page 632

تاریخ احمد بیت.جلد ۶۱۳ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی ساٹھ سالہ جوبلی پر ملکہ وکٹوریہ کو دوسری بار دعوت اسلام - انگلستان - میں جلسہ مذاہب کی تجویز " تحفہ قیصریہ " کی تصنیف و اشاعت جلسہ احباب اور ملکہ کے مسلمان ہونے کی دعا ۲۰ - ۲۱ - ۲۲- جون ۱۸۹۷ء کو ہندوستان بھر میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جو ہلی بڑی دھوم دھام سے منائی گئی.دس سال قبل پچاس سالہ جو بلی کی تقریب پر بھی اسی جوش و خروش کا اظہار کیا گیا اور خصوصاً اہل اسلام نے اپنی مسرت و عقیدت کا عدیم النظیر ثبوت پیش کیا اور اہل اسلام میں جماعت اہلحدیث نے سب سے زیادہ اپنی دلچسپی اور وفاداری کا مظاہرہ کیا.چنانچہ جماعت اہلحدیث لاہو ر نے اس تقریب پر ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا.یہ دعوت مولوی الی بخش صاحب وکیل کی وسیع کو ٹھی میں دی گئی.جس میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سب ممبروں اور دوسرے مسلمان رؤساء شرفاء علماء اور عام اہل اسلام نے سات آٹھ ہزار کی تعداد میں شرکت کی.کوٹھی کے عین دروازہ کے سامنے ایک بلند اور وسیع دروازہ پر ایک طرف سنہری حروف سے یہ الفاظ درج کئے گئے."The Ahli Hadis With Empress a Long Life" اہل حدیث قیصرہ ہند کی درازی عمر کے آروزمند ہیں.دوسری طرف لاجوردی رنگ میں یہ شعر لکھا تھا.دل سے ہے یہ دعائے اہلحدیث ہو جشن مبارک جوبلی اس رات کو اہل پنجاب کی مختلف سوسائٹیوں نے ایڈریس پڑھے.جس میں اہلحدیث نے اپنے ایڈریس میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا " بحضور فیض گنجور کو تین وکٹوریہ ملکہ گریٹ برٹن و قيصرة هند بارك الله في سلطنتھا.ہم ممبران اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور والا کی خدمت عالی میں جشن جو بلی کی دلی مسرت سے مبارکباد عرض کرتے ہیں.برٹش رعایائے ہند میں سے کوئی فرقہ ایسا نہ ہو گا جس کے دل میں اس مبارک تقریب کی مسرت جوش زن نہ ہو گی اور اس کے بال بال سے صدائے مبارک باد نہ اٹھتی ہوگی.مگر خاص کر فرقہ اہل اسلام جس کو سلطنت کی اطاعت اور فرمانروائے وقت کی عقیدت اس کا مقدس مذہب سکھاتا اور اس کو ایک فرض نہ ہی قرار دیتا ہے.اس اظہار مسرت اور ادائے مبارکباد میں دیگر مذاہب کی رعایا سے پیش قدم ہے علی الخصوص گروہ اہل حدیث منجملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت و عقیدت اور دعائے

Page 633

پر تاریخ احمدیت.جلدا पाल سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی برکت میں چند قدم اور بھی سبقت رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں کی وجہ سے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہو رہا ہے اور از انجملہ ایک بے بہا نعمت مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص کراسی سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے ان کو اور اسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے اس خصوصیت سے یقین ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ موجزن ہیں.ہم بڑے جوش سے دعا مانگتے ہیں کہ خداوند تعالٰی حضور والا کی حکومت کو اور بڑھائے اور تادیر حضور والا کا نگہبان رہے تاکہ حضور والا کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی وسیع سلطنت میں امن اور تہذیب کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں".لاہور میں جملہ اہل السلام کی طرف سے شاہی مسجد لاہور میں بھی ایک بھاری اجتماع ہوا جس میں انجمن حمایت اسلام کے ممبروں اور تمام اسلامی فرقوں کے لوگ موجود تھے.اس اجتماع میں انجمن اسلامیہ کے ممبروں نے بڑی پر جوش اور موثر تقریروں سے قیصرہ ہند کی برکات بیان کیں.اور ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا کی گئی.اسی قسم کے اجتماع ہندوستان کے دوسرے شہروں دہلی.نصیر آباد اور اجمیر وغیرہ میں بھی ہوئے.پچاس سالہ جو بلی کی طرح ساٹھ سالہ جو بلی بھی گذشتہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے شاندار طریق منائی گئی بلکہ اسے یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ پہلی جوبلی میں اہلحدیث جماعتی اعتبار سے نمایاں نظر آتے تھے.اب ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی ایک جنرل کمیٹی قائم کی گئی جس کی مطبوعہ ہدایات کی روشنی میں ہندوستان کے تمام اسلامی فرقوں نے اظہار مسرت و مبارکباد کیا.ملکہ کو دعوت اسلام اور تحفہ قیصریہ کی تصنیف اس جشن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ نے بھی حصہ لیا جو اسلامی عظمت و وقار کے لحاظ سے ایک امتیازی شان رکھتا تھا دوسرے اداروں یا فرقوں نے جوہلی کی تقریب محض چراغاں، غرباء کو طعام ، قیصرہ ہند کی مدح اور حکومت کے بقاء و استحکام کی دعا تک محدود رکھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے جوش دینی کے باعث یہ تقریب بھی جو خالص مادی تقریب تھی علمی جہاد میں تبدیل کردی.اس سلسلے میں حضور نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ۲۷ مئی ۱۸۹۷ء کو تحفہ قیصریہ" کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں ملکہ وکٹوریہ کو تثلیث سے تائب ہو کر قرآن مجید کی کچی اور پر حکمت تعلیم سے وابستہ ہونے کی نہایت لطیف رنگ میں دعوت دی.

Page 634

تاریخ احمدیت.جلدا ۱۵ ت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی لندن میں جلسہ مذاہب کے انعقاد کی تجویز حضرت اقدس" نے "تحفہ قیصریہ " "1 میں ملکہ کے سامنے جلسہ مذاہب " کے انعقاد کی تجویز بھی پیش کی.چنانچہ فرمایا.قیا صرہ روم میں سے جب تیسرا قیصر ردم تخت نشین ہوا.اور اس کا اقبال کمال کو پہنچ گیا تو اسے اس بات کی طرف توجہ پیدا ہوئی کہ دو مشہور فرقہ عیسائیوں میں جو ایک موجد اور دو سرا حضرت مسیح کو خدا جانتا تھا یا ہم بحث کرا دے.چنانچہ وہ بحث قیصر روم کے حضور میں بڑی خوبی اور انتظام سے ہوئی اور بحث کے سننے کے لئے معزز ناظرین اور ارکان دولت کی صدہا کرسیاں بلحاظ رتبہ و مقام کے بچھائی گئیں اور دونوں فریق کے پادریوں کی چالیس دن تک بادشاہ کے حضور میں بحث ہوتی رہی اور قیصر روم بخوبی فریقین کے دلائل سنتا رہا.اور ان پر غور کرتا رہا.آخر جو موحد فرقہ تھا اور حضرت یسوع مسیح کو صرف خدا کا رسول اور نبی جانتا تھا وہ غالب آگیا اور دوسرے فرقہ کو ایسی شکست آئی کہ اس مجلس میں قیصر روم نے ظاہر کر دیا کہ میں نہ اپنی طرف سے بلکہ دلائل کے زور سے موحد فرقہ کی طرف کھینچا گیا اور قبل اس کے جو اس مجلس سے اٹھے تو حید کا مذ ہب اختیار کر لیا.اور ان موحد عیسائیوں میں سے ہو گیا جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے اور بیٹا اور خدا کہنے سے دست بردار ہو گیا.اور پھر تیسرے قیصر تک ہر ایک تخت روم موحد ہو تا رہا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مذہبی جلسے پہلے عیسائی بادشاہوں کا دستور تھا اور بڑی بڑی تبدیلیاں ان سے ہوتی تھیں ان واقعات پر نظر ڈالنے سے نہایت آرزو سے دل چاہتا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند دام اقبالہا بھی قیصر روم کی طرح ایسا نہ ہی جلسہ پایہ تخت میں انعقاد فرما دیں کہ یہ روحانی طور پر ایک یاد گار ہوگی مگر یہ جلسہ قیصر روم کی نسبت زیادہ توسیع کے ساتھ ہونا چاہیے.کیونکہ ہماری ملکہ معظمہ بھی اس قیصر کی نسبت زیادہ وسعت اقبال رکھتی ہیں....ہاں یہ ضروری ہو گا کہ اس جلسہ مذاہب میں ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے دوسروں سے کچھ تعلق نہ رکھے.اگر ایسا ہوا تو یہ جلسہ بھی ہماری ملکہ معظمہ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے ایک روحانی یادگار ہو گا.اور انگلستان جس کے کانوں تک بڑی خیانتوں کے ساتھ اسلامی واقعات پہنچائے گئے ہیں ایک بچے نقشہ پر اطلاع پا جائے گا.بلکہ انگلستان کے لوگ ہر ایک مذہب کی کچی فلاسفی سے مطلع ہو جائیں " -2 ملکہ کے لئے حضرت مسیح کی ملاقات کا آسمانی تحفہ حضرت اقدس نے ملکہ وکٹوریہ " کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اصل دعوے اور تعلیم کا

Page 635

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۱۶ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیت اور امنیت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء جو ان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہو کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے".نشان نمائی کی پیشکش اس رسالہ میں آپ نے اپنے دعوئی نشان نمائی کا ذکر کرتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ کے سامنے بھی پیش کش کی کہ اگر وہ مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں ، تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جائے اور نہ صرف میں بلکہ دعا کر سکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ...پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں یہ سب الحاج اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے "." تحفہ قیصریہ" کے چند مجلد نسخے نہایت دیدہ زیب شکل میں ملکہ وکٹوریہ - وائسرائے ہند.اور ۲۳ لفٹنٹ گورنر پنجاب کو ارسال کئے گئے.چونکہ وائس پریذیڈنٹ " جنرل قادیان میں جشن جو بلی کے موقعہ پر احباب کا جلسہ کمیٹی اہل اسلام ہند کی طرف ᎨᏛ.سے یکم جون کو اعلان شائع ہوا تھا کہ مسلمان ۲۰ اور ۲۱ جون کو جشن منائیں اور اظہار تشکر اور دعا اور خوشی کی جائے اس لئے حضرت اقدس نے ہے.جون کو بذریعہ اشتہار اپنی جماعت کے دوستوں کو تحریک کی کہ وہ ۲۰.جون سے قبل قادیان میں پہنچ جائیں.تا جماعت کی طرف سے جلسہ شکریہ کے مراسم ادا کئے جاسکیں.چنانچہ ۱۹ جون کو حضرت اقدس کے ۲۲۵ خدام قادیان پہنچ گئے.اور ” جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند کے پروگرام کے مطابق نہایت پر وقار رنگ میں یہ تقریب منائی گئی گئی.تین دن غریبوں اور در دیشوں کو کھانا کھلایا گیا.۲۰- جون کو ملکہ اور خاندان شاہی کے لئے اجتماعی دعا کی گئی.۲۱- جون ۱۸۹۷ء کو ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا اور قادیان کے غرباء اور اور درویش دعوت میں بلائے گئے اس دعوت میں سو سے زائد اشخاص شریک ہوئے ۲۲- جون کی رات کو گلی کوچوں گھروں اور مسجدوں میں

Page 636

تاریخ احمدیت.جلدا 414 سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی چراغاں کیا گیا.اس دن ایک جلسہ عام بھی منعقد ہوا.جس میں مولانا عبد الکریم صاحب.مولانا حکیم نور الدین صاحب مولانا برہان الدین صاحب علمی اور مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع منٹگمری نے تقریریں کیں - 20 ملکہ وکٹوریہ کے مسلمان ہونے کے لئے دعا پہلے روز (۲۰- جون) کو جو اجتماعی دعا ۱۲۵ ہوئی.اس میں حضرت اقدس نے مختصر ری تقریر کے بعد دعا بھی کروائی کہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لا اله الا اللهُ مُحَمَّدُ رسول اللہ پر اس کا خاتمہ کر " دو سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب" لاہور کے ایک عیسائی سراج الدین نامی نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں چار سوال لکھے تھے.حضور نے ان سوالات کے جواب میں ایک زبر دست مضمون لکھا جو ۲۲ - جون ۷ ۱۸۹ء کو ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب " ہی کے نام سے شائع ہوا.کتاب میں آپ کے قلم نے اس خوبی سے ان سوالات پر روشنی ڈالی ہے کہ اگر کوئی عیسائی تعصب سے علیحدہ ہو کر اس کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے اسلام قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا.ہندوستان کے مشائخ وصلحاء سے خدا کی قسم دے کر ایک درخواست حضرت اقدس مسیح موعود کے دل میں انہیں دنوں ہندوستان کے مشائخ و صلحاء پر اتمام حجت کے لئے یہ تجویز پیدا ہوئی.کہ ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء اور مردان باننا سے اللہ جل شانہ کی قسم دے کر التجاء کی جائے کہ وہ آپ کے بارے میں دعا اور تضرع اور استخارہ سے جناب الہی میں توجہ کریں.پھر اگر ان کے الہامات و کشوف اور رویا صادقہ سے جو حلفاً شائع کریں کثرت اس طرف نکلے کہ آپ معاذ اللہ مفتری ہیں تو بیشک تمام لوگ مجھے مفتری قرار دیں.اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں ان کو کچھ گناہ نہیں ہو گا اور اگر کثرت آپ کے حق میں ثابت ہوئی.تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہو گا کہ وہ آپ کی پیروی کرے چنانچہ آپ نے ۱۵ جولائی ۱۸۹۷ء کو اشتہار دیا کہ ”وہ میرے

Page 637

تاریخ احمدیت جلدا HIA سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی بارے میں جناب الہی میں کم سے کم اکیس روز توجہ کریں...اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا منجانب اللہ پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہو گی وہ امر منجانب اللہ سمجھا جائے گا....یاد رہے کہ ایسا ہر ایک شخص جس کی نسبت ایک جماعت اہل بصیرت مسلمانوں کی صلاح اور تقویٰ اور پاک دلی کا ظن رکھتی ہے.وہ اس اشتہار میں میرا مخاطب ہے اور یہ بھی یادر ہے کہ جو صلحاء شہرت کے لحاظ سے کم درجہ پر ہیں میں ان کو کم نہیں دیکھتا.ممکن ہے کہ وہ شہرت یافتہ لوگوں سے خدا تعالٰی کی نظر میں زیادہ اچھے ہوں.اسی طرح میں صالحہ عفیفہ عورتوں کو بھی مردوں کی نسبت تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا.ممکن ہے کہ وہ بعض شہرت یافتہ صالح مردوں سے بھی اچھی ہوں.لیکن ہر ایک صاحب جو میری نسبت کوئی رو یا یا کشف یا الہام لکھیں ان پر ضروری طور پر واجب ہو گا کہ وہ حلفا اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں.تاایسی تحریریں ایک جگہ جمع ہوتی جائیں اور پھر حق کے طالبوں کے لئے شائع کی جائیں....سواے عزیزو! اور بزرگو!! برائے خدا عالم الغیب کی طرف توجہ کرو.آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو.اس قدیر ذوالجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست رد مت کرو".مگر افسوس کہ مشائخ نے آپ کی یہ درخواست بھی سنی ان سنی کر دی.

Page 638

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۱۹ سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی ا ا- حواشی تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحہ ۷ پر مفصل مکتوب چھپا ہوا موجود ہے...تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۱۴-۱۱۷ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۱۴- ۱۱۵ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۲۵ اشاعۃ السنہ جلد ۱۸ نمبر ۵ وفات ۱۸- نومبر ۱۹۰۶ء (احکام ۳۰ نومبر ۱۹۰۶ء) و تبلیغ رسالت "جلد ششم صفحه ۱۳۴-۱۳۶ ایه اخبار خلافت لائبریری میں محفوظ ہے) تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۱۷۹ بحوالہ " تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۹۷-۱۰۰ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۳ ۱۲ الحکم ۱۴ مئی ۱۹۰۸ ء صفحہ ۵ اور تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۹۳(۱۸۹۹ء) ۱۳ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۳۴ -۱۴ ریویو آف ریلیجه اردو جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۴۰ بحوالہ " تبلیغ رسالت " جلد ہشتم صفحه ۹۵ ہماری بادشاہی " ( از مولوی عبد السلام ندوی) حجتہ اللہ " طبع اول صفحه ۱۵-۱۶ اشاعۃ السنہ جلده نمیبری صفحه ۲۰۳ ۲۰۶ انتہ السنہ جلده تمبرے صفحہ ۲۰۷ تحفہ قیصریه " طبع اول صفحه ۲۶-۲۷ ۲۱ - حضرت اقدس نے ۲۷.ستمبر ۱۸۹۹ء کو اپنی اس اہم تجویز کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت انگریزی کو دوبارہ اس کے انعقاد کی طرف توجہ دلائی.اور اس میں اس شرط کا بھی اضافہ کیا کہ مذاہب کے نمائندے اس موقعہ پر آسمانی نشانات کا اعلان بھی کریں.تا اگر ایک شرط موقعہ سال کے اندر وہ پورے ہو جائیں تو اس مذہب کی سچائی پر دلیل ہوں اور آپ نے قبل از وقت لکھا کہ "اگر اس جلسہ کے بعد ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.میں راضی ہوں کہ اس جرم کی سزا میں سولی دیا جاؤں اور میری ہڈیاں توڑی جائیں لیکن خدا جو آسمان پر ہے.وہ میرے ساتھ ہو گا اور میرے ساتھ ہے وہ مجھے گورنمنٹ عالیہ اور قوموں کے سامنے شرمندہ نہیں کرے گا"." تبلیغ رسالت "جلد هشتم صفحه ۲۰۰۵۸) ۲۲- "تحفہ قیصریه " صفحه ۲۱ ۲۳- تحفہ قیصریه حاشیه صفحه ۲۴ ۲۴- « تبلیغ رسالت" جلد ششم صفحه ۱۲۴ ۲۲-۲۵ جلسه احباب"و " تبلیغ رسالت " جلد ششم صفحه ۱۲۴- ۱۳۳ ۲۷- تبلیغ رسالت "جلد ششم صفحه ۱۴۴

Page 639

تاریخ احمدیت جلد ! ۶۲۰ مقدمه اقدام قتل اور بریت پادری ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ اقدام قتل اور الہام کے مطابق حضور کی برسیت کتاب البریہ کی تصنیف و اشاعت اب ہم اگست ۱۸۹۷ء کے ہنگامہ خیز مہینہ میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یاد گار رہے گا.اس مہینہ میں مخالفت کا وہ ماحول جو لیکھرام کے قتل سے پیدا ہوا تھا اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی پادریوں کی ایک گہری اور نہایت خطرناک سازش سے مختلف مذہبی طاقتیں حضرت اقدس کو مقدمه اقدام قتل میں ماخوذ کرنے کے لئے جمع ہو گئیں.جنگ مقدس" میں اسلام کے مقابل عیسائیت کو جو شکست فاش نصیب ہوئی تھی اس نے پادریوں کو غضب ناک کر دیا تھا اور وہ آتش غیظ و غضب کا شعلہ جوالہ آپکے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا فیصلہ کر کے کسی موقعہ کی تاک میں تھے کہ ایک آوارہ مزاج نوجوان عبد الحمید جو جہلم کے ایک غیر احمدی عالم مولوی سلطان محمود کا بیٹا اور مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا تھا عیسائی بننے کے لئے ان کے پاس پہنچ گیا.یہ ایک متفنی انسان اور تبدیلی مذہب کا خوگر شخص تھا.کبھی عیسائی ہو تا کبھی ہندو اور کبھی مسلمان.اسی چکر میں وہ قبل ازیں قادیان بھی گیا.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نے حضرت مولانا برہان الدین صاحب کا برادر زادہ ہونے کے باعث اس سے شفقت آمیز سلوک کیا.عبد الحمید نے یہاں بھی پرانا کھیل کھلینا چاہا اور ان کے توسط سے حضرت اقدس سے بیعت کی درخواست کی.جسے حضور نے رد کر دیا.اس پر وہ ناراض ہو کر قادیان سے چلا گیا.مگر کچھ عرصے کے بعد دوباره قادیان پہنچا اس دفعہ خود حضرت مولانا برہان الدین صاحب بھی قادیان میں موجود تھے انہوں نے حضرت حکیم الامت کو اس کی ناشائستہ حرکتوں سے آگاہ کر کے اسے قادیان سے نکلوا دیا.اب عبد الحمید نے دوبارہ عیسائیوں کی طرف رخ کیا اور امرت سر پہنچ کر پادری نور دین ساکن بٹالہ کے سامنے بپتسمہ

Page 640

جلدا مقدمه اقدام قتل اور بریت لینے کا خیال ظاہر کیا.پادری نور دین نے اسے انچارچ مشن پادری گرے صاحب کے پاس بھیج دیا.جس نے پادری نور دین سے مشورہ کر کے اسے پادری ہنری مارٹن کلارک صاحب کے سپرد کر دیا.اس نے بتایا کہ میں قادیان سے آیا ہوں ہندو سے مسلمان ہوا ہوں اور عیسائی ہو نا چاہتا ہوں- n - عبد الحمید کی زبانی قادیان سے آنے کا تذکرہ سن کر پادری مارٹن کلارک نے نہایت ہوشیاری سے یہ خوفناک سکیم تیار کرلی کہ اسے آلہ کار بنا کر حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا جائے.چنانچہ اس کی تکمیل کے لئے عبد الحمید بیاس لے جایا گیا جہاں ہنری مارٹن کلارک صاحب کے گماشتوں نے نہایت ڈرامائی انداز میں اس سے پوچھا کہ سچ بتلاؤ تم کس لئے آئے ہو ورنہ کپتان صاحب پولیس کے حوالہ کر دئیے جاؤ گے ؟ اس نے کہا کہ عیسائی ہونے کو آیا ہوں اور کوئی بات نہیں انہوں نے کہا تم خون کرنے آئے ہو.تیسرے رو ز مارٹن کلارک بھی دو ایک اور ساتھیوں کو لے کر پہنچ گئے.اور اس کا فوٹو لے کر واپس چلے آئے اور تار دے کر اسے امر تسر بلوالیا.اسٹیشن پر پھر اس کی تصویر لی گئی.وہ کو ٹھی میں گیا اور پھر اسے بیاس بھجوا دیا گیا.دو روز کے بعد پادری ہنری مارٹن کلارک پادری وارث دین.بھگت پریم داس اور بعض دوسرے پادری دوبارہ بیاس پہنچے.پادری وارث دین اور عبد الرحیم نے جو اس کام کے لئے مقرر کئے گئے تھے سب کے روبرو اس سے پوچھا کہ اب بتلاؤ تم کس کام کے واسطے آئے ہو اس نے پھر جواب دو ہرا دیا کہ عیسائی ہونے کو آیا ہوں انہوں نے کہا کہ تم کو مرزا نے بھیجا ہے.اس نے کہا نہیں.اس پر عبد الرحیم نے (جو اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا) عبد الحمید پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ تم یہ بات کہہ دو مرزا غلام احمد نے مجھے بھیجا ہے کہ ڈاکٹر کلارک کو پتھر سے ماردو.اور ساتھ ہی تصویر دکھلائی اور کہا کہ تم بات کہہ دو.ورنہ جہاں جاؤ گے پکڑے جاؤ گے.پادریوں نے اس سے یہ بھی کہا کہ اس طرح بیان کر دو.اور مرزا کو پھنسا دو.تم کو کچھ نہیں ہو گا.تم کو ڈاکٹر صاحب نے معافی دے دی ہے ".عبد الحمید نے جو اپنے آپ کو اس طرح پادریوں کو حلقہ میں بے بس پایا تو مجبورا ان کے منشاء کے عین مطابق بیان لکھ کر اس پر دستخط کر دیئے.آٹھ پادریوں نے اس پر گواہی کے دستخط کئے اس کے بعد ٹرین میں پادری ہنری مارٹن کلارک اسے اپنے ہمراہ امرت سر لائے رات کو سلطان ونڈ لے گئے.خیر دین ڈاکٹر کے مکان پر رکھا اور اسے خوب سکھلایا.کہ تم عدالت میں یہ بیان کرنا کہ مرزا صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ مارٹن کلارک کو پتھر سے مار دو.اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ ایسا ہی کہوں گا.عبدالرحیم نے اس سے یہ بھی کہا کہ تم یہ کہنا کہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر میری نیت قتل کر دینے کی بدل گئی ہے.صبح اسے گاڑی میں بٹھلا کر کوٹھی پر لے آئے اور اسے تسلی دیتے ہوئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرت سراے - ای.مارٹینو کی عدالت میں لے گئے جہاں دفعہ ۱۰۷ فوجداری کے تحت اس نے وہی سکھایا ہو ا بیان دیا پھر مارٹن کلارک

Page 641

تاریخ احمدیت جلدا مقدمه اقدام قتل اور بریت نے عبد الحمید کا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا اور اپنی گواہی میں کہا کہ ” میری واقعیت مرزا صاحب سے اس مباحثہ کے وقت سے ہے جو ۱۸۹۳ء میں موسم گرما میں ہوا تھا میں نے اس مباحثہ میں بڑا بھاری حصہ لیا تھا.یہ مباحثہ اس میں اور ایک بھاری عیسائی عبد اللہ آتھم کے مابین ہوا جو مرگیا ہے.میں میر مجلس تھا اور دو موقعوں پر مسٹر آتھم کی جگہ بطور مباحث کے بیٹھا تھا.مرزا صاحب کو بہت ہی رنج ہوا تھا اور اس کے بعد اس نے ان تمام کی موت کی پیشگوئی کی.جنہوں نے اس مباحثہ میں حصہ لیا تھا اور میرا حصہ بہت ہی بھاری تھا.اس وقت سے اس کا سلوک میرے ساتھ بہت ہی مخالفانہ رہا ہے اس مباحثہ کے بعد خاص دلچپسی کا مرکز مسٹر آتھم رہا.چار مستقل کو ششیں اس کی جان لینے کے لئے کی گئیں.اس کی موت مقرر کردہ میعاد کے آخری دوماہ میں خاص پولیس کا پہرہ دن رات فیروزپور میں رکھا گیا.اسے امرت سر میں انبالے اور انبالے سے فیروز پور بھاگنا پڑا.ان کوششوں کے باعث سے جو اس کی جان لینے کے لئے کی گئیں اور یہ کو ششیں عام طور پر مرزا صاحب سے منسوب کی گئی ہیں.اس کی موت کے بعد میں ہی پیش نظر رہا ہوں اور کئی ایک مبہم طریقوں سے یہ پیشگوئی مرزا صاحب کی تصنیفات میں مجھے یاد دلائی گئی ہے جس کے لئے سب سے بڑی وہ کوشش تھی جس کو عبد الحمید نے بیان کیا ہے.لاہور میں لیکھرام کی موت کے بعد جس کو تمام لوگ مرزا صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں.میرے پاس اس بات کے یقین کرنے کے لئے خاص وجہ تھی.کہ میری جان لینے کی کوئی نہ کوئی کوشش کی جائیگی میں تین ماہ کے لئے رخصت پر گیا ہوا تھا.میری واپسی پر میرا آنا مرزا صاحب کو فورا معلوم ہو گیا اور عبدالحمید میرے پاس پہنچ گیا.عبد الحمید کے بیان پر یقین کرنے کے لئے میرے پاس کافی وجوہ ہیں اور نیز اس بات کا یقین کرنے کے لئے کہ مرزا صاحب مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں مرزا صاحب کا یہ ہمیشہ کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کی موت کی پیشگوئی کرتے ہیں".مقدمه چونکه نهایت سنگین اور اپنے ہم مذہب پادری کی طرف سے تھا.اس لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرت سرنے بیان سنتے ہی دفعہ ۱۱۴ ضابطہ فوجداری کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے.اور اس کے ساتھ چالیس ہزار روپیہ کی ضمانت کا حکم اور میں ہزار کا مچلکہ بھی تھا.یہ عدالتی کارروائی ختم ہوئی تو پادریوں نے واپس آکر عبد الحمید کو ایک کو ٹھی میں بند کر دیا.اور اگلے بیان کی تیاری کے لئے زور شور سے کوششیں شروع کر دیں.اور اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی خدمات بھی حاصل کرلیں.اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اپنے دشمن کو اقدام قتل کی سزا دلوانے میں بہر حال کامیاب ہو جائیں گے.یہاں امرت سر میں تو سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے اور معاملہ حضرت اقدس کے خلاف وارنٹ

Page 642

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۲۳ مقدمہ القدام قتل اور بریت جاری کر دیئے جانے تک پہنچا دیا گیا.مگر حضرت اقدس اور جماعت کو اس کی قطعا خبر نہیں تھی.خدائی تصرفات و عجائبات که وارنٹ کا کاغذ کہیں غائب ہو گیا چند دن بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو از خود خیال آیا کہ اس نے وارنٹ کا یہ حکم خلاف قانون دیا ہے.وہ گورداسپور کے کسی ملزم کے نام وارنٹ جاری نہیں کر سکتا.چنانچہ اس نے ے.اگست کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور دلیم ما نمیگو ڈگلس کو تار دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی گرفتاری کا جو وارنٹ جاری کیا گیا ہے اسے فی الحال منسوخ سمجھا جائے.دلیم ما نمیگو ڈگلس نے اپنے ریڈر راجہ غلام حیدر خان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایسا دارنٹ آیا ہی نہیں ہے.حسن اتفاق سے ان دنوں گورداسپور حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر تھے انہیں جو اس تار کا علم ہوا تو دوپہر کے وقت بھاگے ہوئے منشی عبد العزیز صاحب کے پاس اوجلہ پہنچے اور انہیں بتایا کہ وارنٹ تو ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا.لیکن ہمارے اس ضلع میں حضرت اقدس کے سوا رزا غلام احمد صاحب اور کون ہو سکتے ہیں؟ اس لئے آپ فورا قادیان جاکر اس کی اطلاع حضرت صاحب کو دے آئیں.چنانچہ منشی صاحب اسی وقت قادیان کو روانہ ہو گئے.قادیان اوجلہ سے کوئی ۷ امیل کے فاصلہ پر ہے.وہ سیکھواں سے ہوتے ہوئے شام یا صبح کو قادیان پہنچے اور ساری کیفیت حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی.لیکن حضور نے اس وقت کوئی توجہ نہ فرمائی.عصر کے بعد حافظ احمد اللہ صاحب بھی امرت سر آئے اور انہوں نے بھی یہ اطلاع دی کہ کسی پادری نے حضور پر امرت سر میں دعویٰ کر دیا ہے جس کی خبر کسی طرح انہیں مل گئی ہے یہ بات سن کر حضور نے منشی عبد العزیز صاحب کو بلوایا اور فرمایا کہ " آپ کی بات کی تصدیق ہو گئی ہے فور اگورداسپور جا کر چوہدری رستم علی صاحب سے مفصل حالات دریافت کر کے لاؤ.میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی بھی اس وقت قادیان میں تھے منشی صاحب نے انہیں ساتھ لیا.اور دونوں اس روز شام کو گورداسپور پہنچے.چوہدری رستم علی صاحب نے بتایا کہ مجھے تو اس وقت تک اس سے زیادہ علم نہیں ہو سکا.آپ فورا امرت سر چلے جائیں اور وہاں کے کورٹ انسپکٹر سے جس کا نام پنڈت ہر چرن داس ہے میرا نام لے کر معاملہ دریافت کریں.چوہدری صاحب نے ریلوے پولیس کے ایک کنسٹیبل کو انکے ہمراہ کر دیا.جو انہیں رات اپنے ہاں رکھ کر اگلے دن صبح پنڈت صاحب کے مکان پر لے گیا.پنڈت صاحب نے ان سے کہا کہ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے مجھے بلوا کر یہ دریافت کیا تھا کہ اگر مستغیث امر تسر کا رہنے والا ہو اور ملزم ہوشیار پور کا تو کیا دعوئی امرت سر میں کیا جا سکتا ہے اور میں نے جواب دیا تھا کہ اگر وقوعہ بھی ہوشیار پور کا ہے تو دعوئی بھی وہیں کیا جا سکتا ہے چنانچہ ہر دو صاحب میرے ساتھ اس امر پر

Page 643

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۴۴ مقدمه اقدام قتل اور بریت بحث کرتے رہے.پنڈت صاحب نے نائب کو رٹ کو بھی بلا کر دریافت کیا لیکن اس نے بھی کوئی اطلاع نہ دی.منشی صاحب بس اتنی خبر لے کر گورداسپور آئے اور چوہدری رستم علی صاحب کو بتایا.انہوں نے مشورہ دیا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں اسی طرح جا کر عرض کر دو.چنانچہ منشی صاحب اور میاں خیر الدین صاحب قادیان آئے اور حضور کی خدمت میں تمام حالات عرض کر دیئے.جس روز یہ بزرگ قادیان کو روانہ ہوئے اسی روز امرت سر سے دوسرا حکم گورداسپور آگیا کہ پادری ہنری مارٹن کلارک نے جو استغاثہ زیر دفعہ ۷ ا ضابطہ فوجداری امرت سر میں دائر کیا ہے اور جس کا وارنٹ پہلے بھیجا جا چکا ہے اور جس کے روکنے کے لئے تار بھی دیا گیا تھا وہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل کیا جاتا ہے اس پر گورداسپور سے حضرت اقدس علیہ السلام کے نام نوٹس جاری کر دیا گیا کہ اگلے روز (۰)- اگست ۱۸۹۷ء کو ڈپٹی کمشنر کا مقام بٹالہ میں ہو گا آپ وہیں پیش ہوں چودھری رستم علی صاحب نے اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے موضع ارجلہ میں آکر منشی عبد العزیز صاحب کے چھوٹے بھائی منشی عبد الغنی صاحب کو جو اس وقت سکول میں تعلیم پارہے تھے ایک خط اس مضمون کا لکھوا کر دیا کہ کل بٹالہ میں حضور کی پیشی ہے اس کا انتظام کر لینا چاہیے.یہ خط چودھری صاحب نے منشی عبد العزیز صاحب ہی کے ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کر دیا.منشی عبد العزیز صاحب اور میاں خیر دین صاحب قاریان پہنچے تو اس ملازم کو قادیان میں دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ وہ اتنی جلدی کیو نکر پہنچ گیا ہے اس نے انہیں وہ خط دیا کہ اس کی اطلاع حضور کی خدمت میں کی گئی.حضور اسی وقت مسجد مبارک میں تشریف لے آئے منشی صاحب نے خط پڑھ کر سنایا تو حضور نے انہیں ارشاد فرمایا کہ آپ اسی وقت گورداسپور چلے جائیں.چودھری صاحب سے ملیں اور شیخ علی احمد صاحب وکیل کو لے کر کل صبح بٹالہ پہنچ جائیں اسی وقت حضرت اقدس نے مرزا ایوب بیگ صاحب کو لاہور روانہ فرمایا کہ وہ شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک وکیل لے کر بٹالے پہنچ جائیں چنانچہ حضرت منشی صاحب میاں خیر الدین صاحب اور اپنے ملازم میاں عظیم کے ساتھ اسٹیشن چھینا کی طرف گورداسپور والی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہوئے.بارش کی وجہ سے کیچڑ زیادہ تھی اور ان کے پاؤں بہت پھسلتے تھے وہ بار بار گرتے اور پھر اٹھ کر چلتے.خشیت کا اس وقت یہ عالم تھا کہ زار زار رو ر ہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے.سیکھواں پہنچ کر میاں امام الدین صاحب اور میاں جمال الدین صاحب کو ایک شخص کے ذریعہ سے پیغام بھیجوا کر خود اسی طرح آگے چل دیئے.ایک میل کے فاصلہ پر یہ دونوں فدائی بھی انہیں مل گئے.باہم مشورہ کر کے میاں امام الدین صاحب کو گھر کی حفاظت کے لئے واپس بھیج دیا اور میاں جمال الدین صاحب اس قافلہ کے ساتھ ہو لئے یہ چاروں اصحاب بمشکل گاڑی کے وقت اسٹیشن تک پہنچے اور شام

Page 644

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۲۵ مقدمہ اقدام قتل اور بریت کو گورداسپور میں چودھری رستم علی صاحب سے ملے اور حضرت اقدس علیہ السلام کا پیغام سنایا.شیخ علی احمد صاحب اس روز اپنے گاؤں دھرم کوٹ رندھاوا کو گئے ہوئے تھے.وہاں آدمی بھیجا کہ شیخ صاحب کو لے کر بٹالہ پہنچ جائے.اگلے روز صبح میاں خیر الدین صاحب جمال الدین صاحب اور چوہدری رستم علی صاحب اور شیخ علی احمد صاحب گورداسپور سے اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل لاہور سے بٹالہ پہنچ گئے.ان کے علاوہ لدھیانہ - امرت سر.لاہور اور سیالکوٹ سے بھی بہت سے مخلصین 9- اگست کی رات کو بٹالے پہنچ گئے اور تھانے کے بالمقابل منڈی میں مقیم ہوئے.دوسرے دن (۰) حضرت اقدس کی بٹالے میں گواہی کے لئے تشریف آوری اگست کی صبح کو) حضرت اقدس ۸ اور ۹ بجے کے درمیان قادیان سے تشریف لائے اور خدام نے حضور کا انار کلی کے موڑ پر استقبال کیا.آپ جماعت کو دیکھ کر دورہی سے یکہ سے اتر آئے نہایت ہشاش بشاش اپنے خدام سے مصافحہ کیا.گویا آپ کو کسی قسم کی فکر نہیں ہے آپ وہاں سے پیدل ہی روانہ ہوئے.خدام نے سوار ہونے کے لئے عرض کیا تو فرمایا اب تک سوار ہی آئے ہیں اب سب کے ساتھ پیدل چلیں گے اور سب کے ساتھ سیر ہو جائے گی.راستہ میں مقدمہ کا سرسری ذکر آیا تو فرمایا.ہم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے خبر دے دی تھی اور ہم تو اس کی تائید اور نصرت کا انتظار ہی کر رہے تھے.اس لئے اللہ تعالٰی کی پیشگوئی کے آغاز پر ہم خوش ہیں اور اس کے انجام بخیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں.ہمارے دوستوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں " ذکر آیا کہ عیسائیوں کے ساتھ آریہ بھی مل گئے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی ان کے ساتھ ہیں حضور نے فرمایا ہمارے ساتھ خدا ہے جو ان کے ساتھ نہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلہ سے ہم کو واقف کر دیا ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہی ہو گا.اگر ساری دنیا بھی اس مقدمہ میں ہمارے خلاف ہو تو مجھے ایک ذرہ کے برابر پروا نہیں.اور اللہ تعالیٰ کی بشارت کے بعد اس کا وہم کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں.اللہ اللہ ! دنیا کے لوگ آپ کو دار در سن تک پہنچانے کے لئے مجتمع ہو گئے ہیں مگر آپ پورے جاہ و جلال کے ساتھ خدا کی بشارت کا اعلان فرمار ہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت خوشخبری یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت اقدس کو مقدمہ سے تین ماہ پہلے مندرجہ ذیل الہام اس ابتلاء کے بارے میں ہو چکے تھے.قدِ ابْتِلِيَ الْمُؤْمِنُونَ مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ

Page 645

تاریخ احمدیت.جلدا مقدمہ اقدام قتل اور بر برسیت شخص الْحُكَامِ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَاتُكَ إِلَى مَعَادٍ إِلَنْ مَعَ الْأَفْوَاحِ ايْكَ بَغْتَةً یاتیک نصرتى انى انا الرحمن ذو المجد والعلى مخالفوں میں پھرٹ اور ایک متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق اور اخیر حکم ابراء بے قصور ٹھہرانا.بلجت آیا تی.یعنی تجھ پر اور تیسرے ساتھ مومنوں پر مواخذہ حکام کو ابتلاء آئیگا.وہ ابتلاء صرف تہدید ہو گا.اس سے زیادہ نہیں.وہ خدا جس نے خدمت قرآن تجھے سپرد کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا میں اپنے فرشتوں کے ساتھ نا گہانی طور پر تیری مدد کروں گا.میری مدد تجھے پہنچے گی.میں بلند شان والا رحمان ہوں.میں مخالفوں میں پھوٹ ڈالوں گا اور انجام کار یہ ہو گا کہ تمہیں بری اور بے قصور ٹھہرایا جائے گا.اور میرانشان ظاہر ہو گا - 1 حضرت اقدس عدالت میں حضرت اقدس اپنے مخلصین کے حلقے میں قیام گاہ پر تشریف لائے اور کچھ دیر ٹھہر کر ڈاک بنگلہ میں پہنچے اور عدالت کے کمرہ میں کرسی پر رونق افروز ہو گئے جو ڈپٹی کمشنر ولیم ما نمیگو ڈگلس صاحب نے پہلے ہی رکھوادی تھی.اس وقت حضرت اقدس کے ہمراہ مرزا ایوب بیگ صاحب - حکیم فضل الدین صاحب مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور کچھ اور لوگ تھے.کمرے کے باہر تماشائیوں کا بہت بڑا ہجوم تھا.جس میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نهایت خوشی و خرمی کے ساتھ نمایاں تھے جس کا نقشہ حضرت اقدس نے ان الفاظ میں کھنچا ہے.کہ اگست کی ۱۰ تاریخ کو اس نظارہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب موحدین کے ایڈووکیٹ اس تماشے کے دیکھنے کے لئے کچھری میں آئے تھے تا اس بندہ درگاہ کو ہتھکڑی پڑی ہوئی اور کانسٹیبلوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھیں اور دشمن کی ذلت کو دیکھ کر خوشیاں منادیں.لیکن یہ بات ان کو نصیب نہ ہو سکی بلکہ ایک رنجدہ نظارہ دیکھنا پڑا.اور وہ یہ کہ جب میں صاحب مجسٹریٹ ضلع کی کچھری میں حاضر ہوا تو وہ نرمی اور اعزاز سے پیش آئے اور اپنے قریب میری کرسی بچھوا دی اور نرم الفاظ سے مجھ کو کہا کہ گو ڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگر میں نہیں لگا تا".اگست ۱۸۹۷ء کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی گواہی اور عبرتناک حالت دن بھی بڑے معرکے کا دن تھا.اسی دن عیسائیوں کے آلہ کار ابو سعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی.مولوی محمد حسین صاحب پر اس دن کیا گزری؟ اور کس طرح خدا نے ان کی ذلت و رسوائی کا سامان کیا اس کی کیفیت ظاہر کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ایک (غیر احمدی) مسل خوان راجہ غلام حیدرخان صاحب ساکن راولپنڈی کا مفصل اور نہایت اہم بیان درج کیا جاتا ہے جو موصوف نے اپنی

Page 646

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۲۷ مقدمه اقدام قتل اور بریت مرض الموت میں خود لکھوا کر جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مولف " مجد داعظم کو بھیجوایا.اس بیان سے عیسائیوں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی آمیزش پر بھی واضح روشنی پڑتی ہے.راجہ صاحب لکھتے ہیں.”میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے زمانہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ریڈر (مسلحواں) تھا.میں پانچ یا چھ روز کی رخصت پر اپنے گھر راولپنڈی گیا ہوا تھا.رخصت سے واپسی پر جب میں امر تسر پہنچا اور سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں یہ امید روانگی بیٹھا ہوا تھا جو دو یوروپین صاحبان جن میں سے ایک تو ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک خود تھا اور دوسرا کا راک جو وکیل تھا اسی ڈبہ میں تشریف لائے اتنے میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی آگئے اور وہ اسی سیٹ پر جہاں میں بیٹھا تھا بیٹھ گئے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک میرے زمانہ ایام ملازمت ضلع سیالکوٹ کے واقف تھے اور مولوی محمد حسین صاحب سے بھی اچھی واقفیت تھی اس واسطے ایک دو سرے سے باتیں شروع ہو گئیں.تب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی ڈاکٹر صاحب موصوف کے ہم سفر ہیں.بلکہ ان کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خریدا ہے.پھر ڈاکٹر صاحب موصوف نے بوجہ دیرینہ ملاقات کے مجھ سے دریافت فرمایا کہ آپ تو ضلع سیالکوٹ میں سر رشتہ دار تھے اب کہاں ہیں ؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کا ریڈر ہوں تب انہوں نے فرمایا کہ اد ہو.تب تو شیطان کا سر کچلنے کے لئے آپ بہت کار آمد ہوں گے " چونکہ میں تینوں صاحبان سے واقف تھا اس لئے فوراً سمجھ گیا.کہ ڈاکٹر صاحب کا اشارہ کس طرف ہے میں نے سرسری طور پر جواب دیا کہ واقعی ہر ایک نیک انسان کا کام ہے کہ وہ شیطان کا سر کچلے مگر مجھے معلوم نہیں ہوا کہ آپ کا یہ کہنے سے مطلب کیا ہے".تب ڈاکٹر صاحب موصوف نے مرزا صاحب کا نام لے کر کہا کہ ”وہ بڑا بھاری شیطان ہے جس کا سر کچلنے کے ہم اور یہ مولوی صاحب در پے ہیں.آپ اقرار کریں کہ آپ ہمیں مدد دیں گے " چونکہ میں اس گفتگو کو طول دینا پسند نہیں کرتا تھا.میں نے صرف اتنا کہدیا کہ کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کا اور مرزا صاحب قادیانی کا مقابلہ ہے.اور مقدمہ عدالت میں دائر ہے اس لئے میں اس بات سے معافی چاہتا ہوں کہ اس معالمہ میں زیادہ گفتگو کروں.جو شیطان ہے اس کا سر خود بخود کچلا جائے گا.یاد نہیں پڑتا کہ اس کے بعد اور کوئی گفتگو ہوئی یا نہیں.میں بٹانہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا.کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب وہیں مقیم تھے.دوسرے دن جب صبح سیر کے لئے نکلے.مرزا صاحب کے بہت سے متعلقین سے انار کلی (جو بٹالہ میں عیسائیوں کے گرجے اور مشن کے مکان کا نام ہے.مولف) کی سڑک پر مجھ سے ملاقات ہوئی.ڈاکٹر کلارک صاحب جس کو ٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے.وہ سامنے تھی.ہم نے دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب دروازے کے سامنے ڈاکٹر کلارک کے پاس ایک میز پر بیٹھے -

Page 647

تاریخ احمدیت جلد ۶۲۸ مقدمه اقدام قتل اور بریت ہوئے تھے.مولوی فضل دین صاحب وکیل مرزا صاحب نے تعجب کے لہجہ میں کہا کہ ”دیکھو آج مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت ہے اور آج بھی یہ شخص ڈاکٹر کلارک کا پیچھا نہیں چھوڑتا.اس کے علاوہ احاطہ بنگلہ میں عبد الحمید جس کی بابت بیان کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے مرزا صاحب نے اسے تعینات کیا تھا.ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا.رام سجدت وکیل آریہ اور پولیس کے چند آدمی اس کے گرد بیٹھے تھے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ عبد الحمید کے ہاتھوں پر کچھ نشان کئے جا رہے ہیں.چنانچہ وکیل حضرت مرزا صاحب نے ان ہر دو واقعات کو نوٹ کر لیا.اور جب مقدمہ پیش ہوا تو اول عبد الحمید سے وکیل حضرت مرزا صاحب نے سوال کیا کہ وہ احاطہ کو بھی مارٹن کلارک میں بیٹھا ہوا تھا.اور رام مجدت وکیل اور پولیس والے اس کے پاس تھے.اور کیا اس کو مرزا صاحب کے بر خلاف جو بیان دیتا تھا اس کے لئے کچھ باتیں تلقین کر رہے تھے اور کچھ نشان اس کے ہاتھوں پر کر رہے تھے اس وقت عبد الحمید سے کوئی جواب نہ بن پڑا.اس نے رام مجدت وغیرہ کی موجودگی کو تسلیم کیا اور جب اس کے ہاتھ دیکھے گئے تو بہت سے نشانات نیلے اور سرخ پنسل کے پائے گئے جو خدا جانے کن کن امور کے لئے اس کے ہاتھ پر بطور یادداشت بنائے گئے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت سے قبل مولانا مولوی نور الدین صاحب کی شہادت ہوئی ان کی سادہ ہیت یعنی ڈھیلی ڈھالی سی بندھی ہوئی پگڑی اور کرتے کا گر بیان کھلا اور شہادت ادا کرنے کا طریق نهایت صاف اور سیدھا سادھا ایسا موثر تھا کہ خود ڈپٹی کمشنر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ”خدا کی قسم اگر یہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پر پورا پورا غور کرنے کے لئے تیار ہوں گا.مولوی نور الدین صاحب نے عدالت سے دریافت کیا کہ ” مجھے باہر جانے کی اجازت ہے یا اسی جگہ کمرہ کے اندر رہوں".ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ”مولوی صاحب! آپ کو اجازت ہے جہاں آپ کا جی چاہے جائیں.ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی شہادت ہوئی....اور ان کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شہادت کے لئے کمرہ میں داخل ہوئے اور دائیں بائیں دیکھا تو کوئی کرسی فالتو پڑی ہوئی نظر نہ آئی.مولوی صاحب کے منہ سے پہلا لفظ جو نکلاوہ یہ تھا کہ حضور کرسی ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ " کیا مولوی صاحب کو حکام کے سامنے کرسی ملتی ہے ".میں نے کرسی نشینوں کی فہرست صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ اس میں مولوی محمد حسین صاحب یا ان کے والد بزرگوار کا نام تو درج نہیں.لیکن جب کبھی حکام سے ملنے کا اتفاق ہو تا ہے تو بوجہ عالم دین یا ایک جماعت کا لیڈر ہونے کو وہ انہیں کرسی دے دیا کرتے ہیں.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو کہا کہ "آپ کوئی سرکاری طور پر کرسی نشین نہیں ہیں آپ سیدھے کھڑے ہو جائیں اور

Page 648

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۲۹ مقدمه اقدام قتل اور بریت شہادت دیں".تب مولوی صاحب نے کہا کہ ”میں جب کبھی لاٹ صاحب کے حضور میں جاتا ہوں تو مجھے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے.میں اہلحدیث کا سرغنہ ہوں".تب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے گرم الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ ”نج کے طور پر اگر لاٹ صاحب نے تم کو کرسی پر بٹھایا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ عدالت میں بھی تمہیں کرسی دی جائے".خیر جب شہادت شروع ہوئی.تو مولوی صاحب نے جس قدر الزامات کسی شخص کی نسبت لگائے جا سکتے ہیں مرزا صاحب پر لگائے لیکن جب مولوی فضل دین صاحب وکیل حضرت مرزا صاحب نے جرح میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے معافی مانگ کر اس قسم کا سوال کیا جس سے ان کی شرافت یا کیریکٹر پر دھبہ لگتا تھا تو سب حاضرین نے متعجبانہ طور پر دیکھا کہ جناب مرزا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور مولوی فضل دین صاحب کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ میری طرف سے اس قسم کا سوال کرنے کی نہ تو ہدایت ہے اور نہ اجازت ہے آپ اپنی ذمہ داری پر بہ اجازت عدالت اگر پوچھنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے".قدرتی طور پر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کو دلچسپی ہوئی اور انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا اس سوال کی بابت تم کو کچھ حال معلوم ہے میں نے نفی میں جواب دیا.مگر کہا کہ اگر آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو جب آپ لنچ کے لئے اٹھیں گے تو میں معلوم کرنے کی کوشش کروں گا.چنانچہ جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو صاحب ڈپٹی کمشنر لنچ کے لئے اٹھ گئے.تو میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کی معرفت حضرت مرزا صاحب سے دریافت کروایا کہ کیا ماجرا ہے حضرت مرزا صاحب نے نہایت افسوس کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کو بتایا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات اور مولوی محمد حسین صاحب کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابل اعتراض ہیں مگر ساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پر لایا جاوے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کریں".میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے سنکر لنچ والے کمرہ میں جاکر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے روبرو جو ڈپٹی کمشنر صاحب کے ساتھ لنچ میں شامل تھے.ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو یہ ماجر اسنادیا اس پر خود ڈاکٹر مارٹن ہنری کلارک بہت ہے.صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا یہ امر تو ہمارے اختیار میں ہے.کہ ہم اس ماجرے کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو".لنچ کے بعد جب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب دوبارہ جرح کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی فضل دین صاحب وکیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ آج ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی پر ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ؟ تو انہوں نے صاف انکار کر دیا.جس پر بے ساختہ میں چونک پڑا.ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے اس چونکنے کی وجہ پوچھی تو میں نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف اشارہ کیا.

Page 649

تاریخ احمدیت.جلدا مقدمه اقدام قتل اور بریت صاحب بہادر نے ڈاکٹر کلارک سے دریافت کیا تو انہوں نے صاف اقرار کیا کہ ”ہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے اس مقدمہ کی گفتگو کر رہے تھے.پھر مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے پوچھا کہ ” آپ ان دنوں امر تسر سے بٹالہ تک ڈاکٹر ہنری مارٹن لارک کے ہم سفر تھے ؟ اور آپ کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خرید کیا تھا؟ تو مولوی محمد حسین صاحب صاف منکر ہو گئے.بعض وقت انسان اپنے خیالات کا اظہار بلند آواز سے کر گزرتا ہے.یہی حال اس وقت میرا بھی ہوا.میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ " یہ تو بالکل جھوٹ ہے ".تب ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے پھر پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا کہ ”مولوی صاحب میرے ہم سفر تھے اور ان کا ٹکٹ بھی میں نے ہی خریدا تھا.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر حیران ہو گئے آخر انہوں نے یہ نوٹ مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کے آخر لکھا کہ گواہ کو مرزا صاحب سے عداوت ہے جس کی وجہ سے اس نے مرزا صاحب کے خلاف بیان دینے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا.اس لئے مزید شہادت لینے کی ضرورت نہیں " مولوی محمد حسین صاحب شہادت کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک آرام کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے.کانسٹیبل نے وہاں سے انہیں اٹھا دیا کہ کپتان صاحب پولیس کا حکم نہیں ہے ".پھر مولوی صاحب موصوف ایک بچھے ہوئے کپڑے پر جا بیٹھے جن کا کپڑا تھا انہوں نے یہ کہہ کر کپڑا کھینچ لیا.کہ مسلمانوں کا سرغنہ کہلا کر اس طرح صریح جھوٹ بولنا.بس ہمارے کپڑے کو نا پاک نہ کیجئے".تب مولوی نور الدین صاحب نے اٹھ کر مولوی محمد حسین صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا.اور کہا کہ "آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں.ہر ایک چیز کی ایک حد ہونی چاہیے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو چادر سے اٹھانے والے مولوی محمد حسین صاحب (سابق) مبلغ کشمیر) کے والد میاں محمد بخش صاحب بٹالوی تھے جو اس وقت نہ صرف احمدی نہیں تھے بلکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے عقیدت مندوں میں شامل تھے اس دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدوان رسول سے مل کر شرمناک مظاہرہ کیا تو ان کی دینی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ پادریوں کی مدد کرنے والا شخص ان کی چادر پلید کرے.عبد الحمید کا مشتبه بیان اس دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے علاوہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ، پریم داس اور خود عبد الحمید کے بیانات بھی ہوئے عبد الحمید کا یہ دوسرا بیان تھا جو بٹالہ میں ہوا.ولیم ڈگلس نے (جیسا کہ بعد کو اپنے فیصلہ میں لکھا) عبد الحمید کے بیان کو شروع ہی سے بعید از عقل خیال کیا پھر اس بیان میں جو اس نے امرت سر میں داخل عدالت کیا اختلافات تھے.اور وہ اس کی وضع قطع سے جب کہ وہ شہادت دیتا تھا مطمئن نہیں تھے اس کے علاوہ انہوں نے کمال ذہانت سے یہ بھی بھانپ لیا کہ جتنی دیر تک وہ بٹالہ مشن کے ملازموں کی زیر نگرانی رہا.

Page 650

تاریخ احمدیت جلدا ۶۳۱ مقدمہ اقدام قتل اور بریت اتنی ہی اس کی شہادت مفصل اور طویل ہوتی گئی ہے جس پر وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ یا تو کوئی شخص یا اشخاص اسے سکھلاتے ہیں یا یہ کہ اس کو اور زیادہ علم ہے جتنا کہ وہ اب تک ظاہر کر چکا ہے.مسٹرڈ گلس کو کشفی نظاروں کے ذریعہ سے راہ نمائی راجہ غلام حیدر ہی کا بیان ہے کہ ” جب عدالت ختم ہوئی تو اپٹی کمشنر صاحب نے کہا.ہم فور اگورداسپور جانا چاہتے ہیں.تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو.چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گیا.میں اسٹیشن سے نکل کر بر آمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سرڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں اور کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر.ان کا چہرہ پریشان ہے.میں ان کے پاس گیا اور کہا.صاحب آپ باہر پھر رہے ہیں.میں نے دیٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں.آپ وہاں تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے.منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں.میری طبیعت خراب ہے.میں نے کہا کچھ بتا ئیں تو سہی.آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہو گئی ہے.تاکہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے.اس پر وہ کہنے لگے میں نے جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں.ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا.اور یہاں آیا تو اب ملتا ملتا جب اس کنارے کی طرف جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں.میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں.یہ سب جھوٹ ہے.میں نے یہ کام نہیں کیا.اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھئے.سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں ان کو بلا لیتے ہیں.شاید ان کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں.سپرنٹنڈنٹ صاحب کا نام لیمار چنڈ تھا.سرڈگلس نے کہا انہیں بلوا لو.چنانچہ میں انہیں بلا لایا.جب وہ آئے تو سرڈگلس نے ان سے کہا دیکھو یہ حالات ہیں.میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے میں اسٹیشن پر ملتا ہوں اور گھبرا کر اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے.پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے.اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے.میری یہ حالت پاگلوں سی ہے.اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو.ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.

Page 651

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۳۲ مقدمه اقدام قتل اور بریت عبد الحمید کو پولیس کی تحویل میں دیئے جانے کا حکم بیمار چیڑ نے کہا اس میں کسی کا حکم اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالہ کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آکر بیان کر دیتا ہے چنانچہ اسی وقت ڈگلس نے کاغذ منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبد الحمید کو پولیس کے حوالہ کیا جائے - m سازش کا انکشاف چنانچہ اگلے ہی دن ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر لیمار چنڈ نے میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر پولیس کو انار کلی بھیج کر نہال چند منشی کو اپنے پاس بلا لیا.رستہ میں وارث دین نے عبد الحمید کو تاکید کی کہ وہ پہلا بیان نہ بدلے.تم کو ڈاکٹر صاحب نے وعدہ معافی دیا ہوا ہے.دو سکھ سپاہیوں نے بھی یہی زور دیا.بٹالہ کے مدرس نہا لچند نے بھی یہی کہا.بلکہ صبح کو عبد الغنی عیسائی نے شیخ وارث دین اور یوسف کا یہ پیغام دیا کہ تم کو ڈاکٹر صاحب سے معافی دلوا دیں گے اور تم بیچ رہو گے.اگر پہلے بیان پر قائم رہے.مسٹر لیمار چنڈ کو چونکہ مصروفیت تھی.اس لئے انہوں نے میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر پولیس اور ایک انسپکٹر پولیس جلال الدین صاحب کا پہرہ اس پر مقرر کر دیا.اور خود قریب ہی جہاں وہ دکھائی دیتا تھا کام کرنے لگے.جب کافی دیر ہو گئی تو انسپکٹر پولیس نے ان سے کہا کہ اگر فرصت نہیں ہے تو عبد الحمید کو واپس انار کلی بھیج دیا جائے.کیونکہ وہ جانا چاہتا ہے.اور مقدمہ کی بابت کچھ اصلیت ظاہر نہیں کرتا.تب مسٹر یمار چنڈ نے عبد الحمید کو بلوالیا.اور پوچھ کچھ شروع کی.لیکن اس نے وہی پہلی داستان دوہرائی جو دو صفحے میں لکھ لی گئی اور ساتھ ہی اس سے کہا.کہ ہم اصلیت دریافت کرنا چاہتے ہیں تم ناحق وقت کیوں ضائع کرتے ہو.اب تمہیں انار کلی نہیں بھیجا جائے گا.گورداسپور لے جاویں گے بس یہ کہنا ہی تھا کہ عبد الحمید ان کے پاؤں پر گر کر زار و قطار رونے لگا اور اس نے سازش کا انکشاف کرتے ہوئے سارا قصہ بے کم و کاست کہہ ڈالا.اور صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ جو کچھ میں بیان دیتا رہا ہوں محض ان کے سکھانے پر دیتا رہا ہوں.اس واقعہ کے چار روز بعد امرت سرسے پادری ایچ.جی.گرے اور نور دین کی چھٹیاں بھی عدالت میں پہنچ گئیں جن سے اس بیان کی مزید تصدیق ہو گئی.حضور کی الزام قتل سے بریت اور دشمن کو عفو عام عبدالحمید نے ۲۰.اگست کو سرکاری گواہ کے طور پر عدالت میں اپنا اصل بیان پڑھا تو پادریوں اور ان کے لگے بندھوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.پادری مارٹن کلارک نے اپنے آخری بیان میں اپنی معصومیت " کا اظہار کرنے کے لئے ادھر ادھر

Page 652

تاریخ احمدیت.جلدا مقدمه اقدام قتل اور بریت ہاتھ مارنے کی بے حد کوشش کی.لیکن اب راز کھل چکا تھا.لہذا ۲۳- اگست ۷ ۱۸۹ء کو مسٹرولیم مانٹیگو ڈگلس نے حضرت اقدس کو بالکل بری کر دیا اور اپنے فیصلہ میں اس واقعہ کی پوری تفصیل دیتے ہوئے لکھا.” جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ کا تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے اہزادہ بری کئے جاتے ہیں".پھر عین کچھری میں انہوں نے ہنستے ہوئے حضور کو مبارکباد پیش کی.اور کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں.اگر چاہتے ہیں.تو آپ کو حق ہے ".ال حضرت اقدس نے جو ایمان افروز جواب دیادہ خدا کے اولو اعزم پیغمبروں ہی کی زبان سے نکل سکتا ہے.حضور نے فرمایا ” میں کسی پر مقدمہ کرتا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے ".اس طرح یہ ابتلاء تو چند روز کے اندر اندر ختم ہو گیا.لیکن اس کا نتیجہ ایک عظیم الشان پیشگوئی اور نصرت الہی کا نشان بن کر رہ گیا جو ہمیشہ کے لئے یاد گار رہے گا.مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور لالہ اس مقدمہ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ آپ کو دینا ناتھ ایڈیٹر ہندوستان کے تاثرات خدا تعالی پر کتنا ز بر دست تو کل و ایمان ہے جسے مصائب کے طوفان اور حوادث کی آندھیاں بھی متزلزل نہیں کر سکتیں.اس ضمن میں لالہ دینا ناتھ ایڈیٹر " دیش ، ہندوستان" کا وہ بیان درج کرنا ضروری ہے جو انہوں نے جولائی ۱۹۳۴ء میں بمقام لاہور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے سامنے دیا تھا انہوں نے بتایا کہ " آپ کو معلوم ہے کہ میرے دل میں مرزا صاحب (حضرت اقدس صحیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کی کس قدر عظمت ہے ان کا مقام اور مرتبہ بہت عظیم الشان سمجھتا ہوں اگر چرا چہ ان کے دعاوی کے متعلق علم النفس کی رو سے میں یہ مانتا ہوں کہ ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی لیکن ایک مہاپرش اور روحانی آدمی کے لحاظ سے بہت بڑے مرتبہ کے انسان تھے.اور یہ عقیدہ ان کے متعلق ایک واقعہ سے ہوا.حکیم غلام نبی زبدۃ الحکماء کو آپ جانتے ہیں اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل کو بھی.حکیم صاحب کے مکان پر اکثر دوستوں کا اجتماع شام کو ہوا کر تا تھا میں بھی وہاں چلا جا تا تھا.ایک روز وہاں کچھ احباب جمع تھے.اتفاق سے مرزا صاحب کا ذکر آگیا.ایک شخص نے انکی مخالفت شروع کی.لیکن ایسے رنگ میں کہ وہ شرافت و اخلاق کے پہلو سے گری ہوئی تھی.مولوی فضل الدین صاحب مرحوم کو یہ سن کر بہت جوش آگیا.اور انہوں نے بڑے جذبہ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کا مرید نہیں ہوں.انکے دعاوی پر میرا یقین نہیں اس کی وجہ خواہ کچھ ہو لیکن مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں.میں وکیل ہوں اور ہر قسم کے طبقہ کے لوگ مقدمات کے

Page 653

تاریخ احمدیت جلدا م مقدمه اقدام قتل اور بریت سلسلہ میں میرے پاس آتے ہیں اور ہزاروں کو میں نے اس سلسلہ میں دوسرے وکیلوں کے ذریعہ بھی دیکھا ہے.بڑے بڑے نیک نفس آدمی جن کے متعلق کبھی وہم بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ کسی قسم کی نمائش یا ریا کاری سے کام لیں گے.انہوں نے مقدمات کے سلسلہ میں اگر قانونی مشورہ کے ماتحت اپنے بیان کو تبدیل کرنے کی ضرورت سمجھی تو وہ بلا تامل بدل دیا لیکن میں نے اپنی عمر میں مرزا صاحب کو ہی دیکھا ہے جنہوں نے سچ کے مقام سے قدم نہیں بنایا.میں ان کے ایک مقدمہ میں وکیل تھا.اس مقدمہ میں میں نے ان کے لئے ایک قانونی بیان تجویز کیا اور ان کی خدمت میں پیش کیا.انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ اس میں تو جھوٹ ہے.میں نے کہا کہ ملزم کا بیان حلفی نہیں ہو تا اور قانوناً اسے اجازت ہے کہ جو چاہے وہ بیان کرے اس پر آپ نے فرمایا قانون نے تو اسے اجازت دیدی ہے کہ جو چاہے بیان کرے مگر خدا تعالیٰ نے تو اجازت نہیں دی.کہ وہ جھوٹ بھی بولے اور نہ قانون ہی کا یہ منشاء ہے بس میں کبھی ایسے بیان کے لئے آمادہ نہیں ہوں جس میں واقعات کا خلاف ہو.میں صحیح صحیح امر پیش کروں گا.مولوی صاحب کہتے تھے کہ میں نے کہا کہ آپ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بلا میں ڈالتے ہیں.انہوں نے فرمایا جان بوجھ کر بلا میں ڈالنا یہ ہے کہ میں قانونی بیان دے کرنا جائز فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے خدا کو ناراض کرلوں.یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا خواہ کچھ بھی ہو یہ باتیں مرزا صاحب نے ایسے جوش سے بیان کیں کہ ان کے چہرہ پر ایک خاص قسم کا جلال اور جوش تھا.لیکن میں نے سن کر کہا کہ پھر آپ کو میری وکالت سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.اس پر انہوں نے فرمایا کہ ”میں نے کبھی وہم بھی نہیں کیا کہ آپ کی وکالت سے فائدہ ہو گا یا کسی اور شخص کی کوشش سے فائدہ ہو گا اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مخالفت مجھے تباہ کر سکتی ہے میرا بھروسہ تو خدا پر ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے آپ کو وکیل اس لئے کیا ہے کہ رعایت اسباب ادب کا طریق ہے اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ آپ اپنے کام میں دیانتدار ہیں اس لئے آپ کو مقرر کر لیا ہے...مولوی فضل الدین کہتے تھے کہ میں نے پھر کہا کہ میں تو یہی بیان تجویز کرتا ہوں.مرزا صاحب نے کہا." نہیں جو بیان میں خود لکھتا ہوں نتیجہ اور انجام سے بے پروا ہو کر وہی داخل کر دو.اس میں ایک لفظ بھی تبدیل نہ کیا جاوے اور میں پورے یقین سے آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کے قانونی بیان سے وہ زیادہ موثر ہو گا.اور جس نتیجہ کا آپ کو خوف ہے وہ ظاہر نہیں ہو گا.بلکہ انجام انشاء اللہ بخیر ہو گا اور اگر فرض کر لیا جاوے کہ دنیا کی نظر میں انجام اچھانہ ہو یعنی مجھے سزا ہو جاوے تو مجھے اس کی پروا نہیں.کیونکہ میں اس وقت اس لئے خوش ہوں گا.کہ میں نے اپنے رب کی کی بھٹی نافرمانی نہیں کی.غرض مولوی فضل الدین صاحب (وکیل) نے بڑے جوش اور اخلاص te.

Page 654

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۳۵ مقدمه اقدام قتل اور بریت سے اس طرح مرزا صاحب کا ڈیفنس پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے پھر قلم برداشتہ اپنا بیان لکھ دیا.اور خدا کی عجیب قدرت ہے کہ جیساوہ کہتے تھے اس بیان پر وہ بری ہو گئے.مولوی فضل الدین صاحب نے ان کی راستبازی اور راستبازی کے لئے ہر قسم کی مصیبت قبول کر لینے کی جرات اور بہادری کا ذکر کر کے حاضرین مجلس پر ایک کیف اور حالت پیدا کر دی.اس پر بعض نے پوچھا.آپ پھر مرید کیوں نہ ہو جاتے تو انہوں نے کہا میرا ذاتی فعل ہے اور تمہیں یہ حق نہیں کہ سوال کرو.میں انہیں ایک کامل راستباز یقین کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بہت بڑی عظمت ہے ".لالہ دینا نا تھ صاحب نے یہ قصہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس دن سے میرے دل میں بھی ان کی عظمت ایک روحانی مہا پرش کے ہے.گو میں ان کے دعادی کو یہ سمجھتا ہوں کہ نفس انسانی کی ترقیات میں ایسے مغالطے لگ جایا کرتے ہیں".اس زبر دست آسمانی نشان سے دنیا کو روشناس کتاب البریہ کی تصنیف و اشاعت کرانے اور آئندہ نسلوں کے ایمان کی تازگی کے لئے حضرت اقدس نے کتاب البریہ " تصنیف فرمائی جو جنوری ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی.حضور نے اس کتاب میں مخالفوں کی شرر انگیزیوں کے چہرے سے نقاب اٹھا دینے کے بعد سرکاری کاغذات سے مقدمہ کی پوری رو داد کا ترجمہ بھی شامل کیا.اور بڑی تفصیل سے وہ تائیدات الیہ بیان فرما ئیں.جو مقدمہ کے دوران میں غیبی رنگ میں نمودار ہوئی تھیں.مسیح محمدی اور مسیح ناصری کے مقدموں سرکتاب البریہ میں حضور نے اس مقدمہ کی الہی میں سیات حیرت انگیز مشابہتیں اور سکتیں بایں الفاظ بیان فرمائیں کہ " تاخد اتعالیٰ اس طور سے میری مماثلت حضرت مسیح سے ثابت کرے اور میری سوانح کی اس کی سوانح سے مشابہت لوگوں پر ظاہر فرمادے چنانچہ وہ تمام مماثلتیں اس مقدمہ سے ثابت ہو ئیں.منجملہ ان کے یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری کے لئے ان کے ایک مرید جس کا نام یہودا اسکریو تی تھا یہودیوں سے تیس روپے لے کر حضرت مسیح کو گرفتار کروایا.ایسا ہی میرے مقدمہ میں ہوا کہ عبد الحمید نامی میرے ادعائی مرید نے نصرانیوں کے پاس جاکر اور ان کی طمع دہی میں گرفتار ہو کر ان کی تعلیم سے میرے پر ارادہ قتل کا مقدمہ بنایا.دوسری مماثلت یہ کہ مسیح کا مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل ہوا تھا ایسا ہی میرا مقدمہ بھی امرت سر کے ضلع سے گوداسپور کے ضلع منتقل ہوا.تیسری مماثلت یہ کہ پیلاطوس نے حضرت مسیح کی نسبت کہا تھا کہ میں یسوع کا کوئی گناہ نہیں

Page 655

تاریخ احمدیت جلدا ۶۳۶ مقدمہ اقدام قتل اور بریت دیکھتا.ایسا ہی کپتان ڈگلس صاحب نے عین عدالت میں ڈاکٹر کلارک کے رو برو مجھ کو کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا.چوتھی مماثلت یہ کہ جس روز مسیح نے صلیبی موت سے نجات پائی اس روز اس کے ساتھ ایک چور گرفتار ہو کر سزا یاب ہو گیا تھا.ایسا ہی میرے ساتھ بھی اسی تاریخ یعنی ۲۳ اگست ۱۸۹۷ء کو اس گھڑی جب میں بری ہوا تو مکتی فوج کا ایک عیسائی بوجہ چوری گرفتار ہو کر اسی عدالت میں پیش ہوا.چنانچہ اس چور نے تین مہینہ کی قید کی سزا پائی.پانچویں مماثلت یہ کہ مسیح کے گرفتار کرانے کے لئے یہودیوں اور ان کے سردار کاہن نے شور مچایا تھا.کہ مسیح سلطنت کا باغی ہے.اور آپ بادشاہ بننا چاہتا ہے.ایسا ہی محمد حسین بٹالوی نے عیسائیوں کا گواہ بن کر عدالت میں محض شرارت سے شور مچایا.کہ یہ شخص بادشاہ بنا چاہتا ہے کہ کہتا ہے کہ میرے مخالف جس قدر سلطنتیں ہیں سب کائی جائیں گی.چھٹی مماثلت یہ کہ جس طرح پیلاطوس نے سردار کاہن کے بکو اس پر کچھ بھی توجہ نہ کی اور سمجھ لیا کہ مسیح کا یہ شخص پکارشمن ہے اسی طرح کپتان ایچ.ایم ڈگلس صاحب نے محمد حسین بٹالوی کے بیان پر کچھ بھی توجہ نہ کی اور اس کے اظہار میں لکھ دیا کہ یہ شخص مرزا صاحب کا پکادشمن ہے اور پھر اخیر حکم میں اس کے اظہار کا ذکر تک نہیں کیا.اور بالکل بیہودہ اور خود غرضی کا بیان قرار دیا.ساتویں مماثلت یہ ہے کہ جس طرح مسیح کو گرفتاری سے پہلے خبر دی گئی تھی کہ اس طرح دشمن تجھے گرفتار کریں گے اور تیرے قتل کرنے کے لئے کوشش کریں گے.اور آخر خدا تجھے ان کی شرارت سے بچالے گا.ایسا ہی مجھے خدا تعالیٰ نے اس مقدمہ سے پہلے خبر دے دی اور ایک بڑی جماعت جو حاضر تھی سب کو وہ الہامات سنائے گئے اور جو حاضر نہیں تھے ان میں سے اکثر احباب کی طرف خط لکھے گئے تھے.اور یہ لوگ سو سے کچھ زیادہ آدمی ہیں".پیلاطوس ثانی کا شاندار کارنامه پیلاطوس ثانی مسٹر ولیم ڈگلس نے چونکہ پیلاطوس اول کے بر عکس بریت کا فیصلہ دے کر عدل و انصاف کا شاندار کارنامہ دکھایا تھا اس لئے حضور نے بھی اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے کتاب البریہ اور دیگر متعدد تصانیف میں ان کی بیدار مغزی ، منصف مزاجی ، مردانگی ، حق پسندی اور خداتری کی بڑی تعریف فرمائی ہے چنانچہ ایک مقام پر حضور نے لکھا.” جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں

Page 656

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۳۷ مقدمه اقدام قتل اور بریت کروڑوں افراد تک پہنچے گی.ویسے ویسے تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا.اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اس کو چنا " مسٹر ڈبلیو ایم ڈگلس نے ۲۵ فروری ۱۹۵۷ء کو لنڈن میں انتقال فرمایا.وفات کے وقت ان کی عمر ۹۳ سال تھی.اور ان کے ذہن میں آخر تک اس مقدمہ کے واقعات پوری طرح محفوظ تھے اور وہ جب تک زندہ رہے اپنی زندگی کے اس اہم ترین واقعہ کا تذکرہ کرتے رہے اور جب کبھی کوئی احمدی آپ کی ملاقات کے لئے جاتا تو اس واقعہ کی تفصیل ضرور بیان کرتے اور عقیدت آمیز لب ولہجہ میں کہتے کہ میں نے مرزا صاحب کو دیکھتے ہی یقین کر لیا تھا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا.ایک مرتبہ یوم التبلیغ کی تقریب پر انہوں نے مسجد فضل لندن میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ ”مجھ سے بارہا یہ سوال کیا گیا ہے کہ احمدیت کا سب سے بڑا مقصد کیا ہے ؟ میں اس سوال کا یہی جواب دیتا ہوں کہ اسلام میں روحانیت کی روح پھونکنا.بانی جماعت احمدیہ نے آج سے پچاس برس پیشتر یہ معلوم کر لیا تھا کہ موجودہ زمانہ میں مذہب اور سائنس کا میلان کس طرف ہو گا...احمدیت کا ایک مقصد اسلام کو موجودہ زمانے کی زندگی کے مطابق پیش کرنا ہے میں نے جب ۱۸۹۷ء میں بانی جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی تھی اس وقت جماعت کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی.لیکن آج دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے پچاس سال کے عرصے میں یہ نہایت شاندار کامیابی ہے اور مجھے یقین ہے کہ موجودہ نسل کے نوجوان اس کی طرف زیادہ توجہ دیں گے اور آئندہ پچاس سال کے عرصہ میں جماعت کی تعداد بہت بڑھ جائے گی".سفر ملتان حضرت اقدس علیہ السلام کو ادا ئل اکتوبر میں رویا میں دکھایا گیا کہ آپ ایک انگریز حاکم کے سامنے گواہی دے رہے ہیں.مگر دستور کے مطابق اس نے آپ کو قسم نہیں دی.اس کے بعد دوسری خواب میں مزید یہ خبر دی گئی کہ سپاہی سمن لے کر آیا ہے.حضرت اقدس نے یہ خبر مسجد میں اپنے خدام کو قبل از وقت سنادی تھی.مگر اس وقت بظاہر کسی مقدمہ کا گمان بھی نہیں تھا کہ چند روز بعد یکایک ایک.سپاہی سمن لے کر آیا اور معلوم ہوا کہ مولوی رحیم بخش صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نواب صاحب بہاولپور نے لاہور کے اخبار ” ناظم البند " پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی دائر کر دیا ہے اور اخبار کے شیعہ ایڈیٹر جناب سید ناظم حسین صاحب نے آپ کو بطور گواہ صفائی طلب کیا ہے.

Page 657

تاریخ احمدیت.جلدا مقدمه اقدام قتل اور بریت حسین صاحب وہی صاحب تھے جنہوں نے حسین کامی کی آمد پر آپ کے خلاف اشتعال انگیز مضامین لکھ کر عام فضا سخت مکدر کر دی تھی.بایں ہمہ ان کو آپ کے اخلاق عالی اور بلند کیریکٹر کے لحاظ سے پوری طرح اعتماد تھا کہ باوجود میری معاندانہ روش کے آپ کی زبان حق کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے گی.چنانچہ یہی ہوا.حضرت اقدس گو بذریعہ کمیشن شہادت دینے کا مطالبہ فرما سکتے تھے.مگر آپ نے یہ گوارا نہ کیا اور باوجود ہزاروں خطرات کے سفر ملتان اختیار فرمایا اور شہادت دی اور جیسا کہ قبل از وقت اطلاع دی گئی تھی حاکم کو کچھ ایسا سو ہوا کہ قسم دینا بھول ہی گیا اور شہادت شروع کر دی.ملتان سے واپسی پر حضور نے لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب مالک واپسی پر لاہور میں قیام بھٹی ہاؤس کے مکان پر (جو انار کلی میں پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی کے سامنے واقع تھا، چند دن قیام فرمایا.اس اثناء میں مختلف مذاہب و ملت کے لوگ بکثرت آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے.اور آپ علم و حکمت کے وہ موتی لٹاتے کہ لوگ دنگ رہ جاتے.اس موقعہ کی ایک پر علم و معرفت مجلس کا منظر چودھری محمد اسماعیل صاحب ریٹائرڈ ای.اے سی نے اپنے قلم سے کھینچا ہے جو بڑا ہی دلکش اور ایمان پرور ہے.آپ لکھتے ہیں.حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کا دولت کدہ جو ان کی پرانی دکان بمبئی ہاؤس کے عقب میں تھا.حضرت اقدس کے نزول اجلال کے باعث رشک جنت بنا ہوا تھا.سردی کا موسم تھا.ایک وسیع کمرہ کی باہر والی طاقچی میں حضرت صاحب تشریف فرما تھے.اس وقت کے حالات کے مطابق یہ جگہ بہت غیر محفوظ تھی.باہر سے بڑی آسانی سے حملہ ہو سکتا تھا.مگر بغیر کسی محافظت کے حضرت اقدس نہایت اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے خدام کے علاوہ شہر کے بہت سے معزز اشخاص وہاں موجود تھے.کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.غیر از جماعت لوگ مختلف قسم کے اعتراضات کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے آخر عیسائیوں کی طرف سے ایک اعتراض پیش ہوا.کہ "قرآن مجید میں جو قصے درج ہیں وہ بائبل سے لئے گئے ہیں".نہیں یہ اعتراض کسی عیسائی نے پیش کیا یا کسی مسلمان نے کسی عیسائی کی طرف سے پیش کیا.چونکہ مسئلہ اہم تھا اور حاضرین کی تعداد اتنی تھی کہ اگر حضرت صاحب بیٹھ کر جواب دیتے تو سب حاضرین نہ سن سکتے.اس واسطے حضرت کھڑے ہو گئے اور ایسی معرکہ کی تقریر فرمائی کہ اپنی جماعت کے لوگ تو ایک طرف رہے دوسرے لوگ بھی عش عش کرنے لگے.مجھے وہ سماں نہیں بھول سکتا جب بہت سے دلائل دے کر حضرت صاحب نے فرمایا.” غرض جس طرح گھاس پھوس اور چارہ گائے کے پیٹ میں جاکر لہو اور پھر تھنوں میں جا کر دودھ بن جاتا ہے اسی طرح تو ریت اور انجیل کی کہانیاں اور داستانیں قرآن میں آکر نور اور حکمت بن گئیں ".یہ سن کر ہال جزاک اللہ اور بارک اللہ کے نعروں معلوم

Page 658

تاریخ احمدیت.جلد ! ۶۳۹ مقدمه اقدام قتل اور بریت سے گونج اٹھا.میں جب کبھی اس طرف جاتا ہوں اور اس طاقچی کو دیکھتا ہوں تو وہ نظارہ آنکھوں کے سامنے آنے سے جو دل پر گزرتی ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے ".اس زمانے میں چونکہ مخالفت عروج پر تھی اور نت نئے شوشے چھوڑ کر عوامی ذہن میں گویا باردو بھر دی گئی تھی اس لئے حضرت اقدس جہاں جہاں سے گزرتے آپ کو گالیاں دی جاتی تھیں اور لوگ آپ کا نام لے لے کرنا شائستہ حرکات کرتے اور آوازے کتے تھے.الد حضرت اقدس لاہور میں چند دن فروکش رہنے کے بعد قادیان تشریف لے آئے.اس سفر میں حکیم الامت حضرت مولانا نور الدین صاحب، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب، جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب بھی حضرت اقدس کے ہمرکاب تھے.

Page 659

تاریخ احمدیت جلد ۶۴۰ مقدمه اقدام قتل اور بریت ا "حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۵۹۳-۵۹۴ "کتاب البريه " سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۱۳۴-۱۳۶ م حیات احمد جلد چہارم صفحہ ۵۹۷ حواشی اس مقدمہ میں عیسائیوں کی طرف سے آریہ وکیل پنڈت رام محمدت پیش ہوئے تھے جنہوں نے صرف اس وجہ سے کہ پنڈت لیکھرام کے قتل کا بھی کوئی سراغ مل جائے اپنی خدمات مفت پیش کر دی تھیں اس کا اعتراف پادری بنری مارٹن کلارک نے عدالت میں کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ ایک شخص کے بارے میں جو سب کا دشمن ہے مل کر کارروائی کرتے ہیں ".(کتاب البریہ طبع اول صفحه ۲۳۷) حیات احمد " جلد چہارم صفحه ۵۹۸/۵۹۷ ۷ کتاب البریه " ( سروق) م حیات احمد جلد چهارم صفحه ۶۰۱ حیات احمد جلد چهارم صفحه ۶۰۵ مجدد اعظم " حصہ اول صفحه ۵۴۱-۵۴۴ •- بروایت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی (مطبوعہ الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۶-۷) ۱۳ کتاب البریہ طبع دوم صفحه ۳۳۳/۲۳۲ اور ۷ ۲۳۹/۲۳ ۱۳ کتاب البریہ طبع دوم صفحه ۲۶۱ م حیات احمد جلد چهارم صفحه ۶۰۶ ۱۵ حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۲۰۲ اور الحکم ۳۰.ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۲ ۱- الحکم ۱۴- نومبر ۱۹۳۳ء صفحه ۳-۴- كتاب البریه " ( طبع اول صفحه ۲۵-۲۶) ۱۸- «کشتی نوح صفحه ۵۱-۵۳ الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۷ء ریویوان ریلیجه اردو ستمبر ۶۱۹۲۹ صفحه ۵۰ ۲۱- نزول امسیح » صفحه ۲۲۱ ۲۲- "حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۵۸۴ - ۵۸۵ ملک شیر محمد صاحب مجوکہ (المان) بردایت مخدوم شیخ احمد کبیر قریشی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ملتان میں مخدوم خان بہادر حسن بخش صاحب قریشی سجادہ نشین حضرت بہاؤ الدین زکریا نے حضرت اقدس کے استقبال کی سعادت حاصل کی اور انہی کے ڈیرہ واقع اندرون پاک گیٹ میں حضور نے قیام فرمایا.۲۳- مجد داعظم " جلد اول صفحه ۵۶۱-۵۷۲ -۲۴- "سیرت مسیح موعود " از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی ۲۵- حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۵۸۵

Page 660

تاریخ احمدیت جلدا اخبار احکم کا اجراء جماعت احمدیہ کے سب سے پہلے اخبار "الحکم کا اجراء جماعت احمدیہ کے قیام پر آٹھ برس ہو رہے تھے اور ابھی تک جماعت اپنے اخبار سے محروم تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخلصین کے کو ایک عرصہ سے اس کا احساس تھا لیکن اقتصادی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے.آخر ایک لمبی کشمکش کے بعد اس سال کے آخر میں جماعت کے ایک باہمت اور پر جوش نوجوان حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کو (جو اس وقت امرت سر میں رہتے تھے اور ایک کامیاب صحافی کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں ان کے زور قلم کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اس طرف پر زور تحریک ہوئی جس پر انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا.حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے اس عریضہ کا جواب دیا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم کو اس بارہ میں تجربہ نہیں.اخبار کی ضرورت تو ہے مگر ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے.مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتی.آپ اپنے تجربہ کی بناء پر جاری کر سکتے ہیں تو کر لیں اللہ تعالی مبارک کرے".حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب اس وقت بالکل تہی دست تھے.دوسری طرف آپ کے بعض دوست آپ کو سرکاری ملازمت میں لانے پر مصر تھے مگر خد اتعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی اور الحکم ایسا بلند پایہ ہفت روزہ اخبار جاری کرنے میں کامیاب ہو گئے.اخبار "الحکم " کا پہلا پرچہ ۸- اکتوبر ۱۸۹۷ء کو شائع ہوا.یہ اخبار ۱۸۹۷ء کے آخر تک ریاض ہند پریس امرت سر میں چھپتا اور امرت سر ہی سے شائع ہو تا تھا.مگر ۱۸۹۸ء کے آغاز میں یہ مرکز احمدیت میں منتقل ہو گیا.اور چند برسوں کے وقفہ کے ساتھ جولائی ۱۹۴۳ء تک جاری رہا.الحکم کے دور ثانی میں زمام ادارت ان کے فرزند جناب شیخ محمود احمد صاحب عرفانی 1 مجاہد مصر نے نہایت عمدہ رنگ میں سنھبال لی اور الحکم کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک زندہ رکھا.الحکم کے ابتدائی حالات کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں.

Page 661

تاریخ احمدیت جلدا ۶۴۲ اختبار الحکم کا اجراء اگست ۱۸۹۷ء کو ہنری مارٹن کلارک نے ایک نالش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کر دی.میں نے اس مقدمہ کے حالات دوسرے جنگ مقدس کے نام سے لکھے.اس وقت مجھے سلسلہ کی ضروریات کے اعلان اور اظہار کے لئے اور اس پر جو اعتراضات پولٹیکل اور مذہبی پہلو سے کئے جاتے تھے ان کے جوابات کے لئے ایک اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ اکتوبر ۱۸۹۷ء میں الحکم جاری کر دیا.اس وقت گورنمنٹ پریس کے خلاف تھی اور موجودہ پریس ایکٹ اس وقت بھی قریب تھا کہ پاس ہو جاتا.تاہم ان مشکلات میں میں نے خدا پر بھروسہ کر کے امرت سرسے اخبار احکم جاری کر دیا ۱۸۹۷ء کے آخر میں روزانہ پیسہ اخبار کے مکر راجراء کی تجویز ہو چکی تھی اور منشی محبوب عالم صاحب کی خواہش کے موافق میں نے پیسہ اخبار کے ایڈیٹوریل سٹاف میں جانا منظور کر لیا تھا.میرا خیال تھا کہ الحکم کا ہیڈ کوارٹر لا ہو ر بدل دینا چاہئے.اور محض اس خیال سے میں نے پیسہ اخبار کے ساتھ تعلق کرنا گوارا کر لیا تھا.مگر ۱۸۹۷ء کے دسمبر میں جب جلسہ سالانہ پر میں قادیان آیا تو یہاں ایک مدرسہ کے اجراء کی تجویز ہوئی اور اس کے لئے خدمات کے سوال پر میں نے اپنی خدمات پیش کر دیں اور اس طرح قدرت نے مجھے دیار محبوب میں پہنچا دیا.الحکم کے اجراء کے وقت مجھے بہت ڈرایا گیا تھا کہ مذہبی مذاق کم ہو چکا ہے اور احمدیت کے ساتھ عام دشمنی پھیل چکی ہے اس لئے احکم کامیاب نہ ہو گا.....قادیان میں ایڈیٹر الحکم جنوری ۱۸۹۸ء میں آگیا اور پیسہ اخبار کے ساتھ جو جدید تعلق پیدا کر لیا گیا تھا اسے اور لاہور کے دیگر منافع کو قادیان پر قربان کر دیا اور الحمد للہ میں اس سودے میں نفع مند ہوں قادیان میں اس وقت پریس کی سخت تکالیف تھیں.نہ پریس ملتا تھا نہ گل کش اور نہ کاتب اور نہ یہ لوگ قانیان آکر رہنا چاہتے تھے.تاہم ایڈیٹرا حکم ان مشکلات کا مقابلہ کرتا رہا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کو قدرت نے زود نویسی کا زبردست جو ہر ودیعت کر رکھا تھا جسے حضرت مسیح موعود کے فیض صحبت نے چار چاند لگا دیے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خواہ دربار شام میں ارشاد فرماتے یا سیر میں چلتے ہوئے گفتگو فرماتے آپ حضور کے ان ملفوظات وارشادات کو کمال برق رفتاری سے قلمبند کر کے فورا " ا حکم میں شائع کر دیتے.احکم کے ذریعہ سے حضور کی تازہ بتازہ وحی کی اشاعت کا بھی اس میں خاص اہتمام ہو گیا.اسی طرح مرکز کے کوائف اور بزرگان سلسلہ بلکہ سید نا حضرت مسیح موعود کے گراں قدر مضامین بھی چھپنے لگے.اور جماعت کے احباب گھر بیٹھے حضرت مسیح موعود کے روحانی مائدہ سے لطف اندوز ہونے لگے.اس طرح یہ اخبار حضرت مسیح موعود کی کتب کے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا مستند ترین ذخیرہ اور جماعت کے ایک نئے دور کا سنگ میل بن گیا.۱۹۰۱ء تک اخبار "الحکم " نے یہ بے مثال خدمت تنها سر انجام دی.جو ایک غیر معمولی بات ہے

Page 662

تاریخ احمدیت جلدا اخبار احکم کا اجراء اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بابرکت کلمات اور الہامات مقدس کی نشرو اشاعت کی مقدس امانت کے اٹھانے میں اخبار البدر بھی شامل ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الحکم اور بدر کو جماعت کے دو بازو کہہ کر یاد فرمایا کرتے تھے.۱۹۳۴ء میں الحکم کے دوبارہ اجراء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے خاص طور پر ایک پیغام دیا.جس میں تحریر فرمایا.الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے.اور جو موقعہ خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ میں بدر کو ملا ہے.وہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے بھی اور کسی اخبار کو نہیں مل سکتا.میں کہتا ہوں کہ احکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے یا نہ رہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.سلسلہ کا کوئی مستم بالشان کام اس کا ذکر کئے بغیر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے".۱۸۹۷ء کے بعض صحابہ اس سال جو بزرگ جماعت احمدیہ سے منسلک ہو کر مسیح محمدی کے صحابہ میں شامل ہوئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں.(1) حضرت مولانا شیر علی صاحب (۲) حضرت مولانا غلام نبی صاحب مصری - (۳) حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی (۴) مولوی محمد فضل صاحب چنگوی - حضرت چوہدری نظام الدین صاحب (۱) حضرت منشی کرم علی صاحب کاتب (۷) جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.(۸) حضرت مولانا غلام رسول را جیکی ) (9) حضرت مولانا امام الدین صاحب گولیکی (۱۰) قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ۱۸۹۷ء کے صحابہ کی ایک نایاب فہرست کتاب کے آخر میں ۱۸۹۷ء کے صحابہ کی ایک نایاب فہرست سپرد قرطاس کی جاتی ہے جو کیم ذی قعدہ ۱۳۱۴ھ مطابق ۳ اپریل ۱۸۹۷ ء سے لے کر ۲۳ محرم ۱۳۱۵ھ مطابق ۲- جون ۱۸۹۸ء کے زمانہ پر محیط ہے.یہ فہرست حضرت پیر سراج الحق صاحب نے انہی ایام میں نہایت خوشخط قلم سے مرتب فرمائی تھی.

Page 663

تاریخ احمدیت.جلد ۶۴۴ اخبار الحکم کا اجراء اصل فهرست شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے جہاں عبارت پڑھی نہیں جاسکی وہاں نقطے لگا دیئے گئے ہیں.مولوی اللہ بخش مدرسی اول مدرسه ذی قعده ۱۳۶۱۴ھ جنگی و نگرو نه ریاست جموں تخلص ندوی ولد شادی قوم آرائیں ساکن لاہور......یکم ذی قعدہ - تحریری بذریعہ خط - - کریم بخش ولد سردارا قوم جاٹ ساکن لدمیانه و کانشیل کو توالی شہر لد ہیانہ ڈویژن اول نمبر mir محبوب عالم ولد قاضی کرم الہی ہاسپٹل اسٹنٹ پاگل خانہ لاہور ساکن موضع اور ہو والی ضلع گوجرانوالہ محی الدین احمد شاہ آباد ضلع ہر دوئی محلہ بروا بازار و سوم - مولوی محمد رمضان کمال ڈیرہ ضلع حیدر آباد سندھ ۶ - -A -1• -It محمد ابراہیم ولد چوہدری پیر بخش مرحوم ساکن شهر جالند هر حال ملازم محکمه و یکسی نیش جهلم مولوی محمد سنڈال کلان تحصیل کھاریاں ضلع گجرات ڈاک خانہ کہکر الہ مرید قدیم عظیم الله ساکن بمقام نابه - ۱۶- ذی قعدہ ۱۴ ہجری - احمد الدین شالباف کشمیری ساکن نارووال تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ امام مسجد خراسیان -۱۷- ورہاد انا بینا ولد بوٹا قوم گازر ساکن در ویٹی مسجد اندرونی دیوان بخش ولد مہتاب الدین گلے زئی ساکن دہرم کوٹ رند ہادہ تھانہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور حال وارد نارووال سپاہی پولیس - معرفت خط احمد الدین مذکور - مولوی عمر الدین ولد سید احمد ساکن موضع کوٹ محمد یار تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ تحریری ۲۰- ۱۳ غلام محی الدین محله چهل بی بیان لاہور تحریری ۲۱ -۱۴- عبد الغنی خان ولد رحمت اللہ خان لد ہیانہ محلہ کرمو کی مسجد ۲۱- -۱۵ بدر الدین جداد ساکن گورداسپور -14 روشن - (۱۷) اکبر ساکنان موضع کینجه ضلع لاہیانہ ۲۲- تحریری I! اسمعیل ساکن نوروالہ ضلع لر بیانه ۲۲- تحریری -۱۸ غلام محی الدین واعظ اسلام لدہیا نہ ۲۲- 19 محمد الدین پسر عبد اللہ پٹواری ساکن ڈنگہ ضلع گجرات " امام الدین ڈنگہ -۲۰

Page 664

تاریخ احمدیت جلدا ۲۱- نبي بخش ۲۲ گا ہیا ساکن و ڈالہ ضلع گوجرانوالہ محمد الدین - فتح پور ضلع حجرات ۶۴۵ -۲۴ کریم بخش (۲۵) رحیم بخش (۲۶) سلطان محمد ساکن نت ضلع گوجر انوالہ کرم دین - پور ضلع گجرات امام الدین کلیان پور ضلع گورداسپور تحصیل شکر گڑھ ۲۳- -۲۹ عبد اللہ ہیگر تحصیل پھالیہ ضلع گجرات -۳۰ عبد الوحید متعلم مشن سکول لد ہیانہ جماعت دہم اخبار الحکم کا اجراء ۳۱ امیر (۳۲) احمد الدین (۳۳) محمد (۳۴) اللہ جو ایا ساکنان نت ڈاک خانہ بو تالہ سردار جھنڈا سنگھ ۰۳۵ ضلع گوجرانوالہ تحصیل وزیر آباد "I شیخ محمد دین ساکن گرالی تحصیل و ضلع گجرات ڈاک خانہ کھٹالہ -۳۶- باقر علی شاہ بہنیلی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات ۳۷- دین محمد معمار لاہور محلہ چہل با بیان.۳۹ -po -۳۸ قاضی غلام رسول ولد فضل الدین ساکن اور ہوالی ڈاک خانہ پہلو کے ضلع گوجرانوالہ محمد اکرم ولد قاضی کرم الہی ہاسپٹل اسٹنٹ پاگل خانہ لا ہو ر ولد قاضی غلام رسول اور ہو والی نشی محمد الدین اپیل نویس سیالکوٹ ولد کرم الدین ۲۴ محمد یوسف ولد محمد یعقوب صاحب مرحوم بلاک پلی بنگور دفتر اخبار باد صبا۲۹- ذی قعده ۵۱۳۱۴ شیخ محمد بخش نو مسلم ولد تلارام ساکن نادون ضلع کانگڑہ -۴۲ ۴۳- کمال الدین ولد اکبر بافنده ۴۴- فتح الدین ولد اکبر ۴۵ چراغ پر تھو -MY شیخ محمد طفیل ولد شیخ محمد بخش قوم شیخ ۲۷ عبد الصمد ساکن شیخوان قریب قادیان ۳۰- ۴۸- غلام علی ساکن فیض اللہ چک قریب ۴۹- مولوی نادرالدین ساکن جنپور آتشباز 11 " ۴۹

Page 665

تاریخ احمدیت جلد) ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ اخبار الحکم کا اجراء عزیز احمد ولد غلام احمد قریش ساکن گلیانہ حال پٹواری حلقہ پیر خانہ متصل بلانی ڈاک خانہ پیسہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات پنجاب کم تحریرے نور الدین ولد شمس الدین پنڈ دادنخان حال نقشہ نویس محکمه بارگ ماستری جهلم ۱۰-۱۳۱۴ھ اصغر علی - سلطان بخش ولد حشمت کشمیری لاہور انار کلی نیا بازار خیاط غلام حسن ولد حافظ محمد کامل ڈنگہ ضلع گجرات پنجاب دوکاندار لاہور شیخ عبد الرحمن ولد ڈاکٹر شیخ عبد اللہ انار کلی سنگرہ لاہور شیخ غلام مصطفی اولد شیخ صوبہ خان گلے زئی بٹالہ شیخ فیض قادر خان ولد شیخ نور الہی ڈاکٹر اسپان بٹالہ - علی محمد کلارک دفتر اگزیمز ریلوے لا ہو ر ولد نور احمد سلطان احمد دو یکیه امرتسر محله قلعه پنگی مولوی محمد مقبول ولد مولوی غلام رسول مرحوم سکول ماسٹر و میر منشی پلٹن نمبر ۳۰ کمپ پشاور ساکن دینہ نگر ضلع گورداس پور -۱۲- شیخ رحیم بخش ساکن چه خرد اوری حال محرر طویلہ منگرور حسین بخش درزی ساکن قادیان - عبد الرحمن - ۱۴ عبد اللہ ابنائے حسین بخش ** تحریری ۱۵ خدا بخش ولد علم الدین درزی چھو کر ضلع گجرات پنجاب ڈاک خانہ لالہ موسیٰ -17 نظام شاہ نقل نویس جهلم ۱۷- محمد شریف ولد پشاوری -۱۸ عبدالسبحان تما کو فروش بھیرہ ضلع شاہ پور 19 میر حیدر شاہ ساکن نواں کوٹ تحصیل بھیرہ ضلع شاہ پور رحیم بخش ساکن پنڈی بھٹیاں ضلع کو جو انوالہ ۱۴.عبد العزيز ولد حافظ غلام محی الدین بھیر دی قادیانی

Page 666

تاریخ احمدیت جلدا 4004 اخبار الحکم کا اجراء ۲۲ مظہر القيوم ولد صاحبزادہ افتخار احمد صاحب ۲۳- مولی بخش ولد شیخ جھنڈ ا سا کن گوجرانوالہ حال شہر چنیوٹ ۱۵- ملک نبی بخش سارجنٹ و دیم ولد ملک ہدایت اللہ صاحب قوم اعوان ساکن مہارا یکی تحصیل ظفر وال ضلع سیالکوٹ -۲۵ عبد اللہ ڈار کنسٹیل ساکن نارووال تھانہ پھلواره - ۲۴- ۲ مولوی عبد الرحیم واعظ ملسوری ساکن پولور ضلع چتو ز احاطه مدر اس ۲۵ -۲۷ منشی محمد حید ر خان صاحب چھاونی بنگلور دفتر اخبار باد صبا پریس -۲۸ محمد علی امام جامع مسجد مستری کریم بخش شہر سیالکوٹ محلہ کریم پوره ۲۹ احمد حسن پسر ۳۰ و دو دختر ۳ قاضی خواجه علی لد بیانوی * ۳۲- منشی عبدالروف عرف و زیر خان سب اور سیر ساکن بلب کمرہ ضلع دہلی نوٹ: منشی صاحب اور مولوی غلام امام اسامی ایک وقت میں بیعت ہوئے تھے منشی صاحب کا نام سموسے کسی فہرست میں نہیں لکھا گیا تھا چنانچہ منشے صاحب بہت مدت کے حضرت امام کے بیعت شدہ ہیں اور ان کی بیعت کی تاریخ ۲۴ اگست ۱۸۹۲ء یہ ہے اب یادداشت کے لحاظ سے یہاں نام لکھا گیا ہے سراج الحق جمالی ۳۳- مولوی محمد اظہر حسین ساکن مقام نادون ضلع کانگڑہ ۲۷- ذی الحجہ ۱۳۱۴ ۳۳ ا- شعبان ۴۰ - رمضان ۳۲- شوال -۶۷ - ذی قعد - ۴۹- ذی الحجه ۳۳ محرم ۵۱۳۱۵ شیخ احمد برادر مولوی خان ملک ۲- محرم ۱۵ حاکم الدین ولد الہی بخش ساکن سیالکوٹ محلہ میانہ پورہ - میران بخش دلد پیر محمد ۴- غلام محمد ولد فضل -0 شیر محمدولد قادر بخش قوم اور یہ مناکن میرپور چو تک علاقہ جموں ہے.تحریری شیخ محمد موسی رضا تاجر چھاؤنی بنگلور 11

Page 667

تاریخ احمدیت جلدا ۶۴۸ اخبار الحکم کا اجراء سیٹھ علی محمد حاجی اللہ رکھا معہ المیہ سیٹھ صاحب 11 احمد سیٹھ ۹ حسین سیٹھ عبد الستار سیٹھ ابناء ۱۰ علی محمد سیٹھ حاجی اللہ رکھا بنگلور.حیات محمد ساکن موضع چک جانی تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم حال موضع کریم پور متصل موضع جادہ تحصیل جہلم معرفت میاں غلام حسن ۱۲ احمد اللہ پر حیات محمد سطور بالا ۱۳ امام الدین کار چوب لا ہو ر با رودخانه دوکان موچی دریام -۱۴ عبد الله ولد محمد بخش ساکن کلان نور ۸- محرم ۵۱۵ ۱۵ غلام محمد ولد محمد بخش El II - فقیر اللہ پٹواری کلاں نور ساکن فیض اللہ چک قریب قادیان ۱۷- احمد الدین ولد محمد الدین ساکن قلعه دیدار سنگھ ضلع گوجر انوالہ -۱۸ غلام حسین نائب محافظ دفتر پولیس راولپنڈی - تحریری -19 اللہ دتہ امام مسجد - ٹھڑی کلان ضلع تحصیل گوجر انوالہ ڈا کھانہ ہو تالہ سردار جھنڈا سنگھ " ۲۰ میرباز خان - خوشاب ضلع شاہ پور -۲۲ کریم بخش حکیم فیض اللہ چک قریب قادیان- علی اکبر خان سابق سارجنٹ پولیس سیالکوٹ حال اسٹنٹ کلارک مری کلب میاں میر -۲۳ امام بخش سوار رجمنٹ نمبر ۱۲ اترپ نمبرے چھاؤنی سیالکوٹ ۲۴- غلام رسول خان ہیڈ کانسٹیبل پولیس الہ آباد ساکن الہ آباد ۱۳- محرم ۵۱۵ ۲۵- شیخ عبد الله ولد حاجی نجف علی.۲۶ شیخ کریم بخش ۲۷- حافظ محمد اصغر علی ولد اکبر علی ۲۸- شیخ عبد الواحد خانساماں 11 11 -۲۹ عبد الغفور خان خانساماں ولد محمد یوسف خان -۳۰ امام علی ولد رستم علی ہیڈ کانسٹبل پینشن یافتہ ۱ شیخ منگر و ولد شیخ بخش کنسٹیبل پولیس پنتر ۳۲ شیخ رمضان خان ساماں ساکن الہ آباد ۱۳- محرم ۱۵ھ 11 - " 11 T ۳۳- خدا بخش گور کانسٹبل نمبر ۵۰۸ متعینہ بکار خاص چوکی رقمہ امرال علاقہ سٹی راولپنڈی تحریری ۱۴

Page 668

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۴۹ اختبار الحکم کا اجراء -۳۴ عبد العزیز خان ولد عبد الرحمن خان اسلامیہ ہائی سکول شهر راولپنڈی.دوسرا پتہ راولپنڈی محلہ مستری قطب الدین - ۱۵- ۳۵ حافظ فتح الدین نمبردار موضع مرار ڈاک خانہ دیال پور حال جالند هر ۱۶- ۳۶ عزیز بخش بی اے محافظ دفترڈیرہ غازیخان ولد حافظ صاحب نے کو بالا 11 ۳۷- مولوی حافظ کرم الدین ساکن پوران والہ تھانہ ڈنگہ ضلع گجرات ۱۹ محرم ۱۵ھ ۳۸ کرم الدین ولد فیض بخش ساکن ڈنگہ - محرم ۱۵ھ ۳۹ حافظ احمد الدین ولد نور الدین ۴۰ احمد الدین ولد علی محمد ساکن ڈنگہ - ۱۹- محرم ۱۵ھ 11 " ۴۱- احمد الدین ولد پیر بخش " " ۴۲- حکیم نور محمد مالک شفاء خانه -۴۳ محمد خان نمبردار جستر واله تحصیل اجنالہ - ضلع امرتسر ۴۴- حافظ ملک محمد ولد رحیم بخش ساکن بٹالہ - سیدار شاد علی شاه صاحبزادہ فصیلت علی شاہ ڈنگہ ضلع گجرات الله و تا ولد نور محمد ساکن کمبو ضلع امرتسر ۴۷- عبد الله ولد خلیفہ رجب الدین لاہور -۴۸- غلام محمد ولد بوٹا کشمیری طالب علم ڈیرہ بابا نانک "1 -۲۹ سلطان احمد ولد حافظ فضل احمد لاہور محلہ سہتاں ۱۹- محرم ۱۵ھ -۵۰ الهی بخش ولد صابر محله ما شنکیاں خاص حجرات پنجاب.-0° ۵۱ امام الدین ولد نظام الدین ساکن نہ غلام نبی قریب قادیان " -۵۲ گل حسن کلرک ریلوے دفتر لا ہو ر ولد مولوی محمد کامل ساکن ڈنگہ ۵۳- عیادت علی شاہ ولد امام شاہ ساکن ڈڈوان ضلع گورداسپور ڈاکخانہ دھاری دال ۵۴ تاج الدین ولد نبی بخش کلرک دفتر ریلوے لاہور ۵۵ علی محمد طالب العلم بی اے کلاس مشن کالج لاہور ۵۶ محمد عظیم ولد قطب الدین دفتر ریلوے لاہور ۵۷ میاں جی عبد الحمید ساکن حمار و ریاست پٹیاله علاقه را جپوره روشن الدین ساکن بھیرہ ضلع شاہ پور ظروف ساز

Page 669

تاریخ احمدیت جلد 44.۵۹ اللہ و رہایا طالب علم جماعت دوم مڈل سکول پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ شیخ احمد علی ولد محمد بخش زمیندار بازید چک ضلع گورداسپور ۲۰- محرم ۵۱۵ نور محمد ولد مراد بخش چغتائی زمیندار ساکن ڈہونی ضلع منٹگمری - عبد الرشید ولد میان محمد سید والہ ضلع ۶- حکیم محمد حسین ولد سرفراز حسین -۲۴ غلام قادر ولد غلام محمد قریشی ساکن قادیان -۲۱- محرم ۵۱۵ - شیخ امیر ولد احمد بخش گلے زئی ساکن تہ غلام نبی قریب قادیان غلام احمد ولد محمد بخش امام مسجد بریال ضلع سیالکوٹ ۶- غلام غوث ولد بوٹا کمہار - قادیانی ۲۸ امیر ولد جیو از میندار کها را قریب قادیان - - گلاب ولد محکم ارائیں احمد آباد ضلع گورداس پور " اخبار احکم کا اجراء - شیخ ظہور احمد ولد شیخ نور احمد سنگ ساز و پریس مین مالک مطبع ریاض ہند امر تسریال بازار - - ا شاہ نواز ولد محمد بخش قوم خواجہ ڈنگہ ضلع گجرات پنجاب..۷۲- عید اولد شادی کمہار قادیانی ۲۱- ۷۳- دین محمد ولد فتح محمد E ۷۴.صدر الدین ولد رحیم بخش ۷۵.بڑھا ولد فتح دین تیلی ۷۶ دین محمد ولد بھا گا لوئی باف ۷۵.حسینا ولد موتی شاہ فقیر قادیان ۷۸- امام الدین ولد پڑھا ارائیں -29 ۷۹.نور محمد ولد لاڈا خواجہ H 11 " " ۸۰ حامد علی ولد محکم ارائیں قادیانی ۲۱ - محرم ۱۵ھ ۱ میران بخش ولد الله و تا قصاب ۸۲- لو ولد اکبر لوئی باف شیخ محمد ولد غلام قادر امام مسجد قادیان "t "I ་་ " ۴۸۴ فقیر محمد ولد سبحان لوئی باف کشمیری فیض اللہ چک قریب قادیان

Page 670

تاریخ احمدیت جلدا ۶۵۱ اخبار الحکم کا اجراء ۸۵ کمیون ولد دا تاریخ خواجہ قادیان فیض اللہ چک قریب قادیان ۸۲- شرف الدین ولد یڈ یا کمار -AY فتح دین ولد رلد و کمہار ڈلہ ضلع گورو اسپور -۸۸ عبد الله ولد حکم الدین ارائیں قادیان ۲۱ محرم ۱۵ ۸۹- لهبو ولد سدا بافنده لبا ولد النساڈوگر کہا ر ا ضلع گورداسپور ۹۱ - امیر ولد دینا کمہار قادیان -۹۲ نور محمد ولد محمد شفیع افغانی منڈی سکیت.۹۳- نتھو ولد شاہ دین کمہار قادیان -۹۴ چراغ دین ولد سد بافنده قادیان ۲۱ محرم ۵۱۵ ۹۵ بو تا ولد حیات حجام قادیان "1 11 H شیخ محمد عمر ولد مولوی ولی اللہ کشمیری دروازہ کاپی نویس مطبع راج پریس سنگر در ریاست جیند معه تحریری اہل بیت - ۲۱ محرم -۹۷ محمد موسیٰ رضا بنگلور لشکر بنیا چی کویل استریت ۹ - محمد عبد الرزاق بن محمد یعقوب مرحوم بنگلور لشکر قدیم پولیس لین میں مکان نمبر سے - فتح الدین معہ اہل بیت...مولوی جمال الدین صاحب موصوف ۲۲ محرم ۵۱۵ | -1•• جان محمد رائی سجن قوم کرل 101- اسمعیل ساکن سیدواله "I - احمد الدین ولد مراد ساکن ڈہونی ضلع ۱۰- مائی مسماة امام بی بی سکنہ سید والا مائی مسماۃ ٹھری بنت روشن اعوان ساکن ڈہونے 11 LE -۱۰۵ شیخ فیض الله ولد نجیب الله خانوی قریشی اولاد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ساکن جیند ۲۳- محرم ۱۵ه همشیره زاده قانته یوسف علی...نعمانی حال نائب دار و غمه نامجه 10- امام الدین دیڑھا ارائیں قادیان ۱۰۷ جیون ولد دانا قادیان ۱۰۸ عید اولد نکا نجار قادیان

Page 671

تاریخ احمدیت جلدا ۶۵۲ ١٠٩- خیر الدین ولد منگل نمبردار قادیان میاں جی شیخ محمد ولد علی محمد ڈیری والا قریب...11 ماہی ولد عمر ا کمہار 11 ۱۱۲ وزیر ولد مصری جٹ بینی قریب ۱۱۳........کهتو جٹ بینی ۱۱۴ غلام دین ولد کت و بینی ۱۱۵ باجا ولد امیر " " كماولد...........11 محمد بخش نجار ولد قطب الدین ۱۱۸ غلام محمد ولد نور محمد -119 رحیم بخش ولد کریم بخش جلم...مولوی نعمان کی مسجد ۱۲۰- محمد علی بد و طهومی حال دارد تکواژه تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ ۲۳.محرم ۵۱۵ ۱۲۱- سید عالم شاه اخبار الحکم کا اجراء

Page 672

THE ROOM WHERE THE PROMISED MESSIAH BORN CULTO FREE PRC is HE FOLLOW TOP ALL THE PLES OF THE DAI PRISPICKL ایک بت نار شان کے میں پیشی دار المسیح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کمرہ ولادت

Page 673

حمد پیدایش شیر اصلی امونی یہ وہ کمرہ ہے جہاں اصلح الموعود حضرت مرزا بشیر الدین محمد المالیة السی اللاقی انف العالے سے منسل اور زیم سے ۱۲ جنوری مداد کو بہلاین و بیادی اول شد مجری میں روز شنبہ پیدا ہوئے.( تریاق القلوب) جن کا نام البانی عبارت میں فضل محمود بشیریانی در امسال عمر ظاہر کیاگیا این استان اور میں کے نزول کو بہت مبارک اور بال بہی کے تصور کا موجب قرار دیتے ہوئے کے تمامے نے قیادت فرزند ولی گرای اجد مثلهم الاول والاخيرة حان الله قال من النما مہروں میں اپنی روح ڈالیں گے اور ندا کا سا ہے اس کے سر پر ہو گا.وہ جلدب لہ پڑھے گا اور اہروں کا رستگاری کی نوب THE ROOM WHERE MUSLEHE MAUDOD WAS BORN THE THEOM WHERE THE LATE MUCITH-HD HAZRAT MIREA BEARION PRICEY SAY TH SM BLA L.IITE SMART BASAL (Tauqe-pados ) THE OTHER AMES MEHED MENTIONED IN THE EVELITION RECTAL HAND, BRAND BATE--PR (CREEN ABONMENT L SG PES ADVENT AS VRY LED AND ACA MANIFESTATION OF THE MENT AND GUNUR OF ALLAM.HE PLACE THE FOLLOWING REVELATION TO THE PROPOSED MESSINA "OT OF THE HEART, HALA HARTATION OF THE FIST AND THE LAST, A MANSITION THE TRUE AND THE HAS IF ALLAH HAS DESCENDED FROM HEAVEN".WE SHALL POUR BUR SPIRIT TO HIM AND HE WILL BE SHELTERED UNDER THE SHADOW OF GOD.HE WILL GROW RAPIDLY STATE AND WILL BE THE MEANS OF PROCURING THE RELEASE THOSE IN BONDARE HIS FAME WILL SPREAD TO THE ENDS OF THE EARTHA PEOPLES WILL BE BLESSED THROUGH HIM.CANNOUNCEMENT OF 20TH FERUARY MS AC3 کمرہ ولادت حضرت مصلح موعود

Page 674

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد دائیں طرف کھڑے (۱) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (۲) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود ( گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم ).(۳) حضرت مرزا شریف احمد صاحب.دیکھیے دائیں طرف سے (خادمہ کی گود میں ) (۱) حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (۲) حضرت میر محمد اسحاق صاحب

Page 675

مسجد اقصی قادیان

Page 676

مسجد مبارک مسجد مبارک قادیان

Page 677

HUJRAH THE CELL ست ایت این بیان دال بنگاه دار Coptic سرخ سیاہی والے نشان کا کمرہ

Page 678

دارا لبيعت لدھیانہ

Page 679

سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ کا ایک منظر اسی مکان کا بیرونی منظر

Page 680

در یک سنت مرزا غلام نے صاحب والد ماجد انتقال می مونه الصلوة والسلام وفات بیان شد مزار مرزا غلام مرتضی صاحب والد ماجد حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 681

سیالکوٹ کی وہ مسجد (کوچه میر حسام الدین ) جہاں حضور نے دعویٰ ماموریت سے پہلے اور بعد میں نمازیں ادا کیں $38 سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ کا بیرونی دروازه

Page 682

مسجد کے بائیں طرف کا وہ حصہ جہاں ڈاکٹر سرمحمد اقبال اور دوسری شخصیات نے ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود کا لیکچر سنا تھا مسجد کےسامنےکاچوبارہ جہاں ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیه السلام لیکچر سیالکوٹ کے دوران قیام فرما ہوئے.

Page 683

تاریخ احمدیت جلدا ۶۵۳ اخبار الحکم کا اجراء حواشی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب احمدیت کے پہلے صحافی ہی نہیں اولین مورخ بھی تھے آپ کی ولادت نومبر ۱۸۷۵ء میں ہوئی اور ۵- دسمبر ۱۹۵۷ء کو سکندر آباد میں انتقال فرمایا.آپ کی پوری عمر جماعت کی قلمی خدمت میں گزری ہے خصوصاً تاریخ احمدیت سے آپ کو آخر تک ایک خاص شغف تھا.چنانچہ آپ نے اپنی صحافتی اور دیگر علمی فرائض کے ساتھ ساتھ حیات النبی " اور "حیات احمد " کے نام پر متعد دو جلدوں میں حضرت مسیح موعود کی حیات طیبہ کے حالات شائع کئے جو ابتداء سے ۱۹۰۰ء تک کے واقعات پر مشتمل ہیں علاوہ از یں آپ نے سیرت مسیح موعود " کے نام پر چار مبسوط جلدیں بھی لکھیں جو آپ کی زندگی میں ہی چھپ کر شائع ہو گئی تھیں.مختلف صحابہ یا مذ ہبی لیڈروں کے نام حضرت اقدس نے جو خطوط لکھے ان کا بہت بڑا قیمتی ریکارڈ بھی آپ نے شائع کر کے محفوظ کر دیا.علاوہ ازیں صحابہ مسیح موعود کے حالات مرتب کرنے کی پہلی تحریک (۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو) آپ ہی نے کی اور پھر نہایت درجہ سعی و جد وجہد سے سینکٹروں عشاق احمد کے سوانح اپنے اخبار الحکم میں شائع فرما دیئے.جو ایک مستقل قلمی جہاد تھا یہاں یہ ضمت اذ کر کیا جانا ضروری ہے کہ دوسری تحریک نے 193 ء میں حضرت خلیفہ اصبیع الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے فرمائی جس کی تعمیل میں نظارت تألیف و تصنیف قادیان کی طرف سے جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب مولانا شیخ عبد القادر صاحب (سابق سود اگر عمل) اور جناب مہاشہ فضل حسین صاحب کو اس اہم کام پر مقر کیا گیا اور ان کی سعی جد و جہد سے روایات صحابہ کا ایک قیمتی ذخیرہ چودہ جلدوں میں تیار ہو گیا.جس کا ایک حصہ سلسلہ کے مختلف رسائل میں بھی شائع ہو چکا ہے صحابہ کے سوانح سے متعلق تیسری تحریک جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان نے مئی ۱۹۴۵ء سے شروع کی جسے وہ اب تک نہایت خوش اسلوبی سے جاری رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ آپ کی شبانہ روز کوششوں کا ثمر " اصحاب احمد “ اور مکتوبات اصحاب احمد کی متعدد جلدوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جو آپ کالا ئق صد تحسین کارنامہ ہے.حیات احمد " جلد چهارم صفحه ۵۸۹ ولادت ۲۸- اکتوبر ۱۸۹۷ء وفات ۱۹- فروری ۱۹۴۴ء مصر میں برسوں تک تبلیغی جہاد میں مصروف رہے.وہاں ایک اخبار جاری کیا.سلسلہ کے متعلق عربی زبان میں بعض کتابیں بھی شائع کیں اور مخلصین کی ایک جماعت قائم کر دی.بلند خیالی اور اولوالعزمی اپنے والد سے ورثہ میں لی تھی."سیرت ام المومنین "" مرکز احمدیت " اور " تاریخ مالا بار " ایسی اعلیٰ تألیفات آپ کی بہترین علمی یاد گار ہیں.مرحوم کو زیا بیس کا عارضہ لاحق تھا.مگر مرتے دم تک ایک بہادر سپاہی کی طرح اپنا فرض منصبی ادا فرماتے رہے.اخبار " الفضل ۲۴ مئی ۱۹۵۸ء صفحہ ۵ کالم ۲-۳ ۵ سلسلہ احمدیہ " (مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) الحکم ۱۴۴ جنوری ۱۹۳۴ء صفحه ۳ حضرت مولانا صف اول کے ان عظیم مجاہدوں میں سے تھے جن کی پوری عمر سلسلہ کی قلمی خدمت میں گزری.آپ کی حیرت انگیز علمی قابلیت کے باعث آپ کو نجی کا عمدہ پیش کیا گیا مگر آپ نے دیار حبیب میں دھونی رمانے کو ترجیح دی.ابتدا تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.برسوں تک ریویو آف ریلیجر کی ادارت بھی کی.کتاب "قتل مرتد اور اسلام " آپ کے قلم کاری شاہکار ہے.آپ قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ و تفسیر پر مامور ہوئے جس کی تکمیل کے لئے یورپ کا طویل سفر بھی اختیار کیا.اور بالا خر پیرانہ سالی کے دامن میں پوشیدہ امراض کا مردانہ وار مقابلہ کرتے اور قرآن پاک کی خدمت کرتے ہوئے ۱۳.نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں انتقال فرما گئے ( تاریخ ولادت ۲۴ نومبر ۶۱۸۷۵) - ولادت قریباً ۱۸۷۴ء وفات ۲۷ اپریل ۱۹۵۶ء - حضرت مولوی صاحب کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں حضرت مولانا نور الدین صاحب کی ہدایت پر بعض نایاب کتب کی فراہمی کے لئے مصر تشریف لے گئے اور وہاں بعض کتب نقل کر کے قادیان لائے.مصر میں آپ نے جامع ازہر سے عربی تعلیم بھی مکمل کی.اور تبلیغ سلسلہ بھی کرتے رہے اس لحاظ سے آپ مصر کے پہلے احمدی مبلغ بھی قرار دیئے جاتے ہیں.مدتوں تک "مدرسہ احمدیہ " کچھ رس رہے اور قوم کے سینکٹروں نوجوانوں کو علوم اسلامیہ سے روشناس کرایا.ولادت قریباً ۱۸۵۴ ء وفات ۲۸ جون ۱۹۴۲ء شهید احمدیت مولانا عبید اللہ صاحب مبلغ ماریشیس کے والد ماجد تھے سلسلہ کے

Page 684

تاریخ احمدیت جلدا مشہور پنجابی واعظ گزرے ہیں.۶۵۴ - مولف فتاوی مسیح موعود ۳۱۳۴ اصحاب میں آپ کا نمبر ۱۵۰ ہے.ዘ- اخبار الحکم کا اجراء والد بزرگوار حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ! آپ نے ۲۹ مارچ ۱۹۳۲ء کو ۸۶ سال کی عمر میں انتقال فرمایا.صاحب کشف و الہام تھے اور سلسلہ کے ایک بہادر اور غیر سپاہی تھے حضرت مسیح موعود اور اہل بیت سے انہیں خدایا نہ محبت تھی.تاریخ وفات ۱۴ دسمبر ۱۹۵۲ء عمر ۶ ۷ سال کتاب البریہ " سے " حقیقتہ الوحی " تک کی تمام کتب میں سنگسازی کی سعادت آپ " کو نصیب ہوئی.نیز حضور کی متعدد کتب اور ریویو آف ریلیجن - اردو کے سالہا سال تک کا تب رہے.۱۳ مرحوم کپور تھلہ کے ایک گاؤں مراد میں حافظ فتح الدین صاحب کے ہاں دسمبر ۱۸۷۴ء میں پید اہوئے اور ۱۳- اکتوبر ۱۹۵ ء کو وفات پائی.جنوری ۱۸۹۲ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مباحثہ عبد الحکیم کلانوری کے سلسلہ میں لاہور میں تشریف لائے تھے پہلی مرتبہ حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۱۸۹۴ء میں اسلامیہ کالج کے ریاضی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور یہیں خواجہ کمال الدین صاحب سے (جو بیعت میں داخل ہو چکے تھے اور کالج کے سٹاف میں شامل تھے) راہ درسم پیدا ہو گئی.دو ڈھائی سال میں جب باہمی تعلقات محبت بہت ترقی کر گئے تو خواجہ صاحب نے انہیں قادیان جانے کی تحریک کی جس پر آپ کے ہمراہ مارچ ۱۸۹۷ء میں قادیان پہنچے.اور حضور کی شبانہ روز اہم خدمات دینیہ اور اشاعت اسلام کا جذبہ دیکھ کر شامل احمدیت ہو گئے (پیغام صلح ۲۷ جنوری ۱۹۳۳ء صفحہ ۲) آپ ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے گورداسپور میں وکالت کرنا چاہتے تھے.اور اس کے لئے انتظامات مکمل بھی کر لئے تھے کہ جون ۱۸۹۹ء میں چند دنوں کے لئے قادیان آئے.یہاں حضور کی بعض تالیفات کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے دو ماہ گزر گئے اسی دوران میں یورپ کے لئے ایک انگریزی رسالہ کی تجویز ہوئی جس کے لئے حضور کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ ہجرت اختیار کر کے قادیان آگئے جہاں چودہ سال تک ریویو آف ریلیج کی ادارت اور صدرانجمن احمدیہ کی سیکرٹری شپ وغیرہ مختلف خدمات سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی.مارچ ۱۹۱۴ء میں نظام خلافت سے الگ ہو کر لاہور چلے آئے اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی بنیاد رکھی.ایک مرتبہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ خواب میں دکھائے گئے حضور نے ان سے رویا میں کہا." آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ".(البدر یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۴) ولادت قریباً ۱۸۷۸ء) جماعت احمدیہ کی ایک مقدس شخصیت اور صاحب کشف و الہام بزرگ ہیں جن پر حضرت مسیح موعود کی عقیدت و برکت نے ایک غیر معمولی عاشقانہ رنگ چڑھا دیا ہے اس آسمانی سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد آج تک زبان و قلم سے تبلیغ حق میں سرگرم عمل ہیں حضرت مولانا صوفی بھی ہیں مناظر بھی ہیں اور پنجابی اردو عربی اور فارسی کے شاعر بھی !! حیات قدمی کی متعدد جلدوں میں آپ نے اپنی زندگی کے ایمان افروز سوانح شائع فرمائے ہیں جو مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں.(وفات دار بر ۱۹۹۳ء) ۱۵- سلسلہ احمدیہ کے جید عالم اور صاحب کشف والہام تھے.نومبر ۱۸۵ء میں بمقام گولیکی (ضلع گجرات) میں پیدا ہوئے ۱۹۲۵ء میں ہجرت کر کے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی اور ۱۳۱۲- اپریل ۱۹۴۰ء کی شب کو رحلت فرمائی اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.آپ کے فیض یافتہ شاگروں کا حلقہ بڑا وسیع اور احمدیوں ، غیر احمد یوں بلکہ غیر مسلموں تک پھیلا ہوا تھا.تفصیلی حالات کے لئے غیراحمد یں بلکہ ملاحظہ ہو ا الفضل ۲۷- اپریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ تا ۶ حضرت قاضی صاحب کو اخبار "بدر" الفضل " رساله "ریویو آف ریلیجز " (اردو) " تشحمید الازبان "مصباح " اور "احمدیہ گزٹ فرمنکہ سلسلہ کے اکثر قدیم رسائل و جرائد کی قابل رشک خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.خصوصا الفضل " کی اشاعت میں آپ نے نمایاں حصہ لیا.چنانچہ حضرت خلیفتہ اصبح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ” جب الفضل نکلا ہے اس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شائد مجھ سے بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ہیں اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے اگر ان کی بد نہ ہوتی تو مجھ سے اخبار چلانا مشکل ہوتا " الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴) قاضی صاحب کے قلم سے آج تک ۳۶ کے قریب تالیفات بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں ظہور اصحیح " ظهور المهدی " اور " الواح الهدی " بہت مشہور ہیں.(وفات ۲۷.ستمبر ۱۹۶۶ء)

Page 685

تاریخ احمدیت.جلدا ۶۵۵ اخبار الحکم کا جراء " تاریخ احمدیت" کے متعلق عزت باب مکرم و محترم جناب چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نائب صدر عالمی عدالت کی رائے "میرے لئے یہ امر بہت خوشی اور اطمینان کا موجب ہے کہ گذشتہ سال کے دوران میں ” تاریخ احمدیت جلد دوم بھی تیار ہو کر شائع ہو گئی ہے.میں نے پہلی جلد کو پھر دوبارہ پڑھا ہے اور دوسری جلد کے ختم کرنے پر میری طبیعت اس قدر متاثر تھی.اور میرے دل پر اس قدر شدید احساس تھا.کہ گویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت اقدس میں کئی گھنٹے متواتر گزار کر اٹھا ہوں.مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے نوجوان ان دونوں جلدوں کا بالاستیعاب مطالعہ کریں.اور ہر واقعہ کو جو ان کے اند ربیان کیا گیا ہے.تو جہ اور فکر کی نگاہ سے پڑھیں اور اس پر غور کریں.تو وہ اس سے بہت بڑا روحانی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.اور انہیں اپنی اپنی دینی اور روحانی تربیت میں بہت مدد مل سکتی ہے.گو میں سمجھتا ہوں کہ یہ امر صرف نوجوانوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے.لیکن نئی پود کے لئے یہ تصنیف بہت بڑی ضرورت کو پورا کرنے والی ہے.میں بہت زور سے اپنے نوجوانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں.اور میرے دل میں بہت درد ہے.کہ وہ اس موقعہ سے جو تاریخ احمدیت کی دو جلدوں کے چھپنے سے میسر آگیا ہے.زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ئیں".ملنے کا پتہ : اداره امصنفین ربوہ :

Page 686

اشاریہ جلدا (مرتبہ:.ریاض محمود باجوہ شاہد ) ۳ تا ۲۴ اسماء ۲۵ تا۳۰ مقامات کتابیات ۳۱ تا ۴۱

Page 687

۲۱۲ ۵۶۳٬۵۶۳٬۵۵۸ اسماء ابو ہریرہ ابویوسف محمد مبارک علی ۴۸۶۳۸۳ ۱۲۶۳۲۵۳ آتھم، عبد الله حضرت آدم علیہ السلام ۵۰۲ تا ۲۲۲٬۵۹۳٬۵۷۸٬۵۴۴٬۵۰۹ احمد ( سابق اینڈرسن ) - امریکہ احمد اللہ حافظ احمد اللہ مولوی.امرتسر mirʻrso احمد بیگ مرزا ۳۱۸۳۹تا۳۳۳۳۲۷ ۴۱۹٬۳۹۷ ۴۵ ۸۹ ง سلام سمسم ۵۲۸ IɅ1 احمد جان صوفی ۱۸۱۱۷۳ ۲۳۱۲۱۷ تا ۲۳۷ احمد حسین مشہور ناولسٹ احمد حسین بابو احمد حسین عظیم آبادی احمد زکی ابو شادی ، ڈاکٹر ٢٩٩ ۵۱۵۷۰ ۵۳۰ pr'199 م •A احمد سرہندی، شیخ.مجدد الف ثانی احمد شاہ شائق احمد عرب سید احمد علی مولوی احمد علی مولوی (غیراحمدی) احمد کبیر قریشی، شیخ احمد محي الدين العجوز الاستاذ اخطل - شاعر ۲۵ ۳۶۵ ۲۹ f ار تھر کر سنن سین، پروفیسر آرچ بشپ آف کنٹربری آرنلڈ ٹوئن بی پروفیسر آسیہ زوجہ فرعون ابا یحی (عیسائی مذہب کا لیڈر ) ابراہیم علی خان ابراہیم لودھی سلطان ابن حجر ، شیخ ابن رشیدی ابوا ليت مارت عبد الغفور ابوالحسن علی ندوی ابوالعطاء جالندھری ابوالغازی خان ابوالفضل، شیخ ابوا الکلام آزاد

Page 688

۵۳۰ ام CAC LA 94 ۲۵۴ ۲۰۹ ۲۹۹ ارجن سنگھ - مدیر گر نگین ۱۷ مرتسر ۲۸۷۱۷۹ آل حسن قنوجی، سید أرسطو ۱۷۹ الطاف حسین حالی اسماعیل بیگ، مرزا اسماعیل شهید سید اسماء رجسٹر بیعت اولی اسماء حاضرین جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء اسماء تین سو تیره رفقاء اسماء رفقاء ۱۸۹۷ اشامینی اشرف علی تھانوی اشهد الدین پیرسید اعجاز احمد ، شیخ اعظم بیگ، مرزا آفتاب اقبال افتخار احمد پیر ۵۱۸٬۲۲۵٬۲۰۸٬۷۵٬۶۵ | الطاف علی خان ۲۰۲٬۵۰ الفریڈ نیلسن ۳۴۴ تا ۳۶۲ اللہ بخش، منشی لدھیانہ اللہ بخش تونسوی گھڑی، میاں ۵۷۹ تا ۵۸۳ الله داد ، شیخ منشی ت اللہ ویہ مولوی.لودھی ننگل ۶۶۳ ۲۷ سلام اور اسلام الله ویالدھیانوی، شیخ اللہ یار میاں ۳۰۹ تا ۵۵۲٬۴۳۱۳ الهی بخش ، مولوی ۶۱ الہی بخش اکوئنٹ، منشی ۲۲۶۴۲۲۴۴۷۰ اپنی بخش وکیل ہوشیار پور ۲۶۵۲۴۵ ۲۳۳ ۲۰ اله دین واعظ الیگزنڈر ذف افلاطون اقبال الدولہ نواب اکبر حسین رضوی الہ آبادی اکبر شاہ ثانی اکبر شاہ خان نجیب آبادی اکبر یار جنگ نواب الا نشہ دیسی پادری ۴۹۳۴۹۲۴۴۴۸۴۲۶۶ الیگزنڈر رسل وب ۳۰۶تا ۱۳۱۰ ۵۷۳۴۳۱۳ 129 HAY امام الدین، مرزا ۴۱ ۱۳۴۲ ۲۵۷تا۲۶۴٬۲۶۰ امام الدین، میاں ۳۴ امام الدین پیواری، منشی ۲۱۷ امام الدین کاتب، منشی ۴۷۹ امام الدین گولیکی امان اللہ مرزا ۶۰۰۳۲۰۳۷۱۲۷۱ ۶۲۴۳۷۹۲۱۵۲۰۸ 149 ۶۴۳٬۵۷۵ ۲۵۵

Page 689

۲۰۲ ۶۰۴ ۵۵۵۸ ۶۱۴۲۴۸ بختاور سنگھ، منشی برخوردار حافظ برکت علی مرزا برکت علی خاں شاہجہانپوری بر کل امیر بروده کنشی رائے ۲۴۸ ۲۵۵ ۴۹۵۴۹۲ ۹۶ امتہ الحفیظ بیگم نواب امتہ النصیر سیدہ بنت حضرت مسیح موعود امیرالدین، منشی امیرحسین قاضی امیر شاہ ڈاکٹر امیر علی، ڈپٹی امیر علی شاہ ۲۳۵۲۳۴۲۳۲ ۴۲۹٬۴۲۵ برہان الدین جہلمی ۴۴۳٬۳۹۸٬۳۸۸٬۲۰۹٬۵۳ اندر من مراد آبادی، منشی ۱۵۶٬۱۵۴ ۱۶۳ ۲۵۴ تا ۲۶۰ ۳۳۰۶۱۷۳۶۸ ۶۲۷ ۵۴۳۳۹۵۲۹۲ ۵۹۱ ۲۷۲ ۲۷۲ ۴۷۰٬۳۰۲۲۷۱۲۶۳ بشارت احمد ڈاکٹر ۶۰۸ بشمبر داس لاله ۳۱ بشن داس ڈاکٹر ۵۱۰ بشن داس ولد رعد بشن داس ولد میرا مند ۵۶٬۵۵۸ بشیر احمد ایم.اے مرزا ۲۹۳٬۲۹۱۲۴۸٬۲۲۰۹۱۲۳۴۴۸ M #P‘OPT'MYA ۲۴۰ ۳۸۰٬۳۷۳۳۶۳۶۶۳۴۴تا۳۸۲ ۳۷۸ تا ۶۱۲۶۰۰۵۸۷۴۸۷۴۴۸۱ بشیر الدین محمود احمد صاحبزادہ مرزا خلیفتہ المسیح الثانی ۲۴۵ perʻpaqūyar yar ۶۰۰۳۸۲۳۶۷۳۲۱ ۲۸۴۲۸۲۲۸۱۲۴۷ ۵۰۸۳۳۶۳۲۷۲۹۰ ۵۹۵ بشیر اول، صاحبزاده بشير واس ۵۳۱ ۵۰۱ ۵۱۶ ۵۳۱٬۹۷ ۹۶ ۹۳ ۹۲ انشاء الله مولوی ايجل خان ایچیسن کی او امردم جی برلاس اینٹری پر شاد ایلنگرا خال امیر ایوب بیگ، مرزا ایوب انصاری بایر ، ظهیرالدین بادشاه باس در تھ با قرامام بالٹر سکسین بٹلر، پادری

Page 690

AY ۵۲۶ ۳۹۲ ☑ 스위 ۶۳۶۵۲۵ ۵۳۲ ۲۷۲ 10+99 پرنسب پریم داس ۵۷۳٬۵۵۶ پیا.وکیل AQ ۵۷۵ ۳۴ پیراں دتہ پیر نڈر ڈاکٹر پیری ، ڈاکٹر بلا سنگھ بندر ناتھ ٹیگور بوانی داس ایم.اے رائے بہادر بوٹا کشمیری ، میاں بوڑیخاں، ڈاکٹر بہادر شاہ ثانی بہادر شاہ ظفر بہاؤ الدین جون پوری، شیخ بیٹ مین پادری بیجارام چرچی بابو بیج ناتھ، پنڈت NA ۳۱ ۱۵ پیلاطوس اول پھجو خادمه ۵۶٬۵۵۸ تاج الدین اکو ٹن ٹنٹ، منشی ۲۷۲ تارا چند منشی تارا سنگھ ۳۲ تائی صاحبہ ۳۲۵ تیجا سنگھ ۸۶٬۸۲ تیمور بیگ امیر ۲۴ تا ۳۰٬۲۷ تا ۴۵۳۲ ۵۷۳۴ PAP'TYP ۴۸۸٬۲۶۹۴۳۶۸۲۰۹۱۹۷ ۵۶۵۵۸٬۵۵۳٬۵۵۱ ٹالسٹائی ۵۳۵ ۵۷۳ 129 ۲۷۲ ۵۵۸ ۲۵۵ ۹۵٬۸۷٬۸۶٬۸۳٬۵۹٬۵۵ ۱۹۳۴۴۸۴۹۹۹۸ ٹامس ہاول پادری بیدی بابا بیر جی، مسٹر بیکن بھارا مل بھانورت پنڈت بھگوتی سائے هیم سین لاله ٹھاکر داس، پادری جے ایل پاکرسٹن ، لارڈ ۸۹ پر تول چندر چرجی با بو ۵۷۳٬۵۵۶ ثناء اللہ امرتسری 54 کسن ۹۶

Page 691

۸۹ JAY F ۳۱۲۵٬۲۴ شاء اللہ پانی پتی، قاضی جارج رائن سمن جان محمد ، میاں جگن ناتھ وکیل، پنڈت ج ۲۰۲ جھنڈا سنگھ چارلس وڈ ۲۳۳٬۲۰۸۱۹۳ چراغ الدین ، میاں.امرتسر ٢٩٩ چراغ الدین، میاں.لاہور چ ۴۶۰۴۴۸٬۴۴۳٬۲۰۸۱۰۷ ۱ چراغ بی بی صاحبہ جلال الدین سلطان جلال الدین رومی جلال الدین سیوطی جلال الدین شمس جلال دین جمال احمد ، حافظ جمال الدین احمد بانسوی جمال الدین سیدوالہ ۲۷۴ چراغ بی بی صاحبہ ۲۱۵ ۶۳۲ ۳۲۴ ۲۵۲٬۲۱۵۳۱ ۶۱۷ چراغ علی خان چغتائی خاں چنگیز خان حاجی برلاس حامد شاہ سید میر جمال الدین سیکھوانی میاں ۲۵٬۶۲۴۴۳۷۹۲۰۸ حامد علی، حافظ شیخ ۲۴۴۴۲۳۳۶۲۱۲۲۱۴٬۲۰۸٬۱۸۸ ۳۹۹۳۹۲۳۷۷۳۷۶۳۶۴۳۴۴۳۳۸۲۷۶۴۲۷۵ ۵۳۳٬۴۹۵٬۴۲۵ ۲۸۹ ۲۷۲ ۴۴۸ ۴۵۹۱۴۸٬۹۸٬۹۷٬۸۶ هاد ۶۴۰ حبیب سید مدیر "سیاست" حبیب الرحمن، خشی حبیب الرحمن سراوه ، منشی พ ۱۴۵ ۵۵۸٬۵۵۶ حرمت بی بی صاحبہ حسام الدین حکیم میر ۲۰۵ تا ۲۰۷ حسام الدین، مولوی.پادری حسن امام حسن بخش قریشی، مخدوم خان بهادر ۳۷۸ ۳۰۲٬۳۰۰۲۶۳۱۵۹۱۵۶٬۱۵۳ جمال کشمیری جمال الدین افغانی جمعیت بیگ، مرزا جنت بی بی صاحبزادی جوا ہر سنگھ، سردار جودھ سنگھ جہاں داد خاں راجہ جیمز، عبد الله جیون واس لاله

Page 692

دلاور علی، ڈپٹی دلیپ سنگھ مہاراجہ سلام M و هایت رائے لالہ ۵۵۵ دیارام، حلیم ۲۵۸ دیال سنگھ، سردار ۵۷۳ دیانند سرسوتی سوامی ۱۵۳ تا ۵۹٬۱۵۶٬۱۵۴ تا ۴۶۰٬۱۶۳ ۲۲۹٬۲۲۸۴۲۰۶۱۸۰۶۶۸ دیر سنگھ ڈی لٹ بھائی دینا ناتھ لالہ دین محمد مرزا ۶۳۵ ۳ ۲۰۸٬۳۴۱۲۰٬۷۸٬۷۵ دیوا سنگھ دیوان سنگھ ۳۲ ۵۹ PAPPAP ۲۴ ۲۲۲ ۶۲۶۶۲۳۳۵۲ 3-3 ۶۳۷۶۳۶۶۳۳۶۳۱۶۳۸ ۵۳۱ MA ۲۷۲ حسن بصری حسن شاه مودودی دہلوی سید ۵۵۳ حسن علی بھاگلپوری، مولوی ۳۰۸٬۳۰۷۲۰۹ حسن نظامی، خواجہ حسین کشمیری حسینا خان حمید الدین، قاضی خلیفہ حمید اللہ خاں مولوی حیات حجام حیرت دہلوی، مرزا حسین امام حسین احمد مدنی، سید ۵۴۸۲۸۸ ۴۵ ۲۵۸ ۳۸۳ ۵۱۵ ۸۳ ۴۲۹ ۵۴۴۵۰۴ ۱۳۹۴۱۲۸ ۳۹۷ | دیو پر کاش، پنڈت ۸۵ دیو کی نندن لاله دیو ندر ناتھ سائے دیوی رام پنڈت ۵۷۳٬۵۷۴٬۵۵۶ حسین کامی حیات بی بی، مالی خ خدا بخش خان بهادر شیخ خدا بخش، مرزا خیر الدین سیکھوائی میاں ۷۳۵۷۳۳٬۳۷۹٬۲۱۵٬۲۰۸٬۵۶ ڈسمینز آئی.آئی.پی ڈفرن ، گورنر ڈگلس کرنل ڈیون پورٹ ذکاء اللہ مولانا.مورخ ۶۲۱ ۲۴۵۱۳۰ خیر دین ڈاکٹر حضرت دانیال علیہ السلام درد خواجہ میر در گاپر شاد، ماسٹر

Page 693

ذوالفقار علی خان سر رابرٹ ایجرٹن رابرٹ کسٹ، سر را برش کلارک راجندر سنگھ، سردار راج نرائن بوس بابو رادھا کشن پنڈت ۲۸۹ رحیم بخش، مولوی.تلونڈی جھنگال رحیم بخش، مولوی.لاہور ۱۴۱ 3 رحیم بخش، مولوی.لدھیانہ ۱۵۰٬۱۳۹ رحیم بخش سنوری ۸۹ ۶۰۲ ۵۷۳٬۵۵۶ سهام سهام سهام ۲۳۵۴۳۴ رستم علی چوہدری رسکن ۲۶۲۰۹ ام ۲۲۳٬۵۴۵٬۳۸۴۴۳ تا ۶۲۵ سهام رشید احمد مرزا راس، سرڈی رام بهجدت وکیل رام جی داس رام چندر جی راجه ۳۶۲۵ رشید احمد گنگوہی مولوی ۶۳۰۶۲۸ ۳۰۰۳۲۳ ۵۵۳۵۵۰۴۰۲۴۳۰۱ ۵۵۸ رشید الدین، ڈاکٹر خلیفہ م الله ۵۹۶ رشید رضا علامه ۵۳۰ رام داس گوڑا N ر لیا رام وکیل رام موہن رائے راجہ ۱۶۳ ۱۶۴ | رنجیت سنگھ رانا ڈے ۱۵۲ رو بہادر، مسٹر ۱۳۰۱۳۸٬۵۰٬۴۳ ۴۲ ۴۰ ۳۹ ۳ ۵۵۸ رجب دین خلیفہ ۲۵۵ رو تھر فورڈ ۱۳۵۱۲۵ رجب علی پادری ۱۸۹۱۵۶۴۱۳۵تا ۱۹ روشن علی حافظ ۴۹۳ رحمت اللہ ، شیخ رحمت علی مولانا روف ہے ۶۳۸٬۶۲۹۴۶۲۸٬۶۲۵٬۶۲۴٬۵۳۵٬۵۳۲ ریاض احمد ریاض خیر آبادی، سید رحیم اللہ مولوی.لاہور ۴۵۳٬۳۴۲۸۴۴۱۲۱۴۰۶۴۴۰۳ ریور ٹی ایچ جی رحیم بخش، شیخ ۱۹۵۱۳۰۸ ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ رحیم بخش مولوی p.s نواب آف بہاولپور ۶۳۰۷ ÷ ۶/۰ ۳۹۱ ۵۴۵ ریکلس ای 7 ۲۴ ۵۱۰۳ j

Page 694

۶۰۸ ۴۸۸۲۸۶ ۲۷۲ ۲۶۳ ۲۶۱۲۵۳ AL'AM'AP ۲۹۹ 19700 سلیم پاشا ملحمه سمتی، پروفیسر سمیع اللہ خان فاروقی سنت رام سوچیت سنگھ ۱۵ ۲۸ ۳۱ ۲۶۵ زویمر ، ڈاکٹر تھیلی کا ایم.اے زین الدین شیخ زین العابدین سرہندی، قاضی ساردا پر شاد بابو س ساتھ کس سرپری سراج الحق نعمانی، پیر ۱۵۶ ۱۵۷ سوخو چیجن سوفته ، پادری ۲۳۶۲۱۸٬۲۰۰٬۲۰۷ سج رام، پنڈت ۴۰۸٬۴۰۲٬۴۰۱۳۹۵٬۳۴۱تا۴۴۳٬۴۳۳٬۴۲۵۴۴۱۰ سراج الدین ابو المعظم نواب سراج الدین، منشی ¶rp³orr'rar'rma IZA ۳۹۳۳۹۱۱۴۸٬۹۴ سراج الدین عیسائی ۶۱۷ سردار بیگم ۳۲۵ سیتارام مهاجن لاله سید احمد بریلوی سید احمد خان‘ سر سید بیگم صاحبہ سید علی مولوی سزاوار خان، منشی ۳۹۱۲۱۰۱۶۶۱۵۴٬۹۸۹۷۸۸ ۵۹۵٬۵۷۱٬۵۶۹٬۵۴۵٬۴۸۲۴۴۸۱۴۳۹۷ سم سوم م ۵۱۵ ۴۶۸ ۱۹۳ ۲۲۱۱۸۸ ۲۰۰۲۲۳۶ م سلم سلام سلام ۲۹۹ ٢٩٩ ۵۹ سعد اللہ لدھیانوی ۵۵۱٬۴۶۰٬۳۹۸٬۳۹۳ شادی خاں سیالکوئی شام لال، پنڈت شاهجهان بیگم ۲۷۰ ۲۶۲۵ سعدی شیرازی شیخ سکرائن سلطان احمد مرزا ۶۴۴۱ ۶۳ ۶۴ ۷۳۶۸ مے مہم شاہ دین ۲۵۹، ۳۸۴٬۲۹۴۲۹۰٬۲۵۰۲۲۶۴۲۲۵۱۴۶۶۱۲۳۴۱۳۱۴۱۷ شاہ عالم ثانی سلطان محمد مرزا سلطان محمد پنجم سلیمان ندوی سید ۳۳۹۳۲۲ شاه نواز شیلی نعمانی شترنجی، میاں ۴۷۹ | شترو گھن ، میاں

Page 695

صادق حسین مختار ، منشی ۱۳ شرف الدین، میاں شرف الدین یزدی شربت لاله ۲۹ ۲۰۶۱۹۳۱۸۹۱۵۹۱۵۶۱۳۱۴۱۶۴۱۱۵ شریف احمد ، صاحبزادہ مرزا صادق علی شاہ.ہ تر چھتر صادق محمد خاں، نواب ۵۵۳ ۱۳۶۳٬۲۹۲٬۲۹۱۲۴۸ صدیق حسن خان نواب ۴۳۱۴۳۹۸٬۲۲۲٬۲۲۴۲۰۲۱۸۸ ۱۳۹۵ ۲۱۳۴۵۸۷٬۵۱۹۴ صغری بیگم صاحبہ المیہ حضرت خلیفہ المسیح الاول.۲ داه 용도 ፈረ صفدر علی، مولوی قاضی صلاح الدین ایم.اے ملک ضیاء الدین قاضی ضیاء الدین احمد خاں نواب b-b ۴۵۵ ۵۳۶ ١٨٩ ۲۷۲ ۲۴۷ شمس الدین، منشی شمس الدین محمد تبریزی شمس دین ، میاں شمعون شوکت صاحبه ، صاحبزادی شوکت علی، مولانا شوگن چندر سوامی ۵۷۰٬۵۵۹٬۵۵۸٬۵۵۶٬۵۵۵ شواره ای ۲۸۲۷ فراغات MI ظفر احمد کپور تھلوی، منشی ۳۷۰٬۳۶۸٬۳۴٬۲۱۷٬۲۰۹ ۴۲۵۴۴۱۴۳۸۱۳۷۴ ۴۲۷ ۳۳ م م م م م م بم شو نرائن اگنی ہوتری، پنڈت ۵۶٬۱۳۵تا۱۸۰٬۱۶۳۱۵۹ شهاب الدین دفعدار میاں شهاب الدین غوری شیر گریه ها را به شیر علی بی.اے مولانا شیر محمد ، مولوی شیر محمد مجو کہ ملک صاحب جان، مائی صاحب خاں نوانہ ۲۹۹ ظفر علی خاں، مولانا ظهور على وكيل ۶۴۳۵۷۳ عاید علی میر عالمگیر ثانی ص.ض حضرت عائشہ صدیقہ ۲۸۸۱۴۸٬۹۴ ۴۵۲ ۱۲ ٣٣ عباس علی شاہ میر ۲۳۰۲۳۱۲۰۸٬۱۹۴۴۱۸۵۴۷۷ ۴۶۴۴۱۲۴۱۱۳۷۷۳۷۶۳۴۴۳۳۵۲۷۲٬۲۴۵ عبد الباری فرنگی محل ، مولانا

Page 696

• عبد الجبار غزنوی، مولوی ۵۵۳٬۴۶۷٬۴۰۰٬۳۲۳ | عبد الرحیم، قاضی عبد الحق سابق بنسی دھر عبد الحق اکومنٹ، منشی عبد الرحیم درد ۲۵۴٬۲۴۵۲۰۹ عبد الرحیم نیر عبد الحق دہلوی حقانی، مولوی ۵۷۴۵۷۰٬۵۵۳٬۴۲۲ عبد الرزاق قادری سید بغدادی عبد الحق غزنوی ، مولوی ۶۱۰٬۵۱۹۴۴۶۶٬۴۶۵٬۴۳۱ عبد الرؤف المنادى عبدالحکیم، ڈاکٹر خلیفہ ۲۲ عبد الشکور، شاه عبد الحکیم کلانوری، مولوی ۲۵۴٬۴۵۸٬۴۵۷٬۴۰۹۴۴۰۸ عبد العزیز - مدراس میں ترکی کے سفیر عبد الحلیم شرر، مولوی الحمید ثانی، سلطان ۳۹۲٬۳۹۱ عبد العزيز ، شیخ ۶۰ ۶۹ ۷۰ عبد العزیز، ماسٹر.سیالکوٹ عبد الحمید جہلمی ۶۳۵٬۶۳۲۶۳۰۶۲۸٬۶۲۲۶۲۰ عبد العزیز او جلوی ، میاں م هم ۳۷۵ ۴۹۲ ۴۸۹ ۵۳۶ 100 ۶۳۴۶۳۳۴۵۴۵٬۴۶۸ ۵۴۴۴۲۵۲۲۰۲ ۲۳۵۲۳۴۱۸۱ ۵۵۱۴۰۰ ۳۹۳ ۴۶۸ سلام ۶۳۲ عبد العزیز دہلوی، شاہ عبد العزيز لدھیانوی، مولوی ۲۳۹ MA عبد الرحمن سنور عبد الرحمن (سابق سنت سنگھ ) عبد الرحمن ، ماسٹر (مهر سنگھ ) عبد الرحمن، منشی کپور تھلہ ۳۳ ۴۶۳۴ عبد العزیز مغل، میاں عبد الرحمن، مولوی کابل عبد الرحمن ؛ مرتسری، حافظ عبد الرحمن خان امیر والی کابل عبد الرحمن قادیانی بھائی عبد الرحمن لاہوری ، میاں عبد الرحمن لکھو کے والے مولوی OFA عبد الغنی، شاہ ۲۰۸٬۶۰۷۳۸۹ عبدالغنی او جلوی، منشی ۵۴۸ عبد الغنی عیسائی ۵۳۶٬۵۴۲٬۴۹۲ عبد القادر ، شیخ (سابق سوداگر مل) ۵۳۲ ۳۰۰ عبد القادر مولوی لدھیانہ ۲۳۳ ۲۳۱ ۳۳۵۲۳۸۲۳۷ ۴۱۸ ۲۷۰۲۵۲۱۹۶ عبد القادر المغربي الشيخ عبد القادر خانی، شیخ عبد القادر جیلانی سید ۵۸۳۵۱۴۴۹۲ ۷۱ عبد الرحیم ، بھائی عبد الرحیم، پادری عبد الرحیم، شیخ

Page 697

٤٣٦٣٩٩٣٩٨ ۵۵۲۳۱۳۰۷ FFFF ۴۶۰ ۲۰۹ ۲۰۸ ۱۷ ۱۶ ۴۷۹ ۴۷۹ ۶۶۵۲۳۰۲۳۱ ۳۱ عبد القدوس گنگوہی، شیخ عبد القدوس ، منشی ایڈیٹر صحیفہ قدی" ۴۳۴۴۲۳۳ عبد القیوم مولوی عبد القيوم ندوی عبد الکریم ، حکیم مولوی ۲۱۰ ۴۱۸ عبد اللہ عرب حاجی عبد اللہ غازی شاہ ۳۹۲٬۳۹ عبد اللہ غزنوی عبد الکریم سیالکونی ۳۴۴۴۳۴۱۴۲۲۹۲۴۸٬۲۲۰۲۲۴٬۹۹ ۴۳۴۰۴۳۳۴۲۵۴۱۰۴۰۹٬۳۸۲۴۳۷۰۳۶۹۴۳۶۷ عبد الله مجند مولوی ۴۴ ۴۳ ۷۳۴۵۹۴۴۴۴۴۴ ۴ تا ۵۲۱۴۴۹۳۴۴۹۴۴۴۷۵ عبد الله النشادى الغزی ۶۳۹۴۶۱۷٬۵۷۱٬۵۶۷٬۵۶۵٬۵۶۳٬۵۶۱۴۵۴۵٬۵۳۲ عبد اللہ ہارون، سیٹھ عبد اللطیف خلیفہ پیر صاحب العلم ۵۵۲٬۳۱۴۲۰۹ عبد الماجد دریا آبادی، مولانا عبد اللہ پادری عبد اللہ حاجی.مرید پیر صاحب العلم عبد اللہ مولوی عبد الله آرچی سر عبد اللہ انصار.ایک صوفی بزرگ سید اللہ ایڈووکیٹ، خان بہادر شیخ عبد الله بن جلال عبد اللہ بیگ، مولوی عبد الله تبتی، شیخ ✓✓ r-c المسلم ۵۱۶ ۳۹ ۲۷۲ ۴۰۰ عبد المجید ، شهزاده عبد المجید انصاری، مولوی عبد المجید خادم سوہدروی عبد المجید کپور تھلوی، خان عبدالمغنی.جہلم مولوی عبدالمنان و زیر آبادی هاه عبدالمنصور، مولوی عبد الواحد منشی تحصیلدار عبد الواحد غزنوی ۵۶۳۵۵۸٬۵۵۳ ۵۵۳٬۴۶۸۳۹۸۳۹۵ H ۲۱۶ ۴۷۵۴۶۸ ۵۸۳۵۷۷۵۵ ۵۵۳ م عبد الوحید خلیفہ.ترکی عبد الوباب التجار عبید الله مولانا ۲۹۹ ۲۶۸٬۲۶۷۲۳۹٬۲۰۹۱۹۸ عبد اللہ ٹونکی عبد اللہ حکیم ، میاں عبد اللہ چکڑالوی عبد اللہ سنوری ۷ ۲ تا ۳۶۳٬۳۴۴۳۳۸۲۷ تا ۳۶۷ عبید الله بعمل

Page 698

۵۶۴ ۵۱۱٬۵۰۰۲۶۳۲۵۳ ١٢٣ ۳۳۳ ۵۱۶ ۵۲۵٬۵۲۳۴۹۱ ۳۲۵ ۲۳۸۲۳۵۲۳۳ عدنان ڈاکٹر عزیز احمد مرزا ۶۱۰ علی میاں، حافظ سید M عماد الدین خلیفہ عشق علی خان ۰۲۳۸ عماد الدین پادری عصمت صاحبہ صاحبزادی ۲۸۲٬۲۸۴۲۴۷ عمرا کشمیری عمر الدین شملوی عمر دراز ، حافظ عمر النساء صاحبه عمر ہیوبرٹ رہنکن عنایت اللہ مولوی عنایت اللہ المشرق علامہ عنایت بیگم عنایت علی، سید میر حضرت عیسی علیہ السلام ۳۹۵٬۳۸۴۲۵۳٬۲۲۷۴ ۵۱۷۴۸۵۴۵۲ ۳ ۴۶ ۴۲۵۴۰۷۰۴۰۵ ۵۲۴ تا ۶۴۶۶۱۵٬۵۳۰ غ غزالی، امام غفارا“ میاں 144 ۲۴۰۱۴۵۷۵ حضرت غلام احمد قادیانی مرزا - مسیح موعود مهدی معهود ۲۲۱۲۷٬۹۴ ۴۷۹٬۵۲۵۱۴۸ ۴۲ ۴۱۲۳۱ ۵۱۶۴۴۷۴۴۴۵۵۴۴۳۲ ٣٣٣٣١٩٣١٤ ٣٩٤۳۱ ۵۹۳٬۵۹۲٬۵۷۲٬۵۷۱٬۵۶۹۴۵۶۷٬۵۶۰٬۵۵۸ MA "{ NA ۱۵۰ ۱۰۴ ۴۰۳۸٬۳۴ ۴۹۱ JAY ۳۸۸ AY ٣٩٨ ۳۳۶۳۸ عطا محمد ، شیخ عطا محمد مرزا عطا محمد منشی.امرتسر عطر سنگھ، سردار عظیم، میاں نظیم بخش حافظ.پٹیالہ علاء الدین خاں، نواب مرزا علم دین ڈاکٹر حضرت علی * علی لدھیانوی، قاضی خواجه ۲۳۱ ۲۳۸٬۲۳۴٬۲۳۳ ۴۱۰۳۷۵۳۴۱ MYA ۶۲۵۶۲۴ ۱۴۸ ۱۴۷ ۴۹۹ ۴۹۹ ۲۰۰ م علی احمد بھا گلموری، پروفیسر علی احمد وکیل ، شیخ علی بن شریف مصطفی سید علی شیر، مرزا علی طالع.مکہ ملی قادری علی گو ہر.کپور تھلہ علی محمد خاں، نواب ۲۳۱ ۲۳۶٬۲۳۳ ۲۳۸ ۴۱۰۳۹۴ غلام الحسنین خواجہ پانی پتی علی محمد شاد عظیم آبادی، سید غلام اللہ قصوری

Page 699

۴۹۵ ۵۷۳۵۲۱ MA غلام اللہ مرزا غلام امام مولوی منی پور غلام جیلانی، مرزا غلام حسن.رئیس امرتسر ۲۰۸ غلام محمد مولوی کپور تھلہ ۴۶۸ غلام محمد امرتسری خوشنویس غلام محمد سیالکونی، منشی ۲۵۴ غلام محمد گلگتی، خان بہادر ۵۷۷٬۴۴۸ غلام محی الدین، مرزا غلام محی الدین قصوری غلام مرتضی بھیروی غلام مر رتضی مرزا ۳۹٬۳۴۶۲۳ تا ۵۹٬۵۴٬۵۲٬۵۰٬۳۱ ۴۲۱ ۱۰۴ ۶۳۱۶۲۶۶۳۳ ۵۵۳٬۵۵۱٬۴۰۰ ۵۹٬۵۳ غلام حسن پشاوری غلام حیدر شهزاده غلام حیدر مرزا غلام حیدر خان راجہ.ریڈر غلام دستگیر قصوری غلام رسول مولوی آف قلعہ میاں سنگھ غلام رسول مولوی عرف رسل بابا ۵۵۱٬۵۰۳ غلام نبی حکیم ۶۳۳ غلام رسول را جیکی غلام نبی، میاں • غلام رسول مدرس ہوشیار پور ۲۹۹ غلام نبی خوشابی مولوی ۴۰۳ تا ۴۴۱۲۱۴۰۵ ۴۴۸ غلام رسول و زیر آبادی، حافظ غلام غوث، ڈاکٹر ۶۴۳ سم هم غلام نبی مصری، مولوی غلام نظام الدین ۶۴۳ غلام فرید ، خواجہ ۵۵۳٬۵۵۱٬۵۵۰٬۵۰۹٬۵۰۸٬۴۷۶ غیاث الدوله حضرت فاطمه الز جراء * ۵۵۳ pyʻpp غلام قادر سنور غلام قادر، مرزا ۱۳۰ ۱۴۴ ۲۲۳۱۴۵ تا ۳۲۵۲۲۶ فاطمہ بیگم خادمہ حضرت اماں جان ف ٢٣٩ ۲۴۶ ۲۷۲ ۲۷۶۴۷۵ ۷۳ غلام قادر فصیح، مشی ۴۱۰، ۴۱۳، ۴۶۶۴۴۳٬۴۲۵ فتح الدین حافظ غلام محمد حاجی غلام محمد صوفی غلام محمد مولوی، بیگووالہ ۵۳۲٬۵۲۱٬۴۸۴ فتح الدین مولوی.سیالکوٹ فتح چند ۵۴۵٬۵۳۱۱۳۵ فتح خان آف ٹانڈہ فتح وین، بابو

Page 700

۵۷۵ ۴۴۸ ۴۳۵ ۵۷۵٬۴۹۲ ۵۳۱۳۳۲ ۱۳ ۴۳۵ ٣٨٨ MA Mar ۲۵۴ ۲۳ ۲۱۵ ۵۳۲ 00A ۵۲۵ ۵۹۶ هاد ۱۴ فتح دین مدرس مولوی فتح سنگھے، راجہ فتح علی خان قزلباش ، نواب ٢٩٩ فضل محمد میاں.ہرسیاں ۴۰۳ فضلیت علی سید ۵۵۸ Yor'rar فقیر اللہ ، ماسٹر فنڈر ڈاکٹر ۳۲۷ تا ۵۳۱٬۳۳۴۰۳۳۰ فیاض علی کپور تھلوی، منشی فتح محمد سیال ایم.اے چوہدری فتح مسیح، پادری فردوی فرید الدین عطار فرید گنج شکر فضل سید.قسطنطنیہ کے بزرگ فضل احمد قاضی فضل احمد مرزا فضل احمد ، مولوی فضل الدین دوکاندار.سیالکوت فضل الدین کشمیری.سیالکوٹ فضل الدین نکھاریاں، مولوی ۲۴٬۲۸ | فیض احمد جہلمی ۲۷۲ فیض محمد، مرزا ۵۳۶۲۱۵ I MM PqOʻYA'YI قائم علی میر قدرت اللہ مولوی بٹالہ ق قدرت اللہ خاں شاہجہانپوری ۵۷٬۵۵٬۵۴ قرا چار ٩٩ ۴۶۸ ۶۲۵ فضل الدین وکیل، مولوی.لاہور فضل الرحمن، حکیم ۲۲۸ تا ۶۳۵۶۳۴۶۳۳۶۳۰ قطب الدین حکیم قمر الدین سیکھوانی مولوی قیصر روم قیصر روم ثالث کاملی مل کار لائل کالیہ بواد اس کانشی رام لالله کر سٹرائیڈر لینڈ کرشن جی راجہ کرم دین مولوی کرم علی کاتب، منشی ۲۱۵ ۵۵۵۴ ۸۳٬۸۲ ۵۱۸٬۴۲۵ ۲۵۳ فضل الهی فضل دین.سیالکوٹ فضل دین بھیروی، حکیم فضل حسین ، مهاش فضل شاہ سید

Page 701

Myr ۵۹٬۵۵ ۵۴ ۳۲ تا ۷ ۱۰۳۳۶۴۴۰۳ ۵۹۷ تا ۵۹۹ ۵۵۸۸۷ ۵۶۲٬۵۶۵۵۸ ٢٩٩ ۱۰۴ ۲۹۸ ۲۹۹ ۴۰ ۵۰ کر یک مسٹر ۲۹ گلاب شاه مجذوب بزرگ کشن سنگھ، بھائی ۱۵ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۵۵ ۲۵۸٬۱۹۳ گل علی شاه كلما وبجو حضرت کلثوم اخت ہارون ۲۶ مگل محمد مرزا ۳۳۴ گنگا بشن لاله کمال الدین خواجہ ۵۶۰٬۵۴۴۴۵۴۳٬۵۲۱٬۵۱۴٬۲۷۱ گوپی ناتھ ۲۵۴۶۶۳۹ گوردھن داس ، پنڈت کمال الدین مرزا ۳۷ گنیش واس وکیل لاله کمال الدین پاشا ابن عثمان پاشا ۶۰۹ گھانسی رام بابو حضرت کنفیونسی کنور سین لاله کنہیا لال، منشی کنہیا لعل صراف ۷۵ چمن لاله کیشب چندر سین بابو کھڑک سنگھ، پنڈت گاس ایف ٹین ۸۷٬۵۹٬۵۶ لاڈلی بیگم، مائی ۱۵۶۱۵۴ ۱۵۷ بهمن رام ۱۳ کچن سنگھ لالہ ۱۵۵ ۱۲۸۱۵۶ کنگر خان ۲۴ لو تھرپسٹ ماڈرڈ طوری جے سی پادری ۴۳۸ ۴۴ بی آن کهیم، مورخ ۲۹ ۲۵ لیکھرام پنڈت ۲۶۲۵۶۲۵۴٬۲۲۲۲۰۷۲۰۶۱۸۰ ۳۱۲۳۰۶۳۰۳۳۰۲٬۳۰۰٬۲۸۳٬۲۸۲٬۲۸۰ ۵۳۶٬۴۹۵۴۸۸٬۳۸۲ ،۴۸۱۴۷۷۳۲۴۳۲۰ ۶۳۲ ۲۲۲٬۲۲۱٬۴۷ ۴۱۳۹٬۲۹ MA ۵۹۰٬۵۸۹٬۵۳۷ تا ۷ ۶۲۲۶۲۰۶۰۱۲۵۹۹٬۵۹ ۱۵۲ | لیمار چند.ایس پی گورداسپور ۴۶۸ لیوپولٹ ۸۹ ۲۹۹ کب ایچ اے آر گرس دولڈ فورمین ایچ ڈی گرے، پادری ایچ جی گریفی سرلیبل گری گوریف، پروفیسر گوپال راؤ پنڈت گلاب دین رہتای، منشی گلاب سنگھ ، منشی

Page 702

۳۲۵ ۴۳۶٬۴۳۵ ۳۴۳ ۴۲۵۲ ۲۵۲ مارٹینو سرای ای مار خم مارس انڈس مارسن بے مبارک احمد ، مرزا ۶۲۱ F ۲۷ محمد اسحاق، مرزا محمد اسحاق مولوی پٹیالہ محمد اسحاق سید میر سلم ۴ محمد اسحاق نبیره شاه ۵۵۸ محمد اسلم.جرنلسٹ امرتسر ۲۹۵٬۲۳۸ محمد اسماعیل، چوہدری ۵۴ محمد اسماعیل، مولوی امرتسر ۲۴۷ محمد اسماعیل، مولوی علی گڑھ ۳۹۶ محمد اسماعیل ، سید میر ۵۴۳٬۵۳۳۵۲۲۴۴۲۱۲۵۲ ۹۵ محمد اسماعیل سرسادی، شیخ ۴۹۲ مبارک علی مولوی مبار که بیگم سیده نواب ۶۱۳۶۰۰٬۵۸۷٬۵۸۶٬۶۴۸ مٹھن لال محبوب عالم مولوی.سیالکوٹ محبوب عالم مولوی.ایڈیٹر پیسہ اخبار محکم دین بابو ۱۳۲۹۹۹۷ محمد اشرف مرزا ۲۴۲٬۶۰۸ محمد افضل ، بایو ۳۷۹ محمد افضل خاں ۵۴۵ ۵۴۲ ۴۹۲ MAY حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳۹٬۸۵۴۱ محمد اقبال، ڈاکٹر سر ۴۱۴۶۰۲۸۹۱۰۶۴۹۴۱۲۱۴۳ ۲ ۲۷۸۲۳۷ محمد اکرام ایم.اے شیخ ۲۰۶ ۲۰۵ ۲۰۰ ۱۹۹ ۱۷۱ ۱۷۰ ۱۱۳۶۳۵۷ ۴۷۵۴۷۱۳۹۷٬۳۹۰٬۳۲۷۳۱۷ ۳ ۳۰۶۳۰۳ ۵۷۸٬۵۳۸٬۵۳۱٬۵۰۹۵۰۱ محمد امام الدین مولوی ۳۱۵ ۲۶۵ ۶۳۲۶۰۳۵۹۹ ۲۳۹ ۶۳۰ 190 ۲۱۴ محمد امیر خان خان محمد ابراہیم علی خان نواب محمد احسن، مرزا ۲۳۸ محمد بخش.میاں بٹالہ ۳۲۵ محمد بخش سنور محمد احسن امروہی سید ۴۳۲٬۲۳۱۴۰۹۳۷۹، ۴۳۸ ، محمد بخش بٹالوی ۵۳۲٬۵۰۲۴۴۹۶۴۴۹۳۴۴۸۴ ۳۵۷ ۴۴۳ محمد بخش حجام.قادیان محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ، شیخ محمد اروڑا خان، منشی محمد بخش ساندہ.میاں ۳۶۸۳۴۱۲۱۲۲۰۹ ۴۶۲۰۴۲۵۴۴۱۴۴۳۷۰ | محمد بدر عالم میرٹھی

Page 703

محمد بشیر بھوپال، مولوی ۵۵۳ محمد بشیر سہسوانی، مولوی سید ۴۳۱ تا ۴۳۸٬۴۳۳ محمد بن شیخ احمد مکی ، شیخ محمد بہاؤ الدین، شیخ محمد بیگ مرزا محمد بیگ مرزا.مرزا اد - بیگ کے بیٹے محمد تفضل حسین سید محمد جعفر تھا نسیری، مولوی محمد جلال الدین بلانوی، منشی محمد جی بخاری محمد چٹو بابا محمد چراغ مولوی محمد حسن، مولوی محمد حسن خاں خلیفہ سید محمد حسن، واعظ بابا ۴۰۶٬۴۰۰ تا ۴۱۳، ۴۲۲، ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۶۱۴۴۴۴۹۶۴۴۳۱ ۴۶۴ تا ۳۶۷، ۳۸۳، ۵۰۴۰۵۰۳٬۴۹۰٬۴۸۹٬۴۸۴ ۵۴۸٬۵۴۷۵۳۱٬۵۳۰ ۴۵۶٬۵۱۴ ۵۱۲ ۵۱ ۵۰ ۵۰۶ ۵۷۰٬۵۶۸٬۵۶۶٬۵۶۵٬۵۶۴۳٬۵۶۱٬۵۵۸٬۵۵۳٬۵۵۱ ۴۹۹٬۴۴۸ MAY ۵۰ ٬۵۹۸ ۶۲۵٬۶۲۲۶۰۵ تا ۶۳۶٬۶۳۰ ۳۲۵ محمد حسین خوشنویس ، شیخ محمد حسین مراد آبادی هم سمسم محمد خان کپور تھلوی ۵۴۵ ۴۴۲٬۳۷۹ ٢١٠ محمد دین فوق ۲۵۵ محمد رضا شیبی ۴۷۴۴۴۷۳ محمد رضا طهرانی نجفی، شیخ Mirʻmıʻrmy ۳۳۰۲۳۹۹۸۲ ۵۴۲ محمد سرور شماه مولوی سید محمد سعید میر محمد حسین ، حکیم محمد حسین ڈاکٹر.لاہور محمد سعید، مولوی ۵۴۴۴۴۶۸ محمد سعیدی شامی السید ۳۸۴ محمد شاه ۲۷۱ محمد شریف ، حکیم.ولی ۳۸۵ ۳۴۱ ۱۹۱ ۳۷۰۳۶۸ ۳۳۱۲۲۲۰۹ ۵۲۱٬۴۷۰٬۴۲۵ ۳۹۱ ٣٩٠ DAY ۴۹۵٬۴۲۵ MA ۳۳ محمد حسین قریشی محمد حسین، مولوی.سبز چگڑی والے محمد حسین بٹالوی ۶۳۰ محمد شریف بنگلوری، مولوی ۱۷۵۱۳۵ ۵۵٬۳۰ محمد شریف کلانوری، حکیم ۲۴۵۱۸۹٬۱۵۴٬۴۳ ۲۴۷ ۱۷۲ ۱۷ ۱۵۴ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۹۷ ۲۲۱۲۰۸ تا ۲۲۳ محمد شفیع قاری حافظ Ar محمد صادق مفتی ۴۱۳٬۳۸۱۴۳۶۷۳۰۸۳۰۷٬۲۴۸٬۱۸ ۳۲۲۳۱۲۴۲۷۵٬۲۴۷ ۳۹۹٬۳۹۶٬۳۹۱۴۳۸۵۴۳۲۳ | محمد صادق باشی ۵۲۱ ۴۴۹۶۴۹۲ ۴۴۸ ۱۵۰

Page 704

۵۳ ۳۹۷ ۱۷۳ ۳۰۲ ۴۹ 이 Pyy'my IA محمد صالح - عرب نوجوان محمد ظفر اللہ خان، چوہدری سر محمد ظہور الدین اکمل، قاضی محمد عبد العزيز ، شیخ محمد عبدالله شیخ محمد عبد اللہ ملک محمد عبد اللہ قاضی ۹۶ ۶۵۵ ۶۵۴۶۴۳۴۴۹۲ ۵۰۱ ۲۸۹ ۶۵۲۳ محمد قاسم.بیگو والہ محمد قاسم نانوتوی محمد لدھیانوی محمد لطیف انبالہ محمد لکھو کے، حافظ محمد مار ماڈیوک پکتھال ۵۸۳٬۳۸۲ محمد مبارک علی مولوی محمد عبد اللہ خاں، مولانا.پٹیالہ ۴۳۶٬۳۸۸٬۳۳۱ محمد مختار با شما محمد میاں، مولوی سید محمد ناصر ، خواجہ محمد یاسین ، میاں ۵۳۰۴۱۸ ۴۲۳ محمد عبدہ علامہ مفتی محمد عثمان مولوی محمد عسکری خال سید ۴۴۸ محمد علی ایم.اے مولوی ۶۴۳٬۶۳۹٬۵۷۳٬۴۹۲٬۲۲ محمد یعقوب ، منشی محمد علی جو ہر مولانا محمد علی خاں کرنیل ۳۹۲ ۴۶۲ ۵۳ ۳۶۷۳۳ محمد یوسف حافظ امرتسر ۲۲۲۲۱۵٬۲۰۹ ۲۵۴٬۲۲۳ محمد یوسف مولوی 166 ۴۲۶ ۳۲۷۳۲۵ ۳۲۲۳۱۹۳۱۸ ۳۲۵ ۴۱۸ ۵۳۰ MAY ۳۲۵ ۳۹۸۲۷۴ ۱۹۶۵۰ ۱۹ ۵۶۴ ۴۷۰ ۴۶۸۴۲۹۴ محمد علی خان نواب ۵۸۷٬۵۵۳٬۲۹۲۴٬۴۴۸٬۵۴ محمد یوسف وکیل خواجہ محمد علی شاہ سید ۸۰۷۲ محمدی بیگم محمد علی کانپوری، سید ۵۷۱٬۵۷۰ محمود بیگ مرزا محمد عمر ، حکیم ۲۲۰ محمود شلتوت ۳۱ محمود عباس عقاد محمد غوث، شیخ محمد فخرالدین فخر مولوی سید محمد فرخ سید غازی، شهنشاه محمد فضل چنگوی، مولوی محمد قدرت اللہ مولوی محمد قاسم مولوی ۵۶۹ محمود علی خاں چھتاری ۳۳۶۳۲ محمودہ بیگم بنت مرزا احمد بیگ ۶۴۳ محی الدین ابن عربی ۳۳۴ محی الدین غازی Mr مختار احمد شاه جهانپوری

Page 705

ممتاز علی امتیاز سید ۲۳۵ ام ۳۴۷ Parʻral ለ 44'9'Ar ۲۳۳۲۰۹ ۶۳۵۹۹٬۴۶۸۲۸۵۲۷۲۴۲۴۵ ۳۸۶۱۳۲۶۱۹۲ ۲۳۴ ۲۴ ۴۰ ۲۵۸ 19 منگری منصب علی، حکیم منظور محمد پیر حضرت موسیٰ علیہ السلام موسی مولوی موسى جار الله مولراج، دیوان موہن لال، پنڈت مہاراج سنگھ مهر علی شاہ گولڑوی، پیر ۴۵۵ مہر علی شیخ.ہوشیار پور ۳۳۸٬۲۹۹۲۷۷۲۷۵٬۲۴ ۳ ۱۵۲ ۴۹۵٬۴۹۲ Orri مریشی لکھ مهدی حسین میر مهدی سوڈانی ۶۰۳۵۹۳ ۹۷۹۳ ۱۰۴۵۰ ۲۵۸ ۴۴۸ مدن گوپال مدن، پنڈت مراد بیگ جالندھری، مرزا مراد بیگم صاحبہ مراد علی مرتضی حسن خاں مولوی مردان علی مولوی مرلی دھر.ہوشیار پوری ۲۶۰ ۲۷۶۴۲۶۳ حضرت مریم علیہ السلام مشتاق احمد انبیٹھوی، مولوی ۳۳۴ ۱۰۳ ۱۰۲ ۲۹ ۴۰ ۴۱۸ ۲۹۹ ۶۰ ۴۶۹ ۵۳۶ مهدی علی خاں، نواب محسن الملک ۵۴۰٬۳۹۲٬۳۹۱ ۴۵۶۴۵۴ 1•1 ۲۰۸٬۹۸٬۹۵٬۹۳٬۸۲ ۱۳۹ ۵۲۸ میراں بخش، منشی میران بخش حجام میرحسن سیالکوٹی میں مسٹر میکانکی مسٹر میکائیل برک مشتاق حسین نواب و فکر الملک سید ۳۷۹٬۲۰۸۱۳۵۳۵۱ ۵۲۳۴۴۸۳۷۱ AY ۵۹ مصر صاحب دیال مصطفى المراغي الاستاذ مصطفی علی ، ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا مظفر علی قزلباش مظہر حسین، حکیم.سیالکوٹ معین الدین چشتی، شیخ معین الدین حافظ معراج الدین عمر میاں مکنیب.ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سکے شاہ مکھن لال لاوامل ، لاله

Page 706

۳۰۱ میکنزی، پروفیسر ۴ میلکم نظام الدین بریلوی نیازی، شاه ۲۵ نعمت الله ولی بانسوی نقاد بمس، حکیم نارائن سنگھ ۱۵۶۱۵۴٬۸۷ ۱۵۹٬۱۵۷ نکلسن ، جنرل ناصر شاہ سید ۴۹۳۴۴۹۲۲۰۹ نور احمد شیخ مالک مطبع ریاض ہند ۳۷۳٬۱۹۴۱۹۰ ناصر نواب میر ۱۲۰ ۱۳۰ ۱۳۱ ۲۳۹٬۲۰۸۱۴۵ ۲۴۳ ۴۳۴۶ ۴۴ ۴۲ ۴۹۳ ۵۳۳٬۵۱۹٬۴۹۵۴۴۹۳ نور احمد ، شیخ ناظم حسین سید نانک بابا نبی بخش حافظ.فیض اللہ چک نبي بخش ، صوفی نبی بخش ، میاں.امرتسر نبی بخش پنواری، منشی ۶۱۳۶۵۹۴۴۷۲٬۴۲۰۴۴۱۴۰۳۸۶۴۳۸۵ ۶۳۸٬۶۳۷ نور الحسن قنوجی، سید ۱۳۵ ۵۳۲ تا ۶۰۲۵۳۷ نور الدین الحاج حکیم مولانا.خلیفہ المسیح ۲۴٬۱۴ ۳۶۲۴۳۳۲۴۳۴۴۳۱۳۴۲۸۸٬۲۸۵٬۲۱۰۲۰۹۱۸۰٬۴۲ ۲۰۸ ۴۵۶۰۴۴۹۴۴ ۴۳ ۴۱۳۴۴۰۶۴۳۸۲۳۸۰۳۶۶۳۶ ۴۶۸ م ۵۲۱۵۱۹۴۴۹۶۴۴۹ ۸۶۴۳۸۴۴۴۸۰٬۴۷۴ ٣٩٦ ۶۲۸٬۶۲۰۶۱۷٬۶۰۰٬۵۸۷٬۵۵۶٬۵۴۸٬۵۳۵٬۵۳۲ ۶۳۹۶۳۰ ۳۲۸ ۳۳۸ ۳ سوم در سلام ۵۷۵ ۵۱۵ ۹۲ ۳۰ ۶۳۲۴۶۲۱۴۶۲۰ ۳۷۹۲۰۸ ۶۳۲۲۷۳٬۲۵۸ نبی بخش ذیلدار.بٹالہ نرائن داس لاله نذیر حسین دہلوی، مولوی ۲۹۹٬۲۵۵ نور الدین جمونی، خلیفہ ۲۴۵٬۱۳۶ نور الدین ملک ۳۲۴۴۴۲۲تا۵۵۳۴۴۶۵۴۴۳۹٬۴۲۹۴۴۲۷ نور الدین، مولوی.نصر اللہ.عیسائی ہیڈ ماسٹر نور الله مولوی.نصرت جہاں بیگم حضرت سیده ۲۴۶۴۲۴۵٬۲۴۳ حضرت نوح علیہ السلام ۴۲۱۴۳۸۱۴۳۶۷۳۴۲٬۳۱۲۲۵۲۲۵۰۲۴۸ نور دین آن بٹالہ پادری نظام الدین مرزا ۶۱۲۶۰۰۵۱۸ نور محمد حافظ.۳۲۵٬۳۲۰٬۳۴۲۶۴۴۷۵۳۱ نور محمد شیخ نظام الدین، مولوی ۲۰۶ ۵۱۵٬۴۱۰۴۴۰۷ | نونہال سنگھ نہال چند پنڈت ۲۳۲ نظام الدین، میر

Page 707

٢٩٩ 5+Y ۲۶ 94 ہرکشن داس ، بابو ہنٹر پادری ہنری سوم ہنری لارنس ہنری مارٹن کلارک ۴۸۲ تا ۷۲۰٬۵۰۵٬۴۸۴ ۶۳۲۶۴۰۶۳۶۶۳۰۶۲۶۴۶۲۶۲۱ ۵۹۱ ۵۱۲ ۲۵۴ ۲۴ سلام ۳۶ ory ۲۷ ۵۹۱۵۹۰٬۵۳۲٬۴۶۸ بنسواج لالم ہیڈلے لارڈ ہیڈن اے سی ہیرا سنگھ کر ہیرلڈلیم ہسٹنگز مٹر ہینز یافت حضرت یحی علیہ السلام یحی بن عقب یعقوب بیگ، مرزا ۵۵۳ ۶۳۲ ۶۲۱ نیاز احمد بریلوی نیاز محمد خاں نیاز فتحپوری وارث، شیخ وارث دین پادری وکٹوریہ ملکہ ولی اللہ شاہ.محدث دہلوی ولی اللہ حاجی.کپور تھلہ ولفرڈ سکاون بلنٹ ولیم ہنٹنگ، جنرل لارڈ ولیم سن ایس جی ونچورا جرنیل و ہیری میری ویڈ کیپٹن ۶۱۲۳۴۷۶۴۷۵۹۰ تا ۶۱۷ ۲۱۰۳۰۲ ۲۱ ۵۰ ۴۰ ۵۹ PAČKÝC ۱۵ ۴۱ ۹۳ یعقوب علی عرفانی شیخ ۲۹۴۱۷۱۰۲۴۱۰۴٬۹۵٬۸۷٬۵۳ ۹۱ ۳۶۳٬۳۴۲۴۳۰۱۴۲۹۰۲۵۸۱۲/۸تا۳۷۸٬۳۶۷ ٨٨ دیمبرے اے ویورڈ گار“ پادری بادی بیگ، مرزا ہاؤسن ہدایت علی حافظ ہربرٹ ایڈورڈز سر ہربرٹ وائٹ بریخت ساندن ۳۳۴۴۳۳۰٬۳۲۹ ۶۲۳ ینگسن ، مسٹر ۲۷۲ | یوحنا، ڈاکٹر ہرچرن داس ہر کرن، پنڈت

Page 708

۲۲ ۶۳۲۵۲۵ ۲۱ ۴۶۷۳۶۶۲۵۴ ۳۲۶ یوحنا سیخ ، بابو یوسف یوسف سلیم چشتی، پروفیسر یوسف شاہ خواجہ.امرتسر حضرت یونس علیہ السلام

Page 709

۵۷۳٬۵۲۷ له وانه المنها والله الا انه ولد ولد اليها ۵۴۵۲۲۸ 1^1 ۸۹ الا الله ولنا انا ولد الله والا مال لله والله والله والله والله ولدها ولد ۲۶۹۴۲۵۴۰ ۲۳ ۱۹۱۵ 10,10 ۲۳ مقامات انبالہ انڈونیشیا انڈیمان انگلستان او جنه MAA ۱۵ ۳۸۸ ۵۰ ۵۲۶ ۲۳ ۲۴ اوردکی اوره ۵۳۰ ۴۳۴۸٬۴۴۷ ایران M ۳۸۸ ایشیا ايمه بالا کوٹ with 17th, •silk, Auth ۶۲۰٬۵۹۹٬۵۹۴٬۳۸۸٬۳۳۴۴۳۲۸٬۲۱۵۲۰۹۹۵ Ar 20,00,17,47,07177,LV,141, MJ, OI, ۵۷۸۱۹۲۸ ۵۷۸٬۴۳۸۹٬۴۵۳ ۳۲ ۵۹۳۵،۴۲٬۳۰۹۱۵۲ ۲۲۸٬۲۲۷ ۵۷۲ آره آسٹریلیا اگره اٹک اٹلی اجمیر ارجنٹائن اسلام آباد (لندن) اشیائی (غانا) اعظم گڑھ افریقہ الجية الله آباد امرتسر ال ۱۰۱٬۸۴۰ ۱۳۳ ۱۳۲ ۱۳۶۴۱۳۳ ۱۴۶۴۳۵ ۱۵ تا ۱۵۵ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۹ ۱۲۶۹۲۵۶۱۹۰ ۱۳۹۲٬۳۸۸ بخارا ۴۱۳۳۹۷۱۳۹۵ تا ۴۴۱۵ ۴۴۰۲۱ ۴۶۵ ۳۸۲۴۳۷۲۴۴۶۷ بروسیا ۶۲۳٬۵۹۴٬۵۹۳٬۵۷۲٬۵۱۳٬۵۰۳٬۴۹۲۶۴۸۹٬۴۸۴ بریلی بغداد Odh, 74h, •dh, duk, Odh امروہ امریکہ ۱۵۹۸ ۱۸ ۱۹ ۴۳، ۱۳۶۹ الی ۳۰۶۲ تا ۴۵۰۱٬۳۰ بیتی

Page 710

۲۲۸٬۲۲۷ ۲۷۵ ۵۹ 2-2-2-2 له الله والله والله الله له ما له 41.له الله لله بنارس بنگال بنگلور بنوں بهادر حسین (گورداسپور ) بیروت بیگووال بھاگووال بھوپال بھیرا بھینی ٹ ۳۸۸٬۸۹ تونس ٹانڈہ الله ۷۷ واما العد ۵۷۲۱۳۵ ۵۰ ۵۱ لم جاپان جالندھر جرمنی ۴۰٬۳۴۲ جمال پور لدھیانہ الله والله الله PAA'TTI جموں جنڈیالہ جورن احدة مها العد لله 70 له ماله والله •Q, *V, bed, mid, brim, khm,401,170 ۵۲۶ ۶۲۰۵۷۲٬۳۸۸ ۵۰ 174,100 } ۵۴۵ ۶۹ ۵۹ ۵۲۳ ۶۱۰۵۰۰ ۱۳۸ ۵۷۲٬۴۵۲٬۳۸۸۳۱۰ ۳۰۹ ī اسم جھنگ چاچڑاں شریف چاند پور چنیوٹ b, M, VI, BAA ۳۳۰٬۲۴۴۲۳۹٬۲۱۵ Sand sand, standard, brand mal, Alan, Oms,hmu̸,470 پاکستان پین شیالہ پشاور ۵۷۲٬۳۸۸٬۵۰٬۴۰ ۳۹ ۳۷ چیلیانوالہ پنجاب ۳۱٬۲۹ تا ۳۹٬۳۳ تا ۴۱ ۸۸٬۶۹٬۵۰ تا ۹۰ چین حبش حجاز حسن آباد حیدر آباد دکن ۱۵۲ ۱۵۳ ۳۱۰۲۴۴ ۳۳۳ ۳ هم نهم ۵۴۱۵۱۲۴۶۱ ٣٠٩ ۳۲ الها والده ناشتند تقلى ترکی ۶۰۴۴۷۳۲۳۸٬۲۲۷۲۹٬۲۸ ۶۰۹۹۰۷ ۶۱۰ خراسان PAA تربت

Page 711

خوارزم خوست خوشاب خشن خیردی و - ڈ - ر مشق دوراہے دہلی دینا نگر دیوبند ڈلہوزی ڈنمارک ڈیرہ بابا نانک ڈیراون را جستهان را ولپنڈی ربوه رنگون روس رو کو پور ردم ۲۸ ۳۳۹ ۵۷۲ ۳۲ ۲۵ سراوه س - ش سری گوبند پور سرینگر (کشمیر) ۱۳۳۶۱۳۲ سکندر آباد (دکن) ۳۲۹۳ ۳۳۲ سکندریه (مصر) سلطان و نڈ (امرتسر) سمرقند مم ۱۷۸ ۵۲۸٬۵۲۰ ۵۲۳ ۶۲۱ F ۲۷ تا ۴۴٬۴۰٬۳۵٬۳۴۲۹ تا ۴۶ ۱۲۴۲۴ تا ۲۴۶ ۴۲۱۴۳۹۲٬۳۸۸، ۴۲۳، ۴۲۴ سم شریف (گورداسپور ) ۴۲۷ تا ۶۱۳۵۹۳۴۴۳۲٬۴۳۰ ۵۵۱ 29 ۳۰۰۳۸۸ ۵۳۰ ۵۳۳٬۵۳۲ شده سنگھڑ سنور سوات سوجان پور سوڈان ۵۷۲ سورج گڑھ ۱۶۲ سوندیانه (dd) ۲۳۹٬۲۱۵ ۳۳۲ MAA PAA'TEN ۲۲۸ ۲۵۲ ۶۲۷۶۳۵٬۵۷۶٬۵۷۲٬۳۸۸ ۱۵۳ مودارها PAA م م م م م کے امام سہارنپور سہسوان ۲۵ سیالکوٹ ۹٬۳۱ تا ۹۵ ۱۰۰ ۱۰۸ ۴۴۳ ۴۵۸ تا ۶۲۷۶۲۵۴۵۷۳۴۶۱

Page 712

۴۹۵ ۵۴ ۲۶ فلپائن ۷۲۴۶۲۳ فیروز پور ۶۱۰٬۵۷۸٬۵۰۰٬۴۹۹٬۲۹۳ ۱۳ فیروزوالہ الله الله الله ال ,V,999,617, لد ولد الله الله الله إلا إن والد قادیان ۱۳۹ ۱۳۴۱ ۱۳۸۱۳۵ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۹۳ تا ۹۵ ۲۰۷ ۲۰۹ hk4,470 الله ۷ ۴۹۹ ۵۷۲۳۳۰ V70 hed dtad, html ] Hard, and red, 17 mm, kkm, 774,Vd, ۲۵۴۲۴۹ تا ۲۶۰ ۲۶۴ ۲۷۱۲۶۷ ۲۷۴ تا ۲۸۹۲۷۶ *14, MA, HA, 014, VIA, BAA, 744, VAA, ♡WA,KWA, ۴۶۹۴۴۶۴۴۴۵۸٬۴۴۸ ۴۴۳ ۴۲۴۰ ۴۲۲۱۴۴۱۵ ۱۳۹۷ ,7 ,0 ,109,010 له وله حاله الله والله وله 47 وله ٠٦ ۶۲۶۰۵۶۰۴٬۵۹۹٬۵۹۷٬۵۹۴٬۵۷۶٬۵۵۹٬۵۴۵ •dd,Hd, h40,7«h, Vek, elk WW •Ah, 14h, dah104h, bath, duh, HOL, WOL ۵۰ ۲۸ ۲۵ ۵۳۸۴۳۶۸ ۲۸ 14 قاہرہ تعطيه قصور قوقد لیجان ک گ کامل کاشغر کا بیان سیرالیون سیکھواں شام شاه بود شتاب کوٹ شعب عامر صوالي طائف ص - ض - ط - ظ ۶۱۰ ۵۰۰ ۳۸۹ طرابلس طهران ع - غ عراق عرب علی گڑھ All,744,474,bbu ۴۱۳۸۸٬۳۸۲٬۳۷۶۱۴۶۱ ۳۸۸ ۵۳۰ ۶۱۰۵۲۶ rɅ ۲۵۵ غازی پور غزه خوش گڑھ فرانس فرغانه فرید کوٹ

Page 713

کانپور کانگڑہ کاہلوان کپور تھلے ۲۷ ۳۸۸ گوہد پور ۳۲۶٬۵۰ گیرو (غزنی) گھانا ۷۹ Ami, *ki, *wil, kid, build, +7.4 70 والعد الله واليه انه ولد الله والحد ٧٧ و 7th 7ch b*„d° لاہور 712 b4,17,17,7 l, 401, JOI, ASA,JO1 ۴۴۰۳۴۰۲٬۳۸۸۳۸۳ ۴۳۲۲ ۴۲۸۵۲۷۱۲۵۵ دمات وليد قال ولد 70 ولد له ولد لها والد الد له ولد المند ما ولد هو ولد ٧٠ ۵۵۴۰ تا ۵۹۴٬۵۹۲٬۵۹۱٬۵۸۶٬۵۷۲٬۵۷۰٬۵۶۰٬۵۵۶ khat لله ۵۳۰٬۵۲۸٬۵۲۲۵۲۰٬۵۱۷۲۸۹۱۰۲ مش کشمیر کلانور کلکتہ کنجاه کھارا حجرات منگوه گوالیار گوجرانوالہ bh, ۸۰ ٣٠٩ ههه Aw, bh Ob♡,dok, dih, didh, madh, Vadh, Budh, m0h, 602 لبنان لدھیانہ ۱۸۰٬۹۰٬۸۸٬۵۰٬۳۹٬۳۷ تا ۲۳۱۱۸۲ تا ۲۴۰ الدها ولد اس۷۷ ۳۶۲۴۳۳۱۳۳۹ ۳۳۷۳۳۵۴۳۳۲٬۲۶۶٬۲۴۴۰ kka, 47, 17», «V», JVM, VVM, 4bm, alb, والمال وله الله وله لا إله ٧٠ اله ماله ولد Abd how vb ۶۲۵٬۵۷۲٬۴۶۳۴۳۵ ۴۳۱ ۴۱۷ لکھو کے لنڈن ۴۰۰٬۳۸۸ م بوم ۴۴ ۶۱۵۵۷۸٬۵۳۱٬۵۱۰ ۵۹۴۴۳۳۹٬۲۶۱ ليبيا گورداسپور ۷۱۴۴۰٬۲۹ ۷۱ ۷۲ ۱۳۳ ۱۳۵ تا ۱۳۷ لیگوس ۵۹۹٬۵۹۳٬۵۷۲٬۵۱۲٬۳۳۹۲۶۱۶۴ ۰۶۲۳ ۲۵ ۶۳۷ ۲۵۴۶۳۵۶۳۱ ماسکو.4 مولیکی سلام ۶۵ مالٹا ۲۲۸ ها ۲۵ %

Page 714

۴ VVA,470 ٣١٣ له الله ۵۲۹ ۳۸۸٬۵۰٬۴۰ ۲۸ ۲۳۸ تا ۳۶۶٬۳۳۹٬۲۴۴۴۲۴۰ واشنگتن مالیر کوٹلہ وزیر آباد بانه ۲۱۵۲۰۹ ۵۷۲٬۳۰۹ ۵۳۶٬۴۶۸ ہڈسن (نیویارک) ۳۹۷٬۳۸۸۲۵۵ Yor ہراست ہزارہ ہندوستان ۲۹۳ 744, VAA 10, VV, BV, 4,401, Jh]kki, V71, 671, b*A, IAA 41,04,b4, mm,12,04,ku,*0, ۳۹۷٬۳۸۸٬۳۰۹۳۰۷۲۷۴ ۲۵۴۲۴۲ ۲۴۱۲۲۷ ۶۰۸۶۰۷۵۳۱٬۵۳۰٬۵۲۸٬۵۱۰ ۴۹۹ ۴ ۳ ۴ ۳ مٹھن کوٹ مدار مدراس مار پیشه منوره مراد آباد مراد مراکش مرسیا (چین) مصر ۴۵ ۲۲۷ ۶۵۳٬۵۳۰٬۵۲۳٬۵۰۰٬۴۷۳٬۲۲۸ ۵۳۷٬۵۳۶۴۳۹۹٬۴۹۸۴۴۶۸٬۴۵۲٬۳۹۰٬۴ مکه مستان ۶۳۸۶۳۷٬۵۹۱٬۵۳۶۲۴۴٬۶۹٬۵۰٬۴۳٬۴۰ ممباس الله ۵۷۸ ہوشیار پور ۲۷۳۲۰۹ تا ۳۳۸۳۰۱۲۹۶۲۷۷ ی ۲۶۹۴۲۵۴۲۲۷۱۹۱۸ ۱۱۱۵۸۶۳ ۶۵۴۶۵۳۵۷۳ 16 ۶۱۰ یورپ یورو علم یونان ۳۱۵ ۳۰۹٬۳۰۷ ٣٣٩ JA ۲۲۷ ۲۴۱ ل الم الم Aw, bk نگری فیلا འ میرٹھ ن - و نا کھیریا نجد نهوبون نصیر آباد نمودر ننگ

Page 715

۴۵۷٬۴۵۵٬۴۴۹٬۴۴۰۴۳۹ 7J,70,+L,V7,101 ۲۹ کتابیا BIBLOGRAPHY آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام ۲۱ لد فال ولد ٧ف ولد ٧ ل ٧٦ له الله 7 ولد له الله له له قاله له والله له لا اله الله ۲۱۴ ل الله الله اسداله 0+ وم بهم ۲۱۴٬۶۰۴۴۷۴۶۳۷ تا ۲۴۰۲۱ اتمام الحمد اربعین ازالہ اوہام ۵۳۹٬۴۸۷۴۳۷ ۵۳۹ در سنشور فتح البیان كتاب في حروف اوائل السور حدیث 770 له 7.وله الله له 10 لد ولد له ولد الاول وله الموالله لا والله الهول hd خالد له ولد الله الله ولد ليه له والله ولله الله استفتاء •b♡¸l•h اسلامی اصول کی فلاسفی ۵۷۶٬۵۷۵٬۵۷۳٬۵۵۵ اعجاز احمدی البلوغ الحق مباحث لدھیانہ الحق مباحثہ والی الوصیت انجام آتھم ۲۳۰ ۷۲ ۳ تا ۷۵ ۴۹۶۳۸۹۴ الله الله لا اله الله الله له خاله ولله قال الله 20, الدوله الا الله الله الله ۵۱۹٬۵۱۵٬۵۰۹٬۵۰۴ ۲۳۰ ۵۳۹٬۴۳۷ ۵۳۹٬۵۱۵ اله all and ۲۰۲ له حاله وله له له الله الله ۵۳۹ ۵۳۹ ابن ماجه ابو اور بحار الانوار بخاری ترندی دار قطنی سفر السعادة کنز العمال مرقاة شرح مخلوة مسلم مخلوة موطا نائی کتب حضرت مسیح موعود انوار الاسلام آریه دهرم ۵۴۵٬۵۳۸٬۵۳۷٬۵۳۲ | ایک غلطی کا ازالہ

Page 716

براہین احمدیہ ۷ تا ۱۹۷۹۵۱۹۳ تا ۲۲۹۴۲۲۳٬۲۲۱۴۳۱۸۴۲۱۹۲۱۴٬۲۰۰ بركات الدعا پرانی تحریر میں تبلیغ رسالت ۵۶۴۵۶ ۴۸۱ ITA ۴۳۷۹۳۹۹۳۸۱۴۳۸۰۳۷۵٬۳۳۲۴۳۳۳۳۹۳ ۵۱۵٬۴۹۶۴۴۸۸٬۴۷۰۴۶۹۴۴۴۹۴۳۳۸ حقيقه الوحي #z'koʻar'ra'rr 101ʻort'rqa'rqm'yar'ızı'tr>'tır'ĦA حمامه البشری در ثمین (عربی) ۵۱۵٬۵۰۰ ۳۹۹ ۴۸۷ دیوان فرخ قادیانی (در مکنون ) سبز اشتهار ram'rar'rolar ستاره قیصره ست بچین سچائی کا اظہار yor'orr'ortort ۵۱۵۴۴۸۸۴۳۸ ۷ ۴۸۳٬۳۸۲ تجليات الهيد تحفہ بغداد ۴۹۹٬۴۸۹ سر الخلافه تحفہ قیصریه سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۶۱۷ سراج تیر ۲۰۳۶۰۴۵۹۰۲۹۴۲۸۴٬۲۸۳٬۲۴۵۴۱۱۷ مهم مهم ام ۵۵۳۱ تریاق القلوب ۱۹۸۱۳۶۱۰۵۶۰ سرمه چشم آرید ۲۶۲۶۰۹ ۳۸۷۲۹۵٬۲۹۴٬۲۹۲٬۲۸۴۲۵۲٬۲۱۳ ۴۵۲۳۳۳۰۳٬۳۰۸۲۹۹۲۹۶۴۲۷۲۲۷۱ تذکرہ ۲۷۲۷ شحنه حق ۳۰۴۴۲۵۲۱۶۸ تا ۳۳۳۳۰۶ مذكرة الشهادتين ۲۱ شهادة القرآن توضیح مرام ۲۵۷٬۳۸۹٬۳۸۷۳۸۶۶۳۸۴ ضیاء الحق جنگ مقدس ۵۰۰٬۳۸۸٬۳۸۴ فتاوی مسیح موعود ۵۴۳۵۱۵٬۵۰۹٬۵۰۴ ۶۵۴ چشمه معرفت سوم هم ۲۱۳۴۴۳۴ فتح اسلام حجه الاسلام حجه الله قادیان کے آریہ اور ہم ۶۱۱۶۱۰ کرامات الصادقين حقيقه المهدی ۵۵۳ | کتاب البریه ۱۰۵۷۸۶۸٬۵۹٬۴۷ ۴۴۱۳۵

Page 717

۴۸۰ ۴۸۰ ۵۰۳ ۴۸۰ ۳۱ ۶۵۴۴۶۳۶۴۶۳۵٬۶۲۰۲۰۴۱۵۰۳۶۴۳۵۷۷ احمد ولی پر امز ورلڈ ٹیچر ۴۷ ۱۷۴۷ 12 احمدیت کا مستقبل احمدیہ جنری اچھی مائیں ۲۳۰٬۱۹۸۱۹۷۲۸۴ اريج المطالب فی مناقب اسد اللہ الغالب كشف الغطاء لجه النور لیکچر سیالکوٹ مکتوبات احمد یہ ۲۲۰ ۳۸۲۴۳۷۸٬۳۰۳۲۷۲۲۷تا۵۵۳٬۴۵۲٬۳۸۴ اسلامی خلافت کا نظریہ ۵۴۳٬۵۲۲۵۲۰ نزول المسیح ۴۸۸۴۴۸۷۱۳۳۴٬۲۹۵٬۲۳۰۶۳۵ اشتراکیت اور اسلام ۴۸۰ اصحاب احمد ۳۶۸۲۳۰۲۶ ۶۵۳ ۵۲ ۵۱۵ ۴۴۹۶۴۴۷۰۴۴۹۴۴۴۲ الحمد البالغة الواح الهدى ام الالسنة ۴۸۰ ۲۵۴ ۵۴۳ امتحان پاس کرنے کے گر ۴۸۰ انعامات خداوند کریم 192 ۵۱۶۱۰۵۶۸ ۴۸۰ ۳۱۷ ۲۲ ۶۵۵ PRÍP•A ۴۶۴ من الرحمٰن نزول نشان آسمانی نعمه الباری نور الحق حصہ اول نور الحق حصہ دوم کتب خلفاء سلسله الازبار لذوات الخمار تصدیق براہین احمدیہ ۵۳۱۵۱۵٬۵۱۳٬۵۰۰ ۵۳۴۵۰۲٬۴۸۷ ۴۹۶ ۳۱۲۱۸۰ انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ چشمہ ہدایت و عوت الامير سیرت مسیح موعود مرقاة الیقین کتب مصنفین سلسله آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا میں آمینه حق نما ۲۱ 112 ۴۹۷۳۸۱۲۱۷ ایک اور تازہ نشان ایک سو پچیس برس کی جنتری تاثرات قادیان تاریخ احمدیت تاریخ مالابار تائید براہین احمدیه تائید حق

Page 718

۴۵۱۴۵۰ ۳۸۲ ۶۴۳۴۴۳ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب رپورٹ جلسہ سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمدیہ ۳۲ ۴۶۹ ۴۸۰ ۵۴۵ ۴۸۰ ۷۸٬۶۸٬۵۹ رپورٹ مجلس مشاورت رجسٹر بیعت اولی ۶۶ تا ۴۶۴۳۷۸۳۷۳۳۶۸ روایات صحابه ۶۵۳۴۹۶۴۴۱۶۱۳۶۱۳۵ روحانیت کے رو زیر دست ستون سلسلہ احمدیہ ۴۸۰ ۵۷۶۴۷۹۳۸۱۳۶۷ سیرت المہدی ۱۰۵٬۷۸٬۶۸٬۶۰٬۵۹٬۴۳۸۴۴۶۴۴۴ ۲۹۳۴۲۵۲۲۴۴۲۴۰۲۳۰۱۵۰۱۳ ۶۴۱۳۵۶۱۷۱۰۷ ۴۱۲۴۳۹۹۴۳۹۸٬۳۸۳٬۳۸۱۳۸۰۳۶۶۴۳۶۴۳۱۳ ۵۴۳٬۵۱۵۴۴۹۷۴۴۹۶۴۴۸۷۴۶۹۴۴۳۷ ۶۵۳ ۲۵۲ سیرت ام المومنین ۴۸۰ ۳۹۲ ۴۸۰ ۴۸۰ 1+4 تائید نشان آسمانی تبلیغ هدایت تحریک احمدیت کا اثر سکھوں پر تربیتی مضامین تذكرة المهدى تصدیق، المسیح جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات جماعتی تربیت کے اصول چالیس جواہر پارے حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات ۱۳۵۱۱۹ ۱۱۷۱۰۶۷۸٬۶۸۵۹۴ حیات احمد ۲۷۲۲ ۱۲۵۲۲۴۱۴۲۳۰٬۱۹۸ ۱۹۷ ۱۶۹۴۶۸۱۵۱ ۴۷۰۴۶۹۴۴۳۸۴۱۶۴۳۹۹٬۳۸۳۳۸۰۳۱۴٬۳۰۳ ۶۵۳٬۵۱۵٬۴۹۷۴۸۸٬۴۸۰ ۷۸۶۸ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۷۱۰۷ سیرت خاتم النبین ۶۵۳٬۲۳۰٬۲۱۴٬۱۶۸۱۵۱۱۵۰٬۱۳۶۱۳۵۴ ۶۵۴ سیرت طیبہ ۴۸۰ سیرت مسیح موعود (از مولانا عبد الکریم سیالکونی )۴۹۶۴۲۵۲ سیرت مسیح موعود (از عرفانی صاحب) ۱۵۰٬۶۳۵٬۵۹ ۶۵۳٬۵۴۳۴۴۶۹۴۲۷۲٬۲۵۲ 106 صداقت مريميه ۴۸۰ AAL 0.122 حیات النبی حیات قدی حیات ناصر ختم نبوت کی حقیقت در عدن ذکر حبیب

Page 719

۵۱۵ احوال الاخرة اربعين في احوال المهديين ۵۱۵٬۴۶۹٬۲۹۳٬۲۰۲ اشارات، فریدی اظهار الحق ON'MAZ'ror ۲۹۴ اظہار حق ۴۸۸ اعجاز التنزيل ۲۴۱ اقتراب الساعه الأمر ۵۶۴۲۰۲ ۴۳۷ الخص المص الكبرى المهديه في الاسلام داه تذکرہ (علامہ مشرقی) ۵۲۵ تذكرة الاولياء ۶۴ ۵۸۸ ۳۹۸۲۰۲ ۵۳۰ ۲۹۳ ۶۴ ترجمان السنه دلائل الخيرات جواہر الاسرار حجج الكرامه حکمت بالغہ حیات المسيح و كشوف العصر الحديث خطبات نبوی شمس المعارف طبقات ناصری فتوح الغيب ۳۳ ۵۴۴ ۶۵۴ ۵۴۳٬۳۸۲ ۴۸۰ ۲۵۳ ۴۸۰ ۴۸۰ ۱۳۵۶ طبی ماة عامل ظهور المسيح ظهور المهدي عاقبه المكذبين عسل مصفی قادیان قادیان کا خونی روزنامچه قتل مرتد اور اسلام قرآن کا اول و آخر كلمه الفصل لائف آف احمد ۳۸۱۴۳۶۵۳۱۳۳۰۴۷۲۲۵۲۲۳۱۱۹۸ مجدد اعظم مرکز احمدیت مسئلہ جنازہ کی حقیقت مکتوبات اصحاب احمد ۶۵۳ ۴۸۰ ۶۵۳ نور احمد ۴۹۷۴۸۸۴۸۷۴۷۰٬۴۳۷۳۹۷۱۹۸ نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں واقعہ صلیب مسیح کی چشم دید شهادت ۴۸۰ ۵۲۳ ۴۸۰ ۲۱ ہمارا خدا اسلامیات آمار قیامت

Page 720

۳۴ فتوحات مکیه فصوص الحکم ۳۹۸٬۲۹۳ تاریخ اقوام عالم تاريخ التعليم ۲۵ ۱۰۵ گلدسته کرامات ۲۵۲ تاریخ انقلابات عالم مثنوی مولانا روم ۲۹۳۶۴ | تاریخ اہل حدیث ۵۹ مذاہب اسلام ۲۳۰ تاریخ بشارت الهند و پاکستان ۱۰۲۱۰۵ ۵۳۴٬۴۸۸٬۱۵۱۱۷ مقابیس المجالس ۴۸۷ تاریخ عروج عمد سلطنت انگلشیہ ہند مقالات جمال الدین افغانی ۲۱ تاریخ کامل MA ۴۸۷ ۴۵ 2 ۴۵ ۱۶۹۴۴۶۵ ۵۹ ۴۵ ۲۷ ۲۷ مکتوبات مجدد الف ثانی ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر سیرت و تاریخ آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی اور مشنز ان انڈیا تاریخ ملل قدیمه ۴۶۹ تاریخ ہند و پاکستان ۴۳۷ ۵۹ تاریخ ہندوستان تحریک قادیان تذکره رؤساء پنجاب اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی هم سر سفر تذکرہ علماء پنجاب اکبر نامه ۲۹ ترک وسط ایشیا میں الانساب مغل ۲۹ ترکستان انساب الترك ۲۹ ترک تیموری ایران بعد ساسان ۴۵ ۴۵ تعارف تواریخ عجیبه جیزس ڈائڈ ان کشمیر AFA چیفس اینڈ فیمیلیز آف نوٹ ان دی پنجاب ۳۹ حیات جاوید حبيب السير ۲۹۴ 은눈 {{ ۴۳۷ ۲۳ امیریانہ اینٹی ایک خوفناک سازش بہادر شاہ ظفر اور ان کا عهد بین الاقوامی معلومات اور حالات حاضرہ پنجاب کا زمینداره رواج

Page 721

۴۳ ۳۵ حدیقه محمودیه مس نقش آزاد خامی خد خلیفه قاریان دربار تیمور میں سفارت وی پریچنگ آف اسلام ذکر اقبال روضه الضبط رود کوثر ۲۹ ۴۵ myafram'joy ۲۹ نجم با سلام سلام الله وسط ایشیا میں عربوں کی فتوحات ہارٹ آف ایشیا ہسٹری آف بخارا ہسٹری آف پرشیا ہسٹری آف منگول ہمارا ہندوستان اور اس کے فضائل ۴۵ ۴۵ ۴۵ سلام سلام 悯 ۴۵ ۳۹۸ F ۲۱۶ کتب مخالفین سلسله ۳۱۳٬۳۰۴۴۳۶۱۹۷۱۸۰ ۵۰۳ ۴۹۶ ۲۹۳ ۳۰۲٬۳۰۰۲ ۷۲٬۲۶۰ ۶۰۲ ۶۰۳۵۹۱ ۵۵۱ For'192 سرگذشت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سیرت احمد شهید سیرت سنائی شمشیر خالصه ظفر نامه علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے عمدة التواريخ ماثر صدیقی مقدمه تاریخ هند قدیم ۲۹۴ ☑ ۵۹ ہماری بادشاہی یونیورسل جغرافی انهزام کادیانی ۲۵۲٬۲۱۶ ۵۵۳ تاریخ مرزا م تکذیب براہین احمدیہ ۲۹۴۲۷ حیات المسيح ۱۰۶۱۰۵ حرف محرمانه م حقیقت اختلاف ۲۳۰ خبط احمدیه ۴۵ خبط قادیانی ۲۹ ۵۴۵٬۴۳۷۲۵۲٬۲۳۰۲۲ واقع الاوبام عصائے موسیٰ ۵۱۶ فتح رحمانی ۴۵ قادیا نیست منتخب اللباب موج کوثر مہدی سوڈانی نسل انسانی اور اس کی تقسیم

Page 722

rar ۲۲ ۲۹۳۲۷۱۳۳۰ ۵۴۵ ۵۴۱ ۵۹۲۳۰۵۴۶۳۲۶۱۶۰ Fy کلمه فضل رحمانی گل شکفت انجیل اہنسا کا اوتار کتب دیگر مذاہب ۳۳ ۲۷۱ طالمود کرائسٹ آر محمد " کلیات آریہ مسافر ۵۳۸٬۵۳۴٬۵۱۵٬۴۸۵٬۳۱۲۴۲۵ | گور پد تر انسانی دنیا میں ایک لاثانی ظہور امہات المومنین با نوبل You 144 ۵۴۱ Or 'Mad' میزان الحق ور تمان دید ہند و تو متفرق انسائیکلو پیڈیا آف برٹھنی کا ۵۲۵٬۴۵٬۴۴۲۷٬۲۴ بیان اللسان مام کام توفية مات الهامیه ۳۷۴۴۳۷۰٬۳۲۲۴۲۷۸۴۴۹۴۴۵ دیوان شبیبی ٣٩٨ غیاث اللغات طب اکبر ۱۲۲ طب روحانی قانونچه At لطائف للغد ۲۱ 1971 AY ۲۵۲ مثنوی پس چه باید کرد مجموعه مکاتیب اقبال موجز میخانه درد ۵۰۰ ۵۴۴۵۳ MA ۲۱ ۱۰۳۱۰۵ ٢١ ۵۴۱ ۲۹۹۲۹۷۱۹۸ تحفه الهنود تحفہ ہند توریت توزین الاقوال جنم ساکھی بھائی بالا خلعت الهنود دیو آتما اور اس کا الولک جیون برت دیو سماج کے بارے میں مختصر بات چیت دی فیوچر آف اسلام دی مشن.آر کلارک لندن دی نیو ورلڈ آف اسلام رنگیلا رسول ستیار تجھ پر کاش سوامی دیانند اور ان کی تعلیم

Page 723

۳۹۸ > ۵۳۵۳۰ MA ۵۳۰ ፡ ۴۶۹ ۵۹۳ ۵۷۶۵۶۷۵۶۶ ۶۴۲٬۵۱۶٬۳۵۵۱۹۷ ۴۳۷ ۲۸۵ 049076 رسالہ.العربي - الكويت اخبار.الفتح - مصر رسالہ.الفرقان.ربوہ اخبار - الفضل - قادیان و ربوه رسالہ - المنار - مصر رسالہ - المنور - فیصل آباد ۳۷ ۶۰۳ ۴۳ ARTADHARM CREATION HUMAN ORIGIN Kurt Berna Daslinner ۵۲۶ ۵۱۵ The Story of Eclipses اخبارات و رسائل رسالہ - المواہب - ارجنٹائن اخبار - آزاد.لاہور آریه در ین اخبار - مروز ۱۵۷۱۵۲ اخبار.انڈین اینٹی کو یری اخبار - آفتاب.لاہور اخبار - آفتاب ہند 109°07'119 ۵۹۴ رسالہ - استقلال - لاہور ۲۲ رسالہ - اشاعه السنہ.لاہور اخبار.انیس ہند.میرٹھ رسالہ.اہل سنت - امرتسر اخبار.ایشین ٹائمز اخبار - بر اور ہزار.لاہور اخبار - الاعتصام.گو جرانوالہ ۳۸۷۳۳۳٬۳۰۳٬۳۰۰۲۳۰۲۲۲٬۱۹۷ ۱۹۱۱۸۰۱۷ ۵۶٬۵۱۵٬۵۱۳٬۴۹۶۴ ۶۳ ۶۴۱۲۳۹۹۳۹۷٬۳۸۷ ۵۹۸٬۵۴۵ ۵۱۶ اخبار - پنجاب ابزرور اخبار پنجاب سماچار اخبار پنجابی اخبار اخبار چیسہ اخبار.لاہور اخبار - البدر قادیان اخبار پیغام صلح.لاہور رسالہ - البشری - حیفا سلام سلام الله رسالہ.تذکرہ.کراچی رسالہ - البصیر.چنیوٹ ۳۹۷ رساله - تشحذ الازبان اخبار - الحکم.قادیان ۲۵۳٬۶۴۳٬۶۴۲۴۶۴۴۴۴۴ اخبار - جنرال و گوہر صفی.کلکتہ رساله - جیون د هرم الرسالة مصر

Page 724

۳۸ رسالہ.چٹان.لاہور اخبار.چشمہ نور - امرتسر اخبار - چودھویں صدی راولپنڈی ۴۳۷ ۲۵۸۵۶ ۵۶۶ اخبار.سول اینڈ ملٹری گزٹ.لاہور اخبار - سیاست - لاہور ۲۰۷٬۶۰۶۴۶۰۵۴۵۷۶۴۵۶۷ اخبار - شمس الاخبار - لکھنو ۱۰۵ ۵۶۷۵۶۶۵۶۵۱۳۵۱ 104 م ۵۴ اخبار - صادق الاخبار - بہاولپور 029077 ۲۱ اخبار.صحیفہ قدی ٣٣٣ رسالہ -- ضربت عیسوی ۵۴۴ ۳۹۲ اخبار - عادل ۲۹۴ ۵۷ اخبار.عام.لاہور ای ۵۹۳٬۵۸۸٬۵۳۸۲ ۲۵۸ ۵۲۷ 174.۲۱ ۲۲ ۲۹۳ ۵۶۶ ۳۳ ۲۲ ۳۹۲ OLY0YY ۵۴۸ خالصہ سماچار.امرتسر رساله - خدام الدین رساله مخط و کتابت ر ساله دلگداز - لکھنؤ اخبار.دی انگلش میل اخبار دی اینگلو بیلجین ٹائمز - برسلز ۵۷۵٬۵۷۴ اخبار.قانونی ہند پریس - اخبار.دی بر سٹل ٹائمز اینڈ مرد اخبار.دی ڈیلی نیوز.شکاگو اخبار - دیش و هندوستان اخبار.ڈیلی گزٹ.امریکہ اخبار - رندھیر اخبار.رہبر ہند.لاہور اخبار - ریاض ہند - امرتسر ۵۷۴ ۵۷۴ ۶۳۳ rippay ۵۹۲ ۵۹۴ 1074 رسالہ.کلام حق.گوجرانوالہ رسالہ کو بدی.کلکتہ اخبار کو بستان.لاہور رسالہ - لائف - ا مریکہ اخبار - مجاہد اخبار - مخبر دکن - مدراس اخبار - مسافر.اگرہ اخبار.مسلم کرانیکل رسالہ.ریویو آف ریلیجنز ۶۵۴۶۵۳٬۵۴۳٬۴۸۰ اخبار - مسلم ورلڈ.امریکہ اخبار.زمیندار.لاہور اخبار - سراج الاخبار.جہلم اخبار - سفیر ہند - امرتسر ۲۸۸۱۰۲ اخبار - مشرق.گورکھپور ۵۶۶ 191*124*nt*lor'ka اخبار.مشیر ہند.لاہور اخبار.منادی.دہلی

Page 725

室 ۵۶۶۹ ۳۹ اخبار - منشور محمدی - بنگلور اخبار.ودیا پر کاش.امرتسر ۱۹۷۱۹۱۴۱۷۵٬۲۲۸٬۱۵۲۱۳۶۱۳۵۱۳ - رسالہ.وزیر ہند.سیالکوٹ ۶۳۷۶۰۸۶۰۵ اخبار - ناظم الهند رساله - نگار - لکھنو اخبار.نوائے وقت.لاہور اخبار - نور افشاں.لدھیانہ اخبار.نیر آصفی - مدراس اخبار - نيروبي ۴۸۷ 7794 129°119 ۵۱۵٬۳۲۸٬۳۲۰٬۳۰۰ رسالہ - وطن - لندن ۴۵۲ اخبار - وکیل.امرتسر t اخیار.وکیل ہندوستان 107119 اخبار.ویسٹ افریان اخبار.ہمدرد.دہلی ۳۹۲ اخبار.ہندو باند ھو IɅ اخبار - Tidingen Stockhalm ۵۲۵

Page 725