Tarikh-eAhmadiyyat Lahore

Tarikh-eAhmadiyyat Lahore

لاہور ۔ تاریخ احمدیت

Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں لاہور شہر کی اہمیت اوراس کا  تذکرہ کافی زیادہ ہے۔ اس خطہ کی جماعتی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہوتی ہے اور خلفائے احمدیت کے قدم پڑنے سے یہاں کی تاریخ کا پہلو زیادہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک و مقدس دور کی تاریخی روایات کے بیان سے شروع کرکے 1966ء تک کے حالات  اور اہم تاریخی واقعات کا مختصرا ًتذکرہ محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیز اس کتاب کی ایک اضافی خوبی اصحاب احمد سمیت تاریخی شخصیات کے تعارف و احوال پر مشتمل مواد ہے۔ الغرض اس کتاب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مختلف مواقع پر لاہو رشہر میں قیام ، یہاں پر آپ کی وفات کا عظیم سانحہ، اہل لاہور سے خلفائے احمدیت کی توقعات، نصائح، رہنمائی، دورہ جات  کی رپورٹنگ، اہم واقعات، جماعتی خدمات و ترقیات، جماعتی پروگراموں، خدمت خلق ، خدام و انصار کی کارگزاری وغیرہ پر کافی قیمتی مواد و روایات جمع ہیں۔


Book Content

Page 1

لاہور تاریخ احمدیت ✰✰✰ ☆☆ شیخ عبد القادر (سابق سود اگرمل) سوداگر

Page 2

" نام کتاب : لاہور تاریخ احمدیت“ مؤلف: شیخ عبد القادر ( سابق سوداگر مل ) پبلیشر : عبد المنان کوثر پرنٹر: طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ ( چناب نگر ) تعداد اشاعت : ایک ہزار

Page 3

1 نمبر شمار فہرست مضامین واسماء اصحاب مسیح موعود علیہ السلام صفح مضمون ا فهرست مضامین 1 ۱۵ ۴۶ بشپ آف لا ہور کو چیلنج سفر جہلم کے دوران لاہور میں قیام | ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۲ عرض حال ۱۳ جماعت احمد یہ لاہور کی ذمہ داریاں ۱۷ صاحب کا لا ہور میں قیام پہلا باب ۱۷ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ۱۷ لا ہور میں حضرت اقدس کی آمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں آمد ورفت حضرت اقدس کے کمال ضبط کا ایک واقعہ مدعی مہدویت کا حضور پر حملہ ۱۹ ایک ایمان افروز روایت پانی ناپاک نہیں ہوا یچر لاہور ۲۳ ۲۱ ۲۲ ۲۸ ۲۹ ۳۰ آریہ سماج و چھو والی کی کانفرنس ۲۳ آخری سفر لاہور مولوی عبد الحکیم کلانوری سے مباحثہ ۲۴ رؤسائے لاہور کو دعوت طعام اور و پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب 1.11 شین جن پر لاہور می جلسہ مذاہب عالم لاہور پنڈت لیکھرام کا قتل ۳۰ ۳۱ ۳۹ تبلیغ ہدایت ۲۵ اخبار عام کی غلط فہمی کا ازالہ ۲۶ ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور پیغام صلح، کی تصنیف ۱۲ حسین کا می سفیر ترکی کا قادیان جانا ۴۳ ۲۷ مرض الموت ۱ سراج الدین عیسائی کے چار ۲۸ وصال اکبر سوالوں کا جواب ۱۴ سفر ملتان اور لاہور قیام نمبر شمار مضمون م م ۲۹ اہل بیت کا صبر ۴۴ صفحہ بر شمار مضمون ۵۳ احباب جماعت اور مخالفوں کی حالت ۵۴ ۵۶ ۶۰ ۶۴ ۶۶ ۶۸ ۷۲ 4.3 صفحہ ۷۲

Page 4

2 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون صفحہ ۳۰ احباب جماعت اور مخالفوں کی حالت ۷۲ ۴۷ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل ۱۱۰ تجهیز و تکفین ۳۲ مخالفوں کی ایک مذموم حرکت ۳۳ جنازہ قادیان پہنچایا گیا ۷۳ ۷۴ ۷۴ ۴۸ حضرت زینب بنت میاں عمر دین صاحب ۱۲۵ حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی ۱۲۵ ۵۰ محترم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم ۱۳۵ ۳۴ تدفین مسیح موعود علیہ السلام کے ۵۱ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ۱۳۷ متعلق ایک حاشیہ از مولانا محمد ۵۲ حضرت منشی محمد افضل صاحب ۱۳۸ یعقوب صاحب فاضل مرحوم دوسرا باب ۷۵ ۵۳ | حضرت میاں الہ دین صاحب ۱۳۹ ۵۴ حضرت شیخ صاحب دین صاحب ۱۳۹ ۵۵ محترم خلیفه رجب دین صاحب ۱۴۶ حالات و روایات صحابہ کرام لاہور ۵۶ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ۱۴۶ ۳۵ حضرت مولا نارحیم اللہ صاحب ۳۶ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ΔΙ ۳۸ ۵۷ حضرت خان عبدالمجید خاں صاحب کپور تھلوی ۳۷ حضرت مولوی غلام حسین صاحب ۸۵ ۵۸ حضرت منشی عبدالعزیز صاحب ۳۸ محترم مرزا خدا بخش صاحب ۳۹ جنار جناب شیخ رحمت اللہ صاحب ۴۰ حضرت صوفی نبی بخش صاحب لاہوری ۹۲ خاندان حضرت میاں چراغ دین صاحب ۹۷ ۴۲ شجره نصب 69 69 ۹۸ ۴۳ حضرت میاں معراج دین صاحب عمر ۱۰۱ ۴۴ حضرت سید فضل شاہ صاحب ۴۵ حضرت سید ناصر شاہ صاحب حضرت منشی تاج الدین صاحب } 1.2 : ١٠٩ 1+9 آف با غبانپوره ۵۹ جناب ماسٹر احمد صاحب ۲۰ ۹۲ء کے ایسے احباب جن کے حالات کا علم نہیں ۱ حضرت حکیم فضل الہی صاحب ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۴۹ ۶۲ حضرت میاں فیروز الدین صاحب ۱۵۱ ۶ حضرت ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب تو مسلم جناب منشی عبدالرحمن صاحب ۱۵۱ 우흐 ۱۵۳۱

Page 5

3 نمبر شمار مضمون حضرت منشی مولا بخش صاحب صفحہ نمبر شمار ۱۵۳ حضرت میاں نورالدین صاحب ۱۵۴ ۶۷ حضرت میاں عبدالسبحان صاحب ۱۵۴ ۲۸ حضرت عبداللہ صاحب قرآنی حاجی منشی نشمس الدین صاحب جناب حافظ فضل احمد صاحب ا حضرت میاں کرم الہی صاحب ۷۲ حضرت صوفی محمد علی صاحب ۷۰ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۵ ۱۵۶ مضمون صفحہ ۸۴ حضرت خواجہ جمال الدین صاحب ۱۸۸ ۱۸۹ ۸۵ حضرت میاں محمد افضل صاحب حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب نو مسلم ۱۹۰ ۸۶ ۸۷ حضرت صوفی غلام محمد صاحب ماریشس ۱۹۳ حضرت منشی امام الدین صاحب ۱۹۴ حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی ۱۹۴ ١٩٦ ۸۸ ۹۰ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ۹۱ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۱۹۷ ۷ حضرت حکیم محمد حسین صاحب ۹۲ حضرت مولوی رحمت علی صاحب ۷۵ قریشی موجد مفرح عنبری ۱۵۶ ۷۴ حضرت میاں چراغ دین صاحب ۱۶۸ حضرت میاں عبدالمجید صاحب ۱۷۸ حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی ۱۷۸ ۷۷ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۱۷۹ ۷۸ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۸۰ مبلغ انڈونیشیا ۲۰۰ حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب ۲۰۲ ۹۴ | حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه ۲۰۹ ۹۵ محترم چوہدری شریف احمد صاحب او جلوی ۲۱۱ ۹۶ محترم مولانا عزیز بخش صاحب مرحوم ۹۷ محترم با بو فضل الدین صاحب سیالکوٹی ۹ نواب زاہ حضرت میاں محمد عبد اللہ ۹۸ | حضرت با بو غلام محمد صاحب خاں صاحب ۱۸۳ ۲۱۱ ۲۱۲ ۷۱۲ ۹۹ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ۲۲۷ ۸۰ حضرت میاں عبدالغفار صاحب ۱۰۰ جناب مولوی غلام محی الدین جراح امرتسری ۱۸۵ ۱ حضرت میاں سراج الدین صاحب ۱۸۶ ۸۲ حضرت میاں تاج الدین صاحب ۱۸۷ 1+1 =1 ۲۲۸ صاحب قصوری حضرت مرزا محمد اسمعیل صاحب ۲۲۹ حضرت قاضی محبوب عالم صاحب ۲۲۹ ۸۳ جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم | ۱۸۷ محترم شیخ عبد الکریم صاحب گنج مغلپورہ ۲۵۱

Page 6

4 نمبر شمار مضمون رض صفحہ نمبر شمار مضمون ۱۰۴ حضرت میاں معراج دین صاحب ۱۱۹ حضرت ماسٹر محمد حسن صاحب پہلوان ۲۵۲ آسان دہلوی ۱۰۵ محترم صوفی احمد دین صاحب ۱۲۰ محترم میاں محمد دین صاحب ڈوری باف ۱۰ محترم میاں محمد امین صاحب ۲۵۴ ۲۵۵ ۱۰۷ محترم میاں محمد سلطان صاحب درزی ۲۵۵ حضرت چوہدری اله بخش صاحب ۲۵۶ ۱۰۸ ۱۲۱ محترم مستری جان محمد صاحب ۱۲۲ صفحہ ۲۷۵ ۲۷۷ ۲۷۸ محترم میاں محمد اسمعیل صاحب ۲۷۸ ۱۲۳ محترم میاں دین محمد صاحب ۱۲۴ حضرت حکیم جلال الدین صاحب ۲۷۸ 1+9 11 + حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب محترم مولوی محب الرحمن صاحب حضرت حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۶۰ گنج مغلپوره | ۱۲۵ حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب پنجابی شاعر ۲۷۹ ۲۸۰ ۲۸۴ ۱۲۶ محترم مرزا عطاء اللہ صاحب ۱۲ حضرت حاجی محمد اسمعیل صاحب ریٹائر ڈسٹیشن ماسٹر ۲۶۲ ۱۱۳ حضرت میاں عبدالرشید صاحب ۲۶۲ ۱۱۴ حضرت قاضی سید حبیب اللہ صاحب ۲۶۶ ۱۱۵ محترم ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت ۲۶۸ حضرت شیخ کریم بخش صاحب بٹ ۲۶۹ ۱۱۷ حضرت حافظ عبدالجلیل خاں صاحب شاہجہانپوری ۲۷۰ ۱۲۷ محترم مرزا قدرت اللہ صاحب ۲۸۸ ۱۲۸ حضرت سید سردار احمد صاحب ۱۲۹ حضرت صوفی فضل الہی صاحب ۲۹۰ ۱۳۰ ۲۹۰ حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب ۱۳۱ حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب ۲۹۴ ۱۳۲ حضرت خانصاحب میاں محمد یوسف صاحب ۱۳ | حضرت مولوی محمد دین صاحب ۱۳۴ حضرت میاں محمد علی صاحب ۱۱۸ حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں ۱۳۵ حضرت شیخ محمد حسین صاحب صاحب گوہر ۲۷۳ ریٹائر ڈ سب حج ۲۹۸ ۳۰۰ ٣٠١

Page 7

15 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار ۱۳۶ حضرت میاں کریم بخش صاحب پہلوان ۳۰۲ محترم پہلوان نبی بخش صاحب ۳۰۳ ۱۳۸ محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی ٣٠٣ مضمون ۱۵۵ محترم منشی سر بلند خاں صاحب ۱۵۶ محترم مرزا محمد صادق صاحب صفحہ ۳۴۱ ۳۴۲ ۱۵۷ محترم میاں عزیز دین صاحب زرگر ۳۴۳ ۱۳۹ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ ۱۵۸ محترم سید محمد اشرف صاحب صاحب ( نیله گنبد ) ۱۴۰ محترم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ۳۱۳ ۱۴۱ محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ۳۱۴ ۱۵۹ حضرت سید دلاور شاہ صاحب ۱۶۱ ۳۴۴ ۳۴۵ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ۳۴۷ محترم مرزا مولا بخش صاحب ۱۴۲ محترم با بوشمس الدین صاحب بٹ ۳۱۶ ۱۶۲ محترم مولوی محمد حیات صاحب ۱۴۳ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ۱۴۴ محترم ملک مظفر احمد صاحب ۳۱۸ ۱۶۳ ۳۲۲ محترم شیخ نصیر الحق صاحب ۱۶۴ محترم خواجه محمد دین صاحب ۳۴۹ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ ۱۴۵ محترم با بو منظور الہی صاحب مرحوم ۳۲۴ ۱۶۵ محترم میاں محمد انور صاحب ۱۴۶ محترم بابو عبدالحمید صاحب ۱۶۶ محترم با بو نظام الدین صاحب ماہلپوری ۳۵۲ ریلوے آڈیٹر ۱۴۷ حضرت میاں محمد صاحب ۱۴۸ محترم محمد اقبال صاحب ۳۲۴ ۳۳۰ ۳۳۰ ۱۶۷ محترم با بو وزیر محمد صاحب ۳۵۲ ۱۶۸ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ۳۵۳ ۱۹ حضرت چوہدری غلام محمد صاحب سیالکوٹی ۳۵۷ ۱۴۹ حضرت میاں احمد دین صاحب ٣٣١ ۱۷۰ حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب ۱۵۰ محترم میاں نور محمد صاحب گنج مغلپورہ ۳۳۱ ۱۵۱ محترم میاں نذیر حسین صاحب ۳۳۳ ۱۵۲ لا 121 آف را ہوں ۳۵۷ حضرت شیخ حمد حسین صاحب ڈھینگر ۳۳۵ جناب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ۳۶۰ ۱۵۳ محترم چوہدری غلام قادر صاحب ۱۷۲ محترم میاں دین محمد صاحب آف لنگڑوعہ ۱۷۳ محترم سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور ۳۶۰ ۱۵۴ محترم ملک غلام فرید صاحب ایم اے (۳۴۰ ۱۷۴ محترم خواجہ محمد دین صاحب بٹ ۳۶۱

Page 8

CO 6 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون محترم قاری غلام مجتبی صاحب چینی ۱۹۴ لاہور کے ان احباب کی فہرست جو ثم قادیانی ۱۷۶ محترم حکیم رحمت اللہ صاحب ۳۶۲ ۳۶۲ ۱۷۷ حضرت ملک خدا بخش صاحب ۳۶۳ ۱۷۸ محترم ملک حکیم دین محمد صاحب ۳۶۶ ۳۱۳ میں شامل تھے ۱۹۵ محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی صفحہ ۴۰۱ ۴۰۳ ۱۹۶ محترم میاں نظام الدین صاحب ۴۰۳ ۱۹۷ حضرت حکیم مولوی اللہ بخش صاحب ۴۰۴ ۱۷۹ محترم شیخ شمس الدین صاحب ۱۹۸ | حضرت حکیم مرزا فیض احمد صاحب | ۴۱۳ ۱۸۰ محترم ڈاکٹر غلام محمد صاحب ۱۸۱ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۳۶۸ ۱۸۲ محترم میاں اکبر علی صاحب ۳۷۴ ۱۸۳ محترم شیخ عبدالحمید صاحب شملوی ۳۷۶ ۱۸۴ حضرت ملک غلام محمد صاحب ۱۸۵ محترم مستری عباس محمد صاحب ۳۷۸ تیسرا باب ضمیمه ۱۸ حضرت مولوی شیر علی صاحب ۸۹۲ محترم شیخ عبد الحق صاحب الجنير ۱۸۸ محترم ملک برکت علی صاحب گجراتی ۳۹۵ ۱۸۹ محترم ملک مبارک علی صاحب ۳۹۵ چوتھا باب منکرین خلافت کی نا پسندیدہ روش ۱۹۹ i اور دربار خلافت سے ملامت بعض ممتاز صحابہ کی تنظیمی سرگرمیاں ۴۱۵ خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک رویا ۴۱۷ ۲۰۱ جماعت احمد یہ لاہور میں پہلا مبلغ ۴۲۲ ۲۰۲ حضرت خلیفہ اول کا ملتان جاتے ہوئے لاہور میں قیام ۲۰۳ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ۴۲۷ ۱۹۰ حضرت شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی ۳۹۶ احمد صاحب کی لاہور تشریف آوری ۴۲۷ ۱۹۱ ۱۹۲ ۳۹۷ محترم حکیم جان محمد صاحب محترم با بومحمد افضل خاں صاحب ۳۹۷ ۱۹۳ لاہور کے پاک ممبروں کی تعیین ۲۰۴ حضرت خلیفہ اول کا سفر لاہور ۲۰۵ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے ۴۲۸ موضوع پر ایک معرکۃ الآرا تقریر ۴۲۹

Page 9

7 مضمون نمبر شمار ۲۰۶ پیغام صلح‘ کا اجرا صفحہ نمبر شمار ۴۳۷ ۲۰۷ حضرت خلیفہ اول کی آخری وصیت ۴۴۰ مضمون ۲۱۸ | حضرت مولوی نعمت اللہ خاں کی شہادت پر چوہدری صاحب کا اظہارا خلاص ۲۰۸ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر مولوی محمد علی صاحب کا کردار ۴۴۱ ۲۱۹ مسجد احمد یہ لاہور کی تعمیر صفحہ ۴۷۰ وو ۲۲۰ دارالذکر اور لاہور کی بعض پانچواں باب دیگر مساجد لاہور میں امارت کا قیام اور ۲۲۱ محترم چوہدری محمد ظفر اللہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بعض اہم لیکچر کا اسمبلی کا ممبر بننا ۲۰۹ غیر مائعین کے منصوبے اور نا کامیاں ۴۴۷ ۲۱۰ حضرت حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا ایک خط احمد یہ ہوٹل لاہور کا قیام ۲۱۲ لاہور میں امارت کا قیام ۴۵۰ ۴۷۲ ۲۲۲ حضرت خلیفتہ اسیح کا سفر لا ہور اور ہندو مسلم فسادات میں حضور کی رہنمائی ۴۷۷ ۴۵۲ ۴۵۴ ۲۱۳ حضرت امیر المومنین کی اہم تقریریں ۴۵۵ ۲۱۴ تحفه پرنس آف ویلز ۲۱۵ ۴۶۰ ۲۲۳ ”مذہب اور سائنس“ کے موضوع پر لیکچر ۲۲۴ | فسادات لاہور میں جماعت احمد یہ یک ۴۸۰ طرف سے مظلوم مسلمانوں کی امداد ۴۸۰ ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم احمدیہ کا رد عمل مشکلات کا صحیح حل ۲۱۶ لجنہ اماءاللہ لاہور کا قیام ۲۱۷ لندن کانفرنس میں محترم چوہدری ۴۶۴ ۲۲۵ کتاب ”رنگیلا رسول“ پر جماعت مسلم آؤٹ لگ“ کا عدالتی فیصلہ کے خلاف احتجاج ۲۲۷ حضرت اقدس کا سید دلا ورشاہ کومشوره ۴۸۲ ۴۸۶ ۴۸۶ محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا حضرت ۲۲۸ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی امیر المونین کا مضمون سنانا ۴۲۹ فاضلانہ بحث

Page 10

8 نمبر شمار ۲۲۹ مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون لندن میں پولیٹیکل مسلم لیگ کا قیام ۴۹۱ ۲۴۲ حضرت سیدہ اُمّم طاہر کی بیماری اور ۲۳۰ ہندو اخبارات کے پروپیگنڈا کا حضور کی طرف سے جواب ۴۹۲ صفحہ حضور کی لاہور میں تشریف آوری ۵۱۸ ۲۴۳ حضور کو مصلح موعود ہونے کی ۵۲۲ ۵۲۵ ۵۲۶ ۵۲۷ ۲۳۱ ۲۳۲ سائمن کمیشن کی آمد پر جماعت کی اطلاع بذریعہ رویا اسلامی خدمات ۴۹۴ ۲۴۴ لاہور کی عظمت کی بحالی گول میز کانفرنس میں چوہدری محمد ۲۴۵ اصحاب مسیح موعود کا فوٹو ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمات ۴۹۷ ۲۳۳ مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کی صدارت ۴۹۹ ۲۴۶ دی پنجاب احمدیہ انٹر کالجیئیٹ ایسوسی ایشن کا قیام ۲۴۷ محترم ملک امیر بخش صاحب کی وفات ۵۲۸ ۵۲۸ ۲۴۹ گورنمنٹ کالج لاہور میں چوہدری ۲۳۴ محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۲۴۸ نہایت افسوسناک حادثہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں ۵۰۱ ۲۳۵ محترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر ۵۲۹ ۲۳۶ ایم.اے کا زمانہ امارت محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب کا ۵۰۳ ۲۵۰ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی بیماری اور لاہور میں علاج ۵۲۹ ۵۳۰ ۵۳۰ ۲۵۱ محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب دہلی میں ۲ ۲۵ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمسن کی لندن سے واپسی ۲۵۳ ملک خضر حیات خاں کے استعفیٰ ۵۰۶ ۵۱۰ ۵۱۴ ۵۱۶ ازمانه امارت ۲۳۷ فتنہ احرار اور جماعت کی بیداری ۲۳۸ نیشنل لیگ کو زریں نصائح ۲۳۹ نیشنل لیگیں اور یوم احتجاج ۲۴۰ مسجد چابکسواراں کا قصہ ۲۴۱ ۵۱۸ میں چوہدری صاحب کی مساعی ۵۳۱ محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم کا تقرر ۲۵۴ مبلغ کے رہائشی مکان کی تعمیر بطور نائب امیر ۵۱۸ ۲۵۵ تقسیم پنجاب ۵۳۳ ۵۳۵

Page 11

صفحہ ۵۵۹ ۵۶۲ 9 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون ۲۵۶ فسادات کے دوران حضرت ۲۷۰ مجلس عاملہ جماعت احمدیہ لاہور امیر المومنین کی دو چھٹیاں جماعت کے اجلاس میں حضرت امیر المومنین کی تشریف آوری احمد یہ کے نام ۲۵۷ ایک ایمان افروز واقعہ ۲۵۸ لاہور میں قادیان کے مہاجرین کی رہائش ۲۵۹ حضرت امیر المومنین کے اسمبلی ہال میں لیکچر ۲۶۰ فرقان فورس کا قیام ۵۳۸ ۵۴۴ ۵۴۵ ۵۴۶ ۵۴۹۱ ۲۷۱ | ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب کی انگلستان سے مراجعت ۲۷۲ محترم ملک عطا الرحمن و محترم ملک احسان اللہ صاحبان کی فرانس اور مغربی افریقہ سے واپسی ۲۷۳ پنجاب کے اہم تعلیمی مسائل پر ۲۶۱ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ۵۵۰ پر وفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کی تقریر ۵۶۳ ۲۶۲ جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء ۲۶۳ قیدیوں کا تبادلہ ۲۶۴ ہمارے تعلیمی ادارے ۲۶۵ ہمارا نیا مرکز ۵۵۰ ۵۵۱ ۵۵۲ ۵۵۳ خلاف پروپیگنڈا ۲۷۴ | مجلس احرار کا جماعت احمدیہ کے ۲۷۵ میجر قاضی محمود احمد صاحب کی کوئٹہ میں شہادت ۲۶۶ حضرت اقدس کاربوہ تشریف لے جانا ۵۵۴ ۲۷۶ محترم میاں غلام محمد صاحب مدرس ۲۶۷ خاکسار مؤلف کا لاہور سے تبادلہ اور مولانا عبدالغفور صاحب فاضل کا تقرر ۵۵۴ کی شہادت ۵۶۴ ۵۶۵ ۵۶۶ ۲۷۷ محترم میاں بدر دین صاحب کی ۲۶۸ حضرت امیر المومنین کی طرف سے جماعت لا ہور کو وسیع مسجد بنانے کی ۵۶۶ ۵۶۶ ۵۶۸ شہادت ۲۷۸ احرار کی طرف سے لاہور میں یوم تشکر ۲۷۹ آل پارٹیز کنونش لاہور ۵۵۵۱ ۵۵۶ تحریک ۲۶۹ جماعت احمدیہ لاہور کا جلسہ سالانه ۱۹۴۸ء

Page 12

صفحہ ۵۸۰ ۵۸۱ 10 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون ۲۸۰ حکومت کی طرف سے شر پسند ۲۹۱ حضرت امیر المومنین کا بارش زدہ علاقوں کا دورہ ۲۹۲ ایک بوڑی عورت کی درد بھری درخواست ۲۹۳ بغرض علاج یورپ جانے کیلئے حضور کی لاہور میں تشریف آوری ۵۸۳ ۵۸۴۱ ۵۸۴ ۵۸۵ ۵۸۶ ۵۸۷ ۵۸۷ ۵۸۷ ۲۹۴ محترم مولوی نذیر احمد صاحب کی ۵۶۹ ۵۶۹ ۵۷۱ ۵۷۲ ۵۷۳ اخبارات کو عطایا ۲۸۱ فسادات کی انتہاء ۲۸۲ محترم میاں منظور احمد صاحب مدرس کی شہادت ۲۸۳ چار اور احمدیوں کی شہادت ۲۸۴ شیخ بشیر احمد صاحب ۲۸۵ چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب کا زمانہ امارت وفات پر جماعت لاہور کی طرف سے قرارداد تعزیت ۲۸۶ حضرت امیر المومنین کی لاہور میں ۲۹۵ حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب ۲۸۷ تشریف آوری ۵۷۴ بٹالوی کی وفات مکرم محمد سعید احمد صاحب قائد مجلس ۲۹۶ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد خدام الاحمدیہ لاہور ۵۷۵۱ صاحب کا اپریشن ۲۸۸ حضرت امیر المومنین کی طرف سے ۲۹۷ حضرت اقدس کی لاہور میں خدام لا ہور کو عطیہ ۵۷۶ تشریف آوری پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کی ۲۹۸ حضرت مولانا جلال الدین گورنمنٹ کالج لاہور ریٹائرمنٹ اور کراچی یونیورسٹی میں تقرر ۲۹۰ ربوہ کے یکصد خدام کا خدمت خلق کیلئے لاہور پہنچنا ۵۷۷ ۵۷۹۱ صاحب کی شفایابی ۲۹۹ حکومت سپین کے تبلیغ اسلام کو روکنے پر قرارداد ۳۰۰ حضرت مولوی رحمت علی صاحب کی علالت فتنه منافقین و مخرجين

Page 13

11 نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم ۳۰۷ محترم مولانا عبدالغفور صاحب کی کی وفات ۳۰۳ ربوہ کی یادگاری مسجد کیلئے جماعت لا ہور کا چندہ ۳۰۴ حضرت سیدہ اُمّم مظفر کی بیماری اور لاہور میں تشریف آوری ۵۸۸ ۵۹۰ ۵۹۰ وفات صفحہ ۵۹۵ ۳۰۸ محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب ۵۹۵ ۳۰۹ محترم چوہدری صاحب کے دور میں ممبران مجلس عاملہ ۳۰۵ چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی ۱۹۶۶-۶۷۳۱۰ء کے عہدیداران جماعتی چندوں کے بارہ میں کوششیں ۵۹۱ ۳۰۶ محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی علالت ۵۹۱ ۳۱۱ جماعت لاہور کی فہرستیں فہرست قائدین مجلس خدام الاحمدیہ لاہور ۶۰۰ ۶۱۴

Page 14

13 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلّى على رسوله الكريم عرض حال لاہور کی تاریخ احمدیت لکھنے کا خیال محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور سے گذشتہ سال رمضان المبارک میں ایک موقعہ پر گفتگو کے دوران پیدا ہوا.جوں جوں کتاب کی تکمیل قریب پہنچ رہی ہے اس تاریخ کی ضرورت واہمیت واضح ہوتی جارہی ہے اور یہ خواہش پیدا ہورہی ہے کہ دیگر مشہور اضلاع یا صوبجات جہاں جہاں مسیح الزمان کے دیوانوں نے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیوں سے نہ صرف یہ کہ خود شمع احمدیت کو فروزاں کیا بلکہ اس کی برکات اور فیوض و انوار کو آئندہ نسلوں میں منتقل کرتے ہوئے انہیں بھی اس کا پروانہ بنا دیا.ان علاقوں میں احمدیت کی سرگذشت کوئی دردمند دل قلمبند کر کے ابھی سے محفوظ کرلے ممکن ہے لاہور کی تاریخ احمدیت اس قسم کی تواریخ کا پیش خیمہ ثابت ہو.یہ کام اگر چہ بہت نازک اور اہم ہے کیونکہ پرانے صحابہ کرام میں سے اب صرف خال خال باقی رہ گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ۱۹۳۹ء میں جب کہ لاہور کے اکثر صحابہ زندہ موجود تھے.مجھے نظارت تالیف و تصنیف قادیان کی طرف سے اس غرض کے لئے لا ہور اور بعض دوسرے مقامات پر بھجوایا گیا کہ میں صحابہ کرام کے مختصر حالات اور روایات قلمبند کروں.سو مجھے صحابہ کرام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا.اور عموماً انہی کے الفاظ میں ان کے حالات اور روایات قلمبند کرنے کا شرف حاصل ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ کسی اور کی نسبت میرے لئے یہ کام نسبتاً آسان تھا.اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انداز ۱۹۳۵ء میں مجھے لاہور میں بحیثیت مبلغ بھجوا کر دار التبلیغ کا قیام عمل میں لایا گیا.میں ابھی لا ہور ہی میں تھا کہ ہندوستان کا عظیم ملک دوحصوں میں تقسیم ہو گیا.اس بٹوارے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو مملکت خدا داد پاکستان کی نعمت سے مالا مال کیا.تقسیم کے کچھ عرصہ بعد محترم جناب مولانا عبدالغفور صاحب فاضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے

Page 15

14 خاکسار سے چارج لیا.اور چند سال آپ یہاں خدمات بجالاتے رہے.بعدہ ۱۹۵۴ء سے پھر خاکسار یہاں بحیثیت مربی کام کر رہا ہے.اس لحاظ سے خاکسار پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ لاہور میں احمدیت کی نشاۃ اور اس کے پروان چڑھنے کے حالات قلمبند کرے تا بعد میں آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں کو یاد رکھیں اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر احمدیت کے بچے خادم ثابت ہوں.آمین مجھے افسوس ہے کہ گذشتہ سال جب کتاب لکھنے کا خیال پیدا ہوا.بہت کم ایسے لوگ تھے جو ابتدائی زمانہ میں وفات پا جانے والے صحابہ کے حالات سے بالتفصیل واقف ہوں.خدا بھلا کرے حضرت میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈائی.اے.سی کا جنہوں نے مجھے بعض ابتدائی صحابہ کے حالات سے آگاہ فرمایا.ان کے بعد حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ میں وفات پا جانے والے بعض صحابہ کرام کے حالات مجھے محترم جناب ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی نے بتائے.فجزاهما الله احسن الجزاء لیکن اکثر صحابہ کے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور اخبارات سلسلہ سے معلوم ہوئے.اس جگہ اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کے حالات کا وہ حصہ جو دوسرے احباب سے سن کر لکھا گیا ہے یا روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے کافی عرصہ بعد جمع کی گئی ہیں اپنے اندر غلطی کا احتمال رکھتی ہیں.لہذا اگر حضرت اقدس کی کتب یا اس زمانہ کے لٹریچر سے یہ واقعات یا روایات ٹکرائیں، تو ہر گز قابل قبول نہیں ہوں گی.دوسری عرض یہ ہے کہ اس مجموعہ میں بعض صحابہ کے حالات اور روایات بالکل مختصر ہیں اور بعض کے قدرے بالتفصیل.اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہئے کہ جن صحابہ کے حالات زیادہ لکھے گئے ہیں وہ دوسروں سے افضل ہیں.بالکل ممکن ہے کہ جن صحابہ کے حالات مختصر ہیں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز اور مکرم ہوں.بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض صحابہ جو خدا تعالیٰ کے خاص مقربین میں سے ہوں ان کے اسماء کا علم نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کا ذکر نہ کیا گیا ہو.لہذا احباب کرام کی خدمت میں درخواست ہے کہ اگر کسی صاحب کو یقینی شواہد کی بناء پر کسی صحابی کے حالات سنہ پیدائش سنہ بیعت اور سنہ وفات میں کوئی غلطی معلوم ہو تو وہ خاکسار مؤلف کو اطلاع دیں، آئندہ ایڈیشن میں انشاء اللہ شکر

Page 16

15 کے ساتھ اصلاح کر دی جائے گی.اسی طرح جن بزرگوں کی اولاد کے اسماء گرامی نہیں لکھے جا سکے وہ بھی از راه نوازش مطلع فرمائیں تا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی صورت میں موجودہ کمی پوری کی جاسکے.یہ بھی ممکن ہے کہ کسی صحابی نے مثلاً اپنی بیعت کا سنہ خود خاکسار مؤلف سے ۱۹۰۴ ء بیان کیا.مگر ان کی وفات پر ان کے پسماندگان نے انداز ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۵ء کر دیا اور بہشتی مقبرہ کے کتبہ پر بھی وہی لکھا گیا.ایسی صورت میں صحیح سنہ یقیناً وہی ہو گا جو اس صحابی نے اپنی زندگی میں خود بتایا.بالآخر خاکساران احباب کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے جنہوں نے گذشتہ سال ۲۵ رمضان المبارک ۱۳۸۴ھ بمطابق -۲۹.جنوری ۱۹۵۶ء کو جمعۃ الوداع کے روز کتاب کی تالیف شروع کرنے پر خاکسار کو شامل کر کے دعا فرمائی اور وہ ہیں محترم جناب ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی محترم سید نعیم احمد شاہ صاحب اور محترم میاں بشیر الدین احمد خان صاحب اور یہ تینوں معتکف تھے.فجزاهم الله احسن الجزاء اوّل الذکر بزرگ یعنی محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب تو خاص شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کا مسودہ از اوّل تا آخر بڑے شوق توجہ اور دلچسپی کے ساتھ ملا حظہ فرمایا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خاکسار کی اس ناچیز تالیف کوقبول فرمائے اور اسے عاجز کی مغفرت کا ایک ذریعہ بنادے.آمین.اللھم آمین اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مبارک زمانہ میں لکھا گیا اور آخر کا کچھ حصہ امیر المومنین حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں تالیف ہوا.چنانچہ اس کا نام بھی حضور ایدہ اللہ تعالی ہی کا تجویز فرمودہ ہے.فجزاه الله احسن الجزاء وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين - خاکسار عبدالقادر ( سابق سوداگرمل ) مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور ۲۰ / فروری ۱۹۶۶ء

Page 17

16

Page 18

17 جماعت احمدیہ لاہور کی ذمہ داریاں بیان فرمودہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ”ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ احمدیت کو قائم ہوئے ایک لمبا زمانہ گذر چکا ہے.اگر براہین احمدیہ سے اس زمانہ کو لیا جائے تو ۷۰.اے سال ہو گئے ہیں اور اگر بیعت کے آغاز سے اس زمانہ کو شمار کیا جائے تو پھر ۶۵ سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا وقت ہے.اور گو قوموں کی عمر کے لحاظ سے اتنے سال کوئی زیادہ لمبا زمانہ نہیں سمجھے جا سکتے.لیکن انسانوں کی عمر میں یہ ایک بہت بڑا وقت ہے.اس تمام عرصہ میں ابتدائی زمانہ سے ہی لاہور کا ایک حصہ احمدیت کے ساتھ شامل رہا ہے.ہم چھوٹے ہوتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سفروں میں ہم آتے جاتے تھے.اس وقت عموماً جب آپ کو رستہ میں ٹھہر نا پڑتا تو لا ہو ر یا امرتسر میں ہی ٹھہرتے.یوں ابتدائی زمانہ میں آپ کا قیام زیادہ تر لو دھیا نہ میں رہا ہے لیکن جماعت کے لحاظ سے لا ہور کی جماعت ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ مستعد رہی ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے والد صاحب کے زمانہ میں مقدمات کے لئے اکثر لاہور آتے تھے اور آپ کے والد صاحب کے تعلقات بھی زیادہ تر لاہور کے رؤساء سے تھے اس لئے ابتدائی ایام میں ہی یہاں ایک ایسی جماعت پائی جاتی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص رکھتی تھی.الہی بخش اکو نٹنٹ جو بعد میں شدید مخالف ہو گئے وہ بھی یہیں کے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں کفر کا فتویٰ لگانے والوں کے سردار بنے.وہ بھی یہیں چنبیاں والی مسجد کے امام تھے اور ان کا زیادہ تر اثر اور رسوخ لاہورہی میں تھا گو وہ رہنے والے بٹالہ کے تھے.اسی طرح میاں چراغ دین صاحب، میاں معراج دین صاحب اور میاں تاج دین صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ سے بہت پرانے تعلقات تھے.میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کے لحاظ سے جو بیعت سے بھی پہلے کے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نگاہ میں بہت قربت رکھتا تھا.پھر حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے.میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے تعلقات تو الہی بخش اکو نٹنٹ سے بھی

Page 19

18 پہلے کے تھے حتی کہ میرے عقیقہ میں جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی ان میں میاں چراغ دین صاحب بھی تھے.اتفاقاً اس دن سخت بارش ہو گئی.وہ سناتے تھے کہ ہم باغ تک پہنچے مگر آگے پانی ہونے کی وجہ سے نہ جا سکے اور وہیں سے ہمیں واپس لوٹنا پڑا.پس اس جگہ کی جماعت کی بنیا دا ایسے لوگوں سے پڑی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب آپ نے دعویٰ بھی نہیں کیا تھا اور براہین لکھی جا رہی تھی.پھر خدا تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے.میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کے خاندان کے اس وقت درجنوں آدمی ہیں اور ان میں سے بہت سے لاہور میں ہی ہیں.میاں مظفرالدین صاحب جو پشاور کی جماعت کے امیر تھے وہ میاں تاج دن صاحب کے بیٹے تھے.اسی طرح اور کئی پرانے خاندانوں کی اولادیں یہیں ہیں.مگر افسوس ہے کہ اگلی نسل میں اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی.ان میں کچھ تو مخلص ہیں اور کچھ کمزور ہو گئے ہیں.جو لوگ مخلص ہیں ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ اپنے آپ کو روشناس کراتے رہیں اور کچھ مخلص تو ہیں لیکن یہ احساس ان کے دلوں سے مٹ گیا ہے کہ سلسلہ کے ساتھ ان کا اہم تعلق ہے.وہ اپنی جگہ پر مخلص ہیں مگر اپنے آپ کو آگے لانے اور روشناس کرانے میں کوتا ہی کرتے ہیں.حالانکہ کسی جماعت کے بنیادی لوگوں میں سے ہونا بڑے فخر کی بات ہوتی ہے.جہاں یہ بات بُری ہوتی ہے کہ انسان جماعت کے متعلق یہ خیال کرے کہ وہ میری چراگاہ ہے اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے وہاں یہ بات بھی بُری ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایک سچی جماعت کے ابتدائی لوگوں میں سے ہوا اور پھر وہ اس پر فخر محسوس نہ کرے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اس چیز کی قدر اس کے دل میں نہیں.ورنہ جن لوگوں کے دلوں میں قدر ہوتی ہے جہاں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ کام کیا ہے تو سلسلہ پر احسان نہیں کیا بلکہ سلسلہ نے ان پر احسان کیا ہے وہاں وہ اپنی اہمیت کو بھی خوب سمجھتے ہیں.غرض لاہور کی جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لائے اور اگر وہ نہیں تو ان کے رشتہ دار ایسے موجود ہیں جو صحابی ہیں.خواہ وہ ایسے مقام پر نہیں کہ دعوے سے پہلے انہوں نے آپ کی مدد کی ہومگر وہ ایسے مقام پر ضرور ہیں کہ وہ اس وقت ہوش والے تھے اور عقل والے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں کے خاندانوں میں اب وہ جوش نہیں رہا جو پہلے ہوا

Page 20

19 کرتا تھا.بعض میں تو کمزوری پیدا ہوگئی ہے اور بعض اپنے آپ کو نمایاں کرنے سے گریز کرتے ہیں.جلسہ مذاہب عالم کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مضمون لکھا اور جو آج کل ساری دنیا میں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی اس لاہور میں پڑھا گیا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو آخری پیغام ”پیغام صلح کے نام سے دیا اور جو اپنے اندر وصیت کا ایک رنگ رکھتا ہے وہ بھی لاہور میں ہی پڑھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری ایام بھی اسی جگہ گزارے اور پھر یہیں آپ دنیا سے جدا ہوئے.اس کے بعد جب خلافت کا جھگڑا پیدا ہوا تو مخالفت کا مرکز بھی یہی لا ہور بنا اور موافقت کا مرکز بھی لا ہور تھا.اس وقت جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے بہت کم تھی.باہر سے بھی اگر لوگ آ جاتے تو ان کو شامل کر کے یہاں کی جماعت اتنی نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت خطبہ میں بیٹھی ہے مگر اس وقت اخلاص اور محبت کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں لاہور میں آتا تو سینکڑوں لوگ اردگرد کی جماعتوں کے لاہور میں آجاتے اور یہاں کا ہر احمدی دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتا اور اسے یہ محسوس بھی نہ ہونے دیتا کہ وہ لاہور میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے.لیکن اب یہ کیفیت نظر نہیں آتی.اب لوگ مسافروں کی طرح آتے اور چلے جاتے ہیں.ان کے متعلق جماعت کے دوستوں میں وہ شوق اور انس نہیں پایا جاتا جو پہلے پایا جا تا تھا.۱۹.۲۰ - ۱۹۲۱ء تک یہ کیفیت تھی کہ میرے لاہور آنے پر سیالکوٹ، جہلم، گجرات، شیخو پورہ اور منٹگمری وغیرہ اضلاع کے احمدیوں میں سے آ کر یہاں اکٹھے ہو جاتے اور ان کا لاہور میں قریباً اس وقت تک قیام رہتا جب تک میں یہاں موجود رہتا.مگر اب جماعت کی تعداد تو زیادہ ہوگئی ہے مگر اس میں وہ بات نہیں رہی جو پہلے پائی جاتی تھی.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اس مقام کی قدروقیمت کو نہیں پہچانا جو انہیں پہلے حاصل تھا.اگر وہ آنے والوں سے ایسی محبت اور پیار کے ساتھ پیش آتے جس محبت اور پیار سے وہ پہلے پیش آیا کرتے تھے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ لوگ یہاں کثرت کے ساتھ نہ آتے رہتے.میرا تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے دوستوں میں ایمان کم نہیں ہورہا بلکہ بڑھ رہا ہے.صرف کچھ لوگوں میں اپنی ذمہ داری کے احساس میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے.اگر یہاں کی جماعت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی تو یقیناً یہاں پہلے سے بھی زیادہ لوگ آتے.بہر حال ابتدائی ایام میں لوگوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی اور خدا تعالیٰ نے بھی کہا کہ

Page 21

20 لا ہور میں ہمارے پاک ممبر ہیں ان کو اطلاع دی جاوے.نظیف مٹی کے ہیں.ن کو اطلار وسوسہ نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گی، 1 گویا اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے الہام میں لاہور کے متعلق خبر دی کہ کسی زمانہ میں فتنہ بھی لاہور سے کھڑا ہو گا.مگر اس کا تریاق بھی لاہور سے ہی پیدا ہو گا.اور جن جماعتوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کی توفیق ملے اور جن کا خدائی پیشگوئیوں میں بھی ذکر آ جائے ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس خصوصیت کو قائم رکھیں اور اس فخر کو آئندہ کے لئے ہمیشہ نیکیوں میں ترقی کرنے کا ذریعہ بنا ئیں.پھر میں کہتا ہوں اگر باہر سے آنے والوں کو جانے دو اور تم صرف اپنے لوگوں کو ہی سہارا دو تو میرے نزدیک ہر پرانے خاندان میں سے دو چار افراد ایسے ضرور نکل آئیں گے جن میں کچھ کمزوری ہو گی.اگر تم ان کی طرف توجہ کرو گے تو یقیناً وہ مخلص بن جائیں گے اور جماعت اپنے پہلے مقام کو پھر حاصل کر لے گی.نو جوانوں کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہوتا ہے.وہ جہاں اور باتوں میں اپنی ترقی کے دعوے کیا کرتے ہیں وہاں ان کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ روحانی رنگ میں بھی اپنے بزرگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور نمازوں میں اور روزوں اور چندوں میں اور قربانیوں میں اور اخلاص میں اور سلسلہ کیلئے فدائیت اور جان نثاری میں اپنا قدم آگے کی طرف بڑھا ئیں.میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی آپ لوگ توجہ کریں تو اپنے مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں.ورنہ تھوڑے دنوں کے بعد ممکن ہے جماعت کراچی کے علاوہ اور بھی کئی جماعتیں تم سے آگے نکل جائیں اور جب بہت سی جماعتیں تم سے آگے نکل گئیں تو پھر اتنا بڑا فاصلہ تم میں اور ان میں پیدا ہو جائے گا کہ اس فاصلہ کو پُر کرنا تمہارے لئے مشکل ہو جائے گا.” پس اپنے اندر بیداری پیدا کرو اور جس طرح دریا میں کشتی پھنستی ہے اور مرد اور عور تیں اور بچے سب مل کر زور لگاتے ہیں کہ کشتی منجدھار سے نکل جائے اسی طرح تم بھی اس خلا کو پُر کرنے کیلئے اپنا پورا زور صرف کر دو.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اپنی غفلتوں کو دور کرو.خدا نے تمہیں اوّل بنایا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اب بھی تم اس مقام کو ضائع نہ کرو.ممکن ہے اگر تم سچے دل سے کوشش کرو تو تمہارے کمزور بھی مضبوط ہو جائیں.تمہارے نوجوان بھی قربانی کرنے والے بن جائیں اور پھر تمہاری زندگی

Page 22

21 بالکل بدل جائے اور تم اولیت کے مقام کو دوبارہ حاصل کر لو ہے میں سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کے ماتحت مجھ پر جو لاہور میں موجودہ انکشاف پیشگوئی مصلح موعود ) کیا ہے اس سے لاہور کی جماعت کی ذمہ داریوں اور ساتھ ہی ان کی امداد کے وعدے کا بھی اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے.کیونکہ یہ خدا کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ ایک چیز کو اپنے کلام اور اپنی رحمت کے لئے مخصوص کرے اور پھر اسے یونہی بھول جائے.لوگ بھول جاتے ہیں مگر خدا اسے نہیں بھولتا جب تک بندے اس کو نہیں بھول جاتے.بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جیسے مکہ مکرمہ ہے یا جیسے مدینہ منورہ ہے یا جیسے قادیان ہے کہ یہاں کے رہنے والے اگر خدا کو بھول جائیں تب بھی یہ شہر مغضوب نہیں بن سکتے.وہ ان لوگوں کو تو سزا دے گا مگر (ان ) شہروں کی برکتیں واپس نہیں لے گا.لیکن بعض شہر ایسے ہوتے ہیں جن کو عارضی برکتیں مل جاتی ہیں وہ اگر ان کو دائگی بنانا چاہئیں تو دائگی بن جاتی ہیں اور اگر ان کو چھوڑ دیں تو چھوٹ جاتی ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام بھی یہاں لاہور میں ہی ہوا کہ سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را یہ الہام در حقیقت آپ کی وفات کی طرف اشارہ کرتا تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری فرمائے کہ سپردم بتو مایه خویش را اے خدا میرے لئے اس دنیا کی میں تیری مرضی کے مطابق جس قدر رہنا مقدر تھا وہ میں رہ چکا.میری عمر کا جوسر ما یہ تھا وہ اب میں تیرے سپر د کر رہا ہوں تو دانی حساب کم و بیش را تو چاہے تو میرے اس سرمائے کو تباہ کر دے اور چاہے تو قائم رکھ.سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اس سرمایہ کو قائم رکھے.دشمن نے چاہا کہ وہ اس کے اندر بگاڑ پیدا کر دے مگر وہ ہمیشہ منہ کی کھاتا رہا.مجھے یاد ہے گو میں اس وقت انیس سال کا تھا مگر میں نے اسی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ ”اے خدا میں تجھ کو حاضر و ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر

Page 23

22 ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلاؤں گا“.تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہمیشہ قربانیوں کا تقاضا کیا کرتا ہے.میں یہاں کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس جگہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر انکشاف کا ہونا لاہور کی جماعت کی ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیتا ہے.یہیں سے پیغا می فتنہ نے سراٹھایا اور یہیں ان کا مرکز ہے.یہیں سے احراری فتنہ اٹھا اور یہیں ان کا مرکز ہے.اور بھی جس قدر فتنے اٹھے ان میں زیادہ تر لا ہور کا ہی حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی زیادہ تر چیلنج لاہور ہی سے ملا کرتے تھے.اور یا پھر امرتسر سے امرتسر سے کم اور لاہور سے زیادہ.پھر اس وقت پنجاب کا سیاسی مرکز بھی لاہورہی ہے.پس بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو یہاں کی جماعت پر عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ہی تمہیں ان برکات سے حصہ مل سکتا ہے جو خاص مقامات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب خدا کسی مقام کو اپنی برکتوں کے لئے مخصوص قرار دے دیتا ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اپنے انعامات سے بھی زیادہ حصہ دیا کرتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان مقامات کے رہنے والوں کو قربانیاں بھی دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہیں.جو قربانیاں مکہ اور مدینہ والوں کو کرنی پڑیں وہ کسی اور جگہ کے رہنے والوں کو نہیں کرنی پڑیں مگر جو انعامات مہاجرین اور انصار کو ملے وہ بھی کسی اور کو نہیں ملے.یہ خیال کرنا کہ مکہ اور مدینہ والوں کو اللہ تعالیٰ نے یونہی انعام دے دیا ہو گا ایک پاگل پن کی بات ہے.انہوں نے خدا کے لئے اپنے آپ کو خاک میں ملایا اور پھر اپنی خاک کو بھی اس کی رضا کے حصول کے لئے اڑا دیا.تب انہیں انعامات حاصل ہوئے.تب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ہوئے.پس جماعت لاہور کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے.اپنے اندر تغیر پیدا کرے.اپنے اخلاص اور اپنی نیکی میں ترقی کرے اور خدا تعالیٰ کی محبت اپنے قلوب میں پیدا کرے“ سے تذکره صفحه ۳۷۶ خطبه جمعه فرموده ۱۹ / فروری ۱۹۵۴ء بمقام رتن باغ منقول از الفضل ۱۱۳ دسمبر ۱۹۶۱ء الفضل ، مورخه ۲۱ جون ۱۹۴۴ء ,

Page 24

23 بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم پہلا باب لاہور تاریخ احمدیت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد ورفت احمدیت کی تاریخی میں لاہور کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی باخبر احمدی سے مخفی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نے بچپن سے یہاں آنا شروع کیا اور زندگی بھر برابر آتے رہے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی نہ صرف یہاں تشریف لاتے رہے بلکہ حضور ایدہ اللہ کی پہلی شادی بھی لاہور ہی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی اور پھر ہجرت کے بعد بھی لا ہو ر ہی میں کچھ عرصہ تک قیام فرمایا.

Page 25

24 پہلی مرتبہ حضور کی لاہور میں تشریف آواری جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے پہلی مرتبہ حضور لاہور میں اس وقت تشریف لائے جب ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے رؤسائے پنجاب کو معہ ان کے لڑکوں کے اپنی ملاقات کے لئے بلایا.چنانچہ جب حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے دونوں بیٹیوں یعنی مرزا غلام قادر صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ساتھ لے کر لاہور میں تشریف لائے تو انہوں نے لاہور کے رئیس محمد سلطان صاحب ٹھیکیدار کے اس رئیس خانہ میں قیام فرمایا جو لاہور اسٹیشن کے سامنے معزز مہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے بنوایا ہوا تھا.اور جو فروخت ہونے کے بعد اب BARGANZA HOLTE“ کے نام سے مشہور ہے.اسی میں پنجاب کے سارے رؤساء جمع ہوئے تھے.محترم ماسٹرمیاں نذیرحسین صاحب کی روایت ہے کہ میاں محمد سلطان صاحب چونکہ لا ولد تھے.اس لئے انہوں نے اپنے خاندان کے ایک یتیم بچہ کو ( جس کا نام فیروز الدین تھا اور جو بعد میں میرے نانا بنے ) اپنا متبنی بنایا ہوا تھا.اسے اور حضرت میاں چراغ دین صاحب کو ( جو وہ بھی خاندان میں اکیلے ہی لڑکے تھے ) لیفٹینٹ گورنر سے ملاقات کے لئے ٹھہرایا ہوا تھا.اس موقعہ پر ظہر کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے والد ماجد سے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت مانگی.والد صاحب سے اجازت ملنے پر جب آپ جانے لگے تو میاں فیروز الدین صاحب اور میاں چراغ دین صاحب بھی ساتھ چل پڑے.کیونکہ یہ دونوں بھی نماز کے پابند تھے.میاں محمد سلطان صاحب کے محل کے قریب ہی ایک مسجد ہے جس میں تینوں نے جا کر نماز پڑھی.ایک مرتبہ آپ ایک زمینداری مقدمہ کی پیروی کیلئے لاہور تشریف لائے اور قادیان ہی کے ایک معزز زمیندار سید محمد علی شاہ صاحب کے ہاں قیام فرمایا جو ان دنوں محکمہ جنگلات میں ملازمت کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم تھے.اور شاہ صاحب کا ملازم آپ کے لئے چیف کورٹ میں روزانہ کھانا لے جایا کرتا تھا.ایک دن وہ کھانا لے کر واپس آ گیا تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے کھانا میاں محمد سلطان صاحب کا محل سرائے سلطان کے قریب ہی تھا.

Page 26

25 نہیں کھایا ؟ نوکر نے جواب دیا کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ گھر پر ہی آ کر کھاتا ہوں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد آپ ہشاش بشاش شاہ صاحب کے مکان پر پہنچے.شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا فیصلہ ہوا ؟ فرمایا مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہو گیا.گویا آپ کو خوشی اس امر سے ہوئی کہ مقدمہ سے فراغت حاصل ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے لئے فرصت مل گئی.حالانکہ اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو مقدمہ میں ہار جانے کی وجہ سے اس کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا.مگر آپ کو کچھ ملال نہ ہوا.اللهم صلى على محمد وال محمد پھر جون ۱۸۷۶ء میں جبکہ آپ کے والد ماجد کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی آپ ایک زمینداری مقدمہ کے سلسلہ میں لا ہو رہی میں تھے.یہاں آپ کو ایک خواب کے ذریعہ اطلاع دی گئی کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کا وقت قریب ہے.چنانچہ آپ اسی روز قادیان پہنچے اور دوسرے دن آپ کے والد ماجد وفات پاگئے.فانا لله وانا اليه راجعون.تصنیف براہین احمدیہ کے دوران میں بھی آپ کی لاہور میں آمد ورفت رہی.میری غرض ان واقعات کے پیش کرنے سے یہ ہے کہ حضور دعویٰ مسیحیت و مہدویت سے قبل بھی متعد دمرتبہ لاہور میں تشریف فرما ہوتے رہے.اور یہ تو عام معروف واقعات ہیں.ورنہ سیالکوٹ آتے جاتے بھی آپ یقیناً حضرت میاں چراغ دین صاحب یا بعض دوسرے دوستوں کے ہاں قیام فرماتے ہوں گے.دعوی ماموریت کے بعد لاہور میں حضور کی آ.اب ہم دعوی ماموریت کے بعد کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں.جہاں تک تاریخ ساتھ دیتی ہے.دعویٰ ماموریت کے بعد سب سے پہلے آپ جنوری ۱۸۹۲ء فاضل مصنف کو غلطی لگی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی ماموریت کے بعد اور ۱۸۹۳ء سے قبل لاہور جانا ثابت ہے.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم میں پوسٹ کارڈ نمبر۱۷۷ کے زیر عنوان حضرت مسیح

Page 27

26 میں علماء پیروں، فقیروں اور گدی نشینوں پر اتمام حجت کیلئے لاہور تشریف لائے اور منشی میراں بخش صاحب مرحوم کی کوٹھی واقعہ چونے منڈی میں قیام فرمایا.۲۰ جنوری کو آپ تشریف لائے اور سب سے پہلا لیکچر آپ نے ۳۱ جنوری کو دیا.اس لیکچر کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں : ۳۱ جنوری ۱۸۹۲ء کو آپ نے ایک عام لیکچر منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں ہی دیا.بلا مبالغہ ہزاروں آدمی وہاں موجود تھے.ہر طبقہ کے لوگ تھے.تعلیم یافتہ شرفاء شہر عہدیداران.انتظام پولیس نے کیا ہوا تھا.حضرت اقدس نے اپنے دعاوی کو مبرہن کیا اور ان کے متعلق ضروری دلائل پیش کئے.اور بالآ خر آپ نے اس الزام کے جواب میں کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آ کر میرے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں، ایک مومن کو کا فرکہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں.قرآن کریم نے مومن اور غیر مومن کیلئے کچھ نشان مقرر کر دیے ہیں.میں ان کافر کہنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان کا قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرالیں، سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تقریر کے بعد حضرت حاجی الحرمین مولوی حکیم نورالدین موعود علیہ السلام کا ایک مکتوب جو ۳ مئی ۱۸۹۰ء کا تحریر کردہ ہے.درج ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام حضرت منشی رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں بمقام لاہور بغرض علاج کرانے کے آیا ہوا ہوں.خاکسار غلام احمد از لاہور مکان مرزا سلطان احمد نائب تحصیلدار لاہور.۳ مئی ۱۸۹۰ء اس خط پر مکرم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے یہ نوٹ تحریر فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لا ہور جاتے تو مرز اسلطان احمد صاحب جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے.اور اس وقت ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے.یہ ڈاکٹر صاحب مسٹر احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھائی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے“.

Page 28

27 صاحب بھیروی سے فرمایا کہ آپ بھی کچھ تقریر کریں.اس پر حضرت مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے مرزا صاحب کا دعویٰ اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالیٰ کے اُن وعدوں اور بشارتوں کو بھی سنا جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں.تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں.علماء بھی مجھ سے نا واقف نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا ہے.میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں.ان کی خدمات اسلامی کو دیکھا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی.میں نے دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا وہی اب ہو رہا ہے.گویا اس پرانی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے.میں کلمہ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا.مومن حق کو قبول کرتا ہے.میں نے حق سمجھ کر اسے قبول کیا اور حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (وہی) اپنے بھائی کیلئے پسند کرتا ہے آپ کو بھی حق کی دعوت دیتا ہوں.وما علینا الا البلاغ السلام علیکم.یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور جلسہ برخاست ہو گیا ہے روایات میں آتا ہے کہ حضرت مولانا حکیم صاحب نے جب کلمہ شہادت پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی گواہی دی تو سامعین اس قدر متاثر ہوئے کہ تقریر کے بعد چند ہند و صاحبان نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر ایک دفعہ آپ پھر وہی کلمہ پڑھ دیتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے.لیکن آدھے مسلمان تو ہو گئے ہیں.ادھر تو یہ کیفیت تھی جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے مگر دوسری طرف علمائے سو ء بھی اپنے مشن کو پورا کرنے کی مذموم کوشش میں برابر مصروف تھے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو جلسہ میں شرکت کرنے سے منع کر رہے تھے.

Page 29

28 حضرت اقدس کے کمال ضبط کا ایک واقعہ لوگوں کی بکثرت آمد ورفت اور دن بھر کے ہجوم کو دیکھ کر آپ منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی سے محبوب را یوں کے ایک وسیع اور فراخ مکان میں منتقل ہو گئے.اس مکان کے اندر اتنا بڑا صحن تھا کہ اس میں ہزاروں افراد بآسانی سما سکتے تھے.ادھر حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر رئیسان لاہور کے مکانات بھی قریب ہی تھے اور ان مکانوں کے سامنے حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد تھی جس میں حضور اور حضور کے اصحاب بآسانی با جماعت نماز میں ادا فرما سکتے تھے.اس لئے یہ مکان آپ کے مقاصد کیلئے نہایت ہی موزوں تھا.حضور کے لاہور آنے کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ حضور اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں تحریر فرمودہ مضمون کے مطابق لاہور کے ہر طبقہ کے مذہبی لوگوں پر یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ اگر وہ حضور کے ساتھ تائیدات سماوی میں مقابلہ کرنا چاہیں تو ان کے لئے یہ راہ بھی کھلی ہے اور چونکہ اس مقصد کی تکمیل کیلئے سب سے زیادہ موزوں مقام لاہور تھا.اس لئے حضور خود لاہور تشریف لے آئے تا لوگوں پر حجت پوری کی جا سکے.چنانچہ حضور نے ایک بہت بڑے مجمع میں منشی شمس الدین صاحب (جنرل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام) سے فرمایا کہ آپ آسمانی فیصلہ“ پڑھ کر سنا ئیں.اس مجلس میں چونکہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس سے آپ کے کمال ضبط کا اظہار ہوتا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مشہور سوانح نگار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے الفاظ میں ہی یہ واقعہ یہاں درج کر دیا جائے.آپ فرماتے ہیں: " حضرت مجلس میں تشریف فرما تھے اور منشی شمس الدین صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری کو آپ نے آسمانی فیصلہ دیا کہ اسے پڑھ کر حاضرین کو سنا ئیں.اس وقت کا پورا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے ہے.اس مجلس میں بابو موز مدار جو برہمو سماج کے ان دنوں محبوب را ئیاں ہندو کھتریوں کی گوت کے قبیلہ کا نام ہے.اس قبیلہ کے بعض افرا د ریاست جموں وکشمیر میں معزز عہدوں پر فائز تھے جس کی وجہ سے حضرت مولانا حکیم صاحب کے ساتھ بھی ان کے تعلقات تھے.یہ مکان اندرون شہر سید مٹھا بازار میں واقع ہے.(مؤلف)

Page 30

29 شخص منسٹر تھے اور ایگزامینر آفس میں بڑے آفیسر تھے اور اپنی نیکی اور خوش اخلاقی کیلئے معروف تھے.سوشل کاموں میں آگے آگے رہتے.وہ اس جلسہ میں موجود تھے.ایک تخت جو مسلمان کہلاتا تھا آیا اور اس نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار نہایت ناسزا وار الفاظ اور گالیوں کی صورت میں کیا.حضرت اپنی پگڑی کا شملہ منہ پر رکھے سنتے رہے اور بالکل خاموش تھے.آپ کے چہرہ پر کسی قسم کی کوئی علامت نفرت یا غصہ کی ظاہر نہیں ہوئی.یوں معلوم ہوتا تھا گویا آپ کچھ سنتے ہی نہیں.آخر وہ تھک کر آپ ہی خاموش ہو گیا اور چلتا بنا.حاضرین میں سے اکثر کو غصہ آتا تھا مگر کسی کو یہ جرأت حضرت کے ادب کی وجہ سے نہ تھی کہ اسے روکتا.جب وہ چلا گیا تو موز مدار نے کہا ”ہم نے مسیح کی بُردباری کے متعلق بہت کچھ پڑھا ہے اور سنا ہے مگر یہ کمال تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے انہوں نے اس سلسلہ میں بہت کچھ کہا اور چونکہ ان کے دفتر میں ہماری جماعت کے اکثر احباب تھے اور وہ ان سب کا احترام کرتے تھے اور حضرت منشی نبی بخش صاحب پر تو ان کی خاص نظر تھی.وہ اکثر اس واقعہ کو بیان کرتے اور حضرت کے کمال ضبط کی تعریف کرتے ، مدعی مہدویت کا حضور پر حملہ انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضرت اقدس حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب والی مسجد واقعہ لنگے منڈی میں ظہر یا عصر کی نماز پڑھ کر واپس اپنی جائے قیام کی طرف جا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے جو اپنے آپ کو امام مہدی کہتا تھا.آپ کی کمر میں ہاتھ ڈالا.وہ آپ کو اٹھا کر گرانا چاہتا تھا مگر نہ تو اٹھا سکا اور نہ گرا سکا.حضرت سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی نے اسے پکڑ کر مارنا چاہا.مگر حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو.یہ تو سمجھتا ہے کہ اس کا عہدہ میں نے سنبھال لیا ہے.وہ شخص مکان تک برابر پیچھے آیا اور جب حضرت اقدس اندر تشریف لے گئے تو اس نے باہر کھڑے ہو کر تقریر چنانچہ ۲ ستمبر ۱۸۹۲ء کو جو اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی امداد کیلئے شائع فرمایا تھا اس میں چندہ دینے کا جن لوگوں نے وعدہ کیا ان میں دفتر ایگزامینر کے حسب ذیل دوست شامل تھے.حضرت صوفی نبی بخش صاحب، میاں محمد علی صاحب، میاں مظفر دین صاحب میاں عبدالرحمن صاحب حافظ فضل احمد صاحب اور منشی مولا بخش صاحب.( تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ ۱۱۸)

Page 31

30 شروع کر دی.یہ شخص گوجر انوالہ کا باشندہ تھا اس کا بھائی پیغمبر اسنگھ احمدی ہو گیا تھا.اس نے اپنے بھائی کی طرف سے معافی مانگی تھی اور لاہور ہی کی ایک مجلس میں حضور پر پھول نچھاور کئے تھے یے یہ شخص بہت عرصہ تک قادیان میں بھی رہا.نہایت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھا.اس کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ حضرت بابا نانک کے چولہ جیسا ایک چولہ بنوا کر پہنے پھرتا تھا.خلافت ثانیہ میں وفات پائی.مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ قیام لاہور کا ایک اہم واقعہ حضرت اقدس کا مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری کے سے اس امر پر مناظرہ تھا کہ آپ نے اپنی کتابوں یعنی فتح اسلام تو ضیح مرام“ اور ”ازالہ اوہام میں یہ الفاظ لکھے تھے کہ ”محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے.مولوی صاحب کا موقف یہ تھا کہ ان الفاظ سے نبوت حقیقیہ کا دعویٰ ظاہر ہوتا ہے لیکن حضرت اقدس کے یہ فرمانے پر کہ ان الفاظ سے میری یہ مراد نہیں اور نہ ان کا یہ مطلب ہے کہ میں نے نبوت حقیقیہ کا دعویٰ کیا ہے اور یہ مضمون لکھ کر دے دینے پر مناظرہ ختم ہو گیا تھا کہ اس عاجز کے رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام وازالہ اوہام میں جس قد را ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محد ثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت نا قصہ ہے.یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں.ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعوی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۷ میں لکھ چکا ہوں.میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں میں یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں.اور اس کو ( یعنی لفظ نبی کو ) کاٹا ہوا خیال فرمالیں لا ہور اسٹیشن پر پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نومبر ۱۸۹۳ ء میں حضور اپنے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب کو جو ان ایام میں محکمہ نہر میں ملازم

Page 32

31 تھے ملنے کیلئے فیروز پور تشریف لے گئے.۱۴ دسمبر ۱۸۹۳ء کو وہاں سے واپسی پر لاہور اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے کہ مشہور آریہ لیڈر پنڈت لیکھرام نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا مگر حضور نے اسے کوئی جواب نہ دیا.اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے آکر سلام کیا مگر آپ نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی.جب پنڈت جی ما یوس ہو کر کوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا سلام سنا نہیں ہوگا.حضور سے عرض کیا کہ حضور پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے.حضور نے یہ سنتے ہی بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا.اسے شرم نہیں آتی ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے جلسہ مذاہب عالم لا ہور اب ہم ایک مشہور و معروف نشان کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ” جلسہ مذاہب عالم کی صورت میں لاہور میں ظاہر ہوا اور جس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ چند معززین نے مل کر یہ تجویز کی کہ جملہ مذاہب عالم کے لیڈروں پر مشتمل ایک عظیم الشان جلسہ لاہور میں منعقد کیا جائے.جس میں مذہب سے تعلق رکھنے والے مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کے جوابات پر تقریر میں ہوں.ا.انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں ۲.انسان کی دنیوی زندگی کے بعد کی حالت ۳.دنیا میں انسان کی ہستی کی غرض کیا ہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہوسکتی ہے؟ ۴.کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟ علم یعنی گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ چنانچہ جب اس جلسہ کے مجوز سوامی شوگن چند ر حضور کی خدمت میں پہنچے تو حضور نے فورا مضمون تیار کرنے پر آمادگی کا اظہار فرمایا بلکہ اس کا پہلا اشتہار قادیان میں ہی چھاپ کر شائع کروایا اور اپنے ایک مرید کو مقرر فرمایا کہ وہ ہر طرح ان کی مدد کرے.آریوں سناتن دھرمیوں، بر ہموسما جیوں، سکھوں، تھیوسافیکل سوسائٹی والوں، فری تھنکروں عیسائیوں اور مسلمانوں غرضیکہ ہر مذہب وملت کے لیڈروں کو مندرجہ بالا سوالات کے جوابات لکھنے کی دعوت دی گئی.مسلمانوں میں سے حضور کے علاوہ مولوی محمد

Page 33

32 حسین صاحب بٹالوی، مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب وو سیالکوٹی مدعو تھے.جلسہ کیلئے ۲۶ - ۲۷ - ۲۸ دسمبر کی تاریخیں مقرر کی گئی تھیں اور جلسہ کے انعقاد کیلئے پہلے ٹاؤن ہال تجویز کیا گیا تھا مگر بعد میں اسلامیہ کالج واقعہ اندرون شیرانوالہ دروازہ کا وسیع ہال اس مقصد کیلئے حاصل کیا گیا.حضرت اقدس ابھی مضمون لکھ ہی رہے تھے کہ آپ کو الہا ما بتایا گیا کہ آپ کا مضمون سب سے بالا رہے گا.چنانچہ آپ نے اس وحی الہی کی اشاعت کیلئے مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۸۹۲ء کو یعنی جلسہ سے پانچ چھ روز قبل اشتہار شائع فرمایا جو یہ ہے: جلسه اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن ہال میں ۲۶.۲۷.۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق و معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نو راس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ میں آ جائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے دروغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کیلئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حُسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب رہے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قو میں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھا سکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ اور

Page 34

33 خواه سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطع نکلا جو اردگرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا الله اکبر - خَرِبَتْ خَيْبَرُ - اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے مراد میرا دل ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے.اور وہ نور قرآنی معارف ہیں.اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا ہے کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی.جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.اِنّ الله مَعَكَ إِنّ الله يَقُوم اينما قمت - یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہوتا ہے.یہ حمایت الہی کیلئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج کر کے بھی ان معارف کو سننے کیلئے ضرور بمقام لا ہور تاریخ جلسہ پر آدیں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گئے نے یہ اشتہار جو ایک زبر دست پیشگوئی پر مشتمل تھا ملک کے طول وعرض میں پھیلا دیا گیا.لاہور کے درودیوار پر بھی چسپاں کیا گیا اور لوگوں میں بھی تقسیم کیا گیا.یادر ہے کہ ایگز یکٹو کمیٹی یعنی مجلس منتظمہ کی طرف سے اس جلسہ کی صدارت اور تقریروں کو حسب شرائط کمیٹی اندازہ کرنے کیلئے مندرجہ ذیل چھ اصحاب ماڈریٹر مقرر ہو چکے تھے.ا.رائے بہادر با بو پر تول چند رصاحب حج چیفکورٹ پنجاب.-۲ خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب حج سمال کا زکورٹ لاہور..رائے بہا در پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیفکورٹ سابق گورنر جموں.

Page 35

34 ۴.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی.۵.رائے بھوانی داس صاحب ایم.اےایکسٹراسیٹلمنٹ آفیسر جہلم.۶.جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لا ہور.ایگزیکٹو کمیٹی کی تجویز کے مطابق جلسہ کے دوسرے روز یعنی ۲۷ دسمبر کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون سنایا جانا تھا.اس روز کمیٹی نے صدارت کیلئے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کا نام تجویز کیا.حضرت مولوی صاحب کی صدارتی تقریر کے بعد پہلے بابو بیجا رام صاحب چڑ جی سابق پریذیڈنٹ آریہ سماج سکھر نے تقریر کی.ان کے بعد پنڈت گوردھن داس صاحب فری تھنکر نے اپنا مضمون بیان کیا.بعدۂ نصف گھنٹہ کے وقفہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مشہور ومعروف مضمون جو بعد میں اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے شائع ہوا.اور جس کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنانا شروع کیا.لیکن ابھی پانچ سوالوں کے جواب میں سے بمشکل ایک سوال کا جواب ہی سنایا تھا کہ شام ہونے لگی لے اور اس پر جلسہ ساڑھے پانچ بجے ختم کرنا پڑا.مگر حاضرین نے اصرار کیا کہ اس مضمون کو مکمل طور پر سنانے کے لئے جلسہ کا ایک دن بڑھا لیا جائے.چنانچہ ایگزیکٹو کمیٹی نے موڈریٹر صاحبان کی رضا مندی سے انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سے چوتھے دن کے لئے ہال کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل.....کر کے صدر جلسہ حضرت مولوی صاحب کو اطلاع دی کہ آپ چوتھے دن کا اعلان فرما دیں.جس پر آپ نے ذیل کے الفاظ میں اس روز کے اجلاس کی کارروائی کو ختم کیا: ” میرے دوستو ! آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب مرزا صاحب کی جانب سے سنا.ہمیں خاص کر جناب مولوی عبدالکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہئے جنہوں نے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا.میں آپ کو مژدہ دیتا ہوں کہ آپ کے اس فرطِ شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صا حبان اور دیگر عمائد ورؤسا کی خاص فرمائش سے ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کر لیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے.اب نماز مغرب کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں زیادہ آپ کا وقت لینا نہیں چاہتا.صرف میں آپ کو

Page 36

35 کل کا پروگرام سناتا ہوں‘ ، ۱۲ ان الفاظ کے بعد آپ نے اگلے روز کے اجلاس کا پروگرام سنا کر جلسہ کو برخاست کر دیا.۲۹ تاریخ کو جب یہ مضمون ختم ہوا تو ایک معزز ہندو کی زبان سے جو اس جلسہ کا صدر تھا بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ یہ مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا اور لاہور کے مشہور انگریزی اخبار ” سول اینڈ ملٹری گزٹ نے لکھا کہ : د, جلسہ اعظم مذاہب لا ہور جو ۲۶ - ۲۷.۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا.اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کا جواب دیا ( آگے پانچوں سوالات نقل کئے گئے ہیں ) لیکن سب مضمونوں سے زیادہ توجہ اور زیادہ دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا جو اسلام کے بڑے بھاری مؤید اور عالم ہیں.اس لیکچر کو سننے کے لئے ہر مذہب وملت کے لوگ کثرت کے ساتھ جمع تھے.چونکہ مرزا صاحب خود جلسہ میں شامل نہیں ہو سکے.اس لئے یہ مضمون ان کے ایک قابل اور فصیح شاگرد مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا.۲۷ تاریخ والا مضمون قریباً ساڑھے تین گھنٹہ تک پڑھا گیا اور گوا بھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا.لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویت کے عالم میں سنا اور پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں ۲۹ دسمبر کی زیادتی ,, کردی.اس تقریر کے متعلق جور پورٹ ہندوؤں کی طرف سے مرتب ہوئی، اس کے الفاظ یہ ہیں : پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا.لیکن چونکہ بعد از وقفه ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے پیش ہونا تھا.اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا.ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھر نے لگا.اور چند ہی منٹوں میں مکان پُر ہو گیا.اس وقت کوئی سات ہزار کے قریب مجمع تھا.مختلف مذاہب و ملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتد بہ اور ذی علم آدمی موجود تھے.اگر چہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا.اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے

Page 37

36 رؤسا، عمائید پنجاب، علماء وفضلاء بیرسٹر وکیل، پروفیسر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر، ڈاکٹر غرضیکہ اعلیٰ اعلیٰ طبقہ کی مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.انہیں نہایت صبر و تحمل کے ساتھ برابر چار پانچ گھنٹے اس وقت گویا ایک ٹانگ پر کھڑا رہنا پڑا.اس مضمون کے لئے اگر چہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی مقرر تھے.لیکن حاضرین جلسہ کو اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کا رروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جائے.ان کا ایسا فرما نا عین اہل جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشاء کے مطابق تھا.کیونکہ جب وقت کے گزرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دے دیا تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکر یہ ادا کیا.یہ مضمون شروع سے آخر تک یکساں دلچپسی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا.۱۳ کلکتہ کے قدیم اخبار جنرل و گوہر آصفی نے ۲۴ جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں جلسہ اعظم منعقدہ لاہور اور فتح اسلام کے دوہرے عنوان سے ایک شاندار تبصرہ شائع کیا جس کا ایک حصہ درج ذیل ہے.ہمیں معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنان جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کیلئے خط لکھا.تو حضرت مرزا صاحب نے گو علالت طبع کی وجہ سے بنفس نفیس شریک جلسہ نہ ہو سکے مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قرآت کیلئے مقرر فرمایا.لیکن جناب سرسید نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی.یہ اس بناء پر نہ تھا کہ وہ معمر ہو چکے اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں.اور نہ اس بناء پر تھا کہ انہیں ایام میں ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہو چکا تھا بلکہ یہ اس بناء پر تھا کہ مذہبی جلسے ان کی توجہ کے قابل نہیں.کیونکہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اللہ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں.یہ کام واعظوں یا ناصحوں کا ہے.جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے

Page 38

37 ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کا نپوری، جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جو شیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہی ہمارے مقدس زمرہ علماء سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا.ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کر کے مانحن فیها میں قدم رکھا مگر الٹا.اس لئے انہوں نے یا تو مقررہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی یا بے سروپا کچھ ہانک دیا جیسا کہ ہماری آئندہ رپورٹ سے واضح ہو گا.غرض جلسہ کی کارروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقرر کرنے میں پشاور راولپنڈی، جہلم شاہ پور بھیرہ، خوشاب، سیالکوٹ، جموں، وزیر آباڈلا ہوڑ امرتسر، گورداسپور لدھیانہ شملہ دہلی انبالہ ریاست پٹیالہ کپورتھلہ، ڈیرہ دون الہ آباد مدراس، بمبئی، حیدر آباد دکن، بنگلور و غیره بلاد ہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزین بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا.حق تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے رو برو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا.مگر خدا کے زبر دست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا.بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی بچے فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے بالا ہے.صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی.جو انتخاب تیر بہدف کی طرح روز روشن میں ٹھیک نکلا اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں.بلکہ ہمارے فخر و ناز کا موجب ہے اس لئے کہ اس میں اسلامی شوکت ہے اور اسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی اخبار ” چودھویں صدی“ نے یکم فروری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں لکھا:

Page 39

38 ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی رُوح رواں تھا، مرزا غلام احمد قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا.یہ لیکچر دودن میں تمام ہوا.۲۷ دسمبر قریباً چار گھنٹے اور ۲۹ دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا.کل چھ گھنٹے میں لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سو صفحے کلاں تک ہوگا.غرضیکہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہو گئے.فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کیلئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی.عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آئند لیکچر نہیں سنا.دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے منتنفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے.عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم پیش کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگران میں جاندار بات کوئی نہیں تھی.بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو ان سوالات کا علیحدہ علیحدہ اور مفصل و مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا ہی بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا.ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں اور نہ ان سے ہم کو کوئی تعلق ہے.لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روا رکھ سکتا ہے.مرزا صاحب نے گل سوالوں کے جواب ( جیسا کہ مناسب تھا ) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول وفروعات اسلام کو دلائل عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ بہترین مزین کیا.پہلے عقلی دلائل سے الہیات کے مسئلہ کو ثابت کیا اور اس کے بعد کلام الہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتا تھا.” مرزا صاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآنی کی فلالوجی اور فلاسفی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی.غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بحیثیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق وحکم واسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر ہو گئے تھے.کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت.

Page 40

39 تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہورہے تھے.مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں کے امتیاز کیلئے اس قدر کہنا کافی ہے کہ مرزا صاحب کے وقت خلقت اس طرح آ آ کر گری جیسے شہد پر کھیاں.مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اٹھ جاتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب کا لیکچر بہت معمولی تھا.وہی ملا ئی خیالات تھے جن کو ہم روز سنتے ہیں.اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی.اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اٹھ کر چلے گئے مولوی صاحب ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کیلئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی.۱۵ اس طرح جب یہ مضمون کتابی شکل میں اسلامی اصول کی فلاسفی“ کے نام سے شائع ہوا اور دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے تو بڑے بڑے اہل الرائے اصحاب نے اس مضمون کے متعلق تعریف و توصیف سے پُر آراء لکھیں مگر افسوس کہ اس مختصر سے مضمون میں ان کا اندراج ممکن نہیں.پنڈت لیکھرام کا قتل لا ہور ہی وہ مقام ہے جہاں مشہور آریہ لیکھر ام اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اپنی بدزبانی کے جرم کی پاداش میں قہار خدا کے قہر کا نشانہ بن گیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۱۸۸۵ء میں غیر مسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی تو یہ بھی مقابلہ کیلئے قادیان میں آئے مگر چند روز مخالفوں کے پاس رہ کر واپس چلے گئے.یہ حضرت اقدس سے بار بار نشان طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میری نسبت جو پیشگوئی آپ چاہیں شائع کر دیں.میری طرف سے اجازت ہے.چنانچہ حضرت اقدس نے جب ان کے متعلق دعا کی تو الہام ہوا: عِجْلُ جسدُ لَهُ خُـوارُ لَهُ نَصَبُ وعَذَاب یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکر وہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جوضرور اس کومل کر رہے گا.۱۶

Page 41

40 اس الہام کے بعد ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو جب حضرت اقدس نے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ظاہر کیا کہ : " آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ اللہ کے حق میں کی ہیں.عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا“.کلے ایک الہام اس کے متعلق یہ بھی ہوا ہے کہ يُقْضَى أَمْرُهُ فِي سِتِ“ کہ پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ میں ختم کر دیا جائے گا.حضرت اقدس نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کے ابتدا میں پنڈت لیکھرام کے متعلق مندرجہ ذیل فارسی اشعار بھی لکھے : الا اے دشمن نادان و بے راہ مولی که گم کردند مردم ره الا اے منکر از شان محمد بیا بترس از تیغ بُران محمد بچو در آل و اعوان محمد ہم از نور نمایان محمد کرامت گر چه بے نام ونشان است بنگر ز غلمان محمد یعنی " خبر داراے اسلام کے نادان اور گمراہ دشمن ! تو محمد اللہ کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ جسے لوگ کھو بیٹھے ہیں آ اور اسے محمد ﷺ کے روحانی فرزندوں اور آپ کے لائے ہوئے دین کے مددگاروں میں تلاش کر.ہاں اے وہ شخص جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اور آپ کے کھلے کھلے نور کا بھی منکر ہے اگر چہ کرامت بے نام و نشان ہے لیکن محمد ﷺ کے غلام سے اس کا مشاہدہ کرلے“.پھر ۲.اپریل ۱۸۹۳ء کو حضور نے ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ: آج جو ۲ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماه رمضان ۳۱۰اہ ہے.صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند

Page 42

41 دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا کہ اس کے چہرہ سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شدا د غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی.اور میں اس کو دیکھتا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے؟ تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کیلئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ دوسرا شخص کون ہے“.19 پھر آپ نے اپنی کتاب ”کرامات الصادقین میں جس کا سن تصنیف ۱۸۹۳ ء ہے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی مدت مقررفرما دی.چنانچہ لکھا: و بشر نی ربّی و قال مبشرا ستعرف يوم العيد و العيد اقرب یعنی مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اس عید کے دن کو پہچان لے گا اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہوگا.پنڈت لیکھرام کے بار بارنشان طلب کرنے پر حضرت اقدس نے جونشان اسے دکھانا چاہا اس کے متعلق پیشگوئی کی کافی وضاحت ہو چکی ہے.اب تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا بھی ضروری ہے.پنڈت صاحب مذکور چونکہ حضرت اقدس کی پیشگوئیوں کو بالکل ہی نا قابل التفات سمجھتے تھے.اس لئے جوں جوں حضور کی طرف سے پیشگوئی کی وضاحت ہوتی گئی پنڈت صاحب شوخی و شرارت میں بڑھتے گئے.وہ اس وہم میں مبتلا تھے کہ جس طرح انہوں نے چند سال قبل حضرت اقدس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ : ي شخص ( یعنی حضرت مرزا صاحب) تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا کیونکہ (نعوذ باللہ ) کذاب ہے.اور پھر لکھا تھا کہ: تین سال کے اندر اس کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس کی ذریت میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا “.گا.۲۰

Page 43

42 اسی طرح حضرت کی پیشگوئی بھی (نعوذ باللہ ) چھوٹی ثابت ہو گی.مگر دیکھئے خدائے ذوالجلال کا فیصلہ کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی کے پانچویں سال عید الفطر کے دوسرے روز ۲ مارچ ۱۸۹۷ء کو شام کے 4 بجے پنڈت لیکھرام صاحب اپنے مکان واقعہ وچھو والی میں کسی نامعلوم شخص کے ہاتھوں چُھری کے ذریعہ قتل ہو گئے.بیان کیا جاتا ہے کہ پنڈت صاحب کے پاس ایک مسلمان شدھ ہونے کیلئے آیا ہوا تھا.پنڈت جی کرسی پر بیٹھے تصنیف کا کام کر رہے تھے اور وہ سامنے کمبل اوڑھے زمین پر بیٹھا تھا.پنڈت جی نے جب ذرا ستانے کیلئے کھڑے ہو کر انگڑائی لی تو اس نے اس زور سے چُھری ان کے پیٹ میں گھونپی کہ انتڑیاں باہر نکل آئیں.منہ سے شدت درد کی وجہ سے بیل کی سی آواز سن کر ان کی ماں اور بیوی بھی جو کسی دوسرے کمرہ میں تھیں، پہنچ گئیں مگر قاتل غائب ہو چکا تھا.نہ معلوم او پر چڑھ گیا یا نیچے اتر گیا.کئی قسم کی روائتیں اس کے متعلق مشہور ہیں.مگر یہ حقیقت ہے کہ باوجود تلاش بسیار قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلا.لاہور کے بڑے بڑے مسلمان گھرانوں کی تلاشیاں بھی ہوئیں.قادیان میں حضرت اقدس کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی مگر قاتل کا کہیں سے بھی سراغ نہ مل سکا.اب پنڈت جی کا حال سنئے.انہیں پولیس کی مدد سے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم ( جو ان ایام میں میڈیکل کالج کے طالب علم تھے ) ڈیوٹی پر تھے آپریشن انگریز ڈاکٹر پیری نے کرنا تھا.جب ان کے آنے میں ذرا تاخیر ہوئی تو ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان ہے کہ پنڈت جی نے بار بار یہ کہنا شروع کیا کہ "ہائے میری قسمت! کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بوہر دا یعنی ڈاکٹر بھی نہیں پہنچتا.خیر کچھ انتظار کے بعد جب ڈاکٹر صاحب آگئے تو چونکہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کے معاون تھے اس لئے وہ انہیں بار بار مرزا صاحب! مرزا صاحب کہہ کر پکارتے تھے.جب بار باران کی زبان سے مرزا صاحب کے الفاظ نکلے تو پنڈت جی یہ سمجھ کر کانپ اٹھے کہ شاید یہاں ہسپتال میں بھی وہی مرزا صاحب آگئے ہیں.خیر ڈاکٹر صاحب نے رات بارہ بجے تک آپریشن کا کام ختم کیا.مگر ابھی وہ ہاتھ ہی دھو ر ہے تھے کہ زخم کے ٹانکے کھل گئے اور ان کو دوبارہ سینا پڑا.اس وقت پولیس والوں نے پنڈت جی کا بیان لینا چاہا مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس میں جان کا خطرہ ہے.مگر تکلیف لحظہ بہ لحظہ بڑھتی چلی گئی.یہاں تک کہ چار بجے صبح پنڈت جی چل بسے اور جس طرح پیشگوئی میں بتایا گیا تھا.سامری کے بچھڑے کی طرح پنڈت جی کی ارتھی جلائی گئی اور راکھ دریا میں ڈال دی گئی.

Page 44

43 اس پیشگوئی کا مقصد چونکہ احقاق حق اور ابطال باطل تھا اس لئے جب یہ اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا: یہ پیشگوئی ایک بڑے مقصد کے ظاہر کرنے کیلئے کی گئی تھی یعنی اس بات کا ثبوت دینے کیلئے کہ آریہ مذہب بالکل باطل اور وید خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ملے خدا تعالیٰ کے پاک رسول اور برگزیدہ نبی اور اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچاند ہب ہے.سو اس پیشگوئی کونری ایک پیشگوئی خیال نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک آسمانی فیصلہ ہے.اسے حسین کا می سفیر ترکی کالا ہور سے قادیان جانا مئی ۱۸۹۷ء میں ایک ترکی کی قونصل مسلمی حسین کا می متعینہ کراچی لاہور آئے.عبد الحمید ثانی سلطان لڑکی کا زمانہ تھا.لاہور اسٹیشن پر ان کا بڑا ز بر دست استقبال کیا گیا.ڈپٹی برکت علی صاحب شاہجہانپوری پریذیڈنٹ انجمن اسلامیہ لاہور کی کوٹھی واقعہ بیرون موچی دروازہ میں ان کے قیام کا انتظام کیا گیا.بعض احمدی احباب بھی انہیں تبلیغ کرنے کیلئے پہنچ گئے.ان کی تبلیغ کا نتیجہ یہ نکلا کہ قونصل صاحب اپنی کسی سیاسی غرض کے ماتحت قادیان جانے کے لئے تیار ہو گئے مگر وہاں ان کا مدعا حاصل نہ ہوا.جس کے نتیجہ میں لاہور واپس آ کر انہوں نے سخت مخالفت کی.اور ان کی ایک ایسی ہی مخالفانہ تحریر کی اشاعت کے سلسلہ میں اخبار ناظم الہند کے ایڈیٹر نے خوب حصہ لیا اور پبلک کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.اس واقعہ کے بعد ایسے حالات پیش آئے کہ اسی سال یعنی ۱۸۹۷ء میں یونان اور ترکی کی لڑائی چھڑ گئی ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکی کی امداد کے لئے چندہ جمع کر کے ترکی قونصل حسین کا می کو دیا جو انہوں نے ترکی حکومت کے خزانہ میں جمع کروانے کی بجائے خود ہضم کر لیا.اس کی خبر جب سلیم پاشا ملحمہ کا رکن کمیٹی چندہ کو پہنچی تو انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اس روپیہ کو اگلوانے کی کوشش کی اور قونصل مذکور کی اراضی مملوکہ کو نیلام کروا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں خبر بھجوا کر انہیں نوکری سے موقوف کر وا دیا.۲۲

Page 45

44 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب وہ مشہور و معروف رسالہ جس کا نام ہے " سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ سراج الدین بھی لاہور ہی کا تھا اور لاہور مشن کالج میں پروفیسر تھا.یہ رسالہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۲۲ جون ۱۸۹۷ء کو شائع فرمایا تھا.☆ سفر ملتان اور لاہور میں قیام.اکتوبر ۱۸۹۷ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اوائل اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ایک رؤیا میں دیکھا کہ آپ ایک حاکم کی عدالت میں کسی گواہی کے لئے پیش ہوئے ہیں مگر حاکم نے شہادت کے دستور کے مطابق آپ کو قتسم نہیں دی.اس کے بعد حضور نے ۸.اکتوبر ۱۸۹۷ء کو پھر خواب میں دیکھا کہ اس شہادت کے ضمن میں ایک سپاہی سمن لے کر آیا ہے.۲۴ ان ایام میں حالات ایسے تھے کہ بظاہر کسی مقدمہ کا وہم و گمان بھی نہیں تھا.مگر چند روز کے بعد ہی ایک سپاہی سمن لے کر آ گیا اور معلوم ہوا کہ مولوی رحیم بخش صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نواب صاحب بہاولپور نے لا ہور کے اخبار ” ناظم الہند کے ایڈیٹر پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے.اس اخبار کے ایڈیٹر سید ناظم حسین صاحب کاظمی تھے جو شیعہ تھے اور حضور کے سخت مخالف تھے.اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے یہی صاحب تھے جنہوں نے ترکی قونصل حسین کا می کے سلسلہ میں حضرت اقدس کے خلاف اشتعال انگیزی کی تھی.بایں ہمہ انہیں یہ یقین تھا کہ حضرت اقدس اپنے بلند کیریکٹر اور عالی حوصلگی کی وجہ سے شہادت کے معاملہ میں اظہار حق میں ہرگز پس و پیش نہ کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضور نے اپنی بلندی اخلاق کی وجہ سے ملتان کا لمبا سفر اختیار کیا اور وہاں جا کر شہادت دی.مگر عجیب بات ہے کہ رویا کے مطابق جب حاکم آپ سے شہادت لینے لگا تو قسم دینا بھول گیا اور یاد آنے پر قانون کا منشاء پورا کرنے کیلئے بیان کے بعد قسم دی.واپسی پر حضور نے لاہور میں محترم جناب شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم ما لک بمبئی ہاؤس کے مکان واقعہ انارکی بالمقابل پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی میں چند دن قیام فرمایا.لاہور میں ان دنوں ایف سی کالج مراد ہے.

Page 46

45 حضور کی شدید مخالفت تھی.جہاں سے بھی آپ گزرتے آوارہ اور بداخلاق لوگ آپ پر آوازے کتے.مگر آفرین ہے آپ پر کہ ذرا بھی ماتھے پر شکن نہ آتا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ : ” یہاں ( یعنی لاہور میں ) جن جن جگہوں سے آپ گذرتے وہاں کے لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے.میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں اس مخالفت کی جولوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا.اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گزرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے ہیں؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈ شخص جس کا ایک پونچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کے کٹنے ہی کا زخم تھا یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالبا مسجد وزیر خاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ہائے.ہائے مرزا انٹھ گیا ( یعنی میدان مقابلہ سے فرار ہو گیا ) اور میں ان الفاظ کو دیکھ کر سخت حیران تھا خصوصاً اس شخص پر اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا.۲۵ لاہور شہر میں جہاں مخالفت کا یہ حال تھا وہاں سنجیدہ اور باوقار طبقہ بھی موجود تھا اور ایسے لوگ ہر مذہب وملت میں پائے جاتے ہیں.چنانچہ وہ کثرت کے ساتھ حضرت اقدس کی مجلس میں آتے اور حضور کی پُر معارف گفتگو کوسن کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے.بعض لوگ سوالات بھی کرتے مگر آپ کے جوابات سن کر حیران رہ جاتے.چنانچہ محترم چوہدری محمد اسماعیل صاحب ریٹائر ڈ ای.اے.سی مرحوم کا بیان ہے کہ: خاکسار عرض کرتا ہے کہ چوہدری صاحب مرحوم گو اختلاف کے بعد غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بہت ادب و احترام کیا کرتے تھے.قادیان میں بھی جایا کرتے تھے.چنانچہ راقم الحروف نے خود ان کو احمد یہ چوک قادیان میں ایک مرتبہ دیکھا تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ عقاید مولوی محمد علی صاحب کے ٹھیک ہیں مگر دعا حضرت میاں صاحب ( مراد حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ ) کی قبول ہوتی ہے.

Page 47

46 حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کا دولت کدہ جو ان کی پرانی دوکان بمبئی ہاؤس کے عقب میں تھا حضرت اقدس کے نزول اجلاس کے باعث رشک جنت بنا ہوا تھا.سردی کا موسم تھا.ایک وسیع کمرہ کی باہر والی طاقچی میں حضرت صاحب تشریف فرما تھے.اس وقت کے حالات کے مطابق یہ جگہ بہت غیر محفوظ تھی.باہر سے بڑی آسانی سے حملہ ہوسکتا تھا مگر بغیر کسی محافظ کے حضرت اقدس نہایت اطمینان سے بیٹھے تھے.خدام کے علاوہ شہر کے بہت سے معزز اشخاص وہاں موجود تھے.کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.غیر از جماعت لوگ مختلف قسم کے اعتراض کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے.آخر عیسائیوں کی طرف سے ایک اعتراض پیش ہوا کہ ” قرآن مجید میں جو قصے درج ہیں وہ بائیل سے لئے گئے ہیں.معلوم نہیں یہ اعتراض کسی عیسائی نے پیش کیا یا کسی مسلمان نے کسی عیسائی کی طرف سے پیش کیا.چونکہ مسئلہ اہم تھا اور حاضرین کی تعداد اتنی تھی کہ اگر حضرت صاحب بیٹھ کر جواب دیتے تو سب حاضرین نہ سن سکتے.اس واسطے حضرت صاحب کھڑے ہو گئے اور ایسی معرکہ کی تقریر فرمائی کہ اپنی جماعت کے لوگ تو ایک طرف رہے دوسرے لوگ بھی عش عش کرنے لگے.مجھے وہ سماں نہیں بھول سکتا.جب بہت سے دلائل دے کر حضرت صاحب نے فرمایا ” غرض جس طرح گھاس پھوس اور چارہ گائے کے پیٹ میں جا کر لہو اور پھر تھنوں میں جا کر دودھ بن جاتا ہے.اسی طرح تو راۃ اور انجیل کی کہانیاں اور داستانیں قرآن میں آ کر نور اور حکمتیں بن گئیں ، یہ سن کر ہال جزاک اللہ اور بارک اللہ کے نعروں سے گونج اٹھا.میں جب کبھی اس طرف جاتا ہوں اور اس طاقچی کو دیکھتا ہوں تو وہ نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور اس کے سامنے آنے سے جو دل پر گذرتی ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے“.۲۶ بشپ آف لاہور کو چیلنج لا ہور ہمیشہ مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے.لاہور میں لندن کے ایک پادری صاحب جن کا نام لیفر ائے تھا اور جو بشپ کے عہدہ پر فائز ہو کر آئے تھے انہوں نے لاہور آتے ہی معصوم

Page 48

47 نبی“ اور ”زندہ نبی کے مضامین پر لیکچر دینے کا اعلان کیا اور بڑی جرات کے ساتھ مسلمانوں کو مقابلہ کا چیلنج دیا.چنانچہ ان کا پہلا لیکچر ۱۸مئی ۱۹۰۰ء کو فورمین چیپل لا ہور انارکلی لاہور میں’ نبی معصوم“ کے موضوع پر ہوا.اس لیکچر میں انہوں نے ضعیف روایات اور تفاسیر کی بناء پر حضرت مسیح علیہ السلام کے سوا سارے انبیاء کو گنہ گار ثابت کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو مقابلہ پر آئے.حضرات علماء جو جلسہ میں موجود تھے لاحول ولاقوہ پڑھتے ہوئے جلسہ سے چل دیئے.اتفاقاً اس جلسہ میں احمدیت کے شیدائی حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی موجود تھے.ان کی غیرت بھلا کب برداشت کر سکتی تھی کہ بشپ صاحب مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دے کر فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے جلسہ گاہ سے نکل جائیں.آپ فوراً کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا کہ پادری صاحب ! آپ نے جو دلائل مسیح کی عصمت ثابت کرنے کیلئے انا جیل سے دیئے ہیں وہ کسی محقق کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ انا جیل تو حضرت مسیح علیہ السلام کے ارادتمندوں کی تصانیف ہیں اور ارادتمند ہمیشہ تعریف کیا ہی کرتے ہیں.البتہ اگر انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنا کوئی قول حضرت مسیح علیہ السلام کی معصومیت کے ثبوت میں پیش کیا ہو تو پھر وہ واقعی التفات کے قابل ہو گا.سو جب ہم انا جیل کو دیکھتے ہیں تو وہاں حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ایک ارادتمند کے قول کے جواب میں اپنی نسبت صاف طور پر فرماتے ہیں کہ ” تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے کوئی نیک نہیں سوائے باپ کے جو آسمان پر ہے“.معلوم ہوا کہ وہ اپنے آپ کو معصومیت کے مقام پر کھڑا کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے.البتہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور معصوم ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں فرماتا ہے ” والـلـه يـعـصـمـک مـن الناس ، یعنی اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں سے صرف تو ہی معصوم ہے.حضرت مفتی صاحب کا یہ استدلال سن کر پادری صاحب بہت گھبرائے اور جلسہ گاہ چھوڑ کر چل دیئے.جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بشپ صاحب کے اس لیکچر کا علم ہوا تو حضور نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں بشپ صاحب کو معصوم نبی“ کے موضوع پر بحث کرنے کیلئے بلایا اور لکھا کہ کسی نبی کا معصوم ثابت کرنا کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ نیکی کی تعریف میں کئی مذاہب کا آپس میں شدید اختلاف ہے.مثلاً بعض مذاہب شراب پینا حرام کہتے ہیں بعض نہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں.پس عمدہ طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور آنحضر

Page 49

48 علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدیسی اور برکاتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے.یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں.وغیرہ کے حضور کا یہ اشتہار لا ہور اور دیگر شہروں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر بشپ صاحب کو بھی پہنچا دیا گیا.مگر بشپ صاحب ایسے مرعوب ہوئے کہ گویا انہوں نے ابتداء کوئی چیلنج کیا ہی نہیں تھا.دوسرے جس روز حضور کا یہ چینج پادری صاحب کو ملا.اسی روز یعنی ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ء کو پادری صاحب نے ” زندہ رسول“ کے موضوع پر لیکچر دینے کا اعلان کیا تھا اور حسب سابق اس میں بھی مسلمانوں کو مقابلہ پر آنے کی دعوت دی تھی.یہ جلسہ رنگ محل ہائی سکول میں بڑے وسیع پیمانہ پر منعقد ہوا تھا.اور اس میں تین ہزار کے قریب آدمی تھے.مسلمانوں کو لاہور کے علماء میں سے تو کوئی عالم مقابلہ کیلئے نہ ملا.امرتسر سے مولوی ثناء اللہ صاحب کو لایا گیا.لیکن مولوی صاحب نے ڈاکٹر لیفرائے کا مقابلہ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو یہ تلقین شروع کی کہ لیکچر سننے کے لئے ہرگز کوئی مسلمان نہ جائے.مسلمانوں نے اپنے علماء کی بے بسی دیکھ کر سخت شرمندگی محسوس کی اور حضرت اقدس کی طرف رجوع کیا.حضرت اقدس نے روح القدس کی تائید سے ڈاکٹر لیفر ائے کے متوقع مضمون سے پہلے ہی زندہ رسول“ کے موضوع پر ایک مضمون لکھا.اور عجیب بات یہ ہے کہ جو لیکچر پادری صاحب نے دینا تھا اس کے دلائل کا مکمل جواب حضور کے اس مضمون میں موجود تھا.چنانچہ جب پادری صاحب اپنی تقریر ختم کر چکے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کا مضمون پڑھنا شروع کیا تو سامعین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیونکر حضرت مرزا صاحب کو پادری صاحب کے دلائل کا قبل از وقت علم ہو گیا جو آپ نے ان دلائل کو ایک ایک کر کے تو ڑ کر رکھ دیا.بشپ صاحب اور ان کے ساتھی بھی اس مضمون کوسن کر ششدر رہ گئے کیونکہ یہ مضمون ان کے لیکچر کا مکمل جواب تھا.غرض حضرت اقدس کا چیلنج وصول کر کے بشپ صاحب سخت سٹپٹائے اور مباحثہ سے صاف انکار کر دیا اور اس انکار پر متعد د انگریزی اخبارات مثلاً پاؤ نیز انڈین سپیکٹیٹر اور انڈین ڈیلی ٹیلیگراف وغیرہ نے حیرت کا اظہار کیا.۲۸

Page 50

49 سفر جہلم کے دوران لاہور میں قیام.۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء یہ بات جماعت میں شائع و متعارف ہے کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑ وی حضرت اقدس سے روحانی اور علمی مقابلہ میں عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنے مریدوں کی معرفت اپنی علمیت کا جھوٹا دعوی کر کے پبلک کو دھوکہ دینے کی کوشش شروع کر دی.حضرت اقدس نے ان کی علمیت کا پردہ چاک کرنے کیلئے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھنے کا عزم فرمایا.اور انہیں بھی بالمقابل ایسی ہی تفسیر لکھنے کی دعوت دی اور اس کے لئے ۱۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ ء سے لے کر ۲۵ فروری ۱۹۰۱ء تک ستر دن کی مدت مقرر کی.چنانچہ آپ نے پیر صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ اگر معیاد مجوزہ تک یعنی ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۰ ء سے لے کر ۲۵/ فروری ۱۹۰۱ء تک جوستر دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر سورۃ فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کا ذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہے گی.۲۹ اور ساتھ ہی لکھا کہ اگر اہل علم میں سے تین گس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور کیا فصاحت کی رُو سے اور کیا معارف قرآنی کی رُو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانچ سورو پی نقد بلا تو قف پیر صاحب کی نذر کروں گا“.ہ چیلنج دے کر اور انعام مقر فرما کرحضور نے تو اپنی کتاب بنام اعجاز اسی وقت مقررہ کے اندر یعنی ۱۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو شائع فرما دی لیکن پیر صاحب اس کتاب کے مقابل میں کوئی کتاب نہ لکھ سکے.البتہ ان کے ایک مرید مولوی محمد حسن صاحب سکنہ بھین ضلع جہلم نے اعجاز مسیح “ کا جواب لکھنا شروع کیا.مگر ابھی چند صفحے ہی لکھے تھے کہ دنیا سے رخصت ہو گئے.انہوں نے اعجاز مسیح “ اور شمس بازغہ مصنفہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے حاشیوں پر نوٹ لکھے تھے اور حضرت اقدس کی بیان فرمودہ بعض صداقتوں کو جھٹلانے کے لئے لعنة الله على الكاذبين على الکاذبین لکھا تھا مگر ابھی اس لعنت

Page 51

50 بھیجنے پر ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا کہ وہ خود اس لعنتی موت کا شکار ہو گئے.پیر مہر علی شاہ صاحب کو اپنے اس متوفی مرید مولوی محمد حسن صاحب کے نوٹوں کا علم تھا.لہذا انہوں نے اپنے کسی مرید کے ذریعہ مذکورہ بالا دونوں کتابیں جن کے حاشیوں پر متوفی کے نوٹ لکھے ہوئے تھے، منگوا لیں اور انہیں ترتیب دے کر ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا سیف چشتیائی“.مگر مولوی محمد حسن صاحب کا اپنی اس کتاب میں ذکر تک نہ کیا.پھر کتاب بھی بجائے عربی کے اردو میں لکھی اور مضمون بھی تغیر کی بجائے ادھر اُدھر کی لایعنی باتیں تھیں اور معیاد بھی گذر چکی تھی.غرض کسی پہلو سے بھی یہ کتاب حضرت اقدس کی کتاب کا جواب نہ تھی.بہر حال یہ کتاب شائع ہوگئی.انہی ایام کا ذکر ہے کہ موضع بھین ہی کا ایک نوجوان مسمی شہاب الدین یہ کتاب دیکھ رہا تھا کہ اتفاقاً اسے ایک آدمی ملا جس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور اس نے میاں شہاب الدین سے پوچھا کہ مولوی محمد حسن صاحب متوفی کا گھر کہاں ہے؟ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے ان کے گھر سے یہ کتابیں منگوائی تھیں واپس کرنی ہیں.میاں شہاب الدین صاحب نے جب وہ کتابیں لے کر دیکھنا شروع کیں تو یہ معلوم کر کے اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ پیر صاحب کی کتاب ” سیف چشتیائی لفظ بلفظ مرحوم محمد حسن کا سرقہ ہے.چنانچہ اس نے اس حقیقت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ خط اطلاع کر دی.حضور نے اسے لکھا کہ وہ دونوں کتابیں جن پر مولوی محمد حسن مرحوم کے نوٹ لکھے ہیں خرید کر یہاں لے آؤ.ہم تمہیں کتابوں کی قیمت بھی دیں گے اور آمد و رفت کا خرچ بھی.مگر میاں شہاب الدین نے اپنی مشکلات کے مدنظر اس امر سے معذوری کا اظہار کیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بھی اسے ایک چٹھی پر مشتمل لکھی تھی اس نے وہ چٹھی مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھین کو دکھا دی.مولوی کرم دین اسی مضمون پر صاحب ان ایام میں حضرت اقدس کے مداح تھے.انہوں نے بھی حضرت صاحب کی خدمت میں پیر صاحب کے تصنیفی سرقہ سے اطلاع دے دی اور حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی کے ایک خط لکھنے پر مولوی محمد حسن صاحب کے ایک لڑکے سے چھ روپیہ میں ایک کتاب اعجاز مسیح “ حاصل کر کے حضرت حکیم صاحب کو بھیج دی.بعد ازاں حضرت حکیم صاحب نے چھ روپے اور دے کر دوسری کتاب نمس بازغہ“ بھی حاصل کر لی اور جب یہ سارا مواد حاصل ہو گیا تو چونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہوتا تھا.حضرت اقدس نے اسے اپنی کتاب ” نزول اسیح ،، میں شائع فرما دیا.نزول

Page 52

51 المسیح “ کا شائع ہونا تھا کہ پیر صاحب کے مریدوں نے مولوی کرم دین صاحب کی مخالفت شروع کر دی اس مخالفت سے گھبرا کر مولوی کرم دین صاحب نے جہلم کے اخبار ” سراج الاخبار“ کے ۶/اکتوبر ۱۹۰۲ء کے پرچہ میں لکھا کہ یہ خطوط جو مرزا صاحب نے میری طرف منسوب کئے ہیں جعلی اور بناوٹی ہیں.میں نے ہرگز نہیں لکھے.اس کے بعد اس نے جہلم میں لالہ سنسار چند صاحب مجسٹریٹ کی عدالت میں حضرت اقدس حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم اور حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی.جس کے سلسلہ میں حضرت اقدس کو جہلم کا سفر اختیار کرنا پڑا.مقدمہ کی تاریخ ۱۷/ جنوری ۱۹۰۳ تھی.اس لئے حضور ۱۵/ جنوری کو قادیان سے روانہ ہوئے اور راستہ میں ۱۶ جنوری کو بمقام لاہور حضور کو الہام ہوا.اریک برکات مـن کـل طرف.یعنی میں تجھے ہر ایک پہلو سے برکتیں دکھلاؤں گا.رات آپ نے لاہور میں حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے نئے مکان واقعہ بیرون دہلی دروازہ میں گذاری.اور جب جہلم سے بانیل مرام واپس ہوئے تو بھی ۱۱۸ جنوری کو رات حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان میں ہی قیام فرمایا.اس سفر میں علاوہ اور اصحاب کے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا بل بھی حضور کے ہمراہ تھے.لاہور میں میاں فیملی نے حضور اور حضور کے ہمرایوں کی مہمان نوازی میں دن رات ایک کر دیا اور خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا لاہور میں قیام حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف افغانستان سے حج خانہ کعبہ کے لئے نکلے تھے.مگر جب پشاور پہنچے تو ایک دم ذہن میں اس طرف مائل ہو گیا کہ زندگی کا اعتبار نہیں.مجھے پہلے امام الزمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف زیارت حاصل کرنا چاہئے مگر قادیان پہنچ کر حضرت مسیح زمان کی پاک صحبت سے ایسے وارفتہ ہو گئے کہ دو تین مہینے گزار دیئے حتی کہ حج کے ایام بھی گذر گئے.واپسی کے وقت آپ نے لاہور میں چند روز مسجد حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب واقعہ لنگے منڈی میں قیام فرمایا یہ خط و کتابت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے بھی الحکم میں شائع کر دی تھی.(مؤلف) حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی زندگی تک نماز جمعہ بھی انہی کی مسجد میں ہوا کرتی تھی ان کی وفات کے بعد نمازیں تو برابر وہاں ہوتی رہیں مگر جمعہ حضرت مولوی غلام حسین صاحب کی مسجد میں ہوا کرتا تھا.

Page 53

52 کشمیری بازار سے کچھ کتابیں خریدیں اور اس دوران میں جو جمعہ کا دن آیا تو آپ نے گمٹی بازار والی مسجد میں جو حضرت مولوی غلام حسین صاحب کی مسجد کہلاتی تھی.ایک نہایت ہی لطیف وعظ بھی فرمایا.دوران قیام میں ایک صاحب نے اپنے کسی عزیز کی شادی پر دعوت ولیمہ دی.اس دعوت میں جولوگ مدعو تھے ان میں حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ کا بھی نام تھا.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل فرمایا کرتے تھے کہ اس دعوت میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہمراہ میں بھی گیا تھا.جب آپ دعوت کے کمرہ میں پہنچے تو دستر خوان پر قسم قسم کے کھانے نہایت ہی قرینے سے چنے ہوئے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب ابھی بیٹھے ہی تھے کہ آپ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور آپ نے اس کھانے کو دیکھ کر فارسی زبان میں مجھے فرمایا کہ تم لوگ مجھے یہاں گوہ کھلانے کے لئے لائے ہو؟ یہ کہہ کر اٹھے اور تیز تیز چلنے لگے.آپ کا جبہ ہوا میں اڑ رہا تھا.راستے میں آپ نے مجھے چار آنے دیدئیے اور فرمایا کہ نان اور کباب خرید لو.میں نے حکم کی تعمیل کی.پھر وہ نان اور کباب جو کافی مقدار میں تھے ہم لوگوں نے گمٹی بازار والی مسجد میں جو اس وقت احمدیوں کے پاس تھی بیٹھ کر کھائے.میزبان نے جب اس طرح حضرت صاحبزادہ صاحب کو واپس جاتے ہوئے دیکھا تو وہ آپ کی کشفی نظر سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ دعوت سودی روپیہ سے کی گئی ہے.۳۰ حضرت اقدس کی لاہور میں آمد اس بات سے جماعت کے باخبر لوگ خوب واقف ہیں کہ جن ایام میں گورداسپور میں حضور کے خلاف مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھین کی طرف سے مقدمات چل رہے تھے.ادھر جماعت لاہور کے متواتر اصرار کی وجہ سے حضور نے لاہور تشریف لانے کا وعدہ بھی کر رکھا تھا.۱۸/ اگست ۱۹۰۴ء کی پیشی کے بعد جو ۵ / ستمبر ۱۹۰۴ء کی تاریخ پڑی تو درمیانی وقفہ کو کافی سمجھ کر حضور لا ہور تشریف لے آئے.حضور کی آمد کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی.چنانچہ جب حضور اسٹیشن پر پہنچے تو اسٹیشن پر ہندوؤں اور مسلمانوں کا اس قدر مجمع تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.کافی تعداد میں انگریز بھی حضور کو دیکھنے کیلئے اسٹیشن پر پہنچے ہوئے تھے.

Page 54

53 ایک ایمان افروز روایت اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمان افروز روایت بیان کر دی جائے جو خاکسار نے ۱۹۳۹ء میں حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل اور حضرت با بو غلام محمد صاحب فورمین سے متعدد بارسنی تھی.وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب حضور لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے یہ مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کی قوموں کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھنچتے ہیں اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں حضور کی گاڑی کھینچنی چاہئے.چنانچہ ہم نے گاڑی والے کو کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو.آج گاڑی ہم کھینچیں گے.کوچوان نے ایسا ہی کیا.جب حضور اسٹیشن سے باہر تشریف لائے تو گاڑی کو دیکھ کر فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں ؟ ہم نے عرض کی کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈ ر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے.حضرت نے یہ بات سن کر فرمایا.فوراً گھوڑے جو تو.ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے.ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.اسے خاکسار عرض کرتا ہے کہ خاکسار نے جب یہ روایت اپنی کتاب ”حیات طیبہ میں درج کی تھی.اس وقت اس واقعہ کا سن بھول گیا تھا اور کوئی شخص اس کی تعیین بھی نہ کر سکا.لیکن جب کتاب شائع ہو گئی تو گوجرانوالہ کے حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگرا جو ایک لمبا عرصہ تک لاہور میں قیام فرما رہے.انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ۱۹۰۲ ء کا ہے جب حضور اگست میں گورداسپور سے تشریف لائے تھے.اور میں بھی ان نوجوانوں میں شامل تھا.جنہوں نے حضور کی گاڑی کھینچنے کا منصوبہ بنایا تھا.حضور کے قیام کے لئے جماعت نے حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرہ کا نیا مکان واقعہ بیرون دہلی دروازہ تجویز کیا ہوا تھا اور باقی مہمانوں کے لئے ساتھ ہی حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کا مکان.حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگڈا یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ” میں نے حضور کی خدمت میں رقعہ لکھا تھا کہ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کو

Page 55

54 بھی بلا لیا جائے.لوگ ان کے مواعظ حسنہ سے فائدہ اٹھائیں گے.اس پر حضور نے حضرت مولوی صاحب کو بلایا.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت ! لوگ آپ کے مواعظ حسنہ سے مستفیض ہونا چاہتے ہیں.کچھ فرمائیے.اس پر آپ نے فرمایا.ایک ہوتا ہے امیر اور وہ ہیں حضرت مرزا صاحب اور ایک ہوتا ہے مامور اور وہ میں ہوں اگر حضور مجھے حکم دیں تو میں حاضر ہوں ورنہ میں اگر دھت“ (یعنی خواہ مخواہ آگے آنے والا ) نہیں بننا چاہتا.اس پر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا.حضور کی طرف سے اجازت آنے پر حضرت مولوی صاحب نے وعظ بیان کرنا شروع کر دیا.۳۲ پانی ناپاک نہیں ہوا ۲۱ اگست ۱۹۰۴ء کے روز جب حضور ظہر کی نماز کے وقت باہر تشریف لائے تو نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد احباب جماعت نے درخواست کی کہ حضور کرسی پر تشریف فرما ہوں تا سب لوگ بآسانی حضور کی زیارت کرسکیں.حضور نے خدام کی اس درخواست کو قبول فرما لیا اور کرسی پر تشریف فرما ہو کر حقائق و معارف سے لبریز ایک نہایت ہی لطیف تقریر فرمائی.اس روز کا ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ چونکہ پنجاب کے اکثر ضلعوں میں سے کافی تعدا میں مرد اور عورتیں جمع ہو گئی تھیں.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ کثرت ہجوم کی وجہ سے پانی کے بڑے بڑے مشکے رکھے ہوئے تھے.بعض دیہاتی عورتوں نے جو اپنے بچوں کے ہاتھ پاؤں دھونے کے لئے ان سے پانی لیا تو کسی نے شکایت کر دی کہ حضور عورتوں نے تو پانی ناپاک کر دیا ہے.حضور بڑی متانت سے مٹکوں کی طرف تشریف لائے.ایک ملکہ سے کچھ پانی لے کر پیا اور پھر فرمایا کہ پانی تو بڑا ٹھنڈا ہے.گویا حضور نے خود اپنے عمل سے بتادیا کہ پانی ناپاک نہیں ہوا.اگر نا پاک ہوتا تو میں کیوں پیتا.۲۸ / اگست ۱۹۰۴ء کو صبح سات بجے حضور نے تو بہ ایمان اور نزول بلا کی فلاسفی پر ایک نہایت ہی ایمان افزا تقریر فرمائی.حاضری سینکڑوں افراد پر مشتمل تھی.بیرون جات کے بہت سے احباب نے بیعت بھی کی جو کثرت بیعت کنندگان کی وجہ سے پگڑیوں کے واسطہ سے کی گئی.یہ امر خاص طور پر قابل

Page 56

55 ذکر ہے کہ اس موقعہ پر جماعت لاہور کو مسلسل کئی روز تک سینکڑوں احباب کی مہمان نوازی کی خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء لیکچر لا ہو ر ۱۳ ستمبر ۱۰۹۴ء ۱۳ ستمبر ۱۹۰۴ء کو آپ کا مشہور و معروف لیکچر اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب کے موضوع پر اس منڈوہ میں ہوا جو مزار حضرت داتا گنج بخش کے عقب میں ہے.اور اس وقت میلا رام کا منڈ وہ کہلاتا تھا.لیکچر کے متعلق اشتہارات سارے لاہور میں تقسیم کر دیے گئے تھے.اس لئے لیکچر شروع ہونے سے قبل ہی سارا منڈ وہ بھر گیا.مخالف علماء لیکچر گاہ کے نزدیک لوگوں کو جلسہ سے روکنے کے لئے گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ کہ رہے تھے کہ جو مسلمان لیکچر سنے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.ایک مولوی جو شیشم ( ٹاہلی ) کے درخت پر چڑھ کر لوگوں کو روک رہا تھا وہ بعد میں مولوی ٹاہلی کے نام سے مشہور ہو گیا.خدا کی قدرت ! کہ جیسے جیسے حضرات علماء لوگوں کو روکتے تھے.ویسے ویسے مخلوق زیادہ ذوق و شوق کے ساتھ اس طرف انڈی چلی آتی تھی.پولیس کا بھی زبر دست انتظام تھا.لیکچر ٹھیک اپنے وقت مقررہ پر صبح ساڑھے چھ بجے شروع ہوا.حضرت اقدس کا لیکچر جوطبع کروا لیا گیا تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ہزار ہا کے مجمع میں بلند آواز سے پڑھ کر سنایا.لیکچر دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.پہلے حصہ میں اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب کے درمیان موازنہ کیا گیا تھا اور دوسرے حصہ میں زندہ خدا کے زندہ نشانات پیش کر کے اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت دیا گیا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جب حضور کا لیکچر سنا چکے تو پلک نے اصرار کیا کہ حضرت اقدس زبانی بھی کچھ ارشادفرمائیں.لیکن جب حضور کھڑے ہوئے تو بعض مخالفین نے شور مچانا شروع کر دیا.یہ رنگ دیکھ کر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے قرآن کریم خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا.بس پھر کیا تھا.لوگ ایسے متاثر ہوئے کہ مجمع پر بالکل سکوت طاری ہو گیا.اس کے فوراً بعد حضرت اقدس کی تقریر شروع ہوئی.حضور نے پہلے پبلک کا شکریہ ادا کیا اور پھر فرمایا کہ مذہبی اختلافات کو آپس کی عداوت اور ایذارسانی کی وجہ نہ بنائیں.خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں.آپ لوگ بھی اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کریں.میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ مذاہب کے اختلاف کا ذکر نہ کرو.کرو اور بے شک کرو مگر نیک نیتی کے

Page 57

56 ساتھ کرو.تعصب اور کینہ کو درمیان میں نہ لاؤ.ر کا اثر نہایت ہی اچھا پڑا اور حضرات علماء کی ساری مخالفانہ کوششیں اکارت گئیں.فالحمد لله على ذالک - ۵ ستمبر ۱۹۰۴ء کو مقدمہ کرم دین کی پیشی تھی اس لئے حضور ۴ ستمبر ۱۹۰۴ء کو واپس گورداسپور تشریف لے گئے.احباب لا ہور کی خدمات اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لاہور کی جماعت خدمات دینیہ میں ہمیشہ پیش پیش رہتی اور حضرت اقدس بھی ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے.چنانچہ ۱/۲۲ کتوبر ۱۹۰۵ ء کو جب حضور دہلی تشریف لے گئے تو علاوہ اور اصحاب کے جناب خلیفہ رجب دین صاحب بھی حضور کے اس سفر میں شریک تھے.پھر جب حضور نے فروری ۱۹۰۶ء میں صدر انجمن احمدیہ کے لئے مجلس معتمدین کے رکن نامزد فرمائے تو ان میں لاہور کے مندرجہ ذیل احباب بھی شامل تھے.جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.ائے جناب خواجہ کمال الدین صاحب قانونی مشیر، جناب شیخ رحمت اللہ صاحب جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب جناب سید محمد حسین شاہ صاحب.مگر افسوس ہے کہ ان احباب میں سے حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کے علاوہ باقی حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی وفات پر مرکز احمدیت کو ہمیشہ ہمیش کیلئے خیر باد کہہ کر لاہور میں آگئے اور احمد یہ بلڈنگس میں انجمن اشاعت اسلام کے ممبر بن کر حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خلاف مخالفانہ پراپیگنڈہ کرنا اپنا شیوہ بنا لیا اور عداوت محمود میں اس حد تک ترقی کی کہ گویا ان کے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب ہی’ عداوت محمود بن کر رہ گیا.آریہ سماج و چھو والی کی مذہبی کا نفرنس کیلئے حضور کا مضمون.دسمبر ۱۹۰۷ء آریہ سماج و چھو والی لاہور نے ۲.۳.۴ دسمبر ۱۹۰۷ ء کو ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی.اس کانفرنس کے لئے انہوں نے نومبر ۱۹۹۷ء میں ہی اپنے تئیسویں سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک اشتہار دے رکھا تھا جس میں عہد کیا تھا کہ مختلف مذاہب کے ودوان نہایت مہذبانہ رنگ میں اس سوال پر روشنی ڈالیں گے

Page 58

57 کہ کیا کوئی کتاب الہامی ہوسکتی ہے.اگر ہو سکتی ہے تو کونسی؟،، ۳۳ آریہ سماج کے سیکرٹری نے حضرت اقدس کی خدمت میں بھی نہایت عاجزانہ رنگ میں متعدد خطوط لکھے تھے کہ آپ بھی ضرور اس میں شامل ہوں مگر حضور کو چونکہ سابقہ تجربہ کی بناء پر یقین تھا کہ آریہ قوم کے لوگ اسلام اور بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بد زبانی اور دشنام طرازی سے باز نہیں رہ سکتے.اس لئے ابتداء حضور نے اس کا نفرنس میں شرکت کرنے سے معذوری کا اظہار فر ما دیا تھا.مگر بعد ازاں محترم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کی درخواست اور آریوں کے اس اقرار پر کہ قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ کے خلاف کوئی دلآزار بات نہیں کہی جائے گی.رضا مندی کا اظہار فرما دیا تھا.چنانچه ۲ دسمبر 19۷ء کو دس بجے صبح اس کا نفرنس میں شامل ہونے کے لئے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی امارت میں ایک وفد روانہ فرمایا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ، حضرت میر ناصر نواب صاحب ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، محترم ابوسعید صاحب عرب کے علاوہ اور بھی کئی ایک اصحاب شامل تھے.جو مضمون حضور نے اس موقعہ پر پڑھنے کیلئے دیا وہ گو بہت عجلت میں لکھا گیا تھا مگر جناب الہی میں ایسا مقبول ہوا کہ جب مضمون ختم ہوا تو حضور کو الہام ہوا.رض انهم ماصنعوا هو كيد ساحرٍ ولا يفلع الساحر حيث اتى.انت منى بمنزلة رُوحِي - انت منی بمنزلة النَجْمِ الثَاقِبُ - جَاء الحَقُّ وَزَهُق الباطل - یعنی جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادوگر کی تدبیر ہے.اور جادو گر کسی راہ سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوگا.تو مجھ سے بمنزلہ میری روح کے ہے.تو مجھ سے بمنزلہ اس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے.حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا.۳۴ یہ مضمون سنانے کے لئے حضور نے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کو ہی مقر فر ما یا مگر ساتھ یہ اجازت بھی دی کہ اگر مولوی صاحب اسے مکمل طور پر نہ سناسکیں تو بقیہ مضمون ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سنا دیں اس مضمون کے لئے منتظمین جلسہ نے ۳ دسمبر ۱۹۰۷ء کی شام کو ۸ بجے سے ۱۰ بجے تک کا وقت مقرر کر رکھا تھا مگر حضرت اقدس کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر لوگ ۵ بجے سے ہی آنا شروع ہو گئے تھے.اور جب حضرت اقدس کا لیکچر شروع ہوا تو اس قدر مخلوق کا ہجوم تھا کہ آریہ سماج کے مندر میں

Page 59

58 تل دھرنے کو جگہ باقی نہ تھی.نیچے اور اوپر تمام کمروں اور صحن میں آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے.لیکچر شروع ہونے سے قبل ہی مزید داخلہ کے ٹکٹ جگہ کی قلت کے باعث بند کر دیئے گئے تھے.مضمون کا ابتدائی حصہ حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم صاحب نے پڑھ کر سنایا اور آخری حصہ جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے.لیکچر کے آخر میں صاحب صدر اور حاضرین مجلس کے اصرار پر حضرت مولوی صاحب نے آخری حصہ کے الہامات کا ترجمہ بھی سنایا مگر ترجمہ شروع کرنے سے قبل اس امر کی وضاحت فرما دی کہ جو تر جمہ آپ کریں گے اس سے کوئی صاحب حجت نہیں پکڑ سکیں گے کیونکہ قابل استناد تر جمہ صرف وہی ہو سکتا ہے جو حضرت اقدس کا اپنا کیا ہوا ہو.حضور کے اس مضمون میں اسلام کے محاسن اس عمدگی اور دلکش انداز میں بیان کئے گئے تھے کہ اپنے تو الگ رہے غیروں نے بھی اس مضمون کی خوبیوں کا برملا اعتراف کیا.چنانچہ پیسہ اخبار نے اپنی ۳ دسمبر ۱۹۰۷ ء کی اشاعت میں لکھا: مذہبی مباحثہ کا جلسہ بہ سر پرستی آریہ سماج شہر لاہور ۳ دسمبر کی شام کو سماج مذکور کے مندر واقعہ وچھو والی میں ٹھیک 4 بجے شروع ہوا اور ۱۰ بجے شب تک قائم رہا.خلقت کا ہجوم پہلے دن سے کہیں زیادہ اور اس قدر عظیم تھا کہ مندر کا سارا حصہ دالان کمرے بالائی برآمدے اور سب سے اوپر والی چھت کے کنارے لوگوں سے بھر گئے اور کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.آخر کار ٹکٹ بند کر دینے پڑے.اتنے بڑے اثر دھام میں خوش انتظامی تو دشوار تھی تاہم غنیمت ہے کہ کسی قسم کی بدمزگی نہ ہونے پائی.کارروائی جلسہ کا افتتاح مسٹر روشن لال صاحب پریسیڈنٹ کی ایک مختصری تقریر سے ہوا اور پہلے گھنٹہ میں برہمو سماج کے ایک نمائندہ نے اپنا لیکچر بلند آواز سے پڑھا جو جملہ مذاہب کی کتب مقدسہ کو قابل قدر ماننے کے خیالات پر مشتمل تھا.اس کے بعد حکیم مولوی نور الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے بالترتیب ایک ایک گھنٹہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا ایک مطبوعہ لیکچر جس کی ضخامت ۴۶ صفحہ تھی سنایا.جس کے ابتدائی حصہ میں اسلام کی عالمگیر تعلیم صلح جوئی وامن پسندی پر قابل تعریف بحث کی گئی تھی اور مذاہب غیر کو توجہ دلائی گئی تھی کہ اسلام جس طرح اپنے پیروؤں کو سابق پیغمبران کی تعظیم اور کتب ہائے مقدسہ کی تکریم کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ بزرگانِ اسلام کو نا گوار لفظوں میں یا دکر کے مسلمانوں کا دل نہ دکھا ئیں.۳۵

Page 60

59 ولایت کے مشہور ماہنامہ ریویو آف ریویوز نے لکھا: راقم مضمون بہت سی قرآن مجید کی آیات حوالہ میں پیش کرتا ہے جن کی بابت اس کا دعوی ہے کہ وہ تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاویں جن کو دنیا کے کثیر حصہ نے قبول کر لیا ہے یہ تحمل کا بہت وسیع اصل اور قاعدہ ہم اپنے آزاد خیال عیسائی بھائیوں کے سامنے بطور سفارش پیش کرتے ہیں.در حقیقت یہ ایک بالکل نئی بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ مذہب جواب تک تمام مذہبوں سے زیادہ متعصب اور غیر متحمل خیال کیا گیا تھا.اپنے تمام دشمنوں اور مقابل کے لوگوں کے مشن کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے.۳۶ اس کے مقابل میں آریوں نے جس درندگی اور بے باکی سے پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفی امیہ کے خلاف زبان طعن دراز کی.اس سے مسلمانوں کے جگر چھلنی ہو گئے اور غصہ سے ان کا خون کھولنے لگا اور اگر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے بار بارصبر وتحمل سے برداشت کرنے کی تلقین نہ ہوتی تو قریب تھا کہ اس مجلس میں خون کی ندیاں بہہ نکلتیں.بایں ہمہ جب اس جلسہ کی کارروائی کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی تو حضور شر کا ء جلسہ خصوصاً حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب پر سخت ناراض ہوئے.اور بار بار جوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیسے بیٹھے رہے اور کیوں نہ خود اٹھ کر باہر چلے آئے ؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے؟ اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ اذا سمعتم ايات الله يكفربها ويُستهزء بها فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حدیثِ غيره ۳۷ یعنی اے مومنو! جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جایا کرو تا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ گفتگو کو اختیار کریں.۳۸ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمد احد صاحب خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا بیان

Page 61

60 حضرت خلیفہ اول اس وقت سر جھکائے آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے.وہ جماعت کے ایک بڑے آدمی تھے مگر وہ بھی سر ڈالے بیٹھے رہے.آپ بار بار فرماتے کہ صلى الله تمہاری غیرت نے کیونکر برداشت کر لیا کہ تم اس جگہ پر بیٹھے رہو جہاں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہو رہی ہے.تب مولوی محمد احسن صاحب امروہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کی ایک ناراضگی کے موقعہ پر یہ الفاظ کہے تھے کہ رضيت بالله ربا و بالا سلام ديناً وبمحمد رسولاً.اسی قسم کے الفاظ انہوں نے کہے اور پھر کہا حضور ذہول ہو گیا.یعنی ہر آدمی سے بعض موقعوں پر غلطی ہو جاتی ہے.ہم سے بھی ذہول کے ماتحت یہ غلطی ہوئی ہے حضور در گذر فرما ئیں.آخر بہت دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غصہ فرو ہوا اور آپ نے اس غلطی کو معاف فرمایا.۳۹ آخری سفر لاہور.۲۷/ اپریل ۱۹۰۸ء اب ہم لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا آخری واقعہ لکھتے ہیں.لاکھوں آدمی لاہور میں آئے لیکن مذہبی رہنماؤں میں سب سے زیادہ اہم شخصیت آپ ہی کی تھی جس کی لاہور میں اتنی مرتبہ آمد ورفت رہی.اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت ام المؤمنین علیہا السلام کی طبیعت علیل رہتی تھی.اس لئے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ لاہور جا کر کسی قابل لیڈی ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج ہونا چاہئے.حضرت اقدس کو غالباً اپنی طبیعت کے کسی مخفی اثر کے ماتحت ان ایام میں سفر اختیار کرنے میں تامل تھا مگر حضرت ام المؤمنین علیہا السلام کے اصرار پر حضور تیار ہو گئے.۲۶.اپریل ۱۹۰۸ء کو علی الصبح ۴ بجے حضور کو الہام ہوا.مباش ایمن از بازی روزگار اس پر اس روز حضور نے توقف اختیار فرمایا اور ۲۷.اپریل ۱۹۰۸ ء کو لاہور کیلئے روانہ ہو گئے.جب حضور بٹالہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج ریز روگاڑی کا انتظام نہیں ہو سکتا.اس پر آپ نے پہلے تو واپس قادیان جانے کا ارادہ فرمایا.مگر پھر کچھ سوچ کر بٹالہ میں ہی ریز روگاڑی کے انتظار میں ٹھہر گئے.۲۹.اپریل ۱۹۰۸ ء کو جو گاڑی ملی تو آپ اس میں لا ہور کو روانہ ہو گئے.

Page 62

61 لاہور میں آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور خواجہ صاحب کے مکان کو مرجع خلائق بنا دیا.احمدی اور غیر احمدی احباب حضور کی زیارت کو آنے لگے.وہاں چونکہ قیام کا ارادہ ذرا لمبا ہو گیا اس لئے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ، حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی اور دیگر احباب بھی لاہور پہنچ گئے.اخبار بدر کا دفتر بھی عارضی طور پر لاہور میں میاں نبی بخش صاحب احمدی کے مکان میں منتقل ہو گیا تا کہ تازہ بتازہ خبریں احباب تک پہنچ سکیں.حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب نے احمد یہ بلڈنگس کے میدان میں جہاں اب مسجد ہے روزانہ قرآن کریم کا درس جاری فرما دیا.نماز جمعہ کا انتظام بھی اسی جگہ شامیانہ لگا کر کیا گیا.حضور کی لاہور آمد کی خبر سن کر بیر ونجات سے بھی کثرت کے ساتھ احباب تشریف لائے تھے.گواحباب کے قیام و طعام کے جملہ انتظامات جماعت لاہور نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے مگر اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے چند دن بعد ایک نانبائی کی صاف اور ستھری دکان کا بھی انتظام کر لیا گیا تھا.لا ہور میں مخالفت کا زور لا ہور میں مخالفت کا بڑا زور تھا اور حضرت اقدس کے لاہور پہنچنے پر تو یہ مخالفت اور تیز ہوگئی.روزانہ آپ کی فرودگاہ کے سامنے شریر اور بدظن لوگ اڈہ جما کر نہایت ہی گندے اور اشتعال انگیز لیکچر دینے لگے.جماعت کے کچھ احباب لوگوں کی ان شرارتوں کو دیکھ کر سخت پیچ و تاب کھاتے تھے.جس پر حضور نے احباب کو جمع کر کے یہ نصیحت فرمائی کہ ان گالیوں کو آپ لوگ صبر سے برداشت کریں اور ضبط نفس سے کام لیں.مغلوب الغضب انسان بہادر نہیں ہوتا.بہادر وہ ہے جو غصہ کو پی کر اپنے نفس پر قابو حاصل کر کے دکھاوے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ خدام نے آپ کی نصیحتوں پر عمل کیا اور بہت صبر سے کام لیا.بداخلاق لوگ تو ان نا معقول حرکات میں مبتلا تھے لیکن شریف طبقہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا خیال پیدا کیا اور وہ پے در پے حضور کے پاس آتے اور فائدہ اٹھاتے رہے.اسی دوران میں 9 مئی ۱۹۰۸ ء کو آپ کو پھر الہام ہوا: الرَّحِيل ثُمَّ الرَّحِيل.انّ الله يحمل كلَّ حِمل یعنی کوچ اور پھر کوچ.اللہ تعالیٰ سارا بوجھ خود اٹھا لے گا.

Page 63

62 یہ حضور کے وصال کی گھڑی کے قریب آجانے کا بالکل واضح اشارہ تھا.مگر حضور نہایت استقلال کے ساتھ اپنے کام میں منہمک رہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں فرمایا.البتہ انبیاء کی سنت کے مطابق حضور نے اس الہام کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئے اپنی جائے قیام کو بدل لیا اور فرمایا کہ یہ بھی ایک قسم کا کوچ ہی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا.پس آپ خواجہ صاحب کے مکان سے منتقل ہو کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف لے گئے.چند دن بعد جو قادیان سے ایک مخلص احمدی با بوشاہدین صاحب اسٹیشن ماسٹر کی وفات کی خبر پہنچی تو لوگوں کی توجہ اس طرف منتقل ہو گئی کہ شاید کوچ والے الہام سے بابو صاحب کی طرف ہی اشارہ تھا.مگر قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدس کو خوب پتہ تھا کہ یہ الہام حضور کے متعلق ہے.ہے.مختلف الخیال لوگوں کی حضور سے ملاقاتیں جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے حضور علیہ السلام کی لاہور میں آمد پر زائرین کا تانتا بندھ گیا تھا.ان ملاقاتیوں میں سے بعض اہم شخصیتیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے ایسے سوالات پیش کئے جن کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں ہو گا.چنانچہ ایک صاحب پروفیسر کیمنٹ ریگ تھے جو انگلستان کے مشہور سیاح اور ہیئت دان تھے.یہ صاحب ریلوے اسٹیشن کے قریب علم ہیئت پر میجک لینٹن کے ذریعہ لیکچر دے رہے تھے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا وہاں سے گذر ہوا.لیکچر سننے کے بعد حضرت مفتی صاحب نے ان سے ملاقات کی اور حضرت اقدس کے دعاوی اور دلائل سے انہیں آگاہ کیا.مفتی صاحب کی تقریر کا پروفیسر صاحب پر اس قدراثر ہوا کہ انہوں نے حضور سے ملاقات کا شوق ظاہر کیا.چنانچہ انہوں نے اور ان کی میم صاحبہ نے دومرتبہ احمد یہ بلڈنکس میں آ کر حضرت اقدس سے ملاقات کی اور جن سوالات کا تسلی بخش جواب وہ کہیں سے بھی حاصل نہ کر سکے تھے خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت اقدس سے ملاقات کے نتیجہ میں انہیں اپنے سوالوں کے تسلی بخش جوابات مل گئے اور وہ حضور کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ : وو ” مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ہر طرح سے اطمینان کامل حاصل ہو گیا اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی میں

Page 64

نہیں، 63 دوسرے صاحب جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں وہ میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر تھے جو بعد میں سر فضل حسین صاحب کہلائے اور کئی سال تک گورنمنٹ آف انڈیا میں وزارت کے جلیل القدر عہدہ پر متمکن رہے.آپ ایک شریف النفس انسان تھے اور یوں تو تمام بنی نوع کے ہمدرد تھے لیکن مسلمان قوم کی مظلومیت تو ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی.آپ ۱۵ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور بعض سوالات کئے جن کے حضرت اقدس نے تسلی بخش جوابات دیئے.مثلاً ایک سوال ان کا یہ تھا کہ اگر تمام غیر احمدیوں کو کافر کہا جائے تو پھر تو اسلام میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ: ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کا فرکہہ کر خود کا فرنہ بن جائے آپ کو شاید معلوم نہ ہو.جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کافر ہے دجال ہے.ضال ہے.اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے.جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ کرے یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کافر ہے.اب سنو! یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کہے وہ کا فر ہوتا ہے.پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کر سکتے ہیں.آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمارے لئے کیا راہ ہے؟ ہم نے ان پر کوئی فتوی نہیں دیا.اب جو انہیں کا فر کہا جاتا ہے تو یہ انہیں کے کافر بنانے کا نتیجہ ہے.ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی.ہم نے کہا کہ دومسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں.اس نے جواب میں لکھا کہ ہم تو تجھے پکا کا فر سمجھتے ہیں.اس شخص (میاں فضل حسین صاحب) نے عرض کیا کہ وہ آپ کو کافر کہتے ہیں تو کہیں.لیکن اگر آپ نہ کہیں تو کیا حرج ہے؟ فرمایا کہ جو ہمیں کا فرنہیں کہتا ہم اسے ہرگز کافر نہیں کہتے.لیکن جو ہمیں کا فر کہتا ہے اسے کافر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے نہیں ہوسکتا.”اس شخص نے کہا کہ جو کا فرنہیں کہتے ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں کیا حرج ہے؟

Page 65

64 فرمايا لا يدخل المومن في حجر واحد مرتين.ہم خوب آزما چکے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل منافق ہوتے ہیں.ان کا حال یہ ہے واذا لقوا الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا الى شياطينهم قالوا انا معكم انما نحن مستهزؤن یعنی سامنے تو کہتے ہیں کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی مخالفت نہیں.مگر جب اپنے لوگوں سے مخفی بالطبع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ان سے استہزاء کر رہے تھے.پس جب تک یہ لوگ ایک اشتہار نہ دیں کہ ہم سلسلہ احمدیہ کے لوگوں کو مومن سمجھتے ہیں بلکہ ان کو کافر کہنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں تو میں آج ہی اپنی جماعت کو حکم دے دیتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیں.ہم سچائی کے پابند ہیں.آپ ہمیں شریعت اسلام سے باہر مجبور نہیں کر سکتے...قرآن مجید میں فمنهم ظالم لنفسه ومنهم مقتصد و منهم سابق بالخیرات.ہم تو تینوں طبقوں کے لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں.مگر ان کو کیا کہیں کہ جو مومن کو کا فرکہیں ہم انہیں بھی اس وقت تک ان کے ساتھ سمجھیں گے جب تک وہ ان سے اپنے الگ ہونے کا اعلان بذریعہ اشتہار نہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ لکھیں کہ ہم ان مکفرین کو بموجب حدیث صحیح کا فر سمجھتے ہیں.۲۲ ۱.مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو آپ کو الہام ہوا مکن تکیه برعمر نا پائیدار یعنی نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر جس سے معلوم ہوا کہ وفات کا وقت بالکل قریب ہے مگر حضور پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے.رؤسائے لاہور کو دعوت طعام اور تبلیغ ہدایت.۷ امئی ۱۹۰۸ء حضرت اقدس یہ چاہتے تھے کہ لاہور کے عمائد ورؤ سا تک اپنا دعویٰ اور دلائل پہنچانے کا کوئی احسن انتظام کیا جائے.چنانچہ اس غرض کیلئے ۱۷.مئی کو ایک دعوت طعام کا انتظام کیا گیا.حضور سے ملاقات کا انتظام ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں کیا گیا تھا.جب شامیانے کے نیچے سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت اقدس نے لوگوں کی درخواست پرا1 بجے تقریر شروع فرما دی.حضور نے اپنی تقریر میں ان تمام اعتراضات کے مکمل اور تسلی بخش جوابات دیئے جو حضور کے دعاوی اور

Page 66

65 تعلیمات پر مخالفین کی طرف سے کئے جاتے تھے.جب بارہ بج گئے اور ایک گھنٹہ تقریر ہو چکی تو حضور نے حاضرین سے دریافت فرمایا کہ اب کھانے کا وقت گزرا جاتا ہے چاہو تو میں اپنی تقریرہ بند کر دوں مگر اکثر لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں.لیکن یہ روحانی غذا ہر روز کہاں نصیب ہوتی ہے.پس حضور تقریر جاری رکھیں.آپ کی یہ معرکۃ الآرا تقریر ایک بجے بعد دو پہر ختم ہوئی.اس کے بعد حضرت اقدس مہمانوں سمیت جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے مکان کے صحن میں جو چند قدم کے فاصلہ پر تھا کھانے کیلئے تشریف لے گئے.اخبار عام کی غلط فہمی کا ازالہ بذریعہ خط حضرت اقدس کی اس تقریر کی جور پورٹ ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء کے اخبار ” عام“ میں شائع ہوئی.اس میں چونکہ غلط رپورٹ درج کرتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا کہ گویا حضور نے دعویٰ نبوت کو واپس لے لیا ہے حالانکہ حضور نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا اخفا نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے اور خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے اسی کا نام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں یہ تو نزاع لفظی ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے.”دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول کہ قولوا انه خاتم النبین ولا تقولوا لانبی بعدہ اس امر کی صراحت کرتا ہے.نبوت اگر اسلام میں موقوف ہو چکی ہے.تو یقین جانو کہ اسلام بھی مر گیا ہے اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے، ۴۴ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ اصل حقیقت کا اظہار کیا جائے.چنانچہ حضور نے ایڈیٹر صاحب اخبار عام کو ایک خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ دو پر چہ اخبار عام ۲۳.مئی ۱۹۰۸ء کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ خبر درج ہے کہ گویا میں نے جلسہ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ

Page 67

66 اس جلسہ میں میں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت ﷺ کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو.دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نبی نام رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں.۳۵ ایک پبلک لیکچر کی تجویز اور ”پیغام صلح کی تصنیف دعوت طعام کے موقعہ پر جو لیکچر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دیا تھا وہ چونکہ ایک محدود طبقہ میں دیا گیا تھا اس لئے بعض معززین نے یہ تجویز پیش کی کہ حضور ایک پبلک لیکچر بھی دیں جس میں کثرت سے لوگ شامل ہو کر فائدہ اٹھا ئیں.حضور نے یہ تجویز منظور فرمالی اور اس کے لئے ایک مضمون لکھنا شروع فرما دیا.مضمون کا عنوان تھا ”پیغام صلح، حضور چاہتے تھے کہ اس پیغام کے ذریعہ سے ہندوستان کی دومشہور قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی طور پر صلح ہو جائے اور حضور

Page 68

67 نے اس کے لئے چند تجاویز بھی پیش فرمائی تھیں لیکن ابھی مضمون کے سنائے جانے کا موقع نہیں آیا تھا کہ حضور کا وصال ہو گیا.فانا لله و انا اليه راجعون.حضور کے وصال کے بعد یہ لیکچر ۲۱.جون ۱۹۰۸ء کو اتوار کے روز سات بجے صبح یونیورسٹی ہال میں ایک بڑے مجمع کے سامنے جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے سنایا.اس جلسہ کے صدر لاہور چیف کورٹ کے جسٹس سر پر تول چندر چیٹر جی تھے.ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.بلکہ باہر بھی کثرت سے لوگ کھڑے تھے.اس لیکچر میں بیان فرمودہ تجاویز کولوگوں نے بہت پسند کیا اور اسی وقت لوگوں نے دستخط کرنے پر آمادگی کا بھی اظہار کیا لیکن اس خیال سے کہ یہ ارادہ مضمون کے فوری اثر کی وجہ سے نہ ہو دستخط کیا جانا دوسرے وقت پر ملتوی کیا گیا.مگر پھر ان دستخطوں کی نوبت نہیں آئی اور سنا گیا کہ آریہ صاحبان نے ان تجاویز کو اپنے مقصد کے خلاف سمجھ کر دستخط کرنے پسند نہیں کئے.لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس وقت صلح کے شہزادہ نے ہندو و مسلم اتحاد کے لئے جو تجاویز پیش کی تھیں کسی نہ کسی وقت ضرور ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا.حضور کا یہ مضمون جو پیغام صلح کی صورت میں شائع شدہ موجود ہے قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے.چنانچہ اس وقت سے لے کر اب تک جن لوگوں نے اس کا مطالعہ کیا ہے وہ اس سے از حد متاثر ہوئے ہیں.ذیل میں چند آراء درج کی جاتی ہیں :.وو ا.مدراس کے مشہور ہند و اخبار ہندو پیٹریٹ (Hindu Patriot) نے لکھا: ” وہ عظیم الشان طاقت اور اعلیٰ درجہ کی ہمدردی جو قادیان کے بزرگ کے اس آخری پیغام صلح سے ظاہر ہوتی ہے وہ یقیناً ایک خاص امتیاز کے ساتھ اسے ایک عظیم الشان انسان ثابت کرتی ہے.ایسی اپیل ایسے عظیم الشان انسان کی طرف سے یونہی ضائع نہیں جانی چاہئے اور ہر ایک محب وطن ہندوستانی کا مدعا ہونا چاہئے کہ وہ مجوزہ صلح کو عملی رنگ پہنانے کی کوشش کرئے“.۴۶ و, مشہور انگریزی رسالہ ریویو آف ریویوز نے اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: یہ پیغام ایک سنہری پل کا کام دے سکتا ہے جس پر سوار ہو کر مسلمانان ہند قانون اساسی کے خیمہ میں پہنچ سکتے ہیں.پیغام صلح شروع میں ہی تمام ہندوستانیوں کے ایک ہونے

Page 69

68 کو تسلیم کرتا ہے.وہ بات جس سے اس کی خواہش کی سچائی ثابت ہوتی ہے ( یہ ہے ) که تمام نبیوں کو خدا کی طرف سے مان کر مذہبی اتفاق اور اتحاد کی بنیاد رکھی جائے.اس پیغمبر صلح کی یہ نرالی تجویز ہے“.".ایک غیر مسلم دوست پی.بی سنگھ لکھتے ہیں : کتاب ”پیغام صلح نے مجھ پر حیرت انگیز اثر کیا ہے.میں اسلام کو اچھا مذہب خیال نہیں کرتا تھا.اسلام کے متعلق مسلمانوں کا جو تھوڑا بہت لٹریچر میں نے مطالعہ کیا ہے اس سے مجھ پر یہی اثر ہوا تھا کہ اسلام جارحانہ مذہب ہے.میں اسے کبھی رواداری کا مذہب نہیں سمجھتا تھا جیسا کہ اب سمجھتا ہوں“.۲۸ ۴.مسٹر برہم دت ڈیرہ دون نے لکھا: چالیس برس پیشتر یعنی اس وقت جب کہ مہاتما گاندھی ابھی ہندوستان کے افق سیاست پر نمودار نہیں ہوئے تھے ( حضرت ) مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے ۱۸۹۱ء میں دعومی مسیحیت فرما کر اپنی تجاویز رسالہ ”پیغام صلح کی شکل میں ظاہر فرمائیں جن پر عمل کرنے سے ملک کی مختلف قوموں کے درمیان اتحاد واتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے.آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری اخوت اور محبت کی روح پیدا ہو.بیشک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل بعید کثیف پردے میں سے دیکھا اور (صحیح) راستہ کی طرف رہنمائی فرمائی.۴۹ مرض الموت ہوا.حضرت اقدس اپنے لیکچر ”پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف رہے کہ ۲۰/ مئی ۱۹۰۸ء کو یہ الہام الرحيل ثم الرحيل والموت قريب ۵۰ د یعنی کوچ کا وقت آ گیا ہے ہاں کوچ کا وقت آ گیا ہے اور موت قریب ہے.یہ الہام صراحت کے ساتھ حضور کی وفات کے بالکل قریب ہونے پر دلالت کرتا تھا.اس لئے

Page 70

69 حضور نے اس کی کوئی تاویل نہیں فرمائی.یکے بعد دیگرے اس قسم کے الہامات دیکھ کر حضرت ام المومنین علیہا السلام نے ایک دن گھبرا کر عرض کی کہ اب قادیان واپس چلیں.فرمایا ” اب تو ہم اس وقت چلیں گے جب خدا لے جائے گا حضور ان ایام میں پیغام صلح کی تقریر لکھنے میں مصروف تھے.اس الہام کے بعد تقریر کے لکھنے میں حضور نے زیادہ کوشش اور تیزی اختیار فرمائی.آخر کار چھپیں مئی کی شام کو یہ مضمون قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپر د فر ما دیا.قرآئن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے یہ سمجھ کر کہ یہ مضمون لکھنے کے لئے پھر شاید موقعہ نہ ملے اپنے بقیہ نوٹوں پر کچھ لکھنا ملتوی فرما کر جتنا لکھا جا چکا تھا وہ کا تب کے حوالے کر دیا.عصر کی نماز کے بعد حضور نے وفات مسیح علیہ السلام پر ایک مختصری تقریر کی جو حضور کی آخری تقریر تھی.اس تقریر میں فرمایا کہ د عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عیسی محمدی کو آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے.ا اور پھر حسب معمول سیر کیلئے باہر تشریف لائے.کرایہ کی ایک گاڑی حاضر تھی.حضور نے اپنے ایک مخلص مرید حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا: ” میاں عبدالرحمن ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے.وہ ہمیں صرف اتنی دُور تک لے جائے کہ ہم اس روپے کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں“.۵۲ چنانچہ حضور کے اس حکم کی تعمیل کی گئی اور آپ ہوا خوری کر کے واپس تشریف لے آئے.اس وقت حضور کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی.صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قد رضعف تھا اور غالباً آنے والے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ر بودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں اور پھر تھوڑا سا کھانا تناول فرما کر آرام کے لئے لیٹ گئے.اس کے بعد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب ”سلسلہ احمدیہ میں لکھتے ہیں.

Page 71

70 وصال اکبر - ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کوئی گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ آپ کو پاخانے کی حاجت محسوس ہوئی اور آپ اٹھ کر رفع حاجت کیلئے تشریف لے گئے.آپ کو اکثر اسہال کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اب بھی ایک دست آیا اور آپ نے کمزوری محسوس کی اور واپسی پر حضرت والدہ صاحبہ (یعنی حضرت ام المومنین علیہا السلام.ناقل ) کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے ایک دست آیا ہے جس سے بہت کمزوری ہوگئی ہے.وہ فوراً اٹھ کر آپ کے پاس بیٹھ گئیں اور چونکہ پاؤں کو دبانے سے آرام محسوس ہوا کرتا تھا.اس لئے آپ کی چار پائی پر بیٹھ کر پاؤں دبانے لگ گئیں.اتنے میں آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور آپ رفع حاجت کیلئے گئے اور جب اس دفعہ واپس آئے تو اس قدر ضعف تھا کہ آپ چار پائی پر لیٹتے ہوئے اپنا جسم سہار نہیں سکے اور قریباً بے سہارا ہو کر چار پائی پر گر گئے.اس پر حضرت والدہ صاحبہ نے گھبرا کر کہا کہ اللہ ! یہ کیا ہونے لگا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا، یعنی اب وقت مقدر آن پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا.مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جو آپ کے خاص مقرب ہونے کے علاوہ ایک ماہر طبیب تھے ) کو بلواؤ.اور یہ بھی فرمایا کہ محمود ( یعنی ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) اور میر صاحب ( یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر تھے ) کو جگا دو.چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے اور بعد میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلوا لیا اور علاج میں جہاں تک انسانی کوشش ہو سکتی تھی وہ کی گئی.مگر خدائی تقدیر کو بدلنے کی کسی شخص میں طاقت نہیں.کمزوری لحظه بلحظہ بڑھتی گئی اور اس کے بعد ایک اور دست آیا جس کی وجہ سے ضعف اتنا بڑھ گیا کہ نبض محسوس ہونے سے رک گئی.دستوں کی وجہ سے زبان اور گلے میں خشکی بھی پیدا ہوگئی.جس کی وجہ سے بولنے میں دقت محسوس ہوتی تھی.مگر جو کلمہ بھی اس وقت آپ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا.اللہ.میرے پیارے اللہ اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا.

Page 72

71 صبح کی نماز کا وقت ہوا تو اس وقت جب کہ خاکسار مؤلف (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.ناقل ) بھی پاس کھڑا تھا.نحیف آواز میں فرمایا ” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ ایک خادم نے عرض کیا.ہاں حضور ہو گیا ہے.اس پر آپ نے بسترے کے ساتھ دونوں ہاتھ تیتیم کے رنگ میں چُھو کر لیٹے لیٹے ہی نماز کی نیت باندھی مگر اسی دوران میں بیہوشی کی حالت ہو گئی.جب ذرا ہوش آیا تو پھر پوچھا ” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟“ عرض کیا گیا ہاں حضور ہو گیا ہے.پھر دوبارہ نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد نیم بیہوشی کی کیفیت طاری رہی.مگر جب کبھی ہوش آتا تھا وہی الفاظ اللہ.میرے پیارے اللہ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جاتا تھا.آخر دس بجے صبح کے وقت نزع کی حالت پیدا ہوگئی اور یقین کر لیا گیا کہ اب بظاہر حالات بیچنے کی کوئی صورت نہیں.اس وقت تک حضرت والدہ صاحبہ نہایت صبر اور برداشت کے ساتھ دعا میں مصروف تھیں اور سوائے ان الفاظ کے اور کوئی لفظ آپ کی زبان پر نہیں آیا تھا کہ ” خدایا ! ان کی زندگی دین کی خدمت میں خرچ ہوتی ہے تو میری زندگی بھی ان کو عطا کر دے، لیکن اب جب کہ نزع کی حالت پیدا ہوگئی تو انہوں نے نہایت در دبھرے الفاظ سے روتے ہوئے کہا ” خدایا ! اب یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں لیکن تو ہمیں نہ چھوڑ یو.آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دو لمبے لمبے سانس لئے اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی.انـا لـلـه وانا اليه راجعون.كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام.۵۳ آپ کی عمر وصال کے وقت آپ کی عمر اپنے ایک مشہور الہام ثمانين حولاً او قريباً من ذلك أو تزيد علیه سنيناً ۵۴ کے حساب سے ۷۴ اور قمری حساب سے ۷۶ سال کی تھی.

Page 73

72 اہل بیت کا صبر حضرت ام المومنین علیہا السلام نے صبر کا جو نمونہ دکھایا.اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی نہایت ہی صبر کے ساتھ اس صدمہ کو برداشت کیا اور بجز یاحی یا قیوم کے اور کوئی کلمہ آپ کی زبان سے نہیں نکلا.حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی باوجود اس سخت صدمہ کے نہایت استقامت اور استقلال کے ساتھ ضروری امور کے انتظام میں مصروف رہے.احباب جماعت کو اچانک وفات کا صدمہ حضور کے وصال کی خبر آنا فانا تمام شہر میں پھیل گئی.مگر چونکہ حضور ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء تک با قاعدہ اپنے تصنیف کے محبوب مشغلہ میں مصروف رہے اور اس روز قبل شام حسب معمول سیر کے لئے بھی تشریف لے گئے تھے.اس لئے باہر کے احباب تو الگ رہے لاہور کے احمدیوں کو بھی حضور کے وصال کا یقین نہیں آتا تھا اور وہ یہ دعائیں کرتے کرتے احمد یہ بلڈنگس میں جمع ہو رہے تھے کہ خدا کرے یہ افواہ غلط ہو.مگر جب احمد یہ بلڈ نگکس میں پہنچتے تھے تو اس افواہ کو حقیقت پر مبنی سمجھ کر دنیا ان کی نگاہوں میں تیرہ و تار ہو جاتی تھی اور وہ شدت غم سے دیوانوں کی طرح نظر آتے تھے.جولوگ حضرت اقدس کے خاص تربیت یافتہ تھے.گوان کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں مگر وہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے جذبات کو روکے ہوئے تھے اور حضرت اقدس کے وصال کے بعد جو ذمہ داریاں ان پر عاید ہوتی تھیں ان کے انجام دینے میں مصروف تھے.مخالفوں کی حالت یہ تو اہل جماعت کا حال تھا.رہے غیر از جماعت تو وہ دوحصوں میں منقسم تھے.ایک حصہ جو شریف طبقہ سے متعلق تھا.ان کو تو حضرت اقدس کی وفات پر بلحاظ آپ کے اسلامی جرنیل ہونے کے رنج وقلق تھا اور ان میں سے ایک خاصی تعداد حضور کا آخری دیدار اور اظہار غم و ہمدردی کے لئے احمدیہ بلڈنکس میں آ گئی.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے.دوسرا طبقہ جو پہلے طبقہ کی ضد تھا اس نے ایسی

Page 74

73 کرتوت کا مظاہرہ کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.یہ طبقہ اپنے رہنماؤں کی اقتداء میں اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں جمع تھا اور اس کے افراد گندے نعرے لگاتے اور غلیظ گالیاں دیتے ہوئے حملہ آواروں کی صورت میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کی طرف جس میں حضرت اقدس کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی، بڑھتے اور پسپا ہوتے تھے اور ان کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایسے ارادے رکھتے ہیں جو کسی قوم کے ادنیٰ سے ادنی اور ذلیل سے ذلیل افراد سے بھی سرزد ہونا مشکل ہیں.تجهيز وتلفين احمدی احباب علاوہ اس طوفان بے تمیزی کو روکنے کے حضرت اقدس کی نعش مبارک کو قادیان لے جانے کی تیاری بھی کر رہے تھے.دن میں دو اور تین بجے کے درمیان بڑی کوشش کے بعد فسل دینے اور کفنانے سے فراغت ہوئی.اس کے بعد جنازہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مرحوم کے مکان کی اوپر کی منزل سے نیچے صحن میں لایا گیا اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور یہ حضور کی پہلی نماز جنازہ تھی جو لاہور میں ہی ادا کی گئی.مخالفین نے علاوہ طرح طرح کی لغویات اور خلاف انسانیت حرکات کے لئے یہ بھی کیا کہ ریلوے افسران کو یہ جھوٹی خبر پہنچائی کہ (حضرت) مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے.یہ حرکت اس غرض کو مدنظر رکھ کر تھی کہ ہیضہ سے فوت ہو جانے والے کی نعش کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا متعدی بیماری ہونے کی وجہ سے ریلوے قانون کے خلاف تھا.مخالفین چاہتے تھے کہ نعش مبارک قادیان کو نہ لے جائی جاسکے اور یہاں تدفین میں جس قسم کی دقتیں وہ ڈالنا چاہتے تھے، جی کھول کر ڈال سکیں.مخالفوں کی اس شرارت کا احمدیوں کو بھی علم ہو چکا تھا.اس لئے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم پرنسپل میڈیکل کالج لاہور کے پاس گئے جو آخر وقت میں حضرت اقدس کے علاج کے لئے بلائے گئے تھے اور ان سے اس کا رروائی کا جو مخالفین نے کی.اظہار کیا اور چاہا کہ جس مرض سے حضرت اقدس کی وفات ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب اس کے متعلق سر ٹیفکیٹ دیں.چنانچہ انہوں نے یہ سر ٹیفکیٹ دیا کہ آپ کی وفات ہیضے سے ہر گز نہیں بلکہ اعصابی تکان کے دستوں سے ہوئی ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حضرت

Page 75

74 اقدس کو یہ پرانا عارضہ تھا اور گاہے گاہے اسہال کی شکایت ہوتی رہتی تھی.چنانچہ جب جنازہ اسٹیشن پر پہنچا تو ریلوے حکام نے اس جھوٹی رپورٹ کی بناء پر یہ اعتراض کیا کہ ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ ( حضرت ) مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی ہے اس لئے گاڑی نہیں دی جاسکتی.مگر جب معالج ڈاکٹر کا سر ٹیفکیٹ پیش کیا گیا تو اجازت دیدی اور جنازہ سیکنڈ کلاس کی گاڑی میں جو ریز رو کرائی گئی تھی رکھوا دیا گیا.معاندوں کی ایک اور مذموم حرکت معاندوں نے جنازے کی روانگی کے بعد ایک مذموم حرکت یہ کی کہ اپنوں میں سے کسی کا منہ کالا کر کے اس کو چار پائی پر لٹا کر فرضی جنازہ تیار کیا اور اسے اٹھا کر ” ہائے ہائے مرزا ” ہائے ہائے 9966 مرزا‘‘ کا شور کرتے ہوئے موچی دروازہ سے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے.ان کی یہ حرکات جس قسم کی تھیں ہر وہ شخص جس کو ذرا بھی شرافت کا احساس ہو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.احمدیوں نے ان کی ان تمام لغویات پر صبر سے کام لیا اور ان کی طرف سے کوئی بات ایسی نہ ہوئی جو قابل گرفت ہوتی بحالیکہ اس رنج وغم کی حالت میں مخالفین کا یہ رویہ جس قدر دلخراش اور اشتعال انگیز تھا محتاج بیان نہیں.یہ تھے ان لوگوں کے افعال جو اسلام کے نام پر حضرت اقدس کی مخالفت کرنے والے تھے.ہم اس موقعہ پر نہ تو مخالفین کی ان حرکتوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے.البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں گے کہ اس وقت حضرت اقدس کے مسلمان کہلانے والے مخالفوں نے جو مظاہرہ کیا وہ اسلامی تعلیم، شرافت بلکہ انسانیت کیلئے کس درجہ باعث ننگ و عار تھا.جنازہ قادیان پہنچایا گیا اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت اقدس کی نعش مبارک سیکنڈ کلاس کے ایک ریز روڈ بہ میں رکھوا دی گئی تھی.گاڑی لاہور سے پونے چھ بجے شام روانہ ہوئی اور دس بجے رات کو بٹالہ پہنچی.جنازہ گاڑی میں رہا جس کی حفاظت کے لئے خدام پاس رہے.دو بجے رات نعش مبارک صندوق سے باہر نکالی گئی اور ایک چار پائی پر رکھ کر خدام نے جنازہ کندھوں پر اٹھا لیا.صبح آٹھ بجے کے قریب ۱ امیل کا سفر طے کر

Page 76

75 کے مسیح محمدی کے عاشقوں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر نعش مبارک قادیان پہنچا دی اور یہ جسد اطہر و مبارک اس باغ میں جو بہشتی مقبرہ کے ملحق ہے بحفاظت تمام رکھ دیا گیا اور جماعت کے تمام دوستوں کو جو ملک کے طول و عرض سے جمع ہو گئے تھے اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقعہ دیا گیا.۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو تمام حاضر الوقت جماعت نے متفقہ طور پر حضرت مولانا حکیم حافظ نورالدین صاحب کو حضور کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور نماز جنازہ کے بعد جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے پڑھائی.شام کے چھ بجے حضور کا جنازہ بہشتی مقبرہ میں لے جا کر فن کر دیا گیا ہے ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تدفین کے متعلق مرحوم و مغفور مولا نا محمد یعقوب صاحب فاضل سابق انچارج صیغہ زود نویسی ربوہ کا ایک نوٹ درج کیا جاتا ہے جو آنمرحوم نے محترم مستری مہر دین صاحب سے مل کر اور سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کر کے بڑی محنت سے لکھا تھا اور گو اس کتاب کے مضمون کے لحاظ سے اس کے اندراج کا یہاں موقعہ نہیں تھا مگر میں یہاں محض اس لئے درج کر رہا ہوں کہ یہ تاریخی مواد محفوظ ہو جائے وہو ہذا.اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد اطہر کو لحد میں نہیں بلکہ شق میں رکھا گیا ہے.روایت حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل.میاں رحم دین صاحب باورچی حکیم دین محمد صاحب و دیگر صحابہ اور بغیر تابوت کے آپ کو دفن کیا گیا ہے.تدفین کے وقت آپ کی قبر کی تیاری حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی کی زیر نگرانی ہوئی.(اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۷۲) کام کرنے کے لئے جو مزدور اور مستری لگائے ہوئے تھے ان میں سے ایک مستری حضرت میاں مہر دین صاحب ولد مستری گوہر دین صاحب تھے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہیں اور قادیان کے قدیمی باشندے ہیں.ان کی بیعت 90ء کی ہے اور اس وقت نوابزادہ میاں محمد احمد خان صاحب کی زمینوں پر نگرانی کا کام کر رہے ہیں.وہ چونکہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے حضور کی قبر کی تیاری کا کام مکمل کیا.اس لئے میں اب ذیل میں انہی کے بیان کردہ واقعات درج کرتا ہوں.یہ واقعات میں نے خودان کی زبان سے سنے ہیں.مستری صاحب کی عمر گو اس وقت اسی سال سے زیادہ ہے مگر جسمانی قومی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے ہیں اور دماغ بھی پوری طرح کام کرتا ہے اور واقعات کو انہوں نے خوب اچھی طرح یا درکھا ہے.انہوں نے بتایا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی اطلاع لاہور سے قادیان پہنچ چکی تھی اس لئے بہشتی مقبرہ میں آپ کی قبر راتوں رات تیار کی گئی.قبر کھودنے میں ثواب کی خاطر پانچ سات احمدی دوستوں نے حصہ لیا.جن میں سے میاں امام دین، میاں فضل دین اور میاں صدر الدین صاحبان کے نام انہیں خاص طور پر یاد ہیں.میاں صدر الدین صاحب نے خدا تعالیٰ کے فضل سے لمبی عمر پائی اور تقسیم ملک کے بعد وہ قادیان میں ہی بطور درویش مقیم رہے.ان کی

Page 77

76 اور اس طرح اس پاک اور مقدس وجود کو جس کی کل انبیاء بشارتیں دیتے چلے آئے تھے اور جس نے ساری مذہبی دنیا میں زندہ مذہب زندہ خدا اور زندہ نبی کو پیش کر کے ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیا اولا در بوہ میں ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے مخلصانہ تعلقات رکھتی ہے.” جب جنازہ قادیان پہنچا تو لاہور کے اکابر جماعت کا مشورہ یہ تھا کہ قبر پختہ بنائی جائے.ان دنوں قادیان میں کوئی اینٹوں کا بھٹہ نہ تھا بلکہ پختہ اینٹیں بٹالہ سے منگوائی جاتی تھیں.اس لئے پختہ اینٹوں کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحن کی ایک پردہ کی دیوار سے پختہ اینٹیں اکھیڑی گئیں اور گدھوں پر لا کر بہشتی مقبرہ لے جائی گئیں.یہ اینٹیں چھوٹے سائز کی تھیں.مستری صاحب کہتے ہیں کہ قاضی عبدالرحیم صاحب نے مجھے اور مستری محمد اسماعیل صاحب کو جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ملازم تھے اور معماری کا کام جانتے تھے بلایا اور ہم قبر بنانے لگے.آپ کی قبر ساڑھے سات فٹ لمبی تھی اور چار یا پونے چارفٹ چوڑی تھی.اس کے اندر پختہ اینٹوں کی جو چھوٹے سائز کی تھیں ایک چار دیواری بنائی گئی.یہ دیواریں چھ سات انچ موٹی تھیں اور زمین سے اڑھائی فٹ اونچی تھیں.جب یہ چار دیواری پختہ اینٹوں کی قبر کے اندر بن چکی تو میں نے قاضی صاحب سے کہا کہ اب چھوٹی اینٹوں کی ڈاٹ سیمنٹ یا چونہ سے لگنی چاہئے تب محفوظ رہ سکے گی.انہوں نے کہا کہ حضرت مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے پوچھ لیتے ہیں.آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی قبر اوپر سے پکی نہیں ہے اس لئے یہ بھی پکی نہیں بنانی چاہئے.اس کے بعد ہم نے ڈاٹ کے لئے کچی اینٹوں کو گرانا شروع کر دیا.اس وقت ہمیں خیال آیا کہ اگر یونہی ڈاٹ لگادی گئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد اطہر پر مٹی اور کنکریاں وغیرہ گریں گی اس لئے بہتر ہے کہ اس پختہ چار دیواری کے اوپر تختے رکھ دیئے جائیں.چنانچہ اس غرض کے لئے اس تابوت کو جو لا ہور سے لایا گیا تھا ایک احمدی دوست مستری فقیر محمد صاحب نے کاٹا اور اس کے تختے بنا بنا کر اوپر رکھے مگر وہ تختے پورے نہ ہوئے.اس پر ایک پرانی میز کا فرش اکھیڑا گیا اور اس کے تختے بنائے گئے تب اس چار دیواری کے تختہ مکمل ہوئے.مستری صاحب کہتے ہیں کہ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد میں جلدی سے گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رخ انور کی آخری بار زیارت کی.اس وقت کثرت سے لوگ آپ کی زیارت کر چکے تھے.میں نے جب آپ کو دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آپ سورہے ہیں.آپ کے چہرہ مبارک پر کوئی زردی وغیرہ نہیں تھی.زیارت سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اب جلدی دفنانا چاہئے.مستری صاحب کہتے ہیں اس وقت معا میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا اور میں نے کچھ مزدور ساتھ لئے اور جلدی سے باہر چلا گیا.ان دنوں بہشتی مقبرہ کے باغ کے باہر قریب ہی ایک کٹواں لگ رہا تھا.میں نے مزدوروں سے کہا کہ یہاں سے فوراریت لے چلو اور خود بھی ریت اٹھالی اور پھر چھلنی سے اسے چھانا اور اس کے بعد قبر کے نیچے میں

Page 78

77 تھا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے مالک اور حی و قیوم خدا کے سپر د کر کے گھروں کو واپس لوٹ آئے.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليه راجعون.وكل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام.نے وہ تمام ریت بچھا دی.اس کام سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسدِ اطہر کو قبر میں اتارا گیا.اس وقت بہت بڑا ہجوم قبر کے اردگر د جمع ہو گیا اور بیسیوں ہاتھ آپ کو قبر میں اتارنے کے ثواب میں شریک ہونے کے لئے بیتابی کے ساتھ آگے بڑھے.حضرت خلیفہ ثانی بھی پاس ہی تھے اور حضور کے خاندان کے دوسرے افراد اور مخلصین بھی.جب آپ کو قبر میں اتار دیا گیا تو پھر تختے رکھے گئے مگر انہیں کیلوں سے بند نہیں کیا گیا.اس کے بعد کچی اینٹوں کی ڈاٹ لگا دی گئی.چونکہ شام کا وقت ہو رہا تھا.اس لئے اس وقت ہجوم میں سے دو اور احمدی راج بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.انہوں نے ایک طرف سے اور میں نے دوسری طرف سے ڈاٹ لگانی شروع کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جلدی ہی تحمیل کو پہنچ گئی.یہ گول ڈاٹ تھی جو کچی اینٹوں سے بنائی گئی.’ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بیان ” اصحاب احمد میں یوں درج ہے کہ: قاضی عبد الرحیم صاحب نے پختہ اینٹوں کی ڈاٹ بنوائی اور جب حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے نا پسند فرمایا مگر چونکہ شام کا وقت ہو چکا تھا اور باغ کے گھنے اور گنجان درختوں کی وجہ سے تاریکی اور بھی بڑھ گئی تھی اس لئے قاضی صاحب نے اس ڈاٹ کو ویسا ہی رہنے دیا اور مٹی ڈال دی گئی.(اصحاب احمد جلد نہم صفحہ ۲۷۷) مستری مہر دین صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے.ڈاٹ میں نے اپنے ہاتھ سے بنائی تھی اور کچی اینٹوں کی بنائی تھی.پھر یہ بھی کیسے ہو سکتا تھا کہ حضرت خلیفہ اول ایک بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے اور قاضی صاحب ویسا ہی رہنے دیتے.بہر حال کچی اینٹوں کی ڈاٹ بنائی گئی اور پھر مٹی ڈال دی گئی.مکرم حکیم دین محمد صاحب کی روایت ہے کہ تدفین کے بعد کسی دوست نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے اس تابوت کی بچی کچھی لکڑیوں کے متعلق جو قبر کے پاس پڑی تھیں دریافت کیا کہ ان کو کیا کیا جائے.آپ نے فرمایا ان کو پرے پھینک دو.ایسا نہ ہو کہ لوگ ان کے ساتھ شرک کریں.( الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۳ء) مزار مبارک پر آخری دعا بھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ہی فرمائی.تدفین سے فارغ ہونے کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی فرط غم سے یہ کیفیت تھی کہ آپ سے چلا بھی نہیں جاتا تھا.چنانچہ آپ بمشکل مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور مکرم حکیم دین محمد صاحب کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بہت آہستگی سے جب کہ آپ سے اپنا جسم بھی سہارا نہیں جاتا تھا اور قدم گھٹتے چلے آتے تھے اپنے گھر پہنچے.یہی کیفیت دوسرے صحابہ کی بھی تھی اور ان میں سے ہر ایک بزبانِ حال یہی کہہ رہا تھا کہ حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد

Page 79

78 حوالہ جات حیات طیبه صفحه ۱۹ بحوالہ حیات النبی جلد اول صفحه ۵۷ حیات طیبہ صفحہ ۴۷ حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۰۸ حیات احمد جلد سوم صفحه ۲۰۹ یہ صاحب اور نیل کا لج میں فارسی کی پروفیسر تھے حیات احمد حصہ سوم صفحه ۲۱۰ کے حیات طیبہ صفحہ ۱۴۱ اشتہار ۳ فروری ۱۸۹۲ء حیات احمد جلد چہارم صفحه ۴۲۲ - ۴۲۳ و سیرۃ المہدی ا اشتہار ۱ ۲ دسمبر ۱۸۹۶ء مندرجه تبلیغ رسالت لا در اصل اس مضمون کیلئے ڈیڑھ بجے سے لیکر ساڑھے تین بجے تک دو گھنٹے کا وقت مقرر تھا مگر جب ہر طرف سے تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہونے لگے تو حضرت مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے بھی اپنا وقت اس مضمون کے سنائے جانے کیلئے دے دیا.مگر مضمون لمبا تھا پھر بھی ختم نہ ہوا اور شام ہوگئی.اس پر جیسا کہ متن میں مذکور ہے ۲۹ دسمبر کا دن بڑھانا پڑا.(مؤلف) ۱۲ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ۱۴۰ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب لا ہور صفحہ ۷۹-۸۰ ۱۲ بحوالہ تاریخ احمدیت حصہ سوم صفحہ ۷ ۴۸ - ۴۸۸ ۱۵ بحوالہ حیات طیبه صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۳ از اشتهار ۲۰ فروری بحوالہ حیات طیبه صفحه ۲۱۴ کلی از اشتہار ۲۰ فروری ۱۸ استفتاء اردو حاشیه صفحه ۱۷

Page 80

79 ۱۹ نزول المسیح صفحه ۱۸۰ ۲۰ تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ پنڈت لیکھر ام صاحب وو ا سراج منیر صفحہ ۱۰۹ ۲۲ تفصیل کیلئے دیکھئے تریاق القلوب صفحہ۱۲۱.واخبار نیر صفی مدرس مورخ ۱۲.اکتوبر۱۸۹۹ء ۲۳ ۲۴ نزول اسیح صفحه ۲۲۱ ۲۵ سیرت مسیح موعود ، مصنفہ حضرت خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ تعالی ۲۶ مجد داعظم، حصہ اوّل صفحه ۵۶۱-۵۶۲ دیکھو اشتہار بشپ صاحب لاہور سے ایک بچے فیصلہ کی درخواست محرره ۲۵ مئی ۱۹۰۰ء مندرجہ تبلیغ رسالت ۲۸ تفصیل کیلئے دیکھئے ”حیات طیبہ ایڈیشن دوم صفحہ ۲۷ ۲۹ از اشتهار ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء وو ۳۰ حیات طیبہ ، صفحہ ۳۳۷ اسے ”حیات طیبه صفحه ۱۵۶ ۱۵۷ ۳۲ بحوالہ ”حیات نور ۳۳ الحکم ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ء ۳۴ چشمه معرفت ضمیمه صفحه ۲۸ ۳۵ بحوالہ الحکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۷ء ۳۶ بحوالہ ریویو آف ریلیجنز “ اردو مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۱۹۱ ۱۹۲ ۳۷ سورة النساء ۳۸ ”سیرت طیبہ لیکچر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۳۶-۳۷ ۳۹ے سیرۃ المہدی صفحه ۳۲۰ و الفضل ۱۶۴ جنوری ۱۹۴۴ء وو الحكم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ و بدر جلد نمبر ۲۱۰ 66 الم بدر ۱۲۴ مئی ۱۹۰۸ء

Page 81

وو بدر ۲۴ / مئی ۱۹۰۸ء 80 ۲۳ یہ مکمل تقریر ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ء کے الحکم میں چھپی ہوئی موجود ہے ۲۴ الحکم ۱۴۰/ جولائی ۱۹۰۸ء ۲۵ تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۱۳۲ ۲۶ بحوالہ ریویو آف ریلیجنز “ اردو ۱۹۰۸ء صفحه ۴۴۰-۴۴۴ ۴۷ ایضاً صفحه ۴۳۸ - ۴۴۰ ۲۸ بحواله الفضل ۱۲۹ مارچ ۱۹۴۰ء صفحه ۲ ۲۹ اخبار ” فرنٹیر میل ۲۲ دسمبر ۱۹۴۸ء بحوالہ تحریک احمدیت مؤلفہ جناب مولوی برکات احمد صاحب را جیکی مرحوم ۵۰ بدر جلد نمبرے نمبر ۲۲ ال "بدر ۱۱ جون ۱۹۰۸ء ۵۲ بحوالہ ” در منثور تقریر صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۵۳ سلسله احمدیه از صفحه ۱۸۲ تا ۱۸۴ ۵۴ ( ترجمہ ) یعنی تیری عمر اسی برس کی یا اس سے چند سال کم یا زیادہ ہوگی.

Page 82

دوسرا باب 81 حالات و روایات صحابہ کرام لاہور حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب ولادت: انداز ۲۳ ۱۸۲۴ء بیعت : بالکل ابتدائی ایام میں وفات : ۹۳-۱۸۹۴ء لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سب سے پہلے ایمان لانے کا فخر حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کو حاصل ہے.حضرت مولوی صاحب موصوف مسجد کو چہ سیٹھاں بالمقابل تالاب آب رسانی لنگے منڈی بازار کے امام الصلوۃ تھے ہیں مورخه ۱۹.فروری ۱۹۶۴ء کو بعد نماز ظہر محترم مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم فاضل انچارج صیغہ ز دو نویسی ربوہ اور خاکسار مؤلف حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے.سی کی خدمت میں ان کی کوٹھی واقعہ دارالصدر میں حاضر ہوئے اور ان سے حضرت مولوی صاحب کے حالات بیان کرنے کی درخواست کی.انہوں نے فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب میانہ قد کے آدمی تھے.رنگ گندمی تھا.جسم درمیانہ یعنی نہ زیادہ جسیم تھے اور نہ دبلے پتلے.سر پر عمامہ باندھتے تھے.حافظ قرآن بھی تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ آپ اس زمانہ کے رواج کے مطابق غرارہ پہنا کرتے تھے.ان کی مسجد ہمارے مکانوں کے بالکل سامنے تھی.ہمارا خاندان ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھا کرتا تھا.آپ مغرب کی نماز میں اَرَعَيْتَ الذى....اور تبت يد......دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ مغرب اور فجر کی سنتوں میں قـــل یــایـهـا الكافرون.....اور قل ھو اللہ احد پڑھنی چاہئیں.آپ کا نام ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں شامل ہے.محترم میاں نذیر حسین صاحب ابن حضرت حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسی کے بیان کے مطابق حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے دادا میاں الہی بخش صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے رہائشی مکان واقعہ لنگے منڈی کے سامنے یہ مسجد بنوائی تھی اور امام الصلوۃ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کو مقرر کیا تھا.ان ایام میں حضرت مولوی صاحب بالکل عنفوان شباب میں تھے.

Page 83

82 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو حضور کے ساتھ عقیدت رکھنے کی وجہ سے بیعت پر آمادہ ہو گئے مگر بیعت کرنے سے قبل پرانے وفات یافتہ بزرگوں کے مزاروں پر جا کر کشف القبور کے ذریعہ حضرت اقدس کی صداقت دریافت کی.ان کی تصدیق پر فوراً قادیان جا کر بیعت کر لی.جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.ہمارے خاندان کے چھوٹے بڑے تمام افراد چونکہ ان کے شاگرد تھے اس لئے ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کر لی.آپ بہت نیک اور متقی بزرگ تھے.آپ کے درس میں شامل ہونے کے لئے حضرت مرزا ایوب بیگ ( جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے بھائی تھے اور چیفس کالج لاہور میں پروفیسر تھے.بڑے لمبے قد کے، گورا رنگ، خوبصورت داڑھی.) بھی چیفس کالج سے پیدل تشریف لایا کرتے تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی آپ کے بہت معتقد تھے اور نمازوں اور درس میں شامل ہوا کرتے تھے.ان کی مسجد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کوبھی میں نے نمازیں پڑھتے دیکھا ہے.جب حضور ۱۸۹۲ء میں محبوب رایوں کے مکان میں اترے تھے اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھی جموں سے تشریف لائے ہوئے تھے تو ان ایام میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے اور حضرت اقدس حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب اور دیگر احباب مقتدی ہوا کرتے تھے.آپ کی وفات جہاں تک مجھے یاد ہے ۱۸۹۳ ء یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی.اس وقت ان کی عمر انداز ہے سال کی تھی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ آئینہ کمالات اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کا نام بھی درج فرمایا ہے.اور ساتھ ” لنگے منڈی لاہور“ لکھا ہے.لیکن انجام آتھم کے ضمیمہ میں جو۳۱۳ اصحاب کی فہرست درج ہے.اس میں آپ کے نام کے ساتھ حضور نے مرحوم لکھا ہے.اس سے بھی ظاہر ہے کہ انجام آتھم کی تصنیف سے قبل آپ وفات پاچکے تھے.۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام۱۳۲ نمبر پر ہے.حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی وفات کے بعد ہم لوگ حضرت مولوی غلام حسین صاحب کی اقتدا میں گئی بازار والی مسجد میں جمعہ پڑھا کرتے تھے.حضرت میاں عبدالرشید صاحب ابن حضرت میاں چراغ دین صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے وو

Page 84

83 جدامجد میاں الہی بخش صاحب کی زندگی امیرا نہ ٹھاٹھ میں گذری تھی.ایک دن وہ حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مولوی صاحب! میں اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرنا چاہتا ہوں.آپ فرمائیں کہ اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.آپ کسی کامل رہنما کی بیعت کریں انہوں نے عرض کی کہ آپ سے بہتر اور کون رہنما ہو گا.آپ میری بیعت لے لیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے بیعت لے لی.پھر مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا پتہ چلا تو آپ پا پیادہ قادیان پہنچے اور جا کر آنحضرت ﷺ کا سلام پہنچایا.نوٹ : بعض زبانی روایات کی بنا پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لودھیا نہ جا کر بیعت کی تھی.والله اعلم بالصواب.( عبدالقادر ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب ولادت : ۱۸۷۲ء بیعت : ۳۱- جنوری ۱۸۹۱ء وفات : ۱۳.فروری ۱۹۵۷ء عمر : ۸۵ سال حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے.حضرت مولوی صاحب ہی کے ذریعہ آپ بالکل ابتدائی زمانہ میں حضرت اقدس کے غلاموں میں شامل ہوئے.آپ کچھ عرصہ جموں میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے پاس رہے.پھر لاہور میں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں مدرس کے طور پر ملازمت کی.حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب ریٹائر ڈائی.اے سی کا بیان ہے.کہ ۱۸۹۴ء میں جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا حضرت مفتی صاحب میرے ریاضی کے استاد تھے.اور حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب والی مسجد کے ملحق پیپل والی گلی میں ایک کرایہ کے مکان میں رہتے تھے.بعد میں آپ اکو نٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملا زم ہو گئے.پھر وہیں سے ہجرت کر کے جولائی ۱۹۰۰ء میں مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق تھے.ملازمت کے دوران قریباً ہر اتوار قادیان میں گذارا کرتے تھے اور حضرت اقدس کو انگریزی اخبارات اور کتب کا ترجمہ سنایا کرتے تھے.انگریزی زبان میں خط و کتابت بھی آپ ہی کے ذریعہ ہوا کرتی تھی.انگریزوں کو تبلیغ کرنے کا بہت شوق تھا.قادیان میں ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں نے

Page 85

84 حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بی.اے کا امتحان پاس کرنے کی اجازت چاہی تا ڈگری ہاتھ آ جائے.حضور نے فرمایا.مفتی صاحب! آپ کو ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں.خدا آپ کو بہت ڈگریاں دے گا.حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ جب آپ کو حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تبلیغ کے لئے امریکہ بھیجا تو وہاں مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کے نتیجے میں آپ کو اس قدر ڈگریاں ملیں کہ جن سے کئی لائینیں بھر جاتی ہیں.ڈی.ڈی Doctor) (of Divinity کی ڈگری خاص طور پر قابل ذکر ہے جو حضرت مفتی صاحب سے پہلے کسی غیر وو عیسائی کو نہیں دی گئی تھی.۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء کو جب اخبار البدر کے مالک و مدیر با بومحمد افضل صاحب وفات پا گئے.تو ان کا اخبار حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ نے خرید لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مفتی صاحب کو ” البدر کا ایڈیٹر مقرر فرمایا اور ۳۰.مارچ ۱۹۰۵ء کو ایک خاص اعلان کے ذریعہ جماعت کو اطلاع دی کہ میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر‘ قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے.یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایک ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے.اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین لے دو پر چوں کے بعد اس اخبار کا نام ” البدر“ کی بجائے "بدر" رکھا گیا اور حضرت اقدس کی توقع کے مطابق حضور کی زندگی میں حضرت مفتی صاحب نے اس کام کو خوب نباہا.حضرت اقدس کی وحی اور ملفوظات لکھنے کا کام جس طرح حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکام نے کیا بالکل اسی طرح حضرت مفتی صاحب کرتے رہے.اس عظیم الشان کام کی وجہ سے آپ کا نام انشاء اللہ قیامت تک زندہ

Page 86

85 رہے گا اور بعد میں آنے والے مخلص لوگ آپ کی ترقی درجات کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے.آپ کافی عرصہ تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے اور صدرانجمن احمد یہ میں ناظر امور خارجہ کے طور پر بھی قابل قدر کام کیا.آپ نے کئی عمدہ اور نفیس کتا بیں بھی تصنیف فرما ئیں.آپ کے ذکر حبیب پر لیکچر اب تک کانوں میں گونج رہے ہیں.آپ کی تقریر اور تحریر بناوٹ اور تصنع سے پاک اور سادگی سے پُر ہوتی تھی.انداز بیان ایسا دلکش اور مسحور کن تھا کہ سامعین پر محویت طاری رہتی اور وہ بت بن کر بیٹھے رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص کشش اور جذب عطا فرمایا تھا.انگریزی اردو دونوں زبانوں پر کافی عبور حاصل تھا.فارسی اور عربی عبرانی زبانوں سے بھی واقف تھے.در میانه قد گورا رنگ، لمبی اور خوبصورت گھنی داڑھی، نہایت خوبصورت اور وجیہہ لباس ہمیشہ صاف ستھرا اور قیمتی زیب تن فرمایا کرتے تھے.طبیعت از حد نفاست پسند کھانا عمدہ اور بہترین تناول فرمایا کرتے تھے.بات کرتے تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مونہہ سے پھول جھڑ رہے ہیں.بہت لمبی عمر پائی اور ربوہ دارالہجرت میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ابدی استراحت فرما رہے ہیں.فانالله وانا اليه راجعون.آپ کے حالات اگر مفصل لکھے جائیں تو ایک عظیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.جس کو اللہ تعالی توفیق دے گا وہ تفصیل سے لکھے گا.ہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا استاد ہونے کا بھی فخر حاصل تھا.آپ کی روایات سلسلہ کے لٹریچر میں محفوظ ہیں.اس لئے ان کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں.۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ انجام آتھم ، میں آپ کا نام ۶۵ نمبر پر ہے.حضرت مولوی غلام حسین صاحب ولادت: بیعت : ۱۸۹۱ ء وفات : یکم فروری ۱۹۰۸ء حضرت میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی نے بیان فرمایا کہ آپ دبلے پتلے گورے رنگ کے تھے.سر پر عمامہ باندھتے تھے.قد درمیانہ تھا.آپ گھٹی بازار والی مسجد کے امام اور متولی تھے.جب حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب وفات پا گئے تو ہم حضرت مولوی غلام حسین صاحب کی مسجد میں جا کر نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے.آپ کتابوں کے بڑے شوقین تھے.

Page 87

86 قادیان جاتے تو حضرت طلیقہ اسیع الاول کی لائبریری میں داخل ہو جاتے اور کتا ہیں پڑھنا شروع کر دیتے.حضرت خلیفۃ اصبح الاول ان کی خوراک وغیرہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے.جب آپ کوئی کتاب پڑھنے کے لئے اٹھاتے تو پہلے عزرائیل کو مخاطب کر کے کہتے کہ اے عزرائیل ! تو بھی خدا کا بندہ ہے اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں.میری تم سے درخواست ہے کہ جب تک میں یہ کتاب نہ پڑھ لوں میری جان نہ نکالنا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی موصوف کے متعلق جو کچھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۱۳ مئی ۱۹۴۴ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک قادیان میں بیان فرمایا تھاوہ آپ کی تعریف میں کافی و وافی ہے اور سند کی حیثیت رکھتا ہے.حضور نے فرمایا : ”ہماری جماعت میں ایک بہت بڑے عالم اور نیک انسان ہوا کرتے تھے.مولوی غلام حسین صاحب ان کا نام تھا.وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے تو حسرت ہی رہ گئی کہ کوئی دس بجے جمعہ پڑھا کرے.مگر کوئی نہیں پڑھتا.وہ بعض دفعہ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تمہیں دفتری مصروفیت کی وجہ سے جمعہ کے لئے وقت نہیں ملتا تو میرے پاس آ جایا کرو.میں تمہیں دس بجے ہی جمعہ پڑھا دیا کروں گا.ان کے اندر بہت ہی علمی شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے حضرت خلیفہ اول اور ایک وہ گویا کتابوں کے کیڑے تھے.بلکہ مولوی غلام حسین صاحب کو حضرت خلیفہ اول سے بھی زیادہ کتابوں کا شوق تھا.ان کی وفات بھی اسی رنگ میں ہوئی.کہ وہ کلکتہ کسی کتاب کے لئے گئے اور وہیں سے بیمار ہو کر واپس آئے اور فوت ہو گئے.ان کا حافظہ اتنا زبر دست تھا کہ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے.میں نے انہیں ایک دفعہ ایک کتاب دی کہ اسے پڑھیں.انہوں نے میرے سامنے جلدی جلدی اس کے ورق الٹنے شروع کر دئیے.وہ ایک صفحہ پر نظر ڈالتے اور اسے الٹ دیتے.پھر دوسرے پر نظر ڈالتے اور اسے چھوڑ دیتے.حضرت خلیفہ اول خود بھی بہت جلدی پڑھتے تھے.مگر آپ فرماتے تھے کہ انہوں نے اس قدر جلدی ورق الٹنے شروع کئے کہ مجھے خیال آیا کہ وہ شاید وہ کتاب پڑھ نہیں رہے.چنانچہ میں

Page 88

87 نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ کتاب پڑھیں بھی تو سہی.وہ کہنے لگے.مجھ سے اس کتاب میں سے کوئی بات پوچھ لیجئے.حضرت خلیفہ اول نے کوئی بات پوچھی تو کہنے لگے.یہ بات اس کتاب کے فلاں صفحہ پر فلاں سطر میں لکھی ہے.لاہور میں گئی بازار والی مسجد پہلے ہماری ہوا کرتی تھی.مگر بعد میں خواجہ کمال الدین صاحب کی غفلت کی وجہ سے غیر احمدیوں کے پاس چلی گئی.اس مسجد میں مولوی غلام حسین صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے مگر بہت ہی غریب تھے.بعض دفعہ اس قسم کی حالت بھی آ جاتی.کہ انہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا لیکن وہ اس بات کو کہیں ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے.کہ مجھے سات یا آٹھ وقت کا فاقہ ہو چکا ہے.انہوں نے اپنی انتریوں کو کچھ اس قسم کی عادت ڈالی ہوئی تھی کہ اتنے دنوں کے فاقہ کے بعد جب انہیں کھانا ملتا تو سات سات آٹھ آٹھ آدمیوں کا کھانا ایک ہی وقت کھا جاتے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک دن ان کے علم کو دیکھ کر شوق پیدا ہوا کہ میں ان کی کچھ خدمت کروں.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب! مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع دیں.اور اگر کوئی خواہش ہو تو بیان فرمائیں تا کہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا کروں فرماتے تھے میں نے جب یہ بات کہی تو تھوڑی دیر خاموش رہ کر اور کچھ سوچ کر کہنے لگے.جی چاہتا ہے.میرے لئے ایک ایسا مکان بنا دیا جائے جس کی دیوار میں کتابوں کی بنی ہوئی ہوں گویا نئی کتابوں کی ایک چار دیواری ہو جس کے اندر مجھے بٹھا دیا جائے پھر کوئی شخص مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ تم نے روٹی بھی کھائی ہے یا نہیں.بس میں کتا ہیں پڑھتا جاؤں اور ا تا رتا جاؤں.جب رستہ بن جائے تو باہر نکل جاؤں.باوجود اس قدر علم کے ان کا طرز بحث مباحثہ کا نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور میں مقیم تھے کہ آپ کی مجلس میں بحث مباحثہ کا ذکر شروع ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی غلام حسین صاحب سے پوچھا.مولوی صاحب کیا آپ کو بھی کبھی بحث کرنے کا موقعہ ملا ہے یا نہیں ؟ مولوی صاحب فرمانے لگے جب میں نیا نیا پڑھ کر آیا تو لاہور میں میری خوب شہرت ہوئی.انہیں دنوں

Page 89

88 امرت سر کے قریب حنفیوں اور وہابیوں کا مناظرہ تجویز ہو گیا.میں اس مناظرہ میں وہابیوں کی طرف سے پیش ہوا.حنفی مناظر نے کسی موقعہ پر کہہ دیا کہ فلاں امام نے یوں کہا ہے.میں نے اسے کہا امام کیا ہوتا ہے.جب رسول کریم اللہ یوں فرماتے ہیں تو پھر کسی امام کا کیا حق ہے کہ اس کے خلاف بات کرے.بس میرا یہ کہنا تھا کہ سب نے سونٹے اٹھا لئے اور مجھے مارنے کے لئے دوڑے میں نے بھی جوتیاں اٹھا ئیں اور وہاں سے بھاگ پڑا.اور ہمیں میل تک برابر بھاگتا چلا گیا.یہاں تک کہ شہر میں آکر دم لیا.اس کے بعد میں نے تو بہ کی کہ اب کبھی بحث نہیں کروں گا.غرض بہت ہی مخلص آدمی تھے.حضرت مسیح موعود کو ان کی وفات کی نسبت الہام بھی ہوا تھا اور آپ نے ان کا بہت لمبا جنازہ پڑھایا تھا.ان کے اندر علم کا اس قدر شوق تھا کہ میں نے کسی میں نہیں دیکھا.بڑھاپے میں جبکہ ۷۵ سال ان کی عمر تھی.وہ کلرکوں کو پکڑتے تھے اور کہتے تھے اگر تمہیں دین کا کچھ شوق ہو تو میں تمہیں پڑھانے کے لئے تیار ہوں.ان کے چہرے پر کچھ تردد کے آثار دیکھتے تو کہتے.میں پیسے نہیں لوں گا مفت پڑھا دوں گا.پھر کچھ تر درد یکھتے تو کہتے.آپ کو تکلیف دو کرنے کی ضرورت نہیں میں خود آپ کے گھر پر پڑھانے کے لئے آجایا کروں گا.مجھے ایک دفعہ چھ مہینے تک بخار رہا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مشورہ دیا کہ مجھے پہاڑ پر بھجوایا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے مجھے شملے بھجوا دیا.اس وقت ان کی عمر پچھتر سال کے قریب تھی.ایک غیر احمدی کلرک تھا.جس کو انہوں نے پڑھانا شروع کیا تھا.اس کی شملہ تبدیلی ہوئی تو مولوی صاحب اپنے خرچ پر ہی شملہ چلے گئے.تا کہ اس کی پڑھائی میں حرج واقعہ نہ ہو.روٹی اپنے پلے سے کھاتے اور اسے مفت پڑھاتے رہتے.ان کے اندرا خلاص بھی اس قدر تھا کہ جب ہم سیر کے لئے نکلتے تو وہ ہمارے ساتھ چل پڑتے.ایک لمبا سونٹا ان کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا.چونکہ وہ بوڑھے تھے اور پہاڑ کی چڑھائی میں انہیں دقت پیش آتی تھی.اس لئے ہم پر یہ سخت گراں گذرتا کہ وہ تکلیف اٹھا کر التزاماً ہمارے ساتھ آتے ہیں.ایک دن میں نے خان صاحب منشی برکت علی صاحب اور مولوی عمر ین صاحب شملوی سے کہا کہ یا تو آئندہ گھر میں بیٹھ جاؤں گا اور سیر کے لئے نہیں نکلوں گا یا

Page 90

89 پھر کوئی ایسی صورت ہونی چاہیئے کہ مولوی صاحب کو پتہ نہ لگے کہ ہم کس وقت سیر کے لئے چلے جاتے ہیں.انہوں نے باتوں باتوں میں مولوی صاحب سے پتہ لگا لیا کہ وہ کس وقت غائب ہوتے ہیں.چنانچہ دوسرے دن ہم اسی وقت سیر کے لئے چل پڑے.ابھی پندرہ ہیں منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ ہم نے دیکھا وہ دور سے ایک بڑا سا سونٹا اپنے ہاتھ میں پکڑے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ٹھہر جاؤ.ٹھہر جاؤ.مجھے بھی آلینے دو.جب ہمارے پاس پہنچے تو میرے ساتھیوں سے کہنے لگے.یہ حضرت صاحب کے لڑکے ہیں اور یہاں سب لوگ دشمن ہیں.ان کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہیئے.آپ لوگ میرا بھی انتظار کر لیا کریں.غرض بہت ہی مخلص اور نیک انسان تھے.ان کی عادت تھی کہ وہ رومی ٹوپی والوں سے مصافحہ کرنے سے بہت گھبراتے تھے اور اگر کوئی ان کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتے.اور کہتے تسیں مصافحہ نہیں کر دے تسیں تے باہواں تو ڑ دے او یعنی آپ لوگ مصافحہ نہیں کرتے آپ تو ہاتھ توڑتے ہیں.حضرت میاں محمد شریف صاحب نے بیان کیا کہ جب آپ آخری بیماری میں بیمار ہوئے تو جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ان کا علاج کیا کرتے تھے.جب بہت ہی کمزور ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ایک دن ان سے عرض کیا کہ مولوی صاحب! اگر آپ وفات پا جائیں تو کیا آپ کا جنازہ قادیان لے جائیں؟ فرمایا.کیا حرج ہے؟ چنانچہ جب فوت ہوئے تو ان کا جنازہ قادیان لے جایا گیا.حضرت با بو غلام محمد صاحب ریٹائرڈ فورمین فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم ان کا جنازہ قادیان لے کر گئے تو ہم چاہتے تھے کہ انہیں بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے مگر معتمدین نے اعتراض کیا کہ ان کی وصیت کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ان کے اس اعتراض کا علم ہوا تو حضور نے فرمایا کہ ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو مجسم وصیت ہیں.یہ ہوئے خلیفہ ہدایت اللہ لا ہوری ہوئے.ایسے لوگوں کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ مولوی صاحب حد درجہ کے متقی تھے.حضور کے عاشق تھے اور دینی کاموں پر ہر وقت کمر بستہ

Page 91

90 رہتے تھے.اور خلیفہ ہدایت اللہ صاحب کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ ان کے ورثاء نے ان کو یہاں دفن کر دیا ہے.ان کے لئے صندوق نہیں بنوایا گیا تھا ورنہ میں اپنے خرچ پر ان کی نعش کو قادیان لے جاتا.ایک تیسرے شخص کا نام بھی حضور نے لیا تھا مگر مجھے اس کا نام یاد نہیں رہا.رجسٹر ڈ روایات صحابہ حصہ چہارم لکھا ہے کہ مولوی غلام حسین صاحب لاہوری کا جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا اور جنازہ کو کندھا دیا.حضرت مسیح موعود مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے کہ انبیاء کے متبعین کا ذکر چل پڑا.حضور نے فرمایا کہ عام طور پر انبیاء کے ماننے والے ان سے کم عمر کے لوگ ہوتے ہیں.بڑے بوڑھے بہت کم مانتے ہیں مگر مولوی غلام حسین صاحب لاہوری اور بابا ہدایت اللہ شا عر لاہوری یہ دونوں ایسے ہیں جو بڑے اور بوڑھے ہو کر ایمان لائے ہیں (صفحہ ۴۲) ۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم ، میں آپ کا نام ۱۳۳ نمبر پر ہے.محترم مرزا خدا بخش صاحب ولادت: ۱۸۵۹ء بیعت : ابتدائی ایام میں وفات: ۶.اپریل ۱۹۳۷ء مرزا خدا بخش صاحب دراصل جھنگ کے رہنے والے تھے.چند سال چیف کورٹ پنجاب میں مترجم کے فرائض سرانجام دیتے رہے.بہت ابتدائی زمانہ میں بیعت کی.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے اتالیق بھی رہے اور ایک مشہور کتاب دعسل مصفی “ کے نام سے تصنیف کی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد غیر مبائعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور اسی حالت میں فوت ہوئے.۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ انجام آتھم میں آپ کا نام ۴۲ نمبر پر درج ہے.رجسٹر بیعت میں آپ کا نام ۶۴ نمبر پر ہے.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش و بیئر ہاؤس لاہور ولادت: بیعت : ۲۹ - مئی ۱۸۹۱ء وفات : ۱۰.مارچ ۱۹۲۴ء آپ بالکل ابتدائی صحابہ میں سے تھے.چنانچہ تمبر 19ء کو جو سفر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 92

91 د بلی کا اختیار فرمایا اس میں آپ ساتھ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام صفحہ ۵۳۷ میں ان کے متعلق لکھا ہے: جبی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی جوان صالح یکرنگ آدمی ہے.ان میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے جس کی برکت سے وہ بہت ہی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں.ان کے مزاج میں غربت اور ادب بھی از حد ہے اور ان کے بشرہ سے علامات سعادت ظاہر ہیں.حتی الوسع وہ خدمات میں لگے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ کشاکش مکروہات سے انہیں بچا کر اپنی محبت کی حلاوت سے حصہ وافر بخشے.آمین ثم آمین شیخ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق تھے.چونکہ کپڑے کے بڑے تاجر تھے اس لئے عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گرم کپڑے تیار کر کے بڑے اخلاص سے پیش کیا کرتے تھے.افسوس کہ یہ بھی حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور خواجہ کمال الدین صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے مگر انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی کبھی مخالف نہیں کی.بلکہ حضور کا نام بھی عزت و احترام کے ساتھ ہی لیا کرتے تھے.آپ کی وفات ۱۰.مارچ ۱۹۲۴ء کو ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو چولہ با وانا نک صاحب کی تحقیقات کے لئے جوسر اختیار فرمایا تھا اس میں علاوہ اور احباب کے حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب بھی ساتھ تھے.سے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم میں آپ کا نام ۷۲ نمبر پر ہے.ان کے بھائی شیخ عبدالرحمن صاحب اور بھتیجے شیخ عبد الرزاق صاحب بیرسٹر بھی صحابی تھے.خاکسا مؤلف عرض کرتا ہے کہ شیخ عبدالرزاق صاحب ۱۹۳۲ء میں لالکپور پریکٹس کرتے تھے اور لاہوری فریق کیساتھ شامل تھے.لیکن جب حضرت اقدس امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد احمد یہ لائل پور کا افتتاح کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے حضور کی بیعت کر لی.اور پھر اس قدر اپنے اندر تبدیلی پیدا کی کہ فجر، مغرب اور عشاء کی نمازیں باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں جا کر پڑھنے لگے اور ظہر وعصر کچہری کے احاطہ میں پڑھتے تھے.نوجوان بچیاں جو انگریزی لباس میں پھرا کرتی تھیں ان کو برقعے تیار کروا دیے اور انہیں با قاعدہ جمعہ کی نماز میں ساتھ لایا کرتے تھے.اللهم اغفره وارحمه

Page 93

92 حضرت صوفی نبی بخش صاحب لاہوری ولادت: انداز ۱۸۶۳۱ء بیعت : ۲۷.دسمبر ۱۸۹۱ء وفات: ۱۹۴۴ء (۲۱ رمضان المبارک) آپ تحریر فرماتے ہیں: اپریل ۱۸۸۱ء میں خاکسار نے راولپنڈی مشن سکول سے مڈل پاس کیا.فضل ربانی نے میری تائید کی.انٹرنس کلاس میں داخل ہونے کے اسباب مہیا کر دیے.فقط ایک وظیفه مبلغ چار روپے کا انٹرنس کلاس کے لئے منظور شدہ تھا.اور اگر چہ میرا نمبر نتیجہ کے لحاظ سے تیسرا تھا لیکن وہ وظیفہ مجھے ہی دیا گیا.اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جو طالب علم اول نمبر پر تھا.اس نے وظیفہ لینے سے انکار کر دیا.اور دوسرا ایک سال پہلے فیل ہو چکا تھا.لا جرم اس وظیفہ کے پانے کا میں ہی مستحق گردانا گیا.اور والد صاحب مرحوم کی ذمہ داری پر یہ وظیفہ مجھے دیا گیا.شرط یہ ٹھہرائی گئی کہ نہ تو آپ کے لڑکے کو اس مدرسہ کو چھوڑ کر کسی اور مدرسہ میں داخل ہونے کی اجازت ہے اور نہ ہی تعلیم کو ادھورا چھوڑ نا ہوگا.بصورت وعدہ شکنی تمام روپیہ واپس کرنا پڑے گا.والد صاحب مرحوم نے اس پر اپنی رضا مندی ظاہر کی اور ایک اقرار نامہ پر ان سے دستخط لئے گئے.سکول کا ہیڈ ماسٹر ایک بنگالی مگر سخت متعصب عیسائی جو دین عیسوی کا فدائی اور جانثار تھا، بڑے ذوق سے بائیبل پڑھا تا.کبھی کبھی اسلام پر اعتراض بھی کرتا.لیکن وہ اسی رنگ میں ہوا کرتے جو اکثر پادری بغیر سمجھ کے قرآن شریف پر کیا کرتے ہیں.اگر چہ میں اس کوچے سے بالکل نابلد تھا لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے کبھی کبھی غیرت بھی آجاتی اور بے خوف و خطر اس کا مقابلہ کرتا.اور اس بات کا کبھی خیال بھی نہ آتا کہ ایک طالب علم وظیفہ خوار کے لئے اس کا انجام کیا ہو گا.ہیڈ ماسٹر صاحب بھی متانت سے سنتے اور برداشت کرتے لیکن دل میں کینہ رکھتے.کوئی رنجش ان کے چہرہ سے عیاں نہ ہوتی.ان سب باتوں کا نتیجہ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس رنگ میں انہوں نے ظاہر کیا کہ میں کالج میں تعلیم پانے سے روکا گیا.راولپنڈی میونسپل کمیٹی نے ایک وظیفہ مبلغ کا اس لڑکے کے

Page 94

93 لئے منظور کیا ہوا تھا جو اپنے سکول میں اول رہے لیکن ہیڈ ماسٹر کی سفارش اس کے لئے ضروری تھی جس سے انہوں نے بالکل انکار کیا.اس مجبوری کی وجہ سے میں کالج میں داخل نہ ہو سکا.انہیں ایام میں میں نے ایک خواب دیکھا جو ۲۷.دسمبر ۱۸۹۱ء کو پورا ہوا.میں نے دیکھا.کہ ایک پیر مرد نورانی صورت میرے سامنے آیا.اس کا حلیہ تمام و کمال میرے دل پر نقش ہونے کے بعد وہ غائب ہو گیا اور میں بیدار ہو گیا.۱۳.جون ۱۸۸۶ء کا واقعہ ہے پنڈت لیکھرام پشاوری نے ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اشتہار کی مخالفت میں شائع کیا.جس میں آنجناب نے ایک بشیر لڑکے کی پیدائش کے متعلق پیشگوئی کی تھی.اس اشتہار میں پنڈت صاحب نے اپنی فطرت کے مطابق دشنام دہی اور سب وشتم سے کام لیا.اتفاقاً وہ اشتہار میری نظر سے بھی گذرا.میں نے استفسار کے طور پر حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ لکھا.لیکن باعث عدم علم ایسے طرز سے لکھا گیا کہ حضور نے مجھے معاندین میں سے تصور کیا.الاعمال بالنیات.خیر یه گذاری کہ حضرت صاحب نے چند مخلص دوستوں سے بذریعہ خط و کتابت خاکسار کے متعلق دریافت فرمایا جنہوں نے از راہ کرم حضور کی تسلی کی اور لکھا کہ یہ شخص ہمیشہ سے آپ کا مداح رہا ہے.اس کے بعد آپ نے ایک اشتہار شائع کیا.جس کے عنوان میں یہ شعر درج تھا کہ ہم نے الفت میں تیری بار اٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا ” اس اشتہار کے پڑھنے اور براہین احمدیہ کے بار بار کے مطالعہ سے میرے دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی کہ میں خود قادیان جا کر حضرت صاحب سے ملاقات کروں کیونکہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کا دیدار فیض آثار گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے.اس نیت سے اکتوبر ۱۸۸۶ء کو میں پہلی دفعہ حاضر خدمت ہوا اور مغرب کی نماز میں نے مسجد مبارک میں حضرت اقدس کی اقتداء میں پڑھی.نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ وہیں بیٹھ گئے اور بطور نصیحت مختصر الفاظ میں تقریر فرمائی ہے اپریل ۱۸۸۹ء سے اپریل ۱۸۹۲ء تک خاکسار انجمن حمایت اسلام کا مہتم کتب خانہ رہا اور حضور کا ایک مضمون ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب“ میرے ہی اہتمام سے چھاپا

Page 95

94 گیا.ایک دن حسب معمول میں انجمن کے کتب خانہ میں گیا.ان دنوں رسالہ فتح اسلام چھپ چکا تھا اس کی ایک کاپی انجمن کے دفتر میں بھی پہنچی.بہت سے مولوی صاحبان جن میں اکثر اہلحدیث تھے اس کو پڑھتے اور نہایت تعجب سے کہتے کہ جو کچھ مرزا صاحب نے لکھا ہے اس کو کوئی بھی نہیں مانے گا.مگر یہ رسالہ لا جواب ہے.اس کا بھی کوئی جواب نہیں.اس کے بعد رسالہ توضیح مرام بھی میری نظر سے گذرا.ان دونوں رسالوں کے شائع ہونے کے بعد ہندوستان میں ایک سخت طوفان بے تمیزی برپا ہوا.اور ہر طرف سے مولوی صاحبان نے کفر کے فتوے تیار کئے.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان میں ایک جلسہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی.مجھے بھی ایک کارڈ پہنچا لیکن بعض ضروری خانگی امورات کی وجہ سے میں نے حاضر خدمت ہونے سے انکار کر دیا.لیکن اسی ہفتہ میں پھر دوبارہ کارڈ پہنچا.جس کے الفاظ تھے.دسمبر کی تعطیلات پر آپ ضرور قادیان تشریف لاویں اور خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اپنے جذب خاص سے اپنی طرف کھینچ لے.ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر میں نے اس خط کو پڑھا اور مجھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ میں نے تمام خانگی امورات کو جن کی بنا پر قادیان آنے سے معذرت کی تھی.خیر باد کہی اور مصمم ارادہ کیا کہ قادیان جانا ضروری ہے.الغرض ۲۷ دسمبر ۱۸۹ء کے جلسے پر جس میں حاضرین کی تعداد اسی کے قریب تھی میں بھی حاضر خدمت ہوا.اور دن کے دس بجے کے قریب چائے پینے کے بعد ارشاد ہوا کہ سب دوست بڑی مسجد میں جواب مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے، تشریف لے جائیں.حسب الحکم سب کے ساتھ میں بھی حاضر ہوا.زہے قسمت کے میرے لئے قسام ازل نے اس برگزیدہ بندہ کی جماعت میں داخل ہونے کے لئے یہی دن مقرر کر رکھا تھا.اس وقت مسجد اتنی وسیع نہ تھی جیسی آج نظر آتی ہے.سب کے بعد حضرت صاحب خود تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب ” فیصلہ آسمانی سنانے کیلئے مقرر ہوئے.لیکن میرے لئے ایک حیرت کا مقام تھا کیونکہ جب میں نے حضرت اقدس کے روئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہی حلیہ تھا اور وہی لباس زیب تن تھا جس کو ایام طالب علمی میں میں نے دیکھا تھا.

Page 96

95 وو حاضرین تو بڑی توجہ سے آسمانی فیصلہ سننے میں مشغول رہے اور میں اپنے دل کے خیالات میں مستغرق تھا اور فیصلہ کر رہا تھا کہ یہ وہی نورانی صورت ہے جس کو طالب علمی کے زمانہ میں میں نے خواب میں دیکھا تھا.اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا.اور ہر ایک حضرت صاحب سے مصافحہ کرتا اور رخصت ہوتا.میں نے عمد أسب سے پیچھے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ میرے لئے کیا حکم ہے کیونکہ میں نے ایک شخص کی آگے بیعت کی ہوئی ہے.آپ نے فرمایا: آپ کی بیعت نور علی نور ہوگی بشرطیکہ وہ شخص نیک ہے ورنہ وہ بیعت فسخ ہو جائے گی اور ہماری بیعت رہ جائے گی.ایک دفعہ میں نے ۱۸.اگست ۱۶ء کا ایک واقعہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.وہ ایک لمبا قصہ ہے جو مجھے اپنی ملازمت میں پیش آیا.یعنی کچھ ایسی تکالیف پیش آئیں جن سے میں استعفاء دینے پر آمادہ ہو گیا.اس غم میں میں نے اپنے اہل وعیال کو موضع سید کراں تحصیل گوجر خاں ضلع راولپنڈی میں بھیج دیا.”میاں کریم بخش صاحب کی مسجد میں جو لاہور واٹر ورکس کے متصل ایک خوبصورت اور وسیع مسجد ہے بعد نماز عشاء اسی فکر میں غرق تھا کہ یکا یک میرے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوئی اور ایک غیبی آواز سنائی دی جو یہ تھی.صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ جب کسی کو کوئی تکلیف ہو تو وہ کوئی وظیفہ پڑھا کرتا ہے.تم بھی کوئی وظیفہ پڑھو.میں کیا وظیفہ پڑھوں.تم بعد نماز عشاء دس نفل پڑھوا اور تین سو دفعہ درود شریف پڑھو.اس کے بعد وہ کیفیت جاتی رہی.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی توفیق دی کہ اس وقت سے میں نے دس نفل اور تین سو درود شریف پڑھنا شروع کر دیا.اور کچھ مدت اس پر عمل کرنے کے بعد میری تمام ملازمت کی تکالیف جاتی رہیں.یہ واقعہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کے حضور عرض کیا تو آپ نے فرمایا اس کے ساتھ تین سو مرتبہ استغفار کا اضافہ کرلو.“ ☆☆☆ ایک دفعہ میں حاضر خدمت ہوا.اور خلوت میں ملنے کا موقعہ ملا.ایک ضرورت درپیش تھی.میں نے عرض کیا

Page 97

96 کہ حضور مجھے میاں چراغ الدین صاحب کے نام سفارش لکھ دیں کہ میری اس کام میں مدد کریں.آپ نے فرمایا : ” جب خدا ہے تو سفارش کی کیا ضرورت ہے“ خدا تعالیٰ کی قدرت وہ میرا کام بغیر سفارش کے ہو گیا.،، ایک مرتبہ صوفی صاحب پر سخت تنگی کا زمانہ آیا کہ آپ ایک ہزار روپے کے مقروض ہو گئے.بیوی کا زیور بھی پک گیا.آپ کے والد صاحب بھی شکایت کرنے لگے کہ یہ میری خدمت نہیں کرتا.سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کیلئے بھی دل چاہتا تھا.نیز آپ کے ایک دوست کے خاندان کی جوان لڑکی کا خاوند چار سال سے مفقود الخبر تھا.یہ تمام امور پیش کر کے آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کی درخواست کی حضور نے فرمایا: 66 آپ نے کبھی اپنی تکالیف کا ذکر نہیں کیا.یاد دلاتے رہا کرو.“ جس وقت حضور نے یہ الفاظ کہے اس وقت آپ کی تنخواہ پندرہ روپے تھی.اس کے چھ ماہ کے اندر اندر حضور کی دعا سے آپ کو افریقہ میں ۱۲۰ روپے کی ملازمت مل گئی.ساتھ ہی ۴۵ روپے کوارٹر الاؤنس بھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کا قرضہ بھی اتر گیا اور ڈیڑھ ہزار روپیہ بچت بھی ہوگئی.اس مفقود الخبر آدمی کی خبر بھی مل گئی.فالحمد للہ علی ذالک.تین سال افریقہ میں رہنے کے بعد جب آپ واپس ہندوستان میں پہنچے تو چند دن دفتر ریویو آف ریلیجنز میں بطور کلرک بھی کام کیا.مگر ایک شخص با بوا بناش صاحب کی وساطت سے آپ کو دوبارہ کا لکا شملہ ریلوے میں ملازمت مل گئی.اس ملازمت کیلئے قادیان سے روانہ ہونے کا واقعہ بھی عجیب ہے.آپ فرماتے ہیں.مجھے جب کارڈ پہنچا تو میں نے ظہر کی نماز کے بعد حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے فرمایا: اسی وقت چلے جاؤ“ آپ نے عرض کی کہ حضور وقت بہت تھوڑا ہے.حضور نے فرمایا: جب ہم جوان تھے تو تیز تیز چلا کرتے تھے“ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر خوف کے لہجہ میں عرض کیا کہ وقت بہت تھوڑا ہے.حضور نے

Page 98

97 دوبارہ فرمایا: ” جب ہم جوان تھے تو بہت تیز چلا کرتے تھے“ فرماتے ہیں کہ میں اسی وقت چل پڑا.لیکن جب نہر سے پار ہوا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا زمین پاؤں کے نیچے سے سمٹ رہی ہے.میں ایسے وقت میں بٹالہ پہنچا جب کہ گاڑی سٹیشن پر پہنچ چکی تھی.بغیر گنتی کے میں نے پیسے ٹکٹ بابو کے آگے رکھ دیئے.اس نے گن کر کہا کہ ٹھیک ہیں.جب میں ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم کی طرف چلا تو خود بخود گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا.اور ایک معمر آدمی نے گاڑی کی کھڑ کی کھول دی جب میں گاڑی میں بیٹھ گیا تو دریافت کیا کہ گاڑی کے اتنی دیر سے پہنچنے کا کیا سبب ہے؟ اس پر اس پیر مرد نے کہا کہ ظاہر میں تو کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا.لیکن اس سے پہلے سٹیشن پر گاڑی ۴۵ منٹ ٹھہری رہی.صوفی صاحب فرماتے ہیں: غرض بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی اور جب میں لا ہور اسٹیشن پر پہنچا تو مجھے الہام ہوا ان الله هو الرزاق ذو القوة المتين شام کو میں بابوا بناش چندر کی خدمت میں حاضر ہوا.اور انہوں نے مجھے ایک چٹھی پنڈت گوپی ناتھ پانڈ یہ کے نام لکھ دی اور میں کالکارریلوے اسٹیشن پر ملازم ہو گیا.یہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی استجابت دعا کا ایک معجزہ ہے.کے اولاد : تاج دین صاحب مرحوم.مہتاب بیگم مرحومہ.عبدالعزیز صاحب.محمودہ بیگم جان.عبدالحمید مرحوم.فاطمہ بیگم.عبد السلام - حمیدہ بیگم.محمد شریف.آمنہ بیگم مرحومہ.عبدالقدیر.سکینہ بیگم.خاندان حضرت میاں چراغ دین صاحب ریس لاہور کے مختصر حالات یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی تبلیغ سے اس خاندان میں سب سے پہلے حضرت میاں معراج دین صاحب عمرؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور ان کے بعد چند سال کے اندراندر سارا خاندان سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.چونکہ شہر لاہور کے اصل باشندوں میں سے یہی ایک بڑا خاندان ہے جس نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کا شجرہ نسب اور مختصر سے حالات درج کئے جائیں.

Page 99

98

Page 100

99 میاں قادر بخش صاحب کے بڑے فرزند میاں الہی بخش صاحب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں محکمہ عمارات کے وزیر اعلیٰ تھے اور بڑے بارسوخ تھے.انگریزوں کی آمد پر انہوں نے میاں محمد سلطان صاحب کو لاہور چھاؤنی کا ٹھیکہ لے کر دیا.اسی طرح جب لاہور سے ملتان تک ریلوے لائن بنی تو اس کا ٹھیکہ بھی انہوں نے میاں محمد سلطان صاحب کو دلایا.میاں محمد سلطان صاحب ان ٹھیکوں کی وجہ سے بڑے امیر کبیر بن گئے.مشہور ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن اور ضلع کچہری کی عمارت بھی میاں محمد سلطان صاحب نے ہی بنوائی تھی.لاہور ریلوے اسٹیشن کی تیاری کے بعد انگریز انجنیئر وں نے کہا کہ یہ عمارت ہمارے منشاء کے مطابق تیار نہیں ہوئی ہے اس پر میاں محمد سلطان صاحب نے کہا کہ میں ایک پیسہ بھی نہیں لیتا اور مفت میں یہ عمارت آپ کی نذر کرتا ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لاکھ روپیہ کے مقروض ہو گئے اور چونکہ ٹھیکے لینے کی وجہ سے مہاراجہ جموں وکشمیر کے ہاں بھی انہیں بڑا رسوخ حاصل تھا.اس لئے انہوں نے مہا راجہ صاحب کے پاس اپنے حالات بیان کئے اور اپنی جائیداد ان کے پاس رہن رکھ کر تین چار لاکھ روپیہ حاصل کیا.مگر خدا کی قدرت ! کہ اس واقعہ کے جلد ہی بعد اس خاندان کے تینوں سرکردہ افراد یعنی میاں الہی بخش صاحب خود میاں محمد سلطان صاحب اور میاں عبدالرحمن صاحب وفات پا گئے.میاں عبدالرحمن صاحب کا ایک لڑکا میاں سراج دین نام تھا وہ بھی فوت ہو گیا.اب ورثاء میں سے کوئی شخص اس قابل نہ تھا کہ ان کی جائیداد زر و جواہرات اور روپیہ اور مال مویشی پر قبضہ کر سکتا نتیجہ یہ نکلا کہ خاص خدام نے ہر چیز پر قبضہ کر لیا اور جائز وارث بے چارے منہ تکتے رہ گئے.حضرت میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی کا بیان ہے کہ رہن کی معیاد ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل مہا راجہ جموں وکشمیر نے ہمارے بزرگوں کو جموں بلایا اور کہا کہ روپیہ لاؤ اور اپنی جائیداد واپس لے لو.مگر روپیہ کہاں سے لاتے ؟ قریب تھا کہ بالکل خالی ہاتھ لوٹتے مگر ان دنوں حضرت حاجی محترم ڈاکٹر عبید اللہ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت قریباً تیار ہو چکی تھی کہ ریلوے کے انگریز انجنئیر نے میاں سلطان سے فٹن طلب کی.مگر میاں صاحب نے جواب دیا کہ آج جمعہ ہے میں نے شاہی مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلئے جاتا ہے اس لئے فٹن فارغ نہیں.اس پر وہ انگریز انجنئیر ناراض ہو گیا اور اس نے عمارت کے زیادہ حصہ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا.

Page 101

100 الحرمین مولاناحکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ بھی جموں میں شاہی طبیب تھے.ان کی مدد سے پچاس ہزار روپیہ مالیت کی جائیداد تو انہیں واپس مل گئی البتہ باقی جائیداد کے متعلق انہوں نے بیع نامہ لکھ کر دے دیا اس کے بعد ہمارے چچا حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ نے میاں محمد سلطان صاحب کی بیوہ گلاب بی بی کے مرنے کے بعد اس کے حصہ کے حصول کیلئے عدالت عالیہ میں دعویٰ دائر کر دیا اور ہزار ہا روپیہ خرچ کر کے بھر پور کوشش کی مگر افسوس کہ یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی بلکہ الٹا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو رو پید اس جائیداد کے حصول کیلئے قرض لے کر مقدمہ میں خرچ کیا گیا تھا اس کے بدلہ میں بھی ایک حصہ جائیداد کا فروخت کرنا پڑا.حضرت میاں صاحب موصوف نے ایک لطیفہ بھی سنایا کہ لاہور میں ایک سرائے کی ضرورت محسوس ہوئی.میاں محمد سلطان صاحب نے اپنے خرچ پر یہ سرائے تعمیر کروا دی جو سلطان کی سرائے کے نام سے مشہور ہے.اس سرائے کی تکمیل پر تمام بڑے بڑے انگریز افسروں نے ان کے اعزاز میں ایک جلسہ کیا جس میں ان کو ” نواب کے خطاب سے سرفراز کیا گیا.انہوں نے کھڑے ہو کر حکام بالا کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے میرا اعزاز کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ خدا نے مجھے ”سلطان“ بنایا ہے اس لئے میں ” نواب نہیں بننا چاہتا.مجھے اس سے معاف فرمایا جائے.محترم ڈاکٹر عبد الحمید صاحب چغتائی ابن حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کا بیان ہے کہ جو جائیداد مہا راجہ صاحب سے تصفیہ کے بعد ہمیں حاصل ہوئی تھی.وہ حسب ذیل تھی.دہلی دروازہ کے باہر چالیس کنال زمین، بھمہ کی زمین اور باغ جو بارہ مربعے تھے.چھانگا مانگا میں ۴۸ مربعے زمین تھی.ریلوے اسٹیشن لاہور کے قریب دیوان خانہ جواب برگنزا ہوٹل کے نام سے مشہور ہے.ریلوے ٹیکنیکل سکول والی زمین.اندرون یکی دروازہ دوا حاطے.لنگے منڈی میں دو مکان.بھائی دروازہ کے اندر تین مکان اور باہر انگریزوں کے قبرستان کے پاس کچھ زمین.لوہاری دروازہ کے اندر چند مکان.چوہٹہ مفتی باقر میں ایک کڑی وغیرہ.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۸۹۰ء میں یہ جائیداد ہمارے بزرگوں کو ملی مگر ۱۹۲۰ء میں جب ہمارے بزرگ دادا جان یعنی حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو سوائے ایک احاطہ اور ایک مکان کے جو مبارک منزل کے نام سے مشہور ہے باقی تمام جائیداد ہمارے ہاتھوں سے

Page 102

101 نکل چکی تھی.فانالله و انا اليه راجعون.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس خاندان کے نوجوانوں میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور مالی لحاظ سے ان کا قدم ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے.خدا کرے کہ یہ پھر اپنے بزرگوں کی پہلی سی عظمت و جاہ کو دوبارہ حاصل کر لیں.آمین اللھم آمین.حضرت میاں معراج دین صاحب عمر ولادت: انداز اه۷ ۱۸ ء -۱۸۹۲ء ۱۸۹۷ء بکر می بیعت حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل سے آٹھ دن پہلے کی تھی.وفات : ۲۸.جولائی ۱۹۴۰ء عمر : ۶۵ سال آپ لاہور کی فیملی کے سب سے پہلے احمدی تھے.بیعت حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل سے آٹھ دن پہلے کی تھی.آپ کو تحریر کا خوب ملکہ حاصل تھا اور ایک قابل انشاء پرداز تھے.براہین احمد یہ ہر چہار خصص جب دوسری مرتبہ طبع ہوئی تو آپ نے اس کا دیباچہ لکھا جس میں حضرت اقدس کے خاندانی حالات درج فرمائے.بعض کتابوں کے آپ نے تراجم بھی شائع کروائے تھے.اخبار ” بدر کے مالک تھے.لاہور کے سرکردہ اور اولین احمدیوں میں سے تھے.حضرت اقدس کی تائید میں ٹریکٹ وغیرہ لکھ کر شائع کرواتے رہتے تھے.آپ کی چند روایات درج ذیل ہیں: ا.جب حضور ایڈیٹر ناظم الہند کے خلاف مقدمہ میں شہادت دینے کی غرض سے ملتان تشریف لے گئے تو ملتان میں حضور کے استقبال کا بڑا انتظام کیا گیا تھا.مولوی بدرالدین صاحب پرائمری اسلامیہ سکول کے ہیڈ ماسٹر بڑے بارسوخ آدمی تھے.انہوں نے تمام سکول کے لڑکوں کو سڑک پر دور و یہ یکرنگ پگڑیاں بندھائے ہوئے اور ہاتھوں میں جھنڈیاں دیئے ہوئے کھڑا کیا ہوا تھا.جب حضور ان کے درمیان سے گذر رہے تھے تو وہ دعائیہ کلمات پڑھتے السلام علیکم کہتے اور نظمیں پڑھتے تھے.واپسی پر حضور شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان پر فروکش ہوئے تھے.شیخ صاحب ان دنوں اپنے بھائی کے ساتھ دکان میں شریک کار تھے اور دکان کا نام بمبئے ہاؤس تھا جو موجودہ مارکیٹ کے سامنے ایک عمارت میں تھی.حضرت صاحب نے اوپر کی منزل میں تقریر بھی فرمائی تھی.ان دنوں مومی تصویروں کا ایک تماشا

Page 103

102 آیا ہوا تھا جو اس مکان کے سامنے تھا.اس میں کئی قسم کی مومی تصویر میں تھیں.انسانی اعضاء کے بھی مومی مجسمے تھے جیسے انسان کا دل ہڈیاں دماغ وغیرہ وغیرہ سارے اعضا انسان کے دیے ہوئے تھے.ان تصویروں کو بھی حضرت صاحب نے دیکھا اور فرمایا تھا کہ علمی رنگ میں اس قسم کی تصویروں سے بہت فائدہ ہوتا ہے.۲.حضور کو لاہور اسٹیشن پر کچھ دیر انتظار کرنے کی ضرورت پیش آئی.حضرت ام المومنین بھی آپ کے ساتھ تھیں.حضرت صاحب حضرت ام المومنین کو ساتھ لے کر اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسٹیشن پر آزادی سے ٹہل رہے تھے.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو کہا کہ آپ جا کر کہیں کہ اسٹیشن پر بہت سے لوگ ہیں وہ کیا کہیں گے.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو اتنی جرات نہیں.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب خود گئے.حضور نے ان کی بات سن کر فر مایا کہ آخر لوگ کیا کہیں گے یہی نا کہ مرزا اپنی بیوی کے ساتھ پھر رہا ہے.نوٹ : چونکہ اس واقعہ کے مقام میں اختلاف ہے اس لئے خاکسار مؤلف کے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے.یہ واقعہ لا ہور اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر پر اور مشرقی پل کے قریب کا ہے.۳.آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ۱۸۹۲ء میں جب حضور لاہور میں تشریف لائے آسمانی فیصلہ سنانے کیلئے تو سید مٹھا بازار میں محبوب رایوں کا مکان ستائیس روپے ماہوار کرایہ پر لیا گیا تھا.آسمانی فیصلہ حاجی شمس الدین صاحب نے پڑھ کر سنایا تھا.انہیں ایام کا واقعہ ہے کہ حضور حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب والی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھ کر واپس مکان کی طرف جارہے تھے کہ پیغمبر اسنگھ کے بھائی اللہ دتا نام نے جو مدعی مہدویت تھا اور سنگترے بیچا کرتا تھا.حضرت کو بے خبری میں پیچھے سے پکڑ کر گرانے کی کوشش کی تھی جس سے حضور کی پگڑی گرگئی تھی.ہم لوگ کوئی دس گز کے فاصلے پر پیچھے تھے.ہم اسے پکڑنا چاہتے تھے مگر حضور نے فرمایا.اسے چھوڑ دو.یہ بیچارہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کا عہدہ سنبھال لیا ہے.۴.ایک شخص جس کا نام سائیں سراج الدین تھا، پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ والوں کا مرید تھا اور

Page 104

103 شیخ نورالدین نانبائی کے مکان پر رہا کرتا تھا.ایک روز وہ حضرت صاحب کی ملاقات کرنے کے بہانے سے آیا اور سامنے آ کر بیٹھ گیا.جب موقعہ پایا تو اجازت چاہی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضور نے اجازت دی.اس نے اس قدر گالیاں دیں کہ گالیوں کی لغات میں کوئی لفظ اس نے باقی نہ چھوڑا.جب ذرا ٹھہر جاتا تو حضور فرماتے کہ سائیں صاحب! کچھ اور.وہ پھر بھڑک اٹھتا اور پھر گالیاں شروع کر دیتا.حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ داڑھی پر ہاتھ رکھے اس کی گالیاں سنتے رہے.ہمیں جوش پیدا ہوا مگر حضور نے ہمیں منع فرما دیا.اس مکان میں حضور کی ملاقات کے لئے ہند و عورتیں اور مرد بھی آتے تھے مگر عام طور پر نہایت مؤدب رہتے تھے.آریہ اور دہریہ بھی سوالات کرنے آتے تھے جن کے حضور جوابات دیا کرتے تھے اور وہ آرام سے چلے جاتے تھے.مگر جاہل مسلمانوں نے عام طور پر بازاری لڑکوں کو انگیخت کر کے گالیاں دلوانے کی خوب خدمت سرانجام دی.۱۸۹۲-۵ء کے بعد ایک مرتبہ حضور پھر تشریف لائے اور میراں بخش کی کوٹھی میں قیام فرمایا.ان ایام میں حضرت صاحب نے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا تھا کہ میں کل عصر کی نماز کے بعد چو نہ منڈی میں میراں بخش کی کوٹھی میں اپنے عقائد بیان کروں گا.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھی چند دنوں کی رخصت حاصل کر کے جموں سے تشریف لائے ہوئے تھے.چنانچہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر فرمائی اور پھر حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے.حاضری قریباً دس ہزار تھی.کوٹھی کے صحن اور آس پاس کے مکانوں کی چھتوں پر اور کوچوں میں باہم اس طرح پیوستگی کے عالم میں لوگ کھڑے تھے کہ ہل جل بھی نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تھک گئے تو اندر کمرے میں تشریف لے گئے.ہم نے آپ کو دبانا شروع کیا.حضور کے جانے کے معا بعد حضرت مولوی صاحب کھڑے ہو گئے میز کے اوپر بدوی طرز میں.اور سب سے پہلے کلمہ شہادت بلند آواز سے اور ایک جذ بہ کے ساتھ پڑھا.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گردنواح کی اینٹوں میں سے بھی کلمہ کی آواز گونج رہی ہے.آپ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ ۱۸۹۲ء میں حضور نے پہلے منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی میں قیام فرمایا اور پھر چند دن بعد محبوب را یوں والے مکان میں منتقل ہو گئے.دیکھئے حیات طیبہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۱۳۹ اصل حقیقت کا علم اللہ کو ہے.مؤلف

Page 105

104 کے لیکچر کا حاضرین پر یہ اثر تھا کہ رونے بیچنے اور چلانے کی چاروں طرف سے آوازیں نکل رہی تھیں.تقریر کے بعد چند ہند و معززین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مبارکباد دے کر کہا کہ اگر آپ وہی کلمہ پھر پڑھتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہو گئے ہیں.ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بڑے زور سے مخالفت کر رہے تھے ایک اور شخص جو گدڑ کے نام سے مشہور تھا مگر دراصل اس کا نام محمد یاسین ولد حافظ محمود تھا اور کسی عدالت میں مختار تھا اور موچیدروازہ کا رہنے والا تھا.عموماً حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر لچر اعتراض کیا کرتا تھا.ذکر حبیب کی ایک تقریر میں جو آپ نے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں فرمائی.ایک خاکروبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: مو چیدروازہ کے ایک شخص محمد سلطان کے ذریعہ وہ شاہی مسجد میں جا کر مسلمان ہو گئی.اس کے رشتہ داروں نے بہتیری مزاحمت کی مگر وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آئی.بعد ازاں اسے حضرت مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گٹی کے پاس پہنچایا گیا.انہوں نے اسے میرے پاس بھیج دیا.حضرت مفتی صادق صاحب ان ایام میں یہاں ہی تھے.میں نے اس عورت کو نئے کپڑے بنوا دیئے اور قادیان بھجوانے کے لئے حضرت مفتی صاحب کے پاس بھیج دیا.جب وہ قادیان بھجوائی گئی تو قادیان کی عورتیں اس سے نفرت کرتی تھیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اپنے گھر میں رکھ لیا.حضور کا ایسا کرنے سے مقصد یہ تھا کہ تا وہ لوگ جو ہندووانہ اثر کے ماتحت ادنی اقوام کے افراد سے ان کے اسلام قبول کر لینے کے بعد بھی نفرت کرتے ہیں انہیں سبق حاصل ہو اور وہ نفرت نہ کریں.ے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں : " مجھے یاد ہے ایک دفعہ مکرم میاں معراج دین صاحب عمر نے کسی بات کے دریافت کرنے کے واسطے ایک چھوٹا سا دو سطر کا رقعہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا.حضرت نے چند لفظوں میں اس کا جواب دے دیا.مگر پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ لکھا.اور پھر لکھا کہ ہر رقعہ پر مضمون سے قبل السلام علیکم لکھا کریں.میاں صاحب کے رقعہ پر السلام علیکم نہ تھا..خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر حضرت میاں چراغ

Page 106

105 الدین صاحب کے چازاد بھائی تھے.آپ نے اس مشہور خاندان میں سے جو میاں فیملی کے نام سے مشہور ہے.سب سے پہلے بیعت کی.آپ ایک نہایت ہی مخلص اور سلسلہ کے شیدائی احمدی تھے.جماعت کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.انگریزی قانون سے بھی خوب واقف تھے.بلکہ اپنے خاندان کی طرف سے یا اس کے خلاف جو مقدمات ہوتے تھے خصوصاً جائیداد سے متعلق.ان میں آپ ہی خاندان کی طرف سے پیروی کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب مباہلہ والوں نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور حضور کے خاندان پر گندے الزامات لگائے تھے تو اس سلسلہ میں مقدمہ کی پیروی کے لئے محترم جناب مولوی فضل الدین صاحب وکیل کے ساتھ آپ کو بھی پیروی کے لئے بٹالہ بھیجا گیا تھا.محترم ملک محمد عبد اللہ صاحب فاضل اور خاکسار راقم الحروف بھی ان دونوں بزرگوں کے ہمراہ تھے.ہماری طرف سے بحث لاہور کے مشہور وکیل جناب ملک برکت علی صاحب مرحوم نے کی تھی.جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.آپ صاحب قلم بھی تھے.آپ نے یکم تمبر ۶ کو تقویم عمری کے نام سے ایک جنتری بھی شائع کی تھی جو ۱۷۸۳ء سے لیکر ۱۹۰۷ ء تک ۱۲۵ برس پر مشتمل ہے.اسی طرح ایک مشہور کتاب آپ نے صداقت مریمیہ “ کے نام سے بھی لکھی تھی.مارچ ۱۹۱۳ء میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ایک حواری کی کتاب ”دی کروسی فکشن بائی این آئی وٹنس کا ترجمہ ” واقعات صلیب کی چشم دید شہادت کے نام سے شائع کیا تھا.آپ بھاری بھر کم جسم کے وجیہ انسان تھے.آپ کا لباس عموماً سلوار قمیض ، کوٹ اور عمامہ ہوا کرتا تھا.بہت ملنسار اور خوش گفتار انسان تھے.۱۹۳۹ء میں اور صحابہ کے حالات کی طرح ان کے حالات بھی میں نے لاہور میں پہنچ کر تحریر کئے تھے.مگر عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے انہوں نے بہت کم حالات لکھوائے تھے.الحکم پر چہ ۱۴.اگست ۱۹۳۵ء میں آپ کی چندر وایات درج ہیں.انہیں بھی ذیل میں درج کیا جاتا ہے.فرمایا : (۱) حضور ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) کی پیدائش اس مکان میں ہوئی جو مرزا سلطان احمد صاحب کا مکان ہے.میں نے اس کمرہ کو دیکھا ہے.

Page 107

106 ( ب ) جہاں اب مدرسہ احمدیہ ہے.اس جگہ فصیل تھی جو ٹوٹ گئی تھی.ایک دیوار چوبیس فٹ لمبی اس وقت موجود تھی وہ نیلام ہوئی تو تمہیں روپے میں آپ ( یعنی حضرت اقدس.ناقل ) نے خرید لی.اور اس جگہ عمارتیں بنوائیں.عمارتیں بننے سے قبل یہاں آپ ٹہلا کرتے تھے.یہ جگہ بذریعہ خرید آپ کی ملکیت تھی اس لئے اس جگہ سے کسی کو مٹی گارا لینے کا حق نہیں تھا.مگر آپ کے رشتہ دار زبردستی یہاں سے مٹی گارا لیتے تھے اور احمدیوں کو تنگ کرتے تھے.بعض شریر لوگ بھی ان کی شہ پر احمد یوں کو تنگ کرتے مگر حضرت اقدس صبر اور تحمل سے کام لیتے.آپ نے اس زمانہ میں بعض زمین کے ٹکڑے بہت زیادہ قیمت دے کر خریدے تا کہ جھگڑا ختم ہو جائے آپ فرماتے تھے کہ جو مانگتے ہیں دے دو.الغرض دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات محسنانہ تھے.آپ کا طریق تھا کہ ان تعلقات کو جو خدا تعالیٰ کیلئے ہوں مقدم رکھتے تھے.آپ دنیوی املاک اور مقبوضات کو بیچ سمجھتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ کے رستے میں ہر چیز کو لاشے سمجھ کر قربان کرنے پر آمادہ رہتے تھے.(ج) آپ کے ازار بند کے ساتھ چابیوں کا گچھا بندھا رہتا تھا.یہ چابیاں ان صندوقچوں کی تھیں.جن میں مختلف مخالف مولویوں کے گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط مقفل تھے جن پر آپ کو قلم اٹھانا پڑتا تھا اور مضامین لکھنے ہوتے تھے اور وہ صندوق جن میں ضروری کا غذات اور کتا بیں تھیں.پ اپنے پاس عمدہ اور اچھی دوائیں بھی رکھا کرتے تھے.وہ بھی محفوظ رکھا کرتے تھے.(د) فرمایا کرتے تھے ” خدا تعالیٰ کی عطا کی حفاظت بھی شکر میں داخل ہے.(س) حضور کا لباس سادہ ہوتا تھا.مگر حضور مولویانہ اور صوفیانہ لباس نہیں پہنا کرتے تھے.شرفاء کے رنگ کا پاجامہ شرعی سلوار کی طرز کا پاجامہ مگر کھلا.میں نے ہمیشہ دیکھا دیسی کر تہ کھلی آستینوں والا پہنا کرتے تھے.کر تہ پر ایک صدری ہوا کرتی تھی.جس کی بڑی بڑی جیبیں ہوتیں.اوپر کوٹ یا جبہ پہنا کرتے.سرمبارک پر پگڑی پہنتے.جرا میں کھلی پہنتے.اعصاب کو ہمیشہ گرم رکھتے.جوتی کھلی پہنا کرتے تھے.(ص) ایک دفعہ شیخ مولا بخش صاحب سیالکوٹی نے انگریزی جوتا بھیجا.تھوڑی دور چل کر ایڑی کو دبا دیا.فرمایا.”بڑی تکلیف ہوئی.ہم تو ایک انگل کھلا رکھتے ہیں.تنگ جوتا پاؤں کے لئے دوزخ ہوتا ہے.“ ۱۰.حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کا نام ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم رض میں ۷۴ے نمبر پر ہے.محترم مولوی محب الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ

Page 108

107 حضرت اقدس کا پہلا فوٹو جو گر دھر لعل فوٹوگرافر انار کلی لاہور نے لیا تھا.حضرت میاں صاحب نے اسے خرید لیا تھا اور اس کی کا پہیاں کروا کر جماعت میں فروخت کی تھیں.میرے والد محترم میاں حبیب الرحمن صاحب نے بھی ایک فوٹو خریدا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق فتویٰ پوچھا تو حضور نے میری موجودگی میں فرمایا.اچھا.آپ نے بھی خریدی ہے.ہمارا یہ منشاء تو نہ تھا کہ دوست اس کو خریدیں.اچھا.اگر آپ نے لے لی ہے تو کہیں ڈال چھوڑ میں...نوٹ : حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کے بعض مضامین کی فہرست درج ذیل ہے.کفارہ پر بدر ۱۶.فروری ۱۹۰۶ء ,, وحدت پر بدر ۱۶.مارچ ۱۹۰۶ء وو نیوگ اور طلاق پر بدر ۱۴.اگست ۱۹۰۳ء آریہ صاحبان کی نیک نیتی اور حق جوئی کا ثبوت "بدر ۲۱.اگست ۱۹۰۳ ء بدر‘ ۱۷.جولائی ۱۹۰۳ء بدر ۲۴ - جولائی ۱۹۰۳ء "بدر ۳۱.جولائی ۱۹۰۳ء 996 اولاد: میاں نذیر احمد.میاں بشیر احمد.میاں علاؤ الدین.میاں نورالدین.میاں صلاح الدین مرحومین.(نوٹ: میاں نذیر احمد صاحب نے کچھ عرصہ الفضل“ میں بطور اسٹنٹ ایڈیٹر بھی کام کیا تھا.) میاں محمد اسلم صاحب.میاں محمد سلطان نصرت.دختران: رقیه بیگم مرحومہ مبارکہ بیگم مرحومہ لیڈی ڈاکٹر زبیدہ خاتون، خورشید بیگم صاحبہ امتہ القیوم صاحبه فرخندہ سلطان عذرا بیگم مرحومہ.حضرت سید فضل شاہ صاحب ولادت : ۱۸۶۰ء بیعت : ۲.جنوری ۱۸۹۱ء وفات : یکم فروری ۱۹۲۴ء حضرت سید فضل شاہ صاحب حضرت سید ناصر شاہ صاحب جن کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں خصوصاً حقیقۃ الوحی میں آتا ہے کے بڑے بھائی تھے.محلہ ستھاں لاہور میں رہتے تھے.ابتدا میں کچھ عرصہ ریاست جموں و کشمیر میں بھی ملازمت کی.بڑے عبادت گزار تھے.محترم ڈاکٹر

Page 109

108 سید عنایت اللہ شاہ صاحب کے والد محترم تھے.خلافت ثانیہ میں یکم فروری ۱۹۲۴ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ " انجام آتھم میں ان کا نام ۲۳۹ نمبر پر ہے.جنوری ۱۹۰۰ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین صاحب نے حضور کے گھر کے آگے ایک دیوارا ایسے طور پر کھینچ دی تھی کہ اس سے مسجد مبارک میں آنے جانے کا رستہ رک گیا تھا.یہ ایام جماعت کے لئے بہت ابتلاء کے تھے اور حضور بھی بہت تشویش میں تھے کہ ایک روز جو طبیعت دعا کی طرف راغب ہوئی تو بعد دعا حضور کو ایک سلسلہ الہام ہوا جو حقیقۃ الوحی میں درج ہے.اس الہام کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں : " ” مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادرسید ناصر شاہ صاحب اوورسیئر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پیر دبار ہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.” میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے.آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے، لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم و دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر یک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا.پھر جب ایک فقرہ ختم ہو جا تا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہو جاتا تھا یہاں تک کہ کل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی ، ملے اس وحی کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں : الرَّحَى تَدُورُ وَيَنْزِلُ الْقَضَاءُ إِنَّ فَضْلَ الله لا...لات “ کے نیچے حاشیہ میں لکھا ہے: عجیب بات ہے کہ اس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بر وقت نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی اس کا نام بھی فضل ہے، اے آپ کی اہلیہ سکینہ بی بی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں جن کی ولادت ۱۸۷۹ء میں ہوئی.بیعت ۱۸۹۸ء میں کی اور وفات ۱۶.جنوری ۱۹۶۱ء کو ہوئی.

Page 110

109 حضرت سید ناصر شاہ صاحب ولادت: ۱۸۶۳ ء بیعت : ۱۸۹۱اء وفات: یکم و۲.جنوری ۱۹۳۶ء کی درمیانی رات حضرت سید ناصر شاہ صاحب کو خاکسار راقم الحروف نے قادیان میں خوب دیکھا ہے.باتیں بھی جی بھر کر کرنے کا متعدد بار موقعہ ملا.ذکر حبیب“ کی تقریر بھی سنی.آپ ایک نہایت ہی وجیہ قد آور اور بزرگ انسان تھے.لاہور کے رہنے والے تھے.زیادہ عرصہ ریاست جموں وکشمیر میں ملازم رہے.آپ کے بھائی حضرت سید فضل شاہ صاحب بھی ریاست جموں وکشمیر میں ملازمت کرتے رہے.خدمت دین کا اس قدر جذ بہ تھا کہ ہر وقت موقعہ کی تاڑ میں رہتے تھے.ایک مرتبہ آپ کو عالم رویا میں دکھایا گیا کہ حضرت اقدس کو آپ کی ضرورت ہے.رخصت لے کر قادیان پہنچے.پتہ چلا کہ حضور کو اپنی کتاب " نزول امیج کی طباعت کیلئے روپیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت ڈیڑھ ہزار روپے کی رقم جو حج بیت اللہ کے لئے جمع کر رکھی تھی حضور کی خدمت میں پیش کر دی.نیز وعدہ کیا کہ طباعت کے بقیہ اخراجات کشمیر جا کر ارسال کر دیں گے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی تحفہ بھی ضرور لایا کرتے تھے.حضور علیہ السلام کو بھی آپ سے بڑی محبت تھی.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے آپ کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: وو شاہ صاحب ! حضرت صاحب جس طرح آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں.اسے دیکھ کر خدا کی قسم ہمیں تو رشک آتا ہے.“ ریٹائر ہونے کے بعد موجودہ قصر خلافت (قادیان) کے سامنے آپ اپنے مکان میں رہتے تھے.یکم جنوری ۱۹۳۶ ء کو آپ نے انتقال فرمایا " فانا لله و انا اليه راجعون.حضرت منشی تاج الدین صاحب ولادت: بیعت : ۱۸۹۲ء سے قبل وفات: حضرت منشی تاج الدین صاحب اکو نٹنٹ دفتر ریلوے لاہورا بتدائی صحابہ میں سے تھے.محلہ کوٹھی

Page 111

110 داراں لاہور میں ان کی رہائش تھی.بہت وجیہ اور سلسلہ کے فدائی اصحاب میں سے تھے.جب بھی موقعہ ملتا فوراً قادیان پہنچ جاتے.۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں بھی آپ شامل ہوئے تھے.آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام جلسہ میں شامل ہونے والوں میں درج ہے.سلسلہ کی خدمات کا بھی آپ کو بہت موقعہ ملا.چنانچہ جو وفد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداءً چولہ حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیقات کیلئے ڈیرہ بابا نانک بھیجا تھا' اس کے ممبر آپ بھی تھے.آپ کی بیٹھک سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے تھی.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی بعض اوقات آپ کی بیٹھک میں ٹھہرا کرتے تھے.اولاد: سردارمحمد.مظفر الدین ( جو پشاور کی جماعت کے امیر بھی رہے ) حضرت میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل ولادت : ۱۸۷۶ء بیعت: جنوری ۱۸۹۲ء وفات : یکم مارچ ۱۹۳۲ء عمر : انداز ۶۸۴ سال آپ حضرت میاں چراغ الدین صاحب رئیس لاہور کے فرزند تھے.مگر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اپنے والد ماجد سے پہلے کی.فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے خاندان میں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی تربیت کے نتیجہ میں سب سے پہلے حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ان کے ایک ہفتہ بعد میں نے قادیان جا کر بیعت کی.ابھی آپ سیکنڈ مڈل ہی میں پڑھتے تھے کہ تذکرۃ الاولیاء “ آپ کے مطالعہ میں آئی.اولیاء اللہ کا حال پڑھ کر دل چاہا کہ ان بزرگوں جیسا آج بھی کوئی مل جائے تو آپ اس کی بیعت کر لیں.بلکہ آپ کی بڑی خواہش یہ تھی کہ اگر آنجناب سرور کائنات ﷺ کی خواب میں زیارت ہو جائے تو حضور کی بیعت سے مشرف ہو کر صحابہ کرام میں داخل ہو جا ئیں.فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن جب کہ آپ ایچی سن سکول میں پڑھ رہے تھے.ایک استاد نے پیسہ اخبار سے یہ خبر پڑھ کر سنائی کہ قادیان میں ایک شخص نے مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.یہ خبر آپ کے دل میں شیخ کی طرح گڑ گئی اور پختہ ارادہ کر لیا کہ جب بھی سکول میں کچھ رخصتیں ہوئیں آپ فوراً قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کریں گے.چنانچہ بڑے دن کی رخصتوں پر

Page 112

111 آپ اپنے والد بزرگوار سے اجازت حاصل کر کے امرتسر گئے.اپنے نانا میاں قائم دین صاحب کو ہمراہ لیا اور عازم قادیان ہو گئے.لیکن جب بٹالہ پہنچے تو آپ کے نانا صاحب نے اس خیال سے کہ اس بچہ نے انہیں خواہ مخواہ تکلیف دی ہے.ممکن ہے قادیان میں کوئی ٹھہرنے کی جگہ بھی نہ ملے آپ کو ایک تھپڑ رسید کیا جس سے آپ کو بخار ہو گیا.مگر قادیان پہنچنے کا جنون آپ کو قادیان لے ہی گیا.فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم قادیان پہنچے تو جہاں اب ( یعنی ۱۹۳۹ء میں جب کہ آپ نے یہ باتیں خاکسار کو مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں متعدد نشستوں میں سنائیں اور خاکسار نے قلمبند کیں.عبدالقادر ) مسجد مبارک کی سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تخت پوش پڑا تھا اور اس کے پاس ایک انگریز سیاہ اور کوٹ پہنے کھڑا تھا جس کے متعلق بعد میں پتہ لگا کہ احاطہ مدر اس سے آیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادم حافظ حامد علی صاحب گول کمرہ کے پاس کھڑے تھے.ان سے میں نے پوچھا کہ حضرت صاحب کہاں ہیں؟ وہ ہمیں مسجد اقصیٰ میں لے گئے جہاں حضرت صاحب چہل قدمی فرما رہے تھے.ہاتھ میں چھڑی بھی تھی.حضور نے ہمیں دیکھتے ہی حافظ صاحب سے فرمایا کہ حافظ صاحب ! ان کے کھانے کا بندوبست کریں.مگر ہم نے عرض کی کہ حضور ہم نے کھانا کھا لیا ہے.پھر ہم سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضور لاہور سے.فرمایا.آپ کے والد صاحب کا کیا نام ہے؟ میں نے کہا.حضور میرے والد صاحب کا نام میاں چراغ دین ہے.فرمایا میں ان کو جانتا ہوں.پھر فرمایا.آپ نے کوئی دین کی کتاب بھی پڑھی ہے.میں نے عرض کیا.حضور تذکرۃ الاولیاء پڑھی ہے.اس کے بعد حضور نے بھی اور ہم نے بھی میاں جان محمد صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھی.پھر حضور ہمیں گول کمرہ میں لے آئے اور چونکہ ملکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اور سردی کا موسم بھی تھا اس لئے حضور ہمارے لئے اندر سے قہوہ لے آئے ساتھ خطائیاں بھی تھیں.اس کے بعد شام کو حضور اندر سے ہمارے لئے کھانا لائے جو ہاتھ کی پکی ہوئی روٹیاں اور آلو گوشت تھا.رات کو سوتے وقت حضور نے حافظ حامد علی صاحب کو حکم دیا کہ اس بچے کو بخار ہے لہذا اس کو ذرا دبا دو.صبح حضور فجر کی نماز سے پہلے لالٹین ہاتھ میں لئے ہوئے تشریف لائے اور ہمیں جگا کر فر مایا کہ اٹھو چل کر لا یہ انگریز مسٹر ویٹ جان تھے جو ۱۳.جنوری ۱۸۹۲ء کو احاطہ مدراس سے تشریف لائے تھے.دیکھئے ”حیات طیبہ ایڈیشن دوم صفحہ ۱۳۸.لہذا یہ معلوم ہوا کہ حضرت میاں مغل صاحب کی بیعت جنوری ۱۸۹۲ء کی ہے.

Page 113

112 نماز پڑھیں.پھر حضور اندر تشریف لے گئے اور کوئی آٹھ نو بجے کے قریب پہلے اس انگریز کی بیعت لی اور پھر میری.ان ایام میں حضور ایک ایک آدمی کی الگ الگ بیعت لیا کرتے تھے.اب ہم حضرت مغل صاحب کی کچھ روایات درج کرتے ہیں.آپ کی روایات تو بہت ہیں.اگر سب کو درج کیا جائے تو ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے مگر اس کتاب کی غرض اور ضخامت کو مدنظر رکھتے ہوئے محد و دروایات کے اندراج پر ہی اکتفا کی جاتی ہے.فرمایا: ا.ایک مرتبہ ہم رات کے آٹھ بجے بذریعہ ریل گاڑی بٹالہ پہنچے.میں بائیں آدمی تھے.جن میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور بابو غلام محمد صاحب بھی تھے.چاند کی روشنی تھی اور گرمی کا موسم ہم رات کے ساڑھے گیارہ بجے قادیان پہنچے.حضور اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے.حافظ حامد علی صاحب کو بلا کر دریافت فرمایا کہ لنگر میں جا کر دیکھو.کوئی روٹی ہے؟ انہوں نے عرض کیا.حضور اڑھائی روٹیاں اور کچھ سالن ہے.فرمایا.وہی لے آؤ.مسجد مبارک کی چھت پر ایک سفید چادر بچھائی گئی.جس پر حضور تشریف فرما ہوئے.ہم بھی حضور کے آس پاس بیٹھ گئے.حضور نے ان روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے آگے پھیلا دیئے مجھے خوب یاد ہے.ہم نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا.مگر چند ٹکڑے پھر بھی بچ گئے.یہ واقعہ قریباً ۱۸۹ ء یا ۱۸۹۷ء کا ہے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت بابو غلام محمد صاحب سابق فورمین نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی.۲.ایک دفعہ لیکھرام کے قتل کے بعد ہم قادیان گئے.غالبا حکیم مرہم عیسی صاحب بھی تھے.حضور نے فرمایا.جاتی دفعہ اشتہارات ساتھ لے جانا.اس زمانہ میں بٹالہ سے گاڑی تین بجے چلا کرتی تھی.لہذا گیارہ بجے ہم نے عرض کی کہ حضور ابھی تک اشتہارات نہیں ملے اور ہم نے بٹالہ پہنچ کر تین بجے گاڑی پر سوار ہونا ہے.فرمایا.آپ اشتہارات لے کر جائیں.گاڑی آپ کو مل جائے گی.ڈیڑھ یا پونے دو بجے ہمیں اشتہارات ملے.اڈے پر پہنچے تو یکہ کوئی نہ تھا.پیدل چل پڑے.ساڑھے پانچ بجے بٹالہ پہنچے.سرائے چونکہ اسٹیشن کے قریب تھی.ہم نے وہاں سے دیکھا کہ اسٹیشن پر شور پڑا ہوا ہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ چھینہ اسٹیشن پر ریلوے کا انجن خراب ہو گیا ہے.لہذا گاڑی ابھی تک بٹالہ نہیں پہنچی.پونے چھ بجے گاڑی آئی اور اس پر سوار ہوکر ساڑھے نو بجے رات لا ہو ر پہنچ گئے.

Page 114

113.نیلا گنبد میں میری کنفیکشنری (Confectionery) مٹھائی کی دکان تھی.اور یہ وہ دکان تھی جہاں اب موسیٰ اینڈ سنز کی دکان ہے.اس میں میں بیٹھا ہوا تھا.غالباً ۱۸۹۲ ء یا ۱۸۹۳ء کی بات ہے.ایک شخص محمد رمضان جو نیلا گنبد والی مسجد میں طالب علم تھا اور بڑا سخت مخالف تھا.ایک سکھ کو ساتھ لا کر میرے پاس چھوڑ گیا.اس سکھ کا نام پچھتر سنگھ تھا.میں نے اسے کھانا کھانے کے لئے دو آنے دیے.کھانا کھانے کے بعد اس نے قادیان کا رستہ دریافت کیا اور قادیان چلا گیا.آٹھ دن کے بعد پھر میرے پاس دکان پر آیا اور السلام علیکم کہا جس سے میں سمجھ گیا کہ یہ مسلمان ہو چکا ہے.اس نے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکا ہوں اور حضور نے میرا نام عبدالعزیز رکھا ہے.پھر وہ شخص بڑا مخلص رہا.اب اس کی وفات کو دس بارہ سال ہو چکے ہیں.میں نے قادیان میں اسے بار ہا دیکھا ہے.خیر اس نے بتایا کہ میں ایک عورت پر عاشق تھا اور اس کا خیال میرے دل سے محو نہیں ہوتا.میں بہت گرؤں کے پاس گیا میرے دو ہی سوال تھے کہ یا تو وہ عورت مجھے مل جائے اور یا اس کا خیال میرے دل سے محو ہو جائے.مگر کوئی گرو میری تسلی نہ کر سکا.اس پر میں نے مسلمان گدی نشینوں کی طرف رجوع کیا حتی کہ گولڑے میں مجھ سے ضرب البحر کا چلہ بھی کٹوایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.پھر کسی نے مجھے از راہ تمسخر کہا کہ ” مرزے کے پاس قادیان جاؤ.اس کا بڑا دعوی ہے“.اس لئے میں نے لاہور میں آ کر پوچھا کہ قادیان کا رستہ بتاؤ اور محمد رمضان آپ کے پاس چھوڑ گیا.یہ محمد رمضان خود بھی بعد میں احمدی ہو گیا تھا) پھر میں قادیان چلا گیا.نماز عصر کے بعد حضرت کی ملاقات کیلئے بے دھڑک او پر چلا گیا اور عرض کیا کہ حضور ! اس طرح میں ایک عورت پر عاشق ہوں.میرا برا حال ہے.یا مجھے وہ عورت مل جائے اور یا اس کا خیال میرے دل سے محو ہو جائے.اس پر حضور نے ایک نظر بھر کر میری طرف دیکھا ( حضور نظر اٹھا کر بہت کم دیکھا کرتے تھے ) اور فرمایا کہ رات یہاں رہو اور کل چلے جانا.چنانچہ میں رات رہا.مگر عجیب بات ہے کہ اس نظر کے بعد وہ عورت مجھے بالکل بھول گئی.رات کو میں نے خواب میں سید عبد القادر جیلانی کو دیکھا اور خواب ہی میں مجھے ان کا نام بتلایا گیا اور سمجھایا گیا کہ یہ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں.صبح میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور! میں مسلمان ہوتا ہوں.فرمایا کچھ ٹھہر و.پھر دوسرے یا تیسرے روز حضور نے مجھے مسلمان کر کے میرا نام عبد العزیز رکھا.اب میں آپ کو ملنے آیا ہوں.چنانچہ پھر وہ قادیان چلا گیا.

Page 115

114 ۴.میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل صاحب نے بتایا کہ اس وقت جو گھڑی میرے پاس ہے.یہ حضرت اقدس کی جیب کی گھڑی ہے.حضرت ام المومنین علیہا السلام نے حضور کے وصال کے بعد مجھے عطا فرمائی تھی.یہاں لاہور میں اس گھڑی کو چلتے ہوئے تمہیں سال ہو گئے ہیں.آٹھ روز کے بعد اسے ایک دفعہ چابی دینا پڑتی ہے.پہلے اس کا کیس چاندی کا تھا.میں نے پالش کے لئے ایک شخص فیروز الدین کو دیا مگر اس سے کہیں گم ہو گیا.اب اور کیس ہے.اس گھڑی کی مرمت میں نے اب تک دو دفعہ کرائی ہے.ایک دفعہ چوہدری عبدالرحیم صاحب ہیڈ ڈرافٹس میں سے اور دوسری مرتبہ ایک گھڑی ساز سے جس کا نام عبدالرحمن تھا اور اس نے دوسرا کیس لگایا تھا.اس نے بتایا تھا کہ یہ گھڑی جب نئی خریدی گئی ہو گی کم از کم تین سو روپیہ میں ملی ہوگی.چوہدری عبدالرحیم صاحب ابھی غیر احمدی تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی گھڑی مرمت کے لئے میرے پاس آئی ہے.چنانچہ اتفاق سے میں نے ان کو یہ گھڑی مرمت کیلئے دی.جب انہوں نے اسے کھولا تو کہنے لگے کہ یہ گھڑی آپ نے کہاں سے لی ہے؟ اسے تو میں خواب میں دیکھا چکا ہوں اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے.اس گھڑی کا نقشہ بالکل وہی ہے جو اس کا تھا.اس میں دو سپرنگ تھے اور اس میں بھی.میں نے جب انہیں بتایا کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی گھڑی ہے تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ وہ خواب میں دیکھ چکے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی یہ گھڑی کسی نے آپ سے مرمت کروائی تھی.آج مورخہ ۱۳.مارچ ۱۹۲۴ء کو بعد نماز مغرب خاکسار مؤلف نے جناب چوہدری عبدالرحیم صاحب صد ر حلقہ اسلامیہ پارک سے اس سلسلہ میں ان کے مکان واقعہ اسلامیہ پارک میں ملاقات کی.انہوں نے فرمایا: " جس خواب کا حضرت مغل صاحب نے ذکر کیا ہے وہ میں نے ۱۹۱۷ ء میں اپنے گھر واقعہ امرتسر میں دیکھی تھی.ان دنوں میں احمدیت کا اشد مخالف تھا.میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دائیں طرف سے مجھے ایک گھڑی دی ہے اور اس کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں اس کی مرمت کروں.وہ کہتا ہے.یہ آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے کیا اس کی مرمت ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا جب آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے تو اس کی مرمت کیوں نہیں ہو سکتی.چنانچہ جب میں نے اسے کھول کر دیکھا تو وہ ایک نہایت ہی قیمتی گھڑی تھی.اس کا ہر پرزہ نہایت ہی شاندار تھا.مین سپرنگ (Main Spring) بھی دو تھے.آج تک میں نے دو مین سپرنگوں والی جیسی گھڑی نہیں دیکھی.اس میں جو ہیرا لگا ہوا ہے وہ بھی بہت اعلیٰ ہے.

Page 116

115 ۵.فجر کی نماز کے بعد آپ تھوڑی دیر بیٹھ کر لوگوں کے رویا سنا کرتے تھے اور اپنے الہامات یا ر دیا بیان کیا کرتے تھے اور پھر اندر تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب اچھا سورج نکل آتا تھا تو کوئی آٹھ بجے کے قریب سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.حتی کہ ماہ رمضان میں بھی حضور سیر کو جایا کرتے تھے.اکثر موجودہ اسٹیشن کی طرف جایا کرتے تھے.پہلے چوک میں کھڑے ہو کر مہمانوں کی انتظار فرمایا کرتے تھے.پھر حضرت مولوی صاحب ( خلیفہ اوّل) کے دروازے پر کھڑے ہو کر مولوی صاحب کو اطلاع بھجوایا کرتے تھے.مولوی صاحب فوراً حاضر ہو جاتے تھے.سیر قریباً تین میل ہوا کرتی تھی.کبھی کبھی حضور نہر کی طرف بھی جاتے تھے.جب ہم تھک جایا کرتے تھے تو چار پانچ آدمی ایک خیر خواب میں ہی میں نے اس کی مرمت کی.جب مرمت کر چکا تو خواب میں زور سے آندھی آئی جس سے میں بیدار ہو گیا.۱۹۲۰ء کے شروع میں میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.۱۹۲۲ء کے شروع میں کسی تقریب پر لاہور میں حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کے مکان پر آنے کا اتفاق ہوا.مغل صاحب او پر سے ایک گھڑی لائے اور دائیں طرف سے مجھے دکھا کر فر مایا.کیا آپ اس گھڑی کی مرمت کر سکتے ہیں؟ نیز فرمایا کہ آپ کو علم ہے کہ کس کی گھڑی ہے؟ میں نے کہا.مجھے تو علم نہیں.فرمایا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھڑی ہے جو حضور کے وصال کے دوسرے سال حضرت ام المومنین نے مجھے لاہور میں ہمارے مکان پر عطا فرمائی تھی.میں نے جب اس گھڑی کو دیکھا تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کیونکہ یہ وہی گھڑی تھی جس کی میں ۱۹۱۷ ء میں خواب میں مرمت کر چکا تھا اور جس کے متعلق مجھے کہا گیا تھا کہ یہ آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے.میں وہ گھڑی امرتسر اپنے گھر لے گیا.بچوں کو دکھائی اور بتایا کہ خواب میں آنحضرت ﷺ کی جس گھڑی کا واقعہ میں آپ لوگوں کو کئی مرتبہ سنا چکا ہوں وہ یہ گھڑی ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.چوہدری صاحب نے یہ واقعہ سنا کر فرمایا کہ میں نے حضرت مغل صاحب سے عرض کی تھی کہ میری زندگی تک آپ کو جب بھی اس گھڑی کی مرمت کی ضرورت پیش آئے میری خدمت حاضر ہیں.اللهم صلی علی محمد و آل محمد محترم چوہدری صاحب نے فرمایا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جس طرح ۱۹۱۷ء کی خواب میں گھڑی کی مرمت کے بعد زور سے آندھی آ گئی تھی.۱۹۲۲ء میں گھڑی کی مرمت کے بعد رات کو زلزلہ آیا جس سے شور پڑ گیا.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ گھڑی میں نے تین مرتبہ دیکھی ہے.دومرتبہ تو حضرت مغل صاحب نے خود مسجد احمد یہ لاہور میں لا کر مجھے دکھائی تھی اور تیسری مرتبہ جو ۱۹۶۲ء میں جب محترم مولوی قمر الدین صاحب فاضل انسپکر اصلاح وارشا داور خاکسار دورہ پر کراچی گئے تھے تو اس موقعہ پر دیکھی تھی.اور اس کی تقریب یوں پیش آئی کہ مغل صاحب

Page 117

116 دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے آگے چل پڑے تھے اور چند قدم آگے چل کر واپس قادیان کا رخ کر لیتے تھے.حضور بھی ہمارے پیچھے ہو لیتے تھے.چونکہ حضور مسائل بیان فرما رہے ہوتے تھے اس لئے ہم عرض نہیں کرتے تھے کہ حضور واپس چلیں.سیر میں بعض اوقات اس قدر گر داڑتی تھی کہ سر اور منہ مٹی سے بھر جاتے تھے.حضور اکثر پگڑی کے شملہ کو بائیں طرف سے منہ کے آگے رکھ لیا کرتے تھے.حضور کے دائیں ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی.بعض اوقات لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکر لگ کر چھٹڑی گر جاتی تھی مگر حضور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے.بلکہ جب کوئی چھڑی پکڑا تا تو پکڑ لیا کرتے تھے.اگر کسی وقت سیر میں حضور پیشاب کیلئے الگ ہوتے تھے تو بہت دور جا کر پیشاب کیا کرتے تھے اور ڈھیلہ بیٹھ کر ہی لیا کرتے تھے.کھڑے ہو کر ہم نے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا..حضور جب اسلام اور دیگر مذاہب کے موضوع پر لیکچر دینے کے لئے لاہور میں تشریف لائے تو میاں معراج الدین صاحب صاحب عمر کے مکان پر ٹھہرے تھے.چند دن بعد حضور نے حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بلا لیا تھا اور مولوی صاحبان ہمارے مکان میں ٹھہرے تھے.گرمی کا موسم تھا.ہم نے پانی کے لئے کورے مٹکے لاکر رکھے ہوئے تھے.گوجرانوالہ وزیر آباد سیالکوٹ اور امرتسر وغیرہ سے جو مہمان آتے تھے اہل و عیال سمیت آتے تھے.مجھے یاد ہے.چھتیں سو روٹی ایک وقت میں پکا کرتی تھی.ہمارے گھروں کے سامنے دکانوں کا ایک بازار لگ گیا تھا.مولوی لوگ مجمعے لگا کر گالیاں دیتے اور اعتراضات کیا کرتے تھے.ایک مولوی صاحب شیشم ( جسے پنجابی میں ٹاہلی کہتے ہیں.ناقل ) کے درخت پر چڑھ کر بدزبانی کیا کرتا تھا اور اس کا نام مولوی ٹاہلی پڑ گیا ایک دن حضرت ام المومنین نے میری والدہ کے سامنے حضور سے عرض کیا کہ چونکہ عورتیں مٹکوں کی اہلیہ بچوں سمیت لاہور سے سکونت ترک کر کے کراچی چلی گئی ہیں.میں نے وہاں پہنچنے پر ان کے ایک بچے عزیزم عبدالرزاق صاحب کو کہا کہ اپنی امی کو میرا سلام کہنا اور ان سے وہ گھڑی لے آنا جو حضرت ام المومنین نے مغل صاحب کو دی تھی.چنانچہ وہ گھڑی لے آیا.اتفاقاً اس روز احمد یہ ہال میں کوئی جلسہ تھا اور حاضری تقریباً تین چارسو کے لگ بھگ تھی.میں نے باری باری سب کو وہ گھڑی دکھلائی تھی اور اس کی مرمت کا واقعہ بھی بیان کیا تھا.فالحمد للہ علی ذالک

Page 118

117 سے پانی لے کر بچوں کو نہلاتی ہیں اور کئی قسم کے ہاتھ مٹکوں میں پڑتے ہیں.اس لئے پانی پلید ہو جاتا ہے.حضور اٹھے اور ایک مٹکے سے پانی لیکر پیا.اور پھر فرمایا.دیکھو یہ ٹھنڈا کیسا ہے؟ لیکچر کے لئے جو دن مقرر تھا شور کی وجہ سے اور مناسب انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر نے کہلا بھیجا کہ اگر آپ لیکچر کی تاریخ ذرا بڑھا دیں تو ہمیں انتظام میں سہولت رہے گی.چنانچہ حضور نے کچھ دن آگے بڑھا دیئے.مجھے یاد ہے.انتظام کے لئے ڈپٹی کمشنر نے دوسوسوار رسالہ میانمیر سے منگوایا تھا.لیکچر بھائی دروازہ کے باہر منڈ وہ رائے میلا رام میں ہوا تھا اور مخلوق ہزاروں کی تعداد میں تھی.لیکچر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا تھا.لیکچر کے بعد جب حضور نے خود کھڑے ہو کر کچھ تقریر کرنا چاہی تو لوگوں نے شور مچا دیا.پھر مولوی عبد الکریم صاحب نے کھڑے ہو کر ایک رکوع خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جس پر لوگ خاموش ہو گئے.اس کے بعد حضور نے مختصر سی تقریر فرمائی.اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا.کہ اس قدر مخلوق کو پیغام حق پہنچانے کا موقعہ مل گیا.کمیٹی کے داروغہ نے سڑک پر چھڑکاؤ کروایا تھا.حضور کے ساتھ فٹن پر خاں رحمت اللہ صاحب کو تو ال سوار تھے.ڈرائیور کے ساتھ بھی ایک سپاہی بیٹھا ہوا تھا.سڑک کے دونوں طرف گھوڑ سوار فوجی تھے.غیر احمدی ٹولے بنا بنا کر کھڑے تھے اور چھاتیاں پیٹتے ہوئے کہتے تھے.ہائے ہائے مرزا.ے.ایک مرتبہ قادیان میں حضور مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے.حضور نے مہمانوں کے واسطے چائے کے برتن پر چ پیالیاں وغیرہ منگوائیں.وہ سارا سامان میر مہدی حسین صاحب سے گر کر پرچ ٹوٹ گیا.حضور نے بھی گرنے کی آواز سنی.مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور آواز آئی.معلوم ہوتا ہے میر مہدی حسین صاحب سے پر چیں ٹوٹ گئی ہیں.فرمایا دیکھو ! جب گری تھیں تو ان کی آواز کیسی اچھی تھی،، ہے..ایک دفعہ ہمارے والد میاں چراغ دین صاحب.مرہم عیسی عبدالمجید اور ہماری والدہ اور میں اور میری بیوی قادیان گئے.کوئی ۱۸۹۸ء.۱۸۹۹ ء کا واقعہ ہے.حضرت صاحب نے عورتوں کو کچھ نصائح فرما ئیں.حضرت صاحب کو نصائح سن کر ہم حضرت خلیفہ اول کے گھر گئے.آپ نے بھی وہی نصائح کیں جو حضرت صاحب کر چکے تھے.مفہوم یہ تھا کہ ناشکری نہیں کرنی چاہیئے.بچوں کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں.بعض اوقات گالی کا اثر سیچ سچ ہو جاتا ہے.

Page 119

118 ۹.خاکسار مؤلف کے اس سوال پر کہ کیا کبھی آپ نے حضرت صاحب کو کسی سے بغلگیر ہوتے دیکھا ہے؟ فرمایا کہ ہاں ! حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحب کو حضور گلے لگا کر ملے تھے.جب صاحبزادہ صاحب لا ہور میں پہنچے تو ہمارے مکان میں قریباً آٹھ دن ٹھہرے تھے اور جمعہ کی نماز گھٹی والی مسجد میں پڑھائی تھی اس خطبہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا.محمد است عین محمد.یہ الفاظ ابھی تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں اور مولوی رحیم اللہ صاحب والی مسجد میں جو ہمارے لنگے منڈی والے مکانوں کے بالکل سامنے تھی، آپ نے ایک نظم بھی لکھی تھی.جس کا پہلا شعر کچھ اس قسم کا تھا.عجب کہ احمد اطہر بایں گذر آمده محمد است بگیسوئے معطر آمده یہ نظم شائع ہو چکی ہے.صاحبزادہ صاحب نے یہاں لاہور سے آٹھ نو ٹرنک حدیث اور دیگر علوم کی کتابوں کے خریدے تھے.ڈاکٹر غلام محمد صاحب غیر مبائع جو خواجہ کمال الدین صاحب کے بہنوئی ہیں.ان کے بڑے بھائی کی شادی تھی.دعوت ولیمہ پر ان کے والد منشی نبی بخش صاحب نے ہمیں بھی اور حضرت صاحبزادہ.صاحب کو بھی بلایا تھا.جب صاحبزادہ صاحب کے آگے کھانا رکھا گیا.جو زردہ پلاؤ وغیرہ تھا تو صاحبزادہ صاحب نے فرمایا.ایں گوہ است‘ اور اٹھ کر چل دیئے.مجھے خوب یاد ہے.آپ کا جبہ تیز چلنے کی وجہ سے ہوا میں اڑ رہا تھا.آپ نے مجھے چار آنے کے پیسے دیئے اور فرمایا کہ نان اور کباب خرید و.چنانچہ میں نے خرید لئے اور وہ ہم نے لنگے منڈی والی مسجد میں جا کر کھائے بعد ازاں پتہ لگا کہ جس دعوت پر ہم مدعو تھے وہ شادی سے پہلے تھی اور روپیہ بھی سود پر لیا گیا تھا.اس زمانہ میں دعوت ولیمہ کی بجائے شادی سے قبل کھانا کھلا دیا جا تا تھا.۱۰.ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور نے عرض کیا حضور میری دکان کیلئے دعا کریں.فرمایا میں تو دن رات یہی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی طرح کسر صلیب کرے اور آپ کو دکان کی فکر پڑی ہوئی ہے.ا.ایک دفعہ حضور کچھ لکھ رہے تھے کہ حضور کے پاس دودھ رکھا گیا مگر آپ لکھنے میں مشغول رہے.اتنے میں ایک بلی آئی اور دودھ پی گئی.دوسرے دن اسی وقت پھر آپ کچھ لکھ رہے تھے کہ بلی نے آ کر

Page 120

119 آپ کے پاؤں پر پنجہ مارنا شروع کیا.گویا وہ دودھ مانگتی تھی.حضور نے آواز دی کہ اس کے لئے دودھ لا ؤ اور فرمایا کہ دیکھو اس نے اپنی طرف سے پیار کیا ہے اور میرے پاؤں کو چھیل دیا ہے.۱۲ - ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے جب حضرت صاحب لیکچر دینے کیلئے لا ہور تشریف لائے تو ہم چند نو جوانوں نے مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان قوموں کے نو جوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.اور ہمیں جو لیڈ ر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے با دشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہئے.چنانچہ ہم نے گاڑی والے سے کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کر لو.آج گاڑی ہم کھینچیں گے.کوچ مین نے ایسا ہی کیا.جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا گھوڑے کہاں ہیں.ہم نے عرض کیا.حضور دوسری قوموں کے لیڈ ر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں.آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے.فرمایا گھوڑے جو تو.ہم انسان کو حیوان بنانے کیلئے دنیا میں نہیں آئے ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.۱۳.ایک مرتبہ جب کہ حضور لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا : ☆ میاں تم جہانگر کا مقبرہ دیکھنے کیلئے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پر نہ کھڑے ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجددالف ثانی کی ہتک کی تھی.۱۴.حیات طیبہ ایڈیشن دوم صفحہ ۳۴۲ میں حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کی روایت سے یہ لکھا جا چکا ہے کہ کرم دین والے مقدمات میں مجسٹریٹ آتما رام نے پہلے حضرت صاحب کے خلاف فیصلہ سنانے کے لئے یکم اکتو بر ۱۹۰۴ ء کی تاریخ مقرر کی تھی.مگر اس روز غیر احمدیوں کا ایک جم غفیر احاطہ کچہری میں موجود تھا اور احمدی احباب بھی اڑھائی تین سو کے قریب کراچی حیدر آباد سندھ پشاور وزیر آباد کپورتھلہ قادیان' لاہور یہ روایت حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگر ہ آف گوجرانوالہ نے بھی شائع کروائی تھی مگر الفاظ روایت میں قدرے فرق ہے مفہوم میں فرق نہیں.دیکھئے "بدر ۲۱.اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۳

Page 121

120 امرتسر ناروال دینا نگر وغیرہ مقامات سے آئے ہوئے تھے.غالباً اس کثرت اثر دھام کو دیکھ کر یا کسی اور مصلحت سے مجسٹریٹ صاحب نے اس روز فیصلہ نہ سنایا بلکہ فیصلہ سنانے کی تاریخ ۸ اکتوبر ۱۹۰۴ء مقرر کر دی.ان کا ارادہ چونکہ حضرت اقدس کے متعلق خطر ناک تھا اس لئے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ حضرت اقدس کے مقدمہ کا فیصلہ اس وقت سنایا جائے جب کہ عدالت کا وقت ختم ہورہا ہو اور جرمانہ کی ادائیگی کا فوری طور پر انتظام نہ ہو سکے.دوسرے انہوں نے مصلحتا فیصلہ سنانے کا دن ہفتہ مقرر کیا.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ مجسٹریٹ کی نیت یہ تھی کہ میں فیصلہ سناتے سناتے کچہری کا وقت گزار دوں گا اور پھر جرمانہ کی رقم پیش کرنے پر کہہ دوں گا کہ اب کچہری کا وقت ختم ہو چکا ہے لہذا جرمانہ پرسوں پیر کو وصول کیا جائے گا اور اس طرح سے (حضرت) مرزا صاحب کو کم از کم دو دن جیل خانہ میں رہنا پڑے گا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ چند دن ہوئے خاکسار پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا.ان میں سے ایک رجسٹر برآمد ہوا جس میں جماعت احمد یہ حلقہ دہلی دروازہ لاہور کے ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء کے ہفتہ وار تربیتی جلسوں کی روئیداد درج ہے.اس رجسٹر میں حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل کی ذکرِ حبیب پر کئی تقریریں درج ہیں.ان تقریروں میں سے ایک تقریر جو انہوں نے ۵.اپریل ۱۹۳۸ء کو مسجد احمد یہ دہلی دروازہ میں محترم جناب چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ کی صدارت میں فرمائی.کرم دین والے مقدمات میں آتما رام مجسٹریٹ کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس ( یعنی آتما رام.ناقل ) نے یہ منصوبہ کیا کہ چار بجے فیصلہ سناؤں گا.کل اتوار ہے اور پرسوں ویسے چھٹی ہے.اس طرح حضور تین چار دن تو جیل میں کاٹیں گے.اس روایت کے اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجسٹریٹ آتما رام نے جو کیم اکتو بر ۱۹۰۴ء کی بجائے آٹھ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ۸.اکتوبر کے بعد ۹.کو اتوار اور ۱۰.اکتوبر کی چھٹی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک حضور زیادہ سے زیادہ وقت جیل میں رہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض صحابہ سے میں نے یہ بھی سنا ہوا ہے کہ آتما رام کا پختہ ارادہ تھا کہ حضور کو قید کی سزا کا حکم سنائے مگر چونکہ حضور کی شخصیت بہت اہم تھی اس لئے جب اس نے فیصلہ سنانے

Page 122

121 سے قبل ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے اپنے اس ارادہ کا ذکر کیا تو ڈپٹی کمشنر نے اس کو بہت سخت اقدام قرار دیا.اس لئے اسے مجبور أجرمانہ کی سزا پر ہی اکتفا کرنا پڑا.۱۵.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس کا بے حد ادب کیا کرتے تھے.چنانچہ حضور جب کبھی کوئی مسئلہ حضرت مولوی صاحب سے دریافت کرتے تو حضرت مولوی صاحب نہایت سادگی سے جواب عرض کر دیتے.لیکن اگر حضور اس کے برعکس کوئی بات بیان فرماتے تو حضرت مولوی صاحب بھی فوراً اس کی تائید شروع کر دیتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز با جماعت میں شریک تھے.قعدے میں حضور پر ایسی محویت طاری ہوئی کہ جب تک امام نے کھڑے ہوئے کر قرآت ختم نہیں کی آپ نہیں اٹھے.جب امام رکوع میں گیا تو آپ شامل ہو گئے.نماز ہو چکنے کے بعد علماء سے آپ نے مسئلہ دریافت فرمایا کہ نماز ہوئی یا نہیں ؟ علماء کا فتویٰ یہی تھا کہ نماز نہیں ہوئی.جب حضرت مولوی صاحب سے دریافت فرمایا تو آپ نے بھی علماء سے اتفاق کیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ نماز ہوگئی ہے.یہ سن کر حضرت مولوی صاحب نے بلا تو وقف عرض کی کہ ہاں حضور ہوگئی.حضرت مولوی صاحب حضور کے علم کے سامنے اپنے تمام علوم کو بیچ سمجھا کرتے تھے.حتی کہ علم طب کو بھی چھوڑ دیتے تھے.ایک مرتبہ کا ذکر ہے.میں بھی حضرت مولوی صاحب کے پاس مطب میں بیٹھا تھا.بعض اور لوگ بھی تھے کہ حضرت ام المومنین کے ملازم نے آ کر کہا کہ حضرت اماں جان کی طبیعت علیل ہے.فرماتی ہیں کہ آپ آ کر فصد کھو لیں.حضرت مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ اس بیماری میں اس وقت فصد کھولنا سخت مضر ہے اماں جان نے پھر آدمی بھیجا کہ مجھے سخت تکلیف ہے ضرور فصد کھول دیں حضرت مولوی صاحب نے پھر وہی جواب دیا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب جن کی عمر اس وقت کوئی گیارہ سال تھی تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے مصافحہ کیا ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا میاں کیسے آئے ہو حضرت صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ ابا جان نے بھیجا ہے کہ اماں جان سخت بیمار ہیں آپ آ کر فصد کھول دیں.حضرت مولوی صاحب فوراً نشتر وغیرہ لے کر اٹھے اور جا کر فصد کھول دی جب آپ واپس تشریف لائے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت! آپ تو فرماتے تھے کہ اس بیماری میں فصد کھولنا درست نہیں ہے پھر کھول بھی آئے فرمایا.پہلے تو طبی مشورہ تھا.پھر جب حضرت کا حکم آ گیا تو وہاں

Page 123

122 طب کا کیا کام؟ پھر تو حکم کی تعمیل میں ہی سب خیر تھی.۱۶.ایک دفعہ جب کہ حضور گورداسپور میں تھے.ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے.گرمی کا موسم تھا اور دو بجے کا وقت.میں حضور کو پنکھا کر رہا تھا.حضور ایک کرسی پر تشریف فرما تھے.اس کرسی کے پیچھے کئی بینچ تھے کچھ لوگ ان پر بیٹھے تھے.کچھ چاروں طرف کھڑے تھے حلقہ باندھے ہوئے.حضور کی کرسی کے پاس ہی چندو لال مجسٹریٹ کی میز تھی.اچھی بڑی میں تھی.پہلے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے گواہی دی.پھر حضرت صاحب سے اس نے پوچھا کہ آپ کا الہام ہے.انی مهین من اراد اهانتک.اگر میں آپ کی توہین کروں تو ؟ حضور نے فرمایا.یہ خدا کا کلام ہے خواہ آپ بھی کریں..اس پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ یہ وہ پتھر ہے جس پر گرے گا وہ بھی چکنا چور اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چکنا چور.کرم دین کا وکیل محمد عمر بٹالہ کا تھا.عدالت باہر درختوں کے نیچے لگ رہی تھی.چنانچہ اس واقعہ کے بعد چندو لال ایک واقعہ کی بناء پر Degrade ہو کر منصف بنا کر ملتان بھیجا گیا.بعد میں کسی موقعہ پر جب وہ لاہور آیا تو اس نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب نے میرے متعلق اور تو کچھ نہیں کہا.حضور کالباس وغیرہ جب حضور مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو بسا اوقات آپ کا ہاتھ آپ کی ران پر لگتا تھا اور کبھی ایک پاؤں دوسری ران پر رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے.حضور عموماً سفید پگڑی پہنا کرتے تھے.فوٹو کے وقت آپ نے ایک لنگی پہنی ہوئی تھی جس کا پلہ تلے کا تھا.حضور پگڑی شیشہ کے بغیر ہی باندھ لیا کرتے تھے.جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا تو اس وقت حضور لنگی باندھے ہوئے تھے.سرخ بنات کا چغہ بھی پہنے حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے.یہ یاد نہیں کہ آپ کہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے.لاہور کے اسٹیشن پر غالبا دیکھا تھا.چونکہ دائیں ہاتھ کو چوٹ لگی ہوئی تھی اس لئے پانی کا گلاس حضور بائیں ہاتھ سے اٹھاتے تھے.البتہ دایاں ہاتھ پانی پیتے وقت گلاس کو لگا لیا کرتے تھے.حضور کے دائیں ہاتھ کو چوٹ زمانہ ماموریت

Page 124

123 66 سے پہلے غالبا سیٹرھیوں سے یا کسی اور جگہ سے گر جانے کی وجہ سے لگی تھی جس کا اثر آخر تک ہاتھ پر رہا.سلوار پہنے میں نے حضور کو کبھی نہیں دیکھا.شرعی پاجامہ حضور پہنتے تھے.قمیض فلالین کی گرم ہوتی تھی.جن دنوں دہلی کے اخبار ”پنچ نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ حضور کو ( نعوذ باللہ ) کوڑھ ہو گیا ہے.ان دنوں حضور اکثر ململ کا کرتہ لٹھے کا پاجامہ پہنتے تھے.اس کرتہ کے اوپر اور کچھ نہیں ہوتا تھا.اور اکثر دیکھا ہے کہ آپ پنڈلیوں سے پاجامہ بھی بار بار اٹھاتے تھے اور بازؤں سے کر تہ بھی کہنیوں تک اٹھاتے تھے.یہاں لا ہور میں یہ بات بکثرت مشہور ہوگئی تھی اور بہت سے لوگوں کو ہم دکھانے کے لئے قادیان لے جایا کرتے تھے.جن میں سے اکثر بیعت کر کے آتے تھے.سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دہلی کے پہنچ اخبار کے ایڈیٹر نے اپنے مکان کے دروازہ کے اوپر دیوار پر موٹے الفاظ میں لکھا ہوا تھا.لعنة اللہ علی الکاذبین.چنانچہ وہ جلد ہی لعنت کا شکار ہو کر تباہ ہو گیا.حضور دوسرے تیسرے روز مہندی بھی لگایا کرتے تھے.آخری عمر میں وسمہ بھی لگاتے تھے.خاکسار کے اس سوال پر کہ کیا حضور نے کبھی بوٹ بھی پہنے ہیں.میاں صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ براؤن گرگا بی کسی نے لا کر دی تھی مگر دائیں بائیں کے پہننے میں حضور کو تکلیف ہوتی تھی.اس لئے حضور نے پہننا چھوڑ دی تھی.مفتی صاحب نے دائیں طرف سیاہی کا نشان لگا دیا تھا مگر میاں محمود احمد صاحب نے بائیں طرف بھی ویسا ہی نشان لگا دیا.اس پر آپ نے فرمایا.اس کو لے جاؤ.میرے اس سوال پر کہ حضور از ار بندکس چیز کا پہنا کرتے تھے فرمایا کہ ٹوٹی ریشم کا ازار بند ہوتا تھا جو اصلی ریشم نہیں ہوتا.مجھے یاد ہے کہ حضورا ایک دفعہ یہاں تشریف لائے تو ازار بند کے ساتھ چابیوں کا ایک بڑا گچھا بندھا ہوا تھا.جو میاں امیرالدین پراچہ کے لئے ابتلا کا موجب بن گیا.ان کا لڑ کا آج کل کلکتہ میں ہے.دوست محمد اس کا نام ہے مخلص احمدی ہے (۱۹۳۹ء میں ) حضور گالیوں کے خطوط کو بھی محفوظ رکھا کرتے تھے.ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ گالیوں کے خطوط چارمن وزن میں ہو گئے ہیں.یہ طاعون سے پہلے کا واقعہ ہے.پھر طاعون شروع ہوگئی.خاکسار کے اس سوال پر کہ کیا حضرت صاحب کے ہاتھ کو بھی آپ نے بوسہ بھی دیا ہے.فرمایا کہ ہم ہمیشہ حضور کے ہاتھ کو بوسہ دیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک کشمیری آیا اور حضور کے پاؤں پر گر پڑا.

Page 125

124 حضور نے اس کو اٹھا لیا اور خلیفہ رجب دین صاحب کو کہا کہ ان کو سمجھائیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے.خاکسار کے اس سوال پر کہ کیا آخری عمر میں حضرت صاحب کے چہرہ پر جھریاں پڑ گئی تھیں.فرمایا.نہیں.جب حضور کی وفات ہوئی ہے تو میں جنازہ کے ساتھ قادیان گیا تھا.جنازہ باغ والے مکان میں رکھا گیا تھا اور عصر کے وقت تمام لوگوں کو چہرہ مبارک کی زیارت کرائی گئی تھی.اس وقت میں نے حضور کی پیشانی پر بوسہ بھی دیا تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضور سوئے ہوئے ہیں.چہرہ پر زردی بھی نہیں تھی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کو میں نے خوب دیکھا ہے بلکہ گھنٹوں پاس بیٹھ کر ذکر حبیب کے تذکرے سنے ہیں.آپ کو تبلیغ کا ایک جنون تھا.میاں معراج الدین اور مولوی غلام حسین صاحبان شیر فروش بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات حضرت مغل صاحب گھر سے رومال لے کر سودا سلف خرید نے یا دودھ دہی لینے کے لئے برتن لے کر نکلتے تھے.مگر جب دکان پر یا رستہ میں تبلیغ کا موقعہ نکل آتا تو سب کچھ بھول کر اسی میں محو ہو جاتے.بعض اوقات تو راتوں کو اتنی اتنی دیر تبلیغ میں مصروف رہتے کہ جب واپس جانے کے لئے بازار سے گزرتے تو پولیس والے آوارہ گردی میں پکڑ لیتے اور رات کا بقیہ حصہ حوالات میں رہنا پڑتا.میاں معراج الدین صاحب شیر فروش بیان کرتے ہیں کہ حضرت مغل صاحب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سعادت سے ہمیں بھی حصہ ملا ہے.نیز فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہجوم نے آپ پر حملہ کیا میں آپ کے اوپر لیٹ گیا تا آپ کو کوئی چوٹ وغیرہ نہ لگے.آپ کی جب وفات ہوئی تو آپ چونکہ آخری عمر میں کوئی کام نہیں کرتے تھے.اس لئے خطرہ تھا کہ کہیں نظارت بہشتی مقبرہ والے آپ کے ذمہ آمد کا بتایا نکال کر کوئی عذر نہ کر دیں.مگر اتفاق سے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ان ایام میں لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے.حضور کو جب مغل صاحب کی وفات کی اطلاع ملی تو حضور آپ کے مکان پر تشریف لائے.پسماندگان کی دلجوئی کرنے کے بعد ایک سو روپیہ کا نوٹ جیب سے نکال کر دیا اور فرمایا کہ یہ رو پینش کو قادیان لے جانے کے لئے استعمال کیا جائے.اب بھلا کس کو جرات ہوسکتی تھی کہ ایسے انسان کا بقایا کا سوال کرے جس کی نعش کو قادیان پہنچانے کا انتظام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ خود فرمارہے ہوں.چنانچہ نتیجہ یہی ہوا کہ بلا روک ٹوک آپ کی نعش کو بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا گیا.فالحمد للہ علی ذالک.اولاد: شریف احمد عبدالرحمن عبد الباسط عبدالرزاق، عزیزہ امتہ اللہ

Page 126

125 زینب صاحبہ بنت میاں عمر الدین صاحب ہمشیرہ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر ولادت: بیعت : ١٩٠٢ء وفات : اپریل ۱۹۴۹ء بی زینب حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کی ہمشیرہ تھیں.ان کی شادی شاہ مسکین کے بزرگ سید رمضان شاہ صاحب کے ساتھ ہوئی.سید رمضان شاہ صاحب کی اولا دسید محمد شاہ صاحب سید ولی محمد شاہ صاحب سید ولایت شاہ صاحب سید محمد صدیق شاہ صاحب سیده اقبال بیگم صاحبه سیده زیب النساء صاحبہ ہیں.ان میں سید ولایت شاہ صاحب بڑے بزرگ انسان تھے.سلسلہ کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی.وفات تک انسپکٹر وصایا کے طور پر شاندار خدمات سرانجام دیں.ان کا لڑکا سید امین شاہ بھی واقف زندگی ہے اور اخلاص کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہے.حضرت حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسی خلف حضرت میاں چراغ دین صاحب ولادت : ۸۶۰اء بیعت : ۱۸۹۲ ء وفات : ۲۸ - اکتوبر ۱۹۵۴ ء عمر : ۹۴ سال حضرت حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسی حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس اعظم لاہور کے فرزند اکبر تھے.۱۸۶۰ء کے قریب آپ پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب سے حاصل کی ایک عجیب واقعہ آپ کے خودنوشت سوانح حیات میں یوں درج ہے کہ :

Page 127

126 حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد میں جو ہمارے مکان کے سامنے تھی.شام کے وقت جب آپ ( یعنی والد ماجد حکیم صاحب حضرت میاں چراغ دین صاحب.ناقل ) نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو کشف کے طور پر آپ نے میرے رونے کی آواز سنی.اس وقت میں تین چار برس کا تھا اور بھائی دروازہ میں میرے ننھیال رہتے تھے.وہاں میں اپنی والدہ بزرگوار کے ساتھ گیا ہوا تھا.ان دنوں بابا قائم دین جو میرے نانا تھے ان کی وفات ہوئی تھی.تمام گھر کے لوگ اور مستورات اور تمام کنبہ وہاں اکٹھا ہوا ہوا تھا.اور میں نیچے کوئیں کی منڈیر پر کھڑا تھا اور دور رہا تھا.میرے رونے کی آواز حضرت والد صاحب بزرگوار کو شام کے وقت لنگے منڈی کی مسجد میں جو بھائی دروازہ سے بہت دور تھی.ان کے کان میں سنائی دی تھی اور ان کو کشف دکھایا گیا تھا کہ میں کوئیں کے اندر ڈول کا رسا پکڑ کر لٹک رہا ہوں اور قریب تھا.کہ میں کوئیں کے اندر گر جاتا.حضرت والد بزرگوار میرے رونے کی آواز کان میں پڑنے سے لنگے منڈی سے بھائی دروازے تک دوڑتے ہوئے پہنچے اور انہوں نے مجھے کوئیں میں لٹکا ہوا اور روتے ہوئے دیکھا اور مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا اور پھر مجھے میری والدہ کے پاس لے گئے اور یہ ساری کیفیت بیان کی.والد بزرگوار نے بہت بہت خدا کا شکر ادا کیا اور صدقہ و خیرات بھی بہت کیا“ ۱۸۸۶ء میں آپ کے والد ماجد نے آپ کو گورنمنٹ سکول لاہور کی مڈل کلاس میں داخل کروایا.ان کا ارادہ تھا کہ آپ کو انگریزی تعلیم دلا کر کوئی اچھی سی ملازمت دلائیں مگر آپ کا ارادہ طبیب بنے کا تھا.چنانچہ آپ کے والد ماجد حضرت میاں چراغ دین صاحب نے آپ کے اس رجحان کو دیکھ کر آپ کو عربی اور فارسی پڑھانے کے لئے مولوی فضل دین صاحب کے پاس بٹھایا.ضروری علمی قابلیت پیدا کرنے کے بعد آپ نے علم طب حاصل کرنے کے لئے اس وقت کے ایک مشہور طبیب حکیم ضیا ءالدین صاحب لاہور کی شاگردی اختیار کی.حکیم صاحب موصوف کے چھوٹے بھائی حکیم شجاع الدین صاحب بھی آپ سے بہت محبت سے پیش آتے تھے.اور مریضوں کے علاج کے وقت آپ کو اپنے پاس بٹھا لیا کرتے تھے اور تشخیص الامراض کا طریق بتلاتے رہتے تھے.اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی طبی تعلیم یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ دہلی دروازہ کے باہر مکانات تعمیر کروانے سے پہلے میاں فیملی کے افراد اندرون شہر پانی والا تالاب کے قریب رہا کرتے تھے.وہاں ہی حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب والی مسجد ہے اور اس مسجد کے پاس ہی اس فیملی کے مکانات تھے جو فروخت کر دیئے گئے.اب بھی وہ مکانات موجود ہیں.(عبدالقادر )

Page 128

127 کی تکمیل کے لئے حکیم حاذق عدۃ الحکماء اور زبدۃ الحکماء کے امتحانات پاس کر کے سند بھی حاصل کر لی جب آپ کے استادوں کو یقین ہو گیا کہ یہ اب اچھی طرح سے مریضوں کا علاج کر سکے گا تو انہوں نے آپ کے والد صاحب کو کہہ کر الگ مطب کھلوا دیا.طالب علمی کے زمانہ میں ہی آپ نے حضرت مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گئی بازار اور مولوی غلام قادر صاحب سے صرف و نحو، منطق اور معانی پڑھنے کا شرف حاصل کیا.سرسید احمد خاں صاحب مرحوم کی تحریرات اور اخبارات اور تہذیب الاخلاق اور ان کے رسائل اور کتابیں پڑھنے کا بھی آپ کو شوق تھا اور بحث مباحثہ کے بھی بے حد شوقین تھے.جب ۱۸۹۳ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کی شاگردی کا بھی شرف حاصل ہو گیا اور جب حضور علیہ السلام نے ” مرہم عیسی کے متعلق انکشاف فرمایا تو حکیم محمد حسین صاحب اس جستجو میں لگ گئے.آپ لکھتے ہیں: اس وقت میں نے قرابادین میں اس کے اصل نسخہ کے متعلق تلاش شروع کی.کیونکہ اس کے مختلف نسخے تھے.کسی نسخہ میں ایک دوائی تھی اور کسی میں دوسری اور کسی میں کسی دوائی کا بدل لکھا ہوا تھا.میری طبیعت میں چونکہ خاص جستجو کا مادہ ہے.اس لئے میں نے لا ہور کی پبلک لائبریری میں جو عجائب گھر کے سامنے ہے تمام قرابادینوں کو پڑھنا شروع کیا.خدا کی شان ہے کہ میں نے جتنے نسخے مرہم عیسی کے دیکھے.ایک کتاب کے دوسری کتاب کے ساتھ وہ نسخے نہیں ملتے تھے.کہیں اوزان کا اختلاف تھا اور کہیں دواؤں کا.آخر تلاش کرتے کرتے لائبریری میں سے ایک انگریزی ڈکشنری سے یہ اصل نسخہ مل گیا.اور اس میں تمام نام جو دوائیں مرہم عیسی میں پڑتی تھیں وہ انگریزی میں لکھے ہوئے تھے.جب میں نے مرہم بنانے کا ارادہ کیا تو پہلے میں نے تمام دیسی عطاروں اور دواخانوں سے مرہم عیسی کی دوائیں تلاش کرنی شروع کیں.مگر ان میں جاؤ شیر سکبینج اور زراوند طویل کہیں سے دستیاب نہ ہوئی.آخر میں نے انگریزی نام جو ان دواؤں کے تھے اور وہ یہ تھے.ارسٹولو چیلا نگا ( زرواند طویل اوپو پونکسکائی رونم ( جاؤ شیر )‘ سگا بینم (سکبینج) یہ تین دوائیں ہم نے خاص ولایت سے منگوانے کا آرڈر دے دیا.ولایت میں

Page 129

128 بیروز و یکم ایک بہت بڑی کمپنی مشہور دوا فروش کی تھی.اس سے یہ دوائیں منگوائیں اور نہ پونڈ پونڈ بلکہ ہیں ہمیں پونڈ تک منگوائیں.جس پر میرا ایک ہزار روپیہ خرچ ہو گیا.اس وقت میں نے یہ دوائی اصلی اجزاء کے ساتھ بنانی شروع کی اور خدا کے فضل سے میں اس کے بنانے میں کامیاب ہو گیا.اور اصل دوا مہیا ہو گئی یعنی اصل نسخہ مرہم عیسی کا تیار ہو گیا اور میں نے اس دوا کا اشتہار اس رنگ میں دینا شروع کیا کہ ایک تو اس سے تبلیغ کا پہلو نکلے اور دوسرا عیسائیت پر حجت تمام ہوا ور خدا کا کلام قرآن و ما قتلوه وما صلبوه صحیح اور بالکل خدا کا ہی کلام ثابت ہو.اور عیسائی دنیا معلوم کر لے کہ قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل حق ہے.چنانچہ میں نے اشتہار کی یہ صورت بنائی کہ اشتہار کے سرے پر تو مرہم عیسی، مرہم حوار بین مرہم رسل موٹے حروف کے ساتھ چھپوایا اور اشتہار کے درمیان حضرت مسیح عیسی بن مریم کی وہ تصویر جو گرجوں میں لکی ہوتی ہے اور حواریوں کی وہ تصویر جو حضرت مسیح کے ساتھ دکھائی جاتی ہے.اور حضرت مسیح کے ہاتھ میں وہی صلیب پر میخیں ٹھوکنے کے نشان جو وہ حواریوں کو دکھا رہے ہیں اور ان حواریوں میں سے ایک حواری کا طبیب ہونا.جیسا کہ لوقا کے متعلق انجیلوں میں لکھا ہے.پیارا طبیب وہ بارہ حواری اور بارہ دوائیں اور پرانے وقت کا وہی کھرل اور و ہ اور دوائیں بنانے کی ترکیب حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کے لئے جو یہ مرہم بنائی گئی تھی.اس کا رنگ دے کر اس تصویر کے نیچے اس مرہم کے فوائد درج کئے گئے تھے.اور میں اس وقت بھائی دروازہ کے اس مکان میں رہتا تھا جو والد صاحب بزرگوار نے مجھے علیحدہ بنا کر دیا تھا.اس تصویر والے اشتہار کے ساتھ ایک بہت بڑا پوسٹر بہت بڑی جلی قلم سے نہایت خوشخط اس زمانے میں میاں نتھو بہت بڑے خوشنویس تھے.ان کے ہاتھ سے لکھوا کر اور گلاب سنگھ کے پریس میں چھپوا کر اس مرہم کی وجہ تسمیہ یہ کھی تھی کہ مرہم عیسی اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح صلیب پر سے زندہ بچ گئے.حواریوں نے حضرت مسیح کے صلیبی زخموں پر لگانے کے لئے الہام الہی کے ماتحت اس مرہم کو بنایا تھا.حضرت مسیح تو بیماروں کو اچھا کرتے تھے مگر اس مرہم نے حضرت مسیح کو چنگا کر دیا.اس اشتہار کا نکلنا تھا کہ تمام عیسائی دنیا کے اندر ایک تہلکہ مچ گیا.اس زمانہ میں لاہور کے جو ڈپٹی کمشنر تھے وہ

Page 130

129 سلطان پوره کیمپ میں گئے ہوئے.وہاں سے انہوں نے پولیس کے ایک بڑے آفیسر انگریز کو میرے پتے پر میرے مکان پر یہ کہلا کر بھیجا کہ اس اشتہار کو جو تم نے شائع کیا ہے.فوراً تمام درو دیوار سے اتار دو.ورنہ تمہیں گرفتار کیا جائے گا.اس زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب وکیل اور کالی پرسن ایک بنگالی وکیل ان دونوں کو میں نے اس مقدمہ کی پیروی کے لئے مقرر کر لیا.والد صاحب بزرگوار چونکہ نہایت ہی رقیق القلب تھے.انہوں نے سمجھا کہ شاید میرے بیٹے کو کہیں قید ہی نہ کر لیا جائے اور کوئی سزا ہی نہ دی جائے رات دن روتے رہتے تھے اور مجھ سے کہتے کہ تم نے ایسا اشتہار کیوں نکالا.مگر میرے دل کے اندر اس قدر خوشی اور اس قدر مسرت اور اس قدر جوش تھا کہ میں والد صاحب بزرگوار سے عرض کرتا تھا کہ آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ بہت بڑا فضل کرنے والا ہے ادھر حضرت امام سیدنا مسیح موعود اس اشتہار کو دیکھ کر بڑے خوش تھے اور ہر تاریخ پر جو اس مقدمہ کی ہوا کرتی تھی.میں حضرت صاحب کے پاس جایا کرتا تھا اور وہ بھی اس قدر خوش تھے کہ میں ان کی خوشی کو بیان نہیں کر سکتا.صبح کی سیر کے وقت جب حضرت مسیح موعود دوستوں کے ہمراہ جایا کرتے تھے تو ڈاکٹر نورمحمد نے جو کہ کوچہ چڑیماراں لا ہور لوہاری دروازہ میں رہا کرتے تھے، آگے بڑھ کر حضرت سے عرض کیا کہ حضور ! اگر فر ما ئیں تو میں بھی اس کا اشتہار دوں اور محمد حسین کے ساتھ میں بھی ان کے اس مقدمہ میں شریک ہو جاؤں تو حضرت نے بڑی نفرت سے فرمایا کہ آپ ہرگز یہ اشتہار نہیں نکال سکتے جس کا حصہ تھا خدا تعالیٰ نے اسی سے یہ کام کرایا ہے.اس اشتہار کے واقعات بہت ہی عجیب ہیں.سیالکوٹ اور لاہور کی اخباروں میں اس مقدمے کا اتنا چرچا ہوا کہ حد ہی ہو گئی.اخباروں نے اس بات پر زور دیا.کہ امہات المومنین، جو عیسائیوں نے شائع کی ہے جس میں حضور نبی کریم ہے کے ازواج مطہرات اور حضور کی خانگی زندگی پر نہایت ناپاک اور دور از حقیقت جو حملے کئے گئے ہیں.ان کے مقابل پر یہ اشتہار عیسائیوں کے لئے ایک سبق ہے.ان کو آخر اس اشتہار سے جو واقعات کے مطابق اور صحیح تاریخ کے ساتھ لکھا گیا ہے اور حق بات بیان کی گئی ہے اس قدر غیظ و غضب کیوں ہوا کہ تمام عیسائی پبلک ہی بغاوت کے لئے تیار ہوگئی.

Page 131

130 غرض ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں ہم پہنچے.خواجہ کمال الدین صاحب اور کالی پرسن میرے وکیل تھے.انہوں نے ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں یہ بیان کیا کہ اشتہار جو دیواروں پر لگ چکے ہیں وہ اتنی کثرت سے چسپاں ہیں کہ باوجود ساری جماعت احمدیہ کی کوشش کے ہم ان کو ایک دن کے اندر نہیں اتار سکتے.ڈپٹی کمشنر اپنے عملے کوحکم دے کہ وہ اشتہار دیواروں پر سے اتار لے.اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ میں اپنا حکم نہیں بدل سکتا.پھر ہم اوپر کی کچہری میں سیشن جج کے پاس پہنچے.اور اس مقدمہ کی اپیل وہاں دائر کر دی.سیشن حج نے) تصویر والا اشتہار دیکھ کر اس قدر غضب کا اظہار کیا کہ بیان نہیں ہو سکتا اور اس نے ہمارے مقدمہ کے متعلق کوئی اپیل نہ سنی اور اس کو خارج کر دیا.اور پھر ہم چیف کورٹ میں پہنچے.چیف کورٹ میں جب یہ مقدمہ پیش ہوا تو عیسائیوں کی طرف سے لاٹ پادری اور دوسرے عیسائی مناد بھی موجود تھے..حضرت مسیح موعود نے جوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک عرض داشت اپنی قلم مبارک سے لکھ کر دی تھی.گویا عیسائیت پر حجت تمام کر دی.اس میں حضور نے ایک ایسی بے نظیر بات لکھی تھی کہ جس کا کوئی جواب لاٹ پادری بھی نہیں دے سکتا تھا.حضور نے اس میں یہ لکھا تھا کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے صلیب کے بعد اپنے صلیبی زخم حواریوں کو دکھائے تھے اور حواریوں میں سے ایک طبیب بھی تھا.چنانچہ لوقا کے متعلق انجیلوں میں لکھا ہے.پیارا طبیب.طب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ مرہم مسیح کے لئے بنائی گئی تھی اور حضرت مسیح کی زندگی میں سوائے صلیب کے واقعہ کے کوئی واقعہ نہیں ہوا جس کے لئے حضرت مسیح کے لئے مرہم بنائی جاتی." پس انجیلیں بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح کے ہاتھوں میں صلیبی زخم تھے اور طب کی کتا ہیں بتاتی ہیں.کہ وہ زخم اس مرہم سے اچھے ہوئے تھے.چیف کورٹ میں اس مقدمے کو سننے کے لئے بڑی مخلوق جمع تھی اور حضرت والد بزرگوار میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ عنہ اور میرے بھائی اور میرے چچا اور دوسرے تمام رشتہ دار اس مقدمہ کو سننے کے لئے چیف کورٹ میں گئے ہوئے تھے.اس وقت حج ایک

Page 132

131 انگریز تھا جس کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تھا.اس نے حضرت مسیح کی اشتہار میں تصویر دیکھ کر اور مرہم عیسی کے بڑے اشتہار پوسٹر اور ایک انگریزی اشتہار جو میں نے الگ بطور ہینڈ بل کے تقسیم کیا ہوا تھا.اس کو دیکھ کر وہ ایسا برہم ہوا.اور غصے میں بھر گیا اور اسی غصے کی حالت میں اس نے کہا کہ اس اشتہار کا لکھنے والا کون ہے؟ میں حج کے سامنے حاضر ہوا.مگر اس کو غصے کے اندر کچھ نظر نہ آیا.پھر میں بیٹھ گیا.پھر اس نے کہا کہ کس نے یہ اشتہار شائع کیا.پھر میں اٹھ کھڑا ہوا.اور میں نے کہا کہ یہ اشتہار میں نے شائع کیا ہے.وہ اپنے غیظ وغضب میں اس قدر بھرا بیٹھا تھا کہ میں باوجود اس کے سامنے دو دفعہ پیش ہونے کے اس کو پھر بھی نظر نہ آیا کہ اشتہار دینے والا میں ہوں.پھر اس نے تیسری دفعہ کہا کہ کون ہے جس نے یہ اشتہار شائع کیا ہے؟ پھر میں اٹھا تو میرے وکیل کالی پرسن نے حج کو مخاطب کیا اور کہا کہ کیا یہ عدالتیں ہیں.کہ تین دفعہ میرا موکل کھڑا ہوا ہے اور اس نے کہا کہ میں نے یہ اشتہار دیا ہے مگر جج کو نظر تک نہیں آیا.اس وقت تمام گیلری کے اندر ایک شور مچ گیا.اور اس کے ساتھ ایک دوسرا حج اس مقدمے کو سننے کے لئے آ گیا.اس وقت حضرت امام سیدنا مسیح موعود کا لکھا ہوا وہ مضمون پڑھ کر سنایا گیا جس کا ترجمہ خواجہ کمال الدین صاحب نے بنا کر دیا تھا کہ انجیل بتاتی ہے کہ حضرت مسیح کے صلیبی زخم تھے جو انہوں نے اپنے حواریوں کو صلیب پر سے زندہ اتر آنے کے بعد دکھائے تھے اور حواریوں میں سے ایک حواری طبیب بھی تھا جس کا نام لوقا تھا.الہام الہی کی بنا پر اس مرہم کو بنایا گیا تھا اور حضرت مسیح کے صلیبی زخم بھی اسی سے اچھے ہوئے تھے.اس کے بعد اس بات پر بحث ہوئی کہ مرہم عیسی کا نام کچھ اور رکھ کر فروخت کیا جائے.اس وقت ہم نے اپنے وکیلوں کو سمجھا دیا ہوا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات پیش ہو جس سے مرہم کو دوسرے نام سے موسوم کرنے کے لئے حج اپنا فیصلہ لکھے تو ان کو بتا دیا جائے کہ اس طرح تو بہت سی دواؤں کے متعلق عدالت کو قانون بنانا پڑے گا.آج عیسائی لوگ مرہم عیسی کے نام سے رنجیدہ ہوتے ہیں تو کل ہند و سوسائٹی گا ؤ زبان کے نام سے بھی رنجیدہ ہوگی اور حکومت لیجسلیٹو اسمبلی کو مندرجہ ذیل دواؤں کے نام بدلانے کے لئے ایک قانون نافذ کرنا پڑے گا کیونکہ ہندو لوگ گاؤ زبان اور گئو ونتی کا لفظ اپنے مذہب کے خلاف سمجھتے

Page 133

132 ہیں.اسی طرح عیسائی عود صلیب اور پنجہ مریم کے نام سے چڑتے ہیں.اور بھی بے شمار نام ہیں جن کے نام مذہبی نقطہ نظر کے رو سے ہر مذہب والا اس کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے.اس لئے یہ قانون نیا بنانا پڑے گا کہ یہ یہ دوائیں جو اس نام کی مشہور ہیں ان کا نام بدلنا چاہیئے.اگر حکومت ایسا کوئی قانون بنائے گی تو ہم بھی اس مرہم کا نام بدل لیں گے.طب کی کتابوں میں سے نہ یہ نام محو ہو سکتے ہیں اور نہ کوئی دوسرے نام ان کے مقرر ہو سکتے ہیں.آخری حیص و بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ نام تو یہی رہے مگر وجہ تسمیہ اس مرہم کی یہ نہ لکھی جائے کہ حضرت مسیح کے صلیبی زخموں کو چنگا کرنے کے لئے حواریوں نے اس کو بنایا تھا.حضرت مسیح تو دوسرے بیماروں کو چنگا کرتے تھے اس مرہم نے حضرت عیسی کو چنگا کر دیا.بہر حال جب یہ فیصلہ ہو چکا تو ہم نے پوسٹروں میں سے اس کی وجہ تسمیہ نکال دی اور اس کی بجائے یہ لکھا کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی کے لئے بنائی تھی اور یہ مرہم سرطان خنازیر بواسیر طاعون اور تمام قسم کے زہر یلے پھوڑوں کے لئے اکسیر ہے.اس کامیابی پر تمام اخباروں نے ہمیں مبارکباد دی اور اسی مرہم کی وجہ سے ہندوستان انگلستان اور تمام دوسرے ممالک میں میرا نام مرہم عیسی مشہور ہو گیا اور مرہم کی اتنی بکری ہوئی کہ ہزاروں روپے ہم نے اس کی وجہ سے کمائے.” دواخانہ میں اس دوائی کے ذریعہ دوسری دواؤں کو بھی بہت شہرت حاصل ہو گئی اور ہم نے اپنے دواخانہ کا نام بھی دواخانہ مرہم عیسی رکھا.اور اسی نام سے تمام ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں یہ دوا خانہ مشہور ہے.“ حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب اپنے احمدی ہونے کا باعث یہ بیان کیا کرتے تھے کہ آپ سرسید احمد خاں صاحب مرحوم کی کتابیں پڑھا کرتے تھے.اس کے بعد حضرت صاحب کا تذکرہ سنا اور کچھ اشتہارات بھی دیکھے.براہین احمد یہ بھی پڑھنے کا موقعہ ملا.اس سے آپ کے دل میں حضرت کی محبت کا جوش پیدا ہوا.اور آپ قادیان تشریف لے گئے.حضرت خلیفۃ امسیح الاول کی وساطت سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے.ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے ساتھ امرتسر میں جو حضرت اقدس کا مباحثہ ہوا تھا.اس میں بھی آپ شامل تھے.اسی طرح عبدالحق غزنوی

Page 134

133 کے ساتھ جو مباہلہ ہوا.اس میں بھی شامل تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب بھی اس مباہلہ میں شامل تھے گو اس وقت تک انہوں نے بیعت نہیں کی تھی مگر اس میدان میں حضرت صاحب کی خدا کے حضور دعائیں اور التجائیں سن کر ان کا دل پکھل گیا.اور کچھ عرصہ بعد قادیان جا کر بیعت کر لی.آپ کو چونکہ شروع ہی سے بحث مباحثہ کا بہت شوق رہا ہے اس لئے آپ تمام مذاہب کے مشہور مذہبی لیڈروں سے تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ پنڈت لیکھر ام پشاوری شاہ عالمی میں رہتا تھا.اس کے قتل سے پہلے رمضان شریف میں آریہ سماج مندر میں جو وچھو والی میں تھا وہ میرے اور صوفی نبی بخش صاحب اور ایک اور صاحب کے ساتھ جن کا نام یاد نہیں رہا روح و مادہ کے متعلق بحث کیا کرتا تھا.قرآن مجید پر بار بار حملے کرتا تھا ہم اس کا جواب دیتے تھے.خدا کی شان ہے کہ رمضان کے آخری ہفتہ میں ہم نے اس سے مباحثات چھوڑ دیئے تھے اور اس سے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق عنقریب تم عذاب الہی میں مبتلا ہونے والے ہو.چنانچہ ہم نے ایک بڑے مجمع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پڑھ کر بھی سنائی تھی.اس گفتگو پر بھی دس دن نہ گزرے تھے کہ وہ قتل ہو گیا.میرے والد محترم کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ میرا بچہ پنڈت لیکھرام کے ساتھ مباحثات کیا کرتا تھا کوئی ہندو اس پر الزام نہ عاید کر دے.خدا کا شکر ہے کہ اس کے بعد ہند ومسلم کا سوال پیدا ہو گیا اور سب مسلمانوں نے حضرت صاحب کی پیشگوئی کے سچا ہونے کا اقرار کیا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب قرآن مجید کے عاشق تھے.آنحضرت له حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ سے از حد محبت رکھتے تھے.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جب ایک شقی القلب مخالف نے نماز کے بعد مسجد مبارک ربوہ کے محراب میں گردن پر چاقو مارا تو آپ یہ سن کر بے چین ہو گئے.ہسپتال میں بیمار تھے.آنکھ کا تازہ آپریشن ہوا تھا.مگر آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک ر بوہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اسی کی عیادت نہیں کر لی چین نہیں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ الی الاول کے احسانات سناتے وقت اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے.اسیح مرحوم کے عقائد غیر مانعین کے ساتھ ملتے تھے.اس لئے حضرت خلیفہ مسیح الا ول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ لاہوری فریق کے ساتھ مل گئے تھے.مگر چونکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ

Page 135

134 بنصرہ العزیز سے شدید محبت رکھتے تھے اس لئے یہ محبت انہیں کشاں کشاں جماعت قادیان کی طرف کھینچ لائی اور آپ نے حضور ایدہ اللہ کی بیعت کر لی اور آخر دم تک جماعت کے ساتھ وابستہ رہے.چنانچہ جب آپ کی وفات ہوئی تو نماز جمعہ کے بعد بیرونی باغ میں خاکسار راقم الحروف ہی کو ان کا جنازہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی تھی اور مجھے خوب یاد ہے کہ سینکڑوں افراد نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی تھی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کی اجازت سے آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی تھی.۳۱۳اصحاب کی جو فہرست انجام آتھم میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شائع کی ہے اس میں حضرت حکیم صاحب کا نام ۲۷۱ نمبر پر ہے.با وجود اس بات کے کہ حضرت حکیم صاحب کی عمر نوے برس سے تجاوز کر چکی تھی آپ کی صحت نہایت ہی عمدہ تھی.وفات سے دوروز پہلے بھی فجر کی نماز آپ نے مسجد میں آ کر ادا کی.مباحثات میں آپ کی گرفت مخالف پر کڑی ہوا کرتی تھی.محترم قریشی محمد صادق صاحب سیالکوٹی حال محلہ دار الرحمت وسطی ربوہ کا بیان ہے کہ: ان ایام میں حب کہ میری رہائش مسجد احمد یہ بیرون دیلی دروازہ لاہور کے پاس والے مکان میں تھی.ایک چکڑالوی آ گیا اور اس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تم لوگوں نے جو کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ بنایا ہوا ہے یہ قرآن میں ایک جگہ تو ہے نہیں اور نبی خائن نہیں ہوتا پھر نا معلوم اسے کس نے اکٹھا کر دیا ہے ؟ میں تو یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کے ہاں گیا.لیکن آپ گھر میں موجود نہیں تھے.حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب مل گئے.ان سے میں نے کہا کہ حکیم صاحب! ایک چکڑالوی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ تمہارا کلمہ طیبہ قرآن کریم میں اس طرح ایک جگہ تو اکٹھا کہیں نہیں ملتا اور نبی خائن بھی نہیں ہوتا تو پھر اسے اکٹھا کس نے کیا ہے؟ حضرت حکیم صاحب نے بلا توقف جواب دیا کہ اس چکڑالوی بد بخت سے جا کر کہو کہ نبی تو خائن نہیں ہوتا تمہاری نماز جس کا کچھ حصہ تم نے کسی پارہ سے لیا ہے کچھ کسی پارہ سے اور کچھ کسی سے اسے موجودہ شکل میں کس نے اکٹھا کیا ہے.میں یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا اور چکڑالوی کو جا کر یہ جواب سنایا تو وہ مبہوت ہو گیا.اولاد : ڈاکٹر عبدالحمید چغتائی.میاں نذیر حسین.عبد الرحمن.احمد حسین.محمد احمد - محمد عیسی.محمد بی محمد زکریا.محمد الیاس - محمد ادر لیں.عبدالوسیع.رابعہ.عائشہ.سعیدہ.حمیدہ.صغری.

Page 136

135 ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ( غیر مبائع) ولادت : ۲ ۱۸۷ء بیعت : ۱۸۹۲ء وفات : ۱۲.فروری ۱۹۳۶ء ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مرزا ایوب بیگ صاحب دونوں بھائیوں نے ۱۸۹۲ء میں لا ہور میں ہی حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کی تھی.دونوں نہایت ہی مخلص تھے اور سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.افسوس کہ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب تو ۱۹۰۰ ء میں وفات پاگئے.لیکن جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے لمبی عمر پائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے زمانہ میں اخلاص سے کام کیا.آپ کی بیعت کا واقعہ نہایت ہی ایمان افزا ہے.آپ کی عمرا بھی اٹھارہ انیس سال کی ہی تھی اور آپ میڈیکل کالج کی سیکنڈ ایئر کلاس کے طالب علم تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۲ء میں لاہور تشریف لائے اور محبوب رایوں کے مکان واقعہ ہیرا منڈی میں قیام فرمایا.آپ زیارت کیلئے پہنچے.پہلے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب سے ملاقات کر کے لطف اندوز ہوئے اور پھر حضرت اقدس کی زیارت کر کے بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ شخص صادق ہے جھوٹا نہیں“ چنانچہ بیعت کر کے واپس لوٹے.اگلے روز آپ کے چھوٹے بھائی حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی پہلی ملاقات میں ہی بیعت کر لی.بیعت کے بعد دونوں بھائیوں میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی جس کو آپ کے والد دیکھ کر حیران رہ گئے.حضرت مولانا رحیم اللہ صاحب سے قرآن شریف ختم کیا.بیعت کے ایک سال بعد محترم مرزا یعقوب بیگ صاحب قادیان پہنچے اور وہاں سے ہی یکے بعد دیگرے دو تبلیغی خطوط اپنے والد محترم کو لکھے.حضرت اقدس کی آپ کی طرف خاص توجہ تھی.اس لئے حضور کی دعاؤں سے بیعت کے بعد ہر سال وظیفہ ملتا رہا اور کالج سے فارغ ہوتے ہی ہاؤس سر جن کا عہدہ مل گیا.امرتسر میں جب حضرت اقدس کا عبد اللہ آتھم سے مباحثہ ہورہا تھا.اس میں یہ دونوں بھائی شامل ہوتے رہے.اس مباحثہ کے دوران میں ان کے والد مرحوم مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس کلانور نے بھی بیعت کر لی.جس سے دونوں بھائیوں کو بہت ہی خوشی ہوئی.اب تو فدائیت کا یہ حال تھا کہ اگر کالج میں

Page 137

136 ایک دن کی بھی رخصت ہوتی تو راتوں رات قادیان پہنچ کر وہ دن قادیان میں گزارتے.حضرت مولانا حکیم صاحب اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب بھی ان سے بہت ہی محبت سے پیش آتے اور یہ بھی ان پر فدا تھے.چنانچہ جب حضرت مولانا عبدالکریم صاحب آخری بیماری میں بیمار ہوئے تو محترم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگم صاحب تین ماہ کی رخصت پر قادیان ہی میں تھے.آپ فرماتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ دو ماہ مجھے ان کی خدمت کا خوب موقع ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۵ء میں جو وفد چولہ بابا نانک صاحب سے متعلق تحقیقات کے لئے ڈیرہ بابا نانک صاحب بھیجا تھا وہ لاہور ہی کے چار احباب پر مشتمل تھا.یعنی جناب مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت منشی تاج الدین صاحب اکو نٹنٹ دفتر ریلوے لا ہور جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب میاں عبدالرحمن صاحب لاہوری.ان چاروں نے قادیان جا کر حضرت اقدس کی خدمت میں یہ رپورٹ کی کہ واقعی ڈیرہ بابا نانک میں ایک چولہ موجود ہے جس پر کلمہ طیبہ اور قرآن کریم کی کئی ایک آیات لکھی ہوئی ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ اس چولہ کو حضرت بابا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا تھا اس لئے اس اہم ذمہ داری کے پیش نظر بعد میں حضور نے بعض احباب کی معیت میں ۳۰.ستمبر ۱۸۹۵ء کوخود بھی ڈیرہ بابا نانک کا سفراختیار کیا تھا اور اس سفر میں بھی لاہور کے احباب میں سے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی اور جناب مرزا ایوب بیگ صاحب شامل تھے.حضرت اقدس علیہ السلام آپ کو حضرت ام المومنین اور دیگر اہل بیت کی بیماری کے علاج کیلئے عموماً لا ہور سے بلا لیتے تھے اور حضور خود آخری بیماری سے لاہور میں بیمار ہوئے تو اس وقت بھی آپ کو بلانے کا حکم دیا.غرض آپ نے زندگی بھر نہایت ہی اخلاص سے کام کیا مگر افسوس کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول کی وفات پر آپ غیر مبائعین کے گروہ میں شامل ہو گئے.انجمن حمایت اسلام لاہور کی بھی آپ نے زندگی بھر خدمت کی.مگر جب فروری ۱۹۳۶ء میں انجمن کے ممبروں خصوصاً مولوی احمد علی صاحب نے آپ کو احمدی ہونے کی وجہ سے انجمن کی ممبری سے خارج کروا دیا تو آپ کو سخت صدمہ پہنچا اور گھر پہنچتے ہی بیماری کا ایسا حملہ ہوا کہ اس سے جانبر نہ ہو سکے اور دو تین روز کے اندر ہی ۱۲.فروری ۱۹۳۲ء کو وفات پاگئے.فانا لله وانا اليه راجعون.

Page 138

137 انجام آتھم میں مندرجہ ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام ۴۰ نمبر پر ہے.اولاد: مرزا داؤ د بیگ.مرزا عبد الرحمن بیگ اور تین بیٹیاں بقید حیات ہیں.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ، ولادت : اگست ۱۸۷۵ء بیعت : ۱۸۹۲ء وفات : ۲۸.اپریل ۱۹۰۰ء حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے بھائی تھے.دونوں نے ۱۸۹۲ء بمقام لا ہو ر حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.مرزا ایوب بیگ صاحب چیفس کالج لاہور میں پروفیسر تھے.لمبا قد، گورا رنگ خوبصورت داڑھی اور عمدہ لباس پہن کر اپنے کالج سے حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کا درس سننے کے لئے پیدل لنگے منڈی والی مسجد میں نماز فجر کیلئے تشریف لایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق صادق تھے.بعض اوقات حضرت اقدس کو دباتے دباتے حضور کے پلنگ پر ہی لیٹ جاتے تھے.افسوس کہ عین جوانی کے وقت انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا.حضرت اقدس کو ان کی وفات کا بہت صدمہ ہوا تھا.ان کے مفصل حالات اصحاب احمد جلد اول صفحه ۶۳ تا ۱۰۴ میں موجود ہیں.جوانی ہی میں صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے.سید شاہ محمد صاحب سکنہ شاہ مسکین بیان فرمایا کرتے ہیں کہ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کی تلاشی پنڈت لیکھرام کے قتل کے سلسلہ میں ہونی تھی.اس دن ہم نے فجر کی نماز لاہور میں مسجد لنگے منڈی والی میں مرزا ایوب بیگ صاحب کے پیچھے پڑھی تھی.مرزا صاحب مرحوم اس وقت بالکل نوجوان تھے.سلام پھیرنے کے بعد انہوں نے بیان کیا کہ: میں نے سجدہ میں حضرت نبی کریمہ کو دیکھا ہے حضور فوجی لباس میں ہیں.ہاتھ میں تلوار ہے اور دوڑتے جا رہے ہیں.میں نے عرض کی.حضور کیا بات ہے؟ فرمایا.آج مرزا غلام احمد کی تلاشی ہوتی ہے.میں قادیان میں ان کی حفاظت کیلئے جار ہا ہوں.“ مورخہ ۳۰.ستمبر ۱۸۹۵ء کو جو وفد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ چولہ باوا نا نک صاحب کی تحقیقات کے سلسلہ میں ڈیرہ بابا نانک گیا تھا اس میں علاوہ اور احباب کے حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب بھی شامل تھے.

Page 139

138 گو حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی وفات بہشتی مقبرہ کے قیام سے پانچ سال پہلے ہوئی تھی.مگر جب بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں آیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی نعش نکلوا کر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کروائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی وفات پر جو تعزیتی خط جناب مرزا یعقوب بیگ صاحب کو لکھا اس میں حضور فرماتے ہیں : اس خط کے لکھنے کے وقت جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف توجہ تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے نا پدید ہو گیا اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کر گیا.کہ یک دفعہ الہام ہوا.مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کے راہ سے داخل ہوں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو“.کا.۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم میں آپ کا نام ۴۱ نمبر پر ہے.حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہور ولادت: بیعت : وفات : ۲۱.مارچ ۱۹۰۵ء حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہور کے باشندہ تھے.بیعت بالکل ابتدائی زمانہ میں کی تھی اور اس کے بعد جلد ہی ممباسہ (افریقہ ) میں بسلسلہ ملازمت ریلوے چلے گئے تھے.۱۹۰۲ء میں وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد قادیان میں سکونت پذیر ہو گئے.ستمبر ۱۹۰۲ء میں ایک اخبار القادیان قادیان سے جاری کیا.لیکن اگلے ہی مہینے یعنی اکتوبر ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس نے اس اخبار کا نام بدل کر البدر“ رکھ دیا.افسوس که محترم منشی صاحب جو بابو محمد افضل صاحب کے نام سے مشہور تھے.مارچ ۱۹۰۵ء میں وفات پاگئے.انا لله و انا اليه راجعون.حضرت بابو صاحب اپنے اخبار میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ حضرت اقدس کی ڈائری شائع کیا کرتے تھے.ان کی وفات کے بعد اخبار ” البدر حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر رضی اللہ عنہ نے خرید لیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو ان دنوں تعلیم

Page 140

139 الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اخبار ” البدر“ کا ایڈیٹر مقر ر فرما دیا.۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آ ھم میں ان کا نام ۶۷ نمبر پر ہے.حضرت میاں الہ دین صاحب ولادت: بیعت : وفات: حضرت میاں الہ دین صاحب ولد میاں عمر دین صاحب کڑہ ولی شاه درخانه پیر بخش صاحب لاہور کے باشندہ تھے.گورنمنٹ سنٹرل پریس کیمپ شملہ میں ایک عرصہ تک ملازمت کی.آپ کی بیعت کا نمبر رجسٹر بیعت میں ۷۳ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابتدائی احمد یوں میں سے تھے.حضرت شیخ صاحب دین صاحب ڈھینگر ولادت : اگست ۱۸۷۴ء بیعت : ۱۸۹۲ ء یا اس سے قبل وفات : یکم مئی بروز جمعہ ۱۹۶۴ء حضرت شیخ صاحبدین صاحب ڈھینگڑہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد امجد چوہر مل صاحب موضع لالیاں ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے اور ہندوؤں کے اروڑا خاندان ڈھینگردہ ذات کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.جھنگ شہر کے کسی پیر صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے.بعد ازاں لالیاں سے انتقال مکانی کر کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے.حضرت شیخ صاحب مرحوم لالہ چوہڑمل کی چھٹی پشت میں آ کر پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش کی تاریخ ۲.بھادوں ۱۹۳۲ء بکرمی مطابق اگست ۱۸۷۴ء ہے.والد ماجد کا نام شیخ محمد بخش تھا اور والدہ ماجدہ کا نام بھاگن بی بی دلی والی.شیخ محمد بخش صاحب کی اولاد ی تھی : مولا بخش.اللہ بخش.کریم بخش - صاحبدین - فضل الہی.محمد الہی.کریم بی بی.رحیم بی بی حضرت شیخ کریم بخش صاحب اور حضرت شیخ صاحبدین صاحب کو خدا تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت صاحب کے دعوئی کے معاً بعد جب شہر میں حضور کا ہر جگہ چر چا شروع ہوا تو حضرت شیخ صاحبدین صاحب کو جو ان دنوں مڈل کے طالب علم تھے.انہوں نے اپنے استاد حضرت مولوی احمد جان صاحب سے دریافت کیا کہ یہ مرزا صاحب کون ہیں جن کی شہر میں ہر جگہ باتیں ہورہی ہیں.حضرت مولوی صاحب موصوف شیخ صاحب کی خوش قسمتی سے احمدی

Page 141

140 تھے.انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا! آج دنیا میں قرآن کریم کو جاننے اور سمجھنے والے صرف مرزا صاحب ہیں.ان کی اس بات سے متاثر ہو کر حضرت شیخ صاحب نے اپنے بڑے بھائی شیخ کریم بخش صاحب سے بھی اس گفتگو کا ذکر کیا.شیخ کریم بخش صاحب نے کہا کہ کل تم اپنے ماسٹر صاحب سے حضرت مرزا صاحب کی کوئی کتاب لے آنا.چنانچہ حضرت شیخ صاحب کے مطالبہ پر حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب براہین احمدیہ ہر چہار حصص دے دی.حضرت شیخ کریم بخش صاحب تو اس کتاب کو پڑھ کر لٹو ہو گئے اور فوراً قادیان جا کر بیعت کر آئے.ان کی واپسی پر حضرت شیخ صاحبدین صاحب نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا.یہ واقعہ ۹۲ - ۱۸۹۱ء کا ہے.یہ دونوں بھائی چونکہ گوجرانوالہ کی ایک وسیع برادری کے افراد تھے.اس لئے ان کی خوب مخالفت ہوئی.مگر انہوں نے اس کی قطعا پروانہ کی.تھوڑے دنوں کے بعد دونوں بھائی قادیان گئے اور حضرت شیخ صاحب دین صاحب نے بھی دستی بیعت کر لی.۱۸۹۴ء میں آپ نے انٹرنس کا امتحان دیا اور پھر اپنے بڑے بھائی شیخ الہ بخش صاحب کے چمڑہ کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے ملتان تشریف لے گئے مگر ا بھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ آپ کے والد ماجد شیخ محمد بخش صاحب کا گوجرانوالہ میں انتقال ہو گیا اور آپ واپس گوجرانوالہ آ گئے.آپ کی شادی بچپن میں ہی آپ کی برادری میں ہوگئی تھی.ابھی آپ کو بیعت میں داخل ہوئے تھوڑ ا عرصہ ہی گذرا تھا کہ آپ کے غیر احمدی بھائیوں کے پیر حافظ عبدالکریم صاحب اپنے مریدوں سے ملاقات کے لئے گوجرانوالہ آ گئے.آپ نے حافظ صاحب سے بھری مجلس میں سوال کیا کہ پیر صاحب! مہربانی فرما کر بتائیے کہ عام لوگ تو اس لئے پیروں کی بیعت کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کمزور اور گہنگار سمجھتے ہیں مگر آپ جیسے پیروں کے پاس پیر بنے کی کیا سند ہے؟ کیا انبیاء یا خلفاء کی طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو اس منصب پر کھڑا کیا ہے یا اس کا اور کوئی باعث ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا پیر صاحب کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوسکتا تھا وہ کھسیانے ہو کر بات کو ٹال گئے.حضرت شیخ صاحب چونکہ اس زمانہ کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے اس لئے آپ کے بڑے بھائی شیخ مولا بخش نے آپ کو بکر منڈی لاہور میں بطور منشی ملا زم کروا دیا.۱۹۰۰ء میں آپ نے یہ

Page 142

141 ملازمت اختیار کی.ابھی اس ملازمت پر دو ہی سال گزرے تھے کہ آپ ٹائپ کا کام سیکھ کر ریلوے کی ٹی.ایس برانچ میں ملازم ہو گئے.اس عرصہ میں آپ کی رہائش اندرون بھاٹی گیٹ ایک بیٹھک میں تھی.جس میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور ایک اور دوست بھی رہتے تھے.ڈاکٹر صاحب موصوف بھی ان دنوں بیعت کر چکے تھے اور احمدی جماعت میں شمار ہوتے تھے.۱۹۰۲ء میں آپ کی اہلیہ صاحبہ کا گوجرانوالہ میں انتقال ہو گیا.جس پر آپ نے اپنے بچوں اور ان کی نگہداشت کیلئے اپنی والدہ محترمہ اور اپنی بیوہ بہن رحیم بی بی کو بھی لاہور میں بلوالیا.۱۹۰۹ ء تک آپ کی رہائش بسلسلہ ملازمت لاہور میں رہی.اس عرصہ میں آپ وقتاً فوقتاً حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے قادیان بھی جاتے رہے اور جب حضور لاہور میں تشریف لاتے تو دفتر کے بعد سید ھے آپ حضور کی فرودگاہ پر حاضر خدمت ہو جاتے.۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کو بھی دفتر سے سیدھے احمد یہ بلڈ نگکس پہنچے اور سارا دن وہاں رہے.۲۶ مئی کو ہندوؤں کے ایک تہوار بھدر کالی کی وجہ سے چھٹی تھی.اس لئے دفتر بند ہونے کی وجہ سے رخصت حاصل کرنا مشکل تھا.اس وجہ سے حضرت اقدس کی نعش کے ساتھ قادیان نہ جا سکے.دوسرے دن ۲۷ مئی کو دفتر سے رخصت حاصل کر کے قادیان پہنچے اور حضرت اقدس کے جنازہ میں شامل ہو گئے.حضرت خلیفہ امسیح لا ول رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی کی اور دوسرے دن واپس لا ہور آ گئے.اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ۱۹۰۹ء تک آپ نے لاہور میں ملازمت کی.بعد ازاں آپ نے اس ارادہ سے استعفاء دے دیا کہ آپ اپنے ایک نسبتی بھائی میاں عبدالکریم صاحب ابن میاں نبی بخش صاحب رئیس راولپنڈی کے ساتھ بیرسٹری کرنے انگلستان جانا چاہتے تھے.مگر بمبئی پہنچ کر اس وجہ سے واپس آ گئے کہ میاں نبی بخش صاحب موصوف یہ چاہتے تھے کہ اپنی لڑکی کی شادی بہت جلد شیخ صاحب کے ساتھ کر دیں.چنانچہ اس وجہ سے لڑکی کے بھائی میاں عبدالکریم صاحب بھی ولایت جا کر جلد ہی واپس آگئے.مگر بعد میں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے فتوی کی رو سے وہ لڑکی بوجہ رضاعی بھتیجی ثابت ہونے کے آپ کے عقد میں نہ آسکی.1910ء میں آپ ملتان پہنچے اور اپنے ایک ماموں زاد بھائی شیخ قادر بخش صاحب کے ساتھ مل کر پیپرمنٹ کی تکیہ کا کارخانہ قائم کیا اور فرم کا نام ڈھنگڑہ ہاؤس کنفکشنری ورکس رکھا گیا.یہ نام حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کی منظوری سے رکھا گیا.بعد ازاں جب

Page 143

142 یہ فرم گوجرانوالہ میں منتقل ہوگئی تو بھی اس کا نام یہی رہا اور اب تک اسی نام سے اندرون و بیرون ملک سے خطوط وغیرہ آتے ہیں.آپ کے ملتان میں قیام کے دوران ایک مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح الاول ایک شہادت کے سلسلہ میں ملتان تشریف لے گئے اور آپ کو وہاں بحیثیت سیکرٹری جماعت خدمت کا موقعہ ملا.دوسرے ایک تبلیغی جلسہ بھی جماعت نے کیا جس میں قادیان سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت میر قاسم علی صاحب تشریف لے گئے اور جلسہ بہت کامیابی کے ساتھ ہوا.اس جلسہ سے قبل لاہور سے مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی طرف سے دو گمنام ٹریکٹ اظہار لحق نمبرا اور اظہارالحق نمبر ، متان پہنچ چکے تھے.اس جلسہ میں ان ٹریکٹوں کے جوابات ” خلافت احمدیہ اور اظہار حقیقت احباب میں تقسیم کئے گئے.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح لاوّل کی وفات کی خبر ملتان پہنچی تو اس کے ساتھ ہی ڈاک میں ایک ضروری اعلان کے نام سے مولوی محمد علی صاحب کا ایک ٹریکٹ بھی ملتان پہنچا.جماعت نے اسی وقت اپنے دو نمائندے حقیقت حال معلوم کرنے کیلئے قادیان بھیجے.جب وہ واپس ملتان پہنچے تو سوائے تین چار دوستوں کے جن میں حضرت شیخ صاحب بھی شامل تھے.باقی تمام نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بیعت کے خط لکھ دیئے.شیخ صاحب اس وقت بیعت سے اس واسطے رک گئے کہ آپ کے ابتداء ہی سے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے ساتھ گہرے مراسم تھے.چنانچہ ۱۹۱۵ء میں جب آپ نے ملتان سے گوجرانوالہ میں اپنا کارخانہ منتقل کر لیا تو لاہور کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ان لوگوں سے اور زیادہ تعلقات بڑھ گئے.گوجرانوالہ میں بھی غیر مبائعین کے آٹھ دس افراد تھے اور شیخ صاحب بھی آ گئے.اس لئے یہاں ان کی ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی.اس موقعہ پر آپ کا ایک تبلیغی لطیفہ یاد آ گیا جو نہایت دلچسپ ہے.اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کے خاندانی پیر نذرانہ وصول کرنے کیلئے ہر سال گوجرانوالہ آیا کرتے تھے.اس مرتبہ جب آئے تو چونکہ آپ بھی گوجرانوالہ میں موجود تھے.آپ کے پاس بھی آئے.آپ نے فرمایا کہ پیر صاحب! آپ لوگوں کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہماری نسلیں مل کر بھی اس احسان کو اتارنا چاہیں تو نہیں

Page 144

143 اتار سکتیں.اب خدا تعالیٰ نے ایک اور انتظام کر دیا ہے اور وہ یہ کہ قادیان میں آنحضرت ﷺ کے ایک بروز حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے انہیں قبول کر لیا ہے.اب ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی انہیں تسلیم کر کے نئے سرے سے مسلمان بن جائیں.یہ بات سنکر پیر صاحب بہت گھبرائے.جواب تو کیا دینا تھا آئندہ کیلئے گوجرانوالہ میں آنا ہی بند کر دیا.۱۹۱۵ء سے لیکر ۱۹۳۲ء تک محترم شیخ صاحب غیر مبائعین کے ساتھ رہے.۱۹۲۲ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے اور محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی کوٹھی پر قیام فرما تھے.محترم شیخ صاحب حضور کی ملاقات کے لئے لاہور آئے اور حضور کے سامنے کھل کر اپنے شکوک وشبہات پیش کئے.حضور کے جوابات سن کر آپ کی بہت حد تک تسلی ہوگئی.ادھر غیر مبائعین کی اندرونی اور بیرونی حالتوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے.اس لئے جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء پر آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حقائق و معارف سے پر تقاریر سن کر ایسا اثر ہوا کہ جلسہ کے ایام میں ہی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک اس کے بعد آپ نے اپنی وفات تک فدائیت کا وہ نمونہ دکھایا کہ مرکز کی ہر تحریک پر انشراح صدر سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.موصی تو تھے ہی، حصہ آمد کے علاوہ تحریک جدید وقف جدید کے چندوں میں وفات تک حصہ لیا.انصار اللہ کا چندہ بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا فرماتے رہے.بلکہ انصار اللہ کے ہال کی تعمیر کے لئے سور و پیہ چندہ دینے والوں میں بھی آپ کا نام کندہ ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور آپ کے بھائی محترم جناب چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب مرحوم اور محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب حضرت شیخ صاحب کا خاص لحاظ کرتے اور بہت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے.آپ کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا.ایک مرتبہ آپ نے اپنے دیرینہ دوست جناب شیخ دین محمد صاحب سابق گورنرسندھ کو جو سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں میں سے تھے چائے کی میز پر کہا کہ شیخ صاحب! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کیا آپ مانیں گے ؟ شیخ صاحب موصوف نے کہا.شیخ صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں باوجود آپ کی جماعت کا مخالف ہونے کے آپ کا ادب واحترام کرتا ہوں اور کبھی میں نے

Page 145

144 آپ کی بات کو رد نہیں کیا.آپ فرمائیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ شیخ صاحب نے فرمایا.آپ ایک مرتبہ حضرت اقدس امام جماعت احمدیہ کی ملاقات کے لئے ربوہ تشریف لے چلیں.پہلے تو شیخ صاحب یہ بات سن کر گھبرائے.مگر پھر کہا کہ بھائی صاحب! آپ جانتے ہیں مجھے لوگ ملک کے بڑے آدمیوں میں شمار کرتے ہیں.میں بغیر دعوت کے کیسے جاؤں؟ یہ سن کر محترم شیخ صاحب دین نے فوراً حضرت اقدس کی خدمت میں چٹھی لکھ دی جس میں جناب شیخ دین محمد صاحب کا یہ فقرہ بھی لکھ دیا.حضرت اقدس نے شیخ صاحب دین صاحب کو لکھا کہ اگر شیخ دین محمد صاحب آجا ئیں تو مجھے خوشی ہوگی.یہ خط لے کر شیخ صاحب فورا شیخ دین محمد صاحب کے پاس پہنچے.محترم شیخ دین محمد صاحب یہ خط پڑھ کر ربوہ جانے کے لئے تیار ہو گئے.ربوہ پہنچ کر دو تین گھنٹے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.اس ملاقات میں محترم شیخ صاحب دین صاحب کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور بعض اور بزرگ بھی شامل تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب شیخ دین محمد صاحب ملاقات کے کمرہ سے باہر آئے تو اس قدر خوش تھے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں اور پھر تو اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمان تو یہ لوگ ہیں ہم تو کچھ بھی نہیں.اس ملاقات کے بعد محترم شیخ صاحب موصوف نے وفات تک نہ صرف یہ کہ جماعت کی مخالفت نہیں کی بلکہ مداح رہے.۱۹۳۱ ء میں حضرت شیخ صاحب دین صاحب کو بعض ضلعی خدمات کی وجہ سے ڈسٹرکٹ درباری کا سر ٹیفکیٹ بھی ملا.آپ شہر گوجرانوالہ کے رؤساء میں شمار ہوتے تھے اور آپ کی رائے کو حکام وقت اور دیگر رؤساء بہت وقعت دیتے تھے.میونسپل کمیٹی کی پریذیڈنٹی کیلئے بہترین شخصیت کے انتخاب کے لئے بھی آپ کا فیصلہ ہی صحیح سمجھا جاتا تھا.جس شخص کو بھی کوئی دقت پیش آتی وہ آپ کو مدد کے لئے تیار پاتا.۱۹۵۳ء میں جب احمدیوں کے خلاف شورش بہت بڑھ گئی اور احمدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے منصوبے قریباً مکمل ہو گئے تو آپ نے اس شورش کا مردانہ وار مقابلہ کیا.پھر جب ۲.مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لا لگا اور شورش پسند مولوی صاحبان گرفتار ہو گئے تو آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار خوب زور وشور سے پڑھا کرتے تھے: قادر ہو کے کاروبار نمودار گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے

Page 146

145 کافر جو وہ نگوں سار ہو گئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے بازاروں میں، گلیوں میں، بڑی بڑی دکانوں پر کچہری میں، بار روم میں، دفاتر میں، غرضیکہ ہر عمدہ موقعہ پر آپ نے یہ اشعار اس کثرت کے ساتھ پڑھے کہ آپ کو دیکھ کر ہی لوگ یہ اشعار پڑھنا شروع کر دیتے تھے.آپ لوگوں کی زبان سے یہ اشعار سن کر خوب زور سے کہتے کہ ہاں ! خدا کی بات پوری ہوگئی.آپ جماعت احمد یہ گوجرانوالہ کے تمہیں سال تک سیکرٹری امور خارجہ رہے.یکم مئی ۱۹۶۴ء کو بروز جمعۃ المبارک بعد نماز مغرب قریباً ۹۰ سال کی عمر میں وفات پائی.فانا لله و انا اليه راجعون.آپ کے بڑے صاحبزادے محترم جناب شیخ خواجہ محمد شریف صاحب * جنہوں نے یہ حالات لکھوائے ہیں.فرمایا کہ آپ نے وفات کے روز تین بجے بعد دو پہر مجھ سے فرمایا کہ پانی کا لوٹالا ؤ تا میں وضو کر کے ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھ لوں.چنانچہ وضو کے بعد آپ نے پلنگ پر بیٹھ کر ہی دونوں نمازیں پڑھیں.چار بجے شام میں نے چائے کے لئے پوچھا تو مجھے غور سے دیکھا.پھر کمرے میں ادھر ادھر دیکھ کر چھت کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تو بہت خوش ہوں.میں نے جب یہ حالت دیکھی تو سمجھا کہ یہ ان کا آخری وقت ہے.چنانچہ پانچ بجے میں نے آپ کی چار پائی صحن میں نکالی.آٹھ بجے شام تک دودھ اور شہد دیا جا تا رہا.آخر وقت تک آنکھیں کھلی رہیں.دیکھتے رہے مگر زبان سے کوئی بات نہ کی.آہستہ آہستہ سانس لمبے اور چھوٹے ہوتے گئے اور آٹھ بجے شب اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.انا لله و انا اليه راجعون.۲.مئی بروز ہفتہ ۱۹۶۴ء کو شام سے پہلے گوجرانوالہ کے قبرستان میں امانتاً دفن کئے گئے.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ خاکسار کے بڑے لڑکے شیخ عبد الماجد صاحب کی اہلیہ کے چونکہ آپ دادا تھے.اس لئے خاکسار کو بھی اطلاع مل گئی تھی.آپ کا جنازہ بھی خاکسار ہی کو پڑھانے کا شرف حاصل ہوا.اولاد: آپ نے اپنے پیچھے تین لڑکے شیخ خواجہ محمد شریف صاحب شیخ محمد لطیف صاحب شیخ محمد حنیف صاحب ۹ پوتے ۱۱۴ پوتیاں اور ۴۴ پڑ پوتے پڑپوتیاں چھوڑی ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ محترم شیخ خواجہ حمد شریف صاحب کی پیدائش ۱۸۹۳ء کی ہے.لہذا آپ بھی پیدائشی صحابی ہیں.

Page 147

146 محترم خلیفہ رجب دین صاحب ( غیر مبالع) ولادت: بیعت : ۱۸۹۲ء یا اس سے قبل وفات: جناب خلیفہ رجب دین صاحب احمدیت قبول کرنے سے پہلے کڑا اہلحدیث تھے.محترم خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے.خلافت ثانیہ کے شروع میں غیر مبائعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.اخبار ”پیغام صلح کے مینیجر بھی رہے.ان کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ۱۳ نمبر کیا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم بہت پرانے احمدی تھے.ولادت: حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بیعت : ۲.جنوری ۱۸۹۲ء وفات: یکم جولائی ۱۹۲۶ء حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ایک نہایت ہی متقی اور پر ہیز گار بزرگ تھے.آپ کی رہائش اندرون موچی گیٹ تھی.آپ نے بالکل ابتدائی زمانہ میں یعنی ۲.جنوری ۱۸۹۲ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلسلہ عالیہ میں داخل ہو گئے.بسلسلہ ملا زمت آپ کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں رہنا پڑا.آپ ان خوش قسمت اصحاب میں سے تھے جن کی بیٹیاں خاندان مسیح موعود میں بیاہی گئیں.چنانچہ آپ کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کا نکاح اکتوبر سن 19ء میں سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ساتھ ہوا.اور اگلے سال ۱۹۰۳ء میں اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.جبکہ آپ آگرہ میں میڈیکل کالج کے پروفیسر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے اخلاص کی بہت تعریف کی ہے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان آگئے تھے اور نور ہسپتال میں کئی سال تک انچارج کے طور پر کام کیا.خاکسار راقم الحروف کے ساتھ بہت محبت سے پیش آیا کرتے تھے.چنانچہ آپ کی محبت کا کچھ تذکرہ میں نے حیات نور میں بھی کیا ہے.خاکسار کی آنکھوں میں ناخو نہ اتر آتا تھا اس کا آپریشن بھی آپ ہی نے کیا تھا.آپ کی وفات یکم جولائی ۱۹۳۶ء کو ہوئی.فانا للہ وانا اليه راجعون.

Page 148

147 آپ کے والد ماجد خلیفہ حمید الدین صاحب انجمن حمایت اسلام کے بانیوں میں سے تھے.اس خاندان کی عورتوں کو بھی حفظ قرآن کا شوق تھا.آپ ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہوئے تھے انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب کی مندرجہ فہرست میں آپ کا نام ۱۶۱ نمبر پر درج ہے.اولاد: خلیفہ تقی الدین، خلیفہ علیم الدین سیدہ محمودہ رشیدہ بیگم (ام ناصر ) حمیدہ بیگم رضیہ بیگم سعیدہ بیگم امینہ بیگم خلیفہ صلاح الدین مرحوم، خلیفہ عبد الرحمن، خلیفہ ناصر الدین، خلیفہ جلال الدین خلیفہ منیر الدین.ولادت: حضرت خان عبدالمجید خاں صاحب کپور تھلوی حال لاہور بیعت ابتدائی زمانہ میں وفات : ۴.جنوری ۱۹۶۳ء : حضرت خاں عبدالمجید خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور صحابی حضرت منشی محمد خاں صاحب کپور تھلوی کے صاحبزادے تھے.کپورتھلہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے.تقسیم ملک کے بعد ماڈل ٹاؤن سی بلاک میں رہائش اختیار کی نماز با جماعت کے آپ بے حد پابند تھے.خاکسار کو جب کبھی ماڈل ٹاؤن جانے کا موقعہ ملا.آپ کو باوجود بڑھاپے اور کمزوری کے نماز کے لئے موجود پایا.ایک خصوصیت آپ میں یہ بھی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے تتبع میں کوٹ پہنے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلا کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں آپ کے بعض دوست کوٹ پہنے پر آپ سے مذاق بھی کیا کرتے تھے.مگر جب آپ یہ فرماتے کہ میں تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے تتبع میں کوٹ پہن کر آتا ہوں تو وہ دوست خاموش ہو جایا کرتے.حضرت میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ لاہور اور صدر حلقہ ماڈل ٹاؤن کے ساتھ آپ کو بہت محبت تھی.حضرت میاں صاحب موصوف بھی ان کا خاص خیال رکھتے تھے.غرضیکہ بہت عمدہ صفات کے آپ مالک تھے.۴.جنوری ۱۹۶۳ء کو آپ کی وفات ہوئی.انا لله و انا اليه راجعون.دیکھیئے آئینہ کمالات اسلام.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت ڈاکٹر صاحب صدر انجمن احمدیہ کے ممبر اور محاسب بھی تھے.

Page 149

148 آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام ان خوش قسمت اصحاب میں درج ہے جو۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانه قادیان میں شامل ہوئے تھے.اولاد: امتہ اللہ بیگم حمیدہ بیگم عبدالحمید خان صادقہ بیگم زبیدہ بیگم.حضرت منشی عبد العزیز صاحب باغ بانپورہ (سابق فارسٹر ) ولادت: بیعت : ۱۸۹۲ ء یا اس سے قبل وفات: حضرت منشی عبد العزیز صاحب سکنہ باغبانپورہ لاہور (سابق فارسٹر ) کا نام اس فہرست میں شامل ہے جو ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے تھے.حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کا بیان ہے کہ ماسٹر عبد العزیز صاحب باغ بانپورہ کے رہنے والے تھے.انجمن حمایت اسلام کے پرائمری سکول اندرون شہر کے ہیڈ ماسٹر تھے.مخلص احمدی تھے.میں ان ایام میں پرائمری سکول کا طالب علم تھا.ان کے ایک لڑکے کا نام عبدالرحمن تھا.جواے.جی آفس سے ریٹائر ہونے کے بعد انجمن حمایت اسلام کے فنانشل سیکرٹری بھی رہے.جناب ماسٹر احمد صاحب ( غیر احمدی) ولادت: وفات: جناب ماسٹر احمد صاحب لاہور کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جو حضور نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی تیار کی تھی.کلے حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کا بیان ہے کہ ماسٹر احمد صاحب محکمہ ریلوے میں کلرک تھے.ان کی شادی میاں کریم بخش صاحب ٹھیکیدار کی لڑکی سے ہوئی تھی.پانی والا تالاب سے آگے جو مسجد ہے اور میاں کریم بخش والی مسجد کہلاتی ہے، یہ انہی میاں کریم بخش کی طرف منسوب ہے.ماسٹر صاحب اہلحدیث گروہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.عالم آدمی تھے.انجمن حمایت اسلام کے بھی رکن تھے.میاں شمس الدین صاحب کے ساتھ بھی خاص تعلقات رکھتے تھے.ماسٹر صاحب اور ان کے خسر میاں کریم بخش صاحب دونوں احمدی نہیں تھے.البتہ شروع شروع میں اعتقادر رکھتے تھے.ان کا ذکر یہاں اس لئے کیا گیا ہے کہ جلسہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں بعد میں آنے والے احمدی نہ سمجھ لیں.

Page 150

149 تھی.وہ احباب جو جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ ء میں شامل ہوئے مگر ان سے تفصیلی حالات کا علم نہیں ہوسکا ا.حضرت منشی مظفر الدین صاحب کلرک ایگزامینز آفس لاہور ۲.حضرت منشی محمد بخش صاحب کلرک ایگزامینر آفس لاہور ۳.حضرت حاجی شہاب الدین صاحب لاہور ۴.حضرت منشی محمد حسین صاحب کلرک ایگزامیز آفس لاہور.ان کی رہائش اندرون موچی گیٹ ۵.حضرت منشی کرم الہی بخش مدرس مدرسہ نصرت الاسلام لاہور.ان کی رہائش تکیہ سا دھواں میں تھی.۳۱۳ اصحاب میں بھی ان کا نام ہے.۶.حضرت میاں عبد اللطیف صاحب باغبانپورہ لاہور.ولادت : ت حکیم فضل الہی صاحب رضی اللہ عنہ بیعت : ۹۳-۱۸۹۲ء وفات : ۸.اپریل ۱۹۰۶ء حضرت میاں مغل صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھے احمدی حکیم نے جن کا نام حکیم فضل الہی تھا اور وہ لاہور میں بمقام ستھاں رہا کرتے تھے، حضور سے سوال کیا کہ حضور ! بعض اوقات کنچنیاں جو بیمار ہوتی ہیں علاج کروانے آ جاتی ہیں.اور کچھ نذرانہ بھی پیش کرتی ہیں.کیا اسے قبول کر لینا چاہیئے یا نہیں.فرمایا.کہ آپ انہیں کچھ نصیحت کر دیا کریں اور ان سے لیا کچھ نہ کریں.اس کے بعد حضور سے کسی نے عرض کیا کہ حضور اگر آپ کو کوئی چیز تحفہ پہنچے جو مال حرام سے ہو یا مشتبہ ہو تو آپ تو یہ تحقیق کرتے ہی نہیں کہ کیسی ہے؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میرے تک حرام پہنچا تا ہی نہیں.وہ راستے میں ضائع ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر میں تحقیق میں لگ جاؤں تو میرا عزیز وقت کافی ضائع ہو جائے.اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی مجھ تک ایسی چیز نہیں پہنچنے دیتا جو حرام ہو.یہ حکیم صاحب جن کا اوپر ذکر ہوا ہے بڑے مخلص اور جانثار صحابی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 151

150 زمانہ میں مخالفین احمدیت کے سامنے ہر وقت سینہ سپر رہتے تھے.سلسلہ کی تاریخ میں اس بات کا تفصیل سے ذکر آچکا ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بالمقابل تفسیر نویسی کے بارہ میں خط و کتابت ہوتی رہی تھی تو احباب لاہور کی ایک انجمن جس کا نام تھا انجمن فرقانیہ اور اس کے صدر حضرت حکیم فضل الہی صاحب سیکرٹری حضرت منشی تاج الدین صاحب اور جائنٹ سیکرٹری حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر تھے نے خوب کام کیا.پیر صاحب چونکہ حیلے بہانے سے اس مقابلہ کو ٹال رہے تھے اور لاہور کی پبلک کو مغالطہ میں ڈال کر حضرت اقدس کے خلاف مشتعل کر رہے تھے.اس لئے اس انجمن نے ان ایام میں متعدد اشتہارات شائع کر کے لوگوں پر حقیقت حال کو واضح کیا تھا.مالی قربانی میں بھی حضرت حکیم صاحب پیش پیش رہا کرتے تھے.چنانچہ ریکٹوں کے خرچ میں کافی حصہ ان کا ہی ہوتا تھا.قومی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ۱۳.مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعتہ المبارک جب منارۃ المسیح کی بنیا در رکھنے کا وقت آیا تو حضرت حکیم صاحب موصوف مرزا خدا بخش صاحب شیخ مولا بخش صاحب اور قاضی ضیاء الدین صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور آج "مینارة امسیح کی بنیا د رکھی جائے گی.اگر حضور خود اپنے ہاتھ سے رکھیں.تو بہت مبارک ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا.آپ ایک اینٹ لے آئیں.میں اس پر دعا کروں گا.پھر جہاں میں کہوں وہاں جا کر رکھ دیں.چنانچہ حکیم فضل الہی صاحب اینٹ لے آئے اور حضور نے اسے ران مبارک پر رکھ کر لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد آپ نے اس اینٹ پر دم کیا اور حکیم صاحب موصوف سے ارشاد فرمایا کہ آپ اس کو ( مجوزہ) منارۃ المسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں.حضرت حکیم صاحب اور دوسرے احباب یہ مبارک اینٹ لے کر مسجد اقصیٰ میں پہنچے اور میاں فضل الدین صاحب معمار نے بنیا د کے مغربی حصہ میں اسے پیوست کر دیا.۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم ، میں آپ کا نام ۲۱۰ نمبر پر ہے.نوٹ : بہشتی مقبرہ قادیان میں لاہور کے ایک صاحب فضل الہی کا کتبہ درج ہے.سو اگر حضرت حکیم فضل الہی صاحب مراد ہوں تو ان کی وفات ۸.اپریل ۱۹۰۶ ء کو ہوئی تھی.واللہ اعلم بالصواب

Page 152

151 حضرت میاں فیروز الدین صاحب ولادت: بیعت : ۱۸۹۲ء کے بعد وفات: حضرت میاں فیروز الدین صاحب حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی کے خسر اور میاں محمد سلطان صاحب کے متمنی تھے.آپ کی بیعت ۱۸۹۲ء کے بعد کی ہے.آپ کا نام الانذار‘ میں درج ہے.بہت مخلص صحابی تھے.ان کا ذکر بعض صحابہ کی روایات میں بھی آتا ہے.حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب کا بیان ہے کہ میاں فیروز الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک تعاونی کمیٹی بنائی تھی.اس سلسلہ میں ان کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ بنا.ابتدائی عدالت میں سزا ہوئی.مگر حضرت اقدس کی دعا سے اپیل کرنے پر بری قرار دیے گئے.ریٹائر ہونے کے بعد متفرق کام کرتے رہے.انگریزی اور فارسی زبانیں خوب جانتے تھے.ان کے ایک لڑکے کا نام محمود دین تھا.احمدی نہیں تھا.میاں صاحب نے ۱۹۱۳ء کے کچھ عرصہ بعد وفات پائی.حضرت ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب نومسلم ( سابق دیوانچند ) ولادت: بیعت : وفات : ۴.ستمبر ۱۹۵۳ء محترم جناب ڈاکٹر شیخ عبداللہ صاحب بہت پرانے احمد یوں میں سے تھے.بڑے ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے.ابتداء میں آپ انجمن حمایت اسلام لاہور میں بطور کمپونڈ رملا زم تھے.مگر پھر ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.اور ایک لمبا زمانہ نور ہسپتال میں کام کیا.مدرسہ احمدیہ اور غالباً مدرسہ تعلیم الاسلام کے ہوٹلوں میں بھی سالہا سال تک طبی معائنہ کے لئے جاتے رہے.خلافت ثانیہ میں ان کے ایک بچے نے شرارت کی.مگر سزا برداشت کرنے سے انکار کیا.جس پر محترم ڈاکٹر صاحب کو کہا گیا کہ اس کا خرچ بند کر دیں.مگر وہ کسی وجہ سے ایسا نہ کر سکے.جس کی بناء پر انہیں اخراج از جماعت کی سزا ملی.محترم ڈاکٹر صاحب قادیان سے لائل پور تشریف لے گئے.اور اپنا تعلق انجمن اشاعت اسلام کے ساتھ قائم کر لیا.مگر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا نام ہمیشہ ادب و احترام کے ساتھ لیا کرتے.ایک عرصہ بعد دو مرتبہ قادیان جا کر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ

Page 153

152 سے ملاقات بھی کی.سنا گیا ہے کہ حضور بہت ہی محبت سے پیش آئے.بلکہ جب خاکسار لائل پور میں بحیثیت مبلغ متعین تھا تو مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو خلیفہ برحق سمجھتے ہیں.ایک مرتبہ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی ڈاکٹر صاحب! اگر آپ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو خلیفہ برحق مانتے ہیں تو نماز جمعہ لاہوری فریق کی مسجد میں جا کر کیوں پڑھتے ہیں؟ اس پر فرمایا کہ جماعت کے اکثر احباب کو چونکہ اس بات کا علم ہے کہ مجھے نظام سلسلہ کی طرف سے سزا ملی ہوئی ہے.اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوتے ہی بیسیوں احمدیوں کی انگلیاں میری طرف اٹھیں گی.اس پر گو میں نے انہیں تسلی دلائی تھی کہ جماعت کے احباب انگشت نمائی نہیں کریں گے بلکہ خوش ہوں گے.مگر وہ جرأت نہ کر سکے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی ملتے تھے.سب سے پہلے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خیریت دریافت کرتے تھے.محترم ڈاکٹر صاحب کے بڑے صاحبزادے کا نام عبدالرحیم تھا.وہ بھی ڈاکٹر تھے.چند سال انہوں نے فوج میں ملازمت کی اور پھر طارق آباد لائل پور میں ڈسپنسری کھول لی.ان کا بھی گو بظاہر جماعت کے ساتھ تعلق نہیں تھا.مگر دل سے وہ بھی جماعت کے ساتھ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ساتھ ہمیشہ ان کی خط و کتابت رہتی تھی.ربوہ میں بھی آمد ورفت رکھتے تھے بلکہ ان کے ایک بچے نے جب میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اسے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں داخل کیا.میں نے جب ”حیاۃ طیبہ لکھی تو مجھے خط لکھا کہ دو کتابیں مجھے وی.پی کر دیں.میں نے انہیں جواب میں لکھا.کہ میں عنقریب لائل پور آ رہا ہوں.کتابیں انشاء اللہ ساتھ لیتا آؤں گا.چنانچہ جب میں ان کی ڈسپنسری پر پہنچا تو بڑی ہی محبت سے پیش آئے اور دونوں کتابیں فوراً خرید لیں.اس موقعہ پر جب میں نے انہیں مرکز کے ساتھ وابستگی کے لئے کہا تو فرمانے لگے کہ شیخ صاحب! میں تو الگ ہوا ہی نہیں.صرف کمزور ہوں.میں نے تو اپنے بچے کو بھی تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں داخل کیا تھا مگر اس کی والدہ روز ربوہ کو چل پڑتی تھی.اسے بچے کے بغیر قرار ہی نہیں تھا.اس لئے مجبوراً چند ماہ کے بعد مجھے اسے واپس بلانا پڑا.افسوس کہ دو تین سال ہوئے.کیپٹین ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب بیمار ہوئے.میو ہسپتال لاہور میں علاج ہوتا رہا مگر جانبر نہ ہو سکے.انا لله و انا اليه راجعون.

Page 154

153 ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد اللطیف صاحب شیخو پورہ میں پریکٹس کرتے ہیں.پہلے میونسپل کمیٹی شیخو پورہ میں ملازم تھے.مگر اب کئی سال سے مین بازار میں اپنی ڈسپنسری بنالی ہے.یہ خلص احمدی ہیں اور جماعت کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہیں.۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ ”انجام آتھم ، میں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کا نام ۲۱۱ نمبر پر ہے.اولاد عبدالرحیم عبد اللطیف، عبد السلام جناب منشی عبدالرحمن صاحب ( غیر مبائع) ولادت: بیعت : وفات: جناب منشی عبد الرحمن صاحب موچی دروازہ کے اندر رہتے تھے.ریلوے میں کلرک تھے.تلاش روزگار میں افریقہ چلے گئے تھے.شروع خلافت ثانیہ میں وفات پائی.آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب مندرجہ انجام آتھم کی فہرست میں ۲۱۶ نمبر پر ہے.غالباً یہی بزرگ تھے جنہیں حضرت اقدس نے خود تشریف لے جانے سے قبل ڈیرہ بابا نانک میں ” چولہ صاحب کی تحقیقات کے لئے اور دوستوں کے ہمراہ بھیجا تھا.اختلاف کے بعد غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے.ولادت: حضرت منشی مولا بخش صاحب تحریری بیعت : ۱۸۹۱ء دستی : ۱۸۹۲ء وفات : ۱۴ فروری ۱۹۲۸ء حضرت منشی مولا بخش صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے چا تھے.لودھیانہ کے قریب کسی گاؤں کے باشندہ تھے.ایک مدت تک لاہور میں ایگزامینر آفس میں کلرک رہے.آپ کا نام ۳۱۳.اصحاب کی فہرست میں درج ہے.آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں.محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی فرماتے ہیں کہ لاہور کے ایک اور بزرگ صحابی کا نام بھی مولا بخش تھا.وہ بہاولپور ہاؤس میں منصرم تھے.اولاد: شیخ مبارک اسماعیل صاحب شیخ مسعود احمد صاحب انجنیئر ، شیخ محمد اسحاق صاحب.

Page 155

154 حضرت میاں نورالدین صاحب ولادت بیعت : وفات: اس نام کے دو صحابی لاہور میں تھے.ایک کلرک تھے دوسرے پوسٹ میں اول الذکر جھنگ کے باشندہ تھے اور دوسرے گورداسپور کے.ایک کا نام آئینہ کمالات اسلام کی اس فہرست میں درج ہے جو جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں ایک صاحب نورالدین کے مدفون ہونے کا ذکر ہے.اور تاریخ وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۳۰ء درج ہے.پتہ نہیں کون سے بزرگ مراد ہیں.واللہ اعلم بالصواب حضرت میاں عبدالسبحان صاحب ولادت: بیعت : وفات: میاں عبدالسبحان صاحب حمال یعنی پانڈی تھے.ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.عام طور پر مکانوں میں سفیدی کرنے کا کام کرتے تھے.بھائی دروازہ کے کشمیری تھے اور بڑے مخلص تھے.۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام ۲۷۴ نمبر پر ہے.بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.حضرت عبداللہ صاحب قرآنی ولادت: بیعت : وفات: حضرت عبداللہ صاحب قرآنی کا نام ۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ انجام آتھم میں ۲۸۹ نمبر پر ہے.ایک صاحب عبداللہ صاحب لاہور کا نام بہشتی مقبرہ قادیان میں درج ہے اور تاریخ وفات ۲۱.اکتوبر ۱۹۱۵ لکھی ہے.ممکن ہے یہی مراد ہوں.واللہ اعلم بالصواب حاجی منشی شمس الدین صاحب (جماعت سے الگ ہو گئے تھے ) ولادت: بیعت وفات: حاجی منشی شمس الدین صاحب ایگزامیز آفس میں کلرک تھے.ابتدائی زمانہ میں حضرت اقدس

Page 156

155 سے تعلق تھا.مگر پھر انجمن حمایت اسلام کے کارکن بن گئے اور لائف سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے.جماعت سے تعلق توڑ دیا.انداز ۱۹۴۰ء میں فوت ہوئے.ان کا نام بھی جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں درج ہے.محترم جمعدار فضل دین صاحب کا بیان ہے کہ منشی شمس الدین صاحب کی میاں الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ کے ساتھ دوستی تھی.جب وہ حضرت اقدس کی پیشگوئی کے ماتحت طاعون کا شکار ہو گیا تو میں لاہور میں ان دنوں نقشہ نویسی کا کام سیکھ رہا تھا.ایک روز حاجی منشی نشمس الدین صاحب کو جو ملنے کے لئے گیا تو حاجی صاحب ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے.دوران گفتگو میں انہوں نے اس امر کا اقرار کیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہوگئی.جناب حافظ فضل احمد صاحب (غیر مبائع) ولادت: بیعت : ابتدائی زمانہ میں وفات: جناب حافظ فضل احمد صاحب کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مندرجہ " انجام آتھم میں ۸۹ نمبر پر درج فرمایا ہے.محترم حافظ صاحب گجرات کے باشندہ تھے اور ایگزامینر آفس لاہور میں کلرک تھے.جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست مندرجہ آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا نام درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابتدائی صحابہ میں سے تھے.آپ نے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں چار آنہ ماہوار چندہ دینے کا بھی وعدہ کیا تھا.ان کا تعلق جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی کے ساتھ تھا اس لئے آخری عمر میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے.حضرت میاں کرم الہی صاحب ولادت: بیعت : ابتدائی زمانہ میں وفات : ۱۶.دسمبر ۱۹۳۴ء حضرت میاں کرم الہی صاحب کمپوزیر محترم صوفی فضل الہی صاحب مرحوم کے والد تھے.احمدیت قبول کرنے سے قبل پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے مرید تھے.نماز باجماعت کے بڑے پابند تھے.خاموش طبع مگر ہنس مکھ تھے.۱۶.دسمبر ۱۹۳۴ء کو فوت ہوئے.کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے.انجام آتھم میں مندرجہ ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام ۲۹۰ نمبر ہے.اولاد: صوفی فضل الہی، فضل احمد بشیر احمد مرحوم حمیدہ بیگم.

Page 157

156 حضرت صوفی محمد علی صاحب ولادت: ۱۸۵۹ء بیعت: ابتدائی ایام میں وفات : ۵.ستمبر ۱۹۱۴ء حضرت صوفی محمد علی صاحب ریلوے ایگزامیز آفس میں کلرک تھے.بہت عبادت گذار نیک اور مخلص احمدی تھے.جلال پور جٹاں ضلع گجرات کے باشندے تھے.بہت ابتدائی زمانہ میں بیعت کی.ان کے فرزند ارجمند محترم جناب صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائر ڈ ڈی.ایس.پی سکھر میں امیر جماعت احمدیہ ہیں.ان کا نام جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء میں شامل ہونے والوں کی فہرست مندرجہ ”آئینہ کمالات اسلام میں درج ہے.۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ۲۱۲ نمبر پر مندرجہ نام منشی محد علی صاحب سے غالباً آپ ہی مراد ہیں.واللہ اعلم بالصواب.صاحب کشف والہام بزرگ تھے.منارۃ اسی پر آپ کا نام کنندہ ہے.حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی " موجد مفرح عنبری ولادت : ۳ مئی ۱۸۶۹ء بیعت : ۱۸۹۲ء کے بعد وفات : ۱۱.ذی الحجہ بمطابق ۱۲.اپریل ۱۹۳۲ء بروز پیر عید کے دوسرے روز حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ۳.مئی ۱۸۲۹ء کو پیر کے دن لاہور میں پیدا ہوئے.آپ لاہور کے ایک پرانے متمول خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے دادا جناب محمد بخش صاحب اور والد مولوی الہی بخش صاحب لاہور میں پشم وریشم کے سرکردہ تاجروں میں سے تھے.آپ کے دادا محمد بخش صاحب کا رنگ چونکہ بہت گورا تھا اور گورے کو پنجابی میں چٹا کہتے ہیں اس لئے وہ چٹو“ نام سے مشہور تھے.حضرت قریشی صاحب نے ابتدائی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.چنانچہ آپ کا نام ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں ۲۷۱ نمبر پر درج ہے.آپ نے طب کی تعلیم حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب سے لا ہور اور سرینگر میں حاصل کی.اس طرح آپ کو بہت قریب سے حضرت مولوی صاحب کو دیکھنے کا موقعہ ملا.چنانچہ جب آپ نے سنا کہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جیسے متقی اور عالم فاضل انسان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے تو آپ بھی بہت جلد حضور کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گئے.باپ اور دادا

Page 158

157 چونکہ سخت گیر واقع ہوئے تھے اس لئے آپ کو احمدیت قبول کرنے کے بعد تکالیف بھی بہت برداشت کرنا پڑیں مگر آپ کے پائے استقلال میں جنبش نہ آئی.آپ کی شادی لاہور کے ایک تاجر گھرانے میں ہو چکی تھی.بیوی سے جب آپ نے اپنی احمدیت کا ذکر کیا تو اس نے بھی سرتسلیم خم کیا اور احمدیت قبول کر لی.آپ کی سوتیلی والدہ اور والد صاحب نے آپ کو گھر سے نکال دیا.مگر پروردگار عالم نے اس بے یار و مددگار نوجوان کے اخلاق کو نوازا اور آپ کو بہت جلد قریشی بلڈنگ جیسا شاندار مکان بنانے کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کے مخالف آپ کے اقبال کو دیکھ کر حیران رہ گئے.لاہور سے باہر کے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آپ حافظ قرآن بھی تھے.جوانی کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کیا اور عمر بھر نماز تروایح میں سناتے رہے.آپ ایک لمبا عرصہ جماعت لاہور کے جنرل سیکرٹری رہے اور ۱۹۲۴ء میں جب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کچھ عرصہ کے لئے یورپ تشریف لے گئے تو امارت کے فرائض بھی آپ ہی سرانجام دیتے رہے اور اسی عرصہ میں آپ نے لاہور کی مسجد احمد یہ تعمیر کروائی جو بیرون دہلی دروازہ میں واقع ہے.جناب شیخ غلام قا در صاحب کا بیان ہے کہ جس احاطہ میں مسجد بنی یہ احاطہ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کی ملکیت تھا.اور شیخ عبدالرحیم، شیخ عبد القادر اور شیخ غلام قادر صاحبان آف گوجرانوالہ نے کرایہ پر لے کر چمڑے کا گودام بنایا ہوا تھا.جماعت نے یہ احاطہ دس ہزار رپے میں خرید لیا.جس میں سے پانچ ہزار روپے کی ایک خطیر رقم محترم شیخ شمس الدین صاحب تاجر چرم نے بطور چندہ ادا کی تھی.مسجد کی تعمیر میں یوں تو ساری جماعت نے حصہ لیا.لیکن حضرت قریشی صاحب گویا اس کام کے اصل انچارج اور روح رواں تھے.جناب شیخ عبدالرحیم صاحب سیکرٹری اور حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب نگران تھے.نقشہ حضرت میاں محمد صاحب نے بنایا تھا اور وہ آکر اس بات کی کڑی نگرانی کرتے تھے کہ عمارت نقشہ کے مطابق بن رہی ہے یا نہیں.حضرت قریشی صاحب اور آپ کے ساتھی مسجد میں آ کر مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے.چنانچہ دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ حضرت قریشی صاحب اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے گرد کپڑا لپیٹ محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی فرماتے ہیں کہ یہ احاطہ تھا تو حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کا ہی.مگر ان سے سید نادرشاہ صاحب جہلمی نے انداز اساڑھے گیارہ ہزار میں خرید لیا تھا.پھر ان سے جماعت نے اسی قیمت پر خرید لیا.

Page 159

158 کر اور ہاتھ میں ہتھوڑا لے کر روڑی کوٹا کرتے تھے.اور اینٹیں گڈے پر آتیں تو اپنے ہاتھ سے اتار کر اندر رکھتے تھے.اور آپ جیسے امیر طبع آدمی کو دیکھ کر سارے موجود احمدی ان کاموں میں برابر آپ کا ساتھ دیا کرتے تھے.مسجد کی تعمیر کے لئے جب آپ چندہ کی تحریک کرتے تو ایسے درد کے ساتھ کرتے تھے کہ لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے ہی گھر جاتے تھے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مسجد کی تعمیر ان ایام میں ہوئی جبکہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ویمبلے کا نفرنس میں شمولیت کے لئے اور مسجد لندن کا سنگ بنیا درکھنے کے لئے لندن تشریف لے گئے تھے.اس سفر میں جب حضور کو روپیہ کی ضرورت پیش آئی تو بعض احباب نے اس بات پر زور دیا کہ جو روپیہ مسجد کے لئے جمع ہو چکا ہے وہ حضور کی خدمت میں بھیج دیا جائے مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا.یہ روپیہ مسجد پر ہی خرچ ہو گا.حضرت صاحب کے لئے اللہ تعالیٰ اور جگہ سے انتظام کر دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان ایام میں آپ ہر دم اس فکر میں رہتے تھے کہ مسجد جلد مکمل ہوا اور جماعت پراگندہ اور منتشر ہونے سے بچ جائے.آپ نہایت ہی خود دار راستباز صبر وقناعت اور استغناء کے پتلے تھے.اپنی زبان سے ہمیشہ وہی بات نکالا کرتے تھے جس کے متعلق آپ کو یقین ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام نہایت ہی پر اثر ہوتا تھا.حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر نے آپ کی وفات پر جو مر ثیہ لکھا اس میں آپ کی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تیرے خطبوں میں ہوا کرتا تھا اک سوز و گداز تیری تقریروں میں تحریروں میں تھا صدق و صفا گفتگو میں تجھ سے گھبراتے تھے باغی و عدد یاد ہے گوہر کو وفد صلح کا سب ماجرا حضرت قریشی صاحب سلسلہ کے ان چند خوش نصیب اصحاب میں سے تھے جن کو اہم مواقع پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ہاتھ سے خط لکھا کرتے تھے.لاہور سے متعلق جو بھی کام ہوتا حضور علیہ السلام بے تکلفی سے حضرت قریشی صاحب کو لکھ دیا کرتے تھے.اس طرح آپ کو حضرت اقدس کی خوشنودی حاصل کرنے اور دعاؤں سے فیض یاب ہونے کا خاص موقعہ ملتا رہتا تھا.حضرت مسیح

Page 160

159 موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضور کے خلفاء کا بھی یہی طریق رہا.چنانچہ ان خطوط سے جو حضرت اقدس نے یا حضور کے خلفاء نے حضرت قریشی صاحب کو لکھے.آپ کی سیرت کے بعض اہم پہلو اجاگر ہوتے ہیں.نیز یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء کے دلوں میں سلسلہ کے اس خادم کے لئے کس قدر محبت و شفقت بھری ہوئی تھی.ذیل میں آپ کے نام کے بعض خطوط...کی صرف نقول دی جارہی ہیں جن سے احباب اندازہ لگا سکیں گے کہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت قریشی صاحب کو کس قدر خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہ خطوط ہمیں حضرت قریشی صاحب کے صاحبزادے قریشی محمد اسماعیل صاحب نے عطا فرمائے ہیں.فجزاه الله في الدنيا والآخرة ا.ذیل کا خط حضرت اقدس نے قریشی صاحب کے لڑکے محمد بشیر کی وفات پر آپ کو لکھا: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچا.آپ کے لخت جگر محمد بشیر کا واقعہ وفات در حقیقت سخت صدمہ تھا.اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس مرحوم بچے کی ماں کو صبر عطا فرمادے اور نعم البدل عطا فرما دے.آمین ثم آمین اے عزیز! دنیا ہر ایک مومن کے لئے دار الامتحان ہے.اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ اس کی قضاء و قدر پر صبر کرتے ہیں یا نہیں.بچہ والدین کے لئے فرط ہوتا ہے یعنی ان کی نجات کے لئے پیش خیمہ ہوتا ہے.چاہئے کہ ہمیشہ درود شریف (جو در ودیا دہو ) اور نیز استغفار (جو استغفار یا د ہو ) آپ دونوں پڑھا کریں.میں نے بہت دعا کی ہے خدا تعالیٰ سلامتی ایمان اور اس بچہ کا بدل بخشے اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو منظور فرما دے.باقی سب خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۴.جنوری ۱۸۹۸ء ۲ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کانگڑہ کے بعد چند ماہ کے لئے اپنی جماعت کے ہمراہ قادیان سے باہر اپنے باغ میں رہائش اختیار کر لی تھی.آپ کی تتبع میں حضرت قریشی صاحب بھی شہر لا ہور سے باہر باغبانپورہ کی طرف چند مخلصین سمیت ایک جگہ کرایہ پر لے کر آباد ہو گئے تھے.

Page 161

160 بعد میں جب آپ کو اطلاع ملی کہ حضرت اقدس گھر میں واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا : بسم م الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی على رسوله الكريم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مولوی عبد الکریم صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ حضور نے اب گاؤں میں واپس جانے کا عنقریب ارادہ ظاہر فرمایا ہے.بنابر میں عرض ہے کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ کے احسان اور حسن اتفاق سے عمدہ مکان باہر جنگل میں ملا ہوا ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت بھائیوں کی ہمراہ ہے مل کر نماز ہو جاتی ہے.دعاؤں کا اکثر موقع ملتا ہے.اگر اس کو ہم چھوڑ دیں تو دوبارہ ایسا مکان ملنا لا ہور میں قریباً محال معلوم ہوتا ہے.اگر حضور کو ایسا معلوم ہوتا ہو کہ کچھ عرصہ بعد پھر باہر نکلنا ہوگا تو کیا ہم یہیں رہ سکتے ہیں یا شہر میں چلا جانا ضروری ہے.اس بارے میں جیسا حضور کا حکم ہو گا اس پر عمل کیا جائے گا.لاہور میں مکانوں کی یہ قلت ہو گئی ہے کہ دو ماہ سے اکثر بھائی تلاش کر رہے اور تلاش بھی ہر روز دو تین گھنٹہ کرتے ہیں لیکن مکان قابل رہائش کو ئی نہیں ملتا.والسلام اس خط کی پشت پر حضور نے اپنی قلم سے تحریر فرمایا: عاجز محمد حسین قریشی لا ہور.۲.جولائی ۱۹۰۵ء چونکہ خدا تعالیٰ ( نے ) حادثہ آنے کی کوئی تاریخ نہیں بتلائی اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا.میں بباعث آمد برسات قادیان میں آ گیا ہوں.میرے نزدیک مناسب ہے کہ شہر میں آجائیں.کہ برسات میں باہر تکلیف نہ ہو.اگر خدا تعالیٰ نے کوئی خاص اطلاع دی تو میں اطلاع دوں گا.از غلام احمد عفی عنہ یہ پورا خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ حضرت قریشی صاحب کو بھجوایا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.پرسوں سے ہم سب گاؤں میں آگئے ہیں.آپ کی خوشی کے لئے حضرت کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب بھیجتا ہوں.ایک نہایت ضروری عرض ہے کہ مسجد مبارک کے جنوبی سمت کا ویران مکان کل حسب مشورہ حضرت اقدس فیصلہ ہو گیا ہے کہ ( مسجد کو فراخ کرنے کی غرض سے ) خریدا جاوے.روپیہ ( اس مد کا ) موجود نہیں.بڑی غور

Page 162

161 کے بعد فیصلہ ہوا کہ عالی ہمت بھائی یا بھائیوں سے سردست قرضہ لیا جائے اور رفتہ رفتہ ہم ادا کریں.انشاء اللہ جلد ادا ہو جائے گا.میرے دل میں آیا کہ آپ کی طرف لکھا جائے.جس طرح ممکن ہو آپ سات سو روپے بواپسی ارسال کرنے کی فکر یا انتظام کریں.اس میں توقف نہ ہو.بڑا کار ثواب ہے.والسلام.خاکسار عبدالکریم بعد کی خط و کتابت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قریشی صاحب نے روپے کا فوراً انتظام کر کے بھجوا دیا تھا چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں: ” میر ا قلب گواہی دیتا ہے کہ تمام بھائیوں کی نسبت آپ میں خاص اخلاص اور پستی ہے خدا تعالیٰ آپ کے اخلاص اور توجہ کی جزا ہو..حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت قریشی صاحب کی لڑکی زینب تقریباً ہم عمر تھیں.بچپنے میں جب تیاری لباس کی ضرورت پیش آتی تو حضور قریشی صاحب کی بچی کے ناپ پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے لئے کپڑے تیار کر وا لیتے تھے.چنانچہ حضور ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : محبی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس وقت بتا کید والدہ محمود لکھتا ہوں کہ آپ مبارکہ میری لڑکی کے لئے ایک قمیص ریشمی یا جالی کی جو چھ روپے قیمت سے زیادہ نہ ہو.گوٹہ لگا ہوا ہو.عید سے پہلے تیار کر وا کر بھیج دیں.رنگ کوئی ہو.مگر پارچہ ریشمی یا جالی ہو.اندازہ قمیص کا آپ کی لڑکی زینب کے اندازہ پر ہو.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ.۱۴.فروری ۱۹۰۴ء مارچ ۱۹۰۷ء میں قریشی صاحب کی یہ لڑ کی قضائے الہی سے وفات پاگئی.حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا گیا.لیکن حضور کو قبل از وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے افسوسناک خبر آنے کی اطلاع مل چکی تھی.۲۰.فروری ۱۹۰۷ء کو حضور کو الہام ہوا افسوسناک خبر آئی ہے حضور نے فرمایا: اس الہام پر ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا.۲۰ چنانچہ اس بچی کی وفات کی خبر حضور کو بھیجی گئی تو حضور نے قریشی صاحب کو لکھا:

Page 163

162 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم مجی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آج کے خط سے واقعہ معصومہ زینب پر اطلاع ہوئی.انالله و انا اليه راجعون.خدا تعالیٰ آپ کو معہ اس کی والدہ کے صبر بخشے اور بعد میں ہر ایک بلا سے بچاوے.آمین.دعا تو بہت کی گئی تھی مگر تقدیر مبرم کا کیا علاج ہے.میں نے پہلے اس سے دیکھا تھا یعنی الہام ہوا تھا کہ لاہور سے ایک خوفناک خبر آئی.اس الہام کو میں نے اخبار میں شائع کر دیا تھا.سو وہ بات پوری ہوئی اور اب صبر کریں.خدا تعالیٰ صبر پر اس کا اجر دے گا.والسلام مرز اغلام احمد عفی عنہ.۲۰.مارچ ۱۹۰۷ء اپنوں اور غیروں میں آپ کا مقام حضرت قریشی صاحب نیکی، حق گوئی، امانت، دیانت اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت کی وجہ سے اپنوں اور غیروں میں برابر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.یہاں تک کہ محلہ کے غیر مسلم بھی نجی جھگڑے مشترک تجارت اور رشتہ داری کے فسادات وغیرہ سبھی قسم کی الجھنیں آپ سے دور کر وایا کرتے تھے.لین دین کے معاملات میں صفائی لین دین کے معاملات میں صفائی کا اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ آپ کے صاحبزادہ قریشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان کیا کہ : ایک دفعہ ایک ہند وصراف سے ایک باہر کے دوست کو اس شرط پر زیور لے کر دیا کہ اگر زیور ان کے گھر میں پسند آ گیا تو قیمت ورنہ زیور فلاں دن فلاں وقت واپس کر دیں گے.لیکن جب وہ زیور مقرر وقت پر واپس نہ آیا تو آپ نے چپکے سے اس صراف کو قیمت ادا کر دی اور جب بعد میں وہ زیور آیا تو اسے دوسرے صراف کے پاس گھاٹے میں بیچ دیا.بعد ازاں جب زیور دینے والے صراف کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے گھر میں آ کر عرض کی کہ آپ نے معاہدہ کا ایک دن کیوں نہ بڑھوا لیا.خواہ مخواہ گھاٹا برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ مگر قریشی صاحب نے جواب دیا کہ مسلمان اپنے عہد کا پابند ہوتا ہے لہذا اس

Page 164

163 میں میرے لئے کسی قسم کی تاخیر مناسب نہ تھی.جماعت کے غرباء اور یتامیٰ کی دیکھ بھال حضرت قریشی صاحب جماعت کے غرباء یتامی اور بیوگان کا خیال رکھتے تھے اور ان کی مدد کا خاص اہتمام فرماتے تھے.باہر سے جو احمدی تلاش روزگار کے لئے لاہور آیا کرتے تھے.آپ ان کی ہر ممکن امداد فر مایا کرتے تھے.ہر نو وارد سے پوچھتے کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا کام جانتے ہیں؟ پھر جو شخص جس قابل ہوتا اسی رنگ میں اس کی امداد فرماتے.اکثر لوگوں کو کچھ نہ کچھ رقم دے کر فرمایا کرتے تھے کہ پھل یا کوئی اور چیز لے کر بیچو.چنانچہ آپ سے روپیہ لے کر پندرہ ہیں غریب احمدی باہر ٹوکروں میں فروٹ ڈال کر بیچا کرتے تھے.اپنے محلہ کے غیر احمدی غرباء کی بھی آپ اسی طرح امداد فرمایا کرتے تھے.میاں محمد عظیم صاحب جو بعد میں کھدر فروش کے نام سے مشہور ہوئے.فرماتے ہیں کہ وہ جب پہلی مرتبہ تلاش روزگار کے لئے لاہور میں آئے تو اس زمانہ میں مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ زیر تعمیر تھی اور حضرت قریشی صاحب مسجد کے صحن میں تشریف فرما تھے.ابھی مسجد کے صحن کا فرش نہیں بنا تھا.انہیں دیکھتے ہی قریشی صاحب نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ گجرات کے رہنے والے ہیں اور آج کل بالکل بیکار ہیں.تلاش روزگار کے لئے آئے ہیں.آپ نے فرمایا.اچھا.یہ سامنے جو مینٹیں پڑی ہیں ان کو اسی شکل میں ذرا پیچھے ہٹا کر رکھ دو.انہوں نے حکم کی تعمیل کی.اس پر آپ نے اپنی جیب سے دور و پے نکال کر دیئے اور فرمایا کہ جاؤ کوئی چیز خرید کر بیچو حالانکہ ان ایام میں آٹھ آنہ یومیہ مزدوری ملا کرتی تھی.وہ روپے لے کر عظیم صاحب نے ایک اور دوست کے ساتھ مل کر مٹھائی بنانا شروع کر دی.آپ روزانہ پوچھا کرتے تھے کہ عظیم صاحب! بتائیے آج کس قدر بکری ہوئی اور کتنا منافع ہوا؟ عظیم صاحب بتا دیا کرتے تھے.ایک روز بکری بہت کم ہوئی.یعنی صرف دس آنے کے پیسے آئے.اس پر عظیم صاحب کو بہت افسوس ہوا اور تھک ہار کر مسجد کے باہر بیٹھ گئے.حضرت قریشی صاحب تشریف لائے تو آتے ہی دریافت فرمایا کہ بتاؤ عظیم صاحب! کیا حال ہے؟ عظیم صاحب نے کہا.جناب آج تو بکری بہت ہی کم ہوئی ہے.فرمایا.

Page 165

164 ساری مٹھائی تو لو.جب اسے تو لا گیا تو کل مٹھائی ساڑھے چار یا پانچ روپے کی تھی وہ آپ نے ساری خرید لی اور اس طرح ایک ستم رسیدہ دل کی ڈھارس بنے.قریشی صاحب کے بعد حضرت میاں محمد صاحب تشریف لائے اور آتے ہی پوچھا سناؤ میاں مٹھائی والے ! کیا حال ہے؟ عظیم صاحب نے کہا.جناب! آج بکری بہت کم ہوئی تھی مگر قریشی صاحب نے ساری مٹھائی خرید لی ہے.فرمایا کل دو روپے کی مجھے دے دینا.چنانچہ دوسرے دن دو روپے کی مٹھائی حضرت میاں محمد صاحب نے خرید لی اور باقی بھی ہاتھوں ہاتھ نکل گئی.حضرت میاں محمد صاحب کے بعد قریشی صاحب تشریف لائے اور آتے ہی پوچھا.سناؤ میاں عظیم ! آج بکری کا کیا حال رہا.عرض کی.جناب آج تو ساری مٹھائی ہاتھوں ہاتھ بک گئی ہے.فرمایا.پھر آؤ! دعا کریں.چنانچہ سب حاضرین نے مل کر دعا کی.آپ کا لباس اور خلیہ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے لباس اور حلیہ کا بھی ذکر کر دیا جائے.آپ سلوار، قمیص، لمبا کوٹ اور سفید پگڑی پہنا کرتے تھے.قدلمبا چہرہ لمبوتر امگر بڑا ہی خوبصورت اور بارعب ما تھا کشادہ اور ابھرا ہوا، ناک اونچی آنکھیں موٹی داڑھی لمبی، ہر وقت ہشاش بشاش معلوم ہوتے تھے.پاؤں میں دہلی والی کھال کی جوتی پہنا کرتے تھے.سینہ کشادہ پاؤں بھارے.جرا ہیں سردی گرمی ہر موسم میں پہنا کرتے تھے.کوئی ہنسی والی بات سن کر مسکراتے تھے مگر منہ زیادہ نہیں کھولا کرتے تھے.تقریر کرتے وقت ہاتھ پاؤں نہیں مارتے تھے بلکہ نہایت ہی آرام اور سکون کے ساتھ کھڑے ہو کر بڑے ہی وقار کے ساتھ بولتے جاتے تھے.خاکسار راقم الحروف کو یہ شرف حاصل ہے کہ جنوری ۱۹۲۵ء کو جب کہ یہ خاکسار پہلی مرتبہ ہندو ہونے کی حالت میں محترم میاں محمد مراد صاحب کے ساتھ قادیان جا رہا تھا تو راستہ میں رات حضرت قریشی صاحب کے گھر میں گزاری تھی.مجھے آپ کے عشاء کی نماز پڑھنے کی بعد وتر کی نماز پڑھنے کا نظارہ اب تک یاد ہے.ایک قالین کے اوپر جائے نماز پر آپ نے پہلے دورکعت نماز ادا کی اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر وتر مکمل کئے نماز پڑھتے وقت آپ کی شکل دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی

Page 166

165 فرشتہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہے.تربیت جماعت تربیت جماعت کا آپ خاص خیال رکھا کرتے تھے.اگر دو احمد یوں میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جاتا بد عهدی بد معاملگی یا حساب فہمی کا.تو آپ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک اسے رفع دفع نہ کر لیتے.جماعتی تربیت کا ایک لطیف پہلو یہ بھی تھا کہ آپ بعض اوقات کسی غریب احمدی سے ایک یا دو روپے چندہ وصول کرنے کی خاطر اپنی گرہ سے سواری پر دو تین روپے خرچ کر دیا کرتے تھے اور مقصد آپ کا یہ ہوتا تھا کہ اس دوست کو چندہ دینے کی عادت پڑ جائے.آپ کی تبلیغی سرگرمیاں آپ کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا اور بعض اوقات اپنے خرچ پر تبلیغی ٹریکٹ شائع کر کے اپنی دوا مفرح عنبری“ کے پیکٹ میں رکھ کر ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا کرتے تھے.چنانچہ ۱۹۰۳ء میں آپ نے حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین صاحب کی بیان فرمودہ ایک تفسیر سورۃ جمعہ شائع کی اور اس کا ایک نسخہ اور چند رسالے ریویو آف ریچز کے برہمن بڑیہ ( بنگال ) کے ایک وکیل محمد دولت خاں صاحب کو مفرح عنبری“ کے ہمراہ بھیج دیئے.وکیل صاحب نے وہ تفسیر اور رسالے حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب کو دے دیئے.مولوی صاحب نے تحقیقات شروع کر دی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.حضرت قریشی صاحب نے حضرت مولانا سید عبدالواحد صاحب کے بعد دوسرے پر اوشنل امیر پروفیسر عبداللطیف صاحب کے زمانہ میں بنگال کی جماعتوں کا دورہ بھی کیا.حضرت خلیفہ ثانی کی کتاب ”تحفۃ الملوک“ کی طباعت ایک اور کام اللہ تعالی نے آپ سے یہ لیا کہ ۱۹۱۴ء میں سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے نواب آصف جاہ نظام حیدر آباد دکن کے نام ایک تبلیغی خط لکھا جو کتاب کی صورت میں

Page 167

166 تحفۃ الملوک کے نام سے آپ کی معرفت لاہور میں طبع کروایا گیا اور پھر حضور نے آپ ہی کو یہ سعادت بخشی کہ حضور کے ایک ذاتی خط کے ساتھ حیدر آباد دکن لے کر جا کر حضور نظام کی خدمت میں پیش کریں.چنانچہ آپ نے حضرت اقدس کے اس حکم کی تعمیل کی مگر افسوس کہ نظام صاحب نے مولویوں کی شورش سے ڈر کر اس وقت وفد سے ملاقات نہ کی.تاہم بعد میں دوسرا وفد حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی قیادت میں گیا تو یہ تبلیغی تحفہ جناب نظام صاحب نے قبول کر لیا.اس بارہ میں حضرت مفتی صاحب نے جو خط حضرت قریشی صاحب کے نام لکھا وہ درج ذیل ہے : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم برادرم مکرم حکیم صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته الحمد للہ یہاں کا کام بہت عمدہ ہوا ہے.حضور نظام نے حضرت خلیفہ ایسیح کے خط اور المسیح تبلیغی کتاب کو قبول فرمایا اور قبولیت اور خوشنودی کا پروانہ آج ہمیں عطا کیا.اب یہاں امراء کے درمیان کتاب تقسیم کی جائے گی.اور تبلیغ کی جائے گی.بخدمت جمیع احباب سلسلہ السلام علیکم.یہاں کی جماعت احمد یہ جوسب مبائعین حضرت خلیفہ امسیح الثانی میں سے ہیں، احباب لا ہور کو السلام علیکم کہتے ہیں.آپ نے جو بیج بویا تھا اس کا پودا نکل آیا.آپ کو مبارک ہو.والسلام.خادم محمد صادق عفی عنہ آپ کا اخلاص آپ کے اخلاص کی تعریف کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹.جون ۱۹۱۳ء کے الفضل میں آپ کے ایک مضمون ” فضل اور تجارت کو درج اخبار کرنے سے قبل حسب ذیل تعارفی نوٹ دیا تھا: حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور ان چندلوگوں میں سے ہیں کہ جن کو حضرت صاحب بے تکلفی سے کام بتلا دیا کرتے تھے.چنانچہ تک اکثر کام جو لاہور کے متعلق ہوتے تھے ان کی نسبت حضرت صاحب حکیم صاحب کو ہی لکھا کرتے تھے اور اس طرح آپ کو حضرت صاحب کی دعاؤں سے فائدہ اٹھانے کا خاص موقع

Page 168

167 ملتا تھا.چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے لئے ایک خاص جوش دیا ہے جو ان کے مضمون سے ظاہر ہے“.آپ نے اپنے اخلاص کا بہترین مظاہرہ اس وقت کیا جب خلافت اولیٰ کی ابتداء میں جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے احباب لاہور کو اپنے مکان پر بلا کر ایک جلسہ کیا جس میں احباب کے دل میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نے جو ا۳.جنوری ۱۹۰۹ء کو قادیان میں ایک جلسہ طلب کیا ہے اور جس میں اس امر کا فیصلہ کیا جائے گا کہ خلافت اور انجمن کے جھگڑے کا صحیح حل کیا ہے.اس جھگڑے کا صحیح حل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات مندرجہ رسالہ الوصیت کی رُو سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی جانشین صدر انجمن ہے نہ کہ خلیفہ.چنانچہ جناب خواجہ صاحب کی شخصیت سے مرعوب ہو کر جماعت کی اکثریت خواجہ صاحب کے ساتھ متفق ہو گئی تھی.حضرت قریشی صاحب اور حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین نے اس معاملہ کو بھانپ لیا اور خواجہ صاحب کی طرف سے اس بارہ میں جو محضر نامہ تیار کیا گیا تھا اس پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جب ہم نے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے تو اب ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم خلیفہ کے اختیارات کے بارہ میں سوچنا شروع کر دیں.خلیفہ اسیح ہم سے زیادہ عالم ہیں.زیادہ نشیہ اللہ رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے اور سب سے زیادہ مقرب صحابی ہیں لہذا جو فیصلہ خود حضور کریں گے ہم تو اسی پر عمل کریں گے.چنانچہ جب ان ہر دو مخلصین کی طرف سے یہ آواز اٹھی تو بہت سے دوسرے احباب کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی اور آہستہ آہستہ دستخط واپس لینے شروع کر دیئے.پھر مورخہ ۳۱.جنوری ۱۹۰۹ء کو قادیان میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے سلسلہ کے نمائندوں کے سامنے تقریر فرمائی تو غیر مبائعین کی غلط بیانیوں کا سارا تارو پودکھل گیا.حضرت ان پر سخت ناراض ہوئے اور ان کے لیڈروں جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب سے دوبارہ بیعت لی.محترم مولوی محب الرحمن صاحب کا بیان ہے کہ: آخر عمر میں آپ بیمار ہوئے.ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ پھیپھڑے بالکل گل چکے

Page 169

168 ہیں.چند یوم کے مہمان ہیں.آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے اس نے آپ کا سینہ چاک کیا.پھیپھڑے نکال کر دکھائے جو بالکل گل سڑ چکے تھے.پھر ان کو پھینک دیا اور ان کی بجائے صحیح و سالم پھیپھڑے رکھ دیئے.اس رؤیا کے بعد آپ تندرست ہو گئے.اور کئی.سال عمر پائی اور طبعی موت سے وفات پائی“.حضرت میاں چراغ دین صاحب ولادت: ۱۸۴۷ء بیعت : ۱۸۹۳ء وفات : ۱۶ مئی ۱۹۲۰ء حضرت میاں چراغ دین صاحب کے حالات کیلئے میں سب سے پہلے ”الحکم کا وہ مضمون درج کرتا ہوں جو آپ کا جنازہ لاہور سے قادیان لے جانے کے بعد معزز ایڈیٹر صاحب’الحکم“ نے شائع فرمایا: حضرت میاں چراغ دین صاحب کی پیدائش ۱۸۴۷ء میں ہوئی تھی.آپ کے والد ماجدمیاں حسن دین صاحب ایک جری اور بہادر انسان حکومت وقت کے معزز رکن یعنی مہاراجہ شیر سنگھ کی فوج خاصہ کے سپہ سالار تھے.جب میاں چراغ دین صاحب کے دادا میاں الہی بخش صاحب کا انتقال ۱۸۶۶ء میں ہوا تو میاں چراغ دین صاحب کے والد میاں حسن دین صاحب ملازمت ترک کر کے خانگی کاروبار اور اپنی جائیداد کے انتظامات میں مصروف ہو گئے مگر ان کا انتقال چھیالیس سال کی عمر میں سیالکوٹ میں ہوا.اور وہیں سپرد خاک ہوئے.” مرحوم میاں چراغ دین کے دادا میاں الہی بخش صاحب بھی اپنے وقت کی حکومت میں ایک معزز و مکرم عہدے پر سرفراز تھے.یہ سکھوں کی حکومت کا زمانہ تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب پر حکمران تھے.چنانچہ میاں الہی بخش صاحب مہا راجہ موصوف کے محکمہ عمارات کے وزیر اعلیٰ تھے.جب حکومت میں تغیر و تبدل ہوا اور انگریزوں کو حکومت پنجاب قدرت کے ہاتھوں سے ملی.اس وقت اگر چہ میاں الہی بخش مرحوم اپنے سرکاری عہدے سے علیحدہ

Page 170

169 ہو چکے تھے مگر جتنا عرصہ اس دور میں زندہ رہے.عزت سے رہے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ۱۸۶۶ء میں قضا کر گئے.لاہور شہر کے مخیر رئیس میاں محمد سلطان، میاں الہی بخش کے چھوٹے بھائی تھے اور ان کے والد کا نام میاں قادر بخش بن میاں پیر محمد بن میرزا محمد تقی بیگ تھا.چونکہ دو تین پشت تک عمارتوں کے محلوں کی افسری اور عمارتی ٹھیکیداری اس خاندان میں رہی اس لئے عوام میں ان کی ذات معمار مشہور ہوگئی.مگر اصل میں آپ کا خاندان مغل تھا اور آپ بابری چغتائی مغل نسل کی ایک شاخ ہیں.اس خاندان میں پشتوں حکومت رہی اور اس خانوادے کے لوگ ممالک دکن و بنگال و پنجاب میں مختلف اوقات میں یا یوں کہو کہ جب زمانہ موافق تھا حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے لیکن سیاسی تغیرات اور زمانہ کی شاطرانہ چالیں جو طرفہ العین میں گداؤں کو شہنشاہ اور شہنشاہوں کو گدائے بے نوا بنا دیا کرتی ہیں اور جنہوں نے کتنے ہی خاندانوں کو مٹا دیا اور کتنوں کو خاک سے اڑا کر بلندی درجہ کی انتہائی چوٹی پر بٹھا دیا.اس خاندان کے لئے گمنام ہونے کا موجب ہوئیں.”میاں چراغ دین صاحب ابھی بچے ہی تھے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئی تھیں.اس لئے ان کی چچی نے اپنی گود میں لیا اور اپنے دودھ سے پرورش کیا.مرحوم اپنی اس نیک نہاد چی کو ہمیشہ والدہ ہی سمجھتے رہے اور ماں سے زیادہ اس کی عزت کرتے رہے.” جیسا کہ قبل ازیں ذکر ہو چکا ہے.باوجود تغییرات اور انقلابات کے یہ خاندان دنیا وی حیثیت سے اچھی حالت میں رہا.چنانچہ مرحوم کے دادا الہی بخش اور ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد سلطان اور میاں عبدالرحمن اور ایک اور بزرگ میاں امام بخش جو ریاست دکن میں بیش قرار ماہوار تنخواہ پاتے تھے اور وہیں فوت ہوئے اور ان کی اولا د بھی وہیں ہے.یہ لوگ بہت مرفہ الحال تھے.چونکہ ان بزرگوں کے اولا د کم تھی.یہی ایک پوتا تھا جوسب کی توجہ کا مرکز اور سب کے گھر کا چراغ تھا اس لئے سب مرحوم کے ساتھ محبت اور پیار کرتے.اور ان کی ناز برداریاں کرتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا کہ انگریزی حکومت پنجاب میں ابھی قائم ہی ہوئی تھی.اس لئے گویا دس سال کی عمر میں انگریزی تعلیم کے لئے مدرسہ میں داخل کئے گئے.ذہانت اور حافظہ میں خاص طور پر ممتاز تھے.ابھی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کوئی بڑا

Page 171

170 زمانہ نہیں گذرا تھا کہ تمام بزرگ ناز برداریاں کرنے والے ایک ایک کر کے اٹھ گئے.لاکھوں روپیہ کی جائیداد اور املاک اہل کاروں اور کارندوں نے متاع بے وارث سمجھ کر تباہ کر ڈالی.اب ایسی مشکلات پیش آئیں کہ اس طباع اور ذہین اور ہونہار بچے کو تعلیم مجبوراً چھوڑنا پڑی.میاں مرحوم اگر چہ ہوشیار تھے تاہم کم عمر تھے جب ملازموں نے ان کو اکیلا دیکھا تو اپنے ہاتھ پاؤں نکالے.بہت سی جائیدار ضائع کر ڈالی اور جتنا کھا سکے کھا پی کر علیحدہ ہو گئے.ابھی عمر ہی کیا تھی کوئی ایسا نہ تھا جو سر برا ہی کرتا.نہ کسی قسم کا تجربہ تھا.اس لئے ٹھیکیداری کی طرف متوجہ نہ ہوئے جو دو تین پشت سے بزرگوں کا پیشہ تھا.مگر چونکہ ایک حد تک تعلیم سے بہرہ ور ہو چکے تھے.اس لئے ملازمت کی طرف متوجہ ہوئے اور محکمہ نہر میں ابتداء ایک معمولی سی ملازمت اختیار کر لی اور تمام عرصہ ملازمت دفتر چیف انجنئیر محکمہ انہار میں گزار دیا اور اسی سے پنشن یاب ہوئے.اکتالیس سال کی ملازمت اور ۱۴ سال پنشن پاتے رہے اور غالبًا آپ کو یک صد یا اس سے کچھ زیادہ پینشن ملتی تھی.اپنے کام میں نہایت قابل، محنتی اور متدین مانے جاتے تھے.جن حکام بالا دست کو آپ سے واسطہ پڑتا وہ ہمیشہ آپ کے مداح رہتے.درآں حالیکہ با قاعدہ انگریزی تعلیم اعلیٰ درجہ کی حاصل نہ کی تھی.مگر زبان دانی میں اتنی ترقی کی تھی کہ خاص انگلش نژادان کے ماتحت کر دیے جاتے تھے اور ان کو حکم دیا جاتا تھا کہ اپنے مسودات پہلے میاں چراغ دین سے اصلاح کرا لیا کرو اور تحریر میں ایسے خوشخط اور زود دنو لیس تھے کہ پنجاب بھر میں اپنے وقت میں مشہور تھے.تمام حکام خاص طور پر آپ کے دیانتدار ایمان دار نیک دل ہوشیار محنتی، وفادار وغیرہ اخلاق و عادات کے قائل و شاہد تھے.سرکاری کاغذات میں بھی یہ تمام تعریفیں آپ کی موجود ہیں.عام طور پر یہ خیال کہ امراء کے بچے ابتداء میں بگڑ جایا کرتے ہیں اور جن خاندانوں پر ادبار آتا ہے.ان کے پسماندے اپنی افتادگی کو بھی اوج افتخار خیال کیا کرتے ہیں.لوگ ان کی حالت پر روتے اور وہ اپنی حالت پر فاخر ہوتے ہیں.مگر میاں چراغ دین صاحب کی خوش قسمتی ان کے آڑے آئی اور قدرت کا ہاتھ ان کا معین ہوا.متمول اور ذی وجاہت خاندان کے چشم و چراغ تھے.ناز پروردہ تھے.چھوٹی عمر

Page 172

171 میں بزرگ بھی سر سے اٹھ گئے تھے لیکن برخلاف بگڑنے کے ابتداء ہی میں مرحوم کو دینداری کی طرف توجہ تھی.خوش قسمتی سے دوست بھی نیک اور دیندار ملے.اور نیک لوگوں کے حالات اور تذکرے سننے کا شوق تھا.اور جب سلسلہ ملازمت شروع ہوا اس وقت سے انہی لوگوں سے تعلقات رہے جن کو آپ دیندار سمجھتے تھے اور الہی بخش اکونٹنٹ اور عبدالحق وغیرہ سے بھی آپ کے تعلقات تھے.ان ہی ایام میں حضرت صاحب سے بھی آپ کا تعلق موڈت پیدا ہوا.براہین احمدیہ کے زمانہ تصنیف میں قادیان میں آئے اور حضور کے مہمان رہے اور حضور کے فیوض سے مستفاض ہوئے.بشیر اول کا جب عقیقہ ہوا تو مدعوین میں آپ بھی تھے.براہین کے مددگاروں اور خریداروں کے سلسلہ میں آپ کو عزت حاصل ہے.الہی بخش وغیرہ تو کٹ گئے لیکن مرحوم کا پائے ثبات کبھی نہیں ڈگمگایا بلکہ محبت اور تعلق میں ہمیشہ بڑھتے رہے.کیا ہی عجیب فقرہ تھا جو کل ۱۸.مئی کو بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں مرحوم کے عزیزوں کے سامنے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح نے فرمایا کہ پرانی پارٹی میں سے تو یہی ثابت قدم رہے تھے اور پھر فرمایا کہ اگر ان ( میاں چراغ دین ) کی زندگی کا خلاصہ کیا جائے تو یہ ہے کہ اخلاص سے آئے اخلاص سے رہے اور اخلاص سے گئے.جب حضرت اقدس نے دعویٰ مسیحیت فرمایا تو ایک دو سال تک بیعت میں متوقف رہے مگر وہ توقف کسی بدظنی یا بد گمانی کی بناء پر نہ تھا.بالآ خر ۱۸۹۳ء میں سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے اور جب بیعت کر لی تو پھر کبھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ مرتے دم تک محبت میں ثابت قدم اور اخلاص و عشق و فدائیت میں قائم و مستقیم رہے.قدرت خداوندی دیکھئے.آپ تو ابھی متوقف تھے مگر آپ کے بڑے سے چھوٹے صاحبزادے میاں عبدالعزیز صاحب نے ۱۸۹۱ ء میں اسی وقت بیعت کر لی.جس وقت حضور نے اپنے دعویٰ کا اشتہار فرمایا.میاں عبدالعزیز صاحب بڑے ہی محبت والے اور پیاری باتیں کرنے والے بزرگ ہیں.لاہور کے بعض دوستوں نے بتایا کہ وہاں کی جماعت کا ایک حصہ ان ہی کے ذریعہ سلسلہ میں داخل حیح سن بیعت ۱۸۹۲ء ہے.مؤلف

Page 173

172 ہوا ہے اور انہوں نے ابتداء میں بہت اینٹ پتھر اور گالی گلوچ برداشت کی ہے مگر یہ کوئی زیادہ عجیب بات نہیں کیونکہ یہ تو عشق کے کوچے کا پہلا قدم ہے.شرط اول قدم آنست که مجنوں باشی ”میاں چراغ دین کے صاحبزادے میاں عبدالعزیز مسبوق الذکر میاں عبدالمجید اور میاں عبدالرشید اور میاں محمد سعید سعدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے خادم اور خلافت احمدیہ کے ساتھ دلی تعلق اور اخلاص رکھنے والے ہیں.”میاں صاحب مرحوم کے سب سے بڑے لڑکے حکیم محمد حسین مرہم عیسی ہیں جن سے احمدی جماعت خوب واقف ہے.کیا تماشہ ہے کہ حکیم صاحب جس طرح مخالفت میں نمایاں ہیں اسی طرح سلسلہ کی واقفیت میں میاں صاحب کا تمام خاندان بالعموم اور بالخصوص بلحاظ سلسلہ کی قلمی خدمت اور مسائل سلسلہ کی اخص واقفیت کے میاں سعدی میاں چراغ دین مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے بہت نمایاں ہیں.آپ کا تمام کنبہ خدائی سلسلہ میں منسلک ہے.آپ کے بھائی آپ کے بھتیجے، آپ کے لڑکے لڑکیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سب احمدی ہیں.آپ کے بھائی میاں تاج الدین صاحب اور سراج الدین صاحب اور میاں معراج الدین صاحب عمر ( جو چچا زاد بھائی ہیں ) پرانے اور با اخلاص احمدی ہیں.میاں محمد شریف صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر آپ کے بھتیجے اور مخلص احمدی ہیں.اور حضرت خلیفہ اسیح اوّل سے آپ کو دلی تعلق تھا.آپ کے خاندان سے دلی محبت تھی اور حضرت خلیفہ ثانی کے جاں نثاروں اور وفاشعاروں میں ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کو آپ سے محبت تھی اور آپ کی بہت عزت کرتے تھے.اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ اصحاب میں شامل ہیں.حضرت اقدس آپ کے مکان پر ٹھہرنے کو ترجیح دیتے.۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرحوم کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.دروازے کے سامنے ایک شیشم کا درخت تھا.اس پر ایک مولوی چڑھا بیٹھا رہتا تھا.اور مسیح موعود کو گالیاں دیتا رہتا تھا.قاضی اکمل صاحب بتاتے تھے کہ لوگ اس مولوی کو ٹا ہلی مولوی‘ کہنے لگ گئے تھے.

Page 174

173 حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے آپ کو معتمدین صدر انجمن احمدیہ کا مبر نامزد فر مایا تھا.مرحوم کا مکان لاہور میں احمدی جماعت کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا.احباب جاتے اور گھر کی طرح وہاں فروکش ہوتے.آپ ہی کے مکان پر نماز جمعہ و جماعت ہوتی ہے.مرحوم کریم الاخلاق تھے اور دوست دشمن سے محبت سے ملتے تھے.خاندان کے سب چھوٹے بڑے آپ کی بہت عزت کرتے.آپ کا ادب ملحوظ رکھتے تھے.آپ کے بھائیوں کو آپ سے بدرجہ غایت محبت تھی.آپ کے چھوٹے بھائی میاں سراج الدین صاحب جو میاں محمد شریف صاحب بی اے ایل ایل بی اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر کے والد ہیں.۱۷ مئی کی شام کو جب مرحوم میاں چراغ دین کی لاش مدرسہ احمدیہ کے صحن میں پڑی تھی، آنکھوں میں آنسو بھر کر کہہ رہے تھے کہ چند دن کی بات ہے کہ میرے چھوٹے لڑکے نے کہا کہ بابا تو اب بہت کمزور ہو گیا.اب شاید تھوڑا عرصہ ہی یہاں رہے میں نے اس کو کہا کہ تم دونوں بیٹوں کو میں اس بھائی پر قربان کر دوں کیونکہ تم سے میرا ساتھ ہیں تمہیں سال سے ہے لیکن اس سے ساٹھ سال سے تعلق ہے.لاکھوں روپیہ کی جائیداد کے معاملے ہوئے مگر کبھی رنجش نہیں ہوئی.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ بھائی بھائیوں میں کیا سلوک تھا اور ایک دوسرے سے کتنی محبت رکھتے تھے." ” جب ۱۸ مئی کو بعد ظہر مرحوم کے اعزا وا قارب سید نا حضرت خلیفۃ المسیح سے رخصت ہونے لگے تو حضور نے ان کو باہمی محبت و یکجہتی اور نیکی میں بڑھنے کی نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد کیا کہ میں نے ان ( میاں چراغ دین ) کو بھی غصہ میں نہ دیکھا اور جب کسی پر غصہ ہوتے تو اس طرح جس طرح ماں اپنے بچہ پر خفا ہوتی ہے مگر خفگی سے بھی محبت ٹپک رہی ہوتی.آپ نے فرمایا کہ جس طرح مرحوم دینداری اور اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے آپ لوگوں کو ان سے بھی بڑھنا چاہئے اور دنیاوی معاملات میں خاندان میں ایک بزرگ ایسا ہونا چاہئے جن کی سب مانیں تا کہ آپس میں اتفاق رہے.کیونکہ جس خاندان میں اتفاق نہ رہے وہ کوئی ترقی نہیں کر سکتا.مرحوم بڑے ہی با اخلاق اور محبت والے بزرگ تھے.بچوں سے بچوں کی طرح

Page 175

174 محبت کرتے اور بڑے خلوص سے ملتے.مرحوم ایک خوبصورت بشرے اور گوری رنگت کے آدمی تھے.آپ کا چہرہ متبسم اور آنکھیں محبت سے پر تھیں.آپ خدا کے فضل سے کثیر العیال تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں.جن میں سے دولڑ کیاں فوت ہو گئی تھیں.ان کے سوا آپ کے لڑکے لڑکیوں اور نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی مجموعی تعداد ما شاء اللہ پچاس ہے.بجز حکیم محمدحسین صاحب مرہم عیسی * کے آپ کا تمام خاندان مبائعین سید نا حضرت خلیفتہ امیج میں شامل ہے.اللہ تعالیٰ اس خاندان کو بڑھائے اور دنیا و دین میں عزت دے.مرحوم کی وفات سے ایک ہفتہ قبل آپ کی اہلیہ مکرمہ فوت ہوگئی تھیں ان کی وفات کا آپ کو بڑا صدمہ ہوا.اس کے بعد علیل ہو گئے.علالت میں ہی آپ کو حضرت مفتی صاحب کے امریکہ میں داخل ہونے کی خبر ملی.آپ بہت خوش ہوئے اور بار بار الحمد للہ الحمد للہ کہنے لگے.۷۱۶ امئی ۱۹۲۰ء کی درمیانی شب کو اپنے مکان مبارک منزل لاہور میں تحلیل گردہ کے مرض میں انتقال ہوا اور ۱۷ مئی کو بذریعہ موٹر آپ کا جنازہ لاہور سے دارالامان میں لایا گیا.اگر چہ بہشتی مقبرہ میں قبر تیار تھی.مگر اعزا مرحوم نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے درخواست کی کہ وہ مرحوم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب بجانب مغرب جو زمین ہے اس میں جگہ دی جائے.آپ نے منظور فرمایا مگر قبر کھدی ہوئی نہیں تھی.دوسرے دن صبح کے وقت قبر تیار ہو گئی.حضرت امام نے مدرسہ احمدیہ میں دیر تک اثنائے جنازہ مرحوم کے لئے دعا فرمائی اور حضرت منشی اروڑے خاں مرحوم کی قبر کے ساتھ ہی بجانب مغرب آپ کو دفن کر دیا گیا.سبحان الله..منهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر.اللهم اغفر له وارحمه وادخله في الجنة - - حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سیر میں میرے والد حضرت میاں چراغ دین صاحب کو حضور نے فرمایا کہ میاں صاحب! اب آپ پنشن لے لیں اور کوئی دین کا کام کریں.اس پر والد صاحب نے دل میں خیال کیا کہ میں اردو تو لکھ نہیں سکتا، انگریزی لکھ سکتا ہوں نوٹ از مؤلف ) یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی نے بھی بعد ازاں حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی بیعت کر لی تھی اور وفات تک اس پر قائم رہے.فالحمد للہ علی ذالک.

Page 176

175 میں کس طرح خدمت دین کر سکتا ہوں.ابھی آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہی تھا کہ حضور نے فرمایا.دیکھو! آنحضرت یہ بھی پڑھے ہوئے نہیں تھے.مگر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا کام لیا.اس پر والد صاحب نے پنشن لے لی اور بڑی دیر تک قادیان میں محاسب کا کام کرتے رہے.رہتے لاہور ہی میں تھے مگر ہفتہ میں ایک دفعہ قادیان میں ضرور جایا کرتے تھے.میاں مغل صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب الہی بخش اکونٹنٹ، منشی عبدالحق صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو حضور نے بشیر اوّل کے عقیقہ پر بھی بلایا تھا.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ راستہ میں اس قدر بارش ہوئی تھی کہ بٹالہ تک پانی ہی پانی نظر آتا تھا اور بہت سے آدمی سردی کی وجہ سے بیمار ہو گئے تھے.نیز فرمایا کرتے تھے کہ جب کبھی اہلسنت والجماعت کا کوئی شخص تمسخر کے طور پر یہ کہتا کہ اہلحدیث میں کوئی ولی اللہ نہیں تو اکثر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کیا کرتے تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع ہی سے اخلاص ومحبت کے تعلقات رکھتے تھے.بیعت میں توقف کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے پہلے سید محمد صدیق صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے لئے تیار ہوئے تو سید صاحب موصوف نے انہیں کہا کہ آپ نے تو میری بیعت کی ہوئی ہے آپ دوسرا مرشد کیسے پکڑ سکتے ہیں؟ اس پر حضرت میاں معراج دین صاحب عمر نے کہا کہ میں نے تو کسی کی بیعت نہیں کی اس لئے میں حضرت صاحب کی بیعت کرتا ہوں چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.پھر مغل صاحب اور حکیم مرہم عیسی صاحب نے یکے بعد دیگرے بیعت کر لی.اس پر حضرت میاں چراغ دین صاحب نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ حضور! میں نے سید محمد صدیق صاحب کی بیعت کی ہوئی ہے.کیا میں بھی حضور کی بیعت کر سکتا ہوں؟ حضور نے فرمایا.اب سب بیعتیں منسوخ ہو چکی ہیں.بجز میری بیعت کے اب کوئی بیعت درست نہیں.اس پر میاں چراغ دین صاحب نے بھی بیعت کر لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت میاں چراغ دین صاحب سے بہت محبت تھی.حضور فرمایا کرتے تھے کہ میرے بچپن کے رفیقوں میں سے خدا تعالیٰ نے مجھے صرف میاں چراغ دین دیا ہے.باقی مجھ سے دور ہو گئے.آپ کی ایک روایت الفضل میں یوں درج ہے کہ :

Page 177

176 ایک دفعہ میں قادیان گیا.دو چار دن کے بعد جب میں جانے لگا تو خیال آیا کہ اگر آج نہ جاؤں تو کل دفتر میں دس کی بجائے بارہ بجے حاضر ہو جاؤں گا اور صبح چھ بجے یہاں جب سے چل پڑوں گا اس طرح آج کی رات اور فیض صحبت سے مستفیض ہونے کا موقعہ مل جائے گا.یہ خیال کر کے میں ٹھہر گیا.صبح 4 بجے جب حضور سیر کو نکلے تو میں نے جانے کے لئے اجازت چاہی آپ نے دعا فرمائی اور اجازت دے دی.جب میں چلنے لگا تو فرمایا منشی صاحب! ابھی وقت ہے.آؤ سیر کو چلیں.میں حضور کے ساتھ ہولیا.اڑھائی گھنٹہ کے بعد حضور سیر سے واپس آئے تو مجھ سے مصافحہ کیا اور فرمایا.جاؤ اجازت ہے.میں نے کچھ نہ کہا اور چپکا ہو کر چل پڑا.یکہ کرایہ کیا اور گیارہ بجے بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچا.میرے وہاں پہنچنے پر گھنٹی بجی.تو میں نے پوچھا کہ کدھر جانے والی گاڑی کی گھنٹی بجی ہے.لوگوں نے کہا لا ہور جانے والی گاڑی.آج گاڑی دو گھنٹہ لیٹ ہو کر آئی ہے.میں نے ٹکٹ لیا اور اس میں سوار ہو کر با رام لاہور پہنچ گیا ، ۱۳ محترم میاں نذیر حسین صاحب ابن حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت میاں چراغ دین صاحب کے ہاں پہلا بچہ یعنی ہمارے والد صاحب حضرت حکیم مرہم عیسی صاحب پیدا ہوئے تو آپ پانچ سال کی عمر تک نہ بولنا سکھے نہ چلنا.اس پر ایک روز جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور تشریف لائے ہوئے تھے.ہمارے دادا محترم نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ حضور! میرا صرف ایک ہی لڑکا ہے اور وہ بھی گونگا اور لنجا ہے.حضور دعا فرماویں کہ وہ تندرست ہو جائے.حضور نے فرمایا.میاں صاحب.اس بچے کو لے آئیں.چنانچہ حضور نے محترم حکیم صاحب کو اپنی گود میں لے کر ایک لمبی دعا کی.اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ بچہ درست ہو جائے گا.چنانچہ جب حضور دوبارہ لاہور تشریف لائے تو حضرت میاں چراغ دین صاحب سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا قبول فرمالی ہے.آپ کا یہ بچہ بڑا بولنے والا اور چلنے والا ہوگا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم نے حضرت حکیم صاحب کو اسی نوے کی سال کی عمر میں بھی اس قدر اونچا اور مسلسل بولتے دیکھا ہے کہ ہم حیران رہ جاتے تھے.محترم ماسٹر نذیرحسین صاحب ہی کا بیان ہے کہ ہمارے والد صاحب کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد

Page 178

177 ہمارا دادا صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور دعا فرما دیں کہ خدا مجھے اور بھی لڑکے عطا فرمائے.چنانچہ حضور نے دعا کا وعدہ فرمایا اور جب دوبارہ لاہور میں تشریف لائے تو حضرت میاں چراغ دین صاحب کو یہ خوشخبری سنائی کہ خدا تعالیٰ آپ کو پانچ لڑکے اور دے گا اور آپ کی وفات تک آپ کے پانچ لڑکے زندہ رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہمارے والد صاحب کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو مندرجہ ذیل لڑکے اور دیئے.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل.میاں عبدالرحیم صاحب.میاں عبدالمجید صاحب.میاں عبدالرشید صاحب اور میاں محمد سعید صاحب سعدی.میاں عبدالرحیم صاحب تو بچپن میں وفات پا گئے.مگر باقی پانچ لڑکے حضرت میاں چراغ دین صاحب کی وفات تک زندہ تھے.☆ میاں قا در بخش صاحب درویش بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد شاہ محمد غوث میں درویشانہ زندگی بسر کرتا تھا.اور حضرت میاں چراغ دین صاحب کے پاس بھی جا کر بیٹھا کرتا تھا.ایک مرتبہ جب مسجد شاہ محمد غوث سے میرے کپڑے چرائے گئے تو میں صرف پاجامہ پہن کر ہی حضرت میاں صاحب کے پاس چلا گیا.فرمایا.میاں قادر بخش کیا بات ہے! عرض کی.میاں صاحب! میرے کپڑے کسی نے چرا لئے ہیں.فرمایا.تم وہاں کیوں جاتے ہو؟ عرض کی.میاں جی ! وہاں روٹی مل جاتی ہے.فرمایا.کوئی کام کیوں نہیں کرتے ؟ عرض کی.میں کوئی کام نہیں جانتا.آپ نے اسی وقت اپنی جیب سے چھ روپے نکالے اور ایک ہندو کو رقعہ لکھا کہ اسے کھدر دے دو.چنانچہ میں وہ کھدر لے کر میاں صاحب کی بیٹھک میں آ گیا.وہ دو تھان تھے.آپ ان میں سے ایک تھان لے کر او پر زنانخانہ میں گئے اور چھ روپے لے کر آئے.آتے ہی فرمایا.میاں قادر بخش! دیکھو تمہیں کتنا نفع ہوا.تین روپے کا تھان چھ روپے میں بک گیا.پھر آپ نے مجھے دو آنے کا گز بھی لے دیا.اب میرا کاروبار چل پڑا.میں وہ کھدر گاؤں میں لے جاتا اور وہاں سے لحاف لے آتا.تھوڑے عرصہ کے اندر میرے پاس کافی روپے جمع ہو گئے اور اس قدر کام چلا کہ کھدر کا کوٹھا بھر جاتا تھا.چنانچہ پانچ آدمی میں نے ملازم رکھ لئے جو کھدر بیچا کرتے تھے.ایک مرتبہ آپ پنشن لینے گئے تو کسی شخص نے آپ کی جیب سے روپیہ نکال لیا.قریشی محمد حسین یہ بیان میاں قادر بخش صاحب مرحوم نے اپنی زندگی میں مجھے لکھوایا.(مؤلف)

Page 179

178 صاحب نے پوچھا کہ میاں جی ! سنا ہے آپ کی جیب سے کسی نے روپے نکال لئے ہیں.فرمانے لگے.قریشی صاحب! میں تو حیران ہوں کہ اس نے روپے نکال کس طرح لئے؟ حضرت میاں عبدالمجید صاحب ولادت: انداز ا۱۸۸۰ء بیعت : ۱۸۹۳ء وفات : ۱۹۵۳ء حضرت میاں عبدالمجید صاحب حضرت میاں چراغ دین صاحب کے بیٹے تھے.دفتر چیف انجنئیر انہار میں ملازم رہے.ریٹائر ہونے کے بعد پانچوں وقت مسجد میں آ کر نماز باجماعت پڑھتے تھے مگر بہت کم گو تھے.چپکے سے آ کر مسجد میں بیٹھ رہتے تھے اور نماز سے فارغ ہوکر گھر چلے جاتے تھے.انہوں نے اپنی اولاد کی بہت اچھی تربیت کی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے ساتھ خاص تعلق تھا.ان کی اولاد میں محترم میاں محمد عمر صاحب پی.ڈی.ایس.پی سلسلہ کے لٹریچر کے ساتھ واقفیت رکھنے کی وجہ سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.باقی اولاد کے نام یہ ہیں.میاں محمد عثمان.میاں محمد صادق حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی ولادت: ۱۸۸۵ء وفات : ۱۹۵۳ء میاں محمد سعید صاحب سعدی بھی حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے صاحبزادہ تھے.بڑے جوشیلے اور غیور احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے.خصوصاً لا ہوری فریق کے ساتھ بحث میں انہیں ید طولی حاصل تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں کئی چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ آپ کی یادگار موجود ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں ایک مرتبہ ۱۹۱۷ء میں آپ نے حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری کے ساتھ مل کر پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم کے سلسلہ میں دورہ بھی کیا تھا.۲۴ آپ نے بھی ایک عرصہ تک چیف انجنئیر محکمہ انہار کے دفتر میں ملازمت کی مگر پھر بیماری کی وجہ سے استعفیٰ پیش کر دیا.اولاد : بشارت احمد.بشری سعیدہ.عارفہ

Page 180

179 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ولادت : ۱۸۹۳ء وفات : ۲.ستمبر ۱۹۶۳ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی مقدس زندگی کے پاکیزہ واقعات اور طیب سیرت پر خاکسار اپنی تالیف حیات بشیر میں بہت سی باتیں لکھ چکا ہے.اس جگہ صرف اس کتبہ کی عبارت درج کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں جو آپ کے مزار پر بہشتی مقبرہ ربوہ میں لگایا گیا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مزار قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت طیبہ کے ایک درخشندہ ستارے قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ۲۰.اپریل ۱۸۹۳ء کو حسب بشارات الہیہ ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف الہامات میں آپ کا ذکر آتا ہے.ایک الہام الہی میں آپ کو قمر الانبیاء کے خطاب سے نوازا گیا اور بچپن میں آپ کے آشوب چشم سے بیمار ہونے پر آپ کی شفایابی کے متعلق برق طفلی بشیر کا مبشر الہام ہوا.آپ کی تمام زندگی خدمت دین اور خدمت خلق کیلئے وقف رہی.آپ علوم دینیہ کے بہت بڑے عالم اور جماعت احمدیہ کے لئے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے تھے.عمر بھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست راست رہے.نہایت بلند پایہ اور جاذبیت رکھنے والے مصنف تھے.آپ نے دین کی حمایت میں ایک قیمتی علمی خزا نہ چھوڑا ہے.جماعت احمد یہ علمی اور روحانی رنگ میں آپ سے رہنمائی حاصل کر کے اطمینان پاتی تھی.بہت نیک، متقی اور دعاؤں میں شغف رکھنے والے صاحب الہام وکشوف تھے.آپ عاشق خدا اور رسول، غرباء سے گہری ہمدردی رکھنے والے منکسر المزاج نہایت صائب الرائے بالغ النظر اور ہر کام میں حد درجہ محتاط تھے.آپ کا وصال جس کی اطلاع آپ کو کچھ عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جا

Page 181

180 چکی تھی.بروز دوشنبہ مؤرخہ ۲.ستمبر ۱۹۶۳ء ( شام کو.ناقل ) چھ بج کر اڑتالیس منٹ پر قریباً ستر سال کی عمر میں کوٹھی ۲۳.ریس کورس روڈ ) کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب.ناقل ) لاہور میں ہوا.انا الله و انا اليه راجعون.زیر ہدایت حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ حضرت ام المومنین کے قدموں میں دفن کئے گئے.اے خدا بر تربت اوابر رحمت ہا ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم اللهم نور مرقده و ارفع درجاته في جنت النعيم اولاد صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب.صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ.صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب.صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ.صاحبزادی امتة اللطیف بیگم صاحبہ.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ ولادت: ۲۷.ذیعقعده ۱۳۱۲ھ مطابق ۲۴ مئی ۱۸۹۵ ء وفات : ۱۷ - رجب ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۶.دسمبر ۱۹۶۱ء حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی سیرت مقدسہ کے حالات تفصیل کے ساتھ تو اخویم محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان لکھ رہے ہیں.اس جگہ صرف اس کتبہ کی عبارت درج کی جاتی ہے جو آپ کے مزار مبارک پر بہشتی مقبرہ میں لگایا گیا ہے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی بشارت کے ماتحت ۲۷.ذیقعدہ ۱۳۱۲ھ بمطابق ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء کو قادیان میں تولد ہوئے آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت طیبہ کے ان مقدس پانچ افراد میں سے تیسرے فرد تھے جن کے متعلق حضور نے فرمایا کہ

Page 182

181 یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد الہاموں کے مورد تھے.ایک لمبے عرصہ تک بطور ناظر صدرانجمن احمد یہ خدمات سرانجام دیں.حق وصداقت کی خاطر کچھ عرصہ کے لئے قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خد و خال اور رنگ ڈھنگ میں بہت مشابہت رکھتے تھے.بہت متقی، فیاض، غریب پرور سادہ طبیعت دل کے درویش مگر طبیعت کے بادشاہ اور نہایت صائب الرائے تھے.صاحب کشف والہام بھی تھے.ایک لمبے عرصہ تک اعصابی تکلیف میں مبتلا رہے.کئی مواقع پر بظاہر زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی رحمت انہیں بچاتی رہی.اور یہ الہام بار بار پورا ہوا.عمرہ الله على خلاف التوقع.آخر ۱۷.رجب ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۶.دسمبر ۱۹۶۱ء کو جبکہ جلسہ سالانہ کا افتتاح ہونے والا تھا، خدائی مشیت کے ماتحت ۶۶ سال سات ماہ کی عمر میں انتقال فرمایا.اور ہزار ہا خلصین نے نماز جنازہ میں شرکت کی.انالله و انا اليه راجعون.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ کو علاج کے لئے ایک لمبے عرصہ تک لاہور میں رہنا پڑا.پہلے کافی عرصہ آپ رتن باغ میں رہے.مگر جب کوٹھی رتن باغ کا الحاق میوہسپتال کے ساتھ ہو گیا تو آپ نے کوٹھی پام و یونز دشملہ پہاڑی میں رہائش اختیار کر لی.پہلے آپ کو انتڑیوں میں درد کی تکلیف تھی مگر بعد ازاں پیٹ میں بھی تکلیف ہوگئی.اس کے علاوہ گھٹنوں اور رانوں میں سختی کی شکایت بھی پیدا ہو گئی جو دائیں ٹانگ میں نسبتا زیادہ محسوس ہوتی تھی.فرش پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے کرسی یا چار پائی پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے.ہاتھ کی انگلیوں میں بھی تکلیف رہتی تھی.مگر ان تمام عوارض کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ جب تک چلنے کی طاقت رہی آپ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹہ ٹہلتے رہتے تھے.راقم الحروف جب بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوتا آپ اس عاجز کا ہاتھ پکڑ لیتے اور ٹہلنا شروع فرما دیتے.عاجز تھک جاتا.مگر آپ نہیں تھکتے تھے.ایک واقعہ یاد آ گیا.ابھی آپ رتن باغ ہی میں تھے کہ خاکسار حاضر ہوا.پہلے کچھ دیر ٹہلتے رہے.پھر فرمایا میرا Pen (پین ) گم ہو گیا ہے.خیال ہے کہ گوالمنڈی چوک کے ایک دوکاندار کے پاس بھول آیا ہوں.چلو چل کر پتہ کریں.خیر چل پڑے.رستہ میں فرمایا.انسان کی بھی عجیب حالت

Page 183

182 ہے.کبھی اس کے سینکڑوں روپے بھی گم جائیں تو اسے پروانہیں ہوتی اور کبھی ایک سوئی گم ہو جائے تو بہت پریشان ہو جاتا ہے.یہی حال میرا ہے.یہ پین چونکہ کافی عرصہ میرے پاس رہا ہے اس لئے اس کے گم جانے کا مجھے بہت افسوس ہے جب ہم دکان پر پہنچے تو خدا کا شکر ہے کہ وہ پین مل گیا جس سے آپ کو بہت خوشی ہوئی.کوٹھی پام ویو میں بھی متعدد مرتبہ آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا.شروع شروع میں تو آپ وہاں بھی ٹہلنا شروع کر دیتے تھے مگر آخری ایام میں جب تکلیف بڑھ گئی تو چلنا دشوار ہو گیا.بلکہ پاؤں میں جوتا ڈالنا بھی تکلیف دیتا تھا اس لئے آپ اطلاع ملنے پر ننگے پاؤں ہی آہستہ آہستہ باہر تشریف لاتے تھے اور برآمدہ میں دو آدمیوں کے سہارے سے کرسی پر بیٹھ سکتے تھے مگر چہرہ پر پھر بھی بشاشت ٹپکتی نظر آتی تھی.مجھے یاد ہے.آخری ایام میں آپ نے مجھے فرمایا.میرا دل چاہتا ہے کہ دو کتا ہیں تیار کروائی جائیں.ایک شیعہ مذہب کی تاریخ اور دوسری ان مخالفین کے حالات پر مشتمل جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شدید مخالفت کی مگر خائب و خاسر ر ہے.فرمایا.ان کتابوں کے لئے خواہ کس قدر خرچ ہو.میں دینے کے لئے تیار ہوں.پھر فرمایا میرا یہ پیغام دفتر اصلاح وارشاد میں پہنچا دینا.خاکسار نے آپ کا یہ پیغام انہی ایام میں تحریری طور پر پہنچا دیا تھا.بلکہ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک کتاب ایسے لوگوں کے حالات پر بھی لکھنی چاہیئے.جنہوں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت نہیں کی مگر آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہے جیسے سیالکوٹ کے مولانا میر حسن صاحب عربی پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ.میرا ارادہ تو یہ تھا کہ حضرت صاحبزداہ صاحب کے حالات کے سلسلہ میں وہ نوٹ ہی کافی ہے جو آپ کے مزار مبارک پر لکھا گیا ہے.مگر آپ کا ذکر آنے پر رہ نہ سکا اور کئی ایک باتیں جو یاد آئیں وہ بھی لکھ دیں.اولاد: صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب.صاحبزادی امتہ الود و د صاحبہ.صاحبزادی امۃ الباری صاحبہ.صاحبزادی امتہ الوحید صاحبہ

Page 184

183 حضرت نواب زادہ میاں محمد عبد اللہ خان صاحب ولادت : یکم جنوری ۱۸۹۵ء وفات : ۱۸ - ستمبر ۱۹۶۱ء حضرت نواب زادہ میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے صاحبزادے تھے.یکم جنوری ۱۸۹۵ء کو پیدا ہوئے.نہایت ہی مخلص باپ کی وجہ سے عمدہ تربیت پائی.آپ کے والد محترم چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے.اس لئے قادیان کی رہائش اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ لطف وکرم نے سونے پر سہا گہ کا کام دیا.اور آپ نہایت ہی نیک ماحول میں پروان چڑھے.اس پر مستزاد یہ کہ اپنے باپ کی طرح آپ کو بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف حاصل ہوا.آپ کی شادی حضرت اقدس کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ہوئی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس رشتہ کو نعمت غیر مترقبہ سمجھتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ اپنی بیگم صاحبہ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی سعادت حاصل کروں.خاکسار جب ۱۹۳۵ء سے لے کر ۱۹۳۸ ء تک کراچی میں بطور مبلغ متعین تھا تو آپ اکثر میر پور خاص سے اپنے ضروری کاموں کی انجام دہی کے لئے کراچی تشریف لایا کرتے تھے اور عموماً رائل ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے.انجمن احمدیہ کا دفتر چونکہ وہاں سے بہت نزدیک تھا.اس لئے آپ کوشش فرمایا کرتے تھے کہ نمازیں انجمن ہی میں آکر پڑھا کریں.شام سے قبل سیر کو بھی ہم اکٹھے ہی جایا کرتے تھے.ان ایام میں قریب رہنے کی وجہ سے مجھے آپ کی عظمت کا صحیح احساس ہوا.آپ وجیہ اس قدر تھے کہ کراچی کے بعض بڑے بڑے آدمی جو مجھے جانتے تھے مجھے سے علیحدگی میں دریافت کیا کرتے تھے کہ یہ صاحب کون ہیں؟ میں جب انہیں بتا تا کہ آپ مالیر کوٹلہ کے رؤساء میں سے ہیں.اور سینکڑوں مربعہ زمین کی جاگیر ضلع میر پور خاص میں رکھتے ہیں تو یہ کہتے کہ پھر یہ اسمبلی کی ممبری کے لئے کیوں کھڑے نہیں ہوتے.اس پر میں انہیں بتا تا کہ انہیں دنیا کی جاہ وحشمت کی طرف قطعاً توجہ نہیں.یہ اپنا فارغ وقت اکثر تبلیغ اسلام واحمدیت اور دیگر دینی کاموں میں صرف کرتے ہیں.اس پر وہ لوگ حیران ہو جاتے اور بعض آگے بڑھ کر مصافحہ کا شرف بھی حاصل کرتے.

Page 185

184 تقسیم ملک کے بعد لاہور میں بھی آپ سے فیض حاصل کرنے کے کافی مواقع میسر آتے رہے.خصوصاً اس لئے بھی کہ ماڈل ٹاؤن کے احباب آپ کی زندگی میں آپ کی کوٹھی ۱۰۸ سی میں ہی نمازیں باجماعت ادا کر تے تھے اور میں بھی جب دورہ پر جاتا تو آپ سے مل کر بہت ہی خوشی ہوتی تھی اور آپ کی ایمان افزا باتیں سن کر ایمان کو ایک جلا حاصل ہوتی.تبلیغ احمدیت میں آپ کو اس قدر شغف تھا کہ بیماری کے ایام میں بھی جب کوئی غیر از جماعت رشتہ دار یا دوست ملاقات کے لئے آتا تو اپنی تکلیف بھول کر اسے تبلیغ شروع کر دیتے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اس قدر شکر گزار تھے کہ ہر وقت ان کا تذکرہ آپ کی زبان پر جاری رہتا.یخنی بھی بے حد تھے.کسی غریب کی باتیں سن کر دل پگھل جاتا اور اپنی بساط سے بڑھ کر اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے.اولاد کی تربیت کا بھی ہمیشہ خیال رہتا.مجھے یاد ہے کہ جب میں نے حیات طیبہ" شائع کی تو اس کے چند دن بعد آپ کا ایک بچہ مجھے مال روڈ پر نہایت ہی تپاک سے ملا اور اپنا تعارف کروا کر کہنے لگا کہ ہمارے ابا جان نے آپ کی کتابیں خرید کر ہم سب بہن بھائیوں کی چار پائیوں کے سرہانے رکھوادی ہیں تا جب بھی ہمیں موقع ملے ہم ان کا مطالعہ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سے واقفیت حاصل کر لیں.مجھے خوب یاد ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک مسجد نہ ہو صحیح معنوں میں جماعت کی تنظیم نہیں ہو سکتی.چنانچہ آپ نے ماڈل ٹاؤن کے احباب کے ساتھ یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ آپ کی کوٹھی کے ساتھ ہی شمالی جانب جو زمین ہے.اس کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں.اگر مل گئی تو آپ انشاء اللہ خود ہی مسجد بنوادیں گے.مگر افسوس کہ آپ بہت جلد وفات پاگئے جس کی وجہ سے مسجد نہ بن سکی.آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ میں جب بھی دورہ پر ماڈل ٹاؤن جاؤں شام کا کھانا ان کے ساتھ کھایا کروں.مگر مجھے یہ دقت ہوتی تھی کہ واپسی کے لئے بس 9 بجے کے بعد نہیں ملتی تھی.اس لئے اکثر میں معذرت کر دیتا تھا.لیکن بعض اوقات کھانے میں شامل بھی ہو جا تا تھا.آخری ایام کی ہی بات ہے کہ جب میں آپ کی کوٹھی سے بس کی طرف جانے لگا تو کچھ بارش ہوگئی.اتفاقاً اس روز آپ کے گھر کی کچھ مستورات نے پام ویو کوٹھی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو جانا تھا.آپ نے مجھے فرمایا کہ آپ بھی اسی کار میں چلے جائیں اور ڈرائیور کو جو آپ کا کوئی عزیز ہی تھا.فرمایا کہ پہلے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ جا کر انہیں پہنچانا اور پھر پام ویو.اللہ اللہ ! کس قدر بلند اخلاق کے مالک وہ

Page 186

185 بزرگ تھے کہ ایک ادنی غلام کے لئے یہ نوازشات ! گیارہ بارہ سال کی لمبی اور پیچیدہ بیماری کو آپ نے نہایت ہی صبر وسکون کے ساتھ گزارا.آخر میں دل کے دورے پڑنے بھی شروع ہو گئے تھے.کئی مرتبہ تشویشناک حد تک بیماری ترقی کر گئی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ جاتے رہے.آپ کی وفات پر بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے آپ کے مزار پر جو کتبہ لکھا گیا ہے وہ درج ذیل ہے: اخویم نواب زادہ میاں عبداللہ خاں صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے فرزند ہونے کی وجہ سے صحابی ابن صحابی تھے اور انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ اپنے والد ماجد کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کی فضیلت بھی ملی.نہایت نیک، شریف منکسر المزاج اور ہمدرد طبیعت رکھتے تھے.فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کے بھی پابند تھے اور دعاؤں میں بہت شغف رکھتے تھے اور سلسلہ کی مالی خدمت میں ذوق شوق سے حصہ لیتے تھے.۶۶ سال کی عمر میں ۱۸.ستمبر 1941ء کو لاہور میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.اللهم اغفره وادخله الجنة.مرزا بشیر احمد - ربوه اولا د : صاحبزادی طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ نواب عباس احمد خاں صاحب صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبۂ صاحبزادہ میاں شاہد احمد خاں صاحب صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ میاں مصطفی احمد خاں صاحب.حضرت میاں عبد الغفار صاحب جراح امرتسری ولادت: ۱۸۹۳ء بیعت: پیدائشی احمدی وفات : ۱۳ مئی ۱۹۵۹ ء عمر ۶۶ سال حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح امرتسری حضرت میاں غلام رسول صاحب جراح امرتسری کے فرزند تھے.حضرت میاں غلام رسول صاحب کو یہ فخر حاصل تھا کہ آپ نے بیسیوں مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حجامت بنائی اور متعدد مرتبہ باورچی کا کام کیا.چنانچہ آپ کے فرزند میاں عبد الغفار صاحب کے پاس حضور علیہ السلام کے ناخن، بال اور گرم و سرد کپڑے کافی تعداد میں موجود تھے.خود راقم الحروف نے امرتسر میں بھی اور یہاں لاہور میں بھی متعدد مرتبہ یہ تبرکات دیکھے ہیں.ایک مرتبہ

Page 187

186 یہاں لاہور میں میاں صاحب موصوف سارے تبرکات ہمارے گھر میں بھی لائے تھے اور ہمارے بچوں نے دیکھے تھے.اب یہ تبرکات ان کے فرزندوں کے پاس محفوظ ہیں.حضرت میاں عبد الغفار صاحب ۱۹۴۷ء میں تقسیم برصغیر کے بعد لاہور میں تشریف لے آئے تھے.اور مسجد وزیر خاں کے پاس ایک حویلی میں سکونت اختیار کی تھی.بڑی باقاعدگی کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں تشریف لاتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کو اس قدر محبت تھی کہ حضور کی کئی ایک تحریریں خصوصاً کشتی نوح کی زبانی یاد کر رکھی تھیں اور مختلف اجتماعات کے مواقع پر سنایا کرتے تھے اور اس جذبہ کے ساتھ سناتے تھے کہ حاضرین پر رقت طاری ہو جایا کرتی تھی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص صحابہ میں دفن ہیں.اللهم نور مرقدہ.آمین ثم آمین.اولاد: محمد انور محمد اکرم محمد اسلم.زبیدہ بیگم.سعیدہ بیگم.حضرت میاں سراج دین صاحب میاں عمر دین صاحب ولادت : مارچ ۱۸۵۹ء بیعت : ۱۸۹۳ء وفات : ۲۸.جولائی ۱۹۲۸ء حضرت میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی نے بیان فرمایا کہ میرے والد حضرت میاں سراج دین صاحب اور حضرت میاں چراغ دین صاحب نے خلیفہ محمد صدیق صاحب آف آلو مہار کی بیعت کی ہوئی تھی.پھر اہلحدیث بھی تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ تعلق تھا.اس لئے حضرت اقدس کے دعویٰ کے معا بعد اس خیال سے بیعت نہ کی کہ پہلے ایک بزرگ کی بیعت کی ہوئی ہے.مگر جب کچھ مدت کے بعد حضرت اقدس سے مسئلہ پوچھا تو حضور نے فرمایا جس شخص سے آپ نے بیعت کی ہوئی ہے.اگر وہ نیک آدمی ہے تو آپ کی بیعت نور علی نور ہوگی ورنہ وہ بیعت فسخ ہو جائے گی.اور ہماری بیعت رہ جائے گی.اس پر آپ نے بیعت کر لی.پرانے خاندانی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ والد صاحب نے مارچ ۱۸۹۰ء میں ڈسٹرکٹ جج لاہور کے پاس درخواست دی تھی کہ میرے بھائی میاں معراج دین اور میاں تاج دین نابالغ ہیں اس لئے مجھے ان کا گارڈین مقرر کیا جائے.آپ کا بیس سال کی عمر میں چھانگا مانگا کے جنگل میں ایک انگریز فارسٹ آفیسر کے ماتحت

Page 188

187 ملازمت اختیار کرنے کا بھی ثبوت ملتا ہے.میاں سراج الدین صاحب بہت نیک اور سادہ مزاج آدمی تھے.آپ نے جولائی ۱۹۲۸ء میں ۶۹ سال ۴ ماہ کی عمر پا کر وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے.فانالله و انا اليه راجعون.اولاد: میاں محمد شریف.میاں محمد اشرف.میاں محمد یعقوب.زیب النساء حضرت میاں تاج الدین صاحب ولد میاں عمر دین صاحب ولادت : ۱۸۷۴ء بیعت : انداز ۹۴۴-۱۸۹۵ء وفات: میاں تاج الدین صاحب حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کے چھوٹے بھائی تھے.بہت ہی مخلص اور عبادت گزار بزرگ تھے.رات ۱۲ بجے کے بعد اٹھ کر بقیہ رات عبادت میں گزار دیتے تھے.نقشہ نویس تھے.اوور سیر بھی تھے.پہلے ٹھیکیداری کرتے تھے.مگر مزدوروں کو پیشگی رقمیں دے دیا کرتے تھے.جو بعض اوقات رفو چکر ہو جایا کرتے تھے.اس لئے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے یہ کام چھوڑ دیا تھا.اولاد: میاں کمال دین.میاں فیروز دین جناب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم ولادت : ۱۸۷۰ء بیعت : ۱۸۹۴ ء وفات : ۲۷ - ۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء محترم جناب خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر نے ۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.زمانہ طالب علمی میں آپ اسلام سے متنفر ہو کر عیسائیت اختیار کرنے کا عزم کر چکے تھے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”براہین احمدیہ کہیں سے ہاتھ لگ گئی.اس کتاب کے مطالعہ نے آپ کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور آپ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.محترم جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے بھی انہیں کی تبلیغ سے ۱۸۹۷ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے.محترم خواجہ صاحب مرحوم نے بحیثیت وکیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جو مقدمات حضور پر مخالفین و معاندین کی طرف سے دائر کئے گئے.قابل قدر خدمات سرانجام دیں.آپ

Page 189

188 صدر انجمن احمدیہ کے ممبر اور جماعت کے مشہور لیکچرار بھی تھے.قد آور بھاری بھر کم بارعب اور وجیہ انسان تھے.آپ کا ایک رؤیا بہت مشہور ہے.جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں دیکھا تھا.آپ نے دیکھا کہ آپ اور آپ کے ہمراہ نو یا دس یا گیارہ افراد ہیں اور یہ سب کسی شاہی خاندان کے ہیں.لیکن جس خاندان کے یہ ممبر ہیں اس کا سرتاج تخت سے الگ ہو گیا ہے اور نئی سلطنت قائم ہو گئی ہے.اور پہلا دور بدل گیا ہے اور یہ سارے کے سارے اسیران سلطانی ٹھہرائے گئے ہیں.رؤیا ہی میں آپ کو بتلایا گیا کہ نئے سلطان حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ہیں اور اپنے دربار میں طلب فرما کر کہتے ہیں کہ ” کیا وجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہی سلوک نہ کیا جائے جو اسیران سلطانی کے ساتھ ہوا کرتا ہے.کیا وجہ ہے کہ تم کو ان وطنوں سے نکال کر دوسرے وطنوں میں آباد نہ کیا جاوے“ یہ رویا جو تفصیل کے ساتھ تاریخ احمدیت جلد چہارم میں بھی شائع ہو چکی ہے واضح طور پر بتا رہی ہے کہ جناب خواجہ صاحب اور آپ کے ساتھی خلافت اولی میں کچھ ایسے کام کریں گے جو خلاف منشاء سلطان ہوں گے اور ان کی بناء پر یہ لوگ اسیران سلطانی ٹھہرائے جائیں گے اور اس قابل ہوں گے کہ انہیں اصل وطن یعنی قادیان سے نکال کر کسی اور وطن ( جس کے متعلق بعد میں پتہ چلا کہ لاہور ہے.ناقل ) میں آباد کر دیا جائے گا.مگر اس وقت ان لوگوں کے معافی طلب کرنے پر حضور نے ان کو معاف کر دیا.لیکن خلافت ثانیہ کی ابتداء میں یہ قادیان چھوڑ کر لاہور آ گئے اور اپنا الگ مرکز بنا لیا.آپ نے ۲۷.۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء کو لاہور میں وفات پائی.فانالله و انا اليه راجعون.۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم میں آپ کا نام ۶۴ نمبر پر ہے.حضرت خواجہ جمال الدین صاحب ولادت: بیعت : وفات: حضرت خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے ایک مدت تک جموں میں انسپکٹر مدارس رہے.آپ جناب خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی تھے.خلافت اولیٰ میں وفات پائی.۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ان کا نام ۲۱۵ نمبر پر ہے.

Page 190

189 ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے: خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں.جب امتحان منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت ناکامی اور نا امیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہوا تو ان کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ ”سَيُغْفَرُ ، یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اس غم کا تدارک کرے گا.چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاست کشمیر میں ایک ایسے عہدہ پر ترقی یاب ہوئے جو عہدہ منصفی سے ان کے لئے بہتر ہوا.یعنی وہ تمام ریاست جموں وکشمیر کے انسپکٹر مدارس ہو گئے.۲۵ نوٹ :.ان کی بیعت کا صحیح سنہ معلوم نہیں ہو سکا.اندازاً ان کے حالات یہاں درج کئے گئے ہیں.(مؤلف) حضرت میاں محمد افضل صاحب رضی اللہ عنہ ولادت : بیعت : ۱۸۹۴ء میاں محمد افضل صاحب سکنه او جله ضلع گورداسپور حال مکان نمبر ے گلی نمبر ۵۷ نیا دھرم پورہ لاہور نے ۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.ان ایام میں گو آپ بچے ہی تھے اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے.مگر چونکہ آپ کے تایا حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی پٹواری اور آپ کے حقیقی چچامنشی عبدالمجید صاحب بیعت کر چکے تھے اور ۳۱۳.اصحاب میں شامل تھے اسی طرح آپ کے والد ماجد منشی عبدالحق صاحب پٹواری بھی بیعت کر چکے تھے.اس لئے آپ کا بیعت لینا آسان تھا.آپ فرماتے ہیں کہ جن ایام میں کرم دین سکنہ بھیں کے ساتھ مقدمات چل رہے تھے.ان ایام میں میری بیوی نے بھی بیعت کر لی تھی گو وہ ان ایام میں بہت کم عمر تھی مگر بڑی عورتوں کے ساتھ مل کر اس کے لئے بھی بیعت کرنا آسان تھا.آپ فرماتے ہیں: ” جب میں نے سکول چھوڑا تو اس وقت سب سے پہلامنشی رسالہ تشخحید الاذہان کا میں ہی مقرر ہوا تھا اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا تھا“ آپ تقسیم ملک کے بعد لاہور میں آگئے.نومبر ۱۹۶۵ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں

Page 191

190 دفن ہوۓ.انا لله و انا اليه راجعون.حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب نومسلم ولادت : ۱۸۷۵ء بیعت : ۱۸۹۴ ء وفات : ۱۳.اکتو برا ۱۹۵ء حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب نو مسلم ولد لالہ گنپت رائے صاحب اسلامیہ پارک پونچھ روڈ مزنگ لا ہور نے بیان کیا کہ میں نے ۱۸۹۴ء میں حضور انور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت اور بیعت کی تھی.اس زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نماز پڑھایا کرتے تھے اور بعض اوقات اذان بھی دیتے تھے.بہت خوش الحان اور بلند آواز تھے.ان کی اذان سن کر انسان پر رقت طاری ہو جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت ام المومنین بھی بہت پسند فرماتے تھے.حضور علیہ السلام شام سے لے کر عشاء تک مسجد مبارک میں قیام رکھتے تھے اور اسی جگہ سب احباب کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے تھے.ایک روٹی تو ڑ کر چھوٹا سا ٹکڑا اٹھا کر اپنے دست مبارک میں پکڑ لیتے اور آہستہ آہستہ کھاتے رہتے.ہر جمعہ کو سب احباب کے لئے پلاؤ تیار ہوتا تھا.حضور انور بھی تھوڑا سا تناول فرماتے تھے.حضور مسکرا کر گفتگو کرتے اور ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے تھے.اوپر نظر اٹھا کر عموماً کسی کو نہ دیکھتے تھے مگر اس کے باوجود بصیرت الہی اتنی تھی کہ سب کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے.میں کسی قدر حضور کے پاؤں بازو شانے اور جسم مبارک کو زور سے دباتا.مگر حضورا نور ہر گز آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے کہ دبانے والا شخص کون ہے مگر کبھی صاف طور پر فرماتے کہ میاں عطاء اللہ چھوڑ دیں.میں نے ہر گز حضور کو مغموم نہیں دیکھا.مغرب کے وقت حضور ایک معمولی گلاس بکری کے کچے دودھ کا نوش جان فرمایا کرتے تھے.جماعت میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور کچا دودھ نہ پیا کریں.فرمایا اکثر انبیاء علیہم السلام کچا دودھ ہی پیا کرتے تھے.کچھ عرصہ بعد جب میں محکمہ ٹیلی گراف میں ملازم تھا.تپ دق سے بیمار ہو گیا.دو ماہ رخصت حاصل کر کے قادیان چلا گیا.حضرت مولانا حکیم صاحب کے دولت خانہ میں رہتا تھا.کیونکہ انہوں نے مجھے جموں میں مشرف باسلام کیا تھا.اس روحانی تعلق کی وجہ سے بڑی محبت کے ساتھ علاج کے لئے صبح سویرے پہلے کھچڑی چاولوں کی اور بعد کو معاً ایک انڈا ابلا ہوا کھلا کر دوائی دیتے تھے

Page 192

191 اور رات کو اول دال مونگی کے ساتھ روٹی دیتے تھے.میری زبان کا ذائقہ بالکل خراب ہو گیا تھا.ایک روز میں نے محترمہ اماں جی والدہ مولوی عبد السلام سے التجا کی اماں جی ! میرے مونہہ کا ذائقہ خراب رہتا ہے.اگر کچھ شور با یا کوئی نمکین چیز ہو.تو یقینا ذائقہ درست ہو جائے گا ( انشاء اللہ ).فرمایا.مولوی صاحب ناراض ہو جائیں گے.مگر انہوں نے میرے اصرار پر ایک کپڑے سے مرچوں کو چھان کر مجھے پلا دیا.حسب دستور علی الصبح مولوی صاحب نے میری نبض دیکھی جو بڑی تیزی سے حرکت کر رہی تھی.حیران ہو کر فرمایا.رات کیا کھایا تھا ؟ میں نے کہا.کچھ نہیں.آپ درس بخاری کو چھوڑ کر دوڑے ہوئے گھر گئے.دریافت فرمایا کہ رات کو عطاء اللہ نے کیا کھایا.انہوں نے کہا.کھانے کے بعد اس نے ضد کر کے تھوڑا سا شور با پیا.اس پر حضور ان پر بھی ناراض ہوئے کہ شور با کیوں دیا اور مجھ پر بھی کہ جھوٹ کیوں بولا.حضرت مولوی صاحب نے میری دروغگو ئی اور بد پرہیزی کا حضرت صاحب سے بھی ذکر کر دیا.نیز مجھے کہا کہ حضرت صاحب کے پاس جوارش ہے اگر آپ کو کچھ دستیاب ہو جائے تو یہ کمزوری دور ہو جائے گی.میں نے جرآت کر کے حضرت سے مانگ لی.فرمایا کہ آپ بہت بد پر ہیز ہیں اس لئے آپ کو یہ دوائی نہیں مل سکتی.میں شرمندہ ہو کر مسجد سے چلا گیا.حضرت مولوی صاحب کو میری صحت کا بہت فکر رہتا تھا.بہت ادویات وغیرہ بنا کر مجھے دیں.فرمایا کہ دعائیں کریں اور دوا بھی استعمال کریں.میں بھی انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا.پھر میں حضرت مسیح موعود کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا کہ میں اب واپس جاتا ہوں.رخصت ختم ہو گئی ہے صحت خراب ہو گئی ہے دعا فرماویں.فرمایا.آپ نمازوں میں عاجزی انکساری اور اضطراب سے دعائیں کیا کریں اور خط ضرور لکھتے رہا کریں.بد پرہیزی کو چھوڑ دیں.اللہ تعالیٰ کے حضور پختہ وعدہ کریں.اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے.انشاء اللہ صحت دے گا.جب میں راولپنڈی گیا تو رات کے ڈیڑھ بجے کے قریب مجھے ایک رؤیا کسی غیر زبان میں ہوئی جس کو میں نہ سمجھ سکتا تھا.حیران ہو کر پھر اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اے اللہ ! تو سب زبانوں پر قدرت رکھتا ہے.مجھے سمجھ عطا فرما کہ یہ کیا خواب تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے رات کے اڑھائی بجے کے قریب بلند آواز سے میری زبان پر جاری کرا دیا کہ , Healthy, Healthy

Page 193

192 ,Healthy اس تین بار کی آواز نے مجھے بیدار کر دیا کہ صحت ہو گئی ہے.پس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود کی دعاؤں سے قریباً ہمیں پچیس برس تک کبھی سر درد سے بھی بیمار نہیں ہوا.اور دیگر آپ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے سامان مہیا ہو گئے کہ متواتر چھ سال کے بعد صحت یاب ہونے پر اولاد پیدا ہونی شروع ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تین لڑکے اور چار لڑکیاں عطا فرمائیں.هذا من فضل ربی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور قوت قدسی سے فیضان روحانیت، تقویٰ، طہارت اور نور ایمان میں ترقی ہوئی اور نور یقین میں اضافہ ہوا.ریلوے اسٹیشن راولپنڈی سے میری تبدیلی در گئی ہو گئی.درگئی غیر علاقہ کے پاس ریلوے اسٹیشن ہے.وہاں میری تبدیلی اس لئے کی گئی کہ پٹھان لوگ نومسلم ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ برا سلوک نہیں کریں گے.خطرناک علاقہ ہونے کی وجہ سے تنخواہ بھی دگنی تھی.مگر گھر کے سب لوگوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا.میں دو روز کی رخصت لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور بیمار تھے مگر اس کے باوجود بڑے کمرے میں ٹہل کر کچھ لکھ بھی رہے تھے.میرا رقعہ پہنچنے پر حضور نے ایک بڑھیا کے ذریعہ مجھے اندر بلوا بھیجا.دیکھتے ہی محبت سے فرمایا کہ کھانا کھا لیا ہے؟ اور گھر میں خیریت ہے؟ میں نے عرض کیا.حضور میرے لئے دعا فرما دیں میری تبدیلی در گئی ہوگئی ہے اور درگئی غیر علاقہ کے متصل ہے جہاں آج کل لڑائی ہو رہی ہے.میں وہاں پر جانا نہیں چاہتا.حضور نے فرمایا.آپ چلے جائیں.اللہ تعالیٰ رحم کرے گا.گورنمنٹ جہاں حکم دے انکار نہ کیا کریں.اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے.مگر میں نے دوبارہ عرض کیا کہ میرے گھر والے ڈر کے باعث وہاں جا کر رہنا پسند نہیں کرتے.پس آپ دعا فرمائیں.جب میں واپس راولپنڈی گیا تو ریلوے چپڑاسی دوڑتا ہوا میرے پاس آیا کہ آپ کی تبدیلی کینسل ہو گئی ہے.آپ سرائے کالا کے پاس لے کر وہاں چلے جائیں.میں حیران ہو کر سوچنے لگا کہ حضرت اقدس کی دعاؤں کا کس قدر جلدی اثر ہوتا ہے.حضور فرمایا کرتے تھے کہ اس مقدس مقام ( قادیان) پر بار بار آیا کریں اور بہت بہت عرصہ رہا کریں.اللہ تعالیٰ ہر شخص کو توفیق بخشے کیونکہ یہ ایام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی.ان ایام میں یعنی ۹۴ء میں حضور کے دو ملازم تھے.حافظ حامد علی خاں صاحب اور میاں رجب علی صاحب حافظ صاحب حضور کے پرائیویٹ کام کرتے اور میاں رجب علی صاحب لنگر خانہ میں کام

Page 194

193 کرتے تھے.ایک بوڑھی اندر گھر میں کام کرتی تھی.کھانے کی اشیاء چاول آٹا‘ دال وغیرہ کی بوریاں نیچے گول کمرہ میں پڑی رہتی تھیں.ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لودھیانہ میں ایک مسجد کے صحن میں لیکچر دینا شروع کیا.لوگوں نے پتھراؤ کیا.روڑے مارے.مسجد کی صحن کی اینٹیں اکھیڑ دیں.لوٹے تو ڑ دیئے.حضور کو پیاس محسوس ہوئی مگر پانی کہیں سے نہ ملاوہ لوگ کنوئیں کی چر کھڑی بھی اتار کر لے گئے تھے.اس مسجد کی چھت کے او پر کچھ مستورات حضور کی تقریرین رہی تھیں.ایک عورت دوڑتی ہوئی اپنے گھر گئی اور دودھ کی ہنڈیا اٹھا لائی.جلدی میں پینے والا برتن بھی نہ لا سکی اور آتے ہی کہا کہ لے بھراوا اس کو مونہہ لگا کر پی جا.حضور انور نے مونہہ لگا کر وہ دودھ پی لیا.وہ بڑھیا عورت جزاک اللہ جزاک اللہ کہتی جاتی تھی اور نیز کہتی جاتی کہ یہ خبیث لوگ تو ہمیشہ فتوے لگاتے رہے اور اپنا شکم دوزخ کی آگ سے بھرتے رہے.اولاد : شیخ عنایت اللہ شیخ عباد اللہ شیخ شریف اللہ کوثر امتہ الرشید - امة الحفیظ.امۃ النظیر.امۃ النصیر.حضرت صوفی غلام محمد صاحب ( ماریشس ) ولادت : ۱۸۸۱ء بیعت: ۱۸۹۵ء وفات: ۱۷.۱۸.اکتوبر ۱۹۴۷ء بمقام لاہور ۳۱۳.اصحاب کی فہرست میں انجام آتھم صفحہ ۱۴۹ پر مچھرالہ لا ہور کے ایک طالب علم میاں غلام محمد کا بھی ذکر ہے.یہ طالب علم بعد میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب آف ماریشس کے نام سے مشہور ہوئے.یہ پہلے مبلغ تھے.جو خلافت ثانیہ کے ابتداء میں جزیرہ ماریشس میں بھیجے گئے اور مسلسل بارہ سال تک آپ کو وہاں کام کرنے کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیش بہا کامیابیاں عطا فرمائیں.ان کے ماریشس میں کام کو دیکھ کر جماعت احمدیہ کی وہاں دھاک بیٹھ گئی.نہایت ہی خوش خلق، شیر میں بیان اور متحمل مزاج بزرگ تھے.حافظ قرآن بھی تھے.قرآن کریم ایسے دلکش لہجہ میں پڑھتے تھے کہ پرانے اصحاب کے بیان کے مطابق کسی حد تک حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.قادیان میں محلہ دارالرحمت میں رہائش تھی.ہجرت پر رتن باغ لاہور میں وفات پائی.فانالله و انا اليه راجعون.آپ ابھی بچہ ہی تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ

Page 195

194 انسپکٹر کی کفالت میں آگئے اور انہی کے خرچ پر قادیان میں تعلیم پائی.1906ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے وقف زندگی کی تحریک کی تو آپ نے بھی اپنا نام پیش کر دیا.ہجرت کے بعد لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہوئے بعد ازاں دارالہجرت ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں ان کا تابوت لے جا کر دفن کیا گیا.اولاد: آمنہ بیگم صاحبہ.ڈاکٹر احمد صاحب.صوفی محمد صاحب.محمود ناظم صاحب.حامد صاحب.نسیمہ بیگم.نعیمہ بیگم.حمید احمد صاحب حضرت منشی امام الدین صاحب ولادت: بیعت : وفات: حضرت منشی امام الدین صاحب کلرک لاہور کا نام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳.اصحاب کی اس فہرست میں لکھا ہے جو انجام آتھم میں درج ہے.حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی ولادت : ۱۸۷۵ء بیعت : ۱۸۹۶ء وفات : ۲۵ - اگست ۱۹۵۷ء عمر ۸۲ سال ۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ ” انجام آتھم میں آپ کا نام غلطی سے فضل دین“ شائع ہو گیا تھا جو کچھ عرصہ ہوا پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا تھا کہ اس کی تصحیح کر دی گئی ہے.حضرت مولوی فضل الہی صاحب بھیروی حال لاہور ایک نہایت ہی نیک فطرت اور متدین بزرگ تھے.قد چھوٹا، بھاری اور مضبوط جسم رکھتے تھے.ساری عمر تہجد کی نماز نہیں چھوڑی.خاکسار راقم الحروف نے حضرت مولوی صاحب کو مدتوں دیکھا مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا ذریعہ معاش کیا تھا.نہایت ہی متوکل بزرگ تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کا پیشہ تبلیغ ہی ہے.خاکسار کے خسر حضرت شیخ عبد الرب صاحب نو مسلم مرحوم نے چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ایک لمبا زمانہ لائل پور میں محترم جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب مرحوم غیر مبائع کی ملازمت میں گذارا.اور اس کا انہیں علم تھا اس لئے ایک مرتبہ فرمایا کہ پنجاب کے مشہور صنعت کار محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب لائل پوری کی بیعت کا ذریعہ

Page 196

195 بھی خدا تعالیٰ نے مجھے ہی بنایا تھا مگر افسوس کہ خلافت ثانیہ کی ابتداء میں وہ غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.آج اتفاق سے خاکسار غیر مبائعین کی مرتبہ کتاب 'یاد رفتگان مطالعہ کر رہا تھا.اس میں محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب کے حالات کے ضمن میں ان کا بھی ذکر آ گیا جو درج ذیل ہے: "آپ ( یعنی محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب مرحوم.ناقل ) کے چھوٹے بھائی الحاج میاں محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں ہماری کپاس لا ہور اور قصور جایا کرتی تھی اور بڑے بھائی صاحب کپاس کے بھگتان کے لئے اکثر لاہور میں رہا کرتے تھے.ان دنوں آپ اکثر پرانی انارکلی کی ایک مسجد میں نمازیں پڑھنے کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.وہاں پر آپ نے مولوی فضل الہی صاحب کو نماز پڑھتے دیکھا جو کہ احمدی تھے.آپ خود بھی حد درجہ عبادت گزار تھے مگر آپ نے جب مولوی صاحب کی نمازوں کا رنگ اور سوز واستغراق دیکھا تو حد درجہ متاثر ہوئے اور ان سے راہ رسم پیدا کر لی.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ آپ کو حضرت مجد دوقت کے پیغام کا تفصیلی طور پر علم ہوا اور آپ کو یقین ہو گیا کہ فی زمانہ اعلائے کلمہ حق اور اسلام کی خدمت کیلئے تحریک احمدیت میں شمولیت ضروری ہے.چنانچہ آپ معہ برادران حضرت مجدد وقت کے دست حق پرست پر بیعت کر کے تحریک احمدیت میں شامل ہو گئے.۲۶ آپ کے فرزند محترم مولوی عطاء الرحمن صاحب چغتائی مولوی فاضل کا بیان ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے لاہور اور نینٹل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرگودھا میں ٹھیکیداری کا کام شروع کیا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کو نمایاں کامیابی ہوئی تھی.انہوں نے اپنے مکان کے ساتھ مسجد احمدیہ بنوائی کیونکہ آپ نماز باجماعت پڑھنے کے عادی تھے.سرگودھا اور اس کے اردگرد چکوں میں آپ نے جماعتیں قائم کیں اور سلسلہ کی بہت خدمت کی.سرگودھا میں قیام کے دوران آپ نے حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری رضی اللہ عنہ کی شادی کا بندوبست کیا اور نکاح خود پڑھا.شادی کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ان کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے نام ( جو ان دنوں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے ) خط لکھ کر دیا کہ مولوی بقا پوری صاحب کو جماعت احمدیہ کا مبلغ مقرر کرا دیں کیونکہ مولوی صاحب بہت قابل عالم ہیں.

Page 197

196 چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے وہ خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے ان کا تقرر بطور مبلغ جماعت احمدیہ کر دیا اور راولپنڈی بھیج دیا کیونکہ ان دنوں وہاں غیر مبائعین کا زور تھا.حضرت مولوی فضل الہی صاحب ۲۵ برس سرگودھا میں قیام کرنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے قادیان ہجرت کر گئے اور تقسیم ملک تک وہاں ہی رہے.قادیان میں سب سے پہلے عمارتی لکڑی کی دوکان کھولی اور قادیان میں اپنے دوستوں کے متعدد مکانات اپنی زیر نگرانی تعمیر کروا کر دیئے دوست باہر سے روپیہ بھیج دیتے مولوی صاحب اپنی زیر نگرانی مکان تعمیر کروا دیتے اور کسی شخص کو یہ شکایت نہیں ہوئی کہ مکان اچھا نہیں بنایا مہنگا بنا ہے بلکہ ان کی دیانتداری کے لوگ مداح تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق عطا فرمائی کہ ان کی زیر نگرانی قادیان میں قصر خلافت تعمیر ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا کی بناء پر حضرت مولوی صاحب موصوف کے سپر دقصر خلافت کی تعمیر کا کام کیا تھا.ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ان کے والد میاں کرم دین صاحب خاندان مغلیہ میں سے تھے اور ۱۸۵۷ء کے غدر میں دتی چھوڑ کر پنجاب آگئے تھے اور پھر احمد آباد میں جو کہ دریائے جہلم کے کنارے ایک گاؤں ہے آباد ہو گئے اور بقیہ عمر یاد الہی میں گزاری.یہیں شادی کی اور ان کے ہاں ایک ہی لڑکا ہوا.جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ میں شامل ہونے کا فخر عطا فرمایا.ہر سال یکم محرم کو حضرت مولوی صاحب کے والد مرحوم کا عرس ہوتا ہے اور اردگرد کے دیہات کے لوگ اپنے عقیدے کے مطابق ان کے مزار پر جمع ہو کر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں.اولاد:ا.حمیدہ بیگم اہلیہ مولوی غلام احمد صاحب ارشد ۲ - فضل الرحمن صاحب ۳ - امتہ الحفیظ بیگم بیوه ملک غلام رسول صاحب ۴.عطاء الرحمن مولوی فاضل جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ ماڈل ٹاؤن لا ہور ۵.امتہ المجید ز وجہ ملک محمد حیات صاحب ۶ - برکات الرحمن نسیم حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ولادت : ۲۴ جون ۱۸۷۶ء بیعت : ۱۸۹۶ ء وفات : ۹.اگست ۱۹۶۵ء حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب کو حضرت مولانا غلام حسین صاحب پشاورٹی نے حضرت مسیح موعود

Page 198

197 علیہ السلام کی کتاب ” ازالہ اوہام مطالعہ کیلئے دی جسے پڑھ کر آپ کے سارے شکوک رفع ہو گئے.اور آپ نے ۱۸۹۶ء میں احمدیت قبول کر لی.قبول احمدیت کے اگلے سال ہجرت کر کے قادیان پہنچ گئے.وہاں پر آپ کافی عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر رہے.چنانچہ آپ ان خوش قسمت اسا تذہ میں سے ہیں جنہیں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کوسکول میں پڑھانے کا شرف حاصل ہوا.ایک عرصہ تک آپ نے قادیان میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز “ کے مینجر کے طور پر بھی کام کیا.صدرانجمن میں نائب محاسب اور سپر نٹنڈنٹ دفاتر کے طور پر بھی خدمت کرنے کا موقع ملا مگر خلافت ثانیہ کی ابتداء میں جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر کی دوستی کے باعث ان کے ساتھ مل گئے.لیکن ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مصلح موعود ہونے کا اعلان پڑھ کر پھر توجہ کی اور ۱۰.مارچ ۱۹۴۴ ء کو خلافت ثانیہ کے ساتھ منسلک ہو گئے.ربوہ میں کئی سال تک افسر امانت تحریک جدید کے فرائض سرانجام دیئے.ریٹائر ہونے کے بعد چند سال لاہور میں گزارے اور ۹.اگست ۱۹۶۵ء کو ساڑھے گیارہ بجے قبل دو پہر ۹۰ سال کی عمر میں لاہور ہی میں وفات پائی.فانا للہ و انا اليه راجعون - ای روزرات کے ساڑھے آٹھ بجے جنازہ ربوہ لے جایا گیا اور گیارہ بجے کے قریب بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص صحابہ میں دفن گئے گئے.بہت متقی پرہیز گار اور خدا ترس بزرگ تھے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ کے ایام میں اپنی تقریر سے قبل حضرت ماسٹر صاحب سے قرآن کریم کی تلاوت کر وایا کرتے تھے.اولاد : ۶ بیٹے ۵ بیٹیاں اور کثیر التعداد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں آپ کی یاد گار ہیں.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے ولادت :۱۸۹۲ء بیعت: پیدائشی وفات: ۷.دسمبر ۹۵۵اء عمر :۶۳ سال حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بچپن کے دوستوں میں سے تھے.لاہور میں جب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی امارت کے ابتدائی زمانہ میں احمد یہ ہوسٹل کی بنیاد پڑی تو ان ایام میں آپ ایم.اے عربی کرنے کیلئے

Page 199

198 لا ہور تشریف لے آئے اور احمد یہ ہوٹل کے سپرنٹنڈنٹ کی خدمات بھی بجالاتے رہے.اس زمانہ میں آپ کا نام رحیم بخش تھا جسے بعد ازاں کسی موقعہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تبدیل کر کے ”عبدالرحیم، مقرر فرما دیا تھا.حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۲۴ ء تک حضرت اقدس کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر بھی کام کیا.۱۹۲۴ ء میں جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ویمبلے کا نفرنس میں شرکت اور مسجد احمد یہ لندن کا سنگ بنیا درکھنے کیلئے لندن تشریف لے گئے تو جو بارہ حواری حضور کے ساتھ تھے.ان میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد بھی تھے.لندن سے واپسی پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سابق مبلغ انچارج حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کو اپنے ساتھ قادیان لے آئے اور ان کی جگہ مشن کا انچارج حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو مقرر فرمایا اور ان کے نائب محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے مقرر ہوئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے تقرر کے ساتھ ہی رسالہ ریویو آف ریلیجنز “ جو پہلے قادیان سے شائع ہوتا تھا، لنڈن سے نکلنے لگا.ایک ہفتہ وار اخبار مسلم ٹائمز“ بھی آپ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا.آپ نے اپنے زمانہ قیام میں مسجد کی تعمیر کی طرف خاص توجہ فرمائی جس کے نتیجہ میں ۱۹۲۶ ء میں مسجد خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوگئی.چنانچہ ۳.اکتو بر ۱۹۲۶ء کو اس کا افتتاح کرنے کی سعادت خان بہادر سرشیخ عبد القادر صاحب بیرسٹر کو نصیب ہوئی.اس موقعہ پر پہلی اذان مسجد کے مینار پر محترم جناب ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نائب امام مسجد لندن نے دی.اور مسجد کے پہلے برطانوی مؤذن ہونے کا شرف ایک نومسلم بلال دانیال ہو کر نیٹل Mr.BilalDania Hawaler Nuttal کو حاصل ہوا.مسجد کے افتتاح پر انگلستان کے پریس نے بڑے بڑے آرٹیکل لکھے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سلسلہ احمدیہ کی خوب شہرت ہوئی.۱۹۲۸ ء میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد کی حیثیت سے لندن تشریف لے گئے اور در دصاحب واپس تشریف لے آئے اور صدرانجمن احمد یہ میں ناظر تعلیم و تربیت کے عہدہ پر کام کرتے رہے.۲.فروری ۱۹۳۳ء کو آپ دوبارہ لنڈن بھیجے گئے.آپ کے زمانہ میں امام مسجد لندن کی شخصیت یورپ میں نہ صرف مذہب کے طور پر اسلام کی نمائندہ مجھی جاتی تھی بلکہ اسلامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتی تھی.ہندوستان اور انگلستان کے

Page 200

199 لیڈر خاص خاص مواقع پر مسجد احمد یہ لندن میں تشریف لا کر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے.چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناح جب گول میز کانفرنس کے بعد ہندوستان کے ہندو لیڈروں کی روش سے بیزار ہو کر لندن میں ہی مستقل طور پر قیام کا فیصلہ کر چکے تھے تو حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم مولانا در دصاحب کو لکھا کہ میری طرف سے مسٹر محمد علی صاحب جناح کو سمجھائیں کہ موجودہ حالات میں آپ جیسے درد دل رکھنے والے لیڈر کا ہندوستان کے مسلمانوں کو چھوڑ کر لندن جا کر بیٹھ رہنا مناسب نہیں.آپ کو بہت جلد ہندوستان واپس پہنچ کر مسلمانانِ ہند کی سیاسی وو قیادت سنبھالنی چاہیئے اس اہم واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولا نا در دفرماتے ہیں کہ: یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائد اعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اور اس طرح بالآخر ۱۹۴۷ء میں..پاکستان وجود میں آیا.جب میں ۱۹۳۳ ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائد اعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے.وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا.مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی.میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی.چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمد یہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں با قاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس کے بعد قائد اعظم انگلستان کو خیر باد کہہ کر ہندوستان واپس آئے.مسلم لیگ کو منظم کیا اور اس طرح چند سال کی جدو جہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آ گیا.‘۲۷ اس قسم کی عظیم الشان خدمات بجا لا کر حضرت مولانا درد صاحب حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو چارج دے کر ۹.نومبر ۱۹۳۵ء کو واپس قادیان پہنچ گئے.مولانا در دصاحب کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس امر کا خاص ملکہ حاصل تھا کہ آپ اپنے نظریات کو

Page 201

200 بڑے بڑے لوگوں کے سامنے پیش کر کے انہیں اپنا ہمنوا بنا لیتے تھے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوران میں آپ نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں بحیثیت سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.۱۹۴۱ء سے لیکر ۱۹۴۳ء تک آپ نے دوبارہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور پھر بعد ازاں وفات تک کسی نہ کسی نظارت کے انچارج رہے.آپ نے میکلوڈ روڈ لاہور میں اپنی رہائش کے لئے مکان الاٹ کر وایا تھا.چنانچہ آپ کے بچے یہیں رہائش پذیر ہیں.مرحوم خاکسار کے ساتھ بہت ہی محبت سے پیش آیا کرتے تھے.مرحوم کے والد بزرگوار حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب لدھیانوی بھی حضرت اقدس کے صحابی تھے.آپ کی وفات ۷.دسمبر ۱۹۵۵ء کو ۶۳ سال کی عمر میں ربوہ میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوۓ_فانا لله وانا اليه راجعون.اولاد: عطیہ.رضیہ.لطف الرحمن مرحوم ختم النساء - مجیب الرحمن.نعیم الرحمن.صفیہ.نعیمہ.عطاء الرحمن درد - حبیب الرحمن درد عیسی درد.ہاجرہ درد.قانتہ درد.صالحہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا ولادت : ۱۸۹۳ء بیعت: پیدائشی احمدی وفات : ۱۳.اگست ۱۹۵۹ء عمر : ۶۵ سال حضرت مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا حضرت بابا حسن محمد صاحب واعظ موصی نمبرا کے صاحبزادے تھے.آپ کی پیدائش پر ابھی بمشکل دو سال ہی گزرے تھے کہ آپ کے والد محترم احمدیت میں داخل ہو گئے.اس لحاظ سے آپ کا بچپن بھی احمدیت ہی میں گذرا اور پھر خاص طور پر قادیان میں کیونکہ آپ کے والد ماجد اپنے گاؤں اوجلہ ضلع گورداسپور سے ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان میں آگئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک وقف زندگی میں اپنا نام پیش کر دیا تھا.حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی آپ کے چا تھے.آپ نے قادیان میں مولوی فاضل پاس کیا اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں مدرس مقرر ہو گئے.۱۹۲۵ء میں جب حضرت اقدس خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے انڈونیشیا میں مبلغ بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو حضور کی نظر انتخاب حضرت مولوی رحمت علی صاحب پر پڑی.حضرت مولوی صاحب

Page 202

201 موصوف ۱۷.اگست ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ستمبر ۱۹۲۵ء میں سماٹرا پہنچ گئے.شروع شروع میں آپ نے کوئی باقاعدہ مشن قائم کئے بغیر دو تین جماعتیں قائم کیں مگر مئی ۱۹۲۸ء میں ایک کرایہ کا مکان لے کر باقاعدہ مشن ہاؤس قائم کیا.چار سال کام کرنے کے بعد حضرت اقدس کی ہدایت کے ماتحت آپ کچھ عرصہ کے لئے واپس قادیان پہنچے.۱۹.اکتوبر ۱۹۲۹ء کو آپ واپس تشریف لائے اور پھر حضور کے حکم سے ۶.نومبر ۱۹۳۰ء کو دوبارہ عازم سماٹرا ہو گئے.اس مرتبہ محترم جناب مولوی محمد صادق صاحب کنجاہی آپ کے ساتھ تھے.حضرت اقدس کی ہدایات کے ماتحت کچھ عرصہ آپ مولوی صاحب موصوف کے ہمراہ سماٹرا میں رہے اور پھر انہیں سماٹرا چھوڑ کر آپ عازم جاوا ہو گئے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نمایاں کامیابی عطا فرمائی.اسی اثناء میں ۸.مارچ ۱۹۳۲ء کو جاپانیوں نے جزائر شرق الہند پر قبضہ کر لیا اور مشکلات اور تکالیف کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا تمام سیاسی اور مذہبی تنظیمیں حکماً بند کر دی گئیں.اس زمانہ میں حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے کئی ایک کتابوں کا انڈونیشین زبان میں ترجمہ کیا.۱۹۳۵ء میں جب جاپانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ان کتابوں کا ترجمہ شائع کر دیا گیا.نومبر ۱۹۴۹ء میں انڈونیشیا کی جماعتوں کی از سرنو تنظیم کرنے کے لئے حضرت مولوی رحمت علی صاحب کی صدارت میں تمام مبلغین کا پہلا اجتماع منعقد ہوا.جس کے نتیجہ میں جماعت کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی اور جب قواعد بن گئے.تو ان کے مطابق ۹.۱۰.۱ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جماعت ہائے انڈونیشیا کی پہلی سالانہ کانفرنس ” جا کر تیہ میں منعقد ہوئی جس کا سلسلہ (ایک سال کے وقفہ کے ساتھ ) اب تک جاری ہے.اس طرح حضرت مولوی رحمت علی صاحب ایک لمبے عرصہ کے تبلیغی جہاد کے بعد ۳۰.اپریل ۱۹۵۰ء کو واپس تشریف لائے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت مولوی رحمت علی صاحب بہت ہی سادہ مزاج بزرگ تھے.خاکسار راقم الحروف نے ایک مرتبہ ان سے دریافت کیا کہ آپ راہ و رسم پیدا کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرتے تھے.فرمانے لگے.جو شخص مجھے آگے سے آتا ہوا ملتا میں اسے کہتا’ السلام علیکم ورحمتہ اللہ " وہ جواب میں کہتا ”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ میں دریافت کرتا کہ آپ خوش ہیں“ وہ کہتا ”ہاں میں خوش ہوں، میں کہتا کس قدر خوش اس پر وہ ہنس پڑتا اور میری اس کے ساتھ دوستی قائم ہو جاتی.

Page 203

202 بعض سفروں میں مجھے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا ہے.جب ہم کسی مقام پر پہنچتے تو آپ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی دوستی پیدا کرنے کی کوشش کرتے.چنانچہ جب کوئی بچہ ملتا تو آپ اس سے دریافت کرتے کہ میاں! تم کس کلاس میں پڑھتے ہو؟ وہ مثلاً کہتا دوسری میں، تو آپ تعجب سے فرماتے اوے ! تم تو مجھے سے بھی زیادہ پڑھ گئے ہو! اس طرح بچے کا حوصلہ بڑھ جاتا اور وہ خوش ہو کر آپ سے باتیں شروع کر دیتا.لاہور میں ڈیوس روڈ پر آپ نے اپنی رہائش کے لئے ایک کوٹھی الاٹ کروائی ہوئی تھی.اس لئے کبھی یہاں رہتے اور کبھی مرکز میں خدمات سلسلہ بجالانے کے لئے چلے جاتے.آخری سال آپ بیمار ہو کر کئی ماہ میو ہسپتال میں زیر علاج رہے اور ۱۳.اگست ۱۹۵۹ ء کو ۶۵ سال کی عمر میں انتقال فرمایا.انسا لله و انا اليه راجعون.آپ کا مزار بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے.اولاد رحمت النساء - عطاء اللہ.لطف المنان حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب ولادت : ۳۰ مئی ۱۸۸۲ء بیعت : ۵.مارچ ۱۸۹۷ء حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب ریٹائر ڈائی.اے سی ۳۰.مئی ۱۸۸۲ء کو بمقام لاہور پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد کا نام حضرت میاں سراج دین صاحب تھا.جو حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کے بڑے بھائی تھے.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ مارچ ۱۸۹۷ء کے اوائل میں مڈل کا امتحان دے کر آپ اپنے چا حضرت میاں معراج دین صاحب عمرؓ کے ساتھ قادیان تشریف لے گئے تھے.اس وقت آپ کی عمر ۱۵ سال تھی.انہی ایام میں آپ نے پنڈت لیکھرام کے قتل سے ایک روز پہلے یعنی ۵.مارچ ۱۸۹۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.بچپن میں آپ کی رہائش اپنے والد ماجد اور دیگر افراد خاندان کے ساتھ لنگے منڈی کو چہ سیٹھاں میں تھی.ابتدائی تعلیم آپ نے حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب امام مسجد اور حضرت مولوی فضل الہی صاحب سے حاصل کی.حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب اس مسجد کے امام تھے.جو آپ کے مکان کے

Page 204

203 سامنے تھی اور مولوی فضل الہی صاحب اس مسجد کے امام تھے جو بازار لنگے منڈی کی بڑی مسجد کہلاتی ہے.ان بزرگوں سے آپ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی حاصل کی اور پھر اسلامیہ سکول کی چوتھی جماعت میں داخلہ لیا.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ ان ایام میں دودھ دہی اور مٹھائی وغیرہ کی دوکانیں عموماً ہندوؤں ہی کی ہوا کرتی تھیں.مگر جب لیکھرام کے قتل کے بعد بعض ہندو دکانداروں نے مسلمان بچوں کو مٹھائی میں زہر ملا کر دی تو مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنی دکانیں کھولنا شروع کر دیں.آپ نے ۱۹۶۳ء کے جلسہ سالانہ ربوہ میں جو تقریر ” ذکر حبیب“ کے موضوع پر فرمائی.اس میں فرمایا کہ پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد ” ہماری جماعت کے احباب کشی بازار والی مسجد میں (جو ان ایام میں جماعت احمدیہ کے پاس ہوا کرتی تھی.مؤلف ) حضرت اقدس کی پیشگوئی دربارہ پنڈت لیکھرام کے پوری ہو جانے پر تقریریں کیا کرتے تھے.میں اکثر قادیان جایا کرتا تھا اور عید کے دن تو لاہور کے اکثر احباب قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ کبھی کبھی ہوتا تھا اور ہم لوگ حضور کے خطبہ سے مستفیض ہوا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گرمی کے موسم میں نماز مغرب کے بعد پرانی مسجد مبارک کی چھت پر اس کی غربی جانب کی سہ نشین پر رونق افروز ہوتے اور حضور کے دائیں جانب حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب اور بائیں جانب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہوا کرتے تھے.اس زمانہ میں حضور کھانا بھی اپنے مہمانوں کے ساتھ ہی تناول فرمایا کرتے تھے.اگر کسی مہمان کے پاس سالن کم ہو جاتا تو حضور اپنے سامنے سے سالن کا زائد پیالہ اس کے سامنے بڑھا دیتے تھے.حضور کھانا تو تھوڑا ہی کھاتے تھے.روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے شوربے کے ساتھ لگا لگا کر کھاتے تھے.مسجد کی چھت پر جانے کے لئے لکڑی کے تختوں کی سیڑھی ہوتی تھی اور پیرانہ سالی کے باوجود اس کے دائیں بائیں بازو سے سہارا لئے بغیر ایک پہلوان کی طرح سیدھے اوپر چڑھتے تھے.اس وقت حضور کے پاس گرم چادر یا ڈھہ ہوتا تھا جوحضور سہ نشین پر بیٹھنے سے پہلے اپنے نیچے رکھ لیتے

Page 205

204 تھے.ظہر کی اذان کے بعد حضور جلد ہی مسجد مبارک میں تشریف لے آتے اور احباب جماعت کے ساتھ بیٹھ کر دینی گفتگو شروع فرما دیتے.حضور کے پاس بیٹھنے والوں کو حضور کی طرف سے ایک اعلی قسم کی بھینی خوشبو آتی تھی جو عام خوشبوؤں سے نرالی اور عجیب ہوتی تھی.۲۸ ۱۹۰۲ء کے اوائل میں ایک عیسائی نوجوان عبدالحق نامی قادیان آ گئے.وہ لاہور کے مشن کالج میں بی.اے کے طالب علم تھے.انہوں نے چند روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مذہبی سوالات کئے اور تشفی ہو جانے کے بعد اسلام قبول کر کے حضور کے دست مبارک پر بیعت کر لی.وہ قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ٹیچر مقرر ہو گئے.کچھ عرصہ بعد حضور نے ان کو پچاس روپے اپنی جیب سے دے کر فرمایا کہ ماسٹر صاحب! آپ لاہور جا کر کرتا ہیں خرید لائیں اور بی.اے کے امتحان کی پرائیویٹ تیاری کر لیں کیونکہ مجھے یہ خیال آ رہا ہے کہ پادری لوگوں کو شماتت کا موقعہ نہ ملے اور وہ یہ نہ کہیں کہ مسلمان ہو جانے کی وجہ سے آپ کی ترقی رک گئی ہے.چنانچہ ماسٹر صاحب نے لاہور جا کر کتا ہیں خرید لیں اور بی.اے کی تیاری شروع کر دی.اس کے بعد امتحان کے قریب آ جانے پر وہ لاہور میں میرے پاس آگئے.کیونکہ وہ مشن کالج میں میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے اور ان کے احمدی ہو جانے کے بعد مجھے ان سے محبت ہو گئی تھی.جب وہ بی.اے کا امتحان دے کر واپس قادیان گئے تو میں ان کے ساتھ گیا.جب ماسٹر صاحب نے حضور سے مصافحہ کیا تو حضور نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پرچے کیسے ہوئے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ حضور پرچے تو معمولی ہی ہوئے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ کی کامیابی کے لئے بہت دعا کی ہے.قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی کامیابی کی بشارت بھی مل جائے.مجھے پادریوں کی شماتت کا بڑا خیال ہے.یہ سن کر ہم دونوں مسجد سے باہر آ گئے اور میں نے ماسٹر صاحب کو کہہ دیا کہ آپ انشاء اللہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے.اس کے بعد ماسٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ حضور نے میری کامیابی کی بشارت بھی مجھے دے دی تھی.چنانچہ کا میاب ہونے کے بعد بھی ماسٹر صاحب عرصہ تک تعلیم السلام ہائی سکول میں بطور ٹیچر کے ملازم

Page 206

205 وو رہے.اب وہ وفات پاچکے ہیں.انا لله و انا اليه راجعون.۲۹ ۱۹۰۳ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی کرم دین والے مقدمہ کے لئے اکثر گورداسپور تشریف لے جایا کرتے تھے.بتاریخ ۱۹.اگست اس مقدمہ کی پیشی تھی.میں بھی اس دن گورداسپور چلا گیا اور مجھے بھی عدالت میں حاضری کا موقعہ مل گیا.حضور شیخ علی احمد صاحب پلیڈر کی کوٹھی میں قیام فرما تھے.میں نے دیکھا کہ حضور کوٹھی میں ہی رہے.اور احباب جماعت کچہری کے احاطہ میں جا بیٹھے تھے.لیکن حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب حضور ہی کے پاس کوٹھی میں پیچھے رہے تھے مجھے خیال آیا کہ واپس جا کر دیکھوں کہ وہ دونوں بزرگ کیوں نہیں پہنچے.جب میں کوٹھی میں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور غنودگی کی سی حالت میں الہامات لکھوا رہے ہیں اور حضرت مفتی صاحب لکھ رہے ہیں.حضور نے میرے سامنے ایک یہ الہام سنایا کہ یسئلونک عن شانک قل الله ثم ذرهم في خوضهم يلعبون یعنی تیری شان اور مرتبے کے بارے میں پوچھیں گے تو کہہ کہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے.پھر ان کو اپنی لہو و لعب میں چھوڑ دے.یہ الہام سن کر میں واپس کچہری میں چلا آیا اور کسی کو میرے آنے جانے کی خبر نہ ہوئی.اُسی دن جب حضور عدالت میں تشریف لائے تو مجسٹریٹ نے حضور سے آپ کی شان اور مرتبہ کے متعلق دریافت کیا اور سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور مرتبہ ایسا ہے جیسا کہ آپ کی کتاب تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۰ میں لکھا ہے تو حضور نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے میرا یہی مرتبہ ہے.اسی نے یہ مرتبہ عطا کیا ہے.تب وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کے وقت ہوا تھا وہ اسی دن عصر کے وقت پورا ہو گیا اور جماعت کے احباب میں ایمان کی زیادتی کا موجب ہوا.۱۹۰۵ء میں میں نے بی.اے کا امتحان پاس کر لیا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ملازم ہو گیا.ایک دن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بذریعہ عریضہ دریافت کیا کہ میں مزید تعلیم کے لئے ولایت جانا چاہتا ہوں.حضور اپنے مشورہ سے مشرف فرمائیں.حضور نے جواباً تحریر فرمایا کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے مشورہ کر لیں اور استخارہ

Page 207

206 بھی کر لیں.پھر جس طرح طبیعت مائل ہوا سے اختیار کر لیں.اس کے چند منٹ بعد حضور مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں تشریف لے آئے.یہ وہی کمرہ ہے جس میں سرخ سیا ہی کے قطرات حضور کی قمیض پر گرنے والا کشف ہوا تھا.حسن اتفاق سے میں بھی اس وقت اس کمرہ میں موجود تھا.پہلے تو حضور نے مولوی محمد علی صاحب سے چند ضروری باتیں فرمائیں.پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ کس غرض سے ولایت جانا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں نے بی.اے پاس کر لیا ہے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا چاہتا ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ میں کسی نوجوان کا وہاں جانا پسند نہیں کرتا.کیونکہ وہاں دہریت پھیلی ہوئی ہے اور مذہب کو لوگ ایک سوسائٹی سمجھتے ہیں اور اگر کوئی خدا کا نام لے تو لوگ اس پر ہنسی کرتے ہیں اور جیسا کہ آج کل یہاں زلزلے آ رہے ہیں اگر وہاں زلزلہ آ جائے تو شہر کے تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے کیونکہ شہر نیچے سے کھوکھلا ہے.شہر کے نیچے پانی کی بجلی کی، پاخانے کی اور ریلوں کی نالیاں ہیں.یہ سن کر میں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ کر عرض کیا کہ حضور میری توبہ میں کبھی ولایت جانے کا نام نہیں لوں گا.پھر حضور کمرہ سے باہر تشریف لے گئے.یاد رہے کہ حضور کا یہ مشورہ صرف میرے لئے ہی تھا.کیونکہ ان ایام میں ہندوستان سے باہر ہماری کوئی مسجد نہیں تھی اور مشن کا کوئی مرکز یورپ میں اس وقت موجود نہیں تھا کہ جہاں جا کر نو جوان علم دین حاصل کر سکیں اور اس طرح دہریت کی فضا سے محفوظ رہ سکیں.مجھے حضور کے اس مشورہ سے بہت فائدہ ہوا کیونکہ میں نے حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کی دعا اور ارشاد کے ماتحت کوشش کر کے ای.اے.سی کا عہدہ حاصل کر لیا اور آخر کار پنشن لے کر قادیان میں ہجرت کر لی.۳۰ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ آج کل حضرت ڈپٹی صاحب نے محلہ دارالصدر ربوہ میں اپنی کوٹھی بنوا کر اس میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے.۱۹۰۶ ء کا ذکر ہے کہ ایک دن میں قادیان ہائی سکول میں بیٹھا ہوا تھا تو مجھے کسی لڑکے نے ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول وہاں ہوا کرتا تھا جہاں اب مدرسہ احمدیہ ہے.(مؤلف)

Page 208

207 آ کر بتایا.خواجہ کمال الدین صاحب آگئے ہیں اور سید ھے مسجد مبارک چلے گئے ہیں.یہ خیال کر کے کہ شاید خواجہ صاحب سلسلے کے متعلق کوئی خبر لائے ہوں میں بھی مسجد مبارک چلا گیا میں نے دیکھا کہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب دونوں کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں میں بھی ان کے پاس جا کھڑا ہوا.اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں تشریف لے آئے اور السلام علیکم اور مصافحہ کے بعد خواجہ صاحب سے حضور نے فرمایا کہ میں نے آپ کے متعلق ایک خواب دیکھا ہے اور میں نے مولوی صاحب سے کہا تھا کہ خواجہ صاحب کو تار دے کر بلا لیں اور وہ خواب یہ ہے کہ آپ گندے پانی کی نہر کے کنارے پر کھڑے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کاموں میں دنیا کی ملونی ہوتی ہے.اس سے آپ کو پر ہیز کرنا چاہئیے.اس موضوع پر حضور نے خواجہ صاحب کو کچھ نصیحتیں بھی کیں اور پھر مکان میں واپس تشریف لے گئے.اسے "رسالہ ” الوصیت شائع ہونے کے بعد ۱۹۰۶ء میں ایک دن لاہور سے آئے ہوئے مستری محمد موسیٰ صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بہشتی مقبرہ کا ایک نقشہ تیار کر دیں.جس میں قبروں اور راستوں کے نشانات دکھائے جائیں.جس وقت مستری صاحب نے وہ نقشہ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا.اس وقت میں بھی حاضر تھا.حضور نے وہ نقشہ پسند فرمایا.اس پر مستری صاحب نے نقشہ میں ایک قبر پر انگلی رکھ کر عرض کیا کہ حضور یہ قبر میرے لئے مخصوص کر دی جائے.حضور نے فرمایا کہ کوئی قبر کسی کے لئے مخصوص نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ماتدري نفس بای ارض تموت یعنی کسی کو معلوم نہیں یعنی اس نے کس زمین میں مرنا ہے.مستری صاحب خاموش ہو گئے.اس کے قریب دو سال بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پاگئے تو حضرت مستری صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ وہی قبر ہے جو میں نے اپنے لئے چاہی تھی.لیکن اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسد اطہر اس میں دفن کیا گیا ہے.دراصل یہ وہ قبر تھی جو حضور کو کشف میں چاندی کی طرح چمکتی دکھائی گئی تھی جس کا ذکر

Page 209

208 حضور نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے.۳۲ میں 1906ء میں قانون کا پہلا امتحان یعنی ایف.ای.ایل(F.E.L) دے کر اس کے نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا.مئی یا جون میں مجھے لاہور سے یہ اطلاع آئی کہ میں قانونی امتحان میں کامیاب نہیں ہوا.کیونکہ ایک آریہ ممتحن چونی لال بیرسٹر نے تمام مسلمان امیدواروں کو فیل کر دیا ہے اور ایک مسلمان بھی کامیاب نہیں ہوا.اس اطلاع کے بعد جب میں ظہر کی نماز کے لئے مسجد مبارک میں گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما تھے حضور اذان کے بعد جلد ہی مسجد میں تشریف لے آیا کرتے تھے اور میں بھی مسجد میں جا کر حضور کے قریب پہلی صف میں بیٹھ جایا کرتا تھا.لیکن اس دن جب میرے فیل ہونے کی اطلاع آئی تو میں شرمندگی کی وجہ سے پچھلی صف میں سنتیں ادا کر کے بیٹھ گیا.حضور نے مجھے اپنے قریب بلا لیا اور مجھ سے نتیجہ امتحان کے متعلق دریافت کیا.میں نے لاہور سے آئی ہوئی اطلاع عرض کر دی.تب حضور نے فرمایا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں اور آئندہ سال پھر امتحان دے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا کامیاب کر دے گا.دیکھو قادیان میں جتنے آریہ لوگ ہمارے سخت دشمن تھے وہ سب تباہ ہو گئے (الفاظ میں حضور کا اشارہ اس تصنیف کی طرف بھی تھا جو قادیان کے آریہ اور ہم کے نام سے شائع فرما چکے تھے ) اور حضور نے فرمایا کہ آریوں کو اللہ تعالیٰ ختم کر دے گا.( یا شاید نابود فرمایا ) چونکہ حضور نے مجھے آئندہ سال امتحان میں کامیاب ہونے کی بشارت دے دی.اس لئے میں نے تعلیم الاسلام سکول قادیان میں پھر ملازمت کر لی تھی اور امتحان کی تیاری کی طرف توجہ نہیں کر سکا.امتحان سے تین ماہ پہلے لاہور جا کر تیاری شروع کی جسے مکمل تیاری نہیں کہہ سکتے مگر میں بفضلہ تعالیٰ کا میاب ہو گیا اور اس کامیابی کی اطلاع مجھے لاہور میں اس دن اور اس وقت ملی جب کہ حضرت اقدس وفات پا چکے تھے اور میں خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے مکان سے باہر دوسرے احباب جماعت کے ساتھ کھڑا افسوس کر رہا تھا“.حضور کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں لاہور سے اپنے تایا صاحب مرحوم میاں چراغ دین صاحب کے ساتھ قادیان گیا تھا.دو پہر کے قریب جب حضور کو تا یا صاحب کے

Page 210

209 آنے کی خبر ملی تو حضور نے ہمیں اپنے مکان کی پچھلی جانب بالا خانہ میں بلالیا اور میں بھی ان کے ساتھ گیا.حضور نے اندر سے ٹھنڈا شربت منگوا کر ہمیں پلایا اور کچھ گفتگو کے بعد فرمایا کہ جلدی جلدی آنا چاہئیے.اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے.چنانچہ اس کے بعد ہمیں قادیان میں حضور کے ساتھ بیٹھنے کا موقع نہیں ملا اور جلد ہی حضور وفات پا گئے“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات سے ایک دن پہلے لاہور میں جب نماز عصر کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں تشریف لائے تو لاہور کا ایک شخص ڈاکٹر محمد سعید نامی حضور سے ملاقات کرنے کے لئے آ گیا.اس نے سلسلہ کے متعلق سوالات کرنے شروع کئے.حضور نے فرمایا کہ ” میں اپنا کام ختم کر چکا ہوں.میں نے سب کچھ اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے.یہ فرما کر حضور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے.اس وقت مجھے تعجب ہوا تھا کہ حضور نے خلاف عادت سائل کو نہایت مختصر جواب دے کر یہ فرما دیا کہ میں اپنا کام ختم کر چکا ہوں.لیکن دوسرے دن صبح کو آپ کا فرمانا پورا ہو گیا اور آپ وفات پا گئے.انا لله و انا اليه راجعون.اولاد: شریف احمد محمد لطیف انیس احمد عزیزہ بیگم رضیہ بیگم رفیقہ بیگم ذکیہ بیگم صفیه بیگم امینہ بیگم.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحب ولادت : ۲.مارچ ۱۸۹۷ء حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ۲.مارچ ۱۸۹۷ء کو پیدا ہوئیں.آپ کی ولادت سے قبل حضرت اقدس کو الہاما یہ خبر دی گئی تھی کہ تنشــافــی الحليلة “ کہ یہ دختر نیک اختر زیورات میں نشو و نما پائے گی.پھر 1901ء میں آپ کے متعلق الہام ہوا نواب مبارکہ بیگم ان الہامات اور بعض دوسرے الہامات کی روشنی میں حضرت اقدس نے اپنے تینوں صاحبزادگان اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین کے موقعہ پر آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.

Page 211

210 اور ان کے ساتھ کی ہے ایک دختر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق آپ کی شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے ہوئی.حضرت نواب صاحب نوابی خاندان کے درخشندہ گوہر ہونے کے باوجود نہایت ہی متقی اور پارسا بزرگ تھے.۱۷ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں سیدہ موصوفہ کے نکاح کا اعلان حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا.نکاح کی اس مبارک تقریب میں شامل ہونے کے لئے لاہور سے حضرت میاں چراغ دین صاحب، ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب، حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی، حضرت بابو غلام محمد صاحب، حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب محترم شیخ رحمت اللہ صاحب محترم خواجہ کمال الدین صاحب اور محترم خلیفہ رجب دین صاحب اور بعض دیگر احباب بھی پہنچ گئے.رخصتا نہ حضرت اقدس کے وصال کے بعد ۱۴.مارچ ۱۹۰۹ء کو نہایت ہی سادگی سے عمل میں آیا.یعنی حضرت ام المومنین نے پہلے حضرت نواب صاحب کو جہیز کی فہرست بھیج دی اور پھر خود اپنی بچی کو ساتھ لے جا کر نواب صاحب کے مکان کے دروازہ پر جو حضرت اقدس کے مکان کے ساتھ ہی تھا بھرائی ہوئی آواز میں یہ کہہ کر کہ میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں وا پس دار مسیح میں تشریف لے گئیں.اگلے روز یعنی ۱۵ مارچ ۱۹۰۹ء کو حضرت نواب صاحب نے قادیان کے تمام احمدیوں کو اور قصبہ کے بعض عمائدین کو دعوت ولیمہ دی.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا وجود جماعت احمد یہ کیلئے بہت ہی مبارک اور گونا گوں برکات کا موجب ہے.جماعت کی خواتین آپ سے ملاقات کر کے ایک نیا ایمان لے کر واپس لوٹتی ہیں.آپ کا کلام خواہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر کی نہایت ہی بلند پایہ اور لطیف روحانی اور ادبی ذوق سے پُر ہوتا ہے.آج کل آپ کی رہائش لاہور میں شملہ پہاڑی کے نزدیک کوٹھی نمبر ۵ پام ویو میں ہے.حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسی کوٹھی میں

Page 212

211 رہا کرتے تھے.اولاد: ا.نواب محمد احمد خان صاحب ولادت ۱۱.جولائی ۴۱۹۱۰ ۲.صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ ولادت ۲۷.ستمبر ۱۹۱۱ء.۳.نواب مسعود احمد خان صاحب ولادت ۱۷.اپریل ۱۹۱۳ء.۴.صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ ولادت ۱۵ اگست ۱۹۱۸ء - ۵.صاحبزادی آصفه مسعودہ بیگم صاحبہ ولادت ۲.ستمبر ۱۹۲۹ء محترم چوہدری شریف احمد صاحب او جلوی ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت ۱۸۹۷ء وفات ۴۰ جنوری ۱۹۶۱ء عمر : اے سال : محترم چوہدری شریف احمد صاحب او جله (حال لاہور ) ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.مختلف مقامات پر اسٹیشن ماسٹر رہے.تقسیم ملک کے بعد گوالمنڈی لاہور میں سکونت اختیار کی.بہت پرانے احمدی تھے.۱۸۹۷ء میں بیعت کی اور ۴ جنوری ۱۹۶۱ء کو اے سال کی عمر پا کر وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.ان کے ایک بھائی منشی عبدالحمید صاحب تقسیم ملک کے بعد ڈھاباں سنگھ ضلع شیخو پورہ میں رہا کرتے تھے.پنشن لینے کے لئے لاہور آیا کرتے تھے اور مسجد بیرون دہلی دروازہ کی بجلی کا خرچ زندگی بھر دیتے رہے.ان کی وفات پر بھی دس بارہ سال گذر گئے ہیں.محترم مولانا عزیز بخش صاحب مرحوم ( غیر مبائع) ولادت: ۱۸۷۳ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات: انداز ۱۹۶۰ء محترم مولانا عزیز بخش صاحب برادر اکبر جناب مولانا محمد علی صاحب ایم.اے ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں موضع مراد میں حافظ فتح دین صاحب کے ہاں ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے.میٹرک میں دونوں بھائیوں نے وظیفہ حاصل کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا.بی.اے ۱۸۹۶ء میں کیا.بی.اے کرنے کے بعد جناب مولوی محمد علی صاحب نے تو ایم.اے اور ایل.ایل.بی کے امتحانات پاس کئے.مگر مولانا عزیز بخش صاحب نے ٹیچنگ لائن اختیار کرنے کیلئے ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا اور کالج سے فارغ ہو کر تحصیل جام پور ضلع ڈیرہ غازیخاں کے ہائی سکول میں ٹیچر ہو گئے.کچھ عرصہ وہاں کام کرنے کے بعد آپ نے وہ ملازمت چھوڑ دی اور ڈی سی آفس میں ریکارڈ کیپر بن گئے اور

Page 213

212 ۲۰۱۸ سال اسی ملازمت میں گزار دیئے.آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر الہ بخش صاحب کا بیان ہے کہ ۱۹۰۶ء یا ح 19ء کا زمانہ تھا جب کہ مولانا موصوف نے بچوں سمیت تین ماہ کی رخصت قادیان میں گزاری.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات پر سوائے دو تین افراد کے ڈیرہ غازیخاں کی تمام جماعت نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیعت کر لی.اور دو تین افراد میں سے ایک مولانا موصوف بھی تھے.۱۹۳۰ء میں احمد یہ بلڈنگکس لاہور میں آکر مستقل سکونت اختیار کر لی اور رہائش کے لئے ایک مکان بھی خرید لیا.زندگی بھر غیر مبائعین کی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیئے.آپ کی وفات انداز ۱۹۶۰ء میں ہوئی.انا للہ و انا اليه راجعون اولاد: ڈاکٹر الہ بخش محترم با بوفضل الدین صاحب ریٹائر ڈسپرنٹنڈنٹ لاہور ہائیکورٹ ولادت : ۲.فروری ۱۸۹۷ء بیعت : پیدائشی محترم با بو فضل الدین صاحب سیالکوٹ میں ۲.فروری ۱۸۹۷ء کو پیدا ہوئے.والد ماجد کا نام میاں فیروز الدین صاحب تھا اور وہ صحابی تھے.تعلیم امریکن مشن سکول سیالکوٹ میں حاصل کی.۱۹۱۴ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.۱۹۱۵ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سیالکوٹ کے ہاں بطور امیدوار کام کیا.1917ء کے شروع میں محکمہ چیف انجنیئر انہار پشاور میں ملازم ہوئے.مگر دسمبر ۱۹۱۶ء میں استعفا دے کر واپس سیالکوٹ چلے آئے.اپریل ۱۹۱۷ء میں دفتر چیف کورٹ حال ہائیکورٹ لاہور میں ملازمت اختیار کی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے.آپ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی مشاغل دوران ملازمت سیالکوٹ سے ہمارے پردادا میاں نظام الدین صاحب کو کسی حد تک واقفیت تھی.اس لئے جب حضور ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لائے اور آپ کے دعوی کا چرچا ہوا تو ہمارے پر پردادا صاحب نے خاندان کے سب افراد کو اکٹھا کر کے کہا کہ ”یہ مونہ جھوٹ بولنے والا نہیں تم سب کو

Page 214

213 بیعت میں شامل ہو جانا چاہئے.چنانچہ ان کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے خاندان کے سب افراد نے فوراً بذریعہ چٹھی بیعت کر لی.میرے والد محترم میاں فیروز الدین صاحب رضی اللہ عنہ مدفون بہشتی مقبرہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم جب پہلی مرتبہ ۱۸۹۶ء میں قادیان گئے تو حضور کی دستی بیعت سے بھی مشرف ہوئے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی چونکہ والد محترم کے ہموطن تھے اس لئے ان کے ساتھ بے تکلفی تھی.فرمایا کرتے تھے کہ ہم حضرت مولوی صاحب موصوف کے ساتھ مسجد مبارک کے ساتھ ملحقہ کوٹھڑی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کا وہاں سے گذر ہوا.ہم نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ صاحبزادہ صاحب کہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا.جہاں اس کا باپ تعلیم حاصل کرتا ہے! جب حضور ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو والد محترم گوجرانوالہ پیشوائی کے لئے تشریف لے گئے تھے.مگر افسوس کہ ہمارے پر دادا صاحب حضور کی سیالکوٹ تشریف آوری سے چند ماہ قبل وفات پا چکے تھے.حضور کی تشریف آواری پر ہمارے چا بابو عزیز الدین صاحب ، محترم با بو قاسم الدین صاحب امیر جماعت سیالکوٹ، بابو محمد حیات صاحب اور خاکسار کو اپنے ہمراہ اسٹیشن پر لے گئے تھے.جب حضور فٹن پر سوار ہوئے تو ہم فٹن کے بالکل پیچھے پیچھے ہو لئے حتی کہ ہم گلی حکیم حسام الدین صاحب تک پہنچ گئے.وہاں فٹن سے اتر کر حضور تو محترم حکیم صاحب کے مکان کے اندر تشریف لے گئے اور ہم اپنے گھر واپس آگئے.ہمارا گھر چونکہ قریب ہی تھا اس لئے حضور ہمیں حکیم صاحب کے مکان پر چلتے پھرتے نظر آتے تھے.وہ لیکچر جو حضور نے سیالکوٹ میں دیا تھا وہ بھی حضور نے اسی مکان پر چلتے چلتے لکھا تھا.ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات حضور لکھتے لکھتے سجدہ میں بھی جا پڑتے تھے مگر اٹھ کر پھر لکھنا شروع کر دیتے تھے.دو یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ ہمارے خاندان کی چار پشتوں کو حضور کی زیارت اور بیعت نصیب ہوئی.یعنی ہمارے پردادا میاں نظام الدین صاحب دادا میاں گلاب الدین صاحب والد میاں فیروز الدین صاحب اور عاجز.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل.ނ

Page 215

214 ہمارے خاندان کی چھٹی پشت سلسلہ میں داخل ہے.حضور کے قیام سیالکوٹ کے دوران جہاں اور بہت سے احباب نے بیعت کی تھی وہاں محترم مولوی فیض الدین صاحب امام و متولی جامع مسجد کبوتراں والی بھی شرف بیعت سے مشرف ہو گئے جس کا فائدہ جماعت کو یہ پہنچا کہ یہ ایک عالم بھی مل گیا اور عظیم الشان مسجد بھی مل گئی.میں جب فروری ۱۹۵۴ء میں ریٹائر ہو کر سیالکوٹ پہنچا تو ہائی کورٹ کے جج صاحبان یعنی جسٹس محمد منیر صاحب، جسٹس کیانی صاحب اور جسٹس محمد خورشید زمان صاحب نے مجھے دوبارہ ملازمت کی پیشکش کی مگر میں بوجہ خرابی صحت واپس نہ گیا.قیام لاہور کے دوران جماعتی کاموں میں حصہ آپ نے جماعتی کاموں میں حصہ لینے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.۱۹۲۴ء میں جب مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ تعمیر ہو رہی تھی تو ان ایام میں میں نے خود بھی حسب توفیق حصہ لیا اور دوسرے احباب کو بھی تحریک کرنے کا ثواب حاصل کیا.محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کا تقرر بحیثیت امیر جب حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی موجودگی میں کارکنان جماعت احمدیہ لاہور کا انتخاب ہوا تو اس انتخاب میں محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے امیر جماعت محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب جنرل سیکرٹری اور عاجز کا تقرر بطور سیکرٹری مال ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو اس وقت سے لے کر ۱۹۳۹ ء تک یہ کام کرنے کی توفیق ملی.اس کے بعد خاکسار بطور نگران اس کام میں حصہ لیتا رہا.مجلس عاملہ کا ممبر بھی ۱۹۵۸ء تک برابر رہا.مجلس انصار اللہ لاہور کے قیام پر ۱۹۵۰ء تک بطور زعیم کام کرنے کا موقع ملا.محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت کی ہدایات کے مطابق محترم ملک خدا بخش صاحب، میاں عبد الکریم صاحب مرحوم اور خاکسار شہر لاہور کے مختلف حلقوں کے تنظیمی تربیتی اور تبلیغی دورے کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب بھی کسی چندہ کی تحریک ہوتی ، احباب اس پر لبیک کہتے ہوئے پورا پورا تعاون فرماتے تھے.ایک دفعہ جب ہمیں مقامی اخراجات کے لئے وقت پیش آئی تو میں نے محترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب اور محترم جناب چوہدری

Page 216

215 محمد ظفر اللہ خاں صاحب سے اس کا ذکر کیا.باہمی گفت و شنید سے یہ فیصلہ ہوا کہ مجلس مشاورت کے موقعہ پر یہ تجویز سب کمیٹی مال میں زیر بحث لائی جائے اور کوشش کی جائے کہ مرکز باہر کی اہم جماعتوں کو مقامی اخراجات کے لئے کچھ رقم بطور گرانٹ دیا کرے.چنانچہ ایسا کرنا مفید ثابت ہوا اور مرکز کی طرف سے گرانٹ ملنا شروع ہوگئی.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی امارت کے زمانہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جب بھی لاہور میں تشریف لاتے تھے عموماً شیخ صاحب کے مکان پر ہی قیام فرمایا کرتے تھے ان ایام میں شیخ صاحب کا مکان مہمانوں سے بھر جایا کرتا تھا.اور شہر کے مختلف حصوں سے نمازی بھی کثرت کے ساتھ حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے کیلئے آیا کرتے تھے.۱۹۴۴ ء کے آغاز میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بسلسلہ علالت حضرت ام طاہر صاحبہ لاہور میں تشریف لائے اور تین چار ماہ کے قریب حضور نے شیخ صاحب کے مکان پر قیام فرمایا.میں دفتر سے فارغ ہو کر شیخ صاحب کے مکان پر حاضر ہو جایا کرتا تھا.محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب حال امیر جماعت لاہور بھی باقاعدگی کے ساتھ تشریف لایا کرتے تھے.اس موقع پر ہم دونوں نماز کے اوقات میں حضور کے دائیں بائیں کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے.انہی ایام میں محترم شیخ صاحب کے مکان کی بالائی منزل پر حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود ہونے کی بشارت ملی.اس مقام پر حضور کے ہمراہ اصحاب مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو بھی شیخ صاحب کے مکان کی بالائی چھت پر لیا گیا.اس فوٹو میں خاکسار اور خاکسار کے والد ماجد محترم میاں فیروز الدین صاحب بھی شامل ہوئے.دو مصلح موعود کا جلسہ جب ہوشیار پور میں ہوا تو اس موقعہ پر بھی میں لاہور سے سو کے قریب دوستوں کو لیکر ہوشیار پور پہنچا.وہاں جو ۳۵ افراد صحابہ میں سے حضور کے ساتھ اس مکان میں داخل ہوئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی کی تھی.ان میں میرے والد محترم بھی شامل تھے.مصلح موعود کا جو جلسہ لاہور میں ہوا.اس کا انتظام بھی محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت

Page 217

216 نے خاکسار اور محترم ملک خدا بخش صاحب کے سپر د کیا تھا.کھانے اور مہمانوں کی رہائش کا انتظام محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کی قیام گاہ ٹرنر روڈ پر کیا گیا.اس انتظام میں محترم چوہدری صاحب نے بے حد مدد فرمائی.فجزاه الله احسن الجزاء - محترم چوہدری عبدالرحیم صاحب نے جلسہ گاہ کا نقشہ تیار کیا تھا اور جلسہ رتن باغ کے بالمقابل سیمنٹ بلڈنگ سے ذرا آگے وکیل خانہ پٹیالہ ہاؤس میں ہوا تھا.جب باؤنڈری کمیشن کا اعلان ہوا تو اس وقت حضور قادیان سے لاہور تشریف لائے.جسٹس منیر کی کوٹھی پر بھی بعض امور کی وضاحت کے سلسلہ میں تشریف لے گئے.اس موقعہ پر بھی عاجز ساتھ تھا.ہجرت کے بعد لا ہور میں جو پہلا جلسہ سالانہ ہوا اس کا انتظام بھی محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت نے میرے سپرد کیا تھا.یہ جلسہ بھی رتن باغ کے سامنے خالی زمین میں ہوا تھا جہاں اب بلڈ نگ بن چکی ہے.جب تحقیقیاتی عدالت کا اعلان ہوا تو حضرت امیر المومنین نے وکلاء کی جو میٹنگ بلائی تھی اس میں از راه نوازش مجھے بھی شامل فرمایا تھا.جب تقسیم ملک کے بعد مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ جماعت کے لئے ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جماعت کو کسی کھلی جگہ میں مسجد بنانے کے لئے زمین خریدنی چاہئے جو امید ہے کہ دس ہزار روپے میں حاصل ہو جائے گی.نماز جمعہ کے بعد شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھے فرمایا کہ میری کار لے لو اور فوری طور پر چندہ جمع کرو.چنانچہ میں نے محترم میاں غلام محمد صاحب اختر کو ساتھ لیا.سب سے پہلے ہم محترم ڈاکٹر محمد بشیر صاحب کی کوٹھی واقع ڈیوس روڈ پر گئے.انہوں نے ایک ہزار روپیہ کا چیک دیا.پھر جماعت کے اور دوستوں کے پاس گئے.شام کو ہم نے پانچ ہزار روپے نقد اور پانچ ہزار کے وعدوں کی فہرست محترم شیخ صاحب کو دی تا وہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی خدمت میں پیش کریں.چنانچہ جب انہوں نے مغرب کے وقت یہ فہرست حضور کی خدمت میں پیش کی تو حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.بعد میں دارالذکر کی زمین اس غرض کیلئے سولہ ہزار روپے میں خریدی گئی.فالحمدللہ علی ذالک

Page 218

217 حضرت بابو غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ ولادت : ۱۸۶۰ء بیعت : مارچ ۱۸۹۷ ء وفات : ۲۵ اپریل ۱۹۴۶ء عمر : ۸۶ سال حضرت با بو غلام محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ا.مارچ ۱۸۹۷ء میں ہم لاہور کے کافی نوجوانوں نے جو سارے کے سارے تعلیم یافتہ تھے اور جن کی صحیح تعداد یاد نہیں رہی ارادہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب کو قادیان جا کر دیکھنا چاہئے کیونکہ باہر تو انسان تصنع سے بھی بعض کام کر سکتا ہے لیکن اگر اس کے گھر میں جا کر اسے دیکھا جائے تو اصل حقیقت سامنے آ جاتی ہے.خیر ہم حضرت اقدس کے دعوی کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے عازم قادیان ہو گئے.ہم میں سے ہر شخص نے الگ الگ اعتراضات سوچ لئے تھے جو وہ کرنا چاہتا تھا.مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر محمد اقبال صاحب، مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری چوہدری شہاب الدین صاحب، مولوی سعد الدین صاحب ( بی.اے.ایل.ایل.بی) وغیرہ بھی اس قافلہ میں شامل تھے.خواجہ کمال الدین صاحب جو ۱۸۹۴ ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ میں داخل ہو چکے تھے.مگر آپ چونکہ اس پارٹی اور خصوصاً مولوی محمد علی صاحب کو تبلیغ کیا کرتے تھے اس لئے آپ بھی ہمارے ساتھ گئے تھے.جب ہم قادیان پہنچے تو گول کمرہ میں ہمارے لئے ملاقات کا انتظام کیا گیا.حضور جب تشریف لائے تو آتے ہی ایک تقریر کے رنگ میں ہمارے ایک ایک اعتراض کو لے کر اس کا جواب دینا شروع کیا.حتی کہ ہم سب کے اعتراضات کا مکمل جواب آ گیا.تب ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر تعجب کرنے لگے کہ یہ کیسے ہوا؟ جب باہر نکلے تو بعض نے کہا کہ یہ سچ مچ مامور من اللہ ہے اور بعض نے کہا یہ جادوگر ہے.چوہدری شہاب الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے کہا کہ یہ ضرور سچا ہے ہم تو بیعت کرتے ہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب، چوہدری شہاب الدین صاحب، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور خاکسار نے بیعت کر لی.بعض اور لوگوں نے بھی بیعت کی تھی مگر ان کے نام مجھے یاد نہیں رہے.انداز آبارہ تیرہ آدمیوں نے بیعت کی تھی.رات کو کھانا کھانے کے بعد جب چار پائیاں تقسیم ہوئیں تو میں نے مضبوط اور بڑی چارپائی لے

Page 219

218 لی مگر چوہدری شہاب الدین صاحب نے (جو بعد میں سر شہاب الدین کہلائے ) میرا بستر اس سے اٹھا کر میری چار پائی پر قبضہ کر لیا.حضرت صاحب تشریف لائے.ہر ایک سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ ہر شخص نے کہا کہ حضور مجھے کوئی تکلیف نہیں.لیکن جب میرے پاس پہنچے تو میں پریشان کھڑا تھا کیونکہ میری چار پائی پر چوہدری شہاب الدین صاحب قبضہ کر چکے تھے.میں نے عرض کیا کہ حضور! میری چارپائی چوہدری شہاب الدین نے چھین لی ہے اور میں حیران ہوں کہ کہاں سوؤں.فرمایا.ٹھہرئیے ! میں آپ کے لئے اور چار پائی لاتا ہوں.چنانچہ حضرت صاحب تشریف لے گئے.مگر جب کافی دیر گزرگئی اور چار پائی نہ آئی تو میں نے حضور کے مکان کے صحن کے دروازہ سے اندر جو جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جلدی جلدی چار پائی بن رہا ہے اور حضور اس کے پاس بیٹھے ہوئے دیا ہاتھ میں لے کر اسے روشنی کر رہے ہیں.حضور کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت شرم آئی.میں آگے بڑھا اور عرض کی کہ حضور دیا مجھے پکڑا دیں مگر حضور نے فرمایا کہ اب تو ایک ہی پھیرا باقی ہے.حضور کے یہ اخلاق دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرے آنسو نکل آئے.اس وقت میں حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا ہر گز نہیں ہوسکتا.اس سے پہلے جب ہم مغرب کے بعد حضور کے ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے تو میں چونکہ حضور کے قریب تھا.حضور اٹھاتے بٹیر اور فرماتے کہ یہ کھائیں.دوسرا گوشت اٹھاتے اور میرے آگے رکھ کر فرماتے کہ یہ کھائیں.اس لئے میں حضور کے اخلاق عالیہ سے بہت ہی متاثر تھا.مگر رات چار پائی والے واقعہ کو دیکھ کر تو میں دل و جان سے حضور کا غلام بن گیا.چوہدری سر شہاب الدین صاحب اب بڑے آدمی ہیں مگر میرے ساتھ اسی طرح بے تکلفی سے باتیں کرتے ہیں.مجھے جب بھی ان سے ملنے کا موقع ملتا ہے یہی کہتے ہیں کہ دیکھا ! میں حضرت صاحب کواب بھی نبی مانتا ہوں.گو اپنے اعمال کی وجہ سے نظام سلسلہ میں داخل نہیں.مگر مولوی محمد علی صاحب نے انکار کر دیا ہے.وغیرہ وغیرہ ۲.قادیان کے آریہ حضرت اقدس کے شدید مخالف تھے مگر جب کبھی کوئی ضرورت پیش آئی.حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر بے تکلفی سے عرض کرتے اور حضور ان کی ضرورت کو پورا کر یتے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں قادیان میں ہی تھا کہ ان آریوں کے ہاں کسی بچی کی شادی تھی.

Page 220

219 انہوں نے ز منتظمین سلسلہ سے شامیانے مانگے مگر انہوں نے انکار کر دیا.اس پر وہ حضرت کے حضور حاضر ہو گئے.حضور نے اسی وقت منتظمین کو بلوایا اور فرمایا کہ نہ صرف یہ کہ شامیانے دو بلکہ اپنے آدمیوں کے ذریعہ جا کر شامیانے لگواؤ اور پھر خود ہی اتار کر واپس لاؤ کیونکہ ان بیچاروں کو کیا علم کہ شامیانہ کس طرح لگایا جاتا اور کس طرح اتارا جاتا ہے.۳.جب حضور آخری سفر میں لاہور تشریف لائے.تو اکثر تیسرے پہر فٹن پر سوار ہوکر سیر کے لئے میانمیر کی طرف تشریف لے جاتے.ملک مبارک علی صاحب اپنی گاڑی پر مع اپنے ساتھیوں کے حضور کی گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلے پر رہتے اور اکثر احباب جو پیدل پہلے ہی پہنچے ہوئے ہوتے، صرف حفاظت کے طور پر دور دور فاصلے پر کہیں نہ کہیں کھڑے رہتے.چنانچہ میں بھی اکثر حفاظت کے لئے پہلے ہی نکل جایا کرتا تھا.۴.ایک دفعہ حضور نے ایک جنازہ اتنا لمبا پڑھا کہ قریب تھا کہ ہم گر جائیں.یہ معلوم نہیں کہ جنازہ کس کا تھا نماز سے فارغ ہو کر ایک دیہاتی دوڑا ہوا آیا.اور عرض کیا کہ حضور میری ماں کا جنازہ بھی پڑھ دیں.مسکرا کر فرمایا کہ اس کا بھی پڑھا ہے.تمہارا بھی پڑھا اور ( مقتدیوں کی طرف اشارہ کر کے ) فرمایا.ان سب کا بھی پڑھا ہے.۵.گورداسپور کے مقدمہ کے دوران میں ایک رات ہم ٹرین سے اترے.ہوا سخت تیز تھی.سردی کا موسم تھا.حضور ایک کوٹھی میں فروکش تھے.کھانا کھانے کے بعد حضور نے سب کو حکم دیا کہ احباب تھکے ہوئے ہیں سو جائیں.ہم سب اپنا اپنا بستر کر کے لیٹ گئے.کچھ دیر کے بعد حضورا اپنے بستر سے اٹھے اور دبے پاؤں ایک چھوٹی سی لالٹین لئے ہوئے ہر ایک کا بستر ٹولا تا یہ معلوم کریں کہ کس کے پاس بستر نا کافی ہے.پھر حضور جس کا بستر کم دیکھتے اس کے لئے اپنے بستر میں سے کوئی کپڑا اٹھا کر لاتے اور اس پر ڈال دیتے.میں نے دیکھا کہ حضور نے اپنے بستر میں سے چھ سات کپڑے نکال کر اپنے خدام پر ڈال دیئے.اللھم صلی علی محمد و آل محمد یہ اخلاق عالیہ بھلا اور کہاں مل سکتے ہیں.پھر جب زیادہ دیر ٹھہرنا پڑا تو حضور نے ایک مکان کرایہ پر لے لیا جس میں با قاعدہ لنگر اور مہمان خانہ کا انتظام تھا.

Page 221

220 خواجہ کمال الدین صاحب یہ کوشش کیا کرتے تھے کہ مقدمات کے متعلق حضور کے ساتھ آہستہ سے الگ گفتگو کریں.مگر حضور ہر بات تمام احباب کے سامنے بیان فرما دیتے تھے حتی کہ کچہری کے احاطہ میں بھی حضور ایسا ہی کرتے تھے.کچہری کے احاطہ میں ایک بڑی دری بچھی ہوتی تھی.تمام احباب اس پر بیٹھ جاتے.حضور بھی ساتھ ہی تشریف فرما ہوتے.اگر کسی وقت حضور رفع حاجت کے لئے اٹھتے تو حافظ حامد علی صاحب کو آواز دیتے.حافظ صاحب ایک تانبے کا لوٹا پانی سے بھر کر ساتھ ہو لیتے.اور کھیت میں جو قریب ہی تھا.حضور رفع حاجت کے لئے دور چلے جاتے.لوٹا چھوٹا سا ہوتا تھا جس سے آبدست بھی کرتے اور کبھی اسی سے وضو بھی فرما لیتے.میرے خیال میں اس لوٹے میں ڈیڑھ سیر کے قریب پانی آجاتا تھا.- ۱۹۰۴ء میں جو جلسہ مزار داتا گنج بخش کے عقب میں ہوا تھا اس کی جلسہ گاہ بنانے کے لئے ایک سٹیج لگایا گیا تھا.جس کے دونوں طرف قریباً پچاس پچاس سائبان لگائے گئے تھے.ایک سائبان سولہ مربع گز کا ہوتا تھا.حضور کی گاڑی کے پیچھے میرا بھائی پہلوان کریم بخش اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑ گا نوی بھی کھڑے تھے اور پولیس اور رسالے کا بھی کافی انتظام تھا.مجھے یاد ہے.سپر نٹنڈنٹ پولیس نے جب لیکچر کے بعد کم کھولی تو تھکان کی وجہ سے اس کے منہ سے ہائے کی آواز نکلی اور کہا کہ آج تو خدا کے بیٹے نے مار ڈالا رات دو بجے اٹھا ہوں اور اب تک آرام کا موقعہ نہیں ملا.ے.حضور اکثر معزز اور مخلص مہمانوں کو رخصت کرنے کے لئے کچھ دور ساتھ بھی جاتے تھے.چنانچہ ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب جو کہ ایک متقی احمدی تھے وہ جب آخری دفعہ قادیان گئے اور واپسی پر حضور سے رخصت ہونے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور ان کے ساتھ ہو لئے اور فرمایا.چلیئے میں بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ یکہ خالی ساتھ تھا.حضور علیہ السلام اور خدام بھی ساتھ تھے جو سیر کے لئے نکلے ہوئے تھے.ڈاکٹر صاحب نے راستہ میں ایک دفعہ اصرار کیا کہ حضور اب واپس تشریف لے جائیں.مگر حضور باتیں کرتے کرتے موڑ تک تشریف لے گئے.اس کے چند دن بعد اطلاع موصول حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کی روایات میں آتا ہے کہ منڈ وہ رائے میلا رام بھائی دروازہ کے باہر تھا.اور یہاں لکھا ہے جلسہ مزاردا تا گنج بخش کے عقب میں ہوا تھا.یہ دونوں باتیں درست ہیں.مزار کا عقب بھائی دروازہ کی طرف ہی ہے.

Page 222

221 ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب فوت ہو گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ پیش آئی کہ وہ کسی مریض کا آپریشن کر رہے تھے کہ ان کے ہاتھ پر نشتر لگ گیا اور اس نشتر کے زہر سے ان کی موت واقع ہوگئی..ایک روز ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب معہ اہل و عیال قادیان سے واپس آنے کیلئے یکہ لے کر آئے اور اجازت طلب کی.یہاں تک کہ جب یکے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے تو حضور باہر تشریف لائے اور پوچھا ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں ؟ دوستوں نے عرض کیا کہ حضور وہ تو چلے گئے.فرمایا.کوئی آدمی دوڑ کر ان کو واپس لائے.اکثر احباب دوڑ پڑے اور ان کے یکے کو راستہ سے واپس لائے.ابھی وہ واپس پہنچے ہی تھے.کہ اس قدر زور سے آندھی اور بارش کا طوفان آیا کہ الامان والحفیظ ! ہم نے اس وقت سمجھا کہ حضور کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دے دی تھی کہ سخت آندھی اور بارش آنے والی ہے اس لئے حضور نے ڈاکٹر صاحب کو واپس بلا لیا.۹.حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور خاکسارا کٹھے قادیان جاتے اور اکٹھے ہی واپس آتے تھے.اتوار کے روز عموماً ٹرینوں کے متصل ہونے کی وجہ سے پانچ منٹ ہی ملاقات کے لئے ملتے.حضور کو اس بات کا علم تھا.اس لئے جب ہم اندر اطلاع بھجواتے تو اکثر حضور بہت جلد باہر تشریف لاتے.ایک دفعہ فرمایا کہ یہ آپس میں جز ولا ینفک ہیں.قریشی صاحب آئیں تو سمجھا جاتا ہے کہ غلام محمد ساتھ ہو گا.غلام محمد صاحب آئیں تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ قریشی صاحب ساتھ ہوں گے.بات یہ تھی کہ اتوار کی رخصت ہوتی تھی اور اسی وقت واپس آنا ضروری ہوتا تھا اور حکیم صاحب کا کارخانہ تھا.۱۰.حضرت با بو غلام محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جب بیعت کی تو میری ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی.ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں.کانوں میں بالیاں تھیں.بٹن سونے کے تھے.میری یہ حالت دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے عرض کی کہ حضور اس کو کہیں کہ ڈاڑھی رکھے.مسکرا کر فرمایا 'دین کا ڈاڑھی پر انحصار نہیں ہے.جب یہ لوگ ہماری ڈاڑھی دیکھیں گے.آپ کی ڈاڑھی دیکھیں گے اور دوستوں کی ڈاڑھیاں دیکھیں گے تو یہ بھی رکھ لیں گے.اگر ڈاڑھی ہی دین کے لئے لازمی ہوتی.تو ہمارے زمانے میں ایک شخص کی اتنی لمبی ڈاڑھی تھی اور وہ جب اسے کھڑا ہو کر کھولتا تو ایک دوبل اس کے پاؤں پر بھی پڑتے“.

Page 223

222 پھر مولوی عبد الکریم صاحب نے میرے کان اور بٹن حضور کو دکھائے اور کہا.حضور ! یہ سارا سونا پہنے ہوئے ہے.فرمایا.کہتے ہیں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے کوٹ کے لکھے سونے کے تھے اور کوٹ ستر روپے گز کا تھا.بلکہ بعض اوقات سو روپیہ گز کا کپڑا بھی پہنتے تھے.کسی نے ان کو کہا کہ یہ تو تبذیر ہے فرمایا.من حرم زينة الله التى اخرج لعباده والطيبات من الرزق.پھر فرمایا.آہستہ آہستہ سب باتیں خود بخود کر نے لگ جائیں گے.چنانچہ بعد میں میں نے سونا اتار دیا.میری ایک ٹوپی تھی جو سیکنڈ ہینڈ میں نے تمہیں روپوں میں بیچی تھی.۱۱.گورداسپور میں کرم دین سکنہ بھیں والے مقدمہ کے دوران میں چند ولال مجسٹریٹ کے وقت حضور نے ایک مرتبہ فرمایا کہ یہ شخص بڑا بد باطن ہے.اس کے اندرونے کا پتہ ہی نہیں چلتا.جب سامنے آتا ہے تو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بڑی لجاجت سے پیش آ کر کہتا ہے کہ حضور! میرا عہدہ ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ میں قدموں پر گر نہیں سکتا لیکن دوسری طرف اس کا یہ حال ہے کہ سارا دن بٹھا کر کہہ دیتا ہے کہ کل تشریف لاویں.روزانہ ایسا ہی کرتا ہے.آتما رام کی عدالت میں جب حکم سنانے کا وقت آیا تو اس وقت بہت سی پولیس بلوائی گئی تھی.چھڑکاؤ کروایا گیا تھا اور ساری کچہری کو پولیس نے محصور کر رکھا تھا.ان حالات کو دیکھ کر خواجہ کمال الدین صاحب نے یہی مطلب لیا کہ یہ شخص سزا دینے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے اور مجھے کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ یہ شخص بدی پر تلا ہوا نظر آتا ہے.اگر حضور حکم دیں تو تین وکلاء بلوا لئے جائیں.احمد شاہ اور مولوی فضل دین لاہور سے اور تیسرا میں ہوں.ایک کو ڈویژنل کورٹ میں بھیج دیا جائے.دوسرے کو گورنر کے پاس جو دورے پر ہے اور تیسرا میں یہاں رہتا ہوں.جب میں نے حضور سے جا کر یہ بات بیان کی تو حضور بہت مسکرائے اور فرمایا.ان سے جا کر کہو کہ آج تک ہم آپ کی قانونی باتوں کی اقتداء کرتے رہے.اب خدا پر چھوڑ دو.میں نے جا کر ایسا کہہ دیا.خواجہ صاحب بہت پژمردہ ہو کر نیچا سر کر کے کھڑے ہو گئے.جب میں نے خواجہ صاحب کو حضور کی یہ بات پہنچائی تو خواجہ صاحب کچہری سے باہر تھے.مگر میری بات سن کر ذرا تامل کر کے خواجہ صاحب نے جرات کی اور دروازہ پر جو تھانیدار کھڑا تھا اس کی بغل میں سے نکل کر عدالت کے اندر داخل ہو گئے اور اندر جا کر مجسٹریٹ کو کہا کہ کیا آپ نے حکم دیا ہے کہ اندر کوئی نہ آئے حتی کہ وکیل بھی اندر نہ آئے.اس

Page 224

223 نے کہا کہ میں نے تو کوئی حکم نہیں دیا.اس پر خواجہ صاحب نے کہا کہ میں تو گھنٹوں سے انتظار کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی ڈھب سے اندر پہنچوں مگر پولیس کسی کو اندر نہ آنے دیتی تھی.۱۲.حضرت با بو غلام محمد صاحب دہلی کے سفر میں بھی جو ۱۹۰۵ء میں کیا گیا، حضور کے ساتھ تھے.فرمایا کرتے تھے کہ دہلی میں ایک روز حضور نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے اور اتنی لمبی دعا کی کہ ہم سب تھک گئے.دعا ختم کرنے کے بعد خا کسار کو جو قریب ہی کھڑا تھا.مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مقامات بھی قبولیت کے ہوتے ہیں.یہاں سے دعا جلد سنی جاتی ہے.میں آپ لوگوں کے سبب جلد فارغ ہو گیا.ورنہ میں نظام الدین سے باتوں میں لگا رہتا.یہ بڑا با اقتدار انسان گذرا ہے جس کو دلی والوں نے قبول کر لیا.میں تو کئی دفعہ دلی میں آیا.جس طرح پتھریلی زمین دلی کی ہے.اس سے زیادہ پتھر دل یہاں کے لوگوں کو پایا.اتنے میں ایک مجاور اونچی آواز سے بولا کہ کوئی وثیقہ نہیں، کوئی پنشن نہیں.میں جاروب کش ہوں اور مزار کی خدمت کرتا ہوں.کوئی تنخواہ دار نو کر نہیں ہوں.اس پر حضور نے جیب میں ہاتھ ڈال کر چاندی کی دونی نکالی اور ایک مٹی کی صراحی میں جو مزار کے سر ہانے پڑی تھی.اس میں ڈال دی اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا.آپ لوگ بھی کچھ کچھ اس میں ڈال دیں.چنانچہ سب نے ادھنیاں، پیسے اور دونیاں اس میں ڈالیں ( اس زمانہ میں آنے کا سکہ نہیں ہوتا تھا ) اتنے میں ایک شخص چٹائی پر لیٹا ہوا پاجامہ کی جگہ ایک لنگی باندھے ہوئے اور سر و پاسے بر ہنہ لیٹ کر کوئی کتاب پڑھ رہا تھا.اس کا نام بعد میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ خواجہ حسن نظامی ہیں.وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض گزار ہوا کہ غلام کی بھی ایک آرزو ہے.اللہ سن لیں اور کہا کہ کٹیا میں تشریف لا کر ایک پیالی چائے نوش فرما لیں.اس پر حضور نے دعوت قبول کی اور ایک چھوٹی سی کھڑکی میں سے اندر تشریف لے گئے.اور بھی چائے کے شوقین ساتھ چلے گئے.چنانچہ حضور نے اندر بیٹھ کر چائے نوش فرمائی.حضرت باقی باللہ کے مزار پر بھی گئے مگر میں وہاں موجود نہیں تھا.دہلی سے واپسی پر جب امرتسر پہنچے تو رمضان کا مہینہ تھا.ایک حویلی امرتسر میں حضور کے لئے تجویز ہوئی تھی حضور وہاں آ کر اترے.رات کو بالا خانہ پر سوئے تھے.صبح ہال میں جلسہ ہوا.مجھے حکم

Page 225

224 ہوا کہ نظم پڑھو.میں نے خوب عمدگی سے نظم ادا کی جسے حاضرین نے توجہ سے سنا.جب حضور بیار کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حاضرین نے شور مچا دیا.پہلا امر شور پڑنے کا یہ ہوا کہ کسی نے ٹیبل پر چائے لا کر رکھ دی.میرے قریب میر ناصر نواب صاحب بیٹھے تھے.فرمانے لگے.دیکھو کیا بیوقوفی ہے.کیا کسی نے چائے مانگی تھی.اب دیکھو اور مصیبت بنتی ہے.حضور بائیں ہاتھ سے اٹھا ئیں گے اور لوگ شور مچائیں گے ( کیونکہ حضور کے دائیں ہاتھ میں تکلیف تھی اس لئے بائیں ہاتھ سے چیز اٹھاتے تھے اور دایاں ہاتھ ساتھ لگا لیتے تھے ) خیر حضور نے چائے اٹھائی اور پھر رمضان میں خوب شور مچا.پھر حضور نے نعت پڑھنے کا حکم دیا.میں کھڑا ہو گیا.جب تک نعت پڑھتا رہا سب خاموش ہوکر سنتے رہے.جب نعت ختم کی تو شیخ یعقوب علی صاحب نے کھڑے ہو کر حاضرین کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم لوگ دور دراز سے صرف یہ لیکچر سننے کے لئے آئے ہیں.اگر تم لوگ سنا نہیں چاہتے تو خاموش تو ہو جاؤ یا چلے جاؤ تاہم اطمینان کے ساتھ سن لیں.پھر حضرت صاحب نے کھڑے ہو کر بیان کرنا شروع فرمایا.مگر لوگوں نے اس قدر شور مچایا کہ ایک حرف بھی سنے نہیں دیا.جب شور بڑھ گیا تو حضور کو دوسرے راستے سے نکال لینا تجویز ہوا.اور حاضرین کو مشغول رکھنے کے لئے خلیفہ رجب دین صاحب کو کھڑا کر دیا گیا.جب حضور بند گاڑی میں سوار ہوئے تو اس کی سب کھڑکیاں بند کر دی گئیں.درمیان میں ایک طرف کی کھڑکی نہ تھی.اس میں پائیدان پر کھڑکی کی جگہ میں کھڑا ہوگیا.تا کہ اندر کوئی اینٹ پتھر نہ جا سکے گاڑی پر اس قدر پتھراؤ کیا گیا کہ ہم نے سمجھا کہ پتھروں کی کوئی مشین چل رہی ہے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس قدر پتھر لوگ جمع کر سکتے تھے.انہوں نے جمع کر کے گاڑی پر مارنا شروع کر دیئے ہیں.حضرت صاحب کے ساتھ جہاں تک مجھے رہنے کا اتفاق ہوا ہے.اس قدر پتھر میرے خیال میں اور کہیں نہیں پڑے.جب گاڑی اشرار کی زد سے نکل گئی تو سامنے ایک لمبی داڑھی والا مولوی داڑھی منہ میں ڈال کر لٹھ گھماتا ہوا آیا اور اس زور سے گاڑی پر لٹھ ماری کہ لکڑی کی جھر منیاں ٹوٹ گئیں.لٹھے کا درمیانی حصہ میری کمر پر لگا.حضور نے زور سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ ایک مولوی نے لٹھ مارا ہے اور یہ جھر منیاں کھڑکی کی ٹوٹ گئی ہیں.فرمایا آپ کو تو نہیں لگی؟ میں نے عرض کیا درمیانی حصہ تھا اگر سرا لگتا تو شاہد میری کمر بھی ٹوٹ جاتی.حضور بہت متأسف ہوئے.اور اکثر یاد دلایا کرتے تھے کہ وہ امرتسر کا لٹھ تمہیں یاد ہو گا.چنانچہ میری بھاوج صاحبہ نے حضور سے بیعت کے لئے کہا اور عرض کیا

Page 226

225 کہ میں بابو غلام محمد کے بھائی کی بیوی ہوں تو حضور نے بلا تامل فرمایا کہ سوچ لو.با بو غلام محمد کو وہ لٹھ پڑا تھا کہ اگر اس کا سرا اس کی کمر پر پڑتا تو ان کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں.احمدیت میں یہ چیزیں لازمی ہیں.تم ان چیزوں کے لئے تیار ہو؟ اس نے کہا.حضور میں تیار ہوں.چنانچہ بیعت حضور نے لے لی.حضور عورتوں کی بیعت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں لیا کرتے تھے بلکہ کسی کپڑے کے ذریعے بیعت لیا کرتے تھے.۱۳ ۱۹۰۵ء میں جب حضور دہلی تشریف لے گئے تو ایک محلہ چتلی قبر میں جہاں میر ناصر نواب کے رشتہ دار رہتے تھے اور ایک بڑا مکان پہلے ہی سے لے رکھا تھا.جا کر اترے.ایک روز اہل محلہ حویلی کے اندر آ گھسے اور کہا کہ مکان کے قریب ہی مسجد ہے اس میں آ کر نماز پڑھا کریں.آپ نے فرمایا.میں شر سے بچنے کے لئے اندر ہی پڑھ لیتا ہوں.انہوں نے بار بار مجبور کیا کہ مسجد کے ہوتے ہوئے آپ اندر کیوں نماز پڑھتے ہیں.اتنے میں ان لوگوں کی موجودگی میں نماز کی تکبیر ہوگئی.عصر کی نماز تھی.میں حضور کے بائیں طرف صف میں کھڑا ہوا.ایک رکعت ہونے کے بعد پیچھے کچھ گڑ بڑ ہوئی.تو میں نے سوچا کہ ایسا نہ ہو.ان میں سے کوئی حضور پر وار کرے.میں نے ایک لٹھ اٹھا لیا اور کھڑا ہو گیا.حضور نے جب سلام پھیرا تو میں نماز کی نیت کرنے لگا.حضور نے فرمایا کہ آپ کی نماز تو ہوگئی.اب چاہے پڑھو یا نہ پڑھو.میں ایک رکعت پڑھ چکا تھا.فرمایا.یہ جنگ کا میدان ہے اور تم حفاظت کر رہے تھے.چنانچہ میں نے پھر بقیہ رکعتیں نہیں پڑھیں.اسی طرح ایک مرتبہ احمد یہ بلڈنگکس لاہور میں حضور نماز جمعہ ادا فرما رہے تھے.حضور پہلی صف میں داہنے کنارے پر کھڑے تھے.اوپر شامیانہ نصب کیا گیا تھا.دفعہ غیر احمدیوں نے اس کا رسہ کاٹ دیا.اور شامیانہ حضور کی طرف گرا.میں حضور کے ساتھ کھڑا تھا.میں نے ہاتھ اٹھا کر اسے تھام لیا.جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف دیکھ کر مسکرائے.میں نے عرض کیا.حضور اٹھیں گے تو چھوڑ دوں گا.چنانچہ حضور اٹھے اور میں نے شامیانے کو پھر باندھا.یہ حفاظت حضور کی میں نے نماز چھوڑ کر کی اور بعد میں نماز ظہر پڑھی.یہ فتویٰ دریافت کرنے کے بغیر ہی پڑھی تھی.۱۴.مجھے یاد ہے.ایک دفعہ حضور گورداسپور میں تشریف فرما تھے کہ غیر احمد یوں، سکھوں اور ہندوؤں کا ایک وفد حضور کی خدمت میں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ ہمارے واسطے دعا کریں.

Page 227

226 ہم طاعون سے تباہ ہو گئے ہیں.مجھے خیال ہوا کہ حضور کا الہام يَا مَسِيحَ الخَلْقِ عَدْوَانَا پورا ہو رہا ہے.حضور نے ان کے الحاج پر دعا فرمائی.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت بابو صاحب کی روایات تو بہت ہیں.میں نے کتاب کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ روایات لے لی ہیں.اگر کسی وقت ان اصحاب کے الگ الگ حالات لکھنے کا کبھی موقع ملا تو سب کا بالتفصیل ذکر آ جائے گا.حضرت بابو صاحب درمیانہ قد کے جمہیر الصوت آدمی تھے.لوہاری منڈی سے فجر کی نماز پڑھنے کے لئے بالالتزام مسجد احمد یہ دہلی دروازہ میں تشریف لایا کرتے تھے.کمر میں پڑکا بندھا ہوا ہوتا تھا اور پرانے شہر کے اردگرد جو باغ ہے اس میں درنشین کے اشعار پڑھتے آتے تھے.عموماً تہجد کی نماز مسجد ہی میں ادا فر ماتے تھے اور پھر فجر کی اذان کہتے تھے.بڑھاپے میں بھی آپ کی آواز اس قدر بلند تھی کہ محلے کے بچے بھی چونک پڑتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بہت مزے لے لے کر کیا کرتے تھے.آپ چونکہ گھڑیوں کی مرمت کرنا بھی خوب جانتے تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان ہی کو اپنی گھڑی دیا کرتے تھے اور اگر ضرورت پڑے تو ان ہی کے ذریعے منگوایا بھی کرتے تھے.مسجد احمدیہ کی گھڑی کی مرمت بھی آپ ہی کے ذمہ تھی.مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ جب تیار ہو رہی تھی تو آپ بھی حضرت حکیم محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری“ کے پہلو بہ پہلو روڑی کوٹا کرتے تھے اور اینٹیں اٹھا اٹھا کر مستریوں کو پکڑایا کرتے تھے.اپریل ۱۹۳۶ء میں جب آپ کی وفات ہوئی تو اس زمانہ میں چونکہ خاکسار ہی لاہور میں بطور مبلغ متعین تھا.اس لئے مسجد احمد یہ لاہور میں آپ کا جنازہ بھی میں نے ہی پڑھایا تھا.بہت خوب آدمی تھے.جب آپ کی نعش بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے قادیان لے جائی گئی.تو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک میں حضرت بابو صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: با بو غلام محمد صاحب حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابہ میں سے تھے.اختلاف

Page 228

227 کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ابتداء ہی سے اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ ہر قسم کی ٹھو کر اور ابتلا سے بچے رہے.حالانکہ اثر ڈالنے کے سامان ان کے اردگرد بہت زیادہ تھے.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ سے ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے.اور خود غریب آدمی تھے.اور غریب آدمی بڑے آدمی کے تعلقات کے اثر کو بہت جلد قبول کر لیا کرتا ہے مگر باوجود ہر قسم کی شورش کے وہ محفوظ رہے.جب اختلاف ہوا.اور حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو شروع میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی کو خواجہ صاحب نے اپنی مجلسوں میں بلا نا شروع کیا.اس پر بابو غلام محمد صاحب ہمیشہ ان سے کہتے رہے کہ دیکھنا.بُرے اثر سے بچ کر رہنا.اس طرح انہیں نیکی پر اکساتے رہتے.حالانکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اور یہ معمولی پریس میں ملازم تھے.مگر اس کے باوجود انہیں ہوشیار کرتے رہتے کہ ایسا نہ ہو ٹھوکر لگ جائے.اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام بخیر کر دیا.اور ہر قسم کے فتنوں کا مقابلہ کر کے وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب کہ بہت سے نشانات انہوں نے دیکھ لئے اور سلسلہ کی اشاعت اور اس کی ترقی بھی دیکھ لی.۳۴ے محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب کا بیان ہے کہ حضرت بابو غلام محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ جب ہم لاہور میں آتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اپنے گھر میں ہیں لیکن بٹالہ پہنچ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بہت دور آ گئے ہیں.اولاد: میاں غلام محمد صاحب ثالث اور امتہ اللہ بیگم مرحومہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے امیر غیر مبائعین ولادت ۱۸۷۴ء بیعت : مارچ ۱۸۹۷ء وفات : ۱۳.اکتوبر ۱۹۵۱ء جناب مولا نا محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی نے جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی تبلیغ سے مارچ ۱۸۹۷ء میں قادیان جا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.جون ۱۸۹۹ء میں ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ نے تحریری

Page 229

228 رنگ میں سلسلہ عالیہ کی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اور حضرت خلیفہ امیج اول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی ریویو آف ریلیجنز انگریزی اور اردو کے ایڈیٹر رہے.صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری شپ کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے.مگر افسوس کہ خلافت اولیٰ میں سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی نیکی، تقویٰ اور علمی قابلیتوں کی وجہ سے حسد میں مبتلا ہو گئے.ان کا خیال تھا کہ حضرت خلیفتہ امیج اول کے بعد خلافت کا بارگراں ان کے کندھوں پر ہی ڈالا جائے گا مگر سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ کی طرف رجوع خلق کو دیکھ کر چکرا گئے اور خلافت ثانیہ کی ابتدا میں ہی قادیان دارالامان کو ترک کر کے احمد یہ بلڈنگس لاہور میں اپنا الگ مرکز بنا لیا.جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب جناب ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور جناب شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ کو ساتھ لے کر انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لاہور کی بنیاد ڈالی اور ساری عمر سید نا محمود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی مخالفت میں گزار کر ۱۳.اکتوبر ۱۹۵۱ء کو بمقام کراچی وفات پاگئے.فانا لله و انا اليه راجعون.آپ ترجمہ قرآن کریم انگریزی اور دیگر متعدد کتب کی تالیف کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ خواب میں مولوی صاحب مرحوم کو کہا کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ“.جناب مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری (غیر از جماعت) ولادت: بیعت : مارچ ۱۸۹۷ء وفات : ۱۹۶۴ء مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری ابھی بچہ ہی تھے کہ اپنے والد ماجد حضرت ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب قصوری کے ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب تو بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے.مگر مولوی صاحب بڑے ہو کر عملاً احمدیت کو چھوڑ گئے.وکالت میں بہت نام پیدا کیا اور آخر عمر میں کافی عرصہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے صدر رہے.آپ کا نام بھی ۳۱۳.اصحاب کی فہرست مندرجہ " انجام آتھم میں درج ہے.آپ نے بیعت تو مارچ ۱۸۹۷ء میں کی تھی مگر چونکہ بیعت

Page 230

229 سے قبل بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان جایا کرتے تھے.اسی لئے ۱۸۹۶ء کی کتاب ”انجام آتھم میں آپ کا نام درج ہوا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مشہور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جناب چوہدری سر شہاب الدین صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اکٹھے قادیان گئے تھے اور ایک ہی روز انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب ولادت: ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات : ۲۱ جنوری ۱۹۶۵ء عمر ۸۲ سال حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب حلقہ بھاٹی گیٹ لاہور نے فرمایا کہ میں پانچویں یا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا جب میرے ماموں مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی ، مجھے قادیان لے گئے اور میں نے بیعت کی.اس کے بعد میں نے میٹرک کے امتحان تک تعلیم قادیان ہی میں حاصل کی.میں جھنگ سیال کا رہنے والا ہوں.تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۰۳ء میں لا ہور آ گیا اور ملازمت اختیار کی اس وقت سے میں یہاں ہی ہوں.اور سکونت بھی اندرون بھاٹی گیٹ میں ہے.افسوس کہ حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب ۲۱ جنوری ۱۹۶۵ء کو وفات پاگئے.انا للہ و انا اليه راجعون.بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.چھوٹے قد کے پتلے دبلے گورے رنگ کے بزرگ تھے.بہت نیک اور متقی انسان تھے.اولاد: محمد احمد صلاح الدین، محمد افضل نسیم، سلیمہ طاہر محمودہ حضرت قاضی محبوب عالم صاحب پیدائش: ۱۸۷۸ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۱۹ جولائی ۱۹۵۷ء ا.آپ ابھی طالب علم ہی تھے کہ مذہب کا شوق ہونے کی وجہ سے حنفیوں اور اہلحدیث کی بحثیں سنا کرتے تھے.مذہبا آپ حنفی تھے مگر چینیاں والی مسجد میں بھی جو کہ اہلحدیث گروہ کی تھی، جایا کرتے

Page 231

230 تھے.ان کی باتیں سن کر آپ پر یہ اثر ہوا کہ یہ لوگ حنفیوں کی نسبت قال اللہ اور قال الرسول پر زیادہ عمل کرنے والے ہیں.مگر ان کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ذکر ہوتا تھا اور وہ لوگ حضور کے دعوائے مسیحیت کے خلاف بہت کچھ کہا کرتے تھے.اب آپ اس جستجو میں لگ گئے کہ اگر کوئی حضرت مرزا صاحب کا مرید ملے تو اس سے حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی نسبت حالات معلوم کئے جائیں.چنانچہ ایک شخص ولی اللہ صاحب ابن بابا ہدایت اللہ مشہور پنجابی شاعر کوچه چابک سواراں کا آپ کو پتہ لگا.آپ نے ان کے پاس جانا شروع کر دیا.انہوں نے آپ کو استخارہ کرنے کے لئے توجہ دلائی.چنانچہ آپ نے ان سے طریق استخارہ سیکھ کر استخارہ کیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ دوسرے روز رات کے دو بجے ابھی میں استخارہ کی دعا پڑھ کر سویا ہی تھا کہ رویا میں مجھے کسی شخص نے کہا کہ آپ اٹھ کر دوزانو بیٹھیں کیونکہ آپ کے پاس حضرت رسول کریم تشریف لا رہے ہیں اور مجھے بھی زینے سے کسی شخص کے چڑھنے کی آواز آئی.چنانچہ میں رویا ہی میں دوزانو بیٹھ گیا.اتنے میں میں نے دیکھا ایک نہایت متبرک انسان سفید لباس میں آیا ہے اور اس نے ایک بازو سے حضرت مرزا صاحب کو پکڑ کر میرے سامنے لا کھڑا کر دیا اور فرمایا: هذا الرجل خليفة الله واسمعوا و اطيعوا پھر وہ واپس چلا گیا.اور حضرت صاحب میرے پاس کھڑے ہو گئے اور اپنی ایک انگلی اپنی چھاتی پر مار کر کہا ایہو رب خلیفہ کیتا اس نوں مہدی جانو“ پھر ایک رباعی بھی پڑھی لیکن میں بھول گیا ہوں.اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ میں مسیح موعود ہوں.پھر میں بیدار ہو گیا.صبح میں سکول جانے کی بجائے قادیان روانہ ہو گیا “.بٹالہ میں گاڑی شام کو پہنچی.نماز مغرب کا وقت ہو رہا تھا.اڈہ کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد تھی.آپ اس میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے.لوگوں نے پوچھا.آپ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے.آپ نے صاف صاف سب کچھ بیان کر دیا.اس پر ان لوگوں نے حضرت اقدس کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا اور آپ کو قادیان جانے سے روکا.مگر آپ نے فرمایا کہ ” میں قادیان

Page 232

231 ضرور جاؤں گا اس پر انہوں نے آپ کو مسجد سے باہر نکال دیا.آپ اڈہ پر تشریف لے گئے.کچھ لوگ آپ کو قادیان جانے سے روکنے کیلئے اڈہ تک بھی پیچھے گئے اور یہ لالچ بھی دیا کہ تم طالب علم ہو.ہم تمہیں یہاں بڑے میاں کے پاس بٹھا دیں گے اور تمہاری رہائش اور لباس کا بھی انتظام کر دیں گے.مگر آپ نے فرمایا کہ آپ پہلے ہی لاہور میں پڑھ رہے ہیں.یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں.ان باتوں کے بعد آپ رات ہی کو قادیان کی طرف چل پڑے.مگر اندھیرا بہت تھا.راستہ سے بھی ناواقفیت تھی.اس لئے کچھ راستہ طے کرنے کے بعد غلطی سے چراغ کی کو دیکھ کر مسانیاں چلے گئے.وہاں عشاء کی نماز ہو چکی تھی.لیکن ایک آدمی ابھی مسجد میں ذکر الہی کر رہا تھا.اس نے بتایا کہ قادیان تو یہاں سے دور ہے اور راستہ بھی مخدوش ہے.اس لئے رات یہاں سور ہو.صبح چلے جانا.چنانچہ صبح چار بجے کے قریب جب چاند نکلا تو وہ شریف آدمی آپ کو وڈالہ تک چھوڑ گیا.آپ نے نماز فجر نہر پر پڑھی اور سورج نکلنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد آپ قادیان پہنچ گئے.قادیان کے چوک میں جا کر ایک شخص سے پوچھا کہ بڑے مرزا صاحب کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ سامنے کی بڑی حویلی میں تخت پوش پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں.آپ نے جب آگے بڑھ کر دیکھا تو اس شخص کی ہئیت کذائی دیکھ کر سخت افسوس ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگے کہ کاش میں یہاں نہ آتا.ابھی واپس لوٹے ہی تھے کہ حضرت حافظ حامد علی صاحب سے ملاقات ہوئی.انہوں نے پوچھا کہ آپ کس جگہ سے تشریف لائے ہیں اور کسے ملنا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.میں نے جس کو ملنا تھا مل لیا ہے اور اب واپس جا رہا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ اگر تو آپ حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے آئے ہیں تو وہ یہ مرزا نہیں ہے وہ اور ہیں.اور میں آپ کو ان سے ملا دیتا ہوں ان کی یہ بات سن کر آپ کی جان میں جان آئی.حافظ صاحب نے فرمایا.آپ ایک رقعہ لکھ دیں.میں حضور کی خدمت میں اندر بھجوا دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے رقعہ میں لکھا کہ میں طالب علم ہوں.لاہور سے آیا ہوں.زیارت چاہتا ہوں اور آج ہی واپس جانے کا ارادہ ہے حضور نے جواب میں کہلا بھیجا کہ مہمان خانہ میں ٹھہریں اور کھانا کھائیں.ظہر کی نماز کے وقت ملاقات ہو گی.اس وقت میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اور اس کا مضمون میرے ذہن میں ہے.اگر میں اس وقت ملاقات کے لئے آیا تو وہ مضمون میرے ذہن سے اتر جائے گا.اس واسطے آپ ظہر کی نماز تک انتظار کریں مگر اس جواب سے آپ کی تسلی نہ ہوئی اور آپ نے دوبارہ لکھا کہ ” میں تمام رات

Page 233

232 مصیبت سے یہاں پہنچا ہوں اور زیارت کا خواہشمند ہوں.مجھے اسی وقت شرفِ زیارت سے سرفراز لیمجھے فرمائیں.یہ رقعہ پہنچنے پر حضور نے مائی دادی کو کہا کہ ان کو مسجد مبارک میں بٹھاؤ.میں ان کی ملاقات کے لئے آتا ہوں.آپ کو وہاں کوئی پندرہ منٹ بیٹھنا پڑا.اس کے بعد حضور نے مائی دادی کو کہا کہ ان کو اس طرف بلاؤ.حضرت صاحب اپنے مکان سے گلی میں آگئے.آپ بھی اس گلی میں پہنچ گئے.آپ فرماتے ہیں: دور سے میری نظر جو حضرت صاحب پر پڑی تو رویا میں جو شخص مجھے دکھایا گیا تھا بعینہ وہی حلیہ تھا.حضرت صاحب کے ہاتھ میں عصا بھی تھا.پگڑی بھی تھی.گویا تمام وہی حلیہ تھا.جو میں پہلے رویا میں دیکھ چکا تھا.میں حضرت صاحب کی طرف چل رہا تھا اور حضور میری طرف آ رہے تھے.گول کمرہ سے ذرا آگے میری اور حضرت صاحب کی ملاقات ہوئی.میں نے حضرت صاحب کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ خواب والے بزرگ ہی ہیں اور بچے ہیں.چنانچہ میں حضور سے بغلگیر ہو گیا اور زار زار رونے لگا.میں نہیں سمجھتا کہ وہ رونا مجھے کہاں سے آیا اور کیوں آیا.مگر میں کئی منٹ تک روتا ہی رہا.حضور مجھے فرماتے تھے.صبر کریں.صبر کریں.جب میرا رونا ذرا تھم گیا اور ہوش قائم ہوئی تو حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا.حضور میں لاہور سے آیا ہوں.فرمایا کیوں آئے ؟ عرض کیا حضور ! زیارت کے لئے.فرمایا کوئی خاص کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ صرف زیارت ہی مقصد ہے حضور نے فرمایا.بعض لوگ اپنے مقاصد کے لئے دعا کرانے آتے ہیں.کیا آپ کو بھی کوئی ایسی ضرورت درپیش ہے؟ میں نے عرض کیا.مجھے کوئی ایسی ضرورت در پیش نہیں.تب حضور نے فرمایا کہ مبارک ہو.اہل اللہ کے پاس بے غرض آنا بہت مفید ہوتا ہے.اس کے بعد فرمایا کہ آپ حامد علی صاحب کے ساتھ مہمان خانہ جائیں.ظہر کے وقت میں پھر ملاقات کروں گا.“ آپ فرماتے ہیں: میں مہمان خانہ میں چلا گیا.کھانا کھایا.آرام کیا.ظہر کی اذان ہوئی.مجھے پہلے

Page 234

233 ہی حافظ حامد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ پہلی صف میں جا کر بیٹھ جائیں.چنانچہ میں اسی ہدایت کے باعث پہلی صف میں قبل از وقت جا بیٹھا.حضور تشریف لائے.نماز پڑھی گئی.نماز کے بعد حضور میری طرف مخاطب ہوئے.اور فرمایا کہ آپ کب جانا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا.حضور ایک دور وز ٹھہروں گا.فرما یا کم از کم تین دن ٹھہر نا چاہیئے.دوسرے روز ظہر کے وقت میں نے بیعت کے لئے عرض کی.فرمایا کہ ابھی نہیں.کم از کم کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں.ہمارے حالات سے آپ واقف ہوں.اس کے بعد بیعت کریں.مگر مجھے پہلی رات ہی مہمان خانہ میں ایک رویا ہوئی جو یہ تھی کہ میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوا اور وہ میرے ایک کان میں داخل ہوا اور تمام جسم میں سے ہو کر دوسرے کان سے نکل کر آسمان کی طرف چلا گیا.اس میں کئی قسم کے رنگ تھے.سبز تھے، سرخ تھے نیلگوں تھے اتنے تھے کہ گنے نہیں جا سکتے.قوس و قزح کی طرح تھے.اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام دنیا روشن ہے.اس وقت مجھے اس قدر سرور اور راحت تھی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.مجھے صبح اٹھتے ہی محسوس ہوا کہ اس رویا کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی برکات سے مجھے وافر حصہ ملے گا.اس لئے مجھے بیعت کر لینی چاہئیے.چنانچہ اسی رؤیا کے اثر سے میں نے دوسرے روز بیعت کے لئے عرض کی جو منظور نہ ہوئی.حضور نے تین دن کی شرط کو برقرار رکھا.چنانچہ تیسرے روز ظہر کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے انشراح صدر ہو گیا ہے.اللہ میری بیعت قبول فرمائیں اس پر حضور نے میری بیعت قبول فرمائی اور میں رخصت حاصل کر کے لاہور آ گیا.چوتھے روز جو سکول گیا تو مجھے ایک شخص مرزا رحمت اللہ صاحب سکنہ ڈسکہ ملازم انجمن حمایت اسلام نے بلا کر پوچھا کہ تم چار دن کہاں تھے؟ میں نے صاف صاف کہا کہ قادیان گیا تھا.انہوں نے پوچھا.بیعت کر آئے ہو؟ میں نے کہا.ہاں ! انہوں نے کہا کہ یہاں کسی سے ذکر نہ کرنا.میں بھی احمدی ہوں.یہ لوگ بڑے تنگ دل ہیں، ستائیں گے.میں نے کہا کہ میں تو اس کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا.چاہے کچھ ہو.چنانچہ میں نے اپنے قرآن و حدیث کے استاد مولوی زین العابدین سے جو مولوی غلام رسول قلعہ والوں کے بھانجے تھے ذکر کر دیا.جس پر وہ بہت بگڑے اور میرے ساتھ سختی کرنا شروع کر دی.جب ان کی گھنٹی

Page 235

234 آتی تو آتے ہی مجھے کہتے ” او مرزائی بیچ پر کھڑا ہو جا‘ میں ان کے حکم کے مطابق پیچ پر کھڑا ہو جاتا اور پوچھتا کہ میرا کیا قصور ہے؟ وہ کہتے.یہی قصور ہے کہ تم مرزائی ہو اور کا فر ہو.کچھ عرصہ ان کی اس تکلیف دہی کو برداشت کر کے ایک روز میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی خدمت میں جا کر شکایت کر دی کہ بعض استاد مجھے اس وجہ سے مارتے ہیں کہ میں احمدی ہوں.اس پر انہوں نے ایک سرکلر جاری کر دیا کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کوئی مدرس کسی لڑکے کو سزا نہ دے چنانچہ اس آرڈر کے بعد مولوی زین العابدین صاحب اور ان کے ہم خیال استاد ڈھیلے پڑ گئے اور مجھ پر جو خنتی ہوا کرتی تھی اس میں کمی آگئی.حضرت صاحب کی خدمت میں بھی جب کبھی حاضر ہونے کا موقعہ ملتا تو میں حضور کی خدمت میں اپنی تکالیف کا ذکر کرتا.حضور فرماتے.کوئی بات نہیں.خدا تعالیٰ فضل کرے گا.اس اثناء میں مڈل کا امتحان ہوا جس میں میں فیل ہو گیا.اس پر میرے مخالف استادوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ مرزے کی برکت ہے.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور لوگ مجھے یہ طعنہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب کی بیعت کی وجہ سے تم فیل ہو گئے ہو.یہ تمہیں مرزائی ہونے کی سزا ملی ہے.حضور نے مسکرا کر کہا کہ یہ کوئی بات نہیں.رزق کا پاس اور فیل ہونے سے کوئی تعلق نہیں.خدا بہتر کرے گا.پس میں لا ہور چلا آیا اور یہاں کچھ ٹیوشنز کا کام شروع کر دیا.اور پھر مجھے ایک جگہ ملازمت بھی مل گئی.اس کے بعد مجھے ایک جگہ شادی کا خیال ہو گیا.وہ میرے قریبی رشتہ دار بھی تھے.حضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.حضور نے فرمایا.دعا کروں گا.چنانچہ میں اکثر دعا کے لئے لکھتا رہا.چنانچہ حضرت اقدس پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا کہ یہ رشتہ اس کے لئے مناسب نہیں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے لکھوا بھی دیا کہ اس رشتہ کا خیال چھوڑ دو اور ایک تمثیل بھی لکھوائی کہ سید عبد القادر جیلانی فرماتے تھے کہ اگر ایک شخص باغ کے اندر سیر کے لئے داخل ہوا اور پہلے ہی پودے کو دیکھ کر یہ خیال کرے کہ اس سے بہتر اور نہیں ہوگا تو وہ باقی باغ کی سیر سے محروم رہے گا.چنانچہ اس اصول پر حضور نے مجھ سے عہد لکھوایا کہ آئندہ اس رشتے کے واسطے کبھی خواہش نہیں کروں گا.چنانچہ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ

Page 236

235 عہد لکھ دیا.لیکن میں پھر بھی اس جذبہ سے باز نہ رہ سکا اور اپنے عہد کے خلاف پھر حضور کی خدمت میں اس رشتہ کی بابت دعا کروانے کے لئے خط لکھنا شروع کر دیا کہ اللہ قادر ہے.اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں.ممکن ہے کوئی ذریعہ ایسا نکل آئے جس سے میں کامیاب ہو جاؤں.چنانچہ میں حضور کو روزانہ کئی سال تک خط لکھتا رہا.آخر میں ایک خط میں نے حضور کو لکھا کہ جو پیر اپنے مرید کو اس دنیا میں جہنم سے نہیں نکال سکتا.وہ آخرت میں کیا فائدہ دے گا.حضور اگر وہ عورت مجھے نہیں دلا سکتے تو کم از کم اس جہنم سے تو مجھے نکا لیں.جس میں میں پڑا ہوا ہوں اور میرا دل اس سے پھر جائے.اس خط کے جواب میں مولوی عبدالکریم صاحب کا کارڈ میرے پاس پہنچا جس میں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.آج رات میں محبوب عالم کے لئے دعا کر رہا تھا کہ مجھے الہام ہوا دل پھیر دیا گیا“ یا تو یہ عورت آپ کو مل جائے گی یا پھر آپ کو اس کا خیال ہی نہیں آئے گا.اس سے قبل ایک رات مجھے بھی رویا میں دکھا یا گیا تھا کہ میرے اور اس عورت کے رشتہ داروں کے درمیان ایک دیوار ہے جو زمین سے لے کر آسمان تک کھنچی ہوئی ہے اور میں اُدھر نہیں جاسکتا.اور وہ ادھر نہیں آسکتے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ دیوار قہقہہ ہے جس کا مطلب مجھے یہ سمجھ آیا کہ اس کو عبور نہیں کیا جا سکتا.پس اس دن سے مجھے اس کا کبھی خیال پیدا نہیں ہوا.اس رؤیا سے ایک دن قبل میں نے حضور کو لکھا کہ اگر شرعاً جائز ہو اور حضور ا جازت دیں تو میں اس عورت کو نکال کر ہمراہ لا سکتا ہوں.جب یہ کارڈ میں پوسٹ کر چکا تو رات بھر مجھے نیند نہیں آئی اور بے کلی رہی اور صبح کو ہی میں نے قادیان کا رخ کیا.قادیان پہنچ کر حضور کی خدمت میں اطلاع کروائی.حضور فوراً ننگے سر باہر تشریف لائے.فرمایا.وہ عورت کہاں ہے؟ میں نے عرض کی.حضور ! میں اس کو ساتھ تو نہیں لا یا کیونکہ حضور کی طرف سے مجھے کوئی جواب نہیں گیا.حضور نے فرمایا.یہ تم نے بہت اچھا کیا کہ زنا سے بچ گئے.اس طرح سے کسی عورت کا نکال کر لانا نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ زنا ہی رہتا ہے کیونکہ یہ امرمومن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ولی کی اجازت کے بغیر کسی عورت کے ساتھ نکاح کر لے.قرآن میں

Page 237

236 صاف لکھا ہے.فانكحو هُنَّ باذن اهلهن ” نیز حضور نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں.دعا قبول نہیں ہوتی.آج رات میں نے سوائے آپ کے اور کوئی دعا نہیں کی اور میری دعا ہی آپ کو یہاں کھینچ لائی ہے اور آپ اس گناہ سے بچ گئے ہیں.اور اب آپ چھ ماہ تک قادیان میں ہی ٹھہریں.چنانچہ میں قادیان میں ٹھہر گیا اور ضیاء الاسلام پریس میں حضرت صاحب کی کتابیں چھپوانے پر میری ڈیوٹی لگ گئی.مرزا اسماعیل بیگ صاحب پریس مین تھے اور میں ان کا نگران تھا.حضرت صاحب کو صاف اور ستھری کتابیں چھپوانے کا از حد خیال تھا.۲.ایک دفعہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب نے میری شکایت کی کہ یہ بے جائنگ کرتے ہیں اور چھاپنے نہیں دیتے.حضور نے مجھے طلب فرمایا.میں حاضر ہوا.فرمایا.کیا بات ہے؟ میں نے وہ کاغذ جو ر ڈی چھپے ہوئے تھے پر لیس سے لا کر پیش کر دئیے.حضور ایک ایک کاغذ کو دیکھ کرفرماتے تھے کہ مرزا اسماعیل بیگ یہ تو خراب ہے.یہ چھپائی تو واقعی خراب ہے.آپ ان کے کہنے پر کام کریں اور میں نے ان کو رکھا ہی اس لئے ہے کہ کتاب صاف اور ستھری چھپے.چھ ماہ تک میں نے مطبع میں کام کیا.جب چھ ماہ گذر گئے تو میں نے حضور سے اجازت طلب کی.حضور نے فرمایا آج نہ جاؤ کل چلے جانا مگر میں نے اپنے اجتہاد سے کام لیا کہ اب اجازت ہو گئی ہے.اب آج کیا اور کل کیا.آج ہی چلو.چنانچہ میں گاؤں والے راستہ سے چل پڑا.عصر کا وقت تھا.اچانک بادل اٹھا اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی.اس کثرت سے بارش ہوئی کہ الامان والحفیظ ! بڑی مشکل سے نہر پر پہنچا.سورج غروب ہو گیا.بارش اور ہوا کا تیز ہونا، کپڑوں کا گیلا ہونا، پیدل چلنا اور رستہ میں کیچڑ اور پانی کا بکثرت ہونا یہ سب باتیں ایسی تھیں کہ جن کو دیکھ کر مجھے حضور کے ارشاد کی قدر معلوم ہوئی اور میں نے سمجھا کہ میں نے بہت غلطی کی ہے.چنانچہ میں نے رات دس بجے برلب سڑک درختوں کے اندر بٹالہ میں جو ایک چھوٹی سی مسجد ہے وہاں پہنچ کر کپڑے نچوڑے اور مسجد کے اندر بیٹھ رہا.ساری رات وہیں پڑا رہا.چار بجے صبح کو گیلے کپڑے پہن کر گاڑی پر سوار ہوا اور لاہور پہنچا.یہاں پہنچ کر ایک بائیسکل کی دوکان پر ملازم ہو گیا.تھوڑ ا عرصہ میں

Page 238

237 نے ملا زمت کی.پھر میں قادیان چلا گیا اور حکیم فضل دین صاحب بھیروی کے پاس ملازم ہو گیا کیونکہ مطبع کے منتظم اعلیٰ وہی تھے.سات روپے ماہوار میری تنخواہ مقرر ہوئی.اس پر حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے مبارکباد دی کہ تم نے فضل دین سے سات روپے ماہوار کی نوکری لی ہے.یہ تو کسی منشی کو پانچ روپے سے زیادہ نہیں دیا کرتے.چنا نچہ کچھ عرصہ میں ان کی ملازمت میں رہا.اس عرصہ میں پھر لاہور سے جس دکان پر میں ملازم تھا.اس کے مالک نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ آپ کا مرید محبوب عالم ہمارا ملازم تھا.نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہے.آپ اس کو ہدایت فرماویں کہ واپس آ جائے کیونکہ وہ دیانتدار آدمی ہے.ہمیں اس کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت صاحب کو جب یہ خط ملا تو حضور نے مجھے طلب فرمایا اور حکم دیا کہ آپ فورالا ہور چلے جائیں.اس دکاندار نے آپ کی بہت تعریف لکھی ہے.اس واسطے ہمارا خیال ہے کہ آپ ان کے پاس پہنچ جائیں.چنانچہ میں لاہور آ گیا اور نہیں روپے ماہوار پر ملازم ہو گیا.دوسال کے بعد اس پروپرائٹر دکان نے جس کا نام الہ بخش تھا میاں محمد موسیٰ کو اپنی تجارت میں حصہ دار بنا لیا.اب میں بجائے ایک شخص کے دو کا ملازم ہو گیا.مگر قدرت خداوندی سے الہ بخش علیحدہ ہو گیا اور میاں محمد موسیٰ دکان کا واحد مالک ہو گیا.اور مجھے مینیجر رکھ لیا.اب میں نے میاں محمد موسیٰ صاحب کو تبلیغ شروع کی.چنانچہ ان کو قادیان بھیجا.مگر وہ شامت اعمال سے قادیان سے بغیر بیعت کے واپس آگئے.بعد ازاں میں ان کو کبھی کبھی اخبار بدرسنا تا رہا.پھر میں نے ان کو ایک دن ایک حدیث سنائی کہ ایک دن ایک بدوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اس نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں.آنحضرت تو اللہ نے قسم کھا کر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.تب اس بدوی نے بیعت کر لی اور اپنے قبیلہ کی بھی بیعت کروادی.جب یہ واقعہ میں نے میاں محمد موسیٰ صاحب کو سنایا تو ان پر بڑا اثر ہوا.اور انہوں نے اسی وقت ایک کارڈ حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں.یہ کارڈ جب حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب

Page 239

238 کو حکم دیا کہ لکھ دو.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ آنحضرت نے اس امت کو دیا تھا.اس کارڈ میں مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی طرف سے بھی ایک دو فقرے لکھ دیئے.جن کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے خدا کے مسیح کو قسم دی ہے.اب آپ یا تو ایمان لائیں یا عذاب الہی کے منتظر ر ہیں.وہ کارڈ جب پہنچا تو میاں محمد موسی صاحب نے اپنی اور اہل وعیال کی بیعت کا خط لکھ دیا.اس طرح سے میں اب اکیلا نہ رہا.بلکہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو بھی شامل کر دیا.۳.ایک دفعہ کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی تھے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کو عجائب گھر چھوڑ کر حضور ہماری دکان پر تشریف لائے.میں نے حضور کی خدمت میں دکان کے اندر آنے کی التجا کی.حضور نے فرمایا.نبی دکانوں میں نہیں بیٹھا کرتے.کرسی باہر لے آئیں یہیں بیٹھیں گے.چنانچہ میں نے کرسی دکان کے باہر کھلی جگہ میں بچھائی.حضور تشریف فرما ہوئے اور پانی طلب فرمایا.میں نے دودھ کی لسی پیش کی.حضور نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے.فرمایا میں نے تو پانی مانگا تھا.غالباً ساتھ ہی فرمایا کہ مجھے نزلہ کی شکایت ہے یا ز کام ہے اس لئے میں لتی نہیں پیتا.میرے اصرار پر ایک گھونٹ نوش فرما کر برکت دی.پھر میں نے پانی منگوا دیا.حضور نے پیا اتنے میں ایک شخص آیا.اس کا نام محمد امین تھا.وہ بوٹوں کی دکان کیا کرتا تھا.مجمع کو دیکھ کر کہنے لگا کہ کیا ہے؟ کون ہے؟ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ مرزا صاحب قادیان والے ہیں.چنانچہ وہ آگے بڑھا.مجمع کو چیرتے ہوئے سامنے کھڑا ہو گیا اور نہایت گستاخی اور بے باکی سے یا دجال یا کافر کہہ کر السلام علیکم کہا.حضور مسکرائے اور فرمایا کہ دجال بھی اور السلام علیکم بھی.یہ دو متضاد باتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں.اس پر حضور نے ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں لکھواتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کی انتہائی بدنصیبی ہے کہ ان کے درمیان دجال پیدا ہو گیا جب کہ ان کو ضرورت تھی کسی مصلح کی ! اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں ان پر رحم فرمایا جب کہ ان کی حالت پراگندہ تھی اور شیرازہ بکھرا ہوا تھا.مگر افسوس کہ وہ بد قسمتی سے ایک ہادی کو دجال سمجھ رہے ہیں.حضور

Page 240

239 نے اس موضوع پر کوئی آدھ گھنٹہ تقریر فرمائی.وہ بہت شرمندہ ہوا اور خاموش ہو گیا.پھر حضور عجائب گھر تشریف لے گئے.۴.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا.۴.اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد.ان ایام میں حضور قادیان سے باہر قیام پذیر تھے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اس مکان میں تھیں جو باغ میں ہے اور حضور ایک خیمہ میں تھے.حضرت ام المومنین نے میر مہدی حسین صاحب کو شیشے کا ایک مرتبان دے کر فرمایا کہ شہر جا کر عرق لے آؤ.اس مرتبان کے او پر ایک چٹ لگی ہوئی تھی عطیہ از محبوب عالم جے پور یہ شخص قاضی محمد اسلم صاحب کا بھائی تھا.میر صاحب نے فرمایا کہ آؤ.دونوں چلیں.میں بھی ساتھ ہو گیا.جب ہم مرز ا سلطان احمد صاحب کے باغ میں پہنچے تو میر صاحب نے مجھے کہا کہ لو یہ مرتبان پکڑو.چنانچہ میں نے ان سے مرتبان لے لیا.جب وہ مرتبان میرے ہاتھ میں آیا تو جو نہی میں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا تو اوپر کا حصہ میرے ایک ہاتھ میں رہ گیا اور نیچے کا دوسرے ہاتھ میں.گویا دو ٹکڑے ہو گئے.میں حیران ہو گیا کہ یہ کیا ہو گیا.سید مہدی حسین صاحب نے مجھے کہا کہ یہ حضرت ام المومنین نے مجھے دیا ہے اور اب آپ کو ان کے پاس جوابدہی کے لئے چلنا ہوگا چنانچہ ہم دونوں حضرت ام المومنین کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے.دروازے پر دستک دی.اتفاق سے حضرت ام المومنین ہی اندر سے بولیں کہ کیا ہے؟ کون ہے؟ مہدی حسین نے کہا کہ حضور.مہدی حسین ہوں.فرمایا کیا بات ہے؟ میر صاحب نے کہا کہ وہ مرتبان جو حضور نے عرق لانے کے لئے دیا تھا محبوب عالم نے توڑ ڈالا ہے.فرمایا.ان کو حضرت صاحب کے پاس لے جاؤ.وہاں سے ہم خیمہ کی طرف آئے.عصر کا وقت تھا.حضور کرسی پر تشریف فرما تھے.السلام علیکم کے بعد حضور نے اندر آنے کی اجازت دی.اب میں ڈرتے ڈرتے اندر گیا اور دل میں میرے کئی قسم کے خیالات تھے کہ معلوم نہیں اب کیا سرزنش ہوگی.بدن پسینے سے تر ہو رہا تھا.خوف سے دم خشک ہو رہا تھا.جب حضور کی خدمت میں پیش ہوئے.اور سید مهدی حسین صاحب نے اپنا وہی بیان دیا کہ محبوب عالم نے مرتبان توڑ ڈالا ہے.میرا خیال تھا کہ حضور پوچھیں گے کس طرح توڑا ہے کیسے ٹوٹا ہے؟ تو میں ساری

Page 241

240 حقیقت بیان کر دوں گا.مگر حضور نے کچھ نہیں فرمایا.صرف اتنا کہا کہ ”بہت ہی اچھا ہوا مرتبان ٹوٹ گیا.اگر یہ برتن ٹوٹیں نہیں تو ہمارے گھر میں اس کثرت سے جمع ہو جائیں کہ ہمارے رہنے کے لئے کہیں جگہ ہی نہ رہے، میں حضور کے اس جواب سے اس قدرخوش ہوا کہ میرا تمام رنج و فکر کا فور ہو گیا اور مجھے کچھ عرض کرنے کی دلیری ہو گئی.چنانچہ میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں کل یا پرسوں تک لا ہور جانے والا ہوں.ایک مرتبان حضور کے واسطے خرید کر بھیج دوں گا.اس پر حضور نے فرمایا.یہ شرعاً منع ہے.تاوان لینا شریعت میں جائز نہیں ہاں اگر ( کوئی تحفہ بھیج دے ہم قبول کر لیتے ہیں.پس حضور سے یہ مسئلہ اس وقت ہم نے سیکھا ہم خوشی خوشی وہاں سے الوداع ہو کر واپس آ گئے.چنانچہ اس کے بعد میں نے بھی یہی طریق رکھا کہ اگر کسی ملازم سے کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اس سے تاوان کبھی نہیں لیا.۵.اب پھر گذشتہ بات کا ذکر کرتا ہوں کہ میں ہیں روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا تھا مگر بعد میں ترقی کر کے ۱۱۰ روپے لینے لگ گیا.قریباً پچیس سال تک اس دوکان میں ملازمت کی اور جتنے لوگوں نے میرے ساتھ مڈل پاس کیا تھا اور سرکاری ملازمتیں حاصل کی تھیں.وہ جب کبھی مجھے ملتے تو یہی کہتے کہ آپ مزے میں ہیں ہمیں تو بڑی مصیبت ہے.غرض حضور کی دعا سے میرا زمانہ ملازمت نہایت ہی امن سے گذرا.چنانچہ حضرت نانا جان مجھے فرمایا کرتے تھے کہ تم ملازم نہیں مالک ہو.ملازمت کے دوران میں ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک صاحب صدر الدین نام نے جو پولیس میں ملازم تھے.مجھے پیغام بھیجا کہ اگر آپ ہمارے ہاں شادی کرنا منظور کریں تو ہم تمہیں بخوشی رشتہ دے دیں گے.بشرطیکہ آپ مرزائیت سے تو بہ کر لیں.میں نے ان کو کہا یہ ناممکن بات ہے.شادی کے لئے تو میں تیار ہوں.مگر احمدیت سے تو یہ نہیں کر سکتا.حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا.حضور نے جواب دیا کہ آپ اس جگہ شادی کرنے کی کوشش کریں اور اگر کوئی مشکل پیش آوے تو ہمیں لکھیں اور اگر نقدی کی ضرورت ہو تو ہم مدد بھی دیں گے.میں نے یہاں سلسلہ شروع کیا.ان کی طرف سے یہ اصرار ہوتا تھا کہ احمدیت سے تو بہ کرو.مگر والدہ ان لڑکوں کی اس شرط کے

Page 242

241 الله خلاف تھی.میں نے انہیں یہ لکھ کر دے دیا کہ میرا یہی مذہب ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام خدا کی طرف سے نبی مہدی موعود اور محمد رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہیں.میں ان کی بیعت میں ہوں.چنانچہ بعد ازاں وہ بھی مان گئے اور یہ شرط اڑادی.وہاں میرا نکاح ہو گیا.حضور کی خدمت میں بھی میں نے اطلاع کر دی.حضور نے لکھا کہ یہ عورت آپ کے لئے بہت مبارک ہے.چنانچہ میری اس اہلیہ سے ہمیں بچے پیدا ہوئے جن میں سے چارلڑ کے اور پانچ لڑکیاں زندہ ہیں اور بیوی بھی زندہ موجود ہے اور سب احمدیت کے فدائی اور بچے خادم ہیں.۱۹۲۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے عہد مبارک میں مجھے میاں محمد موسی صاحب نے ملازمت سے الگ کر دیا.میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کیلئے لکھا.حضور نے دعا فرمائی.چنانچہ حضور کی دعاؤں کی برکت سے میرے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ سرمایہ مہیا ہو گیا.پھر میرے کاروبار میں بھی خدا تعالیٰ نے برکت دی.اب چودہ سال ہو گئے ہیں (۱۹۳۹ء میں مؤلف ) کہ اپنی دوکان کر رہا ہوں..جب حضور آخری بار لا ہور تشریف لائے تو ہر روز شام کو حضرت ام المومنین کے ہمراہ فٹن پر سیر کیلئے تشریف لے جاتے تھے اور میں سائیکل پر حضور کی اردل میں ہوتا تھا.ایک روز شام کے وقت جب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر سیر سے واپس پہنچے تو فٹن والا زیادہ کرایہ مانگتا تھا.مگر حضرت نانا جان کچھ کم دیتے تھے حتی کہ جھگڑا ہو گیا.جب جھگڑے کی آواز حضرت صاحب تک پہنچی تو حضور بنفس نفیس باہر تشریف لائے اور فرمایا کیا بات ہے؟ میر صاحب نے کہا کہ یہ لوگ بڑے بے ایمان ہوتے ہیں.کرایہ زیادہ مانگتے ہیں.ہم نے جو مناسب تھا دے دیا ہے.حضور نے اس فٹن والے کو چوان کو بلا کر فر مایا کہ اور کیا چاہتے ہو.اس نے کہا.حضور ایک روپیہ مجھے اور ملنا چاہیے.حضور اندر گئے اور ایک دو منٹ کے بعد ایک روپیہ لا کر اسے دے دیا اور میر صاحب سے فرمایا کہ مزدوری سے کم نہیں دینا چاہئے.یہ سن کر وہ کو چوان بہت خوش ہوا اور حضور کے اخلاق کی تعریف کرتا ہوا چلا گیا.ے.میں چونکہ حضرت صاحب کو روزانہ خط لکھا کرتا تھا اس واسطے حضرت اقدس کو بھی

Page 243

242 میرے ساتھ بہت محبت ہو گئی.جب کبھی میں قادیان پہنچتا حضور خود ہی مجھے شرف ملاقات بخشتے.کبھی مجھے اندر بلاتے کبھی خود باہر تشریف لاتے.ایک دفعہ جب میں گیا تو حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے.اور فرمایا کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں.میں آپ کے لئے کچھ کھانا لاتا ہوں.چنانچہ میں کھڑکی کے آگے بیٹھ گیا.ابھی بمشکل پندرہ بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ حضور سویوں کی ایک پلیٹ ہاتھوں میں تھامے ہوئے تشریف لے آئے.اور فر مایا یہ ابھی آپ کے لئے اپنے گھر والوں سے پکوا کر لایا ہوں.میں بہت شرمسار ہوا کہ حضور کو تکلیف ہوئی مگر دل میں خوش بھی ہوا کہ حضرت اقدس کے دست مبارک سے مجھے یہ پاکیزہ غذا میسر آئی ہے.چنانچہ میں نے سویاں کھا کر خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا.پھر رات کو حضور نے مجھے فرمایا کہ آج آپ یہیں سو جائیں.چنانچہ مسجد کے ساتھ والے کمرہ میں میں اکیلا سویا مگر رات بھر نیند نہیں آئی.میں جاگتا ہی رہا اور دعائیں کرتا رہا اور دل میں خیال کرتا تھا کہ میرا یہاں سونا کہیں غفلت کا موجب نہ ہوا اور حضرت کو روحانی طور پر معلوم نہ ہو جائے کہ میں سویا ہوں اسی خوف سے میں جاگتا رہا اور درود شریف پڑھتا رہا اور دعائیں کرتا رہا.جب چار بجے تو حضور خود میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ جا گئیں اب نماز کا وقت ہونے والا ہے.میں تو پہلے سے ہی جاگتا تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور مسجد مبارک میں آ گیا.اتنے میں اذان ہوئی.حضرت اقدس بھی تشریف لائے اور نماز پڑھی..ایک دفعہ میں لاہور سے گیا.میں نے اپنے پہنچنے کی اطلاع حضرت اقدس کو لکھ دی اور آپ حضرت حکیم الامت کی مجلس میں آبیٹھا.اتنے میں مائی دادی آئی اور کہا کہ محبوب عالم جو لا ہور سے آیا ہے اس کو حضرت صاحب بلا رہے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے میری طرف دیکھا اور تبسم فرما کر کہا کہ کام بن گیا ہے، جائیے.جب میں چلا تو میرے پیچھے پیچھے حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی بھی چلے آئے.حافظ صاحب نے سمجھا پر دہ تو ہوگا ہی میں بھی ملاقات کرلوں گا.چنانچہ میں جب حضرت صاحب کے پاس اندر چلا گیا تو میرے پیچھے ہی حضرت حافظ صاحب بھی پہنچ گئے.حضرت اقدس نے السلام علیکم کے بعد حضرت حافظ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ بلا اجازت تشریف لائے ہیں جو قرآن

Page 244

243 شریف کی تعلیم کے خلاف ہے.اس پر حافظ صاحب بہت نادم ہوئے.حضرت اقدس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ منشی صاحب! آپ نے میرا نیا بیت الدعاد یکھا ہے؟ میں نے عرض کیا.حضور نہیں دیکھا.فرمایا وہ سامنے ہے جا کر دیکھ لیں.میں بیت الدعا کے اندر چلا گیا اور وہاں دو نفل نماز پڑھی.اتنے میں حافظ صاحب اپنی بات چیت کر کے فارغ ہو گئے.میں بھی دعا سے فارغ ہو گیا.حافظ صاحب کو تو حضرت نے رخصت کر دیا مگر میں حضور کی خدمت میں بیٹھ گیا.حضرت صاحب صحن میں چار پائی پر تشریف فرما تھے.میں پاؤں دبانے لگ گیا.حضور میرے ساتھ محو گفتگور ہے.وہ باتیں رشتہ کے متعلق ہی تھیں.کوئی آدھ گھنٹہ سے زیادہ میں نے حضرت صاحب سے باتیں کیں.۹.ایک مرتبہ حضرت اقدس حضرت ام المومنین کے ہمراہ شالا مار باغ سے سیر کر کے واپس آ رہے تھے.حضور فٹن پر سوار تھے اور میں سائیکل پر ساتھ ساتھ آ رہا تھا.حضور نے اپنا سر مبارک فٹن سے باہر نکال کر تقسیم کرتے ہوئے فرمایا کہ سائیکل پر سوار انسان ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کتے پر سوار ہے اس زمانہ میں فٹن بہت اونچی ہوا کرتی تھی.دو گھوڑے آگے ہوا کرتے تھے.تانگہ کا رواج نہیں تھا.۱۰.جب حضور آخری بار لا ہور تشریف لائے تو حضور کا حکم تھا کہ جب ہم سیر کے لئے جائیں تو کوئی نہ کوئی سائیکل سوار ساتھ رہے.کیونکہ بعض دفعہ کوئی فوری ضرورت پیش آ جاتی ہے.چنانچہ میں اکثر یہ خدمت بجالاتا تھا.مجھے یاد ہے.ایک مرتبہ حضور حضرت ام المومنین کے ساتھ لارنس گارڈن میں سیر کیلئے تشریف لے گئے.حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ مجھے سخت پیاس لگی ہے.حضرت اقدس نے مجھے فرمایا کہ کہیں سے دودھ اور برف مل سکتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور ! سب کچھ مل سکتا ہے چنانچہ میں سائیکل پر لارنس گارڈن سے باہر دکان پر گیا.معلوم ہوا دودھ اور برف تو موجود ہے مگر برتن نہیں.پاس ہی باغ میں ایک کنواں تھا.وہاں مالی سے میں نے ایک ٹنڈ لینے کی اجازت لی اس نے مجھے مھل سے کھول کر دی.میں وہ ساتھ لے گیا اور اس میں دودھ اور برف لایا.حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا.حضرت ام المومنین نے بھی پیا اور بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.فرمایا.

Page 245

244 آپ کو یہ ٹنڈ کہاں سے ملی؟ عرض کیا حضور ! اس کوئیں کے مالی سے مانگ کر لایا ہوں.فرمایا.اب اس کو واپس دے آؤ.چنانچہ میں گیا اور اس کو واپس دے آیا.یہ آخری بار آنے کی بات ہے.۱۱.اسی سفر کا ایک اور واقعہ ہے بلکہ بالکل آخری واقعہ ! عصر کا وقت تھا.حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ چلو سیر کو چلیں.میں باہر برآمدے میں کھڑا سن رہا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا.چند سطریں رہ گئی ہیں پھر ہمارا کاختم ہو جائے گا.چنانچہ حضور کوئی آدھ گھنٹے کے بعد فارغ ہو گئے.اور جب باہر تشریف لائے تو ایک صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.آج ہم نے اپنا کام ختم کر دیا ہے.پھر فٹن پر سوار ہو کر سیر کو تشریف لے گئے.ٹھنڈی سٹرک سے ہو کر انارکلی میں تشریف لائے.مجھے حکم دیا کہ کیسری کی دوکان پرفٹن کھڑی کرنا.چنانچہ کیسری کی دوکان پر جب ہم پہنچے (کیسری ایک ہندو کا نام تھا.انار کلی میں اس کی سوڈا واٹر کی مشہور دکان تھی لوہاری دروازہ سے باہر جب انار کلی میں داخل ہوں تو دس بارہ دکانوں کے بعد بائیں طرف وہ دکان تھی.حضرت اقدس بازار ہی میں فٹن کھڑی کر کے سوڈا منگوایا کرتے تھے دوکان کے اندر نہیں جاتے تھے.مؤلف ) فٹن کھڑی کر کے حضور نے فرمایا کہ لیمن کی دو بوتلیں تھوڑی سی برف ڈال کر لائیں.چنانچہ میں نے دو بوتلیں معہ برف حضرت کی خدمت میں پیش کیں.ایک حضرت نے اور دوسری ام المومنین نے نوش فرمائی.حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ وہ دہلی والا کچوریاں بنا رہا ہے اس سے دو آنہ کی کچوریاں لائیں.چنانچہ میں گیا اور کچوریاں لا کر حضرت کی خدمت میں پیش کیں.پھر وہاں سے لوہاری دروازے سے ہوتے ہوئے ریلوے روڈ پر سیر کرتے ہوئے خواجہ کمال الدین کے مکان پر مغرب کے وقت کے بعد پہنچ گئے.میں گھر چلا گیا اور صبح کو سیدھا دکان پر چلا گیا.جب چٹھی رساں ڈاک لایا تو اس نے کہا کہ مرزا صاحب فوت ہو گئے ہیں.وہاں بہت خلقت جمع ہے.آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں اس سے بہت ناراض ہوا اور سخت ست کہا.اس کی بات سے مجھے کوئی یقین نہ آیا.اتنے میں ایک اور شخص نے آ کر کہا کہ تمہارا مرزا فوت ہو گیا ہے.تب میں نے اس کو بھی شرمندہ کیا اور کہا کہ تم لوگ ہمیشہ جھوٹ بولنے کے عادی ہو.مگر ان دونوں

Page 246

245 پیغاموں سے میرا دل تشویش میں پڑ گیا.میں نے ایک اپنا خاص ملازم سائیکل سوار بھیجا کہ جاؤ! خبر لاؤ کیا بات ہے؟ میرا آدمی جاچکا تھا کہ تھوڑے عرصہ کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ما لک انگلش ویئر ہاؤس معه خواجہ کمال الدین صاحب کے میری دکان پر ٹانگے میں پہنچ گئے اور کہا کہ حضرت صاحب کا وصال ہو گیا ہے.تب میرا دل پژمردہ ہو گیا اور میں سکتہ کی حالت میں ہو گیا اور دل میں کہا کہ یا الہی ! یہ کیا ماجرا ہے.میں نے بھی بائیسکل اٹھائی اور بھاگا.جب وہاں پہنچا تو غیر احمدیوں کا بے شمار ہجوم با ہر نعرے لگا رہا تھا اور بکواس کر رہے تھے.میں جب اندر گیا.حضرت مولوی نورالدین صاحب بیٹھے تھے اور وفات کا ذکر ہو رہا تھا.پھر مجھے یقین ہوا کہ واقعی وفات ہوگئی ہے.بعد ازاں میں اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب سٹرک پر کھڑے تھے کہ ایک مخالف شخص جو وہ بھی ڈاکٹر تھا اور اس کا نام سعید تھا.اس نے کہا کہ مرزا فوت ہو گیا ہے.اب بتاؤ.تمہاری پیشگوئیاں کہاں گئیں اور وہ کس طرح پوری ہوں گی.میں حیران تھا کہ میں کیا جواب دوں مگر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے جواب دیا کہ وہ پیشگوئیاں اب ہمارے ذریعے پوری ہوں گی.مجھے ان کے اس جواب سے بہت فائدہ پہنچا.پھر ڈاکٹر محمدحسین شاہ صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب سول سرجن کو بلا لائے.اس نے آ کر نعش مبارک کا ملاحظہ کیا اور سرٹیفکیٹ دیا.پھر بعد اس کے خاکسار.نور محمد (جو بعد میں جماعت سے الگ ہو گیا ) اور خلیفہ رجب الدین صاحب اور چند اور دوستوں نے ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے مکان میں نیچے غسل دیا اور کفنایا.اتنے میں خلیفہ رجب الدین کو خیال آیا کہ باہر لوگ مشہور کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے ہاتھ پاؤں میں (نعوذ باللہ ) کوڑھ ہو گیا ہے اور یہ بات بعد میں آنے والوں کے لئے پریشانی کا موجب ہوگی.ہم کیوں نہ لوگوں کو زیارت کرائیں.چنانچہ میں نے خلیفہ رجب الدین صاحب کی اس بات سے اتفاق کیا.میں اور خلیفہ صاحب سڑک پر چلے گئے اور جا کر آواز دی کہ حضرت مرزا صا حب فوت ہو گئے ہیں جو شخص زیارت کرنا چاہے بلا تمیز مذہب وملت زیارت کر سکتا ہے.چنانچہ چالیس چالیس، پچاس پچاس لوگ اکٹھے آتے تھے اور ہم نے حضرت صاحب کے پاؤں اور ہاتھ اور منہ کھلے

Page 247

246 رکھے ہوئے تھے.لوگ زیارت کر کے جاتے تھے.ہند ولوگ میت کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو زندہ ہی لیٹے ہوئے ہیں ان کے چہرہ پر موت کا کوئی نشان نہیں ہے.اس روز ہم نے دوپہر کے وقت لوگوں کو پے در پے زیارت کرائی.پیر جماعت علی شاہ صاحب نے باہر سٹرک پر جمگھٹا لگایا ہوا تھا اور لوگوں کو کہتا تھا کہ مرزا صاحب کو ( نعوذ باللہ ) جذام ہو گیا ہے.کبھی کہتا تھا کہ ہیضہ سے مر گئے ہیں.لوگوں نے اس کی باتوں سے متاثر ہوکر شہر میں ایک جلوس نکالا.ایک آدمی کا منہ کالا کر دیا.اس کو میت بنا کر چار پائی پر لٹا دیا اور بازاروں میں گھوم کر کہنا شروع کر دیا کہ ہائے ہائے مرز ا مر گیا اور بھی کئی قسم کی بیہودہ آوازیں نکالتے تھے.غرض جب لوگ زیارت کر چکے تو خلیفہ رجب الدین صاحب نے اپنی کنگھی جیب سے نکالی اور حضرت اقدس کی داڑھی مبارک میں کنگھی کی تاکہ بال سیدھے ہو جائیں اور جو بال اس میں سے کنگھی کے ساتھ نکلے وہ انہوں نے اپنے پاس رکھ لئے.اس کے بعد حضرت صاحب کا جنازہ اٹھا کر صندوق میں برف ڈال کر بند کر دیا گیا.اوپر روٹی رکھ دی گئی اور گاڑی پر بٹالہ تک لے گئے.میں اس ڈبہ میں بیٹھا تھا جس میں نعش مبارک تھی.ایک دو اور آدمی بھی تھے جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں.۱۲.شیخ رحمت اللہ صاحب نے جب اپنے بھائی شیخ محبوب علی صاحب سے دکان الگ کی اور ٹھنڈی سٹرک پر لے گئے تو ان ایام میں حضرت اقدس لاہور میں تھے.انہوں نے حضرت صاحب کو دعوت دی اور دکان میں سے گزار کر دکان کے پیچھے جو کمرہ تھا اور نشست گاہ کا کام دیتا تھا اس میں لے جانے کی کوشش کی.مگر حضرت صاحب نے دکان سے گذر کر جانا منظور نہ کیا.کسی دوسرے راستہ سے گذر کر وہاں پہنچے.فرمایا کہ ہم دکان سے گذر کر نہیں جائیں گے.میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہی اس کمرہ میں گیا تھا.باتیں ہوتی رہیں.شیخ صاحب نے بمبئی کے سرخ کیلوں کا ایک گچھا پیش کیا.حضور نے فرمایا مجھے زکام ہے میں نہیں کھا سکتا.انہوں نے بہت اصرار کیا کہ حضور ایک تو کھا ئیں.حضور نے ان کے اصرار پر ایک کیلا اپنے ہاتھ میں لیا اور چھیل کر تناول فرمایا.جس سے حضور کو کچھ تکلیف ہوئی اور فرمایا

Page 248

247 کہ کیلے کی وجہ سے ریزش زیادہ ہوگئی ہے.پھر حضور وہاں سے باہر کی طرف سے ہی تشریف لے آئے دکان کے اندر سے نہیں گزرے.۱۳.گورداسپور دورانِ مقدمات میں حضرت صاحب نے وہیں رہنا شروع کر دیا تھا.ایک دن کسی ریڈر نے خواجہ صاحب کے کان میں کہہ دیا کہ کل فیصلہ سنایا جائے گا اور مجسٹریٹ مرزا صاحب کو سزا دینے کا خیال رکھتا ہے.آپ کوئی بندوبست کریں.چنانچہ خواجہ صاحب گھبرائے ہوئے حضرت صاحب کے اس مکان میں تشریف لائے جہاں حضرت صاحب تشریف فرما تھے.میں بھی خواجہ صاحب کے پیچھے ہو لیا.جب ہم داخل ہوئے تو حضرت صاحب چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.ہم پاس بیٹھ گئے.خواجہ صاحب نے وہ تشویشناک بات حضرت صاحب کو سنائی کہ مجسٹریٹ کا ارادہ قید کرنے کا ہے یا کہا کہ جسمانی سزا دینے کا ہے جو نہی حضرت صاحب کے کان میں یہ آواز پہنچی.حضور اٹھ بیٹھے اور فرمانے لگے: ' خواجہ صاحب ! کیا وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالے گا ؟ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.خدا نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میں تیری حفاظت کروں گا.ہم مطمئن ہو گئے اور باہر آ گئے.دوسرے دن ڈپٹی کمشنر کے کمرہ کے باہر کسی اہلکار نے آ کر ہمارے سامنے بیان کیا کہ مجسٹریٹ نے فیصلہ حضرت صاحب کے خلاف کیا تھا.یعنی اس نے قید کرنے کا فیصلہ لکھا تھا.مگر جب ڈپٹی کمشنر نے وہ فیصلہ پڑھا تو کہا کہ نہیں نہیں.یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے.اگر جرم ثابت ہے تو صرف جرمانہ کی سزا ہوگی.چنانچہ مجبوراً اس نے پانچ سو روپیہ جرمانہ کر دیا اور فیصلہ پونے چار بجے شام سنایا اور دن بھی ہفتے کا تھا.اس کا منشا یہ تھا کہ اتوار کا دن تو قید رہیں.مگر پہلے سے روپے کا انتظام کیا گیا تھا جو فوراً اس کے حوالے کر دیا گیا مگر عدالت عالیہ سے اپیل پر واپس مل گیا.۱۴.میرے پیٹ میں بائیں طرف رسولی ہو گئی.میں ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کے پاس ہی رہا کرتا تھا.( ڈاکٹر صاحب ۲۶ اور ۲۷.اپریل ۱۹۳۹ء کی درمیانی رات کو دس بجے

Page 249

248 وفات پا گئے.مؤلف ) انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ اس کا جلدی آپریشن کرائیں.میں نے ان کو کہا کہ میں حضرت صاحب سے پوچھ کر آپریشن کراؤں گا.چنانچہ میں قادیان چلا گیا.حضرت اقدس مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.میں نے رونی شکل بنائی.مایوس تو پہلے ہی تھا.عرض کیا کہ حضرت! میں تو اب بہت خوفزدہ ہوں.ڈاکٹر میرا پیٹ چاک کریں گے، پتہ نہیں نتیجہ کیا نکلے گا.تب حضور نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا.حضور کی آنکھوں سے محبت کا اظہار ہورہا تھا.فرمایا کہاں ہے رسولی؟ حضور نے اپنا دست مبارک تین چار دفعہ اس پر پھیرا.اور فرمایا.تین چار سال تک کوئی آپریشن نہ کرائیں.بعض رسولیاں بڑھا نہیں کرتیں.اگر اس عرصہ کے بعد ضرورت ہوئی تو آپریشن کرا لینا.چنانچہ اس بات کو اب ۳۶ سال کا عرصہ گذر رہا ہے مگر وہ وہاں کی وہاں ہے.آگے نہیں بڑھی.۱۵.جب حضرت اقدس لیکچر کے ارادہ سے لاہور تشریف لائے تو کسی شخص نے ایک کا رڈلکھا کہ جب آپ باہر نکلیں گے تو میں آپ کا پیٹ چاک کر دوں گا.حضور نے اس کو معمولی بات سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کی.مگر یہ بات کہیں باہر نکلتے نکلتے پولیس کے محکمے میں پہنچ گئی.وہاں سے کوئی افسر دریافت کرنے کے لئے آ گیا کہ کیا کوئی ایسا کارڈ آیا ہے؟ حضور نے فرمایا.ہاں کا رڈ آیا ہے.اس کے طلب کرنے پر حضور نے وہ کارڈ اس کے حوالہ کر دیا.وہ کارڈ لے گیا.دو دن کے بعد ڈپٹی کمشنر نے کہلا بھیجا کہ حضور اگر پسند فرمائیں تو اس لیکچر کو لیٹ کر دیں تا کہ گورنمنٹ حفظ امن کے لئے انتظام کر لے.چنانچہ حضور نے اس کو دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دیا.جس دن حضور کا لیکچر تھا.میاں معراج الدین صاحب عمر کے مکان میں حضور تشریف فرما تھے.یہاں سے لیکر منڈ وہ ( عقب دا تا گنج بخش ) تک جو لیکچر کا تھی.پولیس، فوج، رسالہ کا کافی انتظام تھا.چھٹڑ کا ؤ کا بڑا انتظام تھا.کوتوال شہر رحمت اللہ خاں کے نام آرڈر تھا کہ حضرت اقدس کو قیام گاہ سے لے کر جلسہ گاہ تک پہنچانا اور جلسہ گاہ سے لے کر پھر قیام گاہ تک پہنچانا تمہارے ذمہ ہے.چنانچہ وہ باور دی آ گئے.اور مجھے سے ہی آ کر پوچھا کہ حضرت صاحب کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا.حضرت اوپر ہیں.اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں.حضور نے فرمایا.اوپر آ

Page 250

249 جائیں.وہ اوپر آگئے.بعد سلام عرض کی کہ حضور تشریف لے چلیں.حضرت صاحب اس کے ساتھ نیچے اتر آئے اور فٹن میں بیٹھ گئے.وہ بائیں طرف بیٹھ گیا.میں با ہر فٹن کے فٹ پاتھ پر کھڑا ہو گیا کوئی ایک دو دوست آگے بھی کھڑے ہو گئے کوئی پیچھے بھی کھڑے ہو گئے.فٹن آہستہ آہستہ چل پڑی.فٹن کے آگے ایک رسالہ تھا اور سڑک کے دونوں طرف پولیس کافی تعداد میں کھڑی تھی.سوار بھی پھر رہے تھے اور گوروں کی پلٹنیں اس کے علاوہ تھیں.لوگ کہتے تھے کہ یہ مرزا ہے یا کٹک آ گیا ہے ( کٹک کے معنی فوج ہی فوج کے ہیں ) جب منڈ وہ پہنچے تو اس کے ارد گرد بھی گورا پلٹنیں تھیں اور کچھ فاصلہ پر پولیس کا انتظام بھی کافی تھا.جب اندر داخل ہوئے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے لیکچر پڑھنا شروع کیا.ہزار ہا آدمیوں کا مجمع تھا.سناٹا چھایا ہوا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی آواز تھی کہ حشر تھا.بعض گورے کہتے تھے کہ اتنا لاؤڈ بولنے والا ہم نے اپنی لائف میں نہیں دیکھا.منڈوہ کے باہر بھی فرلانگ فرلانگ تک مولوی صاحب کی آواز جاتی تھی اور صحیح سنی جاتی تھی.جب لیکچر ختم ہوا تو لوگوں کے اصرار پر حضرت صاحب بھی کھڑے ہوئے کیونکہ وہ حضور کی زبان مبارک سے کچھ سنا چاہتے تھے.حضرت صاحب نے چند منٹ تقریر فرمائی.سولہ دن حضور کا قیام لاہور میں رہا.کھانے کا انتظام جن احباب کے سپر د تھا ان میں میں بھی شامل تھا.غالباً خلیفہ رجب دین صاحب نے کسی مہمان کو کہہ دیا کہ پانی بھی ساتھ پیو.یہ بات کسی طرح سے حضرت اقدس کے حضور بھی پہنچ گئی کہ مہمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور کھانا خاطر خواہ نہیں ملتا.حضور باہر تشریف لائے اور دروازہ میں کھڑے ہو کر فرمایا.کون منتظم ہے؟ ہم نے عرض کیا.حضور! ہم حضور کے خادم ہیں.فرمایا.میں نے سنا ہے کہ مہمانوں کو کھانا اچھا نہیں ملتا اور بعض کو کہا جاتا ہے کہ بازار سے کھاؤ.کیا یہ صحیح بات ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ حضرت بے تکلفی میں کسی نے کہہ دیا ہے ورنہ انتظام سب ٹھیک ہے.فرمایا.نہیں ! ہم اپنے لنگر کا انتظام خود کریں گے.مہمان ہمارے ہیں اور لنگر کا انتظام بھی ہمارے ہی ذمہ ہے.بعض دوستوں نے مل کر معافی کی درخواست کی اور آئندہ احتیاط کا وعدہ کیا.حضور نے معاف فرما دیا اور لنگر جماعت لاہور کی طرف سے جاری رہا.

Page 251

250 ۱۶.جلسہ سالانہ کا موقعہ تھا اور یہ مہمان خانہ (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب والا مکان ) نیا بنا ہی تھا خواجہ کمال الدین صاحب کو خیال تھا کہ آج شب دیگ پکائیں.شب دیگ کیا ہوتی ہے کہ ایک بکرا ذبح کروا کر اس میں شلجم آدھے آدھے کروا کر اور کافی مقدار میں گھی ڈال کر دیگ چولہے پر چڑھا دی جاتی ہے اور وہ ساری رات چولہے پر رہتی ہے.خواجہ کمال الدین صاحب نے لنگر خانہ میں یہ آرڈر دے دیا کہ ایک بکرا ذبح کر کے فوراً لا ؤ اور کافی مقدار میں شلجم اور گھی لاؤ اور شام کے وقت باورچی کو بلا کر کہا کہ دیگ چولہے پر رکھ دو.دسمبر کا مہینہ تھا.گوشت بھون کر اس میں شلجم ڈال کر چولہے پر رکھ دیا گیا.وہ پک رہا تھا اور خواجہ صاحب تو کسی اور جگہ ٹھہرے ہوئے تھے مگر میں اس مہمان خانہ میں ہی تھا.آدھی رات کے وقت مجھے سیڑھیوں میں سے کسی کے اترنے کی آواز آئی.میں چوکنا ہو گیا.جب دیکھا تو حضرت صاحب اپنے مکان سے نیچے اتر رہے تھے.میں تو حضور کو دیکھ کر سہم گیا.حضور نے فرمایا.کیا پک رہا ہے؟ میں نے کہا.حضور یہ شب دیگ ہے.فرمایا.شب دیگ کیا ہوتی ہے؟ میں نے اس کی تفصیل عرض کر دی.فرمایا.کس نے پکوائی ہے؟ میں نے عرض کیا.حضور یہ خواجہ صاحب نے پکوائی ہے.حضور یہ سن کر خاموش ہو گئے مگر حضور کا چہرہ کسی قدر متغیر ہو گیا.میں وہاں لیٹا ہوا تھا.رات کا کافی حصہ گذر گیا.آگ بجھ گئی.تین چار کتے آئے.انہوں دیگ کو نیچے پھینکا اور گوشت کھانے لگ گئے.جب سحری کا وقت ہوا اور ہم نے دیکھا کہ دیگ نیچے پڑی ہے تو ہم نے خواجہ صاحب کو بلایا.وہ بھی تشریف لے آئے.دیکھ کر بہت پریشان ہوئے.فرمانے لگے.یہ باقی جو بچ گئی ہے اس کا کیا کیا جائے.آپ ہی فرمانے لگے.حضرت صاحب سے نماز کے بعد مسئلہ پوچھیں گے کہ آیا چوہڑے کو دے دی جائے.کیا جائز ہے؟ جب حضور سے پوچھا گیا تو حضور نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے پہلے چوہڑے کو پوچھ لینا چاہئے کہ آیا وہ کتے کا جھوٹا کھانا پسند کریں گے؟ اس کے بعد حضور نے کچھ ایسے الفاظ فرمائے جن کا مفہوم یہ تھا کہ یہ اسراف ہے.جب دن نکلنے پر چوہڑے کو پوچھا گیا تو اس نے کہا.میاں آپ ہی کھاؤ ہم نہیں کھاتے.۱۷.ایک مرتبہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور میں دو پہر کے وقت قادیان

Page 252

251 پہنچے.حضور نے ہم سے فرمایا کہ آپ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے؟ ہم نے عرض کیا حضور! ہم روزہ دار ہیں.حضور اندر تشریف لے گئے.پانی لائے اور ہمارے روزے افطار کروا دیئے.فرمایا کہ سفر میں روزہ کیسا ؟ اسی روز دوسری گاڑی سے شیخ رحمت اللہ صاحب پہنچے.حضور نے ان سے دریافت فرمایا.آپ کو روزہ ہے؟ شیخ صاحب نے عرض کی.ہاں حضور ! روزہ ہے.فرمایا.اب تو تھوڑ ا دن رہ گیا ہے آپ روزہ پورا کر لیں چنانچہ شیخ صاحب نے روزہ پورا کر لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے.عصر کا وقت تھا اور گرمیوں کا موسم تھا.حضرت منشی محبوب عالم صاحب راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد کے مالک تھے.آپ جب آخری بیماری میں بیمار ہوئے تو آپ کے بڑے صاحبزادہ محترم قاضی محمود احمد صاحب نے آپ کی بہت خدمت کی.بلکہ آخری چند ماہ میں تو آپ کے لئے مسجد دارالذکر کی سفید زمین میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے ایک کمرہ تیار کر وایا تھا.چنانچہ و ہیں آپ کی وفات ہوئی اور آپ ۱۹.جولائی ۱۹۵۲ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.آپ کی اہلیہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں.جنہوں نے ۱۹۰۶ء میں بیعت کی اور ۲۵ فروری ۱۹۶۰ ء کو ۳ے سال کی عمر میں وفات پائی_فانا لله وانا اليه راجعون.اولاد محمود احمد مسعود احمد مرحوم رشید احمد ناصر احمد امتہ العزیز بیگم اہلیہ مولوی محب الرحمن صاحب آمنہ صدیقہ بیوہ مرزا مولا بخش صاحب مرحوم، صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ احمد حسن صاحب رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمد خان صاحب نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ ملک سعادت احمد صاحب محترم شیخ عبدالکریم صاحب گنج مغلپورہ ولادت: بیعت : ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء خاکسار کے اس سوال پر کہ آپ کب اور کس طرح احمدی ہوئے ؟ محترم شیخ عبدالکریم صاحب آف گنج مغلپورہ نے فرمایا: میں وزیر چک نز د فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کا باشندہ ہوں.۱۸۹۷ء میں قادیان حصول تعلیم کیلئے گیا اور تیسری جماعت میں داخلہ لیا.اس کے سال ڈیڑھ سال بعد بیعت

Page 253

252 کی.قادیان میں نویں کلاس میں پڑھتا تھا کہ بیمار ہو گیا اور تعلیم چھوڑنا پڑی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۴ء میں لیکچر دینے کیلئے تشریف لائے تو میں بھی ساتھ آ گیا.مجھے حافظ حامد علی صاحب سید مٹھا کے حکیم فضل الہی صاحب کے پاس لے گئے حکیم صاحب بھی احمدی تھے ) اور کہا کہ اس بچے کو کہیں ملا زم کروا دیں.حکیم صاحب مجھے دلباغ رائے کے پاس لے گئے وہ البرٹ پر لیس پرانی انار کلی کے مالک تھے.چنانچہ میں نے اس پر لیس میں کمپوزیٹر کا کام سیکھا.میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے با بو غلام محمد صاحب فورمین کو خط لکھوایا کہ وہ مجھے کہیں ملازم کروا دیں.چنانچہ حضور نے لکھا کہ حامل ہذا کے بچے عبد الکریم کو ملازم کروا دیں“ یہ حضور کے خط کا مفہوم ہے.اصل خط بھی کہیں محفوظ ہوگا.بہر حال جب وہ خط بابو صاحب کو ملا تو انہوں نے مجھے ریلوے میں ملازم کروا دیا.جہاں سے میں ۳۶ سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر ہوا.ایک سال گھر رہا.پھر دفتر والوں نے بلالیا اور ایک سال دس ماہ ملا زم رکھا.اولاد: عبدالقدیر - سلیمہ بیگم.امتہ اللہ سعیدہ بانو.فہمیدہ لئیقہ.درشہوار.بشر کی مشین.عبدالحی حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان ولادت : ۱۸۸۰ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء حضرت میاں معراج دین صاحب پہلوان حلقہ بھاٹی گیٹ محلہ پٹ رنگاں لاہور بہت پرانے بزرگ ہیں.پہلوانی میں مصروف رہنے کی وجہ سے زیادہ علمی کام نہیں کر سکے.باوجود معمر ہونے کے اب بھی جسم خاصا مضبوط ہے.اندرون بھائی میں اپنے بھائی محترم حکیم سراج الدین صاحب کے ساتھ محلہ پٹ رنگاں میں رہتے ہیں.فرمایا کرتے ہیں کہ میں اپنے استاد کے کاغذات لے کر محلہ وچھو والی میں پنڈت لیکھرام کے پاس جایا کرتا تھا.خاکسار کے اس سوال پر کہ آپ کی احمدیت کا باعث کیا ہوا.فرمایا کہ میاں عبد العزیز صاحب مغل ہمارے محلہ میں تبلیغ کیا کرتے تھے.پنڈت لیکھرام کے قتل کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا.تمام شہر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی

Page 254

253 کے پورا ہونے کا چرچا رہتا تھا کہ ۱۸۹۸ء میں حضور ہمارے بازار بھائی دروازہ میں سے گذرے.حضور کے ساتھ کوئی تمیں کے قریب آدمی تھے.مجھے اور میاں مولا بخش صاحب دکاندار کو جب علم ہوا ہم بھی حضور کی زیارت کیلئے بازار میں پہنچے.میاں مولا بخش صاحب نے حضور کو دیکھ کر پہلے ایک اچھا سا کلمہ کہا جو مجھے یاد نہیں.اور پھر کہا.سبحان اللہ ! یہ منہ.جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا.مولا بخش صاحب احمدی نہیں ہوئے مگر مخالفت بھی کبھی نہیں کی.ایک شخص مولوی ٹاہلی ( ٹاہلی پنجابی میں شیشم کے درخت کو کہتے ہیں.ناقل ) کے نام سے مشہور تھا.یہ میاں عبدالعزیز صاحب مغل کے مکان کے سامنے شیشم کے درخت پر چڑھ کر بکو اس کیا کرتا تھا.ہم نے اسے دیکھا کہ وہ ایسا ذلیل ہوا کہ بالکل مخبوط الحواس ہو کر پرانے کپڑوں کی گانٹھ پیٹھ کے پیچھے اٹھائے پھرتا تھا اور سر پر بھی چیتھڑے ہوتے تھے اور پاگلوں کی طرح پھرا کرتا تھا.اسی حالت میں مر گیا.ایک شخص پیر بخش نام ہوا کرتا تھا.رسالہ تائید الاسلام کا ایڈیٹر تھا.ایک دفعہ اس نے ہماری دوکان پر کہا کہ تم کہا کرتے ہو انی مهین من اراد اهانتک مرزا صاحب کا الہام ہے.میں ایک لمبے عرصے سے توہین کر رہا ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوتا.شیخ عطاء اللہ صاحب نے ہمیں کہا کہ آج کی تاریخ نوٹ کر لو.یہ شخص پکڑا گیا ہے.بڑا امیر آدمی تھا.اس کا لڑکا حکومت افغانستان کی طرف سے ولایت میں ایک مشینری خرید نے گیا ہوا تھا کہ وہاں ہی مر گیا.جب اس کی وفات کی خبر پیر بخش کو پہنچی تو وہ خبر اس پر بجلی بن کر گری.چنانچہ اسے فالج ہو گیا اور اسی مرض میں مبتلا ہو کر وہ مر گیا.افسوس حضرت میاں معراج الدین صاحب پہلوان کل مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء کو صبح دس بجے چند روز بیمار رہ کر وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون.آج مورخہ ۲۳.مارچ ۱۹۶۵ء کو بھائی دروازہ کے باہر ایک بہت بڑے مجمع میں جس میں محترم جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور بھی موجود تھے.خاکسار کو ان کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا.اسی وقت نعش بہشتی مقبرہ ربوہ میں صالحین جماعت احمدیہ کے ساتھ دفن کرنے کے لئے ربوہ لے جائی گئی.انا للہ ونا اليه راجعون.اولاد: ظہور دین مرحوم، بختاور سلیمہ.

Page 255

254 محترم صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف (غیر مبائع ) ولادت: بیعت : ۱۸۹۷ء وفات: میاں احمد دین صاحب ڈوری باف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں غالبا ۱۸۹ء سے قبل بیعت کی تھی.موتی بازار میں دکان کرتے تھے تبلیغ کا بھی شوق تھا.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد غیر مبائعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.ملہم ہونے کا بھی دعوی تھا.مجیب عجیب باتیں کیا کرتے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں وفات پائی.فانا لله و انا اليه راجعون.نوٹ : بعض احباب سے زبانی دریافت کرنے پر پتہ چلا تھا کہ میاں احمد دین صاحب ڈوری باف نے ۱۸۹۸ء کے لگ بھگ بیعت کی تھی.اس لئے ۱۸۹۸ء کے صحابہ میں ان کے حالات درج کئے گئے.لیکن جب ۱۸۹۷ء کے صحابہ کے حالات کی کتابت ہو چکی تھی تو اتفاقاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب ” احمد صادق کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ میاں احمد دین صاحب ۱۸۹۷ء سے بھی پہلے کے احمدی تھے.چنانچہ حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں: لاہور میں ایک احمدی بھائی صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف ایک غریب ان پڑھ مخلص احمدی تھے.۱۸۹۷ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چند اور خدام کے ساتھ ایک شہادت کے واسطے ملتان تشریف لے گئے تھے تو راستہ میں لاہور میں ایک دو روز ٹھہرے.صوفی احمد دین صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ان کے گھر میں جا کر کھانا کھائیں اور محبت کے جوش میں جلدی سے یہ بھی کہہ دیا کہ بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ دعوت کرتا ہوں.اگر حضور مجھے غریب جان کرنا منظور کریں گے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا.حضرت نے تبسم فرمایا اور دعوت قبول کی اور ان کے مکان پر تشریف لے گئے جو ایک غریبانہ تنگ سا مکان تھا اور اس کی دیواروں پر ہر طرف سے پاتھیاں تھی ہوئی تھیں، ۳۵

Page 256

255 ولادت: محترم میاں محمد امین صاحب بیعت : ۱۸۹۸ ء یا اس سے قبل وفات: محترم میاں محمد امین صاحب ڈنگہ ضلع گجرات کے باشندہ تھے.ریلوے ایگزامینر دفتر لاہور میں ملازم تھے.لاہور کے کسی حلقہ کے سیکرٹری مال بھی تھے.تین بھائی تھے.میاں گل حسن، غلام حسن اور میاں محمد امین.تینوں صحابی تھے.ان کے والد محترم بھی صحابی تھے.میاں محمد امین صاحب ملا زمت سے فارغ ہو کر قادیان چلے گئے تھے.وہیں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.فان اللہ و انا اليه راجعون نوٹ : رسالہ ” واقعہ ناگزیر، مشتمل بر حالات حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب مرحوم انسپکٹر پولیس مصنفہ حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے صفحہ ۲۷.۲۸ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا ایک خط درج ہے جس پر تاریخ ۱۱.ستمبر ۱۸۹۸ لکھی ہے.اس خط میں احباب لاہور کی ایک فہرست بھی دی گئی ہے اس فہرست میں میاں گل حسن اور میاں غلام حسن مجید کے نام بھی درج ہیں.یہ خط اس امر کا ثبوت ہے کہ ان حضرات کی بیعت بہر حال ۱۸۹۸ء کی یا اس سے پہلے کی تھی.محترم میاں محمد سلطان صاحب در زمی وفات: ولادت : ۱۸۸۰ء بیعت : ۱۸۹۸ء سے قبل لاہور کے ایک صحابی حضرت میاں محمد سلطان صاحب درزی کا ذکر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کتاب ”احمد صادق کے صفحہ ۸۴ پر آتا ہے.اس میں حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ میاں محمد سلطان صاحب لاہور میں درزی کا کام کرتے تھے.انہوں نے ۱۸۹۹ء میں جب کہ حضرت اقدس کتاب ” مسیح ہندوستان میں لکھ رہے تھے.ذکر کیا کہ وہ ایک دفعہ افعانستان گئے تھے اور وہاں ایک دیکھی تھی جو لا مک نبی کی قبر کے نام سے مشہور تھی.اس پر حضرت نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ محترم ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ غلام حسن نہیں غلام حسین تھا.بھائی کا نام بے شک گل خان تھا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر جاتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام افغانستان میں کسی جگہ چند روز ٹھہرے ہیں اور وہاں کے لوگوں نے یادگار کے طور پر قبر بنالی ہے.واللہ اعلم بالصواب.(مؤلف) قبر

Page 257

256 کسی عبرانی لغت سے لائک کے معنی دیکھئے.مفتی صاحب نے لغت دیکھ کر بتایا کہ ” لا مک“ کے ایک معنی جمع کرنے والا ہیں.اور حضرت مسیح بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کو جمع کرنے کیلئے آئے تھے.یہ سن کر حضرت اقدس کو بہت خوشی ہوئی اور سجدہ بھی کیا.حضرت چوہدری اله بخش صاحب مالک سٹیم پر لیس قادیان ولادت : ۱۸۷ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء عمر : ۷۰ سال حضرت چوہدری اله بخش صاحب رضی اللہ عنہ کو خاکسار اس وقت سے جانتا ہے جب کہ وہ قادیان میں سٹیم پریس کے ذریعہ سے سلسلہ کا لٹریچر شائع کیا کرتے تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے میری پہلی کتاب ”سید الانبیاء بھی استاذی المکرم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری سابق پروفیسر جامعه احمد یہ قادیان نے انہی کے پریس سے شائع کروائی تھی.اس زمانہ میں ان کا پریس محلہ دارالفضل قادیان میں تھا.حضرت چوہدری صاحب چھوٹے قد کے تھے مگر جسم خوب مضبوط تھا.تقسیم ملک کے بعد لاہور میں آگئے.ان کی مالی حالت کمزور ہو چکی تھی.کشمیری بازار میں بیٹھ کر سُرمہ فروخت کیا کرتے تھے مگر جب بھی ملاقات ہوتی تھی نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے.میں نے کم از کم ان کی زبان سے کبھی ایک حرف بھی شکوہ روزگار پر مشتمل نہیں سنا.آپ بہت پرانے صحابی تھے.۱۸۹۸ء میں بیعت کی اور ۶.اکتوبر ۱۹۵۷ ء کو ستر سال کی عمر میں فوت ہوۓ.فانا لله وانا اليه راجعون.اولاد : عطاء اللہ.عبد المنان.عنایت اللہ نعمت الله - صبغت اللہ.عصمت اللہ حمید اللہ.حفیظ اللہ.فقیر اللہ.امۃ الرحمن.امتہ المنان.امتہ الکریم مرحومہ.حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب ولادت : ۱۸۸۶ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۱۷.مارچ ۱۹۶۱ء عمر : ۷۵ سال حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب ملیاں ضلع امرتسر کے باشندہ تھے.ان کے والد محترم کا نام حضرت میاں محمد بخش صاحب تھا.وہ ابتدائی صحابہ میں سے تھے.حضرت منشی صاحب قادیان میں مڈل پاس کرنے کے بعد پٹواری ہو گئے تھے.ریٹائر ہونے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی زمینوں پر سندھ میں بطور مینجر کام کرتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانخانہ میں

Page 258

257 بھی کام کرنے کا موقعہ ملا.ہجرت کے چند سال بعد حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت لیہ میں زمینوں کے انتظام کیلئے گئے اور پھر نواں کوٹ لاہور میں رہائش اختیار کی اور یہیں وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.اولاد: سردار بیگم اہلیہ چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ اسلامیہ پارک، حمیدہ بیگم کو کب ایوانی مرحوم محترم مولوی محب الرحمن صاحب ولادت : ۲.جولائی ۱۸۸۹ء بیعت : ۹۹ - ۱۸۹۸ء محترم مولوی محب الرحمن ولد میاں حبیب الرحمن صاحب دہلی دروازہ لاہور نے فرمایا: میری بیعت ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء کی ہے.خاکساراپنے والد ماجد کے ہمراہ ۱۸۹۸ ء یا ۱۸۹۹ء میں دارالامان حاضر ہوا.شام کا کھانا مسجد مبارک کی چھت پر حضور کے ہمراہ کھایا.ان دنوں خاکسار پر ہیزی کھانا کھاتا تھا.اس لئے حضرت اقدس نے خاص طور پر خاکسار کے متعلق دریافت فرمایا کہ محب الرحمن کے واسطے کھانا آیا ہے.خاکسار نے دیکھا کہ لوگ حضور کے آگے سے پس خوردہ اٹھا لیتے ہیں جس میں میرے والد صاحب بھی شریک تھے تو اس وقت کی عمر کے لحاظ سے مجھے یہ بات ناگوار گذری اور خلاف تہذیب معلوم ہوئی کیونکہ حضور نے ابھی کھا نا ختم نہ فرمایا تھا.والد صاحب کا معمول تھا کہ ہر روز صبح کے وقت حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے.حضرت اقدس اس کمرہ میں جو مسجد مبارک کے ساتھ والی کوٹھری کے پہلو میں بڑا دالان ہے جس میں حضور بیٹھ کر تصنیف کا کام کرتے تھے.پردہ کرا کر بلا لیتے تھے.خاکسار بھی ہمراہ ہوتا تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت والد صاحب حضرت اقدس کا بے حد احترام کرتے تھے.ایک دن حضرت والد صاحب نے دوران گفتگو میں عرض کیا کہ آیا زیور پر بھی زکوۃ ہوتی ہے.فرمایا ز کوۃ تو نہیں مگر اچھا ہے کہ کسی غریب کو کسی ضرورت کے موقعہ پر عاریہ دے دیا جائے.

Page 259

258 اسی طرح حضرت والد صاحب نے تصویر کے متعلق پوچھا.حضور نے تعجب سے فرمایا کہ اچھا ہمارے دوستوں نے بھی تصویر میں خریدی ہیں.ہماری غرض یہ تو نہ تھی کہ دوست اپنے پاس رکھیں.اگر آپ نے خریدی ہے تو کہیں ڈال چھوڑ ہیں.بٹالہ سے والد صاحب ایک یکہ میں آئے تھے.ایک ساتھ والے یکہ میں شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور بھی تھے.ہمارا یکہ جب مہمان خانہ کے دروازہ پر پہنچا تو والد صاحب نے حافظ حامد علی صاحب کو آواز دی اور یکہ میں سے خلاف معمول کو دکر حضرت مسیح موعود کی طرف بھاگتے ہوئے چلے گئے.خاکسار کو کو چوان نے اتار دیا اور اسباب یکہ سے نکال دیا.میں اس بات کو دیکھ کر حیران کھڑا تھا کہ حافظ حامد علی مہمانخانہ سے باہر آئے اور پوچھا کہ یہ اسباب میاں حبیب الرحمن صاحب کا ہے اور اٹھا کر اندر لے گئے اور خاکسار کو بھی ساتھ لے گئے.کچھ دیر بعد حضرت والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کر کے واپس تشریف لائے.ہمارے لئے قیام کی جگہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مطب کے اوپر کے کمرہ میں تھی اور اس جگہ چند یوم قیام کر کے واپس چلے گئے.حضرت مسیح موعود کی خدمت میں جب والد صاحب نے مجھے پیش کیا تو عرض کی کہ حضور ا سے بیعت کروانے کے لئے لایا ہوں.حضور نے فرمایا.اس کی تو بیعت ہی ہے یا یہ کہ یہ تو بیعت میں ہی ہے.بیعت کرانے کی کیا ضرورت ہے.لیکن والد صاحب نے عرض کیا کہ حضور بیعت میں داخل ہو کر دعاؤں میں شامل ہو جائے گا اس پر حضور نے فرمایا کہ آج شام کو بیعت کر لیں گے.چنانچہ شام کو بعد نماز مغرب خاکسار نے بیعت کی.اس وقت اور لوگوں نے بھی بیعت کی تھی.مسجد مبارک میں خاکسار نمازوں میں شامل ہوتا تھا.اس وقت خراس موجود تھا لیکن او پر چھت نہ تھی اور خر اس کی عمارت اور گول کمرہ کے پردہ کی دیوار کے درمیان کچھ دیوار بنی ہوئی تھی.جس کی وجہ سے ہمیں چکر کاٹ کر مسجد میں جانا پڑتا تھا.میں نے والد صاحب سے دریافت بھی کیا تھا کہ یہ دیوار کیوں بنی ہوئی ہے؟ اگر یہ دیوار نہ ہو تو راستہ سیدھا ہے.والد صاحب نے جو جواب دیا وہ مجھے یاد نہیں رہا.

Page 260

259 ایک دن حضور سیر کے لئے باہر تشریف لائے تو والد صاحب کے ہمراہ خاکسار بھی چوک میں حضور کا انتظار کر رہا تھا.حضور نے آتے ہی والد صاحب سے دریافت کیا کہ چائے پی لی ہے؟ والد صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں عادی نہیں.لیکن حضور واپس اپنے مکان میں تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد ملازم کے ہاتھ ایک خوان لے کر واپس تشریف لائے اور والد صاحب کو فرمایا کہ چائے پی لیں.والد صاحب نے معذرت بھی کی لیکن حضور نے اصرار فرمایا.اس پر میں اور والد صاحب اوپر چلے گئے اور چائے پی.حضرت والد صاحب کو یہ احساس تھا کہ حضور نیچے انتظار فرما رہے ہیں.اس لئے انہوں نے جلدی جلدی چند گھونٹ پینے اور نیچے اتر آئے.مگر خاکسار آہستہ آہستہ چائے پیتا رہا.تھوڑی دیر کے بعد والد مرحوم بھاگتے ہوئے آئے اور جلد چائے پینے کو کہا.اس پر میں نے بھی چائے ختم کی اور نیچے آ گیا.پھر حضور سیر کیلئے روانہ ہوئے.مگر تھوڑی دور جا کر خاکسار کو واپسی کا حکم دیا کہ تم تھک جاؤ گے.اس پر خاکسار کا دل اگر چہ واپس آنے کو نہ چاہتا تھا.مگر تعمیل ارشاد میں واپس آ گیا.چند دن والد صاحب کے ہمراہ وہاں رہ کر واپس حاجی پورہ چلا گیا.خاکسار ۱۹۰ء سے لیکر ۱۹۰۳ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام میں چھٹی اور ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تعلیم پاتا رہا.۱۹۰۵ ء ۱۹۶۰ء میں بھی خاکسار کو دارالامان میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے.حضور کے ساتھ پہلو بہ پہلو بہت سی نمازیں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضور کی تقاریر سنے اور ایک بار حضور کے یاد کرنے پر حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ محترم مولوی صاحب نے خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جماعت لاہور میں بہت قابل قدر کام کیا ہے.آپ کی اصل رہائش ریاست کپورتھلہ میں پھگواڑہ کے قریب ایک گاؤں حاجی پورہ میں تھی.آپ کے والد ماجد حضرت میاں حبیب الرحمن صاحب اوّل درجہ کے مخلصین میں سے تھے.بغرض ملازمت آپ ۱۹۱۰ء میں لا ہور تشریف لائے اور جنرل پوسٹ آفس میں ملازمت اختیار کر لی.پہلے چند روز پرانی انارکلی میں اپنے کسی عزیز کے ہاں قیام فرمایا.مگر پھر جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے شوق میں احمد یہ بلڈنگس میں ایک چوبارہ کرایہ پر لے لیا.خلافت اولیٰ کا زمانہ تھا.جماعت میں اتفاق و اتحاد تھا.وفود کی شکل میں احباب تبلیغ کے لئے شہر میں

Page 261

260 پھیل جایا کرتے تھے.مولوی صاحب بھی اس تبلیغ میں بڑے ذوق شوق سے حصہ لیا کرتے تھے.جب حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کے وصال پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا تو مبائعین کا مرکز حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کی بیٹھک بن گیا.آپ فرماتے تھے کہ اس زمانہ میں حضرت سید دلاور شاہ صاحب اور حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل تبلیغ سلسلہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے.سید دلاور شاہ صاحب خطبات بھی دیتے تھے.مباحثے بھی اور تقریریں بھی کرتے تھے.محترم شیخ عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر مالیات کا کام کرتے تھے اور حضرت قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والے سلسلہ کے لئے چندوں میں اور غرباء کی امداد میں بیش بہا حصہ لیا کرتے تھے.مولوی صاحب موصوف کو اپنے عرصہ قیام لاہور میں ربع صدی کے قریب خدمت کا موقعہ ملا.اس عرصہ میں آپ سیکرٹری تبلیغ ، سیکرٹری تعلیم و تربیت سیکرٹری ضیافت ناظم مسجد دہلی دروازه اور امام الصلوۃ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.اولاد: امتہ الحئی.مطیع الرحمن - امتہ المجیب.سعیدہ فرخ.امتہ الباسط.راشدہ نسرین.حامد عزرا.الطاف الرحمن.حضرت حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ ولادت: بیعت : ۱۸۹۹ء وفات: دسمبر ۱۹۳۸ء آپ فرماتے تھے کہ ۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے ہم قادیان گئے.حضور کا کوئی مقدمہ تھا اور دھار یوال میں پیش ہونا تھا.حضور معہ اصحاب چل پڑے.راستہ میں ایک گاؤں آیا.جس کی مالکہ ایک سکھ عورت تھی.گاؤں کے ساتھ ایک کنواں تھا.حضرت اقدس کے حکم سے ہم وہاں ٹھہر گئے تا کہ ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھ لیں.چنانچہ حضرت اقدس کی اقتداء میں ہم لوگوں نے ظہر وعصر کی نمازیں پڑھیں.حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اگلے گاؤں میں پہلے ہی پہنچ چکے تھے.اور وہاں ہی شب باشی کا انتظام تھا اور وہ گاؤں میل دومیل آگے تھا.حضور کا ارادہ تھا کہ نمازیں جمع کر کے ہم بھی اس گاؤں میں پہنچ جائیں گے.مگر اس گاؤں کی مالکہ ایک سردار نی نے اپنے ایک مسلمان کا ر مختار کے ہاتھ کھانڈ کا شربت بھیجا اور حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ آپ

Page 262

261 اسی جگہ شب باش ہوں.حضور نے فرمایا کل ہماری دھار یوال میں تاریخ ہے اور ہمارے کھانے وغیرہ کا انتظام فلاں گاؤں میں پہلے سے ہے اس لئے مجبوری ہے.مگر سردارنی نے بہت آزردہ خاطر ہو کر عرض کی کہ میرا دل آپ نے توڑ دیا ہے محض اس لئے کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں.اگر آج میرے سردار زندہ ہوتے تو آپ ایسا نہ کرتے کیونکہ ہمارے خاندان اور آپ کے خاندان کے آپس میں ہر طرح تعلقات تھے.تنبول وغیرہ اور با ہمی شادیوں اور غموں میں شرکت وغیرہ.یہ باتیں سن کر حضرت نے فرمایا.اچھا ہم رات یہاں ہی رہیں گے اور اگلے گاؤں میں ایک آدمی بھیج دیا کہ مولوی صاحبان اور وکیل کو بلا لائے.چنانچہ وہ سب رات کو آگئے اور حضور رات بھر کا غذات متعلقہ مقدمہ کی دیکھ بھال میں معہ وکلاء اور مولوی صاحبان لگے رہے اور صبح دھار یوال پہنچ گئے.جب ہم نے ظہر وعصر کی نمازیں جمع کیں تو پانچ بجے کا وقت ہوگا.جب سردارنی نے شربت بھیجا تو ہم میں سے بعض نے عذر کیا کہ ہم روزہ سے ہیں.حضور نے فرمایا.سفر میں روزہ جائز نہیں.بعض نے عذر کیا.حضور ہمیں اس مسئلہ کا علم نہ تھا.فرمایا.روزہ چھوڑ دو اور شربت پی لو.ایک شخص نے عرض کی حضور دن تو قریب الغروب ہے.فرمایا یہ روزہ پھر بھی آپ کو رکھنا پڑے گا.یہ کلمہ سنتے ہی ہم سب نے روزے چھوڑ کر شربت پی لیا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ میرے بھائی محترم محمد دین صاحب بھی صحابی تھے.۱۹۰۰ء کے قریب کا ذکر ہے کہ جلسہ سالانہ نئے مہمان خانہ میں ہوا جو بعد میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا مکان بنا.حضرت اقدس کی تقریر بہت لمبی ہو گئی تھی حتی کہ ایک بج گیا.جمعہ کا روز تھا.حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا.ایک بج گیا ہے.مہمانوں نے کھانا بھی کھانا ہے.اس لئے خطبہ جمعہ بالکل مختصر اور قرآت میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں.یہ سن کر مہمان کچھ متنذ بذب سے ہو گئے کیونکہ سخت بھوک لگی ہوئی تھی.حضور نے یہ محسوس کر کے فرمایا.اچھا.اوّل طعام بعد کلام.پہلے کھانا کھا لو.پھر جمعہ ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ کی ایک ہی بچی تھی جسے حکیم صاحب کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اپنے میکے لے گئی تھی.پھر اس کا پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا کیا بنا.حضرت حکیم صاحب’ طب جدید کے موجد تھے.اس سلسلہ میں آپ کی کئی ایک تصنیفات بھی ہیں.

Page 263

262 حضرت حاجی محمد اسماعیل صاحب ریٹائر ڈسٹیشن ماسٹر ولادت: بیعت : ۱۹۰۱ء سے قبل حضرت حاجی محمد اسماعیل صاحب نے تعلیم سے فارغ ہو کر ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور ایک لمبا عرصہ اسٹیشن ماسٹر کے طور پر کام کرتے رہے.تقسیم ملک کے بعد آپ لا ہور تشریف لے آئے اور دھرم پورہ میں مقیم ہیں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بذریعہ خط بیعت کی تھی لیکن رخصت نہ مل سکنے کی وجہ سے حضور کی زندگی میں حضور کی زیارت نہ کر سکے.آپ کی اہلیہ محترمہ مریم بی بی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں.انہوں نے ۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی اور.فروری ۱۹۶۵ء کو ۵ ۷ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کی گئیں.اولا د فضل حق غازی، فضل الرحمن غازی مرحوم، سکینہ بیگم طاہرہ بیگم ناصرہ بیگم نصیرہ بیگم حضرت میاں عبدالرشید صاحب ولادت : ۱۸۸۴ء بیعت : ۹اء بمقام قادیان حضرت میاں عبدالرشید صاحب ابن حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لا ہور فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۳ء میں جب میں سکول آف آرٹس میں طالبعلم تھا اور آخری سال کی تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ محلہ وچھو والی کا ایک مسلمان لڑکا آریہ خیالات کے زیر اثر آ کر اسلام سے سخت متنفر ہو رہا تھا حتی کہ اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا تھا.رشتہ دارا سے بیگم شاہی مسجد کے امام عبد القادر کے پاس لے گئے.اس مسجد پر ایک بورڈ بھی آویزاں تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ اس مسجد میں کوئی مرزائی یا وہابی نماز نہ پڑھے.خیر جب اسے مولوی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو مولوی صاحب اسے دلائل سے سمجھانے کی بجائے اسے گالیاں دینے لگ گئے اور غصہ میں آ کر اس لڑکے کو پیٹنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکا اسلام سے اور متنفر ہو گیا.انہی ایام میں اس کا گذر موتی بازار سے ہوا.وہاں ایک احمدی مستمی احمد دین صاحب ڈوری باف کی دکان تھی احمد دین صاحب کو جب اس کے حالات کا علم ہوا تو وہ اس کا گھر

Page 264

263 دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہو لئے.بعد ازاں انہوں نے مجھے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا.ہم نے اس لڑکے کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کئے.اور ایسٹر کی رخصتوں میں میں اسے قادیان لے گیا.حضرت خلیفہ اول اپنے مطب میں تشریف فرما تھے اور درس تدریس کا سلسلہ جاری تھا.میں نے اس لڑکے کو کہا کہ یہاں آپ اپنا کوئی سوال کریں.مگر وہ حضرت مولوی صاحب کے علم اور رعب اور ساتھ ہی سادگی کو دیکھ کر مبہوت ہو رہا تھا.جب اسے سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی تو میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اس کے حالات عرض کئے اور کہا کہ آریہ خیالات سے متاثر ہو کر اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا ہے.حضرت مولوی صاحب جب مطب سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے گھر سے دال مونگ جو غالباً پہلے ہی تیار تھی مہمان خانہ میں بھجوا دی اور مجھے کہا کہ اپنے اس دوست کو کھانے کے لئے یہ دال پیش کرنا.اس کے بعد ظہر کی نماز کے لئے ہم دونوں مسجد مبارک میں گئے مگر اس میرے دوست نے نماز نہیں پڑھی.نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما ہوئے.بعض دوستوں نے آریوں کے سوالات ہی حضور کی خدمت میں پیش کئے جن کے حضور نے جوابات دیئے.میرا دوست ان جوابات کو بڑے غور سے سنتا رہا.میں نے اسے بھی کہا کہ آپ بھی کوئی سوال کریں مگر اس نے اس مرتبہ بھی کوئی سوال نہ کیا.اس کے بعد عصر کی نماز ہوئی.عصر کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کے درس میں ہم شامل ہوئے.اس درس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ قرآن مجید کی تعلیم ہے جو بیان کی جارہی ہے.وہ سمجھتا تھا کہ یہ حضرت مولوی صاحب کے اپنے خیالات ہیں.جب آپ درس سے فارغ ہوئے تو اس میرے دوست نے حضرت مولوی صاحب سے سوال کیا کہ جب خدا تعالیٰ کی صفت رحمن رحیم ہے تو ایک جانور کو ذبح کر دینا یہ کہاں کی رحمانیت اور رحیمیت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسی رحمن اور رحیم خدا نے ایسے جانوروں کو بھی پیدا کیا ہے جو دوسرے چھوٹے جانوروں کو اپنا لقمہ بنا لیتے ہیں.کیا ایسے جانور رحمن اور رحیم خدا کی مخلوق نہیں؟ وغیرہ وغیرہ.اس قسم کے جوابات سے اس پر بڑا اثر ہوا.مغرب وعشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس عرفان میں شامل ہوئے.دوسرے روز پھر حضرت خلیفہ اول کے مطب

Page 265

264 میں جا بیٹھے اور جب نماز ظہر کیلئے میں نے وضو کرنا شروع کیا تو پہلی مرتبہ اس نے بھی وضو کیا اور نماز میں شریک ہوا.نماز کے بعد اس نے بیعت بھی کر لی.فالحمد للہ علی ذالک حضرت میاں صاحب نے ایک لمبا زمانہ امرتسر میں بسلسلہ ملازمت گزارا.وہاں آپ چیف مکینیکل ڈرافیٹس مین کے عہدہ پر فائز تھے.آپ فرماتے ہیں کہ آٹھ دس آدمی جنہوں نے مجھ سے کام سیکھا وہ سارے کے سارے احمدی ہو گئے.محترم جناب چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ اسلامیہ پارک بھی انہی شاگردوں میں سے تھے جن کا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے ساتھ خاص تعلق تھا.اسی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد کے ایک امام مولوی نظام الدین صاحب نام تھے ان کے دونوں لڑکے احمدی ہو گئے.امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں نے احتراز کیا.جب مولوی ثناء اللہ صاحب سے فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں.احمدی تو ان کے بچے ہوئے ہیں.ان کا کیا قصور ہے؟ مگر تھوڑے عرصہ کے اندر اندر امام صاحب بھی احمدی ہو گئے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ مولوی نظام الدین صاحب موصوف کے ایک لڑکے چوہدری محمد ابراہیم صاحب بہت ہی مخلص احمدی ہیں.کرشن نگر لاہور میں رہتے ہیں.ان کی اولا د یوں تو ساری ہی نیک ہے مگر ایک لڑکا عزیزم محمد سلیم تو سلسلہ کا فدائی ہے.فالحمد للہ علی ذالک ۱۹۳۹ء میں ایک مرتبہ میں امرتسر گیا.حضرت میاں صاحب کے ہاں قیام تھا.آپ نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک پہلوان رہا کرتا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بہت گستاخیاں کیا کرتا تھا.کہا کرتا تھا کہ نعوذ باللہ آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے.چند دن کی بات ہے.رات نہانے کے بعد گیلا کپڑا سکھانے کے لئے اس نے اپنے مکان کی دوسری منزل پر کھڑے ہو کر سامنے کے درخت پر کپڑا ڈالنا چاہا مگر پاؤں جو پھیلا تو دھڑام سے گلی کے فرش پر گرا.صبح جب میں دفتر جانے لگا تو پولیس پہنچ چکی تھی.جب چار بجے واپس آیا تو تفتیش مکمل ہونے کے بعد میرے سامنے اس کی لاش پر سے کپڑا اٹھا گیا یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سخت گرمی کا موسم ہونے کی وجہ سے سارا جسم کیڑوں

Page 266

سے بھرا ہوا تھا.265 حضرت میاں عبد الرشید صاحب نے بیان کیا کہ : لنگے منڈی میں ہمارے مکانوں کے سامنے جو چھوٹی سی مسجد ہے اس وقت حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد کہلاتی تھی.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب نے کابل جاتے ہوئے اسی مسجد میں قیام فرمایا تھا.آپ سارا دن اور ساری رات عبادت میں مشغول رہتے.جب انہیں ہمارے والد صاحب کہتے کہ آپ آرام بھی کیا کریں تو آپ فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس نے مجھے اس انسان کی زیارت کرنے کا موقعہ عطا فرمایا جس کی انتظار صدیوں سے ہو رہی تھی.جب آپ لاہور سے کابل کی طرف جانے لگے تو گھوڑا گاڑی کے پائیدان پر قدم رکھ کر نیچے کر لیا اور فرمایا کہ کابل کی زمین میرے سر کی پیاسی ہے.حضرت والد صاحب نے آپ کو گلے سے لگالیا اور روپڑے.آپ نے فرمایا یہ تو خوشی کا مقام ہے رونے کا مقام نہیں.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے میاں صاحب نے فرمایا: قادیان میں آریہ سماج کا کوئی جلسہ تھا.میرے آریہ دوستوں نے مجھے کہا کہ تم بھی چلو.میں نے کہا.بہت اچھا! قادیان جانے میں مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے.خیر آریہ لیکچراروں نے اپنے جلسہ میں اسلام پر بہت اعتراضات کئے.ایک لیکچرار نے تو یہاں تک کہا کہ اگر مرزا صاحب میں طاقت ہے تو میری زبان بند کر دیں.جب حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو حضور نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب سے سارے اعتراضات منگوا لئے اور باوجود بیماری کے راتوں رات ان کا جواب لکھ کر صبح شائع کر کے کتابی صورت میں اس کی متعدد کا پیاں آریوں کے جلسہ میں پہنچا دیں.پنڈت رام بھیجدت جو ان کا لیڈر تھا وہ طبع شدہ مضمون دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا کہ میں کل مرزا صاحب کو مل کر آیا ہوں.وہ تو بیمار تھے.مگر دیکھو ان کے دل میں اپنے مذہب کے بارے میں اس قدر جوش اور غیرت ہے کہ انہوں نے ایک رات کے اندر ہمارے اعتراضات کے جوابات لکھ کر شائع بھی کروا لئے ہیں.وہ مضمون حضرت صاحب کی کتاب نسیم دعوت کے آخر میں درج ہے.

Page 267

266 جس آریہ نے یہ کہا تھا کہ اگر مرزا صاحب میں طاقت ہے تو میری زبان بند کریں.اس کی زبان اسی وقت بند ہو گئی.اسے بٹالہ ہسپتال لے جایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.میرے ساتھی بھی اس کے ساتھ بٹالہ چلے گئے میرا کرایہ چونکہ ان کے پاس جمع تھا اس لئے میں قادیان سے بٹالہ تک پیدل گیا.جب ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے میری رقم دے دی اور کہا کہ یہاں احمدیوں کے خلاف سخت اشتعال پیدا ہو چکا ہے بہتر ہو کہ آپ سرائے میں جا کر رات گزار لیں.چنانچہ میں سرائے میں چلا گیا اور رات وہاں گذار کر صبح لاہور پہنچ گیا.اولاد عبد المالک مرحوم - عبدالسلام مرحوم - عزیز احمد محمود احمد.رشیدہ.زبیدہ.امینہ.خورشیدہ.عزیزہ.رفیعہ.اختر محمودہ حضرت قاضی سید حبیب اللہ صاحب آف شاہدرہ ولادت : ۱۸۷۱ء بیعت : ۱۹۰۰ ء وفات : ۴.مارچ ۱۹۶۴ء عمر : ۹۳ سال : حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب سکنہ شاہدرہ بہت مستجاب الدعوات بزرگ تھے.والد ماجد کا نام تھے شاہ تھا.کثرت کے ساتھ لوگ آپ کی خدمت میں دعا کروانے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے.تبلیغ کا بھی آپ کو بہت شوق تھا.کئی کئی دن دیہات میں تبلیغ احمدیت کے لئے نکل جاتے تھے جب تک چلنے پھرنے کی طاقت رہی آپ شاہدرہ سے ہر جمعہ کو نماز کے لئے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں تشریف لایا کرتے تھے.مگر جب بہت کمزور ہو گئے تو پھر آنا ترک کر دیا.نماز تہجد عمر بھر باقاعدگی کے ساتھ ادا فرماتے رہے.آپ اپنے رویا وکشوف بھی کثرت کے ساتھ سنایا کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ : جب جلسہ مہوتسو ہوا جو جلسہ اعظم مذاہب کے نام سے مشہور ہے تو ان ایام میں میری رہائش لاہور چھاؤنی میں تھی.ہم روزانہ اس جلسہ کی روئداد پڑھا کرتے تھے.اور جولوگ اس جلسہ میں شامل ہوا کرتے تھے ان سے بھی حالات سنا کرتے تھے.وہ کہا کرتے تھے کہ اسلام کی لاج مرزا صاحب نے رکھ لی ہے ورنہ دوسرے علماء نے تو لٹیا ڈبو ہی دی تھی.ایک احمدی محمد حسین نامی مجھے تبلیغ بھی کیا کرتے تھے اور میں بھی ان کی خدمت کیا

Page 268

267 کرتا تھا مگر ان کی تبلیغ سے میری تسلی نہیں ہوتی تھی.آخر میں نے دعا کرنی شروع کی اور تین خواب دیکھے ان خوابوں سے میری تسلی ہو گئی اور حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.رشتہ داروں نے شدید مخالفت کی.میں میاں محمد حسین صاحب مذکور کے پاس گیا وہ میڈیکل ڈپو میں ملازم تھے.مجھے وہ اپنے پاس لے گئے چند دنوں کے بعد میں وہیں ایک دکان کرایہ پر لے کر اس میں رہنے لگ گیا.جن ایام میں حضور جہلم تشریف لے گئے تھے میں ان دنوں میاں میر چھاؤنی میں ملازم تھا.جب حضور کی گاڑی میاں میر پہنچی تو میں بھی حضور کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گیا.رات میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر تمام مہمان فروکش ہوئے.میں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو کہا کہ میرا بستر حضرت اقدس کے بالکل قریب کیا جائے.میں حضور کو رات نفل پڑھتے دیکھنا چاہتا ہوں.انہوں نے حضرت کی چارپائی کے ساتھ ہی میرا بستر کروا دیا.دو بجے رات کو میں اٹھا اور وضو کرنے کے لئے باہر چلا گیا.جب واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص میرے بستر پر کھڑ انفل پڑھ رہا ہے.میں نے ایک دوست سے کہا کہ دیکھو کوئی اور دوست میری جگہ پر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں.حالانکہ میں نے بڑی مشکل سے یہ جگہ حاصل کی تھی.جب اس دوست نے سلام پھیرا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت اقدس تھے.سلام پھیرتے ہی حضور نے فرمایا.آئیے آپ اپنی جگہ پر بیٹھ جائے اس پر میں نے بہت معذرت کی مگر حضور علیہ السلام نے مجھے پکڑ کر اس جگہ پر کھڑا کر دیا.اور آپ دوسری جگہ تشریف لے گئے.جب حضور نفل پڑھ چکے تو حضرت مفتی صاحب نے عرض کی.حضور یہ قاضی حبیب اللہ صاحب ہیں.فرمایا.میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں.آپ انہیں میری تازہ تصنیف ” مواہب الرحمن دیں.جب میں نے کتاب حاصل کر لی تو حضور نے فرمایا.قاضی صاحب! اسے ضرور پڑھیں.اس میں چند نئی پیشگوئیاں ہیں.میں نے عرض کی.بہت اچھا.حضور میں اسے ضرور پڑھوں گا وہ کتاب میرے پاس اب تک موجود ہے.نوٹ : سلسلہ کے لٹریچر میں بعض جگہ حضرت قاضی صاحب کی رہائش مزنگ میں بھی درج ہے حمید ان خوابوں اور حضرت قاضی صاحب کی روایات کیلئے دیکھئے.الحکم ۱۴.اکتوبر ۱۹۳۶ء

Page 269

268 کیونکہ کسی زمانہ میں آپ مزنگ میں بھی رہا کرتے تھے.اولاد: ہاجرہ بیگم نصرت بیگم.سائرہ بیگم.فہمیدہ بیگم.منصور شاہ.اقبال بیگم.ناصرہ بیگم محترم ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت ولادت: بیعت : انداز ۱۹۰۰ء وفات: محترم ڈاکٹر نور محمد صاحب دندان ساز مالک کارخانہ ہمدم صحت سلسلہ احمدیہ کے نہایت ہی مخلص احباب میں سے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب بھی موقع ملتا فوراً قادیان پہنچتے.غیر احمدی اور غیر مسلم احباب کو اپنے خرچ پر قادیان لے جایا کرتے تھے.چنانچہ مشہور آسٹریلین نومسلم محمد عبد الحق صاحب کو بھی آپ اور حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر اپنے ساتھ قادیان لے گئے تھے.۳۶ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۴ء میں اس ملک کے موجودہ مذاہب اور اسلام“ کے موضوع پر جو لیکچر مزار حضرت داتا گنج بخش کے عقب میں منڈ وہ میلا رام میں دیا تھا اسے بھی مندرجہ بالا دونوں بزرگوں نے انہی ایام میں اپنے خرچ پر شائع کر دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو وفد حضرت بابا نانک صاحب کی پوتھی“ کی تحقیق کیلئے گور و ہر سہائے ضلع فیروز پور میں بھیجا تھا اس کے ایک ممبر حکیم صاحب موصوف بھی تھے.۳۷ پھر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نکاح کے موقع پر جو احباب لا ہور سے قادیان تشریف لے گئے تھے ان میں ڈاکٹر صاحب موصوف شامل تھے.آپ کے علاوہ لاہور سے حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور، حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ، حضرت با بو غلام محمد صاحب، حضرت مستری محمد موسیٰ صاحب، حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب محترم جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور محترم جناب خلیفہ رجب الدین صاحب وغیرہ احباب بھی تشریف لے گئے تھے.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک نشان کا ذکر فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں: ایک دفعہ ڈاکٹر نورمحمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صحت کا لڑکا سخت بیمار ہو گیا.اس کی والدہ بہت بیتاب تھی.اس کی حالت پر رحم آیا اور دعا کی تو الہام ہوا: اچھا ہو جائے گا

Page 270

269 اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا.جو پاس موجود تھے.آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے تندرست ہو گیا، ۳۸۰ حکیم صاحب مرحوم کی رہائش لوہاری اور شاہ عالمی دروازوں کے درمیان کو چہ چڑیماراں میں تھی کھڑے ( چبوترے ) والا مکان تھا.خلافت ثانیہ کے شروع میں آپ غیر مبائعین کے زیر اثر آگئے تھے.آخر عمر میں ظہیر الدین صاحب اروپی کے ہم خیال ہو گئے تھے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد میں وفات پائی.فانا لله وانا اليه راجعون.ان کے ایک لڑکے کا نام نذیر احمد تھا جو پولیس میں ہیڈ کنسٹمیل تھا.انار کلی کے ایک چوبارے میں ڈاکٹر سلطان احمد صاحب دندان ساز کی دکان ہے یہ بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کے لڑکے ہیں مگر ان کا جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ولادت: حضرت شیخ کریم بخش صاحب بٹ بیعت : ۱۹۰۱ء سے قبل وفات : ١٩٠٦ء حضرت شیخ کریم بخش صاحب محترم با بو شمس الدین صاحب بٹ کے والد ماجد اور مشہور پنجابی شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے.دونوں نے ۱۹۰۱ء سے قبل اکٹھے بیعت کی تھی.آپ کے والد ماجد کا نام شیخ احمد بخش صاحب تھا.حضرت شیخ صاحب گھوڑوں کے سوداگر تھے.کاروبار فیروز پور چھاؤنی میں شروع کیا تھا مگر پھر آخر عمر میں لاہور آ گئے تھے اور مستی دروازہ میں ایک اصطبل کرایہ پر لیا تھا.جو اب تک احاطہ شیخ کریم بخش کے نام سے مشہور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی تھے.جب قادیان جایا کرتے تھے تو اپنے بیٹے بابو شمس الدین صاحب کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے.بابوصاحب کا بیان ہے کہ لاہور سے کافی وزن میں گنڈیریاں تیار کروا کر اور خوشبولگا کر ساتھ لے جایا کرتے تھے.بٹالہ سے پیدل ہم لوگ وہ گنڈیریاں کندھوں پر اٹھا کر قادیان جایا کرتے تھے اور حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے.آپ بڑے مضبوط آدمی تھے.افسوس کہ ۱۹۰۶ء میں چالیس سال کی عمر میں وفات پاگئے.انا لله و انا اليه راجعون.اولاد: با بوشمس الدین صاحب بٹ.غلام محمد مرحوم.ایک لڑکی بھی تھی.

Page 271

270 حضرت حافظ عبدالجلیل خان صاحب شاہجہانپوری ولادت : مئی ۱۸۹۳ء بیعت: ۱۹۰۰ء حضرت حافظ عبدالجلیل صاحب شاہجہانپوری اندرون موچی گیٹ لاہور نے فرمایا کہ میرے والد صاحب کا نام حافظ قدرت اللہ خان تھا.پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدہ پر متعین تھے.مگر چونکہ بہت نیک طبیعت تھے اس لئے رشوت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے.ادھر افسران بالا چاہتے تھے کہ ان کی نقدی وغیرہ سے خدمت کی جائے.یہ حالات دیکھ کر انہوں نے ملازمت سے استعفاء دے دیا تھا.شاہجہان پور میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب کے ساتھ ان کے بہت تعلقات تھے.حافظ صاحب انہیں زبانی بھی تبلیغ کرتے تھے اور کتابوں کے ذریعہ بھی.ہماری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے والد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھتے تو اکثر آبدیدہ ہو کر فرمایا کرتے تھے کہ میں غریب آدمی ہوں.روپیہ پیسہ سے سلسلہ کی خدمت نہیں کر سکتا دل چاہتا ہے کہ اگر کوئی میرے بچوں کو خرید لے تو میں وہ روپیہ حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دوں اور حضورا سے اشاعت اسلام میں خرچ کر لیں.۱۹۰۰ء میں وہ معہ اہل و عیال ہجرت کر کے قادیان میں آ گئے تھے اور بیعت کر کے سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے.حضور نے انہیں لنگر خانہ کے لئے اردگرد کے دیہات سے ایندھن خرید کر لانے کے لئے مقرر فرمایا تھا.میں حضرت صاحب کے گھر میں ہی رہتا تھا.جب حضرت صاحب کا وصال ہوا تو میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا.نویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب فوت ہو گئے اور میں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو گیا.محترم ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم سے میں نے بہت حد تک کمپونڈری کا کام سیکھ لیا تھا.کچھ عرصہ کے بعد حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس چھوڑ گئے.چند دن میں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے مکان پر گزارے اور پھر ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی.فارغ اوقات میں ڈاکٹر صاحب کی ڈسپنسری پر کام بھی کرتا رہا.یہ عرصہ کوئی آٹھ دس ماہ کا ہی ہو گا.اس کے بعد میں

Page 272

271 نے ۱۹۱۸ء میں یہیں موچی دروازہ کے اندر ہی اپنی الگ ڈسپنسری کھول لی تھی.مگر پہلے چند سال لال کھوہ کے پاس دکان تھی.بعد ازاں ۱۹۳۲ء سے موجودہ دکان میں کام رہا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ جب ۱۹۱۲ء میں لا ہور تشریف لائے تو آپ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے دریافت کیا کہ یہاں کوئی حافظ قرآن بھی ہیں.انہیں نے عرض کی کہ حضور! ایک چھوٹا سا حافظ ہے.فرمایا.اسے بلا ؤ.جب میں حاضر ہوا تو حضور مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا.خدا تمہیں برکت دے گا.پھر فرمایا.نماز پڑھاؤ.چنانچہ تین دن حضور نے میرے پیچھے نمازیں پڑھیں.ان ایام میں مجھے نہیں پارے یاد تھے.بعد ازاں میں نے سارا قرآن یاد کر لیا اور غالباً ایک مرتبہ اختلاف سے قبل احمد یہ بلڈنگکس میں اور پھر دہلی دروازہ میں حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کی بیٹھک میں اور پھر مسجد کی تکمیل کے بعد مسجد میں کئی سال تک نماز تروایح پڑھاتا رہا.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں مبلغ تھے.ان کی غیر حاضری میں نمازیں بھی میں ہی پڑھاتا تھا.میں نے حضرت مولوی صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ بھی پڑھا تھا.حضرت حافظ صاحب کی روایات درج ذیل ہیں.آپ نے فرمایا کہ ا.جب میں حضرت صاحب کے گھر میں رہتا تھا تو کئی مرتبہ میں نے دیکھا.حضرت پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں.موم بتی، قلم دوات کا غذ بھی ساتھ پڑے ہیں.حضرت اٹھتے اور کا غذ پر کچھ لکھ کر پھر لیٹ جاتے.اس وقت تو پتہ نہیں لگتا تھا کہ کیا لکھتے ہیں مگر بعد میں پتہ لگا کہ تازہ الہامات لکھتے تھے.۲.مجھے متعدد مرتبہ اندرون خانہ سے مہمانوں کے لئے حضرت صاحب کے کھانے میں سے تبرک لانے کا موقعہ ملا.مجھے یاد ہے لاہور میں ایک دوست منشی تاج الدین صاحب ریلوے حضرت خلیفہ امسیح الاول جب واپس قادیان تشریف لے گئے تو آپ کی والدہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھے لا ہور میں جا کر یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ تمہارے لڑکے نے قرآن یاد کر لیا ہے.ایک اور خوشی کا بھی ذکر فرمایا تھا مگر وہ حضرت حافظ صاحب بھول گئے.

Page 273

272 اکو نٹنٹ تھے.محلہ کو ٹھید اراں لاہور میں ان کی رہائش تھی.انہوں نے بھی کئی مرتبہ قادیان میں مجھ سے فرمائش کی کہ میں انہیں حضور کے کھانے کا تبرک لا کر دوں.چنانچہ میں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پس خوردہ لا کر دیا.بعد میں جب میں یہاں لاہور میں آ گیا تو کئی دفعہ ان کے گھر میں بھی جانے کا موقعہ ملا.بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے.ان کی اولاد میں سے ایک لڑکا مظفر الدین تھا جو بڑا ہونہار تھا.وہ پشاور میں چند سال جماعت کا امیر بھی رہ چکا ہے..ایک مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے ایک دوا دی اور ساتھ ایک روپیہ بھی اور فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں روپیہ پیش کر کے اس دوا پر دم کروا کر لاؤ.حضرت اقدس اندر کمرہ میں بیٹھ کر کچھ لکھ رہے تھے.میں نے دروازہ کو دستک دی.حضور نے دروازہ کھولا اور فرمایا.کیا ہے؟ میں نے عرض کی.حضور ! مفتی صاحب نے یہ دوا دی ہے اور روپیہ بھی اور فرمایا ہے کہ حضرت صاحب سے دم کروا کے لاؤ.فرمایا.مفتی صاحب بھی عجیب آدمی ہیں.پھر فرمایا.اچھا لاؤ.یہ کہہ کر دوا کی شیشی مجھ سے پکڑ لی.اور کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری اور مجھے دے کر فر ما یا لے جاؤ.۴.ایک مرتبہ جب کہ مسجد مبارک ابھی چھوٹی تھی.میں ایسے وقت میں نماز پڑھنے لگا جو نماز کا وقت نہیں تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب او پر رہتے تھے.اتفاق سے لکڑی کی سیڑھیوں سے نیچے اترے.مجھے دیکھ کر فرمایا.اومنڈیا! کیا کرتے ہو.میں نے عرض کی.نماز پڑھتا ہوں.فرمایا یہ کوئی نماز کا وقت ہے.اس کے بعد فر مایا.بھاگ جاؤ یا دوڑ جاؤ.چنانچہ میں چلا گیا.۵.ایک مرتبہ جب میں حضرت صاحب کے گھر میں نیچے بیٹھ کر پڑھ رہا تھا.حضور اوپر سے نیچے اترے اور فرمایا.بجے ایک لوٹا پانی کا لے کر میرے پیچھے چلو.چنانچہ میں نے لوٹا لے لیا.زنانہ جلسہ گاہ کے پاس ڈھاب کے کنارے پر ایک بڑ کا درخت تھا اور ساتھ ہی کافی گڑھے بھی تھے.وہاں مجھ سے لوٹا لے لیا اور ایک گڑھے میں بیٹھ کر رفع حاجت کی.بعد ازاں مجھے لوٹا دے کر فرمایا کہ تم جاؤ.میں پل کے پاس کھڑا ہو کر حضور کو دیکھتا رہا کہ حضور کہاں جاتے ہیں.بہشتی مقبرہ ان ایام میں بالکل نیا بنا تھا.میں نے دیکھا کہ حضور بہشتی

Page 274

273 مقبرہ کی طرف تشریف لے گئے.- ۱۹۰۳ء میں جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب قادیان تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے مہمان خانہ گیا.اس وقت میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا.وہ تسبیح پڑھ رہے تھے.مجھے ہاتھ سے بیٹھنے کا ارشارہ کیا.دو چار منٹ کے بعد فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ صاحبزادے! کیا کام کرتے ہو میں نے عرض کیا.پڑھتا ہوں.فرمایا.کتنے بھائی ہو؟ والد کیا کام کرتے ہیں؟ وغیرہ.اس قسم کے چند سوالات کئے پھر میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ جاؤ ! خدا تمہیں برکت دے گا.اولاد : عبدالکریم.آمنہ.صادقہ.مبارکہ.خورشیدہ.نفیسہ حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر ولادت : ۱۸۶۹ء بیعت : ۱۹۰۰ ء بذریعہ خط وفات : ۲۶.فروری ۱۹۵۴ء حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب ہندوستان کے مشہور سیاسی لیڈران مولا نا محمد علی ومولانا شوکت علی صاحبان کے برادر اکبر تھے.۱۸۶۹ء میں بمقام رام پور ضلع مراد آباد (یو.پی ) میں پیدا ہوئے.۱۸۸۸ء میں ریاض الاخبار ( گورکھ پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط الیگزنڈر رسل ویب سفیر امریکہ فلپائن کے نام شائع ہوا تھا جسے دیکھ کر خاں صاحب کو پہلی مرتبہ حضرت اقدس سے غائبانہ تعارف حاصل ہوا.۱۹۰۰ ء میں ” ازالہ اوہام “ کا مطالعہ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور فوراً بیعت کا خط لکھ دیا.حضرت اقدس کی زیارت پہلی مرتبہ ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور کی جب که حضور بسلسلہ مقدمات کرمدین وہاں قیام پذیر تھے.۱۹۲۰ء میں مستقل طور پر قادیان میں ہجرت کر کے آ گئے.۱۹۲۴ ء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جن بارہ خدام کو اپنے ساتھ ویمبلے کا نفرنس میں شرکت اور مسجد احمد یہ لندن کا سنگ بنیا در رکھنے کیلئے یورپ لے گئے تھے ان میں خاں صاحب ذوالفقار علی خاں بھی بحیثیت چیف سیکرٹری شامل تھے.آپ نے ایک لمبا عرصہ مرکز میں ناظر امور عامہ اور ناظر اعلی کی حیثیت سے قابل قدر کام کیا.قادیان میں ہجرت کر کے آنے کے ایک عرصہ بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اجازت

Page 275

274 سے بہت تھوڑی مدت کے لئے آپ پھر رامپور تشریف لے گئے تھے.ان ایام میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور خاکسار راقم الحروف کسی دورہ کے سلسلہ میں رامپور گئے اور چند یوم حضرت خاں صاحب کے ہاں قیام کیا.وہاں خاں صاحب جس شفقت و مہربانی سے ہمارے ساتھ پیش آئے یہ انہی کا حصہ تھا.ریاست میں آپ کو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت رسوخ حاصل تھا.رامپور میں آپ کا تشریف لے جانا غالبا والی رامپور کی خواہش کا نتیجہ تھا.مگر وہاں آپ کا دل نہیں لگا اور جلد ہی واپس قادیان چلے آئے.آپ بے حد خلیق اور ملنسار انسان تھے.ہمدرد بھی اس قدر تھے کہ خاکسار کو قا دیان گئے ابھی چند ہی سال ہوئے اور خاکسار مدرسہ احمدیہ کا طالب علم تھا کہ بیمار ہو گیا.نور ہسپتال میں زیر علاج تھا.خاں صاحب وہاں تشریف لے گئے یہ دیکھ کر کہ ہسپتال میں کھانے کا انتظام اچھا نہیں مجھے اپنے گھر لے گئے اور چند ماہ وہاں رکھا.ان دنوں اخویم محترم مولانا عبد المالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ابن حضرت خاں صاحب اور خاکسار ایک ہی کلاس کے طالب علم تھے.مجھے یاد ہے حضرت خاں صاحب کی ملاقات کے لئے ان کے چھوٹے بھائی جناب مولا نا محمد علی و مولانا شوکت علی صاحبان جو علی برادران کے نام سے مشہور تھے قادیان جایا کرتے تھے.تقسیم ملک سے قبل کراچی میں کسی کانگریسی لیڈر نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے دو چھوٹے بھائیوں نے تو ملک کی آزادی کیلئے مسٹر گاندھی کے ساتھ مل کر جد و جہد کی مگر آپ نے اس کوشش میں کوئی حصہ نہیں لیا.آپ نے جواب دیا میں بڑا بھائی تھا اس لئے میں نے اپنے ذمہ بڑا کام لیا.اس نے پوچھا.کونسا ؟ فرمایا.ساری دنیا شیطان کی غلامی میں پھنسی ہوئی ہے اور ساری دنیا کو آزاد کرا نا ہند وستان کی آزادی سے بڑا کام ہے.اس لئے میں اس تحریک میں شامل ہوں اور اس کا سپاہی ہوں جس تحریک کا یہی مقصد ہے یعنی تحریک احمدیت.۳۹ ملک کے بعد آپ نے اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور میں سکونت اختیار کی اور یہیں ۲۶.فروری ۱۹۵۴ء کو ۸۵ سال کی عمر پا کر انتقال فرمایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوۓ انا لله و انا اليه راجعون اولاد : ممتاز علی خان مرحوم.ہادی علی خان مرحوم.عبداللہ.رضا علی.اسماعیل.سلیمہ بیگم اہلیہ کرنل

Page 276

275 اوصاف علی خاں.حبیب اللہ خاں پر و فیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.عبدالمالک خاں مربی سلسلہ احمدیہ.زبیدہ بیگم اہلیہ حکیم خلیل احمد مونگھیری.محمد اسحق.عبدالرحمن.سعیدہ بیگم محمودہ بیگم.رشیدہ بیگم.راضیہ بیگم حضرت ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی ولادت : ۱۸۹۰ ء بیعت : ۱۹۰۰ ء وفات : ۲۵.اگست ۱۹۵۵ء از قلم محترم میاں مسعود احمد خاں صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل) حضرت ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی مرحوم دہلی کے ایک نامی بزرگ اور سلسلہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت حافظ وزیر محمد خاں محب اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی اور مخلص صحابی حضرت مولوی محمود الحسن خاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے.۱۸۹۰ء میں جس سال آپ کے والد بزرگوار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اسی سال بمقام پٹیالہ آپ کی ولادت ہوئی.اس لحاظ سے آپ پیدائشی احمدی تھے.بعد میں آپ کو گیارہ سال کی عمر میں خطبہ الہامیہ کے وقت قادیان حاضر ہونے اور حضور علیہ السلام کی زیارت اور ارشادات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا اور اس طرح آپ کو بھی صحابہ کے مقدس زمرہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے پٹیالہ میں ہی تعلیم حاصل کی اور بہت اچھے نمبروں میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.فارسی کی تعلیم اپنے والد محترم سے گھر پر حاصل کی.چنانچہ اس میں کافی دسترس رکھتے تھے.ملازمت کے سلسلہ میں اپنے وطن دہلی واپس آگئے اور پھر قیام پاکستان تک دہلی میں ہی رہے اور قیام پاکستان کے بعد بقیہ عمر لا ہور میں بسر کی.اردو کے صاحب طرز ادیب اور انشا پرداز تھے.اللہ تعالیٰ نے تحریر اور تقریر کا خاص ملکہ عطا فر مایا تھا.گفتگو اس قدر دلنشین اور مسحور کن ہوتی تھی کہ مخالف سے مخالف بھی رام ہوئے بغیر نہ رہتا.مطالعہ بہت وسیع تھا اور حافظہ بھی بلا کا ودیعت ہوا تھا.آپ نے اپنی ان خدا داد صلاحیتوں کو خدمت دین کے لئے وقف رکھا اور تبلیغ میں ان سے خوب ہی فائدہ اٹھایا.مخالفین اسلام کے ساتھ صد ہا نہایت کامیاب مناظرے کئے اور جماعت میں اور جماعت سے باہر مختلف جلسوں اور مجلسوں میں سینکڑوں ہی لیکچر دیئے.شاید ہی کوئی اتوار ایسی آتی تھی جس میں آپ کا کوئی نہ کوئی مناظرہ یا لیکچر نہ

Page 277

276 ہوتا ہو.بعض اوقات دن میں مختلف مقامات پر کئی کئی لیکچر ہو جاتے تھے.تبلیغ کا شوق جنوں کی حد کو پہنچا ہوا تھا.سخت نڈر اور دین کے معاملہ میں بہت با غیرت واقع ہوئے تھے.اس کی صد ہا مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں.اعلیٰ علمی طبقہ میں بھی تبلیغ کا خاص شوق تھا.چنانچہ یونیورسٹی کے نامور پروفیسروں اور دیگر دانشوروں سے انفرادی ملاقاتیں کر کے بھی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیویوں سے گیارہ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرما ئیں.بیٹوں کو آپ نے خدمت دین کیلئے وقف کر دیا تھا.اس پر سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے اس جذبہ کو تمام جماعت کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ قرار دیا.آپ کے چار فرزندوں کو زندگی وقف کرنے اور خدمات بجالانے کی توفیق ملی.آپ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں : ا محمود احمد خاں صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی و زعیم اعلی مجلس انصارالله را ولپنڈی ۲.مسعود احمد خاں دہلوی اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل و مدیر ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ۳.مقصود احمد خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کنری ضلع تھر پارکر ۴.مولو د احمد خاں صاحب سابق مبلغ انگلستان و امام مسجد احمد به لندن ۵.سعود احمد خاں صاحب ایم.اے ٹیچر احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی.غانا مغربی افریقہ.مرغوب احمد خاں صاحب حال مقیم لندن ے.محبوب احمد خاں صاحب اوور سیر کراچی مشہو داحمد خاں صاحب راولپنڈی ۹.داؤ داحمد خاں صاحب واہ کینٹ ۱۰.مود و د احمد خاں صاحب کراچی ۱۱.ودو د احمد خاں صاحب متعلم فرسٹ امیر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۱۲ صالحہ خاتون صاحبہ اہلیہ مکرم مختار احمد صاحب پسر محترم با بونذیر احمد صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ دہلی ۱۳.بشری خاتون متعلمه نصرت گرلز سکول ر بوه

Page 278

277 محترم میاں محمد دین صاحب ولادت : بیعت : ۱۹۰۰ ء وفات: ۱۹۵۰ء واء مکرم و محترم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ جماعت احمد یہ مقیم سنگا پور نے اپنے بزرگوں کے مختصر سے حالات الفضل ۲۸ مارچ و ۳۰.مارچ ۱۹۶۵ء میں لکھے ہیں.اس میں آپ لکھتے ہیں : ” سب سے پہلے تقریباً ۱۹۰۰ء میں خاکسار کے تین بزرگوں نے یعنی مکرم میاں جمال دین صاحب مکرم میاں محمد دین صاحب اور مکرم میاں کرم دین صاحب نے ملتان سے جہاں کہ وہ چند ماہ کے لئے اپنے گاؤں بھڈیار ( تحصیل اٹاری ضلع امرتسر.ناقل ) سے کسب معاش کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے.بذریعہ خطوط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور بعد میں حضور کے ملتان تشریف لے جانے پر وہیں حضور سے ملاقات کا شرف بھی انہیں حاصل ہوا، محترم میاں محمد دین صاحب جن کا ذکر یہاں مقصود ہے.ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ملتان میں ایک بزرگ عالم میاں الہی بخش صاحب سے سنا کہ قادیان میں کسی بزرگ نے مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے.چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب نورالقرآن ہر دو حصہ لے کر پڑھی.اس کتاب کے ابھی چند ہی صفحات پڑھے تھے کہ ان کو انشراح صدر ہو گیا.تاہم اسی وقت اٹھ کر نفل پڑھنے شروع کئے اور سجدہ میں دعا کی کہ ”اے مولیٰ کریم یہ تو سچا معلوم ہوتا ہے.اگر واقعی یہ تیرا مرسل اور برگزیدہ مسیح موعود ہے تو اے مولیٰ تو ہمارے سارے خاندان کو اسے قبول کرنے اور اس کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف عطا فرما.‘۴۰ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا سفر ۱۹۰۰ ء کے بعد نہیں بلکہ ۱۹۰ء سے تین سال قبل اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ہوا ہے.( حیاۃ طیبہ ایڈیشن اوّل صفحہ ۲۳۵) لہذا ان بزرگوں کی بیعت نصف آخر ۱۸۹۷ء کی معلوم ہوتی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس بزرگ سے محترم مولوی صاحب نے یہ واقعہ سنا انہیں سن کے متعلق سہو ہوا ہے.مگر حضور کے ملتان تشریف لے جانے کا تعلق چونکہ ایک واقعہ سے ہے اور واقعات عمو مایا درہتے ہیں.اس لئے صحیح امر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی بیعت ۱۸۹۷ء کی ہے.واللہ اعلم بالصواب.یہاں ۱۹۰۰ء میں ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ ۱۸۹۹ء تک کے صحابہ کے حالات کی کتابت ہو چکی ہے.(مؤلف)

Page 279

278 آپ نے محترم میاں کرم دین صاحب اور محترم میاں جمال دین صاحب کو بھی حضرت اقدس کی کتاب نور القرآن دکھائی اور باہمی مشورہ سے تینوں بزرگوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کے خط لکھ دیئے.محترم میاں محمد دین صاحب ۱۹۵۰ء میں گنج مغلپورہ میں فوت ہوئے اور یہیں امانتا دفن کئے گئے.اسے محترم مستری جان محمد صاحب محترم مستری جان محمد صاحب ابن حاجی گلاب دین صاحب بھی موضع بھڈ یا ر ضلع امرتسر کے باشندہ ہیں.آپ کی بیعت کا صحیح سن معلوم نہیں ہو سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیعت بھی ۱۸۹۷ء کے بعد کی ہے.آپ اس وقت بفضلہ تعالیٰ باغبانپورہ لاہور میں اپنے اکلوتے فرزند میاں دین محمد صاحب ایم.اے ایل.ایل.بی کے ہاں قیام پذیر ہیں.اور آپ کی عمر ۸۴.۸۵ سال ہے.آپ کو بھی متعدد بار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان جانے اور حضور کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہے.نیز اٹاری سٹیشن پر بھی جماعت بھڈیار کے ساتھ حضور سے شرف مصافحہ اور ملاقات نصیب ہوئی.محترم مستری صاحب نے بیان کیا کہ وہ بھڑ یا ضلع امرتسر سے انداز ال۱۹۲ء میں امرتسر چلے گئے تھے.۱۹۴۴ء میں مغلپورہ گنج میں آ کر آباد ہو گئے.محترم میاں محمد اسماعیل صاحب محترم میاں محمد اسماعیل صاحب نے بھی ۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ جماعت بھڈ یا ضلع امرتسر کے ساتھ بیعت کی اور متعدد مرتبہ قادیان میں اور اٹاری سٹیشن پر حضرت اقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوئے.آپ نے باغبانپورہ لاہور میں رہائش اختیار کر لی تھی.۱۹۶۱ء میں آپ کی وفات ہوئی.فــانـا لله وانا اليه راجعون.محترم میاں دین محمد صاحب محترم میاں دین محمد صاحب محترم جناب میاں غلام محمد صاحب اختر ناظر دیوان صدر انجمن احمد یہ کے برادرا کبر ہیں.آپ بچپن کے احمدی ہیں.بہت نڈر بیباک صاف گوا اور مخلص.عمر ۷۵ سال کے

Page 280

279 لگ بھگ ہو گی.پہلے لوکو ورکشاپ میں ملازم تھے.وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد اب گنج مغلپورہ میں ہی کریانہ کی دوکان کرتے ہیں.اولاد : ایمنہ.عبدالستار قمر.نذیراں.بشیراں حضرت حکیم جلال الدین صاحب گنج مغلپورہ ولادت : انداز ۱۸۵۴۴ء بیعت : ۱۹۰۰ ء وفات: ۱۹۴۴ء عمر : ۹۰ سال محترم مستری عباس محمد صاحب گنج مغلپورہ نے بیان کیا کہ حضرت حکیم جلال الدین صاحب میرے پھوپھا تھے.ان کو تبلیغ میرے والد صاحب مستری جمال الدین صاحب نے کی تھی اور ان ہی کی تبلیغ سے حضرت حکیم صاحب نے بیعت کی تھی.حکیم صاحب دراصل موضع لبا نوالہ ( جو لاہور سے ۱۰.۱۵ میل کے فاصلہ پر نارووال لائن کے پاس ہے ) کے باشندہ تھے اور بچپن ہی سے لاہور میں آمد و رفت تھی.یہاں ہی کسی زرگر سے زرگری کا کام سیکھا تھا اور پھر یہاں ہی رہائش اختیار کر لی تھی.پہلے پرانے گنج ،، میں رہائش تھی.پھر جب موجودہ گنج بنا تو یہاں آ گئے.پرانے گنج میں بھی انہوں نے اپنا مکان بنالیا تھا اور اس گنج میں بھی.لاہور کے بازار محلہ تیز ابیاں میں زرگری کی دکان تھی مگر یہاں آ کر حکمت کی دکان کر لی.اور آخر وقت تک حکمت ہی کرتے رہے.۱۹۴۴ء میں وفات پائی.اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے.آپ بڑے بزرگ آدمی تھے.جب فوت ہو کر نعش قادیان لے جانے کیلئے تیار کی گئی تو غیر احمد یوں نے کہا کہ اس بزرگ کی تو یہاں خانقاہ بنانی چاہئے تھی تا ہر خاص و عام زیارت کرتا.آپ غرباء کو مفت دوا دیا کرتے تھے.بلکہ بعض اوقات شربت اور خوراک وغیرہ کے لئے نقدی بھی دے دیا کرتے تھے.بڑے عبادت گزار تھے.آپ نے وصیت اپنی وفات سے چار ماہ قبل کی تھی.حکیم صاحب کے بڑے بھائی عبداللہ صاحب بھی صحابی تھے اور ان کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے.بیعت دونوں بھائیوں نے ایک ہی زمانہ میں کی تھی.وہ دسمبر ۱۹۲۴ء میں فوت ہوئے تھے اور یہاں ہی دفن ہوئے.وہ ترکھانہ کام کیا کرتے تھے.ایک ان کے تیسرے بھائی تھے مگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بیعت نہیں کی تھی.۱۹۲۷ء میں بیعت کی تھی اور

Page 281

280 چند سال بعد فوت ہو گئے.اولاد: عمر حیات.عائشہ بی بی.خدیجہ بی بی.مریم.رحمت بی بی حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب ولادت : ۲۶.جولائی ۱۸۳۲ء بیعت : ۱۹۰۰ ء یان ۱۹ ء وفات : ۱۲.جنوری ۱۹۲۹ء عمر : ۹۶ سال حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب پنجابی کے مشہور شاعر ہو گزرے ہیں.آپ کی سی حرفیاں آج بھی زباں زد خلائق ہیں.اگلے دن میں انار کلی کے قریب ایک پنجابی کتابوں کی دکان سے گذر رہا تھا تو اچانک میری نظر ایک چھوٹے سے رسالے پر پڑی.جب بغور دیکھا تو وہ بابا ہدایت اللہ صاحب کی سہ حرفیوں کا مجموعہ تھا اور سرورق پر حضرت بابا صاحب کے خیالی تصور تھی جو ہاتھ سے بنائی گئی تھی اور آگے حقہ رکھا ہوا تھا.حالانکہ بابا ہدایت اللہ صاحب خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص صحابی تھے اور حقہ بالکل نہیں پیتے تھے.مگر پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ سمجھتے ہیں حقہ یا شراب کا استعمال نہ کرنے والا اعلیٰ درجہ کا شاعر ہی نہیں ہوسکتا.بہر حال حضرت بابا صاحب کی بیعت ۱۹۰۰ ء.یا انشاء کے لگ بھگ کی ہے اور روایات سے ثابت ہے کہ جب حضور مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھین ضلع جہلم کے ساتھ مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور میں قیام فرما تھے تو ان دنوں بھی بابا صاحب گورداسپور تشریف لے گئے تھے.محترم بابا قادر بخش صاحب کی روایت ہے کہ بابا جی بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے اپنے خدام کو حکم دیا تھا کہ بابا ہدایت اللہ صاحب بوڑھے آدمی ہیں.ان کی چار پائی کے پاس ایک لوٹا پانی کا رکھ دیا جائے تا رات کے وقت پانی کی تلاش میں انہیں تکلیف نہ ہو.حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم ۱۹۰۷ء میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب متولی گئی مسجد لاہور کی نعش لے کر قادیان گئے تو ہم چاہتے تھے کہ انہیں بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے مگر معتمدین نے اعتراض کیا کہ ان کی وصیت کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ان کے اس اعتراض کا علم ہوا تو حضور نے فرمایا.ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو مجسم وصیت ہیں.یہ ہوئے خلیفہ ہدایت اللہ صاحب لاہوری ہوئے، ایسے لوگوں کی وصیت کی کیا ضرورت ہے.“

Page 282

281 یہ بات بیان کر کے حضرت بابو صاحب فرمایا کرتے تھے کہ خلیفہ ہدایت اللہ صاحب کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ ان کے ورثاء نے ان کو یہاں دفن کر دیا ہے ان کے لئے کوئی صندوق نہیں بنوایا گیا تھا ورنہ میں اپنے خرچ پر ان کی نعش کو قادیان لے جاتا.ایک تیسرے شخص کا نام بھی حضور نے لیا تھا مگر مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا.☆ حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب کے والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ تھا.آپ کی تاریخ پیدائش ۲۶.جولائی ۱۸۳۳ ء ( ۱۲ - جمادی الاول ۱۲۵۳ھ ) ہے.آپ چار سال کی عمر کے تھے کہ آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے.چنانچہ تعلیم معمولی ہی حاصل کر سکے.آپ کی قوم مغل بر لاس تھی.سکھ حکومت کے آخری ایام میں لاہور کے قلعہ میں کچھ عرصہ ملازمت بھی کی.آپ درزی کا کام کرتے تھے.آپ پنجابی کے بڑے مشہور شاعر تھے.مگر آپ کی شاعری کا آغاز ایک شدید صدمہ کی وجہ سے ہوا جو کہ آپ کو اپنے ایک پہلے خوبصورت لڑکے عمر ۵ سال کی وفات پر ہوا.جس کو آپ نے اس شعر بہت حسین سی یار میرا وانگ پھل گلاب دے رنگ سیو سے شروع کیا:.آپ نے پنجابی زبان میں کئی ایک سی حرفیاں لکھی ہیں جو کہ پنجاب کے دیہات میں اب بھی زبان زد عام ہیں.اسی طرح ایک سی حرفی آپ نے حضرت اقدس کے دعوئی کی تائید میں لکھی.آپ نے خودنوشت یاد داشت والی کاپی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ وفات پر ایک قطعہ کہا جو درج ذیل ہے: مسیح تصنیف دے موتی پرو کے عدد مارے ندامت وچہ ڈبو کے او گئے تبلیغ کر بہہ کے کھلو کے دی یاد خدا بس جاگ سو کے دلاں وچه نیکیاں دا بیج بو کے دعائیں منگیاں مولا تو رو کے سنو تاریخ کہی ہاتف نے جو کے خدا وتے میسج گئے فوت ہو کے آپ کی صوفیانہ شاعری اور نیکی کی وجہ سے مسلمانوں کے علاوہ کئی ہندو اور سکھ بھی آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے.آپ کے ایک سکھ شاگر د لوہارا سنگھ جب بھی حاضر ہوتے آپ کے پاؤں پر سجدہ کرنے م دیکھیئے حالات حضرت مولوی غلام حسین صاحب رضی اللہ عنہ

Page 283

282 کی کوشش کرتے مگر آپ کے منع فرمانے پر بھی وہ اصرار کرتے کہ میرے مذہب میں چونکہ جائز ہے اس لئے مجھے آپ منع نہیں کر سکتے.آپ شروع میں اہلحدیث کے خیالات سے متفق تھے اور مسجد چینیاں والی ( جو کہ اہلحدیث کی مسجد ہے) میں عموماً نمازیں ادا کیا کرتے تھے.اسی وجہ سے آپ کو مشرکانہ رسومات وغیرہ سے سخت نفرت تھی.چنانچہ ایک دفعہ آپ کے گھر ایک اسی طرح کا واقعہ ہوا.کہ گھر کے ایک کمرہ کی دیوار میں پرانی طرز کی کلیاں ( کھونٹیاں ) لگی ہوئی تھیں.ہمسائیوں سے آنے جانے والی عورتیں کمزوری ایمان اور تو ہمات کی وجہ سے اس کھونٹی پر ہار ڈالتیں اور تیل کے دیئے جلاتی رہتیں جیسے عموما کمز ور لوگ قبروں پر کرتے رہتے ہیں.ایک دن اس کمرے میں آپ کا اتفاقا جانا ہوا.تو آپ یہ دیکھ کر بڑے خفا ہوئے کہ میرے گھر میں یہ مشرکانہ رسومات کیسے داخل ہوئیں.چنانچہ اسی وقت آپ نے غصہ میں وہ کھونٹی اکھاڑ کر آگ میں جلا دی.اسی رات کو آپ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص آپ سے اس کھونٹی کے اتارنے پر جھگڑا کر رہا ہے اور اس نے آپ کی دونوں انگلیاں جن سے اتاری تھی پکڑ کر مروڑ دیں.صبح کو آپ اٹھے تو آپ کی وہ دونوں انگلیاں سن ہو رہی تھیں.آپ نے صبح کی نماز کے بعد یہ خواب مولوی غلام رسول صاحب جو چینیاں والی مسجد میں نماز پڑھاتے تھے کو سنایا.مولوی صاحب نے فرمایا کہ لاحول پڑھو یہ شیطان کا آخری حملہ تھا.انگلیوں پر پھونک ماری اور اسی وقت ٹھیک ہو گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے روابط حضور کے دعوی نبوت سے کافی پیشتر سے تھے.یہ علم نہیں ہو سکا کہ کس سن سے آپ کی واقفیت حضور سے قائم ہوئی.بہر حال آپ سے یہ سنا گیا ہے کہ حضور جب کبھی دعوئی سے پہلے لاہور تشریف لاتے تو مسجد چینیاں والی میں کبھی کبھار تشریف لاتے.آپ کی ملاقات بھی حضور سے اسی مسجد میں شروع ہوئی تھی.ایک دفعہ حضرت اقدس نے مسجد میں ملاقات کے دوران فرمایا کہ چلو مرزا صاحب آپ کا مکان بھی دیکھ لیں.چنانچہ بابا جی بتا یا کرتے تھے کہ حضرت اقدس آپ کے مکان تک تشریف لائے اور ایک منٹ کے قریب مکان کے تھڑے تک تشریف لا کر نظر ڈال کر واپس تشریف لے گئے.بابا جی کی بیعت کی تاریخ کا علم نہیں.جہاں تک قرائن سے معلوم ہوتا ہے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے ۱۹۰۰ء سے پہلے حضور کی بیعت کر لی تھی.

Page 284

283 آپ بڑے مستعد اور بر وقت نماز روزہ کے پابند تھے.بڑے دعا گو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.لوگ آپ کے پاس تکالیف اور بیماریوں وغیرہ میں دعا کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے.بعض اوقات لوگوں کو تعویذ بھی لکھ دیا کرتے تھے.آپ کی ساری اولاد بفضلہ تعالیٰ احمدیت کی شیدائی تھی اور ہے.آپ اپنی آخری عمر کے دو تین سال پیشتر تک باقاعدہ مسجد میں جو کہ آپ کے جدی مکان کے ساتھ ملحق تھی نمازیں ادا کیا کرتے تھے.آپ کی زندگی میں تو کسی کو اس مسجد کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی.مگر آپ کی وفات کے بعد ہی چند شر پسند مخالفین نے اس مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے سازشیں شروع کر دیں.کئی سالوں کے لڑائی جھگڑے اور عدالتوں کے فیصلہ کے بعد احمدیوں نے خود ہی اس مسجد کو چھوڑ دیا کیونکہ عدالتی فیصلہ کی رو سے ہر فریق کو نماز ادا کرنے کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا.مگر یہ ایک مستقل لڑائی جھگڑے کی بنیاد تھی.جو نمازوں کی حرمت کے خلاف تھی.خلافت ثانیہ کے اوائل میں آپ پیغامی جماعت کی طرف مائل رہے کیونکہ اکا برین لاہور سے آپ کے بڑے تعلقات تھے.مولوی محمد علی صاحب و دیگر اکابرین گاہے بگا ہے آپ کی خبر گیری کیا کرتے تھے تا کہ آپ کے دل میں وسو سے پیدا کرتے رہیں.آپ بذات خود سادہ طبیعت کے تھے.ویسے بھی بڑھاپے کا زمانہ تھا.۸۰ سال سے زیادہ عمر ہو چکی تھی.ایک دو مواقع پر مولوی محمد علی صاحب اور شاید ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آپ کی تیمارداری کی غرض سے گھر پر تشریف لائے تھے.مگر آپ کے دونوں فرزند خلافت ثانیہ کی بیعت میں شامل تھے.ان کے دریافت کرنے پر فرمایا کرتے تھے کہ ان سے تو صرف میرے دیرینہ تعلقات ہیں.ورنہ بیعت کے لحاظ سے میں اپنے بچوں کے ساتھ ہی ہوں.چنانچہ وفات سے کئی سال پہلے آپ نے باقاعدہ بذریعہ خط اور بذریعہ الفضل اعلان فرما کر خلافت ثانیہ کی بیعت کا اعادہ فرما دیا.تا کہ دوستوں میں غلط فہمی نہ رہے.آپ نے ۹۶-۹۷ سال کی عمر میں ۱۹۲۹ء میں وفات پائی.محلہ کے ایک ڈھنڈور چی سائیں فیروز نے اسی وقت اپنے طور پر سارے شہر میں آپ کی وفات کی منادی کر دی.کیونکہ اسے بھی آپ سے بڑی عقیدت تھی.چنانچہ ایک جم غفیر آپ کے جنازہ کے ساتھ شامل ہوا.پھر آپ کی وفات پر آپ کے فرزند مرزا قدرت اللہ صاحب نے حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں آپ کی وفات اور تدفین وغیرہ کی اطلاع خود حاضر ہو کر دی تو حضور نے فرمایا کہ آپ انہیں قادیان کیوں نہیں لے کر آئے؟ جب بتایا گیا کہ آ

Page 285

284 موصی نہیں تھے تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ ان کے لئے وصیت کی ضرورت نہیں تھی.چنانچہ حضور کی اجازت پر آپ کا ایک کتبہ مقبرہ بہشتی میں نصب کروا دیا گیا.آپ کی اولا دحسب ذیل تھی.ا.پہلے لڑکے کا نام کریم اللہ تھا جو ۵ سال کی عمر میں وفات پا گیا.۲.مرزا ولی اللہ.۱۱.جنوری ۱۸۶۸ء کو پیدا ہوئے.۱۴.اکتو بر ۱۹۱۲ء کو ۴۵ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ ماسٹر ولی اللہ کے نام سے موسوم تھے.آپ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی.۳.مرزا عنایت اللہ.سن پیدائش ۱۲.جون اے ۱۸ ء اور وفات ۱۸ ستمبر ۱۹۰۳ء ہے.۳۲ سال کی عمر پائی کوئی اولاد نہیں ہوئی.۴.مرزا قدرت اللہ - ۲۳.اکتوبر ۱۸۸۰ء کو پیدا ہوئے اور ۲۰.ستمبر ۱۹۴۸ء کو ۶۸ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ کے بفضلہ تعالیٰ بہت سے بچے پیدا ہوئے جن میں سے کچھ کم عمری اور کچھ جوانی میں بھی فوت ہوئے.بفضل خدا تین لڑکے اور تین لڑکیاں بقید حیات ہیں.۵.۵.مرزا عطاء اللہ.۲۱.اپریل ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے اور ۲۷.اکتوبر ۱۹۶۳ء کو ساڑھے چھہتر سال کی عمر میں فوت ہوئے.آپ کے کل چارلڑکے اور چار لڑکیاں ہوئیں.جن میں سے چارلڑ کے اور تین لڑکیاں زندہ ہیں..عائشہ بیگم.آپ کی یہی ایک لڑکی تھی جو ۱۲.ستمبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئی اور عین جوانی میں ۲۶ سال کی عمر میں ۱۹۰۲ء کو فوت ہوگئی تھی میں محترم مرزا عطاء اللہ صاحب رضی اللہ عنہ ولادت : ۲۱.اپریل ۱۸۸۸ء بیعت : بچپن میں وفات : ۲۷.اکتوبر ۱۹۶۳ء عمر : ساڑھے چھہتر سال آپ کا سن پیدائش ۲۱ اپریل ۱۸۸۸ء ہے.آپ کے والد کا نام مرزا ( بابا ) ہدایت اللہ یہ حالات مکرم مرزا عزیز احمد صاحب مکان نمبر ۲۴ زبیر سٹریٹ اسلامیہ پارک لا ہور نے ۱۱ جولائی ۱۹۶۵ء کو لکھ کر دئیے تھے.(مؤلف)

Page 286

285 صاحب ہے جو پنجابی کے ایک مشہور شاعر تھے.آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی.آپ بچپن سے احمدی تھے.ویسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف بھی ۱۳ سال کی عمر میں حاصل ہوا.ایک واقعہ آپ سنایا کرتے تھے کہ حضرت اقدس جب کبھی لاہورمیاں چراغ دین ومیاں معراج دین صاحبان کے مکانات میں آ کر ٹھہرا کرتے تھے تو لاہور کے ایک مخلص صحابی لیلاری ( رنگریز ) حضور کی خدمت میں لاہور کا فالودہ پیش کیا کرتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے فالودہ مرزا صاحب کے ہاتھ ( جب کہ آپ ابھی بچہ ہی تھے ) حضور کی خدمت میں بھجوایا.آپ بتایا کرتے تھے.حضرت اقدس اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور خواجہ کمال الدین صاحب پاس بیٹھے تھے.خواجہ صاحب نے فرمایا کہ پیالہ رکھ دو.پیالہ ایک پلیٹ سے ڈھکا ہوا تھا.چنانچہ آپ نے حسب ارشاد قریب ہی رکھ دیا اور نیچے اتر آئے.عموماً دستور تھا کہ حضور تھوڑا سا فالودہ پی لیا کرتے تھے اور باقی نیچے ارسال کر دیتے تھے.دوست اسی انتظار میں رہتے تھے اور تھوڑا تھوڑا تبرک سب چکھ لیتے تھے.مگر اس دن حضور نے بغیر کچھ پینے کے سارا پیالہ نیچے واپس کر دیا کہ طبیعت آج نہیں چاہتی.جب پیالہ نیچے آیا تو ڈھکنا اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک مکھی گری ہوئی ہے.سب حیران ہوئے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو ذراسی بھی مشتبہ چیز کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا.مگر وہ صحابی اپنے دل میں بہت افسردہ ہوئے کہ میری ذرا سی کو تا ہی کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہوئی ہے.آپ نے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد محکمہ تعلیم میں 1906ء میں ملازمت اختیار کر لی.یہاں آپ نے ۳۵ سال سے بھی زیادہ عرصہ ملازمت کی.اس محکمہ میں آپ کو مسلمانوں کی خدمت کرنے کا بہت اچھا موقعہ ملا.آپ اپنی سروس کے دوران بڑے با اصول اور باقاعدگی رکھنے والے تھے.آپ بڑے صائب الرائے اور ہمدرد انسان تھے.آپ کے سب عزیز وا قارب آپ کی رائے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کے والد مرز ا ہدایت اللہ صاحب کی وفات کے بعد جو شر پسند عناصر نے مکان کے ساتھ ملحقہ مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس کے دوران آپ نے بڑی مستعدی سے دوستوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا.مقدمات کے دوران مالی مدد کا زیادہ بار آپ ہی نے اٹھایا.پانچ چھ سال تک یہ جھگڑا چلتا

Page 287

286 رہا.اس عرصہ میں کئی دفعہ مسجد میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا.آپ نے بڑی دلیری سے بغیر کسی خوف کے ان شریروں کا مقابلہ کیا.دشمن نے محلہ کے ایک آدمی کو پانچ سو روپیہ کا لالچ دے کر آپ اور آپ کے بڑے بھائی مرزا قدرت اللہ صاحب کے قتل کیلئے اکسایا مگر اس شخص نے اپنے محلہ اور پرانی ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہوئے یہ راز مرزا صاحب پر ظاہر کر دیا تا کہ آپ محتاط رہیں.ایسا نہ ہو کہ اس کے انکار پر دشمن کسی اور شخص کو نا مزد کر دے.بہر حال دشمن ایسی کوششوں میں ناکام رہا.البتہ مقدمہ کے اس فیصلہ پر کہ ہر فریق نماز پڑھنے کا حقدار ہے احباب حلقہ نے اس مستقل جھگڑے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا.آپ کو سیر کرنے اور شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا.عموماً کئی کئی میل ہر روز پیدل سیر کرنے چلے جایا کرتے تھے.آخری دنوں تک پیدل چل لیا کرتے تھے.اور عزیز واقارب کی خبر گیری ہمیشہ کرتے رہتے تھے.بچوں کو بھی نصیحت کرتے تھے کہ رشتہ داروں سے ملتے رہنا چاہئے.کیونکہ تعلقات استوار رہتے ہیں اور تبلیغ ونصیحت کا موقعہ ملتا ہے.حکمہ تعلیم سے ۱۹۴۲ء میں فارغ ہونے کے بعد آپ نے قادیان جا کر محلہ دارالرحمت میں مولوی ارجمند خان صاحب کا مکان کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کی.پانچ بچے ابھی چھوٹے اور زیر تعلیم تھے.پینشن میں اخراجات بمشکل پورے ہوتے تھے.اس لئے کچھ عرصہ بعد ۱۹۴۳ء میں ملٹری اکو نٹس کے محکمہ میں دوبارہ عارضی ملازمت اختیار کر لی.خود تو لاہور واپس آگئے مگر بیوی بچوں کو قادیان ہی میں رکھا.آخر ایک سال بعد بچوں کو پھر لاہور میں لے آئے.سی ایم اے کے دفتر سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فوڈ پر چیزا کا ؤنٹ آفس میں دسمبر ۱۹۴۷ء سے فروری ۱۹۵۰ ء تک ملازمت کی.پنشن کے موقعہ پر آپ نے اپنے بڑے بھائی مرزا قدرت اللہ صاحب سے جو کہ پہلے ہی قادیان ہجرت کر گئے ہوئے تھے بذریعہ خط مشورہ کیا کہ آیا میں اپنی آدھی پنیشن کمیوٹ کروالوں تا کہ وہ روپیہ کسی تجارتی ادارے میں لگا دیا جائے.آپ کے بھائی صاحب نے حضرت اقدس سے دعا اور مشورہ کے لئے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ انہیں کہیں کہ کمیوٹ نہ کرائیں.اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر عطا فرمائے گا.چنانچہ آپ نے ۲۱ سال تک پنشن حاصل کی.آپ کو وفات سے چند سال پیشتر پیشاب کی سخت تکلیف ہوگئی تھی.جس کی وجہ سے گھر سے باہر جانے میں بڑی رکاوٹ محسوس کرتے تھے.آخر ۱۹۶۳ء کے شروع میں یہی فیصلہ کیا کہ پراسٹیٹ گلینڈز

Page 288

287 (Prostrate Glands) کا اپریشن کروا لیا جائے.تا یہ ہر وقت کی تکلیف دور ہو جائے.چنانچہ پہلا اپریشن کامیاب رہا اور ایک ٹیوب کے ساتھ پلاسٹک کی بوتل لگا دی گئی.گاہے بگا ہے یہ سب کچھ ہسپتال سے صاف کرانا پڑتا تھا.اس دوران آپ کمزور کچھ زیادہ ہو گئے.مگر پھر بھی ہمت کر کے عزیز واقارب کی خبر گیری کے لئے چلے جاتے تھے.چار ماہ بعد اکتوبر میں دوسرا بڑا اپریشن ہوا.خط و کتابت کے آپ اتنے پابند تھے کہ ہسپتال کے عرصہ میں بھی اپنا پیڈ لفافے اور قلم ساتھ رکھتے تھے اور وہیں سے اپنے بچوں اور عزیزوں کو جو لاہور سے باہر ہیں، اطلاع کرتے رہتے تھے اس اپریشن کے بعد آپ دو دن زندہ رہے.خون اور گلوکوز وغیرہ ہر طرح دی گئی مگر آخر ۲۷.اکتوبر کی صبح کو آٹھ بجے کے قریب جان جان آفرین کے سپر د کردی.انا لله و انا اليه راجعون آپ کی اولا دمندرجہ ذیل ہے.ا.فہمیدہ بیگم.ولادت ۲۷ جولائی ۱۹۱۰ ء وفات ۱۹۳۶ء.شیخ عنایت اللہ صاحب ولد شیخ عطاء اللہ صاحب کے عقد میں آئیں جن سے دو بچے پیدا ہوئے.۲.مرزا عزیز احمد - ولادت ۲۰ دسمبر ۱۹۱۳ء پہلی شادی مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان کی دختر امۃ الرشید سے ہوئی جس سے دولڑ کے پیدا ہوئے اور نومبر ۱۹۴۸ء میں فوت ہوگئی.دوسری شادی منیر اختر دختر نذرمحمد خاں صاحب سے ہوئی.اس سے ایک لڑکی ہے.۳.صالحہ منہاس.ولادت ۱۰.جولائی ۱۹۲۷ء.نصیر احمد منہاس ابن بشیر احمد صاحب رحمانی سے شادی ہوئی جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی.چھ بچے ہیں.یہ صدمہ مرزا صاحب کیلئے بہت سخت تھا.۴.ناصرہ بیگم.ولادت ۲۲.دسمبر ۱۹۲۹ ء شادی کامیاب ثابت نہیں ہوئی.۵.رشید بیگم.ولادت ۲۰.نومبر ۱۹۳۷ ء.ان کی شادی عزیز کیپٹن ڈاکٹر صلاح الدین ابن ملک معراج الدین صاحب آف عراق سے ہوئی.ایک بچی ہے..مرزا خلیل احمد - ولادت ۱۷.اگست ۱۹۳۲ء.لاہور میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہے.غیر شادی شدہ.ے.مرزا ناصر احمد - ولادت ۴.دسمبر ۱۹۳۴ ء.آدم جی جیوٹ مل ڈھاکہ میں بعہدہ مینیجر ملازم ہیں.ان کی شادی عذرا بنت نسیم احمد انصاری صاحب سے ہوئی.ایک بچی ہے..مرزا سعید اللہ بیگ.ولادت ۲۰ جنوری ۱۹۴۰ء ڈھا کہ جیوٹ مل میں بطور سپر وائزر ملازم ہے.غیر شادی شدہ ہے.

Page 289

288 محترم مرزا قدرت اللہ صاحب ولادت : ۲۳ - اکتوبر ۱۸۸۰ء بیعت: ۱۹۰۰ ء وفات : ۲۰ - ستمبر ۱۹۴۸ء محترم مرزا قدرت اللہ صاحب پنجابی کے مشہور شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے صاحبزادے تھے اور دفتر ایگزامینر میں ملازم تھے.صحابی تھے.بڑے ہی دعا گو تھے.ریٹائر ہونے کے بعد قادیان چلے گئے تھے.حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی کوٹھی میں رہا کرتے تھے.و ہیں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.اولاد: کافی اولاد ہوئی مگر کچھ بچپن میں اور کچھ جوانی میں فوت ہو گئی.اب تین لڑکے اور تین لڑکیاں زندہ ہیں.حضرت سید سردار احمد صاحب ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۰ء حضرت سید سردار احمد صاحب سکنه شاه مسکین ضلع شیخوپورہ ۱۲۹۹ ہجری میں بمقام لاہور اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے.پندرہ سال کی عمر میں ۱۹۰۰ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور محکمہ ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی.دسہرہ کی رخصتوں میں قادیان گئے اور حضرت اقدس کی بیعت کر لی.آپ فرماتے ہیں کہ میرا قادیان جانا کسی خاص تحریک کا نتیجہ نہ تھا بلکہ از خود ہی میرے قلب میں ڈالا گیا کہ قادیان جا کر حضرت مرزا صاحب کو ضرور دیکھنا چاہئے.والدہ اور نانی صاحبہ کو بھی میں نے بتایا کہ میں قادیان جا رہا ہوں.قادیان پہنچ کر مسجد مبارک میں گیا.ابھی پہنچا ہی تھا کہ حضرت اقدس تشریف لے آئے اور حضور کی نظر مجھ پر پڑی.ادھر میں نے بھی حضور کو دیکھا.پس ایک برقی رو تھی جس نے میرے قلب پر اثر کیا اور مجھے اطمینانِ قلب ہو گیا.اسی شام کو بیعت کی اور دوروز رہ کر واپس چلا آیا.سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا.

Page 290

289 بیعت کے بعد چونکہ میری طبیعت میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہو گیا تھا اس واسطے جلد ہی میری والدہ نانی صاحبہ اور دوسرے رشتہ داروں کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہو گیا ہے.تھوڑا عرصہ انہوں نے میری مخالفت کی.مگر چونکہ میں قرآن وحدیث سے کسی حد تک واقف تھا اس لئے مجھ پر ان کا کوئی داؤ نہ چل سکا بلکہ میری والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کر لی اور ۱۹۰۷ ء میں بمقام لا ہور فوت ہوئیں.فانا لله و انا اليه راجعون.میں نے کئی مرتبہ تبلیغی جہاد کرتے ہوئے ماریں بھی کھائیں اور طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنا مگر حضرت اقدس کی ہتک مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں اسی وقت ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا.حضور کی خدمت میں سال میں تین چار مرتبہ جایا کرتا تھا.حضور ا کثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اکثر آیا کرو اور زیادہ دیر ٹھہرا کرو.حضور میری چھوٹی عمر کا لحاظ کر کے بہت ہی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے.بیعت خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے فورا شامل ہو گیا اور ایک دن کا بھی تو قف نہیں کیا.اپنے خاندانی حالات بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ ہمارے مورث اعلیٰ رعبداللہ شاہ صاحب مرحوم بخارا کی طرف سے ہندوستان آئے تھے.یہ معلوم نہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ یا اس سے پہلے یا بعد میں.پہلے گجرات کاٹھیا وار میں کسی جگہ فروکش ہوئے.اور بعد میں جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے وہاں سے دہلی چلے گئے.راستے میں ہمارے ایک بزرگ کا مزار ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے ایک شیر کے ساتھ مقابلہ کر کے اسے مار دیا تھا.پھر اسی جگہ خود بھی فوت ہو گئے.دہلی سے شہنشاہ جہانگیر کے وقت لاہور تشریف لائے.شاہ وقت نے ان کے گزارہ کیلئے کچھ زمین دی.یہ زمین آخر کا ر محکمہ ریلوے نے خرید لی.انارکلی میں کچھ دکانیں بھی تھیں اور ایک احاطہ چونہ منڈی میں تھا.مگر یہ ساری جائیداد فروخت ہوگئی.اب ہمارے پاس قریباً چار مربعہ زمین موضع شاہ مسکین شموله موضع تھابل ضلع شیخو پورہ میں ہے وہاں پر ہمارا اپنا زمیندارہ ہے.اپنی ملازمت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں محکمہ انہار میں ملازم تھا.عہدہ ہیڈ کلر کی سے پنشن پر ہوں.آدھی پنشن کا روپیہ چونکہ میں نے لے لیا تھا اس لئے اب نصف یعنی چالیس روپیہ پینشن مل رہی ہے.

Page 291

290 خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب میانہ قد کے وجیہ اور مضبوط انسان ہیں.آپ کی رہائش ”شاہ مسکین میں ہے.کبھی کبھی پنشن لینے کے لئے لاہور تشریف لایا کرتے ہیں.تبلیغ کا آپ کو ساری عمر شوق رہا ہے.چند سال کی بات ہے خاکسار بھی جلسہ سالانہ شاہ مسکین پر گیا ہوا تھا.اور جلسہ شاہ مسکین کے معاً بعد بھینی شرقپور میں جلسہ تھا اور فاصلہ آٹھ نومیل کا تھا.شاہ صاحب میرے ساتھ چل پڑے.میں سمجھا کہ میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر پختہ سڑک ہے اور ہر وقت بسیں آتی رہتی ہیں.کسی بس پر سوار ہو کر چلے جائیں گے.مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت شاہ صاحب نے یہ سارا سفر بڑھاپے میں پیدل کیا اور آپ کے ساتھ مجھے بھی پیدل چلنا پڑا.اس وقت آپ کی عمر ۸۳ سال ہے مگر صحت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے ساتھ خاص دوستی رہی.حکمت کا بھی شوق ہے.آپ کے بعض نسخے بے حد مفید ہیں.اولاد یار محمد.مختار احمد.سلطان محمود شاہد.امۃ الحفیظ.امۃ الرشید.زبیدہ حضرت صوفی فضل الہی صاحب ولادت : ۱۸۸۶ء بیعت : بچپن میں وفات : ۴.جنوری ۱۹۶۳ء عمر : ۷۷ سال حضرت صوفی فضل الہی صاحب ولد صوفی کرم الہی صاحب صحابی ابن صحابی تھے.اندرون دہلی دروازہ گلی در زیاں میں رہا کرتے تھے.نماز کے لئے باقاعدہ مسجد احمد یہ دہلی دروازہ میں آیا کرتے تھے.میرٹھ اور شملہ میں بسلسلہ ملازمت رہے.ریٹائر ہونے کے بعد لاہور آ گئے.۴.جنوری ۱۹۶۳ء کو ۷۷ سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.آپ کے چھوٹے بھائی صوفی بشیر احمد صاحب بہت ہی مخلص احمدی تھے.چند سال قبل وفات پائی.اولاد شریف احمد عزیز احمد خلیل احمد ناصر احمد رضیہ سلطانہ صفیہ سلطانہ حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر از قلم محترمه حمیده صابرہ صاحبہ دختر حضرت ڈاکٹر صاحب ولادت: ۱۲۹۳ هجری بیعت : انداز ۱۹۰۰ء وفات : ۱۴.جنوری ۱۹۵۵ء میرے والد ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر صحابی ایک نومسلم خاندان سے تھے.اللہ تعالیٰ کے

Page 292

291 احسنات کے اعتراف کے تحت حضرت دادا جان کا ذکر خیر بھی ضروری ہے.حضرت دادا جان سردار روپ سنگھ ایک متمول اور کٹر خیالات رکھنے والے سکھ خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ سترہ برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے.امرتسر میں جائیداد وغیرہ بہت تھی.حسن اتفاق سے اس مکان میں مسلمان کرایہ دار آسے جس کی بالائی منزل میں آپ لوگ رہتے تھے.ان کا آنا سونے پر سہا گہ کا کام کر گیا.حضرت دادا جان کا اسلام کی طرف رجحان دیکھ کر وہ نیک فطرت آدمی انہیں اسلام سے روشناس کرواتا رہا.رمضان المبارک کے دن آگئے.روزوں کی حکمت و برکت سے انہیں آگاہ کیا.آپ نے بھی روزے رکھنے کی خواہش ظاہر کی اور اسلام لانے سے قبل ہی اپنے خاندان کی لاعلمی میں رمضان کے روزے رکھے.چونکہ آپ بالائی منزل میں رہتے تھے.رات کو سوتے وقت ایک رسی سے پاؤں کے انگوٹھے کو باندھ لیتے تھے.اس کا دوسرا سرا نیچے لٹکا دیا جاتا.سحری کے وقت مسلمان کرایہ دارا سے ہلاتا تو آپ بیدار ہو کر نیچے اتر آتے.ان کے ساتھ سحری کھا کر روزہ رکھ لیتے اور تمام دن اپنا روزہ پوشیدہ رفتہ رفتہ اسلام کی محبت گھر کر گئی.باپ نے غصہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو جائیداد سے عاق کر دیا....اور جب بہن بیاہی گئی تو ان کے شریف طبع خاوند نے ان کے دل میں بھائی کی محبت کی تڑپ دیکھ کر انہیں اس شرط پر اپنے بھائی سے ملنے کی اجازت دی کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھ سے کچھ کھا ئیں نہیں.اللہ تعالیٰ کے کام کو کون سمجھ سکتا ہے.ادھر وہ دنیاوی مال و دولت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں ادھر اللہ تعالیٰ انہیں دولت اسلام سے مالا مال کر دیتا ہے اور پھر ان کے خاندان پر مزید فضل یہ کرتا ہے رکھتے.کہ انہیں نور احمدیت سے بھی منور کر دیتا ہے.الحمد للہ علی ذالک اس طرح پر سردار روپ سنگھ سترہ برس کی عمر میں مسلمان ہو کر مولوی عبدالغنی بن گئے.آپ بڑے عالم گذرے ہیں.انبالہ سکول میں عربی فارسی کے معلم رہے.پچاسی سے کچھ اوپر عمر پائی.آپ کی اولاد میں چھ بیٹے اور ایک بیٹی تھی جن کے نام تاریخی ہیں.ا.ڈاکٹر اظہر علی ۱۲۹ هجری ( ان کا نام منارة المسح پر کندہ ہے ) ۲.ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ۱۲۹۳ هجری ۳.مظہر علی طالب ۱۲۹۷ هجری

Page 293

292 ۴.منظر علی ۱۳۰۰ هجری ۵.مراد خاتون ۱۳۰۲ ہجری (زوجہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب) ۶.ڈاکٹر اقبال علی غنی ۱۳۰۴ هجری حضرت دادا جان کی وفات کے بعد حضرت تایا جان اور حضرت والد صاحب کم عمری میں ہی ملازمت کے سلسلہ میں افریقہ تشریف لے گئے.حضرت والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ہم دونوں بھائی کچھ فاصلہ پر کام کرتے تھے.میں ان دنوں خوب فیشن ایبل تھا اور دین کی طرف کم ہی دھیان تھا.رخصت لیکر بڑے بھائی صاحب کو ملنے آیا تو انہیں دیکھ کر میں حیران رہ گیا.ان کے اندر نمایاں تبدیلی پیدا ہو چکی تھی.خوبصورت چہرہ پر ایک چھوٹی سے داڑھی عجب بہار دکھا رہی تھی اور نماز و عبادت سے شغف بڑھ گیا تھا.مجھے بتایا گیا کہ آپ مکرم ڈاکٹر رحمت علی صاحب ( برا در حضرت حافظ روشن علی صاحب و بہنوئی حضرت مولوی غلام رسول صاحب وزیر آبادی ) کی تبلیغ سے احمدی ہو چکے ہیں.میں چونکہ اپنے بھائی کا بہت احترام کرتا تھا.اس لئے ان میں یہ تغیر دیکھ کر میں نے بھی بیعت کا خط لکھا دیا.پھر قادیان آکر دستی بیعت بھی کی.حضرت والد صاحب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بڑی مشکل سے قادیان لائے.حضرت دادی جان تو اس شرط پر رضا مند ہوئیں کہ انہیں (حضرت) مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام ) کے گھر جانے پر مجبور نہ کیا جائے.قادیان آنے پر وہ ایک دفعہ ہمسایہ عورتوں کے ساتھ مل کر اپنی مرضی سے حضرت اماں جان کی ملاقات کو تشریف لے گئیں اور اس قدر گرویدہ ہو ئیں اور ایسا تعلق قائم کر لیا کہ مرتے دم تک نہ چھوڑا." انہیں سب ” بو بوجی کہتے تھے.حضرت والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کچھ عرصہ کے لئے لنگر خانہ کے مہتمم کے طور پر بھی کام کیا.اخبار ” البدر کے ابتدائی نمبروں میں آپ کا نام بطور مہتم درج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشہور الہام رب كــل شـــی خـادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی بھی انہی دنوں ” البدر میں شائع ہوا تھا.آپ کا عالم جوانی کا ایک فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر صحابہ کرام کی معیت

Page 294

293 میں ہے جو کہ حضرت صاحب زادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ہمیں تحفہ دیا ہوا ہے.جزاه الله تعالى خيراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی قلم مبارک سے میرے والد صاحب کے نام خط لکھا.اور پھوپھی جان کا رشتہ حضرت خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب کے لئے مانگا.جس میں لکھا تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ یہ رشتہ کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری سفر لاہور میں آپ بھی شامل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت خراب ہونے پر صدقہ کے جو بکرے منگوائے گئے.آپ انہیں خرید کر لائے.مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے انہیں کہا کہ آپ ہی انہیں ذبح کریں کیونکہ آپ بھی اہلبیت میں سے ہیں.واپسی پر بٹالہ سے قادیان تک جسد مبارک کو قادیان لے جانے والوں میں آپ بھی شامل تھے.۱۲ ۱۹۱۱ء میں بسلسلہ ملازمت بہاولپور تشریف لے گئے اور کئی برس تک ملٹری ہاسپٹل بہاولپور کے میڈیکل آفیسر رہے.آپ حد درجہ کے مہمان نواز اور سخی تھے.بیماروں کا نہ صرف ہمدردی سے علاج کرتے تھے بلکہ نقدی، کپڑوں اور غذا سے بھی مدد فرمایا کرتے تھے.تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا.سلسلہ کی کتب خریدتے اور غیر احمدی احباب میں تقسیم کر دیتے بڑے متوکل انسان تھے.اللہ مالک ہے، تکیہ کلام تھا.قرآن کریم کا معتد بہ حصہ زبانی یاد تھا.حضرت اقدس کے اُردو اور فارسی اشعار بہت سے یاد تھے.ہم بچوں کے اندر یہ ذوق پیدا کرنے کیلئے اکثر ہمارے ساتھ بیت بازی ہوتی.بچوں کی ذہانت پر خوش ہو کر انہیں انعام بھی دیتے.خود بھی شعر کہہ لیتے تھے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب پہلی مرتبہ دورہ یورپ پر تشریف لے گئے.ان دنوں آپ کی نظم مشرق و مغرب کو آپس میں ملائے قادیان“ الفضل میں چھپی تھی جو بہت مقبول ہوئی.حضرت ام المومنین کی وفات پر بھی آپ نے قطعہ تعزیت لکھا تھا.جو مصباح میں چھپ چکا ہے.تاریخ وفات تھی.

Page 295

294 ۱۳۱۷ھ ما در شفیقہ نصرت جہاں بیگم تقسیم ملک کے بعد آپ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ۱۹۴۷ ء سے لے کر دسمبر ۱۹۵۴ء تک مقیم رہے.یہاں آپ نے رسالہ ” نامہ پاکستان کے چند نمبر نکالے جو ملک کی نامور ہستیوں کو بھیجے گئے اور بہت پسند کئے گئے.مشہور اخبار ” نوائے وقت“ نے بھی اپنی ایک اشاعت میں’نامہ پاکستان شائع کیا اور اس پر تبصرہ بھی لکھا.حضرت امیر المومنین خلیفة لمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جب حصہ جائیداد کی ادائیگی کی تحریک فرمائی تو آپ نے خاصی کوشش کر کے اپنی وصیت کی رقم ادا فرما دی.اولاد : ڈاکٹر احسان علی.سردار رحمت اللہ.سردار عبدالرحمن.حمیدہ صابرہ.امتہ الحفیظ بیگم.سردار عبدالمنان.سردار عبدالسلام.سردار عبدالحمید.سردار عبدالرشید ۴۶ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ۲۴ پڑپوتے اور پڑپوتیاں ۱۴.جنوری ۱۹۵۵ء بروز جمعہ ایک بجے بعد دو پہر حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اپنے مولا حقیقی کو جاملے.انا لله و انا اليه راجعون.حضرت مولا نا را جیکی نے تاریخ وفات غفران مآب لکھی اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے.حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب ولادت : ۱۸۷۸ء بیعت :واء وفات : ۲۳.اگست ۱۹۴۹ء حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب کے والد محترم کا نام حضرت شیخ عمر بخش صاحب تھا.آپ گورنمنٹ کنٹریکٹر بننے سے قبل ریلوے میں کلرک تھے.دہلی دروازہ کے باہر آپ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے دیواروں پر ایک پوسٹر لگا ہوا دیکھا جس میں حضرت مسیح موعود کے دعوئی کا ذکر کر کے قبول

Page 296

295 احمدیت کی دعوت دی گئی تھی.یہ اشتہار پڑھ کر آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت پیدا ہوگئی اور آپ صداقت احمدیت کے قائل ہو گئے.چنانچہ آپ اور آپ کی اہلیہ صاحبہ حضرت سکینہ بیگم دونوں نے ۱۹۰۰ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.اس کے بعد سلسلہ کے ساتھ جوں جوں واقفیت بڑھتی گئی آپ ایمان اور عرفان میں ترقی کرتے چلے گئے.حتی کہ طاعون کی شدت کے زمانہ میں جب کہ عام موتا موتی لگ رہی تھی اور لوگوں پر خوف و ہر اس طاری تھا اور لاہور کی ہر گلی کوچہ میں لوگ اکٹھے ہو کر یہ مشہور فقرہ پڑھا کرتے تھے.تو بہ تسیج استغفار اسیں بندے گناہگار به آپ دیوانہ وار تبلیغ میں مصروف تھے.ان ایام میں آپ اندرون بھاٹی دروازہ لاہور محلہ پٹ رنگاں میں ایک چوبارے پر رہا کرتے تھے اور نیچے اور لوگ رہتے تھے.جب وہ سب ایک ایک کر کے طاعون کا شکار ہو گئے حتی کہ ان کا کتا بھی طاعون سے مر گیا تو آپ کو لوگوں نے کہا کہ شیخ صاحب آپ کی نچلی منزل کے سارے لوگ طاعون سے مر گئے ہیں.آپ مہربانی فرما کر یہ چوبارہ خالی کر کے کسی اور مکان میں چلے جائیں یہ جگہ خطرناک ہے.اس پر آپ فرمایا کرتے تھے کہ طاعون کے کیڑے احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.چنانچہ کشتی نوح سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پیش کر کے لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم بھی طاعون سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو آؤ! احمدیت قبول کر قرآن کریم سے آپ کو اس قدر عشق تھا کہ اکثر کر آنکھوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے بار ہا فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ قرآن کریم کا طواف کروں.قرآن کریم کے اندر خوشبو دار پھول رکھا کرتے تھے اور تلاوت کرتے وقت قرآن کریم کو چومنا ان کی عادت میں داخل تھا.آپ صاحب قلم بھی تھے.گوجرانوالہ کی رہائش کے ایام میں آپ وہاں سیکرٹری تبلیغ تھے.چنانچہ سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت میں آپ نے متعدد تبلیغی پمفلٹ لکھے.میاں بیوی دونوں بے حد مہمان نواز تھے.جب آپ نے سرکاری ملازمت ترک کر کے پشاور

Page 297

296 یں ٹھیکیداری کا کام شروع کیا تو وہ خلاف اولیٰ کا زمانہ تھا.جب حضرت خلیفہ اصبح الا ول کی وفات کی اطلاع ملی تو پشاور میں سب سے پہلے آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیعت بذریعہ تار کی.اور بعد ازاں جب قادیان سے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت علامہ محمد اسماعیل صاحب حلالپوری پر مشتمل وفد پشاور پہنچا تو اس کا قیام بھی پرست آپ ہی کے ڈیرہ پر رہا.حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کے ساتھ مناظرہ قرار پایا تھا اور حضرت مولوی صاحب نے اپنی طرف سے حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری کو منا ظر مقرر کیا تھا.چنانچہ خلافت ثانیہ کے پہلے جلسہ سالانہ کے دوران ہی حضرت قاضی صاحب قادیان پہنچے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیعت کر لی جس پر حضرت شیخ صاحب کو بہت خوشی ہوئی.حضرت شیخ صاحب سلسلہ کے سارے اخبارات منگوایا کرتے تھے.کتا بیں بھی کافی تعداد میں جمع کر رکھی تھیں اور بعض کتب کے تو کئی کئی نسخے زیر تبلیغ افراد میں تقسیم کرنے کیلئے خرید لاتے تھے.ذیل میں آپ کی چند روایات درج کی جاتی ہیں جو آپ نے خود خاکسار سے بیان کیں.۱ ۱۹۰۰ ء یا لن ۹اء کا واقعہ ہے کہ سالانہ جلسہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.نماز ظہر کا وقت تھا اور نمازی جمع تھے.حضور نماز ادا کرنے کے بعد تقریر فرما ر ہے تھے اس وقت ایک شخص باہر سے آیا اور وہ دوستوں کے سر سے پھاند تا ہوا حضور کے قریب چلا گیا اس کی اس جد و جہد میں ایک دوست کی پگڑی اُتر گئی اور اس نے حضور کو شکایتی رقعہ لکھ دیا.حضور اس کو پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کی کھڑکی کے پاس پہنچ کر حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بلایا اور کھڑکی کے پاس چند باتیں کر کے اندر تشریف لے گئے.مولوی صاحب واپس آ کر کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کی.تقریر تو دس پندرہ منٹ فرمائی تھی جو گو مجھے ساری یاد نہیں لیکن اس کے شروع کے الفاظ مجھے آج بھی من وعن یاد ہیں.فرمایا.دیکھو! آج میں تمہیں ایک خوفناک بات سنا تا ہوں.خود نہیں بلکہ مامور کیا گیا ہوں کہ تمہیں بتاؤں کہ آج ہمارا امام دعا کر رہا ہے کہ ” خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے.تم دوسروں کا سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے قرب الہی اس کے فضل سے ملتا ہے.۲.حضور کی وفات سے چند روز پہلے ایک رئیس دہلی حافظ عبدالکریم صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی ملاقات کروا دوں.اس وقت حضور لا ہور میں تشریف

Page 298

297 لائے ہوئے تھے اور ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں فروکش تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو میاں فضل حسین صاحب جو بعد میں سر کہلائے اور میاں شاہ نواز صاحب بیرسٹر خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے مکانات کے درمیان کی گلی میں ایک چارپائی پر بیٹھے تھے اور حضور سے ملاقات کی درخواست کر رکھی تھی.ہمارے پہنچنے پر حضور معا باہر تشریف لے آئے.ایک چار پائی خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کی کھڑکی کے نیچے گلی میں بچھائی گئی اور ایک چار پائی ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے مکان کے ساتھ اور تیسری چار پائی سڑک کی جانب بچھائی گئی پہلی چارپائی پر حضور جلوہ افروز ہوئے.دوسری بالمقابل چار پائی پر میاں فضل حسین صاحب اور میاں شاہنواز صاحب بیٹھ گئے.تیسری چارپائی پر میں اور حافظ عبدالکریم صاحب دہلوی بیٹھ گئے خواجہ کمال الدین صاحب تشریف لائے اور وہ حضور کی چار پائی کی پائنتی پر بیٹھ گئے اور سلسلہ کلام یوں شروع ہوا: میاں فضل حسین : حضور! مسلمانوں میں پھوٹ پڑ رہی ہے.حضور علیہ السلام : ہاں نہیں بھی یہی غم کھا گیا ہے کہ جس گھر میں پھوٹ پڑی ہوئی ہو.دشمن کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے.میاں صاحب: حضور! آپ نے بھی تو جماعت کو الگ کر دیا ہے.حضور : ہم نے جماعت کو الگ نہیں کیا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب نے ہم پر کفر کا فتویٰ لگایا اور بڑی تکلیف اٹھا کر ہندوستان میں سفر کر کے علماء سے اس پر مہریں لگوائیں.اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جو شخص مومن کو کافر کہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے.لوگ اس پر عمل نہ کریں مگر میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا.میاں فضل حسین : حضور ! فتویٰ لگانے والے علماء مر گئے.حضور ! ہاں.بہت مر گئے.ابھی کچھ زندہ ہیں.میاں صاحب: حضور ! سب مر گئے.حضور علیہ السلام نے اس موقعہ پر تبسم فرما کر کہا کہ اچھا ہم نے مان لیا کہ سب مر گئے مگر موجودہ علماء میں سے دو چار سے آپ یہ شائع کروا دیں کہ ہم مرزا صاحب کو کا فرنہیں کہتے تو میں جماعت کو حکم دے دوں گا کہ وہ مل کر نماز میں پڑھیں

Page 299

298 اور اگر اس طرح مجھے قابو میں لانا چاہیں کہ إِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُ وُنَ تو میں قابو میں نہیں آ سکتا.پھر میں حضور کے پاؤں دبانے لگ گیا تو فضل حسین نے اس بات کو چھوڑ کر سوال کیا.میاں فضل حسین : حضور کا خیال معراج کے متعلق کیا ہے؟ حضور : مَا جَعَلْنَا الرُّءُ يَا التِي اَرَيْنَاكَ میاں صاحب : شق القمر کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے؟ حضور : لطیف ترین کشوف میں سے تھا.اس کے بعد وہ رئیس چونکہ مولوی صاحب سے بھی ملنا چاہتے تھے اور حضرت مولوی صاحب اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب کے کمرہ میں مطب کر رہے تھے.ہم وہاں چلے گئے...میاں فضل حسین صاحب اور حضور کی گفتگو کو خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بذریعہ اشتہار شائع کیا تھا.اور اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے دستخط بھی کروائے تھے.مگر افسوس کہ آخری حصہ گفتگو کا جس میں حضور علیہ السلام نے قرآن کی آیت کو ان پر چسپاں کیا تھا اس کو چھوڑ دیا.حضرت شیخ صاحب کئی سال تک متواتر جمعہ وعیدین کے خطبات پڑھتے رہے.اولاد: شیخ نذیر احمد صاحب مرحوم گورنمنٹ کنٹریکٹر سیالکوٹ چھاؤنی.شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ و سابق حج ہائیکورٹ مغربی پاکستان.شیخ محمد اسلم صاحب مرحوم گورنمنٹ کنٹریکٹر.شیخ محمد اسحاق صاحب.ہاجرہ بیگم.سلیمہ بیگم مرحومہ.آمنہ بیگم محمودہ بیگم حضرت خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب ولادت : ۱۸۸۸ء بیعت : ۱۹۰۱ء حضرت خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ لاہور ولد حضرت میاں ہدایت اللہ صاحب سپرنٹنڈنٹ پنجاب سول سیکرٹریٹ لاہور مزنگ نے فرمایا ا.حضرت جب جہلم تشریف لے گئے.میں اس زمانہ میں طالبعلم تھا.مجھے یاد ہے کہ حضور نے

Page 300

299 ایک ڈبہ ریز رو کر وایا ہوا تھا.جب گاڑی جہلم پہنچی تو وہ ڈبہ ٹرین سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا.بے شمار لوگ جہلم ریلوے اسٹیشن پر جمع تھے اور یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے.حضور ریلوے اسٹیشن سے دو گھوڑے والی بند گاڑی میں سوار ہوئے تھے اور دریا کے کنارے ایک کوٹھی میں فروکش ہوئے تھے.بہت سے لوگوں نے وہاں بیعت کی تھی.قبلہ والد صاحب وہاں جماعت کے سیکرٹری تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب.مولوی محمد علی صاحب اور بہت سے بزرگ حضور کے ہمراہ تھے.اگر میں غلطی نہیں کرتا تو مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی حضور کے ہمراہ کوٹھی میں فروکش تھے.لمبا چوغہ پہنا ہوا تھا ( آپ اب بھی وضو فرماتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے ہیں.) جب حضور نے مستورات کی بیعت لی تو خاکسار بھی وہاں موجود تھا.حضور ایک اونچی جگہ پر تشریف فرما تھے اور مستورات کو کپڑا پکڑایا ہوا تھا جس کے ساتھ انہوں نے بیعت کی تھی.دوسری عورتوں نے ان عورتوں کے ساتھ ہاتھ لگائے ہوئے تھے.۲.پیشی مقدمہ کے لئے جب حضور گورداسپور گئے تھے تو ایک مرتبہ میں بھی وہاں گیا تھا.۳.قادیان کی مسجد مبارک میں بھی جب کہ وہ بالکل چھوٹی تھی، نماز میں پڑھنے کا موقع ملا ہے.آپ نے 1901ء میں بیعت کی جب کہ آپ کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی.آج کل آپ کی رہائش ۲۸۱ فیروز پور روڈ لاہور میں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب جب راولپنڈی میں سول سپلائز آفیسر تھے تو انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میں ریٹائر ہونے والا ہوں اگر اجازت ہو تو توسیع ملازمت کیلئے کوشش کروں کیونکہ مجھے تو سیع مل سکتی ہے مگر حضور نے فرمایا کہ خدمت دین کیلئے قادیان آ جاؤ.چنانچہ آپ چند سال پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے.آج کل کئی سال سے آپ لاہور کی جماعت کے نائب امیر ہیں.حلقہ ماڈل ٹاؤن کے پریذیڈنٹ بھی ہیں اور باوجود بوڑھا ہونے کے دونوں کام نہایت ہی محنت اور ذوق شوق سے کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے.آمین.بہت پایہ کے بزرگ ہیں.اولاد: محمد داؤ د میاں محمد بیٹی میاں محمد احمد میاں محمد سلیمان میاں مرحوم - محمد سعید میاں محمد اور لیس میاں محمد یونس میاں محمد شعیب میاں محمودہ بیگم - مسعودہ بیگم.امینہ بیگم مرحومہ.تنویر بیگم.

Page 301

300 حضرت مولوی محمد دین صاحب ولادت : ۴ دسمبر ۱۸۸۱ء بیعت : ۱۹۰۱ء حضرت مولوی محمد دین صاحب لاہور کے باشندہ ہیں.۴ دسمبر ۱۸۸۱ء کو پیدا ہوئے.۱۹۰۱ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.شروع ۱۹۰۳ء میں ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان چلے گئے.۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو جن احباب نے اپنے آپ کو وقف زندگی کیلئے پیش کیا ان میں آپ بھی تھے.۱۹۱۴ء سے لے کر ۱۹۲۱ء تک آپ قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.جنوری ۱۹۲۳ء سے لے کر دسمبر ۱۹۲۵ء تک امریکہ میں مبلغ اسلام کی حیثیت سے کام کیا.۱۹۲۶ء سے لیکر ۱۹۲۸ء تک دوبارہ ہیڈ ماسٹری کے فرائض سرانجام دیئے.۱۹۳۲ ء سے لے کر ۱۹۴۷ ء تک گرلز ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر رہے اور اب ربوہ میں ایک عرصہ سے ناظر تعلیم ہیں.آج کل آپ بیمار ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.بہت ہی نیک دل اور سادہ طبیعت بزرگ ہیں.ایسے پرانے بزرگوں میں سے اب خال خال ہستیاں ہی باقی ہیں.اولاد : احمد دین مرحوم محمد عبد اللہ مرحوم.آمنہ قمر.رشیدہ حضرت میاں محمد علی صاحب رضی اللہ عنہ ولادت: بیعت : ۱۹۰۱ء میاں محمد علی صاحب ولد میاں حسین بخش صاحب شاہ عالمی دروازہ لا ہور نے فرمایا کہ ا.جب میں نے بیعت کی تو میں تھیئیٹریکل کمپنی میں ملازم تھا.بیعت کے چندروز بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھے اس ملازمت سے کراہت سی پیدا ہو گئی ہے اس لئے میرا ارادہ ملازمت چھوڑ دینے کا ہے.فرمایا.ہرگز نہ چھوڑنا.روز گار منجانب اللہ ہوتا ہے.میں آپ کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا کر دے گا.چنانچہ تھوڑے عرصہ بعد مجھے پرنٹنگ پریس میں بدل دیا گیا کیونکہ خاکسار کمپوزیٹر کے کام سے واقف تھا.اور تھیئٹر بھی سرکاری تھا اور پر لیس بھی سرکاری.یہ واقعہ ریاست

Page 302

301 جموں کا ہے.۲.ایک دفعہ میں نے عرض کی کہ حضور سود کھانا تو نا جائز ہے مگر کیا رشوت دینا بھی ناجائز ہے؟ کیونکہ ہمارے افسر رشوت کے بغیر کام ہی نہیں کرتے.فرمایا.اپنا حق لینے کیلئے کتے کے منہ میں ہڈی ڈال دینا جائز ہے.ولادت : حضرت شیخ محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ بیعت : ۱۹۰۱ ء یا ۱۹۰۲ء وفات : ۱۹۵۱ء محترم شیخ محمد حسین صاحب ولد شیخ غلام رسول صاحب پنشنر سب حج اسلامیہ پارک لاہور نے فرمایا کہ: ا.میری بیعت ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء کی ہے.میں نے حضور کو بیعت سے قبل بھی دیکھا اور بیعت کے بعد بھی زیارت کرتا رہا.حضور کے جنازے پر بھی موجود تھا.ایک دفعہ جب کہ حضور لاہور میں میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر فروکش تھے، جنوری کا مہینہ تھا سن یاد نہیں.رات دس بجے کے قریب کا وقت تھا.اس سال بارش نہیں ہوئی تھی.حاضرین میں سے کسی نے کہا.حضور دعا کریں.بارش ہو.کیونکہ بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار نظر آ رہے ہیں.حضور نے نہ دعا کی نہ کوئی جواب دیا اور باتیں ہوتی رہیں.پھر اس نے یا کسی اور صاحب نے بارش کے لئے دعا کو کہا.مگر پھر بھی حضور نے کوئی توجہ نہ کی.کچھ دیر کے بعد پھر تیسری دفعہ کسی نے دعا کے لئے کہا.اس پر حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی.اس وقت چاند کی چاندنی تھی اور آسمان بالکل صاف تھا.مگر حضور کا ہاتھ اٹھتے ہی ایک چھوٹی سی بدلی نمودار ہوئی اور بارش کی بوندیں پڑنی شروع ہو گئیں.ادھر حضور نے دعا ختم کی ادھر بارش تھم گئی.بارش صرف چند منٹ ہی ہوئی اور آسمان صاف ہو گیا.یہ واقعہ میری موجودگی میں ہوا.۲.ایک دفعہ بٹالہ کی سرائے میں ہم لوگ اور حضرت صاحب رات کو سوئے ہوئے تھے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ حضور کسی سے باتیں کر رہے ہیں مگر وہاں آدمی کوئی نہیں تھا.اس وقت میں نے خیال کیا کہ حضور اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہیں.

Page 303

302 میرا نام حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۶ پر نمبر ۵ پر درج ہے.محترم چوہدری مظفر علی صاحب سیکشن آفیسر سیکرٹریٹ نے بیان کیا کہ محترم شیخ صاحب نہایت ہی مخلص احمدی تھے.بڑی باقاعدگی کے ساتھ اور با شرح چندہ دیا کرتے تھے.نرینہ اولاد نہیں تھی.مگر لڑکیاں کئی ایک تھیں.جن میں سے دو کی شادی یکے بعد دیگرے محترم ضیاء اللہ صاحب ابن حضرت بابو اکبر علی صاحب سے ہوئی.آپ کی وفات کا واقعہ بھی بڑا دردانگیز ہے.آپ کے ایک ملازم نے دو اور لٹیروں کے ساتھ مل کر آپ کے گھر میں ڈاکہ ڈالنا چاہا مگر شیخ صاحب مزاحم ہوئے جس پر اس نے گولی چلا دی.زخم کاری لگا.جس سے جانبر نہ ہو سکے.ایک لڑکی نے بھی مزاحمت کی اسے بھی چوٹیں لگیں مگر بچ گئی.مقدمہ چلا جس کے نتیجہ میں ملا زم اور ایک ساتھی کو پھانسی کی سزا ملی اور تیسرے کو عمر قید کی.حضرت میاں کریم بخش صاحب پہلوان رضی اللہ عنہ ولادت: بیعت : اندازاً ۱۹۰۲ء وفات: حضرت میاں کریم بخش صاحب بڑے خوبصورت اور وجیہ انسان تھے.اندرون لوہاری دروازہ رہا کرتے تھے.ایک زمانہ میں لاہور میں پہلوانی کا بڑا رواج تھا.انہوں نے بھی اس فن میں مہارت پیدا کی اور ایک عرصہ تک ریاست اندور میں ملازم رہے.بڑھاپے میں لاہور آ گئے.بہت ہی مخلص احمدی تھے.سفید پوش اور خوشبو کے دلدادہ تھے.شادی انہوں نے ریاست میں ہی کی تھی.بیوی نومسلم مگر بڑی سمجھدار تھی.ان کا ایک لطیفہ مشہور ہے کہ آخر عمر میں اکھاڑے میں ہی فالج کا حملہ ہوا.بے ہوش ہو گئے.زبان پر بھی اثر تھا.آپ کے ساتھی غیر احمدی پہلوانوں اور شاگردوں نے نعش پر قبضہ کرنے کے لئے یہ مشہور کر دیا کہ میاں کریم بخش صاحب نے ہمیں وصیت کی تھی کہ میری نعش کو اپنے انتظام کے ماتحت دفن کرنا.مگر خدا کی قدرت کہ وہ بے ہوشی جاتی رہی اور جب آپ کو پتہ لگا کہ غیر احمدی پہلوانوں نے آپ کے متعلق یہ بات مشہور کر دی تھی تو ان پر بڑے سخت ناراض ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کیا کہ اس نے اس ابتلاء سے محفوظ رکھا.اس واقعہ کے چند دن بعد آپ فوت ہو گئے اور بہشتی مقبرہ قادیان

Page 304

میں دفن ہوئے.303 ولادت : ۱۸۴۸ء محترم پہلوان نبی بخش صاحب بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۱۹۳۸ ء عمر ۹۰ سال محترم پہلوان نبی بخش صاحب بھی ایک مخلص صحابی تھے اندرون لوہاری میں رہا کرتے تھے.پہلوان کریم بخش کے ساتھ خاص تعلقات تھے.احمدیت کیلئے غیرت رکھتے تھے.آپ کی اولاد میں صرف ایک لڑکا ہے جس کا نام لعل دین ہے.آپ ۱۹۳۸ء میں نوے سال کی عمر پا کر فوت ہوئے.محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی ولادت : ۲ جولائی ۱۸۹۲ء بیعت : ۱۹۰۲ء بمقام قادیان محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب حضرت حکیم محمد حسین صاحب المعروف مرہم عیسی کے فرزند اکبر اور حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے پوتے ہیں.آپ کی والدہ محترمہ کا نام حیات بیگم تھا اور نانا کا نام میاں فیروز الدین صاحب.یہ وہی میاں فیروز الدین ہیں جنہیں میاں محمد سلطان صاحب نے اپنا متدینی بنایا تھا.آپ نے اپنے بچپن کے ابتدائی آٹھ سال اپنے نانا بزرگوار کے پاس گزارے.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ آپ کی نانی اماں جن کا نام امام بی بی تھا.آپ سے بہت پیار کیا کرتی تھیں.آپ نے عربی کا ابتدائی بغدادی قاعدہ اپنی نانی اماں سے پڑھا اور ہیں تک ہند سے بھی انہی سے سیکھے تھے.بچپن میں آپ اپنی خالہ اماں کی ایک لڑکی کے ساتھ مل کر مولوی محمد یسین صاحب کی بیوی ” فضیلت کے پاس پڑھنے کیلئے جایا کرتے تھے جو آپ کو اگر دو سیپارہ اور حساب پڑھایا کرتی تھیں.آپ کی روایات حسب ذیل ہیں.۱۹۰۴-۱ء میں جب حضور لا ہور تشریف فرما ہوئے اور حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کے مکان میں قیام فرمایا تو ایک دن ایک ملاڈ پھل ( مولوی محمد بخش ایڈیٹر اخبار ہنٹر لاہور ) شیشم ( ٹاہلی ) کے ایک درخت پر چڑھ کر حضرت اقدس کو گالیاں دے رہا تھا اور اچھل اچھل کر بکواس کر رہا تھا.

Page 305

304 حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر نے ایک چھڑی ہاتھ میں پکڑی اور قریب تھا کہ اسے پکڑ کر سخت سزا دیتے.مگر آپ نے دیکھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں اطلاع کر دی.حضور نے فرمایا.میاں معراج دین کو فور ابلا لاؤ.چنانچہ آپ گئے اور میاں صاحب موصوف کو بلا کر واپس لے آئے.حضور نے میاں صاحب کو فر مایا کہ اس مولوی کو کچھ نہ کہو.۲.امرتسر کے ایک منڈ وہ میں جب حضرت صاحب کا لیکچر ہوا تو آپ بھی اپنے والد محترم کے ہمراہ امرتسر گئے تھے.رمضان کا مہینہ تھا ایک خادم نے چائے کی پیالی پیش کر دی.حضور نے انگلی کے اشارے سے منع بھی فرمایا مگر وہ شائد سمجھا نہیں.اس نے پیالی آگے رکھ ہی دی.اس پر اس قدرا ینٹ پتھر اور کنکروں کی بارش ہوئی اور شور و غوغا بلند ہوا کہ الامان والحفیظ ! حضور کو بند بگھی میں سوار کرا کر جائے قیام میں پہنچا دیا گیا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ” میرا سر بھی پھٹا اور قمیص کا گریبان خون سے تر ہو گیا.ڈیرہ پر پہنچ کر حضرت والد صاحب نے حضرت اقدس سے خیریت پوچھی اور کہا کہ حضور! میرے لڑکے کا سر بھی پھٹا ہے.حضور نے مجھے بلا لیا اور آہستہ آہستہ اپنا دستِ مبارک میرے سر پر پھیرتے رہے اور باتیں کرتے رہے دو تین منٹ کے بعد ہم سب لوگ دوسرے کمرے میں آگئے..۱۹۰۸ء میں جب حضور احمد یہ بلڈنکس میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں ٹھہرے تو میں اپنے والد صاحب اور دادا صاحب کے ہمراہ زیارت کے لئے جایا کرتا تھا.جس روز حضور کا وصال ہوا ہے اس روز بھی میں والد صاحب کے ہمراہ حضور کے لئے کھانا لے کر گیا تھا.یہ کھانا حضور کے سامنے پیش کیا گیا تو حضور نے انگلی سے چکھ کر واپس فرما دیا.والد بزرگوار نے مجھے کھانا گھر پر چھوڑ آنے کو کہا.میں نے بہت جلدی سے حکم کی تعمیل کی اور واپس احمد یہ بلڈنگس پہنچ گیا.اس وقت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے ساتھ ایک انگریز ڈاکٹر غالباً کرنل سدر لینڈ مکان کے باہر کھڑے تھے.اس واقعہ کے ایک یا دو گھنٹے کے بعد حضور کا وصال ہو گیا.اس وقت میری عمر ۱۵.۱۶ سال کی تھی.میں نے اپنی زندگی میں تین چار مرتبہ حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.میں نے حضور کے چہرہ مبارک کو ہمیشہ نورانی اور ہشاش بشاش دیکھا.خفگی کے آثار کبھی نہیں دیکھے.حضور دن کے وقت مضمون

Page 306

305 عموماً ٹہل ٹہل کر لکھا کرتے تھے.پوسٹ کارڈ بھی میں نے حضور کو کھڑے ہو کر لکھتے دیکھا.۴.حضور کھانے پینے کی اشیاء میں کبھی نقص نہ نکالتے تھے.چنانچہ حضور معہ خدام ایک دفعہ ہمارے مکان واقعہ دہلی دروازہ پر تشریف فرما ہوئے.دادا میاں نے ۱۵ سیر دودھ چائے کے لئے منگوایا.اور بڑے مستی حمام میں یہ چائے تیار کی گئی.ہمارے چچا میاں عبدالعزیز صاحب مغل نے سب سے پہلے ایک پیالی حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کی.حضور نے یہ چائے نوش فرما لی.جب دوسرے احباب کو یہ چائے ملی تو معلوم ہوا کہ اس میں نہ چینی ہے نہ نمک.ہر طرف سے چینی کا مطالبہ ہونے لگا.اس پر چائے میں چینی ڈالی گئی اور حضرت اقدس کی خدمت میں بھی پھر ایک پیالی معذرت کے ساتھ پیش کی گئی جو حضور نے قبول فرمالی.۵.حضور مسکراتے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے.حضور نماز کی امامت بہت کم کرایا کرتے تھے.بوٹ پہنے کی عادت نہیں تھی.عموماً دیسی جوتا ہی پسند فرماتے تھے.جب باہر تشریف لاتے تو ہاتھ میں عصا ہوتا تھا.ہر روز صبح سیر فرمایا کرتے تھے.چلنے میں تیز قدم تھے.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب سیر میں بہت پیچھے رہ جاتے تھے.حضور ان کی خاطر چلتے چلتے ٹھہر جایا کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب کو آنے دو..حضرت اقدس کو اگر کوئی شخص کچھ ہدیہ پیش کرتا تو حضورا اسے قبول فرما لیتے تھے.میں نوجوان لڑکا تھا حضور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں تشریف فرما تھے اور احباب مصافحہ کیلئے آ رہے تھے.ہر احمدی حضور کی خدمت میں کچھ نہ کچھ نذرانہ پیش کرتا تھا.میری جیب میں ایک دونی چاندی کی تھی جو بہت ہی چھوٹی سی ہوا کرتی تھی.میں نے بھی مصافحہ کرتے وقت وہ حضور کے ہاتھ میں دے دی.جسے حضور نے قبول فرما لیا.ے.ایک دفعہ ہمارے مکان پر کسی نے حضور سے کچھ مانگا.حضور نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی.اس پر کسی عورت نے کہا.حضور ! یہ تو غیر احمدی ہے.حضور مسکرا کر خاموش ہور ہے.سبحان اللہ !.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میاں کا لونا نبائی نے لنگر خانہ کے عملہ کے ایک آدمی کو آٹا چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا.احاطہ کے اندر شور برپا ہوا.حضرت اقدس نے پوچھا.کیا بات ہے؟ جب حضور کو

Page 307

306 اصل واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا کہ تم اسے مزدوری کم دیتے ہوگے.غریب آدمی ہے.پھر فرمایا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ ایک روٹی کیلئے دو دفعہ جہنم میں جھانکتا ہے.یہ آٹا اسی کو دے دو اور اس کی مزدوری زیادہ کر دو اور اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بناؤ.۹.میاں معراج دین صاحب عمر کے پاس حضرت اقدس کا عصا اور میاں عبدالعزیز صاحب کے پاس حضور کا ایک گرم کوٹ اور گھڑی تھی.میاں عبدالعزیز صاحب کے بٹوے میں ایک روپیہ ملکہ وکٹوریہ والا رکھا رہتا تھا جو حضرت صاحب نے میاں صاحب کو اپنے ہاتھ سے عنایت فرمایا تھا.یہ روپیہ آخر تک ان کے پاس رہا.میاں معراج دین صاحب کے پاس حضرت کی ایک کتاب کا مسودہ بھی تھا.حضرت والد صاحب کے پاس حضرت اقدس کی ایک پگڑی تھی جو نو زائیدہ بچوں کے کرتے بنا بنا کرختم کر دی.ان میں سے ایک کر تہ میرے بچے عبدالوحید کو بھی ملا تھا جو مجھ سے بعد میں ضائع ہو گیا.۱۰.حضرت والد بزرگوار کو بھی طبی معلومات کا شوق تھا اور مجھے بھی.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح اول کے طبی نوٹ کچھ محفوظ رہے اور بہت سے ضائع ہو گئے.جو باقی تھے وہ میاں عبدالوہاب صاحب دس روپے برادرم محمد عیسی کو دے کر سب کے سب لے گئے.اس بات کا جب مجھے علم ہوا تو مجھے بے حد دکھ ہوا کیونکہ وہ حضرت خلیفہ امسیح اول کے طبی نوادرات اور رموز کا ایک بیش بہا خزا نہ تھا.اب صرف حضرت کے الفاظ اور طبی نسخے چند ایک میرے پاس موجود ہیں.محترم ڈاکٹر صاحب کی رہائش آج کل ۶۸.سی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہے.اولا د : عبدالوحید مرحوم عبد السلیم ، عبد القدیر آفتاب احمد ناصر احمد بسم اللہ بیگم بلقیس مبارکہ مرحومہ بلقیس مطہرہ سارہ جبیں، مریم امت الرؤف مرحومه طوبی نشین مرحومه طوبی قدر حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد ولادت : ۱۸۷۲ء بیعت : ۱۹۰۲ ء بذریعہ خط وفات : دسمبر ۱۹۴۵ء حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد لاہور نے فرمایا کہ ا.بیعت کرنے سے چھ سات ماہ پہلے میں قادیان گیا.اس وقت میرے رشتہ داروں نے وہاں جانے کی سخت مخالفت کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں وہاں جا کر حضرت مرزا صاحب کے گھر کا

Page 308

307 کھانا نہ کھاؤں اور نہ بیعت کروں.اس وقت میرے ساتھ میری اہلیہ کے بھائی بھی تھے.جن کا نام شہاب الدین تھا.قادیان میں جا کر مولوی عبد الکریم صاحب سے ملا اور حضور علیہ السلام کی ملاقات بھی ہوئی اور حضور سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں بھی کیں جو اب یاد نہیں.تین نمازیں بھی حضور کے ہمراہ مولوی عبد الکریم صاحب کی اقتداء میں پڑھیں.مجھے پر اس وقت آپ کی صداقت کا بہت اثر ہوا.گو میں نے اپنے رشتہ داروں سے وعدہ کرنے کی وجہ سے بیعت نہ کی.اس وقت مجھ پر حضور کی محبت کا جو اثر تھا اس کو دیکھ کر میرے نسبتی بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ تو اپنے وعدہ کے خلاف کر رہے ہیں.اور آپ کی حرکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ضرور پھنس جائیں گے.اس عرصہ میں میری کچھ گفتگو حافظ مولوی محمد ابراہیم صاحب نابینا کے ساتھ ہوئی جس کا مجھ پر خاص اثر ہوا.پھر ہم لوگ واپس آگئے.اور چھ سات ماہ کے بعد میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے.آپ قسم کھا کہ تحریر فرما دیں کہ آپ وہی مسیح موعود ہیں جن کی دنیا کو انتظار ہے اس پر حضور نے اس لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا کہ میں وہی مسیح ہوں جن کا وعدہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.ولعنت الله على الكاذبين.خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود..یہ خط جب یہاں پہنچا تو مجھے منشی محبوب عالم صاحب نے آواز دے کر کہا کہ آپ کا خط آ گیا ہے.میں وہ خط لے کر اپنے گھر کے اندر گیا اور اپنے اہل وعیال کو صاف صاف کہہ دیا کہ میں اب بیعت کرنے لگا ہوں.اگر کسی کو عذر ہو تو وہ اس وقت بیان کر دے یا وہ علیحدہ ہو جائے.چنانچہ میری بیوی اور بچوں سب نے اس وقت بیعت منظور کر لی اور میں نے سب کی طرف سے خط لکھ دیا.میری والدہ صاحبہ زندہ موجود تھیں مگر وہ اس وقت لاہور میں نہ تھیں.انہوں نے پھر بعد میں حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کی.بیعت کا خط لکھنے کے قریباً ایک ہفتہ بعد جب میں قادیان گیا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب سے میری عصر کی نماز کے بعد ملاقات ہوئی.انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ نے وہ حدیث پوری کی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آ کر یہ سوال کیا تھا کہ آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ وہی رسول ہیں جن کا تو رات میں وعدہ دیا گیا ہے اور حضور نے اس وقت قسم کھا کر بیان کیا تھا کہ ہاں میں وہی ہوں جس پر اس نے وہاں پر ہی بیعت کر لی تھی.اس

Page 309

308 موقعہ پر میں قادیان میں چند دن ٹھہرا تھا اور حضور علیہ السلام کی دستی بیعت بھی کی.روزانہ صبح آپ سیر کو تشریف لے جاتے تھے.میں بھی ہمراہ ہوتا تھا.آپ کی رفتار عام لوگوں سے کچھ تیز ہوتی تھی.ان ایام میں آپ منگل کی طرف تشریف لیجاتے تھے.۲.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے قریشی محمد حسین صاحب کو خط لکھا کہ آپ پوستین کا نرخ دریافت کر کے لکھیں کہ تا پتہ لگے کہ آیا میں خرید بھی سکتا ہوں یا نہیں.قریشی صاحب نے وہ خط میرے سامنے پڑھا.اسی دن میں نے پوستین خریدی جس کی قیمت قریباً ۴۵ روپے تھی اور دوسرے دن قادیان جا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس وقت حضور باغ میں تشریف فرما تھے.۳- چند بار آمد ورفت ہو جانے کی وجہ سے میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ میرا ارادہ نکاح ثانی کرنے کا ہے.ابھی میں یہ کہنا ہی چاہتا تھا کہ حضور دعا فرما دیں کہ حضور نے فوراً فرمایا.ہاں بہت مبارک ہے میں دعا کروں گا.چنانچہ اس کے بعد میں نے دوسرا نکاح کیا اور یہ رشتہ بہت بابرکت ثابت ہوا.میری یہ اہلیہ بہت ہی متقی تھی اور موصیہ بھی.اب بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہے.۴.جب بہشتی مقبرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت حضور نے اس کی تجویز فرمائی تو میں ان دنوں قادیان میں ہی تھا.حضور نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جو شخص اس قبرستان میں دفن ہو گا وہ ضرور بہشتی ہو گا.ہو سکتا ہے کہ جو اس کے باہر دفن ہو وہ بھی بہشتی ہومگر اس میں جو دفن ہوگا وہ ضرور بہشتی ہوگا.اس کے بعد حضور نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کا نقشہ آپ تجویز کریں.چنانچہ میں نے یہ نقشہ بنا کر حضور کی خدمت میں پیش کیا اور ساتھ ہی یہ خواہش کی کہ جس جگہ حضور کی اب قبر مبارک ہے اس جگہ میری قبر ہو.اس موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ یہ خدا کے علم میں ہے کہ اس جگہ کون دفن ہوگا.حضور نے قرآن کی آیت بھی پڑھی جو مجھے یاد نہیں رہی.اس کے بعد اس قبرستان کے نقشہ میں حضرت نانا جان نے ترمیم بھی کی تھی اور سڑکیں وغیرہ بنائی تھیں.۵.پہلے میر اوصیت نمبر ۱۶ تھا مگر اس کے بعد پل کا چندہ چونکہ دیر سے بھیجا گیا تھا اس لئے موجودہ نمبر ۶۵ ہو گیا..ایک دفعہ ۱۹۰۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری دکان واقع نیلہ گنبد میں تشریف لائے.کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد دکان سے باہر ہی ایک کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ پانی

Page 310

309 لاؤ.منشی محبوب عالم صاحب اور کئی اور احباب سوڈا واٹرکسی اور دودھ وغیرہ لائے مگر حضور نے فرمایا کہ ہم پانی پیئیں گے جس پر پانی لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.میں نے اس موقعہ پر آپ کی خدمت میں ایک پونڈ پیش کیا.جسے حضور نے دودفعہ عذر کرنے کے بعد قبول فرمالیا.ے.میں نے ایک دفعہ حضور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا ہے.حضور کھانا بہت ہی کم کھایا کرتے - حضور کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات دستار مبارک کے پیچ بالکل بے ترتیب سے ہوتے تھے.یہی حال قمیض اور کوٹ کے بٹنوں کا ہوتا تھا.یعنی جو بٹن اوپر کا ہوتا تھا وہ نیچے کے کاج میں لگا ہوتا تھا اور نیچے کا بٹن اوپر کے کاج میں.۹.اس زمانہ میں میرا کئی سال تک یہ دستور العمل رہا کہ بٹالہ اسٹیشن پر ایک جمعدار کے پاس ایک سائیکل ٹھوس ٹائروں والا رکھا ہوتا تھا.جمعہ کے روز میں لاہور سے بٹالہ تک گاڑی میں اور وہاں سے سائیکل پر سوار ہو کر قادیان جاتا.جمعہ کی نماز کے بعد واپس سائیکل پر بٹالہ آ جاتا.جہاں سے گاڑی پر سوار ہوکر لا ہور آ جاتا.۱۰.میں نے قادیان میں ریل گاڑی جاری کرنے کے متعلق بہت کوشش کی.۱۹۱۵ء سے لیکر ۱۹۲۴ ء تک میں نے یہ کوشش جاری رکھی.اس عرصہ میں میں نے ایک دفعہ ڈنڈوت کالری کی لائن کی نیلامی میں بولی دی جو بارہ میل کی لائن تھی.ایسا ہی ایک دفعہ آگرہ کی طرف بولی دی.اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس بھی کئی دفعہ گیا.اور وہاں پر اس کے متعلق سوال اٹھایا.سری گوبند پور تک جا کر اس کے متعلق سروے بھی کی.اس کے لئے ایک انجنیئر کو ساتھ لیا اور باقاعدہ نقشہ تیار کر وایا.ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ایک کمپنی جاری ہو جس کے کئی حصہ دار ہوں اور وہ اس ریلوے کو جاری کر دے.آخر جب اس قسم کی درخواست ریلوے بورڈ میں دی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ریل کو خود تیار کریں گے اور اس کا نمبر ۷ ا مقرر کر دیا گیا.اس کے بعد ہم خاموش ہو گئے کیونکہ ہما را مقصد منافع کمانانہ تھا.بلکہ ریل کا جاری کروانا تھا.چنا نچہ تین سال بعد ریل جاری ہوگئی.جب امرتسر سے پہلی گاڑی چلنے لگی تو اس سے کچھ وقت پیشتر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ آج تمہاری کوشش کامیاب ہوئی.اس کوشش میں میرا قریباً بارہ

Page 311

310 تیرہ ہزار روپیہ صرف ہوا.ا.ایک دفعہ میرے لڑکے عبدالمجید نے جس کی عمر اس وقت چار برس کی تھی.اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر (چھی ڈال کر ) ملنا ہے ( یعنی ملاقات کرنا ہے.ناقل ) اس نے مغرب کے وقت سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت دق کیا.صبح اٹھ کر پہلی گاڑی سے میں اسے لے کر بٹالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگہ پر ہم قادیان گئے اور جاتے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبدالمجید آپ کو بھی پا کر ملنا چاہتا ہے.حضور اس موقعہ پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اس نے ملاقات کی اور کہا کہ ”ہن ٹھنڈ پے گئی اے ، اس وقت عبدالمجید کی عمر لگ بھگ چالیس سال کے ہے.۱۲.آخری ایام میں جب حضور لاہور میں تشریف لائے تو میں حضور کے ہمراہ ہر روز عصر کے بعد سیر کو جایا کرتا تھا.آپ فٹن پر سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے اور میں آپ کے ساتھ سائیکل پر جاتا تھا.ان ایام میں ایک روز حضرت ام المومنین کے کہنے پر میں نے ایک دوست سے حضور کے لئے موٹر مانگی.( ان ایام میں سارے لاہور میں دو یا تین موٹر کا ر تھے ) جب حضور کو پتہ لگا تو فرمایا کہ بیوی صاحبہ موٹر کار پر چلی جائیں، میں نہیں جاؤں گا.ان ایام میں دوسرے اوقات میں بھی میں حضور کے ہمراہ اکثر رہتا.آپ نے ان دنوں میں یہ بھی فرمایا کہ محمد موسیٰ ! آپ نے دین کی بہت خدمت کی ہے.۱۳.میرے ایک چچازاد بھائی عبداللہ صاحب میری دوکان پر ملازم تھے جو کہ نہایت مخالف تھے.آخری ایام میں جب حضور لا ہور تشریف لائے تو کئی روز میں نے ان سے تقاضا کیا کہ آپ جا کر دیکھ تو آئیں.مگر وہ انکار ہی کرتے چلے گئے.آخر ایک روز میرے اصرار پر کہنے لگے.کہ دہاڑی ( یومیہ مزدوری ) چھوڑ کر کون جائے.میں نے کہا کہ میں آپ کو دہاڑی نہیں کا تھا.آپ چلے جائیں.چنانچہ جب وہ گئے تو اس کے بعد میں بھی گیارہ بجے وہاں گیا اور میں نے دیکھا کہ ان پر حضور کی صحبت کا بہت نیک اثر پڑا ہے.چنانچہ ان کی حالت بدل چکی تھی اور وہ بیعت پر آمادہ تھے.میں نے کہا آپ تو اس قدر مخالف تھے ذرا ٹھہر جائیں.اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اب تو بیعت کرنے سے رک نہیں سکتا.عصر کے بعد بھی ایسا ہی کہا اور میں ان کو روکتا رہا کہ سوچ لو.آخر دوسرے یعنی اب تسلی ہو گئی ہے.یعنی ۱۹۳۹ء میں جب کہ یہ روایات لکھی گئیں (مؤلف)

Page 312

311 دن جمعہ کے وقت انہوں نے کہا کہ اب آپ چاہے روکیں میں بیعت ضرور کروں گا.چنانچہ نماز جمعہ کے بعد انہوں نے بیعت کر لی.۱۴.میاں فیروز الدین صاحب جو میاں محمد سلطان صاحب کے متبنی تھے (میاں محمد سلطان صاحب نے لاہور کا اسٹیشن بنایا تھا اور گورنمنٹ کو کئی لاکھ روپیہ کا بل چھوڑ دیا تھا ) کو گھٹنوں کی درد کی بہت شکایت تھی.دو آدمی پکڑ کر ان کو اٹھایا کرتے تھے.مگر حضرت صاحب سے ان کو بہت محبت تھی اور وہ حضور کے پاس روزانہ آیا کرتے تھے.ان ایام میں امریکہ کے ایک صاحب اور میم یہاں پر آئے.اور ان سے حضور نے گفتگو فرمائی.اس موقعہ پر میاں فیروز الدین بھی وہیں بیٹھے تھے.حضور نے ان کو فرمایا کہ میاں فیروزالدین کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور درد بہت ہے.آپ نے فرمایا.اٹھو! اٹھو! ! انہوں نے کہا کہ حضور کہاں اٹھ سکتا ہوں.لیکن حضور نے بڑی تیزی سے فرمایا کہ اٹھو.اٹھو! جس پر وہ خود بخو داٹھ کر کھڑے ہو گئے.اور ان کی درد بالکل زائل ہوگئی.اس کے بعد گھٹنوں کی دردان کو مرتے دم تک نہیں ہوئی.چار پانچ سال وہ اس کے بعد زندہ رہے.۱۵.حضرت مسیح موعود نے آخری ایام میں ایک اشتہار شائع فرمایا جس پر ایک لکڑی کی مہر أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کھدوا کر اشتہار پر لگوائی تھی.وہ مہراب تک میرے پاس موجود ہے.۱۶.میں نے ایک دفعہ حضور کی خدمت میں یہ درخواست کی تھی.چونکہ جماعت کو مال کی بڑی ضرورت ہے.کیا قربانی کی بجائے روپے نہ قادیان بھجوا دیے جائیں؟ فرمایا.نہیں.شعائر اللہ کو برقرار رکھنا ضروری ہے.۱۷.ایک دفعہ میں قادیان گیا.بستر ہمراہ نہ لے گیا تھا.حضور کے خادم حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو اطلاع دی کہ لاہور کے ایک صحابی محمد موسیٰ کے پاس بستر نہیں ہے.اس پر حضور نے اپنی رضائی مجھے بھیج دی.چنانچہ اس رات میں حضور کی رضائی اوڑھ کر سویا.۱۸.ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب مرحوم جو کہ بھڑ یار متصل اٹاری کے رہنے والے تھے.انہوں نے مچھلی پکڑ کر دی کہ یہ حضرت صاحب کی خدمت میں لے جاؤ.چنانچہ میں وہ مچھلی حضور کی خدمت میں لے کر گیا.حضور بہت خوش ہوئے.

Page 313

312 ۱۹.مجھے کئی مرتبہ حضور کومٹھی چاپی کرنے کا موقعہ ملا.۲۰.میں ایک دفعہ قادیان گیا.حضور کا ایک کمرہ بن رہا تھا.اس کی نگرانی کے لئے حضور نے مجھے مقرر کیا.ایک مرتبہ دو پہر کے بعد حضور وہاں خود بھی تشریف لائے.ان ایام میں حضور کوئی کتاب بھی تصنیف فرمارہے تھے.غالباً براہین احمدیہ حصہ پنجم تھی.حضور کے لکھنے کا طریق یہ تھا کہ صحن یا کمرہ کے دونوں طرف دوا تیں رکھی ہوتی تھیں اور ہاتھ میں کاغذ اور قلم لئے ہوتے تھے ایک طرف کی دوات سے روشنائی لے کر لکھتے لکھتے دوسری طرف چلے جاتے پھر ادھر سے روشنائی لے کر اس طرف چلے آتے.اس اثنا میں ایک معمار نے حضور کو کہا کہ حضور فلاں مزدور نمازی نہیں.فرمایا.ہم نے اس سے نفل نہیں پڑھوانے.۲۱.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے نکاح کے موقعہ پر حضور نے لاہور کے جن چند احباب کو ا بلایا.ان میں میں بھی شامل تھا.۲۲.آپ کی اہلیہ صاحبہ رحمت بی بی بھی صحابیہ تھیں.ان کی ولادت ۱۸۷۵ء میں ہوئی.بیعت کرنے کا شرف ۱۹۰۴ء میں حاصل ہوا.اور وفات ۱۷.مارچ ۱۹۵۸ء کو ہوئی.۸۲ سال کی عمر پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں.فانالله وانا اليه راجعون.اولاد : میاں محمد حسین صاحب، میاں عبدالمجید صاحب، میاں عبد الماجد صاحب، میاں محمد احمد صاحب میاں محمد یحیی صاحب، میاں مبارک احمد صاحب مریم بی بی صاحبہ زوجہ عبد الخالق صاحب عائشہ بی بی صاحبہ مرحومه زینب بی بی صاحبہ زوجہ عبد العزیز صاحب.نوٹ : اوّل الذکر دونوں اصحاب صحابی ہیں.میاں محمد حسین صاحب کی پیدائش دسمبر ۱۸۹۴ ء میں ہوئی اور بیعت انہوں نے ۱۹۰۵ء میں قادیان جا کر کی.ان کی اولاد کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں.محمد عبد الله محمد عبد القادر محمد اور میں امتہ الرحیم، ناصر بتول.میاں عبدالمجید صاحب کی پیدائش جنوری ۱۹۰۱ء میں ہوئی اور بیعت انہوں نے ۱۹۰۶ ء یا ۱۹۰۷ء میں قادیان جا کر کی.انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب کے متعلق ایک روایت یہ بیان کی

Page 314

313 کہ ۱۹۰۷ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کام کے لئے ساری جماعت کے سامنے ایک ہزار روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی.جس میں سے سات سو روپے والد محترم نے حضور کی خدمت میں پیش کئے اور تین سو روپے باقی احباب نے.محترم میاں عبدالحمید صاحب کی اولاد کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں.عبدالقیوم بشارت احمد عبدالرؤف، عبدالکریم مظفر احمد مجیدہ بیگم حمیدہ بیگم رشیدہ بیگم امتہ السلام صدیقہ بیگم امۃ القیوم مرحومہ.محترم ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ( غیر مبائع) ولادت : ۱۸۷۸ء بیعت : ۱۹۰۲ ء وفات : ۲۶.اپریل ۱۹۳۹ء محترم ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کا وطن موضع کا لا پیچی تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور تھا.آپ ۱۸۷۸ء میں موضع لکی مروت ضلع بنوں میں پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد محترم خان بہادر سید عالم شاہ صاحب اسسٹنٹ سیٹلمنٹ آفیسر کے عہدہ پر کام کر رہے تھے.ابتدائی تعلیم آپ نے سیالکوٹ میں حاصل کی.بعدہ میڈیکل کالج لاہور سے ایل.ایم.ایس کا امتحان ۱۸۹۹ء میں پاس کیا.غالباً ان شاء یا ۱۹۰۲ء میں جب کہ آپ پلیگ ڈیوٹی پر گورداسپور میں لگے ہوئے تھے.آپ کو محترم سید امیر شاہ صاحب نائب تحصیلدار قادیان لے گئے.اس وقت تو آپ نے صرف حضور کی زیارت ہی کی.اور واپس آگئے.مگر بعد میں اکیلے جا کر بیعت کر لی.اس کے بعد آپ کو لاہور میں مستقل ملازمت مل گئی اور آپ کے محترم خواجہ کمال الدین صاحب، محترم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور محترم شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ احمدی احباب کے ساتھ تعلقات اخوت پیدا ہو گئے.اور آپ نے ان کے ساتھ قادیان آنا جانا شروع کر دیا.آپ نے سلسلہ کی مالی خدمات اور تبلیغ احمدیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.ہمدردی مخلوق کے ضمن میں ساملی سینی ٹوریم کا قیام آپ کا ایک عظیم کارنامہ ہے.۱۹۱۴ء میں جب جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے وغیرہ نے بیعت خلافت سے انحراف کیا اور لاہور میں انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد رکھی تو محترم شاہ صاحب بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور

Page 315

314 زندگی بھر ان کے ساتھ ہی رہے.غالباً ۱۹۲۴ ء میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سے مسئلہ کفر و اسلام پر مری میں (جہاں آپ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے ) چند معززین کے سامنے تبادلہ خیالات کیا جس سے آپ پر مولانا موصوف کی قابلیت کا سکہ بیٹھ گیا.اسی تبادلہ خیالات کا تذکرہ میں نے اپنی کتاب ”حیات نور“ میں کیا ہے.اس تبادلہ خیالات کے نتیجہ میں محترم مولانا کے ساتھ آپ زندگی بھر بہت عزت واحترام سے پیش آتے رہے.مجھے یاد ہے ۱۹۳۱ء.میں جب محترم مولانا اپنی مشہور کتاب تفہیمات ربانیہ کی تصنیف کے سلسلہ میں مری تشریف لے گئے تھے تو خاکسار راقم الحروف بھی ساتھ تھا.ایک مرتبہ سیر کے دوران میں محترم ڈاکٹر صاحب ہمیں رستہ میں بڑے ہی تپاک سے ملے اور دوسرے روز اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی.غرض مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے مگر غصیلے ہونے کی وجہ سے بعض اوقات مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں ایسے کلمات بھی کہہ جاتے تھے جن سے ہمارے نزدیک حضور علیہ السلام کی کسرشان ہوتی تھی.آپ کی وفات ۲۶ اپریل ۱۹۳۹ء کو مسلم ٹاؤن لاہور میں ہوئی نماز تہجد کے دوران میں آپ بے ہوش ہو گئے اور اسی شام سوا اٹھ بجے اکسٹھ سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے.فانا لله و انا اليه راجعون.و محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ( غیر مبائع) ولادت: ۳.اکتوبر ۲ ۱۸۷ ء بیعت : ۱۹۰۲ ء وفات : ۲۱.اپریل ۱۹۴۳ء محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ۱۹۰۲ء میں بیعت کی اور نیکی اور اخلاص میں بہت ترقی کی.چنانچہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے گھوڑے سے گرنے کے بعد کئی روز تک آپ حضور کے علاج کے سلسلہ میں قادیان میں مقیم رہے.بسلسلہ ملازمت جہاں بھی رہے.قرآن کریم کا درس با قاعدگی کے ساتھ دیتے رہے.آپ بھی خلافت ثانیہ کی ابتداء میں جناب مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے.آپ کی تصانیف میں سے ”مسجد داعظم“ خاص طور پر مشہور ہے.اگر اس کتاب میں سے اس حصہ کو نکال دیا جائے جو جماعت احمد یہ قادیان اور سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی عداوت میں لکھا گیا ہے تو کتاب فی الجملہ بہت اچھی ہے.

Page 316

315 آپ نے نومبر ۱۹۳۳ء کے پیغام صلح میں اپنے حالات زندگی خود تحریر فرمائے تھے.جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے بزرگ حنفی المذہب تھے.مگر آپ چونکہ ہر وقت سچائی کی جستجو میں لگے رہتے تھے.اس لئے جلد ہی آپ اہلحدیث گروہ میں شامل ہو گئے.سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں پڑھتے تھے.جہاں پادری سنگ سن سے بحث و مباحثہ رہتا تھا.مگر حیات مسیح کے عقیدہ کی وجہ سے سخت ڈک اٹھانا پڑتی تھی.جس کی وجہ سے اسلام پر شبہات پیدا ہو گئے تھے.بعض مرتبہ یہ بھی خیال آتا تھا کہ کیوں نہ آریہ بن جائیں.طبیعت کی اس بے چینی کے زمانہ میں آپ کے دادا صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”فتح اسلام دکھائی اور فرمایا کہ دیکھو چودھویں صدی کا کرشمہ کہ ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اور یہ کتاب اس نے شائع کی ہے.آپ نے جو اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو جب تک ختم نہ ہوئی اسے ہاتھ سے نہ چھوڑا.خصوصاً وفات مسیح کا مسئلہ تو دل میں ایسا اثر کر گیا کہ آپ خوشی سے اچھل پڑے.کچھ دنوں بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حضرت حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام فرمایا.حضرت کو دیکھتے ہی دل اس یقین سے بھر گیا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا.حضور کی اقتداء میں عصر کی نماز بھی پڑھی.مختلف مسائل اسلامیہ پر گفتگو بھی سنی.مگر حضور کے تشریف لے جانے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے صدر سیالکوٹ کی جامع مسجد میں ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ آپ کا روحانی سکون برباد ہو گیا.اب گو آپ نے مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے پیچھے نمازیں پڑھنا شروع کیں مگر پہلا خطبہ سن کر ہی آپ کی طبیعت منغض ہو گئی.ان ایام میں آپ کو ایک چشتیہ صابر یہ خاندان کے صوفی منش بزرگ سے ملنے کا اتفاق ہوا.ان سے آپ نے بہت سے اور ا د وظائف سیکھے مگر طبیعت کو سکون نصیب نہ ہوا.انہی ایام میں ایک فوجی احمدی حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم سے براہین احمدیہ مل گئی.اسے پڑھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوئی اور یقین ہو گیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی صداقت کے دلائل صرف آپ ہی بیان کر سکتے ہیں.لاہور میں اسلامی اصول کی فلاسفی والا مضمون سن کر اس خیال کو اور بھی تقویت پہنچی.اس کے بعد آپ کچھ عرصہ کے لئے بسلسلہ ملازمت افریقہ چلے گئے.وہاں بھی بعض احمد یوں سے ملاقات رہی.جب واپس آئے تو پہلے ظفر وال ضلع سیالکوٹ میں اور پھر شکر گڑھ ضلع گورداسپور میں پلیگ ڈیوٹی پر متعین

Page 317

316 ہوئے.اہل وعیال امرتسر میں تھے.ایک روز جو یہ اطلاع ملی کہ آپ کا لڑ کا ممتاز احمد جو اس وقت دو سال کا تھا بعارضہ ٹائیفائیڈ فیور سخت بیمار ہے تو آپ گھبرا گئے.ایک ہفتہ کی رخصت لے کر گھر پہنچے.مگر رخصت ختم ہوئی اور بچے کے بخار میں ذرہ بھر افاقہ نہ ہوا.بیگم صاحبہ نے کہا گورداسپور تو جانا ہی ہے قادیان میں جا کر حضرت مرزا صاحب سے دعا ہی کروالو.کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ فضل کر دے.بیوی کے یہ الفاظ سن کر قادیان کی راہ لی.دو بجے رات قادیان پہنچے.دیکھا کہ مسجد مبارک تہجد گزار لوگوں سے بھری ہوئی ہے اور حضرت اقدس اندر تہجد پڑھ رہے ہیں.یہ کیفیت دیکھ کر بے حد اثر ہوا.اپنے پرانے رفیق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے آپ کو حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا.پس حضور کو دیکھتے ہی سارے شکوک و شبہات کا فور ہو گئے علیحدگی میں ملاقات کی.وظیفہ پوچھا تو فرمایا ” یہی نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور سمجھ سمجھ کر پڑھا کرو“ حضور کی یہ تلقین سن کر دل پر خاص اثر ہوا.بچے کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی.حضور نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا فرما دی.بیعت کر کے ڈیوٹی پشکر گڑھ پہنچے.تیسرے روز خط ملا جس میں لکھا تھا کہ لڑکا بالکل اچھا ہے ہرگز کوئی فکر نہ کریں.رخصت لے کر گھر پہنچے.پتہ چلا کہ جس روز صبح حضرت اقدس سے دعا کروائی تھی اس روز حالت بہت خراب تھی مگر پچھلی رات اچانک بخار اتر گیا.معالج ڈاکٹر کو جب اطلاع ہوئی تو وہ مانتا ہی نہ تھا مگر جب اس نے خود آ کر ٹمپر پچر لیا اور نبض دیکھی تو حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو کوئی اعجاز مسیحائی ہے کہ مردہ زندہ ہو آپ نےا نے ۲۱.اپریل ۱۹۴۳ء کو بمقام بمبئی وفات پائی.جہاں آپ اپنے بیٹے میاں این.اے فاروقی کے ہاں مقیم تھے.فانا لله و انا اليه راجعون.محترم با بو شمس الدین صاحب بٹ ولادت : ۳.فروری ۱۸۹۰ء بیعت : ۳-۱۹۰۲ء محترم با بو شمس الدین صاحب بٹ کا بیان ہے کہ میرے والد صاحب بزرگوار میاں کریم بخش سود اگر اسپان اور پنجاب کے مشہور و معروف پنجابی شاعر بابا ہدایت اللہ آپس میں حقیقی ماموں اور پھوپھا زاد برادر تھے.لہذا میرے والد صاحب نے

Page 318

317 حضور سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت اس زمانہ میں کی جب میرے تایا بابا جی شاعر نے کی جو غالباً ۱۹۰۰ ء یا اس سے پیشتر کی ہے.میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء میں قادیان دار الامان جلسہ میں شمولیت کے لئے گیا تھا.بٹالہ سٹیشن پر اتر کر ہم سب دس گیارہ میل پیدل چل کر جایا کرتے تھے.سردی میں بستر وغیرہ اٹھاتے اور حضور اقدس کی نظمیں پڑھتے جاتے تھے.جب ۱۹۰۴ء میں حضور اقدس کی تقریر لاہور میں ہوئی تو تقریر حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھی.گوروں کا پہرہ تھا.بے شمار خلقت تھی.لیکن جب حضرت مولانا صاحب نے اپنی دلکش آواز میں تقریر کرنا شروع کی تو تمام احباب ہمہ تن گوش ہو کر تقریر سنتے رہے.میری عمر اس وقت چودہ برس کی تھی.میں نے تمام تقریر سنی - ۱۹۰۵ ء میں والد صاحب بیمار ہو گئے اور ۱۹۰۶ء میں رحلت فرما گئے.میرا برادر خورد غلام محمد بھی ۱۹۰۷ء میں فوت ہو گیا.میں بالکل پریشان ہو گیا.۱۹۰۸ء میں حضور سیدنا مسیح موعود بھی رحلت فرما گئے.میں نے حضور اقدس کا جنازہ بخوبی دیکھا.لاہور کے لوگوں نے بے پناہ شورش کی گالیاں نکالتے تھے اور بکواس کرتے تھے.اء میں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ مقرر ہوئے.میں نے بھی بیعت کی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بھی ۱۹۱۴ء میں رحلت فرما گئے.پھر جب سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ مقرر ہوئے تو میں نے بھی ایک ہفتہ کے بعد ( خدا بھلا کرے میاں سعدی مرحوم کا جن کے ذریعہ مجھے بیعت کرنے کی توفیق ملی ) بیعت کر لی.پھر خدا کے فضل وکرم کے ماتحت جب موجودہ خلیفہ کو مصلح موعود ہونے کا الہام ہوا تو حضور نے اس کا اعلان فرمانے کے لئے پنجاب کے مختلف شہروں میں تقریریں کیں.میں ہر ایک جلسہ میں موجود تھا.دہلی والے جلسہ میں از حد شورش ہوئی.شورہ پشت لوگ بار بار عورتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے تھے.میرے ہمراہ میاں معراج الدین صاحب پہلوان پہرہ پر تھے.خداوند کریم کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ ہنگامہ ختم ہو گیا اور جلسہ بھی خوش اسلوبی سے ختم ہو گیا.ملکانہ تحریک میں مجھے موضع کہ وائی ضلع آگرہ میں بھیجا گیا.جناب ملک ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب بھی میرے بعد وہاں پہنچ گئے.خدا کا شکر ہے کہ ہمیں وہاں خوب کام کرنے کا موقعہ ملا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو غیر مسلم بننے سے محفوظ رکھا.

Page 319

318 خدا وند کریم کا خاص الخاص فضل جو مجھے غریب پر ہوا وہ یہ ہے کہ جناب خواجہ نذیر احمد صاحب پسر خواجہ کمال الدین صاحب وکیل نے مجھے لوہے کی ایک بڑی وزنی الماری دی.یہ الماری حضور نے خواجہ صاحب کے گھر میں رکھی ہوئی تھی.جب حضور سیدنا مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تشریف فرما ہوا کرتے تھے تو اپنے کاغذات اور کتا بیں اس میں بند کیا کرتے تھے.یہ الماری مجھے مل گئی.حضرت سیدنا خلیفہ اصسیح الثانی نے تصدیق کی کہ یہ وہی الماری ہے جو حضور نے خواجہ صاحب کے گھر میں رکھی ہوئی تھی اور اس میں حضور ا پنی کتا بیں اور کاغذات رکھا کرتے تھے.اولاد کیپٹین ڈاکٹر بشیر احمد صاحب بٹ ولایت بیگم مرحومہ رانی، خالدہ مجید ڈاکٹر.اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر از قلم محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر صاحب) ولادت: انداز ا۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۳ ء وفات : ۲.دسمبر ۱۹۶۴ء :١٩٠٣ء میری والدہ ماجدہ حضرت غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ( دختر ملک کمال الدین صاحب تلہ گنگ) صحابہ تھیں.آپ ایک سال کی تھیں کہ آپ کے والد وفات پاگئے اور آپ اور آپ کی دو بہنیں اپنے خالہ زاد بھائی حضرت ابو امام الدین صاحب جہلمی ریلوے گارڈ کی کفالت میں آگئیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.انہوں نے اپنی بہنوں کی خوب پرورش کی.آپ فرمایا کرتی تھیں کہ میں چھوٹی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے.ایک کمرہ میں حضور علیہ السلام کی بیعت کرنے کیلئے خواتین جمع تھیں.میں دروازے پر کھڑی تھی جب حضور علیہ السلام بیعت کے الفاظ ادا فرماتے تو میں بھی ساتھ ساتھ دوہراتی جاتی.۱۳ ۱۴ برس کی عمر میں آپ کی شادی ہو گئی.آپ قادیان تشریف لے آئیں.حضرت دادی جان اپنی بہو کو لے کر حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئیں.حضرت ممدوحہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں.بار بار تعریف فرمائی اور دستور کے مطابق شگن بھی ڈالا اور اس محبت و پیار کا سلسلہ تازیست قائم رکھا.اللهم نور مرقدها - حضرت سیدہ ام ناصر احمد سے بھی ہم عمری کی وجہ سے پیارو

Page 320

319 محبت میں حقیقی بہنوں سے بڑھ گئیں.ان کی اس مثالی دوستی کے گہرے نقوش ہمارے دلوں پر بھی ثبت ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس بات میں بھی مماثلت پیدا کر دی کہ آپ کو اولاد بھی برابر دی.یعنی سات بیٹے اور دو بیٹیاں.حضرت آپا جان اور خاندان مبارک کے دیگر افراد انہیں ” بہن جی“ کے لقب سے یاد کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدموں میں رہنے کا شرف بھی میرے پیارے والدین کو حاصل ہے.آپ نے دار مسیح کے گول کمرہ میں حضرت پھوپھا جان ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کی معیت میں کچھ عرصہ قیام فرمایا.فرمایا کرتی تھیں.حضور علیہ السلام سے ملاقات کا روزانہ موقع ملتا.عمر کے لحاظ سے فطری حیاء اس قدر غالب تھی کہ سلام کرنے کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کی ہمت نہ پڑتی.حضور پر نور از راہ شفقت خود ہی حال احوال دریافت فرمالیا کرتے.آپ بہت مرتبہ حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت اماں جان کے ہمراہ اور خواتین کے ساتھ سیر کے لئے جایا کرتیں.اوائل میں آپ کا جسم دبلا پتلا تھا.بڑے بھائی جان ڈاکٹر احسان علی صاحب ایک صحت مند بچہ تھے.آپ انہیں گود میں اٹھا کر چلنے سے تھک جایا کرتی تھیں اور واپسی پر بخار وغیرہ کی شکایت ہو جاتی.سیر کے دوران حضرت سیدہ ام ناصر احمد یا کوئی اور خاتون مبارکہ کوشش کرتیں کہ بھائی جان ان کی گود میں آجائیں اور بسا اوقات انہیں زبردستی گود میں اٹھا کر بہت آگے نکل جاتیں تا بچہ والدہ کی نظروں سے اوجھل ہو کر بہل جائے.ایک دفعہ حضرت اقدس نے والدہ صاحب کو فر مایا کہ آپ کا جسم سیر کی کوفت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے.۱۹۰۵ء میں جب حضور علیہ السلام اور دوسرے احباب شہر چھوڑ کر باغ میں تشریف لے گئے تو چونکہ حضرت والدہ صاحبہ کی طبیعت علیل تھی.اس لئے آپ نے کچھ عرصہ بعد حضرت والد صاحب کو فرمایا کہ آپ انہیں شہر اپنے مکان میں لے جائیں.جب بھائی جان کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو فوراً پوچھا کہ شہر چلی گئی ہیں.حضرت والد صاحب نے عرض کی.حضور کل ہی ہم گھر واپس آئے ہیں.فرمایا.بچہ کا نام ”احسان علی رکھیں.پھر فرمایا.علی اللہ تعالیٰ کا نام ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان کیا ہے.حضرت والدہ صاحبہ نے ۱۹۰۹ ء میں وصیت کی.آپ کا وصیت نمبر ۳۱۷ ہے.آپ حد درجہ

Page 321

320 ہمدرد دل رکھتی تھیں.پابند صوم وصلوٰۃ دعا گو اور تہجد گزار تھیں.بچوں کو اس رنگ میں تنبیہ فرما تھیں کہ اس کا اثر دل پر رہ جاتا.مجھے یاد ہے میری بھتیجی امتہ الہادی سلمہا کی پیدائش پر خواتین مبارکہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوت عصرانہ پر ہمارے ہاں مدعو تھیں.میں ان دنوں نویں جماعت میں پڑھتی تھی.غیر معمولی کام کی وجہ سے تھکاوٹ کے زیر اثر ان خواتین کے تشریف لے جانے کے بعد مغرب کے وقت ہی میں سوگئی اور صبح کی نماز نہیں پڑھی.صبح اٹھی تو پوچھا کہ رات نماز پڑھی تھی.میں نے کہا.نہیں.فرمایا.خوشی کے مواقع پر اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرتے ہیں یا بھول جاتے ہیں.ان کی یہ ہلکی سی سرزنش میری زندگی سدھار گئی.آپ سائل کی آواز سن کر بیکل ہو جایا کرتی تھیں.اس غرض کے لئے آپ نے اپنی الماری میں ایک برتن رکھا ہوا تھا جس میں ریزگاری ڈالتی رہتیں.گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے فقیر کی صدا سنتے ہی اس برتن کا رخ کرتے اور اس میں سے پیسے نکال کر سائل کو دے آتے.سفر کرتے وقت بھی اس غرض کے لئے کچھ رقم الگ رکھ لیتیں.اڑوس پڑوس کے غرباء بھی آپ کی مدد سے محروم نہیں تھے.آپ ہمیشہ ان کی دودھ دہی اور چھاچھ سے مدد فرماتیں.اگر کسی وقت وہ خود لینے کے لئے نہ آتے تو اپنے بچوں کے ہاتھ بھجوا دیتیں.حد درجہ مہمان نواز تھیں.حضرت والد صاحب اور ان کے خاندان کی بھی نہایت درجہ خدمت گزار تھیں.کھانا پکانا، سینا پرونا گوٹے کا کام نہایت اچھا کرتیں.محلہ کی اکثر لڑکیوں نے آپ سے کپڑے کاٹنے اور سینے سیکھے.سلسلہ کے کاموں میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتیں تھیں.قادیان میں بھی اور ہجرت کے بعد ماڈل ٹاؤن میں بھی برابر محصلہ کا کام کرتی رہیں.ربوہ میں جلسہ سالانہ کے دوران خواتین کے ماتحت شعبہ تقسیم سالن کو متعد دمرتبہ سنبھالا.حضرت اماں جان اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت، پیار اور عقیدت تھی.گھر میں پھل دار پودے اور درخت لگانے کا بھی بہت شوق تھا اور پہلا پھل ہمیشہ حضرت ام المومنین کی خدمت میں پیش کیا کرتی تھیں.قادیان میں ہمارے گھر کے صحن میں ایک اچھی قسم کا آم کا درخت تھا جس کے آم حضرت اماں جان کو بہت پسند تھے.ایک دفعہ موسم سرما میں حضرت اماں جان سیر سے ا سہو کا تب ہے غالباً عشاء ہونا چاہئے.

Page 322

321 واپسی پر ہمارے ہاں تشریف لائیں ( آپ اکثر اس شرف سے ہمیں نوازا کرتی تھیں ) میری والدہ ماجدہ نے حضرت اماں جان کی دستی چھڑی سے سنگترے تو ڑے حضرت اماں جان نے خود جھک جھک کر سنگترے اٹھائے اور فرماتی رہیں اے بیٹی بس بھی کرو کیا سارے سنگترے مجھے تو ڑ کر دے دوگی؟ بچوں کیلئے بھی رہنے دو.اسی طرح چنبیلی اور موتیا کے جب پھول ہوتے تھے تو آپ انہیں چنتیں اور حضرت اماں جان کو بھیجتیں.حضرت اماں جان بھی میری والدہ سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتی تھیں.ان کی ہر خوشی کو اپنے با برکت وجود کی شمولیت سے بڑھایا.بچوں کے بیاہوں پر اپنے دست مبارک سے تحفے دیئے اور نوازا اور اکثر فرما تیں.بیٹی میں تمہارے لئے تمہارے میاں اور بچوں کے لئے بہت دعائیں کرتی ہوں.حضرت اماں جان کو میری والدہ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بہت پسند تھا خاص کر کریلے.ایک دن حضرت والدہ صاحبہ حضرت ام ناصر صاحبہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت اماں جان تشریف لے آئیں.کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا بیٹی میری رضائی لوگی.والدہ صاحبہ نے عرض کی.اماں جان ! اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے.ایک دفعہ ڈلہوزی سے واپس تشریف لانے پر جب میری والدہ حضرت ممدوحہ سے ملنے گئیں تو آپ انہیں اپنے سامان کے کمرہ میں لے گئیں.ایک صندوق میں دو قمیضوں کے ٹکڑے پڑے تھے.فرمایا جو کپڑا پسند ہے لے لو.اس پر حضرت والدہ صاحبہ نے قمیض کا ایک کپڑالے لیا.دہلی سے واپسی پر میری بہن امتہ الحفیظ سلمہا نے حضرت والدہ صاحبہ کے ہاتھ حضرت اماں جان کے لئے ایک دہلی کی جوتی تحفہ بھیجی.جب حضرت والدہ صاحبہ نے پیش کی تو اتفاق سے آپ کو اس جوتی کا ڈیزائن زیادہ پسند آیا جو والدہ صاحبہ نے پہنی ہوئی تھی.فرمایا.دوسری عورتیں دوپٹے بدل کر بہنیں بنتی ہیں آؤ ہم جو تیاں بدل کر بہنیں بن جائیں اور ان کی جوتی خود پہن لی اور اپنی جوتی انہیں پہنا دی.اللہ اللہ ! کیا پیار و محبت تھی ان بزرگ ہستیوں میں.حضرت اماں جان اکثر مزاح میں میری والدہ صاحبہ کو بلا یا کرتی تھیں.ڈاکٹر کی بیوی ڈاکٹر کی ماں، ڈاکٹر کی بھاوج، ڈاکٹر کی سالے ہار! آپ کو پچیس برس سے شکر آنے کی تکلیف تھی مگر فارغ نہیں بیٹھتی تھیں.کسی نہ کسی کام میں ہمیشہ لگی رہتیں.نوکروں کا بہت خیال رکھتی تھیں.رمضان المبارک میں ان کے لئے گھی دودھ الگ کر کے رکھ

Page 323

322 دیتیں تا وہ روزے اچھی طرح رکھ سکیں.حضرت والد صاحب کی وفات اور پھر حضرت ام ناصر صاحبہ کا ساتھ چھوٹ جانے سے ان کی صحت پر برا اثر ہوا.اور کمزور ہوتی گئیں اور آخر ۲.دسمبر ۱۹۶۴ء کو وفات پاگئیں.فانا لله وانا اليه راجعون.اللهم نور مرقدها و ادخلها في اعلی علیین اولاد: سات بیٹے.دو بیٹیاں.۴۲ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں.۲۴ پڑپوتے پڑپوتیاں.محترم ملک مظفر احمد صاحب ولادت : ۱۸۸۹ - ۱۸۸۸ء بیعت : ۱۹۰۳ء محترم ملک مظفر احمد صاحب کے والد ماجد کا نام شیخ علی محمد صاحب تھا.قوم ککے زئی اور دھرم کوٹ رندها واضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.ملک مظفر احمد صاحب کی پیدائش بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں ہوئی جہاں آپ کے والد ماجد پٹواری تھے شیخ فقیر اللہ صاحب آپ کے دادا کا نام تھا وہ بھی بدوملہی میں ہی پٹواری رہے تھے.حضرت شیخ علی محمد صاحب بھی صحابی تھے.پہلے انہوں نے تحریری بیعت کی اور پھر ۱۹۰۶ ء میں قادیان حاضر ہو کر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور ۴.جنوری ۱۹۰۸ء کو مختصر علالت کے بعد تقریبا ۴۲ سال کی عمر میں وفات پائی اور بد وملہی میں ہی دفن ہوئے.محترم ملک مظفر احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم بدوملہی میں ہی حاصل کی.پھر کچھ عرصہ کے لئے ایبٹ آباد میں اپنے چا محترم شیخ نور احمد صاحب وکیل کے پاس چلے گئے اور وہاں پڑھتے رہے.اکتوبر ۱۹۰۳ء میں اپنے والد کے حکم سے قادیان گئے اور چھٹی جماعت میں داخلہ لیا.بیعت بھی ۱۹۰۳ء میں ہی کی.19ء میں وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر ۱۹۰۸ء میں والد محترم کی وفات کی وجہ سے کالج چھوڑنا پڑا.۱۹۰۸ء سے لیکر ۱۹۳۱ء تک ایبٹ آباد کے ایک فوجی دفتر میں بطور کلرک ملازم ہو کر بعہدہ انڈین آفیسر ریٹائر ہوئے.۱۹۴۰ء میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران میں پھر آپ کو فوج میں بلالیا گیا اور وہاں سے بعہدہ لیفٹینٹ جنوری ۱۹۴۹ء میں ریٹائر ہوئے.آپ نے یکے بعد دیگرے شیخ علی احمد صاحب وکیل گورداسپور کی دونواسیوں کے ساتھ شادی کی.آپ نے تقسیم ملک کے بعد حلقہ سول لائنز لاہور میں کئی

Page 324

323 سال تک بطور سیکرٹری امور عامہ قابل قدر کام کیا.حفاظت مرکز میں بھی جبکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا دفتر لاہور میں تھا.آپ نے کئی سال تک حضرت صاحبزادہ صاحب کا ہاتھ بٹایا.آپ فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا آپ میرے ملٹری سیکرٹری ہیں کیونکہ میں فوجی درویشوں کی پنشن وغیرہ کے سلسلہ میں ڈرافٹ لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ : والد صاحب کے چار اور بھائی تھے اور پانچوں ہی صحابی تھے.سب سے بڑے شیخ حسین بخش صاحب منٹگمری سے بعہدہ نائب تحصیلدار ریٹائر ہوئے.اور وہیں رہائش اختیار کر لی.وفات کے بعد قادیان دارالامان میں بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.آپ کے والد صاحب کا ذکر او پر گذر چکا ہے کہ بدوملہی میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کئے گئے.تیسرے شیخ غلام حسین صاحب بدوملہی میں پٹواری تھے.وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے.چوتھے شیخ غلام احمد صاحب نے نومبر ۱۹۰۸ء میں بھوپال میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے آپ کے والد ماجد اور یہ دونوں بھی صاحب الہام وکشف تھے.پانچویں سب سے چھوٹے شیخ نور احمد صاحب وکیل ایبٹ آبا د خلافت ثانیہ کے قیام کے بعد لاہوری جماعت میں شامل ہو گئے تھے.جنوری ۱۹۲۱ء میں لا ہور میں وفات پائی اور لاہور میں ہی دفن ہوئے.آپ تین بھائی تھے.بڑے کا نام شیخ علی احمد تھا.وہ گر داور قانونگوئی تھے.صحابی بھی تھے.چند ماہ ۱۹۰۳ء میں تعلیم الاسلام کا لج قادیان میں داخل رہے اور پھر تعلیم چھوڑ کر گر د اور قانونگوئی کے طور پر ملازمت اختیار کر لی.۱۹۲۱ء میں مردم شماری کے سلسلہ میں لودھیانہ میں دارالبیعت میں قیام کی سعادت نصیب ہوئی.وہیں جولائی ۱۹۲ء میں وفات پائی اور وہیں دفن کئے گئے.تیسرے بھائی محمود احمد صاحب تھے.ٹی.آئی ہائی سکول قادیان میں نویں جماعت کے طالب علم تھے.کہ ۱۹۲۴ء میں گرمیوں کی رخصتوں میں دھر مکوٹ آئے اور وہیں وفات پائی.اخبار فاروق نے ان کی وفات پر ایک نوٹ بھی لکھا تھا.جس میں عزیز مرحوم کے اخلاق کی بہت تعریف کی تھی.

Page 325

324 محترم ملک مظفر احمد صاحب موصی ہیں اور حلقہ سول لائنز میں رہائش رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے.احباب جماعت کے لئے بہت عمدہ نمونہ ہیں.اولاد: قمر النساء.ممتاز احمد.منور احمد.اعجاز احمد.ذکا ءاحمد.ضیاء النساء.سلیم احمد محترم با بو محمد منظور الہی صاحب (غیر مبائع) ولادت: بیعت : وفات: محترم با بومحمد منظور الہی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے.بڑے خاموش طبع اور انتھک کارکن تھے.ٹیلیگراف آفس میں کام شروع کیا اور ٹیلیگراف انسپکٹر ہو کر ریٹائر ہوئے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ساتھ منسلک ہو گئے.کئی ایک کتب انگریزی اور اردو میں تالیف کیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کا ابتدائی حصہ اور حضور کے الہامات و مکاشفات جمع کر کے شائع کروائے.دیگر ممالک کی لائبریریوں میں سلسلہ کا لٹریچر بھیجنا ان کا خاص مشغلہ تھا.بحری جہازوں کی لائبریریوں میں بھی لٹریچر بھیجا.کافی عرصہ ہوا.آپ وفات پاچکے ہیں.محترم بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر ولادت: ۱۸۸۴ء بیعت: جون ۱۹۰۳ء محترم جناب با بوعبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر ولد چوہدری نبی بخش صاحب قوم چوہان سکنہ موضع گوندل تحصیل رنبیر سنگھ پورہ ریاست جموں فروری ۱۸۸۴ء میں بمقام را ولپنڈی پیدا ہوئے.تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی.جہاں میٹرک کا امتحان مارچ 19ء میں پاس کیا.امتحان ختم ہوتے ہی پٹیالہ میں اکو نٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازم ہو گئے.وہاں دس سال ملازمت کی.کلرک بھرتی ہوئے تھے.مارچ ۱۹۰۷ ء میں سپر نٹنڈنٹ ہو گئے اور بعد ازاں گزیٹڈ آفیسر بن گئے.بعدہ ایک خاص کام کی خاطر آپ کا تبادلہ ریلوے آؤٹ آفس لاہور میں کر دیا گیا اور چونتیس سال کی ملازمت کے بعد اپنی درخواست پر ۱۰ اپریل ۱۹۳۵ء کو ریٹائر ہو کر پیشن حاصل کر لی.اور اسی دن جیمز کری اینڈ کمپنی ریلوے آڈیٹر لاہور میں ملازم ہو گئے.کمپنی کی طرف سے جنرل ولسن نے آپ کی تقرری کی منظوری ۱۹۳۴ء

Page 326

325 میں دے دی تھی.مگر باوجود درخواست کے آپ کو پہلی ملازمت سے یوم درخواست سے سولہ ماہ بعد اپریل ۱۹۳۵ء میں ریٹائر کیا گیا.۱۰.اپریل ۱۹۳۵ء ہی کو آپ اس کمپنی میں حاضر ہو گئے.جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک کام کر رہے ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کرتے چلے جائیں گے.آپ کے والد بزرگوار چوہدری نبی بخش صاحب قوم چوہان سکنہ موضع گوندل تحصیل رنبیر سنگھ پورہ ریاست جموں کے باشندہ تھے.موضع مذکور سیالکوٹ سے نومیل کے فاصلہ پر واقع ہے.بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ چھاؤنی میں مقیم رہے پہلے کرایہ کے مکان میں تھے کچھ عرصہ بعد اپنا مکان بنالیا.پندرہ سولہ مکانات کرایہ پر دینے کے لئے بھی بنالئے جو مستقل ماہوار آمد کا ذریعہ بن گئے.والدہ مکرمہ میرٹھ کی رہنے والی ہندوستانی تھیں جو غالباً عذر کے بعد اپنے والدین کے ساتھ میرٹھ سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آگئی تھیں.یہیں ان کی شادی ہوئی اور ۸۰ سال سے زیادہ عمر پا کر ۲۲ نومبر ۱۹۱۸ء کو سیالکوٹ ہی میں وفات پائی.فانا لله و انا اليه راجعون.آپ کے والد صاحب بھی ۹۰ سال کی عمر پا کر اکتوبر ۱۹۳۵ء میں سیالکوٹ میں ہی فوت ہوئے.محترم بابو صاحب کے دو بھائی تھے.جن کے نام یہ ہیں.حافظ عبد العزیز صاحب اور مکرم عبدالحکیم صاحب.عبدالحکیم صاحب تو لا ولد فوت ہو گئے البتہ حافظ عبدالعزیز صاحب کثیر الاولاد ہوئے.الحاج چوہدری شبیر احمد صاحب بی.اے واقف زندگی وکیل المال تحریک جدید آپ ہی کے فرزند ہیں.شبیر صاحب محترم بابو صاحب کے بھتیجے بھی ہیں اور داماد بھی.محترم بابو صاحب کے تین لڑکے اور چارلڑ کیاں بقید حیات ہیں.محترم چوہدری عبدالمجید صاحب کا رکن دفتر محاسب ربوہ آپ ہی کے فرزند ہیں.آپ کے خاندان میں سب سے پہلے محترم حافظ عبد العزیز صاحب نے جنوری ۱۸۹۶ء میں بیعت کی.آپ بھی اپنے آپ کو اسی وقت سے احمدی سمجھتے تھے.مگر با قاعدہ بیعت آپ نے جون ۱۹۰۳ء میں کی.آپ کے بعد آپ کے بڑے بھائی عبدالحکیم صاحب بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہو گئے.آپ کی والدہ مرحومہ نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں اور والد مرحوم نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے زمانہ میں بیعت کی.فالحمد للہ علی ذلک آپ اپنے بھائی حافظ عبدالعزیز صاحب کی بیعت کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ

Page 327

326 وہ پہلے پیر جماعت علی شاہ صاحب کے مرید تھے.ایک دن انہوں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوی کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ شاہ صاحب نے جواب دیا کہ وہ کوڑا ہے یعنی نعوذ باللہ من ذلک جھوٹا ہے.جب حافظ صاحب نے اس کی دلیل دریافت کی تو شاہ صاحب نے کہا کہ مرشد سے بحث نہیں کیا کرتے.اس پر آپ خاموش ہو گئے.مگر چند دن کے بعد حافظ صاحب نے شاہ صاحب کی دعوت کر دی اور حضرت مولوی مبارک علی صاحب جو اس وقت صدر سیالکوٹ میں اکیلے احمدی تھے ان کو بھی بلا لیا.چند اور دوست بھی شریک دعوت ہوئے.پیر صاحب اور مولوی صاحب آپس میں حیات و وفات مسیح علیہ السلام پر بحث کرتے رہے.محترم بابو صاحب فرماتے ہیں.میں نے بھی بڑے غور سے یہ بحث سنی.میں گو اس وقت زیادہ نہیں سمجھتا تھا.مگر میرا تاثر یہی تھا کہ پیر صاحب کے دلائل کمزور ہیں.چنانچہ اس بحث کے دوسرے ہی دن اخویم حافظ صاحب اور مولوی عبدالواحد صاحب میں بھی حال کراچی نے بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے محترم بابو صاحب نے بھی ۱۹۰۳ ء میں بذریعہ خط بیعت کر لی.چنانچہ الحکم نمبر ۲۳ جلدے مورخہ ۱۷.اگست ۱۹۰۳ء میں آپ کی بیعت کا اعلان بھی شائع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت آپ نے پہلی مرتبہ مارچ 1901ء میں قادیان جا کر کی.خلافت اولی میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے آپ کو صدر انجمن کا آنریری طور پر آڈیٹر مقرر کیا اور اسی زمانہ میں آپ نے حضور کی اجازت سے خطبات نور کے دو حصے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری ۱۹۰۱ء کی شائع کی.خلافت ثانیہ میں آپ کو خدمت سلسلہ کا بہت موقعہ ملا.جماعت لاہور میں بھی اور صدرانجمن میں بھی.اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ پٹیالہ میں کچھ عرصہ ملازمت کے بعد آپ کا تبادلہ لا ہور میں ہو گیا.لاہور میں آپ دسمبر 1910ء میں تشریف لائے.آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں لاہور میں سرگرم کارکن صرف حضرت قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والے تھے.مگر جب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب امیر مقرر ہوئے تو آپ کو سیکرٹری مقرر کیا گیا.ان ایام میں دو ہی عہدے تھے.پریذیڈنٹ اور سیکرٹری.لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں جب نظارتیں قائم ہوئیں تو پھر ہر نظارت کے لئے الگ الگ سیکرٹری مقرر کئے گئے.

Page 328

327 محترم با بوصاحب جناب چوہدری صاحب کی عدم موجودگی میں امارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے جیسا کہ ذیل کی چٹھیوں سے ظاہر ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مکرم شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب امیر صاحب نے آپ کو جولائی کے آخر تک اپنی جگہ قائمقام امیر مقرر کیا ہے اور آپ کی جگہ شیخ عبد المالک صاحب کو فنانشل سیکرٹری.اطلاعاً عرض ہے.آپ مہربانی کر کے محاسب کا کام شیخ صاحب موصوف کے سپرد کر دیں.والسلام خاکسار ( ڈاکٹر ) عبید اللہ خاں عفی اللہ عنہ ۱۴.جولائی ۱۹۲۶ء ( سیکرٹری مجلس عاملہ ) بسم اللہ الرحمن الرحیم لاہور 30-7-1926 مکرمی با بوصا حب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں غالبا ۲.اگست کو پھر باہر چلا جاؤں گا اور انشاء اللہ العزیز ۱۵.اگست کو واپس آؤں گا.آپ میری غیر حاضری میں امارت کے فرائض سرانجام دیتے رہیں.جزاک اللہ احسن الجزاء والسلام خاکسار ظفر اللہ خان حضرت خلیفہ لمبی الثانی رضی اللہ عنہ نے اکتو بر ۱۹۴۰ء میں آپ کوصدرانجمن احمدیہ کا آڈیٹر مقرر فرمایا.تقسیم ہند تک آپ یہ کام کرتے رہے.جیسا کہ ذیل کی چٹھیوں سے ظاہر ہے.۱- از نظارت علیا صد را انجمن احمد به قادیان دارالامان نمبر ۴/۸۴۲ مورخہ ۱۰.اکتوبر ۱۹۴۰ء بخدمت مکرم با بوعبد الحمید صاحب آڈیٹر لاہور

Page 329

328 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ نے آپ کو تمام نظارتوں، دفتر محاسب، پرائیوٹ سیکرٹری کے لئے آنریری آڈیٹر مقرر فرمایا ہے آپ جب چاہیں تشریف لا کر دفاتر کے حسابات کا معائنہ فرمائیں.والسلام فتح محمد سیال ناظر اعلی قادیان ۲.خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ کام آپ محض حصول ثواب کی خاطر بجا لاتے رہے.کچھ عرصہ کے بعد آپ لاہور سے قادیان آمد و رفت کا کرایہ بھی صدرانجمن سے وصول نہیں کرتے تھے.جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلی کی حسب ذیل چٹھی سے یہ امر بخوبی ظاہر ہے.مورخہ ۲۹.جولائی ۱۹۴۲ء مکرم شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ نے اپنی تحریر مورخہ ۲۴.جولائی ۱۹۴۲ء میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ آئندہ آڈٹ کے کام کے لئے کوئی سفر خرچ نہ لیں گے.مجھے آپ کی اس تحریر سے اطلاع ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء یہ بھی درست ہے کہ یکم مئی ۱۹۴۲ء سے آپ نے کوئی بل سفر خرچ کا نہیں دیا.اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی قبول فرمائے.اور زیادہ سے زیادہ خدمت سلسلہ کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار فتح محمد سیال ناظر اعلی قادیان حضرت امیر المومنین خلیفه لمسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۲ء میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا.جس کے سات ممبر تھے.صدر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ اور سیکرٹری محترم با بوعبد الحمید صاحب.اس اہم کام کو بھی آپ تقسیم برصغیر تک برابر سرانجام دیتے رہے.مجلس شوری میں لجنہ اماءاللہ کی آراء پیش کرنے کی خدمت بھی عرصہ تک آپ کے سپر درہی.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت حکیم قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والے خاص خدمات بجالاتے تھے اور حضرت اقدس کی ضرورت کی چیزیں خرید کر قادیان پہنچایا کرتے تھے.اسی طرح خلافت ثانیہ میں ایک عرصہ تک یعنی ۱۹۲۱ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک یہ خدمت

Page 330

329 آپ کے سپر در ہی.لاہور آنے کی صورت میں خاندان مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کا قیام بھی عموماً آپ ہی کے مکان پر ہوا کرتا تھا.دیگر معززین جماعت کی مہمان نوازی بھی اکثر آپ ہی کیا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ یوں تو اس زمانہ میں ہر احمدی تبلیغ کرتا تھا مگر جماعتی رنگ میں ذیل کے احباب ہی نمایاں حصہ لیتے تھے.سید دلاور شاہ صاحب.مرزا محمد صادق صاحب.ڈاکٹر عبیداللہ خان صاحب.ملک خدا بخش صاحب.میاں عبد العزیز صاحب مغل اور بابو صاحب موصوف خود.اس ضمن میں بھی ذیل کی چٹھیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۱.مکرمی با بوعبدالحمید صاحب السلام علیکم آپ کی تبلیغی کوششوں کی رپورٹ پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل فرمائے اور ان دوسرے دوستوں پر بھی جو اس کام میں حصہ لے رہے ہیں.ایک لمبا عرصہ تک نو مسلموں کا خیال رکھنا اور پختہ کرنا ضروری ہوگا.محمد یوسف کی بیوی میرے نزدیک اسلام پر زیادہ پختہ ہے.وہی انہیں کھینچ کر قادیان لا ئی تھی.والله اعلم ایک صاحب مرزا گستاپ بی.اے غالباً جہلم ضلع کے احمدی تھے.پھر مسیحی ہو گئے.لاہور میں کالج یا سکول میں ملازم تھے.ان کی اگر اصلاح کی کوشش کی جائے تو بہت ثواب کا کام ہے.خاکسار مرزا محمود احمد ۲ - مکرمی با بوعبد الحمید صاحب السلام علیکم آپ کی تبلیغی کوششوں سے آپ کے تازہ خطوط سے اطلاع ملی.اللہ تعالیٰ برکت دے.سنتا ہوں مسیحیوں میں سخت گھبراہٹ ہے اور غیر احمدیوں پر بھی اچھا اثر ہے.اگر یہ تحریک عقل اور فکر سے جاری رکھی جائے اور جلدی اور لا پرواہی سے کام نہ لیا جائے تو امید ہے بہت مفید ہو.جاوی لڑکوں کا معاملہ ناظر متعلقہ کے پاس گیا ہے.چونکہ مالی حالت سخت کمزور ہے اس لئے ہر کام میں سوچ بچار ضروری ہوگئی ہے.

Page 331

330 خاکسار مرزا محمود احمد اولاد : بلقیس بیگم.ثریا بیگم.عبدالمجید.عبدالباری سلمی بیگم.بشری بیگم.عبدالنور.حضرت میاں محمد صاحب ولادت : بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۱۹۴۵ء حضرت میاں محمد صاحب میاں فیملی کے رشتہ داروں میں سے تھے.محترم سید سردار احمد شاہ صاحب شاہ مسکین والوں کے ماموں تھے.پٹیالہ الہ آباد شملہ اور لائکپور میں بسلسلہ ملازمت رہے.اوورسیئٹر تھے.آخر میں میوسکول آف آرٹس لاہور میں بطور ورک اوورسیئر کام کرتے رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.اگر چہ سروس لگا تار نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچاس روپیہ سے زیادہ پنشن مل گئی.مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کا نقشہ انہوں نے ہی تیار کیا تھا اور تعمیر کی نگرانی کا کام بھی انہیں کے سپر د تھا.بڑے مخلص بزرگ تھے.شاہ مسکین کے سالانہ جلسہ پر ہر سال بڑی با قاعدگی کے ساتھ جایا کرتے تھے.اولاد: میاں ولایت محمد.میاں نذیر احمد حسین احمد.عزیز احمد.اقبال بیگم.سراج بیگم.آمنہ بیگم.محترم محمد اقبال صاحب ولادت : ۱۸۸۷ء بیعت : ۱۹۰۴ء محترم محمد اقبال صاحب حلقہ بھاٹی گیٹ لاہور کا بیان ہے کہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت اقدس لاہور میں تشریف لائے تو میں لوکوشاپ میں کام کر رہا تھا.تین آنے روز لیتا تھا.میں نے اپنے افسر کو کہا کہ مجھے ایک ضروری کام ہے رخصت دے دیں.اس نے میاں ولایت محمد مرحوم نے مسجد احمد یہ لائل پور کا نقشہ تیار کیا تھا.تعمیر کی نگرانی کا کام بھی آپ ہی نے کیا.(مؤلف)

Page 332

331 رخصت دے دی اور میں اسٹیشن پر پہنچ گیا.اور ایک دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا.میرے کپڑے کالے تھے.تیل پٹک رہا تھا.یہی میری بیعت ہے.اس کے بعد حضرت اقدس کی زندگی میں ہی دومرتبہ قادیان گیا اور حضرت خلیفتہ امسیح اول کی زندگی میں تو کئی مرتبہ جانے کا موقعہ ملا.اولا د محمد اشرف.محمد صادق.محمد شریف.مبارک احمد.چانن بیگم.ممتاز بیگم محمودہ بیگم.سراج بیگم صاحبہ مرحومہ.حضرت میاں احمد دین صاحب ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات حضرت میاں احمد دین صاحب نہایت ہی مخلص اور فدائی تھے ۱۹۰۴ ء میں جب کہ آپ کی عمر ۱۴ سال کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.کوچہ چوغطیاں اندرون موچی دروازہ میں رہائش تھی.محکمہ ریلوے کے اکاؤنٹس آفس میں ملازم تھے.ریٹائر ہونے کے بعد دن رات تبلیغ میں مصروف رہتے تھے.ان کے ایک مخلص اور ہونہارلڑ کے میاں عبدالرحمن صاحب ایم.اے انجنئیر نگ کالج لاہور میں پروفیسر تھے.انہیں بھی تبلغ کا بے حد شوق تھا.وہ بوڑھے باپ کی موجودگی میں وفات پاگئے.جس کا انہیں بہت صدمہ ہوا.بوڑھے اور کمز ور تو تھے ہی اس صدمہ کی وجہ سے رہی سہی طاقت بھی جاتی رہی اور جلد ہی وفات پاگئے.فــانــا لله و انا اليـه راجعون.اولاد: عبد الرحمن - مسعودہ بیگم.بلقیس - عزیز الرحمان.طاہرہ.ساحرہ.بشری.خلیل.محترم میاں نور محمد صاحب گنج مغل پورہ ولادت : ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۴ء بمقام لاہور محترم میاں نور محمد صاحب ۱۸۸۹ء میں بمقام بھڈ یا ر ضلع امرت سر میں پیدا ہوئے.آپ فرماتے ہیں کہ ۱۸۹۷ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ملتان میں ایک شہادت دینے

Page 333

332 کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں پر ہمارے دو بڑے بھائی مولوی جمال الدین صاحب اور مولوی کرم الدین صاحب اپنے کاروباری سلسلہ میں رہائش پذیر تھے.ان دونوں نے وہاں حضور کی دستی بیعت کی.اس کے بعد جب وہ اپنے گاؤں بھڑ یار میں واپس تشریف لائے تو انہوں نے سارے خاندان کو جمع کر کے تبلیغ کا حق ادا کیا.جس کے نتیجہ میں ہمارا سارا خاندان بھی احمدی ہو گیا اور ہمارے والد صاحب کے جولوگ زیر اثر تھے.ان میں سے بھی دو خاندان احمدی ہو گئے.سب نے بذریعہ ڈاک بیعت کی.اس کے بعد ہم ہر جلسہ پر اور آگے پیچھے بھی بڑی محبت اور اخلاص کے ساتھ قادیان جاتے رہے.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۴ء میں لا ہور تشریف لائے تو اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی وہاں میں نے بھی حضور کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذلک.جس مکان میں ہم نے بیعت کی وہ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کا مکان مبارک منزل تھا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اس میں بھی میں گیا تھا.مجھے یاد ہے حضور سیر کیلئے ریتی چھلہ کی طرف تشریف لے گئے تھے.وہاں پر بڑ کے درخت کے نیچے ہم سب نے حضور سے مصافحہ کیا تھا.جب حضور جہلم تشریف لے جا رہے تھے تو ہماری جماعت نے حضور کے لئے کھانا تیار کر کے اٹاری کے اسٹیشن پر حضور کی خدمت میں پیش کیا تھا.اس کھانے میں کھیر بھی تھی.اس وقت میرے بڑے بھائی جان محمد اور محمد اسمعیل حضور کے ساتھ والے ڈبہ میں بیٹھ گئے اور میانمیر کے اسٹیشن پر برتن اتار لئے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ محترم میاں نور محمد صاحب مکرمی مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے والد بزرگوار ہیں.مولوی صاحب موصوف نے کئی سال تک سیرالیون مغربی افریقہ میں خدمت اسلام سرانجام دی اور آج کل آپ سنگا پور میں تبلیغ احمدیت کا فرض ادا کر رہے ہیں.آپ کو الحکم نمبر ۳۸/ ۳۹ جلد ۸ مورخہ ۱۷۱۱۰ نومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳ ۴ پر احمدی دوستوں کا اٹاری کے اسٹیشن پر کھیر وغیرہ پیش کرنے کا واقعہ سفر سیا لکوٹ سے متعلق درج ہے سفر جہلم کے دوران اس قسم کے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں.غالباً میاں نورمحمد صاحب محترم کو سہو ہوا ہے.واللہ اعلم بالصواب.(مرتب)

Page 334

333 بیرون پاکستان تبلیغ کرتے ہوئے پچیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے.محترم میاں نور محمد صاحب نے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی صحت کے لئے پنجابی زبان میں ایک دعائیہ نظم بھی لکھی ہے جسے آپ چھ ہزار کی تعداد میں چھوا کر مفت تقسیم کر چکے ہیں.اولاد: مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ سنگا پور.امتہ الرشید.امتہ الحفیظ.رحمت بی بی.بشری صادقہ - محمد لطیف.محترم میاں نذیر حسین صاحب ولادت : انداز ۱۸۹۴۴ء بیعت : بچپن میں محترم میاں نذیر حسین صاحب ولد حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی نے بیان فرمایا کہ میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب ( جو ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے ) امام مسجد گئی بازار سے قرآن کریم پڑھا کرتا تھا.مولوی صاحب موصوف قرآن کریم پڑھاتے ہوئے ہمیں وفات مسیح کے دلائل بھی سکھایا کرتے تھے.اور کبھی کبھی امتحان بھی لیا کرتے تھے.جب انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ بچہ اب غیروں کے سامنے بھی دلائل پیش کر سکتا ہے تو فر مایا کہ تم غیر احمدی مولوی صاحبان کے پاس جایا کرو اوران سے لوگوں کے سامنے پہلے وضو ٹوٹنے اور نماز فاسد ہونے کے مسائل پوچھا کرو.پھر وفات مسیح سے متعلق قرآنی آیات پیش کر کے ان کا مطلب دریافت کیا کرو.چنانچہ میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا.ایک مرتبہ بھائی دروازہ کے اندر بازار حکیماں سے پہلے ایک اونچی مسجد میں گیا.اس مسجد کے مولوی کولوگ خلیفہ جی کہا کرتے تھے.ان سے جب میں نے چند مسائل دینیہ پوچھے اور پھر آیت فـلـمـا تو فیتنی پیش کر کے اس کا مطلب پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ مرزائی ہے اس کو مارو.چنانچہ مجھے لوگوں نے مارنا شروع کر دیا.اور مار پیٹ کر مسجد کے حوض میں پھینک دیا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے بچالیا.اس واقعہ کے بعد جب میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا.اور اس مسجد کی مار پیٹ کا حال سنایا تو حضور نے مجھے پیار کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو خدا نے تمہیں معجزانہ طور پر بچا لیا.اس پر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کرنے کی درخواست کی.حضور نے فرمایا جب آپ کا باپ اور دادا سب احمدی ہیں تو تم بھی احمدی ہو بیعت کی ضرورت نہیں مگر میرے اس اصرار پر کہ لوگ کہتے ہیں والدین کی وجہ سے یہ

Page 335

334 احمدی ہے بڑا ہو کر خود بخود ٹھیک ہو جائے گا میں حضور کے ہاتھ پر خود بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں.اس پر حضور نے میری بیعت لے لی.۱۹۴ء میں جب حضور لاہور میں تشریف لائے تو حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو ٹھہرایا اور حضور نے خود حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کے مکان میں قیام فرمایا.لیکچر لاہور بھی حضور نے یہاں ہی لکھا تھا.ان دنوں ایک شخص برقعہ پہن کر آیا کرتا تھا.اور کوشش کرتا تھا کہ موقعہ ملے تو اوپر جا کر حضور پر قاتلانہ وار کرے.میری والدہ حیات بیگم صاحبہ مرحومہ نے لاہور کے قیام میں حضرت مسیح موعود سے اجازت لی ہوئی تھی کہ حضور کی خوراک وہ اپنے ہاتھ سے تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا کرے.ان دنوں بھی میری والدہ حضور کا کھانا اور ناشتہ خود تیار کر کے میرے ہاتھ بھیجا کرتی تھی.ایک دن دو پہر کا کھانا جو میں حضور کی خدمت میں پیش کر کے واپس اپنے گھر پہنچا تو میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں حضور کے مکان کی سیڑھیوں پر پہرہ دوں.ابھی میں پہنچا ہی تھا کہ وہ برقعہ پوش شخص سیڑھیوں پر چڑھنے لگا.میں نے آواز دی کہ یہ کون عورت ہے؟ اوپر آنے کی اجازت نہیں.مگر وہ آتا ہی گیا اور میرے قریب آ کر مجھے دھکا دے کر اوپر چڑھنا چاہا..اس کے پاس تیز لمبا چھرا تھا جس کا سرا میرے پیٹ میں آلگا.میں نے شور مچایا اور وہ بھاگ گیا.والد صاحب دوڑے آئے اور مجھے زخمی دیکھ کر اٹھا لیا.اتنے میں حضرت اقدس کو بھی معلوم ہو گیا.حضور نے مجھے اوپر طلب فرما لیا اور خون بہتا دیکھ کر اپنی پگڑی کا سرا پھاڑ کر اسے ایک گول سا گیند بنا کر میرے پیٹ کے زخم پر رکھ دیا اور اس کے اوپر اپنی پگڑی لپیٹ دی اور مجھے اپنی چار پائی پر لٹا دیا.بارہ بچے کا سویا ہوا میں پانچ بجے عصر کے وقت جا گا.اٹھ کر تیم سے نماز پڑھی.حضور نے مجھ سے حال پوچھا.پھر والد صاحب مجھے اٹھا کر گھر لے آئے.خدا کی قدرت کہ وہ زخم بہت جلد مندمل ہو گیا.میرے والد صاحب اور دوسرے دوستوں نے چاہا کہ اس کی رپورٹ پولیس میں کی جائے مگر حضور نے فرمایا.خدا خود اس سے بدلہ لے گا.ان ایام میں حضور نے موجودہ مسجد احمدیہ کے بالمقابل جو احاطہ میاں چراغ دین کہلاتا تھا.اس میں کئی ایک تقریریں فرمائیں جو بعد میں تقریروں کا مجموعہ“ کے نام سے شائع کی گئیں.۱۹۰۸ء میں جب حضور آخری مرتبہ لاہور تشریف لائے تو اس سے قبل قادیان میں خواجہ کمال

Page 336

335 الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب عرض کر چکے تھے کہ حضور ! ہم نے باہر کھلے میدان میں مکان بنوائے ہیں.اب کی مرتبہ حضور ہمارے ہاں قیام فرما ئیں.حضور نے فرمایا.لاہور میں ہمارا گھر تو میاں چراغ دین والا گھر ہے اگر میاں چراغ دین صاحب آپ کو اجازت دیں تو ہم آپ کے ہاں ٹھہر جائیں گے حضرت میاں چراغ دین صاحب بہت حلیم الطبع اور رقیق القلب انسان تھے ان کے زور دینے پر مان گئے.جب حضور کو اطلاع ہوئی تو حضور نے احمد یہ بلڈنکس میں قیام کرنا منظور فرمالیا.مگر حضور جب تک لاہور میں مقیم رہے.میری والدہ حیات بیگم مرحومہ حضور کا کھانا خود اپنے ہاتھ سے تیار کر کے دونوں وقت بھیجتی رہیں اور ناشتہ بھی.اولا د: ڈاکٹر بشارت احمد.صالحہ بیگم.صفیہ بیگم.ڈاکٹر خورشید بیگم.رضیہ بیگم.حلیمہ بیگم.حضرت شیخ محمد حسین صاحب ڈھینگرو ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۴ء محترم شیخ محمد حسین صاحب ڈھینگڑہ سکنہ گوجرانوالہ حال لاہور حلقہ سلطان پورہ حضرت ! السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے حضرت شیخ کریم بخش صاحب کے صاحبزادہ ہیں.حضرت شیخ صاحب نے ۱۸۹۱ء میں بیعت کی تھی.محترم شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ میں بچہ ہی تھا جب میری والدہ صاحب وفات پاگئیں.والد صاحب بسلسلہ کا روبار یا ملا زمت جہاں بھی جاتے تھے مجھے اپنے ساتھ رکھتے تھے.۱۹۰۳ء میں والد صاحب پشاور میں تھے.وہاں مجھے انہوں نے سکول میں داخل کیا.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری اور حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کے صاحبزادے میاں عبداللہ جان اور میاں حمید اللہ جان بھی اسی سکول میں پڑھتے تھے اور ہر طرح میرا خیال رکھتے تھے.۱۹۰۴ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا لا ہور میں لیکچر ہوا تو حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کی کوشش سے خاکسار کو بھی حضور کے قریب جگہ مل گئی.میں نے قاضی صاحب کو کہا کہ میرے والد صاحب احمدی ہیں کیا میں بھی حضور کی بیعت کروں ؟ انہوں نے فرمایا کرلو.اور مجھے پکڑ کر حضور کے قدموں میں بٹھا دیا.چنانچہ سب سے پہلے میں نے حضور کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا.اس کے بعد

Page 337

336 بہت سے لوگوں نے اوپر ہاتھ رکھے پھر بعض نے پیٹھوں پر اور بعض نے پگڑیاں لمبی کر کے ان کو پکڑ کر بیعت کی.یہ بیعت حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کے مکان کی بیٹھک میں ہوئی تھی اور یہ وہ جگہ تھی جہاں اب حبیب بنک ہے اور مسجد احمدیہ کی گلی کے سرے پر ہے.اس کے بعد ۱۹۰۶ ء میں بھی قادیان جانے کا موقعہ مالا.پھر ۱۹۰۸ء میں جب حضور کا وصال ہوا تو خاکسار سکول سے ایک دن کی رخصت حاصل کر کے لاہور پہنچا مگر حضور کا جنازہ قادیان جا چکا تھا.صبح ہونے پر میں اپنے چھا حضرت شیخ صاحب دین صاحب کے ہمراہ قادیان روانہ ہوا.اور ہم عین اس وقت قادیان پہنچے جب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل تقریر فرما رہے تھے اور حضور کا جنازہ پاس رکھا ہوا تھا.تقریر کے بعد احباب کے اصرار پر حضور نے حاضر الوقت احباب کی بیعت لی.پھر حضرت اقدس کا جنازہ پڑھایا.بعد ازاں جنازہ باغ والے مکان میں رکھا گیا اور احباب کو آخری دیدار کا موقعہ دیا گیا احباب ایک دروازہ سے داخل ہوتے تھے اور حضور کا چہرہ مبارک دیکھ کر دوسرے سے نکل جاتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل نے اس وقت میرے چا شیخ صاحب دین صاحب کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ شیخ صاحب صدیق ثانی ہو گیا ہے آئندہ عمر ثانی ہوگا.شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۹۳۲ ء میں مکرم مولوی عبدالغفور صاحب فاضل اور اخوند محمد اکبر خاں صاحب کی تحریک سے میں نے ۱/۱۰ کی وصیت کی.وصیت کا نمبر ۳۷۵۸ ہے اور یہ وہ نمبر ہے جو منظوری سے قبل مجھے رویا میں بتایا گیا تھا.بعد میں اللہ تعالیٰ نے 1/9 حصہ کی توفیق بھی دیدی.محترم شیخ صاحب نے فرمایا کہ جب میں نے گوجرانوالہ میں میٹرک پاس کر کے لاہور کے ایف سی کالج میں داخلہ لیا تو ان ایام میں کالج کے پروفیسروں میں سراج الدین بھی تھا.جس کے سوالات کے جوابات میں حضرت اقدس نے وہ مشہور معروف رسالہ لکھا تھا جس کا نام ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ہے.سراج الدین انجیل بھی پڑھاتا تھا اور تاریخ بھی.میں اس پر سوالات کرتا تھا.شروع شروع میں تو وہ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا تھا.مگر بعد ازاں میں جب بھی سوال کرنا چاہتا تو وہ کہتا آپ بیٹھ جائیں.اس کا دوسرے لڑکوں پر بہت اچھا اثر پڑتا.مجھے خوشی ہوتی اور فخر محسوس کرتا کہ یہ

Page 338

337 پادری حضرت اقدس کے ایک ادنیٰ غلام کے مقابلہ میں آنے سے بھی ڈر محسوس کرتا ہے.شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ وہ 1910 ء میں اکو نٹنٹ جنرل لاہور کے دفتر میں ملازم ہوئے اور 1919 ء میں کاروبار کرنے کے ارادہ سے استعفیٰ دے دیا.۱۹۲۵ء سے لے کر ۱۹۴۵ ء کے شروع تک بسلسلہ کا روبار ملتان رہے.وہاں جماعت میں بطور جنرل سیکرٹری کام کرنے کی توفیق ملی.۱۹۴۵ء سے لے کر اب تک لاہور میں ہیں.درمیان میں دو سال مارچ ۱۹۵۸ء تا مارچ ۱۹۶۰ء ڈھاکہ اور چٹا کانگ میں رہنے کا موقعہ ملا.وہاں بھی جماعت کی خدمت کی توفیق ملی.اولاد: رشید احمد.لطیف احمد.حمید احمد.نعیم احمد.زبیدہ خاتون.رضیہ سلطانہ.بشریٰ ممتاز.انیسہ فرحت.محترم چوہدری غلام قادر خاں صاحب آف لنگر وعد ولادت : انداز أ۱۸۸۸ء بیعت : اپریل ۱۹۰۴ء محترم چوہدری غلام قادر خاں صاحب ولد چوہدری خیر وخاں صاحبہ سکنہ لنگڑ وعہ تحصیل نوانشہر ضلع جالندھر حال مکان نمبر ۲۱ و دیالہ سٹریٹ نمبر ا ا محلہ راجگڑھ چوبرجی لاہور سے ان کے خاندانی اور تعلیمی حالات دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا کہ میں ایک معزز راجپوت خاندان کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں.ہمارے گاؤں اور علاقہ میں اکثریت راجپوتوں کی تھی.میرے والد ماجد کا نام چوہدری خیر وخاں تھا جو کہ ایک صاحب علم.صوم وصلوٰۃ کے پابند رئیس آدمی تھے.میں ابھی چھٹی جماعت ہی میں تھا کہ آپ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.میرے بڑے بھائی چوہدری محمد امیر خاں میری سر پرستی کرتے تھے.پلیگ کے ایام میں میرے بہنوئی ڈاکٹر دوست خاں مجھے اپنے پاس امرتسر لے گئے.وہاں میں نے ۱۹۰۳ء میں فرسٹ ڈویژن لے کر میٹرک پاس کیا.اس وقت میری عمر ۱۹.۲۰ سال کی تھی.۱۹۰۳ ء ہی کا واقعہ ہے کہ بورڈنگ ہاؤس میں جہاں میں رہا کرتا تھا ایک احمدی بورڈ رلڑ کے کریم اللہ نامی سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آج جہلم جانے کیلئے امرتسر سے گزریں گے.پیشتر اس کے حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام قادیان سے واپس آ کر مجھے امرتسر بورڈنگ ہاؤس میں تشریف لا کر بتلا گئے تھے کہ انہوں نے حضرت

Page 339

338 مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے.ان کی بیعت کی وجہ سے میرے دل میں بھی اس بات کی زبر دست خواہش پیدا ہوئی کہ میں کم از کم ایسے شخص کی زیارت تو کرلوں.چنانچہ ہم کئی لڑکے اکٹھے ہوکر حضور کی زیارت کے لئے امرتسر اسٹیشن پر پہنچے.امرتسر کی جماعت نے حضور کے لئے چائے وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.جب گاڑی آ کر اسٹیشن پر ٹھہری تو نا معلوم کیا کشش تھی کہ ہم نے بھی درود شریف پڑھتے ہوئے اور کشاں کشاں بڑھتے ہوئے حضور سے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا.حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھا جو بہت نورانی تھا.چنانچہ جو طالب علم زیارت کے لئے گئے بعد ازاں ان میں سے کئی ایک کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.ازاں جملہ ایک طالب علم عطر دین صاحب بھی تھے جو بعد ازاں ڈاکٹر عطر دین مشہور ہوئے اور آج کل قادیان میں درویشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں.میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اسلامیہ کالج انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخلہ لیا.اور جب موسمی تعطیلات میں اپنے گاؤں واپس گیا تو میرے ایک چچازاد بھائی چوہدری جیوے خاں صاحب بھی احمدی ہو چکے تھے اور اردگرد کے دیہات کر یام.سڑوعہ کا ٹھ گڑھ اور بنگہ وغیرہ میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.تعطیلات کے ایام میں چوہدری جیوے خاں صاحب مذکور مجھے چوہدری غلام احمد صاحب سکنہ کریام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں لا لا کر دیا کرتے تھے.جن کو میں نے خوب پڑھا.چنانچہ مجھ پر احدیت کی صداقت ظاہر ہوگئی اور میں نے اپریل ۱۹۰۴ء میں قادیان جا کر حضور کی بیعت کرلی_فالحمد لله علی ذالک ایف.اے کا امتحان دینے کے بعد ۱۹۰۵ء میں قادیان شریف میں ایک مکان کرایہ پر لبی ایک سال لگا تار نمازوں.درسوں اور جلسوں میں شامل ہو کر حضور کی صحبت سے مستفیض ہوتا رہا.جب حضور نے رسالہ الوصیت لکھا تو خاکسار نے بھی تھوڑا عرصہ بعد ۱۵.نومبر ۱۹۰۶ ء کو اپنی جائیدا دغیر منقولہ کی وصیت زیر نمبر ۱۵۲ کی اور پھر اس سلسلہ میں حصہ آمد کی وصیت ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء کو کی.جن ایام میں طاعون زوروں پر تھی.ہمارا ایک تایا زاد بھائی چوہدری حمایت خاں طاعون میں گرفتار ہو گیا.ایک ڈاکٹر نعمت خان نامی کو ہم نے علاج کے لئے بلایا.اس نے ملاحظہ کے بعد کہا کہ اس کے پھیپھڑے خراب ہو گئے ہیں اور یہ ہرگز بچ نہیں سکتا.خواہ مرزا صاحب بھی اس کے لئے دعا کریں اس کا طاعون سے خلاصی پانا ناممکن ہے.یہ بھی کہا کہ اگر یہ شخص طاعون کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں بھی

Page 340

339 احمدی ہو جاؤں گا.ڈاکٹر صاحب کے چلے جانے کے بعد پہلے تو ہم سب احمدی احباب نے مریض کی شفایابی کے لئے مل کر دعا کی اور صدقہ کیا.پھر میں نے نواں شہر جا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کرانے کے لئے تار دیا.خدا کی قدرت کہ تاردینے کی دیر تھی کہ مریض کی حالت سدھرنے لگی اور تھوڑے دنوں میں وہ بالکل تندرست ہو گیا.گویا مردہ زندہ ہو گیا.یہ نشان دیکھ کر چو ہدری حمایت خاں صاحب نے تو بیعت کر لی اور مخلص احمدی بن گئے مگر ڈاکٹر صاحب اپنے قول سے پھر گئے.محترم چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی صاحب میری شادی کا انتظام ہمارے غیر احمدی مالدار اور صاحب جائیداد رشتہ داروں میں کرنا چاہتے تھے.مگر میرا دل کسی احمدی رشتہ کی تلاش میں تھا.سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مخالف حالات کے باوجود میری شادی محترم با بو عبدالحی خاں صاحب ڈپٹی پوسٹ ماسٹر سکنہ کا ٹھ گڑھ کی حقیقی ہمشیرہ اور مولوی عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی کی چچازاد ہمشیرہ سے ہوگئی اور اس طرح سے آئندہ نسل خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہو گئی.چنانچ حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات پر جب غیر مبائعین نے انجمن اور خلافت کا فتنہ کھڑا کیا.تو اللہ تعالیٰ کا سرا سر فضل و احسان ہے کہ مجھے اس نے خلافت کی تائید میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.یہ کتاب ” حیات نور میں میرا نام بھی اعلان خلافت کرنے میں غلام قادر آف لنگڑ وعہ سیکرٹری جماعت احمد یہ لنگڑ وعہ کے نام سے درج ہے.میں نے مکا نہ تحریک شدھی میں بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک پر تین ماہ اپنے خرچ پر تبلیغی کام سرانجام دیا اور جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو میں محکمہ سپلائی میں ملازم ہو کر بصرہ.بغداد نجف وغیرہ میں گیا اور وہاں پر بکثرت سلسلہ کا لٹریچر تقسیم کیا.یہ اللہ تعالی کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے مجھے ہر مالی قربانی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی.چنانچہ میں نے منارۃ المسیح قادیان میں ۱۰۰ روپیہ مسجد فرینکفورٹ میں ۱۰۰ روپیہ تعمیر دفتر انصار اللہ میں ۱۰۰ روپیہ حصہ جائداد وصیت میں اب تک ۲۵۰۰ روپیہ دیا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حلقہ راج گڑھ کے احباب مسجد نہ ہونے کی وجہ سے محترم چوہدری صاحب کے مکان پر ہی نمازیں پڑھتے ہیں.چوہدری صاحب حلقہ کے بہت سرگرم کارکن

Page 341

340 ہیں.چنانچہ حلقہ ہذا میں آپ نے بطور سیکرٹری اصلاح و ارشاد سیکرٹری امور عامہ اور زعیم انصار اللہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں.آخر الذکر عہدہ کے فرائض آپ اب بھی سرانجام دے رہے ہیں.اولاد: عبدالجبار خاں.عبدالوہاب خاں.عبدالحکیم خاں.عائشہ بیگم.محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ولادت : ۱۸۹۲ء بیعت: جب سے ہوش سنبھالی محترم ملک غلام فرید صاحب نے میٹرک تک تعلیم قادیان میں حاصل کی.بی.اے کرنے کے بعد 1919ء میں زندگی وقف کی.اس کے بعد قریب زمانہ میں ہی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو جو انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے نائب ایڈیٹر تھے.مزید دینی تعلیم کے حصول کے لئے عارضی طور پر فارغ کر دیا تو محترم ملک صاحب اس اہم کام پر مقرر کئے گئے.مگر ابھی کام کرتے ہوئے چند ماہ ہی گذرے تھے کہ سخت مالی مشکلات کی وجہ سے کارکنان سلسلہ میں تخفیف کا سوال پیدا ہو گیا.محترم ملک صاحب کے لئے یہ تجویز ہوا کہ انہیں کلکتہ میں بطور مبلغ بھجوا دیا جائے.آپ نے بوساطت ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عرض کی کہ سلسلہ کے اموال کی بچت یوں بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں رخصت دے کر ایم.اے کرنے کی اجازت دے دی جائے.حضور نے فرمایا کہ دو شرائط کے ساتھ اجازت ہے ایک یہ کہ با قاعدہ کالج میں داخلہ لیں.دوسرے ایم.اے انگریزی میں کریں.محترم ملک صاحب کا رجحان ” تاریخ میں ایم.اے کرنے کا تھا مگر حضرت اقدس کے ارشاد کے ماتحت انگریزی میں ایم.اے کرنے کے لئے کالج میں داخلہ لے لیا.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ حضرت اقدس کی دعاؤں اور توجہ سے ایم.اے انگریزی کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر ریویو آف ریلیجنز اور سن رائز کے کئی سال تک کامیاب ایڈیٹر ر ہے.تقسیم ملک کے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب جو انگریزی قرآن مجید کے مترجم تھے وفات پا گئے تو آپ جو پہلے بطور معاون کام کر رہے تھے اس کام کے انچارج مقرر کئے گئے اور یہ امر باعث

Page 342

341 خوشی و اطمینان ہے کہ آپ نے بڑی محنت اور عرقریزی کے ساتھ اس مشکل اور اہم کام کو جاری رکھا جو اب بہت جلد اختتام کو پہنچ رہا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.محترم ملک صاحب بہت سادہ طبیعت رکھتے ہیں.لباس بھی سادہ ہوتا ہے یعنی پگڑی، قمیض ، لمبا کوٹ اور شلوار پہنتے ہیں.گندمی رنگ میانہ قد پتلا د بلا جسم مگر بے حد محنتی اور مضبوط ارادہ کے مالک ہیں آج کل آپ کی رہائش محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ وسابق امیر جماعت احمد یہ لا ہور کی کوٹھی ۱۳.ٹمپل روڈ کے عقب کی ایک کوٹھی میں ہے.اولاد مبارک احمد منصور احمد محمود احمد مبشر احمد.منور احمد.کرشن احمد.منصورہ بیگم.راشدہ بیگم.زاہدہ بیگم مرحومہ.محترم منشی سر بلند خان صاحب ولادت : ۱۸۸۴ ء یا ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۹ دسمبر ۱۹۶۵ء محترم جناب منشی سر بلند خان صاحب سے جب پرسوں مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۶۵ء کو بعد نماز مغرب جودھامل بلڈنگ کے نماز کے کمرہ میں خاکسار نے یہ بات دریافت کی کہ آپ نے احمدیت کیسے قبول کی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ دل سے تو میں سن ۱۹ ء ہی میں احمدی ہو گیا تھا مگر بیعت میں نے ۱۹۰۴ء میں کی تھی.احمدیت کی طرف راغب ہونے کا ذریعہ یہ بنا کہ میرے چچا حضرت منشی علی گوہر صاحب احمدی تھے اور ملتان کے علاقہ میں رہتے تھے.میں بھی مڈل پاس کر کے ان کے پاس ملتان چلا گیا.ان کے ہاں اخبار الحکم آتا تھا.حضرت اقدس کی کتابیں بھی ان کے پاس تھیں اور مجھے مطالعہ کا شوق تھا.میں اخبار اور کتابوں کا مطالعہ کر کے اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یقینا سچے ہیں.۱۹۰۳ء میں پٹوار کا کام سیکھنے کے لئے میری ڈیوٹی موضع بری منگل نزد دھار یوال ایک مسلمان پٹواری کے ساتھ لگی.میں چونکہ احمدیت کا اس کے ساتھ ذکر کرتا تھا اس لئے وہ میرا مخالف ہو گیا تھا.پھر میں ایک ہندو پٹواری کے پاس موضع چھینا چلا گیا.اس نے مجھے خوب کام سکھا یا چھینا میں طاعون کی بیماری زوروں پر تھی.اس لئے اس پٹواری کے مشورہ سے میں نے اپنی رہائش موضع شیر پور میں اختیار کر لی.ہرسیاں گاؤں ساتھ تھا.وہاں محترم مولوی عبد الغفور صاحب فاضل مرحوم کے والد میاں فضل محمد صاحب

Page 343

342 رہتے تھے ان کی صحبت حاصل ہوگئی اور میں نے بھی ان کے ساتھ ہر جمعہ کو قادیان جانا شروع کر دیا.سیکھواں کی جماعت کے احباب بھی باقاعدہ جمعہ پڑھنے قادیان جایا کرتے تھے.ایک روز مجھے حضرت میاں امام الدین صاحب نے کہا کہ میاں ! تم نے بیعت کی ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا.ابھی نہیں کی.فرمایا.جلدی کرو.کیا دیکھ رہے ہو؟ اس پر میں نے بیعت کر لی.عشاء کی نماز کا وقت تھا.ایک اور آدمی بھی ساتھ تھا.میں نے حضرت اقدس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور ہم دونوں نے بیعت کر لی.۱۹۰۴ء میں کام سیکھ کر میں واپس ملتان چلا گیا اور پھر وہاں سے کئی مرتبہ قادیان آیا.ہر جلسہ پر بھی اور جلسہ کے علاوہ بھی.حضرت اقدس کے وصال پر بھی پہنچ گیا تھا.اولاد: نور احمد کا رکن بیت المال محمد اسلم محمد اکرم - محمد افضل محمد اجمل صاحب مربی سا محمد ارشد.اقبال بیگم.سعیدہ بیگم.رفیقہ بیگم افسوس کہ حضرت منشی صاحب ۹ دسمبر ۱۹۶۵ء کو وفات پاگئے اور ۱۰ دسمبر ۱۹۶۵ء کو آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا.فانا الله وانا اليه راجعون.محترم مرز امحمد صادق صاحب ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : محترم مرزا محمد صادق صاحب ولد مرزا امیر الدین صاحب گجراتی ملٹری کے دفتر میں اکونٹنٹ تھے.سلسلہ کے بہت فدائی تھے.آپ نے سلسلہ کی تائید میں آئینہ صداقت“ وغیرہ کئی ایک کتا ہیں لکھیں.جو بہت مقبول ہوئیں.آپ کی روایات درج ذیل ہیں.ا.ایک مرتبہ حضرت اقدس نے اس مقام پر جہاں اب مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ ہے کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بے شک عیدین اور جمعہ مومنوں کے لئے خوشی کے دن ہیں لیکن سب سے بڑھ کر انسان کے لئے خوشی کا دن وہ ہے جس میں اس کے گناہ معاف ہو جائیں.۲.ایک مرتبہ مقدمہ کرم دین کے دوران میں گورداسپور گیا اور سات روز وہاں رہا.گورداسپور میں جو سب انسپکٹر پولیس تھا وہ گجرات کا ایک ہندو تھا.اس کا لڑکا میرا کلاس فیلو تھا.اس نے مجھے تحاکمانہ لہجہ میں کہا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں میں قید نہیں ہوں گا مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ وہ قید ہو جائیں گے.

Page 344

343 ۳.۱۹۰۹ء کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت میاں چراغ دین صاحب مرحوم نے اپنے مکان پر بیٹھے ہوئے فرمایا کہ ہمارے دفتر میں ایک بنگالی کلرک تھا جو مسمریزم کا ماہر تھا اور بسا اوقات صندوقچہ میں پڑے ہوئے یا جیب میں پڑے ہوئے خط کا مضمون بھی بتا دیا کرتا تھا اور اس کی اس قوت سے چیف انجنیئر تک بھی متاثر تھے اور ڈرتے تھے.ایک دفعہ اس بنگالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیر کرتے ہوئے متکبرانہ لہجہ میں کہا کہ اگر وہ میرے سامنے ہوں تو پھر تم کو ان کی حیثیت معلوم ہو جائے.میں اس کے اس چیلنج کے مدنظر اسے ایک مرتبہ قادیان لے گیا.جب ہم قادیان پہنچے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.ہم دونوں مسجد کی تنگ سیٹرھیوں کے راستہ سے مسجد میں داخل ہوئے.میں اس کے آگے آگے تھا.جب میں مسجد مبارک کے اندر پہنچ گیا تو وہ بنگالی بدحواس ہو کر پیچھے کی طرف بھاگا اور میں اس کے اس فعل پر حیران ہوا.اور اس کے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے.اس نے بتایا کہ وہاں تو کمرے میں دو شیر تھے جن کے خوف کی وجہ سے میں وہاں ٹھہر نہیں سکا.کیا آپ نے وہ شیر نہیں دیکھئے ؟ خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ جس وقت (۱۹۳۹ء میں ) مرزا محمد صادق صاحب نے یہ روایت مسجد احمد یہ میں جمعہ کی نماز (۲۸.ستمبر ۱۹۳۹ء) کے بعد بیان کی اس وقت حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل نے فرمایا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت میاں چراغ دین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ دو تین سیڑھیاں نیچے بھی گر گیا تھا.اولاد : تین لڑکے اور دولڑ کیاں.محترم میاں عزیز دین صاحب زرگر ولادت: ۱۸۹۶ء بیعت : ۱۹۰۴ء محترم میاں عزیز الدین صاحب زرگر پیدائشی احمدی ہیں.گو آپ نے ۱۹۰۴ء میں بیعت بھی کر لی تھی.آپ کی رہائش ڈبی بازار مکان حویلی کا بلی مل لا ہور میں ہے.اولاد: رشید احمد.رفیق احمد.مبارک احمد - منیر احمد نصیر احمد.

Page 345

344 ولادت: محترم سید محمد اشرف صاحب بیعت : ۱۹۰۴ء زیارت : ۱۹۰۳ء وفات : ۵.جولائی ۱۹۵۲ء محترم سید محمد اشرف صاحب ولد مولوی سید علی احمد صاحب لاہور کی حسب ذیل روایات ہیں : ا.جب میں ۱۹۰۳ء میں حضور کی زیارت کرنے کے لئے قادیان گیا تو اس وقت میں اور حکیم غلام نبی صاحب زبدة الحكماء حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مہمان تھے.حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمارا تعارف کروایا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی کتاب لکھ رہے تھے جس کا حضور نے ذکر کیا.حکیم صاحب نے عرض کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ کتاب چھپوا کرلوگوں میں مفت تقسیم کروں مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں ہماری جماعت ہی یہ کام کرے گی.۱۹۰۲ ء میں بیعت کرنے کے بعد میں اکثر قادیان جایا کرتا تھا.ایک دفعہ میں اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم قادیان گئے.رات کے گیارہ بج چکے تھے.ہم نے حضور کی خدمت میں اطلاع کروائی.حضور نے ہمیں اسی وقت اپنے کمرہ میں بلا لیا.وہاں دو پلنگ پڑے تھے جن پر بستر بچھے ہوئے تھے.حضور نے وہ دونوں پلنگ ہمارے لئے خالی کر دیئے.اور آپ دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے.خواجہ صاحب نے کہا کہ آج ہم اتفاق سے یہاں سوئے ہیں.یہ کمرہ بیت الدعا * کہلاتا ہے.بہتر ہے کہ آج صبح تہجد میں اٹھ کر دعا کریں.میں تہجد کے لئے اٹھا اور دعا کی.اس کے بعد اذان ہو گئی.ہم نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھی.میں رات کی کمخوابی کی وجہ سے پھر لیٹ گیا اور مجھے پھر نیند آ گئی.میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے پاس تشریف لائے ہیں اور حضور نے کچھ بات کی ہے مگر میں اسے نہیں سمجھا.آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ میری بات سمجھ گئے.میں نے کہا نہیں.پاس حضرت خلیفہ اسیح الاوّل حضرت مولوی صاحب کھڑے تھے.حضور نے ان کو فرمایا.مولوی صاحب! آپ سمجھ گئے ہیں.آپ نے عرض کیا.ہاں حضور سمجھ گیا ہوں.اس کے بعد حضور نے کچھ مٹھائی جلیبی کی قسم کی مجھے کھانے کو دی.میں نے یہ خواب خواجہ صاحب کو سنایا مگر غالبا بیت الفکر مراد ہے.بیت الدعا اتنا بڑا کمرہ نہیں کہ اس میں دو پلنگ بچھائے جاسکیں.

Page 346

345 آپ نے کہا کہ اس کی تعبیر مسیح موعود سے ہی پوچھیں.اس کے بعد حضرت صاحب تشریف لائے.اندر سے بھی ہمارے لئے چائے لائے اور لنگر سے بھی منگوائی.چائے پینے کے بعد میں نے خواب سنایا.حضور نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کو ترقی ملے گی.جب میں قادیان سے واپس لاہور آیا تو میرے دفتر کے ایک ہندو افسر نے کہا کہ شاہ صاحب! مبارک ہو.افسر نے آپ کی ترقی کی سفارش کی ہے.میں نے کہا کہ اس بات کا تو مجھے تین روز سے علم ہے.اس نے کہا.یہ کیسے؟ میں نے کہا کہ میں نے قادیان میں خواب دیکھا تھا.چنانچہ وہ خواب اور اس کی تعبیر بھی سنائی.وہ کہنے لگا کہ آپ کو مرزا صاحب کے کہنے پر اتنا اعتبار ہے؟ میں نے کہا.ہاں.اس نے کہا.اگر آپ اجازت دیں تو میں دوسرے آدمی کی ترقی کے لئے کوشش کروں.میں نے کہا.ہاں بے شک کریں.اس نے بہت کوشش کی مگر آخر کا ر ترقی مجھے ہی ملی اور وہ ہند و مان گیا.۳.ایک مرتبہ میں صدر انجمن کا آڈیٹر مقرر ہو گیا اور دو سال تک برابر یہ کام کرتا رہا.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ان ایام میں میرے پاس ایک بل بھیجا جس میں کچھ مزدوروں کی اجرت اور کچھ اینٹیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خریدی گئی تھیں.میں نے کہا کہ حضرت میر صاحب! مہر بانی فرما کر مزدوروں کی برآورد پیش کریں جس پر ان کے انگوٹھے ثبت ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رسید لے کر پیش کریں.اس پر حضرت نانا جان بہت خفا ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر کہنے لگے کہ یہ شخص مرید ہو کر ایسی ایسی باتیں کرتا ہے.مگر حضور نے فورا رسید لکھ دی اور باقی برآورد کے لئے فرمایا کہ بنا کر پیش کرو.آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی صحابیہ تھیں جن کی ولادت ۱۸۷۹ء کو ہوئی اور ۸۵ سال کی عمر پا کر ۶.فروری ۱۹۶۴ ء کو وفات پائی.انا لله و نا اليه راجعون.اولاد سید محمد احمد شاہ.سید محمد انورشاہ.ممتاز بیگم.آمنہ بیگم کلثوم آرا بیگم حضرت سید ولا ور شاہ صاحب ولادت : ۱۸۹۳ ء بیعت : ۲۶ - مئی ۱۹۰۲ ء وفات : ۶.جون ۱۹۴۴ء محترم سید دلاور شاہ صاحب ولد سید حسین شاہ صاحب کا بیان ہے کہ

Page 347

346 ا ۱۹۰ ء کا جلسہ سالانہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان میں ہوا تھا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب سیڑھیوں کے پاس حضور کے انتظار میں کھڑے تھے.حضور نے سیڑھی سے نیچے اترتے ہی فرمایا.کیا وقت ہے؟ شیخ صاحب نے اپنی گھڑی دیکھ کر عرض کی کہ حضور دس بج چکے ہیں.حضور کے ہاتھ میں عصا تھا.حضور نے اس کے سہارے کھڑے ہو کر تقریر شروع فرمائی جو قریباً چھ گھنٹے جاری رہی.چنانچہ تقریر کے بعد ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوئیں اور پھر شام کا کھانا کھایا گیا.بعدہ مغرب وعشاء کی نمازیں جمع ہوئیں اور احباب اپنے کمروں میں جا کر سور ہے.۲.جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے واپس لاہور پہنچا تو گھر میں کسی شخص نے میری مخالفت نہیں کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مولوی محمد غوث صاحب جو میرے نانا تھے وہ حضرت اقدس کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے.مجھ سے حضور کی کتابیں پڑھوا کر سنا کرتے تھے.حضرت اقدس کی بعض تحریر میں سنکر ان کے آنسو نکل آتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں.نانا صاحب نے حضور کی بیعت بھی کر لی تھی.آپ چینیاں والی مسجد کے متولی تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سید دلاور شاہ صاحب بخاری ایک نہایت ہی مخلص اور پُر جوش احمدی تھے.حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل کے ساتھ ان کی خاصی دوستی تھی.جس زمانہ میں آپ مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر تھے راجپال نامی ایک آریہ نے آنحضرت ﷺ کے خلاف ”رنگیلا رسول“ کے نام سے ایک نہایت ہی دلآ زار کتاب شائع کی تھی جس کی بناء پر اسے زیر دفعہ ۱۵۳.الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ مزید قید کی سزا ہوئی تھی.راجپال نے پنجاب ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی.جسے سن کر ہائیکورٹ کے حج کنور دلیپ سنگھ نے اسے بری کر دیا.دلیپ سنگھ کے اس فیصلہ کے خلاف سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے ۱۴.جون ۱۹۲۷ء کے پرچہ میں مستعفی ہو جاؤ“ کے عنوان سے ایک ادار یہ لکھا جس کی بناء پر پنجاب ہائیکورٹ کی طرف سے اخبار کے ایڈیٹر ( یعنی سید دلاور شاہ صاحب ) اور اس کے مالک و طابع ( مولوی نور الحق صاحب کے خلاف توہین عدالت کے جرم میں مقدمہ دائر کر دیا گیا.اور آپ کو چھ ماہ قید محض محترم ڈاکٹر عبیداللہ صاحب کا بیان ہے کہ ملا محمد غوث صاحب نے ۱۹۰۴ء میں بیعت کی تھی.مگر بیعت کے بعد اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے مسجد چینیانوالی کی تولیت سے دستبردار ہو گئے تھے.

Page 348

347 اور ساڑھے سات سور و پیہ جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ مزید چھ ہفتہ قید محض کی سزادی گئی جسے آپ نے بخوشی قبول کیا.آپ کے دوسرے ساتھ مولوی نورالحق صاحب کو تین ماہ قید محض اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ بصورت عدم ادائیگی جرمانہ ایک ماہ قید محض کی سزا ہوئی.اس خدا کے بندہ نے بھی خندہ پیشانی سے یہ سزا برداشت کی.آپ نہایت ہی حلیم الطبع ' صابر اور قانع بزرگ تھے.مذہب سے خاص دلچسپی رکھتے تھے.چنانچہ اس دلچسپی کی خاطر ہی آپ نے ایک اچھی ملازمت کو چھوڑ کر اپنے قومی اخبار ”سن رائز“ کی ایڈیٹری قبول کر لی تھی.محترم مولوی محب الرحمن صاحب فرماتے ہیں.حضرت شاہ صاحب نہایت ہی مخلص، نیک اور فنافی الاحمدیت تھے.جوانی سے لے کر بڑھاپے تک تبلیغ ، بحث مباحثہ اور خدمت جماعت میں مصروف رہے.ابتدا میں احمد یہ ہوٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے.غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے جلسوں میں احمدیت پر اعتراضات کے جواب کے لئے سینہ سپر رہتے تھے.نہایت قابل لیکچرار تھے.جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تھے اور خطبات جمعہ نہایت قابلیت سے دیتے تھے.آپ کی وفات ۶.جون ۱۹۴۴ء کو ہوئی.انا لله و انا اليه راجعون.اولا د محمود.خالد.دولڑ کیاں حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ۲۵.جون ۱۹۰۴ء کو پیدا ہوئیں.آپ کا نکاح ے.جون ۱۹۱۵ء کو حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کی پہلی بیگم سے دوسرے صاحبزادے تھے، ہوا.خطبہ نکاح حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے مسجد اقصیٰ میں پڑھا.حضرت مولوی صاحب موصوف ان ایام میں لاہور میں بطور مبلغ مامور تھے.حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس غرض کے لئے آپ کو لاہور سے بلوایا تھا.شادی کی تقریب نہایت ہی سادہ طریق پر ۲۲.فروری ۱۹۱۷ء کو عمل میں آئی.اس بارہ میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ

Page 349

348 ”میری شادی کے روز شام کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بلا بھیجا.چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے اس لئے شہر پہنچا ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا لیا اور میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے واپس چلا گیا اور بعد میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بو زینب بیگم صاحبہ دلہن کو دارا مسیح سے دار السلام لے گئیں.۴۳ ۲۳ ۲۴ جون ۱۹۱۷ء کو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایا.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نمونہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے اور اطاعت زوج کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی مستورات کے لئے خاص طور پر قابل تقلید ہے.آپ نے اپنے خاوند حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب کی لمبی بیماری کے عرصہ میں ان کی اس قدر خدمت کی کہ جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے.خاکسار راقم الحروف کو جب بھی ماڈل ٹاؤن میں حضرت نواب صاحب کی زیارت کا موقعہ ملتا تھا.آپ اپنی بیماری کا ذکر کرنے کی بجائے ہمیشہ اس امر کا ذکر کیا کرتے تھے کہ آپ کی بیگم صاحبہ آپ کی اس قدرخدمت کرتی ہیں کہ آپ ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ کہیں بیمار نہ پڑ جائیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے خدمت سلسلہ کا ایک یہ موقعہ بھی عطا فر ما یا کہ آپ نے یورپ کے قلب میں سوئٹزرلینڈ کی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیا درکھا.فالحمد لله علی ذالک آپ آج کل اپنی کوٹھی واقعہ ماڈل ٹاؤن سی بلاک ۱۰۸ میں رہائش پذیر ہیں.اولاد: صاحبزادی طیبه آمنه بیگم صاحبہ ولادت ۱۸ مارچ ۱۹۱۹ء نواب عباس احمد خاں صاحب ولادت ۲.جون ۱۹۲۰ء صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ ولادت ۳.جون ۱۹۲۱ء صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ ولادت ۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ ولادت ۲۰.جون ۱۹۲۷ء صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ ولادت ۳۱.اکتو بر ۱۹۳۴ء صاحبزادہ میاں شاہد احمد خاں صاحب ولادت ۱۰/۹.اکتوبر ۱۹۳۵ء

Page 350

349 صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ ولادت ۲۳ - نومبر ۱۹۲۱ء صاحبزادہ میاں مصطفی احمد خاں صاحب ولادت ۱۰.جولائی ۱۹۴۳ء محترم مرزا مولا بخش صاحب ۴۴ ولادت : ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۴ ء وفات : ۲۴.مئی ۱۹۵۷ء عمر : ۶۸ سال محترم مرزا مولا بخش صاحب پہلے اندرون موچی دروازہ محلہ پیر گیلا نیاں میں رہا کرتے تھے.مگر بعد ازاں فیض باغ میں اپنا مکان بنا کر منتقل ہو گئے.بڑے مخلص، جو شیلے اور غیور احمدی تھے.تبلیغ کا جنون تھا.بڑے سے بڑے مشتعل مجمع میں بھی حق بات کہنے سے نہیں جھجکتے تھے.جماعت کے تبلیغی اور تربیتی جلسوں کے انعقاد میں خوب حصہ لیا کرتے تھے.ٹکٹ پرنٹنگ ریلوے پریس برانچ میں مغلپورہ ورکشاپ میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا اور ۲۴ مئی ۱۹۵۷ء کو وفات پائی.بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوۓ_فانا لله ونا اليه راجعون.محترم مرزا مولا بخش صاحب کے والد حضرت مرزا میراں بخش صاحب بھی صحابی تھے.اولاد پہلی بیوی سے.مرزا سمیع احمد ظفر ولیہ بیگم صاحبہ مرحومہ.دوسری بیوی سے.مرزا خلیل احمد مرزا امنیر احمد فرخ مبشرات بشارت تسنیم کوثر وسیم محترم مولوی محمد حیات صاحب ولادت : بیعت : ۱۹۰۴ء محترم مولوی محمد حیات صاحب موضع دھیر کے کلاں ضلع گجرات کے باشندہ ہیں.آپ نے ۱۹۰۴ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ میں لاہور تشریف لائے.ان ایام میں جب کہ حضرت میاں چراغ دین صاحب کی بیٹھک میں مبائعین نماز پڑھا کرتے تھے.آپ نے جماعت کی ملازمت شروع کی.جب مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کی تعمیر ہوئی ان ایام میں بھی آپ نے خوب کام کیا.بعد ازاں ۱۹۵۱ء میں ایک

Page 351

350 آنکھ کو زیادہ تکلیف ہو گئی.آپریشن کروایا.مگر پوری طرح صحت نہ ہوئی.اس پر ان کی درخواست پر جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور نے انہیں فارغ کر کے ہیں روپے ماہوار ان کی پنشن مقرر کر دی جسے وہ اب تک لے رہے ہیں.اولاد: چارلڑ کے پیدا ہوئے جو وفات پاچکے ہیں.تین لڑکیاں پیدا ہوئیں.ان میں سے دوزندہ ہیں اور صاحب اولاد ہیں.محترم شیخ نصیر الحق صاحب ولادت : غالبا فروری ۱۸۹۳ء بیعت : ۱۹۰۴ ء وفات : ۱۶/۱۵ فروری ۱۹۶۶ء درمیانی شب محترم جناب شیخ نصیر الحق صاحب حضرت شیخ شاہ دین صاحب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ ہیں.آپ کے والد محترم بھی صحابی تھے.انہوں نے ۱۸۹۴ ء میں بیعت کی تھی.آپ جب تعلیم حاصل کرنے کیلئے ۱۹۰۴ء میں قادیان تشریف لائے تو اس موقعہ پر بیعت کی.آپ کا بیان ہے کہ : آپ نے یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو جماعت ششم میں داخلہ لیا.دسمبر ۱۹۰۸ء تک قادیان میں تعلیم پائی.اس کے بعد دھرم سالہ ضلع کانگڑہ لاہور اور شملہ میں تعلیم کی تکمیل کی.نومبر ۱۹۱۳ء میں دفتر ڈائریکٹر جنرل ملٹری میں ملازم ہو گئے.۱۹۴۳ء میں کلاس I آفیسر یعنی اسٹنٹ سیکرٹری آف ڈیفنس گورنمنٹ آف انڈیا مقرر ہوئے.بعد ۱۲۵.اگست ۱۹۴۷ء کو دفتر کے ساتھ راولپنڈی آگئے.۱۹۵۳ء میں ریٹائر ہوئے.اور ریٹائرمنٹ کے بعد سمن آبا د لا ہور میں سکونت اختیار کی.آج کل آپ کی رہائش ۱۴۶/N سمن آباد میں ہے.محترم شیخ صاحب ایک نہایت ہی مخلص اور ہمدرد انسان ہیں.سلسلہ احمدیہ کے فدائی ہیں.تنظیم جماعت کو ہر قیمت پر مقدم رکھتے ہیں.سلسلہ کی خدمت کو فرض عین جانتے ہیں.آپ نے اپنی ملازمت کے دوران میں اور بعد ازاں سینکڑوں آدمیوں کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچایا.آج کل آپ کی صحت کمزور ہے.اللہ تعالیٰ صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.اللھم آمین محترم شیخ صاحب چونکہ عنفوان شباب سے ہی نیکی اور تقویٰ میں مشہور ہیں.اس لئے لوگوں نے

Page 352

351 انہیں حاجی صاحب کہنا شروع کر دیا تھا.چنانچہ اب بھی آپ حاجی نصیر الحق صاحب کے نام سے مشہور ہیں.اولاد: انور سلطانہ سرور سلطانہ بشیر الحق، منور سلطانہ اکبر سلطانہ امۃ السلام فرحت نسیم، عشرت نسیم، منیر الحق، امین الحق، رفعت نسیم، مبین الحق، نزہت نسیم، نگہت نسیم.افسوس حضرت حاجی صاحب ۱۵-۱۶ فروری ۱۹۶۶ ء کی درمیانی رات بمقام لاہور وفات پاگئے اور ۱۶.فروری بروز بدھ بعد نماز عصر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.انا للہ و انا الیه راجعون.محترم خواجه محمد دین صاحب ولادت : ۱۸۸۸ء بیعت : بچپن میں محترم خواجہ محمد دین صاحب سکنہ چونڈہ حال قلعہ پچھن سنگھ لا ہور نے قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: میرے والد صاحب کا نام خواجہ فتح دین تھا.ذات کے وائیں کشمیری تھے.چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور ان خوش قسمت اصحاب میں سے تھے جنہوں نے شروع دعوئی میں ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی تھی.میری پیدائش چونڈہ ہی میں ہوئی.جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے بھی آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا علم ہوا اور متعدد مرتبہ آپ کے ساتھ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان بھی گیا.زلزلہ کانگڑہ کے ایام میں میں اپنے والد محترم کے ساتھ گرم چادروں کو فیتہ لگایا کرتا تھا.انہی ایام میں میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ گرم چادروں کو فیتہ لگا رہا ہوں.اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ دکھن کی طرف سے ایک چاند اڑتا ہوا ہماری طرف آ رہا ہے.کوئی تین منزل اونچا ہے.جب وہ ہمارے پاس سے گذر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے گذر جانے کے بعد اندھیرا ہوتا جا رہا ہے.میں نے اپنے والد محترم سے

Page 353

352 دریافت کیا کہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جس نے آنا تھا وہ آ گیا ہے.صبح جب میں بیدار ہوا تو میں نے اپنے والد صاحب کو رات کی خواب سنائی.انہوں نے بتایا کہ آنے والے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں.اولا د خواجه فیروزدین خواجہ عبد الغنی خواجہ محمد شریف خواجہ بشیر احمد خواجہ محمد شفیع زبیدہ بیگم.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ زبیدہ بیگم کے علاوہ خواجہ صاحب کی باقی ساری اولاد غیر احمدی ہے.زبیدہ بیگم کی شادی ایک مخلص احمدی خواجہ عبید اللہ صاحب کے ساتھ ہو چکی ہے.محترم مولوی محمد انور صاحب ولادت: بیعت : وفات: انداز أ۱۹۴۶ء محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب نے بیان کیا کہ: محترم مولوی محمد انور صاحب حاجی علم الدین صاحب کے فرزند تھے.پرانے احمدی تھے.پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں ملازم رہے.۱۹۴۱ء میں وفات پائی اور لاہور ہی میں دفن ہوئے.محترم با بو نظام الدین صاحب ماہل پوری ولادت: بیعت وفات: محترم بابو نظام الدین صاحب ماہل پوری دفتر ایگزامیز میں کلرک تھے.کمز ور صحت کے آدمی تھے.احمد یہ بلڈنکس میں رہتے تھے.محترم با بووز بر محمد صاحب رضی اللہ عنہ ولادت: بیعت : وفات: محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ : محترم با بو وز یر محمد صاحب محلہ پڑنگاں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور میں رہتے تھے.حضرت میاں محمد صاحب کے بھانجے تھے.تین بھائی تھے اور تینوں صحابی تھے.ان کے والد محترم کا نام حافظ غلام محمد تھا اور بھائیوں کے نام یہ تھے.

Page 354

353 با بومیاں وزیر محمد صاحب، میاں نذیر محمد صاحب اور میاں عبد الرحمن صاحب.با بومیاں وزیر محمد صاحب دسویں جماعت پاس کر کے پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں ملازم ہو گئے.ان کا ایک واقعہ خاص طور پر مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جب سرکاری کام زیادہ ہو گیا تو انہوں نے کام کو ہلکا کرنے کیلئے کچھ چٹھیاں ضائع کر دیں.رپورٹ ہونے پر جب سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا تو صاف اقرار کیا کہ ہاں میں نے ایسا کیا ہے اور اس واسطے کیا ہے کہ کام زیادہ ہو گیا تھا.سب لوگ ان کی اس سچائی پر حیران رہ گئے اور سپرنٹنڈنٹ پر بھی بڑا اچھا اثر ہوا.دمہ کی شکایت رہتی تھی اس لئے جلد ریٹائر ہو گئے اور بقیہ عمر قادیان میں گزاری.مرحوم احمدیت کے فدائی تھے.محض احمدیت کی خاطر اپنی دوسری شادی بھی بدوملہی میں کی اور اپنی ہمشیرہ کی شادی محترم مرزا محمد اسماعیل صاحب سکنہ اندرون بھاٹی گیٹ کے ساتھ کی.ان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کا واقعہ بھی عجیب ہے.وزیر محمد نام کے دو موصی تھے.ایک یہ اور دوسرے رہتاس ضلع جہلم کے تھے.جو بہت پرانے بزرگ تھے.مگر یہ پہلے فوت ہو گئے.حضرت مولوی سیدمحمد سرور شاہ صاحب جو جس کا پرداز بہشتی مقبرہ کے سیکرٹری تھے.انہوں نے حضور کی خدمت میں رہتاس والے وز یر محمد صاحب کی مسل پیش کر دی.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا بھی کہ یہ مسل تو کسی پرانے صحابی کی معلوم ہوتی ہے اور ان سے تو میری واقفیت حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں ہوئی.مگر حضرت مولوی صاحب کے یہ عرض کرنے پر کہ حضور میں نے تحقیق کر لی ہے.حضور نے انہیں خاص قطعہ میں دفن کرنے کی اجازت دے دی.بعد میں پتہ چلا کہ مسل والے بزرگ رہتاس ضلع جہلم کے تھے.اولاد : میاں عبدالحی صاحب مبلغ انڈونیشیا، عبدالمجید عبدالقیوم منیرہ.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیلی نوٹ : حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ کا ذکر ترتیب کے لحاظ سے ۱۸۹۷ء میں آنا چاہئے تھا مگر ذہن میں یہ خیال غالب رہا کہ آپ کو خلافت اولی میں بسلسلہ تبلیغ لا ہور بھیجا گیا تھا اس لئے خلافت اولی کے واقعات میں آپ کا ذکر کیا جائے گا.مگر آج اچانک اس طرف توجہ ہوئی کہ

Page 355

354 آپ تو صحابی بھی تھے.اس لئے صحابہ میں بھی آپ کا ذکر آنا چاہیئے.لہذا یہاں بھی آپ کا ذکر کیا جاتا ہے.(مؤلف) ولادت : ۱۸۷۷ء اور ۱۹۷۹ء کے درمیان بیعت : ۱۸۹۷ء بذریعہ خط وفات : ۱۶.دسمبر ۱۹۶۳ء حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ ہمارے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے صوفی منش بزرگ انسان تھے.آپ معزز زمیندار وڑائچ قوم میں سے تھے.آپ کا گاؤں راجیکی، گجرات شہر سے تقریباً چودہ میل کے فاصلہ پر مغرب کی جانب واقع ہے.آپ کے والد محترم کا نام میاں کرم دین صاحب تھا اور والدہ محترمہ کا آمنہ بی بی.آپ کی پیدائش ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۹ء کے درمیان کسی بھادوں کے مہینہ میں ہوئی.آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے ایک رویا میں دیکھا تھا کہ ان کے گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے تمام گھر جگمگا اٹھا ہے.ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں راجیکی میں ہی حاصل کی.اس کے بعد حضرت قاضی محمد اکمل صاحب کے والد حضرت مولوی امام الدین صاحب کی خدمت میں موضع گولیکی حاضر ہوئے اور مثنوی مولانا روم پڑھنے کا اشتیاق ظاہر کیا.جسے حضرت مولوی صاحب موصوف نے منظور فرما لیا.ان ایام میں آپ اپنے خاندانی طریق کے مطابق کثرت سے مختلف قسم کے وظائف کا ورد کیا کرتے تھے اور جنگلوں اور ریگستانوں میں جا کر گھنٹوں یاد الہی میں تڑپ تڑپ کر دعائیں مانگا کرتے تھے.ان دنوں آپ نے ایک رویا میں آنحضرت عمﷺ کی زیارت کی اور پھر کچھ عرصہ بعد ایک خواب میں دیکھا کہ آنحضرت علی ہندوستان پر چڑھائی کرنے کیلئے ایک لشکر تیار فرما رہے ہیں.جس میں آپ بھی بھرتی ہو گئے.لشکر کے ہر سپاہی کوحکم ملا کہ وہ برچھی سے خنزیروں کو قتل کرے.آپ فرماتے ہیں کہ جو خنزیر کسی سے قتل نہیں ہوتا تھا آپ اسے ایک ہی وار سے وہیں ڈھیر کر دیتے تھے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے قبل آپ نے حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے اولیاء کرام کی مختلف کشوف کے ذریعہ زیارت کی.آپ کی بیعت کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ان ایام میں جب آپ حضرت مولوی امام الدین

Page 356

355 صاحب سے مثنوی روم کا دفتر چہارم پڑھ رہے تھے.حسن اتفاق سے مسجد میں پولیس کا ایک سپاہی آ گیا جس کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام تھی.وہ کتاب اس سے عاریۂ حضرت مولوی امام الدین صاحب نے حاصل کر لی اور مطالعہ کرنے کیلئے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے.دوسرے روز آپ بھی کسی کام کیلئے حضرت مولوی صاحب کے مکان پر پہنچے.وہاں کتاب پڑی تھی.کھولتے ہی آپ کی نظر حضرت اقدس کے اس شعر پر پڑی ؎ عجب نوریست در جان عجب لعلیست درکان محمد اس نظم کو آپ نے شروع سے لے کر آخر تک اس حال میں پڑھا کہ سوز و گداز سے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک جھڑی لگ رہی تھی اور جب اس شعر پر پہنچے کہ کرامت گرچه بے نام ونشاں است بیا بنگر ز غلمان محمد تو آپ کے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش! ایسے عظیم الشان بزرگ کی آپ کو زیارت ہو جائے.چنانچہ حضرت مولوی صاحب جب گھر سے باہر تشریف لائے تو ان سے آپ نے دریافت کیا کہ یہ منظومات عالیہ کس بزرگ کے ہیں؟ مولوی صاحب نے بتایا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں مرزا غلام احمد صاحب نام ایک بزرگ ہیں اور مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کے مدعی ہیں.یہ کلام ان کا ہے.اس پر بے اختیار آپ کی زبان سے یہ فقرہ نکلا کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر رسول اللہ علیہ کا عاشق کوئی نہیں ہوا ہوگا“ صلى الله.اس کے بعد آپ نے ستمبر یا اکتوبر ۱۸۹۷ء میں حضرت مولوی صاحب موصوف کے ساتھ قا دیان پہنچ کر حضرت اقدس کے دست حق پرست پر بھی بیعت کرنے کا شرف حاصل کر لیا.واپسی پر اپنے علاقہ کے طول وعرض میں دیوانہ وار تبلیغ شروع فرما دی.جس کے نتیجہ میں آپ کی شدید مخالفت ہوئی مگر آپ نہ گھبرائے نہ پروا کی اور صبر و استقلال سے اپنا کام کرتے رہے.خلافت اولی میں آپ کو لاہور میں بطور مبلغ بھیج دیا گیا اور پھر ساری عمر تنظیم سلسلہ کے ماتحت تبلیغ تفصیل کیلئے دیکھئے ”حیات قدسی حصہ اوّل شائع کردہ محترم حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی ☆

Page 357

356 اسلام واحمدیت میں گزاری.آپ سے بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی دونوں قسم کے علوم سے وافر حصہ عطا فر مایا تھا.سینکڑوں لوگ آپ کے ذریعہ سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے.صاحب الہام و کشوف تھے.پنجابی اردو فارسی اور عربی زبان پر نہایت گہر ا عبور حاصل تھا.فن تقریر اور تحریر دونوں میں اللہ تعالیٰ نے کمال عطا فر مایا تھا.قرآن کریم کے حقائق و معارف اور اسرار و غوامض کے بیان کرنے میں عجیب خدا داد ملکہ حاصل تھا.جب درس قرآن مجید دیتے تو آپ سے کلام الہی کے نکات معرفت سن کر اپنے تو اپنے غیر از جماعت کے بڑے بڑے صاحب علم وفضل لوگ وجد میں آ جاتے.میدان مناظرہ کے شہسوار تھے فریق مخالف خواہ کسی مذہب وملت سے ہوتا آپ کی آمد ہی سے لرزاں و ترساں ہونے لگتا.عربی زبان کے آپ خصوصاً قادر الکلام شاعر تھے.آپ نے عربی میں کئی قصائد لکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس معجزہ کے ثبوت میں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس زمانہ میں اعجازی طور پر زبان عربی کی فصاحت و بلاغت کا علم بخشا ہے.اپنے عربی علم کلام کو پیش کر کے مخالفین احمدیت کو بار ہاللکارا کہ تم لوگ مسیح موعود علیہ السلام کے ادنی ترین غلام کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے آقا کا مقابلہ کسی طرح کر سکتے ہو.جماعت احمدیہ میں خلافت اور نظام خلافت کی کمال اطاعت وادب آپ کا جز وایمان تھا.خلیفہ وقت کی محبت عشق کا رنگ رکھتی تھی.اور اس بارہ میں آپ حد درجہ غیور واقع ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ و حضرت اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شان کے خلاف کوئی لفظ تک سننا آپ کے لئے نا قابل برداشت تھا.آپ ہر موقعہ پر خلیفہ وقت کی کامل اطاعت وفرمانبرداری اور تنظیم سلسلہ کی پابندی اور اعتراضات و نکتہ چینی سے اجتناب کرنے کی افراد جماعت کو تبلیغ وتلقین کرتے رہتے.خاکسار راقم الحروف کو آپ کی معیت میں ایک عرصہ تک ملک کے طول وعرض میں تبلیغ کے سلسلہ میں کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.وہ زمانہ ایسا مبارک تھا کہ اب بھی جب وہ ایام سامنے آتے ہیں تو عجیب لطف محسوس ہونے لگتا ہے.اس کتاب کے دوسرے حصہ میں آپ کے بعض ایمان افروز واقعات درج کئے جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ حلیہ مبارک : حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ کا قد میانہ اور رنگ سانولا تھا.ڈاڑھی متوسط اور گھنی، خضاب لگایا کرتے تھے.جسم بہت مضبوط اور چہرہ بارعب تھا.آپ بہت سادہ لباس پہنتے تھے.

Page 358

357 پاؤں میں پنجابی وضع کا جو تا سر پر عمامہ لپٹا ہوا بدن پر سادہ ساڈھیلا ڈھالا کر تہ اور کمر میں تہ بند باندھا کرتے تھے.موسم کے مطابق کوٹ پہننا بھی آپ کا معمول تھا.اولاد: برکات احمد را جیکی مرحوم مصلح الدین احمد را جیکی مرحوم اقبال احمد را جیکی، مبشر احمد را جیکی عزیز احمد را جیکی، صفیہ بیگم زینب، قدسیہ.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب سیالکوٹی ولادت: ۱۸۷۵ء بیعت : ۱۹۰۵ء وفات : ۷.اگست ۱۹۶۱ء عمر : ۸۶ سال حضرت چوہدری غلام محمد صاحب سیالکوئی بہت ہی مخلص اور فدائی صحابی تھے.آپ نے بی.اے کا امتحان الہ آباد یو نیورسٹی سے پاس کیا اور ۱۹۰۵ء میں بیعت کی اور مئی ۱۹۰۹ء سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مدرس مقرر ہوئے اور اس محنت اور ذوق و شوق سے کام کیا کہ ہیڈ ماسٹری کے عہدہ تک پہنچ گئے.بعد ازاں نصرت گرلز ہائی سکول کے مینجر کے طور پر بھی کچھ عرصہ کام کیا.آپ معلم بھی تھے منتظم بھی تھے اور عالم بھی تھے.آپ کی علم دوستی کا ثبوت وہ لغت ہے جو آپ نے حضرت مولوی محمد جی صاحب فاضل کی مدد سے عربی لغت المنجد کا ترجمہ کر کے تسہیل العربیہ کے نام سے شائع کی.تقسیم ملک کے بعد آپ نے لاہور کے حلقہ راج گڑھ متصل چوبرجی میں سکونت اختیار کی.۷.اگست ۱۹۶۱ء کو یہیں وفات پائی.لیکن تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.فاناللہ وانا اليه راجعون.اولاد: لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ.غلام احمد.عبدالرحمن - منظور فاطمہ.کنیز فاطمہ.عطاءالرحمان.نصیر احمد.رشید احمد.آمنہ بشری.رفیق احمد.حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب آف را ہوں ولادت : ۷.اگست ۱۸۸۳ء بیعت : ستمبر ۱۹۰۵ ء وفات: ۲۴.اپریل ۱۹۹۲ء از قلم جناب ڈاکٹر محمد جی صاحب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر فرزندار جمند حضرت شاہ صاحب) حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب ۷.اگست ۱۸۸۳ء کو قصبہ را ہوں ضلع جالندھر میں اہل سنت وا الجماعت گھرانے میں پیدائے ہوئے.ابتدائی تعلیم را ہوں اور لدھیانہ میں حاصل کی.۱۸۹۸ء میں

Page 359

358 مالیر کوٹلہ سے انگریزی مڈل پاس کیا.اغلبا ۱۸۹۸ء کے وسط میں جب کہ آپ مزید تعلیم لدھیانہ میں حاصل کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر لدھیانہ میں ہوئی جسے آپ نے سنا اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا پہلی دفعہ موقعہ ملا.آپ کے ماموں زاد بھائی ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب ۱۸۹۸ء کے قریب آپ کے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئے.جن کی تبلیغ کا آپ پر بھی اثر ہوا.۱۹۰۱ء میں آپ کی شادی ماہل پور ضلع ہوشیار پور میں ایک معزز ہاشمی خاندان میں ہو گئی.آپ کی بیوی برکت النساء بیگم کے بڑے بھائی قاضی شاہ دین صاحب جو نمبر دار اور امام مسجد قصبہ ماہلپور تھے.۱۹۰۲ء میں احمدی ہو گئے.انہوں نے آپ کو حضرت صاحب کی کتب فتح اسلام اور ازالہ اوہام پڑھنے کو دیں.ان کے پڑھنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت آپ پر واضح ہو گئی.انہی دنوں آپ نے اپنا مکان را ہوں میں بنوایا.وہاں کے حضرت حاجی رحمت اللہ صاحب مرحوم نے جو احمدی ہو چکے تھے آپ سے پوچھا کہ احمدیت کے متعلق اب آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے آپ نے کہا کہ اب تو کوئی اعتراض باقی نہیں رہا تو حاجی صاحب نے ماہ ستمبر ۱۹۰۵ء میں آپ کو ایک کارڈ دیا کہ جب کوئی اعتراض باقی نہیں تو بیعت کا خط لکھ دیں.چنانچہ آپ نے وہ خط قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور لکھ دیا تو قادیان سے جواب آیا کہ تمہاری بیعت منظور ہے.نمازوں میں استقلال پیدا کرو.درود شریف اور استغفار میں لگے رہو اور تہجد پڑھنے کا بھی شغل رکھو.آپ تھوڑے عرصہ کے بعد اپنی ملازمت کے سلسلہ میں لا ہور متعین ہوئے اور احمد یہ بلڈنگس کی مسجد کے پاس ایک مکان کرایہ پر لے کر دو سال تک مقیم رہے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ان دنوں احمد یہ بلڈنگس میں مغرب سے لے کر عشاء تک درس قرآن مجید دیا کرتے تھے.جس میں آپ باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے.اس طرح آپ کا علم احمدیت کے متعلق بڑھتا گیا.بابا ہدایت اللہ صاحب سے جنہوں نے پنجابی شعروں میں احمدیت کی سہ حرفی بہت عمدہ پیرایہ میں لکھی تھی.انہی دنوں ملاقات ہوتی رہی.ان کی سہ حرفی کے بہت سے شعر آپ کو زبانی یاد تھے جو آپ اکثر پڑھتے رہتے تھے.مولوی دلپذیر صاحب کے شعر بھی آپ کو پسند تھے.ایک دن آپ نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے عرض کی کہ میرے ہاں چار

Page 360

359 لڑکیاں ہیں.اور لڑ کا کوئی نہیں تو مولوی صاحب نے دعا کی ترکیب بتلائی اور ارشاد فرمایا کہ لڑکا ہونے پر اس کا نام محمد رکھنا.آپ نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا.چنانچہ بفضل خدا لڑکا پیدا ہوا.جس کا نام مولوی صاحب کے ارشاد کے مطابق ”محمد“ رکھا.ضلع گجرات میں جہاں کے حضرت مولوی صاحب باشندے تھے.اکثر لوگ صرف محمد یا احمد نام رکھ لیتے ہیں.مگر ضلع جالندھرا ورلدھیانہ میں صرف محمد نام رکھنا.اس نام کے تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا.چنانچہ سید محمد حسین شاہ صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو محمد کے نام کے ساتھ جی کا اضافہ کر دیں.مولوی صاحب نے اجازت دے دی.چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام محمد جی رکھ دیا.- آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.چنانچہ جہاں بھی موقعہ ملتا آپ تبلیغ ضرور کرتے.آپ کی تبلیغ کی وجہ سے آپ کے تینوں بھائی بھی احمدی ہو گئے اور سارے خاندان میں احمدیت پھیل گئی.آپ کی تبلیغ کے زیر اثر لدھیانہ ضلع کے کم و بیش سات خاندان احمدیت میں داخل ہوئے.۱۹۳۸ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا رجسٹری شدہ مختار عام بنالیا.بعدہ سیکرٹری امانت تحریک جدید کا چارج بھی آپ کو دے دیا.ان دونوں عہدوں پر آپ ۱۹۴۸ء تک فائز رہے.پھر پیرانہ سالی کی وجہ سے آپ ان کاموں سے فارغ ہوئے.آپ نماز تہجد بڑے التزام سے ادا کرنے کے عادی تھے...نمازوں میں بہت سوز سے دعائیں کرتے اور ہر ایک نیکی اور نمازوں میں باقاعدگی کی تلقین کرتے.ہر جلسہ سالانہ پر سارے کنبہ کے ساتھ ضرور شامل ہوتے.۴۵ آپ کی وفات ۸۰ سال کی عمر میں ۲۴.اپریل ۱۹۶۴ء کو لاہور میں ہوئی اور اسی دن آپ کے جسد خاکی کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں سپردخاک کیا گیا.فانا الله و انا اليه راجعون.٥ اولاد: ایک لڑکا.پانچ لڑکیاں.پانچ پوتے.تین پوتیاں.پندرہ نواسے.بائیس نواسیاں.بائیس پڑپوتے اور پڑپوتیاں.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ آپ نے اپنی وفات سے چند دن قبل میوہسپتال سے خاکسار کو خط لکھا.جس میں ملاقات کی خواہش کا اظہار تھا.حالت تسلی بخش تھی مگر آنا فانا وفات ہوگئی.فانا لله وانا اليه راجعون.

Page 361

360 جناب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (غیر مبائع) ولادت: بیعت : ۱۹۰۵ء شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر رقادیان میں جا کر بیعت کی.شیخ صاحب پہلے ہندو تھے.حضرت اقدس کی صحبت میں رہے.پھر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے بھی بہت فیض حاصل کیا.بلکہ حضور نے انہیں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے ساتھ مصر میں عربی زبان کی مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجا اور اسی وجہ سے آپ مصری کہلاتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بھی ان پر بہت نوازشات کیں.مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر بھی کافی عرصہ رہے.مگر افسوس کہ ۱۹۳۷ ء میں حضور خلیفتہ امسیح سے ناراض ہو کر احمد یہ بلڈنگکس لاہور میں آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا بھی انکار کر دیا.حالانکہ اسی مسئلہ پر غیر مبائعین کے مقابل میں ان کے اپنے متعد د مضامین سلسلہ کے اخبارات میں شائع شدہ موجود ہیں.بلکہ ۱۹۳۵ ء میں انہوں نے اپنی تحریری شہادت میں لکھا کہ میں حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا احمدی ہوں.میں نے ۱۹۰۵ء میں بیعت کی تھی.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسی طرح کا نبی یقین کرتا ہوں.جس طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں.نفس نبوت میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں“." محترم میاں دین محمد صاحب ولادت: ۱۸۹۵ء بیعت : ۱۹۰۵ء محترم میاں دین محمد صاحب کی رہائش اکبر سٹریٹ مغل پورہ گنج میں ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۹۰۵ء میں کی جب کہ آپ کی عمر دس سال تھی.محترم سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور ولادت: ۱۸۹۲ ء بیعت : ۱۹۰۶ ء وفات : ۶ مئی ۱۹۵۲ء عمر : ۶۰ سال محترم سردار محمد یوسف صاحب کی ولادت ۱۸۹۲ ء میں ہوئی.آپ سکھ قوم میں سے تھے.آپ کا

Page 362

361 سابق نام سورن سنگھ تھا.وسط ۱۹۰۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ میں شمولیت اختیار کی.حضرت اقدس ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کے حالات سن کر بہت محظوظ ہوئے اور فرمایا کہ ان کا لیکچر ہونا چاہئے.چنانچہ انہوں نے ۲۹.جون ۱۹۰۶ء کو مسجد اقصیٰ میں لیکچر دیا جو آپ کا پہلا لیکچر تھا.ہماری جماعت میں آپ پہلے آدمی تھے جنہیں سکھوں میں تبلیغ کا شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں سکھوں کی متبرک کتاب گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھی سے حضرت باوا نا نک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مسلمان ثابت کرنے کیلئے جو شلوک اور ساکھیاں پیش کی ہیں ان میں آپ حضور علیہ السلام کے معاون تھے.آپ نے سکھ قوم میں تبلیغ کرنے کے لئے اخبار ” نور“ قادیان سے نکالا تھا اور دو درجن کے قریب کتابیں بھی شائع کیں.قرآن مجید اور سیرت النبی کا ہندی اور گورکھی دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی کیا.تقسیم ملک کے بعد آپ نے لاہور میں رہائش اختیار کی اور پھر کچھ عرصہ گوجرانوالہ میں بھی رہے.۶۰ سال کی عمر پا کر ۶.مئی ۱۹۵۲ء کو وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.انا لله و انا اليه راجعون.اولاد: شیخ محمد آصف شیخ محمد موسی، آمنہ بیگم مرحومه شیخ محمد ہارون شیخ محمد ادریس، شیخ محمد یحی، شیخ بشیر احمد مبارکہ نسیم صادقہ نیم.محترم خواجہ محمد دین صاحب بٹ.ولادت: ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۹۰۶ ء وفات : ۶ نومبر ۱۹۶۰ء عمر : ۷۷ سال محترم خواجہ محمد دین صاحب بٹ ولد حسن محمد صاحب بٹ کرشن نگر لاہور میں رہتے تھے.بہت نیک، متقی اور پر ہیز گار بزرگ تھے.قادیان میں سبزی کی دوکان تھی.یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس کا پھیلاؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے دکان بار بار بند نہیں کی جاسکتی.مگر حضرت خواجہ صاحب دکان کھلی چھوڑ کر نماز با جماعت کیلئے مسجد چلے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ کی باتیں بھی گاہکوں کو سنایا کرتے تھے.تقسیم ملک کے بعد کرشن نگر لاہور رہائش اختیار کی.بڑی باقاعدگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کیلئے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ آیا کرتے تھے.آپ کی ولادت ۱۸۸۳ء کو ہوئی.بیعت ۱۹۰۶ء میں کی اور وفات ۶.نومبر ۱۹۶۰ء کو ہوئی.۷۷ سال عمر پائی بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوۓ.انا للہ و انا اليه راجعون.اولاد نسیم احمد سعید احمد بشیر احمد رشید احمد

Page 363

362 محترم قاری غلام مجتبی صاحب چینی قادیانی ولادت : ۱۸۷۰ء بیعت : ۱۹۰۶ ء وفات : ۲۴.اکتوبر ۱۹۶۲ء عمر : ۹۲ سال حضرت قاری صاحب موصوف تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.۲۴.اکتوبر ۱۹۶۲ء میں وکٹوریہ جیل ہانگ کانگ (چین) سے بعہدہ چیف وارڈن ریٹائر ہو کر قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور تقسیم برصغیر تک وہیں رہے.اس کے بعد ایک لمبا عرصہ لاہور میں رہائش رکھی اور یہیں وفات پائی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ مسیح موعود میں مدفون ہیں.مرحوم بہت مستعد نیک سادہ اور عبادت گزار بزرگ تھے.قادیان میں کافی عرصہ تک بعہدہ جنرل پریذیڈنٹ خدمات بجالاتے رہے.اولا د : عبد القادر صاحب سول سرجن اور چار بہنیں.محترم حکیم رحمت اللہ صاحب ولادت: بیعت : دسمبر ۱۹۰۷ء محترم حکیم رحمت اللہ صاحب بہت پرانے بزرگ ہیں.والد محترم کا نام حکیم محد بخش صاحب تھا.آپ فرماتے ہیں کہ موضع نواں پنڈ متصل گورداسپور میں ہمارے نہایت ہی قریبی رشتہ داروں میں ایک بزرگ مولوی محمد علی نامی تھے.میں ان کی ملاقات کیلئے وہاں گیا.انہوں نے مجھے احمدیت کی تبلیغ کی.میں نے ان کے ساتھ کافی تکرار کی.انہوں نے فرمایا کہ رحمت اللہ ! اس طرح بحث سے ضد پیدا ہوتی ہے.تم خدا تعالیٰ سے دعا مانگو کہ اے خدا! اگر مرزا صاحب اپنے دعوئی میں سچے ہیں تو مجھے ہدایت دیدے.انہوں نے ایک کتاب بھی تحفہ گولڑویہ مجھے مطالعہ کیلئے دی اور یہ بھی فرمایا کہ ۱۵ روز کے بعد جلسہ سالانہ ہے اس موقعہ پر ضرور قادیان چلو اور مامور من اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو.میرے دل کو یہ بات پسند آئی.میرا اپنا گاؤں موضع جو گووال تھا جو گورداسپور سے سات میل کے فاصلہ پر ہے.میں نے گاؤں میں پہنچ کر دعا شروع کر دی.چند دن کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت سیدھی صاف اور سفید سڑک ہے جو زمین سے کچھ اونچی ہے.اس کے دو طرفہ گھنے درخت لگے ہوئے ہیں.اور وہ ہمارے گاؤں سے سیدھی قادیان کو جا رہی ہے.قادیان ہمارے گاؤں سے گیارہ میل کے فاصلہ پر تھا.صبح اٹھ

Page 364

363 کر جو میں نے اس خواب پر غور کیا تو میرے دل نے گواہی دی کہ یہ اس دعا کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت معلوم کرنے کے لئے کی ہے.چنانچہ جب جلسہ سالانہ عشاء کے ایام آئے تو میں جلسہ میں شمولیت کیلئے قادیان چلا گیا.مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر تشریف فرما تھے اور تقریر کر رہے تھے.نہایت ہی نورانی چہرہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ تو کوئی فرشتہ معلوم ہوتا ہے.ایسا شخص ہر گز کا ذب نہیں ہو سکتا.چنانچہ جب تقریرختم ہوئی اور یہ اعلان ہوا کہ جو دوست بیعت کرنا چاہتے ہوں وہ کر لیں.تو میں بھی بیعت کرنے والوں میں شامل ہو گیا.جلسہ سے فارغ ہو کر جب گاؤں پہنچا تو شدید مخالفت ہوئی مگر میں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا.آخر 1919ء میں وہاں سے ہجرت کر کے قادیان چلا گیا اور ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے بعد لاہور پہنچ گیا.کئی سال تک لاہور میں رہا اور اب ربوہ میں ہوں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ محترم حکیم صاحب کی عمر اس وقت اسی سال کے لگ بھگ ہوگی بلکہ ممکن ہے زیادہ ہو کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ۱۸۹۴ء میں جو سورج اور چاند کو گرہن لگا وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اسے ستر اکہتر سال ہو گئے ہیں.اگر ان ایام میں آپ کی عمر بارہ چودہ سال کی بھی ہو تو اس وقت (۱۹۶۵ء میں ) آپ کی عمر اسی سال سے زیادہ بنتی ہے.آپ حکیم ہیں اور حکمت کی دوکان کرتے ہیں.نہایت ہی سادہ اور دیہاتی وضع کے بزرگ ہیں.قد لمبا، جسم مضبوط اور صحت اچھی ہے.پانچوں وقت مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے.آمین.بہت خوب آدمی ہیں.اولاد: محمد عالم مرحوم، بشیر الدین، حفیظ بیگم، نظیر بیگم.ولادت: حضرت ملک خدا بخش صاحب رضی اللہ عنہ بیعت : ٩٠٧اء زیارت : ۱۹۰۸ء وفات : ۱۷.دسمبر ۱۹۴۸ء محترم ملک خدا بخش صاحب کی روایات درج ذیل ہیں : ا.میں نے حضور کو نماز کی حالت میں دیکھا ہے.آپ کھڑے ہونے کی حالت میں اپنی گردن دائیں بازو کی طرف جھکائے ہوئے ہوتے تھے.

Page 365

364 ۲.میں نے حضور کو تقریر فرماتے دیکھا ہے.یہ وہ تقریر ہے جو لاہور میں رؤساء لا ہور کو دعوت دے کر کی گئی تھی.تقریر فرماتے وقت حضور کا وجود مبارک ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے گویا ایک تصویر ہے جو بول رہی ہے.آنکھیں نیم وا معلوم ہوتی تھیں.اور کوئی حرکت ہاتھ پاؤں سے نہیں فرماتے تھے.حضور کے ہاتھ میں سونٹی بھی تھی..مذکورہ بالا تقریر کے اختتام پر حضور کی خدمت میں دودھ کا ایک گلاس پیش کیا گیا.ہم تبرک کی خواہش میں گھتم گتھا بھی ہوئے.چنانچہ کچھ دودھ جو فرش پر گر گیا تھا اسے بھی ہم نے اپنی زبانوں سے اٹھا لیا تھا.خاکسار راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ محترم ملک خدا بخش صاحب محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب کی امارت کے زمانہ میں ایک عرصہ تک جماعت احمدیہ لاہور کے جنرل سیکرٹری رہے اور نہایت ہی محنت اور کوشش سے کام کیا.میں نے نہ صرف ان کو دیکھا ہے بلکہ تقسیم ملک سے پہلے اور بعد میں جب کہ میرا تقر ر لاہور میں بحیثیت مبلغ تھا.ان کے ساتھ کام بھی کیا.آپ نہایت ہی معزز اور وجیہ انسان تھے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے دن رات وقف کر رکھا تھا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے زمانہ امارت میں پہلے پرائیویٹ سیکرٹری اور پھر جنرل سیکرٹری رہے.بعد میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب کے زمانہ میں بھی جنرل سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے.حضرت ملک صاحب کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جو نوٹ’ الفضل “ میں لکھا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر اس کا ایک ضروری اقتباس درج کر دیا جائے.آپ نے تحریر فرمایا: میں ملک صاحب مرحوم کو بڑے لمبے عرصہ سے جانتا ہوں.وہ نہایت مخلص اور فدائی اور سچے معنوں میں ایک قابل قدر کارکن تھے.جب بھی سلسلہ کا کوئی کام پیش آتا تھا.وہ اس کام میں ہمیشہ دوسروں سے پیش پیش نظر آتے تھے.اور اس بات میں ذرہ بھر شبہ نہیں کہ وہ لا ہور کی جماعت کے ایک بھاری رکن تھے.جن کی وفات نے لاہور کی جماعت میں یقیناً خلا پیدا کر دیا ہے.میں ان لوگوں میں سے تو نہیں ہوں کہ یہ سمجھوں یا یہ کہوں کہ فلاں خلا بھرا نہیں جاسکتا.کیونکہ ایسا خیال خدا کی صفت خلق و تکوین کے خلاف ہے اور اسی طرح وہ ہمارے مشاہدہ کے بھی خلاف ہے.مگر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ یہ خلا ایسا ہی ہے

Page 366

365 وو جسے لاہور کی جماعت کو خاص توجہ کے ساتھ بھرنے کی کوشش کرنی چاہئے.” جب میں ملک صاحب کا جنازہ پڑھنے آیا تو مرحوم کے اوصاف حمیدہ کو یا دکر کے میرے دل میں اچانک یہ خیال پیدا ہوا کہ علم اور بصیرت رکھنے والے مومن بھی دراصل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کے ایمان کا مرکزی نقطہ ان کے دماغ یعنی مرکز عقل میں ہوتا ہے اور دوسرے وہ جن کے ایمان کا مرکزی نقطہ ان کے دل یعنی مرکز جذبات میں ہوتا ہے.ان میں سے قسم اول کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر دلائل اور براہین کی طرف رہتی ہے اور ان کے خیالات کا محور زیادہ تر عقل کے ارد گرد چکر لگاتا ہے.لیکن دوسری قسم کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر اخلاص اور جذبات میں مرکوز ہوتی ہے اور ان کے خیالات کا محور محبت پر قائم ہوتا ہے اور میں نے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور سے کہا کہ میرے خیال میں ملک صاحب مرحوم دوسری قسم کے مخلصین میں شامل تھے جن کے ایمان کے درخت کی جڑیں دماغ کی نسبت دل میں زیادہ جاگزیں ہوتی ہیں اور علم اور بصیرت رکھتے ہوئے بھی ان کی طبیعت میں محبت اور جذبات کا غلبہ رہتا ہے.” ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند مقام پر جگہ دے اور ان کے بچوں اور دیگر پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.ملک صاحب مرحوم کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ ایک ہی وقت میں ان کے دونوں جوان بچے خدمت دین کیلئے سمندر پار گئے ہوئے ہیں اور حقیقتاً یہ ایک بڑی بھاری سعادت ہے بلکہ حق یہ ہے کہ ایں سعادت بزور بازو نیست تا بخشد خدائے بخشنده خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۱۹۴۸ء -۱۲-۲۱ اولاد: ملک عطاء اللہ.ملک عطاء الرحمن سابق مبلغ فرانس.ملک احسان اللہ مبلغ مغربی افریقہ.ملک عبدالمنان مرحوم.صفیہ.رشیدہ وغیرہ چار پانچ لڑکیاں.

Page 367

366 محترم ملک حکیم دین محمد صاحب ولادت : ۱۸۸۸ء بیعت : ۱۹۰۲ء محترم جناب ڈاکٹر عبیداللہ خاں صاحب نے بیان فرمایا کہ محترم حکیم دین محمد صاحب کے والد بزرگوار کا نام شیخ برکت علی صاحب تھا.راہوں ضلع جالندھر کے باشندہ تھے اور صحابی تھے.محترم حکیم صاحب نے قادیان ہی میں تعلیم پائی.دسویں جماعت کا امتحان پاس کر کے پوسٹ ماسٹر جنرل لاہور کے دفتر میں ملازمت شروع کر دی.۱۹۱۳ ء کے قریب تبدیل ہو کر دفتر ملٹری اکاؤنٹس میں چلے گئے.دوسری جنگ میں جاپانیوں کی قید میں رہے.قریب تھا سرقتل کئے جاتے مگر اللہ تعالی نے انہیں بچا لیا.اب پنشن پر ربوہ میں مقیم ہیں.آپ نے بچپن میں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے طب پڑھی.پھر حضرت حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ والوں سے بھی پڑھتے رہے.ذاتی طور پر ہو میو پیتھی سے بھی دلچپسی رکھتے ہیں.آپ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے مؤلف اصحاب احمد کے تایا خالو اور خسر ہیں.آپ نے بیعت بچپن ہی میں کر لی تھی.عمر اس وقت ۷۷ - ۷۸ سال کے قریب ہو گی.صحت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.اولا د امتہ اللہ.نصرت نعمت.حکمت - فضل الرب مرحوم.بشری.اسمعیل احمد.ولادت: محترم شیخ شمس الدین صاحب بیعت : حواء وفات : ۱۵.فروری ۱۹۴۱ء محترم شیخ شمس الدین صاحب چنیوٹ ضلع جھنگ کے مشہور وہرہ خاندان کے چشم و چراغ تھے.والد ماجد کا نام شیخ حاجی عمر حیات صاحب تھا.قبول احمدیت کی سعادت اس طرح نصیب ہوئی کہ آپ کے خسر حضرت شیخ عطا محمد صاحب وہرہ چنیوٹ والے ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.جب بھی موقع ملتا وہ آپ کو تبلیغ کرتے.آپ کا کاروبار چونکہ لاہور میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی لا ہور تشریف لایا کرتے تھے.اس لئے جب بھی حضور تشریف لاتے آپ حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہو جاتے.

Page 368

367 ایک مرتبہ آپ نے حضور کی خدمت میں اولاد نرینہ کے لئے درخواست دعا کی جس پر حضور نے دعا فرمائی.اس دعا کے بعد ۱۹۰۴ء میں آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک لڑکا عطا فرمایا جس کا نام فیروز الدین رکھا گیا.اس خوشی میں آپ نے حضور کی خدمت میں پچاس روپیہ کی رقم بطور نذرانہ پیش کی.۱۹۷ء میں آپ نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.بیعت کے بعد رشتہ داروں نے سخت مخالفت کی مگر آپ ثابت قدم رہے.آپ چمڑے کے تاجر تھے.کاروبار میں دیانت وامانت آپ کا شیو ہ تھا.متوکل انسان تھے.خدا تعالیٰ کے حضور روروکر دعائیں کیا کرتے تھے اور اکثر دعائیں آپ کی قبول ہوتی تھیں.آپ کی نیکی اور تقویٰ کو دیکھ کر بعض اوقات غیر احمدی بھی آپ سے دعا کروانے آیا کرتے تھے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی جب بحیثیت مبلغ لا ہور میں مقیم تھے.تو آپ نے ان سے پہلے ناظرہ اور پھر باترجمہ قرآن شریف ختم کیا.جب مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کے لئے زمین خریدنے کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس میں پانچ ہزار روپیہ یکمشت چندہ دیا.آپ ۱۵.فروری ۱۹۴۱ء کو فوت ہوئے اور کوٹ خواجہ سعید میں دفن کئے گئے.آپ کی رفیقہ حیات مسماۃ اللہ جوائی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں.اکثر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں.سورۃ لیبین زبانی یاد تھی.صدقہ و خیرات کے لئے آپ بہت مشہور تھیں.آپ کی وفات ۳۰.جون ۱۹۳۵ ء کو ہوئی.اور کوٹ خواجہ سعید لاہور میں مدفون ہوئیں.فانالله و انا اليه راجعون.اولاد : آپ نے دو بیٹیاں اور تین بیٹے اپنے پیچھے چھوڑے.بیٹوں کے نام یہ ہیں.فیروز دین.منور دین.عبدالحمید.محترم ڈاکٹر غلام محمد صاحب غیر مبالع ولادت : ۶ - نومبر ۱۸۸۶ء بیعت : بچپن میں وفات : ۲۸.ستمبر ۱۹۵۹ء محترم ڈاکٹر غلام محمد صاحب مورخہ ۶.نومبر ۱۸۸۶ء کو پتھرانوالی حویلی اندرون موچی گیٹ لاہور میں داروغہ نبی بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے.داروغہ نبی بخش صاحب شملہ میں گورنمنٹ آف انڈیا

Page 369

368 پریس میں ملازم تھے.اس لئے ڈاکٹر صاحب بچپن میں ہی اپنے والد ماجد کے پاس شملہ چلے گئے اور و ہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی.محترم شیخ الہ دین صاحب شملوی کے ساتھ داروغہ صاحب کے گہرے تعلقات تھے.ان کی تبلیغ سے آپ نے ۱۹۰۱ء میں احمدیت قبول کی.ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب آپ کو مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیجنا چاہتے تھے.مگر محترم شیخ صاحب موصوف نے رائے دی کہ انہیں قادیان بھیجا جائے.چنانچہ 19ء میں قادیان جا کر آپ نے نویں جماعت میں داخلہ لیا.۱۹۰۶ ء میں آپ نے قادیان سے ایف.اے کر کے میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا.ڈاکٹر بن کر آپ نے کچھ عرصہ سرحد میں اسسٹنٹ سرجن کے طور پر سرکاری ملازمت کی.آپ ایک باکمال سرجن تھے.چنانچہ ایک مرتبہ آپ ایک زخمی جس کی کھوپڑی میں دراڑ آ گئی تھی کا اپریشن کر رہے تھے کہ اپریشن روم میں وائسرائے کمانڈر انچیف اور گورنر سرحد آگئے مگر آپ اپنے کام میں ایسے مصروف تھے کہ آپ کو مطلقاً خبر نہ ہوئی.جب اپنے کام سے فارغ ہوئے تو ان افسران کو دیکھ کر حیران ہو گئے.لارڈ چیمسفورڈ نے آگے بڑھ کر آپ سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ڈاکٹر تم تو ایک باکمال سرجن ہو.چنانچہ اس نے آپ کو قیصر ہند کا میڈل دیا.۵۰۰۰ روپیہ نقد اور خان بہادر کے خطاب کی سفارش کی اور سول سرجن کے عہدہ پر ترقی بھی دی.۲۸ ۱۹۲۰ء میں آپ نے ملازمت سے استعفا دے دیا اور لاہور آ کر عزیز منزل میں پریکٹس شروع کی.انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کے رکن تو آپ شروع سے ہی تھے.مگر لاہور پہنچ کر آپ نے عملاً بھی انجمن کے کاموں میں نمایاں حصہ لینا شروع کر دیا.۱۹۳۵ء میں آپ انجمن کے دوامی ممبر چنے گئے.۱۹۵۶ ء میں انجمن کے صدر بنے اور ۲۸.ستمبر ۱۹۵۹ء کو آنت کے پھٹنے کے باعث وفات پائی.فانالله وانا اليه راجعون.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ولادت : ۶.فروری ۱۸۹۳ء بیعت : ۱۶ - ستمبر ۱۹۰۷ء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۶.فروری ۱۸۹۳ء کو بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے آپ کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ

Page 370

369 رکھی.گورنمنٹ کالج لاہور سے بی.اے کی ڈگری حاصل کر کے آپ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لندن تشریف لے گئے.اور واپس تشریف لا کر پہلے سیالکوٹ میں اور پھر جلد ہی لاہور میں آ کر کام شروع کیا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسی ترقی دی کہ چند سال کے اندر اندر ہی آپ کا نام لاہور کے قانون دانوں کی صف اوّل میں شمار ہونے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت آپ نے سیالکوٹ میں ستمبر ۱۹۰۴ء میں کی.قادیان کی پہلی مرتبہ زیارت ستمبر ۱۹۰۵ء میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت ۱۶ ستمبر ۱۹۷ء کو کی.جب آپ لا ہور تشریف لائے تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے آپ کو لاہور کی جماعت کا امیر اور حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی رضی اللہ عنہ کوسیکرٹری مقرر فرمایا.۴۹ آپ دس بارہ سال جماعت کے امیر ر ہے مگر اس عرصہ میں آپ نے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی لاہور میں آمد سے خوب فائدہ اٹھایا.حضور کے متعد دعلمی لیکچر ہوئے جن میں لاہور کے اعلیٰ اور ذہین طبقہ کے لوگ شامل ہوتے رہے اور پریس میں بھی حضور کی علمی قابلیت کا چر چا جاری رہا.گورنمنٹ انگریزی نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کے جو اجلاس لندن میں بلائے اور جنہیں گول میز کانفرنس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ان میں علاوہ بعض دیگر مسلمان لیڈروں کے آپ بھی برابر شامل ہوتے رہے اور لندن میں آپ نے کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.مجھے خوب یاد ہے کہ ان ایام میں جو خبر میں اخبارات میں آتی تھیں ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ لندن کی پرائیوٹ مجالس میں عوام ہندوؤں کی سیاسی پوزیشن سمجھنے کیلئے مسٹر گاندھی کو اور مسلمان قوم کا نقطہ نظر معلوم کرنے کیلئے آپ کو دعوت دیا کرتے تھے.گول میز کانفرنس میں آپ نے جو شاندار تقریریں کیں اور بے مثال تدبر کا ثبوت دیا اس سے ہندوستان کے ہند و مسلمان لیڈروں کی نگا ہیں آپ کی طرف اٹھنا شروع ہوئیں اور انگریز حکام نے بھی محسوس کیا کہ ہندوستان کا نظم ونسق چلانے کے لئے آپ جیسے مدبروں کے تعاون کی انہیں بے حد ضرورت ہے.چنانچہ باوجود شدید مذہبی مخالفت کے ۱۹۳۵ء میں آپ کو ہندوستان کے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں لے لیا گیا اور کئی سال تک متعدد محکموں کے انچارج رہے.اس اثناء میں آپ کو کئی مرتبہ یورپ اور دوسرے ممالک میں

Page 371

370 ہندوستان کی نمائندگی کا موقع ملا.تقسیم ملک کے وقت آپ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج تھے.پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کو وزیر خارجہ بننے کی پیشکش کی جسے آپ نے منظور کر لیا.اس عظیم منصب پر.فائز ہونے کے بعد آپ نے جو خدمات سرانجام دیں ان کے بارہ میں چند شہادتیں درج ذیل ہیں.ا.میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ ( جو اس وقت پنجاب کے وزیر خزانہ تھے ) نے ۱۰.مارچ ۱۹۴۸ء کو پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ : پاکستان کی تعمیر واستحکام کے سلسلہ میں حضرت قائد اعظم کے بعد میرے خیال میں جن دو بڑی شخصیتوں نے کام کیا ہے ان میں پہلا نام ہمارے امور خارجہ کے وزیر سر محمد ظفر اللہ خاں کا ہے اور دوسرا وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد کا ہے.سر ظفر اللہ خاں نے ساری دنیا پر آشکار کر دیا کہ پاکستان ایسے بلند دماغ اور شاندار مقر ر ا ور اپنی حکومت کے بچے خادم رکھتا ہے جس کے سامنے دنیا کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں.ملت پاکستان چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے حق میں اتنی ناشکر گزار نہیں ہو سکتی کہ وہ معدودے چندر جعت پسندوں کی غوغا آرائی کے لئے گمراہ ہو جائے اور پھر ان گنتی کے چند لوگوں کی غوغا آرائی جو جہالت کے محدود و معین خیالات میں پھنسے ہوئے ہیں.۵۰ السٹریلڈ ویکلی پاکستان رقمطراز ہے: سلامتی کونسل میں وہ وقت بھی نہایت نازک تھا جب اسرائیل کے معاملہ میں بحث ہورہی تھی.بڑی طاقتیں اس مملکت کو بہر طور نواز نے پر تلی ہوئی تھیں جو صہیونی دہشت انگیزی کی بدولت معرض وجود میں آئی تھی.ہر قابل ذکر آدمی بول چکا تھا اور بولا بھی تھا دنیائے عرب کے مفاد کے سراسر خلاف.عربوں کے ترجمان بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے.لیکن ان بیچاروں پر وہی مثل صادق آ رہی تھی کہ نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ بڑی طاقتوں کے بلند بانگ غلغلہ میں ان کی کمزور آواز دب کر رہ گئی ہے.طویل القامت، نحیف الحسبة چوہدری محمد ظفر اللہ خاں بحث کے دوران میں خاموش بیٹھے دیکھ رہے تھے.انہوں نے ایک لفظ بھی نہ کہا اور نہ ہی کچھ کہنے کا ارادہ تھا کیونکہ

Page 372

371 وہ اس مسئلہ میں جو کچھ کہنا چاہتے تھے پہلے ہی کہہ چکے تھے انہیں نظر آ رہا تھا کہ جب سلامتی کونسل پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے تو پھر اسے قائل کرنے کی کوشش بے سود ہے.دو لیکن اس وقت عربوں کے بعض نمائندے جو دیکھ رہے تھے کہ ہمارے وزیر خارجہ بحث کے دوران میں خاموش بیٹھے ہیں آپ کے پاس آئے اور (ایک مرتبہ پھر ) عربوں کا معاملہ پیش کرنے کی درخواست کی.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے تقریر کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی.بایں ہمہ وہ عرب نمائندوں کو مایوس بھی نہیں کرنا چاہتے تھے.ادھر تقریر تیار نہ ہونے کے علاوہ طبیعت بھی قدرے ناساز تھی.ایک لحہ تذبذب کے بغیر آپ سیدھے سٹیج کی طرف بڑھے.اس کے بعد مسلسل دو گھنٹہ تک سلامتی کونسل کی فضا فن خطابت کی ضوفشانی سے جگمگ جگمگ کرتی رہی.عرب نمائندوں نے با اتفاق رائے تسلیم کیا کہ جس دلنشین انداز اور پُرزور طریق پر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے ان کا معاملہ پیش کیا ہے اس زور دار طریق پر دوسرا کوئی شخص پیش نہیں کر سکا.دو گھنٹے تک یوں معلوم ہوتا تھا کہ دلائل و براہین کا ایک دریا ہے جو انڈا چلا آتا ہے.اس تمام عرصہ میں وہ چند صیہونی نمائندے جو پچھلی نشستوں پر بیٹھے تھے تلملاتے اور بل بھرتے رہے اور منہ میں جھاگ لا لا کر اپنے لرزیدہ پاؤں فرش پر مار رہے تھے.اور منہ ہی منہ میں برا بھلا کہہ رہے تھے.اس میں قطعا کوئی مبالغہ نہیں کہ...ایک سیکسیس میں ہمارے وزیر خارجہ نے وہ ناموری حاصل کی ہے جو بلاشبہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہے.دواڑھائی سال کے عرصہ میں بیرونی دنیا میں انہوں نے پاکستان کی ساکھ قائم کرنے اور اس کی عزت و وقار کو چار چاند لگانے میں جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کی مثال نہیں مل سکتی.قائد اعظم مرحوم کی طرح وہ جھکنا نہیں جانتے.وہ اس فتح کے قائل ہی نہیں جو گر کر نصیب ہو.وہ فتیابی کس کام کی جس کی خاطر عزت نفس گنوانی پڑے.وہ کبھی تذلل اختیار نہیں کرتے اور پھر بھی ہمیشہ فتحیاب رہتے ہیں.اللہ ۴.خبر نامه اقوام متحدہ نے اپنے تبصرہ میں لکھا کہ آنریبل سر محمد ظفر اللہ خاں اقوام متحدہ کے حلقوں میں بہت ممتاز درجہ رکھتے ہیں.

Page 373

372 ان کی قانون دانی بلاغت و فصاحت اور نکتہ رسی کا ہر ممبر ملک قائل ہے.جنرل اسمبلی اور اس کے ماتحت کمیٹیوں میں جب کبھی ظفر اللہ خاں تقریر کرتے ہیں تو شائقین اس کثرت سے جمع ہوتے ہیں کہ اکثر مرتبہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی.بین الاقوامی مسائل کی موشگافیاں گذشتہ پانچ سال میں سر محمد ظفر اللہ خاں نے جس خوبی سے کی ہیں اس کی سب نے تعریف کی ہے.گذشتہ سال جنرل اسمبلی کے پیرس والے اجلاس میں عراق اور ملک شام کے نمائندوں کے تعاون سے انہوں نے تخفیف اسلحہ کے مسئلے پر جو تقریر کی تھی اسے اقوام متحدہ کی بلند ترین تقریروں میں گنا جاتا ہے اور سیاست دانی کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.اسی تقریر کا نتیجہ تھا کہ بڑی طاقتوں کے نمائندے دس روز تک تخفیف اسلحہ پر تبادلہ خیالات کر سکے اور مختلف الخیال ملکوں کو ایک مرکز پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا سب سے ضروری مقصد ہے.اس سے قبل مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے متعلق سر محمد ظفر اللہ خاں سیکورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی میں معرکۃ الآراء تقریریں کر چکے ہیں.لیبیا کے مستقبل سمالی لینڈ اور ار بیٹریا کی خود مختاری اور انڈونیشیا کی آزادی کے سلسلہ میں ان کی بار آور کوششیں ضرب المثل ہیں.سر محمد ظفر اللہ خاں نے کچھ عرصہ ہوا، فرمایا تھا کہ جہاں کہیں آزادی کی جدوجہد کا اعلان ہوتا ہے پاکستان سب سے پہلے لبیک کہتا ہے.اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ دنیا یہ لبیک سر ظفر اللہ خاں کی حق شناس آواز کے ذریعہ سنتی ہے.۵۲ ۴.معاصر ” انجام“ کراچی نے سمالی لینڈ کی خدمت کے متعلق ذیل کی خبر دی : " کراچی ۱۰.فروری.پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے ادارہ اقوام متحدہ میں سمالی لینڈ کے مسلمانوں کے مقصد آزادی کی حمایت میں جو معرکۃ الآراء تقریریں کی ہیں.ان کا خلوص دل سے اعتراف کرتے ہوئے سمالی لینڈ کے ہزارہا مسلمانوں نے اپنے بچوں کے نام پاکستان کے وزیر خارجہ کے نام پر رکھے ہیں اور خود میرے نوزائیدہ بچے کا نام ”ظفر اللہ ہے.انسان کے مرتبہ اور مقام کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب کہ وہ مخالفت کے طوفانوں اور مصائب کی آندھیوں میں سے گزر رہا ہو.مگر اس کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آنے پائے.حضرت

Page 374

373 چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے کام کی ساری زندگی ہی ایسے حالات میں گذری ہے جبکہ پاکستان کے شوریدہ پسند طبقہ نے آپ کے خلاف ملک میں سخت طوفان بے تمیزی بر پاکئے رکھا مگر آپ نے نہ تو ملک کی خدمت میں کمی آنے دی اور نہ ہی اپنی مذہبی حیثیت پر حرف آنے دیا.۱۹۵۴ء میں سر بنکل راؤ کی جگہ بین الاقوامی عدالت عالیہ کے جج مقرر ہوئے اور چار سال کے عرصہ کے اندر ہی آپ کا انتخاب برائے نائب صدر عمل میں آیا.اس طرح آپ نے تھوڑے ہی عرصہ میں قابل رشک مقام حاصل کر لیا.بین الاقوامی عدالت کی حجی کا یہ دور کا میابی کے ساتھ گزار کر آپ نے ایک عرصہ تک اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی اپنے ذمہ لئے رکھی.دو برس پیشتر جب آپ کونسل کی صدارت کیلئے منتخب ہوئے تو ”حقیقت‘ لکھنو نے لکھا: یہ واقعہ ہے کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں برصغیر ہند و پاکستان میں گنتی کے چند چوٹی کے مدبروں میں ہیں.خصوصاً پاکستان کے موجودہ لیڈروں میں تو موصوف اپنی قانونی قابلیت سیاسی تدبر و تجربہ اور بین الاقوامی مسائل میں اپنی حیرت انگیز فراست و معاملہ فہمی کے اعتبار سے فرد واحد ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان اور دوسرے چند ممالک کی مخالفت کے باوجود بھی اقوام متحدہ کی کونسل بالآخر بھاری اکثریت سے ظفر اللہ خاں ہی کو اپنا صدر منتخب کرے گی جو ہر اعتبار سے بہ مقابلہ دیگر امیدواروں کے قابل ترجیح ہیں.چنانچہ یہ امر واقعہ ہے اور ساری دنیا اس پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کونسل کے صدارتی انتخاب میں آپ کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب کیا اور آپ نے دوران صدارت میں جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ان کی بناء پر بعض بڑے مدبران کی زبان سے نکلا کہ کاش! ظفر اللہ خاں عمر بھر اس کونسل کے صدر رہیں.اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ بین الاقوامی عدالت کے جج کے طور پر کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو پہلے سے بھی زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آپ کی قومی خدمات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر و بیشتر غیر ملکوں میں احمدی مساجد کی بنیادیں رکھنے کا شرف حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے ماتحت آپ ہی کو حاصل ہوا.آپ نے مختلف ممالک میں بہت بلند پایہ تقاریر کے ذریعہ ایک دنیا کو اسلام اور احمدیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مراد ہے.

Page 375

374 روشناس کرایا.اسلام کے متعلق آپ کی بیش قیمت تصانیف قبولیت کی سند حاصل کر چکی ہیں.جماعت احمد یہ میں آپ کی مالی قربانیاں ضرب المثل کے طور پر مشہور ہیں.اسلام اور احمدیت کے متعلق آپ کی قانونی خدمات سے ایک زمانہ آگاہ ہے.باوجود اتنی خوبیوں اور قابلیتوں کے اطاعت امام کے سلسلہ میں آپ کا وجود ایک نمونہ ہے.مختصر یہ کہ اس زمانہ میں احمدی اور غیر احمدی تعلیم یافتہ نوجوان اور بوڑھوں کے لئے آپ کی زندگی میں بے شمار قیمتی اسباق موجود ہیں.کاش کہ کوئی فائدہ اٹھائے.اللهم متعنا بطول حياته اولا د امته الحی صاحبہ محترم میاں اکبر علی صاحب ولادت: ۱۸۹۵ء بیعت : پیدائی احمدی محترم میاں اکبر علی صاحب ابن مولوی محمد علی صاحب سکنہ موضع بہا در ضلع گورداسپور نے بیان فرمایا کہ میرے والد مولوی محمد علی صاحب نے حضرت چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر اور حضرت منشی عبد العزیز صاحب او جلوی کے ذریعہ ۱۸۹۳ء میں قادیان جا کر بیعت کی.میری پیدائش ۱۸۹۵ء کی ہے.اس لحاظ سے میں پیدائشی احمدی ہوں.جن دنوں کرم دین بھین والے مقدمات کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور تشریف لے جایا کرتے تھے.میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ گورداسپور جایا کرتا تھا.19ء میں میرے والد صاحب نے مجھے قادیان لیجا کر مدرسہ احمد یہ رکاء میں داخل کروا دیا.حضرت خلیفہ المسیح اول کے فرزند میاں عبدالحی صاحب میرے کلاس فیلو تھے.اس زمانہ میں جب حضرت صاحب سیر کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے تو ہمیں متعدد بار حضور کی زیارت اور مصافحہ کا شرف حاصل ہوتا تھا اور کئی دفعہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خادمہ کے ذریعہ سے حضور کا بچا ہوا کھانا بطور تبرک منگوالیا کرتے تھے.جب حضور آخری جلسہ سالانہ کے ایام میں سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو میرے والد صاحب اور میرے چچا میاں سلطان احمد صاحب اور میرے پھوپھا حکیم رحمت اللہ صاحب اور خاکسار بھی حضور کے ساتھ تھے.

Page 376

375 مدرسہ احمدیہ میں ایک سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد خاکسار اپنے گاؤں واپس چلا گیا.اور پھر 1917ء میں قادیان جا کر نویں جماعت میں داخل ہوا.نویں پاس کرنے کے بعد خاکسار لاہور واپس آ گیا.اور ملازمت اختیار کر لی.احمدیت سے پہلے میرے والد پیری مریدی کا کام بھی کرتے تھے مگر احمدی ہونے کے بعد انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور اپنے گاؤں میں زراعت کا کام شروع کر دیا اور تبلیغ میں مصروف ہو گئے.چنانچہ ان کی تبلیغ سے بابو عبد الرحمن صاحب انبالوی اور ان کے عزیزوں نے احمدیت قبول کی.ابھی آپ کو زراعت کا کام کرتے چھ ماہ ہی گذرے تھے.کہ ان کے خالو خان بہا در میاں محمد سزاوار رئیس لاہور نے انہیں لاہور میں بلا لیا.اور اپنی دو ہزار ایکٹر اراضی کا بندوبست کرنے کو کہا جو موضع ڈیال اور موضع اٹا نوالی میں تھی.تمہیں سال کا عرصہ آپ نے موضع نواں پنڈ مشمولہ ڈیال میں رہائش اختیار کر کے اس اراضی کا انتظام کیا اور نواں پنڈ میں جماعت بھی قائم کی.چنانچہ ان کی تبلیغ سے مولوی عبدالحکیم صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب وغیرہ نے بیعت کی.میں ۱۹۱۷ ء میں ملٹری اکاؤنٹس میں اسٹمنٹ اکاؤنٹنٹ کے طور پر ملازم ہو گیا.اور نو سال یہ ملازمت قائم رہی.۱۹۲۶ ء میں رخصت لے کر فتنہ ارتداد کے دنوں میں تین ماہ کے لئے اپنے خرچ پر اجمیر بیا در آگرہ اور ایٹہ میں تبلیغ کرتا رہا.چوہدری نبی حسن خاں موضع را ؤ پٹی متصل ضلع ایٹہ کو بیعت کروانے کے لئے قادیان لے گیا.وہاں میرے ذریعہ سے بابونورمحمد صاحب مینیجر کاٹن مل بیا در نے بھی بیعت کی.۱۹۲۶ء کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹے کی بشارت دی.چنانچہ جب میں اس جہاد سے واپس آیا.تو مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلا فرزند ناصر علی عطا فر مایا.اس دوران میں ملٹری والوں نے تخفیف میں رکھ کر مجھے فارغ کر دیا.چنانچہ ایک سال میں نے اپنے گاؤں میں زراعت کا کام کیا.اس کے بعد مجھے کو آپریٹو ڈیپارٹمنٹ میں سب انسپکٹر کی جگہ مل گئی.۱۹۳۵ء میں میں نے امیر علاقہ مکیریاں کے طور پر اس علاقہ میں تبلیغ کی نگرانی کی.۱۹۴۶ء سے میں مستقل طور پر حلقہ پرانی انار کلی لاہور میں بحیثیت پریذیڈنٹ حلقہ کام کر رہا ہوں.۱۹۵۳ء کے فساد میں میر امکان جلانے کی کوششیں کی گئیں.مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے بال بال بچالیا.1941ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے چندہ تحریک اور وقف جدید کو بڑھا کر دس گنا ادا کرنے کی توفیق عطا

Page 377

376 فرمائی.چنانچہ میں نے چندہ تحریک جدید ۳۰ روپے سے بڑھا کر ۳۰۰ روپے کر دیا.اور وقف جدید ۲۰ سے بڑھا کر ۲۰۰ روپے کر دیا.فالحمدللہ علی ذالک.اسی طرح مساجد بیرون پاکستان میں اپنی والدہ مرحومہ والد مرحوم اور اپنی طرف سے ڈیڑھ ڈیڑھ سوادا کیا.۱۹۵۱ء سے میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں اور اس وقت سے لے کر اب تک کام محض اس نیت اور ارادے سے کر رہا ہوں کہ سلسلہ کی مالی خدمت کر سکوں ورنہ میرا گزارہ اپنی جائیداد کی آمد پر ہوسکتا ہے.الحمد للہ کہ مجھے مسجد دارالذکر لاہور میں بھی دو ہزار روپیہ چندہ دینے کی توفیق ملی.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ میرے والد محترم نے میری تحریک پر قادیان اور ربوہ دونوں جگہ مکانات بنوائے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے چارلڑ کے اور پانچ لڑکیاں عطا فرما ئیں.اللہ تعالیٰ انہیں نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھے اور سلسلہ کے فدائی ثابت ہوں.آمین اولاد : ناصر علی مرحوم.مظفر علی.منور علی.مبشر علی.امیر بیگم.طاہرہ ناہید.ناصرہ بیگم.مبارکہ شوکت.بشری بیگم.محترم شیخ عبدالحمید صاحب شملوی ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : اپریل ۱۹۰۸ء محترم شیخ عبدالحمید صاحب شملوی موضع صریح تحصیل نکو در ضلع جالندھر کے باشندہ ہیں اور آج کل دفتر جماعت احمد یہ واقعہ ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور کے انچارج اور حلقہ مزنگ کے صدر ہیں.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سابق امام مسجد لندن اور ناظر بیت المال کے چھوٹے بھائی ہیں.یہ فضیلت بھی آپ ہی کو حاصل ہے کہ تینوں بھائیوں ( یعنی حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب محترم جناب شیخ عبدالعزیز صاحب اور محترم جناب شیخ عبدالحمید صاحب ) میں سے صرف آپ ہی صحابی ہیں.آپ نے انٹرنس کا امتحان راولپنڈی میں اپنے بھائی عبدالعزیز صاحب کے پاس رہ کر ۱۹۰۸ء

Page 378

377 میں دیا.امتحان دینے کے بعد واپس گاؤں پہنچے اور گاؤں سے قادیان جا کر شروع اپریل ۱۹۰۸ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمد یہ عالیہ میں داخل ہو گئے.آپ کے والد ماجد حضرت مولوی عمرالدین صاحب بھی صحابی تھے.ملازمت آپ نے فیروز پور کے قلعہ میں آرڈینینس ڈیپارٹمنٹ میں شروع کی.کچھ عرصہ وہاں کام کے بعد آپ شملہ تشریف لے گئے اور ملٹری فائنس ڈیپارٹمنٹ میں ساری مدت ملازمت گزار دی.(۱۹۱۳ء سے لیکر ۱۹۴۵ء تک) اس محکمہ میں آپ پہلے مسلمان تھے مگر آہستہ آہستہ آپ کی کوشش سے کافی مسلمان اس محکمہ میں بھرتی ہو گئے.احمدی احباب میں سے محترم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید محترم جناب میاں عبدالحق صاحب را مه ناظر بیت المال، محترم جناب فضل محمد خاں صاحب خاص طور پر مشہور ہیں.محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر اور محترم جناب شیخ یوسف علی صاحب مرحوم سابق پرائیویٹ سیکرٹری نے بھی کچھ عرصہ اس محکمہ میں کام کیا.جتنا عرصہ آپ شملہ میں رہے.مختلف جماعتی عہدوں پر متمکن رہے مگر زیادہ عرصہ آپ کے پاس سیکرٹری مال کا عہدہ رہا.حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ کے کام کو جانتے تھے اس لئے آپ جب اس محکمہ سے ریٹائر ہو کر پنشن پر آگئے تو آپ کو سٹینڈ نگ فائنٹس بجٹ کمیٹی کا ممبر نامزدفرمایا.۱۹۴۷ء تک آپ قادیان میں رہے.پھر لاہور آ گئے.اور ۱۹۵۲ء سے دفتر جماعت احمد یہ لاہور کے انچارج ہیں.منارة اسبیح قادیان کی تعمیر کے لئے جن احباب نے چندہ دیا.ان میں آپ اور آپ کے والد ماجد دونوں شامل تھے.چنانچہ دونوں کے نام ” منارۃ اصبح “ پر کندہ ہیں.تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں میں بھی آپ شروع سے حصہ لے رہے ہیں.۱۹۲۸ء میں جو قرآن کریم کا درس حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے دیا تھا اس میں بھی آپ شامل ہوئے تھے.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ سورہ انفال کی تفسیر آپ نے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے سبقاً سبقاً پڑھی تھی.اولاد: عبدالمجید.عبدالرشید.طاہر شیم.شاہد سلیم.ناصر سلیم.زبیدہ بیگم.رشیدہ بیگم.عفت ریقہ.طیبہ صادقہ.نزہت پروین.رضیہ بشری.

Page 379

378 ولادت: حضرت ملک غلام محمد صاحب بیعت : ۱۹۰۸ء زیارت : ۱۹۰۲ء وفات : ۳.جولائی ۱۹۵۸ء ملک غلام محمد صاحب ملک بسوصا حب لا ہور کا بیان ہے کہ میرے والد مرحوم کے سید محمد علی شاہ صاحب مرحوم سکنہ قادیان کے ساتھ بہت تعلقات تھے.ان کے ذریعہ میرا قادیان آنا جانا ہوا.میں پہلی مرتبہ قادیان تقریباً ۱۸۸۷ء میں گیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب نہ ہوئی.۱۹۰۲ء میں زیارت نصیب ہوئی.میں بہت سے حالات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو لکھ کر دے چکا ہوں.البتہ ایک بات مزید یاد آ گئی.وہ یہ کہ جب میں نے ۱۹۰۸ء میں لاہور میں بیعت کی تو انہی ایام میں حضور ایک دفعہ جمعہ یا نماز ظہر کے لئے اندرون خانہ سے باہر تشریف لائے.اس وقت حضور کی نظر میری طرف اٹھی اور اس نظر میں ایسا اثر تھا کہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا.حضور کی نظر اس وقت بڑی جلالی نظر تھی.حضرت ملک صاحب کا کاروبار بڑا وسیع تھا.زمیندارہ بھی کافی پھیلا ہوا تھا.خلافت ثانیہ کی ابتداء میں آپ خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کی دوستی کی وجہ سے غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے.مگر کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے پھر آپ کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.پھر تو آپ ایسے فدائی بن گئے کہ باوجود بڑھاپے کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سفروں میں بھی عموماً ساتھ رہتے تھے.آپ نے ۳.جولائی ۱۹۵۸ء کو نماز فجر کے وقت حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وفات پائی.انا لله وانا اليه راجعون.اولاد: ملک عبد الرحمن.ملک عبد الرحیم.ملک عبد العزیز.ملک محمد عبد اللہ مستری عباس محمد صاحب گنج مغلپورہ ولادت: ۹۴-۱۸۹۳ء بمقام ملتان بیعت حضور کی وفات سے چند دن پہلے لاہور میں : مستری عباس محمد صاحب گنج مغلپورہ نے فرمایا کہ : میرے والد صاحب کا نام حضرت میاں جمال الدین صاحب تھا.میاں جمال الدین صاحب

Page 380

379 بھی صحابی تھے.میں بھی جماعت بھڑ یار کے اس وفد میں شامل تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےسفر سیالکوٹ کے دوران اٹاری اسٹیشن پر حضور سے ملاقات کی تھی اور وا بگہ اسٹیشن تک ہم سفر رہے تھے.میں نے حضور کے وصال سے چند دن قبل لاہور میں حضور کی بیعت کی تھی اور بیعت کے بعد اپنے قدیمی گاؤں بھڑ یا ضلع امرتسر چلا گیا تھا.مگر ۱۹۳۲ء میں کاروبار کے سلسلہ میں لاہور آ گیا اور مغلپورہ گنج میں آکر سکونت اختیار کر لی.محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ سنگا پور تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے پاس سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مصدقہ تحریر ہے.یہ تحریر مسئلہ جنازہ سے تعلق رکھتی ہے وہ خاکسار نے بھی دیکھی ہے“.اولاد: مبشر احمد شمیم اختر.حوالہ جات ل البدر ۶.اپریل ۱۹۰۵ء ملفوظات فرموده ۱۳ مئی ۱۹۴۴ء الفضل ۲۲۰.جنوری ۱۹۴۵ء سے ”حیات طیبہ ، صفحہ ۱۹۱ ے اس تقریر کا خلاصہ صوفی صاحب کے الفاظ میں پڑھیئے ( الحکم ۱۰.اپریل ۱۹۳۵ء (مؤلف) و, ۵ الحکم ۱۴.اپریل ۱۹۳۵ء الحکم ۲۱.اپریل ۱۹۳۵ء ے الحکم ۲۱.اپریل ۱۹۳۵ء درس الحدیث صفحه ۱۲ "The crucifixion by an Eye-Witness" i ۱۰ لاله حقیقة الوحی صفحه ۲۶۰ الحکم ۲۱ - ۲۸.جنوری ۱۹۳۶ء ۱۳ خودنوشت سوانح حیات حکیم مرہم عیسی

Page 381

380 ۱۴ حياة طیبہ، صفحہ ۱۹۱ ۱۵ از مکتوب مورخه ۲۵ - اپریل ۱۹۰۰ ء مندرجہ الحکم جلد نمبر ۱۸ مورخہ ۷ امئی ۱۹۰۰ء دیکھئے آئینہ کمالات اسلام آخری حصہ کا دیکھئے آئینہ کمالات اسلام آخری حصہ " تاریخ احمدیت‘ حصہ سوم صفحہ ۱۲۸ 19 آئینہ کمالات اسلام ۲۰ تذکرہ ، صفحہ ۶۹۷ بحوالہ بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۸ء " الفضل ، جلد اول نمبر صفحه ۱۳ ۲۲ الحکم ۲۱ مئی ۱۹۲۰ء الفضل، ۲۷ دسمبر ۱۹۱۴ ء صفحه ۵ ۲۴ ریکارڈ صدرانجمن احمد بی ۱۹۱۷ء ۲۵ نزول المسیح صفحه ۲۱۳ ۲۶ یا درفتگان صفحه ۲۳۳-۲۳۴ ۲۷ الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء الفضل، ۱۷.جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۳ ۲۹ د الفضل، ۱۷.جنوری ۱۹۶۴ ء صفحہ ۳ د الفضل، ۱۷.جنوری ۱۹۶۴ء اس الفضل ۱۸.جنوری ۱۹۶۴ء ۳۲ الفضل، ۱۸.جنوری ۱۹۶۴ء ۳۳ یا درفتگان صفحه ۲۱۶ ۳۴ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۰ء ۳۵ احمد صادق صفحہ ۴۷ البدر ۲۳ اکتوبر ۱۹۰۳ء

Page 382

381 ۳۷ چشمہ معرفت صفحہ ۳۳۵.۳۳۶ ۳۸ نزول المسیح ، ، صفحه ۲۳۰ ۳۹ روایات صحابہ مندرجہ الفضل ۱۳-۱۲-۱۷ مارچ ۱۹۵۴ء ٤٠ الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۵ء صفحه ۵ الم الفضل ۳۰.مارچ ۱۹۶۵ ء صفحہ ۵ ۴۲ یا درفتگان صفحه ۹۹ وو ۴۳ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۲۹۸ ۴۴ اصحاب احمد جلد دوم صفحه ۳۰۳ ۲۵ منقول از الفرقان بابت ماہ اگست ۱۹۶۵ء بحوالہ الفضل، مورخہ ۲.ستمبر ۱۹۶۵ء وو ،، ۴۷ بدر ۱۲.جولائی ۱۹۰۶ء وو ۲۸ یا درفتگان ، صفحہ ۱۷۷ ۴۹ دیکھئے سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ بابت ۱۸ - ۱۹۱۹ء و, ۵۰ روزنامہ ڈان کراچی مورخه ۲۲ - مئی ۱۹۵۲ ء بحوالہ اصحاب احمد جلد یاز دہم صفحہ ۱۹۷ ۵۱ بحوالہ اصحاب احمد جلد یاز دہم صفحہ ۱۹۷ - ۱۹۸ ۵۲ ہفت روزہ صلح کراچی مورخه ۱۲.اکتوبر ۱۹۵۲ ء بحوالہ اصحاب احمد جلد یاز دہم صفحه ۱۹۳-۱۹۴

Page 383

382 ضمیمه یہاں سے صحابہ کرام کے حالات بغیر کسی ترتیب سے درج کئے جاتے ہیں.(مؤلف) حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ ولادت : ۲۴ نومبر ۸۷۵اء بيعت : ۱۸۹۷ء وفات : ۱۳ نومبر ۱۹۴۷ء حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ ۲۴ - نومبر ۱۸۷۵ء کو اپنے گاؤں ”ادرحمہ تحصیل بھوال ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد کا نام حضرت مولوی نظام الدین صاحب اور والدہ ماجدہ کا نام محترمہ گوہر بی بی تھا.آپ کا تعلق رانجھا قوم سے تھا جو قریش خاندان کی شاخ ہے.احمدیت سے متعارف آپ بھیرہ میں ہوئے جہاں آپ نے میٹرک تک تعلیم پائی.حضرت مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کے درس قرآن میں با قاعدگی کے ساتھ شمولیت فرماتے.نیز کبھی کبھی میں جب حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ جموں وکشمیر سے اپنے وطن مالوف بھیرہ میں تشریف لاتے تو ان سے بھی روحانی فیوض حاصل کرتے.بی.اے کا امتحان آپ نے ایف سی کالج لاہور میں پاس کیا.آپ نے ۱۸۹۷ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست حق پرست پر بیعت کی.آپ شروع شروع میں بہت کمزور اور دبلے پتلے تھے.کچھ عرصہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے زیر علاج رہے.ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی بیماری کا ذکر کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا شیر علی دودھ جتنا پیسکو پیو آپ کی بڑی صاحبزادی محتر مہ خدیجہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ ابا جی چوبیس گھنٹہ میں سولہ سیر دودھ پی لیا کرتے تھے.دودھ چونکہ آپ کی غذا کا ایک اہم حصہ تھا اس لئے ہمیشہ دو تین بھینسیں رکھا کرتے تھے.دودھ کے بکثرت استعمال کی وجہ سے آپ کا جسم کافی فربہ ہو گیا تھا.

Page 384

383 بی.اے پاس کرنے کے بعد ابھی آپ قادیان ہی میں مقیم تھے کہ آپ کی قابلیت اور غیر معمولی ذہانت کی بناء پر آپ کو نجی کی پیشکش کی گئی.مگر آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور مہدی آخر الزمان علیہ السلام کے قدموں میں ہی رہنے کو ترجیح دی.آپ کا حلیہ اور لباس قد چھ فٹ سے زیادہ رنگ گندمی، آنکھیں سیاہ چمکدار اور بڑی بڑی چہرہ خوبصورت اور مسنون داڑھی سے مزین جس پر روحانی اثر ہمیشہ غالب رہتا تھا، ماتھے پر اثر السجود کا نمایاں اثر پایا جاتا تھا.مرحوم مجسم حیا تھے.لباس بالکل سادہ پہنتے تھے.سر پر عموماً سفید عمامہ ہوتا تھا.تن پر سادہ قیمص‘ ڈھیلا ڈھالا کوٹ، ملکی شلوار جو ٹخنوں سے اوپر رہتی تھی.سردی کے موسم میں دود و قمیصیں بھی زیب تن فرمالیا کرتے تھے.تکلف کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے.پاؤں میں اکثر دیسی جوتا ہوتا تھا.آخری عمر میں جسم کافی فربہ ہو گیا تھا.مگر نہ اتنا کہ چلنا پھرنا دوبھر ہو.آپ کی سادگی آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ انگریزی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ساری عمر دیسی جوتا پہنا.لباس میں بھی سادگی آپ کا طرہ امتیاز رہا.عموماً گھر کے دھلے ہوئے کپڑے زیب تن فرماتے.استری شدہ کپڑے بھی پہن لیتے تھے مگر عموماً کپڑوں کو اس طرح پکڑتے کہ ان میں شکنیں پڑ جاتیں.آپ ترجمہ قرآن کے سلسلہ میں کئی سال لندن بھی رہے مگر وہاں بھی اپنی روایتی سادگی کو برقرار رکھا.حقیقت یہ ہے کہ آپ کی سادگی ایک ضرب المثل تھی.ایک نا واقف انسان آپ کو دیکھ کر کبھی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ انگریزی زبان کے ماہر ہیں.ڈاکٹر محمدعبداللہ صاحب ( قلعہ صو باسنگھ ) کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے زمانہ کا ذکر ہے جب حضرت مولوی شیر علی صاحب ریویو آف ریلیجنز انگریزی کی ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے.ایک مرتبہ دو انگریز افسر قادیان آئے جب وہ نواب صاحب ( حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.مؤلف ) کی کوٹھی کے شمالی جانب سے

Page 385

384 گذرے تو قریب ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب اپنی بھینسیں چرا رہے تھے.آپ کا گریبان کھلا ہوا تھا اور نہایت سادہ لباس میں ملبوس تھے.ان انگریز افسروں میں سے ایک نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا کہ ہمیں ریویو آف ریلیجنس کے ایڈیٹر سے ملنا ہے وہ کس جگہ ملیں گے؟ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.چلئے میں آپ کو ان کے مکان پر لے چلتا ہوں اور اپنے ہمراہ لا کر اپنی بیٹھک میں بٹھا کر فر مایا آپ تشریف رکھیں میں انہیں بلا لاتا ہوں.حضرت مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا کہ چائے وغیرہ تیار کریں.باتوں باتوں میں تعارف بھی ہو جائے گا لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے گھر پر ہی لے چلیں راستہ میں مل لیں گے.اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا: وو ریویو کا ایڈیٹر تو میں ہوں 66 دہ دونوں افسر یہ سن کر بے حد حیران ہوئے اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اس رسالہ کا ایڈیٹر کوئی انگریز ہو گا.سے آپ کی عموماً کوشش ہوا کرتی تھی کہ راستہ میں جو شخص بھی ملتا خواہ بچہ ہی کیوں نہ ہوتا اسے السلام علیکم کہنے میں سبقت فرماتے.شفقت على خلق الله محترم میاں غلام محمد صاحب ٹیلر سرگودھا کا بیان ہے کہ ”ماہ دسمبر کی شدید سردیوں کا ذکر ہے ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحب نماز سے فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے مسجد (مبارک) کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے.آپ کے پیچھے پیچھے میں بھی آ رہا تھا.سیڑھیوں کے وسط میں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بائیں طرف دیوار سے لگا ہوا ایک مسافر کھڑا ہے.جب حضرت مولوی صاحب اس کے پاس سے گذرے تو وہ کہنے لگا.میں ایک غریب مسافر ہوں.میرے پاس تن ڈھانکنے کیلئے کوئی کپڑا نہیں مجھ پر اللہ رحم کریں.حضرت مولوی صاحب اس وقت اٹلی کا ایک بالکل نیا کمبل اوڑھے ہوئے تھے.

Page 386

385 آپ نے فوراً وہ کمبل اتار کر اسے دے دیا اور خود اسی حالت میں اپنے گھر تشریف لے گئے ہے محض خدا کی خاطر میاں غلام محمد صاحب ٹیلر ہی کا بیان ہے کہ منہاس قوم کے ایک ہندو دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان تشریف لائے اور بمعہ اہل وعیال احمدی ہو گئے.حضور نے ان کا نام شیخ عبدالعزیز رکھا.حضرت خلیفتہ اسیح الاول سے قرآن پڑھنے کی وجہ سے ان کو قرآن سے ایسا عشق ہو گیا کہ لوگوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے میں بھی ان سے قرآن پڑھنے جایا کرتا تھا.ایک دفعہ شیخ صاحب نے مجھے سنایا کہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل جس کمرہ میں بیٹھ کر ریویو (اردو.مؤلف ) کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے تھے.اس کے سامنے ایک کچا مکان تھا.وہاں ایک حافظ نا بینا رہتے تھے.وہ قدیم زمانہ میں جو قادیان میں میلہ قدماں لگا کرتا تھا اس کے گدی نشین تھے لیکن احمدیت قبول کر لینے کے بعد گدی سے الگ ہو گئے تھے.شیخ صاحب نے مجھے سنایا کہ میں حافظ صاحب کے پاس عموماً جایا کرتا تھا.کیونکہ وہ پرانے صحابہ میں سے تھے.ایک روز میں ان کے پاس گیا تو وہ مجھے سنانے لگے کہ کچھ عرصہ ہوا.میں حکیم قطب دین صاحب کے پاس گیا اور یہ شکایت کی کہ میرے کانوں سے شاں شاں کی آواز میں آتی رہتی ہیں اور سنائی بھی کم دیتا ہے کوئی علاج بتا ئیں.حکیم صاحب نے فرمایا کہ آپ کے کانوں میں خشکی ہے دودھ پیا کریں.اس پر میں ( حافظ صاحب) نے کہا.روٹی تو مجھے مسیح کے لنگر سے مل جاتی ہے.دودھ کہاں سے پہیوں ؟ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مسجد مبارک کو جاتے ہوئے حضرت مولوی شیر علی صاحب وہاں سے گذرے.آپ نے حکیم قطب دین صاحب سے دریافت فرمایا کہ یہ حافظ صاحب کیا کہہ رہے ہیں.حکیم صاحب نے کہا کہ ان کے کانوں میں خشکی ہے میں ان سے دودھ پینے کے لئے کہہ رہا ہوں لیکن حافظ صاحب کہتے ہیں کہ دودھ کہاں سے پیوں.حضرت مولوی صاحب یہ سنکر چلے گئے.حافظ صاحب فرمانے لگے کہ اسی روز رات کے وقت ایک شخص میرے پاس آیا.اور کہنے لگا حافظ صاحب دودھ لے

Page 387

386 لیں.چنانچہ میں نے اپنا پیالہ آگے کر دیا.وہ قریباً ڈیڑھ سیر دودھ ڈال کر چلا گیا.اسی طرح اس شخص کا معمول رہا کہ روزانہ رات کو آتا اور ڈیڑھ سیر کے قریب دودھ میرے برتن میں ڈال کر چلا جاتا.اس میں سے میں کچھ رات کو پی لیتا اور کچھ صبح کو.شیخ عبدالعزیز صاحب نے مجھے کہا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ دیکھوں یہ کون شخص ہے جو مسلسل ڈیڑھ سال سے دودھ دے رہا ہے اور کبھی ناغہ بھی نہیں کرتا اور نہ ہی رقم کا مطالبہ کرتا ہے.چنانچہ اس خیال کے مدنظر میں ایک روز اس شخص کے آنے سے پہلے ہی حافظ صاحب کے دروازے کے آس پاس گھومنے لگا.اتنے میں ایک شخص ہاتھ میں برتن لئے ان کے اندر چلا گیا.چونکہ سردیوں کے دن تھے اس لئے حافظ صاحب اندر چار پائی پر بیٹھے تھے.اس شخص نے حسب معمول دودھ دیا.میں اسے دیکھنے کے لئے جب اندر داخل ہوا تو وہ میرے پاؤں کی آہٹ سن کر کمرہ کے اندر ایک کونے میں جا کھڑا ہوا.اندر اندھیرا تھا.اس لئے میں پہچان نہ سکا.غور سے دیکھا تو ایک شخص دیوار سے لگا دکھائی دیا.میں نے پاس جا کر پوچھا.بھائی تم کون ہو.مجھے دھیمی سی آواز آئی شیر علی “ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے جیسے زمین نکل گئی.میں سخت شرمندہ ہوا کہ جس کام کو حضرت مولوی صاحب راز میں رکھنا چاہتے تھے میں نے اسے افشا کر دیا.مجھے دیر تک آپ کے سامنے جاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی.۵ اپنا کام خود کرنا غالباً ۳۱ ۱۹۳۰ء کا ذکر ہے گرمیوں کا موسم تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ڈلہوزی تشریف لے جانے پر حضرت مولوی شیر علی صاحب قادیان کے مقامی امیر تھے.خاکسار ان دنوں مولوی فاضل کلاس میں تعلیم پا رہا تھا اور حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل حال امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نئے مکان میں رہا کرتا تھا.چونکہ امتحان کے دن قریب تھے اس لئے زیادہ وقت پڑھائی میں صرف کرنے کی غرض سے بجائے مسجد مبارک کے مسجد اقصیٰ ہی میں تمام نمازیں ادا کیا کرتا تھا.ایک روز حضرت مولوی صاحب نے عشاء کی نماز کے بعد کسی سے دریافت فرمایا کہ کیا شیخ عبد القادر صاحب نو مسلم جو جامعہ احمدیہ میں تعلیم پارہے ہیں مسجد میں موجود ہیں؟ مجھے ان سے ایک

Page 388

387 ضروری کام ہے.بعض دوستوں نے مجھے تلاش کیا.موجود نہ پا کر حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا یہاں تو نہیں.ہم ان کو ابھی بلا لاتے ہیں.اس پر اس مجسمہ اخلاق نے نہایت ہی سادگی سے فرمایا کام تو مجھے ان سے ہے اس لئے مجھے خود جانا چاہئے اس واقعہ کی اہمیت اس امر سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ آپ مقامی امیر ہونے کے باوجود دو تین دوستوں کو ہمراہ لئے میری جائے رہائش پر تشریف لائے.اور مجھے باہر بلا کر آپ نے کوئی بات دریافت فرمائی.جس کے متعلق اب میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا تھی.مکارم الاخلاق عموماً با اثر لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ پبلک اداروں میں جا کر اپنے اثر ورسوخ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنا کام پہلے کروالیتے ہیں.لیکن حضرت مولوی شیر علی صاحب اس بارہ میں بہت محتاط تھے.میں نے آپ کو نور ہسپتال میں دوائی لیتے دیکھا ہے.باوجود یکہ بعض اوقات آپ کی بزرگانہ شان اور بلند شخصیت کے پیش نظر ہسپتال کا عملہ آپ کو پہلے دوائی دینے کی پیشکش کرتا لیکن آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ ” میں اپنی باری پر دوائی لوں گا“ تبلیغ کا شوق غالباً ۱۹۳۱ء کی بات ہے خاکسار کو مری میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گذارنے کا موقعہ ملا.آپ عصر کے بعد جب سیر کو نکلا کرتے تو عموماً کسی نہ کسی شخص کو تبلیغ ضرور کرتے.ایک مرتبہ ہم محترم ملک فیروز خان صاحب نون کے والد محترم ملک محمد حیات خاں صاحب ریٹائر ڈ کمشنر کی کوٹھی ”نون ہاؤس‘ گئے.آپ نے خاں صاحب سے وعدہ لیا کہ وہ ایک مرتبہ قادیان ضرور جائیں گے.اسی طرح ایک مرتبہ ہم محترم شیخ تیمور صاحب ایم.اے پرنسپل اسلامیہ کالج پشاور سے ملے.انہوں نے ہماری دعوت بھی کی.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہونے کی وجہ سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ ان کے پرانے مراسم تھے اس لئے وہ بہت محبت سے پیش آئے اور قادیان جانے کا وعدہ کیا.یادر ہے کہ محترم شیخ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

Page 389

388 کے خرچ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی مگر حضور کی وفات پر جماعت سے الگ ہو گئے تھے.آپ کی وفات ۱۳.نومبر ۱۹۴۷ء ۱۹۴۵ء کے موسم گرما میں آپ ترجمہ القرآن انگریزی کے سلسلہ میں مع دفتر عملہ و ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے.وہاں بندش پیشاب کی شکایت ہو گئی.جب با وجود علاج ڈلہوزی میں آرام کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو حضور نے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ مولوی صاحب کو پہاڑ کی مرطوب آب و ہوا سے قادیان کے پرسکون ماحول میں لے جائیں.چنانچہ اس کے لئے حضرت نے اپنی کار بھی عطا فرمائی.قادیان میں کچھ عرصہ آرام رہا مگر پھر یہ تکلیف عود کر آئی.اس عرصہ میں لاہور میں ہومیو پیتھک علاج سے اللہ تعالیٰ نے اس مرض میں افاقہ کی صورت پیدا کر دی.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کا ہنگامہ برپا ہوا.انہی خطر ناک ایام میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے ماتحت پہلے قافلہ میں قادیان سے آپ لاہور پہنچے.احمد یہ ہوٹل کے ایک کمرہ میں قیام فرمایا.طبیعت پہلے ہی کمزور تھی.پیشاب کی تکلیف اور بڑھ گئی.میں اکتوبر ۱۹۴۷ء کو آپ میوہسپتال میں داخل کر دیئے گئے.کرنل امیر الدین صاحب نے پراسٹیٹ گلینڈ (Prostate) (Gland کا پہلا آپریشن کیا.کچھ روز ٹھہر کر دوسرا آپریشن ہونا تھا مگر اچانک آپ کو کھانسی کی شکایت ہوگئی.ساتھ ہی شدید اسہال شروع ہو گئے.طاقت کے ٹیکے لگائے گئے.پھلوں کا رس دیا گیا.غذاؤں میں ساگودانہ اراروٹ وغیرہ بھی استعمال کرائی گئیں.مگر کمزوری دن بدن بڑھتی گئی.یہاں تک کہ ۱۳.نومبر ۱۹۴۷ء کو آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئی.انا للہ و انا اليه راجعون كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کی سیرت پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا دیباچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا تحریر فرمودہ ہے.اس دیباچہ میں حضرت مولوی صاحب کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں درج کر دیا جائے.وہو ہذا : حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم میرے استاد بھی تھے اور دوست بھی تھے اور

Page 390

389 رفیق کا ر بھی تھے.مجھے ان کے اخلاق اور حالات زندگی کو بڑے غور کے ساتھ مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا ہے.میں کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مولوی صاحب مرحوم حقیقتاً ایک فرشتہ سیرت بزرگ تھے اور ان کے متعلق لوگوں کی زبان پر فرشتے کا لفظ غالباً الہی تصرف کے ماتحت جاری ہوا تھا.اور ممکن ہے کہ اس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کشف بھی ہو جس میں حضور نے دیکھا کہ حضور کے سامنے ایک فرشتہ آیا ہے جس کا نام ”شیر علی“ ہے.فرشتوں کی مخصوص صفت جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے وہ یفعلو مایومرون ہے.یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری کا کامل نمونہ ہوتے اور ہمیشہ ان کا قدم اسی رستہ پر اٹھتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت کے مطابق ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی پاک جماعت عطا کی.اور ایسے اصحاب دیئے جو اپنی مخصوص صفات میں ”آخرین منھم“ کے کامل نمونہ تھے لیکن حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم میں میں نے جو رنگ للہیت کا دیکھا اور جس قسم کی بے نفسی ان کے وجود میں پائی وہ دوسری جگہ بہت کم نظر آتی ہے.دعاؤں میں انتہائی شغف عبادات میں ایسی لذت کہ گویا روح ہر وقت آستانہ الہی کی طرف شوق کے ساتھ جھکی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء وقت کا انتہائی اکرام اور اطاعت ادو دوستوں کے ساتھ غیر معمولی جذبہ شفقت، یہ حضرت مولوی صاحب کے نمایاں اوصاف تھے.جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک ایسی روحانی کشش پیدا ہو گئی تھی جس کی مثال وہ خود ہی تھے.حضرت مولوی صاحب کا طریق تھا کہ اپنی اکثر دعاؤں کو صرف سورۃ فاتحہ اور درود تک محدود رکھتے اور انہی دو مبارک ترین دعاؤں میں وہ اپنے اور اپنے احباب کے سارے دینی اور دنیوی مقاصد کوملحوظ رکھ لیتے تھے اور اس سوز و درد کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے کہ جیسے ایک ہنڈیا چولہے پر اُبل رہی ہو.اگر مجھ سے کوئی شخص حضرت مولوی صاحب کے متعلق یہ پوچھے کہ ان کی سب سے بڑی نمایاں صفت کیا تھی تو میں یہی کہوں گا کہ دعاؤں اور عبادت میں شغف اور اس سے اتر کر مخلوق خدا کی ہمدردی اور اسے ہر رنگ میں فائدہ

Page 391

390 پہنچانے کی تڑپ.مولوی صاحب کی روحانیت حقیقتا ایک نہایت ہی ارفع اور بلند مقام کی روحانیت تھی جسے ایک طرف خدا تعالیٰ کے ساتھ انتہائی اتصال حاصل تھا اور دوسری طرف مخلوق خدا کی ہمدردی اس کا جز واعظم تھی.حضرت مولوی شیر علی صاحب قادیان میں غالباً ۱۸۹۷ء میں آئے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک مختلف خدمات پر مامور رہے.شروع میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری کے فرائض سرانجام دیئے اور اس خوبی سے سرانجام دیئے کہ حضرت مولوی صاحب کا ہر شاگرد گویا آپ کا عاشق زار تھا.کیونکہ ان کے وجود میں طلباء کو نہ صرف ایک قابل ترین استادمل گیا تھا بلکہ شفیق ترین باپ بھی میسر آ گیا تھا.میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ان کے شاگرد جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے بسا اوقات ان کے ذکر سے قلوب میں رقت اور آنکھوں میں آنسو محسوس کرتے ہیں.سکول کی ملازمت کے بعد حضرت مولوی صاحب ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاتھ سے بعض ایسے مضامین نکلے جو سلسلہ کے لٹریچر میں خاص شان رکھتے ہیں جسے بعض غیر احمد یوں نے اس کی خوبیوں اور دلائل سے متاثر ہو کر اپنی طرف سے کتابی صورت میں شائع کرایا تھا.حضرت مولوی صاحب کی تصنیفات کے سلسلہ میں قتل مرتد اور اسلام کا رسالہ بھی خاص شان رکھتا ہے.حضرت مولوی صاحب کی زندگی کا تیسرا دور وہ ہے جب کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت وہ قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کے لئے مقرر کئے گئے اور اس غرض کے لئے انہیں انگلستان بھجوایا گیا.اور بالآخر یہ کام قادیان میں واپس آکر تکمیل کو پہنچا.قادیان کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحب کی امداد کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم.اے اور مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے اور خاں بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب ایم.اے اور خاکسار مقرر تھے.ان ایام میں حضرت مولوی صاحب با وجود پیرانہ سالی کے جس قدر محنت اور شغف اور توجہ کے ساتھ قرآن مجید کا کام کرتے تھے وہ ہم سب کے لئے ایک مشعل راہ ہے.

Page 392

391 انگریزی زبان میں حضرت مولوی صاحب کا مقام بہت بلند تھا اور نہایت صاف اور صحیح اور بامحاورہ انگریزی لکھتے تھے جس کی سلاست اور صحت پر رشک آتا تھا.” حضرت مولوی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے حالات زندگی معلوم تھے.چنانچہ ان کی بہت سی قیمتی روایات میری تصنیف ”سیرۃ المہدی“ میں درج ہیں.اور ہر روایت علم وعرفان اور تصوف کا غیر معمولی اثر لئے ہوئے ہے.- " حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ جب بھی قادیان سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو بالعموم حضرت مولوی صاحب کو ہی اپنی جگہ امیر مقرر فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ۱۹۲۴ء کے سفر یورپ میں بھی حضرت مولوی صاحب ہی امیر مقرر ہوئے تھے اور گوشروع میں حضرت مولوی صاحب کو تقریر کرنے میں کچھ حجاب محسوس ہوتا تھا لیکن بعد میں یہ حجاب دور ہو کر ان کی تقریروں میں سلاست کا رنگ پیدا ہو گیا تھا اور ان کے خطبات اپنے اندر خاص جذب اور تاثر رکھتے تھے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روح پر اپنے بے شمار فضل اور رحمت کی بارش برسائے.ان کی روحانی تاثیرات کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھے.جماعت کے نوجوانوں کو ان کی نیک صفات کا وارث بنائے اور ان کی اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمين.فقط خاکسار مرزا بشیر احمد.ربوہ ۱۸_۱۰_۵۵ حضرت مولوی صاحب کی جب وفات ہوئی تو ان ایام میں ابھی دارالہجرت ربوہ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی.اس لئے آپ کو لاہور ہی میں میانی صاحب کے قبرستان میں امانتا دفن کیا گیا.بعد ازاں جب ربوہ کا بہشتی مقبرہ تیار ہو گیا تو پھر آپ کی نعش مبارک کور بوہ میں منتقل کر دیا گیا.ہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج کل آپ کی لاہور والی قبر میں محترم میاں کمال الدین صاحب مدفون اولاد: ڈاکٹر عبدالرحمن رانجھا.خدیجہ بیگم.مولوی عبدالرحیم صاحب.امۃ الرحمن.حافظ عبد اللطیف.

Page 393

392 محترم شیخ عبدالحق صاحب انجنير ولادت : ۱۸۹۸ء بیعت : پیدائشی محترم شیخ عبدالحق صاحب نے بیان فرمایا کہ ” میرے والد شیخ عطا محمد صاحب چوہدری والا تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.خاکسار کی پیدائش موضع و نجواں متصل بٹالہ میں ہوئی جہاں میرے والد صاحب پٹواری تھے.میری پیدائش کا واقعہ بھی عجیب ہے.میرے والد صاحب نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں مگر کوئی اولاد نہ ہوئی.حضرت مولوی فتح دین صاحب دھر مکوٹی نے آپ کو تبلیغ کی.کافی عرصہ بحث مباحثہ میں صرف ہوا.آخر انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے مرزے کو خط لکھوں گا اور اس کا جواب آنے پر آپ سے گفتگو کروں گا خط میں انہوں نے لکھا کہ آپ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.میرے حق میں آپ دعا فرمائیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ اولاد عطا فرمائے اور اس بیوی میں سے ہو جس سے میں چاہتا ہوں.مراد ان کی یہ تھی کہ پہلی بیوی سے اولاد ہو.اس وقت والد صاحب کی عمر ۴۲ سال کی تھی.یہ خط جب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو حضور مسجد مبارک میں اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے.حضور نے خط کھولا اور پڑھ کر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا کہ سب کو دکھا دیں.جب سب نے دیکھ لیا تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس کا یہ جواب لکھ دیں کہ مولا کہ حضور میں دعا کی گئی.آپ کے گھر میں فرزندار جمند ہو گا اور انشاء اللہ صاحب اقبال ہوگا اور اسی بیوی سے ہوگا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں بشرطیکہ آپ حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح تو بہ کریں.وو ’ جب والد صاحب کو یہ خط ملا تو آپ وہ خط لے کر حضرت مولوی فتح دین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ بتائیے حضرت زکریا علیہ السلام کی تو بہ کیا تھی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اولاد تو میرے ہاں ہونی نہیں مگر میں حضرت زکریا علیہ السلام والی تو بہ پوری

Page 394

393 شرائط کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں تا حضرت مرزا صاحب کو یہ کہنے کا موقعہ نے ملے کہ تم نے تو بہ نہیں کی ورنہ تمہارے ہاں اولا دضرور ہو جاتی.” جب مولوی صاحب موصوف نے حضرت زکریا علیہ السلام کی توبہ کا طریق بتایا تو والد صاحب نے پورے اہتمام کے ساتھ اس پر عمل کیا.تین ماہ گذرنے کے بعد ایک دن میری والدہ رو پڑی اور حضرت والد صاحب کو کہا کہ آگے تو کچھ امید تھی مگر اب تو بالکل ہی جاتی رہی اس لئے آپ مجھے میرے بھائی شیخ غلام رصول صاحب سب انسپکٹر پولیس کے پاس امرتسر بھجوا دیں میں وہاں ہسپتال میں اپنا علاج کرواؤں.حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ نہیں ! میں دائی کو بھیجتا ہوں.تھوڑے وقفہ کے بعد دائی نے واپس آ کر بیان کیا کہ پٹواری جی! معلوم ہوتا ہے خدا بھول گیا ہے.والد صاحب نے فرمایا کہ نہیں! چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھولے ہوئے تھے اس لئے اس نے بھی ہمیں بھلا دیا تھا چنانچہ وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ نے لڑکا دیا اور وہ میں ہوں و نجواں سے دھر مکوٹ تین چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے.میری پیدائش کے فوراً بعد وہ مجھے دھر مکوٹ کی مسجد میں لے گئے جہاں کہ مولوی صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے.والد صاحب کے عزیز واقارب نے جو کثرت سے اس موقعہ پر جمع ہو گئے شور مچایا کہ آدھی رات کا وقت ہے اس وقت اس کو باہر مت لے جاؤ.مگر والد صاحب نے فرمایا کہ یہ مرے گا نہیں اور اسے کوئی خدشہ نہیں کیونکہ یہ حضرت مرزا صاحب کی دعا سے پیدا ہوا ہے.چنانچہ صبح مجھے واپس ونجواں لے آئے.ونجواں چونکہ مسلمانوں کا گاؤں تھا اس لئے سب کو اکٹھا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا یہ نشان وضاحت سے بیان فرمایا اس پر قریباً سارا گاؤں اور دھر مکوٹ کے بہت سے احباب جو اس نشان کے گواہ تھے قادیان گئے اور بیعت کر لی.حضرت والد صاحب نے پچانوے سال کی عمر پائی.۱۹۴۲ء میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ صحابہ میں مدفون ہوئے.والدہ مکرمہ حضرت عائشہ بی بی صاحبہ نے بھی اسی زمانہ میں بیعت کر لی تھی.ان کی وفات ۱۹۵۵ء میں ایک سو پانچ سال کی عمر میں کراچی

Page 395

394 میں ہوئی.موصیہ تھیں.امانتا کراچی میں دفن ہیں.انشاء اللہ عنقریب انہیں ربوہ لاؤں گا.زم شیخ صاحب نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وو میں نے پانچویں جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں چوہدری والا میں پائی.اس کے بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اور حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب کی زیر نگرانی بٹالہ کے اے.ایل.او.ای ہائی سکول میں آٹھویں تک تعلیم حاصل کرتا رہا.اس دوران میں حضرت والد صاحب کی تبدیلی موضع ناتھ پور متصل قادیان میں ہوگئی اور مجھے انہوں نے قادیان کے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرا دیا.میٹرک میں نے ۱۹۲۲ء میں پاس کیا.میٹرک کے بعد لاہور کے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا.مگر چند دن بعد ہی سول انجنئیر نگ کالج کراچی میں داخلہ مل گیا.وہاں دو سال کا کورس تھا.پاس کرنے کے بعد مقابلہ کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے سنٹرل گورنمنٹ سے ایگزیکٹو انجنئیر کے عہدہ سے مارچ ۱۹۵۹ء میں ریٹائر ہوا.ریٹائر ہونے کے بعد اپنا کام شروع کر دیا لیکن فوراً ہی اسٹیٹ بنک کراچی والوں نے بلالیا اور اسی دوران مغربی پاکستان گورنمنٹ نے ”الفلاح بلڈ نگ لاہور کی تعمیر کی نگرانی کے لئے بطور سپر نٹنڈنگ انجنئیر (ایس ای ) مقرر کیا.آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہاں سے ریٹائر ہو کر نون قیوم کمپنی میں بمشا ہر ہ./ ۲۰۰۰ روپیہ کام کر رہا ہوں.پنشن الگ ہے.اس دوران کراچی کا احمدیہ ہال بنوایا.دار الصدر کراچی میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی کوٹھی اپنی نگرانی میں تیار کروائی اور بھی سلسلہ کی عمارات میری نگرانی میں تیار ہوئیں.آج کل لاہور میں ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے حلقہ دارالذکر کا صدر ہوں اور زعیم اعلیٰ انصار اللہ لاہور ہوں.مرکز ربوہ میں بھی قریباً تمام اہم عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میں مشورہ کے لئے مجھے بلایا جاتا ہے اور میں اسے اپنے لئے باعث سعادت یقین کرتا ہوں.فالحمد للہ علی ذلک.“ اولاد: شیخ گلزار الحق صاحب.شیخ عبد الصمد صاحب.شیخ عبدالسمیع منصور احمد.ناصرہ بیگم گلشن آرا.انجم آرا.غزالہ

Page 396

395 محترم ملک برکت علی صاحب گجراتی ولادت: بیعت : غالباً ۱۸۹۷ء وفات محترم ملک برکت علی صاحب گجرات کے رہنے والے تھے.لاہور میں محکمہ نہر میں ملازم تھے.پیر جماعت علی شاہ صاحب کے مرید تھے.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے روحانیت میں ترقی حاصل کرنے کے لئے پیر صاحب سے وظیفہ دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ” تصور شیخ کرو مگر مجھے تصور شیخ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا.اس کے بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر ” جلسہ مذاہب عالم لا ہور پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں.اور میں نے قادیان جا کر بیعت کر لی.یہ غالباً ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے.ملک صاحب ایک لمبا عرصہ بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم رہے.بہت ہی مخلص احمدی تھے.تبلیغ کا بے حد شوق تھا.آپ کے صاحبزادہ مکرم و محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم کو بعد میں بہت ترقی کر گئے مگرا بتداء تبلیغ کا شوق انہیں اپنے باپ کے نمونہ کو دیکھ کر ہی پیدا ہوا تھا.بعد میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی صحبت نے چار چاند لگا دیئے اور خادم صاحب مرحوم کا شمار جماعت احمدیہ کے چوٹی کے مناظرین میں ہونے لگا حتی کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے انہیں "خالد" کے خطاب سے نوازا.ذلک فضل الله يؤيته من يشاء والله ذو الفضل العظيم.محترم ملک مبارک علی صاحب ولادت: وفات: محترم ملک مبارک علی صاحب محترم ملک محمد شریف صاحب سوداگر چوب کے صاحبزادے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بیعت کی.بہت ہی مخلص احمدی تھے.حضرت اقدس علیہ السلام جب لا ہور تشریف لاتے تو ملک صاحب موصوف سیر میں بھی اپنی گاڑی لے کر برابر ساتھ جاتے.تیسری بیوی سے اولاد ہوئی.اولاد

Page 397

396 حضرت شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی ولادت : ۱۸۸۰ء بیعت : ۱۹۰۰ ء وفات : ۲۷ - مئی ۱۹۵۱ء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے خاص دوستوں میں سے حاجی شیخ عبدالکریم صاحب سوداگر چرم بٹالوی تھے ان کے فرزند اکبر محترم شیخ عبدالرشید صاحب نے بالکل بچپن میں حضرت مسیح پاک کی بیعت کر لی تھی.گھر کے چھوٹے بڑے اور برادری کے لوگوں نے شدید مخالفت کی.خدا کے فضل سے شیخ صاحب موصوف نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ اخلاص میں دن بدن ترقی کرتے چلے گئے.ان کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالمجید صاحب کچھ واضح طور پر جماعت کا ساتھ نہ دیتے تھے البتہ ان کے چھوٹے بھائی شیخ عبد اللطیف صاحب جو آج کل مردان میں ہیں، ساتھ دیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے بیعت بھی کر لی تھی.شیخ عبدالرشید صاحب کے بڑے صاحبزادے عبدالقیوم خاں مرحوم بھی مخلص صحابی تھے.شیخ صاحب نے کچھ عرصہ لنڈا بازار لاہور میں مسجد شہید گنج کے عقب میں بوٹوں کی دکان بھی کی تھی.پھر کچھ عرصہ کے لئے بصرہ بغداد چلے گئے.تقسیم ملک کے بعد لکھ ضلع گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے.شیخ صاحب موصوف نہایت ہی مخلص احمدی تھے.بٹالہ میں احمدیت کا مرکز ان کا مکان ہی تھا.بہت خوش خلق، مہمان نواز اور سخی تھے.ساری عمر جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے.بٹالہ میں احمد یوں کے غیروں کے ساتھ متعدد مناظرے اور جلسے ہوئے.ان کا انتظام بھی حضرت شیخ صاحب کے ذمہ ہوتا تھا اور عموماً مہمان نوازی کے فرائض بھی شیخ صاحب ہی سرانجام دیا کرتے تھے.چونکہ محترم ڈاکٹر یعقوب خاں صاحب میوہسپتال لاہور میں ایکسرے ڈیپارٹمنٹ کے انچارج تھے اس لئے یہاں اکثر آپ کی آمد و رفت رہتی تھی.آخری بیماری کے وقت بھی لا ہور ہی تھے اور یہاں ہی وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.حلیہ : قد لمبا جسم بھاری مگر مستعد اور چست رنگ سانولا ڈاڑھی گھنی نہ زیادہ لمبی نہ چھوٹی لباس سادہ مگر صاف ستھرا پہنتے تھے.سلوار قمیص، واسکٹ کوٹ اور عمامہ استعمال فرمایا کرتے تھے.اولاد

Page 398

397 محترم حکیم جان محمد صاحب ولادت : ۱۸۸۱ء بیعت : ۱۸۹۳ء محترم حکیم جان محمد صاحب موضع بھوڈی ملیاں ( متصل گھٹیالیاں )ضلع سیالکوٹ کے باشندہ ہیں.بہت سادہ مزاج انسان ہیں.آج کل لاہور میں حکمت کی دکان کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ قادیان ہمارے گاؤں سے چالیس کوس ہے.پہلی مرتبہ جب میں قادیان گیا تو راستہ میں ایک رات نارووال میں گذاری دوسری دھر مکوٹ میں اور پھر تیسرے دن قادیان پہنچا.اس زمانہ میں مہمانوں کو کھانا مسجد مبارک میں کھلایا جاتا تھا اور حضرت اقدس شام سے کچھ پہلے سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.میں بھی ساتھ جایا کرتا تھا.خاکسار کے اس سوال پر کہ آپ نے بیعت کب کی ؟ فرمایا کہ پہلے روز ہی مغرب کی نماز کے بعد بعض اور دوستوں کے ساتھ مل کر بیعت کر لی تھی.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ان دنوں حضرت سید ناصر شاہ صاحب کشمیر سے رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے.ان کو ایک ملازم کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا.میری بیعت کے تھوڑا عرصہ بعد ہی سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگا تھا.فرمایا.میری بیوی میاں دین محمد عرف بگا کی لڑکی ہے.غلام فاطمہ نام ہے.اولاد: نذیر احمد.مظفر احمد.امۃ الحفیظ.امۃ النصیر.امۃ اللطیف محترم با بومحمد افضل خاں صاحب ولادت : ۱۸۸۰ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۲۸ - ستمبر ۱۹۶۰ء محترم ملک فضل الرحمن صاحب نے اپنے والد محترم با بومحمد افضل خاں صاحب کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ والد محترم بٹالہ ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے آپ نے ۱۹۰۳ء میں قادیان جا کر

Page 399

398 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی.آپ نے اپنی ساری ملازمت کا عرصہ وزیرستان میں گذارا.کلرک بھرتی ہوئے اور ریذیڈنٹ کے دفتر میں سپر نٹنڈنٹ ہو کر ریٹائر ہوئے.دوران ملازمت ایک احمدی تحصیلدار کی تبلیغ سے آپ پر صداقت آشکار ہوئی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب کلرک تھا تو سیکنڈ کلرک کی آسامی خالی ہوئی.میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.حضور کا جواب آیا کہ دعا کی گئی مگر وہ جگہ کسی اور کومل گئی.اس کے فورا بعد انگریز افسر ہیڈ کلرک سے ناراض ہو گیا اور اسے فارغ کر کے بجائے کسی سیکنڈ کلرک کو ہیڈ کلرک بنانے کے مجھے ہیڈ کلرک بنا دیا.ملازمت کے دوران آپ تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.تقسیم ملک کے بعد لاہور میں محلہ گڑھی شاہو میں سکونت اختیار کی اور ۱۹۶۰ء میں وفات پائی اور لا ہو رہی میں مدفون ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ مولانا عبدالمجید سالک مرحوم کے حقیقی چاتھے.اولاد : ملک فضل الرحمن صاحب.عطا الرحمن صاحب.اقبال بیگم لاہور کے پاک ممبروں کی تعیین 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے: لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں.ان کو اطلاع دی جائے....الخ غیر مبائعین حضرات اپنے لٹریچر میں اس الہام کو اپنی جماعت کا اکابر پر چسپاں کر کے ہمیشہ یہ شائع کرتے رہتے ہیں کہ جناب مولوی محمد علی صاحب جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب شیخ رحمت اللہ صاحب جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور جناب ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب وغیرہ.اس الہام کے مصداق ہیں.حالانکہ اگر سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو ان حضرات میں سے سوائے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویر ہاؤس کے اور کسی پر یہ الہام چسپاں نہیں ہوتا اور اس کی تفصیل یوں ہے کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دسمبر ۱۹۰۰ ء کے دوسرے ہفتہ میں ہوا تھا.اب دیکھنا یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء میں جماعت احمدیہ کے کون کون سے ممبر لاہور میں موجود تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۸ - اگست ۱۹۰۰ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس کا عنوان ہے ” پیر مہر علی شاہ

Page 400

399 صاحب کے توجہ دلانے کے لئے آخری حیلہ اس میں حضور لکھتے ہیں : لا ہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ ہیں آدمی ہو نگے کے آئیے ! اب ہم ان میں افراد کی تعیین کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین حصہ سوم“ میں جو ۱۹۰۰ء کی تصنیف ہے لکھا ہے: واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضعدار نہر نے اپنے نافہم اور غلط کا رمولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لاہور جس میں مرزا خدا بخش صاحب مصاحب نواب محمد علی خاں اور میاں معراج دین صاحب لاہوری اور مفتی محمد صادق صاحب اور صوفی محمد علی صاحب کلرک اور میاں چٹو صاحب لاہور اور خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہوری اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم اور حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حکیم محمد حسین صاحب تا جر مر ہم عیسی اور میاں چراغ دین صاحب کلرک اور مولوی یار محمد صاحب موجود تھے.“ ان احباب میں سے مندرجہ ذیل احباب لاہور میں باہر سے تشریف لائے ہوئے تھے.(۱) مرزا خدا بخش صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کے ملازم تھے.کسی کام کی غرض سے لا ہور آئے ہوئے تھے.(۲) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب بھی اپنے کسی کام کے لئے لا ہور تشریف لائے تھے.(۳) حضرت مولوی یا ر محمد صاحب کی سکونت بھی لاہور میں نہیں تھی.کسی کام کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے.باقی سارے احباب ان ایام میں لاہور میں رہتے تھے.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا قیام بھی ان دنوں بوجہ ملازمت دفتر ا کونٹنٹ جنرل لاہور میں تھا.پھر حضور علیہ السلام کی طرف سے احباب لاہور کی ایک فہرست شائع ہوئی جس میں اوپر کے سات افراد کے علاوہ مندرجہ ذیل پانچ افراد کے نام لکھے ہیں: شیخ رحمت اللہ صاحب، سید فضل شاہ صاحب، منشی تاج الدین صاحب، حکیم نور محمد صاحب، حکیم فضل الہی صاحب 2 واضح رہے کہ اس فہرست میں بیشک مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر

Page 401

400 مرزا یعقوب بیگ صاحب کے اسماء بھی درج ہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے نام کے آگے قادیان لکھا ہے کیونکہ مولوی صاحب ان ایام میں قادیان میں رہا کرتے تھے اور خواجہ صاحب پشاور میں وکالت کرتے تھے اس لئے ان کے نام کے ساتھ پشاور لکھا ہے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب فاضل کا میں بوجہ ملا زمت مقیم تھے اس لئے ان کے نام کے آگے فاضل کا لکھا ہے.پس یہ تینوں اصحاب چونکہ ان دنوں لاہور میں مقیم نہیں تھے اس لئے ان کا شمار لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں“ والے پاک ممبروں میں نہیں ہوسکتا.اوپر کے بارہ افراد کے علاوہ سات افراد اور ہیں جن کے نام حضرت اقدس نے اپنی کتاب میں درج فرمائے ہیں.اور وہ ۱۹۰۰ ء میں بھی لاہور میں موجود تھے.بیشک بعض اور افراد کے نام کے ساتھ بھی حضور نے اپنی کتب میں لاہور لکھا ہے مگر یا تو دن ۱۹۰ ء سے قبل وفات پاچکے تھے یا لا ہور سے کہیں باہر چلے گئے تھے.بہر حال ۱۹۰۰ء میں لاہور میں موجود افراد کے نام یہ ہیں : ا.میاں عبدالعزیز ش صاحب نمبر ۴۲۵۱ ۲.شیخ نبی بخش ملے صاحب لاہور نمبر ۳٬۷۳.حافظ فضل احمد المصاحب لاہور ۴.مولوی غلام حسین المصاحب لاہور نمبر ۱۳۳ ( گمٹی والے ) ۵ منشی مولا بخش ۱۳ صاحب کلرک لاہور نمبر ۶۲۱۶ - کرم الہی کے صاحب کمپوزیٹر لا ہور نمبر ۷٬۲۹۰.میاں عبدالسبحان ۱۵ صاحب لاہور نمبر ۲۷۸ اوپر کے بارہ اصحاب کے ساتھ اگر ان سات افراد کو شامل کر لیا جائے تو یہ کل انہیں افراد بنتے ہیں جو ۱۹۰۰ء میں جب یہ الہام ہوا کہ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں“ لاہور میں موجود تھے.البتہ ایک اور بزرگ جن کا نام حضور نے روئداد جلسہ طاعون“ کے عنوان کے ماتحت الانذار‘ میں درج فرمایا ہے میاں فیروز الدین صاحب متبنی میاں محمد سلطان صاحب مرحوم رئیس لا ہور تھے.یہ صاحب بھی ۱۹۰۰ ء میں زندہ موجود تھے اور جماعت لاہور کے ممبر تھے.اس طرح حضور نے جو فر مایا کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ ہیں آدمی سے زیادہ نہیں ہیں، بالکل صحیح ثابت ہوتا ہے.مندرجہ بالا میں لاہوری اصحاب میں سے صرف مندرجہ ذیل تین افراد ایسے ہیں جو خلافت ثانیہ کی ابتداء میں غیر مبائعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.ا.خلیفہ رجب دین صاحب تاجر -۲.شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویر ہاؤس اور ۳.حکیم

Page 402

401 نور محمد صاحب ہمدم صحت والے دندان ساز.ان میں سے بھی جناب شیخ رحمت اللہ صاحب با وجود غیر مبائع ہونے کے عمر بھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخلصانہ تعلقات رکھتے رہے.بہر حال ان تین افراد کو اگر غیر مبائعین پاک ممبروں میں شمار کرنا چاہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی رو سے شامل کر سکتے ہیں باقی اکابر کو شامل نہیں کر سکتے.جناب مولوی محمد علی صاحب تو جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ۱۹۰۰ء میں قادیان میں تھے.جناب خواجہ کمال الدین صاحب پشاور میں اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب فاضل کا میں تھے.باقی رہ گئے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب یہ ۱۹۰۳ء میں احمدی ہوئے ہیں.لہذا یہ بھی پاک ممبروں میں شامل نہیں ہو سکتے.جب یہ حقائق ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ غیر مبائعین اپنے اکابر کو کس بناء پر’ لاہور کے پاک ممبران میں شامل کرتے ہیں؟ لاہور کے ان اصحاب کی فہرست جو ۳۱۳ میں شامل تھے (مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم ) ا.ڈاکٹر مرزا یعقوبیگ صاحب کلانوری نمبر ۴۰ ( ان دنوں میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے ) ۲.مرزا ایوب بیگ صاحب مع اہل بیت کلانوری نمبر ۴۱ ( ان دنوں لاہور میں ہی تھے ) ۳- حکیم مرزا خدا بخش صاحب جھنگی نمبر ۴۲ ( یہ بھی ان دنوں لاہور میں ملازم تھے ) ۴.خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے معہ اہل بیت نمبر ۶۴ (ان دنوں ابھی وکالت پاس نہیں کی تھی ) ۵ - مفتی محمد صادق صاحب نمبر ۶۵ ( آپ ان دنوں لاہور میں ملازم تھے ) منشی محمد افضل صاحب نمبر ۶۷ ے.بابو تاج الدین صاحب اکو نٹنٹ نمبر اے - شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر نمبر ۷۲ ۹.شیخ نبی بخش صاحب نمبر ۷۳ ۱۰.میاں معراج الدین صاحب عمر نمبر ۷۴

Page 403

402 ۱۱.حافظ فضل احمد صاحب ۸۹ ۱۲.خلیفہ رجب دین صاحب تا جر نمبر ۱۱۲ ۱۳.مولوی رحیم اللہ صاحب نمبر ۱۳۲ (امام مسجد لنگے منڈی) ۱۴.مولوی غلام حسین صاحب نمبر ۱۳۳ (امام مسجد گئی ) ۱۵.میاں غلام محمد صاحب طالب علم نمبر ۱۴۹ ( یہ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس ہیں ) ۱۶.ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب نمبر ۱۶۰ ( قصوری ) ۱۷.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نمبر ۱۶۱ ۱۸.غلام محی الدین خاں صاحب نمبر ۱۶۲ ( قصوری ) ( ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب کےلڑ کے ) ۱۹.مولوی حکیم نوراحمد موکل نمبر ۱۶۸ ۲۰.میاں کرم الہی صاحب ۱۷۹ ۲۱.حکیم فضل الہی صاحب نمبر ۲۱۰ ۲۲.شیخ عبداللہ دیوانچند صاحب کمپونڈ رنمبر ۲۱ ( قادیان میں ڈاکٹر عبد اللہ کے نام سے مشہور تھے ) ۲۳ منشی محمد علی صاحب نمبر ۲۱۲ ( بعد ازاں صوفی محمد علی صاحب کے نام سے مشہور ہوئے ) ۲۴ منشی امام الدین صاحب کلرک نمبر ۲۱۳ ۲۵ منشی عبدالرحمن صاحب کلرک نمبر ۲۱۴ ۲۶.خواجہ جمال الدین صاحب بی.اے نمبر ۲۱۵ ۲۷ منشی مولا بخش صاحب کلرک نمبر ۲۱۶ ( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے چچا ) ۲۸.سید فضل شاہ صاحب نمبر ۲۳۹ ۲۹ - حکیم محمد حسین صاحب نمبر ۱ ۲۷ ( بعد میں مرہم عیسی کے نام سے مشہور ہوئے ) ۳۰.میاں عبدالسبحان صاحب نمبر ۲۷۸ ۳۱.عبداللہ صاحب قرآنی نمبر ۲۸۹ ۳۲ کرم الہی صاحب کمپوزیٹر نمبر ۲۹۰ ( صوفی کرم الہی صاحب مراد ہیں )

Page 404

403 محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ولادت: ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۹۰۷ء ( نوٹ : کتاب کی کتابت مکمل ہو چکی تھی کہ محترم شیخ صاحب کے حالات موصول ہوئے.مجبوراً یہاں آخر میں درج کئے جا رہے ہیں.مؤلف ) محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کے والد محترم کا نام شیخ علی بخش صاحب تھا.آپ نے میٹرک پاس کر کے ۱۹۰۴ء میں آبزرور پریس لاہور میں ملازمت شروع کی.وہاں ہی حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب نے آپ کو تبلیغ کے دوران میں ریویو کا ایک مضمون دکھایا جو آپ کو بہت پسند آیا.آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں چھٹی لکھی جس کے جواب میں حضور نے آپ کو شروع سے لے کر اس وقت تک کے تمام پرچے بھجوا دیے جن کی بعد ازاں آپ نے قیمت بھی ادا کر دی.اس زمانہ میں آپ حضور کی خدمت میں لکھا کرتے تھے کہ ”حضور دعا فرمائیں.میرا دل اس دنیا اگست ۱۹۰۷ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کا شرف حاصل ہوا.فالحمد لله على ذلك.اولاد: ملک محمد احمد.ملک مبارک احمد.ملک لطیف احمد.ملک رشید احمد.ملک لئیق احمد طاہر اور چارلڑکیاں.درج ذیل اصحاب مسیح موعود علیہ السلام کے حالات بھی بعد موصول ہوئے ہیں حضرت میاں نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ ولادت: ۱۸۶۸ء بیعت : ۱۸۹۵ء وفات : ۱۹۳۰ء نہ لگے حضرت میاں نظام الدین صاحب حضرت میاں چراغ الدین صاحب رئیس لاہور کے خالہ زاد بھائی اور داماد تھے.والدہ حضرت میاں چراغ الدین صاحب اور والدہ حضرت میاں نظام الدین صاحب دونوں بہنیں حضرت سید نادر شاہ صاحب سکنہ شاہ مسکین کی ہمشیرگان تھیں.حضرت میاں نظام الدین صاحب کا تمام خاندان غیر احمدی تھا.ان کی ہدایت کا ذریعہ ان کی اہلیہ صاحبہ بن گئیں جن کا نام فاطمہ بیگم تھا اور صحا بہیہ بھی تھیں.حضرت میاں نظام الدین صاحب کی والدہ زیب النساء اور اہلیہ دونوں کی وفات 1919ء میں ہوئی.اور خود حضرت میاں صاحب مرحوم ۱۹۳۰ء میں فوت ہوۓ.انا الله وانا اليه راجعون.

Page 405

404 آپ کے والد محترم کا نام حضرت میاں شہاب الدین تھا.جنہوں نے آپ کی تبلیغ سے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور بیعت کے تھوڑا عرصہ بعد انتقال فرمایا.انا لله و انا اليه راجعون.اولاد : ( پہلی بیوی سے ) ا.میاں عبدالرحمن ریٹائر ڈ ڈائر یکٹر سپلائی اینڈ ڈویلپمنٹ (ولادت ۱۸۹۸ء) ۲.میاں عبد الغنی الیکٹریکل انجنیر (ولادت ۱۹۰۰ء) ۳.میاں عبد الکریم مرحوم کو اپریٹوسٹور آفیسر ریلوے ( ولادت ۱۹۰۳ ء وفات ۱۹۵۶ء).ڈاکٹر عبدالحمید ریٹائر ڈ چیف میڈیکل آفیسر ریلوے ( ولادت ۱۹۰۵ء) ۵.محترمہ زینب حسن اہلیہ ڈاکٹر حسن احمد جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ لاہور محترمہ مبارک بیگم مرحومه زوجه سید یار محمد صاحب ( دوسری بیگم سے ) ا.میاں مبارک احمد ( ولادت ۱۹۲۴ ء ) حضرت حکیم مولوی اللہ بخش خاں صاحب رضی اللہ ع کی زندگی کا ایک ورق از قلم محترم ثاقب صاحب زیر وی مدیر ہفتہ وار لا ہور) ولادت : فروری ۱۸۷۷ء بیعت : اپریل ۱۹۰۵ء وفات : ۱۲.مارچ ۱۹۶۳ء اللہ بخش ! بس !! اس سے آگے میں حضرت مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتا.مجھے تم سے بیٹوں کی طرح محبت تھی جو میں اب تک چپ رہا.ور نہ یہ دیکھو تیری باتوں سے میرے سارے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں.مسجد والے میرے رازق نہیں ہیں.اگر انہوں نے کوئی الزام لگا کر مجھے یہاں سے نکال دیا.پھر ؟ بس ! الله واحد فى السماء وانا واحد فی الزيرۃ.تم دیکھ لو گے میرا خدا مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا.“ یہ تھے زیرہ ضلع فیروز پور میں احمدیت کی تخم ریزی کرنے والے جیڈ گروہ کے سرخیل

Page 406

405 حضرت مولا نا مولوی علی محمد صاحب کے وہ الفاظ جنہوں نے حضرت ابا جان ( حکیم مولوی اللہ بخش خان) کے فکر ونظر کے تمام زاوئیے ہی بدل ڈالے اور وہ شخص جو دن رات اپنے استاد ( حضرت مولوی علی محمد صاحب ) یہ کہا کرتا تھا: مولوی صاحب آپ کس جماعت کے پیچھے لگ گئے ہیں.جس کو قدم قدم پر گالیاں ملتی ہیں اور جس کے افراد کے ہر روز منہ سیاہ کئے جاتے ہیں.ماشاء اللہ آپ کا سارے علاقے ہی میں بڑا وقار ہے.مسجد سے معقول آمد ہے.ہم ایسے زمینداروں کے لڑکے آپ سے علم حاصل کرنا برکت اور سعادت خیال کرتے ہیں.دور دور تک آپ کا علمی دبدبہ ہے.آپ کو نہ جانے اس کتاب میں کیا نظر آ گیا ہے کہ آپ یکسر گداز ہی ہو گئے ہیں.“ اب وہی سنجیدگی کے ساتھ اپنے استاد مکرم کی اس تبدیلی عقیدہ پر غور کرنے لگا تھا اور اس کے دل میں احمدیت کے لئے تجنس و تحقیق کے لئے سچی تڑپ پیدا ہو گئی تھی.اس مبارک و مسعود تخم ریزی کی اصل داستاں مختصر یوں ہے کہ ضلع جالندھر کے ایک صحابی میاں جھنڈا دو ایک جمعوں پر حضرت مولوی صاحب کو مسیح موعود کے ظہور پر نور کا مزہ دہ سنانے آئے مگر دونوں دفعہ ان کے حکم پر مسجد سے دکھے دے کر نکال دیئے گئے.حتی کہ وہ ایک دن حضرت مسیح موعود کے تیر بہدف نسخہ تزکیہ نفس ” آئینہ کمالات اسلام سے لیس ہو کر آدھمکے اور ایسی شست باندھ کر کمان سے تیر چھوڑا کہ عین سینے پر لگ کر آر پار ہو گیا اور حضرت مولانا گھائل ہو گئے اور اپنے سینے سے ٹکرا کر دامن میں آ کر گرنے والی اس کتاب کے چند ہی صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد بے ساختہ پکارا تھے: دہم تو اب تک اس شخص کو صرف فیضی زماں ہی سمجھتے رہے یہ تو امام زماں نکلا.اللہ بخش ! اسی وقت جاؤ اور مسجد کے مدارالمہام سے کہہ آؤ کہ اپنی مسجد کے لئے کسی نئے خطیب و پیش امام کا انتظام کرلیں.دیران مسجد کی آبادی اور چند دنوں کے بعد گوجروں کے نمبردار سے ان کی ویران مسجد کو آباد کرنے کی

Page 407

406 اجازت لے کر دونوں شاگرد استاد کھر پے لئے صحن مسجد کو گھانس پھونس سے صاف کرنے میں جت گئے اور یوں بیعت سے بھی پہلے حضرت مولا نا اور ان کے بیسیوں ارادتمند علیحدہ نماز ادا کرنے لگے جس کے کچھ دنوں بعد مولانا نے حضرت ابا جان کو حضرت مسیح موعود کی صداقت کے بارے میں اپنے رب سے استخارہ کر کے رہنمائی حاصل کرنے کی تقلین فرمائی.جس کے نتیجے میں آپ نے ایک ایسا واضح، واشگاف اور پُر انوار خواب دیکھا کہ دامن مسیح سے وابستہ ہو جانے میں کوئی انقباض نہ رہا.اس خواب میں حضرت معاذ بن جبل نے آپ سے مل کر حضرت مولوی صاحب کا پتہ پوچھا اور سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی علی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زیرہ میں ورود مسعود اور پڑاؤ نامی میدان میں بیعت لینے اور بڑے چوک میں جھنڈا گاڑ نے کا مژدہ سنایا.اتنے میں دو (اس سے بھی خوبصورت ) گھوڑوں پر دونوں متذکرہ برگزیدہ ہستیوں کی سواریاں آگئیں.ابا جان نے آگے بڑھ کر آقائے دو جہان علیہ کے گھوڑے کے ایال پکڑ کر بوسہ دیا.حضور نے بھی حضرت مولوی صاحب کے متعلق دریافت فرمایا.پھر پڑاؤ میں بیعت ہوئی اور بڑے چوک میں حضور پر نور ﷺ نے خوش بخت سامعین کو اپنے ارشادات مقدسہ سے نوازا.حضرت ابا جان یہ خواب (جس کے اچٹتے سے کوائف ہی میں نے یہاں بیان کئے ہیں ) ہر دوسرے تیسرے ہفتے بڑے ہی مزے لے لے کر ہم سب کو سنایا کرتے تھے.اس آفتاب عالمتاب کا جلوہ دیکھ لینے اور حضور کی زبان معجز بیان سے مسیح موعود کی تائید وصداقت سن لینے کے بعد تو اشتباہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی تھی.چنانچہ حضرت ابا جان کامل انشراح صدر کے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے حضرت مولوی صاحب سے تعاون کرنے لگے.اور مغرب و عشاء کے درمیان اور عشاء کے بعد روزانہ مسجد میں تبلیغی مجالس جمنے لگیں جن میں بعض اوقات حضرت مولوی صاحب اگر رات کے وقت وعظ ونصائح شروع فرماتے تو سپیدی سحر نمودار ہو جاتی.اب زیرہ میں چرچا تھا تو احمدیت کا.مخالفت تھی تو احمدیت کی اور دلوں میں ڈبل اتھی تو احمدیت کے لئے جس نے حضرت مولوی علی محمد صاحب ایسے جید عالم کو بھی ” حلقہ بگوش‘ بنا

Page 408

407 لیا تھا.کہ ایک دن تحصیل میں چپڑاسیوں کے نام حضرت منشی کا کو خاں آئے اور بھری مجلس میں حضرت مولوی صاحب سے بڑے در دو اعتماد کے ساتھ مخاطب ہوئے: مولوی صاحب کیا واقعی حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں.کیا آپ اپنے رب کی قسم کھا کر مرزا صاحب کے اس دعوے کی تصدیق کر سکتے ہیں.حضرت مولوی صاحب اس وقت کلام پاک کا وعظ فرما رہے تھے فوراً دائیں ہاتھ میں اسی کتاب مقدسہ کو بلند کرتے ہوئے فرمایا: کا کو خاں! قسم ہے مجھے اس خدائے واحد کی جس نے یہ زمین و آسمان بنائے ہیں اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ قرآن تو حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ ہی ثابت کرتا ہے اور حضرت مرزا صاحب اپنے تمام دعاوی میں صادق ہیں.یہ سنتے ہی منشی کا کو خاں چھلک پڑے اور بڑے مسرت آفریں لہجے میں بولے : بھائیو! میں تو پھر کل قادیان جا رہا ہوں.بولو میرے ساتھ اور کون کون چلتا ہے قادیان کو روانگی اس پر حضرت ابا جان اور حاجی محمد دین صاحب کمبوہ نے معیت سفر کی حامی بھری اور احمدیت کے تین عاشقوں کا یہ قافلہ اپنے نادیدہ محبوب کی زیارت کے لئے ۱۹۰۵ ء والے زلزلے کے دوسرے دن تخت گاہ مسیح زماں ( قادیان دارالامان ) کی طرف روانہ ہو گیا.قادیان پہنچے تو شوق میں ن آنکھوں سے امڈا امڈا پڑتا تھا.ہر بزرگ چہر وہی جھلک تھی.ہر روئے روشن میں وہی نور اور سرور دکھائی دیتا تھا.حضرت منشی کا کوخان اسی لگن میں ہر بزرگ چہرے کو دیکھ کر لپکتے اور پوچھتے.کیا آپ امام مہدی ہیں؟ جواب ملتا.نہیں بھائی میں تو ان کی خاک پا بھی نہیں، خدا کا مسیح تو اندر قلمی جہاد میں مصروف ہے.یہاں تک کہ حقیقی امام مہدی مسجد مبارک میں طلوع ہوئے اور ابھی دروازے سے نکل کر دو قدم بھی نہ چلنے پائے تھے کہ حضرت منشی کا کو خان نے بڑھ کر عرض کیا.حضور ہماری بیعت لے لیجئے اس التجا میں نہ جانے کس قدر اعتماد تھا کہ حضور نے بھی اپنی عادت اور معمول کے خلاف

Page 409

408 کسی مزید تجسس اور تحقیق کی تلقین نہ فرمائی اور وہیں بیٹھ کر اپنے عشاق کے ہاتھ اپنے مبارک ہاتھوں میں لیکر بیعت کے پُر ہدایت الفاظ دہرا دئیے.دل مسرت ایمان سے چھلک اٹھے.آنکھیں خمار نورمحمدی سے ابل پڑیں.ایسی کہ ابا جان کو اپنے مشفق استاد کا تحریری بیعت والا رقعہ بھی پیش کرنا یاد نہ رہا.لیکن جونہی وہ حبیب لبیب علیہ السلام نگاہوں سے اوجھل ہوا یہ ایمان افروز نظارہ بدلا.حضرت ابا جان کو اس احساس ادائیگی فرض نے جھنجوڑ ، فوراً اٹھے اور دروازے پر پھر جا کر دستک دی.خادم باہر آیا.عرض کی.حضرت صاحب تک یہ التجا پہنچاؤ کہ ایک لمحے کے لئے باہر تشریف لے آئیں ایک پیغام دینا ہے خادم اندر سے جواب لایا کہ پیغام اسی کو دے دیا جائے دوبارہ التجا کی پیغام تحریری ہے اور اس کے متعلق تاکید ہے حضور ہی کے ہاتھوں میں دیا جائے اللہ رے عشق کے ناز و نیاز ایک ملاقات ہی میں نصیب عشق آسمانوں پر جا پہنچا.حضور باہر تشریف لائے.سر پر عمامہ نہ تھا.ایک قدم صحن مسجد میں تھا تو ایک باہر.حضرت ابا جان نے تحریری بیعت والا رقعہ پیش کیا.حضور نے مطالعہ کے بعد خفیف سے ابتسام کے ساتھ فرمایا: مولوی صاحب سے کہیں کہ اب وہ غزنوی باغ کے بجائے احمدی باغ کی بلبل ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں زیرہ میں بہت جلد ایک مضبوط اور مخلص جماعت دے گا.“ اور زیرہ کا ہر محلہ ہر گلی بلکہ اس کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے مسیح کے ارشاد کے طفیل واقعی ایک مضبوط اور مخلص و با اثر جماعت عطا فرمائی جس کی وہاں ایک اپنی خوبصورت مسجد تھی.اپنی عید گاہ تھی جس میں ہر طبقے درجے اور سلیقے کے افراد شامل تھے اور قصبے کی میونسپلٹی کے تین مسلمان ممبروں میں سے اکثر دو ممبر انہی ساٹھ گھروں والی جماعت کے ہوتے تھے.میں کن الفاظ میں اس انداز کو بیان کروں کہ حضرت ابا جان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حضرت مولوی صاحب والا رقعہ پیش کرنے کا یہ واقعہ بار بار کیسی لذت اور سرور کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے.پھر اس پاکیزہ مشاہدہ پر یہ اظہار مسرت بہجت کہ ان آنکھوں نے اپنے آقا و مولا کو ننگے سر ( بغیر عمامہ کے ) بھی دیکھا ہے

Page 410

409 اور یہ بھی کہ جب ہم قادیان سے لوٹے تو تاثیر و تاثر کا یہ عالم تھا کہ بس جس سے بھی ذکر چھڑا گھائل ہو گیا.شاگر درشید کی لگن حضرت مولوی صاحب کو لمبی عمر نصیب نہ ہوئی لیکن وہ اپنے فیض تربیت سے اپنے شاگر درشید کے قلب و ذہن میں احمدیت کے ساتھ ایسا عشق اور والہیت بھر گئے کہ احمدیت نقش.ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن کر رہ گئی اور اس سے کو ہی زندگی کا سب سے بڑا مطمح نظر ہو کر رہ گیا.اس پر چند سال بعد حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی صحبت با برکت کا فقر آفریں تاثر و مجھے یاد نہیں کہ زندگی میں ان سے کسی شخص نے کسی موضوع پر کوئی بات کی ہو اور آپ نے تیسرے یا چوتھے فقرے ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت خلیفہ المسیح الاوّل یا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایمان افروز ذکر نہ چھیڑ دیا ہو اور یہ یقیناً اسی تڑپ کا انعام اور حاصل ہے کہ قصبہ زیرہ کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دریا کے کنارے پر واقعہ زیرہ، فیروز پور اور قصور کے درجنوں دیہات میں آپ کے ہاتھ سے احمدیت کی تخم ریزی کرائی اور وہاں مخلص جماعتیں قائم ہوئیں اور آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود کے مقدس مشن کی اشاعت وتبلیغ کی لگن زندگی کا مقصد وحید بن کر جاگزیں ہوگئی.سادہ انداز تبلیغ حضرت ابا جان کا انداز تبلیغ آپ کے مزاج اور لباس کی طرح نہایت سادہ پر سوز اور درد آفریں ہوتا تھا.وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے مختلف امراض کے لئے ادویہ کا ایک صندوقچہ بھر کر تبلیغی دورہ کے لئے نکل کھڑے ہوتے اور قریہ بہ قریۂ دیہہ بہ دیہہ پھر کر بیمار انسانیت کی خدمت بھی بجالاتے اور ساتھ کے ساتھ تشنہ روحانیت دنیا تک امام الزمان کے ظہور پُر نور کا مژدہ جاں فزا بھی پہنچاتے.لوگوں کو قرآن کریم پڑھاتے.اس کا ترجمہ وتفسیر ذہن نشین کراتے احادیث نبوی کا درس دیتے اور یوں آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر دلوں میں دین کی چنگاری بھی سلگاتے چلے جاتے.تبلیغ کے لئے آپ کا انتخاب بھی عام طور پر

Page 411

410 انوکھا سادہ اور دوسروں سے مختلف ہوتا تھا.آپ تبلیغ کے لئے عام طور پر ایسی روحیں اور دل چنتے جن پر دوسروں کی نگاہ کم از کم پڑتی ہو اور جو دنیا والوں کی نگاہ میں بڑے کم مایہ اور معمولی ہوتے مگر احمدیت کی جلاء پاتے ہی یہ ذرے ایسے آفتاب بنتے کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہو جاتیں.اسی طرح کے دو ایک چکروں کے بعد نومبر کی پہلی یا دوسری تاریخ ہی کو گھر سے نکل کھڑے ہوتے.سال کے اس آخری دورے میں زیر تبلیغ دلوں کے روحانی استحکام کا جائزہ لیتے.ان کے ذہنوں کے اشکال و شبہات کھنگالتے انہیں دور کرتے.جلسہ سالانہ کی برکات ذہن نشین کراتے.اسلام کی اجتماعتی شان وشوکت کا نظارہ کھینچتے اور یوں پھرتے پھراتے جب ہفتوں کی مسافت کے بعد دار الامان پہنچتے تو ان کے ساتھ ہر سال پندرہ ہیں تازہ واردان کا قافلہ ہوتا جن میں سے اگر آٹھ دس بیعت کر جاتے تو باقی آئندہ سالوں کے لئے پوری طرح تیار ہو جاتے اور ان کے دل احمدیت کے متعلق خوش ظنیوں سے بھر جاتے اور یوں ہر سال چراغ سے چراغ جلتا چلا جاتا.گھر میں (بشمول حضرت والدہ محترمہ مدظلہا ) سب کو قرآن کریم کا ترجمہ آپ نے خود پڑھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض اہم کتب کا مطالعہ سبقاً سبقاً کروایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اُردو عربی اور فارسی کلام آپ کو کم و بیش تین چوتھائی از بر تھا.بلکہ حضور کی اُردو در مشین کی دو تہائی نظمیں تو ہم تینوں بھائیوں کو جن میں سے مجھے سے بڑے محمد اقبال جو احمدیت کے فدائی تھے اور ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء کو اللہ کو پیارے ہوئے میٹرک پاس کرنے سے قبل ہی از برتھیں.اور حضور کے عربی قصیدہ الہامیہ کا شب وروز وردتو حضرت ابا جان کا معمول تھا.میرے چھوٹے بھائی محمد بشیر سلمہ نے چوتھی جماعت ہی میں قرآن کریم حفظ کرنا شروع کر دیا تھا.ان کی قرآت میں جاذبیت ہے.اس لئے ہمارے قصبے کے بیشتر جلسے عموماً گھر کے افراد ہی سے ہو جایا کرتے.عزیزم محمد بشیر سلمہ تلاوت کرتے.میں نظم پڑھتا اور حضرت ابا جان تقریر فرما دیتے.سبحان اللہ.کیسی خوشگوار ہیں یہ یادیں اور کس قدر ایمان افروز ہے یہ ذکر جس سے زندگی اب تمام عمر کسب سکون و طمانیت کرے گی.......بھلا اب

Page 412

411 یہ سر تا پا تو کل و تبلیغ ہستیاں اور احمدیت کی چلتی پھرتی تصویر میں کہاں؟ درولیش باپ آپ کو شاید یہ سن کر حیرانی ہو کہ علم دین میں ایسا شغف درک اور دسترس رکھنے والا میرا درویش باپ دنیا کے معاملات میں ایسا بے نیاز اور بے پروا تھا کہ ایک روپے کی ریز گاری گنتے ہوئے بھی غلطی کھا جاتا تھا.بازار والے اسے جیسا چاہتے سڑا بسا سودا دے دیتے وہ لے آتا.جتنے پیسے لوٹاتے لے کر گھر چلا آتا.مجھے خوب یاد ہے ایک دفعہ جب دو چار دن مسلسل گھر میں اسی قسم کا ذکر سننے میں آیا تو ایک دن میرے چھوٹے بھائی محمد بشیر سلمہ نے دریافت کیا.ابا جان ! عام زندگی میں تو آپ اچھے اور برے آلوؤں میں بھی پہچان نہیں کر سکتے آپ نے وقت کے امام کو کیسے پہچان لیا تھا.“ تو آپ نے اسے اپنے روایتی تقسیم کے بعد فرمایا: 'بیٹا وہ تو چہرہ ہی ایسا کھلی اور پاکیزہ کتاب کی طرح تھا کہ اس پر نگاہ ڈالتے ہی دل کے تمام شکوک وشبہات دور ہو جاتے اور ذہن کی تمام گر ہیں کھل جاتی تھیں اور یہ کہتے ہوئے حلق رندھ گیا.آنکھیں ڈبڈبا اٹھیں اور ماحول پر ایک ایمان افروز تاثر حاوی ہو گیا.جو مل جا تا شکر ایزد کے ساتھ کھا لیتے، جو میسر آ جا تا الحمد للہ کہہ کر پہن لیتے اور یہ یقیناً اس تشکر و توکل ہی کا کرشمہ ہے کہ محدود آمدنیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہم سب کی سفید پوشی کا نیک بھرم قائم رکھا.سلسلہ کی تمام اہم مالیاتی تحریکوں میں حسب خواہش حصہ لینے کی توفیق سے نوازا.اور آج تک بھی کسی ایسی ضرورت اور احتیاج میں مبتلا نہیں کیا جو عزت نفس کے مجروع ہونے کے بعد پوری ہونے والی ہو.الحمد للہ ! اور یہ اسی بلند و برتر کا فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت اور حضرت ابا جان کی کوششوں اور دعاؤں کے طفیل (بحمد للہ) گھر کے تمام افراد ایک دوسرے سے بڑھ کر اسلام حمدیت سے دعوی شیفتگی رکھنے والے ہیں اور اسی نور کو سرمایہ حیات گردانتے ہیں (اللهم زد

Page 413

412 فزد) میرا خدا اس نعمت کو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے بھی مختص اور دائمی کر دے.آمین صحت کا انحطاط ۱۹۴۷ء میں جہاں دوسرے زخم لگے حضرت ابا جان سے اپنا مخصوص حلقہ تبلیغ بھی چھٹ گیا.اس پر دوسر استم یہ ہوا کہ ان کا درویش مزاج ادھر کی افراتفریوں میں ایک لحظہ کے لئے بھی نہ کھپ سکا.طبیعت کا یہی ملال اور گھٹن ۱۹۵۵ء کے اواخر میں انحطاط صحت کی صورت میں نمودار ہونے شروع ہوئے.ذیا بیطس صحت کی چمک دمک کو دیمک بن کر چپک گئی اور رفتہ رفتہ قدرعنا کی ہر جولانی کو چاٹ گئی.لیکن دینی معلومات میں اب بھی کوئی کمی نہ تھی.اور ہم بھی دنیا و مافیہا سے بے نیاز ان کی مضبوط اور بابرکت دعاؤں کی ڈھال کے سہارے زندگی کے معمولات و مشاغل کو حسب سابق نباہتے چلے جا رہے تھے کہ دسمبر ۱۹۶۲ء میں ان مستقل عارضوں میں ذات الجنب کا اضافہ ہو گیا جس کے باعث میں بمشکل ۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ میں صرف ایک دن کے لئے حاضری دے سکا اور عزیزی محمد بشیر سلمہ کو ان کی خدمت میں رہنے کے باعث پورے جلسے ہی کی قربانی دینی پڑی.یہ پہلا رمضان تھا کہ آپ نقاہت واضحاط صحت کے باعث روزے نہ رکھ سکے.لہذا فدیہ ادا کیا گیا اور اب تو چند ہفتوں سے گفتگو کا بھی یہ رنگ اور انداز تھا کہ اس سے فراق دائگی کی کرب آفریں پیش خبریاں صاف پڑھی جا سکتی تھیں.یہاں تک کہ ۲۱.مارچ ۱۹۶۳ء کو اپنی رہائش گاہ ۳۰ ٹیمپل روڈ لاہور میں علی اصبح ( تہجد کے وقت ) تین بجگر پچیس منٹ پر حضرت مسیح موعود کا یہ وارفتہ و شیفتہ خادم ہمیں ملال ویاس میں گم سم چھوڑ کر اپنے حبیب و مقتدا کی جانب پرواز کر گیا.وہ درویش و محبوب باپ جس نے تمام عمر اپنے بیٹوں کے لئے اپنے سے بھی کہیں زیادہ دینی و دنیوی عزت وسربلندی کی دعائیں مانگیں.نزع کی کیفیت صرف چند ثانیوں کے لئے ہی طاری رہی.اتنے مختصر ترین عرصہ کے لئے کہ ہم اپنے سے پندرہ ہمیں قدم پر رہنے والی ہمشیرہ (عزیزہ حفیظہ سلمہا ) کو بھی نہ بلوا سکے.بس جسم کے بالائی حصے میں خفیف سے تناؤ کے ساتھ ایک معمولی سی ہچکی لی اور پھر دولمبے

Page 414

413 سانس اور کلمہ طیبہ کے ورد کے دوران ہی مسیح موعود کی یہ نشانی ( جو ہمارے لئے لا ریب ان گنت برکتوں اور سعادتوں کا خزانہ تھی ) داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور پہنچ گئی.انا للہ وانا اليه راجعون.یا اللہ رحم ! حضرت ابا جان کے سفر آخرت کا ذکر نوک خامہ پر کیا آیا زندگی کی کایا پلٹ جانے کا نقشہ نگاہوں میں گھوم گیا.اپنی رستی بستی دنیا کے متزلزل ہو جانے کا کر بناک نظارہ ایک بار پھر یاد آ گیا.ان کی دعاؤں سے محرومی اور مسلسل محرومی کا تصور پیازی اشک بن بن کر دامن کوتر کرنے لگا.زہے نصیب یہ اشک ؎ آنکھوں کو پھر یہ اشک بھی شاید نہ ہوں نصیب رو رو کے تجھ کو وقت سفر دیکھتے تو ہیں اور اب آگے لکھنے کا یارا نہیں.لہذا باقی پھر کبھی..مبادا ضبط کے ٹانکے ٹوٹ جائیں.صبر کا پیمانہ چھلک اٹھے.احساس کے سوتے پھوٹ بہیں اور دل اشک بن بن کر آنکھوں کے روزنوں سے رسنا اور بہنا شروع ہو جائے.الحمد للہ کہ حضرت ابا جان کی قیمتی امانت اور اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت ( حضرت والدہ محترمه عزیز بیگم صاحبہ کے محبت نواز وجود کے روپ میں ) ہمارے سروں پر موجود ہے.گویا وفور یاس میں حصول تسکین کی ایک آماہ جگاہ میسر ہے.ثم الحمد لله اللہ تعالیٰ میرے ابا جان کو اپنے قرب خاص سے نوازے.کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بیش از بیش خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.اولاد : مص ثاقب زیروی مدیر ہفتہ وار لاہور ۲.محمد بشیر (انسپکٹر کواپریٹیو سوسائیٹیز ) ۳.حفیظہ بیگم (اہلیہ چوہدری نیاز نیاز الدین احمد سلہری ) حضرت حکیم مرزا فیض احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت حکیم مرزا فیض احمد صاحب کی وفات کا ذکر

Page 415

414 الفضل میں ہے.چونکہ خاکسار مؤلف کو ان کے مفصل حالات کا پتہ نہیں چل سکا.صرف اتنا معلوم ہوا کہ حضرت حکیم صاحب پٹی ضلع لاہور کے باشندہ تھے اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے استاد محترم حکیم الہ دین صاحب کے شاگرد تھے.بہت پرانے بزرگ تھے.اس لئے الفضل کا نوٹ درج کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے.وہو ہذا : دد طبی حلقہ میں بالخصوص اور حلقہ احباب میں بالعموم یہ خبر نہایت رنج اور افسوس سے سنی جائے گی.کہ لاہور کے کہنہ مشق اور نامور طبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حکیم مرزا فیض احمد صاحب مورخہ ۱۸.نومبر ۱۹۴۴ ء کو اس جہان فانی سے رحلت فرما کر اپنے مولا حقیقی سے جاملے.انا لله و انا اليه راجعون.كل نوٹ : اولاد کے متعلق اتنا معلوم ہوا کہ مرزا محمد شفیع صاحب اور دو اور بچے تھے جو وفات پاچکے ہیں.حوالہ جات اس سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرتبه ملک نذیر احمد ریاض صفحه ۲۶ سے سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صفحه ۱۸۹ - ۱۹۰ سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صفحه ۲۷۸ ۵ سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۱ 1 ماخوذ از مضمون غیر مطبوعہ محترم میاں نذیر حسین صاحب ابن حضرت حکیم مر ہم عیسیٰ کے دیکھنے تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۴۱ دیکھئے تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۵۳ دیکھئے تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۴۱ ۱۱۰ فہرست ۱۳۱۳اصحاب مندرجہ ضمیمه انجام آتھم ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵، دیکھئے فہرست ۳۱۳.اصحاب مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم ۱۶ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۱۴۱ كل الفضل ۶.جنوری ۱۹۴۵ء

Page 416

415 چوتها باب منکرین خلافت کی ناپسندیدہ روش اور دربار خلافت سے ملامت گذشتہ صفحات میں ان تمام صحابہ کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے.جن کا کسی نہ کسی رنگ میں لاہور کے ساتھ تعلق رہا ہے.ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو لا ہور کے باشندے تھے انہوں نے لاہور میں ہی بیعت کی اور لاہور میں ہی اپنی عمر گزار کر وفات پائی.بعض وہ ہیں جنہوں نے لاہور میں بیعت کی اور کچھ زمانہ یہاں گزار کر باہر چلے گئے اور باہر ہی وفات پائی.بعض وہ ہیں جنہوں نے لاہور سے باہر بیعت کی مگر ایک زمانہ کے بعد لاہور آ کر آباد ہو گئے.اس قسم کے اصحاب تقسیم ملک کے بعد کافی تعداد میں لاہور آئے.بعض ایسے بھی ہیں جو باہر سے تشریف لائے اور ایک زمانہ یہاں گذار کر پھر باہر ہی چلے گئے.بعض ممتاز صحابہ کی تنظیمی سرگرمیاں واضح رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح الاول کے زمانہ تک جماعت میں اس قسم کی تنظیم قائم نہیں ہوئی تھی جیسی کہ خلافت ثانیہ میں قائم ہوئی.خلافت ثانیہ سے قبل جماعت میں نہ تو چندوں کی کوئی شرح مقرر تھی اور نہ مختلف شعبوں کے لئے مختلف عہد یدار مقرر تھے.صرف ایک سیکرٹری ہوا کرتا تھا جو سارے کام کرتا تھا.مالی قربانی کے متعلق جماعت کو اتنی تلقین ضرور کی جاتی تھی کہ جتنا چندہ کوئی لکھوائے اسے ماہ بماہ با قاعدگی کے ساتھ ادا کیا کرے تا جماعتی کاموں میں رخنہ نہ پڑے مگر بعض لوگ اس قسم کے فدائی بھی تھے کہ قوت لایموت سے جو کچھ بچتا تھا وہ سب حضرت اقدس کی نذر کر دیا کرتے تھے.جماعت لاہور میں چندوں کی وصولی کا انتظام عموماً حضرت قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا اور وہی سیکرٹری کہلاتے تھے.سیکرٹری تبلیغ کی ابتدائی زمانہ میں اس لئے ضرورت نہ تھی کہ جماعت کے سارے افراد بلا استثناء فریضہ تبلیغ کو فرض عین جانتے تھے مگر

Page 417

416 تحریری تبلیغ کا کام چونکہ ہر شخص نہیں کر سکتا تھا اس لئے بعض مخصوص افراد نے یہ کام اپنے ذمہ لے رکھا تھا.ایسا ہی تقریر کا ملکہ بھی ہر شخص میں نہیں ہوتا.خاص خاص لوگ ہی تقریر کر سکتے ہیں.مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو تقریرا اور تحریر دونوں پر قادر ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو مالی وسعت بھی دی ہوتی ہے.وہ مالی قربانیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.حضرت قریشی صاحب موصوف انہی اصحاب میں سے تھے جو تحریر و تقریر کا ملکہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.تبلیغی ٹریکٹ عموماً حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر لکھا کرتے تھے.وہ اعلیٰ پایہ کے انشا پرداز تھے.زبانی تبلیغ میں حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل ، حضرت میاں سعدی صاحب ، حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی ، حضرت سید دلاور شاہ صاحب اور حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین زیادہ مشہور تھے مالی قربانی میں وہ اصحاب بھی خاصہ حصہ لیا کرتے تھے جو بعد کو غیر مبائعین کے گروہ میں شامل ہو گئے اعنی جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ، جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور جناب مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرہ.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ وہ موسم سرما کے گرم کپڑے اپنی دکان سے تیار کروا کر حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے.ان سب احباب کے علاوہ ایک مشہور و معروف ہستی حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لا ہور کی تھی جن کے حضرت اقدس کے ساتھ نہایت گہرے مراسم تھے اور حضرت صاحب جب بھی لاہور میں تشریف لاتے عموماً ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھ کر ان کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے.نمازیں بھی انہیں کے مکان پر باجماعت ادا کی جاتی تھیں.مہمان خانہ بھی انہی کا گھر تھا اور جماعت کے ساتھ ان کا سلوک اس قسم کا تھا جس طرح ایک باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے.اس موقعہ پر حضرت منشی محبوب عالم صاحب مالک راجپوت سائیکل ورکس نیلہ گنبد اور حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب سائیکل ڈیلر نیلہ گنبد کا ذکر بھی ضروری ہے.یہ دونوں اصحاب نہایت مخلص اور بہت محنتی کا رکن تھے.موخر الذکر تو مالی قربانیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں مندرجہ بالا اصحاب کے علاوہ بعض اور سرگرم کارکن بھی باہر سے لاہور شریف لائے جن میں جناب بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر جناب ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی اور جناب مولوی محب الرحمان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.پھر یہی وہ

Page 418

417 زمانہ ہے جس میں حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری کی صلاحیتیں اجاگر ہوئیں.جب انہوں نے تبلیغی اور تربیتی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا.جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک رویاء اب ہم خواجہ کمال الدین صاحب کا ایک حیرت انگیز اور سبق آموز رویاء درج کرتے ہیں جو آپ نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خلافت اور اپنے انجام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں لاہور میں دیکھا.آپ لکھتے ہیں : احمدی جماعت میں بہت تھوڑوں کو اس بات کا علم ہے کہ میں نے ہی سب سے اوّل حضرت قبلہ کو اپنی طرف سے اور اپنے خاص احباب کی طرف سے خلافت کا بارگراں اٹھانے کے لئے عرض کیا.اس کی بناء کوئی مصلحت وقت نہ تھی بلکہ اشارہ ربی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے.حضرت مسیح موعود ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے.میں نے شب درمیان ۲۳ - ۲۴ مئی ۱۹۰۸ ء ایک عجیب رویاء دیکھا.میں ان واقعات کا ذکر بھی نہ کرتا لیکن چونکہ بعد کے واقعات اور موجودہ واقعات نے اس رویاء کی صداقت پر مہر لگا دی ہے اس لئے میرے نزدیک ہر ایک سلیم الفطرت احمدی کے لئے یہ ایک قطعی شہادت ہے.میں نے دیکھا کہ میں اور میرے ہمراہ شاید اور نو یا دس یا گیارہ احباب ہیں جن میں سے ایک مولوی محمد علی صاحب ہیں.ہم سب کسی شاہی خاندان میں سے ہیں.لیکن جس خاندان کے ہم ممبر ہیں ان کا سرتاج تخت سے الگ ہو چکا ہے اور نئی سلطنت قائم ہو گئی ہے اور پہلا دور بدل گیا ہے اور ہم یہ نو دس آدمی اسیرانِ سلطانی ٹھہرائے گئے ہیں.ہم سخت تشویش میں ہیں کہ اتنے میں ہمیں اطلاع ہوئی کہ نئی سلطنت کا سرتاج ہم کو طلب کرتا ہے اور ہمیں ہماری قسمت کا فیصلہ سناتا ہے.کیا شان ایزدی ہے کہ ہم جو نو دس آدمی ہیں ان کی بھی دو جماعتیں بنائی گئی ہیں.حکم ہوا کہ باری باری جماعت میں نئے حاکم کے سامنے ہم پیش ہوں.چنانچہ پہلی جماعت جو نئے سلطان کے سامنے پیش ہوئی.وہ بسر کر دگی مولوی محمد علی صاحب گئی.ہم کمرہ

Page 419

418 سلطان سے باہر تھے.لیکن مجھے یہ سمجھ آئی کہ نئے فرمانروا نے جو کچھ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو کہا انہوں نے خاموشی سے سن کر سر تسلیم خم کیا اور خاموش ہی باہر آ گئے.اس کے بعد مجھے حکم ہوا.میرے ہمراہ چار پانچ احباب باقی تھے اور وہ میری سرکردگی میں پیش ہوئے.جب میں کمرہ سلطان کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ نیا حاکم خود مولوی نورالدین صاحب ہیں.آپ نے نہایت متانت اور تمکنت کے ساتھ مجھے اور میرے ہمراہیوں کو دیکھا اور پھر حسب ذیل گفتگو ہوئی.میرا انداز جواب کسی قدر تیز تھا.مولوی نورالدین صاحب : تم جانتے ہو کہ تم کون ہو اور تمہاری حیثیت کیا ہے؟ میں : میں خوب جانتا ہوں کہ جس خاندان شاہی کے ہم رکن تھے وہ دور بدل گیا ہے اور ہم اس وقت اسیر سلطانی ہیں.مولوی نورالدین صاحب: کیا وجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہی سلوک نہ کیا جائے جو اسیرانِ سلطانی کے ساتھ ہوا کرتا ہے.کیا وجہ ہے کہ تم کو ان وطنوں سے نکال کر دوسرے وطنوں میں آباد نہ کیا جاوے.میں : ( بڑے جوش اور لا پرواہی کے ساتھ ) آپ کی جو مرضی ہے کریں.جب ہم اسیر سلطانی ہیں تو ہمارا چارہ ہی کیا ہے.ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارا اب دور بدل گیا ہے.اب ہم قیدی ہیں.اگر ہم کچھ اور چاہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں جو آپ کی خوشی ہو کر و.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.میرے جسم پر سخت رعشہ اور سنساہٹ تھی اور ایک مدت تک اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا.یہ تہجد کا وقت تھا.میں اٹھا اور سب سے اوّل اسی واقعہ کو قلمبند کیا اور صبح تک استغفار میں مصروف رہا.بعد از نماز صبح حضرت مرزا صاحب مغفور باہر آئے تو سب سے اول جو موقعہ مجھے تنہائی میں آپ سے ملا.میں نے وہ کاغذ پیش کیا.دو دن کے بعد یہ رویاء بالکل بد یہی واقعہ ہو جانے والا تھا لیکن مصلحت ربی نے آپ کی طبیعت کو اس طرف نہ آنے دیا.آپ نے صرف اس قدر فرمایا کہ خواب میں اسیران سلطانی ہونا نہایت مبارک ! نہایت ہی مبارک ہے.حضرت صاحب کے بعد میں حضرت حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوا.

Page 420

419 اور وہ کاغذ دکھایا.وہ حسرت آج تک میرے پیش نظر ہے جو اس کاغذ کو دیکھ کر مولوی صاحب کے چہرے پر نمودار ہوئی.آپ نے کئی منٹوں تک گردن نیچی رکھی اور پھر بعد میں اس کا غذ کو اپنی جیب میں رکھ کر فرمایا کہ میں اس کی تعبیر بعد غور بتلاؤں گا.۴۸ گھنٹہ اس واقعہ پر گذرے کہ بادشاہ وقت جہاں سے رخصت ہو گیا اور نئے کار کے آثار شروع ہو گئے.اس خواب سے اطلاع اسی دن مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کو دی گئی تھی.اور وہ خدا واسطے اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں.الغرض جب ہم اس اچانک موت کے ضروری انتظام سے فارغ ہو کر ریل میں بغرض قادیان بیٹھے تو میں نے حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب سے جبکہ ہر دو ڈاکٹر صاحب بھی ہمراہ تھے پوچھا کہ بتلا ؤ ! اب خلیفہ کون ہو گا تو شیخ صاحب نے فی الفور بجواب کہا کہ وہی جس کی تمہیں دو دن پہلے اطلاع ہو چکی ہے.شیخ صاحب کا اس رؤیا ء کی طرف اشارہ تھا.جب ہم قادیان پہنچے اور حضرت فاضل امروہی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی استرضا کے بعد گول کمرہ قادیان میں جمع ہوئے تو میں نے حضرت قبلہ کو وہاں آنے کی تکلیف دی اس وقت بھی میں نے یہ نہیں کہا کہ اب آپ خلافت کو قبول کریں بلکہ میں نے یہ عرض کیا کہ حضور کو جو کا غذ پرسوں لا ہور میں میں نے دیا تھا اور جس میں میرا ایک رؤیاء تھا.وہ کیا حضور کو یا د ہے؟ مولوی صاحب.ہاں میاں.وہ کا غذ اب بھی میری جیب میں ہے.میں.تو پھر اب وہ وقت آ گیا.اس کے بعد حضرت نے دو نفل ادا کئے اور مجھے حکم دیا کہ مائی صاحب اور میر صاحب سے استرضا کروں.جو تقریر اول بطور خلیفتہ اسیح آپ نے باغ میں فرمائی اس میں بھی آپ نے مجھے مخاطب کر کے ذیل کے الفاظ فرمائے : اب سستی اور غفلت چھوڑ دو اور چستی اور کا ر کر دگی کے وطنوں میں آباد ہو جاؤ ” یہ الفاظ بھی خواب کی طرف تلمیح کرتے تھے لیکن نہ مجھے اور نہ حکیم صاحب قبلہ کو اس وقت علم تھا کہ یہ الفاظ استعارہ نہیں بلکہ لفظی معنی میں پورے ہونے والے ہیں.آج میں ہوں اور یورپ.کیا عجیب بات ہے کہ کل سے میری طبیعت یہاں بے چین ہے اور بار بار

Page 421

420 گھر جانے کو دل چاہتا ہے.گھر سے میری مرا دلندن ہے.سبحان اللہ سبحان اللہ ! کیوں تم کو ان وطنوں سے نکال کر دوسرے وطنوں میں آباد نہ کیا جائے.رویاء کیا برحق ثابت ہوا.خاں نواب محمد علی خاں صاحب اس رویاء سے واقف ہیں.ان واقعات کی شہادت خود حضرت قبلہ مولوی صاحب سے لی جائے.آیا یہ بچے امور ہیں یا نہیں.ابھی دو ماہ ہوئے جب میں نے ان کو کہا کہ آپ کسی کو میری مدد کے لئے لندن بھیج دیں.تو میں نے پھر اس خواب کی طرف اشارہ کر کے لکھا کہ خواب تو چاہتا ہے کہ میرے ہمراہ چار پانچ اور بھی وطنوں کو چھوڑ کر غریب الوطنی اختیار کریں اور آپ کے حکم سے.آپ کیوں حکم صادر نہیں فرماتے.میرے ساتھ تو چار پانچ اور بھی تھے جب آپ نے مجھے جلا وطن کیا.بہر حال ہمارے دو تین احباب جو قاضی یار محمد صاحب کے معاملہ میں کچھ متامل سے ہیں چونکہ وہ اس احمدی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے لئے خواب اور مکاشفات حجت ہوتے ہیں.وہ ان امور بالا پر غور کریں.یہ رویاء تو کچھ ایسا قادیان میں مشہور تھا.کہ ۱۹۰۹ء میں بعض واقعات کے پیدا ہونے پر مجھے طنزاً اسیر سلطانی کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ایک میرے قابل دوست کے لئے تو اب میرا یہ اسیر سلطانی کا خواب بہت سارے پریشان کن حالات کا موجب ہو جایا کرتا تھا والسلام خادم خواجہ کمال الدین ٹر مینس فورڈ ہوٹل پیرس ۶.جولائی جناب خواجہ صاحب کی اس تحریر سے ظاہر ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی کے دوسرے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر خلافت کو ضروری سمجھتے تھے.تبھی تو حضور کی نعش مبارک کے ساتھ لاہور سے قادیان جاتے ہوئے رستے میں محترم شیخ رحمت اللہ صاحب سے پوچھا کہ ” جتلا و! اب خلیفہ کون ہوگا “.دوم : حضرت اقدس کے بعد جب خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الا وال کی خدمت میں وہ کاغذ پیش کیا تو اس رویاء کی حقیقت آپ پر کھل گئی.چنانچہ خواجہ صاحب لکھتے ہیں : وو وہ حسرت آج تک میرے پیش نظر ہے جو اس کاغذ کو دیکھ کر مولوی صاحب کے چہرے پر نمودار

Page 422

421 ہوئی.آپ نے کئی منٹوں تک گردن نیچی رکھی“.سوم : حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے حضور جب یہ لوگ پیش ہوئے تو کسی قابل قدر کام کرنے کا انعام حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ مجرم ہونے کی حیثیت میں پیش ہوئے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ کوئی ایسا کام کرنے والے تھے جس کی وجہ سے مجرم ہونے کی صورت میں ان کی پیشی ہونی مقدر تھی.چنانچہ ۳۱.جنوری ۱۹۰۹ء کو ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب دونوں کو دوبارہ بیعت کرنا پڑی.چهارم : مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب دونوں لیڈروں میں بھی کامل اتحادو یگانگت نہیں ہوگی بلکہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے.چنانچہ واقعات شاہد ہیں کہ آخر وقت تک خواجہ صاحب کا طرز عمل آزادانہ رہا ہے.انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو اپنا واجب الاطاعت لیڈر نہیں سمجھا.وو پنجم : یہ جو دکھایا گیا کہ مولوی صاحب کی پیشی پہلے ہوئی اور خواجہ صاحب کی بعد میں.میرے نزدیک رؤیاء کا یہ پہلو بھی پورا ہو چکا ہے.چنانچہ مولوی صاحب پہلے روز ہی بیعت کرنے کے لئے تیار نہ تھے مگر خواجہ صاحب نے بشرح صدر بیعت کی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کے دل میں پہلے ہی روز سے غبار تھا اور وہ حضرت خلیفہ اول کی اطاعت قبول نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن مجبور ہو گئے.اس لئے ان کی پیشی رویاء میں پہلے دکھائی گئی.محترم خواجہ صاحب مرحوم نے جو اپنے لندن جانے پر اس رؤیاء کو چسپاں کیا ہے وہ بالکل دوراز قیاس ہے کیونکہ لندن میں آپ مجرم ہونے کی حیثیت سے نہیں گئے بلکہ ایک پرائیوٹ کام کرنے کے لئے گئے تھے اور تبلیغ اسلام کا کام بھی کرتے تھے.البتہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد ان لوگوں نے انجمن اور خلافت کے موضوع پر جماعت میں انتشار پیدا کرنا شروع کر دیا اور خلافت پر انجمن کی بالا دستی ثابت کرنے کا پراپیگنڈہ شروع کیا تو حضرت خلیفہ مسیح الاوّل نے جنوری ۱۹۰۹ء میں جماعت کے نمائندوں کو بلا کر مسجد مبارک میں ان کے سامنے ان لوگوں کے پراپیگینڈے کی قلعی کھولی اور انہیں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری ان گمراہ کن کارروائیوں سے تمہاری بیعت ٹوٹ چکی ہے اور اب تم میرے مرید نہیں رہے.ہاں علیحدگی میں مشورہ کر لو.اگر تمہارا دل مانتا ہے کہ تم

Page 423

422 نے غلط روش اختیار کی تھی تو دوبارہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو جاؤ.اس پر جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے جو اس گروہ کے لیڈر تھے کچھ سوچ کر دوبارہ بیعت کر لی.اس کے بعد جو کچھ ہوا.اسے تفصیل کے ساتھ ”حیات نور“ باب نمبر ۵ میں بیان کیا جا چکا ہے.یہاں اسے دوہرانے کی چنداں ضرورت نہیں.لاہور میں جماعت احمدیہ کا پہلا مبلغ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے لاہور کی اہمیت کے پیش نظر اور خاص طور پر اس لئے کہ اس فتنہ کا اصل مرکز لا ہور ہے جماعت لاہور کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو لاہور جانے کا حکم دیا.حضرت مولوی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے استخارہ کیا جس میں آپ کو بتایا گیا کہ آپ لاہور میں ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی خواجہ جمال الدین صاحب نے جماعت لاہور کی دعوت کی ہے جس میں آپ بھی مدعو ہیں.جب کھانے پر بیٹھے تو معلوم ہوا کہ دعوت کے لئے ایک بزرگ انسان عبداللہ کا گوشت پکایا گیا ہے.آپ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ آپ کو اس کھانے سے سخت نفرت اور کراہت محسوس ہوئی اور آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے.صبح بیدار ہو کر آپ نے اپنی یہ خواب حضرت خلیفتہ امسیح اوّل کو سنائی.حضور نے فرمایا کہ آپ کو چونکہ عبد اللہ کا گوشت کھانے سے نفرت اور کراہت ہوئی اس لئے یہ خواب آپ کے لا ہور جانے کے لحاظ سے برا نہیں بلکہ اچھا ہے.چانچہ آپ ۱۰ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور پہنچ گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ قرآنی آیت أيـحـب احـد كـم ان يأكل لحم اخيه شيئاً فكر هتموه واتقوا الله کے مطابق اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کی پارٹی حضرت خلیفہ امسیح الاوّل جیسے بزرگ انسان کی غیبت اور بدگوئی میں جماعت کے دوسرے افراد بلکہ مجھے بھی شریک کرنے کی کوشش کرے گی مگر میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ جماعت کی اکثریت کو اس فتنہ سے بچالے گا.چنانچہ واقعات کی رُو سے بھی ایسا ہی ثابت ہوا.آپ کو احمد یہ بلڈنگس والوں کا مقابلہ کرنے کی خوب تو فیق ملی جس کے نتیجہ میں جماعت کی اکثریت ان کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہی.فالحمد للہ یہ سہو کتابت ہے یہ واقعہ حضرت خلیفتہ المسح الاول کی خلافت کے ابتدائی ایام کا ہے.چنانچہ حضرت مولانا غلام رسول ا صاحب را جیکی حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ ۳۹ فرماتے ہیں 1909ء میں میں ابھی نیا نیالا ہور پہنچا تھا“.ناشر

Page 424

423 حضرت مولوی غلام رسول صاحب نے خلافت ثانیہ میں بھی تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد ایک لمبا زمانہ لاہور میں گزارا.قیام لاہور کے دوران آپ کو متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپ کے ایمان اطاعت امام اور تو کل علی الہ کا پتہ چلتا ہے.آپ خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام کا ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ ابھی آپ کی شادی کو تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تار آپ کو ملا کہ ایک ہفتہ کیلئے آپ فلاں ریاست ( کپورتھلہ یا پٹیالہ کا نام لیا کرتے تھے.صحیح نام یاد نہیں رہا.مؤلف ) میں چلے جائیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ " میں مسجد سے اٹھ کر گھر گیا اور بیوی کو جا کر کہا کہ حضرت صاحب کا حکم آ گیا ہے کہ ایک ہفتہ کیلئے ریاست میں چلے جاؤ لہذا میں جا رہا ہوں.بیوی نے کہا کہ آپ جانتے ہیں.نہ گھر میں آتا ہے نہ گھی اور نہ لکڑیاں.علاوہ ازیں میں اکیلی یہاں رہ بھی کیسے سکتی ہوں؟“ آپ فرمایا کرتے تھے : ” میں نے اسے کہا کہ میں کوئی تمہارا ٹھیکیدار نہیں ہوں.واقف زندگی ہوں.جب بھی حضرت صاحب کا حکم کہیں جانے کے متعلق آئے گا.میں سب کام چھوڑ چھاڑ کر حضور کے حکم کی تعمیل کروں گا اور تمہیں خدا کے حوالے کروں گا.“ یہ کہہ کر آپ گھر سے چل پڑے.ابھی مسجد کی گلی میں ہی تھے کہ ایک احمدی ملا جس کے ساتھ ایک مزدور نے ایک من کے قریب آٹا اور کچھ لکڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں.اس نے آپ کو کہا کہ مولوی صاحب! میں نے سنا ہے آپ کو لاہور سے باہر جانے کا حکم آگیا ہے.ممکن ہے گھر میں آٹا اور لکڑیاں نہ ہوں.آپ یہ چیزیں گھر میں رکھوا کر سفر پر جائیں.چنانچہ آپ نے یہ دونوں چیزیں گھر میں رکھوا لیں.جب اسٹیشن پر پہنچے تو ریل گاڑی کے جس ڈبے پر آپ سوار ہونے لگے.اسی میں سے آپ کے نسبتی بھائی اترے جن کے ہاتھ میں ایک چھوٹا ٹین گھی کا تھا.انہوں نے کہا کہ بھائی صاحب! میں ایک ہفتہ کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں.آپ نے فرمایا.میں ایک ہفتہ کے لئے حضرت صاحب کے حکم سے باہر جارہا ہوں اس عرصہ میں آپ کی ہمشیرہ اکیلی تھی.لہذا خدا نے ہی آپ کو بھیجا ہے.۲ انداز ۱۹۴۲ ء کی بات ہے خاکساران ایام میں اضلاع لائل پور سرگودھا، جھنگ اور شیخوپورہ میں بحیثیت مبلغ متعین تھا.جناب ناظر صاحب اصلاح وارشاد نے جوان دنوں ناظر دعوت و تبلیغ

Page 425

424 کہلاتے تھے خاکسار کو لکھا کہ گرمیوں کی رخصتوں میں محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری کے ساتھ اضلاع شیخو پورہ اور لائل پور کا دورہ کرو.حضرت قاضی صاحب کی چٹھی بھی ملی جس میں لکھا تھا کہ فلاں تاریخ کو میں تمہیں شاہدرہ اسٹیشن پر ملوں گا.خاکسار مقررہ وقت پر شاہدرہ اسٹیشن پر پہنچ گیا.مگر حضرت قاضی صاحب وہاں نہ ملے.رات اسٹیشن پر گزار کر اگلے روز صبح چار بجے خاکسار مسجد احمد یہ دہلی دروازہ پہنچا.ابھی مسجد سے باہر ہی تھا کہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکٹی کی آواز سنائی دی.آپ کو شدید بخار تھا اور شدت درد سے کراہ رہے تھے.خاکسار نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات دریافت کئے.فرمایا.ایک ہفتہ سے لگا تار بخار ہے اور ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں اترا.رات ایک دوست دو غیر احمدی حضرات کو ہمراہ لائے تھے.میں نے سوچا کہ انہیں سمجھانے کے لئے خوب زور سے تقریر کرتا ہوں پسینہ آ کر بخار اتر جائے گا.چنانچہ اس وقت تو ایک گھنٹہ کی تقریر کے بعد پسینہ آنے پر بخارا اتر گیا مگر اب اس کا رد عمل ہے.خاکسار نے عرض کی کہ حضرت مولوی صاحب! آپ رخصت لے کر قادیان کیوں نہیں چلے جاتے؟ فرمایا.میں یہاں جہاد میں ہوں.اگر مر گیا تو جہاد میں مروں گا.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے عمر بھر چھٹی کبھی نہیں لی.اور نہ اب لوں گا.اس مختصر سی گفتگو کے بعد خاکسار محترم جناب قاضی صاحب کے ساتھ نارنگ منڈی کی طرف دورہ پر چلا گیا.ایک ہفتہ کے بعد جب واپس لا ہور بہنچا تو دو پہر کا وقت تھا اور آپ محراب کے نزدیک بستر پر لیٹے ہوئے تھے.دریافت کرنے پر فرمایا کہ بخار بدستور ہے.ابھی خاکسار بیٹھا ہی تھا کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ کسی پیو گے یا چائے خاکسار نے عرض کیا کہ ابھی چائے پی کر آیا ہوں اور چائے کے بعد لسی پینا بھی درست نہیں.آپ نے اپنے سرہانے کے نیچے سے ایک رومال نکالا جس میں ایک اٹھنی بندھی تھی اسے خاکسار کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لے لو.جب بھی ضرورت ہو خواہ چائے پی لینا خواہ کسی اور فرمایا کہ اس وقت میرے پاس صرف یہی ایک اٹھنی ہے اگر زیادہ رقم ہوتی تو زیادہ پیش کر دیتا.خاکسار نے عرض کی کہ حضرت! آپ کے پاس صرف ایک اٹھنی ہے اسے اپنے پاس ہی رکھیئے اس حالت میں کوئی فوری ضرورت پیش آ سکتی ہے.فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ اٹھنی ہمیشہ میری ضروریات کو پورا کرتی رہے گی.یہ تھوڑی دیر میں خرچ ہو جائے گی تو کیا میرا رازق خدا جو مجھے اس کے بعد دے گا اب نہیں دے سکتا ؟ یہ ایمان افروز جواب سن کر خاکسار نے وہ اٹھنی لے لی.

Page 426

425 اسی مجلس میں قادیان جانے والے ایک دوست مل گئے ان کے ہاتھ خاکسار نے اپنی طرف سے حضرت مولوی صاحب کی حالت پر مشتمل جناب ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی خدمت میں ایک رقعہ لکھا اور یہ بھی لکھا کہ جونہی میرا یہ رقعہ جناب کی خدمت میں پہنچے حضرت مولوی صاحب کو بذریعہ تار بلا لیا جائے.چانچہ دوسرے روز صبح آٹھ بجے حضرت مولوی صاحب قادیان تشریف لے گئے مگر وہاں بھی کافی عرصہ بخار رہا جس کا اثر آپ کے اعصاب پر بھی پڑا اور قوت شنوائی پر بھی.سلسلہ کے ساتھ فدائیت اور توکل علی اللہ کے لا تعداد واقعات کے ساتھ حضرت مولوی صاحب کی سیرت مرقع ہے.اس نوع کے واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے بزرگ خدمت دین کو کس طرح ایک نعمت عظمی سمجھتے تھے.استاذی المکرم حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ میاں ! میں نے کبھی چھٹی نہیں لی.اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی رضی اللہ عنہ کا تو یہ عالم تھا کہ گھر سے سبزی لینے کے لئے بازار تشریف لے گئے ہیں.رستہ میں دفتر کا کارکن دفتر کا کوئی آرڈر لے کر حاضر خدمت ہو گیا.لفافہ کھولنے پر معلوم ہوا کہ کسی جگہ جلسہ یا تبلیغ کے لئے جانے کا حکم ہے.اسی وقت سبزی کے لئے رومال اور پیسے کسی دوست کے حوالے کر دیئے اور فرمایا کہ ہمارے گھر میں سبزی پہنچا دینا اور کہہ دینا کہ غلام رسول کو فلاں جگہ جانے کا حکم ہو گیا ہے اس لئے وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہا ہے.ریلوے اسٹیشن جاتے ہوئے آپ یہ بھی نہیں سوچتے تھے کہ گاڑی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جتنا وقت ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں کٹے گا اس کا ثواب بھی کیوں ضائع کیا جائے.☆ سبحان اللہ خدمت دین کرنے والے نوجوانوں کے لئے کیا عجیب نمونہ تھے ہمارے بزرگ ! آپ کے علاوہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے لئے محترم مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا اور محترم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی نے بھی لاہور میں قابل قدر کام کیا ہے.محترم مولوی ظہور حسین صاحب تو وہ بزرگ ہیں جنہیں نے اعلائے کلمہ حق کی خاطر بخارا میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور بعد ازاں ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرتے رہے اور آج کل شعبہ محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی کچھ عرصہ لا ہور میں بطور مبلغ متعین رہے ہیں اور مشرقی افریقہ جانے سے قبل محترم شیخ مبارک احمد صاحب نے بھی چند ماہ یہاں کام کیا ہے.

Page 427

426 رشتہ و ناطہ ربوہ میں بحیثیت انچارج کام کر رہے ہیں اور محترم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی نے مبلغ کے طور پر کام کیا.جامعہ احمدیہ میں پروفیسر بھی رہے اور آج کل تحریک جدید کے ماتحت گیمبیا (مغربی افریقہ ) میں ایک کامیاب مبلغ کے طور پر کام کر رہے ہیں.اللهم متعنا بطول حياتهما.۱۹۴۵ء میں خاکسار کا تقرر لاہور میں ہوا.پہلی مرتبہ دارالتبلیغ کا قیام عمل میں لایا گیا.انداز آتین چار سال کام کرنے کی توفیق ملی.اسی دوران ۱۹۴۷ء ہندوستان کی تقسیم عمل میں لائی گئی اور مسلمان قوم کے لئے پاکستان کا وجود نقشہ عالم پر ابھر آیا.۱۹۴۸ء کے آخر میں خاکسار کا تبادلہ ضلع سرگودھا میں ہوا اور خاکسار کی جگہ سرگودھا کے مبلغ محترم مولا نا عبد الغفور صاحب کا تقرر لاہور میں کیا گیا.آپ نے بھی پانچ چھ سال تک خوب محنت اور تندہی کے ساتھ یہاں جماعت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا کام کیا.آپ کے زمانہ قیام کے دوران میں ۱۹۵۳ء کا ہنگامہ خیز سانحہ پیش آیا.مغربی پاکستان میں ہماری جماعت کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا.مسلم فرقوں کے بیشتر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے بالا تفاق اس قلیل التعداد اور معصوم جماعت کو محض اس جرم کی بناء پر صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم بالجزم کر لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول لے کے احکام کے ماتحت ایک مامور من اللہ کو کیوں منجانب اللہ تسلیم کرتی ہے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا تھا اور جماعت کے امام حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی پیاری جماعت کو یہ بشارت بھی دے رکھی تھی کہ میرا تجربہ ہے کہ میرے خدا نے کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور وہ اب بھی انشاء اللہ میری امداد سے قطعا منہ نہیں موڑے گا.تم دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے رب کی بارگاہ میں سر بسجو د ہو کر اس کی نصرت طلب کرنے سے کبھی غافل نہ ہو.یقین جانو کہ وہ تمہاری مدد کے لئے دوڑتا ہوا آئے گا.چنانچہ یہی ہوا.عین اس روز جب کہ معاندین سلسلہ اپنے مذموم پروگرام پر عمل کرنا چاہتے تھے.خدائی نصرت مارشل لاء کے رنگ میں آئی اور جماعت کی حفاظت کا پورا پورا انتظام کر دیا گیا.اس ہنگامہ میں گولا ہور میں جماعت کے چند آدمی شہید کر دیئے گئے مگر معاندین کا جانی نقصان اس سے کہیں بڑھ کر ہوا.حضرت مولوی عبد الغفور صاحب رضی اللہ عنہ نے اس موقعہ پر مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کی حفاظت کا فرض نہایت ہی خوش اسلوبی سے ادا کیا.فجزاه الله احسن الجزاء.

Page 428

427 ۱۹۵۴ء میں خاکسار کا تبادلہ پھر لاہور میں ہو گیا.اور اس وقت سے لیکر اب تک جو ۱۹۶۶ء گذر رہا ہے اور آج مارچ کی ۱۹.تاریخ ہے یہاں کام کر رہا ہوں.اس عرصہ میں مندرجہ ذیل مربی صاحبان یہاں ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے بھی تشریف لائے.ا.مکرم شمس الحق صاحب ۲.مکرم مرزا محمد سلیم صاحب ۳.مکرم مولوی مبارک احمد جمیل.اوّل الذکر کو کچھ ٹرینگ کے بعد دفتر افتاء میں لگا دیا گیا جہاں وہ آج کل کام کر رہے ہیں.ثانی الذکر کو ٹریننگ کے بعد ضلع لاہور میں متعین کر دیا گیا اور تیسرے مکرم مولوی مبارک احمد صاحب جمیل کو ٹرینگ حاصل کرنے کے بعد شہر لاہور میں متعین کیا گیا.چنانچہ وہ اب تک بفضلہ تعالیٰ مستعدی کے ساتھ خدمات سلسلہ بجا لا رہے ہیں.ان مبلغین سے قبل محترم مولوی محمد اشرف صاحب ناصرا اور محترم راجہ خورشید احمد صاحب نے بھی علی الترتیب شہراور ضلع میں تھوڑا تھوڑا عرصہ کام کیا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی خلافت کے زمانہ کا ذکر ہورہا تھا.اس ضمن میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے لاہور میں بحیثیت مبلغ تقریر کا ذکر آنے پر ساتھ ہی اختصاراً ان تمام مبلغین کا ذکر کر دیا گیا ہے جو آپ کی زندگی میں یا آپ کے بعد لاہور میں متعین ہوئے.اس مختصر تذکرہ کے بعد مناسب ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے بعد ضروری واقعات کا ذکر کیا جائے جن کا تعلق لا ہور کے ساتھ ہے.حضرت خلیفہ اول کا ملتان تشریف لے جاتے ہوئے لاہور میں قیام ۲۴.جولائی ۱۹۱۰ ء کو حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو ایک طبی شہادت دینے کے لئے ملتان جانا پڑا.رات لاہور میں قیام فرمایا.۲۵.جولائی کو لاہور سے ملتان تشریف لے گئے اور شہادت سے فارغ ہوکر ۲۸.جولائی کی صبح لاہور واپس پہنچے.۲۹.تاریخ کو لاہور میں جمعہ کی نماز پڑھائی اور ۳۱.کو احباب جماعت کی درخواست پر صبح کے وقت احمد یہ بلڈ نگس میں اسلام اور دیگر مذاہب“ کے عنوان پر ایک پبلک تقریر فرمائی.شام کو واپس قادیان تشریف لے گئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی لاہور میں تشریف آوری ۲۲.اکتوبر ۱۹۱۱ء کو محترم خواجہ جمال الدین صاحب انسپکٹر مدارس ریاست جموں کے فرزند

Page 429

428 خواجہ کا نکاح حاجی شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام کی دختر کے ساتھ تین ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا.اس تقریب میں جناب خواجہ کمال الدین صاحب کی درخواست پر حضرت صاحبرادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب لاہور تشریف لائے اور صاحب موصوف کی تحریک پر ہی دو تقریر میں فرمائیں.ایک تقریر ۲۲.اکتوبر کو براتیوں کے سامنے ہوئی جس میں آپ نے سورۃ والعصر کی نہایت ہی لطیف رنگ میں تفسیر بیان فرمائی اور دوسری تقریری۲۳.اکتوبر کی شام کو مسجد احمد یہ میں ہوئی ہے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا سفر لا ہو ر ۱۵ جون ۱۹۱۲ ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سے ان کی درخواست پر اللہ وعدہ فرمایا تھا کہ حضور تشریف لا کر ان کی بلڈنگ واقعہ مال روڈ کا سنگِ بنیا درکھیں گے.حضرت اقدس کے وصال کے بعد جناب شیخ صاحب کی درخواست پر حضرت خلیفہ اول نے از راہ ذرہ نوازی لاہور تشریف لا کر ان کے مکان واقعہ مال روڈ کی بنیاد رکھی.بنیاد کی تقریب نہایت سادہ رنگ میں منعقد ہوئی.پہلے حضور نے ایک مختصری تقریر فرمائی.جس میں اس امر پر مسرت کا اظہار فرمایا کہ آپ اس تقریب میں شمولیت فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک وعدہ کو پورا فرما رہے ہیں.دوسرے شیخ صاحب نے چونکہ اپنی جائیداد کے تیسرے حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی اس لئے اس قومی تعلق کی وجہ سے بھی آپ نے اس کا خاص طور پر ذکر فر مایا.اس کے بعد فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ دردِ دل سے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کو با برکت کرے اور شیخ صاحب جن کو ہم سے محبت ہے ان کی اولاد کو بھی ہمارے ساتھ ویسی ہی محبت بخشے..اب میں دعا کر کے ایک اینٹ رکھ دیتا ہوں.پھر میرے بعد صاحبزادہ مرزا محمود احمد اور بشیر احمد اور شریف احمد اور نواب صاحب (حضرت نواب محمد علی خاں صاحب.ناقل ) دعا کر کے ایک ایک اینٹ رکھ دیں.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت دعا فرمائی.احباب کے لئے یہ امر دلچسپی کا موجب ہوگا کہ اس تقریب کی یادگار کے طور پر جو کتبہ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنی بلڈنگ واقعہ مال روڈ کے برآمدے میں لگوایا اور جواب تک محفوظ ہے اس پر

Page 430

429 مندرجہ ذیل الفاظ کنندہ ہیں: ماشاء الله لا قوة الا بالله دار الرحمت جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفتہ امسیح مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ۱۵.جون ۱۹۱۲ء مطابق ۲۸.جمادی الثانی ۱۳۳۰ھ رکھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور حضرت خلیفہ امسیح الاول کی تقریریں ۱۶.جون ۱۹۱۲ ء : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے ارشاد پر ۱۶.جون ۱۹۱۲ء کی صبح کو 9 بجے جماعت احمدیہ کے ایک اجلاس میں ایک آیت کی تفسیر بیان فرمائی.اور یہ عجیب توارد ہے کہ جب آپ تقریر فرما چکے تو حضرت خلیفہ مسیح الاوّل تشریف لائے اور حضور نے بھی اسی آیت کی تفسیر میں تقریر فرمائی حالانکہ حضور کو ہرگز اس بات کا علم نہیں تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب جلسہ میں اس آیت کی تفسیر بیان کر چکے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے وقت آپ فاصلہ پر عورتوں میں وعظ فرمارہے تھے.اس سفر میں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے احمد یہ بلڈنکس میں خلافت کے موضوع پر وہ معرکتہ ہمیشہ ار تقریر فرمائی اہمیت کی تاریخ میں یہ سنہری حروف سے بھی جائے گی.لکھی خلافت کے موضوع پر حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کی ایک معرکۃ الآراء تقریر حضور کی یہ تقریر ۱۶.۱۷ جون ۱۹۱۲ء کو دو الگ الگ نشستوں میں ہوئی.اس تقریر کے بعض اہم حصے درج ذیل ہیں : تم کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ محمد رسول اللہ علیہ کے بعد ایک کیا پھر اس کے مرنے کے بعد میرے ہاتھ پر تم کو تفرقہ سے بچایا.اس نعمت کی قدر کرو اور لکھی بحثوں میں نہ پڑو.میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی کسی نے کہا کہ خلافت کے متعلق بڑا اختلاف ہے.حق کسی کا تھا اور دی گئی کسی کو.میں نے کہا کہ کسی

Page 431

430 رافضی کو جا کر کہہ دو کہ علی کا حق تھا ابو بکر نے لے لیا.میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی بحثوں سے تمہیں کیا اخلاقی یا روحانی فائدہ پہنچتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ نے چاہا خلیفہ بنا دیا اور تمہاری گردنیں اس کے سامنے جھکا دیں.خدا تعالیٰ کے اس فعل کے بعد بھی تم اس پر اعتراض کرو تو سخت حماقت ہے.میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنایا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے.فرمایا انــی جاعل في الارض خليفة.اس خلافتِ آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا کہ وہ مفسد فی الارض اور مفسک الدم ہوگا.مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا ؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لئے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے.اگر وہ ابی و استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یا در کھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اسے وَ اسْجُدُوا لَا دَمَ کی طرف لے آئے گی اور اگر ابلیس ہے تو اس دربار سے نکل جائے گا.وو پھر دوسرا خلیفہ داؤدتھا يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلُكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ترجمہ.اے داؤد ! تجھے زمین میں خلیفہ ہمیں نے بنایا ہے داؤد کو بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا.ان کی مخالفت کرنے والوں نے تو یہاں تک ایجی ٹیشن کی کہ وہ انارکسٹ لوگ آپ کے قلعہ پر حملہ آور ہوئے اور کود پڑے.مگر جس کو خدا نے خلیفہ بنایا تھا کون تھا جو اس کی مخالفت کر کے نیک نتیجہ دیکھ سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنایا.رافضی اب تک اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں.مگر کیا تم نہیں دیکھتے.کروڑوں انسان ہیں جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر درود پڑھتے ہیں.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے.یہ وہ مسجد ہے جس نے میرے دل کو خوش کیا.اس کے بانیوں اور امداد کنندوں

Page 432

431 کیلئے میں نے بہت دعا کی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں عرش تک پہنچی ہیں.میں اس مسجد میں کھڑے ہو کر جس نے مجھے بہت خوش کیا اور اس شہر میں آ کر اس مسجد ہی میں آنے سے خوشی ہوتی ہے.میں اس کو ظاہر کرتا ہوں کہ جس طرح پر آدم داؤد اور ابوبکر و عمر کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی نے مجھے خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ ہی میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے.اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خاں کو کہہ دیں.پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حقدار ہو سکتے ہیں.مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا.مرزا صاحب کی اولا د دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود بشیر شریف نواب ناصر نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے.بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں.میاں محمود بالغ ہے.اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں ( مگر نہیں ) میں خوب

Page 433

432 جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبرادر ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں.جس طرح پر علی ، فاطمہ ، عباس نے ابوبکر کی بیعت کی تھی.اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری فرمانبرداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر ایسا فدا ہے کہ مجھے کبھی و ہم بھی نہیں آ سکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہو.سنو! میرے دل میں کبھی یہ غرض نہ تھی کہ میں خلیفہ بنتا.میں جب مرزا صاحب کا مرید نہ تھا.تب بھی میرا یہی لباس تھا.میں امراء کے پاس گیا اور معزز حیثیت میں گیا مگر تب بھی یہی لباس تھا.مرید ہو کر بھی اسی حالت میں رہا.مرزا صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ کیا خدا تعالیٰ نے کیا.میرے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی مگر خدا تعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا.مجھے تمہارا امام وخلیفہ بنا دیا اور جو تمہارے خیال میں حقدار تھے ان کو بھی میرے سامنے جھکا دیا.اب تم اعتراض کرنے والے کون ہو.اگر اعتراض ہے تو جاؤ خدا پر اعتراض کرو.مگر اس گستاخی اور بے ادبی کے وبال سے بھی آگاہ رہو...میں کسی کا خوشامدی نہیں.مجھے کسی کے سلام کی بھی ضرورت نہیں اور نہ تمہاری نذور اور پرورش کا محتاج ہوں.خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ ایسا وہم بھی دل میں گذرے.اللہ تعالیٰ نے مخفی در مخفی خزانہ مجھے دیا ہے.کوئی انسان اور بندہ اس سے واقف نہیں.میری بیوی اور بچے تم میں سے کسی کے محتاج نہیں.اللہ تعالیٰ آپ ان کا کفیل ہے.تم کسی کی کیا کفالت کرو گے.واللہ الغنی وانتم الفقراء جو سنتا ہے وہ سن لے اور خوب سن لے اور جو نہیں سنتا اس کو سننے والے پہنچا دیں.کہ یہ اعتراض کرنا کہ خلافت حق دار کو نہیں پہنچی.رافضیوں کا عقیدہ ہے اس سے تو بہ کرلو.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت اور فرماں برداری کرو.ابلیس نہ بنو.مسئلہ اکفار : ” دوسرا مسئلہ جس پر اختلاف ہوتا ہے وہ اکفار کا مسئلہ ہے.اپنے مخالفوں کو کیا سمجھنا چاہیئے ؟ اس مسئلہ کے متعلق تم آپس میں جھگڑتے ہو.سنو!

Page 434

433 ” ہر نبی کے زمانے میں لوگوں کے کفر اور ایمان کے اصول کلام الہی میں موجود ہیں.جب کوئی نبی آیا.اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کیا دقت رہ جاتی ہے؟ ایچا پیچی کرنی اور بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے کفر ایمان اور شرک کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پہلے نبی آتے رہے.ان کے وقت میں دو ہی قو میں تھیں.ماننے والے اور نہ ماننے والے.کیا ان کے متعلق کوئی شبہ تمہیں پیدا ہوا ؟ اور کوئی سوال اٹھا کہ نہ مانے والوں کو کیا کہیں ؟ ” جیسا کہ ابھی میں نے کہا یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہئے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے کوئی کہتا ہے کتابوں کا عشق ہے اس میں مبتلا رہتا ہے.ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.یہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے رافضی ہیں جوا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں.وو غرض کفر و ایمان کے اصول تم کو بتا دیئے گئے ہیں.حضرت صاحب خدا کے مرسل ہیں.اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے تو بخاری کی حدیث کونعوذ باللہ غلط قرار دیتے جس میں آنے والے کا نام نبی رکھا ہے.پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.اب ان کے ماننے اور نہ ماننے کا مسئلہ صاف ہے.عربی بولی میں کفرا نکا رہی کو کہتے ہیں.ایک شخص اسلام کو مانتا ہے.اس حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو جس طرح یہود کے مقابلہ میں عیسائیوں کو قریبی سمجھتے ہو.اسی طرح پر یہ مرزا صاحب کا انکار کر کے ہمارے قریبی ہو سکتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے جیسے رافضی صحابہ کا کرتے ہیں.ایسا صاف مسئلہ ہے مگر نکھے لوگ اس میں بھی جھگڑتے رہتے ہیں.نکھے لوگ ہیں اور کام نہیں.ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو قلعے فتح کرتے ہیں اور ایک یہ ہیں.بخاری کا لفظ سہو کتابت ہے مراد مسلم“ ہے.حضرت خلیفہ اول خود فرماتے ہیں: تمام مجدودں میں سے نبی اللہ صرف آپ ہی کے لئے احادیث میں آیا ہے.دیکھو مسلم...غرض آپ کی شان بہت اعلیٰ ہے اور آپ پر ایمان لانے کے سوا نجات نہیں“.( الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ صفحه۲ ۱۹۱۲ء.مؤلف )

Page 435

434 کیا کوئی خلافت کے کام میں روک ہے وو تیسری بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے اور وہ میرے دوست کہلاتے ہیں.اور میرے دوست ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خلافت کے کام میں روک لاہور کے لوگ ڈالتے ہیں.میں نے قرآن کریم اور حدیث کو استاد سے پڑھا ہے اور میں دل سے انہیں مانتا ہوں.میرے دل میں قرآن اور حدیث کی محبت بھری ہوئی ہے.سیرت کی کتا ہیں ہزاروں روپیہ خرچ کر کے لیتا ہوں.ان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی میرا ایمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا.آدم اور داؤد کا خلیفہ ہونا میں نے پہلے بیان کیا اور پھر اپنی سرکار کے خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جس طرح ابوبکر اور عمر خلیفہ ہوئے رضی اللہ عنہما.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے مجھے مرزا صاحب کے بعد خلیفہ کیا.اب اور سنو ! انا جعلنا كم خلائف في الارض تم سب کو بھی زمین میں اللہ تعالیٰ نے ہی خلیفہ کیا.یہ خلافت اور رنگ کی ہے.پس جب خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے تو کسی اور کی کیا طاقت ہے کہ اس کے کام میں روک ڈالے.لاہور میرا گھر نہیں میرا گھر بھیرہ میں تھا یا اب قادیان میں ہے.میں تمہیں بتا تا ہوں کہ لاہور کا کوئی آدمی نہ میرے امر خلافت میں روک بنا ہے نہ بن سکتا ہے.پس تم ان پر بدظنی نہ کرو اگر مان لیا ہے تو شکر کرو اور نہیں تو صبر کی دوا موجود ہے.میں باوجود اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتا ہے.اس موقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں ( جو سہل الحصول ہو.مؤلف ) تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مر جاؤں گا (اللهم متعنا بطول حیاتہ تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا.اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.

Page 436

435 وو و تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور نہ اب تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یا درکھو کہ میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.دیکھو! میری دعائیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں.میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے.میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے.تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو اور توبہ کرلو تھوڑے دن صبر کرو.پھر جو پیچھے آئے گا اللہ تعالی جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا.سنو! تمہاری نزا میں تین قسم کی ہیں.اوّل ان امور اور مسائل کے متعلق جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تمہیں اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا ان پر رائے زنی نہ کرو.جن پر ہمارے امام اور مقتدا نے قلم نہیں اٹھا یا تم ان پر جرات نہ کرو.ورنہ تمہاری تحریریں اور کاغذر دی کر دیں گے.تم میں کوئی تصنیف کرتا ہے.اور اگر کہو کہ تمہارا قلم نہیں لکھ سکتا تو کیا ہم بھی نہ لکھیں؟ تو نورالدین، تصدیق، فصل الخطاب ابطال الوہیت مسیح کو پڑھ لو.مجھے لکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی ایک مصلحت نے روک رکھا ہے اور ہاں خدا نے روکا ہے....اب میں پھر تمہیں نصیحت کرتا ہوں.میرے بڑھاپے اور بیماری کو دیکھ لو.اپنے اختلافوں کو دیکھ لو کیا یہ تمہیں خدا سے ملا دیں گے؟ اگر نہیں تو پھر ہماری بات مانو اور محبت سے رہو اور اس طرح پر رہو کہ میں تمہیں دیکھ کر اس طرح خوش ہو جاؤں جس طرح پر مسجد کو دیکھ کر خوش ہوا.جس طرح شہر میں داخل ہو کر مسجد کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی خدا کرے کہ جاتے ہوئے مجھے یہ آواز آوے کہ تم باہم ایک ہوا اور تم محبت سے رہتے ہو.تم بھی دعاؤں سے کام

Page 437

436 لو.میں بھی تمہارے لئے دعا ئیں کروں گا‘ و باللہ التوفیق کے اس تقریر میں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے خلافت نبوت اور کفر و اسلام کے مسائل کو ایسے عام خلیفہ المسیح فہم پیرا یہ میں حل فرما دیا ہے کہ ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس کے مخاطب کون لوگ ہیں اور کن کو یہ مسائل سمجھائے جا رہے ہیں؟ کونسا وہ گروہ ہے جس نے خلافت اور انجمن کے تعلقات کو الجھانا چاہا.کونسا گر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضور کی نبوت کا منکر بنا ہے اور کس نے مسئلہ کفر و اسلام میں طوفان بے تمیزی برپا کر رکھا ہے؟ پھر کسی گروہ نے خلیفہ وقت کو معزول کرنے کی کوشش کی تھی؟ یہ سارے مسائل ایسی وضاحت کے ساتھ حق کے منکر گروہ کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ معمولی غور و فکر کرنے والے دماغ کے لئے کوئی الجھن باقی رہتی ہی نہیں.اس تقریر کا ایک اور فقرہ بھی قارئین کرام کیلئے قابل غور ہے حضور فرماتے ہیں.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا.ان ( مسائل مؤلف ) پر رائے زنی نہ کرو“.اب غیر مبائعین بتائیں کہ ان میں کونسا شخص حضرت خلیفہ المسح الاول کا خلیفہ ہے جس نے انہیں ان کے موجودہ مسلک پر قائم کیا ہے؟ اس فیصلہ کن اور طمانیت بخش تقریر کے بعد منکرین خلافت کو چاہیئے تو یہ تھا کہ وہ اپنی زہریلی تقریروں کا رخ موڑ کر اپنی سابقہ روش کو بدل لیتے.مگر ان کے قلوب سے منافرت اور تفرقہ انگیزی کے جراثیم مئے نہیں.البتہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی اس تقریر کے اثر سے کچھ عرصہ کے لئے دب ضرور گئے.مگر اندر ہی اندر یہ مواد پک رہا تھا اور جب مکمل طور پر پختہ ہوگیا تو ان لوگوں نے سوچا کہ اب جب تک حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے بھی براہ راست ٹکر نہ لی جائے ہماری کامیابی مشکل ہے.چنانچہ انہوں نے اپنے مرکز لاہور سے ایک پر چہ بنام ”پیغام صلح نکالنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں.ادھر سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جماعت کی تربیت اور رہنمائی کے لئے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے ایک اخبار قادیان سے جاری کرنا چاہتے تھے.مگر جب آپ نے یہ سنا کہ احباب لاہور بھی ایک اخبار نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی خدمت میں لکھا.کہ لاہور سے جماعت کے احباب ایک اخبار نکال رہے ہیں اس لئے حضور اگر پسند

Page 438

437 فرما ئیں تو میں اخبار نہ نکالوں.مگر حضور نے فرمایا کہ اس اخبار اور اس اخبار کی اغراض میں نمایاں فرق ہے.آپ اس سے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ارشاد کے ما تحت قادیان سے ۱۹.جون ۱۹۱۳ء کو الفضل کا پہلا پرچہ جاری ہوا.”پیغام صلح“ کا اجراء۱۰.جولائی ۱۹۱۳ء جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے منکرین خلافت اب کھلم کھلا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل اور جماعت مبائعین کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اس کے لئے سوائے ایک اخبار نکالنے کے اور کوئی مؤثر ذریعہ نظر نہیں آتا تھا.اس لئے انہوں نے ۱۰.جولائی ۱۹۱۳ء کو احمد یہ بلڈ نگکس لاہور سے ایک اخبار بنام ”پیغام صلح نکالنا شروع کر دیا.ابھی اس اخبار کو جاری ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ گورنمنٹ کو رفاہ عامہ کی غرض سے کانپور کی ایک مسجد کا غسلخانہ گرانے کی ضرورت پیش آئی.ملک کے اخبارات نے گورنمنٹ کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی اور اسے مذہب میں دخل اندازی قرار دیا.مگر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی رائے یہ تھی کہ غسلخانہ مسجد کا حصہ نہیں.اس لئے گورنمنٹ کے اس فعل کو قابل اعتراض قرار نہیں دیا جا سکتا.منکرین خلافت کو اس بات کا علم تھا کہ اس بارہ میں حضرت خلیفہ اول کی کیا رائے ہے؟ مگر وہ بھی ملک کی اس رو میں بہہ گئے اور پیغام صلح نے دیگر اخبارات کی ہمنوائی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ ”پیغام صلح میں جو مضامین حضرت خلیفہ المسیح الاول کی پالیسی کے خلاف نکلا کرتے تھے وہ جناب مولوی محمد علی صاحب سے لکھوائے جاتے تھے جوصدرانجمن احمد یہ قادیان کے سیکرٹری تھے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کو جب مولوی صاحب کی اس دورخی پالیسی کا علم ہوا تو حضور سخت ناراض ہوئے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بلوا کر دو مضامین کے نوٹ لکھوائے.جن میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ غسلخانہ مسجد کا حصہ نہیں.اور یہ کہ جولوگ اس موقعہ پر شورش کر رہے ہیں وہ ملک کی پُر امن فضا کو مکدر کر کے کوئی اچھا کام نہیں کر رہے مگر ساتھ ہی یہ ہدایت فرمائی کہ یہ مضامین آپ کی طرف منسوب نہ کئے جائیں.جب یہ مضامین شائع ہو گئے تو چونکہ ان مضامین میں اخبار پیغام صلح کے نکتہ نگاہ سے اختلاف کیا گیا تھا اس لئے منکرین خلافت اور ان کے ہمنواؤں نے یہ

Page 439

438 مشہور کرنا شروع کر دیا کہ الفضل“ میں مولوی محمد علی صاحب کو گالیاں دی گئی ہیں.جناب ڈاکٹر محمد شریف صاحب بٹالوی سول سرجن جو اس وقت سرگودھا میں متعین تھے قادیان تشریف لے گئے اور سید نا حضرت محمود رضی اللہ عنہ سے اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا.حضور نے فرمایا.ڈاکٹر صاحب! یہ مضامین میرے نہیں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے لکھوائے ہوئے ہیں.وہ یہ سن کر حیران ہو گئے اور کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ حضرت صاحب تو مولوی صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان کے خلاف ایسے الفاظ کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ حضور نے اسی وقت اخبار کا پر چہ منگوایا اور مضمون متعلقہ کے حاشیہ پر لکھا کہ یہ مضمون حضرت خلیفتہ امسیح اوّل کا لکھوایا ہوا ہے اور جس قد رسخت الفاظ ہیں وہ آپ ہی کے ہیں.میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھے ڈاکٹر صاحب موصوف وہ پر چہ لے کر حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چونکہ انہوں نے جلد واپس جانا تھا اس لئے جاتی دفعہ وہ پر چہ اپنے ایک رشتہ دار کے ہاتھ حضور کو بھجوا دیا اور کہلا بھیجا کہ آپ کی بات درست ہے.ہے غرض یہ پہلا واقعہ تھا جس میں منکرین خلافت نے حضرت خلیفہ اول کی پالیسی کونظر انداز کر دیا اس کے بعد دن بدن یہ لوگ مخالفت میں بڑھتے چلے گئے کشی کہ وہ وقت آیا کہ حضرت خلیفہ امسیح اوّل نے اخبار ”پیغام صلح ، منگوانا بند کر دیا اور اسے ”پیغام صلح کی بجائے ”پیغام جنگ“ لکھنا شروع کر دیا.ان لوگوں نے سوچا کہ ”پیغام صلح کے ذریعہ ہم سلسلہ کے عقائد میں تو کسی حد تک بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں ( گو یہ بھی ان کی خام خیالی تھی مگر جب تک حضرت خلیفتہ امسیح اول اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلاف بھی جماعت کو پورے طور پر بدظن نہ کر لیا جائے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.اور یہ کام چونکہ ”پیغام صلح کے ذریعہ کھل کر سرانجام نہیں دیا جا سکتا تھا.کیونکہ پیغام صلح ان لوگوں کا ایک آفیشل آرگن تھا.اور اس کے مضامین ان کی طرف ہی منسوب ہوتے تھے اس لئے انہوں نے ایک خاص منصو بہ کے ماتحت دوخفیہ ٹریکٹ’ اظہار الحق کے عنوان سے نکالے.ان ٹریکٹوں میں انہوں نے حضرت خلیفہ امسیح اول اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف خوب جی بھر کر ز ہرا گلا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی مگر بز دلی دیکھئے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب

Page 440

439 ان ٹریکٹوں کے آخر میں داعی الی الوصیت کے الفاظ کے بعد مضمون نویس“ کے نام کو قینچی سے کاٹ دیا گیا تا کہ قارئین ٹریکٹ مذکورہ بالا مقدس ہستیوں پر لگائے گئے الزامات کا ثبوت طلب کرنے کے لئے مضمون نویس کی طرف رجوع نہ کر سکیں.جماعت کو ان گمنام ٹریکٹوں کا جواب دینے کی تو ضرورت نہ تھی کیونکہ جب شائع کنندہ نے اپنا نام ہی ظاہر نہیں کیا تو قوم پر اس کا کیا اثر پڑ سکتا تھا لیکن چونکہ اخبار ”پیغام صلح نے ان ٹریکٹوں کے مندرجات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ جو ٹریکٹ ہم نے دیکھتے ہیں ان میں ذرہ شک نہیں کہ اکثر با تیں ان کی سچی ہیں“ نیز یہ بھی لکھا کہ ٹریکٹ ہائے کی بیان کردہ باتوں کے ساتھ اتفاق رائے رکھنے کے جرم میں اگر ہماری نسبت غلط فہمی پھیلائی جانی لاہوری انصار اللہ نے مناسب سمجھی ہے اور ہمارے خلاف کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے تو ہماری طرف سے اگر کچھ کمی بیشی کا کلمہ لکھا گیا تو اس کی ذمہ داری بھی انہی پر ہوگی، راقم محمد منظور الہی میں ہر حرف سے متفق ہوں.سید انعام اللہ شاہ یا در ہے کہ اس تحریر میں لاہوری انصار اللہ سے جماعت احمد یہ لاہور کے وہ بزرگ مراد ہیں جو احمد یہ بلڈنگس والوں کی روش کو سخت نا پسند کرتے تھے اور ان کے زہریلے پراپیگنڈہ کے ازالہ کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے.ان بزرگوں میں حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس اعظم لاہور اور ان کے فرزندان (سوائے حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی ) حضرت میاں معراج دین صاحب عمر حضرت منشی تاج الدین صاحب حضرت میاں حاجی محمد موسیٰ صاحب اور حضرت منشی محبوب عالم صاحب نیلہ گنبد وغیرہ اصحاب تھے.یہ دوست حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی بنائی ہوئی اس انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے جو آپ نے فروری 1911ء میں حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی اجازت اور منظوری سے بنائی تھی.اس انجمن کا مقصد ہی یہ تھا کہ منکرین خلافت کے فتنہ کا مقابلہ کیا جائے اور جماعت کے سادہ لوح اصحاب کو اس میں ملوث ہونے سے بچایا جائے.

Page 441

440 آمدم برسر مطلب - بیان پیر ہورہا تھا کہ جب احمد یہ بل نکس والوں نے ان ٹریکٹوں کے.مضامین کے ساتھ اتفاق ظاہر کیا تو ان کا جواب دینا ضروری ہو گیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے اراکین انجمن انصار اللہ قادیان کو فرمایا کہ ان ٹریکٹوں کا جواب تیار کر کے شائع کرو.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل میں انجمن مذکور نے پہلے ٹریکٹ کے جواب میں رسالہ ” خلافت احمدیہ “ اور دوسرے ٹریکٹ کے جواب میں رسالہ اظہار حقیقت“ لکھا اور جب ان رسالوں کا مسودہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے اسے از اوّل تا آخر دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ سے اس مسودہ میں حسب ذیل الفاظ کا اضافہ فرمایا: ”ہزار ملامت ہو پیغام پر جس نے اپنی چٹھی کو شائع کر کے ہمیں پیغام جنگ دیا اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا.الفتنة نـائـمـة لـعـن الـلـه من ايقظها - ( سوئے ہوئے فتنہ کو جگانے والے پر اللہ کی لعنت ہو ) خیر یہ ٹریکٹ شائع کر دیئے گئے اور جماعت میں بہت مقبول ہوئے.اس موقعہ پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ۱۹۳۷ء میں استاذی المکرم حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل حلالپوری نے بھی ایک رسالہ بنام " بعض خاص کارنامے شائع فرمایا تھا جس میں اظہار الحق کے دونوں ٹریکٹوں کو بھی من و عن نقل کر دیا گیا تھا.انجمن انصار اللہ اور حضرت مولانا مد اسماعیل صاحب دونوں کی طرف سے شائع شدہ جوا بات اپنے اپنے رنگ میں بے نظیر ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی آخری وصیت.۴.مارچ ۱۹۱۴ء یوں تو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی صحت کافی عرصہ سے کمزور چلی آتی تھی.مگر فروری ۱۹۱۴ء کے دوسرے ہفتہ میں زیادہ گرنا شروع ہو گئی.آخر جب طبیعت زیادہ مشتعل ہوگئی تو ۴.مارچ ۱۹۱۴ء عصر کے قریب لیٹے لیٹے حضور نے ایک وصیت تحریر فرمائی.جو قلم کی خرابی کی وجہ سے اچھی طرح لکھی نہ گئی.حضور نے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو اور قلم لانے کا حکم دیا.چنانچہ مولوی صاحب نے دیسی قلم پیش کیا تو آپ نے پوری وصیت لکھی اور اس وصیت پر خود بھی دستخط کئے اور معتمدین صدر انجمن نے بھی.وہ وصیت درج ذیل ہے.اس پر

Page 442

441 "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خاکسار بقائی جو اس لکھتا ہے.لا اله الا الله محمد رسول الله.میرے بچے چھوٹے ہیں.ہمارے گھر میں مال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش یتامی و مساکین فنڈ سے نہیں.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائیداد وقف علی الا ولا د ہو.میرا جانشین متقی ہو ہر دلعزیز عالم باعمل ہو حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی در گذر کو کام میں لا وے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.والسلام نور الدین.۴.مارچ ۱۹۱۴ء کے جب آپ وصیت لکھ چکے تو جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو جو پاس ہی بیٹھے تھے ارشاد فرمایا کہ اسے پڑھ کر لوگوں کو سُنا دیں.پھر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھائی.اور پھر دریافت فرمایا کہ کیا کوئی بات رہ تو نہیں گئی.مولوی صاحب کا دل تو اپنے عزائم کے خلاف وصیت کو دیکھ کر غصے سے جل کر کباب ہور ہا تھا مگر حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے رعب کی وجہ سے بادل ناخواستہ کہنا پڑا کہ حضور ! بالکل درست حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی وفات اور موادی محمد علی صاحب کا کردار ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء : حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل ۱۳ - مارچ ۱۹۱۴ء کو وفات پاگئے.فــان الله وانا اليه راجعون كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال و الاکرام اور مولوی محمد علی صاحب جو مجلس معتمدین اور دیگر متعددا حباب کے سامنے حضور کی وصیت تین مرتبہ سنا چکے تھے اور اس کے صحیح ہونے کی بھی تصدیق کر چکے تھے ان کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی یہ تصدیق بالکل منافقانہ رنگ رکھتی تھی کیونکہ انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی زندگی میں ہی ایک ٹریکٹ لکھ کر لاہور میں محفوظ کر رکھا تھا.اس ٹریکٹ کا عنوان تھا ایک نہایت ضروری اعلان اور اس کا مضمون اول : ( حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد.مؤلف ) اگر کسی شخص کے ہاتھ پر چالیس آدمی بیعت کر لیں تو وہ بیشک اس بات کا تو مجاز ہے کہ ان لوگوں سے جو سلسلہ میں داخل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر بیعت لے لے مگر اس سے زیادہ کوئی

Page 443

442 مرتبہ اس کا سلسلہ میں تسلیم نہیں ہوسکتا.دوم : جو لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں ان کو از سر نو کسی شخص کی بیعت کی ضرورت نہیں.دو سوم : مجلس معتمدین صدرانجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا.اپنی وصیت میں اسے اپنا جانشین قرار دیا اور اپنی وفات سے صرف آٹھ نو ماہ پیشتر یہ تحریر اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی کہ اس انجمن کے فیصلے آپ کے بعد بالکل قطعی ہوں گے.اس انجمن کو توڑنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح کے ابتدائی ایامِ خلافت میں بڑی کوششیں کی گئیں اور آخری کوشش بڑے زور سے یہ کی گئی کہ قواعد میں اس امر کو درج کیا جائے کہ خلیفہ کے تمام فیصلے انجمن کے لئے قابل قبول ہوں گے اور وہ انجمن کے ممبروں میں سے جس کو چاہے نکال دیا کرے اور جسے چاہے داخل کر لیا کرے.جو دراصل انجمن کو توڑنے کے ہم معنی ہے.میں قوم کو اس خطرناک عنصر کے ارادوں اور منصوبوں سے صفائی سے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر اس بات کو اب پھر اٹھایا جائے تو ساری قوم کا فرض ہے کہ اس کا زور سے مقابلہ کرے.یہ سلسلہ پر وہ حملہ ہو گا جو اس کی بنیا دوں تک صدمہ پہنچائے گا اور حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے کو جڑوں سے اکھیڑ دے گا.“ ( صفحه ۱۴-۱۵) چہارم :.چوتھی بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مسئلہ کفر وا سلام میں خدا سے ڈر کر منہ سے لفظ نکالو.“ پنجم : پانچ میں بات جو میں آخر کار آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت خلیفتہ اسیح نے یہ فرما دیا ہے کہ ان کا کوئی جانشین ہو جو متقی ہو عالم باعمل ہو اور ہر دلعزیز ہو اس لئے صرف اس فرمان کی تعمیل کے لئے تم کسی شخص کو ضرورت کے وقت اس غرض کے لئے منتخب کر لو کہ وہ ہماری قوم میں سب پر ممتاز ہو.تم اس کے حکموں کی قدر کرو.بلا کسی سخت ضرورت کے اس سے اختلاف نہ کرو مگر قومی مشورہ سے اسے طے کرو چالیس انصار اللہ کے فیصلہ کو احمدی قوم کا فیصلہ نہیں کہا جا سکتا.بلکہ انصار اللہ کا بھی نہیں کہا جا

Page 444

443 سکتا لیکن تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کو مدنظر رکھو.اگر کہو کہ جانشین کے معنی یہ ہیں کہ جو حضرت خلیفہ امیج کرتے ہیں.وہ بھی وہی کرے تو دیکھو تم الوصیت میں لکھا ہوا پڑھتے ہو اور یہ مامور من اللہ کا کلام ہے جس پر وہ اپنی وفات تک قائم رہا.کہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے.ہاں ایک شخص کو ممتاز حیثیت دے دو مگر قومی مشورہ سے جلدی میں نہیں..ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمان کی تکفیر کرنے والے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہو سکتی.(صفحہ ۱۹-۲۰ ) ایک بات اس ٹریکٹ میں مولوی صاحب نے یہ کھی تھی کہ جس شخص کو خلیفہ مقرر کیا جائے اس کے ہاتھ پر پرانے احمدیوں کو بیعت کرنے کی ضرورت نہیں.حالانکہ اس امر کا فیصلہ خلافت اولی کے وقت ہو چکا تھا اور خود مجلس معتمدین کے ارکان یہ فیصلہ دے چکے تھے کہ احمدی جماعت کے نئے اور پرانے سب ممبروں کا فرض ہے کہ وہ حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کی بیعت کریں اور ان کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا تھا.پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں: دوسرے اس (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الا ؤل کے جانشین.مؤلف ) میں وہ باتیں موجود ہونی چاہئیں یعنی متقی ہو ہر دلعزیز ہو عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے احباب سے نرمی اور درگذر سے کام لے.ہاں میں بلا کسی ڈر کے یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے تقویٰ سے الگ راہ پر قدم مارتے ہیں اور ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہوسکتی.“ مولوی صاحب کا یہ فقرہ کہ ہر دلعزیزی کی صفت بھی انہیں حاصل نہیں ہوسکتی“ ان کے اندرونہ کی غمازی کر رہا ہے.مسئلہ کفر و اسلام سلسلہ احمدیہ میں کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں رہا جس کے لئے ہر کس و ناکس اپنا اپنا اجتہاد شروع کر دے.حکم و عدل مسیح موعود علیہ السلام اس مسئلہ کونہایت وضاحت سے حل فرما چکے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا مذہب بھی پیچھے بیان ہو چکا ہے.اس کے باوجود محترم مولوی صاحب اور ان کے چند رفقاء کا واویلا کرتے چلا جانا خطر ناک شرارت نہیں تو اور کیا ہے؟ اصل میں مولوی صاحب یہ سمجھتے تھے کہ اس مسئلہ کی موجودگی میں وہ غیر احمد یوں میں ہر دلعزیز نہیں

Page 445

444 بن سکتے اور جب تک وہ ہر دلعزیز نہ بنیں لوگ ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوں گے لیکن نتیجہ الٹ نکلا.غیر احمد یوں نے الٹا انہیں منافق قرار دے دیا اور ان کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا.مگر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مبائعین کی جماعت نے غیر مبائعین کے خطرناک اور زہر یلے پرا پیگنڈا کے باوجود حیرت انگیز ترقی کی.الحمدللہ علی ذالک مولوی صاحب کا یہ لکھنا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا اور اس کے فیصلوں کو قطعی قرار دیا، اس کے ہم بھی منکر نہیں.ہم انجمن کو حضرت اقدس کا جانشین سمجھتے ہیں.مگر انہی معنوں میں میں جن حضرت اقدس سمجھتے تھے یعنی جو کام حضور کی زندگی میں اس کے سپرد کیا گیا تھا یعنی سلسلہ کے اموال کی حفاظت اور اس کا مناسب رنگ میں خرچ کرنا اس پر ہم آج بھی عمل کر رہے ہیں.ہمارے ہاں ایک صدرا انجمن موجود ہے جو یہ کام کر رہی ہے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں انجمن حضور کے سامنے جواب دہ تھی اس طرح حضرت خلیفہ المسیح کے سامنے جوابدہ ہے.باقی رہی یہ بات کہ جس شخص پر چالیس آدمی اتفاق کریں اسے حضور کے فیصلہ کے مطابق دوسروں سے بیعت لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اس حق کو تفویض کرنا بھی خلیفہ وقت کے اختیار میں ہے حضرت خلیفہ اسی جب ضروری سمجھتے ہیں مرکز سلسلہ میں نہ پہنچ سکنے والے احباب کی بیعت لینے کا اپنے بعض مخلص مریدوں کو اختیار دے دیتے ہیں.مسئلہ کفر و اسلام اور بعض دوسرے مسائل کے متعلق ہم پیچھے حضرت خلیفہ امسیح الاول کی ایک معرکة الآراء تقریر درج کر چکے ہیں.غالباً اس تقریر کے سامعین میں جناب مولوی محمد علی صاحب بھی موجود ہوں گے کیونکہ وہ خاص احمد یہ بلڈنگس میں مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کو راہ راست پر لانے کے لئے کی گئی تھی.اور اگر موجود نہیں تھے تو انہوں نے یقیناً اس تقریر کو بڑے غور سے پڑھا ہوگا.اس تقریر میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ان لوگوں کو یہ نصیحت بھی فرمائی تھی کہ سنو! تمہاری نزا میں تین قسم کی ہیں.اوّل ان اور اور مسائل کے متعلق جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلہ کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں جب تک

Page 446

445 ہمارے دربار سے تمہیں اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا ان پر رائے زنی نہ کرو.جن پر ہمارے امام اور مقتدا ء نے قلم نہیں اٹھایا.تم ان پر جرأت نہ کرو ورنہ تمہاری تحریریں اور کا غذر دی کر دیں گے.“ اس نصیحت میں واضح طور پر یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ مسائل کا فیصلہ یا تو حضرت مسیح موعوڈ کر سکتے تھے اور یا حضور کے خلفاء جماعت کے باقی افراد کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسائل کے بارہ میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کی جسارت کریں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا فیصلہ ردی کاغذ کی طرح رد کر دیا جائے گا.حیرت ہے کہ اس وضاحت کے باوجود غیر مبائعین نے غیروں میں ہر دلعزیز بننے کے لئے جماعت احمدیہ کے مخصوص مسائل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا اور یہ تمنا کرنے لگے کہ اب لوگ دیوانہ وار ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے مگر خود غلط بود آنچه ما پنداشتیم ! یہ سکیم ان کی اس بری طرح فیل ہوئی کہ باید وشاید.غرض مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی زندگی میں حضور کی اغراض و مقاصد اور وصیت کے سراسر خلاف ایک مضمون شائع کر کے محفوظ کر لیا تھا اور انتظار کر رہے تھے کہ کب حضور کا وصال ہو اور وہ جماعت کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ، ہی کیا.جونہی حضرت کا وصال ہوا.انہوں نے احمد یہ بلڈ نگکس لاہور سے شائع شدہ ٹریکٹ لے کر جماعتوں کو بھجوانا شروع کر دیا.جو احمدی جنازہ میں شامل ہونے کے لئے قادیان کو روانہ ہورہے تھے ان میں لا ہورڑ امرتسر اور بٹالہ کے اسٹیشنوں پر تقسیم کروانا شروع کر دیا.مگر با وجود اس کے جب قادیان میں انتخاب خلیفہ کا سوال پیدا ہوا تو نوے فیصدی احباب نے یہ رائے دی کہ خلیفہ کا انتخاب فوراً ہونا چاہیئے اور یہ کہ اختیارات کے لحاظ سے بھی اس کی پوزیشن وہی ہونی چاہیئے جو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی تھی اور اس طرح جناب مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس ناپاک منصوبہ میں بھی خطرناک شکست دی اور قادیان میں موجود جماعت کی بھاری اکثریت کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا انتخاب بطور خلیفتہ المسیح عمل میں آ گیا.

Page 447

446 حوالہ جات بحوالہ تاریخ احمدیت مصنفہ مولانا دوست محمد صاحب شاہد ۲ بدر ۲۶.اکتوبر ۱۹۱۱ء سے بدر - ۴.۱۱ جولائی ۱۹۱۲ء اختلافات سلسلہ کی تاریخ صفحہ ۶۸ پیغام صلح جلد نمبر ۴ ۵ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۱۳ء تفصیل کیلئے دیکھئے حیات نور صفحہ ۶۳۷ تا ۶۷۲ کے حیات نور صفحہ ۶۹۱ دیکھئے اختلاف سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ ۱۰۰

Page 448

447 پانچواں باب لاہور میں امارت کا قیام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بعض ا لیکچر غیر مبائعین کے منصوبے اور ناکامیاں سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثانی کا انتخاب ہوتے ہی جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور ان کی پارٹی کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں اور انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ماتحت قادیان کو خیر باد کہہ کر حد یہ بلڈنگس لا ہور میں اپنا الگ مرکز بنا لیا.آتی مرتبہ قادیان کے خزانہ میں صرف چند آنے چھوڑے اور قرآن کریم کی تفسیر مکمل کرنے کے بہانہ سے مرکزی لائبریری میں سے نہایت ہی قیمتی لٹریچر بھی اپنے ساتھ لے آئے.اس گروہ کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے جو ایک قابل وکیل ہونے کے علاوہ ایک اچھے لیکچرار بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضور کی طرف سے عدالتوں میں وکالت کے فرائض سرانجام دے کر جماعت میں کافی شہرت حاصل کر چکے تھے.جناب مولوی محمد علی صاحب صدرا انجمن احمدیہ کے سیکرٹری تھے.ریویو آف ریجنز کے ایڈیٹر اور سلسلہ کا کام محنت سے کرنے کی وجہ سے جماعت میں کافی متعارف ہو چکے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے درسوں میں باقاعدگی کے ساتھ شامل ہو کر قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیری نوٹ بھی جمع کر کے حضور کو سنا کر اسے انگریزی زبان کا جامہ پہنا چکے تھے.ان کا یہ خیال تھا کہ اگر وہ قادیان کو چھوڑ کر چلے گئے تو سلسلہ کی ترقی رک جائے گی.جناب مولوی صدرالدین صاحب بی.اے.بی.ٹی تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر اور صدر انجمن احمد یہ کے قائم مقام سیکرٹری بھی تھے.یہ بھی کافی ہوشیار تھے.اسی طرح جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جناب ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنے

Page 449

448 پیشہ خدمات اور وجاہت کی وجہ سے جماعت میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اس لئے انہیں یقین تھا کہ جماعت کی اکثریت ان کے ساتھ شامل ہو جائے گی.چنانچہ ان لوگوں نے مرکز سلسلہ سے نکل کر بیرونی جماعتوں میں طوفانی دورے شروع کر دیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ عقائد کو خیر باد کہہ کر غیر احمد یوں کو خوش کرنے کے لئے نئے عقائد کی اشاعت بھی کثرت کے ساتھ شروع کر دی.چنانچہ ان ایام میں جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اس امید کی بناء پر پہلی سالانہ رپورٹ میں لکھا کہ : حضرت مولانا محمد علی صاحب کی آواز گویا خدا تعالیٰ کی آواز ہے اور اس کے رسول کی آواز ہے اور اس کے خلیفہ برحق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز ہے.یہ ضرور کامیاب ہوکر رہے گا اور جماعت کا بہترین حصہ جو اپنے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل اور دل میں تقویٰ اللہ اور خشیت اللہ رکھتا ہے ضرور اس مرد میدان کے ساتھ شامل ہو جائے گا اور آخر کار یہ شخص کامیاب ہوکر رہے گا.‘ل ادھر غلامان محمود نے بھی حضور کے ارشاد کے ماتحت ملک بھر کی جماعتوں کا دورہ کر کے انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ جاء الحق و زهق الباطل.جماعت کی اکثریت نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور غیر مبائعین منہ تکتے رہ گئے.البتہ چند مالدارلوگ بیشک ان کے ساتھ شامل ہو گئے جو اپنی دنیاوی مصلحتوں اور کاروباری مشکلات کی وجہ سے جماعت قادیان کا ساتھ دینے سے گھبراتے تھے.لا ہور جو اس فتنے کا مرکز تھا اس میں حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را یکی کو بھجوا دیا.حضرت مولوی صاحب نے یہاں پہنچ کر دہلی دروازہ کے باہر حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے مکان واقعہ ”مبارک منزل‘ میں اپنا مرکز قائم کر لیا.آپ لاہور میں حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی رہ چکے تھے اس لئے جماعت کے احباب آپ سے کافی مانوس تھے.آپ نے تقریر اور تحریر کے ذریعہ سے غیر مبائعین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.مناظرات بھی کئے.نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت کی اکثریت جوا کا برین غیر مبائعین کی وجاہت کی وجہ سے مرعوب تھی، اس پر اصل حقیقت کھل گئی اور وہ مبائعین میں شامل ہو گئے.

Page 450

449 ان ایام میں غیر مبائعین کے ساتھ بحث کرنے کے لئے حضرت مولوی صاحب کے خاص معاون حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی ابن حضرت میاں چراغ دین صاحب تھے.میاں سعدی مرحوم کو مبائعین اور غیر مبائعین کے درمیان متنازعہ تحریرات زبانی یاد تھیں اور اس قسم کی تحریرات پر مشتمل آپ نے بعض ٹریکٹ بھی لکھے تھے.حضرت میاں سعدی مرحوم کی وجہ سے اس خاندان کے بعض بچے بھی غیر مبائعین کے ساتھ گفتگو کا خاص ملکہ رکھتے تھے.چنانچہ محترم میاں محمد عمر صاحب ابن حضرت میاں عبدالمجید صاحب اور پروفیسر میاں عبدالرحمن صاحب مرحوم ابن حضرت میاں احمد دین صاحب نے تو گویا ان کی وفات کے بعد ۱۹۴۰ء سے ان کا کام قریباً قریباً سنبھال ہی لیا تھا.یہ وہ لوگ تھے جو خاص ملکہ رکھنے کی وجہ سے مشہور تھے.لیکن عام گفتگو اس خاندان کے سارے افراد کر لیتے تھے اور اس کی وجہ ایک تو حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا وجود تھا جن کا ہیڈ کوارٹر ان کا گھر تھا.دوسرے اس خاندان کے ایک مشہور فرد حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی شروع شروع میں غیر مبائعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.اور ایک لمبا زمانہ ان کے ساتھ رہے.اپنے والد محترم حضرت میاں چراغ دین صاحب کی وفات کے بعد گوانہوں نے ایک رؤیاء کی بناء پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی مگر بعد عقائد میں ان کا اختلاف زندگی بھر رہا.اور وہ بحث کے اس قدر شوقین دلدادہ اور عادی تھے کہ تھکتے ہی نہیں تھے.خصوصاً مسئلہ نبوت کے متعلق تو وہ ساری عمر سلسلہ کے علماء اور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ بخشیں کرتے رہے.مناظرات بھی کئے.چنانچہ ایک مناظرہ جو انہوں نے سلسلہ کے جید عالم حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ کیا تھا، شائع بھی ہو چکا ہے.حضرت حکیم صاحب موصوف چونکہ اس گھر میں رہتے تھے اور بحث مباحثہ ان کا ایک محبوب مشغلہ تھا اس لئے گھر کے سارے افراد کا ان کی بحثیں سن سن کر ان مسائل سے خوب واقف ہو گئے تھے.راقم الحروف نے بھی ایک لمبا عرصہ حضرت حکیم صاحب کے ساتھ گفتگو کی ہے اور انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنا بھی ہے.ان کی گفتگو اپنے بھائی حضرت میاں عبد العزیز صاحب مغل کے ساتھ خاصی دلچسپ ہوا کرتی تھی.لا ہور چونکہ غیر مبائعین کا مرکز تھا.اس لئے غیر مبائعین کے لئے مرکز سے بھی بکثرت لٹریچر آیا کرتا تھا.جسے جماعت غیر مبائعین بھائیوں میں تقسیم کیا کرتی تھی.علاوہ ازیں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو لاہور بھجوایا ( مفصل ذکر آگے

Page 451

450 آئے گا ) اور خود بھی وقتا فوقتاً جماعت کو خطوط لکھے.چنانچہ حضور کی ایک چٹھی جو حضور نے حضرت حکیم محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری کو لکھی درج ذیل ہے: برادران! از طرف محمود احمد طرف جماعت احمد یہ لاہور السلام علیکم.لاہور کی جماعت بوجہ اس کے کہ اس میں بعض ایسے دوست پائے جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کے نہایت پرانے خادم ہیں اور بوجہ اس کے کہ لاہور پنجاب کا دارالخلافہ ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ اس گروہ کا مرکز ہے جو سلسلہ احمدیہ سے علیحدہ ہو کر اپنا بن کر غیروں سے زیادہ سلسلہ کی مخالفت کر رہا ہے اور بوجہ اس کے کہ حضرت مسیح موعود و ہیں پر فوت ہوئے اور آپ کو وہاں جانے اور لیکچر دینے کے متعدد مواقع پیش آئے ایک خاص جماعت ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا خصوصیات جو ان کو حاصل ہیں اس کا ان کو اچھی طرح احساس ہوگا اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کا اچھی طرح خیال رکھتے ہوں گے.لیکن پھر بھی مزید تاکید کے لئے میں ان چند سطور کے ذریعہ انہیں ان کے فرائض کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.آپ لوگوں کو میرے ایک خط کے ذریعے سے معلوم ہوا ہوگا کہ میں نے بعض ضرورتوں کی وجہ سے لاہور کے عہدہ داروں کو خود منتخب کیا ہے جو عہدہ دار بدل گئے ہیں ان کے بدلنے کی یہ وجہ نہیں کہ ان کے کام میں کچھ نقص تھا بلکہ اس کا باعث اوّل تو خود شیخ عبدالحمید صاحب کا ایک خط تھا جو انہوں نے مجھے لکھا تھا جس میں انہوں نے بعض وجو ہات سے لاہور کی انجمن کے عہدہ داروں میں بعض تبدیلیوں کی خواہش کی تھی.دوم اس کا باعث یہ تھا کہ شیخ صاحب کو اکثر سفر در پیش رہتا تھا جس کی وجہ سے بعض امور میں لاہور کی انجمن کے کام میں تعویق و تاخیر واقع ہو جاتی تھی ورنہ انہوں نے نہایت محبت اور اخلاص سے کام کیا ہے اور اس وجہ سے میں نے پسند نہیں کیا کہ ان کا تعلق اس عہدہ سے بکلی کٹ جائے.د حکیم محمد حسین صاحب پرانے مخلص ہیں اور حضرت مسیح موعود سے خاص تعلق رکھتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ وہاں کے احباب ان کے کام میں ہاتھ بٹائیں گے اور ہر طرح ان کی مدد کریں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ وہ اس شکایت کو جو وہاں کے سابق سیکرٹری

Page 452

451 صاحب نے کی تھی کہ بعض لوگ کام میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں آئندہ پیدا نہ ہونے دیں گے.” میرے عزیز بھائیو! دین کی حالت موجودہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس میں کسی قسم کا تفرقہ کیا جائے یا کسی قسم کی غفلت سے کام لیا جائے.پس اس موقعہ اور اس وقت کو پہچانو.تا خدا کے دین کے خدام میں اور مخلص خدام میں آپ کا نام لکھا جائے ہمارے پاس وہ کونسی چیز ہے جس کے لئے ہم جھگڑیں کیا وہ کام جو ہم کرتے ہیں ایسا ہے کہ اس کے متعلق ہم اختلاف کریں ہمارے مال اور ہمارے چندہ جن کے متعلق بدظنیوں سے کام لیا جائے کیا اُخروی عزت ہمارے لئے کافی نہیں کیا اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے لئے بس نہیں کہ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے دین میں تفرقہ اندازی کے موجب ہوں.میں نے مولوی غلام رسول صاحب کو کوئی عہدہ نہیں دیا اس لئے نہیں کہ وہ اس کے اہل نہیں یا اس لئے کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ لاہور کے کام کا لاہور کی جماعت ہی انتظام کرے مولوی صاحب میرے نائب اور قائم مقام ہی کے طور پر وہاں رہتے ہیں اس لئے ان کی حیثیت کو بدلنا میں نے پسند نہیں کیا.پس آپ لوگ بھی امید ہے ان کی اس حیثیت کا خیال رکھیں گے اور امور دینیہ میں ان کے مشورہ اور رائے کے بغیر کوئی کام نہ کریں گے.میں آخر میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف بھی متوجہ کرتا ہوں کہ آپ کے شہر سے جو فتنہ پھیل رہا ہے اس کا علاج زیادہ تر آپ لوگ ہی کر سکتے ہیں.پس غفلت کو ترک کر کے تن دہی اور کوشش سے اس فتنہ کو مٹانے میں لگ جائیں تا آپ کے ذمہ کا وہ فرض ادا ہو جو مقام لاہور کی جماعت ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر کیا گیا ہے.میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو دین و دنیا میں کامیاب فرمادے اور دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ بنے کی توفیق آپ کو عطا ہو اور آپ کے تمام کام اتفاق و اتحاد سے ہوا کریں.والسلام.خاکسار مرزا محمود احمد

Page 453

452 احمد یہ ہوٹل لاہور کا قیام - ۱۹۱۵ ء خلافت ثانیہ کے ابتدائی حالات بیان کرنے کے بعد اب ہم تاریخ وار بعض واقعات کا ذکر کرتے ہیں.سوسب سے اول احمد یہ ہوٹل لاہور کے متعلق بعض واقعات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے.احمد یہ ہوٹل لاہور کے مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے احمدی طلباء کی دینی تربیت کے لئے ۱۹۱۵ء کے آخر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے جاری کیا گیا.پہلے اسلامیہ کالج کے پاس پچاس روپیہ ماہوار پر ایک مکان کرایہ پر لیا گیا.لیکن اس مکان میں طلباء کو بعض تکالیف تھیں.اس لئے عالی جناب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے اور مکان لینے کی رائے دی.چنانچہ بڑی تلاش کے بعد ایک مکان واقعہ گوالمنڈی مبلغ ستر روپیہ ماہوار کرایہ پر لیا گیا.یہ عالیشان بلڈنگ حفظان صحت اور جائے وقوعہ کے لحاظ سے بہت عمدہ تھی.اس ہوٹل کے سپرنٹنڈنٹ کے فرائض کی بجا آوری کا کام محترم با بو عبد الحمید صاحب سیکرٹری انجمن احمد یہ لا ہور کے سپر د کیا گیا.اس وقت ہوٹل میں کل پندرہ طالب علم تھے جو لاہور کے مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے.درس تدریس کا کام حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے سپر دتھا.حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی جب کبھی لاہور میں تشریف لاتے تو طلبہ کی روحانی تربیت کے لئے ہوٹل ہی میں قیام فرماتے.محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور کا بیان ہے کہ جن ایام میں ہوسٹل گوالمنڈی کے مکان میں تھا.ان ایام میں کچھ عرصہ کے لئے جناب مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بھی سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل کے فرائض سرانجام دیئے تھے.آپ عربی ایم.اے کا امتحان دینے کے لئے لاہور تشریف لائے تھے.ان دنوں آپ کا نام رحیم بخش‘ تھا.جسے کچھ عرصہ کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بدل کر ” عبدالرحیم “ رکھ دیا تھا.اس کے بعد کچا نسبت روڈ پر ایک کوٹھی کرایہ پر لی گئی.اس کو ٹھی میں ۱۹۲۵ ء تک ہوسٹل رہا.سپر نٹنڈنٹ محترم سید دلاور شاہ صاحب تھے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت تھے اور ان کی کوٹھی کچا نسبت روڈ پر مجیٹھ ہاؤس کے نام سے مشہور تھی.آج کل وہاں دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ہے.ان

Page 454

453 ایام کے مشہور طالب علم یہ تھے.ملک غلام فرید صاحب ایم.ائے شیخ یوسف علی صاحب مرحوم پرائیوٹ سیکرٹری، مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر میاں عطاء اللہ صاحب سابق امیر راولپنڈی، چوہدری غلام احمد صاحب ایم.اے مرحوم صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال، صوفی محمد ابراہیم صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول شیخ محمد احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لائکپور، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق حج ہائی کورٹ ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب سید عبدالرزاق شاہ صاحب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء خود چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت احمد یہ منٹگمری، ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب رانجھا، چوہدری رشید احمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر مدارس ملتان، ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب ڈاکٹر لال دین صاحب، چوہدری حاکم دین صاحب ایڈووکیٹ اخوند عبدالقادر صاحب ایم.اے مرحوم سید محموداللہ شاہ صاحب مرحوم سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول سید عزیز اللہ شاہ صاحب.۱۹۲۵ء میں ہوٹل ۳۶.ایمپریس روڈ پر چلا گیا.وہاں سپرنٹنڈنٹ شیخ یوسف علی صاحب مرحوم تھے.محترم ماسٹر نذیر احمد خاں اور ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب بھی وہاں کچھ عرصہ سپرنٹنڈنٹ رہے.اس زمانہ کے مشہور طلباء کے نام یہ ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفة مسح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سیکرٹری وزارت مال پاکستان حضرت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب چیف میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال ربوہ محترم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم ملک کرم الہی صاحب ایڈووکیٹ کوئٹہ سید ظہور احمد شاہ صاحب ڈاکٹر عبدالحق صاحب سول سرجن.اس کے بعد ہوٹل کو ٹھی الفیض، لٹن روڈ میں چلا گیا.وہاں سپرنٹنڈنٹ شیخ فضل کریم صاحب پراچہ تھے.دوسال کے بعد وہاں سے ہوٹل پھر ایمپریس روڈ منتقل ہو گیا.یہاں بھی دو سال کے قریب ہوٹل رہا.اس جگہ سپر نٹنڈنٹ سید غلام مصطفیٰ صاحب تھے.مشہور طلباء میں سے صرف چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت شیخو پورہ کا نام یاد ہے.آخر میں ہوٹل ڈیوس روڈ پر چلا گیا.اس کوٹھی میں جو میو گارڈن کے متصل ہے اور جسے بعد میں محترم مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے الاٹ کروالیا اور جہاں آج کل محترم مولوی صاحب کے صاحبزادگان مقیم ہیں.

Page 455

454 سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب نے فرمایا کہ ہوٹل کی نگرانی کے لئے ایک وارڈن ہوا کرتا تھا جو ہوٹل اور نظارت تعلیم و تربیت کے درمیان بطور واسطہ ہوا کرتا تھا.۱۹۳۲ء سے لے کر ۱۹۴۰ ء تک وارڈن کے فرائض میرے ذمہ رہے.تقسیم ملک کے بعد ہوٹل ایک عرصہ تک بند رہا.اب پھر ۱۹۶۴ء سے گلبرگ کی ایک کوٹھی میں جاری ہوا مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی وہاں سے منتقل ہو کر کینال پارک میں آ گیا.اب کینال پارک میں ہے اور محترم چوہدری رحمت خاں صاحب سابق امام مسجد لندن سپرنٹنڈنٹ ہیں.صداقت مریمیہ کی تصنیف ۱۹۱۵ء ☆ پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت میاں معراج دین صاحب عمر ایک ماہر انشا پرداز تھے اور سلسلہ کی تائید میں کتب اور اشتہارات لکھتے رہتے تھے.1919ء میں آپ نے صداقت مریمیہ کے نام سے حضرت مریم کی صدیقیت پر ایک پر از معلومات کتاب لکھی.غیر مبائعین کے ساتھ مباحثے اور گفتگو جاری رہتی تھی.اور فریقین کی طرف سے ٹریکٹ اور کتا ہیں بھی شائع ہوتی رہتی تھیں.یہ سلسلہ ۱۷.۱۹۱۶ء میں بھی برابر جاری رہا.لاہور میں امارت کا قیام - ۱۹۱۸ء محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب قانونی تعلیم کو مکمل کر کے 1911ء میں لندن سے واپس اپنے وطن آگئے تھے اور آتے ہی سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کر دی تھی.اپریل 1911ء کے قریب آپ لا ہور منتقل ہو گئے.حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت لاہور کی تنظیم کو مستحکم کرنے کے لئے آپ کو لاہور کی جماعت کا امیر مقرر فرمایا.آپ کے تقرر سے پہلے جماعت میں امارت کا عہدہ نہیں ہوا کرتا تھا.۱۹۱۸ء میں حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے لاہور میں حضرت چوہدری صاحب موصوف کو اور فیروز پور میں حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو امیر مقرر فرمایا.اور اس طرح ان دونوں بزرگوں کے ذریعہ سے جماعت میں امارات کی ابتداء شروع ہوئی.جناب چوہدری صاحب نے وکالت کے پیشہ میں جلد ہی نمایاں ترقی کر لی اور آپ کا شمار لاہور کے چوٹی کے آج کل ہوٹل ۱۰۸ سی ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہو چکا ہے.مؤلف

Page 456

455 وکلاء میں ہونے لگا.آپ صدرانجمن احمدیہ کے قانونی مشیر بھی تھے.اور جماعتی مقدمات میں بھی اکثر ہندوستان بھر میں جایا کرتے تھے.1919ء میں حضرت امیر المومین کی لاہور میں دو اہم تقریریں ۱۲ فروری ۱۹۱۹ء کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بغرض علاج لاہور میں تشریف لائے مگر علاج کے ساتھ ساتھ حضور نے دو عظیم الشان تقریریں بھی کیں.حضور کی پہلی تقریر اسلام اور تعلقات بین الاقوام" کے موضوع پر ۲۳.فروری کو بریڈ لاء ہال میں ہوئی اور دوسری اسلام میں اختلافات کا آغاز کے موضوع پر مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج کے زیر اہتمام یہ ہال میں ہوئی.پہلی تقریر کے دوران صدارت کے فرائض حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سرانجام دیئے اور دوسری تقریر جناب سید عبد القادر صاحب ایم.اے کی صدارت میں ہوئی.جناب سید القادر صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا: آج کے لیکچرار اس عزت اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب نا واقف ہوں.آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے حلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا ، اس تقریر میں حضور نے عبداللہ بن سبا اور اس کے باغی ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور یہ مضمون جو نہایت ہی مشکل اور پیچیدہ تھا اور جسے مشہور تاریخ دان اصحاب بھی بیان کرنے سے ہچکچاتے تھے اسے حضور نے ایسے عام فہم اور دلکش پیرایہ میں بیان فرمایا.کہ حاضرین عش عش کر اٹھے.جناب سید عبدالقادر صاحب نے خاتمہ تقریر پر فرمایا: حضرات ! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس ( میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف

Page 457

456 اشارہ کر کے) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ ( جو اوپر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر ) کی روشنی سے ہے.حضرات ! جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت ہی مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے.،، جناب! ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح نے ایک قابل قدرلیکچر کے عنوان سے لکھا: ہم علانیہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ۲۶.فروری 1919ء کو حبیبیہ ہال لاہور میں خلافت اسلامیہ کے اندرونی اختلاف پر جو لیکچر انہوں ( مراد حضرت خلیفہ اسیح الثانی.مؤلف) نے دیا وہ نہایت ہی قابل قدر اور لائق تحسین تھا.جس محنت اور جس قابلیت کے ساتھ میاں صاحب نے تاریخ کی ورق گردانی کر کے ان اسباب کو معلوم کیا جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات اور آپس کی نزاعات اور جنگوں کا باعث تھے اور جس خوبی کے ساتھ اس الزام کو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم دراصل ان فتنوں کے موجب تھے ان خیر القرون کے بزرگوں سے اتارنے کی کوشش کی ہے وہ داددینے کے قابل ہے.یہ تقریر جب اگلے سال یعنی ۱۹۲۰ ء میں شائع ہوئی تو اس کی ابتداء میں جناب سید عبدالقادر صاحب نے تمہیداً لکھا کہ فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے.مجھے بھی تاریخ اسلامی سے کچھ شد بد ہے.اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصلی وجو ہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں.حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا.میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گذرا ہو گا.

Page 458

457 ۱۹۲۰ء میں حضرت امیر المومنین کی لاہور میں تقریریں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے زمانہ امارت کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ کے زمانہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب بھی لا ہور تشریف لاتے تھے اونچے طبقہ کے لوگ حضور سے ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے اور پبلک تقریریں بھی بکثرت ہوا کرتی تھیں جن سے ہر طبقہ کے لوگ فائدہ اٹھاتے تھے.چنانچہ جب ۱۳.فروری ۱۹۲۰ء کو لاہور میں تشریف لائے اور ایک عشرہ قیام فرمایا تو اس اثنا میں حضور نے پانچ اہم تقریریں فرما ئیں.جن کی تفصیل درج ذیل ہے: (۱) پہلی تقریر ۱۵.فروری کو بریڈ لاء ہال میں حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب کی صدارت میں ہوئی.اس تقریر میں حضور نے وزیر اعظم انگلستان کے اس ادعاء کو عقلی اور نقلی دلائل سے غلط ثابت کیا کہ آئندہ دنیا کا امن عیسائیت کے ساتھ وابستہ ہے.حضور نے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ واضح فرمایا کہ مستبقل میں دنیا کا امن صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے.کے (۲) دوسری تقریر واقعات خلافت علوی کے موضوع پر خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب کی صدارت میں حبیبیہ ہال میں ہوئی جس کا انتظام لاہور کی مارٹن ہسٹار یکل سوسائٹی نے کیا تھا.اس تاریخی تقریر میں بھی حضور کا اسلوب بیان واقعات کی چھان بین اور طرز استدلال اسی رنگ کا تھا جو حضور کے مشہور لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز میں پایا گیا تھا.حاضرین جلسہ پر اس تقریر کے اثر کا کچھ اندازہ صاحب صدر کے ان ریمارکس سے ہو سکتا ہے جو انہوں نے تقریر کے خاتمہ پر دیئے.انہوں نے فرمایا: حضرات ! میں آپ سب صاحبان کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.اس پر زور خطابت اور پراز معلومات تقریر کے لئے جو آپ نے اس وقت ہمارے سامنے کی ہے میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نے قریباً تین گھنٹے تقریر کی ہے اور آپ صاحبان نے ہمہ تن گوش ہو کر سنی ہے.اس تقریر سے جو وسیع معلومات اسلامی تاریخ کے متعلق معلوم ہوئے ہیں ان میں سے بعض بالکل غیر معمولی ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کی تلاش اور تجسس کے لئے کسی وقت

Page 459

458 بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا.مگر میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں محض مطالعہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں بلکہ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کو مسلسل بیان کیا ہو اور پھر کسی تاریخی مضمون سے ایسا لطف آیا ہو جو کسی داستان گو کی داستان میں بھی نہ آ ،، سکے.اس کے لئے میں پھر شکر یہ ادا کرتا ہوں.(۳) تیسری تقریر حضور نے ”مذہب اور اس کی ضرورت“ کے موضوع پر احمد یہ ہوٹل لاہور میں فرمائی.۱۸.فروری ۱۹۲۰ء کی یہ تقریر حضور نے ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں کی جو دراصل مستشرقین یورپ کے اعتراضات کے جوابات میں تھی.حضور نے موجودہ علمی تحقیقات کو مدنظر رکھ کر ایسے دلکش پیرا یہ میں یہ تقریر کی کہ سامعین وجد میں آگئے.(۴) چوتھی تقریر حضور نے ۱۹.فروری ۱۹۲۰ء کو احاطہ میاں چراغ دین صاحب بیرون دہلی دروازہ میں کی.یہ ایک قسم کی تبلیغی تقریر تھی جو احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مجمع میں مسلسل اڑھائی گھنٹہ تک جاری رہی.اس تقریر میں حضور نے صداقت احمد یہ کو ایسے اچھوتے رنگ میں بیان فرمایا کہ اکثر سامعین کی آنکھیں پر نم تھیں اور وہ بے حد متاثر نظر آتے تھے.ا.(۵) پانچویں * تقریر میں جو ۲۴.فروری کو ہوئی خالص جماعت احمدیہ لاہور مخاطب تھی مگر موضوع اس قسم کا تھا جس سے ساری جماعت فائدہ اٹھا سکتی تھی.اے یادر ہے کہ ان ایام میں حضور صرف تقاریر ہی نہیں فرماتے تھے.بلکہ دن کے اوقات میں اکثر غیر احمدی اور غیر مسلم حضرات ملاقات کے لئے بھی تشریف لاتے رہتے تھے.چنانچہ بعض مشہور ہستیوں کا ذکر الفضل کے اوراق میں بھی ہے.انہی میں سے ایک صاحب مسٹر رچرڈ پر نسپل اسلامیہ کالج لاہور ۲۲ فروری کو حضور امرتسر تشریف لے گئے اور بندے ماترم ہال میں صداقت اسلام اور ذرائع ترقی اسلام پر ایک شاندار تقریر فرمائی جو علماء سوء کی اشتعال انگیزی کے باوجود بخیر و خوبی ختم ہوئی.رات کی گاڑی سے حضور واپس لا ہور تشریف لے آئے ( الفضل ۱۵.مارچ ۱۹۲۰ء )

Page 460

459 تھے جن سے حضور نے متعدد دینی مسائل کے بارہ میں گفتگو فرمائی اور وہ بہت ہی متاثر ہو کر گئے.۱۲ سفر لاہور ۴.مارچ ۱۹۲۱ء ۴.مارچ ۱۹۲۱ء کو حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ایک مقدمہ میں شہادت دینے کے لئے لاہور تشریف لائے.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضور نے دو تقریر میں بھی فرمائیں.ایک مذہب کی ضرورت“ کے عنوان پر اور دوسری حقیقی مقصد اور اس کے اصول کے طریق پر ۱۳ مباحثہ لاہور 66 ۱۹۲۱ء کے دوران میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے لاہور میں منشی پیر بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ تائید الاسلام کے ساتھ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلافی مسائل پر ایک شاندار مباحثہ کیا جو مباحثہ لاہور کے نام سے شائع ہوا.الفضل میں بھی اس کا ذکر ہے." لاہور میں حضور کی تشریف آوری ۲۳.فروری ۱۹۲۲ء ۲۳.فروری ۱۹۲۲ء کو حضور ایک ہفتہ کے لئے لاہور تشریف لائے اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی کوٹھی پر قیام فرمایا.حضرت چوہدری صاحب نے حضور اور حضور کے خدام کی حتی المقدور مہمان نوازی اور خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.فجزاه الله احسن الجزاء.اس سفر میں حضور نے ایک تو شہزادہ پرنس آف ویلز کے استقبال میں شمولیت اختیار فرمائی.دوسرے وعظ ونصیحت اور تبلیغ سلسلہ حقہ سے اپنوں اور غیروں کو خوب فائدہ پہنچایا.الفضل نے حضور کے اس ہفتہ کے کاموں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جور پورٹ شائع کی ہے.وہ درج ذیل ہے: حضور خلیفہ ایسیح نے لاہور کے قیام کا ایک ہفتہ وعظ ونصیحت اور ارشاد و ہدایت میں صرف کیا.کہیں جماعت کے نو نہال طلباء کو وعظ کرتے تھے.کہیں عام لوگوں کو سمجھاتے تھے.کہیں ایک جلسہ کی صورت میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہبی اور روحانی لذت کا شوق دلاتے تھے.کہیں دہریت اور مادیت کی رگ پر نشتر رکھتے تھے.کہیں عیسویت کا سحر باطل کرتے

Page 461

460.تھے.کہیں منکرین الہام و نبوت کو قائل کرتے تھے.غرض ایک کیفیت تھی.ایک حال تھا.ایک ولولہ تھا جو چلتا پھرتا اور کام کرتا اور لوگوں کو کام کرنے پر آمادہ کرتا نظر آتا تھا.اس سفر میں بہت سے لوگوں کے شکوک مذہب کے متعلق دور ہوئے.بہت سے اوہام باطل ہوئے.اور قریباً بیس پچیس شخصوں نے بیعت بھی کی.۱۵ مسجد احمد یہ مغلپورہ گنج میں دو نفل دو حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب ( نیلہ گنبد لاہور) نے مغل پورہ گنج میں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی.جب حضور لاہور میں تشریف لائے تو اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہوں نے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور از راه نوازش مسجد کو دیکھ کر اپنے غلام کی حوصلہ افزائی فرمائیں.چنانچہ حضور ۲۶.فروری ۱۹۲۲ء کو مغل پورہ گنج تشریف لے گئے اور اس مسجد میں دو نفل نماز بھی پڑھائی.11 احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے اجلاس میں تقریر ۲۷.فروری ۱۹۲۲ء کو حضور نے عہدیداران احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی درخواست پر ان کے ایک اجلاس میں روح کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر ایک پر از معلومات تقریر فرمائی جس سے حاضرین کی مذہبی معلومات میں بہت اضافہ ہوا.کلا لاہور کے اس قیام میں بھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے بہت سے معززین حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے جن میں سے دیال سنگھ کالج کے پرنسپل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.تحفه پرنس آف ویلز میدامر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پرنس آف ویلز کا استقبال ایک تو ارشاد اذاجاء کم کریم قوم فاکرموہ کی تعمیل میں تھا.دوسرے اس ملاقات کے پیچھے بھی تبلیغی جذ بہ کارفرما تھا.حضور نے ۵۲۲۰۸- احمدیوں کے چندہ سے شہزادہ ویلز کو تبلیغ اسلام و احمدیت کی غرض سے ایک رسالہ تیار فرمایا تھا اور تحفہ شہزادہ ویلز ( A Present to the Prince of wales کا نام رکھا تھا.

Page 462

461 اگر حضور خود ملاقات نہ کرتے تو اس تبلیغی تحفہ کا وہ اثر ہر گز نہ ہوتا جو ملاقات کے بعد ہوا.حضور کی عظیم شخصیت کا شہزادہ پر بہت ہی گہرا اثر پڑا تھا.خصوصاً اس لئے بھی کہ حضور نے ملاقات سے قبل گورنر پنجاب کی معرفت یہ امر منوا لیا تھا کہ حضور مغربی طرز ملاقات کے خلاف اسلامی طرز ملاقات کو اختیار فرمائیں گے.اس رسالہ میں حضور نے نہایت ہی احسن طریق سے عیسائیت کا بطلان اور اسلام کے فضائل بیان فرمائے ہیں.اور ایسے خوبصورت پیرا یہ میں یہ رسالہ لکھا گیا ہے کہ جب شروع کیا جائے ختم کرنے سے قبل اسے ہاتھ سے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا.مباحثہ لاہور ۱۹۲۲ء میں حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی میں محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب نے پادری چنن خان کے ساتھ اختلافی مسائل پر ایک کامیاب مناظرہ کیا.۱۸ ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم مشکلات کا صحیح حل ۱۹۲۲ء میں مہاتما گاندھی اور مولانا محمد علی و شوکت علی صاحبان کے دوروں کی وجہ سے ہندو مسلمانوں میں اتحاد اور یگانگت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور سارا ملک اس امر پر متحد ہو گیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزاد کروایا جائے مگر آریوں نے ملکا نہ میں شدھی اور سگھٹن کی تحریک جاری کر کے مسلمانانِ ہندوستان کے جذبات کو سخت مجروح کیا.جس کی وجہ سے ملک کا امن برباد ہو گیا.ہندو مسلم فسادات روزانہ کے معمول بن گئے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ سخت مضطرب ہو کر میدانِ عمل میں نکل آئے اور حضور نے ہندوستان کی تمام قوموں کے نام صلح کا پیغام دیتے ہوئے قومی اور ملکی مشکلات کا صحیح حل اہل وطن کے سامنے رکھا اور اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ حضور نے لاہور تشریف لا کر ۱۴.نومبر ۱۹۲۳ء کو خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب کی صدارت میں بریڈ لاء ہال میں ایک تقریر کی جس میں ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں شریک ہوئے.خان بہادر صاحب موصوف نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا:

Page 463

462 وو ” جناب مرزا صاحب کو جو ملکہ اس مسئلہ اور اسی طرح اور بہت سے اہم مسائل پر غور فرمانے کا حاصل ہے وہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے کیونکہ آپ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے مذہبی پیشوا ہیں اور آپ نے اپنی زندگی مذہبی معاملات پر غور وفکر کرنے کے لئے وقف کی ہوئی ہے.‘‘19 اس کے بعد حضرت خلیفہ امسیح تقریر کے لئے کھڑے ہوئے.حضور نے پہلے تو مسلمان قوم کو خود حفاظتی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے ایسی تجاویز بتا ئیں کہ جن پر عمل کرنے سے وہ اپنی تنظیم کو مضبوط کر سکتی تھی.بعد ازاں ہندو مسلم صلح کے لئے چند سنہری اصول بیان فرمائے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اوّل: سب مذاہب والے ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں کا احترام کریں.دوم : دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی بجائے سب قو میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے پر اکتفا کر لیں.اگر یہ بھی مشکل ہو تو سوم : ہم اس امر پر بھی اتفاق اور اتحاد کے لئے تیار ہیں کہ غیر مسلم یہ اقرار کریں کہ وہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں نہیں دیں گے اور خدا اور اس کے رسول کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا.البتہ ایک دوسرے کے مسلمہ اصولوں کی بنا پر اعتراض کیا جا سکے گا.چهارم : مذہبی لوگوں سے ان کا کوئی مسلمہ مذہبی اصل ترک کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے.مثلاً ہندو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو.مگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوؤں کے نزدیک ہے.مسلمان اس کا گوشت کھا نا آخر کیوں چھوڑ دیں.جب کہ ان کا مذہب اجازت دیتا ہے.جم : ہر قوم دوسری قوم کے حقوق تسلیم کرے.عجیب بات ہے کہ ہند و یہ تو کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو سوراج لے کر دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں.ششم : ہندو کہتے ہیں.آل انڈیا نیشنل کانگرس کو سب قو میں تسلم کریں مگر حالت یہ

Page 464

463 ہے کہ ذرا سے اختلاف کی بناء پر لوگوں کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا جب تک ہر نقطہ نظر کے لوگوں کو آزادی سے اپنے خیالات پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے کانگریس کبھی بھی سارے ملک کی نمائندہ نہیں ہو سکتی.۲۰ حضور کا یہ لیکچر حاضرین نے پوری توجہ انہماک سے سنا.لیکچر کے اختتام پر صد رجلسہ نے کہا: یہ میں جناب مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی جامع اور پُر مغز تقریر فرمائی ہے.انہوں نے فرمایا کہ میں اپنا سارا وقت دینیات کے مطالعہ پر صرف کرتا ہوں.مگر اس وقت آپ نے سیاسیات پر ایسی وسعت سے روشنی ڈالی ہے کہ زبان اور دل سے تحسین نکلتی ہے.جناب مرزا صاحب نے اتفاق واتحاد کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالی ہے جس کی سیاسی لیڈروں سے توقع نہیں ہو سکتی نہ وہ اس طرح نگاہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی (سیاسی) پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے.اس لئے آپ نے نہایت آزادی اور وسعت سے ہر پہلو کو بیان فرمایا.۲۱ اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی ۱۵ نومبر ۱۹۲۳ء اس سے اگلے روز یعنی ۱۵.نومبر ۱۹۲۳ء کو حضور نے آنریبل سر فضل حسین صاحب وزیر تعلیم کی صدارت میں اسلامیہ کالج کے ہال میں ایک اہم تقریر فرمائی جس کا موضوع یہ تھا.اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی حضور کا یہ لیکچر ایسا جامع پُر از معلومات تھا کہ سامعین نے حیرت و استعجاب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بالکل خاموشی اور سکون کے ساتھ اسے سنا.66 ادارہ پیغام صلح کی طرف سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی رضا کارانہ وکالت : ۱۹۲۳ء کے واقعات میں ایک قابل ذکر واقعہ یہ بھی ہے کہ اس سال کے آخر میں ادارہ ”پیغام صلح پر ایک مضمون وید کا بھید“ کی اشاعت کی بناء پر مقدمہ دائر تھا جس کی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے رضا کارانہ طور پر وکالت کی.

Page 465

مباحثہ لاہور 464 اس سال حضرت حافظ روشن علی صاحب نے لاہور میں پنڈت دھرم بھکشو اور پنڈت رام چندر دہلوی سے ایک کامیاب مباحثہ بھی کیا.لجنہ اماءاللہ لاہور کا قیام ۱۹۲۳ء کے خاص واقعات میں سے ایک واقعہ لاہور میں لجنہ اماءاللہ کا قیام ہے.قادیان دارالامان میں لجنہ اماءاللہ کی بنیا د حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲۵ - دسمبر ۱۹۲۲ء کو رکھی اور اس کی پہلی سیکرٹری حضرت امتہ الحی صاحبہ کو مقرر فرمایا.حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ نے اس کام کو خوب محنت اور ذوق و شوق سے شروع فرمایا.آپ کی وفات کے بعد یہ اہم خدمت حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر کے سپرد ہوئی.جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو ممبرات نے صدارت کے لئے حضرت اُم المومنین کی خدمت میں درخواست کی مگر حضرت ام المومنین نے غالباً پہلے ہی اجلاس میں حضرت سیدہ ام ناصر کو اپنی جگہ بٹھا کو صدارت کا فیصلہ ان کے حق میں فرمایا.چنانچہ آپ نے اپنی وفات تک اس فرض کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا.آپ کی وفات کے بعد یہ خدمت حضرت ام متین صاحبہ کے سپر د کر دی گئی جسے آپ اب تک نہایت محنت جانفشانی اور کمال جد و جہد کے ساتھ سرانجام دے رہی ہیں.حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں لجنہ کو اس کے فرائض سے آگاہ کرنے کے لئے جو چٹھی ۱۵.دسمبر ۱۹۲۲ء کو لجنہ کے نام لکھی اس میں تحریر فرمایا کہ دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی تو ڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے.اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے.پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے.چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں حضرت سیدہ کی وفات ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کو ہوئی.

Page 466

465 وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں.اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے.‘، ۲۴ اس تحریر کی وضاحت میں حضور نے سترہ امور بیان فرمائے جن کو مدنظر رکھ کر اس تنظیم کو چلانا مقصود تھا.۲۵ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ۱۹۲۳ء میں لجنہ اماءاللہ لاہور کا قیام عمل میں لایا گیا گو یہ قیام با قاعدہ تنظیم کے ماتحت نہ تھا.مگر جیسا کہ محترمہ زینب حسن صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ لا ہور نے بیان فرمایا ہے.شروع شروع میں محترمہ اہلیہ صاحبہ محمد اسحاق صاحب مرحوم اور محتر مہ اماں پہلوانی صاحبہ نے اس کام کی ابتداء کی.یہ دونوں بزرگ خواتین ہر جمعہ کی نماز کے بعد مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں لجنہ کے جلسہ کا انتظام کرتیں.خود پنجابی میں تقریریں کرتیں اور بعض اوقات مردوں کی تقاریر کروا کر ان جلسوں کو زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کی کوشش فرماتیں.ممبرات سے چندہ بھی باقاعدگی کے ساتھ وصول کر کے مرکز میں بھجوا تیں.چند سالوں کے بعد ایک خاتون محترمہ زبیدہ نامی لاہور میں تشریف لائیں.ان کے آنے پر اس تنظیم نے با قاعدگی کا رنگ اختیار کیا.چنانچہ بالا تفاق انہیں لجنہ کی صدر اور محتر مہ اہلیہ صاحبہ بابو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹر کو سیکرٹری چنا گیا.ان کے ساتھ سیکرٹری مال کا عہدہ محترمہ اہلیہ مرزا محمد صادق صاحب مرحوم کے سپرد کیا گیا.تینوں مستورات نے طویل عرصہ تک اس کام کو حسن و خوبی کے ساتھ چلایا.پھر جب محترمہ زبیدہ خاتون صاحبہ لا ہور سے تشریف لے گئیں اور محتر مہ اہلیہ صاحبہ بابوعبد الحمید صاحب بیمار ہوگئیں تو محتر مہ اہلیہ صاحبہ مرزا محمد صادق صاحب کے ساتھ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد سعید صاحب نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا.اس زمانہ میں لا ہور کی وسعت کو مدنظر رکھ کر لجنہ کے کام کو حلقوں میں تقسیم کیا گیا.۴۲ ۱۹۴۱ء میں لجنہ اماءاللہ حلقہ چابک سواراں میں لجنہ کی صدر محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ مغل اور سیکرٹری محترمہ زینب حسن صاحبہ مقرر ہوئیں.محترمہ زینب حسن صاحبہ کا بیان ہے کہ ۱۹۴۷ء تک اس حلقہ کا کام دوسرے تمام حلقوں سے شاندار رہا.۱۹۴۷ء میں لق

Page 467

466 ملک کے بعد جب حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قادیان سے بھی کافی مستورات یہاں آ گئیں تو حسن کارکردگی کی وجہ سے آپ کو لاہور کی جنرل سیکرٹری اور محترمہ امۃ اللہ صاحبہ مغل کو صد ر مقرر کیا گیا.۱۹۵۱ء میں لجنہ اماءاللہ لاہور کی مہرات نے محترمہ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جنرل صدر کے طور پر منتخب کیا.آپ کے بعد ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۸ء لا ہور کی جنرل صدر محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بیگم حضرت مرزا مظفر احمد صاحب مقرر ہوئیں.آپ کے زمانہ میں لا ہور کو بارہ حلقوں کی بجائے ہیں حلقوں میں تقسیم کیا گیا.پھر ۱۹۵۹ ء میں جب کام اور وسیع ہوا تو چھپیں حلقے مقرر ہوئے اور ان کی جنرل صدر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور انسپکٹرس بیگم صاحبہ مرزا رشید احمد صاحب قرار پائیں.اور اب تک یہ نظام قائم ہے.اس وقت لاہور کی مجلس عاملہ کی اراکین کے نام یہ ہیں:.ا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جنرل صدر ۲.محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ بیگم مرزا حمید احمد صاحب نائب سیکرٹری ۳.محترمہ زینب حسن صاحبہ (۱۹۵۱ء) سے ) ۴- محترمه سیده بشری بیگم صاحبہ ۵ - محترمہ صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بیگم خان عباس احمد خاں صاحب جنرل سیکرٹری نائب جنرل سیکرٹری بعد ہا دو سال سے محترمہ زینب حسن صاحبہ یہ کام بھی کر رہی ہیں سیکرٹری مال محترمہ اقبال بیگم صاحبہ (۱۹۴۸ء سے ) سیکرٹری خدمت خلق ے.محترمہ والدہ صاحبہ اختر محمود نائب شعبہ خدمت خلق ۸ محتر مہ احمدی بیگم صاحبہ ایک سال سے سیکرٹری تعلیم محترمہ بیگم صاحبہ جناب غلام احمد صاحب سیکرٹری نمائش ۱۰ محترمہ بیگم صاحبہ میر مشتاق احمد صاحب نگران چار حلقہ جات

Page 468

467 لجنہ اماءاللہ لا ہور کی ایک رپورٹ کارگزاری محتر مہ زینب حسن صاحبہ جنرل سیکرٹری نے خاکسار مؤلف کتاب ہذا کو اپنے حلقہ چابک سواراں کے کام سے متعلق ۱۹۴۶ء کا ایک چارٹ دکھایا ہے جس میں جنوری ۱۹۳۶ء تا اگست ۱۹۴۶ ء رپورٹ کارگزاری درج ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ تمام شعبوں یعنی شعبه مال شعبه خدمت خلق، شعبه تبلیغ شعبه تربیت واصلاح اور شعبہ ناصرات الاحمدیہ میں خاطر خواہ کام کیا گیا ہے.مثال کے طور پر اجلاسوں کی تعداد کو لیجئے.عرصہ زیر رپورٹ میں کل ۳۴ جلسے منعقد ہوئے جن میں شعبہ خدمت خلق کے ماتحت متعدد ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کی تقاریر کروائی گئیں.شعبہ تعلیم کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس با قاعدہ جاری رہا.شہادۃ القرآن کا امتحان لیا گیا اور اس کے لئے باقاعدہ روزانہ مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں آکر خاکسار مؤلف کتاب ہذا سے ممبرات نے سبقاً سبقاً کتاب پڑھی.شعبہ تبلیغ کے ماتحت مرکز سے ٹریکٹ منگوا کر تقسیم کئے جاتے رہے.ماہ مارچ میں ایک خاتون نے بیعت بھی کی.ہر ماہ کوئی نہ کوئی تبلیغی جلسہ بھی کیا جاتا رہا جس میں غیر احمدی مستورات بھی شامل ہوتی رہیں.متعدد غیر احمدی بہنوں کو زبانی اور بذریعہ خطوط تبلیغ کی گئی.شعبہ تربیت و اصلاح کے ماتحت خاکسار مؤلف سے آٹھ تقاریر کروائی گئیں.شعبہ ناصرات الاحمدیہ نے بھی اچھا خاصہ کام کیا.سالانہ رپورٹ اکتوبر ۱۹۶۳ ء تا ستمبر ۱۹۶۴ء ملاحظہ فرمائیے یہ مطبوعہ رپورٹ اکتو بر۱۹۶۳ء تا ستمبر ۱۹۷۴ ء چوالیس صفحات پر مشتمل ہے خلاصہ کارگزاری صفحہ ۸ پر ان الفاظ میں درج ہے: عرصہ ڈیڑھ سال سے لجنہ اماءاللہ نے اپنا دفتر مسجد دارالذکر واقع گڑھی شاہومیو روڈ میں قائم کر رکھا ہے...دفتر عمو م جمعہ کے روز کھلتا ہے.دفتر نے مختلف کتب مثلاً لیکچر سیالکوٹ، چہل احادیث نماز مترجم قصائد احمد یہ در عدن قاعدہ ہائے میسر نالقرآن تربیتی نصاب رسید بکس، فارم ہائے رپورٹ قواعد وضوابط لجنہ وغیرہ مرکز سے منگوکر حلقہ جات میں تقسیم کئے.انفرادی طور پر بھی یہ مطبوعات خواتین کے پاس فروخت کیں.چھ ماہ گزرنے پر

Page 469

468 مجلس عاملہ کے اجلاس میں حلقہ جات کی کارگزاری کا ششماہی جائزہ پیش کر کے حلقہ جات کو زیادہ مستعد ہونے کی تحریک کی گئی.وو دفتر کی طرف سے شعبہ جات کی عہدیداران اور حلقہ جات کے عہد یداروں کو مختلف امور کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے سال رواں میں ۵۴۲ خطوط لکھے گئے.حلقہ جات سے آمدہ رپورٹوں کے مطالعہ کے بعد ہر ماہ ماہانہ رپورٹ تیار کر کے مرکز کو بھجوائی جاتی رہی.اسی طرح مختلف تقاریب کی رپورٹ دفتر مصباح اور دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو الگ الگ بھجوائی گئیں اور ان کی نقول اپنے رجسٹر میں درج کی گئیں.مجالس عاملہ کے فیصلے اور مرکز ربوہ سے جاری شدہ ہدایات خطوط میں لکھ کر حلقہ جات کو بھیجی گئیں اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی.ایجنسی سے حاصل شدہ مصباح کے پرچوں کی فروخت کا انتظام کیا گیا ۲۶ وصولی چندہ اکتوبر ۱۹۶۳ ء تا ستمبر ۱۹۶۴ء اس سال مختلف مدات میں جو چندہ جمع کیا گیا اس کی میزان پانچ ہزار سات سو اٹھانوے روپے چھ آنے ہے.۲۷ حصول انعامات گذشته سالانہ اجتماع مرکز یہ میں شرکت کر کے نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے نتیجہ میں لجنہ لاہور کی ممبرات نے متعد د انعامات حاصل کئے.بہر حال لجنہ لا ہور کی کارگزاری سے پتہ چلتا ہے کہ لجنہ کی کارکنان ممبرات کے تعاون سے قابل قدر کام کر رہی ہیں.احمدیت یا حقیقی اسلام کا انگریزی ترجمہ ویمبلے کا نفرنس لندن میں شرکت کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی دعوت نامہ پہنچا تھا.اس کے لئے حضور نے ایک مضمون لکھا جو بعد میں احمدیت یا حقیقی اسلام کے نام

Page 470

469 سے کتابی شکل میں شائع ہوا.اس کا ترجمہ کرنے کے لئے حضرت نے ایک کمیٹی بنائی جس کے ممبر مندرجہ ذیل حضرات تھے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب.ان بزرگوں نے دن رات ایک کر کے اس کام کو حضور کی طرف سے وقت مقررہ کے اندر مکمل کیا.چونکہ یہ ایک طویل مضمون تھا اور وقت مقررہ کے اندر ختم نہ کیا جا سکتا تھا اس لئے حضور نے ایک خلاصہ تیار کیا.جس کا نام ” سلسلہ احمدیہ (Ahmadiyya Movement) رکھا گیا اور پھر اس کا خلاصہ کا نفرنس میں پڑھا گیا.۲۸ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ۱۲.جولائی ۱۹۲۴ء کو قادیان سے مذکورہ لندن کانفرنس میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو حضور کے ترجمان خصوصی تھے پہلے ہی یورپ کو روانہ ہو چکے تھے.امرتسر سے لیکر دہلی تک برف کا انتظام حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب ( نیلہ گنبد ) نے کیا اور خود بھی دہلی تک ہمرکاب رہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا لندن کا نفرنس میں مضمون پڑھ کر سنانا ۲۲ ستمبر ۱۹۲۳ء کو ویمبلے کانفرنس میں حضرت خلیفہ مسیح کا بے نظیر مضمون پڑھ کرسنایا جانا تھا.حضور کے مضمون کے لئے پانچ بجے شام کا وقت مقرر تھا.اس مضمون سے پہلے محترم خواجہ کمال الدین صاحب بانی دو کنگ مشن اہلسنت والجماعت کی طرف سے اور شیخ خادم و خیلی صاحب اہل تشیع کی طرف سے اپنے اپنے مضامین سُنا چکے تھے اور تیسرا نمبر حضرت خلیفہ امسیح کا تھا.حضور کا موضوع اسلام میں تحریک احمدیت تھا.مضمون شروع ہونے سے پہلے صدر جلسہ سر تھیوڈر ماریسن نے سامعین سے حضور کا تعارف کرانے کے بعد حضور سے درخواست کی کہ لیکچر شروع ہونے سے قبل اپنے کلمات سے بھی حاضرین کو محظوظ فرمائیں.اس پر حضور نے انگریزی زبان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :.

Page 471

470 مسٹر پریذیڈنٹ بہنو اور بھائیو! میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سنگر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے.اس کے بعد میں اپنے مُرید چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء سے کہتا ہوں.کہ میرا مضمون سُنا ئیں.میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پر چہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں.مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے،۲۹ حضور کے ان ارشادات کے بعد حضرت چوہدری صاحب کھڑے ہوئے اور حضور کا مضمون سُنانا شروع کیا اور ایسی پُر شوکت مؤثر اور بلند آواز سے مسلسل ایک گھنٹہ تک بولتے چلے گئے کہ حاضرین عش عش کر اُٹھے اور بے اختیار تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرنے لگے.۳۰ حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی شہادت اور حضرت چوہدری صاحب کا اظہار اخلاص :.حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب ایک گاؤں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیر کے باشندہ تھے.حصول تعلیم کے لئے قادیان تشریف لائے.مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا.1919ء میں جبکہ آپ ابھی طالب علم ہی تھے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کو افغانستان جانے کا حکم دیا.وہاں چند سال تک آپ نے احمدیوں کی تعلیم و تر بیت کی اور غیر احمدیوں تک پیغام حق پہنچایا.مگر ۳۱.اگست ۱۹۲۴ء کو جب کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ابھی ولایت ہی میں تھے کہ حضرت مولوی صاحب کو حکومت افغانستان کے ظالمانہ فیصلہ کے ما تحت سنگسار کر دیا گیا.حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ۴.ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے جماعت احمدیہ کے نام ایک پیغام میں فرمایا: ” برادران ! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلانا چاہیے جو ہمارے اس

Page 472

471 مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربان کر دی ہے.اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے.آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے ( یعنی وہاں احمدیت نہیں پھلا لیں گے ) صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نعمت اللہ خاں صاحب اور عبدالرحمن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلا رہی ہیں.اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی.اسے حضور کا یہ پیغام پڑھ کر مخلصین کی بہت بڑی تعداد نے سرزمین کا بل میں پہنچ کر تبلیغ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنے نام حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کئے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو ان ایام میں امیر جماعت لاہور تھے نے لکھا کہ حضور انور میں کمزور ہوں، سست ہوں آرام طلب ہوں.لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں، فوری شہادت کے لئے نہیں، دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے تو بہ کا موقعہ میسر کرنے کیلئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں.اگر مجھ جیسے نابکار گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلبگار نہیں.مسجد احمد یہ لاہور کی تعمیر ۱۹۲۴ء حضرت چوہدری صاحب ابھی یورپ میں ہی تھے کہ آپ کے قائمقام امیر حضرت حکیم محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری نے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور کی تعمیر کا کام شروع کروا دیا.اس مسجد کی تعمیر سے قبل مسجد کا کام حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کی بیٹھک دیا کرتی تھی اور یہی جگہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوا کرتی تھی.مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور والا احاطہ میاں فیملی سے سید نادرشاہ صاحب جہلمی نے ساڑھے گیارہ ہزار روپے میں خریدا تھا.پہلے اس علاقہ میں چمڑا منڈی ہوا کرتی تھی مگر بعد ازاں جی ٹی روڈ پر منتقل ہو گئی.اس جگہ چھڑا سکھانے کا کام ہوتا تھا.

Page 473

472 سید نادرشاہ صاحب نے تجارتی اغراض کے ماتحت یہ احاطہ خریدا تھا مگر جب انہیں پتہ لگا کہ جماعت کو یہ مسجد کے لئے درکار ہے تو انہوں نے اسی قیمت پر یہ احاطہ جماعت کو دے دیا.یہ احاطہ غالباً 1919 ء یا ۱۹۲۰ء میں خریدا گیا تھا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیان ہے کہ جب مسجد کی تعمیر کا سوال پیدا ہوا تو حضرت میاں چراغ دین صاحب اور ان کی فیملی کی رائے تھی کہ مسجد ان کے نزدیک ہی بنائی جائے مگر جماعت کے دیگر نو جوان یہ چاہتے تھے کہ باہر کشادہ زمین لے کر مسجد بنائی جائے چونکہ جماعت کی اکثریت کی یہی رائے تھی اس لئے حضرت میاں صاحب نے جماعت کے نظام کا احترام کرتے ہوئے بشاشت سے یہ فیصلہ منظور کر لیا مگر باوجود کوشش کے با ہر جگہ نہ مل سکی اور مجبور موجودہ جگہ پر ہی مسجد بنانا پڑی.اس مسجد کی تعمیر کے لئے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لا ہور نے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ محترم با بو عبد الحمید صاحب ریلوے آڈیٹرا اور سیکرٹری محترم سید دلاور شاہ صاحب بخاری تھے.مسجد کا نقشہ محترم میاں محمد صاحب * نے تیار کیا تھا جو سکول آف آرٹس میں ورک اوور سیر تھے.روپیہ جمع کرنے کا کام اور عام نگرانی حضرت قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی.چنانچہ آپ خود اپنے ہاتھ سے روڑی کوٹا کرتے تھے اور چندہ کی فراہمی کے لئے خطبہ جمعہ کے دوران ایسی درد بھری اور پُر جوش تقریریں کیا کرتے تھے کہ اکثر نمازی اپنی جیبیں خالی کر کے گھروں کو جایا کرتے تھے.لاہور کی بعض دیگر مساجد مسجد احمد یه بیرون دہلی دروازہ پہلی مسجد ہے جسے جماعت احمد یہ لا ہور نے اپنے خرچ پر تعمیر کیا.اس مسجد کے علاوہ بھی جماعت کے پاس بعض مساجد آ گئی تھیں مگر پھر آہستہ آہستہ غیروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں.منجملہ ان مساجد کے ایک مسجد کو چہ سیٹھاں لنگے منڈی میں تھی جس کے امام اور خطیب حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب تھے لاہور کی مشہور میاں فیملی کے مکانات بھی چونکہ اس مسجد کے محترم میاں محمد صاحب کو ایک غلط فہمی کی بناء پر صحابہ سیح موعود میں شامل کیا گیا ہے.حضرت سید سردار احمد شاہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی بیعت کی تھی.مؤلف

Page 474

473 ساتھ ہی تھے اور اس فیملی کے سارے افراد اسی مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کے شاگر د بھی تھے اس لئے حضرت مولوی صاحب کے بیعت کر لینے کے بعد آہستہ آہستہ یہ سارا خاندان بھی احمدیت میں داخل ہو گیا.محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بروایت حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے ہیں.جن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مباحثہ شمس العلماء مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی عربی پروفیسر اور مینٹل کالج سے ہند و محبوب رایوں کی حویلی میں ہوا کرتا تھا ان ایام میں حضرت مولوی غلام حسین صاحب گمٹی بازار والے بھی اس مجلس میں شامل ہوا کرتے تھے.ایک دن کوئی ہندوستانی مولوی صاحب حضرت اقدس سے گفتگو کر رہے تھے کہ حضرت اقدس نے حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک حوالہ پیش کیا.جس پر ان مولوی صاحب نے بڑے احتجاج کے ساتھ بلند آواز سے کہا کہ سید عبدالقادر صاحب ان کے پیر نہیں ہیں.اس پر حضرت مولوی غلام حسین صاحب نے ان مولوی صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ لوگ تو حضرت پیر پیران کی نیاز دیتے ہیں تمہاری قبر پر تو کوئی چراغ بھی نہیں جلائے گا.حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ اس دن ہم نے پہلی مرتبہ مولوی غلام حسین صاحب کو دیکھا تھا.نیز فرمایا کرتے تھے کہ حضرت اقدس سر فضل حسین صاحب مرحوم کے والد ماجد خاں صاحب میاں حسین بخش صاحب بٹالوی ڈسٹرکٹ جج پشاور اور خاں بہادرمیاں خدا بخش صاحب امرتسری ڈسٹرکٹ حج گورداسپور ( یہ بزرگ جلسہ مذاہب عالم کے موڈریٹر صاحبان میں سے بھی تھے ) کو اپنی شخصی و جاہت اور اوائل عمر کی پاکیزہ زندگی کے لئے بھی پیش فرمایا کرتے تھے.اسی طرح حضور نے دو بزرگوں اعنی حضرت مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گئی بازار اور حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب مشہور پنجابی شاعر ( جن کی کافیاں بہت مشہور ہیں اور جنہوں نے وڈی ہیر وارث شاہ کو مکمل کیا تھا) کی بیعت پر خدا تعالیٰ کا خاص شکر ادا فرمایا کیونکہ یہ دونوں بزرگ کافی مسن و معمر تھے اور زیادہ عمر کے لوگوں کا بیعت کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی.ان ضمنی واقعات کے بعد اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتے ہیں.حضرت مولوی رحیم اللہ

Page 475

474 صاحب والی مسجد کا ذکر ہو رہا تھا.یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو جماعت کو اللہ کریم نے عطا کی.جب تک حضرت مولوی صاحب زندہ رہے اس مسجد میں نمازیں بھی پانچوں وقت باجماعت ہوا کرتی تھیں اور جمعہ بھی.مگر حضرت مولوی صاحب کی وفات پر جمعہ حضرت مولوی غلام حسین صاحب کی گئی بازار والی خوبصورت مسجد میں پڑھا جانے لگا.کچھ عرصہ بعد جب میاں فیملی کے بزرگوں نے وہاں سے نقل مکانی کر لی اور اپنے رہائشی مکان دہلی دروازہ کے باہر بنالئے تو وہ مسجد ہاتھ سے نکل گئی کیونکہ اس مسجد کے قرب و جوار میں کوئی احمدی نہیں تھا.حسین گمٹی بازار والی مسجد دوسری مسجد گئی بازار میں ہے یہ بڑی پختہ اور خوبصورت مسجد ہے جو حضرت مولوی غلام صاحب متولی مسجد کے احمدی ہو جانے کی وجہ سے جماعت کو ملی.ان دونوں مسجدوں میں جماعت کے اولین صحابہ نے نمازیں پڑھی ہیں.اول الذکر مسجد میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ بھی نمازیں پڑھتے رہے ہیں.حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کا بل نے ان دونوں مسجدوں میں نمازیں پڑھی ہیں.حضرت مولوی غلام حسین صاحب جب تک زندہ رہے ان کی مسجد میں نمازیں ہوتی رہیں.جمعہ بھی اسی مسجد میں پڑھا جاتا تھا مگر ان کی وفات پر اس مسجد کے قریب کو چہ نقاشاں کے ماسٹر حسین بخش و ماسٹر میراں بخش صاحبان نے اس مسجد کو حنفی الخیال لوگوں کے استعمال کے لئے عدالت میں چارہ جوئی کی.جماعت کی طرف سے محترم خواجہ کمال الدین صاحب وکیل تھے.اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ احمد یہ بلڈ نگکس والی مسجد کی تعمیر کے لئے زمین خریدی جارہی تھی.خواجہ صاحب نے غالباً اس خیال سے بھی کہ اس مسجد کے ارد گر د احمدیوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے اور احمد یہ بلڈ نگس کی نئی مسجد کی تعمیر کے پیش نظر بھی اس امر پر صلح کر لی کہ فریق مخالف چھ صدر و پیرادا کر کے مسجد پر قبضہ کر لے.چنانچہ اس رقم میں جماعت لاہور کے ممبروں نے اور روپیہ شامل کر کے احمد یہ بلڈ نکس والی مسجد تعمیر کرالی.مگر جب خلافت ثانیہ کی ابتداء میں اختلاف پیدا ہوا تو وہ مسجد غیر مبائعین کے پاس رہی اور مبائعین جماعت لاہور نے حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کی بیٹھک میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں.

Page 476

475 چینیاں والی مسجد کے متولی ملاں غلام غوث صاحب مرحوم تھے.یہ حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری کے نانا تھے.انہوں نے بھی ۱۹۰۴ء میں بیعت کر لی تھی جس پر ان سے تو لیت چھین لی گئی.محلہ چابک سواراں میں حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب مشہور پنجابی شاعر کے مکان کے پاس بھی ایک چھوٹی سی مسجد تھی.یہ بھی احمدیوں کے قبضہ میں تھی.لیکن بابا ہدایت اللہ صاحب کی وفات کے بعد غیر احمد یوں نے اس پر بھی قبضہ کر لیا جس پر عدالت میں مقدمہ چلا.عدالت کے فیصلہ کے ماتحت دونوں فریق کو اس مسجد میں نماز پڑھنے کا حق حاصل ہو گیا مگر احمدیوں نے روز روز کے جھگڑے کی وجہ سے اس مسجد کو بھی چھوڑ دیا.اس اثنا میں مغلپورہ گنج میں جماعت کی ایک مسجد بن گئی گذشتہ ایک دو سال میں محترم چوہدری غلام رسول صاحب صدر حلقہ گنج کی ہمت اور کوشش سے پرانی مسجد میں اہم تبدیلیاں کر کے اسے ایک بہت خوبصورت مسجد بنا دیا گیا.فجزاه الله احسن الجزاء.شاہدرہ میں حضرت حکیم احمد دین صاحب موجد طب جدید کے مکان کے پاس جو مسجد ہے.وہ تا حال جماعت اور محلہ کے غیر از جماعت لوگوں کے مشترکہ استعمال میں ہے مگر نماز جمعہ پڑھنے کا حق صرف جماعت کو حاصل ہے.شاہدرہ میں ایک اور مسجد احمدیوں کے قبضہ میں ہے جس میں جماعت کے جلسے ہوتے رہتے ہیں.اسلامیہ پارک میں محترم چوہدری عبد الرحیم صاحب صدر حلقہ کے مکان کے پہلو میں جو مسجد ہے اس کی زمین محترم چوہدری صاحب کی اہلیہ مرحوم نے عطا کی تھی.وہ مسجد بھی جماعت کی ضروریات کو کافی حد تک پورا کر رہی ہے.حلقہ محمد نگر اور حلقہ بھارت نگر میں بھی مسجد میں تیار ہو چکی ہیں.مزنگ میں حضرت مولوی محمد صاحب نومسلم ( یه بزرگ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے داماد تھے ) کا بڑا اثر تھا.ان کے اثر کی وجہ سے غلہ منڈی کے رئیس سید برکت علی صاحب نے جو مسجد تعمیر کروائی تھی وہ جماعت کو دے دی تھی جس میں سول دفتر کے احمدی ملازمین دس بارہ سال تک نمازیں پڑھتے رہے مگر بعد میں سید صاحب اور ان کی اولاد نے مقامی لوگوں کے دباؤ کے ماتحت وہ مسجد غیر احمدیوں کے سپر د کر دی.

Page 477

476 با بوالہی بخش صاحب اکو نٹنٹ اور ان کے ساتھیوں نے یو نیورسٹی ہال کی تعمیر کے ساتھ وہاں ایک مسجد بھی بنائی تھی جو بالکل ویران پڑی رہتی تھی.آج سے چالیس سال پہلے وہاں سول دفاتر کے احمدی احباب نے نمازیں پڑھنا شروع کیں اور قریب قریب پندرہ سال متواتر پڑھتے رہے لیکن ۱۹۳۵ء میں جب کہ احرار تحریک زوروں پر تھی اس مسجد پر بھی غیر احمدیوں نے قبضہ کر لیا.مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.حضرت سید نادر شاہ صاحب جہلمی نے افریقہ سے واپس آ کر چمڑہ منڈی میں یہ احاطہ چمڑہ کے کاروبار کے لئے حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر اور ان کے بھائیوں سے خریدا تھا.مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ جماعت کو مسجد بنانے کے لئے اس احاطہ کی ضرورت ہے تو انہوں نے قیمت خرید یعنی ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ پر ہی یہ احاطہ جماعت کو دے دیا.مسجد کی تعمیر کا فیصلہ تو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور کی موجودگی ہی میں ہو گیا تھا لیکن تعمیر کا کام حضرت حکیم محمدحسین صاحب موجد مفرح عنبری نے ان ایام میں کیا جبکہ حضرت چوہدری صاحب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کے لئے لندن تشریف لے گئے تھے.۱۹۴۷ء کے بعد جب جماعت کی تعداد لا ہور میں ترقی کرگئی اور مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ بالکل ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی نے محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور کو ارشادفرمایا کہ ایک وسیع مسجد کی تعمیر کے لئے دس ہزار روپے جمع کرو تا زمین خریدی جا سکے.محترم بابو فضل دین صاحب سیالکوٹی ریٹائر ڈ سپرنٹنڈنٹ ہائی کورٹ کا بیان ہے کہ محترم شیخ صاحب نے انہیں اور محترم میاں غلام محمد صاحب اختر کو فرمایا کہ میری کارلو اور مسجد کی زمین کے لئے چندہ جمع کرو.ہم نے اسی روز شام تک پانچ ہزار روپے کے وعدے اور پانچ ہزار نقد محترم امیر صاحب کی خدمت میں پیش کئے جس پر حضور نے اظہار خوشنودی فرمایا.۱۹۵۴ء میں محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب جماعت احمد یہ لاہور کے امیر مقرر ہوئے.آپ نے دارالذکر کی انداز 41 کنال زمین سولہ ہزار روپیہ میں خریدی اور اللہ کا نام لے کر تعمیر کا کام شروع کر دیا.حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک بکرے کی قربانی کرنے کے بعد اس عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھی.خدام الاحمدیہ نے وقار عمل کے ذریعہ ابتدا میں ٹھوس کام کیا.

Page 478

477 انصار اللہ نے بھی کافی حصہ لیا.محترم امیر صاحب نے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مسجد کمیٹی بنائی.جس نے مختلف حلقوں میں دورے کر کے چندہ فراہم کیا.امیر صاحب نے مختلف مواقع پر سرکردہ احباب سے اور خطبات کے دوران میں جماعت سے رقم کی فراہمی کے لئے متعدد اور متواتر اور مؤثر خطاب کئے جس کے نتیجہ میں تین لاکھ روپے اب تک مسجد کی تعمیر پر خرچ ہو چکے ہیں.فـالـحـمـد لله على ذالک.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور کا اسمبلی کا نمبر بننا.۱۹۲۶ ء : لاہور کی جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والا ۱۹۲۶ء کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ جماعت کے امیر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پنجاب کونسل کے ممبر چنے گئے.اس کے بعد جب تک آپ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں نہیں چلے گئے.ہر سال ہی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ممبر منتخب ہوتے رہے.کونسل کے اجلاسات میں آپ کی رائے نہایت ہی صائب کبھی جاتی تھی.جس معاملہ پر بھی آپ بحث کرتے اس کے ہر پہلو کو اجا گر کر کے چھوڑتے.جدا گانہ نیابت کی تائید ۲۵.فروری ۱۹۲۷ء کو جماعت کے سرکردہ ۲۶.اصحاب کا ایک وفد وائسرائے ہند کو ملا.وفد کی طرف سے ایڈریس حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش کیا.جس میں علاوہ اور امور کی طرف توجہ دلانے کے ایک بات یہ کہی کہ یہ ضروری ہے کہ جب تک کہ قلیل التعداد جماعتیں خود اپنے اس حق کو نہ چھوڑیں.انتخاب کونسل با علیحدہ نیابت ورجدگا نہ منت کنندگان کے طریق پر جاری رہے.۳۲ و حضرت خلیفۃ اسیح کا سفر لاہور ۲۶.فروری ۱۹۲۷ء مسلمان قوم کی رہنمائی اور دیگر اہم مصالح کی غرض سے ۲۶.فروری ۱۹۲۷ء کوحضور لا ہور تشریف لائے.۳۳ چونکہ تمام مکاتیب فکر کے مسلمان رہنماؤں کی نظر میں حضور ہی کی طرف اٹھتی تھیں.اس لئے حضور کے یہاں تشریف لانے پر مندرجہ ذیل اصحاب ملاقات کیلئے تشریف لائے.

Page 479

478 ا.مولوی سید ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار ” تہذیب النسواں‘۲.مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار ۳.سید عبدالقادر صاحب پر وفیسر اسلامیہ کالج ۴.مولوی غلام بھی الدین صاحب قصوری -۵ مسٹر بشیر احمد صاحب پروفیسر فورمین کرسچن کالج ۶.سرشہاب الدین صاحب مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور سر شہاب الدین صاحب نے حضور کے اعزاز میں دعوتیں بھی دیں.۲۸ - فروری ۱۹۲۷ء کو حضور نے پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں اور یکم مارچ ۱۹۲۷ء اسلامیہ کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت فرمائی.۳۴ ہندو مسلم فسادات کے سلسلہ میں حضور کی رہنمائی ۲.مارچ ۱۹۲۷ء کو حضور نے خان بہادر سرمحمد شفیع کے یہی.ایس.آئی کی صدارت میں بریڈ لا ہال میں ایک پبلک تقریر فرمائی.تقریر کا موضوع تھا ”ہندو مسلم فسادات، ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل اس تقریر میں حضور نے ان تمام طریقوں کو کھول کر بیان کیا جس سے دونوں قوموں میں آپس میں صلح صفائی ہو سکتی تھی.نیز مسلمانوں کو بتایا کہ غیر مسلموں کے مقابلہ میں تمہیں آپس میں متحد اور متفق ہو کر رہنا چاہئے اور اپنی ترقی کے لئے نئی نئی سکیمیں سوچتے رہنا چاہئے.حضور کی اس تقریر پر ہندو مسلم پریس دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں کافی لکھا.ذیل میں ایک مسلم اخبار اور ہند واخبار کی آراء درج کی جاتی ہیں.اخبار تنظیم نے لکھا: ”امیر جماعت احمدیہ قادیان نے بریڈ لا ہال لاہور میں ہندو مسلم فسادات کے اسباب و علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طرز عمل پر ایک اہم تقریر کی ہے.آپ نے ہندوؤں اور مسلمانوں سے مذہبی اور سیاسی رواداری اور احترام باہمی کی اپیل کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد ہو جانا چاہئے ورنہ ان کے لئے اپنا وجود قائم رکھنا بھی دشوار ہو جائے گا.آپ کی تجویز ہے کہ مسلمان سیاسی معاملات میں سیاسی اتحاد کو

Page 480

479 پیش نظر رکھیں اور ان تمام فرقوں کو مسلمان سمجھ لیں جو اسلام کے دعویدار ہیں اور جنہیں غیر مسلم مسلمان کہتے ہیں کیونکہ غیر مسلم کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تمام فرقوں کے حقوق کا لحاظ رکھیں اور اپنے بچوں کے لئے اس قسم کی تاریخیں لکھیں جن میں سلاطین اسلام کے متعلق صحیح واقعات پیش کئے جائیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان کا ماضی کس قدرشاندار تھا.۳۵ اب پڑھئے ایک غیر مسلم پر چہ کی تنقید.اخبار ملاپ نے لکھا.۲.مارچ ۱۹۲۷ء کو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے بریڈ لا ہال لاہور میں ”ہندو مسلم فسادات کا علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طریق عمل کے موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ اسی پر چہ میں آپ کسی دوسری جگہ پڑھیں گے.یہ بچ ہے کہ مرزا صاحب کا طرز تقریر معقول اور متین تھا.لیکن آپ نے جس طریقہ سے اپنے مضمون کو نباہا وہ مسلمانوں کے ایک سیاسی مبلغ کی حیثیت سے تھا نہ کہ ایک مذہبی امام کی حیثیت سے....گوا اصولی طور پر تو مرزا صاحب نے فرقہ وارانہ نیابت کے مسئلہ کو لیاقت پر قربان کرنا ہی مناسب سمجھا.لیکن جب آپ تقریر کے اندر تفاصیل میں داخل ہوئے تو آپ نے اس اصول کی بناء پر حمایت کی کہ پس افتادہ اور کمزور اقوام کی ترقی کے لئے یہ امر ضروری ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ پس افتادہ اقوام کے لئے تربیت اور درسی تعلیم کی سہولتیں ہی مفید ہوسکتی ہیں.لیکن سیاست میں پس افتادہ اقوام کے ہاتھوں عنانِ اقتدار دینا گاڑی کے پیچھے گھوڑا لگانے کے مترادف ہے.ہم پسماندہ قوم کے بچوں کے لئے تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانے کو تو کسی حد تک حق بجانب قرار دے سکتے ہیں.لیکن یہ پسند نہیں کر سکتے کہ سروسز بھیسلیچر وں اور لوکل باڈیوں میں نااہل اور نیم خواندہ آدمیوں کی قسمتوں کو خراب ہوتا دیکھیں..اس کے سوائے جس خطرناک پہلو پر مرزا صاحب نے مسلمانوں کو نرالی انگیخت کی.وہ ان ہندو تجاروں اور دکانداروں کا بائیکاٹ کرنا تھا جو کہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں.کاش مرزا صاحب اتنا تو سوچتے کہ اس طرح وہ ہند و تجاروں کا بائیکاٹ کر کے افتراق کی خلیج کو محض وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہ کہ فساد کو روکنے کی کوئی سبیل بیان فرما رہے ہیں.

Page 481

480 وہ جمہور یہ اسلام کے اندر ایک ایسا نفرت کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں جس سے ہند و قدرتاً ناراض ہوں اور یہ سمجھنے لگ پڑیں کہ آنریبل میاں فضل حسین نے سیاسی میدان میں ہندوؤں کو جو ضعف پہنچایا ہے وہی اب مرزا صاحب تجارتی پہلو میں ہندوؤں کو پہنچانا چاہتے ہیں“.اس تنقید کے ہر فقرہ سے ظاہر ہے کہ وہ تمام تجویز میں جو مسلم قوم کی ترقی کیلئے مفید اور ضروری ہیں ہندو انہیں اپنے مفاد کی خاطر سخت مصر سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہمیشہ ہمیش کیلئے ان کے غلام بنے رہیں.مذہب اور سائنس پر لیکچر ۳.مارچ ۱۹۲۷ء حضور کی دوسری تقریر علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ”مذہب اور سائنس“ کے موضوع پر ۳.مارچ ۱۹۲۷ء کو حبیبیہ ہال میں ہوئی.اس تقریر میں حضور نے متعد د مثالوں کے ذریعہ ثابت کیا کہ وہ باتیں جو سائنس نے آج دریافت کی ہیں قرآن کریم اور احادیث کی تعلیمات میں چودہ سو سال قبل بیان کی گئی ہیں.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا: ایسی پر از معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے.میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہورہی ہے وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں“.۳۷ فسادات لاہور میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مظلوم مسلمانوں کی امداد جن فسادات کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الثائی نے خود بنفس نفیس لا ہور میں پہنچ کر ان کو ختم کروانے کی متعدد کوششیں کیں.بڑے بڑے لیڈروں سے مل کر بھی اور عوام الناس اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے تقاریر کے ذریعہ بھی.مگر فسادات کی آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی.حتی کہ مئی ۱۹۲۷ء کے پہلے ہفتہ میں مظلوم اور بے بس مسلمانوں کا نہایت بیدردی سے خون بہایا گیا.

Page 482

481 محترم جناب مولا نا عبدالمجید صاحب سالک کا بیان ہے: دم.مئی ۱۹۲۷ء کو رات کے وقت حویلی کا بلی مل کی مسجد سے چند مسلمان نماز پڑھ کر نکلے.تو سکھوں نے ڈبی بازار والے گوردوارے سے نکل کر ان پر حملہ کیا اور تین غازی شہید ہو گئے حکام شہر اور بزرگان شہر نے انتہائی تدابیر اختیار کیں تا کہ فساد پھیلنے نہ پائے.مسلمانوں نے نہایت صبر و شکیب سے کام لیا اور دوسرے دن شہداء کی میتیں ہزار ہا مسلمانوں کے جلوس کے ساتھ اٹھیں.جب یہ جلوس لوہاری دروازہ کے باہر پہنچا تو ہندوؤں کے ایک مکان سے کنکر پھینکے گئے.مسلمان بپھر گئے.لیکن پھر بڑوں کے سمجھانے بجھانے پر خاموش ہو گئے تا کہ جنازوں کی تو ہین نہ ہو.لیکن جب ہزار ہا مسلمان جنازوں کو دفن کرنے کے بعد واپس آئے تو ہندوؤں سے ان کا تصادم ہو گیا اور شہر کے مختلف حصوں میں چھرا چلنے لگا.اگر چہ اس فساد کا آغاز سکھوں کی طرف سے ہوا تھا لیکن حویلی کا بلی مل کے حادثہ کے بعد سکھ خدا جانے کہاں غائب ہو گئے اور خونریزی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے لگی.ایسی حالت میں سکھوں کا طریقہ یہی ہوتا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ ہم بہت قلیل اقلیت میں ہیں.اگر ہم میں سے دو تین آدمیوں نے فساد شروع کر دیا ہے تو باقی سکھوں کو اس فساد کے نتائج سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طیش کھائے ہوئے مسلمان ہندوؤں پر حملہ آور ہو جاتے تھے اور پھر ہندو بھی اپنے اپنے حلقوں میں مسلمانوں کا قتل کرنا شروع کر دیتے تھے.غرض دو تین دن لاہور میں کشت و خون کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی دوسو ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے“.۳۸ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کو جب قادیان میں اس کشت وخون کی اطلاع ہوئی تو حضور کو سخت صدمہ ہوا.چنانچہ حضور نے حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر اعلیٰ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور عامہ اور حضرت مولوی فضل دین صاحب کو بعض اہم ہدایات دے کر لاہور بھجوایا.ان تینوں بزرگوں نے ہر ممکن ذریعہ سے مظلومین کی امداد کی.ان کے بعد حضور نے مزید ہدایات دے کر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بھی یہاں بھجوایا اور مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں انفارمیشن بیوور ( شعبہ اطلاعات ) قائم کر دیا گیا.۳۹

Page 483

482 حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایات کی روشنی میں مظلومین کی امداد کے لئے طریق کار یہ اختیار کیا گیا کہ سب سے پہلے متقولین اور مجروحین اور ان کے پسماندگان سے متعلق ضروری اور مفصل معلومات حاصل کرنے کیلئے ایک اشتہار دیا گیا.جس کے نتیجہ میں صبح 4 بجے سے لیکر رات 9 بجے تک مسجد میں اطلاعات آنا شروع ہو گئیں.اس پر جہاں جہاں بھی امداد کی ضرورت ہوتی یہ بزرگ مقامی احمدیوں کے تعاون سے ضروری امداد بہم پہنچاتے.مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے متعدد مرتبہ یہ بزرگ کو توالی میں بھی گئے.بالا حکام سے بھی ملاقاتیں کیں.مقتولیں اور مجروحین کے گھروں میں جا کر ان کے متعلقین کی بھی ڈھارس بندھوائی اور ان کی مناسب امداد کا سامان کیا.احمدی ڈاکٹروں نے ہسپتال میں جا جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال میں ہسپتال کے عملہ کا ہاتھ بٹایا.غرض کہ جو کچھ بھی یہ بزرگ کر سکتے تھے انہوں نے دن رات ایک کر کے مہینوں تک لاہور کے مظلوم مسلمانوں کے لئے کیا.چنانچہ جماعت احمدیہ کی اس وسیع امداد کا ذکر کرتے ہوئے لاہور کے ہفت روزہ ترجمان نے لکھا.مرزائی مسلمانوں نے بڑے وسیع پیمانے پر لاہور کے مصیبت زدہ مسلمانوں کی ہر صورت میں یعنی قانونی اور نقدی کی امداد بہم پہنچانا شروع کر دی ہے“." کتاب ”رنگیلا رسول“ پر جماعت احمدیہ کا رد عمل گذشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ہے کہ ہندو مسلم فسادات کی بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ مئی ۱۹۲۷ء کے پہلے ہفتہ میں اولا سکھوں نے اور پھر ہندوؤں نے لاہور کے مسلمانوں پر قاتلانہ حملے شروع کر دیے جس کے نتیجہ میں لاہور قتل و غارت کی آماجگاہ بن گیا اور کوئی دوسو افراد ہلاک اور تین سو سے زیادہ مجروح ہوئے.بد زبان اور دریدہ دہن ہند و مصنفین نے بعض اشتعال انگیز کتابیں اور رسالے بھی لکھنے شروع کر دیئے جن میں پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفی علیہ کی ذات بابرکات پر کمینے حملے شروع کر دیے تھے جن کا مقصد محض اور محض یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلوب اپنے آقا و پیشوایے پر نا پاک حملے دیکھ کر چھلنی چھلنی ہو جائیں اور وہ اشتعال انگیز حرکات پر اتر آئیں.چنانچہ ایک آریہ سماجی راجپال نام نے ایک ایسی کتاب ”رنگیلا رسول نامی شائع کی.جس پر مسلمانوں کے جذبات سخت

Page 484

483 مجروح ہوئے اور ان کے توجہ دلانے پر حکومت نے راجپال پر مقدمہ چلایا.اس مقدمہ کے نتیجہ میں ابتدائی عدالت نے راجپال کو زیر دفعہ ۱۵۳.الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار رویپر جرمانہ یا چھ ماہ قید مزید کی سزا دی.راجپال نے ہائیکورٹ میں اپیل کی.ہائیکورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے فیصلہ دیا کہ ” میری رائے میں دفعہ ۱۵۳.الف اس قدر وسیع معانی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا.میرے خیال میں اس دفعہ کے وضع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کسی ایسی قوم پر حملہ کرنے سے روکا جائے جو موجود ہو نہ کہ اس سے گذشتہ مذہبی رہنماؤں کے خلاف اعتراضات اور حملوں کو روکنا مقصود تھا.جہاں تک میرا تعالق ہے میں اس امر پر اظہارافسوس کرتا ہوں کہ ایسی دفعہ کی تعزیرات میں کمی ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مقدمہ دفعہ ۱۵۳.الف کی زد میں آتا ہے اس لئے میں نظر ثانی کو بادلِ ناخواستہ منظور کرتا ہوں اور مرافعہ گزار کو بَری کرتا ہوں.رسالہ ”ورتمان امرتسر یہ مقدمہ جس کا فیصلہ اوپر درج کیا گیا ہے ابھی زیر سماعت ہی تھا کہ امرتسر کے ہند و رسالہ ورتمان نے مئی ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں ایک آریہ دیوی شرن شرما کا آنحضرت مہ کے خلاف ایک نہایت ہی دلآ زار مضمون شائع کیا.اس مضمون میں افسانوی صورت میں یہ دکھایا گیا تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداہ ابی وامی (معاذ اللہ ) شہوت رانی کی وجہ سے مبتلائے عذاب ہیں.اس مضمون میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے ازواج مطہرات اور حضرت علیؓ کے نام بھی بگاڑ کر پیش کئے گئے تھے.ابھی یہ مضمون شائع ہوا ہی تھا کہ ہائیکورٹ لاہور نے راجپال مذکور کو بھی بری کر دیا.ان دونوں واقعات نے مسلم قوم کے جذبات کو سخت مجروع کیا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے علم میں مذکورہ ورتمان کا یہ نہایت ہی دلآ زار مضمون آتے ہی حضور نے فوراً مسلمان قوم کی رہنمائی اور حکومت کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے کے لئے ایک پوسٹر شائع کیا جس کا عنوان تھا ”رسول کریم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں

Page 485

484 گئے، ۲ اس پوسٹر میں حضور نے نہایت ہی درد سے جلالی الفاظ میں فرمایا : کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بے کسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسائیوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرتی نفسی واہلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے.اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پروا نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا.ہماری جانیں حاضر ہیں جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دے کر آپ کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس ذات بابرکات سے ہمیں اس قدر تعلق اور وابستگی ہے کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم کبھی صلح نہیں کر سکتے.ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہرگز صلح نہیں ہو سکتی.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دے لیں لیکن وہ یا درکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بناء پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اسے برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم

Page 486

485 سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا.“ پھر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جولڑ پڑتا ہے.وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے.بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کر لے اس سے پیچھے نہیں ہتا.پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کر لو.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پروائی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے.اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں.اور جب آپ یہ عہد کر لیں تو پھر ساتھ ہی اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے لگیں.یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہند و مصنفین کی طرف سے رسول کریم اللہ فد یه نفسی واہلی کو دی جاتی ہیں اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں.نہ دوسروں کے کام کے.اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی.کیا کوئی دردمند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وراث ہو، ۴۳ حضرت اقدس کا یہ پوسٹر ایک ہی تاریخ میں بیک وقت ملک بھر میں چسپاں کر دیا گیا.جس کے نتیجہ میں تمام مسلم قوم کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہو گیا کہ ان کی ہمسایہ قوم کس طرح ان کے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس پر حملے کر کے ان کے جذبات کے ساتھ کھیل رہی ہے.چنانچہ تمام ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے اندر ایک زبر دست.

Page 487

486 ہیجان کی صورت پیدا ہو گئی.نوبت با نجار سید کہ گورنمنٹ نے قیام امن کے پیش نظر پوسٹر ضبط کر لیا.مگر پوسٹر کا جو مقصد تھا وہ اس کے ضبط کرنے سے بطریق احسن پورا ہو گیا.اس ضبطی نے مسلمانوں کے غم و غصہ میں جلتی پر تیل کا کام دیا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کے لئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہو گئے.رنگیلا رسول کے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دینا تو حکومت کے بس کی بات نہ تھی.مگر ورتمان“ کا نا پاک اور گندہ پر چہ ضبط کرنا اور اس پر مقدمہ چلانا حکومت نے ضروری سمجھا.ہندوؤں نے بہتیر شور مچایا کہ ورتمان کی ضبطی کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب (حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ.مؤلف ) پر بھی مقدمہ چلایا جائے مگر گورنمنٹ نے ان کے اس واو پیلا کو درخور اعتنا نہ سمجھا.اور چیف جسٹس نے یہ مقدمہ ایک حج کے سپر د کر دیا.حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی کی بیدار مغزی دیکھئے کہ حضور نے فوراً بذریعہ تار حکومت کو توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ جوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے تا ۱۵۳.الف سے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی بھی تحقیق ہو جائے.یہ معقول مطالبہ حکومت نے منظور کر لیا.اور مقدمہ ورتمان ڈویژن بینچ کے سپر د ہو گیا." جس نے ۱۶.اگست ۱۹۲۷ء کو یہ فیصلہ دیا کہ مذہبی پیشواؤں کے خلاف بدزبانی ۱۵۳.الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور بنا بریں ڈویژن بینچ نے ورتمان“ کے مضمون نگار کو ایک سال قید با مشقت اور پانچ سور و پیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید با مشقت اور اڑھائی سور و پیہ جرمانہ کی سزادی.۲۵ اخبار مسلم آوٹ لگ لاہور کا عدالتی فیصلہ کے خلاف احتجاج اب ”رنگیلا رسول سے متعلق جسٹس کنور دلیپ سنگھ کے فیصلہ کا ردعمل دیکھئے.انگریزی اخبار دو مسلم آوٹ لگ ( Muslim Outlook) کے احمد کی ایڈیٹر حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے اپنے اخبار کی ۱۴.جون ۱۹۲۷ ء کی اشاعت میں مستعفی ہو جاؤ“ کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس پر ہائیکورٹ نے ایڈیٹر اور مالک اخبار کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے.حضرت اقدس کا شاہ صاحب کو مشورہ حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری ہائیکورٹ کا یہ نوٹس لے کر بغرض مشورہ حضرت خلیفہ المسح ย

Page 488

487 کے پاس قادیان حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور ! بعض لوگ کہتے ہیں کہ مضمون پر اظہار افسوس کر دینا چاہئے.مگر حضرت نے یہ مشورہ دیا کہ ”ہمارا فرض ہونا چاہیئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں.لیکن جب کہ ایک مضمون آپ نے دیانتداری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اٹھائے نہیں رہ سکتے ہیں.میں قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں.مگر میری طرف سے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں یہ لکھوا دیں کہ اگر ہائیکورٹ کے ججوں کے نزدیک کنور دلیپ سنگھ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں.۴۶ مقدمہ کی سماعت اور سید دلاور شاہ صاحب بخاری کا بیان.۲۲.جون ۱۹۲۷ء جب یہ مقدمہ ۲۲.جون ۱۹۲۷ء کو فل بینچ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے مومنانہ غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بیان دیا کہ مسلمان کا سب سے زیادہ محبوب اور مطلوب جذ بہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بیہ پاک سے عقیدت وافر اور ارادت کامل رکھتا ہے.مسلمان کے لئے خواہ وہ کسی طبقہ یا درجہ سے تعلق رکھتا ہو عام اس سے کہ وہ امیر ہو یا غریب و نادار یہ ناممکن ہے کہ پیغمبر پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات پاک یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت مبارکہ پر کسی قسم کا حملہ گورا را کر سکے یہی وجہ ہے کہ ”رنگیلا رسول“ کی اشاعت سے ہر ایک قلب مسلم پر یاس و هیجان مستولی ہو گیا.ہر مسلمان مضطرب نظر آنے لگا لیکن اس اشتعال انگیز کتاب کی

Page 489

488 سے مشتعل شدہ جذبات کو ملت اسلامیہ کے ہر فرد نے دبائے رکھا.اور اس امید سے دل کو تسلی دے لی کہ اس کی اشاعت کے ذمہ دار کو قانون کے ماتحت واجب اور منصفانہ سزا دی جائے گی اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا.آنریبل مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ نے امیدوں کے قصر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس وسیع ملک کے طول و عرض میں لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو نہایت سخت صدمہ پہنچا ؟ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اس مقدمہ میں فاضلانہ بحث لاہور کے چوٹی کے وکلاء نے سر شفیع مرحوم کی کوٹھی پر جمع ہو کر متفقہ فیصلہ کیا کہ اس مقدمہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سے بہتر اور کوئی شخص وکالت کے فرائض سرانجام نہیں دے سکے گا.اس لئے یہ خدمت محترم چوہدری صاحب کے سپرد کی جاتی ہے.چنانچہ اخبار دور جدید “ نے لکھا کہ ور مسلم آوٹ لگ کے اس کیس کے سلسلہ میں جو درحقیقت را جپال کے مقدمہ تحقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک شاخسانہ تھا.شفیع مرحوم و مغفور کی کوٹھی پر پنجاب کے بہترین وکلاء اس غرض کے لئے جمع ہوئے تھے کہ اس مقدمہ کو ہائی کورٹ میں جوں کے سامنے کون پیش کرے تو ان چوٹی کے آٹھ دس وکلاء نے (جو سب کے سب لیڈرا اور قومی رہنما اور سردار سمجھے جاتے تھے ) متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ اس کام کو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے علاوہ اور کوئی شخص کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا.چوہدری صاحب موصوف نے اگر چہ اس بات پر بہت زور دیا اور فرمایا کہ آپ حضرات تجربہ قابلیت، شہرت اور استعداد میں مجھ سے بڑھ کر ہیں.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ وار کارکن آپ میں سے کوئی بزرگ ہو جائے اور میں بطور اسٹنٹ ممکن خدمت اور مدد کرتا رہوں لیکن اس کو کسی ایک نے بھی منظور نہ کیا.چوہدری صاحب نے ہائیکورٹ میں یہ کیس بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا.اور اپنی سحر بیان تقریر کے آخری فقروں میں فرمایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی غلامی پر دنیا کی چالیس کروڑ آبادی کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں.جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ عظیم الشان وزراء مشہور عالم جرنیل اور کسی عدالت پر رونق افروز ہونے والے

Page 490

489 حج ( جن کی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے ) فخر کرتے ہیں ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی ذلیل تحریر کوکسی حج کا یہ قرار دینا کہ اس سے نبی کریم کی کوئی بہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آوٹ لگ“ کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی صائب الرائے ٹھہر تے ہیں.اس موقعہ پر مولانا ظفر علی خاں صاحب جو اس وقت موجود تھے فرط جوش میں آبدیدہ ہو گئے اور ان سے رہا نہ گیا.وہ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چوہدری صاحب کا ہاتھ چوم کر ان کو گلے سے لگالیا.نیز نہایت پُر زور طریق سے یہ بات کہی کہ چوہدری صاحب کی اس 66 تقریر نے واضح طور پر یہ غلط ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں مقرر نہیں.“ ان واقعات سے صرف کرتے ہوئے چوہدری صاحب کو ایک زمانہ میں انجمن حمایت اسلام کی ممبری کیلئے مینیجنگ کمیٹی کا بھی مبر بنایا گیا اور آپ نے مسلمانوں کے مختلف ڈیپوٹیشنز کی مہبری کے فرائض سرانجام دیئے.۲.اخبار ”سیاست“ لاہور نے لکھا: ۴۸ اس سوال پر کہ عدالت عالیہ کو اس مقدمہ کی سماعت کا حق حاصل ہے یا نہیں، چوہدری ظفر اللہ خاں بیرسٹرایٹ لاء ممبر پنجاب کونسل نے زبردست تقریر کی اور متعدد حوالے دے کر ثابت کرنا چاہا کہ عدالت ہائے برطانیہ کو ولایت کے قانون عامہ کی رو سے ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار حاصل ہے.یہ اختیار پرانی عدالت ہائے ہند کو حاصل تھا جو بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں موجود تھیں.ان کے بعد انہی شہروں میں عدالت ہائے عالیہ مقرر ہوئیں.ان کو یہ حق خاص طور پر تفویض ہوا.ان کے سوا کسی عدالت کو یہ حق حاصل نہیں.سرکاری وکیل نے جواب میں کہا کہ الہ آباد ہائیکورٹ اور پنجاب ہائیکورٹ کی حیثیت ایک ہی ہے اور دونوں کو یہ حق حاصل ہے.غرض کہ پُر لطف بحث ہوئی اور ساڑھے گیارہ بجے عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں سماعت مقدمہ کا حق حاصل ہے.اگر چہ فیصلہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف ہوا.تاہم ان کی قابلیت اور ان کے فاضلانہ خطاب کا ہر شخص معترف تھا اور اپنے اور بیگانے وکلاء نے بھی ان کو ان کی تیاری اور قابلا نہ تقریر پر مبارکباد دی.اس کے بعد اصل الزام زیر بحث آیا.مسٹر کا رڈن بیرسٹر نے سرکار کی طرف سے تقریر کی اور کہا کہ جس مضمون پر اعتراض ہے وہ ۱۴.جون کو شائع ہوا.اس کا عنوان ہے

Page 491

490 و مستعفی ہو جاؤ ایک حج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا ہی اس کی سخت ہتک ہے.دوسرے اس مضمون میں لکھا ہے کہ جن حالات میں یہ فیصلہ ہوا ہے جو غیر معمولی فیصلہ ہے ان کی تحقیقات ہونا چاہیئے.اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مضمون میں الزام لگایا گیا ہے کہ فاضل جج نے ایمانداری سے فیصلہ نہیں کیا آپ کے بعد مسٹر ظفر اللہ نے ثابت کیا کہ کسی حج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا اس کی ہتک کرنا نہیں ہے.اس کو عدالت نے تسلیم کیا.آپ نے کہا کہ ملزمین نے نہایت دلیرانہ جواب دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے نہیں ہیں.جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہ تھا کہ حج کی نیت پر حملہ کریں تو ہمیں ان کے بیان پر اعتماد کرنا چاہیئے.وہ اس امر کی تحقیقات چاہتے ہیں کہ آیا اس مقدمہ میں سرکاری وکیل نے خوب بحث کی یا نہ کی اور جج نے اس کو دو ججوں کے سپر د کیوں نہ کر دیا.اکیلے کیوں فیصلہ کیا وغیرہ وغیرہ آپ نے کہا کہ ایک فقرہ کے بھلے اور برے دو معنی ہو سکتے ہیں اس کے جو بھلے معنی ہیں عدالت ان کو اختیار کرے.‘۴۹ مولوی نور الحق صاحب کی جانب سے مسٹر نیاز محمد نے کہا کہ وہ محض ناشر اور طالبع ہیں اور انگریزی نہیں جانتے لہذا ان کی ذمہ داری کم ہے.آپ نے کئی حوالے پیش کئے.مگر مولوی نورالحق صاحب نے خود اٹھ کر کہہ دیا میں تمام الزام کو قبول کرتا ہوں.“ عدالت کا فیصلہ ۵۰،، عدالت نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری، مولوی نور الحق صاحب کے بیانات اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی بحث سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ د میں سید بخاری کو چھ ماہ قید محض اور ساڑھے سات سو روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ ہفتہ مزید قید محض کی سزا دیتا ہوں اور مولوی نورالحق کو تین ماہ قید محض ہزار روپے جرمانہ اور بصورت عدام ادا ئیگی مزید ایک ماہ قید محض کا حکم سنا تا ہوں.تمام جوں نے اس سزا سے اتفاق کیا.فوراً پولیس کے افسروں نے ملزمین کو گھیر لیا.وارنٹ تیار تھے.انہیں موٹر میں بٹھا کر سنٹرل جیل کو لے گئے.۵۱

Page 492

491 لندن میں پوسٹیکل مسلم لیگ کا قیام سید دلاور شاہ صاحب بخاری اور مولوی نورالحق صاحب کو سزا دینے کا رد عمل یہ ہوا کہ ہند وستان بھر کے مسلمانوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک کے مطابق جلسے کرنے شروع کئے اور جہاں اس سزا کے خلاف پر زور احتجاج کیا گیا وہاں مشتر کہ انجمنیں قائم کر کے کھانے پینے کے سامان کے متعلق اپنی دکانیں کھلوائیں.تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دی اور اپنے سیاسی حقوق کے حصول کیلے جد و جہد تیز کر دی اور ایک محضر نامہ تیار کیا جس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط کر وائے گئے.۵۲ مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب ہم لوگ اس قسم کے جلسوں میں جا کر تقریریں کرتے تھے تو ہندو بہت برہم ہوا کرتے تھے.ہم انہیں کہتے تھے کہ ہماری اس سکیم پر آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں.کیا مسلمانوں کو دودھ دہی اور مٹھائی کی دکانیں کھولنے کا حق نہیں.پھر جب آپ لوگ مسلمانوں کے ہاتھ کی تیار کی ہوئی مٹھائی نہیں کھاتے تو آپ اس امر پر شا کی کیوں ہوتے ہیں کہ مسلمان بھی آپ کے ہاتھ کی تیار کردہ چیز نہ کھائیں.اس پر انہیں ناچار خاموش ہونا پڑتا تھا.بہر حال حضور کی یہ سکیم بہت کامیاب رہی.پنڈت لیکھرام کے قتل کئے جانے کے بعد جب بعض ہند و دوکانداروں نے مسلمان بچوں کے ہاتھ ایسی مٹھائی فروخت کرنا شروع کی جس میں زہر ملا ہوا تھا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک پر کچھ مسلمانوں نے اپنی دوکا نہیں کھولیں لیکن حضرت خلیفتہ ایسے " کی تحریک پر چونکہ منظم رنگ میں کام کیا گیا.اس لئے اس زمانہ میں مسلمانوں نے کثرت سے دکانیں کھولنا شروع کیں.بہر حال مسلم قوم کو پستی سے نکالنے کے لئے حضور کی اس ملک میں تو یہ سرگرمیاں تھیں.برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں کو حالات سے آگاہ کرنے اور انہیں مسلمانوں کو سیاسی حقوق دلوانے پر آمادہ کرنے کے لئے حضور نے لندن میں ایک مسلم پولیٹیکل لیگ قائم کروائی.۵۳ اس لیگ میں لاہور کے مشہور وکلا شامل تھے.انہوں نے بھی متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ مسلم حقوق سے انگریز قوم کو روشناس کرانے کا کام چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے علاوہ اور کوئی شخص بہتر طور پر نہیں کر سکتا.چنانچہ انہی ایام میں حضرت چوہدری صاحب لندن تشریف لے گئے.آپ نے مسلمانان پنجاب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں دار العلوم اور دار الامراء کے ممبروں انڈیا آفس کے عہدیداروں،

Page 493

492 سابق وائسراؤں، گورنروں، پارلیمنٹ کے کارکنوں اور پریس کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں.کئی مجالس سے خطاب کیا.مشہور اخبارات میں مضامین لکھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوٹی کے انگریز سیاست دانوں کے علاوہ عام اخبار بین طبقہ بھی مسلمانوں کے حقوق میں کافی دلچسپی لینے لگ گیا.۵۴ چنانچہ اس زمانہ کے مشہور اخبار ” دور جدید نے لکھا کہ پنجاب کونسل کے تمام مسلمانوں نے جو یقیناً مسلمانان پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائز حق رکھتے ہیں جب کہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستند نمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہیئے تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہی کی ذات ستودہ صفات تھی جس پر ان کی نظر انتخاب پڑی.چنانچہ چوہدری صاحب اپنا روپیہ صرف کر کے اور اپنے قیمتی وقت اور آمدنی کو نظر انداز کر کے انگلستان تشریف لے گئے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومت برطانیہ اور سیاستین انگلستان کے روبرو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانان پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حد تک متاثر ہوئی.یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کر سکتا ، ۵۵ یادر ہے کہ میں نے اپنے مضمون کو صرف ان کوششوں تک محدود رکھا ہے کہ جو مسلمانان ہند کی سر بلندی کے لئے لاہور کے احمدیوں نے اپنے امام ہمام کی ہدایات کے ماتحت کیں ورنہ اگر ساری جماعت کی کوششوں کا ذکر کیا جائے تو اس کے لئے ایک الگ مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے.اس زمانہ کے متعدد مسلم اخبارات جماعت احمدیہ کی اس بارہ میں مساعی جمیلہ کو صفحہ قرطاس پر لانے میں قطعا کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے تھے.ہندو اخبارات کا مخالفانہ پروپیگنڈا اور حضور کی طرف سے اس کا ازالہ ہندو قوم کا چونکہ گورنمنٹ میں بہت اثر ورسوخ تھا اس لئے انہوں نے گورنمنٹ کے اعلیٰ افسران کو ملاقاتوں اور اخبارات کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے خلاف یہ کہہ کر بہت بھڑ کا یا کہ احمدی اپنے امام کے حکم کے ماتحت مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ ہندوؤں کا تجارتی بائیکاٹ کیا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں جب مسلم حقوق کی حفاظت اور اتحاد کانفرنس

Page 494

493 میں شمولیت کے لئے شملہ تشریف لے گئے تو واپسی سے قبل حضور کو گورنر پنجاب کے چیف سیکرٹری کی چٹھی ملی جس میں لکھا تھا کہ گورنر پنجاب کی خواہش ہے کہ آپ واپس جانے سے قبل گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں.چنانچہ جب حضور تشریف لے گئے تو گورنر صاحب نے چھوٹتے ہی کہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کی جماعت نے ہندوؤں کے بائیکاٹ کی تحریک شروع کر رکھی ہے؟ حضور نے فرمایا.یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے.نہ ہم نے بائیکاٹ کے لئے کہا اور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی.ہم نے جو کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہند و جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دوکانیں کھولیں تا کہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے.اب بتائیے کیا ہماری اس تحریک میں کوئی حصہ بائیکاٹ کا ہے.اس پر گورنر صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ تو کوئی بائیکاٹ نہیں.۵۶ بابو عبد الحمید ریلوے آڈیٹر کے نام حضور کا خط اس سلسلہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے محترم بابوعبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر کے نام آخر ۱۹۲۷ء میں ایک خط لکھا تھا جس سے اس مضمون پر مزید روشنی پڑتی ہے.خط یہ ہے: مکرمی با بوعبد الحمید صاحب السلام علیکم گورنر صاحب سے چھوت چھات پر گفتگو ہوئی تھی.معلوم ہوا کہ ہندوؤں کی طرف سے جو تحریکات اس کے متعلق ہو رہی ہیں وہ ان سے ناواقف ہیں.آپ جلد سے جلد کوشش کر کے ہندو اخبارات میں جہاں جہاں مسلمانوں کے بائیکاٹ کے متعلق جو تحریرات نکل چکی ہیں ان کے کٹنگ مع اخبار کے نام اور تاریخ کے ارسال کریں تا کہ ان کے پاس پیش کیا جا سکے.“ والسلام خاکسار مرزا محمود ۵۷ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند و مسلمانوں کا معاندانہ رنگ میں بائیکاٹ کر رہے تھے گویا وہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرلیں گے تو مسلمان اپنی الگ دکانیں ہرگز نہیں کھول سکیں گے

Page 495

494 اور اگر کسی نے کھولی بھی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا.مگر مسلم قوم کی ترقی کے دن آچکے تھے اور یہ ایک ایسی تقدیر تھی جسے کوئی ٹال نہیں سکتا تھا اس لئے مسلمان خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے تجارتی رنگ میں بھی بہت ترقی کر گئے اور ہندو قوم کا یہ وہم بالکل جاتا رہا کہ مسلمان تجارت کے اہل نہیں.مسلمانوں کی ترقی کا یہ سنہری دور تھا.اگر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایات پر وہ عمل جاری رکھتے تو جس منزل پر وہ اب پہنچے ہیں کافی عرصہ قبل اس منزل پر پہنچ چکے ہوتے.سائمن کمیشن کی آمد پر جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات جس زمانہ میں سے ہم گزر رہے ہیں، یہ وہ زمانہ تھا جبکہ ہندوستان میں کافی سیاسی بیداری پیدا ہو چکی تھی اور ملک بھر کی قابل ذکر سیاسی جماعتیں انگریزوں سے آزادی طلب کر رہی تھیں.برطانوی پارلیمنٹ نے ملک کے اس جوش کو دیکھ کر ۱۹۲۷ء کے آخر میں حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیشن بھیجا جس کا نام اس کے لیڈر مسٹر سائمن ( جو انگلستان کے ایک مشہور بیرسٹر تھے ) کے نام پر سائمن کمیشن رکھا گیا.اس کمیشن کے دائرہ عمل میں علاوہ مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور کونسل آف سٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے بڑے افسروں سے مشورہ کرنے کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ وہ ملک کی قابل ذکر جماعتوں کے خیالات بھی دریافت کرے اور مختلف شہادتوں کو قلمبر کر کے اور متعلقہ امور پر غور کر کے دو سال تک اپنی تحقیقاتی رپورٹ برٹش پارلیمنٹ میں پیش کرے تا آئندہ دستور سیاسی کی تیاری میں اس سے مدد مل سکے.آل انڈیا نیشنل کانگرس اور مسلم قوم کے ذہین لیڈروں مسٹر محمد علی صاحب جناح سرعبدالرحیم اور مولانا محمد علی جو ہر وغیرہ نے اس بناء پر اس کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ اس میں کسی ہند وستانی ممبر کو شامل نہیں کیا گیا.حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہندو لیڈروں کی ہوشیاری اور مسلمانوں کی سادگی کو فوراً بھانپ گئے.حضور نے مسلمانوں کو بتایا کہ سائمن کمیشن سے عدم تعاون ہندوؤں کی ایک خطر ناک سیاسی چال ہے جس سے مسلمانوں کو خبر دار رہنا چاہیئے اور وہ چال یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک مدت سے انگریزوں کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور یہ وقتاً فوقتاً انگلستان جا کر بھی

Page 496

495 اور یہاں بھی اپنے مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں.پھر انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہراتے ہیں.ان کے اعزاز میں بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انگریز قوم ہندو قوم کے مطالبات سے اچھی طرح آگاہ ہے لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے تعلقات انگریزوں سے نہ ہونے کے برابر ہیں.لہذا ایسے موقعہ پر اگر ہندوؤں کی پیروی میں مسلمانوں نے بھی اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا تو اس کا نقصان یہ پہنچے گا کہ کمیشن کو مسلمانوں کے مطالبات کا قطعا علم نہیں ہوگا اور ہند وقو م کے مطالبات ( جن سے وہ پہلے ہی واقف ہے ) کو ہی ہندوستان کے مطالبات سمجھ لے گا.پس مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے سائمن کمیشن کے ساتھ بھر پور تعاون کریں.حضور نے مسلمانوں تک اپنے ان خیالات کو پہنچانے کے لئے ایک رسالہ ”مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت لکھا اور اسے پندرہ ہزار کی تعداد میں اردو اور انگریزی میں چھپوا کر ہندوستان بھر میں تقسیم کروایا.دو ہزار کی تعداد میں اعلیٰ کا غذ پر یہی مضمون چھپوا کر وائسرائے صوبوں کے گورنروں چیف کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ افسران پولیس اور اعلیٰ عہدیداران میڈیکل ڈیپارٹمنٹ اور انجنیئر نگ ڈیپارٹمنٹ وغیرہ کے نام بھیجا گیا.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح، مولانا ابوالکلام آزاد مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں وغیرہ چند ایک لیڈروں کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت نے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنا ضروری سمجھا.اور سر شفیع مرحوم کی قیادت میں اپنی ایک الگ تنظیم قائم کر لی.چنانچہ کمیشن آیا تو ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلم قوم نے ہڑتال نہیں کی.۵۸ پنجاب کونسل کے ممبروں نے بھی کمیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سات ممبروں کی ایک کمیٹی بنائی.جس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی شامل کیا گیا.اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنی ۵.نومبر ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے والے ممبروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ”ہمارا سیاسی نمائندہ جو سائمن کمیشن کے ساتھ ہے.ہندوستانی ممبروں کی مختلف النوع شخصیتوں سے بہت ہی متاثر ہوا ہے.سرشنکرن نائر وجاہت اور علیحدگی پسندی میں سرسکندر حیات خوش گفتار اور اپنی طرف مائل کر لینے والے ہیں.مسٹر راجہ اچھوت اقوام کے نمائندے ہیں.مسٹر ارون را برٹس ہوشیار اور چوکس ہیں.سرذ والفقار علی خاں صاحب

Page 497

496 فاضل ہیں اور دلنشیں طرز میں گفتگو کرنے والے ہیں.شہادت دینے والوں پر جرح کرنے کے باب میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی ہے.آپ داڑھی رکھے ہوئے ہیں.آپ کوئی دور از کار بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ مطلب کی بات کہتے ہیں اور اس لحاظ سے آپ سر آرتھر فروم سے مشابہ ہیں یعنی آپ کی آواز پر شوکت ہے اور نہایت برجستہ تقریر کرنے والے ہیں.‘۵۹۰ مسلم لیگ کی مذکورہ بالا دونوں پارٹیاں قریباً سوا سال تک الگ الگ کام کرنے کے بعد ۲۸ فروری ۱۹۳۰ء کو دہلی میں ایک اجلاس کے دوران ایک ہو گئیں.فالحمد للہ علی ذالک.حضرت امیر المومنین کی لاہور میں تشریف آوری ۱۲.جنوری ۱۹۲۹ء کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی لا ہور تشریف لائے اور اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا.۱۳.جنوری کو احمد یہ ہوسٹل میں احمدی اور غیر احمدی کالجوں کے طلباء کے علاوہ دوسرے اصحاب کو بھی شرف ملاقات عطا فرمایا.۲۰ ۱۴.جنوری کو حضور نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور پھر مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لا کر آیت لایمسه الا المطهرون کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی.۱۵.جنوری کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور نے حضور کے اعزاز میں سٹفل ہوٹل میں چائے کی دعوت دی جس میں سر شیخ عبدالقادر صاحب خلیفہ شجاع الدین صاحب، سید محسن شاہ صاحب مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور شیخ نیاز علی صاحب وغیرہ سر کردہ اصحاب شامل ہوئے اور کافی دیر تک مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی.بعد ازاں حضور چوہدری صاحب محترم کی کوٹھی تشریف لے گئے.وہاں بھی کئی اصحاب نے ملاقات کی.۱۶.جنوری کو سر شیخ عبد القادر صاحب نے حضور کے اعزاز میں اپنی کوٹھی پر دعوت چائے دی اور بہت سے اصحاب کو شرف ملاقات کا موقع ملا.۱۷.کو بھی حضور نے محترم چوہدری صاحب کی کوٹھی پر بعض سر کردہ اصحاب کو ملاقات کا موقعہ بخشا اور مسائل حاضرہ پر گفتگو فرماتے رہے.۱۸.جنوری کو حضور واپس قادیان تشریف لے گئے اور اس طرح حضور کا یہ ہفتہ لا ہور میں نہایت ہی مصروفیت میں گذرا.

Page 498

497 سفر لاہور ۲۵.اکتوبر ۱۹۲۹ء اسی سال ۲۵.اکتوبر ۱۹۲۹ء کو حضور درد شکم کا علاج کروانے کی غرض سے دوبارہ لا ہور تشریف لائے اور کرنل باٹ صاحب سے علاج کروانے کے علاوہ جمعہ کی نماز بھی پڑھائی اور احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی دعوت پر ایک تقریر بھی فرمائی.۴.نومبر ۱۹۲۹ء کو حضور وا پس قادیان تشریف لے گئے." گول میز کانفرنس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمات ۱۹۳۰ ء میں ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے برطانوی حکومت نے لندن میں ایک گول میز کانفرنس منعقد کی.جس میں مسلمانوں کا سیاسی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے حضرت ☆ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی.اس کانفرنس میں جو شاندار خدمات آپ نے سرانجام دیں ان کی بناء پر دوسری اور تیسری مرتبہ گول میز کانفرنس کے جو اجلاس لندن میں ہوئے ان میں بھی آپ سے شامل ہونے کی درخواست کی گئی.اس کانفرنس میں مسلمانوں کے حقوق و مطالبات پیش کرنے میں جو شاندار وکالت آپ نے کی اس کا ذکر کرتے ہوئے روزنامہ انقلاب نے لکھا ہے : ا.سر سیموئل ہو روزیر ہند نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں اعلان کیا تھا کہ گول میز کانفرنس کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.انہیں حل کرنے کے لئے قیمتی اور نتیجہ خیز خدمات سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سرانجام دیں ۱۲ ۲.اخبار ” شہباز لا ہور نے لکھا : ۱۹۳۰ء میں ہندوستانی اصلاحات کے سلسلے میں لندن میں گول میز کانفرنس کے اجلاس شروع ہوئے.سر محمد ظفر اللہ خاں تینوں گول میز کانفرنسوں اور ہندوستانی اصلاحات سے متعلق دونوں ایوانوں کی مشترکہ پالیمنٹری کمیٹی کے مندوب تھے.ان کانفرنسوں اور کمیٹی میں آپ نے جو شاندار خدمات سرانجام دیں ان سے ہندوستان اور ہندوستان سے دلچپسی گول میز کانفرنس لندن میں تین بار منعقد ہوئی.پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۳۰ء سے لیکر جنوری ۱۹۳۱ء تک دوسری مرتبہ نمبر ۱۹۳۱ء سے لیکر دسمبر ۱۹۳۱ء تک، تیسری مرتبہ نومبر ۱۹۳۲ء سے لیکر دسمبر ۱۹۳۲ء تک.

Page 499

498 رکھنے والے برطانوی حلقوں میں آپ کی شہرت میں بہت اضافہ ہو گیا.مشتر کہ پارلیمینٹری کمیٹی کے چیئر مین لارڈ نلتھگو تھے.اس کمیٹی میں سر محمد ظفر اللہ خاں نے جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے انہیں بے حد مقبولیت ہوئی اور انہوں نے ان کو برطانیہ کے صف اول کے بعض ممتاز مد برین مثلاً لارڈ سینکئے آرچ بشپ کنٹر بری سر آسٹن چیمبر لین اور مارکوئیس آف سالسبری کے رشتہ دوستی سے منسلک کر دیا.سر محمد ظفر اللہ خاں نے انگلستان کے ہوشیارترین مباحث اور سیاستدان مسٹر چرچل پر زبر دست جرح کی.مسٹر چرچل کمیٹی کے سامنے شہادت دے کر فارغ ہوئے تو سر محمد ظفر اللہ سے از راہ مذاق کہنے لگے.آپ نے کمیٹی کے سامنے مجھے دو گھنٹے بہت بری طرح رگیدا ہے.بایں ہمہ جب سلطنت برطانیہ بلکہ تمام مہذب دنیا کو شدید ترین خطرہ لاحق ہونے کے پیش نظر تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا پڑا تو ان دونوں کے باہم بہترین دوست بن جانے میں سر محمد ظفر اللہ خاں کی جرح حائل نہ ہو سکی.مشتر کہ منتخب کمیٹی میں اہم خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے لارڈ نلتھگو (چیئر مین کمیٹی ووائسرائے ہند.ناقل ) کو آپ کا کام بنظر تعمق دیکھنے کا موقعہ مل گیا.سر ماوس گورن..گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے اصل تشکیل دہندہ ہیں.سر محمد ظفر اللہ خاں کو کئی مواقع ان سے مل کر کام کرنے کے میسر آئے.۶۳ )..ڈاکٹر عاشق حسین صاحب بٹالوی نے لکھا: گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سب سے زیادہ کامیاب آغا خاں اور چوہدری ظفر اللہ خاں ثابت ہوئے.‘،۶۴ ۴ اخبار مسلم آواز کراچی نے لکھا: سر ظفر اللہ خاں کے متعلق قائد اعظم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ظفر اللہ کا دماغ خداوند کریم کا زبردست انعام ہے.۱۵،، ۵.حضرت خواجہ حسن نظامی نے جو ایک دردمند دل رکھنے والے مسلمان تھے لکھا: دراز قد مضبوط اور بھاری جسم، عمر چالیس سے زیادہ گندمی رنگ چوڑا چکلا چہرہ فراخ جسم فراخ عقل، فراخ علم، اور فراخ عمل، قوم مسلمان، عقیدہ قادیانی ، چپ رہتے ہیں

Page 500

499 اور بولتے ہیں تو کانٹے میں تول کر اور بہت احتیاط کے ساتھ پورا تول کر بولتے ہیں.سیاسی عقل ہندوستان کے ہر مسلمان سے زیادہ رکھتے ہیں.وزیر اعظم، وزیر ہند اور وائسرائے اور سب سیاسی انگریز ان کی قابلیت کے مداح ہیں اور ہندو لیڈر بھی بادل ناخواستہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ شخص ہما را حریف تو ہے مگر بڑا ہی دانشمند حریف ہے اور بڑا ہی کارگر حریف ہے.گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے چوہدری ظفر اللہ خاں کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور برکا ربات زبان سے نہیں نکالتا اور نئے زمانہ کے پالیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ ہے.میاں سر فضل حسین قادیانی نہیں ہیں مگر وہ اس قادیانی کو اپنا سیاسی فرزند اور سپوت بیٹا تصور کرتے ہیں.ظفر اللہ ہر انسانی عیب سے پاک اور بے لوث ہے.۶۶۴ ان گول میز کانفرنسوں میں شرکت اور قوم اور ملک کی بے لوث خدمتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی مدبرین اور مسلم اکابرین نے آپ کی شاندار خدمات کا کھلے بندوں اعتراف کیا اور جب ۱۹۳۴ ء میں وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں آنریبل سر فضل حسین صاحب کی جگہ خالی ہوئی تو آپ کو بلا مقابلہ ممبر منتخب کر لیا گیا.مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کی صدارت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمات ملتی وملکی کا مسلمانوں کے سنجیدہ طبقہ پر اس قدراثر تھا کہ مسلم لیگ کا جو اجلاس ۲۶.دسمبر ۱۹۳۱ء کو دہلی میں ہونا قرار پایا اس کی صدارت کے لئے آپ کی خدمت میں درخواست کی گئی.چنانچہ اس اجلاس کے لئے اولاً مسجد فتح پوری کا جیون ہال تجویز کیا گیا مگر کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی شرارت کی وجہ سے اس ہال میں اجلاس نہ ہو سکا بلکہ اس کی بجائے مسلم لیگ کے یک صدمند و بین خان صاحب نواب علی صاحب کی کوٹھی واقع کیلنگ روڈ نئی دہلی میں جمع ہوئے اور خان صاحب ایس.ایم عبداللہ صدر مجلس استقبالیہ کے خطبہ کے بعد سرمولوی محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مسلم لیگ نے لیگ کونسل کے انتخاب کے مطابق محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سے صدارت کے فرائض ادا کرنے کی درخواست کی.چنانچہ چوہدری صاحب نے کرسی صدارت

Page 501

500 پر بیٹھ کر ایک فاضلانہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مسلم نکتہ نگاہ کی ترجمانی ایسے عمدہ رنگ میں کی کہ حاضرین عش عش کر اٹھے.تمام پیچیدہ اور لائیل مسائل مثلاً وفاق وفاقی مجالس قانون مالیات وفات حق رائے دہندگی عدالت وفاق صوبجاتی خود مختیاری، مسلمانوں کے اساسی حقوق وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی.اس خطبہ کو مسلم لیگ کی تاریخ میں نہایت ہی اہم درجہ حاصل ہے.چنانچہ اسلامی پریس نے اس کی بے حد تعریف کی.ا.روزنامہ انقلاب لاہور نے خطبہ صدارت درج اخبار کرتے ہوئے لکھا: چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ پڑھا اس میں سیاسیات ہند اور سیاسیات اسلامی کے تمام مسائل پر نہایت سلاست، سادگی اور سنجیدگی سے اظہار خیالات فرمایا‘۶۷ اخبار الامان ، دہلی نے لکھا: جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی تجاویز اور اس کے خطبہ صدارت کا تعلق ہے اس میں پوری پوری مسلمانان ہند کی ترجمانی کی گئی ہے.یہ اجلاس گذشتہ جلسوں سے زیادہ کامیاب رہا.وزیر اعظم کے اس تاریخی اعلان پر جو اس نے ۲.دسمبر کو گول میز کانفرنس میں پیش کیا تھا.مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ جب تک وہ مسلمانوں کے فلاں فلاں مطالبات نہ منظور کریں.اس وقت تک مسلمان محض اس اعلان سے ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے.اس طرح ایک اہم تجویز آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کو متحد کرنے کے لئے منظور کی گئی.جس پر مسلمانوں کی سیاسی موت وحیات کا دارو مدار ہے.اسی طرح بعض اور مفید ضروری تجاویز منظور ہوئیں.اسی طرح خطبہ صدارت میں جس دلیری و بیباکی کے ساتھ حکومت کے رویہ کی مذمت اور حقوق مسلمین کی وکالت کا حق ادا کیا گیا ہے.وہ بھی اس اجلاس کی ایک تاریخی خصوصیت ہے،۱۸ ۳.”الخلیل‘ دہلی نے لکھا : تمام خطبہ آپ کی فاضلانہ اور دلیرانہ ترجمانی سے لبریز ہے.آپ نے اس خطبہ صدارت میں جن گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ہے حقیقت میں وہی مسلمانوں کے خیالات

Page 502

501 ہیں.اس خطبہ کو پڑھ کر مخالفین کو یقیناً اپنے احتجاجی فعل و عمل پر افسوس ہوا ہو گا اور ہونا چاہیئے.19 محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا مقام حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی نظر میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو چونکہ ایسی پوزیشن حاصل ہوگئی تھی کہ آپ کا شمار مسلم قوم کے اعلیٰ لیڈروں میں ہونے لگا تھا اور گورنمنٹ کی نگاہ میں بھی آپ ہندوستان کے قابل ترین قانون دانوں میں شمار ہونے لگے تھے.اس لئے دیگر مصروفیات کی وجہ سے جماعتی کاموں میں آپ زیادہ حصہ نہیں لے سکتے تھے.حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الثانی رضی اللہ عنہ نے ان حالات کو دیکھ کر اپنی موجودگی میں لاہور میں امارت کا انتخاب کروایا جس کے نتیجہ میں محترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے امیر منتخب ہوئے.اس لئے اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جماعتی کاموں کی وجہ سے آپ کا مقام حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں کیا تھا.حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء میں آپ کا ذکر بحیثیت امیر جماعت احمد یہ لا ہو ر ان الفاظ میں کیا کہ ا.اس کا امیر بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے تین وجہ سے محبت ہے.ایک تو ان کے والد کی وجہ سے جو نہایت مخلص احمدی تھے.میں نے دیکھا ہے انہوں نے دین کی محبت ( میں ) اپنی نفسانیت اور ”میں“ کو بالکل ذبح کر دیا تھا اور ان کا اپنا قطعاً کچھ نہ رہا تھا.سوائے اس کے کہ خدا راضی ہو جائے.ایسے مخلص انسان کی اولاد سے مجھے خاص محبت ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں ذاتی طور پر اخلاص ہے اور آثار وقرائن سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں.تیسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں علم ، عقل اور ہوشیاری دی ہے اور وہ زیادہ ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں.کے ۲.پھر حضور نے ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء کو زیورچ سے جو پیغام جماعت کے نام ارسال فرمایا اس میں محترم چوہدری صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

Page 503

502 وو سالہا سال کی بات ہے.میں نے خواب دیکھی تھی اور وہ اخبار میں کئی بار چھپ بھی چکی ہے.میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے بڑا قالین ہے اور اس قالین پر عزیزم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب عزیزم چوہدری عبداللہ خاں صاحب اور عزیزم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں.سران کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا.میری بیماری کے موقعہ پر تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا.بلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا.وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے.چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا.آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا ہے.دنیا کا کونسا ایسا مذ ہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو.کیا یہ نشان نہیں ؟ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں مگر کیا وہ اس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں.کیا کسی مخالف اور پیر نے ۲۰ سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور بیس سال تک وہ خبر پوری ہوتی رہی.اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقعہ خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی پوزیشن رکھتا تھا.” خدا تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا اور ان کی محبت کو قبول کرے گا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے.کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا.اس نے ایک عاجز بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا.اب یقیناً جو اس کی خدمت کرے گا خدا تعالیٰ اس کی خدمت کو قبول کرے گا اور دین و دنیا میں اس کو ترقی دے

Page 504

503 گا.وہ صادق الوعد ہے اور رحمان و رحیم ہے.،،اكو محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کا زمانہ امارت محترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے امرتسر کی قاضی فیملی کے درخشندہ گوہر ہیں.آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور کے گورنمنٹ کالج کے لیکچرار مقرر ہوئے اور پھر اسی ادارہ سے پرنسپل کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.بعدہ کچھ عرصہ کراچی اور لاہور یونیورسٹیوں میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کا انچارج رہنے کے بعد اب تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل ہیں.نہایت شریف النفس، نظام سلسلہ سے پوری طرح وابستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء کے لٹریچر اور تعلیم سے خوب واقف ہیں.جب سے آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے ملک میں آئے ہیں حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ کا لیکچرار مقرر کیا اور اب تک غالبا بغیر کسی ناغہ کے برابر آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے.آپ کا شمار پنجاب یورنیورسٹی کے چند ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے.آپ کے سینکڑوں شاگر د حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں اور کبھی آپ کی بے حد عزت اور تکریم کرتے ہیں.آپ موزوں قدوقامت کے ہنس مکھ انسان ہیں.عام حالات میں آپ کا لباس ہمیشہ سادہ ہوتا ہے.بول چال اور رفتار میں ایک وقار ہوتا ہے.آپ کی تقریر سے علماء اور نو تعلیم یافتہ طبقہ کافی معلومات حاصل کر کے اٹھتا ہے.آج کل آپ کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مجلس افتاء کی صدارت بھی سونپی ہوئی ہے.جسے آپ نہایت ہی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں.آپ قریباً چار سال تک جماعت لاہور کے امیر بھی رہے ہیں.خاکسار کی درخواست پر آپ نے اپنے زمانہ امارت کے جو حالات قلمبند کئے.درج ذیل ہیں : عرض ہے کہ میں ۱۹۳۱ء سے لیکر ۱۹۳۴ ء تک لاہور جماعت کا امیر تھا.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ سابق امیر محترمی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بار بار ہندوستان سے باہر جانے لگے تھے.پہلے راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس میں پھر کسی اور تقریب پر.بعد میں گورنر جنرل کی کونسل کے ممبر ہوکر دہلی چلے گئے.میرا انتخاب حضور خلیفہ اسی رضی اللہ عنہ نے اپنی موجودگی میں احمد یہ ہوٹل ایمپرس روڈ میں جماعت کے جلسہ میں کروایا اور وہیں منظوری دی.میرے ساتھ مختلف

Page 505

504 شعبہ جات کے سیکرٹریوں کا انتخاب بھی ہوا.جنرل سیکرٹری مکرمی ڈاکٹر عبید اللہ خاں ہوئے.دوسرے سیکرٹریوں میں میاں عبد العزیز صاحب مغل با بوفضل الدین صاحب ریڈ رہائی کورٹ مولوی محب الرحمن صاحب، مکر می شیخ بشیر احمد صاحب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب تھے.بعد میں ملک خدا بخش صاحب بھی شامل ہو گئے.جو میرے زمانے میں اور شیخ بشیر احمد صاحب کے زمانے میں لمبے عرصہ تک جنرل سیکرٹری رہے.مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب کے زمانہ امارت میں عرصہ تک میں نائب امیر رہا اور یہ سلسلہ میرے کراچی جانے (۱۹۵۴ء) تک جاری رہا.اس زمانے میں یعنی میری امارت کے زمانہ میں بڑے بڑے واقعات یہ ہیں.حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کئی دفعہ تشریف لائے.حضور کے تین لیکچر تو اچھی طرح یاد ہیں اسی زمانے کے ہیں.ایک لیکچر سیرت النبی کی تقریب پر بریڈ لا ہال میں ہوا جس میں حضور نے لقد جاء كم رسول من انفسکم سورۃ توبہ کی آخری رکوع کی تفسیر فرمائی.صدر پروفیسر سید عبد القادر تھے اور مقررین میں مسٹر رام چندر منچندہ تھے.دوسرے دو لیکچر یکے بعد دیگرے دو دنوں میں ہوئے.ان کا اہتمام پنجاب لٹریری لیگ نے کیا جس کے سیکرٹری دیوراج چوہدری ایم.اے تھے جو بعد میں اخبار ” ٹریبیون“ کے اسٹنٹ ایڈیٹر ہوئے پہلا لیکچر ”مذہب اور سائنس“ کے موضوع پر ( یا ہستی باری تعالیٰ پر ) تھا جو میونسپل ہال میں ہوا.صدر غالبا سرعبدالقادر صاحب تھے اور دوسرا لیکچر عربی ام الالسنہ پر تھا جو وائی.ایم سی.اے ہال میں ہوا.اور صدر برکت علی صاحب قریشی پروفیسر عربی پنجاب یونیورسٹی تھے.لاہور کا عظیم الشان جلسہ مصلح موعود کے اعلان کے متعلق میرے زمانہ نا ئب امارت میں ہوا.اس کے پنڈال کی تیاری میرے اور چند اور دوستوں کے ذمہ تھی جن میں شیخ عبداللہ اور شیخ عبدالطیف صاحبان اچھی طرح یاد ہیں.پنڈال میں آ کر حضور نے نماز ظہر وعصر پڑھائی.نماز میں میں حضور کے ساتھ کھڑا تھا.اس زمانے میں حضور ام طاہر کی بیماری کے ایام میں لمبا عرصہ لاہور رہے.قریباً ہر روز شام کو مجلس علم و عرفان جمتی تھی (۱۳) ٹیمپل روڈ پر ) اس زمانہ کی بیشمار باتوں میں سے کچھ یاد ہیں.باقی کا مستقل اثر دل و دماغ پر ہے.

Page 506

505 ”میرے زمانہ امارت میں مسجد دہلی دروازہ کے ایک حصہ پر چھت ڈالی گئی اور اس سے مبلغ لاہور کی رہائش کا انتظام ہوا.اس کام میں میوسکول آف آرٹس کے میاں محمد صاحب مرحوم نے بڑی خدمت کی.میں نے سنا ہوا ہے کہ مسجد احمد یہ دہلی دروازہ (جو شروع سے لے کر مسجد دارالذکر کے زمانہ تک لاہور کی مرکزی مسجد رہی ) کا نقشہ بھی میاں محمد صاحب نے بنایا تھا.اسی نقشہ پر لائکپور کی مسجد کا نقشہ اتارا گیا.اس مسجد کی تعمیر میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے بیش بہا خدمات سرانجام دیں.” میرے زمانہ امارت میں مجلس عاملہ کے اجلاس کچھ عرصہ مسجد دہلی دروازہ میں ہوتے رہے.یہ وہ زمانہ تھا جب میں ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا.بعد میں کچھ عرصہ یہ اجلاس میرے مکان واقعہ راوی روڈ باغ منشی لدھا میں ہوتے رہے.ماڈل ٹاؤن کے زمانہ کی بات ہے موٹر سائیکل سے گر کر مجھے چوٹ لگ گئی.اس عرصہ میں حضور لا ہور تشریف لائے تو میری عیادت کے لئے گھر پر تشریف فرما ہوئے.اسی زمانے کی بات ہے کہ میں برادرم ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی خدمت میں دھرم پور کے سینی ٹوریم میں تھا کہ حضور شملہ سے غالباً کشمیر کمیٹی کی کوئی میٹنگ کر کے واپس تشریف لے جارہے تھے کہ میں نے راستہ میں دھرم پور کی روڈ پر حضور سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ حضور سینی ٹوریم پر چڑھ کر ڈاکٹرمحمد منیر صاحب کو بھی دیکھیں.چنانچہ حضور اپنی کار چھوڑ کر سینی ٹوریم کی کار میں سوار ہو کر اوپر سینی ٹوریم میں پہنچے اور ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی عیادت فرمائی.ہمراہ مکر می شمس صاحب تھے حضور کا سینی ٹوریم میں آنا سب کے لئے باعث دلچپسی تھا.ایک صاحب نے حضور سے تصویر کیلئے عرض کی.حضور تصویر کے لئے ٹھہر گئے.” میں نے ڈلہوزی کے زمانے میں دو سال حضور کی مصاحبت کا فخر حاصل کیا.ایک سال عید بھی وہیں آئی.عید پر حضور نے تمام جماعت کو دعوت دی.کھانے کے وقت میں حضور کے سامنے بیٹھ کر ایک ہی رکابی میں کھاتا رہا اگر چہ شر ما تا رہا.اسی عید کے دن شام کو سب مسلمانوں نے مشترکہ چائے پارٹی کا انتظام کیا جو سیسل ہوٹل میں ہوئی.اس پارٹی کا واقعہ ہے کہ حضور معہ چند خدام سیسل ہوٹل کے ہال میں داخل ہوئے تو سب حاضرین احمدی

Page 507

506 و غیر احمدی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے.ڈلہوزی کے زمانے میں ایک واقعہ یاد ہے.برادرم ڈاکٹر محمد بشیر صاحب نے اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی.جس میں حضور شریک ہوئے اور لمبا وقت باتیں کرتے رہے.اس زمانے میں ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق حضور نے قیمتی مضمون لکھے جن کا ترجمہ میں نے کیا اور جو ولایت میں تقسیم کئے گئے.میرے زمانہ امارت میں مشہور پروفیسر ولفر ڈسمتھ نے حضور سے لمبی ملاقات کی (بعد میں جب حضور رتن باغ میں فروکش تھے تو پر و فیسر سمتھ نے پھر ملاقات کی ) رتن باغ کے زمانے میں گاندھی جی کے ایک نمائندہ نے لمبی ملاقات کی.اس زمانے میں حضور نے تعلیم الاسلام کالج کے ہال میں جو اس زمانہ میں لاہور ڈی.اے.وی کالج کی عمارت میں تھا، ایک امریکن پروفیسر کے لیکچر کی صدارت فرمائی اور انگریزی میں تقریر پر تبصرہ فرمایا.“ محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب کا زمانہ امارت محترم جناب قاضی محمد اسلم صاحب کے بعد محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ۱۹۳۴ ء میں جماعت لاہور کے امیر منتخب ہوئے.اور ۱۹ سال تک لگا تار امارت کا کام آپ کے سپر د ر ہا.آپ کے زمانہ امارت میں مندرجہ ذیل احباب مجلس عاملہ کے ممبر رہے.ا.مکرم قاضی محمد اسلام صاحب ایم.اے.مکرم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء ۳ مکرم شیخ محمود الحسن صاحب ۴.مکرم با بوفضل دین صاحب ۵.مکرم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ے.مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب مکرم با بومحمد شفیع صاحب ۹.مکرم میاں عبد الکریم صاحب ۱۰.مکرم میاں عبدالمجید صاحب ۱۱.مکرم چوہدری غلام احمد صاحب ۱۲.مکرم چوہدری عبد الرحیم صاحب ۱۳.مکرم با بو فقیر اللہ صاحب ۱۴.مکرم شیخ نوراحمد صاحب ۱۵.مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر ۱۶۹ مکرم مولوی برکت علی صاحب لائق

Page 508

507 ۱۷.مکرم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب ۱۸ - مکرم ملک خدا بخش صاحب ۱۹.مکرم قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ ممکن ہے بعض اور احباب بھی ممبر رہے ہوں مگر جہاں تک دفتر جماعت احمد یہ لاہور کے ریکارڈ کا تعلق ہے انہی احباب کا ذکر پایا جاتا ہے.محترم ملک خدا بخش صاحب جنرل سیکرٹری تھے اور محترم چوہدری عبد الرحیم صاحب پرسنل اسسٹنٹ مجلس عاملہ کے اجلاس محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت کے مکان ۱۳ ٹمپل روڈ پر ہوتے رہے.محترم شیخ صاحب کی کشمیر کمیٹی میں خدمات محترم شیخ صاحب کو حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے ماتحت کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کی قانونی خدمات سرانجام دینے کا بہت موقعہ ملا.اوراس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہا۱۹۳ء میں کشمیریوں کی مظلومیت سے متاثر ہو کر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے شملہ میں نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی پر ہندوستان کے مسلم زعماء کا ایک اجلاس مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے لئے بلایا.دوران گفتگو میں یہ فیصلہ ٹھہرا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس کا نام "آل انڈیا کشمیر کمیٹی رکھا جائے اور وہ کمیٹی اس مشکل مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیکر ایک تنظیم کے ساتھ حل کرے.ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب شاعر مشرق نے تجویز کی کہ اس کمیٹی کے صدر امام جماعت احمد یہ ہونے چاہئیں کیونکہ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور کام کرنے والے مخلص کا رکن بھی.خواجہ حسن نظامی صاحب نے فوراً اس تجویز کی تائید کی.اس پر سب طرف سے آوازیں آنا شروع ہوئیں.درست ہے درست ہے.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ہر چند فرمایا کہ ” مجھے اس تجویز سے ہرگز اتفاق نہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ہر رنگ میں کمیٹی کے ساتھ تعاون کرے گی لیکن مجھے صدر منتخب نہ کیا جائے مگر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے کہا ”حضرت صاحب! جب تک آپ اس کام کو صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے یہ کام نہیں ہوگا ۲ کے اس پر حضرت خلیفتہ المسیح نے تمام زعماء کے اصرار پر صدارت قبول فرمالی اور خدا کے فضل وکرم سے تھوڑے عرصہ کے اندر اندر ایسا عظیم الشان کام کیا کہ اپنے اور بیگانے سب دنگ رہ گئے.اس کام کا

Page 509

508 ایک حصہ مظلوم کشمیریوں کی قانونی امداد بھی تھا.جس میں احمدی وکلاء نے اپنی پریکٹس کو چھوڑ کر دن رات انتھک محنت کر کے ایسے شاندار کارنامے سرانجام دیئے کہ کشمیر کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے.اس وقت مضمون کے لحاظ سے محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی قانونی خدمات کا تھوڑا سا تذکرہ ہے.کشمیر کمیٹی کی مسلسل اور منظم کوشش اور جد وجد کے نتیجہ میں جب ریاستی حکام نے گھٹنے ٹیک دیئے تو مہا راجہ ہری سنگھ صاحب والی جموں و کشمیر نے ۱۱.نومبر ۱۹۳۱ء کو ایک اعلان کے ذریعہ دو کمیشن مقرر کئے جن میں سے ایک کا نام تھا مڈلٹن کمیشن اور دوسرے کا گلانسی کمیشن“ ان کمیشنوں کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کے سامنے کشمیری مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کے لئے کارآمد اور مفید شہادتیں پیش کریں تا کمیشن ریاست کے مسلمانوں کو ایسے مشورے دے سکیں جن پر کار بند ہو کر وہ اپنا کیس مضبوطی کے ساتھ اور مؤثر رنگ میں پیش کر سکیں.مظلومین کی وکالت کرنے اور مڈلٹن کمیشن کے سامنے شہادت پیش کرنے کے سلسلہ میں جو خدمات محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے سرانجام دیں ان سے متاثر ہو کر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے ۲۱.دسمبر ۱۹۳۱ء کو سرینگر سے ”الفضل“ کے نام یہ پیغام بھیجا کہ شوپیاں کا مقدمہ قتل گذشتہ ہفتہ سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لا ہور نہایت قابلیت کے ساتھ چلا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک ملزم رہا کر دیا گیا ہے.شیخ بشیر احمد صاحب نے ہمارے مفاد کی خاطر جو قربانی کی ہے اس کے ہم بے حد ممنون ہیں.آپ نے مڈلٹن ، تحقیقاتی کمیٹی کے سلسلہ میں بھی ہمیں قابل قدر را مداد دی ہے.ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صمیم قلب کے ساتھ شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایسا قابل قانون دان ہماری امداد کے لئے بھیجا،۷۳ شوپیاں کے علاوہ علی بیگ میر پور کے مقدمہ کی بھی آپ نے پیروی کی اور اس مقدمہ کے ۲۴ ملزمان نے مندرجہ ذیل الفاظ میں آپ کا شکریہ ادا کیا : وو ” سب سے بڑھ کر ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممنون ہیں جنہوں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو ہمارے مقدمہ کی بحث کے لئے ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے

Page 510

509 بھیجا اور مسلسل ایک ہفتہ بحث کر کے انہوں نے ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا، ۴ کے تنظیم جماعت محترم چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ اسلامیہ پارک کا بیان ہے کہ جب محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت لاہور کے امیر منتخب ہوئے تو آپ نے لا ہور شہر کی وسعت کے پیش نظر شہر کو کئی حلقوں میں تقسیم کیا اور ہر حلقہ کے لئے الگ الگ صدر اور دیگر عہدیدار مقرر کئے.ان ایام میں محترم شیخ صاحب مجھے ساتھ لے کر باقاعدگی کے ساتھ باری باری تمام حلقوں کا دورہ کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک مرتبہ آپ کے والد صاحب کافی بیمار تھے مگر اس حالت میں بھی آپ مجھے ساتھ لے کر ماڈل ٹاؤن کے دورہ پر روانہ ہو گئے.ابھی ماڈل ٹاؤن پہنچے ہی تھے کہ فون پر اطلاع ملی کہ آپ کے والد صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے فوراً واپس پہنچو.اس پر ہم واپس آگئے.محترم چوہدری صاحب نے مزید فرمایا : محترم شیخ صاحب جب امیر مقرر ہوئے تو شروع شروع میں آپ کے پرسنل اسسٹنٹ محترم چوہدری احمد جان صاحب حال امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی تھے.مگر جب ان کا تبادلہ ہو گیا.تو شیخ صاحب نے مجھے پرسنل اسٹمنٹ مقرر کر لیا.مجھے کچھ عرصہ تک اپنے ساتھ حلقوں میں لے جاتے رہے.پھر یہ کام میرے ہی سپر د کر دیا.میں دوروں کی رپورٹ آپ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا.اور پھر جس حلقہ میں آپ خود جانے کی ضرورت محسوس کرتے اس میں مجھے ساتھ لے کر تشریف لے جاتے.جب مجھ پر حلقہ جاتی دوروں کی وجہ سے بوجھ زیادہ ہو گیا تو آپ نے مجلس عاملہ کے سارے ممبروں کے لئے الگ الگ حلقے مقرر کر دئیے.محترم چوہدری صاحب نے آپ کی امارت کے زمانہ کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: حالقہ دہلی دروازہ میں بہت قدیم اور بزرگ صحابہ رہا کرتے تھے.تبلیغ بھی خوب کرتے تھے.نیکی اور تقویٰ کا بھی گہرا اثر تھا.مگر حلقہ کی تنظیم برائے نام تھی.اس حلقہ کی یہ حالت دیکھ کر پہلے تو محترم شیخ صاحب نے خود اس حلقہ میں بار بار تشریف لا کر ا حباب کو سمجھایا مگر جب دیکھا کہ جیسی تنظیم کے آپ خواہاں تھے.ویسی قائم نہیں ہو سکی تو آپ نے مجھے اس حلقہ کا صدر نامزد کر دیا.اندار ڈیڑھ سال میں

Page 511

510 صدر رہا اور جب اس حلقہ میں تنظیم قائم ہو گئی اور چندہ بھی با شرح آنا شروع ہو گیا تو محترم شیخ صاحب کی اجازت سے دوباہ انتخاب ہوا اور میاں محمد صاحب صدر منتخب ہو گئے.خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ محترم چوہدری عبدالرحیم صاحب کے زمانہ کا ایک رجسٹر مجھے ملا ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ۳۸ - ۱۹۳۹ء کا زمانہ تھا.اس زمانہ میں مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں باقاعدگی کے ساتھ حلقہ کے ہفتہ وار اجلاس ہوا کرتے تھے اور اکثر حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل، حضرت میاں معراج دین صاحب عمر، حضرت میاں محمد سعید صاحب سعدی اور دیگر بزرگوں کی ذکر حبیب پر ایمان افروز تقاریر ہوا کرتی تھیں.ان تقریروں کا خلاصہ پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے.اس زمانہ میں اس حلقہ میں میاں فیملی کے کافی افراد مسجد کے اردگرد رہا کرتے تھے مگر اب ان کی نسل لا ہور کے بعض دیگر حصوں اور دوسرے شہروں میں پھیل گئی ہے اور بہت کم لوگ یہاں رہ گئے ہیں.اللہ کرے وہ اپنے بزرگوں کے روحانی ورثہ کے حقیقی وارث بنیں.آمین اللهم آمین.محترم با بوفضل دین صاحب ریٹائر ڈ سپر نٹنڈنٹ ہائیکورٹ کا بیان ان کے حالات میں درج کیا جاچکا ہے.یہاں موقعہ کی مناسبت سے اُس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.آپ کے بیان کے مطابق : آپ جناب شیخ صاحب کے زمانہ امارت میں ۱۹۳۱ء سے لیکر ۱۹۳۹ ء تک سیکرٹری مال کے طور پر کام کرتے رہے.اس کے بعد بطور نگران اس کام میں حصہ لیتے رہے.چندہ آپ کے زمانہ میں سو فیصدی وصول ہوتا رہا.اور اس کام میں محترم چوہدری عبدالکریم صاحب محترم ماسٹر محمد عبد اللہ صاحب محترم باب فضل احمد صاحب محترم حکیم سراج دین صاحب، محترم با بومحمد شفیع صاحب اور محترم قاضی محمود احمد صاحب آپ کی امداد فرماتے رہے.حلقوں کے دوروں میں محترم ملک خدا بخش صاحب اور محترم میاں عبدالکریم صاحب معاونت فرمایا کرتے تھے.فتنہ احرار اور جماعت کی بیداری محترم شیخ صاحب ابھی امیر بنے ہی تھے کہ سابق پنجاب اور خاص کر شہر لاہور میں مجلس احرار نے ملک میں سیاسی برتری حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی بر پا کر

Page 512

511 دیا.خاکسا مؤلف کتاب کو وہ زمانہ خوب یاد ہے.احراریوں نے قریہ قریہ اور دیہہ دیہہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہزاروں جلسے کئے اور اس قدر لوگوں کو بھڑ کا یا کہ اگر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بار بار جماعت کو صبر و برداشت کی تلقین نہ کی جاتی تو قریب تھا کہ ملک میں سخت خونریزی تک نوبت پہنچ جاتی.اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو خیر تھی مگر نوبت با ینجا رسید که حکومت کے بعض بڑے بڑے افسروں نے بھی در پردہ احراریوں کی پیٹھ ٹھونکنا شروع کر دی اور جماعت کے ساتھ صریح بے انصافی پر اتر آئے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے جماعت میں ایک سیاسی پارٹی قائم کرنے کا ارشاد فرمایا جس کا نام حضور نے نیشنل لیگ رکھا اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا.اس لیگ کے ماتحت ایک رضا کاروں کی جماعت بھی قائم فرمائی جس کے قائد محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب مقرر ہوئے.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ کے اندر اندر ہی ہزاروں لوگ اس لیگ کے ممبر بن گئے.حضور نے ابتدائی ایام میں لیگ کے سپر د جو کام کیا اس کی تفصیل یہ ہے.حضور نے فرمایا: ” سب سے پہلی اور مقدم چیز جس کے لئے ہر احمدی کو اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سلسلہ کی ہتک ہے.متواتر سلسلہ احمدیہ کی ہتک کی جارہی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حکام کو اس کے دور کرنے کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیئے نہ وہ فرض ادا کر رہی ہے جو حکومت کے لحاظ سے اس پر عائد ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت پنجاب نے اب تک نو کے قریب یا ممکن ہے ایک دو زیادہ پمفلٹ ضبط کئے ہیں جن میں سلسلہ احمدیہ پر حملے کئے گئے تھے.مگر نو دس یا گیارہ پمفلٹوں کو ضبط کر لینا ہر گز یہ بات ثابت نہیں کرتا کہ گورنمنٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا.کیونکہ ضبط ہونے والے پمفلٹ تو نو دس ہیں اور وہ ٹریکٹ رسالہ جات اور اشتہارات جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمیشہ گندی گالیاں دی جاتی ہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور گورنمنٹ ان کے متعلق کوئی نوٹس نہیں لیتی.اگر سو قاتلوں میں سے نو یا دس قاتلوں کو گورنمنٹ سزا دے دیتی ہے تو ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ گورنمنٹ نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر

Page 513

512 دیا.کیونکہ اگر اسے سو قاتلوں کا علم ہے تو جب تک وہ ہر ایک قاتل کو سزا نہیں دے لیتی وہ اپنے فرائض کو ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی.اسی طرح گورنمنٹ کا ہمارے خلاف سینکڑوں رسالوں اشتہاروں اور کتابوں کی طرف کوئی توجہ نہ کرنا اور نو دس پمفلٹوں کو ضبط کرنا بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا کرتا ہے کہ یہ نو ضبطیاں بھی محض یہ دکھانے کے لئے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کی طرف توجہ کی ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ نو دس پمفلٹوں کو تو ضبط کر لیا جائے مگر باقی اخبارات متواتر گالیوں سے پُر ہوں.ٹریکٹ اور رسالے گالیوں سے پُر ہوں.نظمیں ہمارے خلاف پڑھی جاتی ہوں مگر گورنمنٹ ان کی طرف کوئی توجہ نہ کرے.۵ دوسری بات جس کی طرف لیگ کو توجہ کرنا چاہیئے وہ مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ * ہے.جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ کیس عدالت میں پیش ہو چکا ہے.پس سب سے پہلے جماعت کو عدالتی چارہ جوئی ہی کرنی چاہیئے.اس لئے کہ جس جس امر کے متعلق قانون نے ہمارے لئے راستہ کھولا ہوا ہو ان امور کے متعلق ہمیں اپنے قلم یا اپنی زبان کو اس وقت تک استعمال قادیان میں آریہ ہائی سکول کے پاس احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک جلسہ کیا تھا جس میں جماعت کے خلاف نہایت ہی اشتعال انگیز تقریریں کی گئی تھیں.اور اگر جماعت احمدیہ کے ذمہ دار افسروں کی طرف سے احمدیوں کو بار بار صبر اور ضبط کی تعلیم نہ دی جاتی تو قریب تھا کہ خون کی ندیاں بہہ جاتیں.احراری مقررین نے ایک بہت بڑے جلسہ میں جس میں شامل ہونے کے لئے ملک کے طول و عرض سے لوگ جمع ہوئے تھے جماعت احمدیہ کے امام اور دیگر معزز ہستیوں کے خلاف جی بھر کر انتہائی بدتہذیبی اور بدگوئی کا مظاہرہ کیا تھا جس پر گورنمنٹ نے دیگر مقررین کو چھوڑ کر صرف سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلاف مقدمہ کھڑا کیا تھا.مگر کارروائی اس مقدمہ اس طرح چلائی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مقدمہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب کے خلاف نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف چلایا گیا ہے.اس مقدمہ میں مسٹر کھوسلہ نے شاہ صاحب کو صرف پندرہ منٹ قید کی سزا دی.اس کے بالمقابل ایک احمدی نے ایک کتاب لکھی جس میں صرف حوالہ جات جمع کئے گئے تھے اس پر اسے قید کی سزادی گئی مگر جب مسٹر کھوسلہ سیشن جج کے پاس اپیل کی گئی تو انہوں نے سزا کو چار سور و پیہ جرمانہ میں بدل دیا.اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے دونوں فریق کے ایک ایک آدمی پر مقدمہ چلا کر انصاف کا تقاضا پورا کر دیا.مگر حقیقت یہ تھی کہ ہمارے ایک آدمی نے جرم کیا اور اس ایک پر ہی مقدمہ چلایا گیا مگر دوسرے فریق کے سو آدمیوں نے جرم کیا جن میں سے صرف ایک آدمی پر مقدمہ چلایا گیا.گویا احمدیوں کے سو فیصدی آدمیوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور احراریوں کے ایک فیصدی آدمیوں کے خلاف کارروائی ہوئی.

Page 514

513 وو نہیں کرنا چاہیئے جب تک قانونی ذرائع ہمارے لئے بند نہ ہو جائیں.تیسرا امر جو نیشنل لیگ کو مد نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ایسے افسر اس ضلع میں بھی ہیں اور باہر بھی جنہوں نے سلسلہ کی متواتر ہتک کی ہے اور سلسلہ کے تمام حقوق کو انہوں نے نظر انداز کر دیا ہے.صدر انجمن نے متواتر حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ان افسروں کو سزا دے مگر حکومت نے ہمیشہ بے تو جہی سے کام لیا ہے.نیشنل لیگ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ایسے جائز ذرائع سے کام لے کر جو قانون اور شریعت کی حدود کے اندر ہوں دو باتوں میں سے ایک نہ ایک بات کرے.یا تو حکومت کو مجبور کرے کہ وہ اپنے افسروں کو سزا دے یا ایسے طریق اختیار کرے کہ یہ معاملہ بالکل کھل جائے کہ حکومت اپنے افسروں کی رعایت کر رہی اور احمدیوں کی حق تلفی کر رہی ہے.دونوں امور میں سے ایک امر ضر ور نیشنل لیگ اختیار کرے.یا تو قانون کے مطابق ان افسروں کو حکومت سے سزا دلوانے کی کوشش کرے کیونکہ جیسے وہ حکام ہمارے مجرم ہیں اسی طرح حکومت کے بھی مجرم ہیں.حکومت افسروں کو اس لئے مقرر کیا کرتی ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کریں.مگر جب وہ ظالم کی مدد کر رہے ہوں تو وہ حکومت کے بھی ایسے ہی مجرم ہیں جیسے لوگوں کے.اور کوئی وجہ نہیں کہ حکومت ان کو سزا نہ دے لیکن اگر وہ سزا نہ دے تو ایسا طریق اختیار کر وجود نیا پر ثابت کر دے کہ تم حق پر تھے مگر حکومت نے تمہارا حق ادا نہیں کیا.اور وہ یہ ہے کہ مختلف امور کے متعلق عدالتوں میں مقدمات لے جاؤ اور ہائیکورٹ اور پر یوی کونسل تک ان مقدمات کو چلا ؤ.یہاں تکہ یہ امر ثابت ہو جائے کہ حکومت پنجاب نے بعض غیر منصف حکام کے متعلق نا جائز طرف داری کا “ کے طریق اختیار کیا ہے." حقیقت میں یہ ساری مشکل اس لئے پیش آئی کہ گورنمنٹ کا یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص کسی قوم کے بزرگ کی ہتک کرے تو ہتک کرنے والے پر نالش گورنمنٹ کرے.اس قوم کے افراد نہیں کر سکتے تھے.اور گورنمنٹ یہ دیکھتی تھی کہ جن کا دل دکھا ہے وہ کتنی تعداد میں ہیں اور آیا وہ بے قابو ہو کر قانون توڑنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں.اگر دیکھتی کہ فساد کا خطرہ ہے تو توجہ کرتی تھی بصورت دیگر ٹس سے مس نہ ہوتی تھی.

Page 515

514 حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس مذہب کے پیشوا کی ہتک کی جائے اس کے پیرو ہتک کرنے والے پر خود مقدمہ دائر کریں.اگر ایسا قانون بن جاتا تو جماعت احمدیہ کو گورنمنٹ پر اس بارہ میں کوئی اعتراض باقی نہ رہتا.زریں نصائح غرض مندرجہ بالا ہدایات کے ساتھ ساتھ حضور نے نیشنل لیگ کو یہ بھی نصیحت کی کہ یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ شریعت کی پابندی اور قانون وقت کی اطاعت ہمیشہ ملحوظ رکھی جائے.سیاسیات میں بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے سلسلہ کی عظمت کو بطہ لگے.تم پر کتنی ہی مصیبتیں آئیں.کتنا ہی دکھ اور تکلیف میں رہنا پڑے اسے برداشت کرو.کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ سلسلہ پر کوئی اخلاقی یا قانونی الزام عائد ہو.اب خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک اچھا نمونہ پیدا کر دیا ہے جس سے تم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہو.ایک دو باتیں میں نے بتا دی ہیں اور بیسیوں اور باتیں ہیں جو نکالی جا سکتی ہیں جب تمہارے لئے ایک رستہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے کئی رستے کھولے ہوئے ہیں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ تم وہ طریق اختیار کرو جس سے جماعت کی بدنامی ہو.تم آئین کے اندر رہ کر کام کرو اور یقیناً یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کے جلال کے لئے کھڑے ہو اور وہ تمہیں ضائع کر دے.تم گذشتہ دنوں کے اللہ تعالیٰ کے وہ نشانات دیکھ لو جواس نے تمہاری تائید کے لئے ظاہر کئے.کس طرح اس نے حیرت انگیز طور پر تمہاری مدد کی اور کس طرح اس نے تمہارے دشمنوں کو نیچا دکھایا ہے ان جلی الفاظ میں حضور کا اشارہ مجلس احرار کی اس ذلت کی طرف ہے جوا سے مسجد شہید گنج لاہور کے بارہ میں مسلمانوں سے علیحدہ رویہ اختیار کرنے پر اٹھانا پڑی.تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ۱۹۳۵ء کے اوائل میں سکھوں نے لنڈا بازار کی ایک قدیم مسجد کو جو سکھوں کے زمانہ سے ان کے قبضہ میں چلی آتی تھی اپنے نزدیکی گوردوارہ میں شامل کرنے کے لئے شہید کر دیا.جس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں سخت ہیجان پیدا ہوا.اور انہوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ جب تک مسجد کو نئے سرے

Page 516

515 سے تعمیر نہ کیا جائے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ مجلس احرار نے آئندہ الیکشن میں اپنے زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو کامیاب کروا کر وزارتوں پر قبضہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے وہ غیر مسلموں کے ایک حصہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتی تھی.لیکن جب سکھوں نے مسجد شہید کر دی تو مسلمان آپے سے باہر ہو گئے اور حالات نے نہایت نازک صورت اختیار کر لی.مسلمانوں نے اپنی قومی غیرت کو برقرار رکھنے کی خاطر جو انہیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی ہوئی ہے ہزاروں کے تعداد میں مسجد شہید گنج کی طرف بڑھنا شروع کیا.حکومت کو یہ ہنگامہ خیزی ناگوار گذری اور قیام امن کی پیش نظر متعدد بار مسلمانوں پر گولی چلائی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.ان حالات میں مسلم قوم نے طبعاً اپنے ان لیڈروں کی طرف رجوع کیا جو ان سے آئندہ الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کی بھیک مانگ چکے تھے.اس نازک موقعہ پر احراری لیڈروں کا فرض تھا کہ وہ آگے بڑھ کر مسلمانوں کی رہنمائی کرتے.حکومت اور سکھ لیڈروں سے مل کر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے.لیکن جب پبلک آواز نے انہیں مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنی جد و جہد کا آغاز کرنے کے لئے ۲۷ - ۲۸ جولائی ۱۹۳۵ء کی تاریخیں مقرر کر دیں.چنانچہ ۲۸ جولائی کو انہوں نے موچی دروازہ کے باہر برکت علی محمد ن ہال میں ایک جلسہ منعقد کیا.جس میں پنجاب و سرحد کے ایک سو کے قریب نمائندے شامل ہوئے.لیکن ابھی جلسہ شروع نہیں ہوا تھا کہ چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی جس کے جواب میں کسی احراری لیڈر کو تو لب کشائی کی جرأت نہ ہوئی البتہ انہوں نے سیرت کمیٹی والے عبدالمجید صاحب قرشی کو اپنی طرف سے قربانی کا بکرا بنا کر پیش کر دیا.قرشی صاحب پر جو بیتی اس کا کچھ حال بالفاظ ”زمیندار یوں ہے کہ " قرشی صاحب سٹیج پر کیا آئے حاضرین کے لئے پیغام اشتعال آ گیا.....سارے 9966 مند و بین یک زبان ہو کر بٹھا دو بٹھا دو کا ہنگامہ بلند کر رہے تھے.نفرت و ہیجان میں ڈوبے ہوئے فقرے بزبان ہنگامہ اعلان کر رہے تھے کہ کوئی مسلمان اس کی صورت تک کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں.غیظ و غضب یہاں تک بڑھ گیا کہ سٹیج کے قریب سے چند اشخاص اٹھ کر قرشی پر جھپٹ پڑے اور نہایت بے تکلفی کے ساتھ سٹیج سے پیچھے دھکیل دیا.اس کھینچا تانی میں قرشی کا کرتا کچھ اس طرح پھٹ گیا کہ ایک گریبان کے نیچے درجنوں اس کے نائب نظر آنے لگے.

Page 517

516 آخر صدر نے بمشکل جلسہ برخواست کر کے احراریوں کو خود تجویز کردہ اور خود طلب کرده مسلمان نمائندگان کے چنگل سے رہائی دلائی.اور بالفاظ ”زمیندار“ احرار لیڈ ر دامن جھاڑ کر اس طرح اٹھے جس طرح کوئی ملاح اپنی کشتی غرق کر دینے کے بعد ساحل پر آتا ہے اور وہاں سے نامرادانہ آہیں کھینچتا ہوا گھر کی راہ لیتا ہے.کے یہ تو ان نمائندگان نے احراریوں کی گت بنائی.جنہیں مجلس احرار کی لیڈروں نے اپنی تائید کے لئے لاہور کے باہر سے بلایا تھا.اگر خدانخواستہ لاہور والوں کو بھی اطلاع ہو جاتی تو نا معلوم وہ اس جلسہ میں کیا کر گزرتے ؟ بہر حال مجلس احرار کو اپنے طلب کردہ جلسہ میں ہی غداری اور قوم فروشی کا بدلہ کسی قد ریل گیا.اور بعد ازاں ان کے خلاف دن بدن نفرت بڑھتی گئی.زمین ان کے پاؤں تلے سے نکل گئی اور وزارتوں پر قبضہ کر کے پنجاب پر حکومت کرنے اور جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دینے کا جو خواب احراری دیکھ چکے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور ایک لمبے عرصہ تک کے لئے ان کے وقار کی صف لپیٹ دی گئی.نیشنل لیگیں اور یوم احتجاج حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے زمانہ امارت میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے لاہور میں متعدد بار تشریف لا کر مسلمانان ہند کی جو رہنمائی فرمائی تھی اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں جو عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا تھا وہ مجلس احرار کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا.اس لئے انہوں نے ہر موقعہ پر یہ کوشش کی کہ مسلمان حضور کی رہنمائی سے محروم ہوجائیں اور قیادت کا اہم فرض مجلس احرار سرانجام دے مگر لوگوں کو مشتعل کر کے ناشائستہ حرکات کروانا اور چندہ وصول کر لینا تو آسان ہوتا ہے مصائب و آلام اور مشکل حالات میں رہنمائی کرنا بڑی قربانی اور حزم واحتیاط چاہتا ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مجلس احرار نے اس نازک موقعہ پر مسلمانوں کی رہنمائی سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ انہیں انگریز کی گولی سکھ کی کر پان“ اور ”ہندو کے سرمایہ سے دہشت زدہ کر کے خاموش کر دینے کی کوشش شروع کر دی.۷۹ ان حالات کو دیکھ کر ہوشمند مسلمانوں نے پھر حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف رہنمائی حاصل

Page 518

517 کرنے کے لئے رجوع کیا ۱۰ حضور نے نیشنل لیگ کو حالات کا جائزہ لینے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ سب سے پہلا کام جو اس سلسلہ میں نیشنل لیگ نے کیا وہ یہ تھا کہ لیگ کی تمام شاخوں کو یہ ہدایت کی کہ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہر جگہ یوم احتجاج مسجد شہید گنج “ منایا جائے اور سیاہ جھنڈیوں اور سیاہ نشانوں کے ساتھ گورنمنٹ پر واضح کیا جائے کہ مسلمانوں کے دل مسجد شہید گنج کی شہادت سے سخت زخمی اور مجروح ہو چکے ہیں.گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ درد رسیدہ قلوب کو مطمئن کرنے کی کوئی صورت نکالے.مگر ساتھ ہی ہدایت کی کہ چونکہ اس بات کا سخت خطرہ ہے کہ جو لوگ اس وقت قوم اور ملت سے غداری کر رہے ہیں اور کھلم کھلا مسجد شہید گنج کی حفاظت کی تحریک کے خلاف کھڑے ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں اور کسی نہ کسی شکل میں کوشش کریں گے کہ کوئی فتنہ و فساد کھڑا کر کے مسلمانوں کو مبتلائے مصیبت کر دیں.اس لئے پوری احتیاط سے کام لینا چاہئے اور باوجود کسی کے اشتعال دلانے کے بالکل پر امن اور قانون کے اندر رہنا چاہئے.۸۱ نیشنل لیگ کا دوسرا کام دوسرا کام نیشنل لیگ نے یہ کیا کہ حضرت امیر المومنین کی ہدایات کے ماتحت مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی.چنانچہ ہائیکورٹ کے حج آنریبل جسٹس کولڈ سٹریم نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں جس کے نتیجہ میں احرار کا سارا مخالفانہ پراپیگینڈا خاک میں مل گیا.نیشنل لیگ کا تیسرا کام تیسرا کام نیشنل لیگ نے یہ کیا کہ جب ۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو پنڈت جواہر لعل نہرو لاہور میں تشریف لائے تو صدر آل انڈیا نیشنل لیگ کی ہدایت کے ماتحت نیشنل لیگ کور نے پنڈت صاحب کا پانسورضا کاروں کے ساتھ استقبال کیا.یار رہے کہ قریب کے زمانہ میں ہی جب ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے احمدیت کی مخالفت میں چند مضامین لکھے تھے تو پنڈت جواہر لعل نہرو نے نہایت عمدگی سے ان مضامین کا ردلکھا تھا اور ثابت کیا تھا

Page 519

518 کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراضات اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا سوال بالکل نامعقول اور خودان کے گذشتہ رویہ کے خلاف ہے.پس ایسے حالات میں ان کے اس صوبہ میں بطور مہمان آنے پر ان کا نیشنل لیگ کور کی طرف سے استقبال موقعہ کے مطابق اور برمحل تھا.مسجد چابکسواراں کا قصہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب کے زمانہ امارت کا ایک واقعہ حلقہ چابک سواراں کی ایک مسجد سے متعلق ہے جس کے متولی حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاری کے نانا ملا غوث تھے.اس مسجد میں کئی سال سے سید صاحب موصوف امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.مگر ۱۹۳۶ء کے نصف اول میں غیر احمدیوں کے شریر عصر نے اس مسجد پر مخالفانہ قبضہ کرنا چاہا.نوبت با نجار سید کہ عدالت میں مقدمہ کرنا پڑا.۵۲ اس مقدمہ میں احمدیوں کی طرف سے جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور غیر احمدیوں کی طرف سے نولکشو ر صاحب بارایٹ لاء پیش ہوئے.۱۲- نومبر ۱۹۳۶ء کو ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ مسجد میں باجماعت نما ز صرف احمدی پڑھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ غیر احمدی بھی جب چاہیں فرداً فرداً بغیر جماعت کے نماز پڑھنے کے قانوناً حقدار ہیں مگر اس کے نتیجہ میں چونکہ مسجد میں پر امن طریق پر عبادت نہیں ہو سکتی تھی اس لئے جماعت نے خود ہی یہ مسجد چھوڑ دی.محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کا تقرر بطور نائب امیر محترم شیخ بشیر احمد صاحب کو چونکہ مقدمات کے سلسلہ میں اکثر لا ہور سے باہر جانا پڑتا تھا اس لئے اس خیال سے کہ جماعتی کاموں میں رکاوٹ پیدا نہ ہو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے محترم جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کو نائب امیر مقرر فرمایا.حضرت سیدہ ام طاہر کی بیماری اور حضرت امیر المومنین کی لاہور میں تشریف آوری: ۱۹۲۳۴۴ء کے واقعات میں سے دو اہم واقعات تاریخ احمدیت میں خاص اہمیت رکھتے

Page 520

519 ہیں.اول حضرت سیدہ ام طاہراحمد رضی اللہ عنہا کی بیماری اور وفات دوم حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو مصلح موعود ہونے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع.سو پہلے اول الذکر واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے.حضرت سیدہ مرحومہ رضی اللہ عنہا جب آخری علالت سے بیمار ہوئیں تو قادیان میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بڑی محنت سے علاج کیا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا.ان کی زیادہ تکلیف کے مدنظر امرتسر سے ایک لیڈی ڈاکٹر اور لاہور سے کرنل ہیز کو بلوا کر معائنہ کروایا گیا.چنانچہ ان کے مشورہ کے مطابق سیدہ مرحومہ کو لاہور لے جا کر علاج کروایا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رقمطراز ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۱۷.دسمبر ۱۹۴۳ء کو بروز جمعہ مرحومہ کو لاہور لے آئے اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں داخل کرا دیا اور پانچ میل کی لمبی مسافت طے کر کے صبح و شام دونوں وقت ان کی عیادت کیلئے ہسپتال تشریف لے جاتے رہے.ہسپتال میں ابتداء افاقہ کی صورت پیدا ہوئی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ڈاکٹر کرنل ہیز کو ۱۴ - فروی ۱۹۴۴ء کو بروز جمعہ پیٹ کا اپریشن کرنا پڑا اور چند دن بعد پھر ایک دوسرا اپریشن ہوا.مگر حالت دن بدن گرتی گئی اور کمزوری بڑھتی ہی چلی گئی.آخر جب یہ دیکھا گیا کہ اس ہسپتال کے ڈاکٹر اپنا زور لگا کر ہمت ہار چکے ہیں اور اس جگہ پابندیاں بھی ایسی تھیں جو اس مذہبی اور روحانی ماحول کے منافی تھیں جو ایک مسلمان کو اپنے آخری لمحات میں حاصل ہونی چاہئیں تو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور اس خاکسار کو فون کر کے لاہور بلوایا تا کہ مشورہ کیا جا سکے کہ کیوں نہ پیش آمدہ حالات میں سیدہ اُمّم طاہر کو احتیاط کے ساتھ قادیان پہنچا دیا جائے اور وہاں اپنی نگرانی میں علاج کیا جائے.چنانچہ ہم دونوں لاہور پہنچے اور سیدہ مرحومہ کی بیماری میں ہمارا یہ چوتھا سفر تھا.لیکن چونکہ ان کی حالت زیادہ کمزور پائی گئی.اس لئے بالآخر یہی تجویز ہوئی کہ کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھا کر کسی دوسرے ہسپتال میں منتقل کر لیا جائے.چنانچہ کرنل بھر وچہ کے ساتھ بات کر کے اور انہیں آمادہ پا کر ۲۶ - فروی ۱۹۴۴ء کو بروز ہفتہ سیدہ مرحومہ کو سر گنگا رام ہسپتال میں ایک ایمبولنس کار کے ذریعہ احتیاط کے ساتھ منتقل کر دیا گیا اور اس انتقال ہسپتال کے

Page 521

520 رو تعلق میں کرنل ہیز نے بھی بطیب خاطر امداد دی.نئے ہسپتال میں کرنل بھر وچہ خود وقت آتے تھے اور خود پٹی کرتے تھے اور حضرت صاحب کو یہ سہولت تھی کہ اوّل تو ہسپتال حضور کی قیام گاہ کے بالکل قریب تھا.دوسرے اس میں آنے جانے کے اوقات کی ایسی سخت پابندیاں نہیں تھیں جیسی کہ لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں تھیں اور تیسرے یہ کہ اس جگہ کا ماحول قریباً اپنے اختیار میں تھا جہاں اپنے مخصوص مذہبی اور روحانی رنگ بآسانی پیدا کیا جا سکتا تھا.مگر تقدیر کے نوشتے بہر حال پورے ہونے تھے.حالت خراب ہوتی گئی.اور آخر ۵- مارچ ۱۹۴۴ء کو اتوار کے دن اڑھائی بجے سہ پہر کو قریباً ۳۹ سال کی عمر میں ہماری بہن نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے آقا و مالک کے حضور پہنچ گئیں.انا للہ و انا اليه راجعون وكل من علیها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام، ۵۴ حضرت سیدہ مرحومہ کی وفات کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تیمار داری کرنے والوں کے لئے دعا کرتے ہوئے لکھا: "مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خاں صاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی اقبال بیگم نے خدمت کی.اڑھائی مہینہ اس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اس طرح خدمت کی کہ مجھے وہم ہونے لگ گیا تھا کہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے سارے خاندان پر اپنے فضل کا سایہ رکھے.”پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو ان کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقعہ ملا.شیخ بشیر احمد صاحب نے کئی ماہ تک ہماری مہمان نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی.میاں احسان اللہ صاحب لاہوری نے دن رات خدمت کی یہاں تک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے.حکیم سراج دین صاحب بھائی دروازہ والوں نے برابر ان کی ہمرا ہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے.ڈاکٹر معراج الدین صاحب کو رعشہ کر مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں.اس حالت میں کا نپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آ کر کھڑے ہو جاتے کہ میں نکلوں تو مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ

Page 522

521 ناکارہ کی محبت اس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے.لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات کیں، ۸۵ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب معالج خصوصی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی نے جماعت لاہور کی خدمات کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ’ جماعت احمد یہ لاہور کے اخلاص کی کچھ حد نہیں.ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت گزاری کے لئے مستعد نظر آتا تھا.کہیں راتوں کو پہرے کا انتظام ہے کہیں دن کو.اور کوئی سائیکل سے خدمت کے لئے آمادہ ہے.مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کیا ہی خوش بخت ہیں جن کے مکان پر حضرت صاحب نے اس قدر لمبا عرصہ قیام فرمایا.انہوں نے اور ان کے معمر والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے حضور کے قیام کے دنوں میں بہت ہی مشقت ، اٹھائی.ان کے نوکروں نے خدمت کے کام کو انتھک طور پر انجام دیا.جزاھم اللہ خیرا.لاہور کے ایک نوجوان عزیزم احسان اللہ صاحب ابن ملک خدا بخش صاحب تو نہایت ہی خوش قسمت ہیں کہ سائیکل لئے ہر وقت حاضر اور حکموں کے منتظر رہے.یہاں تک کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آنکھوں میں سما گئے اور کئی بار ان کی خدمت کی تعریف فرمائی.پھر ایک اور دوست قابل رشک ہیں یعنی حکیم سراج الدین صاحب وہ تو سایہ کی طرح حضرت صاحب کے ہسپتال پہنچنے کے وقت ہسپتال میں پہنچ جاتے تھے اور ہر قسم کی خدمت کے لئے لبیک کہتے تھے.انہوں نے سیدہ مرحومہ کی چوبیس گھنٹے خدمت انجام دینے والی خادمہ کے دونوں وقت کھانا پہنچانے کا انتظام بھی رکھا.جزاه الله احسن الجزاء.قابل رشک خاتون محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اور والدہ رشید نے تو وہ خدمت انجام دی کہ آسمان سے ان کی خدمت کی گواہی ملی، ۱۶ قیام لاہور کے دوران علم و عرفان کی بارش خاکسار راقم الحروف ان ایام میں لائل پور میں متعین تھا.چند ایک مرتبہ حضور کی زیارت اور

Page 523

522 ملاقات کے لئے لاہور آنے کا موقعہ ملا.وہ نقشہ اب تک میرے سامنے ہے.محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان ۱۳ ٹمپل روڈ پر حضور کا قیام تھا.حضور اور حضور کے اہل بیت او پر چوبارہ میں رہتے تھے اور خدام نیچے.ہر وقت چہل پہل رہتی تھی.چند ایک خادم ہر وقت موجود رہتے تھے.بعض خدام جو سرکاری ملازم تھے ان کا یہ معمول تھا کہ ادھر چھٹی ہوئی، گھر میں گئے کھانا کھایا اور سید ھے حضور کی قیامگاہ پر پہنچے اور پھر حضور کی مجالس علم و عرفان میں بھی شامل ہوئے اور مختلف قسم کی خدمات بجالائے.مجھے خوب یاد ہے مکرمی و محترمی با بو فضل دین ہائیکورٹ والے اور مکرمی و محترمی چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء حال امیر جماعت لاہور نماز میں حضور کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے تھے.بعض غیر احمدی اور غیر مسلم معززین جن میں کالج کے پروفیسر اور طلباء وطالبات بھی شامل ہیں.حضور رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے اور اپنے سوالات کے جوابات اور حضور کی عارفانہ باتیں سن کر بہت خوش اور مطمئن ہو کر جاتے تھے.مصلح موعود ہونے کی اطلاع بذریعہ رو یا ۶۵ جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی رات بمقام لاہور : اب ہم اس عظیم الشان نشان کا ذکر کرتے ہیں جس کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ - فروری ۱۸۸۶ء کو بمقام ہوشیار پور شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کی حویلی کے بالا خانہ میں چلہ کشی کے بعد کیا تھا.واقعہ یوں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے احیاء کے لئے دعائیں کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ایک نشان طلب کیا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہوشیار پور جا کر چلہ کشی کا حکم دیا.چنانچہ حضور اس حکم کی تعمیل میں ہوشیار پور تشریف لے گئے.شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کی حویلی یا طویلہ کے بالا خانہ میں چالیس روز اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت ہی خشوع خضوع کے ساتھ آہ وزاری کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان فرزند کے تولد کی بشارت دی.اس فرزند کی صفات خاصہ کا ذکر حضور نے ۲۰.فروری ۱۸۸۶ء کے سبز اشتہار میں کیا.یہ اشتہار ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے جو پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھا کہ

Page 524

523 پیشگوئی مصلح موعود کے الہامی الفاظ وو.......سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا........اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والآخر - مظهر الحق والعلاء كان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وکان امراً مقضياً، ۸۷ اس اشتہار میں مصلح موعود کی جن صفات خاصہ کا ذکر کیا گیا ہے ان کو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود پا کر جماعت کی اکثریت پر یقین رکھتی تھی کہ مصلح موعود “ آپ ہی ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سید نا حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی بشارتوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ مصلح موعود ، آپ ہی ہیں.جماعت کے رجحان اور بشارتوں کے باوجود حضور نے کبھی مصلح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا لیکن ۱۹۴۴ء میں جب حضور حضرت سیدہ ام طاہر احمد مرحومہ کی بیماری کے ایام میں لاہور میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر قیام فرما تھے.حضور کو۵ اور ۶ - جنوری ۱۹۴۴ ء کی درمیانی رات کو بذریعہ رویا بتا یا گیا کہ مصلح موعود آپ ہی ہیں.چنانچہ ۲۸ - جنوری ۱۹۴۴ء کو قادیان میں حضور نے جو خطبہ جمعہ ارشادفرمایا

Page 525

524 اس میں پہلی مرتبہ اس کا اعلان فرمایا.اس کے بعد حضور نے ہوشیار پور لا ہور لدھیانہ اور دہلی کے عظیم الشان جلسوں میں ہزار ہا افراد کے مجمعوں میں مؤکد بعذاب حلف کے ساتھ اس اعلان کا اعادہ فرمایا.ذیل میں اس تقریر کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے جو حضور نے جودھامل بلڈنگ اور میکلوڈ روڈ کے درمیانی میدان میں ( جہاں اب عظیم عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں.مؤلف ) لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں فرمائی.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ خاکسار مؤلف کو بھی اس تقریر کے سنے کا موقعہ ملا.اس تقریر میں حضور نے فرمایا : خدا تعالیٰ نے ایسے غیب سے سامان پیدا کر دئیے ہیں کہ ہماری جماعت آپ ہی آپ مختلف ممالک میں پھیلتی جارہی ہے اور وہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ یہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی اور چونکہ اکثر علامات جو اس بیٹے کی بتائی گئی تھیں وہ سالہا سال سے پوری ہو رہی تھیں اس لئے جماعت ہمیشہ مجھے یہ کہا کرتی تھی کہ مصلح موعود آپ ہی ہیں مگر میں نے اس امر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور میں نے کہا جب تک خدا مجھے آپ یہ اطلاع نہ دے کہ میں اس پیشگوئی کا مصداق ہوں اس وقت تک میرا اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دے کر دعویٰ کرنا درست نہیں ہوسکتا.یہی حالت ایک لمبے عرصہ تک رہی یہاں تک کہ اس سال (۱۹۴۴ء) کے شروع میں ۱۵ اور 4 جنوری کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ بتا دیا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا تھا اور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی.میرے ذریعہ ہی شرک کو مٹایا جائے گا اور میرے ذریعہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا خصوصاً مغربی ممالک میں جہاں تو حید کا نام مٹ چکا ہے وہاں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ تو حید کو بلند کرے گا اور شرک اور کفر کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے گا.تب جب کہ خدا نے مجھے یہ خبر دے دی.میں نے دنیا میں اس کا اعلان کرنا شروع کر دیا.چنانچہ آج میں اس جلسہ میں اسی واحد

Page 526

525 اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افترا کرنے والا اس کے عذاب سے بھی بچ نہیں سکتا.کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں نمبر ۳ اٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعے اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور تو حید دنیا میں قائم ہوگی“.۸۸ لاہور کی عظمت کی بحالی ۱۱ فروری ۱۹۴۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے اس نشان کو لاہور میں ظاہر ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ تازه نشان خدا نے لاہور میں ظاہر کیا ہے.پس جس طرح مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر اسلام کی طرف سے خاص ذمہ داریاں عائد ہوگئی تھیں اسی طرح میں سمجھتا ہوں اس انکشاف کے بعد جو لاہور میں مجھ پر ہوا یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں.میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس انکشاف کا مجھ پر سفر میں ہونا جہاں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی سے مشابہت رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ پیشگوئی سفر کی حالت میں ہوشیار پور میں فرمائی اور مجھ پر بھی اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا انکشاف سفر کی حالت میں ہی ہوا.وہاں آج خدا تعالیٰ نے مجھے ایک اور بات بھی سمجھائی ہے.بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور میں فوت ہوئے تھے اور آپ کے لاہور میں فوت ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں لا ہور کے متعلق ایک قسم کا بغض پایا جاتا تھا.یوں تو ہر شخص نے فوت ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فوت ہو گئے اور رسول کریم علیے بھی فوت ہو گئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے گھر پر فوت ہوتا ہے تو اس کے متعلقین کو گوطبعی طور پر رنج ہوتا ہے مگر ان کے دلوں میں کوئی حسرت پیدا نہیں ہوتی.لیکن اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں فوت ہو جائے تو اس کے متعلقین کے دل ساری عمر اس حسرت واندوہ سے پر رہتے ہیں کہ کاش ! وہ سفر کی حالت میں

Page 527

526 فوت نہ ہوتا.وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اس کے علاج میں کوتا ہی ہوئی ہو.شاید اس کی تیمارداری میں کمی رہ گئی ہو.پس ساری عمر ان کے دلوں سے ایک آہ اٹھتی رہتی ہے اور انہیں یہ تصور کر کے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ ان کا کوئی عزیز فلاں سفر پر گیا تو پھر وہ واپس نہ آیا بلکہ اسی جگہ فوت ہو گیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اگر وہ سفر پر نہ جاتا تو نہ مرتا.اسی طرح میں سمجھتا ہوں.جماعت کے دلوں پر ایک بہت بڑا بوجھ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں آئے اور اس جگہ آ کر فوت ہو گئے.خود لاہور کی پیشانی پر بھی ایک بدنما داغ تھا مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کے ذریعہ خبر دی گئی تھی کہ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں، اور یہ کہ نظیف مٹی کے ہیں، ۸۹ خدا تعالیٰ نے پاک ممبروں کی دعاؤں کو سن کر لاہور کی پیشانی سے اس داغ کو ہمیشہ کے لئے دور کر دیا اور مسیح موعود کو لاہور میں ہی دوبارہ زندہ کر دیا.اب لاہور والے کہہ سکتے ہیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں فوت ہوئے مگر وہ دوبارہ زندہ بھی ہمارے شہر میں ہی ہوئے ہیں.پس وہ جو لا ہور والوں پر ایک داغ تھا خدا نے اس انکشاف کے ذریعہ اس داغ کو دھو دیا اور گومونہہ سے احمدی اس بات کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر لاہور کا ذکر آنے پر ان کے دل ضرور بے چین ہو جاتے تھے کہ یہ کیا شہر ہے جس میں خدا کا مسیح چند روز کے لئے گیا اور فوت ہو گیا.پس یہ داغ خدا نے لاہور سے اب دور کر دیا ہے مگر اس چیز سے وہ ذاتی طور پر اس وقت فائد واٹھا سکتے ہیں جب ان میں عمل کی قوت موجود ہو " 20 حضرت امیر المومنین خلیفتہ اصسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس نشان کے لاہور میں ظاہر ہونے کی جو حکمت بیان کی ہے لاہور کے موجودہ اور بعد میں آنے والے احمدیوں کو چاہئے کہ اس حکمت کو مد نظر رکھ کر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور سلسلہ کی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اصحاب مسیح موعود کا فوٹو ہوا امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جس رات حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو اپنے مصلح موعود ہونے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی.اس سے اگلے روز یعنی ۶.جنوری

Page 528

527 ۱۹۴۴ء کو لاہور میں موجود تمام اصحاب مسیح موعود کا حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی معیت میں فوٹولیا گیا اور گو اس فو ٹو میں بعض ایسے اصحاب بھی نظر آئیں گے جوصحابی نہیں مگر غالبا اکثریت صحابہ ہی کی ہے.جلسہ مصلح موعود کے موقعہ پر باہر سے آنے والوں کی رہائش اور خوراک کا انتظام اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کیلئے رہائش اور طعام کا انتظام محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب نے محترم ملک خدا بخش صاحب جنرل سیکرٹری اور محترم با بوفضل دین صاحب کے سپرد کیا تھا.ان حضرات نے محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء کی رہائش گاہ واقعہ ٹرنر روڈ میں یہ انتظام کیا.محترم با بو فضل دین صاحب کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر چوہدری صاحب موصوف نے ہر طرح کا تعاون اور مددفرمائی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.دی پنجاب احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا قیام - ۲۶- دسمبر ۱۹۴۴ء ۲۲ - دسمبر ۱۹۴۴ء کو جلسہ سالانہ کے پہلے روز قادیان میں دی پنجاب احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور قرار پایا کہ اس ایسوسی ایشن کا صدر مقام لاہور ہوگا.پہلے سیکرٹری ملک فیض الرحمن صاحب فیضی مقرر ہوئے.1 لاہور میں کیمونزم کے خلاف تقریر فروری ۱۹۴۵ء کے آخری ہفتہ میں حضور لاہور تشریف لائے اور ۲۵ - فروری ۱۹۴۵ء کو جناب رام چندر صاحب منچندہ کی زیر صدارت کمیونزم کے خلاف ایک جامع اور پُر مغز تقریر فرمائی.حضور کی یہ تقریر اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی.تقریر میں کمیونزم کے خلاف اس قدر ٹھوس اور وزنی دلائل تھے کہ کمیونزم کے دلدادہ افراد کو بھی حضور کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بغیر چارہ نہ رہا.چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور تقریر ختم فرما چکے تو ایک غیر احمدی نوجوان نے اپنے ایک دوست کو جو کمیونزم کا زبر دست حامی تھا کہا کہ اگر اب بھی تم نے کمیونزم کی تائید کی تو تم پر لعنت ہے.۹۲

Page 529

528 تقریر کے اختتام پر صاحب صدر نے اپنے صدارتی ریمارکس میں حضور کی اس تقریر کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یورپین اس حالت کو دیکھتا تو حیران رہ جاتا کہ ہندوستان نے اس قدر ترقی کرلی ہے ۹۳ حضور کی یہ تقریر اسلام کا اقتصادی نظام کے نام سے چھپ چکی ہے.احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوت چائے ۲ مارچ ۱۹۴۴ء کو ۵ بجے شام احمد یہ ہوٹل میں احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے حضور کو چائے کی دعوت دی گئی جس میں غیر احمدی طلباء کے علاوہ مختلف کالجوں کے متعدد غیر احمدی پر و فیسر صاحبان بھی شریک ہوئے.تین گھنٹہ تک حضور مسلمانوں کی اقتصادی پستی کی وجوہ اور ان کا حل سیاسیات حاضرہ ملکانوں کا ارتداد اور جماعت احمدیہ کی مساعی وغیرہ امور پر گفتگو فرماتے رہے.آخر پونے آٹھ بجے شام جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کے مکان پر تشریف لے گئے ۹۴ محترم ملک امیر بخش صاحب صحابی کی وفات - ۲- جون ۱۹۳۵ء غالباً محترم ملک امیر بخش صاحب صحابی لاہور کا ذکر اصحاب مسیح موعود علیہ السلام کے حالات مندرجہ کتاب ہذا میں نہیں آسکا.یہ صحابی ۲- جون ۱۹۳۵ء کو۸۲ سال کی عمر پا ک فوت ہوئے.حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے.انا للہ وانا اليه راجعون - ۹۵ نہایت افسوس ناک حادثہ ۱۱ - نومبر ۱۹۴۵ء کو لاہور میں ایک نہایت ہی افسوس ناک حادثہ پیش آیا اور وہ یہ کہ خدام الاحمدیہ کے ٹرپ کے موقعہ پر حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد والوں کے تین پوتے کشتی ڈگمگا جانے کی وجہ سے دریائے راوی میں ڈوب کر فوت ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون

Page 530

529 ان میں سے عزیز عبدالواحد اور عزیز منیر احمد میاں عبدالماجد صاحب کے بچے تھے اور ان کی عمریں علی الترتیب قریباً پندرہ اور چھ سال کی تھیں.تیسرا بچہ عطاء الرحمن میاں محمد حسین صاحب کا لڑکا تھا.اس کی عمر قریباً ۱۵ سال تھی.ان تینوں بچوں کو کافی تگ و دو کے بعد پانی سے باہر نکال کر ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے.تینوں بچوں کی نعشوں کو دوسرے روز یعنی ۱۲ - نومبر کو قادیان لے جایا گیا.بعد نماز مغرب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جنازہ پڑھایا اور جنازے بچوں کے قبرستان کے ساتھ کی زمین میں دفن کئے گئے.بعد تدفین حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے دعا کروائی.۹۶ گورنمنٹ کالج لاہور میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا نے گورنمنٹ کالج لاہور میں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقعہ پر قیام امن کے مسئلہ پر دوشنبہ کی صبح کو ایک نہایت ہی پر مغز تقریر فرمائی.2 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا دوماہ میوہسپتال میں بیماررہ کر ڈسچارج ہونا حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو دو ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہ کر ڈسچارج ہوئے ے.مارچ ۱۹۴۷ء کو واپس قادیان پہنچے.آپ نے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق کرنل بھر وچہ سے مرض التهاب غذہ قدامیہ کا آپریشن کروایا تھا.جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.مگر کمزوری ابھی باقی تھی.آپ نے علاوہ اپنے عزیز رشتہ دار تیمار داروں کے احباب لاہور یعنی ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب قاضی حبیب اللہ صاحب اور ان کی صاحبزادیاں قاضی عبدالحمید صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب قاضی محبوب عالم صاحب، پیر غلام محبوب سبحان شاہ صاحب اہلیہ صاحبہ مستری محمد حسین صاحب شیخ محب الرحمن صاحب اور مجلس خدام الاحمدیہ کے بعض نمائندوں کا شکر یہ بذریعہ الفضل ادا کیا.۹۸

Page 531

530 آل انڈیا نیشنل لیگ کے بارہ میں ضروری اعلان محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب صدر آل انڈیا نیشنل لیگ نے ملک کے موجودہ حالات سے متاثر ہو کر اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اب بعینہ ویسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جیسے کہ اس وقت تھے جب کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی نے آل انڈیا نیشنل لیگ کا قیام منظور فرمایا تھا، حضرت امیر المومنین کی طرف سے منظوری کی امید پر جولائی ۱۹۴۶ء سے دوبارہ کام شروع کر دیا اور حضور سے درخواست کی کہ حضور اس امر کی منظوری دیں کہ آل انڈیا نیشنل لیگ وقت کے تقاضے کے مطابق کام کو پھر جوش کے ساتھ شروع کرے جس پر حضور نے از راہ کرم اجازت مرحمت فرمائی.چنانچہ لیگ کے مرکزی دفتر نے سابقہ اور نئے ممبران کو دوبارہ اپنے نام پیش کرنے کی ہدایت کی.29 محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب دہلی میں حضرت امیر المومنین کے ہمراہ سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی جب ستمبر ۱۹۴۶ء کے آخری عشرہ میں دہلی تشریف لے گئے تو لاہور سے محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب کو بھی طلب فرمایا تا جماعت کے اور سر کردہ احباب کے ساتھ مل کر انہیں بھی ملک وقوم کی خدمت کا موقعہ دیا جائے.یادر ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انگریز ہند وستانیوں کو ہندوستان کی حکومت سونپنا چاہتے تھے مگر کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈ رکوئی ایسا سمجھوتہ کرنے پر راضی نظر نہیں آتے تھے جس سے یہ کام خوش اسلوبی کے ساتھ طے پا جائے.ان حالات میں حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ اپنے چند خدام کے ساتھ بنفس نفیس دہلی تشریف لے گئے.اور خود بھی مختلف الخیال لیڈروں سے مل کر ان کی صحیح رہنمائی کر کے اس مسئلہ کو سلجھانے کی سعی فرمائی اور اپنے خدام کو بھی بعض لیڈروں سے ملاقات کر کے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی ہدایت فرمائی.ان خدام میں جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب حال امیر جماعت احمد یہ لا ہور کو بھی شامل کیا.محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی لندن سے واپسی اور امریکن پریس کے نمائندے سے انٹرویو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس محترم منیر الحصنی شامی کے ہمراہ دس سال انگلینڈ میں

Page 532

531 لندن مشن کے انچارج کے عہدہ سے فارغ ہو کر اپنے وطن مولوف تشریف لائے تو قادیان پہنچنے سے قبل ایک رات آپ نے جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ کے مکان ۱۳.ٹمپل روڈ پر قیام فرمایا.لاہور اسٹیشن پر لاہور کی جماعت نے آپ کا شاندار استقبال کیا.پریس کے نمائندوں کو بھی آپ کی آمد کی اطلاع دی گئی.چنانچہ ابھی آپ محترم شیخ صاحب کے مکان پر پہنچے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کا نمائندہ آپ کی ملاقات کے لئے آ گیا.خاکسار مؤلف اس ملاقات کے وقت وہاں موجود تھا.نمائندہ مذکور کو آپ نے بیان دیتے ہوئے فرمایا: ” میری یہی خواہش ہے کہ اہل ہند عدم اتحاد کی روح کو خیر باد کہہ کر بین الاقوامی تحریک معاونت میں اپنے لئے باعزت جگہ حاصل کریں.آج ہندوستان کے متعلق اقوام عالم کا نظریہ حقارت سے پُر ہے“.آپ نے مزید فرمایا : بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وطن کو عمدگی سے سنوار لیں اور اس طرح اپنے آپ کو اغیار کے تمسخر کی آماجگاہ بنے رہنے سے محفوظ و مامون کر لیں“.مولانا موصوف نے پُر زور الفاظ میں فرمایا کہ اختلافات یقیناً دوستانہ طریق پر طے ہو سکتے ہیں.اسی طرح آپ نے مشرق وسطی میں لڑائی جھگڑوں اور باہمی خلفشار پر بہت کچھ روشنی ڈالی اور آخر میں فلسطین کے متعلق صدر ٹرومین کے آخری بیان دربارہ داخلہ یہود کو ہوشیاری اور چالاکی کی ایک چال قرار دیا کہ جو آئندہ صدارتی انتخابات میں یہودی ووٹس حاصل کرنے کی غرض سے چلی گئی ہے.ملک خضر حیات کے استعفیٰ میں آخر یہل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی مساعی جمیلہ: ۱۹۴۷ء کا سال برصغیر پاک و ہند میں نہایت ہی ہنگامہ خیزی کا سال تھا.ملک کے طول وعرض میں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے.پنجاب میں ملک خضر حیات خاں ٹوانہ یونینسٹ پارٹی کے لیڈر ہونے کی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعظم تھے اور گو انتخابات میں مسلم لیگ کا فی نشستیں حاصل کر چکی تھی مگر

Page 533

532 دیگر اقوام کے نمائندوں کے عدم تعاون کی وجہ سے اس وقت تک حکومت پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا تھا جب تک ملک صاحب استعفی پیش نہ کرتے.لاہور میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو چکے تھے.حکومت نے مسلم لیگی لیڈروں کو گرفتار کر لیا تھا.پریس پر پابندیاں تھیں مگر ملک صاحب موصوف جھکنے میں نہیں آتے تھے.آہستہ آہستہ انہوں نے برطانوی حکومت کے ۲۰ فروری ۱۹۴۷ء کے اعلان کی وجہ سے پریس سے پابندیاں دور کر دیں.۱۳۰۰ مسلم لیگی کارکن رہا کر دیئے اور تمام فرقوں کے لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ قیام امن کے سلسلے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں.خاکسار مؤلف کتاب ہذا ان ایام میں یہیں تھا.۲ مارچ ۱۹۴۷ء بروز اتوار صبح نو بجے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ لا ہور سے سندھ تشریف لے جا رہے تھے.مجھے خوب یاد ہے آنریبل چوہدری صاحب بھی حضور کو الوداع کہنے کے لئے تشریف لائے اور یہ خوشخبری سنائی کی آج انشاء اللہ ملک خضر حیات خاں صاحب کے استعفیٰ کا اعلان ہو جائے گا.چنانچہ اوکاڑہ یا کسی اور ریلوے اسٹیشن سے حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو تار دلوایا کہ آج شام آپ ایک خوشخبری سنیں گے چنانچہ اسی روز استعفیٰ کا اعلان ہو گیا.استعفیٰ کی اس حقیقت کا اظہار ۵- مارچ کے انگریزی اخبار ” ٹریبیون“ میں بدیں الفاظ کیا گیا تھا: معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضر حیات خاں صاحب نے یہ فیصلہ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے مشورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے.سنا جاتا ہے کہ مسلم لیگ کی تازہ ایجی ٹیشن کے دوران جماعت احمدیہ کے امام نے خضر حیات خاں کو خط لکھا کہ وہ لیگ کے سامنے جھک جائیں.یہ خط سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ذریعے بھیجا گیا تھا جنہوں نے اپنے امام کی ہدایت کی پُر زور تائید کی.ملک خضر حیات صاحب نے سر ظفر اللہ خاں کو لا ہور مشورہ کے لئے بلایا جس کے بعد ملک صاحب نے وہ بیان دیا جو اخبارات میں شائع ہوا.انا ۷.مارچ ۱۹۴۷ء کے الفضل میں ضروری تردید کے عنوان سے یہ اعلان کیا گیا کہ ٹریبیون میں جو یہ لکھا گیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو ملک خضر حیات خاں صاحب کے نام کوئی خط دیا تھا، یہ میچ نہیں.البتہ اس امر کی کوئی تردید نہیں کی گئی کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے ارشاد پر ہی جناب چوہدری صاحب نے ملک صاحب کو استعفیٰ دینے پر رضا مند کیا تھا "

Page 534

533 اور حقیقت یہی ہے کہ یہ استعفیٰ چوہدری صاحب موصوف کے زور دینے پر ہی دیا گیا تھا.ملک صاحب کے استعفیٰ کے بعد حکومت کے تمام اختیارات گورنر صاحب پنجاب سرایون جنکنز نے خود سنبھال لئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ نئی وزارت بننے تک میں نے سر خضر حیات خاں اور ان کے رفقاء سے کہا تھا کہ وہ حکومت کا کام چلائیں.لیکن انہوں نے اس سلسلے میں معذوری کا اظہار کر دیا ہے.اس لئے حکومت کے جملہ اختیارات میں نے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں.نئی وزارت کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں.امید ہے کہ بہت جلدنئی وزارت برسراقتدارآ کر جملہ امورسنبھال لے گئی.۱۰۲ فسادات یہ وہ خطرناک ایام تھے جن میں پنجاب کے تمام شہروں میں ہندو مسلم فسادات رونما ہو چکے تھے.گورنمنٹ کو تمام بڑے بڑے شہروں میں کرفیو لگانا پڑا مگر فسادات کی آگ بھڑک چکی تھی.کچھ لوگ باہمی فسادات کی وجہ سے قتل ہو رہے تھے اور کچھ پولیس اور فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے.آتش زنی کی متعد د واردات ہو رہی تھیں.امن مفقود ہو چکا تھا اور بدامنی، بے چینی اور خوف و اضطراب کا دور دورہ تھا.مبلغ کے رہائشی مکان کی تعمیر لاہور میں یہ حالت تھی کہ جن علاقوں میں ہندوؤں کا غلبہ تھا وہاں سے کسی مسلمان کا گذرنا موت کو دعوت دینا تھا اور جن علاقوں میں مسلمانوں کو طاقت حاصل تھی وہاں سے کسی ہند و یا سکھ کا سلامت گذرنا نا ممکن تھا ایسے پر آشوب حالات میں مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ لاہور کے ساتھ مبلغ کی رہائش کے لئے مکان کی تعمیر جاری تھی.مجھے خوب یاد ہے.۱۹۴۶ء کے آخری حصہ میں اس مکان کی تعمیر شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کے پہلے ربع میں یہ مکان مکمل ہوا.ہمارے مستری صاحبان محمد انور اور اللہ رکھا بڑے اطمینان کے ساتھ تعمیر کا کام کرتے تھے.ان ایام میں مسجد شہید گنج کی طرف سے بڑے زور سے ”ست سری اکال‘“

Page 535

534 کے نعرے بلند ہوتے تھے اور ہمارے علاقہ سے اس کے جواب میں اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی تھی حضرت ملک خدا بخش صاحب جنرل سیکرٹری اس تعمیر کی نگرانی کا کام کرتے تھے اور محترم میاں عبدالحمید صاحب مرحوم و مغفور جمعہ کی شام کو مستریوں اور مزدوروں کو ان کی اجرت ادا کیا کرتے تھے.خاکسار کے سپرد یہ ڈیوٹی تھی کہ خاکسار جمعہ کی نماز میں احباب کو تحریک کیا کرتا تھا کہ دوست مزدوروں کی اجرت کے لئے چندہ دیتے جائیں اور باوجود اس کے کہ اس زمانہ میں آج کل کے زمانہ سے جماعت کی تعداد بہت کم تھی مگر اسی نوے روپے بآسانی جمع ہو جاتے تھے.اور اسی قدر مستریوں اور مزدوروں کی اجرت ہوا کرتی تھی.ناشکر گزاری ہوگی کہ اگر اس امر کا ذکر نہ کیا جائے کہ اس مکان میں جولو ہا خرچ ہوا ہے وہ سارے کا سارا حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب رضی اللہ عنہ کی اولا د محترم میاں محمد حسین صاحب اور محترم میاں عبدالمجید صاحب نیلا گنبد والوں نے دیا تھا اور لکڑی کا سارا سامان محترم میاں عطاء الرحمن صاحب اور محترم میاں عبدالرحمن صاحب راوی روڈ والوں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ مہیا کیا تھا.ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے اس مکان کی تعمیر کے لئے ایک ہزار روپیہ مانگا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک ہزار روپیہ ہم دے دیتے ہیں.لیکن اگر جماعت ہم سے عمارتی لکڑی کا سامان لینا چاہے تو اس میں جماعت کا فائدہ ہے.جس جس سامان کی آپ کو ضرورت ہو چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر آپ پیغام بھیج دیا کریں.چنانچہ مطلوبہ سامان دروازے کھڑکیاں، روشندان، چھت کا سامان وغیرہ چند گھنٹے کے نوٹس پر مسجد میں پہنچ جایا کرتا تھا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار روپے کا سامان ان دونوں بھائیوں نے دیا تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے کہ ایک ہزار روپیه چنده محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت اور آپ کے خاندان نے ایک ہزار روپیہ محترم ملک عبدالرحمن صاحب قصور والوں نے اور غالباً پانچ صدر و پی محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب نے دیا تھا.محترم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۳۴ء میں جب مسجد کی تعمیر شروع کی گئی تو اس موقعہ پر بھی حضرت مستری میاں محمد موسیٰ صاحب نے لوہے کا سارا سامان اپنی گرہ سے دیا تھا.فجزاهم الله احسن الجزاء.

Page 536

535 فسادات کی آگ ان ایام میں ہندو مسلم فسادات کی آگ پورے زور سے بھڑک رہی تھی.۱۷ مارچ ۱۹۴۷ء کو پنجاب کے فرقہ وارانہ فسادات کے متعلق برطانوی پارلیمنٹ میں مسٹر آرتھر ہینڈرسن نائب وزیر ہند نے بعض سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ۴.مارچ کو لاہور سے فساد کی ابتداء ہوئی اور اس کے بعد امرتسر راولپنڈی اور ملتان بھی فساد کی زد میں آگئے.آپ نے کہا..مغربی پنجاب کے مختلف علاقوں میں فساد ہو رہا ہے صورت حالات پر قابو پانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے گوا بھی تک مکمل اطلاعات موصول نہیں ہوئیں لیکن اتوار تک کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۰۴۳- اشخاص ہلاک اور ۱۱۰۰ کے قریب شدید مجروح ہوئے.برطانوی افواج کو کسی ایک فرقے کے خلاف استعمال نہیں کیا جا تا بلکہ وہ قانون شکنی کے خلاف کارروائی کر رہی ہے.13- غرضیکہ یہ دن بڑے ہی خطرناک تھے.روزانہ قتل و غارت کے واقعات اس کثرت کے ساتھ ہوتے تھے کہ الامان والحفیظ ! حکومت کی طرف سے کرفیو لگا رہتا تھا اور صرف اتنا وقت کر فیو اٹھتا تھا جس میں لوگ ضروریات زندگی خرید سکیں.متعدد دکانیں جل گئیں.مکانات خاکستر ہو گئے.چُھرا گھونپنے کی وارداتیں بکثرت ہونے لگیں.مختلف اقوام کے پرانے گہرے دوست ایک دوسرے سے بد کنے لگے.گاڑیاں اور بسیں اکثر بند ہوگئیں بلکہ پیدل چلنا بھی دشوار ہو گیا.تقسیم پنجاب مارچ ۱۹۴۷ء میں لارڈ ویول کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے اور انہوں نے ہندوستان پہنچتے ہی ہندو اور مسلم لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کر دیں.مگر جب ملک کی یہ دونوں اہم قو میں کسی ایک فارمولا پر متفق نہ ہو سکیں.تو ۲ - جون ۱۹۴۷ء کو گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ مسلم اکثریت ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کی رُو سے شمار ہوگی.اس اصل کے مطابق پنجاب کے سترہ اضلاع بشمول گورداسپور پاکستان میں آتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا گیا کہ حدود کا آخری فیصلہ باؤنڈری کمیشن کرے گا.نیز اس منشور کے فقر 90 میں یہ الفاظ بھی بڑھا دیے گئے کہ علاقوں کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ Other Factors یعنی دوسرے حالات کو بھی مدنظر رکھا

Page 537

536 جائے گا.۱۵ اگست ۱۹۴۷ء سے ہندوستان اور پاکستان کی دونوں حکومتوں نے علیحدہ علیحدہ کام شروع کر دیا مگر فسادات کی آگ شدت کے ساتھ بھڑکتی رہی.اور پنجاب کے ہندو مسلمان اپنے اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.خاکسار راقم الحروف کو وہ زمانہ خوب یاد ہے جب پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال اٹھا تو گورنر پنجاب نے سکھوں کولمبی لمبی کر پانیں اور تلوار میں لے کر پھرنے کی عام اجازت دے دی مگر مسلمان کے لئے گھر میں چاقو رکھنا بھی جرم قرار دے دیا گیا.چنانچہ جہاں ذرا بھی شک پیدا ہوتا.مسلمانوں کی تلاشی لی جاتی اور معمولی چاقو اور چھری برآمد ہونے پر بھی انہیں گرفتار کر لیا جاتا.پھر ریڈ کلف ایوارڈ نے تو ہندوؤں اور سکھوں کو اور بھی جرأت دلا دی اور انہوں نے پاکستان کی سکیم کو ناممکن العمل بنانے کے لئے مسلمانوں کو مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں تہ تیغ کرنا شروع کر دیا.باؤنڈری فورس نے بھی امن قائم کرنے کے لئے پوری کوشش نہ کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جانیں بچانے کے لئے پاکستان میں پناہ لینے کا ارادہ کر لیا.مگر جونہی وہ گھروں سے نکل کر کیمپوں میں داخل ہوتے ہندو اور سکھ ان پر ٹوٹ پڑتے.قیمتی سامان زیورات وغیرہ چھین لیتے.عورتوں کی بے حرمتی کرتے اور نو جوان بچیوں کو زبردستی اغوا کر لیتے.اور جو کچھ بچ رہتا اسے رستہ میں چھین لیا جاتا.چنانچہ مسلمان جب پاکستان میں پہنچتے تو نو جوان عورتوں اور زیورات وغیرہ قیمتی سامان سے محروم ہو کر نہایت ہی بدحالی میں پہنچتے.وہ زمانہ بڑا ہی خطرناک تھا.راقم الحروف نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب دو ریل گاڑیاں لاشوں سے بھری ہوئی پاکستان میں پہنچیں تو مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور حکومت کے روکتے روکتے انہوں نے بھی بعض ایسے علاقوں میں جہاں حکومت اس زمانہ میں کچھ نہ کر سکتی تھی بعض ہندوؤں اور سکھوں کو نقصان پہنچایا.بہر حال ایک محتاط اندازے کے مطابق اس زمانہ میں ایک کروڑ انسانوں نے نقل وطن کیا اور ہزارہا مسلمان خواتین ہندوؤں اور سکھوں نے زبردستی اپنے قبضہ میں کر لیں.پھر جب باؤنڈری کمیشن کا اعلان ہوا تو حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ قادیان سے لا ہور تشریف لائے.اور بعض امور کی وضاحت کے سلسلہ میں مسلمان جوں سے ملے.کمیشن کے جتنے اجلاس لا ہور اور شملہ میں ہوئے کسی اجلاس میں بھی ریڈ کلف نے شرکت کی ضرورت نہ سبھی مگر حضور رضی اللہ عنہ لاہور ہائیکورٹ

Page 538

537 میں برا بر تشریف لے جاتے رہے.باؤنڈری کمیشن میں اپنا کیس پیش کرنے کے لئے مسلم لیگ نے اپنے نمائندہ آنریبل سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو مقرر کیا.حضور نے زرکثیر صرف کر کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سپیٹ (Spate) کو جو باؤنڈری ایکسپرٹ تھے لاہور بلایا ہوا تھا.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کی کشمیر کا علاقہ بہر حال ہندوستان کے حوالہ کرنا ہے اور چونکہ ضلع گورداسپور کے ایک بڑے حصہ کے دیئے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا اتھا اس لئے Other Factor کی آڑ میں گورداسپور کی تین تحصیلوں کو بھی ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کس قابلیت کے ساتھ کیس لڑا؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے ” نوائے وقت لاہور نے لکھا: حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا.....چار دن چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی.کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق وانصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے.سر ظفر اللہ خاں صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا ہے مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی سے ادا کیا.ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے.۱۰۴ جب باؤنڈری کمیشن کے فیصلہ کا اعلان ہوا تو ہندو اور سکھ بے حد خوش ہوئے اور مسلمان گھبرا گئے.مگر قائد اعظم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ” ہمارے علاقہ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے.ہم پر آخری وار باؤنڈری کمیشن کے فیصلہ سے ہوا ہے.یہ فیصلہ سراسر غیر منصفانہ نا قابل فہم اور بد نیتی پر مبنی ہے.اس فیصلہ کی حیثیت محض سیاسی ہے، قانونی نہیں.تاہم چونکہ ہم باؤنڈری کمیشن کے فیصلہ پر کار بند ہونے کا وعدہ کر چکے ہیں اس لئے ایک معزز قوم کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر کار بندر ہیں.گو یہ ہمارے لئے سخت تکلیف دہ ہے.لیکن اب ہمیں ضبط اور تحمل سے کام لینا چاہئے اور امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ نا نہیں چاہئے“.۱۰۵

Page 539

538 بہر حال اس فیصلہ کے اعلان کے معاً بعد ہندوؤں اور سکھوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے اس ارادے سے ہندوستان جانا شروع کر دیا کہ وہ بہت جلد پاکستان واپس آ کر پاکستان پر قبضہ کر لیں گے اور اپنی جانیں بچانے کے لئے مسلمانوں کے بھی بڑے بڑے قافلے ہندوستان سے پاکستان آنے شروع ہو گئے.لاہور شہر کی ان ایام میں یہ حالت تھی کہ ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں جانا مشکل تھا.بڑی مشکل سے حکومت نے فسادات پر کنٹرول کیا مگر لاہور کے جن علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی.وہ مسلمانوں کو چیلنج پر چیلنج دے رہے تھے کہ اگر تم نے ہم سے ہمارے علاقے خالی کروالئے تو ہم تمہاری طاقت کا لوہا مان لیں گے.چنانچہ اندرون شاہ عالمی دروزاہ کے ہندو بڑے زوروں پر تھے انہوں نے بہت سے مظلوم کشمیریوں اور دوسرے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا.یہ حالات دیکھ کر مسلمان بھی آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے اس علاقہ کے ہندوؤں کا ایسا بے جگری سے مقابلہ کیا کہ ہند و اندرون شاہ عالم کا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.مگر جن علاقوں کے ہند و پر امن رہے انہیں مسلمانوں نے اور حکومت نے بھی تسلی دی اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر وہ پُر امن رہے تو ان پر ہر گز کسی قسم کی سختی نہیں کی جائے گی اور انہیں عام شہریوں کے سے حقوق حاصل ہوں گے.ہماری اپنی جماعت کا یہ حال تھا کہ جب قادیان میں حالات بہت ہی بگڑ گئے اور ہندوؤں اور سکھوں نے حکومت کے ساتھ مل کر قادیان پر چاروں طرف سے حملے شروع کئے تو جماعت کے سرکردہ احباب نے متفقہ طور پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور پاکستان تشریف لے جائیں اور وہاں جا کر جماعت کی قیادت سنبھالیں.مگر حضور نے انکار کیا اور فرمایا کہ امام کا مرکز کو چھوڑ کر باہر جانا مناسب نہیں.چنانچہ انہیں ایام میں جو چٹھی حضور نے محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور کی معرفت جماعت احمد یہ پاکستان کے نام بھیجی.اس کی نقل درج ذیل ہے: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران جماعت احمدیہ ھوالناصر السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ فسادات بڑھ رہے ہیں.قادیان کے گرد دشمن گھیر ڈال رہا ہے.آج سنا گیا ہے

Page 540

539 ایک احمدی گاؤں پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے.اس گاؤں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی.ریل، تار ڈاک بند ہے.ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہیں.اپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی ہی کر سکتے ہی.میں نے احتیاطاً خزانہ قادیان سے باہر بھجوا دیا ہے.پھر بھی ان فسادوں کی وجہ سے بعض کو روپے ملنے میں دیر ہو تو انہیں صبر سے کام لینا چاہئے کہ یہی وقت ایمان کی آزمائش کے ہوتے ہیں.مجھے بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.ان لوگوں کے اخلاص میں شبہ نہیں لیکن میری جگہ قادیان ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیر کا کام اور کئی اور کام پڑے ہیں لیکن ان کاموں کے لئے خدا تعالیٰ اور آدمی پیدا کر دے گا یا مجھے قادیان ہی میں دشمن کے حملے سے بچالے گا.لیڈر کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے.یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں فتح دے گا مگر پھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض مستورات کو باہر بھجوانے کا ارادہ ہے.بشرطیکہ اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا.اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے وعدوں کے مطابق آگئی تو یہ سب خدشات صرف احمقانہ ڈر ثابت ہوں گے.لیکن اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطی کی ہے تو یہ احتیاطیں ہمارے لئے ثواب کا موجب ہوں گی.آخر میں میں جماعت کو محبت بھرا سلام بھجواتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.اللہ تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ.خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کر نے والے ہمیشہ تم میں ہوتے رہیں.اور ہر ایک اپنی جائیداد کے وقف کرنے کا عہد کرنے والا ہو.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور امانت تمہارا حسن اور تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین

Page 541

540 وو ” میرا یہ پیغام ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع کر دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں.تم میری آنکھ کا تارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ کریں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے فرمانبردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمات کریں گے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد ۱۹۴۷ء.۲۲۸ اس چٹھی کو محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور نے درج ذیل نوٹ کے ساتھ امرت الیکٹرک پریس لاہور میں چھپوا کر حضور رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق پاکستان اور باہر کی جماعتوں میں بھجوا دیا.د محترمی - السلام علیکم.حضور کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام بذریعہ ہوائی جہاز مجھے پہنچا ہے.اس کی نقل حضور کے حکم کی تعمیل میں بھیج رہا ہوں.سمجھیں، عمل کریں اور کرائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.والسلام - خاکسار بشیر احمد - امیر جماعت احمدیہ 66 لاہور.اس چٹھی کے ایک ہفتہ بعد جو دوسری چٹھی حضور نے احباب کے نام بھیجی وہ درج ذیل ہے.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر جماعت کو ہدایات جو فو ر اً شائع کر دی جائیں.با وجود بار بار زور دینے کے لاہور کی جماعت نے کنوائے نہیں بھجوائے.جس کی وجہ

Page 542

541 سے قادیان کا بوجھ حد سے زیادہ ہو گیا.اگر کنوائے آتے تو شاید میں بھی چلا جاتا.اور جب مسٹر جناح اور پنڈت جی آئے تھے ان سے کوئی مشورہ کرتا مگر افسوس کہ فرض شناسی نہیں کی گئی.اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخو پورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لیکر ایک مرکزی گاؤں بسائے مگر قادیان والی غلطی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو.سادہ عمارات ہوں.فوراً ہی کالج اور سکول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے.دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمشہ زور دو.علماء بڑے سے بڑے پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے.۲ - تبلیغ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے.وقف کے اصول پر جلد سے جلد کافی مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.-۳- اگر میں مارا جاؤں یا اور کسی طرح جماعت سے الگ ہو جاؤں تو پہلی صورت میں فوراً خلیفہ کا انتخاب ہوا اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ کا.۴ - جماعت با وجود ان تلخ تجربات کے شورش اور قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثہ کو ضائع نہ کرے.۵- ہمارے کاموں میں ایک حد تک مغربیت کا اثر آ گیا تھا یعنی محکمانہ کارروائی زیادہ ہوگئی تھی.اسے چھوڑ کر سادگی کو اپنانا چاہئے اور تصوف اور سادہ زندگی اور نماز روزہ کی طرف توجہ اور دعاؤں کا شغف جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.- قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر انگریزی و اردو جلد جلد شائع ہوں.میں نے اپنے مختصر نوٹ بھجوا دیئے ہیں.اس وقت تک جو تر جمہ ہو چکا ہے اس کی مدد سے اور تیار کیا جاسکتا ہے.ترجمہ کرنے والا دعا ئیں بہت کرے.ے.ان مصائب کی وجہ سے خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع مراد پنڈت جواہر لال نہرو.مؤلف

Page 543

542 نہ کرے گا.پہلے نبیوں کو بڑی بڑی تکالیف پہنچ چکی ہیں.عزت وہی ہے جو خدا اور بندے کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے.مادی اشیاء سب فانی ہیں خواہ وہ کتنی ہی بزرگ یا قیمتی ہوں.ہاں خدا تعالیٰ کا فضل ما نگتے رہو.شاید کہ وہ یہ پیالہ ٹلا دے.خاکسار مرزا محمود احمد ۱۹۴۷ء-۸-۳۰ حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس دوسری چٹھی سے ظاہر ہے کہ ملکی حالات کا جائزہ لینے اور اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے بعد اب حضور اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ حضور کا وجود جماعت اور مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں رہنے کی بجائے پاکستان میں زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے.چنانچہ پہلے حضور نے اپنے خاندان کی خواتین اور بچوں کو لاہور بھجوا دیا.یہ ۲۵.اگست کا دن تھا.چھ دن بعد یعنی ۳۱ - اگست ۱۹۴۷ء کو حضور خود بھی لاہور پہنچ گئے.میو ہسپتال کے متصل رتن باغ میں حضور اور حضور کے خاندان کو رہائش کی جگہ ملی.اور جو دھامل بلڈنگ اور اس کی متصل تین چار بلڈنگوں میں جماعت کے احباب ٹھہر گئے.مجھے خوب یاد ہے اس زمانہ میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ محترم قریشی محمود احمد صاحب حال ایڈووکیٹ لاہور نے اپنے معاونین کی مدد سے نہایت ہی نمایاں کام کیا.لاہور میں خدام الاحمدیہ نے مہاجرین کو کھانا کھلانے اور مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لئے بہت تگ ودو کی.امیر جماعت احمدیہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب بھی اپنے معاونین محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری مرزا خدا بخش صاحب اور محترم با بو فضل دین صاحب وغیرہ کے ساتھ ہر وقت دوڑ دھوپ میں مصروف تھے.کہیں مہاجرین کو کھانا کھلانے کے انتظام میں مصروف نظر آتے تھے.کہیں ان کی رہائش کے مسئلہ پر غور کرتے دکھائی دیتے تھے.چونکہ ہزار ہا بلکہ لکھوکھا افراد کی رہائش کا مسئلہ در پیش تھا اس لئے حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے جو دھامل بلڈنگ میں مہاجرین کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک دفتر قائم کر رکھا تھا.جس کے انچارج محترم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے.مختلف علاقوں سے جماعت کے احباب کی طرف سے جو اطلاعات موصول ہوتیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاجرین کو ان علاقوں میں جانے کا مشورہ دیا جاتا اور جب مہاجرین ان علاقوں میں پہنچتے تو وہاں کے لوکل احمدی ان کی رہائش اور خوراک

Page 544

543 وغیرہ کا انتظام کرتے.اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی احمدی آبادی کے پاکستان میں منتقل ہونے کا بھی اختصاراً ذکر کر دیا جائے.پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ ملک کے حالات کا جائزہ لینے اور اس امر پر غور کرنے کے بعد کہ حضور کا وجود ہندوستان اور پاکستان میں سے کس ملک میں زیادہ مفید ہوسکتا ہے، حضور پاکستان تشریف لے آئے تھے.چنانچہ یہاں پہنچتے ہی حضور نے قادیان کی آبادی کے انخلاء کے لئے کنوائے بھجوانے شروع کر دیئے.سب سے زیادہ فکر حضور کو عورتوں اور بچوں کی تھی.حضور نے ان کو لانے کے لئے یہاں سے ایک بہت بڑا کنوائے بھیجا.جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں عورتیں اور بعض بزرگ ہستیاں یہاں پہنچ گئیں.مجھے یاد ہے.۲۵.ستمبر ۱۹۴۷ء کا دن تھا.اس روز اندازے کے مطابق جب کنوائے یہاں نہ پہنچا تو حضور نے ہوائی جہاز بھجوا کر پتہ منگوایا کہ قافلہ کہاں ہے؟ جب پتہ لگا کہ قافلہ آ رہا ہے تو بھی حضور کی گھبراہٹ میں کچھ کمی نظر نہ آتی تھی.حضور کے لئے بغیر کسی سہارے کے چلنا پھرنا محال ہو گیا تھا.جب قافلہ پہنچ گیا تو حضور کو اطمینان ہوا.اور حضور سجدہ شکر بجالائے.اسی طرح متفرق اوقات میں بھی متعدد کنوائے قادیان گئے جو احمدیوں کو وہاں سے پاکستان لے آئے بلکہ ساٹھ ستر ہزار غیر احمدی جو وہاں آس پاس کے علاقوں سے جمع ہو گئے تھے انہیں بھی بحفاظت لانے کیلئے حضور فکرمند تھے اور انہیں پیغام بھی بھجوا دیا تھا کہ آپ کو بھی بحفاظت لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی مگر افسوس کہ وہ سکھوں کے دھو کے میں آگئے اور پیدل چل پڑے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں راستے میں ہی موت کے گھات اتار دیئے گئے.انالله ونا اليه راجعون.و بہر حال احمدی آبادی پاکستان میں پہنچ گئی اور حضور کے ارشاد کے مطابق ۳۱۳.افراد قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے پیچھے رہ گئے اور کچھ عرصہ تک ان میں بھی تبادلہ ہوتا رہا.مگر پھر انڈین یونین نے اسے بند کر وا دیا اور جو تین سو تیرہ افراد وہاں رہ گئے وہی وہاں رہے.البتہ جب کچھ عرصہ کے بعد امن قائم ہو گیا تو آہستہ آہستہ ہندوستان سے بھی کچھ گھرانے آ کر آباد ہو گئے.اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں درویشوں کی تعداد سات آٹھ سو کے لگ بھگ ہے اور وہ خوب تندہی سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں.جلسہ سالانہ بھی بڑی دھوم دھام سے ہوتا ہے.اور دفاتر بھی با قاعدگی

Page 545

544 کے ساتھ کام کر رہے ہیں.استاذی المکرم حضرت مولا نا عبدالرحمن صاحب وہاں کے امیر ہیں اور سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی خاندان مسیح موعود کی نمائندگی میں وہاں مقیم ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان بزرگوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور قادیان کی آزادی کے جلد سے جلد سامان کرے.آمین اب ذرا لا ہور میں حضور کی رہائش کا حال سنیئے.حضور نے جب رتن باغ میں رہائش اختیار کی تو حکم دیا کہ رتن باغ کا سارا سامان محفوظ کر لیا جائے اور اس میں سے اپنی ذات کے لئے کچھ استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو لوگ اس سامان کے اصل مالک ہیں اور گورداسپور جا چکے ہیں انہیں اطلاع دے دی جائے کہ اگر وہ اپنا سامان لے جاسکتے ہوں تو حکومت کی اجازت سے لے جائیں.چنانچہ مجھے خوب یاد ہے تین دن ان کے ٹرک آتے رہے اور اپنا سامان لے جاتے رہے.بعض احباب نے جن میں گورنمنٹ کے افسر بھی تھے حضور سے عرض بھی کی کہ حضور ! آپ کو اس سامان کے استعمال کا حق ہے آپ کیوں اسے استعمال نہیں کرتے.مگر حضور نے فرمایا کہ اس کوٹھی والوں نے چونکہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس لئے ہم ان کا سامان استعمال نہیں کر سکتے.باوجود اس کے کہ ان ایام میں حضور کی مالی حالت اچھی نہیں تھی حضور نے وہ ابتلا اور آزمائش کے دن بڑے صبر اور استقلال کے ساتھ گزارے.تمام گھر والوں کو حکم تھا کہ ایک ایک روٹی سے زیادہ کوئی نہ کھائے.چار پائیاں بھی نہیں تھیں.فرش پر بچھانے کے لئے کمبل لنڈے بازار سے خریدے گئے تھے.ایک مرتبہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے لکھا کہ مہمانوں کو چائے پیش کرنے کے لئے حضور کو دو ٹی سیٹوں کی ضرورت ہے مگر پانچ روپے میں دونوں ٹی سیٹ آ جانے چاہئیں.چنانچہ حضور کے اس حکم کی تعمیل میں معمولی قسم کے دوٹی سیٹ خرید کر پیش کر دئیے گئے.ایک ایمان افزا واقعہ اس موقعہ پر ایک ایمان افزا واقعہ کا ذکر ضروری ہے.انہی ایام میں جب کہ سلسلہ کی مالی حالت بہت کمزور تھی.سلسلہ کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ایک لڑکا کہیں سے پھرتا

Page 546

545 پھرا تا آ گیا.حضور رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے حکم دیا کہ اسے پیٹ بھر کر کھانا دیا جائے اور ضروری لباس اور بستر بھی مہیا کیا جائے.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل میں اس کی رہائش، لباس اور خوراک کا مکمل انتظام کر دیا گیا.مگر افسوس کہ پندرہ سولہ دن رہ کر وہ یہاں سے چلا گیا.لباس اور بستر تو ساتھ لے گیا مگر آرام دہ رہائش اور خوراک سے محروم ہو گیا.اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ مجھے یاد آیا.آٹھ دس سال کی بات ہے کہ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک لڑکے کا خط دکھایا جو اس نے کراچی سے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ارسال کیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لڑکا ہوں.اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ کے متعلق حضرت مرزا صاحب (علیہ السلام) نے جو لکھا تھا کہ ” خانه ات ویران تو در فکرے دگر یہ بالکل صحیح ہے اور اس کی صحت کا گواہ میں مولوی صاحب موصوف کا بیٹا ہوں.میں کراچی میں رہتا ہوں.مارے مارے پھرتا ہوں.کوئی مجھے نہیں پوچھتا.لیکن جب احمد یہ ہال میں آتا ہوں تو روٹی مل جاتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ خط نہایت عمدہ لکھا ہوا تھا.خاکسار کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس خط کا کا تب ظاہری حالات کے لحاظ سے یقیناً اس قابل ہے کہ اگر کسی جگہ کلر کی اختیار کر لے یا بچوں کو پڑھانا شروع کر دے تو پچاس ساٹھ روپے بآسانی کما سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ یہ شخص در بدر دھکے کھا رہا ہے.فاعتبر وایا اولی الابصار لاہور میں قادیان کے مہاجرین کی رہائش اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضور کے خاندان اور دیگر متعلقین کی رہائش رتن باغ میں تھی.اب رہا قادیان کے باقی احمدیوں کی رہائش کا مسئلہ کے لئے تین بلڈنگیں الاٹ کروائی گئیں.۱.جو دھامل بلڈنگ ۲ - جسونت بلڈ نگ ۳.سیمنٹ بلڈنگ.ان بلڈنگوں میں علاوہ رہائش کے سلسلہ کے دفاتر بھی تھے.چنانچہ ۲۱- اگست ۱۹۴۷ء کے الفضل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک نقشہ دیا تھا جو درج ذیل ہے.

Page 547

تعداد خاندان تعداد افراد ۳۹۵ ۸۲ ۱۴۱ ۲۲ ۱۲۹ ۲۴ ۱۲۶ ۲۴ ۸۰۱ ۱۵۲ 546 نمبر شمار نام عمارت رتن باغ جو دھامل بلڈنگ جسونت بلڈنگ سیمنٹ بلڈنگ میزان २ اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ ایک سو باون خاندانوں کے آٹھ سو ایک افراد کے لئے صرف چار بلڈنگیں الاٹ کروائی گئی تھیں جو بالکل نا کافی تھیں.حالانکہ ان خاندانوں میں سے بعض خاندان ایسے بھی تھے جو قادیان میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے تھے.نوٹ: رتن باغ کے عقب میں چار دیواری کے اندر ایک وسیع ” باغ تھا جس میں کافی پھلدار پودے لگے ہوئے تھے.اس باغ میں ” جماعت احمد یہ لا ہور نے اپنے پیارے امام اصلح موعود کی اقتداء میں جمعہ کی نمازیں بھی پڑھی ہیں.اب اس باغ کی جگہ میوہسپتال کے نئے حصہ کی بلڈ نگ بن چکی ہے.کوٹھی کے اگلے صحن میں بھی جمعہ کی نمازیں ہوتی رہی ہیں.کوٹھی کے اگلے حصہ میں ایک کمرہ ہے جو کشادہ اور قبلہ رو ہونے کی وجہ سے مسجد کا کام بھی دیتا رہا ہے.اب یہ کوٹھی گونمنٹ پاکستان نے ہسپتال کی ضرورت کے لئے خالی کروالی ہے اورس کے بدلہ میں ماڈل ٹاؤن ۰۸ اسی اور شملہ پہاڑی کے متصل پام ویو.دو کو ٹھیاں خاندان مسیح موعود کے نام الاٹ کر دی ہیں.یونیورسٹی ہال میں لیکچروں کا سلسلہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب پاکستان میں پہنچے تو باوجو د شدید مالی مشکلات کے حضور نے منتشر جماعت کو اکٹھا کرنے اور انہیں موزوں جگہوں پر آباد کرانے کی کوششیں شروع کر دیں مگر حضور کی نظر صرف اپنی جماعت کی بہتری اور بہبودی تک محدود نہیں تھی بلکہ حضور کو پاکستان کی مضبوطی اور اس کے استحکام کا بھی از حد فکر تھا.چنانچہ حضور نے یو نیورسٹی ہال لا ہور میں متواتر چھ لیکچر دیئے جن میں ان سکیموں اور تجاویز کا ذکر فرمایا.جن پر عمل کرنے سے پاکستان محفوظ اور طاقتور ملک

Page 548

547 بن سکتا تھا.خاکسار مؤلف کو خوب یاد ہے.ان لیکچروں کو سننے کے لئے سول اور ملٹری کے بڑے بڑے افسر بلکہ اکثر وزراء بھی شامل ہوا کرتے تھے.آخری لیکچر جو ۱۷.جنوری ۱۹۴۸ء کو آنریبل سر شیخ عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ہوا.اس لیکچر کے بعد انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا: حضرات ! میں آپ سب کے دل کی بات کہہ رہا ہوں جب کہ آپ کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں.نہ صرف آج کے لیکچر کے لئے بلکہ گذشتہ پانچ لیکچروں کے لئے بھی جن میں بے شمار اہم معاملات اور مسائل کے متعلق نہایت مفید اور ضروری باتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں.میں فاضل مقرر سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ان لیکچروں کو کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے تو پبلک آپ کی بہت ممنون ہوگی.ایک چیز کا میرے دل پر خاص اثر ہے.باوجود اس کے کہ فاضل مقر را اور آپ کی جماعت کو گذشتہ ہنگاموں میں خاص طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن آپ نے ان حوادث کی طرف اشارہ تک نہیں کیا، ۱۰۶ میں اس موقعہ پر ظلم کروں گا.اگر ان تجاویز اور مشوروں کا خلاصہ بیان نہ کروں جو حضور نے اپنی ان تقاریر میں بیان فرمائے.۱ - ۱۴- اکتوبر ۱۹۴۷ء کے اخبار "الفضل“ میں حضور کی ہدایت کے مطابق ایک مضمون شائع ہوا جس میں حضور نے فرمایا: پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں سوائے مشرقی بنگال کے سارے کام وزراء کے سپرد ہیں اور نائب وزیر مقرر نہیں.اس وجہ سے نہ تو کام ٹھیک ہوسکتا ہے اور نہ مسلمانوں میں نئے تجربہ کار آدمی پیدا ہو سکتے ہیں.اس لئے نائب وزراء یعنی انڈرسیکرٹری مقرر ہونے چاہئیں.۲ - پاکستان کو بیرونی ممالک سے تعلق قائم کرنا چاہئے.مثلاً انڈو نیشیا ابی سینیا سعودی عرب انڈو نیشیا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی چھ کروڑ ہے اور اس کا جائے وقوع بھی ایسی جگہ پر ہے کہ اس سے تعلقات آئندہ پاکستان کی ترقی اور

Page 549

حفاظت میں بہت کچھ مد ہو سکتے ہیں.548 ۳- ۱۴- دسمبر ۱۹۴۷ء کے الفضل میں فرمایا : پاکستان کے لوگ عموماً انگریزوں سے بدظن ہو چکے ہیں.امریکہ کی طرف بھی کوئی رغبت نہیں.پاکستان کی حقیقی ترقی کا راز مسلم اقوام کے اتحاد میں ہے اور مسلمان حکومتوں کو اکٹھا کرنے اور اسلامی ممالک کی متحدہ سیاست میں ہے.پاکستان کو اپنے سفارتی تعلقات تمام اسلامی ممالک کے ساتھ استوار کرنے چاہئیں..پاکستان کا دفاع بہت مضبوط ہونا چاہیئے.پاکستان کی سرحدیں زیادہ مضبوط ہونی چاہئیں“.معنوی دولت ہی کسی ملک کی اصل قوت ہوا کرتی ہے.باقی سب چیزیں اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں.اگر پاکستان کا ہر جوان عقل سے کام لے اور دماغ پر زور دے اور یہ اقرار کرے کہ مجھے تمام قوتیں ملک وملت کے لئے وقف کر دینی ہیں تو یقیناً ہماری ساری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں.معنوی دولت افراد کے دماغ اور ان کے جسم مل کر پیدا کرتے ہیں.معنوی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں.ا پاکستان میں ہر مسلمان کے لئے قرآن کریم کا ترجمہ جاننا لازمی قرار دیا جائے.۲ - مادری زبان میں تعلیم دی جائے.اس سلسلہ میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیا جائے.کیونکہ اسے اپنی زبان بنگالی سے عشق ہے.ان کے لئے اردو کو لینگو افرینکا قرار دیا جائے.- پاکستان کے دفاع میں بعض ان روکوں کو ذکر کرتے ہوئے جن کے دور کرنے کی فوری ضرورت ہے.حضور نے فرمایا : ا.فوجوں کی کمی کے علاوہ تجربہ کار افسر کم ہیں.۲.ریز رو فورس بالکل نہیں.۳- توپ خانہ کا حصہ بہت کمزور ہے.خاص کر گولہ بارود بہت کم ہے.۴ - پیراشوٹ بٹالین کو تو ڑا جا رہا ہے.۵- انجنیئر وں کی کمی ہے.۶ - اور ایک بھی اسلحہ ساز کارخانہ نہیں.بہ

Page 550

549 نقائص ہیں جن کا ازالہ کئے بغیر کبھی دفاع مضبوط نہیں ہوسکتا.ے.فضائی طاقت کو مضبوط بنانے پر زور دینا چاہیئے.عوام میں فضائی تربیت حاصل کرنے کا رجحان پیدا کرنا چاہیئے.یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس کا انتظام کرنا چاہیئے.ضرورت کے وقت ہوائی جہاز تو تیار ہو سکتے ہیں لیکن آدمی ایک دن میں تیار نہیں ہو سکتے.الفضل ۱۱.جنوری ۱۹۴۸ء میں حضور کے لیکچر کا خلاصہ ان الفاظ میں درج انڈین یونین کا فتھ کالم پاکستان میں موجود ہے لیکن پاکستان کا فتھ کالم انڈین یونین میں موجود نہیں ہے.کانگرس پنجاب میں بھی اور سرحد میں بھی بعض لوگوں کے ساتھ ساز باز کر رہی ہے.یہ لوگ ایک تنظیم اور سکیم کے ماتحت آہستہ آہستہ پاکستان کو ضعف پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں.پاکستان کے عوام اور حکومت کو ان لوگوں سے خبر دار رہنا چاہیئے.۹ - یاد رکھو.افراد کے متعلق جو اسلامی احکام ہیں.اگر افرادان پر عمل نہیں کریں گے تو کبھی بھی ملک میں اسلامی آئین جاری نہیں ہو سکتا.“ اس زمانہ میں جن لوگوں نے حضور کی یہ تقاریر سنیں وہ سارے کے سارے حضور کی ان تجاویز سے متفق تھے جو حضور نے بیان فرما ئیں.مگر وزارتوں کے جلد جلد بدلنے کی وجہ سے ان پر کما حقہ عمل نہ ہو سکا.لیکن الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اب سر براہ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے زمانہ میں بہت حد تک ان تجاویز پر عمل ہورہا ہے.فرقان فورس ایک اور کام جو حضور نے پاکستان کی استحکام کے خاطر کیا یہ تھا کہ آزاد کشمیر گورنمنٹ کے قیام پر دوسرے مسلمانوں کے طرح حضور نے بھی آزاد گورنمنٹ کی ہر ممکن امداد کی.بلکہ جب گورنمنٹ کو والنٹر ی فورس کی ضرورت پیش آئی تو فرقان فورس کے ذریعہ جس میں ایک وقت میں کم و بیش پانچ سو سپاہی ہوتے تھے امداد کی.

Page 551

550 خاکسار مؤلف کو وہ زمانہ خوب یاد ہے جب ہماری جماعت کے نوجوانوں نے محاذ جنگ پر جا کر کام شروع کیا، پرانی پھٹی ہوئی وردیاں اور بھنے ہوئے چنے اوائل میں ان کی خوراک تھے مگر جنگ ختم ہونے کے بعد آہستہ آہستہ سب انتظامات درست ہو گئے.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اب میں ایک ایسی بات بیان کرتا ہوں جس سے ظاہر ہوگا کہ بزرگ صحابہ کو قادیان سے کس قدر محبت تھی.پاکستان آئیکے بعد پہلی عید جو حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی نے منٹو پارک میں پڑھائی.اس میں نماز اور خطبہ کے بعد احباب جماعت حضرت اقدس سے ملاقات کر رہے تھے.خاکسار بھی امیدواروں میں سے تھا.حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر نے خاکسار کو دیکھ کر پوچھا.کہ آپ یہ بتائیں ہم لوگ قادیان کب واپس جائیں گئے اتنا فرماتے ہی حضرت نیر صاحب کے آنسو نکل آئے.خاکسار نے جواب میں عرض کیا کہ مولوی صاحب! اس کا انحصار تو ہمارے اعمال پر ہے اگر ہم جلد اپنی اصلاح کر کے اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کر لیں تو وہ ذات ارحم الراحمین جلد ہمیں واپس قادیان لے جائے گی ورنہ شاید کچھ دیر لگ جائے.خاکسار کا یہ جواب سنکر حضرت نیر صاحب نے فرمایا ” پھر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ تم ایک سال کے اندر اندر چلے جاؤ گے.“ چنانچہ ایک سال کے اندر ۱۷- ستمبر ۱۹۵۸ء کو گوجرانوالہ میں آپ کا وصال ہو گیا.انا للہ وانا اليه راجعون.حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مولوی غلام محمد صاحب ماریشسی کی وفات بھی لا ہور ہی میں ہوئی تھی.پھر ربوہ بہشتی مقبرہ تیار ہونے پر ان کی نعشیں ربوہ میں منتقل کی گئیں.جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء جلسه سالانه ۱۹۴۷ ء رتن باغ کے سامنے اور جو دھامل بلڈنگ کے قریب منعقد کیا گیا.اس جلسہ میں مہمانوں کے قیام و طعام کے انتظام میں مرکزی عہدیداروں کی امداد کے لئے محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی ہدایت کے مطابق محترم با بوفضل دین صاحب، محترم ملک خدا بخش صاحب محترم مرزا مولا بخش صاحب اور محترم شیخ محمود الحسن صاحب نے خاص طور پر حصہ لیا.

Page 552

551 مجھے خوب یاد ہے اس جلسہ میں آزاد کشمیر کے متعدد وزراء بھی شامل ہوئے تھے اور انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر خوب توجہ سے سنی تھی.حضرت اقدس کا ورد دسندھ ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو حضور رضی اللہ عنہ معہ قافلہ سندھ تشریف لے گئے اور ضلع میر پور خاص اور کراچی کا کامیاب دورہ کرنے کے بعد ۲۰ مارچ ۱۹۴۸ء کو واپس لا ہور تشریف لائے.مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء مجلس مشاورت ۱۹۴۸ء کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ لمسیح الثانی نے ۲۶ - ۲۷ مارچ کی تاریخیں مقر فرمائی تھیں اور ۲۸ - مارچ کا دن جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء کی کمی پورا کرنے کے لئے مقرر فرمایا تھا.یہ دونوں اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل سے شاندار طور پر کامیاب رہے.قیدیوں کا تبادلہ مشرقی پنجاب میں ہند و ملٹری نے بعض مسلمانوں کو مبینہ تخریبی سرگرمیوں کی بنا پر گرفتار کر لیا تھا جن میں جماعت احمدیہ کے بعض معززین بھی شامل تھے.چنانچہ ۲۲ - اگست ۱۹۴۷ء کو میجر شریف احمد صاحب باجوہ ۱۳ ستمبر کوحضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.ایل.اے۱۴ - سمبر کو محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۲۱ ستمبر کو چوہدری عبد الباری صاحب اور ۲۹ ستمبر کو محترم مولوی احمد خاں صاحب نسیم اور محترم مولوی عبد العزیز صاحب بھا مڑی کو گرفتار کیا گیا تھا.ہمارے ان معززین نے جیل میں دوسرے مسلمانوں کی تربیت کا بہت خیال رکھا.ان کے نیک نمونہ کو دیکھ کر بہت سے غیر احمدی مسلمانوں پر بہت اچھا اثر پڑا.بلکہ جب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے اپنی رویاء بتائی کہ آموں کے موسم میں وہ آزاد ہو جائیں گے تو غیر احمدی مسلمانوں پر خاص اثر ہوا.یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی تھی کہ کس طرح ایک شخص اپنی خواب کی بناء پر یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی فلاں موسم میں رہا کر دیے جائیں گے.حالانکہ حالات نہایت ہی خطرناک تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام قیدیوں کو اذیتیں دے دیگر موت کے گھاٹ اتار دیا

Page 553

552 جائے گا مگر جب اس خواب کے مطابق سارے قیدی رہا کر دیئے گئے تو ان میں سے چون اصحاب نے بیعت کر لی.یہ عجیب بات ہے کہ جب قیدیوں کا تبادلہ دونوں حکومتوں نے منظور کیا تو اس کے لئے کئی تاریخیں مقرر ہوئیں مگر جب تک آموں کا موسم نہ آیا وہ تاریخیں تبدیل ہوتی رہیں اور آخر ۱۷ - اپریل ۱۹۴۸ء کو آٹھ بجے شب بذریعہ ٹرین جالندھر سے دوسرے زیر حراست قیدیوں کے ساتھ ہمارے معزز افراد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.ایل.اے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب محترم چوہدری شریف احمد صاحب با جوه محترم مولوی احمد خاں صاحب نسیم اور محترم مولوی عبد العزیز صاحب بھا مڑی وغیرہ بھی لاہور پہنچ گئے.فالحمدللہ علی ذالک.اس واقعہ سے چھ ماہ قبل ۴ - اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ظہر وعصر کی نمازوں کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک رؤیاء دیکھا تھا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب آئے ہیں اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئے ہیں.انہوں نے صرف قمیض پہنی ہوئی ہے.تھوڑی دیر تک انہوں نے مجھ سے باتیں کیں اور پھر یہ نظارہ غائب ہو گیا‘ ۱۰۷ اس رویاء کی تعبیر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا تھا کہ ”جو شخص قید ہو اس کے رہا ہونے کی دو ہی تعبیریں ہو سکتی ہیں یا وفات یا پھر واقعہ میں رہا ہو جانا‘ سوالحمد للہ کہ ہماری آنکھوں نے دوسری تعبیر پوری ہوتی دیکھی.ان بزرگوں کی آمد کے چند دن بعد ۲۱ - اپریل ۱۹۴۸ء کو رتن باغ میں جماعت احمد یہ لاہور کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک جلسہ کیا گیا جس میں جماعت نے اپنے جذبات محبت وعقیدت کا اظہار کیا.ہمارے تعلیمی ادارے یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قادیان سے لاہور پہنچ کر حضرت اقدس امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے متعلق بڑا فکر دامن گیر تھا.سو الحمد للہکہ تعلیم الاسلام کالج کے لئے ڈی.اے.وی کالج کی وسیع عمارت الاٹ ہو گئی اور ربوہ کی زمین کا سودا ہو جانے پر تعلیم الاسلام ہائی

Page 554

553 سکول جلد ہی چنیوٹ میں منتقل ہو گیا.گرلز ہائی سکول کے لئے بھی پنجاب سرسوتی کالج کی عمارت الاٹ ہوگئی تھی.۱۰۸ مگر یہ سکول یہاں نہیں چل سکا.ہمارا نیا مرکز اگست ۱۹۴۸ء میں حضرت نواب محمد دین صاحب مرحوم کے ذریعہ ربوہ کی زمین خریدی جا چکی تھی.اب اس کی تعمیر کے سلسلہ میں اخراجات کی فوری ضرورت تھی.مگر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح رضی اللہ عنہ ایسے بیدار مغز خلیفہ کو پہلے سے ہی اس کی فکر تھی.چنانچہ حضور نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں ایک شوری طلب فرمائی تھی جس میں تحریک فرمائی تھی کہ مرکز پاکستان کی تعمیر کے لئے پانچ لاکھ روپیہ کا ایک فنڈ قائم کیا جائے جس پر احباب نے بڑھ چڑھ کر وعدے کئے تھے مگر عملاً ابھی تک اس میں صرف ایک لاکھ کے قریب ہی روپیہ آیا تھا.لیکن اب جبکہ زمین خریدی گئی تو ناظر صاحب بیت المال نے اعلان کیا کہ اب احباب کو اس رقم کی فراہمی کے لئے جلد سے جلد توجہ کرنی چاہیئے.۱۰۹ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی کوئٹہ سے تشریف آوری حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جون ۱۹۴۸ء کے شروع میں کوئٹہ تشریف لے گئے اور ے.ستمبر ۱۹۴۸ء کو واپس تشریف لے آئے.پر چها صیغہ امانت اور دفتر محاسب چنیوٹ میں نئے مرکز کو آباد کرنے کے لئے اب اقدامات شروع کر دیئے گئے.چنانچہ ۲۸ - ستمبر ۱۹۴۸ء کے الفضل میں اعلان ہوا کہ مؤرخہ ۴ - اکتوبر ۱۹۴۸ء کو صیغہ امانت اور دفتر محاسب معہ عملہ و متعلقہ ریکارڈ چنیوٹ منتقل ہورہے ہیں اور ۶.اکتوبر سے چندوں کی وصولی اور صیغہ امانت کے لین دین کا انتظام انشاء اللہ چنیوٹ میں شروع کر دیا جائے گا.چند دنوں کے بعد نظارت تعلیم وتربیت نے بھی ربوہ میں اپنا کام شروع کر دیا.پھر آہستہ آہستہ سارے دفاتر ربوہ میں منتقل ہو گئے.

Page 555

554 حضور کاربوہ تشریف لے جانا ان ایام میں حضور دو مرتبہ ربوہ تشریف لے گئے اور تعمیر ربوہ سے متعلق کا رکنوں کو ضروری ہدایات دیں.۱۷.اکتوبر کے پرچہ الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ مستری صاحبان کی مسلسل جد و جہد اور کوششوں کے باوجود ربوہ میں پانی نہیں نکلتا تھا لیکن جس وقت حضور دوسری مرتبہ ربوہ تشریف لائے اور سرزمین ربوہ میں قدم رکھا اسی وقت پانی نکل آیا.فالحمد للہ علی ذالک.چنانچہ مستری فضل حق صاحب کا بیان ہے کہ جس وقت حضور کے قدم اس زمین پر داخل ہوئے....یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے نلکا کی نالی کو کوئی طاقت خود بخود پانی کے قریب لے جارہی ہے.چنانچہ جب حاضرین نے مستری صاحب کے یہ کلمات سنے کہ ” حضور! پانی آ گیا تو بے اختیار الحمد للہ زبان پر جاری ہو گیا.حضور اس کے بعد دیر تک مستری صاحب سے گفتگو فرماتے رہے اور ہر رنگ میں ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے." خاکسار مؤلف کی لاہور سے سرگودھا تبدیلی اور محترم مولانا عبدالغفور صاحب کا تقرر محترم مولانا عبد الغفور صاحب مرحوم کا تقرر قیام پاکستان کے بعد سرگودھا ہوا تھا اور خاکسار تقسیم برصیغر سے دو سال قبل سے لاہور میں متعین تھا.اکتوبر ۱۹۴۸ء میں ہم دونوں کا باہمی تبادلہ ہو گیا.خاکسار نے ضلع سرگودھا میں اور محترم مولانا عبدالغفور صاحب نے لاہور میں کام شروع کر دیا.خاکسار نے ایک سال ضلع سرگودھا میں کام کرنے کے بعد مرکز ربوہ میں مہتم نشر و اشاعت کا چارج لیا اور ٹریکٹ التبلیغ نکالنا شروع کیا.۱۹۵۱ء میں خاکسار کا تبادلہ شیخو پورہ میں ہو گیا.۱۹۵۴ء میں پھر خاکسار کا لاہور میں تقرر ہوا اور اس وقت سے لیکر آج.امئی ۱۹۷۶ء تک خاکسار یہاں بحیثیت انچارج مربی کام کر رہا ہے.

Page 556

555 اخبار ”سن رائز“ کا نیا ایڈریس اخبار ”سن رائز“ کا دفتر ایک عرصہ سے کشمیر بلڈنتکس میکلوڈ روڈ میں تھا مگر اب ۳۲.ڈیوس روڈ میں منتقل ہو گیا.اس اخبار کے ایڈیٹر محترم جناب قاضی عبد الحمید صاحب ایل.ایل.بی برادر محترم جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے تھے.اپنے زمانہ میں اس پر چہ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شاندارخدمات سرانجام دیں تھیں.حضرت امیر المومنین کی طرف سے جماعت لاہور کو وسیع مسجد بنانے کی تحریک ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں خطبہ کے دوران جماعت احمد یہ لاہور کی جماعت کی وسعت کے پیش نظر ایک نئی اور وسیع مسجد بنانے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا: بہر حال کسی سڑک پر زمین خرید کر اور خیمے لگا کر نماز شروع کر دی جائے.پھر مبلغ کی رہائش کا بھی وہاں انتظام ہو جائے اور ایک لائبریری بھی بنا دی جائے شہروں میں لائبریریوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے.مگر لائبریری اسی جگہ بن سکتی ہے جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہیں.حضور نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں لٹریچر کی اشاعت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے.لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ بڑی آسانی سے ہر جگہ پہنچ سکتی ہے.مبلغ کے ذریعہ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتی.پس اب لٹریچر کی اشاعت پر بھی ہمیں خاص طور پر زور دینا پڑے گا.جس کا ایک طریق یہ ہے کہ مختلف شہروں میں لائبریریاں قائم کی جائیں مگر لائبریری بھی اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب مبلغ ہو.ایک دکاندار یا تاجر یا ملازم کس طرح ہر وقت لائبریری میں بیٹھ سکتا ہے.اسے تو اپنے کام ہوتے ہیں.لیکن مبلغ بیٹھ سکتا ہے اور جو لوگ اخبار پڑھنے کے لئے آئیں یا کتابوں وغیرہ کا مطالعہ کرنے کیلئے آئیں وہ انہیں تبلیغ بھی کر سکتا ہے.اور میں سمجھتا ہوں باقی جگہوں کی نسبت لا ہور شہر میں اس کی زیادہ ضرورت ہے.۱۱۲

Page 557

556 محترم با بوفضل دین صاحب سابق سپر نٹنڈنٹ ہائیکورٹ کا بیان ہے کہ جب حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے ایک بڑی مسجد تعمیر کرنے کا ارشاد فرمایا تو ساتھ ہی فرمایا.انداز دس ہزار روپیہ میں جگہ کا بندوبست ہو جائے گا.حضور کا یہ ارشادسن کر محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت نے مجھے فرمایا کہ میری کارلو اور زمین کی خرید کیلئے فوراً چندہ جمع کرو.میں نے محترم میاں غلام محمد صاحب اختر کو ساتھ لیا اور اللہ کا نام لے کر سب سے پہلے ہم محترم ڈاکٹر محمد بشیر صاحب کی کوٹھی واقعہ ڈیوس روڈ پہنچے.انہوں نے ایک ہزار روپیہ کا چیک عنایت کیا.پھر بعض اور دوستوں کے پاس گئے.مغرب کی نماز سے قبل محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پانچ ہزار روپے نقد اور پانچ ہزار کے وعدے پیش کر دیئے.انہوں نے مغرب کی نماز کے بعد حضور کی خدمت میں یہ رقم اور وعدہ جات پیش کئے جن پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.محترم شیخ عبدالحمید صاحب شملوی کا بیان ہے کہ فروری ۱۹۵۴ء میں محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کے زمانہ امارت میں موجودہ جگہ خریدی گئی اور رجسٹری کروا کر اس کا قبضہ حاصل کر لیا گیا.اس کا رروائی پر بیس ہزار روپے خرچ ہوئے.اس جگہ کا رقبہ پانچ کنال اٹھارہ مرلے اور ایک سو چونسٹھ مربع فٹ ہے.مارچ ۱۹۵۴ء میں حضرت امیر المومنین الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیا درکھا اور حضور ہی نے اس کا نام ”دارالذکر رکھا.۲۳ نومبر ۱۹۵۴ء سے سفید زمین پر چھپر ڈال کر نماز جمعہ پڑھنا شروع کی گئی اور پھر ۱۹.دسمبر ۱۹۵۸ء سے مسجد کی تعمیر کا کام مسجد دارالذکر کمیٹی کے زیر انتظام شروع ہوا.تعمیر مسجد پر زمین کی قیمت کے علاوہ فروری ۱۹۶۶ء کے اخیر تک تقریباً تین لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں اور تعمیر کا کام مکمل ہونے تک اخراجات کا انداز ہ پانچ لاکھ روپے کا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تکمیل کے جلد سامان پیدا کرے.آمین جماعت احمد یہ لاہور کا جلسہ سالانہ ۱۹۴۸ء جلسہ سالانہ قادیان کی یاد تازہ رکھنے کے لئے جماعت احمد یہ لاہور نے ۲۵ اور ۲۶ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جلسہ سالانہ منعقد کیا.اس جلسہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس مرتبہ جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ ملتوی ہونے

Page 558

557 کی وجہ سے سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں تقریر کرنا منظور فرما لیا.چنانچہ یہ جلسہ حسب پروگرام ۲۵ دسمبر کو صبح دس بجے رتن باغ کے سامنے اسی جگہ منعقد کیا گیا جہاں گذشتہ سال جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ہوا تھا.حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے خود بنفس نفیس اس کا افتتاح فرمایا.افتتاحی تقریر کے دوران حضور نے جماعت کو اپنا عملی نمونہ درست کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ”ہمارا مقصد تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے کہ اسلام کو دنیا میں غالب کرنا.پس ہمارا مقصد ہمارے سامنے ہے اسے حاصل کرنا ہمارا کام ہے.ایسا غلبہ جو دلائل اور تعلیم کے لحاظ سے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے.اور اعلی تعلیم جس کی وجہ سے قرآن تمام مذہبی کتب سے افضل ہے اس میں موجود ہے.اور ہر شخص جو غور کرے اس کو دیکھ سکتا ہے.لیکن جب تک ان دلائل کو عملی طور پر پیش نہ کیا جائے محض دلائل سے کوئی شخص قائل نہیں ہوسکتا.لوگوں کا عام طریق ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل سے عاجز آ جاتے ہیں تو وہ کہ دیتے ہیں کہ بتاؤ تم نے اس تعلیم پر عمل کر کے کونسا تغیر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے؟ کونسا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے؟ کونسی فضیلت حاصل کر لی ہے؟ چنانچہ آج دشمن اسی طریق سے اسلام پر طعنہ زن ہو رہا ہے.جب ہم اس کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو کہتا ہے.بتاؤ اسلامی ممالک نے کونسی رواداری کی مثال پیش کی ہے اور کون سے فتنے فساد انہوں نے رفع کئے ہیں.کون سانیا تغیر انہوں نے پیدا کیا ہے اور اگر انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے کچھ نہیں کیا تو اس تعلیم کو تم ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو.جب اس کے ماننے والے اسے رڈ کر چکے ہیں تو نہ ماننے والے کیونکر قبول کریں.یہ ایساز بر دست اعتراض ہے کہ اس کے سامنے ہمارے لئے بولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم کے ساتھ عمل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی اسلام کی علمی و عملی برتری کا اقرار کرنے لگے، ۱۱۳ دوسری خصوصیت اس جلسہ کی یہ تھی کہ مفتی اعظم فلسطین کے ذاتی نمائندوں الشیخ عبداللہ غوثیہ اور بد سلیم الحسینی اور السید عبدالحمید بک جو افغانستان میں فلسطینی سفیر مقرر ہوئے تھے نے اس جلسہ میں

Page 559

558 شرکت کی اور اوّل الذکر نے تو تقریر بھی کی.جس میں اسلامی اصول کو اپنانے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کرنے کی اپیل کی.۱۱۴ اس جلسہ میں مولا نا عبد الغفور صاحب فاضل، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم.ائے قاضی محمد اسلم صاحب ایم.ائے مولانا جلال الدین صاحب شمس، حضرت مفتی محمد صادق صاحب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور میاں عبدالمنان صاحب نے تقریریں کیں.جلسہ کے افسر اعلیٰ چوہدری محمود احمد صاحب قائد خدام الاحمدیہ لاہور تھے جو اپنے نائبین چوہدری عبد الکریم خاں صاحب اور قاضی خالد ہدایت اللہ صاحب کے ہمراہ مقامی جماعت کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب اور ان کے نائب پر و فیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے مشورہ اور مدد سے کام کرتے رہے.ہر عبدالشکور کنزے کی لاہور میں تشریف آوری ۱۱.جنوری ۱۹۴۹ء کو ہمارے جرمن نومسلم بھائی ہر عبد الشکور کنزے پاکستان میل کے ذریعہ کراچی سے لاہور تشریف لائے.اسٹیشن پر ہزاروں اصحاب نے ان کا شاندار استقبال کیا.آپ جرمن فوج میں اعلیٰ فوجی افسر تھے.لیبیا میں جنرل رومیل کی قیادت میں لڑتے ہوئے گرفتار ہو گئے تھے.وہاں سے آپ کو امریکہ بھیج دیا گیا.جہاں سے انہیں ۱۹۴۶ء کے آخر میں انگلستان لایا گیا اور قید کی پابندیاں اٹھا دی گئیں.انگلستان پہنچ کر آپ کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا.چنانچہ آپ نے جماعت احمدیہ کے تبلیغی مرکز سے رابطہ قائم کر کے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ شروع کیا جس کے نتیجے میں بہت جلد آپ کو حقیقی اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.فالحمدللہ علی ذالک محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت کی والدہ محترمہ کی وفات ۲۹.جون ۱۹۴۹ء محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی والدہ محترمہ ۲۹.جون ۱۹۴۹ء کی صبح و مختصر سی علالت کے بعد وفات پاگئیں.انا الله و انا اليه راجعون.مرحومہ بہت ہی نیک مخلص اور مہمان نواز خاتون تھیں.۱۱۶

Page 560

559 صاحب امیر جماعت لاہور کی درخواست پر حضرت مجلس عاملہ جماعت احمد یہ لاہور کے ۵.نومبر ۱۹۴۹ء کو ( بروز اتوار ) محترم شیخ بشیر احمد احمدیہ اجلاس میں حضرت امیر المومنین کی امیر المومنین خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مجلس تشریف آوری - نومبر ۱۹۴۹ء عاملہ لاہور اور حلقہ جات کے عہدیداروں کے اجلاس میں شمولیت فرمائی.اجلاس ساڑھے گیارہ بجے محترم امیر جماعت صاحب کی کوٹھی واقعہ ۱۳ ٹمپل روڈ میں ہوا.اجلاس میں حضور نے کارکنان لاہور کو قیمتی ارشادات سے نوازا.بعد ازاں محترم شیخ صاحب کی طرف سے دی گئی دعوت طعام میں سب احباب نے شرکت کی.اے ربوہ میں مستقل رہائش کیلئے لاہور سے آخری قافلہ کی روانگی ۷.نومبر ۱۹۴۹ء: حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ مورخہ ۷ نومبر ۱۹۴۹ء کو دو بجے بعد دو پہر بذریعہ موٹر کا ر ربوہ تشریف لے گئے.حضور کے ہمراہ سیدہ ام متین صاحبہ حرم ثالث دو صاحبزادیاں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی تھے.دیگر عملہ محترم جناب چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ قائم مقام پرائیویٹ سیکرٹری کی قیادت میں دو گھنٹہ بعد بذریعہ لاری روانہ ہوا.یہ گو یار بوہ میں مستقل رہائش کی تعمیل کا دن تھا.۱۱۸ لاہور میں جلسہ سیرت النبی مهم دسمبر ۱۹۴۹ء تقسیم ملک کے بعد پہلی مرتبہ لاہور میں وسیع پیمانے پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر وائی.ایم.سی.اے ہال میں ایک شاندار جلسہ کیا گیا.جلسے کی صدارت جناب مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری سینئر ایڈووکیٹ پاکستان فیڈرل کورٹ نے فرمائی ہال سامعین سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا.جلسہ میں جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء جناب فتح محمد انوری صاحب ایڈووکیٹ جناب ڈاکٹر اے.ای میڈن صاحب، جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے پروفیسر گورنمنٹ کالج لا ہور نے تقاریر کیں.آخر میں صاحب صدر نے اسلام کی اس خصوصیت پر زور دیا کہ اسلام جملہ مذاہب کے بانیان کو

Page 561

560 راست باز قرار دیتا ہے.آخر میں پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد ایم.ایس.سی سیکرٹری جلسہ نے مقررین کا شکریہ ادا کیا.119 ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب سرجن کی انگلستان سے کامیاب مراجعت ۹ - دسمبر ۱۹۴۹ء : خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب ( ماہر امراض آنکھ کان ناک) کے فرزند اکبر اور حضرت ڈاکٹر کرم الہی صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ امرتسر کے پوتے ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ولایت سے سرجری کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد مورخہ ۹ دسمبر ۱۹۴۹ء کو لاہور واپس تشریف لائے.ریلوے اسٹیشن پر ایک مجمع نے آپ کا استقبال کیا.استقبال کرنے والوں میں امیر جماعت احمدیہ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ، کرنل غلام احمد خان و بیگم خاں، میاں تصدق حسین و بیگم سلمیٰ تصدق حسین خان بہادر و بیگم محمد لطیف قریشی، مسٹر نسیم حسن ایڈوائزر تعلیم و بحالیات مغربی پنجاب ڈاکٹر عبدالغنی صاحب بھٹی، ڈاکٹر محمد عبد الحق صاحب، ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.ائے ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب یوسف سابق پرنسپل آرٹسٹ سکول اور میاں محمد حسن صاحب وغیرہ اصحاب شامل تھے.۱۲۰ احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن میں تازہ روح پھونکنے کی کوشش مورخہ ۲۸.اکتوبر ۱۹۵۱ء کے الفضل میں لاہور کے مختلف کالجوں کے طلباء کی توجہ کیلئے ایک ضروری اعلان شائع کیا گیا.جس کا مقصد یہ تھا کہ احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور میں جو سستی اور کا ہلی کے آثار نظر آرہے ہیں انہیں دور کر کے ان میں تازہ روح پھونکی جائے.چنانچہ اعلان کیا گیا: مکرم قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور ( نگران اعلیٰ احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن) کی زیر نگرانی ایسوسی ایشن کی عارضی کمیٹی نے دستور اساسی تیار کیا ہے.احمدی طلباء کی اطلاع کے لئے اس کو شائع کیا جاتا ہے.لاہور کے کالجوں کے تمام احمدی طلباء کو چاہئے کہ وہ ایسوسی ایشن کے ممبر شپ فارم مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج سے حاصل کر کے اپنے اپنے کالج کے تمام احمدی طلباء سے پُر کرا کے مجھے ذیل کے پتہ پر ارسال فرمائیں تا کہ آئندہ سال کے لئے تنظیم کی جاسکے.

Page 562

561 پریذیڈنٹ عارضی کمیٹی احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن معرفت صوفی بشارت الرحمن صاحب پر و فیسر ٹی.آئی کالج لاہور دستور اساسی احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن ا.اغراض و مقاصد (الف) مختلف کالجوں کے احمدی طلباء کی تنظیم اور ان کی عملی زندگی کو اسلامی تعلیم کے مطابق بنانے کی کوشش کرنا.(ب) تبلیغ اسلام کیلئے مؤثر ذرائع اختیار کرنا.( ج ) احمدی طلباء میں علمی ذوق پیدا کرنا.۲.لائحۂ عمل (الف) مختلف تبلیغی تربیتی اور علمی اجلاس کرانا اور ٹریکٹ یا رسالے چھپوانا.(ب) مختلف جماعتی تحریکوں میں حصہ لینا.( ج ) ایسوسی ایشن کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک فنڈ قائم کرنا.۳.عہد یداران نگران اعلی، پریذیڈنٹ، وائس پریذیڈنٹ، سیکرٹری فنانشل سیکرٹری اور خزانچی.-۴- طریق انتخاب و نامزدگی (الف) مختلف کالجوں کے وہ احدی دوست جو با قاعدہ طور پر ممبر شپ فارم پُر کر کے ایسوسی ایشن کے ممبر بن چکے ہوں گے.ہر سو یا سو کی کسر پر دو نمائندے منتخب کریں گے.اس طور پر منتخب شدہ تمام نمائندوں کی مجلس ایگزیکٹو کمیٹی کہلائے گی.(ب) ایگزیکٹو کمیٹی اپنے میں سے پریذیڈنٹ، وائس پریذیڈنٹ، سیکرٹری اور فنانشل سیکرٹری کا انتخاب کرے گی.( ج ) خزانچی کی نامزدگی نگران اعلیٰ کریں گے.( د ) ہر کالج کے منتخب شدہ نمائندے اپنے میں سے ایک کو نمائندہ اعلیٰ منتخب کریں گے.۵.مالی فنڈ (الف) ہر ممبر تین روپے سالانہ چندہ یکمشت یا بذریعہ اقساط ادا کرے گا.(ب) ہر کالج کے نمائندہ اعلیٰ کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے کالج کے تمام ممبران سے بر وقت چندہ وصول کر کے پچیس فیصدی اپنے کالج کی مقامی تنظیم کے اخراجات کے لئے رکھ کر باقی چندہ خزانچی کے

Page 563

562 پاس جمع کرا دیں.مقامی اخراجات کی تفصیلی اطلاع بھی فنانشل سیکرٹری کو کرنی ہوگی.( ج ) فنانشل سیکرٹری کی رپورٹ اور پریذیڈنٹ کی منظوری سے اخراجات کے لئے رقم خزانچی سے لی جا سکے گی.۱۲۱ محترم چوہدری فقیر محمد صاحب کی وفات -۳ نومبر ۱۹۵۱ء ۳ نومبر ۱۹۵۱ء بروز ہفتہ محترم چوہدری فقیر محمد صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کا چند ماہ لاہور میں بیمار رہنے کے بعد انتقال ہو گیا.انا للہ و انا اليه راجعون.مرحوم خدمت سلسلہ کیلئے بے پناہ جذبہ رکھتے تھے.دنیوی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد زندگی وقف کر کے مرکز سلسلہ میں حاضر ہو گئے تھے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل میں وکیل الدیوان تحریک جدید کے عہدہ پر فائز رہ کر کافی عرصہ کام کرتے رہے.محترم ملک عطاء الرحمن اور محترم ملک احسان اللہ صاحبان محترم ملک عطاء الرحمن اور محترم ملک کی فرانس اور مغربی افریقہ سے واپسی.۹ نومبر ۱۹۵۱ء احسان اللہ صاحبان چھ سال سے زائد عرصہ تک فرانس اور مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد 9 نومبر ۱۹۵۱ء کی صبح کو پاکستان ایکپریس کے ذریعہ کراچی سے لاہور پہنچے.ریلوے اسٹیشن پر محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ ان مجاہدین کا استقبال کیا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی از راه نوازش اسٹیشن پر تشریف لائے ہوئے تھے.احباب نے ان مجاہد بھائیوں کو بکثرت پھولوں کے ہار پہنائے.مصافحہ و معانقہ سے فارغ ہونے کے بعد ہر دو مجاہد بھائی احباب کی معیت میں اسٹیشن سے باہر تشریف لائے جہاں محترم شیخ صاحب نے دعا کروائی اور احباب کو رخصت ہونے کی اجازت دی.احباب کو رخصت کر کے دونوں مجاہد اپنے والد محترم ملک خدا بخش صاحب کی قبر پر قبرستان میانی صاحب تشریف لے گئے.ملک صاحب محترم کی وفات ایسے حالات میں ہوئی جب کہ یہ دونوں مجاہد اپنے وطن سے ہزاروں میل دور تھے.۱۲۲

Page 564

563 پنجاب کے اہم تعلیمی مسائل پر محترم قاضی مورد ۲۰- نومبر 1921ء کو محترم جناب ۱۹۵۱ء قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے پروفیسر محمد اسلم صاحب کی تقریر ۲۰ نومبر ۱۹۵۱ گورنمنٹ کالج لاہور نے محترم خلیفہ شجاع الدین صاحب کی زیر صدارت وائی.ایم سی.اے ہال میں پنجاب کے تعلیمی مسائل پر ایک تقریر فرمائی.جناب پروفیسر صاحب نے ابتدائی ثانوی اور یو نیورسٹی تعلیم کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی.۱۲۳ تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ماہرین بارگاہ ادب“ لاہور کے زیر اہتمام ایک علمی اجلاس ۲۷ جنوری بروز اتوار ۳ بجے دن کو تعلیم تعلیم کا اجلاس.۲۷ جنوری ۱۹۵۲ء الاسلام کا لج لا ہور میں مشہور ریاضی دان خواجہ دل محمد صاحب ایم.اے کی صدارت میں ہوا.جس میں ” پنجاب کا موجودہ نظام تعلیم“ کے موضوع پر مختلف کالجوں کے پروفیسر صاحبان نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.لجنہ اماءاللہ لاہور کا اہم اجلاس ۱۳ مئی ۱۹۵۲ء لجنہ اماءاللہ لاہور کی عہدیدار خواتین کو جب بھی موقع ملا مرکز سے معزز ہستیوں کو دعوت دے کر اپنے ہاں تقاریر کر وائیں.اس سلسلہ میں سیکرٹری جنرل لجنہ اماءاللہ مرکزی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم حضرت امیر المومنین اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ لجنہ لا ہور کی دعوت پر تشریف لائیں اور مورخہ ۱۳ مئی ۱۹۵۲ء کو لجنہ کے ایک خصوصی اجلاس میں مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں ایک اہم تقریر فرمائی.منٹو پارک لاہور میں آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب لاہور تشریف لائے خاں صاحب کا خطبہ عید - ۲۵ جون ۱۹۵۲ء ہوئے تھے.محترم امیر جماعت احمد یہ شیخ بشیر احمد صاحب کی درخواست پر عید الفطر کا خطبہ آپ نے منٹو پارک لاہور میں دیا.خطبہ میں آپ نے احباب کو وقت کے تقاضوں کو پہچاننے اور ان کے مطابق اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.حاضری دو اور تین ہزار افراد کے درمیان تھی.۱۲۴

Page 565

564 مجلس احرار کا جماعت احمدیہ کا خلاف پروپیگنڈا.۱۹۵۲ء جیسا کہ تحقیقاتی رپورٹ سے ظاہر ہے شروع شروع میں احراری لیڈ ر کانگرس کے ساتھ تھے مگر ہم مئی ۱۹۳۱ء کو لاہور میں ایک جلسہ کر کے انہوں نے بعض مخصوص فوائد حاصل کرنے کیلئے مجلس احرار کی بنیا درکھ دی اور اسی سال انہوں نے کشمیر کمیٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر ۱۴.اگست کو یوم کشمیر منایا.اور اس سے دوسرے دن اعلان کر دیا کہ انہوں نے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں تحریک کا آغاز کر دیا ہے چنانچہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مولوی مظہر علی صاحب اظہر کی سرکردگی میں ایک سو رضا کاروں کا جتھا جموں کی طرف روانہ ہو گیا.اس اقدام سے عوام میں ان کو خاص شہرت حاصل ہو گئی.۱۲۵ احرار کا مطمع نظر شروع سے یہ تھا کہ اس ملک میں اگر وہ نمایاں حیثیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مذہبی لبادہ اوڑھ کر جماعت احمدیہ کی مخالفت کی جائے اور اس طرح عوام الناس کے جذبات سے کھیل کر انہیں اپنا ہمنوا بنا لیا جائے.چنا نچہ انہوں نے اس ملک کے طول و عرض میں جماعت احمدیہ کے خلاف جلسے کرنا شروع کر دئیے.۱۹۳۴ء میں قادیان کے متصل دیانند اینگلو و یدک ہائی سکول کی گراؤنڈ میں انہوں نے ایک وسیع پیمانہ پر کا نفرنس منعقد کی جس میں سید عطا اللہ شاہ بخاری نے جماعت احمدیہ کے خلاف پانچ گھنٹے کی ایک نفرت آمیز تقریر کی.اس تقریر کی بناء پر بخاری صاحب کے خلاف مقدمہ چلایا گیا.جس کی سماعت کے دوران میں احرار پراپیگنڈا کی بناء پر عوام سادہ لوح کے جذبات اتنے برانگیچتے ہوئے کہ خود تقریر سے بھی نہ ہوئے ہوں گے.وہ دن اور یہ دن ہر قابل ذکر احراری مقر راحمد یوں ان کے رہنماؤں اور ان کے عقیدوں کے خلاف ہر قسم کی باتیں کہتا رہا ہے.۱۲۶ پاکستان بننے کے بعد بظاہر احراریوں کا مستقبل بالکل تاریک تھا کیونکہ متحدہ ہندوستان میں یہ کانگرس کے ہمنوا اور قیام پاکستان کے شدید مخالف تھے.مگر جماعت احمدیہ کی مخالفت ایک ایسا حربہ ان کے ہاتھ میں تھا جس کے استعمال سے آہستہ آہستہ پھر انہیں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی.چنانچہ ہم ملک کے بعد احرار کا سب سے بڑا اجتماع ۱۲ جنوری سے لے کر ۱۴ جنوری ۱۹۴۹ء تک لاہور میں

Page 566

565 احرار ڈیفنس کانفرنس“ کے نام سے ہوا.اس اجتماع میں انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت کو خیر باد کہہ کر محض مذہبی حیثیت سے کام کرنے کا اعلان کیا چنانچہ اس کے بعد انہوں نے مغربی پاکستان کے تمام قابل ذکر شہروں میں تبلیغی کا نفرنسیں منعقد کرنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ اختلافی مسائل کے ساتھ ساتھ احمد یوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو وزارتِ خارجہ کے منصب جلیلہ سے ہٹانے کے مطالبات بھی پیش کرنا شروع کر دئیے.میجر محمود احمد صاحب کی شہادت.11.اگست ۱۹۴۸ء نوبت با بنجار رسید کہ عوام میں اشتعال انگیز تقریریں کر کے احمدیوں کے خلاف جبر وتشد د پراکسانا ان کا عام معمول ہو گیا.چنانچہ ا اگست ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ میں ختم نبوت“ کے موضوع پر ریلوے کے مسلم ملازمین ایک جلسہ کروا ر ہے تھے جس میں علماء احرار نے اس قدراشتعال انگیزی کی کہ ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب جو ایک مریض کو دیکھنے کے بعد واپس آتے ہوئے جلسہ گاہ کے پاس سے گذرے.اتفاق سے ان کی موٹر کا رجلسہ گاہ کے قریب ٹھہر گئی.ابھی وہ دوبارہ کار چلانے کی کوشش میں مصروف تھے کہ جلسہ گاہ سے نکل کر ایک ہجوم نے ان کے ارد گر دگھیرا ڈال لیا.میجر صاحب کو کار سے گھسیٹ کر نیچے اتارا اور پتھر اور چھرے مار مار کر انہیں شہید کر دیا.انا لله و انا اليه راجعون.رپورٹ تحقیقاتی عدالت میں اس واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ : ان کی پوری انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئی تھیں.ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر کند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے گئے چھیں زخم تھے اور موت ایک تو صدمے سے اور دوسرے داخلی جریان خون سے واقع ہوئی.جو بائیں پھیپھڑے بائیں گردے اور جگر کے دائیں کنارے کے زخموں سے جاری ہوا تھا.کوئی شخص بھی اسلامی شجاعت کے اس کارنامے کی نیک نامی لینے پر آمادہ نہ ہوا اور بیشمار عینی شاہدوں میں سے ایک بھی ایسا نہ نکلا جو ان ” غازیوں کی نشاندہی کر سکتا یا کرنے کا خواہشمند ہوتا جن سے یہ بہادرانہ قتل صادر ہوا تھا.لہذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جا سکے اور مقدمہ بے سراغ ہی داخل دفتر کر دیا گیا.۱۲۷

Page 567

566 میاں غلام محمد صاحب مدرس کی شہادت پھر یکم اکتوبر ۱۹۵۰ء کو سات احمدیوں کا ایک وفد پیغام حق پہنچانے کے لئے اوکاڑہ سے چک نمبر ۵ میں گیا جہاں کے احرار نے ان پر کیچڑ پھینکی.ان کے چہروں پر کالک ملی اور گندے پانی سے انہیں ہنکا کر ریلوے اسٹیشن اوکاڑہ تک پہنچایا.اس واقعہ کی پولیس میں جب رپورٹ لکھوائی گئی تو پولیس نے ایک شخص مولوی فضل الہی صاحب کو جو شرارت کے سرغنہ تھے زیر حراست لے لیا.اس گرفتاری کے خلاف احرار نے بے انتہا اشتعال انگیز تقریریں کر کے سخت احتجاج کیا اور نوجوان حاضرین سے اپیل کی کہ " مرزائی فتنہ سے قوم کو نجات دلاؤ“.دوسرے دن ایک شخص محمد اشرف نے میاں غلام محمد صاحب احمدی مدرس کا ایک چھرے سے مسلح ہو کر تعاقب کیا اور اس زور سے چھرا مارا کہ مدرس مذکور کو جو ابھی تھانہ میں رپورٹ درج کروانے کیلئے لے جائے جا رہے تھے کہ انہوں نے رستہ ہی میں جام شہادت نوش فرمالیا.۲۸ انا لله و انا اليه راجعون - میاں بدر دین صاحب کی شہادت اس واقعہ کے بعد اسی مہینہ میں راولپنڈی میں ایک شخص ولایت خاں نے ایک احمدی بدر دین صاحب کو گولی مار کر شہید کر دیا.اور جب اس سے بیان لیا گیا تو اس نے خود اعتراف کیا کہ ” میں نے بدر دین کو اس لئے ہلاک کیا ہے کہ وہ احمدی ہے.لاہور میں یوم تشکر ۲۶٬۲۵ مئی ۱۹۵۱ء احرار نے جب دیکھا کہ آہستہ آہستہ ان کی تحریک ترقی کر رہی ہے اور احمدیوں کے خلاف بڑھتی جارہی ہے اور گورنمنٹ بھی ان سے کوئی باز پرس نہیں کر رہی تو انہوں نے وسیع پیمانے پر لاہور میں ” یوم تشکر“ منانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ۲۶۲۵ مئی ۱۹۵۱ء کے دو دن مقرر کئے گئے.” یوم تشکر منانے کے سلسلہ میں پہلے دن تمام پنجاب اور صوبہ سرحد کے اضلاح پیشاور و ہری پور ہزارہ کے احراری رضا کاروں کے دستے لاہور کے بازاروں سے بشکل جلوس گذرے.ان کے ساتھ پانچ بینڈ باجے بھی تھے.شام کو جلسہ ہوا جس میں بہت سے مسلم لیگی ایم.ایل.اے اور عہد یدار بھی شامل تھے.احرار 66

Page 568

567 لیڈروں نے تقریریں کیں.صاحبزادہ فیض الحسن نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ احمد یوں کو اقلیت قرار دیا جائے یا انہیں مجبور کیا جائے کہ اس ملک کو چھوڑ دیں اور بھارت میں آباد ہو جائیں.مولا نا محمد علی جالندھری نے جو جلسے کی صدارت کر رہے تھے ایک قرار داد پیش کی جس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو ذمہ دار عہدوں سے موقوف کر دے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے میجر جنرل نذیر احمد کی گرفتاری ( راولپنڈی سازش کیس میں.ناقل ) کا ذکر کر کے کہا کہ اس گرفتاری نے یوم تشکر کو یوم تفخر بنا دیا ہے کیونکہ مملکت ایک بہت بڑے خطرے سے بچ گئی ہے.بخاری نے حسب معمول اپنے مبتنذل اور پست مزاج سے کام لیکر کہا کہ میجر جنرل نذیر احمد نگا ہو گیا ہے.اب احمدی اس کو نئی پتلون پہنائیں.اس نے یہ بھی کہا کہ میجر جنرل نذیر احمد کو مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اکسا کر سازش میں شامل کرایا ہے.بخاری نے اس جلسے کے حاضرین سے جو نعرے لگوائے وہ حسب ذیل تھے : نمک حرامان پاکستان مردہ باد غداران پاکستان مردہ باد پاکستان زنده 9966 باد ” مرزا بشیر الدین محمود احمد مُردہ باد مرزائیت مُردہ باد ۲۶.مئی کے جلسے میں قاضی احسان احمد شجاع آبادی نے پھر مقدمہ سازش راولپنڈی کا ذکر کیا اور شیخ حسام الدین نے اعلان کیا کہ احمدی جو مسلمانوں کے قومی مفاد کیلئے ایک خطرہ ہیں کلیدی عہدوں سے موقوف کئے جانے چاہئیں.شیخ حسام الدین اور علامہ علاؤ الدین صدیقی نے چوہدری ظفر اللہ خاں کے متعلق توہین آمیز کلمات کہے اور ان کی موقوفی کا مطالبہ کیا.اس دن بھی ایک جلوس نکالا گیا.جب حسب معمول اس جلسے کی تقریروں کی روئیدادا چیف منسٹر کی خدمت میں پیش کی گئی تو انہوں نے اس پر ذیل کی معنی خیز رائے لکھی : احرار ایک ایسے مسئلے سے فائدہ اٹھا کر جس کو پاکستانی عوام میں واضح مقبولیت حاصل ہے اپنے لئے محض سیاسی موقف و مقام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ہمیں اس 66 امر پر گہری نظر رکھنی چاہئے کہ یہ معاملہ ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہو“.۱۲۹ چیف منسٹر کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو احمدیوں کی ذلیل مخالفت اور گورنمنٹ کے معزز احمدی عہد راروں کی توہین و تضحیک سے کوئی واسطہ نہیں تھا.ان کو اگر فکر تھی تو صرف یہ کہ ان کی

Page 569

568 کرسیاں محفوظ رہیں.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ایک اور اشتعال انگیز تقریر ۲۵.اگست ۱۹۵۱ء ۲۵.اگست ۱۹۵۱ء کو سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے موچی دروازہ کے باہر ایک اور اشتعال انگیز تقریر کی جس میں بیان کیا کہ (الف) چوہدری ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ پاکستان مملکت کے وفادار نہیں.(ب) تقسیم سے قبل جماعت احمدیہ نے اپنے پیروؤں کو بتایا تھا کہ پاکستان وجود میں نہیں آئے گا اور اگر کوئی اس قسم کی مملکت پیدا بھی کر لی گئی تو تقسیم شدہ ملک دوبارہ متحد ہو جائے گا.( ج ) احمدی بھارت کی حکومت کے جاسوس ہیں.اگر بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر احمدیوں کی بیخ کنی کر دینی چاہئے جو مملکت کے دشمن ہیں.آل پارٹیز کنونشن لاہور ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء اس قسم کی بیبیوں کنونشنیں اور کانفرنسیں ملک کے طول وعرض میں احراریوں نے اس سال منعقد کیں مگر ہم اپنے مضمون کو صرف لا ہور تک محدود رکھنا چاہتے ہیں.۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں ایک آل پائیز کنونشن منعقد کی گئی جس کے داعیوں میں اکثریت احراری علماء کی تھی اور دعوت نامے کوئی ساٹھ علمائے دین کے نام جاری کئے گئے تھے اور کنونشن میں دوسرے علماء کے علاوہ کراچی سے مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور سید سلمان ندوی بھی شامل ہوئے تھے.اس کنونشن میں تین مطالبات منظور کئے گئے.ا.چوہدری ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ کے عہدہ سے برطرف کیا جائے.۲.احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے اور ۳.احمدیوں کو مملکت کے کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا جائے.اس کنونشن میں ملک کے ہیں نامور علماء کی ایک مجلس عمل مرتب کی گئی تا کہ آئندہ لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جاوے.

Page 570

569 حکومت کی طرف سے شر پسند اخبارات کو عطایا تحقیقاتی رپورٹ صفحه ۸۴ سے ظاہر ہے کہ ڈائریکٹر تعلقات عامہ نے ۵۲-۱۹۵۱ء اور " ۱۹۳۲-۵۳ء میں مجموعی حیثیت سے ایک لاکھ روپیہ آفاق کو اٹھاون ہزار احسان کو پندرہ ہزار ” مغربی پاکستان کو اور تمیں ہزار روپیہ زمیندار کو دیا.۱۳۰ اگر حکومت چاہتی تو کیا مجال تھی کہ یہ اخبارات اس شورش میں حصہ لیتے.مگر ان اخبارات نے لوگوں کو مشتعل کرنے میں دوسرے اخبارات سے بھی زیادہ حصہ لیا.ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اس وقت کی حکومت خود روپیہ خرچ کر کے اخبارات کے ذریعہ پبلک کو شورش پیدا کرنے کے لئے اکسار رہی تھی.محکمہ اسلامیات اور حکومت پھر محکمہ اسلامیات کے نام سے جن علماء پر حکومت کی طرف سے روپیہ صرف کیا گیا ان میں سے بھی بیشتر نے اس تحریک میں پورا حصہ لیا.مشہور علماء کے نام یہ ہیں.مولانا ابوالحسنات محمد احمد مولا نا محمد بخش صاحب مسلم، مولوی غلام دین صاحب، صاحبزادہ فیض الحسن صاحب علامہ علاؤ الدین صاحب صدیقی، مولانا غلام محمد صاحب ترنم قاضی مرید احمد صاحب حافظ کفایت حسین صاحب پروفیسر عبدالحمید صاحب، مولانا سلیم اللہ صاحب مفتی محمد حسن صاحب.۱۳۱ فسادات کی انتہاء.مارچ ۱۹۵۳ء حکومت کی مسلسل نرمی اور آل پارٹیز کے علماء کو ڈھیل دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء نے سارے ملک میں جلسوں اور جلوسوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز کی حد کر دی.خاکسار راقم الحروف کو وہ زمانہ خوب یاد ہے.ان ایام میں احمدی بڑی ہی مظلوم حیثیت میں تھے.ان کا کا روبار بند ہو چکا تھا اور دعاؤں میں مصروف رہتے تھے.مارچ ۱۹۵۳ء کے پہلے ہفتہ میں تو احمدیوں کے لئے ریل گاڑی اور بسوں پر سفر کرنا بھی دشوار ہو رہا تھا.ہر سواری پر ہر راستہ میں اور ہر گھر میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا چرچا تھا اور شرفاء بیچارئے بے بس تھے.بے عزتی کے ڈر سے حق و انصاف کا ساتھ دینا بھی ان کے لئے دشوار ہو رہا تھا.ادھر

Page 571

570 حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی طرف سے اخبار الفضل بند ہونے کی وجہ سے دستی پر لیس پر اپنی اور ربوہ کی خبر بھیجی جاتی تھی.نیز جماعتوں کو تسلی دی جاتی تھی کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو دعاؤں کرو اور اپنے اپنے گھروں کو مت چھوڑ و مگر شور دن بدن بڑھتا جارہا تھا کہ مخالفین نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کا دن اس امر کے لئے مقرر کر لیا کہ اس دن کوئی احمدی زندہ نہ رہنے دیا جائے گا اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا.اب پولیس بھی بے بس تھی اور شرفاء بھی.۴.مارچ ۱۹۵۳ ء کو ساڑھے چار بجے شام دہلی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام منعقد ہوا.جس میں حاضرین کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی.اس جلسے میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ چوک دالگراں میں ایک لڑکے کو گولی مار دی ہے اور قرآن مجید کو پامال کیا ہے.جلسے کے بعد ایک جلوس مرتب کیا گیا جو مسجد وزیر خاں کی طرف روانہ ہوا.منظور الحق اور محمد صادق اسسٹنٹ انسپکٹر ان نے مسجد وزیر خاں کے قریب اس ہجوم کو روکا.سید فردوس شاہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ٹیلیفون پر اطلاع ملی کہ ان اسسٹنٹ سب انسپکڑوں کو اٹھا کر مسجد میں لے گئے ہیں اور یہ دونوں ہلاک کر دیئے گئے ہیں یا عنقریب کئے جانے والے ہیں.ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ایک مسلح ریز رو دستہ کی زیر سر کردگی سب انسپکٹر مظفر خاں ( تھانہ کوتوالی ) کو ساتھ لیا اور مسجد کی طرف چل دیئے.مسجد کے عین باہر ان کا سامنا ایک غضبناک ہجوم سے ہوا.جب ڈی.ایس پی نے پوچھا کہ وہ دو پولیس افسر کہاں ہیں؟ تو ان کو بلوائیوں نے گھیر لیا اور ان پر چھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کر کے وہیں ہلاک کر دیا.سید فردوس شاہ کے جسم پر باون زخموں کے نشان تھے.ان کا اپنا ریوالور اور ان کے ساتھی پولیس مینوں کی دو بندوقیں چھین لی گئیں اور سب انسپکٹر مظفر خاں زخمی ہو گیا.ڈی.ایس.پی کی نعش کو کسی نے کوتوالی پہنچا دیا.۱۳۲ ی وہ زمانہ تھا جب کہ حضرت اقدس امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی سمیت تمام سابق پنجاب کے قابل ذکر احمدیوں کے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں اور کوشش یہ کی گئی کہ اگر کسی احمدی کے گھر سے اپنی دفاعی ضروریات کے لئے چاقو بھی برآمد ہو جائے تو اسے گرفتار کر لی جائے.چنانچہ ہمارے نہایت ہی محبوب اور پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی کے بھائی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ ) کو بھی اسی جرم میں گرفتار کر لیا گیا.حالانکہ اول الذکر بزرگ کا جرم اس قدر تھا کہ ان کی اسلحہ کی دوکان تھی اور ایک بندوق انہوں نے مرمت

Page 572

571 کیلئے گھر رکھی ہوئی تھی اور آخر الذکر بزرگ کے سسرال کی طرف سے آپ کی بیگم صاحبہ کو نوابی طریق کے مطابق ایک مرصع خنجر جہیز میں ملا تھا جس کی برآمدی پر دونوں بزرگوں کو گرفتار کر لیا گیا.یہ گرفتاریاں کیم اپریل ۱۹۵۳ء کو ظہور میں آئیں اور ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو انہیں آزاد کر دیا گیا.۱۳۳ ان تلاشیوں اور گرفتاریوں سے یہ امر ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت کی حکومت یہ چاہتی تھی کہ احمدی اپنے ظالم اور خونخوار دشمنوں کے ہاتھوں نہتے مارے جائیں اور خود حفاظتی کے لئے اپنے گھر میں معمولی چاقو بھی نہ رکھ سکیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ اس نے احمدیوں کی اس طرح خارق عادت طور پر حفاظت کی کہ مخالف یہ سمجھتے تھے کہ گویا احمدیوں کے گھر اسلحہ سے بھرے پڑے ہیں.اکثر مقامات پر یہ بھی سنا گیا کہ انہوں نے فوج منگوائی ہوئی ہے جو رات کو ان کے گھروں کا پہرہ دیتی ہے.میاں منظور احمد صاحب مدرس کی شہادت.۵ مارچ ۱۹۵۳ء ۵ مارچ ۱۹۵۳ء کومشتعل ہجوم ہر حصہ میں گشت لگا رہا تھا.سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا‘لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کو بالکل معمولی چیزیں سمجھا جا رہا تھا.باغبانپورہ کے ایک احمدی مدرس منظور احمد صاحب کو چھرے کی ایک ضرب سے شہید کر دیا گیا.کئی پرائیویٹ کا روباری مرکز بھی لوٹ لئے گئے.غرضیکہ لاقانونی کے اتنے واقعات ہوئے کہ پولیس اور فوج کو کئی بار گولی چلانا پڑی.۳۴ رات اور دن کے اکثر حصوں میں ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ نے کرفیو لگا رکھا تھا مگر لوگ بالکل بے پروا ہورہے تھے.۶.مارچ کو جو ہولناک واقعات ہوئے ان کا ذکر کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان لکھتے ہیں : چار اور احمدیوں کی شہادت اس دن کے واقعات کو دیکھ کر سینٹ بارتھولومیوڈئے یاد آتا تھا حتی کہ ڈیڑھ بجے بعد دو پہر مارشل لاء کا اعلان کر دیا گیا.ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ایک دن قبل ایک احمدی نوٹ از ناشر: مصنف کو غلطی لگی ہے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے گھر سے بندوق نہیں بلکہ ایک سنگین نکلی تھی جو آپ کی فیکٹری میں حکومت کی طرف سے با قاعدہ آرڈر ملنے پر افواج پاکستان کو مہیا کرنے کیلئے تیار کی گئی تھی.

Page 573

572 ☆ مدرس قتل کر دیا گیا تھا.۶ مارچ کو ایک احمدی محمد شفیع بر ما والا مغلپورہ میں ہلاک کر دیا گیا اور کالج کے ایک احمدی طالب علم (میاں جمال احمد صاحب ابن مستری نذرمحمد صاحب) کو بھائی دروازہ کے اندر لوگوں نے چھرے مار مار کر قتل کر دیا.ایک اور احمدی ( یا مفروضہ احمدی ) مرزا کریم بیگ کو فلیمنگ روڈ پر چھرا مار دیا گیا اور اس کی نعش ایک چتا میں پھینک دی گئی جوفر نیچر کو آگ لگا کر تیار کی گئی تھی.احمدیوں کی جو جائداد میں اور دکانیں اس دن لوٹی یا جلائی گئیں.وہ یہ تھیں.پاک ریز شفا میڈیکل اور سوکو موسیٰ اینڈ سنز کی دوکان راجپوت سائیکل ورکس، ملک محمد طفیل اور ملک برکت علی چوب عمارتی کے احاطہ اور گودام میسن روڈ پر ملک عبدالرحمن کا مکان اور مزنگ روڈ اور ٹمپل روڈ پر پانچ احمدیوں کے مکان جن میں شیخ نور احمد ایڈووکیٹ کا مکان بھی شامل تھا.تیسرے پہر ایک ممتاز ایڈووکیٹ مسٹر بشیر احمد امیر جماعت احمد یہ لاہور کا مکان گھیر لیا گیا.ہجوم اس مکان میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ مسٹر بشیر احمد نے اپنے دفاع میں چند گولیاں چلا ئیں.ایک خاص فوجی عدالت نے ان کے اس فعل پر مقدمہ چلایا لیکن وہ بری کر دیئے گئے.4 مارچ کی رات کو عبد الحلیم مالک پایونیر الیکٹرک اینڈ بیٹری سٹیشن کے مکان پر چھاپا مارا گیا اور ان کی بوڑھی والد قتل کر دی گئی.۱۳۵ او پر مارشل لاء کا ذکر کیا گیا ہے.مارشل لاء کا لگنا تھا کہ مشتعل ہجوم کے ہوش بحال ہو گئے اور ایک دن میں امن قائم ہو گیا.ہم ان واقعات کا مفصل ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے.ہاں اتنا ذکر ضروری ہے کہ امن بحال ہو جانے کے بعد حکومت پاکستان نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ عدالت عالیہ کے دو فاضل جج صاحبان سے ان سارے واقعات کی تحقیقات کروائے جائے.چنانچہ کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد حج صاحبان نے ایک مفصل رپورٹ تیار کی جو رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے نام سے شائع ہو چکی ہے.اس رپورٹ کے آخری نتائج کے میاں جمال احمد لاہور میں امانتاً دفن کر دیئے گئے تھے.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اجازت سے ۵ نومبر ۱۹۵۴ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کر دیئے گئے.شہادت کے وقت مرحوم کی عمر ۷ اسال اور ۵ دن تھی اور ایف اے کا طالب علم تھا.مفروضہ نہیں بہت مخلص احمدی تھے.

Page 574

573 ضمن میں لکھا ہے : ” ہمارا احساس یہ بھی ہے کہ احراریوں سے تو ایسا برتاؤ کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا ۱۳۶۰ ساری رپورٹ کا خلاصہ کتاب کے آخری پیرا میں یوں درج ہے کہ.ہمیں یقین واثق ہے کہ اگر احرار کے مسئلے کو سیاسی مصالح سے الگ ہو کر محض قانون و انتظام کا مسئلہ قرار دیا جاتا تو صرف ایک ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ اور ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کے تدارک کیلئے کافی تھے.چنانچہ وہ طاقت جسے انسانی ضمیر کہتے ہیں ہمیں یہ سوال کرنے کی ترغیب دیتی ہے کہ آیا ہمارے سیاسی ارتقاء کے موجودہ مرحلے پر قانون و انتظام کا مسئلہ اس جمہوری ہم بستر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جسے وزارتی حکومت کہتے ہیں اور جس کے سینے پر ہر وقت سیاسی کا بوس سوار رہتا ہے.لیکن اگر جمہوریت کا یہ مطلب ہے کہ قانون و انتظام کو سیاسی اغراض کے ماتحت کر دیا جائے تو اللہ تعالی ہی علیم وخبیر ہے کہ کیا ہوگا.اس عدالت میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ خود بنفس نفیس تشریف لے جاتے رہے.جماعت کے وکلاء جناب شیخ بشیر احمد صاحب جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم نے خاص طور پر واقعات کی تحقیقات میں جج صاحبان کی امداد کی.مشورہ میں جماعت کے سرکردہ علماء جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس اور جناب مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و غیر ہم کو بھی حضور نے شامل کیا.تاریخ ادیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے حواریوں کی تکالیف اور مصائب کا ذکر پڑھا کرتے تھے.مگر اپنے زمانہ میں خود اس قسم کے واقعات کا آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا اور جب خدا کی نصرت ”افواج کی شکل میں ظاہر ہوئی تو مومنوں کا ایمان تازہ ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک شیخ بشیر احمد صاحب اب شیخ بشیر احمد صاحب کا زمانہ امارت ختم ہوتا ہے.لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب

Page 575

574 محترم پر ایک مختصر سا نوٹ درج کیا جائے.شیخ صاحب متوسط قد کے مضبوط جسم رکھنے والے بزرگ ہیں.زندہ دلی ان کا شیوہ ہے.تکالیف و مصائب کو صبر اور استقلال کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور ہر حالت عسر و یسر میں اپنے خالق و مالک کے حضور جھکے رہتے ہیں.۱۹ برس کا لمبا زمانہ جماعت لاہور کے امیر رہے اور سلسلہ کی قانونی خدمات بغیر معاوضہ کے بجالاتے رہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ تحقیقاتی عدالت میں ان کے کام کا معاوضہ پچپن ہزار روپیہ بنتا تھا.مگر آپ نے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا.اب بھی جماعتی مقدمات میں بغیر فیس کے عدالت عالیہ میں پیش ہوتے ہیں.حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ امارت میں جب بھی لاہور میں تشریف لاتے رہے عموماً آپ ہی کے مکان پر قیام فرماتے رہے.خصوصاً حضرت اُمّم طاہر رضی اللہ عنہا کی طویل بیماری کے ایام میں تو کئی ماہ حضور کا آپ کے ہاں قیام رہا اور آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو حضور کی خدمت کا خاص موقعہ ملا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ کو حضور رضی اللہ عنہ کا ہم زلف ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب کا زمانہ امارت مئی ۱۹۵۴ء سے امارت لاہور کا عہدہ بذریعہ انتخاب محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب بارایٹ لاء کے سپرد کر دیا گیا.لیکن دفتر مرکز یہ جماعت احمد یہ لاہور جسے محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے انتظامات کی سہولت کے لئے اپنی کوٹھی کے ایک کمرہ میں کھولا تھا بدستور وہیں رہا اور اب تک جو ۷ امئی ۱۹۶۶ ء ہے وہیں ہے اور دفتر کے انچارج محترم جناب با بو عبدالحمید صاحب شملوی برادر حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب بھی شروع سے اس وقت تک برابر کام کر رہے ہیں.حضرت امیر المومنین کی لاہور میں تشریف آواری ستمبر ۹ بجے صبح حضور رضی اللہ عنہ لاہور میں تشریف لائے ۳۷ اور چار روز قیام فرما کر ۱۶ ستمبر کو واپس ربوہ تشریف لے گئے.۱۳۸)

Page 576

575 مکرم محمد سعید احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور ۱۲ ستمبر ۱۹۵۴ء ۱۷.ستمبر ۱۹۵۴ء کو بعد نماز جمعہ مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کا ماہانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت جناب ڈاکٹر محمد عبد الحق صاحب نائب امیر نے فرمائی.اس اجلاس میں نئے سال کے لئے قائد مجلس کا انتخاب عمل میں آیا.کثرت رائے سے مکرم محمد سعید احمد صاحب قائد مقرر ہوئے.آپ کے زمانہ قیادت میں چونکہ ملک میں بکثرت سیلاب آ رہے تھے اس لئے آپ کو سیلاب زدگان کی امداد کا خوب موقعہ ملا.نمونہ ایک رپورٹ درج ذیل ہے:.لاہور.۲۷.ستمبر مجلس خدام الاحمدیہ کے دفتر واقعہ جودھا مل بلڈنگ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ آج مجلس خدام الاحمدیہ نے کشمیر روڈ وارث روڈ چوبرجی کی ملحقہ بستیوں میں ایک ہزار بے گھر اور مصیبت زدہ افراد میں مفت کھانا تقسیم کیا.حالیہ بارش میں ان غریبوں کی جھونپڑیاں اور کچے مکانات منہدم ہو گئے تھے.علاوہ ازیں آج کل مجلس کے کم و بیش ایک سو خدام لاہور کے نشیبی اور دیگر متاثرہ علاقوں میں ریلیف کا کام سرانجام دے رہے ہیں.ان علاقوں میں مجلس کی طرف سے با قاعدہ بارہ امدادی مراکز قائم ہیں.دس دس خدام باری باری ہر مرکز میں حاضر رہ کر باراں زدگان کو ہر ممکن امداد پہنچاتے ہیں.کل پٹیالہ گراونڈ (میکلوڈ روڈ ) اور گردونواح کے قریباً چار سو تباہ حال اور بے خانماں مہاجرین میں مفت آنا تقسیم کیا گیا.علاوہ ازیں گذشتہ تین روز میں قریباً ۶۵ گھروں کے افراد کو مخدوش گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا.محمد نگر کے قریب ایک کرسچین لیڈی تیر کر گہرے پانی کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی.اسے بروقت امداد پہنچا کر ڈوبنے سے بچایا گیا.وہ تھک کر ہمت ہار چکی تھی.اسی طرح سنت نگر میں ایک ڈوبتی ہوئی عورت اس کے بچے اور ایک بوڑھے مرد کی جان بچائی گئی.مجلس نے مختلف علاقوں میں مکانوں کی چھتوں پر مٹی ڈالنے گلیوں اور سڑکوں پر گری ہوئی دیواروں کا ملبہ اٹھانے اور بارش سے بھیگے ہوئے لوگوں میں پار چات تقسیم کرنے کے علاوہ بیماروں کو ادویات بہم پہنچا ئیں.نیز بعض جگہوں میں پردہ نشین مستورات کو سوداسلف پہنچانے کا انتظام بھی کیا گیا ، ۱۳۹۰

Page 577

576 اسی طرح ۳۰ ستمبر ۱۹۵۴ء کے پرچہ میں مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے کام کی جو ر پورٹ درج ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مجلس نے ریلیف کے کام میں مدد دینے کے لئے حکومت پنجاب کو اپنی خدمات پیش کر دیں.مجلس کی امدادی پارٹیوں نے متعدد نواحی بستیوں میں کثیر مقدار میں میٹھے چنے اور دیگر خشک اشیا تقسیم کیں.۲.اکتوبر کے الفضل سے ظاہر ہے کہ مجلس نے چھ نواحی بستیوں اور دیہات میں بیماروں کے لئے مفت دوائیں تقسیم کیں اور سیلاب زدگان کی شکایات بھی متعلقہ حکام تک پہنچا ئیں.مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کا کام دیکھنے کے لئے محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور نے بھی سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا.حضرت امیر المومنین کی طرف سے عطیہ اور اظہار خوشنودی سب سے بڑھ کر یہ کہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خدام الاحمدیہ لا ہور کے کام سے خوش ہو کر انہیں پانچ صد روپیہ کا عطیہ دیا." اور پرائیویٹ سیکرٹری نے ایک خط کے ذریعہ مکرم ۱۴۰ قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور کو حضور کی خوشنودی کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا: ملت میں شائع شدہ دوران سیلاب میں خدام الاحمدیہ لاہور کی خدمت خلق کی رپورٹ ملاحظہ فرما کر سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ خدام کو شکر یہ نیز فرمایا کہ اس قسم کی خدمات اسلامی روح کو بڑھاتی ہیں.جزاکم الله واللهم زد فزذا نیز خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر ۱۹۵۴ء میں فرمایا : ” اس دفعہ لاہور کی جماعت نے قربانی کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور وہاں کے خدام نے قابل تعریف کام کیا ہے.مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ اس دفعہ ان میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے مصیبت زدگان کی خوب مدد کی ہے اور انہوں نے ان مکانوں میں لوگوں کو پناہ دی ہے جنہیں گذشتہ فسادات میں جلانے کا پروگرام بنایا گیا تھا اور جن لوگوں کو اب پناہ دی گئی ہے وہ ان کو جلانے آئے تھے ، ۱۴۲

Page 578

577 پھر حضور نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر ۵.نومبر ۱۹۵۴ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا: پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لا ہور کے خدام نے خصوصیت سے اعلیٰ کام کیا ہے.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ دکھاوا ہے.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نمائش ہے.مگر کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے.اگر تمہارے دلوں کی نیکی اور خوبی کا اقرار دنیا نہیں کرتی تو تم مجبور ہو کہ تم لوگوں کو دکھا کر کام کرو..و, چنانچہ اب جبکہ ہم نے اپنی خدمات ظاہر کرنی شروع کیں تو مسلمانوں کی خدمت کا دعوی کرنے والے اپنے بلوں میں گھس گئے اور کوٹھیوں میں بیٹھے رہے.چنانچہ بعض لوگوں نے جو جماعت اسلامی کے دفتر کے قریب رہتے تھے اقرار کیا کہ اسلامی جماعت نے تو ہماری خبر بھی نہیں لی.اور یہ ( خدام ) چار چار میل سے آئے اور ہماری مدد کی، ۱۴۳ پھر فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور کی نیم مردہ ہی جماعت میں اس سال وہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ نے زندگی کی روح پھونک دی ہے اور اس کا سہرا زیادہ تر وہاں کے قائد محمد سعید احمد صاحب اور ان کے چار پانچ رفقاء کے سر ہے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.گذشته سیلاب کے ایام میں نہ صرف یہ کہ غیر معمولی طور پر لاہور کی مجلس نے خدمت خلق کا کام کیا بلکہ اسے غیر معمولی طور پر پبلک میں روشناس بھی کرا دیا.اور اس لحاظ سے اس کا کام واقعی خاص طور پر تعریف کے قابل ہے.سیلاب کے ایام میں لاہور کی مجلس نے جو کام کیا ہے میں اس کی تعریف کرتا ہوں.‘، ۱۴۴ تعلیم الاسلام کالج کی ربوہ میں منتقلی تعلیم الاسلام کالج لاہور کو بھی ربوہ منتقل کر دیا گیا.۱۴۵ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کی گورنمنٹ کالج لاہور سے ریٹائر منٹ اور کراچی یونیورسٹی میں تقرری پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے پرنسپل گورنمنٹ کالج لا ہورا اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوکر

Page 579

578 عازم کراچی ہوئے وہاں آپ کو یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کا صدر مقرر کیا گیا.گورنمنٹ کالج کے طلباء ممبران سٹاف، محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران دوست احباب اور عقیدت مند حضرات کے ایک کثیر مجمع نے لا ہور ریلوے اسٹیشن پر آپ کو پُر خلوص جذبات اور دلی دعاؤں کے ساتھ الوداع کہا اور بکثرت پھولوں کے ہار پہنائے.آپ کو الوداع کہنے والوں میں ڈائریکٹر محکمہ تعلیم پنجاب پروفیسر سراج الدین صاحب گونمنٹ کالج کے نئے پرنسپل خواجہ منظور احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ فیڈرل کورٹ آف پاکستان کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مکرم قاضی محمد اسلم صاحب جن کی عمران ایام میں چون سال کی تھی.۱۹۲۱ء سے گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ وابستہ چلے آتے تھے.آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم.اے کرنے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے ایم.اے کی ڈگری حاصل کی.تعلیم و تدریس کے تئیس سالہ عرصہ میں آپ کی تو جہات فلسفہ اور نفسیات کے مضمون کو ترقی دینے کے لئے وقف رہیں.آپ ۱۹۳۹ء میں گورنمنٹ کالج کے شعبہ فلسفہ و نفسیات کے صدر مقرر ہوئے.جہاں تک کالج اور یو نیورسٹی کو فلسفہ کے میدان میں اعلی بنیا دوں پر قائم کرنا اور اسے ترقی دینے کا تعلق ہے.محترم قاضی صاحب کا اس میں بہت بڑا دخل ہے.شعبہ نفسیات کی وسعت اور اس کی موجودہ ترقی پذیر حالت جس پر ایک لاکھ سے زائد روپیہ صرف ہوا ہے تمام تر آپ ہی کی مساعی جمیلہ کی رہین ہے.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کا پنجاب یونیورسٹی سے سینئر ترین پروفیسروں اور ماہرین تعلیم میں شمار ہوتا تھا.اس عرصہ میں آپ ڈائریکٹر محکم تعلیم پنجاب اور سیکرٹری حکومت پنجاب کے عہدوں پر بھی فائز رہے.پھر ملک کے تعلیمی مسائل پر غور کرنے کے لئے مرکز نے جو تعلیمی کانفرنس طلب کی آپ نے اس میں پنجاب کے ماہرین تعلیم کے وفد کی قیات کی.آپ کے زما نہ تعلیم و تدریس میں جن طلباء نے فارغ التحصیل ہو کر زندگی میں قدم رکھا ہے ان میں سے اکثر کو قومی یونیورسٹیوں افواج کے انتخابی بورڈ اور پبلک سروس کمیشن وغیرہ میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا." یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کے خلیفتہ امسیح بن جانے کے بعد آپ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پرنسپل مقر ر ہوئے ہیں.

Page 580

579 سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا کی رخصت گزارنے کے بعدہ ایسی ۹ اکتوبر ۱۹۵۴ء محترم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈو نیشیا جو ۱۸ سال تک انڈو نیشیا میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ایک سال قبل پاکستان میں تشریف لائے تھے.۸ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو ربوہ سے عازم لاہور ہوئے.اور ۹ - اکتوبر کو چناب ایکسپرس سے کراچی روانہ ہو گئے.اسٹیشن لاہور پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری جنرل پریذیڈنٹ ربوہ اور وکالت تبشیر کے نمائندے مکرم مولوی محمود احمد صاحب شاہد کے علاوہ پانچ انڈونیشی طلباء بھی آپ کے ہمراہ تشریف لائے ہوئے تھے.اسی طرح لاہور کی جماعت میں سے بھی بہت سے احباب اسٹیشن پر موجود تھے.ربوہ کے یکصد خدام کا لاہور پہنچنا سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے یہ معلوم کر کے کہ لا ہور میں سینکڑوں سیلاب زدگان غرب محتاج امداد ہیں ۱۵ - اکتوبر ۱۹۵۴ء کو ربوہ سے یکصد خدام کا ایک قافلہ جس میں پچپن معمار ۱۴۸ بھی تھے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں لاہور بھیجا.۲۸ ان خدام نے لاہور پہنچ کر حکام شہر کے ساتھ تعاون کا ایسا بے نظیر نمو نہ دکھایا کہ مدت تک اس کی یا د قائم رہے گی.ان کے کام کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربوہ اور لاہور کے دوصد خدام نے مل کر تین دن کے اندر لاہور کے بارش زدہ علاقوں میں ۷۵ مکان از سرنو تعمیر کر دیے.خدام کے اس حیرت انگیز کارنامہ کو دیکھ کر لاہور کے لوگوں نے قائد وفد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو راستہ روک روک کر خدام کے قابل رشک نمونہ پر مبارکباد پیش کی اور پھولوں کے ہار پہنائے.۱۴۹ خدام کے اس شاندار کام پر سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الثانی نے قائد وفد کے نام ایک تار میں جو خوشنودی کا اظہار فرمایا.اس کا متن درج ذیل ہے: ربوہ کے خدام تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ بہت محنت سے کام کر رہے ہیں.مجھے امید ہے کہ آپ آئندہ اور زیادہ جذبہ اور

Page 581

580 جوش کے ساتھ کام کریں گے اور جس قدر کہ انسانی طور پر ممکن ہے آپ مخلوق خدا کی بھلائی میں پوری طرح کوشاں رہیں گے.خدا آپ لوگوں کے ساتھ ہو،۱۵۰ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ربوہ کو واپسی ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۴ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب جو ساڑھے تین ماہ قبل علاج کی غرض سے لاہور میں تشریف لائے تھے.مورخہ ۱۶ - اکتوبر ۱۹۵۴ء کو واپس ربوہ تشریف لے گئے.۱۵۱ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی لاہور میں تشریف آوری ۳۰ - اکتوبر ۱۹۵۴ء سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ۳۰ - اکتو بر ۱۹۵۴ء کو بذریعہ کا علاج کی غرض سے لا ہور تشریف لائے اور پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے حضور کی صحت کے بارے میں جو رپورٹ شائع ہوئی وہ یہ تھی : پہلے سے درد میں تو افاقہ ہے لیکن ضعف کی شکایت ہے.۱۵۲ ، حضرت امیر المومنین کا علالت کے باوجود دو گھنٹے تک بارش زدہ علاقوں کا دوره فرمانا.یکم نومبر ۱۹۵۴ء سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ نے یکم نومبر ۱۹۵۴ء کو علالت کے باوجود دو گھنٹے تک لاہور کے حسب ذیل بارش زدہ علاقوں کا دورہ فرمایا.لیاقت پارک، کشمیر روڈ وارث روڈ، کانگڑہ آبادی، فیروز پور روڈ مہاجر آباد ملتان روڈ ایک نئی بستی نز دمندر چونی لال ملتان روڈ.حضور بارش زدہ علاقوں کے دورہ پر محترم امیر جماعت جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور مکرم قائد صاحب محمد سعید احمد صاحب کے ہمراہ ساڑھے چھ بجے رتن باغ سے روانہ ہوئے سب سے پہلے حضور لیاقت پارک تشریف لے گئے اور نئے تعمیر شدہ مکانات دیکھ کر اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ مکانات سلسلہ وار پلان کے مطابق بنائے گئے ہیں.لیاقت پارک سے حضور کشمیر روڈ پہنچے.یہاں لوگوں نے بڑے شوق سے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا اور اپنے حالات بیان کئے.حضور نے فرمایا کہ اگر حکومت مہاجرین کو اس جگہ آباد کرنا مناسب نہیں خیال کرتی تو پھر ان کے لئے آج سے بہت پہلے ہی کسی متبادل جگہ کا انتظام کر دیا جاتا تا کہ یہ پکے مکانوں میں آرام سے زندگی بسر کر سکتے.اس کے

Page 582

581 بعد حضور وارث روڈ پہنچے اور نو تعمیر شدہ مکانات دیکھے.وہاں بھی لوگ استقبال کے لئے نہایت تپاک سے آگے بڑھے اور خدام کے جذبہ خدمت خلق کو سراہتے ہوئے ممنونیت کا اظہار کیا.وہاں اردگرد گندہ پانی کھڑا تھا.حضور نے فرمایا کہ اس کی صفائی کا بندوبست ہونا چاہئے.مکرم قائد صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہاں کارپوریشن کی معرفت ڈی.ڈی.ٹی چھٹڑ کوا دی گئی تھی.اس پر حضور نے مزید فرمایا کہ ایک آدھ مرتبہ دوا میں چھڑکنا بے فائدہ ہے جب تک صفائی کا مکمل انتظام نہ ہو.اس کے بعد حضور فیروز پور روڈ پر ذیلدار پارک کے قریب کانگڑہ آبادی نام کی بستی میں تشریف لے گئے.یہاں حضور نے وہ آٹھ مکان دیکھے جو پچھلے دنوں خدام نے تعمیر کئے تھے.جب لوگوں کو حضور کی آمد کا پتہ چلا تو وہ دوڑتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے.وہ سارے کے سارے مکانات کی بسرعت تعمیر پر سرتا پا تشکر بنے ہوئے تھے.ملتان روڈ پر کچے مکانوں کی مہاجر آباد نام ایک کالونی ہے.جب حضور اس بستی میں پہنچے تو لوگ بڑے اشتیاق سے حضور کے گرد جمع ہو گئے اور خدام کی امدادی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے حضور سے مصافحے کئے اور اپنی مشکلات بیان کیں.انہیں قائد صاحب خدام الاحمدیہ لا ہور نے ریلیف آفس کا پتہ دیا اور ان سے کہا کہ جب بھی ضرورت ہو وہاں آکر ملیں.اس کے بعد حضور ملتان روڈ پر ہی چونی لال سے ملحق ایک نئی بستی میں تشریف لے گئے.یہاں خدام نے ۲۶ مکان تعمیر کئے تھے جو ہر طرح مکمل حالت میں تھے.حضور نے مکرم امیر صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان لوگوں کو تھوڑا بہت سامان فراہم کرنے کے لئے کہیں تا ان کے مکانوں کے آگے پردے کی دیواریں کھینچ دی جائیں.اس ضمن میں ایک صاحب مکرم سید نیا ز علی صاحب نے جو اسلامیہ کالج لاہور سے تعلق رکھتے ہیں دخل دیتے ہوئے سستے داموں مٹی فراہم کرنے کا ذمہ لیا.مکرم امیر صاحب نے پوچھا کیا آپ بھی یہیں رہتے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو نواں کوٹ میں رہتا ہوں.آپ لوگوں کی بر وقت اور بے لوث خدمات مجھے سرکار ( حضور رضی اللہ عنہ ) کی زیارت کے لئے یہاں کھینچ لائی ہے.آپ کے خدام نے جس قدر محنت اور جانفشانی سے کام کیا ہے میں اس سے بے حد متاثر ہوا.مجھے ابھی ابھی پتہ لگا کہ آج سر کار اس علاقے میں تشریف لائے ہوئے ہیں چنانچہ میں سنتے ہی زیارت سے شرفیاب ہونے کے لئے دوڑا چلا آیا.ایک بوڑھی عورت کی درد بھری درخواست حضور ان مکانوں کے معائنہ کرنے کے بعد واپس تشریف لے جاہی رہے تھے کہ ایک بڑھیا

Page 583

582 عورت نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ اس کے لئے ایک کمرہ اور بنوایا جائے.اس نے کہا میرے لئے ایک کمرہ تو آپ کے آدمی پہلے ہی بنا چکے ہیں لیکن میری کئی جوان بیٹیاں اور بچے ہیں جن کے واسطے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے اس لئے میرے واسطے ایک کمرہ اور بنوا دیا جائے.اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس نہ اینٹیں ہیں اور نہ لکڑی اور نہ ہی مٹی وغیرہ ہے.اس نے نہایت درد بھرے انداز میں یہ درخواست کی.حضور نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مکان بنوا دیا جائے گا.چنانچہ ساتھ ہی مکرم قائد صاحب کو حضور نے ہدایت فرمائی کہ وہ اس عورت کے مکان کا Estimate آج ہی شام تک پیش کر کے اس کی تعمیر کی منظوری لے لیں.اس کے بعد حضور رضی اللہ عنہ دھوبی منڈی واقعہ پرانی انار کلی کی تنگ گلیوں میں خدام کے ہاتھوں تعمیر شدہ مکانات کا معائنہ فرمانے اور وہاں کے لوگوں کی شکایات سننے کے بعد ” رتن باغ تشریف لے آئے.۱۵۳ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی لاہور میں تشریف آوری ۲ - دسمبر ۱۹۵۴ء سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۲ - دسمبر ۱۹۵۴ء کو ایک بجے کے قریب ربوہ سے لاہور تشریف لائے محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت کی قیادت میں بہت سے مقامی دوست بھی حضور کے استقبال کے لئے رتن باغ میں جمع ہو گئے تھے صحت کے متعلق حضور نے فرمایا: دو درد کمر سفر کی وجہ سے پھر تیز ہوگئی ہے.کل ایکسرے لیا جائے گا اور ڈاکٹری مشورہ کیا جائے گا‘، ۱۵۴ حضور کی دوبارہ لاہور میں تشریف آوری ۹ - مارچ ۱۹۵۵ء مورخه ۲۶ - فروری ۱۹۵۵ ء کوحضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر جسم کے بائیں حصہ پر فالج کا حملہ ہوا.رات دو بجے کے قریب لاہور سے ڈاکٹر پیرزادہ صاحب اور ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب ربوہ تشریف لے گئے اور معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ فالج کے حملہ کا اثر بہت حد تک دور ہو چکا ہے.ان کے نزدیک فالج کے حملہ کی وجہ خون کے دباؤ کا یک دم بڑھ جانا اور دماغ کی شریانوں کا سکڑ جانا تھا جو بفضلہ تعالیٰ جلد معمول پر آ گیا.فالحمد اللہ علی ذالک

Page 584

583 جوں جوں اس حملہ کی اطلاع پاکستان اور بیرون پاکستان میں پہنچی فدایان احمدیت نے ربوہ میں آنا شروع کر دیا.بیرون پاکستان سے بھی حضور کی صحت دریافت کرنے کے لئے تاریں آنا شروع ہو گئیں.ہفتہ عشرہ تو حضور کا علاج ربوہ ہی میں جاری رہا.حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کے علاوہ لاہور اور کراچی سے بھی ماہرین فن ڈاکٹر صاحبان تشریف لاتے رہے.مگر بعد ازاں یہ ضروری سمجھا گیا کہ حضور خود لاہور تشریف لے جائیں.چنانچہ ۹ - مارچ ۱۹۵۵ء کو حضور ایک مختصر قافلہ کے ساتھ لاہور تشریف لائے.۵ ۱۴ - مارچ ۱۹۵۵ء کی اطلاع کے مطابق رات کے پہلے حصہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو قریباً اڑھائی گھنٹے اچھی نیند آ گئی.مگر اس کے بعد دورہ کی تکلیف کی وجہ سے نیند چاٹ رہی البتہ رات کے ایک بجے کے بعد پھر کچھ نیند آ گئی.مگر یہ نیند بے چینی کی وجہ سے مسلسل نہیں تھی.کچھ کمزوری بھی رہی اور نقرس کی تکالیف میں بھی کسی قدر زیادتی ہوگئی.۱۵۶ ۱۶ - مارچ ۱۹۵۵ء کو دو بجے بعد دو پہر حضور رضی اللہ عنہ مع اہل بیت و خدام لا ہور سے واپس ربوہ تشریف لے گئے.۱۵۷ بغرض علاج یورپ جانے کے لئے حضور کی لاہور میں تشریف آوری ۲۳ مارچ ۱۹۵۵ء سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ علاج کے لئے یورپ جانے کے ارادے سے مورخہ ۲۳ مارچ ۱۹۵۵ء کو لاہور میں تشریف لائے.۲۴ - مارچ کو ربوہ کے امیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اہل ربوہ کی طرف سے خیریت دریافت کرنے کیلئے حضور کی خدمت میں تار دیا.اس کے جواب میں حضور نے جو تا رد یا درج ذیل ہے." آپ کی تار پہنچی.میں خدا کے فضل سے پہلے سے بہتر ہوں.احباب کا شکر یہ ادا کریں.اور انہیں میر اسلام پہنچا دیں.میں نے یہاں لاہور میں ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ہے اور ان کے مشورے اور بعض دوستوں کی خواہش پر دو دن کے لئے کراچی کی طرف روانگی ملتوی کر دی ہے.خلیفہ المسیح ، ۱۵۸۰

Page 585

584 حضرت خلیفتہ امسیح کی کراچی کور وانگی ۲۶ - مارچ ۱۹۵۵ء حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ ۲۶ - مارچ ۱۹۵۵ء کو عازم کراچی ہوئے اور ۲۷ - مارچ کی صبح کو بخیر و عافیت کراچی پہنچ گئے.9 محترم مولوی نذیر احمد علی صاحب کی وفات پر جماعت احمد یہ لاہور کی طرف سے قرار داد تعزیت حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ جو ۱۹- مئی ۱۹۵۵ء کو ایک لمبی بیماری کے بعد سیرالیون ( مغربی افریقہ ) میں فریضہ تبلیغ بجالاتے ہوئے وفات پاگئے تھے.اناللہ وانا اليه راجعون.ان کی وفات پر ۲۷ - مئی ۱۹۵۵ء کو نماز جمعہ سے قبل محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کی تحریک پر جماعت احمد یہ لاہور نے قرارداد تعزیت پاس کی جس میں آپ کی وفات پر دلی رنج والم کا اظہار کیا گیا اور آپ کی شاندار اسلامی خدمات کے باعث خراج تحسین ادا کیا گیا اور دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح پر سلامتی نازل کرے اور آپ کے درجات بلند فرمائے.نیز پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے.۱۶۰ - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی لاہور میں تشریف آوری ۱۰ جون ۱۹۵۵ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب جو حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے بعد ربوہ کے امیر تھے علاج کی غرض سے مورخہ ۱۰ - جون ۱۹۵۵ء کو لا ہور تشریف لائے اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ کو اپنا قائم مقام امیر مقرر فرمایا.حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کی وفات ۳ - جولائی ۱۹۵۵ء حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب بٹالہ کے رہنے والے تھے.والد محترم کا اسم گرامی شیخ نوراحمد صاحب تھا.آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں ۲۷ - دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں شریک ہونے والے احباب میں آپ کا نام ۱۴۷ نمبر پر درج ہے.اس جلسہ میں آپ کے والد محترم بھی ساتھ تھے.جلسہ سالانہ کے بعد جب یہ حضور سے رخصت ہونے لگے تو حضور نے از راہ شفقت ایک ٹوکری خطائیوں کی

Page 586

585 اور ایک ٹوکری جلیبیوں کی ساتھ کر دی اور فرمایا کہ بچے کے لئے ہے راستہ میں کھالے گا.ایک دفعہ شیخ نور احمد صاحب بیمار ہو گئے.حضرت مولوی صاحب سے علاج کیلئے قادیان گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کی.اللہ نے شفادی آپ نے اگر چہ بیعت نہ کی مگر مخالفت بھی کبھی نہیں کی.حضرت حکیم فضل حق صاحب کی بیعت پر بھی اعتراض نہ کیا بلکہ ہمیشہ بیٹے کی عزت کرتے رہے.شیخ نور احمد صاحب نے اپنی وفات سے پہلے ایک بیٹی کی نسبت بٹالہ کے ایک معزز غیر احمدی خاندان میں کی ہوئی تھی.ان کی وفات کے بعد حکیم فضل حق صاحب نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اب اپنی بہن کا ولی میں ہوں اس لئے اس کا رشتہ احمدیوں کے ہاں کروں گا.چنانچہ وہی لڑکی پھر محترم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کے ساتھ بیاہی گئی.اسی قسم کا واقعہ حکیم صاحب کی بڑی لڑکی کے متعلق بھی ہوا.حکیم صاحب کے غیر احمدی خسر نے ایک معزز غیر احمدی خاندان میں اس کے رشتہ کے لئے سلسلہ جنبانی شروع کر رکھا تھا.اس کا رشتہ بھی حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کے ایماء پر آپ نے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ کے ساتھ کر دیا.مرحوم پر وفات سے ایک ہفتہ قبل یک لخت فالج کا حملہ ہوا.جو جان لیوا ثابت ہوا.انا للہ و انا اليه راجعون.لعش ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی.۱۶۲ عزیزہ عائشہ صادقہ کا اعلان نکاح ۲۹ - دسمبر ۱۹۵۵ء مورخہ ۲۹ - دسمبر ۱۹۵۵ء کو خاکسار (مؤلف کتاب ہذا) کی بچی عزیزہ عائشہ صادقہ کا نکاح حضرت سیدنا امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار روپیہ مہر پر عزیزم خالد ہدایت صاحب بھٹی بی.اے حال مینیجر نیشنل بنک گجرات ابن محترم قاضی عطاء اللہ صاحب مرحوم سکنہ لا ہور کے ساتھ پڑھا.۱۳ حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب کا آپریشن.۱۶ - مارچ ۱۹۵۶ء حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیمار تھے.کرنل ڈاکٹر ملک بشیر احمد صاحب ڈائریکٹر

Page 587

586 آف پبلک ہیلتھ مغربی پاکستان نے پتہ کا آپریشن تجویز کیا.چنانچہ ۱۶- مارچ ۱۹۵۶ء کو میوہسپتال لاہور کے حصہ موسومہ البرٹ وکٹر ہسپتال میں ڈاکٹر امیر الدین صاحب سینیئر سرجن نے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کے پستہ کا آپریشن کیا اور سارا پتہ معہ پتھری کے نکال دیا.آپریشن خدا کے فضل سے کامیاب ہوا.آپریشن کے بعد ڈاکٹر امیر الدین صاحب نے بتایا کہ پتہ میں پیپ پڑ چکی تھی اور اگر آپریشن میں مزید تاخیر کی جاتی تو خطرہ کی صورت پیدا ہو جاتی.پتھری بھی کافی بڑی ہو چکی تھی.آپریشن کے وقت ڈاکٹر امیر الدین صاحب اور ان کے نائبین کے علاوہ ڈاکٹر غلام بھیک صاحب سول سرجن لا ہور اور ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب اور ڈاکٹر ملک عبدالحق صاحب اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی موجود تھے.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب' چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ، میاں غلام محمد صاحب اختر اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے افراد اور بہت سے دیگر احمدی احباب ہسپتال پہنچے ہوئے تھے.آپریشن کے بعد صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو بے ہوشی کی حالت میں سٹریچر پر ڈال کر ان کے کمرہ میں لایا گیا جہاں قریباً دو گھنٹہ بعد انہیں ہوش آیا.مگر شام تک طبیعت کافی کمزور رہی اور آپریشن کے مقام پر درد بھی محسوس ہوتی رہی اور تین چار دفعہ قے بھی ہوئی مگر عام حالت خدا کے فضل سے تسلی بخش رہی.۱۶۴ حضرت اقدس کی لاہور میں تشریف آوری ۲ اپریل ۱۹۵۶ء ۲ اپریل ۱۹۵۶ء کو حضرت اقدس امیر المومنین لاہور پہنچے.شوری کے کام کی وجہ سے حضور کو کوفت تھی.راستہ میں بھی اور لاہور پہنچ کر بھی طبیعت مضحل رہی.ظہر وعصر کی نماز میں حضور نے جمع کر کے پڑھائیں اور اس کے بعد کافی دیر تک خدام میں رونق افروز رہے.قریباً چھ بجے شام حضور مکرم محترم نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.بعد نماز مغرب سوا سات بجے حضور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی صاحبزادی کے رخصتانہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے.

Page 588

587 ۳- اپریل کو ایک حکیم صاحب اور ڈاکٹر کرنل الہی بخش صاحب نے حضور کا طبی معائنہ کر کے مشورہ دیا کہ خدا کے فضل سے حضور کو کوئی بیماری نہیں.مگر کام کی زیادتی اور آرام کی کمی کی وجہ سے جسم میں کمزوری ہے.انہوں نے حضور کی خدمت میں اصرار سے عرض کیا کہ حضور جہاں تک ہو سکے بہت آرام فرما ئیں.۱۶۵ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی شفایابی.11 مئی ۱۹۵۶ء حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس جو کئی ماہ سے میوہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں زیر علاج تھے.مورخہ 11 مئی ۱۹۵۶ء کو شفا یاب ہو کر واپس ربوہ پہنچ گئے.الحمد للہ ) حکومت چین سے تبلیغ اسلام کو روکنے پر قرارداد مورخہ ۱۸ مئی ۱۹۵۶ء کو نماز جمعہ کے معاً بعد جماعت احمدیہ لاہور کا ایک اجلاس محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور کی صدارت میں ہوا.جس میں باتفاق رائے یہ ریز و لیوشن پاس کیا گیا کہ ا.حکومت سپین نے اسلام کی تبلیغ روکنے کیلئے جو قدم اٹھایا ہے وہاں کے مبلغ اسلام کو اسلام کی تبلیغ کرنے سے منع کر دیا ہے اور بصورت دیگر انہیں سپین سے نکلنے کا حکم دے دیا ہے ) جماعت احمد یہ کے نزدیک حکومت سپین کا یہ اقدام آزادی ضمیر کے بالکل خلاف ہے.لہذا جماعت احمد یہ لا ہور حکومت پاکستان کی خدمت میں پر زور درخواست کرتی ہے کہ وہ حکومت سپین کے پاس اس کی اس حرکت کے خلاف پر زور احتجاج کرے اور اسے اطلاع دے دے کہ اگر اس نے اس نا واجب حکم کو واپس نہ لیا تو حکومت پاکستان بھی عیسائی مبلغین کو پاکستان میں تبلیغ کرنے سے روکنے پر مجبور ہو جائے گی.۲- نیز حکومت پاکستان حکومت انگلستان و امریکہ اور دوسری عیسائی حکومتوں سے بھی مطالبہ کرے کہ وہ حکومت سپین پر زور ڈال کر یہ حکم منسوخ کروائیں.ورنہ حکومت پاکستان بھی مسلمانوں کے جذبات کی خاطر پاکستان میں عیسائیت کی تبلیغ روکنے پر مجبور ہوگی.۱۶۷ حضرت مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا کی علالت حضرت مولوی رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا جوکئی ماہ میوہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں

Page 589

588 زیر علاج رہے تھے اور گو گھر واپس تشریف لے گئے تھے.مگر ابھی مکمل شفا حاصل نہیں ہوئی تھی.ان کے متعلق ڈاکٹر صاحبان نے بتایا کہ گردے میں پتھری ہے.لہذا ایک بڑا آپریشن کرانا ضروری ہے.محترم مولوی صاحب کافی عرصہ بیمار ر ہے.کبھی گھر پر اور کبھی ہسپتال میں علاج ہوتا رہا.مگر اگست ۱۹۵۸ء میں صحت بہت گر گئی.حتی کہ ۳۱ - اگست ۱۹۵۸ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.فتند منافقین و مخرجین ۱۹۵۶ء حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اولاد ایک عرصہ سے غیر مبائعین اور سلسلہ عالیہ احمد یہ کے غیر احمدی دشمنوں کے ساتھ ساز باز رکھتی تھی جس کا مفصل ذکر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر میں موجود ہے.اس تقریر میں بعض مخلص احمد یوں کی شہادتوں سے ظاہر ہے کہ انہوں نے چند نو جوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر یہ منصوبہ بنایا تھا کہ (نعوذ بالله من ذالک ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات کے بعد وہ میاں عبدالمنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.چنانچہ محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی بیدار مغزی اور دینی غیرت کی وجہ سے فتنہ پردازوں کا یہ راز افشا ہو گیا.انہوں نے فوراً ضروری شہادتیں حاصل کر کے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھجوا دیں اور جماعت احمد یہ لاہور کے ایک عام اجلاس میں منافقین کے اس گروہ سے بیزاری کا اعلان کیا اور ایک قرار داد پاس کروائی جس کی رو سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ سفارش کی گئی کہ ان منافقین و مخرجین کو جماعت احمد یہ لاہور کے افراد تسلیم نہ کیا جائے.جماعت لاہور کی یہ سفارش صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے اجلاس مورخہ ۲۰- اکتوبر ۱۹۵۶ء میں منظور کی گئی.ان افراد نے ایک پارٹی بنائی تھی جس کا نام انہوں نے ”حقیقت پسند پارٹی رکھا تھا.اس پارٹی نے ان دنوں اپنے خبث باطنی و گند کو بہت اچھالا تھا اور جماعت کے خلاف بڑی شرارتیں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو خائب و خاسر کیا.اب وہ گروہ کالعدم ہو چکا ہے.محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی وفات.۳۱ - دسمبر ۱۹۵۷ء محترم ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی ایل.ایل.بی سلسلہ احمدیہ کے ایک پُر جوش اور

Page 590

589 کامیاب مناظر و مقرر تھے.غیر احمدی و غیر مسلم علماء سے متعدد مناظرات کئے.اور اس میدان میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مقام اور رعب عطا فر مایا تھا کہ بڑے بڑے نامی مخالف مناظر میدان مناظرہ میں آپ کے مقابل پر آنے سے خم کھاتے تھے.محترم خادم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و تقریر کا خاص ملکہ ودیعت کیا تھا اور آپ نے عمر بھر اپنی خدا داد صلاحیتوں کو سلسلہ کی خدمت کیلئے وقف رکھا.تبلیغی میدان میں آپ کی مرتب کردہ تبلیغی پاکٹ بک آپ کا ایک زندہ جاوید کارنامہ ہے.غیر مبائعین کے لئے آپ لاریب بطل جلیل تھے.اور عمر بھر اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے سینہ سپر رہے.۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کے سلسلہ میں تحقیقاتی عدالت میں آپ نے جماعت کی خاص خدمات سرانجام دیں.سلسلہ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور مسلسل خدمات کی بناء پر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو ” خالد کے خطاب سے نوازا تھا.خادم صاحب مرحوم ایک عرصہ سے بیمار تھے مگر اوائل دسمبر ۱۹۵۷ء سے طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی حتی کہ جلسہ سالانہ سے دور روز قبل جب خاکسار ملنے کے لئے ہسپتال میں گیا تو آپ ہشاش بشاش تھے اور امید رکھتے تھے کہ وہ جلسہ سالانہ میں بھی شمولیت اختیار کر سکیں گے.مگر دوسرے ہی دن بیماری نے پیچیدہ صورت اختیار کر لی اور ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ء کو آپ اچانک دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے حتی کہ اسی روز اڑھائی بجے بعد دو پہر مولی حقیقی سے جاملے اور ہمارا یہ محبوب بھائی ہم سب کو سوگوار وحزیں بنا کر داغ مفارقت دے گیا.انا لله و انا اليه راجعون.آپ سالہا سال تک ضلع گجرات کی احمدی جماعتوں کے امیر رہے.آپ کو یکم جنوری ۱۹۵۸ء کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی روٹری کلب میں تقریرے.جنوری ۱۹۵۸ء محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جب بھی مرکز ربوہ میں تشریف لاتے ہیں.اہل لا ہور کو بھی عموماً اپنے خطابات سے نوازنے کا شرف عطا فرماتے ہیں.۷.جنوری ۱۹۵۸ء کو آپ نے روٹری کلب میں تقریر کرتے ہوئے بے غرضانہ خدمت کا جذبہ پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا.آپ نے فرمایا.اگر روٹری کلب کے ممبران اس مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کر لیں تو زندگی زیادہ

Page 591

590 محفوظ، دلکش، پُر مسرت اور خوشگوار بن سکتی ہے.۱۶۹ عالمی عدالت کا طریق کار اسی طرح 9 جنوری کی سہ پہر کو آپ نے لاہور کے وکلاء کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا.یہ بین الاقوامی عدالت اقوام متحدہ کا عدالتی ادارہ ہے.اس ادارہ کو اپنے فیصلوں کی تعمیل کرانے کا اختیار نہیں.آپ نے فرمایا تاہم اقوام متحدہ کی حفاظتی کونسل اس عدالت کے لئے ایگزیکٹو ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے.اس لئے متعلقہ ممالک کے بارہ میں عدالتی فیصلوں کی پابندی کرانا حفاظتی کونسل کا کام ہے.۱۷۰ ربوہ کی یادگاری مسجد کے لئے جماعت لاہور کا چندہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ربوہ کی یادگاری مسجد کیلئے چندہ کی تحریک فرمائی.یہ تحریک جب اخبار " الفضل میں شائع ہوئی تو اگلے روز جمعہ کے خطبہ میں محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور نے احباب جماعت کو اس چندہ میں حصہ لینے کی پُر زور تحریک فرمائی.الحمد للہ کہ جماعت لاہور نے دو دن کے اندراندر پندرہ سو روپیہ ربوہ میں بھجوا دیا.الفضل میں جماعت لاہور کی اس قربانی کو دوسری جماعتوں کیلئے قابل تقلید قرار دیا گیا.اگلے حضرت سیدہ ام مظفر احمد کی بیماری اور لاہور میں تشریف آوری.۱۱- اگست ۱۹۵۸ء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ڈاکٹری مشورہ کے مطابق حضرت سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کو لے کر علاج کی غرض سے ۱۱ اگست ۱۹۵۸ء کو لاہور میں تشریف لائے.اور میوہسپتال کے مشہور سرجن ڈاکٹر امیر الدین صاحب سے علاج شروع کر وا دیا.۲ کلے مجالس خدام الاحمدیہ ڈویژن کی تربیتی کلاس - ۱۴ - اگست تا ۲۱ - اگست ۱۹۵۸ء لاہور ڈویژن کے خدام میں دینی شغف کام کرنے کا جذبہ اور سلسلہ کے اہم مسائل سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے زیر اہتمام ۱۴.اگست سے لیکر ۲۱ - اگست ۱۹۵۸ء تک مسجد احمد یہ دہلی دروازہ میں ایک تربیتی کلاس منعقد کی گئی جس میں مقامی عہدیداروں کے علاوہ مرکزی نمائندگان نے بھی خدام کو خطاب فرمایا.

Page 592

591 محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور کی جماعتی چندوں کے بارہ میں کوششیں محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ لا ہور نے جماعتی چندوں کے بارہ میں اضافہ کی جو کوششیں کیں ان کا اندازہ ذیل کے چند سالوں کے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے.سال چندہ عام چنده جلسه سالانه ٦١ - ١٩٦٠ء ۶۵ - ۱۹۶۴ء ١٦,٣٩١ ۱,۹۴ ,۹۲۱ ۲۳ ,۱۲۱ ۲,۲۱,۴۱۵ ۲۴,۵۵۲ علاوہ ازیں تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کے بارہ میں بھی آپ ہمیشہ احباب جماعت کو زیادہ سے زیادہ قربانیوں کی تحریک کرتے رہتے ہیں.چنانچہ وکیل المال صاحب تحریک جدید لکھتے ہیں : محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب وعده جات تحریک جدید کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں: خطبہ جمعہ مورخہ ۱۹۶۰-۱۱-۱۸ میں احباب جماعت کو تاکید کر دی گئی کہ وہ تحریک جدید کے فنڈ ز کو مظبوط بنائیں.اس سال تحریک جدید کے وعدوں کو پچاس ہزار تک پہنچانے کی انتہائی جد و جہد کریں“ گذشتہ سال اس جماعت کی طرف سے قریباً چونتیس ہزار روپیہ کے وعدے تھے.اس سال سولہ ہزار روپیہ کا اضافہ کرنے کا عزم کوئی معمولی امر نہیں.خصوصاً اس حالت میں کہ یہ جماعت دارالذکر کے نام سے ایک وسیع وعریض مسجد بنانے میں بھی مصروف ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہر ایک نیک ارادے میں کامیاب فرمائے.آمین محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی علالت ۱۴ - دسمبر ۱۹۶۰ء محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور جو جماعت کے ایک نہایت ہی

Page 593

592 قیمتی وجود ہیں اور سلسلہ کی خاطر جان، مال اور عزت ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہتے ہیں.مورخہ ۱۴ - دسمبر ۱۹۶۰ء کو بوقت آٹھ بجے صبح اچانک فالج کے حملہ کی وجہ سے بیمار ہو گئے.فالج کا حملہ بائیں جانب ہوا جس کا اثر آج جبکہ اس حملہ پر قریباً ساڑھے پانچ سال گذر چکے ہیں برابر چلا آ رہا ہے.مگر آفرین ہے اس انسان پر کہ بیماری کے ایام میں بھی خدمت دین کو ایک نعمت عظمی سمجھا.بیماری کے کچھ عرصہ بعد جب بھی بدن میں ذرا ہمت پیدا ہوئی وکالت تو چھوڑ دی مگر خدمات سلسلہ کو اپنی خوراک سمجھ کر اس میں منہمک رہے.اس بیماری کے حملہ کی وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کے لئے جو قافلہ پاکستان سے قادیان جانے والا تھا آپ کو اس کا امیر مقرر کیا گیا تھا اس قافلہ کی تیاری کیلئے آپ برابر دو دن تک شب روز مصروف رہے اور در حقیقت آپ کی یہ مصروفیت صرف دو دن سے نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے ہائیکورٹ کی طرف سے مقدمات کے فیصلوں پر مشتمل جو رسالہ نکلتا ہے اس کے چونکہ آپ ایڈیٹر تھے اس لئے متواتر کئی دن اس رسالہ کے لئے محنت شاقہ کرنا پڑی.کچھ مقدمات بھی ان ایام میں زیادہ تھے.جن کی تیاری میں کافی کام کرنا پڑا.اس پے در پے محنت اور مشقت کو آپ کا جسم برداشت نہ کر سکا اور آپ مین قافلہ قادیان کی روانگی کے دن فالج کے حملہ کا شکار ہو گئے.یہ حملہ ۳۲- ایلگن روڈ لاہور چھاؤنی والی کوٹھی میں ہوا جو آپ نے ابھی نئی نئی خریدی تھی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.اور آپ پہلے کی طرح مردانہ وار خدمات دینیہ میں مصروف نظر آ ئیں.آمین حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام خدام الاحمدیہ لاہور کے نام 1941ء میں مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک لائحہ عمل مرتب کر کے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں بغرض ملاحظہ وراہنمائی پیش کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بعد ملا حظہ مجلس خدام الاحمدیہ کو وارشاد فرمایا وہ چونکہ زریں نصائح پر مشتمل ہے.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں درج کیا جاوے.آپ فرماتے ہیں : میں نے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کا لائحہ عمل اور طریق کار سرسری نظر سے دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے لاہور کے خدام کو اپنی رضا کے ماتحت بہترین خدمت

Page 594

593 دین کی توفیق دے اور انہیں روح القدس کی نصرت سے نوازے.آمین یا ارحم الراحمین.یا درکھنا چاہئے کہ لائحہ عمل تجویز کرنا بے شک ضروری ہے اور مفید ہے.اس کے ذریعہ انسان کی خدمت اور اس کی طریق کار کا دائرہ معین صورت اختیار کر لیتا ہے.اور وہ ادھر ادھر بھٹکنے سے بچ جاتا ہے اور اس کی توجہ ایک خاص نقطہ پر مرکوز ہو کر بہترین نتائج پیدا کرتی ہے.لیکن لائحہ عمل سے بھی زیادہ اہم کام کرنے والوں کی صلاحیت اور اہلیت کا سوال ہے.بہتر سے بہتر لائحہ عمل خراب کام کرنے والوں کے ذریعہ نا کام ہوسکتا ہے.اور یا د رکھنا چاہئے کہ اچھے کارکنوں میں پانچ بنیادی اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے.اول محنت کی عادت، دوم مستقل مزاجی، سوم اخلاص، چہارم قربانی اور پنجم دیانتداری کا جذبہ.وو یہ پانچ باتیں تو دنیا کے میدان سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان سے بھی بڑھ کر خدائی جماعتوں کے لئے تقویٰ اور للہیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے.تقویٰ دینداری اور عمل صالح کی روح کا نام ہے اور للہیت سے مراد ہے کہ ہر کام میں خدا کی رضا مقصود ہو.اگر ا چھے لائحہ عمل کے ساتھ کام کرنے والوں میں یہ باتیں پیدا ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کی کامیابی اور ترقی میں روک نہیں بن سکتی.پس اس کی طرف خاص بلکہ خاص الخاص توجہ کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ نئی پود یعنی اطفال کی تربیت کا سوال نہایت اہم ہے کیونکہ اطفال کا وجود خدام کے لئے نرسری کی حیثیت رکھتا ہے اور اچھی نرسری کے بغیر کبھی بھی اچھا باغ تیار نہیں ہوسکتا.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے.کہ چھوٹی عمر کے بچوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور ان کے اندر محنت اور دیانت داری اور راست گفتاری اور خلیفہ وقت اور مرکز کے ساتھ محبت کا جذبہ پیدا کریں.یہ وہ اٹھتے ہوئے پودے ہیں.جنہوں نے کل کو شمر دار درخت بننا ہے اور قوموں کی رفتار ترقی کو بچوں کی صحیح دیکھ بھال کے بغیر برقرار نہیں رکھا جاسکتا.باقی رہا موجودہ لائحہ عمل کا سوال.سو کام شروع کرنے کی غرض سے وہ مناسب ہے.آگے چل کر عملی تجربہ کے نتیجہ میں اس لائحہ عمل میں مزید اصلاح اور توسیع کا رستہ کھلتا چلا

Page 595

594 جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور آپ ایسی خدمت کی توفیق پائیں جو بعد میں آنے والوں کے لئے اسوہ حسنہ ہو“.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ.یکم فروری ۱۹۶۱ء محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب بیج ہائیکورٹ لاہور کی سیرالیون کے جشن آزادی میں شرکت محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ مغربی پاکستان جو کچھ عرصہ کیلئے ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے تھے اس دوران میں سیرالیون مغربی افریقہ کے جشن آزادی میں شرکت کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے نمائندہ کے طور پر تشریف لے گئے.۲۷ - اپریل ۱۹۶۱ء کو ملک بھر میں آزادی کا جشن انتہائی خوشی اور مسرت کے عالم میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا گیا.اس موقعہ پر جشن آزادی میں شرکت کرنے والے متعد دمند و بین، اعلیٰ حکام اور مسلم زعماء تبادلہ افکار کے دوران محترم شیخ صاحب موصوف کے بلند پایہ اور عالمانہ خیالات سے بیحد متاثر ہوئے.چیف جسٹس سیرالیون نے محترم جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب اور بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے دیگر جج صاحبان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا.اخبارات نے محترم شیخ صاحب موصوف کی تشریف آوری اور جشن آزادی میں شرکت کے متعلق نمایاں طور پر خبریں شائع کیں.نیز ریڈیو پر آپ کا انٹر ویو اور پیغام نشر ہوا.احمد یہ مشن سیرالیون نے محترم شیخ صاحب کے اعزاز میں فری ٹاؤن اور ” بو میں وسیع پیمانے پر استقبالیہ تقاریب کا اہتمام کیا.شیخ صاحب کا حج بیت اللہ اس سفر سے واپسی پر محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے بیت اللہ کا حج کیا.آپ یوم الحج سے قبل ۲۰ - مئی کو جدہ پہنچ گئے تھے.

Page 596

595 محترم مولانا عبدالغفور صاحب فاضل کی وفات -۴- جنوری ۱۹۶۱ء افسوس کہ مولانا عبدالغفور صاحب فاضل مربی سلسلہ عالیہ احمد یہ جنہوں نے چند سال لاہور میں رہ کر بحیثیت مبلغ سلسلہ عالیہ کی شاندار خدمات سرانجام دی تھیں.مورخہ ۴.جنوری ۱۹۶۱ء بوقت پونے چار بجے سہ پہر قریباً ۶ سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون.مرحوم ہر سیاں ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.والد محترم کا نام حضرت میاں فضل محمد صاحب تھا.باپ بیٹا دونوں صحابی تھے.آپ ابھی بچہ ہی تھے کہ آپ کے والد محترم نے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر کے خدمت اسلام کے لئے وقف کر دیا تھا.چنانچہ آپ نے مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی.آپ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی زیر نگرانی و زیر تربیت تیار ہونے والے مبلغین کے اولین گروپ میں سے تھے.بحیثیت مبلغ و مربی آپ نے ۳۲ سال شاندار خدمات سرانجام دیں.۶۰ سال کی عمر میں صدر انجمن سے ریٹائر ہونے کے بعد تحریک جدید میں اپنے آپ کو پیش کر دیا.مگر ابھی ایک سال ہی کام کیا تھا کہ داعی اجل کو لبیک کہا.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.۴ کلے جماعت احمدیہ کے ذریعہ تبلیغ اسلام اکناف عالم میں ۳ مارچ ۱۹۶۳ء بروز اتوار جماعت احمد یہ لاہور کے زیر اہتمام وائی.ایم سی.اے ہال میں ایک جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں مشرقی افریقہ مغربی افریقہ اور ماریشس کے بعض احمدی طلباء اور علماء سلسلہ نے مشرق و مغرب میں جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی مساعی پر تقاریر کرتے ہوئے اس امر کو واضح کیا کہ آج حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کردہ علم کلام کے نتیجہ میں اسلام دنیا بھر میں غالب آ رہا ہے.جلسہ میں صدارت کے فرائض محترم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے نے ادا فرمائے.مقررین میں محترم علامہ جلال الدین صاحب شمس، مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیویا، مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب آف ماریشس، مکرم یوسف عثمان صاحب طالب علم افرین مکرم سید داؤ د احمد صاحب آف سیرالیون کے نام قابل ذکر ہیں.۱۷۵ محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء امیر جماعت احمد یہ لاہور کی شخصیت محتاج

Page 597

596 تعارف نہیں.آپ کے والد محترم حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے مشہور رئیس، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخلص اور جانثار صحابی تھے.آپ کے برادران اکبر حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ کراچی کے کارناموں سے ساری جماعت خوب واقف ہے.ایک بھائی آپ کے محترم چوہدری شکر اللہ خاں صاحب تھے.وہ بھی احمدیت کے لئے بڑی غیرت رکھتے تھے.آپ کی والدہ محترمہ بھی صحابیہ تھیں.بڑی متوکلۂ غیور اور صابرہ خاتون تھیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ” میری والدہ کے نام سے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے.محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیمار ہونے سے قبل مضبوط جسم رکھتے تھے.سلسلہ کے لئے بڑی غیرت رکھتے ہیں.افسوس کہ کثرت کار اور تفکرات کی وجہ سے چند سال سے آپ فالج کے حملہ کی وجہ سے بیمار پڑ گئے مگر جب بھی ذرا طبیعت سنبھلی خدمت دین میں مصروف ہو گئے.آج کل آپ کی صحت کمزور ہے.گذشتہ جلسہ سالانہ پر دل کی تکلیف ہو گئی تھی.اس وقت سے طبیعت بحال نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے تا آپ پھر عزم و جزم کے ساتھ حسب سابق خدمات سلسلہ میں مصروف ہو جائیں.آمین نظام سلسلہ کے ساتھ وابستگی چوہدری صاحب قابل رشک خوبیوں کے حامل ہیں.منجملہ ان خوبیوں کے ایک وصف اطاعت امام ہے.حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح کی طرف سے اگر کوئی حکم آ جائے تو آپ اس کی تعمیل کے لئے اس وقت تک بے تاب نظر آتے ہیں جب تک کہ اس پر پوری طرح عمل نہ ہو جائے.پھر حضور کی شان تو بہت بلند ہے اگر کسی نظارت بلکہ نظارت کے کسی کارکن کی طرف سے بھی کوئی ہدایت موصول ہو تو آپ اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں.مجھے بعض مرکزی کارکنوں نے بتایا کہ اگر آپ غلط فہمی کی بنا پر کوئی بات واقعات کے خلاف کہہ دیتے ہیں تو اصل واقعہ کا علم ہونے پر اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک متعلقہ کا رکن سے اس سے معاملہ میں معذرت نہ کر لیں.اطاعت امیر ایک خوبی چوہدری صاحب محترم میں میں نے یہ دیکھی ہے کہ جس امیر کے ماتحت بھی آپ کو کام

Page 598

597 کرنے کا موقعہ ملا ہے.آپ نے اس کی کامل اطاعت کی ہے.چند سال کی بات ہے آپ کی کوٹھی واقعہ ۳۲ - ایلگن روڈ لاہور چھاؤنی میں کارکنان لاہور کی ایک میٹنگ تھی اس میں آپ نے ایک واقعہ بیان فرمایا جس کا مجھ پر اب تک گہرا اثر ہے.آپ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ جبکہ قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے جماعت لاہور کے امیر تھے.میں کار کے لئے پٹرول لینے پٹرول پمپ پر جا رہا تھا کہ رستہ میں مجھے جماعت کا ایک کارکن ملا جس نے ہاتھ کے اشارہ سے مجھے روکا.میں نے کار کھڑی کر لی اور اسے کہا فرمائیے کیا ارشاد ہے؟ اس نے مجھے جماعت کے بعض افراد کی ایک لسٹ دکھائی جس میں میرا نام بھی تھا.ابتداء میں محترم امیر صاحب کا یہ ارشاد درج تھا.کہ کسی ضروری کام کے لئے تین صد روپیہ کی ضرورت ہے.ذیل کے احباب دس دس روپے حامل رقعہ ہذا کو دے دیں.آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت میری جیب میں صرف دس روپے کا ایک نوٹ تھا وہ میں نے فوراً نکال کر پیش کر دیا.اب حیران تھا کہ پٹرول کے لئے تو پیسے رہے نہیں، کیا بنے گا؟ ابھی پٹرول پمپ پر پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھے تین سو روپے دے کر کہا کہ آپ کی فیس میں سے یہ روپیہ باقی تھا.آپ لے لیں.میں نے روپیہ لے لیا.اس کا نام نوٹ کیا اور واپس دفتر پہنچا.اس زمانے میں بڑے بھائی محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی پریکٹس کیا کرتے تھے.میں نے اپنے منشی سے دریافت کیا کہ اس نام کے کسی شخص کے ذمہ میری یا بڑے بھائی کی فیس کا کوئی روپیہ باقی ہے؟ اس نے رجسٹر دیکھ کر کہا کہ اس نام کا تو کوئی شخص کبھی کوئی مقدمہ ہمارے پاس لے کر آیا ہی نہیں.اس پر میں نے سمجھا کہ یہ رو پیران دس روپوں کے بدلہ میں ایک انعام ہے جو جناب الہی کی طرف سے عطا ہوا ہے.محترم قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نے بیان کیا کہ محترم چوہدری صاحب کی بیماری کے بعد ایک مرتبہ قافلہ قادیان کا امیر میں تھا.محترم چوہدری صاحب بھی اس قافلہ میں شامل تھے.جب ہم پاکستان کی سرحد عبور کر کے ہندوستان کی سرحد پر پہنچے تو ایک شخص نے ایک دکان سے چائے پی.محترم چوہدری صاحب نے مجھے توجہ دلائی کی امیر صاحب! دیکھئے اس شخص نے نظام کی خلاف ورزی کی ہے اس سے باز پرس کیجئے.میں خاموش رہا.اتنے میں ایک اور شخص نے بھی ایسا ہی کیا.اس پر کسی دوسرے شخص نے مجھے توجہ دلائی مگر میں پھر بھی خاموش رہا.میری اس خاموشی کو دیکھ کر اس دوسرے شخص نے محترم چوہدری صاحب کو کہا کہ دیکھئے چوہدری صاحب امیر صاحب نے نہ آپ کی شکایت کی پروا

Page 599

598 کی ہے اور نہ میری شکایت پر کان دھرا ہے.جو نہی اس نے یہ بات کہی.چوہدری صاحب کو جوش آ گیا اور آر پ نے اسے سخت ناراضگی کے لہجہ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا.دیکھو وہ امیر ہیں اور دوصد افراد کے قافلہ پر ان کی نگاہ ہے.میرا اور آپ کا کام صرف توجہ دلانا ہے.اگر وہ ہماری بات پر توجہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے تو ہمیں شکایت کا کوئی حق نہیں.ہمارا فرض صرف توجہ دلانا تھا جو ہم نے دلا دی.میں چوہدری صاحب کی یہ بات سن رہا تھا جس کا اب تک مجھ پر اثر ہے.حقیقت میں ایسے ہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے جماعت کا نظام مستحکم رہ سکتا ہے.ایک مرتبہ خاکسار مؤلف کو ایک جماعت میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں امارت بدل چکی تھی.اور سابق امیر اور اس کے ایک دو ساتھی نئے امیر کی پوری طرح اطاعت نہیں کرتے تھے.گویا وہ سمجھتے تھے کہ امارت ہمارا پیدائشی حق ہے جو کسی اور کو دے دیا گیا ہے.محترم چوہدری صاحب بھی وہاں تشریف فرما تھے.آپ نے سابق امیر اور اسکے ساتھیوں کو کہا کہ دیکھو ایک لمبا عرصہ آپ نے یہاں امارت کی ہے اب خدا تعالیٰ تمہیں ماتحت رکھ کر آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنے امیر کی کیسے اطاعت کرتے ہو؟ اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ جس طرح یہ پسند کرتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں لوگ آپ کی اطاعت کریں اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کا عمل اس پر شاہد ہے کہ اگر آپ پر کوئی اور امیر مقرر کیا جائے تو آپ اس کی اطاعت میں خوشی اور انبساط محسوس کرتے ہیں.آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ مسجد دارالذکر جیسی عظیم الشان مسجد کی تعمیر ہے.حقیت پسند پارٹی کے فتنہ کو کچل کر رکھ دینا بھی آپ کا ایک کارنامہ ہے.جناب چوہدری صاحب کا کام کشمیر کمیٹی کے ماتحت حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو جب ہندوستان کے مسلمان لیڈروں نے کشمیر کمیٹی کا صدر چن لیا تو ان کشمیری مظلومین کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے جن پر ریاست کی طرف سے مقدمات چل رہے تھے حضور نے احمدی وکلاء کو کشمیر جانے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ ان وکلاء میں ایک جناب چوہدری صاحب بھی تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے پہلا کام یہ کروایا کہ ریاستی قانون کے مطابق یہ ضروری تھا کہ اگر کوئی وکیل باہر سے ریاست میں جا کر کسی مقدمہ کی پیروی کرے تو اس کے لئے لازمی تھا کہ وہ پہلے ماتحت عدالت میں دو روپیہ کے کاغذ پر درخواست دے اور بیس روپیہ فیس

Page 600

599 ادا کرے.پھر عدالت اپیل اول اور ہائی کورٹ میں بھی بائیس بائیس روپے ادا کرے.گویا ایک معمولی سے مقدمہ کے لئے بھی چھیاسٹھ روپے ادا کرنے پڑتے تھے.اس قانون کی اطلاع جب محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچائی تو حضور نے اس قانون کو منسوخ کرانے کے لئے محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کو دومرتبہ جموں بھجوایا.نتیجہ یہ ہوا.کہ چیف جسٹس کی سفارش پر اپریل ۱۹۳۲ء میں مہاراجہ کشمیر نے بیرونی وکلاء پر عائد شدہ پابندیاں دور کر دیں.اس عظیم الشان خدمت کے علاوہ آپ نے جموں اور میر پور میں بھی بہت سی قانونی خدمات سرانجام دیں.میر پور کے مقدمہ میں محترم میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ کی پیروی سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے مسلمان مجرموں کو بری کر وایا اور جن چھ مجرموں کو سزا ہوئی جناب چوہدری صاحب موصوف کی پیروی سے پانچ کو بری قرار دیا گیا اور ایک کی سزا میں تخفیف کر دی گئی.ریاستی حکام نے آپ کو بھی چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ریاست چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا.مگر آپ نے جواب دیا کہ میں نے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا.اس لئے اگر ریاست کے حکام مجھے نکالنا چاہتے ہیں تو مجھے زبر دستی اٹھا کر ریاست سے باہر چھوڑ آئیں یا پھر مجھ پر مقدمہ چلایا جائے.چنانچہ ریاست کو نوٹس واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا." اب میں اس سلسلہ میں ایک آخری بات لکھ کر اس حصہ مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مصلح موعودؓ کی نگاہ میں آپ کا کیا مقام ہے؟ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے بارہ میں پہلے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک رویا درج کیا جا چکا ہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہی رؤیا جو دوسری مرتبہ حضور نے بیان کی.اس کا یہاں اندراج کیا جائے.حضور نے کراچی میں ایک خطبہ جمعہ کے دوران میں بیان فرمایا : یہاں کی جماعت اپنی جد و جہد اور قربانی کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے.کچھ اس میں اس بات کا بھی دخل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بعض خاندانوں کو دین کی خدمت کا موقعہ عطا فرما دیتا ہے اور ان کی وجہ سے جماعت ترقی کر جاتی ہے.سترہ اٹھارہ سال کی بات ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور گیارہ بارہ سال کی عمر کے معلوم ہوتے

Page 601

600 ہیں.ان کے دائیں بائیں چوہدری عبداللہ خاں صاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیٹھے ہیں اور ان کی عمریں بھی آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بڑی محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں.اسی طرح میں ان سے باتیں کر رہا ہوں.چنانچہ اس رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو جمات کا کام کرنے کا موقع دیا اور لاہور کی جماعت نے ان کی وجہ سے خوب ترقی کی.اس کے بعد چوہدری عبد اللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کراچی میں کام کرنے کی توفیق دی اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب آج کل لاہور کی جماعت کے امیر ہیں، کا آپ ۱۹۵۴ء سے لیکر اب تک برابر جماعت لاہور کے امیر چلے آتے ہیں.اس عرصہ میں بہت سے احباب آپ کی مجلس عاملہ کے ممبر رہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ان کے اسماء گرامی درج کر دئیے جائیں.مکرم قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے نائب امیر مکرم قاضی محمود احمد صاحب مکرم ڈاکٹر محمد عبدالحق صاحب نائب امیر مکرم مولوی برکت علی صاحب لائق مکرم حضرت خان صاحب میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر مکرم ملک عبدالمالک خاں صاحب مکرم چوہدری فتح محمد صاحب مالک ہر یکے ٹرانسپورٹ مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر مکرم با بوانشاءاللہ خاں صاحب مکرم خالد ہدایت صاحب بھٹی مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مکرم سید حضرت اللہ پاشا صاحب مکرم شیخ محمود الحسن صاحب مکرم شیخ نور احمد صاحب مکرم ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب مکرم ملک فضل کریم صاحب مکرم چوہدری فتح محمد صاحب مکرم سید بہاول شاہ صاحب مکرم ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب مکرم ٹھیکیدار محمد شریف صاحب مکرم مرز امحمد اسلم صاحب مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب

Page 602

601 مکرم قریشی محمود احمد صاحب معتبر مکرم شیخ عبدالحق صاحب انجینئر مکرم شیخ عبدالحمید صاحب شملوی مکرم با بو فضل دین صاحب مکرم ملک عبد اللطیف صاحب ستکو ہی مکرم با بومحمد شفیع صاحب مکرم چوہدری نوراحمد خاں صاحب مکرم میاں محمد یحیی صاحب مکرم ماسٹر محمد ابرہیم صاحب مکرم مولوی عبدالحکیم صاحب مکرم شیخ عبد القادر صاحب لائلپوری مکرم شیخ ریاض محمود صاحب مکرم چوہدری محمد اشرف صاحب مبلغین و مربیان لاہور لاہور میں جن مبلغین و مربیان کو کام کرنے کا موقعہ ملا.ان میں اولیت کا سہرا حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکٹی کے سر ہے.آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفہ اسی الثانی کے زمانہ میں ایک لمبا عرصہ کام کیا ہے.غیر مبائعین کے فتنہ کے ازالہ میں آپ نے دن رات انتھک محنت اور کوشش کی.آپ کا عالمانہ اور عارفانہ درس خاص شہرت رکھتا تھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بھی تھے اور علم لدنی سے بھی آپ کو وافر حصہ ملا تھا.آپ کے بعد محترم مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا اور محترم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی حال مبلغ مغربی افریقہ کو لاہور میں اصلاح وارشاد کے کام کی توفیق ملی.اول الذکر و ہی بزرگ ہیں جنہوں نے مبلغین کلاس پاس کرنے کے معا بعد حضرت امیر المومنین خليفة امسیح الثانی کے ارشاد پر بخارا کا رخ کیا اور جاتے ہی گرفتار کر لئے گئے.اڑھائی سال تک قید میں روسی حکومت کے جبر و تشدد کا شکار رہے.بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے فصل سے رہائی پا کر واپس قادیان پہنچے.جب ذرا صحت بحال ہوئی تو احباب اور بزرگوں کے زور دینے پر روس میں قید و بند کے حالات پر ایک کتاب ”آپ بیتی لکھی جو بیحد مقبول ہوئی.اب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے.کچھ عرصہ آپ نے لاہور میں بھی بحیثیت مبلغ کام کیا ہے.آج کل آپ مرکز میں نظارت اصلاح وارشاد کے ماتحت شعبہ رشتہ ناطہ کے انچارج ہیں.اللهم متعنا بطول حياته.محترم مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہوی بھی جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے ہیں.

Page 603

602 حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے پاس جن مبلغین نے ٹریننگ حاصل کی آپ ان میں سے ایک ہیں.کچھ عرصہ آپ نے بھی لاہور میں بحیثیت مبلغ گزارا ہے.آپ کو عربی ادب کے ساتھ خاص لگاؤ ہے.آپ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ میں پڑھاتے بھی رہے ہیں.آج کل آپ تحریک جدید کی طرف سے مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا میں تبلیغ احمدیت و اسلام کے کام پر مامور ہیں.ان بزرگوں کے بعد خاکسار کو تقسیم ملک سے قبل اور تقسیم ملک کے بعد تین چار سال کام کرنے کی توفیق ملی.ان ایام میں چونکہ دار التبلیغ لا ہور کا بجٹ آج کل سے دگنا تھا.اس لئے ہر ماہ کوئی نہ کوئی تبلیغی ٹریکٹ خاکسار شائع کرتا رہتا تھا.مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ جس کے ملحقہ مکان میں اب خاکسار کی رہائش ہے جماعت کی جامع مسجد کہلاتی تھی اور یہ وہ مبارک مسجد ہے جس میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی اور جماعت کی دیگر بزرگ ہستیوں نے نمازیں پڑھیں، خطبات دیئے اور جلسوں سے خطاب کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے زمانہ میں گو یہ مسجد نہیں تھی مگر چونکہ یہ جگہ اور اس کے اردگرد کی جگہ میاں فیملی کی مملکت تھی اس لئے حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی کئی تقاریر ان مقامات پر ہوئیں اس لئے یہ مسجد خاص اہمیت رکھتی ہے.مسجد سے ملحقہ مکان جس میں خاکسار کی رہائش ہے تقسیم ملک سے قبل موجودہ شکل میں نہیں تھا.ایک برآمدہ اور سامنے ایک دو کمرے تھے.مگر ۱۹۴۶ء میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور نے اسے گرا کر نیا مکان بنانے کا فیصلہ کیا جس کی تفصیل پہلے کسی مقام میں گذر چکی ہے.دوسری مرتبہ ۱۹۵۴ء میں جب خاکسار کا یہاں تبادلہ ہوا، اس وقت بجٹ کی کمی کی وجہ سے با قاعدہ اور مسلسل تبلیغی ٹریکٹ تو شائع نہیں کئے جا سکے مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں سلسلہ کی تاریخ سے متعلق چند ایسی کتا میں لکھنے کی تو فیق عطا فرمائی جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیمتی سرمایہ ہیں.اعنی حیات طیبہ ”حیات نور “ اور ”حیات بشیر“.اس سلسلہ کی چوتھی کتاب اب دوستوں کے ہاتھ میں ہے.خاکسار کے عرصہ قیام میں بطور معاون محترم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر اور محترم راجہ خورشید احمد صاحب منیر نے اور برائے ٹرینینگ محترم مرزا محمد سلیم صاحب اختر، محترم سید شمس الحق صاحب اور محترم مولوی مبارک احمد صاحب جمیل نے قابل قدر کام کیا.آخر الذکر کو عرصہ ٹرینگ گذارنے کے بعد

Page 604

603 یہاں ہی بطور معاون مقرر کر دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ نو جوان بہت اچھا کام کر رہے ہیں.اب چونکہ جماعت بڑھ چکی ہے.اس لئے شہر کو مندرجہ ذیل ۲۴ حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے.ا.سلطان پوره ۲.اسلامیه پارک - مزنگ -۴ نیلا گنبد ۵- باغبانپورہ ۶- قلعہ پچھمن سنگھ ے سمن آباد ۸.سول لائنز ۹ سنت نگر ۱۰.مغلپورہ گنج ۱۱.بھائی گیٹ ۱۲.دارالذکر ۱۳.وحدت کالونی ۱۴.دھرم پوره ۱۵ - مصری شاہ ۱۶.والٹن ۱۷.لاہور چھاؤنی ۱۸.رحمن پورہ ۱۹.راج گڑھ ۲۰.کینال پارک ۲۱.ماڈل ٹاؤن ۲۲.محمد نگر ۲۳.پرانی انارکلی اور ۲۴.دہلی دروازہ ان چوبیں حلقوں میں خاکسار اور محترم مبارک احمد صاحب جمیل، محترم جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کے تیار کردہ پروگرام کے ماتحت دورے کرتے ہیں.دار التبلیغ میں جو غیر از جماعت معززین تشریف لاتے ہیں.انہیں سلسلہ سے متعلق معلومات بہم پہنچاتے ہیں.مطالعہ کے لئے لٹریچر دیتے ہیں اور شہر کے معززین سے ملاقاتیں کر کے انہیں پیغام حق پہنچاتے ہیں.فالحمد لله على ذالک.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اب شہر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے.جمعہ اور عیدین کے لئے بھی سب احباب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.نماز جمعہ دارالذکر مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ اسلامیہ پارک، مغل پورہ گنج ، ماڈل ٹاؤن اور شاہدرہ میں ہوتی ہے.عیدین کی نماز کا بڑا اجتماع منٹو پارک میں ہوتا ہے مگر مغل پورہ گنج ، شاہدرہ اور ماڈل ٹاؤن میں بھی عیدین کی نمازیں ہوتی ہیں.آج کل خدا تعالیٰ کے فضل سے شہر میں احمدیوں کی آبادی دس ہزار سے کہیں زیادہ ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان بھر میں ربوہ کے بعد احمدیوں کی سب سے زیادہ آبادی لاہور میں ہے.اور لا ہوری فریق جن کا مرکز احمد یہ بلڈنگکس لاہور میں ہے شہر بھر میں بمشکل چندسوافراد پر مشتمل ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا میں لاہوری فریق کی آبادی اتنی نہیں جتنی احمدیوں کی آبادی صرف لا ہور شہر میں ہے.فالحمد للہ علی ذالک.فریق لاہور کے سالانہ جلسہ کی حاضری مسجد احمد یہ دہلی دروازہ میں جمعہ کی حاضری سے بھی کم ہوتی ہے اور ہماری مسجد دارالذکر میں جمعہ کی حاضری تو ان کے سالانہ جلسہ کی حاضری سے کہیں زیادہ ہوتی ہے.دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کے بلند بانگ دعوے دار اس فریق کے مرکزی دفتر اور مسجد کے علاقے میں جب کوئی تحقیق کی غرض سے داخل ہوتا ہے تو روحانی

Page 605

604 لحاظ سے ایک اجاڑ منظر اس کو بدظن کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے.گذشتہ سالانہ جلسہ پر سب سے زیادہ حاضری ایک مشہور و معروف غیر احمدی مقرر کے وقت تھی جو ۱۳۰۰ در ۰ ۳۵ کے درمیان تھی.فاعتبروا یا اولی الابصار فہرست مرکزی عہدیداران جماعت احمد یہ لاہور ۶۶ - ۱۹۶۵ء نوٹ : امراء کا انتخاب تین سال کے لئے ہوا کرتا ہے.جماعت احمد یہ لاہور کے مرکزی عہدیداران کا انتخاب گذشتہ سال ہو جانا چاہئے تھا.مگر ہندوستان کے پاکستان پر حملہ کے باعث ملتوی ہو گیا.اس سال بھی ابھی تک مجلس انتخاب کی منظوری مرکز سے نہیں آئی اس لئے پرانے عہد یداران کے نام درج کئے جار ہے ہیں : امیر : چوہدری اسداللہ خاں صاحب ۳۲.ایلکن روڈ لا ہور چھاؤنی نائب امیر : حضرت خان صاحب میاں محمد یوسف ۲۸۱ فیروز پور روڈ دارالبرکات نز د ماڈل ٹاؤن نائب امیر : چوہدری فتح محمد صاحب مالک ہر یکے ٹرانسپورٹ سیکرٹری مال: بابومحمد شفیع صاحب مکان نمبر ۸ انگلی نمبر ۶ نیا دھرم پورہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد: ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی نمبر ۱۷.ارجن روڈ کرشن نگر سیکرٹری تعلیم : ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ۵.بی بہاولپور ہاؤس سیکرٹری امور عامه : چوہدری فتح محمد صاحب مالک ہریکے ٹرانسپورٹ دفتر سرائے سلطان لاہور سیکرٹری وصایا: چوہدری نور احمد خاں صاحب - ۶۳ گوبند رام سٹریٹ گوالمنڈی لاہور سیکر یٹری ضیافت ماسٹر محمد ابراہیم صاحب.چراغ سٹریٹ نمبر ۳.بیرون دہلی دروازہ سیکرٹری رشتہ ناطہ : میاں عبد الحکیم صاحب ۲۴.میکلوڈ روڈ سیکرٹری تحریک جدید : میاں محمد یحی صاحب ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد سیکرٹری وقف جدید قریشی محمود احمد صاحب معتبر ویشنو گلی ۱۲۷.مکان ۸۹ نسبت روڈ لاہور سیکرٹری تالیف و تصنیف: شیخ عبد القادر صاحب لائکپوری حالی سٹریٹ اسلامیہ پارک سیکرٹری زراعت ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب.بی بہاولپور ہاؤس

Page 606

605 سیکرٹری امور خارجہ چوہدری بشیر احمد صاحب ۱۳۴.ماڈل ٹاؤن فضل عمر فاؤنڈیشن فنڈ: سید حضرت اللہ پاشا صاحب سلمان سٹریٹ ۳.اسلامیہ پارک لاہور آڈیٹر : سید حضرت اللہ پاشا صا حب سلمان سٹریٹ ۳.اسلامیہ پارک لاہور زعیم اعلیٰ انصار الله : شیخ عبدالحق صاحب انجینئر ۱۰۱.میور وڈلاہور قائد مجلس خدام الاحمدیہ : شیخ ریاض محمود صاحب ۳۵.ہائیڈ مارکیٹ جی.ٹی روڈ لاہور شکریہ میں اس موقعہ پر محترم جناب شیخ عبدالحمید صاحب شملوی کا شکر یہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے تعاون سے مجھے جملہ عہدیداروں کی فہرست یکجا طور پر میسر آ گئی.محترم شیخ صاحب موصوف جماعت لاہور کے مرکزی دفتر کے انچارج ہیں.یہ دفتر محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے زمانہ امارت کے آخری سالوں میں قائم کیا تھا جو ابتک ان کی کوٹھی ہی میں چلا آ رہا ہے اور نہایت مفید کام سرانجام دے رہا ہے.محترم شیخ عبدالحمید صاحب کے نائب محترم مولوی نذیر احمد صاحب را جوری ہیں.دونوں کا رکن نہایت اخلاص سے کام کر رہے ہیں.نوٹ ا: نئے سال یعنی ۶۷ - ۱۹۶۶ء کے لئے حلقوں کے عہد یداروں کے انتخابات ہو چکے ہیں اور محترم جناب امیر صاحب انہیں منظور بھی فرما چکے ہیں.یہ فہرست درج ذیل ہے: حلقه سمن آباد عہد یداران برائے ۱۹۶۶۶۷ء صدر : چوہدری منور لطف اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ - ۵۵۸ - این نز د نیو مارکیٹ سمن آباد سیکرٹری امور عامه : شیخ فضل احمد صاحب ۴۸۶.این سمن آباد سیکرٹری مال : ملک منظور احمد صاحب مکان اگلی ۵۵ بر سر مشرقی مین روڈ سیکرٹری اصلاح وارشاد: شیخ بشیر احمد صاحب ۴۸۶ این سمن آباد سیکرٹری تعلیم : میاں عبدالسلام صاحب ظافر بنک کالونی

Page 607

606 سیکرٹری وصایا: سید اعجاز احمد صاحب اعجاز سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : چوہدری عطاءالرحمن صاحب سیکرٹری تحریک جدید چوہدری عبد الحمید صاحب سمن آباد سیکرٹری وقف جدید : میاں بشارت احمد صاحب بنک کالونی سمن آباد آڈیٹر : چوہدری فتح محمد صاحب ایم.اے ۳۰۱.این سمن آباد ۲.حلقه رحمان پوره صدر و آڈیٹر : شیخ محمد اکرم صاحب مکان ۲ گلی ۲۶.رحمان پوره سیکرٹری امور عامہ: چوہدری محمود احمد صاحب معرفت ڈاکٹر ظفر غوری صاحب سلطان احمد روڈ سیکرٹری مال: ملک عبدالقادر صاحب مکان ۲ گلی ۲ سیکرٹری اصلاح و ارشاد: چوہدری نثار احمد صاحب ورک ایڈووکیٹ مکان اس گلی ۲ محمد پورہ اچھر و لا ہور سیکرٹری تحریک جدید : چوہدری شمس الدین صاحب کچی بستی شاہ جمال.اچھرہ لاہور سیکرٹری وقف جدید : میاں محمد خان صاحب مکان ۴۶ ذیلدار روڈ قمر دین کٹڑی اچھرہ لاہور ۳.حلقہ بھائی گیٹ صدر: میاں محمد صدیق صاحب شاکر مکان ۱۴۱/ اے بازار جج محمد لطیف اندرون بھاٹی گیٹ سیکرٹری امور عامه : حکیم سراج الدین صاحب محلہ پر نگاں.اندرون بھاٹی گیٹ سیکرٹری مال مرزا اصلاح الدین صاحب مکان ۲۵۹ / بی سیکرٹری اصلاح وارشاد: میاں غلام بنی صاحب مکان ۱۴۱/ اے بازار جج محمد لطیف اندرون بھاٹی گیٹ سیکرٹری تعلیم : مولوی عبدالرحیم صاحب ۲۸۷.بی محلہ پٹڑ نگاں سیکرٹری وصایا: حکیم حفیظ الرحمن صاحب ۱۷۸.نیوراوی ارک سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ۲۵۹.پی سیکرٹری تحریک جدید : ماسٹرحسن دین صاحب ۲۰۷ نیوراوی پارک سیکرٹری وقف جدید : مرزا محمد احمد صاحب ۲۵۹ بی محلہ پڑرنگاں اندرون بھاٹی گیٹ

Page 608

۴.حلقہ دہلی دروازہ 607 صدر : ڈاکٹر احمد علی صاحب مکان ۱۱۵۲.ایف محلہ سرین.اعظم مارکیٹ لاہور سیکرٹری جنرل : میاں بشیر الدین صاحب مسجد احمدیه بیرون دہلی دروازه سیکرٹری امور عامه : میاں غلام حسین صاحب مسجد احمد یه بیرون دہلی دروازه سیکرٹری مال: میاں منور احمد صاحب مسجد احمد یه بیرون دہلی دروزاه سیکرٹری اصلاح وارشاد: میاں بشیر الدین صاحب مسجد احمد یه بیرون دہلی دروازه سیکرٹری تعلیم : شیخ عبدالہادی صاحب مسجد بیرون دہلی دروازه سیکرٹری وصایا: میاں عبدالرحمن صاحب راحت ۶۵۵.ایچ کو چہ حسین شاہ چوک مسجد وزیر خاں وچه سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : ڈاکٹر محمود احمد صاحب c/o حضرت حافظ عبدالجلیل صاحب اندرون موچی دروازه سیکرٹری تحریک جدید : میاں عبدالواحد صاحب سیکرٹری وقف جدید : عبدالرشید صاحب آڈیٹر: میاں محمد سعید صاحب ۵.حلقہ پرانی انار کلی صدر : میاں اکبر علی صاحب ۱۶.نابھہ روڈ پرانی انارکلی سیکرٹری امور عامه : مرزا محمد شفیع صاحب مکان ۵ - مکند سٹریٹ پرانی انارکلی سیکرٹری مال: میاں عبدالقیوم صاحب فاروقی مکان ۱۶.بھگوان سٹریٹ پرانی انارکلی سیکرٹری اصلاح وارشاد : میاں محمد صادق صاحب ۱۳/۳.لاج روڈ پرانی انار کلی ۶.حلقہ سول لائنز صدر : چوہدری نوراحمد صاحب ۶۳.گوبند رام سٹریٹ گوالمنڈی لاہور جنرل سیکرٹری: قریشی محمود احمد صاحب معتبر و یشندگی ۱۶۷ مکان ۸۹ نسبت روڈ سیکرٹری امور عامه : چوہدری غلام مجتبی صاحب ۴.میکلوڈ روڈ

Page 609

608 سیکرٹری مال: ملک عبدالمالک خان صاحب ۴۳ عبد الکریم روڈ لاہور سیکرٹری اصلاح وارشاد: شیخ شان محمد صاحب بی.اے مہا بیرسٹریٹ بیڈن روڈ سیکرٹری تعلیم : سید نعیم احمد شاہ صاحب شفا میڈ یکولاہور سیکرٹری وصایا: میاں عبدالواحد خان صاحب سیمنٹ بلڈ نگ لاہور سیکرٹری ضیافت : چوہدری امیر الدین صاحب سیمنٹ بلڈنگ لاہور سیکرٹری رشتہ ناطہ وزکوة : بابو فقیر اللہ صاحب امہا بیرسٹریٹ بیڈن روڈ سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : قریشی مسعود احمد صاحب گلی ۱۲۷ مکان ۸۹ نسبت روڈ سیکرٹری تحریک جدید : سردار عبدالسمیع صاحب ۱۷ میکلوڈ روڈ سیکرٹری وقف جدید : سردار عبدالرشید صاحب ملت ہسپتال ایبٹ روڈ آڈیٹر: چوہدری عنایت اللہ صاحب.ملت ہسپتال ایبٹ روڈ محاسب : عبداللطیف صاحب جو دھامل بلڈنگ ۷.حلقہ کینال پارک صدر: قاضی عطاء الرحمن صاحب قریشی ا.کینال پارک گلبرگ کالونی لاہور سیکرٹری امور عامہ : میاں مجید احمد صاحب بٹ کوارٹر ۵۶ مینٹل ہسپتال لاہور سیکرٹری تعلیم : شیخ جمیل احمد رشید صاحب ۷۳.پی گلبرگ لاہور سیکرٹری تحریک جدید : میاں مجید احمد صاحب بٹ کوارٹر ۵۶ مینٹل ہسپتال لاہور سیکرٹری وقف جدید : میاں مجید احمد صاحب بٹ کوارٹر ۵۶ مینٹل ہسپتال لاہور سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : شیخ غلام یزدانی صاحب ٹیکسیشن کا لونی گلبرگ لاہور ۸.حلقہ اسلامیہ پارک صدر چوہدری عبد الرحیم صاحب ۱۵.انور سٹریٹ اسلامیہ پارک سیکرٹری جنرل سید حضرت اللہ پاشا صاحب ۳ سلمان سٹریٹ سیکرٹری امور عامه : چوہدری عبدالرشید صاحب ۱۵.انور سٹریٹ اسلامیہ پارک

Page 610

609 سیکرٹری مال: چوہدری عبدالمالک صاحب ۱۵.انورسٹریٹ اسلامیہ پارک سیکرٹری اصلاح وارشاد: شیخ عبدالقادر صاحب لائکوپوری حالی سٹریٹ سیکرٹری تعلیم : میاں عبدالوہاب صاحب سیکرٹری وصایا: چوہدری عبدالسمیع صاحب سیکرٹری ضیافت : چوہدری حمد الہی صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : مرزا عزیز احمد صاحب سیکرٹری تحریک جدید : ملک بشیر احمد صاحب ۳۶.ڈی گورنمنٹ کوارٹر چوبرجی لاہور سیکرٹری وقف جدید : چوہدری احمد حیات صاحب محاسب: چوہدری محمد اسلم صاحب ۹.حلقہ راج گڑھ صدر چوہدری محمد ابراہیم صاحب کشن سٹریٹ مکان ۱۸ پریم نگر سیکرٹری جنرل : میاں مصباح الدین صاحب ۵۶ کو پر ہوٹل چوبرجی لاہور سیکرٹری امور عامه : عبدالرشید صاحب بنگوی سیکرٹری مال چوہدری عبدالوہاب صاحب محلہ رام نگر شنکر سٹریٹ مکان ۲۱ راج گڑھ سیکرٹری اصلاح وارشاد: راجہ نذیر علی صاحب سیکرٹری تعلیم : میاں عبداللطیف صاحب سیکرٹری وصایا: قریشی محمد عمر صاحب مکان اس گلی ۲۰ رام نگر چوک راج گڑھ روڈ لاہور سیکرٹری تحریک جدید : میاں منیر احمد صاحب قریشی سیکرٹری وقف جدید : میاں منیر احمد صاحب قریشی آدیر : میاں غلام مصطفیٰ صاحب ۵۶ کو پر ہوسٹل نز د چوبرجی لاہور ۱۰.حالفقہ والٹن صدر: سید اعزاز علی شاہ صاحب

Page 611

610 سیکرٹری مال: سید اعزاز علی شاہ صاحب سیکرٹری امور عامه: ماسٹر منظور احمد صاحب سیکرٹری تحریک جدید : مستری ولی محمد صاحب سیکرٹری وقف جدید : مستری ولی محمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : مستری ولی محمد صاحب سیکرٹری اصلاح وارشاد: مستری صدرالدین صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت: میاں عبد الرحمن خان صاحب ۱۱.حلقہ سنت نگر صدر: ملک عبداللطیف صاحب ستکوہی سیکرٹری مال: چوہدری سلیم احمد صاحب سیکرٹری اصلاح وارشاد: ملک عبدالحمید صاحب سیکرٹری جنرل : ملک محمد خاں صاحب سیکرٹری امور عامه : چوہدری محمد ابراہیم صاحب سیکرٹری تحریک جدید: میاں تیمور احمد صاحب چغتائی سیکرٹری وقف جدید : چوہدری الطاف حسین صاحب سیکرٹری ضیافت : شیخ احمد حسن صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : ملک عبدالجلیل صاحب عشرت سیکرٹری تعلیم : میاں عبدالحق صاحب بٹ سیکرٹری وصایا: قاضی محمد عطاء اللہ صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی آڈیٹر: میاں اسحق منصور صاحب ۱۲.حلقہ سلطان پوره چوہدری بشیر احمد صاحب مکان ۸ گلی ۷ اسوامی نگر احاطہ تیز اب نزد پرانی گیس فیکٹری

Page 612

611 سیکرٹری جنرل : میاں عبید الرحمن صاحب ارشد ۱۸.بی شمس بلڈنگ سلطان پورہ روڈ لاہور سیکرٹری مال: میاں سلیم اختر صاحب نزد چوہدری سوپ فیکٹری چاہ میراں خورد سیکرٹری امور عامہ: میاں محمد رشید صاحب ایڈووکیٹ کوٹھی ۳۰۱.اے نز دریلوے گودام بالمقابل جی.ٹی روڈ سیکرٹری وصایا: صوفی محمد رفیق صاحب کوٹھی ۳۰۱.اے نز در میلوے گودام بالمقابل جی.ٹی روڈ سیکرٹری اصلاح وارشاد: شیخ ریاض محمود صاحب ۳۵ - جی.ٹی روڈ بالمقابل مین گیٹ ریلوے گودام سیکرٹری تحریک جدید : چوہدری خدا بخش صاحب ۸ بھارت نگر سیکرٹری وقف جدید: با بوحمد اسحاق صاحب مکان ۷.اے اعثمانیہ سٹریٹ نولکھا پارک فیض آباد سیکرٹری تعلیم : چوہدری سلطان علی صاحب مکان ۱۱.محمد یہ سٹریٹ سے مکھن پورہ نز دچاہ میراں آڈیٹر: چوہدری رشید احمد صاحب مکان ۸ گلی ۷ اسوامی نگر احاطہ تیزاب ۱۳.حلقہ محمد نگر صدر: ملک فضل کریم صاحب سیکرٹری مال: مرزا محمد امین صاحب سیکرٹری اصلاح وارشاد : میاں عزیز احمد صاحب سیکرٹری امور عامہ: چوہدری فتح محمد صاحب سیکرٹری تعلیم : خواجہ محمد اکرم صاحب سیکرٹری تحریک جدید ملک عبد المالک صاحب سیکرٹری وقف جدید : ملک عبدالمالک صاحب سیکرٹری وصایا: چوہدری بشیر احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن : چوہدری بشیر احمد صاحب ۱۴.حلقہ باغبانپورہ صدر: ماسٹر فیض الرحمن صاحب

Page 613

612 سیکرٹری مال: میاں جلال الدین صاحب معرفت مستری محمد دین صاحب فہمی سٹریٹ ۱۰.اے مکان ۶ شالا مارٹاؤن سیکرٹری اصلاح وارشاد: چوہدری بشیر احمد صاحب باجوہ.باجوہ پلاسٹک ورکس شالا مارٹاؤن لاہور سیکرٹری تحریک جدید: با بوعبد الرحمن صاحب کٹری رام لعل ۱۵۷.جی.ٹی روڈ باغبانپورہ سیکرٹری وقف جدید : با بوعبد الرحمن صاحب کٹری رام لعل ۱۵۷.جی.ٹی روڈ باغبانپورہ ۱۵- حلقه مغلپوره گنج صدر چوہدری غلام رسول صاحب گلی ۳ مکان ۶۳ افضل منزل گنج مغلپوره نائب صدر : میاں عبد الحکیم صاحب مکان ، اگلی ۱۶ گنج مغلپورہ سیکرٹری جنرل مولوی نذیر احمد صاحب مکان ۴۴۱ رام گڑھ کالونی سیکرٹری امور عامه : خورشید احمد صاحب مکان ۲ گلی ۱۴ گنج مغلپوره سیکرٹری مال: چوہدری غلام محمد صاحب پرویز نز وفضل عمر لائبریری گلی ۱۴ سیکرٹری اصلاح وارشاد : چوہدری حیات محمد صاحب مکان ۴۰ گلی ۲۳ سیکرٹری تعلیم : چوہدری بشیر احمد صاحب گورائیہ معرفت مسجد احمدیه سیکرٹری وصایا: ملک منور احمد صاحب جاوید سیکرٹری ضیافت : میاں محمد اسماعیل صاحب ڈار سیکرٹری رشتہ ناطہ: چوہدری بشیر احمد صاحب مہار سیکرٹری تحریک جدید : میاں غلام نبی صاحب قمر سیکرٹری وقف جدید : چوہدری محمد خاں صاحب سیکرٹری فضل عمرفاؤنڈیشن : چوہدری محمود احمد صاحب ایم.ایس.سی معرفت مسجد احمد یہ گنج مغلپورہ آڈیٹر: چوہدری عبد الحمید صاحب نبی پور نز دگنج مغلپورہ ۱۶.حلقہ دارالذکر مدر شیخ عبدالحق صاحب انجینئر ۱۰۱ میوروڈ لاہور

Page 614

613 سیکرٹری امور عامه : اخوند فیاض احمد صاحب ۲.مفتی سٹریٹ گڑھی شاہو سیکرٹری مال و اصلاح وارشاد: شیخ احمد علی صاحب ۱۲.اے دل فز اسٹریٹ ۳۹ گڑھی شاہو سیکرٹری تعلیم و تالیف و تصنیف: ماسٹر عزیز احمد صاحب مسجد دارالذکر میوروڈ سیکرٹری وصایا، تحریک جدید وقف جدید : شیخ عبدالحق صاحب ۱۰۱ میوروڈ ۱۷.حلقہ وحدت کالونی صدر: چوہدری ولی محمد صاحب وینیس کوارٹر ۱۴.پی وحدت کالونی سیکرٹری مال: رانا عبدالکریم صاحب کوارٹر ۱۸.آئی وحدت کالونی سیکرٹری اصلاح وارشاد تعلیم، وصایا : چوہدری خالد احمد صاحب کوارٹر ۱.کیو وحدت کالونی سیکرٹری ضیافت، رشتہ ناطہ: چوہدری خالد احمد صاحب کوارٹر ا.کیو وحدت کالونی سیکرٹری تحریک جدید وقف جدید : حکیم قدرت اللہ صاحب کوارٹر۲.پی وحدت کالونی آڈیٹر: چوہدری انور علی صاحب کوارٹراا.ڈی وحدت کالونی ۱۸.حلقہ نیلا گنبدلا ہور صدر : قاضی محمود احمد صاحب پروپرائیٹر راجپوت سائیکل ورکس محبوب عالم اینڈ سنز سیکرٹری مال وقف جدید تحریک جدید : میاں محمد یحیی صاحب ما لک سائیکل ہاؤس نیلا گنبد لا ہور سیکرٹری اصلاح وارشاد : ملک نصر اللہ خاں صاحب.یوئنگ روڈ لاہور سیکرٹری امور عامہ: میاں عبدالحمید صاحب.ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد لا ہور سیکرٹری تعلیم و فضل عمر فاؤنڈیشن : ڈاکٹر عمر الدین صاحب ڈی.ایم.ایس میوہسپتال لاہور ۱۹.حلقہ ماڈل ٹاؤن صدر: حضرت الحاج میاں محمد یوسف صاحب ۲۸۱ فیروز پور روڈ کوٹھی دارالبرکات نزد ماڈل ٹاؤن سیکرٹری جنرل : مولوی عطاء الرحمن صاحب چغتائی فلیٹ نمبرے سی بلاک.مارکیٹ ماڈل ٹاؤن سیکرٹری مال قریشی قمر احمد صاحب ۴۹.ایف ماڈل ٹاؤن لاہور سیکرٹری اصلاح و ارشاد مولوی عطاء الرحمن صاحب چغتائی فلیٹ نمبرے ہی بلاک.مارکیٹ ماڈل ٹاؤن

Page 615

614 سیکرٹری تحریک جدید : میاں غلام بھیک خان صاحب ۹۰ ڈی ماڈل ٹاؤن سیکرٹری وقف جدید : میاں غلام بھیک خان صاحب ۹۰ ڈی ماڈل ٹاؤن ۲۰.جماعت شاہدرہ جماعت شاہدرہ گو انتظامی لحاظ سے شہر میں شامل نہیں مگر لاہور کارپوریشن میں شامل ہے.لہذا اس جماعت کے عہدیداروں کی فہرست بھی شائع کی جاتی ہے.مؤلف صدر: ماسٹر غلام محمد صاحب محلہ صرافاں مکان ۲ گلی ۴ شاہدرہ ٹاؤن سیکرٹری جنرل: میاں محمد یعقوب صاحب سیکرٹری مال ماسٹر ممتاز احمد صاحب نمبر ۶۴ مین بازار شاہدرہ ٹاؤن سیکرٹری اصلاح وارشاد: میاں الطاف احمد خاں صاحب سیکرٹری تعلیم : میاں محمد یعقوب صاحب سیکرٹری وصایا: بابو چراغ دین صاحب محاسب : چوہدری علی حسن صاحب آڈیٹر چوہدری الطاف حسن صاحب نوٹ ۲ : لا ہور شہر کے چند حلقوں کا انتخاب ابھی تک نہیں ہوا.اس لئے مجبوراً ان حلقوں کے عہد یداروں کی فہرست نہیں دی جارہی.اگر کتاب کی طباعت سے قبل انتخاب ہو گیا.تو انشاء اللہ شامل کتاب کر لی جائے گی.(مؤلف) فہرست قائدین مجلس خدام الاحمدیہ لاہور ذیل میں ان قائدین کرام کی فہرست درج کی جاتی ہے.جنہیں مجلس خدام الاحمد یہ لاہور کی قیادت کے فرائض بفضلہ تعالیٰ سرانجام دینے کا فخر حاصل ہوا: مرزا رحمت اللہ صاحب قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ تا ۱۹۴۷ء قریشی محمد اکرم صاحب/ میاں عبد المنان صاحب ۱۹۴۸ء

Page 616

615 شیخ خورشید احمد صاحب ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب ۵۳-۱۹۵۲ء محمد سعید احمد صاحب ۵۴ - ۱۹۳۵ء عبدالجلیل صاحب عشرت / خالد ہدایت صاحب بھٹی ۵۵-۱۹۵۴ء میاں محمد بیٹی صاحب ۵۶-۱۹۵۵ء تا۶۰-۱۹۵۹ء قریشی محمود احمد صاحب معتبر ۵۹ - ۱۹۵۸ء تا ۶۰ - ۱۹۵۹ء میاں محمد یحیی صاحب ۶۱ - ۱۹۶۰ء سید حضرت اللہ صاحب پاشا ۶۲ - ۱۹۶۱ء تا ۶۳ - ۱۹۶۲ء شیخ ریاض محمود صاحب ۶۴-۱۹۹۳ء - ۶۵-۱۹۶۴ - ۶۶ - ۱۹۶۵ء نوٹ : قائدین کی یہ فہرست اور سنین میاں محمد یحیی صاحب سابق قائد اور مکرم محمد صدیق صاحب شاکر سابق معتمد نے اپنی یادداشت کی بنا پر تیار کی ہے.یکجائی صورت میں مجھے کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ملا.جس سے اس کی تصدیق ہو سکے.نوٹ : فہرست مندرجہ بالا کے آخری دو قائدین یعنی سید حضرت اللہ پاشا اور شیخ ریاض محمود صاحب کے علاوہ باقی قائدین کے دور قیادت کے حالات بھی یکجائی صورت میں دستیاب نہیں ہو سکے.اس لئے ان کے ذاتی تعارف اور کسی نمایاں کام کے تذکرہ پر اکتفا کی گئی ہے.نوٹ : قائدین کا ذاتی تعارف اور دور قیادت کے حالات شیخ عبد الماجد صاحب ناظم اشاعت نے مرتب کئے ہیں اور شیخ ریاض محمود صاحب قائد مجلس کی معرفت موصول ہوئے ہیں.مرزا رحمت اللہ صاحب لا ہور میں قیادت کی داغ بیل رکھنے کا سہرا ان کے سر ہے.قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ سه تا ١٩٤٧ء لاہور کے ابتدائی قائدین میں سے ہیں.قادیان دارالامان میں قیادت کے خدو خال پر لاہور میں قیادت قائم کی.منصوبہ بندی، تنظیمی قابلیت اور نظم و ضبط کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں.پگڑی اچکن زیب تن کرتے ہیں تو جماعت احمدیہ کے مبلغین کے گروہ کے ایک فرد معلوم ہوتے ہیں.اس

Page 617

616 زمانہ میں خدام کی غفلت وکوتا ہی پر انہیں بیدار رکھنے کے لئے مختلف بدنی سزائیں بھی دی جاتی تھیں.جنہیں خدام الاحمدیہ کے دستور کی اصلاح میں ” ذریعہ اصلاح کہا جاتا ہے.تبلیغ کا شوق رکھتے ہیں.مخالف علماء سے کامیاب مباحثوں کا موقعہ بھی ملا ہے.۱۹۴۷ء کی قیامت صغریٰ میں آباد کاری اور الاٹمنٹ کے سلسلہ میں جماعت کی خدمت کی توفیق بھی پائی.پاکستان سے جو قافلہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کیلئے جاتا ہے.ایک دو مرتبہ اس کے امیر بھی رہے ہیں.قانونی موشگافیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور لاہور کے کامیاب وکلاء میں شمار کئے جاتے ہیں.تقریر بھی اچھی کر لیتے ہیں.لیکن انداز گفتگو سادہ ہوتا ہے.اس دور میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی تعلیم کے سلسلہ میں لا ہور میں مقیم تھے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے سرگرم کارکن رہ چکے ہیں.خواجہ محمد اکرم صاحب مکرم خواجہ محمد اکرم صاحب کو بھی کچھ عرصہ بحیثیت قائم مقام قائد کام کرنے کا موقعہ ملا.مہاجرین کی خدمت اور جلسہ سالانہ ( لاہور ) کے انتظامات میں کام کرنے کی توفیق پائی.میاں عبدالمنان صاحب لاہور کی میاں فیملی کے فرد ہیں.تقسیم ملک کے بعد مجلس کی حالت منتشر تھی.تنظیم کو از سرنو مضبوط کرنے کا ابتدائی موقعہ ملا.حلقہ جات میں دورے کرتے رہے.ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب شمع خلافت کے پروانوں میں سے ہیں.تہجد گزار بے نفس کام کرنے والے خلوص و قربانی کے پیکر بزرگ خادم ہیں.خوش بخت ہیں کہ عرصہ تک حضرت مصلح موعودؓ کے ڈینٹل سرجن رہے ہیں.محترم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کو ۱۹۵۳ء میں بھی کام کرنے کا موقعہ ملا ہے جبکہ علماء نے عوام کو جماعت احمدیہ کے خلاف برگشتہ کر کے ظلم وستم پر آمادہ کیا تھا، حکومت کو مارشل لاء لگانا پڑا اور احمدیوں کے جان و مال خطرہ میں تھے.اس حالت میں احمدی نوجوانوں کے فرائض اور پھر ان کے قائد کے فرائض کتنے بڑھ جاتے ہیں.محترم ڈاکٹر صاحب ان سب مراحل سے کامیاب گزرے ہیں.۱۹۵۳ء کی قیامت خیز بارش میں ڈاکٹر صاحب کی زیر قیادت لاہور کے خدام کو بنی نوع انسان کی خدمت کا موقعہ ملا ہے.۶۱ - ۱۹۶۰ء میں

Page 618

617 ڈویژنل قائد بنے.گوجرانوالہ کی تربیتی کلاس ان کی انتظامی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے.اس کلاس کی پر مشتمل خالد کا ایک خاص نمبر بھی شائع ہوا تھا.لاہور ڈویژن کے زیر اہتمام ۱۹۷۳ء میں ” یوم تقاریر پر قادیان منایا گیا اور ۱۹۶۴ء میں ”یوم دعائے صحت برائے حضرت مصلح موعود منایا گیا.رسعید احمد صاحب ۵۴-۱۹۵۳ء لا ہور کے سب سے کم عمر قائدین میں سے ہیں.طالب علمی کے زمانے سے خدمت کا شوق رکھتے ہیں.اپنی محنت، خلوص اور تدبر کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں تجربہ کار قائدین میں ان کا شمار ہونے لگا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کے موقعہ پر ان کے کام پر اظہار خوشنودی فرمایا.چونکہ ان کے دور قیادت کا تذکرہ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے آچکا ہے ( بہ سلسلہ سیلاب ) اس لئے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.عبدالجلیل صاحب عشرت ۵۵-۱۹۵۴ء اکاؤنٹس لائن سے متعلق ہیں.ڈھا کہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے ذمہ دار عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں.لا ہور تبدیل ہو کر آئے تو یہاں بھی تھوڑا عرصہ بطور قائد کام کرنے کی توفیق پائی.طالب علمی کے زمانہ سے دین سے شغف رکھنے والے بزرگ ہیں.الفضل ۱۹۳۳ء و ۱۹۳۴ء کے خاتم النبین نمبروں میں سیرت النبی کے موضوع پر آپ کے مضامین موجود ہیں.خالد ہدایت صاحب بھٹی ۵۵-۱۹۵۴ء لاہور کے پرانے مخلص کارکنوں میں سے ہیں.۵۵-۱۹۵۴ء میں کچھ عرصہ قائد ر ہے ہیں.خوش خلق اور ملنسار ہیں.سیلاب کے ایام میں محترم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کے ہمراہ لاہور اور سیالکوٹ کے سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد تباہ حال لوگوں کو امداد پہنچائی گئی.محترم خالد ہدایت صاحب آج کل گجرات کی نیشنل بنک برانچ کے مینجر ہیں.میاں محمد یحیی صاحب ۵۶-۱۹۵۵ء ۵۸-۱۹۵۷ء اور ۶۱ - ۱۹۶۰ء لا ہور کے حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود کے نام نامی سے قریباً سبھی

Page 619

618 احمدی واقف ہیں.190 ء میں آپ نے نیلا گنبد میں موسیٰ اینڈ سنز کے نام سے سائیکلوں کا کاروبار شروع کیا.محترم میاں محمد یحیی صاحب انہی کے لائق فرزندوں میں سے ہیں.لاہور کے قائدین میں سے غالباً سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں مگر متین، سنجیدہ اور صائب الرائے بزرگ ہیں.اچھے تعلیم یافتہ حضرات مجلسی امور میں ان سے مشورہ طلب کرتے ہیں.سید حضرت اللہ صاحب پاشا قائد مقرر ہوئے تو محترم یحیی صاحب کو آپ نے مشیر مقرر کیا.نو سال سے متواتر سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمد یہ لاہور چلے آ رہے ہیں.مرکز کی طرف سے مجلس کے دستور اساسی پر نظر ثانی کے لئے جو کمیٹی بنی تھی.محترم یحیی صاحب اس کے رکن بنائے گئے تھے.قیادت سنبھالنے سے قبل سابقہ دو قائدین کے ساتھ بطور ناظم مال کام کرنے کی توفیق ملی.۱۹۵۵ء کے سیلاب میں جی بھر کر بنی نوع انسان کی خدمت کا موقعہ ملا.آپ کے زمانہ قیادت میں مرکز کی زیر ہدایت تعمیر ہال کے لئے خاصی رقم فراہم ہوئی.فضل عمر ہسپتال، جامعہ احمدیہ اور یادگاری مسجد ربوہ کے لئے عطیہ جات مرکز میں بھجوائے گئے.وائی.ایم سی.اے ہال میں دو تبلیغی جلسے ہوئے ایک ۵ - فروری ۱۹۶۱ء اور دوسرا ۱۹ - جون ۱۹۶۱ء اسی ہال میں عیسائیوں کی سہ روزہ کانفرنس تھی.ان کی تقاریر کے جواب محترم شیخ عبدالقادر صاحب لائنکپوری، محترم شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ اور محترم ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب موگا مرحوم کے مشورہ سے تیار کر کے بر وقت شائع کر کے تقسیم کئے جاتے رہے.شیخ محمد احمد صاحب مرحوم نے ان کی قیادت میں قابل قدر کام کیا ہے.۱۹۵۶ء میں خلافت کے موضوع پر مرکز میں مجلس نذا کر تھی.لاہور کے محترم قاضی برکت اللہ صاحب ایم.اے نے اوّل انعام حاصل کیا.محترم یحیی صاحب کے سپرد ایک خاص ڈیوٹی لگائی گئی تھی جسے انہوں نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیا.حضرت اقدس امیر المومنین نے اس پر اظہار خوشنودی فرماتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا اس کا مفہوم درج ذیل ہے.یہ عبارت شیخ مبارک محمود پانی پتی نے محترم بیٹی صاحب اور محترم محمد صدیق صاحب شاکر سابق معتمد کو دکھا کرلکھی ہے:

Page 620

619 وو عزیزم میاں محمد یحیی ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مبارک محمود صاحب مجھے مل گئے ہیں.ان کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام الاحمدیہ لا ہور نہایت اعلیٰ کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جب ہم بیماری اور بڑھایے کا شکار ہوئے تو اس نے نوجوانوں کو ہمت بخش دی اور انہوں نے نہایت ضروری بوجھ اٹھا لیا.بہر حال میں خدام الاحمدیہ لاہور سے خوش ہوں.بہت خوش اتنا کہ آپ اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے...جب میں ربوہ میں آؤں تو آپ مجھے ملیں.(خلیفة المسیح الثانی) عبد یداران مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور۵۷-۱۹۵۶ء منظوری از مرکز بذریعہ چٹھی نمبری ۵۶/۶۳۳ مؤرخه ۱۹۵۶ء-۱۱-۲۰ مکرم محمد یحیی صاحب قائد : نائب قائد اول : مکرم قاضی برکت اللہ صاحب ایم.اے نائب قائد دوم : مکرم محمد صدیق صاحب شاکر معتمد مکرم شیخ مبارک محمود صاحب نائب معتمد : مکرم مرزا محمود احمد صاحب ناظم مال : مکرم عبدالقیوم صاحب ناگی ناظم تعلیم ونشر واشاعت : مکرم اختر صاحب گوبند پوری ناظم تحریک جدید : مکرم محمود احمد صاحب قریشی ناظم و قال عمل : مکرم شریف احمد صاحب ٹھیکیدار ناظم تربیت واصلاح: مکرم محمد احمد صاحب پانی پتی ناظم عمومی : مکرم خان قدرت اللہ خاں صاحب ناظم تجنید : مکرم محمد صدیق صاحب شاکر

Page 621

620 ناظم ذہانت و صحت جسمانی مکرم شریف احمد صاحب سرہندی ناظم تحفيذ : : مکرم قاضی محمد برکت اللہ صاحب ایم.اے قریشی محمود احمد صاحب معتبر ۵۹ - ۱۹۵۸ ء ۶۰۰ - ۱۹۵۹ء صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان میں ایک معروف شخصیت جناب محمد اسمعیل صاحب معتبر (صحابی ) آڈیر تحریک جدید کی ہے جو کچھ عرصہ ہوا وفات پاچکے ہیں.قریشی محمود احمد صاحب انہیں کے لائق فرزندوں میں سے ہیں.مولوی فاضل ہیں.گریجوایٹ ہیں.دو سال تک قیادت کی توفیق حاصل ہوئی.آپ نہایت نرم دل بغیر سختی سے کام لینے والے ہیں.قیادت سے پہلے اور بعد بھی سالہا سال تک خدام الاحمدیہ کے ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے ہیں.تین سال تک بحیثیت سیکر ٹری تحریک جدید بھی کام کیا اور قریباً چار سال سے بطور سیکرٹری وقف جدید خدمات سرانجام دے رہے ہیں.درویشان قادیان جب بھی لاہور تشریف لاتے ان کی قیادت میں خدام کو درویشوں کی خدمت کی وافر توفیق ملی ہے.قافلہ جلسہ سالانہ قادیان کے جملہ انتظامات بطریق احسن سرانجام دیتے رہے ہیں.لاہور ڈویژن کے زیر اہتمام جتنی تربیتی کلاسیں ہوئیں.ان کی کامیابی میں قریشی صاحب کا خاص ہاتھ رہا ہے.جامعہ احمدیہ فضل عمر ہسپتال کی بلڈنگ کے لئے عطیہ جات فراہم کر کے مرکز میں بھجوائے گئے.سید حضرت اللہ صاحب پاشا ایم.اے یه ۶۲ - ۱۹۶۱ء ۶۳-۱۹۶۲ء کا زمانہ ہے خدام الاحمدیہ کے ارکان میں ایک ہنس مکھ ملنسار اور پُر وقار خادم - خدام کے ہر مسئلہ پر گہری نظر رکھنے والا خوش اخلاق اور خوش گفتار.یہ شخصیت قائد مجلس سید حضرت اللہ صاحب پاشا کی ہے.جو بہت بعد میں آئے اور بہتوں سے آگے نکل گئے.محترم پاشا صاحب ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۴ء تک امریکہ میں رہے.۱۹۵۳ء میں احمدیت قبول کی ۱۹۵۴ء میں ایم.اے پاس کیا.پہلی ملاقات سے ہی یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ محترم پاشا صاحب سلسلہ کی کتب اور خصوصاً تفسیر کبیر کا خاصا مطالعہ رکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ موجودہ دینی و دنیاوی مسائل پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ پیچیدہ مسائل کے صحیح حل سے آگاہ ہیں.رنج والم اور زمانہ کی ستم ظریفیوں کی چہرہ پر کوئی علامت نظر نہیں آتی.ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے پر سخت

Page 622

621 کرب و اضطراب کے عالم میں دو ماہ متواتر بستر علالت سے بھی مجلسی سرگرمیوں سے متعلق ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے رہے.تقریر میں تنظیمی مسائل پر بات کرتے ہوئے بھی روحانیت کا رنگ غالب ہوتا ہے.آپ کے دور قیادت میں لاہور کی مجلس میں تجنید کا خاصا کام ہوا ہے.ایک محتاط اندازے کے مطابق اس قیادت نے قریباً تین سو ایسے خدام کو تنظیم میں منسلک کیا جو اس سے قبل تجنید میں نہیں آسکے تھے.سات سو خدام کے کوائف مرتب کر کے مرکز میں بھجوائے جس کے نتیجہ میں بجٹ میں اڑھائی گنا اضافہ ہوا.خدام میں ڈاڑھی رکھنے کی تحریک پر زور دیا.خدام الاحمدیہ کا مستقل دفتر مسجد بیرون دیلی دروازہ میں قائم کروایا.تجنید میں اضافہ مجلس کے ہر شعبہ میں ترقی پر منتج ہوا.تنظیم مضبوط ہوئی.بجٹ میں اضافہ ہوا.اطفال کی موجودہ ابھرتی ہوئی تنظیم کی بنیاد آپ ہی کے دور قیادت میں رکھی گئی.مسجد دارالذکر میں نو روزہ تربیتی کلاس جس کی یاد تادیر خدام کے دلوں سے محو نہیں ہوگی آپ کی مخلصانہ کاوشوں کا ثمرہ تھا.یہ تربیتی کلاس ۱۸ تا ۲۶ - اگست ۱۹۶۲ء منعقد ہوئی تھی ) خدام کی صلاحیتوں کو پرکھ کر اس کے مطابق کام لینے میں پاشا صاحب ید طولیٰ رکھتے ہیں.جن نئے کارکنوں کو آپ ذمہ دار عہدوں پر لائے ان میں محترم شیخ ریاض محمود صاحب موجودہ قائد مجلس بھی شامل ہیں.بلڈ ڈونیشن : ۱۰۰ سے زائد خدام نے حصہ لیا.تبلیغ : ایک لاکھ سے زائد ٹریکٹ لا ہور میں تقسیم کئے گئے.لائبریریاں : مرکزی لائبریری کے فرنیچر اور کتب میں اضافہ کے ساتھ حلقوں میں لائبریریوں کا اضافہ ہوا.احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن: اس ایسوسی ایشن کا از سر نو قیام عمل میں لایا گیا.مجلس سے رابطہ گہرا ہوا.اور اجلاس اور دیگر سرگرمیاں تیز ہوئیں.اشاعت : حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی کتاب ”مذہب کے نام پر خون کے قریباً ۱۰۰ صفحات روزنامہ امروز“ میں شعبہ اشاعت نے شائع کروائے.مجلس لا ہور نے اطفال کے لئے ایک رسالہ کا بھی اجراء کیا جس کے چند ایشو نکلے تھے.

Page 623

622 حلقوں کی عاملہ اور مرکزی عاملہ میں کام کرنے والے کارکنوں کا اس دور میں جائزہ لیا جائے تو 50% کے قریب نئے کارکن نظر آئیں گے.لاہور میں تشریف آوری سے قبل محترم پاشا صاحب حیدر آباد اور خیر پور ڈویژن میں علاقائی قائد بھی رہے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ کے ریکارڈ سے نومبر ۱۹۶۱ء تا جون ۱۹۶۲ء کی ایک رپورٹ ملی ہے.جو درج ذیل ہے:.نومبر ۱۹۶۱ء تا جون ۱۹۶۲ء سات ماہانہ تربیتی اجلاس عام ہوئے.مندرجہ ذیل بزرگوں نے خدام سے خطاب فرمایا : ا.ڈاکٹر کرنل عطا اللہ صاحب قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ.ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ۴.سید حضرت اللہ پاشا صاحب مکرم چوہدری اسد اللہ خاں صاحب ۶.چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال ۲۲۳ چٹھیاں موصول ہوئی.آٹھ سرکلر جاری ہوئے.۱۹۲ خطوط لکھے گئے.تجنید : پچھلے سال ۳۴۴ خدام تجنید میں شامل تھے جب کہ اس سال انکی تعدا د۴۵۳ ہے.اشاعت : خالد کے خریدار۷۳ ( یہ تعداد تمام مجالس سے بڑھ کر ہے ) تفخیذ کے خریدار ۵۲ ( یہ تعداد تمام مجالس سے بڑھ کر ہے ) لائبریریاں : حلقہ جات کی مختلف لائبریریوں سے ۶۹۰۰ احباب نے استفادہ کیا.۳۷۲ خدام نے مختلف کتب کا مطالعہ کیا.۱۱۷ کتب کا اضافہ ہوا.تربیت و اصلاح: حلقہ جات میں ۱۲۱ تربیتی اجلاس ہوئے ۱۰۰ خدام با قاعدہ ذکر الہی کرتے ہیں.مرکزی تربیتی کلاس میں لاہور کے ۱۳ خدام شریک ہوئے.حاضری کے لحاظ سے ربوہ کے بعد لا ہور کا دوسرا نمبر تھا.

Page 624

623 اصلاح وارشاد: ۵۸۱ افراد زیر تربیت رہے.۵۰۰۰ کی تعداد میں لٹریچر بذریعہ ڈاک روانہ کیا گیا.۹۳۰۰ کی تعداد میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.۶ افراد نے بیعت کی.لاہور کے گرجوں میں خدام کے وفود تبلیغ کے لئے جاتے رہے.وائی.ایم ہی.اے ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا.۱۰۰۰ کے لگ بھگ حاضری تھی.۲۰۰ کے قریب غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.شعبہ مال : بجٹ ۶۶۶۰ روپے ہے.مختلف مرکزی مدات میں ۵۹ - ۳۰۱۵ روپے چندہ بھجوایا گیا.مجلس ۵۹-۱۶۰۴۳.اجتماع ۰۰-۳۷۲- تعمیر دفتر ۰۰-۱۰۰۰ وقار عمل : ۴۱ وقار عمل ہوئے.۲۵۱ گھنٹے صرف کئے گئے.خدمت خلق : ۱۷ خدام نے خون کا عطیہ دیا.۴۲۴ مریضوں کی عیادت کی گئی.۱۵۶ شیکے لگائے گئے.۵۶ افراد کے لئے ذریعہ معاش میں مدد دی گئی.شیخ ریاض محمود صاحب نومبر ۱۹۷۳ تا.....نو جوانوں کی تنظیم کے مسائل حل کرنے کے لئے اولوالعزمی اور خلوص کی ضرورت ہوا کرتی ہے.وقت کی قربانی بھی کرنا پڑتی ہے.مومنانہ فراست، کشادہ دلی اور بلند نظر کا جو ہر بھی چاہئے.محترم شیخ ریاض محمود صاحب اس اسلحہ سے لیس نظر آتے ہیں.محترم شیخ صاحب کو حضرت صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب صدر مجلس مرکزیہ کی رافت وشفقت سے بھی وافر حصہ میسر ہے.قائد صاحب مؤثر رنگ میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں.نظام سلسلہ پرسختی سے عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رفقائے کار میں ہر دلعزیز بھی ہیں.اس دور میں بعض ایسے خدام جنہیں کچھ عرصہ قبل انتظامی صلاحیتوں سے محروم سمجھا جاتا تھا اب ذمہ دار عہدوں پر خلوص اور کامیابی سے کام کرتے نظر آتے ہیں.مجالس ہائے عاملہ و عامہ با قاعدگی سے ہوتی ہیں.اجلاس عامہ میں سلسلہ کے بزرگوں سے تقاریر کروائی جاتی ہیں.مرکز میں کار کردگی رپورٹیں بر وقت پہنچائی جاتی ہیں.ہنگامی حالات میں خدام کی مساعی اپنوں اور غیروں کے لئے قابل رشک نمونہ ہے.اس قیادت کی بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے لا ہور میں تعلیم القرآن کلاس کا اہتمام مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے سپر د کیا ہے.اور مجلس اس مقدس فریضہ کو

Page 625

624 خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے.ذیل میں بعض شعبوں کی مختصر رپورٹ درج کی جاتی ہے.اصلاح وارشاد: تبلیغ کا کام وسیع اور مستحکم بنیادوں پر کیا گیا.اس سلسلہ میں یہ دور سابقہ ادوار پر سبقت لے گیا.مجلس مرکزیہ کی نظر میں ۶۵-۱۹۶۴ء میں پاکستان بھر میں مجلس راولپنڈی اور مجلس لاہور کا شعبہ اصلاح وارشاد نمایاں رہا ہے.تقسیم لٹریچر : اس وقت تک دو لاکھ سے زائد پمفلٹ تقسیم کئے جاچکے ہیں.ان میں سے ایک لاکھ مجلس لاہور کے شائع کردہ ہیں.یوم التبلیغ : ۲۱ بار منایا گیا.جلسہ ہائے سیرت النبی صلعم : ۱۷ جلسے ہوئے.تبلیغی اجلاس ۴ تبلیغی پارٹیاں -۱۲ - پوسٹر ۳۰۰۰ - ممبران اسمبلی کولٹریچر ۳ بار پرائیویٹ تبادلہ خیالات ۱۵ مرتبہ.شعبه تربیت و اصلاح: خدام کے دینی ذوق کو اجاگر کرنے کے لئے تربیتی کلاس ایک مؤثر ذریعہ ہے.تربیتی کلاس پہلے بارہ دن متواتر تمام حلقہ جات میں شام کو دو گھنٹے کے لئے جاری رہتی ہے اور اس کے بعد تین دن مسجد دارالذکر میں اجتماعی تربیتی کلاس منعقد ہوتی ہے.ربوہ کی مرکزی تربیتی کلاس میں بھی خدام نمایاں طور پر شامل ہوتے رہے.نماز تہجد و نفلی روزے: قائد صاحب کی توجہ خدام کے نفس کی اصلاح کی طرف بھی ہے.عملی قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ صدر صاحبان کے مشورہ سے مختلف حلقہ جات میں نماز کے نئے سنٹر مقرر کئے گئے ہیں.متعدد بار حلقہ جات میں ایک رات مقرر کر کے نماز تہجد ادا کی گئی.اس طرح خدام نے متعدد بار ایک دن مقرر کر کے نفلی روزے بھی رکھے.داڑھی : صدر صاحب کے ارشاد کے مطابق قائد صاحب داڑھی رکھنے کی تحریک پر متواتر زور دے رہے ہیں.اور اب ایسے نوجوانوں کی ایک معقول تعداد ہو چکی ہے.جو سنت کے مطابق پوری داڑھی رکھے ہوئے ہیں.مسجد کی تعمیر : تربیت و اصلاح اور تبلیغ کے لئے اسلامی سنٹر یعنی مساجد کا قیام نہایت ضروری

Page 626

625 ہے.قائد صاحب کی مسلسل مساعی سے حلقہ سلطان پورہ میں خوبصورت مسجد تیار ہوئی ہے.شعبہ اطفال الاحمدیہ: مجلس لاہور نے اطفال کی تنظیم کو مضبوط کرنے کے سلسلہ میں قابل قدر کام کیا ہے.اطفال میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے.مجلس لا ہور کے ۲۴ حلقہ جات کے تحت ۴۰۰ اطفال زیر تربیت رہے.۱۲- مرکزی اجلاس بلائے گئے.۱۴ - اپریل ۱۹۶۶ء کو حضرت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب صدر مجلس مرکزیہ کی زیر صدارت وسیع پیمانے پر ”یوم والدین کا اہتمام کیا گیا.تین دفعہ ہفتہ اطفال منایا گیا.مرکزی سالانہ کلاس میں اطفال کو بھجوایا جاتا رہا.ہر جمعہ اور عیدین کے مواقع پر بچے کتابوں کا بک سٹال لگاتے ہیں.خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کام مثلاً راستہ بنانا.دوا لانا غربا کی مدد کرنا وغیرہ امور سرانجام دیئے جاتے ہیں.یوم تبلیغ کے موقع پر اطفال نے خدام کے ساتھ مل کر شہر کے مختلف گوشوں میں ۴۰۰۰ ٹریکٹ تقسیم کئے.شعبہ تعلیم : خدام میں سلسلہ کے لٹریچر کو پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں امتحانات لئے گئے.اس مقصد کے پیش نظر مرکز نے تعلیمی کارڈ شائع کروائے.لاہور میں اس کارڈ کو بطور شناختی کارڈ خدام میں رائج کیا گیا.شعبہ تجنید : اس عرصہ میں ۳۰۰ سے زائد نئے خدام کو تنظیم میں منسلک کیا گیا.شعبه مال : مجلس کا سالانہ بجٹ ۱۱۰۰۰ گیارہ ہزار روپے کے قریب ہے.تعمیر ہال مرکزیہ کے لئے اس دور میں انداز ۳۵۰۰۰ روپے کا عطیہ فراہم کیا گیا.شعبہ ہائے تحریک جدید و وقف جدید: اس عرصہ میں متعدد بار ہفتہ ہائے تحریک جدید و وقف جدید منائے گئے.تحریک جدید کے ماتحت غیر ملکی مساجد ہسپتال، سکولوں اور دیگر عمارات اور مشہور ہستیوں کے فوٹو دکھانے کا اہتمام کیا گیا.شعبہ خدمت خلق : (۱) ۲۵۰ بے کار افراد کو روز گار مہیا کیا گیا.غریب طلبا کے لئے ۵۰۰ روپیہ ماہوار مستقل بنیادوں پر جاری ہے.(ب) شاہ جمال کالونی نزدگلبرگ میں جب شدید بارشوں کے باعث کچی آبادیاں گر گئیں تو قریبا یکصد خدام نے تباہ شدہ مکانات تعمیر کئے.مفت ادویہ تقسیم کیں.جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء جنگ کے ایام میں تنظیم کو نئے ڈھانچہ میں تقسیم کر دیا گیا.۵۰ خدام نے

Page 627

626 فرسٹ ایڈ کی تربیت حاصل کی.۲۵۰ کے قریب خدام نے سول ڈیفنس کی ٹریننگ لی.۱۵۰ خدام خون کا عطیہ دینے کے لئے حاضر ہو گئے.مصیبت زدہ افراد میں ہزاروں کی تعداد میں کپڑے گرم بستر اور دیگر اشیاء تقسیم کرنے کے علاوہ ہزاروں روپے دفاع فنڈ میں جمع کروائے گئے.شعبہ اشاعت: مجلس لاہور کا اس دور قیادت میں اہم کام سالانہ مصور رسالہ ” فاروق“ شائع کرنا ہے.قیمتی آرٹ پیپر پر اردو زبان میں با تصویر تبلیغی مجلہ دیدہ زیب بھی ہے اور علمی حلقوں میں بڑا مقبول ہوا ہے.مجلس کو اس سے نفع بھی حاصل ہوا.یہ اس قیادت کا اہم کام تصور کیا جاسکتا ہے.شعبہ عمومی : اس عرصہ میں پہلی بار جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ۱۵۰ خدام نے منظم طور پر بڑی عمدگی سے جلسہ کے انتظامات سنبھالے.انتظامیہ کی طرف سے اس انتظام کو بڑا پسند کیا گیا.دفتر : لا ہور میں مجلس کے کاموں کو بطریق احسن سرانجام دینے کیلئے جودھامل بلڈنگ میں با قاعدہ دفتر کا قیام کیا گیا.اس طرح تبلیغ کے لئے مسجد دہلی گیٹ میں دفتر مقرر کیا گیا.ممبران عامله: مندرجہ ذیل ممبران عاملہ نے قائد صاحب کے ساتھ مختلف وقتوں میں کام کیا ہے.قریشی محمود احمد صاحب قریشی مسعود احمد صاحب فضل الہی صاحب خواجہ محمد اکرم صاحب مظفر احمد صاحب شیخ بشیر احمد صاحب کنٹریکٹر مجیب الرحمن صاحب درد عبدالرشید صاحب بنگوی چوہدری منور لطف اللہ صاحب شیخ عبدالماجد صاحب میر مظفر اقبال شیخ رحمت علی صاحب چوہدری منور احمد صاحب چوہدری ارشاد احمد صاحب ورک چوہدری لعل خاں صاحب ملک نورالہی صاحب محمد رفیق صاحب ضیاء شیخ مبارک محمود صاحب شیخ حبیب الرحمن صاحب خواجہ حمید اسلم صاحب شیخ اعجاز احمد صاحب چوہدری محموداحمد صاحب صوفی محمد رشید احمد صاحب سلیم احمد صاحب سردار عبدالسمیع صاحب ڈاکٹر لئیق احمد صاحب بشیر الدین احمد صاحب محمود ا قبال صاحب چوہدری رشید محمد صاحب محمد صدیق صاحب شاکر بشارت احمد صاحب شیخ عبدالہادی صاحب صوفی خلیل احمد صاحب عبدالقیوم صاحب ناگی عبدالوہاب صاحب سید تقیسم حسین صاحب

Page 628

627 -۴- اپریل ۱۹۶۵ء کو محترم شیخ ریاض محمود صاحب کے خطبہ نکاح کے موقعہ پر صدر مجلس محترم مرزا رفیع احمد صاحب نے قائد مجلس اور لاہور کے دیگر نو جوانوں کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا وہ درج کر کے ہم اس بیان کو ختم کرتے ہیں : شیخ صاحب سلسلہ کے خادم اور میرے نزدیک جس طرح وہ خدمت دین کر رہے ہیں واقفین زندگی ہی میں سے ایک فرد ہیں اور ان کو واقف زندگی ہی سمجھنا چاہئے جو لوگ اس طرح سے سلسلہ کا کام کرتے ہیں وہ اکیلے ہی ایسے فرد نہیں.قائد ہونے کے لحاظ سے ان کو ایک امتیاز حاصل ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بھی بہت سارے نوجوان یہاں اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں جن کا اخلاص اور سلسلہ کے لئے درد اور جس طرح وہ اپنے ذاتی کاموں اور دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر خدا کے کاموں اور دین اور عقبی کے کاموں کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ بہتوں کے لئے قابل رشک اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہے“.حوالہ جات ے سالانہ رپورٹ انجمن اشاعت اسلام حصہ دوم صفحه ۱۲ وو الفضل ۶۴ - متى ۱۹۱۴ء الفضل‘۸ - مارچ ۱۹۱۹ء کے دو الفضل ۸- مارچ ۱۹۱۹ء "پیغام صلح ۲۴ - مارچ ۱۹۱۹ء سرورق ”اسلام میں اختلافات کا آغاز بار دوم کے دو الفضل ۲۶۴ - فروری ۱۹۲۰ء الفضل، یکم مارچ ۱۹۲۰ء «الفضل، یکم مارچ ۱۹۲۰ء ا الفضل“ یکم مارچ ۱۹۲۰ء دو « الفضل ۱۵ - مارچ ۱۹۲۰ء " د الفضل، ۲۳ - فروری ۱۹۲۰ء

Page 629

628 دو وو دو الفضل، ۳ - مارچ ۱۹۲۱ء الفضل ۲۶ - دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۵ الفضل ۹ - مارچ ۱۹۲۲ء الفضل ۲۷۰ - فروری ۱۹۲۲ء کل الفضل‘۶ - مارچ ۱۹۲۲ء و الفضل ۲۵ - ۲۸ - ستمبر ۱۹۲۲ء د, 19 و الفضل ۲۰-۲۳ - نومبر ۱۹۲۳ء ریویو آف ریلیجنز اردود سمبر ۱۹۲۴ء دو د الفضل، ۲۰-۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء وو ۲۲ « الفضل ۱۲۰ - اکتوبر ۱۹۲۳ء الفضل“ ۲۷ - نومبر ۱۹۲۳ء ۲۵۴۲۴ الا زہار لذوات الخمار صفحه ۶۸ تا ۷۲ ۲۶.سالانہ رپورٹ صفحہ ۸-۹ ۲۷ ۲۸ رپورٹ صفحہ ۲۹ ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۲۴ء ۲۹ الفضل ۲۱ - اکتوبر ۱۹۲۴ء ۳۰ « الفضل،۲۳ - اکتوبر ۱۹۲۴ء اسے دو الفضل ۱۱۴ - ستمبر ۱۹۲۴ء ۳۲ « الفضل ۸- مارچ ۱۹۲۷ء وو الفضل ۴ - مارچ ۱۹۲۷ء ۳۴ الفضل ۸- مارچ ۱۹۲۷ء اخبار تنظیم امرتسر پر چه ۱۴ مارچ ۱۹۲۷ء ۳۵ 66 ۳۶ اخبار ملاپ پر چه ۴ - مارچ ۱۹۲۷ء الفضل، ۱۵ مارچ ۱۹۲۷ء «سرگذشت از مولانا عبدالمجید صاحب سالک صفحه ۲۳۶ - ۲۳۷

Page 630

629 وا ۳۹ الفضل ۲۰۰۰ - مئی ۱۹۲۷ء پر چہ ۶ - جون ۱۹۲۷ء وو ا الفضل، ۳ - جون ۱۹۲۷ء ۲ منقول از الفضل ۱۰ - جون ۱۹۳۷ء ,, الفضل ۱۰ - جون ۱۹۲۷ء ۴۴ « الفضل ۱۶ - اگست ۱۹۲۷ء ۴۵ « الفضل ۱۶۴ - اگست ۱۹۲۷ء دو " ۴۶ و الفضل یکم جولائی ۱۹۲۷ء وه انقلاب ۲۳ - جون ۱۹۲۷ء ۲۸ دور جدید ۱۱۶ کتوبر ۱۹۳۳ء ۴۹ «سیاست ۲۳ - جون ۱۹۲۷ء ۵۰ ايضاً ا ايضاً ۵۲ «الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۷ء ۵۳ « الفضل ۳۰ - اگست ۱۹۲۷ء ۵۴ الفضل ۴ - نومبر ۱۹۲۷ء ۵۵ الفضل ۱۶ - اکتوبر ۱۹۲۷ء ۵۶ بحوالہ تقریر دلپذیر ۱۹۲۷ء صفحه ۴۳-۴۴ ۵۷ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد پنجم ، صفحہ ۶۰۸ ۵۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحه ۲۱۲-۲۱۳ ۵۹ « الفضل‘۹ - نومبر ۱۹۲۸ء الفضل‘۱۸ - جنوری ۱۹۲۹ء ا " الفضل ۸- نومبر ۱۹۲۹ء انقلاب پر چہ ۱۳ - جولائی ۱۹۴۱ء

Page 631

630 ایضا پر چہ ۶ - جولائی ۱۹۳۱ء بحوالہ اصلاح سری نگر پر چہ ۲۴ جولائی ۱۹۴۱ء " اقبال کے آخری دو سال، صفحہ ۱۵ ۲۵ پرچہ جون ۱۹۵۲ء بحواله الفضل ۲۲۰ جون ۱۹۵۲ء ۱۶ اخبار ” منادی ۲۴ - اکتوبر ۱۹۳۴ء بحواله الفضل، ۱۳ نومبر ۱۹۳۴ء ۱۷ پر چہ یکم جنوری ۱۹۳۲ء پرچه ۳۰ - دسمبر ۱۹۳۱ء پر چہ یکم جنوری ۱۹۳۲ء کے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحه ۱۴-۱۵ ا الفضل ۲۹۴ - مئی ۱۹۵۵ء ۲ کے تاریخ احمدیت جلد ششم بحوالہ لاہور پر چه ۵ - اپریل ۱۹۶۵ء الفضل، ۲۴ - دسمبر ۱۹۳۱ء کے انقلاب ۱۱ - اکتوبر ۱۹۳۲ء ۷۵ الفضل، ۲۰.اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۵ دو وو الفضل، ۲۰.اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۸ الفضل، ۲۰.۲۰ اگست ۱۹۳۵ء الفضل، ۲- اگست ۱۹۳۵ء ۹ کے مجاہد پر چہے.اگست ۱۹۳۵ء چه دو ۸۰ " الفضل“ پرچه اد ۲ اگست ۱۹۳۵ء ا الفضل، ۱۸.ستمبر ۱۹۳۵ء و" الفضل ۱۴ جون ۱۹۳۶ء الفضل، ۱۷.اکتوبر ۱۹۳۶ء ۵۴ اقتباس از مضمون حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب منقول از تابعین اصحاب احمد حصہ سوم صفحه ۳۱۴

Page 632

631 ۸۵ الفضل‘۱۲- جولائی ۱۹۴۴ء ، تابعین اصحاب احمد حصہ سوم صفحه ۲۷۲ ۵۷ اشتهار ۲۰ - فروری ۱۸۸۶ء د الفضل ۱۸ - فروری ۱۹۴۴ء ۱۹، تذکره صفحه ۳۷۶ الفضل ۱۶۰ - جون ۱۹۴۴ء د الفضل ۲- جنوری ۱۹۴۵ء ۹۲ « الفضل ۵- مارچ ۱۹۴۵ء وا الفضل، ۱۷.مارچ ۱۹۴۴ء الفضل ۷.مارچ ۱۹۴۵ء ۹۵ الفضل ۴ - جون ۱۹۴۵ء " الفضل ۱۲-۱۳ نومبر ۱۹۴۵ء الفضل ۹ - مارچ ۱۹۴۶ء الفضل۱۱۴- مارچ ۶۱۹۴۶ ۹۹ و الفضل ۲- ستمبر ۱۹۴۶ء ۱۰۰ دو الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۶ء ا الفضل ۶ - مارچ ۱۹۴۷ء ۰۲ الفضل ۷.مارچ ۱۹۴۷ء ۱۰۳ و الفضل، ۱۹ مارچ ۱۹۴۷ء - ۱۰۴ روزنامہ نوائے وقت“ مورخہ یکم اگست ۱۹۴۷ء ۱۰۵ تقریر یکم اگست ۱۹۴۷ء بمقام لاہور ١٠ الفضل ۱۸- جنوری ۱۹۴۸ء ے ام الفضل“ پر چه ۱۳ اپریل ۱۹۲۷ء

Page 633

632 ١٠٨ الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۸ء ۱۰۹ الفضل ۲۱ - ستمبر ۱۹۴۸ء الفضل، مورخه ۱۷ - اکتوبر ۱۹۴۸ء الله الفضل، مورخہ یکم مئی ۱۹۴۸ء ۱۲ وو االه دو « الفضل“ پر چه ۲۶- جنوری ۱۹۴۹ء د الفضل ۲۶ - دسمبر ۱۹۴۸ء ايضاً ۱۱۵ الفضل ۱۲- جنوری ۱۹۴۹ء الفضل، ۳۰ - جون ۱۹۴۹ء الد الفضل‘۶ - نومبر ۱۹۴۹ء د الفضل، ۸- نومبر ۱۹۴۹ء 119 " الفضل ۶ - دسمبر ۱۹۴۹ء ۱۲۰ «الفضل ۹ - دسمبر ۱۹۴۹ء ۲۱ و الفضل ۲۸ - اکتوبر ۱۹۵۱ء دو ۱۲۲ « الفضل، ۱۰ - نومبر ۱۹۵۱ء ۲۳ «الفضل ۲۲- نومبر ۱۹۵۱ء " ۲۴ و الفضل، ۲۶ - جون ۱۹۵۲ء ۱۲۵ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۱۰ ۲۶ ایضاً صفحه ۱۱ ۱۲۷ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۱۴ ۱۲۸ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۵ ۱۲۹ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۹-۳۰ ۱۳۰ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۸۴

Page 634

633 ا ايضاً صفحه ۸۸ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۱۵۹-۱۶۰ ۱۳۳ ” نوائے وقت“ ۳- اپریل ۱۹۵۳ء ۱۳۴ «المصلح ، کراچی ۲۹ مئی ۱۹۵۳ء ۱۳۵، رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۱۶۱ ۱۳۶ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۷۱ ۱۳۷ ر پورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۴۲۲ ۱۳۸ دو الفضل، ۱۴ - ستمبر ۱۹۵۴ء وو ۱۳۹ « الفضل ۱۷ - ستمبر ۱۹۵۴ء ۱۴۰ الفضل، مورخه ۲۸ - ستمبر ۱۹۵۴ء اد الفضل، ۵- اکتوبر ۱۹۵۴ء ۱۴۲ « الفضل ۷- اکتوبر ۱۹۵۴ء ۱۳ « الفضل“ پر چه ۸- اکتوبر ۱۹۵۴ء ۱۴۴ تقریر فرموده ۵ - نومبر ۱۹۵۴ء بر موقعه سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ۱۳۵ تقریر فرموده ۲۸ - دسمبر ۱۹۵۴ء بر موقعه جلسه سالانہ مندرجہ ”الفضل ۶۴ - جنوری ۱۹۵۵ء ۱۶ «الفضل“ پر چه ۲۳ - ستمبر ۱۹۵۴ء د الفضل، ۱۵ - اکتوبر ۱۹۵۴ء د الفضل، ۱۰- اکتوبر ۱۹۵۴ء ۴۹ و الفضل، ۱۶ - اکتوبر ۱۹۵۴ء ۱۵۰ در لفضل، ۱۹ - اکتوبر ۱۹۵۴ء اهای «الفضل، ۱۹ - اکتوبر ۱۹۵۴ء ۱۵۲ « الفضل ۱۷ - اکتوبر ۱۹۵۴ء دو وو 6 ۱۵۳ « الفضل ۳۱ - اکتوبر ۱۹۵۴ء

Page 635

۱۵۴ الفضل ۲- نومبر ۱۹۵۴ء ۱۵۵ الفضل، ۲۱ - دسمبر ۱۹۵۴ء دو ۵۶ « الفضل، ۱۰ - مارچ ۱۹۵۵ء اد الفضل، ۱۵- مارچ ۱۹۵۵ء ۱۵۸ الفضل، ۱۸ - مارچ ۱۹۵۵ء وو ۱۵۹ « الفضل، ۲۵ - مارچ ۱۹۵۵ء و الفضل، ۲۹ - مارچ ۱۹۵۵ء ا الفضل، ۳ - جون ۱۹۵۵ء ۶۲ و الفضل ۱۲ - جون ۱۹۵۵ء ۱۳ « الفضل، ۱۹ - مئی ۱۹۵۶ء ۱۴ « الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۶ء ۱۶۵ الفضل، ۱۸ - مارچ ۱۹۵۶ء وو ۱۶ « الفضل“ ۵- اپریل ۱۹۵۶ء ۱۶۷ الفضل، ۱۵.مئی ۱۹۵۶ء الفضل، ۲۹ - مئی ۱۹۵۶ء ۱۹ « الفضل، ۳۱ - مئی ۱۹۵۶ء كاد الفضل، ۱۱.جنوری ۱۹۵۸ء اكل والفضل“ ۱۱- جنوری ۱۹۵۸ء وو الفضل“ ۱۱ - جون ۱۹۵۸ء 634 الفضل ۱۴ اگست ۱۹۵۸ء ا الفضل ۲ - مئی ۱۹۶۱ء كل الفضل ۶ - جنوری ۱۹۶۱ء وو الفضل ۷- مارچ ۱۹۶۳ء ک ہفتہ وار لا ہور پر چہے.جون ۱۹۶۵ء

Page 636

635 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کےساتھ شکریہ بزرگان و احباب مکرمی و محترمی مولانا محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج صیغہ زود نویسی کی وفات کو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.مگر میں نے اپنی اس کتاب میں بھی آئمکرم کے فراہم کردہ مواد سے فائدہ اٹھایا ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا د کا حافظ و ناصر ہو.آمین مکرمی ومحتر می ڈاکٹر عبید اللہ خاں صاحب بٹالوی اور عزیزم شیخ عبدالماجد صاحب بی.اے بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کے مسودہ میں اپنے گرانقدر مشوروں سے امداددی.مکرم و محتر می جناب چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب آج کل صاحب فراش ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں کا ملہ عاجلہ صحت عطا فرمائے.انہوں نے بھی ہر قسم کی امداد سے نوازا ہے.ضخیم کتابوں کی طباعت کیلئے سب سے زیادہ مشکل اخراجات کی ہوا کرتی ہے.مالی رنگ میں درج ذیل بزرگوں اور احباب نے تعاون کیا ہے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء ا.حضرت میاں محمد یوسف صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ لا ہو ر ۲.محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر.۳.محترم جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت شیخو پوره - -۴- محترم جناب شیخ عبدالحق صاحب انجنیر صدر حلقہ دارالذکر.

Page 637

636 ۵.محترم جناب چوہدری فتح محمد صاحب مالک ہری کے ٹرانسپورٹ.4.محترم جناب چوہدری نوراحمد صاحب صدر حلقہ سول لائنز.۷.محترم جناب چوہدری غلام رسول صاحب صدر حلقہ مغلپورہ گنج.۸.محترم جناب چوہدری منور لطف اللہ خاں صاحب ایڈووکیٹ و صدر حلقه سمن آباد - ۹ - محترم جناب چوہدری محمد نواز صاحب مینیجنگ ڈائریکٹر پرنس ٹرانسپورٹ - ۱۰- محترم جناب شیخ بشیر احمد و جناب فضل احمد صاحبان گورنمنٹ کنٹریکٹر سمن آباد.۱۱ محترم جناب حافظ فضل کریم صاحب ہال روڈ.۱۲.محترم جناب ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی سیکرٹری اصلاح وارشاد لاہور.۱۳.محترم جناب میاں عطاء الرحمن صاحب چغتائی ماڈل ٹاؤن - ۱۴- محترم جناب میاں عبدالعزیز صاحب بھٹی سمن آباد.ناشگر گزاری ہوگی اگر محترم جناب چوہدری شاہ محمد صاحب خوشنویس کی ان تھک محنت اور کوشش کا ذکر نہ کیا جائے.جو آپ نے باوجود عدیم الفرصت ہونے کے اس کتاب کی کتابت میں کی.فجزاه الله احسن الجزاء.خاکسار عبد القادر

Page 638

۲۴ ۲۹ انڈیکس مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز اسماء مقامات کتابیات

Page 639

۲۳۶ ۲۹۱ ۳۲۴ ۶۰۸ ۶۲۶ ۶۰۴۶۰۰۵۶۰ ۶۱۶۶۱۵ ۶۰۹ ۹۸ ۳۵۷ ۲۶۸ ۳۰۰ ۳۴۲ ۳۹۸ ۵۲۱۵۲۰ ۱۲۵ ۳۵۱ ۳۰۲ ۶۰۷۳۷۴ ۲۶۰ ۶۱۰ ۶۱۴ ١٤٠١٣٩ ۴۰۵٬۴۰۴ ۳۶۷ ۱۰۲ ۵۳۳ ۲۱۲ ۲۳۷ ۲۵۶ ۳۶۸ ۴۱۴ ۱۳۹ اسماعیل بیگ.مرزا اظہر علی.ڈاکٹر اعجاز احمد اعجاز احمد اعجاز.سید اعجاز احمد.شیخ اعجاز الحق.ڈاکٹر.حضرت مصلح موعود کے ڈینٹل سرجن ہونے کی سعادت اعزاز علی شاہ.سید اقبال اقبال احمد را جیکی اقبال.بیگم اقبال.بیگم اقبال.بیگم اقبال بیگم اقبال بیگم.سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کی غیر معمولی خدمت اقبال بیگم.سیدہ بنت سید رمضان شاه اکبر سلطانہ اکبر علی.بابوحضرت اکبر علی.میاں الطاف الرحمن الطاف حسین.چوہدری الطاف احمد خان.میاں اللہ بخش اللہ بخش خاں.حکیم مولوی کی زندگی کا ایک ورق ۱۳۹ ۵۰۹ ۶۱۰ ۹۸ ۱۳۴ ۳۷ ۶۰۹ ۵۵۲٬۵۵۱ ۴۷۵۳۶۶۲۶۰ ۲۵۴۲۶۲ ۲۵۴ ۴۴۹٬۳۳۱ ۲۲۲ ۶۰۷ ۶۱۳ ۱۳۶ ۲۶۶ ۶۱۹ ۲۸۶ ۶۲۶ ۱۷۴ ۴۹۵ 41 + 3 احمد جان.مولوی حضرت اسماء احمد جان.چوہدری امیر جماعت راولپنڈی احمد حسن.شیخ احمد حسین احمد حسین ابن حکیم محمد حسین احمد حسین عظیم آبادی مولوی احمد حیات.چوہدری احمد خان نسیم.مولوی احمد دین مرحوم احمد دین.حضرت حکیم.شاہدرہ طب جدید کے موجد احمد جان صوفی ڈوری باف مہم ہونے کا دعوی....بہت غریب آدمی حضرت مسیح موعود لا ہوران کی دعوت پر گھر تشریف لے گئے احمد دین.میاں احمد شاہ احمد علی.ڈاکٹر احمد علی.شیخ احمد علی مولوی اختر گوبند پوری ارجمند خان.مولوی ارشاداحمد.ورک چوہدری اروڑے خان.منشی حضرت ارون را برٹس.مسٹر آتما رام مجسٹریٹ آدم.حضرت خلافتِ آدم پر اعتراض ابلیس نے کیا اور کیا پھل پایا.آرتھر فروم - سر آرتھر ہینڈرسن.مسٹر ابوالکلام آزاد ۴۳۴ ۴۳ ۴۳۰ ۴۹۶ ۵۳۵ ۵۹۵ ۴۹۸ آسٹن.آرچ بشپ آف کنٹر بری سر آسٹن چیمبرلین آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ.صاحبزادی ۲۱۱ ۴۹۸ ۳۰۶ ۲۷۳ ۱۶۶۱۶۵ ۳۷۵ ۳۶۱٬۳۴۵۲۹۸٬۹۷ ۳۵۴ ۲۵۱ ۳۰۰ آصف جاہ.نواب نظام حیدر آباد دکن آغا خان آفتاب آمنه آمنہ.بشری آمنہ.بیگم آمنہ بی بی آمنہ.صدیقہ بیوہ مرزا مولا بخش آمنه قمر ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا...۴۳۰ ۹۷۹۶ ۴۳۴۴۳۳۴۳۲۴۳۰۶۰ ۵۷ ۵۶۹ خلافت پر اعتراض مت کرو ابناش چندر بابو ابوبکر حضرت ابوسعید عرب ابوالحسنات محمد احمد.مولانا ابوالعطاء جالندھری.مولانا ۵۷۹٬۵۷۳٬۵۵۸٬۳۹۵٬۳۱۴ | الحق منصور.میاں اسد اللہ خان محمد.حضرت چوہدری امیر جماعت لاہور از قلم ثاقب زیروی ۵۱۱٬۴۷۶۵۴۲٬۲۵۳۲۱۶۲۱۵۱۴۳ اللہ جوائی ۵۳۴٬۵۳۰۵۲۷۵۲۲٬۶۳۵٬۶۲۲۶۱۷٬۵۰۴٬۵۰۲ اللہ دتہ.پیغمبر اسنگھ کے بھائی کا حضرت مسیح موعود ۵۸۶۵۸۴۵۸۰٬۵۷۸۵۷۶۵۵۹۵۵۸٬۵۵۶٬۵۴۲ پر حملہ کر کے گرانے کی ناکام کوشش ۶۰۴٬۶۰۰۵۹۹۵۹۱۵۹۰۵۸۸۵۸۷ اللہ رکھا.مستری آپ کا تفصیلی تعارف ۵۹۵ الہ بخش.ڈاکٹر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا ایک رویا آپ کے متعلق اله بخش الہ بخش.چوہدری حضرت مالک سٹیم پریس قادیان الہ دین شملوی.شیخ الہ دین.حکیم الہ دین.میاں حضرت ولد میاں عمر دین ۵۷۴ ۹۸ ۲۷۴ ۳۶۶ Smaple index1 آپ کا زمانہ امارت اسلم اسماعیل اسماعیل احمد ۵۴۲ ۳۹۰ ۳۲ ۵۶۸ ۵۶۷ ۵۶۲۳۶۵ ۵۲۱۵۲۰ ۳۱۹۲۹۴ ۱۴۸ ۲۶۹ ابوالمنیر نورالحق ابوالہاشم خان بہا در چوہدری ابو یوسف.محمد مبارک علی سیالکوٹی.مولانا احتشام الحق.تھانوی مولانا احسان احمد شجاع آبادی.قاضی احسان اللہ.ملک احسان اللہ لاہوری.میاں احسان علی.ڈاکٹر احمد.ماسٹر (غیر از جماعت ) جالسه ۱۸۹۲ء میں شامل ہوئے لیکن احمدی نہیں تھے احمد بخش.شیخ

Page 640

۳۸۸ ۳۴۲ ۱۲۳ ۱۲۵ ۳۵۱ ۲۶۶ ۱۴۷ ٢٠٩ ۲۹۹ ۳۹۴ ۳۵۱ ۶۱۳ ۶۰۰ ۴۳۹ ۲۰۹ ۲۷۵ ۵۵۹ ۴۹۹ ۲۷۹ ΑΡ امیرالدین.کرنل امیرالدین.مرزا امیرالدین.پراچہ میاں امین شاہ سید امین الحق امینہ امینہ بیگم امینہ بیگم امینہ بیگم انجم آرا انور سلطانہ انور علی.چوہدری انشاء اللہ خان.بابو انعام اللہ شاہ.سید انیس احمد اوصاف علی خان.کرنل اے.ای.میڈن.ڈاکٹر ایس.ایم.خان عبد اللہ ا يمنه ایوب بیگ.حضرت مرزا.پروفیسر چیفس کالج ایوب بیگ.مرزا آپ کا کشف کہ آنحضرت تلوار لئے دوڑے جارہے ہیں کہ آج مرزا غلام احمد کی تلاشی ہونی ہے حفاظت کیلئے جار ہا ہوں ایوان جنکنز.سرگورنر پنجاب ۱۳۵ تا ۱۳۸ ۱۳۷ ۵۳۳ باٹ.کرنل ۴۹۷ باقی باللہ.حضرت ۲۲۳ بدر الدین.مولوی 1+1 بدر الدین.مولوی راولپنڈی کی شہادت برکات احمد.راجیکی ۵۶۶ ۳۵۷ برکات الرحمن نسیم ۱۹۶ برکت اللہ.قاضی ۶۱۸ تا ۶۲۰ برکت النساء.بیگم ۳۵۸ برکت علی.خان منشی ۸۸ برکت علی.شیخ ۳۶۶ برکت علی.ملک گجراتی برکت علی.سید برکت علی.ملک وکیل ۳۹۵ ۴۷۵ ۱۰۵ برکت علی.ملک ۵۷۲ ۳۹۱ ۳۱۲ ۱۹۳ ۲۸۷ ۲۹۰ ۳۳۳ ۳۰۶ ۳۱۳ ۱۸۰ ۳۵۱ ۲۵۱ ۹۸ ۱۰۷ ۳۱۳ ۴۶۶ ۲۵۶ ۱۸۰ ۳۹۷ ۱۲۴ ۲۵۲ ۱۴۸ ۲۲۷ ۴۶۶۴۴۶۵ ۲۶۰ ۱۸۰ ۱۹۶ ۲۵۶ ۱۹۳ ۳۹۷ ۱۹۳ ۱۸۲ lar ۳۲۰ ۵۲۸ ۳۷۶ ۳۱۳ ۲۹ ۶۰۷ ۵۸۶ ۵۹۰ 4 الہی بخش.میاں الہی بخش.اکاونٹوٹ ۲۶۹۱۶۸٬۹۹٬۹۸۸۳۸۱ الہی بخش.بابوا کا ؤنٹنٹ.یو نیورسٹی ہال کے الہی بخش.مولوی الہی بخش.میاں ساتھ ایک مسجد بنانا الہی بخش.ڈاکٹر کرنل امام بخش.میاں امام بی بی امام الدین.مولوی حضرت امة الرحمن ۱۷۵۱۷۱۱۵۵ امته الرحیم امتة الرشيد ۱۵۶ امۃ الرشید ۲۷۷ امۃ الرشید ۴۷۶ امة الرشيد ۵۸۷ امة الرؤف ۱۶۹ امه السلام ٣٠٣ ۳۵۵۳۵۴ امتہ السلام بیگم.صاحبزادی امته السلام ۳۴۲ ۲۷۵ ۳۱۸ ۱۹۴ ۱۰۸ ۱۹۱ ۵۲۳۵۰۴۴۶۴ امام الدین.میاں امام دین.میاں امام الدین.جہلمی میاں امام الدین.منشی حضرت امام الدین.مرزا حضور کے چچازاد اماں جی.اہلیہ خلیفہ امسیح الاول اتم طاہر.سیدہ حضرت حضرت سیدہ ام طاہر کی بیماری اورخلیفہ المسیح الثانی امتة اللطيف امتہ العزیز بیگم.اہلیہ چو ہدری محب الرحمن امة القيوم امة القيوم امتة القيوم امۃ القیوم.صاحبزادی بیگم حضرت مرزا مظفر احمد امتہ الکریم امترا للطیف بیگم.صاحبزادی امتہ اللہ.بنت میاں عبدالعزیز مغل امة الله امه الله امتہ اللہ بیگم امتہ اللہ بیگم امتہ اللہ بیگم مغل امة المجیب امتہ المجید بیگم.صاحبزادی امة المجيد امة المنان امت النصير امة النصير امة النظير امۃ الوحید.صاحبزادی امت الودود.صاحبزادی امة الهادی امیر بخش.ملک امیر بیگم امیر شاہ سید امیر علی شاہ سید سیالکوٹی امیر الدین.چوہدری امیرالدین.ڈاکٹر امیرالدین.ڈاکٹر ۵۷۴٬۵۱۹۵۱۸ ۲۱۵ ۵۵۹۵۶۳٬۴۶۴ ۵۹۰ کی لاہور میں تشریف آوری اتم طاہر.حضرت سیدہ آپ کی علالت کیلئے حضور کا لا ہور میں قیام اور مصلح موعود کی بشارت اور حضور کا اصحاب مسیح موعود کے ساتھ فوٹو ام متین.حضرت ۴۶۴۳۲۲۳۲۱۳۱۹۳۱۸ ۱۸۲ ۲۶۰ ۳۴۸۳۴۷۱۸۳ ۱۹۶ ۱۹۳ ۲۹۰ ۲۹۴ ۳۲۱ ۳۳۳ ۳۹۷ ۱۸۰ ۲۶۰ ۴۶۴ ۳۷۴ ۲۵۶ ام مظفراحمد.سیدہ حضرت ام ناصر.سیدہ حضرت امہ الباری.صاحبزادی امة الباسط امتہ الحفیظ بیگم.سیدہ حضرت امة الحفيظ امة الحفيظ امة الحفيظ امة الحفیظ بیگم امة الحفيظ امة الحفيظ امة الحفيظ امتہ الحمید بیگم.صاحبزادی امتہ الحی امتہ الحی.حضرت.پہلی سیکرٹری لجنہ امتہ الحی بنت ظفر اللہ خان صاحب امة الرحمن

Page 641

5 برکت علی.لائق مولوی برکت علی.ڈپٹی شاہجہانپوری برکت علی.قریشی برہم دت.مسٹر ڈیرہ دون بسم اللہ بیگم بشارت احمد.ڈاکٹر بشارت احمد بشارت احمد.میاں بشارت احمد بشارت احمد بشارت الرحمن صوفی بشارت تسنیم بشری بشری بشری بشری بیگم بشری نمین بشری خاتون بشری صادقہ بشری ممتاز بشیر احمد.صاحبزادہ مرزا ۶۰۰ ۴۳ ۵۰۴ ۶۸ ۳۰۶ ۴۴۷ ۴۰۱۳۳۵۳۱۴ ۶۲۶ ۶۰۶ ۳۱۳ 12A ۵۶۱۵۶۰ ۳۴۹ 12A ۳۶۶ ۳۳۱ ۳۰۰ ۲۵۲ ۲۷۶ ۳۳۳ ۳۳۷ ۹۸ ۱۸۵۱۵۲۱۴۴۴۱۶۹۵۷ بشیر احمد.چوہدری گورائیہ بشیر احمد.ملک بشیر احمد.ملک کرنل ڈاکٹر بشیر احمد.مسٹر پروفیسر FC کالج بشیر احمد.چوہدری بشیر احمد.صوفی بشیر احمد.رحمانی بشیر احمد.میاں ابن میاں معراج دین عمر بشیر احمد بشیر احمد بشیر احمد.کیپٹن ڈاکٹر بشیر اوّل.حضرت مرزا بشیر الدین بشیر الدین.میاں بشیر الدین احمد بشیر الدین محموداحمد حضرت مرزا خلیفہ اسیح الثانی ۶۱۲ ۶۰۹ ۵۸۵ ۴۷۸ ۶۰۵۶۰۰ ۲۹۰ ۲۸۷ ۱۰۷ ۱۵۵ ۳۶۱ ۲۷۹ ۳۱۸ ۱۹۱۱ء میں لاہور میں دو تقاریر ۱۹۱۲ء میں لا ہور تقریر نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر حضور کا مختصر خطاب ویمبلے کانفرنس سے حضور کی ربوہ میں مستقل رہائش کیلئے لاہور سے روانگی حضور کا ابتداء میں ربوہ تشریف لانا حضور کا دورہ سندھ ۴۲۸ ۴۲۹ ۵۸۸ ۴۷۰ ۵۵۹ ۵۵۴ ۵۵۱ حضور کا مسجد احمد یہ لائلپور کا افتتاح فرمانا ۹۱ حضور کا حضرت مولوی غلام حسین کے بارے میں ارشاد ۸۶ خلیفہ اسیح الثانی سے تفسیر سورۃ انفال سبقاً سبقاً پڑھی شیخ عبدالحمدی نے حضور کی جلالی نظر کا ایک نظارہ خلیفہ مسیح الثانی کامحمد سعید احم قائدلا ہور ۱۷۵۱۷۱ کے کام پر اظہار خوشنودی ۳۶۳ ۶۰۷ ۶۲۶ حضور نے رتن باغ کے ہندوؤں کو اطلاع کروائی کہ اپنا سامان لے جانا چا ہو تو لے جائیں اور ان کا سامان استعمال نہ کرنے کا حکم دیا حضور کا احمدیہ ہوٹل لاہور میں قیام ۲۲۶ ۴٬۲۴۱۲۲۸ ۲۵ ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کا حضور کو دعوت نامہ ۳۰۹۲۹۹۲۹۶۲۹۴۶۲۹۳٬۲۸۷۲۷۶۲۷۳۲۶۹۴۴۵۶ اور حضور کا اس کیلئے مضمون لکھنا احمدیت یعنی حقیقی ۳۳۳۳۳۰۳۲۹٬۳۲۸٬۳۲۶۴۳۲۵٬۳۱۸۳۷۳۱۴ ۳۳۹ ۳۴۷۴۳۴۰ تا ۳۶۰۳۵۹٬۳۵۶۳۵۳٬۳۴۹ ۳۹۴٬۳۹۱۳۹۰۳۸۰٬۳۸۶۳۷۸۳۷۷ ۳۷۳۳۶۹ ۴۴۵ ۴۴۳۸ ،۴۳۷ ۴۲۸۴۴۲۶۴۴۲۳ ،۴۰۹۴۴۰۱۳۹۵ ۳۵۹۳۶۵۳۶۴۳۴۰ ۳۴۶۳۲۳۲۹۳۲۶۱۲۵۰۱۷۹ ۵۸۳۵۵۴٬۵۲۹٬۴۶۹۴۳۱۴۴۲۸۴۳۹۱۳۸۹ ۱۳۳۸۳۷۸ آپ کی بسلسلہ علالت لاہور آمد ۵۸۰۵۷۴۵۹۰۵۸۶ ۵۸۴ ۴۴۸ تا ۴۴۵۲ ۷۴۵۶۴۵۵٬۴۵۴ ۴۶۹۴۴۶۶۴۶۴۴۵ اسلام “ جو ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا بلال دانیال ہو کر نیل.نو مسلم.مسجد احمد یہ لندن کے پہلے برطانوی مؤذن بلقيس ۲۸۱۴۸۰۶۴۷۹۴۷۶۴۷۰ تا ۴۹۴٬۴۹۳٬۴۹۱٬۴۸۶٬۴۸۳ | بلقیس بیگم ۵۰۳۵۰۱۴۹۶ تا ۵۲۶۵۱۸۵۱۶۵۱۴۵۱۱۵۰۷ تا ۵۳۰ | بلقیس مبارکه بشیر احمد.شیخ ۲۱۴ تا ۳۶۵٬۳۶۴۳۵۰٬۳۴۱٬۲۹۸۲۱۶ ۵۵۰۵۴۵۵۴۴۴۵۴۲۵۴۰۵۳۶۵۳۲ تا۵۵۵۵۵۳ | بلقیس مطهره ۵۶۲۵۵۹۵۵۶ تا ۷۲٬۵۷۰۵۶۴ ۵ تا ۵۸۲۵۷۴ ۳۷۷ ۳۷۸ ۶۱۷ لدله ۴۵۲ ۴۶۹۴۶۸ ۱۹۸ ۳۳۱ ۳۰۰ ۳۰۶ ۳۰۶ ۵۰۴٬۴۷۶٬۴۵۳ بشیر احمد.شیخ.لاہور کی امارت اور کشمیر کمیٹی میں ۵۰۸۵۰۶ تا ۵۱۸٬۵۱۱ خدمات کا تذکرہ ۶۰۲٬۶۰۱۵۹۹۵۹۸۵۸۹۵۸۸۵۸۶٬۵۸۵ ۱۲۳ ۱۴۲۱۳۳۱۲۴ تا ۱۵۸۱۵۲۱۵۱۱۴۷۱۴۶۱۴۴ بنکل راؤ.سر بوڑے خان.ڈاکٹر ۶۶۱۶۵ ۱۹۸۱ اے ا تام ۱۷ ۱۹۵۱۸۰۱۷۸ تا ۲۰۰ بو زینب بیگم ۵۲۱ تا ۵۴۲۵۴۰۵۳۸۵۳۴۵۳۱۵۳۰۵۲۸۵۲۷۵۲۳ ۲۰۶ ۲۱۲ تا ۶ ۶۲۱ ۵۶۴۵۴۲۳ ۷۷۷۲۷۰۵۹۵۷ بھاگن بی بی دتی والی ۵۵۸۵۵۶۵۵۰ تا ۵۷۸۵۷۳۵۷۲۵۶۳۵۶۲۵۶۰ سیرالیون کی جشن آزادی میں شرکت والدہ محترمہ کی وفات بشیر احمد.شیخ سمن آباد بشیر احمد.شیخ کنٹریکٹر بشیر احمد.چوہدری بشیر احمد.چوہدری بشیر احمد.چوہدری با جوہ بشیر احمد.مہار چوہدری ۱۳۱۱۰۵٬۹۱۸۶۲۸۴ بہاول شاہ سید ۶۰۵٬۶۰۲۵۸۶۴ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو حضرت مسیح موعود نے ۵۹۴ ۵۵۸ ۶۳۶۶۲۶ ۶۱۰ ۶۱۱ ۶۱۲ ۶۱۲ بخار کی وجہ سے شملہ بھجوایا آپ کا خلیفہ بنا اور غیر مانعین کے منصوبے حضور کی لاہور تشریف آوری اور بارش زده علاقوں کا دورہ حضور کی بیماری اور لا ہور تشریف آوری بغرض علاج یورپ روانگی کیلئے حضور کی لاہور تشریف آوری آپ کی لاہور تشریف آوری ۴۴۷ ۵۸۰ ۵۸۲ ۵۸۳ ۵۷۴۵۸۶٬۴۲۷ بھروچہ.کرنل بھوانی داس.رائے ۳۷۳ ۲۲۰ ۳۴۸ ۱۳۹ ۶۰۰ ۵۲۹۵۲۰۵۱۹ ۳۴ بیجا رام بابو چیٹر جی مس پچھتر سنگھ ۱۱۳ ایک عورت پر عاشق ہونا...اس کے لئے چلہ کشیاں اور...قادیان جا کر احمدی ہونا.....حضور نے اس کا نام عبد العزیز رکھا

Page 642

۳۶۸ ۳۸۵ ۴۵۳ ۲۵۵ چیمس فورڈ.لارڈ حافظ.میلہ قدماں.قادیان کے گدی نشین لیکن احمدی ہونے کے بعد گدی سے الگ ہو گئے حاکم دین.چوہدری حامد شاہ سید حامد علی.حافظ ۱۱۲۱۱۱ ۲۳۱۴۲۵۸۴۲۵۲٬۲۲۰۱۹۲تا۳۱۰۲۳۳ حامد عزرا حبیب الرحمن.شیخ حبیب الرحمن.درد حبیب اللہ خان حبیب اللہ شاہ.حضرت قاضی سید ۲۶۰ ۶۲۸ ۲۰۰ ۲۷۵ ۲۶۶ ۲۶۷ ۵۲۹ ۲۱۵ ۲۱۳ ۵۶۷ ۶۰۶ ۱۶۸٬۹۸ ۲۰۰ ۳۶۱ ۵۰۷٬۴۹۸ ۲۲۳ ۳۳۰ ۳۲۳ ۴۷۴ ۳۰۰ آف شاہدرہ بذریعہ رویا بیعت حضور کا آپ کے بستر پر نوافل پڑھنا حبیب اللہ.قاضی حسام الدین حکیم ۲۷۹ 6 ۵۹۵۵۸۷۵۷۳۵۵۸۲۷۴۱۹۹ ۵۳۰ ۳۹۵۳۲۶۲۴۶ ۵۷۲ ١٨٩١٨٨ ۴۲۷ ،۴۲۲ ۲۷۹ ۳۳۲ جلال الدین حکیم جلال الدین شمس جلال الدین شمس کی لندن سے واپسی جماعت علی.شاہ پیر جمال احمد.میاں.نوجوان طالبعلم کی شہادت جمال الدین.حضرت خواجہ خواجہ جمال الدین جمال الدین.مستری جمال الدین.مولوی جمال الدین.میاں جمیل احمد رشید.شیخ ۳۷۸۲۷۸۲۷۷ ۶۰۸ ۵۳۱۵۱۷ ۲۸۹ ۴۰۵ ۳۳۸ ۳۳۱ ۳۹۹ جواہر سنگھ.جناب سردار جواہر تھل.نہرو پنڈت جہانگیر.شہنشاہ جھنڈا.میاں جیوے خان.چوہدری چانن بیگم چٹو.میاں ۴۵۹ ۶۷۳۳ ۴۶۵ ۶۸ ۴۵۹ ۲۵۳ ۵۸۲ 179 ۴۲ ۱۰۲۳۰ ۱۸۷۱۸۶۹۸۹۷ پرنس آف ویلیز شہزادہ کے استقبال پر تول چندر.رائے بہا در بابو پہلوانی.اماں پی.بی.سنگھ پیر بخش منشی رسالہ تائید الاسلام کا ایڈیٹر حضور کے الہام انی مهین.....کا شکار پیرزادہ.ڈاکٹر پیر محمد.میاں پیری.ڈاکٹر پیغمبر اسنگھ تاج دین.میاں تاج الدین مینشی حضرت ۴۳۹٬۳۹۹٬۲۷۱۱۵۰۶۳۶۱۰۹ 11+ ۶۲۶ آپ کا نام آئینہ کمالات اسلام میں ڈیرہ بابا بانک جانے والے وفد کے ممبر تقسم حسین.سید تصدق حسین.میاں تقی الدین خلیفہ.ڈاکٹر تنویر بیگم تیمور احمد.چغتائی میاں ۵۶۰ ۴۹۶۴۵۳۴۴۷ | چراغ دین.حضرت میاں ۲۹۹ ۶۱۰ تفصیلی حالات ۲۰۸۲۱۰۱۸۶٬۵۳۵۱ حسام الدین.شیخ حسن احمد.ڈاکٹر ۱۶۹۱۶۸۱۳۰۱۲۶۱۲۵ حسن دین.ماسٹر ۱۷۱۷۰ تا ۷۴۴۷۲ اتا ۱۷۶ حسن دین.میاں حسن محمد حضرت بابا واعظ ۱۷۵ حسن محمد.بٹ تیمور شیخ پر نپل کالج پشاور کاخلیفہ مسیح الاول حضور کا فرمانا کہ میرے بچپن کے رفیقوں میں سے کے خرچ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا نالہی.مولوی.پاگل ہوکر مرا ۳۸۷ ۲۵۳۱۷۲۱۱۶ خدا نے صرف مجھے میاں چراغ دین دیا ہے آپ کے خاندان کے تفصیلی حالات ۲۸۶۵۲۴٬۹۸٬۹۷ حسن نظامی.خواجہ ۳۴۳٬۳۳۵۳۳۴۳۰۳۳۰۱٬۲۸۵۲۷۱۲۶۸۲۶۷ دہلی میں حضور کو چائے کی دعوت دینا اور حضور کا قبول کرنا حسین احمد حسین بخش حسین بخش.ماسٹر حسین بخش.میاں حسین بی بی ۴۷۴۴۷۲ ۴۱ ۴۵۸ ،۴۴۹ ۴۴۴۱۸ ،۴۳۹ ۴۱ ۴۰۳۳۴۹ ۹۸ ۳۹۹ ۶۱۴ شجرہ نسب و غیره چراغ دین.میاں کلرک چراغ دین.بابو چرچل.مسٹر چند ولال مجسٹریٹ حضور سے پوچھنا آپ کا الہام ہے انی مهین...اگر میں آپ کی توہین کروں...فرمایا خواہ آپ بھی کریں پھر اس کا Degrade ہونا..اور اس کا پوچھنا کہ مرزا صاحب نے ۴۹۸ ۲۲۲ ۱۲۲ حسین شاہ.سید حسین کا می.سفیر ترکی کا لا ہور سے قادیان جانا ۲۵۱ ۳۴۵ حشمت اللہ.ڈاکٹر حضرت ۵۱۹٬۳۸۸ تا ۵۹۹٬۵۸۳٬۵۲۱ حضرت اللہ پاشا.سید حفیظ الرحمن.حکیم حفیظ الله ۶۰۸۶۰۵٬۶۰۰ ۶۰۶ ۲۵۶ ۳۶۳۴۱۳۴۱۲ Myy ۳۳۵ حفیظ بیگم حکمت حلیمہ بیگم ۱۳۹ ۲۰۸ میرے متعلق کچھ اور تو نہیں کہا چنن خان.پادری کے ساتھ ڈاکٹر عبید اللہ خان کالاہور میں ایک مباحثہ چوہرمل چونی لال.بیرسٹر ۵۳۱ ۴۳۴۰۴ ۳۰۰ ۲۶۹۴۸٬۳۲ ۹۸ ۳۳۲ ۳۹۷ ۲۹۸ ۱۴۷ ۳۱۵ ۶۱۲ ٹرومین.صد ر ا مریکہ ثاقب زیروی ثریا بیگم ثناء اللہ.امرتسری مولوی جان بی جان محمد.میاں ج چ جن کے پیچھے حضور نے نماز ادا کی جان محمد جان محمد.حکیم جان محمد.مستری جلال الدین.خلیفہ جلال الدین.مولوی جلال الدین.میاں

Page 643

۲۰۹ ۳۴۸۱۸۵ ۴۸۱٬۴۵۷۲۷۳۱۵۸ ۵۰۷٬۴۹۵ ۱۳۴۹۸ ۴۸۶٬۴۸۳٬۴۸۲ تا ۴۸۹ ۴۹۵ ۳۳ ۳۱ ۳۴۹۲۸۷ ذکیہ بیگم ذکیہ بیگم.صاحبزادی ذوالفقار علی خان.حضرت ذوالفقار علی خان.نواب سر رابعہ راجپال.”رنگیلا رسول“ کا مصنف ۶۱۲ ۴۲۷ ۶۱۵ ۶۰۲ ۱۰۷ ۳۳۵ ۲۷۳۲۶۶۹۸ ۳۳۷ راجہ.مسٹر رائے بہادر.پنڈت رادھا کشن را شده بیگم ۴۳۴٬۴۳۱۴۳۰ را شده نسرین 7 خلیل احمد.مرزا خلیل احمد.حکیم مونگھیری خورشید احمد خورشید احمد.راجہ خورشید احمد شیخ خورشید احمد منیر راجہ خورشید بیگم خورشید بیگم.ڈاکٹر خیر وخان.چوہدری داؤد.حضرت ۲۶۰ داؤ د احمد صاحبزاہ مرزا داؤ د احمد سید ۱۸۲ ۵۹۵ راضیہ بیگم ۲۷۵ رام بھجدت.پنڈت ۲۶۵ داؤ د احمد خان ۲۷۶ رام چندر مهم داؤد محمد.میاں ۲۹۹ رام چندر.مچند ہ مسٹر ۵۲۷۵۰۴ داؤد بیگ.مرزا ۱۳۷ رانی ۳۱۸ در شهسوار ۲۵۲ رجب الدین.خلیفہ دلا اور شاہ.سید بخاری حضرت ایڈیٹر مسلم آؤٹ لگ ۳۲۹٬۲۶۰ ۴۰۰۲۶۸۳۹۹۲۶۸۲۴۹٬۲۴۶۲۴۵۲۲۴ ۴۶۱۴۳۵۴۶۳۴۶ ۵۱۸۴۹۱۴۷۵۴۷۲۴۵۲۴۸۶۴۱۷ | رچرڈ مسٹر.پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ۴۵۸ دلپذیر.مولوی ۳۵۸ دل محمد.خواجہ.مشہور ریاضی دان ۵۶۳ رحمت اللہ.حاجی رحمت اللہ.حکیم ۳۵۸ دلیپ سنگھ.کنور ۴۸۶٬۴۸۳٬۳۴۶ تا ۴۸۸ رحمت اللہ.خان کوتوال لاہور ۳۷۴۳۶۲ ۲۴۸۱۷۷ دوست خان.ڈاکٹر ۳۳۷ دوست محمد رحمت اللہ.سردار رحمت اللہ شیخ لاہور ۲۹۴ میاں امیر الدین پراچہ کا بیٹا دھرم بھکشو.پنڈت دین محمد حکیم ۱۱۸۱۰۱۷۳٬۵۶۴۶۴۴ ۳۱۳۲۶۸۲۵۸۲۵۱۲۴۶۲۴۵ ۲۲۸۲۱۰ دین محمد.میاں ۳۶۰ تفصیلی حالات دین محمد.میاں ۲۷۸ دین محمد.میاں عرف بگا ۳۹۷ دین مجھے شیخ.سابق گورنرسندھ کا احضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ملاقات کیلئے ربوہ آنا دیو راج چوہدری.ایم.اے آریہ دیوی شرن شرما کا ورتمان ملا ڈپھل ( مولوی محمد بخش ) ایڈیٹر اخبار ہنٹر لاہور ۳۹۸ تا ۴۲۸۴۲۰۴۱۹۴۱۶۴۰۱ ۳۶۶۷۷۷۵ رحمت اللہ شیخ ما لک انگلش و بیئر ہاؤس لاہور ۹۰ تا ۹۱ حضور کی خدمت میں گرم کپڑوں کا تحفہ بھجواتے باوجود غیر مبائع ہونے کے خلیفہ امسیح خانی کی کبھی مخالفت نہیں کی چولہ بابا نانک کے سفر میں ساتھ تھے رحمت اللہ.شیخ گجراتی ۹۱ ۱۳۶۱۵۵ ۵۰۴ ۴۸۳ رحمت اللہ.مرزا سکنہ ڈسکہ رحمت اللہ.مرزا لاہور میں قیادت کی داغ بیل ۲۳۳ ۶۱۴ رکھنے کا سہرا آپ کے سر ہے ۶۱۵ ٣٠٣ رحمت النساء ۲۰۲ ۳۱۲ ۲۸۰ رحمت بی بی رحمت بی بی ۳۲۴ ڈز ذكاء احمد ۳۳۹٬۳۳۸ ۶۰۹ ۳۳۷ ۱۸۰ ۶۲۶ ۱۴۷ ۲۵۶ ۳۳۵ ۹۸ ۱۳۴ حمایت خان.چوہدری حمد الہی.چوہدری حمید احمد حمید احمد.صاحبزادہ مرزا حمید اسلم.خواجہ حمید الدین.خلیفہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین انجمن حمایت اسلام کے بانیوں میں حمید اللہ حمید اللہ.جان میاں حمیده حمیدہ بنت حکیم محد حسین حمیدہ بیگم حمیدہ بیگم اہلیہ مولوی غلام احمد ارشد حمیده صابرہ حیات بیگم حیات محمد.چوہدری خادم - دجیلی شیخ.شیعہ نمائندہ برائے ویمبلے کا نفرنس خالد خالد احمد.چوہدری ۳۱۳۲۵۷۱۵۵۱۴۸۱۴۷۹۷ ۱۹۶ ۳۱۸۲۹۴٬۲۹۰ ۳۳۴۳۰۳ ۶۱۲ ۴۶۹ ۳۴۷ ۶۱۳ ۶۱۷۶۱۵٬۶۰۰۵۸۵ ۵۵۸ ۳۱۸ ۲۰۰ ۶۱۱ خالد ہدایت.بھٹی خالد ہدایت اللہ.قاضی خالدہ مجیدہ.ڈاکٹر ختم النساء خدا بخش.چوہدری خدا بخش.مرزا تفصیلی حالات حضرت نواب محمد علی خان کے اتالیق عسل مصفی“ کے مصنف غیر مباکھین میں شامل خدا بخش.مرزا خدا بخش.ملک 9+ ۳۹۹۲۲۹۱۵۰ ۳۶۴۳۶۳٬۳۲۹۲۱۶۲۱۴ ۵۶۲۵۵۰۵۴۲۵۳۴٬۵۲۷۵۲۱٬۵۱۰۵۰۴ ۴۷۳ خدا بخش.ملک خان بہاد را مرتسری ۳۳ ۳۸۲۳۹۱ ۲۸۰ ۲۵۵ ۵۳۳۵۳۲٬۵۳۱ ۳۳۱ ۲۹۰ ۶۲۶ خدا بخش.شیخ خان بہادر خدیجه بیگم خدیجه بی بی خصیلت علی.شاہ حضرت سید خضر حیات.ملک خلیل خلیل احمد خلیل احمد.صوفی

Page 644

۲۳۴٬۲۳۳ ۳۵۷ ۱۲۵ ۹۸ ۴۰۳ IAZ ۱۲۵ ۳۱۲ ۴۰۴ ۴۶۷۴۶۵ ۳۳۱ زین العابدین.مولوی زینب زینب بنت حضرت حکیم محمد حسین قریشی زینب بنت میاں عمرالدین.ہمشیرہ میاں معراج الدین عمر زیب النساء زیب النساء زیب النساء زیب النساء.سید زینب بی بی زینب حسن زینب حسن.جنرل سیکرٹری لاہور ساحره ساره بیگم.حضرت سیدہ سارہ جبیں سائرہ بیگم سائمن.مسٹر کی ہندوستان آمد سائمن کمیشن سپیٹ.پروفیسر.جسے حضور نے زر کثیر صرف کر کے باؤنڈری کمیشن کیلئے بلایا سدر لینڈ.کرنل سراج الدین حکیم.بھائی دروازہ سراج دین.حکیم سراج الدین حکیم سراج دین.میاں سراج الدین.پروفیسر ایف سی کالج سراج الدین.سائیں کا حضور کو گالیاں دینا اور وام ۶ نوم ۳۰۶ ۲۶۹ ۴۹۴ ۵۳۷ ۳۰۴ ۶۰۲۵۲۱۵۲۰ ۵۱۰ ۲۵۲ ۵۷۸٬۳۳۶ ۱۰۲ ۳۳۰ ۲۵۷ 11 + ۳۵۱ ۲۹۶ ۲۱۷ ۲۷۶ ۶۳۱۷ حضور کا صبر وقتل سراج بیگم سر بلند خان منشی سردار احمد شاہ سید سردار بیگم.اہلیہ چوہدری عبدالرحیم سردار محمد سرور سلطانه سرورشاہ.حضرت مولوی سعدالدین.مولوی سعدی.میاں سعود احمد خان ۳۷۷ ۳۳۵ ۱۴۷ ۲۰۹ ۲۵۱ ۲۹۰ ۳۳۷ ۳۵۱ ۶۲۷۶۲۳ ۲۶۶ ۳۴۳ ۳۵۷ ٢٠٩ ۳۴۲ 8 رضیه بشری رضیہ بیگم رضیہ بیگم رضیہ بیگم رضیہ بیگم اہلیہ ملک محمد خان رضیہ سلطانہ رضیہ سلطانہ رفعت نسیم ۳۳۳ ۴۵۴ ۶۲۶ ۲۹۲ ۵۸۷٬۴۵۳٬۲۰۱۲۰۰ ۷۵ رحمت بی بی رحمت خان.چوہدری.امام مسجد لندن رحمت علی.شیخ رحمت علی.ڈاکٹر رحمت علی.حضرت مولوی رئیس التبلیغ انڈونیشیا رحم دین.میاں باورچی رحیم اللہ.مولوی لنگے منڈی لاہور ۸۱۵۱۲۹ تا ۱۰۲۹۷۸۵۸۳ رفیع احمد.صاحبزادہ مرزا ۱۳۵۱۱۸۱۲۶۱۲۵۱۱۰ ۴۷۲۲۶۵۲۰۲۱۳۷ صدر مجلس خدام الاحمدیہ رحیم اللہ.حضرت مولوی کی مسجد جس میں حضور نماز ادا فرماتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بارے میں بزرگوں کے مزاروں پر جاکر کشف القبور کے ذریعہ حضرت اقدس کی بابت دریافت کیا رحیم بخش.مولوی رحیم بخش.مولوی عبد الرحیم در دکا نام رحیم بی بی رستم علی.حضرت چوہدری ۲۸ ۸۲ ۱۹۸ Imira رفیق احمد رفیق احمد رفیقہ بیگم رفیقہ بیگم بنام بوم رقیه بیگم ۱۰۷ رقیہ ۹۸ رمضان شاہ سید ۱۲۵ رنجیت سنگھ.مہاراجہ ۱۶۸۹۹ ۳۳۷ ۴۰۳ روپ سنگھ.سردار.مسلمان ہوکر مولوی عبدالغنی ۲۹۱ ۲۵۱ ۳۴۳ ۳۵۷ روشن علی.حضرت حافظ ۶۰۲۵۰۵۲۹۶۲۹۲۱۴۲ رومیل.جنرل ۵۵۸ ۳۶۱ ریاض محمود.شیخ ۶۲۷۶۲۳٬۶۲۱۶۱۵۶۱۱۶۰۵۶۰۱ ۴۵۳ ز ۶۲۶ زاہدہ بیگم ۳۴۱ ۳۷۷ زبیده ۹۸ ۲۸۷ زبیده ۲۹۰ ۴۶۶ زبیده ۲۶۶ ۳۷۷ ۳۵۲ ۲۷۵ ۱۸۶ ۱۴۸ ۴۶۵ ۳۳۷ ۱۰۷ ۳۹۳۳۹۲ ۵۵۸۵۵۲۵۵۱٬۳۶۰ رشید احمد رشید احمد.ملک رشید احمد رشید احمد رشید احمد رشید احمد رشید احمد.چوہدری رشید محمد.چوہدری رشیدہ بیگم رشیدہ بیگم رشید احمد.بیگم مرزا رشیدالدین.خلیفہ حضرت ڈاکٹر ۲۹۲۲۷۰۱۴۶۵۶ زبیده بیگم ۳۱۹٬۲۹۳ زبیده بیگم زبیدہ بیگم زبیدہ بیگم زبیدہ بیگم زبیدہ خاتون.صدر لجنہ لا ہور زبیده خاتون زبیدہ خاتون.لیڈی ڈاکٹر زکریا.حضرت زین العابدین.سید ولی اللہ شاہ ۱۴۶ ۳۰۰ ۳۱۳ ۲۷۵ ۲۶۶ ۳۶۵ ۲۷۴ ۲۰۰ تفصیلی حالات رشیده رشیدہ بیگم رشیدہ بیگم رشیده رشیده رضاعلی رضیہ

Page 645

۳۴۹ ۵۱ جنرل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام جنہوں نے کتاب آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی ۱۳۲۱۲۷۳۶ شمس الدین.میاں شمشیر احمد.سلوکیہ ۴۹۸ ۶۰۸ ۳۴۸۱۸۵ ۳۷۷ ۳۵۰ ۶۲ ۳۵۸ ۳۴۸۱۸۵ شمیم اختر شنکرن.نائر وجاہت سر شوکت علی.مولانا شوکت علی خان ۴۲۸۱۵۵۱۵۴۱۰۲ ۱۳۸ شوگن چندر.سوامی.حضور سے جلسہ مذاہب عالم کیلئے مضمون کی درخواست کرنا شہاب الدین.سر شہاب الدین ۵۹۵ ۳۷۹ ۴۹۵ ۲۷۴۲۷۳ ۴۶۱ ۳۱ ۴۷۹٬۲۲۹۲۱۸ ۲۱۷ ۱۴۹ ۳۰۷ ۴۰۴ ۱۶۸ ۵۲۰ ۳۴۰۲۰۵ شہاب الدین.حضرت حاجی شہاب الدین شہاب الدین.میاں شیر سنگھ.مہاراجہ شیر محمد خان شیر علی.مولوی حضرت آپ کے تفصیلی حالات ۳۸۵۳۸۲ تا ۵۵۰۵۲۷٬۴۶۹۳۹۱ ۳۸۵ ۵۷۹ ۱۳۷ ۶۳۶ ۲۹۷ ۶۲۲٬۳۲۵ ۱۲۶ ۵۶۳۴۴۹۶ 9 سمیع احمد ظفر.مرزا سنسار چند لالہ مجسٹریٹ جہلم سید احمد خان.سر سینکے.لارڈ ش شان محمد.شیخ بی.اے شاہد احمد خان.صاحبزادہ میاں شاہدہ سلیم شاہ دین.شیخ شاہ دین.بابو شاہ دین.قاضی شاہدہ بیگم.صاحبزادی شاہ محمد.سید.رئیس التبلیغ انڈونیشیا شاہ محمد سیدشاہ مسکین شاہ محمد خوشنو لیں.چوہدری شاہنواز.میاں بیرسٹر شبیر احمد.بی اے.چوہدری وکیل المال شجاع الدین حکیم شجاع الدین.خلیفہ آپ کو جج بنے کی پیشکش جسے آپ نے ٹھکرا دیا شریف احمد.صاحبزادہ حضرت مرز ا۴۲۸٬۳۵۹۲۸۸۱۸۰۲۱۰ آپ کی دو کتب تیار کرنے کی خواہش ایک شیعہ مذہب دو انگریزوں کا آپ سے ملنا اور ایسی اعلی انگریزی کی تاریخ اور دوسری مسیح موعود کے ناکام دشمنوں کے بارہ ۱۸۲ پر حیرت کا اظہار آپ کا السلام علیکم کہنے میں آپ کی گرفتاری شریف احمد شریف احمد شریف احمد.چوہدری اوجلوی شریف احمد سرہندی شریف احمد ابن میاں عبدالعزیز مغل شریف احمد ٹھیکیدار شریف احمد باجوہ میجر شریف اللہ کوثر.شیخ شریف محمد.حضرت ڈپٹی ۸۱ تا ۸۳ آپ کے تفصیلی حالات ۵۷۱۵۷۰ ۲۰۹ ۲۱۱ ۶۲۰ ۱۲۴ ۶۱۹ ۵۵۲۵۵۱ ۱۹۳ ۲۰۲٬۹۹۸۹۸۵ ۲۰۲ پہل کرنا آپ کا خاموشی کے ساتھ ایک نابینا حافظ کو روزانہ دودھ دینا لاہور میں آپ کی وفات اور میانی صاحب کے قبرستان میں تدفین بعد ازاں ربوہ بہشتی مقبرہ میں منتقلی اور لاہور والی قبر میں میاں کمال الدین صاحب کی تدفین ص صاحبدین.شیخ حضرت ڈھنگڑہ صاحبدین ۳۸۳ ۳۸۴ ۳۸۶ ۳۹۱ ٣٣٦١٤٣١٤٠١٣۹۱۹۹۵۳ ۱۳۹ ۲۷۳ ۱۴۸ ۳۶۱ ۳۳۵ ۲۰۰ ۲۸۷ صادقہ صادقہ بیگم صادقه نسیم صالحہ بیگم صالحه خاتون صالحہ.درد صالحہ منہاس ۴۲۷۶۰۲ MY ۲۶۹ ۶۰۶ ۲۸ شمس الحسن.سید شمس الدین.بٹ بابو شمس الدین.بابو شمس الدین.چوہدری شمس الدین منشی ۳۶۱ ۲۴۵ ۲۸۷ IZA ۹۸ ۱۳۴ ۲۵۲ ۴۶۵ ۱۸۶ ۳۴۲ ۲۷۵ ۲۶۰ ۴۹۵ ۹۷ ۲۹۵ ۲۶۲ ۱۰۸ ۹۸ ۲۶۹ ۱۰۵۲۶ ۳۷۴ ۶۱۱ ۲۹۰ ۵۶۰ ۲۸۹ ۳۳۰ ۵۶۰ ۳۲۴ ۶۲۶ ۶۱۰ ۶۱۱ ۵۶۸ ۵۵۷ ۵۶۹ ۴۳ ۲۲۹ ۲۵۲ ۲۷۴ ۲۹۸ ۴۹۷ سعید احمد سعید.ڈاکٹر سعید اللہ.بیگ مرزا سعیده سعیده سعیدہ بنت حکیم محمد حسین سعیده با نو سعیده بیگم اہلیہ شیخ محمد سعید سعیدہ بیگم سعیدہ بیگم سعیدہ بیگم سعیده بیگم سعیده فرخ سکندرحیات.سر سکینہ بیگم سکینہ بیگم سکینہ بیگم سکینہ بی بی اہلیہ سید فضل شاہ سلطان سلطان احمد.ڈاکٹر دندان ساز سلطان احمد - مرزا سلطان احمد.میاں سلطان علی.چوہدری سلطان محمود شاہد سلطان محمود شاہد.پروفیسر سلطان محمود غزنوی سلامی بیگم سلمی تصدق حسین.بیگم سلیم احمد سلیم احمد سلیم احمد.چوہدری سلیم اختر.میاں سلیمان ندوی.میاں سلیم الحسنی.السید.مفتی اعظم لاہور کا نمائندہ سلیم اللہ.مولانا سلیم پاشا سلیمہ بیگم سلیمہ بیگم سلیمہ بیگم سموئیل.سر ہور.وزیر ہند

Page 646

۵۵۱ ۱۲۴ ۳۴۰ ۶۰۷۲۷۰ 10 ظفر اللہ خان.حضرت چوہدری محمد عبدالباری.چوہدری ۴۵۷٬۴۵۵۴۴۵۴۴۵۲۶۳۶۴۶۳۲۷۶۲۱۵۱۹۷۱۵۷ | عبدالباسط ابن میاں عبدالعزیز مغل ۱۴۳ ۴۷۰۴۶۹۴۶۳۴۶۱۴۵۹ تا ۴۸۸۴۴۷۷۴۷۶۴۴۷۲ عبدالجبار خان ۴۹۸۴۹۶۴۹۵۴۹۲٬۴۹۱۴۴۸۹ تا ۵۲۹۵۱۵۵۰۳٬۵۰۰ | عبدالجلیل خان.شاہجانپوری حافظ ۵۹۷۵۸۶۵۷۳۵۶۸۵۶۷۵۶۵۵۳۷۵۳۲ | عبدالجلیل عشرت.ملک آپ کے تفصیلی حالات.ملک وقوم کی خدمت کا تذکرہ اور غیروں کا خراج تحسین آپ کا پنجاب کونسل کا ممبر بننا ملک خضر حیات کے استعفیٰ میں آپ کی مساعی ۹۹ ۲۰۰۵ عبد الحامد بدایونی مولانا ۳۶۸ ۵۳۱ عبد الحق عبدالحق.عیسائی نومسلم.احمدی ہو جانا ۶۱۷۶۱۵۶۱۰ حضور کا خود پیسے دینا کہ لاہور سے بی.اے کی کتابیں ۵۶۸ 121 ۲۰۴ لائیں اور تیاری کریں عبدالحق.شیخ انجنیر ۶۳۵۶۱۲٬۶۰۵۶۱۰۳۹۲ عبدالحق محمد آسٹریلین نومسلم عبدالحسن محمد ڈاکٹر عبدالحق.مرزا صوبائی امیر ۲۶۸ ۵۸۶۵۶۰۴۵۳ ۶۳۵۳۷۷٬۴۵۳ عبد الحق.مولوی دہلوی عبدالحق منشی ۳۷ ۱۷۵ عبدالحق.رامہ میاں ۳۷۷ عبدالحق.بٹ میاں ۶۱۰ عبد الحکیم.مولوی کلانوری سے حضور کا مباحثہ ۳۰ عبدالحکیم.مولوی ۶۰۴۶۰۱ عبدالحکیم ۳۲۵ عبد الحکیم عبدالحکیم.مالک پایونیر الیکٹرک اینڈ بیٹری سٹیشن ۳۷۵ ۵۶۲ ۳۴۰ ۶۱۲ ۹۷ ۳۶۷ IMA عبدالحکیم خان عبدالحکیم.میاں عبدالحمید عبدالحمید عبدالحمید خان ۳۲۷۳۲۴۲۶۰ تا ۳۲۹ عبدالحمید.بابور میلوے آڈیٹر ۵۴۰٬۴۶۵٬۴۹۳۴ ۶۱۰ ۵۷۴۴۷۲٬۴۵۲ ۶۰۶ ۶۱۲ ۴۳ ۵۲۹ ۵۵۵ ۵۶۹ ۲۹۴ ۲۱۱ عبدالحمید.ملک عبدالحمید.چغتائی ڈاکٹر عبدالحمید - شملوی با بو عبدالحمید.چو ہدری عبدالحمید.چوہدری عبدالحمید ثانی.سلطان ترکی عبدالحمید قاضی عبدالحمید قاضی عبدالحمید.پروفیسر عبدالحمید.سردار عبدالحمید منشی ۵۶۳ ۵۸۹ ۵۰۱ ۴۹۵٬۴۸۹ ۶۰۶ ۵۵۹ ۴۵۳ ایک احمدی کی کابل میں شہادت کے موقع پر آپ کا اظہار ا خلاص آپ کا منٹو پارک لاہور میں خطبہ عید آپ کی روٹری کلب میں تقریر آپ کا مقام حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی نظر میں ظفر علی خان.مولانا ظفر غوری.ڈاکٹر ظہوراحمد باجوہ.چوہدری ظہور احمد شاہ سید ۳۸۵۱۷۲۷۵ ۶۰۱۴۲۵ ۲۶۹ IZA ۳۱۳ ۴۹۸ ۶۵ ۹۸ ۱۳۴ ۵۸۵ ۳۱۲ ۲۸۰ ۳۹۳ ۲۸۴ ۱۹۳ ۴۳۲ ۳۴۸۱۸۵ ۳۷۸۲۷۹ ۳۰۰ ظہور الدین اکمل.حضرت قاضی ظہور حسین.مولوی مجاہد بخارا ظہیر الدین امروہی ع عارفہ عالم شاہ سید خان بہا در عاشق حسین.بٹالوی ڈاکٹر عائشہ.حضرت عائشہ عائشہ.بنت حکیم محمد حسین عائشہ صادقہ.بنت شیخ عبدالقا در سوداگرمل عائشہ بی بی عائشہ بی بی عائشہ بی بی عائشہ بیگم عائشہ بیگم عباداللہ.شیخ عباس.حضرت عباس احمد خان نواب صاحبزادہ عباس محمد مستری مغلپورہ عبد الباری ۲۵۶ ۲۴۰ ۶۱۰ ۴۴۷ ۷۵ ۳۷۷ ۳۱۳ ۹۸ ۱۳۵ ۲۰۰ ۳۶۵ ۲۰۹ ۲۵۱ ۳۳۵ ۳۵۷ ۲۹۰ ۹۸ ۲۲۹ ۱۴۷ ۲۸۷ ۱۰۷ لا ۱۲۶ ۱۵۰ ۳۰۲ ۳۲۴ ۶۱۶۵۷۹۵۵۹۵۲۹ ۳۷۷ ۲۲۹ ۳۳۱ ۳۴۸۱۸۵ ۲۶۲ ۳۰۶ ۳۰۶ ۱۴۸۱۸۵ ۳۷۷ ۱۸۲ صبغت اللہ صدرالدین صدرالدین - مستری صدرالدین.مولوی صدرالدین.میاں صدیقہ صدیقہ بیگم صغری صغری بنت حکیم محد حسین صفیہ صفیہ بیگم صفیہ بیگم اہلیہ شیخ احمد احسن صفیہ بیگم صفیہ بیگم صفیہ سلطانہ صلاح الدین صلاح الدین صلاح الدین.خلیفہ صلاح الدین.کیپٹن ڈاکٹر صلاح الدین.ملک ایم اے صلاح الدین.میاں ض ضیاءالدین.حکیم لا ہور ضیاءالدین.قاضی ضیاء اللہ ضياء النساء طاہر احمد.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر میم طاہرہ طاہرہ طاہرہ بیگم.صاحبزادی طاہرہ بیگم طاہرہ ناہید ظ طوبی نمین طوبی قدسیه طیبہ آمنہ.بیگم صاحبزادی طیبه صادقه ظفر احمد صاحبزادہ مرزا

Page 647

۵۶۰ ۴۰۰۱۵۴ ۲۷۹ ۹۷ ۱۵۳ 191 ۲۶۶ ۳۷۷ ۲۹۴ ۳۹۹ ۳۰۶ عبدالرؤف.ڈاکٹر عبدالسبحان.حضرت میاں عبدالستار قمر عبد السلام عبدالسلام ابن ڈاکٹر شیخ عبداللہ عبدالسلام.مولوی عبد السلام عبدالسلام.حافظ عبد السلام سردار عبدالسلام.میاں ظافر عبدالسلام.کاٹھ گڑھی عبد السلام ۴۵۳٬۳۹۱ 11 ۵۸۸۵۷۳۴۵۳٬۳۹۵ ۶۱۸ ۱۳۷ ۵۰۰۳۹۴۱۹۸ ۴۹۴ ۳۷۸ 122 ۳۹۱ ۶۰۶ عبدالرحمن.رانجھا ڈاکٹر عبدالرحمن.خادم ملک عبد الرحمن.موگا ڈاکٹر عبدالرحمن.بیگ مرزا عبدالرحیم.نیر حضرت مولوی عبدالرحیم.سر عبدالرحم.ملک عبدالرحیم.میاں عبدالرحیم.مولوی عبدالرحیم.مولوی عبدالرحیم.چوہدری ہیڈ ڈرافٹسمین آپ کو قبل از وقت....گھڑی کا خواب میں دکھایا جانا...۵۰۵٬۶۰۱۵۵۶۳۷۶ ۲۵۲ ۳۷۴ ۳۳۹ ۳۵۳ ۳۱۲ ۱۹۴ ۹۸ ۶۰۷ ۶۱۰ ۶۱۲ اور کچھ عرصہ بعد ویسی ہی گھڑی مرمت کیلئے لائی ۹۸ گئی جو حضرت مسیح موعود کی تھی...۱۱۴ ۱۵۳ ۱۳۶ عبدالرحیم.چوہدری ۲۵۷۲۶۴۲۱۶۱۲۰ عبدالسمیع.چوہدری عبدالسمیع.سردار عبدالسمیع.شیخ ۶۰۹ ۶۲۶۶۰۸ ۳۹۴ ۱۳۴ عبدالرحیم.درد حضرت مولوی ۱۴۸ حضرت خلیفہ المسح الثانی کے بارہ حواریوں ۲۰۸۵۱۰۵۰۹۴۷۵ | عبدالشکور.کنزے.جرمن نومسلم کی لاہور آمد عبد الصمد - شیخ ۳۹۴ عبدالعزیز.حضرت میاں المعروف مغل ۵۴٬۵۳۵۲ مام میں سے ایک ۱۹۸ ۱۷۵۱۷۴۱۳۴۱۲۴١٢٠٤١٩٤١٤٤١٢٤١١٤٠١٩٨ ۹۹ خلیفہ ثانی کا درد صاحب کو لکھنا کہ قائد اعظم ۳۴۳۳۳۶۳۲۹۳۰۶۳۰۵۲۶۰۲۵۳ ۲۵۲٬۲۰۰۱ ۷۶ ۹۱ کو سمجھائیں اور.....١٩٩ ۵۱۰۵۰۴ ۴۷۳۴۴۴۹۶۴۴۰۰ ۳۳۱ ۳۵۳ ۳۵۷ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری آپ کا نام رحیم بخش آپ کے تفصیلی حالات 11.تھا جسے حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے آپ کے پاس حضرت مسیح موعود کی گھڑی ۱۱۴ عبدالرحیم“ کر دیا ۴۵۲ آپ کو تبلیغ کا جنون...۱۲۴ ۲۹ عبدالرحیم.شیخ ۱۶۹ عبدالرحیم.کیپٹن ڈاکٹر ۱۵۷ ۱۵۳۱۵۲ ۴۴۹ عبدالرحیم.قاضی حضرت بھٹی ۵۷۲ عبدالرزاق ابن میاں عبدالعزیز مغل ۳۶۰ عبدالرزاق.شیخ بیرسٹر صحابی آپ کی روایات عبد العزيز ۶۵ تا ۷۷ عبد العزیز.حافظ عبدالعزیز.ملک عبدالعزیز بھٹی میاں ۱۱۲ ۹۷ ۳۲۵ ۳۷۸ ۶۳۶ ۳۸۶ غیر مبائع تھے.مسجد احمد یہ لائکپور کے عبدالعزیز.بھا مڑی ۵۵۲۵۵۱ ۵۴۴ افتتاح کے موقعہ پر خلیفہ ثانی کے ہاتھ ۱۱۴ ۳۷۸ ۳۷۶ پر بیعت اور حیرت انگیز تبد یلی...عبدالرزاق.شاہ سید عبدالرشید ۹۱ عبدالعزیر.شیخ عبدالعزیز.شیخ.ایک ہندو جن کا نام احمدی ہونے پر ۴۵۳ ۳۸۵ ۳۷۷ ۳۷۴۲۰۰۱۸۹۱۴۸ ۱۸۶۱۸۵ ۱۸۵ ۳۶۶ حضور نے رکھا عبدالعزیر.میاں ابن میاں چراغ دین عبدالعزیز.حضرت منشی او جلوی عبدالغفار.میاں حضرت.جراح امرتسری عبدالغفار.میاں عبدالغفور.مولانا مبلغ ۵۹۵۵۵۸۵۵۴۴۲۶۳۴ ۳۵۲ عبدالغنی.خواجہ ۶۰۷ ۲۹۴ ۳۹۶ ۲۶۲۱۷۷۹۷۹۸۸ ۶۲۶۶۰۹ ۶۰۸ ۳۱۳ عبدالرشید عبدالرشید.سردار عبدالرشید.بٹالوی حضرت شیخ ۲۹۴ ۵۳۳ ۵۳۴ ۲۷۵ عبد الرشید.حضرت میاں ۴۸۱۷۷۶۹ عبدالرشید.بنگوی عبدالرشید.چوہدری عبدالرؤف ۱۲۴ عبدالحمید.شیخ شملوی عبدالحمید.بک السید مفتی اعظم نمائندہ برائے جلسہ سالانہ لاہور عبد الحئی عبدالئی.میاں ابن خلیفہ انبیع الاول عبدالحئی خان.بابو عبد الحئی.میاں مبلغ انڈونیشیا عبد الخالق عبدالرب.شیخ حضرت نومسلم عبدالرحمن عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن.خان میاں عبدالرحمن.بابو عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن منشی عبدالرحمن.میاں لاہوری عبد الرحمن ابن حکیم محمد حسین عبدالرحمن عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن شیخ عبدالرحمن.ایم.اے میاں عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن.میاں پروفیسر عبدالرحمٰن.ملک عبدالرحمن.مصری شیخ عبدالرحمن.فاضل مولوی عبدالرحمن.حضرت مولانا عبدالرحمن گھڑی ساڑ عبدالرحمن.ملک عبدالرحمن - انبالوی با بو عبدالرحمن.سردار عبدالرحمن.میاں عبدالرحمن.ملک قصور والے عبدالرحمن عبدالرحمن.قادیانی حضرت بھائی عبدالرحمن ابن میاں عبدالعزیز مغل عبدالرحمن (افغانستان)

Page 648

۶۳۵٬۶۲۶٬۶۱۵۱۴۵ ۵۲۹۳۱۲ ۲۶۶ ۶۱۱ ۶۰۸ ۶۰۹ عبدالماجد _ شیخ عبد الماجد - میاں عبدالمالک عبدالمالک.ملک عبدالمالک.خان ملک عبدالمالک.چوہدری عبدالمالک خان ۶۰۰ عبدالمالک خان عبدالمالک خان.شیخ ۲۷۵۲۷۴ ۳۲۷ عبدالمجید ۳۷۷ عبدالمجید.حافظ عبدالمجید.خان حضرت کپورتھلوی.تفصیل ۳۹۶ ۱۴۷ عبدالمجید منشی ۱۸۹ عبدالمجید.میاں حضرت ۳۲۵۳۱۲۴۴۹۱۷۸۱۷۷٬۹۸ عبدالمجید.چوہدری عبدالمجید ۳۲۵ ۳۵۳ عبدالمجید ۳۳۰ عبدالمجید ۳۱۳۳۱۰ ۵۱۵ 12 ۴۸۱۳۹۸ ۲۵۶ ۳۶۸ ۵۸۸٬۶۱۶۶۱۴ ۵۵۸ ۲۹۴ ۳۰۰ ۵۲۹ ۶۰۸۶۰۷ ۶۰۸ ۶۰۹ ۶۰۹ ۶۲۶ ۳۰۶ ۳۴۰ ۱۶۵ ۳۲۶ ۹۸ ۳۰۶ ۱۳۴ ۶۰۷ عبدالمجید قریشی عبدالمجید عبدالمجید سالک عبدالمنان عبدالمنان.ملک عبدالمنان.عمر میاں عبدالمنان.میاں عبدالمنان.سردار عبد النور عبد الواحد ۵۱ ۵۱ ۱۱۸ ۱۸۸ ۵۲ ۱۸۸ ۱۴۹ ۶۰۸ 7+9 ۵۰۴ ۳۹۱ ۳۹۶ ۱۶۵ 12 مقدم کر لیتا..آپ کا لاہور میں قیام آپ کا لاہور میں خطبہ دینا اور حضور کی طرف اشارہ ۳۵۵ ۱۵۳ ۶۳۶۶۱۰۶۰۴۶۰۱ ۳۴۸۳۴۷ ۶۰۰۵۰۲ ۲۷۴ ۳۶۰ ۱۳۵۱۳۲ ۲۷۰ ۲۸۹ ۵۰۴ کر کے ایک مصرعہ کہنا آپ کا حضور کو گلے ملنا لاہور میں ایک دعوت ولیمہ پر جانا لیکن دعوت سے واپس چلے آنا آپ کی ایک نظم ” عجب کہ احمد اطہر عبداللطیف.حضرت میاں عبد اللطيف ۵۶۰ ۶۰۶ ۴۵۳ ۳۱۲ ۲۶۲ ۱۵۷ ۳۸۶ عبدالغنی.ڈاکٹر عبدالغنی.میاں عبدالقادی.ملک عبد القادر - اخوند عبد القادر عبد القادر عبدالقادر.شیخ عبدالقادر.شیخ نومسلم عبدالقادر.شیخ لائلپوری ۶۱۸٬۶۰۹٬۶۰۴۶۰۱ بایں گذر آمده عبد القادر.سول سرجن عبد القادر.سید.ایم.اے عبدالقادر.شیخ مصنف کتاب ہذا ۴۵۵ ۵۴۷٬۵۰۴۴۴۹۶۴۴۷۸۴۴۶۱۴۴۵۷۴۵۶ عبد اللطیف.میاں ۶۳۶٬۶۱۸۱۲۶۱ عبداللطیف.شیخ عبد القادر جیلانی سید حضرت ۴۷۳٬۳۵۴٬۲۳۴٬۲۲۲۱۱۳ عبد اللطیف حافظ عبداللطیف.شیخ عبداللطیف.پروفیسر عبداللطیف.حکیم گجراتی عبداللطیف.ڈاکٹر عبداللطیف.ستکوہی ملک عبداللہ خان نواب حضرت عبداللہ خان.حضرت چوہدری عبد الله ۹۷ ۲۵۲ ۳۰۶ ۳۱۳ ۳۵۳ ۳۹۶ ۶۰۷ ۶۲۶۶۱۹ عبد القدیر عبد القدير عبد القدير عبدالقيوم عبدالقیوم عبدالقیوم خان عبدالقیوم.میاں عبدالقیوم.ناگی عبدالکریم.حضرت مولوی سیالکوٹی ۵۰٬۳۸۳۶۴۳۵۴۳۴ عبد الله ۲۲۲۲۱۳٬۲۰۳۱۹۳۱۹۰۱۲۲۱۱۷۱۱۶۱۰۹۱۰۲٬۹۴ عبد الله ۳۹۲٬۳۳۴۴۳۱۷۳۱۶۳۰۷۲۷۲۲۶۰۴۴۹۴۳۷۲۳۵ | عبد اللہ آتھم.ڈپٹی عبداللہ.ڈاکٹر نومسلم عبد اللہ.شاہ سید عبداللہ.شیخ عبداللہ شیخ حضرت ڈاکٹر نومسلم ( سابق دیوان چند ) ۱۵۱ عبدالواحد.میاں عبدالواحد.میاں عبدالوہاب.میاں عبدالوہاب.چوہدری عبدالوہاب عبدالوہاب.میاں عبدالوہاب.خان عبدالواحد.سید براہمن بڑیہ عبدالواحد.مولوی میرٹھی عبد الواسع عبد الوحید عبدالوسیع ابن حکیم محمد حسین عبدالہادی.شیخ ۱۵۴ ۳۸۳ ۳۱۲ ۱۴۳ ۱۰۵ ۳۷۸ ۳۳۵ ۴۵۵ ۲۸۱ عبداللہ.حضرت عبداللہ.محمد ڈاکٹر عبد الله محمد عبد الله محمد عبداللہ خان محمد چوہدری عبد اللہ محمد ملک ۵۵ ۲۱۴ ۶۱۳ ۲۹۷۲۹۶ ۲۷۳ ۳۹۶ ۲۵۲ ۲۵۱ ۵۵۸ ۵۱۰ ۵۱۰ آپ کا لیکچر لاہور کا مضمون پڑھنا عبدالکریم.میاں عبدالکریم.رانا عبدالکریم.حافظ رئیس دہلی عبدالکریم عبدالکریم.شیخ حاجی بٹالوی عبدالکریم.شیخ عبدالکریم خان.چوہدری عبدالکریم.میاں عبدالکریم.چوہدری عبدالکریم.میاں عبدالکریم.چوہدری م هم عبد اللہ محمد ملک ابن میاں نبی بخش عبدالکریم.حافظ ۱۴۱ ۱۴۰ عبداللہ.جان میاں عبد اللہ بن سبا عبد اللہ بیگ.مرزا کا ذاتی نمائندہ برائے جلسہ سالانہ لاہور عبداللطیف.شہید حضرت سید ۴۷۴۴۴۷۱۲۹۹٬۲۷۳٬۶۲۵۶عبداللہ غوثیہ.الشیخ مفتی اعظم فلسطین آپ کا حج کیلئے نکلنا لیکن امام الزماں کی زیارت کو

Page 649

۴۵۳۱۰۸ ۲۵۵۱۳۰۱۲۸۷۳٬۶۹۴۷ ۲۰۰ ۳۹۴ ۳۵۲۳ عنایت اللہ شاہ.ڈاکٹر عیسی علیہ السلام.حضرت ( مسیح علیہ السلام) عیسی.درد غزالہ غلام احمد.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ۸۷۸۴۸۲۴۷۷۶۷۱۷۰۶۸۵۸٬۵۱٬۴۹٬۵۰۳۸۳۶ ۱۳۷۱۳۵۳۳٬۱۲۹۱۲۷۴۱۲۱۴۱۱۵۱۱۱ ۱۱۰ ۱۹۷۹۵۹۴۹۱۹۰ ۱۴۶۱۴۳۱۴۰۱۳۸ تا ۱۶۷۱۶۲۱۶۱۱۵۹۱۵۸۱۵۶۱۵۱ ۱۷۴۱۷۲تا ۸۵۱۸۳ ۱ تا ۷ ۱۹۰۱۸ تا ۲۰۲۱۹۶۱۹۴ تا ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۱۲۲۰۹ ۲۱۵ ۲۲۶۲۲۳٬۲۰۰٬۲۱۷ تا ۲۳۰ ۲۳۷ ۲۴۱۲۳۸ تا ۲۴۶۲۴۳ ۲۴۷ ۲۵۶۲۵۲٬۲۴۸ تا ۲۵۹ ۲۶۶۲۶۳۲۶۲ تا ۲۷۷۲۷۵۲۷۳۲۷۲۲۷۰ تا ۲۷۹ ۲۹۸۳۲۰۳۰۴۲۹۶۲۲۹۲۲۸۸٬۲۸۵٬۲۸۲٬۲۸۱ تا ۳۰۱ ۱۳۲۹٬۳۲۸٬۳۲۴ ۳۳۱ تا ۳۴۱۳۳۹ تا ۳۵۱٬۳۴۹٬۳۴۷ ۴٬۳۵۲ ۳۵ تا ۳۶۷۳۶۶۳۶۳۳۶۰٬۳۵۸٬۳۵۶ ۳۹۵۳۹۳٬۳۹۱٬۳۸۵٬۳۸۲۴۳۷۹۳۷۸٬۳۷۴۳۶۹ ۲۰۱۳۹۸ ۴۰۵ تا ۴۱۵ ۴۲۱٬۴۲۰۴۱۸۴۱۷ ۴۲۸ تا ۴۳۰ ۴۶۷۴۵۰۴۴۸ ۴۴۷ ۴ ۴ ۴ ۴ ۴۳ ۴۲ ۴۱ ۴۳۵ ۴۴۳۴ ۴۴۹۱۴۴۷۴ ۵۲۲۴۵۱۱٬۴۵۰۳ تا ۵۴۶۵۴۴٬۵۳۹۵۲۸ ۶۰۲۶۰۱۵۹۵۵۸۵ رؤسائے لا ہور کو دعوتِ طعام اور تبلیغ حضور کی تقر میرا ور مجلس عرفان ۶۴ حضور کا الہام لکھوانا..۲۰۵ حضور کی دعاسے گونگا بچہ بولنے گا اور پانچ بیٹوں کی خوشخبری..122924 ۲۹۲۸ ۲۴۰ ۲۳۸ ۲۲۲ ۲۱۹۲۱۸ ۲۱۷ 191 ۲۸۷ ۲۵۳ ۲۰۲ ۲۵۶ ۴۵۳ ۳۶۵ ۲۸۴ ۵۸۵ ۶۲۲٬۴۵۳ ۵۶۸۵۶۷۵۶۴۵۱۲ ۳۹۲٬۳۶۶ ۳۳۸ ۲۰۰ ۹۸ ۱۰۷ ۵۶۷ ۳۴۲ ۴۸۳۴۳۲٬۴۳۰ ۳۲۳۳۲۲۲۰۵ بام بام سم ۶۱۴ ۳۴۱ ۱۴۷ ۳۲۲ ۴۰۶۴۰۵ ۴۰۳ ۴۳۰ تا ۴۳۴ حضور کی لاہور تشریف آوری اور ایک شخص کا حضور کو گالیاں دینا اور حضور کا کمال ضبط.میاں محمد موسیٰ کا حضور کو لکھنا کہ آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں اور حضور کا جواب حضور نے فرمایا’ تا وان لینا شریعت میں جائز نہیں“ حضور کا میاں محمد موسیٰ کی دوکان میں نہ آنا کہ ”نبی دکانوں میں نہیں بیٹھا کرتے“ حضور کا توکل حضور کا مہمانوں کیلئے چار پائی خود بنوانا...حضور کا حاضرین کی سوچی ہوئی باتوں کو تقریر میں بیان کرنا..۲۹۴ ۳۶۶ ۲۸۰ ۹۸ ۶۱۳ ۳۷۷ ۸۸ ۶۰۸ ۲۸۴ ۲۵۶ ۲۸۷ ۱۹۳ 13 غیر زبان میں آپ کو الہام عطاء اللہ شیخ عطاء اللہ.شیخ ۶۲۶ ۶۱۱ ۲۲۷۲۱۴۱۵۷۱۵۳٬۹۹ عبدالہادی.شیخ عبید الرحمن.ارشد میاں عبید اللہ خان بٹالوی ۴۲۵۴۴۱۶۴۳۶۶۳۵۲۳۲۹۳۲۷۳۱۷ ۵۰۴۴۴۷۳ عطاء الله عطاء الله عطاء اللہ.میاں عطاء اللہ.ملک عطاء اللہ.مرزا عطاء اللہ.قاضی عطاء اللہ.ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ شاہ بخاری سید عطا محمد.شیخ عطر دین عطیہ علا والدین علا والدین.میاں علا والدین.علامہ صدیقی علم الدین.حاجی علی حضرت علی احمد شیخ وکیل علی احمد.سید مولوی علی حسن.چوہدری علی گوہر منشی علیم الدین.خلیفہ علی محمد شیخ علی محمد.مولوی علی بخش.شیخ عمر حضرت عمر بخش.شیخ عمر حیات.شیخ حاجی عمر حیات عمر دین.میاں عمرالدین.ڈاکٹر عمر الدین.مولوی عمر دین.مولوی عمر دین.میاں عنایت اللہ.چوہدری عنایت اللہ.مرزا عنایت اللہ عنایت اللہ شیخ ولد شیخ عطاء اللہ عنایت اللہ.شیخ ۶۳۵٬۶۰۰ ۴۶۱ ۳۵۲ ۲۸۷ ۱۰۷ ۸۶ 7+9 ۶۱۱ ۶۱۳ ۲۸۷ ۲۸۴ ۲۹۰ ۲۶۶ ۳۳۰ ۳۵۷ ۲۱۳ ۳۴۳ ۴۵۳ ۲۱۱ ۴۱۳ ۲۶۶ ۲۰۹ ۳۵۱ ۲۵۶ ۳۵۷ ۳۹۸ آپ کا پادری چنن خان کے ساتھ لاہور میں مباحثہ ۱۹۶ ۵۲۹ ۶۳۲۶۱۳۱۹۵ ۶۰۸ ۶۰۶ ۵۶۲ ۵۳۴ ۳۶۵ ۲۰۰ 19.عبید اللہ خواجہ عذرا بنت نسیم احمد انصاری عذرا بیگم عزرائیل عزیز احمد مرزا عزیز احمد میاں عزیز احمد.ماسٹر عزیز احمد مرزا عزیز احمد.مرزا اسلامیہ پارک لاہور عزیز احمد عزیز احمد عزیز احمد عزیز احمد را جیکی عزیز الدین عزیز دین.زرگرمیاں عزیز الرحمن عزیز اللہ خان.سید عزیز بخش.مولانا عزیز بیگم عزیزه عزیزہ بیگم عشرت نسیم عصمت اللہ عطاء الرحمن عطاء الرحمن عطاءالرحمن عطاء الرحمن عطاء الرحمن.مولوی چغتائی عطاء الرحمن.قاضی قریشی عطاء الرحمن.چوہدری عطاءالرحمن.ملک عطاء الرحمن.میاں عطاء الرحمن.ملک مبلغ فرانس عطاء الرحمن.درد عطاء اللہ شیخ حضرت نومسلم

Page 650

14 ۲۷۰ ۲۶۴ ۲۶۵ ۱۰۲ اشاعت اسلام کیلئے حضور کی خدمت میں روپیہ بھیجنے کیلئے اپنے بچے بیچنے کی آرزو ایک پہلوان جو حضور کے بارے کہا کرتا تھا کہ آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے فرش پر گرا...مر گیا اور جسم میں کیڑے پڑے ہوئے تھے حضور کا بیماری کی حالت میں آریہ سماج کے اعتراض کا جواب ایک رات میں لکھنا ایک آریہ کا کہنا کہ مرزا میں طاقت ہے تو میری زبان بند کر واد سے.....حضور کارمیلوے اسٹیشن لاہور پر حضرت اُم المومنین کے ساتھ ٹہلنا حضور کو ایک شخص کا گالیاں نکالنا اور حضور کا فرمان..سائیں کچھ اور ایک خاکروب کا اسلام قبول کرنا اور لوگوں کا اس سے نفرت کرنا حضرت مسیح موعود کا اس کو اپنے گھر میں رکھ لینا حضرت مسیح موعود کی پیدائش اس مکان میں ہوئی جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا تھا حضرت مسیح موعود کا پہلا فوٹو گراف حضور کا وحی (ساتھ کے ساتھ ) لکھوانا حضور کا تھوڑی روٹیوں کو برکت بخشا اور مہمانوں کا ۲۶۶۲۶۵ سیر ہوکر کھانا کھانا بیس بائیس مہمان اور ڈھائی روٹیاں نماز فجر کے بعد رؤیا سنا کرتے اور اپنے الہامات بھی بتاتے حضرت مسیح موعود کی گھڑی جو حضرت میاں عبد العزیز مغل کے پاس ہے حضور کا عفو.میر مہدی حسن سے چائے کی پرچ پیالیاں ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۷ ۱۰۸ ۱۱۲ ۱۱۵ ۱۱۵ حضرت مسیح موعود کالا ہور ایک مقدمہ کے سلسلہ میں تشریف لانا حضرت مسیح موعود کا سفر جہلم حضور کا لیکچر سیالکوٹ تصنیف فرمانا ۲۴ بجے صبح میں جمعہ پڑھا دیا کروں گا ۸۶ ۶۰۷ ۳۲۳ ۱۹۶ اور لکھتے لکھتے سجدہ میں گر جانا ۲۱۳ حضور کا نظام الدین اولیا کے مزار غلام حسین.میاں غلام حسین.شیخ غلام حسین.مولانا حضرت پشاوری غلام دستگیر.ڈاکٹر غلام رسول.راجیکی حضرت مولانا ۳۵۸ IZA پر تشریف لے جا کر دعا کرنا...۲۲۳ ۳۶۷٬۳۵۸٬۳۵۴۳۵۳۳۴۷۲۹۴۲۹۰۲۷۱ حضرت مسیح موعود کا سفر ملتان بوم بوم ۴۲۳ تا ۴۴۲۵ ۴۴۲۷ ۴۴۹۴۴۴۸ ۶۰۱۴۵۹٬۴۵۲٬۴۵۱ حضور کا مقد مہ دھار یوال کیلئے جانا ۲۶۰ عمر بھر آپ کا چھٹی نہ لیتا ۴۲۴ حضرت مسیح موعود کا آخری سفر لاہور ۶۰ حضور کی گاڑی کو چند نو جوانوں کا گھوڑوں کی بجائے خود کھینچنے کی خواہش اور حضور کا ارشاد شالا مار باغ.حضور کا حضرت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا آپ کو اپنا نائب قرار دینا احباب جماعت لاہور کے بارے آپ کا رویا اُم المومنین کے ساتھ سیر پر جانا انار کلی.حضور کا تشریف لانا 119 ۲۴۳ ۲۴۴ غلام رسول.حافظ وزیر آبادی غلام رسول.حضرت میاں جراح غلام رسول.مولوی قلعہ والے غلام رسول.مولوی حضرت مسیح موعود کا مفتی صاحب کو البدر کا ایڈیٹر مقرر غلام رسول.چو ہدری فرمانا اور جماعت میں اعلان کے ذریعہ غلام رسول.چوہدری اطلاع فرمانا..حضرت مسیح موعود کا وصال.روداد حضرت مسیح موعود کی تدفین اور قبر کی تیاری کی روداد حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت...کا صبر اور ۸۴ غلام رسول.چوہدری ۷۵ غلام رسول شیخ غلام رسول.ملک غلام غوث مخالفین کی گھٹیا حرکات حضرت مسیح موعود کی سیر کا معمول غلام فاطمہ.لیڈی ڈاکٹر ۱۱۵ حضور کی آخری سیر کی روداد غلام فاطمه غلام فاطمه غلام احمد.حاجی سکنہ کریام ۳۳۸٬۳۳۷ غلام فرید.ملک ایم.اے غلام احمد.شیخ ۳۳ غلام احمد ۳۵۷ ۴۵۳ ۵۶۰ غلام قادر.مرزا غلام قادر آف لنگڑ وعہ غلام قادر.خان چوہدری ٹوٹ کر گرنا اور فرمایا دیکھو جب گری تھیں تو آواز کیسی غلام احمد.چوہدری.ایم.اے اچھی تھی، حضرت مسیح موعود کا معانقہ کرنا حضرت عبداللطیف صاحب سے ایک برقعہ پوش شخص کا حضور کے لاہور کے قیام میں قتل کے ارادے سے آنا حضور گالیوں کے خطوں کو محفوظ رکھا کرتے فرمایا چارمن وزن ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ میرے تک حرام پہنچا تا ہی نہیں“ ۱۱۷ ۱۱۸ ۳۳۴ ۱۲۳ ۱۴۹ غلام احمد.خان کرنل غلام احمد.بد و ملہوی غلام بھیک.خان میاں غلام حسن.مولوی پشاوری غلام حسن غلام حسین.حضرت مولوی امام مسجد گمٹی بازار ۶۰۱٬۴۲۶٬۴۲۵ غلام قادر.شیخ غلام قادر در.شیخ ۶۱۴۵۸۶ ۳۳۵۲۹۶ ۲۵۵ غلام قادر.مولوی غلام مجتبی.چوہدری غلام کہتی.قاری چینی ۸۵۸۲٬۵۲۵۱ غلام محبوب.پیر سبحان شاہ ۱۲۴۱۰۴ ۲۰۰۳۳۳۲۸۱۱۲۷، ۴۷۳، ۴۷۴ غلام محمد.حضرت با بوفورمین حضرت مسیح موعود کا مرزا یعقوب بیگ کے نام تعزیتی خط ۱۳۸ حضرت مسیح موعود نے جنازہ پڑھایا اور کندھا دیا حضور کالباس اور حضور کے عادات واطوار ۱۲۲ وصیت نہیں تھی حضرت مسیح موعود نے فرمایا ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے لا ہور میں حضور کی موجودگی میں آپ کی کتاب ۲۸ کتابوں کا حد سے زیادہ شوق...آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنایا جانا حضرت مسیح موعود کی پہلی مرتبہ لاہور میں تشریف آوری ۲۴ سرکاری دفاتر والوں سے کہنا کہ دس ۹۰ ۸۹ AL ۴۲۲ ۲۹۲٬۲۴۲ ۱۸۵ ۲۳۳ ۲۸۲ ۴۷۵ ۶۱۲ ۶۳۶ ۳۹۳۳۰۱ ۱۹۶ مام ۳۵۷ ۳۹۷ ۳۱۸ ۱۹۸ ۶۲۲۵۸۵٬۴۵۳٬۳۹۰۳۴۰ ۲۴ ۳۳۹ ۳۳۷ ۱۵۷ ۱۵۷ ۱۲۷ ۶۰۷ ۳۶۲ ۵۲۹ ۲۱۰۱۶۷۱۱۲۸۹۵۳ ۱۶۴۳۹٬۲۸۰۲۶۸۲۵۲۲۲۶۲۲۵ ۲۲۳۲۱۷ آپ نے بیعت کی تو ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں کانوں میں بالیاں، بٹن سونے کے..غلام محمد.میاں مدرس.اوکاڑہ کی شہادت غلام محمد ترنم مولانا ۲۲۱ ۵۶۶ ۵۶۹

Page 651

15 فتح محمد.چوہدری فتح محمد انوری فتح محمد.چوہدری ایم اے سمن آباد ۶۱۱ ۵۵۹ ۶۰۶ فضل الہی صوفی فضل الہی.مولوی فضل الہی فتح محمد.سیال چو ہدری ۵۵۲٬۵۵۱٬۳۲۸۷۷ فضل الہی.حکیم فتح محمد.چوہدری.مالک ہر یکے ٹرانسپورٹ ۶۳۶٬۶۰۴۶۰۰ | فضل حسین.میاں سر فرحت نیم فرخ مبشرات فرخنده سلطان فردوس شاہ.سید ۳۵۱ ۳۴۹ ۱۰۷ ۲۹۰ ۵۶۶ ۶۲۶ ۳۹۹ ۴۷۳٬۴۹۹٬۴۶۳۶۳ فضل حسین.بٹالوی حضرت حکیم شیخ کی وفات ۵۸۵۵۸۴ فضل حق.مستری فضل حق.غازی فضل شاہ.حضرت سید ۵۵۴ ۲۶۲ ۶۳۶ ۴۵۳ ۶۱۱۶۰۰ ۵۹۵٬۳۴ ۳۷۷ ۳۰۳ ۲۵۶ ۶۰۸ ۱۹۶ ۵۶۲ ۷۶ ۳۴۹۱۸۵ ۹۸ ۲۵۲ ۲۶۸ ۲۸۷ ۶۱۳ ۲۸۳ ۳۸۷ ۱۵۱۹۸ ۳۱۷ ۲۶۹ ۳۵۲ ۳۵۷ ۳۶۷ ۵۵۰ ۴۵۳۱۹۳ ۳۷۰ غلام محمد غلام محمد غلام محمد.حافظ غلام محمد.چوہدری سیالکوٹی غلام محمد.ڈاکٹر قیصر ہند“ غلام محمد.حضرت مولانا ماریشسی غلام محمد صوفی غلام محمد.مسٹر وزیر خزانہ غلام محمد.بٹلر میاں سرگودھا ۳۸۵٬۳۸ ۶۱۴ ۶۰۰۵۸۶۵۵۶۴۷۶۲۷۸۲۱۶ غلام محمد.ماسٹر غلام محمد اختر میاں غلام محمد.حضرت ملک تفصیلی حالات غلام محمد.غیر مبائع خواجہ کمال الدین صاحب کے بہنوئی ) ان کے بڑے بھائی کی دعوت ولیمہ پر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کا جانا اور کشفی طور پر دیکھ کر فرمانا’ ایس گوه است اور واپس چلے آنا غلام محمد.پرویز چوہدری غلام محمد.ثالث میاں غلام محی الدین.مولوی قصوری ۳۷۸ ۱۸۸ ۱۱۸ ۶۱۲ ۲۲۷ ۲۱۷ ۵۷۰ فرزند علی خان.امام مسجد لندن ۴۴۳۷۶۱۹۸ ۵۷۴٬۴۵ | فضل کریم.حافظ فضل کریم.پراچہ شیخ فضل احمد فضل احمد.حافظ فضل احمد.حافظ فضل احمد.حافظ فضل احمد.بابو فضل احمد شیخ فضل احمد.کنٹریکٹر فضل احمد - شیخ بٹالوی ۱۵۵ ۲۹ ۱۵۵ ۴۰۰ ۵۱۰ ۶۰۵ ۶۳۶ ۴۰۳ فضل کریم.ملک فضل محمد.حضرت میاں فضل محمد خاں فضیلت فقیر اللہ فقیر اللہ.بابو فقیر اللہ.حضرت ماسٹر فضل الدین.حکیم مولوی بھیروی ۵۱۵۰ ۳۸۲٬۲۳۷ فقیر محمد.چوہدری فضل دین.با بوسیا لکوٹی ۵۲۲۵۱۰۵۰۴۴۴۷۶۲۱۲ وکیل الدیوان تحریک جدید کی وفات ۵۵۹٬۴۹۶۴۴۷۸۲۲۹۲۲۸ | فضل دین.مولوی وکیل ۲۰۱۵۵۶۵۰۰۵۴۲٬۵۲۷ فقیر محمد مستری غلام مرتضی.حضرت مرزا کا لا ہور اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ فضل الدین.میاں ( معمار منارة المسیح ) تشریف لانا غلام مصطفی.ڈاکٹر غلام مصطفی.میاں غلام مصطفی.سید غلام نبی.حکیم غلام نبی.قمرمیاں غلام نبی.میاں غلام میز دانی.شیخ غوث _ ملا فاطمہ.حضرت ۲۴ ۵۲۹٬۴۵۳ 7+9 ۴۵۳ ۳۴۴ ۶۱۲ ۶۰۶ ۶۰۸ ۵۱۸ ۴۳۲ ۹۸ فضل دین.میاں فضل الدین.مولوی فضل الدین.مولوی فضل دین.جمعدار فضل دین.حضرت مولوی فضل الرب فضل الرحمن فضل الرحمن حکیم فضل الرحمن.غازی فضل الرحمن.ملک فضل النساء فضل الہی.حضرت مولوی ۲۲۲ ۱۵۰ ۷۵ ۱۰۵ ۱۲۶ ۱۵۵ ΠΑΙ ۳۶۶ ۱۹۶ ۵۸۵ ۲۶۲ ۳۹۸۳۹۷ ۹۸ ۲۰۳۲۰۲ فوزیہ بیگم.صاحبزادی فهمیده فهمیده فہمیدہ بیگم فہمیدہ بیگم فیاض احمد.اخوند فیروز.سائیں فیروز خان نون.ملک فیروز الدین.میاں فیروز الدین فیروزالدین فیروزالدین فیروز دین.خواجہ ۴۰۰۳۱۱۳۰۳۲۱۵ ۲۱۳۲۱۲۱۸۷ ۲۴ ۱۱۴ ۳۶۷ ۳۵۲ ۴۱۴۴۱۳ ۵۶۷ ۲۱۴ ۶۱۱ 공 ۵۲۷ فیض احمد.مرزا حکیم فیض الحسن.صاحبزادہ فیض الدین.مولوی.امام مسجد کبوتراں والی مسجد کا بیعت کرنا حضور کے ہاتھ پر فیض الرحمن.ماسٹر فیض الرحمن فیضی ۲۵۲ ۱۵۵ ۱۹۵۱۹۴ ۱۹۶ ۱۳۹ ۱۵۰۱۴۹ فضل الہی.حکیم فضل الہی صوفی فضل الہی.حضرت مولوی بھیروی آپ کی زیر نگرانی قادیان کے قصر خلافت کی تعمیر فضل الہی فضل الہی.حکیم حضرت ۹۷ ۴۰۳ ۳۹۲ ۲۱۱ ۶۰۰ فاطمه فاطمہ.بیگم فاطمہ.بیگم فتح الدین.مولوی دھر مکوئی فتح دین.حافظ فتح محمد.چوہدری

Page 652

۱۰۷ ۳۲۹ ۲۷۸ ۲۱۳ : ۱۲۸ ۲۵۵ ۳۹۴ ۳۹۴ 19.۲۶۸۲۴۸۵۵ ۹۷ ۳۵۳۴ ۳۸۲ ۷۵ ۴۵۳ 16 کرم الدین.مولوی مرحوم کرم دین.میاں کریم اللہ کریم اللہ کریم بخش.پہلوان میاں کریم بخش شیخ کریم بخش.بٹ حضرت شیخ کریم بخش ۲۷۸۲۷۷ ۳۳۷ ۲۸۴ ۹۵ کا پہلا فوٹولیا گستاپ.مرزا.بی.اے گلاب دین.حاجی گلاب الدین.میاں گلاب بی بی بیوہ میاں محمد سلطان ۳۱۶٬۳۰۲۲۲۰۱۴۸ گلاب سنگھ کا پریس لاہور ۳۳۵ ۲۶۹ ١٤٠١٣٩ گل حسن.میاں گلزار الحسن.شیخ گلشن آرا گنپت رائے.لالہ گنج بخش.حضرت داتا گوپی ناتھ پانڈ یہ.پنڈت گوردھن داس.پنڈت گوہر بی بی گوہر دین مستری لال دین.ڈاکٹر لامک نبی کی قبر ۱۳۹ ۵۷۲ ۵۶۹ ۹۸ ۳۴۵ ۶۲ کریم بی بی کریم بیگ.مرزا کی شہادت کفایت اللہ حسین حافظ کلثوم کلثوم آرا بیگم کلیمنٹ ریگ.پروفیسر انگلستان کے مشہور سیاح اور ہئیت دان کی حضور سے ملاقات کمال دین.میاں ۱۸۷۹۸ ۲۵۵ لاہور میں حضرت مولوی شیر علی کی قبر میں دفن ہیں ۳۹۱ لطف الرحمن ۲۰۰ کمال الدین یوسف سید کمال الدین.خواجہ ۵۹۵ ۱۲۲۱۱۸۹۱۶۷۶۵۶۲۶۱۵۶ لطف المنان ۲۰۲ لطیف احمد ۳۳۷ ۲۰۸۱۹۷۱۴۶۱۳۶۱۳۱۱۳۰۱۲۹ تا ۲۱۰ ۲۱۷ لطیف احمد.ملک ۴۰۳ ۲۰۰ تا ۲۲۳ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۶۸۲۵۰٬۲۴۷ ۳۷۸۳۳۴٬۳۱۸۳۱۳۳۰۵۲۹۸٬۲۹۷۲۸۵ لعل خان.چوہدری لعل دین ۶۲۶ ۳۰۳ ۳۳۹۸ ۴۲۰۴۴۰۱ تا ۴۷۴۴۶۹۴۴۷۴۴۲۸۴۴۲۲ لارد انتھکو ۴۹۸ آپ کے بارے حضرت مسیح موعود کا خواب اور آپ کو نصیحت ۲۰۷ خواجہ صاحب سے دوبارہ بیعت لینا ۱۶۷ لوہارا سنگھ لیفرائے آپ کا ایک رؤیا..۱۸۸ لوقا.حواری مسیح جس کے بارے ہے کہ وہ طبیب تھا ۱۳۱۱۲۸ ۲۸۱ پادری لیفر ائے کے لیکچر اور حضور کا مقابل پر آنا....۴۷۴۶ آپ کے تفصیلی حالات کنیز فاطمه ۳۵۷ ۳۴۹ لیفرائے بشپ کو حضور کا چیلنج م لیکھرام پشاوری.پنڈت ۳۹٬۳۱ تا ۱۳۷۱۱۲۹۳۴۲ کوثر وسیم کوکب ایوانی ۲۵۷ شاہ عالمی میں رہائش ۲۵۲۲۰۳٬۲۰۲ ۱۳۳ کولڈ سٹریم.حبش ۵۱۷ کھوسلہ.مسٹر سیشن جج سلام کا جواب لا ہوراسٹیشن کا واقعہ ۵۱۷۵۱۲ پیشگوئی کے مطابق قتل ہونا اور اس کی تفصیل ۳۰ ۳۹ کیانی.جسٹس ۲۱۴ اس کے قتل کے بعد ہندو دوکانداروں کا زہر ملی مٹھائی فروخت کرنا ۴۹۱ گاندھی.مہاتما ۶۸ گر دھر لعل.فوٹوگرافر انار کلی جس نے حضور ۵۰۶۴۶۱۳۶۹۲۷۴ لئیق احمد طاہر.ملک لیقه لیق احمد.ڈاکٹر ۶۲۶ ۴۰۳ ۲۵۲ ۲۹۱۲۹۰ ۳۱۸ ۲۸۰ ۱۴۱ ۲۰۰ 12 ۱۶۹ ۲۱۳ ۱۴۲ ۲۰۰ ۱۲۶ ۶۱۹۲۷۰ ۶۱۳ ۲۸۸٬۲۸۶۲۸۴٬۲۸۳ ۳۵۷ ۳۴۸۱۸۵ ۳۸۵ ۶۱۳ ۱۱۵ ۳۲۴ ۴۸۹ ۴۰۷ ١٣١١٣٠١٢٩ ۳۰۵ ۳۴۱ ۵۶۰ ۱۵۵ ۲۹۰ ۴۵۳ ق فیض علی.صابر ڈاکٹر اہلیہ فیض علی.صابر ڈاکٹر قادر بخش.بابا قادر بخش.شیخ قادر بخش.حضرت ماسٹرلدھیانوی قادر بخش.میاں قادر بخش.میاں.درویش قادر بخش.میاں بن میاں پیر محمد قائم الدین.بابو قاسم علی.حضرت میر قانه درد قائم دین.میاں قائم دین.بابا قدرت اللہ.خان حافظ قدرت اللہ حکیم قدرت اللہ.مرزا قدسیہ بیگم.صاحبزادی قطب الدین حکیم قمر احمد.قریشی قمرالدین.مولوی انسپکٹر اصلاح وارشاد قمر النساء کارڈن.مسٹر بیرسٹر کا کو خان.حضرت منشی کالی پرسن.ایک بنگالی وکیل کالو.میاں کرشن احمد کرم الہی.حضرت ڈاکٹر کرم الہی کرم الہی.حضرت میاں کرم الہی صوفی کرم الہی.ملک ایڈووکیٹ کوئٹہ کرم الہی بخش حضرت منشی مدرس نصرت الاسلام لاہور کرم دین.مولوی سکنہ بھیں ۱۴۹ ۵۶۵۲۲۵۰ ۳۷۴۳۱۸۲۸۰۲۷۳ ۲۲۲۲۰۵۴۱۸۹۱۱۲۱٩٩ کرم دین.میاں کرم دین.میاں 197 ۳۵۴

Page 653

۳۴۲ ۲۷۵ ۶۱۱ ۲۹۸ ۱۵۳ ۴۶۵ ۴۵۴۴۵۳ 17 محبوب عالم.حضرت قاضی ۲۹۹ آپ کا بذریعہ کشف احمدی ہونا ھذا اخلیفة الله.محمد ارشد محمد الحق حضور کو روزانہ خط لکھتے تھے ۵۲۹٬۲۵۱۲۴۲۲۴۱۲۳۷ محمد الحق.بابو محبوب عالم.منشی ۴۳۹٬۴۱۶٬۳۰۸۳۰۷ محمد اسحق.شیخ محبوب عالم.مولوی ایڈیٹر پیسہ اخبار کا حضور سے ملنا ۴۷۸ محبوب علی.شیخ محسن شاہ سید ۲۴۶ ۴۹۶ محمد اسحق.شیخ اہلیہ محمد اسحق محمد اسداللہ.چوہدری نیز دیکھیں’اسد اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم - حضرت ۶۶۴۶۰۵۹۵۷۴۷۴۳۴۰ محمد اسلم.قاضی.پروفیسر ایم اے ۱۷۵۱۴۳۱۳۷۱۳۳۱۲۹۱۱۵۱۱۴۴۱۰۸۸ ۵۰۳۵۰۱۲۳۹۲۱۴ ۵۷۷۵۹۷۵۹۵۵۷۸٬۵۵۸۵۶۰۵۵۹۵۵۵۵۱۸ ۲۳۰ ۲۳۷ ۳۵۴۳۴۶٬۳۰۷۲۹۷۲۴۱۲۳۸ امیر جماعت احمد یہ لاہور ۶۳۵۵ ۶۴۰ ۴۲۹۴۲ ۴۸۲ تا ۷ ۴۸ ۵۷۳۵۲۵ | آپ کا تقرر بطور صدر مجلس افتاء ۳۵۹٬۳۵۷ آپ کی خودنوشت سوانح جس میں محمد جی.ڈاکٹر محمد.مولوی داماد محمد مولوی محمد حسین بٹالوی ۴۷۵ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی بیادوں کا تذکرہ ۵۰۱ ۵۰۳ ۵۰۳ ۵۷۷ ۶۰۹ ۲۹۸ ۶۰۰ ۱۰۷ ۲۵۶ ۵۱۹۳۲۸ ۲۲۹ ۳۳۲ ۱۹۵۱۹۴ ۲۲۰ ۲۵۶ ۲۷۸ ۴۵ 24 ۶۲۰ ۶۱۲ ۳۵۳ ۲۶۲ ۱۶۲ مارکوئیس آف سالسبری ۴۹۸ ماؤس.سر ۴۹۸ مبارک احمد ۳۴۳ مبارک احمد ۳۳۱ مبارک احمد ۳۴۱ مبارک احمد.شیخ لاہور میں مبلغ ۴۲۵ مبارک احمد.ملک ۴۰۳ مبارک احمد جمیل.مولوی ۶۰۲۴۲۷ مبارک احمد.میاں امام مبارک احمد.میاں ۳۱۲ مبارک اسماعیل.شیخ ۱۵۳ مبارک علی.ملک لاہور میں حضرت مسیح موعود کی سیر کے دوران آپ ساتھ ساتھ جاتے ۳۹۵ مبارک علی.ملک ۲۱۹ مبارک علی مولوی ۳۲۶ محمد ابراہیم.چوہدری مبارک محمود پانی پتی.شیخ ۶۲۶۶۱۹۴۱۸ محمد ابراہیم.صوفی مبارکہ بیگم.حضرت نواب ۴۶۶۶۴۳۲۱٬۳۴۸۲۶۸۱۸۴۱۶۱ محمد ابراہیم.چوہدری محمد.میاں ۵۱۰۵۰۵٬۴۷۲٬۳۵۲۳۳۰۱۹۵۱۵۷| گورنمنٹ کالج لاہور سے ریٹائر منٹ اور کراچی محمد آصف شیخ یونیورسٹی میں تقرر محمد ابراہیم.بقا پوری حضرت مولوی ۴۲۵۱۹۵ محمد اسلم محمد اسلم محمد اسلم.چوہدری محمد اسلم شیخ محمد اسلم.مرزا محمد اسلم.میاں محمد اسماعیل.حضرت مولوی حلالپوری آپ کی تصنیف ” بعض خاص کارنامے، جس میں ٹریکٹ اظہارالحق“ کا جواب ہے ۲۶۴ ۴۵۳ ۶۰۹ ۶۱۰ ۳۰۷ ۳۱۵ ۶۰۴۶۰۱ ۳۴۲ محمد ابراہیم.چوہدری محمد ابراہیم.حافظ مولوی محمد ابرا ہیم.سیالکوٹی مولوی محمد ابراہیم.ماسٹر محمد اجمل محمد احسن.امروہی حضرت مولوی سید ۱۹۶۶۰۴۹۲۹ محمد اسماعیل.حضرت ڈاکٹر میر ۵۹۹٬۴۵۳ محمد اسماعیل.حضرت مرزا ۳۴۵ محمد اسماعیل ۹۸ محمد اسماعیل.شیخ ۲۲۹ محمد اسماعیل.خان ڈاکٹر ۱۳۴ محمد اسماعیل.حضرت منشی ۶۱۹ محمد اسماعیل.میاں ۲۱۱۵۵ محمد اسماعیل.چوہدری آپ کا کہنا کہ عقائد مولوی محمد علی صاحب کے ٹھیک ہیں مگر دعا میاں صاحب کی قبول ہوتی ہے محمد اسماعیل مستری محمد اسماعیل.معبتر محمد اسماعیل.ڈارمیاں محمد اسماعیل.مرزا محمد اسماعیل.حضرت حاجی محمد اسماعیل.قریشی ابن حکیم محمد حسین قریشی ۶۱۸ ۶۰۶ ۴۰۳ ۳۱۲ ۹۸ ۳۱۲ ۲۹۹ ۱۳۴ محمد احمد مظہر.شیخ محمد احمد شاہ سید محمد احمد محمد احمد محمد احمد ابن حکیم محمد حسین محمد احمد پانی پتی محمد احمد خان.میاں نوابزادہ محمد احمد.شیخ محمد احمد.مرزا محمد احمد ملک محمد احمد.میاں محمد اور لیس محمد ادریس محمد ادر لیں.شیخ محمد ادر لیں.میاں محمد ادریس ابن حکیم محمد حسین ۱۰۷ ۲۳۷ ۹۸ ۳۶۱ ۳۴۱ ۳۵۷ ۱۸۰ ۳۵۱ ١٩٩ ۶۲۶۲۰۰ ۱۸۰ ۶۰۸ ۳۱۳ 1+4 مبارک بیگم مبار که بیگم دختر میاں معراج دین عمر مبارکہ مبارکہ مبارکه نیم مبارکه شوکت مبشر احمد مبشر احمد مبشر احمد را جیکی مبشر احمد.صاحبزادہ مرزا ڈاکٹر ۵۲۹۵۰۴۴۱۶۳۴۷۲۵۷۱۶۷ ۲۷۶ ۲۳۹ مبشر علی مبین الحق مجددالف ثانی.حضرت مجیب الرحمن.درد مجید احمد - صاحبزادہ مرزا مجید احمد.میاں مجیدہ بیگم محب الرحمن.حضرت مولوی محبوب احمد خان محبوب عالم.جے پور

Page 654

18 محمد اشرف محمد اشرف ۳۳۱ امیر جماعت شیخو پوره ۵۶۶ محمد ایوب خان.فیلڈ مارشل محمد اشرف.چوہدری ۶۰۱ محمد بخش محمد اشرف.ڈاکٹر ۶۰۶ محمد بخش.حکیم محمد اشرف.سید بوم بوم ۳ محمد بخش.شیخ محمد اشرف.میاں IAZ محمد اشرف.میاں محمد اشرف.مولوی ۹۸ ۶۰۲٬۴۲۷۶۰۲ محمد بخش.مسلم مولوی محمد بخش.مولوی ( ملا ڈپھل) ایڈیٹر اخبار ہنٹر محمد افضل ۳۴۲ محمد بخش.حضرت منشی محمد افضل.بابومالک و مدیر البدر ۱۳۸۸۴ ۱۸۹ محمد بخش.میرایڈووکیٹ محمد افضل.خان بابوعبدالمجید سالک کے چچا محمد افضل نسیم محمد اقبال محمد اقبال محمد اقبال.سر ڈاکٹر آپ کا قادیان جانا اور حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنا آپ کی تجو میز کہ حضرت خلیلہ اسیح الثانی کشمیر کمیٹی کے صدر ہوں“ آپ کی صدارت میں حضور کا ایک لیکچر احمدیت کی مخالفت میں مضامین آپ کا لکھنا اور ۳۹۷ ۲۲۹ ۴۱۰ ۳۳۰ ۱۴۱ ۲۲۹۲۱۷ ۵۰۷ ۴۸۰ محمد بخش.میاں محمد بشیر محمد بشیر.خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر.شیخ محمد بشیر ابن حکیم محمد حسین قریشی کی وفات پر حضور کا تعزیت نامہ محمد حسن.مولوی سکنہ بھیں محمد حسن مفتی محمد حسن آسان دھلوی.حضرت ماسٹر ۶۳۵٬۴۵۳ | محمد حسین.حضرت منشی ۵۴۹ محمد حسین.مولوی ۱۵۶ ۳۶۲ ١٤٠١٣٩ ۵۶۹ ۳۰۳ ۱۴۹ ۵۹۹ ۲۵۶ محمد حسین.مولوی محمد حسین.میاں محمد حسین.میاں محمد حسین.میاں (اہلیہ ) مستری محمد حسین محمد حسین.بٹالوی مولوی محمد حسین بٹالوی کے بیٹے کا ایک خط محمد حسین بٹالوی کے بیٹے کا خیال رکھنا ۱۴۹ ۲۹۷ ۳۷۵ ۳۱۲ ۵۳۴ ۵۲۹ ۵۲۹ ۳۹۶۳۱۵۱۸۶۱۷۵۱۲۲ ۵۴۵ ۵۴۴ ۴۱۱۴۱۰ تا ۴۱۳ محمد حسین.شاہ سید ڈاکٹر ۲۴۵۲۴۱۲۲۸۷۳۷۰۶۴۶۲ ۵۶۰۵۵۶۵۰۶۲۱۶ ۴۴۷۴۹۶۴۰۳۹۸٬۳۱۳۳۰ ۴٬۲۹۷۲۵۰۲۴۷ ۱۵۹ ۵۰٬۴۹ ۵۶۹ ۲۷۵ محمد حنیف.شیخ محمد حیات.بابو محمد حیات.مولوی محمد حیات.ملک ملک فیروز خان نون کے والد ملک حیات خان نون کو مولوی شیر علی صاحب کا تبلیغ کرنا اور د عدہ لینا کہ محمد حسین.حضرت حکیم معروف مرہم عیسی ۱۱۲۱۰۰٬۹۸۸۱ | ایک مرتبہ قادیان ضرور جائیں گے ۱۵۶۱۳۳۱۳۲۱۵۱۱۱۷ تا ۱۷۲۱۵۹ ۷۴ اتا محمد خان.چوہدری ۴۴۹٬۴۳۹۳۹۹۳۳۳۳۰۳۱۷۶ محمد خان.ملک ۱۴۵ ۲۱۳ ۳۴۹ ۱۹۶ ۳۸۷ ۶۱۲ ۶۱۰ ۱۴۷ ۶۰۶ ۲۱۴ ۱۶۵ ۲۶۱ ۶۱۲ ۴۰۷ ۳۶۱۳۵۱ ۳۰۰ ۲۷۸۲۷۷ ۵۵۳ ۶۲۶ ۶۱۱ ۱۵۶ ۶۱۱ ۶۲۶ ۱۱۳ ۹۸ جواہر لعل نہرو کارڈ محمد اکمل.قاضی محمداکبر.خان اخوند محمد اکرم ۵۱۷ ۳۵۴ ۳۳۶ ۱۸۶ محمد اکرم ۳۴۲ آپ کے تفصیلی حالات نسخہ مرہم عیسی کے متعلق آپ کی تحقیق اور مسائل قبولیت احمدیت کی تفصیل مسجد احمد یہ دہلی دروازہ کے بانی مبانی ۱۲۵ ۱۲۷ ۱۳۲ ۱۵۶ محمد اکرم.خواجہ محمد ا کرم.شیخ ۶۰۶ سے انہیں خط لکھا کرتے محمد اکرم.قریشی بوم ۶۱ ۶۲۶۶۱۷۶۱۱ آپ کی یہ خوش نصیبی کہ حضرت مسیح موعود اپنے ہاتھ حضرت خلیہ اسیح الثانی کی کتاب لیکر حیدر آباد جانا محمد خان مینشی حضرت کپور تھلوی محمد خان.میاں محمد خورشید زمان جسٹس محمد دولت خان محمد دین محمد الہی محمد الیاس محمد الیاس ابن حکیم محمد حسین ۱۳۹ ۹۸ ۱۳۴ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا خراج تحسین آپ کا غیر مبائعین میں شامل ہونا اور پھر ایک رؤیا کی بناء پر واپسی محمد منیر.خان چوہدری ۳۳۷ محمد امین.بوٹ فروش ۲۳۸ محمد امین.میاں ۲۵۵ ۱۵۸ ۱۶۶ ۱۶۶ ۴۴۹ محمد دین.مستری محمد دین کمبوہ حاجی محمد دین.خواجہ محمد دین.حضرت مولوی محمد دین.میاں محمد حسین.قریشی حضرت حکیم موجد مفرح عنبری ۲۲۱۴۲۱۰ محمد دین.نواب حضرت جن کے ذریعہ ربوہ کی ۴۱۶۴۱۵٬۳۶۹۳۲۸۳۰۸۲۶۸۲۲۷۲۲۶۲۶۰ زمین خرید گی گئی ۵۰۵٬۴۷۶۴۷۲۴۷۱۴۳۹ محمد رشید - صوفی محمد امین.مرزا ۶۱۱ محمد انور محمد انور شاہ سید محمد انور مستری محمد انور مولوی ۱۸۶ ۳۴۵ ۵۳۳ ۳۵۲ محمد انور حسین.چوہدری محمد حسین قریشی محمد حسین ۲۶۷۲۶۶ محمد رشید.میاں محمد حسین شاہ.حضرت سید آف راہواں ۳۵۹٬۳۷۵ محمد رفیع صوفی محمد حسین شاہ.سید ۵۶ محمد رفیق.صوفی محمد حسین.شیخ محمد حسین.شیخ ڈھنگڑہ محمد رفیق.ضیاء ۳۳۵ محمد رمضان ۳۲۶ محمد زکریا

Page 655

۴۵۲٬۴۲۸ ۴۳۰ ۴۲۰۳۹۹۳۸۳۳۴۸ ۲۴ محمد علی.شاہ سید.قادیان کے ایک معزز زمیندار محمد علی.شاہ سید ۵۶۷ ۴۹۴۳۷۱۳۷۰۱۹۹ ۵۴۵۳۷۵۳۲٬۴۹۸۴۹۵ ۴۹۵٬۴۹۴۲۷۴ ۲۷۳ ۱۲۲ 7+9 ۳۰۶۱۳۴٬۹۸ ۳۴۶ ۳۳۳۲۰۹ ۵۶۰ ۱۴۵ ۶۰۶ ۱۶۴ ۳۲۴ ۵۰۵ محمد علی.مولانا جالندھری محمد علی.جناح قائد اعظم ۵۷۰ ۳۳۱ ۳۲۹ ۲۰۱ ۳۴۳۳۴۲ 19 محمد زکریا ابن حکیم محمدحسین محمد سرور شاہ.حضرت سید محمد سزاوار.میاں رئیس لاہور ۱۳۴ محمد صادق ۵۲۹٬۴۴۰٬۴۲۵۳۵۳ محمد صادق ۳۷۵ محمد صادق.قریشی.ربوہ محمد سعید.حضرت میاں سعدی ۷۲٬۹۸ ۷۱ ۲۰۷۲۹۹۱۷۸۱۷ | محمد صادق.مرزا غیر مبائعین کے مقابلے میں پمفلٹ تصنیف کرنا ۵۱۰٬۴۴۹ | محمد صادق.مولوی کنجاہی ( سماٹری) سعید احمد محمد قائد مجلس خدام لاہور ۶۱۷٬۶۱۵۵۷۷۵۷۵ | محمد صادق.مرزا محمد سعید.ڈاکٹر محمد سلطان ۲۰۹ ۱۰۴ (اہلیہ ) مرزا محمد صادق محمد صادق.میاں محمد سلطان.ٹھیکیدار.رئیس لاہور ۹۹۹۸۲۴ ۱۰۰ محمد صادق.میاں ۴۶۵ ۶۰۷ IZA محمد علی.جو ہر مولانا محمد عمر.کرم دین وکیل محمد عمر.قریشی ۴۰۰۳۱۱۳۰۳۱۶۹۱۵۱ محمد صدیق.مولوی امرتسری ۳۷۹٬۳۳۳٬۳۳۲۲۷۷ محمد عمر.میاں ابن میاں عبد العزیز محمد سلطان.نصرت میاں ابن میاں معراج الدین عمر ۱۰۷ محمد صدیق خلیفہ محمد سلطان.میاں درزی محمد سلیم.مرزا محمد سلیم اختر.مرزا محمد سلیمان.میاں محمد شاہ سید محمد شریف.ڈاکٹر بٹالوی محمد شریف.چوہدری ۲۵۵ ۴۲۷ ۶۰۲ ۲۹۹ ۱۲۵ ۴۳۸ ۴۵۳ محمد صدیق.سید محمد صدیق.شاہ سید محمد صدیق شاکر محمد طفیل.ماسٹر محمد طفیل.ماسٹر محمد طفیل.ملک محمد عالم محمد عبدالحق.ڈاکٹر محمد شریف.ملک محمد شریف.میاں.اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ۳۹۵ ۱۷۳۱۷۲ محمد عبداللہ خان.میاں حضرت نواب زادہ ۱۸۶ ۱۷۵ ۱۲۵ محمد عیسی.ابن حکیم محمد حسین محمد غوث.مولوی محمد لطیف ۶۲۶۶۱۹۶۱۸۶۱ محمد لطیف قریشی خان بہادر ۴۰۳ ۳۹۴ ۵۷۲ ۳۶۳ محمد لطیف.شیخ محمد لطیف.میاں محمد مراد.میاں محمد منظور الہی.بابو ۶۰۰۵۷۵ محمد منیر.ڈاکٹر ۱۸۵۱۸۳ ۲۱۴ ۲۱۰۱۵۷ محمد منیر.جسٹس محمد موسیٰ.حضرت مستری.نیلا گنبد لاہور ۳۶۱۳۱۲۳۱۰۳۰۶۲۶۸۲۳۸۲۴۲۳۷ ۴۳۹٬۴۱۶۶۱۷۵۳۴۵۲۸۴۶۹۴۶۰ ۲۰۷ ۴۲۴ ۶۳۶ ۳۶۱ بہشتی مقبرہ میں حضور سے قبر کی جگہ مخصوص کر وانا لیکن ۱۰۴ ۳۱۲۲۹۹۱۳۴٬۹۸ محمد نذیر.قاضی.لائلپوری محمد نواز.چوہدری محمد ہارون.شیخ محمد یسین - مولوی ۵۱۰ ۴۷۳ ۵۰۸ ۵۰۸ 41+ ۱۶۳ محمد عبداللہ.ماسٹر شمس العلماء مفتی محمدعبداللہ ٹونکی کا مباحثہ محمد عبداللہ.شیخ کا سرینگر سے الفضل کیلئے پیغام جس میں شیخ بشیر احمد صاحب کی خدمات کا تذکرہ محمد عثمان.میاں محمد عطاء اللہ.قاضی محمد عظیم.میاں کھدرفروش محمد علی مولوی ایم اے ۱۴۲۹۱۴۵۶۴۵ ۱۹۷ ۲۱۱۲۰۶۱۸۷ | محمد یاسین ولد حافظ محمود عرف ” گدڑ جولاہور ۲۱۷ ۳۱۴۶۳۱۳٬۲۹۹٬۲۹۳۶۲۸۳۲۲۷۲۱۸ | میں حضرت مسیح موعود پر اعتراض کیا کرتا ۳۹۹۳۹۸۳۷۸۳۶۲ ۴۰۱۴۰۰ ۴۱۸۴۴۱۷ محمد يحجي ابن حکیم محمد حسین ۶۱۷۶۱۵۶۱۳ تا ۶۱۹ محمد يحيا ان کے نام حضور کا خوشنودی کا خط ۶۱۹ محمد دي.شیخ محمد یعقوب.میاں ۶۳۵۳۶۱۸۱۷۵ ۹۸ محمد یعقوب.میاں IAZ محمد یوسف.سردار ( سورن سنگھ ) ۳۶۰ محمد یوسف.حضرت میاں نائب امیر جماعت احمد یہ لاہور ۶۰۰٬۲۹۹۲۹۸۱۴۷ ۶۳۵۶۱۳٬۶۰۴ ۳۳۵۲۹۶ محمد علی.مولوی سے دوبارہ بیعت لیا جانا محمد علی منشی ۴۶۱۴۴۸ ۴۴۷ ۴۴۵ ۴۴ ۴ ۴ ۴۲ ۴۱ ۴۴۳۸۴۳۷ ۴۲۱ 192 ۱۵۶ محمد علی.مولوی سید کانپوری ۳۷ محمد علی.حضرت میاں ۳۰۰ IAZTAY ۹۷ ۳۳۱ ۱۴۵ ۳۵۲ ۶۰۰ ۹۸ ۱۵۱۱۴۸ ۲۹۹ ۳۵۲ ۶۰۴٬۶۰۱۵۱۰ ۴۸۸٬۴۷۸ MM ۲۸۷ ۶۰۷ ۵۷۲ محمد شریف.میاں محمد شریف محمد شریف محمد شریف.شیخ خواجہ محمد شریف.خواجہ محمد شریف ٹھیکیدار محمد شریف.میاں محمد شریف.ڈپٹی حضرت محمد شعیب.میاں محمد شفیع.خواجہ محمدشفیع.بابو محمد شفیع.خان بہادر سر محمد شفیع.مرزا محمد شفیع.مرزا محمد شفیع.مرزا محمد شفیع.بر ماوالا کی مغلپورہ میں شہادت محمد صادق.مفتی حضرت ۱۱۲۱۰۴۸۴۸۳٬۶۲۵۷٬۴۸۴۷ محمد علی.میاں ۱۳۸۱۲۳ ۲۳۴۲۰۵۱۹۶۱۹۵۱۷۴۱۶۶۱۴۲ محمد علی.مولوی سکنہ بہا در ۲۵۴ تا ۵۵۸۵۲۹٬۴۸۱۴۳۹۹۴۲۷۲٬۲۶۷۲۵۶ محمد علی صوفی محمد علی.صوفی حضرت حضرت مفتی صاحب کو حضور کا فرمانا کہ خدا آپ کو بہت ڈگریاں دے گا...اور اس کا پورا ہونا ۸۴ ۲۹ ۳۷۴ ۳۹۹ ۱۵۶ محمد علی.خان حضرت نواب ۲۱۰۱۸۵۱۸۳۹۰۷۶ ۳۴۷ | محمد یوسف.قاضی پیشاوری

Page 656

20 20 محمد یوسف.حافظ ضلعدار محمد یونس.میاں محمود محمود احمد محمود احمد محمود احمد محموداحمد.میجر کی شہادت اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں اس کا تذکرہ محمود احمد محمود احمد.چوہدری قائد خدام الاحمدیہ لاہور محمود احمد.خان.نائب امیر جماعت را ولپنڈی محمود احمد.ڈاکٹر محمود احمد.شاہد مولوی محمود احمد.قاضی ۳۹۹ ۲۹۹ ۳۴۷ ۲۶۶ ۲۵۱ ۳۲۳ ۵۶۵ ۳۴۱ مریم مریم مریم مریم بی بی مریم بی بی مسعود احمد مسعود احمد.شیخ مسعود احمد خان اسٹنٹ ایڈیٹرالفضل ۶۰۶۵۵۸ مسعود احمد خان نواب ۶۲۶٬۶۱۲ مسعود احمد قریشی ۲۷۶ ۶۰۷ مسعوداحمد.قاضی ڈاکٹر مسعوده بیگم ۵۷۹ مسعوده بیگم ۶۱۳۶۰۰٬۵۱۰۲۵۱ مشتاق احمد.میر ڈاکٹر محموداحمد قریشی ۵۴۲۶۱۹٬۶۲۷۴۶۲۲۴۶۱۵۴۶۱۴٬۵۹۷ | مشتاق حسین.حضرت شیخ محمود احمد قریشی معتبر ۶۲۰۶۱۵۴۰۷۶۰۴۶۰۱ مشہود احمد خان ۹۸ ۲۸۰ ۲۶۲ ۳۱۲ ۲۵۱ ۱۵۳ معراج الدین.عمر میاں حضرت ۱۲۴٬۹۸٬۹۷۸۴۵۳٬۲۸ ۱۸۶۱۷۵۱۷۲۱۶۶۱۵۷۱۵۰۱۳۸۱۲۵۱۱۰۱۰۰ ۳۰۳٬۲۸۵٬۲۶۸۲۴۸٬۲۰۲۱۸۷ تا ۳۳۲٬۳۰۵ ۵۱۰۴۷۶۴۵۴ ۴۳۹ ۴۱۶۳۹۹۳۳۶۳۳۴ 1+1 تفصیلی حالات براہین احمدیہ طبع دوم کا دیباچہ آپ نے لکھا اخبار بدر کے مالک آپ کی روایات ۲۷۶۲۷۵ آپ کا ایک رقعہ حضور کولکھنا اور حضور کا جواب ۲۱۱ ۶۲۶۶۰۸ ۲۹۹ ۳۳۱ ۶۰۴٬۶۰۰ ۲۹۴ دینا’ السلام علیکم مباھلہ والوں کے خلاف مقدمہ میں آپ کا بھی پیش ہونا تقویم عمری کے مصنف صداقت مریمیہ کے مصنف الحکم میں آپ کی مزید روایات حضور کا سب سے پہلا فوٹو آپ نے خریدا آپ کے مضامین کی فہرست 1+1 1+1 1+1 * ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۵ لا لا ؟؟؟ ۱۰۵ ۱۰۵ ۱۰۷ مغل.حضرت میاں.نیز دیکھیں’عبدالعزیز ۱۴۹ مقصود احمد خان ۲۷۶ ممتاز احمد ۳۱۶ ممتاز احمد ۳۲۴ ممتاز احمد.ماسٹر سم اسم ممتاز بیگم ممتاز بیگم ۳۴۵ ۳۳۱ ۴۷۸ ۲۷۴ ۳۷۰ ۳۴۱ ۳۹۴ ۱۸۲ ۲۶۸ ۴۶۶ ۲۱۱ ۲۹۲ ۵۷۸ ۶۰۵ ۵۷۱ ۴۳۹ ۵۷۰ ۶۰۹ ۳۴۹۱۸۵ ۳۵۷ ۵۵۸ ۶۲۶ ۳۱۳ ۳۹۷ مصباح الدین.میاں مصطفی احمد خان میاں صاحبزادہ مصلح الدین احمد را جیکی مطیع الرحمٰن.صوفی مظفر احمد مظفر احمد مظفر احمد مظفراحمد.صاحبزادہ مرزا ۵۸۶۵۸۵٬۴۵۳۱۸۰ | ممتاز علی.سید مولوی.ایڈیٹر اخبار ” تہذیب النسواں“ کی حضور سے ملاقات ممتاز علی خان ممتاز محمد.میاں......منصور احمد منصور احمد منصور احمد.صاحبزادہ مرزا منصورشاه منصوره بیگم منصورہ بیگم.سیدہ منصورہ بیگم.صاحبزادی منظر علی منظور احمد خواجہ پر نکال GC منظور احمد.ملک منظور احمد.میاں کی شہادت ۳۲۴۳۲۲ ۶۲۶ ۱۴۹ ۲۷۲ 11 + ۲۹ ۵۷۰ ۳۷۶ ۳۰۲ ۵۶۴ ۲۹۱ ۴۰۶ ۵۲۰ ۲۸۷ مظفر احمد.ملک مظفر اقبال.میر مظفرالدین.حضرت منشی ۶۱۹ ۴۵۳ ۱۵۱ ۶۲۶ ۵۵۰ ۶۰۰ ۲۷۵ ۹۸ ۲۲۹ ۲۶۶ محمود احمد.مرزا محمود اللہ.سید شاہ محمود دین محمود اقبال محمودالحسن.شیخ محمود الحسن.شیخ محمود الحسن.خان مولوی محمودہ محمودہ محموده محمودہ بیگم محمودہ بیگم محمودہ بیگم محمودہ بیگم محمودہ بیگم.(حضرت ام ناصر ) حضرت خلیفہ ثانی ۲۷۵ ۳۳۱ ۲۹۸ ۲۹۹ مظفر الدین مظفر الدین مظفردین.میاں مظفر خان.سب انسپکٹر ۱۴۷۱۴۶ مظفر علی مظفر علی.چوہدری مظہر علی اظہر.مولوی مظہر علی.طالب معاذ بن جبل.حضرت معراج الدین.ڈاکٹر معراج الدین.ملک معراج الدین.میاں حضرت پہلوان ۳۱۷٬۲۵۳۲۵۲ منظور الہی.محمد منظور الحق ۱۲۴ معراج الدین.میاں شیر فروش ۲۱۰ ۹۷ ۲۹۰ ۲۷۶ ۲۷۰ ۲۹۲ ۵۶۹ کی حرم محترم محمودہ بیگم.صاحبزادی محمودہ بیگم.جان مختار احمد مختار احمد مختار احمد صاحب شاہجہانپوری.حافظ حضرت مراد خاتون مرغوب احمد مرید احمد.قاضی

Page 657

۳۲۵۳۲۴ ۴۰۰ ۳۶۷ ۳۰۳ ۳۷۵ ۱۲۸ ۲۶۶ نبی بخش.چوہدری نبی بخش.شیخ نبی بخش.داروغہ نبی بخش.پہلوان نبی حسن خان.چوہدری نتھو.میاں.خوشنویس لاہور تھے شاہ شار احمد.چوہدری ۵۵ ۴۷۶۴۷۲۴۷۱٬۴۰۳۱۵۷ ۲۵۰۳۴۵۳۲۸۷ ۵۷۸۵۸۴۵۶ ۵۷۰ 21 میرحسن.مولانا میلارام نادرشاہ سید جہلمی ناصر احمد صاحبزادہ حضرت مرزا آپ کی گرفتاری ۶۹۰ ۳۵۷ ۳۴۱ ۳۲۴ ۶۲۶ ۵۸۳٬۴۵۳ ۶۱۲ منظور علی.ماسٹر منظور فاطمه منور احمد منور احمد منور احمد.چوہدری منور احمد.حضرت صاحبزادہ مرزا.ڈاکٹر منور احمد جاوید.ملک منور احمد.میاں منور دین منور سلطانه منور علی منور لطف اللہ خان چوہدری منیر احمد منیر احمد منیر احمد - صاحبزادہ مرزا منیر احمد مرزا منیر احمد.قریشی میاں منیر اختر منیر الحصنی.شامی منير الحق منیر الدین.خلیفہ منیره مود و د احمد خان موز مدار.بابو.برہمو سماج کے منسٹر مولا بخش مولا بخش.مرزا مولا بخش.حضرت منشی مولا بخش.میاں مولود احمد.خان.سابق امام مسجد لندن لارڈ مونٹ بیٹن مہتاب بیگم مهدی حسین.میر ۶۰۷ ۳۶۷ ۳۵۱ ۶۳۶۶۲۶۶۰۵ مہر دین.مستری.حضرت مسیح موعود کی تدفین کیلئے قبر پر کام کرنے والوں میں سے ایک مہر علی.شیخ.رئیس ہوشیار پور مہر علی.شاہ پیر گولڑوی ۵۲۹ ۳۴۳ ۱۸۰ ۳۴۹ ۶۰۹ ۲۸۷ ۵۳۰ ۳۵۱ ۱۴۷ ۳۵۳ ۲۷۶ ۲۹ ۱۳۹ ۳۴۹ ۴۰۰۱۵۳ ۲۵۳ ۲۷۶ ۵۳۵ ۹۷ ۷۷۶۵ ۵۲۲ ناصر احمد ناصر احمد ناصر احمد ناصر الدین خلیفہ ناصر بتول ناصر سلیم ناصر شاہ سید حضرت تفصیلی حالات حج بیت اللہ کیلئے جمع کی ہوئی رقم آپ نے ایک ۲۹۰ ۳۰۶ ۲۵۱ ۱۴۷ ۳۷۷ 1+9 نذر محمد مستری نذر محمد خان نذیر نذیر احمد.مولوی نذیر احمد.مولوی.راجوری نذیر احمد.شیخ نذیر احمد.ریاض ڈاکٹر ملک نے حضرت مولوی شیر علی کی سیرت پر ایک رسالہ لکھا نذیر احمد.جنرل نذیر احمد.خواجہ 1+9 ۱۰۹ ۳۷۶۳۷۵ ۲۲۴۷۲۷۰۵۷٬۳۰ نذیر احمد نذیر احمد.بابو نذیر احمد.میاں ۴۳۱٬۴۹٬۳۴۵۲۲۵ نذیر احمد میاں نذیر احمد ۳۷۶ نذیر احمد خان.ماسٹر ۲۸۷ کتاب کی طباعت کیلئے حضور کی خدمت میں پیش کردی حضرت مولوی عبد الکریم کا آپ سے فرمانا ناصر علی ناصر نواب.حضرت میر ناصرہ بیگم ناصرہ بیگم ناصرہ بیگم ناصرہ بیگم ناصرہ بیگم این.اے.فاروقی.میاں ناظم حسین کاظمی.سیدایڈیٹر ناظم الہند نانک.بابا حضرت نبی بخش.حضرت صوفی لا ہوری تفصیلی حالات ۲۶۲ ۲۶۸ ۳۹۴ ۳۱۶ بوم بوم ۳۶۱۱۳۷۱۳۶۹۱۳۰ ۲۹ نذیر احمد علی کی وفات پر جماعت احمد یہ لاہور کی قرار داد نذیراں نذیر حسین.میاں نذیر حسین.میاں ابن حضرت حکیم محمدحسین مرہم عیسی نذیر حسین.ماسٹرمیاں ۹۲ تا ۹۷ نذیر حسین.میاں نذیر علی.راجہ انجمن حمایت اسلام کے مہتم کتب خانہ نو جوانی میں حضور کور دیا میں دیکھنا...بیعت سے بہت قبل آپ کا الہام ۱۵۵۱۵۰۱۰۲۶۳۹۸۵۰٬۴۹ حضور کا ارشاد اور خدائی تصرف مہر علی شاہ کوتفسیر قرآن لکھنے کا چیلنج اور اسکی مختصر کیفیت ۴۹ میران بخش.کی کوٹھی ( چونہ منڈی لاہور ) میں حضور کا قیام میراں بخش.ماسٹر میراں بخش.مرزا حضور کی قبولیت دعا کا معجزہ نبی بخش منشی نبی بخش.میاں مام نبی بخش.میاں ۳۴۹ ۹۷ ۹۷۹۶ ۹۷ ۱۱۸۲۹ บ نذیر محمد.میاں نزہت پروین نزہت نسیم نیم احمد نسیم احمد انصاری نسیم حسن.مسٹر نصر اللہ خان.چوہدری نصر اللہ خان.ملک ۶۰۶ ۵۷۲ ۲۸۷ ۹۸ ۶۱۲ ۶۰۵ ۲۹۸ ۳۸۸ ۵۶۷ ۳۱۸ ۲۶۹ ۲۷۶ ۱۰۷ ۳۳۰ ۳۹۷ ۴۵۳ ۵۸۴ ۲۷۹ ۹۸ ۱۷۶۱۳۴۸۱ ۲۴ ۳۳۳ ۶۰۹ ۳۵۳ ۳۷۷ ۳۵۱ ۳۶۱ ۲۸۷ ۳۶۸ ۶۱۳

Page 658

۳۳۲۳۳۱ ۱۲۹ ۳۷۵ ۶۳۶ ۴۰۱۳۹۹۲۶۸۲۱۰ ۱۳ ۱۳۵ ΟΛΙ ۴۹۶ ۴۸۹ ۲۷۶ ۲۷۵ ㅎㅎㅎㅎ 중요국 중ㅎ 옷 글을 후후후 ۳۴۹ ۶۱۳ ۱۲۵ ۶۱۰ ۲۳۰ ۲۸۴ ۳۲۴ ۵۶۶ ۵۴۴ ۵۳۵ 22 نصرت بیگم ۳۶۶ ۲۶۸ نصرت جہاں.بیگم حضرت ام المومنین ۱۰۲۷۲۷۰٬۶۹۲۰ ۲۴۱۲۳۹۲۳۸۲۱۰۱۹۰۱۸۰۱٦١٤٣٦٤٢١٤١۶۱۱۵ ۲۴۳ ۳۱۸۳۱۰۲۹۳۲۴۴ تا ۴۶۴۴۳۱۴۱۹۳۲۱ آپ کا حضرت میاں عبدالعزیز مغل کو حضور کی ایک گھڑی عطا فرمانا نصرت جہاں بیگم اہلیہ ملک سعادت احمد نصیر احمد.منہاس نصیر احمد نصیر احمد نصیر الحق.شیخ ۲۹۴۲۵۱ ۲۸۷ ۳۴۳ ۳۵۷ ۳۵۱٬۳۵۰ نورالہی ملک ۶۲۶ نور محمد.میاں نورالدین.مولوی حکیم حضرت ۵۶۵۳٬۳۴٬۲۶۶۲۳ نور محمد.ڈاکٹر ۸۳۸۲۷۷۷۶۶۵۷۳۷۰۶۱۶۰۵۹۵۷ نور محمد با بو مینجر کاٹن مل بہا در ۷۸۶ ۱۱۵۱۱۰۱۰۳۱۰۲۱۰۰٬۹۱۹۰۸ تا ۱۲۱۱۱۷ نور محمد.چوہدری ۱۶۵۱۵۶۱۴۲٬۱۴۱۱۳۶۱۳۵۱۳۳۱۳۲۱۲۷ | نور محمد.ڈاکٹر حکیم ۷۲۱۶۷ ۲۲۱۲۲۱۰۲۰۳۱۹۰۱۸۸۱ ۲۲۷ ۲۲۸ مالک کارخانہ ہمدم صحت ۲۳۷ ۲۴۲ ۲۷۱۲۶۳۲۶۱۲۶۰۲۵۸۴۲۵۴۲۴۵ نیاز الدین احمد.چوہدری ۳۰۵۲۹۸٬۲۹۶ تا ۳۲۴۳۱۷٬۳۱۴۳۰۷ تا ۳۲۶ نیاز بیگ.مرزا والد مرز الیعقوب بیگ ۳۶۵٬۳۵۳٬۳۳۴۳۳۹۹۳۳۶۳۳۴۳۳۱ نیاز علی سید ۳۹۲٬۳۸۷٬۳۸۳٬۳۸۲۶۳۷۴۳۶۶۳۶۱۳۶۰ نیاز علی.شیخ ۴۱۴۴۴۰۹ تا ۴۲۰۴۴۱۸ تا ۴۳۶۴۴۲۹۴۴۲۷۴۴۲۲ نیاز محمد.مسٹر ۶۰۲۶۰۱۵۸۸٬۵۲۳ ۴۷۴ ۴ ۴۸ ۴۴۴۵ ۴۴ ۴ ۴ ۴ ۴۳ و و دود احمد خان وزیر محمد خاں.محب اللہ شاہ حضرت حافظ وزیر محمد.رہتاس وزیر محمد.بابو وزیر محمد.میاں ۴۳۱٬۴۳۰ ۴۳۵ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جس طرح.....مجھے لکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی مصلحت نے روک رکھا ہے اور ہاں خدا نے روکا ۲۶۲ ۲۲۳ ۲۶۴ ۳۸۲ نصیرہ بیگم نظام الدین اولیاء نظام الدین.مولوی نظام الدین.مولوی حضرت نظام الدین.حضرت میاں نظام الدین.میاں نظام الدین.بابو ماہل پوری نظیر بیگم نعمت اللہ.خان حضرت مولوی کی افغانستان میں ۲۱۲ ۳۵۲ ۳۶۳ ۳۶۶ آپ کے دو مضامین جو الفضل میں حضور نے لکھوائے آپ کا پیغام مصلح بند کر وا دینا اور پیغام جنگ“ قرار دینا ۴۳۸ ۴۳۷ ۴۳۸ وسیم احمد.مرزا صا حبزادہ ولایت بیگم ولایت خاں ولایت شاہ.سید آپ کا لیکچر لاہور کے بعد مختصر ساوعظ اور کلمہ شہادت ولایت محمد.میاں شہادت اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پڑھنا جس پر کچھ ہند و صاحبان کا کہنا کہ اگر ایک دفعہ وسن.جنرل کا اظہار ا خلاص آپ کا مدرسہ حد یہ میں داخل ہونا نعمت الله نعمت اللہ.ڈاکٹر نعیم احمد نعیم احمد.شاہ سید نعیم الرحمن نگہت نیم نواب علی خان ۲۵۶ ۳۳۸ ۳۳۷ ۶۰۸ ۲۰۰ ۲۰۰ ۲۷۳ ۳۵۱ آپ پھر وہی کلمہ پڑھ دیتے تو ہم پورے مسلمان ہو ولفرڈ سمتھ.پروفیسر جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہو گئے ہیں آپ اور لاہور آپ کا سفر لاہور شیخ رحمت اللہ کی دوکان کا سنگِ بنیا در کھنے کیلئے آپ کا ملتان تشریف لے جانا آپ کا آریہ سماج وچھووالی کی کانفرنس میں حضرت مسیح موعود کا مضمون پڑھنا ۱۰۴٬۲۷ ولی اللہ.مرزا ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۷ ولی اللہ ا بن بابا ہدایت اللہ ولی محمد.مستری ولی محمد.چوہدری ولی محمد شاہ سید ولیہ بیگم ویٹ جان.مسٹرانگریز جو حضور کی ملاقات کو مدراس سے قادیان آیا اور حضور آپ کی ایک تقر مر لا ہور میں اسلام اور دیگر مذاہب ۴۲۷ کی بیعت کی آپ کی اطاعت امام اور ادب کی بے مثال نظیر حضور کی ویول.لارڈ ووم نماز ہوگئی....۱۲۱ 0 ہدایت اللہ.بابا حضرت شا عر لاہور ۳۵۸٬۳۱۶٬۲۸۸٬۲۸۱۲۸۵٬۲۸۴٬۲۸۰ ۴۷۵۴۷۳ ۸۹ ۲۹۸ آپ نے وڈی ہیر وارث شاہ “ کومکمل کیا ان کی بابت حضور نے فرمایا یہ تو مجسم وصیت ہیں ایسے لوگوں کی وصیت کی کیا ضرورت ہے ہدایت اللہ.میاں ۴۴۱ ۴۴۰ ۴۴۱ ۱۴۲ ۱۵۴ ۱۰۷ ۱۰۳ ۲۴۵ نواب مبارکہ بیگم.حضرت سیده ۲۱۰۲۰۹ نوراحمد نوراحمد خان.چوہدری نور احمد.شیخ نوراحمد.وکیل شیخ نوردین نورالحق.مولوی ۳۴۲ آپ کی آخری وصیت آپ کی وفات اور مولوی محمد علی صاحب کا کردار ۶۰۷۶۰۴۶۰۱ آپ کا ایک شہادت کیلئے ملتان جانا ۶۰۰۵۸۵۵۸۴۵۷۲ ۳۲۳ ۹۸ ۴۹۱٬۴۹۰۳۴۷۳۴۶ نورالدین.حضرت میاں نورالدین.میاں نورالدین.شیخ نانبائی نور محمد

Page 659

۶۱۴ ۴۹۹ ۵۸۶۵۸۲۳۹۶ ۸۴۵۷۵۱٬۲۸۲۶ ۳۹۹۳۴۶۲۹۹۲۶۵۲۲۴۱۵۳۱۰۳ ۴۵۳ ۳۷۷ 궁금 ۳۲۹ ۵۹۵ ۳۱۵ یعقوب محمد.میاں یعقوب محمد.سرمولوی ۴۲۰ ۳۹۹ 23 یار محمد قاضی یار محمد.مولوی یعقوب بیگ.مرزا ڈاکٹر ۳۶ ۶٬۴۲ ۵ تا ۷۰٬۵۸ یعقوب محمد خاں.ڈاکٹر یعقوب علی عرفانی.حضرت شیخ بینگ سن.پادری یوسف عثمان یوسف علی.شیخ یوسف علی.شیخ یوسف محمد ۲۷۱ ۲۷۰۲۲۸٬۲۲۱٬۲۴۵۱۳۷۸۹۸۸۸۲ ۴۴۷ ۹۴۱۶۴۰۱۴۰۰ ۳۹۸٬۳۳۵۲۸۳ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۶ ۳۱۳ تفصیلی حالات وفد چولہ بابا نانک کے ممبر حضور کے معالج کی سعادت انجمن حمایت اسلام کے سرگرم رکن.لیکن احمدی ہونے کی بناء پر یہاں ۲۶۸ ۲۹۸ ۲۰۰ ۲۷۴ ۵۰۸ ۵۲۰۵۱۹ ۲۹۰ ہاجرہ بیگم ہاجرہ بیگم ہاجره درد ہادی علی خان ہری سنگھ.مہاراجہ ہیز.کرنل یار محمد یعقوب بیگ.مرزا یار محمد.سید مام

Page 660

۴۳۳۳۸۲۳۷ ۲۸۰۵۲۵۰ ۱۲۶ مام ۴۲۳۳۳۰۳۲۶۳۲۴۲۷۵۳۷ ۴۰۰۳۳۵۲۹۶۲۹۵۲۷۲٬۲۱۲۱۱۹۵۱۴۳۷ ۵۶۶٬۴۷۳٬۴۰۱ 24 مقامات انگلستان نیز دیکھیں ”ولایت او جله ضلع گورداسپور اوکاڑہ ایبٹ آباد ٢٧۶١٩٩١٩٨ بھین ۲۱۱۲۰۰۱۸۹ ۵۶۶۵۳۲ پانی والا تالاب ۳۲۳٬۳۲۲ پٹی ضلع لاہور اڑیسہ ۳۷۵ پٹیالہ ریاست ایچی سن سکول 11+ پیشاور باره مولاکشمیر باغ بانپورہ.لاہور ۱۰۸ پنجاب ببری منگل ۴۸۸٬۴۶۱۴۵۰۳۷۰۳۴۶۳۱۷۳۱۶۲۹۸۲۸۱ ۵۱۵۵۱۱۵۱۰۵۰۳٬۴۹۶۴۴۹۵٬۴۹۳٬۴۸۲٬۴۸۹ ۵۵۱۵۴۹۵۳۷۵۳۶۵۳۵۵۳۴۵۳۳۵۳۱ ۱۲۷ ۲۵۹ ۳۷۲ ۴۳ ۵۰۳٬۲۷۶۲۷۵۱۵۲ ۱۴۹ ۳۲ ۲۴۳ ۲۲۷۱۱۲۱۱۱۹۷۷۶۷۴۶۳۶۰ ۲۹۳۲۶۹۲۶۶۲۵۸۲۴۶۲۳۶ ۱۳۹۳٬۳۹۶۳۹۴٬۳۱۰۳۰۹۳۰۱ ( پنجاب ) پبلک لائبریری لاہور ۵۸۵۴۴۵٬۳۹۷ پنج شیر ضلع ۶۰۱٬۴۲۵٬۲۸۹ پھگواڑہ ۳۵۳٬۳۲۳٬۳۲۲ پیرس ۵۱۵ ۱۰۰۲۴ ترکی ۱۶۵ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ تعلیم الاسلام کا لج.لاہور کی ایک عمارت ۴۷۹۴۷۸٬۴۶۱۴۵۷۴۵۵ تکیہ سادھواں ۳۹۶۳۳۹ تھر پارکر ۲۰۱ ۴۰۵۳۷۶۳۶۶۳۵۹٬۳۵۷۳۳۷ ۲۱۱ ۶۲۰۶۱۸۶۰۲٬۶۰۱۴۲۶۲۵۶ ۲۰۱ ٹاؤن ہال لاہور ۳۹۶۳۳۹ ۱۴۰ ۴۸۹٬۳۱۶۴۲۴۶۱۴۳۷ ' ٹھنڈی سڑک جاکرتہ ( جکارتہ جالندھر تحصیل جام پور ۵۴۷۵۳۶۱۶۹۱۶۵ ۳۷ ۳۳۸ ۵۹۴ بٹالہ بخارا بدوماهی برکت علی محمدن ہال برگنز ا ہوٹل.لاہور برہمن بڑ یہ بنگال بریڈ لا ء ہال لاہور.جہاں حضور نے تقریر فرمائی بصره بغداد بکر منڈی.لاہور بمبئی بنگال بنگلور بو“ سیرالیون بھائی دروازہ.لاہور ۱۲۸۱۲۶۱۱۷۱۰۰۲۶ جامعہ احمدیہ ۲۵۲٬۲۲۹٬۲۲۰۱۵۴۱۴۱ ۲۹۵۲۵۳ جزائر شرق النهد ۶۰۶۵۷۲٬۳۵۳٬۳۵۲٬۳۳۳٬۳۳۰ جلال پور جٹاں ۱۵۶ بها در ضلع گورداسپور ۳۷۴ جموں ریاست جموں کشمیر بھارت نگر بہاولپور بھڈیار بھلوال ۴۵۷ ۲۹۳۴۴ ۳۷۹٬۳۳۲۳۳۱۳۱۱۲۷۸۲۷۷ ۳۸۲ ۵۹۹۵۰۸۴۲۷ ،۳۴۳ ۳۳۷۳۲۴٣٠١١٩٠١٨٩ ۳۱۸۲۹۹٬۲۹۸۲۸۰۲۶۷۵۱٬۴۹٬۳۷۳۴ ۳۵۳۳۳۷۳۳۲۳۲۹ بھمہ 1++ بھوپال جھنگ جودھا مال بلڈنگ جو گووال ۴۲۳۳۶۶۲۲۹۱۵۴۱۳۹٬۹۰ ۵۴۲٬۳۴۱ ۳۶۲ بھوڈی ملیاں ضلع سیالکوٹ ۲۳۹ ۳۹۷ جے پور ۵۵۱۵۴۹ ۵۲۰ ۳۷۵٬۳۱۷۳۰۹۱۴ ۱۸۶ ۵۴۷ ۳۷۹٬۳۳۲٬۳۱۱۲۷۷ ۳۷۵ ۳۸۴ ۳۷۵ ۱۹۶ ۶۰۳٬۲۲۵ ۳۸۲ ۳۷۲ ۳۷۰ ۶۲۴۲۵۷۱۹۰۱۴۴ ۶۰۸٬۴۷۵٬۳۰۱٬۲۸۴ آزاد کشمیر آسٹریلیا آگرہ آلو مہار ابی سنبيا اٹاری اٹانوالی اٹلی اجمیر احمد آباد احمد یہ بلڈس لاہور یہ اور حمہ تحصیل بھلوال ار بیٹریا اسرائیل اسلامیہ پارک.لاہور اسلامیہ کالج.شیرانوالہ دروازہ لاہور ۳۲ ۴۷۶٬۳۱۵۲۹۲۱۵۳۹۶ ۵۹۵٬۴۲۵ ۵۸۴۵۶۲٬۳۶۵۳۲۲۷۶ ۶۰۱۵۹۵۵۹۴۵۸۵ ۵۵۷٬۴۷۰۲۵۵۲۵۳٬۵۱ افریقہ افریقہ مشرقی افریقہ مغربی افغانستان ۳۹۴ الفلاح بلڈنگ کی تعمیر کی نگرانی شیخ عبدالحق ۴۸۹۳۵۷۳۳۰۳۷ ۱۱۹۱۱۶۱۱۵ ۱۱۴ ۱۱۱۸۸۴۸۳۷ الہ آباد امرتسر ۲۵۶۲۲۴ ۲۲۳۱۸۵۱۳۵۱۳۲ ۳۱۵۳۰۹۳۰۴۲۷۸ ۲۷ ۲۶ ۴۴۵۳۹۳۳۷۹۳۳۸۳۳۷ ۳۳۱ ۵۶۰۵۱۹۵۳۵۵۰۳۴۶۹۴۵۸ ۵۴۸۳۱۱۳۰۰٬۲۷۳۱۷۴۸۴ ۶۲۰۵۸۷۵۵۸ ۲۸۰۲۵۹۲۵۲۱۰۷ ۴۷ ۴ ۶۰۷۳۷۵۲۸۹۲۶۹ ۲۹۱۳۷ ۳۰۲ ۵۴۷٬۴۵۳٬۳۷۲٬۳۵۳٬۲۰۱۲۰۰ ۵۸۷۵۷۹ ۶۳ امریکہ انار کلی.لاہور انبالہ اندور ریاست انڈونیشیا انڈیا نیز دیکھیں ”ہندوستان“

Page 661

ز ۴۵۲ زیره م ۴۰۹٬۴۰۸٬۴۰۶۴۰ ۴۸۱۳۴۳ زیرہ.اللہ تعالیٰ انہیں زیرہ میں بہت جلد ایک ۲۳۳ مضبوط اور مخلص جماعت دے گا ۴۰۸ 1++ ۱۹۲ ۵۶۶۵۴۹۵۱۵ س ساملی سنی ٹوریم سرائے سلطان' لاہور سرائے کالا سرحد ۵۰۶۵۰۵٬۳۸۸۳۸۶۳۲۱ ٣٠٩ ۲۵۵ ۲۱۱ ۶۱۷۳۳۷۲۸۷ ۳۷۵ سرگودها ۵۵۴۴۳۸۴۴۲۶۴۴۲۳٬۳۸۴۶۳۸۲۱۹۶۱۹۵ ۳۰۹ ۵۰۸۱۵۶ ۳۳۸ ۵۴۷ ۱۵۶۳۴ ۳۱۵ ۶۱۰۳۳۵۱۲۹ ۲۰۱ ۶۰۵۳۵۰ ۶۱۰ ۵۳۲۲۵۶ ۳۷۹٬۳۳۳۳۳۲۲۷۷ 11.۳۴۸ ۶۰۷۳۲۲ سری گوبند پور سری نگر سٹروعہ سعودی عرب سکھر سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سلطان پورہ.لاہور سماٹرا سمن آباد.لاہور سنت نگر.لاہور سندھ سنگاپور سنہری مسجد.لاہور سوئٹزرلینڈ سول لائنز.لاہور ۲۱۴ ۲۱۳۲۱۲۱۸۲۱۶۸۱۲۹۱۱۶۳۷۲۵ ۳۶۹٬۳۶۸٬۳۳۲۳۲۵ ۲۲۴ ۳۲۲٬۳۱۵۳۱۳ ۶۱۷۵ ۱٬۴۵۴۳۹۷۳۷۹ ۹۵ ۱۰۲۲۸ ۵۹۵۳۳۲ ۵۹۴ ۳۴۲ ۳۷۲ ۳۷ ۲۷۰ سید کراس تحصیل گوجر خان سید میٹھا بازار لاہور سیرالیون سیرالیون کے جشنِ آزادی میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ کے طور پر شرکت سیکھواں ۶۱۴۶۰۳۴۷۵۴۲۴۳۶۶۲۶۶۲۶۰ شام شاہ پور شاہجہان پور شاہدرہ شاہ عالمی دروازہ.لاہور شاه مسکین ضلع شیخو پوره ۴۰۳٬۳۳۰۲۹۰۲۸۸۱۳۷۱۲۵۹۸ ۹۹ ۳۱۵۳۱۳ شاہی مسجد.لاہور شکر گڑھ ۱۵۳۱۳۷۱۱۰ ۲۱۱ 25 دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ڈبی بازار ڈسکہ ڈلہوزی ڈنڈوت کالری ڈنگہ ضلع گجرات ڈھاباں سنگھ.شیخوپورہ ڈھا کہ ڈیال موضع ڈیرہ بابا نانک ڈیرہ دون ڈیرہ غازی خان ۵۱۸ ۳۳۷ ۵۵۳٬۳۶۶ ۳۵۱ ٢٨٩١٠ 1.۳۹۲ IA 11..rmir ۳۶۲ ۴۷۵۳۴۶٬۲۸۲۲۲۹ ۲۵۹ مسجد چابکسواراں کا تنازعہ چٹا گانگ چنیوٹ چونڈہ چونہ منڈی.لاہور چوہٹہ مفتی محمد باقر چوہدری والا چھانگا مانگا چھ نیہ اسٹیشن چین چینیاں والی مسجد حاجی پوره ۲۰۲ ۶۰۹۳۵۷۳۳۹٬۳۳۷ ۳۵۴ ٢٧٤٩٦١٩٢١٩١١۴۱۹۵۹۲۳۷ ۵۰۹٬۴۵۳٬۳۷۶٬۳۵۰۲۹۹۲۷۶۲۷۴ ڈیوس روڈ.لاہور راجگڑھ را جیکی.گجرات راولپنڈی حبیبیہ ہال لاہور.جہاں حضور نے ۴۵۷۴۵۶٬۴۵۵ تقریر فرمائی حویلی کابلی مل ۶۲۲۱۶۶۱۶۵۳۷ 119 خ ۴۷۰ ۶۲۴۵۶۷۵۶۶۵۳۵ ۳۷ ۳۷۵ ۳۶۶۳۵۸٬۳۵۷ ۱۷۹۱۵۲۱۴۴۱۳۴۱۳۳۸۵۸۱۷۶۷۵ راؤ پٹی موضع را ہواں ضلع جالندھر ربوه ۶۲۲ ۵۱ ۲۲۹٬۲۱۱۲۰۳٬۲۰۰۱۹۷۱۹۴۴۱۸۹۱۸۶۱۸۵ ۱۹۳ ۲۹۴۲۹۰۲۷۶۲۷۴۲۶۲۲۵۷۲۵۳ ۲۵۱ ۱۳۴ ۳۵۷۳۵۱٬۳۴۹۳۴۲٬۳۲۵۳۲۰٬۳۱۲٬۳۰۰ حیدر آباد (دکن) حیدر آبادسندھ خوجه تحصیل رخہ.افغانستان خوشاب خیر پور خانه کعبه دار الرحمت.قادیان دار الرحمت وسطی.ربوہ ۲۰۶۸۱ دار الصدر.ربوہ ۳۹۴٬۳۹۱۳۷۶۳۶۶۳۶۳۳۶۲۳۶۱۳۵۹ ۲۵۶ ۵۵۹۵۵۴٬۵۵۲۵۵۰۵۲۸۵۰۳۴۲۶۳۹۶ دار الفضل.قادیان ۱۹۲ ۵۸۹۵۸۷۵۸۵۵۸۳٬۵۸۲۵۷۹۵۷ ۷۵ ۷۲ ۱۶۹ ۶۲۶۶۲۴۶۲۲۶۰۳۵۹۵ ۵۵۳ ۶۱۸ ربوہ.یادگاری مسجد ۵۹۰ ۵۴۲۵۰۶۳۶۵۲۱۶۱۹۳۱۸۱ ۶۰۶ ربوہ نیا مرکز.اور بعض دفاتر کی فوری منتقلی ربوہ کی یادگاری مسجد کیلئے جماعت لاہور کا چندہ ۳۹۳٬۳۲۳٬۳۲۲ رتن باغ لاہور ۲۸۹۲۷۶۲۷۵۲۲۵۱۹۶۱۲۳۹۱۵۶۳۷ ۵۳۰٬۵۲۴۵۱۳۵۰۰٬۴۹۹٬۴۶۹٬۳۲۱۲۹۶ ۵۸۲٬۵۵۷۵۵۲۵۵۰۵۴۶۵۴۵۵ ۴۴ رحمان پورہ حلقہ.لاہور کی عاملہ ۶۷.۶۶ ء ۱۲۰ ۳۴۱۲۶۱۲۶۰ درگئی دکن دینا نگر دھار یوال ۲۶۲ ۳۵۰ ۳۲۵۳۲۴ ۴۸ ۳۵۳ ۳۳۲ 1.ریتی چھلہ ریلوے اسٹیشن لاہور دھرم پورہ.لاہور دھرم سالہ ضلع کانگڑہ دھرم کوٹ دہلی دھلی.حضور نے فرمایا کہ پتھریلی زمین سے زیادہ پتھر دل یہاں کے لوگوں کو پایا هلی دروازه ۲۲۳ رخہ ضلع پنج شیر رنبیر سنگھ پورہ ۱۵۷۱۳۴۱۲۶۱۲۰۱۱۱۱۰۴۱۰۰۵۳۵۱ رنگ محل ہائی سکول.لاہور ۲۹۰۲۷۱۲۶۶۲۶۰۲۵۷۲۲۶۱۸۴۱۶۳ ۳۶۷۳۶۱۳۴۹۳۴۲٬۳۳۰٬۳۰۵۲۹۴ ۶۲۶۶۰۷۴۷۶۴۷۱۴۶۵٬۴۵۸٬۴۲۴ ۳۴۹ رہتاس ضلع جہلم دھیر کے کلاں

Page 662

۲۷۶ ۲۳۰ ۱۲۹ ۴۷۲۸۱ ۴۵۳ ۳۶۲ ۳۱۷ 26 26 ۲۳۰ ۲۲۹ ۲۲۸ ۲۲۷ ۲۲۶٬۲۲۱٬۲۲۰ ۲۱۸۲۱۷ ۲۳۱ ۲۴۲٬۲۳۹٬۲۳۸۲۳۷۲۳۶۲۳۵۲۳۳ کوچه چابک سواراں ۲۶۵۲۶۳۲۶۰۲۵۶۲۵۵٬۲۵۲٬۲۵۱٬۲۵۰۲۴۸ کوچہ چڑیماراں.لاہور ۲۷۱۲۷۰۲۶۹۴۶۸۶۶۶ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۵۲۷۴ کوچہ سیٹھاں.لاہور ۲۹۲٬۲۸۸۲۸۶٬۲۸۳ ۲۸۱۲۸۰۲۷۹٬۲۷۸۲۷۷ کوٹ خواجہ سعید ۳۱۰۳۰۹۳۰۸۳۰۶۳۰۲٬۳۰۰۲۹۹٬۲۹۶۲۹۳ ۳۲۰۳۱۸۳۱۷۳۱۶۳۱۴٬۳۱۳٬۳۲۱۳۱۱ کوئٹہ کھاریاں ۳۵۴٬۳۴۹٬۳۴۲۲۵۵۱۶۳۱۵۶۱۵۵ ۶۱۹۵۸۹۵۸۵٬۳۵۹ ۲۸۹ ۳۹۶ ۲۰۳۱۲۷۱۰۴۸۷۸۵۸۲۵۲ ۳۳۱۳۲۹٬۳۲۸۳۲۶۳۲۳ ۳۳۶۴۳۳۴ کھوڑی ضلع آگرہ حجرات ۳۴۲۴ ،۳۴۳۳۴۲۳۴۰۳۳۹۳۳۸۳۳۷ ۳۶۰۳۵۹٬۳۵۵٬۳۵۳٬۳۵۱٬۳۵۰۳۴۹٬۳۴۵ ۳۷۵۳۷۴۳۶۹۳۶۸۳۶۶۳۶۳۳۶۲۳۶۱ ۳۸۷۳۸۶٬۳۸۵٬۳۸۳٬۳۸۲٬۳۷۸۳۷۷۳۷۶ ۳۹۴٬۳۹۳٬۳۸۸ ۳۹۵ ۳۹ ۱٬۴۰۰ ۴۰، ۴۰۹٬۴۰۷ گجرات.کاٹھیا دار گکھڑ گمٹی بازار.لاہور ۳۷۷۳۶۸۳۶۷۳۵۰۳۳۰ ۱۳۹۸۸٬۳۷ ۵۳۶۵۰۷۵۰۵ ۵۳۳ شملہ پہاڑی.لاہور شہید گنج.مسجد شیخو پوره ۶۳۵۵۵۴۵۴۱۴۴۲۴۴۴۲۳۲۸۹۲۸۸۲۱۱۱۵۳ شیرانوالہ گیٹ شیر پور صریح صومالی لینڈ ص.ط.ظ.ع.غ ۸۳ ۳۷۶ ۳۷۲ ۱۵۲ ۳۱۵ ۱۲۷ ۴۶۴ ۴۴۷ ۴۴۵ ۴۴۳۸ ۴۴۳۷ ۴۲۷ ،۴۲۵ ۴۴۲۰۴۹ ۳۷۲٬۲۸۷ ۵۱۲٬۴۹۷۴۹۶۴۴۸ ۷۴۸۱٬۴۷ ۸٬۴۷۰۴۶۹۴۴۶۶ ۳۶۸ ۵۴۱۵۳۹۵۳۸۵۳۶۵۳۱۵۲۹۵۲۷۵۲۳۵۱۹ ۵۶۴۵۵۶۵۵۲۵۵۹٬۵۴۶۴۵۴۵۵۴۴٬۵۴۳ گنج مغلپورہ.نیز دیکھیں مغل پورہ“ ۶۲۰۶۱۶۶۱۵٬۶۰۱۵۹۷۵۹۲٬۵۸۵ گوالمنڈی.لاہور قادیان کی احمدی آبادی کی پاکستان ہجرت کی مختصر اروداد قادیان میں ۳۱۳ درویشان ۵۴۳ گوجرانوالہ ۴۷۴۳۳۳ ۲۷۹٬۲۷۸٬۲۵۱ ۴۵۲۲۱۱۱۸۱ ۱۴۵ ۱۴۴ ۱۴۳ ۱۴۲۱۴۱۱۴۰۱۳۹۵۳٬۳۰ ۶۱۷۵۵۰۳۹۶۳۶۱۳۳۶۳۳۵۲۹۵۲۱۳۱۵۷ ۵۴۳ گوجر خان ضلع راولپنڈی گورداسپور ۹۵ ۲۰۰۱۸۹۱۵۴۱۳۲۸۷۵۶۵۳۵۲۳۷ ۲۸۰۲۷۳۲۵۱۲۴۷۲۲۵۲۲۲٬۲۱۹ ۲۱۱۲۰۵ ۳۴۲۳۳۷۳۲۲۳۱۶۳۱۵۳۱۳۳۰۹۲۹۹ ۵۱۷۴۷۳٬۳۹۳۳۹۷۱۳۷۴۳۶۲٬۳۵۵ ۵۹۵۵۴۴٬۵۳۷۵۳۵ ۲۷۳ ۵۰۳۳۶۹ ۲۶۸ ۱۱۳ ۳۵۴ ۳۲۵۳۲۴ ۳۹۷ ۴۲۶ ۲۴۳ ۲۷۱ ۱۳۹ ۳۸۳ ۵۳۴٬۴۰۹۱۹۵ ۳۵۱ ۴۷۴۴۷۱۲۶۵ ۳۳۹٬۳۳۸ ۳۱۳ گورکھ پور گورنمنٹ کالج لاہور گور و ہر سہائے ضلع فیروز پور گولڑہ گولیکی موضع گوندل گھٹیالیاں گیمبیا لارنس گارڈن.حضور کا حضرت اُم المومنین کے ساتھ سیر پر جانا لال کھوہ.لاہور ۹۶ ۴۳۷ ۳۵۱۳۵۰۱۵۹ ۴۲۳٬۲۵۹۲۱۱۱۴۷ ۱۱۹۳۷ ۲۷۶ ۴۰۱۴۰۰ ۵۶۲۳۶۵ ۵۹۴ ۳۳۹ قلعہ صو با سنگھ ۲۷۳ قصور ۵۵۷۵۳۱٬۳۷۲ قلعه چمن سنگھ پور کابل کا ٹھ گڑھ کالا پیچی کا لکا شملہ کانپور کانگڑہ کپورتھلہ کٹرہ ولی شاہ.لاہور کراچی ۱۳۹ ۳۲۶۲۷۶۲۷۴۲۲۸۱۸۳۱۱۹۱۱۶۱۱۵ ۴۳ ۵۴۵۵۰۴۵۰۳۵۰۲۴۹۸۳۹۴٬۳۹۳ ۵۸۴۵۸۳۵۶۲۵۵۸۵۶۲۵۵۸۵۵۱ ٣٣٨٣٣٧ کرشن نگر.لاہور کر یام ۶۲۰۶۱۸۴۵۳ ۴۰۹٬۴۵ ۴۴۰۴ ۲۶۹ ۳۱ ۲۹۹..ا طارق آباد.لائل پور ظفر وال عجائب گھر.لاہور عراق علی گڑھ غانا.مغربی افریقہ فاضل کا فرانس فری ٹاؤن فرینکفرٹ.مسجد فلپائن فلسطین فضل عمر ہسپتال.ربوہ فیروز پور چھاؤنی فیروز پور.حضرت مسیح موعود کا حضرت میر ناصر نواب صاحب کی عیات کیلئے فیروز پور تشریف لے جانا فیروز پور روڈ.لاہور ۴۲۳٬۳۳۰۱۹۴۱۵۲ ۱۵۱۹۱ ۵۲۱۵۰۵۴۵۳ ۴۲۴ ۳۳۷۲۵۱ ۳۴۹ (فیصل آباد ) لائل پور فیض اللہ چک فیض باغ.لاہور ق ۶۰۵۱٬۴۵ ۴۴ ۴۳ ۴۲ ،۳۹٬۳۱ ۳۰ ۲۵ ۲۴ ۹۰۸۹۸۶۸۲۷۶۶۵۷۴۴۳٬۹۶٬۶۲ ۱۴۰۱۳۸۱۳۷۱۳۶۱۳۴۱۳۳۱۳۲۱۲۴۲۳ کشمیری بازار.لاہور ۱۵۵۱۵۴۱۵۳۱۵۱۱٥٠١٤٨٤٤٦٤٤٣٤٤٢١ ۵۹۸۵۳۷۵۰۸۵۰۷۲۵۵ لالیاں ضلع جھنگ ۲۵۶۵۲ ۱۳۵ لاہور ۳۷۳۵ ۳۴ ۳۳ ۳۲ ۳۱۲۶۲۵ ۲۴ ۲۳ ۶۰۵۶۵۵۵۳۵۲۵ ۱٬۴۹ ۴۸ ۴۷ ۴۵ ۴۴ ۴۳۳۹ ۹۹٬۹۷٬۹۵٬۹۰۸۷۸۳۸۱۷۶۷۴۶۲۶۷۶۲۶ ۱۲۶۱۲۳۱۲۲۱۱۹۱۱۸ ۱۱۶۴۱۱۵۱۱۱۱۰۹۱۰۷۱۰۵۱۰۲ ١٤٣١٤٢١٤١٤٠١٣٩۱۳۸۱۳۷۱۳۶۱۳۵۱۲۹۱۲۸ ۲۷۶ کلانور کلکتہ کماسی.غانا ۱۸۳۱۸۰۱۷۶۱۷۵۴۷۱۱۶۸۱۶۷۱۶۴ ۱۶۰۱۵۹ ۲۱۶۲۱۳۲۱۲۲۰۹۲۰۸٬۲۰۶٬۲۰۵۲۰۴۲۰۳ قادیان

Page 663

27 ۱۵۸۱۵۷۱۵۶۱۵۵۱۵۴۴۱۵۳۱۵۱۱۵۰۱۴9128122 لاہور جماعت کے حلقوں کی تقسیم اور نام ۱۷۴۱۷۱۱٦٩٤٦٨٤٦٧٤٦٦٤٦٣۶۲۱۶۱۱۶۰۱۵۹ | لاہور میں جن جگہوں پر جمعہ ہوتا ہے ۷۶۱۷۵ ۷۱ ۱۹۰۱۸۹۱۸۸۱۸۶۱۸۵۱۸۴۴۱۸۱۴۷ | مرکزی عہدیداران لاہور کی فہرست ۶۶-۶۵ء ۲۱۱۲۰۷۲۰۴۲۰۲۱۹۸۱۹۷۱۹۶۱۹۵۱۹۳ ۲۱۲ ۲۱۴ لاہورمشن کالج.ایف سی کالج ۲۱۵ ۲۳۱۴۲۲۹۲۲۸۲۲۷۲۲۶۲۲۲۲۱۸۲۱۷ ۲۳۲ لائل پور دیکھیں فیصل آباد ۲۴۲۲۴۱۲۴۰۲۳۷۲۳۶۲۳۴۲۳۳ ۲۴۶۲۴۳ لیا نوالہ ۲۵۲۶۲۴۹٬۲۴۸ ۲۵۹۲۵۸٬۲۵۷٬۲۵۶۲۵۵۲۵۴۴۲۵۳ لٹن روڈ ۶۰۳ ۶۰۳ ۶۰۴ مسجد مبارک ۷٬۹۳۸۶|۲۰۷۲۰۴1901211101334 ۲۶۳۲۵۸۲۴۸٬۲۴۲۲۳۲۲۲۶۲۱۳۲۰۸ ۴۲۱۳۹ ۷۳۴۳۳۱۶۲۹۹۲۹۶۲۸۸۲۷۲ ۳۱۴ بوم بوم مسلم ٹاؤن لاہور ۳۶۰ مغلپوره سنخ ۶۱۲۹۴۷۲۴۴۷۵۳۷۹٬۳۷۸۳۶۰۳۴۹٬۳۳۱ ۲۷۹ ۴۵۳ ۲۷۴۲۷۲۲۷۱۲۷۲۰۲۶۹۲۶۸۴۶۶۲۶۵۲۶۲۲۶۰ لدھیانہ ۵۲۴٬۳۲۳٬۳۵۹٬۳۵۸۱۹۳۱۵۳۸۳۶۳۷ مکیریاں ۲۸۲۲۸۱۲۷۹۲۷۸٬۲۷۵ ۲۸۳ ۲۸۷٬۲۸۶۶۲۸۵٬۲۸۴ لکی مروت بنوں ۳۰۰۲۹۹۲۹۸۴۹۶۲۹۵۲۹۴۲۹۳۲۹۰۲۸۹۴۸۸ لنگڑوں ضلع جالندھر ۳۱۳ ۳۳۷ ملتان ۵۲۵ ۳۷۵ ۲۷۶۲۵۴۱۴۲۱۴۱۱۴۰۱۲۲٬۹۹۴۴ ۵۳۵٬۴۵۳ ۴۲۷ ۳۶ ۳۳۷۳۳۱۲۷۷ 1+1 ۳۱۷۳۱۵۳۱۳۳۱۲۳۱۱۴۳۱۰٬۳۰۹۳۰۳۳۰۲۳۰۱ لنگے منڈی ۴۷۲۲۶۵۲۰۳٬۲۰۲٬۱۳۷٬۱۲۶۱۱۸۱۰۰۸۱ ملتان.میں حضرت مسیح موعود کے استقبال کی روداد ۳۳۱۳۳۰۳۲۹٬۳۲۸۳۲۷۳۲۶۳۲۴ ،۳۲۳۳۱۸ ۳۵۰۳۴۹۳۴۷۳۴۵۳۳۸۳۳۷ ۱۳۳۶۱۳۳۵ ۳۳۴ لندن ۳۷۶۳۸۹٬۳۸۳۱۹۸۱۵۸۱۵۰۴۶ ۳۶۲۳۶۱۴۳۶۰۶۳۵۹۴۳۵۸٬۳۵۵٬۳۵۳٬۳۵۲٬۳۵۱ لندن میں پولٹیکل مسلم لیگ کا قیام ملکانه ۴۹۷٬۴۵۴٬۴۲۰۴۲۱ ملیاں ضلع امرتسر ۴۹۱ ممباسه(افریقہ ) ۳۷۵۳۶۹۳۶۸۳۶۷۳۶۶۳۶۵۳۶۴۳۶۳ لوہاری دروازه ۳۰۳۳۰۲۲۴۴۲۲۶۱۲۹۱۰۰ ” منارة امسیح “ کی بیناد کیلئے حضور کا ۳۹۷۳۹۶٬۳۹۴۳۸۸۳۸۲۴۳۷۹٬۳۷۸۳۷۷۳۷۶ ليبيا ۳۹۹۳۹۸ ۴۰۳٬۴۰۰، ۴۴۰۴ ۴۱۶۴۱۵۴۱ ۴۱۹۴۴۱۷ لیہ ۵۵۸٬۳۷۲ | اینٹ پر دعا کر کے بھیجنا ۲۵۷ منٹگمری ۳۱۷ ۲۵۶ ۱۳۸ ۱۵۰ ۴۵۳٬۳۲۳ ۲۶۸۲۴۸۲۲۰۱۱ ۷۵۵ ۲۶۲۲۵۴ ۱۵۳۱۴۹۱۴۶۱۰۴۴۳ ۵۶۸۳۴۹۳۶۷۳۳۱۲۷۱۲۷۰ ۳۳۲۲۶۷۲۱۹۱۱۷ ۱۹۴ ۵۵۱۵۰۸۱۸۳ ۳۲۵۳۶ ۲۰۰ 11.١٤٩١٠٧ ۵۹۸٬۴۶۷۳۷۶۲۵۱۲۱۶ ۶۲۴۶۱۲۶۰۲ ۴۷۶ ۳۹۴ ۴۲۴ ۳۹۷۲۷۹۱۲۰ ۳۰۸ ۳۳۹٬۳۳۷ ۳۷۵۳۶۲ ۵۸۱۲۵۷ منڈوہ میلارام موتی بازار.لاہور موچی درواز ہ.لاہور میاں میر چھاؤنی میانی صاحب قبرستان میر پور خاص میرٹھ میکلورڈ روڈ لاہور محلہ کوٹھی داراں.لاہور محلہ ستھاں.لاہور مسجد دارالذکر.لاہور مسجد احمد یہ لندن دارالذکر.لاہور کی تعمیر اور تاریخ خلیفہ ثانی کا سنگ بنیا درکھنا دارالذکر حضور نے نام رکھا اور سنگ بنیاد ناتھ پور نارنگ منڈی ۶۱۳۳۴۸۲۹۴۱۸۴۱۴۷ ۵۹۵ ۴۲۸ ۵۰۷٬۴۵۲٬۳۹۹٬۳۵۸۳۴۷۲۱۰۱۸۳ ۳۵۸ 1.۱۹۳ ۶۱۱۴۴۷۵ ۶۰۲۵۹۵۱۷۴۱۵۱۱۰۶ ۵۲۵ ۲۱۱ ۲۷۳ ۳۹۶ ۳۸۷۳۱۴ ۱۸۲ ۴۷۵۳۷۶۲۶۸۲۶۷۱۹۰ ۲۳۱ ۲۶۹ ماڈل ٹاؤن ماریشس مال روڈ.لاہور مالیر کوٹلہ ماہل پور.ہوشیار پور مبارک منزل.لاہور مچھرالہ محمد نگر.لاہور مدراس مدرسہ احمدیہ مار پیشه مراد موضع مراد آباد ضلع (یوپی) مردان مری مری کالج.سیالکوٹ مزنگ مسانیاں (جگہ) مستی دروازہ.لاہور مسجد احمد یہ دبلی در اوزه نیز دیکھیں دہلی دروازه ۲۱۶۲۱۴٬۲۱۱ | نارووال نجف منگل ۴۶۰ ۱۹۹۱۹۸ نواں شہر ۳۶۳۳۶۱۱۱۱۹۴ نواں پنڈ نواں کوٹ.لاہور ۱۷۷ مسجد احمد یہ گنج مغلپورہ کی تعمیر میں حضور کی آمد مسجد احمد یہ لندن نیز دیکھیں لندن مسجد اقصیٰ.قادیان مسجد شاہ غوث.لاہور ۴۴۵ ۴۴۱۴۴۳۶۴۳ ۴۲ ۴۲۷ ،۴۲۶۴۴۲۵۴۴۲۴ ،۴۲۳ ۴۲۲ ۴۶۱۴۶۰۴۵۹٬۴۵۸٬۴۵ ۷ ۴۴۵ ۶٬۴۵۱۴۴۵۰ ۴۴۴۸ ۴۴ ۴۷ ۴۸۸۴۸۰۴۷۶۴۷۳۴۷۲٬۴۶۸۴۴۶۶۴۴۶۵۴۶۴ ۵۰۹۵۰۸۵۰۵۵۰۴۵۰۳٬۴۹۷۴۹۶۴۴۹۶۴۴۹۱٬۴۸۳ ۵۲۲٬۵۲۱۵۲۰۵۱۹۵۱۸۵۱۷۵۱۶۵۱۵۵۱۴۵۱۱۵۱۰ ۵۳۵۵۳۳۵۳۲۵۳۱۵۳۰۵۲۷۵۲۶۵۲۵٬۵۲۴۵۲۳ ۵۴۶۵۴۵۵۴۴۵۴۳٬۵۴۲۵۴۰۵۳۸۵۳۷۵۳۶ ۵۸۵۵۸۳۵۸۲۵۸۰۵۷۹۵ ۷۷۵۷۵۵۷۴۵۶۸ ۶۰۳۶۰۲٬۶۰۱۶۰۰۵۹۷۵۹۵۵۹۲۵۹۰۵۸۸۵۸۶ ۶۲۶٬۶۲۵٬۶۲۴٬۶۲۳۶۲۲٬۶۲۱۴۶۲۰۶۱۹۶۱۸٬۶۱۵۶۱۴ ۲۳ ۲۴ ۹۹ ۳۰ ۳۰ ۲۳ ۴۲۲ ۶۰۱۴۲۷ ۴۵۴ ۴۷۲ ۵۵۹ لاہور.احمدیت کی تاریخ میں لاہور کی اہمیت لاہور.میں حضرت مسیح موعود کی پہلی مرتبہ تشریف آوری لا ہور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر لاہور.کی ایک مجلس میں پیغمبر اسنگھ کا حضور پر پھول نچھاور کرنا لا ہورائٹیشن پر پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پہلی شادی لاہور کے ایک معزز خاندان میں لاہور میں جماعت احمدیہ کا پہلا مبلغ حضرت مولانا راجیکی صاحب لا ہور میں مربیان جو مختلف وقتوں میں آئے لاہور میں امارت کا قیام.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پہلے امیر لاہور کی بعض احمد یہ مساجد لا ہور میں پہلا جلسہ سیرت النبی تقسیم کے بعد

Page 664

۴۶۱ ہندوستان کی تمام قوموں کے نام حضور کا صلح کا پیغام ۵۲۵۵۲۴۵۲۲۳۵۸۲۱۵ اور سنہری اصول ۳۹۸ ۳۶۲ ۱۲۷۵۹ ۴۷۰٬۲۵۳٬۲۰۷٬۲۰۵ ہوشیار پور ی یکی دروازہ.لاہور ۳۶۹۳۴۸۲۹۳۲۷۳۲۰۶۱۹۸۱۵۷ یورپ ۵۸۳۵۹۲٬۴۷۱۴۶۹۴۵۸۴۱۹۳۹۱ ۴۳ ۶۷ یونان Tartar ۴۶۹ ۲۷۳ ۵۹۵ ۵۶۶ 28 وزیریستان وکٹوریہ جھیل ہانگ کانگ وو ولایت نیز دیکھیں برطانیہ انگلستان ٢٠٦١٩٩١٩٨١٤٦۱۳۲۹۴۴۳ و نجوال د و کنگ مشن لندن ویمبلے ہرسیاں ضلع گورداسپور ہری پور ہزارہ ہندوستان ۴۲۶۴۴۲۵۳۵۴۳۶۹۲۹۷۲۸۹۲۷۴ ۲۷۳ ۵۰۳٬۵۰۱٬۴۹۹٬۴۹۷۴۹۵۴۹۴۴۹۱۴۳۸۵ یونیورسٹی ہال.لاہور جہاں حضور کا لیکچر ۵۳۷۵۳۶۵۳۵۵۳۱۵۳۰۵۲۸۵۰۷۵۰۶ ۶۰۴۵۹۸۵۹۷۵۶۸۵۶۴۵۴۳٬۵۴۲۵۴۰۵۳۸ ”پیغام صلع‘ پڑھا گیا ۲۷۴۱۵۱۱۴۶ ۶۱۳٬۴۳۹۳۰۸۳۰۶۲۵۱۱۱۳ ۳۷۹ ۲۶۲۲۵۲۴۲ ۶۱۳ ۶۰۸ ۲۳۱ ۶۱۰۶۰۹ ۲۵۱ ۵۷۰٬۴۵ , نور ہسپتال نیلا گنبد واہ کینٹ وا بگه و چھووالی.لاہور وحدت کالونی کی عاملہ والٹن کی عاملہ کنیال پارک کی عاملہ وڈالم وزیر آباد وزیر چک نز دفیض اللہ چک مسجد وزیر خاں

Page 665

۳۱۵۱۸۷۱۷۱۱۰۴۱۰۱ ۳۱۲ ۲۵ براہین احمدیہ براہین احمدیہ حصہ پنجم براہین احمدیہ کی تصنیف کے دوران حضرت مسیح موعود کی لاہور آمد ورفت دد بعض خاص کارنا...ام م پرت.ٹ پادنی انگریزی اخبار پنچ“ دہلی کا اخبار M ۱۲۳ پیسہ اخبار ۴۷۸۱۱۰۵۸ 29 آپ بیتی از مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا آسمانی فیصلہ ۶۰۱ الحكام الخلیل، دہلی کتابیات ۳۴۱۲۶۷۱۶۸۱۵۳۱۰۵۵۱ السٹریلڈ ویکلی پاکستان الفضل‘ کا اجراء.حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب کی کوششوں سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا مسجد اقصیٰ قادیان میں اس کتاب کو سنانا آفاق روزنامه آئینہ صداقت از مرز امحمد صادق آئینہ کمالات اسلام ابطال الوہیت مسیح احسان اخبار ۹۴ ۵۶۹ ۳۴۲ ۱۴۸۱۴۷۱۱۰۸۲ ۵۸۴٬۴۰۵٬۳۵۵۱۵۶۱۵۴ ۴۳۵ ۵۶۹ الفضل ۵۰۰ ۴۳۷۴۳۶ ۲۷۵۱۷۵۷۷ تا ۲۹۳٬۲۸۳۲۷۷ ۵۴۵۵۳۲۵۲۹٬۵۰۸٬۴۵۹٬۴۵۸٬۴۳۸۴۱۴۳۶۴ ۵۴۷ تا ۵۹۰۵۵۴۵۵۳۵۴۹ الفضل“ کی بندش ۱۹۵۳ء القادیان کے نام سے قادیان سے اخبار جاری ۵۷۰ احمد صادق مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق احمدیت یا حقیقی اسلام ”اخبار عام“ کی غلط رپورٹنگ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تردید.اربعین حصہ سوم ازالہ اوہام اسلامی اصول کی فلاسفی ۱۳۸ ۳۵۷ ”پیغام صلح کا اجراء ۴۳۶۶۳۱۵۱۴۶٬۶۸ ۴۵۶۴۳۷ ”پیغام صلح کے ادارہ پر ایک مقدمہ اور حضرت محمد ظفر اللہ خان صاحب کی رضا کارانہ وکالت ۴۴۳۳۳۸۶۰۸۲۰۷۱۷۷ ”پیغام صلح اخبار کی خلیفتہ اسی الاول کی پالیسی ۱۲۹ ۳۷۲ کے خلاف تحریرات تاریخ احمدیت جلد چہارم ۴۶۳ ۴۳۷ ۱۸۸ کیا جس کا نام بدل کر حضور نے البدر “ رکھا "المنجد "الوصية" امہات المؤمنین ، کتاب ۲۵۵ ۲۵۴ ۶۸م انجام اخبار انجام آتھم ۳۹۹ ۳۵۸۲۷۳۱۹۷۹۱۳۰ مضمون کے بارے میں جلسہ مذاہب کی تفصیل اخبارات کے تبصرے اصحاب احمد اظہار الحق " نام سے دو خفیہ ٹریکٹ جس میں حضرت مسیح موعود کے خاندان اور خلیفہ امسیح الاول کے خلاف زہر اگلا اور ”پیغام صلح کی تائید اظہار الحق نام ٹریکٹوں کا جواب ” خلافت احمد یہ اور اظہار حقیقت خلیفتہ امسیح الاول نے ان کو پڑھا اور لکھا کہ....اظہارِ حقیقت‘ اعجاز اسیح " الامان اخبار دہلی الانذار البدر البدر“ کا نام ابتداء میں القادیان البدر“ کا نام ”بدر“ رکھا جانا التبلیغ ، نام کے ٹریکٹ کا اجراء ۳۱۵ ۹۱۹۰۸۵۸۲ ۱۳۷۱۳٤١٠٨١٠٦ تا ۱۳۹ ۱۵۰۱۴۷ ۱۵۳ تا ۲۲۸۱۹۴۱۹۳۱۸۸۱۵۵ نجیل ۳۱ تا ۳۹ انڈین ڈیلی ٹیلیگراف سپیکٹیٹر اخبار انصار اللہ ماہنامہ ربوہ انقلاب روزنامه ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب ٤٣٨١٤٢ ام م ۱۴۲ ۵۰۴۹ ++♡ ۴۰۰۱۵۱ ٢٩٢٤٣٩٨٤ ۱۳۸ ۸۴ ۵۵۴ حضور کی کتاب ایک ضروری اعلان مولوی محمد علی صا کا ٹریکٹ ١٣١١٣٠١٢٨٤٦ ۴۸ ۴۸ ۲۷۶ ۵۰۰٬۴۹۷ ’ایک نہایت ضروری اعلان مولوی محمدعلی صاحب کارسالہ جو انہوں نے خلیفہ امسیح الاول کی زندگی میں ہی لکھ کر محفوظ کر لیا ہوا تھا اس کے اہم حصے ایسوسی ایٹیڈ پریس آف امریکہ کے نمائندہ کو جلال الدین شمس صاحب کا انٹر ویولا ہور میں بائبل“ ”بخاری“ (صحیح) بدر اخبار بد اخبار کا دفتر عارضی طور پر لاہور منتقل ہونا ۹۳ ۱۴۲ ۵۳۱ ۹۲۴۶ ۴۳۳ 1 د تا سید الاسلام رسالہ دو تبلیغی پاکٹ بک تحفه شهزاده ویلیز تحفہ گولڑویہ تحفۃ الملوک جو حضرت حکیم محمد حسین صاحب لے کر گئے تذکرۃ الاولیاء دد تسہیل العربیہ المنجد کا اردو تر جمہ جو کہ حضرت چوہدری غلام محمد سیالکوٹی صاحب نے کیا تشحید الا ذبان تصدیق براہین احمدیہ و تفہیمات ربانی تقویم عمری جنتری مصنفہ میاں معراج الدین عمر د تنظیم اخبار "تورات" توضیح مرام تہذیب الاخلاق تہذیب النسوال‘ اخبار ٹریبیون“ ۴۵۹۲۵۳ ج - چ - ح - خ جرنل و گو ہر آصفی“.کلکتہ ۵۸۹ ۴۶۰ ۳۶۲۲۰۵ ۱۶۶۱۶۵ 11111+ ۳۵۷ ۱۸۹ ۴۳۵ ۳۱۴ ۱۰۵ ۴۷۸ ۹۴۳۰ ۱۲۷ ۴۷۸ ง ۵۳۲٬۵۰۴ ۳۶ Smaple index1

Page 666

و مسلم ٹائمز.لندن سے ہفتہ وار جماعت کا رسالہ ۱۹۸ ۲۵۵ ۴۶۸۲۹۳ ۵۶۹ ۲۵ ۴۷۹ ۵۷۶ ۳۶۷ ۱۰۱۴۴ ۴۳ ۲۹۴ ۱۰۹۵۱۵۰ ۲۶۵ ۵۳۷۲۹۴ ۳۶۱۳۶۰ ۴۳۵ ۲۷۸۲۷۷ ۱۰۵ ۲۵۵ ۴۸۶٬۴۸۳ ۱۹۵ ۳۸۸ ۱۰۵ مسیح ہندوستان میں مصباح“ ۴۹ 30 مصنفہ مولوی محمد احسن امروہی شہباز اخبار ۴۹۷ ص_ع_ف_ق مغربی پاکستان اخبار صداقت مریمیه مکتوبات احمدیہ جلد پنجم ملاپ اخبار ملت اخبار مواہب الرحمن ناظم الہند اخبار نامه پاکستان" نزول مسیح » ۴۵۴۱۰۵ ۲۲۹٬۹۰ ۳۲۳ ۳۵۸٬۳۱۵٬۹۴٬۳۰ ۴۳۵ ۲۰۸ ۹۲۵۹۵۷۴۶ مصنفہ میاں معراج الدین عمر عسل مصفی، فاروق اخبار د فتح اسلام ود فصل الخطاب قادیان کے آریہ اور ہم قرآن کریم ۱۲۸ ۱۴۰۹۱۳۳ ۲۶۳۶۲۴۲٬۲۳۵۹۹۳ و نیم دعوت ۵۴۸۳۶۱۳۵۶٬۳۳۳۲۹۵ د قتل مرتد اور اسلام مصنفہ شیر علی صاحب ۳۹۰ نوائے وقت“ نور اخبار نور الدین ک گل و کرامات الصادقین «کشتی نوح گورو گرنتی لا ہور ہفت روزہ لیکچر سیالکوٹ“ لیکچر لاہور.حضرت مسیح موعود کا ایک لیکچر جوشی میران بخش لاہور کی کوٹھی کے احاطہ میں حضور نے دیا ۲۹۵۱۸۶ ۳۶۱ ۴۱۳ ۴۰۴ ۴۶۷ نور القرآن و واقعات صلیب کی چشمد ید شہادت“ متر جمہ میاں معراج دین عمر واقعہ ناگزیر رساله مصنفہ سید حامد شاہ صاحب ۲۶۸٬۲۸۴٬۵۵۴۶ ورتمان رسالہ.میں آنحضرت کی شان کے خلاف مضمون ی یا درفتگان کتاب حضرت مولوی شیر علی صاحب کی سیرت پر ایک رسالہ کی تصنیف.جس کا دیباچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا The Crueifixion by an eye Wittness.کا ترجمہ ۳۵۵٬۳۵۴ ۳۱۴ ۴۳۳ ۴۹۸ ۴۸۶٬۳۴۶ ۴۸۸ مثنوی مولانا روم مجد داعظم مسلم.صحیح دو مسلم آواز اخبار کراچی ود مسلم آؤٹ لک“ مسلم آؤٹ لک“ کے مقدمہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وکالت اور مولانا ظفر علی خان کا آگے بڑھ کر چوہدری صاحب کا ہاتھ چوم کر گلے لگا لینا ۳۷ ٣٠٢١٠٨٠٧ ۶۰۲۱۷۹ ۱۱۱۱۰۳۵۳ ۶۰۲۲۷۷۱۸۴۱۵۲۱۱۹ ۴۲۲٬۳۵۵ ۶۰۲۴۲۲۳۳۹٬۳۱۴۴ ۳۲۶ ۱۴۲ چوہدھویں صدی.اخبر لیکھو حقیقة الوحی ”حیات بشیر حیات طیبہ حیات قدسی حیات نور خطبات نور ” خلافت احمد یہ ٹریکٹ در عدن دور جدید اخبار درز ر پورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء رنگیلا رسول“ کتاب.اور اس پر جماعت احمدیہ کا رد عمل ریاض الاخبار، گورکھ پور ریویو آف ريلجنز ۴۶۷ ۴۹۲٬۴۸۸ ۵۷۲ ۴۸۲ تا ۳۴۶٬۴۹۰ ۲۷۳ ۱۹۷۱۶۵۹۶۶۷ ۳۸۳٬۳۴۰٬۲۲۸۱۹۸ "زمیندار" ” سراج الاخبار جہلم سیش ۵۶۹۵۱۶۵۱۵ ۵۱ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۳۳۶۴۴۴ سلسلہ احمدیہ کتاب سلسلہ احمدیہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا خلاصہ سن رائز سول اینڈ ملٹری گزٹ“ ”سیاست“.اخبار ” سیدالانبیاء کتاب شیخ عبدالقادر "سیرت المہدی ۶۹ ۴۶۹ ۵۵۵٬۳۴۷۳۴۰ ۴۹۵٬۳۵ ۴۸۹ ۲۵۶ ۳۹۹ ۵۰ چشتیائی.مصنفہ پیر مہر علی شاہ

Page 666