Language: UR
تاریخ افکار اسلامی مرتبہ ملک سیف الرحمن صاحب
بسم الله الرحمن الرحيم الرَّحْمَنِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.ھوالناصر عرض ناشر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر آئندہ زمانہ میں آنے والےا دوا را ور حالات پر روشنی ڈالی ہے.مسلمانوں کے تنزل اور انحطاط کے موجبات و محرکات اور علامات و کیفیات کی تفصیل بیان فرمائی کہ زمانہ نبوت سے دوری اور بعد کے ساتھ بتدریج مسلمانوں کی حالت بگڑتی جائے گی.قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیم اور میری اور میرے خلفائے راشدین المہدین کی سنت کی پیروی اور اطاعت سے اجتناب اور انحراف کے نتیجہ میں امت مسلمہ افتراق وانشقاق کا شکار ہو کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹتی جائے گی اور وحدت اور یگانگت کو سخت صدمہ پہنچے گا.نتیجھا دنیا میں بھی مسلمانوں کو رسوائی وخذلان اور ذلت و حرمان کا سامنا ہوگا اور اخلاق بگڑ کر دین بھی ہاتھ سے نکل جائے گا اور صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے.اپنی شامت اعمال اور دین سے بے اعتنائی اور اخلاقی برائیوں کی وجہ سے جہنمی قرار پائیں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہو گا.صحابہ نے عرض کی وہ کونسا فرقہ ہوگا تو فرمایا کہ وہ فرقہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طرز عمل کو اپنائے گا.وہ متحد اور جماعت کی صورت ہوگا یعنی اس کا ایک واجب الاطاعت امام ہوگا.جس کی پیروی اور اطاعت ان کا شعار ہوگا.اس زمانہ میں یہ پیشگوئیاں حرف بحرف پوری ہو چکی ہیں اور تمام علامات اور نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں.وحدت ٹوٹی اور تسبیح دانہ دانہ ہوئی اور امام غائب ہو گیا.ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے فرقہ دور فرقہ تقسیم ہو گئے اور ایسا غلو اور شدت اپنائی کہ ہر گروہ نے باقی تمام کو کا فر جانا.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
فرقہ بندی کے رجحان کو فروغ کیونکر ہوا.اکابرین و مفکرین نے اس کے اسباب اور وجوہات کی تلاش کی اور ان کو معین کیا.فکری وحدت اور عملی اتحاد کے پارہ پارہ ہونے اور تکفیر بازی تک نوبت پہنچنے کی بنیادی وجہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ الله جَمِيعًا کے ارشاد کی نافرمانی ہے.جس کا نتیجہ اور جس کے مظاہر تمام عالم اسلام پر منصہ ظہور ہیں.مختلف اسلامی مکاتب فکر کی تشکیل اور مختلف فرقوں کا ظہور، پرورش اور پروان چڑھنے اور انجام پذیر ہونے کی المیہ داستان کا مطالعہ درد انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی.قرآن کریم فرقان حمید اپنے پیروکاروں کو بار بار تدبر اور فکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی دعوت دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر و تفقہ فی الدین کا درس دیا ہے اور فکری صلاحیتوں کو صیقل کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی.آپ نے مثبت انداز فکر میں اختلاف رائے کو رحمت قرار دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ علماء وفقہاء ربانی نے خیر القرون میں فقہی و علمی ترقی میں غیر معمولی کردار ادا کیا لیکن بعد ازاں اختلاف میں شدت پسندی اور انانیت نے اختلاف عقائد کو جنم دیا اور گروہ در گروہ تقسیم کا موجب ہوا جس نے ملت کی وحدت کو نقصان پہنچایا.تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کے فکری ارتقاء اور اختلافات کے سلسلہ میں حضرت خلیفة اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge & Truth میں تحریر فرماتے ہیں." تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں دو قسم کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں.اول.سب سے زیادہ غالب اور طاقتو راثر قرآن اور سنت کا تھا جس کی وجہ سے تصور علم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور مطالعہ اور تحقیق مختلف جہتوں میں بے پایاں وسعت سے ہمکنار ہوئے.دوم.یونانی فلسفہ اور سائنس میں روز افزوں دلچسپی نیز ہندوستان ، ایران اور چین کے کلاسیکی فلسفہ کے مطالعہ نے بھی مسلمانوں کے فکری ارتقا میں ایک اہم کردار
ادا کیا.اس کے نتیجہ میں بہت سے بیرونی فلسفے آزادانہ طور پر یا اسلامی تعلیمات کے اختلاط سے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گئے.ان مختلف فلسفوں میں دلچسپی اور ان کی قرآنی آیات سے مطابقت کی خواہش نے نئے مکاتب فکر کو جنم دیا جو اس لئے اسلامی کہلائے کہ ابتدائی طور پر یہ مکتبہ ہائے فکر اسلامی سوچ تعلیم اور عقائد کی گود میں پروان چڑھے تھے.نئی جنا بدیشی فلسفہ کا کلیہ قرآنی مطالعہ پر مبنی خیالات سے اختلاط شروع ہوا.اس حقیقت کے باوجود کہ چند تنگ نظر علماء نے ان کے وسیع النظر اور لچکدار رویہ کے باعث ان پر غیر اسلامی ہونے کی مہر لگا دی تھی اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ عظیم علماء بنیادی طور پر مسلمان ہی تھے.مختلف دنیوی علوم سے ان کا تعلق شاذ ہی ان کے ایمان کی راہ میں حائل ہوا ہو گا.اس لحاظ سے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن وسنت کے مطالعہ کے بعد خود فیصلہ کرے کہ ایسے مفکرین کا پیش کردہ فلسفیانہ نقطہ نظر اسلامی ہے یا نہیں.تا ہم ان کے اخذ کردہ نتائج ہمیشہ بحث طلب رہے ہیں.بعض کے نز دیک یہ نتائج اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور بعض کے نزدیک ایسا نہیں ہے.تاہم کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کی نیتوں پر شک کرے.سچائی کے ہر متلاشی کا یہ حق ہے کہ قرآن اور سنت کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کے بعد اپنے نتائج اخذ کرے.اسی طرح دوسروں کو بھی اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسرے کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے کہ وہ جس چیز پر چاہے ایمان لائے اور خود کو حق پر سمجھے.یادر ہے کہ قرآن وسنت پر مبنی ہونے کا دعوی کرنے والے ہر مکتبہ فکر کو براہ راست ان شواہد کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے جو وہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے.اسلامی حکومت کے دور میں پینے والے تمام نظریات اور نقطہ ہائے نظر کو فی ذاتہ اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا.ان میں سے کچھ جزوی طور پر متضاد بلکہ ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے.تاہم یہ بات ان کو اس حق سے محروم نہیں کرتی کہ ان کے ماننے
والے ان کا حوالہ دیتے وقت ان کو اسلامی قرار دیں.“ (اردوترجمہ الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۱۷، ۱۸) فکری صحت مند ارتقاء اور ذہن کی مثبت تبدیلی کے لئے اعلیٰ اخلاق ، عمدہ نمونہ اور مذہبی اصول سے گہرا رشتہ اور تعلق ضروری ہوتا ہے.غلو ، شدت ، طاقت اور قرآن وسنت سے کمزور رشتہ کے باعث جب عملی اور نظری معاملات در پیش ہوئے اور اختلاف سامنے آئے تو ضد اور تعصب کی راہ سے اپنے اپنے موقف پر قائم رہے.بعض اوقات عدل اور انصاف کا دامن چھوٹ گیا اور یہ بالعموم تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کے فروغ کا سبب بنا اور امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا.سلسلہ احمدیہ کے ممتاز اور متبحر عالم مفتی سلسلہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے.آپ نے اپنی اس تصنیف معیف میں مختلف فرقوں کا نظریاتی جائزہ پیش کرتے ہوئے جس اصول کو پیش نظر رکھا ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے قمطراز ہیں.مختلف فرقوں کے نظریات کا تاریخی جائزہ پیش کرنے سے پہلے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آئندہ صفحات میں جو کچھ کسی فرقہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ حرف بحرف صحیح ہو اور کسی جگہ بھی تعصب یا شنید یا تساہل سے کام نہ لیا جائے.ہر فرقہ کے بارہ میں وہی کچھ لکھا جائے جسے وہ فرقہ مانتا ہے لیکن تاریخی حقیقت کے لحاظ سے یہ حتمی دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کوشش پوری طرح کامیاب بھی رہی ہے کیونکہ تاریخ مختلف ادوار میں سے گزرنے اور گردو پیش سے متاثر ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک حجاب اکبر بھی ثابت ہوتی ہے اس لئے کسی حقیقت کے کئی پہلوؤں کا تشنہء وضاحت رہ جانا عین ممکن ہے اور کئی واقعات کی اصلیت سیاق وسباق سے کٹ جانے کی وجہ سے مشتبہ ہو سکتی ہے.بہر حال یہ نظریاتی جائزہ اس حسن ظن کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے کہ جن سابقہ بزرگوں نے اس موضوع پر لکھا وہ اپنی جلالت شان اور عظمت علم کے لحاظ سے ہر قسم کے
تعصب اور جانبداری سے پاک اور اظہار حقیقت کے لئے بڑے، جری اور صادق القول مانے جاتے ہیں اور ان کی ثقاہت کا انکار مشکل ہے.“ (کتاب هذا صفحه ۱۹۵) مختلف فرقوں کے نظریات کا تاریخی جائزہ جو کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں ہے مصنف نے حزم، احتیاط اور تقویٰ کے ساتھ اس دشوار گزا رستہ کو طے کیا ہے اور تعصب اور جانبداری کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہونے دیا.اس لئے یہ مطالعہ حقیقت واصلیت سے ہمکنار کرنے والا ہے اور اس میں قاری کی تسلی اور اعتماد کا سامان وا فرمو جود ہے اور اس میں گہرائی میں جا کر مجھنے اور اپنے نتائج اخذ کرنے کے موقع بہم ہوگا.انشاءاللہ مکرم و محترم ملک سیف الرحمن صاحب ایک عالم باعمل اور تقوی شعار بزرگ تھے.حضرت خلیفتہ انبیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.ملک صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی علم عطا فرمایا.غیر معمولی فراست عطا فرمائی.غیر معمولی اطاعت کی روح عطا کی اور ایسا حسین ذہن اور قلب کے درمیان تو ازن عطا کیا کہ جو شاذ شاذ بندوں میں پایا جاتا ہے.ایک بہت ہی دلربا وجود تھے.ملک صاحب کی زبان سے کبھی کسی نے ساری زندگی ایسا کلمہ نہیں سنا جس سے متعلق آپ کہہ سکیں کہ اس نے دل پر بوجھ ڈالا ہے.ایسے متبحر علماء دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں.“ ( خطبه جمعه ۳ / نومبر ۱۹۸۹ء، خطبات طاہر جلد ۸ صفحه ۷۲۰ تا ۷۲۳ ) سلسلہ کے لٹریچر میں اس موضوع پر غالبا یہ پہلی تصنیف ہے.اس کا انداز تحریر نہایت سلیس اور سہل الفہم ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں جب اس کی اشاعت کی اجازت و منظوری کے لئے خاکسار نے عرض کیا تو فرمایا کہ ضرور شائع کریں نیز ہدایت فرمائی کہ محترم ملک صاحب کا حوالہ درج کرنے کا اپنا ایک انداز ہے مثلاً بعض اوقات ایک حدیث نقل فرماتے ہیں اور اس حدیث کی دیگر روایات بھی ان کے پیش نظر ہوتی ہیں ان میں سے
بعض حصے یا الفاظ بھی شامل کر لیتے ہیں مگر حوالہ صرف ایک ہی دیتے ہیں.یہ طر ز گو کہ علماء سلف میں بھی مروج ہے تا ہم ایک دفعہ تمام حوالے دیکھ کر پوری تسلی کر لی جائے چنانچہ تعمیل ارشاد کی گئی.محترم محمد یوسف صاحب شاہد اور محترم ظفر علی صاحب طاہر مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ میں خوب محنت کی.محترم کلیم احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ نے سیٹنگ کرنے اور اغلاط کی درستی کا کام بہت محنت سے سر انجام دیا ہے نیز دوسرے مراحل پر بھی کئی احباب شریک کا رہوئے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.آمین
تشگر اس مضمون کی تیاری میں خاکسار کی اہلیہ محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے قابل قدر مدد کی.اسی طرح محترم چوہدری محمد الیاس صاحب آف کیلگری کینیڈا اور عزیزم محترم چوہدری عبد الباری صاحب اور عزیزم ہشام ملک صاحب نے بھی ہرفتم کی ضروری مدد بہم پہنچائی.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ تَعَالَى اَحْسَنَ الْجَزَاء
نمبر شمار ► × وم 9 IM فهرست مضامین مضامین نشست اورافتراق کے بارہ میں انذاری پیشگوئی مسلمان کون ہے؟ امت مسلمہ میں اختلاف کے اسباب مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز مسلمانوں کا سب سے بڑا فرقہ (اہل السنت والجماعت ) اہل السنت والجماعت کی بعض ضمنی شاخین نظریاتی اور کلامی لحاظ سے اہل السنت و الجماعت کی ذیلی شاخیں اشاعرہ کی امتیازی خصوصیات مَا تُرِيدِيَّه ماتریدیہ کی امتیازی خصوصیات سلفیه دلائل کے مختلف انداز ۱۳ فلاسفہ اسلام کا انداز صفحہ 2 IF 14 ro M ۲۷ PA | | Fr FY Fr FF معتزلہ کا انداز ماتریدیہ کا انداز اشاعرہ کا انداز سلفیہ کا انداز ۱۴ 19 12
iv نمبر شمار ۱۸ سلفیہ کی امتیازی خصوصیات 19 صوفياء مضامین معاشرت اور ثقافت - تمدن اور تفقہ کا ارتقاء ( مجتہدین دین ) علم ۲۱ موالی اور خدمت علم ۲۲ مسلمان اور سیاسی مسائل ۲۳ وضع حدیث کا خطر ناک فتنہ اور اس کے اسباب ۲۴ نظام شریعت ۲۵ شریعت اور فقہ کے مآخذ صفحہ ٣٢ ۳۴ ٣٩ ۵۷ ۵۸ ۶۱ ۶۴ ۶۵ AF AL A1 سنت وحد بیث روایت احادیث اور صحابہ روایت حدیث کے رواج میں تدریج صحت اور حجیت حدیث صحت اور حجیت کے لحاظ سے احادیث کی اقسام فتادی صحابه ایک شبہ کا ازالہ اجماع M ۲۷ PA ۱۳۹ | | FF وم رائے یا اجتہاد ۳۵ انفرادی اور اجتماعی اجتہاد اور اس کی ضرورت اجتہاد کے ذرائع ، اصول اور شرائط
V نمبر شمار ۳۷ قیاس ۳۸ قیاس کی مخالفت ۳۹ قیاس اصولاً ایک ظنی دلیل ہے مضامین حضرت امام شافعی کے نزدیک صحیح قیاس کی اقسام ام الاستحسان ۴۴ مصالح مرسلہ مقاصد شریعت او رمصالح ۴۴ غرف ۴۵ ذرائع صفحہ ۸۶ MZ 9+ 91 ۹۳ 91 92 I+A 1-9 ||+ || |M ۱۲۳ IM ۴۶ رفع حرج تصحاب ۴۸ شرعی اور فقہی نظام کی تدوین کے لحاظ سے اہل سنت و الجماعت کی شاخیں ائمہ فقہ ۱.حضرت امام ابو حنیفہ ۵۰ امام ابوح امام ابو حنیفہ اور علم ۵۱ امام ابو حنیفہ اور درس و تدریس ۵۲ امام ابو حنیفہ اور حکومت ۵۳ امام ابو حنیفہ اور تدوین کتب ۵۴ امام ابو حنیفہ کی سیرت کے بعض حسین پہلو ۵۵ امام ابوحنیفہ اور حاضر جوابی
vi نمبر شمار ۵۶ امام ابو حنیفہ پر اعتراضات ۵۷ امام ابو حنیفہ کی عظمت ۵۸ حضرت امام مالک ۵۹ امام مالک کے شاگرد امام مالک کا فقہی مسلک ۱ امام مالک کی معیشت ۶۲ امام مالک اور حکومت ۶۳ امام مالک کی عظمت ۶۴ حضرت امام شافعی ۶۵ ۶۶ 12 ۶۸ امام شافعی کا ابتلا امام شافعی اور درس و تدریس امام شافعی اور سفر مصر امام شافعی کے شاگر داور پیرو ۶۹ امام شافعی کا ایک مناظرہ امام شافعی اور علم فراست امام شافعی پر اعتراضات امام شافعی کا کام ۷۲ حضرت امام احمد بن فضیل" مضامین امام احمد بن فضیل اور درس و تدریس صفحہ IM IFF ۱۳۴ IFY ۱۴۱ 171 ۱۴۷ 179 ۱۵۳ 100 ۱۵۷ IAA ۱۵۹ 19+ 141
vii نمبر شمار ۷۵ 29 A+ مضامین امام احمد بن فضیل کا ابتلا اور آپ کی استقامت امام احمد بن فضیل میں فقہی آراء مسند امام احمد امام احمد کے مسلک کا فروغ حضرت امام ابن تیمیه امام ابن تیمیہ اور درس و تدریس ۸۱ امام ابن تیمیہ اور ابتلا ۸۲ امام ابن تیمیہ اور جہا دبالسیف ۸۳ امام ابن تیمیہ کا مسلک ۸۴ امام ابن تیمیہ کی کتب ۸۵ امام ابن ا امام ابن القیم ۸۶ امام ابن القیم او رعبادت اور ۸۷ امام ابن القیم کا مسلک القیم کا ۸۸ امام ابن ا امام ابن القیم کی کتب ظاہری مذہب اور اس کے بانی ۹۰ حضرت امام داؤ د بن علی الظاہر گئی 91 حضرت امام ابن حزم الظاہری ۹۲ امام ابن حزم کی آراء، ان کے شاگر داور ان کی کتب ۹۳ حضرت امام لیث بن سعد مصری صفحہ ۱۶۵ 199 ۱۶۸ 121 IZA 129 ١٨٠ ١٨٠ IAF IAF ۱۸۴ ۱۸۶ IAZ 191
viii نمبر شمار ۹۴ حضرت امام ابن جریر طبری ۹۵ ایک ضروری وضاحت مضامین امت مسلمہ کے دوسرے مختلف فرقے ۹۷ فرقہ پرستی اور تحزب کا مضحکہ خیز انداز 99 مختلف فرقوں کا تفصیلی جائز و (اہل تشیع) ۹۹ حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور ان کا مقام تحقاق خلافت وامامت بلافصل ۱۱ حضرت علی کے حق میں وصیت والی روایتوں پر اہل السنت والجماعت کا تبصرہ ۱۰۲ نهج البلاغه صفحہ 197 ۱۹۵ 197 197 19A 199 ٢٠٣ +9 FIF FIF M MIA ٢١٦ MIZ MM M MMY شیعوں کے بڑے ضمنی فرقے ١٠٣ I-7 شیعوں کا بڑ اضمنی فرقہ الامامیه ۱۰۵ شیعہ امامیہ کا فرق المحمديه ١٠٦ الباقريه الناؤوسيه الشميطيه الاسماعيليه الموسويه القطعيه يا الاثنا عشريه ۱۰۸ امام غائب کی غیبوبت کے دو دور ۱۰۹ شیعہ اثنا عشریہ کے بعض مخصوص مسائل شیعہ اثناعشریہ کے بعض غلو پسند ذیلی فرقے شیعوں کا دوسر ابد النمنی فرقہ الزیدیه III ١١٢ الزیدیہ کے ذیلی فرقے
ix نمبر شمار مضامین ۱۱۳ شیعوں کا تیسر ابد امنی فرقہ الکیسانیه ۱۱۴ کیسانیہ فرقہ کے خصوصی نظریات ۱۱۵ اعتدال پسند فرقوں کے بارہ میں اہل سنت کا مسلک ۱۲ شیعوں کے بعض نملو پسند فرقے جو امت مسلمہ میں شامل نہیں سمجھے جاتے ۱۱۷ گمراہ فرقوں کے قائدین کی اصلیت ۱۱۸ بنو عباس اور باطنی تحریکات 119 البرامکہ اور باطنی تحریک ۱۲۰ الاسماعيليه اسماعیلی شیعه ۱۱ اسماعیلی نظریات اور عقائد ۲۲۱ اسماعیلی نظریات ۱۲۳ دعوت اسماعیلیہ کا فروغ ۱۲۴ دعوت اسماعیلیہ کے سلسلہ میں علمی کوششیں ۱۲۵ الدَّرُوزِيَّه يا المرزِيَّه ١٢٦ النزارية ( الحسن بن الصباح کی تحریک اور آغا خانی اسماعیلی) ۱۲۷ آغا خانی شیعوں کا ظاہری شعار ۱۲۸ القرامطه ۱۲۹ تنقّل ، تقمّص اور تناسخ کے بارہ میں چند نظریات الخابطيه کا نظریہ تاریخ ۱۱ احمد بن ایوب کا نظریہ تناسخ صفحہ ۲۲۷ PPA ۲۲۹ ۲۳۵ ۲۳۷ ۲۴۵ ۲۴۸ MP ۲۶۵ MZ KZF ۲۷۷ ۲۷۸
X نمبر شمار ۱۳۲ ابو مسلم خراسانی کا نظریہ تناسخ ابومسلم IFF مضامین ۱۳۳ غلو کے بارہ میں اعتدال پسند شیعہ علماء کی رائے باطنی تحریکات کے خطرناک اثرات ۱۳۵ خوارج اوران کے بڑے ضمنی فرقے العجاردہ کے ذیلی فرقے یہ تھے الاباضیہ کے ذیلی فرقے یہ ہیں ۱۳۸ خوارج کے مختلف ضمنی فرقے ۱۳۹ غلو پسند خارجی فرقے ۱۴۰ خوارج اورقبائلی عصبیت IM معتز له اوران کے فرقے ۱۴۲ معتزلہ کے نظریے ۱۴۳ معتزلہ کے بڑے بڑے فرقے ۱۴۴ معتز له قدریہ کے ضمنی فرقوں کی تفصیل ۱۴۵ المعمریہ اور اس کے نظریات ۱۴۶ الثمامیہ اور اس کے نظریات ۱۴۷ ثمامہ کے مندرجہ ذیل خصوصی نظریات تھے الجاحظیہ اور اس کے نظریات ۱۴۹ الکعبیہ اور اس کے نظریات ۱۵۰ الجبائیہ اور اس کے نظریات صفحہ 129 MA- FAI MP ۳۸۴ PAP ۲۸۴ ٢٩١ PAY ٢٩٣ ۲۹۴ ۳۹۹ ٢٩٩ ٣٠ ٣٠١ M+
صفحہ KF PF P+1 ٣١٠ MIM MIZ PIA FIA ٣١٩ xi نمبر شمار مضامین ۱۵۱ البهشمیہ اور اس کے نظریات ۱۵۲ الجبریہ اور اس کے نظریات ۱۵۳ الجهمیه اور اس کے نظریات ۱۵۴ النجاریہ اور اس کے نظریات ۱۵۵ مندرجہ ذیل باتوں میں نجار کا الگ خاص مسلک تھا ۱۵۶ البرغوثیہ اور اس کے نظریات ۱۵۷ البكريه ، الضراريه اور المرجئہ اوران کے نظریات ۱۵۸ مرجئہ کی تین قسمیں ہیں ۱۵۹ الکرامیہ اور اس کے نظریات اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اصلاح امت کی چند متفرق کوششیں 19- ۱۶۱ تحریک ولی اللهی سرسید احمد خاں صاحب کی نیچرل تحریک سرسید احمد خاں صاحب کے دینی نظریات ۱۶۴ تحریک اتحاد عالم اسلامی ۱۶۵ تحریک رابطه و عالم اسلامی ء ۱۶۶ تحریک انکار حدیث ۱۶۷ علامہ سر محمد اقبال صاحب کا موقف ۱۹۸ سلفی اور دیوبندی تحریک ۱۶۹ اہل دیوبند
xii نمبر شمار 14+ ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تحریک جماعت اسلامی ۱۷۲ بریلوی مسلک مضامین ۱۷۳ مسلمانوں کی سیاسی بحالی سے متعلق تحریکات ۱۷۴ تین عظیم الشان موعود ۱۷۵ پہلے عظیم موعود حضرت عیسی بن مریم 121 144 " دوسرے عظیم موعود (سید نا محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) تیر ا عظیم موعود ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۱۷۸ کتاب اعمال میں مسیح کی دوبارہ آمد کی پیشگوئی 19 آنحضرت کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارہ میں حضرت مرزا غلام احمد قا دیانی کا فرمان حضرت مسیح موعود کی لفظ ”نبی“ کی وضاحت ۱۸۱ ختم نبوت کے سلسلہ میں بزرگان امت کے اقوال ۱۸۲ مہدی کا عام مفہوم اور مہدی کے بارہ میں دیگر بخشیں ۱۸۳ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے عیسیٰ کو نبی اللہ قرار دیا.۱۸۴ صحیح آخر الزمان او ر مهدی دوران آگیا ۱۸۵ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا اعلان مامور بہت ۱۸۶ مدعی مهد و بیت اور مسیحیت کی صداقت کے دلائل ۱۸۷ خسوف و کسوف کا نشان معین تو اریخ میں ہونے کی پیشگوئی اور اس کا ظہور ۱۸۸ خسوف و کسوف کی پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات صفحہ ٣٢٠ FFF Pra FFF م م م ۳۴۴ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۱ ۳۵۳ FIA ٣٧٠ اے ۳۷۳
صفحہ ۳۷۷ ٣٨٠ ۳۸۴ ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۷ ٣٩٨ xiii مضامین نمبر شمار ۱۸۹ ۱۸۹۴ء کے رمضان کے گرہنوں کی خصوصیات ۱۹۰ ۱۸۹۵ء میں دوسری دفعہ رمضان میں گرمین مسیح موعود کی صداقت کی ایک دلیل دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور مسیح موعود کی صداقت کی ایک دلیل دھوئی سے پہلے کی زندگی آپ کی مقدس زندگی کے بارہ میں غیروں کی شہادتیں ۱۹۴ صداقت کی پانچویں دلیل آپ کی بیوی کے بعد ۲۳ سالہ زندگی 197 ۱۹۵ آپ نے دعوئی کے بعد عظیم النتائج شاندار کام کئے ۱۹۶ آپ کا کارنامہ دنیا کو قر آنی حقائق و معارف سے بہرہ ورفر مانا “ ۱۹۷ آپ کا دوسرابڑا کارنامہ ایک عظیم الشان جماعت کی بنیا درکھنا 19A ۱۹۸ آپ کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ خلافت علی منہاج النبوت کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی کے بارہ میں ایک پیشگوئی
بسم اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ تشقت اور افتراق کے بارہ میں انذاری پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے متعد دبار انے فرمایا ہے کہ میری امت نے اگر قرآن کریم کی ہدایات پر عمل نہ کیا اور میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی ترک کر دی تو وہ یہود کی طرح مستعد و فرقوں میں بٹ جائیں گے بلکہ یہود سے بھی بدتر ان کا حال ہو گا.ان میں سے صرف ایک فرقہ ناجی اور قائم علی الحق ہو گا اور باقی سب فرقے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے.دنیا میں بھی خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی رسوائی کا منہ دیکھیں گے.صحابہ نے عرض کی حضور تاجی فرقہ کون ہو گا؟ آپ نے فرمایا وہ فرقہ جو وہی طرز عمل اختیار کرے گا جو میرا اور میرے صحابہ کا ہے اور وہی فرقہ صحیح معنوں میں جماعت کہلانے کا مستحق ہوگا کیونکہ اس کا ایک زندہ امام اور ایک خلیفہ ہوگا جس کی پیروی اور اطاعت ان کا شعار زندگی ہوگا.یہ روایات مختلف الفاظ میں کم و بیش مندرجہ ذیل صحابہ سے مروی ہیں :.حضرت ابو بکر، حضرت عثمان حضرت علی، حضرت انس حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو درداء حضرت جاید ، حضرت ابوسعید الخدری، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن عمر و اور حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہے.الْفَرْقُ بَيْنَ الْفِرق للبغدادي صفها،
تاریخ افکا را سلامی ان روایات میں سے دو کے معین الفاظ یہ ہیں :.عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَالِكَ وَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ينتين وَسَبْعِينَ مِلة و تفترق أُمَّتِي عَلى ثَلاث وسَبْعِينَ مِلَّةَ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةَ وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحَابِي.یعنی حضرت عبداللہ بن عمر ڈبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے.اور ان دونوں فرقوں میں ایسی مطابقت ہوگی جیسی ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے.یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے علانیہ بد کاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا جو اس قبیح حرکت کا مرتکب ہوگا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی لیکن ایک فرقہ کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا حضور بی نا جی فرقہ کون سا ہوگا.تو آپ نے فرمایا وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت اور روش پر چلے گا.عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ القُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تحتَ أدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِندِهِمُ تَخْرُجُ الفتنة وفيهم تعود - حضرت علی کرم اللہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا یعنی لوگ اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے.الفاظ اور عبارت کے سوا قر آن کریم کا بھی کچھ باقی نہیں رہے گا یعنی قرآن کریم ترمذی کتاب الایمان، باب ما جاء في افتراق هذه الامة - مشكلوة كتاب العلم الفصل الثالث وكنز العمال جلد ۶ صفحه ۴۳
کے مطالب کو اس زمانہ کے لوگ بھلا دیں گئے اور عمل چھوڑ دیں گے.اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں دیکھنے میں بڑی شاندار اور آبا نظر آئیں گی لیکن ہدایت اور رشد سے خالی ہوں گی.اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے لینے والی ساری مخلوق میں سے بدتر اور شریر تر ہوں گے ان میں سے فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی سارے فتنوں کی جڑ اور ساری خرابیوں کا سر چشمہ وہی علماء ہوں گئے.اس قسم کی پیشگوئیوں کا مقصد دراصل سنمبیہ تھا کیونکہ انذاری پیشگوئیوں میں یہ حکمت مخفی ہوتی ہے کہ اگر کوشش کی جائے اور وقت پر سمجھ سے کام لیا جائے اور نفسانی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کیا جائے تو مصیبت ٹل سکتی ہے لیکن افسوس کہ اس حکمت کو نہ سمجھا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتحاد کے بارہ میں جو ہدایات دی تھیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا اس طرح مسلمان فرقہ بندی میں یہود سے بھی بڑھ گئے اور تفریق کا شکار بن کر اپنی عظمت اور اپنی شوکت کو کھو بیٹھے.
تاریخ افکا را سلامی مسلمان کون ہے؟ فرقہ بندی پر بحث کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ مسلمان کون ++ ہے.اس سوال کے مندرجہ ذیل جواب دیئے گئے ہیں.الف - وہ شخص مسلمان ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک جانتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ کُلُّ مَا جَاءَ بِهِ رَسُولُ اللهِ فَهُوَ حَقٌّ.معتزلہ کے مشہو ر امام ابو القاسم عبدالله احمد بن محمود الكعبي شيخ المعتزله المتوفى 319 ھ نے مسلمان کی یہی تعریف کی ہے.(تفصیلی حوالہ حاشیہ میں ملاحظہ ہو ) لے.ب:.خراسان کے المجسمه (الکرامیہ) کہتے ہیں کہ وہ شخص مسلمان ہے جو کلمہ شہادت پڑھتا ہے ان کا قول ہے.كُلُّ مَنْ قَالَ لَا إِلهَ إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ مُسْلِمٌ سَوَاءٌ كَانَ مُخْلِصًا فِيْهِ أَوْ مُنَافِقًا - ان دونوں نظریوں پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ غیر مسلموں کے کئی فرقے یہ دونوں باتیں مانتے ہیں مثلاً اصفہان کے یہودی جنہیں عیسویہ بھی کہا جاتا ہے وہ یہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچے نبی تھے اور ان کی لائی ہوئی شریعت بھی برحق ہے لیکن وہ صرف عرب کے نبی ہیں.اسی طرح یہود کا ایک اور فرقہ موشنگانیہ کا نظریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچے نبی ہیں ان کی شریعت پر حق ہے لیکن وہ یہود کے علاوہ باقی ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.یہود کے لئے ان کا اتباع ضروری نہیں.پس کیا مذکورہ بالا تعریف کے مطابق ایسے فرقے مسلمان شمار ہوں گے؟ ج وہ شخص مسلمان ہے جو کلمہ شہادت کا اقرار کرتا ہے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ج:.پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے.ل العبر و ديوان المبتدأ والخبر في أيام العرب والعجم والبربر و من عاصرهم من ذوى السلطان الأكبر جلد ۲ صفحه ۱۷۲ (و هو تاريخ ابن خلدون ( علامه عبد الرحمن بن محمد بن خلدون المغربي ناشر دار الكتب اللبناني.بیروت لبنان.طبع ۱۹۸۱ء ل الْفَرْقُ بَيْنَ الْفِرَق فيها
تاریخ افکار را سلامی و اہل السنت والجماعت کے علماء کے نزدیک مسلمان وہ ہے جو کلمہ شہادت کا اقرار کرتا ہے.عالم یعنی کائنات کو حادث اور صرف اللہ تعالی کی پیدا کردہ مانتا ہے.خدا تعالیٰ کو قدیم مانتا ہے اور اس کی صفات کا قائل ہے.اس کو عادل اور حکیم مانتا ہے اس کو بے مثال مانتا ہے یعنی لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کی صداقت کا قائل ہے.نیز وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا قائل ہے کہ آپ سارے عالم کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں.ان کی لائی ہوئی شریعت دائی ہے اور یہ کہ وہ بر حق اور واجب العمل ہے اور قرآن کریم احکام شریعت کا منبع ہے اور کعبہ نماز کا قبلہ ہے.علامہ بغدادی مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.إِنَّ أُمَّةَ الْإِسْلَامِ تَجْمَعُ الْمُقِرِيْنَ بِكَلِمَتِهِ الشَّهَادَةِ وَبِحُدُوْثِ العَالَمِ وَتَوْحِيدِ صَانِعِه وقدَمِهِ وَ صِفَاتِهِ وَ عَدَلِهِ وَ حِكْمَتِهِ وَ نَفَى التّشْبِيْهِ وَمَعَ ذَلِكَ يُقِرُّونَ بِنُبُوَّةِ على الله مُحَمَّدٍ وَ رِسَالَتِهِ إِلَى كَافَّةِ النَّاسِ وَ بِتَابِيْدِ شَرِيعَتِهِ وَ بِأَنَّ كُلَّ مَا جَاءَ بِهِ حَقٌّ وَ باَنَّ الْقُرْآنَ مَنبع أحكام الشَّرِيعَةِ وَأَنَّ الْكَعْبَةَ هِيَ الْقِبْلَةُ الَّتِي تَجِبُ الصَّلَوةُ إِلَيْهَا فَكُلُّ من أقر بذلك كُلَّه فَهُو المسلم الى الموحد.اس تعریف کی رو سے وہ باطنی فرقے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے دائی ہونے کے قائل نہیں یا بیانی ہیں یا مغیری ہیں یا خطابی ہیں یہ سب ائمہ اہل بیت کی الوہیت کے قائل الفرق بين الفرق صفحه 1 ( (1) إِنَّ مُعَاوِيَةَ أَرْسَلَ عَدَدًا كَبِيرًا مِنْ عَائِلَاتِ الْكُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ إِلى خُرَاسَانَ وَاسْكَنَهُمْ فِيهَا...( وَقَدْ اَرْسَلَ إِلَيْهَا رَأَى حَرَاسَانَ بَلَحْ نِيَسَابُوُر.وَ مَرُو الْمَنطِقَةٌ فِي مُلْتَقَى افغانستان و ایران) زُهَاءَ خَمْسِينَ أَلْفًا مِّنَ الْبَصْرِيِّينَ وَالْكُوفِيِّينَ بِعِيَالَا تِهِمْ وَ هَشَامُ بْن عَبْدِالْمَلِكِ أَرْسَلَ إِلَيْهَا عِشْرِينَ أَلْفًا مِّنْ أَهْلِ الْبَصَرَةِ وَالْكُوفَةِ ۳) وَأَنَّ الْحَجَّاجَ فَدَشَتَّتَ الْكُوفِيِّينَ فِى الْبَعْوَثِ وَالْمَغَازِى وَكَانَ يَرَى أَنْ ذَلِكَ آدَری دَوَاء لِدَائِهِمْ وَ إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ هَاجَرُوا مِنَ الْكُوفَةِ وَتَوَطَّنَوا قُم بَعدَ أَنْ قَتَلَ الْحَجَّاجُ رَئِيسَهُمْ مُحَمَّدَ بْنِ السَّائِبِ الْأَشْعَرِى.....وَأَنَّ قَبَائِلَ هَذِهِ الْعَرَبِ فِي خُرَاسَانَ قَدْ ذَابُوْا فِي الْمُجْتَمَعِ الْخُرَاسَانِي فَلَمْ يَعُودُوا وَاضِحِيْنَ مِنْ بَيْنِ الْخَرَاسَانِيِّينَ.الصَّلَة بين التصوف والتشيع في۳۱۸،۲۸۳۰۲۸۲)
تاریخ افکا را سلامی ہیں اور مجوسیت سے متاثر ہیں.اسی طرح وہ فرقے جو حلول اور تناسخ کے قائل ہیں.یا خارجی اباضی فرقہ کا وہ گروہ جس کا عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عجمی نبی مبعوث ہو گا جونئی شریعت لائے گا اور شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا اور ایسا ہی خارجی فرقہ کا وہ گروہ جو نواسیوں اور پوتیوں سے نکاح جائز سمجھتا ہے اور ایسا ہی وہ فرقے جو اباحت کے قائل ہیں یہ سب دعویٰ اسلام کے باوجود امت مسلمہ میں شمار نہیں کئے جاسکتے.
تاریخ افکا را سلامی امت مسلمہ میں اختلاف کے اسباب علماء تاریخ نے یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میں فرقہ بندی کے رجحان نے کیونکر فروغ پایا اور اس کے اسباب کیا تھے.اس بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:.تحزب اور فرقہ پرستی کی سب سے اہم وجہ خلافت راشدہ کے بعد حکومت اسلامیہ کے حکام کا غیر شرعی کر دار تھا.وہ اپنے فرائض کو بڑی حد تک بھول گئے تھے.جونمونہ مسلمانوں نے خلافت راشدہ میں دیکھا تھا بنو امیہ کے زمانہ کے حکام اس کے برعکس تھے.وہ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے تھے.عدل و انصاف سے بڑی حد تک عاری ہو چکے تھے.اس طرح جب اُس وقت کے خود غرض لیکن ذہین عناصر نے دیکھا کہ یہ حکام قومی اموال کو بڑی بے دردی سے اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے بے جا خرچ کرتے ہیں اور وفاداریاں خریدنے میں لگے ہوئے ہیں.عیش و عشرت ان کی عادت بن گئی ہے تو یہ لوگ بھی جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے لگے اور اقتدار سے حصہ پانے کے لئے طرح طرح کے نظریات کو بنیاد بنا کر شورش بیا کرنے لگے تا کہ ان کی بھی بن آئے.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ کے شورش پسندوں میں قیادت بالعموم بنور بیعہ یا نومسلم عجمی عناصر کے ہاتھ میں دکھائی دیتی ہے.بعض عناصر جو دینی رجحان رکھتے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ ایسے لوگ امیر المومنین اور خلیفہ المسلمین بن گئے ہیں جن کا دین سے وہ تعلق نہیں جس کا انہوں نے خلفاء راشدین کے کردار میں مشاہدہ کیا تھا یا ان کے مثالی نمونہ کے بارہ میں سنا تھا تو ان کے دلوں میں مایوسی اور بے دلی پیدا ہوئی اور وہ سوچنے لگے کہ کیا سلف صالحین نے اس لئے عظیم الشان قربانیاں دی تھیں کہ یزید اور اس کے بیروز مسلمانوں کے امام اور خلیفہ بن جائیں.اس طرح یہ خیال خام ان کو غلط راہ کی طرف لے گیا کیونکہ ابھی دین ان کے دلوں میں مستحکم نہیں ہوا تھا.اسلام اتنی تیزی کے ساتھ پھیلا کہ اس زمانہ کی دوز بر دست اور بڑی پرانی تہذیبیں آن کی
تاریخ افکا را سلامی.آن میں تہس نہس ہو گئیں ان تہذیبوں کے پروردہ بعض عناصر مغلوب ہو کر بظاہر مسلمان ہو گئے لیکن اندر سے وہ عمداً یا لاشعوری طور پر اپنی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ تھے.اس طرح اس خلفشار کے دور میں یہ عناصر وہاں کے یہود.مجوس اور نصاری سے مل کر اسلامی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے میں سرگرم عمل ہو گئے.آغاز میں اسلام کی مساوات کی تعلیم سے متاثر ہو کر عرب قبائل کی عصبیت دب گئی تھی لیکن بنو امیہ کے زمانہ میں اس عصبیت کے عفریت نے دوبارہ ابھرنے کی کوشش کی.بنو ربیعہ کے قبائل ، مصری قبائل کے پرانے دشمن رہے ہیں بنو ربیعہ کی یہ رقابت مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے.مسیلمہ کذاب کی بغاوت اسی رقابت کا ایک ابتدائی پر تو تھا کیونکہ بنو حنیفہ ربیعہ کی ہی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے.بعد ازاں یہی رقابت تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنا رنگ دکھاتی رہی ہے.خود بنو امیہ بھی عصیت کے دلدادہ تھے جس کی وجہ سے بنو امیہ اور بنو ہاشم کی پرانی رقابت اُبھر آئی.لے مسلمانوں کے اقتدار نے بلحاظ معیشت اور اصول حکمرانی ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا.اخلاقی اقدار کو بھی پوری وسعت میسر نہیں آئی تھی.با اخلاق عناصر غالب نہیں رہے تھے.اسی طرح اسلامی تعلیم کے مراکز ابھی تک وسیع اور مستحکم نہیں ہوئے تھے اس لئے جو مجھمی عناصر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کے آخری دور میں یا اس کے بعد اسلام لائے ان میں اسلامی تعلیمات رچی بسی نہ تھیں اور ان پر ابھی پرانے عقائد اور نظریات کی چھاپ خاصی گہری تھی.اس صورت حال کا بھی تفریق بین المسلمین پر بڑا برا اثر پڑا اور طرح طرح کے نظریات اسلام کے نام سے پروان چڑھنے لگے.یہ عناصر کھلی مخالفت تو کر نہیں سکتے تھے اس لئے اسلام کا نام لے کر وہ اپنے باطل نظریات مثلاً تناسخ اور حلول وغیرہ کو فروغ دینے لگے اور اس کے لئے قرآنی آیات سے حوالے تلاش کئے گئے.فرقہ بندی کے فروغ کا مرکز عراق، ایران اور خراسان تھا.یہ علاقے بنو امیہ کے مرکز یعنی شام سے دور تھے.ان میں موالی یعنی عجمی نو مسلموں کی کثرت تھی جن کی ایک بڑی تعداد بوجوہ غیر معلمئن به ل الفتنة الكبرى ، حصه دوم المعروف عَلِيٌّ وَ يَتُوهُ صفحه ۷۹ و ۱۵۵ و ۱۸۱
تاریخ افکا را سلامی اور نا آسودہ تھی.اس لئے اس قسم کے موالی کی وجہ سے یہ علاقے شورشوں اور بغاوتوں کے گڑھ بن گئے اور طرح طرح کے نظریات ان میں پھلنے پھولنے لگے چنانچہ علامہ بغدادی اس صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.ظهر اكثر البدع مِنْ أَبْنَاءِ السَّيَايَا وَالْمَوَالِي ایرانی اور خراسانی عناصر تمدن اور تہذیب کے لحاظ سے اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے جب کہ عربوں نے ان علاقوں کو فتح کر کے ان کی ان تہذیبی اقدار کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا جس کا ان عناصر کو شدید احساس تھا اور وہ اپنی تہذیب کے فروغ اور دوبارہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے کوشاں رہنے لگے تھے.دوسری طرف بنو امیہ نے بطور پالیسی یہ رویہ اختیار کر رکھا تھا کہ کوفہ اور عراق کے غیر مطمئن شورش پسند عربی قبائل کو مرکز یعنی شام سے دور رکھنے کے لئے ان کو ایرانی اور خراسانی سرحدوں کی طرف دھکیل دیا جاتا اور ان کو وہاں جاننے پر مجبور کر دیا جاتا تھا چنانچہ نوربیعہ کے کئی قبائل جن میں یمن کے اشعری بھی شامل تھے ایران کے وسطی علاقوں مثلا قم اور مشہد اور خراسان وغیرہ میں جلا وطن کئے گئے ہے بہر حال یہ غیر مطمئن عربی عناصر جو موالات اہل بیت کا دم بھرتے تھے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر طرح طرح کی مذہبی اور سیاسی شورشیں بپا کرتے رہتے تھے چنانچہ ابو مسلم خراسانی کو بنوامیہ کےخلاف اور بنو عباس کے حق میں کامیاب بغاوت کا جو موقع ملا اس کے پیچھے عرب و عجم کے انہی غیر مطمئن عناصر کا ہاتھ تھا جو ایک طرح سے عربوں کی شکست اور عجم کی فتح کے مترادف صورت حال تھی چنانچہ اسی وجہ سے عباسی حکومت میں عربوں کی بجائے عجمیوں کو مسلسل غلبہ حاصل رہا.مسلمانوں کے ہاتھوں فارسی شہنشاہی بالکل تباہ و یہ باد ہو گئی تھی.اس لئے اسیران و خراسان کے مفاد پرست عناصر جن کے اقتدار کو دھچکا لگا تھاوہ اس کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح سیاسی مفاد اور حکومتی افتد اردوبارہ حاصل کریں اس کے بر خلاف شام میں پہلے بھی اجنبی حکومت تھی مسلمانوں کی فتح سے صرف اتنی تبدیلی ہوئی کہ بُرے حکام کی بجائے نسبتا اچھے حکام سے ان لوگوں کو واسطہ پڑا اس لئے اس علاقہ کے لوگ اس تبدیلی کو ایک نشان رحمت سمجھتے تھے اور اس صورتِ حال نے ان کے ل الفرق بين الفرق للبغدادي مريم محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفر ۵۹ الصَّلَةُ بَيْنَ التصوف والتشيع في ۲۸۳۲۸ و ۳۱۸
جذبہ اطاعت کو اور زیادہ مستحکم کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہاں شورش کے امکان کم سے کم ہو گئے.حضرت امیر معاویہ کا دینی کردار خواہ کیسا ہی زیر تنقید رہا ہو ان کا سیاسی کردار خاصہ مضبوط اور تقاضہ حالات کے مطابق تھا.سیاسی جوڑ توڑ، وفاداریاں خریدنے اور جاسوسی نظام سے پورا پورا اور ++ ہر وقت کام لینے میں وہ بڑے ماہر تھے.یہی وجہ ہے کہ ان کے زیر اقتدار مرکزی حصہ یعنی شام میں ہمیں ان کے خلاف کوئی قابل ذکر سر گر می نظر نہیں آتی.اس کے بر عکس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس علاقہ کو اپنا مرکز بنایا تھا وہ شورشوں اور بغاوتوں کا گڑھ بنا رہا.آپ کے ہاں جو سیاسی یا فوجی عناصر تھے ان میں ایک خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت اور شورش پھیلانے میں پیش پیش رہے تھے.تنقید ، شورش پسندی اور فتنہ انگیزی ان لوگوں کے منہ کو لگ گئی تھی اور وہ بات بات پر بھر جاتے تھے.خلافت کا رُعب او را دب واحترام ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا اس پر مستزاد یہ کہ حضرت علی کے بعض حامی عناصر امیر معاویہ کے ہاتھوں بک گئے تھے چنانچہ تحکیم کی تجویز کو قبول کرنے پر حضرت علی جو مجبور ہوئے تو اس کی وجہ انہی خریدے ہوئے عناصر کا اصرار تھا ورنہ حضرت علی اس کے حق میں نہ تھے.B حضرت علی کے حامی عناصر میں موالی یعنی عراقی اور خراسانی نو مسلموں کی بھی بڑی بھاری تعدادتھی جو اسلام اور حق کی حمایت میں نہ اتنے پُر جوش تھے اور نہ اتنے با ہمت.بعض اوقات وہ عین وقت پر دل چھوڑ بیٹھتے تھے اور اپنے امام کو میدانِ جنگ میں یک و تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے.حضرت علی کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے.جو قو می اموال میں خیانت کرتا ہے اسے معاف نہ کیا جائے.معاش میں وہی طریق مساوات اختیار کیا جائے جو آنحضرت ﷺ اور پہلے خلفاء نے اختیار کیا تھا.آپ استحصال اور وفاداریاں خریدنے کے سخت خلاف تھے ایسے حالات میں مفاد پرست اور ترجیح کے خواہشمند عناصر آپ کے مخلص نہ رہے.ان کی وفاداری کمزور پڑ گئی تھی.یہ لوگ من مانی کرنے کے لئے طرح طرح کی حیلہ سازیاں کرتے.اسلام اور محبت اہل بیت کی آڑ لے کرنا واقف لوگوں میں اپنے فاسد خیالات پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے.++
تاریخ افکا را سلامی بنو امیہ نے یہ پالیسی اختیار کی تھی کہ اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کے لئے خطبات جمعہ وغیرہ میں حضرت علی اور دوسرے ائمہ اہل بیت کے خلاف ہرزہ سرائی کی جائے اس کا رد عمل یہ ہوا کہ بنو امیہ جن کو بزرگ مانتے تھے اور جن کا احترام کرتے تھے ان کو مدعیان محبت اہل بیت برا بھلا کہنے لگے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے خلاف جو نفرت پھیلائی گئی اس کی ایک وجہ مخالف عناصر کا یہی رد عمل تھا بہر حال اس قسم کی غلط سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے دینی معاشرہ کمزور ہوتا چلا گیا اور شر کو شہ ملی ، دھڑے بندیوں اور تفرقہ بازیوں کے دور کا آغا ز ہوا.فرقہ پرستی اور دھڑے بندی کی ایک اور مؤثر وجہ یہ تھی کہ اقتدار کی منتقلی کے اصول و ضوابط معین ، مرتب اور متفق علیہ نہ تھے اور نہ ہی کوئی ایسا مسلّمہ نظام جاری ہوا تھا جس کے تحت انتقال اقتدار کے اصول و ضوابط میں ترمیم و اصلاح کا عمل جاری و ساری رہتا اس لئے جب کسی کو کوئی خرابی نظر آئی تو خیر واپس لانے کے لئے شر کو ذریعہ بنا یا گیا اور وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ شر ے تو شر ہی پیدا ہوتی ہے.بدی بدی کے فروغ کا باعث بنتی ہے.خیر کے لئے تو خیر کے راستوں کی ضرورت ہے.خلافت اسلامیہ یا دوسرے لفظوں میں خلافت على منهاج النبوة جواتحاد اسلامی کا حقیقی مرکز تھی.اس کی اہمیت اور اس کی برکات کا احساس مدھم پڑ گیا.اس کے احترام اور اس سے لگاؤ میں کمی آگئی اور یہ مجھے لیا گیا کہ غلبہ اور اقتدار قیادت اور سیادت تو ان کا موروثی حق ہے اس غلط سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ باغی ذہن میں خلافت کی ہتک کی جرات ابھرنے لگی اور شریر عناصر گستاخیوں میں شیر ہونے لگے جس کی وجہ سے خلفاء کی شہادت تک نوبت پہنچ گئی اور وہ تلوار جو نظام خلافت کی حفاظت کے لئے اٹھنی چاہئے تھی مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کے لئے نیام سے باہر آئی اور پھر وہ آپس میں ہی الجھ کر رہ گئے.فرقہ پرستی کے فروغ کی ایک اور وجہ اختلافات کو برداشت کرنے کے حوصلہ کا فقدان تھا.دلیل کی بجائے تشدد اور تلوار سے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ نہ سمجھا گیا کہ تلوار
زبان تو بند کر سکتی ہے دل کے اندر کے خیالات اور نظریات پر بند نہیں باندھ سکتی.ذہن کی تبدیلی کے لئے مضبوط دلائل اعلیٰ اخلاق اور عمدہ نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے تلوار کی نہیں.یہ تھے وجو ہات اور کوائف جو بالعموم تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کے فروغ کا سبب بنے اور جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا مثالی اتحاد پارہ پارہ ہو گیا اور کام کی باتوں کی بجائے طرح طرح کے لخو نظریات اور مافوق الطبعیات مباحث کی دلدل میں مسلم معاشرہ پھنس کر رہ گیا ، قدم رک گئے.فتوحات میں وہ تیزی نہ رہی جو خلافت راشدہ کے دور میں دیکھی گئی تھی.تا ہم اس سب کچھ کے با وجود اہل حق باطل کے مقابلہ میں ڈٹے رہے.اسلام کی اشاعت کا عمل جاری رہا.گو رفتار کچھ ست پڑ گئی لیکن جیسا کہ آئندہ صفحات سے ظاہر ہو گا کہ غلبہ حق کو ہی حاصل رہا اور بڑی بھاری اکثریت جادۂ حق پر قائم و دائم رہی اور حسب وعدہ اللہ تعالی اسلام کی حفاظت اور اس کی اشاعت کے لئے مصلحین اور مجددین کو بھیجتارہا اور اب ہم اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جو تکمیل اشاعت اسلام اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کا دور ہے.اللَّهُمَّ انصُرُ مَنْ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِينَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْهُم ل إِنَّ الْعِرَاقِينَ لَمْ يُقَالُوا فِي حُبِّ مُحَمَّدٌ كَمَا قَالُوا فِي حَبِّ عَلِي لَانَّ حُبُّ مُحَمَّدِ لَمْ يَكُنَ مُحَرَّمًا عَلَيْهِمْ فَقَدْ كَانَ حَكَامُهُمْ يَشْتَرِكُونَ مَعَهُمْ فِيهِ بِخَلافِ حَب عَلِي فَإِنَّهُ كَانَ مُحَرَّمًا عَلَى الشَّيْعَةِ مِنْ قِبَلِ الْعَدُوِّ (مهزلة العقل البشري صفحه ۶ (ملخصا) ڈاکٹر على الوردي مطبع الرابطه بغداد عراق ، طبع (۱۹۵۵ء)
تاریخ افکا را سلامی مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد امت مسلمہ میں بعض معمولی اختلافات اٹھے لیکن جلد مٹ گئے اور امت کو ان کی وجہ سے کسی مشکل یا پریشانی سے دوچار نہیں ہونا پڑا.اس قسم کے اختلافات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ اختلاف سامنے آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ہیں یا نہیں.بعض کہتے تھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت عیسی کی طرح آسمان پر چڑھ گئے ہیں آپ دوبارہ آئیں گے اور منافقین کو ختم کریں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب اس قسم کی چہ میگوئیوں کا علم ہوا تو آپ گھر سے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور پھر کہا کہ اللہ تعالی آپ پر دو موتیں بھی وارد نہیں کرے گا یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اس دنیا سے جائیں اور ساتھ ہی آپ کا لایا ہوا دین بھی مٹ جائے اور آپ کی امت اختلافات کا شکار ہو جائے.پھر آپ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ آپ فوت ہوئے ہیں یا نہیں.اس موقع پر آپ نے ان لوگوں کے سامنے یہ آیات پڑھیں.وما محمد إلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَين مات أو قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (الآية إنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ فَيَتُونَ (الاية) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیات پڑھیں اور اعلان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقعی فوت ہو گئے ہیں اور کوئی نبی بھی اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گیا تو سب کی آنکھیں کھلیں اور اختلاف کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا غرض حضرت ابو بکر کی بر وقت مداخلت سے یہ ال عمران: ۱۴۵ الزمر : ٣١
تاریخ افکا را سلامی اختلاف جلد رفع ہو گیا.ایک اور اختلاف یہ سامنے آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے.بعض نے کہا مکہ لے جا کر دفن کیا جائے کیونکہ آپ وہاں پیدا ہوئے وہاں مبعوث ہوئے وہاں ہی آپ کا خاندان بستا ہے اور قبلہ بھی وہیں ہے اور آپ کے دادا حضرت اسماعیل کی قبر بھی وہاں ہے.انصار نے کہا کہ چونکہ مدینہ آپ کا دارالہجرت ہے اسے آپ نے اپنا مسکن بنایا ہے اور یہیں آپ کے انصار رہے ہیں اس لئے آپ یہیں دفن ہوں.بعض نے کہا کہ بیت المقدس لے جا کر آپ کو وہاں دفن کیا جائے کیونکہ وہاں آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم اور دوسرے متعدد انبیاء کی قبریں ہیں.یہ اختلاف بھی حضرت ابو بکر کی مداخلت سے جلد ختم ہو گیا.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جہاں میری وفات ہو و ہیں تدفین ہو.ای الانبياء يُدْفَنُونَ حَيْثُ يُقْبَصُونَ اس موقع پر صحابہ رضوان الله تعالی علیهم اجمعین کے سامنے یہ اختلاف بھی آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین کون ہو؟ انصار کا خیال تھا ہم سے جانشین مقر رکیا جائے یا دو جانشین ہوں اس کے لئے انہوں نے سید الخزرج سعد بن عبادہ کا نام پیش کیا.بنو ہاشم میں سے بعض نے کہا کہ قرابت کے لحاظ سے جانشینی ہمارا حق ہے اور اس کے لئے حضرت علی اور حضرت عباس کے نام لئے گئے آخر کار حضرت ابو بکر کی تقریر اور ان کی طرف سے یہ روایت پیش کرنے پر کہ " الأئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشِ انصار نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا تے اور ہاضمیوں نے بھی اپنے مطالبہ پر اصرار نہ کیا اس طرح سب صحابہ نے باہمی اتفاق سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور ﷺ کا جانشین منتخب کر لیا اور آپ کی بیعت کرنے میں اپنی سعادت کبھی اس طرح ایک لیے عرصہ تک کے لئے یہ اختلاف بھی دب گیا.کے بخاری کتاب المناقب، فضل ابي بكر ، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم " لَوْ كُنتُ متَخِنَا خَلِيلا : الفرق بين الفرق مفر١٢ سے اس روایت پر شیعہ کی طرف سے جو تنقید کی گئی ہے اس کے لئے دیکھیں ”تاریخ الفرق الاسلاميه صفحه ۱۱ تا ۳۰ و ۱۴۷ بخارى كتاب المناقب باب فضل ابى بكر الفرق بين الفرق صفحه ١٣،١٢
تاریخ افکا را سلامی ۱۵ مانعین زکوۃ سے جنگ کے جواز کے بارہ میں بھی معمولی اختلاف کا اظہار کیا گیا لیکن اسے کوئی خاص اہمیت نہ ملی بہر حال اس قسم کے اختلافات سامنے تو آئے اور تاریخ نے ان کو ریکارڈ بھی کیا لیکن مسلمانوں کے اتحاد میں ان سے کوئی رخنہ نہ پڑا اور حضرت ابو بکرم اور حضرت عمرہ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں مثالی اتحاد قائم رہا.حضرت عثمان کے دور خلافت کے پہلے نصف میں بھی یہی صورت حال رہی تمام مسلمان اتحاد کا کامل نمونہ بن کر بُنیان مرصوص کا انداز اختیار کئے رہے.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے نصف آخر میں بعض عمال حکومت کے طرز عمل پر تنقید کا آغاز ہوا جس نے آہستہ آہستہ بڑی شدت اور وسیع شورش کی صورت اختیار کر لی اور آخر الا مر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر بیج ہوئی.اس حادثہ فاجعہ کے بعد یہ اختلاف اٹھ کھڑا ہوا کہ خلیفہ وقت کے قاتلوں سے کیسے اور کب قصاص لیا جائے.نیز آپ کے جانشین یعنی خلیفہ رابع کو کیسے منتخب کیا جائے.یہ اختلاف بڑھا اور خون ریزیوں کا باعث بنتا رہا اور آج تک اس کے اثرات باقی ہیں.شیعہ اسی اختلاف کی پیداوار ہیں اور اس لحاظ سے تفرقہ کا پہلا میچ میں لے ای دوران تحکیم یعنی حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے تنازع کو دور کرنے کے لئے حکم مقرر کرنے کے فیصلہ نے ایک نیا جھگڑا کھڑا کر دیا جو بالآخر حضرت علی کے خلاف بغاوت کا رنگ اختیار کر گیا.خوارج اسی تنازع کی پیداوار ہیں ہے.اس کے بعد اعتقادی اور نظریاتی اختلاف اٹھے جن کی وجہ سے مسلمان یا بالفاظ صحیح اسلام کے مدعی ایسے مجے، ایسے بکھرے کہ اقوام عالم کے لئے آج تک نشان عبرت بنے ہوئے ہیں اور ان کے فرقوں کی تعداد بہتر سے بھی تجاوز کر گئی ہے اور ہزار کوشش کے باوجود ان کے اتحاد و اتفاق کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا.الفرق بين الفرق.صفحه ۱۴ الفرق بين الفرق.صفحه ۱۵
تاریخ افکا را سلامی M مسلمانوں کا سب سے بڑا فرقہ اہل السنت و الجماعت اہل السنت والجماعت سے مراد مسلمانوں کا وہ فرقہ ہے جو کتاب وسنت اور احادیث کو حجت اور شریعت اسلامیہ کا ماخذ مانتا ہے اور اس کا اکثر حصہ اجماع اور قیاس کو بھی بطور ماخذ شریعت تسلیم کرتا ہے.علاوہ ازیں اہل السنت والجماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب و احترام کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ دین اسلام کی تبلیغ ، قرآن کریم کی حفاظت کی کوشش اور اگلی نسل تک آنحضرت ﷺ کے ارشادات کو پہنچانے میں وہ سب کے سب صادق القول، صادق العمل، انتہائی عادل اور بڑے دیانتدار تھے.وہ سب سے پہلے مبلغ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچایا اور اس میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.اس وقت تک مسلمانوں کی اکثریت اسی فرقہ سے وابستہ ہے اور انہی نظریات کی حامل ہے.اہل السنت والجماعت کے بعض امتیازی نظریات اہل السنت والجماعت خدا کو ایک وحده لا شریک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بر حق مانتے ہیں.نیز فرشتوں ، نبیوں اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں.اسی طرح تقدیر خیر وشر اور قیامت کو برحق سمجھتے ہیں.اہل السنت والجماعت حقائق اشیاء اور ان کے علم کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ سوفسطائیہ اس کے منکر ہیں.وہ اشیاء کی حقیقت کو اعتقاد کے تابع مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص اپنے اعتقاد اور تصور کے مطابق کسی چیز کا وجود تسلیم کرتا ہے ورنہ حقیقت کچھ نہیں ہوتی.صرف تصور ہی تصورا ور وہم ہی وہم کی کارستانی کے ہم سب شکار ہیں.اہل السنت کے نزدیک حواس خمسہ ایک حقیقت ہیں اور الگ وجود رکھتے ہیں جبکہ ابو ہاشم جبائی معتزلی کہتا ہے کہ جو اس کا کوئی الگ وجود نہیں.آئی إِنَّ الْإِدْرَاكَ لَيْسَ بِمَعْنَى وَلَا
تاریخ افکا را سلامی K عَرْضِ وَلَا شَيْءٍ سِوَى المُدرِكِ.اہل السنت کے نزدیک اللہ تعالی اور اس کی صفات قدیم اور ازلی ابدی ہیں اور باقی تمام کائنات حادث ہے اور وہ جواہر اور اعراض پر مشتمل ہے اور بمطابق آیت کریمہ و أخطی كُلَّ شَيْءٍ عَدَدا.ایسے اجزاء سے مرکب ہے جن کا مزید تجزیہ ممکن نہیں اور جنہیں فلسفہ کی اصطلاح میں جُزْ لَا يَتَجوی کہا گیا ہے جبکہ فلاسفہ اور نظام معتزلی کے نزدیک کا ئنات ایسے اجزاء سے مرکب ہے جن کی تجزی اور تقسیم لامحدود ہے.گویا یونانی فلاسفہ جو بالعموم ایسی کسی چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے جس کی مزید تقسیم نہ ہو سکے کی طرح وہ جُز لا ينجری کے موجود ہونے کے قائل نہیں.فلاسفہ یہ بھی مانتے ہیں کہ افلاک کی طبیعت کون و فساد، فنا اور تفرق کو قبول نہیں کرتی یعنی وہ ابدی ہیں جبکہ اہل السنت اس نظریہ کو درست تسلیم نہیں کرتے.ان کے نزدیک ماسوی الله کوئی چیز بھی ابدی نہیں.سب اشیاء بمطابق آیت کریمہ كُلِّ شَيْءٍ مَالِكَ إِلَّا وجھہ سے فانی اور نابود ہو جائیں گی.اہل السنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ صانع عالم ہے.تمام جواہر اور اعراض کو اسی نے پیدا کیا ہے جب کہ بعض قدریہ معتزلہ کہتے ہیں کہ اعراض یعنی حرکات و افعال وغیرہ اللہ تعالیٰ کے مخلوق نہیں آئ قَالُوا إِنَّ الْافَعَالَ الْمُتَوَلَّدَةَ أَى الطَبْعِيَّةَ لَا فَاعِلَ لَهَا یعنی یہ اعراض جسم کی طبیعت اور فطرت کا ذاتی تقاضہ ہیں.فَاللَّهُ تَعَالَى لَمْ يَخْلُقَ شَيْئًا مِّنَ الْأَعْرَاضِ وَإِنَّمَا خَلَقَ الْجَوَاهِرَ وَالاجسام.مثلاً جب کوئی جسم وجود میں آئے گا تو لازماً اس میں کوئی نہ کوئی رنگ خود بخود ظاہر ہوگا کیونکہ کوئی جسم رنگ کے بغیر وجود نہیں پاسکتا.اہل السنت کے نزدیک صانع عالم ذات واحد ہے جبکہ شنویہ اور مجوس کے خیال میں صانع عالم دو ہیں یعنی نور و ظلمت اور دونوں قدیم ہیں.مجوسیوں کے نزدیک صانع خیر یعنی نور قدیم ہےاور اس کا نام یزداں ہے اور صانع شریعنی ظلمت حادث ہے اور اس کا نام آخـر مــن ہے.عیسائیوں کے نزدیک خدا صانع اول ہے اور صانع ثانی صحیح ہے.معتزلہ قدریہ میں سے احمد بن خابط کا بھی یہی نظریہ ہے اس کا کہنا ہے کہ مسیح مدیر عالم اور خالق ثانی ہے.بعض شیعوں کے نز دیک الجن: ۲۹ ۲ القصص: ۸۹
تاریخ افکا را سلامی IA کائنات کی تدبیر حضرت علی اور ان کی اولاد کے سپر د ہے اور یہ سب دوسرے درجہ کے خالق ہیں.یعنی صانع ثانی ہیں.اہل السنت کے نزدیک صانع عالم محدود نہیں ، اس کی کوئی حد بندی نہیں کی جاسکتی جبکہ ہشام بن الحکم رافضی کا کہنا ہے کہ وہ محدود ہے.اس کا قد اس کی اپنی بالشت کے لحاظ سے سات بالشت ہے اور کرامیہ فرقہ کہتا ہے کہ خدا کا جو حصہ عرش سے متصل اور ملاقی ہے وہ محدود ہے اور اس کی نشست کے برابر عرش کی چوڑائی ہے اور باقی اطراف سے وہ لا محدود ہے.اَنْ هُوَ مَحْدُودٌ مِّنَ الْجِهَةِ الَّتِي يَلَا قِيَ مِنْهَا الْعَرْشَ وَلَا نِهَا يَةٌ مِنْ خَمْسِ جِهَاتٍ سِوَاهَا.اہل السنت کے نزدیک صورت اور اعضاء کے لحاظ سے صانع عالم کی کوئی تعریف اور تشریح ممکن نہیں جبکہ بعض رافضی کہتے ہیں کہ وہ نور ہے اور انسانی صورت رکھتا ہے.أى أنه على صُوَرَةِ إِنسَانِ مِنْ نُورٍ عَلَى رَأْسِهِ وَفَرَةٌ سَوَدَاءُ مِنَ نُورٍ أَسْوَدَ وَنِصْفُهُ الْأَعْلَى مُجَوَفٌ وَ نِصْفُهُ الأسْفَلُ مُصْمَتٌ وَقَالَ الْمُغِيْرِيَّةُ مِنَ الرَّوَافِضِ إِنَّ أَعْضَاءَ اللَّهَ عَلَى صُورَةِ حُرُوفِ الْهِجَاءِ عَيْنُ اللَّهُ عَلى صُورَةِ "ع" وَ فَرْجُ اللَّه عَلَى صُورَةِ » مَثَلًا فَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ - اہل السنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ حرکت و سکون ، رنج والم وغیرہ کیفیات سے پاک ہے جبکہ بعض رافضیوں کے نزدیک وہ چلتا پھرتا ہے ، تھک بھی جاتا ہے، آرام بھی کرتا ہے، غم بھی کھانا ہے اور خوش بھی ہوتا ہے.اہل السنت کے نزدیک خدا کی بعض صفات مثلاً حیات، قدرت، علم، ارادہ اور اس کی صفت سمع و بصر اور صفت کلام یہ سب از لی اور ابدی اور قائم بالذات ہیں.جبکہ بعض معتزلہ اور بعض شیعہ کہتے ہیں کہ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ لَهُ حَيَاةٌ وَلَا عِلْمٌ وَلَا قُدْرَةٌ وَلَا سَمْعٌ وَلَا إِرَادَةً وَلَا كَلام بَلْ يَخْلُقُ هَذِهِ الصَّفَاتِ فِى الْمَخْلُوقِ كَتَخْلِيْقِ الْكَلامِ فِي الشَّجَرِ أَوْ فِي قَلْبِ الْإِنْسَانِ وَ زَعَمَ زَرَارَةُ بْنُ أَعْيُنِ وَاتَّبَاعُهُ مِنَ الرَّوَافِضِ إِنَّ حَيَاةَ اللَّهِ تَعَالَى وَ قُدْرَتَهُ وَ عِلْمَهُ وَسَائِرَ صِفَاتِهِ حَادِثَةٌ وَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ حَيَّا وَلَا قَادِرًا وَلَا عَالِمًا حَتَّى خَلَقَ لِنَفْسِهِ
تاریخ افکا را سلامی 19 حَيَاةً وَقُدْرَةً وَعِلْمًا وَإِرَادَةً وَ سَمْعًا وَبَصَرًا - اہل السنت کے نزدیک کلام اللہ تعالیٰ کی ازلی صفت ہے وہ حادث اور مخلوق نہیں جبکہ قدریہ معتزلہ کے نزدیک یہ حادث ہے اور اس کے کلام کرنے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اجسام میں کلام کا وصف پیدا کرتا ہے اور وہ بولنے لگ جاتے ہیں یہ نہیں کہ خدا بولتا ہے.انہی معنوں میں وہ قرآن کو مخلوق مانتے ہیں.اہل السنت کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے تابع ہیں.آئی إِنَّهُ لَا يَحْدُثُ فِي الْعَالَمِ شَيْءٌ إِلَّا بِارَادَتِهِ مَا شَاءَ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَاءُ لَمْ يَكُن جبکہ بصرہ کے معتزلہ کہتے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ اللہ نہ چاہے اور چیز ہو جائے جیسے وہ بندے کا کفر نہیں چاہتا لیکن بندہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ چاہتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں جیسے وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ مومن ہو جائیں لیکن سب ایمان نہیں لاتے کچھا یمان لاتے ہیں اور کچھ کفر اختیار کرتے ہیں.اہل السنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات غیر ذات لیکن قائم بالذات ہیں جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کا عین ہیں ان کا کوئی الگ اور ممتاز وجود نہیں ورنہ تعدد قدماء لازم آئے گا.اسی طرح اہل السنت یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ روح سے بالا ہتی ہے أَي إِن حَيَاتَهُ بِلا رُوح وَ بِلا إِعْتِدَاء وَإِنَّ الْأَرْوَاحَ كُلْهَا مَخْلُوقَةٌ جب کہ عیسائی کہتے ہیں کہ باپ کے علاوہ بیٹا اور روح القدس بھی قدیم یعنی ازلی ابدی ہیں.اہل السنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے.آئ هُوَ قادِرُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ جبکہ معتزلہ قدریہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مقدورات العباد پر قادر نہیں آتى إِنَّهُ تَعَالَى لا يَقْدِرُ عَلَى مَقْدُورَاتِ الْعِبَادِ وَلَا عَلَى مَقْدُورَاتِ الْحَيَوَانِ.ان کے نز دیک انسان خود اپنی قدرت سے کام کرتا ہے خدا اسے اس کام کے کرنے پر مجبور نہیں کرتا.یہی حال حیوانات کا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے چلتے پھرتے اور سارے کام کرتے ہیں.اہل السنت کے نزدیک افعال العباد کا خالق خدا ہے اور کسب کا تعلق انسان کے ارادہ اور اختیار سے ہے جبکہ جبر یہ کہتے ہیں کہ بندہ مجبور محض ہے سب کچھ خدا کرتا ہے.قدریہ معتزلہ کہتے
تاریخ افکا را سلامی ہیں کہ بندہ مختار اور آزاد ہے جو چاہے کرے کو یا اہل السنت کے نزدیک معاملہ بہین بین ہے کچھ خدا کرتا ہے اور کچھ بندہ خدا خالق ہے اور بندہ کا سبب ہے.اہل السنت کے نزدیک ان مادی آنکھوں سے اللہ تعالی کی رویت ممکن ہے.اس دنیا میں بھی وہ نظر آسکتا ہے اور اگلے جہاں میں بھی وہ مومنوں کو نظر آئے گا.فرمایا وَجَوَةٌ يَوْمَذٍ نَاضِرَةٌ إلى ربها ناظرة.اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ تم اپنے رب کو ایسا دیکھو گے جس طرح ے چودھویں کے چاند کو دیکھتے ہوئے جبکہ ابن سالم بصری کہتا ہے کہ وہ کافروں کو بھی نظر آئے گا.ضرار بن عمر و کہتا ہے کہ وہ اس مادی آنکھ سے نظر نہیں آسکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انسان کو ایک چھٹی حس عطا کرے گا.اس جس کے ذریعہ وہ ان کو نظر آئے گا.معتزلہ قدریہ اور جہمیہ کہتے ہیں کہ خدا کا نظر آنا محال ہے کیونکہ وہ لامحدود ہے اور نظر میں آنے کے لئے محدود ہونا ضروری ہے.اہل السنت کے نزدیک اسماء الہی توقیفی ہیں یعنی قرآن کریم اور احادیث میں اس کے جو نام گنوائے گئے ہیں وہی استعمال میں آنے چاہئیں اپنی طرف سے اس کے نئے نئے نام نہیں گھڑنے چاہئیں جبکہ معتزلہ قدریہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرتا ہے اس کے مطابق اس فعل سے اس کا نام مشتق ہو سکتا ہے مثلا وہ بندوں کی بات مانتا ہے ان کی مراد میں بہ لاتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اس لئے اس کا نام ”مطیع ، یعنی بات ماننے والا رکھ سکتے ہیں.اسی طرح وہ حمل ٹھہراتا ہے اس لئے اس کا نام مخمل بھی ہے لیکن یہ نظريه له الأسماء الحسنى - کے خلاف ہے.اہل السنت کے نزدیک اسماء الہی کی تین قسمیں ہیں:.الف : وہ اسماء جو اس کی ذات پر دلالت کرتے ہیں جیسے المَوْجُودُ الْوَاحِدُ الاول.الآخِرُ الْغَنِيُّ الْجَلِيلُ الْجَمِيلُ وغيره - ب :.وہ اسماء جو اس کی ان صفات ازلیہ کو ظاہر کرتے ہیں جو قائم بالذات یعنی اس کی ذات القيامة :٢٤ بخارى كتاب الرد على الجهمية ، باب قول الله وَجَوَهٌ يَوْمَئِذٍ نَاظِرَة کے بنی اسرائیل ۱۱۱ و الحشر : ۲۵
تاریخ افکا را سلامی کے ساتھ قائم ہیں جیسے الْحَيُّ الْقَادِرُ الْعَالِمُ الْمُرِيدُ ، السَّمِيعُ الْبَصِيرُ وغیرہ جبکہ معتزله کہتے ہیں کہ اس کی صفات کا کوئی الگ وجود نہیں یعنی اس کی صفات مین ذات ہیں.ج :.وہ اسماء جو اس کے افعال سے مشتق ہوتے ہیں.جیسے الخَالِقِ الرَّازِق ، العَادِل، الحکیم.ان اسماء سے وہ بوقت صد در فعل موسوم اور متصف ہوتا ہے.اہل السنت کے نزدیک نبوت آدم سے شروع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی جبکہ خرمیہ کہتے ہیں کہ نبوت کبھی ختم نہیں ہوگی.آئی اِنَّ الرُّسُلَ تَتَرى لَا آخِرَلَها بعض اہل السنت کے نزدیک شریعت والی نبوت ختم ہے اور غیر تشریعی نبوت جسے نبوت مبشرات بھی کہتے ہیں جاری ہے.وَلَا آخر لها.اہل السنت کے نزدیک انبیاء معصوم ہوتے ہیں جبکہ روافض میں سے ہشامیہ فرقہ کے نز دیک نبی معصوم نہیں ہوتا وہ گناہ اور غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے لیکن بذریعہ وحی اس کی غلطی کا مدارک ہو جاتا ہے اس کے برعکس اس کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے.اہل السنت کے نزدیک انبیاء، ملائکہ اور اولیاء اور ائمہ سے افضل ہوتے ہیں جبکہ اکثر قدریہ ملائکہ کو انبیاء سے افضل تسلیم کرتے ہیں.اور بعض روافض کرامیہ اور بعض صوفیاء ائمہ اور اولیا ء کو انبیاء سے افضل قرار دیتے ہیں.اہل السنت کے نزدیک امامت اور خلافت کی بنیا دانتخاب اور شوری پر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نام لے کر اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا اور نہ کسی کو نا مزد کیا تھا اور نہ کسی کے حق میں وصیت کی تھی.اہل السنت کہتے ہیں کہ ارباب حل و عقد جنہیں جمہور مسلمان صاحب اثر و رسوخ تسلیم کرتے ہیں اور ان کے کئے کو اپنا کیا کرایا مانتے ہوں وہ انتخاب کے لئے کسی کو نامزد کر سکتے ہیں یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو منتخب کیا جائے اور اس کی بیعت کی جائے.اسی طرح انتخاب کے لئے کوئی ساطریق اختیار کرنا یا پہلے سے تجویز رکھنا جمہور کے اختیار ل مرقات شرح مشکواة مصنفه ملا علی قاری حنفی مکی جلد ۲ صفحه ۵۶۴ تفهيمات الهيّة صفحه ۵۳ مصنفه شاه ولی الله محدث دهلوی فتوحات مكتبه جلد ۲ صفحه ۱۰۰ مصنفه شیخ ابن عربی.
تاریخ افکا را سلامی ۲۲ میں ہے.اہل السنت یہ بھی مانتے ہیں کہ بمطابق حدیث الْأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْش خلیفہ قریش میں سے چنا ضروری ہے.اہل السنت یہ بھی مانتے ہیں کہ پہلے چار خلفاء امام برحق اور خلیفہ راشد تھے جبکہ شیعہ پہلے تین خلفاء کو خلیفہ راشد نہیں مانتے.شیعوں کے نزدیک خلافت اور امامت کے لئے اہل بیت میں سے ہونا ضروری ہے نیز اس کا تعلق وراثت اور نسل سے ہے، امت کو انتخاب کا اختیار نہیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے حضرت علی کے حق میں وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ میرے جانشین اور خلیفہ ہوں گے پھر ہر امام کا فرض ہے کہ وہ وفات سے پہلے اپنا جانشین مقرر کرے اور اس کے حق میں وصیت کرے گویا شیعہ کے نزدیک امامت اور خلافت موروثی اور منصوص ہے امت کو اپنا امام منتخب کرنے کا حق نہیں.روند یہ فرقہ جو ابو ہریرہ الروندی کا پیرو تھا اور جس کا ایک داعی ابو مسلم خراسانی بھی تھا وہ حضرت عباس کو خلافت کا مستحق مارتا تھا کیونکہ وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی وارث تھے.حضرت علی کا نمبر بعد میں آتا ہے اس لئے کہ وہ چچا زاد بھائی تھے اور عباس چا اور چا زیادہ قریبی وارث ہے.خوارج کے نزدیک ہر وہ مسلمان جو اہلیت رکھتا ہو خواہ وہ عربی ہو یا ئیگی اسے بطور خلیفہ وامام منتخب کیا جا سکتا ہے.اب قریباً اہل السنت بھی اسی نظریہ کو درست تسلیم کرتے ہیں اور اسی بناء پر عثمانی ترکوں کی خلافت کو برحق مانتے ہیں.اہل السنت کے نزدیک الصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عَدُولُ ایک سچائی ہے یعنی صحابہ نے پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ بعد میں آنے والوں تک دین اسلام کو پہنچایا اور اس ذمہ داری کے بارہ میں وہ سب کے سب عادل اور واجب الاعتماد تھے جبکہ بعض شیعہ اور خوارج متعد دصحابہ کی تکفیر کرتے ہیں اور انہیں قابل اعتماد نہیں سمجھتے اور روافض کا کاملیہ فرقہ ان تمام صحابہ کو کافر قرار الفرق بين الفرق صفحه ۲۵ اعتقادات فرق المسليمن والمشركين صفحه ۶۳ مصنفه امام فخر الدین رازی مطبوعه مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان ١٩٨٢ء
تاریخ افکار را سلامی دیتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہے.عام صحابہ کو اس لئے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور علی کی بجائے ابو بکر کو اپنا امام مان لیا اور علی ا اس لئے کافر ہیں کہ انہیں اپنا منصوص حق لینے کے لئے لڑنا چاہیے تھا لیکن وہ نہ لڑے اور چپ کر کے بیٹھ گئے اس لئے وہ بھی کافر ہیں.اہل السنت کے نزدیک خبر متواتر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور خبر واحد ذریعہ علم خطن ہے.لے اس لئے ایسی احادیث اور روایات سے احکام شرعیہ ثابت ہو سکتے ہیں یعنی یہ ذریعہ علم بھی مدار شریعت ہے جبکہ شیعہ کے نزدیک صرف ائمہ اہل بیت خاص طور پر حضرت امام جعفر کی مرویات حجت اور ماخذ شریعت ہیں.بعض رافضیوں کا یہ نظریہ ہے کہ صحابہ نے چونکہ قرآن کریم میں تحریف و تبدیلی کر دی ہے اس لئے وہ بھی حجت شرعی اور ماخذ شریعت نہیں رہا.خوارج کے نز دیک حضرت عثمان اور حضرت علی کے دور خلافت میں اکثر صحابہ کفر کے مرتکب ہوئے اس لئے ان کی مرویات حجت شرعیہ نہیں.نظام معتزلی اجماع کے حجت اور مآخذ شریعت ہونے کا منکر تھا وہ کہتا تھا کہ لوگ غلط بات پر متفق ہو سکتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ سب نے جھوٹ کو سچ مان لیا ہو اس لئے خبر متواتر قطعی اور یقینی علم کا ذریعہ نہیں.سنی فرقہ کا بھی یہی نظریہ ہے.ہے اہل السنت کے نزدیک قرآن کریم کی عبارت بلحاظ نظم و ترتیب بھی ایک معجزہ ہے کوئی دوسرا لے احادیث احاد کی چھان بین ضروی ہے.وہ حدیث ہی قابل قبول ہوگی جو سند کے لحاظ سے قوی ہو.درایت بھی اس کی تائید کرتی ہو اور قرآن کریم کی کسی نص کے خلاف نہ ہو.یہ چھان بین اس لئے ضروری ہے کہ دور فتنہ میں کئی مفتری ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے حدیثیں وضع کرنے میں حد کر دی.چنانچہ اس بارہ میں علامہ بغدادی لکھتے ہیں.ان عبدالكريم بن ابی العوجاء كان يضع احاديث كثيرة باسانيد يغتر بها من لا معرفة له بالجرح والتعليل و رفع جزء هذا الصّال الى ابى جعفر محمد بن سلیمان عامل المنصور على الكوفة فامر بقتله فقال لن يقتلوني لقد وضعت اربعة آلاف حديث احللت بها الحرام و حرمت بها الحلال یہ تو ایک مفتری ہے جس نے اپنی شرارت کا اعتراف کیا نا معلوم کتنے دوسرے شریر ہوں گے جو گرفت میں نہ آ سکے یا اعتراف گناہ کی حمد کت نہ کر سکے.(الفرق بين الفرق صفر ۲۰۶) الفرق بين الفرق صفحه ۲۵۳
تاریخ افکا را سلامی ۲۴ اس جیسی فصیح و بلیغ عبارت مرتب نہیں کر سکتا جبکہ نظام معتزلی کا کہنا ہے کہ " لَا إِعْجَارُ فِي نَظم القُرْآن" اہل السنت کے نزدیک انسان اور حیوان دونوں کا حشر ہوگا جبکہ بعض دوسرے فرقوں کی رائے ہے کہ صرف انسانوں کا حشر ہوگا.حیوانات دوبارہ زندہ نہیں کئے جائیں گے.اہل السنت کے نزدیک جنت اور دوزخ دونوں مخلوق لیکن ابدی ہیں کبھی فنا نہ ہوں گی جبکہ بعض کہتے ہیں کہ دوزخ فنا ہو جائے گی اور وہ سب لوگ جو دوزخ میں داخل ہوں گے.وہ سزا بھگت کر اور اصلاح پا کر دوزخ سے نکل آئیں گے.جهمیه کے نزدیک جنت اور دوزخ دونوں فانی ہیں ایک وقت آئے گا کہ ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا.خوارج کے نزدیک گنہگار مسلمان بھی کفار کے ساتھ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے.لے اہل السنت والجماعت کی بعض ضمنی شاخیں بعض نظریاتی اور باطنی مسالک یا فقہی احکام میں معمولی اختلاف کے لحاظ اہل السنت والجماعت مختلف شاخوں اور جزبوں میں تقسیم ہیں لیکن چونکہ یہ سب مذکورہ بالا بنیادی نظریات میں متفق اور متحد الخیال ہیں.قرآن سنت اور احادیث کو شریعت اسلامیہ کا ماخذ مانتے ہیں اور تھوڑے بہت اختلاف کے با وجود بالعموم ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے اور اپنے آپ کو اہل السنت والجماعت کہلانا پسند کرتے ہیں.اس لئے اصولاً یہ سب ایک ہی فرقہ شمار ہوتے ہیں.اگر چہ تعارف یا تخب پسندی کی وجہ سے اپنے الگ الگ نام بھی اختیار کر رکھے ہیں مثلا نظریاتی اور کلامی مسائل کے لحاظ سے کوئی اشعری ہے تو کوئی مَا تُرِیدی یا سَلْفِی تصوف اور باطنی مسالک کے لحاظ سے کوئی چشتی ہے تو کوئی سہروردی، کوئی قادری ہے تو کوئی نقشبندی.اسی طرح فقہی مسلک کے لحاظ سے کوئی حنفی ہے تو کوئی مالکی کوئی شافعی ہے تو کوئی حنبلی.اسی طرح کئی اور نام اور منی شاخیں ہیں جن کی تفصیل میں جانا اختصار کے منافی ہے.تا ہم اہل السنت والجماعت کی ہر بڑی شاخ کے بارہ میں ضروری وضاحت آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے.ل الفرق بين الفرق صفحه ۲۸۶۲۲۴۰،۲۰۰۱۹
تاریخ افکا را سلامی ۲۵ نظریاتی اور کلامی لحاظ سے اہل السنت والجماعت کی ذیلی شاخیں عقاید اور نظریات میں بعض معمولی اختلافات کے لحاظ سے اہل السنت والجماعت کی مندرجہ ذیل شاخیں ہیں - أشاعرة.مَاتُرِيلِيَه سَلْفِيَّه ا- أَشَاعِرَه اشاعرہ اہل السنت والجماعت کا وہ گروہ ہے جو کلامی مسائل میں امام ابوالحسن بن اسمعیل الاشعری کا پیرو ہے.امام اشعری بصرہ کے رہنے والے تھے.۲۶۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۳۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی.امام اشعری پہلے معتزلی المسلک تھے اور مشہور معتزلی عالم کے ابو علی البھائی کے شاگر د تھے لیکن بعد میں اہل السنت کے مسلک کو اپنا لیا اور اپنے استاد علامہ جہائی سے متعدد مناظرے کئے اور علم کلام میں آپ نے بڑے پائے کی کتابیں لکھیں جن میں سے مقالات الاسلاميين“ زیادہ مشہور ہے.آپ جمہور مسلمانوں کے مانے ہوئے امام ، کامیاب مناظر اور اعلیٰ پایہ کے خطیب تھے.علامہ بغدادی نے آپ کا ایک مناظرہ نقل کیا ہے جو آپ نے اپنے استاد الجبائی سے کیا تھا جس میں آپ کی ذہانت اور مناظرہ میں مہارت کا پتہ چلتا ہے.یہ مناظرہ کچھ اس طرح ریکارڈ ہوا ہے.اشعری: مومن کافر اور بچہ کی نجات کے بارہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ جبائی: مؤمن جنت میں جائے گا اور کافر دوزخ میں اور بچہ کو نہ عذاب ہوگا اور نہ وہ جنت میں جائے گا کیونکہ جنت میں جانے کے لئے اعمال کا ہونا ضروری ہے اور بچہ کا ظاہر ہے کہ کوئی عمل نہیں.اشعری: بچہ یہ کہ سکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور مہلت دیتا تو میں نیک اعمال بجالاتا.بچپن میں فوت ہو جانا تو میرا کوئی قصور نہ تھا.اس لئے مجھے جنت سے کیوں محروم کیا گیا ہے.حیائی: خدا اس کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ میرے علم میں تھا کہ اگر اس بچہ کو عمر اور مہلت ملی تو یہ بد کار ہو جائے گا اور دوزخ کا ایندھن بنے گا اس لئے بچہ کی مصلحت اسی میں تھی کہ وہ نا بانعی کی عمر میں ہی فوت ہو جائے تا کہ کم از کم دوزخ کے عذاب سے تو وہ بچار ہے.اس تبدیلی کے بارہ میں مختلف آراء کے لئے دیکھیں تاريخ الفرق الاسلامية - صفح۱۵۲
تاریخ افکار را سلامی اشعری اس طرح تو کافر بھی کہہ سکتا ہے خدایا تجھے علم تھا کہ میں نے بڑے ہو برے کام کرتے ہیں اس لئے مجھے بچپن ہی میں کیوں نہ ماردیا کہ کم از کم دوزخ کے عذاب سے تو بچ جاتا.جہاتی سے کچھ جواب نہ بن پڑا اور وہ خاموش ہو گیا.اشاعرہ کی امتیازی خصوصیات خدا نے جس طرح اپنے آپ کو قرآن کریم اور احادیث میں ظاہر کیا ہے وہ اسی طرح ہے.اس میں نہ کسی قسم کی تاویل مناسب ہے اور نہ مجاز اور استعارہ کا سہارا لینا درست ہے.مثلاً.خدا کا چا ہے.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبكَ ذُو الْجَلْلِ الْإِكْرَامِ.خدا کے دو ہاتھ ہیں.بل يدهُ مبْسُوطَتَنا لِمَا خَافَتُ يَدَى يَدَ اللَّهِ چہرہ I فَوْقَ أَيْدِيهِمْ خدا کی آنکھیں ہیں.تجری بِأَعْيُنِنَا لِتَصْنَعَ عَلَى عَيْنِي ! خدا آسمان اولی پر نزول اجلال فرماتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں وضاحت آئی ہے.أَنْزَلَهُ ک اللہ تعالی علیم وخبیر ہے.انزله يعنيه نباتى العليم الخبير خدا قادر مطلق ہے.قُل هُوَ الْقَادِرُ هو أشد منهم قوة اللہ تعالیٰ ہوتا ہے.كَلَّمَ اللهُ مُوسى تكليت - قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور وہ غیر مخلوق ہے.افعال عباد اللہ تعالی کے مخلوق ہیں.واللہ خلقكم وَمَا تَعْمَلُونَ " أم خُلِقوا مِنْ غَيْرِ شَن آمْ هُمُ الظَّلِقُونَ - خَلَقَكُمْ البتہ کب بندہ کا ہے.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُما خلق اور کسب میں کیا فرق ہے؟ یہ ایک راز ہے جس کی وضاحت بہت مشکل ہے.اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے.مَنْ يَهْدِ اللهُ الرحمن : ۲۸ - المائدة : ۶۵ 21: فتح: ۱۱ ۵ قمر : ۱۵ طه : ۴۰ کے النساء : ١٦٧ A :التحريم ۴ - الانعام: ۶۶ حم السجدة : ١٦ ال النساء : ۱۶۵ ۱۲ الصفت : ۹۷ الطور: ٣٦ ١٢ البقرة : ١٤٢
تاریخ افکار را سلامی ۲۷ فَهُوَ الْمُهْتَدِى - - وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّضِلٍ مَنْ يُضْرِيْلِ اللَّهُ فَلَا هادي له.اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور مشیت ہے.وَمَا تَداءُ ونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ " فعال لما يُريد گناہ کبیرہ کا مرتکب دائمی جہنمی نہیں وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر دوزخ سے نکل آئے گا.خدا چاہے تو گنہگار کو معاف کر دے اور چاہے تو نیک کو دوزخ میں ڈال دے وہ مختار و خالق ہے تا ہم اس کا رحم اور اس کا فضل اتنا وسیع ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود وہ نیک کو دوزخ میں نہیں ڈالے گا اور اسے جنت سے نہیں نکالے گا.ان سب مذکورہ بالا مسلمات میں معتزلہ کو اختلاف ہے اور وہ ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں.٢ - مَاتُرِيدِيَه ما تريديه اہل السنت والجماعت کا وہ گروہ ہے جو کلامی مسائل میں امام ابو المعصو رمحمد بن محمود سمرقندی ما تریدی کی پیروی کرتا ہے.امام موصوف سمرقند کے محلہ ماترید کے رہنے والے تھے اس لئے ما تریدی کے لقب سے مشہور ہوئے.آپ ۳۳۳ ھ میں فوت ہوئے جبکہ امام اشعری کی وفات ۳۳۰ ھ میں ہوئی تھی.اس لحاظ سے دونوں امام ہمعصر تھے.آپ نصر بن بیٹی بھٹی کے شاگرد تھے جو اس زمانہ میں حنفیوں کے مشہور پیشوا تھے اس لئے امام ما تریہ ہلدی بھی حنفی المسلک تھے.کہا جاتا ہے کہ امام ابو منصور ماتریدی حضرت امام ابو حنیفہ کے کلامی افکار کے شارح اور مفسر تھے آپ متعد دمرتبہ سمرقد سے بصرہ گئے تا کہ وہاں معتزلہ اور اشاعرہ سے مناظرہ کریں.امام ابومنصور ما تریدی اپنی کتابوں میں بارہا را امام ابو حنیفہ کے نظریات کا حوالہ دیتے ہیں اور ان کے لئے منطقی اور عقلی دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں.آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں.مثلاً کتاب تأويل القرآن ، مأخذ الشرائع - المقالات في الكلام الرَّدُّ عَلَى الْقَرَامِطَةِ وغيره - الاعراف : ۱۷۹ - الزمر : ٣٨ ٣ الاعراف: ۱۸۷ الدهر : ٣١ الفرق بين الفرق صفر ۲۸۰۲۲۴۰ تاريخ المذاهب الاسلامية صفر ۲۲۰ بروج : ۱۷ مصنفہ محمد ابو زہرہ پروفیسر شریعت اسلامیہ لاء کالج قاہرہ یونیورسٹی ناشر دارالفکر العربی القاہر مصر.
تاریخ افکا را سلامی مَا تُرِيْدِيَه کی امتیازی خصوصیات ماتریدیہ کے نزدیک معرفت الہی اور صانع عالم کے وجود کو تسلیم کرنا ایک عقلی وجوب ہے اس لئے قبل نزولِ شریعت بھی اس پر علی الا جمال ایمان لانا ضروری ہے اور کونا ہی کرنے والے سے باز پرس ہوگی جبکہ اشاعرہ کہتے ہیں کہ یہ معرفت وجوب شرعی ہے اس لئے قبل نزول شریعت اس کوتا ہی کی نہ کوئی گرفت ہے اور نہ کوئی سزا.ما تريديه کے نزدیک افعال الہی میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے اسی لئے اس نے ہر چیز کو خاص مصلحت اور حکمت کے تحت پیدا کیا ہے.اسی طرح اس نے شریعت کے جو احکام نازل کئے ہیں وہ بھی اپنے اند ر حکمت اور مصلحت رکھتے ہیں کیونکہ وہ حکیم ہے اور فعل الحكيم لا يَخْلُو عَن الحكمة - جبکہ اشاعرہ کہتے ہیں کہ خدا پر ایسی کوئی پابندی نہیں اس نے جو چاہا اور جس طرح چاہا پیدا کر دیا اور جو حکم چاہا نازل فرما دیا.وہ فعال لِمَا يُرِيدُ ہے اس لئے اس کے کاموں اور حکموں میں حکمت اور مصلحت تلاش کرنا بے معنے اور بے کا رہات ہے.ماتریدیہ کے نزدیک افعال عباد میں ذاتی حسن اور ذاتی صحیح ہے یعنی کچھ افعال عقلاً اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے جوا چھے کام میں اللہ تعالیٰ ان کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور جو برے ہیں ان سے روکتا ہے نیز افعال کے اس حسن یا فتح کا عقل اور اک کر سکتی ہے لیکن یہ ادراک اور علم مدار ثواب و عقاب نہیں.ثواب و عقاب کا سوال نزول شریعت کے بعد پیدا ہوتا ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ یہ ادراک اور علم مدار ثواب و عقاب بھی ہے اچھا کام کرنے والے کو ثواب ملے گا اور برا کام کرنے والوں کو سزا دی جائے گی خواہ شریعت نازل نہ بھی ہوئی ہو.اشاعرہ کا نظریہ یہ ہے کہ افعال عباد میں کوئی ذاتی حسن یا ذاتی فتیح نہیں ہوتا.شریعت نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا وہ حسن بن گیا اور جس کے کرنے سے روکا وہ بُرا اور قبیح ہو گیا گویا کسی فعل کے اچھا یا برا ہونے کا سوال نزول شریعت کے بعد پیدا ہوتا ہے.
تاریخ افکار را سلامی ۲۹ ماتریدیہ کا ایک نظریہ یہ ہے کہ نیک کو ثواب دینے اور جنت میں داخل کرنے کا اس نے وعدہ کیا ہے اور اپنے اس وعدہ کو ضرور پورا کرے گا کیونکہ الكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا اور بد کو سزا دینے کی اس نے خبر دی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چاہے تو اسے معاف کر دے وَيَغْفِرَ مَا دُونَ ذَلِكَ لِيمن نام اور بمطابق مقوله الكريم إِذَا وَعَدَ وَفا معاف کردینا بجائے خود ایک خوبی ہے.اس لئے فرمایا لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنى -.جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ نیک کو جنت میں لے جانا اور بد کو دوزخ میں ڈالنا خدا کے لئے ضروری ہے وہ اس کے خلاف نہیں کر سکتا.اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ - اشاعرہ کہتے کہ اس پر کچھ بھی پابندی نہیں اور نہ کچھ واجب ہے چاہے تو نیک کو جہنم میں ڈال دے اور چاہے تو بد کو معاف کر کے جنت میں لے جائے.لَا يُنسل عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ " ما تریلیه کہتے ہیں کہ صفات باری کو نہ قائم بالذات کہا جا سکتا ہے اور نہ مُنفک عَنِ النَّاتِ جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ صفات باری عین ذات ہے.ذات باری سے کوئی الگ چیز نہیں گویا ما تریدیه اس نظریہ میں معتزلہ سے قریب تر ہیں جبکہ اشاعرہ کا نظریہ یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی ازلی صفات بھی غیر ذات ہیں لیکن قائم بالذات ہیں.اس سے منفک نہیں ہو سکتیں.ماتریدیہ قرآن کریم کو غیر مخلوق مانتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ حادث ہے کو یا وہ خلق اور حدث کے مفہوم میں فرق کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نہ مخلوق ہے اور نہ حادث بلکہ وہ قدیم ہے.معتزلہ کے نز دیک قرآن کریم یا بالفاظ دیگر کلام الہی مخلوق اور حادث ہے اور اسے قدیم کہتا عیسائی ذہن کی پیداوار ہے.یوحنا و مشتقی جو بنو امیہ کے زمانہ میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا وہ اپنے پیروؤں کو کہا کرتا تھا کہ جب تم سے مسلمان پوچھیں کہ تم مسیح کو کیا مانتے ہو تو جواب میں کہا کرو کہ ہم مسیح کو کلمتہ اللہ مانتے ہیں اور تمہارا بھی ایمان ہے کہ کلمہ قدیم ہے.تا ہم اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کی بحث دراصل نزاع لفظی ہے لیکن اس نظریہ کے اظہار پر پہلے معتزلہ کو بے حد تنگ کیا گیا ان کے خلاف قتل النساء : ١١٧ الحشر: ۲۵ الرعد: ۳۲ الانبياء : ۲۳
کے فتوے دیئے گئے.'' پھر جب معتزلہ کی باری آئی اور انہیں بنو عباس کے دربار میں رسوخ حاصل ہوا تو انہوں نے بھی بدلہ اتارنے میں حد کر دی اس طرح امت مسلمہ ایک لفظی نزاع کے سلسلہ میں بڑے لمبے عرصہ تک دست وگر یہاں رہی.قتل و غارت اور تعذیب و تحقیر کا بازارگرم رہا.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - بعض محدثین کے نزدیک یہ بحث کہ قرآن کریم مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ ایجا د بندہ اور بد عت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کے دور میں ایسی بحث کہیں سننے میں نہیں آئی تھی پس یہ ایک کھلی بدعت ہے.وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ماترید یہ عقل کو بھی خاصی اہمیت دیتے ہیں اور جہاں عقل و نقل میں بظا ہر تعارض نظر آئے وہاں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات تاویل سے بھی کام لے لیتے ہیں.علامہ ماتریدی کا کہنا ہے کہ نظر وفکر اور عقل و مدیر سے انکار کیسے ممکن ہے جبکہ خود خدا با ر با رنظر وفکر اور عبرت و موعظت کی تلقین کرتا ہے البتہ جو شخص قرآن وحدیث یعنی نقل سے آزاد ہو کر صرف عقل پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کے بل بو نہ پر حکمت باری کا احاطہ کرنا چاہتا ہے وہ جادۂ حق سے ہٹنے کی جرات کرتا ہے اور عقل سے ایسا کام لینا چاہتا ہے جس کی وہ تعمل نہیں ہو سکتی اس لئے وہ بھی عقل پر ظلم کرتا ہے.بہر حال ماتریدیہ کے ہاں نقل اور عقل روایت اور درایت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے.اشاعرہ روایت کو درایت پر ترجیح دیتے ہیں جہاں انہیں بظاہر عقل ++ قَالَ لِمَالِكِ رَجُلٌ مَا تَقُولُ فِيمَن قَالَ الْقُرْآنَ مَخْلُوقَ ، فَرَدَّ زِنَلِيقٌ كَافِرٌ اقْتُلُوهُ....وَكَانَ يَقُولُ مَنْ قَالَ الْقُرآنُ مَخْلُوق يُوجَعُ ضَرْبًا وَيُحْبَسُ حَتَّى يَتُوبَ مالک بن انس صفحه ۱۷ عبد الحليم الجندى مطبوعه دارالمعارف القاهره (۱۹۸۳ء) یہ صرف فتوی نہ تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا.مثلاً امام سمعون جو امام مالک کے بڑے مقرب شاگر دیکھے اور مبصر میں مالکی مذہب کے امام تھے.انہوں نے ابن ابی الجواد کو اتنے کوڑے مروائے کہ وہ مر گئے الزام صرف یہ تھا وہ قرآن کریم کو مخلوق مانتے تھے.اسی الزام میں امام مالک کے شاگر د بہلول بن راشد کو کوڑے لگوائے گئے اور ان کے دوسرے شاگرد بهلول بن عمر الحبیبی جب فوت ہوئے تو ان کے جنازہ پر پتھراؤ کیا گیا اور ان کی نعش کو ایک وادی میں پھینکوا دیا گیا.الاسلام والحضارة العربية جلد ۲ صفحه ۷۸ ۷۹ محمد كرد على مطبوعه لجنة التاليف والترجمة والنشر القاهره مصر طبع ثالث ١٩٦٨ء )
اور نقل میں قضا نظر آئے وہاں وہ عقل کو نظر انداز کر دیں گے اور نقل یعنی روایت کو تسلیم کر لیں گے بشر طیکہ اس کی سند صحیح ہوا اور راوی ثقہ ہوں.معتزلہ عقل کی حکمرانی کے قائل ہیں نقل کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے جہاں انہیں بظاہر عقل اور نقل میں تضا نظر آئے تو وہ فقل کی تاویل کریں گے یا نقل کو نظر انداز کر دیں گے خواہ سند کے لحاظ سے وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو.لے سلفیه سلفیہ سے مرا داہل السنت والجماعت کا وہ گروہ ہے جو اسلام یعنی صحابہ اور تابعین کے مسلک پر گامزن ہونے کا دعویدار ہے.اس گروہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ نئے نئے نظریات اور ان کی تشریحات میں نہیں پڑتے بلکہ ان سب سوالوں کو حوالہ بخدا کرتے ہیں جو مسائل دینیہ کے بارہ میں ذہنوں میں ابھرتے ہیں.سلفیہ تقلید کے بھی خلاف ہیں وہ فقہی مسائل میں کسی امام فقہ کی پیروی نہیں کرتے تا ہم حضرت امام احمد بن حنبل کی آراء کو وہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں امام ابن تیمیہ اس مسلک کے بڑے سرگرم داعی تھے.موجودہ اہلحدیث جنہیں عوام وہابی کہتے ہیں اپنے آپ کو سلفیہ میں ہی شمار کرتے ہیں.دلائل کے مختلف انداز سلفیہ دلائل کے اس انداز کے بھی خلاف ہیں جو قرآن وحد بیث سے ماخوذ نہ ہو بلکہ عقلی اور فلسفی علوم پر اس کی بنیا دہو.اس کی وضاحت یوں ہے کہ علماء متکلمین نے نظریات اور دینی مسلمات کے اثبات کے لئے بالعموم پانچ انداز اختیار کئے ہیں.فلاسفہ اسلام کا انداز.معتزلہ کا انداز.ماتریدیہ کا انداز.اشاعرہ کا انداز.سلفیہ کا انداز.فلاسفہ کا انداز یہ ہے کہ عقائد اور مافوق الطبعیہ مسلمات کے اثبات کی بنیا دیر بان منتقلی پر رکھی جائے کیونکہ یقین اسی طرح حاصل ہوتا ہے کہ عقل ان کی صحت کو تسلیم کرے.ان کے نز دیک قرآن کریم کا انداز خطابی ہے جس سے عوام تو مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن اہل بصیرت کی اس سے تسلی ↓ تاريخ المذاهب الاسلامية.صفحه ۲۳۸
تاریخ افکا را سلامی Fr نہیں ہوتی اس لئے عقلی دلیل کا تتبع ضروری ہے.معتزلہ کا انداز فلاسفہ کے انداز سے ملتا جلتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ عقائد کے اور اک اور اثبات کے لئے براہین عقلی کی ضرورت ہے.تاہم قرآن کریم اور احادیث سے ان دلائل کی تائید حاصل کی جانی چاہیے لیکن جہاں نقل اور عقل میں اختلاف ہو وہاں عقل کو تر جیح ہوگی اور نقل کی تاویل کی جائے گی.ماتریدیہ کا انداز یہ ہے کہ عقائد کے اثبات اور ادارک کی بنیا د نقل یعنی قرآن کریم اور احادیث پر ہے تاہم ان کی تائید میں عقلی دلائل کی جستجو بھی ضروری ہے کیونکہ عقلی اطمینان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اشاعرہ کا انداز یہ ہے کہ عقائد کے اثبات کے لئے نقل یعنی قرآن و سنت کو اصل بنیاد بنایا جائے.اگر عقل کی تائید بھی حاصل ہو جائے تو چشم ما روشن دل ما شا د اور اگر عقلی دلائل کی تائید میسر نہ آسکے تو پر واہ نہیں.ترجیح بہر حال نقل کو حاصل ہے اور عقلی پہلو کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے.سلفیہ کا اندازان چاروں سے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ عقائد کے اثبات کے لئے نقل کافی ہے یعنی جو کچھ قرآن وسنت میں آیا ہے اس پر اکتفا کرنا چاہیے فلسفی یا منطقی انداز بدعت ہے کیونکہ ++ سلف صالحین نے یہ انداز اختیار نہیں کیا تھا اس لئے ہم بھی اس انداز کو اختیار نہیں کر سکتے.سلفیہ کی امتیازی خصوصیات سلفیہ ان تمام اسماء صفات اور احوال کو بلاتا ویل درست مانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم یا احادیث میں آیا ہے یہی وجہ ہے کہ سلفی خدا کے چہر ہ ، ہاتھ اور آنکھے اور اس کے استولى على الْعَرْشِ يَا نُزُولُ إِلَى السَّمَاءِ الاول - اس کی محبت اس کے غضب وغیرہ کوائف کو کسی قسم کی تاویل کے بغیر ظاہر کے مطابق درست تسلیم کرتے ہیں.اس سلسلہ میں امام بن تیمیہ لکھتے ہیں.سلف صالحین کا مسلک ان احوال الہی کے بارہ میں تجسیم اور تمثیل کے بین بین ہے.وہ خدا کے چہرے اس کے ہاتھ اس کی آنکھوں اس کے فوق اور اس کے نزول وغیرہ کو بلا کیف مانتے ہیں.وہ کہتے ہیں خدا نے اپنی جو صفات قرآن کریم میں
FF بیان کی ہیں یا اس کے رسول نے ان کی جو تشریح اور توضیح کی ہے ہمیں اسی حد تک محدود رہنا چاہئے.یہ کوشش کرنا کہ ان کی تاویل کی جائے اور اس کے لئے مجاز و استعارہ کا سہارا لیا جائے بے راہ روی کے مترادف ہے کیونکہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خدا آسمان پر نہیں.عرش پر نہیں اور نہ یہ کہا ہے کہ خدا نہ عالم ارضی میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج ہے نہ متصل ہے نہ منفصل، نہ اس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اور نہ وہ نظر آسکتا ہے یہ سب تو جیہات بعد کی پیدا وارا اور بدعت ہیں.دوسرے علماء اہل السنت نے کہا ہے کہ سلفیہ کا یہ انداز فکر خدا کی تقسیم کو مستلزم ہے کیونکہ جب اس کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ جسم ہوا.اسی طرح یہ کہنا کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اس لئے خدا کا منہ بھی ہے ، دانت بھی ہیں، جبڑے بھی ہیں ، آنکھیں بھی ہیں، ہاتھ اور انگلیاں بھی ہیں سینہ، ران، پنڈلی اور پاؤں بھی ہیں تو پھر تقسیم میں کون سی کمی رہ گئی.بھلا ان باتوں کی کون سی نعلی دلیل موجود ہے کہ بید، ساق، وجہ اور غین وغیرہ کے الفاظ کا ظاہری مفہوم لیا جائے.وہ یہ نہیں جانتے کہ کلمات کا ایک طرح ہی استعمال نہیں ہوتا.مجاز اور استعارہ کے رنگ میں بھی ان کا استعمال متداول اور متبادر ہے.اس سلسلہ میں امام غزالی لکھتے ہیں کہ ایک لفظ کے اصلی اور مجازی دونوں معنوں سے ایک عربی نژاد آشنا ہوتا ہے.مثلاً یہ مل کا ایک معنی تو انسان کا عضو ہے جو گوشت پوست ، ہڈی ، رگ وریشہ وغیرہ اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے اس کا طول بھی ہوتا ہے اور عرض بھی تعمق بھی ہوتا ہے اور حجم بھی.اس لحاظ سے یہ جسم ہے.ید کے دوسرے معنی جس سے ہر عربی نژا د بلا کسی دقت اور ابہام کے واقف ہوتا ہے.تسلط، غلبہ، طاقت، گرفت اور قبضہ کے ہیں مثلاً جب کہا جائے کہ السلمة في يد الامير تو اس جملہ کا مفہوم سمجھنے میں کسی عربی دان کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی.یہاں تک کہ اگر امیر کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے بھی ہوں تب بھی یہ جملہ صحیح ہوگا اور یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ امیر کے تو ہاتھ ہی نہیں پھر شہر اس کے ہاتھ میں کیسے ہو سکتا ہے.پس جب وضع اور مجاز کا اس طرح چولی دامن کا ساتھ ہے اور اسے ہر زبان دان جانتا ہے تو پھر یہی طرز فکر اسماء الہی کے بارہ میں کیونکر ممنوع اور بدعت ہو سکتی ہے مثلاً جب اللہ نے فرمایا
تاریخ افکا را سلامی " يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.تو وہاں موجود کسی عربی کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ خدا کا اس طرح کا ہاتھ ہے جس طرح ایک انسان کا ہوتا ہے بلکہ سب نے یہی سمجھا اور درست سمجھا کہ بد الله “ سے اس جگہ مراد اس کی نصرت اور تائید ہے.یہ مراد نہیں کہ خدا کا کوئی ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا تھا یا محمد صلی اللہ علیہ سلم کے ہاتھ میں اللہ تعالی کا ہاتھ سما گیا تھا.بہر حال ہر زبان میں جہاں حقیقت اور وضعی معنویت ہوتی ہے وہاں مجاز اور استعارہ کا مفہوم بھی مروج اور سہل الفہم ہوتا ہے اور اہل زبان دونوں انداز کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور کسی دقت کا انہیں سامنا نہیں کرنا پڑتا.پس سلفیہ کا یہ انداز فکر درست نہیں بلکہ زبان کے اصول نہ سمجھنے کے مترادف ہے.سلفیہ تو حید پر بھی بڑا زور دیتے ہیں اسی تشدد کی بناء پر وہ فوت شدہ بزرگان سے تو شہل کرنا.ان کی قبروں کی زیارت کے لئے جانا اور وہاں جا کر اپنے لئے دعا کرنا ان کے خیال میں سب بدعات اور شرک سے قریب تر ہیں اس لئے ان سب باتوں سے بچنا چاہیے.خلاصہ یہ کہ سلفیہ ا کثر کلامی مسائل میں اشاعرہ سے قریب تر ہیں جبکہ ماتریدیہ معتزلہ کے زیادہ قریب ہیں ہے صوفیاء # باطنی عرفان پر زور دینے والے اور اس کے لئے مختلف ریاضتیں کرنے والے صوفی کہلاتے ہیں جو صوفیاء اتباع سنت کو ہر حال میں ضروری سمجھتے ہیں وہ اہل السنت والجماعت میں ہی شمار ہوتے ہیں.البتہ ان کا کہنا ہے کہ خشک دلائل دل میں محبت الہی پیدا نہیں کر سکتے اس لئے ظاہر کے ساتھ باطن کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ شرعی اعمال بجالانے میں خلوص، بے ریائی ، خشوع و خضوع ، محبت ، تقرب اور توجہ الی اللہ کی ترپ سے متصف ہونا دین کی اصل غرض ہے اور اس مقام کے حصول کے لئے خاص انداز کا ذکر اور فکر، مجاہدہ اور ریا ضت تقتل اور انقطاع مختلف قسم کے اوراد اور وظائف کی ضرورت ہے اور یہ مقام کسی مقرب الہی کی شاگردی اور اس کی صحبت ل الفتح ا حوالہ جات کے لئے دیکھیں.المذاهب الاسلاميه صفحه ۲۲۰ ۲۸۲۲ تلخيص - الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۷ تا ۲۸۷ تلخيص - اعتقادات فرق المسلمين و المشركين صفحه ۷۴۲۶۶ تلخيص
تاریخ افکا را سلامی ۳۵ میں رہے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا لیکن دوسرے مسلک کے علماء خاص طور پر سلفیہ کے اس انداز پر یہ اعتراض ہے کہ معرفت الہی اور محبت و اخلاص میں صحابہ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے.انہوں نے تو اس قسم کے مجاہدے اور مراقبے نہیں کئے تھے اور ایسے اوراد و وظائف کو دستور زندگی نہیں بنایا تھا اس لئے یہ سب باتیں سلف صالحین کے طریق کے خلاف اور بدعت ہیں.پس پیر پرستی کے ایسے تصورات سے بچنا چاہیے اور قرآن وسنت کو اپنا دستور زندگی بنانا چاہیے.ا تا ہم موجودہ زمانہ کے صوفیاء اور تصوف کے سلسلے خاص طور پر برصغیر ہند و پاک کی خانقاہی زندگی کے لیل و نہار ایسی بدعات عجیبہ سے بھر پور ہیں جن کا انا پتا نہ سنت نبوی میں ملتا ہے اور نہ صحابہ کی زندگی میں نظر آتا ہے.مثلاً قتل، چہلم اور عرس منانا ، گیارھویں اور نذرونیاز کی رسمیں بطور خاص مزارات کی زیارت کے لئے جانا ، ان کے عرس پر جانا ، اولیاء اللہ کی قبروں سے حاجات طلب کرنا ، میلا د پڑھنا، سلام پڑھتے ہوئے یہ سمجھ کر اچانک کھڑے ہو جانا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے آئے ہیں، اسی طرح آنحضرت ﷺ کو حاضر وناظر اور عالم الغیب جاننا.یہ سب بدعات اس زمانہ کے تصوف کا حصہ بن گئی ہیں اور ان رسموں کا نام عشق رسول ﷺ اور محبت الہی رکھ دیا گیا ہے.معرفت الہی اور عرفان ازلی کی بھلا یہ کون سی راہ ہے جس کی طرف قرآن وسنت میں اشارہ کیا گیا ہو.برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر تصوف کے مندرجہ ذیل سلسلے زیادہ مشہو را اور معروف ہیں.چشتیہ، سہروردیہ قادریہ، نقشبندیہ اور قلندریہ.چشتیہ کے مشہور صوفیاء جو بر صغیر پاک و ہند میں معروف ہیں یہ ہیں.خواجہ فرید الدین شکر گنج پاک چینی ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ، خواجہ علی الہجویری المعروف به دا تا گنج بخش" لاہوری ، خواجہ نظام الدین اولیا ء دہلوی، خواجہ قطب الدین بختیار کا کی خواجہ عثمان تونسوی، خواجہ غلام فرید چاچڑا نوائے.سہروردیہ کے مشہور بزرگ خواجہ بہاء الدین زکریا ملتانی - خواجہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت اُچ شریف ضلع ملتان.
تاریخ افکا را سلامی قادریہ کے مشہور بزرگ خواجہ محی الدین سید عبد القادر جیلانی " الملقلب به غوث اعظم.نقشبندیہ کے مشہور بزرگ خواجہ باقی باللہ دہلوی اور خواجہ شیخ احمد مجددالف ثانی سرہندی.قلندریہ کے مشہور بزرگ بو علی قلند ر پانی پتی.
تاریخ افکار را سلامی ۳۷ معاشرت اور ثقافت.تمدن اور تفقہ کا ارتقاء (مجہتدین دین ) عہد صحابہ میں عرب کے علاوہ فارس ، شام، فلسطین اور شمالی افریقہ کے بعض اہم حصے فتح ہو چکے تھے اور مسلمانوں نے ان علاقوں پر مضبوط کنٹرول حاصل کر لیا تھا.اس طرح جہاں مجاہدین اسلام مملکت کی وسعت اس کے استحکام اور اس میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے کوشاں تھے وہاں دوسری طرف صاحب علم صحابہ مملکت کے اند را سلامی علوم کی بنیا دوں کو وسیع اور مضبوط کرنے میں لگے ہوئے تھے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لئے کوشاں تھے.چنانچہ جن صحابہ کے علمی اور ثقافتی کارناموں کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے ان میں خلفاء اربعہ کے علاوہ حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو موسیٰ اشعری کے علاوہ امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ام سلمہ تفقہ اور تمدنی مسائل میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے.دوسری طرف حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابوسعید الخدری اور حضرت جابر بن عبد اللہ وغیرہ صحابہ احادیث اور تاریخی روایات کو محفوظ کرنے میں بڑی شہرت کے مالک تھے.صحابہ کی علمی اور فقہی بنیا د قرآن کریم اور سنت نبوی تھی اور جن مسائل کی تصریح ان کو قرآن و سنت میں نہ ملتی اُن کے حل کے لئے وہ مصلحت اُمہ کو سامنے رکھ کر اجتہاد اور رائے سے کام لیتے اور الصَّحَابِى كُلُّ مُسْلِمٍ رَأى النبي الله وطَالَتْ صُحبته النبي الله وَانتَقَلَ النَّبِي إِلَى الرَّفِيقِ الأعْلَى وَبِالْمَدِينَةِ مِنَ الصَّحَابَةِ كَثِيرُونَ نَحْوَ عَشَرَةُ آلاف.وَالالْفَانِ الْآخَرَانِ تَفَرَّقَا فِي الْأَمْصَارِ وَقِيلَ الصَّحَابِى كُلُّ مُسْلِمٍ رَأَى النَّبِيُّ وَلَوْ سَاعَةَ أَوْ رَأَهُ النَّبِيُّ وَلَوْ صَبِيًّا وَ بِهَذَا التَّعْرِيفِ كَانَ عَدَدُهُمْ عِندَ وَفَاتِهِ مِائَةَ الفِ َواَرْبَعَةٌ وَعِشْرِينَ الفا مالک بن انس صفحه ۱۶۹ الاسلام والحضارة العربية جلد اوّل صفحه ۱۵۱، بحواله تاريخ ابى الفداء ابن عمر استاذ مدرسہ مدینہ، ابن عباس استاذ مدرسہ مکہ اور ابن مسعود استاذ مدرسہ کوفہ مانے گئے ہیں.مالک بن انس صفحہ ۲۰۹
تاریخ افکا را سلامی PA اس کے لئے زیادہ تر اجتماعی مشورہ کا طریق اختیار کرتے.صحابہ کے بعد جن تابعین نے علمی خدمات سرانجام دیں ان میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے علاوہ مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ اور دوسرے علاقوں کے بعض سر بر آوردہ اصحاب علم خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ سے مرادمندرجہ ذیل کبار تا بعین ہیں.ا حضرت سعید بن المسیب (متوفی ۹۳ھ) یہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے شاگرد اور حضرت ابو ہریرہ کے داماد تھے.بڑے مشہور محدث اور ابن شہاب زہری اور ربیعہ الرائے کے استاد مانے جاتے تھے.-۲ حضرت ابو بکر بن عبید الله بن الحارث (متوفی ۹۴ھ) یہ حضرت عائشہ صدیقہ کے شاگرد تھے اور مانے ہوئے فقیہ تھے.حضرت عروہ بن زبیر (متوفی ۹۴ھ) حضرت عائشہ کے بھانجے شاگر داور کو دیا لک تھے.- حضرت قاسم بن محمد بن ابي بكر الصديق (متوفی ۱۰۸ھ) یہ حضرت عائشہ صدیقہ کے بھتیجے ، کو دیا لک اور شاگرد تھے.بڑے محدث اور صائب الرائے فقیہ مانے جاتے تھے.حضرت عمر بن عبد العزیز فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے بنوامیہ کی مخالفت اور ان کی طرف سے فساد کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنے بعد قاسم کو اپنا جانشین نامزد کرتا کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اس مقام کے اہل ہیں لے ۵.حضرت عبید اللہ بن عبد الله بن عتبہ بن مسعود (متوفی ۹۹ھ) یہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عباس کے شاگرد اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے استاد تھے.حضرت سلیمان بن سیار (متوفی (۱۰۰) حضرت میمونہ کے مولیٰ حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کے شاگرد تھے.امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ صدیقہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ سے بھی شرف تلمذ حاصل تھا.حضرت خارجہ بن زید بن ثابت مسوقى ١٠٠ھ) اپنے والد کی طرح بڑے پائے محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه.صفحه ۲۲۰
تاریخ افکا را سلامی ٣٩ کے فقیہ اور مجتہد تھے اپنے باپ سے ہی علم حاصل کیا تھا.مسائل و رافت اور تقسیم اراضی کے کام کے ماہر اور مرجع الناس تھے اور اپنے والد کی طرح میدان علم کے شناور تھے.ان فقہائے سبعہ کے علم کو ابن شہاب زہری، ربیعہ الرائے اور بعض اور علما ءمدینہ نے عام کیا.ابن شہاب زہری اور ربیعہ الرائے تو حضرت امام مالک کے خاص استاد تھے.ان کے علاوہ سالم بن عبد الله بن عمر ، یحیی بن سعید انصاری بھی مدینہ منورہ کے سر بر آوردہ فقہا میں شمار ہوتے تھے.حدیث اور فقہ کے لحاظ سے مکہ میں عطاء بن ابی رباح، عراق اور کوفہ میں ابرا ہیم نخعی ، علقمہ مولیٰ ابن عباس ، حماد بن ابی سلیمان اور امام شعبی بڑے پائے کے محدث اور فقیہ سمجھے جاتے تھے.حماد تو امام ابوحنیفہ کے خاص استاد تھے انہی سے آپ نے علم فقہ کی تربیت پائی تھی.شام کے علاقہ میں امام اوزاعی.بصرہ میں حضرت حسن بصری اور یمن میں طاؤس بن کیسان کا شمار بھی خاص علماء اور کبار تابعین میں ہوتا تھا.تابعین کے زمانہ میں قرآن وسنت کے علاوہ اقوال صحابہ اورا جماع کو بھی بالعموم شرعی ماخذ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا.غرض ان بزرگوں کی کوششوں سے اسلامی تہذیب و تمدن اور علم وفقہ کی رفتار تیزی سے بڑھنے لگی.موالی اور خدمت علم یہی وہ دور ہے جس میں تمدنی اور علمی لحاظ سے معاشرہ میں مسلم موالی کا اثر ورسوخ بھی بڑھا.موالی سے مراد وہ نجمی عناصر تھے جو مختلف جنگوں میں قید ہوئے.پھر آزاد اور مسلمان ہو کر عربوں میں رچ بس گئے یا کسی عرب کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے اور اس کی حمایت کے اندر آگئے یا کسی عرب قبیلہ سے عقد موالات باندھ کر باہمی مناصرت اور ایک دوسرے کی مدد کے معاہدہ میں آگئے اور اس طرح مسلم معاشرہ کا حصہ بن گئے.اس دور میں عربوں کی اکثریت وسیع اسلامی مملکت کی حفاظت اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھی.اس لئے علمی اور تدریسی خدمات کی طرف وہ بہت کم توجہ دے سکے.اس کے بالمقابل ذہین موالی نے اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور دینی اور علمی جد وجہد کے خوب جوہر دکھائے.اس وقت
تاریخ افکا را سلامی علمی میدان میں موالی کا اثر و رسوخ کس قدر وسیع تھا اُس کا اندازہ اس مکالمہ سے ہوتا ہے جو بنوامیہ کے چوتھے خلیفہ عبدالملک بن مروان اور مشہور محدث ابن شہاب زہری کے درمیان ہوا.لے ایک دفعہ امام زہری عبدالملک کے دربار میں گئے.عبدالملک نے پیر سبیل تذکرہ باتوں باتوں میں امام زہری سے پوچھا:.عبدالملک.اس وقت مکہ مکرمہ میں استادالعلماء اور سب سے بڑا عالم کون سمجھا جاتا ہے؟ زہری - عطاء بن ابی رباح - ع.یہ مولیٰ ہے یا عرب ؟ ز مولی ہے.ع.اس نے یہ مقام کیسے حاصل کیا ؟ ز قرآن وسنت کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینے کی وجہ سے.ع.یمن میں اس وقت کے لحاظ سے کسے شہرت حاصل ہے اور کسے استاذ العلماء سمجھا جاتا ہے؟ ز - طاؤوس بن کیسان بڑے مقبول ہیں.ع - عرب ہے یا مولی؟ ز مولی ہے.ع.مصر میں اس وقت سب سے بڑا عالم اور استاذالعلماء کسے سمجھا جاتا ہے؟ ن یزید بن حبیب ع - عرب ہے یا مولی ؟ ز مولی ہے.ع.یہ بتاؤ کہ شام میں کون امام اور استاذ العلماء ہے؟ ز یکحول.ع - عرب ہے یا مولی؟ ز مولی ہے.بعض نے لکھا ہے کہ یہ مکالمہ زہری اور ہشام بن عبدالملک کے درمیان ہوا.ابو حنیفہ صفحہ ۲۵
تاریخ افکار را سلامی ع جزیرے اور بحرین کا کون امام ہے؟ ن مامون بن مہران - ع - عرب ہے یا مولی؟ ز مولی ہے.ع - خراسان کا امام اور استاذ العلماء کیسے سمجھا جاتا ہے؟ ز - ضحاک بن مزاحم.ع - عرب ہے یا مولیٰ ؟ ز مولی.ع.بصرہ کا امام الناس کے سمجھا جاتا ہے؟ ز حسن بصری ع.عرب ہے یا مولی؟ زمولی عبد الملک جھنجھلا کر چیخ اٹھا بس مولی مولیٰ ہی کی رٹ لگائی ہوتی ہے کیا کوئی عرب امامت علم کے مقام پر نہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ کہ مدینہ منورہ اور کوفہ کے امام الناس اور استاذ العلماء کون ہیں؟ زہری نے جواب دیا مدینہ کے سعید بن المسیب اور کوفہ کے ابراہیم نخعی اور دونوں عرب ہیں.عبد الملک بے اختیار چلایا الحمد للہ کہیں تو عربوں کی علمی امامت بھی ہے اگر اب بھی تو کسی مولی کا نام لیتا تو شاید غم سے میرا کلیجہ پھٹ جاتا.پھر عبدالملک نے حاضرین دربار سے مخاطب ہو کر کہا وہ زمانہ قریب ہے کہ جبکہ موالی رشد و ہدایت کی مسند پر سرفراز ہوں گے اور عرب ان کے قدموں میں فرش پر بیٹھے ان کا خطاب سن رہے ہوں گے.امام زہری نے عبدالملک کی جھنجلا ہٹ کو محسوس کرتے ہوئے بڑے ادب سے کہا.امیر المومنین ! یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو بھی دین کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہو گا خواہ وہ عربی ہو یا عجمی وہی دین
تاریخ افکا را سلامی ۴۲ کا امام اور لوگوں کا مقبول استاد ہو گا اور دوسرے اس کے پیچھے چلنے والے ہوں گے.لے حضرت عبداللہ بن عباس حضرت علی کی طرف سے بصرہ کے والی تھے جب بھی امام الجزیرہ میمون بن مہران کے بھائی محدث ابو العالیہ رفیع بن مہران اُن سے ملنے آتے تو وہ ان کو اپنے پاس مسند پر بٹھاتے جبکہ سرداران عرب فرش پر بیٹھے ہوئے ہوتے تھے.آپ فرماتے - هكلما العلم يَزيدُ الشريف شرفات حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین بھی موالی میں سے تھے اور اپنے علم وزہد کی وجہ سے سید العلماء سمجھے جاتے تھے.حضرت عبداللہ بن مبارک کے والد مولی اور مر د کے رہنے والے تھے.ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رقہ آئے.ہارون الرشید بھی ان دنوں وہاں تھا.حضرت عبداللہ کے استقبال کے لئے ایک دنیا ٹوٹ پڑی.اتنی بھیڑ تھی کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا.ہارون کی بیوی نے یہ دیکھ کر کہا خدا کی قسم ! استقبال اسے کہتے ہیں حکومت اس کا نام ہے نہ کہ ہارون الرشید کی حکومت جس کے استقبال کے لئے لوگوں کو پولیس اور افسران حکومت کی مدد سے اکٹھا کیا جاتا ہے.تبع تابعین کے دور میں علوم دینیہ کی تدوین کی طرف توجہ مبذول ہوئی.خاص طور پر حدیث اور فقہ کی تدوین کا آغاز اسی دور میں ہوا اور اسی زمانہ میں فقہ کے مشہور ائمہ اور ان کے قابل شاگردوں نے تہذیب و تمدن کے استحکام کے لئے قانونی نظام کو مرتب کرنے کی طرف توجہ مبذول کی اور سلسلہ تصانیف کی ابتدا ہوئی.معاشرتی اور عائلی مسائل کے لئے احکام شریعت کو واضح شکل دینے کی کوشش کی گئی.ھے ا مقدمة ابن الصلاح صفحه 199 النوع الرابع والستون، معرفة الموالى من الرواة والعلماء، معرفة علوم الحديث للحاكم صفحه ۱۹۸ تذكرة الحفاظ للذهبي صفحه ۱۲۰ كَانَ أَبُو عَبْدِ اللهِ تَرَكِيَّا وَ أُمُّهُ خَوَارزَميَّة ( ابو حنيفة صفحه ۱۱۵) سیر اعلام النبلاء جلد ۸ صفحه ۳۸۷- تاریخ بغداد للخطيب جلده ۱ صفحه ۱۵۶ ه بَدَأَ تَدْوِينُ الْفِقْهِ عَلَى نِطَاقٍ وَاسِعِ بِعَمَلِ أَبِي حَنِيفَة وَ عَلَى نِطَاقٍ ضَيْقٍ فِي مُوَطًا مَالِكِ فِي النَّصْفِ الْأَوَّلِ مِنَ الْقَرْنِ الثاني الامام الشافعي صفحه (۹۲)
تاریخ افکار را سلامی مسلمان اور سیاسی مسائل تا ہم سیاسی مسائل کے حل کے لئے اس زمانہ کے مسلم علماء کوئی موثر نظام ترتیب نہ دے سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور کے تربیت یافتہ صحابہ نے انتخابی طرز حکومت کا آغاز کیا تھا اور اس کی بنیا دپر خلافت راشدہ کا دور شروع ہوا لیکن چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ کی شہادت کے بعد نہ یہ اصول انتخاب باقی رہا نہ صحیح انتخاب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے عوام کی تربیت کا کوئی بہتر اور نتیجہ خیز نظام جاری ہوا اور نہ کوئی مؤثر ادارہ انتخاب تشکیل پاسکا.شیعہ ذہن رکھنے والے حضرات نے قدیم ایرانی اثرات کے تحت ولایت مسلمین کے لئے وراثت اور قدامت کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ خلافت کا حق وراثتاً اہل بیت رسول کو پہنچتا ہے.کسی دوسرے کے لئے یہ حق نہ تسلیم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کے انتخاب کا سوال پیدا ہوتا ہے.اسی رجحان کے فروغ سے بنو امیہ نے فائدہ اٹھایا اور پرانے شاہی وراثتی نظام حکومت کے رواج کو اختیار کیا جس کے لئے تغلب ، استحصال اور ظلم واستبدا و ضروری ہے.چنانچہ ظلم و ستم کے ہر اُس ذریعہ کو کام میں لایا گیا جس سے ان کے تسلط اور اقتدار کو استحکام مل سکتا تھا.بنو اُمیہ کے بعد بنو عباس بھی اسی طرز حکومت پر عمل پیرا رہے.فقہاء اسلام اور علماء سیاست کے نزدیک اگر چہ علمی لحاظ سے خلافت راشدہ کا انتخابی طریق ہی صحیح اصل تھا لیکن چونکہ حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے تغلب اور استبداد کا مجمی طریق مستحکم ہو چکا تھا اور انتخاب کے تقاضوں کے مطابق عوام کی تعلیم وتربیت کا معقول انتظام نہیں ہو سکا تھا.اس لئے امت کی مجموعی مصلحت اور فتنہ وفساد اور خون ریزی سے بچنے کے لئے بحالت مجبوری علماء نے تغلب اور توارث کے اصول حکمرانی کے جواز کا فتویٰ دیا.ان کا کہنا تھا کہ ایک قائم شدہ حکومت کے خلاف علاقائی بغاوتوں میں حصہ لینا درست نہیں.اس سے امن وامان بر باد ہوتا ہے.فتنہ وفساد کو فروغ ملتا ہے تباہی اور بربادی کا ایک تسلسل جاری ہو جاتا ہے.یہ تمدنی اور علمی ترقی رک جاتی ہے ذہنی جمود اور مایوسی کی فضا پیدا ے چنانچہ علماء نے لکھا ہے الفتن يحدث فيها مظالم لا تحصى اذ تعم الفوضى وَ فَوْضَى ساعة تسكب فيها من المظالم ما لا يُرْتَكبُ في استبداد سنين" (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۲۲۰)
تاریخ افکا را سلامی ۴۴ ہو جاتی ہے.اس لئے عام ملکی قانون میں حکام وقت کی اطاعت کرنی چاہیے.اسی طرح یہ بھی جائز سمجھا گیا کہ عام فقہاء اور علماء ایسی حکومت کے مناصب قبول کر سکتے ہیں تا کہ وہ عوام کی مناسب مدد کر سکیں اور ممکن حد تک انہیں انصاف میسر آسکے ورنہ تو وہ مناصب لالچی، ظالم اور خدا ناترس امراء قبول کر لیں گے جس کی وجہ سے عوام کے حقوق اور زیادہ تلف ہوں گے اور ان کی تباہی اور بربادی میں مزید اضافہ ہوگا.چنانچہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمتہ اگر چہ بنوامیہ اور بنو عباس کی حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ علوی خاندان کے متقی اور بزرگ افراد کو یہ منصب ملے لیکن اس کے باوجود آپ نے کسی شورش میں عملی حصہ نہیں لیا.حکومت کے مناصب کو بوجوہ خود تو قبول نہیں کیا لیکن ان علماء اور فقہاء کی کبھی تنقیص بھی نہیں کی جو حکومت کے مختلف مناصب پر فائز تھے.اس کے ساتھ ہی اپنے شاگردوں کو اس غرض کے لئے تیار کیا کہ وہ حکومت کی مختلف اہم ذمہ واریاں قبول کر سکیں.یہی حال حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا تھا.ان بزرگوں نے کبھی کسی شورش میں عملی حصہ نہیں لیا.اگر چہ حکومت کی کسی ذمہ داری کو بھی قبول نہیں کیا لیکن حکومتی مناصب قبول کرنے کے خلاف کوئی فتوی بھی نہیں دیا.ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے سوال کیا گیا کہ فتنہ پا کرنے والوں سے آپ لڑتے کیوں نہیں حالانکہ خدا کا حکم ہے کہ فتنہ کی روک تھام کے لئے تم جنگ کرو میں آپ نے جواب دیا ہم نے فتنہ مٹانے اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے بہت سی جنگیں لڑیں لیکن تم فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کو ہوا دینے کے لئے شورش بپا کئے ہوئے ہو اور اس بات کے لئے کوشاں ہو کہ اللہ کے دین کی بجائے کسی اور دین کسی اور کی اطاعت کو فروغ ملے ہے روایات میں آتا ہے کہ حضرت امام مالک خلفاء عباسیہ اور ان کے مقرر کردہ حکام کے پاس آیا جایا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی نے اعتراض کیا کہ آپ خلفاء اور امراء کے پاس آتے جاتے ہیں ل ان رأى اكثر العلماء وعلى رأسهم مالك ان الحاكم الظالم لا يصح الخروج عليه ولكن يسعى فى تغييره...من غير فتنة و لا انتقاض لأنه فى ضَجّة الفتن لا يسمع قول الحق (نفس المصدر) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِية (البقرة : ۱۹۴ و الانقال : ٤٠) وَأَنتُمْ تُرِيدُونَ أَن يَكُونَ الدِّينُ لِغَيْرِ الله ( مالک بن انس صفحه ۲۴۵)
تاریخ افکار را سلامی ۴۵ اور ان سے تعلقات رکھتے ہیں تو آپ نے جواب دیا زجنگ الله واين التكلم بالحق خدا تجھ پر رحم کرے اگر میں ایسا نہ کروں تو کہاں جاکر ان کے سامنے کلمہ حق کہوں اور فرمانِ رسول کے مطابق أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقِّ عِنْدَ سُلْطَان جَائِرِ کافریضہ سرانجام دوں لے.تاریخ گواہ ہے کہ اس زمانہ کے امراء کے سامنے کلمہ حق کہنے میں یہ بزرگ شمشیر بر ہنہ تھے.خلفاء عباسیہ بیعت لیتے وقت لوگوں کو طرح طرح کی قسمیں دے کر ان سے عہد لیا کرتے تھے کہ وہ بیعت نہیں توڑیں گے.ان قسموں میں ایک قسم یہ بھی تھی کہ اگر میں بیعت تو ڑوں تو میری ساری بیویوں کو تین طلاقیں اور آئندہ میں سال تک جس عورت سے بھی نکاح کروں اسے بھی تین طلاق ہوں.اس قسم کی لی گئی جبری قسموں کے بارہ میں امام مالک کا نظریہ یہ تھا کہ جبری طلاق واقعہ نہیں ہوتی اس وجہ سے مدینہ کے عباسی والی نے آپ کو گر فتار کر لیا.کوڑے لگوائے اور اتنی سختی کی کہ آپ کے کاندھے اتر گئے جس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے آپ کے ہاتھ بیکار ہو گئے.آپ انہیں نہ اوپر اٹھا سکتے تھے اور نہ چادر اوڑھ سکتے تھے.اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ آپ کو رسوا کرنے کے لئے اونٹ پر سوار کر کے مدینہ کی گلیوں میں پھرایا گیا.اس حالت میں بھی اونٹ پر سوار آپ بلند آواز سے کہتے جاتے تھے آلَامَـنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الإِصْبَحِي وَأَنَا أَقُولُ طَلاق المُكْرَهِ لَيْسَ بِشَيْءٍ " لوگو! پہچان لو میں مالک بن انس ہوں اور علی الاعلان کہتا ہوں کہ جبر سے لی گئی طلاق کچھ بھی نہیں ہے وہ بے اثر اور لغو ہے.کے علماء نے وضاحت کی ہے کہ امام مالک کا یہ موقف اس بنا پر نہیں تھا کہ آپ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کو جائز سمجھتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک یہ ایک شرعی مسئلہ تھا جس کو آپ صحیح مجھتے تھے اور اس کے اظہار کو اپنا حق جانتے تھے.کے آپ کا یہی صدق و ثبات تھا کہ خلفاء عباسیہ مالک بن انس صفحه ۲۵۵ مالک بن انس صفحه ۲۳۸ ے اس واقعہ کی کچھ مزید تفصیل حضرت امام مالک کے سوانح میں بھی آ رہی ہے.فَمَا لِكَ لَا يَرَى الْخُرُوجَ عَلَى الْإِمَامِ الْجَائِرِ كَمَا يَرَى الْخَوَارِجُ وَلَا يَرَى سَلُّ السَّيْفِ فِي سَبِيْلِ الأمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهَى عَنِ الْمُنكَرِ كَمَا يَرَى الْمُعْتَزِلَةُ وَ مَالِكَ يَسُدُّ الدَّرَائِعَ إِلَى الْفِتْنَةِ وَيَرَى أَنَّ الدُّنْيَا يَصْلُحُهَا السَّلامُ (أى آلَا مَنْ ) ( مالک بن انس صفحه (۳۳۵)
تاریخ افکا را سلامی اس زمانہ کے سر بر آوردہ علماء سے تعلقات استوار کرنے کو غنیمت جانتے تھے اور اس بات کے لئے کوشاں رہتے کہ ان کی خوشنودی حاصل رہے.چنانچہ امام مالک کی روایت ہے کہ ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے آپ کو بلا بھیجوایا آپ نے سمجھا ضرور کوئی شکایت ہوئی ہے اور خیر نہیں.آپ جب منصور کے ں پہنچے تو دیکھا کہ منصور کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ غضب سے بھرا بیٹھا ہے وہاں مدینہ کے دو اور سر بر آوردہ عالم بھی بیٹھے ہیں.ایک ابن سمعان اور دوسرے ابن ابی ذویب.بہر حال سلام دعا کے بعد منصور نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے شکایت کی."يَا مَعْشَرَ الْفُقَهَاءِ كُنتُمْ أَحَقَّ النَّاسِ بِالْكَفِ مِنْ الْسِنَتِكُمْ اے فقہاء مدینہ مجھے امید تھی کہ تم سمجھ سے کام لو گے اور معاملات حکومت کے بارہ میں خاموشی اختیار کرو گے لیکن مجھے برابر شکایتیں پہنچ رہی ہیں کہ تم ہمارے خلاف نکتہ چینی کرتے ہو.امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے جواباً عرض کیا امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اے مومنو! جب کوئی فاسق تم تک کوئی بات پہنچائے تو اسے بھی ماننے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو.ابو جعفر منصور نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ آى الرِّجَالِ أَنَا آمِنْ أَئِمَّةِ العَدْلِ أَمْ مِنْ أَئِمَّةِ الجَوْرِ.میں کیسا امام ہوں ، عادل ہوں یا ظالم.امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا امیر المومنین ! میں آپ کو اللہ اور رسول کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس سوال کے جواب سے معذور سمجھا جائے.منصور نے جواب دیا اچھا آپ کو معاف کرتا ہوں.پھرا بن سمعان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا آپ بہت اچھے ہیں.بیت اللہ کا حج کرتے ہیں.دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ہیں.آپ ملک میں امن وامان قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں.آپ کی وجہ سے کمزور زبر دست کی زیادتیوں سے محفوظ رہتے ہیں.پھر منصور نے ابن ابی ذویب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا خدا کی قسم تم بدترین انسان ہو.اللہ تعالیٰ کے مال پر قبضہ کر کے بیٹھے ہو، لوگوں کو اُن کے حقوق نہیں دیتے تم کمزوروں کو تباہ کر رہے ہو اور جو کچھ طاقت رکھتے ہیں ان پر بوجھ بنے ہوئے ہو.ان سے ان کے اموال چھین لیتے ہو.منصور یہ سن کر غصہ سے چیخ پڑا اور کہا تیر استیا ناس ہو.جانتے ہو کس سے بات کر رہے ہو.
ابن ابی ذذیب نے جواب دیا جانتا ہوں اور سامنے دیکھ رہا ہوں کہ تلوار میری گردن اڑانے کے لئے بے چین ہے اور موت نے تو آنا ہے جلد آئے تو بہتر ہے.عَاجِلُهُ خَيْرٌ مِّنْ آجِلِهِ.اس پر منصور کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور ہم سب بخیریت واپس آگئے.دوسری صبح منصور نے اپنے ایک افسر کو دیناروں سے بھری ہوئی تین تھیلیاں دیں اور کہا کل جو عالم یہاں آئے تھے ان کے پاس جاؤ اور ہر ایک کو ایک ایک تھیلی دو.اگر ابن ابی ذویب دینار کی تحصیلی قبول کرلے تو اس کا سر کاٹ کر میرے پاس لے آؤ اور اگر نہ لے تو پھر اسے کچھ نہ کہو.ابن سمعان اگر دینا ر کی تھیلی لے لے تو اسے کچھ نہ کہو اور اگر نہ لے تو اس کی گردن اڑا دو.رہا ما لک وہ لے یا نہ لے اس سے تعرض نہ کرو.چنانچہ ابن ابی ذذیب نے تحصیلی قبول نہ کی.ابن سمعان نے قبول کر لی اور کہا کہ مجھے بھی رقم کی ضرورت تھی چنانچہ میں نے رکھ لی.بہر حال وہ دونوں علماء منصور کے امتحان میں کامیاب رہے اور جو کچھ ان کے دل میں تھا وہی ان سے ظاہر ہوا.اس طرح تینوں کی جانیں بچ گئیں لے انہی ابن ابی ذویب کا واقعہ ہے کہ یہ منصور کے دربار میں بیٹھے تھے.کچھ لوگوں نے حاکم مدینہ حسن بن زید کی شکایت کی کہ بہت ظلم کرتا ہے.حسن بھی وہاں موجود تھا.منصور نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے عرض کیا امیر المومنین آپ ابن ابی ذویب سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں.ابن ابی ذویب نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ لوگ بڑے شریر ہیں دوسروں کی بے عزتی کرنے سے ذرا بھی نہیں جھجکتے.ان لوگوں نے جواباً کہا کہ آپ حسن کے بارہ میں انہی سے پوچھ لیں.منصور کے پوچھنے پر ابن ابی ڈویب نے کہا حسن بھی کچھ کم ظالم نہیں.عدل کے خلاف کرنے میں شیر ہے.حسن نے یہ سن کر عرض کیا امیر المومنین اپنے بارہ میں بھی ان سے پوچھ لیں کہ یہ آپ کے بارہ میں کیا رائے رکھتے ہیں.(مطلب یہ کہ تاریک پہلو پر ان کی نظر کی رہتی ہے ) منصور نے اصرار کیا کہ ضرور بتائیے اس پر انہوں نے کہا اللہ نے جو امانت آپ کے سپرد کی ہے اس کا حق ادا نہیں کرتے اور لوگوں کے اموال میں نا جائز تصرف کرتے ہیں.پاس بیٹھے لوگوں نے سمجھا اب اس کی خیر نہیں ابھی اس کی گردن اڑی لیکن ایسا نہ ہوا.منصور اٹھا ابن ابی ذذیب کی پیچھے سے گردن پکڑی اور کہا اگر میں اپنا رعب قائم نہ رکھوں تو عجمی لوگ آپ سب کو چیر پھاڑ دیں.یہ تم عربوں کی تاک مالک بن انس صفحه ۲۴۹
تاریخ افکا را سلامی ۴۸ میں ہیں اس پر ا بن ابی ذویب نے کہا کہ میرا مقصد بھی امیر المومنین کی خیر خواہی ہے آپ کی بھلائی ہی میرا مدعا ہے.میں کسی کینہ یا غصہ کی بنا پر یہ تلخ تقید نہیں کر رہا.لے امام مالک کا ہی بیان ہے کہ ایک دفعہ ابو جعفر منصور نے انہیں اور عبید اللہ بن طاؤوس کو بلوایا.عبید اللہ ابھی جوان تھے بڑے وجیہ اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے اور ان کے والد طاؤوس بداللہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے شاگر درہ چکے تھے.حضرت ابن عباس ابو جعفر منصور کے پڑدادا تھے.بہر حال منصور نے اس تعلق کی بنا پر عبید اللہ سے پوچھا کہ آپ کو اپنے والد کی کوئی حدیث یا د ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس سے سنی ہو.عبید اللہ نے جواب دیا کہ آپ کے جد امجد نے میرے والد کو یہ حدیث سنائی تھی کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت میں شریک کیا لیکن اس نے بجائے عدل و انصاف کے ظلم و جور کو رواج دیا اور لوگوں کو اپنی زیا دتیوں کا نشانہ بنایا.“ امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے سمجھا کہ عبید اللہ نے ایسی بات کہی ہے کہ منصورا بھی غصہ میں آکر اس کی گردن اڑا دے گا اور اس کے خون کے چھینٹے میرے کپڑوں پر پڑیں گے.اس لئے میں اپنے کپڑوں کو سراسیمگی کے مارے سمیٹنے لگا لیکن منصور عبید اللہ کی تلخ بات کو پی گیا اور یہ حادثہ نہ ہوا.بات بدلنے کے لئے منصور نے عبید اللہ سے کہا وہ روات مجھے پکڑاؤ لیکن عبید اللہ نے دوات نہ پکڑائی.منصور نے وجہ پوچھی تو عبد اللہ نے کہا.مجھے خدشہ ہے کہ تم کوئی ایسا حکم لکھو گے جو گناہ یا ظلم کا موجب ہو گا اور میں نہیں چاہتا کہ گناہ میں ذرا بھی میری شرکت ہو.ہے ایک دفعہ سفیان ثوری ابو جعفر منصور سے ملنے گئے دوران گفتگو آپ نے کسی بات پر منصور سے کہا آپ اللہ سے ڈریں.ظلم و جور سے زمین بھر گئی ہے.منصور آپ کی اس تلخ بات کو پی گیا کچھ دیر کے لئے سر جھکا کر بیٹھا رہا پھر سر اٹھایا اور پوچھا آپ کی کوئی ضرورت ہو تو بتائیے.انہوں نے کہا آپ کو یہ مقام مہاجرین اور انصار کی قربانیوں کے طفیل ملا ہے اور اب ان کی اولا دید بینہ میں فاقوں مررہی ہے کیونکہ آپ نے انہیں سبق سکھانے کے لئے مدینہ میں غلہ بھجوانے کی ممانعت کر رکھی ہے.منصور نے تھوڑی دیر کے لئے پھر سر جھکا یا پھر کہا آپ کی اگر کوئی ضرورت ہو تو بتائیے.آپ ل الامام شافعی ۱۸۸ مالک بن انس صفحه ۲۵۱
تاریخ افکار را سلامی نے جواب میں کہا حضرت عمر حج کے لئے گئے تو ان کا کل خرچ دس پندرہ درہم تھا اور آپ اس غرض کے لئے آئے تو اس قدر سامان آسائش ساتھ لائے ہیں کہ کئی اونٹ بھی اسے نہیں اٹھا سکتے.یہ کہہ کر آپ دربار سے اٹھ آئے.لے ایک دفعہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام جعفر صادق سے کہا.اہل مدینہ کی مخالفت سے میں تنگ آ گیا ہوں.وہ بار بار دوسروں کے بہکاوے میں آکر بغاوت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس لئے چاہتا ہوں کہ سارے شہر کو لوٹ لوں اور ان کے باغوں کو آگ لگا دوں اور سمندر کے راستہ ان تک غلہ نہ پہنچنے دوں.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا.امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ نے سلیمان کو حکومت دی تو وہ شکر بجالائے.ایوب مشکلات سے دو چار ہوئے تو انہوں نے صبر کا نمونہ دکھایا.یوسف کو جب اقتدار ملا تو آپ نے زیادتی کرنے والے بھائیوں کو معاف کر دیا.آپ کا تعلق بھی انہی بزرگوں کی نسل سے ہے جو معاف کرنے والے اور در گذر کرنے والے تھے.انہی کا نمونہ اختیار کیجئے ہے بنوامیہ پر جب بنو عباس غالب آئے تو خلیفہ عباسی کے چا عبد اللہ بن علی نے شام کے عالم حضرت امام اوزاعی سے پوچھا بنو امیہ کے قتل کے بارہ میں شریعت کیا کہتی ہے.انہوں نے جواب دیا.آپ نے انہیں امان دی ہے اور آپ کی زبان پر بھروسہ کر کے انہوں نے اپنے آپ کو تمہارے سپر د کیا ہے اس لئے اُن کا خون بہانا آپ کے لئے جائز نہیں.کے پھر اس نے پوچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے حق میں وصیت نہیں کی تھی.آپ نے جواب دیا اگر وصیت کی ہوتی تو حضرت علیؓ جنگ صفین میں تحکیم کی تجویز ہرگز قبول نہ کرتے ہے اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہ کے بارہ میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنے شاگر در شید امام ابو یوسف کو نصیحت کرتے ہوئے کہا اگر تم سلطان وقت میں کوئی خلاف شرع بات دیکھو یا اس کے مالک بن انس صفحه ۲۴۳ قَدْ جَعَلَكَ اللهُ مِنْ نَسلِ الَّذِينَ يَعْفُونَ وَيَصْفَحُونَ (مالک بن انس صفحه ۲۴۲ ) ۲۳۲) دِمَالَهُمْ حَرَامٌ عَلَيْ........((مالک بن انس صفحه ۲۲۵) لو أوضى إِلَيْهِ مَا حَكَمَ الْحَكَمَيْنِ (مالک بن انس صفحه ۲۲۵)
تاریخ افکا را سلامی ظلم و ستم کی تم کو خبر ملے تو بڑے حکیمانہ انداز میں موقع ومحل کو دیکھ کر اور اطاعت کے دائرہ میں رہ کر پوری جرات اور بے خوفی کے ساتھ اسے نصیحت کرو اور اس کی غلطی پر اسے متنبہ کرو.خدا نے تجھے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اس کی طاقت دی ہے اس لئے جو طاقت تم میں ہے اس کا تم استعمال کرو اور اسی کی حد کے اندر رہو ورنہ اگر تم حد سے بڑھے تو تمہاری ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی لے غرض سیاسی فتنوں کے اس پریشان کن دور میں علماء حق اور فقہاء امت نے اس نظریہ پر اتفاق کیا کہ پوری جرات اور صبر و ثبات کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا جائے اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب آئیں حوصلہ اور حکمت عملی کے ساتھ ان کو بر داشت کیا جائے.لیکن سلطان جائہ کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے اطاعت کے دائرہ کے اندر رہا جائے.حکمت ، موعظت اور پیغمبرانہ طریق اصلاح کا انداز اختیار کیا جائے اور ملکی استحکام اور امن وامان کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاحی کام کو آگے بڑھایا جائے کے فساد اور فتنہ بغاوت اور انارکی کی راہوں سے بچا جائے کیونکہ الْفِتْنَةُ اشَدُّ مِنَ الْقَبلِ ایک برحق ارشاد ہے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اگر حق تلفیوں کے تدارک کی کوشش کی گئی تو یہ کوشش ہزاروں لاکھوں کے خون کا باعث بن جائے گی.سارا خون رائیگاں جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا بلکہ مزید حق تلفیوں کی بنیا دپڑے گی.تہذیب و تمدن اور علم و ترقی کی راہیں مسدود ہو جائیں گی.پس اصلاح احوال کا یہ طریق نہ تو عقلمندی کی بات ہے اور نہ پیغمبرانہ انداز اصلاح سے اس کا کوئی تعلق ہے.قَالَ لَأَنْ يَدَ السُّلْطَانِ أَقوى مِنْ يَدِک (مالک بن انس - صفر ۳۴۷) صَلاحُ الْأَمْرِ مَأْمُولٌ مَعَ الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والتفحية والشورى والنصيحة لله ولرسوله ولسائر المؤمنين
تاریخ افکا را سلامی ۵۱ وضع حدیث کا خطر ناک فتنہ اور اس کے اسباب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے کچھ عرصہ بعد یہ خاص اہتمام فرمایا کہ قرآن کریم کی جو آیات نازل ہو تیں انہیں نہ صرف یاد کرا دیا جاتا بلکہ حفظ کے ساتھ ساتھ آپ انہیں اپنے ایسے اصحاب سے لکھوا لیتے جو لکھ پڑھ سکتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایسی ہی لکھی ہوئی آیات جو ان کی بہن کے پاس تھیں پڑھ کر مسلمان ہوئے تھے.لکھنے کا یہ اہتمام حضور کی زندگی کے آخری لمحات تک رہا لیکن چونکہ کاغذ کی قلت تھی بلکہ شروع زمانہ میں وہ نایاب تھا اس لیے بعض اوقات قرآن کریم کی آیات لکڑی کی تختیوں ٹھیکریوں اور اونٹ کے کندھوں کی چوڑی ہڈیوں پر بھی لکھوائی جاتی تھیں اور آخر میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ایسے لکھے ہوئے مسودات لکڑی کے ایک بڑے صندوق میں محفوظ رکھے جاتے.جس نے اپنے لیے نازل شدہ حصہ قرآن لکھنا ہوتا یا اس کی نقل لینی ہوتی وہ حفظ کے علاوہ ان محررہ محفو ناشدہ مسودات کی مدد سے لکھتا یا لکھواتا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند ماہ بعد ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں صحابہ کے مشورہ سے حکومتی سطح پر بصورت کتاب ایک مستند مصحف " تیار کرایا جو حضرت زید بن ثابت کی سربراہی میں قرآن کریم کے حافظ صحابہ کی ایک کمیٹی نے تیار کیا.کمیٹی نے اس نسخہ کی تیاری میں صرف اپنے حفظ پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اس ذخیرہ سے بھی پوری پوری مدد لی جو حضور نے مختلف اوقات میں لکھوا کر محفوظ کیا تھا ہے اس تیار شدہ نسخہ کے استناد کو تمام صحابہ، ساری امت بلکہ ساری دنیا نے تسلیم کیا اور اس کا نام ” مصحف امام " رکھا.اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت زید ہی کی سر براہی میں ایک اور کمیٹی قائم کر کے اس مصحف امام کی پانچ نقلیں کروا ئیں جو مملکت کے مختلف مراکز میں بھجوا دی گئیں تا کہ لوگ اس کے مطابق پڑھیں پڑھائیں اور جو لکھنا چا ہیں لکھ مالک بن انس صفحه ۲۰ و ۳۰
تاریخ افکا را سلامی or سکیں.ان نسخوں میں قریش کی زبان اور اس زمانہ میں مروجہ مقبول اسلوب کتابت کا خاص طور پر زبان اوراس خیال رکھا گیا تھا لے قرآن کریم کی حفاظت اور کتابت کا جس طرح حکومتی سطح پر اہتمام کیا گیا اس قسم کا کوئی انتظام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی کتابت اور حفاظت کے بارہ میں نہ کیا جا سکا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تو کتابت احادیث سے اس وقت منع فرمایا کرتے تھے.روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر نے مدینہ کے اہل علم صحابہ کو جمع کیا اور کہا تم میں سے بعض اپنے اپنے سماع اور اپنی اپنی یادداشت کے مطابق بکثرت حدیثیں بیان کرتے ہو اور اس طرح اختلاف کا باعث بن رہے ہو.تمہارے بعد لوگ تم سے سبق لے کر اور زیادہ شدت کے ساتھ اختلاف کریں گے اس لیے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے حدیثیں نہ بیان کیا کرو اور لوگوں کو قرآن کریم کی طرف متوجہ کرو.اس کے حلال کو حلال کرو.اس کے سمجھو اور اس کے حرام کو حرام.اس سے آگے نہ بڑھو.کے اسی طرح یہ روایت بھی آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے احادیث لکھوانے کا ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں صحابہ سے مشورہ بھی کیا.انہوں نے کہا بہت اچھا خیال ہے ضرور ایسا کیجئے.حضرت عمر ایک ماہ تک دعا اور استخارہ کرتے رہے.سوچ بچار کے بعد آپ نے صحابہ کو پھر بلایا اور کہا میں نے احادیث لکھنے کے بارہ میں آپ سب سے مشورہ کیا تھا خود میں نے بھی بہت سوچا ہے.آپ جانتے ہیں کہ تم سے پہلے اہل کتاب یعنی یہود نے بھی کتاب اللہ کے ساتھ اپنے بزرگوں کی باتیں لکھیں پھر ان باتوں کی طرف زیادہ جھک گئے اور یہ امتیاز نہ رکھ سکے کہ کتاب اللہ کیا ہے اور بزرگوں کی احادیث کیا اور احادیث کے پڑھنے پڑھانے میں ہی لگ گئے اور کتاب اللہ کو بھلا دیا مالک بن انس صفحه ۳۵ لقد عاش النبي صلى الله عليه وسلم بعد البعثة ثلاثا وعشرين سنة فكان تدوين سننه (اقواله و اعماله واقراره أمر غير يسير الامام الشافعی صفحه (۲۱۰) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تكتبوا عنى شيئا و من كتب على غير القرآن فَلْيَمْحُهُ (صحیح مسلم كتاب الزهد والرقاق، باب التثبت في الحديث في حكم كتابة العلم) مسند احمد جلد ۳ صفح۳۹۰۲۱۰۱۲ - تذكرة الحفاظ للذهبي جلده صفحه ۲ -
میں ایسا نہیں ہونے دوں گا.لے ۵۳ اس تربیت اور ہدایت کا اثر تھا کہ اکثر صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بات کرنے سے بالعموم بیچتے تھے.ہے عراق میں جو صحابہ آکر بس گئے تھے وہ عام طور پر قلت روایت کے عادی تھے.بعد میں حضرت امام ابو حنیفہ نے اس عادت کو اپنایا.آپ سے نسبتا بہت کم احادیث مروی ہیں.دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ تاریخ کے انضباط سے مفر نہیں.انسان طبعا اس کا عادی ہے اور اپنے ماضی سے کٹ نہیں سکتا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی دینی حیثیت بھی مسلم ہے اس لیے روایت حدیث کے جذ بہ پر بند لگانا ناممکن تھا اس رجحان کو نہ روکا جا سکتا تھا اور نہ یہ رک سکا.اس لیے جب یہ دروازہ پوری طرح کھلا تو صحیح اور مستند احادیث کے ساتھ ساتھ ضعیف اور موضوع احادیث بھی عام ہونے لگیں.صالح ذہن کے ساتھ کچھ ذہن کے حامل عناصر بھی میدان میں اتر آئے اور جھوٹی احادیث کا ایک کونہ سیلاب آگیا.کہا جاتا ہے کہ خوارج کے کے سوا ہر فرقہ کے سج ذہن افراد نے جی بھر کے کذب علی الرسول کے جرم کا ارتکاب کیا اور خوب خوب احادیث وضع کیں گے وضع احادیث کے کئی اسباب گنوائے گئے ہیں ان میں سے مندرجہ ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ا.اسلام کے دشمن زنا وقہ جو دل میں کفر چھپائے رکھتے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بظاہر مسلمان ہو گئے تھے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو بد نام کرنے یا دین کے استخفاف کی غرض سے حدیثیں وضع کیں.ھے انى لا أُلبس كتاب الله بشيء فمنع عمر تدوين الحديث مخافة ان يخلط القرآن بشيء وكان العرب بالقرآن حديث عهد.مالک بن انس صفحه ۲۶، ۱۸۱) ابو حنیفه صفحه ۱۶۱ وكان الصحابة لا يذكرون احاديث رسول الله الا مقلين (ابو حنيفه صفحه (۱۶۱) کے لم يثبت على الخوارج رذيلة الكذب على الرسول - الامام الشافعی صفحه (۲۱۴) إن الكلب على الرسول قد كثر في عهد التابعين بسبب تكون الفرق.(محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية ه اعترف ابن ابی العوجاء و هو مُقيم للقتل المندقة أَنَّهُ وَضَعَ أَرْبَعَةَ الا في حديث يحرم فيها الحلال ويحل الحرام ( الامام الشافعی صفحه ۲۱۳)
تاریخ افکار را سلامی ۵۴ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جو مختلف بدعتی گروہ بن گئے تھے وہ اپنے اپنے مسلک کی تائید کے لئے بکثرت کذب علی الرسول کے مرتکب ہوئے لے شیعہ فرقہ نے فضائل اہل بیت یا مسالب صحابہ کے بارہ میں بکثرت احادیث وضع کیں.حضرت امام شافعی کہا کرتے تھے کہ شیعہ فرقہ سے زیادہ کذب علی الرسول کی جرأت کسی اور فرقہ میں نہیں دیکھی گئی ہے شیعہ حضرات اپنی احادیث کی بنا پر بہت سے عمومات قرآن کو شخص واحد یا اہل بیت کے لیے محدود قرار دیتے ہیں.مثلا آیت کریمہ ان الذين امنوا وَعَمِلُوا الشلحة أوليك هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ کی تفسیر میں یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اس سے مراد علی اور ان کے چند حامی صحابہ ہیں.اسی طرح آیت کریمہ اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کانز ول اس وقت ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے بارہ میں یہ اعلان فرمایا کہ میرے بعد وہ میرے خلیفہ ہوں گے.پہلے حضور اس قسم کے اعلان سے جھجکتے تھے کہ لوگ مخالفت کریں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لايُّهَا الرَّسُولُ بَلَغَ مَا أُنْزِلَ إليكَ مِنْ رَبَّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه ے اس وجہ سے آپ حضرت علی کے بارہ میں مذکورہ بالا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے.آیت کریمہ و انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الأقربين " نازل ہوئی تو آپ نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا ، ان کی دعوت کی کھانے کے بعد ان سے کہا : اللہ تعالیٰ جب بھی کسی نبی کو مبعوث کرتا ہے تو ایک آدمی کو اس کا وصی ، وزیر ، وارث، کثرت اسباب الاختلاف.....حتى اصبح الحديث الصحيح في الحديث الكذب كما قال الدار قطنی کا لشعرة البيضاء في جلد الثور الاسود......و كان مالك يسمى الكوفة دار الضرب اذ تسبك الاحاديث كما تسبك النقود......ويقول الزهرى يخرج الحديث من عندنا شبرا فيعود الينا من العراق ذراعا ابو حنيفه صفحه ۱۳۶و۱۵۶) الف.قال الشافعي ما رأيت فى اهل الاهواء قوما أشدَّ بالزور من الرافضة وضعوا في فضائل علي وأهله آلاف احادیث (الامام الشافی صفحه (۲۱۳) (ب) اخذ الشيعة يصطنعون الاحاديث لنصرة على وأخذ خصومهم يختلفونها لنصرة مخالفيه.ابو حنیفه صفحه (۱۳۵) البيئة : المائدة : ۴ المائدة : ٦٨ 1 الشعراء : ۲۱۵
تاریخ افکا را سلامی ۵۵ بھائی اور ولی مقرر کرتا ہے تم میں سے کون میرا اوصی ، وارث ، ولی، بھائی اور وزیر بننے کے لیے تیار ہے.سب رشتہ داروں نے آپ کی اس پیشکش کا انکار کیا صرف علی نے اسے قبول کیا.اس وقت علی کی عمر دس سال تھی.بہر حال جب علی ایمان لائے تو آپ نے فرمایا : ہاں اے علی ! تم ہی میرے وصی اور وارث اور ولی اور وزیر اور بھائی ہو.آیت کریمہ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُونُه وَالَّذِينَ آمَنُوا میں والذین امنوا سے مراد حضرت علی ہیں خدا اور رسول کے ساتھ علی ہی سب مسلمانوں کے مولا ہیں.آیت كريم والتَّبِقُونَ التَّبِقُونَ أَو لَكَ الْمُقَربون من البِقُونَ سے مراد حضرت علی ہیں.اسی بنا پر وہ خلیفہ بلا فصل ہیں کیونکہ یہ آیت انہی کے حق میں نازل ہوئی تھی.کے مشہور شیعہ محدث انگلیسی حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر کے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے قرآن کریم میں تحریف کی اور علی یا آلِ محمد کے الفاظ نکال دیئے.مثلاً آیت کریمہ لايُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا أُنزِلَ فِى حَق عَلِيّ ( مِن ربات میں سے في حق علي كے الفاظ نکال دیئے.اسی طرح آیت کریمہ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا (آلَ مُحَمَّد أَنَّ مُنقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ اور إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا آلَ مُحَمَّدٍ) لَمْ يَكُن اللهُ لِيَغْفِرَ لَم میں سے آلَ مُحَمَّدٍ کے الفاظ نکال دیئے.کے بہر حال شیعہ حضرات کی ایسی بہت سی روایات ہیں جن کی بنیا د عقیدت اور دینی رغبت پر ہے کوئی مستند بنیا داس قسم کی روایات کی تائید نہیں کرتی.وضع احادیث کے اسباب میں سے ایک سبب لالچ اور حکومت وقت کے قرب کی خواہش | تھی.مثلاً بنو امیہ کو خوش کرنے کے لیے یہ حدیث وضع کی گئی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الَّدٌ الْحِصَامِ عَلی کے حق میں نازل ہوئی اور اس میں ان کے رویہ کی مذمت کی گئی ہے.المائدة : ۲۵۶ الواقعة :۱۱ دعائم الاسلام جلد صفحه ۲۰ ، ۴۷ ۴ المائلة : ۶۸ ت ه الشعراء : ٢٢٨ ٦ النساء : ١٦٩ کے محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية مفر۵۸۳ البقرة : ۲۰۵
تاریخ افکا را سلامی ۵۶ ایک دفعہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے سلیمان بن بیسار سے پوچھا کہ آیت کریمہ والذي تولى كبرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيم لے کس کے بارہ میں نازل ہوئی؟ وَالَّذِي سلیمان نے جواب دیا اس آیت میں عبد اللہ بن اُبی کی طرف اشارہ ہے.ہشام نے غصہ ہو کر کہا تم جھوٹ بولتے ہو اس میں تو علی کی طرف اشارہ ہے.سلیمان نے اس پر کہا امیر المومنین زیادہ بہتر جانتے ہیں.ایک دفعہ مشہور معتزلی ادیب جاحظ کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ مقتل علی کے بارہ میں احادیث وضع کریں تو ان کو دس ہزار دینار دیے جائیں گے.کے وضع احادیث کا ایک سبب یہ تھا کہ بعض تصوف پسند بدعتی گروہ ترغیب اور ثواب سمجھ کر احادیث گھڑتے تھے.گزشتہ حکماء اور داناؤں کی نصائح اور حکمت کی باتوں کو بطور حدیث بیان کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.کہتے ہیں کہ ابو عصمہ نوح بن مریم سے پوچھا گیا کہ اس نے قرآن کریم کی سورتوں کے فضائل سے متعلق ایسی روایتیں بیان کی ہیں جو من گھڑت لگتی ہیں، اس نے ایسا کیوں کیا؟ نوح نے جواب دیا لوگ قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسروں کی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہو گئے ہیں اس لیے میں نے چاہا کہ ان کو اس طرف سے ہٹا کر قرآن کریم کی طرف متوجہ کروں سے ایک واعظ کرامات الصادقین کے بارہ میں حدیثیں گھڑ گھڑ کر لوگوں کو سنایا کرتا تھا.اس سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیا اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان نہیں سنا مَن كَذب عَلَى مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ؟ تو اس نے جواب دیا نَحْنُ نَكْذِبُ لِلنَّبِيِّ لَا عَلَيْهِ که ہم تو آپ کے کمالات اور فضائل بیان کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں.آپ کے خلاف تھوڑا ہی کہتے ہیں.ھے ایک اور واعظ کے بارہ میں روایت ہے کہ وہ جو بہ پسند عوام کے ساتھ عجیب عجیب حدیثیں روایت کیا کرتا تھا.ایک دفعہ اس نے عَلى أَن يُبْعَثَ رَبُّكَ مَقَامًا محمودال کی تغییر النور : ۱۲ الامام الشافعي : صفر ۲۱۲ ابو حنيفه صفح١٣٦ رأيت الناس تحولوا عن القرآن واشتغلوا يفقه أبى حنيفة و مغازى ابن اسحاق فوضعتها حِسَبَةً لوجه الله (ابو حنيفه صفحه ۱۳۶) ه الامام الشافعی صفحه ۲۱۳ بنی اسرائیل : ۸۰
تاریخ افکار را سلامی ۵۷ کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پاس عرش پر بیٹھیں گے.یہی مقام محمود ہے.امام ابن جریر طبری نے اس واعظ کی یہ بات سنی تو فرمایا کیسی غلط تغیر ہے کسی حدیث میں ایسا نہیں آیا.لوگ یہ بات سن کر امام ابن جریر طبری کے خلاف ہو گئے اور کہا یہ گستاخ رسول ہے اور پھر کر ان کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا.لے #+ نظام شریعت تہذیب و تمدن، اقتصاد اور معاشرت کے فروغ کے سلسلہ میں مسلم علماء کے سامنے جب یہ سوال آیا کہ شریعت اور قانون کی تدوین کیسے ہو تو اس تعلق میں بالعموم یہ نظر یہ تسلیم کرلیا گیا کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارہ میں اسلامی ہدایات موجود ہیں.تفصیلات کا جاننا ہر مسلم عالم کا فرض ہے مگر یہ تفصیلات کیسے معلوم ہوں اور کیسے طے ہوں.یہاں سے فقہی اختلافات کا آغاز ہوا.مثلاً اس تعلق میں بعض نے اس نظریہ کا اظہار کیا کہ قرآن کریم شریعت کا بنیادی ماخذ ہے.اس میں جو کچھ تصریح ہے وہ ایک مسلمان کی زندگی کا لائحہ عمل ہے اور اگر قرآن کریم کی کوئی نص موجود نہیں تو پھر انفرادی معاملات میں ہر مسلمان خود اپنا مفتی ہے وہ اپنے لیے بہتر سمجھ سکتا ہے اور اجتماعی معاملات میں اہل حل و عقد با ہمی مشورہ اور کثرت رائے سے جو فیصلہ کریں وہ اس وقت تک ساری جمعیت کے لیے واجب الاتباع ہوگا جب تک کہ اسی قسم کا اجماع اس فیصلہ کو تبدیل نہ کر دے.اس گروہ کا کہنا ہے کہ روایات سے بھی اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ انفرادی اجتہاد کی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق فرمائی ہے.B ایک دفعہ حضرت عمر اور حضرت عمار بن یاسر سفر میں تھے دونوں جنسی ہو گئے.حضرت عمر نے نماز نہ پڑھی اور عمار نے تیم کی نیت سے زمین پر لوٹ پوٹ کر تیم کیا اور نماز پڑھی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس واقعہ کا ذکر ہوا تو آپ اس اجتہاد کی وجہ سے کسی پر ناراض نہ ہوئے.صرف عمار سے یہ کہا کہ زمین پر لوٹنے کی ضرورت نہ تھی صرف منہ اور ہاتھوں پر ل الامام الشافعي مؤ۲۱۳ ما نزل نازلة بمسلم إلا ولها حكم من الشارع يعنى كُلُّ ما نزل بمسلم ففيه حكم لازم ولانَّ الله في كل واقعة حكما معينا، على المجتهد طلبه والعمل به الامام الشافعي صفحه ۲۳۲،۲۳، ۲۳۸)
تاریخ افکا را سلامی ۵۸ مسح کر لینا کافی تھا.ایک دفعہ دو صحابی سفر میں تھے نماز کا وقت ہو گیا اور پانی میسر نہیں تھا چنانچہ دونوں نے تمیم کر کے نماز پڑھ لی اور آگے سفر پر روانہ ہو گئے کچھ دیر کے بعد پانی مل گیا نماز کا وقت ابھی باقی تھا.چنانچہ ایک نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی اور دوسرے نے کہا کہ جب ایک دفعہ نماز پڑھ لی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے جب حضور کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے دونوں کے ہے جب نو اجتہاد کی تصویب فرمائی ہے.ایک اور روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ نے عمرو بن العاص کو ایک مہم کا سر براہ بنا کر بھیجا.عمر وجنبی ہو گئے.سردی سخت تھی.چنانچہ آپ نے تمیم کر کے اہل لشکر کو نماز پڑھائی.حضور کی خدمت میں رپورٹ کی گئی تو آپ نے عمرو کو بلا کر پوچھا تو عمرو نے عرض کیا سردی سخت تھی اور میرے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت تھی لَا تُقتلوا انفسکم سے آپ ہنس پڑے لیکن عمر کو کچھ نہ کہا.اجتماعی اجتہاد کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر صحابہ کو بلا کر مشورہ کرتے اور بلا جھجک فیصلے کرتے اسی اجتماعی مشورہ سے انہوں نے حضور کی نیابت اور خلافت کا مسئلہ طے کیا اور مصحف امام " تیار کر وایا اور اس طرح ہر مشکل پر قابو پایا.ہے رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں امت مسلمہ کی جو رہنمائی فرمائی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضور کی یہ رہنمائی عالم انسانیت کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے لیکن ہمیشہ کے لیے اس کی ہو بہو پا بندی ضروری نہیں یہ گروہ ذخیرہ احادیث کو مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عمدہ مجموعہ تو مانتا ہے اس کی دینی اور شرعی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا لیکن امت مسلمہ کی اکثریت نے اس نظریہ کو مستر د کر دیا اور اسے گمراہی، غلط سوچ اور کفر قرار دیا.ہے شریعت اور فقہ کے مآخذ ل چنانچہ علماء حق نے قانون اسلام اور شریعت ( تہذیب و تمدن ، اقتصاد اور معاشرت ) کی قَالَ الَّذِى لَمْ يَعدَ أَصَبْتَ السُّنَّةَ واجْزَ أَنكَ صَلوتُكَ وَ قَالَ لِلآخَرِ لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتين (ابو حنيفه صفحه ۱۷۰) ابو حنيفه من ۱۵۶،۱۴۸ وقريحا قد وجد مَن قالوا لا نقبل إلا ما جاء به نص القرآن وهؤلاء كفار بلا جدال لان السنة مبينة النساء : ٣٠ للدين كله ( مالک بن انس صفحه (۱۶۸ محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۲۷۹
۵۹ تدوین کے لئے جن اصول وقواعد کو سامنے رکھا وہ مندرجہ ذیل تھے.قرآن کریم ، سنت وحد بیث، اجماع اور ایسی رائے یا اجتہاد جو قیاس، استحسان، مصلحت، رفع حرج، سد ذرائع عرف، استصحاب با تعلِیلُ النَّص کے اصول پر مبنی ہو.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا قطعی اور یقینی کلام اور دنیا بھر کے لیے ایک معجزہ ہے اور تمام مسلمان اس کتاب مقدس کو ماخذ شریعت اور منبع ہدایت تسلیم کرتے ہیں اگر کوئی جزوی اختلاف ہو سکتا ہے تو وہ قرآن کریم کے معنی ومفہوم کے سمجھنے میں ہوسکتا ہے.مثلاً کسی مصلحت کے تحت قرآن کریم میں ایک ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے عربی زبان میں دو معنے ہیں اور کوئی قطعی قرینہ کسی ایک معنے کی تعیین کے لیے سامنے نہیں آیا اس وجہ سے ایک عالم نے اس لفظ کے ایک معنے لیے اور دوسرے نے دوسرے جیسے قرآن کریم کا ارشاد ہے وَالمُصطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قروء لا یعنی جن عورتوں کو طلاق ملی وہ تین قروء اپنے آپ کو روکے رکھیں اور کسی اور کے ساتھ نکاح نہ کریں ( لفظ قروء قرء کی جمع ہے اور عربی زبان میں فارہ کے معنے حیض کے بھی ہیں اور ظہر کے بھی اس لیے کسی نے کہا کہ مطلقہ عورت تین حیض گزرنے تک کسی اور کے ساتھ نکاح نہ کرے غرض اس طرح کے لغوی اختلاف کی وجہ سے یا حقیقت و مجاز کے فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا عام و خاص اور اسلوب کلام کے فرق کے لحاظ سے فروعی اختلاف کی کئی صورتیں سامنے آئیں.اسی طرح تفسیر القرآن بالحدیث کی بنا پر بھی بعض اختلافی مسلک نمایاں ہوئے.مثلاً امام شافعی اور امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ حدیث خواہ متواتر ہو یا مشہور عزیز ہو یا غریب اگر معتبر راوی روایت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں آیت کی یہ غیر کی ہے تو اسے تسلیم کرنا ہوگا اور ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کا صحیح مفہوم وہی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے.امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ حدیث ظنی الدلالۃ ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ راوی جو کچھ کہہ رہا ہو وہ بالکل ل اعجاز القرآن فى انه أصحُ لفظ في احسن نظم في التأليف وفيه أصح المعانی و آرقاها معجز بلفظه ونظمه وتركيب عباراته والفاظه.........اعجز الشعراء وليس بشعر واعجز الخطباء وليس بخطبة و معجز بأثره في النفوس الامام الشافعی صفحه ۹۵) سے مجاز کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت وَثِيَابَكَ فَطَهِرْ یہاں تیاب کے معنے نفس اور ذات کے لئے گئے ہیں.عرب کہتے ہیں.فدا لک ثوبی ای نفسی فدی لک من اخي ثقة ازاری ای نفسی (الامام الشافعی صفحه ۱۰۵) البقرة : ٢٢٩
تاریخ افکا را سلامی 1+ درست ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی کو غلطی لگی ہو.در حقیقت حضور نے ایسا نہ فرمایا ہو یا حضور نے جو کچھ فرما یا ہو راوی اسے سمجھ نہ سکا ہو ، اس بنا پر حد بیث متواتر اور مشہور کی صورت میں تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کے وہی معنے مانے چاہئیں جو ان احادیث میں بیان ہوئے ہیں، لیکن خبر واحد یعنی ایک دو راویوں کی روایت سے الفاظ قرآن کے ظاہری مفہوم کو ترک کرنا آئین عقلمندی کے خلاف ہے.فَأَخْبَارُ الأَحَادِ لا يُمكن أن تكونَ فِي مَقَامِ القرآن الكريمِ الَّذِي لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ فَهُوَ حَاكِمْ عَلَى أَخْبَارِ الْأَحَادِ بِالصَّحْةِ وَالرَّةِ - قرآن کریم کے سلسلہ میں ایک اختلاف تفسیر بالرائے کے جائز یا نا جائز ہونے کے بارہ میں ہے.یا تفسیر بالرائے سے مرادا گر یہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث.لغت اور محاورہ عرب کو نظر انداز کر کے یونہی اپنے خیالی اندازوں کی بنیاد پر کسی آیت کی تفسیر کی جائے تو امت مسلمہ کے تمام سنجیدہ علماء ایسی تفسیر کو غلط اور گمراہی سمجھتے ہیں.ے لیکن تفسیر بالرائے کے ممنوع ہونے کا اگر یہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کسی روایت کے بغیر قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر نا جائز اور غلط ہے تو یہ موقف بھی درست نہیں.اگر ہر آیت کی تفسیر کے لیے حضور کا ارشاد ضروری ہوتا تو صحابہ حضور کے تمام ارشادات کو محفوظ کرنے کا اسی طرح خاص اہتمام کرتے جس طرح قرآن کی حفاظت کا خاص اہتمام انہوں نے کیا تھا.بہر حال تفسیر بالرائے کا یہ مفہوم کہ قرآن کی کسی آیت کی اس طرح تغییر کی جائے کہ وہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور ثابت شدہ احادیث کے خلاف نہ ہو اور لغت و محاورہ عرب اس کی تائید کرتے ہوں یا وہ تفسیر اس اصول پر مبنی ہو کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور مظاہر قدرت یعنی سائنس اس کا فعل اور خدا کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا تو ایسی پُر از معارف تفسیر نہ ل الشيعة يرون ان الائمة هم مفاتيح علم الكتاب الكامل ولا يمكن ان يدخل الناس ابوابه الا بهذه المفاتيح (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه (۶۵) روى ابو عبيد القاسم بن سلام ان ابابكر الصديق سئل عن قوله تعالى " وَ فَاكِهَةٍ وآبا (عبس (۳۱) فقال ای ارض تقلنی و اى سماء تظلني اذا قلت في القرآن مالم اعلم (الدر المنثور تفسير سورة عبس: ٣١)
تاریخ افکار را سلامی ۶۱ صرف جائز ہے بلکہ تمام محقق علماء نے تفسیر کے اس انداز کو اختیار کیا ہے اور اس راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے انتہائی گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں اور مینی بر حقائق تفاسیر لکھی ہیں.سنت و حدیث شریعت کا دوسرا ماخذ سنت ہے.فقہاء کی اصطلاح میں سنت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تواتر عملی نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ وہ اقوال اور افعال ہیں جنہیں تو اثر عملی کا درجہ تو حاصل نہ ہو لیکن صحیح سند کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہو کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسا فرمایا تھایا ایسا کیا تھا اسی طرح کسی صحابی کا ایسا قول یا عمل جو حضور کے علم میں آیا ہو لیکن آپ نے اس کے متعلق کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا ہو بلکہ پسند کا تاثر ملتا ہو یا آپ خاموش رہے ہوں.اس تیسری صورت کا اصطلاحی نام حدیث تقریر ی ہے لے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تواتر عملی اور آپ کے ثابت شدہ ارشادات بھی اسی طرح حجت ثابتہ اور ماخذ شرعی ہیں جس طرح قرآن کریم ماخذ شریعت ہے اس میں کسی بچے مسلمان کا کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اگر ایک طرف مبلغ کتاب تھے تو دوسری طرف آپ میتین اور مفسر کتاب بھی تھے.یہ دونوں فریضے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سپرد ہوئے تھے.اس سلسلہ میں اگر اختلاف ہے تو احادیث کی سند کے لحاظ سے ہے یا حدیث کے معنے کی تعیین کے اعتبار سے.سند کے لحاظ سے یہ اختلاف ہے کہ جن راویوں کے ذریعہ کوئی حدیث بعد کے لوگوں تک پہنچی ہے وہ کیسے تھے ، کتنے تھے ، ان کا مقام اعتبار کیا تھا، وہ ضعیف اور غیر معتبر تو نہیں تھے یا سند کے درمیان کوئی راوی رہ تو نہیں گیا یا کسی زیادہ ثقہ راوی نے اس سے اختلاف تو نہیں کیا.ل السنة و الحديث ما جاء عن رسول الله من اقوال وافعال او اقرار الاقوال او افعال صدرت عمن سواه (ابو حنیفه صفحه ۱۵۵ مالک بن انس صفحه (۱۶۷) العلماء مجموعون على ان رد التنازعات الى الله والى الرسول حسبما وردت الآية " فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ (النساء: ٦٠) واجب.....ومن قال لا نقبل الا ما جاء به القرآن فهو کافر بلا جدال مالک بن انس صفحه ۱۶۸۰۱۶۷) قال الله تعالى إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِلَ إِلَيْهِمْ (نحل: ۳۵)
تاریخ افکار را سلامی ۶۴ روایت احادیث اور صحابہ ہر انسان مختلف طبیعت رکھتا ہے کوئی زیادہ باتیں یادرکھنے اور پھر انہیں آگے دوسروں تک پہنچانے اور انہیں بار بار دہرانے کا طبعی ذوق اور شوق رکھتا ہے اور اس طبیعی مناسبت کی وجہ سے تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ رجحان کا مالک ہوتا ہے اور کوئی نسبتا کم کو اور صرف ضرورت کے وقت کسی بات یا واقعہ کو بیان کرتا ہے.یہی حال صحابہ رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کا تھا.پھر بعض صحابہ ملکی اور انتظامی ذمہ داریوں میں زیادہ مصروف تھے اور بعض کا تعلق کا روبار سے تھا.نیز بعض صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرنے میں بڑے محتاط تھے کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے.اس قسم کی وجوہات سے صحابہ کی مرویات کی قلت یا کثرت کا تعلق ہے.حضرت ابو بکر الصدیق اور حضرت عمر اور دوسرے کبار صحابہ جو السابقون الاولون میں سے تھے اور انہیں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل تھا مگر ان کی روایات نسبتا بہت کم ہیں جبکہ بعض دوسرے صحا بہ جنہوں نے بہت کم عرصہ حضور کی صحبت میں گزارا ان کی روایات بہت زیادہ ہیں.چنانچہ سب سے زیادہ روایات حضرت ابو ہریرہ کی ہیں جن کی تعداد قریباً ۵۳۷۴ ہے.حالانکہ وہ چھ سات ہجری میں فتح خیبر کے قریب مسلمان ہوئے.حضرت عبد اللہ بن عمر کی مرویات ۲۶۳۰ ، حضرت انس بن مالک کی ۲۲۷۶ ، حضرت عائشہ کی ۲۲۱۰ ، حضرت ابن عباس کی ۱۹۷۰ء ومن الصحابة من كان يتوقف في التحديث.........خشية من ان ينسب الى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقله.وقال عمرو بن الشيباني كنت اجلس الى ابن مسعود حولا يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذا قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم استقلته رعدة وقال هكذا او نحوذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.......و كان ابن عباس يقول كنا نحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اذ لم يكن يكذب عليه فلما ركب الناس الصعبة والذلل تركنا الحديث عنه - (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۱۹ - الامام الشافعي صفحه ۲۱۱)
تاریخ افکا را سلامی حضرت جائز کی ۱۵۴۰، حضرت ابو سعید خدری کی ۱۱۷۰، حضرت عبد اللہ بن مسعود کی ۸۰۰، حضرت عبد اللہ بن عمرو کی ۷۰۰ ، حضرت علی کی ۵۸۶ ، حضرت عمر کی ۵۳۷، حضرت ابو ذر کی ۲۸۱ اور حضرت ابو بکر کی روایات کی کل تعدا د ۱۳۲ ہے.روایت حدیث کے رواج میں تدریج عراق میں رہنے والے صحابہ اور تابعین سے نسبتاً کم احادیث مروی ہیں نے یہی وجہ ہے کہ قریباً ۱۳۰ ھ تک اہل عراق کے ہاں روایت حدیث کا چرچا بہت کم رہا اور کافی عرصہ بعد اس کے فروغ کا ذوق وشوق بڑھاتے اور حنفی فقہاء نے بھی روایت حد بیث کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی چنانچہ عباسی خلیفہ المهدی (متوفی ۱۲۹ھ ) کے کہنے پر حضرت امام محمد بن حسن الشیبانی امام مالک سے حدیث پڑھنے مدینہ منورہ گئے اور وہاں تین سال رہ کر ان سے موطا پڑھی اور مدینہ کے دوسرے اہل علم سے بھی حدیث کے بارہ میں معلومات حاصل کیں ہے اس کے بر خلاف مدینہ منورہ کے صاحب علم صحابہ اور ان کے شاگر دروایت احادیث میں بڑے نمایاں تھے کیونکہ مدینہ منورہ احادیث اور تاریخی روایات کا مرکز تھا اور اسی تعلق کی وجہ سے روایت حدیث میں حضرت امام مالک کا ذوق اور رحجان قابل فہم ہے اور اس علم کا وہ خاص شوق بھی رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود جب انہوں نے موطا کی تدوین کا ارادہ کیا تو ۱۷۹ ھ یعنی اپنی وفات ستک وہ اس میں کل ۷۲۰ اروایات شامل کر سکے جن میں سے پانچ سو کے قریب مرفوع احادیث ہیں علوم الحديث ومصطلحه لصبحی الصالح “ صفحه ۳۵۹ و مالک بن انس صفحه ۱۷۱ امرهم عمر ان لا يحدثوا الناس وكان الشعبي يقول كره الاولون الصالحون الاكثار من الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم تذكرة الحفاظ للذهبي صفحه ۷ - ابو حنیفه صفحه ۱۵۸) ان تدوين السنن حدّها البعض بسنة ثلاثة واربعين ومائة.....وكان ابو حنيفة لا يطمئن الى احاديث الاحاد ابو حنيفه صفحه ۱۳۷، ۱۶۴۱۵۸ مالک بن انس صفحه ۱۷۳۰۱۰۹) كان محمد وابو يوسف قد مالا بعد وفاة استاذهما بعض الميل الى التخفيف من التشدّد في تلقى السنن والاحاديث...و اما محمد فاقام على باب مالک ثلاث سنين في حكم المهدى (ابو حنيفه صفحه ۱۶۹۰۱۵۸ - الامام الشافعي صفحه (۸۰)
تاریخ افکا را سلامی ۶۴ اور باقی مرسل روایات آثار صحا بہ یا فقہاء مدینہ کے فتاوی ہیں یا عمل اہل مدینہ کا بیان ہے.لے یہ ۱۷۹ ھ کے قریب کی بات ہے لیکن ۲۴۰ ھ تک یعنی ایک سو سال سے بھی کم عرصہ میں روایات کی تعد ا دلا کھوں تک پہنچ گئی کیونکہ امام احمد بن مقبل (متوفی ۲۴۱ ھ ) نے اپنی مسند میں تمہیں اور چالیس ہزار کے درمیان احادیث شامل کی ہیں.جو سات لاکھ پچاس ہزار روایات میں سے منتخب کی گئیں تھیں.ان کے بعد امام بخاری (متوفی ۲۵۶ھ) نے اپنے زمانہ میں مروج احادیث کے ذخیرہ میں سے صحیح احادیث منتخب کرنے کا اہتمام کیا اور اس کے لئے قواعد اور اصول تجویز کئے.چنانچہ اس کے لئے اپنی زندگی کے قریباً سولہ سال صرف کر کے جو مجموعہ تیار کیا اس کی کل احادیث سات ہزار تین سوستانوے ہیں اور اگر مکررات کو نکال دیا جائے تو اصل مروی احادیث کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے.صحیح مسلم کی احادیث ۷۵۷۵ ہیں.ابو داؤد کی ۴۸۰۰.اس میں مکررات شامل ہیں.یہی حال ترندی ، نسائی اور ابن ماجہ کا ہے ان سب کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے یعنی حدیث کی ایسی چھ کتابیں جن میں درج احادیث کوعلماء اہل سنت نے بالعموم صحیح قرار دیا ہے." صحت و حجیت حدیث کبار تابعین کے زمانہ میں حدیث کی سند کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا تھا.جب کسی معتبر قابل بھروسہ انسان سے سنا جاتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا یا یوں کہا تھا تو اس پر اعتبار کر لیا ل کہا جاتا ہے کہ یہ قلت اس لئے ہے کہ امام مالک اخذ حدیث میں بڑے محتاط تھے.ایک باران سے کہا گیا کہ ابن تخمینہ کے پاس کچھا حادیث ہیں جو آپ بیان نہیں کرتے تو آپ نے جواب دیا اگر ہر سنی سنائی بات میں بطور حدیث بیان کرنے لگوں تو پھر میرے جیسا احمق کوئی نہیں حالانکہ ابن عیینہ مانے ہوئے محدث تھے.امام شافعی کہا کرتے ت العلم يدور على ثلاثة مالک ولیث و سفیان بن عیینه مزید تفصیل کے لئے دیکھیں.مالک بن انس صفحه ۱۹۲۰۱۹۱۰۱۸۷۰۱۰۵۰۱۰۴ ۱۹۳ - الامام الشافعی صفحه ۲۱۳۱۷۳، ۲۳۸ قال احمدان هذا الكتاب قد جمعته وانتقيته من اكثر سبعمائة وخمسين الف حديث الامام احمد بن حنبل صفحه ۲۴۳ - الامام الشافعي صفحه ١٣٦) کے الامام الشافعی صفحه ۲۷۱- ابو حنیفه صفحه ۱۵۹
تاریخ افکا را سلامی جاتا لیکن بعد میں جب حزبی اختلاف بڑھے اور عجمی عناصر بکثرت اسلام میں شامل ہوئے اور تمدنی مسائل نے وسعت اختیار کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کرنے کی جرات کی جانے لگی.اس سے سمجھدار اور علم کا حامل طبقہ خاصہ پریشان ہوا اور اس سراسر غلط اور نقصان دہ رجحان کی روک تھام اور صحیح احادیث کی پہچان کے لئے یہ پوچھا جانے لگا کہ اس حدیث کی روایت کرنے والا کون ہے اور اس کے معتبر ہونے کے کیا قرائن ہیں یا یہاں سے سند اور راویوں کی چھان بین کے لئے اصول مرتب کرنے کی طرف توجہ مبذول ہوئی.اس طرح سند کی اقسام ، حدیث بیان کرنے والے راویوں کی تعداد.ان کے حالات زندگی اور سیرت کے مختلف پہلو جاننے کی جد وجہد کا آغاز ہوا اور اصطلاحات احادیث اور اسماء الرجال کا وہ عظیم الشان فن معرض وجود میں آیا جس کی مثال مسلم معاشرہ کے سوا دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں ملتی ہے صحت اور حمیت کے لحاظ سے احادیث کی اقسام سند اور راویوں کی تعداد کے اعتبار سے احادیث کو چا را قسام میں تقسیم کیا گیا ہے.متواتر اور مشہور عزیز اور غریب متواتر وہ حدیث ہے جس کو مختلف علاقوں کے اتنے راویوں نے بیان کیا ہو جن کا جھوٹ پر متفق ہو جانا عقلاً اور عادتاً محال ہو نیز جو بات حدیث میں بیان ہوئی ہو وہ ایک مشاہدہ میں آجانے والی بات ہو کسی نظریہ یا عقیدہ کی بنا پر محض خوش فہمی سے اس کا تعلق نہ ہو.عملی تواتر کی تو بے شمار مثالیں ملتی ہیں مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ نمازیں پڑھا کرتے تھے.فلاں نماز کی اتنی رکعات ہیں.آپ نے حج کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف فرمایا.آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں آبسے تھے.مکہ کو آپ نے فتح کیا تھا.غرض ایسی بے شمار لم يكن العلماء يسئلون عن الاسناد فلما وقعت الفتنة قالوا سموا لنا رجالكم (مالک بن انس صفحه ۲۱۳) يقول المستشرق الا لما ني لم يكن فيما معنى من الامم السابقة كما لا الآن أمة من الامم المعاصرة انت في علم اسماء الرجال بمثل ما جاء به المسلمون في هذا العلم العظيم الذي يتناول اسماء خمس مائة الف رجل وشئونهم.مالک بن انس صفحه ۱۹۲)
تاریخ افکار را سلامی باتیں اور واقعات ہیں جن کے بارہ میں ذرہ بھی شک نہیں اور کوئی عقلمند انسان جو اسلام کی دینی تاریخ سے واقف ہے اور مسلم معاشرہ کو جانتا ہے وہ ایسے عملی واقعات سے انکار نہیں کر سکتا ہے البتہ قولی تواتر کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں مثلاً کہا گیا ہے کہ حدیث مَنْ كَذَبَ عَلَى مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَرَّءُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ متواتر ہے یعنی آنحضرت کی طرف کوئی جھوٹ موٹ منسوب کرنا انسان کو جہنمی بنا دیتا ہے.اس حدیث کو اتنے لوگوں نے اور اتنی کثرت کے ساتھ روایت کیا ہے کہ اس کا درست اور صحیح ہونا یقینی ہے.حدیث انما الاعمال بالنیات کو بھی بعض نے متواتر کہا ہے اور اس کا مفہوم یقینی ہے.امام شافعی حدیث متواتر کو حدیث العامہ بھی کہتے ہیں.راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی دوسری قسم مشہور ہے.یہ وہ حدیث ہے جس کی سند میں کسی جگہ بھی تین سے کم راوی نہ ہوں.حدیث کی تیسری قسم عزیز ہے.یہ ہ حدیث ہے جس کی سند میں کسی جگہ بھی دو سے کم راوی نہ ہوں.حدیث کی چوتھی قسم غریب ہے.یہ وہ حدیث ہے جس کی سند میں کسی جگہ ایک راوی رہ گیا ہو.مؤخر الذکر حدیث کی تینوں قسموں میں یعنی مشہور عزیز اور غریب کا اصطلاحی نام خبر احادیا اخبارا حاد ہے.امام شافعی ان کو حدیث الخاصہ بھی کہتے ہیں.خبر واحد (خواہ وہ مشہور ہو یا عزیز یا غریب) کو دینی اور شرعی مآخذ کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے علم حدیث کے ماہرین نے جو شرائط مقر ر کی ہیں وہ یہ ہیں :.ا سند متصل ہو، منقطع یا مرسل نہ ہو.سند کے راوی معروف ہوں لوگ انہیں جانتے ہوں وہ مستور الحال نہ ہوں.سند کے یہ راوی نیک ہوں.بچے اور صادق القول ہوں.ان صفات کا اصطلاحی نام لے تواتر عملی یعنی سنت کی سب سے عمدہ اور واضح تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے رسالہ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی کے صفحہ (۴) پرتحریر فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں ”سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادۃ اللہ ہی ہے کہ جب انبیا علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں."
تاریخ افکا را سلامی 12 عدالت ہے گویا تیسری شرط یہ ہے کہ راوی عادل ہوں.۴.سند کے راویوں کا حافظہ اچھا ہو اور وہ بات کو یا درکھنے کی اہلیت رکھتے ہوں اس وصف کا اصطلاحی نام "ضبط " ہے کو یا چوتھی شرط یہ ہے کہ راوی ضابط ہو.سند کے راویوں میں سے کوئی راوی مسکلس نہ ہو اور نہ اس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو..امام شافعی حدیث کی صحت کے لئے یہ شرط بھی لگاتے تے ہیں کہ راوی انہی الفاظ میں حد بیث بیان کرے جو اس نے منے ہوں.مفہوم بیان نہ کرے.کے.امام مالک کے نزدیک خبر واحد کے مقبول ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو.امام مالک عمل اہل مدینہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں.وہ اپنی مشہور کتاب موطا میں اس اہمیت کی طرف مختلف الفاظ میں بارہا را شارہ کرتے ہیں.مثلاً کبھی کہتے ہیں هذا الأمرُ الَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ النَّاسَ وَأَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا.کبھی یوں فرماتے ہیں.السُّنَّةَ الَّتِي لا اخْتِلَافَ عِنْدَنَا يَا أَلا مُرُ عِنْدَنَا - لے مُدلس اسے کہتے ہیں جو اس انداز میں بات کرے جیسے اس نے یہ حدیث مروی عنہ سے خود سنی ہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہو کہ اس نے خود یہ حدیث نہیں سنی تھی البتہ مروی عنہ سے ملا تھا یا اس سے ملنے کا امکان تھا.تدلیس میں ایک گو نہ دھو کہ کا شائبہ ہوتا ہے.يقول الشافعي لا تقوم الحجة بخير الخاصة حتى يجمع امورا منها ان يكون من حدث به ثقة في دينه معروفاً بالصدق في حديثه عاقلا بما يحدث به و ان يكون ممن يؤدى الحديث بحروفه كما سمع برينا ان يكون مدلسا....ما يحدث الثقات خلافه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينتهى بالحديث موصولا الى النبي الامام الشافعی صفحه ۲۲۶ تا ۲۳۸) کے اس شرط کی پابندی شائد ہی کسی نے کی ہو کما لا یخفی تفصیل کے لئے دیکھیں.ابو حنیفه صفحه ۱۵۶ء مالک بن انس صفحه ۱۹۱ ✓ ان المدينة سلطانها الديني والتاريخي مسلّم فيها اقام النبي صلى الله عليه وسلم و هنالك عاشت الكثرة الغالية من الصحابة وامهات المؤمنين....قال مالك ان الناس تبع لاهل المدينة و اجماعهم مقدم على خير الاحاد.أما جمهور المحدثين فلايرون للراوى المدنى فضلا من حيث هو مدني وانما الفضل بالعدالة والضبط ابوحنيفه صفحه ۱۳۹، ۱۳۰ - مالک بن انس صفحه ۱۹۱،۱۷۹،۱۷۴)
تاریخ افکا را سلامی ۶۸ امام ابو حنیفہ خبر واحد کو قبول کرنے کے سلسلے میں ان شرائط کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ وہ عمومات قرآن اور اس کے ظواہر کے خلاف نہ ہو.راوی خود اس حدیث کے خلاف عمل نہ کرے.نیز اس حدیث کا تعلق عموم بلوکی کے سے نہ ہو یعنی وہ ایسی بات نہ ہو جس کا جاننا بڑی حد تک عوام کے لئے ضروری تھا.جیسے ایک صحابیہ بسرہ کی طرف منسوب یہ حدیث ہے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.یہ حدیث اس لئے ناقابل قبول ہے اگر حضور نے ایسا فرمایا ہوتا کہ شرم گاہ کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو یہ بات عام طور پر لوگوں کے علم میں ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہے.ہے -۹ ائمہ فقہ حجیت حدیث کے سلسلہ میں بعض اوقات گردو پیش اور ماحول سے بھی متاثر ہوتے تھے.مثلاً امام مالک کو اس قسم کی روایات قبول کرنے میں تامل رہتا جن کی تائید اہل مدینہ کے عمل مستمر کے ذریعہ نہ ہوسکتی ہو مثلاً ایک دفعہ آپ کے سامنے یہ روایت بیان ہوئی کہ جب حضرت ابو بکر کو جنگ یمامہ میں فتح کی خوشخبری ملی تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا.امام مالک نے کہا یہ روایت درست نہیں ہوسکتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی بڑی فتوحات نصیب ہوئیں آپ کے زمانہ میں صحابہ نے بھی کامیابیاں حاصل کیں لیکن کبھی کسی نے سجدہ شکر ادا نہیں کیا جب ان سابقون کا یہ طریق نہ تھا اور مدینہ میں اس پر عمل نہیں تو ہم کیوں ایک بدعت کو اختیار کریں.اسی نظریہ کی بنا پر آپ نے مندرجہ ذیل صورتوں کی بھی مخالفت کی.سجدات تلاوت اس سلسلہ میں مروی روایت کو آپ نے اس بنا پر رد کر دیا کہ اہل مدینہ کے ہاں یہ رواج سلے نہیں ہے.ب.یہ روایت کہ رمضان کے معا بعد شوال کے چھ روزے رکھنا باعث ثواب ہے.امام مالک کے نزدیک یہ روایت اس لئے درست نہیں کہ یہ سد ذرائع کے خلاف ہے لوگ اس طرح ان چھ روزوں کو بھی رمضان جیسی اہمیت دینے لگیں گے.ج کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے (خواہ وہ فوت شدہ یا معذور ہو ) نہ حج کر سکتا ہے اور الذي يكثر وقوعه وتعم به البلوى (الامام الشافعي صفحه ۱۳۷) مالک بن انس صفحه ۱۹۳٬۱۸۵ - ابو حنيفه صفحه ۱۵۸ - الامام الشافعي صفحه ۲۳۷، ۲۳۸ احب الاحاديث الى ما اجتمع عليه الناس وهذا عالم يجتمع عليه الناس (مالک بن انس صفحه ۱۷۹)
تاریخ افکار را سلامی ۶۹ نہ روزے رکھ سکتا ہے اس بارہ میں جو روایت ہے امام مالک کے نز دیک وہ اس لئے درست نہیں کہ یہ قرآنی ارشاد لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخرى کے خلاف ہے نیز سب کے نزدیک کوئی کسی - دوسرے کی جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا.غرض عبادات میں آپ نیابت کے قائل نہ تھے.2- یہ روایت کہ تقسیم سے پہلے غنیمت میں پکڑے گئے جانوروں کو ذبح کرنا منع ہے.امام مالک.کے نزدیک درست نہیں کیونکہ جنگ کے حالات کا تقاضا ہے کہ ایسی حالت میں کھانے پینے کی چیزوں کے استعمال کی کھلی اجازت ہو.جنگ کے حالات میں ایسی ممانعت نقصان کا باعث بن سکتی ہے.- الْبَيْعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقا - یہ روایت امام مالک کے نز دیک درست نہیں کیونکہ اہل مد بینہ کے ہاں ایسا رواج نہیں ہے حالانکہ اکثر محد ثین کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے.و.ایک دفعہ امام ابو یوسف نے امام مالک کے سامنے یہ روایت بیان کی کہ علاقہ شام میں حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی موجودگی میں حضرت بلال نے جس طرح اذان دی اسی طرح ہم بھی اذان دیتے ہیں لیکن امام مالک نے یہ کہہ کر امام ابو یوسف کے موقف کو رد کر دیا کہ اہل مدینہ کا معروف عمل اس کے خلاف ہے.ز امام مالک سے پوچھا گیا کہ مسجد میں خاص حلقہ بنا کر قرآن شریف پڑھا جاتا ہے یا خاص انداز میں جبر اذکر الہی کیا جاتا ہے کیا اس قسم کے رواج جائز ہیں ؟ تو امام مالک نے فرمایا یہ سب بدعت ہیں کیونکہ ایسا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ آپ کے صحابہ نے اور نہ اہل مدینہ ایسا کرتے ہیں.اس ساری بحث سے ظاہر ہے کہ قطع نظر اس بحث کے کہ کسی حدیث کے راوی قوی ہیں یا ضعیف دوسری وجوہات کی بنا پر حدیث کی صحت پر امام مالک کو اعتراض تھا.کہیں کہا گیا اہل مدینہ سے عمل کے خلاف ہے کسی جگہ ظاہر قرآن سے مخالفت کو بنیاد بنایا گیا ہے اور کہیں مصلحت قوم یا سد ذرائع کے اصول کو مد نظر رکھ کر روایت کو رد کیا گیا.ل الانعام : ۱۲۵ سے ابو حنیفه صفحه ۱۵۷ مالک بن انس صفحه ۲۲۹ حاشیه قال مالك لم يكن بالامر القديم انما هو شي أُحدث - ( مالک بن انس صفحه ۱۷۷)
تاریخ افکار را سلامی ۱۰.بعض اوقات علاقائی عقیدت یا اپنے اپنے اساتذہ سے خصوصی تعلق بھی روایت حدیث ن کی ترجیح کا باعث بن جاتا ہے حالانکہ خودحد یث کے راویوں کے ثقہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا.مثلاً ایک دفعہ امام ابو حنیفہ سے امام اوزاعی نے پوچھا کہ تم لوگ رکوع میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت اور نماز کے دوسرے موقعوں پر رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟ یعنی ہاتھ کیوں نہیں اٹھاتے.امام ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ اس بارہ میں کوئی صحیح حدیث ہمیں نہیں ملی.امام اوزاعی نے جواب دیا حدیث تو ہے زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ عبد اللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے.امام ابو حنیفہ نے جواب میں کہا ہمارے استاد حماد نے ابرا ہیم شفی سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے استاد علقمہ سے سنا کہ عبد اللہ بن مسعود بیان کیا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے ، اس کے بعد کسی جگہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے.امام اوزاعی نے اس پر کہا.زہری، سالم اور عبد اللہ بن عمر جیسے مانے ہوئے مدینہ کے راویوں کے مقابلہ میں آپ کس کا نام لے رہے ہیں.امام ابو حنیفہ نے جواب دیا حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم ، سالم سے زیادہ سمجھدار ہیں.رہے عبد اللہ بن مسعود تو بھلا ان کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے رفیق ، ہمیشہ ساتھ رہنے والے سر بر آوردہ صحابی ہیں.یہ جواب سن کر امام اوزاعی خاموش ہو گئے.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ فقہ کے دونوں اماموں میں سے کسی کو حدیث کے کسی راوی کی صداقت پر کوئی اعتراض نہیں تھا دونوں کے نزدیک راوی ثقہ اور معتبر ہیں لیکن تفقہ میں تفاوت اور اپنی اپنی واقفیت اور عقیدت کے حوالہ سے ہر ایک اپنی بات پر زور دے رہا ہے.بعض اوقات ایک مجتہد اور امام فقہ نے ایسے وقت میں اپنی کسی رائے کا اظہار کیا جبکہ اسے کسی حدیث کا علم نہیں تھا اور دوسرے عالم کے علم میں یہ حدیث آئی تو اس وجہ سے دونوں کی را ئیں مختلف ہو گئیں ایک کی رائے اپنے اجتہاد کی بنا پر تھی اور دوسرے کی مروی حد میث کی بنا پر.پہلے کو اصلاح کا موقع نہ مل سکا کیونکہ وہ ایسے علم سے پہلے فوت ہو گیا تھا.اس طرح قبول حدیث ا کے بارے میں اس امام کے مقلدین تردد میں پڑ گئے.
تاریخ افکار را سلامی ۱۲.بعض اوقات حزبی تعصب کی وجہ سے بھی قبول حدیث کے بارہ میں اختلاف ہوا.مثلا شیعہ عام صحابہ اور ان کے شاگردوں کی روایات کو قبول نہیں کرتے اس کے بالمقابل بنو امیہ اور ان کے حامی جو اس وقت برسر اقتدار تھے حضرت علی اور ان کے حامیوں کی روایات کو کوئی دینی وقعت دینے کے لئے تیار نہ تھے لے اسی طرح خوارج ان صحابہ کی روایات کو قبول نہیں کرتے تھے جو عثمان کے آخری دور میں ان کے حامی تھے یا حضرت علی کی حمایت کا دم بھرتے تھے.معتزلہ کا رویہ بھی قبول احادیث کے بارہ میں حوصلہ افزا سے نہ تھا.اخبار احاد کی صحت اور حجیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا ہے وہ موضوع کے علمی پہلو کو زیادہ واضح کرتا ہے.آپ فرماتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پر ہیز گار تھے.انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا.حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو ان کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی.بہت محنت کی نگر نا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی.کے بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور کبھی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے تاہم حد بیٹوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نُورٌ عَلی نُور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں.لي ان اعظم تهمة كانت تؤدى بالناس فى ايام حجاج ان يحب رجل عليا ولا يتبوء منه ( الصلة بين التصوف والتشيع صفحه ٢٩٠) مالک بن انس صفحه ۱۸۳ كان احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم غير مدوّنة في كتاب بل كان يتلقى من أفواه الرّجال (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ٢١٠)
تاریخ افکا را سلامی ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسی ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو وہ ترجیح دیں گے.حدیث سے متعلق چند مزید اصطلاحات مرفوع وہ حدیث ہے جس کی سند میں صحابی یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا، یا ایسا کہا ہے یعنی بات آنحضرت تک پہنچائی گئی ہو.مُرْسَل وہ حدیث ہے جس کی سند میں صحابی کا ذکر نہ ہو.تابعی کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے.منقطع وہ حدیث ہے جس کی سند میں صحابی کی بجائے کوئی اور راوی رہ گیا ہو.بلاغات سے مراد یہ ہے کہ راوی ہے.بَلَغَنِي عَنِ الثَّقَةِ.مُعَلَّق وہ روایت ہے جس کی ابتدائی سند بیان نہ ہوئی ہو مثلاً دوسری یا تیسری صدی کا راوی کے عن ابن عمر قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم موقوف وہ حدیث ہے جس میں بات صحابی پر ختم کر دی گئی ہوئی کہ فلاں صحابی نے یہ بات بطو ر حد بیث بیان کی ہے.اس کا نام اثر بھی ہے.مقطوع وہ حدیث ہے جس میں تابعی یا تبع تا بھی وغیرہ پر بات ختم کر دی گئی ہو.ضعيف وہ حدیث ہے جس کی سند کے کسی راوی کا حافظہ کمزور ہو یا راوی نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو یا اسی قسم کا کوئی اور نقص ہو.حَسَن وہ حدیث ہے جس کی کمزوری کو دوسرے شواہد کے ذریعہ دور کر دیا گیا ہو.صحيح وہ حدیث ہے جس میں صحت کی تمام شرا کا موجود ہوں.سند مرفوع متصل ہو.راوی سارے ثقہ ہوں.متن قرآن کریم کے مخالف نہ ہو وغیرہ.ل ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۲۰/۲۱ مالک بن انس صفحه ۱۹۲ حاشیه
تاریخ افکار را سلامی فتاوی صحابہ ۷۳ فقہائے اربعہ نے صحابہ کے فتاویٰ کو بھی دینی سند اور شرعی ماخذ کے طور پر تسلیم کیا ہے کیونکہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اور مقاصد شریعت کو زیادہ اچھی طرح جانتے تھے لیے بعض دوسرے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر تو صحابہ کا فتوی آنحضرت کے کسی ارشاد پر مبنی تھا تو وہ بلا شک حجت شرعیہ اور واجب التسلیم ہے اور اگر اس کی بنیا د صحابی کے ذاتی اجتہاد پر تھی تو اس میں ساری امت کے علما و ان کے ساتھ شریک ہیں.ایک شبہ کا ازالہ یہ جو بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملفوظات قلمبند کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے یا آپ کے پہلے دو خلفاء کثرت روایت کو پسند نہیں کرتے تھے تو اس ممانعت کی وضاحت یہ ہے کہ ایسا حکم اس احتیاط کی بنا پر تھا کہ قرآن کریم ہر قسم کے اشتباہ سے بچایا جائے اور دوسرے لوگوں کو متنبہ کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی یا غلط بات منسوب کرنا ایک سنگین جرم ہے اور اس کی روک تھام ضروری ہے.ہے ورنہ آپ کا تواتر عملی ہمیشہ واجب الاتباع سمجھا جاتا رہا ہے.خود آپ کا فرمان ہے صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أَصَلَّى - - تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں.اسی طرح فرمایا عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيّينَ کے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کی پیروی کرو اور اسے اپنا ؤ.قال مالك قول الصحابة سنة تتبع لأنهم الذين شاهدوا و عاينوا وتلقوا علم رسول الله الله ويقول ابو حنيفة ان كان للصحابة رأى واحد اخذت به وان اختلفوا اخترت من آرائهم ولا أخرج عنهما إلى آراء غيرهم و اذا جاء الامر الى ابراهيم و الحسن ) اى التابعي) فهم رجال و نحن رجال (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۸۳۸۰) كان ابو بكر لا يقبل الحديث إلا من اثنين.وعلى بن ابي طالب لا يقبل الحديث إلَّا بعد استخلاف قائله تاريخ التشريع الاسلامی صفحه ۱۳۶ و ۱۴۰) بخارى كتاب الاذان باب الاذان للمسافرين ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في الأخذ بالسنة
تاریخ افکا را سلامی ۷۴ آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو خطبہ دیا اس کے بارہ میں فرمایا : آلا لِيُبَلغَ الشَّاهِدُ الغَائِبَ فَلَعَلَّ بَعْضُ مَنْ يَبْلُغُهُ يَكُونُ اَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ ، یعنی جو یہاں موجود ہیں یہ یہ اور میرا یہ خطبہ سن رہے ہیں وہ ان لوگوں تک یہ باتیں پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں (یا میری باتیں نہیں سن سکے ) کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ پہنچانے والے سے زیا دہ وہ شخص بات کو یا درکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے والا ہو جسے بات پہنچائی گئی ہے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر دونوں مسائل پیش آمدہ کے بارہ میں فیصلہ کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو مد نظر رکھتے تھے جن کا انہیں علم ہوتا اور لوگوں سے بھی دریافت کرتے رہتے کہ اس بارہ میں کسی کو حضور کے کسی ارشاد کا علم ہو تو وہ بیان کرے ہے.مسند احمد جلد اوّل : صفحه ۲۳، ۲۳۴ جلد ۲ صفحه ۶۷۲ مطبوعہ بیروت محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ١٦
تاریخ افکار را سلامی ۷۵ اجماع احکام شرعیہ کا تیسرا ماخذ اجماع ہے.اجماع سے مراد امت مسلمہ کے ارباب حل و عقد اور اجتہاد کا ملکہ رکھنے والے اصحاب علم کا کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں اتفاق ہے جس کی ٹھیک ٹھیک وضاحت قرآن یا سنت ثابتہ میں موجود نہ ہو.صحابہ کے ایسے اتفاق اور اجماع کو اہل السنت والجماعت حجت شرعیہ تسلیم کرتے ہیں لے صحابہ کے بعد آنے والے مجتہدین کے اتفاق کی کیا اہمیت ہے.اس سلسلہ میں اختلاف ہے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اصولاً یہ اتفاق بھی اجماع اور واجب التسلیم ہے.اور بعض دوسرے ہے اہل علم کا کہنا ہے کہ دور صحابہ کے بعد ایسے اجماع کا وجود مشتبہ ہے.نہ یہ معین ہے کہ بعد کے زمانہ میں کون کون علماء درجہ اجتہاد پر فائز تھے اور کہاں کہاں اور کس کس ملک میں وہ رہتے تھے اور نہ کسی مسئلہ پر ان سب کے اتفاق کا علم عملا میسر آسکتا ہے.سے امام مالک اہل مدینہ کے اجتماع کو بھی بطور حجت شرعیہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اہل مدینہ صحابہ کے عمل مستمر کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان کے اتفاق کو جو انتخاب خلافت کے سلسلہ میں تھا ل هناك اجماع لا يُساغ بمسلم ان ينكره كالاجماع على عدد ركعات الصلوة وعدد الفرائض وفرضية الزكواة وغيرها يخرج عن الاسلام من لم يؤمن بها لان هذا الاجماع معتمد على أقوى النصوص سندا ودلالة ولان العلم بهذه الامور علم العامة اى العلم الذى لا يسع لمُسلم أن يُجْهَلَهُ.(محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۷۳۷۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.اِنَّ أُمَّتِي لا تجتمع على ضلالة (ابوداؤد كتاب الفتن باب ذكر الفتن - سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب السواد الأعظم ) لا يمكن ان يتفق العلماء في كل الاقاليم الاسلامية المتنائية على رأي واحد (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۷۴)
تاریخ افکا را سلامی 24 واجب التسلیم مانا گیا ہے.لے شیعہ بھی اپنے مجتہد علماء کے اجماع کو شرعی حجت اور واجب التسلیم قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ اجتماع غلط ہوتا تو امام غائب خاموش نہیں رہ سکتے تھے وہ ضرورظاہر ہوکر اس کی تصحیح فرما دیتے.ہے.ل انفرد مالک من بين الفقهاء ان اجماع اهل المدينة يلزم كل الامصار لان اهل المدينة هم حملة السنة النبوية وهم اهل الحل والعقد......ومبايعتهم كافية لانعقاد البيعة.( مالك بن انس صفحه ۱۷۴- محاضرات صفحه ۷۸ ) قال الشيعة ان اجماع مجتهديهم حجة صحيح لانه لو كان باطلا ماسكت الامام الغائب بل يظهر ويعلن الحق (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۷۷)
تاریخ افکار را سلامی رائے یا اجتہاد شریعت اسلامیہ کا چوتھا ماخذ رائے ہے یعنی کوئی عالم یا چند عالم مل کر سوچ بچار اور غوروفکر کے بعد جو رائے قائم کریں اس کے مطابق عمل کرنا خودان علما کے لئے بھی ضروری ہے اور ان کے لئے بھی جو ان علماء کے زیر اثر ہیں بشرطیکہ یہ رائے " ان شرائط کے مطابق ہوئے جن کی تفصیل صفحات آئندہ میں پیش کی جارہی ہے.رائے جس کو ایک حد تک شرعی تقدس حاصل ہے وہ آزادانہ رائے نہیں جو انسان اپنے طور پر اپنی سمجھ اور غور و فکر کے بعد قائم کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا حل ہے قرآن کریم یا حد یث صحیحہ سے بالصراحت معلوم نہ کیا جا سکے اور نہ اجماع کے ذریعہ کوئی وضاحت ملے تو پھر قرآن کریم کے مقاصد عامہ اور حدیث کے اصول معینہ کی روشنی میں اُمت کی بہبود اور مصلحت عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی مرضی کے بارہ میں درجہ اجتہاد پر فائز علما معلومات حاصل کریں.اسی انداز غورو فکر اور کوشش کا دوسرا نام اجتہاد اور رائے ہے.اجتہاد بالرائے یعنی مذکورہ بالا اندا ز غور و فکر کے ذریعہ کوئی رائے قائم کرنے یا کسی فیصلے کے اظہار کی شرعی حیثیت کے بارہ میں خاصہ اختلاف ہے.بعض صحابہ اور کئی تابعین دینی معاملات میں کسی رائے کے اظہار سے بچتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ ہم اپنی کسی سوچ اور رائے کو خدائی حکم یا خدائی منشاء کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں کہ اس کے الرأى مايراه القلب بعد فکر و تأمل وطلب المعرفة وجه الصواب أو تأمل وتفكير في تعرف ما هو الا قرب إلى كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم.(محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ١٧ و ٢٦) من الفقهاء من يقول لا يصلح اخذ الاحكام الاسلامية ألا من النصوص كداؤد الظاهرى و ابن الحزم الأندلسي.....ولكن الذين اخذوا بالرأى عند عدم وجود نص ظاهر هم الأكثرون بل يكاد ينعقد الاجماع على الاجتهاد بالرأى - ( محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ٦٩)
تاریخ افکار را سلامی ZA مطابق تم عمل کرو ورنہ خدا ناراض ہوگا.وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اجتہاد بالرائے اختلاف بڑھانے کا سبب ہے ایک انسان کوئی رائے رکھتا ہے اور دوسرا کوئی کسی کی رائے کو الہی منشاء “ قرار دیا جائے اور کس کی رائے کو مسترد کیا جائے.اس بنا پر ایسی سوچ رکھنے والے علماء کے سامنے جب بھی کوئی سوال آتا اور قرآن کریم یا حدیث صحیح میں اس کا حل نہ ملتا تو وہ اس سوال کا جواب نہ دیتے یا بامر مجبوری اگر جواب دینا پڑ نا تو ساتھ کہہ دیتے کہ یہ میری رائے ہے.اگر یہ غلط ہے تو یہ میری سمجھ کا قصور ہے اور اگر خدا کے نزدیک یہ درست ہے تو یہ میری خوش قسمتی ہے یا ایک دفعہ حضرت ابن عباس سے ایک سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کا آذری.سائل نے عرض کیا اپنی ذاتی رائے بتا دیجیے.آپ نے جواب دیا.اللہ سے ڈرتا ہوں کہ پھسل جاؤں اور غلط بات کہہ بیٹھوں.امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر کے بعض علماء کو دیکھا ہے جب ان سے کسی دینی مسئلہ کے بارہ میں کوئی سوال کیا جاتا تو انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے موت ان کے سر پر منڈلا رہی ہے.مدینہ کے مشہور تابعی فقیہ قاسم بن محمد بن ابی بکر ایک دفعہ حج پر گئے تو منی میں ان سے بے شمار سوال کئے گئے وہ اکثر سوالات کے جواب میں کہتے.لا اذرى لا أعلم میں نہیں جانتا مجھے اس کا جواب معلوم نہیں.آخر میں تنگ آکر آپ نے کہا وَاللهِ مَا نَعْلَمُ مَا تَسْتَلُوْنَنَا وَلَوْ تَعْلَمُ مَا كَتَمْنَا حم.امام شافعی کہا کرتے تھے کہ حدیث پر عمل کرو اور رائے کو ترک کر دو گے امام مالک اس بات کو سخت نا پسند کرتے کہ فرضی سوال کئے جائیں.سوال کرنے والے سے آپ اکثر پوچھ لیا کرتے تھے کہ یہ واقعہ ہوا ہے یا فرض کر کے تم پوچھ رہے ہو.شے اس کے بر خلاف اہل عراق خاص طور پر نفی فرضی سوال بنا کر ان کے جواب تیار کرتے اور کہتے کہ لوگوں کی رہنمائی اور ازدیاد علم کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے تا کہ وقت پڑنے پر جواب دینے میں آسانی ہو.보 كان يقول ابو بكر الصديق هذا رأيي فان يك صوابا فمن عند الله وان یک خطاً فمتى ومن الشيطان ( الامام الشافعی صفحه ۱۰۴ ابو حنيفه صفحه ۱۴۷) الامام الشافعي صفحه ۱۰۴ مالک بن انس صفحه ۹۰ قال الشافعي عليكم بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعوا الراى الامام الشافعي صفحه ۱۰۷) الامام الشافعي صفحه ۲۴۲ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں الامام الشافعی صفحه ۱۳۹۰۱۱۷ - مالک بن انس صفحه ۲۱۸۰۹۱۰۵۱ - (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۴۳۰ ابو حنيفه صفحه ۱۵۱۰۱۵۰ - الامام احمد بن حبل صفحه (۲۱۸)
تاریخ افکار را سلامی 29 اگر غور کیا جائے اور گہری نظر ڈالی جائے تو رائے " کے بارہ میں اختلاف از قسم نزاع لفظی ہے.حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے تمام علماء کسی نہ کسی رنگ میں اور کسی نہ کسی درجہ میں رائے " کے قائل ہیں اور رائے سے کام لیتے رہے ہیں فرق صرف قلت یا کثرت کا ہے، اسلوب اور انداز کا ہے، نام اور اصطلاح کا ہے.تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ذمہ داری کے مقام پر فائز تھے وہ کسی قسم کی فنی یا اصطلاحی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر حسب ضرورت و حالات رائے سے کام لیتے اور سوچ بچار کے بعد ضروری فیصلے کرتے.رائے کا اس طرح استعمال انفرادی بھی تھا اور اجتماعی بھی اور اس کی متعد د مثالیں تاریخ نے محفوظ کی ہیں.مثلاً ا.حضرت معاذ بن جبل کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا تو انہوں نے حضور کے پوچھنے پر عرض کیا میں قرآن وسنت کے بعد اپنی رائے اور سمجھ سے کام لے کر فیصلے کیا کروں گا اور حضور نے ان کے اس اظہار کی تصدیق فرمائی ہے -۲.جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا ایک صحابی نے عرض کی اگر تو یہ پڑاؤ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے تو مجال کلام نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے طور پر فیصلہ فرمایا ہے تو جنگی نقطہ نظر سے یہ مقام مناسب نہیں وہ سامنے پانی ہے اس کے قریب لشکر قیام کرے پانی حاصل کرنے میں آسانی رہے گی دوسرے دشمن پر دباؤ قائم رکھنے کا مناسب موقع ملے گا.حضور نے اس صحابی کے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور اس کی بتائی ہوئی جگہ میں لشکر کو ٹھہرایا.- جنگ احزاب کے دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی سرکوبی کے لئے ایک مہم بھیجی اور دستہ کو حکم دیا کہ بڑی تیزی سے جائیں اور عصر کی نماز بنو قریظہ کی بستی میں جا کر پڑھیں.تیز چلنے کے باوجود عصر کی نماز میں دیر ہو رہی تھی.بعض صحابہ نے کہا کہ حضور کے فرمان کا منشاء جلدی پہنچنے کا تھا اس لئے انہوں نے عصر کی نماز راستہ میں ہی پڑھ لی.کچھ صحابہ نے اس بات پر اصرار کیا کہ حضور کے فرمان کی لفظ بلفظ تعمیل ہونی چاہیے.چنانچہ انہوں نے سورج ڈوبنے کے بعد بنو قریظہ کی بستی میں پہنچ کر نماز پڑھی.حضور کے علم میں یہ بات آئی لیکن حضور L ابو داود كتاب الاقضية باب اجتهاد الرأى بالقضاء
تاریخ افکا را سلامی ۸۰ نے کسی کے استدلال کو ر ڈ نہ فرمایا ہے ۴.حضرت علی یمن کے والی تھے آپ کے سامنے یہ کیس آیا کہ ایک لڑکے کے بارہ میں تین دعویدار تھے کہ یہ ان کا بیٹا ہے ثبوت کسی کے پاس نہ تھا.آپ نے قرعہ ڈالا جس کے حق میں قرعہ نکلا اس کے سپر د کیا اور دوسرے دو کو اس سے 2/3 دیمت دلوائی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فیصلہ کا علم ہوا تو آپ نے حضرت علی کی فراست کو سراہا اور خوش ہوئے ہے.ایک شخص فوت ہوا.دادا اور بھائی وارث چھوڑے.حضرت ابو بکر کی رائے تھی کہ دادا کی موجودگی میں بھائی وارث نہیں ہو سکتے.حضرت زید بن ثابت کی رائے تھی دادا کے ساتھ بھائی وارث ہوں گے.دادا کو ایک بھائی کے برابر حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ ثلث 113 تر کہ سے کم نہ ہو.ہے.حضرت عمر کے سامنے سوال آیا کہ ایک عورت فوت ہوئی ہے اس کے سگے بھائی بھی موجود ہیں اور اخیافی بھی نیز خاوند بھی زندہ ہے.آپ نے فیصلہ فرمایا کہ سگے بھائی محروم ہوں گے اور اخیا فی بھائی اور خاوند وارث ہوں گے.ایک سال بعد ایسے ہی ایک کیس میں آپ نے پہلے فیصلہ کے خلاف فیصلہ دیا اور سگے بھائیوں کو بھی حصہ دلایا.کے ے.ایک سادہ اور ان پڑھ لونڈی زنا کے جرم میں پکڑی گئی پوچھنے پر وہ کہنے لگی فلاں مرد نے دو درہم دیئے تھے پھر میں کیا کرتی.حضرت عمر نے موجود صحابہ سے مشورہ لیا.حضرت عثمان نے کہا ان پڑھ اور نا واقف ہے اسے کچھ علم نہیں.سزا تو اسے دی جاسکتی ہے جو کچھ جانتا ہو اور احکام الہی کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہو.حضرت عمر نے یہ مشورہ قبول کیا اور لونڈی کو سزا نہ دی..حضرت عثمان نے جمعہ کے روز دوسری اذان کا طریق جاری کیا تا کہ لوگ تیار ہو کر بر وقت جمعہ کی نماز کے لئے پہنچ سکیں.ھے ۹.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے یہ کیس آیا کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور مہر مقرر نہ کیا ابھی رخصتانہ نہیں ہوا تھا کہ وہ شخص فوت ہو گیا.حضرت ابن مسعودؓ نے فتوی دیا کہ اس عورت کو مہر مثل دیا جائے.14+ ام ابو حنيفه ص ۱۷۰ محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۲۷ ابوحنیفه صفحه ۱۴۷ ابو حنیفه صفحه ۱۴۹۰۱۴۸
تاریخ افکار را سلامی Al یہ تو انفرادی سوچ یا جزوی مشورہ کی بنا پر رائے کے اظہار یا فتویٰ دینے کی مثالیں ہیں اجتماعی مشورہ کی مثالیں بھی متعدد ہیں.صحابہ حسب ضرورت دینی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار کرتے اور ضروری فیصلے دیتے.۱۰ بیعت خلافت صحابہ کے مشورہ سے ہی منعقد ہوئی.حضرت ابو بکر نے صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا.سرکاری طور پر مستند مصحف امام صحابہ کے مشورہ کے بعد ہی تیار ہوا ہے سوا د عراق کی زمینیں صحابہ سے مشورہ کرنے کے بعد حکومت کی ملکیت میں رہنے دی گئیں اور سابقہ دستور کے مطابق فاتح افواج میں تقسیم نہ کی گئیں ہے غرض صحابہ حسب ضرورت و حالات رائے کے اظہار اور اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ دینے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے.اگر فوری طور پر ضرورت کے وقت انہیں قرآن وحدیث کی کوئی نص نہ ملتی تو بلا کسی توقف اور مزید تلاش کے ان کے فیصلے صادر ہوتے کے جن صحابہ کے بارہ میں یہ مروی ہے کہ وہ رائے کے اظہار میں تو قف فرماتے تھے وہ وہ ہیں جن کے سپر د کوئی ذمہ داری نہ ہوتی یا مسائل بیان کرنا وہ اپنا منصب نہیں سمجھتے تھے یا وہ فرضی سوالوں کے جواب سے بچنا چاہتے تھے.تا ہم اس خدشہ کی روک تھام ضروری کبھی گئی کہ کسی ذہن عناصر " آزادانہ سوچ کے نام پر گمراہی نہ پھیلا سکیں اور خلاف اسلام نظریات کی اشاعت کا موجب نہ بنیں.چنانچہ صحیح رائے پر رکھنے اور درست اجتہاد کی راہ ہموار کرنے کے علماء اسلام نے جو اصول تجویز کئے ان کا مختصر بیان "اجتہاد" کے عنوان کے تحت پیش کیا جا رہا ہے.انفرادی اور اجتماعی اجتہاد اور اس کی ضرورت اجتہاد کے لغوی معنے کسی اہم مقصد کے حصول کے لئے پوری پوری جان تو رکوشش کرنا اور فقہاء ابو حنيفه صفحه ۷ ۱۶۰،۱۳۹۰۱۴ کے الامام الشافعي صفحه ۲۰۸ عمل الصحابة بما رأوه مصلحة فى شئون المعاملات السياسية والتدبير و مصالح الدولة.وقد عمل عمر عِظام الأعمال دون بحث عن نصوص تشهد لها إلَّا كليات الشريعة في المصلحة مالک بن انس صفحه ۲۰۷،۱۷۱)
Ar کی اصطلاح میں قرآن وحدیث کے دلائل کو سامنے رکھ کر احکام شرعیہ عملیہ کے معلوم کرنے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دینے کا نام اجتہاد ہے.یہ کوشش جس کا نام اجتہاد ہے اُمت مسلمہ کے علماء اور فقہاء کے لئے واجب ہے کیونکہ زندگی کے بے شمار پہلو ہیں ہر پہلو کے لئے شریعت نے ایک خاص ہدایت اور ایک خاص حکم دیا ہے جس کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ علم اُمت کے فقہاء اور علماء ہی بہم پہنچا سکتے ہیں.اجتہاد کے جواز یا وجوب کے بارہ میں وہی اختلاف ہے جو رائے“ کے بارہ میں ہے کیونکہ بظاہر اجتہاد اور رائے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اجتہاد کا مفہوم رائے کے مفہوم سے زیادہ وسیع اور عام ہے.قرآن کریم کے لغوی معنوں پر غور کر کے کوئی حکم مستعبط کرنے کا نام بھی اجتہاد ہے.کسی حکم کے بارہ میں حد بیث تلاش کرنا اور اسے بطور دلیل پیش کرنا اور لغت کے لحاظ سے اس کے معنے معین کرنے کو بھی اجتہاد کہہ سکتے ہیں.اس کے بالمقابل رائے کا مفہوم محدود ہے.اجتہاد کے بارے میں یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے اختلافات ابھرتے ہیں اور تفرقہ بڑھتا ہے اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ اختلاف فروع اور جزئیات میں ہوتا ہے اور اگر عقل اور کمجھ سے کام لیا جائے اور لوگوں کی طبائع اور عادات پر نظر رکھی جائے تو اس اختلاف میں برکت اور سہولت ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ کہ تمدنی، تہذیبی اور معاشرتی مسائل میں گنجائش اور وسعت کے لحاظ سے میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے.یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ اجتہاد کا تعلق قطن غالب اور ظاہر سے ہے حقیقت کیا ہے اور باطن میں ل الاجتهاد في اللغة بذل غاية الجهد للوصول الى امر من الأمور وفي اصطلاح الفقهاء بذل الفقيه وسعه في استبناط الاحكام العملية من ادلتها التفصيلية (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ١٠٩) يقول الشافعي ان لله في كل واقعة حكما معيّنا وعلى المجتهد طلبه والعمل به - الامام الشافعی صفحه (۲۲۴) فالاجتهاد واجب للمجتهدين...وليس لاحد ابدا ان يقول في شيءٍ حَلَّ أَوْ حَرُمَ إِلَّا من جهة العلم وجهة العلم الخير في الكتاب او السنة او الاجماع او القياس الامام الشافعی صفحه ۰۲۱۷ ۱۳۸، ۲۳۸ - مالک بن انس صفحه (۳۳) يقول عمر بن عبد العزيز إن الصحابة فتحوا للناس باب الاجتهاد و جواز الاختلاف فيه لانهم لو لم يفتحوه لكان المجتهدون في ضيق - (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ٣٩)
تاریخ افکا را سلامی AF کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے.انسان اس کے جاننے کا مکلف نہیں.قاضی اور بیج گواہوں کی بنا پر فیصلہ دیتا ہے وہ ان کے ظاہری حالات دیکھتا ہے اور ان کے صدق پر اعتبار کر کے فیصلہ کرتا ہے اور ملزم کو سز اسناتا ہے حالانکہ ممکن ہے کہ گواہ جھوٹ بول گئے ہوں اور ملزم بے گناہ ہو.اسی طرح ایک مجتہد مختلف دلائل اور حالات کو مد نظر رکھ کر پوری دیانتداری کے ساتھ ایک رائے کا اظہار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ رائے درست ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ عند اللہ یہ رائے درست نہ ہو لیکن جب تک واضح دلائل سے یہ غلطی ظاہر نہ ہو جائے مجتہد کی رائے کو درست سمجھا جائے گا اور مجتہد پر کوئی الزام نہ ہو گا اور نہ اس رائے پر عمل کرنے والے کو گنہ گار قرار دیا جائے گا.اسی اصل کی بنا پر کہا گیا ہے کہ قاضی اور مجتہد دیانتداری کے دائرہ میں رہ کر جو فیصلے کرتے ہیں اور جس رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ اگر حقیقت حال کے بھی مطابق ہے تو انہیں دہرا اجر ملے گا اور حقیقت واقعہ کے لحاظ سے وہ فیصلہ غلط ہے تو انہیں ایک ثواب یعنی اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کرنے کا ثواب ملے گا لے مختلف پیش آمدہ مسائل و معاملات میں اجتہاد کی بنا پر فیصلہ دینے کی متعد دمثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:.ا.مختلف پیشہ ور جیسے درزی، رنگریز، سنار وغیرہ اصلاً امین ہیں، ان کے پاس لوگ جو کپڑے، سونا چاندی رکھ آتے ہیں کہ انہیں سی دو یا رنگ دو یا زیور بنا دو یہ مال ان کے پاس امانت ہوتا ہے اگر ان کی کسی غلطی کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ ذمہ دار نہیں سمجھے جاتے.اصل مسئلہ یہی ہے لیکن حضرت عمرہ کے زمانہ میں پیشہ وروں کی کئی بد دیانتیاں آپ کے سامنے لائی گئیں اس صورت حال کو دیکھ کر آپ نے فیصلہ دے دیا کہ آئندہ یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے سوائے اس کے کہ سبب ضیاع بڑا واضح اور سب کے علم میں ہو.مثلاً سیلاب آیا یا نا معلوم وجہ سے آگ لگی اور بازار جل گیا.فیصلہ کی بنیاد یہ اجتہاد ہے کہ عوام کو نقصان سے بچایا جائے.يقول الشافعى امرنا باجازة شهادة العدل وليس للعدل تفرق بينه وبين غير العدل في بدنه ونفسه و انما علامة صدقه بما يختبر من حال نفسه....فإذا ظهر حسنه قبلنا شهادته......وقال عليه السلام اذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد ثم اخطأ فله اجر الامام الشافعی صفحه ۲۳۲،۱۹۲)
تاریخ افکار را سلامی ۸۴ ۲.قتل خطاء کی دیت سو اونٹ ہے یا صحابہ کے وقت کے لحاظ سے ان کی قیمت آٹھ ہزار در ہم تھی اور یہ دیت قاتل کے عاقلہ (جدی پشتی قبیلہ کے لوگ ) ادا کرتے تھے.حضرت عمر کے زمانہ میں حالات بدل گئے اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی اور عاقلہ کی تعیین میں بھی تبدیلی آگئی.چنانچہ آپ نے قیمت بھی بڑھا دی اور عاقلہ اس لشکر کو قرار دیا جس میں قاتل کام کرتا تھا اور جن کی فہرست میں اس کا نام درج تھا.ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی بھی اجتہاد کی بنا پر ہوئی.کوئی خاص معین ہے کہ یہ بناپر ہوئی.کوئی نص تو سامنے نہ تھی لے - تسعیر کی اجازت نہیں تھی.تاجروں اور صارفین کے با ہمی غیر شعوری تعاون کی بنا پر بھاؤ چلتے ہیں لیکن تابعین کے زمانہ میں تاجروں نے زیادتی شروع کر دی اور صارفین کے لئے پریشانی بڑھ گئی تو تابعین نے پبلک مصلحت کی بنا پر تسعیر کی اجازت کا فتوی دیا یعنی یہ فتقومی که حکومت تاجروں اور صارفین دونوں کی بہبود کو مد نظر رکھ کر کسی چیز کا مناسب بھاؤ مقرر کر سکتی ہے.نص تو بظاہر اس کے خلاف تھی لیکن پبلک مصلحت کے پیش نظر نص کی تحدید ضروری کبھی گئی.ایک دفعہ امام شافعی نے اپنے شاگر دا بوثو رسے پوچھا نماز کا آغاز فرض سے ہوتا ہے یا سنت سے؟ ابونو ر درست جواب نہ دے سکے تو آپ نے وضاحت فرمائی کہ نماز کا آغا ز فرض اور سنت دونوں سے بیک وقت ہوتا ہے تکبیر تحریمہ فرض ہے اور رفع یدین یعنی کانوں تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے اور یہ دونوں کام بیک وقت کرنے ہوتے ہیں ہے بہر حال اجتہاد کا عمل اپنی جگہ ضروری ہے کوئی ہوش مند اس کا انکار نہیں کر سکتا لیکن اس مسئلہ میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے اُمت مسلمہ ایک بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوئی اور اس کے باہمی اختلاف بڑھے.وہ پہلو جسے نظر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا وہ اجتماعی اجتہاد اور شورائی نظام اور اس نظام کے احترام اور دوام کا پہلو تھا لیکن جس طرح خلافت راشدہ کی اہمیت اور اس کے احترام کو نظر انداز کیا گیا اسی طرح اجتماعی اجتہاد بھی جس پر صحابہ کا ر بند تھے احل عمر اهل الديوان محل العاقلة في التزام بالمية (مالک بن انس صفحه (۲۰۶) اجازوا السعير لنظرية جلب مصلحة ودرء مفسلة - (مالک بن انس صفحه ۲۱۱، الامام الشافعي صفحه ۲۰۹) کے الام الشافعی صفحه ۱۴۳
تاریخ افکا را سلامی پیش نظر نہ رہا اور ہر صاحب علم اپنی اپنی جگہ اجتہاد کرنے لگا.ہر ایک اپنی سمجھ اور اپنے مجوزہ اصول کے تحت مسائل شرعیہ کی تصریح میں لگ گیا حالانکہ قرآن کریم اور ارشاد نبوی دونوں کا تقاضا تھا کہ قومی اور جماعتی مسائل میں اجتماعی اجتہاد کی راہ اختیار کی جاتی اور خلافت راشدہ کی نگرانی میں یہ عمل تکمیل کے مراحل طے کرتا اور مسائل شرعیہ عملیہ کی تعیین اور تطبیق کا فریضہ سرانجام دیا جاتا.انفرادی اجتهادا ور علمی بحث وسعت علمی اور آزادی فکر کا موجب تو ہے لیکن وحدت قومی اور اتحاد عملی کے لئے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت سے بھی کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا.انفرادی سوچ کی آزادی اور اجتماعی شوری کی اہمیت دونوں کے درمیان توازن ہی قومی امنگوں کا امین ہے لیے قال الله تعالی و امرهم شورى بينهم (الشوری: ۳۹) یعنی ان مومنوں کا طریق زندگی یہ ہے کہ ہرا ہم معاملہ کو با ہم مشورہ سے طے کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سوال کیا گیا.یا رسول الله الامر ينزل بنا لم ينزل فيه القرآن ولم تمض فيه منك سنة ـ قال اجمعوا له العالمين من المؤمنين فاجعلوه شورى بينكم ولا تقضوا فيه يرأي واحد ( الامام الشافعی صفحه (۲۸۴
تاریخ افکا را سلامی MY اجتہاد کے ذرائع ، اصول اور شرائط جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ رائے یا اجتہاد آزادانہ سوچ اور بے اصول فکر کا نام نہیں بلکہ اس کی صحت کے اصول و شرائط ہیں.بنیادی شرط یہ ہے کہ اجتہاد کرنے والا قرآن و سنت سے واقف ہو.معاشرہ کی نفسیات اور تمدن کے تقاضوں کو جانتا ہو.مصالح قوم اور عادات الناس پر اس کی نظر ہو.دوسرے یہ کہ عوام میں اس کا وقار اور احترام ہو.قومی اور خشیۃ اللہ کے امتیازی وصف کا حامل ہو.بہر حال علماء اور فقہاء نے اجتہاد کرتے وقت قرآن وحدیث کے علاوہ جن باتوں کو کم و بیش مد نظر رکھا ہے اور جو اصطلاحات قائم کی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے.قیاس ،استحسان، مصالحه ،مُرسله ،غرف ذرائع ، رفع خرج، استصحاب - ہر ایک کی حسب ضرورت تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے.قياس رائے قائم کرنے اور کوئی فیصلہ دینے کا ایک بڑا ذریعہ قیاس ہے.قیاس سے حضرت امام ابو حنیفہ نے بہت زیادہ کام لیا ہے.قیاس کے دوسرے بڑے مویید حضرت امام محمد بن اور لیس شافتی ہیں.ادریس قیاس کے معنے یہ ہیں کہ اشتراک علت اشتراک حکم کا منتفی ہے.اگر ایک کو اول آنے کی بنا پر انعام ملا ہے تو دوسرے کو بھی جو اول آیا ہے انعام ملنا چاہیے.اگر ایک کو چوری کرنے کی وجہ سے سزا ملی ہے تو دوسرے چور کو بھی سزاملنی چاہیے.حکم کی یہ مساوات ایک بدیہی امر ہے اور اسی کا نام قیاس ہے.شریعت کے تمام احکام حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت اور وجہ ہے مجتہد کا کام یہ ہے کہ وہ یہ علت یہ وجہ یہ حکمت معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق ایسے مسائل ل اذا كانت الشريعة معقولة المعنى فللمجتهد ان يفكر في تعرّف المعاني والعلل وضبط النتائج باستقراء الاحكام الشرعية ( ابوحنيفه صفحه ۱۷۲ ملخصا)
تاریخ افکا را سلامی ۸۷ پیش آمدہ کے بارہ میں فیصلہ دے یا رائے قائم کرے جن کے بارہ میں نص شرعی تو نہیں ملتی لیکن ان میں وہ علت موجود ہے جو مخصوص حکم میں موجود تھی یا شراب بد مست بنا دیتی ہے مدہوش کر دیتی ہے.شراب کے حرام ہونے کی یہی وجہ ہے پس وہ تمام چیزیں جو مد ہوشی اور مستی پیدا کرتی ہیں جیسے بھنگ، چرس، ہیروئن وغیرہ سب حرام ہوں گی حالانکہ نص صرف شراب کے بارہ میں ہے.بہر حال منصوص حکم کی علت اور وجہ معلوم کرنا ہی مجتہد کے فرائض میں شامل ہے.یہ علت اور وجہ بعض احکام میں واضح ہوتی ہے بلکہ بعض جگہ خود شارع اس کی وضاحت کر دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ علت مخفی اور عمیق ہوتی ہے اور اس کے معلوم کرنے کے لیے مجتہد کو بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے.بڑے غور و فکر سے کام لینا پڑتا ہے.حضرت امام ابو حنیفہ کو احکام کی علت اور وجہ معلوم کرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی آپ کو اس کا خاص ملکہ تھا جس کا دوست ، دشمن دونوں کو اعتراف تھا.غرض مساوات علت مساوات حکم کا تقاضا کرتی ہے اور اسی مساوات کے معلوم کرنے کا نام قیاس ہے.بہر حال زندگی کے مسائل کے بارہ میں شریعت کا منشاء معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ علم یا تو نص صریح سے حاصل ہو سکتا ہے یا پھر نص کی علت اور حکمت کو سمجھ کر مسئلہ کو اس پر محمول کرنے اور اس پر قیاس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ضرورت بڑی واضح اور ہر سمجھدار کے علم میں ہے.قیاس کی مخالفت اجتہاد اور رائے کی طرح قیاس کی بھی مخالفت کی گئی ہے.سب سے زیادہ مخالفت حنبلیوں اور اہل ظاہر کی طرف سے ہوئی ان کے نزدیک احکام دینیہ معلوم کرنے کا واحد ذریعہ نص ہے خواہ نص قرآنی ہو یا سنت وحد بیث ہو.امام احمد کہا کرتے تھے کہ قیاس سے کام لینا اور اس کے ذریعہ شرعی ل لا يد من بيان الحكم الشرعي في كل ما ينزل بالانسان....و هذا الحكم اما ان يثبت بالنص الصريح واما ان يحمل على النص والحمل هو القياس (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۳۸۵) قیاس کے اصطلاحی مفہوم کو سمجھانے کے لیے علماء نے مندرجہ ذیل وضاحتیں کی ہیں.الف.القياس الجمع بين المتماثلين والفرق بين المختلفين (الامام احمد صفحه (۲۲۴) ب الحاق مالا نص فيه فى الحكم المنصوص عليه لاتحاد العلة بينهما (مالک بن انس صفحه ۲۱۱) ج الحاق ما نص فيه بما فيه نص لاتحاد علة الحكم في الأمرين (ابو حنيفه صفحه (۱۷۲) نیز دیکھیں الامام الشافعی صفحه ۱۳۸ (محاضرات في المذاهب تاريخ الفقهية صفحه ۷ و ۷۰ )
تاریخ افکا را سلامی M حکم معلوم کرنے کی کوشش کرنا بڑا تخلط طریق ہے.امام مالک بھی بالعموم قیاس کے طریق کو نا پسند کرتے تھے اور کہا کرتے کہ قیاس سے زیادہ کام لینے والا سنت وحد بیث کا تارک اور اس کی اہمیت کا منکر بن جاتا ہے ہے لیکن قیاس کے بارہ میں یہ ساری مخالفت قائلین قیاس کے نقطہ نظر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ہر فقہی مسلک کا حامل کسی نہ کسی درجہ میں قیاس سے کام لینے پر مجبور ہوا ہے جیسا کہ آئندہ صفحات کے مطالعہ سے واضح ہوگا.قیاس رائے قائم کرنے اور اس کی صحت پر کھنے کا ایک ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرمانا ہے.لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ نَعْلِمهُ الَّذِينَ يَسْتَطونَ مِنْهُمْ کے یعنی جو اہم بات ان کے علم میں آئی اگر وہ اس کو ادھر ( ادھر پھیلانے کی بجائے ) رسول تک پہنچاتے یا اپنے ان حکام تک پہنچاتے جو بات کی اصلیت معلوم کرنے اور اس کی تہ تک پہنچنے کا ملکہ رکھتے ہیں تو بہتر ہوتا.یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بات کی گہرائی میں جا کر اصل حقیقت اور مسیح مطلب پا لیتے ہیں اور معاملات کا صحیح رخ متعین کر سکتے ہیں اور ان کو مسائل سلجھانے کا خاص ملکہ عطا کیا جاتا ہے.حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو امور مملکت کے سلجھانے اور قضائی فیصلوں کو صحیح رخ دینے کے بارہ میں جو خط لکھا اس کے چند الفاظ یہ ہیں.الفهم القَهُم فِيْمَا يَخْتَلِجُ فِي صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُكَ فِي الكِتابِ أوِ السُّنَّةِ أعْرِفِ الامثال والاشتباه ثُمَّ فِس الأمُورَ عِندَ ذلِكَ " یعنی مسائل پیش آمدہ کے بارہ میں خوب سمجھ سوچ سے کام لو اور جن مسائل کے بارہ میں کتاب وسنت سے کوئی وضاحت نہ ملے ان کے لیے مثالیں اور نظائر تلاش کرو اور ان مسائل کو اُن پر قیاس کرو.قال احمد ان القياس في الدين باطل والراى مثله بل هو ابطل من القياس واصحاب الراي والقياس مبتدعة ضلال الامام احمد صفحه ۳۳۰ - بحواله طبقات الحنابلة جلد ۱ صفحه ۳۱ ملخصاً) مالک بن انس صفحه ۲۱۴، مزید تفصیل کے لیے دیکھیں ابو حنیفه صفحه ۱۸۰۰۱۷۳ محاضرات صفحه ۵۸۳ النساء: ۸۴ کے سنن دار قطنى كتاب الاقضيه والاحكام - ابوحنیفه صفحه ۱۴۷
تاریخ افکار را سلامی 19 مذکورہ آیت کریمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط اسی بات کو ثابت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ خاص سمجھ بوجھ کے مالک ہوتے ہیں اور حکمت اور وجہ معلوم کرنے کا عمدہ ملکہ رکھتے ہیں عملی طور پر بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ حسب ضرورت قیاس سے کام لیتے رہتے تھے.مثلاً.++ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ اس کی بیوی کے ہاں کالے رنگ کالڑ کا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے شبہ ہے کہ یہ اس کالڑ کا نہیں ہے.حضور نے اسے سمجھانے کے انداز میں فرمایا کیا تمہارے اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کیا ہاں حضور کافی اونٹ ہیں.آپ نے پوچھا ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا سرخ رنگ کے ہیں.آپ نے پوچھا ان میں کوئی کالے بھورے رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے عرض کیا ہاں حضور ایک ایسا بھی ہے.آپ نے فرمایا: سرخ اونٹوں میں یہ کالے بھورے رنگ کا کہاں سے آگیا ؟ اس نے عرض کیا شاید کوئی رگ جو کسی اونٹ میں تھی اس کا موجب بنی ہو.آپ نے فرمایا کہ تیرے بیٹے کے بارہ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاید تیری کوئی نسلی رگ اس کا باعث بنی اور اس کے رنگ پر اثر ڈالا ہو لے - قرآن کریم میں دو بہنوں کو بیک وقت بیوی بنا کر رکھنے کی ممانعت آئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قیاس کرتے ہوئے خالہ اور بھانجھی.پھوپھی اور بھتیجی کو جمع کرنے سے منع فرمایا اور وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا فَإِنَّكُم إِنْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ قَطَعْتُمْ اَرْحَامَكُم " کہ اگر تم ایسا کرو گے تو خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے مَوَدَّت کے رشتہ کو مجروح کرو گے.مین کے علاقہ میں ایک عورت نے اپنے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے خاوند کو قتل کر دیا.حضرت عمر کے سامنے یہ کیس آیا تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا.کہ کیا ایک مقتول کے بدلہ میں زیادہ کو قتل کیا جا سکتا ہے.حضرت علی نے کہا کہ اگر ایک اونٹ کو چُرا کر کئی لوگ ذبح کر کے اس کا گوشت آپس میں بانٹ لیں تو کیا سب کو سزا نہیں ملے گی پس جس طرح ایک اونٹ کو چرانے اور لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرَقَ قَالَ وَ هَذَا لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرق (ابو حنيفه صفحه ۱۷۰) مالک بن انس صفحه ۱۶۷
تاریخ افکا را سلامی ذبح کرنے کے جرم میں یہ سب سزا کے مستحق ہیں.اس طرح اس کیس میں بھی دونوں مجرم ایک سزا کے مستحق ہیں.چنانچہ حضرت عمر نے اس کے مطابق عمل کرایا اور فرمایا کہ اگر ایک گروہ کسی قتل میں برابر کا شریک ہو تو سب کو اس کے بدل میں قتل کر دیا جائے گالے حالانکہ اس بارہ میں کوئی نص نہ تھی.شراب پینے کے جرم میں کوئی معین سزا نہ تھی.حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ لیا تو حضرت علی نے ہی مشورہ دیا کہ شرابی بہک کر دوسروں کو گالیاں دیتا ہے اور ان پر تہمت لگاتا ہے اور تہمت کے جرم کی سزا قرآن کریم میں انٹی کوڑے بیان ہوئی ہے اس لیے شرابی کو انٹی کوڑوں کی سزا دینی چاہیے.چنانچہ صحابہ نے اس مشورہ کو قبول کیا اور اسی سزا کو امت نے اپنایا اور اس کا نام حد رکھا.حالانکہ ایسی کوئی نص موجود نہ تھی.کے صرف قیاس اس کی بنیا دتھا.قیاس اصولاً ایک ظنی دلیل ہے دینی اور شرعی مسائل معلوم کرنے کے دو ذریعے ہیں ایک قطعی اور یقینی اور دوسر اظنی اور را جمع یعنی اس خیال کی بنا پر کہ شریعت کا حکم اور اللہ تعالیٰ کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے.حقیقت اور اصلیت کیا ہے یہ اللہ جانتا ہے ہمارا مقام اس بارہ میں لا علم لنا إلا ما علمتنا کا ہے اور ہم اسی کے مکلف ہیں.اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی نص ظاہر یا تو اتر عملی سے جو کچھ ثابت ہے وہ قطعی اور یقینی ہے اور جو کچھ اخبار احا دیا علم کے دوسرے ذرائع مثلاً قیاس اور مصالحہ مُرسلہ وغیرہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اس کا مآل ظن راجح ہے یعنی حسن ظن کی بناء پر ہم اسے صحیح سمجھتے ہیں.ایک آدمی ہمارے علم کے مطابق سچا ہے.نیک ہے.اس کی یادداشت اچھی لگتی ہے اور جو خبر وہ دے رہا ہے اس کے درست اور سچے ہونے کے دوسرے قرائن بھی موجود ہیں.اس لیے ہم اس کی بتائی ہوئی دینی خبر کو سچ ماننے کے مکلف ہوں گے کیونکہ اسی کے مطابق عالم انسانیت کا نظام چل رہا ہے کہ بالعموم ہم ایک دوسرے کی بات کا احترام کرتے ہیں اور اسے بچ مانتے ہیں.حقیقت اور اصلیت کیا فكتب عمر الى عامله ان اقتلهما فو الله لو اشترك فيه اهل صنعاء كلهم لقتلتهم (ابوحنيفه صفحه ۱۳۸) مالک بن انس صفحه ۱۶۷ البقره : ٣٢
تاریخ افکا را سلامی ۹۱ ہے اس کے جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی اس کے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں.اخبارا حاد کا یہی ما حاصل ہے اپنی وسعت کے مطابق چھان بین اور راویوں کے حالات جاننے کے بعد ہمیں اطمینان ہو جانا چاہیے کہ یہ باتیں اور ان کی روایتیں درست ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے.اسی سلسلہ کی ایک اور مثال گواہوں کی گواہی ہے.حج کواہوں کی گواہی سنتا ہے.ان کے حالات کی چھان بین کرتا ہے گواہ اسے عادل اور بچے لگتے ہیں وہ گواہی کے انداز اور سیاق و سباق کا بھی جائزہ لیتا ہے غرض سارے قرائن یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ گواہوں کی کوا ہی درست ہے چنانچہ حج اس گواہی کے مطابق فیصلہ سناتا ہے اور وہ اس کا مکلف ہے.اسی طرح بچے اور نیک لوگوں کی بتائی ہوئی دینی خبروں کا ماننا بھی ضروری ہے دنیا میں اسی طرح کام چلتا ہے اور اس کو اپنائے بغیر چارہ نہیں.یہی حال قیاس صحیح کا ہے.مجتہد نے غور کیا.سوچا حکم کی علت اور وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی اور وہی وجہ مسئلہ زیر بحث میں بھی موجود ہے تو وہ مجتہد یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسئلہ زیر بحث کا بھی وہ حکم ہے جو مسئلہ منصوص میں شارع نے بتایا ہے.یہ ساری کارروائی حسن ظن اور علم راجح کی بنا پر ہے اور انسان اس کا مکلف ہے.ایک آدمی اس علم کی بنا پر ایک عورت سے شادی کرتا ہے کہ اس عورت سے شادی کرنا اس کے لیے جائز ہے حالانکہ حقیقت میں وہ عورت اس کی بہن ہے لیکن دونوں کو اس کا علم نہیں کہ وہ آپس میں بھائی بہن ہیں.مثلاً جنگی افراتفری میں وہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور مختلف گھروں میں انہوں پرورش پائی.شادی کے بعد ان کے بچے ہوئے کچھ مدت بعد ان کے علم میں آیا کہ وہ تو بہن بھائی ہیں سابقہ عملدرآمد کی بنا پر وہ گنہگار نہ ہوں گے اور جو اولا د ہو چکی ہے وہ ثابت النسب اور دونوں کی وارث ہوگی.علم کے بعد جدائی تو ہو جائے گی لیکن مہر ادا کرنا ہوگا اور عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہوگا.حضرت امام شافعی کے نزدیک صحیح قیاس کی اقسام حضرت امام شافعی نے قیاس کی تحدید کے سلسلہ میں جو حدود اور شرائط بیان کی ہیں انہیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیں محاضرات فی تاریخ المذاهب الفقهيه صفحه ۲۸۶ الامام الشافعي صفحه ۱۳۹
تاریخ افکار را سلامی ۹۳ امام شافعی کا خاص کارنامہ قرار دیا گیا ہے اور یہ سمجھا گیا ہے کہ ان توضیحات کی وجہ سے بیچا اور غلط قیاس کی روک تھام ہوئی ہے آپ نے حکم کی علت کے واضح ہونے کے لحاظ سے قیاس کی کئی قسمیں تجویز کی ہیں.مثلاً حکم کی علت بڑی واضح اور جانی پہچانی ہو.جیسے اگر قلیل اور تھوڑی چیز حرام ہے تو کثیر اور زیادہ تو بطریق اولی حرام ہو گی مثلاً اگر شراب کا ایک گھونٹ حرام ہے تو ایک گلاس تو بطریق اولی حرام ہو گا.اگر ماں باپ کے سامنے اُف کرنا نا جائز ہے تو اُن کو جھٹر کنایا اُن کو مارنا تو بہت بڑا گناہ ہوگا.امام شافعی اس طرز استدلال کو قیاس کی ایک قسم قرار دیتے ہیں اور دوسرے فقہاء اسے دَلَالَةُ النَّص يا دَلَالَةُ الموافقة کہتے ہیں اور اسے قیاس کی قسم نہیں سمجھتے.-2 حکم منصوص کی علت اور مسئلہ زیر بحث میں موجود علت وضاحت کے لحاظ سے مساوی ہوں مثلاً لونڈی اگر جرم زنا کی مرتکب ہو تو اس کی سزا آزاد کی سزا سے نصف ہے اور یہ حکم نص سے ثابت ہے سے اور اس تخفیف کی وجہ اور علت اس کی غلامی اور دقیت (آزادی) ہے.غلام مرد میں بھی یہی ملت پائی جاتی ہے.دونوں غلامی کے لحاظ سے مساوی ہیں اس لیے دونوں کی سزا بھی ایک جیسی ہونی چاہیے.کو یا غلام مرد کی سزا کو غلام عورت (لونڈی) کی منصوص سزا پر قیاس کیا گیا ہے.دوسرے فقہا کے نزدیک یہ صورت بھی از قسم قیاس نہیں بلکہ قانون المُسَاوَاةُ فِي التكليف کی بنا پر ہے یعنی مرد اور عورت مکلف ہونے کے لحاظ سے برابر کے ذمہ دار ہیں.منصوص حکم کی علت میں خفا اور ابہام ہو.پوری طرح واضح نہ ہو کہ حکم کی جو علت اور وجہ کبھی گئی ہے حقیقت میں بھی وہی علت اور وجہ ہے یا کوئی اور وجہ ہے.پھر خفا اور ابہام کے کئی درجے ہیں اور اصلیت تک پہنچنے کے لیے بڑے غوروفکر اور سوچ بچار کی ضرورت پڑ سکتی ہے نیز غور و فکر کی اہلیت میں بھی بڑا تفاوت ہوتا ہے.اس وجہ سے قیاس کی اہمیت اور اس کی صحت کے بارہ میں فرق آئے گا اور وہ کئی قسموں میں منقسم ہو جائے گا.علماء اسلام کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ قیاس اس مسئلہ کے بارہ میں کیا جائے جس کا يقسم الشافعى القياس الى مراتب على حسب مقدار وضوح العلة وقوتها في التاثير بالنسبة للفرع (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۲۸۹)
تاریخ افکا را سلامی ٩٣ تعلق عبادات سے نہ ہو.عبادات میں نص کی ضرورت ہوتی ہے.ان میں قیاس سے کام لینا درست نہیں مثلاً جرابوں پر مسح کی اجازت ہے اور اس رعایت کی علت اور وجہ انسان کو حرج سے بچانا ہے کہ بار بار جرابیں اتارنے اور پہننے کے تکلف سے وہ بچ سکے.اب سویٹر اور جیکٹ کو اگر کوئی جرابوں پر قیاس کرے اور کہے کہ اس کے اتارنے اور پہننے میں بھی حرج ہے اس لیے بانہوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے تو یہ قیاس درست نہ ہوگا کو حرج کی علت کے موجود ہونے سے انکار نہیں.اسی طرح یہ قیاس کہ کئی مجبوریاں تخفیف حکم کا باعث بنتی ہیں جنگ یا سفر کی وجہ سے نمازیں جمع بھی کر سکتے ہیں اور قصر بھی اس بنا پر اگر کوئی کہے کہ شدید مصروفیت کے اس زمانہ میں نمازیں پانچ کی بجائے کم ہو سکتی ہیں تو یہ قیاس باطل ہوگا کیونکہ مسلمہ اصول یہ ہے کہ عبادات قیاس کا محل نہیں ان میں نص تک ہی محدود رہنا ضروری ہے.لے الاسْتِحْسَان استحسان کے لغوی معنی ہیں اچھا سمجھنا بہتر صورت اور بہتر راہ اختیار کرنا اور فائدہ کی بات کو ترجیح دینا.حنفی مسائل شرعیہ کی تعیین کے لیے استحسان کے سے کام لینے کے بھی قائل ہیں اور کوئی دینی رائے قائم کرنے کے لیے استحسان کو وہ بنیا مانتے ہیں.اس کی ضرورت بالعموم اس وقت پڑتی ہے جب کہ خبر واحد یا قیاس کسی مشکل کا باعث بن رہے ہوں.یا کوئی پبلک مصلحت استحسان کے اصول کو اپنانے کی متقاضی ہو.قیاس کا دائرہ خاصہ تنگ ہے کیونکہ قیاس میں ضروری ہے کہ کوئی نص ہو الوقوف عند النص فى العبادات واجب باجماع (الامام الشافعي صفحه (۳۴۶) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں.الامام الشافعی صفحه ۲۴۲٬۲۳۰،۱۳۸ محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية: صفحه ۲۷۴۰۲۵۵، ۲۹۳۲۲۸۵ الف: الاسْتِحْسَانُ الحكم في مسئلة بغير ما حكم به في نظير ها لدليل من نص أو اجماع او ضرورة او المعارضة القياس الظاهر بقياس اقوى وهو الاستحسان الاصطلاحي عند الحنفية اما عند مالكي فعندة الاستحسان أو سع من ذالك لأنه يشتمل الاستحسان الاصطلاحي والمصلحة المرسلة (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۱۷۷ و ۳۶۳) ب: الاستحسان الاخذ بمصلحة جزئية في مقابل دليل كُلى يلجأ اليه اذا كانت نتائج القياس لا تستاع (ابو حنيفه صفحه ۱۷۷
تاریخ افکا را سلامی ۹۴ اور اس نص میں حکم کی علت اور وجہ موجود ہو اور پھر اس وجہ کا مجتہد کو علم ہو جائے.یہ باتیں خاصی مشکل اور محمد ود ہیں لے دوسری طرف ضرورت ہے اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے دوسرے ذرائع کی تلاش کی طرف توجہ مبذول کرنی پڑتی ہے جن میں سے ایک ذریعہ استحسان ہے.کتب فقہ میں استحسان کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں وضاحت کی غرض سے چند ایک کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.ا پیشگی سودا منع ہے حضور نے فرمایا لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِندَگ یعنی جو چیز تیرے پاس نہیں ہے اس کا سودا نہ کر کیونکہ اگر کوئی اس بنا پر سودا کر لے کہ فلاں وقت یہ چیز میرے پاس آجائے گی تو ادا ئیگی کر دوں گا لیکن وقت پر وہ چیز نہیں ملتی یا اس کو الٹی کی نہیں ملتی تو فریقین میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جس معاہدہ میں تنازع کے بیج موجود ہوں وہ معاہدہ اصولاً جائز نہیں لیکن بعض اوقات پیبلک میں ایسے لین دین کا رواج ہوتا ہے لوگ اس کے ضرورت مند ہوتے ہیں بائع کو جلد رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور مشتری کو بعد میں کسی وقت چیز چاہیے ہوتی ہے اس پبلک رواج اور مصلحت کی بنا پر بعض شرائط کے ساتھ پیشگی سودے کی شارع نے استثنائی اجازت دی ہے اور بیع سلم کی اجازت اسی مصلحت کی بنا پر ہے جو اصول استحسان کی ایک مثال ہے.ایک دفعہ دو بہنوں کی اکٹھی شادی ہوئی لیکن رختانہ میں دلہنیں بدل گئیں جس کا علم نہ ہو سکا.صبح کو جب اس کا علم ہوا تو گھر والے گھبرائے اور فقہاء سے مسئلہ دریافت کیا گیا.امام سفیان ثوری کا نے فتوی دیا کہ چونکہ لاعلمی میں ایسا ہوا ہے اس لیے کوئی گناہ کی بات نہیں تا ہم مباشرت کی وجہ سے تمع “ یعنی مناسب مہر کی ادائیگی ضروری ہے اور دلہنوں کو ان کے اصل خاوندوں کے پاس بھجوا دیا جائے جس جس سے ہر ایک کا نکاح ہوا ہے.امام ابو حنیفہ سے بھی استصواب کیا گیا آپ نے فرمایا یہ قومی تو اپنی جگہ درست ہے لیکن نفسیات کا تقاضا کچھ اور ہے کیونکہ جو عورت اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے کے پاس رہ آئی ہے چاہے غلطی سے ہی ایسا ہوا ہے، ہو سکتا ہے کہ خاوند کے دل میں کچھ تکدر کا موجب ہو اور اس سے ل النصوص قليلة وبقلتها تضيقُ دَائِرَةُ القياس فكل اصل شرعي لم يشهد له نص معين كان ملا ئما لتصرفات الشرع و مأخوذا معناه من ادلة فهو صحيح يبنى عليه ويرجع اليه ( مالک بن انس صفحه (۲۴) محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ٣٦١
تاریخ افکا را سلامی ۹۵ دونوں کی زندگی تلخ ہو جائے.آپ نے دونوں مردوں کو الگ الگ بلوایا اور کہا کہ جس عورت کے ساتھ تم نے رات بسر کی ہے وہ تمہیں پسند ہے یا نہیں ہر ایک نے کہا کہ اُسے پسند ہے چنانچہ آپ نے ہر ایک کو مشورہ دیا کہ وہ اس عورت کو طلاق دیدے جس سے اس کا نکاح ہوا ہے اور اس سے نکاح پڑھالے جس کے ساتھ اس نے رات بسر کی ہے اور میر کا بھی ادل بدل ہو جائے کسی عدت کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ خاوند اپنی منکوحہ کو قبل از مباشرت طلاق دے رہا ہے اور جس سے نیا نکاح ہو رہا ہے وہ وہی ہے جس کے پاس وہ رات گزار چکا ہے ایسی صورت میں عدت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.اس کیس میں نفسیات کے پہلو اور مرد عورت کی آئندہ زندگی کی مصلحت کا خیال رکھا گیا ہے جو اصول استحسان کی ایک مثال ہے لیے حضرت ابو بکر نے ایک بار فرمایا اگر میں کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لوں تو نہ اپنے اس علم کی بنا پر ان کو سزا دوں اور نہ کسی کو گواہ بنانے کے لیے بلاؤں آپ کا یہ فرمان پر دہ پوشی کی مصلحت پر مینی ہے اور اس بات پر کہ قاضی اپنے علم کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا اس کا فیصلہ گواہی پر مبنی ہونا چاہتے ہیں یہ بھی اصول استحسان کی ایک مثال ہے.اختگار یعنی مہنگا بیچنے کی نیت سے مال روکنے کی ممانعت کا تعلق بھی اصول استحسان سے ہے کیونکہ یہ ممانعت پبلک مصلحت کی بنا پر ہے تا کہ صارفین ضرورت کی چیز کے حصول میں کسی مشکل سے دو چار نہ ہوں یا وہ مہنگا خریدنے پر مجبور نہ ہوں.قرائن اور ابتدائی ثبوت کے بعد ملزم کو حوالات میں بند کرنے یا اس پر مناسب سختی کرنے کا جواز بھی اصول استحسان پر مینی ہے.ہے حضرت امام شافعی نے اصول استحسان کی مخالفت کی ہے اور اس کی وجہ سے حنفیوں کو نشانہ تنقید بنایا ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ استحسان سے کام لینے والا خود شارع بننے کی کوشش کرتا ہے تے کیونکہ کسی بات کا اچھا لگنا اپنے ذوق یا اپنے مفاد کی بات ہے ایک مفتی بعض وجوہات کی بنا پر ابو حنيفه صفحه ۱۷۸ ک الامام الشافعی صفحه ۲۴۳ مالک بن انس صفحه ۲۱۵ قال الشافعى من استحسن فقد شرع لان الاستحسان لا ضابطة له ولا مقياس (محاضرات صفحه (۲۹۰)
تاریخ افکار را سلامی ایک بات کو اچھا اور مفید سمجھتا ہے اور دوسرا دوسری بات میں بھلائی دیکھتا ہے اس طرح تو شریعت ایک کھیل بن جائے گی اور ظالم حکام دین اور شریعت کے نام پر اپنی خبیث اغراض کی تکمیل کی کوشش کریں گے لیے لیکن امام شافعی کا یہ اعتراف استحسان کے اصول کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.اچھا سمجھنے کا اصول بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ یہ سبھی مانتے ہیں کہ شریعت نے اپنے احکام میں مصلحت اور پبلک مفاد کو مد نظر رکھا ہے اور جن مسائل کے بارہ میں کوئی واضح نص نہیں ان میں بھی اس اصول کو مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ مصلحت اور پبلک مفاد کے مطابق ان کا حکم ہونا چاہیے اور اسی کا نام استحسان ہے.البتہ مصلحت کے بارہ میں یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ مصلحت وہی معتبر ہے جو مقاصد شریعت کے مطابق ہوا اور شارع نے کسی نہ کسی جگہ اسے اختیار کیا ہو یہی مصلحت ہے جس پر اصول استحسان مینی ہے.اگر استحسان کے بارہ میں اس شرط کو مد نظر رکھا جائے تو اس خطرہ کا امکان باقی نہیں رہتا جس کا اظہار امام شافعی نے کیا ہے.یہ بھی مد نظر رہے کہ جن ارباب علم نے استحسان پر اعتراض کیا ہے اور اسے ہدف تنقید بنایا ہے انہوں نے بھی کسی دوسرے نام سے حسب ضرورت اس انداز استدلال کو اپنایا ہے.فرق صرف نام کا ہے ورنہ حقیقت ایک ہی ہے.مَصَالِح مُرْسَلَهُ حتی اگر استحسان سے کام لیتے ہیں اور اس کی مدد سے غیر منصوص احکام کا استنباط کرتے ہیں اور کبھی کبھی اسے قیاس یا خبر واحد پر مقدم کرتے ہیں تو مالکی بھی اسی منہاج پر چلتے ہوئے بلکہ وسیع تر دائرہ میں استصلاح یا الاخذ بالمصالح المُرْسَلة کے نام سے اس کے ذریعد احکام شرعیہ لا يقول وكل حاكم وكل مفت بما استحسن فيقال في الشيء الواحد لضروب من الفتياء (الامام الشافعی صفحه ۲۳۳ و نیز صفحه ۲۳۱ بھی دیکھیں) اشترطوا في الأخذ بالمصلحة ان تكون من جنس المصالح التي اقرها الشارع وان لم يشهد لها نص خاص واعملوها في المواضع التي ليس فيها نصوص (محاضرات صفحه ۲۹۱) الذين يعترضون على الاستحسان والاستصلاح او القياس يصلون الى الحكم بضروب اخرى من الاستدلال الامام الشافعی صفحه ۲۳۸)
تاریخ افکار را سلامی 92 کا استنباط کرتے ہیں اور کبھی کبھی اس عمل کا نام استحسان بھی رکھتے ہیں.لے مصلحت مرسلہ سے مراد ہر وہ مصلحت ہے جس کو واضح رنگ میں تو شریعت نے بیان نہیں کیا تو لیکن مقاصد شریعت میں اس کا عمومی تاثر ملتا ہے اور ہر صاحب فہم اس کے وجود کو محسوس کرتا ہے.بنیادی طور پر قوانین شرع میں انسانی مصالح کا تعلق تین باتوں سے ہے:.اوّل یہ کہ قوانین کم سے کم ہوں اور زیادہ تر انسان اپنے اندا ز زندگی میں آزاد ہو.اس کا اصطلاحی نام ” قلت تکلیف ہے.دوم: قوانین آسان ہوں اور لوگ اس پر بآسانی عمل کر سکیں اس کا اصطلاحی نام تخدم حرج " ہے.سوم: قوانین کا اجراء آہستہ آہستہ اور بتدریج ہو اس کا اصطلاحی نام تدریج " ہے.نظام تشریع ان تین اصولوں پر مینی ہے.کم قوانین.آسان قوانین اور ان کا نفاذ بتدریج.یہی اصول تشریح کی جان ہیں اور مقاصد شریعت میں ان تینوں باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے.مقاصد شریعت اور مصالح بنیادی طور پر مقاصد شریعت پانچ ہیں.حفظ دین.حفظ جان.حفظ نسل.حفظ مال اور حفظ عقل.سارا نظام شریعت انہی مقاصد کے گردگھومتا ہے.دین، جان نسل ، مال اور عقل کی بقا اور ان کی حفاظت اور ان کی تہذیب و تربیت اور تکمیل ساری سرگرمیوں کا محور اور مرکز ہے.ان پانچ امور کی حفظ و بقا اور تہذیب وارتقاء کے لحاظ سے مقاصد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے." ل الاستحسان عند مالك تقديم الاستدلال المرسل على القياس والاستصلاح الاخذ بالمصلحة المناسبة حيث لا نص وكان يقول مالك الاستحسان تسعة اعشار العلم.مالک بن انس صفحه ۲۱۴،۱۰۱ - محاضرات صفحه ۲۳۶ ۲۳۷) کل اصل شرعي لم يشهد له نص معين وكان ملائما لتصرفات الشرع و ماخوذا معناه من ادلة الشرع فهو صحيح يبنى عليه ويرجع اليه و يدخل تحت هذا الضرب من الاستدلال المصالح المرسلة والتشريع كله يبتغى مصالح البشر ومثال المصلحة المرسلة رفع الحرج" وهو مستنبط من عدة نصوص كالتيمم والقصر وجمع الصلوة وايضا قبل المصلحة المرسلة ما لا يشهد لها دليل خاص بالاعتبار او بالإلغاء (مالک بن انس صفحه ۲۱۵٫۲۰۳_محاضرات صفحه ۲۳۶)
تاریخ افکا را سلامی ۹۸ مقاصد ضرور یہ ان کا مقصد امور خمسہ کی اصل اور بنیا دی بتا ہے.مقاصد حاجیہ.ان کا مقصد امور خمسہ کے لیے سہولت اور آسانی مہیا کرنا ہے.مقاصد کمالیہ یا حسینیہ.ان کا مقصد امور خمسہ کی تردیں اور ان کے حسن کو بڑھاتا ہے.مقاصد ضرور یہ کے تحت ایسے احکام نافذ کئے جاتے ہیں جن کے ذریعہ امور خمسہ کی بقا کی ضمانت مل سکے.مثلاً : دین کی بقا اور حفاظت کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ،عقیدہ اور مذہب کی آزادی، اکراہ اور جبر کی ممانعت، دینی روح کو زندہ اور تازہ رکھنے کے لیے مختلف قسم کی عبادتوں کا تقرر.جان یعنی نفس کی بقا اور حفاظت کے لیے ہوا ، پانی ، خوراک اور رہائش کے حصول کا حق قبل کی ممانعت ، فتنہ وفساد کی روک تھام.نسل کی بقا اور حفاظت کے لیے نکاح کی اجازت اور زنا کی ممانعت.مال کی بقا اور حفاظت کے لیے حق ملکیت کو تسلیم کرنا ، حق اکتساب اور روزگار، چوری اور نصب کی ممانعت.عقل کی حفاظت اور بقا کے لیے علم کے حصول کا حق اور ان تمام امور سے انسان کو بچانا جو عقل کو متصل کرتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں.اسی لیے منشیات سے منع کیا گیا ہے اور آبرو اور عزت کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے کیونکہ بے عزتی بعض اوقات انسان کو پاگل بنا دیتی ہے یا غصہ کی وجہ سے انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں لیے پھر ان پانچوں کی بقا کے بعد ان کی ضروریات اور حاجات کا سوال سامنے آتا ہے جس کے لیے مقاصد حاجیہ کی ترتیب و تعیین کا مرحلہ ہے مثلاً : فرمايا: لا إكراه في الدين (البقرة: ٢٥٦) لكم دينكم وَلَت دِيْنِ (الكافرون:٢) وَيَكُونَ الدينُ لِلَّهِ (البقرة : ١٩٣) الْفِتْنَةُ اَشتَمِنَ القَتْلِ (البقرة :١٩١) نَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (الغاشيه :۲۳) حماية النفس من اعتدا على النفس بالقتل او قطع الاطراف والمحافظة على الكرامة الانسانية بمنع القذف و السب (محاضرات صفحه (۹۴)
تاریخ افکا را سلامی ٩٩ دین کے سلسلہ میں توحید اور ایمان کی وضاحت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تبشیر می نظام، عبادات کی ادائیگی کا اہتمام ، نماز کے لیے جگہ، طہارت ، ستر عورت ، قبلہ کی تعیین ، نماز با جماعت کا اہتمام قرب الہی کے ذرائع ،اچھے اخلاق ، نیک عادات وغیرہ..جان کی بقا کے بعد زندگی کی ابتدائی ضرورتیں.پانی کی سہولت، رہائش کی سہولت ، لباس ، گرمی سردی سے بچاؤ کی سہولت، امن و امان کا قیام، شر پسند عناصر کی نگرانی ، اسلحہ کی روک تھام.نسل کی بقا کے بعد بچوں کی پرورش اور ان کی بہتر نشو و نما کے بارہ میں ہدایات.مناسب پر وہ کا خیال، غیر محرم مرد عورت کے خلا ملا پر پابندی،شادیوں کی سہولت وغیرہ.مال کی بقا اور حق ملکیت تسلیم کرنے کے بعد اس کے حصول اور مال بڑھانے کے مختلف ذرائع.زراعت، صنعت و حرفت، نظام زر کی ترویج ، بازاروں اور منڈیوں کا قیام، تجارت کا فروغ، احتکار اور دیہا کی روک تھام.ذرائع آمد و رفت میں سہولت.راستوں کی درستگی وغیرہ.عقل کی بقا اور حفاظت کے بعد اُس کی جلا کے لیے مختلف علوم کا فروغ.دینی علوم حاصل کرنے کی سہولت مختلف قسم کے مدارس کا قیام.کتب ضروریہ کی اشاعت وغیرہ.مقاصد کمالیہ یا تحسینیہ کے لیے بھی مختلف قسم کی ہدایات دین و شریعت کا حصہ ہیں مثلاً دین کے حسن کے فروغ کے لیے نوافل ، طومی صدقات، اطاعت کی باریکیاں، اخلاق حسنہ کی تفصیلات خضوع و خشوع میں کمال، مساجد آیا درکھنا ، دینی جلسوں کا انعقاد، وعظ و تذکیر، عمدہ عمدہ مذہبی معلومات پر مشتمل کتب کی وسیع اشاعت.جان زندگی کے لیے مختلف قسم کی عمدہ سہولتیں، صاف ستھری عمدہ اور لذیز خوراک، پاکیزہ اور لذیذ مشروبات ، طرح طرح کے پھل ، مختلف قسم کی اچھی خوشبوئیں، رہائش کے لیے عمدہ اور سہولتوں سے مزین مکان ، پُر فضا ماحول، اعلیٰ لباس ، امن و امان کا دور دورہ ، راستوں اور گلیوں کی صفائی ، کشادہ سڑکیں ، روشنی کا انتظام سیر گاہوں کا اہتمام ، دوستانہ تعلقات کا فروغ ہمضر صحت خوراک اور خراب مشروبات سے پر ہیز.نسل کی بہترین نشو و نما کے لیے عمدہ مدارس کا قیام.کھیل کے میدان ، ورزش کا انتظام اور بچوں کی ایسے رنگ میں تربیت کہ وہ بہترین شہری بنیں، تنومند ، بہادر اور ملک وقوم کے لیے
تاریخ افکا را سلامی ** باعث فخر ہوں علم و سنجیدگی کے پیکر سمجھیں جائیں.مال کی فراوانی اور فراخی کے لیے کسب اور تقسیم دولت کے بہترین متوازن اصول.بہتر تجارتی سہولتیں، منڈیاں بازار اور سٹورز، تحقیقات اور ریسرچ کے ادارے بہترین اور تیز رفتار ذرائع آمد و رفت، صنعت و حرفت کے فروغ کے لیے بڑے بڑے کارخانوں کا اہتمام وغیرہ.عقل کی جلا اور ترقی کے لیے اعلیٰ علوم کی یونیورسٹیاں عمدہ لائبریریاں، اشاعتی ادارے، عمدہ اخبارات ، مطالعہ کی سہولتیں، بد اخلاقی اور آوارہ ذہنی کی روک تھام.اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ شریعت کے تمام احکام اور اس کی ساری ہدایات نسل انسانی اور مسلم سوسائٹی کی بہبود اور اس کی مصالح پر مشتمل ہیں لے کہیں تو ان مصالح کی تصریح اور وضاحت کر دی گئی ہے اور کہیں انہیں ارباب علم و دانش کی سمجھ بوجھ پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس خفا اور ابہام سے پر وہ اٹھانے کے لیے اصول وضوابط ، قرائن و امارات کی سہولت بہم پہنچائی گئی ہے تا کہ بحیثیت مجموعی ان قرائن پر غور کر کے ارباب حل و عقد اور دانشمند علماء قومی بہبود کی راہیں متعین کر سکیں." مصالح مرسلہ اسی قسم کے طرز استدلال کا ایک حصہ ہیں جن کو بنیا د بنا کر حضرت امام مالک نے اجتہاد کی راہ ہموار اور وسیع کرنے کی کوشش کی ہے ہے اور مصالح پر مبنی فقہ کا ایک عمدہ ذخیرہ آئندہ نسل کی راہنمائی کے لیے مہیا کیا ہے.”مصالح مرسلہ" کی بنا پر استدلال و استنباط کی متعد د مثالیں تاریخ فقہ نے محفوظ کی ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے.- اسلام میں اہل کتاب خواتین سے شادی کرنے کی اصولی اجازت ہے لیکن حضرت عمر نے قومی مصالح کے پیش نظر صحابہ اور حکام کو ایسی شادی سے منع کر دیا تھا کیونکہ ایسا کرنے میں بعض خطرات کا اندیشہ تھا.حضرت حذیفہ نے ایک یہودی عورت سے شادی کر لی.حضرت عمر کو جب تفصیل کے لیے دیکھیں.محاضرات فی تاریخ المذاهب الفقهية صفحه ١٠٣٢٩٣ (مالک بن انسس صفحه ۲٠۲٠۱٦٦ - الامام الشافعي صفحه (۲۴۴) ما من امر شرعه الاسلام بالكتاب والسنة الا كانت فيه مصلحة حقيقية ومن المصالح لا يشهد لها او لضدها اصل شرعى ولكن يبيحها العقل ولا يأباها الشرع (محاضرات صفحه ۹۲ ۹۷ - الامام الشافعي صفحه (۲۴۴)
تاریخ افکا را سلامی اس کا علم ہوا تو آپ نے حضرت حذیفہ کو حکم دیا کہ اس عورت کو فو را طلاق دے دو تمہاری یہ شادی مصالح امت کے خلاف ہے لیے - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو ا جازت دی کہ اگر وہ چاہے تو اپنی ہونے والی بیوی کو نکاح سے پہلے دیکھ لے.اس کی شکل وصورت طبیعت اور رہن سہن کا جائزہ لے لے.اس کے بالتقابل عورت کو بھی ایسے ہی جائزہ کی اجازت دی جاسکتی ہے.یہ سب کچھ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کی مصلحت پر مبنی ہے..ایک وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پہلے دو خلفاء نے کتابت حدیث کے خاص اہتمام سے منع فرمایا تا کہ قرآن کریم کے ساتھ اشتباہ پیدا نہ ہو.پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ قرآن کریم کا امتیاز لوگوں میں راسخ ہو گیا اور اشتباہ کا خطرہ باقی نہ رہا.دوسری طرف دینی تاریخ کو محفوظ کر لینے کی ضرورت سامنے آئی.چنانچہ پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے وقت کے ماہر علماء کو حکم دیا کہ وہ احادیث اور روایات کو اکٹھا کریں اور لکھ لیں کیونکہ اس وقت اسی میں مصلحت مضمر تھی.۴.یہودیوں اور عیسائیوں کو حضرت عمر کے حکم سے جزیرۃ العرب سے نکال دیا گیا تاکہ حکومت کا مرکز ان کے فتند اور سازش کی آماجگاہ نہ بن سکے.ہے - حضرت عمر نے کبار صحابہ کو مدینہ منورہ سے باہر دوسرے ملکوں اور شہروں میں رہائش اختیار کرنے سے روکے رکھا.اس میں متعدد مصالح آپ کے پیش نظر تھے.مثلاً ایک یہ کہ امور مہمہ میں ان سے بر وقت مشورہ لیا جا سکے نیز دوسری جگہیں مرکز عقیدت نہ بنیں اور خلافت کا احترام کم نہ ہو..ملکہ روم نے حضرت عمرہ کی زوجہ محترمہ حضرت ام کلثوم کو ایک قیمتی ہار بطور تحفہ بھیجا لیکن حضرت عمر نے وہ ہار بیت المال میں جمع کرا دیا.مقصد یہ تھا کہ حکام اسے پبلک سے تحائف كتب عمر الى حذيفة اعزم عليك ان لا تضع كتابي هذا حتى تخلى سبيلها فانی اخاف ان یقتدی بک المسلمون فيختاروا اهل الذمة لجمالهن وكفى بذالك فتنة لنساء المسلمين.(الامام الشافعي صفحه ۳۰۸) مالک بن انس صفحه ۲۱۲٬۳۰۸۰۳۶۰۲۵
تاریخ افکار را سلامی 1+F وصول کرنے کا بہانہ نہ بنا لیں.یہی وجہ ہے کہ آپ والیوں کی مالی حالت کا وقتا فوقتا جائزہ لیتے رہتے تھے اور بعض اوقات جس کے پاس اندازہ سے زیادہ مال پاتے آدھا بیت المال میں جمع کرا دینے کا حکم دیتے.۷.حضرت عمر نے ایک شخص کو مدینہ سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ بن ٹھن کر رہتا گلیوں میں آوارہ پھرنے کا شوقین تھا اور بعض عورتوں کے لیے فتنہ کا با عث بنا تھا لے LA فتح دمشق کے موقع پر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں میں تشریف لے گئے تو ان دنوں وہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی.حضرت عمر کو مشورہ دیا گیا کہ آپ کے ساتھ بڑے بڑے صحابہ ہیں خود آپ کا وجود بھی ایک قومی امانت ہے اس لیے وباز دہ علاقوں میں جانا درست نہیں.آپ نے صحابہ کو بلا کر مشورہ کیا.کچھ کی رائے تھی کہ آپ کو واپس چلے جانا چاہیے اور کچھ کہتے تھے کہ جب اتنا سفر کر کے آپ آئے ہیں تو آپ کا فوجوں سے ملے بغیر واپس چلے جانا مناسب نہیں.مشورہ کے دوران قرآن کریم کی کوئی آیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد پیش نہیں کیا گیا تھا.اس کے باوجود آپ نے ارباب دانش کے مشورہ کے بعد یہی فیصلہ کیا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ آگے بڑھنے کی بجائے واپس چلے جائیں.حضرت ابو عبیدہ جو اس علاقہ کی فوجوں کے سر براہ تھے وہ حضرت عمر کا فیصلہ سن کر کہنے لگے.افرَارًا مِّنْ قَدَرِ الله ؟ کہ اللہ کی تقدیر سے بھاگنے کے کیا معنے ؟ حضرت عمر نے فرمایا ابو عبیدہ ! تمہارے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا تو مجھے تعجب نہ ہوتا دیکھیں اگر وادی کا ایک کنارہ سرسبز ہوا اور دوسرا پنجر اور خشک تو تم اپنے جانور جس کنارہ پر چھاؤ گے وہ خدا کی تقدیر ہی ہو گی.خدا کی تقدیر تو ہر حال میں ہے.اس لیے عقل اور سمجھ کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا تقدیر سے فرار نہیں کہلا سکتا.مشورہ کے وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف موجود نہ تھے وہ جب آئے اور ان کو اس مشورہ کا علم ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ اس بارہ میں حضور کا ایک فرمان ان کو یاد ہے حضور نے فرمایا تھا کہ وہا زدہ علاقہ میں نہ جاؤ اور جو لوگ و با زدہ علاقہ میں رہ رہے ہیں وہ وہا سے ڈر کر دوسرے علاقوں میں نہ جائیں.( بلکہ اسی علاقہ میں رہ کر احتیاطی تدابیر اختیار کریں ) الامام احمد صفحه ۲۲۹
تاریخ افکا را سلامی ١٠٣ حضرت عمر نے یہ روایت سن کر بے انتہا خوشی کا اظہار فرمایا.لے ۹.نماز با جماعت ہو رہی ہے قریب ہی ایک شخص ڈوبنے لگا ہے یا گھر کو آگ لگ گئی ہے تو نماز توڑ کر ڈوبنے والے کو بچانا اور آگ بجھانا ضروری ہے کیونکہ مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ ایک وا جب کو دوسرے واجب پر ترجیح دی جائے ہے ۱۰.جس سودے میں ”عرر ، یعنی نقصان اور جھگڑا اٹھ کھڑے ہونے کا امکان ہو وہ سودا منع ہے لیکن اگر اسے مبہم یعنی نقصان یا نفع کے احتمال والے طریق تجارت کا رواج ہو یا لوگ ایسے طریق لین دین کے ضرورت مند ہوں تو غور کے اندیشے کو نظر انداز کر کے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے کیونکہ احتمالی غرر کے مقابلہ میں پبلک ضرورت یا عرف کی اہمیت زیادہ ہے کہ نفع و نقصان کا احتمال تو کم و بیش ہر تجارت میں ہوتا ہی ہے اور لوگ اس کے عادی ہوتے ہیں.اسی اصول کی بنا پر بَيْعِ سَلَم مَزارعت اجازہ اور باغ ٹھیکہ پر دینے کی اجازت دی گئی ہے.نابالغ بچے کھیل کھیل میں لڑ پڑیں اور کوئی لڑ کا قتل ہو جائے تو نا بالغ بچوں کی گواہی درست ہوگی.مصالحہ مرسلہ کے اصول کی بنا پر امام مالک نے اس کا فتوی دیا ہے.بنا دیا.-۱۲.اصول استصلاح کی بنا پر فضیلی اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوجائیں اور ان کے ٹھہرانے کی کوئی مناسب جگہ نہ ہو تو حکومت کو اختیار ہے کہ دوسرے لوگوں کے گھروں میں ان کو ٹھہرائے خواہ وہ اس کے لیے راضی ہوں یا نہ ہوں گے غرض تلاش اور جستجو سے " مصالح مرسلہ کی بنا پر استنباط اور استدلال کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں اور فقہاء کی ایک بھاری تعدا د امام مالک کے اس مسلک کی مؤید ہے.امام مالک اور امام احمد کے نزدیک اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ مصلحت ثابتہ کی بنا پر خبر واحد کو ترک کر دیا جائے چنانچہ امام مالک کے نزدیک یہ روایت درست نہیں کہ میت کی طرف سے کوئی دوسرا روزے رکھ سکتا ہے یا حج کر سکتا ہے کیونکہ عبادات میں قائمقامی اصولاً تخلط ہے.✓ ا بخاری کتاب الطب باب ما يذكر في الطاعون - مالک بن انس صفحه ۲۰۴ محاضرات صفحه ۱۰۱ و ۳۶۲ مالک بن انس صفحه ۲۲۱ - الامام احمد صفحه ۲۳۰ مالک بن انس صفحه ۱۷۸
تاریخ افکار را سلامی 1+7 حضرت امام شافعی، جس طرح استحسان کے خلاف ہیں اور حنفیوں کو نشانہ تنقید بناتے ہیں اسی طرح وہ مصالح مرسلہ اور استصلاح کے بھی خلاف ہیں.ان کی رائے ہے کہ چونکہ مصلحت کی کوئی حد بندی نہیں کی جاسکتی اس لیے اس اصول کو اپنانے میں کافی خطرات ہیں.اس سے شریعت کا حلیہ بگڑ سکتا ہے.ظالم حکام مصلحت کی آڑ لے کر ظلم کے لیے جواز نکالنے میں شیر ہو جائیں گے.علاوہ ازیں ان کے نزدیک اس اصول کو اپنانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ قرآن وحد بیث کے بعد اگر قیاس کے اصول کو نقلمندی اور عمیق سوچ کے ساتھ استعمال کیا جائے تو احکام کا معلوم کرنا کچھ ا مشکل نہ ہو گا.اول تو نصوص ہی کچھ کم نہیں ہیں پھر ان میں جو علل اور وجوہات مضمر ہیں ان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے ان کا پتہ لگا کر معاملات غیر منصوصہ کو ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے.لیکن جیسا کہ استحسان کے بیان میں گزر چکا ہے امام شافعی کا اختلاف از جسم نزاع لفظی ہے کیونکہ مصلحت اور استصلاح کے قائل مصلحت کی تحدید کرتے ہیں.ذاتی اغراض کو وہ مصلحت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسی مصلحت کی تائید کرتے ہیں جو مقاصد شریعت کے مطابق ہے اور عام پبلک اور عوام کی اکثریت کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور شریعت کے مجموعی احکام اس کے مؤید ہوں لے غرف ff استنباط کی ایک بنیاد عرف ہے.عرف سے مراد یہ ہے کہ کسی جگہ کے مسلمانوں میں ایسا رواج ہے جو بجائے خود مفید ہے یا کم از کم لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں.اور وہ شریعت کی کسی ہے جو بجائے خود مفیدہے یا کم ازکم لوگاس میں دلچپسی ہیں.اور وہ کی نص کے بھی خلاف نہیں ہے عرف سے زیادہ تر کام کا روبار.لین دین اور غیر مصر تمدنی رسم و رواج میں لیا جاتا ہے مثلاً اہل مدینہ میں بیع سلم کا رواج تھا اور لوگ اس کا روبار کے عادی تھے اس لیے استثنائی طور پر اس کی ل انما في العلماء من تقرير هذا الاصل الأخذ بالمصلحة) تقريرا صريحًا مع اعتباره كلهم خوفا من اتخاذ ائمة الجوراياه حجة لا تباع اهوائهم مالک بن انس صفحه ۳۱۸۰۲۱۷ و ۳۵۷ الامام احمد صفحه ۲۳۰ - الامام الشافعی صفحه ۲۴۵ محاضرات صفحه ۲۳۵) العرف ان يكون عمل المسلمين على امر لم يروافيه نص من القرآن والسنة او عمل الصحابة والعرف التجارى والتعامل بين التجار ميزان ضابط للتجارة اذا لم يكن مخالفًا للنص ( محاضرات صفحه ۱۷۹۹۱۷۷)
1+0 اجازت دی گئی تا کہ لوگ تنگی محسوس نہ کریں.یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ عرف کے بدلنے سے بالعموم یہ احکام غیر منصوص بدل جاتے ہیں.ننگے سر پھر نا اہل مشرق کے ہاں معیوب بات ہے اور اس عیب کی وجہ سے بعض اوقات گواہ کی عدالت اور ثقاہت پر اثر پڑ سکتا ہے لیکن مغرب کے ممالک میں اس کا رواج ہے اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا اس لیے مغرب کے رہنے والوں میں اسے بطور جمرح و تنقید استعمال نہیں کیا جا سکے گا لیے امام مالک اور مدینہ کے بعض قضاۃ اہل مدینہ کے عرف کو خاص اہمیت دیتے تھے اور بعض اوقات اس کی وجہ سے خبر واحد کور د کر دیتے تھے.اور جب کسی مدنی قاضی کے سامنے روایت پیش کی جاتی کہ حدیث میں ایسا آیا ہے تو وہ یہ کہہ کر اس روایت کو رد کر دیا کرتے تھے کہ اہل مدینہ کا عرف اور رواج اس کے خلاف ہے.ایک دفعہ امام مالک کے سامنے یہ ذکر ہوا کہ امام ابو حنیفہ کی رائے ہے صاع کی مقدار آٹھ رطل ہے.امام مالک نے مدینہ کے مختلف گھروں سے صاع منگوائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تھے جب اندازہ کیا گیا تو وہ ۱/۳-۵ رطل کے تھے.اس پر آپ نے فرمایا جب حضور کے زمانہ کے یہ صاع اس مقدار کے ہیں اور انہی کے مطابق لوگ صدقۃ الفطر اور دوسرے واجبات مالی ادا کیا کرتے تھے تو ابو حنیفہ کی رائے کو ہم کیسے درست مان سکتے ہیں.کے بنو امیہ کے زمانہ میں کالے رنگ کے کپڑے کا استعمال عیب سمجھا جاتا تھا.بنو عباس برسراقتدار آئے تو انہوں نے کالی وردی اپنائی اس طرح کالے رنگ کے کپڑے کی قدرو قیمت بڑھ گئی اور اس کے دام بڑھ گئے اور قضاء یہ رنگ معیوب نہ رہا.کے رویہ ذرائع استنباط احکام کی ایک بنیاد ” ذرائع بھی ہے.اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذرائع اور اسباب جلب منفعت کا باعث اور مفید ہیں وہ شرعاً مطلوب اور مقصود ہیں اور جو ذرائع اور اسباب فساد نقصان اور ضر ر کا باعث ہیں اور بدی کا ذریعہ بن سکتے ہیں وہ شرعاً ممنوع اور مردود ہیں کیونکہ مالک بن انس صفحه ۲۲۵ ۳۲ مالک بن انس صفحه ۱۷۶ و ۱۷۸ رأی صاحبا ابي حنيفة ان صبغ الثوب باللون الاسود يزيد قيمته (مالک بن انس صفحه ۲۲۵)
I+Y اگر بدی منع ہے تو بدی تک پہنچانے والے ذرائع اور اسباب بھی منع ہونے چاہیں اور اُن کی روک تھام کی کوشش کی جانی چاہئے لیے فقہ میں عموماً ان ذرائع پر زیادہ بحث کی جاتی ہے جو ممنوع ہیں اور فساد یا بدی کا باعث بنتے ہیں.اسی لیے بعض اوقات اس بحث کا عنوان "سد ذرائع" لکھا جاتا ہے یعنی ان ذرائع کی تفصیل اور ان کی روک تھام کا اہتمام جو مُفضِی الی الاثم ہیں اور معاشرتی برائیوں کا باعث بنتے ہیں.مثلاً بتوں کو گالیاں نکالنا منع ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ان بتوں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں پوجتے ہیں ان کو برا لگے گا اور وہ چڑ کر مسلمانوں کے معبود اور بچے خدا کو گالیاں نکالنے اور برا بھلا کہنے لگیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا کہ اگر مکہ کے نئے مسلمانوں کے ابتلا کا ڈر نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا کر ابراہیم کی بنیا دوں پر اس کی تعمیر کرتا..منگنی کا پیغام گیا ہوا ہے جب تک اس کا فیصلہ نہ ہو جائے کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں که دوه پیغام بھجوائے.اس ارشاد کا مقصد دل شکنی اور با ہمی بدمزگی کے ذرائع کی روک تھام ہے.ہے ۴.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متصدق صدقہ میں دی ہوئی چیز خود نہ خریدے کیونکہ یہ امر اس بد گمانی کا باعث بن سکتا ہے کہ اس نے یہ چیز سستے داموں خریدی ہے اور ایک چیز حاصل کرنے کا بہانہ بنایا.- حضرت عمر نے جانوروں کی قلت کے پیش نظر حکم دیا تھا کہ ہفتہ میں دودن گوشت کا ناغہ کیا جائے آپ اس حکم کی تعمیل بڑی سختی سے کراتے تھے.حضرت زبیر کی ملکیت میں ایک مذبح تھا الذرائع هي الوسائل وان الشارع اذا طلب بامر فكل ما يوصل اليه مطلوب واذا نهى عن امر فكل ما يوصل اليه نهى عنه....وكل امر مباح يوصل الى مفسدة فهو ممنوع من حيث الوسيلة الى مفسدة والحنابلة اشد المذاهب اخذا بالذرائع، مزید تفصیل کے لیے دیکھیں.مالک بن انس صفحه ۲۲۲۲۲۱ الامام احمد صفحه ۲۳۲ محاضرات صفحه ۴۶۴۰۳۶۳:۳۳۷ الامام احمد صفحه ۲۳۰
تاریخ افکا را سلامی 1+2 آپ خاص طور پر اس کی نگرانی کرتے لیے - حضرت عمر نے قحط سالی کے زمانہ میں حکم دیا تھا کہ لوگوں کی ضرورتیں بیت المال سے پوری کی جائیں اور اگر بیت المال میں گنجائش نہ رہے تو صاحب حیثیت لوگ ذمہ دار ہیں کہ وہ خرچ کریں.- حضرت عمرہ کا طریق تھا کہ زنا کے مجرم کو مقررہ سزا کے علاوہ ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا کرتے تھے لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ ایک مجرم دشمن کے ساتھ جا ملا اور ڈر پیدا ہو گیا کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے خلاف مخبری نہ کریں.چنانچہ آپ نے سزا کا یہ حصہ منسوخ کر دیا ہے دشمن یا شر پسند عناصر کے پاس اسلحہ کی فروخت منع ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہی ہتھیار مسلمانوں اور امن پسند شہریوں کے خلاف استعمال کریں.۹ مخالف اور دشمن کی گواہی قابل رد ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پرانی مخالفت کی بنا پر وہ غلط بیانی کرے.۱۰ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے لیکن اس کے لیے پر امن ذرائع اختیار کرنے کی ہدایت ہے سختی کرنا ، جنگ بپا کرنا اور گالی گلوچ تک نوبت پہنچا نا درست نہیں کیونکہ اس سے ا.فتنہ بڑھتا ہے اور امن و امان کو نقصان پہنچتا ہے اور حصول مقصد کی امید معدوم ہو جاتی ہے..دوسرے تاجر کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے تجارتی مال کا بھاؤ گرانا منع ہے کیونکہ یہ طریق دوسرے کی تجارت کا بھٹہ بٹھانے کے مترادف ہے.غرض ذخیرہ فقہ میں ایسے ذرائع کی متعد د مثالیں ملیں گی جو اصلاً مباح ہیں لیکن وہ مفسدہ یا بدی کا باعث ہیں یا باعث بن سکتے ہیں اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے اور ان سے مجتنب رہنے کی ہدایت کی گئی ہے.ا كان عمر سباقا لسد الذرائع والعمل بالصالح.مالک بن انس صفحه ۲۵.مزید تفصیل کے لیے دیکھیں الامام الشافعی صفحه ۲۵۶ مالک بن انس صفحه ۲۰۶ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں مالک بن انس صفحه ۳۲۲ H فمالك لا يرى سل السيف في سبيل الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر (والمعتزلة يرى ذالك واجباً سدا للذرائع الى الفتنة ولان الدنيا يصلحها السلام والامن.(مالک بن انس صفحه ۲۳۵) محاضرات صفحه ۳۶۵
تاریخ افکار را سلامی I+A رَفَع حَرَج استنباط احکام کا ایک اصل رفع حرج" ہے یعنی جس چیز سے لوگ نکلی تھی اور بے چینی سے دو چار ہوتے ہوں اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہو اس چیز کا ازالہ اور ا سے ہٹانا مقصو د شریعت ہے.حرج اور بوجھ مطلوب شرع نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ في الدَيْنِ مِن حَرج - مَا يُرِيدُ اللهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَج يرى طرح ی اسی فرما ا يُريدُ اللهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا - آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے بُعثتُ بِالحَبيفِيَّةِ السَّمْعَةِ عُلُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ.میں سیدھی سادی اور بالکل آسان شریعت لے کر مبعوث ہوا ہوں.طاقت اور برداشت کے مطابق راہ عمل اختیار کرو.کے رفع حرج کے اصول میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ دومشکلوں میں سے کون سی کم مشکل ہے.کس میں کم نقصان ہے.جو کم مشکل ہے جس میں کم نقصان ہے اسے اختیار کیا جائے.رفع حرج کی متعدد مثالیں نظام فقہ میں موجود ہیں جن میں سے بعض منصوص ہیں اور بعض غیر منصوص.جیسے تیم، سفر میں افطار، جرابوں پر مسح.جمع نماز اور بعض ایسی بیوع جن کے منع ہونے کے بارہ میں نص موجود ہے مثلاً.بیع غرر بيع شمار قبل از بد و صلاح وغیرہ اور بعض غیر منصوص اور فقہاء کے اجتہاد پر مبنی ہیں، جیسے حسب ضرورت عورت کا فوٹو کھنچوانا.مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا.زندگی بچانے کے لیے دوسرے کا خون دینا.اعضاء کی پیوند کاری کا جواز وغیرہ رفع حرج کے اصول سے ہی وابستہ ہیں اور حقیقت شناس علماء اور گہری نظر رکھنے والے فقہاء اس اصل کی وسعت کے قائل ہیں.ے ل سورة الحج : ۷۹ سورة المائدہ : ۷ ک سورة النساء : ٢٩ کے مالک بن انس صفحه ۲۰۰ ۲۰۱ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهيه صفحه ۱۰۴ تا۱۰۶ مالک بن انس صفحه ۲۰۱۰۳۰۰ و ۲۱۵ و ۲۳۱
تاریخ افکا را سلامی استصحاب 1+9 استنباط احکام کا ایک اصول اصحاب ہے.اصحاب کے معنے ساتھ رکھنے، قائم رہنے دینے اور اصلی حالت پر موجودرہنے دینے کے ہیں.شریعت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت اور جواز ہے پس جب تک نص کسی چیز کو حرام قرار نہ دے اور اس سے منع نہ کرے وہ چیز مبارح اور جائز ہوگی اور اس کا یہ وصف قائم و دائم رہے گا اسی استنباط کا نام فقہاء نے اصحاب رکھا ہے مثلا بنیادی طور پر پانی پاک ہے دوسری چیزوں کو پاک کر سکتا ہے اس کا یہ وصف قائم و دائم اور موجود رہے گا سوائے اس کے کہ نص یہ کہے کہ اب یہ پانی ناپاک ہے.حدیث میں ہے اگر نجاست پانی کے مزہ یا بو یا رنگ کو بدل دے تو پانی ناپاک اور نجس ہو جاتا ہے ورنہ پاک رہتا ہے.ایک شخص گم ہو گیا وہ قانونی اغراض کے لیے اس وقت تک زندہ سمجھا جائے گا جب تک کہ دلائل اور واضح قرائن اس کے فوت ہو جانے کے سامنے نہ آجائیں.ایک شخص ایک جائیداد کا مالک اور اُس پر قابض چلا آرہا ہے اور اردگرد کے رہنے والے سبھی یہ بات جانتے ہیں پس اس کی ملکیت اس وقت تک مسلم ہوگی اور اس کا قبضہ مالکا نہ ہو گا جب تک کہ کوئی قطعی دلیل مثلاً فروخت کا قطعی ثبوت مہیا نہ ہو جائے ہے اہل ظاہر مثلاً امام داؤد ظاہری اور امام ابن حزم الاندلسی اصحاب کے اصول کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں.وہ نصوص کی پیروی کی تلقین کرتے ہیں اور اگر کسی مسئلہ کے بارہ میں کوئی نص نہ ملے تو اباحت اصلیه یا استصحاب کے اصول کی پابندی کرتے ہیں اور اس بارہ میں اس قدر متشدد ہیں کہ بعض شد وزا اور بعید از عقل جزیات کو اپنانے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے.الاستصحاب استدامة اثبات ما كان ثابتا ونفى ما كان نفيا......بقاء الحكم على ما هو عليه حتى يقوم دليل على التغير....واجمع الائمة على الاخذ به قلة وكثرة وقال الله تعالى " تَخَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (البقرة : ٣٠) وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينِ (البقرة :۳۷) الامام احمد صفحه ۲۲۶ ۲۲۷
شرعی اور فقہی نظام کی تدوین کے لحاظ سے اہل السنت والجماعت کی شاخیں جن ائمہ فقہ نے تدوین فقہ کی بنیا د رکھی اور اس سلسلہ میں قابل قدر کام کیا اور ان کے ماننے والے دنیائے اسلام میں بالعموم پائے جاتے ہیں اور جن کی مختصر سوانح کا لکھنا اس جگہ مقصود ہے وہ مند رجہ ذیل ہیں.حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام مالک.حضرت امام شافعی.حضرت امام احمد بن حنبل.حضرت امام ابن تیمیہ - حضرت امام ابن قیم - حضرت امام داؤ دا لظاہری.حضرت امام ابن حزم.حضرت امام لیث بن سعد - حضرت امام جریر الطبر گئی.رجحان طبع اور تفاوت حالات کی وجہ سے مذکورہ بالا ائمہ نے تدوین فقہ کے لیے مختلف نج اختیار کئے.بعض روایات میں ماہر تھے اور فقہ کی بنیا دروایات پر رکھنے کے قائل تھے وہ ضعیف سے ضعیف روایت کو بھی رائے اور قیاس پر ترجیح دیتے تھے اور بعض دوسرے فراست اور تفقہ سے کام لینے کے عادی تھے اور گہرائی میں جانے کا ذوق رکھتے تھے اور قرآن کریم کے بعد انہیں روایات کو قبول کرتے تھے جو ان کے نزدیک یقینی اور قطعی الثبوت تھیں ورنہ وہ رائے قیاس اور علم کے دوسرے ذرائع کی مدد سے مسائل فقہ مستنبط کرتے تھے.ان کا کہنا تھا کہ علم کثرت روایت کا نام نہیں علم تو ایک نور ہے ایک بصیرت ہے.استنباط مسائل میں اس سے کام لینا چاہیے اور اس کی مدد سے کسی روایت کا صحیح رخ متعین کرنا چاہیے.ان کے خیال میں یہ ضروری تھا کہ مقاصد شریعت کو مد نظر رکھ کر تفقہ کافریضہ سرانجام دیا جائے لے ↓ الف.ليس العلم بكثرت الرواية انما هو نور يضعه الله في القلب (مالک بن انس صفحه ۱۰۵) ب.سئل عبدالرحمن بن المهدى عن سفيان الثورى والاوزاعى و مالک (بقیہ اگلے مغویر)
تاریخ افکار را سلامی ائمه فقه ا.حضرت امام ابو حنیفہ آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطی کنیت ابو حنیفہ کے اور لقب امام اعظم تھا.آپ ۵۸۰ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ ھ میں جب کہ آپ کی عمر ستر سال کے قریب تھی بغداد میں فوت ہوئے.آپ کا گھرانہ کابل (افغانستان) کے ایک معزز اور مذہبی طور پر پیشوا خانوادہ سے تعلق رکھتا تھا جو کا بل کے مجوسی معبد کا مؤید خاندان تھا.کابل کی فتح کے بعد امام ابو حنیفہ کے دادا ز وطی اپنے خاندان کے ساتھ کوفہ میں آبسے تھے یا قید ہو کر آئے مسلمان ہو گئے اور بنو تیم بن ثعلبہ سے عقد ولاء قائم ہوا.کسے کہا جاتا ہے کہ زوطی کو حضرت علی سے بے حد عقیدت تھی.آپ نے ایک لذیذ مشروب يقية صفحه (١١٠) فقال سفيان امام و ليس بامام فى فى السنة والاوزاعى امام في السنة و ليس با مام في الحديث ومالک امام فيهما - (مالک بن انس صفحه ۱۸۳) ج.يقال ابن عمر جيد الحديث وليس بجيد الفقه (مالک بن انس صفحه ۱۷۳) د فاق بعض العلماء في معرفة الحديث وأسانيده ورجاله وبعضهم فاق بالفقه في الحديث والاستدلال به الامام الشافعي صفحه (۱۹۸) ه قال ابو حنيفة مثل من يطلب الحديث ولا يتفقه كمثل الصيد لاني يجمع الادوية ولا يدرى لاى داء هي حتى يجىء الطبيب....هكذا طالب الحديث لا يعرف وجه حديثه حتى يجيء الفقيه....محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۱۵۳ بحواله المناقب جلد۲ صفحه ۹۱ ابو حنيفه صفحه ۱۸۳٬۱۸۲) ے یہ کنیت کیوں مشہور ہوئی ، اس میں اختلاف ہے.ایک روایت یہ ہے کہ آپ چونکہ اعتدال کے عادی تھے، افراط و تفریط سے بچتے تھے ، آپ نے بڑی معتدل راہ اختیار کر رکھی تھی اس لیے آپ ابو حنیفہ کی کنیت سے مشہور ہوئے.بعض کا خیال ہے کہ عراقی زبان میں حنیفہ روات کو کہتے ہیں چونکہ تدوین فقہ کے کام کے سلسلہ میں ہر وقت آپ کی مجلس دواتوں سے بھری رہتی تھی.آپ کے ہر شاگرد کے پاس دوات ہوتی تھی اس لیے آپ کی شہرت ابو حنیفہ کی کنیت سے ہوئی.(ابو حنیفه صفحه ۱۶۳) هم قبيلة من العرب غير التيميين من قريش (محاضرات صفحه ۱۴۳) سے عجم کے رہنے والے جو عرب مسلمانوں کے معاشرہ کا حصہ بن جاتے ہیں ان کو موالی کہا جاتا تھا.ہم قوم منتسبون الى بيوت العرب بعقد الولاء منهم الارقاء ومنهم غير الارقاء (ابو حنيفه صفحه (۲۳)
تاریخ افکا را سلامی جس کا نام فالودہ تھا اور کابل کے لوگ اس کے بنانے میں ماہر تھے حضرت علی کی خدمت میں نذر کیا.آپ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام ثابت رکھا اور اس کی کامیاب زندگی اور مبارک ذریت کے لیے حضرت علی سے دعا کرائی.امام ابو حنیفہ طویل القامت، کھلا اور بشاش چہرہ ، کھلتا سفید گندمی رنگ ، گھنی داڑھی، وضع قطع کے لحاظ سے بڑے خوش پوش، صاف ستھرے رہن سہن کے مالک بزرگ تھے اور ہمیشہ خوش رہنے والے مطمئن مزاج صابر و شاکر عالم سمجھے جاتے تھے لے آپ کے دادا زوطی نے کوفہ آکر کپڑے کا کاروبار شروع کیا اور اس میں خوب ترقی کی.یہ تجارتی کاروبا را امام ابو حنیفہ کو ورثہ میں ملا.آپ بھی تجارت کا بڑا گہرا ملکہ رکھتے تھے.بچپن سے ہی اپنے والد ثا بت کے ساتھ کام کاج میں حصہ لینے لگے.پھر جب آپ پر پورا بوجھ پڑا تو آپ نے اپنی ذمہ واری کو بجھتے ہوئے نہ صرف کا روبار کو سنبھال لیا بلکہ اس کو مزید ترقی دی.اس زمانہ میں کپڑے کی ایک مشہور قسم بہت پسند کی جاتی تھی.اس کا نام خزن تھا اور خوب بکتا تھا.ریشم اور اون کی ملاوٹ سے بنتا تھا.آپ نے اس کپڑے کے بنانے کی کھڈیاں لگوائیں اور شرکت کے اصول پر کاروبارکو چلایا.مختلف شہروں میں اس کی ایجنسیاں قائم کیں جہاں آپ مال بھجواتے اور خوب منافع کماتے.تجارتی مہارت کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی رقمیں کاروبار میں لگانے یا محفوظ رکھنے کے لیے آپ کو دیتے رہتے.ایک دفعہ آپ نے ایک نو جو ان کو ایک لاکھ ستر ہزار درہم بھجوائے اور کہا کہ تمہارے والد کی یہ رقم میرے پاس تھی جو وہ وفات سے پہلے واپس نہیں لے سکے تھے.اسی طرح تاریخ نے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے.جب آپ فوت ہوئے تو پچاس ہزار کے قریب ایسی رقمیں آپ کے پاس لوگوں کی تھیں سے جو وفات کے بعد واپس ہوئیں.بہر حال مالی لحاظ سے امام ابو حنیفہ بڑے خوشحال تھے اور آپ کو کبھی بھی کسی قسم کی مالی پریشانی سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا.امام ابو حنیفہ اور علم جیسا کہ ذکر آچکا ہے آپ شروع سے ہی ہوش سنبھالتے ہی تجارتی کاروبار سے متعلق ہو گئے تھے ابو حنيفه صفحه ۱۰ کے ابوحنيفه صفحه ۳۸
تاریخ افکا را سلامی اور مروجہ علوم کی طرف توجہ مبذول نہ کر سکے تھے.آپ کی عمر پندرہ سال کے قریب ہوگی کہ ایک روز بازار میں جاتے جاتے اس زمانہ کے مشہور محدث حضرت امام شعبی سے ملنے کا اتفاق ہوا.کسی بات پر انہوں نے محسوس کیا کہ بچہ ذہین اور قابل لگتا ہے.اس پر انہوں نے ابو حنیفہ کو نصیحت کی کہ وہ تحصیل علم کی طرف توجہ کریں.آپ امام شعبی کی نصیحت سے متاثر ہوئے اور طبعی مناسبت کے لحاظ سے کوفہ کے مختلف مدارس کا جائزہ لیا.شروع شروع میں آپ نے علم کلام تھے میں دلچسپی لی اور اس کے لیے بصرہ بھی گئے جو اس زمانہ میں علم کلام کا مرکز تھا لیکن کچھ مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس علم میں تو عمل اور انہماک انسان کو جھگڑالو اور مکابر وپسند بنا دیتا ہے.اس کی ساری بخشیں بے کار اور بے نتیجہ ہیں ان کا مال سخت دلی اور سیاہ باطنی ہے.یہ باتیں سوچ کر آپ نے اس شغل کو ترک کر دیا سے لیکن علم سے جو دلچسپی اور انس پیدا ہو گیا تھا اس نے آرام سے نہ بیٹھنے دیا.آپ نے فقہ کے مدارس کا جائزہ لیا کیونکہ اس زمانہ میں اس علم کا بھی خاصہ چہ چاتھا.آپ کو حضرت حماد بن ابی سلیمان" کا درس فقہ بہت پسند آیا.حتما در وایت اور درایت کے جامع تھے اور کوفہ کے سر بر آوردہ عالم اور فقیہ مشہور تھے.چنانچہ ابو حنیفہ ان کے مدرسہ سے منسلک ہو گئے اور فقہ کا درس لینا شروع کیا اور پھر استاد اور شاگر د مناسبت طبع کے لحاظ سے فیضان علمی کا سر چشمہ بن گئے اور یتعلق بڑھتے بڑھتے عاشقانہ رنگ اختیار کر گیا.حضرت کا دامام ابراہیم نخعی کے شاگر دتھے اور شخصی کو بواسطہ عالقہ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے شرف تلمذ حاصل تھا.حضرت ابن مسعودؓ کو حضرت عمر نے علم دین سکھانے کے لیے کوفہ بھیجا تھا.نخعی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی استفادہ کیا تھا.اس طرح امام ابو حنیفہ کا سلسلہ علم ایک ایسے اجتہاد پر ورمدرسہ سے وابستہ تھا جو اس زمانہ میں روایت اور درایت نصوص اور تفقہ کا مجمع البحرین تھا.امام ابوحنیفہ نے قریبا اٹھارہ سال قال الشعبي عليك بالنظر في العلم ومجالسة العلماء فانى ازى فيك يقظة وحركة ابو حنيفه صفحه ا١) ✓ + هو علم التوحيد والجدال في العقايد (ابو حنيفه صفحه (۱) يقول الامام تفكرت وقلت السلف كانوا اعلم بالحقائق ولم ينتصبوا مجادلين.....ورايت المشتغلين بالكلام ليس سيماهم سيماء الصلحين قاسية قلوبهم غليظة افئدتهم فتركت الكلام واشتغلت بالفقه ابو حنيفه صفحه (۱۳)
تاریخ افکا را سلامی ۱۱۴ تحصیل علم میں صرف کئے لیکن ساتھ ساتھ کاروبار کی نگرانی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے.تجارتی سوجھ بوجھ اور دیانتدار ، تعاون کرنے والے شرکاء کی وجہ سے آپ کی تجارت ہمیشہ روبہ ترقی رہی اور تحصیل علم کی مصروفیت کو آپ نے تجارتی امور پر کسی طور پر بھی اثر انداز نہ ہونے دیا ہے امام ابو حنیفہ اور درس و تدریس تحصیل علم کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری کر دیا.اس زمانہ میں مسجد ہی مدرستہ العلم بھی ہوتی تھی.چنانچہ آپ نے بھی مسجد کو ہی اس غرض کے لیے پسند کیا اور کوفہ کی جامع مسجد کے ایک حصہ میں اپنا مدرسہ قائم کیا جس نے آہستہ آہستہ ترقی کے مراحل طے کئے اور بالآخر اس زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان حلقہ ہائے درس میں شمار ہونے لگا.تقسیم کار کے لحاظ سے ہفتہ بھر کے دن آپ نے اس طرح تقسیم کئے ہوئے تھے.سبت کا دن گھر کے کام کاج اور جائیداد کی دیکھ بھال کے لئے وقف تھا.اس روز نہ آپ تجارتی کا روبار سے سروکار رکھتے اور نہ درس و تدریس کے حلقہ میں شامل ہوتے.ہر جمعہ کو آپ عبادت الہی کے علاوہ اپنے دوست احباب اور ممتاز شاگردوں کی دعوت کرتے اور یہ دن ان سے ملنے ملانے اور بات چیت کرنے میں صرف کرتے.باقی دنوں میں درس و تدریس میں بھی حصہ لیتے اور تجارتی امور کی نگرانی بھی فرماتے.کام کے ان دنوں میں آپ نے بالعموم اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا.دن کے پہلے حصہ میں عبادت اور ذکر الہی سے فارغ ہونے کے بعد گھریلو کام سرانجام دیتے.چاشت کے بعد بازار جاتے اور اپنے کاروبار کی نگرانی کرتے.تجارتی کارکنوں کو ہدایات دیتے.آمد وخرچ اور نفع و نقصان کا جائزہ لیتے.دوپہر کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر اور کچھ دیر آرام کے بعد عصر کی نماز مسجد میں ادا کرتے اس کے بعد درس و تدریس کا دور شروع ہوتا.آپ کا مدرسہ کوئی ابتدائی مدرسہ نہ تھا بلکہ اونچے درجہ کے مختلف قابلیتیں رکھنے والے طلبہ درس میں شامل ہوتے تھے ، کوئی لغت اور زبان کا ماہر ، کوئی حدیث و تاریخ میں ممتاز، کوئی تفقہ قیاس اور معاشرہ کے ان الصدق والحزامة في التجارة قد هيا له من النجاح اسباباً مواتية للتفرغ للدرس والتدريس وخدمة دين الله (ابو حنيفه صفحه ٣٦ ملخصاً) ابو حنيفه صفحه ۱۰۱
تاریخ افکا را سلامی ۱۱۵ رسم و رواج عرف اور عادات الناس کے مطالعہ کا خوگر.غرض آپ کا مدرسہ مختلف استعدادوں کے حامل ارباب علم کا مرکز تھا.طلبہ کو مختلف مسائل کے بارہ میں سوال اٹھانے اور بحث میں حصہ لینے کی کھلی اجازت تھی.ہر رائے پر خواہ وہ استاد کی رائے ہو تنقید ہوتی تھی.آخر بحث مباحثہ اور علمی تحقیقات کے بعد جب کسی مسئلہ کا حل نکل آتا اور کوئی رائے قائم ہو جاتی اور بات طے کر لی جاتی تو اسے مناسب سیاق و سباق کے ساتھ لکھ لیا جاتا اور رات گئے تک درس و تدریس کا یہ سلسلہ جاری رہتا صرف نماز کا وقفہ ہوتا ہے علمی وسعت کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ بڑے غنِيُّ النَّفْس اور سَخِيُّ الطَّبع بزرگ تھے.آپ جس قدر مالدار تھے اتنے ہی زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بھی تھے.اپنے شاگردوں پر دل کھول کر خرچ کرتے ان کی ضرورتوں کا ہمیشہ خیال رکھتے.امام ابو یوسف کے والد بڑے غریب ، تنگ دست اور مزدوری پیشہ بزرگ تھے.انہوں نے اپنے بیٹے سے ایک بار کہا ابو حنیفہ کے درس میں جانے کی بجائے کوئی کام کرو تا کہ چار پیسے آئیں اور گھر کا گزارا چلے.چنانچہ والد کے اصرار پر آپ نے حلقہ درس میں جانا چھوڑ دیا اور درزی کا کام شروع کر دیا.امام ابوحنیفہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے ابو یوسف کو بلا کر حالات دریافت کئے اور ان کا معقول وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر ہمیشہ ان کی ضروریات کا خیال رکھا.دوسرے ضرورتمند طلبہ کے بارہ میں بھی آپ کا یہی طریق تھا.آپ چاہتے تھے کہ قابل ذہن غربت کی وجہ سے ضائع نہ ہونے پائے اور علم کے زیور سے محروم نہ رہ جائے.چنانچہ امام ابو حنیفہ کے مدرسہ کے پروردہ بعد میں عظیم الشان مناصب پر فائز ہوئے اور آسمان علم کے ستارے اور سورج بن کر چمکے.غرض حضرت امام ابو حنیفہ کو اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا علم و مال کی دونوں دوستیں وافر مقدار میں بخشی تھیں جن کی تقسیم میں آپ نے کبھی بھی بھل سے کام نہ لیا.علم کی دولت بھی لٹائی اور دنیا کی نہ دولت سے بھی دوسروں کو مالا مال کیا ہے ابو حنیفه صفحه ۱۶۴ كان ابو حنيفه يعطى و يقول انفقوا في حوائجكم ولا تحمدوا إِلَّا الله سبحانه وتعالى فانها ارباح بضائعكم مما يجرى الله لكم على يدى (ابو حنیفه صفحه ۹۸ و ۱۰۱)
تاریخ افکار را سلامی IM آپ کے ایک شریک تجارت حفص نامی بڑے صاحب علم بزرگ تھے وہ تمہیں سال تک آپ کے ساتھ کاروبار میں شریک رہے.ایک بار انہوں نے کہا: میں بڑے بڑے علماء، فقہاء، قضاة، زهاد اور تجار کے ساتھ رہا ہوں میں نے امام ابو حنیفہ جیسا جامع الصفات بزرگ کوئی نہیں دیکھا.وہ ان ساری صفات اور قابلیتوں کے جامع تھے جو دوسروں میں فروافر دا پائی جاتی تھیں لیے امام ابوحنیفہ اور حکومت آپ نے بنوامیہ اور بنو عباس دونوں حکومتوں کے دور دیکھے.قریب با ون سال بنو اُمیہ کے دور حکومت میں گزرے اور اٹھارہ سال بنو عباس کا دور دیکھا.بنوامیہ کے عروج کا زمانہ اور پھر زوال کے سارے مراحل آپ کی آنکھوں کے سامنے گزرے.آپ دونوں حکومتوں کے انداز کو پسند نہیں کرتے تھے اور علوِيُّ الهَوای تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ سادات کے نیک لوگ بر سر اقتدار آئیں لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی بغاوت اور خروج علی الحکام میں حصہ نہیں لیا.آپ کا نظریہ یہ تھا کہ قائم شدہ حکومت کے ساتھ اس کے اچھے کاموں میں تعاون کرنا چاہیے.نصیحت اور خیر خواہی کے اصول کو آپ نے ہمیشہ مد نظر رکھا.آپ کا کہنا تھا کہ بغاوت فتنہ کا ایک انداز ہے.اس میں خون ریزی کے جوطوفان اٹھتے ہیں وہ حکام کے انفرادی ظلم و جور سے کہیں زیادہ بھیا تک ہوتے ہیں اس لیے بغاوت کوئی طریق اصلاح نہیں.بنو اُمیہ کی حکومت نے بھی کوشش کی کہ وہ آپ کا قریبی تعاون حاصل کرے اور حکومت کے کاموں میں آپ شریک ہوں لیکن آپ نے کبھی کوئی عہدہ قبول نہ کیا.پھر بنو عباس کے دور میں بھی یہ کوشش ہوئی اور آپ پر زور دیا گیا کہ آپ قاضی کا عہدہ قبول کریں لیکن آپ اس پر راضی نہ ہوئے.حکومت ائمہ دین کا تعاون اس غرض سے حاصل کرنے کی متمنی رہتی تھی کہ عام پبلک ائمہ دین کا نمونہ دیکھ کر اطاعت شعار بن جائے لیکن حکومت کی عام پالیسی ایسی نہ تھی کہ ائمہ دین حکومت میں شرکت کی طرز کا تعاون دیتے اور حکومت کا حصہ بنتے کیونکہ یہ بات حکومت کے ظلم و ستم ابو حنيفه صفحه ۴۰ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں محاضرات صفحه ۱۵۰، ۱۵۱ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۵ و ابو حنيفه صفحه ۵۶، ۹۸ تا ۱۰۱ و مالک بن انس صفحه ۱۱۷
میں شرکت کے مترادف ہوتی اور ائمہ دین یہ تاثر دینے سے پر ہیز کرتے تھے اور کسی درجہ میں بھی حکومت کا آلہ کا رہنے کے لیے تیار نہ تھے.ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے آپ سے کہا کہ آپ قضاء کا عہدہ کیوں قبول نہیں کرتے آپ نے جواب دیا کہ میں اس عہدہ کے لیے اپنے آپ کو اہل نہیں پاتا.منصور نے غصہ کے انداز میں کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں آپ پوری طرح اس عہدہ کے اہل ہیں.امام صاحب نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ اس کا فیصلہ خود امیر المومنین نے کر دیا ہے.اگر میں جھوٹ بولتا ہوں جیسا کہ امیر المومنین نے فرمایا ہے تو جھوٹا آدمی قاضی نہیں بن سکتا اور وہ اس ذمہ داری کا اہل نہیں.یہ یہ جستہ جواب سن کر منصور گم سم ہو کر رہ گیا اور اسے کوئی مزید سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی.لے ایک اور موقع پر ابو جعفر منصور نے آپ سے خطگی کے رنگ میں کہا.میری حکومت میں نہ آپ کوئی عہدہ قبول کرتے ہیں اور نہ میری طرف سے بھجوائے گئے تحائف اور نذرانے لیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت کے مخالف ہیں.آپ نے جواب دیا یہ بات نہیں.قضاء کی ذمہ داریاں میں اٹھا نہیں سکتا.امیر المومنین جو تحفہ دینا چاہتے ہیں وہ امیر المومنین کا ذاتی مال نہیں بلکہ بیت المال کی رقم ہے جس کا میں مستحق نہیں کیونکہ نہ میں فوجی ہوں اور نہ فوجیوں کے اہل وعیال سے میرا کوئی تعلق ہے اور نہ میں محتاج اور ضرورتمند ہوں اور بیت المال میں انہی گروہوں کا حق ہے.جب میں اس رقم کا حقدار نہیں تو اس کالینا میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے.اس پر منصور نے کہا کہ آپ یہ مال لے کر غرباء میں تقسیم کر سکتے ہیں.آپ نے جواب دیا امیر المومنین کے وسائل مجھے درویش سے زیادہ ہیں.آپ اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ کون غریب ہے اور کون امیر اس لیے آپ کی تقسیم زیادہ مناسب ہوگی.+ غرض آپ نے سختیاں برداشت کیں، خلفاء اور حکام کے ظلم ہے ، کوڑے کھائے ، قید و بند کے مصائب جھیلے ، کوفہ چھوڑ کر دار الامان مکہ کی طرف ہجرت کی لیکن حکومت وقت کا نہ کوئی عہدہ اختیار ↓ ابو حنیفه صفحه ۲۰۲
تاریخ افکار را سلامی IIA کیا اور نہ کوئی انعام یا نذرانہ قبول کیا.کوئی عہدہ قبول نہ کرنے کی وجہ ایک جگہ آپ نے خود بیان کی ہے.بنوامیہ کی طرف سے والی کو فہ ابن بیرہ نے جب آپ سے کہا کہ آپ محکمہ قضاء میں یہ عہدہ قبول کریں کہ حکومت کی مہر آپ کے پاس رہے اور جب تک آپ کی مہر ثبت نہ ہو کسی کا فیصلہ نافذ نہ ہو.اس پر آپ نے فرمایا هُوَ يُرِيدُ مِنِى أَنْ يَكْتُبَ دَمَ رَجُلٍ يَضْرِبُ عُنُقَهُ وَاخْتِمُ أَنَا على ذَالِكَ الْكِتَابِ فَوَاللَّهِ لَا أَدْخُلُ فِي ذَالِكَ ابلا کہ ابن سیرہ کا مقصد یہ ہے کہ وہ کسی کے قتل کا فیصلہ کرے اور میں اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کروں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.پران ابو جعفر منصور کے اصرار کے بارہ میں آپ نے فرمایا لا يصلح للقضاء إِلَّا رَجُلٌ يكون له نفس يحكم بها عليک و علی ولدک و فؤادک و ليست تلك النفس لی یعنی قاضی ایسے دل گروہ کا ہونا چاہیے کہ اگر اسے آپ کے خلاف یا آپ کے بیٹوں اور سرداران لشکر کے خلاف فیصلہ کرنا پڑے تو بے دھڑک کرے لیکن میرا یہ دل گر وہ نہیں ہے.دراصل آپ علم و عمل کی تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنا چاہتے تھے.دوسرے ائمہ فقہ کا بھی یہی انداز فکر تھا کہ حکومت کا کوئی عہدہ قبول کرنے کی بجائے حکومت کی ذمہ داریاں قبول کرنے والوں کی علمی اور عملی تربیت کا فریضہ سر انجام دیں تا کہ وہ پبلک کی بہتر خدمت کر سکیں.یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ دین کے تربیت یافتہ علماء اور صلحاء نے بعد میں حکومت کے بڑے عہدے کئے کے ذریعہ کا فریضہ سرانجام اور قبول کئے اور اپنے علم اور اپنے انصاف کے ذریعہ عوام کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا اور اپنی رہنمائی کے کارناموں میں شہرت دوام پائی ہے حضرت امام ابو حنیفہ نے ایک دفعہ اپنے شاگردوں کو جمع کیا.ان میں آپ کے ممتاز اور شہرت یافتہ شاگر دکھی تھے جن کی چالیس کے قریب تعداد تھی اور وہ آپ کی مجلس فقہ کے رکن تھے.آپ نے ان کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا.میں نے تمہاری علمی اور عملی تربیت اس رنگ میں کی ہے کہ اب تم ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل بن گئے ہوا اور حکومت کے منہ زور گھوڑے کو قابو میں رکھ سکتے ہو.صدق و ثبات کے قدم مضبوطی کے ساتھ جما سکتے ہو.چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی محنت کو L محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحه ۱۲۸ و ۱۷۲ و مالک بن انس صفحه ۱۹۹ ا.الوحيق صفحه ۲۰۱۰۱۱۶۳۱۰۵۰۱۰۳۹۳
تاریخ افکار را سلامی 119 بارآور کیا، آپ کی خواہش کو شرف قبولیت بخشا.آپ کے شاگردوں کو بڑے بڑے عہدے ملے اور وہ ان عہدوں کے اہل ثابت ہوئے اور تاریخ ان کے کارناموں پر شاہد ناطق ہے.حضرت امام ابو حنیفہ کا فقہی منہاج یہ تھا کہ سب سے پہلے قرآن کریم پر غور کرتے اور اس سے رہنمائی حاصل کرتے.اگر قرآن کریم میں تصریح نہ ملتی تو سنت ثابتہ کی پابندی کرتے.اگر سنت میں وضاحت نہ ہوتی تو پھر صحابہ کے اجتماعی عمل کی پیروی کرتے اور اگر مسئلہ زیر غور کے بارہ میں ان کا کوئی اجتماعی عمل معلوم نہ ہوتا تو پھر صحابہ کے مختلف اقوال میں سے اس قول کو اختیار کرتے جو ان کی سمجھ کے مطابق قرآن کریم یا سنت ثابتہ کے عمومی منشاء کے قریب تر ہوتا.اس کے بعد دوسرے ذرائع علم و استنباط مثلاً قیاس، استحسان اور عرف وغیرہ کو آپ اختیار کرتے اور استخراج مسائل وغیرہ کا فریضہ سرانجام دیتے.تدوین فقہ کے یہی ذرائع آپ کے سامنے تھے اور انہیں ذرائع کو اختیار کرنے کی آپ نے اپنے شاگردوں کو تلقین کی ہے آپ ہمیشہ کہا کرتے کہ ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق مذکورہ بالا ماخذ سے مسائل مستنبط کئے ہیں، اگر کوئی اور اس سے بہتر استنباط اور اجتہاد پیش کرے تو ہم اس کی پیروی کریں گے اور اپنی رائے پر ہمیں اصرار نہیں ہو گا.ستم گر آپ نے کسی روایت کا انکار کیا یا وہ نظر اندا ز ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ وہ روایت بوجوہ ان کے نزدیک ثابت نہیں تھی یا زیادہ ثقہ روایت ان کے علم میں تھی یا ایسی کوئی روایت ان کے علم میں نہیں آئی تھی ہے کیونکہ روایات بہت بعد میں جمع ہوئی ہیں اور بتدریج ان میں اضافہ ہوا ہے جیسا کہ سنت وحدیث کے باب میں گذر چکا ہے.نیز آپ کے زمانہ میں مختلف اسباب کی وجہ سے وضع احادیث کا زور بڑھ گیا تھا.اس وجہ سے بھی اخذ روایات میں آپ بڑی احتیاط برتنے پر مجبور تھے.حضرت امام ابو حنیفہ نے تدوین فقہ میں ایک اور نیا انداز بھی لمحات النظر للكوثرى صفحه ۲۰ مطبوعه القاهره ۱۳۶۸ھ محاضرات صفحه ۱۵۴ - ابو حنیفه صفحه ۵۳ محاضرات صفحه ۷۵ بحواله تاريخ بغداد للخطیب جلد ۱۳ صفحه ۲۳۸ محاضرات صفحه ١٦٠ بحواله تاریخ بغداد جلد ۱۳ صفحه ۳۵۲ الامام الشافعی صفحه ۲۱۴ ه الامام الشافعي صفحه ۷۲
تاریخ افکا را سلامی اختیار کیا تھا.آپ نے ممکنہ مسائل زندگی کا جائزہ لے کر اور ان کے بارہ میں سوالات ترتیب دے کر قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور اصول استخراج کی مدد سے ان سوالات کے جواب تلاش کئے اور انہیں مدون کرایا تا کہ ضرورت کے وقت ارباب علم ان جوابات سے مدد لے سکیں.اس طرح آپ کے شاگردوں کی کوشش اور آپ کی رہنمائی سے فقہ تقدیر" یا "فقہ فرضی کا ایک بہت بڑا + ذخیرہ مہیا ہو گیا.یه اند از تدوین دوسرے ائمہ اور علماء کو پسند نہ تھا.اس وجہ سے آپ پر اعتراض بھی ہوئے.سخت تنقید میں بھی ہوئیں لیے ان کی رائے تھی کہ جب کوئی واقعہ سامنے آئے اور عملاً اس سے سابقہ پڑے تو پھر اس کے حل کی کوشش ہونی چاہیے اور جواب تلاش کرنا چاہیے.پہلے سے امکانی سوال گھڑ گھڑ کر یا فرضی صورتیں بنا بنا کر ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش ایک بدعت اور نقصان کا باعث ہے لیکن آپ کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ نیک نیتی ، علم کی ترقی اور تصقیل ذهنی کے لیے کیا گیا ہے اور بعد میں قریباً تمام ائمہ کے شاگردوں نے تدوین کے اس نیج کو اپنایا اور فقہ کے بڑے بڑے دائرۃ المعارف تیار ہوئے.مُدَوَّنَهُ سَخنون جو ۳۶ ہزار مسائل پر مشتمل مالکی فقہ کی کتاب ہے.اسی طرح المختصر الكبير لابن عبد الحكم “ مغنی لابن قدامة “ اور محلی ابن حزم اس کی بہترین مثالیں ہیں اور فقہی مسائل کے بہت بڑے ذخیرہ پر مشتمل ہیں.امام ابوحنیفہ اور تدوین کتب امام ابو حنیفہ نے بذات خود کوئی بڑی کتاب نہیں لکھی.بعض چھوٹے چھوٹے رسائل آپ کی طرف منسوب ہیں جیسے" الفقه الانخبر جس میں عقائد کا ذکر ہے سابُ الْعَالِمِ وَالْمُتَعَلَّم" جس میں آداب تعلیم کا بیان ہے آپ کا ایک خط اس زمانہ کے ایک مشہور عالم عُمَانُ اللیثی کے نام قال الشعبي مرة احفظ على ثلاثة اذ سئلت عن مسئلة فاجبت فيها فلا تتبع مسئلتك أرأيت فان الله قال في كتابه "أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَهُ (الآية).والثانية اذا سئلت عن مسئلة فلا تقس شَيْئًا فربما حللت حراما و حرمت حلالا.والثالثة.اذا سئلت عما لا تعلم فقل لا اعلم.....و كان مالک.بستى اهل العراق اى الحنفيه الأريتيين (مالك بن انس صفحه ۱۱۳) ابو حنيفه صفحه ۶۴ و ۱۸۳
تاریخ افکار را سلامی ۱۲۱ ہے جس میں مسئلہ ارجاء کی وضاحت کی گئی ہے.علم فقہ کے بارہ میں آپ کے مسلک کی تفصیلات آپ کے دو لائق شاگردوں نے محفوظ کی ہیں.یہ دونوں شاگر دتاریخ فقہ میں صاحبین " کے نام سے مشہور ہوئے.ان میں سے ایک حضرت امام یعقوب بن حبیب الانصاری ہیں جو اپنی کنیت ابو یوسف“ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں.دوسرے حضرت امام محمد بن حسن الشیبانی ہیں.امام ابو یوسف ہارون الرشید کے عہد میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز تھے جو خلافت عباسیہ میں ایک معزز عہدہ تھا اور آپ ہی پہلے شخص ہیں جو اس عہدہ پر فائز ہوئے اور قاضی القضاہ کے لقب سے شہرت پائی.آپ نے دولت عباسیہ میں جو قاضی مقرر کئے وہ زیادہ تر حنفی المسلک تھے جس کی وجہ سے ساری مملکت میں حنفیوں کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا.امام ابن حزم الاندلسی کہا کرتے تھے کہ دو فقہی مذہبوں نے حکومت کی سرپرستی میں ترقی کی.خلافت عباسیہ میں حنفیت کو ترقی کا موقعہ ملا اور خلافت ہسپانیہ میں مالکی مذہب پروان چڑھا.ایک وقت میں جبکہ مصر اور شام میں ایوبی بر سر اقتدار تھے اور ماوراء النہر میں سلطان محمود سبکتگین کی حکومت تھی شافعیوں کی پوزیشن بھی یہی تھی اور شافعیت سرکاری مذہب تھائیے.حضرت امام ابو یوسف ، صاحب تصنیف بھی تھے.آپ کی تصنیف کتاب الخراج " کو بہت زیادہ شہرت ملی.اسی طرح آپ کی دوسری تصنیف کتاب " آلا نار " اور رسالہ "اختلاف ابن ابی لیلی اور الرد على بر الأوزاعي " بھی مشہور ہیں.امام ابو یوسف 183 ھ میں فوت ہوئے.آپ نے بے شمار دولت ترکہ میں چھوڑی.آپ کی وصیت تھی کہ آپ کے ترکہ سے ایک لاکھ درہم مکہ کے غرباء میں اور ایک لاکھ مدینہ کے مستحقین میں اور ایک لاکھ بغداد کے حاجتمندوں میں تقسیم کئے جائیں اور ایک لاکھ اس شہر کے لیے مختص ہو جہاں ان کا بچپن گزرا جہاں انہوں نے دولت علم حاصل کی اور جس کے رہنے والے ایک غریب درزی کے بیٹے کو اللہ تعالی نے به عظمت بخشی یعنی یہ ایک لاکھ کی رقم کو فہ کے ضرورتمندوں میں تقسیم کی جائے.ہے امام ابو حنیفہ کے دوسرے لائق شاگرد، امام محمد بن حسن الشیبانی تھے آپ بھی قاضی رہے لیکن L..ابو حنیفه صفحه ۱۰۵ و مالک بن انس صفحه ۲۷۱ ابوحنیفه صفحه ۱۰۸
تاریخ افکا را سلامی ۱۳۳ آپ کا رجحان طبع زیادہ تر تصنیف و تالیف کی طرف تھا اس لیے آپ حضرت امام ابو حنیفہ کی آراء کے سب سے بڑے جامع سمجھے جاتے ہیں.امام محمد بن حسن 132 ھ میں پیدا ہوئے.آپ ایک خوشحال گھرانے کے چشم و چراغ تھے.آپ نے 189 ھ میں وفات پائی.تین سال کے قریب امام ابو حنیفہ سے شرف تلمذ رہا.اس وقت آپ بالکل نوعمر تھے اور امام صاحب اس نو نہال کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا کرتے تھے اور درس کے وقت اپنے پہلو میں بٹھاتے تھے.اس لیے آپ طرفین یعنی استاد کے پہلو میں بیٹھنے والے کے لقب سے بھی مشہور ہیں.امام صاحب نے جب 150 ھ میں وفات پائی تو اس کے بعد آپ نے علم کی تکمیل امام ابو یوسف سے کی اور تین سال کے قریب حضرت امام مالک سے بھی شرف تلمذ حاصل رہا.حضرت امام مالک کی روایات کا مجموعہ جو موطا کے نام سے مشہور ہے اس کے کئی نسخے ہیں جن سے دو کو شہرت دوام حاصل ہے ایک کا نام موطا امام مالک ہے جو ہر وابیت یحی بن یحی المیعی الاندلسی ہے اور دوسرے نسخے کا نام موطا امام محمد ہے جو ہر وایت محمد بن حسن الشیبانی ہے.امام محمد بن حسن الشیبانی کئی تختیم کتابوں کے مصنف ہیں جن میں زیادہ تر میں حنفی مسلک کا بیان ہے ان کتب میں سے مندرجہ ذیل کتب بہت مشہور ہیں.کتاب المبسوط، كتاب الزيادات الجامع الصغير، الجامع الكبير، السير الصغير، السیر الکبیر.یہ چھ کتابیں ظاہر الروایات" کے نام سے مشہور ہیں.آپ کی دو اور کتا بیں بھی اسی درجہ کی سمجھی جاتی ہیں.ایک کتاب "الرد علی اہل المدینہ اور دوسری کتاب الآثار موطا امام محمد بھی کافی مشہور ہے.امام ابو حنیفہ کے اور بھی لائق شاگر دبڑے بڑے حکومتی عہدوں پر سر فراز رہے اور علم کے میدان میں بھی بعض کی شہرت کچھ کم نہ تھی.امام زفر ، داؤد طائی، حسن بن زیا دلولوی عبد اللہ بن المبارک اپنے زمانہ کے مشہور بزرگ تھے.آپ کے شاگردوں کی وجہ سے آپ کی فقہی آراء کو بڑا فروغ ملا.عراق، شام، مصر، ترکستان، افغانستان اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی بھاری تعداد حفی المسلک ہے.دوسرے اسلامی ممالک میں بھی آپ کے پیرو بکثرت ملتے ہیں.L مالک بن انس صفحه ۹۳ و الامام الشافعي صفحه ۸۰
تاریخ افکا را سلامی IFF ترکوں کی عثمانی حکومت حنفی المذہب تھی.ان کی وجہ سے بھی حنفی مذہب کو خوف فروغ ملالے حضرت امام ابو حنیفہ کی سیرت کے بعض حسین پہلو حضرت امام ابو حنیفہ کسی اختلافی معاملہ میں بات کرنے کا بڑا حسین سلیقہ اختیار کرتے تھے.آپ کی کوشش ہوتی کہ بات واضح بھی ہو جائے اور کسی کا دل بھی نہ دکھے.آپ نے اس انداز کی ایک بہت عمدہ مثال بیان کی ہے.آپ نے فرمایا اگر ایک سفید کپڑے کے بارہ میں چار آدمی اختلاف کریں.ایک کہے اس کا رنگ سرخ ہے، دوسرا کہے مجھے تو یہ سیاہ نظر آتا ہے، تیسرا بولے یہ تو سبز ہے تو چو تھا جو حقیقت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کپڑا تو سفید ہے اور یہ تینوں محض ضد میں آکر اور رنگ بتا رہے ہیں.اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ تم تینوں غلط کہہ رہے ہو بلکہ یہ کہنا چاہے کہ جہاں تک مجھے نظر آتا ہے یہ کپڑا اسفید ہے.امام ابو حنیفہ بڑے صفائی پسند تھے ، بڑا اچھا صاف ستھرا لباس خود بھی پہنتے اور دوسروں کے لئے بھی یہی پسند کرتے کہ وہ صاف ستھرے رہیں.آپ کی خدمت میں کچھ صاحب علم لوگ حاضر ہوئے.ان میں سے ایک شخص کے کپڑے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے تھے.بات چیت کے بعد جب وہ لوگ جانے لگے تو آپ نے میلے کپڑوں والے دوست سے کہا آپ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہریے جب سب لوگ چلے گئے تو آپ نے اس شخص کو ہزار درہم دیئے کہ وہ عمدہ نئے کپڑے خرید کر استعمال کرے.اس شخص نے عرض کیا میں تو کھانا پیتا دولت مند آدمی ہوں، مجھے ایسی کسی مدد کی ضرورت نہیں.آپ نے فرمایا اللہ کے بندے جب خدا نے آپ کو رزق دیا ہے اور خوشحال بنایا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور اس کے فضل کا اظہار بھی ہونا چاہیے اس طرح میلے کچیلے پھٹے پرانے کپڑے پہنا تو ناشکری کی بات ہے اور وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِث کے خلاف ہے اور اس حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالی کے فضل کا اظہار بھی ہونا چاہیے.L الاسلام والحضارة العربية جلد۲ صفحه ۶۸ محاضرات صفحه ۱۵۶ کے ابو حنیفه صفحه ۵۱
تاریخ افکار را سلامی ۱۲۴ حضرت امام ابو حنیفہ بہترین ہمسایہ اور اصلاح کا بڑا حسین ذوق رکھتے تھے.آپ کا ایک ہمسایہ آوارہ مزاج، شرابی اور ہنگامہ پرور تھا.رات اس کے ہاں اس کے شرابی دوست جمع ہوتے رقص و سرود ، شراب و کباب کی محفل جمتی خوب ہنگامہ اور شور شرابہ ہوتا.امام صاحب کے لیے یہ صورت حال بڑی بے آرامی اور تکلیف کا موجب تھی لیکن ہمسایہ سے بہتر سلوک کی ہدایت کے پیش نظر آپ نے اس کے خلاف شکایت کرنا مناسب نہ سمجھا.ایک رات ادھر سے کو تو ال شہر کا گزر ہوا اس نے جو ہنگامہ اور شور کی آواز سنی تو اندر جا کر حالات معلوم کئے اور سب کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا.دوسرے دن امام صاحب کو پتہ چلا کہ ان کا ہمسایہ گرفتار ہو گیا ہے تو آپ والی ء شہر کے پاس گئے اور ہمسایہ کی نیک چلنی کی ضمانت پیش کی اور اسے رہا کرا کر ساتھ لے آئے اور کہا تم شعر پڑھا کرتے تھے کہ ہمسایہ ایسا ہونا چاہیے جو وقت پر مدد کر سکے سو تم نے مجھے کیسا ہمسایہ پایا.اس ہمسایہ کے گھر سے اکثر یہ شعر گنگنانے کی آواز آتی رہتی تھی.أَضَاعُونِي وَأَيَّ فَى أَضَاعُوا يوم كريهة ويدَادِ تَغْرِ آپ نے اس ہمسایہ کو رہا کرانے کے بعد از راہ تلطف فرمایا: هَل أَضَعْنَاكَ ؟ امام صاحب کے اس سلوک سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تمام شرارتوں سے توبہ کرلی اور امن پسند نیک اور بڑی شریفانہ زندگی بسر کرنے لگا لے امام ابو حنیفہ بڑے حوصلہ مند اور دانا مصلح تھے.دوسرے کے سخت سے سخت الفاظ اور درشت کلامی کا جواب ایسے طریق سے دیتے کہ وہ شرمندہ بھی ہو جائے اور اپنی اصلاح بھی کرلے.بعض اوقات فقہی مسلک میں اختلاف کی وجہ سے دوسرے علماء آپ کے بارہ میں سخت الفاظ استعمال کرتے اور ان کے جاہل پیر و مخالفت کے جوش میں انتہا کو پہنچ جاتے لیکن سب آپ کی قوت برداشت اور حوصلہ دیکھ کر اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جاتے.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کو ابوحنیفه صفحه ۱۸۰۱۷
۱۲۵ بدعتی اور زندیق کہا آپ نے جوا با فرمایا اللہ تعالی آپ کو معاف کرے امیرے اندر وہ بات نہیں جس کا اظہار آپ کر رہے ہیں.جب سے میں ایمان لایا ہوں اور اللہ کی معرفت کی نعمت مجھے ملی ہے صرف اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں دوسرے کو نہ کارساز سمجھتا ہوں اور نہ اسے خدا کا درجہ دیتا ہوں.کیا زندیق ایسے ہی ہوا کرتے ہیں یہ جواب سن کر وہ شخص شرمندہ ہوا اور معافی مانگنے لگا.آپ نے فرمایا جو شخص ان جانے میں کوئی غلطی کرتا ہے تو تو بہ پر اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتے ہیں لے ایک دفعہ امام ابو حنیفہ مسجد میں بیٹھے تھے ایک شخص جو کسی مخالف عالم کا عقیدت مند تھا آیا اور آپ کو کوسنے لگا.اس کی گالی گلوچ پر آپ خاموش رہے وہ شخص اور تیز ہو گیا آپ اٹھ کر جانے لگے وہ ہوگی تو آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا اور برا بھلا کہتا چلا گیا.آپ گھر کے دروازے پر پہنچے تو مڑکر اس شخص سے کہا یہ میرا گھر ہے.اب مجھے اندر جاتا ہے اگر کچھ کسر رہ گئی ہو تو نکال لو یہ نہ کہنا کہ ابھی حسرت بھی حسرت باقی تھی وہ شخص یہ سن کر سخت شرمندہ ہوا اور اپنی حرکت سے تو بہ کی ہے بنو امیہ کے زمانہ میں کوفہ کا والی ابن ہبیرہ اور بنو عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور نے مسلسل کوشش کی کہ آپ قضاء کا عہدہ قبول کر لیں لیکن آپ کو یہ منظور نہ تھا.دونوں نے اپنے اپنے زمانہ میں سختی کی ، کوڑے لگوائے قید کیا، آپ نے سب کچھ بر داشت کیا، لیکن اپنے ضمیر کے خلاف اقدام پر راضی نہ ہوئے.ایک دفعہ آپ کی والدہ نے گھبرا کر کہا بیٹا اس علم سے آپ کو کیا ملا مصیبتیں اور کوڑے.آپ نے ماں سے عرض کیا." يَا أَمَّاهُ يُرِيدُونَنِي عَلَى الدُّنْيَا وَإِنِّي أَرِيدُ الْآخِرَةَ وَإِنِّي أَخْبَارُ عَذَابَهُمْ عَلَى عَذَابِ اللهِ.“ اے ماں یہ لوگ دنیا پیش کرتے ہیں.میں آخرت چاہتا ہوں ان کے دکھوں کو سہتا ہوں تا کہ اللہ کے عذاب سے بچ جاؤں کے حضرت امام ابو حنیفہ بڑے متواضع مزاج اور تقویٰ شعار بزرگ تھے.ایک دفعہ حاکم شہر کے پاس علماء جمع تھے.کسی مسئلہ کے بارہ میں بحث چلی.ہر ایک نے جواب دیا امام صاحب نے بھی اپنی رائے دی.ان میں ایک عالم حسن بن عمارہ بھی تھے انہوں نے جب رائے دی تو امام صاحب ابو حنيفه صفحه ۵۶ و محاضرات صفحه ۱۵۷ ابوحنیفه صفحه ۲۱ کے ابو حنيفه ابو حنیفه ۲۲
تاریخ افکار را سلامی IFY نے کہا یہ رائے زیادہ درست ہے ہم سب غلط سمجھ رہے تھے.حسن بن عمارہ نے یہ سن کر کہا ابو حنیفہ اگر چاہتے تو اپنی رائے پر اصرار کر سکتے تھے لیکن اپنے تقویٰ کی وجہ سے وہ حق کے سامنے جھک گئے اے ایک دفعہ حکومت کی طرف سے آپ پر پابندی لگی کہ آپ نہ کوئی فتویٰ دے سکتے ہیں اور نہ کوئی مسئلہ بتا سکتے ہیں.آپ کے بیٹے حماد نے گھر میں کسی مسئلہ کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا مجھے حکومت نے مسئلہ بتانے سے منع کیا ہوا ہے.اگر حکومت کا کوئی افسر پوچھے کہ تم نے کسی کو کوئی مسئلہ بتایا تھا تو اس وقت میرا جواب کیا ہو گا.ہے حضرت امام ابو حنیفہ اپنے ہمعصر علماء سے ممکن حد تک دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے.حضرت امام مالک کا بڑا احترام کرتے جب بھی ملتے مسائل دینیہ پر تبادلہ خیال رہتا.دوسرے اعتدال پسند علماء کے ساتھ بھی تعلقات کا یہی اندا ز تھا امام ابو حنیفہ نے بڑی بے نیاز اور قناعت پسند طبیعت پائی تھی.ایک دفعہ ابو جعفر منصور کی ایک بیوی نے آپ سے ایک مسئلہ پوچھا آپ نے جو جواب دیا وہ اسے اس قدر پسند آیا کہ اس نے خوش ہو کر آپ کی خدمت میں پچاس ہزار درہم ایک لونڈی اور سواری کا گھوڑا بطور نذرانہ بھیجوایا لیکن آپ نے کہلا بھیجا کہ میر افتویٰ کسی انعام کے لالچ کے پیش نظر نہ تھا.مجھے جو حق نظر آیا وہ بیان کر دیا چنانچہ شکریہ کے ساتھ آپ نے یہ تھنہ واپس کر دیا ہے امام ابو حنیفہ اور حاضر جوابی امام ابو حنیفہ بڑے حاضر جواب تھے سخت سے سخت حالات میں بھی آپ ایسی بیدار مغزی کے ساتھ صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کرتے کہ سب حیران رہ جاتے.L آپ کے زمانہ میں خوارج کے فتنے کا خاصا زور تھا یہ لوگ عموماً اُجڈ ، جہور پسند اور دنگا فساد ابوحنيفه صفحه ۸۸ ابو حنيفه صفحه ۴۱ ابو حنيفه صفحه ۶۵ تا ۶۷ و ۱۸۷ و الامام الشافعی صفحه ۷۰ ابوحنیفه صفحه ۲۲۱
تاریخ افکا را سلامی ۱۲۷ کے لئے ہمیشہ تیار رہنے والے اور اپنے اصول کے بڑے کے تھے.ایک دفعہ خوارج کا ایک گروپ اچانک کوفہ کی جامع مسجد میں آ گھسا.امام ابو حنیفہ پڑھارہے تھے.آپ نے سب سے کہا کوئی گھبرا ہٹ کا اظہار نہ کرے اور پورے سکون سے بیٹھا رہے.گروپ کا سردار آیا اور بڑی درشتی سے پوچھنے لگا آپ کون لوگ ہیں؟ امام صاحب نے برجستہ جواب دیا نَحْنُ مُسْتَجِيرُونَ ہم پناہ گیر ہیں خارجی سمجھے ان کا اشارہ اُس آیت کی طرف ہے جس میں آتا ہے کہ اگر کوئی مشرک تم سے قرآن کریم سننے کے لئے پناہ چاہے تو اسے پناہ دو تا کہ وہ اللہ کے کلام کوسن سکے اس کے بعد اُن کو پُر امن جگہ یعنی ان کے گھروں تک پہنچا دو یا بہر حال سردار نے اپنے آدمیوں سے کہا ان کو قرآن کریم سناؤ اور پھر بحفاظت گھروں تک پہنچا دو.اس طرح آپ کی حاضر دماغی کے طفیل نہ صرف سب کی جانیں بچ گئیں بلکہ وہ بحفاظت اپنے اپنے گھر بھی پہنچ گئے ہے ایک دفعہ کچھ خارجی آدھمکے.خارجیوں کے سردار خاک بن قیس نے امام صاحب سے کہا کہ اگر تم تحکیم ( علی اور معاویہ کے درمیان حکم مقرر کرنے کے واقعہ ) کے جائز ہونے کے قائل ہوتو اس عقیدہ سے تو یہ کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کرتے ہیں.امام صاحب نے جواب میں فرمایا زیر دستی کرنا چاہتے ہو یا دلیل سے بات کرنے کا موقع دو گے؟ اس نے کہا ہاں ہاں اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرو.آپ نے کہا یہ کون فیصلہ کرے گا کہ دلیل ٹھیک ہے یا غلط؟ اُس نے کہا کسی کو ثالث مان لیتے ہیں.آپ نے کہا ٹھیک ہے تمہارے ہی گروہ کے فلاں آدمی کو ثالث مان لیتے ہیں.ضحاک نے کہا ٹھیک ہے.اب اپنی دلیل پیش کرو.آپ نے برجستہ جواب دیا اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آپ نے خود ثالثی کی تجویز کو تسلیم کر لیا ہے اور اسی کا نام تو تحکیم ہے.ضحاک شرمندہ ہو کر چپ کا چپ رہ گیا.ہے ایک دفعہ خوارج ہی کا ایک گروہ آپ کے پاس آیا.تلواریں ان کے ہاتھ میں تھیں.وہ چونکہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر اور دائمی جہنمی سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے آپ سے کہا ہم تم سے دوسوال پوچھتے ہیں ان کا جواب دو ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے.آپ نے فرمایا سوال کیا ہیں؟ التوبة : 4 محاضرات صفحه ۱۶۱ ابو حنيفه صفحه ۶۳
تاریخ افکار را سلامی IPA انہوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے بہت شراب پی لی اور مد ہوشی کی حالت میں ہی مر گیا.ایک عورت نے زنا کیا حاملہ ہوئی اور زچگی کے دوران ہی مرگئی بتاؤ کیا یہ دونوں مسلمان ہیں؟ آپ نے پوچھا کیا وہ یہودی تھے ؟ انہوں نے کہا نہیں.کیا وہ عیسائی تھے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں.کیا وہ مجوسی تھے ؟ انہوں نے کہا مجوسی بھی نہیں تھے.آپ نے پوچھا پھر وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا وہ مسلمان تھے.آپ نے یہ جستہ کہا قد أجبتم جواب تو تم نے خود ہی دے دیا یعنی جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اُسے ہم بھی مسلمان ہی کہیں گے وہ شرمندہ ہو کر کہنے لگے اچھا یہ بتاؤ کہ یہ جنتی ہیں یا دوزخی.آپ نے کہا میرا جواب وہی ہے جو ابرا ہیم اور مسیح کا تھا.ابراہیم نے کہا تھا فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَ مَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيم اور مسیح نے کہا تھا ان تُعَلَّبُهُمْ فَإِنَّهُمُ عِبَادَكَ وَإِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَإِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - یہ جواب سن کر وہ شرمندہ واپس چلے گئے.ایک دفعہ امام ابو حنیفہ ابو جعفر منصور کے دربار میں گئے وہاں منصور کا ایک درباری سردار ابو العباس طوسی بھی بیٹھا تھا جو ابو حنیفہ سے دشمنی رکھتا تھا اُسے شرارت سوجھی اور دل میں کہا آج اسے سزا دلوا کر چھوڑوں گا چنانچہ اس نے منصور کے سامنے امام ابوحنیفہ سے سوال کیا کہ امیر المومنین ایک شخص کو بلاتے ہیں اور اُسے فرماتے ہیں فلاں شخص کی گردن اڑا دو جبکہ اسے معلوم ہی نہیں کہ اس شخص کا قصور کیا ہے کیا وہ حکم کی تعمیل کرے.امام صاحب اس کی شرارت کو سمجھ گئے اور اُس سے پوچھا آپ کے نزدیک امیر المومنین انصاف اور حق کی بنا پر حکم دیتے ہیں یا نا حق بلا وجہ دوسروں کی گردنیں اُڑانے کا شوق رکھتے ہیں اس مقابل سوال پر ابوالعباس طوسی گھبرا گیا اور فورا اُس کے منہ سے نکلا امیر المومنین کا حکم حق پر مینی ہوا کرتا ہے اس پر آپ نے کہا کہ درست تعلیم کی تعمیل ہونی چاہیے.کے ↓ ایک شخص نے امام ابو حنیفہ کے حق میں وصیت کی جبکہ آپ موجود نہ تھے.حسب قاعدہ وفات سورة ابراهيم: ۳۸ کے سورة المائده : ۱۱۹ فَكُسُوا رُؤُوسَهُمْ.وَانْصَرَفُوا.ابو حنيفه صفحه ۷۴ ابو حنیفه صفحه ۲۳۲
تاریخ افکا را سلامی ۱۳۹ کے بعد اُس شخص کی جائیداد قاضی کے قبضہ میں آگئی.امام صاحب جب آئے تو انہوں نے نالش کی اور قاضی کے سامنے صورت حال کی وضاحت کی چنانچہ گواہوں نے گواہی دی کہ واقعی اس شخص نے ان کے سامنے ابو حنیفہ کے حق میں وصیت کی تھی.اس پر قاضی نے امام صاحب سے کہا کہ کیا آپ قسم کھا سکتے ہیں کہ گواہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بیچ ہے.امام صاحب نے جواب دیا کہ میں خود موقع پر موجود نہ تھا تم کیسے کھا سکتا ہوں.قاضی نے کہا تو بس آپ مقدمہ ہار گئے.بڑے قیاس مشہور تھے.آپ نے جب دیکھا کہ قاضی اُن کی اہلیت قیاس کا امتحان لے رہا ہے تو آپ نے قاضی سے کہا ایک اندھے آدمی کو کوئی شخص مارتا ہے زخمی کرتا ہے گواہ گواہی دیتے ہیں کہ اس اندھے کو فلاں شخص نے مارا ہے اور ہم اس وقت وہاں موجود تھے اور اُسے مارتے ہوئے دیکھ رہے تھے کیا آپ اندھے کو قسم دلائیں گے کہ گواہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے.قاضی امام صاحب کی حاضر جوابی اور قوت قیاس کی مثال دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا اور امام صاحب کے حق میں فیصلہ صادر کیا ہے کوفہ میں ایک دیوانی عورت اُم عمران بازار میں اِدھر اُدھر گھومتی رہتی تھی ایک شخص نے اسے چھیڑا اور تنگ کیا وہ غصہ سے بے قابو ہو کر گالیاں دینے لگی اور اُسے ” يَا ابْنَ الزَّانِيَنِ “ کا طعنہ دیا کہ تم دو زانیوں کی اولا د ہو تمہارا باپ بھی زانی اور تمہاری ماں بھی زانی.یہ واقعہ جامع مسجد کے بازار میں ہوا تھا اور کوفہ کے قاضی ابن ابی لیلی خود اس ہنگامہ کو دیکھ رہے تھے.انہوں نے عورت کو پکڑ لینے کا حکم دیا اور سزا کے طور پر اُسے ڈیل کوڑے لگوائے.امام ابوحنیفہ کو جب اس فیصلہ کا علم ہوا اور غریب عورت پر ظلم کے بارہ میں سنا تو آپ سے رہا نہ گیا.فیصلہ پر تنقید کی اور فرمایا قاضی سے اس فیصلہ میں کئی غلطیاں ہوئی ہیں مثلاً یہ کہ: - سیگورت دیوانی ہے اور دیوانہ مرفوع القلم ہوتا ہے اُسے سزا نہیں دی جاسکتی.- مسجد کے اندر سزا دی ہے وَالحُدُودُ لَا تُقَامُ فِي الْمَسَاجِدِ مسجدیں سزا کی جگہ نہیں..جب عورت کو کوڑے لگوائے گئے تو وہ کھڑی تھی حالانکہ عورت کو بٹھا کر سزا دیتے ہیں.کھڑا کر کے عورت کو سزا دینا منع ہے.L محاضرات صفحه ۱۶۱
تاریخ افکار را سلامی ۴.قاضی نے عورت کو دو جرموں کا مرتکب قرار دے کر دہری سزا دی ہے حالانکہ ایک سزا کافی تھی کیونکہ اگر ایک آدمی ایک پوری جماعت پر تہمت لگائے تو سزا ایک دفعہ ہی دی جائے گی یعنی صرف اسی کوڑے لگیں گے.- قاضی نے دونوں سزائیں اکٹھی دی ہیں حالانکہ ایسی دوسزاؤں کے درمیان جو حد کے طور پر دی جاتی ہیں کچھ دنوں کا وقفہ ہونا چاہیے تا کہ پہلی سزا کے زخم مندمل ہو جائیں.- جن پر تہمت لگی ہے یعنی جن کو زانی کہا گیا ہے اُن کا مقدمہ اور سزا کے وقت موجود ہونا ضروری ہے اور ان کا بیان ہونا چاہیے کہ یہ الزام تہمت ہے اس میں کوئی سچائی نہیں.ظاہر ہے کہ اس کیس میں ایسا نہیں ہوا.قاضی ابن ابی لیلی نے اس بارہ میں والی شہر کے پاس شکایت کی کہ ابو حنیفہ ان کے فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں اور توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں چنانچہ والی نے آپ پر کچھ عرصہ کے لئے پابندی لگا دی کہ وہ نہ کوئی فتوی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلہ کا جواب دے سکتے ہیں لے امام ابو حنیفہ شرعی مسائل میں تنقید کو جائز سمجھتے تھے.تنقید کرتے بھی تھے اور تنقید سنتے بھی تھے.اُس زمانہ کے ایک مشہور قاضی شریک آپ کے سخت خلاف تھے.ایک دفعہ قاضی شریک کے سامنے یہ سوال آیا کہ ایک شخص کو شبہ ہے کہ آیا اُس نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے یا نہیں.قاضی شریک نے اس کا یہ جواب دیا کہ وہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور پھر رجوع کرے تا کہ اُس کے دل کاتر ڈوڈور ہو جائے.امام ثوری نے کہا طلاق کی ضرورت نہیں.خاوند کا ارادہ ہی رجوع کے مترادف ہے.امام ذکر نے فرمایا نکاح تو یقینی ہے اور شک یقین کو زائل نہیں کر سکتا اس لئے وہ حسب سابق اس کی بیوی ہے.امام ابو حنیفہ کو جب ان آراء کا علم ہوا تو آپ نے فرمایاز قمر کی رائے اُصول فقہ کے مطابق ہے.سفیان ثوری کا فتقومی تقومی پر مبنی ہے اور شریک کی تجویز تو ایسی ہے جیسے کوئی فتویٰ پوچھے کہ مجھے شک ہے کہ میرے کپڑوں پر پیشاب کے چھینٹے پڑے ہیں یا نہیں وہ کیا کرے تو اُسے جواب دیا جائے کہ پہلے اپنے کپڑوں پر پیشاب کر دو اور پھر ان کو دھولو کے ابو حنیفه صفحه ۸۷ کے ابو حنیفه صفحه ۱۱۳
تاریخ افکا را سلامی IM قاضی تحریک کو امام صاحب کی یہ کڑی تنقید بہت بُری لگی اور ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں گرہ ڈال لی.قاضی شریک کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس کے ایک گواہ نضر بن اسماعیل تھے اور دوسرے امام ابو حنیفہ کے بیٹے حماد دونوں بڑے فقیہ اور معز زشہری تھے لیکن قاضی شریک نے دونوں کی گواہی تر ذ کر دی - نضر پر تو یہ اعتراض کیا کہ یہ فلاں مسجد کے امام الصلوۃ ہیں اور تنخواہ لیتے ہیں اور حماد پر یہ اعتراض کیا کہ یہ اور ان کے والد دونوں بد عقیدہ ہیں اور کہتے ہیں کہ شریر ترین اور نیک ترین انسان دونوں کا ایمان برابر ہے.L نظر پر اعتراض کے سلسلہ میں جب اُن سے کہا گیا کہ آپ بھی تو تنخواہ دار قاضی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب میں گواہ بن کر تیری عدالت میں آؤں تو بے شک میری گواہی رڈ کر دینا.قاضی شریک کہا کرتے تھے کہ حنفی کا وجو دا سلام کی بد بختی ہے.ہے امام ابوحنیفہ پر اعتراضات ایک دفعہ والی ء شہر کو کوئی علمی مضمون مطلوب تھا قاضی ابن شہر مہ اور قاضی ابن ابی لیلی کافی دیر مغز ماری کرتے رہے لیکن وہ والی کی مرضی کا مضمون تیار نہ کر سکے.امام ابوحنیفہ کی طرف رجوع کیا گیا تو آپ نے نہایت بچے تلے الفاظ میں مضمون لکھوا دیا جو والی کو بے حد پسند آیا اور اُس نے امام صاحب کی تعریف کی.قاضی ابن ابی لیلیٰ جب والی کے دربار سے باہر آئے تو انہوں نے اپنے ساتھی قاضی ابن شبرمہ سے کہا.اس پاولی اور مجلا ہے کے بچہ کو دیکھو کیسے سبقت لے گیا ہے.ابن شبرمہ نے جواب دیا پاولی اور جلاہا تو وہ ہے جس سے چند سطریں بھی دیکھی جاسکیں اور محضہ میں آپے سے با ہر ہو کر علماء کو گالیاں دے رہا ہے.یہ دراصل امام ابو حنیفہ کے اس مسلک کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں.الايمان لا يزيد ولا ينقص کان شریک یقول فی اصحاب ابي حنيفة انه لم يُولد في الاسلام مَنْ هُوَ أَشْأَمُ منه على الاسلام (ابو حنيفه صفحه ۱۸۸)
تاریخ افکا را سلامی مخالفین کی طرف سے آپ کو کئی قسم کی گالیاں دی جاتی تھیں آپ پر اعتراض کئے جاتے کوئی کہتا اس کو عربی نہیں آتی.علم حدیث سے بے بہرہ ہے.کسی کا اعتراض تھا مر جیہ فرقہ سے مرجیہ تعلق رکھتا ہے.اعمال کی اہمیت کو نہیں مانتا.وہ شیعہ ہے.اہل بیت کی محبت کا دم بھرتا ہے.یہ زندیق ہے کافر اور یہودی ہے.ہزاروں اعتراض ہوئے لیکن خدا جس کو بڑھانا چاہے اور جس کو نوازے اُسے کون گرا سکتا ہے.بُرا کہنے والے مٹ گئے ان کا کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن امام صاحب اور ان کے لائق شاگر واب بھی قابل احترام بزرگ سمجھے جاتے ہیں اور ایک دنیا اُن کی عقیدت مند ہے لے ہے.ایک دفعہ قاضی القضاۃ حضرت امام ابو یوسف سے پوچھا گیا.آپ کو عظیم ترقیات ملیں کیا اب بھی کوئی تمنا باقی ہے.آپ نے جواب دیا دو تمنائیں ہیں ایک حضرت مسعر بن کدام جیسا زہد نصیب ہو.دوسرے ابو حنیفہ جیسا فقیہ بنا قسمت میں لکھا ہو.ہارون الرشید نے یہ جواب سن کر کہا یہ تو خلافت کی تمنا سے بھی بڑی تمنا ہے ہے امام ابو حنیفہ کی عظمت غرض حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ایک عظیم فقیہ.بے مثال امام اور بڑی کامل شخصیت کے مالک بزرگ تھے.امت نے آپ کو امام اعظم کا لقب دیا اور آپ اس لقب کے بجا طور پر مستحق تھے.عمر کے لحاظ سے بھی تمام مشہور رائمہ فقہ سے بڑے تھے.آپ کی علمی سبقت کو بھی سبھی مانتے تھے.تدوین علم فقہ کے آغاز کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے.سے آپ کے حلقہ درس میں ایسے طلبہ شریک تھے جو بعد میں عظیم انسان تسلیم کئے گئے اور ان عظیم شاگردوں کو اپنے استاد کی عظمت پر فخر تھا.اُصول کی وسعت اور تفریعات کی کثرت کے لحاظ سے بھی آپ کی فقہ ایک لے تفصیل کے لئے دیکھیں ابو حنیفه صفحه ۳۳، ۶۵، ۱۳۲۰، ۱۸۸،۱۸۶ و مالک بن انس صفحه ۱۹۹،۱۱۷ ابو حنیفه صفحه ۵۸ نیز دیکھیں آپ کے شاگردوں کی تفصیل_ابوحنیفه صفحه ۷۶۰۷۵،۵۳ كان لابي بكر وعمر الفضل في جمع القرآن العزيز وكان لعمرين عبد العزيز فضل التفكير في تدوين السن........فان لابي حنيفه فضل تدوين الفقه الاسلامي وتدريسه بابا بابا........فَلُونَت في حياته وتضحمت بعد وفاته (ابوحنیفه صفحه ۵۶ و ۱۶۴ ملخصا)
تاریخ افکا را سلامی IFF بحر ذخار قرار پائی.مختلف ادوار کی اسلامی حکومتوں نے آپ کے فقہی مسلک کو اپنایا اور اس کی سر پرستی کی.آپ کے پیرو بھی دوسرے ائمہ فقہ کے پیرؤوں سے نسبتا زیا دہ ہیں یہی وجہ ہے کہ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی تعریف میں فرمایا : اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں ائمہ ثلاثہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت ، عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور اُن کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے اور اسی وجہ سے اجتہا دو استنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے ولے ↓ ازاله اوهام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۵
تاریخ افکار را سلامی ۱۳ ۲.حضرت امام مالک ما الک بن انس بن مالک بن ابو عامر الاصبحی نام، امیر المومنین فی الحدیث اور امام دارالہجرت لقب تھا.آپ ۹۳ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹ ھ میں وفات پائی.چھیاسی سال عمر تھی.آپ حضرت امام ابو حنیفہ سے تیرہ سال چھوٹے تھے لیکن حیات کے لحاظ سے سب ائمہ فقہ سے طویل عمر پائی.اتنی لمبی عمر اور کسی امام فقہ کو نہیں ملی.مین کے ذی اصبح قبیلہ سے آپ کے خاندان کا تعلق تھا.بعض حالات سے مجبور ہو کر آپ کے دادا ما لک میمن سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے.بہت سے صحابہ سے ملے اور اُن سے احادیث روایت کیں.آپ کا شمار کبار تا بعین میں ہوتا تھا.آپ کے بیٹے نظر بھی خاصے بڑے محدث مانے جاتے تھے لیکن آپ کے دوسرے بیٹے انس یعنی امام مالک کے والد کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے.تیر بنانے اور بیچنے کا کاروبار کرتے تھے یہی ذریعہ آمدن تھا اور اس وجہ سے گزارا معمولی تھا یے لاڈ یا رواج کی وجہ سے بچپن میں مالک کے کانوں میں چھوٹی چھوٹی مرکیاں ہوتی تھیں جو بھلی لگتیں.بچپن میں آپ نے قرآن کریم حفظ کیا اس کے بعد ماں کی تحریک اور شوق ولانے پر مدینہ کے ممتاز عالم ربیعہ بن عبد الرحمن المُلقَبُ بِهِ رَبِيعَةُ الرَّائے کے ہاں پڑھنے کے لئے جانے لگے ہے امام مالک کے دوسرے استاد عبدالرحمن بن ہرمز تھے.آپ قریباً تیرہ سال اُن کے حلقہ درس میں رہے.ابن بر مز حدیث کے علاوہ فقہ، عقائد اور اس زمانہ کے مختلف فرقوں کے نظریات اور ان کی تاریخ سے بھی اچھی واقفیت رکھتے تھے.لائق شاگرد نے اُن سے بہت کچھ سیکھا علم بھی اور ادب بھی.ابن ہرمز کا فرمان تھا کہ جب ایک بات کا جواب نہیں آتا تو تکلیف سے کام مت لو مالک بن انس صفحه ۵۰ محاضرات صفحه ۲۱۷ قال بعض معاصری مالک رأیت مالكا في حلقة ربيعة و في أذنه شنف وقالت له أمه اذهب الى ربيعة فتعلم من علمه قبل ادبه (محاضرات صفحه ۱۹۴۰ مالک بن انس صفحه ۱۳۳)
تاریخ افکا را سلامی ۱۳۵ اور صاف کہہ دو کہ میں نہیں جانتا اسی میں عزت ہے.امام مالک نے ہمیشہ اس نصیحت کو مدنظر رکھا.جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا اور اس کا جواب آپ کو معلوم نہ ہوتا تو صاف کہہ دیتے لا آذری “ میں نہیں جانتا.ایک شخص نے ایک دفعہ افریقہ سے آکر آپ سے کہا آپ اتنے بڑے عالم ہیں اور میں اتنی دُور سے سوال پوچھنے آیا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ لا اذری مجھے اس کا جواب نہیں آتا.آپ نے فرمایا: ہاں ہاں ساری دنیا میں اعلان کر دو کہ مالک کو اس کا جواب نہیں آتا.مذکورہ بالا دو اُستادوں کے علاوہ آپ نے نافع مولی ابن عمر محمد بن شہاب زہری اور امام جعفر صادق سے بھی شرف تلنند حاصل کیا.امام جعفر صادق علم اہل بیت کے امین تھے.ابن شہاب زہری ، حضرت سعید بن مسیب کے شاگرد اور حضرت زید بن ثابت کی روایات کے وارث تھے اور نافع ، ابن عمر اور علم مدینہ کے حامل تھے.یحیی بن سعید الانصاری سے بھی آپ نے حد میث اور فقہ پڑھی تھی لیکن اپنے اساتذہ میں سے سب سے زیا دہ متاثر آپ ابن ہرمز اور ابن شہاب زہری سے تھے.اخذ حدیث میں حضرت امام مالک بڑے محتاط تھے ایک بار آپ نے فرمایا میں نے ستر سے زیادہ علماء کو دیکھا ہے جو مسجد نبوی کے ان ستونوں کے درمیان بیٹھے قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ کا درس دے رہے ہوتے تھے وہ سب نیک ، بڑے دیانتدار اور مالی معاملات میں بڑے امین تھے لیکن میں نے اُن سے حدیث کا ایک لفظ بھی نہیں سیکھا کیونکہ میرے نزدیک وہ محدث ہونے کے اہل نہ تھے ہے امام مالک نے حصول علم کے لئے خوب محنت کی سخت سے سخت موسم میں بھی آپ اپنے استاد کے ہاں جاتے اور جہاں تک ممکن ہونا سبق میں ناغہ نہ ہونے دیتے.خاص طور پر علم حدیث کا حصول آپ کا نصب العین زندگی تھا.آپ نے بوساطت بحر العلوم ابن شہاب زہری، ابن بر مز ، ربيعَة الرَّاني ، علی بن سعید الا نصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جمع کیں.اسی طرح صحابہ عمدہ بینہ خاص طور پر حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابن عمرؓ، حضرت زید بن ثابت ل كان يقول ابن هرمز لتلاميذه ينبغى للعالم ان يُورث جُلَسًا له قول لا ادری (محاضرات صفحه ۲۰۹) أفهم لم يكونوا من اهل هذا الشأن (محاضرات صفحه ۱۹۹)
IFY اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کے فتاویٰ اکٹھے کئے.کہا رتا بعین خصوصاً فقہائے سبعہ مدینہ کی فقہی آراء پر عبور حاصل کیا، لیکن انتخاب اور بیان کے وقت آپ نے جن احادیث اور فتاوی وغیرہ کو اس قابل سمجھا کہ وہ آپ کی کتاب موطا میں شامل ہوں اُن کی کل تعداد جیسا کہ گزر چکا ہے ۷۲۰ تھی ان میں ابن شہاب زہری کی کل مرویات ایک سو ہیں.آپ بیان حدیث میں بھی بڑے محتاط تھے نہ ہر کہ ومہ کی حد بیث روایت کرتے اور نہ ہر روایت کو قابل حجت سمجھتے.ابن بُر ممز عمل اہل مدینہ کو اخبارا حاد پر ترجیح دیتے تھے اور کہا کرتے تھے الف عَنْ أَلْفِ خَيْرٌ مِنْ وَاحِدٍ عَنْ وَاحِدٍ - امام مالک بھی اپنے استاد کی اس رائے سے متفق تھے اور عمل اہل مدینہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے.امام مالک کے تمام اساتذہ مدینہ سے تعلق رکھتے تھے.مدینہ ہی آپ کا مدرسہ علم تھا کسی اور جگہ آپ حصول علم کے لئے نہیں گئے.حضرت عمر بن عبد العزیز سے بھی آپ کو بڑی عقیدت تھی.ان کی آراء کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے کارناموں کو سراہتے تھے.امام مالک کے شاگرد امام مالک حصول علم کے بعد اپنے اساتذہ کی اجازت اور ان کے مشورہ کے بعد مسند مد رئیس پر متمکن ہوئے.مسجد نبوی میں اپنا حلقہء درس قائم کیا.آہستہ آہستہ اس مدرسہ نے شہرت حاصل کی اور آپ کے درس حدیث کو مقبولیت حاصل ہوئی.عظمت نے قدم چومے اور ائت کی طرف سے آپ کو امام دار الحجرت، استاذ مدینۃ الرسول اور امیر المؤمنین فی الحدیث کے خطاب ملے تے شاگردوں کے لحاظ سے بھی آپ بڑے خوش نصیب تھے.اندلس، افریقہ اور ترکستان تک سے آپ کے پاس علم سیکھنے لوگ آئے اور دولت علم سے مالا مال ہو کر واپس گئے.دو ائمہ مذاہب یعنی امام شافعی اور قال مالک سمعت من ابن شهاب احاديث كثيرة ما حدثت بها قط ولا احدث بها قيل لم قال ليس عليها العمل مالک بن انس صفحه ۱۰۵ و۱۸۷) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں.مالک بن انس صفحه ۱۶۹۰۷۱۰۶۳، ۱۷۵ و محاضرات صفحه ۲۰۳ لما بلغ مالك خمسين لم يكن في المدينة مثله ولما فارق ابو حنيفة الحياة الدنيا في منتصف القرن الثاني لم يبق على ظهر الأرض لدة له مدة ثلاثين عاماً (مالک بن انس صفحه ۹۳)
تاریخ افکا را سلامی ۱۳۷ امام محمد بن حسن الشیبانی آپ کے براہ راست شاگرد ہیں.امام شافتی آپ کے حلقہ درس میں دس سال کے قریب رہے اور امام محمد حضرت امام ابو حنیفہ کی وفات کے بعد عراق سے مدینہ آئے اور تین سال کے قریب آپ کے پاس رہ کر علم حدیث حاصل کیا.ان کے علاوہ کچھ خلفاء عباسیہ بھی آپ کے حلقہء درس سے مستفید ہوئے اور موطا کا سماع حاصل کیا.ابو جعفر منصور، ہادی، مہدی، ہارون الرشید ، الامین اور مامون الرشید سبھی نے آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کیا ہے مصر اور اندلس کے جن شاگردوں کے ذریعہ آپ کا فقہی مسلک ان ملکوں میں مقبول ہوا وہ اپنے زمانہ کے مانے ہوئے با اثر فقیہ تھے.عبد الرحمن بن قاسم عبد اللہ بن وہب ، اشہب بن عبد العزیز ، عبد الله بن غانم الا فریقی اور یحیی بن یحیی الا عدسی آپ کی خدمت میں پڑھنے کے لئے آئے اور امام مصر اور امام اندلس بن کر واپس گئے.عبد الرحمن بن عبد القاسم قریباً ہمیں سال تک امام مالک کی خدمت میں رہے مالکیوں میں ان کی وہی حیثیت ہے جو حنفیوں میں امام محمد بن حسن الشیبانی کی تھی.امام ابن حزم الاندلسی کہا کرتے تھے کہ مالکی فقہ کے مدون ابن القاسم ہیں.مالکی فقہ کی مشہور کتاب ” الْمُلَوَّنه “ انہی کا ذہنی شاہکار ہے.اسد بن فرات اور عبد السلام بن سعید الملقب به سحنون دونوں نے اپنے استاد ابن القاسم سے معد وفقہی سوالات کئے ان میں سے بعض سوالات امام محمد بن حسن الشیبانی کی آراء سے مستقبط تھے.ابن القاسم نے ان سوالات کے جو جوابات دیئے وہ حضرت امام مالک کی آراء کی روشنی میں تیار کئے گئے تھے.یہیں سوال و جواب بعد میں ” مدونه سحنون" کے نام سے مشہور ہوئے.یہ کتاب قریبا ۳۶ ہزار مسائل پر مشتمل ہے.کے ابن القاسم ۱۹۱ ھ میں فوت ہوئے.قال احد وزیر صلاح الدين الايوبي ما اعلم رحلة خليفة الى عالم في طلب العلم الا للرشيد فانه رحل يولليه الامين و المأمون لسماع المؤطا الى مالك....وقبل ذالك بعث المهدى اليه ولديه الهادى والرشيد (مالک بن انس صفحه (۹۵) المدونة قد صدرت عن اجابات لا بن القاسم باراء مالك وان كثيراً من المنقول عن اصحاب مالک هورای ابن القاسم و استحسانه وقياسه...و روايته عن مالك ارجح الروايات في المذهب مالک بن انس صفحه ۲۶۵، ۲۶۸، ۲۷۸ - الامام الشافعی صفحه ۱۷۵ يقول المالكية الأمهات اربع المدونة لسحنون، الواضحة لابن حبيب والعنبية للعتبي تلميذ لا بن حبيب و الموازية لمحمد ابن المواز - مالک بن انس صفحه ۲۷۳)
تاریخ افکار را سلامی ۱۳۸ امام مالک کے دوسرے بڑے مشہور مصری شاگر د عبد اللہ بن وہب ہیں.ان کو مالکی ديوان العلم " کہتے تھے.امام مالک کہا کرتے تھے کہ ابنُ وَهْبٍ عَالِمٌ وَابْنُ القَاسِم فَقِيَّة.ان کی بڑی عمدہ کتاب " جامع ابن وہب " حال ہی میں مخطوطہ کی صورت میں دریافت ہوئی ہے ہے ابن وہب ۹۷ ھ میں فوت ہوئے.امام مالک کے تیسرے مشہور مصری شاگر داشہب بن عبد العزیز ہیں.امام شافعی کہا کرتے تھے کہ میں نے اظہب سے زیادہ فقیہ کوئی نہیں دیکھا لیکن ان کی طبیعت بڑی زود رنج تھی.امام ابن القیم بھی ان کو مالکیوں کا سب سے بڑا فقیہ سمجھتے تھے سے الہب ا ۲۰۴ ھ میں فوت ہوئے.عبد اللہ بن الحکم بھی امام مالک کے بڑے مخلص شاگر داور بہت بڑے پایہ کے فقیہ تھے.ان کی کتاب "الختصر الکبیر اٹھارہ ہزار مسائل پر مشتمل ہے.انہوں نے امام مالک کی روایات پر مشتمل حضرت عمر بن عبد العزیزہ کی سیرت بھی مرتب کی تھی.یہ مصر کے ایک حصہ کے والی بھی رہے.حضرت امام شافعی کے ساتھ بڑے مخلصانہ تعلقات تھے.امام شافعی جب مصر آئے تو انہوں نے ان کی بڑی مدد کی اور ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی.اندلس میں عیسی بن دینار اور یحییٰ بن یحی اللیغی کے ذریعہ مالکی مذہب کو فروغ ملا یہ دونوں امام مالک کے بڑے مخلص اور قابل شاگر د تھے.کسے بیٹی پر بری الاصل تھے.وہ اٹھائیس سال کی.عمر میں مدینہ منورہ آئے.امام مالک سے موطا کا اکثر حصہ پڑھا.امام صاحب کی وفات کے بعد مکہ گئے اور سفیان بن عیینہ سے احادیث کا درس لیا.پھر مصر آکر ابن القاسم کے شاگرد رہے.تحصیل علم کے بعد واپس اندلس آئے.وہاں کے علمی حلقوں میں بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی.اُموی امیر الحکم بن ہشام آپ سے بڑی عقیدت رکھتا تھا.آپ سے مشورہ لے کر اندلس میں قاضی مقرر کرنا.ہا و جو د اصرار کے خودانہوں نے حکومت میں کوئی عہدہ قبول نہ کیا.امیر پر ان کے اس اخلاص کا بھی اثر تھا.بہر حال ان کی وجہ سے اندلس میں مالکی فقہ کو بہت فروغ ملا.موطا امام مالک کی مشہور روایت انہی کی طرف منسوب اور مستند ترین روایت شمار ہوتی ہے.ويُعد من اقدم المخطوطات العربية في العالم (مالک بن انس صفحه ۲۶۶) ما رأيت افقه من اشهب لولا الطيش فيه نفس المصدر) بهما انتشر فقه مالك فى الاندلس (مالک بن انس صفحه ۲۷۰)
تاریخ افکا را سلامی امام مالک کا فقہی مسلک ۱۳۹ الله.امام مالک اصلاً محدث تھے.کتاب وسنت کے بعد فتاویٰ صحابہ اور عمل اہل مدینہ کی پابندی آپ کا مسلک تھا.بدعات سے بھاگتے اور صرف ضرورت کے وقت اجتہاد سے کام لیتے اور مسئلہ پیش آمدہ کے بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے.امام مالک کی رائے اجتہاد کا ماخذ زیادہ تر " مصالح مرسلہ تھیں اور حسب ضرورت جبکہ نص کی علت اور وجہ واضح ہوتی آپ قیاس سے بھی کام لیتے.امام مالک کو سند کے لحاظ سے یہ شرف بھی حاصل تھا کہ مضبوط ترین اور مختصر ترین سند کے آپ حامل تھے.اس سند کو مسلسلة الذهب کہا جاتا ہے جیسے مالک عن نافع عن ابن عمر عن رسول الله.اس قسم کی اعلیٰ سند کا شرف کسی اور امام فقہ کو حاصل نہیں تھا یہاں تک کہ حضرت امام ابو حنیفہ جو عمر میں آپ سے بڑے تھے ان کی سند بھی کم از کم چار واسطوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے.جہاں تک تصنیف کا تعلق ہے امام مالک کی اصل تصنیف موطا ہے جس میں ۱۷۲۰ روایات درج ہیں.کل راوی پچانوے ہیں.سوائے چھ کے باقی سب راوی مدینہ کے رہنے والے تھے.ان چھ میں سے دو راوی بصرہ کے، ایک راوی مکہ کا ، ایک الجزیرہ کا، ایک شام اور ایک خراسان کا ہے.موطاحد بیث اور فقہ کی ملی جلی کتاب ہے.پانچ سو کے قریب مسند مرفوع احادیث ہیں.تین سو کے قریب مرسل ہیں.باقی حصہ بلاغات صحابہ اور تابعین کے فتاویٰ اور عمل اہل مدینہ کے ذکر پر مشتمل ہے.اس کے تھیں کے قریب نسخے ہیں جن میں تھوڑا بہت اختلاف ہے لیکن دو نسخے سب سے زیادہ متداول ہیں.ایک نسخہ یحیی بن یحی الی الاندلسی کا تیار کردہ ہے جو موطا امام کے نام سے مشہور ہے اور دوسرا امام محمد بن حسن الشیبانی کا مرتب کردہ ہے اور انہی کے نام سے مشہور ہے یعنی موطا امام محمد.جس میں امام محمد نے حسب موقع و محل حنفی مسلک کا بھی جگہ جگہ ذکر کیا ہے.امام شافعی موطا کے بارہ میں کہا کرتے تھے مَا فِی الْأَرْضِ كِتَابٌ فِي الْفِقْهِ وَ الْعِلْمِ أَكْثَرُ مالک بن انس صفحه ۷۳
۱۴۰ L تاریخ افکا را سلامی صَوَابًا مِّنْ كِتَابِ مَالِكِ حضرت امام مالک کے فقہی مسلک کو بڑی تفصیل کے ساتھ آپ کے متعد د شاگردوں نے مدون کیا ہے جن میں سے مندرجہ ذیل زیادہ مشہور ہیں الْمُدَوَّنَةٌ لِسَحْنُون - كتاب المجالسات لا بن وهب - المختصر الكبير لابن عبدالحكم - امام مالک علم کی تحدید کے قائل تھے.آپ کی رائے تھی کہ علم کی تین قسمیں ہیں.علم کی ایک قسم وہ ہے جسے ہر خاص و عام کو سیکھنا چاہیے اور وہ حدیث صحابہ اور نا بعین کے فتاوی کا علم ہے.یہ علم اس لئے سیکھنا چاہیے تا کہ ہر ایک اپنی زندگی اس علم کے مطابق ڈھال سکے اور دین و دنیا کی برکات کا وارث بنے.علم کی دوسری قسم کا تعلق عقائد ، مختلف فرقوں کے نظریات اور جدل و مناظرہ سے ہے.یہ علم صرف ذہین لیکن نیک فطرت علماء کے جانے کا ہے.عوام ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے اور گمراہی کی طرف جھک جاتے ہیں اس لئے عوام کو اس سے بچانا چاہیے.علم کی تیسری قسم وہ ہے جو فقہ الرائے" کے نام سے مشہور ہے یعنی اجتہاد اور اس کے لئے مختلف ذرائع سے کام لینے کا سلیقہ اور ملکہ.اس میں تو عمل اور انہماک بھی انسان کو حد اعتدال سے نکالنے کا باعث بنتا ہے صرف ضرورت کے وقت اس علم سے کام لینا چاہیے اور کسی معاملہ میں اس وقت رائے کا اظہار کرنا چاہیے جبکہ واقعہ اس کا سامنا ہو اور کوئی نص نہ ملتی ہو.قبل از وقت فرضی مسائل اور ان کے جواب تیار کرنا اور فقہ تقدیری کے انبار لگانا درست طریق نہیں اور نہ ایسے علم کا کوئی دینی فائدہ ہے.امام صاحب کا طریق علمی یہی تھا کہ جب کوئی واقعہ آپ کے سامنے آنا اور آپ کو نص نہ ملتی تو بالعموم " مصالح امت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے غورو فکر کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے اور وہ رائے ہر لحاظ سے معقول اور دل کے لئے قابل اطمینان ہوتی.حنفیوں کی طرز فکر کے آپ قائل ↓ ويقول العلماء المؤطا هو الاصل الاول والبخارى هو الاصل الثاني مالك بن انس صفحه ۷ ۱۸۸۰۱۸) - مزید تفصیل کے لئے دیکھیں.مالک بن انس صفحه ۲۶۳۱۹۳۰۱۰۳٬۱۰۱، ۲۶۵- محاضرات صفحه ۲۳۸
تاریخ افکار را سلامی نہ تھے ، نہ فرضی مسائل سوچتے اور نہ زیادہ قیاس سے کام لیتے ہیے امام مالک کی معیشت جیسا کہ لکھا گیا ہے امام مالک کا گھرانہ مالی لحاظ سے کوئی خوشحال گھرانہ نہ تھا.معمولی گزا را تھا.آپ نے بڑی تنگی کے حالات میں تعلیم حاصل کی.جب مسند تدریس پر بیٹھے تب بھی حالات قریباً جوں کے توں تھے.آپ کے پاس چارسو کے قریب دینا رتھے جن کو تجارت میں لگا رکھا تھا اس سے جو کچھ آنا گھر کا گزارا چلتا ہے ایک آزاد شدہ لونڈی سے شادی کی تھی اور اُسی کے ساتھ خوش خوش زندگی گزار دی.پھر جب آپ کی مقبولیت بڑھی اور دنیا کی عقیدت نے آپ کے قدم چومے.حکام اور خلفاء آپ کی مجلس میں آنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بتدریج آپ کے مالی حالات کو بھی سدھار دیا.آپ عام حکام سے کسی قسم کا نذرانہ قبول نہ کرتے تھے لیکن خلفاء کی طرف سے جو تحائف آپ کی خدمت میں پیش ہوتے وہ آپ بخوشی قبول کر لیتے تھے.آپ کا نظر یہ تھا کہ خلفاء کی طرف سے جو نذرانہ آئے اور اُس کے ساتھ کوئی غلط خواہش وابستہ نہ ہو تو اسے قبول کر لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حقیقت کے لحاظ سے بیت المال میں اُن لوگوں کا بھی حق ہے جنہوں نے علم کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے.خلفاء عباسیہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں جو رتیں پیش کی جاتیں ان کا اکثر حصہ آپ اپنے مدرسہ کے طلبہ پر خرچ کرتے تھے.امام شافعی کے زمانہ طالب علمی کے اکثر اخراجات امام صاحب نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے اور دوسرے طلبہ کی مدد کا بھی یہی حال تھا.كان منهاج الراى عند المدنيين المصلحة اتباعا لسعيد بن المسيب و الزهري و عند العراقيين " القياس اتباعًا لعبد الله بن مسعود و علی بن ابی طالب.كان مالك يقول سَلَ عَمَّا يكون ودَع عَمَّا لا يكون......فلا يجيب عن مسئلة لم تقع وان كانت متوقعة بخلاف عمل ابي حنيفة فانه يجيب عن كل مسئلة وقعت أولم تقع.قال ابن رشد مالک امیر المؤمنين فى الرأى والقياس ايضاً - تفصیل کے لئے دیکھیں.مالک بن انس صفحه ۱۹۵ محاضرات صفحه ۲۰۳ و ۲۰۸ محاضرات صفحه ۲۱۷
تاریخ افکار را سلامی خلفاء کی طرف سے نذرانے قبول کرنے کے مسلک میں امام شافعی کا نظریہ بھی یہی تھا کو ذوی القربیٰ میں ہونے کی وجہ سے آپ بیت المال کے اس شعبہ سے مد دلینا زیادہ پسند کرتے تھے.اس کے بالمقابل امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن جنبل" کا نظریہ یہ تھا کہ ان خلفاء اور حکام کی طرف سے پیش کیا گیا کسی قسم کا نذرانہ قبول نہ کیا جائے کیونکہ ان کے ساتھ بعض اوقات نا مناسب اغراض وابستہ ہوتی ہیں.امام ابو حنیفہ کو تو اس قسم کے نذرانوں کی ضرورت بھی نہ تھی.آپ کی بڑی وسیع تجارت تھی جس سے آپ کو ہزاروں کی آمدن تھی لیکن امام احمد کا گزارا بڑا معمولی تھا.کچھ جائیداد کا کرایہ آنا تھا اُسی سے گزا را چلاتے تھے اور ضرورت پڑنے پر مزدوری بھی کر لیتے تھے.فصل کٹنے کے زمانہ میں باہر کھیتوں میں جا کر گرے پڑے سلے اور بالیں بھی چن لاتے تھے کیونکہ یہ ہمیشہ سے مباح اور غربا ء کا حق کبھی گئی ہیں.اس سب کچھ کے با وجود آپ اس بات کے کبھی روادار نہ ہوئے کہ خلفاء کی طرف سے آئے ہوئے نذرانے اور تحائف قبول کریں لیے امام مالک اور حکومت امام مالک نے بنو امیہ اور بنو عباس دونوں کا زمانہ عروج دیکھا.کے دونوں استبدادی حکومتیں تھیں.آپ چونکہ ایک لمبا عرصہ بنو امیہ کی حکومت میں رہے تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیزہ سے تو آپ کو خاص عقیدت تھی.پھر حضرت عثمان کے ساتھ جو زیا دتی ہوئی اور آپ کے خلاف جو بغاوت منظم کی گئی وہ سراسر زیا دتی تھی اور آپ اس کا بر ملا اظہار کرتے تھے.سکے اس لئے ان وجوہات کی بنا پر آپ کے بارہ میں یہ مشہور تھا کہ آپ اُموی الهولی ہیں.دراصل آپ بنیادی طور پر بغاوت کے خلاف تھے.آپ کا نظریہ یہ تھا کہ بغاوت کے نتیجہ میں جو خون ریزی ہوتی ہے اُس کی کوئی انتہاء نہیں.پھر اگر بغاوت کامیاب بھی ہو جائے تو جس کو اقتدار ملتا ہے وہ پہلے جیسا یا پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.کسی خیر اور بہتری اور بھلائی کی اُمید نہیں ہوتی.بنو عباس کی باغیانہ تحریک کے بارہ میں بھی وَلِكُلّ وَ جَهَةٌ هُوَ مُوَلَيْهَا قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكلته (محاضرات صفحه ۱۶۳، ۲۱۷) مالک بن انس صفحه ۲۵۸ مالک بن انس صفحه ۲۵۱۰۱۳۱۰۴۱ (محاضرات صفحه ۲۲۲۲۲۰)
تاریخ افکار را سلامی آپ کے اس قسم کے خیالات تھے اور اسی وجہ سے شروع شروع میں عباسی آپ سے بدگمان بھی تھے.بہر حال بنو امیہ کے دور کا کوئی خاص واقعہ جس کا تعلق آپ سے ہو تاریخ نے ریکارڈ نہیں کیا اور نہ یہ معلوم ہے کہ عام خلفاء بنو امیہ سے آپ کے تعلقات کیسے تھے اور ان کی عقیدت کا کیا حال تھا.یہ زمانہ بھی آپ کے عروج کے آغاز کا تھا اس لئے بھی ایسا ہونا مشکل تھا کہ حکومت کے لئے آپ کسی درجہ میں مرکز تو جہ ہوتے.بنوعباس کی حکومت کا جب آغاز ہوا تو جیسا کہ اشارہ گزر چکا ہے آپ کو بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.ایک تو ان جبری قسموں کا معاملہ تھا جو نئی حکومت کی طرف سے پبلک سے لی جارہی تھیں.ان کی شرعی حیثیت آپ کے نزدیک کچھ بھی نہیں تھی اور آپ سوال ہونے پر اس کا بر ملا اظہار بھی کرتے تھے.دوسرے ائمہ دین طبعا بے نیاز تھے اور وہ استبدادی حکومت سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتے تھے.اس کے بالمقابل نئی حکومت کی یہ پالیسی اور خواہش تھی کہ وہ پبلک میں مقبول ارباب حل و عقد اور اثر و رسوخ کا قریبی تعاون حاصل کرے اور اُن سے حکومت کے استحکام میں مدد لے.ایسے حالات میں جو حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے اور قریبی تعاون دینے کے لئے تیار نہ تھے لازم تھا کہ وہ حکومت کی سختی کا نشانہ بنتے.چنانچہ عراق میں امام ابو حنیفہ اور مدینہ میں امام مالک کو اسی صورت حال کا سامنا تھا اور دونوں اپنے اپنے حالات اور رجحانات کے تحت اس سے نبٹ رہے تھے.جیسا کہ ذکر آچکا ہے خلفائے عباسیہ خصوصاً دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ لوگ حکومت کے خلاف اُٹھنے کی جرات نہ کریں.ادھر بنو امیہ کے ہوا خواہ اور مفاد یافتہ دل سے عباسی حکومت کے مؤید نہ تھے اور بغاوت کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے.دوسرے علوی بھی خوش نہ تھے کیونکہ تحریک انہی کے نام پر چلی تھی اور انہیں پوری پوری توقع تھی کہ بنو امیہ کے بعد خلافت ان کو ملے گی اس لئے جب ایسا نہ ہوا تو شیعانِ اہل بیت عباسیوں کے سخت خلاف ہو گئے اور عباسیوں کو بے وفا اور غاصب سمجھنے لگے.ایسے حالات میں رعایا کو قابو میں رکھنے کے لئے عباسیوں نے جو تدابیر اختیار کیں ان میں ایک نذیر قسمیں لینے کی بھی تھی.لوگوں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ بیعت کرتے وقت قسم اُٹھا ئیں کہ اگر
تاریخ افکار را سلامی ۱۴۴ انہوں نے عقد بیعت تو ڑا تو ان کی ساری بیویوں کو طلاق ہو جائے گی اور آئندہ ساٹھ سال تک جو نکاح بھی وہ کریں گے وہ بھی طلاق کی زد میں آئے گا نیز ان کے سارے غلام آزاد اور ساری دولت صدقہ ہوگی.غرض عباسی اس قسم کی عجیب و غریب قسمیں جبڑا لیا کرتے تھے.امام مالک سے کسی نے ایسی قسموں کی شرعی حیثیت کے بارہ میں مشورہ پوچھا تو آپ نے کہا کہ شرعا تو ایسی قسم لغو ہوتی ہے.مدینہ کا عباسی والی خاصہ نا سمجھ تھا.اُس نے حکمت عملی سے کام لینے کی بجائے سختی کا.، طریق اختیار کیا اور امام مالک کو تعمد دکا نشانہ بنایا.جب منصور کو اس کی اس بے وقوفی کا پتہ چلا تو اُسے سخت افسوس ہوا اور وہ اس احمقانہ حرکت کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش میں رہا کیونکہ او پر کی سطح پر تو خلفاء کا منشا یہ تھا کہ علماء کا تعاون حاصل کیا جائے اور تشد د کی اس طرح کی پالیسی اس کے خلاف تھی.بہر حال حج کے دنوں میں منصور کو اس کا موقع مل گیا.منصور نے امام مالک کو پیغام بھجوایا کہ مجھے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں آپ حج کے بعد مجھ سے ملیں.چنانچہ ملاقات ہوئی دوران ملاقات منصور نے بڑی معذرت کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ نہ میں نے ایسے تشدد کا حکم دیا ہے اور نہ اس کا مجھے علم تھا اور جب پتہ چلا تو والی پر جو میرا رشتہ دار ہے سخت ناراض ہوا.ننگے اونٹ پر بٹھا کر اُسے بغداد منگوایا اور میرا ارادہ ہے کہ اُس سے اُس زیا دتی کا بدلہ لوں.آپ نے فرمایا امیر المومنین ایسا نہ کریں وہ آپ کے رشتہ دار ہیں، اہل بیت سے ہیں میں نے ان کو معاف کر دیا ہے ، آپ بھی انہیں معاف کر دیں.منصور پر آپ کی اس فراخ دلی کا بڑا اثر ہوا اور معذرت کے انداز میں کہا.آپ جیسے لوگ حرمین شریف یعنی مکہ اور مدینہ میں بطور تعویذ کے ہیں.یہاں کے لوگ بہت جلد شر پسندوں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں.آپ جیسے حضرات ان کو سمجھا سکتے ہیں، آئندہ کے لئے میں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ جب بھی آپ کو پتہ چلے کہ مدینہ منورہ یا حجاز کے والی نے کوئی کام انصاف کے خلاف کیا ہے اور وہ ظلم کا مرتکب ہوا ہے تو آپ اس کی مجھے ضرور اطلاع دیں، والی کو فورا معزول کر دیا جائے گا.امام مالک پر منصور کے اس سلوک کا بہت اچھا اثر ہوا.↓ خلفاء عباسیہ مسلسل ان تعلقات کو بڑھاتے رہے وہ مختلف قسم کے تحائف اور جوائز آپ کی ليس على المكره يمين و طلاق المكره لا يجوز
تاریخ افکا را سلامی ۱۴۵ خدمت میں بھجواتے اپنے بچوں کو شرف تلمذ حاصل کرنے کے لئے مدینہ لاتے.بعض اوقات مجلس درس میں خود بیٹھ کر درس سنتے.دوسری طرف اندلس کے اُموی امراء بھی آپ سے بڑی گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کی.خدمت میں تحائف بھجوانے میں کسی سے پیچھے نہ تھے.اس کی سیاسی وجوہات بھی تھیں کیونکہ اندلس کی حکومت بنو عباس کی خلافت کے مخالف تھی اس لئے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ ہی ایسی جگہیں تھیں جہاں اندلس اور قرب وجوار کے لوگ آزادانہ آجا سکتے تھے اور ان علاقوں کے طلبہ کا رخ بھی مدينة الرسول کی طرف ہوتا تھا.بہر حال امام مالک استاذ مدينة الرسول ہونے کی وجہ سے دونوں حکومتوں کے مرکز توجہ تھے اور جہاں تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعلق ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے نہ امام مالک نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا اور نہ دوسرے بزرگ ائمہ نے اس میں کسی قسم کی کوتا ہی روا رکھی.اپنے اپنے انداز میں ہر ایک یہ فریضہ سر انجام دیتا رہا ہے حکومت عباسیہ ائمہ دین کا تعاون حاصل کرنے کے لئے مسلسل کوشاں رہی تا کہ اُن کے تعلق کی وجہ سے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں.عراق میں امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا اثر ورسوخ تھا.اُن سے تعلقات استوار کرنے کے لئے مختلف رنگوں میں جو کوششیں ہوئیں اُن کا مختصر ذکر گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے.امام ابو حنیفہ تو ان کوششوں سے زیادہ متاثر نہ ہوئے لیکن ان کے شاگر دبڑی حد تک حکومت کا حصہ بن گئے.ا دھر تجاز اور مصر وغیرہ میں حضرت امام مالک کا اثر تھا ان کا تعاون حاصل کرنے کی بھی پوری پوری کوشش کی گئی.پہلے ابو جعفر منصور نے پیشکش کی کہ وہ موطا کو حکومت کا دستاویزی دستور العمل بنانا چاہتا ہے لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور کہا کہ دوسرےامصار کے علماء اس کا خیر مقدم نہیں کریں گے اور دین میں زیر دستی نہیں ہونی چاہیے پھر ہارون الرشید نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا لیکن آپ کا جواب وہی تھا کہ یہ بات مصلحت کے خلاف ہے.تفصیل کے لئے دیکھیں مالک بن انس صفحه ۴۵ ۱۲۴۰، ۲۳۸، ۲۴۵، ۲۸۳۰۲۵۶ - محاضرات صفحه ۲۲۰ مالک بن انس صفحه ۱۹۷-۱۹۸
تاریخ افکار را سلامی امام مالک کی عظمت امام مالک طویل القامه عظیم الہامہ سفید رنگ، بڑی پُر رعب ، پر کشش اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے.داڑھی بڑی اور آنکھیں موٹی تھیں.خوش اطواراور رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا.اثر ورسوخ اور دینی قیادت کے لحاظ سے آپ نے بڑی کامیاب زندگی بسر کی.اللہ تعالی نے آپ کو عمر بھی بڑی لیسی دی اور اس کے بہتر استعمال کی توفیق بھی ملی.آخری عمر میں سَلْسَلُ الْبَول کی تکلیف ہو گئی تھی اور اس وجہ سے آپ ایک لمبا عرصہ تک مسجد نبوی میں بھی نہ جاسکے لے گھر پر ہی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا.آپ نے اپنی اس تکلیف کا کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا تھا.مسجد میں نہ جانے پر لوگوں نے اعتراض بھی کئے لیکن آپ خاموش رہے.جب آخری وقت آیا تو آپ نے اپنے اس عذر کا ذکر اپنے خاص شاگردوں سے کیا اور کہا یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے سامنے اپنی تکلیف کا رونا رویا جائے.سب نے خدا کے حضور جانا ہے.اور ہر ایک اُسی کے سامنے جواب دہ ہے.آخر عوارض طبیعی نے کمزور کر دیا بیماری آخری گھڑی کو قریب لے آئی اور علم و عمل کا یہ آفتاب اپنے زمانہ کا عظیم دینی قائد ۱۷۹ھ میں چھیاسی سال کی عمر میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر اھ ہوگیا فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کے جنازہ میں شامل ہونے کے لئے سارا مدینہ اُٹھ پڑا.ایسا ایک عرصہ کے بعد ہوا.کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ایسا ماتمی اجتماع کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا.جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ ويَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ - 1 قیل مدته خمس و عشرون سنة.مالک بن انس صفحه ۲۸۴۰۲۸۳
تاریخ افکا را سلامی ۱۴۷ ٣.حضرت امام شافعی محمد بن ادریس الشَّافِعِي الْمُطَّلِبِى فلسطین میں ۱۵۰ ھ میں پیدا ہوئے.یہ وہی سال ہے جس میں حضرت امام ابو حنیفہ فوت ہوئے تھے گویا جس سال ایک امام فقہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اسی سال ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس کے مقدر میں کچھ سال بعد امام فقہ بنا لکھا تھا.لے آپ کے والد ایک ایسے فوجی دستہ میں ملازم تھے جو غزہ کی فوجی چھاؤنی میں مقیم تھا.والد کا گزار معمولی تھا.ان کا اصل وطن مکہ تھا جبکہ آپ کی والدہ یمن کے اڈ دی قبیلہ کی خاتون تھیں ہے شافعی ابھی بچہ ہی تھے کہ والد کا غزہ میں انتقال ہو گیا اور آپ کی والدہ بعض مصالح کے پیش نظر آپ کو مکہ مکرمہ لے آئیں تا کہ بچہ اپنے قبیلہ کے لوگوں میں بہتر نشو ونما پا سکے.اس وقت آپ کی عمر دس سال کے قریب تھی سے اور قرآن کریم حفظ کر لیا تھا.آپ کا خاندانی تعلق قریش کے مشہور قبیلہ بنو مطلب سے تھائے اور شافع آپ کے اجداد میں سے ایک بزرگ کا نام تھا جس کی طرف یہ خاندان منسوب تھا اور شافعی کہلاتا تھا.مکہ مکرمہ میں آنے کے بعد شافعی نے وہاں اساتذہ سے پڑھنا شروع کیا اور جب کچھ پڑھ لکھ گئے تو مکہ کے مشہور محدث سفیان بن ٹھینہ اور مسلم بن خالد زنجی سے علم حدیث پڑھا.اسی دوران میں آپ مکہ کے قرب وجوار میں لینے والے ہذیل قبیلہ کے ہاں جانے لگے تا کہ فصیح عربی میں مہارت حاصل کر سکیں.بنو ہذیل پہاڑوں میں رہتے تھے.فصاحت زبان اور شعر کوئی کے لحاظ سے L قيل توفى اما م وولد امام لئلا يخلو وجه الارض من امام (الامام الشافعی صفحه ۲۷) ایک روایت کے مطابق آپ کی والدہ قرشیہ ہاشمیہ تھیں.ایک روایت کے مطابق عمر دو سال تھی.عبد مناف کے چار بیٹے تھے.مطلب ، ہاشم عبد الشمس اور نوفل، ہاشم کی اولاد میں سے آنحضرت ﷺ ہیں اور مطلب کی اولاد میں سے امام شافعی تھے.عبدالشمس بنو امیہ کے جدا مجد ہیں اور نوفل جبیر بن مطعم کے.ہائم کے بیٹے شیبہ (جد حضور) ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ہاشم کا انتقال ہو گیا اور شیعہ کو مطلب نے پالا جس کی وجہ سے شیبہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور سے" ہو گئے تھے.بنو مطلب ہمیشہ بنو ہاشم کے ساتھ رہے جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو عروج بخشا تو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو ذوی القربی قرار دیا بنو امیہ اور بنو نوفل نے بھی ذوی القربی میں شمار کئے جانے کا مطالبہ کیا کیونکہ رشتہ برابر کا تھا لیکن آپ نے فرمایا انهم لم يفارقونا في جاهلية ولا فى اسلام، انما بنو هاشم و بنو مطلب شىء واحد ( محاضرات صفحه ۲۴۶)
تاریخ افکا را سلامی الدي سارے عرب میں سند مانے جاتے تھے.آپ نے ہذیل سے اعلیٰ عربی بھی سیکھی اور تیراندازی کا سبق بھی حاصل کیا.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ تیراندازی میں میرا مقابلہ کوئی مشکل سے ہی کر سکتا ہے اگر دس تیر نشانے پر لگانا چاہوں تو ایک بھی خطا نہ جائے.آپ نے اس دوران علم نجوم اور علم طب سے بھی واقفیت بہم پہنچائی.آپ بہت اچھے شعر کہہ لیتے تھے اور اعلیٰ پایہ کے ادیب مانے جاتے تھے.زبان کی اس مہارت کا اثر آپ کی تحریر میں بھی تھا اسی لئے آپ کی کتب عربی ادب کا ایک نمونہ کبھی جاتی ہیں حالانکہ وہ بجائے خوفنی کتب ہیں فقہ کے مباحث اور اُصول کی تشریحات سے تعلق رکھتی ہیں.امام شافعی بڑے خوش الحان بھی تھے آواز میں بڑا سوز تھا.جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو رقت سے لوگوں کے آنسو رواں ہو جاتے.سلیس عربی بولتے اور بڑی روانی کے ساتھ تقریر کر سکتے تھے.تقریر میں ضرب الامثال سے خوب کام لیتے.مشہور محدث ابن راہویہ نے آپ کو خطیب العلماء کا خطاب دیا تھا.لے جب آپ کی عمر میں سال کی ہوئی اور علماء مکہ سے علم پڑھ لیا تو آپ کی خواہش ہوئی کہ مدینہ جا کر عالم مدینہ حضرت امام مالک سے موطا پڑھیں اور علم حدیث میں مہارت حاصل کریں.یہ زمانہ امام مالک کے عروج کا تھا اور بڑی مشکل سے آپ کے مدرسہ میں کسی کو داخلہ مل سکتا تھا.آپ نے اپنے آپ کو امام مالک کے درس میں شمولیت کے قابل بنانے کے لئے خوب محنت کی.کسی سے موطا کا ایک نسخہ لے کر اُس میں درج احادیث کو یا د کیا.والی مکہ سے والی مدینہ کے نام سفارشی چٹھی لکھوائی اور اس تیاری کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے.مدینہ پہنچے تو والی مدینہ کی سفارش کچھ کام نہ آئی لیکن اپنی قوت بیانیہ کے زور سے مالک کے درس میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کر لی اور پھر اپنی قابلیت اور شوق حدیث کی وجہ سے مالک کی توجہ کا مرکز بن گئے.قریبا دس سال آپ کی خدمت میں رہے.دینہ کے دوسرے علماء سے بھی استفادہ کیا اور ماہر عالم حد میث اور ایک بے مثل فقیہ کی حیثیت سے علوم مدنیہ کے حامل بنے.+ ا كان الشافعي فصيح العبارة واضح التعبير قوى التاثير بارزا في البلاغة و البيان و القدرة على المناظرة حتى قيل في حقه خطيب العلماء الامام الشافعی صفحه ۱۳۳،۶۰۰۵۵۰۵۰،۴۳، ۱۸۷) محاضرات صفحه ۲۶۹ ملخصاً
تاریخ افکا را سلامی امام شافعی کا ابتلا ۱۴۹ حضرت امام مالک کی وفات کے بعد آپ مکہ واپس آگئے.روزگار کی تلاش میں یمن گئے وہاں آپ کا ننہال بھی تھا.والی کی سفارش پر آپ کو نجران میں ایک معقول عہدہ مل گیا جو مالی سہولت کا باعث تھا لیکن پبلک تعلق کے سلسلہ میں آپ کو کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا.لوگ دھاندلی سفارش اور مفاد پرستی کے عادی تھے.خصوصا علاقہ کے امراء من مانی کرنا جانتے تھے.ادھر آپ کسی کی سفارش کی پرواہ نہ کرتے اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق معاملات طے کرنا جانتے تھے.اس وجہ سے آپ کے خلاف شکایتوں کا زور بڑھا.نجران کا نیا والی ظالم طبع اور جور پسند تھا، وہ بھی آپ کا مخالف ہو گیا.! دھر عباس علویوں کے بارہ میں بڑے حساس تھے اور انہیں ڈرلگا رہتا تھا کہ علویوں کی حمایت کہیں زور نہ پکڑ جائے.نجران کے والی نے عباسیوں کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھایا اور ایک سازش کے تحت ہارون الرشید کے پاس شکایت کی کہ نجران میں چند علومی شورش بپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں محمد بن اور لیس الشافعی بھی شامل ہے.ہارون الرشید نے فورا اس شکایت کا نوٹس لیا اور حکم دیا کہ ان باغیوں کو فورا گر فتار کر کے بغد اولا یا جائے.چنانچہ سب ملزم جن میں محمد بن اور لیس الشافعی بھی تھے یا بہ زنجیر بڑی صعوبتوں کے بعد بغداد پہنچے اور ہارون الرشید کے سامنے پیش کئے گئے.رشید نے ایک ایک کر کے سب کا بیان لیا.بالکل سرسری سماعت تھی.وہ سب کی گرد نہیں اُڑاتا گیا.ایک ملزم نے کہا میں بے قصور ہوں لیکن اگر آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تو اتنی اجازت دیں کہ اپنی بیما را ور بوڑھی والدہ کو خط لکھ سکوں جو مدینہ منورہ میں لاچار میری واپسی کے انتظار میں بیٹھی ہوگی لیکن رشید نے اُس کی ایک نہ سنی اور فورا گردن اُڑا دینے کا حکم دیا.جب امام شافعی کی باری آئی اور رشید نے آپ کی طرف " غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا آپ لوگ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خلافت کے اہل نہیں.شافعی کے سامنے تو آدمی خاک و خون میں غلطاں تڑپ رہے تھے اور بڑا بھیا تک منظر تھا لیکن آپ نے حوصلہ قائم رکھا.جواب کا موقع ملنے پر خدا داد ذہانت سے کام لیتے ہوئے بچے ملے الفاظ میں کہا.دشمنی اور حسد کا شکار ہوا ہوں ، مخالفین نے ناحق مجھے ملوث کیا ہے
تاریخ افکا را سلامی 10+ امیر المؤمنین غور فرما دیں کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کیسے شریک ہو سکتا ہوں جو مجھے اپنا غلام سمجھتے ہیں اور آپ کے خاندان کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں جو مجھے اپنا بھائی قرار دیتا ہے.لے امام محمد بن حسن دربار میں موجود تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شافعی نے کہا.میں ایک علمی آدمی ہوں علم سے شغف رکھتا ہوں بغاوتوں سے مجھے کیا سروکار اور یہ قاضی سب کچھ جانتے ہیں.رشید نے امام محمد بن حسن کی طرف دیکھا کہ یہ کیا کہتا ہے امام محمد نے جواب دیا.شافعی ٹھیک کہتے ہیں میں ان کو جانتا ہوں یہ شورش پسند طبیعت کے نہیں بلکہ بڑے عالم ہیں اور درس و تدریس ان کا شغل ہے.شافعی کی فصاحت اور امام محمد کی سفارش کام کر گئی اور رشید نے امام محمد سے کہا اچھا اسے اپنی عمرانی میں رکھیے اس کے بارہ میں بعد میں فیصلہ کروں گاتے.اس طرح امام شافعی امام محمد کی سر پرستی میں آگئے اور آپ کے گھر رہنے لگے.آپ سے حفی فقہ کی تفصیلات پڑھیں اور آپ کی کتابوں کا مطالعہ کیا.اس طرح آپ کا یہ ابتلاء علمی ترقی کا باعث بن گیا گویا آپ کو مدنی اور عراقی دونوں بہوں کے جامع امام ہونے کا شرف حاصل ہوا.امام محمد کے اس احسان کی ہمیشہ آپ کے دل میں قدر رہی اور آپ ان کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے.امام شافعی اور درس و تدریس بغداد میں دو سال کے قریب رہنے کے بعد آپ واپس مکہ آئے اور مسجد الحرام میں اپنا حلقہ درس قائم کیا جس نے آہستہ آہستہ خاص ترقی حاصل کی.امام احمد بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں مکہ گیا تو میں نے محمد بن اور لیس کو مسجد الحرام میں درس حدیث وفقہ دیتے سنا.آپ نے اپنے دوست اسحاق بن راہویہ سے کہا میں نے ایک نوجوان کو دیکھا ہے اُس کی باتیں جوں جوں قال الشافعى يا امير المؤمنين ما تقول في رجلان احد هما يراني اخاه و الاخریرانی عبده ايهما احب الى قال الرشيد الذي يراك اخاه قال الشافعي فذاك انت يا امير المومنين انتم ولد العباس وهم ولد على (يرون كل الناس عبيدهم ونحن بنو المطلب فانتم ولد العباس تروننا اخوتكم وان لى حظا من العلم و ان القاضي محمد بن الحسن يعرف ذالک (محاضرات صفحه ۲۵۳) تفصیل کے لئے دیکھئے (الامام الشافعي صفحه ۱۸۲۹و۸۳ و مالک بن انس صفحه ۲۷۷ محاضرات صفحه ۲۵۳
تاریخ افکار را سلامی سنتا گیا حیرت میں ڈوبتا گیا.آئیں آپ کو بھی دکھاتا ہوں.چنانچہ اسحاق بن راہویہ نے بھی آپ کو درس دیتے سنا اور حیرت زدہ رہ گئے لیے مکہ میں آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تالیف و تصنیف کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا.اپنے نئے فقہی مسلک کی وضاحت کے لئے قواعد استنباط مرتب کئے اور نئے فقہی مذہب کی بنیا د رکھی.یہیں یہ آپ نے دور سالے بھی لکھے جن میں سے ایک کا نام ” خلاف ما لک“ ہے جس میں اپنے استاد امام مالک کے بعض فقہی نظریات پر تنقید کی اور اہل مدینہ کے عمل کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا دوسرے اخذ حدیث کے متعلق امام مالک کی احتیاط کو بلاوجہ تشدد قرار دیا.دوسرے رسالے کا نام آپ نے خَلافُ الْعِرَاقِینَ “ رکھا اور امام ابو حنیفہ کے نظریات پر تنقید کی.اس طرح تدریس و تصنیف میں آپ نے قریباً بارہ سال مکہ میں گزارے ۱۹۵ھ میں جبکہ آپ کی عمر پینتالیس سال تھی آپ دوبارہ بغداد گئے.وہاں پہنچ کر امام ابوحنیفہ کے مزار پر دعا کی، ساتھ کی مسجد میں دو نفل پڑھے اور صرف شروع میں رفع یدین کیا جب پو چھا گیا تو فرمایا امام ابوحنیفہ پوچھا کی عظمت کے اعتراف اور پاسِ ادب کی خاطر انہوں نے ایسا کیا ہے.بغداد میں رہ کر آپ نے دو اور کتابیں لکھیں ان میں سے ایک کا نام ”الرسالہ ہے جو دراصل اصول فقہ کے بارہ میں آپ کا منفرد کارنامہ ہے اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی تحریری کام نہیں ہوا تھا.دوسری کتاب کا نام آپ نے المَبسُوط رکھا اس میں بھی اپنے فقہی منہاج کی تفصیل پیش کی یہ دونوں کتب الكسب البغداديه " کے نام سے مشہور ہیں اور آپ کے لائق شاگر دالحسین بن محمد الصباح الزعفراني (متوفی ۲۶۰ ھ ) کے ذریعہ مروی ہیں.یہ کتا بیں چند اور رسائل کو ملا کر " آلام " کے نام سے طبع شد و اور در شامتند اول ہیں.کے ۱۹۹ ھ میں جب آپ مصر گئے اور وہاں مالکی علماء سے واسطہ پڑا تو آپ نے اپنی کتابوں میں کچھ ترامیم کیں جو آپ کے دوسرے لائق شاگر دالر بیچ بن سلیمان المرادی (متوفی ۲۷۰ ھ ) کی الامام الشافعی صفحه ۱۳۵ الامام الشافعي صفحه ۱۱۵ الامام الشافعی صفحه ۱۹۶ حاشیه نیز مزید تفصیل کے لئے دیکھیے الامام الشافعی صفحه ۱۳۹، ۱۹۴۱۹۳، ۱۹۵، ۲۱۵ - محاضرات صفحه ۲۹۳
تاریخ افکار را سلامی ۱۵۴ روایت ہیں اور اقوال جدیدہ" کے نام سے مشہور ہیں.یہ دور جس میں امام شافعی اپنے مسلک کی تعبین و وضاحت کر رہے تھے تدوین علوم کا دور تھا اگر ایک طرف ابو الاسود ڈولی کے شاگر د عربی زبان کے قواعد وضوابط کی تدوین میں مصروف تھے تو دوسری طرف الاصمعی اور ان کے شاگر دا دب ولغت کے ذخائر اور اشعار عرب کے دیوان جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے.خلیل عالم عروض ایجاد کر چکا تھا.جاحظ ادب عربی کی تنقید و تنقیح کے اصول بیان کر رہا تھا امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی حنفی فقہ کی تدوین میں مصروف تھے.مدینہ میں امام مالک کے علوم کا غلغلہ تھا.احادیث کی روایت کو ایک فن کی حیثیت حاصل ہورہی تھی.مختلف فرقے علمی طور پر منظم ہو رہے تھے.خوارج ،شیعہ اور معتزلہ دست وگر بیان تھے اور مناظرات و مجادلات کا ہر طرف شور تھا.اس علمی فضا میں امام شافعی بھی راہ حق کی تلاش میں مصروف تھے.آپ نے اخبار احاد کی حجیت کے بارے میں زبر دست دلائل مہیا کئے اور اُمت کی طرف سے نا صر سنت“ کا خطاب پایا.عِلل قیاس کے استخراج میں اگر چہ حضرت امام ابو حنیفہ کا مقابلہ کوئی نہ کر پایا لیکن امام شافعی امام ابویہ مقابلہ کوئ نہ کر امام نے قیاس کے اصول وضوابط کے سلسلہ میں جو منفرد کام کیا اُس کا اپنی جگہ الگ مقام ہے.لے آپ نے اس بات کو واضح کیا کہ اگر چرا اخبار آحاد اور قیاس علیم ظنی کے ماخذ ہیں لیکن اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی.ہم اتنے ہی ان کے مکلف ہیں اور تمام انسانی زندگی اسی علیم خلقی کے گرد گھومتی ہے.پس جب ہم اپنے اکثر مسائل زندگی اسی علم کے بنا پر حل کرتے ہیں تو شرعی امور میں ان سے کام لینا کیوں تر دو کا باعث ہوئے.آپ کا کہنا تھا کہ اول تو قرآن واحادیث سے اکثر مسائل کا حل مل سکتا ہے.لیکن اگر کسی مسئلہ کے بارہ میں اُن میں تصریح نہ ملے تو مسئلہ زیر بحث کو اُن علل پر قیاس کیا جا سکتا ہے جو نصوص میں موجود ہوتی ہیں اور ایک ذہین مستند بآسانی اُن تک رسائی حاصل کر سکتا ہے.احادیث کے بارہ میں آپ کا علم بڑا وسیع تھا.ایک دفعہ آپ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور ل الامام الشافعي صفحه ۱۳۸، ۱۴۴،۱۳۹، ۲۱۴۰۱۴۷ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں الامام الشافعی صفحه ۹۲ ۱۲۳ تا ۱۲۸، ۱۹۸، ۲۳۸ محاضرات ۲۸۵
تاریخ افکا را سلامی ۱۵۳ کہا میں نے سنا ہے کہ آپ ہر سوال کا جواب قرآن وحدیث سے دیتے ہیں.بتائے اگر ایک محرم زنبور ماردے تو کیا کفارہ ہے؟ آپ نے سوال سن کر فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول جو بات تم کو بتائے اس پر عمل کرو اور حضور نے فرمایا کہ میری اور میرے خلفاء کی پیروی کرو.طارق بن شہاب کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک محرم کو کہا کہ زنبور کو مار دو ے اس سے معلوم ہوا کہ زنبور مار دینے کا کوئی کفارہ نہیں ہے.جیسا کہ گزر چکا ہے امام شافعی قیاس کے علاوہ رائے کے دوسرے مآخذ مثلا استحسان، مصالح مرسلہ وغیرہ کو درست تسلیم نہیں کرتے تھے اور اس طرز فکر کو نقصان دہ قرار دیتے تھے.امام شافعی اختلاف مسلک کے باوجود دوسرے مکتب ہائے فکر کا احترام کرتے تھے اور بڑے غیر متعصب تھے.ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ ابو حنیفہ کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے جواب دیا وہ اہل عراق کے سردار تھے.جب ابو یوسف کے بارہ میں پوچھا گیا تو فرمایا وہ حدیث کا اتباع اور احترام کرتے تھے.امام محمد فقہی تفریحات کے ماہر تھے قیاس میں ڈفر کی مہارت مسلم تھی.ہے غرض حنفیوں کے ائمہ کے بارہ میں جو آپ کی رائے تھی اُسے بڑی صفائی اور عقیدت کے ساتھ بیان کر دیا.امام شافعی علم کلام اور جدل و مناظرہ کو پسند نہیں کرتے تھے آپ کا کہنا تھا کہ ان مباحث کا کوئی فائدہ نہیں صرف زبان کا چٹخارہ یا دینی عیاشی کا سامان ہے.بڑی بریکار بخشیں ہیں.قرآن وسنت کی اتباع میں ہی نجات ہے آپ اپنے شاگردوں کو کہا کرتے تھے إِيَّاكُمْ وَالنَّظْرَ فِي الْكَلامِ کلامی مسائل کو کوئی اہمیت نہ دو.ان میں انہماک سے بچو.- امام شافعی اور سفر مصر امام شافعی تین سال کے قریب بغدا در ہے.کچھ زیادہ دل نہ لگا.یہاں معتزلہ کا زور بڑھ رہا تھا.مامون الرشید ان کی طرف جھک گیا تھا.علاوہ ازیں الامین کی شکست کے بعد عربی عنصر کا الامام الشافعي صفحه ۱۱۷ الامام الشافعی صفحه ۱۸۴
تاریخ افکا را سلامی ۱۵۴ اثر و رسوخ کم ہو گیا تھا مامون الرشید کی مدد فارسی اور خراسانی عنصر نے کی تھی اور وہ انہی کے زیراثر تھا اس لئے قرآن وسنت کے حاملین کے لئے مشکلات بڑھ رہی تھیں.ایسے حالات میں امام شافعی نے بغداد میں رہنا مناسب نہ سمجھا اور احباب کے مشورہ کے بعد آپ نے مصر چلے جانے کا ارادہ کیا کیونکہ ایک تو وہ مرکز یعنی بغداد سے دور تھا.دوسرے وہاں آپ کے ہم سبق یعنی امام مالک کے شاگر درہتے تھے جن سے تعاون کی اُمید تھی.مصر میں ابھی عربی عصر کا غلبہ بھی قائم تھا.ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ مصر کا والی عباس بن عبد اللہ عباسی آپ سے عقیدت رکھتا تھا ان حالات میں آپ ۱۹۹ھ میں بغداد سے مصر کے لئے روانہ ہوئے سفر بڑا کٹھن اور لسا تھا.مصر میں کیا حالات پیش آئیں اس میں بھی الجھنیں تھیں.خاصی بے چینی تھی.سفر کے دوران میں ہی آپ نے اپنے ان جذبات اور سوچوں کا اظہا را یک قصیدہ میں کیا جس کے دو شعر یہ ہیں.لقَد أَصْبَحَتْ نَفْسِي تَفُوقُ إِلى مِصْرِ وَ مِنْ دُونِهَا قَطْعُ المَهَامِهِ وَالْقَفْرِ فَوَ اللَّهِ مَا أَدْرِى أَلِلْفَوْرُ وَالْغِنى أُسَاقُ إِلَيْهَا أَمْ أَسَاقُ إِلَى الْقَبْرِ مصر جانے کا شوق ہے.راستہ خطر ناک اور صحرائی ہے.وہاں جا کر اطمینان اور آرام نصیب ہو گایا تقدیر میں کچھ اور لکھا ہے کچھ معلوم نہیں.کوئی اندازہ نہیں.جب آپ مصر پہنچے تو کامیابی نے آپ کے قدم چومے.والی مصر نے بیت المال کے شعبه سهم ذَوِى القُربى “ سے آپ کا معقول وظیفہ مقرر کر دیا اور امام مالک کے ایک شاگرد جو خاصے خوشحال اور حکومت کے با اثر افسر تھے یعنی عبد اللہ بن عبد الحکم نے ہر طرح کی مدد کی اور آرام بہم پہنچایا.یہاں آپ کو اپنی کتب پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملا.درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا ، لیکن قضاء وقد ر نے زیادہ کام کرنے کی مہلت نہ دی.وقت قریب آچکا تھا بواسیر کے شدید عارضہ کی وجہ سے سخت کمزور ہو گئے.کچھ مصر کی شورشوں اور بعض مالکیوں کی طرف سے شدید مخالفت کا اثر بھی تھا.ان حالات کا مقابلہ کرتا ہوا یہ آفتاب علم ۲۰۴ ھ میں جبکہ عمر صرف چون سال تھی افق دارا لآخرت میں غروب ہو گیا.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ديوان الام الشافعي صفحه ۶۳ مطبوعه مؤسسة الأعلمى للمطبوعات بيروت طبع اولی ۲۰۰۰ء تفصیل کے لئے دیکھیں الامام الشافعی صفحه ۳۰۴،۳۰۲،۲۹۵،۳۹۲،۲۸۹،۱۹۰۰۱۸۱۰۱۷۸،۱۲۷.محاضرات صفحه ۲۶۰
تاریخ افکا را سلامی ۱۵۵ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے لائق شاگرد اور مخلص دوست عطا کئے تھے بغداد میں بھی اور مصر میں بھی.بغداد کے شاگردوں نے فارس ، خراسان اور ماوراء النہر میں آپ کے مسلک کی اشاعت کی.یہاں حنفیت کا زور تھا جس سے سخت مقابلہ رہا.سلطان محمو دغز نو می فقہ میں آپ کا پیر و تھا.آج بھی ایران کے منی کردوں کی اکثریت آپ کے فقہی مذہب کو مانتی ہے.امام شافعی کے شاگر داور پیرو مشرق میں آپ کے شاگردوں نے بڑا نام پایا اور ان کو علمی خدمات کا موقع ملا.خاص کر امام احمد بن حنبل تو مستقل مسلک کے امام بنے.الزغفرانی کے ذریعہ آپ کی کتب بغدادیہ ان علاقوں میں عام ہوئیں علاوہ ازیں سینکڑوں عالمی شہرت کے علماء آپ کے فقہی مسلک سے وابستہ تھے مثلاً امام الحرمین عبد الملک بن عبد الله الجوینی، حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی، علامہ فخر الدین الرازي، ابو حامد الاسفر ائينى ، تقی الدین السیکی، علامہ الماوردی صاحب الاحکام السلطانیہ، سلطان العلماء علامہ عز الدین بن عبد السلام ابن دقیق العیہ ،نظام الملک طوسی اورعلامہ نووی شارح صحیح مسلم سبھی شافعی المذہب تھے اور ان کی وجہ سے آپ کے فقہی مسلک کو بہت فروغ ملا.امام شافعی کا ایک مناظرہ امام شافعی قوت استدلال و مناظرہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے.ایک دفعہ امام محمد بن حسن شیبانی نے آپ کو چھیڑا اور کہا سنا ہے آپ غصب کے مسئلہ میں ہمیں غلط سمجھتے ہیں.پہلے تو شافعی نے معذرت کی اور ٹالنا چاہا کیونکہ امام محمد کا آپ کے دل میں بڑا احترام تھا یوں بھی آپ بحث سے بچتا چاہتے تھے لیکن حقی ایسے بحث و مباحثہ کو پسند کرتے تھے ان کانظر یہ تھا کہ بحث سے علم بڑھتا ہے اور مسئلہ کھل کر سامنے آجاتا ہے.بہر حال جب امام محمد نے اصرار کیا تو جوابی بحث کے لئے تیار ہو گئے.غصب کے بارہ میں حنفیوں کا مسلک یہ ہے کہ: - اگر تو غصب شدہ چیز جوں کی توں ہے تو وہ غاصب سے واپس لے کر مالک کو دلائی جائے گی.- اگر وہ چیز ضائع ہوگئی ہے تو اس کی قیمت دلائی جائے گی.الامام الشافعي صفحه ۲۹۹۲۹۸،۲۰۲
تاریخ افکار را سلامی ۱۵۶ - اگر اس میں ایسی زیادتی ہوتی ہے جو منصوبہ چیز کے ساتھ متصل ہے مثلا زمین پر مکان بنالیا ہے.کاغذ غصب کیا تھا اس پر مضمون لکھا اور کتاب کی شکل میں جلد بنا لی.سونا چھینا تھا اس کو زیور بنالیا.کپڑا چھینا تھا اس کا گرنا یا پاجامہ بنو الیا تو اس صورت میں بھی مالک کو قیمت ہی دلائی جائے گی.البتہ اگر زیا دتی منفصل ہے اور اس کا الگ وجود ہے مثلاً گائے چھینی تھی اس نے بچہ جنا تو منصوبہ گائے مع بچہ کے مالک کو واپس جائے گی.شافعی تیسری شق کے خلاف ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی مالک کا حق ہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز واپس لے.البتہ غاصب اگر چاہے تو بنے ہوئے مکان کو گرا کر اُس کا ملبہ لے جاسکتا ہے.بہر حال بحث کا آغاز یوں ہوا.امام محمد : ایک شخص نے کسی کی زمین پر قبضہ کر کے اس پر لاکھوں روپیہ کا خوبصورت مکان " بنالیا.زمین بڑی معمولی قیمت کی تھی بتائیے ایسی صورت میں آپ کا موقف کیا ہے؟ امام شافعی زمین مالک کو واپس دلائی جائے گی البتہ اگر غاصب چاہے تو اپنا ملبہ اٹھا کر لے جا سکتا ہے.بہر حال مالک کو مکان خرید نے یا زمین بیچنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا.امام محمد: اچھا ایک شخص نے لکڑی کے تختے چھینے اور اُن سے کشتی کی مرمت کی اور کشتی سواریاں لے کر سفر پر روانہ ہوگئی عین سمندر میں تختوں کے مالک نے مطالبہ کیا کہ ابھی میرے تختے واپس کرو.آپ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ امام شافعی: مالک کا فوری واپسی کا مطالبہ درست نہیں ہوگا البتہ جب کشتی واپس کنارے پر لگے گی تو وہ تختوں کو واپس لینے کا حقدار ہوگا.خواہ ان کے اُکھیڑنے سے کشتی کے مالک کو نقصان ہی پہنچے.اسی طرح کے کچھ اور سوال ہوئے جن کی تفصیل باعث تطویل ہے.امام محمد کی آخری دلیل ی تھی کہ مکان بنانے والے کو مکان گرانے اور مکان کا ملبہ اُٹھانے کے لئے کہنا اصول " لا ضرر وَلَا ضِرار " کے خلاف ہے.اتنا قیمتی مکان گرانا دولت کا ضیاع ہے اور مجرم کے مقابلہ میں سزا بہت زیادہ ہے خصوصاً جبکہ وہ زمین کی معہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار ہے اور مالک کا بظاہر اس میں کوئی نقصان بھی نہیں.
تاریخ افکار را سلامی ۱۵۷ امام شافعی: اچھا یہ بتائیے کہ ایک بڑا خاندانی عوام میں عزت دار امیر کسی کی معمولی لونڈی کو ورغلا کر اس سے نکاح کر لیتا ہے جبکہ لونڈی کا مالک راضی نہیں.نکاح کے بعد اس سے دس لڑکے پیدا ہوتے ہیں جو سب کے سب بڑے لائق عالم فاضل حکومت وقت کے عہدہ دار ہیں.لونڈی کا ما لک دعوی کرتا ہے کہ یہ لونڈی تو اس کی تھی جسے اس امیر نے مجھ سے چھین لیا تھا مجھے واپس دلائی جائے.آپ کا فیصلہ کیا ہو گا؟.امام محمد : لونڈی اور اُس کے سارے بچے مالک کو واپس دلائے جائیں گے اور یہ سب کے سب اس کے غلام ہوں گے لونڈی کی ساری اولاد ما لک کی غلام ہوتی ہے.امام شافعی: آپ کا لا ضَرَرَ وَلا ضرار کا اصول کہاں گیا.کیا مکان گرانے کا حکم دینا زیادہ ضرر رساں ہے یا اتنے بڑے لائق اور قابل عاقل بالغ دس افراد کو غلامی کے چکر میں ڈالنا اور اس ذلت سے ان کو دو چار کرنا.امام محمد اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے اور خاموش ہو گئے ہلے امام شافعی اور تعلیم فراست امام شافعی بڑے قیافہ شناس بھی تھے اور علیم فراست کا آپ نے مطالعہ بھی کیا تھا.ایک دفعہ اس علم کے آزمانے کا آپ کو موقع ملا.آپ یمن کے کسی شہر میں اپنے کام سے گئے.شام کے وقت پہنچے.بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا نیلی آنکھیں عجیب سا چہرہ اپنے مکان کے سامنے کھڑا تھا.امام صاحب کے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص خبیث الفطرت اور بدطینت لگتا ہے.بہر حال چونکہ شام پڑ رہی تھی آپ نے کہیں ٹھہر نا بھی تھا.آپ نے اس شخص سے پوچھا کوئی رہائش کی جگہ ملے گی.وہ شخص کہنے لگا.بسم اللہ خاکسار کا گھر حاضر ہے.اُس شخص نے آپ کی بڑی آؤ بھگت کی.صاف ستھرا بستر ہعمدہ لذیذ کھانا ہسواری کے جانور کے لئے چارہ.غرض رات بڑے آرام سے گزری.آپ دل میں افسوس کرنے لگے کہ اتنے اچھے نیک انسان کے بارہ میں خواہ مخواہ بدگمانی کو راہ دی.یہ علم فراست تو بالکل فضول لگتا ہے.L قال الشافعي انشدك الله اى همين اشد ضررًا ان تقلع الساحة وترد مالكها او تحكم برق هولاء الاولاد......(الامام الشافعي صفحه ۸۳۲۸۱)
۱۵۸ صبح جب ناشتہ وغیرہ کے بعد آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اُس شخص کا دلی شکر یہ ادا کیا کہ اُس کی وجہ سے انہیں بہت آرام ملا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.وہ شخص کہنے لگا شکریہ تو رہنے دیجئے.جزائے خیر بھی اپنی جگہ ہے لیکن میرے اخراجات جو میں نے آپ کو آرام پہنچانے کے سلسلہ میں کئے ہیں وہ اتنے ہیں.رات میں نے اور میری بیوی نے بڑی تنگی سے گزاری ہے اور اپنا آرام دہ کمرہ آپ کو دیا ہے اس کا کرایہ اتنا ہے ، کھانے کے اخراجات یہ ہیں ، آپ کی سواری کے چارہ کے اتنے دام میں غرض عام اندازہ سے کئی گناہ زیادہ رقم کا اُس نے مطالبہ کیا.امام شافعی کہتے ہیں کہ مجھے علم فراست کے درست ہونے کا یقین ہو گیا اور اپنے غلام کو کہا کہ جو کچھ یہ مانگتا ہے اسے دے دو اور یہاں سے جلدی نکلوے امام شافعی پر اعتراضات امام شافعی پر جو اعتراض کئے گئے ان میں سے بعض کا ذکر سطور بالا میں آچکا ہے.آپ پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ شیعہ ہیں کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور آپ کی اولاد سے تعلق محبت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن تاریخ میں آپ کے جو حالات لکھے ہیں وہ شیعیت کے الزام کی تردید کرتے ہیں.آپ خلفاء راشدین کی جلالت شان ان کی ترتیب اقدمیت اور افضلیت کے قائل تھے البتہ دوسرے سگی مسلمانوں کی طرح حضرت علی کے مقابلہ میں امیر معاویہ کو ناحق اور نا فرمانی کا مرتکب قرار دیتے تھے.علاوہ ازیں باغیوں کے بارہ میں اسلام کے جو احکام ہیں ان کی تشریح اور تفصیل کے سلسلہ میں جو کتاب السیر “ کے نام سے لکھی تھی اس میں حضرت علیؓ کے طرز عمل کو سند کے طور پر پیش کیا تھا کیونکہ آپ کو ہی پہلی مرتبہ مسلم باغیوں سے سابقہ پڑا تھا.اس صورت حال کو بعض لوگوں نے تمام سمجھا اور الزام لگایا کہ گویا آپ شیعیت سے متاثر ہیں.اسی قسم کے الزامات سن کر آپ نے ایک دفعہ تمثیل کی غرض سے یہ شعر پڑھا.إن كانَ رَفضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلانِ أَنِّي رَافِضِي الامام الشافعي صفحه ۷۸ کے الامام الشافعی صفحه ۱۱۴، ۱۳۷- ابو حنيفه صفحه ۱۴۳- محاضرات صفحه ۲۵۳
تاریخ افکا را سلامی ۱۵۹ حضرت امام شافعی نے مدینہ منورہ سے واپس آنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک پوتی حمیدہ نامی خاتون سے شادی کی جس سے آپ کو اللہ تعالی نے لڑکا عطا کیا آپ نے اُس لڑکے کا نام محمد رکھا اور کنیت ابو عثمان تجویز کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو حضرت عثمان سے بڑی عقیدت تھی.امام شافعی متوسط القامہ با رعب شخصیت کے مالک تھے.غنی النفس اور سخاوت پسند طبیعت پائی تھی.جب بھی کسی خلیفہ یا دوست کی طرف سے بطور نذرانہ کوئی رقم آئی طلبہ اور مستحقین میں تقسیم کردی یا خرید کتب میں صرف کی.آپ کے فقہی مسلک کے بارہ میں ضروری تفصیلات سطور بالا میں گزرچکی ہیں.امام شافعی کا کام امام شافعی کا بنیادی مسلک یہ تھا کہ احکام شرعیہ کی بنیا دیا تو نصوص ہیں یا پھر قیاس جو اُن علل اور وجوہات پر مبنی ہو جو نصوص میں مد نظر رکھی گئی ہیں اور ایک مجتہد کے لئے اُن تک رسائی مشکل نہیں ہونی چاہئے.آپ کا ایک کارنامہ اُصول فقہ کی تدوین اور ایسے ضوابط کی تعیین ہے جن پر احکام شریعت مینی ہونے چاہئیں.علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام شافعی علم اصول فقہ کے بانی ہیں.دوسرے مکتب ہائے فکر نے آپ کے بعد اس علم کی تدوین کی طرف توجہ مبذول کی.والفضل للمتقدم - حکومت کے بارہ میں آپ کا نظریہ وہی تھا جو دوسرے ائمہ فقہ کا تھا جس کی تفصیل اپنی جگہ گزر چکی ہے ہے.الامام الشافعي صفحه ۱۸۳۰۴۱ الامام الشافعي صفحه ۱۱۳
تاریخ افکا را سلامی 14+ ۳.حضرت امام احمد بن حنبل امام احمد ۱۴ ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے والد کا نام محد تھا اور دادا کا منبل.آپ اپنے دادا کی نسبت سے ابن مقبل کہلائے.امام محمد بن حسن الشیبانی کی طرح آپ کا تعلق بھی عدنانی قبیلہ شیبان سے تھا.دادا سرخس کے والی تھے لیکن والد فوج میں ایک معمولی عہدہ پر کام کرتے تھے تاہم وہ بڑے سبھی اور مہمان نواز تھے.خراسان کی طرف آنے والے عرب وفود کی خوب خاطر تواضع کرتے.جب وہ خراسان سے بغداد آئے تو ان کی مالی حالت اچھی نہ رہی.وہ امام احمد کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئے اور احمد کو ان کے چچا نے پالا.احمد جب کچھ بڑے ہوئے تو قرآن کریم حفظ کیا اس کے بعد عربی زبان سیکھنی شروع کی.پھر حد بیمث اور صحابہ و تابعین کے آثار سے واقفیت بہم پہنچائی.شروع سے ہی بڑے ذہین، پُر وقار ، سنجیدہ طبع اور عبادت سے شغف رکھنے والے نوجوان تھے یہ حدیث رسول اور آثار صحابہ آپ کا پسندیدہ موضوع تھا اور اس میں آپ نے مہارت حاصل کی.ابتداء امام ابو یوسف" سے پڑھا.اس کے بعد ۱۸۶ ھ میں جبکہ آپ کی عمر بائیس سال کے قریب تھی آپ نے بصرہ کوفہ اور حجاز کے مختلف شہروں میں جا کر مشہور زمانہ محد ثین سے حدیث پڑھی.انہی سفروں کے دوران آپ مکہ میں امام شافعی سے بھی ملے اور اُن سے بڑے متاثر ہوئے پھر جب وہ بغداد آئے تو ان کی شاگردی اختیار کی ہے مکہ میں سفیان بن عیینہ سے بھی حدیث پڑھی.کیمن جا کر وہاں کے مشہور محدث عبد الرزاق بن حمام سے ان کی مرویات کا علم حاصل کیا اور سند لی.عبد الرزاق صنعاء میں رہتے تھے.امام احمد بن حنبل کثیر الج تھے.بعض حج بغداد سے مکہ تک پیدل چل کر ادا کئے اور علم بھی حاصل کیا.طالب علمی کے ان سفروں میں بڑی بڑی مشکلات بھی پیش آئیں.مالی تنگی بھی دیکھی، لیکن علم کی دولت کے مقابلہ میں ان ساری مشکلات کو ایک جانا.بعض اوقات مزدوری کر کے گزارا چلاتے.لے مشہور محدث الہیثم بن جمیل نے آپ کو دیکھ کر کہا ان عاش هذا الفتى فيكون حجة اهل زمانه (محاضرات الامام الشافعی صفحه ۱۴۶، الامام احمد بن حنبل صفحه ۴۳ صفحه ۳۰۵)
ایک دفعہ جبکہ آپ یمن میں مقیم تھے اور مالی حالات اچھے نہ تھے آپ کے استاد محدّث عبدالرزاق نے آپ کی مدد کرنا چاہی لیکن آپ کسی قسم کی امداد لینے کے لئے تیار نہ ہوئے.آپ ٹوپیاں بن کر بیچتے اور اس آمدن سے گزا را چلاتے.ایک دفعہ آپ کے کپڑے چوری ہو گئے..کئی روز باہر نہ جا سکے آپ کے ایک طالب علم دوست کو پتہ چلا تو کچھ رقم دینی چاہی لیکن آپ نے قبول نہ کی اُس نے اصرار کیا کہ کب تک اس طرح گھر دبکے بیٹھے رہیں گے.اُدھار لے لیں اور جب آپ کے پاس رقم آجائے تو واپس کر دیں لیکن آپ پھر بھی راضی نہ ہوئے.آخر یہ شرط رکھی کہ میں اُن کے نوٹس صاف کر کے لکھ دیتا ہوں اس کا معاوضہ آپ دیر میں فرض اس رقم سے کپڑے بنوائے اور گھر سے باہر آنے جانے لگے.آپ بڑے قومی الحافظہ تھے.ہزاروں حدیثیں یاد تھیں اس کے با وجود جو حد بیث سنتے لکھ لیتے اور پھر اُن لکھے ہوئے نوٹس کو دیکھ کر حد بیث روایت کرتے حالانکہ حد میث آپ کو یا دہوتی.یہ احتیاط صرف اس وجہ سے تھی کہ حدیث رسول میں کوئی غلطی نہ ہو جائے.آپ نے فقہاء عصر سے فقہ بھی پڑھی.صحابہ اور تابعین کے فتاوی کا بھی مطالعہ کیا لیکن زیادہ رجمان حدیث و آثار کی طرف تھا اسی کے سیکھنے اور سکھانے میں اپنی زندگی وقف کئے رکھی.امام احمد فارسی زبان بھی جانتے تھے.آپ کا خاندان فارس میں رہا تھا اس وجہ سے گھر میں فارسی بولی سمجھی جاتی تھی.امام احمد اور درس و تدریس چالیس سال کی عمر ہوئی تو آپ نے اپنا حلقہ درس قائم کیا.یہ ۲۰۴ ھ کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ آپ کے استاد حضرت امام شافعی کا انتقال ہو چکا تھا.آپ کے قائم کردہ مدرسہ حد بیت کو بہت شہرت ملی کیونکہ حد بیث کی تدریس کے ساتھ ساتھ آپ تقومی ، پرہیز گاری اور اعمال صالحہ کے لحاظ سے بھی بڑی امتیازی شان رکھتے تھے.طلبہ حدیث کی بہت بڑی تعداد آپ کے مدرسہ سے متعلق تھی.سینکڑوں قلم دوات لئے ہر وقت لکھنے کے لئے تیار رہتے تھے.آپ کا گزارا مختصر سی آمدن پر تھا جو مکانوں کے کرایہ سے ہوتی تھی.بعض نے اس کی مقدار سترہ درہم ماہوا رکھی ہے.جیسا کہ سابقہ سطور میں گزر چکا ہے کہ آپ مزدوری بھی کر لیتے تھے
تاریخ افکا را سلامی ۱۶۴ یہاں تک کہ کھیتوں میں فصل کی کٹائی کے بعد گری پڑی بالیں بھی بچن لاتے تھے لیکن خلفاء اور امراء کے کسی قسم کے نذرانے قبول کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوئے لیے امام احمد احادیث کے علاوہ فقہی آراء اور فتاویٰ لکھنے کے روادار نہ تھے اور کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ عبد اللہ بن مبارک تو حنفی فقہ کے مسائل لکھ لیا کرتے تھے یہ سن کر آپ نے فرمایا: ابنُ المُبارک لَمْ يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ ا بن مبارک آسمان سے نہیں اترے، وہی کچھ لکھنا چاہیے جو آسمان سے نازل ہوا ہے کے تا ہم امام احمد کی اس تختی کے باوجود آپ کے شاگردوں نے آپ کی فقہی آراء کو مدون کیا جو کئی جلدوں پر مشتمل ہیں.امام احمد کا ابتلا اور آپ کی استقامت یہ دور مذہبی کلامی اور فلسفیانہ مباحث و مناظرات کا دور تھا.معتزلہ جو علم کلام کے بانی تھے غالب آرہے تھے ان کی وجہ سے مختلف قسم کے مسائل مثلا انسان مجبور ہے یا مختار، اللہ تعالیٰ کی صفات عین ذات ہیں یا غیر ذات ، کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یا نہیں، قرآن کریم قدیم ہے یا مخلوق زیر بحث رہتے تھے اور مناظرات کا ایک شور مچا ہوا تھا خود مامون الرشید اس قسم کے مباحث سے دلچسپی رکھتا تھا اور معتزلہ اُسے اُکتاتے تھے کہ اس قسم کے عقائد کی ترویج میں سختی سے کام لیا جائے ہے اس وجہ سے سلف پرست علماء کو سخت ابتلا کا سامنا تھا.امام احمد بھی اسی سلسلہ میں زیر عتاب آئے آپ کا موقف یہ تھا کہ اس قسم کے عقائد کی مباحث نہ صحابہ نے اُٹھائے اور نہ اُن کے اُن شاگردوں نے جو اُمت میں تابعین کے نام سے شہرت رکھتے ہیں.ان کی پیروی میں ہمیں بھی ان میں نہیں اُلجھنا چاہیے جو کچھ وہ مانتے تھے اُسی پر اکتفا کرنی تفصیل کے لئے دیکھیں.الامام احمد صفحه ۲۷۲، مالک بن انس صفحه ۱۱۷ محاضرات صفحه ۷ ۳۲ تا ۳۳۵ أمرنا ان نا تُحذ العلم من فوق (محاضرات صفحه ۳۱۵) قبل قد عمل على اثارة هذا المسئلة النصارى فانهم يقولون قد جاء في القرآن ان عيسى كلمة الله القاها الى مريم و كلمة الله قديمة فعيسى قديم فقال الجعد بن جهم والجهم بن صفوان جوابا للنصارى ان الكلام و القرآن مخلوق ليس بقديم واعتنق المعتزلة والمامون ذالك الرأى (محاضرات صفحه ۳۱۷) الامام احمد صفحه (۱۶۵)
تاریخ افکا را سلامی NF چاہئے اور اگر اصرار ہی ہے تو سلام اللہ قدیم کہنے میں نجات ہے.اُسے مخلوق قرار دینا بدعت ہے لیکن آخر عمر میں مامون الرشید کا یہ اصرار بڑھ گیا کہ لوگوں سے زبر دستی منوایا جائے کہ قرآن کریم جو کلام اللہ ہے مخلوق ہے.اس دار و گیر میں امام احمد اور محمد بن نوح کو گر فتا ر کیا گیا ان کو مامون الرشید کے سامنے پیش کرنے کے لئے الرقہ یا طرَ سُوس لے جایا جا رہا تھا کہ مامون کی وفات ہوگئی لیکن مرنے سے پہلے وہ اپنے جانشین المعتصم کو وصیت کر گیا کہ زیر دستی کی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے ہے محمد بن نوح تو راستہ میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے امام احمد بن جنبل کو پابجولاں واپس بغداد لایا گیا کچھ دن قید خانے میں رکھنے کے بعد ان کو نئے خلیفہ ابو اسحاق المعتصم کے سامنے پیش کیا گیا.معتصم نے ہر طرح کوشش کی اور سمجھایا کہ امام احمد اُس کی بات مان لیں آپ نے اپنے موقف پر اصرار کیا.اس پر اہمعتصم غصہ میں آگیا اور حکم دیا کہ آپ کو کوڑے لگائے جائیں.کوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کئی باربے ہوش ہو جاتے تھے لیکن استقامت میں ذرا بھی فرق نہ آنے دیا.اس طرح آپ نے اٹھائیس ماہ کے قریب قید و بند اور کوڑوں کی سختیاں جھیلیں.آخر تنگ آکر حکومت نے آپ کو رہا کر دیا.ان تختیوں کی وجہ سے امام احمد بہت کمزور ہو گئے تھے ایک عرصہ تک چلنا پھرنا بھی مشکل رہا.جب آپ تندرست ہوئے تو پھر سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا.ابتلاء کے زمانہ میں صبر واستقامت دکھانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی قدر و منزلت بہت بڑھ گئی اور ہر طرف سے عقیدت کے پھول برسنے لگے تھے.المعتصم کی وفات کے بعد الواثق جانشین ہوا.شروع شروع میں اس نے بھی سختی جاری رکھی.امام احمد کے بارہ میں اُس نے حکم دیا کہ وہ نہ کوئی فتوی دے سکتے ہیں اور نہ پڑھا سکتے ہیں کوئی ان کے پاس جا بھی نہیں سکتا.وہ اس شہر میں بھی نہیں رہ سکتے اس وجہ سے آپ نے کچھ عرصہ چھپ کر وقت گزارا.آخری عمر میں واثق سختی کی اس پالیسی سے تنگ آگیا تھا بلکہ قرآن مخلوق ہونے کا الامام احمد بن حنبل صفحه ۱۲۳ قيل كتب هذه الوصية احمد بن ابی داؤد شيخ من شيوخ المعتزلة الخصم العنيد للفقهاء والمحدثين (محاضرات صفحه (۳۱۸)
۱۶۴ نظر یہ مذاق بن گیا تھا.ایک دفعہ ایک مسخرہ واثق کے دربار میں آیا اور کہا میں امیر المؤمنین کی خدمت میں تعزیت کرنے آیا ہوں کیونکہ جو مخلوق ہے اُس نے ایک نہ ایک دن فوت بھی ہونا ہے قرآن کریم فوت ہو گیا تو لوگ تراویح کی نماز کیسے پڑھیں گے.واثق چیخ اُٹھا اور کہا کمبخت قرآن بھی فوت ہو سکتا ہے لے ایک دفعہ ایک عالم کو گرفتار کر کے واثق کے سامنے لایا گیا وہاں معتزلہ کا سردار احمد بن ابی داؤد بھی بیٹھا تھا اس عالم نے ابن ابی داؤد سے پوچھا کہ: خلق قرآن کا مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء جانتے تھے یا نہیں.اگر وہ جانتے تھے اور اس کے باوجود خاموش رہے تو ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے اور اگر نعوذ باللہ یہ لوگ جاہل تھے اور اس مسئلہ کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے تھے تو پھر اے کمینے (بالکع) تم کہاں سے عالم آگئے ہو.واثق یہ بات سُن کر اُچھل پڑ اوہ بار بار اس جملہ کو دہراتا اور ابن ابی داؤ کو ملامت کرتا.واثق نے اس گرفتار بلا عالم کو رہا کر دیا اور اُسے شاباش دی ہے غرض امام احمد اور دوسرے علماء کی استقامت اور ان کے صبر نے مسئلہ خلق قرآن کی شورش کو اپنی موت آپ مار دیا اور قریباً چودہ سال کی ہنگامہ آرائی کے بعد حالات پُرسکون ہو گئے.خلق قرآن کا مسئلہ دراصل ایک لفظی نزاع تھا جس نے تعصب اور ضد کا رنگ اختیار کر لیا تھا لیکن ایک مدت کی سر پھٹول کے بعد اس کا تال صرف یہ نکلا کہ علم الہی کے لحاظ سے قرآنِ کریم کے معانی قدیم ہیں لیکن اس کے الفاظ جن سے مراد آواز اور حروف ہیں حادث ہیں کیونکہ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے سنے اور آپ سے آپ کے صحابہ نے اور اس کے بعد ساری اُمت نے سنے اور ان کی تلاوت کی ہے الواثق کے بعد التوکل خلیفہ مقرر ہوا تو اس نے سختی کی پالیسی با لکل ترک کردی.معتزلہ کو دربار سے نکال دیا اور فقہاء اور محدثین کی رضا جوئی کا خواہشمند ہوا اور اس طرح ملک کا امن و امان بحال ہو گیا.محاضرات صفحه ۳۲۱ محاضرات صفحه ۳۲۲ کے محاضرات صفحه ۲۲۳ تا ۳۲۷
تاریخ افکار را سلامی ۱۶۵ امام احمد حدیث اور فقہ کے ماہر تھے.صبر و استقامت کا پہاڑ ، بلند ہمت ، كريم الشجية طلقَ الوَجهِ ، شَدِيدُ الحَيَاء ، بڑے تقی ، عابد اور زاہد تھے یا آپ کا درس لائق شاگردوں کے دل موہ لیا کرتا تھا.جب آپ ۲۴۱ ھ میں اٹھتر سال کی عمر میں فوت ہوئے تو سارا بغداد ماتم کدہ بن گیا.لاکھوں آدمی آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے اور لوگوں نے محسوس کیا کہ آج ان کا ایک بہت بڑا امام اُن سے رُخصت ہو گیا ہے.امام احمد کی فقہی آراء عقائد اور سیاست کے بارہ میں آپ کا نظریہ سلف صالحین کی آراء کے تابع تھا.آپ کا کہنا تھا کہ عقائکہ میں سیدھا مسلک یہی ہے کہ قرآنی تصریحات کی پابندی کی جائے.احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اسی پر اکتفا کی جائے.سیاسی لحاظ سے حکام وقت کی اطاعت واجب ہے اُن کے خلاف تلوار اُٹھانا منع ہے کیونکہ تلوار نظم ونسق، امن و امان کو تباہ کر دیتی ہے.البتہ حسب موقع ومحل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وعظ و تلقین اور کلمتہ الحق کہنے میں کوئی کمی نہیں آنے دینا چاہیے یہ ہر حال میں واجب ہے.کے امام احمد امام الحدیث اور فقیہ اللہ تھے تاہم بعض علماء نے ان کے فقیہ ہونے کا انکار کیا ہے امام ابن جریر طبری نے اختلاف انتہاء کے موضوع پر ایک کتاب لکھی اس میں امام احمد کا ذکر نہ کیا تو لوگوں نے اعتراض کیا.آپ نے کہا.امام احمد محدث تھے فقیہ نہ تھے اس لئے ان کا ذکر فقہاء کے ضمن میں نہیں کیا گیا.اس پر لوگ مشتعل ہو گئے ، ابن جریر کے مکان پر پتھراؤ کیا ، بڑی مشکل سے جان بچی سے اس سب کچھ کے با وجود امام احمد کی فقہی آراء اور آپ کے فتاوی کا ایک بڑا مجموعہ ل جمع الامام احمد بن الفقر والجود والعفة والعزة والاباء والعفو تفصیل کیلئے دیکھیں الامام احمد صفحه ۱۱۹۰۱۱۷۰۱۱۴- محاضرات صفحه ۳۳۷ تا ۳۴۱ كان يقول رحمة الله عليه القرآن ليس بمخلوق وليس معنى ذالك انه قديم.وقال النبي لا تماروا في القرآن فان مراء فيه "كفر - محاضرات صفحه ۳۲۶ محاضرات صفحه ۳۴۳ الامام احمد بن حنبل صفحه ۲۱۲
تاریخ افکا را سلامی ۱۶۶ حنبلیوں کے ہاں مقبول ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اُس کی صحت کا انکار کیا جائے.البتہ یہ درست ہے کہ آپ کی فقہ پر حد یث و آثار کا رنگ غالب تھا لے مسند امام احمد حدیث میں آپ کا کارنامہ "المسند" کی شکل میں موجود اور مشہور ہے.اس کتاب میں تھیں اور چالیس ہزار کے درمیان احادیث اور آثار صحابہ ہیں ہے آپ کی یہ کتاب بعد میں آنے والے محمد ثین کے لئے بطور بنیاد کے کبھی گئی امام بخاری ، امام مسلم اور دوسرے بزرگ محمد ثین نے اپنے اپنے مجموعے مرتب کرتے وقت اس کتاب کو بھی سامنے رکھا اور صحیح احادیث کے انتخاب میں اس سے قابل قدرید ولی.مسند میں مضامین کی ترتیب کی بجائے راویوں کی ترتیب سے احادیث جمع کی گئی ہیں.مثلاً پہلے حضرت ابو بکر سے مروی احادیث، اس کے بعد حضرت عمرہ کی مرویات، اس کے بعد حضرت عثمان کی.علی ھذا القیاس ترتیب وار تمام صحابہ کی مرویات درج کتاب ہیں.مضامین کے لحاظ سے ترتیب کی بعد میں کئی کوششیں ہوئیں لیکن ابھی تک مکمل شکل میں یہ مقصد زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکا.کے اس میں شک نہیں کہ مسند میں مروی بعض احادیث ضعیف ہیں سکے لیکن علماء نے تصریح کی ہے کہ مسند میں کوئی موضوع روایت نہیں ہے.امام احمد کا مسلک یہ تھا کہ قرآن وسنت کے بعد احاديث أعاد ماخذ شریعت ہیں خواہ وہ صیح ہوں یا ضعیف متصل ہوں یا مرسل، اقوال صحابہ کو بھی محاضرات صفحه ۳۵۰ الامام احمد بن حنبل صفحه ۲۱۷ الامام الشافعي صفحه ۳۱۳- الامام احمد بن حنبل صفحه ۲۴۳ تا ۲۴۷ جمع ابن القيم فتاواه الفقهية في ثلاثين مجلداً (ابن القيم الجوزيه صفحه ۳۸) مات الامام احمد قبل تنقیح المسند و تهذيبه فيقى على حاله ثم جاء ابنه عبد الله فالحق به من مسموعاته ما يشابهه ويما ثله (محاضرات صفحه ۳۵۱) الضعيف الذي يكون في بعض رجاله من لم يبلغ مبلغ الثقة اوكان في سلسة سنده انقطاع ولم يثبت عن الثقات مخالفته والموضوع فهو ما قام الدليل على بطلانه ( المحاضرات صفحه ۳۵۴) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں.الامام احمد صفحه ۲۲۰ تا ۲۳۶ - محاضرات صفحه ۳۵۸ و ۳۶۱
تاریخ افکا را سلامی 192 آپ حجت مانتے تھے تابعین کی آراء کا بھی لحاظ رکھتے تھے.اس کے بعد بامر مجبوری شاذ طور پر قیاس.مصالح مرسلہ اور استصحاب وغیرہ سے بھی کام لے لیتے تھے.صحابہ کے اجماع کے علا وہ وہ کسی اور اجماع کی شرعی حیثیت کے قائل نہ تھے کیونکہ اُن کی رائے میں اجتماع کا دھوئی درست نہیں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ کوئی مخالف ہو جس کا ہمیں علم نہ ہو سکا ہو لے حنبلیوں کے نز دیک نص کی عدم موجودگی کی صورت میں قیاس سے کام لینا ضروری ہے لیکن ان کے ہاں حنفیوں اور شافعیوں کے مقابلہ میں قیاس کا مفہوم زیادہ وسیع ہے اس میں استحسان، مصالح مرسلہ، ذرائع اور استصحاب سبھی وجود استنباط شامل ہیں مثلا حنفیوں کے نزدیک بیع سلم کا جواز غیر قیاس ہے کیونکہ بیاض لا تَبعُ مَا لَيْسَ عِندَكَ کے خلاف ہے اور بیع معلوم کے حکم میں ہے لیکن تھیلیوں کے نزدیک اس بیچ کا جواز قیاسی ہے کیونکہ پبلک مصلحت اور ضرورت اور غرف کی بنا پر اس کی اجازت دی گئی ہے.ہے مصالح امت کی بنا پر ہی امام احمد اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ شر پسند اور فسادی عناصر کو شہر بدر کیا جا سکتا ہے یا ضرورت مندوں کو لوگوں کے گھروں میں زیر دستی ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ کوئی اور صورت ممکن نہ ہو.یہی حکم اس صورت میں ہے جبکہ کسی ضروری پیشہ کا آدمی نہ مل رہا ہو تو کسی کو یہ پیشہ سیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے.سید ذرائع سے کام لینے میں بھی میلی کسی سے پیچھے نہیں وہ اُن تمام ذرائع کے ممنوع ہونے کے قائل ہیں جو مُفضى إلى الفساد ہو سکتے ہیں.سعدی بیماری کے مریضوں کو پبلک مقامات میں جانے سے روکا جاسکتا ہے.فساد کے دنوں میں پبلک کے پاس اسلحہ فروخت کرنے کو منع کیا جا سکتا ہے.تلقی رُشحبان بھی اسی اصول کی بنا پر منع ہے اس سلسلہ میں نیت اور نتیجہ دونوں اپنی اپنی جگہ کام کرتے ہیں.ایک شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے بندوق چلاتا ہے لیکن کوئی اُس شخص کو لگنے کی بجائے سانپ کو جالگتی ہے ل من ادعى الاجتماع فهو كاذب لعل الناس اختلفوا ولم ينبه اليه فليقل لا نعلم مخالفا له (محاضرات صفحه ۳۵۹) لان الحكمة في وجود المبيع ثابتة فيه و هو منع الجهالة والغرر و عرف الناس - (محاضرات صفحه ۳۶۱ ملخصا)
تاریخ افکا را سلامی ۱۶۸ اور وہ مرجاتا ہے تو نتیجہ اگر چہ خیر ہے لیکن نیت بد ہے اس لئے بندوق چلانے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں گنہگار ہو گا اور دنیا میں بھی مناسب گرفت ہو سکتی ہے.ایک شخص کسی دوسرے کو مکان میں بند کر دیتا ہے.وہاں وہ بُھو کا پیاسا مر جاتا ہے تو امام احمد کے نز دیک بندش کے مرتکب کو یہ ست ادا کرنی ہوگی.رقص و سرود کے لئے کسی کو مکان کرایہ پر دینا بھی اسی اصول کے تحت ممنوع ہے.حنبلیوں نے اصحاب کے اصول سے بھی بہت کام لیا ہے.اسی اصول کے تحت اُن کا مسلک یہ ہے کہ شک یقین کو زائل نہیں کر سکتا.اصلا پانی طاہر ہے جب تک نجاست کے پڑنے کا یقین نہ ہو پانی پاک سمجھا جائے گا اور شبہ کا امکان قابل رڈ ہو گا.امام احمد کے مسلک کا فروغ امام احمد کے مسلک کو ان کی کتابوں کے علاوہ اُن کے لائق شاگردوں نے مقبول بنایا.امام صاحب کے لڑکے علامہ عبداللہ نے ان کی مشہور زمانہ کتاب المسند “ کو متعارف کرایا.اسی طرح ان کے لائق شاگر دا بو بکر الاشرم ، عبد الملک المیمونی، ابو بکر المروزی، ابراہیم بن اسحاق ابوبکر الحربی اور ابو بکر الخلال اور دوسرے قابل شاگردوں نے ان کے مذہب کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رکھا.امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم جیسے فضلائے زمانہ اسی مسلک سے وابستہ تھے.حنبلی ہر زمانہ میں اجتہاد کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے دروازہ کو گھلا مانتے ہیں.اس وجہ سے فکر کی وسعت تو میسر آئی لیکن اختلافات کا انبار لگ گیا.ہر نئے مجتہد نے کسی نہ کسی مسئلہ میں اپنا الگ مسلک اختیار کیا اس پر بند لگانے کی کوئی صورت سامنے نہ آسکی.حصیلی مسلک کے علماء علمی میدان میں بڑے سر بر آوردہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ حنبلی مسلک کو مقبول عام نہ بنا سکے.اس کی کئی وجو ہات تھیں مثلاً : دوسرے فقہی مسالک کو استحکام کے لحاظ سے سبقت حاصل تھی.حنبلی مسلک قرون ماضیہ میں کے ان الحكم الثابت يستمر حتى يوجد دليل قطعي بغيره (محاضرات صفحه ۳۶۵)
تاریخ افکا را سلامی 149 کہیں بھی حکومت کا مذہب نہ بن سکا.اب سعودیہ میں یہ سرکاری مذہب ہے.حنبلیوں میں بوجوہ تشدد و تعصب اور تقشف کے عصر کو غلبہ حاصل رہا.حنبلی مسلک کے پیرو عوام پر بے حد سختی کرتے تھے، فساد سے گریز نہ کرتے تھے.ساساری حملہ سے کچھ عرصہ پہلے تو حنبلیوں کے شوروشر نے بغداد اور ملحقہ علاقوں میں بغاوت کی صورت اختیار کر لی تھی.اس وجہ سے عوام اس مسلک سے بالعموم منتظر رہے ہے.1 الف قال شيخ الاسلام ابو الوفاء بن عقيل الحنبلي ان الحنابلة قوم خشن تقلصت اخلاقهم عن المخالطة و غلظت طبائعهم عن المداخلة غلب عليهم الجد و قل عندهم الهزل.(الامام احمد بن حنبل صفحه (۲۱۲) ب: قال ابن الأثير في الكامل في سنة ٣٢٢هـ عظم امر الحنابلة وقويت شوكتهم و صاروا يلبسون دور القواعد و العامة.و اعترضوا في البيع والشراء و مشى الرجال مع النساء و الصبيان فازعجوا بغداد و بهذا الاعمال وغيرها نفر الناس منهم وقل اتباعهم (محاضرات صفحه ۳۷۳)
تاریخ افکا را سلامی 12+ حضرت امام ابن تیمیه امام تقی الدین ابو العباس احمد بن شہاب الدین عبد الحلیم ۲۶۱ ھ میں حسران میں پیدا ہوئے.آپ کے والد اپنے زمانہ کے مانے ہوئے عالم اور محدث تھے اور حرانی کہلاتے تھے.امام صاحب کی ایک دور کی جملہ کا نام تیمیہ تھا جس کی طرف نسبت کی وجہ سے ان کی کنیت ابن تیمیہ مشہور ہوئی اور اسی کنیت سے آپ معروف ہیں.امام ابن تیمیہ کا قد درمیانہ، رنگ سفید ، کالی گھنی داڑھی ، سینہ چوڑا ، آنکھیں بڑی بڑی غرض آپ بڑی دلنواز پسنجیدہ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے.آپ کا گھرانہ بڑی علمی عظمت رکھتا تھا اور اپنے علاقہ حران میں جو شام کا ایک حصہ تھا بڑا اثر و رسوخ اور دینی قیادت کا شرف رکھتا تھا.یہ دور سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کے لئے بڑے اضطراب اور خلفشار کا باعث تھا کیونکہ تاتاریوں کے ہاتھوں مرکز خلافت بغدادتباہ ہو چکا تھا اور اب ان کا رُخ شام کی طرف تھا.انہی تا تاری حملوں کے خوف سے ابن تیمیہ کا خاندان حران سے ہجرت کر کے دمشق میں آبسا تھا.اس وقت ابن تیمیہ کی عمر سات سال تھی.دمشق اس زمانہ میں مجمع العلماء تھا کیونکہ حُرُوبِ صلیبیہ کے دوران فلسطین کے علماء بھاگ کر دمشق آگئے تھے.اس کے کچھ عرصہ بعد تا تاری حملوں کی وجہ سے عراق اور مشرقی علاقوں کے کئی علماء بھی دمشق آگئے اور بعض مصر کی طرف نکل گئے.بہر حال دمشق کے علمی ماحول میں ابن تیمیہ نے پرورش پائی.والد دمشق کی جامع مسجد کے واعظ اور اُس کے ایک مدرسہ کے معلم تھے.ابن تیمیہ نے بھی اس علمی ماحول سے اثر لیا.آپ نے پہلے قرآن کریم حفظ کیا جو اس زمانہ کا دستور علمی تھا.اس کے بعد مروجہ علوم کی تھا.طرف توجہ مبذول کی.قابل اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا.حدیث آپ کا بڑا پسند یدہ موضوع تھا.چنانچہ اُس زمانہ کے مشہو را ساتذہ سے کسب حد بیث پڑھیں.صحاح ستہ کے علا وہ مسند احمد بن حنبل بھی سبقتا پڑھی اور اس مضمون کا وسیع مطالعہ کیا.فقہ الحدیث میں بھی مہارت حاصل کی.جب آپ کی عمر ۲۱ سال کی تھی کہ آپ کے والد ماجد فوت ہو گئے لیکن آپ کی والدہ نے
تاریخ افکا را سلامی انا کافی لمبی عمر پائی اور اپنے لائق بیٹے کے عروج کے زمانہ کو بھی دیکھا.امام ابن تیمیہ کا حافظہ غضب کا تھا کہا جاتا ہے کہ الجَمْعُ بَيْنَ الصَّحِيحَيْنِ لِلْحُمَيْدِى آپ کو یا تھی.علوم عربیہ میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی.امام ابن تیمیہ میں متعد د وصف نمایاں تھے.بچپن سے ہی آپ بڑے محنتی ، بختیوں کے عادی اور سنجیدہ طبیعت تھے.تیز ذہن، ملکہ حفظ میں مستحکم اور حساس طبیعت رکھنے والے تھے.علم کا ذوق ورثہ میں ملا تھا ان صفات کی وجہ سے بہت جلد اقران زمانہ سے آگے نکل گئے.چونکہ گھرانہ فضیلی المسلک تھا اس لئے ابن تیمیہ پر بھی یہ رنگ نمایاں رہا.اس زمانہ میں صلاح الدین ایوبی کی کوششوں کی وجہ سے عقائد میں امام ابوالحسن اشعری اور فقہ میں امام شافعی کا مسلک غالب تھا اس وجہ سے امام ابن تیمیہ کو جو حنبلی اور سلفی تھے شافعیوں اور اشعریوں کے مقابلہ میں بڑے مصر کے سر کرنے پڑے.مخالفتوں کا ایک زور تھا جس سے امام ابن تیمیہ دو چار تھے لیے امام ابن تیمیہ اور درس و تدریس ابن تیمیہ قریباً اکیس سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد مسند تدریس پر متمکن ہوئے.آہستہ آہستہ آپ کے درس کا غلغلہ بلند ہوتا گیا.آپ بڑے فصیح اللسان اور واضح البیان اُستاد تھے باتوں میں بڑی مٹھاس اور بیان میں بڑا اثر تھا.ہر قسم کے خیال کے لوگ موافق اور مخالف منگی اور بدعتی شیعہ اور معتزلہ بھی شامل درس ہوتے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتے ہے امام ابن تیمیہ اور ابتلا امام ابن تيمية تفوق علمی کے ساتھ ساتھ بڑے تیز طبیعت بھی تھے.مخالف پر بڑی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتے اُس زمانہ میں تو ہمات اور بدعات کا زور تھا.پیر پرستی اور قبر پرستی نے مسلم معاشرہ کی جڑیں کھوکھلی کر دی تھیں.امام ابن تیمیہ معاشرہ کی ان سب بیماریوں کے خلاف ا كانت مناضلات له في هذا السبيل و نزلت به محن و کادت نفسه تذهب في هذ الامر (محاضرات صفحه (۴۴۷) کے اُس زمانہ کے ایک بہت بڑے فقیہ ابن دقیق العید نے آپ کا درس سن کر کہا رأيت رجلاً جمع العلوم كلها بين عينيه ياخذ منها ما يريد و يدع ما يريد (محاضرات صفحه ۴۳۸)
تاریخ افکار را سلامی سینہ سپر ہو گئے.خصوصاً اُس زمانہ کے صوفیوں کو جن کا بڑا اثر تھا آپ نے ہدف تنقید بنایا جس کی وجہ سے وہ آپ کے سخت خلاف ہو گئے.ان حالات میں ضروری تھا کہ جہاں اُن کے کچھ حامی دوست اور عقیدت مند ہوں وہاں مخالفوں کی بھی کثرت ہوئے چنانچہ حاکم مصر الناصر بن قلا دون کے پاس آپ کی شکایت کی گئی.اس وقت شام کا علاقہ مصر کی عملداری میں تھا اُس نے آپ کو بلا بھجوایا تو الناصر کو اگر چہ ابن تیمیہ سے عقیدت تھی لیکن علماء کے شوروشر سے مجبور تھا.وہاں کے قاضی نے الزام لگایا کہ یہ تجسیم الله کے قائل ہیں.آپ نے قاضی کو حکم ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اس سے پہلے اس کے حکم سے ایک عالم کو جس کا کوئی قصور نہیں تھا قتل کیا جا چکا تھا چنانچہ اس قاضی نے آپ کو بھی قید کر دیا.اٹھارہ ماہ آپ قید رہے.پھر الناصر کی کوشش سے رہائی پائی.آپ نے پھر سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور صوفیا ء کے عقائد پر حملے برابر جاری رکھے.الناصر کا ایک پیر تھا جو وحدۃ الوجود کو مانتا تھا.امام ابن تیمیہ اس عقیدہ کے سخت خلاف تھے.اس نے الناصر پر دباؤ ڈالا کہ ابن تیمیہ کو تنقید سے روکا جائے لیکن آپ کا موقف یہ تھا کہ جو بات حق ہے اُس کے اظہار سے وہ نہیں رک سکتے.چونکہ شور و شغب بڑھ گیا تھا اور عوام پر صوفیاء کا بڑا اثر تھا اس لئے امام ابن تیمیہ کے سامنے تین تجویز میں رکھی گئیں اول یہ کہ وہ قاہرہ سے الاسکندریہ چلے جائیں ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہاں ان کو کوئی جانتا نہیں اس لئے ان کی کوئی نہیں سُنے گا اور ساتھ یہ بھی شرطا تھی کہ وہاں جا کر کوئی وعظ وغیرہ نہیں کرنا زبان بند رکھتی ہے اگر یہ منظور نہیں تو پھر زبان بندی کی اس شرط کے ساتھ وہ واپس دمشق چلے جائیں اور تیسری صورت یہ ہے کہ آپ کو دوبارہ قید کر دیا جائے.تاہم قید خانہ میں آپ کے شاگر د آپ سے پڑھ سکیں گے.آپ نے علامہ ذہبی جو آپ کے ہم عصر تھے وہ آپ کے بارہ میں لکھتے ہیں.من خــالـطــه و عرفه ينسيني الى التقصير فيه و من خالفه ونابله قد ينسينى الى التغافل فيه وقد أوذيت من الفريقين من اصحابه و اضداده و لا اعتقد فيه عصمة فانه كان مع سعة علمه و فرط شجاعته و سيلان ذهنه بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث و غضب للخصوم تزرع له عداوة في النفوس ولولا ذالك لكان كلمة اجماع فان كبارهم تعترفون بانه بحولا ساحل له و كنز ليس له نظير و لكنهم ياخذون عليه اخلاقا و افعالا (محاضرات صفحه ۴۴۸
تاریخ افکا را سلامی اس تیسری صورت کو منظور کر لیا لیکن آپ زیادہ عرصہ قید خانہ میں نہ رہے.اپنے عقیدت مندوں کی وجہ سے جلد باہر آگئے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے گرویدہ ہو گئے.اس دوران کئی ابتلا بھی آئے جنہیں آپ نے صبر وشکر کے ساتھ پر داشت کیا.الناصر نے ارادہ کیا کہ جن علماء نے آپ کو تکلیف دی ہے اور ایک لمبا عرصہ قید میں رہنے پر مجبور کیا ہے ان کو سزادی جائے لیکن آپ نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے.میں نے ان سب کو معاف کر دیا ہے.چنانچہ الناصر نے آپ کی بات مان لی لے علماء تو خاموش ہو گئے لیکن صوفیاء کا شور کم نہ ہوا انہوں نے پبلک کو اُکسایا اور بعض جاہلوں نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کی توہین کی.آپ کے حامی سخت مشتعل ہو گئے اور انتقام لینے کا عزم کیا لیکن آپ نے بڑی سختی سے ان کو منع کیا اور فرمایا اگر تم میرے لئے انتظام لینا چاہتے ہو تو میں نے تو ان کو معاف کر دیا ہے اور اگر اپنے لئے انتقام لیتے ہوا اور میری کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تو پھر جو مرضی ہے کرو اور اگر خدا کے لئے انتقام لیتے ہو تو اللہ تعالیٰ اپنا حق لینے پر آپ ہی قادر ہے تمہاری مدد کی اُسے ضرورت نہیں.غرض لوگوں کو بڑی سختی سے آپ نے روکا اور کسی قسم کا فساد نہ ہونے دیات.امام ابن تیمیہ اور جہاد بالسیف امام بن تیمیہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مرد میدان بھی تھے آپ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد میں مؤثر حصہ لیا.۶۹۹ ھ کے قریب دمشق کو نا ناریوں کے حملے کا بڑا خطرہ تھا بعض علماء تو مصر کی طرف بھاگ گئے لیکن امام ابن تیمیہ نے وعظ و تلقین کے ذریعہ لوگوں کے حوصلے بڑھائے.انہیں جرات کے ساتھ حملہ کا مقابلہ کرنے پر اکسایا.دوسری طرف آپ شہر کے عمائدین کا وفد لے کرنا ناری سالا رغاز ان کے پاس گئے.غازان نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن تا تاری لے آپ نے الناصر کو کہا اذا قتلت هولاء لا تجد بعدهم مثلهم ان میں مالکی قاضی ابن مخلوف بھی تھا جو آپ کی مخالفت میں سب سے آگے تھا اور آپ کو قتل کرانا چاہتا تھا اس نے جب امام صاحب کا یہ خلق دیکھا تو بے اختیار کہہ اٹھا مار اینا مثل ابن تیمیه حارضًا عليه فلم نقدر وقدر علينا فصفح وحاج عنا - (محاضرات صفحه ۴۶۱) محاضرات صفحه ۴۶۲
تاریخ افکا را سلامی وحشت اور بر بریت علی حالیہ موجود تھی.یہ لوگ صرف نام کے مسلمان تھے.تمام عادات اور رسم و رواج ابھی کافرانہ تھے اور اپنے آپ کو چنگیز خاں کے قانون ساسا کے تابع سمجھتے تھے.بہر حال جب وقد غاز ان کے سامنے حاضر ہوا تو آپ نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے غازان سے کہا.آپ کا دعوی ہے کہ آپ مسلمان ہیں.آپ کے لشکر میں قاضی، شیخ اور مؤذن کبھی ہیں لیکن اسلام کے آثار نہیں.آپ کے آبا و اجداد کا فر تھے لیکن عہد کے پکے تھے.آپ مسلمان ہو کر اُس عہد کو توڑ رہے ہیں جو آپ نے اس علاقہ کے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا.بات چیت کے بعد جب وفد کے سامنے کھانا چنا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا.غازان نے پوچھا کھانا نہ کھانے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے کہا میں وہ کھانا کیسے کھا سکتا ہوں جو لوگوں کا مال لوٹ کر تیار کیا گیا ہے.لوگوں کے درخت کاٹ کر پکایا گیا ہے غرض اسی طرح آپ نے بہت کچھ کہا اور ایسی فصیح و بلیغ تقریر کی کہ غازان آپ کی تکریم کرنے اور آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا.آپ کا فوری مقصد یہ تھا کہ غازان فی الحال دمشق پر حملہ نہ کرے اور قیدی رہا کر دے.غازان نے آپ کے دونوں مطالبے مان لئے لیکن کہا مسلمان قیدی تو میں رہا کر دیتا ہوں لیکن عیسائی اور یہودی قیدی نہیں چھوڑوں گا لیکن آپ نے کہا واپس جاؤں گا تو سبھی کے ساتھ جاؤں گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ذمہ کے بارہ میں فرمایا ہے لَهُمْ مَا لَنَا وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْنَا.آخر غازان نے آپ کا یہ مطالبہ بھی مان لیا اور وفد کامیاب و کامران واپس دمشق آ گیا.اہل دمشق کو برابر یہ اطلاعیں مل رہی تھیں کہ تاتاری لشکر تاڑ میں ہے.موقع ملنے پر ضرور دمشق پر حملہ کرے گا.اس لئے امام ابن تیمیہ لوگوں کو جہاد کے لئے برابر تیار کرتے رہے.ضروریات جہاد کا جائزہ لیا گیا ادھر دمشق کے لوگوں نے امام ابن تیمیہ پر زور دیا کہ وہ مصر جائیں اور وہاں کے امیر الناصر کو شام کی مددکرنے پر آمادہ کریں.چنانچہ امام صاحب کی سفارت کامیاب رہی اور ایک بھاری لشکر کے ساتھ شام کی طرف کوچ کیا.تاتاری لشکر نے اس دفعہ حملہ نہ کیا لیکن ۷۰۲ ھ میں پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوا.! دھر شام اور مصر کا لشکر بھی پوری طرح تیار تھا.دمشق کے علماء اور امراء نے تخت یا تختہ کے حلف اٹھائے عوام کے حوصلے بڑھائے.امام ابن تیمیہ نے علماء کی قیادت کی اور بذات خود لڑائی میں عملی
تاریخ افکار را سلامی ۱۷۵ حصہ لیا آخر یہ متحدہ طاقت تاتاریوں کے ساتھ پوری قوت سے ٹکرائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تا تاری لشکر کو شکست فاش دی اور پہلی دفعہ لوگوں کے دلوں سے یہ ڈرنکالا کہ تاتاری لشکر نا قابل ور پہلی وعدہ کشکست بلا ہے لے دمشق کے قریبی پہاڑوں میں ایک اور مسلمان دشمن طاقت بھی تھی.حسن بن صباح کے بقیۃ السیف.یہ لوگ نام کے مسلمان تھے.الحشاشین یا جہالہ کے نام سے مشہور تشیع اور تصوف کا ملغوبہ تھے.پہلے صلیبیوں کی انہوں نے مدد کی تھی اور اب تاتاریوں کے جاسوس بنے ہوئے تھے وہ موقع ملنے پر مسلمان دیہات پر حملہ آور بھی ہوتے، لوٹ مار کرتے اور پھر پہاڑوں میں جا چھپتے.قبرص کے عیسائیوں کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ تھا خفیہ حملہ کر کے مسلمانوں کا اسلحہ اور ان کے گھوڑے ان کی عورتیں اور ان کے بچے پکڑ لیتے اور قبرص کے عیسائیوں کے پاس بیچ دیتے.اس اندرونی دشمن کا قلع قمع بھی ضروری تھا.چنانچہ امام ابن تیمیہ نے الناصر کی اجازت سے الحشاشین پر حملہ کیا اور ان کی طاقت کو پوری طرح کچل دیا.آپ نے وہاں کے پہاڑی جنگل بھی کٹوا دیے جہاں یہ لوگ چھپ جایا کرتے تھے ہے یہ زمانہ مسلمانوں کے مصائب کی انتہا کا زمانہ تھا.اندلس میں مسلمانوں کی حکومت آخری دوں پر تھی.مشرق میں تاتاری غالب آگئے تھے.مصر، شام اور فلسطین ابھی صلیبیوں کے تباہ کن تھی.حملوں سے سنبھل نہ پائے تھے.مسلمانوں کا اندرونی انتشار بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا مختلف فرقوں کے با ہمی تعصب نے بڑی خطرناک صورت اختیار کر لی تھی.اس درد ناک حالت کے کئی مؤرخوں نے مرثیے لکھے ہیں.چنانچہ ابن الاثیر ایک نثری مرثیہ میں لکھتے ہیں کہ کاش مجھے ماں نہ جنتی یا انت مسلمہ کے یہ دردناک حالات لکھنے کے لئے میں زندہ نہ ہوتا.ایک مؤرخ کی حیثیت سے مجھے یہ دردناک قصہ لکھنا پڑ رہا ہے ورنہ میرا دل خون کے آنسو بہا رہا ہے.محاضرات صفحه ۴۸۰ محاضرات صفحه ۴۸۱ يقول ابن الاثير ليتامى لم تلدنى ليت من قبل هذا و كنت نسيا منسيا.فمن ذا الذي يسهل عليه ان يكتب نعى الاسلام والمسلمين و من ذا الذي يهون عليه ذکر ذالک.....فلو قال قائل ان العالم مذخلق الله سبحانه و تعالى آدم الى الان لم يبتلوا بمثلها لكان صادقاً.(محاضرات صفحه ۱۳۸۵ ۳۸۷)
تاریخ افکار را سلامی 121 ان حالات میں امام بن تیمیہ نے دینی بگاڑ کو سنوارنے کی کوشش کی.بدعات اور رسوم کے خلاف جہاد کیا.باطنی تو ہمات کے ازالہ کی کوشش کی لیکن حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ آپ کی کوششیں کما حقہ بار آور نہ ہو سکیں.اس ناکامی کی ایک وجہ آپ کی طبیعت کی تیزی بھی تھی.لوگوں کے بزرگوں پر آپ کی تنقید بڑی سخت ہوتی تھی.اس مدت کی وجہ سے آپ کی کوششوں کا اثر صرف اہل علم طبقہ تک محدود رہا تھا.امام ابن تیمیہ کا مسلک عقائکہ میں آپ سلفی تھے تاویل اور مجاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے.دینی مسائل میں آپ ظاہر مفہوم اور کوتر بیچ دیتے تاویل سے دور بھاگئے مثلاً استَوى عَلَى الْعَرْشِ کے بارہ میں کہتے اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ہیں بیٹھنے کی کیفیت نا معلوم ہے.کرسی کا وجود ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے.اللہ تعالیٰ کا چہرہ اور ہاتھ ہیں، لیکن کیفیت سے ہم بے خبر ہیں.اللہ تعالی کی رویت ممکن ہے کیونکہ حد بیث میں آیا ہے اللہ تعالی آسمان اول پر نزول اجلال فرماتے ہیں.غرضیکہ اس قسم کے مسائل کے بارہ میں وہ کسی تاویل کے قائل نہ تھے.صوفیاء کے اکثر نظریات کو وہ تو ہمات ، شطحیات اور خلاف شریعت سمجھتے تھے.صوفیاء کے نظر یہ اتحاد واباحت اور ان کے خوارق یعنی شعبدہ بازی کو کفر قرار دیتے تھے.قبر پرستی کے سخت خلاف تھے اس تشدد نے ان کو اس حد تک پہنچا دیا کہ زیارت قبور کے جواز کا بھی انکار کر دیا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کے لئے جانے کو بھی جائز نہ مجھتے تھے گویا حضور کے فرمان کی محبت نے جذباتی محبت پر غلبہ پالیا تھا.وہ اس حدیث سے استدلال کیا کرتے تھے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا ہے ایک اور حدیث بھی آپ کے پیش نظر تھی وہ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک کی طرف ایک شخص کو آتے جاتے دیکھا تو فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری قبر کو عید اور خانقاہ نہ بناؤ جہاں کہیں بھی تم ہو
144 ارا درود مجھے بھی جاتا ہے ا سلسلہ میں کے پاس ہوا اور میں پذ تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے.اس سلسلہ میں روضہ کے پاس کھڑا ہوا شخص اور اندلس میں رہائش پذیر دونوں برابر ہیں.بعض مسائل فلمیہ کے بارہ میں بھی آپ کا موقف مذا ہب اربعہ کے موقف سے مختلف تھا جس کی وجہ سے مقلد علماء آپ کے سخت مخالف ہو گئے مثلا: طلاق بِالْيَمِین یا طلاق معلق کے جواز کے آپ قائل نہ تھے یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میری بیوی کو طلاق.آپ کے نزدیک اگر وہ یہ کام کر بھی لے تو اُس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی.اس کے لئے انہوں نے ائمہ اہل بیت کی روایات سے استدلال کیا جو کہ اس قسم کی طلاق کے قائل نہ تھے.اسی طرح بیک وقت دی ہوئی تین طلاق کو وہ ایک طلاق قرار دیتے تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسے ایک طلاق سمجھا جاتا تھا اور یہ کہ قرآن کریم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.آپ حیض کی حالت میں دی ہوئی طلاق کولغوا اور بے اثر قرار دیتے تھے.آپ کے اس قسم کے نظریات کی وجہ سے شور بڑھ گیا.علماء نے آپ کے خلاف فتوے دیئے اور حکام نے علماء اور عوام کی شورش سے ڈر کر آپ کو قلعہ میں نظر بند کر دیا.آپ کے جسم کو تو قید کیا گیا لیکن وہ آپ کے نظریات اور آپ کی تحریرات کو قید نہ کر سکے.آپ کے عقیدت مند برابر کسی نہ کسی طرح قلعہ میں پہنچتے اور آپ کے خیالات اور آپ کے رشحات قلم کی اشاعت میں کوشاں رہتے.اس صورت حال سے چڑ کر علماء نے شور مچایا اور امیر شہر کو مجبور کیا کہ آپ کے پاس کسی کو نہ جانے دیا جائے اور آپ سے قلم دوات لے لی جائے کسی قسم کا کوئی کاغذ بھی اندرنہ جانے پائے.یہ پابندی آپ کے لئے ناقابل برداشت تھی لیکن سب کچھ خدا کی خاطر تھا اُس کی تقدیر پر آپ راضی تھے.آپ کی آخری تحریر کہیں سے حاصل کر وہ کوئلہ سے لکھی ہوئی آپ کی وفات کے بعد ملی.یہی سختیاں جھیلتے جھیلتے آپ ۷۲۸ ھ میں جبکہ آپ کی عمر ستاسٹھ سال تھی اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.آپ کا جنازہ قلعہ سے باہر لایا گیا.ایک خلق کثیر نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور ↓ محاضرات صفحه ۴۶۸
IZA اپنے آزاد منش امام کو آخری سلام پیش کیا الله الأمر أولا وآخرا وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيم امام ابن تیمیہ کی کتب امام ابن تیمیہ بہت لکھنے والے کثیر التصنیف بزرگ تھے.بلا مبالغہ ہزاروں صفحات لکھے.بعض نے آپ کی چھوٹی بڑی پانچ سوٹ کے قریب کتب شمار کی ہیں جن میں کئی طبع ہو چکی ہیں.آپ کی بعض کتب کے نام یہ ہیں.منهاج السنة رَفْعُ الْمَلَام عَنِ الأمةِ الاغلام - معارج الوصول الحسبة في الاسلام.الجوامع في السياسة الالهية - السياسة الشرعية الواسطة وفصل المقال - الرسالة التدميرية ـ الجواب الصحيح لمن بدل المسيح رة المنطقيين الحموية الكبرى - الوسيلة - القواعد ( یہ مختلف مسائل کے بارہ میں آپ کے نوٹ ہیں ) الرسائل یه مختلف آمدہ سوالوں کے جواب ہیں ).علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد (متوفی ۷۴۴ ھ) نے آپ کی سوانح عمری لکھی جس کا نام العقود الدبة " ہے.اس میں آپ کی کتابوں کی جو فہرست دی ہے وہ اکتالیس صفحات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ یہ ایک مختصر فہرست ہے ورنہ آپ کی تحریرات اس سے زیادہ ہیں.آپ کے فتاویٰ جو فتاوی امام ابن تیمیہ کے نام سے مطبوعہ ہیں کئی جلدوں پر مشتمل ہیں.امام ابن تیمیہ کا درس بھی بڑا مشہور اور مقبول تھا.سینکڑوں لوگ آپ کے علم سے سیراب ہوئے.آپ کے شاگر دامام ابن القیم نے تو عالمگیر شہرت حاصل کی اور آپ کے صحیح جانشین اور نائب قرار پائے..1 قبل شهد جنازته ماتا الف رجل و خمسة عشر الف امراة - ابن القيم الجوزيه صفحه ٣٦) ل ابن القيم الجوزيه صفحه ۱۲
تاریخ افکا را سلامی 129 حضرت امام ابن القيم شمس الدین محمد بن ابي بكر المعروف بابن القيم الجوزیہ ۶۹ ھ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد دمشق کے مشہور مدرسہ الجوزیہ کے قیم اور نگران تھے جس کی وجہ سے آپ نے ابن القیم الجوزیہ کے نام سے شہرت پائی.آپ کی وفات ۷۵۱ ھ میں ہوئی.اس لحاظ سے آپ کی عمر ساٹھ سال کے قریب بنتی ہے.یہ زمانہ مصر کے ممالیک کی حکومت کا تھا جو ۹۲۲ ھ یعنی عثمانی ترکوں کی فتح مصر تک ممتد ہے.اسی زمانہ میں علامہ ابن حجر عسقلانی بھی ہوئے ہیں جو اپنی کثرت تصانیف کی وجہ سے مشہور زمانہ ہیں.حفظ قرآن کریم کے بعد ابن القیم نے علوم مروجہ کی تحصیل متعد واساتذہ سے کی جن میں سے سب سے زیادہ اثر آپ نے امام ابن تیمیہ سے لیا.ابن القیم اپنی مختلف کتابوں میں اپنے اس استاد کا ذکر بڑے احترام اور ادب سے کرتے ہیں.آپ نے اپنے استاد کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی اُٹھا ئیں چنانچہ ان کی وفات کے وقت آپ بھی قلعہ دمشق میں قید تھے.امام ابن القيم تنبلی فقیہ تھے اس لئے علمی مہارت کے ساتھ ساتھ دینیات میں کتاب وسنت سے باہر جانا بالکل گوارا نہ تھا.فتویٰ دیتے وقت ہمیشہ اپنے استاد کی اس نصیحت کو مدنظر رکھتے کہ إِيَّاكَ أَنْ تَتَكَلَّمَ فِي مَسْتَلَةٍ لَيْسَ لَكَ فِيْهَا إِمَامٌ يعنی نص کے بغیر کسی مسئلہ کے بارہ میں محض اپنی رائے کی بنا پر گفتگو کرنے سے ہمیشہ بچتے رہو.نص پر اعتما دحد بیث کو مقدم کرنا.صرف مجبوری کی صورت میں قیاس سے کام لینا خیلی مذہب کی خاص خصوصیت ہے اور امام ابن القیم اس خصوصیت کا نمونہ تھے یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ اور ابن القیم اور ان کے لائق شاگردوں کی وجہ سے اس زمانہ یعنی آٹھویں صدی میں شام کے علاقہ میں حنبلیوں کا خاصہ زور تھا.دولت عثمانیہ ترکیہ کے زمانہ میں کہیں جا کر یہ زور ختم ہوا.ابتدائے جوانی میں ہی جبکہ آپ کے کئی اساتذہ ابھی زندہ تھے جن میں ابن تیمیہ بھی شامل تھے امام ابن القیم نے درس و تدریس اور افتاء کا فریضہ سر انجام دینا شروع کر دیا تھا.آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عربی زبان اور اُس کے قواعد میں بھی بڑے ماہر تھے
تاریخ افکا را سلامی ١٨٠ وہ جزالت عبارت کے ساتھ ساتھ مسائل کے استنباط میں بھی اس مہارت سے خوب کام لیتے.امام ابن القیم صوفی مزاج ، ٹھنڈی اور بڑی میٹھی طبیعت کے مالک تھے.تقریر وتحریرہ دونوں میں اس کا اثر ملتا ہے.اس کے بر عکس آپ کے اُستاد امام ابن تیمیہ بہت تیز طبیعت تھے.مخالفین کے بارہ میں تنقید کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرنے میں بڑے جری تھے.یہی وجہ ہے کہ استاد کے مخالف شاگرد کی نسبت زیادہ تھے تاہم اپنی جگہ شاگرد کی بھی سخت مخالفت ہوئی لیکن آپ کسی قسم کی مخالفت کی پروا کئے بغیر راہ حق پر رواں دواں رہے اور قید و بند کی ذرا بھی پروا نہیں کی.آپ کے بے شمار شاگر د تھے جن میں سے ابن کثیر صاحب "البدايه والنهاية" اور ابن رجب صاحب طبقات الحنابلہ " بہت زیا دہ مشہور ہیں.امام ابن قیم اور عبادت امام ابن القیم کثرت مشاغل کے باوجود بڑے عبادت گزار تھے.کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے.تہجد اور نوافل بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہے امام ابن قیم کا مسلک امام ابن القیم اگر چہ مسل کا حنبلی تھے لیکن دلائل کی بنا پر اگر ضروری سمجھتے تو مخالفت بھی کرتے.کئی فقہی مسائل میں آپ نے اختلاف کیا.آپ کی رائے تھی کہ گواہ کا معتبر اور ثقہ ہونا اصل ہے اس لئے اگر یہ شرط موجود ہو تو والد بیٹے کے حق میں اور بیٹا والد کے حق میں گواہی دے سکتا ہے اور اور یہ گواہی مقبول ہونی چاہیے.جبکہ فضیلی ایسی گواہی کو درست تسلیم نہیں کرتے.بیک وقت دی ہوئی تین طلاق کو آپ ایک رجعی طلاق قرار دیتے تھے.آپ کا مسلک تھا علامہ ابن الحجر اور علامہ شوکانی نے ان کے بارہ میں لکھا ہے.ما راينا اوسع منه علما و لا اعرف بمعاني القرآن والحديث والسنة و حقائق الايمان منه وقال معاصره برهان الدين الزرعى ما تحت اديم السماء اوسع علما منه ابن القيم الجوزية صفحه ٤٣٠٤١ بحواله الدرر الكامنة جلد ۲ صفحه ۲۱ - البدر الطالع جلد ۲ صفحه ۱۴۳ شذرات الذهب جلد ۲ صفحه ۱۶۹) يقول تلميذه ابن كثير - كان ملازما للاشتغال ليلا ونهارًا كثير الصلوة والتلاوة - حسن الخلق كثير التودد لا يحسد ولا يحقد (ابن القيم الجوزية صفحه (۴۹)
تاریخ افکا را سلامی IMI کہ سوائے دوصورتوں کے ہر طلاق رجعی ہوتی ہے یعنی خاوند عدت کے اند ررجوع کر سکتا ہے.ان دو صورتوں میں سے پہلی صورت یہ ہے کہ رخصتانہ سے پہلے طلاق دی جائے یہ طلاق بائن ہوگی اور خاوند کو رجوع کا حق نہ ہوگا.دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند حسب شرا کا تیسری طلاق دے اس کے بعد خاوند کو نہ رجوع کا حق ہو گا اور نہ نکاح کا.جب تک کہ حَتَّی تَنكِحَ زَوْجًا غیرہ کی شرط پوری نہ ہو.حضرت عمر کے فیصلہ کے بارہ میں آپ کا موقف یہ تھا کہ آپ کا یہ حکم صرف تعزیر اور سزا کے طور پر تھا اور صرف اس صورت میں تھا جبکہ خاوند نے رخصتانہ سے پہلے طلاق دی ہو اور تین بار کہا ہو کہ تجھے طلاق ، تجھے طلاق، تجھے طلاق.یہ نکاح جیسے مقدس معاہدہ کے ساتھ کھیل تھا اور حضرت عمر نے اس کھیل سے لوگوں کو با زرکھنے کے لئے یہ سزا تجویز کی تھی کہ ایسے شخص کو دوبارہ اس عورت سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی یہ موقف آپ نے اُس حدیث کی بنا پر اختیار کیا جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے.آپ کا یہ موقف بھی جیلی مذہب بلکہ باقی تینوں مذاہب کے خلاف تھا.طلاق معلق کے بارہ میں بھی آپ کا موقف مذاہب اربعہ کے موقف کے خلاف تھا اور آپ کی رائے تھی کہ ایسی طلاق ++ لغو اور غیر مؤثر ہے.حدیث کی بنا پر آپ کا یہ موقف بھی تھا کہ اگر ایک شخص اقرار کرے کہ اُس نے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے جبکہ وہ عورت انکار کرتی ہو تو اس شخص کو صرف زنا کی سزا دی جائے گی قذف کی سزا نہ ملے گی.اس موقف میں آپ نے حنفیوں کی بھی مخالفت کی ہے کیونکہ ان کے نزدیک ایسے شخص پر زنا کی سزا جاری نہ ہوگی اور اُن فقہاء کی بھی مخالفت کی ہے جو کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو زنا اور قذف دونوں جرموں کی سزا دی جائے گی.آپ کی رائے تھی کہ سوائے تین مساجد یعنی بیت الحرام.مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے کسی اور جگہ محض زیارت اور ثواب کی قیمت سے جانا جائز نہیں.ابن القيم الجوزية صفحه ۵۶ ( بحواله زاد المعاد جلد ۴ صفحه (۶)
تاریخ افکا را سلامی امام ابن قیم کی کتب IAF جیسا کہ ذکر آچکا ہے امام ابن القیم کثیر التصنیف تھے.آپ نے بڑی بڑی تعنیم کتابیں لکھیں جن میں سے زیا دہ مشہور یہ ہیں.اعلام الموقعين عن رب العالمين - التبيان في اقسام القرآن - زاد المعاد في هدى خير العباد (سیرت نبوی کی بہترین کتاب ہے واقعات کے بیان کے ساتھ ساتھ فقہی مسائل اور نتائج کی طرف بھی اشارے کرتے جاتے ہیں اس لحاظ سے آپ کا یہ اندا ز سابقہ لکھی گئی سیرت کی کتابوں سے نرالا ہے ).شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة و التعليل.الطرق الـحـكـميـه في السياسة الشرعيه.بدائع الفوائد.كتاب القواعد المشرق الى علوم القرآن وعلم البيان.الرُّوح.مدارج السالكين.الطب النبوى.هداية الحيارى من اليهود والنصارى مسائل ابن تیمیه علاوہ ازیں اور بھی آپ کی تصنیف کردہ کتابیں ہیں جن میں سے بعض ابھی طبع نہیں ہوئیں.
تاریخ افکا را سلامی ۱۸۳ ظاہری مذہب اور اس کے بانی ظاہری مذ ہب سے مراد فقہ سے متعلق یہ نظریہ ہے کہ شرعی احکام کی بنیا دصرف نصوص ہیں یا اس کے لئے کسی قیاس ، مصالح مرسلہ یا دوسرے ذرائع استنباط کی ضرورت نہیں.سارے مسائل زندگی نصوص سے حل ہو سکتے ہیں اور اگر کسی مسئلہ کے بارہ میں کوئی واضح نص نہ مل سکے تو پھر اس شرعی اصل سے کام لینا چاہیے کہ شرعا ہر چیز مباح اور جائز ہے سوائے اس کے کہ نص نے اس سے منع کر دیا ہو.اس اصل کا شرعی نام استصحاب ہے اور اس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہے.استصحاب کے اصل کی بنیا د قر آن کریم کی جن آیات پر ہے ان میں سے دو یہ ہیں: هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ فَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعا ہے کہ جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے.وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَر وَمَتَاع إلى حين سے کہ تمہارے لئے اُس نے مانڈ رکیا ہے کہ وفات تک تم اس زمین میں رہو گے اور اس سے اپنا سامان زندگی حاصل کرو گے.اس نظریہ کے بانی داؤ دبن علی الاصبہانی تھے.ان کے بعد اس مسلک کے سب سے بڑے حامی اور شارح 1 ابن حزم الاندلسی ہیں جو پانچویں صدی کے فقیہ اور مجتہد تھے.لا علم في الاسلام الا من نص (محاضرات صفحه (٣٧٦ ٢ البقرة: ٣٠ ٣ البقرة : ٣٧
تاریخ افکا را سلامی ۱۸۴ حضرت امام داؤد بن علی النظا ہری الاصبہانی امام داؤ د بن علی ۲۰۲ ھ میں اصبہان میں پیدا ہوئے.اصبہان فارس کا ایک مردم نیز اور مشہور شہر ہے.آپ نے امام شافعی کے شاگردوں سے تعلیم حاصل کی.پہلے شافعی المسلک تھے.پھر مستقل فقہی نظریہ کے بانی بنے جو بعد میں ظاہری مذہب کے نام سے مشہور ہوا اور اسی نسبت سے امام دا و دکو الظاہری کہا جاتا ہے....امام داؤ د الظاہری بہت بڑے محدث تھے.ان کی فقہی کتب بھی احادیث کا مجموعہ لگتی ہیں.امام داؤ د بوجوہ خلق قرآن کے نظریہ کے بھی قائل تھے وہ کہا کرتے تھے إِنَّ القُرآنَ الَّذِي بِأَيْدِينَا مَخْلُوق.اس نظریہ کے اظہار کی وجہ سے ان کی مقبولیت کم ہو گئی.عام علماء اور عوام انہیں نا پسند کرنے لگے اور اُن سے حدیث کا سماع ترک کر دیا.امام داؤ دظاہری نے بڑی کوشش کی کہ وہ امام احمد کے شاگر د بنیں اور اُن سے حدیث پڑھیں لیکن خلق قرآن کے اس عقیدہ کی وجہ سے امام احمد ان کو اپنا شاگرد بنانے پر راضی نہ ہوئے اور انہیں اپنے درس میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی.امام داؤ د بڑے قومی الحافظ فصیح اللسان اور بڑی جمرات والے بزرگ تھے ، دل کی بات کہنے میں کسی سے نہ ڈرتے ، ہر مشکل اور مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتے ، عبادت اور قناعت آپ کا امتیازی وصف تھا.۲۷۰ ھ میں وفات پائی.آپ کی کتب جو احادیث اور آثار سے پر ہیں ایک زمانہ میں بڑی مقبول ہو ئیں.آپ کے بیٹے ابو بکر محمد بن داؤ د خود بڑے محدث تھے اور اپنے والد کے مسلک کے فروغ اور اس کی اشاعت میں دن رات مصروف رہتے تھے.آپ کے دوسرے شاگر د بھی بڑے لائق اور مخلص تھے.وہ بھی ظاہری مسلک کی اشاعت کا باعث بنے اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ مشرق میں داؤد ظاہری کا مسلک حنفی ، مالکی اور شافعی کے ساتھ چوتھا فقہی مذہب شمار ہونے لگا لیکن پانچویں صدی میں وہ فضیلی علماء کے قال الخطيب البغدادى هو اول من نفى القياس في الأحكام قولا واضطر اليه فعلا و سماه الدليل - تاریخ بغداد جلد ۸ صفحه ۳۷۴ کے محاضرات صفحه ۳۳۷۷ الامام الشافعي صفحه ۲۰۱
تاریخ افکار را سلامی ۱۸۵ مقابلہ میں شکست کھا گیا.امام احمد کے پیر و غالب آگئے اور چوتھا فقہی مذہب حنبلی تسلیم کر لیا گیا.اس زمانہ میں جبکہ مشرق میں ظاہری مذہب مٹ رہا تھا اندلس میں اس کے فروغ کے لئے امام ابن حزم انتھک کوشش کر رہے تھے اور اس کی تائید میں زیر دست لٹریچر تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے.ظاہری مذہب کو اگر چہ کہیں بھی عددی اکثریت واہمیت حاصل نہ ہو سکی لیکن اس کی علمی اہمیت اور طاقت کو سب نے تسلیم کیا اور اس کا سہرا امام ابن حزم کے سر ہے جنہوں نے اس مسلک کی تبیین اور توضیح کے لئے زیر دست علمی لٹریچر مہیا کیا اور آپ کی کتابیں آج بھی حق پسند علماء کی طرف سے خراج تحسین حاصل کر رہی ہیں اور جہاں تک فقیہ نصوص کا تعلق ہے امام ابن حزم کی تحریرات کا کوئی جواب نہیں.
تاریخ افکا را سلامی ۱۸۶ حضرت امام ابن حزم الظاہری امام علی بن احمد بن سعید بن قوم ۴۸۳ ھ میں قرطبہ (اندلس) میں پیدا ہوئے.آپ فارسی الاصل تھے.آپ کے والد احمد اندلس کی اُموی حکومت میں وزارت کے عہدہ پر فائز تھے اور خاندان بڑا مال دار اور فارغ البال تھا.لائق بیٹے نے حصول علم کے لئے خوب محنت کی ، ذہن بھی بڑا سا پایا تھا.سب سے پہلے گھر کی خادماؤں سے قرآن کریم حفظ کیا اور اُن سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور انہی کی نگرانی میں پلے بڑھے.اس کے بعد علامہ ابو الحسن بن علی الفاسی سے پڑھنا شروع کیا.ابوالحسن بڑے پر ہیز گار عالم با عمل اور ماہر تعلیم بزرگ تھے.ابن حزم ان کی تعلیم و تربیت سے بہت متاثر ہوئے.پر ہیز گاری اور قناعت کا سبق انہی سے سیکھا اور ان کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے تے.ابو الحسن کے علاوہ اندلس کے دوسرے سر بر آوردہ علماء سے بھی پڑھا اور بہت جلد ماہر علوم اور یگانہ روزگار بن گئے.چونکہ ابن حزم کا خاندان اموی الہوئی اور امویوں کے اقتدار میں حصہ دار تھا اس لئے سیاسی خلفشارا وراقتدار جلد جلد بدلنے کی وجہ سے آپ کے خاندان کو بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا اور اس سے ابن حزم کا متاثر ہونا بھی لازمی تھا.آپ اور آپ کا خاندان امویوں کے عروج و زوال میں برابر کے شریک رہے اور پرانے آبائی تعلقات کو ہمیشہ قائم رکھا.اگر اقتدار میں حصہ دا رر ہے تو زوال اور بد حالی میں بھی ساتھ نہ چھوڑا اور نہ اپنی وفاداری پر کبھی کوئی حرف آنے دیا.دوسری طرف مالکی علماء امام ابن حزم کے سخت خلاف تھے.انہوں نے آپ کو کہیں بھی چین و سے نہ بیٹھنے دیا.اگر چہ امام ابن حزم بڑے جری اور کسی سے دبنے والے نہیں تھے اور برابر کا جواب دیتے تھے لیکن عددی اکثریت کی وجہ سے مالکی علماء ہی کی مانی جاتی تھی اور آپ کے حامی اموی بر سر اقتدار بھی نہیں رہے تھے.اس لئے مالکی علماء کے اُکسانے پر اندلس کے امیر نے آپ کو.ل كان جده الاعلى مولى ليزيد بن ابی سفیان اخى معاوية و على هذا هو قرشى بالولاء فارسى بالعنصر (محاضرات صفحه ۳۸۴) ا كان يقول مارأيت مثله علما و عملا و دينا و ورعًا فَتَفَعَنِي الله به کثیرا (محاضرات صفحه ۳۸۵)
تاریخ افکار را سلامی ۱۸۷ بہت تنگ کیا.آپ کی کتابوں کو جلا دیا اور صرف وہی بچیں جو اُن کے شاگردوں کے پاس ملک کے مختلف حصوں میں محفوظ تھیں لے اس کے ساتھ ہی اُن کو مجبور کیا گیا کہ وہ شہر کی رہائش چھوڑ دیں چنانچہ وہ اپنے پیدائشی گاؤں جہاں ان کی زرعی زمین تھی چلے گئے لیکن علم کے پیاسے نوجوان طلبہ وہاں بھی پہنچے اور آپ کے علمی فیضان کو روکا نہ جا سکا.امام ابن حزم کی آراء، ان کے شاگر داور ان کی کتب امام بن حزم کا مزاج عقلی بھی تھا اور نقلی بھی.اسی وجہ سے آپ نے اس زمانہ کے ہر مروجہ علم کو پڑھا اور ہر موضوع پر لکھا.آپ کا موقف تھا کہ دنیوی علوم میں عقل کا دخل ہے اور اس کو انہیں علوم تک محمد و درکھنا چاہیے.مذہب ودین کا معاملہ وحی و الہام سے ہے اس لئے دین کے بارہ میں و صرف نقل قابل اعتماد ہے.قرآن وحد بیث میں جو کچھ آیا ہے اُسے من وعن بغیر کسی تاویل کے ماننا چاہیے.اس میں عقل کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں گمراہ کر دے گی.پس نقل یعنی وحی والہام کو معقولة المعنى قرار دینا اور احکام کی وجہ اور مصلحت تلاش کرنا بے معنے اور فضول بات ہے کیونکہ دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اُس نے یہ احکام کیوں نازل کئے اور یہ کسی مصلحت پر مبنی ہیں حالانکہ فعال لِمَا يُرِيدُ ہے وہ جیسا چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے حکم دیتا ہے وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں.اسی نظریہ کے تحت امام بن حزم قیاس یا مصالح مرسلہ کو بطور شرعی اصول کے تسلیم نہیں کرتے تھے اور نص کو اُس کے مورد تک ہی محدود رکھتے تھے مثلا: حدیث میں آیا ہے کہ انسان اگر کھڑے پانی میں پیشاب کر دے جبکہ پانی زیادہ نہ ہو تو پانی ناپاک ہو جاتا ہے.یہ بات انسانی پیشاب تک ہی محدود ہوگی کسی اور جانور حتی کہ کتے اور سور کے پیشاب سے بھی پانی ناپاک نہ ہوگا اور اگر کہا جائے کہ پیشاب اور سوریعنی جو ٹھا تو جانور کے گوشت کے تابع ہے جن جانوروں کا گوشت حرام ہے ان کا پیشاب اور سوربھی نجس اور پلید ہوگا تو وہ.قد احرق امير الاندلس كتب ابن حزم.....ويظهران الاحراق لم يكن لكل الكتب لأن تلاميذه يكتبونها و ينسخونها في كل مكان (محاضرات صفحه ۳۹۵)
تاریخ افکا را سلامی IAA جواب میں کہتے یہ ایک رائے ہے اور رائے کا دینیات میں کوئی دخل نہیں.اس قسم کے لھذوذ کے با وجود امام ابن حزم کی کتب بڑی وسیع الادبال ہیں اور ان کے اعلی علمی پایہ کا تمام حق پرست علماء نے اعتراف کیا ہے اور انہیں مصاد را سلام کا بہترین مجموعہ قرار دیا ہے.آپ کی فقہی نظریات پر مشتمل کتب کا ایک نقص نمایاں ہے اور اس کا سب علماء نے نوٹس لیا ہے کہ آپ نے بعض ائمہ کے بارہ میں بڑی سخت زبان استعمال کی ہے جس کا کوئی سنجیدہ مزاج محقق روادار نہیں ہو سکتا اور نہ اس کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے ہے بعض محققین نے اس درشتی کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس سخت کلامی کی ایک وجہ تو خود ابن حزم نے لکھی ہے کہ بچپن میں ان کو طحال (تلی ) کی خرابی کا عارضہ لاحق ہوا جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ اپنے غصہ کو پی نہیں سکتے تھے.بڑے مشتعل المزاج ، قليل الصبر اور ضِيْقُ الْخُلُق بن گئے تھے اور اپنے پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے تھے.دوسرے بڑی سخت سیاسی مشکلات سے ان کو دو چار ہونا پڑا.با ر بارسیاسی انقلابات سے گزرے جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں تیزی آگئی تھی.تیسرے علماء وقت کی حد سے بڑھی ہوئی سراسر ضد پر مشتمل دشمنی تھی.وہ باربار آپ کی علمی مشکلات کا باعث بنتے.انہی کی شورش کی وجہ سے آپ کی علمی کتب جلائی گئیں.یہ تمنی اُن کو اُکساتی تھی کہ ان علماء کے بزرگوں کی ہتک کر کے ان کے دل کو جلائیں اور اپنے دل کو ٹھنڈا کریں.سکے ابن حزم کے مندرجہ ذیل شاگردوں اور عقیدت مندوں نے آپ کے خیالات کو عام کیا اور ان کی کتب کو پھیلایا.علامہ محمد بن ابی نصر الحمیدی: انہوں نے مشرقی علاقوں میں آپ کے خیالات کو پھیلایا يز الجمع بين الصحیحین کے نام سے بخاری اور مسلم کی احادیث کا بہترین مجموعہ تیار کیا الصَّحِيحَین جسے علماء نے بہت پسند کیا.ذالک رأى ولا رأى فى الدِّينِ (محاضرات صفحه ۴۳۲٫۳۷۸) قيل لسان ابن حزم وسيف الحجاج صنوان الامام الشافعی صفحه ۱۸۴) قبل ان ابن حزم عَلِمَ العِلم و لم يعلم سياسة العلم ( محاضرات صفحه ۳۹۸ و ۴۰۰ ).
تاریخ افکار را سلامی ۱۸۹ آپ کے دوسرے مشہور شاگر دمجد الدین بن عمر ہیں جو ابن دحیہ کے نام سے مشہور ہیں اور بڑے پائے کے فقیہ اور محدث شمار ہوتے ہیں.آپ مشہور صوفی محی الدین ابن عربی کے ہم عصر تھے.ابن عربی بھی عبادات میں ظاہری المذہب تھے اور اعتقادات اور الہیات میں باطنی النظر اور صوفی المشرب تھے.ابن دحیہ کے زمانہ میں اندلس کا اقتدار موحدین کے ہاتھ میں تھا جن کے ایک امیر یعقوب بن يوسف بن عبد المؤمن نے ظاہری مذہب قبول کر لیا تھا.اس کے زمانہ میں مالکیوں ومن نے ظاہر پر خاصی سختی ہوئی ہے امام ابن حزم نے دنیوی علوم کے بارہ میں جو کتب لکھیں ان میں منقلی استدلال سے خوب خوب اور بکثرت کا م لیا ہے.ان کتب میں سے مندرجہ ذیل کافی مشہور ہیں.الْفَضْلُ بَيْنَ الآرَاءِ وَالَا هَوَاءِ وَالنَّحل.اس میں مختلف فرقوں کے نظریات اور ان کی آراء کو بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی طرف سے تنقید بھی کی ہے.كتاب الإمامة والسياسة - كتاب اخلاق النفس - طوق الحمامة تحلیل نفسی اور اخلاق سے متعلق بڑی عمدہ بحث پر مشتمل ہے.مداوة النفوس - نفوس کی بیماریوں اور اُن کے علاج کے ذکر پر مشتمل ہے.اخلاق کی فلسفیانہ تو جید پیش کی گئی ہے.بحث کی بنیا داستقراء اور تقع پر رکھی ہے اور ساتھ ساتھ فلاسفہ یونان کے نظریات کو بھی پیش کرتے گئے ہیں.نقليات یعنی فقہی نصوص و مذاہب سے متعلق آپ کی مشہور کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں.الا حكام في أصول الاحکام.اس میں مذاہب فقہیہ کے اُصول کو زیر بحث لایا گیا ہے اور موازنہ پیش کر کے مسلک ظاہری کی تائید کی گئی ہے.الہذا سی کتاب کا خلاصہ ہے.جل الله ذكر صاحب كتاب المعجب امر يعقوب باحراق کتب مذهب مالک مثل مدونه سحنون و واضحه ابن حبيب وغيرهما من كتب المالكية بعد ان جرد ما فيها من احاديث رسول الله والقرآن (محاضرات صفحه ۴۳۷ ملخصا )
تاریخ افکا را سلامی 19+ المحلی.یہ دراصل فقہ اسلامی کا دائرۃ المعارف اور انسائیکلو پیڈیا ہے جسے بجا طور پر دیوان الفقهیه کا نام دیا گیا ہے.اس میں احکام سے متعلق تمام احادیث درج کر کے ساتھ ساتھ جملہ مذاہب فقہیہ کی تفصیلات درج کی گئی ہیں.بڑی عظیم الفائدہ کتاب ہے.امام ابن حزم کی وفات اندلس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جولبلبہ کے قریب تھا ۶ ۴۵ھ میں ہوئی.ایک روایت کے مطابق آپ کی پیدائش ۳۸۳ ھ میں ہوئی اور وفات ۴۵۷ ھ میں.اس لحاظ سے آپ کی عمر چوہتر سال کے قریب بنتی ہے.واللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ - الامام الشافعی صفحه ۱۸۴
تاریخ افکا را سلامی 191 حضرت امام الليث بن سعد مصری لیث بن سعد ۹۳ ھ میں پیدا ہوئے اور وفات ۱۷۵ ھ میں ہوئی.آپ اصفہانی الاصل تھے.آپ کے آباء واجداد حضرت عمرو بن العاص کے اُس لشکر میں شامل تھے جس نے مصر فتح کیا تھا.یہ لوگ فتح کے بعد مصر میں ہی رہ گئے.وہاں کے ایک زرخیز علاقہ کے قصبہ قلعندہ میں ان کی زرعی اراضی تھیں.یہ علاقہ لطیف آب و ہوا اور پھلوں کی کثرت کے لئے مشہور تھا.کیٹ خاصے خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے لے آپ نے اس وقت کے مصر کے سر بر آوردہ علماء سے تعلیم حاصل کی اس کے بعد حجاز آئے.امام مالک سے اور مکہ کے علماء سے بھی استفادہ کیا.امام ابوحنیفہ سے بھی تبادلہ خیال رہا.غرض کہ سارے عالم اسلامی کے علوم سے واقفیت بہم پہنچائی کے بہت بڑے عالم مانے جاتے تھے.امام شافعی ان کے بارہ میں کہا کرتے تھے کہ لَيْتُ أَفَقَهُ مِنْ مَالِكِ إِلَّا أَنَّ أَصْحَابَهُ لَمْ يَقُومُوا یہ کہ لیٹ مالک سے زیادہ فقیہ تھے لیکن ان کے شاگر دا پنا فرض ادانہ به کر سکے اور اُن کے نظریات کو عام کرنے میں ناکام رہے.امام مالک سے ان کی خط و کتابت تاریخ فقہ کا ایک اہم باب ہے انہوں نے امام مالک کے اس نظریہ پر تنقید کی کہ عمل اہل مدینہ عالم اسلام کے لئے حجت ہے.آپ کا کہنا تھا کہ ہزاروں صحابہ مدینہ منورہ سے باہر جا کر رہے.کوئی شام رہائش رکھتا تھا کوئی مصر میں اور کوئی عراق میں اور یہ سب امت مسلمہ کے لئے اُسوہ تھے.مدینہ میں رہ جانے والے صحابہ کو اُن پر کوئی خاص علمی فضیلت نہیں تھی.پھر خود اہل مدینہ ایک دوسرے سے کئی باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں.اگر وہ آپس میں اختلاف کر سکتے ہیں تو دوسرے علاقہ کے علماء اُن سے اختلاف کا اظہار کیوں نہیں كان للليث قرية بتمامها يجيء اليه خراجها فيعطى الناس منها الامام الشافعي صفحه ۱۷۴) الليث بن سعد فقيه مصر صفحه ۶۱ الليث بن سعد صفحه ۷۰ كان ليث بن سعد فى مصر يملأ الأرض علما بالشتن و بالفقه طوال حياة مالک ) مالک بن انس صفحه ۲۸۱) - ويقول الشافعى العلم يدور على ثلاثة مالك والليث و سفیان بن عیینه الامام الشافعي صفحه (۱۷۳)
تاریخ افکار را سلامی ۱۹۲ کر سکتے اس ساری خط و کتابت میں ایک دوسرے کا ادب و احترام ملحوظار ہا اور یہ فقہی مسائل پر تبصرہ کا ایک نادر نمونہ ہے.لے امام مالک کے شاگر دا بن وہب کہا کرتے تھے لَوْلا مَالِكَ وَاللَّيْتُ لَضَلَّ النَّاسُ لَه مالک اور لیٹ نہ ہوتے تو لوگ فقہ کی بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہے امام لیث بڑے سخی اور غنی النفس بھی تھے.ایک بار ہارون الرشید نے آپ کے فتویٰ سے خوش ہو کر ہزاروں درہم بطور نذرانہ پیش کئے.آپ نے یہ کہتے ہوئے قبول نہ کئے کہ یہ کسی غریب مستحق کو عنایت کئے جائیں انہیں اس رقم کی ضرورت نہیں.کے ابو جعفر منصور نے مصر کی قضاء کا عہدہ آپ کو پیش کیا لیکن آپ نے معذرت کر دی.آخر اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ وہ وہاں کے والیوں اور قضاۃ کی نگرانی کریں گے ہے دن بھر میں بالعموم آپ کی تین مصروفیات تھیں.دن کے پہلے حصہ میں والی مصر کے پاس جاتے اور مشاورت کا فریضہ سر انجام دیتے ، دوسرے حصہ میں حدیث پڑھاتے ، تیسرا حصہ لوگوں کی ضرورتوں کے پورا کرنے اور ان کی مدد کرنے میں صرف ہوتا ھے امام لیث حضرت امام مالک کی خدمت میں بکثرت تحائف بھجوایا کرتے تھے جن میں نقد رقم بھی ہوتی تھی.مالک خوشی یہ تجھے قبول کرتے.آپ کے دل میں امام لیث کے خلوص، پیارا اور دوستی کی بدی قدرتھی.آپ کو اہل مصر نے امام مصر کا خطاب دیا تھا جس کے آپ بجا طور پر مستحق تھے.ل الليث بن سعد فقيه مصر صفحه ۷۸ و ۱۳۱ بحواله اعلام الموقعين لابن القيم جلد ۳ صفحه ۹۵ - مالک بن انس صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۱ مع حاشیه الامام الشافعي صفحه ۱۷۳ مع حاشیه و صفحه ۲۴۱ الامام الشافعی صفحه ۱۷۵ الليث بن سعدصفحه ۷۵ ۷۶ بحواله تاريخ بغداد للخطيب جلد۱۳ صفحه ۵۰۴ ه الامام الشافعی صفحه ۱۷۳ - الليث بن سعد صفحه ۸۵ الليث بن سعد صفحه ۸۴۰۸۳
تاریخ افکا را سلامی ١٩٣ حضرت امام ابن جریر طبری امام ابو جعفر محمد بن جریر النظیر می ۲۲۴ ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۱۰ ھ میں وفات پائی.امام شافعی کے فکری شاگر د تھے.حصول علم کے لئے مصر بھی گئے.وہاں امام شافعی کے شاگر د امام مزنی اور وہاں کے دوسرے علماء سے بہت کچھ حاصل کیا.بڑے قومی الحافظہ ماہر علوم، محدث، مفسر اور بڑے پایہ کے مؤرخ تھے.پہلے امام داؤ د ظاہری کی طرح شافعی المذہب تھے.پھر اپنے نئے مسلک کی بنا پر خود صاحب مذہب بنے اور نے فقہی مسلک کے امام کہلائے.آپ نے تفسیر میں بے نظیر کتاب لکھی جو تفسیر ابن جریر " کے نام سے مشہور ہے.اس تفسیر کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ ا سے حاصل کرنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو مہنگا سودا نہیں ہے.اس تفسیر کا پورا نام جامع البیان فی تفسیر القرآن " ہے اور تفسیر بالروایت والخصوص کا بڑا انا در مجموع ہے.بڑانا در امام ابن جریر بڑے لکھنے والے مصنف تھے.ان کی تحریرات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازاً چالیس صفحے روز کے بنتے ہیں تغیر کے علاوہ آپ نے کئی اور کتب بھی لکھیں جن میں سب سے زیادہ مشہور تاریخ کی محیر العقول کتاب " تاریخ الامم والملوک “ ہے جو قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات اور حوادث کا بہترین مجموعہ ہے.اور بعض حلقوں میں تاریخ عالم کی اصدق ترین کتاب مانی جاتی ہے لے امام ابن جرمیہ بڑے غضب کے مناظر بھی تھے.امام شافعی کے شاگر دالر عمرانی کو کئی بار مناظرہ میں ہرایا.امام داؤ د ظاہری پر غلبہ پایا.آپ نے اپنے فقہی مسلک کی وضاحت کے لئے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام "لطيف القول في احكام الشرائع الاسلام “ ہے.دوسرے تمام فقہاء کے برخلاف آپ اس بات کے قائل تھے کہ عورت تمام معاملات میں حج اور قاضی بن سکتی ہے.امام ابن جریر طبری کی یہ رائے بھی تھی کہ امام احمد بن حنبل محدث ہیں فقیہ نہیں.آپ نے ایک ل هو من اصدق كتب التاريخ عن العالم القديم يتفق ما في تواريخ الروما واليونان الامام الشافعي صفحه ۲۰۲) الامام الشافعی صفحه ۲۰۲
تاریخ افکا را سلامی ۱۹۴ کتاب اختلاف الفقهاء “ لکھی اُس میں امام احمد کا بطور فقیہ کے ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے منیلی آپ کے خلاف ہو گئے اور مشتعل ہو کر آپ کے مکان پر پتھراؤ کیا.یہاں تک کہ پولیس کو مداخلت کرنا پڑی اور جب آپ فوت ہوئے تو آپ کا جنازہ نہ اُٹھنے دیا.جو لوگ تعزیت کے لئے آتے ان کو وہ روکتے اور گھر میں داخل نہ ہونے دیتے.آخر آپ کے عقیدت مندوں نے رات کے وقت گھر میں ہی تدفین کا فریضہ سر انجام دیا.لے امام ابن جریر بڑے خوددار، جرات مند حق بات کہنے میں جری ، عابد و زاہد بز رگ تھے.نہ کبھی حکومت کی طرف سے آمدہ نذرانے اور تحائف قبول کئے اور نہ ہی عہدہ قضاء کی پیشکش منظور کی.ساری عمر آزاد رہ کر درس و تدریس اور تالیف و تصنیف میں صرف کر دی اور جب آپ اس دنیا سے رُخصت ہوئے تو علم کی بہت بڑی دولت دنیا والوں کو تحفے میں دے گئے.فكان نعم الامام ابن جریر رحمة الله عليه و على سابقيه و لاحقيه من الائمة رحمة واسعة يبلغ رضاه ويَرْزُقْنَا تَقْوَاهُ - وثبوا عليه ورموه بمحابرهم ثم قذفوا داره بالحجارة الى ان تدخلت الشرطة مات الطبرى منع الاحتفال به و دُفن فى داره لیلا - الامام احمد بن حنبل صفحه ۲۱۲ و عِندَمَا
تاریخ افکا را سلامی ۱۹۵ ایک ضروری وضاحت مختلف فرقوں کے نظریات کا تاریخی جائزہ پیش کرنے سے پہلے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آئندہ صفحات میں جو کچھ کسی فرقہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ حرف بحرف صحیح ہو اور کسی جگہ بھی تعصب یا شنید یا تساہل سے کام نہ لیا جائے.ہر فرقہ کے بارے میں وہی کچھ لکھا جائے جسے وہ فرقہ مانتا ہے لیکن تاریخی حقیقت کے لحاظ سے یہ حتمی دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کوشش پوری طرح کامیاب بھی رہی ہے کیونکہ تاریخ مختلف ادوار میں سے گزرنے اور گر دو پیش سے متاثر ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک حجاب اکبر بھی ثابت ہوتی ہے اس لئے کسی حقیقت کے کئی پہلوؤں کا تشنه وضاحت رو جانا عین ممکن ہے اور کئی واقعات کی اصلیت سیاق و سباق سے کٹ جانے کی وجہ سے مشتبہ ہو سکتی ہے.بہر حال یہ نظریاتی جائزہ اس حسین فلن کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے کہ جن سابقہ بزرگوں نے اس موضوع پر لکھا ہے وہ اپنی جلالت شان اور عظمت علم کے لحاظ سے ہر قسم کے تعصب اور جانبداری سے پاک اور اظہار حقیقت کے لئے بڑے حمدی اور صادق القول مانے جاتے ہیں اور ان کی ثقاہت کا انکار مشکل ہے.تا ہم اگر کسی فرد یا فرقہ کو اس بارہ میں کوئی اختلاف ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ کسی جگہ بیان کردہ حقائق میں جھول یا غلطی ہے تو نشان دہی کرنے پر اصلاح میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں کیا جائے گا.و بالله التوفيق
تاریخ افکارا سلامی 194 اُمت مسلمہ کے دوسرے مختلف فرقے اہل السنت والجماعت کے علاوہ باقی فرقوں کو علی الا جمال دو قسموں میں منقسم کیا جاسکتا ہے.۱.سیاست کی بنیا د پر فرقے جیسے شیعہ اور خوارج وغیرہ.-۲- عقائد اور نظریات کی بنیاد پر فرقے جیسے معتزلہ اور مرحلہ وغیرہ.تاریخی لحاظ سے شیعہ فرقہ سب سے پرانا ہے.اس کے بعد خوارج کا نمبر آتا ہے.اس کے بعد معتزلہ اور مرجئه کا.زنادقہ بحیثیت فرقہ کافی عرصہ بعد نمایاں ہوئے اور مذکورہ بالافرقوں میں گڈمڈ ہوتے رہے.وہ صوفیہ جو حلول اور اباحت کے قائل ہیں ان کا شمار بھی بحیثیت فرقہ اہل السنت سے الگ ہوتا ہے.جیسے حلاجیه جو مشہور صوفی منصور حلاج کے پیرو تھے.اس کے بعد ہر بڑ افرقہ کئی ضمنی فرقوں میں بٹ گیا لیکن ان میں سے اکثر کی حیثیت برائے نام تھی.فرقہ پرستی اور تحزب کا مضحکہ خیز انداز بعض اوقات بڑے مضحکہ خیز طریقے سے فرقہ بندی کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً.دو شخص تھے ایک کا نام شعیب تھا اور دوسرے کا میمون میمون نے شعیب سے کچھ رقم قرض لی.ایک مدت کے بعد شعیب نے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا تو میمون نے کہا اگر اللہ چاہے گا تو ادا کر دوں گا.شعیب نے کہا کہ اللہ تعالی چاہتا ہے اور اُس کا حکم ہے کہ قرض حسب وعدہ ادا کیا جائے.اس پر میمون نے جواب دیا کہ اگر اللہ چاہتا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ میں قرض ادا نہ کر چکا ہوتا.اللہ کی مشیت تو پوری ہو کر رہتی ہے.آخر یہ بحث اتنی بڑھی کہ دو فرقے پیدا ہو گئے جو شعیب کی حمایت کر رہے تھے وہ شعیبیہ کہلائے اور جو میمون کے عيبيك طرف دار تھے وہ میمونیہ کے نام سے مشہور ہوئے.یہ دونوں خوارج سے تعلق رکھنے والے فرقے ہیں.اس طرح ایک فرقہ سے کئی نئے فرقے بنتے چلے گئے.شیعہ خوارج اور معتزلہ کے کئی فرقے صرف ن
تاریخ افکارا سلامی 192 کتابوں میں رہ گئے ہیں اور اب بحیثیت فرقہ ان کا نام ونشان تک نہیں ملتا.البتہ ان کے کئی نظریات و خیالات کم و بیش کسی نہ کسی موجودہ فرقہ میں دیکھے اور سونگھے جاسکتے ہیں لے اعتذر الشيعة الامامية ان المنقب في التاريخ عليم بأنها تتراوح بين شکوک و اوهام عرت بعض البسطاء والفرضت بموتهم......و لم يبق فى القوم مطمع فَاخِذُوا وقتلوا تقتيلا.....و لم يقم المجتمع الديني والبشرى لهم و زنا و عم الجميع ان طُوتَهُم مَعَ عَيْهِمُ الايام وطَحَتْهُم بِكلكله الجديدان فَعَادُوا كحديث امس الدهر، تنبيه بقلم محمد صادق آل بحر العلوم صفحه الف) في ابتداء فرق الشيعة ( الشيخ الحسن بن موسى النوبختى من اعلام القرن الثالث منشورات دار الاضواء بيروت لبنان طبع ثانی (۱۹۸۴ء)
تاریخ افکار را سلامی ۱۹۸ مختلف فرقوں کا تفصیلی جائزہ اهل تشيع سب سے پہلے ہم شیعہ اور اُس کے مختلف ضمنی فرقوں کا جائزہ پیش کرتے ہیں.شیعہ کے معنے: شیعہ کے معنے ساتھ دینے والے.مدد کرنے والے پیرو کے ہیں چنانچہ شِيعَة الرَّجُلِ کے معنے ہوں گے اتباعُ الرَّجُلِ وَ انْصَارُہ یعنی کسی شخص کے پیرو اور پیچھے چلنے والے مددگار.یہ لفظ مفرد، تثنیه، جمع مذکر مؤنٹ سب کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ دو جگہ مددگار اور ساتھی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.سورۃ القصص میں ہے.وَدَخَلَ المَدِينَةُ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلُنِ هَذَا مِنْ شِيعَتِهِ وَهُذَا مِنْ عَدُوه فَاسْتَغَاثَهُ الذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدْوم سے یعنی ایک دن موسیٰ شہر میں ایسے وقت آیا جبکہ شہر والے بے خبر پڑے آرام کر رہے تھے تو اُس نے وہاں دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں.ایک اُس کے حامیوں کے گروہ میں سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے.جو اس کے حامیوں کے گروہ میں سے تھا اُس نے زیادتی کرنے والے دشمن کے خلاف موسی سے مدد چاہی.دوسری جگہ سورۃ الصافات کی آیت ۸۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ان مِنْ شِيعَتِهِ لابر هم نے کہ نوح کی پیروی کرنے والی جماعت میں ابراہیم بھی شامل تھے.اصطلاح میں شیعہ مسلمانوں کے اُس گروہ کو کہتے ہیں جس کی تعریف یہ ہے.کُلُّ مَنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَى الصَّحَابَةِ كُلِّهِمْ القصص : ١٦ 1 الصفت : ۸۴
تاریخ افکا را سلامی 199 وَاعْتَقَدَ أَنَّهُ أَحَقُّ بِامَامَةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَ خِلَافَتِهِم شیعہ وہ ہے جو حضرت علی کو تمام صحابہ سے افضل مانتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ امام المؤمنین اور خلیفہ المسلمین بنے کے سب سے اول اور سب سے زیادہ حقدار علی ہیں تمام شیعہ بلحاظ مفہوم اس تعریف پر متفق ہیں.شیعہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا اور اہم فرقہ ہے اگر غلو پسند شیعہ فرقوں کو الگ رکھا جائے تو اعتدال پسند شیعوں کے اختلاف کی حیثیت قریباً قریباً وہی ہے جو اہل السنت و الجماعت کے آپس کے باہمی اختلاف کی ہے.حنفیہ اور مالکیہ ، شافعیہ اور حنبلیہ ، قادریہ اور سہروردیہ، چشتیہ اور نقشبندیہ کا آپس میں جس طرح کا اختلاف ہے اسی طرح کا اختلاف اعتدال پسند شیعوں کا مذکورہ بالا فرقوں سے ہے.عقائد کے لحاظ سے بھی اور رفتہی احکام کے اعتبار سے بھی کیونکہ ان سب فرقوں کی بنیا دایک ہی ہے.یہ سب فرقے قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کو اپنے اپنے مسلک کی بنیاد اور ماخذ تسلیم کرتے ہیں اور سب کا دعویٰ یہی ہے کہ جو کچھ وہ مانتے ہیں وہ قرآن وسنت سے ماخوذ اور مستنبط ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کا مقام حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا ۶۰ پیسوی میں پیدا ہوئے.آپ آنحضرت ﷺ سے تہیں ۳۰ سال چھوٹے تھے.جب حضور مبعوث ہوئے اور آپ نے ماموریت کا دعویٰ کیا اُس وقت حضرت علی کی عمر دیں سال تھی.چونکہ حضرت ابو طالب کے مالی حالات اچھے نہ تھے عیالداری زیادہ تھی نیز حضرت ابو طالب فرق الشيعة صفحه ۲۰ مؤلفه الشيخ الحسن بن موسى النوبختى من اعلام القرن الثالث الهجرى مطبع دار الاضواء بيروت لبنان دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۴ء الف قال ابن حزم من قال أن عليا رضى الله عنه افضل الناس بعد رسول الله فهو شيعي الفصل في الملل والاهواء والنحل امام ابو محمد علی بن احمد بن حزم الظاهري المتوفی ۴۵۶ هجری مطبع الادبية مصر طبع ١٣١٧هـ ب من تولى عليا وبنيه عليهم السلام و اقر با مامتهم تاريخ الشيعة الشيخ محمد حسين المظفر.دار الزهراء بيروت لبنان ۱۹۸۵ء ج...الفرق الشيعة كلهم تؤمن بحق على فى الامامة وافضليته على زملائه من الصحابة (الصلة بين التصوف و التشيع صفحه ۱۷ مصنفه ڈاکٹر کامل مصطفى الشيبي مطبوعه مطبع دارالمعارف مصر دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۹ء
تاریخ افکارا سلامی نے بچپن میں آنحضرت ﷺ کی پرورش بڑے پیا را در عمدہ طریق سے کی تھی اس لئے حضور ﷺ نے علی کو اپنی تربیت میں لے لیا تا کہ اگر ایک طرف ابو طالب کا کچھ بوجھ ہلکا ہو تو دوسری طرف اُن کے احسان کابدلہ بھی چکا یا جا سکے.بہر حال علی آنحضرت ﷺ کی زیر نگرانی اور آپ کی شفقت اور محبت کے سایہ میں پھلے پھولے.حضور علی و مثل بیٹوں کے آپ سے پیار اور ہر طرح کی دلداری کرتے تھے.حضرت علی بجائے خود بڑے بہادر ، حوصلہ مند، ایثار جسم، عابد و زاہد ، قناعت پسند اور مسلمہ روحانی بز رگ تھے.کوئی حرص ، کوئی لالچ آپ کے دل میں نہ تھا.دینی علوم میں آپ کا مقام بہت بلند تھا.تمام صحابہ آپ کی دینی وجاہت اور علمی قابلیت کے معترف تھے اور سب دل سے آپ کا احترام کرتے اور آپ کی اس عظمت کے قائل تھے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یہ وہ خوبیاں ہیں جن کو تمام مسلمان کیائی اور کیا شیعہ سب تسلیم کرتے ہیں.تا ہم شیعہ حضرات کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کا مقام اس سے کہیں زیادہ بلند تھا اور اسی وجہ سے شیعہ آپ کو آنحضرت اللہ کا خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں.حضرت علی کی ان فضیلتوں کی تفصیل جو شیعہ حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہے یہ ہے:.استحقاق خلافت و امامت بلا فصل اہل تشیع کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہ اور اُن کے بعد ان کی اولا دخلافت بلا فصل اور دینی قیادت کی زیادہ حقدار ہے اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہات شیعہ حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں.ا كَانَ عَلِيٌّ أَوَّلَ الإسلام حضرت علی اس لحاظ سے پہلے مسلمان ہیں کہ مردوں میں سے سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا جبکہ آپ کی عمر اس وقت دس سال تھی.عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون حضرت خدیجہ تھیں نیز علی نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی اور یہ امتیاز کسی اور صحابی کو حاصل نہیں.-۲- ٢ كَانَ عَلى أَقْرَبَ النَّاسِ إِلى رَسُولِ اللهِ ﷺ حضرت علی انحضرت ﷺ سے علی رشتہ میں قریب تر اور آپ کے وارث تھے کیونکہ حضرت علی آپ کے چچا زاد بھائی تھے.حضور نے بچپن سے ہی انہیں اپنی نگرانی میں لے لیا تھا.بڑے پیار اور محبت سے ان کی تربیت کی.انہیں اپنار ہیب بنایا.
تاریخ افکا را سلامی +1 اپنی پیاری بیٹی فاطمہ ان کو بیاہ دی اور اسی ذریعہ سے آپ کی نسل آگے چلی.کو یا مسلمانوں میں حضور میلے کے سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار حضرت علی تھے اس لئے وہ آپ ﷺ کی نیابت کے زیادہ حقدار ہیں.كَانَ عَلِيٌّ أَخَا النَّبِي الا بالله بِالْمُؤاخَاةِ الدِّينِيَّةِة - جب حضور ﷺ نے مدینہ منورہ میں ٣- مسلمانوں میں مواخات کی تحریک جاری کی تو حضور نے حضرت علی کو اپنا دینی بھائی بنایا یے كَانَ عَلِيٌّ خَلِيْفَتَهُ عَلَى وَدَائِعِه - ہجرت کے وقت آپ نے حضرت علی کو اپنے پیچھے اپنے نائب کے طور پر چھوڑا تا کہ علی و دامانتیں اُن کے مالکوں تک پہنچائیں جو انہوں نے حضور کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں.۵- كَانَ عَلِيٌّ خَلِيفَتَهُ فِي أَهْلِهِ - حضرت علیؓ حضور کے گھریلو معاملات کے نگران اور ذمہ دار تھے اور اس لحاظ سے ایک گونہ آپ کے نائب تھے.- كَانَ عَلِيٌّ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى" - یعنی جو مقام حضرت موسی کی نسبت سے ہارون کا تھا وہ مقام حضور کی نسبت سے حضرت علی کا تھا.كَانَ عَلى بَاب مَدِينَةِ العِلم یعنی آنحضرت ﷺ نے آپ کے حق میں فرمایا آنا مَدِينَةُ العلم وعلى بابها كو يا حضور نے حضرت علی کو اپنے روحانی علوم کا حامل قرار دیا جس میں یا شارہ تھا کہ آئندہ علوم نبوت حضرت علی کے واسطہ سے لوگوں تک پہنچیں گے اور یہ فیضان الہی اُن کے ذریعہ جاری ہوگا.کے كَانَ عَلِيٌّ اَزْهَدَ الصَّحَابَةِ یعنی حضرت علی بڑے عابد ، زاہد ، قناعت پسند اور عدل و انصاف کے دلدادہ تھے.- كَانَ عَلِيٌّ أَعْلَمَ الصَّحَابَةِ یعنی حضرت علی روحانی علوم میں سب صحابہ سے آگے تھے اور قیادت دینی اور امامت کے لئے علمی فوقیت اصل معیار ہے.(تاريخ الشيعة صفحه ۱۸، تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۳۳ - جبکہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ آپ نے علی اور سہیل بن حنیف کے مابین مواخات کرائی تھی.طبقات جلد ۳ صفحه ۲۳) (حضرت ہارون حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے.ففكّر ) ) کیا شہر کا ایک ہی دروازہ ہوا کرتا ہے؟ نیز حدیث أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُم بھی قابل غور ہے.(مشکوۃ کتاب المناقب باب مناقب صحابة)
تاریخ افکا را سلامی ١٠ كَان عَلى صَاحِبَ لِوَاءِ النَّبي لالا لالا لاله یعنی خیبر کی جنگ میں آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اپنا جھنڈا دیا اور کہا علی وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پیارا ہے.چنانچہ آپ کی قیادت میں خیبر کا ایک بڑا مضبوط قلعہ سر ہوا.- النَّبِيِّ ا كَانَ عَلِيٌّ مِنْ آل النبي الا الله - یعنی حضور نے آیت تطہیر کے نزول کے وقت حضرت علی کو اپنی آل میں شامل فرمایا تھا اور آپ کی آل میں سے ہونا ایک ایسا اعزاز ہے جو کسی اور صحابی کو نصیب نہیں ہوا ہے -١٢- كَانَ عَلى وصى النبي الله لعن النحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے یہ وصیت وَصِيَّ النَّبِيِّ یعنی فرمائی تھی کہ میرے بعد علی خلیفہ اور نا ئب ہوں گے.نیز خم غدیر کے موقع پر حضرت علی کے بارہ میں فرمایا مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاة کہ جس کا میں مولا اور دوست ہوں علیؓ بھی اُس کے مولا اور دوست ہیں.اے اللہ جو علی سے محبت رکھے اور اُس کا بھلا چاہے تو بھی اُس سے محبت رکھا اور اُسے یہ کات عطا کر اور جو علی سے دشمنی رکھے اور اُس کا بُرا چاہے تو بھی اس سے دشمنی رکھا اور اُسے ہر قسم کی برکات سے محروم کر دے ہے كان على وصى الله تعالى شانه - یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کردیں کہ ان کے بعد علی خلیفة المسلمین اورامیر المومنین ہوں گے.کے یہ وصیت قرآن کریم کے ساتھ ایک صحیفہ کی شکل میں نازل ہوئی تھی اور آنحضرت علی لے تو اللہ کے اس حکم کو لوگوں تک پہنچانے کے پابند تھے.چنانچہ آیت کریمہ نايُّهَا الرَّسُولُ بَلغَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ لے آیت تطہیر کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ اس میں ازواج مطہرات بدرجہ اول شامل ہیں اور اگر مذکور بالا روایت انہی الفاظ میں مستند اور صحیح ہے تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ حضور نے اس طرح خواہش کا اظہار کیا تھا اور دعا کی تھی کہ یہ لوگ بھی ان برکات کے حامل ہوں جو آیت تطہیر میں گنوائی گئی ہیں.نیز حدیث گل تَقِيُّ فَهُوَ آلِی بھی قابل غور ہے.(اخرجه الطبراني - نيل الأوطار جلد ۲ صفحه (۲۸۵ تاريخ الشيعة صفحه ۲۱ اثبات الوصية للمسعودی صفحه ۱۲۱ اصول الکافی جلد اول صفحه -۲۸۹.جلد اوّل صفحه ۲۸۵
تاریخ افکارا سلامی من ربك وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلغَتَ رِسالت میں اسی آسمانی وصیت کی تبلیغ کی طرف اشارہ ہے.ہے حضرت علیؓ کے حق میں وصیت والی روایتوں پر اہلسنت والجماعت کا نتبصرہ مذکورہ بالا وجو ہات میں سے کوئی وجہ بھی حضرت علی کے استحقاق خلافت بلا فصل کو بالصراحت ثابت نہیں کرتی.کے سوائے آخری دو وجوہات کے کہ اگر یہ دونوں وجوہات ثابت ہوں تو یہ حضرت علی کی خلافت بلافصل کی زیر دست دلیل ہیں لیکن ان دو وجوہات کا اور اس قسم کی کسی وصیت کا نہ کوئی قطعی اور مستند تاریخی ثبوت ہے اور نہ کوئی دینیاتی بلکہ وصیت کا نظریہ بہت بعد کی پیداوار ہے اور اس کا موجد جیسا کہ تو اریخ سے ثابت ہے عبد اللہ بن السوداء یہودی الاصل ہے جس نے حضرت علی کی خلافت کے آخری دور میں یہ چہ چا کیا کہ اُس نے تو رات میں یہ پڑھا ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اس لئے آنحضرت کے وصی علی ہیں اور جس طرح آنحضرت خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح علی بھی خاتم الاوصیاء ہیں.ہے بہر حال نظر یہ وصیت کے غلط ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اگر انحضرت ﷺ کی حضرت علی اور ان کی فاطمی اولاد کے حق میں وصیت ہوتی اور اُمت کو اپنا امام بذریعہ شوری منتخب کرنے کا حق نہ المائدة : ۶۸ تفصیل کے لئے دیکھیں تا ریخ الفرق الاسلامیه صفحه ۳۳ و صفحه ۱۰۹ مؤلفه العلامه الشيخ محمد خليل الزين تشيع المسلك مطبوعه مطبع مؤسسة الأعلمى للمطبوعات بيروت لبنان طبع ثاني ۱۹۸۵ء تاريخ الشيعة صفحه ۲۰۱۹ مؤلفه الشيخ محمد حسين المظفر تشیع المسلک مطبوعه مطبع دارالزهرا بیروت - لبنان ۱۹۸۵ء - علی و بنوه صفحه ۱۵ و ۶۹۰۶۸ مؤلفه طه حسین مطبوعه مطبع دار المعارف قاهره مصر ایڈیشن ،روم ۱۹۸۲ء الكامل جلد ۲ صفحه ۶۳ علامه عزالدین علی بن ابی الكرم محمد المعروف بابن الاثير مطبوعه اداره الطباعة الميسريه مصر ١٣٣٩هـ سے زیادہ سے زیادہ ان مبینہ فضائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض دوسرے صحابہ کی طرح حضرت علی کرم اللہ وجھہ میں بھی خلیفہ راشد بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن خلیفہ تو کسی ایک نے منتخب ہونا تھا.صحابہ نے بعض مصالح کی بناء پر حضرت علی کی بجائے حضرت ابو بکر کو ترجیح دی.ولنعم ما قيل ان الصحابة عرفو الاهل البيت مكاناتهم من النبي واستحقاقهم لكل كرامة و لكنهم مع ذلك صرفوا الخلافة الى من هو اقدر على النهوض بامر الخلافة واعباء السلطان كما شهد التاريخ بصدق ما قيل ( علی و بنوه صفحه ۱۸۱) الفرق بين الفرق ۱۷۸
تاریخ افکارا سلامی ۲۰۴ ہوتا تو صحابہ کبھی بھی آنحضرت ﷺ کے اس صریح حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے کیونکہ صحابہ کی اطاعت ، ان کی آنحضرت ﷺ سے وفا اور محبت تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جس کی تائید خود قرآن کریم کرتا ہے اور تاریخ کا کوئی منصف مزاج مورخ اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا.قرآن کریم نے صحابہ کو اس فرمانبرداری اور فدائیت کا سر ٹیفکیٹ کئی جگہ دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو بنظر احسان دیکھا ، ان کو قبول کیا اور اُن سے راضی ہو گیا.چنانچہ حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کی بیعت رضوان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے.اللہ اس وقت مومنوں سے بالکل خوش ہو گیا اور راضی ہو گیا جبکہ وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے اور اُس نے ان کے دلوں کے ایمان کو خوب جان لیا ہے.اس کے نتیجے میں اس نے ان پر سکیعیت او را طمینان نازل کیا اور قریب آنے والی انہیں فتح بخشی، لے پھر فرمایا.اور مہاجرین اور انصار میں سے جو سبقت لے جانے والے ہیں اور جو کامل اطاعت اور پورے خلوص سے ان کے پیچھے چلے (جن کو تا بعین کہا جاتا ہے اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے.اُس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے اندر نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ہے ،، پھر فرمایا.محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو اُن کے ساتھ ہیں ( یعنی صحابہ و ہ معاند منکروں کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں، لیکن آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت اور محبت کا سلوک کرتے ہیں.جب تو انہیں دیکھے گا تو رکوع کرنے والا اور سجدہ کرنے والا پائے گا (یعنی ہر قسم کے شرک سے پاک، صرف اللہ کی فرمانبرداری کرنے والا اور اسی کی عبادت کرنے والا پائے گا ) و واللہ کے فضل اور اُس کی رضا کی جستجو میں رہتے ہیں.اُن کی شناخت اُن کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے.اُن کی یہ حالت تو رات اور انجیل میں بھی بیان ہوئی ہے.اللہ نے مومنوں اور ایمان کے مطابق عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ و دان کو مغفرت اور احمہ سے نوازے گا.گے،، الفتح : ١٩.التوبة : ١٩ الفتح : ٣٠
تاریخ افکا را سلامی ۲۰۵ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کا یہ وصف بیان کرتا ہے اور اُن سے راضی اور خوش ہونے کا بتاتا ہے کیا اُن سے یہ توقع ممکن ہے کہ وہ سب کے سب آنحضرت میں اللہ کی وفات کے معابعد آپ کے نا فرمان بن جائیں گے یا آپ کے اس حکم کو بھول جائیں گے جو اللہ کے ارشاد کے مطابق صحابہ کو دیا تھا اور حضرت علی کے حق میں آپ نے جود اضح وصیت فرمائی تھی اُسے نظر انداز کر دیں گے.جب آنحضرت ﷺ کے جانشین اور خلیفہ کے بارہ میں مشورہ ہورہا تھا اُس وقت کسی صحابی کو یہ توفیق نہ ملی کہ وہ حضور کی اس وصیت کا حوالہ دیتا کہ حضور تو حضرت علی کے حق میں وصیت کر گئے ہیں.دوسرے دلائل تو بعض صحابہ نے دیئے مثلاً حضرت علی یا عباس آنحضرت ﷺ کے قریبی رشتہ دار ہیں اس لئے انہیں جانشین ہونا چاہیے لیکن کوئی بھی معتبر روایت نہیں کہ کسی نے اس موقع پر آپ کی وصیت کو بطور دلیل پیش کیا ہو یہاں تک کہ حضرت علی بھی اپنا حق جتانے کے لئے اُس وقت یہ دلیل پیش نہیں کرتے.پھر حضرت علیؓ نے بعض روایتوں کے مطابق دوسرے یا تیسرے روز حضرت ابو بکر کی بیعت کی.اس موقع پر آپ نے یہ شکایت تو کی کہ اتنے اہم معاملہ میں مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا ( كَمَا رُوِی ) لیکن یہ اظہار نہ کیا کہ میرے حق میں تو آنحضرت ﷺ کی وصیت تھی.آپ کا بیعت کر لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کے حق میں کوئی وصیت نہ تھی ورنہ آپ آنحضرت کی صریح نا فرمانی کرنے والے کی بیعت ہرگز نہ کرتے کیونکہ یہ جرم اُس جرم سے بڑا تھا جس کا یزید نے ارتکاب کیا تھا جس کی وجہ سے حضرت امام حسین نے میز بیلہ کی بیعت نہ کی تھی بلکہ اس کے خلاف تلوار اُٹھائی.پھر اگر ہم اس واقعہ کو درست مان لیں کہ حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کے حق میں وصیت کی تھی جسے نعوذ باللہ صحابہ نے تسلیم نہیں کیا تو قرآن شریف کا اعتبار اٹھ جاتا ہے اور اُس کی اُن متعد د تصریحات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا جو صحابہ کی قربانیوں کی قبولیت کے بارہ میں وہ دہرا دہرا کر اور تکرار کے ساتھ بیان کرتا ہے.لہذا کوئی روایت خواہ کوئی اس کا نام حدیث رکھ لے درست نہیں ہو سکتی جو قرآن کریم کے خلاف ہو او راس کی تصریحات کی تردید کرتی ہو اور اس کے بیان کردہ واقعات کو جھٹلاتی ہو.لے حضرت ابو بکر آنحضرت ﷺ کے کتنے فرمانبردار اور آپ پر کتنے فدا تھے اس کا ثبوت جیش اسامہ کے واقعہ سے پتا چلتا ہے.بڑے صحابہ مشورہ دے رہے ہیں کہ شکر کی روانگی ملتوی کر دی جائے لیکن آپ نے کہا کہ خلیفتہ الرسول بننے کے بعد پہلا کام میں یہ کروں کہ حضور کے فیصلہ کو بدل دوں.الکامل لابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۱۷
تاریخ افکا را سلامی پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ طرز عمل بھی کسی وقیمت کے واقعہ کی تردید کرتا ہے جو آپ نے اپنے سے پہلے تینوں خلفاء کے بارہ میں اختیار کئے رکھا.کیونکہ شیعہ حضرات بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علی تینوں خلفاء کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے رہے.ہر اہم مشورہ میں آپ شریک ہوتے جو وظائف حضرت عمر کی طرف سے صحابہ کے مقرر ہوتے رہے وہ بڑی خوشدلی کے ساتھ حضرت علی بھی قبول کرتے.اگر نعوذ باللہ یہ خلفاء اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے نا فرمان ہوتے اور حق خلافت انہوں نے غصب کیا ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ علی اُن سے کسی قسم کا تعاون کرتے.علاوہ ازیں حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کا جب باہمی اختلاف ہوا اور اس سلسلہ میں دونوں کی خط و کتابت ہوئی تو اس میں بھی حضرت علی کی طرف سے یہ دلیل پیش نہیں کی گئی کہ میرے حق میں تو آنحضرت ﷺ کی وصیت موجود ہے.تاریخ میں یہ خط و کتابت محفوظ ہے.اپنے خطوط میں حضرت علی نے حق پر ہونے کے متعد د ولائل تحریر کئے ہیں لیکن کسی ایک خط میں بھی اپنے وصی ہونے کی دلیل پیش نہیں کی ، بلکہ ایک خط میں حضرت علی نے لکھا ہے کہ ان کے چچا عباس اور امیر معاویہ کے والد ابوسفیان نے آپ کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ آپ کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ خلافت اور امارت بوجہ قرابت آپ کا حق ہے لیکن آپ نے فرمایا خلافت قائم ہو چکی ہے.لوگوں نے بیعت کرلی ہے.اب میں تفریق بین المسلمین کا باعث نہیں بنا چاہتا اس طرح آپ نے ان دونوں بزرگوں کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے اگر کوئی وصیت آپ کے حق میں ہوتی تو آپ کو استرداد کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا.پھر جب آپ کی شہادت کا وقت قریب آیا اور لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اپنے جانشین کے بارہ میں وصیت کر جائیں تو آپ نے ایک روایت کے مطابق فرمایا.آثرُ كُكُمْ كَمَا تَرَكَكُمُ رَسُولُ الله - زید یہ شیعہ جو حضرت امام زین العابدین کے صاحبزادہ امام زید کے پیرو ہیں وہ یہ لے چنانچہ مورخین نے لکھا ہے.كَانَ عَلِيٌّ مُوَفَّنَا إِذَا كُلَّ التَّوْفِيقِ نَاصِحًا لِلَّهِ وَلَلِاسلام كُلَّ النَّصحِ حِيْنَ امْتَنَعَ عَلى هَلَيْنِ الشَّيْخَيْنِ فَلَمْ يَنصَبَ نَفْسَهُ لِلخلافة ولم يُنَازِعَهَا أَبَا بَكْرٍ وَإِنَّمَا بَايَعَهُ كَمَا بَايَعَهُ النَّاسِ.(على و بنوه صفح۱۸)- فَقَدْ كَانَ عَلِيٌّ مُؤْمِنَا بِالْخِلافَةِ كَمَا تَصَوَّرَهَا الْمُسْلِمُونَ أَيَّامَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَر.(علی و بنوه صفحه ۵۹ - وقال على فى مكتوبه لمعاوية و لَعَمْرِى إِنَّ مَكَانَهُمَا اى مكان ابي بكر و ع من الاسلام لعظيم وان المصاب بهما لرزء جليل - (علی و بنوه صفحه ۶۷) على وبنوه صفحه ۶۹۲۶۷ ے طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحه ۳۴
تاریخ افکا را سلامی ۲۰۷ مانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کا نام لے کر کوئی وصیت نہیں کی تھی بلکہ اپنے بعد بننے والے خلیفہ کے اوصاف بیان کئے تھے جو حضرت علی پر منطبق ہوتے تھے.حضرت امام حسن نے اپنی خلافت کے بارہ میں جو خط و کتابت امیر معاویہ سے کی اس میں بھی وصیت کی دلیل کا کوئی ذکر نہیں بلکہ امیر معاویہ نے جب آپ کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ میرے حق میں دست بردار ہو جائیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دوں گا اس پر آپ نے فرمایا :.إِنَّهُ لَيْسَ لِمَعَاوِيَةَ أَنْ يُعَهْدَ لَاحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْ يَكُونَ الْأمْرُ شُورَى وَ فِي رَوَايَةٍ كتب أَن يَكُونَ الْأَمْرُ شُوْرَى بَعْدَ مَوْتِ مَعَاوِيَةَ تحکیم کی تجویز کو قبول کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی بطور وصی حق خلافت کے دعویدار نہ تھے ورنہ تحکیم کی تجویز بے معنی ہوتی.کم از کم تحکیم کے سلسلہ میں جو حکم نامہ لکھا گیا تھا اُس میں وصیت کی دلیل کا ذکر ہونا چاہیے تھا.وصیت کے نظریہ کے متعلق یہی رویہ حضرت امام حسین، حضرت امام زیڈ اور حضرت امام محمد بن الحنفیہ کا بھی تھا.ان میں سے ہر ایک نے (حسب بیان تاریخ) خلافت کے حقدار ہونے کا دعوی کیا اور قرابت داری کی دلیل پیش کی لیکن کسی نے بھی وصیت کی دلیل کو پیش نہیں کیا حالانکہ اگر حضرت علی اور آپ کی اولاد کے بارہ میں وصیت ہوتی تو دعوی خلافت کے لئے وصیت کا واقعہ سب سے بڑی دلیل کی حیثیت رکھتا تھا.پھر وصیت کے معین الفاظ بھی کسی معتبر تاریخ یا کسی مستند متفق علیہ حدیث میں محفو نا نہیں ہیں جن سے قطعی طور پر یہ ثا بت ہو کہ آنحضرت ما نے حضرت علی کو اپنا جانشین اور خلیفہ نامز دفرمایا تھا.غدیر خم والا واقعہ اگر غور کیا جائے اور دوسرے H واقعات کو مد نظر رکھا جائے تو اس سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ چند ایک منافقوں نے حضرت علی کے بارہ نازیبا رویہ اختیار کیا تھا جیسا کہ خاندان نبوت یا جس کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کا شرف بخشا ہو اس کے بارہ میں منافقین کا بالعموم طرزعمل ہوا کرتا ہے جس سے اکثریت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.آنحضرت ﷺ نے اس نا واجب نکتہ چینی کا ازالہ فرمایا ، باقی سارا افسانہ ہے.زوائد حاشیے ہیں جو بہت بعد کی پیداوار ہیں اور وضع حدیث کے دور سے تعلق رکھتے ہیں.على وبنوه لطه حسین مصری صفحه ۱۴۲۰۸۳۰۷۶۰۶۸۰۶۵، ۱۷۷ ۱۸۵،۱۸۳،۱۷۸ بحواله بلاذری، طبری ، مقاتل الطالبين
تاریخ افکا را سلامی PA حضرت علی کے بارہ میں وصیت کی جو روایات ہیں ان میں سے ایک روایت یوں ہے کہ جب آیت کریمہ وَ انْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ اتری تو آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو ( جن کی - عمر اس وقت دس سال کے قریب تھی ) بلا کر کہا کہ میں اپنے رشتہ داروں کی دعوت کرنا چاہتا ہوں اس کا انتظام کرو اور اس کے لئے بنو عبد المطلب کو بلاؤ.چنانچہ جب وہ سب آگئے تو کھانا پیش کیا گیا جب سب کھا چکے تو آپ نے تبلیغ شروع کی اور فرمایا کہ میں ایک بہترین پیغام لایا ہوں اسے قبول کرو اور میری مدد کرو.جو سبقت کرے گاوہ میرا بھائی میرا وصی اور خلیفہ ہوگا.سب نے انکار کیا صرف علی نے کہا کہ میں قبول کرتا ہوں.اس پر آپ نے علی کو گردن سے پکڑا اور کہا یہ میرا بھائی میرا وصی اور خلیفہ ہوگا.، اس پر لوگ ہنستے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے.یہ روایت متعد والفاظ میں مختصر اور تفصیلاً مختلف کتب میں آئی ہے.اس وقت میرے سامنے تاریخ طبری ہے جس کے صفحہ ۲۱۶ جلد ۲ پر یہ حدیث مفصل درج ہے لیکن اس کے راویوں میں کوئی ضعیف ہے تو کوئی کذاب مثلاً اس روایت کا پانچواں راوی المنهال بن عمرو ہے جس کو اسماء الرجال کے بعض ماہرین نے ضعیف قرار دیا ہے.اسے مبیء المذهب کہا ہے.ابن حزم نے بھی اس پر اعتراض کئے ہیں.کہا گیا ہے کہ یہ دو درہموں کے لئے بھی گواہی دے تو قبول نہ کرو.پھر یہ عبداللہ بن الحارث سے یہ حدیث روایات کرتا ہے حالانکہ براہ راست اس نے یہ حدیث عبد اللہ سے نہیں سنی اور درمیان میں رادی رہ گیا ہے.بعض روایات میں سعید بن بخجیر کا ذکر آتا ہے.بہر حال یہ روایت منقطع ہے.اس کا چوتھا رادی عبد الغفار بن القاسم ہے.علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ غیر ثقہ اور رافضی ہے.علی مدینی کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا.یحیی بن معین کہتے ہیں کیس بِشَيْءٍ یہ بے حیثیت انسان ہے.امام بخاری کہتے ہیں اہل حدیث اسے قومی نہیں مانتے.ابو داؤد کہتے ہیں یہ کذاب ہے.النسائی کہتے ہیں یہ متروک الحد بیث ہے.ابن حبان کہتے ہیں.یہ شراب پیا کرتا تھا.احادیث کو الٹ پلٹ کر دیا کرتا تھا.لا يَجُوزُ الاحْتِجَاجُ به اس کو بطور سند قبول نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح باقی راویوں میں سے کسی پر کذاب ہونے کا الزام لگا ہے اور کسی کو ضعیف اور متروک الحدیث قرار دیا گیا ہے.غرض وصیت سے الشعراء: ۲۱۵
تاریخ افکا را سلامی متعلق تمام روایات کی اگر چھان بین کی جائے تو کوئی بھی روایت ایسی نہیں ملے گی جس کی سند کے سارے راوی ثقہ اور مقبول الحدیث ہوں.ایسے ہی راوی ملیں گے جن میں سے کوئی ضعیف ہے، کوئی متروک الحدیث ہے اور کوئی کذاب ہے.یا در ہے کہ ابن حمد بر طبری تیسری صدی کے ایک مؤرخ ہیں اور جیسا کہ اس زمانہ میں رواج تھا کہ ہر رطب و یابس جو ٹنا تاریخ میں درج کر دیا جاتا تھا.یہ ناقدین کا کام ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی چھان بین کریں اور درست او ر ما درست میں امتیاز کی راہیں نکالیں.خود شیعہ مصادر میں یہ روایت موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کوئی صریح اور مستند ارشاد موجود نہیں جس کا تعلق حضرت علی کے حق میں وصیت سے ہو.چنانچہ ایک شیعہ مؤرخ لکھتے ہیں.قَالَ صَاحِبُ كِتَاب الْمَهْدِيَّةُ فِي الْإِسْلَام لَمَّا كَانَ الرَّسُولُ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ قَدْ لَحِقَ بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى دُونَ أَن يُدلي برأى صَرِيحِ يَنْقَلَهُ إِلَيْنَا مَصْدَرٌ مُوَلَّقٌ بِهِ ( فِي أَمْرِ النِّيَابَةِ وَالْخِلَافَةِ ) فَقَدْ تشعبت الآراء وتباينت الاهواء یعنی آنحضرت ﷺ نے وفات سے پہلے خلافت اور نیابت وَتَبَايَنَتِ کے بارہ میں کسی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا.کوئی مستند قابل اعتبار روایت کسی ایسی رائے کے اظہار کے بارہ میں موجود نہیں ہے.نهج البلاغه ایک بے سند مجموعہ ہے جو دوسری صدی کے آخر میں ترتیب کے مراحل سے گزرا.یہی حال اُن کتابوں کا ہے جو الوصیت یا اثبات الوصیت کے نام سے فروغ پائیں جن کے ذریعہ ایک یہودی نژاد منافق کے تصور کو پروان چڑھایا گیا.دراصل فتنہ کے دور میں بنو امیہ کے مقابل میں اس دور کا آغا ز ہوا.پھر اتنی روایات گھڑی گئیں کہ حضرت امام شافعی کو مجبو ر یہ کہنا پڑا کہ مَا رَأَيْتُ فِي أَهْلِ الْأَهْوَاءِ قَوْمًا أَشَدَّ بِالزُّوْرِ مِنَ الرَّافِضَةِ وَضَعُوا فِي فَضَائِل عَلِيَّ وَاَهْلِهِ أَلَافَ الْأَحَادِيثِ " حالانکہ امام شافعی محب اہل بیت نبوی میں مشہور تھے اور آپ نے اس سلسلہ میں مشکلات اور اعتراضات کا سامنا بھی کیا.تاريخ الفرق الاسلامية صفحه اا الامام الشافعی صفحه ۲۱۳
تاریخ افکا را سلامی M+ چنانچہ آپ نے بعض اوقات شعر کے ذریعہ اس قسم کی مشکلات کا ذکر فرمایا.مشہور ہے کہ آپ بطور تمثیل یہ شعر بکثرت پڑھتے.إِنْ كَانَ رَفضًا حَبُّ آلِ مُحَمَّدٍ فَلْيَشْهَدِ القَلانِ آتِي رَافِضِي شیعہ روایات میں وصیت کی دلیل کا ذکر پہلی بار۳۰۰ھ کے بعد حضرت امام جعفر کی طرف منسوب چند روایتوں میں آیا ہے.انہوں نے بھی کسی روایت میں یہ ذکر نہیں کیا کہ یہ واقعہ کس ذریعہ سے اُن تک پہنچا ہے.نیز ان سے بعض روایات میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو یہ تاکید کر دی تھی کہ وہ کسی سے اس وصیت کا ذکر نہ کریں.اس راز کے انکشاف کے پہلے مجاز حضرت امام جعفر صادق بیان کئے گئے ہیں لے پس جو وعیت ایسی ہے جس کا دوسروں کو علم ہی نہیں اور جن قریبی لوگوں کو علم ہے ان کو انکشاف کی اجازت نہیں وہ وصیت دوسرے لوگوں کے لئے حجت کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے اور واقف حال لوگ جانتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق کی طرف اتنی متضاد روایات منسوب کی گئی ہیں کہ اعتبار کی کوئی بنیا دہی باقی نہیں رہتی اور اس قسم کے تضاد کی بناء پرمحققین نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ متعد د مفاد پرست عناصر آپ کے نام سے فائد ہ اٹھا کر آپ کی طرف منسوب کر کے ایسی غلط باتوں کو رواج دیتے رہے جن کی اسلام میں کوئی اصل نہیں بلکہ و ہا تیں اسلامی احکام کے صریح خلاف ہیں ہے خود شیعہ حضرات کی اکثریت بھی بالعموم صحیح معنوں میں دمیت کے عقیدہ پر قائم نہیں رہی.کوئی پہلے امام کو ہی مہدی مانتا تھا، کوئی تیسرے امام پر بس ہو گیا.کوئی چوتھے پانچویں وغیرہ کو آخری امام مانتا تھا اور شیعہ اثنا عشریہ بارہویں امام پر آکر رہ گئے اور اُس کو زندہ ، غائب اور مہدی منتظر اصول الكافي للكليني جلد ۲ صفحه ۲۷۸ مرتبه ثقة الاسلام ابو جعفر محمد بن يعقوب - الكليني المتوفى ۳۲۹ - دار الكتب الاسلاميه تهران طبع ثالث -۱۳۸۸هـ اثبات الوصية صفحه ۱۲۱ علامه ابو الحسن على بن الحسين المسعودى المتوفى ٣٣٦ مكتبه بصير في قم ایران طبع خامس.دعائم الاسلام صفحه ۶۴٠۶۳ - ابو حنيفة النعمان بن محمد المغربي الشيعي الاسماعيلي دار المعارف مصر ۱۹۵۱ء.اصول الکافی جلد اول صفحه ۲۸۸
تاریخ افکا را سلامی ۲۱۱ مانے پر مجبور ہوئے.جب غائب اور منتظر ہی ماننا ہے تو پھر اُن لوگوں کا مسلک کیوں نہ صحیح سمجھ لیا جائے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو زندہ ، غائب اور مہدی منتظر مانتے ہیں.بارھویں امام تک سلسلہ چلانے کے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے تو اسماعیلی شیعوں کا مسلک زیادہ معقول ہے جو امام حاضر کی بیعت کے قائل ہیں اور ایک امام کے فوت ہو جانے کے بعد دوسرے امام کو مان لیتے ہیں.تفصیلی حوالہ جات کے لئے دیکھیں.الطبقات ابن سعد جلد ۳ صفحه ۱۴ دار صادر بیروت ۱۹۵۷ء - تاریخ یعقوبی جلد ۲ صفحه ۸۳، لاحمد بن يعقوب دار صادر بیروت ۱۹۶۰ء - اصول الکافی جلداول صفحه ۲۴ و ۲۷۸ - ثقة الاسلام ابو جعفر محمد بن يعقوب الكليني المتوفى ۳۲۹ ھ دار الكتب الاسلاميه تهران طبع ثالث ۱۳۸۸هـ - نهج البلاغة جلد اوّل صفحه ۲۴ - الشريف ابو الحسن محمد الرضی ناشر دار البلاغة مطبعة الاستقامة بيروت لبنان طبع ۱۹۸۵ء - مقاتل الطالبين صفحه ۷۳۲۳۸ ، ابو الفرج الاصفهاني المتوفى ۳۵۶ھ دار المعرفة بيروت لبنان - المهدية في الاسلام صفحه ۱۸۲ سعد محمد حسن من علماء الازهر مطبع دار الكتب العربي مصر طبع ۱۹۵۳ء تاریخ الامم و الملوک جلد صفحه ۲۱۶ ابو جعفر محمد بن جرير الطبرى المتوفى ٣١٠ مطبع الحسينيه المصريه طبع اول - ميزان الاعتدال في نقد الرجال جلد ۲ صفحه ۱۹۲ جلد ۳ صفحه ۳۶۸ و ۵۳۰ جلد ۴ صفحه ۱۹۲ - ابو عبد الله محمد بن احمد الذهبي المتوفى ٧٢٨ مطبع عيسى البابي الحلبي - تهذيب التهذيب جلد ۱۰ صفحه ۳۱۹ - ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلاني المتوفى ۸۵۲ مطبع دائرة المعارف النظاميه حيدرآباد دکن طبع اوّل كتاب المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين جلد ٢ صفحه ۱۴۳و۳۰۳ - امام محمد بن حيان المتوفی ۳۵۴ھ ناشر دار الوعی حلب سوریه ۱۹۷۵ء - الكشف الحثيث عمن روى بوضع الحديث زير لفظ محمد بن حميد - برهان الدين الحلبي المتوفى ۱۸۴۱ء ناشر احياء التراث الاسلامی مطبع العاني بغداد )
تاریخ افکا را سلامی ۲۱۲ شیعوں کے بڑے ضمنی فرقے شیعوں کے مندرجہ ذیل بڑے بڑے ضمنی فرقے ہیں:.الْإِمَامِيَّةِ الزَّيْدِيَّهِ الكَيْسَانِيَّه الْإِمَامِيَّه کے مزید ذیلی فرقے ہیں.الْمُحَمَّدِيَّهُ الْبَاقِرِيَّهِ النَّاؤُوسِيَّهِ الشَّمِيطِيَّهِ الْعِمَارِيَّهِ الْمُوْسَوِيَّهِ الْقَطْعِيَّه.الْإِثْنَا عَشْرِيَّه الاِمَامِيَّة کے غلو پسند فرقے یہ ہیں:.الْإِسْمَاعِيلِيَّه.الْهَشَّامِيَّه.الزُّرَارِيَّهِ الْيُوْنُسِيَّه.الشَّيْطَانِيَّه.الْكَامِلِيَّه فرقہ زیدیہ کے ذیلی فرقے تین ہیں.الْجَارُوْدِيَّه.السُّلَيْمَانِيهِ الْبَتْرِيَّه الکیسانیہ کے ذیلی فرقے دو ہیں.ایک فرقہ کی رائے ہے کہ امام محمد بن الحنفیہ زندہ ہیں وہ مہدی منتظر ہیں جبکہ دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ امام محمد بن الحنفیہ فوت ہو چکے ہیں اور ان کے بعد ان کے جانشین اور وھی اُن کے صاحبزادے ابو ہاشم عبد اللہ ہیں.الکیسانیہ فرقہ کا بانی مختار ثقفی تھا.شیعوں کے غلو پسند فرقے جو امامیہ میں شمار نہیں ہوتے مندرجہ ذیل ہیں:.السَّيْئِيَّه.الْمُغِيْرِيَّه.الْمَنْصُورِيَّه.الْجُنَاحِيَّه.الْخَطَابِيَّه.الْبَاطِنِيَّه.الْحَلُوْلِيَّه ان سب فرقوں میں سے جو اہم ہیں اُن کا مختصر بیان آئندہ صفحات میں پیش کیا جارہا ہے.شیعوں کا بڑا ضمنی فرقہ الإماميه شیعہ امامیہ شیعوں کے ان فرقوں کا نام ہے جو حضرت علی اور اُن کی فاطمی اولا د میں امامت اور خلافت کو محدود مانتے ہیں نیز یہ امامت اور خلافت میں وراثت اور نص کے قائل ہیں اور امت کے حق انتخاب کو تسلیم نہیں کرتے.
تاریخ افکا را سلامی شیعہ امامیہ کئی ذیلی فرقوں میں منقسم ہیں جن میں سے بعض کی تفصیل درج ذیل ہے.- المُحَمديه - یہ فرقہ حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین ، امام حسن مثنی او را امام عبد اللہ کے بعد محمد النفس التركية بن عبد اللہ بن حسن المعنی بن حسن بن علی کی امامت کا قائل تھا اور ان کو آخری امام اور مہدی منتظر مانتا تھا یعنی ایسا مہدی جو نظروں سے غائب ہو گیا ہے اور آئندہ کسی وقت ظاہر ہوگا.وہ ظلم و جور کو ختم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.یہ فرقہ امام محمد کو اس حدیث کا مصداق قرار دیتا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.مہدی کا نام دہی ہوگا جو میرا نام ہے یعنی محمد اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا.اس فرقہ کے نزدیک امام محمد نہ قتل ہوئے ہیں اور نہ طبعی موت مرے ہیں بلکہ نجد کے ایک پہاڑ میں پناہ گزیں ہیں ، مناسب وقت میں ظاہر ہوں گے اور ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں گے.امام محمد بن عبد اللہ اور ان کے دو بھائی ابراہیم او را در لیس بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں.علم و زہد میں یکتا تھے.اس وقت کے قریباً سارے محدثین اور فقہاء اُن سے عقیدت رکھتے تھے اور ان کے حامی تھے.امام محمد مدینہ منورہ میں عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے خلاف اُٹھے کیونکہ منصور اُن کے قتل کے درپے تھا.یہ تجاز کے سارے علاقے پر قابض ہو گئے تھے اور ان کے بھائی امام ابراہیم نے بصرہ پر غلبہ حاصل کر لیا تھا.دوسرے بھائی اور لیس بلا د مغرب میں غالب آئے لیکن یہ ساری کامیابی عارضی ثابت ہوئی اور تینوں بھائی مارے گئے.کہا جاتا ہے کہ ان ائمہ کی حمایت کی وجہ سے ہی امام مالک اور امام ابو حنیفہ دونوں ابو جعفر منصور کے زیر عتاب آئے امام محمد کے والد امام عبد اللہ کو مع خاندان ابو جعفر منصور نے قید کر لیا اور انہیں بڑی اذیتیں دیں اور وہ اور ان کے خاندان کے بعض افراد قید خانہ میں ہی سختیاں جھیلتے ہوئے فوت ہو گئے.امام محمد بن عبد اللہ کی شہادت کے بعد ان کے ایک عقیدت مند المُغِيرَة مِنْ سَعِيدِ الْعَجَلِی نے یہ دعویٰ کیا کہ محمد قتل نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں مناسب وقت میں ظاہر ہوں گے.جابر بن یزید بھی کا نظر یہ بھی یہی تھا گویا ان کے نزدیک امام محمد مہدی منتظر ہیں.جعفی کہا کرتا تھا کہ قیامت سے پہلے دنیا کے سب مُردے زندہ کر کے واپس لائے جائیں گے تا کہ مہدی کی شان و شوکت اور عظمت کو دیکھ سکیں لیے الفرق بين الفرق صفحه ۳۹ فرق الشیعه صفحه ۶۲ بن
تاریخ افکا را سلامی ۲۱۴ الْبَاقِرِيَّة - يہ فرقہ حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین ، امام زین العابدین کے بعد اُن کے بڑے بیٹے امام محمد باقر کو آخری امام اور مہدی منتظر مانتا تھا.اس فرقے کا عقیدہ تھا کہ آنحضرت علی نے حضرت علی کے امام ہونے کی تصریح فرمائی تھی.اس کے بعد ہر امام نے اپنے جانشین کو نامزد کیا اور اس کو امام ماننے کی وصیت کی.یہ فرقہ بھی مانتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے کہا کہ تم میرے بیٹے محمد باقر سے ملو گے جب ملو تو ان کو میر اسلام پہنچانا.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت جائے نے بڑی لمبی عمر پائی.عمر کے آخری حصہ میں آپ کی نظر جاتی رہی.ایک دن وہ مدینہ کی گلی سے گزررہے تھے کہ ایک لونڈی محمد باقر کو اٹھائے ہوئے گزری.جائے نے اس سے پوچھا یہ لڑکا کون ہے جس کو تم اٹھائے ہوئے ہو ؟ اس نے بتایا کہ یہ امام علی زین العابدین کا بیٹا محمد ہے.چنانچہ جائے نے ان کو لے کر ان نے اے ای یار کی اورکہا کہ تمارے کا سلام پہچانا ہو جایا حضرت مہینے اپنے سینے سے لگا یا پیار کیا اور کہا کہ میںتمہیں تمہارے نانا کا سلام پہنچاتا ہوں.جائہ آنحضرت ﷺ کے اس علم کی تعمیل کے بعد جلد فوت ہو گئے لے النَّاور سه.یہ فرقہ امام محمد باقر کے بعد ان کے بیٹے امام جعفر صادق کو آخری امام اور مہدی منتظر مانتا تھا.اس فرقے کا نظریہ تھا کہ امام جعفر تمام علوم کے جامع اور ماہر ہیں.وہ علم دین کا ہو یا عقلیات سے تعلق رکھتا ہو وہ سب کچھ جانتے ہیں.ان کا یہ علم لدنی ہے یعنی خدا کی طرف سے ان کو عطاء ہوا تھا اس میں اُن کے کسب یا کسی سے سیکھنے کا کوئی دخل نہیں تھا.تے الشميطیہ یہ فرقہ امام جعفر کی موت کا قائل تھاد والبتہ امامت کو ان کی اولا دمیں منحصر تسلیم کرتا تھا اور یہ کہ امام مہدی انہی کی اولاد میں سے ظاہر ہوگا، کو یا یہ فرقہ امامیہ اثناعشریہ کا پیش ردو ہے لیکن یہ امام جعفر صادق کے بیٹے امام موسیٰ کاظم کی بجائے اُن کے دوسرے بیٹے محمد بن جعفر کی امامت کا قائل ہے.ه الإِسْمَاعِیلیه یہ فرقہ حضرت امام جعفر کے بیٹے امام اسمعیل کو امام مخصوص مانتا ہے یعنی امام جعفر نے اپنے بعد ان کے امام ہونے کا اعلان کیا تھا.اگر چہ امام اسمعیل حضرت جعفر کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے لیکن اس فرقے کا نظریہ ہے کہ جب امام وقتت با علام الہی ایک دفعہ کسی کو اپنا L الفرق بين الفرق صفحه ۴۰ الفرق بين الفرق صفحه ۴۱ الفرق بين الفرق صفحه ۴۱
تاریخ افکا را سلامی ۲۱۵ جانشین مقرر کر دے تو پھر یہ نص کسی حال میں بھی منسوخ نہیں ہو سکتی اور آئند ہ امامت اس منصوص علیہ کی اولاد اور نسل کی طرف جاتی ہے اس لئے ان کی نزدیک امام جعفر کی وفات کے بعد امام اسمعیل اور ان کی اولاد کو امام تسلیم کیا جانا چاہیے.بہر حال اس اصولی نظریہ پر متفق ہونے کے بعد یہ فرقہ کئی ضمنی شاخوں میں بٹ گیا مثلاً.(الف) ایک گروہ کے نزدیک امام اسمعیل فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور آخری امام اور ”مہدی منتظر ہیں.ان کی آگے کوئی اولاد یا نسل نہیں تھی.وہی آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور امام مہدی کے فرائض سر انجام دیں گے.(ب) ایک فرقے کے نزدیک امام اسمعیل فوت ہو چکے ہیں اور ان کے بعد اُن کے بیٹے محمد بن اسماعیل امام بنے.دو مہدی منتظر او ر القائم صاحب الزمان ہیں.وہ روم کے علاقہ میں زندہ موجود ہیں آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے نئی شریعت جاری کریں گے.(ج).ایک تیسرے گروہ کے نزدیک امام محمد بن اسمعیل کی اولاد میں امامت جاری ہے.اسی نسل کے ائمہ بعد میں حکومت عبید یہ اور فاطمیہ کے بانی بنے.اسماعیلیہ با طفیہ کی بھی یہی رائے ہے اور موجودہ آغا خانی شیعہ اور بو ہرے بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں اس کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی لیہ -٦ الموسويه اس فرقہ کو العماریہ اور الممطوریہ بھی کہا جاتا ہے.یہ فرقہ امام جعفر کے بعد اُن کے بیٹے امام موسیٰ کاظم کو آخری امام اور مہدی منتظر مانتا تھا.القطعيه يا الاثنا عشریہ.اس فرقے کا ایک نام أَصْحَابُ الانتظار بھی ہے.اس فرقہ کا نام القطعہ اس وجہ سے ہے کہ یہ موسویہ فرقہ کے بر خلاف امام موسیٰ کاظم کی وفات کا قائل ہے.انى أَنَّهُمْ قَطَعُوا بِمَوْتِ مُوسَى الْكاظِمِ بِخَلافِ الْمُوْسَوِيَّةِ.شیعہ اثنا عشریہ ائمہ منصوصہ کی مندرجہ ذیل ترتیب مانتے ہیں.حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین، امام علی زین العابدین، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق ، امام موسیٰ کاظم ، امام علی الرضاء امام حمد الجواد، امام علی البادی ، امام الحسن العسکری او را مام محمد بن الحسن العسکری.L الفرق بين الفرق صفحه ۱۴۲ الفرق بين الفرق صفحه ۴۲
تاریخ افکا را سلامی MY یہ آخری بارھویں امام اثنا عشریہ کے نزدیک امام غائب یا مہدی منتظر تسلیم کئے گئے ہیں.یہ عباسی حکومت کی مشہور چھاؤنی سُر من رای...میں اپنے باپ کے ایک تہ خانہ میں غائب ہوئے اور اب تک غائب ہیں.آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا سے ظلم و جور کو مٹائیں گے اور اُسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے.امام غائب کی غیبوبت کے دو دور محمد بن الحسن العسکری المهدی المنتظر " جب غائب ہوئے تو ان کی عمر کیا تھی ؟ اس بارہ میں اختلاف ہے.بعض کے نزدیک اڑھائی سال بعض کے نزدیک چار سال اور بعض کے نز دیک آٹھ سال تھی.ان کی غیو بہت کا زمانہ دو حصوں میں منقسم مانا گیا ہے: غیبوبت صغری، جو ۶۰ ۲ تا ۳۲۹ھ تک کا زمانہ ہے.اس عرصہ میں امام غائب کے چار سفیر اُن کی قائم مقامی کرتے رہے وہ چار سفیر یہ ہیں: ا عثمان بن سعید ۲ محمد بن عثمان الشيخ الخلاني - الحسین بن روح اللہ النوبختی اور آخری سفیر علی بن محمد السمره المتوفی ۳۲۹ھ اس آخری سفیر نے اپنی وفات سے پہلے ایک توقیع" ار قسم پروانہ جاری کیا جس میں یہ اطلاع تھی کہ اب غیبوبت صغری کا زمانہ ختم ہے اور غیبوبت کبری کا دور شروع ہو رہا ہے جو مہدی منتظر کے ظہور تک جاری رہے گا.لے اس عرصہ میں شیعہ اثنا عشریہ کے علماء اور مجتہد امام غائب کی قائم مقامی، عوام کی رہنمائی اور تنظیم اور دین کی اشاعت کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے.یہی فرقہ امامیہ اثنا عشریہ ان دنوں ایران میں بر سر اقتدار ہے اور عراق ، ہندوستان اور پاکستان وغیرہ علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے اور انتہائی توسیعی سرگرمیوں میں مصروف ہے.شیعہ اثنا عشریہ کی فقہ جو فقہ جعفریہ کے نام سے مشہور ہے ایک قابل مطالعه علمی سرمایہ ہے.فرق الشيعة ص صفحه ١٠٣ حاشيه - تاريخ الشيعه صفحه ۷۱ تا ۷۴ - الدولة الفاطمية صفحه ٣٦ الشيعة في التاريخ صفحه ۷۴ تا ۷۶ محمد حسين الزين العاملي مطبع العرفان.صيداء طبع ۱۹۳۸ء الفرق بين الفرق صفحه ۴۳
تاریخ افکارا سلامی شیعہ اثناعشریہ کے بعض مخصوص مسائل ۲۱۷ الإمامة - شیعہ حضرات کے نزدیک مسلمانوں کی دینی رہنمائی اور قیادت کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے.یہ امام بذریعہ نص اور وصیف اہل بیت النبی میں سے نامزد ہو گا.پہلے تین امام حضرت علیؓ، حضرت حسن اور حضرت حسین با علام الہی آنحضرت ﷺ کی طرف سے منصوص ہیں یعنی حضور ﷺ نے ان کے حق میں وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد یہ مینوں یکے بعد دیگرے امام ہوں گے اور اُمت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں گے.اس کے بعد ہر امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانشین کے بارہ میں وصیت کرے کہ میرے بعد اہل بیت یعنی حضرت علی کی فاطمی اولاد میں سے فلاں امام ہو گا.غرض شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امامت اور دینی قیادت نص ومتمہیں اور وراثت کی بنا پر قائم ہوتی ہے اس بارہ میں اُمت مسلمہ کو انتخاب یا شوری کا کوئی حق حاصل نہیں لے وصیت - شیعہ اثنا عشریہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو حکم تھا کہ وہ وفات سے پہلے اپنی جانشینی کے لئے علی کے بارہ میں وصیت کر جائیں.چنانچہ آپ نے حسب الحکم یہ اعلان فرمایا کہ میرے بعد علی امت مسلمہ اور قائد ہوں گے اس لئے علی وصی اللہ اور وصی الرسول اور خلیفہ بلا فصل ہیں اوران کے بعد ان کی فاطمی اولاد بطریق وصیت ونص اس منصب پر فائز ہوتی چلی جائے گی کو بارھویں امام پر یہ وصیت ختم ہے.کہے العلم - قرآن کریم اور دین کا علم امام کو اللہ تعالی اُس کے رسول یا امام سابق کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے گویا ان علوم کا وہ پیدائشی عالم ہوتا ہے.اُسے کسی اور سے پڑھنے اور دینی علم سیکھنے کی ضرورت نہیں.ایسے علم کا اصطلاحی نام علم لدنی ہے جو آیت کریمہ عَلَّمْنَة مِنْ لَدْنَا عِلْمًا سے ماخوذ ہے.اصول الکافی صفحه ۳۹ اصل الشيعة و اصولها صفحه ۷۴۶۸ - طرائق الحقائق جلد ۲ صفحه ۷ الكهف : ٦٦ ليس يحتاج احد منهم ان يتعلم من احد منهم ولا من غيرهم.العلم ينبت في صدورهم كما ينبت الزرع المطر فالله عز وجل علمهم بلطفه كيف شاء فرق الشيعة صفحه ۵۶۰۵۵ ه اصول الکافی صفحه ۶۱۲۵۲.فرق الشيعة صفحه ۵۶
تاریخ افکا را سلامی PIA العِصْمَة انبیاء کی طرح امام بھی معصوم ہوتے ہیں.دینی رہنمائی میں وہ غلطی نہیں کر سکتے کیونکہ نبی کی طرح ان کی ذمہ داری بھی لوگوں کی رہنمائی ہوتی ہے اگر اس بارہ میں اُن سے غلطی کا امکان ہو تو امان اور اعتما داُٹھ جائے گا لے " الْمَهْدَوِيَّة - قریباً سارے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب امت محمدیہ بگڑ جائے گی تو اس کے بگاڑ کوڈ ورکرنے اور اس کی شوکت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے ایک عظیم الشان وجود مبعوث ہو گا جس کا موعود نام معبدی بتایا گیا ہے.شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک یہی تنظیم وجود "مہدی منتظر ہے یعنی جب وہ پیدا ہوا تو بعض حالات کی بنا پر بالفاظ دیگر الہی تقدیر کے تحت غائب ہو گیا اور اس وقت اپنا مشن پورا نہ کر سکا لیکن کسی مناسب وقت میں جس کا علم خدا کو ہے وہ اس دنیا میں واپس آئے گا.عظیم الشان فتوحات حاصل کرے گا ظلم و جور کا قلع قمع کرے گا.عدل وانصاف کی وجہ سے سب کے دل جیت لے گا.شیعہ اثنا عشریہ کے عقیدہ کے مطابق یہ مہدی منتظر محمد بن الحسن العسکری ہیں جو بچپن میں ہی غائب ہو گئے تھے اور دوبارہ آنے کے لئے اللہ کے حکم اور اس کی طرف سے اجازت کے منتظر ہیں ہے.الرَّجُعَة - رَجْعَت کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا سے جانے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں واپس آنا خواہ فوت ہو جانے کے بعد خواہ زندہ آسمان کی طرف چلے جانے یا زمین کے کسی حصہ میں غائب ہو جانے کے بعد.رجعت کا عقیدہ دراصل ”مہدی منتظر کے عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہے.ہوا یوں کہ ایک امام کے ساتھ بہت ہی اُمیدیں وابستہ کی گئیں کہ وہ یوں دشمنوں پر غالب آئے گا، اپنے پیروؤں کے ساتھ سارے مصائب کا خاتمہ کر دے گا ، ظالموں کو نیست و نابودکر دے گا، عدل وانصاف سے دنیا کو بھر دے گا لیکن ان سب امیدوں کے بر عکس لوگوں کی بدقسمتی سے وہ اپنے مشن کی تکمیل سے پہلے فوت ہو گیا یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا تو اس کے پیروؤں میں یہ خیال بطور عقید ہ عام ہو گیا کہ ان کے یہ امام فوت نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں اور کسی وقت دوبارہ آکر اپنے مشن کو پورا کریں گے.اس طرح اس خیال نے مہدی منتظر کے عقیدہ کو جنم دیا.بعض کے نز دیک وہ امام فوت تو ہو گئے لیکن دوبارہ زندہ ہو کر وہ اپنے مشن کی تکمیل کریں گے.بہر حال شیعہ اثنا عشریہ " تصحيح الاعتقاد صفحه ۶۱ - عقيدة الشيعة صفحه ۲۲۴ ا فرق الشيعة صفحه ۴۲۲۳۸ - البیان فی اخبار صاحب الزمان صفحه ۳۰۵
تاریخ افکا را سلامی ۲۱۹ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ ہو کر اس دُنیا میں آنے کے عقیدہ کو درست تسلیم کرتے ہیں اور رجعت کے عقیدہ کو مانتے ہیں لے التقيہ.شیعہ اثنا عشریہ تقیہ کے بھی قائل ہیں.تقیہ کے معنے یہ ہیں کہ اگر مصلحت کا تقاضا ہو، جان کا خطرہ ہو یا دسمن نقصان پہنچانا چاہتا ہو تو عقیدہ کو چھپالیا اور جو دل میں ہے اُس کے خلاف ظاہر کرنا درست ہے اور بعض اوقات تو ایسا کرنا واجب اور ضروری ہو جاتا ہے.اس طرز عمل کا جواز حضرت عمار بن یا سر کے ایک واقعہ سے مستنبط ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے.وہ واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ مکہ کے کفار نے عمار کو پکڑ کر خوب مارا اور کہا کہ وہ اسلام سے انکار کرے، محمد ﷺ کو گالیاں دے ورنہ اُسے قتل کر دیا جائے گا.اس سے پہلے وہ عمار کے والد اور والدہ کو قتل کر چکے تھے.عمار ڈر گئے اور رانہوں نے کفار کا کہنا مان لیا لیکن بہت پچھتائے اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر خوب روئے اور معذرت کی آپ نے دریافت فرمایا ”تمہارے دل کی کیا حالت ہے؟ عمار نے عرض کیا دل میں تو پورا پورا ایمان ہے.مایاتو ایسا ہی آپ نے فرمایا تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں اگر وہ دوبارہ پکڑیں تو پھر ایسا ہی کرو اِنْ عَادُوا فَعُدْ آیت کریمہ إِلَّا مَنْ أَكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَيِنَ بِالْإِيْمَانِ سے میں اسی اجازت کی طرف اشارہ ہے.البداء - شیعہ اثنا عشریہ بداء کے نظریہ کو بھی مانتے ہیں.بداء کے نظریہ کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالی ایک فیصلہ فرماتا ہے اور نبی یا امام وقت کو اطلاع دیتا ہے کہ اس فیصلہ کا اعلان کر دو اوردہ اعلان کر دیتا ہے لیکن کسی مصلحت کے تحت اللہ تعالیٰ اپنے پہلے فیصلہ او را رادہ کو بدل دیتا ہے اور اُسے ا منسوخ کر دیتا ہے اور کوئی دوسرا فیصلہ کر لیتا ہے، کو یا اللہ تعالی کے سامنے پہلے فیصلہ کی بجائے ایک نیا فیصلہ آیا اور ایک نئی صورت حال ظاہر ہوئی.مثلاً حضرت امام جعفر صادق نے با علام الہی اپنے بڑے بیٹے اسمعیل کے حق میں وصیت کی تھی اور کہا تھا کہ میری وفات کے بعد یہ میرا جانشین ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی لیکن بقضائے الہی اسمعیل امام جعفر صادق کی زندگی میں فوت ہو گیا.کویا خدا نے اپنے پہلے فیصلے کو بدل دیا اور اس کے سامنے یہ آیا کہ اسمعیل کی بجائے امام جعفر صادق کا دوسرا ل اعتقادات الصدوق صفحه ۲۰ - المهدية في الاسلام صفحه -۱۰۵- فرق الشيعة صفحه ۲۹ النحل: ١٠٧ اعتقادات الصدوق صفحه ۴۴ - تصحيح الاعتقاد صفحه ۲۲۹ اصل الشيعة واصولها صفحه ۱۹۳ دعائم الاسلام صفحه ۷۴
تاریخ افکا را سلامی بیٹا امام موسی الکاظم امام ہونا چاہیے.چنانچہ شیعہ اثنا عشریہ نظریہ بداء کے تحت ہی اسمعیل کی بجائے موسیٰ الکاظم کو ساتو اں امام مانتے ہیں.اثناعشری شیعوں نے بداء کے اس نظریہ سے متعدد بار کام لیا.اس نظریہ کا اصل موجد مختار ثقفی تھا وہ اپنے پیروؤں کے سامنے کوئی پیشگوئی کرنا اور اگر وہ پوری نہ ہوتی تو کہتا خدا نے ” اصول بداء کے تحت اپنا ارادہ بدل لیا ہے.اس نظریہ کی بنیا د آیت کریمہ وبدَ الَهُم مِّنَ اللهِ مَالَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ اور تمحوا اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَ عِندَنَ أم الكتب قائم " کی گئی ہے.جہاں تک وعید اور تقدیر شر کا تعلق ہے ایسی تبدیلی کو قریبا سارے مسلمان تسلیم کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ دعا اور صدقات سے تقدیر شرمل سکتی ہے.خوشخبری اور تقدیر خیر کے بدل جانے کے نظریہ کو صرف شیعہ حضرات مانتے ہیں.المتعة - شیعہ کے نزدیک متعہ جائز ہے.متعہ کے معنے یہ ہیں کہ جنسی تسکین کے لئے کچھ معاوضہ دے کر ایک معین مدت کے لئے مرد اور عورت کا جنسی تعلقات کے لئے معاہدہ کر لینا.اسلام سے پہلے اس قسم کے وقت نکاح کا عرب میں رواج تھا.اکثر اہل اسلام کے نز دیک اسلام نے اس قسم کے نکاح کی ممانعت کر دی تھی لیکن شیعہ مسلک یہ ہے کہ اسلام میں اس کی ممانعت نہیں ہے.تفصیل شیعہ فقہ کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے.ہے مجالس عزاء - یوم عاشورہ کی تقاریب منانا شیعہ اثنا عشریہ کے مذہبی دستور العمل اور پالیسی کا ایک حصہ ہے اس کا مقصد ان مظالم کی یاد کو تازہ رکھنا ہے جو ائمہ اہل بیت پر روا ر کھے گئے.تشیع کے فروغ اور عوام میں اس کو مقبول بنانے کے لئے اسے بڑا مفید تر یہ سمجھا گیا ہے.مجالس عزاء کے انعقاد کی بڑی لمبی تاریخ ہے.ایک خاص قسم کی ادبی نیج یعنی مرثیہ گوئی کے فن کو بھی اس سے بہت فروغ ملا ہے.ھے - الزمر : ۱۸ - الرعد: ۴۰ ٣.اصل الشيعة واصولها صفحه ۱۹۳ - فرق الشیعه صفحه ۶۵۰۶۴ اصل الشيعة واصولها صفحه ۹۴ و ۱۱۵ الشيعة في التاريخ صفحه ١٦٦ - امثال الميداني صفحه ۳۲۹
تاریخ افکا را سلامی ۲۲۱ شیعہ اثنا عشریہ کے بعض غلو پسند ذیلی فرقے - الهشا میں.اس فرقہ کے دو گروہ ہیں.ایک گروہ کے قائد ہشام بن الحکم اور دوسرے کے ہشام بن السالم الْجَوَالِیقی ہیں.یہ دونوں گروہ شیعہ اثنا عشریہ کی طرح ائمہ اہل بیت اور ان کی مذکورہ بالا تر تیب کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعض خاص نظریات کی وجہ سے یہ اثنا عشریہ سے الگ فرقہ شمار کئے جاتے ہیں.ہشام بن الحکم کے خاص نظریات جن سے اثناعشریہ متفق نہیں درج ذیل ہیں.1.ہشام کے نزدیک انبیاء معصوم نہیں.ان سے معصیت اور غلطی سرزد ہو سکتی ہے لیکن ان کے عصیان کا تدراک وحی کے ذریعہ ہو جاتا ہے یعنی خدا بذریعہ وحی ان کو متنبہ کر دیتا ہے کہ اُن سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور اس کا تدارک کیا ہے.اس کے بر خلاف ہشام کے نز دیک ائمہ معصوم ہوتے ہیں وہ غلطی کر ہی نہیں سکتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی طرح ائمہ بھی امت کی قیادت اور رہنمائی کے ذمہ دار ہیں اور اس رہنمائی میں غلطی نہیں ہونی چاہیے درندان کا اعتماد جاتا رہے گا اور چونکہ ائمہ پر وحی نازل نہیں ہوتی جو غلطی پر متنبہ کرے اس وجہ سے ان کا معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے تا کہ وہ غلط رہنمائی سے بچے رہیں اور امت کا اعتماد بحال رہے.ہشام کا ایک نظریہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا جسم ہے اور وہ ذو حد ونہا یہ ہے.ایک روایت کے مطابق ہشام کا اندازہ تھا کہ خدا کا قد اپنی بالشت کے لحاظ سے سات بالشت ہے جس طرح انسان کا قد اُس کی اپنی سات بالشت کے برابر ہوتا ہے.ایک دفعہ ابو الهديل مُعْتَزِلی نے مکہ کے ایک پہاڑ جبل ابوقتیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہشام سے پوچھا کہ یہ پہاڑ بڑا ہے یا تیرا معبود تو ہشام نے جواب دیا قد کے لحاظ سے پہاڑ بڑا ہے.اِنَّ الجَبَلَ اعْظَمُ مِنْهُ ہشام کہا کرتا تھا کہ خد اعرش پر متمکن ہے اور عرش اس کی سیٹ کے بالکل برابر ہے یعنی جتنا اُس کے بیٹھنے کا گھیر ہے اتنا ہی چوڑا اس کا عرش ہے.الغرض ہشام کا کہنا تھا کہ ان الله تَعَالَى طَوِيلٌ عَرِيضٌ عَمِيقٌ (اى (جسم) وَلَكِن جِسْمُهُ لَيْسَ مَادِيًّا بَلْ هُوَ نُورٌ سَاطِع يَتَلا لا - ہشام کے نز دیک اللہ تعالیٰ کا علم ایک لحاظ سے حادث ہے یعنی اُسے اُس وقت کسی چیز کا علم ہوتا ہے جب وہ چیز وجود میں آجاتی ہے.اگر یہ نہ مانا جائے تو اشیاء قدیم کو ماننا پڑے گا جو غلط ہے.وہ یہ
تاریخ افکارا سلامی ۲۲۳ بھی کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے ایک شعاع (کرن ) پھولتی ہے جو چیز موجود سے ٹکراتی ہے یا اس کے اندر تک چلی جاتی ہے.اس طرح اس شعاع کی تنویر سے اُسے اس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے.ہشام کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ارادہ اُس کی حرکت کا نام ہے یعنی جب وہ حرکت کرتا ہے تو تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے.ہشام کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات علم ، قدرت، سمع وغیرہ کو نہ قدیم کہا جا سکتا ہے اور نہ حادث - لان الصفات لا توصف (صفت کی صفت بے معنے بات ہے.) فَالْقُرْآنُ (آی سلامُ اللهِ ) لَا مَخْلُوقَ وَلَا حَادِتْ ہشام بن الحکم بڑی متنازعہ فی شخصیت رہا ہے.بعض اُسے بڑا پارسا پیج العقیدہ، نکتہ ریس اور عالم باعمل مانتے ہیں اور اس کے اظہارات اور نظریات کی تاویل اور تو جیہ کرتے ہیں.حد یہ ہے کہ اُس کی طرف سے دفاع میں بعض علماء اہل السنت پیش پیش رہے ہیں جبکہ بعض دوسرے علماء خاص طور پر شیعہ اثنا عشریہ اُسے خبیث العقید داور کافر سمجھتے ہیں.ہشامیہ فرقہ کا دوسرا گر وہ ہشام بن السالم الجوالیقی کا پیرو ہے.اس کا خاص نظریہ جس سے دوسرے اثنا عشریہ متفق نہیں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی شکل ایک انتہائی حسین و جمیل انسان کی طرح ہے لیکن یہ شکل نوری ہے مادی نہیں.أَى أَنَّهُ لَيْسَ بِلَحْمٍ وَلَا دَمِ بَلْ هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ لَهُ يَدْ وَ رِجُلٌ وَعَيْنٌ وَ اذْنٌ وَ أنفٌ وَ قَمْ وَ اَنَّ نِصْفَهُ الأعْلَى مُجَرَّفٌ وَنِصْفُهُ الأسْفَلُ مُصَمَّتْ وَ لَهُ ذَفَرَةٌ (شَعْرٌ) سَوْدَاءُ مِنْ نُورٍ أَسْوَدَ وَبَاقِيَهِ نُورٌ أَبْيَض اسی نظریہ کے تحت اس فرقہ کے لوگ جب کسی حسین عورت یا مرد کو دیکھتے تو یہ خیال کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ میں گر جاتے کہ اس میں انہیں خدا کا جلوہ نظر آیا ہے.- الزراريه - زرارہ بن آغین کے پیرو تھے.اس فرقہ کے لوگ حضرت امام جعفر کے بڑے بیٹے عبد اللہ کو مانتے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد شیعہ اثنا عشریہ کی طرح یہ بھی امام جعفر کے دوسرے بیٹے امام موسی الکاظم کو امام ماننے لگے.ان کا خاص نظر یہ جو ان کو اثنا عشریہ سے الگ کرتا ہے یہ ہے کہ.الفرق بين الفرق صفحه ٤٦ الفرق بين الفرق صفحه ٤٦
تاریخ افکا را سلامی ۲۳۳ اللہ تعالیٰ بے وصف تھا اُس کے لئے کوئی صفت ثابت نہ تھی بعد میں اُس نے اپنی صفات کو پیدا کیا اور اُن سے متصف ہوا.انى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ حَيَّا وَلَا قَادِرًا وَلَا سَمِيعًا وَلَا بَصِيرًا وَلَا عَالِمًا وَلَا مُرِيكا حَتَّى خَلَقَ لِنَفْسِهِ حَيْوَةً وَقَدَرَةً وَسَائِرَ الصَّفَاتِ المَذْكُورَةِ فَصَارَ بَعْدَ ذَلِكَ حَيًّا قَادِرًا الخ - معتزلہ میں سے قدریہ ، بصریہ اور کرامیہ کا نظریہ بھی قریبا قریبا ہی تھا.کما سیجی.١ اليُونُسيه- یہ فرقہ یونس بن عبد الرحمن اھمی کا پیر د تھا.یہ فرقہ بھی اثنا عشریہ کی ہی ایک شاخ ہے لیکن خدا تعالیٰ کے بارہ میں ایک خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اسے الگ فرقہ شمار کیا گیا ہے.+ اس فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر متمکن ہے اور اس کے عرش کو آٹھ فرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں.یہ فرشتے عرش کے لحاظ سے کو کمزور ہیں لیکن جس طرح تحریکی نامی پرندہ ہوتا ہے جس کا جسم بہت ا اور بڑا ہوتا ہے اور ٹانگیں انتہائی پتلی اور کمزور ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کمر و ٹانگیں اس کے بھاری جسم کو اُٹھائے رکھتی ہیں اسی طرح یہ فرشتے کمزور ہونے کے باوجود عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں.الشَّيْطَانِه یه فرق محمد بن العمان شیطان الطاق کا پیرو ہے.بعض شیعہ اس سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور اسے شیطان الطاق کی بجائے مُؤمِنُ الطاق کہتے تھے.حضرت امام ثوری کو بھی اس سے بڑی عقیدت تھی وہ کہا کرتے تھے کہ محمد بن العمان کو دیکھ کر مجھے سمجھ آئی کہ صوفی کے کہتے ہیں بہر حال یہ اپنے زمانے میں معروف ومشہور صوفیاء میں شمار ہوتا تھا اور امام جعفر کا ہمعصر تھا.خدا تعالی کے بارہ میں اس کے نظریات بھی مذکور و بالا ہشامیہ فرقے کے نظریات سے ملتے جلتے تھے.محمد بن النعمان بھی بڑی متنازع فیہ شخصیت کا حامل تھا.بعض اُسے ولی اللہ مانتے تھے اور بعض اُسے گھلا کھلا شیطان کہتے تھے.کے ١٢- الكامِلیہ.یہ فرقہ ابو کامل کا پیرو تھا.اس فرقہ کا نظریہ تھا کہ تمام صحابہ (وَالْعِبَاذُ بالله) کافر ہیں.عام صحابہ اس لئے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ و سلم کے حکم کی خلاف ورزی کی اور علی کو خلیفہ ماننے کی بجائے ابو بکر کو خلیفہ چن لیا اور علی اس لئے کافر ہیں کہ انہوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے جنگ نہیں کی بلکہ چپ کر کے بیٹھ گئے.علاوہ ازیں اس فرقہ کا یہ بھی نظر یہ ہے کہ علی اپنی الفرق بين الفرق صفحه ۴۹ الفرق بين الفرق صفحه ۴۸
تاریخ افکا را سلامی ۲۲۴ غلطی کے تدارک کے لئے دوبارہ دُنیا میں واپس آئیں گے اور دوسرے صحابہ کو بھی زندہ کیا جائے گا تا کہ علی اُن سے اپنا حق واپس لے سکیں.یہ گروہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ ابلیس حضرت آدم کو سجدہ نہ کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ آگ زمین سے افضل ہے.اس فرقہ کا ایک شاعر کہتا ہے: الْأَرْضُ مُظْلِمَةٌ وَالنَّارُ مُشْرِقَةٌ وَالنَّارُ مَعْبُودَةً مُذْ كَانَتِ النَّارُ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس فرقہ کے عقائد مجوسیت سے متاثر تھے.شیعوں کا دوسرابر اضمنی فرقہ الزيديه شیعہ زید یہ دوسرے امامیہ فرقوں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ یہ حضرت امام زین العابدین کے بیٹے محمد باقر کی بجائے اُن کے دوسرے بیٹے زید بن زین العابدین کو اپنا امام مانتے ہیں اور حضرت زید کی شہادت کے بعد اُن کے بیٹے بیٹی کی امامت کے قائل ہیں.زید یہ کے نزدیک امامت کے اہل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرطیں ہیں:.القة امام وہ بن سکتا ہے جو حضرت فاطمہ کی نسل میں سے ہو.ب و وصاحب السیف ہو یعنی اقتدار کا مالک ہو یا اقتدار حاصل کرنے کے لئے مسلح جدو جہد میں مصروف رہتا ہو.ج: امامت کے لئے نص اور وصیت ضروری نہیں بلکہ اُمت کو امام منتخب کرنے کا حق ہے جبکہ منتخب میں مندرجہ بالا دونوں شرطیں پائی جاتی ہوں.یہ فرقہ اصولی طور پر امام غائب یا مہدی منتظر کا بھی قائل نہیں بلکہ ضروری سمجھتا ہے کہ اُمت میں ہر وقت واجب الاطاعت امام موجود ہو جو امت کی را ہنمائی کا فریضہ سرانجام دے.کہا جاتا ہے کہ حضرت زید بنو امیہ کے خلاف نہ تھے بلکہ مسالم تھے لیکن ایک بار وہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دربار میں گئے تو اُس نے بلاوجہ آپ کی تو ہین کی اور آپ کو لونڈی زادہ کہا.آپ وہاں سے کبیدہ خاطر واپس آئے اور ہشام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا.کوفہ اور گردو نواح کے ہزاروں باشندوں نے آپ کی بیعت کی اور بنو امیہ سے جنگ میں آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جنگ کے دوران حضرت زید کے بعض سرداروں نے اُن سے سوال کیا کہ وہ ابو بکر اور عمر کے بارہ
تاریخ افکارا سلامی ۲۲۵ میں کیا نظریہ رکھتے ہیں.حضرت زید نے جواب دیا میں ان کو اپنا بزرگ مانتا ہوں وَ إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا خَيْرًا وَ مَا سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ فِيهِمَا إِلَّا خَيْرًا اس پر یہ معترضین اور اُن کے پیر وسب آپ سے الگ ہو گئے صرف دو سو آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے اس پر آپ نے فرمایا.یہ لوگ جنہوں نے مین میدان جنگ میں غداری کی ہے رافضی ہیں.اس طرح پہلی دفعہ شیعوں کا نام رافضی پڑا.بہر حال زید اور اُن کے دو سو ساتھی لڑتے ہوئے سب کے سب شہید ہو گئے.حضرت زید کی تدفین ہوئی لیکن عراق کے اُموی والی نے آپ کی نعش کو قبر سے نکال کر سولی پر لٹکا دیا.یہ جنگی نقش کئی دنوں تک لکتی رہی.اس کے بعد اُسے اُتار کر جلا دیا گیا.حضرت امام زید کے بیٹے بیٹی خراسان کی طرف بھاگ گئے لیکن وہاں کے والی سے جنگ کرتے ہوئے وہ بھی شہید ہو گئے.خراسان کے شہر جو ز جان میں اُن کا مزا راب تک مرجع عوام ہے.کوفیوں کی اس قسم کی غداریوں کی وجہ سے جو انہوں نے مسلسل ائمہ اہل بیت سے روا رکھیں یہ محاور مشہور ہو گیا کہ هُوَ اغْدَرُ مِنْ كُوفِی کیونکہ کوفیوں نے سب سے پہلے حضرت علی سے غداری کی جو بالآخر حضرت علی کی شہادت پر منتج ہوئی.اس کے بعد انہوں نے حضرت حسن کی بیعت کی لیکن اس پر وہ قائم نہ رہے اور ایک موقع پر آپ کو نیزہ مار کر گھوڑے سے گرا دیا.حضرت امام حسن نے ان کی یہ حالت دیکھ کر امیر معاویہ سے مصالحت کرلی.اس کے بعد اہل کوفہ نے امام حسین کو مکہ سے بلوایا لیکن بعد میں آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور ان کی اس غداری کی وجہ سے امام حسین اور ان کا سارا خاندان میدان کر بلا میں شہید ہو گیا.صرف امام زین العابد بین بوجہ بیماری اور امام حسن مشقی بوجہ صغرسنی بیچ سکے.امام حسین کو شہید کرنے والے بھی سب کے سب کوفی تھے اُن میں ایک بھی شامی نہیں تھا.اس کے بعد امام حسین کے ہوتے حضرت زیڈ سے غداری کے یہ مرتکب ہوئے.غرض اہل کوفہ کی غداریوں کی فہرست بڑی طویل ہے.ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ائمہ اہل بیت کی وفاداری کا عہد کرتے ، ان کی بیعت کرتے لیکن جلد ہی اپنے عہد سے پھر جاتے اور بعض اوقات میں میدان جنگ میں اپنے امام کو تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے.حضرت زید کی شہادت کے بعد زید یہ مندرجہ ذیل تین فرقوں میں بٹ گئے.
تاریخ افکا را سلامی ۲۲۶ الزیدیہ کے ذیلی فرقے - اَلْجَارُودِيَّهِ السُّلَيْمَانِيَّه - البُتْرِيَّه الْجَارُوُدِيَّه - فرقہ ابو الجارود کا پیرو تھا.اس فرقے کا نظریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام لے کر حضرت علی کو جانشین مقرر نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے بعض ایسے اوصاف بیان کئے تھے جو حضرت علی میں پائے جاتے تھے اور جس کا مفہوم یہ تھا کہ میرے بعد علی کو میرا جانشین مانا جائے - أى أن النبي نَصَّ عَلَى إِمَامَةِ عَلِي بِالْوَصْفِ دُونِ الاسم مگر صحابہ اس ہدایت کی پابندی نہ کر کے کفر کے مرتکب ہوئے.جار ودیہ کا یہ نظریہ بھی ہے کہ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کی امامت وصفا منصوص “ ہے اور اس کے بعد حضرت علی کی فاطمی اولاد میں سے شوری یعنی انتخاب کے ذریعہ امام منتخب ہو گا بشرطیکہ وہ صاحب السیف ہو.جارودیہ کی ایک شاخ کا یہ نظریہ ہے کہ امام محمد بن عبد اللہ ”مہدی منتظر ہیں.کو یا جو نظریہ امامیہ میں سے فرقہ المحمدیہ کا ہے و ہی نظر یہ ان کا بھی ہے لیکن زید یہ کے دوسرے فرقے امام حاضر کے قائل ہیں یعنی اُن کے نزدیک جب امام نوت ہو جائے تو اُس کی وفات کے بعد بذریعہ انتخاب دوسرا امام مقرر کرنا ضروری ہے.اَلسُّلَيْمَانِيہ.یہ فرقہ سلیمان بن جریر کا پیرو ہے.اس فرقہ کا نظریہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو امام مانے کی وصفاً تا کید کی تھی نہ یہ کہ آپ کا نام لے کر آپ کو خلیفہ ماننے کا حکم دیا تھا لیکن صحابہ نے اس ہدایت کے مطابق حضرت علی کو اپنا امام نہ مانا بلکہ ابو بکر کو امام منتخب کر لیا مگر صحابہ کی یہ غلطی اجتہادی تھی یعنی انہوں نے ترکی اولی کیا اس لئے اس غلطی کی وجہ سے نہ وہ کافر ہیں اور نہ مستوجب سزا لے غرض یہ فرقہ افضل کی موجودگی میں مفضول کو امام مان لینے کو زالے جائز سمجھتا ہے، اس لئے اس فرقہ کے نزدیک ابو بکر اور عمر امام برحق اور خلیفہ راشد تھے تا ہم یہ فرقہ حضرت عثمان کی تکفیر کرتا ہے.البتريه - يفرقہ صالح بن حتى اور كَثِيرُ النَوَاءِ الابتر کا پیرو ہے.ان کا نظریہ بھی خلافت کے بارہ میں وہی ہے جو سلیمانیہ کا ہے لیکن یہ حضرت عثمان کی تکفیر نہیں کرتے.فَهو لاءِ أَحْسَنُ حَالا العقيلة والشريعة في الاسلام صفحه ۲۱۱
تاریخ افکارا سلامی عِند أهل السنة ۲۲۷ زید یہ کے تینوں گروہ خوارج کی طرح کبیرہ گناہ کے مرتکب کو دائمی جہنمی مانتے ہیں.فرقہ زید یہ یمن میں بر سر اقتدار ہے اور دوسرے شیعہ فرقوں کی نسبت اہل سنت کے زیادہ قریب ہے.فقہ زیدیہ بھی ایک قابل قدر علمی سرمایہ اور مطالعہ کے لائق فقہ ہے.شیعوں کا تیسر ابر اضمنی فرقہ الكَيْسَانِيَّة " شیعوں کا یہ فرقہ مختار بن عبید ثقفی المقتول ۶۷ ھ کی طرف منسوب تھا.مختار حضرت امام حسین کے قاتلین سے انتقام لینے کا دعوی لے کر اُٹھا اور اُن کو چن چن کر قتل کیا یہاں تک کہ ایک جنگ میں امام حسین کے قتل میں ملوث آخری آدمی محمد بن الاشعث کندی کو بھی قتل کیا اور کہا وَاللَّهِ لَا أَبَالِي بالموت بعد هذا.چنانچہ اسی جنگ کے تسلسل میں مختار مارا گیا.مختار کے اسی کا رنامہ کی وجہ سے عام شیعہ کے دل میں اُس کی بہت زیادہ قدر ہے.مختار نے حضرت علی کے ایک غیر فاطمی بیٹے محمد بن الحنفیہ کو امام مانے کی دعوت دی اور انہیں مہدی قرار دیا.گیسان مختار کا خفیہ نام تھا.بعض روایات کے مطابق گیسان امام محمد بن الحنفیہ کا ایک مقرب شاگر د تھا.جس نے مختار کو قاتلین حسین سے انتقام لینے پر اکسایا تھا اور فرقہ گیسانی کی گیسان کی طرف منسوب ہے.+ بہر حال مختار کو اس دعوت میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی.کوفہ اوراس کے گردو نواح میں سترہ ہزار کے قریب لوگ اُس کے پیرو بن گئے ان دنوں عراق کا علاقہ عبد اللہ بن زبیر کے قبضہ میں تھا اور خاصے انتشار کا شکار بنا ہوا تھا.مختار نے آغاز میں زبیریوں کو اس علاقہ میں بے اثر کر دیا مختار وحی والہام کا بھی مدمی تھا اُس نے کئی پیشگوئیاں کیں جو پیشگوئی پوری ہو جاتی اسے وہ اپنی صداقت کے طور پر پیش کرنا اور جو پوری نہ ہوتی اس کے بارہ میں کہتا کہ خدا نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے.اس تبدیلی ارادہ کا اُس نے اصطلاحی نام بداء " رکھا.نظریہ بداء پہلی دفعہ مختار نے ہی پیش کیا تھا اس کے بعد بعض اور شیعہ فرقوں نے اس سے متعدد بار کام لیا.جیسا کہ شیعہ اثنا عشریہ کے بیان میں ذکر آ چکا ہے لیے الفرق بين الفرق صفحه ۲۶ تا ۳۵ - تاريخ الشيعة صفحه ۳۳ - فرق الشيعة صفحه ٢٣
تاریخ افکا را سلامی کیسانیہ فرقہ کے خصوصی نظریات ۲۲۸ کیسانیہ کا ایک گروہ کہتا تھا کہ حمد بن الحنفیہ ” مہدی منتظر ہیں وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ رضوی پہاڑ میں پناہ گزیں ہیں.وہاں شہد اور پانی کے چشمہ سے اپنی خوارک حاصل کرتے ہیں اور ایک شیر اُن کی حفاظت پر مامور ہے وہ اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے اور دشمنوں کو ہلاک کریں گے.ایک کیسانی شاعر کفیر غزہ اس بارہ میں کہتا ہے.تَغَيَّبَ لَا يُرَى فِيْهِمْ زَمَانًا بِرَضُوى عِنْدَهُ عَسْلٌ وَمَاءُ L یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمد بن الحنفیہ کو رضوی پہاڑ میں ان کی بعض غلطیوں کی وجہ سے قید کیا گیا تھا یعنی اللہ کی طرف سے اُن کو یہ سزا دی گئی کیونکہ انہوں نے امام حسین کی شہادت کے بعد یزید کے پاس جا کر معذرت کی تھی اور اُس سے مال ( عطا ) قبول کیا تھا.اُن کی دوسری غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ابن زبیر کا مقابلہ نہ کیا بلکہ ملکہ سے بھاگ کر عبد الملک بن مروان کی پناہ میں آنے کی کوشش کی.کیسانیہ کا دوسرا گروہ کہتا تھا کہ محمد بن الحنفیہ فوت ہو گئے ہیں اور اُن کے بعد ان کے لڑ کے ابو ہاشم عبد اللہ بطو روصی امام مقرر ہوئے اور پھر انہوں نے اپنی وفات کے وقت محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کے حق میں وصیت کی اور ان کو اپنا جانشین بنایا.یہاں سے ہی بنوامیہ کے خلاف چلائی گئی خفیہ تحریک علویوں کے ہاتھ سے نکل کر عباسیوں کے ہاتھ میں آگئی اور بالآخر دولت عباسیہ کے قیام پر منبج ہوئی.چنانچہ یہ تحر یک جو بنو امیہ کے خلاف شروع کی گئی تھی جب کامیاب ہوئی تو محمد بن علی کے بھائی ہے ابو العباس سفاح اور اُس کی وفات کے بعد ابو جعفر منصور مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور دولت عباسیہ میں بھی علوی بدستور زیر عتاب رہے اور اُن پر بڑی سختیاں ہوئیں.کیسانیہ کے ایک اور گروہ کا دعوی تھا کہ امام ابو ہاشم نے اپنے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب کے پڑ پوتے عبداللہ بن معاویہ کو اپنا جانشین بنایا تھا.چنانچہ عباسیوں کی خفیہ تحریک کے فروغ سے کچھ پہلے الفرق بين الفرق صفحه 28 الفرق بين الفرق صفحه 194
تاریخ افکا را سلامی ٢٢٩ عبد اللہ بن معاویہ کے گروہ کو خاصی کامیابی نصیب ہوئی اور یہ گرو ہ عراق اور خراسان کے علاقوں پر قابض بھی ہو گیا لیکن یہ قبضہ عارضی ثابت ہوا.ابو مسلم خراسانی جو عباسیوں کا حامی تھا اُس نے عبد اللہ بن معاویہ کی تحریک کو کچل دیا اور عبد اللہ کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا اور وہ قید کی حالت میں ہی فوت ہوئے.عبداللہ کے پیر وعبداللہ کی البیت کے قائل ہیں اور تاریخ کے نظریہ کو بھی مانتے ہیں كَمَا سَيَجِيءُ لیے اعتدال پسند فرقوں کے بارہ میں اہل سنت کا مسلک علا مہ بغدادی صاحب کتاب الفَرْق بَيْنَ الفِرق اعتدال پسند فرقوں کے بارہ میں کہتے ہیں کہ امامیہ، زیدیہ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ فرقے جو غلو میں حد سے نہیں بڑھے وہ اپنی بدعات کے باوجود بعض احکام میں اُمت اسلامیہ کا حصہ ہیں اور اُس میں داخل سمجھے جاتے ہیں.ہے شیعوں کے بعض مملو پسند فرقے جو امت مسلمہ میں شامل نہیں سمجھے جاتے - السَّبَئِيه- یہ فرقہ عبد اللہ بن سبا کا پیرو تھا.اس فرقہ کے بعض لوگ حضرت علی کو نبی مانتے تھے اور بعض انہیں خدا کہتے تھے.کہا جاتا ہے کہ جب حضرت علی کو ان کی اس قسم کی گمراہیوں کا علم ہوا تو آپ نے حضرت ابن عباس کے مشورہ سے اس گروہ کے سرغنہ عبداللہ بن سبا کو مدائن کی طرف جلا وطن کر دیا لیکن وہاں بھی وہ شرارت سے باز نہ آیا.خفیہ طور پر عقائد باطلہ پھیلاتا رہا کیونکہ اس کا اصل مقصد امت مسلمہ میں انتشار پھیلانا تھا جس کے لئے اُس نے اہل بیت سے محبت اور موالات کو بطور ہتھیا راستعمال کیا.چنانچہ حضرت علی کی شہادت کے بعد عبد اللہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علی قتل نہیں ہوئے بلکہ شیطان قتل ہوا ہے جس نے علی کی شکل اختیار کر لی تھی.اس کا قول تھا کہ إِنَّ عَلِيًّا صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَا صَعِدَ عِيسَى وَإِنَّهُ سَيَنْزِلُ إِلَى الدُّنْيَا وَيَنْتَقِمُ مِنْ أَعْدَائِهِ - L عبداللہ بن سبا حضرت علی کو مہدی منتظر قرار دیتا تھا اور کہتا تھا کہ بادلوں میں جو بجلی کوندتی ہے وہ علی کا کوڑا ہے اور گرج علی کی آواز ہے.اسی طرح بعض کے نز دیک عبد اللہ بن سبا یہ بھی کہتا تھا کہ الفرق بين الفرق صفحه ۲۶ چنانچہ علامہ لکھتے ہیں.هُوَ مِنْ جُمَلَةِ أُمَّةِ الْإِسْلَامِ فِي بَعْضِ الاحكام وَ هُوَ أَنْ يُنفَنُ فِي مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا يُمْنَعُ مِنْ دُخُولِ مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ وَمِنَ الصَّلَوةِ فِيهَا وَيَخْرُجُ فِي بَعْضِ الأَحْكامِ عَنْ أُمَّةِ الإِسْلامِ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ لَا تَجُوزُ الصَّلوةُ عَلَيْهِ وَلَا الصَّلوةُ خَلَفَهُ وَلَا تَحِلُّ ذَبِيحَتَهُ وَلَا تَحِلُّ الْمَرَأةَ مِنْهُم لِلسَّنِي وَلَا يَصِحُ نِكَاحَ السَّيِّئَةِ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ (الفرق بين الفرق صفحه ١٦٧)
تاریخ افکارا سلامی ۲۱ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور علی انحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وصی ہیں.انى أَنَّهُ وَجَدَ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ لِكُلِّ نَبِي وَصِيَّا وَأَنَّ عَلِيًّا وَصِيُّ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم وَأَنَّهُ خَيْرُ الاَ وُصِيَاءِ - كويا على کے وصی ہونے کے نظریہ کا موجد عبد اللہ بن سبا ہے.٢ - البَيَانِيه.یہ فرقہ بیان بن سمعان کا پیرو تھا.ان کا دعوی تھا کہ امام محمد بن الحنفیہ کے بیٹے امام ابو ہاشم مہدی منتظر ہیں اور انہوں نے نہ تو محمد بن علی عباسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور نہ عبد اللہ بن معاویہ جعفری کو بلکہ انہوں نے اپنے مقرب شاگر د بیان بن سمعان کو اپنا جانشین بنایا تھا.اس گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ روح اللہ حضرت علی سے منتقل ہو کر اُن کے بیٹے محمد بن الحنفیہ میں اور اس کے بعد اُن کے بیٹے ابو ہاشم میں حلول کئے رہی اور اُن کے بعد بیان بن سمعان میں آبسی.چنانچہ وہ کہتے ہیں.إِن رُوحَ الإِلَهِ تَنَاسَخَتُ فِي الْأَنْبِيَاءِ وَالأَئِمَّةِ حَتَّى انْتَقَلَتْ إِلى بَيَانِ ابْنِ سَمُعَان التيمي بيان اس بات کا بھی مدعی تھا کہ آیت کریمہ هذَا بَيَان لِلنَّاس میں اُس کا ذکر ہے.وہ کہا کرتا تھا کہ انا البَيَانُ وانا الهدى والموعظة ـ بیان کا یہ بھی دعوی تھا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے جس کی طاقت سے وہ دُنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے.بیان کا نظریہ تھا کہ چہرہ کے سوا خدا کا سب وجود فنا ہو جائے گا ( العیاذ باللہ) کیونکہ قرآن کریم میں دارد ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ويَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ سے اورسورہ قصص میں فرمایا.كُلُّ شَيْ مَالِكَ إِلَّا وَجْهَهُ - بانه كانیه دعویٰ بھی تھا کہ بیان اللہ کا نبی ہے اور اُس نے مبعوث ہو کر شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دیا ہے.عراق کے اموی حاکم خالد بن عبد الله القسری نے بیان کو اُس کی شرارتوں کی وجہ سے گرفتار کر لیا اور اُسے سولی دینے سے پہلے اُس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ان كُنْتَ تَهْزِمُ الْجُيُوشَ بِالْاِسْمِ الْأَعْظَمِ إِنْ الَّذِي تَعْرِفُهُ فَاهْزِمُ بِهِ أَعْرَانِي - الفرق بين الفرق صفحه ۱۷۸۰۱۷۷ - فرق الشیعه صفحه -۲۲ علی و بنوه لطه حسین مصری صفحه ۱۷۱۰۱۱۲٬۹۳ بعض کے نزدیک یہ نظریہ عبداللہ بن السوداء الیہودی نے پیش کیا تھا اور بعض کی رائے ہے کہ عبد اللہ بن سبا اور عبداللہ من السوداء یہودی در اصل ایک ہی شخص کے دو نام ہیں.علی و بنوه صفحه ۴۳ الرحمن : ۲۷-۲۸ - فرق الشیعه صفحه ۳۴ - القصص: ۸۹ الفرق بين الفرق صفحه ۸۰ -
تاریخ افکا را سلامی ۳۳۱ المُغيريه به فرو بگیره بن سعيد العجلی کا پیر د تھا.مغیرہ پہلے امام محمد باقر کا عقیدت مند تھا.پھر ان کی امامت کے بارہ میں شک کرنے لگا اور ان کی وفات کے بعد امام جعفر صادق کی امامت قبول کی پھر امام محمد النفس الزكيه بن عبد اللہ کا عقیدت مند بن گیا.اس کا نظر یہ تھا کہ یہ محمد ہی مہدی منتظر ہیں.کہا جاتا ہے کہ مغیرہ نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد نبوت کا دعوی کیا لے وہ اس بات کا بھی مدعی تھا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے اور وہ اس کی طاقت سے مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اور بھاری لشکروں کو شکست دے سکتا ہے.اُس کا یہ نظریہ بھی تھا کہ خدا ایک نورانی انسانی شکل رکھتا ہے اور اُس کے اعضاء حروف ہجاء کی صورت پر ہیں و ہدیہ بھی مانتا تھا کہ خدا جب کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسم اعظم بولتا ہے.سَبِّحِ اسْمَ ربک الاعلی میں اسی اسم اعظم کی طرف اشارہ ہے.وہ نظر یہ تخلیق کی یوں تشریح کیا کرتا تھا کہ خدا نے جب اسم اعظم بولا تو و واسم اعظم اُس کے سر کا تاج بن گیا پھر اس نے اپنی انگلی سے ہتھیلی پر اپنے بندوں کے اعمال اور ان کی تقدیر میں لکھیں.جب اُسے اپنے بندوں کے گنا ونظر آئے تو اُسے سخت غصہ آیا اور خضہ سے پسینہ پسینہ ہو گیا یہ پسینہ دو سمندر بن گیا ایک شیریں اور ایک نمکین اور تلخ شیریں سمندر سے شیعہ پیدا ہوئے اور کڑوے سمندر سے شیعوں کے دشمن کافر.سمندر کے پانی میں خدا کو اپنا سایہ نظر آیا تو خدا اُسے پکڑنے کے لئے دوڑا کہ اُسے فنا کر دے تا کہ وہ سایہ اور عمل دوسرا خدا نہ بن سکے چنانچہ اس نے اپنے سایہ کو پکڑ کر فنا کر دیا لیکن اس کی وہ آنکھیں بچ گئیں.چنانچہ ایک آنکھ سے سورج پیدا ہوا اور دوسری سے چاند.دوسری اشیاء کی تخلیق کا آغاز پانی سے ہوا.سب سے پہلے ظل محمد پیدا ہوا اور آیت کریمہ قال انسا كان للرحمنِ وَلَدٌ فَأَنا أول العبدِین میں ظل محمد" کی طرف ہی اشارہ ہے پھر قل لِلرِّحْمَنِ اوَلُ الْعَبِدِينَ " محمد سے دوسرے اظلال الناس پیدا ہوئے.بغیر نے آیت کریمہ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ على السموتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ سے کی تغییر اس طرح بیان کی ہے کہ امانت سے مراد حضرت علی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی حمایت اور حفاظت کی ذمہ داری آسمان و زمین اور پہاڑوں کو سو مینی چاہی لیکن انہوں نے معذرت کی کہ وہ یہ ذمہ داری نہیں اُٹھا سکتے.اس موقع پر عمر نے ابو بکر سے کہا دعائم الاسلام جلدا صفحه ا- العقيلة و الشريعة في الاسلام صفحه ۱۸۵ الزخرف : ۸۲ الاحزاب : ۷۳
تاریخ افکا را سلامی ۲۳۲ کہ تم یہ ذمہ داری قبول کر لو اور اگر تم اپنے بعد مجھے اپنا جانشین بنانا منظور کر لو تو میں اس معاملہ میں تمہاری مددکروں گا اور دنیا میں جا کر اس ذمہ داری سے مکر جائیں گے اور علی کی حمایت و حفاظت نہیں کریں گے.چنانچہ آیت کریمہ میں الفاظ الانسان اور ظَلُومٌ جَهُولٌ “ سے مراد ابوبکر ہیں اور آیت کریمہ كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بر من میں الشیطان سے مراد ( العیاذ باللہ ) عمر ہیں اور الانسان سے ابو بکر.“ ابوبکر مغیرہ اور اس کے گروہ کے دوسرے سرغنوں کو بھی خالد بن عبد الله القمری نے ہی گرفتار کر کے سب کو تارکول سے جلا دیا ہے الازليه - یہ فرقہ علی اور عمر دونوں کے ازلی ہونے کا قائل تھا البتہ وہ پھلی کو ” نور“ اور نمائندہ خیر مانتا تھا اور عمر کو ظلمت اور نمائند ہ شر.جو علی کو پریشان کرنے کے لئے مقرر ہے.ظاہر ہے کہ اس فرقہ نے یہ خیال مجوس اور مویہ سے مستعار لیا ہے.۵ - المَنْصُورِيه ي فرقه ابو منصور انجلی کا پیرو تھا.ابومنصور امام محمد با فرز کا مقرب شاگرد تھا اُن کی وفات کے بعد اُس نے دعوی کیا کہ وہ امام محمد باقر کا نائب اور وصی ہے اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ آیت کریمه وَإِن يَرَوْا كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِصا کے میں حسف “ سے مراد السفّاقِنَ وہ خود ہے.اُس نے آسمان پر جا کر اللہ سے اپنے سر پر ہاتھ پھروایا اور پھر وہاں سے نازل ہو کر دُنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا.اُس کا یہ نظریہ بھی تھا کہ سات نبی قریش سے مبعوث ہوئے ہیں اور سات ہی اس کے قبیلہ بنو عجل سے مبعوث ہوں گے.اس فرقہ کا یہ بھی نظر یہ ہے کہ قیامت سے مراد اسی دُنیا کے انقلاب ہیں.نعماء دنیا جنت ہیں اور مصائب الدنیا دو زخ.ابومنصور اپنے پیرووں کو یہ تلقین کرتا تھا کہ جب بھی موقع ملے اپنے مخالفین کا گلا گھونٹ دیا کرو.والی عراق یوسف ثقفی نے جو حجاج ثقفی کا بھتیجا تھا ابو منصور کو گرفتار کر کے سُولی دے دیا اور اُس کے اتباع کو مختلف علاقوں میں تتر بتر کر دیا.↓ ✓.الحشر : ۲۱۷ الفرق بين الفرق صفحه ۱۸۱ حاشیه - فرق الشيعة صفحه ٦٣ اعتقادات فرق المسلمين و المشركين صفحه ۶۱ الطور : ۴۵ یا در ہے کہ بنو جیل کا تعلق بھی بنور بیعہ سے تھا جسے بنو مصر خصوصاً قریش سے خدا واسطے کا بیر تھا.مسیلمہ کذاب کے قبیلہ بنو حنیفہ کا تعلق بھی بنور بیعہ سے تھا.کما مر الفرق بين الفرق صفحه ۱۸۶ - فرق الشيعة صفحه ۳۸
تاریخ افکا را سلامی - الجناحيه- یہ فرقہ عبد الله بن معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب کا پیر د تھا.اس سے پہلے یہ گزر چکا ہے کہ امام محمد بن الحنفیہ کے بیٹے ابو ہاشم کے وصی ہونے کا امام عبد اللہ مذکور کو دھوئی تھا.یہ بڑے خطیب اور صحیح البیان بزرگ تھے.بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت اطاعت کی اور یہ فارس او را صفہان کے وسیع علاقوں پر قابض ہو گئے لیکن یہ غلبہ عارضی ثابت ہوا.ابومسلم خراسانی کے ہاتھوں ان کے اتباع شکست کھا گئے اور خود عبد اللہ اس کے قید خانہ میں بحالت قید فوت ہوئے.امام عبد اللہ کی وفات کے بعد بعض زندیق طبع لوگوں نے ان کے پیرؤوں کو گمراہ کیا.بہر حال ان کے اتباع کا نظریہ تھا کہ خدا کی روح مختلف انبیاء اور ائمہ میں حلول کرتی اور منتقل ہوتی ہوئی امام عبد اللہ میں آبسی تھی.جناحيه اباحت کے بھی قائل تھے چنانچہ شراب، زنا ، لواطت اور دوسرے محرمات کو جائز سمجھتے تھے اور ہر قسم کی عبادت سے کنارہ کش ہو گئے تھے.یہ اپنے ان نظریات کے درست ہونے کا استدلال اس آیت کریمہ سے پیش کرتے تھے.لَيْسَ عَلَى الَّذِینَ آمَنوا وَعَمِلُوا الصلحت جناح فيما خلعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَ آمَنُوا الآية - اس آیت میں چونکہ جناح کا لفظ آیا ہے اس لئے اس فرقہ کو اس آیت سے استدلال کرنے کی وجہ سے جناحیہ کہا گیا ہے.یہ فرقہ احکام شریعت کی تاویل کرتا تھا مثلاً کہتا تھا کہ صلوۃ سے مراد ائمہ اہل بیت کی محبت موالات اور ان کی اطاعت ہے اور محرمات سے مراد ان کے دشمنوں سے بغض اور نفرت ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ فرقہ صحابہ کرام سے شدید بغض رکھتا تھا.یہ فرقہ تناسخ کا بھی قائل تھا.ہے الخطابيه یہ فرقہ ابو الخطاب محمد بن ابی زینب کا پیرو تھا.ابو الخطاب امام جعفر صادق کا مقرب شاگر درہا تھا.ان کی وفات کے بعد اس نے دعویٰ کیا کہ وہ امام جعفر کا نا ئب ہے.امام جعفر کی زندگی میں ہی ابو الخطاب یہ عقید ہ ظاہر کرنے لگا کہ ائمہ اہل بیت نبی ہیں پھر کہا کہ وہ اللہ ہیں.حسن حسین اور ان کی اولاد ابناء الله ہے.ابو الخطاب کے اس قسم کے باطل عقائد کا جب امام جعفر کو علم ہوا تو انہوں نے اُسے ملعون قرار دیا او راپنی مجلس سے نکال دیا.المائدة : ۹۴ الفرق بين الفرق صفحه ۱۸۸ - فرق الشيعة صفحه ٣٩
تاریخ افکا را سلامی ۲۳۴ ابو الخطاب نے امام جعفر کی وفات کے بعد خودالہ ہونے کا دعویٰ کیا اُس کے پیرو کہا کرتے تھے کہ إِنَّ جَعْفِرًا إلهُ وَلَكِنَّ اَبَا الْخِطَابَ اَفْضَلُ مِنْهُ بَلْ هُوَ أَفْضَلُ مِنْ عَلِي - ابو الخطاب کو عباسی والی عیسی بن موسیٰ نے گرفتار کر کے سُولی دے دیا.خطابیہ کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اگر ان کے ہم عقیدہ کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اُس کے حق میں اور اس کے مخالف کے خلاف جھوٹی گواہی دینا کار ثواب ہے.خطابیہ کا یہ نظریہ ہے کہ ہر زمانہ میں ایک امام ناطق ہوتا ہے اور دوسرا امام صامت.ناطق کی وفات کے بعد صامت نا طلق بن جاتا ہے اور کوئی دوسرا صامت کے درجہ پر فائز ہو جاتا ہے.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ناطق تھے اور علی امام صامت اور حضور کی وفات کے بعد علی امام ناطق بن گئے.اسی طرح امام جعفر اپنے عہد میں امام ناطق تھے اور ابو الخطاب امام صامت.پھر امام جعفر کی وفات کے بعد وہ امام ناطق بن گیا.خطابیہ تناسخ کے قائل اور قیامت کے منکر تھے.صحابہ کرام کی تکفیر کرتے اور اباحت کے نظریہ پر عمل پیرا تھے.الْغُرَابِیہ.اس فرقے کا عقیدہ تھا کہ اصل میں جبرائیل حضرت علی کی طرف وحی لائے تھے لیکن اُن کی شکل چونکہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) سے بہت ملتی تھی سکے.اس لئے جبرائیل کو دھو کہ لگ گیا اور انہوں نے علی کی بجائے محمد پر وحی اتار دی اس لئے اصل رسول علی اور اُن کی اولاد ہے چونکہ یہ لوگ علی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل کی مشابہت کے لئے الغراب بالغراب والذباب بالذباب کی تمثیل استعمال کیا کرتے تھے اس لئے ان کا نام غرابیہ پڑ گیا.یہ فرقہ اس مزعومہ غلط وحی کی وجہ سے حضرت جبرائیل سے نفرت کا اظہار کرنا تھا ہے.ل الفرق بين الفرق صفحه ۱۸۸ دعائم الاسلام صفحه ۶۳ دعائم الاسلام صفحه ۶۲ الفرق بين الفرق صفحه ۱۸۸ تا ۱۹۰ - فرق الشیعه صفحه ۴۲، ۴۴ ے یہ بھی یادر ہے کہ آنحضرت مہ جب مبعوث ہوئے تو اس وقت علی کی عمر دس سال تھی اور آنحضرت علی کی عمر چالیس سال.الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۰
تاریخ افکا را سلامی ۲۳۵ -٩ الْمُوَفِّضَه اس فرقہ کا عقیدہ تھا کہ یہ پیر عالم انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میر د ہے اس لئے و ومدبر اول اور خالق کائنات ہیں.اس کے بعد انہوں نے یہ فریضہ حضرت علی کے سپر د کر دیا اس لئے وہ مدیر ثانی ہیں.اس طرح کو یا یہ دونوں کا ئنات کی تخلیق اور تدبیر میں شریک ہیں.-١٠ الدِّمِّيه یہ فرقہ اس بات کا قائل ہے کہ علی خدا ہے.اُس نے محمد کو اس لئے رسول بنا کر بھیجا کہ وہ علی کے اقتدار کی منادی کریں لیکن انہوں نے علی کے اقتدار کی منادی کرنے کی بجائے اپنی عظمت کی طرف لوگوں کو دعوت دی.اسی لئے یہ فرقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے اور کہتا ہے إِنَّهُ ادَّعَى الْأَمْرَ لَنَفْسِهِ الشَّرِیعہ یہ فرقہ شریعی نامی ایک زندیق کا پیرو تھا.کے اس فرقے کا نظریہ تھا کہ اللہ تعالیٰ I پنجتن پاک یعنی پانچ ائمہ میں حلول کئے ہوئے ہے اس لئے یہ پانچوں کے پانچوں اللہ ہیں.کے روافض میں سے مندرجہ ذیل فرقے کسی نہ کسی رنگ میں حلول ھے اور ائمہ کے الہ ہونے کے قائل ہیں.السبيه، البيانيه، الجناحيه الخطابيه الشريعیہ.یہ سب فرقے اگر چہ نابود ہو چکے ہیں تا ہم ان کے نظریات فاسدہ کسی نہ کسی صورت میں موجودہ فرقوں میں پائے جاتے ہیں.مثلاً آغا خانی حلول کے قائل ہیں.امام ناطق، تاریخ اور اباحت کے نظریہ کو بھی مانتے ہیں اور یہ عقید بھی رکھتے ہیں کہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن.اور باطن کو صرف امام الزمان اور اس کے داعی جانتے ہیں.الفرق بين الفرق صفحه ۱۹ الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۱ الزنديقية هم الذين افضوا تعاليم الاديان الالهية بحجة تحرير الفكر - فرق الشيعة صفحه ٣٦ حاشيه ) فرق بين الفرق صفحه ۱۹۳ 2 الف - قال فخر الدین رازی اول من اظهرَ مَقَالَةَ الحلول في الاسلام الروافض فانهم ادعوا الحلول في حق الائمة - اعتقادات فرق المسلمين والمشركين صفحه ۷۳) ب ان الفرس قد بدء وا القداسة الى البيت النبوى باعتبارها اساسا مَوَازِيَا لأَسَبِهِمُ السَّيَاسِيَّةِ وَالبَيِّنِيَّةِ السَّابِقَةِ مِنْ تَأَلَيْهِمُ الْمُلُوك وقولهم بِالنُّورِ الَّذِي يَنتَقِلُ مِنْ مَلِكِ إلى اخر.(الفصل لا بن حزم جلد ۳ صفحه ۱۱۵)
تاریخ افکا را سلامی گمراہ فرقوں کے قائدین کی اصلیت PFY مذکور و تصریحات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان فرقوں کے قائدین زیادہ تر موالی اور فارسی عناصر تھے جن میں مجوسی ، یہودی اور عیسائی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مل جل گئے تھے او ر ائمہ اہل بیت کی آڑ لے کر یہ اپنے فاسد عقائد کا بیج نومسلموں کے دلوں میں ہوتے رہتے تھے.بعض اوقات تو ائمہ اہل بیت کو اُن کے اس قسم کے عقائد اور ان کی سرگرمیوں کی خبر تک نہ ہوتی تھی جو اُن کی طرف منسوب کر کے یہ باطل پرست پھیلا رہے ہوتے تھے کیونکہ دور رہنے والے عوام کی پہنچ ان ائمہ اہل بیت تک نہ تھی اور اگر کبھی ائمہ اہل بیت کے علم میں ایسی باتیں آجاتیں اور وہ اُن کی تردید کرتے تو یہ ابلیس کے نمائندے عوام کا لانعام کو یہ کہہ دیتے کہ دراصل ائمہ تقیہ کرتے ہیں، اُن کے اصل خیالات وہی ہیں جو ہم بیان کرتے ہیں لیکن فتنہ سے بچنے کے لئے انہوں نے کچھ اور ظاہر کیا ہے یا یہ لوگ عوام تک ائمہ کی بات پہنچنے نہ دیتے تھے اور امام کی وفات کے بعد اُس کے خود ساختہ وصی بن کر اقتدار پر قابض ہو جاتے اور اس طرح عوام کو لوٹتے اور انہیں گمراہ کرتے.جیسا کہ امام جعفر صادق کی سوانح حیات سے ظاہر ہے کہ اُن کی طرف متضاد قسم کے ایسے خیالات اور نظریات منسوب لے کئے گئے ہیں جو اس امام مہدی کی شان کے بالکل خلاف ہیں.غرض یہ سب کچھ انہی تلبیسی عناصر کی کارستانی تھی ہے ایک شاعر کہتا ہے أَلَمْ تَرَ أَنَّ الرَّافِضِينَ تَفَرَّقُوا وَكُلُّهُمْ فِي جَعَفَرٍ قَالَ مُنْكَرُ الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۲ الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۳
تاریخ افکا را سلامی + ۲۳۷ بنو عباس اور باطنی تحریکات بنو امیہ کے خلاف جو خفیہ تحریک علویوں اور رعباسیوں کی طرف سے چلائی گئی تھی وہ بنو امیہ کی حکومت کے خاتمہ اور بنو عباس کے اقتدار پر منتج ہوئی.اس خفیہ تحریک میں بالعموم عربوں سے دشمنی کا عنصر غالب تھا.اس تحریک کے ذریعہ مصری اور یمنی عربوں میں پھوٹ ڈلوائی گئی اور پرانی عصبیت کو زندہ کیا گیا.خراسانی عناصر کو آگے کیا گیا جس کی وجہ سے بنو امیہ یا بالفاظ دیگر عرب شکست کھا گئے اور تجھی عناصر کا اثر ورسوخ بڑھ گیا.بہر حال اس کامیابی سے نہ علوی خوش تھے اور نہ وہ عناصر جن کی تو قعات پوری نہ ہوئی تھیں.اس لئے خفیہ تحریکات کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ ان کا رخ بنو عباس کی طرف پھر گیا.چنانچہ ان عناصر میں سب سے زیادہ موثر فوجی انداز کی مخالفت ابو مسلم خراسانی نے کی تھی جس کے حامیوں کا بنو عباس کی کامیابی میں بڑا مؤثر کردار تھا.ابو مسلم کا خیال تھا کہ اس کی حمایت کی وجہ سے بنو عباس اس کے زیر اثر رہیں گے اور اس طرح خراسانی عناصر بڑی آسانی سے اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کر سکیں گے.ابو مسلم خراسانی کا اسلام بھی پختہ نہ تھا.بہت سے پرانے آبائی عقائد کا اس پر گہرا اثر تھا.وہ تاریخ کا قائل تھا.اور بھی بہت سے خلاف اسلام عقائد وہ رکھتا تھا.اس نے اپنے حامیوں میں اس تصور کا بھی اظہار کیا تھا کہ الحق الإلی یعنی خلافت الہیہ کے زیادہ مقدار عباس تھے.یہ الہی قوت عباس سے ان کی اولاد میں منتقل ہوئی اور چلتے چلتے بنو عباس کے پہلے خلیفہ ابو العباس عبدالله السفاح میں جاگزیں ہوگئی.اُن کے بعد خلافت کا یہ منصب الہی اشارہ کے تحت ابو مسلم خراسانی کے سپر د ہوا.بنو عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور نے جب دیکھا کہ ابو مسلم خراسانی اقتدار کے خواب دیکھ رہا ہے اور اس کے حامیوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں تو اس نے ایک سازش کے تحت ابو مسلم خراسانی کو قتل کرا دیا.یہ ۱۳۷ھ کا واقعہ ہے.سے اس قتل کی وجہ سے ابو مسلم کے بعض حامی بھر گئے اور خراسان کے ل والمنصور اوّل خليفة استعمل مواليه وغِلْمَانَة فى اعماله وقدمهم على العرب الاسلام والحضارة العربية جلد ۲ صفحه ۳۱۹ و ۴۲۴ هو عبد الرحمن بن مسلم المشهور با بی مسلم الخراسانی فرق) الشيعة صفحه ۴۷ حاشيه) فرق الشيعه صفحه ۴۷
تاریخ افکارا سلامی PPA بعض علاقوں میں بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی.انہی بغاوتوں میں سے ایک بغاوت سنباؤ کی تھی جو منصور کے مقابلہ میں آیا لیکن بری طرح شکست کھائی.اس لڑائی میں سنباؤ کے قریباً ساٹھ ستر ہزار حامی مارے گئے اور چودہ ہزار قید ہوئے جن کی بعد میں گردنیں اڑا دی گئیں لے لیکن یہ شورش اندر ہی اندر چلتی رہی.الرَّزَامِيه چنا نچہ ابو جعفر منصور کے بعد مہدی کے عہد خلافت یعنی ۱۵۸ھ کے قریب الرزامیہ کی شورش اٹھی جور زام نامی ایک زندیق کے پیرو تھے اور ابو مسلم خراسانی سے شدید محبت کا اظہار کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب حق الہی یعنی امامت محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کو ملی تو ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم الامام کو عطا ہوئی.پھر اُن کے بھائی ابوالعباس عبدالله السفاح کی طرف منتقل ہوئی اور السفاح کے بعد ابومسلم خراسانی اس کے وارث بنے.المُقنعیه فرقه ای الرزامیہ کی ہی شاخ ہے جن کا لیڈر اُس زمانہ کے لحاظ سے ایک ماہر کیمیا دان اور شعبدہ باز ہاشم سے بن حکیم المروزی تھا جو المتقع کے لقب سے مشہور ہے.یہ شخص اس بات کا مدعی تھا کہ الہ نے اُس میں حلول کیا ہے اس لئے وہ خدائی طاقتوں کا مالک اور عالم الغیب ہے.وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے.خراسانی ترکستان کے پہاڑی علاقوں میں اس نے چند مضبوط قلعے بنائے اور اس کے شعبدوں کے طفیل ہزاروں پہاڑی لوگ جن میں خلیبی ترک بھی شامل تھے اس کے مرید بن گئے.اس نے قتل وغارت اور چھاپے مار جنگ کی وجہ سے اردگرد کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی.کہا جاتا ہے کہ المتقع جس قد روبین، ہوشیار، کیمیا دان اور شعبدہ باز تھا اس قدر بد شکل اور کر یہ المنظر بھی تھا.چیچک کے داغوں کی وجہ سے اس کا چہرہ بڑا خوفناک اور بھیا تک بن گیا تھا.اس نے اپنے اس عیب کو چھپانے کے لئے ایک ریشمی نقاب تیار کیا جسے وہ پبلک کے سامنے آتے وقت اپنے چہرہ پر ڈالے رکھتا اور کہتا کہ میں اپنا چہرہ اس لئے نگا نہیں کرتا کہ کہیں لوگ میرے نور او رجلال سے جل بھن نہ جائیں.اُس نے اپنے پہاڑی قلعہ پر ایسا انتظام بھی کیا تھا کہ چاند کی شکل کا ایک شعلہ پہاڑی قلعہ کی ایک طرف سے اُٹھتا اور آہستہ آہستہ ↓ الاسلام والحضارة العربية جلد ۲ صفحه ۴۳۲۰۳۲۱ کے الاسلام والدولة العربية جلد ۲ صفحه ۶۴، ۶۵ والاصح ان اسمه عطاء بن حكيم الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۵ حاشیه
تاریخ افکا را سلامی ۳۳۹ چلتے چلتے دوسری طرف جا کر چھپ جاتا جسے قلعہ سے دور کے پہاڑی لوگ سمجھتے کہ چاند ہے جو ان کے اللہ کے تصرف میں ہے.بعض اوقات رات کے وقت قلعہ کے اندر روشنیاں بھی پھوٹتیں جن کے بارہ میں اس نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ یہ اس کے جلال اور نور کا ظہور ہے.بہر حال اردگرد کے علاقوں کے ان پڑھ لیکن بہا در او رفدائی قسم کے لوگ اس کی ان شعبدہ بازیوں کی وجہ سے اس کے گرویدہ ہو گئے.وہ سب اس پر فدا ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہتے.یہ کو یا کچھ عرصہ بعدا اٹھنے والی حسن بن صباح کی دہشت پسند تحریک کا مقدمة الجیش تھا.المقنع کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے کئی لشکر بھیجے گئے.پہاڑی علاقہ تھا اور قلعوں کی وجہ سے متع کا دفاع بڑا مضبوط تھا.بہر حال ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر سعید بن عمر د اس کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں پہنچا.سعید نے المتقع کے قلعہ کی دیوار پر چڑھنے کے لئے لوہے اور لکڑی کی دوسو سیڑھیاں بنوائیں اور قلعہ کے ارد گرد کھودی گئی خندق کو پاٹنے کے لئے اُس نے ملتان کے علاقہ سے دس ہزار بھینسوں کی کھائیں منگوا ئیں جنہیں ریت سے بھر کر خندق میں پھینکوایا گیا تا کہ اُن کے اوپر سے فو جیں گزرسکیں.غرض چودہ سال کی مسلسل اور شدید جنگ کے بعد المتقع کے زور کو توڑا جا سکا.المقنع نے جب دیکھا کہ اب اس کا بچنا مشکل ہے تو وہ اپنے تیار کردہ ایک تیزابی محلول کے حوض میں ڈوب مرا جس میں اُس کا جسم تحلیل ہو کرنا بو د ہو گیا.جب مسلمان فو جیں قلعہ میں داخل ہوئیں تو المتقع کا وہاں نام ونشان بھی نہ تھا.اس کے اس طرح غائب ہو جانے کو اُس کے متبعین نے اس کا معجزہ سمجھا اور وہ یہ ماننے لگے کہ المتقع آسمان پر چڑھ گیا ہے.شکست کے بعد اس کے حامیوں میں سے تمہیں ہزار نے امان طلب کی اور باقی ہزاروں مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے.المتقع کا دعوی تھا کہ و وایسا الہ ہے جو آدم اور دوسرے انبیاء میں منتقل ہوتے ہوئے اب ابو مسلم خراسانی کے میں آیا اور اب اس کی شکل میں دنیا پر جلوہ گر ہوا ہے.اس کا کہنا ہے کہ إِنَّمَا الْتَقِلُ فِي الصُّورِ الْمُخْتَلِفَةِ لَانَّ عِبَادِى لَا يُطِيقُونَ رُؤْيَتِى وَمَنْ رَآنِي احْتَرَقَ بِنُورِی کہ میں مختلف صورتوں میں منتقل ہوتا رہا ہوں تا کہ لوگ مجھے دیکھ سکیں کیونکہ میرے بندے یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ میری حقیقی شکل میں مجھے دیکھ سکیں.اگر کوئی میرا جلوہ دیکھ لے تو میرے نور کی وجہ سے جل جائے.ادْعُوا حُلُوَلَ الْإِلَهِ فِي أَبِي مُسلم (فرق الشيعة صفحه ۴۷)
تاریخ افکا را سلامی M+ اُس نے اپنے پیرووں کو ہر قسم کی آزادی دے رکھی تھی.وہ کہا کرتا تھا کہ میری اطاعت کے بعد نہ کسی نماز روزہ کی ضرورت ہے اور نہ محرمات سے بیچنے کی.اس کے پیر د اباق اور خلجی ترک تھے.یہ لوگ اپنی آبادیوں میں مسجدیں بناتے.ان میں مؤذن رکھتے جو وقت پر اذان دیتے لیکن نماز پڑھنے کوئی نہ آنا اوراگر کوئی غیر مقعی ان کی بستیوں میں آجاتا اور مؤذن اس کو نہ دیکھ پا تا یعنی اذان کا وقت نہ ہوتا تو وہ اسے قتل کر دیتے ملے الخرميه ۲۰۱ ھ میں جبکہ المعتصم عباسی خلیفہ تھا خراسان کے علاقہ آذربیجان اور طبرستان میں ایک اور بغاوت اُٹھی.اس بغاوت کا قائد بابک خرمی تھا وہ بڑے بھاری لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لئے آیا.خلیفہ المعصم نے اُس سے لڑنے کے لئے متعد د لشکر بھیجے.ہزاروں لوگ مارے گئے لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی.عباسی لشکر شکست کھا کر پسپا ہوتے رہے.یہ لڑائیاں قریباً ہمیں سال تک جاری رہیں آخر عباسی حکومت کے قابل جرنیلوں افشین محمد بن یوسف التفری او را بو دلف العجلی کی متحدہ کوششوں سے بڑے خون ریز معرکوں کے بعد ۲۲۳ھ میں کامیابی حاصل ہوئی.بابک خرمی اور اس کا بھائی اسحاق پکڑے گئے اور بنو عباس کی مشہور چھاونی سُرَّ مَنْ رَأی میں دونوں کو پھانسی دے دی گئی.بابک خرمی کے ماننے والے خرمیہ کہلاتے تھے.مجوسیوں کی طرح بہت سی محرمات کی اباحت کے قائل تھے.مثلاً بہنوں اور پوتیوں سے نکاح جائز سمجھتے تھے..اسی طرح بیویوں کے تبادلہ کے بھی قائل تھے.معتصم کا فوجی جرنیل افشین بھی فرمی تحریک سے متاثر تھا اور اسی کے تسامح کی وجہ سے جنگ نے اتنا طول کھینچا تھا.چنانچہ شکایت ہونے پر جب تحقیق کی گئی تو حقیقت کا پتہ چلا اور اس الزام میں المعصم نے افشین کو قتل کرا دیا.سے البرامکہ اور باطنی تحریک کہا جاتا ہے کہ البرامکہ بھی باطنی تحریک کی طرف مائل اور مجوسی نظریات سے متاثر تھے.انہوں نے الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۶۰۱۹۵ - فرق الشيعة صفحه ۴۷ قدیم مصری اور سیریا نیز با بلی اور قدیم ایرانی تہذیب میں تحفظ نسل و خاندان کی خاطر بہن بھائی کی شادی کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا ( ہسٹری آف سیریا ( تاریخ شام) آف فلپ ہٹی.ترجمہ بنام تا ریخ شام صفحه ۳۰۳) فرق الشيعة صفحه ۴۷ حاشيه الفرق بين الفرق صفحه ۱۹۵
تاریخ افکارا سلامی مختلف مساجد میں بخو رجلانے کے لئے انگیٹھیاں بنانے کی تحریک چلائی اور ہارون الرشید کیتر غیب دی کہ وہ خانہ کعبہ میں بھی ایک بہت بڑی بھٹی تعمیر کرائیں جس میں ہر وقت بخور بخو د اور دوسری مختلف خوشبوئیں جلتی رہیں.چنا نچہ علامہ بغدادی برا مکہ کی ان خفیہ مساعی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.كَانَتِ البَرَامِكَةُ قَدْ زَيَّنُوا لِلرَّشِيدِ أَنْ يُتَّخَذَ فِي جَوْفِ الكَعْبَةِ مِجْمَرَةٌ يُتَبَخَّرُ عَلَيْهَا العُوْدُ أَبَدًا فَعَلِمَ الرَّشْيدُ أَنَّهُمْ أَرَادُوا مِنْ ذَالِكَ عِبَادَةَ النَّارِ فِي الْكَعْبَةِ وَأَنْ يُصِيرَ الكَعْبَةُ بَيْتَ النَّارِ فَكَانَ ذَالِكَ أَحَدٌ أَسْبَابِ قَبضِ الرَّشِيدِ عَلَى الْبَرَامِعةِ یعنی برا ملکہ نے کوشش کی کہ رشید اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ خانہ کعبہ کے اندر خوشبو جلانے کی ایک بھٹی بنائی جائے جس میں بخو را در محود ہمیشہ جلتی رہا کرے.ایک طرح سے ان کی یہ کوشش تھی کہ کعبہ میں آگ کی پوچا کی کوئی صورت نکل آئے.رشید نے برامکہ پر جو سختیاں کیں اُن کی وجوہات میں سے ایک وجہ برا مکہ کی یہی خطر ناک کوشش تھی جس کا رشید نے نوٹس لیا.الإِسْمَاعِيلِيه - اسماعیلی شیعه شیعہ فرقوں میں سے تین فرقوں نے تاریخ اسلام کے ادوار کو بہت زیادہ متاثر کیا.شیعہ شیعہ اثناعشریہ اور شیعہ اسماعیلیہ.شیعہ اسماعیلیہ کی بنیا د ستر اور خفاء پر تھی اس لئے اسے جمِيعَاتِ سریہ میں شمار کیا جاتا ہے.خود اسماعیلیہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی دینیاتی اور نظریاتی تعلیم میں خفا اور ستر ہے.وہ اپنے بنیادی عقائد نہ ہر ایک کو بتاتے ہیں اور نہ عوام میں ان کی اشاعت کرتے ہیں اس لئے ان تک پہنچنے کے لئے اُن کے اپنے ذرائع کی بجائے دوسرے ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے جن میں بعض غیر جانبدار ذرائع ہیں اور بعض جانبدارا در تعصب کا رنگ لئے ہوئے.بہر حال اس فرقہ کی تفصیلی تاریخ کے لئے دو نقطہ ہائے نظر ہیں ایک وہ جس کے ایک حد تک درست ہونے کو خود اسماعیلی بھی تسلیم کرتے ہیں.دوسرا نظر یہ وہ ہے جو اسماعیلی شیعوں کے مخالف گروہ جن میں سکی بھی ہیں اور دوسرے سر یہ آور دہ شیعہ فرقے بھی.پہلے نقطۂ نظر کا پس منظر یہ ہے کہ بنو ہاشم خاص طور پر علوی ( یعنی اولا دعلی ) بنو امیہ کی حکومت کو ایک غاصب اور ظالم حکومت سمجھتے تھے.پہلے پہلے انہوں نے بنو امیہ کا مقابلہ میدانِ جنگ میں کرنا چاہا الفرق بين الفرق صفحه ۲۱۶
تاریخ افکا را سلامی Fr لیکن نا قابل اعتبار حمایت کی وجہ سے ناکام رہے اور بری طرح شکست کھائی اور حکومت وقت کے زیر عتاب آگئے خصوصاً زیاد اور حجاج کے زمانہ میں اُن پر بڑی سختیاں ہوئیں.ایسے حالات میں بنو امیہ کے ان مخالف عناصر نے اپنی تحریک کو خفیہ رنگ دے دیا.کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ کے سر بر آوردہ علویوں اور عباسیوں نے با ہمی مشورہ سے ایک جارحیت پسند خفیہ تنظیم قائم کی جس کا سر براہ محمد النفس التزکیہ بن عبد اللہ بن حسن کو منتخب کیا گیا اور ان کی بیعت بطو رامام مہدی کی گئی.اس تحریک میں بنو عباس پیش پیش تھے.اس تنظیم نے اپنے داعی اور مبلغ دوردراز کے علاقوں میں بھجوائے جنہوں نے خفیہ طور پر وہاں کے لوگوں کو حکومت بنو امیہ کے خلاف منظم کیا.چنانچہ خراسان اور گر دو پیش کے علاقے اس خفیہ تحریک کے گڑھ بن گئے.آخر یہ تحریک کھلم کھلا مقابلہ پر آگئی اور بنو امیہ کی حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوئی.خراسان کی فوجوں کا سربراہ ابو مسلم خراسانی تھا چونکہ اس کامیابی میں انہی خراسانی فوجوں کا نمایاں کردار تھا اس لئے ابو مسلم خراسانی نے بوجوہ علویوں کی بجائے عباسیوں کے اقتدار کی حمایت کی اور بنو عباس خلیفہ بن گئے.شروع میں تحریک علویوں کے نام پر چلائی گئی تھی اور دوران تحریک بھی انہی کا نام زیادہ تر استعمال ہوا اور عوام سے کہا گیا کہ آل بیت الرسول کے حق کے لئے یہ سب کوششیں ہو رہی ہیں اس لئے خلاف تو قع اقتدار جب بنو عباس کو مل گیا تو علویوں نے اس کو اپنی حق تلفی سمجھا.اس طرح بنو عباس اور بنوعلی میں ٹھن گئی.جو علوی پہلے بنو امیہ کے ظلموں کا نشانہ بنے ہوئے تھے اب وہ بنو عباس کی زیادتیوں کی آماجگاہ بن گئے اور بہت سے علوی یعنی سادات مختلف لڑائیوں میں مارے گئے انہی میں امام محمد النفس الزکیہ بھی شامل تھے جن کی ابو جعفر منصور نے بطو رامام مہدی بیعت بھی کی ہوئی تھی.بہر حال بنو علی بدستور حکومت وقت کے زیر عتاب تھے اور ہر وقت عباسی حکام کے زیر نظر رہتے تھے.اس پس منظر میں حضرت امام جعفر صادق کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے جس کا نام اسمعیل رکھا گیا بیا امام جعفر کا بڑالڑ کا تھا اور کہا جاتا الاسلام والحضارة العربية جلد ۲ صفحه ۴۱۸ أدْرَكَ الْعَلَوِيُّونَ أَنَّ العَبَّاسِيِّينَ فَدَخَدَعُوهُمْ وَاسْتَأَثَرُوا بِالخَلافَةِ دُونَهُمْ مَعَ أنا ن بِهَا مِ فَنَابَلُوهُمُ الْعَدَاءَ وَ نَظَرُوا إِلَيْهِمْ كَمَا كَانُوا يَنظُرُونَ إِلَى الْأَمْرِيِّينَ مِنْ قَبْلُ.تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۲۸)
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۳ ہے کہ امام جعفر نے اس کے حق میں وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ جانشین ہو گا لیکن امام جعفر صادق سے پہلے وہ فوت ہو گیا.لے اسمعیل نے جس شخص کی نگرانی میں پرورش پائی تھی اُس کا نام میمون بن دیصان القداح تھا تے اُس نے اور اس کے حامیوں نے امام جعفر صادق کی وفات کے بعد اس نظریہ کا اظہار کیا کہ جب ایک کے حق میں وصیت ہو جائے تو پھر وہ منسوخ نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ وصیت امام وقت کی طرف سے با علام الہی ہوا کرتی ہے اس لئے امام جعفر صادق کی وفات کے بعد امامت کا منصب امام اسمعیل کی اولاد کے سپر د ہوگا.سے امام اسمعیل کے لڑکے کا نام محمد تھا چنانچہ ان لوگوں نے محمد بن اسمعیل کو اپنا امام تسلیم کر لیا.اس کے ساتھ ہی یہ بھی دعوی کیا گیا کہ چونکہ حکومت کی طرف سے خطرہ ہے کہ وہ امام وقت کو کوئی نقصان پہنچائے اس لئے انہوں نے چھپ کر زندگی بسر کی ہے یہاں سے امام مستور یعنی خفیہ امامت کے نظریہ کا آغاز ہوا.اس "امام مستور کے لڑکے کا نام احمد تھا جو دوسرا امام مستور تھا.امام احمد کے لڑکے کا نام محمد الحبیب تھا یہ تیسرا امام مستور تھا.اس تیسرے امام مستور کے لڑکے کا نام عبد اللہ ہی تھا جو چو تھا امام ے چوتھا قرار پایا یہ کچھ عرصہ مستور رہا اس کے بعد مغرب یعنی شمال مغربی افریقہ میں اس کے نام سے عبیلیہ حکومت قائم کی گئی اس طرح عبید اللہ نے المہدی کے نام سے اپنے آپ کو ظاہر کر دیا.ائمہ مستورین کا میہ دور کوئی دو سو سال تک ممتد ہے.اس عرصہ میں یہ ائمہ مختلف جگہوں میں خفیہ طور پر رہے اور بڑی قيل قد ترك الامامة لابنه محمد الذي اصبح اماما سابعًا حقيقيًّا (العقيدة والشريعة صفحه ۲۱۲، ۲۱۳) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۷۷ کے شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک بطریق بداء اسمعیل کی بجائے ان کے بھائی موسیٰ الکاظم کو امامت ملی لیکن اسماعیلی کہتے ہیں إِنَّ الْإِمَامَةَ لَا تَقِلُ مِن آخ إلَى أَحْ بَعْدَ الحسن والحسين وَلَا تَكُونَ إِلَّا فِي الْأَعْقَابِ (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ١٨٣ فرق الشيعة صفحه ۷ ۵ تا ۹۰) الدولة الفاطمية صفحه ۳۹ - حسن ابراهیم حسن استاذ التاريخ الاسلامی جامعه قاهره مكتبة النهضة المصرية القاهره طبع رابع ۱۹۸۱ء - ه بعض کے نزدیک ائمہ مستورین کے نام یہ ہیں.عبید اللہ المہدی بن احمد بن اسماعیل بن محمد جو کہ اسماعیل بن جعفر صادق کے لڑکے تھے.والاسماعيلية الذين يؤيدون صحة نسب عبيد الله يكادون يتفقون على ان عبيد الله المهدى هو ابن الحسين بن احمد بن عبدالله بن محمد بن اسماعیل ( الدولة الفاطمية صفحه ۶۶ و ۷۷).ان الأئمة المستورين لم يكونوا معروفين لغير خاصتهم و ان الدعاة كانوا يختلفون في ذكر اسمائهم لِلْخِفَاء ( الدولة الفاطمية صفحه ۷۸)
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۴ رازداری کے ساتھ اپنی دعوت کو پھیلاتے رہے.اسماعیلی شیعوں کی خفیہ تحریک کا یہ ایک پہلو ہے.اس کا دوسرا پہلو جسے اکثر سنی اور کئی شیعہ اور خود اسماعیلیوں کا کچھ حصہ بیان کرتا ہے اور اس میں عباسیوں کی کوشش کا دخل بھی ہے وہ یہ ہے کہ دراصل ہے اسمعیل بن امام جعفر صادق نوجوانی میں لاولد فوت ہو گئے تھے.ان کا ایک مولیٰ تھا جس کا نام میمون بن دیصان القداح تھا.یہ شخص بڑا ذہین، صاحب علم اور انتہائی ہوشیار تھا.ہوا ز فارس کا رہنے والا تھا.اوپر سے مسلمان تھا لیکن اندر سے شنوی اور مجوسی تھا اور اسے بہ بڑا رنج تھا کہ عربوں نے ان کے ملک کو فتح کر کے اپنا تابع فرمان اور غلام بنالیا ہے.وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ اس کے ملک معینی فارس و خراسان کے لوگ کھلم کھلا عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اسی زمانہ میں امویوں کے خلاف علویوں اور عباسیوں کی خفیہ تحریک بھی چلی تھی.اسی انداز پر اس نے بھی عربوں اور ان کے دین یعنی اسلام کے خلاف اپنی ایک خفیہ تحریک کو منظم کیا اور کامیابی کے لئے آل بیت رسول کے نام کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا اور وہ یوں کہ اس نے امام اسمعیل کی نسل کے جن ائمہ مستورین کا ڈھونگ رچایا وہ دراصل اس کی اپنی نسل کے لوگ تھے چنانچہ اُس نے یہ ظاہر کیا کہ امام اسمعیل کا ایک بیٹا ہے جس کا نام محمد ہے لیکن لوگوں کے سامنے اسے اس لئے نہیں لایا جاسکتا کہ حکومت کی طرف سے گرفت کا خطرہ ہے.یہ در حقیقت اس کا اپنا بیٹا عبداللہ تھا.میمون کا بیٹا عبد اللہ بھی بڑا عالم ، ذہین اور بڑی تنظیمی قابلیتوں کا مالک تھا.عبداللہ نے مختلف جگہوں میں پھرتے پھراتے اور اپنے حامیوں کو منظم کرتے.آخر کار سلمية کو مرکز دعوۃ بنایا او راسماعیلی مذہب کے اصول و عقائد کو مرتب کیا اور ان کو ترویج دی.اُس نے ان تعلیمات کے سات درجے مقرر کئے جو آن محمد بن اسماعيل فر إلى الرى ومنها الى دماوند وسار أَبْنَاءهُ على مِنْوَالِهِ فَاخَتَفَوا في خراسان وفي اقليم قندهار وفي السند واخذ دعاتهم يجولون البلاد لجذب الاشياع اليهم (الدولة الفاطمية صفحه ۳۹ تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۷۵ بھی دیکھیں) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۷۷ تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۷۶ ۲۲۷، ۴۰۹ قال المقريزى كان عبدالله عالما بجميع الشرائع و السنن والمذاهب و دعوته إلى إمَامَةِ اسمعيل بن جعفر الصادق كانت لحيلة الْخَلَهَا لِيَجْمَع حَوْلَهُ أنصَارًا ووَسِيلَةٌ لتنفيذ اغراضه وهي تكوين دولة فارسية (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۰ ملخصا )
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۵ فاطمی حکومت کے قیام کے بعد نو قرار پائے.ہر درجہ کے مرید کی منتقل د سمجھ کو پر کھے بغیر نہ اُسے اگلے درجہ میں جانے دیا جاتا اور نہ اُسے اس درجہ کی خبر ہونے دی جاتی تھی کہ اس کا تعلیمی اور عملی نصاب کیا ہے.لے عبد اللہ ۲۷۴ ھ کے قریب فوت ہوا تو اس کا بیٹا احمد جانشین بنا جس کی کنیت ابو الشلعلع تھی.احمد نے تحریک کو منظم کرنے اور اسے وسیع کرنے میں بڑی مہارت دکھائی.اُس نے اپنا جانشین یا ولی عہد اپنے بھتیج سعید بن الحسین کو بنایا.یہی سعید بعد میں عبید اللہ المہدی کے نام سے شمال مغربی افریقہ میں دولت عبید سیہ کا بانی بناتے بہر حال امام اسمعیل بن امام جعفر الصادق کی نسل سے ائمہ مستورین تھے یا دیسائیوں نے اپنے طور پر اس تحریک کو منظم کیا تھا.بنیادی طور پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اصلا دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کا بنیادی مقصد کیا تھا اور تحریک نے کن ذرائع سے کام لے کر اسے کامیابی سے ہمکنار کیا.اسماعیلی نظریات اور عقائدہ اسماعیلی خود بڑی حد تک اپنے نظریات اور عقائد کو چھپاتے ہیں.پھر یہ مختلف ادوار سے گزرے ہیں اس وجہ سے بھی عقائد میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں.دوسروں نے جو کچھ بیان کیا ہے اُس میں تعصب کی ملونی بھی ہو سکتی ہے.ان حالات میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ عقائد ونظریات کے بارہ میں جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے و ہ سوفیصد درست اور مطابق واقعہ ہے تاہم کسی حد تک خود اسماعیلیوں کے اپنے بیان کے مطابق اور کچھ ان دستاویزات کے لحاظ سے جو مختلف ذرائع سے اہل علم کے سامنے آئی ہیں اور جو کچھ غیر جانبدار مؤرخین نے بیان کیا ہے اسماعیلیوں کے جن عقائد اور نظریات کا علم ہوسکا ہے وہ یہ ہیں.ا.ائمہ اہل بیت مقدس اور معصوم ہیں.دین کا علم ان کو خدا کی طرف سے ملتا ہے اس لحاظ سے وہ کسی کے شاگر دنہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر کے وہ استاد اور دینی رہنما ہوتے ہیں.نیز ائمہ بھی ہوتے ہیں.-۲ پہلے چھ ائمہ یعنی حضرت علی، حضرت حسن ، حضرت حسینؓ ، حضرت زین العابدین ، حضرت محمد باقر اور حضرت جعفر صادق کو شیعہ اثنا عشریہ بھی امام مانتے ہیں اور اسماعیلی شیعہ بھی امام مانتے تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۶۱۰۵۹،۴۲ تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٦١ دعائم الاسلام جلد ۱ صفحه ۵۴ - العقيدة والشريعية صفحه ۲۱۵
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۶ ہیں.اس کے بعد اختلاف ہو جاتا ہے.اسماعیلی شیعہ امام جعفر صادق کے بعد اُن کے بڑے لڑکے اسماعیل اور ان کی اولا د کو اپنا امام مانتے ہیں اور اثنا عشری شیعہ ان کے دوسرے لڑ کے موسیٰ الکاظم اور ان کی اولا د کو امام تسلیم کرتے ہیں.۳ اسماعیلی شیعہ قرآن کریم کے بارہ میں کہتے ہیں کہ وہ امام صامت ہے اور ان کے ائمہ امام ناطق ہیں اس لئے قرآن کریم کے جو معنے اور جو تفسیر وہ بیان کریں وہی درست ہے مثلاً اگر وہ کہیں کہ قرآن کریم میں اقيموا الصلوة کا جو حکم ہے اُس سے مراد ائمہ اہل بیت سے محبت، اخلاص اور ان کی فرمانبرداری کا اظہار ہے، تو یہی معنے درست ہوں گے اور ان کی نادیل ہی صحیح تسلیم کی جائے گی کیونکہ قرآن کریم کا ایک ظاہر ہے او را یک باطن اور باطن کا علم صرف امام کو ہی ہوتا ہے.۴.امام کو مان لینے اور اس کی فرمانبرداری کا عہد کر لینے کے بعد تمام شرائع اور دین کے تمام احکام سے انسان آزاد ہو جاتا ہے.گلے بعض اسماعیلیوں کے نزدیک امام اسماعیل کے بیٹے امام محمد خاتم النيين " القائم صاحب الثرمان ہیں انہوں نے شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر دیا ہے کیونکہ ہر شریعت کے سات ائمہ ہوتے ہیں جب ان سات کا دور ختم ہو جائے تو نئی شریعت کا آنا ضروری ہے چنانچہ امام اسمعیل پر سابقہ ائمہ کا دو رختم ہو گیا اور امام محمد سے نیا دور شروع ہوا ھے ل الامامة لا تنتقل من اخ الى اخ بعد الحسن والحسين عليهما السلام ولا تكون إلا في الاعقاب - تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ١٨٣ الدولة الفاطمية صفحه ۳۸ دعائم الاسلام جلد 1 صفحه ۴۷) الف- أهم الفرق التي خرجت على الجماعة وأضَرَّتَ بالاسلام فرق الباطنية ادْعُوا أَنَّ لِكُلِّ ظَاهِرِ بَاطِنَا وَلِكُل تنزيل تأويلا الاسلام والخضارة العربية صفحه ٦٣ - العقيدة والشريعة في الاسلام صفحه ۲۱۸) ب تاویل کی امثلہ کے لئے دیکھیں تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ١٩٣ سے دعائم الاسلام جلدا صفحه ۶۵ نیز یہ ایک فریق کا مسلک ہے جس کی نمائندگی زیادہ تر آغا خانی اسماعیلی کرتے ہیں یا دروز.دوسرے فریق کے لوگ جو ئبرہ اور خوجے کہلاتے ہیں اور مستعلیہ بھی وہ نماز، روزہ اور حلال و حرام کے احکام کے قائل اور پابند ہیں.ان کی فقہی تشریحات کے لئے کتاب دعائم الاسلام کا مطالعہ مفید رہے گا.(تاریخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۹۵ ۱۹۶) یہ گروہ المبار کیہ کہلاتا تھا تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۶۱ ه العقيدة والشريعة صفحه ۲۱۴۲۱٣
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۷ اسماعیلی شیعہ حلول کے بھی قائل ہیں یعنی وہ یہ مانتے ہیں کہ خدا ائمہ میں داخل ہو جاتا ہے اُن میں سا جاتا ہے یا وہ ان معنوں میں خدا کے مظہر ہیں کہ خدائی طاقتیں اور خدائی قدرتیں ان کو عطا ہوتی ہیں.وہ خدا کی طرح عالم الغیب ہوتے ہیں.وہ زندہ بھی کر سکتے ہیں اور وہ ماربھی سکتے ہیں یہ رائے بھی دروز او ربعض آغا خانیوں کی ہے.بہر اس کے قائل نہیں.ے.اسماعیلی شیعہ تاریخ کے بھی قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ رومیں مختلف جونوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہی ان کے لئے قیامت ہے.- اسماعیلی شیعه فیثا غورثی فلاسفہ کی طرح سات اور بارہ کے عدد کو بڑی اہمیت دیتے ہیں.اُن کے کئی نظریات اور درجات میں ان اعداد کا عمل دخل ہے.یے ان کا کہنا ہے کہ سیارے سات ہیں اور برج بارہ اسی لحاظ سے زمین پر بھی ان کی نیابت ہے.اسی وجہ سے ان کے ہاں اتباع کے بھی سات درجے ہیں ہر درجہ کا متبع اپنے درجہ کے علمی اور عملی نصاب کو عبور کئے بغیر اگلے درجہ میں نہ جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ جان سکتا ہے کہ اُس درجہ کا علمی اور عملی نصاب کیا ہے.اس طرح ایک اسماعیلی درجہ بدرجہ ترقی کرتے کرتے آخری درجہ تک پہنچ سکتا ہے جو داعی یا حجت کا درجہ ہے.اسماعیلیوں کا کہنا ہے کہ علم الہی نبی کے ذریعہ وصی کو ملتا ہے مثلا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کو ملا پھر وصی سے امام کو ملتا ہے اور امام سے حجت کو ملتا ہے.حجج، نتہاء اور دعا پسند ہی کا رکن ہوتے ہیں جو مختلف علاقوں میں اسماعیلی مذہب کے پھیلانے اور اسماعیلیوں کی تہذیب و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں.↓ ان داعى الدعاة اكبر الدرجات عند الاسماعيلية و لا تباعهم سبع درجات ان كلا من لهذه الدرجات له كتاب خاص و يلقى على الواصلين اليها وكل كتاب يسمى البلاغ الجميعات السرية صفحه ۴۲ - العقيلة و الشريعة صفحه ۲۱۵۰۲۱۴ الدولة الفاطمية صفحه ٣٣ صفحه ٦١ - فاذا بلغ الانسان الدرجة السابعة ينحل من جميع الأديان تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۸۲) ان ميراث النبي العلمى يتحوّلُ مِنَ النَّبي الى الوصى ومنه الى الامام ومن الامام الى الحجة.....والدعاة الذين يسمون الحجج يبثون الدعوة السرية فى غيبة الامام او في حضرته وهم مقدسون وعددهم ثابت ابداً اثنا عشر رجلا يشارك الحجج الأئمة في العلم والدعوة والسند الإلهي ( الشيعة في التاريخ صفحه ٦٢ العقيدة والشريعة في الاسلام صفحه ٣١٦) النقباء انصار الائمة (الحضارة الاسلامية جلد ۲ صفحه ۵۷)
تاریخ افکا را سلامی ΕΠΑ اسماعیلی شیعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثر صحابہ کے بارہ میں اچھی رائے نہیں رکھتے معتدل اسماعیلی شیعہ زیادہ سے زیادہ اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ علی کی بجائے ابو بکر کو خلیفتہ الرسول منتخب کرنے میں انہوں نے غلطی کی تھی لیکن چونکہ حضرت علی نے اپنا حق لینے کے لئے اُن سے لڑائی نہیں کی نیز وہ اُن سے تعاون کرتے رہے.اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی بہتری کے لئے اُن کے ساتھ رہے اس لئے ہمیں بھی حضرت علی کے نمونہ اور اُسوہ پر چلنا چاہیے.غالی اسماعیلی صحابہ کو بُرا بھلا کہتے ہیں انہیں مسلمان نہیں سمجھتے اور پہلے خلفاء ثلاثہ کو غاصب اور ظالم قرار دیتے ہیں ہے اسماعیلی نظریات پس اسماعیلیوں کے نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ.لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے یہ امام اگر ظاہر اور لوگوں کے سامنے ہو تو وہ خود لوگوں کی رہنمائی کرے گا او راگر مستو را در لوگوں سے چھپا ہوا ہو تو اُس کے حجج اور دعاۃ اس کی نیابت کریں گے اور لوگوں تک اُس کے پیغام اور اُس کی ہدایتیں پہنچائیں گے تے - الامام المقیم جو رسول ناطق کو مقرر کرتا ہے اُسے ”رب الوقت بھی کہا جاتا ہے.یہ امامت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے.بعض کے نزدیک ابو طالب امام مقیم ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو الرَّسُولُ النَّاطِق مقرر کیا..دوسرے درجہ پر الامام الاساس ہے جو الامام الناطق کی مرافقت اور معاونت میں کام کرتا ہے.اس کا دایاں ہاتھ ہوتا ہے.رسالت کبری کے کاموں کا قائم اور نگران ہوتا ہے.کے على الامام الاساس ہیں.دعائم الاسلام جلد ۱ صفحه ١٠٣ تا ١٠٦- العقيدة والشريعة في الاسلام صفحه ۱۸۲ و ۲۱۰ الامام اما ظاهر مكشوف و اما باطن مستور.....واذا كان الامام مستورًا فلا يدان تكون حجته و دعاته ظاهرين و ان الامام يساوى النبي في العِصْمَةِ وَالْإِطِلَاعِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۸۹ و ۱۹۱) القائم باعمال الرسالة الكبرى والمنفذ للا وامر العليا (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۷۲)
تاریخ افکا را سلامی ۲۴۹ ۴.اَلْاِمَامُ الْمُسْتَقَر.یہ بعد میں آنے والے امام کی تخصیص اور تعیین کا اختیار رکھتا ہے.لے -۵ - الإمامُ المُستَودَع.یہ امام مستقر کی نیابت میں کام کرتا ہے.اسے نا ئب الامام بھی کہتے ہیں اس لئے آئندہ کے امام کی تخصیص اور تعین کے اختیارات اُسے حاصل نہیں ہوتے..امامت کے دو سات ہیں.اسلام کی صورت میں چھٹے دور کا آغاز انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے جو الناطقی ہیں آپ کے بعد علی اس دور کے پہلے امام ہیں جو ا لا مَامُ الاساس “ ہیں پھر ان کے بعد الأئِمَّةُ القَائِمِین ہیں جو حسن ،حسین ، زین العابدین، محمد باقر جعفر صادق اور اسمعیل ہیں.یہاں پر سات کا دور ختم ہو جاتا ہے اور محمد بن اسمعیل سے اگلے یعنی ساتویں دور کا آغاز ہوتا ہے اس بنا پر محمد بن اسماعیل ناسخ شریعت محمد یہ بھی ہیں ہے سات دور کے اس نظریہ کو اپنانے کی وجہ سے اسماعیلیہ کو سبعیہ بھی کہا جاتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ آسمان سات ہیں، کواکب سات ہیں، زمینیں سات ہیں، ہلتے کے دن سات ہیں.اسی منوال پر ائمہ کے دو ر بھی سات ہیں اور ہر دور میں ائمہ بھی سات ہوتے ہیں کے ائمہ جس طینت یعنی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں وہ بشری طینت اور مٹی سے اعلیٰ اور برتر ہے.اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے چنید داور مخلوقات کے لیے حجت ہوتے ہیں.- امام زمانہ کی مدد کے لیے حجج، مأذونون اور اجنحہ ہوتے ہیں.حجج جن کو بعض اوقات دُعا بھی کہا جاتا ہے ہمیشہ بارہ رہتے ہیں جن میں سے چار امام کے ساتھ رہتے ہیں.مأذونون اور اجنحه امام اور دُعاۃ کے درمیان پیغامبر او ررابطہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں.ل الإمامة عندهم اما بالوراثة من الوالد إلى الولد و اما بالنص عليه من الامام الذي سبقة (نفس المصدر) ان محمد بن اسمعيل القائم انى لِيُفَسّر القرآن باطنيا اني بالتأويل (تاريخ الفرق الاسلامية بحواله نشأة الفكر الفلسفي صفحه ۴۰۳) النطقاء سبعة هم آدم و نوح وابراهيم وموسى وعيسى ومحمد والقائم.هم من اصحاب الشرائع ثم ادخلوا بين الناطق السادس اى محمد صلى الله عليه وآله وسلم وبين القائم السابع اى محمد بن اسماعيل ائمة ظاهرين هم على والحسن والحسين وعلى ومحمد وجعفر واسماعيل تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ١٩٠ ) المعرفة عن النظريات البرية الاسماعيلية مقتصرة على طبقة خاصة من الدعاة - (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۹۴)
تاریخ افکا را سلامی ۲۵۰ ۹.اسماعیلیہ معروف معنوں میں قیامت اور حشر و نشر کو نہیں مانتے اور نہ جنت و دوزخ کے قائل ہیں.ان کا کہنا ہے کہ قیامت سے مراد خروج الامام قائم الزمان ہے جو ایک نئے دور کا آغاز کرتا ہے اور ساتویں درجہ پر ہوتا ہے اور معاد سے مراد یہ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کی ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹا دی جاتی ہے مثلا انسان روحانی اور جسمانی عناصر سے مرکب ہے اور جسمانی عناصر چار ہیں الصفراء السوداء البلغم اور الدم.صفراء ناری عصر ہے اس لیے آگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے.سوداء ارضی عصر ہے اس لیے وہ تراب یعنی مٹی بن جاتا ہے.بلغم مائی عنصر ہے اس لیے وہ پانی میں جا شامل ہوتا ہے اور الم ہوائی عصر ہے اس لیے وہ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے.رہا انسان کار و حافی پہلو تو وہ روح یعنی النفس المدرکہ ہے.اگر وہ فضائل سے مزین ہے تو وہ عالم روحانی میں جا شامل ہوگا اور آیت کريم ياتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ میں اسی روحانی عالم کی طرف رجوع اور صعود کا اشارہ ہے اور اگر روح یعنی نفس مدرکہ رزائل اور عیوب میں ملوث ہے تو پھرا سے مختلف جونوں کے چکر میں ڈال دیا جاتا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہتا ہے.۱۰.بعض اسماعیلی انیس کے عدد کو بڑی اہمیت دیتے ہیں مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ہر دور میں سات امام ہوتے ہیں اور بارہ داعی اور ان کا مجموعہ انیس ہے.اسی طرح ہر دعامہ کے سات فرائض ہیں اور بارہ سنتیں اور ان کا مجموعہ انیس ہے.اس نظریہ نے فاطمی خلیفہ المستعصر کے زمانہ میں فروغ حاصل کیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی وفات کے بعد المستعصر اسماعیلیہ کے نزدیک انیسواں امام تھا.کے غرض اسماعیلی قیادت نے بعض اسلامی ایمانیات کے ساتھ یونانی فلسفہ مجوسی اور ہندی تصورات، یہودی اور عیسائی مسلمات کی آمیزش کر کے اپنے عقائد و نظریات کو ترتیب دیا اور اُن کے لیے فلسفیانہ ل الفجر : ۲۹،۲۸ فانها تبقى أبد الدهر يتناسخها بالابدان.وفى الحقيقة إنَّ السَرِيَّة غمرت الدعوة الاسماعيلية نى التبس امرها على المؤرخين فلم يستطيعوا على حقيقة القائمين بها (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۱۹۲ و ۱۹۶) لم ينفرد فلاسفة الاسماعيلية باتخاذ الاعداد اصولاً لدينهم فقد اتخذ الفيثا غوريون من كل عدد اصلا لدراساتهم (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۵۰۰)
تاریخ افکارا سلامی ۲۵۱ دلائل مہیا کئے.یہ خفیہ تحریک علمی تصورات اور سری اقدامات کا مجموعہ تھی.اس تحریک کے قائدین نے بعض علوی اور ثرا سانی عناصر کی طرح کھلم کھلا حکومت کے مقابل آنے کی کوششوں کو ترک کر دیا اور خفیہ رہ کر مختلف قسم کی علمی اور تنظیمی سازشوں کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد کی طرف بڑھے اور بڑی حد تک اپنے ہدف کے حاصل کرنے میں کامیاب رہے تا ہم چونکہ اسلامی نقطہ نظر سے اس تحریک کی کوئی بنیا د نہ تھی اور نہ عدل وانصاف کے قیام اور ظلم و جور کے اختتام کے لحاظ سے اس کے قائدین اپنے مخلص تھے اس لئے جب عوام نے کامیابی کے بعد اس تحریک کے طور دیکھے تو ان کی ساری امیدیں ختم ہو گئیں اور مہدویت کے نظریہ کے تحت جس امن وامان ، خوشحالی اور فارغ البالی کے اُن کو وعدے دیئے گئے تھے وہ سب بڑی حد تک قریب ثابت ہوئے.اس طرح عوام کی تائید سے محروم ہو جانے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ہی اس تحریک کا جوش و خروش ختم ہو گیا اور پھر آہستہ آہستہ چند نشانات چھوڑنے اور امت مسلمہ کے بہت سے نقصانات کا باعث بنے کے بعد یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی ہے دعوت أَسْمَاعِلِيه کا فروغ رہی الاسماعیلی تحریک کے فروغ اور عروج کی داستان تو اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ اس تحریک کے قائدین نے سلمیہ کو مرکز بنانے کے بعد مختلف اطراف میں اپنے دائی روانہ کئے.یہ دائی بڑے قابل اور اپنے نظریہ کے بارہ میں بڑے مخلص تھے.عراق میں اس تحریک کا داعی محمد بن الحسن بن جبار نجار الملقب بدندان پہلے سے ہی کام کر رہا تھا اُس نے عبد اللہ بن میمون کو بہت سی مالی امداد دی اور اس کے امداد دی اورام نظریات کو پھیلایا.عرب او را اسلام دشمنی میں دونوں برابر تھے ہے عبد اللہ نے سلمیہ کو اپنا مرکز بنانے کے بعد اپنے بیٹے الحسین کو رئیس الدعوت کا عہدہ دیا اور قد بدأ النزاع الديني بين السنيين والشَّيعِيِّين...في عصر في عصر متقدم لكن ظهر بصورة اشد عداء في الاجيال التَّالِيَةِ حِينَ أَحَمدُ كُلُّ حزب يلعن الحزب الآخر حتى الشيعة ارغموا على دفع الجزية كما أرغم السنيون على دفعها حينا آخر في عهد الفاطميين - تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۷۶ بحواله رسائل بديع الزمان الهمدانی صفحه ۴۲۴ - ورسائل الحاكم بامر الله دار الكتب المصريه بالقاهره مخطوطات الشيعة رقم صفحه ۲۰ - ورقه نمبر (١١) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۱۰۴۰
تاریخ افکا را سلامی ۲۵۲ اپنے دوسرے بیٹے احمد ابو الشلعلع کو عراق کا علاقہ سپر د کیا او راپنے ایک اور بیٹے کے سپر دفارس کا علاقہ کیا عبداللہ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا احمد ابو الشلعلع اس کا جانشین بنا.یہ بھی اپنے باپ کی طرح بڑ انتظم اور ماہر علوم تھا، کئی زبانیں جانتا تھا.اس نے یمن کی طرف رستم بن الحسین بن خرج بن حوشب کو داعى الدعاة بنا کر بھیجا جو بڑا قابل اور مخلص دائی تھا.اس کے بعد اُس نے الحسن بن احمد ابو عبد اللہ الشیعی الصمعانی کو تیار کیا کہ وہ واپس سمن جائے اور ابن حوشب سے اسماعیلی دعوت کے طور طریق اور اس کے فرائض سیکھے.اس کے بعد مغرب (یعنی شمال مغربی افریقہ ) میں جا کر یہ میری اقوام میں دعوت پھیلائے.ابو عبد اللہ احمد کا زیادہ زور دولت عباسیہ کے مرکز بغداد سے دور کے علاقوں پر تھا کیونکہ ایک تو دور کے علاقوں میں حکومت کی گرفت کمزور تھی.دوسرے وہاں کے مقامی حکام کے ظلموں سے لوگ تنگ آئے ہوئے تھے.تیسرے ان کی تختی دل صاف تھی اور دین کے مسائل کا ان کو بہت کم علم تھا اور چوتھے آل بیت نبوی سے ان کی عقیدت بوجود مشہور و معروف کے تھی اور بر بری لڑائی میں بھی بڑے بہادر تھے.بہر حال ابو عبد اللہ الہی یمن سے ہو کر بمطابق مشورہ ابن حوشب پہلے مکہ مکرمہ آیا وہاں سے حاجیوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مصر آ گیا.اس قافلہ میں کتامہ کے لوگ بھی تھے جو مغرب میں پر بر کا ایک محفوظ قبیلہ تھا اور پہلے سے شیعہ اثرات سے متاثر تھا.کنامہ کے حاجی ابو عبد اللہ الشیعی کی فصیح اللسانی اور شیریں بیانی سے خاصے متاثر ہوئے.کہا جاتا ہے کہ انہی کی درخواست پر ابوعبداللہ الشیعی نے کنامہ کے کے علاقہ میں قیام کیا اور حالات سازگار دیکھ کر وہاں ایک محفوظ جگہ فج الاخیار کو اپنی دعوت اور تبلیغ کا مرکز اور دارالہجرت قرار دیا.اس نے مہدی منتظر کے ظہور کے بارہ میں بڑے سہانے خواب وہاں کے لوگوں کو دکھائے.یہ لوگ پہلے ہی وہاں کے مقامی عرب حکام سے تنگ آئے ہوئے تھے وہ ابو عبد اللہ اشمی کی تفصیل کے لئے دیکھیں تاریخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۸ حاشيه ذكر ابن الاثير ان جعفر الصادق بعث دَاعِيين وقال لهما ان المغرب ارض بور فاذهبا فاحرثا حتى يجى صاحب البذر الخ.تفصیل کے لئے دیکھیں تاریخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۴ تا ۴۷ سلمیہ کے قائدین نے اپنے داعیوں کے ذریعہ مختلف علاقوں میں دارالہجرت قائم کروائے انہی میں فسح الاخیار بھی ایک مارالہجرت تھا.(تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۹)
تاریخ افکارا سلامی ۲۵۳ باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور اُس کی تنظیم کے سرگرم رکن بن گئے.ابو عبد اللہ الشیعی کی مغرب میں آمد ۲۸۸ھ کے قریب تھی یا ابوعبداللہ الشیعی نے تصوف کا جامہ اوڑھ رکھا تھا اور بڑے صوفی کے رنگ میں لوگوں کے سامنے آتا.بہر حال اس نے ذہانت ، عزم اور احتیاط کے ساتھ بڑے خفیہ انداز میں اپنی دعوت کو آگے بڑھایا.اُس نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ حضرت امام جعفر نے اپنے دو داعیوں کو ان علاقوں کی طرف بھیج کر جو یہ ارشاد فر مایا تھا کہ حَتَّى يَجِيءُ صَاحِبُ البَدْرِ تو وہ صاحب البذ ریعنی بیج بونے والا میں ہوں.بہر حال ابوعبید اللہ الشیعی کی دعوت کی وجہ سے اردگرد کے علاقہ کے لوگ بکثرت اس کی تنظیم میں شامل ہونے لگے.ان دنوں ان علاقوں میں اعمالِبہ کی حکومت تھی جو بنو عباس کی طرف سے ان علاقوں کے والی تھے.ابوعبداللہ ہاشمی کے جتھوں کی اغالبہ کی فوجوں سے کئی جھڑپیں بھی ہو ئیں اور غلبہ ابو عبد اللہ الشیعی کے حامیوں کے ہاتھ رہا.ابوعبد الله الشَّيْعِی نے یہ پراپیگنڈا بڑے زور وشور سے کیا کہ بس اب امام مہدی ظاہر ہونے والے ہیں اس کا اثر بھی بہت اچھا پڑا سکے اور ابو عبد اللہ کی طاقت بڑھتی رہی آخر ا غالبہ شکست کھا گئے اور ابو عبداللہ الشیعی نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بڑے عدل وانصاف کا مظاہرہ کیا.اس کا اثر بھی لوگوں پر بہت اچھا پڑا.اس کے بعد ابو عبد اللہ الشیعی نے سلمیہ میں اپنے قائد کو پیغام بھجوایا کہ میدان تیار ہے آئیے اور تخت حکومت سنبھالئے.چنا نچہ سعید بن الحسین جو احمد ابو الشَّلَعْلَع کا بھتیجا تھا اوراحمد ابو الشلعلع کی وفات کے بعد تحریک کا قائد بنا تھا عبید اللہ المہدی کے نام سے ۲۹۶ھ میں مغرب کے ان علاقوں کا حکمران بنا اور حکومت عبید یہ کی بنیا درکھی گئی.قیروان دار الحکومت قرار پایا.یہ عجیب بات ہے کہ مغرب میں فاطمیوں کی حکومت کے لئے ابو عبد اللہ بھی نے میدان ہموار کیا تھا اور اسی کی کوششوں سے حکومت غبیلیه قائم ہوئی تھی لیکن عبید اللہ المہدی نے جب استحکام حاصل کر لیا تو اس نے ۲۹۸ھ میں ابو عبد اللہ الشیعی اور اس کے بھائی ابو العباس دونوں کو مروا دیا ہے اور اس طرح اس نے اس تاریخ کو دہرایا جو دولت ل سهلت كراهة البربر للعرب انضمامهم لابی عبدالله الشیعی (تاريخ الدولة العربية صفحه ۴۶،۴۵) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۵۱ تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۵۶
تاریخ افکارا سلامی ۲۵۴ عباسیہ کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور نے مؤسس دولت عباسیہ ابو مسلم خراسانی کو قتل کر کے اوراق تاریخ میں محبت کی تھی اور دونوں کے حامیوں کا رد عمل بھی ایک جیسا تھا.بہر حال عبید اللہ المہدی نے بڑی حد تک اپنی حکومت کو سنبھال لیا.اُس کی وفات کے بعد ابولقاسم محمد القائم دولت عبید یہ کا خلیفہ بنا اُس کے بعد المنصو را در اُس کے بعد المعز دولت فاطمیہ کے سربراہ مقرر ہوئے.المین کے عہد حکومت میں اُس کے قابل حمد نیل جوہر کے ہاتھوں مصر فتح ہوا.یہ ۳۵۸ ھ کا واقعہ ہے.المعز جب فتح مصر کی تیاریوں میں تھا تو ایک روز جبکہ شدید سردی پڑ رہی تھی اور سخت طوفان کا سماں تھا اس نے اپنے ارکان دولت اور شیوع گنامه کو اپنے محل میں بلوایا اور ان کے سامنے تقریر کی کہ آپ لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ ایسے سرد اور طوفانی دن میں میں عیش و عشرت، شراب و کباب اور رقص و سرود میں اپنا وقت گزار رہا ہوں گا حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ میرے گر دکتابوں اور خطوں کا ڈھیر ہے، قلم اور دوات رکھی ہے اور مخط و کتابت اور علم کے سمندر میں کو یا غرق ہوں.بڑی سادہ زندگی بسر کرتا ہوں تم بھی وہی کرو جو میں کرتا ہوں.تکمر اور تبختر کو ترک کر دو.دوسروں پر رحم کرو نا اللہ تعالی بھی تم پر رحم کرے.عیش میں نہ پڑو.ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو تا کہ تمہارے قومی مضبوط رہیں، تمہاری قوت قائم رہے.میری مدد کرو تا کہ ہم مشرق یعنی مصر میں بھی اُسی طرح غالب آئیں جس طرح ہم خرب میں غالب ہوئے ہیں تا کہ ہر طرف سلامتی، امن و امان اور عدل وانصاف کا دور دورہ ہو کیونکہ عدل وانصاف حکومت کی بنیاد ہے سے غرض اس طرح کی وعظ و تلقین اور ا منگ ویقین کے ساتھ المسعر نے مصر کی طرف فوجیں روانہ کیں مصر کے حالات یوں بھی دگرگوں تھے اس لئے بہت معمولی مقابلوں کے بعد المعز کی فوجوں نے مصر فتح کرلیا.۳۶۱ھ میں المعز نے فاطمی خلیفہ المنصور کے بہائے صدر مقام المنصوریہ سے کوچ کیا جو شمال مغربی افریقہ کے مشہور شہر قیروان کے نواح میں تھا.اور القاہرہ میں آکر قیام کیا جو اُس کے جرنیل جو ہر نے دار الحکومت کے طور پر بسایا تھا.مصر کے حالات کو درست کرنے کے بعد المعز نے آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ شام، یمن اور حجاز کی طرف بڑھایا یہ علاقے پہلے سے ہی مصر کی نگرانی میں تھے اور ان دنوں رومیوں کی نظریں ان علاقوں خصوصاً شام پر لگی ہوئی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ وہ دولت عباسیہ کی جگہ لیں العدل اساس الملك تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ١٣٦)
تاریخ افکا را سلامی ۲۵۵ اس بنا پر رومی بازنطینیوں کی روک تھام ضروری تھی.پھر اس علاقہ میں قرامطہ کا بھی زور تھا جس کا تو ڑنا فاطمیوں کی پالیسی کا ایک حصہ تھا.۳۶۵ ھ میں المعز جب فوت ہوا تو العزیز اس کا قا ئمقام مقرر ہوا.اس کے زمانہ میں جامع الازہر کی بنیا د وسیع المقاصد تعلیمی ادارہ کے طور پر رکھی گئی ہے العزیز بڑا اوسیع المعلومات دور بین خلیفہ تھا بہت کی زبانیں جانتا تھا.اس کے زمانہ میں ایشیائے کو چک سے لے کر بحر اوقیانوس کے مغربی کنارے تک دولت فاطمیہ کا جھنڈا لہرانا تھا.۳۸۶ھ میں العزیز نے وفات پائی.اُس نے قاضی محمد بن النعمان المغربی اور کنامہ کے سردارا بوالحسن بن عمار کے مشورہ سے اپنے بیٹے کواپنا جانشین مقر رکیا جوالی کم بامر الله کے لقب سے مشہور ہے.الحاکم بامر اللہ سے پہلے فاطمی خلفا ء عام شرعی احکام میں قریباً اثناعشری شیعوں سے مطابقت رکھتے تھے.جمعہ اور عیدین اور عبادت کی دوسری تقریبات میں خلفاء برابر شریک ہوتے.البتہ صحابہ کو بُرا بھلا کہتے اور ست صحابہ کے طریق کو فروغ دینے میں دوسرے غلو پسند شیعہ فرقوں سے کسی طرح کم نہ تھے.الحاکم بامر اللہ کو کتامہ کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے سردار احسن بن عمار کو وزیر مقرر کیا جائے چنانچہ الحاکم کو جھکنا پڑا اور کنامہ کا مطالبہ تسلیم کر لیا لیکن بد نظمی بڑھ گئی.اثر ابن عمار نے وزارت چھوڑ دی.اُس کی جگہ بہ جوان آیا لیکن کچھ مدت کے بعد حاکم نے اسے بھی قتل کرا دیا.حاکم متلون مزاج ، علو پسند دیوانی ذہنیت کا خلیفہ تھا.پہلے اس نے سلیوں اور زمینیوں کو سخت تنگ کیا اور شیعیت کے فروغ کی کوشش کی.اس کا یہ دور ۳۹۰ھ سے ۳۹۸ ھ تک ہے.اُس نے یہود اور نصاریٰ کے بارہ میں حکم دیا کہ وہ الگ طرز کا لباس پہنیں جس سے پتہ چلے کہ وہ غیر مسلم ہیں.گرجے گرا دیئے اور ان کے اندر کے قیمتی سامان کو فروخت کرا دیا.ایک طرف اس کا یہ تشدد تھا تو دوسری طرف اس نے کئی عیسائیوں کو بڑے اہم عہدے دے رکھے تھے جنہوں نے عام مسلمانوں کو بڑا تنگ کئے رکھا.تے ۳۹۸ھ سے ۲۰۱ ھ تک عام مسلمانوں کے بارہ میں اُس کا رویہ نرم تھا لیکن اس دور میں اُس کے لے شروع میں جامع الازہر کی بنیاد ۳۵۹ ھ میں فاطمی قائد جوہر کے ہاتھوں رکھی گئی لیکن اس وقت یہ صرف شیعہ علوم کی تدریس کے لئے مختص تھی.(تاریخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۷۷) قد أوغر كثرة تقليد النصارى للوزارة صدور المسلمين عليهم (تاريخ الدولة الفاطميه صفحه ١٦٦)
تاریخ افکار را سلامی ۲۵۶ مذہبی دعاوی نے بڑا عجیب رنگ اختیار کر لیا تھا.ایک طرح سے اُس نے خدائی کا دعویٰ کیا.اسی زمانہ میں دروز کا فرقہ ظاہر ہوا جس کی تفصیل آئندہ آرہی ہے.الغرض حاکم کے یہی دعا دی اُس کے قتل کا باعث بنے.اسی زمانہ میں اُس نے دار الحکمت بھی قائم کیا جس میں اسماعیلی مذہب کی باطنی تعلیم دی جاتی تھی اور باطنی نظریات پھیلانے کے لئے داعی تیار کئے جاتے تھے یا سنیوں کے بارہ میں فاطمیوں کی پالیسی خاصی سخت تھی.خلفاء ثلاثہ اور صحابہ کو بر ملا گالیاں دی جاتی تھیں جس سے سیکیوں کے سینے چلتے.جمعہ کے خطبوں میں سب وشتم کا رواج بڑھ گیا تھا.مساجد کی دیواروں پر اور عام شاہراہوں پر یہ گالیاں لکھی جاتیں.گلیوں میں لوگوں کو پھرایا جاتا اور مارا پیٹا جاتا اور منادی کی جاتی کہ هَذَا جَزَاءُ مَن يُحِبُّ اَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ.۴۰۱ ھ کے قریب حاکم نے ارادہ کیا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی قبریں اکھیڑ دی جائیں اور روضہ میں صرف آنحضرت کی قبر رہنے دی جائے لیکن وہ اپنے اس مذموم ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکا ہے حکومت کے عہدوں میں سنیوں سے سخت تعصب برتا جاتا تھا.کوئی اہم عہدہ سنیوں کے ہاتھ میں نہ رہا تھا حالانکہ ملک میں اکثریت سنیوں کی تھی.خلیفہ العزیز نے سنیوں کو نماز تراویح اور نماز کی پڑھنے سے منع کر دیا تھا.جب ایک سنی عالم نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو اُسے گرفتار کر لیا گیا پھر اُس کی زبان کاٹ دی گئی اور آخر اُسے سُولی دے دی گئی.بعض مؤرخین نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے.موطا امام مالک پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی.خصوصا حاکم کے زمانہ میں اس قسم کا تھنڈ دیڑھ گیا تھا.کچھ عرصہ ایسا بھی آیا کہ حاکم بامر اللہ نے تعصب کی اس پالیسی میں نرمی کر دی لیکن یہ عرصہ تین سال سے آگے نہ بڑھا اور پھر سے تھد دشروع ہو گیا.کے تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٦٧٠١٦٦ ١و٢٢٣ عمل الفاطميون على لعن الخلفاء الثلاثة الأوّل وغيرهم من الصحابة (تاريخ الدولة الفاطميه صفحه ۲۱۸ و ۲۲۲) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۲۱۹ مع حاشیه صفحه ۲۲۰ ۲۲۱ تاريخ الدولة العربيه صفحه ۲۲۱ ۲۲۳
تاریخ افکا را سلامی ۲۵۷ اس تعصب کا ہی نتیجہ تھا کہ سنی فاطمی حکومت سے بد دل اور متنفر تھے لے ۴۱۱ ھ میں الحاکم بامر اللہ فوت ہو گیا بعض روایات کے مطابق اُسے قتل کر دیا گیا.اس کے بعد اس کا بیٹا الظاہر والی بنا.اس کی پالیسی نرم تھی.اس نے بڑی عقل مندی اور بُردباری کا ثبوت دیا.اپنے والد کے زمانہ کے بہت سے احکام جن سے تعصب اور تشدد کا رنگ جھلکتا تھا منسوخ کر دیئے اور رعایا بڑی حد تک مطمئن ہوگئی لیکن اُس کی وفات کے بعد المُستنصر کے عہد میں تشدد کا عفریت پھر جاگ اُٹھا اور کافی عرصہ جاری رہا.آخر کا ر ۵۶۴ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں جب دولت فاطمیہ کا خاتمہ ہوا تو اس کے ساتھ ہی سنیوں نے بھی اطمینان کا سانس لیا لیکن شیعوں کی شامت آگئی اور ایوبی امراء نے بطور پالیسی چھن چھن کر اسماعیلی شیعوں کو ختم کیا.وہی بچے جو یمن یا ہند کی طرف بھاگ گئے اور کچھ شام اور لبنان کے پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپ گئے.فاطمی حکومت کے زمانہ میں ہی خلافت عباسیہ کے زوال کا آغاز ہوا.خلفاء عباسیہ کو بَنُوبُوَیہ نے جو شیعہ تھے ایک کھلونا بنا رکھا تھا.اُن کی دلی ہمدردیاں فاطمی خلفاء کے ساتھ تھیں.اگر بعض سیاسی مفاد آڑے نہ آتے تو بنو بویہ نے خلافت عباسیہ کو ختم کر کے خلفاء فاطمیہ کی حکومت کا اعلان کر دینا تھا تے لیکن بنو بویہ کو مشورہ دیا گیا کہ بنو فاطمہ کی حکومت میں ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.بنو عباس کو تو تم لوگ عقیدۂ غاصب سمجھتے ہو ان کے ساتھ تمہاری کوئی مذہبی عقیدت نہیں اس لئے جس طرح چاہتے ہو اُن سے سلوک کرتے ہو لیکن اگر بنو فاطمہ ادھر آگئے تو تم ایسا نہ کر سکو گے کیونکہ عقید ہ تم انہیں خلیفہ بر حق مانتے ہو اگر تم اُن کی بے ادبی کرو گے یا ان میں سے کسی کو تل کرو گے تو شیعہ پبلک تمہارے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی اور اس مخالفت کا سنبھالنا تمہارے لئے مشکل ہو جائے گا.بہر حال قریباً ایک سال تک بغداد میں خلفاء بنو فاطمہ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا رہا لیکن آخر کار اس پالیسی کو بدل دیا گیا اور حسب سابق خلفاء عباسیہ کے نام کا خطبہ جاری ہو گیا.حل انصار الفاطميين.....محل السنيين في مناصبهم من ذالك نرى ان السنيين كانوا من اوّل حكم الفاطميين ينظر اليهم بعين السخط والكراهة تاريخ الدولة الفاطميين صفحه ۲۲۴) ولولا خوف البويهيين على نفوذهم السياسي لحوّلوا الخلافة الى العلويين اذ كانوا يفضلون الفاطميين على العباسيين من الناهية المذهبية تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٢٠٦، ٢٠٧) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٢٢٣
تاریخ افکا را سلامی POA فلسطین ، شام، یمن اور حجاز میں تو بنو فاطمہ کے نام کا خطبہ ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا اورا یو بیوں کے عہد حکومت میں اس کا رواج ختم ہوا.اسی زمانہ میں تاتاریوں کے حملے بھی شروع ہوئے جو آخر سقوط بغد اداور خلافت عباسیہ کے خاتمہ پر منتج ہوئے.صلیبی لڑائیوں میں مصلیبیوں کی کامیابی کا بھی یہی زمانہ ہے.انہوں نے مسلمانوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تو ان کے حوصلے بڑھ گئے.ارض فلسطین اور شام کے بعض حصے اُن کے قبضہ میں چلے گئے.یہ کامیابیاں انہوں نے بعض شیعہ فرقوں کی مدد سے حاصل کیں.فاطمی زعماء نے اسماعیلی مذہب کی دعوت واشاعت کے لئے اسلامی ممالک میں چاروں طرف اپنے دائی پھیلائے ہوئے تھے جو حسب حالات کہیں ظاہر اور کہیں خفیہ اپنے نظریات اور خلافت فاطمیہ کی حقیقت کی برابر تبلیغ کرتے رہتے تھے.بعض دامی بڑے قابل علوم کے ماہر اور اصول تبلیغ سے پوری طرح واقف تھے اور اثر و رسوخ بڑھانے کے طریقوں کو اچھی طرح جانتے تھے چنانچہ ان کی کوششوں سے ہر ملک اور ہر علاقہ میں اُن کے بڑے مضبوط مرکز اور دارالہجرت قائم ہو گئے.موصل میں اسماعیلی مذہب کا داعی خود وہاں کا والی تھا.اس کے بعد قِرْدَاشِ الْعُقَيْلِی نے موصل آبنائے مدائن اور کوفہ میں بڑا کام کیا.ایک اور داعی هِبَةُ اللهِ الشَّيْرَازِی نے عباسی حکام اور بعض سلجوقی ترکوں کو اسماعیلیت کی طرف مائل کرنے کا تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا ہے.یمن کا پہلے ذکر آچکا ہے کہ سلمیہ میں مستور ائمہ میں سے دوسرے امام احمد ابوا لشعاع نے یمن کے علاقوں میں اسماعیلی دعوت پھیلانے کی ذمہ داری ابن کو شب کے سپرد کی.ابن حوشب کا پورا نام ابوالقاسم الحسن بن ابی الفرج بن حوشب ہے.یہ کوفہ میں پیدا ہوا.خاندان علمی تھا او را ثناعشری عقائد رکھتا تھا لیکن ابن حوشب نے اسماعیلی عقائد کو اپنایا اور ائمہ مستورین کے مقربین میں شمار ہونے لگا.وہ اسماعیلیوں کے اس نظریہ سے بے حد متاثر تھا کہ امام مہدی عنقریب ظاہر ہونے والا ہے.احمد ابو الشلعلع نے ابن حوشب کو کہا اے ابوالقاسم یمن بڑی برکات کا حامل ہے ہے اس لئے یہ علاقہ میں آپ کے سپر دکرنا تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۲۳۳٬۲۳۲ قال يا أبا القاسم ان الدين يمان والحكمة يمانية وكل امر يكون مبدؤه من قبل اليمن فانه يكون ثابتاً لثيوت نجم اليمن وذالك ان اقليم اليمن اعلى اقليم الدنيا - تاريخ الدولة الفاطميه صفحه ۴۰۲ بحواله اخبار القرامطه صفحه (۲۳)
تاریخ افکار را سلامی ۲۵۹ ہوں.اس کے ساتھ ہی احمد نے ایک اور شخص کو ابن حوشب کا ساتھی بنایا اس شخص کا نام علی بن فضل الیمنی تھا اور حج کرنے کے بعد قیر حسین کی زیارت کرنے کر بلا آیا تھا اس کے بعد سکھنیہ میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.احمد نے اسے مخلص پا کر اس طرح مخاطب کیا الحمد اللهِ الَّذِي رَزْقَنِي رَجُلا تَحْرِيرًا مِثْلَكَ اَسْتَعِيْنُ بِهِ عَلَى اَمْرِى وَ اَكْشِفُ لَهُ مَكْنُونَ سِرَى غرض اُسے خوب جوش دلایا اور ابن حوشب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تلقین کی.ادھرا بن حوشب کو کہا کہ اس شخص کی دلداری کرنا ، اس کے ساتھ مل کر کام کرنا.ظاہری لحاظ سے نماز روزہ کی پابندی کرنا.اپنا را ز عام نہ کرنا.لوگوں کو مرید بنانا اور رجب وہ قربانی کے لئے تیار ہو جائیں تو مقررہ مالی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے اُن سے کہتا ہے بہر حال ابن حوشب نے یمن پہنچ کر صنعاء سے جنوبی طرف ایک پہاڑی جگہ کو جس کا نام لا عہ تھا اپنا مرکز بنایا.یہ بڑی محفوظ جگہ تھی وہاں پہلے سے ہی کچھ لوگ ہم خیال تھے.مشہور کرایا گیا کہ ایک بڑا ولی اللہ عابد و زاہد اس علاقہ میں آیا ہے چنانچہ لوگ دھڑا دھڑ آنے لگے.جب اچھی خاصی جمعیت اکٹھی ہو گئی تو ابن حوشب نے اردگرد کے علاقہ میں قلعہ بندی شروع کر دی اور یمن کے عباسی والی پر حملہ کرا دیا جو کامیاب رہا کیونکہ علاقہ میں پہلے ہی گڑیا تھی.عباسی اثر و رسوخ برائے نام تھا.خارجیوں اور زید کی اور اثنا عشری شیعوں نے ملک کا امن وامان ابتر کر رکھا تھا.اس کے بعد ابن حوشب نے صنعاء کے جنوب میں دار الحجرت اور مرکز نشر واشاعت قائم کیا اور تھوڑے عرصہ میں اتنی کامیابی حاصل کی کہ مَنْصُورُ اليَمَن کے لقب سے مشہور ہو گیا.اس نے اپنے مرکز اشاعت سے مختلف علاقوں میں اپنے داعی بھیجے خاص طور پر بحرین، یمامہ ، سندھ اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں داعی پہنچے اور خاصی کامیابیاں حاصل کیں.دوسری طرف علی بن فضل نے یمن کے ایک علاقہ جیشان اور یافع کو اپنا مرکز دعوت بنایا اور اردگرد کے امراء سے جنگیں لڑ کر خاصی کامیابی حاصل کی.اس کامیابی سے اس کا دماغ پھر گیا.اس نے نبوت کا دعویٰ کیا او را سلام کو خیر باد کہہ دیا.ایک قصیدہ میں وہ کہتا ہے.تَوَلَّى نَبِيُّ بَنِي هَاشِم وهذا لَبِيُّ بَنِي يَعْرَب لِكُلِّ نَبِيٍّ مَضَى شِرْعَةً وَهَذِى شَرِيعَةُ هَذَا النَّبِيِّ قال اجمع المال والرجال.....و عمل الظاهر و لا تظهر الباطن و قل لكل شيء باطن......وليس هذا وقت ذكره (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٤٠٣)
تاریخ افکا را سلامی وَحُطُ القِيَامُ فَلَمْ يَتعب فَقَدْ حُطْ عَنَّا فُرُوضَ الصَّلوة اس ادعا کی وجہ سے علی بن فضل اور ابن حوشب ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور لڑائی تک نوبت پہنچی.بہر حال ابن حوشب کی کوششوں سے یمن اسماعیلی دعوت کا گڑھ بن گیا اور اُسے اور اُس کے جانشینوں کو خاصی کامیابیاں حاصل ہوئیں.اسماعیلی خلیفہ المستعصر نے یمن کے ایک اسماعیلی سردار علی بن محمد الصليحی کی مدد سے حجاز میں عباسیوں کا اثر ورسوخ ختم کر لیا جو کچھ عرصہ سے بڑھ رہا تھا.علی صلیجی قتل ہو گیا تو اُس کا لڑ کا المکرم اس کا جانشین بنا اس کے بعد اس کی بیوی اردنی الحرہ نے اسماعیلی دعوت کی ذمہ داری سنبھالی.یہ بڑی مدبر اور منتظم عورت تھی اُس کی دعوت کے نشان جنوبی ہند کے پہرہ ہیں.فاطمی خلیفہ العزیز نے عباسی وزیر عضد الدولة البويهي شیعی کے پاس سفارت بھیجی تا کہ اُسے متاثر کرے اور خلافت عباسیہ کے الٹنے میں اس کی مدد حاصل کی جائے اور یہ کوشش مسلسل جاری رہی لیکن بنو بویہ کے اپنے مقاصد تھے اس لئے یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی.كَمَا مَرَّ - ایک اور عباسی سردار ابوالحارث البساسیر ٹی پر جال ڈالنے کی کوشش کی گئی اور وہ غداری پر آمادہ بھی ہو گیا کیونکہ عراق کے داعی الدعاة هبة الله الشیرازی نے اس کی بڑی مؤشر مدد کی تھی لیکن سلاجقہ ترکوں کی مدد سے ہو یہیوں کی طاقت کو ختم کر دیا گیا.در اصل عباسی خلافت کی یہ ایک دائی پالیسی تھی پہلے فارسیوں اور خراسانیوں کی مدد سے بنو امیہ بالفاظ دیگر عربوں کے تسلط پر بلا بولا اس کے بعد ترکوں کی مدد سے فارسیوں اور خراسانیوں کے اثر و رسوخ کو ختم کیا پھر بنو ہو یہ کو آگے لائے تا کہ ترکوں H سے ان کو چھٹکارا ملے.جب بنو بو یہ وبال جان بن گئے تو سلاجقہ کے ذریعد ان کا خاتمہ کیا.سلاجقہ کو عوام کی حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ وہ پہنی تھے.فارس میں عبد اللہ بن میمون القداح نے کئی واقی بھیجے.اس سے پہلے خود اس نے اہواز کو مرکز بنا کر اس علاقہ میں اپنے نظریات کی اشاعت کی تھی.اپنے داعی الحسین الانوازی کو سواد کوفہ کی طرف بطور داعی بھیجا تھا.فارس کے علاقوں میں داعی زیادہ تر کپڑے بننے.روئی دھننے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ لوگوں میں بڑی راز داری اور احتیاط کے ساتھ اپنے نظریات کی تبلیغ بھی تاريخ الدولة الفاطميه صفحه ۴۰۵ بحواله تاريخ اليمن صفحه ۱۴۵
تاریخ افکارا سلامی ۳۶۱ کرتے رہتے تھے ان داعیوں سے کئی اہل علم بھی متاثر ہوئے چنانچہ انہی میں سے ایک صاحب علم عیات بھی تھے جنہوں نے بعد میں اسماعیلی نظریات کے پھیلانے میں بہت سے کارنامے سرانجام دیئے فارس کے بڑے بڑے امراء کو اسماعیلیت کی طرف مائل کیا.انہی میں سے ایک الحسین بن على المروروزی بھی تھا جس کا ہرات اور غور میں بڑا اثر رسوخ تھا.چنانچہ اس کے ذریعہ ان علاقوں میں دعوت اسماعیلیہ کو خوب فروغ ملا.خراسان میں ایک اور داعی ابو حاتم النیسا پوری الرازی نے بڑا کام کیا جو ایک مشہور شاعر بھی تھا.اسی نے طبرستان، الدیلم ، اجیان اور ری میں اسماعیلی شیعیت کے بیج ہوئے لیے ان علاقوں میں دعوت کا انداز المغرب سے کچھ مختلف تھا چونکہ یہ علاقے مجوسیت، ہند کی یہ ہمیت اور یونان کے فلسفہ سے خاصے متاثر تھے.تناسخ اور حلول کے نظریات بھی عام تھے اس لئے ان علاقوں میں کام کرنے والے داعی علمی انداز میں ان نظریات کی تائیدہ حمایت سے بھی خاصہ کام لیتے تھے.ہے محمد بن احمد السلفی خراسان میں اسماعیلیوں کا ایک اور بڑا داعی تھا.اس نے امیر خراسان نصر بن احمد السامانی کو بہت متاثر کیا.اور بخارا تک اسماعیلیت کا اثر بڑھایا.کہتے ہیں کہ نصر سامانی نے اسماعیلیوں کے ایک داعی الحسین بن علی المرور وزنی کو مروا دیا تھا.محمد النعمی نے نصر سامانی پر زور دیا کہ یہ بڑا ظلم ہوا ہے اس لئے وہ الحسین کی ایک سو انیس دینار دیت ادا کرے جبکہ ہر دینار کے ساتھ ایک ہزار دینار کا افہ ہواور یہ دی جس کی کلمات کی کھانی بازار یا ری مر کے مالی امیر کو چھوائی گی جس اضافہ ہو اور یہ دیت جس کی کل مالیت ایک لاکھا انہیں ہزار دینا تھی مغرب کے فاطمی امیر کو بھجوائی گئی جس کی ہدایت میں یہ داعی کام کر رہے تھے.ا بايعة جماعة من كبار رجال الدولة مثل الاصفر بن شيرويه امير قذوین و مروا دیج بن زیاد الديلمي ويوسف بن ابى الساج امير الرّى و انه فكر في خلع طاعة الخليفة المقتدر العباسي والدخول في طاعة الامام العلوى التاريخ الدولة الفاطميه صفحه ۴۱۹) الفرس يقولون ان الغلوتين وحدهم يملكون حق حمل التاج...لكونهم وارثى آل ساسان من جهة امهم وهى شهر بانو ابنة يزدجرد الثالث آخر ملوك الفرس تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۱۸) وقد كان نصر بن احمد الساماني من اكبر معارضى المذهب الاسماعيلي نفس المصدر صفحه (۴۶۹
تاریخ افکا را سلامی ۲۶۲ دعوت اسماعیلیہ کے سلسلہ میں علمی کوششیں علمی لحاظ سے اسماعیلی داعیوں نے جس طرح مشرق کو متاثر کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسائل اخوان الصفاء اسماعیلی داعیوں سے متاثر فلسفیوں کا کارنامہ ہے.لے جس میں فلسفی اور ا دبی انداز میں مسائل اسلام پر بحث کی گئی ہے.یے ان رسائل کے مرتبین بنو بویہ کے پروردہ تھے اور چھپ کر اور پس پردہ رہ کر کام کرتے تھے ان رسائل سے اسماعیلیہ خاص طور پر درزیہ اور نزاریہ ( آغا خانیہ ) نے بہت زیادہ کام لیا.الشَّهُزُودِی کا کہنا ہے کہ ان رسائل کے مصنفوں کے نام یہ ہیں ابوسلیمان محمد بن نصر البستی ، ابو الحسن علی بن ہارون الزنجانی، ابو احمد النہر جوری، زید بن رفاعه الْعَونِي او را بن سینا یہ سب کے سب اپنے زمانہ کے مانے ہوئے فلسفی اور آزاد خیال مفکر تھے.یہ کام انہوں نے چوتھی صدی کے نصف ۳۳۴ھ سے لے کر پانچویں صدی کے آغاز ۴۲۸ ھ تک سرانجام دیا.اسی طرح ابو حاتم الرازی کے صاحب كتاب الزِّيْنَةُ وَ اَعْلَامُ النُّبُوَّۃ بڑا عالم اور مصنف مانا گیا ہے.ابو عبد اللہ انسفی بڑا قابل اسماعیلی داعی ، ماہر ادیب اور فلسفی اور کئی کتابوں کا مصنف تھا.گئے ابويعقوب السنجر می الملقب بر دندان، اسماعیلیوں کا مشہور داعی، مانا ہوا مناظر اور قابل مصنف تھا.مى به اس نے مشہور فلسفی اور طبیب محمد بن ذکریا الرازی سے العلام النبوة کے بارہ میں مناظرہ کیا اور یہ امر کی چوٹ رہی.کتاب اثباتُ النُّبُوَّة - كتاب الشَّرَائِع اور کتاب کشف الاسرار.کتاب بنا ئیچ اور کتاب الْمَوَازِين شبڑی عمدہ اور قابل مطالعہ تصانیف ہیں.بہرہ خوبے اس کی بعض کتابوں کی بڑی قدر کرتے ہیں.↓ " أن آراء جماعة اخوان الصفاء تتفق مع آراء الكرماني الداعي للاسماعيليه صاحب کتاب راحة العقل“ (التاريخ الدولة الفاطمي صفحه ۴۹۰) تدل هذه الرسائل على ان مؤلفيها نالُوا حَظًّا موفورًا من الرقى العقلى وتتألف هذه الرسائل من احدى وخمسين رسالة (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۶۵ كان علمًا من علوم النهضة العلمية الاسلامية في فارس فى القرن الرابع وان كان السنيون يتهمونه بالزندقة والمهرية - ( تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۶۷، ۴۶۸) اس کا نظریہ تھا کہ مبدع اول نے نفس کو پیدا کیا.اب یہ دونوں مد تبر عالم ہیں.علامہ بغدادي الفَرِّقُ بَيْنَ الفِرق میں کہتے ہیں کہ یہی عقیدہ فارس کے مجوسیوں کا ہے.وہ کہتے ہیں کہ یو دان نے اہرمن کو پیدا کیا اب یہ دونوں مدمر عالم ہیں.کیو دان فاعل الخیرات ہے اور اہرمن فاعل الشرور ہے.حما مر - سیروان ه قد بحث في كتاب الينابيع ماهية المبدع وعالم العقل والنفس وسبب الخلق ومعاني الجنة والنار و معنى صلیب عيسى وغير ذالك من المواضيع وفي كتاب الموازين (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
تاریخ افکا را سلامی ۲۶۳ ابو حنیفہ العمان بن ابی عبد الله المَغْرَبِي الشَّيْعِی بھی بڑا قابل اور مجتہد اور مانا ہوا مصنف تھا.اس کی کتابوں کو بھی بہر ہ اسماعیلی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ابو حنیفہ العمان پہلے مالکی المذہب تھا.مصر میں جب فاطمی حکومت قائم ہوئی تو اُس نے اسماعیلی مذہب اختیار کر لیا اور ایک وقت میں آکر اسماعیلی مذہب کا دَاعِيُّ الدُّعاة منتخب ہوا.یہ عبید اللہ المہدی، القائم ، المنصور تینوں فاطمی خلفاء کے زمانہ میں صاحب اثر ورسوخ رہا اور مختلف علاقوں کا قاضی بنا.اسماعیلی فقہ، مناظرہ، تا دیل ، عقائد، تاریخ اور وعظ و تذکیر میں اس کی کئی کتابیں ہیں.کہا جاتا ہے کہ چالیس سے زیادہ کتابوں کا مصنف تھا.اس کی كتاب دَعَالِمُ الإسلام اسماعیلی فقہ کا ایک عمدہ مجموعہ ہے اور نیبر داسماعیلی اسے اپنے فقہی مسلک کی اساس سمجھتے ہیں تے.اس میں ابو حنیفہ الشی نے ارکان اسلام سات گنوائے ہیں.عام معروف ارکان پانچ ہیں اوران میں ولایت ائمہ اہل بیت اور طہارت کا اضافہ کیا ہے.بہر حال ابو حنیفہ العمان الشیعی کی کتب ظاہر احکام پر مبنی ہیں باطن اور بھر سے متعلق کتب میں ان کا شمار نہیں ہوتا اسی وجہ سے جو اسماعیلی فرقے یر اور باطنی علوم میں غلو ر کھتے ہیں.جیسے النزاری یا الدرزی و ہ ابو حنیفہ العمان کی کتابوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے.اسماعیلی مصصین میں سے ایک اہم مصنف جعفر بن منصور الیمنی ہے اسے بَابُ ابْوَابُ المُعز کا لقب دیا گیا جو قاضی القضاۃ کے مرتبہ سے بلند تھا.زیادہ تر اسماعیلی اسرار باطنی نظریات اور تاویلات “ “ اسماعیلیہ سے متعلق کتب لکھی ہیں مثلا" تَأْوِيلُ الزَّكَاةَ "نسر ائر النَّطَقَاء الشواهد والبنيان “.- " تَارِيحُ الَا ئِمَةِ الْمَسْتُورِينَ اور كتاب الكشف “ اس نے آیات قرآنی کی جو تا دیل کی ہے اس کی ایک مثال یہ ہے سورۃ التین میں تین سے مراد حسن ہیں اور زیتون سے حسین طور سینین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور هذا البلد الامین سے علی ہیں.آخر الذکر کتاب الکشف کے (بقیه حاشیه) معرفة الحقيقة معرفة المبدع ومن اهم هذا الموازين ما وقفه على النطقاء والأسس والائمة والحجج والدعاة الى غير ذالك....التي تفيد الباحث ( في تاريخ التطور العقلي للمذهب الاسماعیلی صفحه ۴۷۳) لا يعرف عند الاسماعيلية بأبي حنفية الشيعة وسيدنا الاوحد وسيدنا القاضي النعمان ويعد من أهم دعائم الدعوة الاسماعيلية قبل ان الخليفة المعز هو الذي حث النعمان على تأليفه.(نفس المصدر ۴۷۵ - تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۴۷۴)
تاریخ افکا را سلامی ۲۶۴ بارہ میں اس کی وصیت یہ تھی کہ اس کے اسرار کو عام نہ کیا جائے لیے حمید الدین احمد بن عبداللہ الکرمانی بھی اسماعیلی دُعاۃ میں بڑا انا مورگزرا ہے.یہ بڑا فلسفی تھا.اس کا خیال تھا کہ الحاکم بامر اللہ کے بارہ میں جو یہ مشہور ہے کہ اُس نے الوہیت کا دعویٰ کیا ہے یہ سراسر بہتان ہے اسماعیلی واحدانیت اللہ کا عقیدہ رکھتے ہیں.الکرمانی صفات وُجُودِيَّہ اور تَنْزِيَّہ کا منکر تھا.اس کا کہنا تھا کہ اُس کی کوئی صفت نہیں البتہ مَبْدَع أَوَّل کے اَسْمَاءِ حُسُنی ہیں.اسماعیلی مَبْدَع أَوَّل کو السابق والقلم کہتے ہیں اور فلاسفہ کے ہاں اس کا نام اعتقل الکلی ہے.اسماعیلیوں کے نز دیک ائمہ بھی السابق “ کی صفات سے متصف ہوتے ہیں لَانَّ الْإِمَام فِی عَصْرِهِ مَثَلٌ لِلسَّابِقِ وَلِهَذَا يُمَدَحُ بهذِهِ الصَّفَات فقهي مسائل میں ظاہر کے لحاظ سے اسماعیلی شیعہ اثناعشری شیعوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں.یاؤں پر مسح کیا جاتا لیکن حرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت تھی.اذان میں الصلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کی بجائے حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ مُحَمَّدٌ وَعَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَر کا اضافہ کیا گیا.فاطمی حکومت میں دعائے قنوت پڑھنے نیز نمازتراویح اور صلوٰۃ الضحی پڑھنے کی اجازت نہ تھی.نماز جنازہ میں چار کی بجائے پانچ تکبیریں کہی جاتی تھیں.جمعہ کے روز عباسی خلفاء کی بجائے فاطمی خلفاء کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا او را ئمہ کے فضائل بیان کئے جاتے اور ان کے لئے دُعا کی جاتی تھی.ایسے ہی کم و بیش مختلف اختلافات تھے.بعض سبزیاں یا کھانے منع تھے کیونکہ یہ صحابہ خاص طور پر ابو بکر اور عائشہ کو پسند تھے یا ائمہ اہل بیت ان کو نا پسند کرتے تھے ہے ل كان جعفربن منصور من اشهر رجال التأويل في الدور المغربي كما يعتبر النعمان المتشرع الاول هذا الدور (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۸۷) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٦٤٣
تاریخ افکا را سلامی الدَّرُوزِيهِ يا اَلدَّرْزِيَّه ۲۶۵ فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ نے خُدائی کا دعویٰ کیا یا نہیں کیا اس بارہ میں اختلاف ہے لیکن یہ مسلمہ بات ہے کہ الحاکم ایک محتلون مزاج ، دیوانہ ذہن، خود بیں خلیفہ تھا اور اس بات کو پسند کرتا تھا کہ لوگ اُس کے سامنے سجدہ کریں تے چنانچہ اُس کے انہیں حالات کی وجہ سے اسماعیلیوں کا ایک گرو ہ اس بات کا دعویدار ہوا کہ حاکم الہ ہے یا الہ نے اُس میں حلول کیا ہے.اس نظریہ کا سر گرم دا ما حمزہ بن علی الز ورنی اور محمد بن اسماعیل البخاری که رزی وغیر ہ تھے یہ سب کے سب قاری تھے اور ملوک محرس کی تالیہ کے بارہ میں فارسیوں کے جو نظریات ہیں یہ اُن سے متاثر تھے.سے محمد بن اسماعیل الدرزی نے اس دعوت کو عام کیا ، کتابیں لکھیں، الحاکم کے مقربین میں شامل ہوا اور الحاکم کی چھاؤنی میں اس نظریہ کی خوب اشاعت کی اور مختلف داعیوں کو اپنا ہمنوا بنایا.بعد میں یہ شخص مصر سے بھاگ کر شام کے پہاڑی علاقہ میں پناہ گزین ہوا اور یہاں اپنا مرکز قائم کیا اور اردگرد کے علاقہ میں اس نظریہ کو پھیلایا چنا نچہ اب تک لبنان او رحوران میں اُس کے پیر و موجود ہیں جو د روز یا درز یہ کہلاتے ہیں.دروز ظہور توحید کے طور پر اپنا سال ۴۰۸ھ سے شروع کرتے ہیں.یہی وہ سال ہے جس میں حمزہ بن علی الروزنی نے تالیہ الحاکم کے نظریہ کا اظہار کیا.دروز کا فرقہ دو گروہوں میں منقسم ہوتا ہے.روحانیوں اور شمانیوں.روحانی گروہ کے تین درجے ہیں.رؤسا، عقلاء اور آجاوید - رؤسا اسرار الدرزیہ کے کلید بر دار اورامین ہوتے ہیں.عقلاء کے پاس داخلی اسرار کی مفاتیح ہوتی ہیں جن کا تعلق د روز کی تنظیم اور مذہبی تربیت سے ہے.اجادیہ کے پاس اسرار ل الدرزية الخياطون والحاكمة الغوغاء من الناس.اذا ظهر الحاكم في الطرقات خروا له سجدا و قبلوا الارض بين يديه ويقولون ان رُوحَ الْإِلهِ حلت في آدم ثم انتقلت الى الانبياء ثم الى الأئمة حتى استقرت في الحاكم - تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۵۸۲۳۵۵ ملخصا.دعا الزوزنى الى عبادة الحاكم وقال إن الإله حَلَّ فيه وكان يرسله الحاكم لاخذ البيعة على الرؤساء على اعتقاده في الحاكم وقد شجع الحاكم هذا الداعي وانصاره - (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۵۵) المدرزی کا لفظ اُردو میں عام ہے.کپڑے سینے والے کو درزی کہتے ہیں.
تاریخ افکارا سلامی ۴۶۶ خارجید کی چابیاں ہوتی ہیں اور انہی کے ذریعہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رابطہ قائم رکھا جاسکتا ہے.دروز کا دوسرا گروہ جثمانیوں کہلاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک الْأُمَرَاءُ الْحِمَانِیوں اور دوسرے العَامَّه ( الجُهَّال) الأمَرَاءُ الجِثْمَانِيُّون حرب و ضرب اور زعامہ وطعیت کے انچارج ہوتے ہیں اور جھال سے مراد وہ طبقہ ہے جو صرف مذہب کا نام جانتا ہے.اُس کے مسائل اور اُس کے فلسفہ سے نا واقف محض ہوتا ہے.یہ دونوں طبقات روحانی طبقات کا مقام کبھی حاصل نہیں کر پاتے لے رسائل الحاكم بامر اللہ کے مباحث بحیثیت مجموعی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ حاکم خدائی طاقتوں کا مدعی تھا اور اس بارہ میں سنیوں کا التزام بے جانہیں ہے.درو زقرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے کے قائل ہیں لیکن اُس کی آیات کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیات قرآنیہ کا ظاہر مراد نہیں بلکہ باطن مراد اور مطلوب ہے.ان کی تاویل کی ایک مثال یہ ہے کہ نماز سے مراد حفظ الاخوان اور روزہ سے صدق اللسان ہے اور روحیں تناسخ کے چکر میں سرگرداں رہتی ہیں.اسے وہ تقمّص کہتے ہیں یعنی وہ چولے بدلتی رہتی ہیں.وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ یہ کائنات قدیم ہے اور ابدی بھی ہے کبھی نا بو دنہیں ہوگی...ے جسمانی طبقہ کا کوئی فرد بڑی مشکلوں اور آزمائشوں اور کٹھن راستوں سے گزرنے اور اعتماد کے معیار پر پورا اتر نے کے بعد روحانی طبقہ میں قدم رکھنے کی سعادت پاسکتا ہے اس مرحلہ پر اُسے حلف اُٹھانا ہوتا ہے کہ وہ تمام ادیان سے بری الذمہ ہو کر اس مقام میں داخل ہو رہا ہے وانه لا يعرف غير طاعة مولانا الحاكم جلّ ذكره.(تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٣٦٠) الشيعة فى التاريخ صفحه ۲۲ - اعتقادات فرق المسلمين والمشركين صفحه ۲۸ - فرق الشيعة صفحه ۷۵ - تاريخ الجميعات السرية فى الاسلام صفحه ۴۴ - تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۵۴ تا ۳۶۶ الاسلام والحضارة العربية جلد ۲ صفحه ٦٦ -
تاریخ افکا را سلامی النزاريه الحسن بن الصباح کی تحریک اور آغا خانی اسماعیلی آٹھویں فاطمی خلیفہ المستعصر کی وفات کے بعد اُس کے جانشین کے بارہ میں نزاع پیدا ہو گیا.خود المستعصر نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کا جانشین اس کا بڑا بیٹا ابو منصور جوار بنے لیکن وہ اپنی اس خواہش کو بوجوہ پورا نہ کر سکا اور اُس کی وفات کے بعد اس کے وزیر الافضل نے اکثر امرا ء اور حکام کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ توار کی بجائے اُس کے چھوٹے بھائی ابو القاسم احمد المُسْتَعْلِی بِاللہ کی بیعت کی جائے چنانچہ مُسْتَعْلِی بِالله نواں خلیفہ منتخب ہو گیا.بعض امراء نے اس تبدیلی کا بُرا منایا اور انہوں نے جوار کی تائید کی لیکن کامیابی نہ ہوئی اور خوار کو گرفتار کر کے دیوار میں چنوا دیا گیا بہر حال جرار کے حامیوں میں الحسن بن صباح لے بھی تھا.اُس نے دعوت بزاریہ کے لئے تحریک چلائی اور ایران کے محفوظ پہاڑوں میں اپنا مرکز بنایا یہ ۴۸۳ ھ کا واقعہ ہے.یہاں سے دعوت مُسْتَغلِیہ کے مقابلہ میں دعوت نزاریہ کا آغاز ہوا.اس نظریہ میں امام مستور کی طرف دعوت ایک مرکزی نقطہ تھا.الحسن بڑا عالم اور فلسفہ کے عملی پہلوؤں کا ماہر اور اعلیٰ تنظیمی قابلیتوں کا مالک تھا.مکے اس نے اس علاقہ میں رہنے والے اسماعیلیوں کو منظم کیا.دعاۃ کے ایک نئے سلسلہ کا آغاز کیا.اپنے حامیوں کی تربیت کے محفوظ مراکز قائم کئے.رودبار، کوہستان اور طالقان جو خراسان کے پہاڑی علاقے تھے.ان میں سینکڑوں قلعے بنوائے اور عسکری انداز کی گروہ بندی کی.شام کی طرف بھی اپنے داعی بھیجے اور حسب حالات چُھپ کر یا کھلے بندوں سلجوقیوں اور مستعلیوں پر چھاپے مارنے کی منصوبہ بندی کی.الحسن بن على المعروف بالصباح هو فارسى مِنْ خُرَاسَانَ تَعَلَّم مع الشاعر الفيلسوف عمر الخيام ونظام الملک وزیر السلطان ملک شاه وانقطع حيناً لدرس الكيمياء....وسخط عليه نظام الملک بوجوه ففر ناجيا ونزل بمصر فاحسن خليفتها المستنصر الفاطمي وامره بدعاء الناس إلى امامته واتصل باساتذة دار الحكمة (تاريخ الجميعات السرية صفحه ۴۵) كُل النزارية يعتقدون ان نزاراً هو الامام الحق وان المستعلى اغتصب عنه العرش والامامة - تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٣٦٧) كان الحسن داهية وافر الذكاء والعزم عالما بالهندسة والرياضة والفلك خَبِيرًا بشئون الحرب في تدبير المكايد والنسائيس تاريخ الجميعات السرية صفحه ۵۱)
تاریخ افکا را سلامی MA علمی لحاظ سے احسن اس بات کی دعوت دیتا تھا کہ حقیقت باطنیہ تک پہنچنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے اور جب امام مستور ہو تو پھر اُس کا نائب مَصْدَرِ عرفان ہوتا ہے اور اس وقت وہ خود نائب امام اور مصد رعرفان ہے.خلافت عباسیہ نے جب الحسن کی تحریک کا خطرہ محسوس کیا تو علمی میدان میں سنی علماء کو آمادہ کیا کہ وہ اس تحریک کی مخالفت میں علمی دلائل مہیا کریں اور عمدہ کتابیں لکھیں چنانچہ جن علماء نے اس میدان میں کام کیا ان میں امام غزالی سر فہرست ہیں.آپ نے احسن صباح کی باطنی تحریک کے رد میں ایک کتاب لکھی جس کا نام "المستظهری رکھا اور ایک کتاب "المنقذ من الضلال میں بھی اس تحریک کے خلاف علمی دلائل مہیا کئے.المحسن الصباح نے اپنی جماعت کو کئی حصوں میں تقسیم کیا اور رابطہ کے لحاظ سے انہیں باہمی محبت ،اخوت اور مرحمت کا نصب العین دیا.ایک گروہ کے ذمہ علمی میدان میں کام کرنا تھا دوسرے گروہ کو بطو ر فدائی اور خفیہ طور پر امراء اور علماء کوقتل کرنے کی تربیت دی گئی.یہ فدائی بڑی رازداری، انتہائی احتیاط اور بڑی جرات کے ساتھ اپنے نشانہ پر وار کرتے تھے او راس بات سے بالکل بے نیا ز ہوتے تھے کہ اس راہ میں ان کی جان چلی جائے گی یا وہ بچ نکلیں گے.ان فدائیوں کو مختلف انداز میں تیار کیا جاتا تھا.ایک گروہ کو بھنگ کی عادت ڈالی جاتی تھی یا کسی اور طریق سے اُس کے ذہن پر قابو پایا جاتا تھا او رانہیں یہ تربیت دی جاتی تھی کہ جو فرض ان کے سپرد کیا جائے بہر حال انہوں نے اُسے سرانجام دینا ہے.بھنگ کے ذریعہ یا عمل تنویم کے ذریعہ ان کو مد ہوش کر کے انتہائی خوبصورت باغوں میں لے جایا جاتا جو پہاڑی قلعوں کے اردگرد کے چشموں کے پانی سے سیراب ہوتے تھے.ان باغوں میں محل نما مکانوں میں ہر قسم کی نعماء نعمه سرد داور خوبصورت عورتوں اور حسین لڑکوں سے مزین رکھا جاتا ہے اور جن فدائیوں کو ان میں لایا جاتا ان کو کہا جاتا کہ یہ جنتیں اُن کو ملتی ہیں جو امام یا نا ئب امام کے حکم کی دل و جان سے اطاعت کرتے اور اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں کچھ عرصد ان باغوں اور محلات میں ان کو ا كانوا ينشأون حول القلاع الحدائق الفيحاء وقد غرست فيها اطيب الفواكه وازكى الازهار....وغـصـت بـالـغـيـد الـكـواعـب يـطـفـن بـاقـداحٍ ذَهَبيَّة من الخمر والحَانِ الموسيقى الشَّجيعية - الجميعات السرية صفحه ۵۳ ملخصا)
تاریخ افکارا سلامی رکھ کر پھر سے بذریعہ عمل تنویم ان کو با ہر لایا جا تا اور کہا جاتا یہ تو ایک عارضی نظارہ تھا جب تم امام کے حکم کی تعمیل میں اپنی جان قربان کرو گے تو پھر دائمی طور پر ان جنتوں میں تمہارا ٹھکانہ ہو گا.غرض اس طرح کے مختلف طریقوں سے کام لے کر الحسن نے جو دہشت گردی کی نفسیات کا ماہر تھا فدائیوں کے ایسے گروہ تیار کئے جنہوں نے اُس زمانہ کے بڑے بڑے علماء، قابل امراء اور عسکری قائدین کوموت کی نیند سلا دیا اور وہ خود بھی بزاری تحریک پر فدا ہو گئے لیے ملک شاہ سلجوقی کے انتہائی قابل وزیر اور مدرسہ نظامیہ بغداد کے بانی نظام الملک طوسی بھی اسی قسم کے ایک فدائی کے ہاتھوں شہید ہوئے کیونکہ انہوں نے احسن کی تحریک کو کچل دینے کا عزم کیا تھا..فدائیوں کے علاوہ چھاپہ مار جنگ میں مہارت رکھنے والوں کا بھی ایک گردہ تیار کیا اور بعض لڑاکا قبائل کے جوانوں کو جنگ کی تربیت دی گئی.ان تیاریوں کے بعد الحسن کھلے بندوں خلافت عباسیہ اور اُس کے امراء اور عسکری قائدین کے سامنے ڈٹ گیا.الحسن خود ایک مضبوط قلعہ میں رہائش پذیر تھا جس کا نام قلعة الموت تھا.سے اُس کے ارد گرد اور دو رو نز دیک اُس نے سینکڑوں قلعے بنوائے اور اُن کے ذریعہ جنگی کارروائیوں کا آغا ز کیا.الحسن کا لقب شَيْعُ الجَبَل رَئيسُ الدَّعْوَة اور دَاعِيُّ الدعاة تھا اُس کے احکام امام کے احکام کے طور پر ہر طرف جاتے اور اُن کی تعمیل ہوتی نا ئب الامام اور شیخ الجہل کے بعد خاص کام کرنے والے گروہوں میں دوسرا درجہ كبار الدعاة کا تھا.یہ تین ہوتے تھے جو تین اقلیموں میں تقسیم شدہ دنیا میں ہر اقلیم کے ذمہ وار قرار دیئے گئے تھے الحسن کے زمانہ میں گیا بز رگ امید، الحسین القینی اور ابو طاہر بطور كميير الدعاۃ کام کرتے تھے اور بڑی شہرت کے مالک اور الحسن کے بڑے معتمد تھے.تیسرا درجہ دُعاۃ کا تھا جو الحسن کی مقرر کر وہ دنیا کے تینوں اقلیموں میں شیخ الجبل اور کبار الدعاة کی لے ایک دفعہ سلجوقی سلطان نے الحسن کو پیغام بھجوایا کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور اطاعت قبول کرے جو قاصد یہ پیغام لایا تھا اُس کے سامنے اس نے دو فدائیوں کو بلوایا ایک سے کہا کہ وہ اپنے پیٹ میں تنجر گھونپ لے اور دوسرے کو کہا کہ وہ قلعہ پر سے نیچے کو دجائے.دونوں نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی جانیں قربان کر دیں.اس کے بعد اُس نے قاصد کو کہا اپنے آقا سے جا کر کہنا تطيعني هكذا سَبعون ألفا (الجميعات السرية صفحه ۵۰) الجميعات البرية صفحه ٢٨ وهي من امنع القلاع في شمال فارس - الجميعات البرية صفحه ۳۸)
تاریخ افکارا سلامی 12 + ہدایت کے مطابق کام کرتے.یہ داعی قاہرہ کے پڑھے ہوئے اور قلعہ الموت کے تربیت یافتہ ہوتے تھے لیے ان کی اس قابلیت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ تشکیک اور تفلیس کے طریق میں ماہر ہوں اور مختلف لوگوں کی نفسیات سے واقفیت رکھتے ہوں چوتھا درجہ الرفاق " کا تھا جن کے ذمہ داعی تیار کرنا تھا ان کی شرط یہ تھی کہ وہ فلسفہ منطق اور فقہ کے ماہر ہوں اور داعی کی علمی تربیت کر سکیں.پانچواں درجہ الف کاویہ کا تھا جن کے ذمہ خفیہ طور پر دشمنوں کو قتل کرنے کا فریضہ تھا جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ہے.چھٹا درجه اللاصفون " کا تھا.ان کے ذمہ صرف یہ فریضہ تھا کہ وہ عوام کو عمومی طور پر کسی گہرائی میں جائے بغیر دعوت واریہ سے مانوس کریں اور اُن سے عہد وفاداری لینے کی کوشش کریں.ساتواں درجہ المُسْتَجيبون " کا تھا لیتی عوام جود عوت نزاریہ سے مانوس ہیں یا نئے نئے ابتدائی مومن ہیں لیکن لوگوں کے عقائد میں تزلزل اور جستجو پیدا کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں.بہر حال باطنی تحریک کے یہ کا رکن تفرس ، تنیس، تشکیک تعلیق ، مدلیس، تأسیس اور تخلیع کے مختلف ذرائع سے کام لے کر اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرتے اور لوگوں کو شکار کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے تھے.عباسی خلفاء اور اُن کے اُمراء نے الحسن الصباح کی دہشت پسند باطنی تحریک کو ختم کرنے کے لئے کئی مہمیں بھیجیں، خون ریز لڑائیاں بھی ہوئیں لیکن اس تحریک کا استیصال نہ کیا جا سکا.الحسن قریباً پینتیس سال تک خلافت عباسیہ کے لئے خوف و ہر اس کا باعث بنا رہا اور جب وہ ۵۱۸ھ میں فوت ہوا سے تو اس يتلقون العلم في مدارس القاهرة ثم ينتقلون الى الموت ليتعلموا اسرار الدعوة واشترط الحسن الصباح في الداعي ان يكون بارعا في التشكيك وماهرًا في التلبيس ليخدعوا العامة ويدخلهم في عقيدتهم (تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ٣٦٩) يشترط فيه التفانى فى طاعة الرئيس.....فاصبحوا آلات الانتقام فتاكة وخلفوا عصرا مليا بالخوف والفريح وكانوا يتصفون بالشجاعة النادرة والصبر ويشترطون أيضًا أن يجيدوا عدة لغات (نفس المصدر صفحه ۳۶۹) ويؤتى بها اطفالا الى منازل المقدمين والدعاة فَيُرَبُّونَ منذ الحداثة على مبادى المخاطرة والتضحية المطلقة (الجميعات السرية صفحه ۵۳) وفي رواية صفحه ۵۳۰ - و في روايته قتله ابنه محمد (الجميعات السرية صفحه ۵۱ و ۵۴)
تاریخ افکا را سلامی ۲۷۱ کی دہشت پسند باطنی تحریک پورے زور پر تھی جو اس کے جانشینوں کے ذریعہ برابر جاری رہی.صلیبی لڑائیوں میں بھی بعض اوقات انہوں نے صلیبیوں کی مؤثر مدد کی.آخر کار ہمدان کے امير ايتعمش جلال الدین بن خوارزم شاہ کی کوششوں اور فاتح بغدا دہلا کو خاں کے جملوں کی وجہ سے فارس کے علاقہ میں الحسن کی تحریک کا استیصال کر دیا گیا.شام کے علاقہ میں ان کا زور صلاح الدین ایوبی کے ذریعہ ختم ہوا اور ایک دہشت پسند تحریک اپنے کئے کی سزا بھگت کر اپنے انجام کو پہنچی.اب نزاری اور مستعلی اسماعیلیوں میں سے مختصر سے گروہ ہیں جو امن پسند شمار ہوتے ہیں اور اُن کے قائد بڑے سلجھے ہوئے امن پسند مشہور شہری ہیں.اُن کی آبادیاں شام اور ہندوستان کے جنوبی ساحلوں پر ہیں.زیادہ تر تجارت پیشہ یا صنعت و حرفت سے متعلق ہیں اور آغا خانی اسماعیلی یا ئیبرہ اسماعیلی کے نام سے مشہور ہیں.آغا خانی اسماعیلیوں کے سربراہ آغا کریم خان ہیں اور یہ نزاری مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں اور تیر ہ اسماعیلیوں کے سربراہ مولانا سیف الدین طاہر ہیں جن کا مرکز بمبئی میں ہے یہ مُسْتَغلیہ مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں.بہرہ عام طور پر ظاہری شریعت کے پابند ہیں اور فقہ جعفریہ کے قریب ہیں لیکن آغا خانی شیعہ ظاہری شریعت کی چنداں پرواہ نہیں کرتے اور اپنے امام کی باطنی اطاعت کو دین کے اغراض کے لحاظ سے کافی سمجھتے ہیں.آغا خانی شیعوں کا ظاہری شعار کچھ اس طرح کا ہے قرآن کریم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن.ظاہر حجاب اکبر ہے.حقیقت اور باطن تک نہیں پہنچنے دیتا اس لئے اس حجاب کو دور کرنے اور نور ازلی تک پہنچنے کے لئے روحانی امام کا ہونا ضروری ہے جو علوم نبویہ کا وارث اور وصی ہوتا ہے.یہ حاضر امام حق و باطل اور صحیح اور غلط میں تمیز کرتا ہے اور قرآن کریم کے باطنی معنوں کو بذریعہ تاویل کھولتا ہے کیونکہ وہ مجسم قرآن ناطق ہے اور دوسرے لوگوں کے پاس جو قرآن ہے وہ قرآن صامت ہے.فلم تبق لهم اهمية سياسية (الجميعات السرية صفحه ۵۲) و هم اهل نشاط وَكَرَمِ وَحُسن ونسائهم فائقات في الجمال وحرفتهم التجارة والزراعة وصناعة الخزف......وانهم ما زالوا يكتمون تعاليمهم ويحرصون على اجراء شعائرهم في الخفاء ( الجميعات السرية صفحه ۵۴)
تاریخ افکا را سلامی ۲۷۲ آغا خانی شیعه بعض دوسرے اسماعیلی فرقوں کی طرح تغمض اور تاریخ کے بھی قائل ہیں.آغا خانی شیعوں کا کلمہ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رَسُولُ اللهِ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيًّا وَصِيُّ الله ہے آغا خانی شیعوں کا باہمی سلام ، یا علی مد دادر جواب سلام مولاعلی مدد ہے.آغا خانی شیعہ وضو کی ضرورت نہیں سمجھتے اُن کے دل کا وضو ہوتا ہے.ہر آغا خانی شیعہ پر نماز کی جگہ تین وقت کی دعا فرض ہے.اس دُعا میں امام حاضر کا تصور ضروری ہے.قیام، رکوع ، سجدہ اور قبلہ رخ ہونے کی ضرورت نہیں.اصل روزہ زبان ، کان اور آنکھ کا ہے اس لئے کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹو تھا.اگر کوئی چاہے تو سوا پہر کا کھانے پینے کا روزہ بھی رکھ سکتا ہے.زکوۃ سے مراد آمدنی میں سے فی روپیہ دو آنے کے حساب سے امام حاضر کی خدمت میں -1 نذرانہ پیش کرتا ہے.حج سے مراد امام حاضر کا دیدار ہے کیونکہ زمین پر صرف وہی خدا کا روپ ہوتا ہے.جو آغا خانی شیعہ امام حاضر کی خدمت میں ایک مقررہ رقم کے پیش کرے اُسے امام حاضر کی طرف سے اسم اعظم عطا ہوتا ہے.اگر کوئی آغا خانی عمر بھر کی عبادت معاف کرانا چاہے تو اُسے بھی امام حاضر کی خدمت میں ایک مقررہ رقم سے پیش کرنی پڑتی ہے.حاضر امام کے نور کو حاصل کرنے کے لئے ایک مقررہ رقم کے پیش کرنا ہوتی ہے جو آغا خانی جماعت خانوں میں بلو روان دی جاتی ہے.ہے یہ رقم پاکستانی آغا خانی کے لئے 75 روپیہ کے قریب ہے یہ رقم پاکستانی آغا خانی کے لئے پانچ ہزار ہے یہ رقم پاکستانی آغا خانی کے لئے سات ہزار ہے یہ قواعد اور ہدایات پرنس آغا خان فیڈرل کونسل پاکستان کراچی کے ایک سرکلر سے ماخوذ ہیں جو آغا خانی برادری کی رہنمائی کے لئے جاری کیا گیا.
تاریخ افکا را سلامی الْقَرَامَطه ۲۷۳ عبد الله بن میمون الاسماعیلی نے اپنے عارضی مرکز اهواز سے اپنے ایک داعی الحسین الاهوازی کو دعوت اسماعیلیہ کے اشاعت کے سلسلہ میں سواد کوفہ کی طرف بھیجا جہاں وہ حَمْدان بن الاشعث قرمط سے ملا.حمدان قرمط اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اسماعیلی تحریک میں شامل ہو گیا اور بعد میں اس علاقہ کا انچارج دائی بن گیا اور بغداد کے ایک نواحی علاقہ کو مرکز بنا کر شاعت کے فرائض سر انجام دینے لگا.جب اس کی دعوت چمکی تو اُس نے اپنے متبعین کو ہتھیار خریدنے اور انہیں اپنے پاس رکھنے کی تلقین کی.یہ ۲۷۶ ھ کا واقعہ ہے.اس نے اگلے ہی سال اس علاقہ میں اپنا دارالہجرت قائم کیا جسے پتھروں کی دیوار بنا کر بڑے محفو ظا قلعہ کی شکل دی اور حسب موقع اردگرد کے علاقہ میں قتل و غارت اور لوٹ مار کو اپنا پیشہ بنایا اور لوگوں میں دہشت پھیلائی.حمدان نے عربوں میں اپنی دعوت کو فروغ دیا اور اس میں خاصی کامیابی حاصل کی.اس نے خاص انداز کا مالی نظام بھی قائم کیا.وہ ہر چھوٹے بڑے مرد عورت سے الْفِطْرَہ “ کے نام سے ایک درہم وصول کرنا اور ہر بالغ شخص سے الھجرہ “ کے نام سے ایک دینار لیتا اور کہتا میں قرآن کریم کے علم حد مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهَرُهُمْ وَتُزَكيهم كی تعمیل میں یہ رقم لیتا ہوں اور السَّابِقُونَ الاولون میں داخل کرنے کی فیس اُس نے سات دینا ر مقرر کی جس کا نام اُس نے البلغہ رکھا.جو شخص سات دینا ر ادا کرتا اُسے ایک بندق ( ریٹھہ کے برابر گولی ) کی مقدار میں بڑا لذیذ حلوئی عنایت کرنا اور کہتا.یہ جنتیوں کا کھانا ہے جو حضرت علی پر اُتارا گیا تھا.اپنے ہر دائی کو سات سو دینار کے بدلہ میں ایک سوگولی دیتا اور کہتا لوگوں میں تبلیغ کرو اور ان کو حلوی کی یہ گولیاں خریدنے کی ترغیب دو.اس کے بعد اُس نے کس وصول کرنے کا آغاز کیا.اس نے الألفہ کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ تمام لوگ اپنے اموال کو ایک مرکز میں جمع کریں وہ سب ان اموال میں برابر کے شریک ہوں لے سگے.اور اس میں سے قومی مقاصد میں بھی خرچ کیا جائے گا.ہر ایک گاؤں میں اس نے ایک نمبر دار مقرر کیا جس ↓ ان مجتمع القرامطه قام على الشيوع والاباحة بل ذهب الى اشيع حد في الشيوع امر الدعاة ان يجمَعُوا النساء في ليلة معينة بحيث يمكن للرجال ان يستمتعوا بهنَّ في اختلاط وشيوع وكان يقول هذا اقضى درجات الصداقة والاخاء (تاريخ الجميعات السرية صفحه ٣٣) و
تاریخ افکارا سلامی ۲۷۴ کے ذمہ یہ تھا کہ وہ لوگوں سے ہر قسم کا مال جمع کرے پھر ضرورت مندوں میں خرچ کیا جائے تا کہ اُس کے زیر نگیں علاقہ میں کوئی محتاج اور غریب نظر نہ آئے.اس نے کہا کہ ہر جوان اور بوڑھا، عورت اور بچہ کمائی کرے اور رقم جمع کر کے ہتھیار خریدے اس طرح ہر ایک کو اُس نے مسلح کر دیا.حمدان قرمط کا داماد عبد ان بھی بڑا ذہین، ہر قسم کے فریب میں ماہر اور خبیث الفطرت اور اس کا دست راست تھا.اُس کے ذریعہ دعوت اسماعیلیہ کو خوب فروغ ملا.ابوسعید الحسن بن بہرام القرمطی جو بلا د بحرین میں قرامطہ کی حکومت کا بانی بنا.اسی کے ذریعہ اسماعیلی ہوا تھا اور ذکرویہ بن مهرویہ نے بھی اُس کی تحریک پر اسماعیلی امام کی بیعت کی جو بعد میں شمال یعنی بادِيَةُ السَّمَادَہ اورشام کے بعض علاقوں کے قرامطہ کا سردار بنا.ایک عرصہ بعد حمدان اور عبدان اسماعیلی امام کی اطاعت سے پھر گئے لیکن جلد ہی ان کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا اور قرامطہ کی زمام قیادت ابوسعید اور ذکردیہ کے ہاتھ میں آگئی.ذکرویہ کے بیٹے بیٹی نے شمال میں اتنی طاقت حاصل کر لی کہ اس نے دمشق پر حملہ کیا.یہ ۲۸۹ھ کا واقعہ ہے لیکن اس حملہ کے دوران و قتل ہو گیا اور زمام اقتدار اُس کے بھائی الحسین کے ہاتھ میں آگئی لیکن وہ بھی عباسی فوجوں کے ہاتھوں مارا گیا.ذکرویہ نے اپنے بیٹے کا انتقام لینے کے لئے عباسی فوجوں پر حملے شروع کر دیئے اور حاجیوں کے قافلوں پر چھاپے مارے اور انہیں لوٹا.قطیف اور بحرین کے علاقوں میں ابو سعید الجنانی نے دعوت اسماعیلیہ کی خوب تبلیغ کی اور بڑی کامیابی حاصل کی اس نے ہجر پر بھی حملہ کیا.آخر بحرین اور یمامہ کے علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرلی.عباسی خلیفہ المعتضد نے صورت حال کو نازک دیکھ کر یہ علاقہ اپنے ایک قائد العباس بن عمر د الکوی کے سپر د کیا کہ وہ اس فتنہ کا استیصال کرے لیکن وہ ابوسعید سے شکست کھا گیا ابوسعید نے قیدیوں کو قتل کر کے جلا ڈالا اور ان کے اسلمہ پر قبضہ کر لیا اور اس طرح اطمینان سے و داپنے علاقہ کے حالات درست کرنے میں مصروف رہا.اپنی فوجوں کو خوب مسلح کیا ، نو جوانوں اور بچوں کو فوجی ٹریننگ دی، زراعت کی طرف بھی توجہ دی، اراضی کی اصلاح کی کھجوروں کے باغات لگوائے اور وہاں کے لوگوں کو خوشحال بنانے میں مقدور بھر کوشش کی اور اموال کی صحیح تقسیم کے لئے قابل اعتماد دیا نندار افسر مقرر کئے.غرض قرامطہ نے شام کے علاقہ اور بحرین اور یمامہ کے اطراف میں عباسیوں کی بنیادیں ہلا دیں.
تاریخ افکا را سلامی ۲۷۵ دمشق کے علاقہ کے والی قرامطہ کو تین لاکھ دینار سالانہ خراج ادا کرتے تھے.ابوسعید ا ۳۰ھ میں اپنے ایک خادم کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے بعد میں اس کا بیٹا ابو طاہر بر سر اقتدار آیا اُس نے دولت فاطمیہ کی حمایت کی اور عباسیوں کے خلاف پالیسی اختیار کی اور فارس کے سمندروں میں بحری حملوں کا آغاز کیا تا کہ فاطمی مصر پر بآسانی قبضہ کر سکیں اور عباسی مزاحمت کمزور رہے.بعد میں فاطمیوں اور قرامطہ میں بوجوہ اختلاف اُبھرے جن کی وجہ سے نوبت با ہمی محاربت تک پہنچی.اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دمشق کے علاقہ پر فاطمی اثر بڑھ جانے کی وجہ سے قرامطہ کا وہ خراج بند ہو گیا جو ہر سال قرامطہ کو ملا کرتا تھا.قرامطہ نے ان دنوں یہ کوشش بھی کی کہ ان کے تعلقات خلافت عباسیہ سے استوار ہو جائیں لیکن عباسی خلیفہ الطبع قرامطہ کو خت ناپسند کرتا تھا اور مجھتا تھا کہ یہ لوگ دشمن اسلام ہیں اور کسی حمایت کے قابل نہیں ہے تا ہم الحسن القرمطی بنو بویہ کی امداد سے دمشق پر قابض ہو گیا.فاطمی والی کو قتل کر دیا اور مسجد اموی کے ممبر پر کھڑے ہو کر فاطمی خلیفہ المعز پر لعنت بھیجی.فاطمی قائد جوہر کے ساتھ اُس کی سخت لڑائیاں ہوئیں اور بعض لڑائیوں میں جو ہر بڑی مشکل سے بچا.ایک دفعہ تو قرامطہ قاہرہ کے دروازوں تک پہنچ گئے لیکن آخر کا ر شکست کھائی اور پسپا ہو گئے.ایک دفعہ المعز نے الحسن بن احمد قرمطی کو بڑا تهدید آمیز لسبا خط لکھا جس کا جواب احسن نے ان مختصر الفاظ میں دیا.وَصَلَ كِتَابُكَ الَّذِي قَلْ تَحْصِيلُهُ وَكَثُرَ تَفْصِيلُهُ وَنَحْنُ سَائِرُونَ إِلَيْكَ عَلَی اثرِہ وَالسّلام کے اس کے بعد الحسن مصر پر حملہ آور ہوا اور فاطمی خلیفہ جوڑ تو ڑ اور قرامطہ کے لشکر میں بعض اہم عناصر کو رشوت پیش کرنے کے ذریعہ بڑی مشکل سے غالب آسکا.بہر حال قرامطہ با ہمی نزاعوں اور حربی دھچکوں کے ہاتھوں کمزور ہو کر آخر عباسی فوجوں کی جنگوں میں نابود ہو گئے لیکن اُن کے اقتدار کے ہاتھوں امت مسلمہ نے قریباً ایک صدی قيل كان ذالك بتدبیر عبدالله المهدی الفاطمي لانه انتقض طاعته و دعا لنفسه.تاريخ الدولة الفاطمیه صفحه ۳۹۲ ملخصا) قال المطيع العباسي كلهم قرامطه على دين واحد أما المصريون يعنى بنى عبيد فَأَمَاتُوا السنن وقتلوا العلماء و اما القرامطه فقتلوا الحاج وقطعوا الحجر الاسود - (تاريخ الدولة العباسية (صفحه ٣٩٦) تاريخ الدولة الفاطمية صفحه ۳۹۹ بحواله ابن الاثير جلد ۸ صفحه ۳۲۹
تاریخ افکا را سلامی 121 تک بے حد نقصان اٹھایا.قرامطہ ابن القاسم او رابو طاہر کی قیادت میں حاجیوں کے قافلوں پر حملہ کرتے ، ان کے اموال لوٹ لیتے اور قتل و غارت سے باز نہ آتے.۳۱۷ھ میں ابو طاہر قرمطی نے حج کے ایام میں مکہ پر حملہ کیا اور حاجیوں کو بکثرت قتل کیا، ان کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا، پھینکڑوں نعشیں چاہ زمزم میں پھینکوا دیں، اموال لوٹ لئے اور حجر اسود کوا کھیٹر کر اپنے ساتھ الاحساء لے گیا.اس وجہ سے سارا عالم اسلامی مل گیا، پخت شور پڑا.فاطمی خلیفہ نے بھی اس حرکت کا بُرا منایا اور ابو طاہر کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود واپس کر دے اور اس کے لئے پچاس ہزار دینار بطور معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن قرامطہ حجر اسود کی واپسی پر راضی نہ ہوئے.آخر ہر طرف سے زور پڑنے اور بعض صوفیائے وقت کی کوششوں کی وجہ سے قریباً بائیس سال کے بعد ۳۳۹ھ میں حجر اسود واپس کرنے پر قرامطہ مجبور ہو گئے لے باطنی تحریکات نے ملتان اور اس کے گردو نواح میں بھی خاصہ فروغ پایا لیکن سلطان محمود غزنوی نے ملتان اور اس کے گردو نواح پر جب حملے کئے تو ان تحریکات پر بھی زد پڑی.کہا جاتا ہے کہ سلطان محمودغزنوی نے ہزاروں باطنیوں کو تہ تیغ کیا.ایک ہزار کے قریب شورش پسندوں کے تو ہاتھ کٹوا دیئے.اس صورت حال سے گھبرا کر جو بچے رہے و ہ یا ہندوستان کے دور کے علاقوں مثلاً جنوبی ہند یا اس کے شمالی علاقوں کی طرف بھاگ گئے.تَنقُلُ، تَقَمُّصُ اور تناسخ کے بارہ میں چند نظریات روافض اور معتزلہ کے بعض فرقے تاریخ کے قائل ہیں اور اس بارہ میں مختلف نظریات رکھتے ہیں.تناسخ کے بنیادی معنے یہ ہیں کہ مرنے کے بعد انسانی اور حیوانی روح فنانہیں ہوتی بلکہ مختلف جونوں اور قالبوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس طرح مختلف حیوانی شکلیں اختیار کر کے دنیا میں ہمیشہ موجود رہتی ہے.بہر حال بعض نے تاریخ کی یہ عمومی تعریف کی ہے.تَنَقُلُ الْأَرْوَاحِ فِي الْأَجْسَام اس قسم کے تاریخ کے قائل بعض شیعہ فرقوں کا ذکر گزشتہ صفحات میں بھی آچکا ہے.آئندہ صفحات میں بعض ایسے فرقوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو نظریہ تاریخ کی ایک خاص انداز سے تشریح کرتے ہیں مثلاً : تاريخ الجميعات السرية صفحه ۳۶ ۳۷ - الفرق بين الفرق صفحه ۲۱۹ الفرق بين الفرق صفحه ۲۲۱
تاریخ افکا را سلامی الْخَابِطِيَّہ اور ان کا نظریہ تناسخ یہ فرقہ احمد بن خابط کا پیرو تھا.احمد کا شمار معتزلہ میں ہوتا ہے اور اس کے خاص نظریات میں سے ایک نظریہ یہ تھا کہ تمام حیوانات بشمول انسان ایک ہی جنس کی اور ایک جیسی روح رکھتے ہیں.اس جنس کی ارواح کو ایک اور عالم میں پیدا کیا گیا تھا.یہ روح ہی اَلحَى العالم اور القادر ہے اور یہی مکلف ہے فَجَمِيعُ انْوَاعِ الحَيَوَان مُحْتَمِل لِلتَّكْلِيفِ اس بناپر ازل میں ہی سب حیوان احکام الہی یعنی امر اور نہی کے مخاطب تھے.چنانچہ ازل میں بعض روحوں نے ان احکام خداوند کی پوری پوری اطاعت کی اور بعض نے کوئی حکم نہ مانا.جوڑو میں فرمانبردارر ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے دَارُ النَّعِیم میں رہائش ملی اور جن روحوں نے نافرمانی کی وہ ہمیشہ کے لئے دو زخ میں ڈال دی گئیں.مذکورہ روحوں میں کچھ ایسی بھی تھیں جنہوں نے اللہ تعالی کے بعض احکام کو مانا اور بعض کی تعمیل نہ کی ، کچھ نیک کام کئے اور کچھ برے.ایسی روحوں کو اصلاح کا موقع دیا گیا اور انہیں اس غرض کے لئے دارالعمل یعنی اس دنیا میں بھیج دیا گیا اور ہر ایک کو اُس کے اچھے یا بُرے اعمال کی مقدار اور نوعیت کے مطابق مختلف شکلیں دی گئیں.کوئی انسان بنا ، کوئی گھوڑا، کوئی گدھا، کوئی شیر، کوئی سوریائی اور کوئی پانی کا جانور مچھلی یا مگر مچھ.اعمال ہی کی نوعیت کے لحاظ سے کسی کو آرام و آسائش میسر آئی اور بعض مشکلات اور مصائب سے دو چار ہوئے جن کے اعمال کسی لحاظ سے اچھے تھے انہیں خوبصورت اور دیدہ زیب جسم ملے اور جن کی برائیاں زیادہ تھیں انہیں بُرے اور مرد قوالب دیئے گئے.اس کے ساتھ ہی ہر شکل کے حیوانوں کی طرف ان کی جنس میں سے ہی رسول اور نبی مبعوث ہوتے رہتے ہیں جو ان رسولوں کی مانتے ہیں اور اپنی پوری پوری اصلاح کر لیتے ہیں.انہیں واپس دائی داراشتیم میں بھیجوا دیا جاتا ہے اور جو شریر اور نا فرمان رہتے ہیں وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیئے جاتے ہیں اور جن کے اعمال ملے جلے کچھ اچھے اور کچھ بُرے ہوتے ہیں وہ مختلف جونوں اور قوالب کے چکر میں پڑے رہتے ہیں.علامہ بغدادی احمد بن خابط کے نظریہ تناسخ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں.اَلْأَرْوَاحُ المَشُوبَةُ تَنْتَقِل إِلَى صُوَرٍ مُخْتَلِفَةٍ مِنْ صُوَرِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ والسَّبَاعِ وَالْحَشَرَاتِ وَغَيْرِهَا عَلَى مَقَادِيرِ الذُّنوبِ وَالْمَعَاصِي فِي الدَّارِ الْأَوْلَى الَّتِى خَلَقَهُمُ اللهُ فِيهَا.وَ أَنَّ الرُّوحَ لَا يَزَالُ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا يَتَكَرَّرُ فِي قَوَالِبَ وَصُوَرٍ
تاریخ افکا را سلامی IZA مُخْتَلِفَةٍ مَا دَامَتْ طَاعَتُهُ مَشْرَبَةٌ بِذُنُوبِهِ وَعَلَى قَدْرِ طَاعَاتِهِ وَذُنُوبِهِ يَكُونُ مَنَازِلُ قَوَالِيهِ فِي الْإِنْسَانِيَّةِ وَ الْبَهِيمِيَّةِ احمد بن خابطہ کا یہ نظریہ بھی تھا کہ خدا دو ہیں.ایک ازلی اور قدیم جس کا نام اللہ ہے اور دوسرا مخلوق اور حادث جس کا نام مسیح ہے.مسیح ان معنوں میں ابن اللہ ہے جو ولادت کے مفہوم سے مبرا ہیں آئی ھو ابنُ اللهِ عَلى مَعْنِّي دُونَ الوِلَادَةِ.یہ دوسرا خدا ہی قیامت کے روز مخلوقات کا محاسبہ کرے گا.اسی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا.قرآن کریم کی آیت وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا میں رب سے مراد یہی مسیح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان که تَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ القَمَرَ ليلة البدر اس سے اسی مسیح کی رؤیت اور اس کا جلوہ مراد ہے.علا مہ بغدادی احمد بن خالط کے اس قسم کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں قَالَ أَحْمَدُ بْنُ خَابِطٍ إِنَّ الْمَسِيحَ تَدَرَّعَ جَسَدًا وَ كَانَ قَبْلَ التَّدَرُّع عقلا و هُوَ اكْرَمُ الْخَلقِ عِندَ الله " احمد بن ایوب کا نظریہ تاریخ.ایک اور شخص جس کا نام احمد بن ایوب بن با نوش تھا اس کا تناسخ کے بارہ میں یہ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات کو بیک وقت بالکل ایک جیسا پیدا کیا.یہ سب اللہ تعالی کی ”دار النعیم، یعنی جنت میں بر مزے سے عیش و آرام سے رہتے تھے.ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ اگر تم میں سے کوئی دوسروں سے بڑھنا چاہتا ہے اور مساوات کی ایک جیسی زندگی سے تنگ آگیا ہے تو وہ اس کے لئے ایک مقررہ امتحان دے سکتا ہے جس کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کس کو بلند تر اور افضل تر درجہ دیا جائے.احمد بن ایوب کہا کرتا تھا إِنَّ مَنْزِلَةَ الإِسْتِحْفَاقِ أَشْرَفَ مِنْ مُنزِلَةِ التفضيل - بہر حال خدا کی اس پیش کش کے موقع پر مخلوقات میں سے بعض نے کہا.ہم اسی حال میں اچھے ہیں اور تیرے فضل کے شکر گزار ہیں اور بعض دوسرے امتحان دینے کے لئے تیار ہو گئے تا کہ وہ استحقاق کی بنا پر اور امتحان میں کامیابی حاصل کر کے دوسروں سے بڑھ جائیں ایسے سب افراد کو اللہ تعالی نے دارا الامتحان یعنی دنیا میں الفرق بين الفرق صفحه ۲۰۶ الفرق بين الفرق صفحه ۲۰۹۲۲۰۶
تاریخ افکارا سلامی بھیج دیا یہاں آکر بعض نے پوری پوری اطاعت کی او ر امتحان میں کامیاب رہے اور بعض نا فرمانی کی وجہ سے امتحان میں فیل ہو گئے.جو کامیاب ہوئے انہیں اعلیٰ اور برتر رتبہ عطا ہوا اور جنہوں نے نافرمانی کی اور فیل ہو گئے وہ اپنے پہلے مقام سے بھی گر گئے اور تناسخ کے چکر میں ڈال دیئے گئے.کسی کو انسانی جسم ملا اور کسی کو حیوانی قالب جن کو حیوانی قالب ملا یعنی و وامتحان میں بُری طرح فیل ہوئے وہ مرفوع القلم قرار پائے - أتَى صَارُوا بَهَائِمَ أَوْ سِبَاعًا بِذُنُوبِهِمْ وَارْتَفَعَ عَنْهُمَا التكليف بہر حال یہ حیوان ایک لمبے عرصہ تک تاریخ کے چکر میں پھنسے رہیں گے یہاں تک کہ اُن کے گناہوں اور نا فرمانیوں کی سزا پوری ہو جائے تب انہیں پھر اُس پہلی حالت کی طرف لوٹا دیا جائے گا جس میں وہ سب برابر تھے اس کے بعد پھر انہیں حسب سابق امتحان کا اور اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے.غرض یہ چکر اسی طرح چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا.ابن ایوب کے اس نظریہ تناسخ کی وضاحت کرتے ہوئے علا مہ بغدا دی لکھتے ہیں إِنَّ الْمُكَلَّفِينَ مَنْ يَعْمَلُ الطَّاعَاتِ حَتَّى يَسْتَحِقَّ أَنْ يَكُوْنَ نَبِيًّا أَوْمَلِكًا فَيَفْعَلُ الله ذَالِکَ.بعض نے اس نظریہ تناسخ کی تشریح میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود امتحان کی پیش کش نہیں کرے گا بلکہ اس دنیا کے لوگ تفاصل اوررفع درجات کا مطالبہ کریں گے اور کہیں گے تن تصویر عَلى طَعَامر واحد اس پر اللہ تعالی کہے گا کہ اگر تم تفاضل اور ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے ہو تو اس کے لئے امتحان اور آزمائش میں سے گزرنا ہوگا چنانچہ کچھ امتحان دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اس طرح تناسخ کے چکر میں پھنس جائیں گے یا کامیاب ہو کر برتر درجہ حاصل کرلیں گے.آيت كريمه إنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ " میں اسی امتحان اور آزمائش کی طرف اشارہ ہے.کے ابو مسلم خراسانی کا نظریہ تاریخ تناسخ کے بارہ میں ابو مسلم خراسانی کا نظریہ یہ تھا کہ اللہ تعالی نے بیک وقت تمام ارواح کو پیدا کیا اور اُن سب کو مکلف بنایا یعنی احکام شرعیہ کا اُن کو پابند کیا لیکن اللہ تعالی کو علم تھا کہ ان ارواح میں سے کون اطاعت گزار ہوں گے اور کون نا فرمانی کریں گے.اس طرح جن ارواح کی تقدیر میں نافرمانی لکھی البقرة : ٦٢ الاحزاب : ۷۳ الفرق بين الفرق صفحه ۲۰۸
تاریخ افکا را سلامی PA+ تھی ان کو اُن کے مقدّرہ اور مفروضہ گناہوں کی نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے مختلف جونوں اور قوالب میں ڈالا گیا ہے غلو کے بارہ میں اعتدال پسند شیعہ علماء کی رائے اعتدال پسند شیعہ علماء نے بھی غلو پسند باطنی تحریکات کے خلاف اظہار افسوس کیا.وہ سب کے سب ان غلو پسند فرقوں کی مذمت میں دوسرے معتدل المسلک مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں.چنانچہ مشہور شیعہ عالم الصدوق اتمی جو مجتہد اعصر الشیخ المعید کے اُستاد تھے اپنی مشہور کتاب "اعتقادات الصدوق “ میں لکھتے ہیں.اعْتِقَادُ نَا فِي الْغُلاةِ وَالْمُفَوِّضَةِ أَنَّهُمْ كُفَّارٌ بِاللَّهِ جَلَّ اسْمُهُ وَأَنَّهُمْ شَرٌّ مِّنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ وَالْقَدْرِيَّةِ وَالْحَرُورِيَّةِ وَمِنْ جَمِيعِ اَهْلِ الْبِدَعِ وَالْاهْوَاءِ الْمُضِلَّةِ وَأَنَّهُمْ مَا صَخَّرَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ جَلالُهُ تَصْغِيْرَ هُمْ بِشَيْءٍ كَمَا قَالَ اللهُ مَا كَانَ يُبَشر.ان توتية الله الكتب والحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولُ لِلنَّاسِ كُونُوا عبادا لي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِن كُونُوار ينَ بِمَا كُنتُم تُعْلَمُونَ الكتب ويت كُنتُمْ تَدْرْسُوتَ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا المليكة وَالنَّبِينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اسی طرح حضرت امام جعفر صادق فرمایا کرتے تھے لَا تُقَاعِدُوا الْغُلَاةَ وَلَا تُشَارِبُوهُمْ وَلَا تُصَافِحُوهُمْ وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ وَلَا تُوَارِثُوهُمْ یعنی نلو پسند اور مفوض فرقوں کے بارہ میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں.یہودہ انصاری، مجوس، معتزلہ ، قدریہ، خارجی، جرور یہ اور دوسرے بدعتی اور نفس پرست گروہوں سے بھی بدتر ہیں.اللہ تعالی کے بارہ میں ان کی پست ذہنی کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا وہ بالکل اس آیت کریمہ کے مصداق ہیں کہ ایک انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اللہ تعالی اُسے کتاب شریعت دے،.الفرق بين الفرق صفحه ۲۰۸ آل عمران : ۱۰۸۰ - اعتقادات الصدوق صفحه ۳۹ مَعْرِفَةُ أَخْبَارِ الرِّجَال صفحه 191 -
تاریخ افکارا سلامی PAI حکومت بخشے اور نبوت کے مقام پر فائزہ کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ ایسا مقرب انسان تو یہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو ! تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم کتاب شریعت کو جانتے ہو اور اُسے پڑھتے ہو وہ کبھی بھی تمہیں یہ حکم نہیں دے سکتا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو کیا وہ تمہیں اس گھر کی تبلیغ کر سکتا ہے جبکہ تم سچے مسلمان ہو.بنالو حضرت امام جعفر صادق فرمایا کرتے تھے کہ غلو پسند لوگوں کے پاس بیٹھنا، اُن سے میل ملاپ رکھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا ، اُن سے مصافحہ کرنا سب قسم کے سوشل تعلقات چھوڑ دو.ان سے نکاح شادی کی اجازت نہیں اور نہ تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہو.باطنی تحریکات کے خطرناک اثرات حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اہل بیت کی محبت و موالات کا دعوی لے کر جو شیعہ تحریک اٹھی تھی وہ کئی مراحل میں سے گزرتی اور مختلف انداز کی باطنی تحریکات کی شکل اختیار کرتی ہوئی اقصائے مغرب سے لے کر ہندوستان اور ترکستان کے کناروں تک ایک لمبا عرصہ ذہنی انتشار اور سیاسی خلفشار کا باعث بنی رہی.خصوصا چوتھی اور پانچویں صدی میں تو ان باطنی تحریکات نے ایک خوفناک فتنہ کی صورت اختیار کر لی تھی جس کی وجہ سے ممالک اسلامیہ میں سیاسی استحکام مفقود ہو کر رہ گیا اسی قسم کی تحریکات کا یہ نتیجہ تھا کہ فلسطین اور شام کے علاقوں میں صلیبیوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور مشرق میں خوارزم کی حکومت تا تاری یلغار کا شکا ریتی اور بعد میں خلافت عباسیہ کے خاتمہ اور بغداد کی تباہی پر منتج ہوئی.مغلوں اور عثمانی ترکوں کے زمانہ میں یہ باطنی تحریکات کسی حد تک دب گئیں تھیں لیکن مغربی استعمار کے بعد پھر سے ان تحریکات میں جان پڑ گئی اور ان کے پھلنے پھولنے کے خاصے اسباب سامنے آ گئے.بہائیت بھی باطنی تحریک کا ہی ایک شاخسانہ ہے.دوسری طرف ایران ، شام اور لبنان اور ایک حد تک عراق اور پاکستان بھی انہی فتنوں کی زد میں ہے.عرب کے دوسرے علاقے بھی ان فتنوں کے مضرات سے محفوظ نہیں.باطنی تحریکات نے کیا کیا شکلیں اختیار کیں اور ان سے امت مسلمہ کو کس قسم کے دینی، تمدنی اور سیاسی اوران کوکس اور نقصان پہنچے یہ ایک لیمی داستان ہے.علامہ بغدادی ان تحریکات کی تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتے
تاریخ افکا را سلامی PAF ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّ ضَرَرَ الْبَاطِنِيَّةِ عَلَى فِرَقِ الْمُسْلِمِيْنَ أَعْظَمُ مِنْ ضَرَرِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ عَلَيْهِمْ بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ضَرَرِ الدَّهْرِيَّةِ وَسَائِرِ أَصْنَافِ الكَفَرَةِ یعنی باطنی تحریک سے جو نقصان امت مسلمہ کو پہنچا وہ یہود، نصاری، مجوس اور دہریہ تحریکات سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ باطنی تحریکات سے جو کمزوری پیدا ہوئی اسی نے ان طاقتوں کے آگے بڑھنے کے لیے راہ ہموار کی.الفرق بين الفرق صفحه ۲۱۳
تاریخ افکا را سلامی PAF خوارج اور ان کے بڑے ضمنی فرقے خوارج وہ لوگ ہیں جو جنگ جمل اور صفین کے بعد اس لئے حضرت علی کے خلاف ہو گئے کہ حضرت علی نے جنگ جمل میں انہیں غلام بنانے کی اجازت نہیں دی اور معاویہ کے مطالبہ پر حکم مقرر کرنے کی تجویز مان لی اس طرح ان کے خیال میں علی نے حق کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا.یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ اس نے بغاوت کی شکل اختیار کرلی اور حضرت علی کو ان باغیوں کے خلاف متعد دلڑائیاں لڑنی پڑیں.یہ لوگ دراصل اُن عناصر کا حصہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے خلاف شورش بر پا کر کے ان کو شہید کر دیا تھا.ان لوگوں کو ڈر تھا کہ اگر مسلمانوں کے دونوں فریقوں کے درمیان ضلع ہو گئی تو پھر ان کی خیر نہیں.انہیں خلیفہ وقت کو شہید کرنے کی ضرو ر سزا ملے گی.اسی خلاف کی بنا پر یہ لوگ حضرت عثمان اور حضرت علی دونوں کو کافر کہتے تھے.علامہ کبھی خوارج کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں.إِنَّ الَّذِي يَجْمَعُ الخَوَارِجَ عَلَى اِفْتِرَاقِ مَنَاهِبِهِمَا إِكْفَارُ عَلِيٌّ وَعُثْمَانَ وَالْحَكَمَيْنِ وَأَصْحَابِ الجَمَلِ وَ كُلَّ مَنْ رَّضِيَ بِالتَّحْكِيمِ وَالإِ كَفَارُ بِارْتِكَابِ الذُّنُوبِ وَوُجُوبِ الْخُرُوج على الإمام الجابر یعنی خوارج با وجود با بھی اختلاف کے مندرجہ ذیل باتوں پر متفق ہیں.علی عثمان اور دونوں حکم اور جنگ جمل میں شامل ہو کر علی کے خلاف لڑنے والے او روہ جو حکم مقرر کرنے کے فیصلہ کو درست مانتے ہیں یہ سب کافر ہیں.اسی طرح جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ بھی کافر ہے.ظالم حاکم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور اس سے لڑنا بھی واجب ہے.یہ تھا خوارج کا آغاز بعد ازاں آہستہ آہستہ یہ باغی گروہ کئی ضمنی فرقوں میں بٹ گیا جن میں سے چند بڑے بڑے فرقے مندرجہ ذیل تھے.الْمُحَكِمَةُ الأولى، الاَزَارِقَة النَّجْدَاتِ الصُّفْرِيَّهُ، الْعَجَارِدَهُ، اَلا بَاضِيَّه - الفرق بين الفرق صفحه ۵۰ - خوارج اپنے آپ کو شراۃ کہتے تھے یعنی آية كريم إن اللهَ اشْتَرى مِنَ المؤمنينَ أَنْفُسَهُم وأموالهم بأن لهم الجنة (التوبه : 111 کے مطابق ہک جانے والے لوگ.
تاریخ افکا را سلامی الْعَجَارِدَہ کے ذیلی فرقے یہ تھے.FAC الْخَازِمِيَّة، الشُّعَيْبِيَّة، المَعْلُومِيَّة المَجْهُولِيَّهُ، الْمَعْبَلِيَّة، الرَّشِيلِيَّهُ الْكَرَمِيَّة، الْحَمْزِيَّهُ، اَلشَّيْبَانِيَّهُ، اَلْإِبْرَاهِيْمِيَّهِ، الْوَاقِفِيَّةُ، الْمَيْمُونِيَّة.الإباضية کے ذیلی فرقے یہ ہیں.الشَّبيبيَّة، اَلْخَصِيصِيَّة، الْحَارِثِيَّة، الْيَزِيدِيَّهُ، الْمَيْمُونِيَّهُ - ان مندرجہ بالا فرقوں میں سے بعض کا مختصر بیان آئندہ صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے.خوارج کے مختلف ضمنی فرقے الْمُحَكِمَةُ الأولى خوارج کا یہ پہلا گروہ ہے جو بحیثیت فرقہ تاریخ کے صفحات میں ریکارڈ ہوا ہے.قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ بنو يَشْكُرُ کے ایک آدمی نے تحکیم کے فیصلہ کے خلاف بطور احتجاج نعرہ لگایا کہ اني قد خَلَعْتَ عَلِيًّا وَّ مُعَاوِيَةَ وَبَرِثْتُ مِنْ حَكمَيْهما کہ میں علی ، معاد بید اوران کے مقرر کردہ کھکھوں سے بیزار اورا لگ ہو گیا ہوں.اس قسم کے خیال کے بہت سے لوگ صفین کے مقام سے واپس آکر حرورا نامی علاقہ میں جمع ہو گئے ان کی تعداد قریباً بارہ ہزار تھی.حرود را مقام کی وجہ سے ہی خوارج کو حر دریہ کہا جاتا ہے.یہ لوگ حروراء سے نہروان کے علاقے میں پہنچے.حضرت علی کو جب ان کے اس اجتماع کی خبر ملی تو آپ چار ہزار کا لشکر لے کر ان کے استیصال کے لئے روانہ ہوئے.آپ نے وہاں پہنچ کر ان سے پوچھا کہ وہ کیوں مخالفت پر آمادہ ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ جنگ جمل میں فتح حاصل کرنے کے بعد آپ نے شکست خوردہ لوگوں کو غلام بنانے کی کیوں اجازت نہ دی.آپ نے اس کے جواب میں فرمایا.یہ لوگ مسلمان تھے اور مسلمان کو غلام بنانا جائز نہیں.آپ نے ان کو شرمندہ کرنے کے لئے فرمایا: اگر میں غلام بنانے کی اجازت دیتا تو عائشہ کو کس کے سپرد کرتا.انى لَوْ اَبَحْتُ لَكُمُ النِّسَاءَ أَيُّكُمْ يَأْخُذُ عَائِشَةَ الفرق بين الفرق صفحه ۵۳
تاریخ افکا را سلامی ۲۸۵ ان خارجیوں نے اس موقع پر حضرت علی سے اور بھی بہت سے سوال کئے.حکیم کے فیصلہ پر اعتراض کیا.حضرت علی نے سب کے تسلی بخش جواب دیئے جس کی وجہ سے آٹھ ہزار کے قریب خارجی واپس حضرت علی کے لشکر میں شامل ہو گئے لیکن چار ہزار مقابلے کے لئے اڑے رہے اور آخر سارے کے سارے جنگ میں مارے گئے.صرف نو افراد بیچ سکے.دوسری طرف اس جنگ میں حضرت علیؓ کے لشکر کے بھی نو سپاہی شہید ہوئے.جو نو خارجی بچ گئے تھے وہ بھاگ کر سجستان، یمن، الجزیرہ اور تل موزن وغیرہ علاقوں کی طرف بکھر گئے اور روہاں جا کر خارجی فتنہ کے بیج بوئے.٢- الْأَزَارِقَهُ یہ نافع بن الازرف کے پیرو تھے.انہیں ایک وقت میں بڑی شان وشوکت حاصل ہوئی اور خاصے بڑے علاقے پر ایک لمبا عرصہ قابض رہے.یہ فرقہ گناہ کے مرتکب کو مشرک قرار دیتا تھا.مخالفین کی عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز سمجھتا تھا.یہ لوگ رجم کے بھی منکر تھے اور صرف عورت پر تہمت لگانے والے کو قذف کی سزا دینے کے قائل تھے ان کا یہ بھی نظر یہ تھا کہ چور جیسا بھی ہو اس نے تھوڑا مال چھ لیا ہو یا زیادہ اس کے ہاتھ کاٹ دینے چاہئیں.گویا یہ نصاب سرقہ کے قائل نہ تھے.اس فرقہ کی فوج میں ہزار سے زیادہ تھی.یمامہ کے خارجی بھی ان میں شامل ہو گئے تھے.انہوں نے اہواز اور کرمان کے علاقوں میں غلبہ حاصل کیا.عبد اللہ بن زبیر کے لشکروں کو انہوں نے کئی بار شکست دی.آخر کا رعبد اللہ بن زبیر نے مُهَلَّبْ بِنْ أَبِي صُفْرَہ کو ان کے مقابلہ کے لئے تیار کیا.وہ پچیس ہزار کا لشکر لے کر حملہ آور ہوا.مہلب قریباً میں سال تک ان سے بر سر پیکار رہا.انہی جنگوں میں نافع بن الا زرق مارا گیا اور اس کا جانشین مشہور شاعر فطرى بن الْفُجَاءَة بھی کام آیا.اس طرح بڑی مشکلوں کے بعد از ارقہ کے فتنہ کا استیصال ہوا.اس فرقہ کے بے اثر ہو جانے کی ایک وجہ ان کا باہمی انتشار بھی تھا.النَّجْدَات خوارج کا یہ فرقہ نَجْدَة بِنْ عَامِرُ الْحَنَفِی کا پیرو تھا.اس فرقہ کی فوجیں ایک دفعہ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئیں.وہاں لوگوں کو قتل کیا اور عورتوں کو لونڈیاں بنا کر لے گئے.ان عورتوں میں حضرت عثمان کی ایک نواسی بھی تھی.اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے مطالبہ پر ان کے لیڈ رنجد ہ نے اس لڑکی کو
تاریخ افکا را سلامی PAY واپس عبد الملک کے پاس بھجوا دیا.اس وجہ سے نجدہ کے پیرو اس سے ناراض ہو گئے اور کہا انگ رَدَدْتْ جَارِيَةٌ لَّنَا عَلَى عَدُونَا - ایک اور جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مال غنیمت میں سے شمس نکالے بغیر کچھ خرچ کر لیا اور جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے مباشرت کی.بعد میں یہ پریشان ہوئے کیونکہ اُن کا نظریہ یہ تھا کہ گناہ کا مرتکب دائمی جہنمی ہوتا ہے.اس پر ان کے لیڈ رنجیدہ نے کہا تم سے گناہ تو ضرور سر زد ہوا ہے لیکن یہ ایک اجتہادی غلطی تھی اس لئے مغفرت کی امید ہے.اس کے بعد خوارج کے اس فرقہ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ خدا اور رسول کی معرفت اور خارجی مسلمانوں کے خون کی حرمت یہ ضروری احکام ہیں ان کی خلاف ورزی گناہ کبیرہ ہے جو کسی صورت معاف نہیں ہوسکتا.باقی امور میں اگر اجتہادی غلطی ہو جائے تو معذرت اور توبہ قبول ہو گی.یہ فرقہ حد خمر کا قائل نہ تھا.اس کا یہ بھی نظر یہ تھا کہ جس جرم کی مزاحد ہو اور یہ سزا نافذ ہوگئی ہو تو ایسے سزایافتہ مجرم کو دائگی عذاب نہیں ہو گا.یہ فرقہ بھی کئی مزید فرقوں میں بٹ گیا اور اس کا یہی باہمی اختلاف اس کی تباہی کا موجب بنا لیے الصفرية خارجیوں کا یہ فرقہ زیاد بن الأصفر کا پیرو تھا.اس فرقہ کے عقائد الازارقه سے ملتے جلتے تھے.البتہ یہ اپنے مخالفین کے بچوں کے قتل کا قائل نہ تھا.اس کا یہ نظریہ بھی تھا کہ جس جرم کی سزا بصورت حد نہیں اس کا ارتکاب کفر ہے اور جن جرائم کے مرتکب کو حد کی سزا ملی ہواسے کافر کہنے کی بجائے اس جرم کے نام کی مناسبت سے پکارا جائے گا مثلا زنا کرنے والے کو زانی ، چوری کرنے والے کو سارق کہا جائے گا اسے کا فریا مشرک کہنا درست نہیں ہوگا.صفریہ کا ایک لیڈ رعمران بن حطان بڑا عابد ، زاہد اور مشہور شاعر تھا لیکن حضرت علی سے اس کو شدید بغض تھا.اس نے حضرت علی کے قاتل عبد الرحمن بن معلیم کا مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے يَا ضَرْبَةٌ مِنْ مُّنِيبٍ مَّا أَرَادَ بِهَا الَّا لِيَبْلُغَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ رِضْوَانًا ه الْعَجَارِدَة یہ فرقہ عبد الکریم بن گجر کا پیرو تھا.یہ دس ضمنی فرقوں میں بٹ گیا.عقائد میں یہ ازا رقہ سے متفق تھا الفرق بين الفرق صفحه ۶۰ ۳.الفرق بين الفرق صفحه ۶۳
تاریخ افکا را سلامی MAZ البتہ ان کا ایک نظریہ یہ تھا کہ بالغ ہونے کے بعد ہر انسان کو نئے سرے سے کلمہ پڑھنے کی دعوت دینی چاہیے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر.اگر وہ یہ بات نہ مانے تو کافر ہو گا اور اگر مان لے تو مومن.اس فرقہ کے نزدیک مخالف مسلمانوں کے اموال بطور نیمت لوٹ لینا جائز نہیں تھا.الْخَازِمِية یہ فرقہ عام عقائد میں اہل السنت والجماعت سے متفق تھا.البتہ عثمان علی، طلحہ اور زبیر وغیرہ کی تکفیر کرتا تھا.--- الْحَمْزِيَّة یہ فرقہ حمزه بین اکرک کا بیر د تھا.حمزہ کا اصل تعلق کجا ردہ خازمیہ سے تھا لیکن بعد میں اس نے بعض معتز لی نظریات اپنا لئے.بایں ہمہ خوارج اور معتزلہ دونوں اس کو کافر کہتے تھے.بارون الرشید کے زمانہ 179ھ میں حمزہ نے بغاوت کی اور مامون الرشید کے عہد میں اس کے فتنہ نے خطر ناک صورت اختیار کر لی.اس نے خارجیوں کے دوسرے فرقوں کو بھی تہ تیغ کیا اور ہرات کے گردو نواح میں تباہی مچائی.وہاں متعد دعباسی لشکروں سے اس کی مٹھیہ بھیٹر ہوئی اور انہیں پے در پے شکستیں دیں.اسی دوران میں اس نے خراسان، کرمان بجستان اور کوہستان کے علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا.مامون الرشید نے اس کے مقابلہ کے لئے اپنے فوجی سردار طاہر بن الحسین کو بھیجا.متعد د جنگوں میں طرفین کے قریباً تیں ہزار افراد مارے گئے.کرمان کے علاقہ میں بہت سخت جنگ ہوئی.اس جنگ میں حمزہ کے ہزاروں مدد گار کام آئے اور وہ خود بھی زخمی ہو گیا اور بھاگتے ہوئے راستہ میں ہی مر گیا.بہر حال ایک لمبے عرصہ تک حمزہ اور اس کا گروہ خلافت عباسیہ کے لئے دردسر بنا رہا ہے الشَّيْبَانِية یہ فرقہ شیبان بن سلمه الخارجی کا پیرو تھا.دوسرے خارجی فرقے شیبان کو اس لئے کافر کہتے تھے کہ اُس نے ابو مسلم خراسانی کی مدد کی تھی.ابو مسلم نے بنو امیہ اور کئی خارجی گروہوں کے ساتھ جنگیں لڑیں اور شیبان اس کے ساتھ ان جنگوں میں برابر شامل رہا ہے الفرق بين الفرق صفحه ٦٦..الفرق بين الفرق صفحه ۶۹
تاریخ افکا را سلامی MAA ٩ - الْإِبَاضِيَّه یہ فرقہ عبد اللہ بن اباض کا پیرو تھا.اس فرقہ کا نظریہ یہ تھا کہ دوسرے مسلمان جوان کے مخالف ہیں وہ نہ مومن ہیں نہ مشرک بلکہ کافر ہیں تا ہم با وجود کافر ہونے کے ان کی شہادت مقبول ہے اور اُن کے خون حرام ہیں نیز ان سے نکاح جائز ہے اور با ہمی تو ارث بھی درست ہے اور ان کے اموال لوٹنا جائز نہیں.تاہم ان کے گھوڑے اور ہتھیا را پنے قبضہ میں لئے جاسکتے ہیں.فقه اباضیہ کو ایک قابل مطالعہ علمی سرمایہ تسلیم کیا گیا ہے.اباضیہ کی ذیلی فرقوں میں بٹ گئے.ان میں با ہمی تکفیر اور تفرقہ بازی کا کس قد رزو راور شوق تھا اُس کی ایک دلچسپ مثال یہ ملتی ہے کہ ایک اباضی خارجی نے جس کا نام ابراہیم تھا کچھ لوگوں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا اس دوران اُس نے کسی کام کے لئے اپنی لونڈی کو کہیں بھیجا لیکن اُس نے واپس آنے میں کچھ دیر کر دی.اس وجہ سے ابراہیم غصہ سے لال پیلا ہو گیا اور قسم کھائی کہ وہ اس لونڈیا کو اعراب یعنی بدؤوں کے پاس بیچ دے گا.حاضرین میں سے ایک شخص نے جس کا نام میمون تھا اعتراض کیا کہ ایک مومن لڑکی کو کافروں کے ہاتھ بیچنا کیسے جائز ہو سکتا ہے.ابراہیم نے اصرار کیا کہ یہ جائز ہے.کچھ لوگ ابراہیم کے طرف دار بن گئے اور کچھ نے میمون کی حمایت کی اور بعض غیر جانبدار رہے.ابراہیم کے حمایتی ابراهیمیہ “ کہلائے.میمون کے حمایتی میمونیہ اور غیر جانبدار 33 واقفیہ“ کے نام سے مشہور ہوئے.اس طرح اس معمولی سی بات کی وجہ سے تین فرقے بن گئے جو طرح اس معمولی یا ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے ہے اباضیہ کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اگر فرقے کا قائد گناہ کا مرتکب ہو او رلوگ اسے قیادت سے بر طرف نہ کریں تو وہ قائد اور اس کے متبع سب کے سب کا فر ہو جائیں گے.کے -١٠- الشبيبيه یہ بھی اباضی خوارج کا ایک ذیلی فرقہ ہے.اس فرقہ کو بھی خاصی شان و شوکت حاصل ہوئی.اس میمونیه فرقہ اس میمونی فرقہ سے الگ ہے جس کا ذکر شعیہ کے بالمقابل گزرچکا ہے دیکھیں صفحہ ۱۹۶.اسی طرح باطنی تحریک کے بانی میمون بن دیصان سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں.دیکھیں صفحہ ۱۹۶ کے صفحہ ۵ حصہ دوم بھی دیکھیں الفرق بين الفرق صفحه ۷۵۰۷۴
تاریخ افکا را سلامی ۲۸۹ فرقہ کا قائد شبيب بن يزيد الشَّيْبَانِی تھا.شعیب نے بنو امیہ کی کئی فوجوں کو شکست فاش دی اور حجاج بن یوسف کی بھیجی ہوئی ہیں فوجی مہموں کو ناکام بنالیا.ایک دفعہ شیب حجاج کے دارالحکومت کوفہ میں آگھا اور جامع مسجد کے علاقہ پر قبضہ کر لیا اور اپنی ماں غزالہ کو ممبر پر کھڑا کر کے اُس سے تقریر کروائی.یہ خاتون بڑی فصیح البیان مقررہ تھی.اس کے متعلق ہی ایک شاعر نے کچھ شعر کہے جو عربی نظم کی مشہور کتاب الحماسہ میں درج ہیں ان میں سے ایک شعر یہ ہے.أَقَامَتْ غَزَالَةُ سُوقَ الصِّرَابِ لَاهَلِ الْعِرَاقَيْنِ حَوْلًا فَمِيْعًا شبیب نے اس رات کی صبح فجر کی نماز پڑھائی.پہلی رکعت میں سورۃ بقرہ اور دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران عختم کی.حجاج رات بھر اپنے محل میں دبکا بیٹھا رہا اور فوجوں کے جمع ہونے کا انتظام کرتا رہا.صبح چار ہزار کی نفری لے کر شیب کے مقابلہ میں آیا.سخت جنگ ہوئی اور شدیب انبار کی طرف نکل بھا گا اس کے تعاقب میں حجاج نے سُفیان ابن الابرہ کو تین ہزار کا لشکر دے کر بھیجا اُس نے شدیب کو ڈجیل ندی کے کنارے جالیا.شبیب اس وقت پل عبور کر رہا تھا سفیان نے پل کی رسیاں کٹوا دیں اس وجہ سے شعیب گھوڑے سمیت ندی میں ڈوب مرا.اس کے بعد اُس کے لشکر نے جو ندی کے دوسرے کنارے پر پہنچ چکا تھا شیب کی والدہ غزالہ کو اپنا لیڈ رچن لیا اور اس کی بیعت کی.دونوں فوجوں میں سخت جنگ ہوئی لیکن بالآخر ھیب کی والدہ اور اس کی بیوی میدان جنگ میں ہلاک ہو گئیں اور بھی بہت سے لوگ مارے گئے.سفیان نے شیب کی نعش کو دریا سے نکلوا کر اس کا سر حجاج کے پاس بھجوا دیا.تجاج نے حدیب کی فوجوں کے اکثر افراد کو معاف کر دیا لیکن ایک شخص کے قتل کا حکم دیا.اس شخص نے کہا کہ قتل سے پہلے میرے یہ شعر سن لیں.أَبْرَءُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عَمْرٍو وَشِيْعَتِهِ وَمِنْ عَلِي وَمِنْ أَصْحَابِ صِفَيْنَ وَمِنْ مُعَاوِيَةَ الطَّاغِي وَشِيْعَتِهِ لا بَارَكَ اللهُ فِي الْقَوْمِ الْمَلَاعِيْنَ شبیبیه فرقہ پر یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ پر تو ان کا یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے جنگِ جمل میں فوجوں کی قیادت کر کے قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی ہے لیکن خود اس فرقہ نے شبیب کی والدہ کو اپنا لیڈ رچنا اور اس کی قیادت میں لڑے لے ↓ الفرق بين الفرق صفحه ۷۷
تاریخ افکا را سلامی ٢٩٠ غلو پسند خارجی فرقے ا الْحَفْصِيَّة اباضی خوارج کا یہ ایک ذیلی فرقہ تھا.حضرت علی کے بعض میں دیوانگی کی حد تک بڑھا ہوا تھا اُس کا دعوی تھا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْجِكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الذ الْخِصَامِ لے کی آیت علی کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور آیت و مِنَ النَّاسِ مَنْ نَشْرِئَ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہ نے علی کے قاتل ابن علیم کی شان میں اتری.اس فرقہ کا یہ نظریہ بھی تھا کہ جسے معرفت الہی حاصل نہیں وہ مشرک ہے اور جسے معرفت الہی تو حاصل ہے لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو نہیں مانتادہ کافر ہے.کے -١٢- الْيَزِيدِية یہ بھی اباضی خارجیوں کا ایک ضمنی فرقہ تھا.بڑ اغلو پسند اورفتنہ پرداز گردہ.اس کا عقیدہ تھا کہ آخری زمانہ میں عجم سے ایک نبی مبعوث ہو گا جو نئی شریعت لائے گا اور شریعت محمدیہ کو منسوخ کر دے گا.کے اس فرقہ کا یہ نظر یہ بھی تھا کہ اہل کتاب میں سے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی مانتا ہے اگر چہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کو نہ مانے وہ مومن اور مسلمان ہے.١٣- الْمَيْمُونِيه میمون خارجی کے پیرو.یہ میمون اُس میمون اور اس کے فرقہ سے الگ ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے اور جس کا ابراہیم خارجی کے ساتھ ایک لونڈی کے فروخت کے ضمن میں جھگڑا ہوا تھا اور جس کی وجہ سے اباضیوں کے تین فرقے ابراہیمیہ.میمونیہ اور واقفیہ بن گئے تھے.یہ میمون وہ ہے جس کا جھگڑا شعیب خارجی سے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہوا تھا اور جس کی وجہ سے دو فرقے شعیبیه اور میمونیہ بن گئے.ھے بہر حال اس میمونیہ فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ پوتیوں اور نواسیوں وغیرہ سے نکاح جائز ہے کیونکہ البقرة : ۲۰۵ البقرة : ٢٠٨ الفرق بين الفرق صفحه ا الفرق بين الفرق صفحه ۲۱۱ ۵.صفحہ ۱۹۶ بھی دیکھیں
تاریخ افکار را سلامی ۲۹۱ ان سے نکاح کی حرمت کا ذکر قرآن کریم میں سلا نہیں ہے.ہے اس فرقہ کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے نیز یہ فرقہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ سورۃ یوسف قرآن کریم کا حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عشقیہ داستان ہے جس کا قرآن کریم میں شامل ہونا اس کتاب الہی کی شان کے خلاف ہے.خوارج اور قبائلی عصبیت شیعہ اور خارجی فرقوں کے عربی عنصر کا زیادہ تر تعلق ہنور بہیجہ سے تھا.نوربیعہ نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش مسیلمہ کذاب کی شورش کی صورت میں کی تھی جس کا خاتمہ حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھوں ہوا.اس کے بعد دوسری کوشش حضرت عثمان اور حضرت علی کے خلاف بغاوتوں کی صورت میں ظاہر ہوئی جوتا ریخ میں خوارج کے نام سے مشہور ہے اور جس کا مختصر ذکر صفحات بالا میں گزر چکا ہے.لے صفحہ ۲۴۰ بھی دیکھیں جس میں خرمیہ کا ذکر ہے جو پوتیوں اور بہنوں سے نکاح جائز سمجھتے تھے.الفرق بين الفرق صفحه ۲۱۲ الفرق بين الفرق صفحه ۶۵ و ۲۱۲
تاریخ افکارا سلامی rar معتزلہ اور ان کے فرقے معتزلہ فرقہ کب اور کیسے وجود میں آیا اور اسلامی تاریخ میں اس کا کیا کردار رہا ہے؟ اس کا مختصر بیان یوں ہے کہ شروع میں یہ ایک خالص علمی گروہ تھا اور سیاسی خلفشار سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا کیونکہ شیعہ اور خوارج کی طرح اقتدار پر قبضہ کرنا اس کے مقاصد میں شامل نہ تھا اور نہ اس کے لئے اُس نے کبھی کوئی منظم عملی کوشش کی.دراصل ابتدائی معتزلہ وہ لوگ تھے جو پہلے حضرت علی کے حامی تھے لیکن جب حضرت علی شہید ہو گئے اور اقتدار بنوامیہ کے قبضہ میں چلا گیا تو یہ لوگ سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہو گئے چونکہ یہ لوگ علمی ذہن رکھتے تھے اور اُس زمانہ میں مخالف اسلام مختلف مذاہب کے پیروؤں نے اسلام کے خلاف علمی اعتراضات پھیلانے کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا اس لئے یہ لوگ زاد یہ نشین ہو کر عقلی علوم اور دین کے علمی پہلوؤں کے فروغ کی طرف متوجہ ہوئے اورا سلام پر کئے جانے والے اعتراضات کے علمی جواب میں مصروف ہو گئے.اس طرح ، طرح طرح کی خیال آرائیاں اُن کی جولان گاہ بن گئیں.اسی زاویہ گزینی اور سیاسی سرگرمیوں سے علیحدہ ہو جانے کی وجہ سے ان کا نام "معتزلہ مشہور ہو گیا یعنی یہ وہ گوشہ نشین لوگ ہیں جن کا دنیاوی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہ تھا صرف علم کا فروغ اور مسائل کلامیہ سے دلچسپی ان کی سرگرمیوں کے مرکز بن گئے تھے.ان لوگوں کے نام کی شہرت زیا دہ تر اس وقت ہوئی جبکہ واصل بن عطاء معتزلی حسن بصری کے درس سے الگ ہوا او را پنا حلقہ درس قائم کیا.زیادہ تر معتزلہ قدریہ تھے یعنی اس بات کے قائل تھے کہ انسان اپنے اعمال میں خود مختار اور آزاد ہے وہ جس طرح چاہے کوئی سا طرز عمل اختیار کرے اُسے اختیار ہے تا ہم جبرية اور مرجئہ اپنے مرکزی طرز فکر کی وجہ سے معتزلہ کا ہی حصہ شمار ہوتے ہیں.بعض کا خیال ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کے زمانہ میں جو فتنے اٹھے ان سے الگ تھلگ رہنے والے صحابہ مثلاً سعد بن ابی وقاص، زید بن ثابت ، عبد اللہ بن عمر و غیر هم معتزلہ کے آباء ہیں.ے اسی زمانہ میں سیاسی حالات اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ سے بددل ہو کر ایک اور گروہ بھی سامنے آیا جس نے زہد، خلوت گزینی اور عبادت کو اپنا دستور زندگی بنایا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاد اور صوفیاء کے نام سے مشہور ہوا.
تاریخ افکا را سلامی ٢٩٣ جبریه و د لوگ ہیں جن کے نزدیک انسان اپنے تمام افعال میں مجبور محض ہے اور و وخدا کے ہاتھ میں کھلونا ہے.وہ جس طرف چاہے اور جس طرح چاہے اُسے لے جائے.مرجعه مسلمانوں کا وہ فرقہ ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ اعمال انسانی ایمان کا جزو نہیں.ایمان صرف یقین اور اقرار باللسان کا نام ہے.دوسرے اعمال زائد از ایمان امور ہیں اور نجات سے ان کا کوئی خاص تعلق نہیں.معتزلہ کے نظریے تمام کے تمام معتزلہ مندرجہ ذیل مسائل میں ایک سانظریہ رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفات اُس کی ذات کا عین ہیں اُن کا کوئی الگ وجود نہیں جبکہ دوسری اشیاء کی صفات ان کی ذات سے الگ اپنا علیحد دوجود رکھتی ہیں اور زائد از ذات ہیں نیز اس عینیت کی وضاحت کے لئے یہ کہنا درست ہے کہ لَيْسَ لِلهِ حَيَاةٌ وَلَا عِلْمَ وَ لَا قَدْرَةٌ وَلَا سَمْعُ وَلَا بَصَرٌ وَلَا كَلامٌ وَلَا إِرَادَةً ل رویت باری محال ہے یعنی مادی آنکھوں سے ہم خدا کو نہیں دیکھ سکتے نہ اس دُنیا میں اور نہ اگلے جہاں میں زَعَمَ المُعْتَزِلَة أَنَّ اللهَ لَا يَرَى نَفْسَهُ وَلَا يَرَاهُ غَيْرُهُ - معتزلہ کے نزدیک کلام الہی مخلوق اور حادث ہے.اسی نظریہ کے تحت یہ قرآن کریم کو بھی حادث اور مخلوق مانتے ہیں.بعض خلق اور حدوث میں فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کلام اللہ اور قرآن کو ہم حادث تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے مخلوق کہنا درست نہیں.معتزلہ قدریہ کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خالق اور ان کے بجالانے میں پوری طرح مختار اور آزاد ہے اور یہ اختیار ہی ثواب وعقاب کی بنیاد ہے ہے وہ مسلمان جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ نہ مؤمن ہیں اور نہ کافران کا مقام کین کین ہے.نیز مرتکب گناہ کبیرہ دائمی جہنمی ہے بشرطیکہ وہ تو بہ نہ کرے.بعض معتزلہ کے نزدیک خدا تعالی کا جسم ہے لیکن وہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اِنہ جسم کا کالاجسامِ وَإِنَّهُ شَيْءٌ لَا كَالَا شَيَاءِ معتزلہ اگر چہ اپنے زمانہ کے مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پیش پیش رہے.انہوں نے اسلام کی تائید میں علمی الفرق بين الفرق صفحه ۷۹
تاریخ افکا را سلامی ۲۹۴ ولائل مہیا کرنے کی قابل قدر کوشش کی اور اسلام کے منقلی دفاع میں اپنے زمانہ کے لحاظ سے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے لیکن اپنے بعض مخصوص نظریات کی وجہ سے یہ فرقہ بھی گڑھ مسلمہ میں فکری انتشار اور ذہنی خلفشار کا باعث بنا رہا.معتزلہ خود با ہمی نظریاتی اختلافات کئی وجہ سے کوئی فرقوں میں تقسیم ہو گئے.معتزلہ کے بڑے بڑے فرقے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے بنیاد کے لحاظ سے ان کے تین بڑے فرقے تھے.معتزله قدريه، معتزله جبریه، معتزله مرجئه چونکہ اکثریت قدریہ کی ہے اس لئے بالعموم قدریہ کو ہی معتزلہ سمجھا جاتا ہے.معتزلہ قدریہ کے مندرجہ ذیل ضمنی فرقے تھے.الْوَاصِلِيَّه، العُمْرَوِيَّه، الهُذَلِيَّه النِّظَامِيَّه، المُرْدَارِيَّهِ، الْمَعْمَرِيَّه، الشَّحَامِيَّه الْجَاحِظِيهِ، الْخَابِطِيَّه، الحِمَارِيَّه، الحَيَاطِيَّه، الشَّخْلَمِيَّه، الصَّالِحِيَّه، المَرِيسِيَّه، الْكَعْبِيَّه، الجَبَائِيَّة، الْبَهشَمِيَّه ان میں سے بعض اہم فرقوں کی تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے.معتزلہ قدریہ کے ضمنی فرقوں کی تفصیل ا الْوَاصِلِیہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ واصل بن عطا معتزلی کا پیرو ہے.کہا جاتا ہے کہ اصل پہلا شخص ہے جسے معتزلی کیا گیا.اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پہلے واصل حضرت حسن بصری کا شاگر داوران کے حلقہ درس کا طالب علم تھا لیکن اس نے بعض ایسے خیالات کا اظہار شروع کر دیا جن سے حضرت حسن بصری متفق نہ تھے.آخر اس اختلاف نے شدت اختیار کرلی اور حضرت حسن بصری نے اُسے اپنے حلقہ درس میں بیٹھنے سے منع کر دیا چنانچہ اُس نے ضد میں آکر اُسی مسجد کے ایک کو نہ میں اپنا الگ حلقہ درس بنالیا.اس پر حسن بصری نے فرمایا اعْتَزَلَ عَنا یعنی اُس نے ہم سے علیحدگی اختیار کر لی ہے.یہاں سے اس کا نام معتزلی لینی الگ ہو جانے والا مشہور ہو گیا.
تاریخ افکا را سلامی ۲۹۵ واصل کو معبد جہنی اور خیلان دمشقی کے بعد معتزلہ کا تیسرا بڑا قائد تسلیم کیا جاتا ہے.اس کے مخصوص نظریات یہ تھے: 1 - امت اسلامیہ کا جو شخص گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے وہ نہ مومن ہے اور نہ کافر بلکہ وہ فاسق ہے.اگر اُس نے مرنے سے پہلے تو بہ نہ کر لی تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا جبکہ خوارج میں سے بعض کے نزدیک ایسا شخص مشرک ہے اور بعض اُسے کافر قرار دیتے ہیں اور دائی جہنمی مانتے ہیں.اہل السنت والجماعت کے نزدیک ایسا شخص مومن اور مسلمان تو ہے لیکن گنہگار اور فاسق ہے.اللہ تعالی چاہے تو اُسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے نیز ایسا شخص اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر دوزخ سے نکل آئے گا اور جنت میں جائے گا.واصل کا یہ نظریہ بھی تھا کہ حضرت علی اوران کے حامی بمقابلہ حضرت طلحہ و حضرت زبیر و حضرت عائشہ اور ان کے ساتھی ان دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ لَا عَلَى التَّعْبِينِ فاسق ہے.انى احمد الفَرِيقَيْنِ فَاسِقٌ بِلا تعیین.اس لئے اگر دونوں گروہوں میں سے ایک ایک آدمی مل کر کسی واقعہ کے بارہ میں شہادت دیں تو قاضی کو چاہیے کہ و ہ ان کی شہادت رو کردے کیونکہ ان میں ایک لازماً فاسق ہے اور فاسق کی شہادت قابلِ رو ہے اور اگر ایک ہی گروہ کے دو آدمی مل کر گواہی دیں تو ان کی گواہی مقبول ہوگی کیونکہ یہ یقین نہیں کہ یہی لازما فاسق ہیں لیے الْهُذَلِيَّهُ اور اس کے نظریات يه فرقـابو الهذيل محمد بن الهذيل کا پیرو تھا.ابو اله میل کا لقب علاف تھا.یہ قبیلہ عبد القیس کا مولی تھا اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے زیادہ تر موالی یعنی فارسی نو مسلموں نے ہی مسلمانوں میں مختلف قسم کی بدعتوں کو رواج دیا ہے فَكَذَلِكَ أَبُو الهُذَيْلِ جَرَى عَلَى مِنْهَاجِ أَبْنَاءِ السَّبَايَا لِظُهُورِ أَكْثَرِ الْبِدَعِ مِنْهُمْ - ابو الهذيل معتزلی کے مخصوص نظریات یہ تھے.اللہ تعالیٰ کے سارے مقدورات یعنی ساری کائنات بشمول جنت و دوزخ فنا ہو جائیں گے اور L الفرق بين الفرق صفحه ۸۳ الفرق بين الفرق صفحه ۸۴
تاریخ افکا را سلامی ۲۹۶ خدا ان کے اعاد و پر قادر نہ ہوگا.یہ ایک سکون کا دور ہو گا جس میں سب کچھ حالت سکون میں ہوگا.فَلا يَقْدِرُ اللهُ فِي تِلْكَ الْحَالِ عَلَى إِحْيَاءِ مَيَةٍ وَلَا إِمَاتَةِ حَيَّ وَلَا عَلَى تَحْرِيكِ سَاكِنٍ وَ لا عَلى تَسْكِينِ مُتَحَرب وَلَا عَلَى إِحْدَاثِ شَيْءٍ يا اگلے جہان میں جنتی اور دوزخی دونوں اپنے اپنے افعال میں مجبور محض ہوں گے یعنی جفتی کھانے پینے اور عیش اڑانے پر مجبور ہوں گے اور دوزخی چیخنے چلانے اور واویلا کرنے پر مجبور ہوں گے.وہاں ان کی مرضی نہیں چلے گی بلکہ یہ سب کچھ ان سے اللہ تعالی کرائے گا جبکہ جمیہ فرقہ اسی دنیا میں اس قسم کے جبر کا قائل ہے.اس کے نزدیک انسان بلکہ ہر چیز مجبور محض اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کھلونا ہے.اسی نظریہ کی وجہ سے اس فرقہ کو جبر یہ بھی کہا جاتا ہے.تقرب الہی کی قیمت نہ بھی ہو تب بھی اچھے کام کرنے والوں کو ثواب ملے گا اور ایسا کرنے والے کو مطیع اور فرمانبردار کہا جاسکتا ہے.جبکہ اہل السنت والجماعت کے نزدیک خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس پر ایمان لانے کے سلسلہ میں غورو فکر کرنے کی حد تک تو یہ نظریہ درست ہے.اس قسم کے غورو فکر کا انسان کو ثواب ملے گا خواہد اس میں اُس کی نیت تقرب اور عبادت کی نہ ہو لیکن جب یہ معرفت حاصل ہو گئی تو پھر اس کے بعد صرف اُس کو ثواب ملے گا جس نے کوئی اچھا کام تقرب اور اطاعت الہی کی نیت وارادہ سے کیا ہو ہے اللہ تعالیٰ کی صفات عین ذات ہیں.اس کی ذات سے الگ ان کا کوئی وجودا در تصور نہیں.اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اور علم ایک ہی چیز ہے.اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اگر یہ درست ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہونا چاہیے کہ علم عالم ہے.قدرت قادر ہے حالانکہ علم کو عالم کہنا اور قدرت کو قادر کہنا بے معنی او رابغو بات ہے.یقینی خبر وہ ہے جسے کم از کم ہیں آدمی بیان کریں اور ان میں سے کم از کم ایک صادق الایمان اور جنتی ہو.اگر سارے کے سارے غیر مومن ہوں خواہ وہ لاکھوں ہوں تو ان کی دی ہوئی خبر یقینی اور واجب القبول نہ ہوگی.اسی طرح ابو البدیل کے نزدیک کسی خبر آحاد سے تب کوئی حکم شرعی ثابت ہوگا جبکہ اس کے راوی کم از کم چا رہوں.الفرق بين الفرق صفحه ۸۵ الفرق بين الفرق صفحه ۸۸
تاریخ افکا را سلامی ۲۹۷ جُزْءٌ لَا يَتَجَری ( مزید تقسیم نہ ہو سکنے والی چیز ) کو دیکھا نہیں جاسکتا.نہ اُسے انسان دیکھ سکتا ہے اور نہ خدا کیونکہ دیکھنے کے لئے کسی چیز کا رنگدار ہونا ضروری ہے اور جُزء لا يتجزی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا لیے - النظامیہ اور اُس کے نظریات ید فرقہ ابو اسحاق بن سیارا النظام معتزلی کا پیرو تھا.نظام ابو الهذيل کا بھانجا اور مجمی النسل تھا.اس نے بھی کئی نئے نظریات اختراع کئے جن میں سے چند یہ ہیں.جو باتیں انسان کی بہبود اور اس کی مصلحت سے تعلق رکھتی ہیں اللہ تعالی ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عادل ہے اور انسانی بہبود کو نظر انداز کر دینا عدل کے خلاف ہے.پس نظام کے نزدیک نعیم الجنت میں سے ایک ذرہ بھی کم نہیں ہو سکتا اور جہنمیوں کے عذاب میں ایک ذرہ کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی مومن کو دوزخ میں نہیں ڈال سکتا.مثلاً ایک بچہ دوزخ کے کنارے کھڑا ہے وہ خود دو زخ میں کو دسکتا ہے فرشتے اُسے دوزخ میں دھکا دے سکتے ہیں ، لیکن خدا ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی صفت عدل کے خلاف ہے اس طرح نہ وہ بیٹا کو اندھا کر سکتا ہے اور نہ تندرست کو لو لا - لانه لَيْسَ هُوَ قَادِرٌ عَلَى الظُّلْمِ وَالكَذِبِ.اس کے بر خلاف بصری معتزلہ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے.فَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ قَادِرًا عَلَى الظُّلْمِ وَالْكِلْبِ كَمَا هُوَ قَادِرٌ عَلَى الْعَدْلِ وَالصّدقِ اہل سنت و الجماعت کے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ إِنَّهُ قَادِرٌ عَلَى الظلم والكذب وَلَكِنَّهُ لَا يَفْعَلُ إِيَّاهُمَا لِقَبْحِهِمَا - مانویہ کا نظریہ بھی نظام کے نظریے سے - ملتا جلتا ہے کیونکہ وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ نور خیر کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اور ظلمت صرف مصد بشر ہے الى إنَّ النُّورَ لَا يَفْعَلُ إِلَّا خَيْرًا وَلَا يَقْدِرُ عَلَى الشَّرَ وَإِنَّ الظُّلَمَةَ لَا تَسْتَطِيعُ فِعْلَ الْخَيْرِ لَانَّهَا لَا تَقْدِرُ إِلَّا عَلَى الشَّرِ - نظام کا یہ نظریہ بھی تھا کہ ایک جنس بیک وقت دو متضاد کام نہیں کر سکتی مثلاً یہ ممکن نہیں کہ آگ گرم بھی کرے اور ٹھنڈا بھی یا برف ٹھنڈا بھی کرے اور گرم بھی.اسی نظریہ کے مطابق نظام کے نزدیک اسی نظریہ کے تحت بر صغیر پاک و ہند کے دیوبندی علماء امکانِ کذب باری کے قائل ہیں یعنی چونکہ خدا قادر مطلق ہے اس لئے وہ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے.اسی طرح امکان نظیر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ بھی ان کے ہاں موضوع بحث رہتا ہے.الفرق بين الفرق صفحه ۹۵ الفرق بين الفرق صفحه ۹۲
تاریخ افکا را سلامی ۲۹۸ خدا معامصدر خیر و شر نہیں ہو سکتا جبکہ اہل السنت وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِهِ کو جزو ایمان مانتے ہیں.نظام " طفرة " کے نظریہ کا بھی قائل تھا یعنی اُس کے نزدیک ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک جسم آنا فانا ایک جگہ سے بیسویں جگہ تک درمیانی حصوں کو عبور کئے بغیر پہنچ جائے اور بغیر اس کے کہ وہ پہلے مکان سے منقود ہو دوسرے مکان میں جاموجود ہو.ایسا ہو سکتا ہے.اسی طرہ کے نظریہ کے مطابق بعض صوفیاء یہ جائزہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص دو مکانوں میں خواہ وہ کتنے ہی فاصلہ پر ہوں بیک وقت موجود نظر آ سکتا ہے.نظام کا یہ نظر یہ بھی تھا کہ ساری کائنات جن وانس، چرند پرند بیک وقت پیدا ہوئے.پیدائش کے لحاظ سے ان میں کوئی تقدم و تأخر نہیں البتہ ظهور في المكان اور شهود في الزمان کے لحاظ سے ان میں تقدم و تاخر ہے.قَالَ أَهْلُ السُّنَّةِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ اللَّوْحَ وَالْقَلَمَ قَبْلَ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِنَّمَا اخْتَلَفَتِ الْمُسْلِمُونَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَيْتُهُمَا خُلِقَتْ أَوَّلًا نظام یہ بھی کہا کرتا تھا کہ کلمات قرآن کریم کی ترتیب و تألیف یعنی نظم قرآن میں کوئی اعجاز نہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کوئی معجزہ ہے اسی طرح نظام دوسرے معجزات کا بھی منکر تھا سکے.نظام اس بات کا بھی قائل تھا کہ اجماع امت حجت شرعیہ نہیں کیونکہ اُس کے نز دیک یہ بالکل ممکن ہے کہ سب کے سب غلطی کھا گئے ہوں گے نظام کا یہ نظریہ بھی تھا کہ انسان کے ساتھ بچھو، سانپ ، مکھیاں، کیڑے مکوڑے غرض ہر قسم کے چند و پرند جنت میں جائیں گے وہاں ان سب کا درجہ فضل و احترام کے لحاظ سے برابر ہوگا.ھے مندرجہ ذیل فقہی مسائل میں بھی نظام کو دوسرے فقہائے امت سے اختلاف تھا.سرقه کانصاب دو سو درہم ہے جبکہ دوسرے یہ بات نہیں مانتے.طلاق کنا یہ لغو ہے.امام ابن تیمیہ کی بھی یہی رائے ہے جبکہ دوسرے ایسی طلاق کو مؤثر مانتے ہیں.↓ عمداً نماز چھوڑنے والاقتضاء کی رعایت کا مستحق نہیں.اس کا علاج صرف ندامت اور تو یہ ہے.الفرق بين الفرق صفحه ١٠١ الفرق بين الفرق صفحه ۱۰۸،۱۰۳ الفرق بين الفرق صفحه ۱۰۲ الفرق بين الفرق صفحه ۱۰۴ الفرق بين الفرق صفحه ۱۰۵
تاریخ افکا را سلامی ٢٩٩ نظام صحابہ کو بُرا بھلا کہنے سے بھی نہ ہچکچاتا تھا.مثلاً اُس کا کہنا تھا کہ (والعیاذباللہ ) إِنَّ أَبَا هُرَيْرَة كَانَ أَكذَبَ النَّاسِ وَإِنَّ عُمَرَ شَكُ يَوْمَ الحُدَنِيَّةِ وَإِنَّهُ ضَرَبَ فَاطِمَةَ وَمَنَعَ مِبْرَاثَ الْعِتْرَةِ وَابْتَدَع صَلوةَ التراويح - الْمَعْمَرِیہ اور اس کے نظریات یہ فرقہ معمر بن عباد معتزلی کا پیر د تھا.اس کے بارہ میں صاحب طبقات المحولہ لکھتا ہے.كَانَ مَعْمَرٌ عَالِمًا عَدْلًا وَ أَنَّ الرَّشِيدَ وَجَّهَ بِهِ إِلَى مَلَكِ السِّنْدِ لِمَنَاظِرَهُ معمر کا نظریہ تھا کہ اعراض کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا بلکہ ان کا ظہو ر طبعی ہے یعنی یہ اجسام کی طبیعت کے تقاضے ہیں.گو یا موت و حیات اور دوسرے اعراض جسم کے طبعی تقاضے اور کوائف ہیں اس لئے خدا نہ مخینی ہے اور نہ معیت نیز معمر کے خیال میں اعراض لامتناہی ہیں.سے معمر کے نز دیک انسان صرف رُوح کا نام ہے جسم انسانی روح سے زائد چیز ہے.جزا سزا بھی رُوح کو ملے گی انى هُوَ فِى الْجَنَّةِ مُنْعَمْ وَ فِي النَّارِ مُعَذَّبٌ.اُس کا یہ بھی نظر یہ تھا کہ رُوح کے بارہ میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ انة طويل عريض عميق ذُو وَرْنٍ سَاكِنٌ مُتَحَرَكَ وَغَيْرُهَا مِنَ الْكَوَائِفِ الْجِسْمِيَّةِ - فلاسفہ خدا کی بھی یہی تعریف کرتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں اَنَّ اللهَ تَعَالَى حَيٍّ ، قَادِرٌ ، عَالِمٌ، حَكِيمْ، مُنَزَّةٍ عَنْ أَنْ يَكُونَ مُتَحَرِّكًا أَوْ سَاكِنَا أَوْ حَارًا أَوْ بَارِدًا أَوْ رَطْبًا أَوْ يَابِسًا أَوْ ذَا لَوْنِ اَوْ وَزْنٍ أَوْ طَعْمِ أَو رَائِحَةٍ فَأَيُّ فَرْقٍ بَيْنَ الرُّوحِ الإِنْسَانِي وَالإله الثَّمَامِيَّه اور اُس کے نظریات ي فرد ثَمَامُهُ مِنْ اَشْرَسُ المَيْرِ ی کا پیرو تھا.ثمامہ بن نمیر کے موالی میں سے تھا.مامون الرشید ، معتصم او رواثق کے عہد میں حکومت کا خاص مقرب اور درباری تھا.اور معتزلہ کا مانا ہوا بڑابا اثر لیڈ رتھا.اسی نے مامون الرشید کو اکسایا کہ جو لوگ خلق قرآن کے عقیدہ کو نہیں مانتے اُن پر سختی کی جائے.الفرق بين الفرق صفحه ۱۰۷ الفرق بين الفرق صفحه ۱۱۰ ✓ طبقات المعتزلة صفحه ۵۴ الفرق بين الفرق صفحه ۷۱۳
تاریخ افکارا سلامی شمامہ کے مندرجہ ذیل خصوصی نظریات تھے.جولوگ جاہل دیوانے اور مجذوب ہیں اور اللہ تعالی کی معرفت کے اہل نہیں و ہ دوسرے حیوانات کی طرح غیر مکلف ہیں.اس لئے ایسے جہلاء کا دوسرے حیوانوں کی طرح حشر بھی نہیں ہوگا بلکہ وہ فنا ہو کر نابود ہو جائیں گے.آئی يَصِيرُونَ كُلُّهُمْ فِي الآخِرَةِ تُرَابًا.یہی حال ما بالنعمی کی حالت میں مرنے والے بچوں کا ہوگا کیونکہ آخرت تو عمل کرنے والوں کے لئے جزا سزا کا گھر ہے اور جن کا کوئی عمل نہیں ان کا حشر لغو اور بے معنی ہوگا لیے کہتے ہیں کہ ثمامہ ، احمد بن دار داد محمد بن عبد الملک الزَّيَّات تینوں عہد عباسی کے سر بر آوردہ معتزلہ تھے.انہوں نے عباسی خلیفہ وائق کو اکسایا کہ دو واحمد بن نصر خزامی کو قتل کر دے کیونکہ وہ خلق قرآن کا نظریہ رکھنے والوں کو کافر کہتا ہے اور رویت باری کے نظریہ کا بھی قائل ہے.واثق نے ان کی ترغیب پر احمد کو قتل کروا دیا.بعد میں وہ بہت پچھتایا کہ اس سے یہ کیا ظلم ہو گیا ہے کہ اس نے ایک ایسے بزرگ اور نیک انسان کو بلاوجہ مروا دیا ہے اس وجہ سے وہ ان تینوں معتزلہ پر بھی ناراض ہوا لیکن انہوں نے اس کے سامنے قسمیں کھائیں اور اسے یقین دلایا کہ یہ قتل بالکل جائز تھا اور اگر وہ ایسی رائے دینے میں غلط کار ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ فلاں فلاں طریق پر ہلاک کر دے.ہر ایک نے جو طریق اپنی موت کے لئے تجویز کیا وہ اسی طرح پر ہلاک ہوا.تمامہ نے دعا کی تھی کہ اگر وہ اس گناہ میں ملوث ہے تو اللہ تعالی اس پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے جو تلوار سے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں.چنانچہ اس کے بعد وہ ایک بہا رکہ گیا وہاں بنوخزاعہ کے لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ہمارے بزرگ احمد کو قتل کروایا تھا.انہوں نے تمامہ کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور اس کی نعش حرم سے باہر پھینک دی جہاں کتنے اور گدھ اسے کھا گئے.دوسرے دو کا بھی پر احشر ہوا.کذا فٹ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا حُسْرًا الْجَاحِظِيہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ عمرو بن بحر الجاحظ کا پیر و تھا.جاحظ بڑا فصیح البیان مقرر، ماہرا دیب اور قابل مصنف مانا جاتا ہے.یہ عربی النسل اور بنو کنانہ میں سے تھا لیکن علامہ بغدادی کو اس سے اتفاق نہیں.وہ لکھتے ہیں کہ اگر جاحظ کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر اُس نے ایسی کتابیں کیوں لکھیں جن میں بنو قحطان کی تعریف کی گئی ہے الفرق بين الفرق صفحه ۱۲۷ ✓ الفرق بين الفرق صفحه ۱۲۸
تاریخ افکا را سلامی اور بنو کنانہ اور بنو عدنان کی بجو اور مذمت.اسی طرح اس نے ایک ایسی کتاب بھی لکھی جس میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ مجھی عربوں سے افضل ہیں مثلاً اس کی ایک کتاب کا نام ہے مَفَاخِرِ الْقَحْطَانِيَّة عَلَى الْكَنَائِيَّةِ وَ سَائِرِ الْعَدْنَانِيَّةِ اور اُس کی دوسری کتاب کا نام ہے فَضْلُ الْمَوَالِي عَلَى الْعَرَب - پس کیا کوئی شخص اپنے آباء و اجداد کی مذمت کر سکتا ہے.جاحظ کی بعض دوسری کتا میں بھی اسی قسم کی لغویات سے پر ہیں مثلا جمل اللصوص، حِيل الْمُكِدِّين، غِضُّ الصَّنَاعَاتِ الْقِحَابِ وَ الْكِلابِ وَغَيْرُها مِنَ الْكُتُبِ جاحظ کا خاص نظریہ یہ تھا کہ انسان کے جملہ افعال اُس کے طبعی تقاضے ہیں.اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر انسان کو سزا کیوں کر مل سکتی ہے ؟ کیا کسی انسان کو اس بنا پر سزا دی جاسکتی ہے کہ وہ کالا کیوں ہے، وہ لمبا کیوں ہے ، وہ موٹا کیوں ہے؟ لِأَنَّ الْإِنْسَانَ لَا يُثَابُ وَ لَا يُعَاقَبُ عَلَى مَا لَا يَكُونُ كَسُبًا لَهُ الكعبيه اور اُس کے نظریات یہ فرقہ ابو القاسم عبد الله الكعب البلخی کا پیرو تھا.کبھی کا یہ نظر یہ تھا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فلاں کام کا ارادہ کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسا قرآن کریم میں آیا ہے.جدار بريد ان ينقض یعنی اس قسم کے استعمالات مجاز اور استعارات ہیں.نظام معتزلی کا بھی یہی نظر یہ تھا جبکہ باقی سب معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ایک حقیقت موثرہ ہے تا ہم وہ حادث ہے.اہل السنت کے نزد یک اراده الله ایک حقیقت بھی ہے اور ازلی ابدی بھی ہے الْجَبَائِيَّہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ ابو علی الجبائی کا پیرو تھا.ابو علی کا خاص نظریہ یہ تھا کہ اللہ تعالی کی ایک صفت مطیع بھی ہے یعنی و داپنے بندوں کی اطاعت کرتا ہے، اُن کے کام کرتا ہے اور ان کی دُعائیں قبول کرتا ہے اور مطیع کے یہی معنے ہیں کہ مَنْ فَعَلَ مُرَادَ غَيْرِهِ.اسی طرح وہ یہ بھی مانتا تھا کہ اللہ تعالی کی ایک صفت مُخبل ہے یعنی وہ عورتوں کو حاملہ کرتا ہے.علامہ بغدادی اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ تو الفرق بين الفرق صفحه ۱۳۰ الفرق بين الفرق صفحه ۱۳۴ الفرق بين الفرق صفحه ۱۳۰
تاریخ افکا را سلامی عیسائیوں کے عقائد سے بھی بدتر ہے ، وخدا کو مسیح کا باپ تو کہتے ہیں لیکن اسے مخبل مریم نہیں سمجھتے.الغرض جہائی اسماء الہی کے تو قیفی ہونے کا قائل نہ تھا بلکہ وہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے نام گھڑنے اور رکھنے کو جائز سمجھتا تھا.الْبَهشَمِیہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ ابو ہاشم الجبائی کا پیرو تھا جو ابو علی الجبائی کا بیٹا تھا.علامہ بغدادی لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے اکثر معتزلہ بھسم ہیں کیونکہ آل بویه کا و زیرا بن العباد المُلَقِّبُ بِالصَّاحِب ابو ہاشم الجبائي کا عقیدت مند ہے اور بھسمی عقائد سے دلچپسی رکھتا ہے اس لئے بمطابق النَّاسُ عَلَى دِينِ ملوكهم دوسرے سر بر آوردہ لوگ بھی اپنے آپ کو ہاشمی کہلانے میں فخر سمجھتے ہیں.ابو ہاشم کا عقیدہ تھا کہ یر حرم کے عملی ارتکاب کے بغیر بھی انسان مستوجب سزا ہو سکتا ہے.مثلا ایک شخص نما ز پڑھنے پر قادر تھا سارے وسائل مہیا تھے اور وہ نماز ادا کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اجل نے اُسے آلیا تو یہ شخص ترک نماز کی سزا پائے گا کیونکہ قدرت کے باوجود اس نے حکم کی تعمیل نہیں کی.انی لَمْ يَفْعَلُ مَا أُمِرَ بِهِ مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَيْهِ ابو ہاشم کا ایک نظریہ یہ تھا کہ اسباب و شروط بجائے خود عبادت نہیں مثلاً نماز کے لئے طہارت اور وضو شرط ہے لیکن یہ بجائے خود عبادت نہیں کیونکہ اگر کوئی دوسرا کسی کو نہلا دے یا وضو کرا دے تو طہارت حاصل ہو جائے گی.اگر یہ عبادت ہوتی تو پھر ایسا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ عبادت میں نیابت درست نہیں.کام کوئی کرے اور سبکدوش دوسرا ہو جائے، نماز کوئی پڑھے اور ثواب دوسرے کو مل جائے اور اس کا فرض ادا ہو جائے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ابو ہاشم کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اللہ تعالی ساری کائنات کو بیک وقت اور بتمامہ تو فتا کر سکتا ہے لیکن جز و ا ایسا نہیں کر سکتا مثلاً یہ نہیں ہو سکتا کہ زمین و آسمان تو موجود ر ہیں لیکن ان میں سے کوئی ذرہ فتا ہو جائے آئی أَنَّهُ تَعَالَى لَا يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يُقْنِيَ مِنَ الْعَالَمِ ذَرَّةً مَعَ بَقَاءِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ انَّهُ يَقْدِرُ عَلَى إِفْنَاءِ الْعَالَمِ جُمْلَةٌ معتزلہ کے اور بھی کئی ضمنی فرقے ہیں لیکن غیر اہم ہیں کوئی خاص امتیازی خصوصیت نظر نہیں آتی جو قابل بیان ہو گے.ل الفرق بين الفرق صفحه ۱۳۸ ۱۴۶ ۱۴۷ - الفرق بين الفرق ۱۵۰۷۸
تاریخ افکا را سلامی الْجَبرِیہ اور اس کے نظریات جبریہ بھی اپنے طرز استدلال اور بی فکر کے لحاظ سے معتزلہ میں ہی شمار ہوتے ہیں لیکن معتزلہ کا یہ حصہ قدر کی بجائے جبر کا قائل ہے یعنی اس فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنے افعال اور اعمال میں خود مختار نہیں بلکہ وہ مجبور محض ہے.خدا جس طرح چاہتا ہے اُس سے کرواتا ہے کالا نسَانُ عِنْدَهُمْ لَيْسَ بِقَادِرٍ عَلَى أَفْعَالِهِ بَلْ فِي اخْتِيَارِ اللَّهِ يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَآءُ - جبریہ کے مندرجہ ذیل ضمنی فرقے ہیں.الجهميه، النجاريه البكريه، الضَّرَاريه الْجَهْمِیہ اور اُس کے نظریات ید فرقہ جہم بن صفوان کا پیر د تھا.جھم مشہور آزاد مفکر جعد بن درہم کا شاگر د تھا.کہا جاتا ہے کہ جهم بڑافتنہ پرداز، زانی انتشار پھیلانے میں ماہر اور شاطر قسم کا عالم تھا.یہ پہلا معتزلی ہے جس نے خلق قرآن کا عقیدہ ایجاد کیا.جھم جبر کا بھی قائل تھا یعنی اُس کا یہ نظر یہ تھا کہ انسان مجبور محض ہے.اللہ تعالی کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے يُقَلِّبُهُ كَيْفَ يَشَاء.جھم کے نزدیک جنت و دوزخ فانی ہیں وہ کہا کرتا تھا اِنَّ الجَنَّةَ وَالنَّارَ تَبَيَّدَانِ وَتَقْنِيَان - وه یہ بھی کہتا تھا کہ اللہ تعالی کا علم حادث ہے اس بارہ میں اس کا یہ نظر یہ بھی تھا کہ جس وصف سے دوسرے متصف ہو سکتے ہیں و ہ اللہ تعالیٰ کا وصف نہیں ہو سکتا.اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللهُ حَيٍّ، عَلِيمٌ عَالِمٌ سَمِيعٌ بَصِيرٌ، مَوْجُودَ مُرید.البتہ یوں کہہ سکتے ہیں اللهُ قَادِر، مُوجِدٌ، خَالِقَ مُحَي وَ.میت کیونکہ یہ اد صاف اللہ کے سوا کسی دوسرے میں نہیں پائے جاتے.جہم سیاست میں بھی سرگرم حصہ لیتا رہا.بنو امیہ کے خلاف کئی جنگوں میں شامل ہوا اور آخر انہی جنگوں میں مارا گیا.جھم نے صغار تا بعین کو دیکھا تھا اس لئے اس کا شمار تبع تابعین میں کیا گیا ہے.علامہ بغدادی نے لکھا ہے کہ آج کل جھم کے پیرو نہاوند میں پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر اسمعیل بن ابراہیم الدیلی کی تبلیغ سے اہل السنت میں شامل ہو گئے ہیں لیے ا.الفرق بين الفرق ایڈیشن چهارم ۲۰۰۳ء دار المعرفة بيروت صفحه نمبر ۱۹۴، ۱۹۵
تاریخ افکا را سلامی ۳۰۴ النَّجَارِيَّه اور اُس کے نظریات یہ فرقہ حسین بن محمد النجار کا پیر تھا.نجار بہت بڑا قابل مناظر تھا.اُس نے نظام معتزلی کے ساتھ کئی کامیاب مناظرے کئے.بعض مسائل میں یہ اہل السنت کے ساتھ متفق تھا اور بعض میں معتزلہ جبریہ کے ساتھ مثلاً اس کا عقیدہ تھا کہ افعال العباد کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اکتساب بجائے خود ایک فعل ہے.کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ کرے اور جو چا ہے.وہ یہ بھی مانتا تھا کہ گنہگار کی مغفرت ہو سکتی ہے.یہی بات اہل السنت بھی مانتے ہیں.معتزلہ کے نظریات میں سے مندرجہ ذیل نظریات کو نجار درست مانتا تھا.اللہ تعالیٰ کی صفات کوئی الگ چیز نہیں بلکہ عین ذات ہیں.ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی رویت ممکن نہیں.کلام اللہ ایک حادث وصف ہے..مندرجہ ذیل باتوں میں نجار کا الگ خاص مسلک تھا الْإِيْمَانُ يَزِيدُ وَلَكِنْ لَا يَنقُصُ جبکہ محدثین کہتے ہیں الْإِيْمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ اور امام ابوحنيفہ اور آپ کے بعض پیرووں کا نظریہ یہ ہے کہ الإِيمَانُ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ - نجار کے نزدیک اعراض کی دو قسمیں ہیں.ایک وہ جو جسم کا حصہ اور اس کی جز ہیں مثلاً رنگ، بو اور مزہ (اللون الرائحة وَالطَّعم ) یہ اللہ تعالیٰ کے مقدور نہیں بلکہ طبعی ہیں.دوسری قسم کے اعراض وہ ہیں جو کبھی ہوتے اور کبھی نہیں ہوتے مثلا علم ، جہالت، حرکت سکون، قیام، قصور.اس قسم کے اعراض جسم کا حصہ اور اس کی جز نہیں اس لئے وہ مقدور ہیں.نجاریہ کے کئی ضمنی فرقے تھے مثلا بَرْعُونِيهِ، زَعْفَرَانِيه وغيره - البرغوتيه اور اُس کے نظریات البرغوثیہ کے نزدیک طبعی افعال بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اُس کے اختیا ر سے ہیں.اہلِ سنت کا بھی یہی عقیدہ ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ طبعی افعال کا تعلق صرف جسم کی طبیعت سے ہے مثلا اگر کوئی چیز اوپر سے نیچے کی طرف گرتی ہے تو معتزلہ کے نزدیک یہ جسم کا طبعی تقاضا ہے لیکن ہر خوشید اور اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اُسے نیچے کی طرف گرایا ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو مارتا ہے
تاریخ افکارا سلامی اور اُسے درد ہوتا ہے یا اس کا کوئی عضو کٹ جاتا ہے تو دراصل مار، درد اور کٹنا یہ اللہ تعالی کا فعل ہے گو یا اللہ تعالی نے اسے ماردیا، در و پیدا کی یا عضو کاٹ دیا ہے البحریہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ بکر بن أخت عبدالواحد بن زیاد کا پیر و تھا.بکر کے بارہ میں محدث ابن حبان کا قول ہے کہ یہ شخص دجال اور حدیثیں گھڑنے میں ماہر تھا.كَانَ دَجَّالًا يَضَعُ الْأَحَادِيثِ ہے اس کا نظر یہ تھا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی ایک صورت اختیار کرے گا اور اسی صورت میں وہ بندوں کو نظر آئے گا اور اُن سے ہمکلام ہوگا.بکر کے نز دیک گناہ کبیرہ کے مرتکب کو مسلم ، مومن، منافق ، مکذب سب کچھ کہا جاسکتا ہے اور وہ دائی جہنمی ہے.اس کے خیال میں پیاز اور لہسن حرام ہے اور پیٹ میں گو گو یعنی فَرْقَرَةُ الْبَطْن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.افعال متولدة یعنی طبیعی افعال کے بارہ میں یہ اہل سنت سے متفق تھا اور کہا کرتا ما الله مخترع الألم عند الضرب - الضَّرَارِیہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ ضرار بن عمرو کا پیر د تھا.ضرار کا نظریہ یہ تھا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک چھٹی حس بھٹے گا جس کی وجہ سے وہ اسے دیکھ سکیں گے.ضرار لائِمَّهُ مِنْ قُرَیشِ “ کی روایت کو درست نہیں مانتا تھا اس لئے وہ امامت اور خلافت کے لئے قریش کی تخصیص کا قائل نہیں تھا.ہے الْمُرْجِنَہ اور اُس کے نظریات مرجئہ مسلمانوں کا وہ فرقہ ہے جو اعمال کو جزو ایمان نہیں مانتا بلکہ زائد از ایمان تسلیم کرتا ہے.یہ لفظ ارجاء سے مشتق ہے جس کے معنے پیچھے رکھنے اور دوسرا درجہ دینے کے ہیں.چونکہ یہ فرقہ اعمال کو ایمان سے پیچھے رکھتا ہے اور ایمان کے مقابلہ میں اسے دوسرا درجہ دیتا ہے یا یہ تسلیم کرتا ہے کہ اعمال الفرق بين الفرق ۱۵۶ میزان الاعتدال صفحه ۳۴۵ - الفرق بين الفرق صفحه ۱۵۹ الفرق بين الفرق صفحه ۱۶۰ خوارج کا نظریہ بھی یہی تھا.الفرق بين الفرق صفحه ۱۶۱ اعتقادات فرق المسلمين والمشركين صفحه ۶۹
P+1 تاریخ افکا را سلامی میں کوتا ہی کرنے والے کا معاملہ آخرت میں طے ہو گا یعنی اس کوتا ہی کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ سزا دیتا ہے یا معاف کرتا ہے اس کا فیصلہ وہاں ہوگا.اس قسم کے نظریات کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مرجنہ کا نام دیا گیا.اتى أَنَّهُمْ أَخَرُوا الْعَمَلَ عَنِ الْإِيْمَانِ وَالْإِرْجَاءِ بِمَعْنَى التَّاخِيْرِ - مرجنه کی تین قسمیں ہیں ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ ایمان تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان کا نام ہے.رہے اعمال تو ایمان سے ان کا کوئی خاص تعلق نہیں.عمل کرے یا نہ کرے ایمان پر اس کا کوئی اثر مرتب نہ ہوگا نیز eir انسان اعمال میں مختا را در آزاد ہے جیسے معتزلہ قدریہ مانتے ہیں.دوسرے گروہ کا نظریہ ایمان کی تعریف کے بارہ میں وہی ہے جو پہلے گروہ کا ہے لیکن وہ اعمال اور افعال میں انسان کو مینار اور آزاد نہیں مانتا بلکہ مجبور سمجھتا ہے جیسا جبریہ کا نظریہ ہے.تیسرا گرد وہ ہے جوقد ر اور جبر کا قائل نہیں نہو و قدریہ سے متفق ہے اور نہ جبریہ سے تا ہم یہ اعمال کی وہ اہمیت تسلیم نہیں کرتا جو ایمان کی ہے.ایمان نہ ہو تو نجات ممکن نہیں لیکن اگر عمل نہ ہو یا عمل میں کوتا ہی ہو تو نجات ممکن ہے.اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسے شخص کو معاف کر دے اور اُسے جنت میں لے جائے نیز اس گروہ کا یہ نظر یہ بھی ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں اور نہ اس میں فرق مراتب ہے أَتَى إِنَّ الْإِيْمَانَ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ وَلَا يَتَفَاضَلُ النَّاسُ فِيهِ.اس نظریہ کو اپنانے کی وجہ سے بعض نے حضرت امام ابو حنیفہ کو بھی مرحلہ کہا ہے جبکہ عام محد ثین کا نظریہ یہ ہے کہ اعمال ایمان کا حصہ اور جزو ہیں اور الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَيَتَفَاضَلُ النَّاسُ فِيهِ الْكَرَامِیہ اور اُس کے نظریات یہ فرقہ ابو عبد اللہ محمد بن کرام سجستانی (المتوفی ۲۵۵ھ) کا پیرو تھا.اس فرقہ کے کئی ذیلی گروہ ہیں مثلا حَقَائِفِيهِ، طَرَائِقيه، اسحاقیه - یہ سب ضمنی گروه بعض اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو تفصیل کے لئے دیکھیں الفرق بين الفرق صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۵ نیز اعتقادات فرق المسلمين والمشركين صفحه ۷۱،۷۰)
تاریخ افکارا سلامی کافر نہیں کہتے.اس لئے یہ اس لحاظ سے ایک ہی فرقہ کی ذیلی شاخیں ہیں اور ان کا بطور فرقہ الگ الگ ذکر چنداں ضروری نہیں.این کرام کے بعض نظریات اہل سنت کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے.اس وجہ سے اسے سجستان سے نکلنا پڑا اور وہ غرجستان جا کر پناہ گزیں ہو گیا.کئی عجمی قائد اور اہل افشین بخور مین اور اوغاد اس کے معتقد تھے جن کے سہارے یہ اپنے عقائد کے فروغ میں کوشاں رہتا تھا.مشہور فاتح ہند سلطان محمود دغه نوی بھی گرامی فرقہ سے عقیدت رکھتا تھا لے این کرام کے مخصوص نظریات مندرجہ ذیل تھے ا خدا کا جسم ہے.لَا كَالَا جُسَامِ وَ بِلا كَيْفِ سے اس کا جو حصہ عرش سے متصل اور ملاقی اور محدود ہے آئی عَرْضُهُ كَعَرْضِ الْعَرْشِ البتہ باقی اطراف سے خدا لامحدود ہے.۲.خدا جو ہر ہے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے.اہل السنت خدا کو جو ھر سے بالا کجھتے ہیں.- کرامیہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ خدا امل حوادث ہے یعنی اس میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے.اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ هُوَ الْانَ كَمَا كَانَ ہے بَلْ كُلِّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانِ.وہ کہتے ہیں کہ ازل میں خدا حوادث اور تغیرات سے خالی تھا لیکن جب اُس نے تخلیق کا ارادہ کیا تو اُس وقت سے وہ غیر محدود حوادث اور تغیرات کا مورد اور محل بن گیا اور آئند و وہ کبھی تغیرات ، حوادث اور اعراض سے خالی نہیں ہوگا.دہر یہ اور فلاسفہ کا ہیولی کے بارہ میں بھی یہی نظریہ ہے.أَيْ أَنَّهَا كَانَتْ فِي الْاَزْلِ خَالِيَةٌ عَنِ الْأَعْرَاضِ وَالصُّوَرِ ثُمَّ حَدَثَتِ الْاَعْرَاضُ وَالصُّوَرُ فِيهَا وَهِيَ لَا تَخْلُومِنْهَا أَبَدًا هُوَ يَتَهَوَّلُ وَيَنْتَقِلُ وَيَنْزِلُ - ۴ این کرام کا یہ کہنا بھی تھا کہ اعراض حادثہ کو نہ ہم مخلوق کہہ سکتے ہیں.اس لئے قرآن جو کلام اللہ ہے مخلوق ہے اور نہ محدث.↓ قد اثنى عليه ابن خزيمة وابوسعيد عبدالرحمن بن الحسين الحاكم وهما اماما الشافعية والحنفية تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۲۰۹ بحواله طبقات الشافعية صفحه ۳۱) له تعالى جسم لا كالاجسام ويد لا كالايدى و وجه لا كالوجوه (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۲۱۱ بحواله الملل والنحل جلد اوّل صفحه (۱۶۲)
تاریخ افکا را سلامی P+A - این کرام افلاک اور کواکب کو غیر فانی مانتا تھا انى يَقُولُ بِقَوْلِ الفَلاسَفَةِ أَنْ أَلَا فَلاكَ وَالْكَوَاكِبَ لَهَا طَبِيعَةٌ خَامِسَةٌ لَا تَقْبَلُ الْفَسَادَ وَالْفَنَاءَ - کرامیہ کا یہ نظریہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے خالق اور رازق ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ پیدا کر سکتا ہے اور رزق دے سکتا ہے.انى أنَّهُ تَعَالَى لَمْ يَزَلْ خَالِقًا رَازِقًا وَ مَعْنَاهُمَا أَنَّهُ قَادِرٌ عَلَى الْخَلْقِ وَ الرِّزْقِ وَهَكُمَا سَائِرُ صِفَاتِهِ تَعَالَى قَبْلَ ظُهُورها - این کرام کا یہ نظریہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس جسم کو پیدا کیا اُس میں زندگی تھی.جمادات کی پیدائش اس کے بعد ہوئی ہے اور یہ اس کی حکمت کا تقاضا تھا.اہل السنت کا نظریہ یہ ہے کہ سب سے پہلے لوح و قلم پیدا ہوئے.ابن کرام کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے بچے کو نا بالنھی میں نہیں مارسکتا جس کے بارہ میں اُسے علم ہے کہ یہ بڑا ہو کر نیک اور صالح ہو گا کیونکہ ایسے بچے کو ماردینا اس کے حکیم ہونے کی صفت کے خلاف ہے.این کرام کا یہ نظریہ بھی تھا کہ نبوت اور رسالت دوسرے ملکات کی طرح ایک ملکہ ہے اور جس میں یہ ملکہ ہوا سے نبی اور رسول بنانا اللہ تعالیٰ پر واجب اور فرض ہے.اُس کے نز دیک رسول وہ ہے جس میں یہ ملکہ ہو اور مرسل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس ملکہ کی وجہ سے رسول بنا کر بھیجے.مُرسل وفات کے بعد صرف رسول رہ جاتا ہے اور اس کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اس لئے اُس کی قبر کی زیارت کے لئے جانا اور اسے ثواب سمجھنا بے معنی بات ہے.ابن کرام کی رائے تھی کہ نبی اور رسول ایسی غلطیوں سے نمبر اور معصوم ہوتے ہیں جن کی سزا محمد ہے یا جس کے ارتکاب سے انسان درجہ عدالت اور قبول شہادت سے گر جاتا ہے.دوسری قسم کی غلطیاں نبی سے سرزد ہو سکتی ہیں.اسی قسم کی غلطی (والعیاذ بالله ) انحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس وقت ہوئی جبکہ آپ سورۃ النجم کی تلاوت کر رہے تھے اور آپ نے وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأَخْرى کی حلاوت کی تو معابعد ہی آپ تلک الغَرَائِيقُ العُلى وَإِنْ شَفَاعَتَهُنَّ لَمرتجى كے الفاظ بھی کہہ گئے.کرامیہ کا یہ نظریہ اہل السنت کے نظریہ کے خلاف ہے کیونکہ اہل السنت کے نزدیک انبیا ء ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں.ل أَي لَا يَتَعَلَّقُ بِالْحُسَبِ وَ مَا لَا يَكُونُ بِحَسَبِهِ لَا يَكُونُ لَهُ عَلَيْهِ آجر (نفس المصدر صفحه ۲۱۳)
تاریخ افکا را سلامی ٣٠٩ کرامیہ کا یہ نظر یہ بھی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کے خلاف ہے کہ وہ آغاز کائنات اور تخلیق انسان کے بعد ہی نبی بھیج کر اُسے کامل اور مکمل دائگی شریعت دے دیتا جبکہ اہل السنت کے نزدیک ایسا کرنا جائز اور ممکن تھا.این کرام کے نزدیک بیک وقت دو خلیجے اور امام ہو سکتے ہیں جواپنے اپنے حلقہ میں واجب الا طاعت ہوں جیسے حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ اپنے اپنے حلقہ کے سربراہ تھے اگر چہ علی امام بر حق بمطابق سنت تھے اور معاویہ متقلب اور غیر علی السنۃ لیکن اپنے اپنے دائرہ اقتدار میں دونوں واجب الاطاعت تھے گویا این کرام کے نزدیک امام عادل ہو یا باغی اور طافی اُس کی اطاعت اور اس کے احکام کو تسلیم کرنا امن اور مصلحت عامہ کی بنا پر ضروری ہے ہے کرامیہ کے نزدیک ازلی اقرار جس کی طرف الستُ بِرَبِّكُمُ قَالُوا بَلی میں اشارہ کیا گیا ہے.دنیا میں اس ازلی اقرار کا کم از کم ایک ہا را عادہ ضروری ہے.کرامیہ کے نزدیک تجہیز و تکفین فرض کفایہ ہے جبکہ نماز جنازہ اور غسل سنت کفایہ ہے قبل ان السلطان محمود بن سبکتگین اضطهد الاشاعرة و حمل الناس على اعتناق مذهب الكرامية وقرب علماء هم و انكتل بالاحناف وقد تاثر بمذهب الكرامية من الصوفياء المشهورة الهروى الانصاري و من السلفية اكبر مفكرى الاسلام تقى الدين ابن تيمية (تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۵۱ و ۳۱۵) الفرق بين الفرق صفحه ۱۲۴ تا ۱۶۹ - تاريخ الفرق الاسلامية صفحه ۲۱۶۰۳۰۸
تاریخ افکا را سلامی ٣١٠ اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اصلاح امت کی چند متفرق کوششیں اٹھارھویں صدی جو مسلمانوں کے دینی زوال ، سیاسی علمی او را قتصادی تنزل کی صدی ہے اس میں چند دردمند مصلحین نے اسلامی دنیا کے اس عالمگیر زوال پر بند لگانے کی کوشش کی ان میں سے محمد بن عبدالوہاب نجدی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سید احمد بریلوی اور مہدی سوڈانی کی تحریکات کے اثرات خاصے وسیع تھے لیکن یہ اثرات کسی عالمگیر حر کی انقلاب کا باعث نہ بن سکے.تحریک وَلِى اللَّهی اٹھارھویں صدی میں جبکہ مسلم دنیا ایک عالمگیر زوال کی زد میں تھی برصغیر ہند و پاک میں ایک علمی اور اصلاحی تحریک کا آغاز ہوا اس تحریک کے بانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تھے.آپ ۱۷۰۳ء میں دہلی میں پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد کا نام شاہ عبدالرحیم تھا جو دلی کے ممتاز علماء میں سے تھے اور فقہ کی مشہور کتاب فتاوی عالمگیریہ کے مرتبین میں شامل تھے جو نامور مغل بادشاہ اور نگ زیب عالمگیر کے حکم سے تیار ہوئی تھی.حضرت شاہ ولی اللہ کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد اورنگ زیب کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد عظیم مغل سلطنت میں زوال کے آٹا رظاہر ہونے لگے تھے.شاہ ولی اللہ صاحب نے ابتدائی علوم اپنے والد ماجد اور دہلی کے دوسرے نامورا ساتذہ سے پڑھے کچھ عرصہ اپنے والد صاحب کے قائم کردہ مدرسہ رحیمیہ میں درس وتدریس کا فریضہ سرانجام دیا.جب آپ کی عمر تمہیں سال کے قریب ہوئی تو آپ فریضہ حج ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے وہاں آپ نے حرمین شریفین کے مشہورا ساتذہ سے تعلیم حاصل کی اور رحد میٹ میں خاص مہارت پیدا کی.وہاں کے اساتذہ میں سے آپ سب سے زیادہ شیخ ابو طاہر مرد فی سے متاثر ہوئے.دو سال کے بعد آپ واپس آئے اور پھر سے مدرسہ رحیمیہ میں پڑھانا شروع کر دیا.ساتھ ساتھ تالیف و تصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا.آپ کی مشہور کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں.الفوز الکبیر جس میں تفسیر القرآن کے اصول وضوابط پر بحث ہے.مصفی اور تَنْوِيرُ الْحَوَالِک کے نام سے موطا امام مالک کی دو شر میں لکھیں.ایک عربی میں اور دوسری فارسی زبان میں.
تاریخ افکا را سلامی تَفْهِيْمَاتِ الہیہ اس میں تقرب الہی اور تصوف کے اسلوب و اصول اورمنازل سلوک کی وضاحت ہے.آپ کی سب سے مشہور اور جامع کتاب حُجَّةُ اللهِ البَالِغہ “ ہے جس میں مقاصد شریعت، فلسفه عبادت اور اصول دین کی حکیمانہ تشریح و تفصیل ہے.یہ بڑے پائے کی علمی کتاب ہے جس سے حضرت شاہ صاحب کے کمال علمی اور فہم دین میں مہارت کا پتہ چلتا ہے.آپ نے اپنی اس کتاب میں بیان کردہ دینی حکمتوں کے حوالہ سے اپنی اصلاحی تحریک کی بنیا د رکھی اور مسلم معاشرہ کی دینی اور اخلاقی بیماریوں کے لئے علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس بات پر زور دیا کہ دین کے فروغ کے لئے ایک مثالی معاشرہ کے قیام کی ضرورت ہے.آپ نے ان مقاصد کے حصول کے لئے درس وتدریس اور تالیف و تصنیف کے ذرائع کو اختیار کیا.آپ کا دوسرا بڑا کارنامہ دوسری زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کا آغاز ہے.نا معلوم مدت سے مسلم معاشرہ اس بات کا قائل چلا آ رہا تھا کہ کسی دوسری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا جائز نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام معاشرہ قرآن کریم سے دور چلا گیا اور قرآنی علوم سے واقفیت صرف گنتی کے چند علما ء تک محدود ہو کر رہ گئی اور اس کا تعلق بھی زیادہ تر فقہی مسائل سے تھا.قرآن کریم کے باقی معارف سر بستہ راز تھے اور عوام صرف تلاوت کی حد تک قرآنی برکات سے واقف تھے.جب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن کریم کے فارسی ترجمہ کا آغاز کیا تو علماء زمانہ کی طرف سے آپ کی سخت مخالفت ہوئی.عوام کو اشتعال دلایا گیا اور آپ کے مدرسہ پر پتھراؤ کرایا گیا لیکن جس راہ کو آپ حق سمجھتے تھے اس پر آپ برابر گامزن رہے اور پھر آہستہ آہستہ علماء اور عوام کی مخالفت کم ہوتی چلی گئی.آپ کے لائق بیٹوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر نے اُردو زبان میں قرآن کریم کے تراجم کئے.شاہ عبد القادر کے ترجمہ کو تو اس زمانہ کے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا گیا ہے.آپ کا تیسرابڑا کارنامہ ہندی مسلمانوں کو احادیث رسول کی طرف متوجہ کرنا تھا.اس سے پہلے علماء اور عوام زیا دہ تر فقہی مسائل میں منہمک رہتے تھے اور اس سے آگے قرآن وحدیث کی طرف ان کی نظر نہ جاتی تھی.بر صغیر میں علوم حدیث کے فروغ کا سہرا حضرت شاہ ولی اللہ کے سر بندھتا ہے اور تاریخ کا یہ ایک اہم واقعہ ہے.
تاریخ افکا را سلامی FIF حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو اللہ تعالیٰ نے علمی فضیلت کے علاوہ نیک اور قابل اولا د سے بھی نوازا تھا.آپ کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز، حضرت شاہ عبد القادر، حضرت شا در فیع الدین اپنے زمانہ کے چوٹی کے عالم اور دینی رہنما تھے.سارے برصغیر میں ان کی قیادت دینی کو تسلیم کیا گیا.خصوصاً حضرت شاہ عبد العزیز کی علمی خدمات نے بڑا موثر کردارادا کیا اور آپ کی قیادت میں علم حدیث کے فروغ نے اِرتقاء کے مراحل طے کئے.اس مبارک خاندان کے پروردہ علماء مثلاً حضرت شاہ اسحاق اور مولانا مملوک علی مولانا احمد علی سہارنپوری، مولانا محمد قاسم نانوتوی بائی دارالعلوم دیو بند اور انیسویں صدی کے دوسرے بزرگان دین کے ذریعہ ہی علوم دینیہ کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی.یہ سب خاندان ولی اللہی کے فیض یافتہ تھے.بر صغیر کے قریبا تمام کی مسالک کیا بریلوی اور کیا دیو بندی، کیا سلفی اور کیا وہابی ، سب حضرت شاہ ولی اللہ اور آپ کے خانوادہ سے مذہبی اور دینی عقیدت رکھتے ہیں اور اسی چشمہ علمی کے فیض یافتہ ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اصلاحی تحریک کو حضرت شاہ اسماعیل شہید جو حضرت شاہ صاحب کے پوتے تھے اور حضرت سید احمد بریلوی شہید نے ایک نیا رنگ دیا.ان دونوں بزرگوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی تحریک چلائی اور مختلف علاقوں میں اپنے داعی بھیجے.رضا کاروں کو جمع کیا.مالی امداد کا انتظام کیا اور ایک لمبا فاصلہ طے کر کے سندھ اورافغانستان کے راستے صوبہ سرحد پہنچے اور سکھوں سے جنگ کا آغاز کیا لیکن بوجوہ نا کامی ہوئی اور دونوں بزرگ اور اُن کے بہت سے ساتھی بالا کوٹ ضلع ہزارہ کے مقام پر شہید ہو گئے.اس نا کامی کی بڑی وجہ مقامی لوگوں کا عدم تعاون اور سپلائی کے مراکز کی ابتری اور دوری تھی.بعض فقہی مسائل کا عملی اختلاف بھی خلفشار کا باعث بنا کیونکہ یہ دونوں بزرگ اور ان کے اکثر ساتھی سلفی یعنی اہل حدیث تھے اور مقامی پبلک حنفی المسلک تھی.دوسری وجوہات کے علاو ہ اس وجہ سے بھی مجاہدین مقامی لوگوں کا دلی تعاون حاصل نہ کر سکے اور سکھ حکومت کے ایجنٹوں کی سازش کامیاب رہی.چونکہ مسلم معاشرہ کا تنزل عالمگیر تھا.دوسرے مقامی اصلاحی کوششیں بھی ہمہ پہلو نہ تھیں.تیسرے بعد کی قیادت بڑی حد تک صالح سیاست سے بالکل عاری ہو گئی تھی اور صرف تشد د بلا استعداد و
تاریخ افکارا سلامی FIF تیاری کو ذریعہ کامیابی سمجھ لیا گیا تھا.ان وجوہات کے باعث یہ اصلاحی تحریک مؤثر نتائج حاصل نہ کرسکی اور بے اثر ہو کر رہ گئی.یہ لوگ بڑے مخلص تھے اور جذبہ ایثا ر بھی رکھتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ مسلم معاشرہ کا زوال رُک جائے او را سلام کو فروغ ملے اور اس کے لئے قربانیاں بھی پیش کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہوئی اور نہ ہی مسلم معاشرہ کا زوال رُک سکا.یہ صورتِ حال در اصل اس طرف اشارہ تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کورد سکنے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک بالکل نئے انداز کی عالمگیر اصلاحی تحریک کا آغاز ہو کیونکہ اتنے نیک اور مخلص عناصر جب جہاد بالسیف کی مساعی میں ناکام رہے تو اس کے صاف معنے یہ تھے کہ دین کے فروغ کے لئے اب یہ ذریعہ نہ اللہ تعالی کو منظور ہے اور نہ اُس کے ہاں مقبول اور نہ اس کے لئے وسائل مسلمانوں کو اُس کے حضور سے مہیا ہوں گے اور اس راہ میں جو بھی کوششیں ہوں گی وہ سب کی سب نا کامی کا منہ دیکھیں گی کیونکہ اب خدا یہ نہیں چاہتا بلکہ اُس کا منشایہ ہے کہ مسلمانوں کو پھر سے مسلمان بنایا جائے اور اُس دور کا آغاز ہو جو قدیم سے معتمد رتھا یعنی چون دور خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند اُنیسویں صدی میں بہائی تحریک کا آغاز ہوا لیکن اسلام کی کسی خدمت کی بجائے وہ اسلام کے منسوخ ہو جانے کا دعویٰ لے کر اٹھی اور اپنے مسلک اور نام ہر دو لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں سے دور چلی گئی.انیسویں صدی میں ہی برصغیر پاک وہند میں آزاد خیالی اور مختلف مذاہب کے درمیان بحث و مباحثہ کے دور کا آغاز ہوا.اس وقت انگریز سارے ہندوستان پر قابض ہو چکے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت بکلی نکل چکی تھی اور عیسائیت کی تبلیغ کا زور تھا.دوسری طرف مغربی فلسفہ دہر بیت کے فروغ کا باعث بن رہا تھا.اس صورت حال سے ہندوؤں نے بھی فائدہ اُٹھایا.پر ہمو سماج اور آریہ سماج کی تحریکات کو فروغ ملا.یہ وقت مسلمانوں کے لئے بے حد نازک تھا.نئی حکومت مسلمانوں سے بدگمان تھی.ہندو بھی پرانے بد لے چکانے کے لئے پر تول رہے تھے.
تاریخ افکا را سلامی سرسید احمد خاں صاحب کی نیچرل تحریک مسلم رہنماؤں میں سے سرسید احمد خاں (ولادت ۱۸۱۷ء) نے اس نازک دور میں اپنے دائرہ کار اور رجحان طبع کے لحاظ سے اصلاح احوال کی قابل قدرکوشش کی.اُن کی اس تحریک کا یہ اثر خاصہ نمایاں رہا کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کا ایک مؤثر طبقہ نئے علوم اور مغربی انداز بودوباش ، اُصول حکمرانی اور نٹے سیاسی انداز سے روشناس ہوا.تاہم یہ تحریک نہ تو عالمگیر تھی اور نہ ہمہ پہلو.اس تحریک کا مذہبی پہلو تو خاصہ کمزور اور مرعوبیت زدہ تھا.اس وجہ سے بحیثیت مجموعی اس تحریک سے ملت اسلامیہ کے مصائب میں کوئی خاص کمی نہ آسکی.اس سلسلہ میں قدامت پسند علماء کی شدید مزاحمت کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑا.ان کی مخالفت کا یہ انداز خاصا زور دار تھا کہ سرسید احمد خاں دینی علوم کے ماہر نہیں اس لئے جو کچھ دین کے بارہ میں انہوں نے لکھا ہے اس کی عقلی اور نقلی بنیا دیں بے حد کمزور ہیں اور اس سے ذہنی انتشا را در فکری تذبذب کے سوا کوئی اور مفید نتیجہ بر آمد نہیں ہوا.بہر حال سرسید مرحوم نے دینی مسائل کے بارہ میں جو کچھ لکھا اور جسے مولانا حالی نے مرتب کیا اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے.سرسید احمد خاں صاحب کے دینی نظریات اجماع اور قیاس حجت شرعیہ نہیں ہیں اور نہ یہ تشریح کے مسلمہ ماخذ ہیں.صحاح ستہ کی احادیث تنقید سے با لانہیں اور نہ ان سے کسی دینی مسئلہ کا استنباط واجب التسلیم ہے.اس طرح اگر کسی حدیث سے ہے.اس اگر اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے تو اسلام اُس کا جواب یہ نہیں ہے.بائیل میں تحریف لفظی کا دعویٰ درست نہیں.ہاں تحریف معنوی ممکن ہے.جو مسائل قرآن وسنت میں بالتصریح مذکور نہیں ان میں ہر سمجھدار اجتہاد کر سکتا ہے.وضع ولباس میں نا یہ بالغیر قابل اعتراض نہیں.جبر وقد را در تقدیر خیر وشر کا عقیدہ جزو ایمان نہیں.قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی معجزہ کا ذکر نہیں.اسی طرح انبیاء کے جن معجزوں کا ذکر ہے وہ بھی دراصل استعارے ہیں.قرآن کریم کا اعجاز معنوی ہے لفظی نہیں.کوئی بات خارق عادت یا خلاف فطرت وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اس لئے معجزہ کا تصور غلط ہے اور معجزہ کو دلیل نبوت قرار دینا بھی بے اصل ہے.ملائکہ مختلف فطرتی قوتوں کے نام ہیں.شیطان اور ابلیس سے مراد نفس امارہ ہے.آدم او را بلیس کا قصہ تمثیل ہے.اس کی کوئی واقعی تاریخی
تاریخ افکا را سلامی ۳۱۵ حیثیت نہیں.قرآن کریم میں مذکور جنوں سے مراد گرانڈیل پہاڑی وحشی اقوام ہیں.وجی، نبی کے قلبی واردات کا نام ہے باہر سے کوئی چیز نازل نہیں ہوتی.صفات باری ، صور کا پھونکا جانا ، حشر و نشر ، حساب و کتاب، میزان وصراط ، جنت و دوزخ سب استعارے اور تمثیل ہیں.رویت باری نہ اس دُنیا میں ممکن ہے اور نہ آخرت میں.معراج اور شق صدر کے واقعات دراصل خواب تھے بیداری کی حالت کا کوئی واقعہ نہ تھا.مختلف جنگوں میں فرشتوں کے نزول کا جو ذکر قرآن کریم میں ہے یہ دراصل غیر معمولی نصرت الہی کے نزول سے استعارہ ہے.شہداء کی زندگی سے مراد دُنیا میں نیک اور قابل تقلید مثال چھوڑ جاتا ہے.حضرت عیسی کے بن باپ پیدا ہونے کا عقید ہ درست نہیں.حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کی عمر یاس کی حد سے متجاوز نہ تھی.اُن کی عمر ایسی ہی تھی جس میں عورتیں بالعموم بچہ جننے کے قابل ہوتی ہیں.دُعا صرف عبادت ہے.حصول مقاصد کے لئے اس کی تأثیر غیر مسلم ہے.اصل چیز صرف صحیح تدبیر ہے.چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹ دینا ضروری نہیں.انسان جس کے حق میں چاہے جتنی چاہے وصیت کر سکتا ہے نہ وارث کے حق میں وصیت منع ہے اور نہ ساری جائیداد کی منع ہے.روزہ کی بجائے فدیہ ایک عمومی سہولت ہے.موجودہ بینکنگ کی طرز پرلین دین دبا نہیں.سو دو ہی منع ہے جس کا رواج زمانہ جاہلیت میں تھا.قرآن کریم کا کوئی حکم منسوخ نہیں.تقلید ذہنی جمود اور عقلی تعطل کا نام ہے اس لئے اسے واجب قرار دینا غلط ہے.قرآن کریم کے احکام کی دو قسمیں ہیں.اصلی احکام اور محافظ احکام.اصلی احکام ہمیشہ قانون فطرت کے مطابق اور غیر متبدل ہوتے ہیں.محافظ احکام کا قانون فطرت کے مطابق ہونا ضروری نہیں اور نہ ہر حال میں ان کی پابندی لازم ہے مثلاً نماز میں اصل حکم توجہ الی اللہ ہے.طہارت، نسل ، وضو، توجہ، قبلہ، قیام، رکوع ، سجدہ، قصور محافظ احکام ہیں ان کی پابندی ہر حال میں ضروری نہیں.نصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے.اسی طرح اگر و د پرندہ کو گلا گھونٹ کر مار دیں تو اُس کا کھانا بھی جائز ہے جو غیر مسلم مسلمانوں سے زیادتی نہیں کرتے ان کی جان و مال کے دشمن نہیں اور نہ ان کو ان کے بطن سے نکالتے ہیں ان سے موالات اور تعلقات استوار کرنے کی اجازت ہے.صرف انہیں کفار سے تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے جو ظلم کی راہ اختیار کرتے ہیں اور مسلمانوں سے بر سر پیکار ہیں.ہر قائم اور قانون کی پابند حکومت کی اطاعت ضروری
تاریخ افکا را سلامی ہے.حضرت عیسی" صلیب سے زندہ اتارلئے گئے تھے اور وہ طبیعی موت مرے، زندہ آسمان پر نہیں گئے اور نہ دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے میچ کے نزول کا عقید ہ غلط ہے لے ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ دینی مسائل میں سرسید احمد خاں صاحب کا رجحان اہل السنت والجماعت کی بجائے معتزلہ کی طرف زیادہ تھا.تحریک اتحاد عالم اسلامی سرسید کی نیچرل یا آزاد خیالی کی تحریک کے ہمعصر ایک اور تحریک کے نشان بھی تاریخ کے صفحات میں ملتے ہیں.یہ پان اسلام ازم یا اتحاد عالم اسلامی کی تحریک تھی جس کے روح رواں سید جمال الدین افغانی مصر کے مفتی محمد عبدہ اور ترکی کے حلیم پاشا تھے.اس تحریک کا رخ زیادہ تر منفی سیاست کی طرف تھا اس لیے یہ تحریک استعماری اقوام کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارنے تک محدود درہی اور کوئی قابل ذکر تعمیری کا رنامہ سرانجام نہ دے سکی اور نہ مسلمانوں کی سیاسی تربیت کا فریضہ نباہ سکی.تحریک رابطه عالم اسلامی یه اداره در اصل تحریک اتحاد عالم اسلامی کا ایک طرح کا مٹتی ہے اس لیے اپنے اصل کی طرح اس کا کام بھی سر تا سرمنفی انداز کا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اتحاد عالم اسلامی کی مجلس کا کام استعماری طاقتوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا اور رابطہ عالم اسلامی کی جمعیت کا کام اپنوں کے خلاف نفرت اُبھارنا ہے.یوں لگتا ہے جیسے خدمت اسلام سر انجام دینے والے دردمند مخلص اور دیندار مسلمانوں کی راہ میں روڑے انکانے کے سوا اس کا کوئی مقصد تنظیم ہی نہیں اور نہ اُسے یہ فکر دامن گیر ہے کہ عالمی کمیونزم مغربی استعمار کے غیر اسلامی فلسفے اور اس کی سازشیں، اُس کے مادی علوم ، اُس کی محیر العقول صنعتی کامیابیاں ، اُس کی قارون کو مات دینے والی اقتصادی پالیسیاں یہ سب عناصر مل کر عالم اسلام کو کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں، کس طرح مسلمانوں کو کھائے جا رہے ہیں، ان کو تقسیم کر کے آپس میں کس طرح لڑا رہے ہیں اور ان کے بے پنا وقدرتی وسائل کو بارو داور آگ بنا کر خود انہی کے ہاتھوں تباہ کروا رہے ہیں لیکن اس حماقت پر ان کو متوجہ کرنے والا کوئی نہیں اور نہ کسی عالمی اثر رکھنے والی ہمہ پہلو آگاه موید من اللہ عقل مند روحانی حیات جاوید صفحه ۵۲۴ تا ۵۳۶ مولانا الطاف حسین حالی ناشر نیشنل بک ہاؤس ایک روڈ لاہور
تاریخ افکا را سلامی ۳۱۷ قیادت کی انہیں تلاش یا تمنا ہے.پس آپس کی نفرتوں کو فروغ دینا اور خود اپنے ہاتھوں اتحاد اور یگانگت کے تقاضوں کو سبوتا شکرنا ان کا مقصد تنظیم ہے.اسی کا نام ہے، یہ عکس نہند نام زنگی کافور.تحریک انکارِ حدیث مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی، حافظ محمد اسلم صاحب جیراج پوری اور غلام احمد صاحب پرویز.سرسید احمد خاں صاحب کا بحیثیت ماخذ شریعت حدیث کے بارہ میں جو رویہ تھا اُس سے انکار حدیث کے رجحان کو فروغ ملا.چنانچہ اہل قرآن اسی رجحان کی پیداوار ہیں.اس تحریک کے روح رواں مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی جامعہ ملیہ کے پروفیسر حافظ محمد اسلم جیراج پوری اور رسالہ طلوع اسلام کے مدیر غلام احمد صاحب پرویز تھے.ان میں سب سے زیادہ مستحکہ خیز طر ز عمل مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی کا تھا.ان کے نزدیک حدیث کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی.ان کا موقف یہ تھا کہ مسائل اسلام کو سمجھنے کے لئے حدیث کی کوئی ضرورت نہیں صرف قرآن کافی ہے لیکن جب وہ اپنے اس دعوی کی تفصیلات میں الجھے تو انتہائی بو دے استدلال اور دور کی کوڑی لانے کی راہ پر چل پڑے.نمازیں پانچ کی بجائے تین رہ گئیں.یہی حال روزہ، حج اور دوسرے مسائل کا ہوا.جامعہ ملیہ کے پروفیسر حافظ محمد اسلم صاحب جیراج پوری نے مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے کمزور پہلو کو بھانپتے ہوئے انکار حدیث کے نظریہ میں کچھ ترمیم کی اور یہ خیال پیش کیا کہ مسائل عبادات کے تعین کے لئے تو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل متواتر کی پابندی ضروری ہے باقی دینی مسائل کے تعین کے بارہ میں حدیث کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان مسائل کا فیصلہ ہر زمانہ کا مرکز ملت کرے گا.رسالہ طلوع اسلام کے مدیر غلام احمد صاحب پرویز نے اس نظریہ میں مزید ترمیم کی.ان کی رائے میں دین اور دنیا ، عبادات اور معاملات کی تفریق غیر اسلامی اور مجھی سازش ہے اس لئے مسئلہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا معاملات سے اگر قرآن کریم میں اس کی تصریح نہیں ملتی تو اس کا تعین ہر زمانہ کا مرکز ملت کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی روشنی میں جو تفصیلات طے فرمائیں
تاریخ افکا را سلامی C FIA وہ بحیثیت مرکز ملت کے ہی طے فرمائی تھیں.یہی مقام خلفاء راشدین کا تھا اور پھر اسی مقام اور اسی اختیار کا حامل ہر زمانہ کا مرکز ملت ہے.وہ چاہے تو سابقہ سنت و دستور کو قائم رکھے اور چاہیے تو زمانہ کے تقاضا کے مطابق اس میں تبدیلی کرے.اس لحاظ سے پرویز صاحب کے نزدیک احادیث کی حیثیت تاریخی ہے دیتی نہیں کہ طَابَقَ النَّعْلُ بِالنَّعْلِ کے طور پر ان کی اتباع ضروری ہو لے علامہ سر محمد اقبال صاحب کا موقف حدیث کی دینی حیثیت کے بارہ میں علامہ سر محمد اقبال کا موقف مولانا عبید اللہ صاحب سندھی اور حافظ محمد اسلم صاحب جیراج پوری کے موقف سے ملتا جلتا ہے.وہ میدان اجتہاد کی اُس وسعت کے قائل تو نہیں جس کے داعی غلام احمد صاحب پرویز ہیں لیکن اخبار احاد کی شرعی حیثیت ان کے ہاں بھی مشتبہ ہے.علامہ مرحوم نے اپنے اس موقف کی وضاحت کے لئے ثبات و تغیر“ کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی ایمانیات اور عبادات سے متعلق جو اصول قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ سنت متواترہ کھول کر بیان کر دیئے ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں البتہ دوسرے مسائل میں اجتہاد کا میدان وسیع اور آزاد ہے.کوئی حدیث اس وسعت کو محدود نہیں کر سکتی اس لئے ان مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ادارے تبدیلیاں کر سکتے ہیں.اس طرح ان کے نزدیک مسائل دینیہ کا ایک حصہ ثبات کے دائرہ کے اندر ہے اور دوسرا حصہ تغیر و تبدل کی آماجگاہ ہے جسے اصول دین کا سا تقدس اور ثبات حاصل نہیں ہے جہاں تک تفاصیل کی ترتیب اور عملی اقدامات کا تعلق ہے چند فلسفیانہ تجاویز اور آراء کے سوا علامہ اقبال بھی کوئی تنظیمی یا انقلابی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے.ٹوسٹ "تجدید النہیات اسلامیہ پر علامہ کے اصل لیکچر انگریزی میں تھے جن کا ترجمہ سید نذیر نیازی صاحب نے اُردو میں کیا جسے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ" کے نام سے بزم اقبال لاہور نے شائع کیا.سلفی اور دیوبندی تحریک ۳.اٹھارھویں صدی میں محمد بن عبد الوہاب نجدی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ذریعہ تقلید کے قرآنی دستور پاکستان صفحه ۲۱ - مقام حدیث صفحه ۶۳ تشکیل جدید البیات اسلامیه صفحه ۲۲۸۰۲۲۷ ۲۶۳ تا ۲۶۷- ناشر بزم اقبال زسنگھے گارڈن کلب روڈلاہور
تاریخ افکارا سلامی ٣١٩ خلاف اور حجیت حد میث کے حق میں جو تحریک چلی بر صغیر میں اس سے متاثر دواور گر و ہ سامنے آئے.ایک گر وہ اہل حدیث یا وہابی کے نام سے مشہور ہوا جو اپنے آپ کو سلفی کہلاتا تھا.دوسراگر و داہل دیوبند کا تھا.یہ دونوں گرو ہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو اپنا مقتدا اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں تا ہم اہل حدیث کا جھکا و محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف زیادہ ہے اس وجہ سے اس گروہ نے افراط کی راہ اختیار کی اور احادیث کے بارہ میں ان کا رویہ سرتا سر غیر تنقیدی رہا.چنانچہ وہ احادیث کے غالب حصہ کو ہر قسم کی تنقید سے بالا سمجھتے ہیں.ان کی رائے میں سابقہ محدثین نے حدیث کے سلسلہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر کے رکھ دیا ہے اور اب مسلم علماء کا صرف یہ کام ہے کہ ان بزرگوں نے احادیث کے جو درجے مقرر کئے یا ان کی جو تشریحات کی ہیں وہ انہی کی پیروی کریں کیونکہ یہ احادیث ہر حال میں قابل ترجیح ہیں اس لئے اگر ان میں سے کوئی حدیث بظاہر نص قرآن کے خلاف نظر آئے تو حدیث کو تر جیح ہوگی اور رنص قرآنی کی اس کے مطابق تاویل کی جائے گی یا اُسے منسوخ قرار دیا جائے گا کیونکہ اس درجہ کی احادیث قرآن پر مقدم ہیں.اس قسم کی تخف ، تعمد داور نجدی مصیت کے غلبہ کی وجہ سے یہ گروہ تنگ نظری میں مقلدین سے بھی بڑھ گیا.حمود اس کا نصیبیہ اور تعصب اس کا وطیرہ نظر آنے لگا جس کی وجہ سے اس کا قدم آگے اُٹھنے کی بجائے بہت پیچھے جا پڑا.اہلِ دیوبند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے متاثر دوسرا گروہ اہل دیوبند کا ہے.مولانا محمد قاسم نانوتوی ( ولادت ۱۸۳۲ء) نے دارالعلوم دیوبند کی بنیا د ۱۸۶۶ء میں رکھی.یہ دارالعلوم برصغیر میں قدیم دینی علوم کے فروغ کا مرکز ثابت ہوا.علماء دیوبند نے اس لحاظ سے علم حدیث کی قابل قدرخدمت سرانجام دی کہ ان کی کوششوں سے فقہ حنفی کی تائید کے لئے احادیث کا قابل لحاظ ذخیرہ مرتب ہوا اور انہوں نے اس نقطہ نظر سے تنقید حدیث کے معیار پر بخشیں کیں.مختلف احادیث میں تطبیق اور توافق کے اصولوں کی وضاحت کی.تا ہم ان علماء کی کوششیں بھی ایک خاص دائرہ میں محمد و در ہیں.ووافقہ حنفی کی تائید کے دائرہ سے باہر نہ نکل سکے اور اس نقطہ نظر سے آزادی اجتہاد اور وسیع نظری کی طرف ان کا رویہ بھی سراسر منفی انداز کا تھا.بعض کلامی مسائل کے بارہ میں بانی مدرسہ دیوبند مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی علمی
تاریخ افکا را سلامی خدمات کا انکار ممکن نہیں.اس سلسلہ میں ان کی بصیرت قابل قدرادران کی نظر بڑی وسیع تھی.بہر حال دیوبندی گروه حنفیت کی تائید کی وجہ سے برصغیر کے عوام کے ساتھ ملا جلا رہا اور اس کی طرف سے اشاعت حدیث کی کوششیں بھی خاصی مقبول رہیں اور مدرسہ دیوبند کی مرکزیت کی وجہ سے اس کے اثر کو ایک حد تک ثبات ملا.ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تحریک علی گڑھ اور دیوبند کی تحریکات سے متاثر ہو کر اسی زمانہ میں ایک اورادارہ منصہ شہود پر ابھرا.یہ ادارہ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کی قیادت میں ندوۃ العلماء لکھنو کے نام سے مشہو ر ہوا.اس ادارہ کا دعوئی تھا کہ اس کے ذریعہ قدیم وجدید عقل و نقل دونوں اہلیتوں کے حامل علماء پیدا کئے جائیں گے تا کہ مغربی تہذیب کے طوفان کا مقابلہ کیا جا سکے لیکن چونکہ خود مولانا شبلی کا زیادہ تر رجحان ادب و تا ریخ کی طرف تھا اس لئے یہ ادارہ تاریخ وادب کی خدمت سے آگے نہ بڑھ سکا اور فکری اور عملی لحاظ سے وہ نتائج مرتب نہ ہو سکے جس کے حصول کا دعویٰ کیا گیا تھا.جماعت اسلامی مذکورہ با لاعلمی اور فکری تحریکات اور دوسرے فروغ پذیر فلسفہ ہائے زندگی خاص طور پر کمیونزم سے متاثر ہو کر برصغیر میں سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی جماعت اسلامی اور عرب ممالک خاص طور پر مصر میں الاخوان المسلمون کی تنظیموں نے جنم لیا.اخوان المسلمین کے قائد دراصل جماعت اسلامی سے ہی متاثر تھے.اس لئے یہ دونوں تنظیمیں اپنے فلسفہ اور طریق کار کے لحاظ سے ایک ہی تحریک کے دو رخ ہیں.برصغیر میں جماعت اسلامی کی تنظیم زیادہ تر اہل حدیث اور دیوبندی مکتبہ فکر کے افراد پر مشتمل ہے او رمذ ہب و سیاست کے نام پر قائم اس تنظیم کے اصل قائد ، بانی اور روح رواں سید ابوالاعلی صاحب مودودی تھے.مودودی صاحب نے اسلام کے نام پر بعض معاشی، اقتصادی اور سیاسی نظریات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا اور اپنے پر زور مضامین او را دب کی چاشنی لئے ہوئے مقالات کے ذریعہ مغربی تعلیم یافتہ افراد کے ایک حصہ کو خاصہ متاثر کیا لیکن مودودی صاحب کے نظریات و خیالات میں اتنا واضح تضاد ہے کہ اس کی کوئی صحیح تو جیہ ممکن نہیں.چنانچہ جب ان کے حسین نظریات نے عملی تشکیل پائی تو
تاریخ افکا را سلامی ۳۲۱ اس کی شکل وصورت اتنی بھیانک اور خوفناک سامنے آئی کہ مذہب کے نام پر خون دین کے نام پر بہتان، بیچ کے نام پر کذب وافتراء اور مقصد براری کے لئے ہر جائز و نا جائز ھر بہ تقاضہ مصلحت بن گیا اور بالکل وہی ہولناک شکل وصورت سامنے آئی جو کارل مارکس کے حسین معاشی نظریات کی عملی تشکیل کے سلسلہ میں لینن اور سٹالن نے دنیا کو دکھائی جس کی دہشت سے سارا عالم کانپ اٹھا.مودودی صاحب کے فکر و عمل کے بارہ میں یہ تبصرہ کتا بر محل اور صحیح ہے کہ سید مودودی صاحب جب خالص علمی اور فکری نقطۂ نظر سے لکھتے ہیں تو بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے وہ زور تحریر میں بڑے بڑے مفکرین کو پیچھے چھوڑ جائیں گے لیکن دوسرے دقت میں دو اتنی جامد او راتنی خشک ذہنیت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں کہ قدامت پسند تنگ نظر ملاؤں کی طرح پستی کی انتہا تک جا پہنچتے ہیں.اس تضاد کی وجہ غالبا یہ ہے کہ فکری اور علمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان میں حرص اور کبھی کی راہ کی طرف لے جانے والی تنظیمی صلاحیتیں بھی تھیں.اس اجتماع مدین نے اُن کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے.حرص اقتدار اور سیاسی تنظیم کے تقاضے بعض اوقات انہیں جادہ حق سے بھٹکا دیتے اور وہ ہر اُس ظلم و زیادتی اور بہتان تراشی کے لئے دینی جواز تلاش کر لیتے جن سے ان کے تنظیمی اور سیاسی مقاصد کو تقویت طلاق تھی اور حصول مقصد کی خاطر وہ ہر اُس راہ پر چل نکلنے میں کوئی باک یا بچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے جس کے خلاف وہ خود بڑی شدومد سے لکھ چکے ہوتے تھے." طوالت کے خوف سے مثالیں پیش کرنا مشکل ہے.اگر ان کی تحریرات اور ان کے نظریات اور ان کے تنظیمی اقدامات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو جگہ جگہ انتشار فکر اور تضاد عمل کے نمونے بکھرے پڑے نظر آئیں گے.۱۹۴۵ء سے پہلے کے ان کے افکار اور پاکستان بننے کے بعد کے ارشادات تضاد بیانی کے نادر نمونے پیش کریں گے.اسی طرح بمطابق الوَلَدُ سِر لابيه....مودودی صاحب کی تربیت یافتہ جماعت اسلامی کی موجودہ سرگرمیوں سے بھی اس قسم کے عملی اور فکری تضادات کے واضح نشان مل سکتے ہیں.دیدہ حق بین کی ضرورت ہے.
تاریخ افکا را سلامی بریلوی مسلک ۳۳۳ جہاں تک عوامی تو ہم پرستی اور اندھی عقیدت کا تعلق ہے یہ مرض بہت پرانا ہے.بت پرستی اسی تو ہم پرستی کی شاخ ہے.یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نبی نے خدا کی طرف سے مبعوث ہونے کا دعوی کیا عوام کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کا یہ انداز سامنے آیا کہ ہماری طرح کے ایک انسان کو یہ مقام کیسے حاصل ہو سکتا ہے.نبی کو تو ایک مافوق البشر آسمانی ہستی ہونا چاہیے جس کی طاقتیں لامحدود ہوں.پھر آہستہ آہستہ اس نبی کی صداقت کھلتی جاتی ہے.اُس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے.اُس کا تقدس دلوں میں گھر کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک زمانہ گزرنے کے بعد اسی نبی کے ماننے والے عوام جسے شروع میں ایک عام انسان سمجھ کر رو کر دیا گیا تھا اُسے مافوق البشر طاقتوں کا مالک سمجھنے لگتے ہیں اور اُن میں وہی جاہلانہ خیالات سرایت کر جاتے ہیں اور وہ اپنے اس نبی کے بارہ میں لا ہوتی تصورات کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کا یہ نبی الہی طاقتوں کا مالک ہے.وہ خدا سے سب کچھ منوا لینے کا اختیار رکھتا ہے.روحانی تنزل تہذہبی گراوٹ اور سیاسی زوال اور عملی تعامل کے بعد جبکہ قوائے عملیہ کمزور پڑ جاتے ہیں اور تن آسانی اور تمناؤں کی بیماری قبضہ جمالیتی ہے تو عوام تو عوام علماء کہلانے والے بھی انہی جاہلانہ لاہوتی تصورات میں کھو جاتے ہیں، چنانچہ بعض مفاد پرست دینی رہنماؤں نے اس صورت حال سے خوب فائدہ اُٹھایا اور مسلم عوام کے لئے ایسے جاہلانہ خیالات کو دین کا حصہ بنا دیا جن کا کتاب وسنت میں نشان تک نہیں ملتا.اس طرح تو ہم پرستی اور اندھی عقیدت نے عالمگیر وبا کی صورت اختیار کرلی اور ہر علاقہ کے مسلم عوام الا ماشاء اللہ اس وہی مرض کے شکار ہو گئے.بر صغیر ہند و پاک میں ان غیر اسلامی جاہلانہ تصورات نے بریلی کے ایک بزرگ مولانا سید احمد رضا خان صاحب (ولادت ۱۸۵۶ء) کے ذریعہ خوب فروغ پایا.اسی وجہ سے ان علاقوں میں اس قسم کا مسلک رکھنے والے عوام پر میلوی کے نام سے مشہور ہیں اور بر صغیر کے خانقاہی سلسلے بھی زیادہ تر انہی نظریات سے منسلک ہو گئے ہیں اور سواد اعظم یعنی سینیوں کی غالب اکثریت کی قیادت کے دعوے دار بن کر سامنے آئے ہیں.بہر حال بریلوی علماء اور خانقاہی صوفیا ء ایک عرصہ سے مندرجہ ذیل عقائد و رسوم کی نشر و اشاعت میں سرگرم عمل ہیں.33
تاریخ افکا را سلامی FFF رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مافوق البشر طاقتوں کے مالک ہیں.آپ نور محض ہیں.آپ نورسے پیدا ہوئے جبکہ دوسرے لوگ مٹی سے پیدا ہوئے.آپ کا سایہ نہیں تھا.آپ کے پسینہ میں عطر کی سی خوشبو تھی.آپ کی نظیر ممکن نہیں.آپ عالم الغیب ہیں.خدا تعالیٰ کے علم اور آپ کے علم میں صرف اتنافرق ہے کہ خدا کا علم ذاتی ہے اور آپ کا علم خدا کا عطا کردہ، ورنہ کمیت و کیفیت کے لحاظ سے دونوں کے علم میں کوئی فرق نہیں.آپ حاضر وناظر ہیں.سب جگہ موجود اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں آپ لوگوں کی پکار کو سنتے ہیں اور ان کی مدد کو پہنچتے ہیں.میلاد کی مجالس میں جب درود و سلام پڑھا جاتا ہے تو آپ خصوصیت کے ساتھ اس مجلس میں رونق افروز ہونے کے لئے تشریف لے آتے ہیں اس لئے آپ کی پیشوائی اور احترام کے لئے سب حاضرین مجلس کو کھڑے ہو جانا چاہیے.آپ فوت نہیں ہوئے.آپ کے فوت ہو جانے کے صرف اسی قدر معنے ہیں کہ آپ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں ورنہ حیات جسمانی کے لحاظ سے آپ پہلے کی طرح زندہ ہیں.بارہ ربیع الاول کو عید میلا داور ستائیں رجب المرجب کو معراج شریف کی تقریبات بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہیں.اسی طرح دوسرے مشہور اولیاء اللہ کے محرس بھی بڑے زورو شور سے منائے جاتے ہیں.اولیاء کی کرامات بے حد و حساب ہیں.فوت اعظم حضرت سید عبد القادر جیلانی " بڑی غوث پہنچ والے بزرگ ہیں.وہ خدا سے سب کچھ منوا سکتے ہیں.يَا شَيْخُ عَبْدَ الْقَادِرُ جِيَّلا نِي شَيْئًا لِلَّهِ کے ورد سے سب حاجتیں پوری ہو جاتی ہیں.آپ کی گیارھویں دینے میں بڑی ہر کات مضمر ہیں.دوسرے بزرگ بھی بڑی طاقتوں کے مالک ہوتے ہیں.وہ بے اولادوں کو او لا د عطا کرتے ہیں.بے وسیلوں کا وسیلہ ہیں.بے روزگاروں کے کارساز اور ان کے حاجت روا ہیں.اس لئے ان کی چوکھٹ پر حاضری دیتا، ان کے مزارات پر سلام کے لئے جانا ، ان کو پکارنا ، ان کے وسیلہ سے دُعائیں کرنا ، اُن کے مزارات پر چلہ کشی کرنا یہ سب کام وصال الہی کا ذریعہ اور نجات ابدی کی کلید ہیں.اسی طرح نماز میں تصور شیخ، روحانی ترقی اور قبولیت عبادت کا باعث ہے یا قبر پر سجدۂ تعظیمی میں کوئی حرج نہیں اور نہ یہ شرک ہے.اسی عقیدہ کے رد عمل کے طور پر بعض دیوبندی علماء یہاں تک کہہ گئے کہ نماز میں گدھے کا تصور مفسد نماز نہیں لیکن کسی پیر یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصور سے نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ نماز میں تعظیم غیر مفسد صلوٰۃ ہے.
تاریخ افکا را سلامی بریلوی حضرات، فاتحہ خوانی محل ، چہلم، ختم قرآن مجید ، نذرو نیاز اور مزارات پر طرح طرح کے چڑھاوے چڑھانے پر بھی بہت زور دیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب نام مبارک لیا جائے تو دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگانے کو ادب و ثواب سمجھتے ہیں.اسی طرح اذان و نماز کے بعد ذکر جہری اور آج کل اس کے لئے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کے دلدادہ اور اسے اپنا دینی حق سمجھتے ہیں.غرض بُت پرست تو میں جو کچھ اپنے بتوں کے استھانوں پر کرتی ہیں وہی کچھ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی مزارات پر کرتے ہیں.روح ایک ہے، صرف نام اور انداز میں فرق ہے یعنی بزرگوں کے بتوں، مجسموں اور ان کی یادگاروں کے سامنے اگر یہ کام کئے جائیں تو یہ شرک ہے لیکن اگر یہی کام مزارات اور خانقاہوں میں سرانجام دیئے جائیں تو عین اسلام ہے.
تاریخ افکارا سلامی ۳۲۵ مسلمانوں کی سیاسی بحالی سے متعلق تحریکات جن استعماری طاقتوں کے ہاتھوں عالمگیر مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا ان کی دو قسمیں ہیں.تغلب او ر آمریت پسند طبیعت رکھنے والی استعماری طاقتیں جیسے روسی طاقت یا بعض اور آمریت پسند حکومتیں، قانون پسند طبیعت رکھنے والی استعماری طاقتیں جیسے بر طانیہ، فرانس اور امریکہ وغیرہ.پہلی قسم کی طاقت نے جن اسلامی حصوں پر تسلط جمایا.جیسے روسی ترکستان، منگولیا اور چین کے بعض مسلم علاقے ، وہاں مذہبی آزادی کی کوئی تحریک آج تک پنپ نہیں سکی اس لئے ان علاقوں میں کسی مسلم قیادت کے ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اصلاح امت کی کسی تحریک کا وہاں نام ونشان ملتا ہے.دوسری قسم کی استعماری طاقتوں کے تسلط میں رہنے والے مسلمانوں میں سیاسی تحریکات اٹھیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے فروغ حاصل کیا لیکن ان تحریکات کا رجحان چونکہ سر تا سر منفی انداز کا تھا.سارا زور استعماری طاقت کے خلاف نفرت پیدا کرنے پر صرف کیا گیا یہاں تک کہ جوش مخالفت میں قومی علمی اداروں کو نقصان تک پہنچایا گیا.لوگوں سے سول ملازمتیں چھٹر وائی گئیں کو یا ان کے مالی وسائل کو تباہ کیا گیا.تحریک سول نافرمانی اور تحریک ہجرت میں مسلم عوام سے یہی کچھ کروایا گیا جبکہ ہند و برادران وطن کا ہر قدم قوم کے وسائل بہبود کی طرف اٹھتا تھا.اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اُن قومی نقائص اور عیوب کے دور کرنے کے سلسلہ میں کوئی تعمیری کارنامہ سرانجام نہ دیا جاسکا جو مسلم زوال کا اصل باعث تھے.نہ قومی اخلاق کی تعمیر کے طاقتور ادارے قائم ہوئے ، نہ نئے علوم کے فروغ کے بصیرت افرو زمرکز اُبھرے، نہ اقتصادی حالات درست کرنے کی طرف کوئی مضبوط قدم اُٹھا، نہ قومی نظم و نسق اور اجتماعی تنظیم و تربیت کی جاندار کوششیں ہو سکیں اور نہ ایثارو قربانی کے تسلسل اور بے غرضی اور بے نفسی کے تعہد کے لئے قوم کو کوئی سبق ملا.اس صورت حال کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ جاندار سیاسی تحریکات کے نتیجہ میں آزادی تو بے شک مل گئی ، غیر ملکی استعمار کا خاتمہ تو ہوا لیکن تشکیل حکومت کے اصولوں اور ووٹ کے استعمال کرنے کی قدرو قیمت سے عوام چونکہ نا واقف تھے اس لئے جمہوری ذرائع کے طفیل آزادی حاصل کرنے کے باوجود جمہوریت کی افادیت کو بھلا دیا گیا اور مسلم معاشرہ بدیہی حکومت کے تسلط سے نکل کر دیسی مناد پرستوں اور انارکی کے دلدا وہ خود غرضوں کے چنگل میں پھنس کر رہ گیا.جنہیں نہ حکومت کے اصولوں
تاریخ افکارا سلامی FN سے کچھ واسطہ ہے اور نہ عدل عمرانی اور جمہوری اقدار سے کوئی تعلق.وہ اپنے مفاد اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ہر ظلم روا ر کھتے ہیں اور اپنے اقتدار کو استحکام اور دوام بخشنے کے لئے کسی حربہ کو کام میں لانے سے نہیں چوکتے.نام جمہوریت کا لیتے ہیں اور رویہ پرلے درجہ کی ظالمانہ آمریت کا اپناتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی پہلے سے بھی زیادہ دکھی ہے اور بے رحم آمریت کے چنگل میں پھنس کر رہ گیا ہے.فروغ علم و فن ترقی صنعت و حرفت، اقتصادی بحالی اور قومی اتحاد کا جذ بہ تو دور کی بات ہے عام پبلک تو اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہے اور ہر قسم کے استحصال کا شکار بنی ہوئی ہے.موازنہ کر کے دیکھئے جاپان جنگ میں ہار گیا مغربی جرمنی تباہ ہوا لیکن چند سالوں میں ہی اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے دونوں ملک فاتح اقوام کو بھی مات دینے لگے.اس کے بالمقابل افغانستان شروع سے آزاد رہا.سعودی عرب کسی بدیسی حکومت کے زیر فرمان نہیں رہا.ترکی اور ایران بھی بڑی حد تک خود مختار رہے لیکن کسی ملک نے نہ علم وفن میں کوئی مقام پیدا کیا اور نہ صنعت وحرفت میں کوئی نام حاصل کر سکا.یہی حال دوسرے آزاد ہونے والے مسلم ممالک کا ہے غور فر مائے کیا بلحاظ علم وفن ، کیا بلحاظ صنعت و حرفت اور کیا بلحاظ اقتصاد و معاش اقوام عالم میں کسی مسلم ملک کا کوئی مقام ہے؟ حالانکہ جہاں تک مالی وسائل کا تعلق ہے کئی مسلم ممالک اس دولت سے مالا مال ہیں لیکن اپنی بے تدبیریوں اور عیش پرستیوں کے ہاتھوں خود اپنے وسائل سے محروم ہیں اور دوسرے ان کے وسائل سے ترقیات حاصل کر رہے ہیں اور خود مسلم ممالک یا تو اپنی دولت عیش پرستیوں میں تباہ کر رہے ہیں یا پھر آپس کی دشمنیوں اور جنگوں میں غارت کر رہے ہیں اور آزاد ہونے کے باوجود نہ انہیں عالم اسلام کے زوال کی فکر ہے اور نہ دین کے مصائب کی.کمپ پیٹ کے دھندوں سے مسلم کو بھلا فرصت ہے دین کی کیا حالت یہ اُس کی بلا جانے کب جو جاننے کی باتیں تھیں ان کو بھلایا ہے جب پوچھیں سب کیا ہے کہتے ہیں خدا جانے ( کلام محمود ) اور ان کا حال ایک مدت سے غالب کے اس شعر کے مطابق ہے چلتا ہوں تھوڑی دُور ہراک تیز رو کے ساتھ پہنچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
تاریخ افکارا سلامی ۳۲۷ تین عظیم الشان موعود ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اُس کی چاروں طرف روندھا اور اس کے بیچ میں حوض کھود کے کول ہو گاڑا اور برج بنایا اور باغبانوں کو سونپ کے آپ پر دلیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لاویں پر باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کو بیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھراؤ کیا.پھر اُس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا.انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا.آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے وہیں گے لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا، آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آؤا سے مارڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اُسے پکڑ کے اور انگورستان سے باہر لے جا کر قتل کیا.جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ وے اسے بولے ان بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونچے گا جوا سے موسم پر میوہ پہنچا ویں لے.جب سے دنیا میں تمدن اور مل جل کر رہنے کا آغاز ہوا ہے اُس وقت سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت چلی آرہی ہے کہ زمین میں جب ظلم وجور کا دور دورہ ہوتا ہے اور فساد غالب آجاتا ہے، تو ازن زندگی بگڑ جاتا ہے تو اللہ تعالی انسانیت کو بچانے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لئے اپنی طرف سے ہادی اور مرسل بھیجتا ہے حضرت آدم سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک ارسال رسل کے اس سلسلہ کو دنیا کا اکثر حصہ تسلیم کرتا ہے.سوال یہ ہے کہ جس گناہ اور فساد کی روک تھام کے لئے یہ سلسلہ جاری ہوا کیا وہ گناہ اور فساداب ختم ہو گئے ہیں؟ قریباً تمام آسمانی کتب اس قسم کے گناہوں کی تفاصیل سے بھری پڑی ہیں جن کی وجہ سے بعثت انبیاء و مصلحین ہوئی اور اب بھی گنا ہوں اور فسادوں کے ایسے دور آتے رہتے ہیں اور سینکڑوں ایسی انسانیت سوز خرابیاں متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۱
تاریخ افکا را سلامی ۳۲۸ گھراؤ کئے ہوئے ہیں جن سے معاشرہ کا امن وامان تباہ ہو جاتا ہے اور دنیا الامان الحفیظ پکا راٹھتی ہے یہی حالات ہوتے ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالی کی طرف سے مامور اور مرسل آتے ہیں جو تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کے ذریعہ بھکی ہوئی روحوں کو سیدھی اور کامیاب زندگی کی راہ دکھانے کا عملی فریضہ سرانجام دیتے ہیں.ان مرسلین اور مصلحین میں سے بعض " خاص اور معین وجودوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے خوشخبری دینے کی سنت الہی بھی تمام آسمانی مذاہب میں مسلم چلی آتی ہے یعنی آسمان سے یہ خبر دی جاتی ہے کہ فلاں وقت اور ان علامتوں کے ساتھ ایک عظیم مصلح آئے گا جو دنیا کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دے گا.اس الہی سنت کے بالمقابل گمراہ اور مریض دنیا کا طرز عمل ہمیشہ یہ رہا کہ جب بھی کوئی ایسا عظیم موعودہا دی اپنے صدق کی علامات کے ساتھ آیا دنیا کے ایسے عناصر نے اُس کا انکارکیا اور اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اُس کے ساتھ تکبر اور استہزاء، استعلاء اور افتراء کا معاملہ کیا.ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ کسی پیشگوئی میں تمثیل اور استعارہ غیب اور خفا کی جو آمیزش ہوتی ہے اُسے یہ لوگ سمجھ نہیں سکتے اور اس پیشگوئی کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اُس کے غلط معے سمجھتے ہیں اور پھر اس غلط روش پر اصرار کی وجہ سے قبول حق سے محروم ہو جاتے ہیں.دنیا کا قدیم ترین مذہب ہندومت ہے.اس مذہب کے ہادی حضرت کرشن مہاراج لے کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب جب کل جنگ کا دور ہوگا اور دنیا میں انتہائی پستی اور گراوٹ پیدا ہوگی تب تب وہ اس پاپ کو دور کرنے کے لئے پھر سے جنم لیں گے اور اس دنیا میں واپس آئیں گئے تھے.لیکن با وجود اس واضح پیشگوئی کے ہندو آج تک کسی عظیم بادی کو کرشن کا اوتار نہ مان سکے کیونکہ اوتار" کا جو تصور ہندوؤں نے اپنے ہاں اپنا یا اُن کے اس تصور کے مطابق کوئی ظہور کرشن لا كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيُّ أَسْوَدَ اللَّوْنِ اسْمُهُ كَاهن لملفوظات جلده ۱ صفحه ۱۳۳ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ تاریخ ہمدان دیلمی، باب الکاف ( نوٹ ) اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ حیدرآباد دکن کے کتب خانہ میں موجود ہے.گیتا ادھیائے نمبر ۴ شلوک نمبر۷ ۸۰
تاریخ افکا را سلامی ٣٢٩ کے معیار کا انہیں نظر نہ آیا اور اسی وجہ سے وہ کرشن مہاراج کے بعد ہر آنے والے عظیم مصلح کو ماننے کی سعادت سے محروم ہو گئے.یہی حال دنیا کے دوسرے قدیم مذاہب مثلا مجوسیت اور بدھ مت وغیرہ کے ماننے والوں کا ہے.اُن کے ہاں بھی مصلحین کے آنے کی پیشگوئیاں ہیں لیکن ان پیشگوئیوں کے بارہ میں جو تصور ان کا قائم ہوا اُس کے عین مطابق وہ کسی عظیم ہادی کو نہ پا کر اُس کے صدق کے منکر ہو گئے.یہودیت، عیسائیت اور اسلام تاریخی اور روایتی لحاظ سے زیادہ محفوظ مذاہب ہیں اور ان میں اس قسم کی پیشگوئیاں بکثرت ہیں جن میں کسی عظیم موعود اور مصلح کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور ان کی تفصیلات کا معلوم کرنا نسبتا زیادہ آسان بھی ہے اس لئے ان پیشگوئیوں کی حقیقت جاننے کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے لیکن ضد اور ہٹ دھرمی اب بھی پیچھا نہیں چھوڑتی.بائیل میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا.میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے پر تا روں اور سمندر کے کناروں کی ریت کی مانند کر دوں گا اور تیری اولا داپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب تو میں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی ملے.اس پیشگوئی کی تفصیل کے دو حصے ہیں.ایک حصہ کا تعلق حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت الحق کے ساتھ ہے جس کے صدق، جس کی عظمت اور برکت کے یہودی اور عیسائی اب بھی قائل ہیں اور اس کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے ہیں.اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ کا تعلق حضرت ابرا ہیم کے بڑے بیٹے حضرت اسمعیل کے ساتھ ہے جس کی وضاحت بائبل نے اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابرا ہیم کو مخاطب کر کے فرمایا.”اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری سنی.دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے یرومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھاؤں گا.اور میں اُسے ایک بڑی قوم بناؤں گا تے تا ہم یہودی اور عیسائی پیشگوئی کے اس حصہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور باوجوداس کے واضح پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۸۰۱۷ پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰
تاریخ افکا را سلامی ہونے کے محض تعصب اور ضد ہو تیلا پن اور کینہ پروری کی وجہ سے نہ وہ حضرت اسماعیل کی عظمت کے قائل ہیں اور نہ ان کی نسل کی کوئی قدر کرتے ہیں بلکہ طرح طرح کی تاویلیں کر کے حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں.یہ تو تکبر استعلا اور انکار کی ایک مثال ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو سینکڑوں ایسی مثالیں مل جائیں گی جن میں حق کے طالبوں کے لئے بڑی عبرت کے سامان ہیں تا ہم اس وقت تین خاص عظیم مصلحین اور ہادیوں کا کسی قدر تفصیلی ذکر ہمارے مدنظر ہے.ان میں سے پہلے عظیم موعود حضرت عیسی بن مریم ہیں جن کی آمد کے بارہ میں بائبل کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں مثلاً لکھا ہے.’اے بنت حیون تو نہا بیت شادمان ہو، اے دختر یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا با دشاہ تیرے پاس آتا ہے.وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے.وہ حلیم ہے وہ گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے.وہ قوموں کو صلح کا مشر دہ دے گا اور اُس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے انتہائے زمین تک ہو گی لے.پھر لکھا ہے.اُس روز گناہ اور نا پا کی دھونے کو داؤد کے گھرانے اور میر و علیم کے باشندوں کے لئے ایک سونا پھوٹا نکلے گا.ایک اور جگہ لکھا ہے کے ساتھ ہوا کے کی کےدرمیان اُس کی قبر شریروں کے درمیان ٹھرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں علاوہ ازیں بائبل کے بیان کے مطابق اس عظیم وجود کے لئے ایک اور بڑا نشان مقرر ہوا اور وہ یہ کہ اُس موعود کے آنے سے پیشتر ایلیا نبی نازل ہو گا جو رتھ سمیت آسمان پر چلا گیا تھا گئے زکریاہ باب ۹ آیت ۱۰۰۹ متی باب ۲۱ آیت ۵ زکریا هاب ۱۳ آیت ۱ س سعیا میا ب ۵۳ آیت ۹ ۴ ۲ - سلاطین باب ۲ آیت ا ایلیا و بگولے میں ہو کر آسمان پر جاتا رہا
تاریخ افکارا سلامی وہ آکر اس موعود کے لئے راہ ہموار کرے گا چنانچہ لکھا ہے.دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے کے پیشتر میں ایلیا (الیاس ) نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا مبادا میں آؤں اور زمین کو ملعون کروں ملے ان واضح پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے بھی جب وہ موعود آیا اکثر یہودیوں نے اُسے پہچاننے سے انکار کر دیا کیونکہ انسانی طبیعت ہمیشہ مجو به پسند رہی ہے.سادہ سی بات کو بھی افسانہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے.سواسی کے مطابق آنے والے مسیح کے بارہ میں بھی یہودیوں نے عجیب و غریب تصورات اپنا ر کھے تھے مثلاً وہ سمجھنے لگے تھے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا نبی خود آسمان سے نازل ہوگا اور مسیح کی تصدیق کرے گا.اسی طرح مسیح کی زیر دست روحانی قوت کے مقابلہ میں دشمن آناً فاناً تباہ اور بر باد ہو جائے گا اور یہودیوں کو بیٹھے بٹھائے بادشاہی مل جائے گی اور مسیح ان کا بادشاہ بن کر ساری دنیا پر حکومت کرے گا اور آن کی آن میں اُن کی بگڑی بنا دے گا.خود یہودیوں کو نہ کوئی قربانی دینی پڑے گی اور نہ کسی قسم کی جد و جہد کی ان کو ضرورت ہوگی اور بلا کسی محنت کے دنیا بھر کی نعمتیں ان کی جھولی میں آگریں گی لیکن جب مسیح ان کے ان غلط تصورات کے بر عکس آیا اور اُس نے اپنے آپ کو اسرائیل کے لئے بطور نجات دہندہ پیش کیا تو یہودی مسیح کے اس دعوی کو سن کر سخت متعجب ہوئے اور بھر کر شدید مخالفت پر اتر آئے اور مسیح کو استہزاء کا نشانہ بنایا.کانٹوں کا تاج بنا کر ان کو پہنایا.ٹھٹھا کیا اور مخول کے رنگ میں ان کے پیچھے پیچھے جا کر نعرے لگانے لگے کہ لوگو! دیکھو یہ ہمارا با دشاہ آیا ہے.خود بیکس اور لاچار لیکن دعوی یہ کہ وہ ہمارے لئے طاقت کا سر چشمہ ہے.پاس نہ طاقت ہے اور نہ دولت اور آیا ہمیں حکومت دلانے اور دوانمند بنانے ہے اور نجات کا مثر وہ سنا رہا ہے.یہودیوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ اُس عظیم موعود سے پہلے ایلیا نبی نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح نے یہودیوں کے ان اعتراضات کے جواب میں فرمایا.اے نا سمجھو ! اگر تم ملا کی باب ۴ آیت ۵
تاریخ افکارا سلامی Fer میری مانو اور اطاعت کرو اور جو کچھ میں کہتا ہوں اُسے سنو تو اللہ تعالیٰ وہ تمہیں وہ ساری برکتیں دے گا جن کی تم آنے والے مسیح سے توقع رکھتے ہو اور جو قربانیاں ضروری ہیں انہیں میرے کہنے کے مطابق پیش کرو تو غیر معمولی حالات میں تمہیں دشمن پر وہ غلبہ بھی حاصل ہو گا جس کی مثال تم نے گزشتہ قوموں میں نہیں دیکھی ہوگی.رہا ایلیا نبی کا پہلے آنا اور آسمان سے نازل ہونا تو وہ ایک تمثیل ہے کیونکہ خود ایلیا نبی نے اپنے سابقہ وجود کے ساتھ آسمان سے نہیں اترنا وہ تو فوت ہو چکا ہے اس لئے اس کا آسمان سے نازل ہونا بطور تمثیل کے ہے جو یکی پتسمہ دینے والے کے روپ میں آگیا ہے.چنانچہ مسیح نے یہودیوں سے کہا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا پتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں.....چا ہوتو ما نو ، ایلیاہ جو آنے والا تھا وہ یہی ہے.جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے.پھر لکھا ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آپکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا ہے مقام غور ہے کہ آخر صحیح اور سچ کیا نکلا وہ جو یہودی کہتے تھے یا وہ جو مسیح نے کہا کیونکہ جو آنے والا تھا وہ تو عین وقت پر آیا.نثانوں کے ساتھ آیا لیکن یہودیوں نے اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی خود ساختہ تصورات کے مطابق نہ یا کر اُسے رد کر دیا اور اُس کو نیست و نابود کرنے کے در پے ہو گئے.آنے والا آ گیا اور سعادتمندوں اور سمجھداروں نے اُسے قبول بھی کر لیا اور برکتوں پر برکتیں پائیں گے لیکن یہودیوں کے ایک حصہ نے نہ مانا اور اپنے مزعومہ موعود کا انتظار کرتے رہے اور اب تک انتظار کر رہے ہیں اور بِحَبْلٍ مِّنَ النَّاس کے سہارے زندہ ہیں.متنی با با آیت ۱۱ تا ۱۵ متنی باب ۱۷ آیت ۱۲ سے ان برکتوں اور ناشکری کی صورت میں اس پر سزا کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ المآئدة کی آیت نمبر ۱۲ تا نمبر ۱۶ میں ہے.
تاریخ افکا را سلامی FFF دوسرے عظیم الشان موعود بلکه موعو دا قوام عالم سید ولد آدم حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ کے آنے کی پیشگوئی دنیا کے تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہے.تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں صرف بائبل کی بعض پیشگوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے.بنی اسرائیل کے شارع نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کروں گا او را پنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُن سے کہے گا تم اس کی سنتا جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا ملے پھر لکھا ہے مرد خدا موسیٰ نے جو دعائے خیر اپنی وفات کے وقت سے پہلے بنی اسرائیل کو بطور برکت دی وہ یہ ہے.خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی، ۲ حضرت سلیمان اس محبوب عالم " کی یوں خبر دیتے ہیں "میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.ہاں وہ محمد یم ہے..اے یروشلم کی بیٹیوا یہ میرا پیارا ہے.یہ میرا.L..جانی ہے.حضرت داؤد آپ کے حق میں اس طرح پیشگوئی بیان کرتے ہیں.وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا.یہ خداوند سے ہوا جو ہماری له استثنا باب ۱۸ آیت ۱۹:۱۸ ۲ استثنا باب ۳۳ آیت ۲ سے حضرت سلیمان نے اس پیشگوئی میں محمد یم" کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ عشق انگیز کیا ہے حالانکہ بینام ہے اور نام کا ترجمہ کرنا غلط ہے.غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶
تاریخ افکا را سلامی نظروں میں عجیب ہے، لے هم سمسم سلسلہ موسویہ کے آخری نبی اور عظیم موعود حضرت مسیح علیہ السلام آپ کی آمد کی یوں خبر دیتے ہیں.یشوع نے انہیں کہا ، کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک اور قوم کو جو اس کے میوے لاوے دی جائے گی ہے پھر ایک موقع پر مسیح نے کہا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار " ( تسلی دینے والا ) تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن میں جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا اسی تسلسل میں آپ مزید فرماتے ہیں.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گاوہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.زیور ۱۱۸ آیت ۲۳۰۲۲ متی باب ۲۲ آیت ۴۳۰۴۲ اس پیشگوئی کا شروع کا حصہ آغاز مضمون دیکھیں.سے پوچتا باب ۱۶ آیت ۷ تا ۱۴.یوحنا کی اس پیشگوئی کے ترجمہ میں لفظ " مددگار روح حق “ قابل غور ہیں.سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح نے اصل لفظ کیا بولا تھا جس کا ترجمہ مدد گار"یا " روح حق و غیرہ کیا گیا ہے.اگر صحیح اور اصل لفظ کا پتہ لگ سکے تو حقیقت کھل کر سامنے آسکتی ہے.یونانی انجیل یوحنا میں یہ لفظ پاراکلیوس (PARAKLE TOS PARACLE TUS) ہے جو انگریزی میں "پاراکلیٹ“ (PARACLE TE) بن گیا جس کا عربی تلفظ فارقلیط مروج ہوا لیکن یہ یونانی لفظ "PERICLYTOS“ ہے (پیر تعلیطس یا بر تقلیطس ) بھی ہو سکتا ہے جس کے معنے ” تعریف کیا گیا “ کے ہیں.اس طرح یہ گویا لفظ "محمد" کے ہم معنے ہے.بہر حال مسیح کا اصل لفظ سریانی زبان میں کیا تھا یہ سوال ابھی تشریہ جواب - سیرۃ ابن طعام میں سریانی لفظ منحمنا کوٹ کیا گیا ہے جو محمد کے ہم متنے ہے.(سيرة ابن هشام صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم)
تاریخ افکا را سلامی ۳۳۵ حضرت مسیح علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الصف میں اس طرح ہے.وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبنى إسراءيل إنّى رَسُولُ اللهِ إلَيْكُمُ مُصَدِقَا لِمَا بَينَ يَدَى مِنَ الثورية و مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ ياتي من بَعْدِي اسْمَةَ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِين اور یاد کرو جب عیسی بن مریم نے اپنی قوم سے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں تو رات میں جو باتیں میرے آنے سے پہلے بیان ہو چکی ہیں ان کو میں پورا کرنے والا ہوں اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا.پھر جب وہ رسول دلائل لے کر آ گیا تو وہ (بنی اسرائیل ) کہنے لگے.یہ تو کھلا کھلا جادو اور فریب ہے.بائبل کی یہ پیشگوئیاں کس قدر واضح ہیں لیکن ہوا وہی جو ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے کیونکہ جب وہ موعو دا قوام عالم آیا اور ساری علامات کے ساتھ آیا تو دنیا کے بڑے حصہ بالخصوص اہل کتاب نے اُس کا صاف انکار کر دیا حالانکہ اُن کی اپنی کتابیں اس آنے والے کی علامات سے بھری پڑی تھیں اور وہ اس کی آمد کے منتظر بھی تھے مگر اپنی غلط سوچ کی وجہ سے وہ اس کو نہ پہچان سکے اور ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے تاہم جس نے آنا تھا وہ تو آگیا اور بڑی شان سے آیا اور منکر آج تک اُس کا انتظار کر رہے ہیں بلکہ اب تو انتظار کرتے کرتے بڑی حد تک مایوس ہو چکے ہیں اور طرح طرح کی تا و پیلات اور تحریفات کے سہارے گریز کی راہیں تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ فرمودہ ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء میں بقیہ حاشیہ.(۲) بائبل کی ان پیشگوئیوں کی تشریح اور مزید پیشگوئیوں کی تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد اصفحہ ۳۷۰ زیر ایت مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ (البقرة : ۴۲) الصف: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونام میں ایک " محمد اور دوسرا احمد اگر چہ آپ کا نام محمد زیادہ مشہور ہے اور کلمہ میں بھی یہی نام استعمال ہوا ہے لیکن بمطابق قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام نے آپ کا دوسرا نام احمد " لیا ہے جس میں اہل فکر و دانش کے لئے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرْ؟
تاریخ افکارا سلامی FFY سورۃ الحجر کی آیات ۱۲ تا ۱۶ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :- سورۃ الحجر سے یہ چند آیات جو میں نے آج کے جمعہ کے لیے منتخب کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسول آئے اور وہ اُس سے استہزاء کا سلوک نہ کریں یا جب کبھی بھی اُن کے پاس کوئی رسول آتا ہے.وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ اُس سے تمسخر کرتے ہیں اور استہزاء کا سلوک کرتے ہیں.كذلِكَ تَلَكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ اسی طرح ہم مجرموں بهین کے دل میں یہ عادت داخل کر دیتے ہیں یعنی اُن کے مزاج میں، اُن کی عادات میں فطرت ثانیہ کی طرح یہ کبھی داخل ہو جاتی ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی آئے اُس کے ساتھ استہزاء کا سلوک کرنا ہے لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سنة الأولِينَ وہ ایمان نہیں لاتے.بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لاتے اور اُن کے لیے اور اس سے پہلے لوگوں کی سنت اور اُن کی تاریخ ایک نمونہ بن جاتی ہے یعنی اُس نمونے کے پیچھے چلنے والے ہیں.گویا وہی لوگ ہیں جو گزشتہ زمانوں میں اسی قسم کی حرکتیں کر چکے ہیں اور اب دوبارہ ظاہر ہوئے ہیں.تو اپنے سے پہلوں کی سنت پر عمل کرنے والے یہ لوگ ہیں اور اُس کے مقابل پر خدا کی بھی ایک سات ہے.اُس کا بھی یہیں ذکر ہے فرما یا قَدْ خَلَتْ سُنةُ الأَوَّلِينَ حالانکہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے پہلے اسی قسم کے لوگوں کے ساتھ خدا کی کیا سنت جاری ہوئی تھی اور ان دونوں سنتوں میں آپ کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.نہ ان بد کر دارلوگوں کی سنت میں تبدیلی دیکھیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے اُن کے جرموں کی وجہ سے ایک غلط طرز عمل اختیار کرنے پر پابند فرما دیا ہے.اُن کے دلوں میں جاگزین کر دی ہے یہ بات کہ تم اس لائق نہیں ہو کہ بچوں کو قبول کرو اس لیے تم جس حد تک تم سے ممکن ہے کج روی اختیار کرو.دوسری طرف سقة الاولین سے مراد وہ سنت ہے جو اؤلین کے بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی رہی ہے.جو اُن کے ساتھ خدا کا سلوک ہوتا رہا ہے.وہ اُن کی سنت بن گیا یعنی پہلے انکار کی سنت اور پھر ہلاکت اور
تاریخ افکا را سلامی ٣٣٧ تباہی کی سنت وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاء فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے اوپر اگر ہم آسمان سے دروازے بھی کھول لیں.ایسے دروازے جن پر یہ چڑھ سکیں اور خود آسمان کی بلندیوں پر جا کر سچائی کا مشاہدہ کریں اور نشانات کو دیکھ لیں قالُوا إِنَّمَا سُكْرَتْ اَبْصَارُ نا وہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مدہوش ہو گئی ہیں، ہماری آنکھوں کو نشہ چڑھ گیا ہے بَلْ نَحْنُ قَوْم مسحورُونَ ہم تو ایسی قوم ہیں جس پر جادو کر دیا گیا ہے.ان آیات میں دو مضامین بیان ہوئے ہیں.اگر چہ تسلسل ہے مضمون کا لیکن اس مضمون کو دوحصوں میں بیان فرمایا گیا ہے.پہلا یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے، خدا تعالی کی یہ تقدیر ہے کہ بعض لوگ لازماً اس کے بندوں سے اُس کے بھیجے ہوؤں سے استہزاء کا سلوک کرتے ہیں اور اُن کا یہ رویہ اُن کا مقدر بنا دیا جاتا ہے.ان کے دلوں میں یہ بات داخل کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُس سے ٹل نہیں سکتے ، اُن کے مقدر میں یہ بات لکھی جاتی ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ خود انبیاء کے منکرین کو استہزاء کا طریق سکھاتا ہے اور اُن کے دلوں میں یہ بات جما دیتا ہے نقش کر دیتا ہے کہ تمہیں بہر حال میرے بھیجے ہوؤں سے مذاق کرنا ہے اور استہزاء اور تمسخر کا سلوک کرنا ہے تو اُن کا پھر کیا قصور.لیکن اس سوال کا جواب اسی آیت میں اس کے آخری حصے میں بیان فرما دیا گیا فیت قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ ہم یہ نصیبہ مجرموں کا بناتے ہیں.اس سے ایک بات خوب کھل گئی کہ جب خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو بھیجا کرتا ہے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے تو دراصل وہ قوم مجموعی طور پر بحیثیت قوم مجرم ہو چکی ہوتی ہے.اُس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، استثناء بھی موجود ہوتے ہیں لیکن ایک بھاری تعداد اُس قوم میں جرم کرنے والوں کی ہوتی ہے.پس در اصل جرم کی سزا میں صداقت سے محرومی بھی شامل ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کو صداقت پہچاننے سے محروم کر دیا جاتا ہے.فرمایا وہ مجرم ہیں اور اس قسم کے مجرم ہیں کہ اُس جرم سے باز آنے والے نہیں.
تاریخ افکا را سلامی ۳۳۸ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ وہ صداقت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں.پس اسی وجہ سے و و صداقت سے محروم نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل پر نقش کر دیا ہے کہ تم لازماً صداقت کا انکار کرو گے بلکہ جرم کے نتیجے میں یہ اُن کو سزا ملتی ہے.چنانچہ اس مضمون کو خوب کھول دیا لا يؤمنون یہ وہ بھی بھی اس خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان نہیں لائیں گے وقد خَلَتْ سُنَّةُ الأَوَّلِينَ اور ان سے پہلے ایسے لوگوں کی سنت گزر چکی ہے.جو کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسلین اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان نہیں لائے اور اسی حالت میں وہ ہلاک ہو گئے.دوسرا پہلو وَ لَو فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ.بَابًا مِنَ السَّمَاءِ میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ان کا انکار اس وجہ سے نہیں کہ ان کو کوئی نشان نہیں دکھایا جاتا لیکن اس مضمون کے اس حصے کو میں بعد میں بیان کروں گا.پہلے اس پہلے حصے سے متعلق کچھ مزید باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا سنت میں دو پہلو ہیں.پہلوں کی سنت کیا ہے.وہ جو خود کرتے رہے تحقیر اور استہزاء اور تمسخر.یہ ایک ان کی سنت ہے اور ایک سنت وہ ہے جو خدا نے اُن پر جاری فرمائی اور وہ اُن کا بد انجام ہے.اس سے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات ہیں جو اس مضمون کو مختلف رنگ میں کھول کھول کر بیان فرما رہی ہیں جیسا کہ فرما یا قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُدَع وہی لفظ سنت ہے جس کی جمع استعمال فرمائی گئی یہاں فرمایا قد خَلَتْ مِن قبْلِكُمْ سَدَنٌ فَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبین لے اس سے پہلے تم سے پہلے لوگوں کی سات تمہارے سامنے گزر چکی ہے اور اس سنت کا ایک حصہ یعنی اُن کی کج روی ، اُن کی بغاوت ، اُن کا منفی یہ سب چیزیں تم پر روشن ہیں لیکن تم زمین پر پھر کے خوب سیر کر کے دیکھو تو سہی کہ اُن کی عاقبت کیسے ہوئی تھی.ان جھٹلانے والوں کا انجام کیا تھا.اس سات میں یہ دونوں با تیں داخل ہیں اُن کی بد اعمالی ، اُن کا انکار اور پھر اُن کا انجام.چنانچہ سنن کے تابع ان آل عمران: ۱۳۸
تاریخ افکا را سلامی ٣٣٩ دونوں مضامین کو قرآن کریم میں یہاں اکٹھا بیان فرما دیا ہے پھر فرمایا تقل سيروا في الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ قُ اے محمد ما مخاطب حضو را کرم ہیں.محمد کا نام تو ظاہر نہیں فرمایا گیا لیکن مراد یہی ہے کہ اے میرے رسول تو اُن سے کہہ دے، ان کو پیغام پہنچا دے سِيرُ وافي الْأَرْضِ وہ خوب زمین میں سیر کریں اور پھر کر سیاحت کر کے پرانی قوموں کے انجام کا مشاہدہ کریں ثُمَّ انظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ پھر یہ دیکھیں سمجھیں کہ اس سے پہلے تکذیب کرنے والے جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا تھا پھر فرمایا - وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ سُولًا أَنِ اعْبُدُ اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللهِ وَ مِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ المللة فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظروا كيف كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ کہ ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث فرمائے تھے اور ان کو یہ پیغام دیا تھا آنِ اعْبُدُوا الله وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو یعنی شیطانی طاقتوں سے الگ رہو فَمِنْهُمْ مِّنْ هَدَى اللَّهُ اُن میں سے بعض وہ تھے جن کو خدا نے ہدایت عطا فرمائی وَ مِنْهُم مِّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الللہ ایسے بھی تھے اُن میں جن پر گمراہی مقدر کر دی گئی جن کا مقدر ہو گئی گمراہی.حقت کا مطلب ہے لازم ہو گئی.ایسی تقدیر بن گئی جسے ٹالا نہیں جا سکتا.فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ پس خوب زمین میں پھر کے سیاحت کر کے دیکھو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہے یا کیا انجام تھا.پھر بیان فرمایا فَوَيْلٌ يَوْمَذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ پر آج کے دن ہلاکت ہے سب جھٹلانے والوں کے لیے آلذينَ هُمْ فِي خَوْسِ يَلْعَبُونَ " وہ جو اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹک رہے ہیں.اس مضمون کو بیان کرنے کے لیے آج میری توجہ ایک رڈیا کے ذریعہ مبذول الانعام :١٢ النحل :٣٧ ٣ الطور : ١٣
تاریخ افکا را سلامی کراوئی گئی ہے.رات میں نے رویا میں دیکھا کہ کچھا نگر یز احمدی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک مجھ سے سوال کرتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی تحریر کا جو آپ نے ترجمہ کیا ہے وہ مجھے درست معلوم نہیں ہوتا اور وہ تر جمہ یہ بیان کرتا ہے.انگریزی کا ایک محاورہ ہے history repeats itself کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے.اُس ترجمے میں اس محاورے کا پہلا حصہ استعمال کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرا نتیجہ نکالا ہوا ہے.اردو میں بھی یہی ہے اور ترجمہ میں بھی یہی ہے کہ اُن کے الفاظ اس قسم کے ہیں ) تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے اور خدا تعالیٰ مجرموں کو ضرور سزا دیتا ہے.چنانچہ اس کا خواب میں مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں نے ترجمہ کیا ہے کہ History repeats itself اور آگے مجھے یاد نہیں کہ الفاظ کیا تھے لیکن Punishment کے لفظ تھے یا کوئی اور لفظ تھے لیکن مضمون یہی تھا.اس لیے چونکہ خواب کے انگریزی الفاظ یا د نہیں میں اس کو چھوڑتا ہوں لیکن بعینہ اس مضمون کو میں نے انگریزی میں بیان کیا یعنی اُس کے نزدیک میری تحریر میں یہ بات تھی.وہ کہتا تھا History repeats کا یہ مطلب تو نہیں ہے.یعنی اعتراض یہ تھا کہ تم نے History repeats کا دوسرا معنی کر دیا ہے حالانکہ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے.کچھ دوسرے انگریز احمدی ہیں وہ میری تائید میں بولتے ہیں.وہ کہتے ہیں نہیں بالکل صحیح ہے، اس موقع پر یہی محاورہ استعمال ہونا چاہئے تھا.پھر میں اُس کو سمجھاتا ہوں اور میں اُسے کہتا ہوں دیکھو تم لوگوں کا جو دنیا وی محاورہ ہے وہ در حقیقت ایک سطحی بات تھی.اس میں فی الحقیقت کوئی بھی ٹھوس مضمون بیان نہیں ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں ابہام پیدا کر دیا گیا ہے.بہت سے لوگ اس محاورہ کو سنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ گویا تاریخ بعینہ دوبارہ اپنے آپ کو دہراتی چلی جاتی ہے کوئی نئے نقوش دنیا میں ظاہر ہی نہیں ہوتے.ہمیشہ وہی چکر ہے جو اپنے آپ کو دوبارہ ظاہر کرتا چلا جاتا ہے.
تاریخ افکا را سلامی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس محاورے میں جان ڈال دی ہے یہ متوجہ فرما کر کہ تاریخ اس طرح دہرایا کرتی ہے کہ خدا کی کچھ سنتیں ہیں جن میں تم کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے اور بد کرداروں اور مجرموں کے حق میں وہ سنتیں اس طرح ظاہر ہوا کرتی ہیں.اس لیے اس story کو تم کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکتے یہ بہر حال اپنے آپ کو دہرائے گی.تو میں دیکھتا ہوں وہ جو تائید میں بولنے والے تھے ان کے چہرے بشاشت میں کھلکھلا اٹھتے ہیں کہ ہاں اب سمجھ آئی کہ یہ مضمون کیا ہے اور جن کی طرف جو ایک صاحب اعتراض کر رہے تھے ان کے اند ربھی اعتراض میں گستاخی نہیں تھی بلکہ ایک پوچھنے کا رنگ تھا.اُن کے چہرے پر اس طرح بثا شت تو نہیں آئی لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات سمجھ گئے ہیں.اس رویا سے مجھے خیال آیا کہ اس مضمون کے متعلق میں آج آپ کے سامنے کچھ بیان کروں اور آپ کو دعا کی طرف متوجہ کروں کیونکہ یہ بہت انذاری رؤیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو آج ہم مخاطب کر رہے ہیں ، جس کو ہم نے مباہلے کی دعوت دی ہے بد قسمتی سے اُن کے مقدر میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا دن دیکھنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اس طرح میرے ذریعے پیغام نہ دیتا History repeats itself اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے، مجرموں کو خدا ضرور سزا دے گا.اس لیے وہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں یہ وہی تاریخ ہے جو دہرائی جارہی ہے جس کا ذکر خدا تعالی قرآن کریم میں بار بار ذکر فرماتا ہے فَسِيرُ وا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ اور تم خوب دنیا میں سیاحت کرو اور گھوم پھر کے دیکھو.تم دیکھو گے کہ مکذبین کی عاقبت اُن کا انجام بہت برا ہے.گیف میں یہ نہیں فرمایا کہ ہمرا ہے مگر جب ایک چیز بہت ہی زیادہ درجے تک پہنچ جائے تو وہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑا کرتی کے برا ہے یا اچھا ہے لفظ گیف ہی بتا دیتا ہے کہ دیکھو دیکھو کیسا اُن کا انجام ہے.پس جب بڑی حد کو پہنچ جائے تو اس
تاریخ افکا را سلامی کے لیے لفظ گیف ہی استعمال ہوگا اور جب کوئی خوبی حد کو پہنچ جائے تو اُس کے لیے بھی لفظ کیف ہی استعمال ہوگا لیکن دوسری آیت جو الطور کی ہے اُس نے اس مضمون کو اور بھی کھول دیا.بیان فرمایا.فويل يَوْمَيذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ہلاکت ہے اس دن اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے تکذیب کی راہ اختیار کی ہے.ان آیات پر غور کرتے ہوئے انسان کا ذہن اس طرف بھی منتقل ہوتا ہے کہ سارے قرآن میں کہیں مومنین کے لیے ہلاکت کا ذکر نہیں آیا خواہ وہ غلط ہی ایمان لانے والے ہوں.ڈرایا گیا ہے مکڈ مین کو اُن کی تکذیب سے اور کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دیکھو غلطی سے فلاں لوگ ایمان لے آئے تھے ہم نے اُن کو ہلاک کر دیا ہے.غلطی سے وہ لوگ ایک جھوٹے کو سچا سمجھ بیٹھے تھے ہم نے اُن کو تباہ کر دیا ہے.سارے قرآن میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جس میں خدا تعالیٰ نے اس صورت حال سے متنبہ فرمایا ہو کہ دیکھو فلاں قوم نے غلطی سے ایک ایسے شخص کو قبول کر لیا تھا جس کو میں + نے نہیں بھیجا تھا اور دیکھو وہ کس طرح ہلاک کئے گئے اور کس طرح تباہ کئے گئے.یہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی شان ہے ایمان لانے والا اگر بچے دل سے ایمان لاتا ہے تو اس کے لیے کوئی خوف نہیں اور کوئی ہلاکت نہیں لیکن تکذیب کرنے والے کے لیے ہلاکتیں ہیں اور متعدد بار ان ہلاکتوں کا قرآنِ کریم میں اس طرح کھول کھول کر ذکر فر مایا گیا ہے کہ کسی پر یہ مضمون مشتبہ نہیں رہنا چاہئے لے.ے خطبات طاہر جلد۷ صفحه ۵۵۳۲۵۴۷ خطبه بیان فرموده مورخه ۱۲ را گست ۱۹۸۸ء
تاریخ افکا را سلامی تیسرا عظیم الشان موعود جس کے ظہور کی پیشگوئیاں کتب سابقہ اور اسلام کے دینی ادب میں بکثرت موجود ہیں وہ " مسیح موعود ہے لیکن قبل اس کے کہ ان پیشگوئیوں اور دلائل کو زیر بحث لایا جائے جن کا تعلق مسیح موعود کی صداقت سے ہے ایک بنیادی اُصول“ کو بیان کرنا ضروری ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ ماموریت کے دعویداران کو اگر لوگ سچا نہیں سمجھتے تو وہ ان کے ساتھ کیا رویہ اور سلوک اختیار کریں.قرآن کریم نے اس الہی اُصول“ کو ایک واقعہ کی شکل میں بیان کیا ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے نبوت کا دعوی کیا تو آپ کی سخت مخالفت شروع ہوگئی اس پر قوم کے ایک سمجھ دار فرد نے نصیحت کے رنگ میں مخالفین سے کہا کہ موسیٰ نے ایک دعوی کیا ہے وہ اس دعوی کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے اس سلسلہ میں نہ وہ تشدد سے کام لیتا ہے اور نہ ہی بغاوت اور فساد پر اُکساتا ہے صرف وعظ و تلقین کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے اس دعویٰ میں اگر وہ جھوٹا ہے تو اس جھوٹ کی سزا اُسے خدا دے گا وہ خود پکڑا جائے گا اور خدا تم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے اس جھوٹے کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی لیکن اگر وہ سچا ہے تو پھر مخالفت کر کے تم مارے جاؤ گے خدا کی گرفت سے تم بیچ نہیں سکو گے.پس اگر وہ سچا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہو گا اور تم نا کام رہو گے.یہ قرآنی اصول ہر اُس مدعی نبوت اور ماموریت سے متعلق دائمی ہے جس نے اپنے مشن کی بنیا د حکمت و موعظت پر رکھی ہو.اس اصولی وضاحت کے بعد سب سے پہلے ہم انجیل کی بعض پیشگوئیوں کو پیش کرتے ہیں جن کا تعلق مسیح موعود کی بعثت سے ہے.حضرت مسیح علیہ السلام اپنی دوبارہ آمد کے بارہ میں فرماتے ہیں.میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا.میں تمہارے پاس آؤں گا.تم سن چکے ہو کہ میں نے تم سے کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں.پھر انجیل متی کے مطابق مسیح نے فرمایا.إِن يَّكَ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُ وَإِذْ يَكُ صَادِقَاتُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا تهدى من هو مُسرِقُ كَذَّابٌ - (المؤمن (٢٩) : کے یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۸ تا ۲۸
تاریخ افکا را سلامی جیسا کہ نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہوا اور جب تک طوفان آکر اُن سب کو بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کا آنا ہوگا....پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے تمہارا خداوند کسی دن آئے گا.جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہو گا ابن آدم آجائے گا لے.کتاب اعمال میں مسیح کے دوبارہ آنے کی یہ پیشگوئی اس طرح ہے تو بہ کرو اور رجوع لاؤ کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی بخش اتیام آئیں اور وہ یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا ہے اپنی حالت پر آدیں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھا دے گا جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو.اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموئل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے تم نبیوں کی اولا د اور اُس عہد کے ہو، جوخدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے.تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اُس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے تے.بائیل کی یہ پیشگوئیاں اپنے مفہوم کے لحاظ سے بالکل واضح ہیں لیکن اس کے باوجود مسیح کے ماننے والوں کا طرز عمل وہی ہے جو مسیح کے وقت کے لوگوں کا تھا کیونکہ یہ لوگ بھی مسیح کے دوبارہ لا متی باب ۲۴ آیت ۴۴۲۳۷ اعمال باب ۳ آیت ۱۹ تا ۲۶.اس پیشگوئی میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت اولی اور بعثت ثانیہ دونوں کا ذکر ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت نمبر ۴ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے.
تاریخ افکا را سلامی ۳۴۵ آنے کے مفہوم اور اس کے تمثیل ہونے کے معنے کو نہ سمجھ سکے اور یہ عقیدہ بنالیا کہ ان پیشگوئیوں کے مطابق مسیح نے خود دوبارہ آتا ہے حالانکہ جب سے دنیا آبا دہوئی ہے اُسی وقت سے الہی سنت یہی رہی ہے کہ جو گیا وہ واپس نہیں آیا اور کسی نے کسی کو وفات کے بعد دوبارہ آسمان سے اتر تے نہیں دیکھا.حضرت ایلیا کے آسمان سے اترنے کی پیشگوئی بائیل میں موجود ہے لیکن خود مسیح نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ خود ایلیا دوبارہ نہیں آئے گا بلکہ اُس کے آنے سے مراد اُس کے مثیل بیٹی کا آتا ہے جو ایلیا کی ٹھو بو لے کر آیا ہے.ایسا ہی مسیح کے ماننے والوں نے "محمدیم.مُنحَمنا اور روح حق کو نہ پہنچانا اور نہ اُن کے بھائیوں میں سے“ کے مفہوم کو سمجھے اور نہ دس ہزار قد وسیوں کے معنوں پر غور کیا اور کہا تو یہی کہا کہ ” وہ نبی ابھی تک نہیں آیا.اب یہی غلطی اُن سے اِس زمانہ میں بھی ہوئی اور مسیح کے دوبارہ آنے کے مفہوم کو غلط سمجھا جس نے آنا تھا وہ تو وقت پر ضرورت کے عین مطابق آگیا اور اب تا قیامت وہ کسی کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھیں گے...وَلَنْ تَجِدَ لِسْتَةِ اللهِ شَدِيلا - اب ہم اس سوال کو لیتے ہیں کہ مسلمانوں کی اصلاح کے لئے کسی عظیم مصلح اور مسیح کے آنے کے بارہ میں اسلام کیا کہتا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کو کس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے.اس تعلق میں جو اصول وہدایات اور جو پیشگوئیاں اور روایات اسلام کی چودہ سو سالہ دینی کتب میں تواتر کی حد تک موجود ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے.اسلام بھی یہی کہتا ہے اور دنیا کے تمام سنجیدہ اور دیندار لوگ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب بھی دنیا میں فساد بڑھا، انسانی اقدار کو خطرہ لاحق ہوا ند ہیں انار کی کا غلبہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اُس کے تدارک کے سامان کئے ، اپنے مامور بھیجے اور اُن کے ذریعہ پھر سے اصلاح کی ایک نئی زمین اور ہدایت کا ایک نیا آسمان معرض ظہور میں آیات.خدا وند تعالیٰ کے یہ مرسل اور مامور دو قسم کے ہوئے ہیں ایک وہ جو آسمان سے ایک نیا قانون اور ایک نئی شریعت لائے ، ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کی بنیا درکھی اور ایک نئی اُمت اور ایک نئی قوم بنائی.اس قسم کے مامورین اور مرسلین کا سلسلہ حضرت آدم یا حضرت نوح علیہا السلام سے الاحزاب : ٦٣ البقرة: ٣٩ و ال عمران : ۸۲
تاریخ افکارا سلامی مسم شروع ہوا اور سردار دو عالم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا.آپ کی شریعت آخری شریعت ہے، آپ کی امت آخری امت ہے ، آپ کا کلمہ آخری کلمہ ہے ، آپ پر نازل شده قرآن کریم خداوند تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے اس کے بعد آسمان سے کوئی اور کتاب احکام نازل نہ ہوگی لیے.دوسری قسم میں وہ مرسلین اور مامورین شامل ہیں جو شارع نبی کے تابع ہو کر آتے ہیں.اُس کی شریعت کی پیروی کرتے ہیں اور اُس کی امت میں جو خرابیاں امتداد زمانہ کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں ان کی اصلاح کرتے ہیں.افراد امت کے ایمانوں کو تازہ کرتے ہیں.اپنے ذاتی نمونہ اور نشانات اور مبشرات کے ذریعہ لوگوں کی عملی حالت کو درست کرتے ہیں شریعت کے صحیح منشاء کی وضاحت کرتے ہیں اور دین کی خاطر قربانیاں پیش کرنے کے صحیح رخ کی تعین کرتے ہیں اور امت کے منتشر لوگوں کو ایک نقطہ پر جمع کر کے ان کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بناتے ہیں ہے.H غرض ان کی کوششیں شریعت کے اندر اُس کے قیام اور اُس کی برکات کی توسیع اور اتحاد امت کے عظیم مظاہر پر مشتمل ہوتی ہیں.ایسے مامورین اور مرسلین کی پیروی میں برکات ہیں.خدا کی رضا ہے.شریعت کی عملی تفسیر کا اتباع ہے نیز ان کو ماننے والے اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن امت کے جو لوگ ایسے مامورین کو نہیں مانتے اور ان کا انکار کرتے ہیں.وہ اگر چه دائره امت سے خارج نہیں ہوتے لیکن جماعت کے لئے ان کا وجود غیراہم ہو جاتا ہے.وہ اتحاد ملی اور نفاذ شریعت کی متحدہ کوششوں کی برکات سے محروم رہتے ہیں اور اُن کی ساری سرگرمیاں اخلاص کی دولت اور رضائے الہی کی نعمت سے خالی ہوتی ہیں اور دنیا طلبی ان کا نشان بن جاتی ہے ہے.↓ سابقہ امتوں میں ایسے مامورین کی مثال کے لئے حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت المائدة: ٢ البقرة :۸۸- الانعام: ۹۱۲۸۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے“ ( ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۳۷۶.مطبوعه الشركة الاسلامية) البقرة : ۱۰۳ و ۲۰- ال عمران: ۷۸ - البقرة: ۲۸۶ نفس مضمون
تاریخ افکارا سلامی ۳۴۷ بارون ، حضرت سلیمان اور حضرات دانیال وغیرہ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے.امت محمدیہ میں ایسے ہادیوں کو قرآن کریم نے بالعموم خلفاء اور اولیاء کا نام دیا ہے اور ان کے اور نام بھی گنوائے ہیں لیکن جہاں تک اُن کے مقام اور کام کا تعلق ہے جس طرح ان کے ہادی اعظم سرور دو عالم اور خاتم الانبیاء اور قرب الہی کے بلند تر مقام پر فائز ہیں اسی طرح آپ کی امت خیر الامم اور اُس کے امام خیر الائمہ اور رئیس الخلفاء ہیں کیونکہ جہاں تک عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید یعنی بائیل اور میہو دونصاری کی دینی تاریخ کا تعلق ہے وہ کارنامے جو انبیائے بنی اسرائیل سے ظاہر ہوئے اُن سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت نے سرانجام دیئے انہی رفعتوں اور سر بلندیوں کی وجہ سے آپ خیر الرسل اور آپ کی امت خیر الامم کہلائی.امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں.اس امت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحب کمال گزرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور تحقیق ہو چکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرت احدیت نے جیسا کہ اس امت کا الام نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے لیا.اسی حقیقت کی طرف رہنمائی حضرت محمد باقر کی اس تفسیر سے ملتی ہے جو آپ نے آیہ کریمہ فَقَدْ أَتَيْناً آل إبرهيم الكتب والحِكْمَةَ وَآتَيْنَهُمْ مُلكًا عَظِيمات کے سلسلہ میں بیان فرمائی آپ فرماتے ہیں:.جعَلَ اللَّهُ) مِنْهُمُ الرُّسُلَ وَالْأَنْبِيَاءَ وَ الَا ئِمَّةَ فَكَيْفَ يَقِرُّونَ فِي آلِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ وَيُنْكِرُونَ فِي آلِ مُحَمَّد صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم.لے براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلدا صفحه ۳ ۶۵ حاشیہ نمبر ۴ الصافى شرح اصول الکافی جلد ۳ صفحه ۱۱۹ - النساء: ٥٥
تاریخ افکا را سلامی ۳۴۸ یعنی اللہ تعالی نے آل ابراہیم میں سے رسول، نبی اور امام بنائے لیکن عجیب بات ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی برکات اور ایسے درجات کے موجود ہونے کا لوگ انکار کرتے ہیں.حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.أُوتِيَ الْأَنْبِيَاءُ إِسْمَ النُّبُوَّةِ وَ أُوتِينَا اللَّقَبَ أَي حُجَرَ عَلَيْنَا اِسْمُ النُّبُوَّةِ مَعَ أَنَّ الْحَقِّ تَعَالَى يُخْبِرُنَا فِي سَرَائِرِنَا بِمَعَانِي كَلَامِهِ وَ كَلَامِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُعْتَبَرُ صَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ الْأَوْلِيَاءِ یعنی سابقہ امتوں کے بزرگ نبی" کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ہمیں یہی لقب اور مقام تو حاصل ہے لیکن بعض حکمتوں کے تحت ) یہ نام ہمارے لئے استعمال نہیں ہوا یا وجود اس کے کہ قرآن کریم کے معانی حق تعالیٰ کے حضور سے ہمیں القاء ہوتے ہیں اور اس کے رسول کے کلام کو سمجھنے کے لئے ہمیں آسمان سے رہنمائی ملتی ہے اور اسی وجہ سے امت محمدیہ میں اس مقام کے حاملین الانبياء الا وَلِيَاء کہلاتے ہیں...حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ کے متعدد افرادکو نبوت مبشرات " کا مقام حاصل ہے.جیسا کہ ایک حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہمیں لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلا الْمُبَشِّرَاتُ یعنی نبوت تشریعات تو ختم ہوگئی ہے لیکن نبوت مبشرات جاری وساری ہے.یہ نظریہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور مستند احادیث پر مبنی ہے جن میں سے چند یہ ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَن يطع اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَيكَ مَعَ لَذِينَ أنعم الله عليهم من النيين والصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَ اليواقيت والجواهر للشعرانی جلد ۲ صفحه ۲۵ المطبعة الازهرية المصرية ١٣٠٦هـ طبع دوم.الانسان الكامل فى معرفة الاواخر والاوئل للسيد عبد الكريم الجيلي.البحث الخامس والثلاثون في محمد صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين كما صرح به القرآن جلد ۲ صفحه ۱۰۹ مطبوعہ ۱۳۰۰ھ.اسی مقام کا دوسرا نام " امتی نبی بھی ہے.سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ کیا ایک ہی وقت میں کئی نبی ہو سکتے ہیں؟ فرمایا.ہاں.خواہ ایک ہی وقت میں ہزار بھی ہو سکتے ہیں مگر چاہئے ثبوت اور نشان صداقت ( ملفوظات جلده اصغری ۲۸ مطبوع الشركة الاسلامیہ ) 22
تاریخ افکا را سلامی ۳۴۹ حسن أوليك رفيقا نيك الفصل مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللهِ عَلِيمًا سُنَ یعنی جو لوگ اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان انعام پانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے جو ( علی حسب المراتب ) نبی ، صدیق ، شہید اور صالح ہیں اور یہ کتنی عمدہ رفاقت اور گروپنگ ہے.سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے اور صورت واقعی کے لئے اللہ کی یہ (فعلی) شہادت کافی (وزنی اور بڑی کامل ) ہے.قرآن کریم کی یہ آیات دراصل اُس سوال کا جواب ہیں جو سورہ فاتحہ میں سکھائی گئی دعا اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ُيسَرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ منعم علیہم کون ہیں جن کے راستہ پر چلنے کے لئے یہ دعا سکھائی جا رہی ہے.سو ان آیات میں اس سوال کا جواب دیا گیا کہ وہ منعم عليهم نبی ، صدیق ، شہید اور صالح ہیں اور اللہ تعالی اور اس رسول کی کچی پیروی کرنے والے امت محمدیہ کے افراد یہی انعام پائیں گے اور یہی درجات حاصل کریں گے.سورہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ نَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَدِلَهُمْ مِن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفُسِقُونَ " یعنی اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور ( ایمان کے تقاضا کے مطابق ) مناسب حال عمل کئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے اُسے ان کے لئے مضبوط اور مستحکم کر دے النساء: ۷۷٠ اس وضاحت سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کا یہ اعتراض درست نہیں کہ احمدیوں کے نز دیک محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی.( حرف اقبال صفحه ۱۵۱۰۱۵) الفاتحة : ٧٠٦ النور : ۵۶
تاریخ افکا را سلامی گا اور اُن کے خوف کو امن کے حالات میں تبدیل کر دے گا.وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس (نشان کو دیکھنے ) کے بعد بھی ( ان خلفا ء کا ) انکار کریں گے وہ فاسق اور نا فرمان شمار کئے جائیں گے لے.اس آیت کریمہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ جو جو روحانی اور دنیوی نعتیں اور درجات پہلے لوگوں کو ملے وہی نعمتیں اور وہی درجات امت محمدیہ کے پاک اور صالح لوگوں کو ملیں گے.ایک ذرہ بھی کمیت میں فرق نہیں ہوگا اور کیفیت میں تو وہ اُن سے کہیں بڑھ کر ہوں گے جیسا کہ حد بیث شریف میں آیا ہے کہ امت محمدیہ نے اگر چہ پہلوں کے مقابلہ میں نسبتا قربانیاں پیش کرنے میں کم وقت لیا ہے لیکن پھل بہت جلد پایا ہے اور بہت زیادہ پایا ہے اور جب پہلی قوموں نے خدا کے حضور اس کی شکایت کی تو اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا تمہارے کام کا جو معاوضہ مقرر ہوا تھا اس میں تو کوئی کمی نہیں ہوئی.رہا امت محمدیہ کا انعام تو لديك الفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللهِ عَلِيمًا ذِيْكَ یہ میر افضل ہے جسے چاہوں دوں..آیت خاتم النبین سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ یہاں خاتم النبيِّين سے مراد ایسے وجود کا ظہور ہے جس کا فیضان سب پر حاوی ہے پہلوں نے بھی اُسی کے طفیل فیض پایا اور پچھلے بھی اُسی کے ذریعہ فیضان کے سب درجات حاصل کریں گے.امام الترمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں میں نہیں کہ آئندہ کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اُس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اُس کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوگا اور بجز اُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت ے اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو کلمہ گوامت محمدیہ کے خلفاء کا انکار کرتا ہے اس کا یہ کفر مخفر دون كفر کے درجہ میں ہے اور وہ امت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا اگر چہ وہ فاستوں ، قانون شکن اور نافرمانوں کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ - ✓ بخارى كتاب الصلوة باب من ادرك ركعة من صلوة العصر قبل الغروب
تاریخ افکا را سلامی La ۳۵۱ بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے " لے.ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ ”نبی“ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا.و نبی کا لفظ نبا سے نکلا ہے اور تب کہتے ہیں خبر دینے کو اور نبی کہتے ہیں خبر دینے والے کو یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پر مشتمل زبر دست پیشگوئیاں ہوں.مخلوق کو پہچانے والا اسلامی اصطلاح کی رو سے نبی کہلاتا ہے.یا د رکھو کہ سلسلہ مکالمہ مخاطبہ اسلام کی روح ہے ورنہ اگر اسلام کو یہ شرف حاصل نہ ہوتا تو یقیناً اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک مردہ مذ ہب ہوتا ہے.آپ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں.ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مکالمات و مخاطبات اس امت کے لوگوں سے قیامت تک جاری ہیں.اور یہ بالکل بیچ ہے کیونکہ یہی تمام اولیا ء امت کا مذہب رہا ہے..عرفان کی وادیوں کے شناسا سابقہ بزرگ بھی اسی نظریہ کی تصدیق کرتے ہیں چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں معنى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الرَّسَالَةِ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ : بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِيْ بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ فَرِيقِي....فَهَذَا هُوَ الَّذِى انقطع و سُل بَابُهُ لَا مَقَام النبوة.یعنی وہ نبوت جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے اس لئے آپ کے بعد جو نبی ہوگا وہ آپ کی شریعت کے تابع ہوگا پس نبوت تشریعی منقطع ہوئی ہے مقام نبوت ختم نہیں ہوا کیونکہ نبوت کی یہ قسم امت میں جاری اور ساری ہے.اسی طرح امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں.إعْلَمُ أَنَّ النُّبُوَّةِ لَمْ تَرْتَفِعُ مُطَلِقًا بَعْدَ مُحَمَّدٍ الله وَإِنَّمَا ارْتَفَعَ نُبُوَّةَ الشَّرِيعَ فَقَط حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰/۲۹ ۲- ملفوظات جلده صفحه ۲۶۷ تا ۲۶۹ مطبوع الشركة الاسلامیہ ربوہ ے ملفوظات جلد ۱ صفحه ۳۷۳ مطبوع الشركة الاسلامیہ ربوہ ۳ فتوحات مکیه جلد ۲ صفحہ ۳ مطبوعہ دارصا در بیروت اليواقيت و الجواهر جلد۲ صفحه ۲۴ مطبع منشی نولکشور آگر و
تاریخ افکا را سلامی For یعنی مطلق نبوت ( جو کثرت مکالمہ و مخاطبہ کا نام ہے ) مرتفع نہیں ہوئی.جو نبوت ختم اور منقطع ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے.امام ربانی حضرت مجددالف ثانی اور امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور مولانامحمد قاسم نا نتقوی کا نظریہ بھی یہی ہے..مولانا ابوالحسنات محمد عبد الحی فرنگی محلی لکھتے ہیں.بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے یا زمانے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے.مراتب قرب الہی کی اس بحث کے بعد اب طبعا یہ مرحلہ سامنے آتا ہے کہ اسلام میں ایک عظیم الشان ظهور یعنی مسیح اور مہدی کی آمد کا جو عقیدہ اور نظریہ مشہور ہے وہ اپنے اند ر کیا صداقت رکھتا ہے اور اُس کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے اور اس بارہ میں جو روایات ہیں ان کا معیا رصداقت کس حد تک ثقہ مستند اور وزنی ہے.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ متعد دمسائل اپنے اصل کے لحاظ سے بڑے سادہ اور واضح المفہوم ہوتے ہیں لیکن بعد میں ان کے بارہ میں جو فلسفیانہ حاشیہ آرائی ہوتی ہے وہ انہیں مشکل اور مجلک بنا دیتی ہے مثلاً ہستی باری تعالی ، اس کی تو حید اور اس کی صفات کا عقیدہ کتنا سادہ اور عام الفہم ہے.اسے ہر فرد بشر جان سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے کہ اس کا ئنات کو پیدا کرنے والی ایک ہستی ہے.وہ بڑی طاقتور ہے، وہ ایک ہے اور تمام اعلیٰ صفات سے متصف ہے لیکن جب اس عقیدہ میں فلسفیانہ بخشیں شامل ہوئیں تو یہ مسئلہ اتنا الجھا کہ چیستان بن کر رہ گیا.کسی نے کہا وہ ایک بھی ہے اور اسی وقت وہ تین بھی ہے.کوئی کہنے لگا وہ اور کائنات ایک ہی وجود کے مختلف مظہر ہیں.کوئی کہنے لگا وہ اگر بولتا ہے تو اُس کا منہ بھی ہوگا.اُس کی شکل بھی ہوگی ، اُس کا چہرہ ہے، آنکھیں ہیں ، کان ہیں ، ہاتھ ہیں، وہ آسمان پر ہے یا کائنات میں سمایا ہوا ہے.غرض سینکڑوں نظریات نے اس مسئلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا.یہی حال مافوق الطبعیات سے تعلق رکھنے والے ہر سوال کا ہے اور مسیح اور مہدی کے آنے کا عقیدہ بھی اس دائرہ سے باہر نہیں.مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر ۱ ۳۰ جلد ا صفحه ۴۳۲- تفهیمات الهیه صفحه ۵۳ تحذير الناس صفحه دافع الوسواس في آثر ابن عباس صفحه ۱۶ مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محل ا ھو.طبع دوم
تاریخ افکا را سلامی ۳۵۳ یہ حقیقت تو تسلیم کی جانی چاہئے کہ اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک تمام مستند اسلامی لٹریچر خواہ قرآن کریم ہو یا سنت وحد بیث تاریخ ہو یا علم العقائد کا کوئی مجموعہ یہ سب اس نظریہ کے ذکر سے خالی نہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایک عظیم الشان ظہو را اور ایک روحانی قیادت دنیا میں ابھرے گی جو مسلمانوں کے تنزل کا مداوا کرے گی اور اسلام کی ترقی اور اس کا دوبارہ عروج اُس کے پروگرام اور اس کی پیروی سے وابستہ ہو گا.امت مسلمہ کے تمام مفسرین ، تمام محمد شین، تمام متکلمین کا اس پر اتفاق ہے.اسی طرح تمام فقہاء اور صوفیاء بھی اس بارہ میں متفق ہیں.اصل عقیدہ میں کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف اگر ہے تو فروعات میں ہے ، تفاصیل میں ہے.مثلاً یہ کہ یہ ظہور اور یہ قیادت ایک شخصیت کی صورت میں ہوگی یا اس کے لئے دوا لگ الگ وجود ہوں گے.وہ کسی خاص خاندان سے ہوگایا امت مسلمہ کے اندر کسی بھی قوم سے وہ ہوسکتا ہے.وہ آسمان سے نازل ہوگایا زمین پر کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو گا.اس کا اور اس کے باپ کا نام کیا ہوگا، وہ کہاں اور کس شہر میں ظاہر ہوگا.وہ کافروں اور منکروں کو زیر دستی مسلمان بنائے گا یا وہ آسمانی حربوں سے کام لے گا اور حکمت و موعظہ کی راہ اختیار کرے گا.غرض سینکڑوں اختلاف ہیں اور ہو سکتے ہیں لیکن ایک حقیقت پر سب کا اتفاق ہے کہ ایسا ظہور ائل اور مقدر ہے، آسمان و زمین مل سکتے ہیں لیکن یہ عظیم ظہور نہ رک سکتا ہے اور نہ مل سکتا ہے لیے.اب ہم اس اہم نظریہ کے اس پہلو پر بحث کرتے ہیں کہ یہ عظیم الشان قیادت ایک شخصیت کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے گی یا دو وجودوں نے ظاہر ہونا ہے یا اس کے مظہر متعد دو جو د ہوں گے.مہدی کا عام مفہوم یہ ہے کہ ایسے ہدایت یا فتہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کی خاص نظر ہو اور وہ آسمانی ہدایت سے فیضیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ ان سے اصلاح خلق کا کوئی غیر معمولی کام لے گویا وہ آسمان سے ہدایت پاتے ہیں اور اس کے اشارہ کے مطابق زمین کے لوگوں کے لئے ہادی اور نمونہ بنتے ہیں.مہدویت کے اس عام مفہوم اور اس نظریہ کی وسعت کے لحاظ سے کئی عظیم بزرگ اس لقب کے مستحق گزرے ہیں ان معنوں کی رو سے تمام انبیاء مہدی ہیں تے بلکہ مہدی اعظم ا سنن ابی داؤد کتاب المهدی مسند احمد جلد ا صفحه ۹۹ - شرح ترمذي لابن العربي جلد ۹ صفحه ۷۴ الانعام: ۱۹
تاریخ افکا را سلامی ۳۵۴ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ تمام گزشتہ مہدی بھی آپ کے طفیل مہدی ہنے اور آئندہ آنے والے بھی آپ سے فیض پا کر مقام مہدویت پر فائز ہوں گے.انہی معنوں میں حضرت حسان بن ثابت نے آپ کو مہدی کہا ہے.ان کا شعر ہے و مَا بَالُ عَيْنِكَ لَا تَنَامُ كَأَنَّمَا كُحِلَتْ مَا فِيْهَا بِكُحْلِ الْأَرْمَدِى جَزَعًا عَلَى الْمَهْدِي أَصْبَحَ ثَاوِيًا يَا خَيْرَ مَنْ وَطِأَ الْحَصَى لَا تَبْعَدِى یعنی تیری آنکھ کو کیا ہو گیا ہے کہ اُس کے آنسو تھمتے نہیں نیند اُڑ گئی ہے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں شب بیداری کا سرمہ لگایا گیا ہو، یہ شدید گھبراہٹ اُس عظیم مہدی کی وفات کے صدمہ کی وجہ سے ہے جسے ابھی دفن کیا گیا ہے.اے خیر الناس اور افضل الرسل آپ ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کے مورور ہیں یہ بھی آپ سے دور نہ ہوں.حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر بن عبد اللہ البجلی کے حق میں دعا اللهم ثبته واجعله هَادِيًا مهديات انہی معنوں میں خلفاء راشدین کو بھی مہدی کہا گیا ہے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.- عَلَيْكُمْ بِسُنّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ - کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت کی پیروی کرنا جو راشد اور مہدی ہیں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو بھی مہدی کہا گیا ہے.اس کے بعد مہدی کا ایک خاص مفہوم امت میں متعارف ہوا اس کی تقریب یہ ہوئی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تیسرے فرزند حضرت محمد بن حنفیہ جو بڑے فاضل اور بے بدل عالم تھے اُن کے عقیدت مندوں اور پیروؤں نے جن کا قائد محتار ثقفی تھا یہ تہیہ کیا کہ امام حسین کے قتل کا بدلہ لیا جائے.چنانچہ انہوں نے بچن چن کر اُن لوگوں کو قتل کیا جنہوں نے حضرت امام حسین کو شہید کرنے میں حصہ لیا تھا.یہ لوگ محمد ابن حنفیہ کو مہدی مانتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ محمد ابن حنفیہ کے ذریعہ بنو امیہ کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو نجات ملے سيرة ابن هشام شعر حسان بن ثابت في رثاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في الأحمد بالسنة بخارى كتاب الجهاد باب مَنْ لَّا يَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ.سيرت ابن هشام جلدا صفحه ۸۰ حاشیه
تاریخ افکارا سلامی ۳۵۵ گی لیکن وہ کوئی متوقع انقلاب بپا کئے بغیر فوت ہو گئے.اس پر ان کے عقیدتمندوں کو مایوسی سے بچانے کے لئے اس نظریہ کو شہرت ملی کہ محمد بن حنیفہ در اصل فوت نہیں ہوئے بلکہ رضوی نامی پہاڑوں میں چھپ گئے ہیں.جنگل کے شیران کی حفاظت پر مامور ہیں اور وہاں شہد اور پانی کے چشمے ان کی خوراک کے لئے موجود ہیں.یہی وہ وقت ہے جبکہ ”مہدی منتظر“ کے نظریہ نے فروغ پایا جس کے ایک معنے یہ متعین ہوئے کہ فلاں بزرگ مہدی ہیں وہ اس وقت تو غائب ہو گئے ہیں لیکن بعد میں کسی مناسب موقع پر ظاہر ہوں گے، دشمن کو قتل کریں گے اور اپنے متبعین کو بام عروج تک پہنچا ئیں گے.دوسرا مفہوم یہ مشہور ہوا کہ اگر چہ وہ اس وقت فوت ہو گئے ہیں یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ہیں لیکن بعد میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا انہیں زندہ کر کے دوبارہ دنیا میں بھیجے گا تا کہ وہ عدل وانصاف کے لئے ایک عظیم انقلاب بپا کریں.بہر حال ” مہدی“ کے اس متعارف مفہوم کے علی الرغم ایسی روایات بھی موجود ہیں جو عمومی مفہوم کے لحاظ سے متعد دمہدیوں کے آنے کے امکان کو نا بہت کرتی ہیں.مثلاً ایک روایت یہ ہے کہ لَا يَذْهَبُ الدَّهْرُ حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيتِى يُوَاطِئُ اِسْمُهُ اِسْمِى اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں کو یہ سند بخاری اور مسلم کی پایہ کی نہیں لیکن ان کا کثرت طرق سے آنا ان کی صحت کے پہلو کو واضح کرتا ہے..جس کے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ امت کے اندر مختلف زمانوں میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہو گا اس کو دور کرنے اور امت مسلمہ کی اصلاح کا کام بعض ایسے لوگوں کے سپر د ہوگا جو میرے ہمنام ہوں گے.آپ کے دو نام زیادہ مشہور ہیں.محمد اور احمد چنانچه بمطابق روایت بالا محمد نام کے متعدد مہدی اور مصلح گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں ہدا یت وارشاد کا خاص فریضہ سر انجام دیا اور اپنے منصب کے لحاظ سے انہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا یا ان کے کام کے لحاظ سے ان کے مریدوں نے انہیں مہدی قرار دیا اس سلسلہ میں امام محمد بن حنفیہ اور + امام محمد باقر کا نام پہلے گزر چکا ہے.شیعہ اثنا عشریہ امام محمد بن الحسن العسکری کو مہدی منتظر " ” مسند احمد بن حنبل جلد صفحه ۳۷۶، ۳۷۷ مطبوعہ بیروت صاحب کتاب البیان نے اکتیس سے زائد طرق گنوائے ہیں.البیان فی اخبار صاحب الزمان صفحه ۹۴ تا ۹۷)
تاریخ افکا را سلامی ۳۵۶ مانتے ہیں جو شیعہ عقائد کے مطابق اپنی عمر کے کسی حصہ میں غائب ہو گئے تھے اور وقت مقدر پر ظاہر ہوں گے اور تعظیم دینی انقلاب کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیں گے.حضرت امام شافعی کا نام بھی محمد بن ادریس تھا جنہوں نے تفقہ فی الحدیث کے لئے خاص کام کیا.اسی طرح صحیح بخاری کے مرتب کا نام محمد بن اسماعیل بخاری تھا جنہوں نے صحبت احادیث کے اصول مرتب کرنے کے لحاظ سے اُمت میں ایک خاص مقام حاصل کیا ہے.ایک اور حدیث ہے.لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمْلِكَ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ بَيْنِيِّ - يَفْتَحُ القُسطنطنيه وَ جَبَلَ دَيْلَمْ.یعنی اُس وقت تک وہ موعود گھڑی کے نہیں آئے گی جب تک کہ قسطنطنیہ اور دیلم کے پہاڑی علاقوں کو میرے گھرانے کا ایک رجل شجاع فتح نہیں کرلے گا.چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے متعدد ہمیں بھجوائی گئیں.ایسی پہلی کوشش حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں ہوئی جس میں کئی صحابہ بھی شامل تھے.اس لشکر نے قسطنطنیہ کا محاصرہ بھی کیا لیکن کامیابی حاصل نہ ہو گی.آخر یہ عظیم فتح ۱۴۵۳ء میں ایک عثمانی ترک سلطان کے ذریعہ نصیب ہوئی جس کا نام "محمد" تھا چنا نچہ تاریخ میں وہ سلطان محمد الفاتح " کے نام سے مشہور ہے.ایک یورپی مورخ نے لکھا ہے کہ جب اس نیک دل بہادر بادشاہ نے قسطنطنیہ فتح کیا اور شہر کے بڑے بڑے پادری ، شہر اور وہاں کے مرکزی گر جا کی چابیاں بادشاہ کے حضور پیش کرنے کے لئے صف بستہ کھڑے ہوئے تو بادشاہ اپنے گھوڑے سے اترا اور سجدہ میں گر گیا.اُس نے جب سجدہ سے سراٹھایا تو زمین سے مٹی لے کر اپنے تاج سر پر ڈالی اور کہا نہ تکبر ہے اور نہ استعلاش.میں تو اپنے رسول کی ایک پیشگوئی پورا کرنے آیا ہوں جو قسطنطنیہ کی فتح سے متعلق تھی.پھر سلطان نے چابیاں " البيان في اخبار صاحب الزمان صفحه ۱۴۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کو بھی اپنے خاندان میں شامل کیا ہے اور حضور کے زمانہ میں روسی ترکستان کے علاقے بھی فارس کا حصہ تھے.البيان في اخبار صاحب الزمان صفحه ۱۴۱ کنزل العمال جلد ۷ صفحه ۱۸۷ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ.غالبا یورپ اور مغربی اقوام کے دوسرے غلبہ کے آغاز کی طرف اشارہ ہے جس سے تیسری دنیا متاثر ہوئی یہ ایک آیہ کریمہ کی عملی تفسیر ہے جو یہ ہے.تِلْكَ الدَّارَ الْآخِرَةُ تَجْعَلَهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عَدُوًّا في الأرضِ وَلَا فَسَادًا - (القصص : ۸۴)
تاریخ افکا را سلامی ۳۵۷ + لے کر شہر کے پادریوں کو واپس کر دیں اور کہا امن و امان سے رہو اور مخلصانہ اطاعت کو اپنا شعار بناؤ، آپ کے سارے حقوق باقاعدہ ادا ہوتے رہیں گے.سلطان محمد الفاتح کا قسطنطنیہ پر یہ حملہ کسی ظلم یا جارحیت کی بنا پر نہ تھا بلکہ اس وجہ سے یہ فتح ضروری تھی کہ آغاز اسلام سے ہی قسطنطنیہ کی یہ با زنطینی حکومت مملکت اسلامیہ کے لئے خطرہ بنی رہی جنگ موتہ اور غزوہ تبوک سے اس خطرہ کا آغاز ہوا اور فتح قسطنطنیہ تک مسلمان حکومتوں کے سر پر منڈلاتا رہا قرون وسطی کی صلیبی جنگوں کا مرکز بھی قسطنطنیہ تھا.ایک اور روایت ہے کہ مہدی کا نام میرے نام کے مطابق اور مہدی کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہو گا.حد یث کے الفاظ یہ ہیں.لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمَ لَطَوَّلَ الله ذَالِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَتَ رَجُلًا مِنِى أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْنِي يُوَاطِيُّ اسْمُهُ اسْمِي وَ اسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِى - یہ روایت بھی اگر چہ قوی السند نہیں لیکن اپنی قدیم شہرت کے لحاظ سے مقبولیت کا درجہ پاگئی ہے.چنانچہ کئی بزرگوں نے اس روایت کے مطابق مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے اور اصلاح امت کا فریضہ سر انجام دیا ہے.ان میں سے ایک حضرت امام محمد بن عبداللہ بن الحسن المثنى بن الحسن بن علی بن ابي طالب ہیں.گویا یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پڑپوتے کے بیٹے اور فاطمی النسل ہیں اور اپنی پاک تَحَرَّمَ اللَّهُ وَ جَهَهُ طینت کی وجہ سے النَّفْسُ الرسميه “ کے لقب سے مشہور ہیں.حضرت محمد بن الحنفیہ کے بیٹے ابوالہاشم نے بنوامیہ کے ظلم وجور کے خلاف جو ایک خفیہ تنظیم قائم کی تھی جسے بعد میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی.آگے چل کر اس تنظیم کے قائدین نے جن میں علوی اور عباسی دونوں خاندانوں کے بزرگ شامل تھے حضرت امام محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر انہیں مہدی تسلیم کر کے بیعت کی.حضرت امام محمد بن عبد اللہ النفس الزكيه اپنے وقت کے صاحب کمال بزرگ تھے حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک وغیرہ اس وقت کے مسلمہ مجتہد اور شرح الترمذي لابن العربي جلد ۹ صفحه ۷۴ مشكوة المصابيح للخطيب التبريزى باب الشراط الساعة ابو داؤد کتاب المهدى - مستدرك حاكم مع التلخيص جلد ۴ صفحه ۴۶۴
تاریخ افکارا سلامی ۳۵۸ فقہاء بھی ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور انہیں ان کی قیادت سے ہمد روی تھی.چونکہ اس تحریک میں بنو عباس پیش پیش تھے اس لئے جب ابو مسلم خراسانی کی افواج کی مدد سے یہ تحریک کامیاب ہوئی اور بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو بنو عباس نے اپنے اثر و رسوخ سے کام ++ لیتے ہوئے ابو مسلم کو اپنی حمایت پر آمادہ کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور خلافت عباسیہ کی بنیا درکھی.علویوں نے اس تغلب کی مخالفت کی اور کہا کہ امام محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر بطور ” مہدی“ سب نے بیعت کی ہے اس لئے وہ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں.چنانچہ دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور سے اس سوال پر امام محمد بن عبد اللہ کی جنگ بھی ہوئی جس کے دوران امام محمد شہید ہو گئے.بنو امیہ کے خلاف اس تحریک کے دوران مہدی کی فوری آمد کے نظریہ کو بہت شہرت ملی یہاں تک کہ اُس زمانہ کے مسلم عوام کا یہ مسلمہ عقیدہ بن گیا کہ مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ ہو گا.اتفاق سے دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے اپنے اس بیٹے کو ”المہدی“ کا لقب دے کر اپنا ولی عہد مقرر کیا جو منصور کی وفات کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا اور اس مشہو ر روایت کی وجہ سے وہ عوام کی عقیدت کا مرکز بن گیا.اُس نے اپنے عہد خلافت میں زنا وقہ کے لادینی فتنہ کا استیصال کیا جس نے اُس زمانہ میں بڑی اہمیت حاصل کر لی تھی اور عوام اس فساد سے بڑے تنگ آئے ہوئے تھے.مہدویت کی اس علوی اور عباسی تحریک کے دوران دو اور روایتوں نے بھی بڑی شہرت پائی.ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ مہدی کی مدد کے لئے مشرق سے افواج آئیں گی جن کے پاس سیاہ جھنڈے ہوں گے اس روایت کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں.حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ مَعَهُم رَايَاتٌ سُودَ فَيَسْأَلُونَ الخَيْرَ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنصَرُونَ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْنِى - الحديث دوسری روایت جسے اس وقت خاص مقبولیت نصیب ہوئی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا "اللهم انصُرِ الْعَبَّاسَ وَ وُلدِ الْعَبَّاسَ قَالَهَا ابو مسلم خراسانی کی افواج کے جھنڈوں کا رنگ سیاہ تھا اور بعد میں بنو عباس نے بھی اسی رنگ کو اپنایا.ابن ماجه کتاب الفتن باب خروج المهدى جلد ۲ صفحه ۲۷۰- مسند احمد جلد ۵ صفحه ۲۷۷ مطبوعه بيروت - مستدرك حاكم مع التلخيص جلد ۴ صفحه ۴۶۴
تاریخ افکا را سلامی ۳۵۹ ثَلاثًا ثُمَّ قَالَ يَا عَمَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمَهْدِى مِنْ وُلْدِكَ مُوَفِّقًا رَاضِبًا مَرْضِيًّا لا يعني اے میرے اللہ عباس اور اس کی اولاد کی خاص مد وفر ما آپ نے تین بار یہ دعا کی اور پھر عباس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے چچا کیا آپ کے لئے یہ بات خوش آئند نہیں کہ آپ کی اولا د سے بھی مہدی ہو گا جو تو فیق یا فتہ اپنے نصیبہ پر خوش اور پسندیدہ خصال ہوگا ؟ آنحضرت کے دوسرے نام محمد سے متعلق بھی روایات ہیں کہ مہدی کا نام احمد ہوگا.ایک حد میث کے الفاظ یہ ہیں.عنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يَبْعَتَ اللهُ عِصَابَتَانِ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِمَا النَّارَ ، عِصَابَةٌ تَغُرُو الهند وَهِيَ تَكُونُ مَعَ الْمَهْدِى اسْمُهُ أَحْمَد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک جماعت ہندوستان میں مصروف جہاد ہوگی جس کی قیادت وہ امام مہدی فرمائیں گے جن کا نام احمد ہو گا.اس حدیث کی سند کو ضعیف کی ہے لیکن واقعاتی لحاظ سے اس کی صحت مریج ہے.ایک تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ مہدی کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا.دوسرے اس کا بنیادی تعلق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ سے ہے جس کی مکمل بحث آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے تاہم درمیانی عرصہ میں بھی کئی بزرگ اس مفہوم کے مصداق بنے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دینی اصلاح کے سلسلہ میں خاص خدمات سر انجام دیں اور یہ اُصول مسلّمہ ہے کہ کلام رسول جوامع الکلم کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے اور اس میں کئی معانی پوشیدہ ہوتے ہیں.بہر حال ان بزرگوں میں سے جن کا نام احمد تھا اور خاص کا رہائے نمایاں انہوں نے سر انجام دیئے ایک امام احمد بن حنبل کنزل العمال جلد ۷ صفحه ۲۶۰ و تاریخ دمشق الكبير لابن عساكر جلدی صفحه ۲۳۶ مطبوعه دار المسيره بیروت ۱۳۹۹ھ رواه البخاري في تاريخه بحواله النجم الثاقب حصه دوم صفحه ۱۳۴ مطبوعه مطبع احمدی پیر ۱۳۱۰ھ سے صاحب نجم الثاقب نے اس روایت کے بارہ میں تحریر کیا ہے کہ روایت کیا ہے اس کو امام بخاری نے کتاب التاریخ میں اپنی اور کہا اسناد میں اس کے مضائقہ نہیں اور ایسے ہی امام رافعی کی کتاب المہدی میں اور کہا ہے اسنَادُهُ لَا بَأْسَ بِہ اور ابن مردویہ و این شاهین و ابن ابی الدنیا نے بھی اس کو اخراج کیا ہے اور اتفاق کیا ہے انہوں نے اس کے حسن ہونے پر اور سیوطی نے بھی حسن کہا ہے.کذا في اوراق الخوارزمی۱۲ - (ناشر)
تاریخ افکا را سلامی ہیں جنہوں نے فتنہ خلق قرآن کا بڑی جرات کے ساتھ مقابلہ کیا اور مسند کے نام سے احادیث کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا اور ان کو ان کارناموں کی وجہ سے اُن کے پیرؤں نے مہدی کہا ہے.دوسرے ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت امام ربانی محمد دالف ثانی شیخ احمد سر ہندی ہیں جنہوں نے اکبر بادشاہ کے لادینی فتنہ کے استیصال کے لئے خاص کوششیں کیں اور سلسلہ نقشبندیہ کو اسلامی ممالک میں مستحکم کیا.تیسرے بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں آپ کا نام بھی احمد " تھا.ہندوستان میں فروغ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مساعی نا قابل فراموش ہے.بہر حال سطور بالا میں بعض روایات مہدی سے متعلق ایک تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان روایات کی صحت کے پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے.یہ نظریہ کہ درمیانی دور میں کئی مہدیوں" کے آنے کی روایات ملتی ہیں اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.لَن تَهْلِكَ أُمَّةً أَنَا فِي أَوْ لِهَا وَ عِيسَى فِي آخِرِهَا وَالْمَهْدِيُّ فِي وَسَطِهَا یعنی وہ امت ہرگز ہلاک اور بر باد نہیں ہو سکتی جس کے آغاز میں میں ہوں اور جس کے آخر میں عیسی ہوں گے اور جس کے وسط میں مہدی آئیں گے.شارحین حدیث حیران ہوتے ہیں کہ عام خیال کے مطابق مسیح اور مہدی نے اکٹھے اور ایک زمانہ میں آتا ہے.مہدی کے درمیانی زمانے میں آنے کے کیا معنے ؟ حالانکہ اگر المہدی" کے لفظ پر غور کیا جائے تو حدیث کا مفہوم با لکل واضح ہو جاتا ہے کیونکہ المہدی“ کا الف لام یہاں عموم کے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ درمیانی عرصہ میں کئی ایسے مصلح آئیں گے جو مہدی کے مقام پر فائز ہوں گے.انہی کو دوسری احادیث میں مجدد کہا گیا ہے.گو یا درمیانی عرصہ میں جب اُمت مختلف قسم کے بحرانوں سے دو چار ہو گی تو عام مہدی اور مجد داکر ان کو دور کریں گے اور جب آخری زمانہ میں تنزل کی انتہا ہوگی ، مصائب کی آندھیاں الشفا بتعريف حقوق المصطفى لقاضی عیاض جلد ۲ صفحه ۱۳ مطبوعه مصر ۲ کنز العمال جلد ۷ صفحه ۱۸۷ - جامع الصغير للسيوطى جلد ۲ صفحه ۱۰۲ ( الفاظ کے فرق کے ساتھ) سے اصول فقہ کا یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ فکر منعرف باللام عموم کا فائدہ دیتا ہے اور اس کے معنے کئی اور متعدد" کے ہوتے ہیں.ابو داؤد کتاب الفتن ه حجج الكرمه صفحه ۳۳۹ - اکمال الدین صفحه ۱۵۷ 22
تاریخ افکارا سلامی چلیں گی اور اُمت کا شیرازہ بکھرنے لگے گا تو وہ موعود عظیم مہدی آئے گا جو تَشَابُه فِي الاخلاق کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل اور کسر صلیب کے مقاصد کے لحاظ سے مثیل مسیح کہلائے گا اور اس کا آنا نزول کے عیسی بن مریم کے مترادف ہوگا کیونکہ نصاریٰ کے غلبہ کے استیصال کے لئے وہ ایک الہی نظام قائم کرے گا.اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس عظیم موعود کی بعثت کے وقت سے متعلق روایتوں میں کیا لکھا ہے اور بزرگان امت نے اس بارہ میں کیا اندازہ پیش کیا ہے.سو بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں.عنْ أَبِي فَقادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَيْن.یعنی ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاص علامات دوسو سال کے بعد ظاہر ہوں گی.علماء نے تصریح کی ہے کہ دو سو سال سے مراد وہ دو سو سال ہیں جو ایک ہزار سال کے بعد گزریں گے.اس کے یہ معنے ہوئے کہ ایک ہزار دوسو سال کے بعد ظہور مہدی کے آثار نظر آنے لگیں گے.چنانچہ علامہ ابو الحسن محمد بن عبدالہادی السندی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں.الْمُرَادُ باليأ تين المانان بعد الا لي." مشکوۃ المصابیح کے شارح حضرت ملا علی قاری اس حدیث کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: وَيَحْتَمِلُ أن يكونَ اللَّامُ لِلْعَهْدِ أَى بَعْدَ المَأْتَيْنِ بَعد الألف وَ هُوَ وَقَتْ ظُهُورِ المَهْدِي » ان معنوں کی تائید یک حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حذیفہ بن یمان سے مروی ہے کہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.إِذَا مَضَتْ اَلْفَ وَمِأْتَان وَاَرْبَعُونَ سَنَةً يَبْعَثُ اللَّهُ الْمَهْدِيَّ یعنی جب ایک ہزار دو سو چالیس سال (۱۲۴۰) گزریں گے تو اللہ تعالی امام مہدی مبعوث کرے گا.یہ روایت اگر چہ قومی السند نہیں لیکن جہاں تک دو سو سال کی اس تشریح کا تعلق ہے متعدد ل نزول کے معنے خاص برکات کی حامل ہستی کا آنا یا کسی کثیر المنافع مفید عام چیز کا خاص خدا کے فضل کے تحت ملنا.دیکھیں الحديدة ٢٦، الزمر، الاعراف: ۲۷، النحل الطلاق - البقرة :۵۹ء المائدة : ۱۱۵ - سنن ابن ماجه جلد ۲ صفحه ۲۶۰ مطبع علميه مصر ۱۳۱۳ هـ طبع اوّل ✓ حاشیه بر ابن ماجه جلد ۲ صفحه ۲۶۰ مطبع علميه مصر ۱۳۱۳ھ ایڈیشن اوّل.مرقاة بر حاشيه مشكوة صفحه ۴۷۱ مطبوعه أصبح المطابع دهلی ه اخرجه مصنف ابن ابی شیبہ حوالہ کے لئے دیکھیں النجم الثاقب جلد ۲ صفحه ۲۰۹ مطبوعہ پینه ۱۳۱۰ھ
تاریخ افکارا سلامی علماء نے اسے صحیح تسلیم کیا ہے.کی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.۳۶۲ یا د ہے وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکان دین مهدی موعود حق اب جلد ہوگا آشکار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اول ہو گئے منکر یہی دیں کے منار اب آئندہ صفحات میں اُس عظیم مہدی کے ظہور کا ذکر آ رہا ہے جس کے متعلق احادیث ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہیں.سند ا بھی وہ ہر لحاظ سے صحیح ہیں اور بزرگان دین کے اتفاق کے لحاظ سے بھی وہ قوی ہیں.یہ وہ عظیم مہدی ہے جس کا ایک کام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے مقصد کی تکمیل ہے اور اس کا دوسرا کام عیسی بن مریم اور مسیح کے نزول کی پیشگوئی کے معانی کو کھولنا ہے.سب سے پہلے ہم اُن احادیث کو پیش کرتے ہیں جن کی صحت پر تمام علماء حدیث کا اتفاق ہے.جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ پیشگوئیاں بالعموم تعبیر طلب ہوتی ہیں اور ان کی زبان تمثیلی ہوتی ہے خصوصاً کسی سابقہ نبی کی دوبارہ آمد کا مطلب سعت الہی میں یہ ہوا کرتا ہے کہ اُس نبی کی برکات، اُس کے اُسوہ حسنہ کا احیاء اور اس کے کسی ایسے بروز اور مثیل اور منبع کامل کا ظہور ہے حجيج الكرامه نواب صدیق حسن خان صاحب صفحه ۳۹۳ اربعين في احوال المهديين شاه اسماعیل شهيد اليواقيت والجواهر جلد ۲ صفحه ۱۳۷ مطبوعة مصر ۱۳۱۷هـ وفيه وَاَوَّلُ الالف محسوب من وفاة علی بن ابی طالب رضی الله تعالى عنه آخر الخلفاء الخ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی.الكرامه صفحه ۳۹۴ مطبوعا ۱۲۹ھ و غیره - حوالہ حجج کے بروز کا لفظ برز سے نکلا ہے جس کا مفہوم ظہو را ور کھل کر سامنے آتا ہے کیسی مذ ہب یا کسی فرقہ کے صوفیاء بروز کی اصطلاح کو کن معنوں میں استعمال کرتے اس سے ہمیں غرض نہیں یہاں یروز کی اصطلاح جن معنوں میں استعمال ہوئی ہے اس کی وضاحت خود حضرت بانی ء سلسلہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے.جيا تشابه في الصور ہوتا ہے ایسا ہی تشابه في الاخلاق بھی ہوا کرتا ہے." کامل تقبع ہوتا ہی نہیں جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتا ہو....جب ایک شخص کامل اطاعت کرتا ہے اور گویا اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو اور فتا ہو کر تم ہو جاتا ہے اُس وقت اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سامنے رکھا ہوا ہوا ور تمام و کمال عکس اس میں پڑے.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۰۷ مطبوعه الشركة الاسلامیہ ملفوظات جلد ۸ صفریم ۶ مطبوعه الشركة الاسلامیہ
۳۶۳ جو فنافی الرسول کے مقام پر فائز ہو اور متبوع کے مقاصد کی تکمیل کرنے والا ہو.ایک دوسری جگہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں.سوجیسا کہ وہ نبی شہزادہ دنیا میں غربت اور مسکینی سے آیا اور غربت اور مسکینی اور حلم کا دنیا کو نمونہ دکھلایا.اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ اس کے نمونہ پر مجھے بھی جو امیری اور حکومت کے خاندان سے ہوں اور ظاہری طور پر بھی اس شہزادہ نبی اللہ کے حالات سے مشابہت رکھتا ہوں.ان لوگوں میں کھڑا کرے جو ملکوتی اخلاق سے بہت دور جا پڑے ہیں.سو اس نمونہ پر میرے لئے خدا نے یہی چاہا ہے کہ میں غربت اور مسکینی سے دنیا میں رہوں.خدا کے کلام میں قدیم سے وعدہ تھا کہ ایسا انسان دنیا میں پیدا ہو.اسی لحاظ سے خدا نے میرا نام مسیح موعود رکھا...اس کے معنی اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کہ مجھے تمام اخلاقی حالتوں میں خدائے قیوم نے حضرت مسیح علیہ السلام کا نمونہ ٹھہرایا ہے تا امن اور نرمی کے ساتھ لوگوں کو روحانی زندگی بخشوں کے ،، اس اصول کی وضاحت کے بعد اب ہم وہ احادیث لکھتے ہیں جو مستند اور صحیح ہیں ان کی صحت میں کسی محدث اور فقیہ نے شک کا اظہار نہیں کیا اور اُس میں ظہور عظیم کی پیشگوئی ہے.ا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.66 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ أَيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.یعنی وہی خدا ہے جس نے اُمیوں میں ( جو کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں) انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کو خدا کے احکام سناتا ہے اور ان کا تزکیہ اور ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کو علم و حکمت سکھاتا ہے جبکہ وہ اس سے پہلے بڑی بھول اور جہالت میں پڑے ہوئے تھے اور وہ خدا ان کے سوا ایسے دوسرے لوگوں میں بھی اُسے بھیجے گا جو ابھی تک ان میں شامل نہیں ہوئے اور وہ ایسا کرنے پر غالب اور قادر ہے اور بڑی حکمت والا ہے.کشف الغطاء روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۹۲ ۱۹۳ الجمعة : ۴،۳
تاریخ افکارا سلامی جب یہ آیات نازل ہوئیں تو موجود صحابہ نے حضور سے دریافت کیا کہ ” آخرین " سے کون لوگ مراد ہیں جن میں آپ مبعوث ہوں گے تو آپ نے پاس بیٹھے ہوئے اپنے صحابی سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بالكُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلاءِ ، صحیح بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ حقیقی ایمان اُٹھ جائے گا اور ان کی دوبارہ ترقی آنحضور صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی مرہون منت ہوگی جو آپ کے ایک فارسی النسل غلام کے ذریعہ ہوگی اور اُس کے حواری بھی انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں گے.بخاری کی اس روایت سے اُن روایات کی بھی تائید ہوتی ہے جن میں آیا ہے کہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے بارہ میں فرمایا.سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ نیز یمن کے والی باذان اور اُس کے فارسی النسل حامیوں کے مسلمان ہونے پر آپ نے انہیں بھی فرمایا کہ وہ میرے اہل بیت اور میرے خاندان کا حصہ ہیں.یہ اسی لئے ہے کہ اسلام کی نشاء ۃ ثانیہ اسی نسل کے لوگوں سے واسطہ تھی ہے.- صحیح بخاری کی دوسری حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.یعنی تم کیسے نازک حالات سے گزررہے ہو گے جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے جو تمہارے امام تمہیں میں سے ہوں گے صحیح مسلم کی ایک روایت سے بخاری کی اس حدیث کی مزید وضاحت ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.بخارى كتاب التفسير سورة الجمعة زير آيت ۴ قَالَ الزُّهْرِى فى تشريح مجى وفد باذان الفارسي صاحب اليمن ) فلما بَلَغَ ذالک ای خیر قتل کسری (پرویز) باذان بعث با سلامه و اسلام مَنْ مَّعَهُ مِنَ الفرس الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت الرسل من الفرس لرسول الله صلى الله عليه وسلم الى من نحن يا رسول الله ؟ قَالَ أَنتُم مِنَّا ز إلَيْنَا أَهْلَ البيت (السيرة النبوية لابن هشام ذكر ما انتهى اليه امر الفرس باليمن.اسلام با ذان ) رواه البخاري في تاريخه بخاری کتاب احادیث الانبياء، باب نزول عیسی ابن مریم
تاریخ افکا را سلامی ۳۶۵ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ، یعنی تمہاری کتنی نازک حالت ہوگی جب تم میں ابن مریم آئیں گے جو تمہاری امامت اور قیادت کا فریضہ سر انجام دیں گے اور تم میں شامل ہوں گے.مسند احمد کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.” يُوْشَكُ مَنْ عَاشَ مِنكُمْ أَنْ يُلْقَى عِيْسَى بْنَ مَرْيَمَ إِمَا مَا مَهْدِيَّا وَ حَكَمًا عَدَلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِير.یعنی تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسی بن مریم سے ضرور ملے گا وہی امام مہدی ہے حکم عدل ہے صلیب کو ( بدلائل ) تو ڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا.کنز العمال کی روایت بھی اس حد بیث کی تصدیق کرتی ہے جو یہ ہے لا يَزْدَادُ الأمْرُ إِلَّا شِدَّةً وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُعًا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ وَلَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یعنی ایک وقت آتا ہے کہ حالات زیادہ بگڑ جائیں گے.دنیا میں (مسلمانوں کے ) ادبار کا دور دورہ ہوگا لوگ بخل اور خود غرضی سے بھر جائیں گے اور وہ شرارتوں میں اس قدر بڑھ جائیں گے کہ کو یا قیامت ہی آگئی ہے (سب کی زبان پر یہ ہوگا کہ کوئی مصلح کوئی منجی لیکن ) اُس وقت عیسی بن مریم کے سوا کوئی مہدی اور نجات دہندہ نہیں ہو گا انہی کے ذریعہ حالات سدھریں گے.حضرت حسن بصری جو صاحب عرفان محدث تھے وہ فرماتے ہیں.إِنْ كَانَ الْمَهْدِيُّ فَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَ إِلَّا فَلَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ » یعنی اگر کوئی مہدی ہے تو عمر بن عبد العزیز ہیں ورنہ پھر عیسی کے سوا کوئی اور مہدی نہ ہوگا.ان روایات سے ایک اور ایک دو کی طرح یہ بات ثابت ہے اور جو شخص اسلام کی حقانیت پر مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۱۱ كنزل العمال جلد صفحه ۱۸۲ مطبوعه مطبع النظاميه حیدر آبا ور کن ۱۳۱۴ هـ تاريخ الخلفاء للسيوطي صفحه ۱۵۸ (عہد بنوامیہ )
تاریخ افکارا سلامی ایمان رکھتا ہے وہ یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ مسلمانوں کے انتہائی تنزل اور نہایت نازک زمانہ میں ایک خاص شان کے موعود نے آنا ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ مادی ہتھیاروں سے لیس ہوگا، یا آسمانی اور روحانی حربوں سے کام لے گا، اس کی ایک نظر کفر کی طاقتوں کو تباہ کر دے گی یا سنت انبیا ء اور بالخصوص اپنے سردار اور اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح محنت اور مشقت سعی پیہم اور جہد ائم کے دریا میں سے ہو کر اور طرح طرح کی قربانیاں پیش کر کے کامیابی کی راہیں ہموار کرے گا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے آقا کے بارہ میں فرماتے ہیں.”ہمارے رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہوگا.وہ افضل البشر ، افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے؟ دیکھو آپ نے غار حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تیک تضرعات اور گریہ وزاری کیا گئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے.جب جا کر کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیضان نازل ہوا ملے.اس سے پہلے آپ صحابہ کی جد وجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پروا نہ کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے.بہر حال جو صاحب فہم حضرات پیشگوئی کی تعبیری زبان کو سمجھتے ہیں اور اُن میں جو تمثیل اور استعارے ہوتے ہیں ان کی حقیقت سے واقف ہیں اور پیشگوئیوں کے بارہ میں ان کا مطالعہ وسیع ہے.ان پر یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ مذکورہ بالا روایات میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ اپنے ظاہری معنوں اور سطحی مطالب پر مشتمل نہیں بلکہ اُس کے اندر عرفان کے دریا موجزن ہیں اور عبرت کے سامان پوشیدہ ہیں.پس ان پیشگوئیوں میں جس عظیم موعود کے آنے کا ذکر ہے اُسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۰۱ ملفوظات جلده اصفحه ۲۰۵ مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ
تاریخ افکارا سلامی کے مظہر ہونے کی وجہ سے المہدی " کا نام دیا گیا ہے اور اس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ صلیب کے غلبہ کا استیصال ہوگا.اُسے مثیل مسیح اور مظہر عیسی بن مریم کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ وہ عیسی بن مریم جو آج سے دو ہزار سال پہلے گزر چکے ہیں اور اُسی طرح آسمان پر جاچکے ہیں جس طرح دوسرے انبیاء آسمان پر گئے اور جنہیں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر مختلف آسمانوں کا مکین دیکھا وہ دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوں گے کیونکہ یہ سنت الہی کے خلاف ہے.اس لئے کہ جو طبعی عمر پا کر فوت ہوا وہ واپس اس دنیا میں نہ آیا اور حسب آیات قرآن کریم عیسی بن مریم وفات پاچکے ہیں.اس لئے وہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتے اور جیسا کہ سطور بالا میں اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ کسی فوت شدہ بزرگ یا نبی کی دوبارہ آنے کے معنے یہ لیا ہوا کرتے ہیں کہ اس کا مثیل آئے گا جو اس نبی کی برکات کا حامل ہو گا اس کی سنت کا احیاء کرے گا.اخلاق میں اُس کے مشابہ ہوگا اور اُن مقاصد کو پورا کرے گا جو اس کی بعثت کا باعث تھے.اس موعود دماً مور کو صحیح مسلم کے حدیث میں چار بار نبی اللہ کہا گیا ہے.یہ ایک لمبی حدیث ہے جس کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں.يُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ.فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ ثُمَّ يَقيطُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيَرْغَبُ نَبيُّ اللهِ عِيسَى وَ أَصْحَابه.جیسا کہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ مرتبہ اور کردار کے لحاظ سے امت محمدیہ کے بزرگ افراد کو اسی طرح مقام نبوت حاصل ہے جیسا کہ سابقہ انبیاء کو حاصل تھا ایک ذرہ بھی فرق نہیں بلکہ خیر الرسل کی امت ہونے کی وجہ سے بعض افراد امت کا درجہ ان سابقہ انبیاء سے کہیں بڑھ جاتا ہے تا ہم امت کے ان افراد کو نبی" کے نام کی بجائے دوسرے روحانی نام ملے ہیں.جیسے خلفا ء، اولیا و مجد دین اور مہد تین لیکن ایک عظیم فردامت کو حسب حدیث مسلم نبی کے نام سے بھی پکارا گیا ہے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ امت اس مقام بلند سے محروم نہیں لیکن خاتم النبیین کے مقام کی عظمت شان 1 سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۶ ۵ میں یہ تصریح ہے کہ عیسی بن مریم کی وفات پہلے ہوگی اور پھر حسب آیت النساء ۱۵۹ ان کا رفع ہوگا اور سورۃ المائدہ ۱۱۷ میں یہ وضاحت ہے کہ عیسی بن مریم وفات پاچکے ہیں.اُن کے علاوہ بھی متعدد آیات اور احادیث ہیں جو عیسی بن مریم کی وفات کو ثابت کرتی ہیں.مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال.رياض الصالحين للنووى شارح صحيح مسلم كتاب المنثورات والملح
تاریخ افکا را سلامی ۳۶۸ اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ اب نبی کے نام کا استعمال عام نہ ہو گا لے.بہر حال مذکورہ بالا عظیم پیشگوئیوں کے مطابق عین وقت پر یہ مسیح آخر الزمان اور مہدی دوراں آگیا جس نے اپنی بعثت کی ایک غرض یہ بتائی کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جائے اور انہیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رنگ میں رنگیں کیا جائے.آپ کا نام نامی اور اسم گرامی "مرزا غلام احمد " ہے اور آپ کے والد ماجد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ ہے.آپ مغل بر لاس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں.آپ کے بزرگ سمر قد کے علاقہ سے آئے تھے اور اُس جگہ آکر آبا د ہوئے جس کا نام اب ”قادیان" ہے جو ضلع گورداسپورصو بہ مشرقی پنجاب ملک بھارت کا ایک قصبہ ہے.آپ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے.جب آپ کی عمر چونتیس یا پینتیس سال کے قریب تھی تو آپ کو اپنے والد ماجد کی وفات کے قریب ہونے کی بذریعہ الہام اطلاع ملی.الہام کے عربی الفاظ یہ تھے.وَ السَّمَاءِ وَالطَّارِقِ“ آپ نے اس الہام کا جو مفہوم سمجھا اُسے آپ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.قسم ہے آسمان کی جو قضاء وقدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو جائے گاتے." اس الہام سے آپ یہ سمجھے کہ آپ کے والد ماجد کا آج رات انتقال ہو جائے گا اور یہ الہام اس صدمہ کے موقع پر بطور تسلی ہے.آپ کو اس موقع پر دوسرا الہام یہ ہوا کہ " أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ آپ اس دوسرے الہام کے سلسلہ میں آپ لکھتے ہیں." " مجھے اُس خدائے عزوجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان لے حضرت باقی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے.اس لئے اگر تمام خلفاء کو نیسی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی فرد کو بھی نیسی کے نام سے نہ پکارا جا تا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں.(تذکرة الها ومتن روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵) کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۳
تاریخ افکارا سلامی میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہو گا.میرے پر اُس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں آپ نے ۱۸۸۰ء کے قریب اپنی مشہور زمانہ کتاب 'براہین احمدیہ“ کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انگریزی حکومت کا غلبہ پورے عروج پر تھا اور پوری قوت کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ ہو رہی تھی اور بانی اسلام کے خلاف صد با کتا بیں شائع ہو رہی تھیں.اسی زمانہ میں آریہ سماج اور مرہم سماج کی تحریکیں بھی اپنے شباب پر تھیں اور اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہی تھیں.مسلمانوں کی حالت اپنی جگہ ایسی نا گفتہ بہ اور قابل تشویش تھی کہ مولانا حالی نے ۱۸۷۹ء میں اس بے بسی اور بیکسی کا نقشہ یوں کھینچا.رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی ایسے نازک حالات میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اپنی یہ کتاب تصنیف کی جس میں کلام الہی قرآن مجید کی حقانیت اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے زیر دست دلائل بیان کئے اس کتاب کی مقبولیت اور اس کی شاندار تاثیرات کا اندازہ اس تبصرہ سے لگایا جاسکتا ہے جو اُس زمانہ کے مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنه میں اس کتاب کے بارہ میں شائع کیا.مولوی صاحب لکھتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تکلیف نہیں ہوئی.اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و یہ ہم سماج سے اس زور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چارا ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دیہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑا بھی اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام و کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۵ حاشیه
تاریخ افکا را سلامی منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعوی کیا ہو کہ جس کو وجودالہام میں شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ اور مشاہدہ کرے اور اس تجر بہ اور مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہولے.یہ آٹا را ور نشانات اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ وہ "رجل موعود “ جس کی آمد کا انتظار مدت سے کیا جا رہا تھا.وہ آپ کی ذات میں ہویدا ہونے والا ہے ضرورت زمانہ اور مسلمانوں کی حالت بھی اس کی متقاضی تھی اور ایسا ہی ہوا بھی.چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اپنی ماموریت کے بارہ میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں.اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں نا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پاکر اُس کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں وہ مسیح جو امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں ہر اور است خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں.آپ مزید فرماتے ہیں.تمام اکابر اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ اس امت مرحومہ کے درمیان سلسلہ مکالمات الہیہ کا ہمیشہ سے جاری ہے اس معنے سے ہم نبی" ہیں ورنہ ہم اپنے آپ کو امتی کیوں کہتے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو فیضان کسی کو پہنچ سکتا ہے وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پہنچ سکتا ہے اُس کے سوائے اور کوئی ذریعہ نہیں.حد یث شریف میں بھی آیا ہے کہ آنے والا مسیح نبی بھی ہوگا او رامتی بھی ہوگا اور رامتی تو وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے فیض حاصل کر کے تمام کمالات حاصل کرے.اشاعة السنه نمبر ۶ جلدی صفحه ۱۷۰۱۶۹ ملفوظات جلد ۱ صفحه ۲۳۸ مطبوع الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۳
تاریخ افکا را سلامی آپ نے ایک دفعہ فرمایا.باقی رہی یہ بات کہ ہم نے نبوت کا دعوی کیا ہے.یہ نزاع لفظی ہے.مکالمہ مخاطبہ کے تو یہ لوگ خود بھی قائل ہیں.اسی مکالمہ مخاطبہ کا نام اللہ تعالی نے دوسرے الفاظ میں نبوت رکھا ہے ورنہ اس تشریعی نبوت کا تو ہم نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہم نے ہرگز ہرگز دعوی نہیں کیا.اس طرح کی نبوت کا کہ گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو منسوخ کر دے دعوی کرنے والے کو ہم ملعون اور واجب القتل جانتے ہیں.ہم پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ سب رسول اکرم کے فیض سے ہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر ہم بیچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور خاک بھی نہیں.کوئی ہزار تپیا کرے بچپ کرے، ریا ضتہ شاقہ اور محنتوں سے مشت استخواں ہی کیوں نہ رہ جاوے مگر ہر گز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع سے کبھی میسر آسکتا ہی نہیں اور ممکن ہی نہیں ملے.یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفصلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابوت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں" ہے.جمال هم نشین در من اثر کرد وگر نہ من ہماں خاکم کہ ہستم اب ہم اس مدعی مهدویت اور مسیحیت کی صداقت کے دلائل اور اس کی بعثت کی علامات کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں.مسیح موعود کی بعثت کے وقت کی ایک علامت یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ اپنی سابقہ عظمت اور شان و شوکت سے محروم ہو جائیں گے.اُن میں نہ اتفاق باقی رہے گا اور نہ اتحاد.بہتر فرقوں میں وہ بٹ جائیں گے.ہر فرقہ صرف اپنے آپ کو ناجی قرار دے گا.روحانی، تمدنی اور سیاسی ہر لحاظ سے ان کی ساکھ ختم ہو جائے گی.وہ تمام بدیاں جو کبھی ملفوظات جلد ۱ صفحه ۳۳۲ مطبوع الشركة السلامیہ ربوہ براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد صفحه ۶۴۶
تاریخ افکا را سلامی ۳۷۲ یہود میں پائی جاتی تھیں وہ سب مسلمانوں میں راہ پا جائیں گی.قرآن کریم کی سمجھ اور اُس کے احکام پر عمل کا فقدان ہو گا.اُس کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے اور اسلام کا صرف نام رہ جائے گا.ان کی مسجد میں بظاہر آباد اور بھری نظر آئیں گی لیکن ہدایت اور نجات کے لحاظ سے ویران دکھائی دیں گی.اُن کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.وہ خود فتنے اُٹھائیں گے اور پھر خود ہی ان فتنوں کی آگ میں جل بھن مریں گئے.ان سب حالات کا ذکر قرآن کریم میں اجمالاً اور کتب حدیث میں تفصیلاً موجود ہے.قرآن کریم مسلمانوں کی بگڑی حالت کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے قَالَ الرَّسُولُ يُرَبْ إِن قَوْمِي اتَّخَذُوا هذا القرآنَ مَهْجُورًا یعنی رسول (عالم روحانی میں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر ) کہیں گے ،اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو ( بیکار سمجھ کر ) چھوڑ دیا ہے اور دوسرے فلسفوں اور بر باد کن نظریوں اور ہلاکت خیز راہوں کو اختیار کر لیا ہے.حدیث رسول ہے کہ آپ نے فرمایا.يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ " یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کا فقط نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریر اور حروف کی شکل رہ جائے گی اس پر عمل کوئی نہیں کرے گا.مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حالات مسلمانوں پر گزرے ہیں.چنانچہ مولانا حالی نے مسلمانوں کی اس دردناک حالت کا مرثیہ پڑھا اور علامہ اقبال نے اس حالت کا اظہار ان الفاظ میں کیا.وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود غرض وہ تمام بدیاں اور کمزوریاں اقتصادی نکبتیں اور بد حالیاں جوگزشتہ زمانہ میں بعثت انبیاء کی متقاضی ہو ئیں وہ تمام اپنی ساری شناعتوں کے ساتھ موجودہ مسلمانوں میں موجود ہیں.وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا مشكوة المصابيح كتاب العلم، الفصل الثالث ل الفرقان : ٣١
تاریخ افکا را سلامی اس عظیم مہدی دوراں" کی صداقت کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی صداقت کی گواہی آسمان دے گا اور وہ اس طرح کہ اُس کے دعوئی کے بعد رمضان کے مہینہ کی تیرہ تاریخ میں چاند گرہن ہوگا اور اسی مہینہ کی اٹھائیس تاریخ میں سورج کو گرہن لگے گا.حدیث کے الفاظ یہ ہیں.إِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ " الْقَمَرُ لَاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ » یعنی ہمارے اس مہدی کی صداقت کی دونشانیاں ایسی ہیں کہ آسمان وزمین کی پیدائش کے آغاز سے بطور نشان کبھی ظاہر نہیں ہوئیں.اول یہ کہ رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن ( کی تاریخوں ۱۳ ۱۴ ۱۵ میں سے ) پہلی تاریخ (یعنی (۱۳) کو گرہن ہوگا اور اسی مہینہ میں ( سورج گرہن کی تاریخوں ۲۷ ۲۸ ۲۹ میں سے ) درمیانی (یعنی ۲۸) تاریخ کو سورج گرہن ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعویٰ مہدویت کے بعد ۱۳۱۱ھ کے رمضان کی ۱۳ تا ریخ کو چاند گرہن ہوا اور اسی مہینہ کی اٹھائیس تاریخ میں سورج گرہن ہوا.عیسوی لحاظ سے یہ ۱۸۹۴ء تھا..در اصل یہ حدیث قرآن کریم کی آیات فَإِذَا بَرقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجَمِعَ ا القمسُ وَالْقَمَرَ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَومَن اين NANA کی تفسیر ہے اور اس کی تائید انجیل اور دوسرے بزرگوں کی تشریحات سے بھی ہوتی ہے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس نشان کے ظہور کے سلسلہ میں فرماتے ہیں جب سے نسلِ انسانی دنیا میں آئی نشان“ کے طور پر یہ خسوف و کسوف صرف 1 سنن الدارقطنی، کتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف - بحار الانوار جلد۵۲ صفحه ۲۱۴،۲۱۳ داراحياء التراث العربی بیروت لبنان طبع ثالث ۱۹۸۳ء ۲ در اصل یه نشان دو دفعہ ظاہر ہوا پہلے سال یعنی ۱۸۹۴ء میں مشرقی ممالک میں یہ ظاہر ہوا اور اگلے سال یعنی ۱۸۹۵ء میں مغربی ممالک امریکہ وغیرہ میں اس کا ظہور ہوا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۹ء کو مہدویت کا جھوٹی کیا اور اس کے دو سال بعد ۱۸۹۱ء میں آپ نے کھل طور پر مسیحیت کا دعوی کیا.اس سال آپ نے جماعت احمدیہ کی بنیا د رکھی.کے القيامة : ۱۱۲۸ متی باب ۲۴ آیت ۳۰- حجج الكرامه صفر ۳۴۴
تاریخ افکارا سلامی ۳۷۴ میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا ہو اور دوسری طرف اُس کے دعوی کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اُس نے اس خسوف و کسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہو.کسوف خسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں.نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت خاص معین تاریخوں میں ) صرف ایک دفعہ ہوا ہے ہے.► محترم پروفیسر حافظ ڈاکٹر صالح محمد الہ دین صاحب سابق صدر شعبہ فلکیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد نے مہدی دوران کی صداقت کی دو علامات یعنی کسوف و خسوف جن کا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مذکورہ بالا میں ذکر ہے، کے موضوع پر اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں اس کی تصریح کی ہے.آپ لکھتے ہیں.مذہب اسلام میں مصلح آخر الزمان کے وقت میں سورج ، چاند گرہن کے نشان کا ذکر بہت نمایاں چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۹ ، ۳۳۰ حاشیه کے آپ مایا قرآن تھے.آپ کو قرآن کریم سے خاص تعلق تھا.دنیاوی تعلیم بھی پی ایچ ڈی تھی اور اسٹرانومی میں انہوں نے بڑا نام پیدا کیا ہے لیکن سائنس کو ہمیشہ قرآن کے تابع رکھا ہے.عثمانیہ یونیورسٹی سے انہوں نے فزکس میں ایم ایس سی کی پھر بعد میں انہوں نے امریکہ سے اسٹرانومی ، ایسٹرو فزکس میں پی ایچ ڈی کی.1963ء میں Observatory University of Chicago USA سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی آپ بڑی خصوصیات کے حامل تھے علمی لحاظ سے ان کے قریباً پچاس مضامین اور ریسرچ پیپر بین الاقوامی رسالوں میں شائع ہوئے ہیں اور جن پر کئی ایوارڈز بھی ان کو ملے ہیں.چنانچہ ہندوستان کا مشہور ایوارڈ مگنا وسها Megnanad) Saha) ایوارڈ فار ٹھیوریٹیکل سائنس 1981ء میں آپ کو دیا گیا ہے.اس کے علاوہ بے تحاشا ایوارڈ ان کو ملے ہیں.Lunar and Solar Eclipses اور Dynamic of galaxies آپ کے پسندیدہ مضمون تھے جن میں قرآن اور احادیث میں سورج چاند گرہن بطور صداقت حضرت مسیح موعو دا ور امام مہدی بیان ہوا ہے ۹۵-۱۹۹۴ء میں اس نشان پر صد سالہ پروگرام کے تحت کئی جماعتی رسائل میں آپ کے مضامین بھی شائع ہوئے.مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ سکالر اور ریسرچ فیلو بھی تھے.یہ لمبی ایک فہرست ہے.پھر Great minds of the 21st century, American biographical institute Raleigh 2003 US.A نے ان کو 2003 ء میں ایوارڈ بھی دیا.
تاریخ افکا را سلامی ۳۷۵ طور پر پایا جاتا ہے.قرآن مجید میں سورۃ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَ ايْنَ الف لے یعنی پس جس وقت آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گرہن ہوگا اور سورج اور چاند ا کٹھے کئے جائیں گے یعنی سورج کو بھی گرہن لگے گا تب اس روز انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اس آخری زمانہ میں ہونے والے گرہنوں کی تفصیل ہمیں ایک مشہور حدیث سے ملتی ہے.چوتھی صدی ہجری میں حضرت علی بن عمر البغدادی الدار قطنی (۱۳۰۶ / ۰۹۱۸ تا ۱۳۸۵ / ۰۹۹۵) بلند پایه محدث گزرے ہیں.وہ اپنی سنن دار قطنی میں حضرت امام با قرمحمد بن علی رضی اللہ عنہ (جو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے ) کی روایت سے یہ حدیث درج فرماتے ہیں.إِنَّ لِمَهْدِيَّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لَاوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النَّصْفِ مِنْهُ - یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں وہ کبھی نہیں ہوئے (یعنی کبھی کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوئے) جب سے کہ آسمان اور زمین پیدا ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں اوّل رات کو گرہن لگے گا (یعنی گرہن کی راتوں میں سے اوّل رات کو ) اور سورج کو درمیان میں گرہن لگے گا (یعنی گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن کو ) اور یہ ایسے نشان ہیں کہ جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین پیدا کیا کبھی کسی دوسرے مامور و مدعی کے لئے ) نہیں ہوئے.گرہن کی تاریخوں کا ذکر نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں." کویم خسوف قمر نز دابل نجوم متقابل شمس بر هیئت مخصوص میشود در غیر تاریخ سیزدهم و چهار و هم و یا نز دہم اتفاق می افتد و انھیں کسوف شمس بر هیئت بر شکل خاص در غیر تاریخ القيامة : ١١٨ سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفة صلوة الخسوف جلد اوّل صفحه ۱۸۸ مطبع انصاری دہلوی حجيج الكرامه صفحه ۳۳۴ مطبوع مطبع شاہجہانی بھوپال
تاریخ افکا را سلامی MZY بست و هفت و بست و هشت و بست و نهم میشود ۲ یعنی میں کہتا ہوں کہ اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن سورج کے مقابل آنے سے ایک خاص حالت میں سوائے تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں اور اسی طرح سورج گرہن بھی خاص شکل میں سوائے ستائیسویں ، اٹھائیسویں اور انیسویں تاریخوں کے کبھی نہیں لگاتا.پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن اوّل رات میں ہوگا اور سورج گرہن درمیان میں.لہذا چاند گرہن کے لئے تیرھویں رمضان اور سورج گرہن کے لئے اٹھائیسویں رمضان مقرر ہوئے.اس پیشگوئی کے سلسلہ میں متعد داعتراضات کئے گئے جو اعتراضات آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) پر کئے گئے ان میں یہ اعتراض بھی تھا کہ سورج گرہن چاند گرہن کے بارے میں جو پیشگوئی ہے وہ پوری نہیں ہوئی ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ نشان آسمانی دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ۱۳۱۱ھ بمطابق ۱۸۹۴ء میں رمضان المبارک کی مقرر کر وہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگے.چاند گرہن رمضان المبارک کی ابتدائی تیرھویں رات ۲۱ / مارچ کو ہوا اور سورج گرہن ۲۸ رمضان المبارک بروز جمعه ۶ سراپریل کو.۱۸۹۴ء کی جنتری کے علاوہ گرہن کا ذکر اخبار آزاد اور سیول اینڈ ملٹری گزٹ میں بھی ہوا.پروفیسر T.Von Oppolzir کی کتاب Canon of Eclipses میں B.C ۱۲۰۸ سے لے کر AC ۱۲۶۱ کے گرہنوں کی انگریزی تاریخیں دی گئی ہیں.اس کتاب سے بھی مذکورہ بالا تاریخوں کی تصدیق ملتی ہے.یہ کتاب عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کے شعبہ بیت کی لائبریری میں موجود ہے.۱۸۹۴ء کے Nautical Almanal London سے بھی تصدیق حاصل کی جاسکتی ہے.
تاریخ افکا را سلامی ۱۳۱۱ھ /۱۸۹۴ء کے رمضان کے گرہنوں کی خصوصیات اس نشان کے ظاہر ہونے کے بعد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم تحریری فرمائی جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ اس نشان سے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی.آپ نے اپنے الہام کی روشنی میں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ حدیث شریف میں اول ليلة کے جو الفاظ آئے ہیں اس سے مراد چاند گرہن کی پہلی رات یعنی ۱۳ ار رمضان کی رات ہے اور فی النصف کے جو الفاظ آئے ہیں اس سے مرا دسورج گرہن کا درمیانی دن یعنی ۲۸ / رمضان ہے.چنانچہ گر ہن انہیں تاریخوں میں ہوئے نیز آپ نے اپنی کتاب میں یہ ایمان افروز بات بھی بتائی کہ پیشگوئی کے اول اور نصف کے الفاظ دو طرح سے پورے ہوئے.ایک تاریخوں کے لحاظ سے.دوسرے وقت کے لحاظ سے.وقت کے لحاظ سے اس طرح پورے ہوئے کہ چاند گرہن قادیان میں اوّل رات یعنی رات کے شروع ہوتے ہی ہو گیا اور سورج گرہن قادیان میں دو پہر سے پہلے ہوا.Calcutta standard time کے مطابق ہندوستان میں چاند گرہن شام کو سات بجے اور ساڑھے نوبجے کے درمیان ہوا اور سورج گرہن دن کو 9 بجے اور ا ابجے کے درمیان..سورج گرہن کے نصف ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں.یہ قول کہ سورج گرہن اس کے نصف میں ہو گا اس سے یہ مراد ہے کہ سورج گرہن ایسے طور سے ظاہر ہو گا کہ ایام کسوف کو نصفا نصف کر دے گا اور کسوف کے دنوں میں سے دوسرے دن کے نصف سے تجاوز نہیں کرے گا کیونکہ وہی نصف کی حد ہے.پس جیسا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کیا کہ گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو چاند گرہن ہو ایسا ہی یہ بھی مقدر کیا کہ سورج گرہن کے دنوں میں سے جو وقت نصف میں واقع ہے اُس میں گرہن ہو.سو مطابق خبر واقع ہوا اور خدا تعالیٰ بجزا ایسے پسندیدہ لوگوں کے جن کو وہ اصلاح خلق کے لئے بھیجتا ہے کسی کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا.پس شک نہیں کہ یہ حدیث پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو خیرالمرسلین ہے ہے." الفضل ۱۷ را گست ۱۹۷۳ء نورالحق حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۴، ۲۰۵ اردو تر جمه
تاریخ افکا را سلامی ۳۷۸ ایک اور لطیف بات جس کا ذکر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب نورالحق حصہ دوم میں فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے چاند گرہن کے لئے تو خسف کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو عام طور پر چاند گرہن کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن سورج گرہن کے لئے کسف کا لفظ استعمال نہیں فرمایا جو عام طور پر سورج گرہن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ سورج گرہن کے لئے جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں: " قرآن نے کسوف کو کسوف کے لفظ سے بیان نہیں کیا تا ایک امر زائد کی طرف اشارہ کرے کیونکہ سورج گرہن جو بعد چاند گرہن کے ہوا یہ ایک غیر معمولی اور نادرة الصور تھا اور اگر تو اس پر کوئی گواہی طلب کرتا ہے یا مشاہدہ کرنے والوں کو چاہتا ہے.پس اس سورج گرہن کی صور غیبیہ اور اشکال عجیب یہ مشاہدہ کر چکا ہے پھر تجھے اس بارے میں وہ خبر کفایت کرتی ہے جو دو مشہور اور مقبول اخبار یعنی پانیر (Poiner) اور سیول ملٹری گزٹ میں لکھی گئی ہے اور وہ دونوں پر چے مارچ ۱۸۹۴ء میں شائع ہوئے ہیں لے ، گرہنوں کے اقسام ہوتے ہیں.بعض گرہن خفیف ہوتے ہیں اور بعض نمایاں ہوتے ہیں.پروفیسر J A Mitchell نے اپنی کتاب Eclipses of The Sun Columbia 53 university Press, New York 5th edition 1951 Pages میں سورج گرہن کے چارا قسام کا ذکر کیا ہے اور یہ چارا قسام یہ ہیں.ر 1- Partial 2- Annular 3- Annular Total 4- Total Partial گرہن میں سورج کا کچھ حصہ تاریک ہوتا ہے.Annular گرہن میں سورج کا درمیانی حصہ تاریک ہوتا ہے لیکن اطراف کا حصہ تاریک نہیں ہوتا.Total گرہن میں سورج تمام کا تمام تاریک ہو جاتا ہے.Annular Total جیسا کہ نام سے ظاہر ہے Annular اور Total کے نور الحق حصہ دوم - جلد ۸ صفحه ۲۱۴ اردو تر جمه
تاریخ افکا را سلامی ٣٧٩ درمیان کی قسم ہے.یہ تیسری قسم کا گرہن سب سے زیادہ نایاب ہے.پروفیسر Mitchell نے ماضی کے گرہنوں کا جائزہ لینے سے یہ استنباط کیا ہے کہ اوسطاً صدی میں ۲۳۷ سورج گرہن ہوئے جن میں سے صرف دس اس قسم کے تھے.۲۸ / رمضان المبارک ۱۳۱۱ ھ میں گرہن اس تیسری قسم کا تھا اس لئے وہ عام سورج گرہن سے مختلف تھا.جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ذکر فرمایا ہے.یہ بات قابل توجہ ہے کہ چاند کو جب گرہن لگتا ہے تو زمین کے نصف کرے سے زیادہ حصہ سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن سورج گرہن کم علاقہ سے دیکھا جاتا ہے.کئی دفعہ ایسے مقامات پر سورج گرہن ہوتا ہے جہاں سمندر ہوتا ہے یا آبادی کم ہوتی ہے.۱۸۹۴ء کا سورج گرہن ایشیا کے کئی مقامات سے دیکھا جا سکتا تھا جس میں ہندوستان بھی شامل ہے.جہاں پیشگوئی کے مقصود سیدنا حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور آپ کے رفقاء نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں بھی حق کے طالبوں کے لئے نشان ہے کہ گرہن ہندوستان سے دیکھا جا سکتا تھا.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں.ے بندگان خدا ! فکر کرو اور سوچو کہ کیا تمہارے نزدیک جائز ہے کہ مہدی تو بلا د عرب اور شام میں پیدا ہو اور اس کا نشان ہمارے ملک میں ظاہر ہو اور تم جانتے ہو کہ حکمت الہید نشان کو اس کے اہل سے جدا نہیں کرتی.پس کیونکر ممکن ہے کہ مہدی تو مغرب میں ہوا اور اس کا نشان مشرق میں ظاہر ہو اور تمہارے لئے اس قدر کافی ہے اگر تم طالب حق ہوئے." پروفیسر Oppolzer کی کتاب Canon Eclipses میں صرف نمایاں سورج گرہنوں کے مقامات کو نقشہ کے ذریعہ دکھایا گیا ہے.۱۸۹۴ء کے رمضان کا سورج گرہن چونکہ نمایاں قسم کا تھا اس لئے اس کے Track کو پروفیسر Oppolzer نے map سے بتایا ہے.اس کتاب کے 148 Chart میں اس سورج گرہن کے راستہ کی نشاندہی کی گئی ہے.۱۸۹۴ء Nautical Almanal میں بھی اس سورج گرہن کے راستہ کو map سے بتایا گیا ہے.دونوں کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سورج گرہن کا راستہ ہندوستان میں سے گزرتا ہے.نورالحق حصہ دوم - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۱۶،۲۱۵ اردو تر جمعه
تاریخ افکا را سلامی ٣٨٠ ۱۳۱۲ ھ / ۱۸۹۵ ء میں دوسری دفعہ رمضان میں گرہن ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ دو دفعہ رمضان میں گرہن ہوگا."إِنَّ الشَّمْسَ تَنكَيف مَرَّتَيْنِ فِي رَمَضَانَ » چنانچہ اگلے سال ۱۸۹۵ء میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوئے.یہ گرہن قادیان سے نظر نہیں آئے.انگلستان اور امریکہ کے بعض علاقوں سے نظر آسکتے تھے.چاند گرہن 11 / مارچ ۱۸۹۵ء میں ہوا اور سورج گرہن ۲۶ مارچ ۱۸۹۵ء کو ہوا.ان گرہنوں کے وقت بھی قادیان میں رمضان کی تاریخیں ۱۳ اور ۲۸ تھیں.مقام کے بدلنے سے تاریخیں بدل سکتی ہیں.اس دفعہ کا سورج گرہن نمایاں قسم کا نہیں تھا.لہذا پروفیسر Van Oppolzer نے اپنی کتاب میں اس کے لئے map نہیں دیا ہے.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی کتاب همیقة الوحی میں جو ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی ان گرہنوں کا بھی ذکر فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے.اوّل اس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بیجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویست کا نشان قرار دے کر صد با اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے.اس لئے یہ نشان آسمانی میرے لئے معین ہوا.دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ برس پہلے اس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اس نشان کے بارہ میں خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے کہ جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشہور ہو چکی تھی سے ،، مختصر مدن کره قرطبی صفحه ۱۴۸ حقیقة الوحی - روحانی جلد ۲۲ صفحه ۲۰۲
تاریخ افکا را سلامی PAI مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کی تشریح حدیث شریف میں مُنذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کے جو الفاظ آتے ہیں اس کی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے.بعض لوگ نماد نہی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ۱۸۹۴ء سے پہلے رمضان کے مہینے میں ۱۳ اور ۲۸ تاریخوں میں گرہن بھی نہیں ہوئے تھے.یہ تصور واقعات کے خلاف ہے.خاکسار نے جو تحقیق اپنے دوست Dr.Goswemi Mohar Ballebl کے ساتھ کی ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کم و بیش ہر ۲۲ سال میں ایک سال یا مسلسل دو سال ایسے آتے ہیں جبکہ چاند اور سورج دونوں کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگتے ہیں.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی مقام سے دونوں گرہن نظر آئیں.تفصیل کے لئے دیکھیں ریویو آف ریلیجنز جون ۱۹۹۲ء کسی معین جگہ سے معین تاریخوں میں دونوں گرہنوں کا نظر آنا اس واقعہ کو کافی نایاب بنا دیتا ہے.ایسا صدیوں میں ایک دفعہ ہوتا ہے.ہماری تحقیق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے لے کر اب تک ۱۰۹ دفعہ سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں رمضان کے مہینہ میں ہوئے ہیں لیکن ان میں سے صرف ۲ یا ۳ دفعہ ہی ایسا ہوا کہ ۱۳؍ رمضان اور ۲۸ / رمضان کو یہ گرہن قادیان سے نظر آسکتے تھے.مزید ایمان افروز بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے لے کر اب تک صرف ۱۸۹۴ء (۱۳۱۱ھ) ہی ایک ایسا سال تھا جب کہ نہ صرف ۱۳ را اور ۲۸ رمضان کو قادیان پر گرہن ہوئے بلکہ اول ليلة کی پیشگوئی کے الفاظ اس طرح بھی پورے ہوئے کہ چاند گرہن قادیان میں رات کے شروع ہوتے ہی ہو گیا.سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ - مند خلق السَّمَوَاتِ وَ الأرْضِ کے الفاظ سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان تاریخوں میں گرہن پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ مراد ہے کہ ایسے نشان کبھی کسی مدعی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے تھے.لہذا مدعی کا موجود ہونا ضروری ہے.دار قطنی کے الفاظاِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ میں لام افادیت کا ہے جس سے ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ان دونوں نشانوں سے فائدہ اٹھا ئیں گے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں.
تاریخ افکا را سلامی PAP ہمیں اس بات سے بحث نہیں کہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے؟ ہما را مد عا صرف اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ خسوف و کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یا تفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوئی کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے ایک نشان ظہرایا ہو اور دار قطنی کی حدیث میں یہ تو کہیں نہیں ہے کہ پہلے بھی کسوف خسوف نہیں ہوا.ہاں یہ تصریح سے الفا ظ موجود ہیں کہ نشان کے طور پر یہ پہلے کسوف و خسوف نہیں ہوا کیونکہ لَمْ تَكُونَا کا لفظ مؤنث کے صیغہ کے ساتھ دار قطنی میں ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا اور اگر یہ مطلب ہوا کہ کسوف خسوف پہلے بھی ظہور میں نہیں آیا تو لَمْ يَكُونَا تذکر کے صیغہ سے چاہیے تھا نہ کہ لَم تَكُونَا کہ جو مؤنث کا صیغہ ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ایین ہے یعنی دونشان کیونکہ یہ مؤنث کا صیغہ ہے.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے اُس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لئے نشان ٹھہرایا ہوا اور یہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے اور یہ صرف اسی صورت میں ہو گا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہو و ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دار قطنی کی مقرر کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے.غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں نشان کے طور پر ایک مدعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے اور حدیث نے ایک مدعی مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر دیا ہے." چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۹، ۳۳۰ حاشیه
تاریخ افکا را سلامی ٣٨٣ نیز حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں: در حقیقت آدم سے لے کر اس وقت تک کبھی اس قسم کی پیشگوئی کسی نے نہیں کی اور یہ پیشگوئی چار پہلو رکھتی ہے.ا یعنی چاند کا گر ہن اس کی متعلقہ راتوں میں سے پہلی رات میں ہوتا.سورج کا گرہن اس کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہونا..تیسرے یہ کہ رمضان کا مہینہ ہوتا..۴.چوتھے مدعی کا موجود ہونا جس کی تکذیب کی گئی ہو.پس اگر اس پیشگوئی کی عظمت کا انکار ہے تو دنیا کی تاریخ میں سے اس کی نظیر پیش کرو اور جب تک نظیر نہیں سکے تب تک یہ پیشگوئی ان تمام پیشگوئیوں سے اول درجہ پر ہے جن کی نسبت آیت فَلا يُظهِرُ عَلَى غَيْبه أحداً کا مضمون صادق آسکتا ہے کیونکہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم سے آخیر تک اس کی نظیر نہیں ملے.چاند گرہن، سورج گرہن کے نشان ایسے نشان ہیں جو کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ جس نے سورج اور چاند اور زمین کو پیدا کیا ہے.لگی اس کے اختیار میں ہے جیسا کہ کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو الہام ہوئے کہ قُلْ عِندِی شَهَادَةً مِّنَ اللهِ فَهَلْ أَنتُم مُّؤْمِنُونَ.قُلْ عِنْدِي شَهَادَةً مِّنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ - يعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اُس کو مانو گے یا نہیں ؟ پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے یا نہیں؟ اس نشان کے کئی ایمان افروز پہلو ہیں.مختلف مذاہب کی کتابوں میں ان نشانوں کا ذکر پایا جانا ، قرآن مجید میں ان کا نمایاں طور پر ذکر ہونا.حدیث شریف میں پیشگوئی کی تفصیل پائی جانا اور یہ بتایا جانا کہ ایسا نشان کسی اور مامور کے لئے کبھی ظاہر نہیں ہوا.حضرت محمد بن علی امام با قر جو آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کا حدیث کے راوی ہونا.تخته گواٹر و یہ روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۱۳۶
تاریخ افکا را سلامی ۳۸۴ بزرگان دین کا ان نشانوں کا ذکر کرنا.شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں اس پیشگوئی کا پایا جانا.ان گرہنوں کا ٹھیک دعوی مہدویت کے بعد انتہائی مخالفت کے وقت میں وقوع ہونا.ان گرہنوں کا بڑی باریکیوں کے ساتھ پیشگوئی کے شرائط کو حرف بحرف پورا کرنا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بڑی تحدی کے ساتھ ان گرہنوں کا اپنے دعوی کی تائید میں پیش کرنا.آپ کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ یہ نشانات میرے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرنا کہ یہ نشانات میری تصدیق کے لئے ہیں.یہ ایسے امور ہیں جو ہر متلاشی حق کو سچائی کو قبول کرنے کی پر زور دعوت دیتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں.اسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحِ نيز بشنو از زمین آمد امام کامگار یعنی سنو ! آسمان سے آواز آرہی ہے کہ مسیح آ گیا مسیح آگیا نیز فرماتے ہیں.آسمان با رونشان الوقت میگوید زمیں این دو شاہد از نے تصدیق من استاده اند نیز فرماتے ہیں.آسمان میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک وتار نیز فرماتے ہیں.یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا لے - اس مسیح موعود کی صداقت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اُس کے زمانہ میں دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور اور غلبہ ہوگا بعض مسلمان جس طرح مہدی اور مسیح کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں.اسی طرح دجال اور یا جوج ماجوج کی حقیقت کو سمجھنے میں بھی غلطی خوردہ ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس سے لے ڈاکٹر صالح محمداللہ دین صاحب کے مضمون سے اقتباسات مصباح مئی ۱۹۹۴ء صفحہ ۳۲ تا۵۲ سے دیئے گئے ہیں.ڈاکٹر صاحب کا اس عنوان پر مضمون خالد اگست ۱۹۹۴ م او ر یویو آف ریلیجنز انگش ستمبر ۱۹۹۴ء میں بھی شائع ہوا تھا.(ناشر)
تاریخ افکا را سلامی 14 متعلقہ پیشگوئیوں کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں اور پیشگوئیوں کے اس اصول کو بھول جاتے ہیں کہ تعبیر اور تمثیل ، استعارہ اور مجاز پیشگوئیوں کا خاصہ ہے اور اس زبان کے اختیار کرنے کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ جس زمانہ میں پیشگوئی کی جاتی ہے اُس زمانہ کے لوگ پیشگوئی میں مضمر اصل حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے نیز ان پیشگوئیوں کا تعلق غیب سے ہوتا ہے اور اصل ثواب ایمان بالغیب میں ہے اور جب وہ ظاہر ہوتی ہیں اور ان کی اصلیت سامنے آتی ہے تو صادق الایمان فورا کہ اُٹھتے ہیں هَذَا مَا وَعَدَنَا الله وَرَسُولَهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَ تَسليما بہر حال عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وجال کوئی مافوق الفطرت عجیب و غریب انسانی وجود ہے جو بڑی تباہ کن ، خفیه، باطنی طاقتوں کا حامل ہوگا اور وہ ایک ایسے گدھے پر سوار ہو گا جس کی طاقتیں بھی اُسی کی طرح غیر معمولی ہوں گی یہی حال یا جوج ماجوج نامی طاقتوں کا ہوگا یہ سب طاقتیں مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تل جائیں گی اس وقت اللہ تعالیٰ امام مہدی اور مسیح کو بھیجے گا جو پھونکوں سے ان طاقتوں کو تباہ کر دیں گے.مسیح مزید یہ کام کریں گے کہ وہ صلیبوں کو توڑنے کے لئے شہر شہر قریہ قریہ پھریں گے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لئے جنگلوں میں نکل جائیں گے اور یہ دونوں بزرگ وجو د بیٹھے بٹھائے مسلمانوں کو دنیا بھر کی حکومتوں اور دولتوں کا مالک بنا دیں گے.یہ تصور مجو به پسندی اور امانی سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.اصل حقیقت کیا ہے اس کے لئے بڑے وسیع غور وفکر اور مطالعہ کی ضرورت ہے.اس مضمون میں چند حقائق ہی پیش کئے جاسکتے ہیں.لغت کی قریباً تمام کتب میں دجال کے یہ معنے بیان کئے گئے ہیں 19 الدَّجَّالُ طَائِفَةٌ عَظِيمَةٌ تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلتِّجَارَةِ ، یعنی دجال ایسے بڑے تاجروں کے گروہوں (تجارتی کمپنیوں ) کا نام ہے جو مال تجارت کو ادھر اُدھر لے جانے کے لئے نقل و حمل کے عظیم و سائل رکھتے ہیں.عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں دجال کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے اس بات کو بھی نمایاں طور پر واضح کیا گیا ہے کہ مکروفریب پر جھوٹ اور کھوٹ ان تجارتی طاقتوں کی سرشت میں داخل ہوگا.الاحزاب : ۲۳ تاج العروس زير لفظ "دجل“ عمدة القاري شرح صحيح البخارى جلد ۱ صفحه ۳۸۶ مطبوعه دار الطباعة العامره مصر
تاریخ افکا را سلامی PAY اس الغوی تحقیق کے بعد اب اُن روایات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو دجال کے خروج اور اُس کے ہولناک فتنہ کے بارہ میں کتب حدیث میں بیان ہوئی ہیں.قریباً تمام قابل ذکر مستند مجموعہ ہائے احادیث اور دوسری کتب دینیہ میں دجال کے آنے کا ذکر موجود ہے.ان میں سے ایک صحیح بخاری ہے جس میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہر زمانہ کے نبی نے اپنی امت کو دجال کے فتنہ سے ڈرایا ہے اور آپ اپنے صحابہ کو اس فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دعا یاد کرنے اور با قاعدگی کے ساتھ پڑھتے رہنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.اللَّهُمَّ اِنّى اَعْوَذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحَ الدَّجَّالِ کہ اے اللہ میں الْمَسِيحُ الدَّجال کے فتنہ سے بچنے کے لئے تیری پناہ چاہتا ہوں..دنجال کی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث بڑی معنی خیز ہے.اس روایت کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے.ایک مشہور صحابی تمیم الداری نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اپنا ایک واقعہ سے سنایا جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (با علام الہی ) تصدیق فرمائی اور دوسرے صحابہ کے سامنے بھی ا اسے بیان کیا.اس واقعہ میں حضرت تمیم الداری بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مغربی سمندر کے سفر پر گئے.سمندر کی موجیں ان کی کشتی کو ایک جزیرہ کے قریب لے گئیں.وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں جا اترے.اس جزیرہ میں انہوں نے ایک عجیب و غریب خوفناک شکل والی عورت کو دیکھا بالوں کی وجہ سے جس کے نہ منہ کا پتہ چلتا تھا نہ پیٹھ کا ، اُس عورت نے اپنا نام جنا سہ سے بتایا.اس عورت سے تمیم داری اور ان کے ساتھیوں کی بعض باتیں ہوئیں.ل مسیح کے ایک متنے ملک ملک بہت گھومنے پھرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے والے کے ہیں اسی بناء پر پھیسٹی اور دجال دونوں کو المسيح “ کہا گیا ہے گویا عیسٹی نیکی پھیلانے اور ہدایت کی شمع روشن کرنے کے لئے سفر میں رہے گا اور اس کے بالمقابل دجال فحاشی اور بے دینی پھیلانے اور استحصالی اغراض پوری کرنے کے لئے گھومے گا.پس عیسی مَسِيحُ الخَیر ہے اورد جال مَسِيحُ الشَّر - بخاری کتاب الفتن باب ذكر الدجال ✓ غالبا یہ واقعہ ایک خواب یا کشف کی صورت میں تھا.واللہ اعلم بالصواب صحيح مسلم كتاب الفتن باب ذكر الجساسه
تاریخ افکارا سلامی ۳۸۷ آخر اس عورت نے مزید کچھ بتانے سے معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ جزیرہ کے درمیان میں ایک گر جا ہے وہاں جاؤ وہاں تمہیں ایک آدمی ملے گا جو مزید باتیں تمہیں بتائے گا.چنانچہ وہ لوگ گر جا میں گئے جہاں انہوں نے ایک اور خوفناک شخصیت کو دیکھا جوز نجیروں میں جکڑا ہوا تھا.اُس عجیب و غریب شخصیت نے انہیں جو باتیں بتائیں اُن میں یہ بات بھی تھی کہ وہ دجال ہے اور اُسے عنقریب اس جزیرہ سے نکلنے کی اجازت ملنے والی ہے اور وہ یہاں سے نکلنے کے بعد ” مکہ اور مدینہ کے سوا باقی ساری دنیا پر مسلط ہو جائے گالے.صحیح مسلم کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ دجال کا تعلق بعض مغربی سمندری جزائر کے گرجوں سے ہے جہاں وہ قید ہے ہے اور ایک وقت میں آکر اُسے اس قید سے نکلنے کا موقع ملے گا.اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ دجالی فتنہ کا آغاز یورپ کے بعض جزائر سے ہوگا جو عیسائیت کا گڑھ ہوں گے کیونکہ اب جبکہ طبقات الارض کے ماہرین نے بحروبر کا چپہ چپہ چھان مارا ہے اور سمندر کے سب جزائر کا علم دنیا کو ہو چکا ہے تو آخر وہ جزیرہ کون سا اور کہاں واقعہ ہے جس کے گر جائیں حضرت تمیم داری نے دجال کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھا اور بعض مسلمانوں کے خیال کے مطابق وہاں وہ ہیبت ناک انسان اب بھی پابند سلاسل ہے.مذکورہ بالا وضاحت کے درست ہونے کی ایک اور دلیل وہ حدیث ہے جس میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دجال کے فتنہ سے بچنا چاہتا ہے وہ سورہ کہف کے ابتدائی اور آخری رکوع کی بکثرت تلاوت کیا کرے..اب جب ہم ان دونوں رکوعوں کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں عیسائیوں کے عقائد ، اُن کے نظریات اور ان کی مادی ترقی پر بحث کی گئی ہے اور ایسے مضامین کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا یورپین طاقتوں کے کردار سے گہرا تعلق ہے.پھر ایسی متعد دروایات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانہ میں جبکہ مسیح موعود ظاہر ہوں گئے ”روم یعنی عیسائی طاقتوں کا غلبہ ہو گا اسی وجہ سے مسیح موعود کا ایک کام یہ بیان کیا گیا ہے 1 غالباً یہ مغربی طاقتوں کے زبر دست نظام جاسوسی کی طرف اشارہ ہے جس میں عورتوں کو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے.غالباً یہ قسطنطنیہ کی اسلامی حکومت کی طرف اشارہ ہے جس نے ایک مدت تک عیسائی طاقتوں کے پھیلاؤ کو روکے رکھا.مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال.بذل المجهود في حَلّ ابی داؤد باب خروج الدجال - -
تاریخ افکا را سلامی FAA کہ کسر صلیب کا فریضہ سر انجام دے گا یعنی عیسائیت کی تردید میں نا قابل تردید دلائل پیش کرے گا.اب ہم وجال کے گدھے کی حقیقت کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتے ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ دجال کا گدھا بھی حیوانی جامہ میں مافوق الفطرت خوفناک طاقتوں کا حامل ہوگا حالانکہ اس گدھے" کی جو علامات اور صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس خیال کی تردید کرتی ہیں اور نہ وہ کسی حیوان میں پائی جاسکتی ہیں.ان صفات اور علامات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایسے تیز رفتار ذرائع سفر اور مواصلاتی وسائل کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے جن کی مثال زمانہ ماضی میں نہیں مل سکتی ہے.چنانچہ ریل گاڑیاں، کاریں، ہیں، بحری جہاز ، ہوائی جہاز ، مختلف قسم کے راکٹ، مصنوعی سیارے ، فضائی شعلہ اس زمانہ کی مُحَیرُ الْعُقُول ایجادات ہیں جن سے انسان حیرت زدہ ہے اور بے اختیار یکا را ٹھا ہے.ع ریکا محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی رہا یہ سوال کی ان ایجادات کو گدھے" سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ گزشتہ سامی ادیان میں گدھے کو اقتصادی سمبل" کے طور پر پیش کیا گیا ہے جیسے بعض ہے جیسے بعض آرائی دینوں میں بیل اور گائے کو اقتصادی خوشحالی کا نشان سمجھا جاتا ہے..دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سواریاں گدھے کی مانند عقل و فہم سے عاری ہوں گی تے اور اپنے چلانے والوں کے حکم اور ارادہ کے تابع چلیں گی اور بعض کی آواز بھی گدھے کی آواز کے مانند ہوگی.اب ہم اُن صفات کی کچھ مزید وضاحت پیش کرتے ہیں جو دجال کے گدھے کی مختلف روایات میں بیان کی گئی ہیں جن سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ کوئی مافوق الفطرت حیوانی گدھا نہیں بلکہ مشینی اور صنعتی دور کے آغاز کی ایک تعبیر ہے.مثلاً ے ان ایجادات کو گدھے سے تعبیر کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایجادات حیرت انگیز کا نا مے تو سرانجام دیں گی لیکن عقل و خرد سے عاری ہوں گی.تَكَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۲ زکریا هاب ۹ آیت ۹ كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا
تاریخ افکارا سلامی ٣٨٩ اس گدھے کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی خوراک آگ اور پانی پر مشتمل ہوگی اور وہ بھاپ کی طاقت سے چلے گا..اس گدھے کی دوسری علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ دھوئیں کے بادل چھوڑے گا.اس گدھے کی تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کے ایک قدم اور دوسرے قدم کے درمیان کا فاصلہ بھی ایک دن رات کبھی تین دن رات کا ہوگا بلکہ بعض اوقات وہ اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے سورج کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گاتے..اس دجالی گدھے کی چوتھی علامت یہ ہے کہ اُس میں کھڑکیاں اور دروازے ہوں گے اور اُس کے اندر روشن دیے جل رہے ہوں گے..اس گدھے کی پانچویں علامت یہ ہے کہ اُس کے دونوں کانوں کے درمیان سترگز کا فاصلہ ہوگا.( یہ غالبا اُس سمعی رابطہ کی طرف اشارہ ہے جو ڈرائیور اور کنٹرولر کے درمیاں قائم ہوتا ہے) - اس دجالی گدھے کی چھٹی علامت یہ ہے کہ وہ خشکی اور تری دنوں پر بڑی تیز رفتاری سے چلے گا.( یہ زمینی اور بحری دونوں ذرائع مواصلات کی طرف اشارہ ہے ) اس گدھے کی ساتو میں علامت یہ ہے کہ وہ شیخ مار کر لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا.(یہ روانگی کے بارن یا سائرن کی طرف اشارہ ہے ).اس عجیب و غریب گدھے کی آٹھویں علامت یہ ہے کہ اُس کے درمیان سواریاں بیٹھیں گی 2 ا مرقاة شرح مشكوة كتاب الفتن جلد ۲ صفحه ۲۲۱ كنز العمال جلدی صفحه ۲۶۶ كنز العمال جلدی صفحه ۲۰۱۰۲۰۰ حدیث نمبر ۲۱۱۰ کنز العمال جلد صفحه ٢٦٧،٢٦٦- بحار الانوار باب علامات ظهوره عليه السلام جلد ۵۲ صفحه ۱۹۳ ما را حیاء التراث العربی بیروت لبنان طبع ثالث ۱۹۸۳ء بحار الانوار جلد ۵۲ صفحه ۱۹۳ ه مشكوة كتاب الفتن باب العلامات بين يدى الساعة الفصل الثالث صفحه ۴۷۷ - كنز العمال جلد صفحه ۲۰۱ تنوير القلوب صفحه ۶۸ مؤلفه الشيخ محمد امين الكردى طبع سادس مطبعة السعادة مصر ١٣٢٨هـ - نزهة المجالس جلدا صفحه ۱۰۹ مطبوعه مطبع ميمنيه مصر ١٣٠٦هـ کے بحار الانوارباب علامات ظهوره عليه السلام جلد ۵۲ صفحه ۱۹۴ نیز کنز العمال جلده صفحه ۲۶۷ كتاب تنوير القلوب صفحه ۶۸ مؤلفه محمد امين الكردى الطبعة السادسه مطبوعه مطبعة السعادة مصر ۱۳۳۸ھ.سورۃ العادیات میں بھی ایسی سواریوں کی طرف اشارہ ہے.واللہ اعلم بالصواب
تاریخ افکا را سلامی گدھے کی ان صفات پر جو مختصر بیان کی گئی ہیں غور کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی حیوانی گدھے کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ تمثیل کے رنگ میں اُس دجالی دور کی ایجادات اور طرح طرح کی نئی مشینی سواریوں کو بیان کیا جارہا ہے.کوئی سمجھدا را اور عقلمند انسان یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ یہ کسی حیوانی گدھے کی صفات اور خصوصیات ہو سکتی ہیں.یہ اعتراض کہ اس زمانہ کی مختلف ایجادات اور خاص طور پر سواریوں کو اگر دجال کی صنعت گرمی اور اس کا گدھا سمجھا جائے تو پھر مسلمان اور دوسری دنیا والے ان سے فائدہ کیوں اُٹھاتے ہیں.کیا دجال کے گدھے پر سوار ہونا کوئی اچھی بات ہے اور کیا دنیا کی بھلائی ان سے وابسطہ ہو سکتی ہے انہیں تو دین و دنیا کی تباہی قرار دیا جانا چاہئیے ؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں خیر وشر کے دونوں پہلو ہوتے ہیں کوئی چیز بھی اپنی ذات میں بری نہیں ہوتی بلکہ مقصد اور استعمال کے لحاظ سے اُس میں بھلائی یا برائی کا وصف پیدا ہوتا ہے.کسی چیز کو اچھے کام کے لئے استعمال کریں تو وہ چیز اچھی شمار ہوگی اور اگر بُرے کام کے لئے استعمال کریں تو ساری دنیا اُسے بُرا کہے گی.پس چونکہ دجالی قوتوں نے اپنی ان صنعتوں اور ایجادوں کو استحصال اور تسلط اور تعلب اور فحاشی اور بے دینی پھیلانے کے لئے استعمال کرنا تھا اس لئے الہامی کتب میں ان کا ذکر شناعت اور برائی کے رنگ میں ہوا ہے.ورنہ اپنی ذات میں یہ صنعتی اور علمی ترقی انسانیت کے فائدہ اور اس کی بہبود کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے یا جوج ماجوج کے معنی بھی ایسی طاقتوں کے ہیں جو آگ سے کام لینے میں ماہر ہوں خاص طور پر ان کا فلسفہ تشد داور تخریب پسندی کے نظریات پر مبنی ہو.پس یہ نام ان قوموں کو دیا گیا ہے جو اپنے نظریات کے فروغ کے لئے تشدد کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہیں جیسا کہ اشترا کی طاقتوں کا انداز فکر ہے.لبعض روایات اور سابقہ الہامی صحیفوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال کا خروج دو دفعہ ہوگا پہلی دفعہ مختصر عرصہ کے لئے اور دوسری دفعہ بڑے لمبا عرصہ کے لئے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا ہے.حسب پیشگوئی کے ۲۸۰ ھ بمطابق ۱۰۹۷ء میں پہلی دفعہ دجال کا ظہو ر صلیبی جنگوں کی شکل میں ہوا جن میں مغربی عیسائی حکومتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.یہ جنگیں قریباً دو سو سال تک کسی نہ کسی مکاشفه یوحنا باب ۲۶ آیت اتا ۱۳ اعلام النبوة صفحه ۳۵ مصنفه علی بن محمد الماوردی مطبوعه مصر
تاریخ افکا را سلامی ۳۹۱ صورت میں مسلمانوں کے لئے مصیبت بنی رہیں اور آخر سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں بڑی حد تک ان جنگوں کا خاتمہ ہوا لیکن عیسائیت کی اس یلغار کی پسپائی کے بعد مغرب کی مسیحی اقوام نے مشرق وسطی اور دوسری مسلم دنیا پر تسلط حاصل کرنے کے لئے اپنی پالیسیاں بدل دیں اور مسلمانوں سے براہ راست تصادم کی پالیسی ترک کر کے دوسرے اقتصادی صنعتی اور علمی حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے.چنانچہ حسب پیشگوئی ۱۳۸۶ء کے قریب ان اقوام کی طرف سے بحری مہموں کا آغاز ہوا جن کی وجہ سے مغربی استعماری طاقتیں آہستہ آہستہ افریقہ اور ہندوستان کے بحری راستے معلوم کر کے آگے بڑھنے لگیں اور پھر وہ تجارت کے بہانے اکثر افریقہ، قریباً سارے ایشیا اور سارے امریکہ میں پھیل گئیں.اسی تسلسل میں ۱۸۵۷ء کے بعد بر طانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں نے سارے مسلم ہند پر تسلط حاصل کر لیا.بہر حال بائبل اور قرآن کریم کے مطالعہ اور دوسرے تاریخی خزائن کی جانچ پڑتال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دجال سے مراد مغربی استعماری طاقتیں ہیں جن کا ایک الگ دینیاتی نظام ہے وہ صنعت و حرفت میں بھی سب سے آگے ہیں اور یا جوج ماجوج سے مراد اشترا کی نظام کی حامل حکومتیں ہیں کیونکہ یہ تشد و پسندانہ انقلابی تحریکات کی حامی بلکہ روح رواں ہیں دوسرے اس انقلابی نظام نے جن اقوام میں فروغ پایا ہے قدیم نوشتوں میں انہیں یا جوج ماجوج کا نام دیا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دجال اور یا جوج ماجوج کے ظہور کی یہ پیشگوئی کی وہاں مسلمانوں کو یہ خوشخبری بھی دی کہ ان نازک اور تباہ کن حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منجی کو بھیجا جائے گا جس کا ایک لقب مہدی ہوگا اور دوسرا صحیح جس کی رہنمائی اور روحانی جذب کی برکت سے مسلمان بالخصوص اور ساری دنیا بالعموم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے گی اور دنیوی برکات کی نعمتوں سے بھی وہ مالا مال ہو جائے گی.پس جبکہ اُس کے نزول کی ساری علامات قریباً قریباً اسی زمانہ میں مشرق کی طرف تا تاری فتنہ کا آغاز ہوا جو با لآخر بغداد کی تباہی اور عباسی خلافت کے خاتمہ پر ح ہوا تاہم ان علاقوں میں اسلام کی روحانی تلوار کے سامنے تاتاری مغلوب ہو گئے اور بعد میں ان علاقوں کے ترکوں کو اسلام کی تاریخ ساز خدمت کی توفیق ملی.حزقی ایل باب ۳۸ آیت ۲
تاریخ افکارا سلامی ٣٩٢ پوری ہو چکی ہیں اور اس کی بعثت کا وقت آچکا ہے تو وہ جو اس مقام بعثت کا مدعی ہے اس کی سچائی کے دلائل پر کیوں غور نہ کیا جائے؟ یہ حالات ایسے تھے کہ ساری مذہبی دنیا ایک ہادی اور مرسل کے انتظار میں تھی اور مسلمان بھی اس انتظار میں شامل تھے اور مسلمانوں کے مذہبی رہنما انیسویں صدی کے آخر میں پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کا یہی زمانہ ہے لیکن آنے والا جب وقت پر آیا تو اکثر علماء منکر ہو گئے اور اُس عظیم موعود کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا اور قرآنی وعید بحسرة عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ تَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ لے کے مورو بن گئے.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ان ساری علامات کے وقوع کے وقت مہدی اور مسیح ہونے کا دعوئی سوائے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے کسی اور نے نہیں کیا.اگر اس دعوی میں آپ بچے نہیں تو پھر اور کون ہے جس نے تقاضہ وقت کے عین مطابق اور ساری علامات کے پورا ہونے کے بعد اس منصب کا دعوی کیا ہو کیونکہ مہدی اور مسیح کے آنے کا وقت تو ہے کسی کو تو آنا چاہئے جو اسلام کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہو.مسیح موعود کی صداقت کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ آپ نے دعوئی کے بعد دنیا کو یہ چیخ دیا کہ دعوئی سے پہلے کی میری زندگی پر غور کیا جائے اگر اُس میں کوئی عیب نہیں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں یکلخت بیٹھے بٹھائے ایک ایسے جھوٹ کا مرتکب بن جاؤں جو اللہ تعالی کے ہاں موجب مخضب و قہر ہے.۴ صداقت کا یہ وہ معیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے سامنے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر کھنے کے لئے پیش فرمایا ہے.یس آپ کے غلام نے بھی آپ کی پیروی میں دنیا کے سامنے یہی دلیل پیش کی کہ کون ہے جو میری پہلی زندگی میں کوئی عیب یا کھوٹ ثابت کر سکے.آپ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں.دوستم کوئی عیب، افترا یا جھوٹ یا دعا کا میری زندگی پر نہیں لگا سکتے نا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہو گا.ل یونس:۱۷.اس پس ۳۱ ۲ یونس: ۱۷.اس آیت کا ایک حصہ یہ ہے.فقد لبثْتُ فِيكُمْ عَمَرَّ مِنْ قَدِيم أَفَلَا تَعْقِلُونَ -
تاریخ افکا را سلامی ٣٣٩٣ کون تم میں سے ہے جو میرے سوانح زندگی پر کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.آپ کے اس چیلنج کا کوئی مخالف سامنا نہ کر سکا اور کئی ایک نے اعتراف کیا کہ آپ واقعی پر ہیز گارا ور منتقی انسان ہیں.بطور مثال آپ کے ہم وطن مشہو را ہلحدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کے بارہ میں شہادت دی کہ مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے ، مؤلف صاحب جو ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.مولف برا این احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربہ کی رو سے (وَ اللهُ حَسِيَّة ) شریعت محمدیہ پر قائم پر ہیز گار صداقت شعار ہیں..اسی طرح اخبار زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج الدین نے اپنے اخبار زمیندار میں لکھا.مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محر رتھے اُس وقت آپ کی عمر ۲۲ یا ۲۴ سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد اُن کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.۱۸۷۷ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی ان دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو اور مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے ۲۰۰.آپ کے سچا ہونے کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ آپ نے دھومی کے بعد ہزار ہا مخالفتوں کے با وجود ۲۳ سال سے زیادہ عرصہ بڑی کامیاب اور بامراد زندگی بسر کی.آپ کی یہ شاندار کامیابی آپ کی صداقت کی بڑی زیر دست دلیل ہے کیونکہ یہ معیا رصداقت بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے بیان فرمایا ہے اور کہا ہے.مذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۴ اخبار زمیندار جون ۱۹۰۸ ء - بدر ۲۵ مرجون ۱۹۰۸ صفحه ۱۳ اشاعة السنه جلدی صفح۹۲۶
تاریخ افکا را سلامی ۳۹۴ اگر یہ مدعی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے دعوئی میں سچا نہ ہوتا اور مجھ پر افترا کرتے ہوئے میری طرف وہ باتیں منسوب کرتا جو میں نے نہیں کہی ہیں تو میں اس کی رگ جان کاٹ دیتا ملے.پس یہ دلیل صداقت آپ کے غلام نے بھی اپنی سچائی کے لئے پیش کی یعنی جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دعوی ماموریت کے بعد ۲۳ سال تک کامیاب و کامران زندگی بسر کی.شاندار فتوحات حاصل کیں.دشمنوں کو زیر کیا اور کوئی مخالف آپ کا بال بیکا نہ کر سکا اسی طرح آپ کے غلام مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دھومی کے بعد تمہیں سال سے زیادہ عرصہ تک عظیم کارناموں کی توفیق پائی اور اپنا کام مکمل کر کے ۱۹۰۸ء میں کامیاب و کامران اس دنیا سے رخصت ہوئے.“ آپ کے اپنے دعوئی میں سچا ہونے کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی افادیت اُس کے شیر میں ثمرات کے لحاظ سے مانی جاتی ہے سو اسی اصول کے مطابق جب ہم آپ کے کام کے نتائج کو دیکھتے ہیں اور آپ کے کارناموں کو پر کھتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے دینی اور تعلیمی دائرہ میں ایسے عظیم النتائج شاندار کام کئے جن کی افادیت اور عظمت کو دوست و دشمن نے تسلیم کیا.مثلاً الف.آپ کے بڑے کارناموں میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دنیا کو قرآنی معارف و حقائق کی طرف متوجہ کیا اور تفسیر قرآن کا ایسا بلند معیار پیش فرمایا کہ جس کی مثال سابقہ تفاسیر میں نہیں ملتی.آپ کی کتب براہین احمدیہ، اسلامی اصول کی فلاسفی اور آئینہ کمالات اسلام و غیرہ کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کر دے گا.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اس سلسلہ میں آپ نے وہ اصول بھی واضح فرمائے جن کی بنا پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ساری قرآنی آیات اپنے موقع ومحل کے مطابق ہیں اور کسی آیت کے منسوخ ہونے کا دعوی نہیں کیا جا سکتا.الحاقة : ۴۵ تا ۴۸.ان آیات کا ایک حصہ یہ ہے وَلَوْ تَقُولَ عَلَینا بَعضَ الْأَقَاوِيْلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ اقْطَعْنَا مِهُ الْوَيين
تاریخ افکا را سلامی ۳۹۵ تفسیر قرآن کے اصول بیان کرنے کے علاوہ آپ نے مخالفین اسلام کے سامنے دین اسلام کی صداقت کے لئے ایسے زیر دست دلائل اور براہین پر مشتمل علم کلام پیش کیا کہ مخالف اُن دلائل کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے نیز آپ نے اپنے منصب کے عین مطابق زیر دست براہین کے ساتھ عیسائی عقائد کا بطلان ثابت کیا اور ایک نئے انداز میں کسر صلیب کا فریضہ سر انجام دیا.مثلاً عیسائیوں کا ایک بنیادی عقیدہ کفارہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ نسل آدم نے ورثہ میں گناہ پایا اور چونکہ وہ اس موروثی گناہ سے نجات نہیں پاسکتی اس لئے خدا نے ”محبت انسانیت کے ناطے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تا کہ وہ صلیب پر اپنی جان دے کر اور لعنتی موت قبول کر کے دنیا والوں کے گناہ اپنے ذمہ لے لے.آپ نے بائیل ، قرآن کریم، احادیث اور دوسرے تاریخی ذخائر سے اس بات کو ثا بت کیا که قطع نظر اس کے کہ نسل آدم نے گناہ ورثہ میں پایا یا نہیں پایا مسیح خدا کا اکلوتا بیٹا ہے یا نہیں وہ در حقیقت صلیب پر فوت ہی نہیں ہوا کہ اُس کے لعنتی موت مرنے یا نسل آدم کے گناہوں کو اپنے ذمہ لینے کا سوال پیدا ہو.اس لئے عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کی بنیا دہی غلط ہے.اسی طرح آپ نے تثلیث اور ابنیت کے عقیدہ کا بطلان بھی ثابت کیا.آپ کے پیش کردہ یہ دلائل اس قدر زیر دست تھے کہ عیسائی علماء اور پادری ان دلائل کا سامنا کرنے کی ہمت ہی نا پا سکے اور گھبرا کر انہوں نے بطور پالیسی یہ وطیرہ اختیار کر لیا کہ اس بارہ میں احمدیوں سے کوئی بات ہی نہ + کی جائے گی ہے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - غرض اسلام کی صداقت ثابت کرنے اور مخالف اسلام طاقتوں کو پسپا کرنے کے لئے آپ نے جو زیر دست علمی اور روحانی دلائل پیش فرمائے.موافق اور مخالف سب نے اُن کا اعتراف کیا چنانچہ اخبار وکیل نے آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جا دو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور جس کی آوا ز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو
تاریخ افکا را سلامی بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اُس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتداد زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزیمان تا ریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا کے کسی حصہ میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.ان کی (میرزا صاحب کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پا مال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذ بہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گالے.ب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کارناموں میں سے دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نظم و ضبط - اتحاد و اتفاق اور اس کی برکات کے شعور کو عملی شکل دی اور نیک مقاصد اور دنیا کی دینی بہبود کے لئے ایک عظیم الشان منتظم جماعت کی بنیا درکھی ہے جس کا نصب العین یہ ہے کہ اس جماعت کے افراد پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں پھر ساری دنیا کے لئے دعوت الی الخیر کا فریضہ سر انجام دیں.چنانچہ یہ عظیم الشان تنظیم جو جماعت احمد یہ کے نام سے مشہور ہے روز قیام لے اخبار بد ر مورخہ ۱۸ رجون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳۰۲ یوم تا میں جماعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء
تاریخ افکارا سلامی ٣٩٧ سے ہی اپنے امام وقت کی رہنمائی میں مسلسل اس نصب العین کی طرف رواں دواں ہے اس جماعت کی عظمت کردار کا یہ ثبوت کافی ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اس جماعت کو اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ قرار دیا اور مشہور احراری لیڈر چوہدری افضل حق صاحب نے لکھا.آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسید بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا.ایک مختصری جماعت اپنے گر و جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اور اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے" لیے.مشہور ہندو اخبار تیج دیلی نے جماعت احمدیہ کے اثر و رسوخ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا.تمام دنیا کے مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ ٹھوس اور مؤثر اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت جماعت احمدیہ ہے.بلا مبالغہ احمد یہ تحر یک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقع پا کر ہمیں جھلس دے گئی ہے.مشہور پادری ڈاکٹر زویمر نے ایک مضمون لکھا جو چرچ مشنری ریویو آف لندن میں شائع ہوا اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب جماعت احمد یہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.نیہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ایک زیر دست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے.“ ج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کارناموں میں سے تیسرا بڑا کارنامہ خلافت على منهاج النبوة " کا قیام ہے.اس خلافت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں طبع دوم صفحه ۲۴ کے اخبار تیج ۲۵۴ / جولائی ۱۹۲۷ء
تاریخ افکا را سلامی ۳۹۸ فرماتا ہے اگر تم سچا ایمان پیدا کرو گے اور نیک اعمال بجالاؤ گے تو تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی جائے گی لے.چنانچہ خلافت کی اسی اہمیت کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے مطابعد آپ کے صحابہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نظام خلافت قائم کر کے اُس کے لئے خلیفہ راشد منتخب کیا.اس انتخاب میں حسب وعدہ الہی بذریعہ وحی خفی تصرف اور روحانی رہنمائی کا دخل تھا.خلیفہ راشد کا اصل دین کی تبلیغ اور اس کا استحکام اور مسلمانوں کی روحانی ، اخلاقی اور تمدنی رہنمائی ہے.حکومت اور سیاست تو ضمنی چیز ہے.یہ میسر آئے یا نہ آئے اس سے خلافت کے اصل فرائض پر کوئی اثر نہیں پڑتا.قرآن کریم نے وعدہ خلافت کے ضمن میں جو یہ فرمایا ہے کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ سابقہ دینی جماعتوں میں جو عظیمی صلاحیتیں ہیں ان کے انداز پر بھی غور کرو.مثلاً پاپائیت.جو ایک رنگ میں مسیحی دین کی خلافت ہے با وجود سینکڑوں خرابیوں کے اپنے اندر ایسی کوئی خوبی ضرور رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ دو ہزار سال سے قائم و دائم ہے اس میں کیا راز ہے.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے تفسیر کبیر میں نظام خلافت پر بحث کرتے ہوئے اس راز کی اس طرح نشان دہی کی ہے.پہلی قوموں میں یہودیوں کے علاوہ عیسائی قوم بھی ہے جس میں خلافت بادشاہت کے ذریعہ نہیں آئی بلکہ اُن کے اندر خالص دینی خلافت تھی.پس گیا استخلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں پہلوں کے طریق انتخاب کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی اس کی تصدیق کرتا ہے آپ کا الہام ہے "کلیسیا کی طاقت کا نسخہ لے یعنی کلیسا کی طاقت کی ایک خاص وجہ ہے کہ اس کو یا درکھو.کو یا قرآن کریم نے کہا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کے الفاظ میں جس نسخہ کا ذکر کیا ہے الہام میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس طرح وہ لوگ اپنا خلیفہ منتخب کرتے ہیں اُسی طرح یا اُس کے قریب قریب تم ل النور: ۵۶.ذکره صفحه ۵۲۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء
تاریخ افکا را سلامی ٣٩٩ بھی اپنے لئے خلافت کے انتخاب کا طریقہ ایجاد کرو" ہے.و حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارناموں میں سے چوتھا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے و عملی جہاد کا حقیقی معنوں میں احیاء کیا.عام مسلمان صرف لفظاً جہاد کے قائل تھے نہ کوئی عمل تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری بلکہ وہ تو دین کے لئے قربانی پیش کرنے اور جہاد کے لئے تیاری کرنے کی بجائے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ جب مسیح اور مہدی آئیں گے تو وہ خود مسلمانوں کے مصائب کا مداوا اس رنگ میں کریں گے کہ محض روحانی طاقت اور منہ کی پھونکوں سے ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیں گے.سب ملتوں کو مٹا دیں گے.وہ غیر مسلموں کے مذہبی نشان مثلاً عیسائیوں کی صلیب کو توڑ پھوڑ دیں گے اور پھر ساری دنیا کی دولتیں نام کے مسلمانوں کے قدموں میں لا ڈالیں گے اور اس طرح مسلمان دنیا بھر کی حکومتوں کے مالک بن جائیں گے.یہ تھی مسلمانوں کی خیالی دنیا اور انسانی سے بھری سوچ جس کے غلط ہونے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے توجہ دلائی اور بتایا کہ آنے والے مسیح اور مہدی میں خواہ کتنی ہی روحانی طاقتیں ہوں.وہ بہر حال اپنے آقا سر دار دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں.پس جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاں گسل محنت اور جد وجہد کرنی پڑی بے مثل جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنی پڑیں اور آپ کے صحابہ نے اس راہ میں جس طرح سرفروشی کے کارنامے دکھائے تاریخ عالم میں ان کی مثال نہیں ملتی کیونکر وہ محنت کے پسینہ میں نہا کر اور خون کے دریا میں سے گزر کر اپنے اعلیٰ مقاصد تک پہنچے اور اصلاح خلق کا فریضہ بجالائے تو پھر اور کون ہے جو صرف روحانی پھونکوں اور منہ کی باتوں سے دینی انقلاب لے آئے اور ہولناک طاقتوں کو ہاتھ کے اشارہ سے نیست و نابودکر دے.غرض آپ نے دنیا خاص طور پر مسلمانوں کو اصل حقیقت کی طرف توجہ دلائی اور عملی جہاؤ" پر یقین رکھنے والی ایک ایسی جماعت کی بنیا درکھی جو صحابہ کی مانند اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرتی چلی جا رہی ہے آپ نے اس جماعت کے اندر اپنی روحانی قو 5 اور خدا دا د جذب کے ذریعہ یہ یقین اور جذ بہ پیدا کیا کہ محنت اور قربانی.اتحاد او را تفاق.وسائل کے اندر رہتے ہوئے عقلمندی تفسیر کبیر تفسیر سورة النور آیت ۵۶ و
تاریخ افکا را سلامی اور صبر و استقلال کے ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا کئے بغیر اللہ تعالی کے " خاص فضل " حاصل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سعی.آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ دنیا میں سر بر آوردہ ہونے کے لئے جن اخلاق اور صلاحیتوں کی ضرورت ہے انہیں اختیار کیا جائے بات کرنے کا سلیقہ اور دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے دین کی اشاعت اور پاک تربیت کے لئے صلاحتیں صرف کرنے کے لئے جس توازن کی ضرورت ہے اُسے اپنا کر ہی یہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں.کامیاب تربیت کے لئے یہ امتیاز ضروری ہے کہ کونسے مرحلہ میں طاقت کا استعمال ہونا چاہئے اور کونسے مسائل کی ترویج کے لئے وعظ و نصیحت اور حکمت و موعظت سے کام لینا چاہئے اور کونسے کام کا کونسا وقت ہے یہ ساری خوبیاں ایک ترقی پذیر روحانی جماعت کے اندر دینی معاشرہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں..پس اگر دنیائے اسلام جہاد کی عملی اہمیت کو سمجھ لے اتحاد اور اتفاق کی نعمت کو پالے صبر اور جذبات کی قربانی پیش کرنے کا ملکہ اپنے اندر پیدا کر لیا اور قوت ایجاد کے فقدان کا مذارک کر سکے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل حقہ سے لیس ہو کر بحیثیت اجتماعی فریضہ تبلیغ کی طرف متوجہ ہو تو لادینی طاقتیں اس کے سامنے بالکل بیچ ہو جائیں اور وہ اپنی علمی کمزوری اور روحانی در ماندگی کو پہچان کر بڑی تیزی کے ساتھ گروہ در گروہ ”حق“ کی طرف دوڑنا شروع کر دیں.اس وقت علمی تبلیغ کے زیادہ مؤثر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام خود اُن خوبیوں سے عاری ہے جن کی طرف اسلام بلاتا ہے.اس وقت نمونے پیش کرنے کی ضرورت ہے.امن وسلامتی کا نمونہ اخلاقی برتری کا نمونہ.صبر و رضا کا نمونہ.قناعت و کفایت کا نمونہ.دیانت وامانت کا نمونہ.محنت وسعی کا نمونہ.حوصلہ اور استقلال کا نمونہ.مصائب میں بھی دوسروں کے کام آنے کا نمونہ.یہ نمونے بڑی زبر دست طاقت ہیں اور یہ طاقت حاصل کرنے کے لئے جماعت احمد یہ اپنے خلیفہ راشد کی قیادت میں آہستہ آہستہ آگے بھی بڑھ رہی ہے اور اپنے مولا النجم ٤٠ کے اس روحانی و دینی اور یہ بہتی پروگرام کی تفصیل جاننے کے لئے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ ضروری ہے
تاریخ افکا را سلامی +1 کریم کے حضور دست بدعا بھی ہے.ا ہے.حضرت بیچ آخر الزمان و مهدی دوران علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اے تمام لوگوسن رکھو کہ یہ اس کی پیش گوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یا د کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتا ہے نامرا اور کھے گا.اگر اب وہ مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان ؟ کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یحَسْرَةٌ عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم.مِنْ تَسُولٍ إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهُرُ ْونَ.پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبر و آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود " کا آسمان سے اتر نا محض جھوٹا خیال ہے یا د رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیده ے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اولد يروا أنا نأتي الأرض نَقُصُهَا مِنْ أَظْرَ فِهَا وَ اللَّهُ يَحْكْ لا معقب لحكمه وهو تريعُ الْحِسَابِ (الرعد: (۴۶) پس ۳۱
تاریخ افکا را سلامی سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تختم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے والے تذکرة الشها و تین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶، ۶۷
۴۰ 1 المراجع والمصادر ابن القيم الجوزيه ڈاکٹر طاهر سليمان حموده كلية الآداب جامعة الاسكندريه مطبوعه دار الجامعات المصرية اسكندريه ١٩٦٧ء ابوحنيفه عبدالحليم الجندى مطبوعه دار المعارف القاهره ١٩٨٣ء اثبات الوصية للامام على بن ابی طالب علیه السلام ابوالحسن علی بن الحسين بن على المسعودی (م ۳۴۶ ھ ) منشورات مكتبه بصیرتی قم ایران الاسلام والحضارة العربية - ( دوجلد ) محمد كرد على ـ مطبوعه لجنة التأليف والترجمة والنشر القاهرة.طبع ثالث ١٩٦٨ء ۵ اصل الشيعة و اصولها.محمد الحسين آل كاشف الغطاء.مطبوعه منشورات A الأعلمي بيروت لبنان الاصول الكافي ثقة الاسلام ابوجعفر محمد بن يعقوب الكليني الرازي (م۳۲۹ھ ) دار الكتب الاسلامية تهران طبع ثالث ۱۳۸۸ھ اعتقادات فرق المسلمين والمشركين الامام فخر الدين الرازي.مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت لبنان ١٩٨٢ء اعتقادات الشيخ الصدوق تعلیمی پریس لاہور.طبع ثانی ۱۹۶۴ء.اس کا ایک نام اعتقادیة الشيخ الصدوق بھی ہے.اعيان الشيعة.السيد محسن الامین الحسيني العاملي مطبوعه مطبعة الاتقان دمشق شام طبع ثانی ۱۹۴۷ء.طبع خامس ۱۹۸۳ء الامام احمد بن حنبل.ڈاکٹر مصطفى الشكعه مطبوعه مطبع النهضة مصر.دار الكتب المصرية طبع اوّل ۱۹۸۴ء
M+P ازاله او هام.روحانی خزائن جلد ۳ از حضرت مسیح موعود علیه السلام الاسلام والدولة العربية الامام الشافعي عبد الحليم الجندى مطبوعه دارالمعارف القاهره طبع ثالث ١٩٨٦ء الامام علی بن ابی طالب عبدالفتاح عبد المقصود - مكتبه مصر القاهره - طبع خامس ۱۵ الامامة والسياسة الامام ابو محمد بن عبدالله بن مسلم بن قتيبه الدينوري F (م ۲۷۶ ھ ) مطبع مصطفى البابي الحلبى مصر - و دارالمعرفة - بيروت لبنان البيان في اخبار صاحب الزمان ابو عبدالله محمد القرشي الكنجي الشافعي المتوفى ۶۵۸ ھ قم ایران طبع ۱۹۷۹ء اعلام النبوة مصنفه على محمد الماوردى مطبوعه مصر الانسان الكامل في معرفة الآواخر والاوائل سيد عبدالكريم الجيلي مطبوعه ٣٠٠اه 19 إكمال الدين ۲۰ اخبار زمیندار.لاہور ۲۱ اخباره کیل مامرتسر ۲۲ اخبار الفضل - قادیان ۲۳ اخبار تیج.وہلی امام مہدی کا ظہور مصنفہ قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری نظارت اشاعت صد را نجمن احمدیہ پاکستان ریوه مطلع ضیاء الاسلام پریس ربو دایڈیشن دوم ۲۵ بحار الانوار علامه محمد باقر المجلسی (مااااھـ) جلد ۵۲ مطبوعه مطبع احیاء التراث العربي بيروت لبنان طبع ثالث ۱۹۸۳ء ٢٦ بذل المجهود في حل أبي داؤد ۲۷ بدر.قادیان
۴۰۵ ۲۸ بائبل کتاب مقدس ( عہد نامہ قدیم و جدید ) براہین احمدیہ ہر چہار صص روحانی خزائن جلدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰ تذكرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد ۲۰ از حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۱ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ از حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۲ تاريخ الامم و الملوک ابو جعفر محمد بن جرير الطبري مطبعة الحسينيه المصريه طبع اوّل.(المعروف تاريخ الطبرى) ۳۳ تاریخ بغداد.حافظ ابوبکر احمد بن على الخطيب البغدادی (م۴۶۳ھ ) ناشر مكتبة الخانجي القاهره مصر ۱۹۳۱ء ۳۴ تاريخ التشريع الاسلامي.الشيخ محمد الخضری بک الاستاذ التاريخ الاسلامي بالجامعة المصريه مطبعة الاستقامة طبع رابع ١٩٣٤ء ۳۵ تاريخ الجميعات السرية والهدامة محمد عبد الله عنان المحامي ادارة الهلال القاهره مصر.١٩٢٦ء ۳۶ تاريخ الدولة الفاطمية ذاكثر ابراهيم حسن استاذ التاريخ الاسلامي بجامعة | القاهره مطبوعه مطبعة النهضة قاهره مصر.طبع رابع ۱۹۸۱ء.۳۷ تاريخ الشيعة الشيخ محمد حسين المظفر دار الزهراء بيروت لبنان ۱۹۸۵ء ۳۸ تاريخ العرب (مطول) ڈاکٹر فيليب حيتى ناشر دار الكشاف بیروت لبنان طبع ۱۹۵۸ء ۱۳۷۸ھ تعریب ڈاکٹر ایدورد جرجی.ڈاکٹر جبرائیل جبور ٣٩ تصحيح الاعتقاد بصواب الانتقاد.هبة الدين محمد شهرستانی تاريخ الدولة العباسية.اخبار الراضى بالله والمتقى لله.ابوبكر محمد بن یحیٰ بن عبدالله الصولی (۳۳۵۴ھ) ام تاريخ الفرق الاسلامية الشيخ محمد حسين الزين.مطبوعه منشورات مؤسسة الأعلمي بيروت لبنان طبع ثانی ۱۹۸۵ء
۴۲ تاريخ المذاهب الاسلامية.محمد ابو زهره استاذ جامعة القاهره مطبعة | النموذجيه القاهره مصر ۴۳ تاریخ یعقوبی لاحمد بن یعقوب مطبوعه دار صادر بیروت ۱۹۶۰ء ۲۴۴ تاريخ الكبير للبخارى History of Syria by Philip K,Hitty second edition London *1957 ۴۵ تاریخ شام - تعريب ڈاكٹر كمال اليازجي.دار الثقافة.بيروت لبنان طبع ثانی ۱۹۷۲ء اردو ترجمه) از مولانا غلام رسول مہر ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور طبع اول ۱۹۶۲ء ٤٦ تذكرة الحفاظ الامام ابو عبدالله شمس الدین محمد بن احمد الذهبی (م) (۲۸) ناشر دار الفكر العربي تشكيل جديد الهيات اسلامية.علامه اقبال - ترجمه نذیر نیازی ناشر بزم اقبال سر سنگھ داس گارڈن.کلب روڈ لاہور.تفسير الدر المنثور في تفسير المأثور امام عبدالرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي (م۹۱۱ھ ) دار الفکر بیروت لبنان.طبع اوّل ١٩٨٣ء ۴۹ تفسير القرآن العظيم.امام عماد الدين ابو الفداء اسماعيل بن كثير (م۷۴۴ ھ ) دار الفكر بيروت لبنان.۵۰ تهذيب التهذيب ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی (م۸۵۲ھ) مطبع مجلس دائرة المعارف النظامیه حیدر آبا دوکن طبع اول ۱۳۲۷ھ ۵۱ تفسیر کبیر.سيدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمدية ۵۲ تحذير الناس.مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند ۵۳ تفهیمات الهيه - حضرت شاہ ولی الله محدث دهلوی ۵۴ تاريخ دمشق الكبير ابن عساكر مطبع دار المسيرة بيروت ١٣٩٩ھ
۴۰۷ ۵۵ تاريخ الخلفاء.علامه جلال الدين سيوم ۵۶ تاج العروس رطى ۵۷ تنوير القلوب.الشيخ محمد امين الكردى مطبع السعاده مصر طبع سادس ۱۳۴۸ھ ا ۵۸ تاریخ همدان دیلمی (حیدر آباد دکن کی لائبریری میں اس کا قلمی نسخہ تھا ) ۵۹ تذکره.مجموعه الهامات و کشوف و رویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰ جامع البيان في تفسير القرآن المعروف تفسير طبرى).الامام ابو جعفر محمد بن جرير الطبرى (م ۳۱۰ھ ) مطبعة الكبرى الاميريه بولاق مصر ٢١ الجامعُ الصّحيح سنن الترمذي.لأبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة بن موسى الترمذي الجامع الصغير للسيوطي ۶۳ چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ از حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴ حدیث رسول کا تشریعی مقام غلام احمد حریری ناشر ملک برادر ز کارخانه بازار فیصل آبا د پاکستان.یہ کتاب دراصل ترجمہ ہے ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی صدر شعبہ فقہ اسلامی جامعہ مشق کی کتاب السُّنَّة و مكانتها في التشريع الاسلامي كا.۶۵ حلية الاولياء لأبي نعيم الاصفهاني ۲۶ حجج الكرامه - نواب صدیق حسن خان بھوپالوی مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال ۶۷ حاشیه بر ابن ماجه مطبوعه مطبع علمیه مصر ۱۳۱۳ھ ایڈیشن اوّل حقيقة الوحي - روحانی خزائن جلد ۱۲۲ ز حضرت مسیح موعود علیها ۶۹ حیات جاوید - مولانا الطاف حسین حالی مطبع نیشنل بک ہاؤس لاہور طبع ۱۹۸۶ء حیات قمر الانبیا ء شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ا حرف اقبال - علامہ اقبال کے مضامین کا مجموعہ
P+A الخطط المقريزيه.امام تقى الدين احمد بن على المعروف بالمقريزى طبع بولاق ۱۲۷۰ھ خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب كرم الله وجهه الامام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی (۳۰۳۴ھ ) المطبع الخيريه طبع ١٣٠٨هـ خطبات طاهر جلدے شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ریوہ ۷۵ ديوان الامام الشافعي مطبوعه مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت لبنان طبع اولی ۲۰۰۰ء الدولة الفاطمية.حسن ابراهيم حسن استاذ التاريخ الاسلامی جامعه قاهره مكتبة النهضة المصرية القاهرة طبع رابع ١٩٨١ء دافع الوسواس في أثر ابن عباس.مولانا محمد عبدالحی لکھنوی فرنگی محلی مطبوعه مطبع یوسفی فرنگی محل لکھنو طبع دوم دعائم الاسلام ابو حنيفة النعمان بن محمد المغربي الشيعي الاسماعيلي مطبوعه دار المعارف مصر ۱۹۵۱ء ٩ رياض الصالحين الامام ابي زكريا يحي بن شرف النووى الدمشقي A- ریویو بر مباحثہ بٹالوی ، چکڑالوی.روحانی خزائن جلد ۱۹ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام رساله اشاعة السنه زیرا دارت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ۸۲ سنن الدار قطني لامام الحافظ على بن عمر الدار قطنی مطبوعه دارالمحاسن القاهره مصر ١٩٦٦ء سنن ابی داؤد للامام أبی داؤد سلیمان بن الاشعث الأدى السجستاني ۸۴ سنن ابن ماجه الحافظ أبي عبدالله محمد بن یزید قزوینی ۸۵ سنن النسائي.للحافظ جلال الدين السيوطي سيرة ابن هشام ابو محمد عبدالملک بن هشام المعافرى المتوفى ۲۱۳ھ.مطبوعه دار الجليل - بيروت ۱۹۷۵ء -
7+9 AZ سیر اعلام النبلاء شمس الدين الذهبي الشيعة في التاريخ محمد حسين الزين العاملي مطبوعه مطبع العرفان صيداء طبع ١٩٣٨ء ۸۹ شذرات الذهب.عبد الحي بن احمد بن محمد ابن العماد العكرى الحنبلي ابوالفلاح (م۱۰۸۹ھ ) ۹۰ شرح الترمذي لابن العربي جلده او (الف) الشفاء بتعريف حقوق المصطفى لقاضی عیاض مطبع مصطفی البابی الحلبی ۱۳۶۹ھ (ب) شرح الشفاء لملا على القارى المطبع العامره مصر ۱۲۸۵ھ الصلة بين التصوف والتشيع.ڈاکٹر مصطفى الشيبي استاذ الفلسفة الاسلامية في كلية الاداب بجامعة بغداد طبع دار المعارف القاهره مصر.طبع ثانی ١٩٦٩ء الصواعق المحرقة في الرد على اهل البدع والزندقه.محدّث احمد بن حجر (م۸۹۹ھ ) مکتبہ مجید یہ بیرون بوہڑ گیٹ ملتان شہر.طبع اول ۱۹۷۶ء ۹۴ صحیح بخاری للامام أبي عبدالله محمد بن اسماعيل البخاری ۹۵ صحیح مسلم للامام أبي الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم ٩٢ الصافي شرح اصول الكافي الطبقات الكبرى.ابن سعد بيروت طبع ۱۹۵۸ء ۹۸ طبقات المعتزلة.احمد يحى المرتضى.المطبعة الكاثوليكيه - بيروت لبنان ١٩٦١ ء | طرائق الحقائق.محمد معصوم شیرازی سنا شر کتب خانه ما رانی تهران ایران ١٠٠ العبر و ديوان المبتدء والخبر (تاریخ ابن خلدون) علامه عبدالرحمن بن خلدون المغربي ناشر دار الكتب اللبنانی بیروت لبنان طبع ۱۹۸۱ء
|-| عمدة القاری شرح صحیح بخاری جلد ۱ مطبوعه دار الطباعة العامره.مصر ۱۰۲ الْعِقْدُ الْفَرِيد ابو عمر احمد بن محمد بن عبد ربه الاندلسي مطبع لجنة التأليف والرجم والنشر القاهره مصر طبع ثالث ۱۹۶۵ء ١٠٣ العقود الدريه من مناقب شیخ الاسلام احمد بن تیمیه.ابو عبدالله محمد بن احمد بن عبد الهادی (۴۴۴ ) مطبوعه دار الكتب العلمية.بيروت لبنان ۱۰۴ عقيدة الشيعة.ذاكثر دويت رونلد سن تعريب.ع.م.ناشر مكتبه الخانجي مطبع السعادة بجوار محافظة مصر.۱۰۵ العقيدة والشريعة في الاسلام جوله تسهر المستشرق.تعريب محمد يوسف موسى عبدالعزيز عبدالحق.على حسن عبد القادر مطبوعه دار الكتاب المصرى ١٩٧٦ء ١٠٦ علل الحديث و معرفة الرجال الحافظ المحدث علی بن عبدالله المدینی (شیخ البخارى م ۲۳۴ھ ) ناشر دار الوعي.حلب سوریه ۱۷ علوم الحديث ومصطلحة.صبحي الصالح دار العلم للملائيين.بيروت لبنان ١٠٨ على وَ بَنُوهُ (الفتنة الكبرى (جلد دوم طه حسين دار المعارف القاهره مصر طبع ۱۹۸۲۱۱ء الْفَرْقْ بَيْنَ الْفِرَق.علامه عبد القاهر البغدادی (م ۴۲۹ھ ) دار الكتب العلمية.بيروت لبنان ۱۹۸۵ء ايضًا دار المعرفة بيروت ایڈیشن چہارم مطبوع ۲۰۰۳ء ١١٠ فِرَقُ الشَّيْعَةِ.الشيخ الحسن بن موسى النوبختى مطبع دار الاضواء.بيروت لبنان.طبع ثانی ۱۹۸۴ء الفصل في الملل والاهواء والنحل امام ابو محمد علی بن احمد بن ابن حزم الظاهرى الاندلسي (م) (۴۵۶ مطبع الادبية مصر.طبع ١٣١٧هـ ۱۱۲ فتوحات مکیه.امام محي الدين ابن عربی مطبوعه دار صادر بیروت
||| فتنهار مداد اور پولیٹیکل قلابازیاں.چوہدری افضل حق طبع دوم ۱۱۴ قرآن کریم ۱۱۵ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۱۳ ز حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد ۱۴ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام الكامل في التاريخ علامه عز الدين على بن ابى الكرم المعروف بابن اثیر مطبع الطباعة المنبرية مصر.١٣٤٩هـ ۱۱۸ کتاب الفهرست ابو الفرج محمد بن اسحاق النديم ) (۳۷۷) المكتبة التجارية - الكبرى.مصر 119 كتاب المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين الامام محمد بن حبّان اَلتَّيْمِی (م ۳۵۴ھ) ناشر دار الوعی حلب سوریه.طبع ۱۹۷۵ء ۱۲۰ كنزل العمال.مطبوعه مطبعة النظامية حیدرآباد دکن سن اشاعت ۱۳۱۴ھ الكشف الحثيث عَمَّنْ رَوَى بِوَضْعِ الْحَدِيث.برهان الدين الحلبي المتوفى IFF ناشر احياء التراث الاسلامي مطبعة العاني.بغداد عراق.گیتا ادھیائے سری کرشن لمحات النظر للكوثرى مطبوعه قاهره - ۱۳۶۸ھ ۱۲۴ الليث بن سعد امام مصر.ڈاکٹر السيد احمد خليلالاستاذ المساعد بجامعة الاسكندريه مطبوعه دار المعارف القاهره مصر.۱۲۵ مالک بن انس عبدالحليم الجندى مطبوعه دار المعارف القاهره مصر.١٩٨٣ء ۱۲۶ مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرهندی ۱۲۷ محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية الاستاذ محمد ابو زهره مطبوعه مطبع المدني.ناشر جميعة الدراسات الاسلامية
۴۱۲ ۱۲۸ مختصر تذکره قرطبي العبدالوهاب شعرانی ۱۳۹ مروج الذهب و معادن الذهب.علامه ابو الحسن على بن الحسين المسعودى.مطبع الازهريه المصريه طبع ٣٠٣اه ۱۳۰ مستدرك للحاكم مع التلخيص مطبع النصر الحديث الرياض ۱۳۱ مشكوة المصابيح للخطيب التبريزي.١٣٢ مرقاة المصابيح شرح مشكوة المصابيح مطبوعه اصح المطابع والى ۱۳۳ مسند احمد حنبل طبع القاهرة والبيروت لبنان ۱۳۴ مؤطا امام مالک امام دار الهجرة مالک بن انس ۱۳۵ معرفة علوم الحديث الامام الحاكم ابو عبدالله محمد بن عبدالله النیسابوری.مطبع دار الكتب المصريه القاهره مصر و ناشر ادارة جميعة دائرة المعارف العثمانية حيدر آباد دکن ١٣٦ | مقالات الاسلاميين ابو الحسن علی بن اسماعيل الاشعرى (۳۲۵۴ھ) مكتبة النهضة المصرية القاهره مصر طبع اوّل ۱۹۵۰ء ۱۳۷ مقاتل الطالبين ابو الفرج على بن الحسين بن محمد الاصفهانی (م۳۵۶ھ) مطبوعه دار المعرفة بيروت لبنان ۱۳۸ مقدمه ابن الصلاح.الامام ابو عمرو عثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن الصلاح (م ۶۴۲) ناشر فاروقی کتب خانه بیرون بوہڑ گیٹ ملتان شہر پاکستان ١٣٩ الملل والنحل ابوالفتح محمد بن عبدالكريم الشهرستانی (م ۵۴۸) مطبع المصطفى البابي طبع ١٩٧١ء ۱۴۰ مهزلة العقل البشرى ڈاكثر على الوردى مطبعة الرابطه بغداد عراق طبع اوّل ۱۹۵۵ء ۱۴۱ معرفة اخبار الرجال ابو عمر محمد بن عمر بن عبدالعزیز
MF ۱۴۲ | المهدية في الاسلام.سعد محمد حسن من علماء الازهر مطبع دار الكتب العربي مصر.طبع ۱۹۵۳ء ۱۴۳ میزان الاعتدال في نقد الرجال.ابو عبدالله محمد بن احمد الذهبي (م۷۴۸ھ) مطبع عيسى البابي الحلبي ۱۴۴ لمفوظات سید نا حضرت مسیح موعود جلد ۱۰۰۸ شائع کردہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ۱۴۵ نور الحق حصه دوم.روحانی خزائن جلد ۸ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٤٦ النزاع والتخاصم بين بني أمية و بني هاشم الحافظ بن علي المقريزى (م ۸۴۵ ) مطبوعة المكتبة السلاميه بيروت لبنان ۱۹۸۱ء سے۱۴۷ نيل الأوطار.الشيخ الامام المجتهد محمد بن علی بن محمد الشوكاني ۱۴۸ نهج البلاغه الشريف ابو الحسن محمد الرضى مع شرح الاستاذ محمد عبده مفتي الديار المصرية مطبعة الاستقامة ناشر دار البلاغة بيروت لبنان طبع ۱۹۸۵ء ۱۴۹ النجم الثاقب مطبوع م مطبع احمدی پٹنہ ۱۳۱۰ھ ۱۵۰ نزهة المجالس.مطبوعه مطبع میمنیه مصر ۱۳۰۶ھ ۱۵۱ اليواقيت والجواهر عبدالوهاب الشعراني مطبوعه ١٢٠٦هـ المطبعة الازهريه المصريه طبع ثالث ۱۳۲۱ھ و مطبوعه مطبع منشی نولکشور آگره