Tarikh Ansarullah Vol 2

Tarikh Ansarullah Vol 2

تاریخ انصاراللہ (جلد 2)

1979ء تا جون 1982ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

مجلس انصار اللہ  جماعت احمدیہ عالمگیر کی وہ ذیلی تنظیم ہے جس کی بنیاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خاص دعاؤں سے 26 جولائی 1940ء کو رکھی تھی۔ قریباً پون صدی کا سفر طے کرتے ہوئے اس ذیلی تنظیم خلفائے احمدیت کی مسلسل رہنمائی اور سرپرستی میسر رہی اور اس کی شاخیں قادیان دارالامان سے نکل کر اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں ۔ مجلس شوریٰ انصاراللہ 1972ء میں منجملہ اور امور کے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجلس انصار اللہ کی تاریخ لکھی جانی چاہئے تا کہ اس سے متعلق تمام کوائف محفوظ اور یکجا ہوجائیں۔یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا او رمکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب نے اس اہم ذمہ داری کو قبول کیا، اور سن 1978ء میں پہلی جلد سامنے آئی جو اس ابتدائی دور کی تاریخ پر مشتمل تھی، اس کتاب میں نہ صرف انصار اللہ کے مختلف ادوار اور ترقیات کا ذکر تھا بلکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کے وہ ارشادات اور ہدایات جو وقتاً فوقتاً انہوں نے انصاراللہ کو ارشاد فرمائیں اور انصاراللہ کے قیام کی جو اغراض انہوں نے متعین فرمائیں درج کر دی گئیں۔ اس سلسلہ کی اگلی جلدوں میں 2003ء تک کی انصاراللہ کی تاریخ کو احسن طریق پر محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ انصار الله جلد دوم ۱۹۷۹ء تا جون ۱۹۸۲ء

Page 2

نام کتاب: جلد : تاریخ انصار الله دوم

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ پیش لفظ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ عنہ ارشاد فر ماتے ہیں: اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوم جو اپنی گزشته تاریخی روایات سے واقف نہ ہو، کبھی ترقی کی طرف قدم نہیں مار سکتی.اپنے آباؤ اجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے.“ (اسلام میں اختلافات کا آغاز ) مجلس انصاراللہ جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیم ہے جس کی بنیاد سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی اور پھر خلفائے احمدیت نے اپنی ذاتی نگرانی اور توجہ سے پروان چڑھا کر اسے کامیاب اور فعال تنظیم بنادیا.انصار اللہ کا نام تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت میں اپنے پاک نمونہ کی وجہ سے نہایت تابناک ہے اور اس سے بہت ایمان افروز اور روح پر در روایات وابستہ ہیں.ان روایات کو اگلی نسل تک منتقل کرنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے.اس ذمہ داری کی تعمیل کی غرض سے مجلس شوریٰ انصاراللہ ۱۹۷۲ء میں تاریخ مجلس انصار اللہ مرتب کرنے کا فیصلہ ہوا.اس فیصلہ کی رو سے مجلس نے ۱۹۷۸ء میں ” تاریخ انصار اللہ شائع کی جس میں ابتداء سے ۱۹۷۸ء تک کے حالات شامل تھے.اس کے بعد کی تاریخ ابھی تک تشنہ تکمیل تھی.کی دوسری جلد کا کام جاری رہا.آپ تاریخ مرتب کرنے والوں کو مسلسل تفصیلی ہدایات دیتے رہے.محترم چوہدری صاحب نے اپنے دور صدارت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.تاریخ کی ترتیب و تدوین کے لئے مختلف اوقات میں کئی احباب کام کرتے رہے.ان میں سے خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں.اسی طرز

Page 4

مرحوم بھی وقت دیتے رہے.اُن کی وفات پر جولائی ۲۰۰۴ ء میں یہ فرض کے سپرد کیا گیا.جنہوں نے نہایت محنت سے تاریخ کا مسودہ مرتب کیا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ - الحمد للہ اب " تاریخ انصار اللہ کی دوسری جلد ا حباب تک پہنچ رہی ہے جو ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک کے پر مشتمل ہے.یہ وہ مبارک دور ہے جس میں مجلس کی زمام صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے مبارک ہاتھوں میں تھی جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس تنظیم میں ایک نئی جان ڈال دی.میں جملہ اراکین مجلس کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اُن نیک روایات کو زندہ رکھتے ہوئے اگلی نسل کو منتقل کریں جس کی امین یہ تنظیم ہے اور جس کا تقاضا اس کا نام کرتا ہے.

Page 5

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ عرض حال سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث حمد اللہ تعالیٰ نے جماعتی تاریخ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تاریخ کا جاننا اور خصوصاً اپنی تاریخ کا جاننا ہم سب کے لئے ضروری ہے کیونکہ کسی انسان اور کسی جماعت کی زندگی اپنے ماضی سے کلیتہ منقطع نہیں ہوتی.ہماری یہ ایک معمور تاریخ ایک کامیاب تاریخ ہے.“ (روز نامه الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۸۳ء) مجلس شوریٰ انصار اللہ ۱۹۷۲ ء نے فیصلہ کیا تھا کہ مجلس انصار اللہ کی تاریخ مرتب کی جائے.اس فیصلہ کی تعمیل میں پہلی جلد ۱۹۷۸ء میں منصہ مشہود پر آئی جو ۱۹۴۰ء سے ۱۹۷۸ء تک کے حالات پر مشتمل تھی اور اسے مکرم پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب مرحوم ( سابق قائد تعلیم ونائب صدر ) نے قلمبند کیا تھا.اب اسی تسلسل میں تاریخ انصاراللہ جلد دوم پیش ہے.اس جلد میں ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے.یہ وہ دور ہے جس میں مجلس کو خوش قسمتی سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے ذہین، فہیم اور بالغ نظر قائد کی صدارت نصیب ہوئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو نہایت عالی دماغ اور زبر دست قوت فکر و عمل سے نوازا تھا.آپ نے مجلس کی بیداری میں اپنی بے پناہ خدا داد صلاحیتوں کا بھر پور استعمال فرمایا.اس دور میں مجلس کی کارکردگی کو ایک نئی جہت ملی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مرکزی سطح پر کام کو جدید بنیا دوں پر استوار فرمایا.قائدین اور عہدیداران کی رہنمائی فرمائی.نئے نئے اہداف مقرر کئے اور ان کی بخیر و خوبی تکمیل کے لئے تمام مراحل کی ذاتی نگرانی فرمائی.آپ نے مجالس سے رابطہ کی بھی ایک نئی تاریخ رقم کی اور قریباً ہر ضلع میں بیسیوں مقامات میں بنفس نفیس تشریف لے جا کر کار کردگی کا جائزہ لیا، موقع پر ہدایات دیں اور اراکین میں نئی روح اور نئی تازگی پھونکی.خلافت احمدیہ کے بابرکت سایہ اور صدر محترم کی انتھک قیادت و سیادت میں مجلس اپنے فرائض کی ادائیگی میں مستعد رہی اور خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ایک منزل کے بعد دوسری منزل کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہوئی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی اور واقعتا جوانوں کے جوان کی تنظیم بن گئی.تاریخ انصار اللہ جلد دوم کی تیاری کے سلسلہ میں مختلف اوقات میں کئی احباب نے خدمت کی توفیق پائی.قائدین مرکزیہ نے اپنے اپنے شعبوں کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد دی.مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر

Page 6

( سابق قائد تعلیم القرآن) شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی جانفشانی سے اس کام کو آگے بڑھایا اور ابتدائی مسودہ تیار کر کے کمپوزنگ بھی کرائی.علاوہ ازیں مکرم را نا عبدالرشید صاحب بھی خدمات بجالائے.محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب صدر مجلس نے جولائی ۲۰۰۴ ء میں سیدنا حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اس عاجز کی منظوری بطور معاون صدر حاصل کی اور تاریخ انصار اللہ کا کام سپر د کیا.روز نامہ الفضل، ربوہ، ماہنامہ انصار اللہ اور مرکزی ریکارڈ سے مدد لیتے ہوئے مسودہ کی تیاری کا آغاز کیا گیا.الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی اور آج یہ کتاب احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے.۱۰ جون ۱۹۸۲ء کواللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو خلعتِ خلافت پہنائی.حضور نے اپنے بعد مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ایم اے کو صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ مقررفرمایا.اس جلد میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے دور صدارت ( یکم جنوری ۱۹۷۹ء تا ۱۰ جون ۱۹۸۲ء) کی تاریخ مرتب کی گئی ہے تاہم بعض جگہ یہ تخصیص ممکن نہ تھی لہذا ۱۹۸۲ ء کے پورے تنظیمی سال کو شامل کر لیا گیا ہے.خاکسار کو بشدت احساس ہے کہ اس مبارک دور کو کماحقہ قلم بند نہیں کیا جا سکا کیونکہ تمام تفاصیل کا ریکارڈ بوجوہ محفوظ نہیں تا ہم جس قدر مواد بھی جمع ہو سکا، اُسے اس جلد میں سمونے کی سعی کی گئی ہے.اس کتاب میں اُس دور کی مرکزی مساعی، بیرونی مجالس کی سرگرمیوں اور سالانہ اجتماعات کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات اور ارشادات نیز صدر مجلس کی ہدایات اور تقاریر کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے.مجلس شوری کے فیصلہ جات، دستور اساسی کی تشکیل نو مجلس کے مالی نظام اور دیگر شعبہ جات کا تفصیلی ذکر بھی اس کتاب میں شامل ہے.حوالہ جات ڈھونڈ نے اور مسودہ کی تیاری میں مکرم محمد اسحاق صاحب اور مکرم عبدالمالک صاحب کارکنان خلافت لائبریری ربوہ نے میری معاونت کی.مکرم انہیں احمد صاحب کا رکن شعبہ کمپیوٹر انصار اللہ نے اپنی فنی مہارت سے اس مسودہ کو کمپوز کیا.صدر محترم کی ہدایت پر مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب ایم اے (نائب صدر ) اور مکرم مولانا محمد اعظم صاحب اکسیر ( قائد اصلاح وارشاد) نے بالاستیعاب مسودہ کا مطالعہ کیا اور مفید مشورے دیئے.صدر محترم مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے نے اپنی مصروفیات کے باوجود نہایت باریک بینی سے مسودہ کو لفظاً لفظاً پڑھا اور ہدایات دیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر جزیل عطا فرمائے.قارئین کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تصنیف کو خیر و برکت کا موجب اور اراکین مجلس کے لئے مفید بنائے آمین.

Page 7

۱۶ > ۱۸ ۱۸ > ۱۹ ۱۹ ۱۲ ۱۲ 1.1.۹ صفحہ i انصار اللہ کا چھٹا دور فهرست عناوین تاریخ انصار اللہ جلد دوم عناوین تقر رصد ر انصار اللہ برائے ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء تقر ر نا ئب صد رصف دوم صدر محترم کا پیغام عہد یداران کے نام صدر محترم کے دورے اور خطابات مالی امور کی بابت صدر محترم کی ہدایت دفتری امور کمیٹی کا قیام ماہوار ر پورٹ کارگزاری کی اہمیت اپنے پروگرام کے لئے روپیہ جمع کریں صدر محترم کی ہدایات بسلسلہ اجتماعات د نیکی پر دوام دستور اساسی کا نیا قاعدہ نمبر ۲۰۱ انفاق فی سبیل اللہ اور انصار الله" انصار کا اصل کام تربیت کا ہے“.ارشاد حضرت خلیفہ المسح الثالث کامیاب تربیتی پروگرام ہفتہ تربیت و اصلاح و ارشاد مرحومین کی طرف سے انعامی ٹرافی کی تجویز پر حضور انور کا فیصلہ بائیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۷۹ء صدر محترم کا خصوصی پیغام

Page 8

صفحہ ۱۹ ۲۱ ۲۱ ۲۳ ۲۳ ۲۴ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۶ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۲ ۳۳ ۳۳ ۳۴ ۳۴ ۴۸ ۴۸ ۵۳ ۵۴ ii عناوین حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا بابرکت ارشاد پہلا دن سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث " کا افتتاحی خطاب ورزشی مقابلے اجلاس دوم دوسرا دن اجلاس اوّل اجلاس دوم قائدین مرکزیہ کی رپورٹیں مجلس شوری اجلاس سوم سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ اجلاس عہدیداران اور تقریری و ورزشی مقابلے اجلاس چهارم تیسرا دن اجلاس اوّل دوسرا اجلاس صدر محترم کا صدارتی خطاب اختتامی اجلاس سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا اختتامی خطاب بعض اہم امور ڈیوٹی چارٹ سالانہ اجتماع ۱۹۷۹ء

Page 9

صفحہ ۵۶ ۵۷ ۵۹ ۷۲ ۷۲ ۷۴ ۷۵ ۹۷ ۹۷ ۹۸ ۹۹ ۹۹ ۹۹ ۹۹ ۹۹ 1..7 1+7 1+7 ۱۰۷ 1+1 ¦ K ۱۰۸ iii عناوین تعلیمی وتربیتی منصوبہ کے متعلق صدر محترم کا خط سالانہ اجتماع کے بارہ میں چند تاثرات سالانہ رپورٹ بابت سال ۱۹۷۹ء ۱۹۸۰ء سال نو کے آغاز پر صدر محترم کا پیغام سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا مجلس کراچی سے اہم خطاب حضور کے خطاب کا متن جماعت کی تعلیمی ترقی کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسح الثالث کے اہم ارشادات تحریک جدید کے ٹارگٹ میں اضافہ..اخلاص کا ثبوت دینے کی دعوت ہے“ وصال حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری تنیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۰ء صدر محترم کی طرف سے خصوصی اپیل تفصیلی رپورٹ پہلا دن اجلاس اوّل حضرت اقدس کا افتتاحی خطاب ورزشی و تفریحی مقابلے اجلاس دوم دوسرا دن اجلاس دوم اجلاس مجلس شوری اجلاس سوم

Page 10

صفحہ 1+9 ۱۰۹ 11.11.11.iv عناوین ورزشی مقابلے اجلاس چهارم تیسرا دن اجلاس اوّل اجلاس دوم صدر محترم کا پُر معارف صدارتی خطاب اختتامی اجلاس خطاب حضور انور لا إله إلا الله کے ورد کی تحریک حضور کی تقریر کا انگریزی میں رواں ترجمہ نشر کرنے کا کامیاب تجربہ ۱۹۸۱ء صدر محترم کا پیغام.مجالس انصاراللہ کے نام دفتری امور سے متعلق صدر محترم کی زریں ہدایات دستور اساسی میں تبدیلی 11 + ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۳ ”ہر احمدی گھرانہ میں تفسیر صغیر موجود اور زیر مطالعہ ہو صدر محترم کی طرف سے عملی تحریک کا اعلان ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۵۷ ۱۵۸ رپورٹ سہ ماہی اوّل ۱۹۸۱ء اعداد و شمار کی روشنی میں ضروری کوائف قیادت اصلاح وارشادا۸.۱۹۸۰ء مکرم نائب صدر صاحب مجلس کا دورہ بیرونی ممالک نائب صدر مجلس کی طرف سے موصول شدہ مشورے اور تجاویز کمیٹی برائے مجالس بیرون کا قیام اور سفارشات دورفقاء کار کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب توسیع گیسٹ ہاؤس

Page 11

صفحہ ۱۵۸ ۱۵۹ ۱۵۹ 17.۱۶۱ F ۱۶۹ ۱۶۹ ۱۷۴ ۱۷۵ ۱۷۸ ۱۸۵ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۶ ۱۹۹ ۱۹۹ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۱ ۲۳۱ } > تعمیر کمیٹی کا قیام توسیع عمارت دفتر عناوین کیسٹ پروگرام.ابتدائی خیالات اور ترقی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی انصار اللہ کراچی سے خصوصی ملاقات قرآنی علم سیکھنے میں مہارت حاصل کرو“ چوبیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۱ء ارشادسیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی صدر محترم کی طرف سے خصوصی اپیل پندرھویں صدی کا پہلا سالانہ اجتماع افتتاحی خطاب حضرت خلیفۃ السیح الثالث درس قرآن کریم اجلاس شوری وَسِعُ مَكَانَگ کا روح پرور نظاره انتخاب صدر و نا ئب صدر صف دوم دستور اساسی میں تبدیلیاں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا پیغام اجتماعی طعام میں حضور کی شرکت صدر مجلس کا خصوصی خطاب ورزشی وعلمی مقابلے اختتام انتقامی خطاب حضرت خلیفه لمسیح الثالف شر کاء اجتماع کے بابرکت تاثرات

Page 12

صفحہ ۲۳۱ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۹ ۲۳۹ ۲۴۰ ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۹ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۰ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۶۴ ۲۶۵ ۲۶۷ ۲۶۷ ۲۶۸ ۲۷۱ vi سائیکل سفر برائے شمولیت اجتماع ۱۹۸۲ء عناوین نئے سال پر صدر محترم کا پیغام عہد یداران کے نام تربیتی دوره صوبه سرحد مجالس مذاکرہ وسلائیڈ پروگرام متفرق مگر اہم امور اجلاسات برائے انتخاب صدر و نا ئب صد رصف دوم مجلس عاملہ مجلس انصار اللہ مرکز یہ اجلاسات مرکزی مجلس عامله کارروائی اجلاسات تعداد مجالس سال به سال مجلس مشاورت جماعت احمد یہ میں نمائندگی ناظمین علاقہ انصار الله ناظمین اضلاع انصاراللہ زعمائے اعلیٰ انصار الله مرکز میں اجلاسات ناظمین کا با قاعدہ انعقاد مقابلہ حسن کارکردگی بین المجالس و اضلاع مجلس انصاراللہ صف دوم قلمی دوستی اور مجلس انصاراللہ اشاعت لٹریچر قرار داد ہائے تعزیت عملہ مرکزی دفتر انصار الله

Page 13

صفحہ ۲۷۵ ۲۷۵ ۲۸۰ ۲۸۱ ۲۸۵ ۲۸۵ ۲۸۷ ۲۹۱ ۲۹۳ ۲۹۷ ۲۹۷ ۲۹۸ ۲۹۹ ٣٠٢ ٣٠٣ ۳۰۵ ۳۰۵ ۳۰۹ ۳۱۲ ۲۱۳ ۳۱۵ vii عناوین مجلس شوریٰ انصار اللہ مرکزیہ سفارشات مجلس شوری ۱۹۷۹ء سفارشات مجلس شوری ۱۹۸۰ء سفارشات مجلس شوری ۱۹۸۱ء دستور اساسی تاریخ دستور اساسی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء تشکیل دستور کمیٹی مجوزہ دستور کے قابل ذکر قواعد نئے دستور اساسی کی منظوری تعلیمی پروگرام اور امتحانات مرکزی امتحانات دینی تعلیم اور زبانیں سیکھنے کے سلسلہ میں خلفاء کے ارشادات تفصیلی کوائف امتحانات انصار اللہ تعلیمی پروگرام برائے مجالس بیرون مقابلہ دینی معلومات برائے اطفال الاحمدیہ مجلس انصار اللہ کا مالی نظام بجٹ کے خصوصی نکات تفصیلی گوشواره آمد وخرج مجلس انصار الله ماہنامہ انصار الله ماہنامہ انصاراللہ قارئین کی نظر میں توسیع اشاعت ماہنامہ انصار الله سال به سال گوشواره

Page 14

صفحہ ۳۱۷ ۳۱۷ ۳۱۷ ۳۱۸ ۳۱۸ ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۲۳ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۳۱ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۵ ۳۳۶ ۳۳۶ viii پاکستانی مجالس کی سرگرمیاں ١٩٧٩ء ضلع لاڑکانہ کا تربیتی اجتماع جلسہ ہائے یوم مصلح موعود دضلع گجرات دورہ فیصل آباد تربیتی اجتماعات ضلع فیصل آباد دوره ضلع شیخو پوره دوره سرگودھا پکنک مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور عناوین مجالس حلقہ ج“ کھاریاں ضلع گجرات کا اجتماع ضلع بدین کا تربیتی اجتماع دورہ چونڈہ ضلع لاہور میں سلائیڈز کی نمائش صدر محترم کا دورہ کراچی شیخو پورہ شہر میں ایک تربیتی اجتماع تربیتی اجتماع ضلع ڈیرہ غازی خان مجالس ضلع تھر پارکر کا سالانہ اجتماع دورہ ملتان تربیتی کلاس ضلع بہاولپور سالانہ تربیتی اجتماع مجالس بلوچستان اجتماع لاہور اجتماع جھنگ شہر

Page 15

صفحہ ۳۳۷ ۳۳۷ ۳۳۸ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۴۲ ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۵ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۴ ۳۵۴ ix سالانہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور عناوین اوکاڑہ میں مجلس مذاکرہ اجتماع مارٹن روڈ کراچی ۱۹۸۰ء فیصل آباد میں ایمان افروز مجالس سوال و جواب فیصل آباد میں تربیتی اجتماعات گجرات میں اجتماعات تربیتی اجتماع ضلع گوجرانوالہ مجالس تحصیل کبیر والا کا اجتماع ضلع فیصل آباد میں تربیتی اجتماعات تربیتی اجتماع ضلع جہلم تحصیل وزیر آباد کاتربیتی اجتماع ضلع سیالکوٹ میں مجالس مذاکرہ اوکاڑہ میں مجلس مذاکرہ ضلع ڈیرہ غازی خان کا یک روزہ تربیتی اجتماع مجلس ربوہ مقامی کا پہلا یک روزہ اجتماع سالانہ اجتماع ضلع پشاور سالانہ تربیتی اجتماع مجلس عزیز آباد کراچی یک روزه تربیتی اجتماع حافظ آباد تفریحی پروگرام مجلس ڈرگ روڈ کراچی مذاکره مجلس سرگودها مجلس ناصر آبا دا سٹیٹ میں صدر محترم کا پُر ولولہ خطاب

Page 16

صفحہ ۳۵۸ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۱ ۳۷۵ ۳۷۵ ۳۷۷ ۳۷۷ ۳۷۸ ۳۷۸ ۳۷۹ ۳۷۹ ۳۸۰ ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۳ ۳۸۳ ✗ دوره صدر محترم اور حمه ضلع سرگودھا ضلع حیدر آباد کا سالا نہ تربیتی اجتماع سالانہ اجتماع ضلع کراچی ضلع راولپنڈی کا سالانہ اجتماع صدر مجلس کا روح پرور اختتامی خطاب مجالس مذاکره ملتان سالانہ اجتماع ضلع مظفر گڑھ صدر محترم کا دورہ فیصل آباد ضلع کراچی کی خصوصی تقریب ۱۹۸۱ء سلائیڈز لاہور صدر محترم کا دورہ سانگھڑ مجلس سوال و جواب فیصل آباد ملتان میں مجلس مذاکرہ وقار عمل گوجرانوالہ عناوین نماز باجماعت کے سلسلہ میں نظامت ضلع کراچی کی مساعی پکنک حلقہ ماڈل ٹاؤن لاہور دوره ۳۵ جنوبی ضلع سرگودها پکنک ضلع کراچی مجلس ربوہ مقامی کا دوسرا یک روزہ سالانہ اجتماع علمی مذاکره کراچی ضلع ساہیوال میں مجالس مذاکرہ کا انعقاد

Page 17

صفحہ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۶ ۳۹۰ ۳۹۰ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۳ ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۵ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۶ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۹ xi سالانہ تربیتی اجتماع ضلع پشاور صدر محترم کا دورہ کر تو ضلع شیخوپورہ عناوین حسین آگا ہی ملتان کی ایک دلچسپ مجلس مذاکرہ محترم صدر صاحب کا دورہ ضلع سیالکوٹ یک روزہ اجتماع ضلع ڈیرہ غازی خان سرگودھا شہر میں ایک کامیاب تربیتی اجتماع سلائیڈ ز دکھانے کے دلچسپ پروگرام بھائیوالی ( ضلع شیخو پورہ ) میں دلچسپ مجلس مذاکرہ دلچسپ مجالس مذاکرہ اور سلائیڈز کی نمائش ملتان میں مجلس مذاکرہ کا انعقاد اجلاس مالو کے ضلع سیالکوٹ مجلس سدو کی ضلع گجرات میں مجلس مذاکرہ مجلس مذاکرہ رحمان پورہ لاہور ہفتہ اصلاح وارشاد چهور چک ۱۱۷ چک او متصل خانیوال میں ایک تربیتی تقریب تربیتی اجتماع ضلع بدین صدر محترم کا دورہ سیالکوٹ اجلاس گوجرانوالہ ضلع راولپنڈی کا سالانہ تربیتی اجتماع تربیتی اجتماع کوئٹہ گوٹھ عنایت اللہ ضلع سکھر میں تربیتی اجتماع حلقہ سمندری کے تربیتی اجلاس

Page 18

صفحہ ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۴ ۴۰۴ ۴۰۴ ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۰۷ ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۵ ۴۱۸ ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۶ ۴۲۶ xii ضلع گوجرانوالہ کا سالانہ تربیتی اجتماع صدر محترم کا دورہ گوجرہ عناوین صدر محترم کی تخت ہزارہ میں تشریف آوری سعد اللہ پور ضلع گجرات میں صدر محترم کا ورود ملتان میں ایک کامیاب علمی مجلس کا انعقاد سالانہ اجتماع ضلع کراچی سالانہ اجتماع و پکینگ مجلس اسلامیہ پارک لاہور ۱۹۸۲ء اجتماع مجالس گوجرانوالہ دنیا پور ضلع ملتان میں مجلس مذاکرہ تربیتی جلسہ گوٹھ علم دین سالانہ اجتماع ضلع گجرات مجلس سوال و جواب لاہور مجالس بیرون کی مختصر کارگزاری انگلستان انڈونیشیا مجلس برمنگھم کی میٹنگ مجلس لندن کا دوسرا سالانہ اجتماع مجالس انگلستان کا پہلا سالانہ اجتماع پہلا سالانہ اجتماع دوسرا سالانہ اجتماع تیسر اسالانہ اجتماع

Page 19

صفحہ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۱ ۴۳۴ ۴۳۷ ۴۴۱ ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۴۷ ۴۴۷ ۴۴۸ ۴۵۰ ۴۵۰ ۴۵۰ ۴۵۰ ۴۵۲ ۴۵۳ ۴۵۳ ۴۵۳ ۴۵۴ xiii عناوین بھارت نائیجیریا سالانہ اجتماع ۱۹۸۱ء چھٹا سالانہ اجتماع ساتواں سالانہ اجتماع آٹھواں سالانہ اجتماع تنزانیہ (مشرقی افریقہ) ماریشس جرمنی دوسرا سالانہ اجتماع مجلس فرینکفرٹ مجلس ہیمبرگ مجلس نیورن برگ مجلس ہا ئیل برون مجلس نائے برگ مجلس Dorster کینیڈا سری نام کینیا پہلا سالانہ اجتماع آئیوری کوسٹ سیرالیون

Page 20

صفحہ ۴۵۴ ۴۵۴ ۴۵۴ ۴۵۷ ۴۵۸ ۴۵۸ ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۶۰ ۴۶۱ ༩༥ ۴۶۱ ۴۶۲ ۴۶۶ ۴۶۷ ۴۶۷ ۴۶۸ ۴۷۰ ۴۷۰ ۴۷۰ xiv عناوین بنگلہ دیش سالانہ اجتماعات پانچواں سالانہ اجتماع گیمبیا سوئٹزرلینڈ قلبي نجی رپورٹ از قیام تامئی ۱۹۸۱ء مکرم چوہدری عبدالعزیز بھامبری صاحب کے اعزاز میں پارٹی مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ کے اعزاز میں عشائیہ رپورٹ یکم ستمبر ۱۹۸ء تا اگست ۱۹۸۲ء ایک اجلاس عام صدر محترم کا پیغام مجلس انصار اللہ جزائر نجی کے نام پہلا سالانہ اجتماع چوتھا سالانہ اجتماع سویڈن پین امریکہ ناروے دینی ہالینڈ ڈنمارک

Page 21

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ انصار اللہ کا چھٹا دور جنوری ۱۹۷۹ء تا جون ۱۹۸۲ء صدر مجلس....حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب تقر ر صدر انصار اللہ برائے ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۱ء تک کی تین سالہ صدارت مجلس انصار اللہ کے لئے مجلس شوری ۱۹۷۸ء پر انتخاب کروانا ضروری تھا چنانچہ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں قیادت عمومی نے دستور اساسی انصار اللہ کے مطابق حسب قواعد مجالس سے نام طلب کئے.اس سے قبل ۱۹۶۹ء سے مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے.چونکہ مکرم صاحبزادہ صاحب متواتر تین بار صدر منتخب ہو چکے تھے اس لئے دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۹۳ کی رُو سے آپ کا نام اس عہدہ کے لئے پیش نہیں ہوسکتا تھا لہذا شورٹی میں صدر کے لئے مندرجہ ذیل چار اسماء پیش ہوئے: (۱) مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (۲) مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (۳) مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (۴) مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ۱۲۸ اکتوبر ۱۹۷۸ء بوقت نو بجے صبح شوری کے اجلاس میں صدر کا انتخاب حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی صدارت میں ہوا.کثرتِ آراء مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے حق میں تھی.صدرا جلاس نے شوری کی یہ سفارش حضور اقدس کی خدمت میں بھجوائی جسے حضور نے منظور فرماتے ہوئے مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو جنوری ۱۹۷۹ء تا دسمبر ۱۹۸۱ء تین سال کے لئے صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ مقرر فرمایا.تقر ر نا ئب صدر صف دوم اسی اجلاس شوری میں آئندہ تین سال کے لئے نائب صدر صف دوم کا انتخاب بھی حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے کروایا.انتخاب میں چار اسماء پیش ہوئے.

Page 22

(۱) مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب (۲) مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (۳) مکرم چوہدری سمیع اللہ سیال صاحب (۴) مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے کثرت آراء کو منظور فرماتے ہوئے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو نائب صدر صف دوم مقررفرمایا.صدر محترم کا پیغام عہد یداران کے نام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے یکم جنوری ۱۹۷۹ء کو مجلس انصار اللہ عالمگیر کے صدر کی حیثیت سے کام کا آغاز مجلس عاملہ کی تقرری سے فرمایا اور سالانہ لائحہ عمل ہدایات طبع کروا کے مجالس کو بھجوایا.اس موقع پر صدر مجلس نے عہد یداران مجلس انصار اللہ میں نیکیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے کی خاطر ایک نہایت حکیمانہ اور پُر عزم پیغام تحریرفرمایا نیز مثالوں سے عملی رہنمائی فرمائی.اس خصوصی پیغام کا مکمل متن درج ذیل ہے: برادران کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وقت کا یہ بہتا دھارا دنیا و مافیہا سے غافل لوگوں ، مومن و کافر اور نیک و بد ہر ایک کی زندگی کی کشتی کو مسلسل آگے بڑھائے لئے چلا جاتا ہے اور اس دائمی حرکت سے کسی کے لئے کوئی مفر اور گریز نہیں.فرق صرف یہ ہے کہ بعض کشتیاں دھارے میں ایسی ہیں جو بے مقصد اور بے سروپا ہے چلی جاتی ہیں.نہ ان کا رخ معین ، نہ منزل مقصود کی کوئی خبر ، نہ مقصد حیات کا کوئی نشان.پھر ایسی بھی بہت سی کشتیاں ہیں جن کا رخ تو معین ہے لیکن ہلاکت کی منجدھار کی جانب ، وہ بر بادی کی آبشاروں کی طرف اپنے حال سے بے خبر اور انجام سے بے نیاز گویا محض اس غرض سے آگے بڑھ رہی ہیں کہ قعر مذلت میں اس زور سے گریں کہ ہلاکت خیز چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں اور ذلت اور ہلاکت اور ناکامی اور نامرادی کی ایک المیہ داستان بن جائیں.ان دونوں قسموں کی زندگیوں سے سوا اور بالکل الگ کچھ ایسی کشتیاں بھی وقت کے اس عظیم دھارے میں بہہ رہی ہیں جن کی سمت معین اور مقصود، اعلیٰ اور ارفع اور ذی شان ہے.وہ ہرلمحہ کا مرانی اور فلاح کی طرف بڑھ رہی ہیں اور بالا رادہ کوشش اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ نیک مقاصد کی سمت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں.یہ زندگیاں مومنوں کی زندگیاں ہیں.اوران کا نصب العین وہی ہے جو قرآن حکیم نے ان کے لئے ان الفاظ میں متعین فرما دیا ہے.وَلِكُلٍ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقرة : ۱۴۹)

Page 23

یعنی اے مومنوں کی جماعت ! تمہارا نصب العین نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا ہے.اس نصب العین کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی سے مدد مانگتے ہوئے ہم انصار اللہ اپنے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں.ہماری مسابقت کی دوڑ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی ، اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھی ، ہمارا مقابلہ اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی ، ہر رکن کا دوسرے رکن سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کا ایک مسلسل مقابلہ ہے.جسے زندگی کا آخری سانس ہی منقطع کرے گا.مجلس کی ہر شاخ کا دوسری شاخ سے مقابلہ ہے.ہر صوبہ کا دوسرے صوبہ سے، ہر ملک کا دوسرے ملک سے.پھر ہمارا مقابلہ ہے خدام الاحمدیہ کے ساتھ ، اور ہمارا مقابلہ ہے لجنہ اماءاللہ کے ساتھ ، اور ہر اس مذہبی اور غیر مذہبی تنظیم سے بھی ہمارا مقابلہ ہے جو کوئی بھی نیک مقصد اپنے سامنے رکھتی ہے.اس عظیم دوڑ میں دعا، عزم مسلسل جد و جہد اور تو کل ہمارے لئے قوت کے سرچشمے ہیں.پس میرے انصار بھائیو! آگے بڑھو اور اس مقدس مقابلہ میں کسی سے پیچھے نہ رہو اور اپنی اپنی ہمت اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق ہر اس نیک کام میں مسابقت کی روح کے ساتھ حصہ لوجس کی طرف خدا اور اس کا خلیفہ تمہیں بلاتے ہیں.قائدین مجلس مرکزیہ نے بڑی کاوش اور توجہ کے ساتھ مجالس کے لئے سال رواں کا لائحہ عمل تجویز کیا ہے جو آپ کو بھجوایا جارہا ہے.اس سے متعلق ایک اہم بنیادی بات آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.آغاز سفر سے پہلے مقام آغاز کی تعیین کیجئے ورنہ آپ کو کبھی اس امر کا اطمینان نہیں ہو سکے گا کہ آپ نے کتنا سفر طے کیا ہے.لائحہ عمل کے ہر شعبے میں آپ اپنے گزشتہ کام کو لوظ رکھتے ہوئے بڑی آسانی سے مقام آغاز کی تعین کر سکتے ہیں.جس کی معین مثالیں حسب ذیل ہیں.مثال نمبرات تعلیم الف: گزشتہ سال آپ کی مجلس کے کتنے انصار نے کتنے افراد جماعت کو دینی تعلیم دی ؟ مثلاً بچوں کو نماز سکھائی یا ناظرہ یا با ترجمہ قرآن کریم پڑھایا.ب: آپ کی مجلس کے کتنے انصار نے مرکزی امتحانات میں شرکت کی وغیرہ وغیرہ.ان دونوں سوالات کا جو بھی جواب آئے اسے ایک رجسٹر بنا کر اس صفحہ کے شروع میں درج فرمالیں جو شعبہ تعلیم کی کارروائی درج کرنے کے لئے مخصوص کیا گیا ہو.یہ آپ کا مقامِ آغاز ہے.یہ لکھنے کے بعد اس اندراج کے سامنے یہ لکھئے کہ آئندہ سال شق الف میں کیا اضافہ کریں گے اور شق ب میں کیا اضافہ کریں گے.یہ آپ کی مجلس کا سال رواں کا نصب العین بن جائے گا.بعد ازاں ہر ماہ

Page 24

آپ خود اپنا محاسبہ کریں کہ اس نصب العین کو پورا کرنے کے لئے آپ نے کتنی کوشش کی ہے اور اس کوشش کا جو بھی نیک نتیجہ نکلا ہو، اسے اعداد و شمار کی صورت میں اپنے رجسٹر میں درج کریں.دیگر شعبوں میں بھی اسی طریق پر اپنے گزشتہ سال کی کوششوں کا خلاصہ اعداد وشمار میں درج کر کے اس بات کی تعیین کریں کہ اس سال کے لئے آپ کا سفر کہاں سے شروع ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے کہاں تک آگے بڑھنے کا عزم ہے.بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی خاطر بعض دیگر شعبوں کا مقام آغاز طے کرنے کی چند مثالیں پیش ہیں.مثال نمبر ۲.اصلاح وارشاد الف: کتنے انصار عملا تبلیغ میں حصہ لیتے ہیں؟ اپنے رجسٹر میں معین تعداد درج کیجئے ).ب کتنے دوستوں کو ہدایت نصیب ہوئی اور وہ سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے.ان سوالات کا جواب اعداد میں لکھنے کے بعد آئندہ سال کا نصب العین مقرر فرما ئیں.مثلاً اگرشق الف کا جواب یہ تھا کہ ۵۰ انصار میں سے صرف ۳ انصار اصلاح وارشاد کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو نصب العین اس طرح مقرر کریں کہ سال کے اختتام سے پہلے آپ کتنے انصار کو اصلاح وارشاد کا کام کرنے کی عادت ڈالیں گے.اگر تین نئے اراکین کو مستعد کرنے کی توفیق ہو تو نصب العین ان تینوں کو شامل کر کے جو پہلے ہی کام کر رہے ہیں چھ بنے گا.اسی طرح شق ب کا اگر جواب یہ تھا کہ سال بھر میں صرف ایک غیر از جماعت دوست سلسلہ میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس میں نمایاں اضافہ کرنے کا فیصلہ کریں.اور نصب العین یہ مقرر کریں کہ امسال آپ ایک کی بجائے پانچ یا دس یا پندرہ دوستوں کی ہدایت کا موجب بنیں گے.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ مثال نمبر ۳ - تحریک جدید مقام آغاز نصب العین: تحریک جدید میں حصہ لینے والے ۲۰ میں سے ۱۰ کل چندہ تحریک جدید = / ۱۰۰۰ روپے ۲۰ انصار یعنی سو فیصد انصار شامل کئے جائیں گے.ب چند ۱۰۰۰۰ روپے سے بڑھا کر ۲۰۰۰ روپے کیا جائے گا.

Page 25

مثال نمبر ۴.مال مقام آغاز ( ب ج عام چندہ ماہانہ چندہ تعمیر گیسٹ ہاؤس تعداد انصاراللہ جو با قاعدہ بجٹ میں شامل ہیں ۳۰/۵۰ ۱۰۰ روپے ماہانہ ۵۰۰ روپے و چنده اجتماع ۷۵ روپے اوپر کے خانوں میں گزشتہ سال کے اعداد و شمار درج کرنے کے بعد سال رواں کا نصب العین تجویز کریں کہ شق ا، ب، ج اور د میں کیا اضافہ کریں گے.مثال نمبر ۵.شعبہ عمومی گزشتہ سال کتنی رپورٹیں آپ نے مرکز کو بھجوائیں.ب: کتنے عام اجلاس منعقد کئے..ج کتنے عاملہ کے اجلاس منعقد کئے..وغیرہ وغیرہ نصب العین.مثال نمبر ۶.شعبہ تربیت کتنے انصار با جماعت نماز پڑھنے کے عادی ہیں.ب کتنے افراد جماعت نے آپ کی کوششوں سے غیر شرعی عادات و رسوم سے چھٹکارا حاصل کیا وغیرہ وغیرہ شعبہ تربیت کی شق ب کا نصب العین صرف اس صورت میں معین ہوگا.اگر جماعت کے کسی حصہ میں بعض بدعات پائی جائیں.اگر تمام جماعت غیر شرعی رسوم اور بدعات سے پاک ہے تو اس حصہ میں کام صرف یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں آئندہ بھی بدعات سے محفوظ رکھنے کے لئے بار بار نصیحت کی جاتی رہے.یہ چند مثالیں جو اوپر درج کی جارہی ہیں، یہ مکمل نہیں.بعض شعبوں کے صرف بعض حصے مثال میں واضح کئے گئے ہیں تا کہ اس نمونہ پر ہر شعبہ کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد مقام آغاز اور نصب العین معین کریں اور آئندہ سال بھر دعاؤں سے مدد مانگتے ہوئے اس نصب العین کی پیروی میں مصروف رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور بیش از پیش خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا رہے.آمین )

Page 26

صدر محترم کے دورے اور خطابات صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اپنے دور صدارت ( یکم جنوری ۱۹۷۹ ء تا ۱۰ جون ۱۹۸۲ء) میں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی متعدد مجالس انصار اللہ کے دورے کئے.پاکستان کا شاید ہی کوئی ضلع ہوگا جہاں آپ تشریف نہ لے گئے ہوں.ان دوروں کے دوران آپ نے مجالس کی کارکردگی اور ان کے نتائج کا جائزہ لیا.ضروری ہدایات دیں.خطبات جمعہ کے علاوہ اجلاسات عام نیز مشتر کہ اجتماعات سے خطابات میں نہ صرف اراکین انصار اللہ بلکہ ساری جماعت کی تربیتی تعلیمی تبلیغی اور تنظیمی لحاظ سے رہنمائی فرمائی.مجالس سوال و جواب میں مہمانوں کے سوالات کے مدلل اور مؤثر جوابات دیئے.غرضیکہ آپ کے یہ دورے انصار اللہ اور احباب جماعت کے لئے غیر معمولی ایمانی تقویت اور روحانی سیرابی کا باعث بنے.صدر محترم کے سب دوروں کی تفصیلات کو پیش کرنا ایک بہت طویل مضمون ہے.بطور نمونہ ماہنامہ انصار اللہ ، روزنامہ الفضل اور ریکارڈ دفتر سے مرتب کی گئی درج ذیل فہرست پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے.ان دوروں کی کچھ تفصیلات بعد کے صفحات پر پیش کی جائیں گی.تاریخ ۲۳ فروری مقام فیصل آباد ۹ مارچ شیخو پوره ۱۳ مارچ ۱۰ اپریل سے ماہ اپریل " " سرگودها سندھ ڈسکہ ١٩٧٩ء مصروفیات اجلاس عہد یداران.خطبہ جمعہ مجلس سوال و جواب خطبہ جمعہ.دو مجالس سوال و جواب اجلاس عہدیداران تفصیلی دوره مجالس کراچی وسندھ دور مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور دور مجلس دوره مجلس راولپنڈی " اسلام آباد دوره مجلس " جہلم " پشاور دوره مجلس دوره مجلس ۲ مئی کھاریاں اختتامی خطاب اجتماع همتی ربوه اجلاس زعماء ضلع جھنگ.جائزہ و ہدایات

Page 27

۴ امتی ربوه اجلاس زعماء ربوہ.جائزہ و ہدایات ۸ امتی اومتی دوالمیال اجلاس زعماء.خطبہ جمعہ.سوال و جواب فیصل آباد مجلس سوال و جواب ۲۵ مئی پسرور ۲۵ مئی چونڈہ ہدایات عہد یداران - مجلس سوال و جواب خطبہ جمعہ.اجلاس عہد یداران ضلع یکم جون منڈی بہاؤالدین اجلاس زعمائے مجالس مونگ اجلاس زعمائے مجالس ۲ جون گوجرانوالہ اجلاس انصار الله جون ۱۰ جون فیصل آباد مجلس سوال و جواب تنظیمی دوره ۱۹ جون تا ۲۱ جون کو ہاٹ " " " تنظیمی دوره بنوں ڈیرہ اسماعیل خان تنظیمی دورہ تنظیمی دوره پشاور ۲۸ جون تا ۵ جولائی کراچی مذاکرہ جات علمیہ تبلیغی نشستیں.مجالس سوال و جواب.خطاب اجتماعات انصار اللہ کراچی.لجنہ اماءاللہ کراچی ماه جون ماڈل ٹاؤن لاہور دور مجلس جولائی شیخو پوره اجلاس عہد یداران.خطبہ جمعہ.دو مجالس سوال و جواب ۱۳ جولائی ڈیرہ غازی خان اجلاس زعما.خطبہ جمعہ.سوال و جواب ۲۰ جولائی بد وملهی اجلاس انصار الله خطبه جمعه ۲۴ جولائی راولپنڈی ماہ جولائی فیصل آباد دوره مجلس ۱۳ستمبر ملتان مجلس سوال و جواب.اجلاس عہد یداران ضلع ۱۴ستمبر ۴ استمبر لودھراں ۳۶۶ ڈبلیو بی مجلس سوال و جواب سوال و جواب ۱۴ستمبر بہاولپور خطبہ جمعہ.اجلاس عہد یداران مجلس سوال و جواب

Page 28

۴ اپریل دوالمیال ۱۸ اپریل گھٹیالیاں ۲۲ اپریل اوکاڑہ ١٩٨٠ء خطبہ جمعہ مجلس سوال و جواب خطبہ جمعہ.اجلاس عہد یداران مجلس مذاکرہ مجلس سوال و جواب ۲۵ اپریل مالو کے بھگت مجلس سوال و جواب ۲۵ اپریل کنجروڑ ۲۵ اپریل میادی نانوں خطاب خطبہ جمعہ.مجلس مذاکرہ ۲۶ اپریل ربوه خطاب مقامی سالانہ اجتماع ۳۰ اپریل پیشاور افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع یکم مئی پشاور اختتامی خطاب سالانہ اجتماع امتی فیصل آباد مجلس سوال و جواب ۲۲ ۲۳ مئی کراچی خطاب اجتماع عزیز آباد - مجلس سوال و جواب ۱۶ جون سرگودھا مجلس سوال و جواب یکم جولائی ناصر آباداسٹیٹ خطاب ۲۲ اگست اور حمہ خطبہ جمعہ.اجتماع سے خطاب.مجلس سوال و جواب ۵۴ ستمبر حیدر آباد خطبہ جمعہ.اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ۶ ستمبر کراچی افتتاحی و اختتامی خطاب سالانہ اجتماع کراچی ۱۲ ستمبر راولپنڈی خطبہ جمعہ.اختتامی خطاب سالانہ اجتماع ضلع ۱۷.۱۸ستمبر ملتان مجلس مذاکرہ چک ۳۶۶ ڈبلیو بی مجلس مذاکرہ ۴۳ اکتوبر مظفر گڑھ خطبہ جمعہ.اجلاس عہد یداران.مجالس سوال و جواب ۱۰ اکتوبر گھسیٹ پورہ خطاب تربیتی اجتماع فیصل آباد خطبہ جمعہ.اختتامی خطاب تربیتی اجتماع مجلس سوال و جواب ١٩٨١ء ۹ فروری سانگھڑ خطاب اجلاس.مجالس سوال و جواب

Page 29

۲۶ فروری ملتان مجلس سوال و جواب ۲۰ مارچ چک ۳۵ جنوبی خطبہ جمعہ.جائز مجلس مجلس مذاکرہ خطبہ جمعہ.اختتامی خطاب اجتماع مجلس سوال و جواب ۲۸ مارچ ربوه خطاب سالانہ اجتماع مقامی ۲۱ اپریل پشاور خطاب اجتماع مجلس سوال و جواب ۵ امتی کرتو ۲۲ متی سمبر یال خطبہ جمعہ - مجلس مذاکرہ ۲۹ مئی رائے پور جائزہ مجالس.خطبہ جمعہ.۱۰ جون ملاقات احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن.مجلس سوال و جواب پھائے والی مجلس مذاکرہ ۱۳ اگست رحمان پورہ لاہور مجلس سوال و جواب 11 ستمبر بدین خطبہ جمعہ.افتتاح اجتماع مجلس سوال و جواب ۱۸ ستمبر سیالکوٹ ۲۵ستمبر راولپنڈی خطبہ جمعہ.ملاقات احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن.مجلس مذاکرہ اختتامی خطاب اجتماع ضلع راولپنڈی ۲ اکتوبر گوجرانوالہ شہر خطبہ جمعہ.اختتامی خطاب مجلس مذاکرہ ۱۶ اکتوبر گوجره 11 نومبر خطبہ جمعہ مجلس سوال و جواب تخت ہزارہ مجلس سوال و جواب ۱۳ نومبر سعد اللہ پور خطبہ جمعہ مجلس سوال و جواب ۱۵ نومبر ملتان خطاب - مجلس سوال و جواب ۲۰ نومبر کراچی افتتاحی و اختتامی اجلاس سالانہ اجتماع ضلع ۱۹۸۲ء ۱۰ مارچ دنیا پور مجلس سوال و جواب اپریل کھاریاں افتتاحی خطاب اجتماع مجلس سوال و جواب مالی امور کی بابت صدر محترم کی ہدایت صدر محترم نے اپنی صدارت کے آغاز میں ہی 4 جنوری ۱۹۷۹ء کو مالی امور سے متعلق بنیادی ہدایات دیتے ہوئے مکرم قائد صاحب عمومی کے نام تحریر فرمایا:

Page 30

گزارش ہے کہ مجلس انصار اللہ کی جملہ امانتوں سے متعلق بلا تاخیر حسب ذیل اقدامات فرما کر رپورٹ کریں.جزاکم اللہ دستور اساسی کی تعمیل میں تمام امانت داروں کو ہدایت جاری کی جائے کہ آئندہ ان امانتوں کا اجراء حسب ذیل کے دستخطوں سے ہوگا.(۱) صدر مجلس دستخط کا نمونہ شامل ہو.(۲) قائد مال " " " " دونوں کے مشترکہ دستخط ضروری ہوں گے البتہ اگر صدر کسی کو قائم مقام مقرر کرے یا دوران سال قائد مال کو تبدیل کرے اور نیا نمونہ دستخط بھجوائے تو اس کے مطابق تعمیل ہوگی.اسی طرح اگر صدرا اپنے دستخطوں کی بجائے اپنے کسی قائم مقام یا نائب کے دستخط سے اجراء کروانا چاہے اور امانت داروں کو اس کی اطلاع کرے تو اس کی بھی تعمیل ہونی چاہئیے.ب.جملہ امانتوں کی پاس بکس جلد از جلد تیار کروا کر مجھے معائنہ کے لئے بھجوا دیں.ج محاسب صاحب سے کہیں کہ وہ جلد از جلد جملہ حسابات کا آڈٹ کروا کر رپورٹ پیش فرمائیں.جزاکم اللہ دفتری امور کمیٹی کا قیام ۶ جنوری ۱۹۷۹ کو حسب ذیل ممبران پر مشتمل دفتری امور کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ذمہ دفتری عملہ کی جملہ تقرریوں اور حقوق خدمت وغیرہ نیز معطلی اور معزولی کے معاملات پر سفارشات پیش کرنا تھا.ا.مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نائب صدر صدر کمیٹی ۲- مکرم قائد صاحب مال ۳ مکرم قائد صاحب عمومی ۴ مکرم نائب صدر صاحب صف دوم ماہوارر پورٹ کارگزاری کی اہمیت محترم صدر صاحب مجلس کے نزدیک رپورٹ کارگزاری کی کیا اہمیت تھی ، اس کا اندازہ اس جواب سے لگایا جاسکتا ہے.مکرم نثار احمد صاحب جہانیاں نے اپنے خط محررہ 11 جنوری ۱۹۷۹ میں لکھا.”ہم دو انصار ہیں.ایک تو جہانیاں سے باہر رہتے ہیں.اب میں اکیلا ہی رکن ہوں اور اکیلا ہی زعیم.اس میں کارگزاری کیا لکھوں“ اس کے جواب میں صدر مجلس نے نوٹ لکھا

Page 31

جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کا یہی لکھنا کہ آپ کے علاوہ اور کوئی رکن نہیں ، بہت ہے.یہ کاغذی کاروائی نہیں بلکہ مرکز سے آپ کا رابطہ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.مطلع فرمائیں کہ آپ کے قصبہ میں کتنے احمدی بچے یا ایسی مستورات ہیں جن کی تربیت کے لئے آپ کوئی نہ کوئی کاروائی کر سکتے ہیں.ہم آپ کے سپر دالیا معین کام کریں گے کہ آئندہ آپ کو رپورٹ میں کچھ نہ کچھ لکھنے کا موادل جائے گا.“ ”اپنے پروگرام کے لئے روپیہ جمع کریں“ محترم صدر صاحب مجلس نے مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک شذرہ لکھا اور زعماء کو ہدایت کی کہ وہ اپنے تمام اراکین کو نہ صرف بجٹ میں شامل کریں بلکہ ہر رن کی صحیح آمد پر تشخیص کریں.صدر محترم نے لکھا: سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ ممبران مجلس انصار اللہ کو ہدایت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی.مثلاً میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں مگر میری اس ہدایت کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی.“ (خطبہ جمعہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۳ء) حضور کی اس واضح ہدایت کی روشنی میں زعماء کرام مجلس انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی مجلس کے تمام ممبران کو بجٹ میں شامل کریں.نیز ہر مبر کی صحیح آمد پر بجٹ تشخیص فرما دیں.(۲) صدر محترم کی ہدایات بسلسلہ اجتماعات صدر محترم نے مکرم قائد صاحب عمومی کو تاکید فرمائی کہ جتنے اجتماعات کی منظوری دی جائے ،سب کو ہمیشہ یہ اصولی ہدایت دی جاتی رہے کہ اپنے پروگراموں میں ا.عہد یداران کے باہمی مشورہ کا وقت ضرور رکھا جائے.-۲- عمومی کارکردگی بہتر بنانے کے علاوہ رپورٹس با قاعدہ بھجوانے کا طریق کار تجویز کیا جائے.ضلع سانگھڑ میں ۲۰ اپریل ۱۹۷۹ء کو سالانہ تربیتی کلاس کے انعقاد کی منظوری کے لئے مکرم پیر فضل الرحمان صاحب امیر ضلع سانگھڑ کے خط پر صدر محترم نے تحریر فرمایا: منظور ہے.البتہ اس میں دو دن باہمی مشوروں کے لئے دقت رکھیں جن کے دوران مرکزی پروگرام پیش کر کے اس پر بہترین رنگ میں عمل درآمد کی تجاویز اور دوران سال بار بار کام کرنے کی رفتار کا جائزہ لینے کا طریق کارطے ہو.“

Page 32

۱۲ نیکی پردوام" حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے رمضان المبارک کے مقدس ایام کے پیش نظر عہدیداران کو توجہ دلائی کہ وہ ایسے حکیمانہ طریق اختیار کریں کہ انصار کے اندر عبادات کا ذوق و شوق برقرار ر ہے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا: رمضان شریف کا مہینہ بہت سی برکات کا حامل ہے اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان کو خاص نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اور اس میں نیکیوں کا ایک مخصوص ماحول پیدا ہو جاتا ہے.دوست قرآن کریم کی تلاوت نمازوں میں زیادہ با قاعدگی اختیار کرتے ہیں.مساجد اس ماہ میں غیر معمولی طور پر بھری بھری نظر آتی ہیں.اس دفعہ بھی رمضان کا بابرکت مہینہ گذر رہا ہے.مساجد میں نمازیوں کی خوب رونق ہے.یہ رونق دیکھ کر جہاں دل میں بشاشت پیدا ہوتی ہے وہاں قدرتی طور پر یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ کاش مساجد میں یہ رونق سارا سال قائم رہے.میں مجالس انصار اللہ کے جملہ عہدہ داران کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایسا پروگرام بنائیں کہ جن دوستوں نے رمضان شریف میں با قاعدگی کے ساتھ نماز شروع کی ہے وہ اس پر مداومت اختیار کریں.ایسے دوستوں کی فہرستیں تیار کر لی جائیں.ان کو رمضان میں نہایت حکمت اور نرمی کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلائی جائے کہ انہوں نے نیکی کا جو کام شروع کیا ہے اسے سارا سال قائم رکھیں اور اس پر.(۳) عمل پیرا رہیں." دستور اساسی کا نیا قاعدہ نمبر ۲۰ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے و مئی ۱۹۷۹ء کو دستور اساسی میں مندرجہ ذیل نیا قاعدہ نمبر ۲۰۱ منظور فرمایا.پاکستان سے باہر ملک کامشنری انچارج اُس ملک میں مجلس انصار اللہ کا نائب صدر ہوگا.(۳) انفاق فی سبیل اللہ اور انصار الله وسط ۱۹۷۹ء میں بعض مجالس کے چند اراکین کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا کہ کیا ذیلی تنظیم (انصار اللہ ) کا چندہ لازمی ہے یا طوعی.اس سوال کے جواب میں صدر محترم نے قرآن پاک کی آیات کریمہ اور سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے مبارک ارشادات پر مشتمل ایک چھوٹا سا پمفلٹ تیار کرنے کے لئے مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب قائد مال کو ہدایت دی تھی.یہ پمفلٹ

Page 33

۱۳ انفاق سبیل اللہ اور انصار اللہ کے نام سے قیادت مال مرکزیہ نے شائع کیا.اس کا ایک نسخہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں یکم اگست ۱۹۷۹ء کو صدر محترم نے دعا کی درخواست کے ساتھ بھجوایا.اس پر حضور انور نے تحریر فرمایا: ” اللہ تعالیٰ برکت ڈالے.اس پمفلٹ میں صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے لکھا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ انصار اللہ کی چند ایک مجالس کے کچھ اراکین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا چندہ انصار اللہ لازمی ہے یا طوعی ؟ اس سوال کے جواب میں خاکسار سب سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دو اہم ارشادات پیش کرتا ہے: (۱) تمام ممبروں سے کم از کم ایک آنہ ماہوار کے حساب سے چندہ لیا جائے گا.جس کا با قاعدہ حساب رکھا جائے گا.“ ( فیصله مجلس عامله مرکز یه ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۳ء) ارشاد حضور: "منظور ہے.عمل کیا جائے“ (۲۳ نومبر ۱۹۴۳ء) (۲) اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہےمگر وہ انصاراللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اُس نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے.“ ( روز نامہ الفضل ربوہ ۲ ستمبر ۱۹۶۱ء) ان واضح ارشادات کی تعمیل میں دستور اساسی مجلس انصاراللہ میں یہ قاعدہ بعد از منظوری حضور بنایا گیا: سلسلہ عالیہ احمدیہ کے وہ افراد جن کی عمر چالیس سال سے زائد ہو اس مجلس کے لازماً رکن ہوں گے.‘ ( قاعدہ نمبر ۱۲) ان دو مبارک ارشادات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ احمدی جس کی عمر چالیس سال سے زائد ہے، انصار اللہ کا مہر ہے اور اُس پر کم از کم شرح کا چندہ ادا کر نالازمی ہے.قرآن پاک میں مال کی قربانی کو ایک مقصد قرار دیا گیا ہے.قرآن پاک میں مالی قربانی کا بار بار ذکر کیا گیا.اس کے ذریعے مومنوں کو تزکیۂ نفس حاصل ہوتا ہے.یہ قربانی خدائے کریم کے نزدیک کرتی ہے.اُس کا قرب حاصل ہوتا ہے.اُس کا پیار نصیب ہوتا ہے.نیز اس قربانی سے مال میں برکت پڑتی ہے اور انسان بہت سی ناگہانی آفات، مصائب ، مشکلات اور بیماریوں سے بچ جاتا ہے.چندے ادا کرنے والوں کی اولادوں کو خدا تعالیٰ بے انتہاء فضلوں اور برکتوں سے نوازتا ہے.چنانچہ ملاحظہ ہوں.مندرجہ ذیل آیات قرآنی: (۱) الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة البقره آیت ۲۷۵)

Page 34

۱۴ ترجمہ:.جولوگ اپنے مال رات اور دن، پوشیدہ بھی اور ظاہر بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں اُن کے لئے اُن کے رب کے پاس اُن کا اجر ( محفوظ) ہے.اور نہ تو انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.(۲) وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورة البقره آیت (۱۹۶) ترجمہ: اور اللہ کے راستے میں ( مال و جان ) خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں (اپنے آپ کو ) ہلاکت میں مت ڈالو اور احسان سے کام لو.اللہ احسان کرنے والوں سے یقیناً محبت کرتا ہے.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمُ ( سورة البقره آیت ۲۷۳) وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ترجمہ: انہیں راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں ہے.ہاں اللہ جسے چاہتا ہے راہ پر لے آتا ہے اور جو اچھا مال بھی تم (خدا کی راہ میں ) خرچ کرو اور حقیقت یہ ہے کہ تم ایسا خرچ صرف اللہ کی توجہ چاہنے کے لئے کیا کرتے ہو.سو اُس کا نفع بھی تمہاری اپنی جانوں ہی کو ہوگا.اور جو اچھا مال بھی تم خرچ کرو وہ تمہیں پورا پورا ( واپس کر دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا.(۴) آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِينَ فِيْهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ (سورۃ الحدید آیت (۸) ترجمہ: اور تم میں سے جو مومن ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اُن کو بہت بڑا اجر ملے گا.(د) فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة التغابن آیت ۱۷) ترجمہ: پس جتنا ہو سکے اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کی بات سنو اور اُس کی اطاعت کرو، اپنے مال اُس کی راہ میں خرچ کرتے رہو.یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا.اور جولوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں.وہ کامیاب ہوتے ہیں.(1) مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ في كل سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ( سورة البقره آیت ۲۶۲) ترجمہ: جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن (کے اس فعل ) کی حالت اُس دانہ کی

Page 35

۱۵ حالت کے مشابہ ہے جو سات بالیں اُگائے ( اور ) ہر بالی میں سودا نہ ہو.اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی ) بڑھا ( بڑھا کر دیتا ہے.اور اللہ و سعت دینے والا ( اور ) بہت جانے والا ہے.انصار اللہ کی تنظیم کے ذمہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نہایت اہم اور معین فرائض سونپے ہیں.اس تنظیم کا ایک بہت اعلیٰ مقصد ہے.ظاہر ہے کوئی بھی مقصد ہو مالی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.اس کی افادیت ، اہمیت اور یہ کہ انصار اللہ کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتی ہے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ا صلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ” جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے.اُس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی مثلاً میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اُسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۴ء) خاکسارا راکین مجالس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ حضور کے اس ارشاد بالا پر غورفرما ئیں اور پھر اس کے لمصل مطابق عمل کریں تا کہ وہ مقاصد میں حاصل ہو جائیں جن کے لئے مجلس انصاراللہ قائم کی گئی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اراکین انصار اللہ کی چندہ مجلس کی شرح میں.اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: رب سے تعلق کی پختگی صرف جوانی کی عمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے...خلیفہ وقت کا کام سہارا دینا بھی ہے اس لئے میں نے سہارا دے دیا اور میں نے انصار اللہ کے چندہ کی شرح نصف پیسہ سے بڑھا کر پیسہ کر دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے سب کو توفیق دے.اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے لیکن میں کہتا ہوں انصار اللہ والے کیوں مایوس ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہیں کرے گا.دھیلہ سے پیسہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں بھی برکت (خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ نومبر ۱۹۷۶ء) دے گا.“ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے ان ارشادات سے یہ پوری طرح واضح ہے کہ ذیلی تنظیموں میں رکنیت اور چندے کی ادائیگی ضروری ہے.اس لئے خاکسار اپنے تمام بھائیوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک اللهم لبیک کہتے ہوئے ہر مالی تحریک اور تنظیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اپنے چندے اپنی آمدنی کے مطابق با شرح ادا فرمائیں کیونکہ اسی میں برکت ہے.جیسا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے دھیلہ سے پیسہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں بھی برکت دے گا.“

Page 36

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کا وارث بنائے.آمین انصار کا اصل کام تربیت کا ہے".ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثالث سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے ۲۴ اگست ۱۹۷۹ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے انصار کو توجہ دلائی کہ ان کا اصل کام تربیت کا ہے اور انہیں یہ ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ نبا ہنی چاہئیے.حضور انور نے تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: سال رواں کے ماہ رمضان کا یہ آخری جمعہ اور آخری روزہ ہے.رمضان آج ختم ہورہا ہے لیکن رمضان کی ذمہ داریاں اور رمضان کی برکات ختم نہیں ہوتیں ماہِ رمضان کے خاتمہ پر.بلکہ سارا سال چلتی ہیں.یہ ایک قسم کا ریفریشر کورس ہے یعنی عادت ڈالی جاتی ہے بہت سی عبادات کی اور امید رکھی ہے کہ ایک مومن بندہ سارے سال ان اسباق کو جو رمضان میں دیئے جاتے ہیں بھولے گا نہیں.انہیں یا در کھے گا اور ان پر عمل کرے گا....خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ انسان ثبات قدم سے عمل کرتا رہے ان پر.حالات کے مطابق شکل بدل جائے گی لیکن دل نہیں بدلے گا نہ نیتیں بدلیں گی.”اس بنیادی سبق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت میں دو باتیں خدام کو، دو انصار کو اور دو باتیں جماعت کو کہنا چاہتا ہوں..”انصار کو میں جو دو باتیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ عاجزانہ دعاؤں سے اپنے رب کو راضی کرو اور تمہارا اصل کام تربیت کا ہے.اس کی طرف پوری توجہ دو تا کہ آنے والی نسلیں آنے والی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے والی ہوں.یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے.اپنے بچوں اور لواحقین (DEPENDENTS) سے اور پھر ماحول کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے.گھر سے گاؤں گاؤں سے علاقہ ، علاقہ سے ملک، ملک سے نکل کے سب بنی نوع انسان کو اپنے احاطہ میں لے لیتی ہے.آپ پر پہلی ذمہ داری ہے دعائیں کرنا.وہ دعائیں ہر ایک کے کام کے لحاظ سے اور ہر ایک کے ماحول کے لحاظ سے اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہو جاتی ہیں.ایک خادم کی دعا کا بڑا حصہ یہ ہے.رَبِّ زِدْنِي عِلما ابھی وہ سیکھ رہا ہے.علم دین بھی سیکھ رہا ہے.علم اخلاقیات بھی سیکھ رہا ہے.علم روحانیات بھی سیکھ رہا ہے.وہ خدا سے کہے کہ اے خدا! تو نے مجھ پر خدمت کی ذمہ داری ڈالی لیکن اس کے لئے جن علوم کی مجھے ضرورت ہے کہ مجھے اخلاق

Page 37

۱۷ کے سارے پہلو معلوم ہوں ، روحانیت میرے اندر پیدا ہو، مجھے یہ معلوم ہو کہ میں اپنے جسموں کی اور دوسروں کے جسموں کی صحیح نشو و نما اور تربیت کیسے کر سکتا ہوں.کس رنگ میں ان کی خدمت بجا لا سکتا ہوں.یہ دعائیں ہیں خدام کی.جو بڑے ہیں ان کی یہ دعا ہے کہ اے خدا ہماری ذریت کو اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو اپنا بندہ بنا، ان کے دلوں میں اپنا پیار پیدا کر.ہمارے لئے قرۃ العین ہوں وہ.ہماری بدنامی کا باعث نہ بنیں.لوگ یہ نہ کہیں کہ خود تو انہوں نے دینی میدان میں ظاہری رنگ میں باقی دلوں کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے) بہت بلند مقام حاصل کئے لیکن ان کے بچے خراب ہو گئے.آنے والی نسلیں آباء کے مقام سے گر گئیں.یہ دعائیں ہیں ان کی.اور تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھتی ہے.جس طرح خدام کے لئے خدمت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ دعا اور خدمت پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں، انصار کے لئے تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ دعا اور تربیت پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں.اور جماعت کو جو دو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہیں : ایک تو یہ کہ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے ربّ کریم کی رضا اور اس کی نعماء کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.دعاؤں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نباہنے کے قابل بنے کی کوشش کرو کہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور نور کو متعارف کروانے کی ذمہ داری تم پر ہے اور دعاؤں کے ساتھ خدا سے یہ نعمت حاصل کرو کہ تم واقعہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو سکتے ہو خدا کی نگاہ میں یعنی اس طور سے نقشِ قدم پر چلنے والے ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کا صحیح معنی میں اور حقیقی رنگ میں دوسروں کے لئے اسوہ بن جاؤ.تمہاری زندگیوں کو دیکھ کر اور تمہارے اعمال کو دیکھ کر، تمہارے اسوہ کے حسن کے گرویدہ ہو کر وہ جو ابھی تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ کے نیچے نہیں آئے وہ اس طرف کھچے آئیں.جذب ہو تمہارے اندر اپنے لئے نہیں چونکہ تمہارا مقام تو نیستی کا مقام ہے ہر دو پہلو سے (۱) اس لئے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تمہارا مقام نیستی کا ہے.اور (۲) اللہ تعالیٰ کے مقابل تمہارا مقام نیستی ہے.وہ عظیم ہستی جس کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اور فنافی اللہ ہوکر نیستی کا مقام حاصل کیا جس مقام پر دنیا فخر کرتی آئی ہے اور فخر کرتی چلی جائے گی.تو کبر اور غرور نہیں بلکہ خدمت ، عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ تربیت کی توفیق پانا خدام وانصار کا

Page 38

۱۸ اور اتنی بڑی ذمہ داری ! اتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے تم پر کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جب آدمی سوچتا ہے کہ ذمہ داری کتنی بڑی ہے اور طاقت اس قد ر تھوڑی.یہی سمجھ آتا ہے کہ خدا سے دعا مانگ کر جتنا زیادہ سے زیادہ انسان کر سکتا ہو کر دے.اور باقی (جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی سعی کر لو گے تو کمی کو میں پورا کر دوں گا ) انسان دعا کرے کہ اے خدا میری کوشش کو خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو، ایسا بنا دے کہ قبول ہونے کے لائق ہو تیرے حضور.اور جب خدا قبول کر لیتا ہے انسان کی کوشش کو تو خامیاں دور کر دیتا ہے.نتائج پورے نکال دیتا ہے.اللہ تعالیٰ خدام کو اپنی ذمہ داریاں اور انصار کو اپنی ذمہ داریاں اور جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے نتیجہ میں اس نے جو نعماء کے وعدے اور بشارتیں دی ہیں ، وہ ہماری نسلوں میں، ہماری زندگیوں میں اور آنے والی نسلوں کی 40666 زندگیوں میں پوری ہوں.کی کامیاب تربیتی پروگرام سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے تازہ ارشاد بابت تربیت کی روشنی میں صدر مجلس محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مرکزی تربیتی پروگراموں کے تحت مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد اور مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل کو حسب ذیل جماعتوں میں دورہ کے لئے بھجوایا.راولپنڈی، پشاور، بازید خیل، اچینی پایاں ، سفید ڈھیری، نوشہرہ ،مردان ،کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسمعیل خان.مرکزی وفدر بوہ سے ۲۶ اگست ۱۹۷۹ء کو روانہ ہوا اور مذکورہ جماعتوں میں کامیاب دورہ کرنے کے بعد ۳ ستمبر ۱۹۷۹ء کو واپس پہنچا.ہر مقام پر نہ صرف احباب جماعت نے بلکہ دیگر دوستوں نے بھی وفد کا خیر مقدم کیا.مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب خطابات کے بعد سوالات کے جوابات بھی دیتے جبکہ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے سلائیڈز اور کسر صلیب کانفرنس کی فلم کی نمائش بھی کی.(1) ہفتہ تربیت و اصلاح و ارشاد قیادت تربیت اور قیادت اصلاح وارشاد کے تحت جملہ مجالس انصار اللہ کو اس امر کی ہدایت کی گئی کہ وہ ۶ اکتوبر تا ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۹ ء ہفتہ تربیت و اصلاح وارشاد منائیں.اس سلسلہ میں درج ذیل عناوین مقرر کیے گئے.ا.زبان کی حفاظت ۲.سیدنا حضرت مسیح موعود کی قرآنی خدمات.احمدیت کی تائید میں الہی نشانات ۴- برکات خلافت

Page 39

۱۹ ۵- صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶.اطاعت مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی طرف سے تمام مجالس کو طبع شدہ نوٹس بھجوائے گئے تا کہ جہاں تعلیم یافتہ انصار کی کمی ہو، وہاں ان مضامین کو پڑھ کر سنایا جائے اور انصار ان موضوعات کی روشنی میں اصلاح وارشاد اور تربیت کا کام کریں.ہفتہ منانے کے بعد درج ذیل اضلاع اور مجالس کی طرف سے رپورٹیں موصول ہوئیں.اضلاع لاہور، سکھر، حیدر آباد مجالس کوئٹہ، ماڈل ٹاؤن لاہور، حیدر آباد، منڈی بہاؤالدین، سانگھڑ ، شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاؤالدین، دارالذکر لاہور ، چک ۳۲ این پی غربی رحیم یار خان، خوشاب، کھوکھر غربی ،سکھر، شاہدرہ ٹاؤن لاہور، چیچہ وطنی، عارف والا ، چک ۶ قبولہ ، ساہیوال شہر.مرحومین کی طرف سے انعامی ٹرافی کی تجویز پر حضورانور کا فیصلہ ۱۹۷۹ء میں ایک صاحب نے صدر محترم کی خدمت میں درخواست کی کہ وہ اپنے والد مرحوم کی طرف سے انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر ایک مستقل انعامی ٹرافی دینا چاہتے ہیں جو ہر سال تقاریر یا مضمون نویسی کے مقابلہ میں اول آنے والے ناصر کو دی جایا کرے.انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے یہ بھی تحریر کیا کہ جماعت احمد یہ بر طانیہ کے سالانہ جلسہ پر جوانعامات تقسیم کئے جاتے ہیں،ان میں سے اکثر دوستوں کی طرف سے مرحوم لواحقین کے نام پر ہوتے ہیں.صدر محترم نے اس سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں راہنمائی کی درخواست کی.اس پر حضور انور نے ۱۸ جون ۱۹۷۹ء کوتحریر فرمایا: انصار اللہ مرکز یہ کا مقام اور ہے اور جماعت برطانیہ کا اور.نامنظور.یہ بدعت نہیں جاری ہوگی.“ بائیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۷۹ء مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا بائیسواں سالانہ اجتماع ۲۶ ۲۷ ۱۲۸ کتوبر ۱۹۷۹ء کو دفتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ کے احاطہ میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا بابرکت ارشاد سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے ۴ استمبر ۱۹۷۹ء کے خطبہ جمعہ میں اکتوبر میں ہونے والے مرکزی اجتماعات میں نمائندگی کے بارہ میں اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ مجلس خدام الاحمدیہ وانصار اللہ کی کوئی مجلس ایسی نہ رہے جس کا نمائندہ اپنے اپنے سالانہ اجتماع میں شامل نہ ہو چنانچہ ہر دو اجتماعات میں مجالس کی سو فیصدی

Page 40

نمائندگی پر زور دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: د قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایک نمونہ ہیں آنے والی نسلوں کے لئے ، اس معنی میں کہ آپ کے اندر دو خصوصیات نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں.ایک آپ حنیف تھے.دوسرے آپ مسلم تھے.حنیفا مسلما.ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے والے اور ہر دم اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے والے پس ایک مسلمان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنیف بھی ہوا اور مسلم بھی ہو.خدا تعالیٰ کے حضور ہر آن عاجزانہ جھکنے والا بھی ہو اور خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے کی کوشش کرنے والا بھی ہو...وو 66 66 سب سے کارگر اور مؤثر حربہ ہتھیار جو ایک مسلمان کو دیا گیا وہ ایٹم بم نہیں، دعا کا ہتھیار ہے اور اس سے زیادہ کارگر اور ہتھیار نہیں.اور دوسرے نمبر پر جو ہتھیار دیا گیا وہ ہائیڈ روجن بم کا ہتھیار نہیں بلکہ محبت اور شفقت، بے لوث خدمت.....ان اغراض کو سامنے رکھ کے بار بار یاد دہانی کرانے کے لئے اجتماع ہر سال ہوتے ہیں....خدا تعالیٰ ، جس مقصد کے لئے یہ اجتماع منعقد ہوتے ہیں اس مقصد کے حصول کے سامان پیدا کرے اور جماعت کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس میں حصہ لینے والی ہو اور امرائے اضلاع اور مربیان کو اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے عہدیداروں کو اللہ تعالیٰ ہمت عطا کرے کہ وہ اس بات میں کامیاب ہوں کہ کوئی جماعت ایسی نہ رہے جس کا نمائندہ نہ آیا ہو.اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں پھر آئندہ سال پہلے کی نسبت زیادہ جماعتوں کی نمائندگی ہوگی.اس لئے کہ ہر سال نئی جماعتیں بن جاتی ہیں.اور پھر ایسے سامان پیدا ہوں.خدا کرے کہ زیادہ سے زیادہ نئی جماعتیں بنیں.زیادہ سے زیادہ نئی جماعتوں کے نمائندے ہوں اور ہر سال جس طرح موسم بہار میں زندہ درخت ایک نئی شان اور پہلے سے بڑھ کرشان کے ساتھ انسان کی آنکھوں کے سامنے اپنی سبزی کو ظاہر کرتے ہیں اور اپنے حسن کو پیش کرتے ہیں.اس سے زیادہ ہمارے اجتماع عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی نگاہ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حسن بیان اور محسن عمل کو پیش کرنے والے ہوں“.) صدر محترم کا خصوصی پیغام اجتماع میں شرکت کے لئے صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مربیان کرام اور امرائے اضلاع کے نام ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ءکو مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا: وو سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امسال خطبہ جمعہ

Page 41

۲۱ فرموده ۱۴ تبوک /ستمبر ۱۹۷۹ء میں مرکزی اجتماع میں انصار اللہ کی نمائندگی کے بارہ میں حسب ذیل ارشاد فرمایا ہے.” میرے دل میں خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدام اور انصار کے اجتماعات میں ان کی تمام مجالس شرکت کریں.بعض جماعتیں بڑی ہیں اور بعض بلحاظ تعداد مختصر ہیں.بعض جماعتیں فعال ہیں اور بعض جماعتیں سست ہیں.بعض اضلاع کے امراء اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ بوجھ کر ادا کرتے اور بعض سست اور کمزوری دکھانے والے ہیں.بعض مربی صاحبان کو اللہ تعالیٰ ایثار اور محبت و پیار سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق دیتا ہے.اور بعض کے دلوں میں خدا کی محبت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن سے اس رنگ کا پیار نہیں کہ جیسے ایک آگ بھڑک رہی ہو.حالانکہ اگر کسی مربی کے علاقے میں کمزوری ہو تو اس کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جانی چا ہیں.چاہے ایک مجلس سے ایک ہی نمائندہ کیوں نہ آئے مگر آئے ضرور “ (الفضل ۱۸ستمبر ۱۹۷۹ء) براہ کرم حضور کی یہ آواز اپنے علاقہ میں ہر فرد کے کان میں ڈال دیں اور ان سے تحریری وعدہ لے کر مجھے بھجوا دیں کہ ہر مجلس کی طرف سے کم از کم ایک نمائندہ تو بہر حال آئے گا.زیادہ جتنے آسکیں اتنا ہی بہتر ہے.کان اللہ معکم.اس سلسلہ میں اپنی مساعی سے خاکسار کوضرور اطلاع دیتے رہیں.“ پہلا دن سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا افتتاحی خطاب سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی مقام اجتماع میں تشریف آوری کے بعد ۲۶ اکتوبر کو ساڑھے تین بجے بعد دو پہر افتتاحی اجلاس کی کارروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی.اجتماعی دعا اور عہد کے بعد حضور نے افتتاحی خطاب فرمایا.چونکہ لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں تھی لہذا حضور انور کے خطاب کو مکرم عبدالعزیز صاحب دینیس مربی سلسلہ نے بہت بلند آواز میں دوہراتے ہوئے دُور دُور تک بیٹھے ہوئے سامعین تک پہنچایا.سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسلام ایک حسین مذہب ہے اور اس نے کسی جگہ بھی دُکھ کے سامان پیدا نہیں کئے.اس لئے انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیاں اس نمونہ کے مطابق ڈھالیں اور اپنی نسلوں کی صحیح طور پر تربیت کریں.تشہد وتعوّ ذاور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: انسانوں کو عادتیں بھی پڑ جاتی ہیں.میں نے ساری عمر اس بات کا خیال رکھا کہ عادت نہ پڑے

Page 42

۲۲ لیکن اب معلوم ہوا کہ لاؤڈ سپیکر پر بات کرنے کی عادت پڑ چکی ہے.اس سے قبل اس مجمع سے بھی بڑے مجمعوں میں بغیر لاؤڈ سپیکر کے میں تقریر کرتا رہا ہوں.مگر اب بُری عادت پڑ چکی ہے اور ویس صاحب کی آواز کا سہارا لینا پڑ رہا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کی حیثیت سے مبعوث ہوئے اور جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے.آپ تمام بنی نوع انسان کی طرف نہ ختم ہونے والی رحمتوں کو ساتھ لئے بطور نبی کے مبعوث ہوئے.اس لئے جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نے انسان انسان میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کیا.آپ سب کے لئے ہی رحمت، مومن و کافر کا یہاں سوال پیدا نہیں ہوتا.جو تعلیم آپ لے کر آئے اُس کا ہر حکم ، امر ہو یا نہی ، مومن کے لئے بھی رحمت ہے اور کافر کے لئے بھی رحمت ہے.جو احکام آپ لے کر آئے اُن میں سے اس وقت میں کچھ کہوں گا.انسان کو عمل صالح کا حکم ہے یعنی جو کچھ بھی وہ کرے، خدا تعالیٰ کی ہدایت اور تعلیم کی روشنی میں کرے اور اس تعلیم کی وسعت بہت بڑی ہے.ہمارے اعمال ہماری زبان سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور زبان سے تعلق رکھنے والے اعمال صالحہ بہت سے ہیں.اُن میں سے میں ایک کو اس وقت لوں گا جس کی بنیادی حیثیت ہے اور وہ ہے ”بولنا“ تعلیم بیر دی کہ (۱) جھوٹ مت بولو.(۲) دوسرے یہ کہ سچ بولو.(۳) تیسرے یہ کہ صرف سچ نہیں بلکہ قول سدید ہو.سچ بھی ہو اور ہر قسم کی کبھی سے پاک بھی ہو.اور اس پر زائد یہ کہ قول طبیب بھی ہو.یعنی جھوٹ نہ ہو بیچ ہو، سدید ہو اور طیب بھی ہو.طیب کے معنی ہیں جو موافق ہو.یہ موافق ہونا انسان کے مخاطب کو مد نظر رکھ کر بھی ہے یعنی جس ماحول میں باتیں کر رہے ہو اس ماحول میں سننے والوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی باتیں کرو.فرمایا.وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص سے اُس کی عقل کے مطابق بات کرو.یہ طیب ہی کی تفسیر ہے.پھر جہاں تک حقوق کا سوال ہے، اسلام نے حقوق کی تعیین اور اُن کی حفاظت کے سلسلہ میں انسان انسان میں کوئی تمیز نہیں کی مثلاً لیاقت کے لحاظ سے انسان میں پیدائشی فرق تو ہے لیکن حکم یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو معاشرہ میں اُس کی لیاقت کے مطابق مقام دیا جائے اور اس میں مسلم وکا فر کی کوئی تمیز نہیں.فرمایا.ان تُودُّ والأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء: ۵۹) اسلامی تعلیم اہلیت کے مطابق تقرریاں بھی کرتی ہے اور ترقیات بھی دیتی ہے.اس کی بیسیوں مثالیں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ملتی ہیں.خلفائے راشدین نے اپنے اپنے فن کے ماہرین کو مدینہ بلا کر بہت سے شعبوں کا افسر اعلیٰ مقرر کر دیا حالانکہ

Page 43

۲۳ ان لوگوں کا تعلق نہ صرف یہ کہ غیر مسلم عقائد کے ساتھ تھا بلکہ جنگجو، اسلام سے لڑنے والی اقوام کے ساتھ بھی تھا.اسلام ایک حسین مذہب ہے.قولا نہ فعلاً کسی جگہ بھی دُکھ کے سامان نہیں پیدا کئے اس نے بلکہ ہر ایک کے لئے مسرت اور اطمینان کے حالات پیدا کئے.یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان کے ہاتھ میں گند تلواریں تھیں، اسلام کے حسن نے لاکھوں لاکھوں انسانوں کے دل جیتے اور اس پیاری تعلیم نے رب کریم کے محبوب رسول کے قدموں میں انہیں لا بٹھایا.پس انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی زندگیاں اس نمونہ کے مطابق ڈھالیں اور انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی نسلوں کی صحیح طور پر تربیت کریں.اپنے گھروں میں بچوں کو اسلام سکھائیں.قرآن پڑھائیں.ہمارے رسول کی پیاری باتیں اُن کے کانوں میں ڈالیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق حضرت مہدی کی باتیں اُن تک پہنچائیں اور مہدی علیہ السلام کی کتب کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنی نسلوں کو بھی کروائیں تا کہ جو ہماری ذمہ داری ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب ہو، اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرسکیں اور اپنے خدا کے حضور سرخرو ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے، وہ ہمیں کامیاب طریقے پر کرنے کی وہ خود تو فیق عطا کرے.آمین (۸) ورزشی مقابلے حضوراقدس کے ایمان افروز افتتاحی خطاب کے بعد حسب پروگرام ورزشی مقابلے ملحقہ دفتر جلسہ سالانہ کے احاطہ میں ہوئے.اس روز رسہ کشی اور والی بال کے سیمی فائنل مقابلے ہوئے.رسہ کشی کا مقابلہ ربوہ اور پنجاب کی مجالس کی ٹیموں کے درمیان اور کراچی وسرحد اور سندھ و بلوچستان کی مجالس کی ٹیموں کے درمیان ہو ا.پنجاب اور کراچی وسرحد کی ٹیمیں فاتح قرار پائیں.اسی طرح والی بال کا مقابلہ ربوہ اور پنجاب کی ٹیموں کے درمیان اور کراچی وسرحد اور سندھ و بلوچستان کی ٹیم کے مابین ہوا.ربوہ اور کراچی وسرحد کی ٹیمیں فاتح قرار پائیں.یہ مقابلے ایک گھنٹہ تک جاری رہے.اجلاس دوم نماز مغرب وعشاء نیز کھانے کے وقفے کے بعد اجلاس دوم زیر صدارت مکرم چوہدری احمد دین صاحب ناظم مجلس انصاراللہ فیصل آباد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مکرم مولا نا عبدالمالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے قرآن کریم کا درس دیا جس میں آیت کریمہ اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ کی روشنی میں تبلیغ ہدایت اور اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرض تبلیغ سے عہدہ برآ ہونے کی طرف توجہ دلائی اور

Page 44

۲۴ تبلیغ کے سلسلہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل کو اپنانے پر زور دیا.مکرم مولانا محمد صادق صاحب سماٹری نے احادیث نبویہ کا درس دیتے ہوئے جن میں دعوت الی اللہ کی اہمیت اور ضرورت کے علاوہ اس فرض کو احسن رنگ میں ادا کرنے کا ذکر ہے، کی روشنی میں بتایا کہ دعوت الی الحق کے لئے ایک تو علم دین حاصل کرنا چاہئے اور دوسرے اس پر خود بھی عمل پیرا ہونا چاہیئے.مکرم قریشی نورالحق صاحب تنویر استاد جامعہ احمدیہ نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا.آپ نے آیت کریمہ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی تشریح و تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات پڑھے جن کا لب لباب یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے گفتگو اور تبادلہ خیالات کو ذریعہ بنایا جائے مگر حکیمانہ طریق پر اور ناصحانہ رنگ میں.درس کے بعد سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقاریر ہوئیں.پہلی تقریر مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے کی.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور کے عزم صمیم، بلند ہمتی اور بے مثل شجاعت کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.اس اجلاس کی آخری تقریر آطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کے موضوع پر مکرم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی ایڈیٹر روز نامہ الفضل ربوہ نے کی جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ اور اولوالامر کی اطاعت اور اس کی اہمیت کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کیا.آپ نے واضح فرمایا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہی اسلام کی رُوح رواں ہے.گواصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی مقصود ہے لیکن رسول خدا کی محبت میں فنا ہو کر اس کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف ہی بلاتا ہے اس لئے رسول کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہے.﴿۱۰﴾ دوسرادن اجلاس اوّل سالانہ اجتماع کے دوسرے دن کی کارروائی کا آغاز اجتماعی نماز تہجد سے ہوا.نماز فجر کے بعد مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی کی صدارت میں سب سے پہلے حضرت مرزا عبدالحق صاحب رکن خصوصی مجلس مرکزیہ نے قرآن مجید کا درس دیا.آپ نے آیت الکرسی ( سورۃ البقرۃ ) تلاوت کی اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ کی ایسی صفات بیان ہوئی ہیں جو خدا کے زندہ ہونے کا ثبوت ہیں.پس انسان کو چاہئے کہ وہ خدائے تھی وقیوم کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرے.اس کے بعد مکرم مولانامحمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی نے درس حدیث دیا.آپ نے احادیث نبویہ کی

Page 45

۲۵ رُو سے قرآن کریم پڑھنے والوں کے مراتب اور ان کے اعلیٰ اجر کا ذکر کیا.آپ نے بتایا کہ قرآن کریم ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ ہر انسان خواہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے یا معمولی پڑھا لکھا یا ہل چلانے والا معمولی کسان ، ہر کوئی اپنی اپنی استعداد کے مطابق قرآن مجید سے استفادہ کر سکتا ہے.11 مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر سابق مبلغ ماریشس نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں بیان فرمایا کہ جو کمالات متفرق طور پر گزشتہ انبیاء کودیئے گئے یا بعض الہامی کتابوں میں ودیعت کئے گئے تھے ، وہ سب کے سب قرآن مجید میں جمع کر دیئے گئے ہیں.یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر تین تقاریر ہوئیں.پہلی تقریر میں مکرم ملک مبارک احمد صاحب استاد جامعہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے قبل کی زندگی کے بارے میں بتایا کہ آپ کی زندگی کا یہ دور بھی نبوت کے دور سے کچھ کم اہم نہیں کیونکہ آپ کی روحانی پیدائش کی ابتداء خود تخلیق کائنات سے بھی پہلے ہو چکی تھی.اس دور میں آپ کی پاک زندگی اور عبادت الہی کوتفصیل سے بیان کیا گیا.دوسری تقریر ایفائے عہد کے موضوع پر مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر نے کی.آپ نے قرآن مجید سے ایفائے عہد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے چند احادیث نبویہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارہ میں اسوہ حسنہ پیش کیا.تیسری تقریر مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر استاد جامعہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے شفقت کے موضوع پر کی.آپ نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی تعلیم دی.اَكْرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ وَ أَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ فرما کر بچوں کی عزت اور اکرام اور تہذیب و تادیب کے لحاظ سے ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا.﴿۱۲﴾ اجلاس دوم پونے نو بجے صبح اجلاس دوم مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کوئٹہ کی صدارت میں شروع ہوا.تلاوت و نظم کے بعد سیرت صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت پہلی تقریر مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب استاد جامعہ احمدیہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کی.آپ نے بتایا کہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان فطرتا نہایت پارسا، دیانتدار، راستباز اور حیا دار انسان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں.حضرت عثمان نے ردائے خلافت کو آخر دم تک پہنے رکھا اور منافقوں اور باغیوں کا مقابلہ کیا اور اس راہ میں اپنی جان قربان کر دی.

Page 46

۲۶ دوسری تقریر مکرم فضل الہی انور کی صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے متعلق کی.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تینوں خلفائے راشدین کے مشیر و عین رہے اور اپنی خلافت کے دور میں تمام فتن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش فرمایا.قائدین مرکزیہ کی رپورٹیں اس کے بعد صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی زیر صدارت قائدین مرکز یہ نے اپنے اپنے شعبے کی کارگزاری کی سالانہ رپورٹیں پڑھ کر سنائیں.﴿۱۳﴾ اس موقعہ پر قیادت ذہانت و صحت جسمانی کے ضمن میں محترم صدر صاحب نے احمدی شعراء کے لئے نظمیں لکھنے کا ایک نیا میدان تجویز کیا اور فرمایا کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا یہ مبارک ارشاد ہے کہ انصار اللہ جوانوں کے جوان ہیں لہذا آپ نے مقابلہ نظم کے لئے پہلا مصرع بھی تجویز کیا جو یہ تھا ع ”جوانوں کے تم ہو جواں الله الله آپ نے اعلان فرمایا کہ اس پر نظمیں لکھنے والوں میں سے اوّل اور دوم آنے والوں کو اگلے سال انعام دیا جائے گا.(اس پر بہت سے شعراء نے طبع آزمائی کی.منصفین کے فیصلہ کے مطابق مکرم سعید احمد صاحب اعجاز اول، مکرم عبدالمنان ناہید صاحب دوم اور مکرم عبدالرشید صاحب شیدا سوم رہے.) مجلس شوریٰ اس کے بعد مجلس شوری کی کارروائی اجتماعی دعا سے گیارہ بجے قبل دو پہر شروع ہوئی اور پونے دو بجے دو پہر تک جاری رہی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے کی.اس کے بعد صدر محترم نے دعا کرائی کہ اللہ تعالیٰ صحیح فکر ہیچ سوچ اور صحیح فیصلوں تک پہنچنے کی توفیق دے.قائد مقامی کا تقرر: اجتماعی دعا کے بعد ایجنڈا میں درج شدہ تجاویز پر غور شروع ہوا.تجویز نمبر ایک زعیم اعلیٰ ربوہ کو مجلس عاملہ مرکز یہ کارکن مقرر کرنے کے علاوہ ان کے عہدہ کا نام زعیم اعلیٰ کی بجائے قائد مقامی رکھنے سے متعلق تھی.پانچ نمائندوں نے اس تجویز کے متعلق اپنی رائے دی.بالآخر یہ تجویز ان الفاظ میں متفقہ طور پر منظور کر لی گئی کہ عہدہ کی تبدیلی کئے بغیر مجلس ربوہ کا زعیم اعلیٰ مجلس عاملہ مرکز یہ کارکن ہوگا.ربوہ کا زعیم اعلیٰ صدر کا نامزد ہوا کرے گا.اس کے مطابق دستور اساسی کے متعلقہ قاعدہ میں ترمیم کی جائے.“ مجلس شوری کے فیصلوں کی توثیق: ایجنڈا کی تجویز نمبر مجلس شوری کے فیصلوں کی منظوری کے متعلق تھی کہ آیا ان کی منظوری صدر مجلس دیں یا آخری منظوری کے لئے خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کئے جائیں.

Page 47

۲۷ دس نمائندگان نے اس کے متعلق اپنی آراء پیش کیں.دورانِ بحث بڑے دلچسپ نکات اُٹھائے گئے.مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب لاہور نے مشورہ دیا کہ اس تجویز کے بعض پہلوا بھی نامکمل ہیں اور مزید غور طلب ہیں اس لئے بجائے اسی شوری میں فیصلہ کرنے کے، ایک سب کمیٹی بنادی جائے جو دوران سال اس کے سارے پہلوؤں پر غور کرے اور آخری صورت میں اگلے سال پیش کرے.مجلس شوری نے اس سے اتفاق کیا.چنانچہ صدر محترم نے شوری کی اس متفقہ سفارش کو منظور فرمالیا اور شوری کے مشورہ سے حسب ذیل احباب پر پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقررفرمائی.۱ مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب نمائندہ گوجرانوالہ ۲ مکرم میجر (ریٹائرڈ) محمود احمد صاحب سرگودھا مکرم چوہدری احمد دین صاحب فیصل آباد ۴.مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب لاہور.مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ گجرات مکرم چوہدری عبدالغفور صاحب جھنگ صدر ۷.مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب سیالکوٹ مکرم ملک لطیف احمد سرور صاحب شیخو پوره ۹ مکرم پر و فیسر محمد طفیل صاحب ساہیوال ۱۰.مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خان صاحب قائد تعلیم.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس مرکز یہ ۱۲.مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب قائد وقف جدید آخر پر مکرم میجر سعید احمد صاحب لاہور نے مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا نام بطور ایڈوائزر (مشیر ) کے پیش کیا مگر چونکہ ایسی کوئی روایت پہلے موجود نہیں تھی.اس لئے صدر مجلس نے ان سے کہا کہ اگر مکرم صاحبزادہ صاحب کا نام ضروری سمجھتے ہیں تو بطور مبر کمیٹی پیش کر سکتے ہیں.چنانچہ مکرم صاحبزادہ صاحب کو بھی بطور ممبر کمیٹی شامل کر لیا گیا.انتخاب صدر : ایجنڈا کی تجویز نمبر ۳ دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۹۲ میں انتخاب صدر کے طریق کار کے بارہ میں ترمیم سے متعلق تھی.سب سے پہلے مذکورہ قاعدہ زیر غور آیا.پانچ نمائندگان نے اپنی آراء کا اظہار کیا.اس قاعدہ میں حسب ضرورت“ کے الفاظ مناسب نہ سمجھے گئے اور مجلس عاملہ مرکزیہ کی تجویز کردہ عبارت کو شوری نے

Page 48

۲۸ بجنسم منظور کرنے کی سفارش کی جسے صدر محترم نے منظور فرما لیا.اب اس ترمیم شدہ قاعدہ کی شکل درج ذیل بن گئی.انتخاب صدر کے لئے مجالس مقامی سے نام منگوائے جائیں گے.انتخاب سے ایک ماہ قبل تک جس قدر نام موصول ہوں گے مجلس عاملہ مرکز یہ ان پر غور کرنے کے بعد جن ناموں کا انتخاب کے لئے پیش کرنا مناسب سمجھے ، انہیں مجالس ماتحت کو بھیجوا دے گی جو صدارت کے لئے ان میں سے ایک نام کا انتخاب کریں گی اور اپنے نمائندگان شوری کو ہدایت کریں گی کہ وہ شوریٰ انصار اللہ میں انتخاب صدر کے موقع پر اس کے حق میں ووٹ دیں.ناظم ضلع کا انتخاب: ایجنڈا کی تجویز نمبر ۴ (۱) ناظم ضلع کے انتخاب کے طریق کار کے بارے میں دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۵۳ اور قاعدہ نمبر ۱۵ میں موجود ابہام کو ایک ترمیم کے ذریعہ دور کرنے سے متعلق تھی.یہ تجویز چونکہ مجلس انصار اللہ ناظم آباد کراچی کی طرف سے پیش کی گئی تھی اس لئے سب سے پہلے نمائندہ مجلس ناظم آبا د مکرم چوہدری شریف احمد صاحب نے بتایا کہ یہ تجویز ( ترمیم ) پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ بھی کہ ابہام کو دُور کر کے دونوں قواعد میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے.اس کے بعد مزید بارہ نمائندگان نے بھی دستور اساسی کے اس سقم کو دور کرنے کے سلسلہ میں مختلف طریقے اختیار کرنے کے مشورے دیئے.بالآخر شوری نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ اس معاملے کو بھی اُس سب کمیٹی کے سپرد کیا جائے جو شوریٰ انصار اللہ کے فیصلوں کی توثیق کے بارے میں مزید غور کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے.نیز شوری نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ایجنڈا کی تجویز نمبرم جز (ب) جو صحابہ کرام کی شوریٰ کی رکنیت اور جز ( ج ) جو مجالس عاملہ کے اراکین کی میعاد کی تعیین کے متعلق ہیں، مزید غور طلب ہیں اس لئے انہیں بھی اسی سب کمیٹی کے سپر د کر دیا جائے.صدر محترم نے شوری کی رائے کو منظور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجلس انصار اللہ کراچی کا ایک نمائندہ بھی شامل کر لیا جائے.اگر وڑائچ صاحب خود آسکیں تو ٹھیک ورنہ اُن کی جگہ کوئی نہ کوئی نمائندہ ضرور شامل ہو.ماہنامہ انصار اللہ : ایجنڈے کی پانچویں تجویز ماہنامہ انصار اللہ کے متعلق تھی کہ کاغذ کی گرانی و کتابت اور طباعت کی اُجرتوں میں اضافہ کے پیش نظر ماہنامہ انصار اللہ کا سالانہ چندہ پندرہ روپے کر دیا جائے.شوری نے متفقہ طور پر اس تجویز کو منظور کرنے کی سفارش کی جسے صدر مجلس نے منظور فرمالیا.بجٹ آمد و خرچ : ایجنڈے کی چھٹی اور آخری شق بجٹ آمد وخرچ بابت سال ۱۳۵۹ ہش/ ۱۹۸۰ تھی جو تین لاکھ نانوے ہزار روپے پر مشتمل تھا اور گزشتہ سال کی نسبت سے پچہتر ہزار روپے کے اضافہ کے ساتھ پیش کیا گیا تھا، منظوری کے لئے پیش ہوا.سب سے پہلے اس سلسلہ میں مفید اور متفرق تجاویز ، هیچ مصرف یا مالی توازن کے

Page 49

۲۹ بارے میں اصولی بحث ہوئی جس میں آٹھ نمائندگان نے مختلف پہلوؤں پر مفید مشورے دیئے.اس کے بعد تفصیلی بحث میں بھی کئی دوستوں نے حصہ لیا اور بجٹ کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے متعلق آراء پیش کیں.بالآخر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے مجموعی بجٹ آمد و خرچ بابت سال ۱۹۸۰ء بقدر تین لاکھ نانوے ہزار کوشوری نے بالا تفاق منظور کر لینے کی سفارش کی.محترم صدر مجلس نے اس کو منظور فرمالیا اور ارشاد فرمایا.مجلس عاملہ مرکز یہ یہ خوب محسوس کرتی ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات ہے کہ حتی المقدور جتنی آمد زیادہ ہوگی اس کو مفید راستوں پر خرچ کیا جائے گا تاہم انسانی کمزوری کی وجہ سے فیصلے میں کوئی غلطی نظر آئے تو انصار اللہ صرف شوری کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ جس وقت کسی کے ذہن میں کوئی تجویز آئے اس وقت لکھ کر بھجوا دیا کریں.مرکز اس پر بڑے غور کے بعد جتنی جلدی ہو سکا، اس کے مفید حصول پر عملدرآمد کی کوشش کرے گا.“ اسی کے ساتھ شوری کی کارروائی پونے دو بجے بعد دو پہر بخیر و بخوبی اختتام پذیر ہوئی.﴿۱۵﴾ اجلاس سوم ( کھانے کے وقفہ کے بعد ) دوسرے دن کا تیسرا اجلاس سوا تین بجے بعد دو پہر ناظم ضلع سیالکوٹ مکرم با بو قاسم الدین صاحب کی صدارت میں شروع ہوا.تلاوت و نظم کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے قرآن کریم کا درس دیا.آپ نے سورہ جمعہ کی پہلی پانچ آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر فرمایا ہے.آپ نے اول و آخر دور میں جو روحانی انقلاب دنیا میں برپا کرنا تھا، اُس کا خلاصہ اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے.وہ خدا جس نے اُميين میں سے رسول مبعوث فرمایا، اس کے لئے آسمانوں اور زمین میں موجود سبھی تسبیح کرتے ہیں اور وہ رسول کتاب و حکمت سکھاتا ، سب کو متقی اور پاکباز بنا تا چلا جارہا ہے اور اس سے پہلے وہ لوگ جاہل تھے اور آخرین میں بھی یہی رسول مبعوث ہوگا کیونکہ وہ اول و آخر دونوں کا رسول ہے اور آخرین گوا بھی صحابہ سے نہیں ملے لیکن ایک دن ملنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ غالب اور اپنے منشاء کو پورا کرنے والا ہے.قرآن کریم کی جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آخرین کون ہیں اور وہ مبارک گروہ کونسا ہے جس کی خبر قرآن کریم کی ان آیات میں دی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ وہ گر وہ ابھی صحابہ سے نہیں ملا لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سے ملے گا اور اس کے متعلق ایک صحابی نے رسول پاک سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ کون ہیں.حضور نے جواب نہ دیا.اس صحابی نے اپنے سوال کا اعادہ کیا.حضور خاموش رہے.تیسری بار جب یہی سوال دو ہرایا گیا تو رسول پاک نے فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقَا عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ یعنی جب ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا تو ان میں سے ایک شخص اسے دوبارہ واپس لائے گا.حضور پاک کے اس جواب پر اگر غور کیا جائے تو کئی امور سامنے آتے

Page 50

ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرین کون ہیں اور حضور" کا جوابا یہ ارشاد ہے کہ ایمان جب اُٹھ جائے گا تو ان میں سے دوبارہ واپس لائے گا.حضور نے اس وقت صحابہ کے مجمع میں سے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا کہ وہ شخص حضرت سلمان فارسی کی نسل سے ہوگا اور یہ بھی اشارہ فرمایا کہ وہ اتنی دیر بعد آئے گا.یعنی جب ایمان جو قوت عمل پیدا کرتا ہے، اُٹھ جائے گا.کتاب رہے گی.اور اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم کا لایا ہوا ایمان اور آپ کے ذریعہ جو ہدایت ملی ہے اس کا عرصہ اتنا کم نہیں ہے کہ فوراً ختم ہو جائے گا بلکہ رسول کریم کے بعد کی صدی جو ایمان سے بھر پور ہے پھر اس سے اگلی صدیوں میں جو اس سے کم ہوگی پھر اس سے اگلی صدی ذرا اور کم ہوگی.پھر ان تین صدیوں کے بعد ایک ہزار سال کا عرصہ گزرے گا اور اس طرح تاریک رات بھیگتی چلی جائے گی اور تب ضرورت پیش آئے گی کہ دنیا میں از سر نو ایمان برؤے کار آئے.جن آخرین کا ان آیات میں ذکر ہے اور جن کے متعلق صحابہ کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ وہ کب ہوں گے.حضور نے فرمایا کہ وہ دیر میں آئیں گے اور دور آخرین میں ان کا ورود ہوگا.یہ ایمان اتنی جلدی دنیا سے اٹھنے والا نہیں بلکہ یہ بتدریج ہوگا، اس میں دیر لگے گی.اور اس کے لئے صدیاں درکار ہیں اور اس طرح اس آنے والے اور آخرین کے زمانہ کا تعین بھی فرما دیا.اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی وضاحت فرما دی کہ اگر چہ ان آیات میں میرا ذکر ہے لیکن یہ نہیں ہوگا کہ میں بنفس نفیس اپنے جسم کے ساتھ آؤں گا بلکہ یہاں آپ کے ایک غلام کی خبر دی گئی ہے جس کا آنا آقا کا آنا ہی شمار ہوگا.ایسا غلام جو کلیۂ کامل اطاعت اور غلامی کے لحاظ سے وہ ہے میں چیز کیا ہوں“ کا مصداق ہوگا اور اس کا سب کچھ اس کے آقا کا ہی ہوگا.پھر یہاں ایک اور وضاحت اس سوال کی بھی فرما دی کہ حضور تو عربوں میں سے مبعوث ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق آنے والا عربوں میں سے ہوگا یا غیر عربوں میں سے.اس سوال کا جواب بھی حضور کے اس حکیمانہ جواب میں موجود ہے.اس وقت صحابہ کی مجلس میں حضرت سلمان فارسی کے علاوہ کوئی بھی غیر عرب موجود نہ تھا بلکہ حضرت سلمان فارسی کے علاوہ وہاں تمام عرب صحابہ جمع تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مجمع میں سے صرف حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وحی خفی کے مطابق ارشاد فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے کہ جب ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو اس کی نسل میں سے ایک فارسی الاصل مبعوث ہوگا جو ایمان کو ثریا سے واپس لائے گا اور دینِ اسلام کو ایک بار پھر لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کا مقام عطا کرے گا.یہاں پھر ایک اور سوال سامنے آتا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا اہل بیت میں سے ہوگا.اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اہل بیت جسمانی میں سے ہوگا یا اہل بیت روحانی میں سے.یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد سے حل ہو جاتا ہے اور وہ اس حدیث کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقع پر حضرت سلمان

Page 51

۳۱ فارسی کو بڑے پیار سے مخاطب کیا اور فرمایا سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيْتِ سلمان تو ہم میں سے ہے اور اہل بیت ہے.مختصر یہ کہ آپ نے صحابہ کے ایک سوال کے جواب میں اس قدر وضاحت کے ساتھ جواب دیا کہ جو فصاحت و بلاغت کا چمکتا ہوا سورج ہے اور اس جواب میں تمام اہم سوالات کا نہ صرف جواب آ جاتا ہے بلکہ اس کی تمام تفصیلات و جزئیات تک کو آپ نے اس چھوٹے سے فقرے میں سمو کر رکھ دیا ہے.اللھم ، (١٦) صَلَّ عَلَى مُحَمَّدِ وَ آلِ مُحَمَّدٍ درس قرآن کریم کے بعد صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر دو تقاریر ہوئیں.پہلی تقریر میں مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی سیرت و سوانح کا خاکہ دلنشین انداز میں بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں جو شمع روشن ہوئی، یہ سب پاکباز وجود اس شمع کے پروانے تھے.سیرت کی دوسری تقریر حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے بارے میں فرمائی.آپ نے حضرت مولوی صاحب کے تبحر علمی، تصوف تبتل الی اللہ تبلیغی مساعی اور مجاہدات کا سیر حاصل تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے اپنی ساری زندگی بڑے مجاہدانہ رنگ میں گزاری.آپ ایک مستجاب الدعوات بزرگ اور عاجزی وانکساری کے پیکر انسان تھے.سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ اس کے بعد سوال و جواب کی دلچسپ مجلس کا آغاز ہوا.اس پروگرام کی جدت یہ تھی کہ علماء کے ایک بورڈ نے حاضرین سے بعض علمی و دینی سوالات پوچھ کر ان کے جوابات لینے تھے اور اگر حاضرین میں سے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو بورڈ کے کسی رکن نے ان کی وضاحت کرنی تھی.علماء کا یہ بورڈ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم مولا نا عبد المالک خاں صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پر مشتمل تھا.اس دلچسپ علمی مجلس میں اٹھارہ سوالات پوچھے گئے.بعض سوالات معہ جوابات بطور نمونہ پیش ہیں.سوال: قدرت اولی اور قدرت ثانیہ کے الفاظ کا ذکر کس کتاب میں ہے؟ جواب: سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ الوصیت میں اس کا ذکر ہے اور حضور نے یہاں قدرت ثانیہ سے مراد خلافت لی ہے.سوال شرائط بیعت کے آغاز اور حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب: حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش اور شرائط بیعت کا آغاز ایک ہی دن کو ہو ا.یعنی ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء.سوال جنگ بدر میں کس صحابی کے ہاتھوں سب سے زیادہ کفار قتل ہوئے؟

Page 52

جواب: حضرت علی کرم اللہ وجہہ.سوال کس قرآنی آیت میں اکثریت کے بگاڑ کا ذکر ہے اور اس کا علاج بتایا گیا ہے؟ جواب : سورۃ صافات کی آیت ۳۷۲ے میں.﴿۱۷﴾ اجلاس عہد یداران اور تقریری و ورزشی مقابلے اس کے بعد دفتر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے ہال میں ناظمین علاقہ ، ناظمین اضلاع، زعماء اعلیٰ اور قائدین مجلس عاملہ مرکز یہ کا اجلاس محترم صدر صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا.اس دوران جلسہ گاہ میں مکرم قائد صاحب تعلیم کی سرکردگی میں انصار کا تقریری مقابلہ اور میدان میں ورزشی مقابلے ہوتے رہے.تقریری مقابلہ میں مکرم مرید احمد صاحب شاہدرہ لاہور اول، مکرم ملک محمد شریف صاحب زعیم اعلیٰ را ولپنڈی دوم اور مکرم مرزا محمد حسین صاحب کراچی سوم قرار پائے.(۱۸ دوڑ سو میٹر کے مقابلہ میں مکرم جمیل احمد صاحب طاہر احمدنگر اول اور مکرم رفیق احمد صاحب کھاریاں دوم قرار پائے.والی بال کا فائنل مقابلہ ربوہ اور مجالس کراچی وسرحد کی ٹیموں کے درمیان ہوا.جس میں ربوہ کی ٹیم اول آئی.رسہ کشی کا فائنل مقابلہ مجالس کراچی وسرحد اور مجالس صوبہ پنجاب کی ٹیموں کے درمیان ہو ا جس میں مجالس کراچی وسرحد کی ٹیم اول قرار پائی.کلائی پکڑنے کے انفرادی مقابلوں میں مکرم عطاء اللہ صاحب چک چھور اول اور مکرم ملک احمد خاں صاحب مجوکہ دارالرحمت غربی ربوہ دوم قرار پائے.گولہ پھینکنے کے مقابلہ میں مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جڑانوالہ کو اوّل اور مکرم ملک احمد خاں صاحب مجو کہ دارالرحمت غربی ربوہ کو دوم قرار دیا گیا.ان مقابلوں میں مکرم ماسٹر محمد انور صاحب ڈگری گھمناں ، مکرم نعیم احمد صاحب وسیم کراچی اور مکرم عبدالرشید صاحب ٹنڈوالہ یار کو پیشل انعام کا مستحق قرار دیا گیا.اجلاس چهارم سالانہ اجتماع کے دوسرے دن کا چوتھا اور آخری اجلاس آٹھ بجے شب مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر ناظم دارالقضاء کی صدارت میں منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے انصار اللہ کی ذمہ داریوں کے موضوع پر تقریر کی.سورۃ صف کی آیات کے تحت مَنْ أَنْصَارِی اِلَى اللهِ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اس زمانے میں بھی یہ آواز بلند ہوئی ہے پس ہمیں چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے حقیقی رنگ میں انصار اللہ بہنیں.آپ نے نماز با جماعت تبلیغ ، قرآن مجید اور احادیث کے مطالعہ، درود شریف کے ورد، باہمی اتحاد و اتفاق اور نظام جماعت سے دلی وابستگی کی طرف خصوصی توجہ دلائی.

Page 53

۳۳ اس اجلاس کی دوسری اور آخری تقریر مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ نے تربیت اولاد کے موضوع پر کی.مکرم شیخ صاحب نے فرمایا کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا کی رو سے تربیت اولاد کا پہلا زینہ انسان کا خود اپنا نیک نمونہ ہے.سربراہ کو پہلے خود اپنی اصلاح کا حکم دیا پھر اپنی بیوی کی اصلاح کا حکم ہے.عورت کا وجود پہلی اور بنیادی درس گاہ ہے.جس کے زیر سایہ بچے تربیت پاتے ہیں اس لئے عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا اور دینی ضرورتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے.بچوں کی تربیت کے لئے اولاً یہ ضروری ہے کہ بچے کے اندر سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے.نمازوں کی ادائیگی ، بڑوں کا ادب، جماعتی اور ذیلی تنظیموں سے لگاؤ، دیانتداری محنت کی عادت مستقل مزاجی اور ہمدردی کے اوصاف بچوں کے اندر پیدا کئے جائیں.(19) تیسرادن اجلاس اوّل ۱۹ سالانہ اجتماع کے تیسرے دن کا آغاز بھی اجتماعی نماز تہجد سے ہوا.نماز فجر باجماعت کے بعد پہلا اجلاس مکرم میاں بشیر احمد صاحب کوئٹہ کی صدارت میں منعقد ہوا.سب سے پہلے مکرم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے قرآن کریم کا درس دیا.آپ نے سورۃ فتح کی آخری آیت میں مومن کے جن اوصاف کو بیان کیا گیا ہے، ان کی تشریح فرمائی.درس القرآن کے بعد مکرم قریشی سعید احمد صاحب اظہر مربی سلسلہ نے درس حدیث دیا.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات کی روشنی میں مومن کے اوصاف بیان کئے.اس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب قائد ایثار نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا اور علامات المقربین سے متعلق حضور علیہ السلام کا اقتباس پڑھ کر سنایا.سلسلہ تقاریر میں پہلی تقریر مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ نے کی.اُن دنوں ضلع شیخوپورہ میں قبول حق کی جور و چل رہی تھی آپ نے اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور قبول احمدیت کے بعض نہایت ہی ایمان افروز واقعات بیان کئے.اس کے بعد مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب مربی سلسلہ نے آداب مجلس اور آداب گفتگو کے موضوع پر تقریر فرمائی.مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی نے اپنی تقریر میں معاملات میں صفائی اور باہمی لین دین کے متعلق اسلامی تعلیم پیش کر کے واضح کیا کہ اسلام نے انسانوں کے آپس کے معاملات کے بارے میں بھی بڑی واضح اور پر حکمت تعلیم دی ہے.تقاریر کے دلچسپ پروگرام کے بعد مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خاں صاحب قائد تعلیم کے زیر انتظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ حضرت بابو قاسم الدین صاحب سیالکوٹ ،حضرت حکیم دین محمد صاحب ربوہ اور حضرت مولوی محمد حسین صاحب ربوہ نے ذکر حبیب کے موضوع پر اپنے اپنے تاثرات بیان کئے اور حضرت

Page 54

۳۴ مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی.﴿۲۰﴾ اجلاس دوم دوسرا اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی صدارت میں نو بجے صبح شروع ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.حاضرین کی طرف سے بعض سوالات کئے گئے جن کے جوابات محترم صدر مجلس کے علاوہ مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ، مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مؤتریخ احمدیت اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب قائد ایثار نے باری باری دیئے.زیادہ تر سوالات مذہبی ،فقہی علمی اور معلوماتی امور سے متعلق تھے.سیاست کے متعلق سوالات کی اجازت نہ تھی.﴿۲۱﴾ صدر محترم کا صدارتی خطاب سوال و جواب کے دلچسپ پروگرام کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے خطاب فرمایا جس کا مکمل متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد صدر مجلس نے فرمایا.اس اجلاس کا آخری اور اصل اور حقیقی خطاب کہ جو دراصل مرکزی نقطہ ہے اس سارے اجتماع کا ، وہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ہو گا جو اس وقت سے قریباً چالیس منٹ بعد انشاء اللہ شروع ہوگا.روایتاً صدر مجلس کو اس خطاب سے پہلے کچھ وقت دیا جاتا ہے کہ وہ انصار بھائیوں اور بزرگوں کی خدمت میں اپنے گزشتہ تجربے کو پیش نظر رکھ کر کچھ ایسی باتیں عرض کر سکے جس سے آئندہ سال پروگرام بہتر طور پر چل سکیں.جس وقت قائدین مرکز یہ آپ سے خطاب فرما رہے تھے.اپنی رپورٹیں پڑھ رہے تھے کچھ شعبوں کے متعلق.تو اس وقت درمیان میں کچھ نہ کچھ عرض کر دیا تھا.کچھ مرکزی شعبے یا بعض اصولی باتیں ایسی ہیں جن سے متعلق میں اب کچھ بیان کرتا ہوں.تربیت کی کنجی کارکن کے دل اور نیت کی کیفیت سب سے پہلے تربیت کا معاملہ ہے.آج کے خطاب کے لئے میں نے تربیت کی تفاصیل کو نہیں لیا بلکہ اپنے کارکنان بھائیوں سے میں اس اصل کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو ساری تربیت کا راز ہے.جس میں تربیت کی کنجی ہے، وہ کارکن کی اپنے دل اور اپنی نیت کی کیفیت ہے.تربیت کی تفاصیل آپ نے سن لی ہیں اس اجتماع میں مختلف مواقع پر.میں یہ عرض کروں گا کہ کس قسم کے کارکنان مجلس انصار اللہ کو چاہئیں اور تربیت کے دوران وہ کیا رویہ اختیار کریں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توقع ہو

Page 55

۳۵ کہ ان کی کوششوں کو بہت اچھا پھل لگے گا.مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آپ کی نیت پاک ہو اور خالصہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور کسی طرح کی تمنا یا نمود و نمائش کا اس میں شائبہ تک نہ ہو.جب میں یہ کہتا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بیمار جن کی نیتیں غالب طور پر نمود وریا کی ہوتی ہیں، وہ ہمارے اندر کام کر رہے ہیں نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ.جماعت احمدیہ کا معیار اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنا بلند ہے اور مشکلات اور مصائب اتنی ہیں کہ بدنیت آدمی کی یہ مجال ہی نہیں کہ یہاں داخل ہو جائے.ایک منافق اور غیر مخلص میں یہ محبت کہاں ہے کہ گالیاں کھائے.گھر جلوائے ،اولاد میں ذبح کروائے اور پھر وہ جماعت میں داخل ہو.اس لئے ہرگز یہ مراد نہیں.میں دعویٰ سے یہ بات کر رہا ہوں.جہاں سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے کہ آپ کی اُمت کی بات کی جائے.جہاں سے قرآن کریم آغاز کرتا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ متقیوں سے بات کر رہا ہوں.لیکن متقیوں کے لئے جو مزید ہدایت کے باریک رستے ہیں ان کے متعلق گفتگو کرنا چاہتا ہوں.ہر انسان جو خالص نیت کے ساتھ کام شروع کرتا ہے جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار میں آپ نے سنا.اس کے لئے امن کا مقام ان معنوں میں نہیں ہے کہ وہ کامل یقین سے کہہ سکے کہ میری نیت خالصہ پاتال تک صاف ہو چکی ہے.بہت سے نفس کے پردے ہیں.بہت سی نفس کی سرکشیاں ہیں جو متقیوں کو بھی آزماتی رہتی ہیں.یہاں تک کہ صرف وہ لوگ ان نفس کے حملوں سے پاک ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک معصوم ہیں.ان کے سوا نچلی منازل کے تمام لوگ ہمیشہ ایک امتحان میں مبتلا رہتے ہیں.مستقل دعا سے سہارا مانگو اس لئے پاکیزہ اور متقی وجودوں سے مخاطب ہو کر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ بظاہر منتیں کتنی ہی پاک اور صاف ہوں نفس کے دھوکے سے غافل مت رہیں کیونکہ بسا اوقات شیطان کچھ نہ کچھ ملونی انسان کی نیت میں ضرور داخل کر دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.اگر مستقل دعا سے سہارا نہ مانگا جائے تو بیماری کا کیڑا ایک طرف سے کھانا شروع کر دیتا ہے اور اس کا بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا اور آتش خاموش کی طرح کئی دفعہ اندر اندر وہ سب کچھ کھا جاتا ہے اور انسان کو اس وقت معلوم ہوتا ہے جبکہ سب کچھ ہاتھ سے جاچکا ہو اس لئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ رابطوا اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تب تمہارا قلب محفوظ رہے گا.نیتوں کے معاملہ میں بھی اپنی سرحدوں کی حفاظت کیجئے.ادنیٰ سے ادنی ، باریک سے باریک ریا اور نمود اور انانیت کے کیڑے کو اپنی نیتوں کو چکھنے کی بھی اجازت نہ دیجئے.اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعا سے کرتے رہنے کے سوا ممکن ہی نہیں.آپ میں سے جو

Page 56

۳۶ صاحب تجربہ ہیں، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ جب تک انسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ہدایت کے مطابق کہ جس طرح پان کھانے والا پان کو پلٹتا رہتا ہے اور اس میں سے گندے حصوں کو کاٹ کاٹ کے پھینکتا رہتا ہے.جب تک متقی اپنے ایمان اور نیتوں کے بارے میں وہ سلوک نہیں کرتا، وہ محفوظ نہیں.اہل تجر بہ جانتے ہیں کہ یہ بالکل حقیقت ہے.ایسی پاکیزہ زبان میں سچائی کا راز بیان کیا گیا ہے کہ اس کو بھلانے کے نتیجہ میں بڑے بڑے اچھے کارکن بعض دفعہ اپنے اعمال کے پھلوں سے محروم رہ جاتے ہیں یا بعض دفعہ زیادہ نقصان اٹھا جاتے ہیں.اس کی چابی سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت میں رکھ دی گئی ہے یعنی اس اصول کی چابی ، اور وہ اس آیت کے بے شمار معانی میں سے ایک معنی ہے جس کو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.الْحَمْدُ لِلَّهِ کا عظیم الشان مفہوم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْحَمْدُ لِله - حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو علم و عرفان کے خزانے بہائے ہیں ، ان کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ایک نکتہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو اس مضمون سے تعلق والا ہے.الحمد للہ کا ایک مطلب یہ ہے کہ صرف خدا ہی ہے کہ وہ جو کسی کی حمد کرے تو وہ کچی حمد ہوگی.لیکن جو معنے عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ حمد تو صرف خدا ہی کی ہے.باقی تو حمد کے قابل کوئی نہیں.اس عام فہم معنی کی رُو سے گفتگو کریں تو ایک کارکن کے دماغ میں ہمیشہ یہ بات رہنی چاہئیے کہ جو کچھ بھی وہ کرے حمد کے قابل صرف خدا کی ذات ہے اور اگر کوئی اچھا فعل اس سے رونما ہوا ہے تو محض اس بناء پر ہوا ہے کہ صاحب حمد خدا سے اس کا کچھ تعلق قائم ہے.اسی کے صدقے اور اسی کے طفیل اسے تو فیق ملی ہے کہ قابل حمد کام اس نے کیا.دوسرے معنی جو میں نے پہلے بیان کئے ، اس میں راز یہ ہے کہ انسان کی تعریف کے کوئی بھی معنے نہیں ہیں.انسان اگر کسی ایسے شخص کی تعریف کرتا ہے جس سے بظاہر اچھے نیک نتائج نکل رہے ہیں تو جس کی تعریف ہو رہی ہے، اسے ہمیشہ یہ لوظ رکھنا چاہیئے کہ اس تعریف کی کوئی قیمت نہیں جب تک خدا کی تصدیق اور تائید اس تعریف کو حاصل نہ ہو جائے.کیونکہ الحمد للہ.خدا کے سوا کسی اور کی حمد کی کوئی قیمت نہیں.تعریف کرنا اور اس بات کو سمجھنا کہ کون کس حد تک تعریف کے قابل ہے، یہ صرف اللہ کا کام ہے.اس کی عملی تفسیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے رب سے تعلق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.حضور کے دو نام ہیں.دونوں میں حمد کے الفاظ شامل ہیں.ایک احمد ہے.الْحَمْدُ لِلهِ.ان معنوں میں کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے.اس مضمون کو سب سے زیادہ سمجھنے والا حضرت

Page 57

۳۷ محمد مصطفے " کا وجود تھا.آپ نے کلیۂ بے نفس ہو کر حقیقت میں اس معنے کے آخری مقام تک پہنچ کر ہمیشہ تمام صفات حمد خدا ہی کی طرف منسوب فرمائیں.اشارہ یا کنایہ حضور نے کبھی بھی خدا کے سوا کسی اور کی حمد نہیں کی ، نہ حمد کے قابل کسی کو سمجھا.اس پہلو سے آپ احمد قرار پائے.حمد کو خوب سمجھ کر سب سے زیادہ اپنے رب کی حمد کرنے والا.اور چونکہ اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ حمد کے قابل ذات بھی وہی بنتی ہے جو اس مقام کو حاصل کرتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی سب سے زیادہ حمد فرمائی اور محمد آن معنوں میں آپ قرار پائے کہ خدا کے نزدیک آپ سب سے زیادہ حمد کے قابل ہیں.پس سارے عالم کا وجود بیچ میں سے مٹ جاتا ہے.خدا اور اس کے کامل بندے کے درمیان کسی انسان کی زبان اور تعریف کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.یہاں اوّل اوّل معنے اس کے یہ ہیں کہ خدا کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا محمد مصطفے " تھا.سب سے زیادہ بچی تعریف کرنے والا وہی تھا اور سب سے زیادہ کامل تعریف کرنے والا وہی تھا.سب سے زیادہ مخلصانہ تعریف کرنے والا وہی تھا اور ہر جگہ یہ تعریف خدا کی طرف سے اس پر لوٹائی گئی.اور سب سے زیادہ اللہ نے اس کی حمد بیان فرمائی.پس ہم جو تعریف کرتے ہیں وہ تابع کی حیثیت سے کرتے ہیں.لیکن ہماری حمد نہ ہو اس کے کوئی معنے نہیں.وہ اپنی ذات میں محمد ہے اور وہ مستغنی ہے اس بات سے کہ کوئی اس کی حمد بیان کرتا ہے یا نہیں کرتا.پس حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کسی بھی مقام پر ہو، اس راز کو سجھے بغیر کوئی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا.تمام کارکنان مجلس انصار اللہ اپنے نفس کو خوب ٹولتے رہیں اور ہمیشہ ٹولتے رہیں.جہاں نفسانیت کے کیڑے کا ادنی سا بھی دخل پائیں ، بڑی بے رحمی کے ساتھ کاٹ کر پھینک دیں جس طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ظالم لنفسم.ان معنوں میں اپنے نفس کی بقاء کی خاطر آپ کو اس کے لیئے ظالم ہونا پڑے گا.سب سے کم رحم اپنے نفس پر کریں.تربیت رحمت کا تقاضا کرتی ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں تک غیر کا تعلق ہے اس کا جس کی آپ نے تربیت کی ہے، اس کے لئے آپ نے ظالم نہیں بننا.اس کے لئے رحیم و کریم بنتا ہے.بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ کا رنگ پکڑنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اختیار فرمانا ہے آپ نے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کے بارے میں سب سے زیادہ ظالم تھے ان معنوں میں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا - دیکھو شریعت کا ملہ کو اٹھانے والا محمد مصطفے.اس کی شان دیکھو.سب سے زیادہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا تھا.پس ان معنوں میں آپ ظالم

Page 58

۳۸ بنیں.لیکن جہاں تک غیر کا تعلق ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ آپ کو ہونا پڑے گا.رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ہونا پڑے گا کیونکہ تربیت تختی کو نہیں چاہتی.تربیت ،محبت اور عشق کا تقاضا کرتی ہے، تربیت رحمت کا تقاضا کرتی ہے.تربیت تقاضا کرتی ہے کہ ماں سے زیادہ پیار کرنے والا اور محبت کرنے والا آپ بنیں.اگر آپ یہ نہ بن سکیں ، اُسی حد تک آپ کی باتیں بریکار اور ا کارت جائیں گی.اس ضمن میں میں ایک خاص بات اپنے انصار بھائیوں کی خدمت میں یہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی شخص آپ کی بات نہیں مانتا.اس وقت آپ اپنے رد عمل کا جائزہ لیا کریں.کیا وہ بات غصہ پیدا کر رہی ہے یا رحم پیدا کر رہی ہے.جب بھی ایک نصیحت کرنے والے کی نصیحت پر عمل نہیں کیا جاتا اور نصیحت کرنے والا غصہ اور نفرت محسوس کرتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس کی سڑک بدل چکی ہے.وہ ناصحین کی سڑک چھوڑ بیٹھا ہے.غضب آپ کا کام نہیں ہے.نصیحت نہ ماننے والے پر آپ کا کام ہے دکھ محسوس کرنا جو رحمت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اشد ترین دشمنوں کے لئے بھی یہ معلوم کرنے کے بعد اور اللہ سے یہ خبر پانے کے بعد کہ دشمن ہلاک ہونے والے ہیں کیا محسوس فرمایا؟ غصہ اور نفرت؟ اور یہ کہ جائیں جہنم میں مجھے کوئی پرواہ نہیں.میں نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا.ہرگز نہیں.جو محسوس فرمایا اس کی کیفیت کا میں اور آپ ادنے اور ذلیل انسان تصور بھی نہیں کر سکتے.ہاں اللہ جانتا ہے کہ اس نے یہ گواہی دی قرآن کریم میں فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا.اے محمد مصطفے ! اے میرے محبوب! کیا تو نے ان لوگوں کی خاطر جن کو میں نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے.جن کی کوئی قیمت نہیں ہے.تیرے انکار کی بناء پر یہ ہلاک ہورہے ہیں، اتنا دکھ محسوس کر رہا ہے کہ گویا غم سے اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.یہ وہ مقام ہے إنْ نَفَعَتِ الذِّكرى كا- فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرُ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ کا مقام ہے.مُذَكَّر کے لئے رحیم ہونا ضروری ہے اور آپ یہ خوب سمجھ لیجئے کہ رحمت کا رد عمل یقیناً محبت اور عشق کے نتیجہ میں ظاہر ہوتا ہے.بیچ غلطی کرتا ہے تو اں یہ نہیں کہا کرتی کہ جائے جہنم میں.اس کا دل تو کٹ جایا کرتا ہے.شریکے والا یا دشمن غلطی کرے تو وہ کہتی ہے اچھا ہوا مار کھائے گا.اس لئے آپ شریکے کے طور پر نہیں پیدا کیے گئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی کا دعویٰ لے کے اُٹھے ہیں اور اس حیثیت سے آپ نے نصیحت کرنی ہے اور جماعت کی تربیت کرنی ہے.پس اگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں مانتا تو یہ نہ سوچا کریں کہ اس نے حکم عدولی کی ہے.اس لئے اب میں اسے سزا دلوا کے چھوڑوں گا ورنہ میرا دل ٹھنڈا نہیں ہو گا.آپ کا دل تب

Page 59

۳۹ ٹھنڈا ہونا چاہئیے کہ جب آپ کے دل سے غیظ و غضب کے تمام تصورات نکل جائیں اور دل اس مستقل امن کی حالت میں آ جائے جس پر لَا يَحْزَنُونَ کا حکم عائد ہوتا ہے.لَا خَوْفٌ کا حکم عائد ہوتا ہے.یہ ایک خاص مقام ہے ان مومنین کا جو خدا تعالے کی قلبی جنت میں داخل ہو جاتے ہیں.گریہ وزاری کے ساتھ نصیحت کریں پس جب آپ نصیحت کریں تو بار بار نصیحت کریں.گریہ وزاری کے ساتھ نصیحت کریں.نہ تھکیں نہ ماندہ ہوں.کوئی برا کہے تب بھی نصیحت کریں.نصیحت کرتے چلے جائیں.چندہ نہیں دیتا تب بھی نصیحت کریں.بُری باتیں آگے سے کرتا ہے تب بھی رحم محسوس کریں اور نصیحت کریں.اگر آپ یہ کریں گے تو یہ اسوہ حسنہ محمد مصطفے کا ہے.یہ شکست کے نام سے آشنا نہیں ہے.یقیناً اور یقیناً آپ غالب آئیں گے.یہ وہ نصیحت ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے.اِن نَفَعَتِ الذِّكْرى ہر جاہل آدمی کی نصیحت کے متعلق ہر گز یہ مقام بیان نہیں کیا گیا کہ کسی کی نصیحت بھی ضائع نہیں جاتی.جاہلوں اور بے وقوفوں کی نصیحتیں تو بعض دفعہ نہ صرف ضائع جاتی ہیں بلکہ الٹ نتیجے پیدا کر دیا کرتی ہیں.بغاوتیں پیدا کر دیا کرتی ہیں.جو مخا طب ہے اس کے لحاظ سے یہاں ترجمہ ہوگا.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اولین مخاطب ہیں.آپ کو خدا فرما رہا ہے.ان نَفَعَتِ الذِّكْرُى اے محمد ؟ میں نے تجھے نصیحت کے مقام پر کھڑا کیا ہے.تیری تمام صفات حسنہ پر غور کرنے کے بعد میں نے تجھے اختیار کیا ہے.تو اس مقام پر فائز ہے کہ تیری نصیحت اکارت نہیں جا سکتی.لازماً فائدہ دے گی.پس حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہی تھی جس نے وہ روحانی انقلاب برپا کیا نہ کہ تلوار کی نوک نے جیسا کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں.دلوں کے زنگ آپ کی نصیحت سے صاف ہوئے مگر اسلوب نصیحت یہ تھا جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.نماز کوسب سے اولیت دیجئے پس ان دو باتوں کو اپنا شعار بنائیے اور اس کے بعد اولین مقصد جو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیئے وہ یہ ہے کہ عمل کے میدان میں نماز کو سب سے اولیت دیجئے.واپس جا کر اپنے ماحول کا جائزہ لیں.اپنے گھروں کا جائزہ لیں.اپنی بچیوں کا ، اپنے بچوں ، اپنے چھوٹوں کا ، اپنے بڑوں کا اور نماز قائم کرنے کے لئے دن رات وقف کر دیجئے.عبادت کے قیام ہی سے جماعت احمدیہ کا قیام ہے.اور عبادت کے

Page 60

لئے لڑکھڑانے سے جماعت احمد یہ لڑ کھڑا رہی ہوگی.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بھی ایسا وقت نہیں آئے گا.ایک ہزار سال کی ضمانت ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے.لیکن یہ ضمانت ہر شاخ کے متعلق نہیں دی جا سکتی.یہ عمومی من حیث الجماعت ضمانت ہے کہ انشاء اللہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ غالب اکثریت کے لحاظ سے بہت مدت تک نیکیوں پر قائم رہے گی.لیکن ہر شاخ کی ضمانت نہیں ہے.اس لئے ہر شاخ ایک قسم کے خوف کے مقام پر بھی کھڑی ہے.پس اگر کسی ایک مجلس میں کسی ایک جماعت میں نماز کا حق ادا نہ کرنے والے موجود ہیں تو آپ یقیناً سمجھیں کہ وہاں گھن لگ چکا ہے.یہاں بھی سرحدوں کی حفاظت کیجئے یعنی عمل کی دنیا میں.جب نیتیں پاک اور صاف اور محفوظ کر لیں تو پھر عمل کی دنیا میں بھی اسی پاک جذبہ کے ساتھ محنت اور جدوجہد فرمائیے.انصار کے متعلق تو تصور میں بھی نہیں آنا چاہئیے کہ انصار کا کوئی ایک رکن بھی ہو ج نماز کو قائم نہ کر رہا ہو.کجا یہ کہ گھروں میں بھی نہ پڑھ رہا ہو.اور انصار کے متعلق یہ تصور بھی نہیں ہونا چاہیئے نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کہہ رہے ہوں اور گھروں میں بیویاں اور بچے غفلت اور جہالت کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور ان کے دل پر کچھ بھی نہ گزر رہا ہو.یہ تو ناممکن ہے.ہم گھروں سے محسوس کرنا شروع کریں گے تب آپ اس قابل ہوں گے کہ باہر کے غم کی فکر کریں.پہلا تجربہ اپنے گھر پر کر کے اس کسوٹی پر اپنی نیت کو خوب آزمائیے اور پر کھیئے.اپنے بچوں ، اپنے اعزاء و اقرباء کی لادینی حالتوں پر اگر آپ شدید دکھ محسوس نہیں کرتے تو کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جو باہر کے لوگ ہیں نسبتاً بھائی تو ہیں لیکن مومنانہ اخوت کے بھائی ہیں، خونی رشتہ نہیں ہے.اس لئے ایک منزل ذرا پیچھے ہیں ان سے جو گھر والے دونوں رشتوں میں منسلک ہیں.اگر آپ گھر والوں کے لئے دکھ محسوس نہیں کر رہے تو آپ مربی کہلائیں یا جو مرضی آپ کا نام رکھ دیا جائے انصار اللہ نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ تربیت کی بنیادی صفت سے ہی عاری ہوں گے.تو پہلے گھروں میں یہ کام شروع کیجئے.اور اگر آپ گھروں میں یہ کام شروع کر دیں گے تو باقی انصار کا سارا کام آسانی سے حل ہو جائے گا.پھر ڈھونڈنے والے ڈھونڈیں گے کہ کون سا گھر باقی رہا ہے جس میں نماز پڑھنے والے نہیں ہیں.چونکہ ہر رکن انصار اللہ کا اپنے گھر کی صفائی کر چکا ہوگا اس لئے اس صفائی کے بعد باہر والوں کو تو تلاش کرنا پڑے گا.مگر کوئی ایسا گھر ان کو ملے گا نہیں جو اللہ کی عبادت سے معمور نہ ہو.اگلے سبق آپ کو پھر یہ دیئے جائیں گے کہ نماز سنواری کس طرح جاتی ہے.اس میں رس کس طرح بھرے جاتے ہیں.اس کو کس طرح خوشنما بنایا جاتا ہے.کس طرح با اثر کیا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے متعلق جو کچھ فرما دیا اور جو کچھ کر کے دکھا دیا، وہ اتنا وسیع مضمون ہے کہ بے

Page 61

حد و کنار ہے.قیامت تک ہم اس پر عمل کرتے چلے جائیں.ہم اس مقام کو نہیں پہنچ سکیں گے.اس لئے کہ خدا نے اول قرار دیا ہے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو.اس میں مایوسی کی بات نہیں خوشخبری کی یہ بات ہے کہ جتنی بھی ہماری توفیق ہے ہم چلتے چلے جائیں.ہمارے لئے آخری منزل کوئی بھی نہیں آئے گی.اس کے بعد ایک اور ترقی کی منزل بھی پڑی ہوگی.پس اس خوشخبری کو پیش نظر رکھ کر بعد کے مقامات بھی ہمیشہ انشاء اللہ جماعت طے کرتی رہے گی اور اب بھی کر رہی ہے.ایک طبقہ ایسا جماعت میں عظیم الشان موجود ہے جو دنیا کی زندگی کا مرکز ہے.جس کی بناء پر زندگی چل رہی ہے.خلیفہ وقت کے اردگرد ایسے عبادت گزار موجود ہیں جن کی دعاؤں کے سہارے یہ آسمان اور دنیائے روحانیت قائم ہے.انہی کے طفیل باقی دنیا بچی ہوئی ہے.لیکن چند پر ہم راضی نہیں ہو سکتے.ہمیں گھر گھر ایسے ( عبادت گزار.ناقل ) پیدا کرنے پڑیں گے جو عبادت کے حقوق تمام سجاوٹ کے ساتھ حسن کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں.خدا کی رحمت اب خود دروازے کھٹکھٹا رہی ہے جب یہ گھر سجا لیں آپ تو پھر کیا کریں.اب میں آپ کو تبلیغ سے متعلق کچھ باتیں بتانی چاہتا ہوں.گھروں کی سجاوٹ مہمانوں کا تصور پیش کرتی ہے اور آپ کے مہمان آنے والے ہیں.وہ دن دور نہیں بلکہ قریب ہیں.شیخو پورہ کے آج صبح حالات سنے.جو خوش قسمت تہجد میں شامل تھے یا نماز میں شامل تھے.جنہوں نے صبح کی مجلس کے لطف اٹھائے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ خدا کی رحمت اب خود دروازے کھٹکھٹا رہی ہے.مَتی نَصرُ اللہ کے جواب میں أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ کی آواز سنائی دے رہی ہے.ہماری کوشش سے تو کچھ نہ ہوگا جو کچھ ہورہا ہے یا ہو گا محض خدا کے فضل سے ہی ہوگا لیکن اللہ کی تقدیر اسی طرح پر ہے کہ ہمیں ہاتھ ضرور ہلانے ہوں گے.دیکھو جن جگہوں پر ہاتھ ہلانے والے پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فضل خاص شان کے ساتھ نازل ہو رہا ہے اور ان جگہوں کا خاص طور پر اسے فضلوں کا وارث بنانے کی وجہ تھی.اللہ تعالیٰ نے بعض نئے احمدیوں کو رڈیا میں بتادیں.ایک غیر احمدی بچی نے یہ دیکھا کہ ایک حواری ہے.اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ حواری کہتے کسے ہیں.نام بھی نہیں پتہ تھا.اس نے کہا کہ ایک شخص منادی کرتا پھر رہا ہے کہ جو مہدی سچا ہے وہ آ گیا اور اب سارے ربوہ چلو.ربوہ میں ہی امن ہے.ربوہ چلو.ربوہ چلو کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اور کہتا ہے کہ ربوہ میں ہی امن ہے.اور کوئی شخص اس کو بتا تا ہے کہ یہ جوشخص اعلان کرتا پھر رہا ہے.یہ حواری ہے.پس اللہ تعالیٰ نے شیخو پورہ کو اپنے فضل سے وہ حواری عطا فرما دیئے.پہلے جنہوں نے اعلان

Page 62

۴۲ شروع کیا.چونکہ نیتیں خالص تھیں اور طبیعتوں میں انکسار تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیوں کو نوازا اور خدا کے فضل سے وہاں ایک لہر دوڑ پڑی ہے.اور تبلیغ اور دلیل اپنی جگہ جاری ہے لیکن پھل جو ہیں وہ صاف نظر آ رہا ہے کہ خدا کے فرشتے توڑ توڑ کر جھولیوں میں پھینک رہے ہیں.کثرت سے کشوف کے ذریعہ الہامات کے ذریعہ، خوابوں کے ذریعہ وہاں لوگ احمدیت کو قبول کر رہے ہیں.پس گھر سجانے کا وقت آچکا ہے.دلوں کے گھر سجائے بغیر، اپنے گھروں کو عبادت کی رونق بخشے بغیر ، اپنی مسجدوں کو خدا کے ذکر سے بھرے بغیر آپ کس طرح ان آنے والوں کی مہمان نوازی فرمائیں گے؟ آپ کے پاس کیا ہو گا ان کو پیش کرنے کے لئے.اس لئے اپنی اصلاح کا وقت پہلے بھی تھا.لیکن اب بہت ضروری ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ کو بھی اعتباہ کر آئے ہیں.اور آپ کو بھی بار ہا انتباہ فرما چکے ہیں کہ وہ غلبہ اسلام کی صدی آنے والی ہے.سر پر کھڑی ہے اس لئے پہلے پہلے اس کی تیاری کر لو.ہر صالح وجود روحانی میدان کارجل بنے اور اس کی تیاری کا دوسرا پہلو ( گھروں کی سجاوٹ کے بعد.مسجدوں کی زینت کے بعد ) تبلیغ کا پہلو ہے.تبلیغ کی طرف آپ کو فوری اور ضروری توجہ دینی چاہئیے.حضرت اقدس مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات کی تحریر کے سلسلہ میں مجھے حضور کی پرانی عبارتیں پڑھنے کی توفیق ملی اور میں نے تعجب کیا کہ خلافت کے پہلے سال ہی سے حضور جماعت کو یہ نصیحت فرماتے چلے آ رہے ہیں کہ ہر احمدی دگنا ہونا سیکھ جائے.وہ زندگی کے آثار اس طرح پیدا کرے کہ ہر شخص نہ صرف یہ کہ دو ہو سکے بلکہ ہر سال دو ہو.آپ بار ہا فرماتے ہیں.آخر وقت تک یہی نصیحت جاری رکھتے ہیں جماعت کو کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ فتح آئے گی ضرور لیکن فتح کا طریق یہ ہے کہ ہر صالح وجود حقیقی رجولیت پیدا کرے.روحانی میدان کا رجل بنے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے متعلق رجال کا تعریفی کلمہ استعمال کیا گیا یعنی صرف عام انسان نہیں بلکہ مردانسان.پس آپ بھی وہ رجال بن جائیں جن کے متعلق روحانی طور پر بڑھنے اور نشو و نما کی ضمانت موجود ہے.جب آپ ایسے مرد میدان بنیں گے کہ روحانی طور پر آپ کی نشو و نما ہونی شروع ہو جائے گی.ہر احمدی ہر سال ایک روحانی بچہ پیدا کرے گا تو پھر ایسی جماعت کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی.اور وہ فتح جو حساب کی رو سے ہزاروں سال دور نظر آتی ہے وہ اس تیزی سے قریب آئے گی کہ انسانی تصور اس کا حقیقی اندازہ نہیں کرسکتا.یہ ایک ایسا فارمولا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے زندگی کے رازوں پر نظر ڈال کر یہ فارمولا معلوم کیا.اللہ تعالیٰ

Page 63

۴۳ نے زندگی کی نشو ونما اسی طریق پر جاری فرمائی.اگر اس کے سوا کوئی اور طریق ہوتا تو زندگی کب کی موت کا شکار ہو چکی ہوتی اس لئے آپ کی اگلی نسلوں کی حفاظت کے لئے ، آپ کی روحانی حفاظت کے لئے ، دنیا کو امن کی طرف کھینچ لانے کی خاطر جو تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ غفلت کی حالت میں ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے.اس حالت میں اسے محفوظ و مامون کرنے کی خاطر آپ کی ذمہ داری ہے کہ صبح اور شام، دن اور رات خدا کی طرف اور سچے سیدھے راستے کی طرف بلانے والے بن جائیں جو خدا کی طرف جاتا ہے.ہر وہ احمدی جود دیگر فرائض ادا کر رہا ہے اس پر یہ بھی فرض باقی فرائض کی طرح عائد ہوتا ہے کہ وہ تبلیغ کرے اور کم سے کم وسعت آپ کی تبلیغ کی اور آپ کی حیثیت کی حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ ہے کہ ہر احمدی سال میں دگنا ہونا سیکھ جائے.زیارت مرکز کی برکت پس اس نیت سے آپ نے کام کو منظم کرنا ہے.نہ صرف یہ کہ خود کرنا ہے بلکہ اس کو ان خطوط پر اپنے آئندہ سال کے کام کو اور بقیہ تین مہینوں کے کام کو منظم کرنا ہے واپس جا کر.ہر جماعت میں انصار اللہ کے ہر ایسے کارکن کا فرض ہے جس کے سپر د اصلاح وارشاد کا کام کیا گیا ہے.کہ سب سے پہلے وہ فہرستیں بنائے.جو لوگ تبلیغ نہیں کرتے ان کے نام لکھے.ان سے کہو کہ بتاؤ اب کن کو تبلیغ شروع کرو گے اور خاص طور پر نگرانی رکھے کہ وہ کام شروع کر چکے ہیں کہ نہیں.ایسے لوگوں کے لئے دعا کے لئے بار بار تحریک کی جائے.کارکن خود ان کے لئے دعا کریں اور ان سے بھی کہیں کہ دعا کے بغیر پھل نہیں لگے گا.حضرت اقدس خلیفتہ امسیح کی خدمت میں دعا کے لئے خطوط لکھیں.ان کو مرکز میں لانے کی کوشش کریں کیونکہ مرکز میں بعض دفعہ حضرت اقدس کی محض زیارت ہی وہ کام کر جاتی ہے جو آپ کے سارے سال کی محنت نہیں کرتی.وقت تھوڑا ہے.میں آج آپ کے سامنے صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.ایک نہایت کٹر علاقے کے لاہور کے ایک مولوی صاحب ایک دفعہ تشریف لائے جن کے چہرے پر خشونت اور نفرت کے آثار نمایاں تھے.مجھے خوف پیدا ہوا کہ احباب جماعت بغیر ان کو سمجھائے بجھائے اس حالت میں یہاں ربوہ لے آئے ہیں اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے لیکن یہی مولوی صاحب اس کے بعد جب مجھے ملے یعنی ملاقات کے بعد تو چہرے کی کیفیت ہر پہلو سے بدل چکی تھی.آنکھوں میں وہ ڈاڑھی جو بھیا نک لگتی تھی، نہایت ہی پیاری اور دیدہ زیب نظر آ رہی تھی.ایک ایک بال محبت کا پیغام تھا.مجھے بہت تعجب ہوا.میں نے ان کو دیکھ کر کہا مولوی صاحب آپ کو کیا ہوا

Page 64

۴۴ ہے.کہنے لگے میں نے بیعت کر لی ہے اور میرا تعجب سمجھ گئے.میں نے کہا آپ نے تو پوچھا ہی کچھ نہیں.آپ نے تو مجھ سے وقت لیا تھا کہ میں مسائل سمجھنے کے لئے آؤں گا ، آپ تو اس لئے آئے ہیں.کہنے لگے میرے سارے مسئلے حل ہو گئے.کس طرح حل ہوئے ؟ کہنے لگے میں عصر کی نماز میں وہاں بیٹھا جہاں سے حضرت خلیفہ اسیح داخل ہوا کرتے ہیں.خدا کی قسم کوئی اور دلیل کام نہیں کرسکی.وہ چہرہ میں نے دیکھا اور میرا دل ایمان سے بھر گیا اور ایک لمحہ کے لئے بھی شک نہ رہا.میں نے کہا یہ چہرہ بچے کا چہرہ ہے، جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے.پس یہاں سچائی کی زندہ علامتیں موجود ہیں.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ صحابہ موجود ہیں ، وہ خدام واقف زندگی موجود ہیں جنہوں نے ایک میدان عمل میں اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں.نہ کسی اپنی خوبی کی بناء پر بلکہ محض اللہ کے فضل سے ان کی نیتوں کو نوازتے ہوئے خدا نے ان کے اندر خاص جذب کی کیفیتیں رکھی ہیں.ربوہ کا پاکیزہ ماحول موجود ہے.پس سوسنار کی اور ایک لوہار کی کا مضمون اگر کہیں صادق آتا ہے تو یہاں صادق آتا ہے.آپ سب کوششیں وہاں ضرور کریں لیکن دعا پر زور دیتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے ان کور بوہ ضرور لانے کی کوشش کریں.ہر مجلس متلاشیان حق کو ربوہ لے کر آئے تمام مجالس انصار اللہ کے لئے اس بقیہ وقت کے لئے اور آئندہ سال کے لئے بھی اصلاح وارشاد کے لئے فی الحال میں دو ٹارگٹ معین کرتا ہوں.اول یہ کہ کوئی ایک بھی مجلس باقی نہ رہے جو کم سے کم ایک مرتبہ متلاشیان حق کو ربوہ لے کر نہ آئے.اگر الگ نہیں آ سکتے تو فی الحال تو جلسہ سالانہ پر لے آئے.اجتماعات کے موقعہ پر لے آئے.کوئی دوست آرہے ہوں وہ لے آئیں اور اگر کسی کے پاس توفیق نہ ہو اور وہ اس کے باوجود اس پر خرچ کرے گا تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بڑھائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن اگر کسی کے پاس اتنی بھی توفیق نہیں تو اس غرض سے لانے والوں کے خرچ کی میں ضمانت دیتا ہوں.مجلس انصار اللہ مرکز یہ اس کو انشاء اللہ برداشت کرے گی اور خدا تعالیٰ ضر در توفیق عطا فرمائے گا.لیکن کم سے کم ایک مرتبہ آپ نے ضرور لے کر آنا ہے ربوہ.اگر ملاقات کا الگ وقت میسر نہ بھی آسکے حضور کی مصروفیت کی وجہ سے تو مسجد مبارک میں ہی زیارت کروا دیجئے اور باقی مرکز کے فوائد حاصل کیجئے.ہر مجلس ایک اور مجلس کا قیام کرے میرا دوسرا ٹارگٹ یہ ہے کہ آغاز میں جبکہ ابھی پوری عادت نہ پڑی ہو، بعض دفعہ وقتی طور پر نرمی کی

Page 65

۴۵ جاتی ہے.قرآن کریم سے یہ اصل ثابت ہے.اس لئے ہر شخص اگر سال میں ایک احمدی نہیں بنا سکتا جو انشاء اللہ بنائے گا کم سے کم.آج نہیں تو کل پرسوں.یہ ہمارا مقصد اعلیٰ ہے، اس کو ہم نے پورا کر کے چھوڑنا ہے انشاء اللہ.ہم نے اپنے حوصلے پست نہیں کرنے.لیکن فی الحال یہ کیجئے کہ کم سے کم ہر مجلس دگنا ہو جائے.آج اگر ۸۳۷ مجالس ہیں تو اگلے سال ۱۶۷۴ ہو جائیں.ایک مجلس اپنے ساتھ ایک اور مجلس کا قیام کرے.اس طرح کہ اردگرد کے دیہات کا جائزہ لیں.فیصلہ کریں کہ ان ان دیہات میں ہم نے جماعت قائم کرنی ہے.اگر مجلس انصار اللہ قائم نہیں ہوتی تو مجلس خدام الاحمدیہ قائم کر دیجئے.لیکن کوئی مجلس ضرور بڑھا ئیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم اپنے گاؤں کے ماحول میں ایک احمدی بنائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.یہ کوئی خیالی فرضی تنگ نہیں ہے.امر واقع ہے کہ خدا کے فضل سے معمولی معمولی علم کے آدمیوں کو بھی جو خلوص کے زیور سے آراستہ ہیں اور دعا گو ہیں، خدا تعالیٰ یہ توفیق عطا فرما چکا ہے کہ ایک سال میں وہ پانچ پانچ چھ چھ گاؤں میں احمدیت کے بوٹے لگا چکے ہیں.ابھی حال میں اسی سال کے اندر ایک دوست ہیں.ایک ضلع میں وہ معمار کا کام کرتے ہیں.معمولی علم ہے مگر خلوص ہے، عشق ہے احمدیت سے.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے.حوصلہ بلند ہے.یہ وہ بنیادی صفات ہیں جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں.اور زبان میٹھی ہے.ماریں کھانے کی جرات رکھتے ہیں اور حوصلہ رکھتے ہیں.انہوں نے ایسے علاقے میں کام شروع کیا جہاں مارنے والے بڑے بڑے مشہور ہیں اور مار چکے ہیں وہاں لوگوں کو.دو احمدی شہید بھی ہو چکے ہیں اس علاقے میں ، بالکل پر واہ نہیں کی.اللہ کا نام لے کر ساتھ اینٹیں چنتے جاتے تھے اور ساتھ تبلیغ کرتے جاتے تھے.خدا نے اپنے فضل سے نوازا اور متعدد دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اب احمدیت کے پودے وہاں قائم ہو چکے ہیں.اگر ایک خدا کا بندہ صاحب عزم اور صاحب انکسار، صاحب حوصلہ لیکن عاجز انسان اگر یہ کام کر سکتا ہے تو مجالس مل کر یہ عہد کریں کہ ہم ضرور ایک مجلس قائم کریں گے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ نہ ہوسکیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مثال پکڑنی چاہیئے آخری بات اس سلسلہ میں میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حوصلے پست نہ ہونے دیں.مومن بڑے حو صلے والا ہوا کرتا ہے.بعض لوگ ایسی باتیں سن کے کہتے ہیں کہ لوجی یہ تو عجیب بات ہے.حسابی اربعہ ہے.اربعوں سے کس طرح فتح ہو گی.اگر ار بعے آپ لگائیں دنیا کے حساب سے اور عقل پر ان کی آزمائش کریں تو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا دلیل بنتی ہے آپ کے پاس.اکیلا انسان

Page 66

۴۶ ساری دنیا مخالف.حوصلہ یہ ہے کہ ساری دنیا کا میں نبی ہوں.اربعے میں کمپیوٹر میں ان باتوں کو ڈالیں تو یہ بات ہو ہی نہیں سکتی.لیکن پہلے دن سے لے کر آخر تک کامل یقین ہے اس بات پر اور یہ یقین کامل ہی ہے جو دعاؤں میں بھی مزید تقویت پیدا کیا کرتا ہے اور عمل کو بھی طاقت بخشا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مثال پکڑنی چاہئیے.ایک مبلغ کو اور حوصلہ بلند رکھنا چاہیئے.یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے.کل آپ کے سامنے رسول اکرم کی مثال پیش کی گئی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما رہے تھے.کمزوری کا دنیا کی نظر کے لحاظ سے یہ عالم تھا کہ اپنے شہر نے شہر بدر کر دیا ہے.قتل کا آخری اور حتمی فیصلہ کر لیا ہے.وہاں زندگی کے سانس لینا دوبھر ہو چکا ہے اور چھپ کر نکل رہے ہیں وہاں سے.اس حالت میں ایک قاتل وہاں پہنچتا ہے.جس کے بدارا دے ہیں.ہاتھ میں نیزہ اور تلوار ہے.لیکن خدا کی تقدیر اس حملہ آور کو مغلوب کر کے جب آپ کے سامنے پیش کرتی ہے تو کیا آپ جانتے ہیں.اس حالت میں حضور کے حو صلے اور اپنی فتح پر یقین کا کیا عالم تھا؟ آپ نے فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تمہارے ہاتھ میں پہنائے جارہے ہوں گے.مظلومی اور کمزوری اور ناطاقتی کی اس سے زیادہ مثال کیا ہوسکتی ہے جو رسول اللہ کی اس وقت تھی.پھر اس پر عزم اور حوصلے کی بلندی کا عالم بھی دیکھئے !.اس وقت جو روس کو طاقت حاصل ہے ہندوستان کے مقابل پر اور پاکستان کے مقابل پر.اور امریکہ کو جو طاقت حاصل ہے پاکستان اور ہندوستان کے مقابل پر بلکہ اس سارے خطہ کے مقابل پر.عرب کی حالت قیصر کے مقابلہ میں اس سے بھی زیادہ کمزور تھی.عرب کا تو شمار ہی نہیں تھا متمدن ممالک میں ترقی پذیر بھی نہیں کہلا رہا تھا.آپ تو پھر ترقی پذیر کہلا رہے ہیں.آج اگر کوئی یہاں کھڑے ہو کر کہے کہ روس کی کنجیاں مجھے پکڑائی جارہی ہیں اور امریکہ محمد مصطفے کے غلاموں میں داخل ہو رہا ہے تو یہ بھی اتنی بڑی بات نہیں جتنی اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی.جب آپ خندق کھود رہے تھے اور ایک پتھر سے آپ کا پھاوڑا لگا.جب اس سے چنگارا نکلا تو آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا.آپ نے فرمایا.خدا نے مجھے اس شعلہ میں کسریٰ کی حکومت اور اس کے محلوں کی چابی دکھائی ہے.پھر دوبارہ پھاوڑا چلایا.پھر اس میں سے شعلہ بلند ہوا.پھر آنحضور نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا اور آپ نے فرمایا کہ قیصر کی چابی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھا دی.مشرق و مغرب کی فتح کی باتیں وہ وجود کر رہا ہے جو اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودرہا ہے.اور حالت یہ ہے کہ بھوک سے باقیوں کے پیٹ میں ایک پتھر بندھا ہوا تھا.آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے.اس لئے

Page 67

۴۷ آپ کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک گاؤں اپنے ساتھ فتح کر لیں تو کتنی چھوٹی بات ہے.آپ کو تو یہ کہنا چاہئیے کہ تم یہ کیا بات کر رہے ہو.ابھی کہتے تھے کہ محمد مصطفے " کے غلام.اتنے بڑے بڑے خطاب دے رہے تھے اور اب کام کیا دیا ہے کہ جی ایک گاؤں فتح کرلو.آغاز حیثیت اور توفیق کے مطابق کریں میں نے عرض کیا ہے کہ اس لئے میں مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ خدا کی تعلیم مجھے مجبور کر رہی ہے کہ آغاز حیثیت کے مطابق اور توفیق کے مطابق کراؤں.لیکن انجام یہی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے دکھایا تھا کہ روس کا عصا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا.اس وقت احمدیت کی کمزوری روس کے مقابل پر اس سے بہت زیادہ عیاں تھی.اور عصا کے معنے کیا ہیں.ظاہری حکومت کا غلبہ؟ نہیں.کیا معنے ہیں؟.آپ فرماتے ہیں خدا نے مجھے دکھایا ہے کہ میں روس میں ریت کے ذروں کی طرح مسلمانوں کو پھیلا ہوا دیکھتا ہوں.یہ وہ روحانی غلبہ ہے، وہ قوت کا عصا یعنی روحانی قوت کا عصا.ہم تو دنیا کے بندے نہیں ہیں.ہم تو روحانی دنیا کے انسان ہیں.اس لئے اتنے بڑے حوصلے والے آقا اور اتنے بڑے حوصلے والے غلام کی طرف منسوب ہو کر آپ کو یہ حق ہر گز نہیں پہنچتا کہ کہیں بڑا کام سپر د کیا جا رہا ہے.یہ شکوہ کرنے کا شائد حق ہو کہ چھوٹا کام دے رہے ہو.اس لئے جو چھوٹا سمجھتے ہیں شوق سے بڑا کر کے دکھا ئیں.ایک نہیں ، دس کا ٹارگٹ بنا لیجئے.دس نہیں ہزار کا ٹارگٹ بنالیں.مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر کم سے کم ایک گاؤں کو اگلے سال کے اندر انشاء اللہ روحانی فتح کے ذریعہ تسخیر کرنا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ.آپ کی رپورٹوں میں ہمیشہ یہ واضح ذکر ہونا چاہیئے کہ آپ کی مجالس اس طرح بھی بڑھ رہی ہیں کہ مجلس انصاراللہ نے اس سال اتنی نئی مجالس انصار اللہ تبلیغ کے ذریعہ پیدا کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ کامل غلامی کے ساتھ خلافت کی اطاعت کا عہد کریں اس کے بعد آخری بات میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارے عہد میں ایک چیز شامل ہے خلافت سے وابستگی.میں آپ کو خوب کھول کر بتانا چاہتا ہوں کہ گناہ کبیرہ جو انسان یعنی فرد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنی جگہ پر خطرناک ہیں.میرا تجربہ ہے جماعت کے ان لوگوں پر نظر ڈال کر جنہوں نے خلافت کے معاملے میں بے ادبی اور گستاخی کی کہ بڑے بڑے گناہ والے بھی نیک انجام پاگئے لیکن خلافت کے خلاف بے ادبی کرنے والوں کا کبھی میں نے نیک انجام ہوتے نہیں دیکھا.وہ بھی تباہ ہوئے اور ان کی اولادیں بھی تباہ ہوئیں.کیوں ایسا ہوتا ہے؟ اس لئے کہ خلافت وہ خدائی رسی ہے جس

Page 68

۴۸ کے ساتھ دنیا نے بندھنا ہے.جس کے ساتھ خدا کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے.یہ حبل اللہ ہے اور خدا عظیم خدا اگر ایک بندہ کی لغزشیں دیکھ کر اسے معافی دینا چاہے تو دیتا چلا جائے گا.کوئی نہیں جو روک سکے لیکن اگر کوئی اس کی رسی پر ہاتھ ڈالتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے یہی پیغام ہے.اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بنترس که من شاخ مثمرم مسیح موعود علیہ السلام کے بعد شاخ مشمرم وہ شاخ ہے جس پر ہمیشہ روحانیت کے پھل لگتے رہیں گے ، وہ خلافت ہے.اس شاخ پر اگر کسی نے بد نظر کی تو یقینا تباہ اور برباد کر دی جائے گی.خائب و خاسر کی جائے گی.وہ ہاتھ کاٹے جائیں گے جو بد نیتی سے اس کی طرف اٹھیں گے.اس لئے ہمیشہ کامل غلامی کے ساتھ خلافت کی اطاعت کا عہد کریں اور اس پر قائم رہیں.اختتامی اجلاس سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث گیارہ بج کر اٹھائیس منٹ پر مقام اجتماع میں تشریف لائے.اختتامی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو مکرم قاری عاشق حسین صاحب نے کی.اس کے بعد مکرم ثاقب زیروی صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ ”لاہوڑ نے اپنے مخصوص لحن میں اپنی ایک نظم سنائی.اجتماع کے موقعہ پر علمی اور ورزشی مقابلوں میں امتیاز حاصل کرنے والوں میں حضور پُر نور نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اختتامی خطاب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے ایمان افروز اور عہد ساز اختتامی خطاب میں انصار کو سچے مومن کی نو قرآنی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی نہایت پر اثر تلقین فرمائی اور پہلی صدی کے آخری دس سالوں کے بارہ میں ایک نہایت انقلاب آفریں پروگرام کا اعلان بھی فرمایا.حضور کے اس تاریخی خطاب کا خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں پیش ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: ”سورہ انفال کی پانچویں آیت یوں ہے.اولیک هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَ رَجُتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمُ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مذکورہ بالا صفات رکھنے والے جن کا ذکر پہلی چار آیات میں آیا ہے.سچے مومن ہیں.ان کے رب کے پاس ان کے لئے بڑے بڑے مدارج، بخشش کا سامان اور معزز رزق ہے.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ مومن دو قسم کے ہیں قرآنی

Page 69

۴۹ اصطلاح میں.ایک وہ جنہیں اس آیت میں الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کہا گیا ہے.سچے مومن.ایک وہ ہیں جو مومن تو ہیں مگر ان کے لئے قرآن کریم نے سچے مومن کا لفظ استعمال نہیں کیا.لفظ نہ معناً.اس آیت میں سچے مومنوں کے لئے تین وعدے دیئے گئے ہیں.ایک یہ کہ اللہ کے حضور ان کے درجات ہیں.بخشش کا سامان جو یہاں کہا گیا، قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بخشش کے تین بنیادی سامان ہیں.ایک تو دعا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو انسان جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پاتا ہے اور یہ تمام دوسرے سامانوں کی بنیاد ہے.دوسرے ہجرت ہے یعنی ہوائے نفس کی یلغار سے بچنا اور دنیا کی طرف مائل ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا اور ہر گندگی کو اپنے وجود سے نکال باہر کرنا اور کوشش کرنا کہ انسان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر بن جائے.بخشش کا تیسرا اصولی سامان جس کا قرآن عظیم میں ذکر کیا گیا ہے.وہ مجاہدہ ہے.مجاہدہ اپنے نفس کے خلاف بھی ہوتا ہے اور مجاہدہ حقیقتاً ہر اُس طاقت کے خلاف ہے (اصطلاحی معنی میں ) جو طاقت کہ انسان کو خدا سے دور لے جانے کی کوشش کرتی ہو.اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ میں نے بخشش کے سامان تمہارے لئے پیدا کر دیئے، میری ہدایت کے مطابق میری رضا کے حصول کے لئے ان سامانوں کو استعمال کرو اور میرے پیار کو حاصل کرو.تیسری چیز جس کا یہاں ذکر ہے وہ انعام مومنوں کو دیا جائے گا وہ رزق کریم ہے.محض رزق نہیں کہا.خدا تعالیٰ بڑا دیا لو ہے اور سب ہی کو دیتا ہے.مومن ہو یا کا فرکسی سے بخل نہیں کرتا.کسی کو بھوکا نہیں مارتا.ہر ایک کی سیری کا اس نے انتظام کیا ہے.کسی کو جاہل نہیں رکھنا چاہتا.ہر ایک کے لئے علم کے حصول کی طاقتیں اس نے مہیا کی ہیں.کسی کو ظلمات میں بھٹکتے دیکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کے لئے نور کے سامان اس نے پیدا کر دئیے.بندہ خود اپنے آپ کو ان چیزوں سے محروم کر لیتا ہے.پس اس آیت میں ایک تو سچے مومنوں کا ذکر ہے.دوسرے اشارہ ان کا جو سچے مومن نہیں.تیسرے بنیادی طور پر سچے مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو انعامات مقرر کئے ہیں ، ان کا ذکر ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا یہاں تین بنیادی ایسے انعامات کا ذکر ہے.یہاں یہ جو فرمایا کہ مذکورہ صفات رکھنے والے ہی سچے مومن ہیں.وہ صفات پہلی چار آیات میں یہ بتلائی گئی ہیں.نمبر (۱) یہ کہ سچے مومن تقویٰ کے حصول کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.تقویٰ کے معنی ہیں ایسے اعمال صالحہ بجالانا جن کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی امان ، حفاظت اور پناہ میں آجائے.

Page 70

دوسرے یہ فرمایا کہ بچے مومن وہ ہیں جو آپس میں اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اصلاح یافتہ معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.معاشرہ سے ہر قسم کی گندگی کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.اور تیسرے یہ کہ تقویٰ کے حصول اور اصلاح کی کوشش ، ان دو اغراض کے لئے سچا مومن اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں زندگی گذارتا ہے.اور چوتھے یہ کہ ایسا سچا مومن وہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس کا شعار ہوتا ہے.پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ بچے مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ پہلی چار باتوں کے حصول کے نتیجہ میں اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا دل اس کی روح اور اس کا سارا وجود خشیت اللہ سے بھر جاتا ہے.اور چھٹی صفت سچے مومن کی یہ بتائی کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھاتی ہیں....سچے مومن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رکھنے والا اور اسی سے سب کچھ پانے والا ہے.کامل تو کل دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مومن کی آٹھویں صفت یہ بیان ہوئی يُقِيمُونَ الصَّلوة کہ وہ حقوق اللہ پورے طور پر ادا کرنے والے ہوتے ہیں.دل میں کھوٹ نہیں ہوتا ،شرک کی ملونی نہیں ہوتی ، غیر اللہ کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی.اور نویں صفت ان کی یہ ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُم يُنفِقُونَ کہ اللہ کی مخلوق کے سب حقوق ادا کرنے کے لئے ہر وقت وہ تیار رہتے ہیں.حضور نے جماعت کی روحانی اور علمی ترقی کے لئے ایک عہد آفریں منصو بہ احباب کے سامنے رکھا.یہ منصوبہ تین بنیادی شقوں پر مشتمل تھا.پہلی شق علوم روحانی سیکھنے کے بارہ میں تھی.حضور نے فرمایا کہ ہر احمدی بچہ قاعدہ میسر نا القرآن پڑھنے والا ہو اور ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف متوجہ ہو اور جو تر جمہ جانتے ہوں وہ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی سعی کرے.منصوبہ کا دوسرا حصہ دنیوی علوم سیکھنے کے بارہ میں تھا.حضور نے ہدایت فرمائی کہ آئندہ دس سالوں میں ہمارا کوئی بچہ میٹرک سے کم تعلیم کا نہ ہو.تیسرے حصہ میں حضور انور نے جماعت کو اسلام کے حسین اخلاق پر قائم ہو کر اپنے ماحول میں اصلاح یافتہ معاشرہ پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.چنانچہ فرمایا: ’ جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں اور جب ہم سچے مومنوں کی وہ صفات اپنے سامنے رکھتے ہیں جو یہاں بیان ہوئی ہیں تو ہمارے سامنے ہمارا، جماعت احمدیہ کا اور اس کی ذیلی تنظیموں کا،

Page 71

۵۱ انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ کا پروگرام آجاتا ہے اور اسی کا اس وقت میں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اعلان سے قبل یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کے سو سال پورے ہونے میں قریباً دس سال باقی ہیں اور میرے اس پروگرام کا تعلق ان دس سالوں سے ہے.نمبرا.).علوم روحانی کا سیکھنا، اس کے لئے پروگرام یہ ہے کہ عمر کے لحاظ سے ہر بچہ قاعدہ لیسرنا القرآن پڑھنے والا ہو.جب میں ہر بچہ کہتا ہوں تو میری مراد ہر احمدی بچہ سے ہے خواہ وہ شہر میں رہنے والا ہو، خواہ وہ دیہات میں رہنے والا ہو، خواہ وہ بڑی جماعتوں کا ایک طفل ہو، خواہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں صرف ایک ہی خاندان احمدی ہے.جتنی جلد ممکن ہو سکے ، ہر بچے کو قاعدہ میسر نا القرآن پڑھا دیا جائے.ب.یہ علوم روحانی اور علوم قرآنی کے سیکھنے کے عنوان کے نیچے ب نمبر ا یہ ہے کہ عمر کے لحاظ سے ہر طفل، ہر خادم، ہر نیا احمدی، ہر پرانا غافل احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف متوجہ ہو.اور ب نمبر ۲ یہ ہے کہ جو قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں، وہ قرآن کریم کے معانی اس کی تفسیر پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.جب ہم نے یہ کہا کہ ایک سچا مومن اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرتا ہے تو وہ شخص جو یہ جانتا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ حکم کیا دیتا ہے، وہ اس کی کامل اطاعت کیسے کر سکے گا؟ دوسرے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیسے کر سکے گا جنہوں نے دنیا میں یہ اعلان کیا.إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى اِلَی کہ جو وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئی ہے میں صرف اُسی کی اتباع کرنے والے ہوں.تفسیر قرآن سیکھنے کے لئے ( یہ بات ضروری ہے کہ معلم حقیقی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود جوتفسیر سکھائی ہمیں اس کا علم ہو.پس سارے تو نہیں ( میں سمجھتا ہوں سارے نہیں سیکھ سکتے ) مگر کثرت سے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اُن کتب حدیث کو پڑھنے اور جاننے والے ہوں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تفسیر پائی جاتی ہے اور اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والے ہوں کہ وہ اس پیاری تغیر کو ہر احمدی کے کان تک پہنچائیں گے.اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تفسیر کی.یعنی دو تفسیر میں ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ نے سکھائی خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو.اور دوسری وہ تفسیر ہے جو محمد رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کے نتیجہ میں خود کی.پھر اس کے بعد وہ تفاسیر ہیں جو چودہ سو سال پر پھیلی ہوئی ہیں اور چودہ سوسال میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کو حل کرتی ہیں.اس وعدہ کے مطابق کہ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمة

Page 72

۵۲ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ لا لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ، تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِینَ کہ ہر زمانہ میں ہر نسل کے لئے ، اس نسل کے نئے مسائل حل کرنے کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے خدا کی نگاہ میں جو مظہر ہوں گے، انہیں ایسی تفاسیر سکھائی جائیں گی اور یہ مطالعہ قرآن کریم کی عظمت ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہر بگڑے ہوئے ماحول میں جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو انسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد کا قرآن ہی آتا رہا.آتارہے گا (صلی اللہ علیہ وسلم ) پروگرام نمبر ۲.یہ جو کہا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش آیاتِ باری سے بھری ہوئی ہے،اس میں یہ حکم پنہاں ہے کہ جن علوم کو دنیوی علوم کہا جاتا ہے جن کا تعلق افلاک سے ہے، کیمیا سے ہے، طبیعات سے ہے ، کھانے پینے کی اشیاء سے ہے، زراعت سے ہے، طب سے ہے وغیرہ وغیرہ.اُن میں بھی خدا کی آیات نظر آتی ہیں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اور ان کا بھی ایک مسلمان کے لئے سیکھنا ضروری ہے.اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے ، اپنی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اور دنیا پر احسان کرنے کی خاطر ،خدا اور رسول کی اطاعت میں دنیوی علوم بھی روحانی نور کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے سیکھنے کی کوشش کرے اور اس دس سال میں یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا کوئی بچہ بھی میٹرک سے کم تعلیم کا نہ ہو.اس کی ذمہ داری امرائے اضلاع پر ہے.تنظیم انصار اللہ پر ہے.تنظیم خدام الاحمدیہ پر ہے.جماعت پر ہے.پوری کوشش کریں کہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک تک پڑھ جائے دس سال کے اندر اندر.اور پھر وہ بچے جب دسویں پاس کریں اور یہ پتہ لگے ہمیں کہ بعض بڑے ذہین ہیں تو ان کے آگے پڑھانے کا جماعت ذمہ لے ، وہ انتظام کرے تا کہ خدا تعالیٰ نے جو اتنا بڑا ہم پر احسان کیا کہ ہم غریبوں کے گھروں میں ذہین بچے پیدا کر دیئے اور ذہانت سے ہماری جھولیاں بھر دیں ، ہم ان سے بے اعتنائی کر کے ناشکرے نہ بننے والے ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں سے پیار کرتا اور وہ جوشکر نہیں کرتے اس کا ، غصے کی نگاہ ان پر ڈالتا ہے.پروگرام کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت اسلام کے حسین اخلاق پر قائم ہو اور اصلاح یافتہ معاشرہ اپنے ماحول میں پیدا کرنے کی کوشش کرے.معاشرہ کی برائیوں سے خود کو محفوظ رکھنا اور معاشرہ کو برائیوں سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے.اور آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جو کوئی

Page 73

۵۳ بھی معاشرہ کو برائیوں سے بچانے کی کوشش میں ہو، اس کو آپ کا پورا تعاون حاصل ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اخلاق کو کامل کرنے کے لئے بھی مبعوث ہوا ہوں.اس وقت چند موٹی باتیں میں آپ کو بتا دوں.(۱) کوئی احمدی جھوٹ نہیں بولتا (۲) کسی احمدی کو گالی دینے کی عادت نہیں ہونی چاہئے خصوصاً دیہاتی جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں (۳) ہر احمدی اپنی بات کا پکا ہو.جو عہد کرے وہ پورا کرے.جو بات کہے اس کے مطابق اس کا عمل ہو.اور (۴) یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے جو رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں ، جماعت کے اندر یا باہر س قسم کی رنجشیں نہ پیدا ہونے دے(۵) کوئی احمدی اپنے احمدی بھائی سے، نہ دوسرے بھائیوں سے لڑائی جھگڑا نہیں کرے گا.(۶) اگر ان میں باہمی کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو جہاں تک قانونِ ملکی اجازت دیتا ہو، اُس اختلاف کو جماعتی مصالحت کے ذریعہ سے دور کیا جائے اور آپس کی رنجشیں ہرگز پیدا نہ ہونے دی جائے اور نہ کوئی تلخی پیدا ہونے دی جائے.(۷) کوشش کرو کہ پیار سے رہو (۸) کوشش کرو کہ پیار کے ساتھ دنیا کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا کے پیار کو حاصل کرلو گے.اگر تم خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے تو ہر دو جہان کی نعمتیں تمہیں مل جائیں گی.پھر کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں رہے گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.“ پھر حضور نے نمازوں کے بارہ میں اعلان فرمایا کہ کھانے سے قبل مسجد مبارک میں نماز ظہر وعصر ہوں گی.اختتام پر صدر محترم نے حضور انور کی خدمت میں کوائف حاضری پیش کئے تو حضور نے فرمایا: امسال جو مجالس اس اجتماع میں شریک ہوئی ہیں ان کی تعداد ۶۷۲ ہے اور گذشتہ برس کے مقابلہ میں ۱۸۵ کی زیادتی ہے.الحمد للہ.مگر یہ بھی تسلی بخش نہیں.سب جماعتوں کو یہاں آنا چاہئے.نمائندے بھیج کر.اب ہم عہد دہراتے ہیں.﴿۲۳﴾ حضور کا یہ تاریخی خطاب گیارہ بج کر پچپن منٹ پر شروع ہوا اور پونے ایک بجے ختم ہوا.حضور اقدس نے اختتام پر عہد دہرایا اور دعا کے بعد ا حباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کر ایک بجنے میں دس منٹ پر رخصت ہو گئے.اس طرح مجلس کا بائیسواں سالانہ اجتماع بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.﴿۲۴﴾ بعض اہم امور اس اجتماع میں ۸۳۷ مجالس میں سے ۶۷۲ مجالس شامل ہوئیں.یہ تعداد گذشتہ برس کی نسبت ۱۸۵ زیادہ ہے.حضور نے اس اضافے پر اظہار خوشنودی فرماتے ہوئے الحمد اللہ کہا نیز فرمایا کہ یہ بھی تسلی بخش نہیں.سب جماعتوں کو نمائندے بھیج کر اجتماع میں شامل ہونا چاہیئے.

Page 74

۵۴ اکتوبر ۱۹۷۹ ء کی رات مجلس مرکزیہ نے پاکستان کے طول وعرض سے آنے والے انصار کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا.اس میں از راه شفقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے شرکت فرمائی اور انصار کے ساتھ بیٹھ کر ما حضر تناول فرمایا.۲۵ ڈیوٹی چارٹ سالانہ اجتماع ۱۹۷۹ء نگران اعلیٰ: حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب شعبہ سٹیج.جلسہ گاہ لاؤڈ سپیکر مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب منتظم مکرم بشارت احمد بشیر صاحب نائیین: مکرم غلام نبی صاحب، مکرم قریشی محمد عبداللہ صاحب، کرم صوفی محمد اسحاق صاحب، مکرم عبداللطیف پریمی صاحب، مکرم محمد اکرم صاحب معاونین : مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب وینس مربی لاہور مکرم محمود احمد سعید صاحب ، مکرم قریشی سعید احمد اظہر صاحب مربی شیخو پورہ مکرم صوفی محمد امین صاحب مربی پیرمحل، مکرم ناصر احمد صاحب نیئر وکالت تبشیر شعبه خوراک منتظمین : مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ، مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ،مکرم مرزا انس احمد صاحب نائیین : مکرم مرزا غلام احمد صاحب ، مکرم مبارک مصلح الدین صاحب، مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب ، مکرم منیر احمد عارف صاحب معاونین : مکرم قریشی ذکاء اللہ صاحب، مکرم شیخ برکت علی صاحب، مکرم جمال دین صاحب ، مکرم چراغ دین صاحب نانبائی ،طلباء جامعہ احمدیہ شعبہ رہائش و عمومی مہمان نوازی منتظم: مكرم محمد اسلم صابر صاحب نائبین : مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب، مکرم سلطان اکبر صاحب شعبہ فراہمی و تقسیم انعامات منتظم مکرم پروفیسر بشارت الرحمان صاحب نائب منتظمین : مکرم صوفی خدا بخش صاحب، مکرم خواجہ جلال الدین صاحب

Page 75

شعبه استقبال ۵۵ منتظم : مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نائیین : مکرم سید نذیر احمد شاہ صاحب، مکرم چوہدری فیروز الدین صاحب شعبہ حفاظت منتظم مكرم عبدالرشید فنی صاحب ، مکرم ملک محمد رفیق صاحب نائیین : مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب، مکرم ملک محمد اشرف صاحب، مکرم محمد شریف ڈھلوں صاحب مکرم را نا فضل محمد صاحب ، مکرم سراج دین ڈوگر صاحب شعبہ طبی امداد منتظم: مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نائیین : مکرم عبدالحفیظ خان صاحب، مکرم بر یگیڈیئر ضیاءالحسن صاحب، مکرم لطف الرحمان شاکر صاحب، مکرم ضیاء الدین حمید صاحب، مکرم ظریف احمد صاحب معاون: مکرم منیر احمد رشید صاحب شعبہ صفائی و آب رسانی منتظم: مکرم مولوی محمد صدیق صاحب نائیین : مکرم محمد اسماعیل اسلم صاحب معاونین : مکرم قاضی محمد یوسف صاحب، مکرم ملک سلیم اللہ صاحب، مکرم محمدعبد اللہ راجوری صاحب مکرم مبارک احمد خان صاحب شعبه نظم وضبط ( اور اوقات اجتماع میں پانی پلانا ) منتظم: مکرم منور احمد خالد صاحب نائیین : مکرم عبدالرزاق صاحب، مکرم مرزا عبدالرشید صاح شعبہ پروگرام منتظم : مکرم حبیب اللہ خان صاحب نائیین : مکرم سید عزیز احمد شاہ صاحب ، مکرم سلطان محمود انور صاحب مربی کراچی شعبہ انتظام تقسیم ٹکٹ

Page 76

منتظم : مکرم فضل الہی انوری صاحب نائین : مکرم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب ،کرم سردار بشیر احمد صاحب ، مکرم چوہدری رشید الدین صاحب، مکرم سید شمس الحق صاحب معاونین مکرم سید جوادعلی شاہ صاحب مکرم میجر عبدالحمید شر ما صاحب ،مکرم غلام مصطفی صادق صاحب، مکرم چوہدری نصر اللہ خان صاحب ، مکرم شیخ نصیر الدین صاحب، مکرم راجہ نصیر احمد ناصر صاحب، مکرم عبداللطیف خان صاحب، مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب بی اے کرم چوہدری محمد صادق صاحب، مکرم مرز افضل الرحمن صاحب ، مکرم محمد رفیع ناصر صاحب ، مکرم جلال الدین قمر صاحب.شعبہ اشاعت وریکارڈ منتظم: مکرم ملک یوسف سلیم صاحب نائب: مکرم عبدالرحمان شاکر صاحب معاونین مکرم سید سجاد احد صاحب ،مکرم مولوی نصر اللہ ناصر صاحب،کرم عبدالرشید منہاس صاحب شعبہ قیادت عمومی منتظم مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب نائب: مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب معاونین : کارکنان دفتر مرکزیہ شعبہ ماہنامہ انصار الله منتظم : مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب شعبه حاضری اجتماع منتظم: مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر معاون : مکرم شیخ بشارت احمد صاحب تعلیمی وتربیتی منصوبہ کے متعلق صدر محترم کا خط بخدمت مکرم ناظم صاحب، زعیم اعلیٰ صاحب وزعیم صاحب انصار الله السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سالانہ اجتماع انصار اللہ ۱۹۷۹ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دوسری تقریر میں تمام امراء تمام جماعتوں.مجالس انصار اللہ اور مجالس خدام الاحمدیہ کو تاکید فرمائی تھی کہ

Page 77

۵۷ ا.ہر احمدی بچہ قاعدہ میسر نا القرآن پڑھے.۲.جو احباب قرآن کریم ناظرہ نہیں پڑھے وہ قرآن کریم ناظرہ پڑھیں.جو ناظرہ جانتے ہوں وہ ترجمہ پڑھیں اور جو تر جمہ جانتے ہوں وہ تفسیر سیکھیں.ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک پاس کرے.۴.تمام احمدی احباب اسلامی اخلاق کے پابند ہوں.یہ خاص پروگرام مختصر طور پر اخبار الفضل مورخہ ۲۹ اکتوبر کے صفحہ اول پر شائع ہو چکا ہے.اس ضمن میں مورخہ ۱۲ نومبر عاملہ مرکزیہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں قرار پایا کہ تمام مجلس انصاراللہ کو کھا جائے کہ ہر مقام کی مجلس ، جماعت احمدیہ کے عہدیداران اور خدام الاحمدیہ سے مل کر جائزہ لیں کہ حضور کے ارشادات کی تعمیل کس طریق سے کی جائے.جمله ممبران انصار اللہ کو توجہ دلائی جائے کہ اپنے گھروں کی طرف توجہ کریں اور دیکھیں کہ ان کے اہل وعیال اور دیگر عزیز جو ان کے گھروں میں رہائش رکھتے ہیں ، ان میں کس حد تک اس پروگرام کو رائج کرنے کی گنجائش ہے.اپنے افراد خانہ کے مکمل کوائف جمع کر کے مجلس مقامی ان کیلئے پروگرام تجویز کرے نیز اپنے انصار کی تعلیم کا بھی پروگرام بنایا جائے جو قرآن کریم نہیں جانتے.ہر مجلس قومی اخلاق سنوارنے کے لئے ایک لائحہ عمل تجویز کرے.اہالیان ربوہ خصوصیت سے اس طرف توجہ دیں.محترم زعیم اعلی صاحب ربوہ ایک سکیم تیار کریں اور مرکز میں بھجوائیں.جماعت کے دوستوں کے آپس کے تعلقات بہتر اور اسلامی طریق کے مطابق ہونے چاہئیں.ایسے نوجوان جو سیدھے راستہ سے بھٹک رہے ہوں، اُن کی تربیت کی طرف فوری اور خصوصی توجہ دیں.ہر مجلس مندرجہ بالا امور کی مفصل رپورٹ تیار کر کے ایک ماہ کے اندر اندر مرکز کو ارسال کرے.نوٹ: یہ یادر ہے کہ ضلعی سطح پر مکمل منصوبہ مکرم امیر صاحب ضلع کی نگرانی میں بنایا جائے گا جس میں ناظم ضلع انصار اللہ اور قائد ضلع خدام الاحمدیہ بھی شامل ہو نگے.“ سالانہ اجتماع کے بارہ میں چند تاثرات خطوط بنام صدر محترم ا.حضرت با بو قاسم الدین صاحب ناظم مجلس انصار اللہ ضلع سیالکوٹ ”ہمارا سالانہ اجتماع انصار اللہ ۱۹۷۹ء اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بڑا کامیاب، بابرکت، با رونق، پُر امن رہا، الحمد اللہ.مبارک ہو ، مبارک ہو ، مبارک ہو.

Page 78

۵۸ اجتماع پر ہمارے ضلع کی نمائندگی مجالس انصار اللہ ۱۱۳ میں سے ۹۵ اور وصولی چندہ مجلس ۱۰۰ فیصدی رہی.یہ بیداری اللہ کی توفیق اور آپ کی مقبول دعاؤں کے نتیجہ میں ہوئی.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور زیادہ سے زیادہ خدمت دین والی زندگی حاصل ہو.آمین آپ کے دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے عملے نے بھی نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کیا.ان کا ان ایام میں حسنِ سلوک ، خندہ پیشانی سے پیش آنا بہت قابل تعریف رہا.الحمد للہ.ان سب کو میری طرف سے مبارک باد دی جائے.اس خط پر صدر محترم نے یہ نوٹ تحریر کیا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اصل مبارک باد کے تو آپ مستحق ہیں جن کی انتھک محنت کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سیالکوٹ کو نمایاں ترقی کی توفیق بخشی.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدُ ۲.مکرم میاں ناصر علی صاحب تقسیم بر جی والا جھنگ صدر آپ کے اختتامی پر ولولہ اور دردانگیز جان بخش خطاب نے دلوں کو ہلا دیا اور مجیب رنگ ایمان بخشا.فَالْحَمْدُ للهِ.بَارَكَمُ الله تَعَالَى فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.آئمکرم کی دل کی تاریں محسن اور پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلب اطہر کی مقدس تاروں سے ہم آہنگ ہیں.مکرم قاضی محمد اسحاق بسمل صاحب ملتان کینٹ قبول فرمائیے.انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کی غیر معمولی اور شاندار کامیابی پر خاکسار کی طرف سے تحفہ مبارک باد مکرم رانا حمید اللہ صاحب صدر جماعت احمد یہ خوشاب الحمد للہ ہمارا سالانہ اجتماع غیر معمولی کامیابیوں اور برکات کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.اس کی غیر معمولی کامیابی پر ہدیہ مبارک قبول ہو.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں حضور انور کے ارشادات اور آپ کے مجوزہ لائحہ عمل اور ٹارگٹ کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مکرم سید سجاد احمد صاحب رحمت بازار ر بوه مکرم کی صدارت میں پہلے کامیاب اجتماع پر دلی مبارک دیتا ہوں.باوجود بعض پابندیوں کے یہ اجتماع بفضلہ تعالیٰ بڑا اثر انگیز اور بابرکت رہا.۲۷ کی شام ۴ بجے والا سوال و جواب کا پروگرام.شیخو پورہ کے حالات.تیسرے دن والے سوالات کے جوابات والا پروگرام بھی بہت اچھا رہا.آپ کا آخری خطاب قابل

Page 79

۵۹ مبارکباد ہے.والاجر علی الله.سالانہ رپورٹ بابت سال ۱۹۷۹ء حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدارت میں خدا کے فضل سے مجلس نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی.محترم صدر صاحب مجلس کے ارشاد کی تعمیل میں مجالس کو کار کردگی سے آگاہ رکھنے کے لئے ماہنامہ انصار اللہ میں ۱۹۷۹ء کی سالانہ رپورٹ شائع کی گئی.اس رپورٹ سے مختلف شعبہ جات کی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی پڑتی ہے.یہ رپورٹ ماہنامہ انصار اللہ نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء سے ذیل میں درج کی جاتی ہے تا احباب کے سامنے اس دور کی سرگرمیوں کی کچھ جھلک نمایاں ہو سکے.رپورٹ قیادت عمومی سب سے پہلا کام جونی مجلس عاملہ کے تقرر کے فورا بعد کیا گیا، وہ سالانہ لائحہ عمل کی تیاری تھی.قائدین کرام کی طرف سے جو لائحہ عمل تجویز ہوا، اسے مجلس عاملہ مرکزیہ کی منظوری کے بعد طبع کروا کر مجالس کو بھجوایا گیا.اس کے بعد لائحہ عمل کی روشنی میں مجالس کے لئے ضروری ہدایات مرتب کر کے انہیں ایک کتابچہ کی صورت میں مجالس کو بھجوائی گئیں تا اس کی روشنی میں سارا سال اپنی کارگزاری کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں.دفتری کارروائی مکمل کرنے کے بعد میدان عمل کی طرف توجہ دی گئی.سب سے پہلے 9 فروری کو ناظمین اعلیٰ ، ناظمین اضلاع اور زعماء اعلیٰ کا ایک اجلاس دفتر مرکزیہ میں طلب کیا گیا.اس اجلاس میں صدر محترم نے کوائف کی روشنی میں مجالس کے کام کا جائزہ لیا اور آئندہ کام کا طریق کار واضح کیا.عرصہ زیر رپورٹ یعنی گزشتہ نو ماہ میں صدر محترم نے پینتیس مقامات کا دورہ کیا جس میں صوبہ ہائے سرحد، سندھ اور پنجاب کے متعدد شہر اور دیہات شامل ہیں.صدر محترم کے علاوہ مرکزی نمائندگان اور قائدین مرکز یہ نے بھی بکثرت دورے کیے تاکہ قلیل مدت میں پاکستان کی اکثر مجالس سے موثر رابطہ ہو سکے.ان دوروں میں مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب ، مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف ، مکرم صوفی بشارت الرحمان صاحب، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب، مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب اور مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اسی طرح مکرم محمد اسلم صابر صاحب کے علاوہ مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب قائد عمومی اور نائب قائد صاحب عمومی نے بھی بعض مقامات کے دورے کر کے زعمائے کرام کے کام کا مفصل جائزہ لیا اور انہیں آئندہ کے لئے مفید ہدایات دیں، جماعت کے خور دو کلاں کی تربیت کے علاوہ اصلاح وارشاد کے کام پر زور دیا گیا اور سوال و جواب کی مجالس منعقد کی گئیں اور حاضرین کو مرکز احمدیت میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی تا کہ انہیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے علمی اور عملی پہلو اپنی

Page 80

آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملے.ان سوال و جواب کی مجالس کے بہت خوش کن نتائج نکلے.مرکزی دوروں سے ضلعی اور علاقہ کی اکثر مجالس کے نمائندگان بھی استفادہ کرتے رہے.گزشتہ نو ماہ اس قسم تربیتی مجالس کی تعداد ۹۵ ہے جبکہ گزشتہ سال کے تیرہ ماہ کی تعداد ۳۳ تھی.کچھ اضلاع یا مجالس میں یہ محسوس کر کے کہ بعض عہدیداران اخلاص اور نیک خواہشات اور ایک حد تک کوشش کے باوجود یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ نتیجہ خیز کام کر سکیں، مجلس کے کام کو مستعد کرنے کی خاطر ایسے عہدیداروں کو یا تو تبدیل کر دیا گیا یا ان کے ساتھ معاون یا نائبین مقرر کر دیئے گئے.یہ اقدامات بہت مؤثر ثابت ہوئے.اسی طرح بعض اضلاع کی ( جہاں مجالس کی تعداد زیادہ تھی ) حلقہ بندی کر دی گئی اور نگران حلقہ مقرر کئے گئے.یہ قدم بھی انتظام کو بہتر بنانے میں ممد ثابت ہوا.ان کوششوں کے نتیجہ میں سال رواں کے نو ماہ میں جو ماہوار رپورٹیں دفتر میں موصول ہوئیں ان کی تعداد ۱۲۶۲ ہوگئی جب کہ گذشتہ سال بارہ ماہ میں کل ۸۹۷ رپورٹیں موصول ہوئی تھیں.دفتر مرکزیہ کی طرف سے گذشتہ ماہ میں ۱۴۰۲۰ خطوط بیرونی مجالس کو بھیجے گئے جبکہ گذشتہ سال بارہ ماہ میں یہ تعداد ۱۳۳۴۱ تھی.گزشتہ سال مرکزی اجتماع کے پہلے روز ۴۸۷ مجالس کے ۱۰۲ نمائندگان اور ۳ ۲۴۰ اراکین شامل ہوئے تھے.امسال حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خصوصی توجہ، خطبہ جمعہ اور دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا اور اجتماع کے پہلے روز ۵۹۰ مجالس کے ۱۲۸۸ نمائندگان اور ۲۵۱۶ اراکین شامل ہوئے.اس اجتماع کی کامیابی میں جماعت کے تمام اداروں کی کوشش کا بہت بڑا حصہ ہے جنہوں نے اپنے محبوب کی آواز سن کر دل و جان سے لبیک کہتے ہوئے انتھک محنت سے کام کیا.حسب ذیل اداروں نے پر اخلاص تعاون کیا.ا.نظارت اصلاح وارشاد جن کی ہدایت پر مربیان نے غیر معمولی حسن کارکردگی کا ثبوت دیا.۲.نظامت ارشاد وقف جدید ۳- مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ رپورٹ صف دوم از جنوری ۱۹۷۹ء تا اگست ۱۹۷۹ء مجالس مقامی : (۱) اوسطا ۱۰۹ مجالس نے ماہانہ رپورٹ بر وقت بھجوائی.جبکہ گزشتہ سال یہ اوسط ۸۱ تھی.اوسطاً ۸۸ مجالس نے صف دوم کے کوائف درج کیے جبکہ گزشتہ سال یہ اوسط ۶۱ تھی.(۲) دوران سال ۵۰ مجالس کے ۱۳۹۴ انصار سائیکل سفر برائے ملاپ و خدمت خلق میں شریک ہوئے.(۳) دوران سال ۴۳ مجالس کے ۸۹ انصار نے بائیسکل خریدے جبکہ گزشتہ سال سترہ مجالس کے ایک

Page 81

سوستائیس انصار نے سائیکل خریدے.ناظمین اضلاع ۶۱ اضلاع میں سے فیصل آباد، گجرات، کراچی ،سیالکوٹ کے کام کے بعض حصے قابل ذکر ہیں.فیصل آباد ضلع میں صف دوم کے کوائف کی تعمیل ہوئی.۷۵ نئے سائیکل خریدے گئے.۳۵ انصار نے سائیکل چلانا سیکھا.۹۷ انصار سائیکل سفر برائے ملاپ و خدمت خلق کے ۸۸ وفود میں شامل ہوئے اور ۲۷۱ دیہات سے ملاپ کیا اور کل ۱۷۰۵ کلومیٹر فاصلہ طے کیا.ضلع گجرات میں بھی صف دوم کے کوائف کی تکمیل ہوئی.9 انصار سائیکل سفر برائے ملاپ و خدمتِ خلق کے وفود میں شامل ہوئے اور ۹ دیہات سے ملاپ کیا نیز ناظم ضلع صاحب نے ضلعی چار مراکز تجویز کئے اور انصار کو تحریک کی کہ وہ سائیکلوں پر اپنے اپنے مرکز میں پہنچیں.اس سفر میں ۱۳ مجالس کے انصار نے شرکت کی.ضلع کراچی میں صف دوم کے انصار کے کوائف اکٹھے کئے گئے.چار مجالس کے ۳۲ انصار سائیکل سفر برائے ملاپ و خدمت خلق کے وفود میں شامل ہوئے.چار مختلف مواقع پر صف دوم کے انصار سائیکل پر سفر کر کے مختلف مقررہ مراکز میں جمع ہوئے.ضلع سیالکوٹ میں ۵۴ مجالس کے سائیکل سوار انصار کو شمار کیا گیا.مرکزی شعبہ کا کام (۱) مجالس مقامی اور ناظمین اضلاع کی ماہانہ رپورٹوں پر تبصرہ لکھا گیا.(۲) مجالس کو ہر ماہ بذریعہ سرکلر ز ضروری ہدایات بھجوائی گئیں (۳) ناظمین اضلاع کے سہ ماہی اجلاسوں میں جائزہ پیش کر کے ان کو کام کی طرف توجہ دلائی گئی.(۴) صف دوم سے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ہدایات سائیکلو سٹائل کر کے ناظمین ضلع اور مجالس مقامی کو بھجوائی گئیں.دوره جات (1) کراچی : ناظم صاحب ضلع اور زعمائے اعلی سے مل کر ان کو کام کے متعلق ہدایات دیں.(۲) فیصل آباد: عہدیداران ضلع کے اجلاس میں شرکت کی اور ہدایات دیں.(۳) سرگودھا: عہدیداران ضلع کے اجلاس میں شرکت کی اور ہدایات دیں.(۴) لاہور : شاہدرہ، ہانڈ و گوجر اور پتوکی نیز ضلع لاہور اور ضلع قصور کی مجالس کے عہدیداران سے مل کر ان کو ہدایات دیں اور کام کا جائزہ لیا

Page 82

۶۲ (۵) ربوہ میں ضلع جھنگ کے عہدیداران کے اجلاس میں شرکت کی.ان کے کام کا جائزہ لیا اور ہدایات دیں.رپورٹ قیادت تربیت مکرم صدر صاحب مجلس کی راہ نمائی میں مطبوعہ ہدایات جملہ مجالس میں پہنچا کر عمل پیرا ہونے کے لئے تلقین کی گئی.کام کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے.(1) مجالس کی آمدہ رپورٹوں پر حسب موقعہ تبصرہ کیا جاتا رہا.قائدین کی میٹنگوں میں شرکت کی گئی.(۲) ہفتہ تربیت کے لئے دو مضمون اور دو ورقہ پمفلٹ کے لئے مضمون لکھ کر دیا گیا.(۳) قائد صاحب تربیت نے تمہیں خطبات نکاح و جمعہ دیئے.(۴) درس قرآن کریم احادیث و کتب سلسلہ کی تعداد۲۱۵ ہے.(۵) تربیتی وتبلیغی تقاریر کی تعداد ۹۸ ہے.(1) رفع تنازعات کی تعداد پانچ ہے.ایک جگہ کئی سال پرانا تناز عدل ہوا.الحمد للہ (۷) شائع ہونے والے تربیتی مضامین کی تعداد انیس ہے.(۸) قیادت تربیت کے سات سرکلر مجالس کے لئے بھیجے گئے.(۹) مرکز سلسلہ ربوہ میں گیارہ محلہ جات میں کام کرنے کا موقعہ ملا.(۱۰) مجلس مرکزیہ کے زیر اہتمام تینتیس مقامات کا دورہ کیا گیا.رپورٹ قیادت اصلاح وارشاد آغاز میں قیادت ہذا کے قائد مکرم مولانا بشارت احمد صاحب بشیر تھے.بعد ازاں ان کے رخصت پر جانے کی وجہ سے صدر محترم نے حضور کی منظوری سے مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب کو قیادت ہذا کا قائد مقرر کیا اور مولوی عبدالرشید صاحب رازی ان کے نائب مقرر ہوئے.قیادت ہذا دورانِ سال مجالس کی آمدہ رپورٹوں پر حسب ضرورت ہدایات بھجواتی رہی.اس بات پر زور دیا گیا کہ مجالس بیعتوں کا ٹارگٹ مقرر کر کے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اس پر مجلس کراچی نے لبیک کہتے ہوئے اپنا ٹارگٹ ایک ہزار بیعت مقرر کیا جو اگر چہ پورا تو حاصل نہیں کر سکے تاہم انہوں نے اس سال ۱۵۲ بیعتیں کروا ئیں.دوسرے نمبر پر فیصل آباد رہا جہاں ۴۶ بیعتیں ہوئیں.ضلع شیخو پورہ کے ناظم صاحب نے اس لحاظ سے ایک اچھی مثال کی کہ انہوں نے کئی مجالس کے انصار سے فرداً فرداً وعدے لئے کہ دوران سال وہ کتنے افراد زیر تبلیغ رکھیں گے.اصلاح وارشاد کے میدان میں دوسری قابل ذکر مجالس جنہوں نے اپنی کوشش کو بہتر رنگ میں منظم کیا ،

Page 83

۶۳ حسب ذیل ہیں.(۱) سیالکوٹ (۲) لاہور (۳) گوجرانوالہ (۴) صوبہ سرحد میں بھی پہلے کی نسبت نمایاں بیداری رہی.(1) راولپنڈی (۷) گجرات (۸) سرگودھا (۹) ساہیوال (۱۰) ٹوبہ ٹیک سنگھ وقف عارضی کی بابرکت تحریک کے متعلق مجالس کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی توجہ دلائی گئی جس پر مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور سے ایک درجن کے قریب واقفین عارضی کے فارم مرکز میں موصول ہوئے.عہد یداران قیادت کی طرف سے چھ شہری اور گیارہ دیہاتی مجالس کے دورے کئے گئے.قیادت کے کام کے علاوہ اس دوران ماہنامہ انصار اللہ کے نئے خریدار بنائے گئے.صدر محترم نے اس سال پاکستان کی مختلف شہری اور دیہاتی مجالس کے متعدد دورے کئے جہاں اردگرد کی دوسری مجالس کے زعما بھی مدعو کئے گئے.بعد ازاں بذریعہ خصوصی سرکلر مجالس کو توجہ دلائی گئی کہ وہ صدر محترم کی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد نتائج سے آگاہ کریں.صدر محترم نے جب اس سال کے شروع میں صوبہ سرحد کا دورہ کیا تو وہاں انصار اللہ اور جماعت کے دیگر سر کردہ دوستوں سے مشورہ کے بعد ایک جائزہ کمیٹی مقرر کی گئی جو ایسا معین طریق کار طے کرے جس سے اصلاح وارشاد کے کام میں نمایاں ترقی ہو.اس موقعہ پر بعض مخلصین نے اپنی رضا کارانہ خدمات بھی پیش کیں.اس کام کی مسلسل نگرانی اور وقتاً فوقتاً اسے تازہ رکھنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چند بار مرکزی نمائندگان کے دورے کروائے جائیں چنانچہ اس سکیم کے تحت پہلا دورہ خود صدر مجلس نے کیا جو جنوبی صوبہ سرحد کا تھا.الحمد للہ کہ اس کے نیک نتائج ظاہر ہوئے.بعد ازاں ایک خصوصی وفد جو مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد اور مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال تحریک جدید پر مشتمل تھا ،اگست کے آخر میں صوبہ سرحد کے ایک ہفتہ کے دورہ پر بھجوایا گیا.اس وفد نے متعدد جگہوں پر دن کو تبلیغی مجالس منعقد کیں اور رات کو سلائیڈ ز دکھا ئیں.اس دورہ کا نتیجہ نہایت اچھا نکلا اور ان گم گشتگان میں سے کئی جو بظاہر جماعت سے کٹ چکے تھے ، بفضل تعالیٰ از سرنو جماعت سے آملے.اس اہم کام کی نگرانی جس میں اصلاح و ارشاد اور تربیت دونوں شامل ہیں خصوصی طور پر مکرم قائد صاحب اصلاح وارشاد کے سپرد کی گئی.قیادت ہذا کی طرف سے رابطہ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھانے کی کوشش جاری رہی.تبلیغی مجالس کے لحاظ سے مجلس کراچی سب سے زیادہ سرگرم عمل رہی.اس کے بعد فیصل آباد اور شیخو پورہ عمدہ کام کرتے رہے.صدر محترم کی ہدایت پر ان مجالس کے حوالہ سے اور ان کا نمونہ بتلا کر پاکستان کی بارہ بڑی بڑی شہری مجالس میں سے ہر ایک کو اس کے رقبہ اور آبادی کو حوظ رکھتے ہوئے تبلیغی مجالس کا ٹارگٹ بھجوایا گیا

Page 84

۶۴ چنانچہ حیدر آباد، ڈیرہ غازی خان ، ملتان، لاہور ، جھنگ ، جہلم اور پشاور کی مجالس نے اس مرکزی ہدایت پر عمل کیا.ہفتہ تربیت و اصلاح وارشاد کے سلسلہ میں قائد صاحب اصلاح وارشاد نے دو مضامین بعنوان ” خلافت کی برکات اور احمدیت کی تائید میں الہی نشانات لکھے جو شائع ہو کر تمام مجالس کو پہنچائے گئے.علاوہ ازیں ایک تربیتی دو ورقہ بعنوان ” بڑوں کا ادب بھی لکھا.مجلس مرکزیہ کے ماہانہ سرکلرز میں بھی وقتا فوقتا قیادت کی طرف سے نوٹ لکھا جاتا رہا.رپورٹ قیادت تعلیم (۱) قیادت تعلیم کے پروگرام میں یہ امر شامل ہے کہ انصار میں قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا ذوق پیدا کیا جائے.اس طرح مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود کی طرف انہیں توجہ دلائی جائے.اس مقصد کے حصول کے لئے سہ ماہی امتحانوں کا انتظام کیا جاتا رہا.ہر سہ ماہی کے لئے ایک ربع قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی ایک کتاب بطور نصاب مقرر کی جاتی رہی.اس کے علاوہ عام دینی امور سے واقفیت بہم پہنچانے کے لئے مجلس کی شائع کردہ بنیادی معلومات کا رسالہ بھی امسال شامل نصاب کیا گیا.قرآن کریم کے پارہ ۱۹ کا نصف آخر اور پارہ ۲۰ کا نصف اول اور کتب میں تجلیات الہیہ، کشف الغطاء، فتح اسلام اور سبز اشتہار شامل نصاب کی گئیں.بنیادی نصاب کا رسالہ ختم ہو چکا تھا اس لئے اس کے دوسرے ایڈیشن کا اہتمام کیا گیا.صدر محترم کی ہدایت کے مطابق بعض علماء سے اس پر نظر ثانی کروائی گئی تا کہ رسالہ زیادہ مفید ہو سکے.مکرم ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ، مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد مکرم مولا نا محمد حمد صاحب جلیل پر وفیسر جامعہ احمدیہ اور مکرم مبشر احمد صاحب را جیکی نے نظر ثانی کے کارخیر میں حصہ لیا.صدر محترم نے خود بھی ذاتی دلچسپی لے کر مسودہ کی ترمیم و اصلاح فرمائی.مکرم میاں عبد الحق صاحب رامہ نے کتابت کے بعد مسودہ کو بالاستیعاب پڑھا اور مزید بہتر بنایا.سال رواں میں چار مرکزی امتحان ہوئے.پہلا سہ ماہی امتحان مارچ میں ہوا جس میں ۹۵ مجالس کے ۱۹۸۴ انصار نے حصہ لیا.گزشتہ سال پہلی سہ ماہی میں ۴۶ مجالس کے ۱۶۲۷ انصار نے حصہ لیا تھا.اس طرح سال گزشتہ کے مقابلہ میں پہلی سہ ماہی میں بلحاظ تعداد مجالس اور تعداد انصار نمایاں ترقی ہوئی.دوسری سہ ماہی کا امتحان جون میں ہوا.اس میں ۸۰ مجالس کے ۸۸۶ انصار نے حصہ لیا.گذشتہ سال دوسری سہ ماہی میں ۴۳ مجالس کے ۶۳۱ اراکین نے حصہ لیا تھا.تیسری سہ ماہی کا امتحان ستمبر میں ہوا.گزشتہ سال کی سہ ماہی سوم میں ۴۷ مجالس کے ۶۷۵ انصار نے حصہ لیا تھا.سہ ماہی چہارم میں اللہ مجالس کے ۵۶۳ انصار شریک ہوئے تھے.(۲) امتحانات کے علاوہ قیادت تعلیم کی طرف سے ۲۵ مختصر نوٹ تعلیم القرآن اور مطالعہ کتب حضرت

Page 85

مسیح موعود کی طرف توجہ دلانے کے لئے شائع کئے گئے.(۳) مرکز کے ماہانہ سرکلر ز میں حسب ضرورت مجالس کو ہدایات بھجوائی جاتی رہیں.اس کے علاوہ ناظمین اضلاع کو خطوط کے ذریعہ مطلع کیا گیا کہ ان کی کتنی مجالس کے کتنے اراکین نے امتحانات میں حصہ لیا.سال رواں کے شروع میں تمام ناظمین اضلاع کو سال گزشتہ میں شریک ہونے والی مجالس اور اراکین کی تعداد سے مطلع کیا گیا تا کہ انہیں علم ہو کہ ان کے ضلع کی پوزیشن کیا ہے.ناظمین اضلاع کے اجلاسات میں بھی ناظمین کو ان کے ضلع کی پوزیشن سے آگاہ کیا گیا.اسی طرح اپریل کے مہینہ میں زعماء ضلع جھنگ کا ایک خصوصی اجلاس ربوہ میں منعقد ہوا اور زعماء کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی.نیز ان کی راہ میں جو مشکلات پیدا ہوئیں، ان کا علم حاصل کر کے ان کی رہنمائی کی گئی.(۴) بیرونی مجالس کی ماہانہ رپورٹوں پر حسب ضرورت تبصرہ لکھا گیا اور زعماء کی رہنمائی کی گئی.(۵) ماہانہ رپورٹوں کے مطابق مجالس میں جو کام ہوا وہ کچھ اس طرح ہے.ترجمہ قرآن کریم سیکھنے والے ناظرہ پڑھنے والے قاعدہ پڑھنے والے اراکین حفظ قرآن میں حصہ لینے والے کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ کرنے والے سال رواں سال گزشتہ ۲۱۳ ۷۴۲ ۱۴ ۴۷ ۲۲۶ ۳۲۵ مندرجہ ذیل مجالس کی کارکردگی تسلی بخش رہی: (۱) ناظم آباد کراچی (۲) مارٹن روڈ کراچی (۳) اسلامیہ پارک لاہور (۴) ماڈل ٹاؤن لاہور (۵) دارالذکر لاہور (1) فیصل آباد (۷) ربوہ دیہاتی مجالس میں سے گھسیٹ پورہ ضلع فیصل آباد کا کام اچھار رہا.قیادت تعلیم کے پروگرام میں اطفال الاحمدیہ کا ایک انعامی مقابلہ کرانا بھی شامل ہے اس سلسلہ میں تین مرتبہ الفضل میں اعلان کیا گیا.یہ انعامی مقابلہ اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر منعقد ہوا.اول و دوم آنے والوں کو بالترتیب ۱۲۰ اور ۶۰ روپے بطور انعام مجلس کی جانب سے پیش کئے گئے.امسال اس مقابلہ میں ۱۵ اطفال نے حصہ لیا.رپورٹ قیادت ذہانت وصحت جسمانی قیادت ذہانت و صحت جسمانی نے اس سال مجالس کی توجہ دلائی کہ وہ ایک تو اجتماعی پکنک کا پروگرام

Page 86

۶۶ بنا ئیں.دوسرے اراکین انصار اللہ کو صبح سیر کی عادت اپنانے کی تحریک کریں.مندرجہ ذیل مجالس نے پکنک منائے جانے کی معین رپورٹیں بھجوائیں.مارٹن روڈ کراچی ، ناظم آباد کراچی ، اسلامیہ پارک لاہور، ماڈل ٹاؤن لاہور، فیصل آباد، سکھر، گجرات، پشاور، کوئٹہ، بہاولپور، منڈی بہاؤالدین ، بھون، کوٹلی افغاناں ، سرائے عالمگیر گکھڑ.صبح کی سیر : انصار میں صبح کی سیر کی عادت ڈالنے کے لئے یہ تجویز تھی کہ جو انصارا کثر صبح کی سیر کرتے ہوں ان کے نام مرکز میں ریکارڈ کیے جاویں اور دوسرے انصار کو جو بھی سیر نہیں کرتے ،ترغیب دی جائے.اپنی رپورٹس میں تیرہ مجالس نے لکھا کہ ان کے انصار صبح کی سیر کرتے ہیں مگر مندرجہ ذیل چار مجالس نے انصار کی فہرست بھجوائی.معین الدین پور گجرات ، منڈی بہاؤالدین، گجرات شہر، ماڈل ٹاؤن لاہور رپورٹ قیادت مال (1) گزشتہ سال شوری نے مجلس کا بجٹ حاصل خالص دو لاکھ ستر ہزار روپے تجویز کیا تھا جو۱۹۷۵ء کے بجٹ دولاکھ انتالیس ہزار روپے کے مقابل اڑ میں ہزار روپے زائد تھا.یہ بجٹ خدا کے فضل سے پورا ہو گیا.(۲) گزشتہ سال سالانہ اجتماع تک ۷۲۰ مجالس کے بجٹ تشخیص ہوئے تھے جب کہ امسال اس وقت تک ۷۸۰ مجالس کے بجٹ تشخیص ہو چکے تھے گویا سال گزشتہ کے مقابل ۶۰ مجالس کے زائد بجٹ تشخیص ہوئے.(۳) مجالس سے ۱۵۴۷ خطوط موصول ہوئے اور ۶۹۸۹ خطوط مرکز سے بھجوائے گئے.(۴) روزنامہ الفضل اور ماہنامہ انصار اللہ میں تمیں اعلانات بغرض اشاعت بھجوائے گئے جب کہ سال گزشتہ یہ تعدا دستر تھی.(۵) عرصہ زیر رپورٹ میں نو سرکلر تمام مجلس کو بھجوائے گئے.ماہانہ سرکلرز میں بھی مناسب ہدایات درج کی جاتی رہیں اور مجالس کو بجٹ پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی.(1) امسال بھی ہر سہ ماہی کے اختتام پر تمام مجالس کو ان کے بجٹ وصولی اور بقایا پر بمعہ سابقہ بقایا کی پوزیشن سے مطلع کیا جاتا رہا.امسال خصوصی طور پر تمام ناظمین اضلاع کو بھی ہر سہ ماہی کے اختتام پر بجٹ اور تدریجی وصولی کا گوشوارہ بھجوایا گیا.فروری اور ستمبر کے اجلاسات ناظمین اضلاع میں بھی مالی گوشوارے تیار کر کے پیش کئے گئے.(۷) تین مرکزی انسپکٹر ان نے نو ماہ کے عرصہ میں کل چھ سونو مجالس کا دورہ کیا.(۸) آمد چندہ کی روزانہ رپورٹ صدر محترم کو بھجوائی جاتی رہی تا کہ مالی پوزیشن ہر وقت سامنے رہے.روزانہ رپورٹ کا سلسلہ اسی سال جاری ہوا.وصولی کی ماہوار رپورٹ بمقابلہ سال گزشتہ بھی صدر محترم کی خدمت

Page 87

۶۷ میں بھجوائی جاتی رہی.(۹) قیادت مال کے سلسلہ میں بعض ناظمین اور مجالس کی مساعی خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں.ناظم صاحب ضلع حیدر آباد نے اپنے تقرر کے ایک ماہ کے اندر تمام مجالس کا بجٹ اضافہ کے ساتھ سو فیصدا دا کر دیا.مندرجہ ذیل مجالس نے صحیح آمد پر معیاری بجٹ پیش کئے اور ادائیگی میں بھی سر فہرست رہیں.فی کس اوسط (PER CAPITA) کے لحاظ سے بالترتیب پوزیشن حسب ذیل ہے: میر پور خاص شہر، اسلام آباد، چک ۴۶ شمالی، مارٹن روڈ کراچی، وزیر آباد، ماڈل ٹاؤن لاہور، ناظم آباد کراچی، کوئٹہ، پشاور، کراچی صدر (۱۰) اگلے سال کا بجٹ تیار کیا گیا جو تقریباً چار لاکھ روپے پر مشتمل تھا.رپورٹ قیادت اشاعت (۱) سال رواں میں ماہنامہ انصار اللہ باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا.اس سال کم از کم اشاعت دو ہزار دو سورہی.جبکہ گزشتہ سال کم از کم اشاعت سترہ سو اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار تھی.(۲) عرصہ زیر رپورٹ میں مستقل عنوانات کے علاوہ ۳۸ مضامین ،نوصحابہ حضرت مسیح موعود کے حالات، حضرت مسیح موعود کے ملفوظات اور تحریرات سے ۵۵ اقتباسات نیز ۳۵ مرکزی اعلانات اور رپورٹیں شائع ہوئیں.جماعت کے شعراء کی چھ نظمیں اور ایڈیٹر کی طرف سے تین ادارئیے اور پانچ تحقیقی مضامین شائع ہوئے.(۳) شعبہ اشاعت نے قیادت تربیت و قیادت اصلاح و ارشاد کے تعاون سے چار تربیتی مضامین دود و پمفلٹ کی شکل میں چالیس ہزار کی تعداد میں طبع کروائے.(۴) مبلغین کرام، علماء سلسلہ اور مضمون نگار انصار کو ماہنامہ انصار اللہ میں مضامین بھجوانے کے لئے ۱۳۵ خطوط لکھے گئے.(۵) ماہنامہ کی خریداری بڑھانے کے لئے دورانِ سال مجالس کیلئے ہیں فیصد اضافہ کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا.زعماء کو بار بار تحریک کی جاتی رہی کہ کوئی مجلس ایسی نہ رہے جس میں کم از کم ایک رسالہ نہ جاتا ہو.ان تحریکات کے نتیجہ میں اوسطاً ۱۵۰ خریداران کا اضافہ ہوا.(1) صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے بیرون پاکستان اُردو دان احمدی احباب میں ماہنامہ انصار اللہ کی اشاعت بڑھانے کے لئے ایک خصوصی مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں ۶۲ خریداروں کا اضافہ ہوا.(۷) عرصہ زیر رپورٹ یعنی گزشتہ نوماہ کی ماہنامہ انصار اللہ کی کل آمد۱۹۱، ۱۷ روپے اور خرچ ۷۵۱ ۲۰

Page 88

۶۸ روپے ہوا.گزشتہ سال بارہ ماہ کی کل آمد ۷۸۸۶ اروپے سڑسٹھ پہیے تھی جبکہ دوران سال یکم جنوری اور ۲۲ اکتو بر تک یہ آمد بڑھ کر۲۱۶۹۲ روپے اٹھاسی پیسے تک پہنچ گئی.سال گزشتہ کے دس ماہ کی تدریجی آمد ۱۴۹۰۰ روپے تھی جو اس سال ۲۱۶۹۲ روپے ہے گویا ۶۷۹۲ روپے کا اضافہ ہوا.(۸) مندرجہ ذیل مجالس نے ماہنامہ کی اشاعت بڑھانے اور مقررہ ٹارگٹ کو پورا کرنے میں بہت کوشش کی.ضلع سیالکوٹ ،ضلع فیصل آباد، ضلع راولپنڈی ،ضلع پشاور رپورٹ قیادت وقف جدید (۱) وقف جدید کی اہمیت واضح کرنے کے لئے خلفاء کرام کے ارشادات الفضل میں شائع کرائے گئے.مشتمل باره اعلانات (۲) مجلس مرکزیہ کے جاری کردہ ماہانہ سرکلرز کے ذریعہ دس بار ہدایات بھجوائی گئیں.(۳) زعماء مجالس و ناظمین کرام کی طرف سے آمدہ ۱۰۲۷ رپورٹوں پر مناسب حال نوٹ لکھ کر بھجوائے گئے.اچھا کام کرنے والی مجالس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مجالس کی تاکید کی گئی کہ معین اعداد شمار کے ساتھ رپورٹ بھیجوایا کریں نیز ست مجالس کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی.(۴) مجالس نے دوبارا اپنی متعلقہ جماعتوں کے زیر انتظام عشرہ وقف جدید منایا گیا.(۵) وقف جدید کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل دس مجالس نے بالترتیب اچھا کام کیا: چک ۱۶۳ اشتاب گڑھ ضلع وہاڑی.بھون ضلع جہلم.ناظم آباد کراچی.نصیرہ ضلع گجرات.دارالذکر لاہور.بہاولنگر شہر.چک ۲۷۰ ماتھیلو ضلع تھر پارکر.سرائے سدھو ضلع ملتان.ساہو والا ضلع سیالکوٹ.چک ۱۰/۶۳ ضلع شیخو پوره (1) اضلاع فیصل آباد، گجرات ،سکھر و جیکب آباد، سیالکوٹ، لاہور نے اچھا کام کیا.(۷) ناظمین اعلیٰ میں سے سندھ اور بلوچستان کے ناظمین نے اچھا کام کیا.سندھ کے ناظم اعلیٰ اکثر رپورٹ بھجواتے رہے جبکہ بلوچستان کے ناظم اعلیٰ نے سالانہ رپورٹ بھجوائی.(۸) گزشتہ سال کی نسبت امسال وعدہ جات میں ۸۱۸۲۱ روپے اور کل وصولی میں ۵۰۵۹۸ روپے کا اضافہ ہوا.رپورٹ قیادت تحریک جدید (1) سب سے پہلے جملہ مجالس کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کا خطبہ بابت اعلان سال نو تحریک جدید رسالہ کی صورت میں طبع کروا کر بھجوایا گیا اور پھر ماہانہ سر کلرز کے ذریعہ اس کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی.مجالس کی

Page 89

۶۹ طرف سے آمدہ رپورٹوں پر تبصرہ کر کے ان کی رہنمائی کی جاتی رہی.ناظمین اضلاع سے خط و کتابت کے ذریعہ اور بعض ناظمین سے ذاتی طور پر وعدہ جات کے ذریعہ رابطہ قائم رکھا گیا اور تحریک جدید کے لائحہ عمل کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی.(۲) قائد صاحب تحریک جدید کو اٹھاسی (۸۸) مقامات کا دورہ کرنے کا موقع ملا.اکسٹھ مقامات پر سلائیڈز کی نمائش کے ذریعہ تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی گئی جبکہ سال گزشتہ میں ساٹھ مقامات کا دورہ کیا جاسکا تھا اور اُن میں سے چالیس مقامات پر سلائیڈ ز کی نمائش ہوئی تھی.(۳) عرصہ زیر رپورٹ میں الفضل میں ستر اعلانات کے ذریعہ تحریک جدید کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی جبکہ گزشتہ سال پچاس اعلانات شائع کروائے گئے تھے.(۴) الفضل اور سرکلرز کے ذریعہ یوم تحریک جدید ماہ مئی میں اور ہفتہ تحریک جدید ماہ ستمبر میں منانے کا اعلان کیا گیا.پچاس مجالس کی طرف سے آمدہ رپورٹوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے.کل تعدا د انصار ۴۰ تھی جن میں سے ۷۲۰ انصار تحریک جدید میں شامل تھے.ان میں سے ۴۳ معاونین خصوصی تھے.معاونین خصوصی کا ٹارگٹ یہ تھا کہ کم از کم پچاس فیصد تعداد بڑھائی جائے.مجموعی طور پر معاونین خصوصی کی تعداد ۶۸ سے بڑھ کر ۸۳۴ تک پہنچ گئی.گویا ۲۳ فیصد اضافہ عمل میں آیا.مضامین کے ٹارگٹ بقدربارہ کے مقابلہ پر سولہ مبسوط مضامین اور سات مختصر نوٹس الفضل میں شائع ہوئے.قائد صاحب شروع سال ہی سے اہل قلم حضرات کی قلمی معاونت کی درخواست کرتے رہے.ناظمین اضلاع کو بھی رسالہ سادہ زندگی مہیا کر کے خصوصی درخواست کی گئی.چنانچہ اس سلسلہ میں جن احباب نے تعاون فرمایا، ان کے اسماء گرامی پیش کئے جاتے ہیں.مضامین نگار : مکرم سید احمد علی شاہ صاحب نائب ناظر اصلاح وارشا در بوه ، مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف ربوہ، مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد ر بوه، مکرم مولا نا روشن دین صاحب مربی کوئٹہ مکرم نذیراحمد صاحب خادم لاکھا روڈ سندھ، مکرم مولوی حبیب احمد صاحب مربی گوجرہ ، مکرم مولوی نصر اللہ خان صاحب مربی سیالکوٹ ، مکرم حنیف احمد صاحب مربی بدوملی ، کرم شیخ نثار احمد صاحب لاہور ہمکرم میاں غلام رسول صاحب اعوان ناظم ضلع ڈیرہ غازی خان.مختصر نوٹس لکھنے والے : مکرم بدر الزمان صاحب زاہد کوئٹہ ، مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر مربی حیدر آباد، مکرم مولوی قمر الدین صاحب ربوه، مکرم ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی ناظم ضلع لاہور ، مکرم رانا مبارک احمد صاحب بہاولپور، مکرم عبد الحلیم صاحب اوکاڑہ.

Page 90

رپورٹ قیادت ممالک بیرون قلمی دوستی اس وقت تک دنیا کے اٹھارہ مختلف ممالک میں مجالس انصار اللہ قائم تھیں.ان میں سے چار ممالک یعنی سوئٹزر لینڈ.سپین.سویڈن اور ناروے میں امسال نئی مجالس قائم ہوئیں.ہالینڈ اور گیمبیا میں مجالس کا قیام زیر کارروائی رہا.بیرونی ممالک کی مجالس میں سے بعض بہت فعال رہیں اور مجلس مرکز یہ کے لائحہ عمل کے مطابق مختلف شعبہ جات کی مساعی میں حصہ لیتی رہیں لیکن مرکز سے ان کا رابطہ اتنا گہرا اور باقاعدہ نہیں تھا جتنا کہ ہونا چاہیئے تھا.لہذا امسال تمام بیرونی ممالک سے پختہ اور باقاعدہ رابطہ پیدا کرنے کی خاص طور پر کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں اکثر مجالس کو اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ پیدا ہوئی.پاکستان کی طرح بیرونی ممالک کی مجالس بھی اپنے اپنے علاقہ میں اصلاح وارشاد تعلیم ،اشاعت جنید وغیرہ مختلف شعبہ جات کے تحت کام کرتی رہیں.اس پہلو سے مجلس غانا کی کارکردگی بہت نمایاں اور قابل تحسین رہی.غانا کی مجلس نے اپنے آپ کو ریجن کی سطح پر منظم کیا ہوا تھا.یہاں تین ریجنل مجالس یعنی اشانٹی ریجن ہسنٹرل ریجن اور BRONG AHAFO REGION کی مجالس نے مقامی طور پر بھی اور ریجنل سطح پر بھی اپنی مساعی جاری رکھی.چنانچہ اشانٹی ریجن کی باقاعدگی سے جنرل میٹنگز ہوتی رہیں.شعبہ تعلیم کے تحت قرآن مجید کے علاوہ مبتدی انصار کو قاعدہ میسر نا القرآن پڑھانے کا بھی انتظام تھا.سنٹرل ریجن کی مجلس نے اس سال اپنا پہلا سالانہ اجتماع منعقد کیا.اس ریجن کے تمام گیارہ سرکٹس میں مجلس کی تنظیم کی جا چکی تھی.مجلس انصار اللہ نائیجیریا نے بھی اپنا چھٹا سالانہ اجتماع امسال ۲۹.۳۰ ستمبر بروز ہفتہ، اتوار بمقام اونڈ و ON) کیا جس میں تقریباً ۵۰۰ احباب نے شرکت کی.اس اجتماع میں علماء سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ مختلف مقابلہ جات بھی ہوئے جن میں انصار کی بڑی تعداد نے بہت دلچسپی سے حصہ لیا.زعماء نے اپنی اپنی مجالس کی مساعی کی سالانہ رپورٹیں اور ناظم صاحب اعلی نائیجیریا نے سالانہ رپورٹ پیش کی اور آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ جہاں مجلس کا قیام عمل میں نہیں آسکا.آئندہ سال کوشش کی جائے.برطانیہ میں امسال ۵ اور ۶ مئی کو مجلس انصار اللہ لندن نے اپنے دوسرا سالانہ اجتماع منعقد کیا.اس اجتماع سے دیگر مقررین کے علاوہ محترم امام صاحب مسجد لندن اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی خطاب فرمایا.دن کے اجلا سات میں حاضری نوے اور سو کے درمیان رہی.جبکہ سینتیس دوست رات کو بھی مقامِ اجتماع میں مقیم اور نماز تہجد میں شامل ہوئے.مجلس انصار اللہ لندن نے مسلمانوں کی سہولت کے لئے برطانیہ کے مختلف علاقوں میں نمازوں کے

Page 91

اوقات پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا.مورخہ ۲۲ اور ۲۳ ستمبر ۱۹۷۹ء کو برطانیہ کی مجالس انصار اللہ کا اجتماع منعقد ہوا.جس کے لئے محترم صدر صاحب مجلس مرکزیہ نے بھی پیغام بھجوایا.سیرالیون کی مجلس نے انگریزی زبان میں دو پمفلٹ دیتامی اور ہماری ذمہ داری“ اور ” ناپ تول کے عناوین سے شائع کئے.موخر الذکر پمفلٹ میں لین دین کے بارہ میں اسلامی تعلیمات کو پیش کیا گیا.جرمنی میں فرینکفرٹ اور ہمبرگ میں مجالس انصار اللہ قائم تھیں.فرینکفرٹ میں جنوری ۱۹۷۹ء سے جولائی تک با قاعدگی سے مجلس کے اجلاس ہوتے رہے نیز مجلس کے تحت اطفال کی دینی تعلیم کا انتظام شروع کیا گیا.سوئٹزر لینڈ کی مجلس کو قائم ہوئے اگر چہ بہت کم عرصہ ہوا تھا لیکن اُس نے محنت اور لگن سے کام شروع کیا.یہ مجلس ماہانہ رپورٹیں بھجوانے میں بہت با قاعدہ رہی.باقاعدگی سے ماہانہ اجلاس منعقد ہوتے رہے جن میں علاوہ اور امور کے کم از کم ایک دوست کسی علمی موضوع پر مضمون پڑھتے رہے.مبتدیوں کو قرآن مجید اور نماز سکھانے کا کام بھی شروع کیا گیا.مجلس نے اسلام پر شائع ہونے ہوالی کتب اور مضامین کو بھی اکٹھا کیا تا حسب ضرورت ان میں شائع شدہ اعتراضات کا جواب دیا جا سکے.رپورٹ شعبہ آڈٹ قواعد کے مطابق عاملہ انصار اللہ کے لئے مرکزیہ میں آڈیٹر کا اضافہ کیا گیا ساتھ ہی دستور اساسی کے مطابق ناظمین اضلاع کو بھی اپنی مجالس عاملہ میں ایک آڈیٹر کا رکھا جانا ضروری قرار دیا گیا تا اپنی مجلس کے حسابات آڈٹ کروا کر اس کی ماہانہ رپورٹ بھی مرکز کو بھجوائیں.ماہانہ سرکلر ز اور چٹھیوں کے ذریعہ نہ صرف ناظمین اضلاع کو بلکہ بڑی بڑی مجالس کے زعماء کرام کو بھی لکھا جاتا رہا کہ آڈیٹر کے ذریعہ اپنی مجالس کے حسابات آمد و خرچ کی پڑتال کرواتے رہا کریں تا کہ انہیں بھی اور مرکز کو بھی مجالس کے حسابات پر تسلی رہے.صدر محترم کی ہدایات کی روشنی میں مرکزی دفتر انصار اللہ کے حسابات کی بھی پہلے کی نسبت زیادہ بہتر رنگ میں رکھنے کی راہنمائی کی جاتی رہی اور جہاں اصلاح کی ضرورت تھی ،اصلاح کی گئی.جنوری ۱۹۷۹ء سے اکتوبر ۱۹۷۹ء تک دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے دس بل مالیتی ۵۲۸۷۸ روپے ۸۸ پیسے اور سائر اخراجات کے سوبل مالیتی ۱۵۲۵۹۵ روپے پیسے پڑتال کے بعد پاس کئے گئے.(۲۶)

Page 92

۷۲ ١٩٨٠ء سال نو کے آغاز پر صدر محترم کا پیغام ۱۹۸۰ کے آغاز میں قائدین کی منظور شدہ سکیموں کی روشنی میں مجالس کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا جو ہدایات“ کے نام سے مجالس کو بھجوایا گیا.اس کے پیش لفظ کے طور پر صدر محترم نے 9 فروری ۱۹۸۰ء کوتحریر فرمایا."بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعَوْدِ مجلس انصار اللہ کے قیام کا مقصد اور لائحہ عمل تمام تر قرآن کریم کی اس چھوٹی سی آیت میں بیان ہو چکا ہے.كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِثُونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کہ جب عیسی ابن مریم نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ کون ہے جو خدا کا مددگار ہے تو حواریوں نے کہا.ہم ہیں خدا کے مددگار ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مراد اس کے رسول اور اس کے دین کی مدد کرنا ہے.پس انصار اللہ کا کام مسیح ثانی کے عہد میں بھی وہی ہے جو مسیح اول کے وقت میں تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے دین کی مدد کرنا اور مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر تجدید عہد کر کے اس عہد کو نبھانا کہ ”ہم انصار اللہ ہیں ہمارا کام ہے.پس ہر وہ نیک کام جس کی طرف وقت کا امام اللہ کے نام پر ہمیں بلائے ، اس میں دل و جان سے اپنے امام کی مدد کرنا انصار اللہ کا کام ہے.موجودہ لائحہ عمل جو قائدین مرکزیہ نے بڑی توجہ سے تیار کیا ہے ، تمام تر ایسے ہی نیک کاموں پر مشتمل ایک عملی پروگرام ہے.اور میں توقع رکھتا ہوں کہ جملہ انصار اللہ اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی مخلصانہ کوشش کریں گے.انشاء الله تعالى و بالله التوفيق.گذشتہ سال اس مقصد کو احسن رنگ میں پورا کرنے کی غرض سے مرکز کی طرف سے جو ہدایات جاری کی گئی تھیں، ان میں اس پہلو پر بہت زور تھا کہ ایسے کام کو با قاعدہ ایک تدبیر اور سکیم کے ماتحت چلائیں اور ر پورٹیں مضمون نگاری کے رنگ میں نہیں بلکہ اعداد شمار کی صورت میں مرتب کریں تا کہ نہ آپ کسی خوش فہمی میں مبتلا ر ہیں، نہ مرکز کسی غلط نہی میں.جو قدم بھی ہم بفضل تعالیٰ آگے بڑھانے میں

Page 93

۷۳ کامیاب ہوسکیں ، ہمیں یقینی طور پر علم ہو کہ کس کس شعبہ میں معین طور پر کتنا کام ہو چکا ہے اور کس کس شعبہ میں ہم کچھ نہیں کر سکے.کچھ مجالس نے ان ہدایات پر عمل کیا اور فائدہ اٹھایا لیکن بہت سی مجالس ابھی تک اس ہدایت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکیں.ناظمین ملک اور ناظمین اعلیٰ اور ناظمین ضلع سے میں توقع رکھتا ہوں کہ امسال اس پہلو سے مجالس کی تربیت پر خاص توجہ دیں گے.تربیت کا کام بہت ہی مشکل اور صبر آزما ہے.ہاتھ پکڑ کر قدم قدم چلنا سکھانا ہوتا ہے اور مستقل مزاجی کی بہت ضرورت ہے.دعا بھی کرتے رہیں کہ دعا کے بغیر ہمارا کوئی پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا.گزشتہ سال مجالس نے رپورٹوں کی ترسیل کی طرف باوجود کوشش کے کماحقہ توجہ نہیں دی.امسال اس حصہ کی طرف بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے.تمام ناظمین ملک وضلع کو چاہیے کہ ایسی مجالس کی نام بنام فہرست تیار کریں جن سے رپورٹیں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ماہ بماہ اپنی کامیابی کا جائزہ لیتے رہیں.سال گذشتہ کی طرح امسال بھی تبلیغ کے کام کی طرف خصوصی توجہ دینے کا پروگرام ہے اور ٹارگٹ یہ مقرر کیا گیا ہے کہ اگر تمام انصار فی الحال اس قابل نہیں ہو سکتے تو کم از کم ہر مجلس یہ کوشش کرے کہ امسال تبلیغ کے ذریعے ایک نئی مجلس کا قیام کر کے اپنی روحانی زندگی اور نشو ونما کا ثبوت دے.اس ضمن میں حضرت اقدس مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اقتباس پیش کرنے کے بعد اب اجازت چاہتا ہوں.یہ اقتباس حضور کے ایک تنقیدی تجزیہ پر مشتمل ہے جس میں حضور نے جماعت کے اس رجحان کو سخت نقصان دہ قرار دیا ہے کہ تبلیغ کرنا گو یا صرف مبلغ کا کام ہے.چنانچہ مبلغین کی کثرت کی وجہ سے انفرادی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.موجودہ مبلغوں کی وجہ سے چند نقص پیدا ہو گئے ہیں.پہلا سلسلہ کے لٹریچر سے لوگ ناواقف ہو گئے ہیں.پہلے خود کتابیں پڑھتے تھے اور دلائل یا درکھتے تھے مگر اب یہ کام انہوں نے مبلغ کا سمجھ لیا ہے.اگر ہر فرد تبلیغ کرے گا تو وہ مجبور ہو گا کہ دلائل یا در کھے اور اس کے لئے کتابیں پڑھے گا.دوسرا یہ کہ تبلیغ کا مادہ کم ہو گیا ہے.پہلے لوگ خوب واقف تھے.تیسرا، آپس کے لڑائی جھگڑے پیدا ہو گئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں.فارغ ہیں، کام نہیں.اگر ہر احمدی دشمنوں کے جمگھٹے میں گھرا ر ہے تو ایسا نہ ہو.چوتھا، بزدلی پیدا ہو گئی ہے پہلے غیروں میں جاتے جو مارتے اور اس طرح ان میں جرات پیدا ہوتی.اب مولویوں کا جتھہ بنا کر لے جاتے ہیں اور کوئی نہیں مارتا.پانچواں، تبلیغ کم ہو گئی ہے.جب تین

Page 94

۷۴ رہ گئے تو تبلیغ کیا ہو.پہلے دس ہزار جماعت تھی اور سارے مبلغ تھے اس لئے تبلیغ خوب ہوتی تھی.اب پانچ سات رہ گئے ہیں.چھٹا یہ کہ اثر کم ہو گیا ہے.پہلے ہر ایک کو یہ احساس تھا کہ میں کمزور ہوں.اس لئے ہر احمدی دعائیں کرتا تھا.اب کہتا ہے کہ جب کوئی اعتراض کرے گا تو مولوی کو بلالوں گا.پہلے دعاؤں کی طرف توجہ تھی اور خدا پر نظر تھی اس لئے تبلیغ کا بڑا اثر ہوتا تھا.اس لئے ضروری ہے کہ ہر جماعت میں تبلیغی سیکرٹری ہوں.آگے اس کے مددگار ہوں.مددگار مبلغ نہیں.مبلغ تو ہر ایک ہوگا.وہ اسسٹنٹ سیکرٹری ہوں گے.سیکرٹری سب مذاہب کا مطالعہ کریں اور باقی ایک ایک مذہب کا مطالعہ کریں اور اگر زیادہ ہوں تو دود و نائب مقرر کریں اور ان لوگوں کا یہ فرض ہو کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں.اور اپنے اپنے صیغوں کی رپورٹیں بھیجیں اور پھر یہ اسی طرح سب سے کام لیں جس طرح چندہ لینے والا سب سے لیتا ہے اور ہر ایک سے تبلیغی رپورٹ لیں.مبلغوں کے بلانے کا سلسلہ بند کیا جاوے.کیا ہوا اگر شکست ہو جائے.اگر کوئی کمزور ہے تو خود توجہ کرے.پس ڈرنا چھوڑ دو.ڈرنے سے نقصان ہو رہا ہے.“ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، فرض شناسی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسلسل محنت کرتے ہوئے ، حکمت کے تقاضوں کوملحوظ رکھتے ہوئے ، دردمندانہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اگر مجلس انصار اللہ کے عہدیداران کوشش کرتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کبھی ان کی محنت کو ضائع نہیں فرمائے گا بلکہ توقع سے بہت بڑھ کر اور کوشش سے کہیں زیادہ ان کو اجر سے نوازے گا.پس ہم اسی پر توکل کرتے ہیں.اسی سے مدد مانگتے اور اسی سے نیک نتائج کی امید رکھتے ہیں.“ ۲۷ سیدناحضرت خلیفہ مسیح اثبات کا مجلس کراچی سے اہم خطاب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۲ مارچ ۱۹۸۰ء کو کراچی کی مجلس انصار اللہ کے ممبران میں تشریف فرما ہوئے.اس موقعہ پر آپ نے انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ایک آبی جانور منگ ہے.جب یہ ڈار کی صورت میں پرواز کرتا ہے تو ایک بڑا منگ سب سے آگے ہوتا ہے، وہ اپنے ہم جنس قافلہ کی قیادت کرتا ہے.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ تھک جاتا ہے تو وہ اپنی پوزیشن نمبر ایک چھوڑ دیتا ہے اور پیچھے سے ایک اور منگ اُس کی جگہ قیادت کے لئے آجاتا ہے.سب سے مشکل پرواز اس قائد منگ کی ہوتی ہے.فرمایا انصار اللہ کی مثال اس گروہ کی ہے جو یکے بعد دیگرے آگے آتے اور LEAD کرتے ہیں.یہ جماعت کے قائد ہیں.اس سے پیچھے خدام الاحمدیہ ہیں.انصار اللہ کی ذمہ داری ہے کہ یہ خدام کی راہ کو ہموار کریں

Page 95

۷۵ ان کی کوشش اور سعی کو آسان بنانا انصار کی ذمہ داری ہے.فرمایا LEAD کرنے والے منگ کا کام پچھلوں کے لئے سہولت پیدا کرنا ہے.جماعت احمدیہ میں مختلف AGE GROUP بنا دیے ہیں.ان تنظیموں میں سب سے اہم اور مشکل ذمہ داری بعض لحاظ سے انصار اللہ کی ہے.ان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کو دلائل کے ساتھ نشانات کے ساتھ ، معجزات کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ، پیار کے ساتھ ، حسنِ اخلاق کے ساتھ، بے لوث خدمت کے ساتھ اسلامی حسن کو دُنیا کے سامنے پیش کریں.اسلام کی قوتِ احسان کو وہ اپنے اندر جذب کر کے دنیا کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچیں.ہر احمدی نے ہر غیر مسلم کے لئے جذب پیدا کرنا ہے اور اسے اسلام کی طرف لانا ہے.اس خطاب میں حضور نے صلحائے اسلام کی مثالیں پیش کیں.مثلاً حضرت داتا گنج بخش ،حضرت خواجہ اجمیری کہ کس طرح انہوں نے مخالف ماحول میں ڈیرے ڈالے.﴿۲۸﴾ حضور کے خطاب کا متن وو حضور رحمہ اللہ کے خطاب کا مکمل متن ابھی تک غیر مطبوعہ ہے.اسے یہاں پیش کیا جارہا ہے.انصار اللہ جماعت کے قائد ہیں.انہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہئے.ایک آبی جانور ہے جس کا نام ہے مگ.جس وقت یہ اُڑتا ہے اور لمبی اس نے پرواز کرنی ہو تو اس کی شکل ڈار کی طرح بن جاتی ہے.سب سے آگے ایک ہوتا ہے اور یہ ان کا لیڈ ر ہوتا ہے.سب سے مشکل پرواز اس ایک مگ کی ہے کیونکہ اس کی پرواز سے جو پر ملتے ہیں، اس سے ہوا میں ایسی حرکت پیدا ہوتی ہے کہ پیچھے آنے والے جو اس کے ساتھی لگ ہیں ، ان کو اڑنے میں سہولت ہو جاتی ہے.اور کچھ عرصے کے بعد جب یہ تھک جاتا ہے تو اُن کو خدا تعالیٰ نے یہ عقل دی ہے کہ ڈار میں سے جو سب سے آگے سب سے مضبوط مگ ہے، وہ ڈار میں اپنی پوزیشن نمبر ایک چھوڑ دیتا ہے.پیچھے سے ایک اور آگے اس کی جگہ پہ آ جاتا ہے اور وہ آگے اُن کو لیڈ LEAD کرتا ہے اور یہ پیچھے ہو جاتا ہے.انصار اللہ کی مثال اس گروہ کی ہے جو یکے بعد دیگرے آگے آتے اور لیڈ LEAD کرتے ہیں.یہ قائد ہیں جماعت کے.ایک اور مثال میں انہیں سپئیر ہیڈ SPEAR HEAD بھی کہا جا سکتا ہے.ان سے پیچھے خدام الاحمدیہ ہیں.اُن کی راہ کو ہموار کرنا.ان کی کوشش اور سعی کو آسان بنا دینا ، یہ ذمہ واری انصار اللہ کے اوپر ہے.اور پیچھے پھر ایک اور گروپ ہے جسے ہم اطفال کہتے ہیں.انصار اللہ بوڑھوں کا نام نہیں، انصاراللہ سب سے زیادہ طاقتور ہمت والوں کا نام ہے یعنی جماعت احمدیہ کے اُس حصہ کا نام ہے جو اپنے کام میں سب سے زیادہ طاقتور ہے.کوئی شخص یہ کہے اجی بڑی عمر میں بہت سی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہے.تو وہ تو ہے جسمانی لحاظ سے کمزوری.اگر انصار اللہ.اگر یہ جماعت پہلوانوں کی جماعت ہوتی تو اُن کے جو

Page 96

بوڑھے ہیں جو پہلوانی کے قابل نہیں رہے، وہ قیادت نہیں کر سکتے مگر ایک کے بعد دوسرا آ جاتا ہے.تو چھوڑ دیتے ہیں میدان کو.انصار اللہ جو ہیں اُن کا کام میدان چھوڑنا نہیں.میدان صاف کرنا ہے.ہمت ہارنی نہیں جو نسبتا کم تجربہ رکھنے والے، نسبتاً کم عمر والے ہیں.اُن کے لئے آگے بڑھنے کی راہ کو زیادہ آسان بنانا ہے.جیسا کہ مگ کی ڈار میں سب سے زیادہ مضبوط سمجھدار مگ جو ہے وہ آگے ہوتا ہے.وہ لیڈ کرتا ہے.وہ پچھلوں کے لئے سہولت پیدا کر دیتا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ میں مختلف AGE GROUP بنادیئے گئے اور AGE GROUP کے لحاظ سے تنظیمیں بنا دی گئیں.ان تنظیموں میں سب سے اہم ذمہ داری ، بعض لحاظ سے سب سے زیادہ مشکل ذمہ واری انصار اللہ پر ہے.خدام الاحمدیہ میں بہت سے ایسے ہیں اور ہوتے رہیں گے کہ جن پر یہ ذمہ واری نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں.کیونکہ ابھی اُن کی شادی نہیں ہوئی.سولہ سال کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہو جاتا ہے.تو اگر جلدی بھی شادی ہو تو ہیں سال کی عمر میں یا کم و بیش اٹھارہ بیس سال کی عمر میں ہونی چاہئیے.ہمارے ہاں زیادہ عمر میں شادی کرنے کی بد رسم پڑ گئی ہے.لیکن بہر حال خدام الاحمدیہ کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس پہ یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں جس رنگ میں ایک احمدی بچے کی تربیت ہونی چاہیے لیکن انصار اللہ میں اگر کوئی ایسا ہے کہ اُس کے بچے نہیں تو اُس کا استثناء یہ ہے کہ اُس کے بچوں کی تربیت اُس کے اوپر نہیں.مثلاً بعض ایسے لوگ ہیں جن کے بچہ پیدا ہی نہیں ہوتا.یہ ہزار میں سے ایک ہوتا ہے شاید دس ہزار میں سے ایک ہو.اس میں خدا تعالیٰ کی شان ہے، جب نہیں دینا چاہتا نہیں دیتا.کوئی زبر دستی تو انسان نے اس سے بچہ نہیں لینا.دنیا پہ نگاہ ڈالیں ، شاید لاکھ میں سے ایک، ایسا جوڑا ہو جن کے ہاں اولاد نہیں ہوئی.بہت ہی شاذ ایسے ہیں کہ جن کے سارے ہی بچے کسی ایکسیڈنٹ میں وفات پا جاتے ہیں.یہ ذمہ داری کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں، اُن کی یہ ذمہ داری نہیں رہتی.لیکن اکثریت اور قانون کے طور پر اُن کا مقام انسانی معاشرہ میں ایک ایسے انسان کا مقام ہے جس کے بچے ہیں اور جن کی تربیت کی ذمہ داری اُن پر ہے.جن کے بچے ہیں وہ جب اپنی خدام کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ خدام الاحمدیہ کے ممبر ہیں.اس عمر میں خدام الاحمدیہ کا ایک چھوٹا سا حصہ، ایک دائرہ ایسا ہے جو ہر گھر میں اپنے باپ کی تربیت بھی لے رہا ہے اور اجتماعی طور پر سارے مل کے اپنے باپوں سے تربیت حاصل کر رہے ہیں.انصار اللہ سے تربیت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے باپ جو ہیں وہ عام قاعدے کے مطابق انصار اللہ کے ممبر ہیں.عام، میں نے اس لئے کہا کہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں خدام، جن کے والدین احمدی نہیں.انصار اللہ کے ممبر ہی نہیں.اس واسطے

Page 97

22 اُن کے والدین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خدام الاحمدیہ کے اصول کے مطابق اپنے احمدی بچوں کی تربیت کریں.انصار اللہ اس لحاظ سے ہماری جماعت میں سب سے زیادہ فعال حصہ ہونا چاہیئے.میں نے پہلے بھی بتایا کہ وہ فعال کشتی میں نہیں.وہ فعال اپنے میدان میں ہیں.اُن کو تجربہ ہے.عمر گذاری ہے اکثر نے بہتوں نے نہیں بھی.لیکن اکثر نے ایک عمر گزاری ہے اس تربیت میں.ان کی ذمہ واریاں آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے بڑھائی ہیں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایک ہی دن میں آٹھ یا دس یا چار یا پانچ بچے نہیں جنتے.اگر ایک دفعہ ہی ماں بچے جن دیتی تو سارے بچوں کی ذمہ واری یکبار پڑ جاتی.اب تو ایک بچہ ہوا.وہ بچہ باپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح تربیت کرنی ہے.اور بہت سی غلطیاں جو پہلے بچے کی تربیت میں بعض لوگ کر جاتے ہیں، دوسرے بچے کی تربیت میں اس کو CORRECT کرتے ہیں، اُس کی اصلاح کرتے ہیں.انصار اللہ کا نمبر جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے، تربیت کا تجربہ اس کا بڑھتا چلا جاتا ہے.اس لئے جو جماعتی ذمے داریاں ہیں وہ سب سے زیادہ انصار اللہ کو یعنی ممبران انصار اللہ کوادا کرنی ہیں.CONSCIOUSLY بیدار ہو کر اُن کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہئیے.ہماری بنیادی ذمہ داری ہماری بنیادی طور پر ایک ہی ذمہ داری ہے.وہ یہ ہے کہ دین اسلام کو دلائل کے ساتھ ، نشانات کے ساتھ ، معجزات کے ساتھ محبت کے ساتھ، پیار کے ساتھ ، حسن اخلاق کے ساتھ ، بے لوث خدمت کے ساتھ ، اسلام کے حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اور اللہ نے اسلام میں جو قوتِ احسان پیدا کی ، اُس کے مطابق اپنی زندگی نبھا کے دنیا کو اس کی طرف کھینچنا ہے.جذب کرنا ہے جس طرح مقناطیس لو ہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.ہر احمدی کو ہر غیر مسلم کے لئے جذب پیدا کرنا ہے اور اس زمانہ میں اسلام کی طرف اُسے لے کے آنا ہے.زمانہ زمانہ کے مزاج بدل جاتے ہیں اور مزاج کے ساتھ زمانے کی ضرورت بدل جاتی ہے.زمانے کی سمجھ بوجھ اور عقل میں ایک تبدیلی آتی ہے.آج سے مثلاً پانچ سات سو سال پہلے یوروپی انڈسٹریل ریوولیوشن ہمیں اُفق حیات انسان پر نظر نہیں آ رہی تھی.اُس وقت اُس معاشرے کے مطابق انسان کی عقل تھی.اُس کے مطابق انسان کو سمجھانے کے لئے ایک خاص قسم کے دلائل تھے.اس وقت اسلام کے حسن کا ایک خاص پہلو تھا جو سامنے رکھنا پڑتا تھا.معجزات ایک خاص قسم کے تھے جس کا مطالبہ وہ زمانہ، وہ مزاج کر رہا تھا.آپ انبیاء کی تاریخ پر غور کریں.کسی نبی کے معجزات بعد میں آنے والے نبی کی زندگی میں دہرائے نہیں گئے.اس میں بہت سی اور حکمتیں بھی ہیں جن کی تفصیل میں اس وقت میں نہیں جاتا.ایک بات تو واضح ہے نا کہ حضرت ابراہیم

Page 98

ZA علیہ السلام نے جو معجزات دکھا کے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور پیار کو پیدا کرنے کی کوشش کی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن معجزات کی ضرورت نہیں تھی.اس واسطے کہ اس زمانہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جن کو مخاطب کرنا تھا اُن کا مزاج بدل چکا تھا.وہ ایک نیا SET معجزات کا مطالبہ کر رہا تھا.جیسا اُن کا مزاج تھا اُس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اُن کو معجزات دکھائے اور اپنی عظمت کو قائم کیا اور وہ جو اَنَا رَبُّكُمُ الاعلی کہنے والا تھا.اسے جو حقیقی رب ہے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى حقیقی اعلیٰ رب تو خدا ہے ) اُس نے اپنے علوشان اور عظمت کے ظاہر کرنے کے لئے اور معجزے دکھائے.حضرت عیسی علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے.آپ کی شریعت کے مطابق معاشرے کو قائم کرنے والے لیکن یہود کی زندگی کے اندر مزاج بدل چکا تھا.حضرت عیسی علیہ السلام اُن کو سمجھانے کے لئے ایک اور قسم کے معجزات لے کر آئے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامل تعلیم لے کے آئے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل تعلیم لے کے آئے.قیامت تک کے لئے جس قسم کے معجزات کا مطالبہ ہر صدی کا مزاج کر سکتا تھا، اُس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ معجزات کے ظاہر ہونے کا سبب پیدا کر دیا.چنانچہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ مثلاً یہ آپ ایک بات یا درکھیں.وہ کسی احمدی کو بھولنی نہیں چاہئیے کہ اب ہم جس زمانے میں داخل ہو گئے ہیں جس زمانے کی طرف میں بات کرتا آپ کو لے آیا، اس کے لئے ضروری ہے کہ بعثت نبوی کے بعد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوئی شخص اپنے طور پر کچھ بھی خدا سے حاصل نہیں کر سکتا.جو کچھ بھی پاسکتا ہے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پاسکتا ہے.اس لئے قیامت تک جو ظاہر ہونا تھا، وہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں ظاہر ہونا تھا.خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی معجزے ہمیں نظر آئے.بعد کی صدیوں میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح جو اولیاء اللہ آئے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا اور آپ کے وجود باجود میں اپنی استعداد کے مطابق فانی ہوئے ، اپنے اپنے زمانہ میں انہوں نے بھی نشان دکھائے.یہ ہمارے لاہور میں ہی داتا صاحب ، یہ جس وقت آئے یہاں بیٹھے ہیں وہاں اس علاقے میں بڑے ہندو بستے تھے اور وہ بنیا فطرت ، پیسے سے محبت کرتے تھے اور بہت سارے گجر تھے.کثرت سے یہ آتے جاتے تھے.دعا کریں میری بھینس ٹھیک ہو جائے.دودھ بڑھ جائے اور خدا تعالیٰ اُن کی دعا کوسنتا تھا اور اُن کے لئے نشان بنا دیتا.یہ نشان ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نشان ، داتا صاحب کی وساطت سے ان لوگوں کو پہنچ رہا تھا.تو جیسے اُن کے دنیوی

Page 99

۷۹ لحاظ سے محمد ود دماغ تھے اور بڑے دنیوی دماغ اور زمینی دماغ تھے ، اس کے مطابق خدا اُن کو نشان دکھا رہا تھا اور اسلام کی طرف اُن کو بلا رہا تھا.ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ اپنے اس طرف کے بزرگوں کے بارہ میں تو ہم بہت کچھ پڑھتے رہتے ہیں ، ہمارے علم میں آتا ہے.تو بنگلہ دیش میں جو اصولاً ایک حصہ ہے پاکستان کا کہ ہمارے ملک کا وہ بھی حصہ ہے، وہاں کے جو بزرگ ہیں، اُن کے متعلق بھی کچھ پڑھا جائے تو میں نے اُن کے متعلق کچھ کتابیں لے کے پڑھیں.وہاں ایک بڑے بزرگ تھے.بڑے بے نفس انسان، جنگل میں ڈیرہ لگا کے بیٹھ گئے.سینکڑوں آدمی اُن کے گرد جمع ہو گیا.اُس علاقے کے راجہ کے بیٹے بھی اُن کے اثر کے نیچے آگئے.راجہ ہندو تھا.اُس کے مصاحبوں نے کہا کہ یہ تو مسلمان ہو جائیں گے.ان کی فکر کرو.اُن کا اثر بڑا تھا.کچھ کر نہیں کر سکتا تھا.آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ اُن کی دعوت کی جائے اور بڑی عزت اور احترام کے ساتھ راجہ صاحب اُن کو بٹھا ئیں اور کھانا SERVE کیا جائے لیکن اُن کے شربت میں پینے کی جو چیز پیش کی جائے ، اُس میں زہر ہو اور اس طرح انہیں ماردیا جائے لیکن اُن کو بچوں نے ہی باپ کے خلاف آکے بات بتادی کہ اُن کا یہ پروگرام ہے.انہوں نے ، اُن کے ساتھیوں نے کہا کہ آپ دعوت میں جانے سے انکار کر دیں.انہوں نے کہا کہ کیوں انکار کر دوں.میں تو جاؤں گا.چنانچہ وہ دعوت میں چلے گئے.اصل تو نشان اُن کا یہ تھا کہ خدا نے اُن کو اتنا اثر دیا تھا کہ جس شخص نے سازش کی ، اُسی کے بیٹے نے آکے سچی بات اُن کو بتادی.تو یہ معجزہ تھا، وقت پر اطلاع ہو جانا.تو کئی سو آدمی اُن کے ساتھ جا کے دستر خوان پر بیٹھ گئے.اُس نے مشروب کا وہ پیالہ اُن کے سامنے پیش کر دیا.اُنہوں نے وہ آرام سے اُٹھایا.اُس کا ایک گھونٹ لیا اپنے ساتھی کو دے دیا.اُس نے ایک گھونٹ لیا پھر تو وہ تبرک بن گیا ناں.ہر ایک نے ایک گھونٹ لیا اور پیتا چلا گیا.وہ زہر جو ایک آدمی کو قتل کر سکتا تھا وہ زہر دو سو آدمی کو نہیں مار سکتا تھا.تو وہ اُس کے لئے نشان بن گیا.تو ہر موقعہ اور محل کے مطابق وہ نشان ظاہر کرتا ہے.نشان کوئی شعبدہ بازی نہیں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون نے کہہ دیا تھا ناں کہ اچھا میں بھی جادو گر ا کٹھے کرتا ہوں تو اُن کے ساتھ مقابلہ ہو جائے.وہ تو تماشا سمجھا تھا ناں.اس تماشے کے اثر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے زائل کر دیا.تو میں بتا یہ رہا ہوں کہ زمانہ اپنے مزاج کے مطابق دلائل کا بھی مطالبہ کرتا ہے.نشانات کا بھی مطالبہ کرتا ہے.معجزات کا بھی مطالبہ کرتا ہے.اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھنے والے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جو فانی لوگ ہیں، وہ دُعائیں یہ کرتے ہیں کہ اُن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کے نظارے دکھائے جن کو ہم معجزہ کہتے ہیں.ورنہ اب یہ زمانہ بدل گیا کہ دنیا

Page 100

سکر کے چھوٹی ہو گئی.اُس وقت سیاح نکلتے تھے تو گھر میں سلام کر کے جاتے تھے، پتہ نہیں پھر ملیں گے بھی کہ نہیں.اس زندگی میں ایسا نہیں اور ساری دنیا کا چکر کاٹ کے آپ چو میں گھنٹوں کے اندراندرگھر پہنچ جاتے ہیں.ابن بطوطہ نکلا تھا تو وہ جب واپس آیا ہو، شاید اُس کے بچوں نے بھی اُسے پہچانا نہیں ہوگا.شاید اُس نے بھی نہ پہچانا ہو.زمانہ بدل گیاناں، چھوٹا ہو گیا.زمین سکڑ گئی.ساری دنیا کو مسلمان بنایا جائے اب یہ امریکہ یہاں سے کوئی کم و بیش دس ہزار میل ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ مجھے اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ میرے ذریعے اور میری جماعت کے ذریعے ساری دنیا کو مسلمان بنایا جائے.پھر ساری دنیا میں جس جگہ جو مزاج اس زمانے کا ہے اُس کے مطابق اُن کو دلائل بھی بتانے پڑیں گے.اُس کے مطابق خدا تعالیٰ نشان بھی اُن کو دکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد اب قریباً اکانوے سال ہو گئے.ویسٹ افریقہ یہاں سے پانچ چھ ہزار میل دور ہے، وہاں سے مجھے اپنی خلافت کے تیسرے سال ایک عورت کا یہ خط آیا کہ بیالیس سال ہو گئے ہیں شادی کو اور لڑ کا کوئی نہیں یا یہ کہ بچہ ہی کوئی نہیں.بہر حال وہ چاہتی تھی کہ دعا کریں ، خدالر کا عطا فرمائے.خیر میں نے اُن کو لکھا کہ تم بھی دعا کرو.میں بھی دعا کروں گا.یہ واقعہ ہے کوئی ۶۶ یا ۶۷ ء کا.کیونکہ جب ہم ۷۰ء میں گئے ہیں تو کوئی دو تین سال کا بچہ اُس کی گود میں تھا.اللہ تعالیٰ نے اُس کو یہ نشان دکھایا کہ اُس کے ہاں بچہ ہو گیا.ایسٹ افریقہ میں ایک سکھ جو کسی احمدی کا دوست تھا، اُس نے مجھے لکھنا شروع کیا کہ میری یہ ضرورت ہے، آپ دعا کریں.وہ لکھتا رہا.ایک دن اُس کا یہ خط آیا کہ میں اس طرح آپ کو لکھتارہا اور آپ کی دعا خدا نے قبول کی ، میرا کام ہو گیا.تو میں تو اب بھی آپ کو لکھتا رہوں گا لیکن آپ کو ضرورت نہیں میرے خط کا جواب دینے کی.آپ کے پیسے کیوں ضائع ہوں.وہ اپنی طرف سے پیسے بچارہا تھا.میں نے دفتر کو کہا کہ یہ تو اس کا اپنا خیال ہے.وہ جو خط لکھے اُس کا جواب ضرور چلا جائے.قبولیت دعا کے نشان تو میں علی وجہ البصیرت آپ کو بتارہا ہوں کہ ساری دنیا نے قبولیت دعا کے نشان دیکھے.جب میں پہلی دفعہ ۱۹۶۷ء میں باہر گیا ہوں تو پروگرام کے مطابق ہم فرینکفرٹ میں اتر گئے.یورپین مشنز کا پہلے دورہ کیا اور کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح کرنا تھا.یورپ کے سارے مبلغین کو وہاں بلا لیا.اُن سے مشورہ، تبادلہ خیال، کانفرنس کوپن ہیگن میں کر لی.وہ شامل بھی ہونا چاہتے تھے.انہوں نے لکھا کہ افتتاح میں

Page 101

ΔΙ آجائیں.میں نے کہا کہ ٹھیک ہے دونوں کام ہو جائیں.غالبا جولائی کا وسط تھا.ہمارے انگلستان کے مبلغ آئے.وہ مجھے کہنے لگے کہ انگلستان میں پاکستان کے ہر علاقے کے مزدور آئے ہوئے ہیں.بہت متعصب ہیں اور جماعت NERVOUS ہوئی ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت صاحب یہاں پہنچیں تو حفاظت کا کوئی انتظام ہونا چاہئیے.اور بہت پریشان ہیں اور کہنے لگے ہماری بھی پریشانی اور بڑھ گئی کیونکہ وہ جوائیر پورٹ کا انچارج ہے، اُس کا اتنا بڑا مقام ہے کہ حکومت انگلستان اُس کو سر کا خطاب دیتی ہے.اس کے پاس ہم ایک دفعہ وفد بنا کے گئے.اُس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم اُن کو امام مانتے ہو گے لیکن پاکستان کی طرف سے VIP-VERY IMPORTANT کی فہرست ہمیں ملی ہے، اُس میں تو اُن کا نام کوئی نہیں.اس لئے ہم نے کوئی انتظام نہیں کرنا.پھر دوسری دفعہ گئے پھر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو تکلیف دی کہ آپ جا کر ملیں.چوہدری صاحب کو بھی اُس نے کہا کہ میں نے کوئی انتظام نہیں کرنا.مبلغ کہنے لگے کہ ہمیں یعنی ساری جماعت کو بڑی پریشانی ہے.اگر کسی نے نعرے لگا دیئے.فساد کر دیا تو وہ ہمارے لئے بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا.خیر میں نے تو اللہ تعالیٰ سے اُس کے فضل اور رحمت کے لئے دعا مانگی.ویسے قرآن کریم نے جو دعائیں سکھائی ہیں، ساری بڑی پیاری ہیں.لیکن مجھے سب سے زیادہ پیاری یہ دعا لگتی ہے.رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرِ فَقِيرٌ یعنی اپنی طرف سے کچھ نہیں مانگتا.جو خیر بھی تیری طرف سے مجھے ملے، میں اُس کا محتاج ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تمہاری ساری کوششیں ناکام ہوں گی تو میں انتظام کر دوں گا.میں نے بشیر رفیق صاحب کو کہا کہ مجھے خدا نے یہ بتایا ہے کہ اب آپ کوشش نہ ہی کریں تو اچھا ہے.خدا آپ ہی انتظام کرے گا.یہ دو دن پہلے چلے گئے اور پھر جا کے کوشش کی.پھر ان کو وہی جواب ملا ،نہ.پھر یہ ایک دن پہلے گئے.ہمارا جہاز لینڈ کیا تو ایک کار آئی اور وہ سیڑھیوں کے برابر کھڑی ہوگئی.کھڑکی کی طرف ہم بیٹھے ہوئے تھے.ہم نے کہا کوئی بیٹھا ہوگا ایسا آدمی جس کے لئے کار کی ضرورت ہے.توجہ بالکل نہیں تھی.اس کار سے ایک آدمی اترا.ہمارے سامنے آیا اور میرا بریف کیس اُٹھانے لگا.میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا تمہیں کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے.جس کے لئے تم آئے ہو، وہ میں نہیں ہوں.تلاش کرو اپنا مہمان.تو وہ مجھے آرام سے کہنے لگا کہ میں آپ کے لئے آیا ہوں.میں حیران کہ وہ تو کہتے ہیں کہ انتظام ہی کوئی نہیں کرتا.یہ کیا ہو گیا؟.خیر ہم کار میں بیٹھے.آگے لے گئے.وہ بہت بڑا ایئر پورٹ بن گیا ہے.کافی چلنا پڑتا ہے.لوگوں کو پیدل وہ سامان چیک کروانا جو عام طریقہ ہے.ہم نے کہا ٹھیک ہے.کیا فرق پڑتا ہے.آگے گئے تو ایک کمرے میں بڑا انتظام تھا.جماعت آئی ہوئی تھی.عورتوں کا علیحدہ

Page 102

۸۲ انتظام تھا.زنانہ پولیس کھڑی تھی اور مردانہ پولیس بھی.اور وہاں تو ایک آواز بھی بلند نہ ہوئی.میں حیران کہ یہ کہتے کچھ تھے، یہ کیا بن گیا.اور اُن سے جنگلہ، اپنی طرف سے شاید پولیس نے یہ کیا ہو گا.یہ ڈرے جو ہوئے تھے.انہوں نے انتظام کیا تھا کہ جنگلے سے پرے کھڑے ہو کے آپ کو احمدی دیکھیں گے.آپ ان سے دو چار منٹ باتیں کر لیں.میں نے اُن کو کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوتا.یہ میری باتیں سننے کی بجائے مصافحہ کرنے کو زیادہ پسند کریں گے.اس واسطے ہاتھ میں نے دروازے پہ ڈال کے وہ دروازہ کھول دیا.میں نے کہا آجاؤ ادھر سارے.جب وہاں سے فارغ ہو کے جانے لگے.میں موٹر میں بیٹھا تو اچانک دیکھا کہ پولیس نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو روکا ہوا تھا کہ آپ آگے نہیں جا سکتے.بعد میں ، میں نے اپنے مبلغ سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہوئی کہ آپ تو کچھ اور کہتے تھے.کہنے لگے کہ آپ نے جو کہ دیا تھا.اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اگر تمہاری ساری کوششیں ناکام ہو جائیں گی تو میں خود انتظام کروں گا.لیکن ہم سے رہا نہیں گیا.ہم آپ کے آنے سے ایک روز پہلے ایک دفعہ پھر ملنے چلے گئے اور وہ اس طرح بڑی شان بنا کر سر ہلا رہا تھا.کہتے ہیں اسی اثناء میں اُس کا پی اے (P.A) آیا.باور دی اور سنہری بٹن لگائے ہوئے اور چاندی کی کشتی میں ایک تار اُس کے سامنے رکھا.اُس نے وہ تارا ٹھائی ، پڑھی.اس کا منہ چقندر کی طرح سرخ ہوا.اٹھا.کہنے لگا میں ابھی آتا ہوں.چلا گیا وہاں سے.پھر واپس نہیں آیا.اور اپنے اسٹنٹ کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ سب انتظام ہو جائیں گے.آپ کوئی فکر نہ کریں.بے فکر رہیں.اور کچھ پتہ نہیں کہ وہ تار کہاں سے آئی، کس نے بھیجی.عین اُس وقت جب وہ وفد بیٹھا ہوا ہے، تار کا پہنچ جانا خدا کی ہی شان ہے.زمانہ نشان مانگتا ہے تو بتا میں یہ رہا ہوں کہ یہ زمانہ اُسی طرح نشان مانگتا ہے.نشان زمانہ کے مزاج کے مطابق خدا دے گا.دلائل زمانے کی ضرورت کے مطابق خدا نے دے دیئے.کچھ تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اور کچھ پیج کے طور پر.ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا.اُس میں ایک سطر سے بھی کچھ تھوڑا چھوٹا فقرہ تھا جو ایک سطر میں نہیں آیا تھا.میری آنکھ نے اُس کو پکڑا اور میرے دماغ میں روشنی خدا تعالیٰ نے پیدا کی اور چار یا پانچ خطبے میں نے اُس ایک فقرے کے اوپر دیئے.اتنا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھرا ہوا ہے.دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کے سلجھانے کے لئے قرآن کریم میں تعلیم نہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق قرآن کریم ہی میں بظاہر متضاد باتیں بیان کر دی ہیں.مثلاً ایک یہ کہا کہ یہ کتاب مبین ہے.ہر چیز کھلی کھلی ہے اس

Page 103

۸۳ - میں.چھپی ہوئی نہیں ہے.اور دوسری طرف کہہ دیا کہ یہ کتاب مکنون ہے.یہ ایک چھپی ہوئی کتاب ہے.بات یہ ہے کہ یہ مبین بھی ہے اور مکنون بھی ہے.جو ظاہر ہو چکا وہ تو مبین ہے.جو تفسیر اس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کر دی وہ تو مبین ہو گئی نا.پھر امام بخاری جیسے فدائی پیدا ہوئے جنہوں نے وہ روایات جمع کر دیں.تفسیر میں آگئیں.وہ پہلی صدی میں بیان نہیں ہوئیں.بیج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مل جائیں گے.صدی کے بزرگوں کو خدا نے بتا دیئے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں.اولیاء اللہ کی کتب پڑھیں.انہوں نے قرآن کریم کی آیات کی ایسی تفاسیر کیں جو پہلوں نے نہیں کیں.معلم حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے نا.میں نے خدام الاحمدیہ کو کہا ہے یہعلم سیکھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھے اللہ نے ایک رات میں عربی زبان کے چالیس ہزار مصدر سکھا دیئے.اول تو دنیا کا کوئی استاد چالیس ہزار مصد رشاید اتنے وقت میں بول ہی نہیں سکتا.لگے نا شام کو تو صبح ہو جائے گی لیکن چالیس ہزار مصدر نہیں وہ بول سکے گا.پھر وہ جوشاگرد ہے، وہ یاد بھی رکھے چالیس ہزار.تو استاد اس دنیا کا استاد تو یہ کر نہیں سکتا اور یہ تو ایک ظاہری چیز ہے نا.عربی زبان میں وہ کتابیں لکھیں کہ بڑے بڑے عرب خود گواہ ہیں کہ اُن کو بعض فقروں کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ معنے کیا ہیں.عربی زبان بڑی فصیح اور بلیغ زبان ہے.الغرض حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایسی تفسیر سکھا دی.شروع میں میں نے یہ بات کہی تھی کہ انصار الله مگ کی ڈار کا وہ لیڈر ہے جس کے پیچھے سب نے چلنا ہے.خدام نے بھی، اطفال نے بھی.بڑی ذمہ داری ہے.اور وہ جو ڈار ہے مگ کی ، اُس کی ذمہ داری یہ ہے کہ ایک جگہ سے اُڑے، دوسری جگہ چلے.مثلاً یہ ذمہ واری ہے اُس کی کہ انگلستان سے اُڑے اور کئی ہزار میل سمندر پر سے پرواز کر کے گرین لینڈ چلا جاتا ہے انڈے دے کے بچے نکالنے کے لئے اور تیر کی طرح سیدھا جاتا ہے.اور انسان نے بڑی تحقیق کی ہے.کہتے ہیں پتہ ہی نہیں لگا کہ نیچے کوئی لینڈ مارک تو نہیں نا.سمندر ہی سمندر ہے کہ سیدھا اُڑ کے یہ وہاں پہنچتا کیسے ہے.اتنی خدا نے اس کو دی ہے کہ یہ وہاں پہنچ جاتا ہے.ایک شوقین تھا انگلستان میں.یہ مختلف قسم کے جانور پالتا تھا.اس نے ایک کتاب لکھی ہے.مرغابیاں وغیرہ بھی پالتا تھا.وہ ہنگری جا کر بہت ساری قسمیں منگ کی لائے.اُن کے پر کاٹ کے رکھے تھے.ان کو پال لیا.اپنے سے مانوس کر لیا.وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن میں نے منگ کو دانہ ڈالا ہوا تھا.مگ پھر رہے تھے.ایک جوڑا منگ کا اوپر سے گذر رہا تھا.اُس نے دیکھا اور لینڈ کر گیا.سارا موسم وہاں رہا.جب اُن کے اڑنے کا SENSE

Page 104

۸۴ موسم آیا تو وہ اڑ کے چلا گیا.وہ لکھتا ہے مجھے انتظار تھا کہ جب اگلے موسم میں پانچ ہزار میل سے یہ منگ اڑ کے آئیں گے، میرے ہی یہاں آ کے لینڈ کرتا ہے یا کہیں اور چلا جاتا ہے.کہتا ہے کہ جب سیزن آیا تو شروع سیزن میں تو نہیں.درمیان میں ایک دن وہ جوڑ الگ کا آیا اور وہاں لینڈ کر گیا.اگر منگ پانچ ہزار میل سے اپنی DESTINATION ، اپنی منزل مقصود کو نہیں بھولتا تو آپ کس طرح کوشش کرتے ہیں اپنی منزل مقصود کو بھول جانے کی.میں اس طرف آپ لا رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے ہاتھ میں علم دے دیا.آپ کی منزل مقصود آپ کی منزل مقصود ہر غیر مسلم کا دل ہے.وہاں آپ نے پہنچنا ہے.ایک میں مثال بدل دیتا ہوں.ہر احمدی کے ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نور کی ایک شمع پکڑا دی اور حکم دیا ہر احمدی کو کہ تم ہر غیر مسلم کے پاس جاؤ.اس کے سینے کی ظلمات دور کر کے اُس کو منور کر دو.اس کے لئے تدبیر ہے.میں نے پہلے بتایا کہ آسمانی نشان ہیں جس کے لئے دعاؤں کی بڑی سخت ضرورت ہے.سب سے بڑا معجزہ کیونکہ سب سے بڑا معجزہ جو ہے وہ قبولیت دعا کا معجزہ ہے.اور سب سے بڑا نشان قبولیت دعا کا نشان ہے.پھر یہ علمی فضا جو اس زمانے کی ہے، اب فضا علمی بن گئی ہے.ہر شخص جس سے آپ بات کریں وہ آپ سے دلیل مانگے گا.دلیل آپ کے پاس ہے لیکن اگر دلیل آپ نے اسی طرح اپنے صندوقوں میں بند رکھ چھوڑی جس طرح قرآن میں قرآن کریم کے متعلق آیا ہے کہ يُرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا کہ میری قوم کے اس حصہ نے پیٹھ کے پیچھے قرآن کریم کو رکھ دیا ہے.اس طرف توجہ نہیں کرتے.پھر تو آپ نہ اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکتے ہیں اور نہ اپنی ذمہ واری کو نبھا سکتے ہیں.اب جو ظاہر ہو کے بالکل نمایاں ہو کے کمزوری سامنے آجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں نہیں پڑھتے.آپ مجھ سے بے شک سوال کریں کہ آپ کو کیسے پتہ لگا.میں جواب دوں گا آپ کو.مجھے ایسے پتہ لگا کہ بہت سارے گھر ہیں جن گھروں میں کتا بیں نہیں ہیں.میں نے خدام الاحمدیہ کو کہا تھا کہ مجھے یہ بتائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی تفسیر مختلف آیات کی مختلف کتب میں لکھی ہے.پانچ جلدیں اُس کی شائع ہو چکی ہیں اور غالبا سورۂ کہف تک وہ ہو چکی ہے.پہلے تو وہ پڑھنی چاہئیں.اس میں اتنے علوم بھرے ہوئے ہیں کہ اس زمانہ کی اور آنے والے زمانہ کی ضرورتوں کو وہ پورا کر رہے ہیں.ان کو میں نے ایک مشورہ دیا ہے.

Page 105

۸۵ اس میں تو ساری جماعت در اصل شامل ہونی چاہئیے.مشکل ہمارے ملک کی یہ ہے کہ ہمیں خرید کے پڑھنے کی عادت نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو پڑھنے کی عادت ہے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مفت مل جائے تو پڑھ لیں گے ویسے نہیں پڑھیں گے.سب دنیا میں ترقی کرنے والی جو قو میں ہیں وہ خود خرید کر پڑھتی ہیں.انگلستان میں میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص گاڑی میں آ کے بیٹھا.جہاں وہ بیٹھا، اس کے ساتھ کی سیٹ خالی پڑی ہے اور اس سیٹ کے اوپر وہ اخبار پڑا ہے جو وہ پڑھنا چاہتا ہے.وہ اس کو اٹھا کے نہیں پڑھے گا.وہ اگلے اسٹیشن پر اتر کے اپنا اخبار خرید کے لائے گا.اور وہ اس اخبار کو پڑھ کر اس کو ردی سمجھ کر چھوڑ جائے گا.ان کو اخبار خرید کر پڑھنے کی عادت ہے.یہ ٹھیک ہے کہ چونکہ ایک بہت بڑا حصہ بڑی تحقیق کے بعد ILLUSTRATED تصویروں سے حقیقت بیان کرنے کے لئے کچھ لکھتا ہے.مثلاً مصنف یہ بیان کرتا ہے کہ چالیس رنگ اس پرندے کے پروں میں ہیں.کبھی انسان کے تصور میں یہ نہیں آتا.وہ تصویر بنا دیتے ہیں اور لائبریریوں میں محفوظ کر دیتے ہیں.انہوں نے لائبریریاں بنالیں.لائبریریوں سے بھی مفت نہیں ملتا.پیسے دے کے ممبر بننا پڑتا ہے نا.اور ہر مہینے پیسے دینے پڑتے ہیں.یا بعض ایسی لائبریریاں ہیں جہاں ہر ہفتے CONTRIBUTION کرنا پڑتا ہے.کیونکہ وہاں PAY ملتی ہے ہر ہفتے بعد.جماعت احمدیہ کراچی بک کلب بنالے میں نے اُن کو کہا تھا کہ کتابیں خریدنے کے لئے جماعت احمدیہ کراچی ایک کلب بنالے.جس کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پانچ تفسیریں، جلدیں نہیں ہیں.آپ اُس سے کہیں کہ تم اس کلب کے ممبر بن جاؤ.پانچ روپے یا تین روپے جو مناسب ہو یہاں کی آمد کے لحاظ سے، وہ چندہ رکھ دو.اگر ایک گھر میں تین خادم ہیں تو تین ممبر نہ بنیں.پہلے تو ہمیں ہر گھر میں کتاب پہنچانی ہے.ایک ممبر بن جائے.آپ اُس کو پانچ جلدیں منگا کر دے دیں اور پانچ جلدوں کی مثلاً مجھے قیمت نہیں یاد.مثلا اگر پچاس روپے قیمت ہے اور پانچ روپے چندہ ہے تو دس مہینے میں وہ PAYMENT P کر دے گا.اگر ساٹھ روپے قیمت ہے اور پانچ چندہ ہے تو بارہ مہینے میں کر دے گا.پہلی PAYMENT پر اُس کو پانچ کا سیٹ مل جائے گا.لے کے پڑھے.EASY INSTALMENTS بڑی تھوڑی قسطوں پر اُس کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی.دو باتیں تمہاری مدد کے لئے کر سکتا ہوں.ایک یہ کہ ربوہ میں جو دینے والے ہیں ، اُن کو میں حکم دے دوں کہ جو تم کتابیں منگواؤ ، اُس کی قیمت تم سے بالاقساط وصول کریں.اس واسطے تمہارے ذہن میں پہ کوئی بوجھ نہیں ہوگا.ادھر سے وصول کرو.اُن کو ادا کر دو.یا

Page 106

۸۶ میں یہ کر سکتا ہوں کہ امیر کراچی کو کہوں کہ تمہیں نقد ساری قیمت دے دیں اور تم وہاں PAY کر دو.ویسے یہ زیادہ اچھا ہے (اُس کی وجہ میں ابھی بتا تا ہوں ) اور تم یہیں ہو.جماعت کا نظام ہے.وہ وصول کریں گے تم سے.خادم کا یہ کردار ہونا چاہیے کہ پہلی تاریخ کو وہ بغیر یاد دہانی کے آکے پیسے ادا کرے.اس میں چاہے انصار اپنی علیحدہ کلب بنائیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ پہلا دور اس سکیم کا جو ہے، اُس میں ہر گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سارے سیٹ آجائیں.یہ پانچ خلاصہ ہیں.کیونکہ ہر کتاب میں سے آیات لے کے جو تفسیر وہاں کی ہوئی ہے، اکٹھی کر دی گئی ہے اور کتب میں حضرت مسیح موعود کا جو منظوم کلام ہے وہ ساری کتب کا خلاصہ ہے.جب میں سفر پہ جاتا ہوں تو ساری کتب تو میں رکھ نہیں سکتا.میں عربی کی درنشین، فارسی کی در شین اور اردو کی درمشین رکھتا ہوں.اس سے میں استفادہ کرتا ہوں.ہم ایک CONTRADICTION کر رہے ہیں.ہماری جماعتی زندگی کے اندر آگے ہی آگے بڑھنا ہے.آج کی ڈاک میں شوری کے ایجنڈا کی یہ تجویز آئی ہے کہ کتا بیں زیادہ شائع نہیں ہوتیں، یہ شائع کریں.جو شائع ہوتی ہیں تم خریدتے نہیں.کتابیں میری خواہش یا صدر انجمن کی خواہش یا تحریک جدید کی خواہش یا وقف جدید کی خواہش کے نتیجے میں نہیں چھپیں گی.وہ تو ڈیمانڈ کے او پر چھپیں گی.اقتصادیات کا ایک بنیادی اصول ہے اُس سے باہر نکل نہیں سکتے.جتنا مطالبہ ہوگا اُس کے مطابق چھپیں گی.اب ایک نمایاں ایک چیز ہمارے سامنے آ گئی ہے جس نے مجھے بہت شرمندہ کیا.میرا خیال ہے آپ بھی شرمندہ ہوں گے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات چار عنوانوں پر اللہ تعالیٰ، اسلام، قرآن عظیم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم.تین سو اٹھائیس صفحے کی ایک کتاب یعنی اقتباسات ہیں، ابھی پچھلے دنوں وہ لندن میں چھپی.اُس کی ہمیں COST آئی.خرچ جو ہے وہ.دو پونڈ پچاس پینی.یعنی جو بہترین چھاپے خانے نے شائع کی ہے.نہایت اعلیٰ یعنی جو وہاں کے کتب خانوں میں بہترین قسم کی چھپی ہوئی کتابیں پڑی ہوئی ہیں ، اُن کے ساتھ یہ بھی پڑی ہوگی.۱۹۷۸ء میں ہمیں وہاں تھا.ساری چیزوں کا جائزہ لے کے فیصلہ کیا تھا.ایک تو میں نے وہاں اس وقت یہ حکم دیا تھا کہ بڑی بے شرمی کی یہ بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب رڈی کا غذ پہ آپ شائع کر دیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں کسی اور کی کتاب نہایت اعلیٰ پر شائع کر دیں چاہے وہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہی ہوں.یہ کبھی نہیں ہمیں برداشت.مجھے نہیں برداشت کم از کم.

Page 107

۸۷ کتب حضرت مسیح موعود کی اشاعت نمبر ایک کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شائع ہونی چاہئیے.اس کے بعد پھر باقی آتی ہیں.اب میں نے آرڈردے کے وہ غالبا سات ہزار چھپوائی.وہ مختلف مشنز کو بھجوائی ہے.وہاں کتابیں تو شائع کرادوں ، میں رکھوں کہاں ، سٹور کہاں کروں.اب جب دو تین کتابیں شائع ہوئیں تو شیخ پڑا ہے لندن مشن کہ آپ کتا ہیں تو شائع کروا ر ہے ہیں.ہمارے پاس رکھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے.آپ انتظام کریں کہ جو دوسرے مشن ہیں وہ ہمیں پہلے سے آرڈر دے دیں تا کہ ہم چھاپے خانے کو کہیں.وہ خود انتظام کر کے وہاں پر بھجوا دیں گے.ہمارا کوئی وقت ضائع نہیں ہوگا اور وہ تقسیم ہو جائیں گی.میں نے یہاں سے لکھ دیا کہ اتنی اتنی کتاب یہاں سے بھجوا دیں آپ فلاں فلاں مشن کو.تین سو کتاب یعنی COST پر.یہ ساڑھے سات سو کی بنی.ساڑھے سات سو پاؤنڈ کی تین سو کتاب.ڈھائی کے حساب سے.ہمارا کوپن ہیگن کا مشن چیخ پڑا.اتنے پیسے کہاں سے دیں.حالانکہ وہاں جو آدمی کما رہے ہیں وہ اتنے ہیں کہ چار چار پانچ پانچ لے کے آگے تقسیم کریں تو وہ لے سکتے ہیں.لیکن میں نے اُن کی گھبراہٹ کو دیکھ کے اُن کے لئے ایک اور پروگرام بنا کے اُن کو بھجوا دیا جو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اسی کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی ایک کتاب INVITATION' دعوت الامیر انگریزی ترجمہ ایک برٹش فرم نے دس ہزار کی تعداد میں شائع کی اور اس کے صفحے اس سے کوئی دس بارہ کم ہیں سے اور اس کی قیمت ڈھائی تین پاؤنڈ نہیں ، دس پاؤنڈ اُس کی قیمت رکھی اور انگریز نے خریدی.یعنی اگر انگریز ، دعوت الامیر کو خریدتا ہے دس پاؤنڈ میں اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات اُس سے بھی اچھی تین پاؤنڈ میں خریدنے کے لئے نہیں تیار.بڑے شرم کی ESSENSE OF ISLAM بات ہے.اللہ تعالیٰ نے انتظام کر دیا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ انتظام کر رہا ہے، کرے گا.یہ بھی نکل جائیں گی.شروع میں گئے میر محمود احمد صاحب واشنگٹن ، تو مجھے لکھا کہ میں نے پتے جمع کرنے شروع کئے ہیں.پچاس ہزار پتے میرا خیال ہے اپنے رجسٹر پہ جمع کرلوں.میں نے سوچا کہ شروع میں بہت اونچا جمپ انہوں نے لگا دیا.میں نے اُن کو پھر لکھا کہ نہیں ، اس طرح نہیں.آپ اڑھائی ہزار پتے ایسے جمع کریں جو امریکہ میں سب سے اونچے دماغ ہوں.مثلاً یو نیورسٹیز لیں، ڈاکٹر ز لیں، انجینئر زلیں وغیرہ وغیرہ.ہر WALK OF LIFE میں سب سے اونچے دماغ جو امریکہ میں سمجھے جاتے ہیں، اُن کے پتے اڑھائی ہزار لے لیں.وہ آپ کی

Page 108

فہرست اے (۸) ہے.اس کے بعد آپ فہرست بنائیں بی (B) اس میں آپ ، اب مجھے یاد نہیں کہ کیا میں نے شکل بنائی تھی بہر حال پانچ ہزار یا سات ہزار اس کے بعد اور پتے ہوں جو سیکنڈ لائن کے ہوں.اس طرح کر کے آپ پچاس ہزار بنا ئیں.کیونکہ اگر آپ کے پاس اڑھائی ہزار کتب لینے کے لئے ہیں تو آپ کے پاس موجود ہوں ایسے اڑھائی ہزار پتے TOP کے جن کو PREFERANCE دینی چاہیے.ان کے ہاتھ میں کتابیں پہنچ جائیں گی.اُن میں طالب علموں کو لیں.بڑے بڑے مانے ہوئے اسلام پر پرلکھنے والے لیں.وہ تو فہرست میں آجائیں گے نا پہلی فہرست کے اندر.اب لیں.وہ خاموش ہو گئے ہیں.میں نے اُن کو کہا کہ اٹھاؤ بیس ہزار اسلامی اصول کی فلاسفی کا REVISED ٹرانسلیشن.وقت تو یہ آ گیا ہے.میں اپنی طبیعت کے لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ جو جماعتی غلطیاں کسی وقت بھی ہوئی ہیں، جب سامنے آ جائیں تو ساری جماعت کے علم میں آنی چاہئیں.یہ سمجھ نہیں آتی، کیسے غلطی ہو گئی کہ اسلامی اصول کی فلاسفی جیسی کتاب.مولوی محمد علی صاحب نے جب اس کا ترجمہ کیا تو آپ حیران ہوں گے کہ اس میں سے وہ چون (۵۴) اقتباسات چھوڑ گئے ترجمہ میں جن میں سے بعض ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے کے تھے جن کا ترجمہ ہی نہیں کیا اور اس سے زیادہ جگہ اپنی باتیں بیچ میں گھسیڑ دیں.اور میرے خیال میں یہ ترجمہ انگریزی میں پہلی دفعہ شائع ہوا حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے زمانے میں اور ہر احمدی نے حسنِ ظنی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترجمہ ٹھیک ہو گا کسی نے چیک نہیں کیا اس کو اور وہ چلتا آیا.وہ بہت سارے ایڈیشن شائع ہوئے.ایک پچاس ہزار کی تعداد میں شائع ہو گیا.یہ جو دورے میں نے کئے تو یورپ کے ایک مقام پر مجھے ایک مبلغ نے کہا کہ ہمارا نو احمدی یعنی اُس ملک کا احمدی ہوا ہوا کہتا ہے کہ اس مسئلے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فتویٰ دیا ہے.میں حیران کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ فتویٰ نہیں دیا پھر کیوں اس سے مختلف فتوی دیا ہے.میں نے کہا.یہ کہاں سے اُس نے لے لیا.کہنے لگے کہ وہ کہتا ہے کہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں سے یہ فتویٰ مجھے ملا ہے.اُس سے مجھے بڑا شبہ پیدا ہو گیا.میں آیا واپس.میں نے کہا چیک کرو.چیک کیا تو پتہ لگا کہ چون ( ۵۴ ) جگہیں چھوڑی ہوئی ہیں اور ستر اسی (۸۰،۷۰) جگہ اپنی عبارتیں بیچ میں شامل کی ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب میں تھیں ہی نہیں.پھر مجھے اللہ نے توفیق دی.بڑی محنت میں نے کروائی اپنی نگرانی میں.تین کتابیں اُردو کی ، ایسی ابتدائی لیں جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ بہر حال بہت اچھی ہوں گی، ان میں غلطی بہت کم ہوگی.ان میں ایک تو جس تنظیم نے یہ کانفرنس کروائی تھی انہوں نے PROCEEDINGS شائع کیں ، اس میں بھی اسلامی اصول کی فلاسفی چھپی ہوئی ہے،

Page 109

۸۹ وہ کتاب اٹھائی.دو اردو میں بالکل ابتدائی.ٹھیک یاد نہیں لیکن غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک اردو ایڈیشن اس کا چھپا.ایک خلافت اولیٰ میں اردو کا ایک ایڈیشن چھپایا دونوں خلافت اولی میں چھپے آگے پیچھے.یہ تین لے کے ایک کمیٹی بٹھائی.اُن کو کہا ، ان کا آپس میں موازنہ کرو.موازنہ کیا تو چھوٹے چھوٹے اُن میں اختلاف تھے.بعض دفعہ کا تب بھی اختلاف کر جاتا ہے.الف.ی ایک لفظ ہے.ائے اور کتابی ہے اگر تو وہ بھی یعنی دی جو ہے وہ دو طرح سے لکھی گئی ہے نا.ایک وقت میں ایک طرح لکھی جاتی تھی.شروع میں وہ بڑی ”ے یوں پورے چکر کے ساتھ.اور بولی جاتی تھی دو طرح.تو بعد میں دو طرح جب لکھی جانے لگی تو کا تب صاحب جہاں اے لکھنا تھا وہ دوسری طرح اسے لکھ گئے.اس قسم کی غلطی کتابت کی تھی.بعض جگہ ہم ملنے لفظ آ گیا ہے.وہ پتہ نہیں کس نے کیا ہے اس میں یعنی بالکل مترادف لفظ ایک کو بدل کر دوسرا لکھ دیا.لیکن ہم نے BASE اُسی پہلے کو بنا کے ایک مستند بنا لیا.پھر اُس کو بھیجا چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے پاس اُس کا ترجمہ کرنے کے لئے.اُنہوں نے اس کا ترجمہ کیا.پھر REVISE کیا.پھر میں نے کہا میرے پاس بھیج دو.پھر یہاں ایک آدمی کو لگایا.اُس نے دیکھا تو اُس میں بعض جگہ چوہدری صاحب سے چار پانچ ترجمہ کے لفظ چھوٹے ہوئے تھے ، جان بوجھ کے نہیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ فقرے نے مضمون پورا کر دیا ہوگا تو وہ لفظی ترجمہ نہیں رہا.میں نے اپنے جن ساتھیوں کو بلایا تھا، اُن کو کہا کہ خود نہیں ہم نے بدلنا.چوہدری صاحب تشریف لے آتے ہیں سردیوں میں.ان کی تصیح انہی سے کروانی ہے پھر.پھر اُن کو دیا.پھر وہ اُس میں سے گزرے.یہاں کی انگریزی ہماری کمزور ہے.چوہدری صاحب کی انگریزی بہت اچھی ہے.ایک لفظ کے متعلق مجھے کہنے لگے، یہ لفظ غلط استعمال کر گئے ہیں چوہدری صاحب اس واسطے کہ وہ اُردو میں تو تین لفظ تھے.تو چوہدری صاحب نے ایک لفظ استعمال کیا.اور وہ تینوں کے معنے کا مفہوم جو تھا وہ ایک لفظ پورا ادا کر رہا تھا، اُس میں کوئی کمی نہیں تھی.تو میں نے کہا نہیں یہ تو ٹھیک ہے ترجمہ تو بہر حال بہت محنت کر کے وہ پھر وہاں چھپوائی پچاس ہزار کی تعداد میں.اور اُس کی پڑی ستائیس پینی (PENNY) فی جلد اور پیپر بیک.لیکن بڑا اچھا.بڑی ستی ہے.وہاں کے ملک کے لحاظ سے تو بہت ہی سستی ہے.کتابیں تقسیم کرنے کا وقت آ گیا میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں.یہ کتابیں تقسیم کرنے کا وقت آ گیا ہے.وہاں میں نے امریکہ کو کہا کہ پچاس ہزار میں سے ہیں ہزار اٹھاؤ.میر محمود صاحب ویسے اُن کا دماغ بڑا تیز ہے.انہوں نے سوچا

Page 110

9° کہ جس نے ، جس کمپنی نے بڑا اچھا انگلش ٹرانسلیشن آف دی ہولی قرآن TRANSLATION OF) (THE HOLY QURAN شائع کیا ہے.اُس کو یہ کہا بتاؤ کتنے میں شائع کرو گے.نمونہ انہوں نے منگوا لیا تھا.اتنا بڑا فرق قیمت کا اور مجھے لکھا کہ یہ تو یہاں آتا ہے.میں منحنی سا آدمی ہوں.اکٹھے بڑے بڑے پیکٹ بھیج دیتے ہیں.میں تو اُٹھا بھی نہیں سکتا.مشکل پڑ جاتی ہے.یہاں سنتا بھی ہے اور مجھے اجازت دے دو، میں یہاں شائع کروا دوں.ویسے اُن کو بل ہی انہوں نے بہت غلط دے دیا تھا.مجھ سے پوچھے بغیر اس کی قیمت لگادی تھی ستر (۷۰) پینی.اُن کو سمجھایا کہ ہم یہ تجارت کے لئے نہیں چھاپ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کا جوحسن ہمیں بتایا ہے، اسے ساری دنیا میں بکھیرنا چاہتے ہیں.وہ تو خیر میں نے FIX کر دی تمہیں پینی.کیونکہ اوور ہیڈ چارجز بھی کچھ ہوتے ہیں.تمھیں پینی تھوک اور چالیس پینی ریٹیل میں.اس سے زیادہ نہیں.اُس کمپنی نے اُن کو جو ESTIMATE دیا، وہ انہوں نے لکھا کہ اگر پچاس ہزار چھپواؤ گے تو میں اٹھارہ پینی میں شائع کر دوں گا.تو قریباً ۱/۳ قیمت کم آجاتی ہے ناں.میں نے لکھا کہ یہ ہمیں ہزار تو آپ نے اُٹھانے ہی اُٹھانے ہیں.اور اس کے بعد آپ لاکھوں چھپوائیں ، آپ کو میں منع نہیں کرتا.لیکن سوال یہ ہے آپ کے غور کا کہ اگر آپ نے نہیں پڑھنی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب، تو وہ جو بڑا چوٹی کا سائنسدان ہے امریکہ میں، اُس کو کیا ضرورت پڑی ہے، پڑھے اور آپ خود نہ پڑھیں یعنی آپ کا ماحول ایسا ہو تو میرے خیال میں تو بڑی بے شرمی ہے کہ کسی انگریز کو کہیں کہ تو پڑھ.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زیادہ رشتہ دار ہے آپ کے مقابلے میں؟ اس واسطے پڑھیں اور پڑھا ئیں اپنے ماحول میں.یہ جو اب مجھے بڑی سخت جنگ نظر آ رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا ہے پچھلوں کے حوالوں کے ساتھ کہ شیطان کی آخری جنگ حق کے ساتھ اس زمانہ میں ہے.تھوڑا سا جنون پیدا کریں.اے جنوں کچھ کام کر.ہمیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ جنون سے کام ہو گا ویسے نہیں کام ہونا.میں کچھ نہیں مقرر کرتا ، آپ پہ چھوڑتا ہوں.ہر روز آپ اپنے گھر کے ماحول کے لئے کچھ وقت نکالیں.بعض ایسے بھی دوست ہیں کہ جو گھر میں آتے ہیں تو نتیوریاں اُن کی چڑھی ہوئی ہوتی ہیں.تھکے ہوئے دماغ، بیوی انتظار کرتی رہتی ہے سارا دن خاوند کا اور آتے ہی اس سے لڑنے کو پڑتے ہیں ، کھانے کو آتے ہیں.تو اس کا حق کوئی نہیں؟ جو اور حقوق ہیں ، اُن سے سب سے زیادہ حق اُس کا یہ ہے کہ آپ اُس کے ساتھ بیٹھ کے پیار کے ساتھ دین کی باتیں کریں.اُس کو بتائیں کہ تیرے جیسی ایک لڑکی پہلے بھی پیدا ہوئی تھی جس کا خولہ نام تھا.میں یہاں بتا چکا ہوں کسی مجلس میں اُس کے کارنامے، اس قسم کی

Page 111

۹۱ نڈر، بے خوف، قربانی دینے والی ، ہر لحاظ سے قربانی ، مالی قربانیاں دینے والی، خدا نے دیا بھی.لیکن ایک وقت میں بڑی قربانیاں لیں.یعنی مسلمانوں کو اڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا.وہ بھی مسلمان تھے.اُن کو بھو کا مارنے کا منصوبہ بنایا.ساری ناکہ بندی کر دی.اور خدا نے یہ کہا کہ تکلیف تو میں دوں گا بھوک کی اور پیاس کی.مرنے نہیں دوں گا بھوک سے.اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ تھا.تربیت اُن کی کر رہا تھا.اس قدر تکلیف بھوک کی کہ سعد بن وقاص جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں.اُنہوں نے بیان کیا کہ ایک رات بالکل اندھیری رات تھی ، میں چل رہا تھا تو میری جوتی کے نیچے کوئی چیز آئی جو میں نے محسوس کیا کہ نرم ہے.نرم چیز کو انسان نرم ہی محسوس کرتا ہے اور پتھر کو پتھر محسوس کرتا ہے.کہتے ہیں اتنی بھوک تھی کہ میں نے دیکھا ہی نہیں کہ وہ کیا چیز ہے؟ میں نے پاؤں ہٹایا اور اُٹھایا اُس کو اور منہ میں ڈالا اور کھا گیا.اس قسم کی انہوں نے کوفت اُٹھائی.اور پھر جب دیا خدا نے تو یہی جنہوں نے نرم چیز اُٹھا کر منہ میں ڈال لی تھی ، ایک دن مدینے کی منڈی میں ایک لاکھ اونٹ کا ایک آدمی سے سودا کر لیا.منڈی میں وہ لے آیا تھا لیکن نہ اُس نرم چیز کو دیکھا کہ کیا ہے؟ کیونکہ خدا نے پیدا کیا ہے، کام ہی دے گی مجھے.اور نہ اس لاکھ اونٹ کے ساتھ محبت اور پیار کا اظہار کیا.اُسی وقت ایک دوست آیا.اُس نے کہا میرا ارادہ تھا، خواہش تھی کہ یہ میں خرید لوں.یہ شخص مجھے رستے میں ملا تھا.وہاں میں نے بات نہیں کی کیونکہ منڈی تک آنے سے پہلے بات کرنا منع ہے.تو میرا دل کرتا تھا میں لے لوں.انہوں نے کہا تم لے لو.کس قیمت پر دو گے.جس قیمت پر میں نے لیا ، صرف نکیل مجھے دے دو.یعنی خدا نے ہر چیز دی تھی.دماغ بھی دیا تھا کہ اگر ایک روپے کی نکیل تھی تو پانچ منٹ میں ایک لاکھ روپیہ بنالیا اور دوست کے ساتھ دوستی کا بھی مظاہرہ کیا یعنی ویسے ایک لاکھ اونٹ اگر دس روپے نفع پہ بیچتے، یہ بہت کم نفع ہے، قیمت بھی دس لاکھ روپے بنانے تھے.باقی نفع چھوڑ دیا.لیکن بنا بھی لیا.دوست بھی خوش خدا بھی خوش، اپنا نفس بھی خوش اور الحمد للہ پڑھنے والا.تو دولت بھی دی، دولت سے پیار نہیں کیا.تنگی آئی ہنگی کو کچھ نہیں سمجھا.کفار نے اپنی طرف سے یعنی ایک تو کوشش کی تیرہ سال اسلام کو مٹانے کی.وہ اسلام کو مٹانے کی کوشش تھی.جنگ احزاب میں اسلام کو مٹانے کی کوشش میں سارے عرب کو اکٹھا کر لیا تھا یہودیوں نے.مکہ کی طاقت اور سارے قبائل عرب کی طاقت وہاں جمع ہو گئی تھی.اور پہلے بتایا گیا تھا سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَتُونَ النُّبُرَ وہاں بھی یہی ہے جیسا میں نے بتایا کہ بھوکا رکھوں گا، بھوک سے ماروں گا نہیں.جمع ہو جائیں گے سارے مگر تمہیں قتل نہیں کر سکتے.بھاگ جائیں گے.خدا نے معجزہ دکھایا.بھاگ گئے وہاں سے لیکن وہ تو مارنے کے لئے آئے

Page 112

۹۲ تھے.ناکہ بندی کی ہوئی تھی.یہ آپ کا کراچی، اس کے اگر باہر کے رستے بند ہو جائیں کسی وجہ سے، کراچی کی کیا کیفیت ہوگی.آپ کی اتنی چیزیں ہر روز باہر سے آ رہی ہیں.یعنی ہزار ہاشن کھانے کی چیزیں کراچی کے اندر باہر سے آ رہی ہیں، ریل کے ذریعے ٹرکوں کے ذریعے ، گھوڑے گاڑیوں کے ذریعے، کشتیوں کے ذریعے مچھلی پکڑی ہوئی اور بہت ساری چیزیں آ رہی ہیں.اُنہوں نے ناکہ بندی کر دی.اللہ تعالی نے پیار کا نشان دکھا کے حوصلے بلند رکھے اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ پیار کا نشان دکھا کے اُن کے حوصلے بلندر کھے اور یہی اُس کا طریقہ ہے.ایک دن ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے.یہ تجربہ ہے انسان کا کہ بھوک جب بہت زیادہ تنگ کرے تو پتھر رکھ کے معدے پر کس دیں ، اوپر دباؤ ڈال دیں تو بھوک کا احساس بھی کم ہو جاتا ہے.تو ایک صحابی آئے اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ یہاں تک نوبت پہنچ گئی اور کرتا اُٹھا کے دکھایا کہ ایک پتھر باندھا ہوا تھا.آپ نے کہا یہاں تک نہیں پہنچی.یہاں تک پہنچ گئی.آپ نے اُٹھایا اُس کو دکھانے کے لئے.دو پتھر باندھے ہوئے تھے.جس کا مطلب اُس کو بتانے کا یہ تھا کہ تمہیں جتنا بھوکا رکھ رہا ہوں، میں خدا کے حکم پر ، اُس سے ڈبل بھوک خود برداشت کر رہا ہوں.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تھا اُن سے جو اُن کی مسکراہٹیں قائم رکھتا تھا.ایک صحابی کو بڑی سخت تکلیف تھی تلملا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں.دوسرا اُن کے پاس آیا.کان میں کہا کہ کھانا میرے ساتھ کھائیں.گھر میں پوچھا بیوی سے کہ کیا ہے تیرے پاس.جنگ احزاب کا ہی یہ واقعہ ہے.اُس نے کہا تھوڑا سا آتا ہے اور ایک بکری کا بچہ بالکل چھوٹا سا.اُنہوں نے کہا کہ یہ بچہ میں ذبح کر رہا ہوں.آتا ہوں ابھی.تو آٹا گوندھ لے، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دینے جارہا ہوں.بہت تکلیف ہے اور آکر آپ کو کان میں کہا تا کوئی اور سُن نہ لے.وہ چل پڑے گا ساتھ.اُس نے تو کان میں کہا تھا.آپ نے اعلان کیا کہ لوگو ، اس تمہارے بھائی نے دعوت کی ہے.آؤ چلیں اس کے گھر.وہ بیچارہ کہنے لگا.یا رسول اللہ میرے پاس اتنا نہیں ہے.آپ نے کہا جاؤ.دوڑ و گھر.بیوی کو کہو آٹا گوندھ لے، روٹی نہ پکائے اور سالن تیار کرلے تقسیم نہ کرے.یا وہ پرات بڑے استعمال کرتے ہیں، اُس میں نہ ڈالے.پچاس ،سو آدمی ساتھ.جن کو زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی ، ساتھ ہو لئے.وہاں گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹے کے اوپر دُعا کی اور اُس کو کہا کہ روٹیاں پکانی شروع کرو.اور وہ دیگچے میں جو چھوٹے سے بکرے کا پکایا ہوا تھا سالن.اب آپ نے تقسیم کرنا شروع کیا.اور صحابہ کہتے ہیں ، ہم سب کا پیٹ بھر گیا اور

Page 113

۹۳ سالن بھی باقی بچ گیا اور روٹیاں بھی باقی بچ گئیں.یہ خدا تعالیٰ کا پیار تھا.یعنی ایک وقت میں جب دشمن TOTAL ANNIHILATION قتل کے درپے ہے.کا پروگرام تھا.یعنی سارا عرب اکٹھا ہو کے آیا اور مسلمان چند ہزار مدینے میں محصور.کفار اس ارادے سے تھے کہ آج ان کو ختم کر دینا ہے.جس طرح قیصر نے یرموک کی جنگ کے وقت یہ فیصلہ کیا تھا.تین لاکھ کی فوج کو حکم کیا کہ جہاں مسلمان ملے قبل کرتے کرتے مدینے پہنچو.خدا تعالیٰ کے پیار کا سلوک ۷۴ء میں خدا تعالیٰ نے اتنے پیار کا مظاہرہ کیا ہے کہ آپ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.یعنی جہاں تکلیف ہوئی ہے وہاں خدا کا پیار ظاہر ہوا ہے.گوجرانوالہ سے ایک حکیم نظام جان کے دو بچے اب انگلستان چلے گئے ہیں.دو بھائی وہاں اُس وقت تھے.اُن کا گھیراؤ ہوا.دومنزلہ مکان.نیچے اُنہوں نے آگ لگا دی.ایک ہی رستہ تھا نیچے اترنے کا.اور وہ دو منزلہ مکان کی چھت مجموعی طور پر پینتیس فٹ او پر تھی.اور نیچے جہاں وہ چھلانگ مار سکتے تھے پینتیس فٹ سے ، وہ پکی سڑک تھی.جب آگ زیادہ بڑھنی شروع ہوئی تو انہوں نے چھلانگ ماری.تو اگلے دن ایک بھائی میرے پاس آ گیا.مجھے کہنے لگے کہ ہم نے تو خدا کا عجیب نشان دیکھا کہ ہماری دولت اُس نے لے لی لیکن ہماری زندگیوں کی عجیب طرح حفاظت کی.پھر یہ واقعہ سنایا.کہنے لگے ہم دو بھائی کو ٹھے کی چھت پر چڑھے ہوئے.جب آگ اُو پر آنی شروع ہوئی تو اوپر سے چھلانگ لگائی.کہتا ہے کہ میں نے چھلانگ لگائی تو مجھے یہ یقین تھا کہ دونوں لاتوں کی ہڈیاں ضرور ٹوٹ جائیں گی.کہنے لگا، نیچے اترا ہوں تو انگلی کی ہڈی بھی نہیں ٹوٹی.اُسی طرح ٹھیک بالکل.وہاں سے نکل کے ، بچ کے نکل گئے.کہنے لگا سارا مکان جل گیا.بچوں نے پندرہ بیس دن کے چوزے مرغی کے دل بہلانے کے لئے دس بارہ، انہوں نے رکھے ہوئے تھے وہ ایک کوٹھڑی میں تھے.ساری کو ٹھڑی جل گئی.اُس کا دروازہ بھی جل گیا اور وہ چوزے پچوں چوں کرتے ہوئے باہر نکل آئے ہمسائے کے گھر میں.ہمیں تو خدا تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا.کسی کو کچھ دکھایا.ہر ایک کو کہا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں.اور اسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ مسکراتے رہو.وہ مسکراتے رہے.شیخو پورہ اور گوجرانوالہ کے درمیان ایک گاؤں ہے تتلے عالی.وہاں ایک خاندان تھا.دو بھائی ،اُن کے بیوی بچے.ڈیزل وغیرہ کا کام کرتے تھے.اچھے کھاتے پیتے ، بڑا اثر ورسوخ.ہمیں اطلاع یہ ملی کہ دونوں بھائیوں کو مار دیا ہے اور بیوی بچوں کو لے گئے ہیں اغوا کر کے.میں نے ہدایت کی کہ یہ جو اغوا کرنے والا مسئلہ ہے، یہ ذرا ٹیڑھا ہے.پتہ لیں.وہ ہیں کہاں.واپس لائیں گے، ہمارے بچے ہیں.

Page 114

۹۴ دو نوجوان گئے.رضا کار.کچھ پتہ نہیں تھا وہ کہاں گئے.یعنی خبر تو یہ تھی مر گئے.وہ کہاں لے گئے.وہاں پہنچے.کھوکھے پر چائے پی.ٹانگے والوں سے پوچھا.اور جدھر اُترے، پتہ لگا وہ اس رخ پہ گئے ہیں ، وہاں گئے.ایک گاؤں والوں نے کہا اگلے گاؤں گئے ہیں.اس قسم کے کچھ لوگ تو جاتے نظر آئے ہمیں.صبح سے گئے ہوئے رات کے دس بجے اُس گاؤں میں جا پہنچے جہاں وہ خاندان تھا.وہاں اُن کے کوئی عزیز تھے ، وہاں چلے گئے.وہاں جا کے اُن کو پتہ لگا کہ بھائی مرے نہیں، زخمی ہیں.بہت بری طرح اُن کو زخمی کیا ہوا تھا.لیکن ہمت والے تھے وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کے وہاں چلے گئے.سب کچھ اُن کا لٹ گیا.رات کے دس بجے پہنچے.اُن کو کہنے لگے تم ہو کون.رضا کار نے کہا میں آیا ہوں ربوہ سے آپ کی خیریت پوچھنے.کہنے لگے ناظر امور عامہ کا نام کیا ہے؟ کہنے لگے مجھے نہیں پتہ.وہ ایک گاؤں کے نوجوان تھے.پوچھا فلاں کا نام کیا ہے؟ کہا کہ نام تو ہمیں کچھ نہیں پتہ.وہ کہنے لگے یعنی یہ دیکھیں کتنا ایک احمدی کا اخلاق جو ابھرنا چاہئیے ، وہ نمایاں ہوا.گٹ لٹا کے وہاں آئے ہوئے.اُنہوں نے کہا کہ پتہ نہیں تم دوست ہو یا دشمن.تمہیں پتہ تو کسی کا بھی نہیں ، ہو ہمارے مہمان.چار پائی بچھاتے ہیں.بستر ا دیتے ہیں.کھانے کو دیں گے.یہاں سو جاؤ تم آرام سے.دو آدمی تھے.ایک آدمی پستول لے کے ساری رات تمہارے سرہانے بیٹھا ر ہے گا.کیونکہ اگر تم دشمن ہو تو یہاں سے آگے کیا کرو گے.آگے ہمارا سب کچھ لوٹ لیا تم نے.خیر اگلے دن وہ صبح آئے.انہوں نے آ کے ہمیں خبر دی.ہمارے لئے بڑی خوشی کا باعث تھا کہ وہ زندہ سلامت تھے.میں نے ہدایت دی کہ اُنہی کو پھر دوبارہ بھیجو خط دے کے.اُس وقت تو ان کے پاس خط وط، کوئی نشانی نہیں تھی.اور وہ سلام بھی کہیں میری طرف سے بھی اور خود میں نے اپنی طرف سے اُن کو کوئی رقم بھجوائی.مجھے خیال تھا کہ جس قسم کی اُن سے انہوں نے باتیں کی ہیں، انہوں نے انجمن کے پیسے بھی نہیں لینے.وہ بہر حال ضرورت مند ہیں ، سارا کچھ لوٹا گیا ہے اُن کا.پیسے بھجوائے ، خط بھیجا.وہاں پہنچے تو ہر چیز لوٹی گئی تھی اس خاندان کی.لیکن اس قسم کا جذبہ ابھرا کہ اُن کی عورتیں باہر نکل آئیں.اُن کو کہنے لگیں کہ ہمارا پیغام دے دو حضرت صاحب کو یہ تو کچھ بھی نہیں ہے.ہمارے مال لوٹ لئے.ہماری جانیں بھی جائیں تو کوئی پرواہ نہیں.احمدیت کی خاطر ہم وہ بھی دینے کو تیار ہیں.الغرض ہر جگہ جہاں ظلم کیا گیا وہاں خدا نے اپنے پیار کا ساتھ دیا.پیار کا نمونہ دکھا دیا.کچی خوابیں اتنی کثرت سے آئیں کہ اب ایسا واقعہ ہونے والا ہے.یہ ہونے والا ہے.تو خدا تو پیار کرنے کے لئے تیار ہے.عملاً وہ کر رہا ہے.یعنی جو اُس سے پیار کرتے ہیں.اُس کی خاطر تکلیف اُٹھاتے ہیں.وہ کان میں آکے یہی کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.

Page 115

۹۵ ۷۴ء میں جب میں نیشنل اسمبلی گیا ہوں.خدا تعالیٰ نے بہت نشان دکھائے.بہت بڑا نشان یعنی عجیب ہے اپنی کمیت VOLUME کے لحاظ سے کہ جب انہوں نے کہا کہ پہلے تو زبر دستی مجھے بلایا.ہم نے کراس ایگزیمن (CROSS EXAMINE) کرنا ہے.پہلے کہا کہ محضر نامہ خود پڑھو جماعت کا.ہم سوال کریں گے.آپ جواب دیں.مجھے پتہ لگا تو میں نے پیغام بھیجا کہ نوے سال پر پھیلا ہوا ہے ہمارا لٹریچر.اور مذہب کا معاملہ ہے.بڑا سنجیدہ ہے.اور میں نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ سارالٹر پچر مجھے زبانی یاد ہے.ایک دن پہلے آپ سوال لکھ دیں، بھجواد ہیں.ہمیں دے دیں.اگلے دن ہم جواب دے دیں گے.انہوں نے کہا نہیں.ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ اُسی وقت سوال ہوگا.اُسی وقت آپ جواب دیں گے.میں نے کہا ٹھیک ہے.دعا کی بھی اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے.قریباً ساری رات میں نے دعا کی خدا سے.خیر مانگی اُس سے صبح کی اذان سے ذرا پہلے مجھے یہ کہا گیا.وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ کہ مہمان تو پہلے سے بھی زیادہ آئیں گے.اتنی بڑی خوشخبری.یہ استہزاء کا منصوبہ تو بنارہے ہیں.یہ ٹھیک ہے.لیکن فکر کیوں کرتے ہو؟ ہم تمہارے لئے کافی ہیں.ان کی رپورٹ جو تھی ، وہ یہ تھی کہ انہوں نے گیارہ دنوں پر پھیلا کر کل باون گھنٹے دس منٹ مجھے CROSS EXAMINE کیا.باون گھنٹے دس منٹ كَفَيْنكَ المُسْتَهْزِعِيْنَ کا مجھے یہ نظارہ نظر آتا تھا جس طرح فرشتہ میرے پاس کھڑا ہے.جہاں مجھے جواب نہیں آتا تھا وہاں مجھے جواب سکھایا جاتا تھا.بعض دفعہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ جواب اس طرح دینا ہے.مثلاً ایک رات شام کو مجھے یہ کہا گیا کہ اس کا جواب نہیں دینا اس وقت کل صبح دینا ہے.میرے پیچھے پڑ گئے.میں نے کہا میں نے دینا ہی نہیں.بہت پیچھے پڑے.میں نے کہا آپ یہ لکھ لیں، میں نہیں جواب دینا چاہتا.میں نے اس وقت جواب نہیں دینا.تو مجھے یہی کہا گیا تھا کہ کل صبح دینا جواب.کیونکہ کل صبح دینے میں اُن کے لئے کافی خفت کا سامان پیدا ہونا تھا.یعنی اس تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے راہنمائی کی.کوئی معمولی بات نہیں ہے.باون گھنٹے دس منٹ پر ہر ہر سوال کا جواب مجھے وصول ہوایا سوال سکھا یا جا تا تھایا یہ کہ اس کا جواب کس طرح دینا ہے، یہ بتایا جاتا تھا.ایک دن یہ سوال کیا.ایک پیرا یہاں سے شروع ہوا.یہ ایک صفحہ سمجھیں اس کو.یعنی بیچ میں لکیر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے.یہاں سے شروع ہوا.یہاں جا کے ختم ہوا.یہاں سے ایک فقرہ اُٹھایا سوال کے لئے.ایک فقرہ ایک پیرے سے اُٹھا کے کہنے لگے ، یہ تو جی بڑے قابل اعتراض فقرے لکھ گئے ہیں مرزا غلام احمد صاحب.تو بڑا فساد پیدا ہوتا ہے.اس قسم کی باتیں شروع کر دیں.مجھے کہا گیا ابھی جواب دو.مجھے جواب کوئی نہیں آتا تھا.

Page 116

۹۶ یعنی یہ حقیقت ہے بغیر ذرا مبالغہ کے کہ میں بالکل اندھیرے میں تھا.میں نے کہا کہ کتاب بھیج دیں، میرے پاس کتاب نہیں ہے.مجھے کتاب بھیج دیں.ابھی میں جواب دے دیتا ہوں.یحییٰ بختیار کہنے لگے.اچھا کل پھر آپ دے دیں.کوئی ضروری نہیں ہے ابھی دیں.میں نے کہا میں کہہ رہا ہوں.میں نے ابھی دینا ہے جواب.تو آپ مجھے کتاب بھیج دیں.دو تین دفعہ تکرار کے بعد وہ لے آیا نشان لگا کے.کتاب میں نے کھولی.جہاں سے وہ پیرا شروع ہوتا تھا، تین چار سطریں نیچے وہ فقرہ تھا جہاں اُس کا جواب تھا.اور میری آنکھ نے وہی پکڑا.میں نے پہلی ہی نظر میں اُس کو پکڑا.میری عادت تھی جہاں مجھے موقع ملتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اُن کے کانوں میں ڈال دیتا تھا.تو میں نے کہا آپ نے ایک فقرہ پڑھا اور اعتراض کر دیا.میں ایک پیرا پڑھ دیتا ہوں اور آپ کو جواب مل جائے گا.میں نے سارا پیرا پڑھ دیا اتنی تفصیل میں.تو اس سے بڑا نشان سوچ بھی نہیں سکتا.گیارہ دن ، باون گھنٹے دس منٹ جو خدا نے کہا تھا، اُس کے مطابق میری رہنمائی کرتا رہا.ایک دن مجھے شام کو خدا نے کہا کہ کل ایک ایسا سوال کیا جائے گا کہ تمہارے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی.میں نے اپنے ساتھیوں کو کہ دیا کہ مجھے خدا نے یہ بتایا ہے، ہوشیار ہو جائیں.گیارہ بجے چائے کا وقفہ ہوا.کوئی ایسا سوال نہیں آیا.سوال آتے گئے.جواب دیتے رہے.کھانے کا وقت آ گیا.کوئی سوال نہیں.شام کی چائے پینے کے لئے بہت سارے وقفے آیا کرتے تھے.اُس وقت تک کچھ سوال نہیں ہوا.بالکل آخری پانچ دس منٹ بلکہ آخری سوال کر دیا.بالکل کسی کو اُس کے جواب کا نہیں پتہ تھا.ہم دے ہی نہیں سکتے تھے اُس کا جواب.بڑی پریشانی اٹھانی پڑی.ہم نے اُن کو کہا کہ کل دیں گے جواب.انہوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے.دیر ہو گئی ہے، کل ہی دے دیں.مشورہ کیا اُس کے جواب کے لئے.فون کیا.دس سال کے الفضل کے فائل منگوائے ربوہ سے.وہاں سے موٹر چلی.صبح کی اذان کے وقت وہاں پہنچی.اُس کو دیکھا.تلاش کیا.وہاں سے وہ جواب ڈھونڈا تب تسلی ہوئی.یعنی ساری رات خدا تعالیٰ نے پریشان رکھا، دعائیں کرائیں.یہ بھی اُس کا احسان ہے.لیکن بتا دیا تھا پہلے کہ اتنی پریشانی اٹھاؤ گے کہ حد نہیں.پھر وہ جواب دیا اُن لوگوں کو.تو انصار اللہ سے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی ذمہ داری ہے ساری دُنیا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.اس کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی ، وہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے شخص کے ذریعے جسے پہلوں نے بھی اور صرف اُسے ہی پہلوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کامل کہا ہے.یعنی پہلے انبیاء کے مقابلہ میں بھی.یہ ہمارا پرانا حوالہ ہے کہ مہدی ، ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ناں ) جو

Page 117

۹۷ پہلے گزر چکے انبیاء، تمام انبیاء سے افضل ہیں.اس لئے کہ عکس کامل ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے.اور کوئی عکس کامل نہیں ، ﴿۲۹﴾ جماعت کی تعلیمی ترقی کے بارہ میں حضرت خلیفہ امسح الثالث کے اہم ارشادات مجلس مشاورت ۱۹۸۰ء کے ایجنڈا کی تجویز نمبر۲ جماعت احمدیہ کے معیار تعلیم کے بارہ میں شوری کمیٹی کی تعلیمی رپورٹ پر مشتمل تھی.سیدنا حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی کے بارہ میں اہم ہدایات جاری فرما ئیں.حضور رحمہ اللہ کے ارشادات کا خلاصہ آپ ہی کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.فرمایا : جب ہم نے یہ کمیٹی بنائی تھی تو اُس وقت سے اب ہم بہت آگے نکل گئے ہیں.گزشتہ جلسہ سالانہ پر میں نے وظائف کا اعلان کیا تھا کہ مستحق اور ذہین طلباء کو بغیر ذہنی نشو و نما کے نہیں چھوڑا جائے گا.اس کا نام انعامی وظیفہ نہیں بلکہ ادائیگی حقوق طلبہ“ رکھنا چاہئے.جتنا کسی کا حق بنتا ہے جماعت اس کا وہ حق ادا کرے.یعنی کسی کے حق کی ادائیگی میں جو کمی ہے وہ جماعت پوری کرے.“ آ ئندہ دس برس کے اندر ہر احمدی قرآن کریم کی تعلیم اپنی عمر کے مطابق سیکھے.یہ کام خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہے.خدام نے کام شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کو احسن انجام تک پہنچنے کی تو فیق عطا کرے.لجنہ کی رپورٹ آ چکی ہے.کراچی میں میں نے سے مارچ کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں ہر احمدی گھرانے میں ایک تو تفسیر صغیر کا ہونا ضروری ہے اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن بھی پڑھنی ضروری ہے جو سورہ کہف تک پانچ جلدوں میں چھپ چکی ہے.میں نے اسی سلسلہ میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ان کے خریدنے کے لئے اپنی اپنی کلب بنا ئیں اور جماعت ایک کمیٹی بنائے جوان ہر سہ تنظیموں میں COORDINATION پیدا کرے اور یہ دیکھے کہ ایک کتاب ایک گھر میں چار راستوں سے داخل نہ ہو.خدام الاحمدیہ کی تنظیم اگر اپنے خادم کو دے دے تو پھر لجنہ یا انصار کو یا جماعتی لحاظ سے اس گھر میں کتاب پہنچانے کی اس مرحلہ میں ضرورت نہیں.یہ جو سکیم میں نے کراچی سے شروع کی تھی ، آج اس میں وسعت پیدا کر رہا ہوں اور اسے ساری جماعت کے لئے دینی تعلیم سکھانے کی بنیاد بنار ہا ہوں.یہ سکیم اس سال مکمل ہو جانی چاہئے.۳۰ " تحریک جدید کے ٹارگٹ میں اضافہ.اخلاص کا ثبوت دینے کی دعوت ہے" صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے انصار کو ایک بیان میں تاکید فرمائی کہ

Page 118

۹۸ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے چندہ تحریک جدید کا سالانہ ٹارگٹ پندرہ لاکھ روپیہ سے بڑھا کر اٹھارہ لاکھ روپیہ کر دیا ہے لہذا خلصین آگے بڑھیں اور اپنے اخلاص و ایمان کا پھر ثبوت دیں.تمام انصار اس تازہ ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے بھر پور تعاون کریں.صدر مجلس نے عہدیداران انصار کو ہدایت کی کہ مجلسی سطح پر کوئی رکن اس صدقہ جاریہ کے ثواب سے محروم نہ رہ جائے.اس مقصد کے لئے ہر ناصر بھائی کو اس میں شامل کیا جائے اور وعدہ کو معیاری بنانے کی سعی کی جائے تاکہ ہم وعدہ اور وصولی ہر دو اعتبار سے حضور کے مقرر فرمودہ ٹارگٹ کے حصول میں کامیاب ہو جائیں.صدر مجلس نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ جملہ مجالس کو اس مہم میں کامیاب و کامران فرمائے اور حسنات دارین سے نوازے.آمین.محترم صدر صاحب نے یہ بیان ۲۴ جون ۱۹۸۰ء کو جاری کیا.﴿۳۱﴾ وصال حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری سلسلہ کے مخلص خادم، نامور عالم دین، محقق ، مفسر اور مقر ر حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ۱۵ستمبر ۱۹۸۰ء کو رات آٹھ بجے اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.آپ کی عمر ۳ ۸ سال تھی.آپ کی نماز جنازہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین کے بعد دعا کروائی.(۳۲) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹ ستمبر ۱۹۸۰ء بعد نماز جمعہ واشنگٹن (امریکہ ) میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جس میں قریباً ایک ہزا ر ا حباب شامل ہوئے.(۳۳) مجلس عاملہ مرکزیہ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۲۸ اکتوبر ۱۹۸۰ء میں مندرجہ ذیل قرارداد تعزیت منظور کی.دد مجلس عاملہ مرکزیہ کا یہ اجلاس سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فاضل اجل عالم باعمل حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کی اندوہناک وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ قاضی صاحب کی وفات پر ہماری وہی کیفیت ہے جس کا اظہار ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا تھا.اَلْعَيْنُ تَدْ مَعُ وَ الْقَلبُ يَحْزُنُ وَلَا نُقُول الْإِبِمَا يَرْضَى بِهِ رَبُّنَا حضرت قاضی صاحب مرحوم زندگی کے آخری سانس تک سلسلہ کی جس طرح بے لوث خدمت انجام دیتے رہے وہ ہم سب کے لئے مشعل راہ رہے گی.محترم قاضی صاحب مرحوم ایک انتھک محنتی اور گہرے غور وفکر کے حامل بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو تقریر اور تحریر میں یدطولیٰ حاصل تھا.آپ کی چالیس کے قریب تصانیف آپ کے تبحر علمی پر شاہد ہیں.اسی طرح آپ کا درس قرآن مجید اور ٹھوس علمی تقاریر ، انداز بیان اور قوت استدلال سامعین پر ایک خاص اثر کی حامل تھیں.خاص طور پر جلسہ سالانہ کی تقاریر حباب جماعت کو ہمیشہ یادر ہیں گی.آپ کو سالہا سال جماعت احمد یہ کے تعلیمی اداروں میں بطور استاد و پرنسپل جامعہ احمدیہ خاص خدمات کا شرف حاصل تھا اور اسی طرح بیشتر

Page 119

۹۹ مبشرین اور نئے علماء جماعت کو آپ سے تلمذ کا اعزاز حاصل تھا.مجلس انصار اللہ کے مرکزی اجتماعات میں ہر سال اپنے علمی مقالہ جات اور تقاریر سے نمایاں حصہ لیتے جس کی کمی کا احساس یقیناً ہمارے لئے ایک ناگزیر امر ہے.محترم قاضی صاحب کی وفات سے ایک بہت بڑا خلا نظر آ رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اپنے فضل سے الہی جماعتوں کے ساتھ اپنی سنت کے مطابق اس کو پُر فرمائے.اللہ تعالیٰ مکرم قاضی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی تو فیق اور جماعت احمدیہ کو نعم البدل عطا فرمائے.آمین.بے اے خُدا بر تربت أو ابر رحمت با بار (۳۴) تنیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۰ء مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ۳۱ اکتوبر و یکم و۲ نومبر ۱۹۸۰ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار دفتر مجلس انصار اللہ مرکز ی ربوہ کے احاطہ میں منعقد ہوا.صدر محترم کی طرف سے خصوصی اپیل اجتماع میں شرکت کے لئے انصار کو صدر محترم نے مندرجہ ذیل ولولہ انگیز الفاظ میں تحریک کی.یہ اعلان ماہنامہ انصار اللہ اور روزنامہ الفضل میں تو اتر کے ساتھ شائع ہوئے.آپ نے لکھا: تنیسواں سالانہ اجتماع انابت الی اللہ، دعاؤں اور ذکر الہی کے زندگی بخش ماحول میں اپنی مخصوص روایات کے ساتھ ربوہ میں منعقد ہورہا ہے.جسے ہمارے محبوب امام حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی اپنے انفاس قدسیہ سے برکت دیں گے.پس خلافت کے پروانوں کے لئے صلائے عام ہے کہ اپنے محبوب امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شمع خلافت کے گردا کٹھے ہو جائیں اور اس اجتماع کی عظیم روحانی برکات سے مستفیض ہو کر اپنی روح کو نئی جلا بخشیں.ابراہیمی طیور! آؤ اور اس روح پر دور فضا میں چند زندگی بخش لمحات گزارو ( ۳۵ ) تفصیلی رپورٹ پہلا دن اجلاس اوّل ۱۳۱ اکتوبر کو تین بج کر پینتیس منٹ پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث حاضرین کے پُر جوش نعروں کی گونج میں سٹیج پر تشریف لا کر کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے.اجتماع میں شامل ہونے والوں کی تعداد منتظمین کی تو قعات

Page 120

سے کہیں زیادہ تھی.پنڈال کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور اس سے باہر ایک کثیر تعداد حاضرین کی موجود تھی.حضور انور نے منتظمین و ارشاد فرمایا کہ قناتیں ہٹا کر ٹھیک طرح لپیٹ دی جائیں تا کہ سب لوگ اطمینان سے بیٹھ کر کارروائی سن سکیں.حضور رحمہ اللہ کے ارشاد پر مکرم قاری محمد عاشق صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی اور مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے پہلے کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے چند اشعار سُنائے اور پھر اپنی ایک استقبالیہ نظم پیش کی.بعدہ انصار نے حضور کی اقتداء میں اپنا عہد دہرایا.﴿۳۶﴾ حضرت اقدس کا افتتاحی خطاب ٹھیک چار بج کر دس منٹ پر سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اپنے بصیرت افروز افتتاحی خطاب میں تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اپنے حالیہ دورہ یورپ، افریقہ وامریکہ کے پس منظر اور واقعات سے انصار کو آگاہ فرمایا اور احمدیت کے حق میں رونما ہونے والی عظیم الشان تبدیلیوں کا رُوح پرور اور پر کیف تذکرہ فرماتے ہوئے اس تاثر کا اظہار فرمایا کہ جماعت کو ایثار پیشہ اور ذہن مبلغین کی بہت زیادہ ضرورت ہے.حضور نے فرمایا: ۲۶ جون کو میں ربوہ سے سفر پر روانہ ہوا تھا اور ۲۶ اکتوبر کو واپسی ہوئی.جہاں تک ربوہ سے جانے اور واپس آنے کا سوال ہے پورے چار ماہ ہوئے.ان چار ماہ میں تین بر اعظموں میں زمانہ کی آنکھ نے جو دیکھا وہ تو ایک لمبی داستان ہے.آہستہ آہستہ بیان کروں گا.یہاں آتے ہی ابھی کوفت دور نہیں ہوئی تھی کہ نئی ذمہ داریاں آگئیں.آج جمعہ، پھر انصار اللہ کا اجتماع ، پھر چند دن کے بعد ایک جمعہ اور خدام الاحمدیہ کا اجتماع.یہ کام ۳۱ اکتوبر سے ۹ نومبر تک رہیں گے.پھر سلسلہ دوسری نوعیت کے کام کا شروع ہو جائے گا.اس کے بعد شائد کچھ آرام کا بھی موقع ملے.اگر نہ ملے تو بھی حرج نہیں کیونکہ جب تک میں کام میں لگا رہتا ہوں مجھے کوفت کا احساس نہیں ہوتا.جب کام کم ہو جاتا ہےاس وقت تکان اپنا سر اٹھاتی ہے.یہ جو کچھ ہو گیا ان چار مہینوں میں اس کا ایک پس منظر بھی ہے.جمعہ کے خطبہ میں میں نے تحریک جدید کا پس منظر بیان کیا.کیونکہ اسی پس منظر کے تسلسل میں ہم اس زمانہ میں داخل ہوئے اور اس میں سے گزرے.مختلف واقعات کا ایک اور سلسلہ ہے.اس وقت میں ان کے متعلق کچھ بتاؤں گا اور پھر انصار اللہ کی جو ذمہ داریاں ہیں چند ایک کا ان میں سے ذکر کروں گا.محل الحمرا کا وجد آفریں تذکرہ سپین میں،۷ء میں بھی میں گیا.میڈرڈ گئے ، وہاں سے قرطبہ گئے.میڈرڈ کے قریب ایک قصبہ ہے طلیطلہ.کچھ عرصہ طلیطلہ مسلمان حکومت کا دارالحکومت بھی رہا.یہ قریباً ستر میل کے فاصلہ پر

Page 121

1+1 ہے.پھر غرناطہ گئے.وہاں عجائبات روحانی و مادی کا ایک شاندار مجموعہ ہے.ایک محل ہے وہاں جو بہت سے معجزات اپنے اندر رکھتا ہے.عقل اور مہارت جو اللہ تعالیٰ سے اُسی کے حضور جھک کر اور اس کے حضور دعائیں کر کے مسلمان نے حاصل کی.اس عقل اور مہارت کے نقوش ہی نہیں بلکہ بعض حقیقتیں بھی ان جگہوں پر جو پانچ سو سال سے کھنڈر کی شکل میں پڑی ہوئی ہیں ، آج بھی ہمیں نظر آتی ہیں.مسلمان کی یہ عظمت، مسلمان کی عاجزی اور اس کی دعا اور اس کی تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے قائم کی.اس محل کی تعریف یہ ہے کہ بادشاہ وقت نے بڑے شوق سے بڑی دولت خرچ کر کے اسے تیار کروایا.کہتے ہیں تین ہزار سنگ تراش کئی سال کام کرتے رہے اس کو بنانے پر.اور فصیل اس کی ایک وسیع خطہ ارض کو گھیرے ہوئے ہے.درود یوار اور گنبدوں ، محرابوں کو بہت خوبصورت سجایا گیا.جب بادشاہ وقت اپنے درباریوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار اس محل کی طرف روانہ ہوئے تو شیطان نے دل میں وسوسہ پیدا کیا اور انانیت نے جوش مارا.میں اتنا بڑا بادشاہ کئی ہزار ساری دنیا سے آئے ہوئے ماہرین فن یہاں جمع ہوئے ”میری خاطر“ ”میری خاطر انہوں نے اتنے سال کام کیا اور اتنی عظیم چیز تیار ہوگئی.ساتویں عجوبہ سے بھی بڑھ کر ایک عجوبہ.ایک چشمہ اندر ہی اندر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دیا گیا.بغیر پھول اور پھل اور گھاس کے تو وہ لوگ رہ ہی نہیں سکتے تھے.اُن کو قدرت کے مناظر بڑے پسند تھے.”میں“.”میں“ نے جوش مارا تو خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اسے جھنجھوڑا.یہ ”میں“ ”میں“ کیا لگائی ہے.جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی نعمت تمہارے پاس ہے.تمہارے شامل حال ہے وہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہے.تمہارے زور بازو سے یا تدبیر سے یا دولت سے نہیں ملی تمہیں.جب فرشتوں نے اسے جھنجھوڑا تو وہ سخت پریشان ہوا اور ابھی جب وہ دروازے سے باہر ہی تھا.اس نے گھوڑے سے چھلانگ ماری اور زمین پر سجدہ کر دیا اور کہنے لگا واپس چلو.میرے رہنے کے لئے نہیں یہ حل.اور انجینئرز سے کہا کہ سارے نقوش مٹاؤ اور ان در و دیوار اور چھتوں پر صفات باری لکھو خوبصورتی کے لئے.اور لا غَالِبَ إِلَّا الله کو اس محل کے حسن کا مرکزی نقطہ بناؤ.چاروں طرف دیوار پر یوں چل رہی ہے پٹی.لَا غَالِبَ إِلَّا الله.لَا غَالِبَ إِلَّا الله.لا غَالِبَ إِلَّا اللہ پھر اس میں بیضوی شکل میں اور گول شکلوں میں بھی.اس کے علاوہ الْقُدْرَةُ لِله.الْحُكْمُ لِله.الْعِزَّةُ لِلہ لکھا ہوا ہے تا یہ ظاہر ہو کہ یہ ساری خوبصورتی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے لئے تھی.دیوار میں بھی اپنی خاموشی کے باوصف خدا کی حمد کے ترانے گا رہی ہیں.پھر کئی سال مزید لگے اور سنگ تراشوں نے سنگ میں سے یہ حروف ابھارے ہیں.دو.دو.تین.تین سوت

Page 122

۱۰۲ تراشا ہے سنگ کو.بعض حصوں پر تو زمانے نے اثر کیا ہے.لیکن بعض حصے ایسے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ لا غَالِبَ إِلَّا الله یہاں کل کندہ کیا گیا ہے اس پتھر پر.....خدا تعالی بڑی طاقت والا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کر دیتا ہے ط ہر یہ پیار اسلام کے ساتھ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ او محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کے ساتھ.یہ شان وہاں نظر آئی.دل بے چین ہو گیا.۷۰ء کی بات میں کر رہا ہوں.خدا تعالی دعا کی توفیق دیتا ہے.اتنی سخت بے چینی اور کرب پیدا ہوا کہ میں ساری رات خدا کے حضور دعا کرتا رہا کہ خدایا! وہ شان تھی اور یا اس ملک میں ایک مسلمان بھی باقی نہیں رہا، اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں.اور میں نے کہا.اے خدا رحم کر اس قوم پر.اسلام کی روشنی اور اسلام کا حسن پھر انہیں دکھا اور اسلام کے جھنڈے تلے انہیں جمع کرنے کے سامان پیدا کر صبح کی اذان کے وقت مجھے خدا تعالیٰ نے بڑے پیار سے یہ کہا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ جو لوگ خدا پر توکل کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کافی ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِ؟ - خدا تعالیٰ بڑی طاقت والا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کر دیتا ہے.کوئی اس کو روک تو نہیں سکتا نا.قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا لیکن چیز کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کیا ہے.ہوگا تو سہی یہ یعنی تیری دعا تو قبول کی جاتی ہے لیکن ہوگا اپنے وقت پر.مجھے تسلی ہو گئی.۷۰ء میں تعصب کا یہ حال تھا کہ طلیطلہ جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے.یہ جو ہمارا انصار اللہ کا ہال ہے اس سے بھی چھوٹی ٹوٹی پھوٹی ایک مسجد، گردوغبار سے اٹی ہوئی، کوئی دیکھ بھال بھی اس کی نہیں ہو رہی تھی.اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان تھا.میں نے کرم الہی صاحب ظفر کو کہا کہ ایک درخواست دیتے ہیں حکومت کو کہ بیس سال کے لئے ہمیں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں.وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ مانگتے کیوں نہیں کہ ہمیں دے دیں یہ مسجد.میں نے کہا نہیں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا اپنی مسجد بنانے کی ، اس واسطے مانگنا نہیں.وہ کہنے لگے.پھر سو سال کے لئے نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں.میں نے کہا کیا با تیں کرتے ہو! سو سال.میں سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ انقلاب بپا کرے گا....اور دس سال نہیں گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی قرب قرطبہ میں مسجد بنانے کی.ہاں ایک اور چیز بتادوں.اُس وقت میری نگاہ نے دو جگہ کا انتخاب کیا جہاں ہماری مسجد بن سکتی ہے عوام کی طبیعت کے لحاظ سے، ایک طلیطلہ وہاں تھوڑی دیر کے لئے گئے اور طلیطلہ کے عوام نے ہم سے بڑے پیار کا اظہار کیا اور ایک قرطبہ جس کے

Page 123

۱۰۳ مکین ہنس مکھ کوئی غصہ نہیں کوئی پرانی عداوت نہیں، کوئی تعصب نہیں ، بڑے پیار سے ملتے تھے.اللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ سارا جائزہ لے کے میں نے کہا مسجد یہاں بنے گی.انشاء اللہ.اور اب دس سال گزرے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.قریباً ڈیڑھ دو گھماؤں زمین ہم نے وہاں خرید لی اور خریدنے سے پہلے میں نے انہیں کہا کہ لوکل آبادی سے اور مرکز سے یہ تحریر لو کہ ہمیں مسجد بنانے کی اجازت دیں گے.تو مقامی انتظامیہ نے بھی اور مرکزی حکومت نے بھی تحریری اجازت دی کہ یہاں تم مسجد بنا سکتے ہو.پھر ہم نے وہ زمین خرید لی.یہ ہے اللهُ غَالِبٌ عَلَى آمَرِ؟ اور وقت مقد ر تھا.ہمارے مبلغ صاحب تو کہہ رہے تھے سو سال تک دوسروں کی مساجد میں نماز پڑھیں گے.میں نے کہا تھا نہیں.انقلاب عظیم بڑی جلدی بپا ہونے والے ہیں.دس سال کے بعد ہمیں اجازت مل گئی....وَسِعُ مَكَانَكَ ایک اور واقعہ اس عرصہ میں ہوا.اللہ تعالیٰ اپنے جاں شاروں کا امتحان بھی لیتا ہے.۷۴ ء کا واقعہ جو سب جانتے ہیں.حکومت وقت نے یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ کو قتل کر کے سڑک کے پرے پھینک دیا اس کا لاشہ.مگر اس وقت بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا ئیں.ان میں سے ایک یتھی وَسِعُ مَكَانَكَ کہ مہمان تو پہلے سے بہت زیادہ آتے رہیں گے، ان کا انتظام کرو.إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِعِینَ یہ جو استہزاء کا منصوبہ بنا رہے ہیں.اس کے لئے میں کافی ہوں تمہارے لئے.( پُر جوش نعرے) جہاں تک استہزاء کا منصوبہ تھا.وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَالله خَيْرُ الْمُكِرِينَ کا نظارہ دنیا نے دیکھ لیا اور جہاں تک آنے والوں کا نظارہ تھا آج دیکھ لو وَسِعُ مَكَانَگ چھ سال کے اندر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی پاکستان میں نیز بیرونی ممالک میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی ( مزید پر جوش نعرے) یہ بھی ایک پس منظر ہے.واقعات بعد میں بتاؤں گا.مساجد بنائیں ایک اور پس منظر.یورپ میں فن لینڈ کے علاوہ سیکنڈے نیویا کے تین ملک ہیں.ڈنمارک، سویڈن اور ناروے.ناروے میں سب سے بڑی جماعت ہے.وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں نماز پڑھی جاسکے، بچوں کی تربیت و تعلیم کا انتظام ہو سکے.اس سال جس مسجد ، مشن ہاؤس کا میں نے افتتاح کیا ناروے میں ، یہ پہلے مکان سے ڈیڑھ گنا بڑا مکان ہے.نہایت اچھی لوکیلٹی (LOCALITY)، شرفا کا محلہ جہاں کوئی نعرہ بازی بھی نہیں ہوتی.دنیا کے ہر ملک میں نعرہ باز بھی

Page 124

۱۰۴ ہیں.اچھے لوگ بھی ہیں.بُرے لوگ بھی ہیں.نہایت شریف لوگوں کا وہ علاقہ ہے اور تین منزلہ وہ مکان ہے اور بڑا اچھا بنا ہوا.البتہ مرمت طلب تھا.پر انا مکان تھا.قریباً تمھیں پینتیس لاکھ کی اس کے لئے ضرورت پڑی تھی.پچھلے سال خریدا گیا تھا اور اس سال میں نے اس کا افتتاح کیا ہے.اور انگلستان ، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ ان ملکوں میں اتنا پیسہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت ادا کر دیں گے.اور وہاں کے میئر مجھے کہنے لگے، آپ نے بڑا خرچ کر دیا.میں نے کہا خرج تو بڑا نہیں کیونکہ ہماری ضرورت کے مطابق ہے.کئی سواحمد ی تھا.ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی تھی.نماز میں اکٹھے پڑھنے کا انتظام نہیں تھا.اللہ تعالیٰ کے انعامات جو بارش کی طرح برستے ہیں ان تک وہ انعامات پہنچتے نہیں تھے.ان باتوں سے تقویت ایمان ہوتی ہے.کوئی جگہ ہی نہیں تھی آپس میں مل بیٹھنے کی.یہاں بھی آپ مساجد بنایا کریں کیونکہ جو گھروں میں پڑھتے ہیں نماز با جماعت بعض جب چھوٹی سی رنجش ہو جائے آپس میں تو ایک دوسرے کے گھر نماز پڑھنے کے لئے بھی نہیں آتے.بڑی بُری بات ہے.لیکن میں کہتا ہوں چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجش تو ہو ہی جاتی ہے انسان کی.پھر بعد میں تو بہ کر لیتا ہے.کیوں نہیں تم خدا کا گھر بناتے جس پر کسی انسان کا کوئی حق نہیں ، اللہ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے ہر موحد جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں چاہے وہ موحد ، عیسائیت میں جو موحدین کے فرقے ہیں ، اس سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو.انسان کا حق ہی نہیں کہ وہ دروازے بند کرے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کے لئے کسی کے اوپر.مساجد بنا ئیں.جماعت کو ایثار پیشہ، ذہین مبلغین کی بہت زیادہ ضرورت ہے یہ جو حالات دیکھے اصولی طور پر اس سے ہمیں یہ تاثر ملا کہ جماعت کو ایثار پیشہ، ذہین مبلغین کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ذہن دیا ہے اور ایثار بھی دیا ہے.اخلاص بھی دیا ہے لیکن ایثار اور اخلاص کے بعض پہلو پوری طرح ابھی چھکے نہیں.پالش نہیں ہوئی انہیں.پالش کریں ان کو.بچے دیں جامعہ کے لئے لیکن ذہین بچے.ایک وقت میں جس شخص کا بچہ بالکل جاہل ، خر دماغ ہوتا تھا اور میٹرک میں دو نمبر لے کے وہ پاس ہو جاتا تھا ، وہ خدا تعالیٰ پر احسان جتانے کے لئے آکے جامعہ میں داخل کر دیتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی چھوڑ کے چلے گئے.بڑی بدمزگیاں ہو گئیں.اب میں نے یہ قانون بنایا ہے کہ اصل تو مجھے چاہئیں فرسٹ ڈویژن کے بچے لیکن سیکنڈ ڈویژن والوں کو ایک حد تک برداشت کر لیں گے.تھرڈ ڈویژن والوں کو نہیں لیں گے.اب اس سال بھی میں آیا ہوں

Page 125

۱۰۵ تو میرے سامنے ایک فہرست میں تین بچے تھرڈ ڈویژن والے پیش کر دیئے گئے کہ بچے تھوڑے ہیں اس لئے تھرڈ ڈویژن والوں کو بھی داخل کرنے کی اجازت دے دیں.میں نے اوپر تو نہیں لکھا اس کاغذ کے لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ اگر ایک بھی نہ آتا اور یہ تین آتے تو میں کلاس جاری نہ کرتا.ان تین بچوں کو میں نے نہیں لینا.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے فائدے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس رکابی میں بال آیا ہو باریک تریر ، جو انگلی اگر پھیریں تو انگلی محسوس بھی نہیں کرے گی.اس میں کھانا نہ کھاؤ.کیونکہ وہاں بیکٹریا پرورش پاتا ہے اور انسان کو انفیکشن (INFECTION) یعنی بیماری ہو جائے گی.خدا کے جس رسول نے آپ کا اتنا خیال رکھا، آپ اپنا ٹوٹا ہوا بیٹا اس کے حضور پیش کرنے کی کس طرح جرات کرتے ہیں.تو اصل تو مجھے فرسٹ ڈویژن کے چاہئیں.قرآن کی تعلیم کامل نمونہ ہے.اس کے نقوش پر چلو دنیا میں اسلام کے حق میں ایک انقلاب بپا ہورہا ہے.یہ انقلاب آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ صحیح اسلام اس کے سامنے پیش کیا جائے.اسلام جس کے معنی ہیں حقوق انسانی کی ادائیگی کے خواہ وہ انسان دہریہ اور خدا کو گالیاں دینے والا ہی کیوں نہ ہو.قرآن کریم نے ہر چیز کو کھول کے بیان کر دیا.اسلامی تعلیم کا مطالبہ کرتا ہے یہ انقلاب.میں جب پیش کرتا ہوں بعض دفعہ کہہ دیتا ہوں.جو تعلیم پیش کر رہا ہوں تم میں جرات نہیں ہوگی کہ کہو کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں یا ہم یہ تسلیم نہیں کرتے.کسی کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہنے کی کہ نہیں یہ خراب ہے ، ہم نہیں مانتے.اور قسم کے اعتراض کر جاتے ہیں.یہ کہہ دیتے ہیں کہ کہاں کون سے مسلمان ان پر عمل کر رہے ہیں.میں کہتا ہوں میں تمہارے پاس قرآن پیش کر رہا ہوں.میں تمہارے سامنے نمونہ سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو پیش نہیں کرتا.یہ قرآن ہے اس کی تعلیم دیکھو.وہ نمونہ ہے کامل نمونہ.اس کے نقوش پر چلو.جو اس کے نقش قدم پر ٹھیک طرح چلا وہ ایک حد تک تمہارے لئے اسوہ بن گیا.جو نہیں چلا وہ تمہارے لئے اسوہ نہیں ہے.اس کی طرف کیوں دیکھتے ہو.پس منظر کی ایک آدھ بات دوسری بھی میں نے تھوڑی سی بتا دی ہے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ یہ تو لمبا سلسلہ ہے.میں نے ایک بار آپ سے پھر باتیں کرنی ہیں.اس موقع پر میں اس کا کافی حصہ انصار اللہ کو اس موقع پر کچھ بتاؤں گا.پھر خدام الاحمدیہ میں دو یا تین تقاریر ہیں.یہ بھی نہیں میں کہہ سکتا.اس میں میں بتاؤں گا.انصار تو خدام الاحمدیہ میں نہیں آتے لیکن ہر ضلع اپنے پانچ دس نمائندے بھیجے جو ان کو جا کے بتائیں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں میں نے کیا کہا.بہر حال وہ موجود رہنے

Page 126

1+4 چاہئیں کیونکہ بہت سی اہم باتیں کرنے کا ارادہ ہے میرا اور اللہ توفیق دیتا ہے.دعا کریں آپ کہ اللہ آپ کو اور مجھے توفیق دے اور آپ کو باتیں سنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین ۳۷ ورزشی و تفریحی مقالے سیدنا حضرت اقدس کے اس ایمان افروز افتتاحی خطاب کے بعد اجتماع کا پہلا اجلاس ختم ہوا.بعدہ تقریباً پانچ بجے ورزشی مقابلوں میں رسہ کشی کے دو مقابلے ہوئے.پہلا مقابلہ ربوہ اور مجالس ہائے صوبہ پنجاب کی ٹیموں کے مابین ہوا.اس میں پنجاب کی ٹیم جیت گئی.دوسرا مقابلہ کراچی وسرحد اور سندھ و بلوچستان کی ٹیموں کے درمیان ہوا جس میں اول الذکر ٹیم جیتی.والی بال کے میچ میں کراچی وسرحد کی ٹیم کا مقابلہ پنجاب کی ٹیم سے ہوا جو پنجاب ٹیم نے جیتا.ان کے علاوہ گولہ پھینکنا اور کلائی پکڑنا کے انفرادی مقابلے بھی ہوئے.مکرم شیر محمد صاحب کسووال پینتیس فٹ تین انچ گولہ پھینک کر اول رہے جبکہ مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور مکرم احمد خان صاحب ریحان علی الترتیب دوم اور سوم قرار پائے.کلائی کے مقابلہ میں مکرم محمد اکبر صاحب بھیرہ اوّل ، کرم فضل الہی صاحب ربوہ دوم اور مکرم عطاء اللہ صاحب چک چہو رسوم قرار پائے.چھ بجے شام سے ساڑھے سات بجے تک نماز مغرب و عشاء اور کھانا کھانے کے لئے وقفہ ہوا.اجلاس دوم نمازوں اور کھانے کے بعد دوسرا اجلاس ساڑھے سات بجے مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم قاری عاشق حسین صاحب نے کی.مکرم الحاج چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کا منظوم اردو کلام خوش الحانی سے سنایا.اس کے بعد مکرم حافظ مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلا مربی سلسله ضلع سرگودها، مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نائب وکیل التبشیر اور مکرم مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مربی سلسلہ نے علی الترتیب قرآن کریم، احادیث نبویہ اور ملفوظات حضرت مسیح موعود کا درس دیا.مکرم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ نے سرور کائنات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ایک پہلو صبر واستقلال“ کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کل اور صبر واستقلال ایسا تھا کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی.جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل انسان تھے ، آپ کی سیرت کا ہر پہلو بھی اپنے اندر کمال رکھتا ہے.مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف نے آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر سیرت صحابہ آنحضرت

Page 127

صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان افروز تقریر کی.آپ نے صحابہ کے صبر و استقلال کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے بہت سے کبار صحابہ کے واقعات بیان کئے اور بتایا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس زمانہ میں آج بھی ہمیں وہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں.اس ضمن میں آپ نے حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی قربانی کا بھی ذکر کیا.مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ جو حضور اقدس کے حالیہ دورہ بیرونی ممالک میں آپ کے ہمراہ تھے ، سفر کے ایمان افروز حالات سنائے.تقاریر کے دوران مکرم ماسٹر برکت علی صاحب نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی مشہور نظم علیک الصلوۃ علیک السلام “ خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.دوسرادن اجلاس اوّل وو دن کی ابتداء سوا چار بجے نماز تہجد سے کی گئی.نماز فجر کے بعد اجلاس اوّل شروع ہوا.اس اجلاس کا بنیادی عنوان درود شریف کی برکات تھا.مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے قرآن کی آیت اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي...کی تلاوت فرمائی اور بڑے دلکش اور مؤثر انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی برکات پر روشنی ڈالی.بعدہ مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب دیا گڑھی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے فضائل اور برکات پر مشتمل چند احادیث کا درس دیا.مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب نے ملفوظات حضرت مسیح موعود میں سے چند حوالے پڑھ کر سنائے جن میں اس عاشق رسول نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی برکت اور فضائل بیان فرمائے ہیں.درس کا یہ سلسلہ پانچ بج کر پینتیس منٹ سے لے کر چھ بج کر ہمیں منٹ تک جاری رہا.چند ضروری اعلانات کے بعد چھ بج کر پچیس منٹ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر تین تقاریر ہوئیں.حضور کی اہلی زندگی کے بارہ میں مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل نے پندرہ منٹ تک تقریر کی.مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق نے حضور کی ہمدردی مخلوق“ کے موضوع پر تقریر کی اور پھر صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق تربیت پر نہایت دلکش اور مؤثر رنگ میں خطاب فرمایا.سو اسات بجے صبح یہ اجلاس ختم ہوا اور ناشتہ وغیرہ کے لئے وقفہ ہوا.اجلاس دوم اجلاس ٹھیک پونے نو بجے مکرم چوہدری انور حسین صاحب کی صدارت میں مکرم حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب کی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جس کے بعد مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب سکھر نے ایک نظم پیش کی.

Page 128

1+1 نو بجے سے ساڑھے نو بجے تک صحابہ رسول ” حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی سیرت پر علی الترتیب مکرم مولوی برکت اللہ صاحب محمود اور مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے تقاریر کیں.ساڑھے نو بجے مکرم پروفیسر بشارت الرحمان صاحب نے صد سالہ احمد یہ جو بلی کے تحت تعلیمی منصوبہ اور ہماری ذمہ داری“ کے عنوان پر ایک مؤثر تقریر کی.”ہورہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار دس بج کر دس منٹ پر مندرجہ بالا عنوان کے ماتحت کچھ نئے احمدی احباب نے خدائی القاء اور رویاء صالحہ اور الہامات کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں شمولیت کے نہایت پر اثر اور ایمان افروز واقعات بیان کئے.ان میں مکرم حافظ صوفی محمد یار صاحب ملتان ، مکرم چوہدری محمد رمضان صاحب، مکرم سعید بلال صاحب، مکرم چوہدری محمد یعقوب صاحب اور مکرم ماسر محمد شریف صاحب وغیرہ کے واقعات شامل ہیں علاوہ ازیں مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب، مکرم مولوی عبد المالک خان صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی اس طرح کے بصیرت افروز واقعات بیان فرمائے.اجلاس مجلس شوری گیارہ بجے شوری کا پروگرام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی صدارت میں شروع ہوا جس میں مجلس انصار اللہ کا سال ۱۹۸۱ء کا بجٹ زیر بحث آکر منظور ہوا.ڈیڑھ بجے سے تین بجے تک طعام اور نماز ظہر و عصر کے لئے وقفہ ہوا.﴿۳۸﴾ اجلاس سوم ٹھیک تین بجے صدر محترم کی زیر صدارت تیسرا اجلاس شروع ہوا.کارروائی کا آغاز مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی ایک نظم پڑھ کر سنائی.ازاں بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے قرآن کریم کا درس دیتے ہوئے قرآن پاک کی آیت إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ کی نہایت پر معارف اور لطیف تفسیر فرمائی اور مالوں اور جانوں کی قربانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ اسی میں فوز عظیم کا راز مضمر ہے.درس قرآن کریم کے بعد صحابہ حضرت مسیح موعود ، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولانا شیر علی صاحب کی سیرت پر علی الترتیب مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد اور مکرم مولانا

Page 129

1+9 دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت نے نہایت بصیرت افروز واقعات پر مشتمل تقاریر فرمائیں.مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے مکرم مولا نا چراغ الدین صاحب کا مضمون بھی پڑھ کر سنایا کیونکہ انہیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے طلب فرما لیا تھا.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب، مکرم ملک سیف الرحمان صاحب ، مکرم سید احمد علی شاہ صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پر مشتمل ایک بورڈ نے حاضرین جلسہ سے سوالات کئے اور تسلی بخش جوابات نہ ملنے پر بعض سوالات کی وضاحت فرمائی.ورزشی مقابلے شام ساڑھے چار بجے ورزشی مقابلے ہوئے جن میں رسہ کشی ، والی بال، میوزیکل چیئر اور دوڑ سوگز شامل ہے.نتائج درج ذیل رہے: رسہ کشی: اول پنجاب، دوم کراچی سرحد والی بال : اول ر بوه ، دوم پنجاب.میوزیکل چیئر : اول منظور احمد صاحب قریشی لاہور ، دوم محمد یوسف صاحب حیدر آباد، سوم محمد یوسف صاحب چک ۳۸ جنوبی ضلع سرگودھا.سوگز کی دوڑ: اول: جمیل احمد صاحب طاہر ربوہ ، دوم نائب صوبیدار منظور احمد صاحب ربوہ ،سوم نذیراحمد صاحب ربوہ.اجلاس چهارم رات آٹھ بجے اجلاس چہارم تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو کہ مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری نے کی.مکرم حکیم نذیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کی نظم ” جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا سنائی.آٹھ بج کر دس منٹ پر مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی نے انصار اللہ کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر ایک مؤثر تقریر کی.آپ نے کہا کہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفہ وقت کی تحریکات پر نہ صرف خود عمل کریں بلکہ عمل کروائیں.خصوصاً قرآن کریم کے انوار سے خود کو منور کر کے مجسم نور بن جائیں اور پھر معلم کی حیثیت سے ساری دنیا کو قرآنی علوم سے منور کر دیں.اس تقریر کے بعد آٹھ بج کر تمیں منٹ پر مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ نے تربیت اولاد کے موضوع پر ایک پُر مغز تقریر فرمائی.آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر مکرم ملک مبارک احمد صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تبلیغ کے عنوان سے تقریر فرمائی.اس تقریر کے بعد رات دس بجے تک حضورانور کے حالیہ با برکت دورہ کی چند جھلکیاں حاضرین کو دکھائی گئیں جو تازگی ایمان کا موجب بنیں.

Page 130

تیسرا دن تیسرے دن کی ابتداء حسب معمول نماز تہجد کی باجماعت ادا ئیگی سے ہوئی جو کہ مکرم قاری عاشق حسین صاحب نے پڑھائی.پھر نماز فجر ادا کی گئی.اجلاس اوّل صبح آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے قرآن کریم کا درس دیا.اس کے بعد پندرہ منٹ تک مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے حدیث کا درس دیا.بعد ازاں مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب قائد تعلیم نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے.چھ بج کر بیس منٹ پر مکرم شیخ محمد حنیف صاحب کوئٹہ نے عاجزی اور فروتنی کے عنوان سے پندرہ منٹ تک تقریر کی.” تکبر اور بدظنی کے عنوان سے مکرم سید احمد علی شاہ صاحب نے تقریر کی اور ان برائیوں سے بچنے کی بڑے پر اثر انداز میں نصیحت کی.ذکر حبیب: سات بج کر پانچ منٹ پر مکرم قائد صاحب تعلیم کے زیر انتظام ذکر حبیب پر ایک ایمان افروز پروگرام ہوا جس میں پہلے مکرم مولانا محمد احمد صاحب جلیل نے ایک مقالہ پڑھا.پھر حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر فرمائی.سات بج کر پینتیس منٹ پر ناشتہ کے لئے وقفہ ہوا.اجلاس دوم نو بج کر پندرہ منٹ پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدارت میں اجلاس دوم شروع ہوا.مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی.اس کے بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چندا شعار پڑھ کر سنائے.نو بج کر تمیں منٹ پر مجلس سوال و جواب شروع ہوئی.مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب، مکرم ملک سیف الرحمان صاحب، مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مختلف مسائل پر کئے گئے سوالات کے نہایت تفصیل سے جوابات دیئے.علمی معلومات کا یہ سلسلہ تقریباً پونے گیارہ بجے تک جاری رہا.صدر محترم کا پُر معارف صدارتی خطاب اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے نہایت پر معارف صدارتی خطاب فرمایا.آپ نے آیت مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عمل صالح کے بغیر تمام عزتیں بیچ ہیں.ہر قسم کی عزت خدا کے لئے ہے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کو معزز کرے.آپ نے فرمایا

Page 131

قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو.لوگوں کو رحم کے ساتھ نصیحت کرو.ہر نمازی ایک بے نماز کو ساتھ لانے کی کوشش کر کے جلسہ سالانہ میں حسن پیدا کریں.جلسہ کے اوقات میں اور خصوصاً نمازوں کے اوقات میں بازار بند ہونے ضروری ہیں.فرمایا ہمارے اس جلسے کی حیثیت عام میلوں کی طرح نہیں ہے اس لئے انصار کو چاہئیے کہ وہ بچوں کو یہ تلقین کریں کہ وہ تقاریر کے دوران صرف تقاریر ہی سنیں.اس کے بعد باقی کام کریں تو اس میں بھی ایک عزت ہے.اختتامی اجلاس گیارہ بج کر دس منٹ پر حضرت خلیفہ مسیح الثالث" مقام اجتماع میں تشریف لائے.مکرم قاری عاشق حسین صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی.گیارہ بج کر ہیں منٹ پر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کی نظم فَسُبْحَانَ الَّذِى اَخْرَى الْاعَادِئی خوش الحانی سے سنائی.بعد ازاں مکرم ثاقب زیروی صاحب نے اپنی نظم بعنوان ”وہ ایک شخص پڑھ کر سنائی جو آپ نے ایک افریقن دوست کے ایمان افروز خط سے متاثر ہو کر لکھی تھی.گیارہ بج کر چالیس منٹ پر حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے نیز اعلیٰ کار کردگی پر اسناد خوشنودی تقسیم فرما ئیں.﴿۳۹﴾ خطاب حضور انور گیارہ بج کر پچاس منٹ پر حضرت خلیفہ المسح الثالث نے خطاب شروع فرمایا جو ایک بجے بعد دو پہر تک جاری رہا.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے وجد آفریں لہجے میں ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے.وہ قیام تو حید اور عظمت مصطفیٰ کے لئے ہو رہا ہے اور اس ضمن میں حضور نے افریقہ کے بعض ایمان افروز واقعات سنائے.حضور نے فرمایا: بعض بہت ہی اہم باتیں میں خدام، انصار اور لجنہ یعنی جماعت سے کرنا چاہتا ہوں.اس لئے ایسی باتوں کا ذکر میں نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع تک ملتوی کیا ہے اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہر ضلع کے انصار کے نمائندے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے چاہئیں لیکن لجنہ میں میں علیحدہ تقریر میں وہ باتیں مختصر بیان کر دوں گا.لجنہ کا اجتماع خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ساتھ ہوتا ہے.اُن سے علیحدہ باتیں ہو جائیں گی.بہت سی تو ایسی باتیں ہیں جن کا میری ذات سے تعلق بظاہر نظر آتا ہے وہ تو مجھے حجاب ہوگا شاید میں نہ بیان کروں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری ذات سے کسی چیز کا بھی تعلق نہیں اس لئے کہ میں ایک نہایت ہی عاجز انسان ہوں اور جو کچھ بھی اِس وقت دنیا میں ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ

Page 132

۱۱۲ کی سچی توحید کے قیام کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دلوں میں گاڑنے کے لئے ہو رہا ہے.پہلے میں افریقہ کے ان دو ملکوں کو لیتا ہوں جن میں میں گیا اس سفر میں.بہت پھرا ، ہمیں تمہیں ہزار میل کا غالبا سفر کیا ہے میں نے ان دنوں میں، پھر بھی ہر جگہ نہیں جاسکا.مغربی افریقہ کے بہت سے ملکوں میں دل کرتا تھا کہ جاؤں جہاں نصرت جہاں سکیم، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری کی گئی تھی ، کام کر رہی ہے.صرف نائیجیریا اور غا نا میں جاسکا.نائیجیریا میں انقلاب عظیم ذہنی طور پر بپا ہورہا ہے نائیجیریا میں جو انقلاب عظیم ذہنی طور پر بپا ہو رہا ہے، اُس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے.ایک مثال میں لیتا ہوں ظاہر کی.جس وقت ہم وہاں پہنچے یعنی ہوائی جہاز سے اتر کے آئے تو اس قدر اللہ کے فضل سے اور اللہ ہی کے نام کو بلند کرنے کے لئے ہجوم جمع تھا کہ میرے اندازہ سے بھی کہیں زیادہ تھا.کیونکہ دس سال پہلے میں اسی ہوائی اڈے پر اترا تھا اور اس وقت وہاں چند سو سے زیادہ احمدی نہیں تھے اور اس بار با وجودرات ہو جانے کے ہزار ہا احمدی نمائندے ( ہر جگہ کے نمائندے حاضر بھی نہیں تھے کیونکہ بہت بڑا ملک ہے وہ ) وہاں پر موجود تھے اور بڑا جوش اور جذبہ تھا اُن میں.اور دیکھنے والی آنکھ نے اور ر پورٹ کرنے والی قلم نے یہ بیان کیا یعنی وہ آنکھ اور وہ قلم جس کا احمدیت سے تعلق نہیں.ادھر اُدھر رپورٹیں جاتی رہتی ہیں نا کہ اس وقت وہ زبر دست استقبال ہوا کہ آج تک نائیجیریا میں کسی سربراہ مملکت کا بھی ویسا استقبال نہیں ہوا.یہ جو کچھ بھی ہوا وہ مرزا ناصر احمد کے لئے نہیں ہوا بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کے ایک ادنیٰ خادم کے لئے ہوا....صرف جماعت احمدیہ ہے جو عیسائی مشنریز کا مقابلہ کر سکتی ہے تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نائجیر یا وہ ملک ہے جہاں آج سے دس سال پہلے غلط فہمیوں اور عدم علم کے نتیجہ میں بہت سی بدظنیاں اور بدمزگیاں پیدا ہوگئی تھیں جماعت احمدیہ کے خلاف..حالات بدلتے رہتے ہیں ملکوں میں.اُن کے حالات بھی بدلے اور اب یہ حال ہے، ایک میں مثال دوں گا یوں تو بہت سی مثالیں ہیں.میں یہاں سے جب جانے لگا دورے پر تو ، نائیجیریا سے ایک خط ملا جس کا میں نے کہا، جواب دے دیں.پھر سفر میں مجھے خط ملا اور خط یہ تھا، ( یہ تبدیلی جس کو میں ذہنی انقلاب کہتا ہوں اس سے اس کا پتہ لگتا ہے ) انہوں نے لکھا کہ فلاں صوبے میں آبادی کی نسبت کچھ اس طرح ہے کہ ایک تہائی مسلمان ہیں، ایک تہائی عیسائی ہیں اور ایک تہائی بُت پرست ہیں.عیسائی پادری بت پرست لوگوں میں مشنری کام کر رہے ہیں، انہیں عیسائی بنا رہے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی

Page 133

١١٣ ایک بھی فرقہ نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے، اس واسطے اگر آپ اس صوبے کو عیسائی صوبہ بننے سے بچانا چاہتے تو فوری طور پر یہاں پانچ ہائر سیکنڈری سکول (انٹرمیڈیٹ کالج) کھولیں کیونکہ صرف جماعت احمدیہ ہے جو عیسائی مشنریز کا مقابلہ کرسکتی ہے.سواتنا عظیم انقلاب بپا ہو گیا ہے وہاں.غانا میں بڑے مسلمان ہیں تعداد کے لحاظ سے لیکن منتشر اور پراگندہ جن کا کوئی وقار اور کوئی مقام نہیں اور جماعت نے وہاں کام شروع کیا اور پیار کے ساتھ ان کے دل جیتنے شروع کئے.دو جگہوں کا مجھے علم ہے جہاں شروع میں جب احمدی ہوئے تو ان کو اس قسم کے اسی طرح دُکھ اُٹھانے پڑے جس طرح بعض مقامات پر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے زمانہ میں احمدیت کی ابتداء میں جو احمدی اتکا دکا ہو جاتا تھا، گاؤں میں اُن کا حقہ پانی بند کر کے اُن کو دُ کھ پہنچائے جاتے تھے ہمارے ملک میں اور وہ ثابت قدم رہے.تو ایک بڑی تبدیلی پیدا ہورہی ہے اور وہ ملک اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے جس کا وہاں اظہار بھی کیا گیا کہ جماعت احمد یہ اس مضبوطی سے مستحکم ہو چکی ہے کہ اسے اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ مسلمانوں کو بوجہ اس کے کہ وہ منتشر تھے اور اُن میں اتحاد نہیں تھا کہ کثرت کے باوجود ان کو وہاں کے لوگ نظر انداز کر رہے تھے اور کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں تھا، لیکن اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کریں گے.افریقہ اور یورپ، کینیڈا اور امریکہ جہاں میں گیا ہوں ایک بنیادی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ یہ سارے ممالک اور ان کی آبادیاں جو کچھ اُن کے پاس ہے ( مذہب اور اصول تہذیب واخلاق ) اُس سے مایوس ہوتی چلی جارہی ہیں اور اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں.اُن کی مشکل یہ ہے کہ صحیح اسلام اُن کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا.“ اسلام ایک عظیم مذہب ہے حضور نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت پائے گا، وہی دنیا کی نگاہ میں بھی معزز بن جائے گا اور آج وہی خدا کے حضور عزت پائے گا جو قرآن کریم اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے والا ہوگا.اسلام ایک عظیم مذہب ہے.اسلام نام ہے سلامتی کا ، اسلام نام ہے امن کا ، اسلام نام ہے 666 حقوق کو قائم کرنے اور اُن کی حفاظت کا ، اسلام نام ہے نہ صرف حقوق انسانی کی حفاظت بلکہ حقوقِ اشیائے کائنات کی حفاظت کا کیونکہ اعلان کیا گیا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ “ اسلام نام ہے مرد اور عورت کی مساوات اور برابری کا.نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اپنی استعدادی طاقتوں کے لحاظ سے، اپنی اخلاقی رفعتوں کے لحاظ سے، اپنی روحانی عظمتوں کے لحاظ سے ایک فرد واحد ہیں کہ جس کے مقابلے

Page 134

۱۱۴ میں کوئی اور انسان نہ کسی نے پیش کیا ، نہ کوئی کر سکتا ہے، نہ کر سکے گا.یہ اپنی جگہ درست لیکن آپ بشر بھی ہیں ، انسان بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے میں ہر انسان کے برابر ہوں.کسی انسان ، مرد ہو یا عورت اُس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ اور یہ اتنا عظیم اعلان ہے کہ جس وقت میں نے ۱۹۷۰ء میں غانا ہی میں ٹیچی مان کے مقام پر دس ہزار کے مجمع میں اور بہت سارے اُس وقت آئے ہوئے تھے بُت پرست وغیرہ بھی یہ اعلان کیا.اُن کا لاٹ پادری بھی آیا ہوا تھا وہاں اور کہنے والوں نے بتایا کہ وہ اس طرح اچھلا جس طرح کسی نے اُسے سوئی چھودی ہے.آج وہی عزت پائے گا جو قرآن کریم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے والا ہوگا خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو زیادہ عزت پائے گا، دنیا کی نگاہ میں وہی زیادہ معزز بن جائے گا.خدا تعالیٰ کی نگاہ سے گر کے نہ تمہارا مغل ہونا ، نہ تمہارا سید ہونا، نہ تمہارا پٹھان ہونا ، نہ تمہارا چوہدری ہونا، نہ راجپوت ہونا قطعاً کوئی معنے نہیں رکھتا اگر تم خدا کی بات نہیں مانتے ، اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا بھی تمہیں جوتیاں مارے گی اور تمہاری کوئی عزت نہیں کرے گی.آج وہی عزت پائے گا جو قرآن کریم کی عزت کرنے والا ہو گا.آج وہی عزت پائے گا جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اس مضبوطی سے پکڑے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس سے اس دامن کو چھڑوا نہیں سکے گی.آج وہی عزت پائے گا جو خدائے واحد ویگانہ کی وحدانیت کے ترانے گاتا ہوا اپنی زندگی کے دن گزارے گا.خدا تعالیٰ خالقِ گل ما لک کل ، ساری صفات حسنہ اُس میں پائی جاتی ہیں.ایسی عظیم ہستی ہے کہ انسان اُس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا.وہ پیار کرنا چاہتا ہے اپنے بندوں سے.اُس نے پیدا کیا ہے بندوں کو اس لئے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنِّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ اُس کی صفات کی جھلک اُس کے بندوں میں ہو، وہ رنگ چڑھے، وہ حسن ان میں پیدا ہو، وہ نور اُن کی زندگیوں سے جھلکے.جس کی زندگی میں اللہ کا نور چمک رہا ہو، جس کی زندگی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن کے نقوش پائے جاتے ہوں، کون ہے جو دنیا میں اُس کی عزت نہیں کرے گا.لیکن تم اپنے زورِ بازو سے کسی سے بھی عزت نہیں کروا سکتے.یہ دنیا کی عزتیں ساری جھوٹی عزتیں ہیں.یہ خوشامدوں میں لپٹی ہوئی دنیا کی عزتیں ، یہ دروغ گوئی میں لپٹی ہوئی ، دنیا کی عزتیں عارضی ہیں.آج جو شاہی تخت پر بیٹھا ہے کل وہ آپ کو دار پر نظر آتا ہے.یہ تاریخ کے افسانے نہیں ہیں ، یہ آج کے واقعات ہیں اس زندگی کے.سب بڑائیاں اسلام نے ختم کر دیں.میں تو انگریزی میں کہا کرتا ہوں.

Page 135

۱۱۵ IS A GREAT LEVELLER" ISLAM" سب اونچے سر جو تھے ان کو ایک برابر کر کے کھڑا کر دیا.سب بھائی بھائی برابر.پریس والے علیحدہ بھی ملتے ہیں بعض دفعہ.پھر وہ پڑ جاتے ہیں تفصیل میں.اپنے متعلق بتلائیں کیا مقام ہے آپ کا؟ میں نے کہا میرا مقام؟ ایک میرا مقام ہے ہدایت دینے کا ، ایک میرا مقام ہے ہر احمدی میرا بھائی ہے اور ہر احمدی ( یہ حقیقت ہے ) سمجھدار ہے.وہ آتا ہے، میرے ساتھ بیٹھتا ہے، بالکل بے تکلف باتیں کرتا ہے.عورتیں خط لکھ دیتی ہیں مجھ کو ، اپنے باپ کو وہ خط نہیں لکھ سکتیں جو مجھے لکھ دیتی ہیں.تو اب میں کیا چیز ہوں یعنی اگر میں ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کروں تو سب سے بڑا دنیا کا پاگل میں ہوں گا مگر خدا کا فضل ہے میں پاگل نہیں ہوں.میں اپنے مقام کو بھی جانتا ہوں اور اپنے خدا کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ - مجھ سے کینیڈا میں پوچھا ایک شخص نے کہ اسلام میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے.ان لوگوں کی عادت ہے کہ جو بھی بتاؤ کہتے ہیں کہ بائیل میں بھی یہی لکھا ہوا ہے.میرے ساتھ تو چالاکیاں کرنی مشکل ہیں.میں نے کہا پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ بائیل میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے.اُس نے بتایا بائیبل کیا کہتی ہے.پھر میں نے اُس کو بتایا کہ اسلام میں وحی اور الہام کا یہ تصور ہے اور میں تمہیں مثال دیتا ہوں ۱۹۷۴ء کی.جب یہ کہا گیا کہ سوال و جواب ہوں گے اور اُسی وقت آپ نے جواب دینا ہوگا تو صدر انجمن احمدیہ نے لکھا کہ نوے سال پر لٹریچر پھیلا ہوا ہے.سینکڑوں کتابیں ہیں اور امام جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ ساری کتب ان کو زبانی یاد ہیں.اس واسطے ایک دن پہلے آپ سوال کریں اور اگلے دن جواب مل جائے گا.انہوں نے کہا نہیں یہی ہوگا.طبعا بڑی اہم ذمہ داری تھی اور پریشانی بھی.ساری رات میں نے خدا سے دُعا کی.ایک منٹ نہیں سویا، دعا کرتا رہا.صبح کی اذان کے وقت مجھے آواز آئی بڑی پیاری وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ ہمارے مہمانوں کی فکر کرو.وہ تو بڑھتے ہی رہیں گے تعداد میں.اب دیکھانا ساری قناتیں اُٹھانی پڑیں آج.وَسِعُ مَكَانَكَ مہمان بڑھتے چلے جائیں گے ، ان کی فکر کرو، اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو، استہزاء کا منصوبہ ضرور بنایا ہے انہوں نے مگر اس کے لئے ہم کافی ہیں.کہتے ہیں باون گھنٹے دس منٹ میرے پر جرح کی اور باون گھنٹے دس منٹ میں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلو پہ کھڑا پایا.بعض اور باتیں بتا ئیں میں نے ان کو.بعض لوگوں نے کہا آپ ابھی لکھا دیں ہمیں.میں نے کہا لکھ لو.وہ کہتا کہ یہ کیسے پتہ لگے یہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات ہے.میں نے کہا مستقبل بتا تا ہے.جو بات کہی جائے اگر وہ پوری ہو

Page 136

جائے اس کا مطلب ہے خدا نے بتائی.خدا کے علاوہ تو آئندہ کی بات کوئی نہیں بتا سکتا.علام الغیوب صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.پھر میں نے مزید بتایا.میں نے کہا میں بچوں سے پوچھتا ہوں.بعض دفعہ کہ کوئی سچی خواب آئی.چھوٹے چھوٹے زمینداروں کے بچے دیہات میں رہنے والے، ماحول اُن کا اسی قسم کا ہے، وہ کہتے ہیں جی ہمیں خواب آئی سچی.کیا خواب آئی سچی ؟ جی بھینس کے بچہ ہونے والا تھا اور خدا نے ہمیں خواب دکھائی کہ کٹی ہوئے گی نہ دیہہ (دس ) دن بعد کئی ہوگئی.“ چھوٹی سی بات ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اُس بچے کے ساتھ بچے کی زبان میں بات کرنی ہے.اُس بچے کے ساتھ ابن خلدون کے فلسفہ میں گفتگو نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ.بچہ سمجھ ہی نہیں سکتا اُس کو.تو خدا تعالیٰ نے پہلے دن بچپن میں یہ سبق دینا ہے کہ میں ہوں اور علام الغیوب ہوں اور طاقتوں والا ہوں اور وہ اس کو تربیت دیتا ہے.آپ لوگ تو تربیت میں سُست ہو گئے.خدا تعالیٰ تو سست نہیں ہوا.وہ ہماری جماعت کی تربیت کرتا چلا جاتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا بعض باتیں انصار اللہ کے متعلق ہیں.انصار اللہ کی ذمہ داریاں ہیں زیادہ یعنی خاندان ہے شادی ہوئی ہوئی ہے، بیوی ہے، بچے ہیں، اکثر یہاں وہی بیٹھے ہوں گے.قرآن کریم نے کہا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا پہلی ذمہ داری انسان پر اُس کے نفس کی ہے اور دوسرے نمبر پر اُس کے خاندان کی ہے.خدا کہتا ہے خود اپنے نفسوں کو اور اپنے خاندانوں کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش کرو.اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے اور بچانے کی تدابیر خود بیان کی ہیں.بڑی عظیم کتاب ہے یہ.صراط مستقیم جو ہے وہ خود بتایا ہمیں.ہر آدمی کے لئے بعض پہلواُسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں.دعا ئیں سکھائیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - وَارِنَا مَنَاسِكَنَا.ہم سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں وہ ہم پر اُجاگر کر ، تا کہ وہ راستہ جو تیری رضا کی طرف لے جانے والا ہے اُس تک میں اور میرا خاندان پہنچے.اگر جماعت احمدیہ کے سارے خاندان خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں تو جماعت احمد یہ دنیا کے لئے ایک مثالی جماعت بن جاتی ہے.“ حضور نے پر شوکت الفاظ میں پیشگوئی فرمائی کہ وہ وقت آنے والا ہے جب دنیا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.حضور نے احباب جماعت سے یہ عہد کرنے کی تلقین کی کہ وہ ہر حال میں خدا تعالیٰ اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اس مضبوطی سے تھامے رکھیں گے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے ہم سے چھڑا نہ سکے گی.چنانچہ حضور نے فرمایا:

Page 137

112 آج دنیا اسلام کی طرف متوجہ بھی ہے اور نمونہ مانگتی ہے.ہر سفر میں، ہر موقع پر پریس کانفرنس میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ ہمارے سامنے نمونہ پیش کیا جائے.اسلام کی تعلیم پر کون عمل کر رہا ہے اور ثمرات اسلام کیا ہیں یعنی اسلام پر ایمان لا کر کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا حاصل ہو رہا ہے.دنیوی لحاظ سے عقلمند لوگ ہیں یہ اُن کا حق ہے کہ یہ پوچھیں.میں کھل کے بات کرتا ہوں.میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں کوئی چیز چھپا کے نہیں رکھتا.میرے لئے دنیوی مصلحت کوئی نہیں.میرے لئے سچ بولنا ایک ہی مصلحت ہے.کھل کے کہتا ہوں کہ دیکھوا اگر ہم تمہارے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کریں جو اُس سے اچھی ہو جو تمہارے پاس موجود ہے، تم لے لو گے اُسے.عقل کا یہ تقاضا ہے.لیکن اگر ہم تمہیں کنونس (CONVINCE) نہ کرسکیں ، اگر ہم تمہیں باور نہ کروا سکیں کہ جو ہم پیش کر رہے ہیں وہ بہتر ہے اس چیز سے جو تمہارے پاس ہے تو تم نہیں لو گے لیکن اگر باور کروانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ تم نہ لو.تم چھوڑ دو گے اس کو جو تمہارے پاس ہے.کیونکہ تم قائل ہو گئے اس بات کے کہ جو تمہارے پاس ہے وہ اچھی نہیں ، جو ہم دے رہے ہیں وہ اچھی ہے اور میں نے اس دفعہ تحر ی سے ان کو کہا کہ دیکھو تم نے سائنس میں بڑی ترقی کی اور ایک پہلو یہ ہے کہ تم نے اپنے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کے پہاڑ جمع کر لئے.صرف یہی نہیں ، تم نے ایسے مسائل پیدا کر لئے اپنی زندگی میں اور وہ بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں جن مسائل کا حل تمہارے پاس نہیں THE PROBLEMS YOU HAVEN'T GOT THE SOLUTION OF وہ PILE UP کر لئے ہیں اور پہاڑ بن رہے ہیں ایسے مسائل کے.اور میں تمہیں بتا تا ہوں کہ ایک دن عنقریب آنے والا ہے جب یہ مسائل اتنے بڑھ جائیں گے جن کا حل تمہارے پاس نہیں ہو گا.کہ تم مجبور ہو جاؤ گے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لئے.وہ دن اسلام کا دن ہے، اسلام آئے گا تمہارے پاس اور کہے گا کہ تمہارے ہر مسئلے کو میں حل کرتا ہوں.تم مجبور ہو جاؤ گے اسلام کو مانے پر تمہیں آنا پڑے گا اسلام کی طرف.ایک شخص نے پوچھا آپ جو کہتے ہیں، ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی تو اگر جنگ ہو گئی ایک اور یعنی.تو جو مر جائیں گے وہ تو جمع نہیں ہوں گے.میں نے کہا.میں نے یہ نہیں کہا کہ جو مر دے ہیں وہ بھی جمع ہو جائیں گے.جن کو تم مار دو گے وہ تو تم نے مار دیئے.میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ زندوں کی ننانوے فیصدا کثریت جو ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.آج کے زمانہ کی یہ ایک حقیقت ہے جو میں نے ان کے سامنے رکھ دی لیکن اس حقیقت کی تفاصیل بیان کرنا یہ THIRD WORLD WAR

Page 138

۱۱۸ جماعت احمدیہ کا کام ہے.اس حقیقت کے مطابق اپنی زندگیوں کو بطور نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا ، یہ آپ میں سے ہر خاندان کا کام ہے.اس واسطے عہد کرو آج کہ ہم دنیا کی لالچ میں خدا کی طرف پیٹھ کر کے اپنی زندگیاں نہیں گزاریں گے.ہم دنیا کی خاطر کسی اور کا دامن نہیں پکڑیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑ کے.ہم خدا تعالیٰ کی رحمت کی بھیک مانگتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں گے.ہمارے ہاتھ میں ہمیشہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دامن مضبوطی سے پکڑار ہے گا اور انشاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت اس دامن کو ہم سے چھڑ نہیں سکے گی.جو مرضی کر لے دنیا.انشاء اللہ.اور آپ بھی عہد کریں اور اپنے بچوں کو دین سکھائیں.بہت سے منصوبے میں نے بنائے ہیں اُن پر عمل کریں.قرآن کریم کا منصوبہ ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں ہیں وہ بھی آیات اللہ ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں علمی میدان میں آگے بڑھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو.آگے بڑھو یہاں تک کہ دنیا اس بات کی بھی قائل ہو جائے ( جس طرح سپین نے اُن کو قائل کیا تھا ایک وقت میں ) کہ ہر میدان میں احمدی مسلمان ہم سے آگے نکل گیا اور ہم مجبور ہو گئے ہیں اُس سے سیکھنے، اُس سے بھیگ مانگنے پر.اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے.آمین اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے عہد دہر وایا اور پھر فرمایا.ظہر اور عصر کی نماز انشاء اللہ مسجد مبارک میں ڈیڑھ بجے ہوگی اور اس کے بعد جہاں بھی کھانے کا انتظام ہے کھانا ہوگا.پہلے نماز ہو گی.اگر آپ جلدی آ سکتے ہیں.اس وقت ایک بجنے میں اکیس منٹ ہیں.سوا ایک بجے نماز ہو سکتی ہے.سوا ایک بجے نماز ہوگی.یعنی ایک بج کے پندرہ منٹ پر اور اس کے بعد کھانا ہوگا ، اور جتنا مرضی وقت لگائیں پھر “ لَا إِلهَ إِلَّا الله کے ورد کی تحریک 66 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختتامی خطاب اور دعا کے بعد احباب جماعت کو تلقین کی کہ وہ چودھویں صدی کو الوداع کہنے کے لئے اور پندرھویں صدی کے استقبال کے لئے لَا إِلهَ إِلَّا الله کا ورد کثرت کے ساتھ کریں.یہ ورداتنی کثرت سے کریں کہ کائنات کی فضا اس ترانے کے ساتھ معمور ہو جائے.انہی الفاظ سے اس صدی کو الوداع کہیں اور انہی الفاظ سے پندرھویں صدی کا استقبال کریں.چنا نچہ فرمایا: چند دنوں تک چودہویں صدی ختم ہو رہی ہے.اس صدی کو خدائے واحد و یگانہ کی تو حید کے ورد کے ساتھ الوداع کہیں.لا إلهَ إِلَّا الله اتنی کثرت سے پڑھیں کہ کائنات کی فضا اس ترانہ کے ساتھ معمور ہو جائے.دن رات اُٹھتے بیٹھتے بالکل خاموشی کے ساتھ نہیں ، اونچی آواز میں بھی نہیں ، اس طرح

Page 139

119 (حضور نے دھیمی آواز میں لا إلهَ إِلَّا الله متعدد بار دہرایا اور پھر فرمایا ) لَا إِلهَ إِلَّا الله - اٹھتے لا إلهَ إِلَّا الله اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پڑھتے رہیں.اس ندا کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہیں اور اسی ندا کے ساتھ ہم اگلی صدی کا استقبال کریں گے.انشاء اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.(آمین) (۴۰) اس سے پہلے حضور نے انصار کا عہد دہراتے وقت بھی کلمہ شہادت ادا کرنے کے بعد بآواز بلند نہایت جذبہ اور جوش کے ساتھ لا إلهَ إِلَّا الله کا ورد فرمایا.ساتھ ساتھ احباب جماعت نے بھی حضور کی اقتدا میں یہ با برکت کلمہ آٹھ بار اسی جذب و شوق کے ساتھ دوہرایا.۴۱) رام حضور کی تقریر کا انگریزی میں رواں ترجمہ نشر کرنے کا کامیاب تجربہ ۱۳۱ خاء / اکتوبر کو سالانہ اجتماع کے پہلے روز حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی تقریر کا انگریزی ترجمہ بعض سامعین تک پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا.تین احمدی انجینئروں نے کمال فنی مہارت اور خلوص سے کام کر کے ابتدائی مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا اور اٹھارہ افراد نے حضور کے افتتاحی خطاب کا انگریزی ترجمہ کامیابی سے سُنا.فضل عمر فاؤنڈیشن کی مالی سر پرستی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی نگرانی میں اس زیر تکمیل منصوبے کے تحت جلسہ سالانہ پر بیرونی ملکوں سے تشریف لانے والے مہمانوں کی سہولت کے پیش نظر دو زبانوں میں ۲۲۰ مردوں اور عورتوں کے لئے انگریزی اور انڈونیشین زبان میں ترجمے کا بندوبست کرنے کا پروگرام تھا.یہ سارا کام تین احمدی انجینئروں نے حیرت انگیز طور پر کم خرچ میں مکمل کیا.ابتداء میں اس سلسلے میں جب ایک کمپنی سے رابطہ قائم کیا گیا تھا تو انہوں نے سو افراد کو ایک زبان میں ترجمہ مہیا کرنے پر میں لاکھ کا خرچہ مانگا تھا جبکہ احمدی انجینئروں نے صرف ایک لاکھ روپے کے خرچ سے دوزبانوں میں ۲۲۰ افراد تک ترجمہ پہنچانے کا بندوبست کر لیا.اس مقصد کے لئے ایک مترجم کا کیبن بنایا گیا جس میں ترجمہ کرنے والا بیٹھتا تھا جو کہ ہیڈ فون کے ذریعہ اردو تقریر سنتا اور ساتھ ساتھ ترجمہ کرتا جاتا.یہ انگریزی ترجمہ کیبن کے باہر بیٹھے ہوئے ان سامعین کے کانوں تک پہنچایا گیا جو کہ سیاہ رنگ کے ہیڈ فون کانوں سے لگا کر بیٹھے ہوئے تھے.ہر نمائندے کے سامنے ایک ٹرمینل باکس رکھا گیا جس سے وہ آواز کو بلند یا کم کر سکتا تھا.اجتماع انصار اللہ پر یہ کام تجرباتی طور پر کیا گیا.بعد میں جلسہ سالانہ پر اس میں توسیع کی گئی.یہ منصوبہ اسی سال جنوری فروری میں شروع کیا گیا.اس کام میں جن تین احمدی انجینئروں نے حصہ لیا ان میں مکرم منیر احمد صاحب فرخ ہمکرم ملک لال خان صاحب اور مکرم کیپٹن ایوب احمد ظہیر صاحب شامل تھے.وائرلیس کے کام میں مکرم عبد الکریم صاحب لودھی نے تعاون کیا نیز لکڑی کا سارا کام بھی انہوں نے ہی سرانجام دیا.اس سسٹم کا سارا نظام اور مشینری کی ترتیب احمدی انجینئروں نے خود کی.صرف ایک

Page 140

مشین بازار سے لی گئی.۳۱ اکتوبر کو جن احباب نے مترجم کا کام کیا ان میں مکرم نسیم سیفی صاحب، مکرم خان بشیر احمد رفیق صاحب، مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم شکیل صاحب شامل ہیں.۴۲ ) ١٩٨١ء صدر محترم کا پیغام.مجالس انصاراللہ کے نام نئے سال ۱۹۸۱ء کے آغاز پر صدر محترم نے مجالس کو ایک ولولہ انگیز پیغام ہدف عمل عطا کرتے ہوئے فرمایا: ” برادران کرام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکات حسب سابق امسال بھی قائدین مجلس انصار اللہ نے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے لئے اور مجالس کے لئے جو لائحہ عمل تجویز کیا ہے، وہ مطمح نظر کے لحاظ سے بلند اور کام کے پھیلاؤ کے لحاظ سے بہت وسیع ہے اور اس کے تمام پہلوؤں پر کماحقہ عمل درآمد کرنا اور کروانا کوئی آسان کام نہیں.بڑی بڑی مجالس میں سے بھی کئی مجالس اسکی اہل نظر نہیں آتیں کہ اس لائحہ عمل کے تمام تقاضوں کو پورا کر سکیں.چھوٹی اور دیہاتی مجالس کے لئے تو اور بھی زیادہ بعید از امکان نظر آتا ہے کہ وہ اتنے وسیع اور متنوع پروگرام کے تمام پہلوؤں پر عمل پیرا ہوسکیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنا وسیع اور بلند سطح نظر مقرر ہی کیوں کیا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ترقی کرنے والی بلند ہمت قوموں کا مطمح نظر بلند ہی ہوتا ہے اور بلند ہی ہونا چاہئے.مسلسل اور لامتناہی ترقی کا راز مطمح نظر کی بلندی ہی میں مضمر ہے جو اس بات سے قطع نظر بنایا جاتا ہے کہ کتنے افراد اس کے آخری نکتہ عروج تک پہنچ سکتے ہیں.قرآن کریم ہی کو لیجئے انسان کے لئے ایسا عظیم الشان، اتنا وسیع ،اتنا بلند پای لح نظر پیش فرماتا ہے کہ الا ماشاء اللہ نظر اس کا احاطہ نہیں کر سکتی.تعلیم قرآن کریم کے صرف اختلافی پہلو ہی کو لے لیجئے تو فی الحقیقت وہ صرف ایک ہی تو ہے.یعنی انسان کامل.جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ قرآن کریم کے پیش کردہ مطمح نظر کو اول درجہ میں حاصل کرنے والوں کی تعداد کا کسی قدر اندازہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ تلةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ یعنی اولین میں سے ایک جماعت اور آخرین میں سے بہت تھوڑی تعداد میں لوگ اس عالی مرتبہ کو حاصل کر سکیں گے.

Page 141

۱۲۱ اس امر پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ مطمح نظر ہمیشہ بلند ہونا چاہئے لیکن اس مطمح نظر کے حصول کے لئے جو لائحہ عمل بنایا جائے اس میں یہ لچک ہونی چاہئے کہ مختلف مراتب اور قوتوں کے لوگ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس پر کسی نہ کسی حد تک عمل پیرا ہوسکیں.مجلس انصار اللہ مرکز یہ بھی اسی بنیادی راہنما اصول کے پیش نظر مطمح نظر مقرر کرتی ہے اور لائحہ عمل تجویز کرتی ہے اور ہر مجلس سے اپنے اپنے مقام اور توفیق کے مطابق اس پر عمل پیرا ہونے کی توقع رکھتی ہے.ایک چھوٹی سی ان پڑھ دیہاتی مجلس اگر اپنے ممبران کو باترجمہ نہیں تو ناظرہ قرآن کریم ہی پڑھانے کا انتظام کرے.اگر سارا نہیں تو ایک پارہ قرآن کریم ہی پڑھانے میں کامیاب ہو جائے.اگر سب ممبران کو نہیں تو چند کو.چند نہیں تو ایک ہی کو کچھ ناظرہ قرآن پڑھایا جا سکے تو بھی ہم اس لحاظ سے اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں کہ شعبہ تعلیم میں اس مجلس نے یقینی طور پر ایک قدم تو آگے بڑھا دیا.دیگر شعبہ جات میں بھی ہر مجلس سے اس کے حالات اور استطاعت اور توفیق کے مطابق ہی توقع رکھی جاتی ہے.اگر چہ بلند سے بلند تر معیار کی کوئی حد نہیں مگر کم سے کم معیار یہ سمجھنا چاہئے کہ تمام دنیا میں ایک مجلس بھی ایسی نہ رہے جو کسی شعبہ میں امسال بھی گذشتہ سال کے معیار پر کھڑی رہ جائے اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکی ہو.پس آگے بڑھیں اور ہر شعبہ میں آگے بڑھیں.سال تو دور کی بات ہے.کوئی مہینہ ایسا نہ گزرے جو آپ کو اسی مقام پر کھڑا پائے جہاں گزرے ہوئے مہینہ میں آپ کو دیکھا تھا.کوئی ہفتہ ایسا نہ آئے جو آپ کو اسی حالت میں آ پکڑے جو گزشتہ ہفتہ میں آپ کی حالت تھی.بلکہ اعلیٰ درجہ کی مجالس سے تو کم سے کم توقع یہ ہے کہ آپ پر کوئی سورج غروب نہ ہو جو گذری ہوئی شام کے سورج کی نسبت آپ کو ہر پہلو سے آگے بڑھا ہوا نہ دیکھے اور کوئی سورج ایسا طلوع نہ ہو جو یہ گواہی نہ دے سکے کہ آپ گزری ہوئی صبح کے مقابل پر ایک بلند تر اور روشن تر مقام پر فائز ہیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.آخر پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ مدد مانگنا نہ بھولیں.یادرکھیں کہ یہ دعائیں ہی ہیں جو عاجز بندوں کی حقیر کوششوں کو برکت دیتی اور رفعت بخشتی ہیں.اور یہ دعائیں ہی ہیں جو بے ثمر درختوں کو بھی بار آور کر دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین ، ۲۳ دفتری امور سے متعلق صدر محترم کی زریں ہدایات سال ۱۹۸۱ ء کے لئے صدر محترم نے مکرم پروفیسر منور شیم خالد صاحب کو قائد عمومی مقررفرمایا تھا.انہوں

Page 142

۱۲۲ نے سال کے شروع میں ہی صدر محترم سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے آغاز کار سے متعلق ہدایات کی گزارش کی.اس خط کے جواب میں صدر محترم نے اپنی قلم سے دفتری امور کے بارہ میں نہایت اہم اور زریں احکامات تحریر فرمائے.آپ نے لکھا: اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا کے مطابق بہترین خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور راہنمائی اور نصرت فرمائے.حسب ذیل امور کی طرف توجہ کی خصوصی ضرورت ہے.(۱) ڈاک خود کھولا کریں سوائے اُن خطوط کے جو میرے نام کے ہوں.ڈاک کو ترتیب دے کر قابلِ استفسارا مورا الگ کرلیں اور روٹین کی محکمانہ ڈاک الگ.قابلِ استفسارامور میں جہاں تک ممکن ہو خود تشریف لا کر مجھ سے زبانی بات کر کے فیصلہ نوٹ فرما لیا کریں.روٹین دفتری ڈاک مجھے سرسری دکھا کر متعلقہ شعبہ کو بھجوا دیا کریں.اگر کسی شعبہ سے کسی نے استفسار کیا ہو یا شکایت ہو تو جب تک متعلقہ امور پر مناسب کارروائی نہیں ہو جاتی ، میرے علم میں بات لاتے رہیں.(۲) رپورٹوں کی ضلع وار آمد کا گزشتہ دو سالہ ریکارڈ پیش نظر رکھتے ہوئے تدریجی ترقی پر نگاہ رکھیں اور ماہانہ تبصروں میں متعلقہ ناظمین یا زعماء کو توجہ دلاتے رہیں.(۳) دفتر کی از سر و تنظیم ہونی ضروری ہے تا کہ کارکردگی بہتر ہو.اس سلسلہ میں بحیثیت عہدہ چوہدری ابراہیم صاحب نائب قائد عمومی کے طور پر کام کریں گے اور ہر معاملہ میں انشاء اللہ آپ کی ہدایت کے مطابق پوری مستعدی سے کام کریں گے.میرے خیال میں فی الحال کسی اور نائب کی ضرورت نہ ہوگی البتہ ربوہ سے باہر ہونے یا رخصت کے موقعہ پر آپ کسی کو قائم مقام قائد عمومی بنانے کی سفارش کیا کریں جو موجودہ قائدین میں سے بھی ہوسکتا ہے.(۴) املاک کا کوئی با قاعدہ سٹاک رجسٹر اگر ہے تو غالبا مکمل نہیں.اس کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.(۵) دفتر مرکز یہ میں عارضی طور پر انصار اللہ ربوہ کو جگہ دی گئی ہے.کوشش کریں کہ حضرت اقدس کی طرف سے عطا کردہ قطعہ زمین پر مجلس مقامی جلد از جلد اپنا دفتر بنالے تا کہ مرکزی دفتر کی جگہ دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہو سکے.(۶) مرکزی دفتر کی مرمت کے علاوہ اس میں گنجائش بڑھانے.صدر اور قائد عمومی کے لئے مناسب شکل میں کمروں کی تعیین یا تعمیر.قائدین کے لئے الگ الگ نشستیں اور ذاتی استعمال کے لاکر مہیا کرنا وغیرہ تمام امور قابل توجہ ہیں.مہربانی فرما کر اس ضمن ( میں ) عزیزم میاں غلام احمد صاحب سے رابطہ قائم کر کے مناسب سکیم تیار کروائیں اور مجلس عاملہ میں پیش کریں.

Page 143

۱۲۳ (۷) گیسٹ ہاؤس میں بھی مجلس عاملہ کے گزشتہ سال کے فیصلہ کے مطابق مناسب تبدیلیوں اور کشادہ بیٹھنے والے اور کھانے والے کمروں کی تعمیر کا مسئلہ ابھی تک معلق ہے.اس کی طرف بھی میاں احمد اور قائد صاحب مال کے مشورے سے توجہ کریں.(۸) گیسٹ ہاؤس کا روزمرہ کا انتظام بھی بہتری کا متقاضی ہے.(۹) بجٹ کی مختلف مدات کا سرسری جائزہ لیتے رہیں کہ منظور شدہ بجٹ اور خرچ کی کیا نسبت اور رفتار ہے.اگر خرچ تناسب سے زیادہ یا کم ہورہا ہو تو دونوں صورتوں میں بر وقت تنبیہہ ہونا ضروری ہے.(۱۰) مرکزی لٹریچر اب تک جتنا بھی شائع ہوا ہے.اس کے لئے باقاعدہ خوبصورت شیشے کا شیلف بنے اور اس میں کم از کم دو نمونے محفوظ کئے جائیں.اسی طرح بیرونی مجالس جولٹریچر شائع کرتی ہیں (اندرونِ پاکستان یا بیرون پاکستان ) اُن کے نمونے بھی محفوظ ہونے چاہئیں.اسی طرح مجلس انصار اللہ کی ایک چھوٹی سی مرکزی لائبریری ضروری کتب پر مشتمل تیار ہونی شروع ہو جائے.گیسٹ ہاؤس کے انتظار کے کمرہ میں بھی ایک خوبصورت کتب کا شیلف ہو جس میں ضروری کتب خوبصورت جلدوں میں مرزبین ہوں.(۱۱) انٹر نیشنل رسائل بھی مجالس بیرون کی وساطت سے منگوانے کا انتظام کیا جائے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.دستور اساسی میں تبدیلی والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ۱۸۱-۱۰ مجلس عاملہ مرکز بی کی سفارش پر سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے دستور اساسی کی دفعہ۲۳ میں بحوالہ چٹھی نمبر ۸۰-۴-۲۶۳/۱۰ تبدیلی منظور فرمائی چنانچہ اس دفعہ کے الفاظ یہ ہو گئے.حسب ضرورت ہر قیادت میں ایک یا ایک سے زائد ) نائب مقرر کئے جا سکتے ہیں جو باجازت صدر، عاملہ کے اجلاس میں شریک ہو سکیں گے مگر ووٹ نہیں دے سکیں گے.(۲۴) ہر احمدی گھرانہ میں تفسیر صغیر موجود اور زیر مطالعہ ہو صدر محترم کی طرف سے عملی تحریک کا اعلان مورخه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء بمقام رائے پور ضلع سیالکوٹ تمہیں جماعتوں اور مجالس کے ایک ہزار احباب جماعت کی موجودگی میں صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا کہ انصار اللہ اور دوسرے احباب جماعت قرآن کریم سے عشق پیدا کریں اور اس عشق کا اظہار

Page 144

۱۲۴ فوری طور پر اپنے عمل سے اس طرح کریں کہ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہر احمدی گھرانہ میں تفسیر صغیر موجود ہونی چاہئیے اور اس طرح سیدنا حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر روز تحریک شروع کی جائے کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل کوئی ایک احمدی گھرانہ بھی ایسا باقی نہ رہے جہاں حضرت الصلح الموعودؓ کی زندگی کا یہ آخری کارنامہ تفسیر صغیر کی شکل میں موجود نہ ہو.“ صدر محترم نے فرمایا : اس علاقہ میں تو میں خود اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.ملک کے باقی حصوں میں ناظمین و زعماء اعلیٰ ونگران حلقہ جات میرے اس پیغام کو ہر جگہ پہنچا دیں اور اگر کسی جگہ کوئی ایسا گھرانہ ہو جو تفسیر خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اس کے بارہ میں ہمیں اطلاع دیں.“ مزید فرمایا: رمضان المبارک قریب ہے.تفسیر صغیر کی مدد سے قرآن کریم پر غور وفکر کرتے ہوئے رمضان گزاریں.ترجمہ سیکھیں.صبح شام ہر احمدی گھرانہ سے تلاوت قرآن کریم کی صدائیں بلند ہوں اور آنے والے بابرکت ایام میں قرآن کریم کی برکتوں کا نظارہ کریں.(۴۵) رپورٹ سہ ماہی اوّل ۱۹۸۱ء اعداد وشمار کی روشنی میں قیادت عمومی (۱) چھبیس شہروں اور مقامات پر تربیتی اجتماعات اور مجالس مذاکرہ منعقد کی گئیں.ان میں سے گیارہ مقامات پر صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے اور پندرہ مقامات پر قائدین مرکز یہ و علماء سلسلہ نے شرکت کی.یہ مجالس اپنے نتائج و تاثرات کے لحاظ سے نہایت کامیاب اور مفیدر ہیں.(۲) مجالس کو کل ۲۹۸۳ خطوط و پارسل بھجوائے گئے.لوکل ڈاک کے ۲۵۸ خطوط اس کے علاوہ تھے.(۳) مجالس سے آمدہ خطوط ۱۶۸۵ تھے جن کے جوابات صدر محترم کی ہدایات کی روشنی میں دیئے گئے.(۴) مجالس سے ۴۳۶ ماہانہ رپورٹ کارگزاری موصول ہوئیں جن پر قائدین کے تبصرے روانہ کئے گئے.(۵) ہدایات لائحہ عمل پر مشتمل کتا بچہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع کروا کے مجالس کو بھجوایا گیا.(۶) تین ماہانہ سرکلر باقاعدگی سے مجالس کو بھجوائے گئے.(۷) ماہانہ اجلاس عاملہ با قاعدگی سے منعقد ہوئے.ایک مشترکہ اجلاس قائدین ناظمین و زعماء اعلیٰ زیر صدارت صدر محترم منعقد کیا گیا.

Page 145

۱۲۵ (۸) نائب صدر محترم کے بیرونی دورہ سے متعلق تفصیلی ہدایات اور پروگرام متعلقہ ممالک کو بھجوائے گئے نیز بیرونی ممالک کے اجتماعات پر صدر محترم کے پیغامات ارسال کئے.(1) ہیں اعلانات الفضل میں اور گیارہ اعلانات ماہانہ انصار اللہ میں اشاعت کے لئے بھجوائے گئے.(۱۰) انسپکٹر ان دفتر مرکزیہ کے ذریعہ اضلاع، لاہور، فیصل آباد، قصور، گجرات ،سیالکوٹ ، راولپنڈی، ہزارہ، آزاد کشمیر اور تھر پارکر کی ۲۱۲ مجالس کا دورہ کیا گیا.قیادت تحریک جدید (۱) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا خطبہ بابت سال نو تحریک جدید کا خلاصہ رسالہ کی شکل میں شائع کروا کے مجالس کو بھجوایا گیا.(۲) مجالس کو شعبہ تحریک جدید کے ٹارگٹ سے آگاہ کیا گیا.(۳) چھپیں اعلانات الفضل میں شائع کرائے گئے.(۴) ارتمیں مجالس کا دورہ کر کے موقع پر جائزہ لیا گیا.ان مجالس سے بائیس معاونین خصوصی حاصل ہوئے جن میں سے تیرہ انصار تھے.(۵) تحریک جدید کے مالی جہاد میں بیاسی فیصد انصار شامل تھے.(4) اہل قلم حضرات کو تحریک جدید کے مطالبات پر مضامین لکھنے کی تحریک کی گئی جس کے نتیجے میں گیارہ مضامین شائع ہوئے.(۷) پہلی سہ ماہی میں تحریک جدید کے سال نو ۴۰/۲۷ میں وعدہ جات کا مجموعہ میزان انیس لاکھ پچاس ہزار روپے تھا جبکہ گذشتہ سال اٹھارہ لاکھ پچاس ہزار تھا.اس ایک لاکھ کے اضافہ میں انصار کا معتد بہ حصہ تھا.قیادت تعلیم (۱) چھتیں مجالس کے چار سو بیالیس پرچے امتحان سہ ماہی چہارم۱۹۸۰ء کی مارکنگ کر کے نتیجہ مجالس کو بھجوایا گیا جس کے مطابق ۴۲۶ درجه اول ۱۲۰ درجه دوئم اور ۴ انصار درجہ سوئم میں کامیاب قرار دیئے گئے.(۲) اول، دوئم ، سوئم انصار کے اسماء گرامی الفضل اور ماہنامہ انصار اللہ میں شائع کرائے گئے.(۳) امتحان سہ ماہی اول ۱۹۸۱ء کے پرچے پانچ ہزار کی تعداد میں تمام مجالس کو بھجوائے گئے.(۴) ماہانہ سرکلرز جاری کئے گئے.(۵) ناظمین و زعماء مجالس کی رپورٹوں پر تبصرے ارسال کئے گئے.(1) نصاب ” بنیادی معلومات برائے انصار اللہ کے سلسلہ میں دوستوں کے استفسارات کے جواب

Page 146

ارسال کئے گئے.۱۲۶ (۷) انصار ممالک بیرون کے لئے الگ نصاب امتحان صدر محترم کے مشورہ سے تیار کیا گیا.قیادت مال (۱) عرصہ زیر پورٹ میں کل سے اے مجالس یعنی ۷۸ فیصد مجالس کے بجٹ تشخیص ہو چکے تھے.(۲) پہلی سہ ماہی میں کل بجٹ کے حصہ مرکز میں ۳۸۳۴ ۵ روپے کی وصولی ہوئی.(۳) چندہ سالانہ اجتماع میں./ ۹۶۳۷ روپے کی وصولی ہوئی.(۴) چندہ اشاعت لٹریچر میں ۲۳۷۰/۱۵ روپے کی وصولی ہوئی.(۵) انسپکٹر ان انصار اللہ نے مندرجہ ذیل اضلاع کی مجالس کا دورہ کیا.فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جھنگ، صوبہ سرحد ،حیدرآباد، نواب شاہ ، کراچی ، تھر پارکر آؤٹ (۱) تمام مجالس کو نئے سال کے لئے آڈٹ کی ہدایات ارسال کی گئیں.(۲) ماہانہ رپورٹ فارم میں شعبہ آڈٹ کا علیحدہ خانہ برائے کوائف بنایا گیا.(۳) بتیں مجالس کے حسابات کی پڑتال کی گئی.(۴) مرکزی سرکلر کے ذریعہ ہدایات بھیجوائی گئیں.(۵) مجلس ربوہ کے انتیس حلقہ جات کے حسابات کی پڑتال کی گئی.(1) دفتر مرکزیہ کے ماہانہ حسابات ویل ہائے عملہ وسائر کی پڑتال کی گئی.(۷) مجالس بیرون کے لئے آڈٹ سے متعلق انگریزی میں ہدایات تیار کی گئیں.(۴۶) قیادت اصلاح وارشاد ماڈل ٹاؤن لاہور.ایک سو پچپن ٹریکٹ غیر از جماعت احباب نے حاصل کئے.سولہ احباب جماعت کے گھروں پر غیر از جماعت دوستوں نے اکٹھے ہو کر احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کیں.تبلیغی سوال و جواب کے دو دلچسپ پروگرام مرتب کئے گئے جن میں پچاس غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.حلقہ رحمان پورہ میں ایک تبلیغی کلاس بھی شروع کی گئی.بارہ احباب نے گھریلو مجالس میں غیر از جماعت رشتہ داروں کو تبلیغ کی.بیالیس ایسی گھر یلو مجالس کا اہتمام کیا گیا جن میں ۱۸۵ افراد خانہ شامل ہوئے.ان مجالس میں برائیوں سے پر ہیز ، بد رسوم سے اجتناب، روز مرہ کے فقہی مسائل اور عقائد کے بارہ میں روشنی ڈالی گئی.مکرم قائد صاحب اصلاح وارشاد مرکزیہ کی آمد پر سلائیڈز کا ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.مکرم قائد صاحب کی

Page 147

۱۲۷ موجودگی میں مجلس عاملہ ضلع کی میٹنگ میں تبلیغ کے مؤثر طریقوں پر غور کر کے کئی اہم فیصلے کئے گئے.ناظم آبا د کراچی.۳۷۵ کی تعداد میں لٹریچر غیر از جماعت دوستوں نے لیا.ساڑھے تین صد سے زائد غیر از جماعت دوستوں کو تبلیغ کی گئی.۲۱۲۵ روپے کا لٹریچر خرید کر تقسیم کیا گیا.تین اخبار نویں جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.۶۰ افراد کتب سلسلہ پڑھ رہے تھے.ایک دوست بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.ڈرگ روڈ کراچی.چار تبلیغی مذاکرے منعقد کئے گئے.۲۱۰ غیر از جماعت احباب جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے تشریف لائے.۲۹ انصار با قاعدگی سے تبلیغ کرتے رہے.عزیز آباد کراچی.۲۲۵ احباب تک احمدیت کا پیغام پہنچایا.پچپن ارکان نے اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کی.دس غیر از جماعت احباب مرکز میں تشریف لائے.ان میں سے دو بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.۲۱ احباب زیر تبلیغ تھے.سوا تین صد کے قریب لٹریچر کی کاپیاں غیر از جماعت احباب نے حاصل کیں.بعض زیر تبلیغ دوستوں نے جلسہ سالانہ کی تقاریر کی بعض ٹیپس سنیں.انور آباد ضلع لاڑکانہ.تین ارکان کی اس چھوٹی سی مجلس نے آٹھ تبلیغی مذاکرات اور دوسلا ئیڈ لیکچروں کا اہتمام کیا.دو تبلیغی وفود بھیجے گئے.دس غیر از جماعت جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.تمہیں احباب زیر تبلیغ رہے.پانچ کو تبلیغی خطوط لکھے گئے.پانچ دوستوں نے بیعت کی.چالیس دوستوں کو لٹریچر دیا گیا.سکھر.ایک سو دس کتب و پمفلٹس غیر از جماعت احباب نے حاصل کئے.اصلاح وارشاد کا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں غیر از جماعت احباب نے بھی شمولیت اختیار کی.شکار پور.اس چھوٹی مجلس نے دو تبلیغی مذاکرے منعقد کئے.۱۲۰ غیر احمدی احباب نے لٹریچر حاصل کیا.تین احباب سے تبلیغی خط وکتابت ہوئی.دو جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.فیصل آباد.شہر کے مختلف حلقوں میں میں اجلاس اصلاح وارشاد کے تحت منعقد کئے گئے.ڈیڑھ صد سے زائد غیر از جماعت جن میں بعض عیسائی پادری اور طلباء بھی تھے.ان میں شامل ہوئے اور دلچسپ سوالات پوچھے.اجتماعات کو خطاب کرنے اور سوالات کے جوابات دینے کے لئے مرکز سے علماء تشریف لاتے رہے.گیارہ سو افراد تک پیغام حق پہنچایا.مغلپورہ ضلع لاہور.سوال و جواب کی چار مجالس کا انعقاد کیا گیا جن میں غیر از جماعت احباب تشریف لائے اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کئے.لاڑکانہ.پچاس غیر از جماعت احباب نے لٹریچر حاصل کیا.اصلاح وارشاد کے ایک جلسہ میں غیر از جماعت

Page 148

۱۲۸ احباب نے شامل ہو کر سوالات پوچھے.۱۹۸۰ء کے دوران ۵۰ بیعتیں ہوئیں.رحمان آباد ضلع نواب شاہ.سب انصار تبلیغ کرتے رہے.ہمیں احباب زیر تبلیغ رہے.چھ نے لٹریچر حاصل کیا.غیر از جماعت احباب کا ایک وفد جلسہ سالانہ میں شامل ہوا.اسلامیہ پارک لاہور.دفتر انصار اللہ میں لٹریچر رکھا گیا جہاں سے انصار اور دوسرے دوست بھی حسب خواہش لے جاتے.اسی طرح مساجد اور مراکز نماز میں بھی لٹریچر رکھوایا گیا.پندرہ غیر از جماعت احباب کو جلسہ سالانہ ربوہ پر لے جایا گیا.تین تبلیغی وفود بھجوائے گئے.دو غیر از جماعت علماء نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.نوحلقوں میں مجالس سوال و جواب اور سلائیڈز کے الگ الگ پروگرام معین تاریخوں کے ساتھ ترتیب دیئے گئے.ہر حلقہ سے تبلیغی وفود بھجوائے جاتے رہے.دس احباب کے غیر از جماعت رشتہ داروں نے ہلٹن ہوٹل میں حضور سے ملاقات کی.چار سلائیڈز لیکچر کروائے گئے.ایک سو ساٹھ انصار تبلیغ کرتے رہے.تین سو غیر از جماعت دوستوں نے لٹریچر حاصل کیا.شیخو پورہ شہر.پچپن انصار اپنے اپنے خاندان میں تبلیغ کرتے رہے.کتاب ”چودہویں اور پندرھویں صدی کا سنگم کی ایک سو پچاس کا پیاں تقسیم کی گئیں.اوکاڑہ.۹۰۰ کی تعداد میں لٹریچر کی کا پیاں تقسیم کی گئیں.تین صد کے قریب جماعتی رسالے غیر از جماعت احباب کے نام جاری کروائے.دس افراد نے رشتہ داروں میں تبلیغ کی.ساٹھ افراد کوتحریری دعوت نامے بھجوائے گئے.چالیس کو بانی پیغام حق پہنچایا گیا.ربوہ.قریبی دیہات میں دو وفود بھجوائے گئے اور کم وبیش بارہ افراد سے تعلق و رابطہ قائم کیا گیا.دو دوستوں نے بیعت کی توفیق پائی.۲۲ افراد گردو نواح سے ربوہ تشریف لائے.جلسہ سیرۃ النبی کو کامیاب بنانے میں پوری سعی کی گئی.احمد نگر کا جلسہ سیرۃ النبی بھی کامیاب رہا.ان دونوں جلسوں میں غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.تین انصار وقف عارضی میں شامل ہوئے.چھ انصار رشتہ داروں کو بذریعہ خط و کتابت تبلیغ کرتے رہے.ڈسکہ.کتاب ”چودھویں اور پندرہویں صدی کا سنگم کی سوکا پیاں منگوا کر تقسیم کی گئیں.سرگودھا شہر.پانچ صد سے زائد افراد غیر از جماعت سوال و جواب کی ایک محفل میں شامل ہوئے.پیچھہر غیر از جماعت دوست حضور انور کی ملاقات کے لئے دو ملاقاتوں میں تشریف لائے.تین بیعتیں ہوئیں.ضلع سرگودھا کے چار سو سے زائد غیر از جماعت دوست جلسہ سالانہ شامل ہوئے.دارالذکر.۵۰۰ پمفلٹس اور کتابچے غیر از جماعت احباب میں تقسیم کئے.۳۸ دوستوں کے غیر از جماعت رشتہ داروں نے جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں.۳۵ غیر از جماعت احباب دعوت پر تشریف لائے اور

Page 149

۱۲۹ جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں.۱۱۲ دوستوں نے لٹریچر حاصل کیا.گجرات.سات صد ا حباب تک پیغام حق پہنچایا گیا.دوصد افراد میں مفت دوائی تقسیم کی گئی.تین افراد پر مشتمل وفد ایک غیر از جماعت گاؤں میں گیا.اسلام آباد.ایک سلائیڈز لیکچر منعقد کیا گیا جس میں دس غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.باسٹھ غیر از جماعت دوستوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا.۳۷ غیر از جماعت افراد نے جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں.جلسہ سیرۃ النبی کو کامیاب بنانے کے لئے انصار نے مقامی جماعت کی مدد کی.چھ غیر از جماعت افراد جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.چودہ دوستوں کو تبلیغ کی گئی.ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے پانچ ہزار روپے اکٹھے کئے گئے.مغلپورہ.ایک سلائیڈ زلیکچر میں ۳۰ غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.دوبار سوال و جواب کی مجالس منعقد کی گئیں جن میں غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.چک چھور نمبر۱۱۷.قریبی دیہات میں ایک وفد بھیجا گیا.۷۰ احباب نے لٹریچر حاصل کیا.کر تو.دو تبلیغی مذاکروں اور ایک سلائیڈ زلیکچر کا انتظام کیا گیا.شاہدرہ ٹاؤن.چار تبلیغی مذاکرے ہوئے.دو ملحقہ بستیوں میں تبلیغی وفود بھیجے گئے.ہیں افراد کولٹر پچر دیا گیا.ایک دوست نے بیعت کی توفیق پائی.چک ۸۱ جنوبی.۳۵ غیر از جماعت احباب جلسہ سالانہ ربوہ میں شریک ہوئے.دو تبلیغی وفود بھجوائے گئے.تقریباً پانچ صد دوست زیر تبلیغ رہے.خوشاب.۳۵ غیر از جماعت احباب جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.۵۰ کے قریب ٹریکٹ تقسیم کئے گئے.چک اے جنوبی سرگودھا.تین مذاکرے منعقد کئے گئے.ڈنگہ.جلسہ سیرۃ النبی کا انتظام کیا گیا.کنری.ایک تبلیغی مذاکرہ منعقد کیا گیا.پانچ وفود گرد و نواح میں بھیجے گئے.کتاب ” چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم ایک سو کی تعداد میں تقسیم کی گئی.۲۰ غیر از جماعت احباب نے لٹریچر وصول کیا.گوٹھ علم الدین ضلع تھر پار کر.دو تبلیغی مذاکرے منعقد کرائے گئے.دیہات میں وفود گئے.ایک تبلیغی جلسہ میں غیر از جماعت احباب دلچسپی سے شریک ہوئے.سانگھڑ شہر.دو تبلیغی مذاکرے اور دوسوال و جواب کی مجالس منعقد کی گئیں.چک ۲/۵۵.ایل ضلع ساہیوال.اس چھوٹی سی دیہاتی مجلس نے خدام کے ساتھ مل کر سیرۃ النبی کے جلسہ کا

Page 150

اہتمام کیا.اسی طرح تعلیم القرآن کلاس کا بھی انتظام کیا گیا.کھنڈ وضلع لاڑکانہ.اس مختصر مجلس نے باقاعدہ پروگرام بنا کر ۱۵ افراد کو تبلیغ کی.چوہڑکانہ.تبلیغی مذاکرے منعقد کئے گئے.ایک سلائیڈ زلیکچر ہوا.۲۵ احباب زیر تبلیغ تھے.۲۰ کولٹر پچر دیا گیا.S.D.A مشن کے چار بڑے پادریوں کو چائے پر مدعو کیا گیا اور مسئلہ تثلیث پر تبادلہ خیالات ہوا.سچا سودا.اس چھوٹی مجلس نے تبلیغی مذاکرہ منعقد کیا اور دس غیر از جماعت احباب کولٹریچر دیا.کوٹ سوند حا ضلع شیخو پورہ.زیرتبلیغ دوستوں کا ایک وفد تحقیق کے لئے ربوہ گیا.چک ۴۲۶ ج ب.تین تبلیغی مذاکرے منعقد ہوئے.آن به ضلع شیخو پورہ.اکیس انصار تبلیغ کرتے رہے.دو فود مرکز میں بھجوائے گئے.چودہ زیر تبلیغ احباب کولٹر پچر بھی دیا گیا.چک ۴ سا ہو والہ.ایک وفدر بوہ گیا.دس افراد نے لٹریچر حاصل کیا.مریم آباد کے کینتھولک عیسائیوں کو پیغام حق پہنچایا گیا.لاڑکانہ.اصلاح وارشاد کے ایک جلسہ میں غیر از جماعت احباب شامل ہوئے اور سوالات پوچھے.پچاس احباب نے لٹریچر حاصل کیا.خدا آباد ضلع بدین.دوسلائیڈ زلیکچر منعقد کئے گئے.منڈی بہاءالدین.۴۵ احباب زیر تبلیغ رہے.معین الدین پور.ایک مجلس سوال وجواب کا انتظام کیا گیا جس میں غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.شیخ پور گجرات.دو تبلیغی مذاکروں کا انتظام کیا گیا جس میں غیر از جماعت احباب بھی شریک ہوئے.چک ۱۲۹ گر مولا ضلع شیخو پورہ تقسیم لٹریچر اور رشتہ داروں میں تبلیغ کے علاوہ پچیس غیر از جماعت احباب جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے ربوہ گئے.چک نمبر ۴ ٹیل ضلع سرگودھا - ۵ افراد کا ایک وفد یہاں سے مرکز سلسلہ گیا.کجر ضلع شیخو پورہ.انصار نے ۲۰ رشتہ داروں کو تبلیغ کی.۲۰ پمفلٹس تقسیم کئے گئے.وار برش ضلع شیخوپورہ.انفرادی تبلیغ کے علاوہ مجلس کی تحریک پر چھپیس غیر از جماعت احباب جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے.پچیس کتب ” چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم، تقسیم کی گئیں.ڈیرہ غازی خان.احمد یہ لائبریری روزانہ کھولی جاتی رہی.اس میں غیر از جماعت احباب معلومات حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے رہے.۴۷

Page 151

۱۳۱ خصوصی دوره نمائندگان قیادت اصلاح وارشاد نمائندگان مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے بغرض اصلاح و ارشادمتی و جون ۱۹۸۱ء میں جن مجالس کے پروگراموں میں حصہ لیا ان کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے.حلقه کریم نگر فیصل آباد.۳ مئی کو ۸ بجے شب حلقہ کریم نگر کے تحت مجلس مذاکرہ منعقد کی گئی.مکرم مولوی نظام الدین صاحب مہمان مربی سلسلہ نے عقائد احمدیت پر مختصر تقریر کی جس کے بعد مکرم مولوی صاحب موصوف اور مکرم حبیب احمد صاحب مربی سلسلہ نے ساڑھے نو بجے تک نہایت دوستانہ ماحول میں سوالات کے جوابات دیئے.آخر میں ڈاکٹر فضل کریم صاحب نے اپنی قیام گاہ پر تمام احباب کی چائے سے تواضع کی.حلقہ جھال خانو آ نہ ضلع فیصل آباد.۲۷ مئی کو حلقہ خانو آنہ میں مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری نے سلائیڈز دکھا ئیں.۸۲ احباب کے ساتھ تقریباً اتنی ہی تعداد میں مہمان بھی شامل ہوئے اور بہت دلچسپی کا اظہار کیا.شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاؤالدین.۲ جون کو مسجد میں مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈز پروگرام دکھا یا جس میں حاضرین کی تعداد ایک سو اسی تھی.ان میں اسی مہمان بھی شامل تھے.چک ۲۰ ضلع گجرات مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے ۳ جون کو احمد یہ مسجد میں سلائیڈ زپروگرام دکھایا.دو سوحاضرین میں سے پچاس کے قریب مہمان دوست بھی تھے.بھیرہ ضلع سرگودھا ۴ جون کو مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے مسجد احمد یہ میں سلائیڈز پروگرام دکھایا.دوسو حاضرین میں سے نصف کے قریب مہمان تھے جو احباب جماعت کے ساتھ آئے تھے علاوہ ازیں بہت سے بچوں اور عورتوں نے بھی یہ پروگرام دیکھا.بجکہ ضلع سرگودھا.۵ جون کو عصر کے بعد ایک مجلس کا انتظام کیا گیا اور عشاء کے بعد مکرم منیر الدین صاحب نے سلائیڈ ز دکھا ئیں جس میں حاضری ایک سو پچاس تھی.دار الیمن وسطی ربوہ ے جون کو مسجد میں سلائیڈز کا انتظام کیا گیا.دیکھنے والے سینکڑوں دوست تھے.چک ام ضلع سرگودھا.مورخہ ۱۱ جون بروز جمعرات چوہدری مجیب اللہ صاحب کے مکان پر سلائیڈز پروگرام دکھایا گیا.اس میں احباب کے ساتھ ان کے ہیں مہمان بھی تشریف لائے.حاضرین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے.بعد نماز عشاء سلائیڈز پروگرام میں ایک سو پچاس احباب کے ساتھ ان کے پچاس غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن اور حلقہ امیر پارک گوجرانوالہ.۲۰.۲۱ جون کو بالترتیب سیٹلائٹ ٹاؤن اور حلقہ امیر پارک میں مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے سلائیڈ ز دکھا ئیں.اول الذکر حلقہ میں امیر صاحب کی کوٹھی پر اور مؤخر الذکر

Page 152

۱۳۲ حلقہ میں زیر تعمیر مجد احمدیہ میں سلائیڈ ز دکھائی گئیں.حلقہ امیر پارک میں پروگرام کے بعد ایک گھنٹہ تک حاضرین نے سوالات بھی کئے جن کے تسلی بخش جواب دیئے گئے.ہر دو مقامات پر ٹھنڈے مشروبات سے تواضع کی گئی.حاضرین کی تعداد ہر دو جگہ پر ڈیڑھ اور تین صد کے درمیان تھی.سیالکوٹ.19 جون کو جمعہ سے پہلے مرکزی نمائندگان مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب اور محمد عیسی صاحب نے نگران حلقہ جات کی میٹنگ میں ہدایات دیں.مسجد احمد یہ میں نماز عشاء کے بعد مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈ زپروگرام دکھایا.احباب کے ساتھ ان کے ڈیڑھ سو کے قریب غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوئے.کل حاضری دوسو پچاس کے قریب تھی.مستورات ان کے علاوہ تھیں.چک ۴۳ ضلع سرگودھا.مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈ ز دکھا ئیں.پانچ سو حاضرین تھے.مکرم صدر صاحب جماعت کے ڈیرے پر انتظام کیا گیا.عصر کی نماز سے پہلے مذاکرہ کا انتظام کیا گیا.جس میں تھیں غیر از جماعت دوستوں نے دلچسپی سے سوالات پوچھے.دارا النصر شرقی ربوہ ۱۳ جون کو مسجد میں مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے سلائیڈ ز پروگرام دکھایا.مسجد القمرر بوہ.مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے ۱۳ جون کو مسجد القمرر بوہ میں یہ پروگرام دکھایا.مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ.مکرم مولوی محمد عیسی صاحب اور مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب مرکزی نمائندگان کی حیثیت سے ۱۸ جون کو یہاں پہنچے اور بعد نماز عصر مجلس انصاراللہ کی ایک میٹنگ میں شامل ہوئے.مختصر میٹنگ کے بعد آخر میں دونوں علماء نے تربیتی امور سے متعلق تقاریر کیں.اس میٹنگ میں انصار ، خدام، اور اطفال نے کثرت سے شرکت کی.۴۸ ضروری کوائف قیادت اصلاح وارشادا۸.۱۹۸۰ء نمبر شمار عنوان 1 مجالس مذاکرہ کی تعداد سال ۱۹۸۰ء سال ۱۹۸۱ء جنوری تا اگست (۸ ماه ) ۱۳۲ ۸۲۷ جن میں سے ۲۹ مقامات پر صدر محترم نے شرکت فرمائی.۳۰۶ ۸۳ ۱۲۳ ۲۴۵ ۸۸ ۱۴۷۸ - جنتیں جو ہمارے ریکارڈ میں آئیں تبلیغی وفود بھجوائے گئے سلائیڈ زلیکچر ۵ تبلیغی خطوط لکھے گئے

Page 153

۱۳۳ تبلیغی کیسٹ بیرون ممالک بھجوائے گئے کتنالٹریچر شائع ہوا مرکزی نمائندگان مکرم نا ئب صدر صاحب مجلس کا دورہ بیرونی ممالک رساله وصال ابن مریم : ۲۰۰۰ رساله خاتم النبین : ۲۰۰۰ دوور قے : ہمارا خدا: ۵۰۰۰، ہمارا مذہب: ۵۰۰۰، زنده رسول ۵۰۰۰، زنده کتاب ۵۰۰۰ ۱۷۵ مجالس میں مرکز سے ۲۳ نمائندگان نے شمولیت کی جو ایک سے زائد بار دوروں پر گئے ۴۹ مجالس انصاراللہ بیرون پاکستان کو منظم کرنے کیلئے ضروری سمجھا گیا کہ مرکز سے کوئی نمائندہ ان مجالس کا دورہ کرے اور موقع پر جا کر حالات کا عمیق جائزہ لے کر مجالس کی تنظیم کے کام کو سرانجام دے چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ اس مقصد کے لئے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس کو بیرونی ممالک کے دورہ پر بھجوایا جائے.حضور انور نے اس تجویز کو منظور فرمالیا اور مکرم نائب صدر صاحب کے مندرجہ ذیل نو ممالک کے دورے کا پروگرام تشکیل دیا گیا : (۱) مغربی جرمنی (۲) سوئٹزرلینڈ (۳) ہالینڈ (۴) ڈنمارک (۵) سویڈن (۶) ناروے (۷) انگلستان (۸) امریکہ (۹) کینیڈا محترم چوہدری حمید اللہ صاحب نے روانگی سے قبل سید نا حضرت خلیفتہ المسح الثالث سے ملاقات کا شرف حاصل کیا نیز بذریعہ خط دعا کی درخواست کے ساتھ عرض کیا کہ اگر حضور پسند فرما ئیں تو حضور ا حباب کے نام کوئی پیغام یا نصیحت عطا فرمائیں جو خاکساران ممالک کے احباب کو پہنچائے.جواب میں حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ”میرا سلام پہنچا دیں

Page 154

۱۳۴ صدر محترم کا خط نائب صدر ان ممالک کے نام نائب صدر صاحب کے مجوزہ دورہ سے قبل صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے متعلقہ ممالک کے نائب صدران کو ایک تفصیلی خط تحریر فرمایا.اس میں صدر محترم نے دورہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی اہمیت واضح فرمائی.دورہ سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے نہایت باریکی سے ہدایات دیں اور بعض اہم فیصلے بھی سپرد قلم فرمائے.یہ خط بیرونی مجالس کے احیائے نو میں بنیادی لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے.صدر محترم کا یہ خط یہاں درج کیا جاتا ہے: کچھ عرصہ سے شدت سے یہ ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ پاکستان کی طرح دوسرے ممالک میں بھی مجلس انصار اللہ کو ایک فعال تنظیم کے طور پر منظم کیا جائے.(۱) دستور کے مطابق عہدیداران کا تقرر ہو.(۲) پاکستان کی مجالس کے لئے مقررہ لائحہ عمل میں سے مختلف ممالک کے حالات کے مطابق منتخب کر کے ممالک بیرون کی مجالس کے لئے لائحہ عمل تجویز کیا جائے.(۳) پاکستانی مجالس کی طرح ممالک بیرون کی مجالس بھی اپنی ماہانہ رپورٹ مرکز میں بھجوائیں اور علم انعامی کے مقابلہ میں شریک ہوں.(۴) مرکزی اجتماعات جیسے اہم مواقع پر مجالس بیرون بھی اپنے نمائندگان مرکز میں بھجوایا کریں تا مرکز کے ساتھ اُن کا تعلق اور زیادہ مضبوط اور پختہ ہو جائے اسی طرح (۵) بیرونی مجالس کے انصار مجلس انصار اللہ کے چندہ جات حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظور کردہ شرح کے مطابق ادا کریں اور انصار اللہ کی دوسری مالی تحریکات.چندہ تعمیر گیسٹ ہاؤس و دفتر تعمیر دفتر وغیرہ میں حصہ لیں.(۶) مجلس مرکز یہ کے آرگن ماہنامہ انصار اللہ کی اشاعت کو بیرون پاکستان بھی وسیع کیا جائے تا اس ذریعہ سے بھی مرکز کی آواز اراکین اور مجالس تک پہنچتی رہے اسی طرح یہ کہ بیرونی ممالک کی مجالس کی بیداری کے لئے دوسرے ضروری اقدام کئے جائیں.چنانچہ خاکسار کی درخواست پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بات کی منظوری مرحمت فرمائی ہے کہ امسال چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکز به بعض بیرونی ممالک کی مجالس النصار اللہ کا دورہ کریں اور مجالس کی بیداری کے لئے سعی کریں اور اس کی روشنی میں ان کے دورہ کا تفصیلی معین پروگرام بنا کرخاکسار کو جلد از جلد بھجوا دیں.مکرم نائب صدر مجلس مرکزیہ کے قیام کے دوران مجالس عاملہ کے اجلاسات بلائے جائیں نیز انصار کا اجلاس عام بھی رکھا جائے.جہاں اجلاس عام بلانے میں دقت ہو وہاں حتی المقدور انفرادی ملاقات کا انتظام کیا جائے.اور جہاں اجلاس ممکن ہو لیکن بعض دوستوں کا پہنچنا ممکن نہ ہو وہاں بھی اس کمی کو انفرادی ملاقات کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کی جائے.

Page 155

۱۳۵ بعض امور کی تیاری آپ کو ان کے آنے سے قبل کرنی ہوگی تا جو کام اُن کے آنے سے پہلے آپ اور دوسرے عہدیداران مل کر انجام دے سکتے ہیں وہ اُن کے آنے سے پہلے مکمل ہو جائیں.(۱) مجلس وار انصار کی تجنید مکمل کی جائے.(۲) مجلس کی منظور کردہ شرح کے مطابق انصار کا مجلس وار بجٹ تشخیص کیا جائے.(۳) مرکزی گیسٹ ہاؤس اور دفتر کی تعمیر کے لئے عطایا کی تحریک کر دی جائے اور وعدہ جات کے حصول کا کام شروع کر دیا جائے.(۴) اس خط کے ہمراہ پروفارما (PROFORMA) ارسال ہے جو مجلس انصاراللہ کے ہر رکن سے پُر کروا لیا جائے اور اس کے مندرجات کو ایک فارم میں CONSOLIDATE کر لیا جائے.(۵) جس بینک میں جماعت کا اکاؤنٹ ہے اس بینک میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ“ کے نام پر ایک الگ اکاؤنٹ کھلوا دیا جائے (اگر پہلے ایسا اکاؤنٹ موجود نہیں تو اس اکاؤنٹ کے آپریٹر (OPERATOR) آپ ہوں گے.اس اکاؤنٹ میں چندہ مجلس کا مرکزی حصہ، چندہ سالانہ اجتماع کا مرکزی حصہ، چندہ اشاعت لٹریچر، چندہ تعمیر گیسٹ ہاؤس ، چندہ ماہنامہ انصار اللہ کی رقوم جمع کروائی جائے.لیکن اس امانت سے صرف صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی اجازت سے رقم نکلوائی جاسکے گی.(۶) جن مقامات پر زعیم اعلیٰ انصار اللہ کا انتخاب ابھی تک نہیں ہوا، وہاں زعیم کی نامزدگی کر دی جائے یا زعیم کا انتخاب کروا دیا جائے.(۷) جنوری تا اپریل ۱۹۸۱ء مجالس ملک نے جو کام کیا ہے اُس کی رپورٹ تیار کر لی جائے.(۸) مجلس کے ہر قسم کے حسابات کو آخری شکل دے دی جائے تا کہ پڑتال میں سہولت ہو.اس خط کی رسیدگی کی فوراً اطلاع دیں اور مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ کے پروگرام کو آخری شکل دے کر جلد از جلد بھجوا دیں.دورہ کے دوران مکرم نائب صدر صاحب مرکز یہ کو صدر مجلس کے اختیار حاصل ہوں گے اور مجالس کے جملہ معاملات کے بارہ میں ہر قسم کا فیصلہ دینے کے مجاز ہوں گے.اندرون ملک مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ کے دورہ کے جملہ اخراجات مجلس انصاراللہ ملک برداشت کرے گی...جزاکم اللہ احسن الجزاء الوداعی دعائیہ تقریب محترم نائب صدر صاحب کی روانگی سے ایک روز قبل و مئی ۱۹۸۱ء کو دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے ہال میں

Page 156

ایک دعائیہ تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے فرمائی.تلاوت اور عہد کے بعد صدرمحترم نے مکرم نائب صدر صاحب کے مجوزہ عالمی دورہ کی ضرورت و اہمیت بیان کی اور جماعت کی ذیلی تنظیموں کے کردار کا تربیتی وتنظیمی پہلو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود کوشاندارالفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.بعد ہ مکرم پر و فیسر منور شیم خالد صاحب قائد عمومی نے مکرم چوہدری صاحب کی خدمت میں مجلس عاملہ مرکزیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل دعائیہ ایڈریس پیش کیا.بخدمت مکرمی و محترمی جناب چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بیرونی ممالک میں مجالس انصار اللہ کی تشکیل و تنظیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے صدر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی تجویز اور سید نا حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے آئمکرم مورخه ۱۰ ہجرت مئی ۱۳۶۰ ہش / ۱۹۸۱ء کی صبح یورپ و شمالی امریکہ کے نو ممالک یعنی مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن،انگلستان،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں مجالس کی عالمگیر پیمانہ پر ٹھوس بنیادوں پر تشکیل کے نہایت ہی اہم اور دور رس نتائج کے حامل عظیم مقاصد کو لے کر اپنے پہلے بین الاقوامی دورہ پر روانہ ہورہے ہیں.اس تاریخی دورہ کے موقع پر ہم ممبران مجلس عاملہ مرکز یہ اور کارکنان دفتر مرکز یہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی پُر خلوص دعاؤں اور تمام تر نیک تمناؤں کے ساتھ آپ کو الوداع کہنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہر گام پر آپ کے شاملِ حال رہے.آمین.آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے دورہ کے عظیم مقاصد کے حصول میں اللہ تعالیٰ نہایت شاندار طریق پر کامیاب و کامران فرمائے.آمین ثم آمین.مکرم و محترم نائب صدر صاحب! آپ کا یہ دورہ اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں کی تاریخ میں مجلس انصار اللہ کوخدا تعالیٰ سے یہ توفیق حاصل ہو رہی ہے کہ آنمکرم خاص طور پر انصار اللہ کی تنظیم کو عالمی سطح پر ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے بنفس نفیس تشریف لے جار ہے ہیں اور ہمیں خدا کے فضل سے یقین واثق ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں اور راہنمائی اور آنمکرم کی خداداد تنظیمی صلاحیتوں اور نہایت عمیق نظر کی حامل ٹھوس سائنسی اصولوں پر منصوبہ بندی کے نتیجہ میں پر بہت جلد دنیا کے ان ممالک میں مجالس انصار اللہ اپنی تنظیم ، کار کردگی اور اپنے نتائج کے لحاظ سے اتنا بلند

Page 157

۱۳۷ مقام اور معیار حاصل کرلیں گی ، انشاء اللہ کہ وہ کار کردگی کے لحاظ سے چوٹی کی پاکستانی مجالس کے مقابل پر آن کھڑی ہوں.خدا کرے کہ مسابقت کی یہ دوڑ آپ کے تنظیمی دورہ کے نتیجہ میں جلد تر شروع ہو جائے.آمین.ہر گام لمحہ ہمراہ رہے نصرت باری و هر آن خدا حافظ و ناصر والسلام (آمین) ہم ہیں آپ کی کامیاب وکامران واپسی کے منتظر ممبران مجلس عامله مجلس انصاراللہ مرکزی......بوده ( و ہجرت /مئی ۱۳۶۰ ہش / ۱۹۸۱ء) دعائیہ ایڈریس کے بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے خاص اس تقریب کے لئے لکھی گئی اپنی دعائیہ نظم ترنم کے ساتھ سنائی جسے بہت پسند کیا گیا.جادہ حق پر رواں ہے اک جوانوں کا جواں پیکر ہمت، حمید اللہ، فخر کارواں نظم کے بعد احباب مجلس کی چائے سے تواضع کی گئی اور آخر میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے صدر محترم کی درخواست پر دورہ کی ہر لحاظ سے کامیابی کیلئے اجتماعی دعا کروائی.دعا کے بعد گروپ فوٹو ہوئی.﴿۵۰﴾ حضرت خلیفہ مسیح اور صد محترم کے خطوط مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اپنے بیرونی سفر کے دوران سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی خدمت میں اپنی کار کردگی کی رپورٹ باقاعدگی سے بھجواتے رہے.سفر کے دوران ہی آپ کو حضور اقدس اور صدر محترم کے دعائیہ اور حوصلہ افزائی کے خطوط ملتے رہے.دو خطوط ملاحظہ ہوں : حضور انور کا خط بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم عزیزم مکرم

Page 158

۱۳۸ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط مرسلہ ۱۵/۵/۸۱ ملا.خدا تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت ڈالے.دینی، دنیاوی ترقیات دے.صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے اور ہر آن حافظ و ناصر ہو.آمین صدر محترم کا خط بسم اللہ الرحمن الرحیم ١٩٨١/١٣٦٠-١٦ والسلام مرزا ناصر احمد خلیفة اصبح الثالث ۲۹_۵-۶۰/۸۱ محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم پیارے برادرم مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آئمکرم کی طرف سے آج ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے دورہ جات کی رپورٹیں اکٹھی موصول ہوئیں.اس سے قبل سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کے دورہ جات کی رپورٹیں بھی موصول ہو چکی ہیں.ما شاء اللہ آپ نے بڑی ہمت کی ہے جو انتہائی مصروف الاوقات سفر میں سے بڑی تفصیلی رپورٹیں لکھنے کا وقت نکالا.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ آپ کی مرسلہ رپورٹوں سے پورا استفادہ کیا جا رہا ہے اور اعداد و شمار کو مرتب کر کے ایک واضح تصویر کی صورت میں ڈھالا جا رہا ہے.جہاں تک یورپ کے ممالک کا تعلق ہے ، پہلی مرتبہ مرکزی ریکارڈ میں اتنی روشنی پیدا ہوئی ہے کہ پوری بصیرت کے ساتھ ان ممالک کو مخاطب کیا جا سکے.امید ہے کہ اس مضبوط بنیاد پر انشاء اللہ تعالیٰ ایک بلند اور وسیع عمارت تعمیر ہوگی اور دیگر ممالک بھی پاکستان کے شانہ بشانہ انصار اللہ کے کاموں میں حصہ لینے لگیں گے.اس دورہ کی برکت صرف انصار تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ نہایت اطمینان بخش پہلو ہے کہ کیا خدام اور کیا اطفال اور کیا لجنات سبھی آپ کے اس دورہ سے بڑے خلوص کے ساتھ استفادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں.الحمد للہ.برادرم کمال یوسف صاحب کی تجاویز بہت مفید ہیں.انشاء اللہ ان پر عملدرآمد کیا جائے گا.اس سلسلہ میں غور کے بعد معتین تجویز حضور کی خدمت میں پیش کر کے اجازت طلب کی جائے گی.

Page 159

۱۳۹ جن جن احباب جماعت نے آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ہے ، ان سب کو میں خود شکریہ کے خطوط لکھ رہا ہوں تا کہ حوصلہ افزائی ہو اور آئندہ پہلے سے بڑھ کر نیک کاموں میں تعاون کی روح پیدا ہو.حضرت شیخ مبارک احمد صاحب نے استفسار فرمایا ہے کہ DUPLICATOR کون سا لیا جائے.سو پونڈ والا یا ہزار پونڈ والا.ہماری تعلیم و تربیت کی سکیم اتنی وسیع ہے کہ PROFESSIONAL DUPLICATOR کے بغیر جو 1000 پاؤنڈ کا آتا ہے، گزارہ نہیں ہوسکتا.انصار اللہ کے مرکزی فنڈ میں کافی رقم موجود ہے.اس لئے پروفیشنل کیسٹ ڈوپلیکیٹر ہی لینا چاہئے.تاہم ابھی اسے ملتوی رکھیں.امریکہ سے بھی قیمت کا پتہ کرلیں.علاوہ ازیں ہمیں سلائیڈز کے لئے بھی ڈوپلیکیٹر سسٹم کی ضرورت ہے.اس کے لئے بھی فی الحال جائزہ لے لیا جائے.عبدالحفیظ صاحب کھو کھر کو بھی اس بارہ میں کچھ واقفیت ہے.ان کے علاوہ کئی مقامی دوست بھی فنی لحاظ سے مفید مشورہ دے سکیں گے.اس ضمن میں بھی انگلستان کے اعداد و شمار کا امریکہ کے اعداد و شمار سے موازنہ کے بعد فیصلہ ہونا چاہئے.آج کل یہاں گرمی شدید ہے اور ساتھ ہی کام بھی زوروں پر جاری ہے.اللہ تعالیٰ ذمہ داریوں کو باحسن نبھانے کی توفیق بخشے.انگلستان میں سب احباب جماعت کو محبت بھرا سلام عرض کر دیں.کل تک پیغام برائے اجتماع بھی ارسال کر دوں گا.حضور ایدہ اللہ آج کل اسلام آباد ہیں.خاص طور پر پاکستان کے لئے دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ انہیں حضرت صالح علیہ السلام کے واقعہ سے سبق لینے کی توفیق بخشے.آمین دورہ کی تفصیلات مکرم نائب صدر صاحب نو ملکی دورہ پر ۲ مئی ۱۹۸۱ء کو کراچی سے روانہ ہوئے.سب سے پہلے آپ فرینکفرٹ (جرمنی) پہنچے پھر یکے بعد دیگرے حسب پروگرام دیگر یورپین ممالک کے کامیاب دورہ کے بعد سان فرانسسکو (امریکہ ) تشریف لے گئے.امریکہ اور کینیڈا کے دورہ کے بعد ٹوکیو (جاپان) اور وہاں.۲۱ جولائی ۱۹۸۱ء کو کراچی واپس پہنچے.مکرم نائب صدر صاحب جہاں بھی تشریف لے گئے، احباب جماعت کو سیدنا حضرت خلیفہ اس الثالث کی طرف سے ”سلام“ کا تحفہ دیا.مزید برآں مجالس کو ہدایت دی کہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ان ممالک میں دوروں کے دوران حضور اقدس کے خطابات اور پریس کانفرنسز کی TAPES کی کا پیاں اور اہم مواقع کی سلائیڈ ز مرکز کوضرور بھجوائیں.ނ

Page 160

۱۴۰ بیرونی مجالس کے لئے مرکزی قائدین کے تیار کردہ انگریزی لائحہ عمل کی کاپی ہر مجلس کو دی گئی.اسی طرح دستور اساسی ، لائحہ عمل انصار اللہ ( اردو ) اور راہ ہدی کی ایک ایک کاپی بھی مجالس میں تقسیم کی گئی.علاوہ ازیں آپ نے مجالس کو مندرجہ ذیل امور کے سلسلہ میں ضروری ہدایات دیں.عہدیداران کا تقرر ہر جگہ ہو.( جو خدا کے فضل سے دورہ کے دوران ہو گیا) انصار اللہ ماہانہ اجلاس ضرور کریں.ماہانہ رپورٹ نائب صدر ملک کے توسط سے مرکز کو ہر ماہ بھجوائی جائے.( محترم نائب صدر صاحب نے چار ماہ کی رپورٹ عام طور پر حاصل کر کے مرکز کو بھجوادی) تربیت کے تحت گھروں میں باجماعت نماز کی طرف توجہ دلائی گئی.ترجمہ قرآن کریم ، احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کی تاکید کی گئی.ه تجنید انصار اللہ مکمل ہو ( جو خدا کے فضل سے ہر مجلس کی دورہ کے دوران بھجوا دی گئی ) مجالس انصار اللہ کا بجٹ مکمل طور پر تیار کیا جائے.ماہنامہ انصار اللہ کے خریدار بڑھائے جائیں.وعدہ جات اور وصولی چندہ تعمیر گیسٹ ہاؤس کا کام مکمل کیا جائے مقامی طور پر تربیتی تعلیمی یا تبلیغی اغراض کے لئے اگر لٹریچر شائع کرنا مقصود ہو تو نا ئب صدر ملک کی اجازت سے شائع کیا جائے.دعوت الی اللہ کے تحت محترم نائب صدر صاحب نے مندرجہ ذیل امور مجالس کے سامنے پیش کئے.ان ممالک کے مقامی باشندوں میں دعوت الی اللہ کے فرض کو پورا کیا جائے.حضور اقدس کے ارشاد کے مطابق ہر احمدی کم از کم ایک مقامی ملکی آدمی سے تعارف ، واقفیت اور دوستی پیدا کرے اور اسلام کا پیغام اسے پہنچائے.مختصر تبلیغی مجالس کا انعقاد کیا جائے اور چائے وغیرہ پر بلاک سلسلہ کا تعارف کروایا جائے.انصار ہر مہینہ میں ایک دن مقرر کر کے فولڈ رز تقسیم کریں.لائبریریوں اور ہوٹلوں میں قرآن مجید اور دیگر کتب سلسلہ رکھوانے کا انتظام کیا جائے.بیعتوں کے بجٹ تیار کئے جائیں.مغربی جرمنی (۱۲ تا ۴ امتی ۱۹۸۱ ء و ۲۵ تا ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء) فرینکفرٹ اور ہمبرگ کی مجالس انصاراللہ پہلے قائم تھیں.تین مزید مقامات پر مجالس قائم کی گئیں

Page 161

۱۴۱ ا.نیورن برگ (NURENBERG) - تجنید ۵ - مکرم کوثر احمد باجوہ صاحب کو منتظم عمومی مقر رکیا گیا.۲.ہائیل برون (HEILBRON) تجنید ۳ مکرم منظور احمد شادصاحب کو نظم عمومی مقرر کیا گیا.۳.نائے برگ (NEUBURG) تجنید ۴.مکرم سید کلیم احمد شاہ صاحب کو منتظم عمومی مقرر کیا گیا.جرمنی کی ان پانچ مجالس کے علاوہ گیارہ انصار متفرق مقامات پر رہائش پذیر تھے.ان انصار سے رابطہ کا معاملہ نائب صدر صاحب ملک کے سپرد کیا گیا اور ان کے ساتھ مکرم عبد الغفور بھٹی صاحب کو بطور معتمد عمومی ان کی تنظیم کا کام سونپا گیا.جملہ منتظمین عمومی کی نگرانی نائب صدر ملک کے ذمہ کی گئی.۲ مئی کو جماعت فرینکفرٹ کے اجلاس عام سے محترم نائب صدر صاحب نے دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی.قریباً ۶۰ ا حباب اجلاس میں شامل ہوئے.مئی کو صبح گیارہ بجے سے دو بجے تک مجلس عاملہ فرینکفرٹ اور نئ مجالس کے منتظمین کا اجلاس ہوا.کام کے متعلق مفصل ہدایات دی گئیں.30 مئی کو تین بجے سے ساڑھے پانچ بجے سہ پہر تک مجلس فرینکفرٹ اور اردگرد کے انصار کا اجلاسِ عام ہوا.محترم نائب صدر صاحب نے تزکیہ نفس اور انصار اللہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.ہیں انصار شامل ہوئے.۲۶ مئی کو ہیمبرگ میں اڑھائی بجے مجلس عاملہ اور پانچ بجے مجلس عامہ کے الگ الگ اجلاس ہوئے.عہد یداران اور اکثر انصار حاضر تھے.مجلس عاملہ کو لائحہ عمل کے متعلق تفصیلی ہدایات دیں اور اجلاس عام میں ضروری نصائح کیں.ہیمبرگ میں ۲۸ مئی کو یوم خلافت کے جلسہ میں محترم نائب صدر صاحب نے مختصر تقریر کی اور بعض ضروری تربیتی امور پر روشنی ڈالی.سوئٹرلینڈ (۴ ۱ تا ۷ امئی ۱۹۸۱ء) ۴ امئی کو مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ناظم اعلی انصار اللہ ملک و زعیم زیورچ کے گھر عشائیہ تقریب کا اہتمام تھا جس میں مجلس عاملہ کے اراکین موجود تھے.محترم نائب صدر صاحب نے خطاب میں فرمایا کہ اس وقت سوئٹزر لینڈ میں مستعد انصار کی تعداد اگر چہ کم ہے لیکن ابتداء میں ایسا ہی ہوتا ہے.یہ ضروری ہے کہ تعداد کی کمی کے باوجود مجلس قائم ہو اور کام کر رہی ہو.آپ نے ماہانہ رپورٹ کی اہمیت بھی واضح کی.بیت محمود میں ایک استقبالیہ تقریب ۵ مئی کو منعقد ہوئی.جس میں انصار کے علاوہ باقی احمدی افراد بھی مدعو

Page 162

۱۴۲ تھے.محترم نائب صدر صاحب نے احباب کو حضور انور کا سلام پہنچایا.آخر میں انصار اللہ کا اجلاس عام ہوا.آپ نے اپنے خطاب میں انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی نیز یہ کہ نماز پابندی سے ادا کریں.پیغامِ حق دوسروں تک پہنچائیں اور اپنا محاسبہ کریں.4 مئی کو جینوا میں انصار کے اجلاس عام میں زعیم کا انتخاب کروایا گیا.نائب صدر صاحب نے انصار کو ہدایت کی کہ بچوں کی تربیت کریں.ہر ماہ اجلاس عام منعقد کریں اور لائبریریوں میں لٹریچر رکھوائیں.ہالینڈ (۱۷ تا ۱۹مئی ۱۹۸۱ء) ہیگ میں مجلس انصار اللہ کا اجلاس سے امئی کو ہوا.یہاں انصار کی تعداد ۲ تھی.اجلاس میں ۴ حاضر تھے.محترم نائب صدر صاحب نے دوانصار سے بعد میں ملاقات کی.بعض انصار باہر ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شامل نہ ہو سکے تھے.اس اجلاس میں ۱۳ میں سے ۱۲ خدام بھی شامل ہوئے.اجلاس میں انصار اللہ کا پروگرام تفصیل سے بتایا گیا.اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں محترم نائب صدر صاحب نے تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلائی.ڈنمارک (۱۹ تا ۲۱ مئی ۱۹۸۱ء) مکرم نائب صدر صاحب کے ڈنمارک کے دورہ سے چند روز قبل زعیم انصار اللہ کو پن بیگن کا انتخاب ہوا تھا.Svend Hansan صاحب زعیم منتخب ہوئے.محترم نائب صدر صاحب نے ان کی منظوری دی.ان کی خواہش پر اس امر کی وضاحت کی گئی کہ جماعتی تنظیم کی موجودگی میں مجلس انصاراللہ کی کیا ضرورت ہے؟ ۲۰ مئی کو مجلس انصار اللہ کو پن ہیگن کا اجلاس عام ہو ا.چودہ میں سے دس انصار حاضر تھے.آپ نے مجلس انصار اللہ کی ضرورت اور غرض وغایت تفصیل سے بیان کی.مختلف شعبہ جات کے پروگرام بیان کئے اور انصار کو اپنا دینی علم بڑھانے اور اولاد کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلائی.انصار کے اجلاس کے بعد جماعت کا اجلاس عام ہو ا جس میں مستورات بھی شامل تھیں.محترم نائب صدر صاحب نے خطاب میں توجہ دلائی کہ جہاں خلیفہ وقت اور پھر تنظیم ، افراد کے تزکیہ نفس کے لئے کوشاں ہے، وہاں افراد کو بھی اپنا ذاتی محاسبہ کرنا چاہئے.اس ضمن میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کئے.

Page 163

۱۴۳ سویڈن (۲۱ تا ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء) مالمو میں چار انصار تھے.محترم نائب صدر صاحب نے ۲۱ مئی کو سب سے ملاقات کی.اجلاس عام میں دیگر سب احباب جماعت بھی شریک ہوئے.آپ نے بعض تربیتی امور کی طرف توجہ دلائی.۲۲ مئی کو گوشٹن برگ میں محترم نائب صدر صاحب نے خطبہ جمعہ دیا.یہاں ایک ہی ناصر تھے.خدام اور مستورات بھی کافی تعداد میں موجود تھیں.آپ نے بچوں کی تربیت، مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنا صحیح نمونہ پیش کرنے کی تلقین فرمائی.ناروے (۲۲ تا ۲۵ مئی ۱۹۸۱ء) گوٹن برگ سے بذریعہ کار اوسلو آتے ہوئے راستہ میں Halden کے مقام پر مکرم نائب صدر صاحب نے ۲۳ مئی کو رکن انصار اللہ مکرم ڈاکٹر عزیز محمود صاحب کے گھر پر کچھ دیر قیام کیا.چونکہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے بچے کسی مجبوری کی وجہ سے اوسلونہ آ سکتے تھے.اس لئے انہیں تنظیم سے وابستگی اور کام کے متعلق و ہیں توجہ دلا دی.۲۳ مئی کو صبح ناروے میں اطفال کا سالانہ اجتماع تھا جس میں ان کے والدین بھی شامل ہوئے.قریباً سبھی اطفال حاضر تھے.انہیں نصائح کا موقع ملا اور ان میں انعامات تقسیم کئے گئے.ناصرات کا اجتماع بھی ساتھ ہی تھا.محترم نائب صدر صاحب نے انہیں بھی نصائح فرمائیں.بعد دو پہر اوسلو میں مجلس کا اجلاس عام اور اجلاس عاملہ اکٹھے منعقد ہوئے.یہاں انصار کی تعداد آٹھ تھی.مکرم نائب صدر صاحب نے انصار اللہ کے کام اور تربیتی امور کی طرف توجہ دلائی.اوسلو میں خدام کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی اور تین سال میں بعض خدام انصار میں شامل ہونے والے تھے.خدام نے بھی اپنا اجلاس بلایا ہو اتھا.جس میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.انگلستان (۲۹ مئی تا ۱۵ جون ۱۹۸۱ء) ه ۲۳ مئی کو لنگھم میں انصار کے اجلاس عام میں محترم نائب صدر صاحب نے بعض ضروری امور بیان کئے.مجلس عاملہ کا تقرر کیا گیا اور بجٹ بنوایا گیا.ساؤتھ آل اور اس سے ملحقہ چار مجالس ہیز ، گرین فورڈ، ہانسلو اور سو کا دورہ ۳۱ مئی کو کیا گیا.ایک ہال میں

Page 164

۱۴۴ اجلاس عام کا انتظام تھا.۴۰/۸۰ انصار حاضر تھے.منتظمین کے خیال میں یہاں کے حالات کے لحاظ سے یہ بہت اچھی حاضری تھی.خدام اور اطفال بھی تھیں کے قریب موجود تھے.اجلاس میں مکرم نائب صدر صاحب نے مناسب حال امور بیان کئے.اجلاس عام کے بعد پانچوں زعمائے مجالس کی میٹنگ میں محترم نائب صدر صاحب نے مفصل ہدایات دیں.یکم جون کو برمنگھم میں انصار کا اجلاس عام میں قریب کے شہروں کے انصار بھی آئے ہوئے تھے.حاضری خوش کن تھی.مکرم نائب صدر صاحب نے بعض تربیتی امور بیان کئے اور مجلس عاملہ کا تقر رکیا.۲ جون کو ہیمنگٹن سپا اور کوونٹری کا دورہ کیا گیا.اجلاس میں عہدیداران کا تقرر عمل میں آیا.مکرم نائب صدر صاحب نے ہدایات دیں.۴ جون کو گلاسکومشن ہاؤس میں انصار کا اجلاس عام ہو ا.مکرم نائب صدر صاحب نے ہدایات دیں.۵ جون کو بریڈ فورڈ میں مکرم نائب صدر صاحب نے خطبہ جمعہ دیا.شام کے وقت انصار کا اجلاس عام منعقد ہوا جس میں لائحہ عمل کے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نماز با جماعت اور نماز جمعہ.نیز مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی.تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے یہ نصیحت کی کہ ہر ناصر کم از کم ایک انگریز کوز یر تبلیغ رکھے.لٹریچر کی تقسیم اور لائبریریوں میں قرآن مجید رکھوانے کی تحریک کی.4 جون کو ہڈرزفیلڈ کے نئے خرید کردہ مشن ہاؤس میں انصار کا اجلاس عام ہو ا.حاضری تسلی بخش تھی.خدام بھی اجلاس میں موجود تھے.جو انصار اجلاس میں شامل نہ ہو سکے تھے، ان کے گھروں پر جا کر ملاقات کی.ے جون کو مانچسٹر کے اجلاس عام میں سب انصار حاضر تھے اور کافی دور دور کے فاصلے سے آئے تھے.مکرم نائب صدر صاحب کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی زعیم صاحب نے جملہ مطلوبہ کاغذات (تجنید ، بجٹ وغیرہ) تیار کئے ہوئے تھے.اجلاس میں انصار کے علاوہ خدام ، اطفال، لجنہ بھی شامل تھی.مکرم نائب صدر صاحب نے ۱۰ جون کو لیوٹن کا دورہ کیا.واٹ فورڈ ہلٹن کینز اور بعض قریبی شہروں کے انصار بھی اکٹھے ہوئے.اجلاس عام میں ۱۳/ ۸ انصار حاضر تھے.ضروری ہدایات دی گئیں.ا جون کو آکسفورڈ کے دورہ کے دوران اجلاس عام میں آٹھ میں سے پانچ انصار حاضر تھے.۱۲ جون کو نا ئب صدر صاحب نے ایسٹ لندن میں خطبہ جمعہ دیا اور انصار کے اجلاس میں خطاب کیا.۱۳ ۱۴ جون ۱۹۸۱ء کو مجالس انصار الله انگلستان کا سالانہ اجتماع لندن میں ہو ا.جہاں تین مختلف اجلاسوں میں مکرم نائب صدر صاحب نے خطابات فرمائے جن میں انصار اللہ کے قیام کی غرض وغایت کے علاوہ انصار اللہ کے لائحہ عمل پر اراکین کو تفصیل سے آگاہ کیا اور عہدیداران کے اجلاسات میں ضروری ہدایات دیں.

Page 165

امریکہ وکینیڈا ۱۴۵ (۱۵ جون تا ۱۸ جولائی ۱۹۸۱ء) ۱۶ جون کو بوسٹن شہر کا دورہ کیا.اجلاس میں اکثر انصار حاضر تھے.خدام اور مستورات بھی شریک ہوئیں.ضروری امور بیان کئے گئے.۷ اجون کو نارتھ جرسی کے انصار برگن فیلڈ میں مسٹر اینڈی کے ہاں اکٹھے ہوئے.حاضری اچھی تھی.مکرم نائب صدر صاحب نے اس موقعہ پر مرکزی ہدایات انصار کو دیں.مکرم نائب صدر صاحب نے ۱۸ جون کو دولنگ بوروکا دورہ کیا.فلاڈلفیا کے انصار بھی یہاں پہنچ گئے تھے.کم و بیش سب انصار نے دعا کی غرض سے جمعرات کا روزہ رکھا ہو ا تھا.آپ نے ضروری ہدایات دیں.فلاڈلفیا میں ۱۹ جون کو مکرم نا ئب صدر صاحب نے نماز جمعہ پڑھائی.نیو یارک میں ۲۰ جون کو اجلاس عام و عاملہ میں مکرم نائب صدر صاحب نے ضروری امور بیان فرمائے.۲۱ جون کو واشنگٹن میں جماعت کا اجلاس اور انصار کا اجلاس الگ الگ ہوئے.محترم نائب صدر صاحب نے دونوں اجلا سات میں ضروری ہدایات دیں.جماعت کے اجلاس میں حاضری ۰۰اتھی ملکی مجلس عاملہ مقرر کی گئی.نیز واشنگٹن کی عاملہ کا تقرر بھی کیا گیا.مکرم نائب صدر صاحب نے بالٹی مور کا دورہ ۲۱ جون کو کیا.یہاں آٹھ انصار تھے جن میں سے سات مقررہ وقت سے پہلے مشن ہاؤس میں حاضر تھے.۱۹۴۳ء کے بیعت کرنے والے دو معمر دوست یہاں موجود تھے.یارک کے انصار واشنگٹن آگئے تھے.مجلس ٹورنٹو کا اجلاس عام منعقد ہوا.تمہیں میں سے دس انصار حاضر تھے.کچھ انصار باہر کی جماعتوں سے جلسہ کے لئے آئے ہوئے تھے.ان کی تعداد بھی قریباً دس تھی.محترم نائب صدر صاحب نے جماعتی تنظیم کی موجودگی میں مجلس انصار اللہ کے قیام کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد بیان کئے.اس اجلاس میں مجلس ٹورنٹو کی مجلس عاملہ بھی نامزد کی گئی.۲۷ و ۲۸ جون ۱۹۸۱ء کو جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ تھا.جلسہ کے پہلے دن انصار کا اجلاس منعقد ہو ا.اس میں مکرم نائب صدر صاحب نے مجلس انصار اللہ کے قیام کی غرض وغایت اور تنظیم کا تعارف کروایا.جلسہ کے دوسرے دن آپ نے جماعت سے خطاب کرتے ہوئے مجلس انصار اللہ کی ضرورت اور کام کے متعلق مفصل بیان کیا.مکرم میجر شیم احمد صاحب کو کینیڈا کے لئے ناظم اعلی مجلس انصار اللہ مقرر کرنے کا اعلان کیا.یہ جلسہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا.تقریباً ۴۰۰ مردوزن حاضر تھے.

Page 166

۱۴۶ کینیڈا سے امریکہ واپسی پر مکرم نائب صدر صاحب نے ۲۹ جون کو ڈیٹین کا دورہ کیا.ڈیٹن میں انصار کی تعداد چودہ تھی.مقامی جماعت کی طرف سے ایک عشائیہ ترتیب دیا گیا جس میں اردگرد کی جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک ہوئے.انصار بھی اس تقریب میں شامل تھے.مکرم نائب صدر صاحب نے انصار اللہ کی تنظیم ، مقاصد اور ذمہ داریوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے تربیتی پہلو پر خاص زور دیا.ڈیٹن شہر کے دورہ کے موقعہ پر شہر کے آنریبل میئر سکھی کے صاحب نے مکرم نائب صدر صاحب کی خدمت میں شہر کی چابی پیش کی.میئر صاحب نے حضورانور سے عقیدت کا اظہار کیا اور جماعت کی امن پسند پالیسی کی تعریف کی.سینٹ لوئیس میں انصار اللہ کے اجلاس منعقدہ یکم جولائی میں ۹/۱۴انصار حاضر تھے.اگلے روز مکرم نائب صدر صاحب نے ان انصار سے انفرادی ملاقات کی جواجلاس میں حاضر نہ ہو سکے تھے.نارتھ شکاگو میں جلسہ کے لئے ایک ہال کرایہ پر لیا گیا.وہاں دوسری جگہوں سے بھی انصار خدام، مستورات اور بچے کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے.۱۰۰ کے قریب کل حاضری تھی.جمعہ کے بعد جلسہ ہو ا جس میں مکرم نائب صدر صاحب نے ضروری ہدایات دیں.شکاگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے زمانے کی مسجد دیکھنے کی توفیق ملی.وہاں بھی دوستوں سے ملاقات ہوئی.قریباً ایک گھنٹہ تک مکرم نائب صدر صاحب سے سوالات اور استفسارات کی نشست رہی.مکرم نائب صدر صاحب شکاگو سے دوبارہ مغربی کینیڈا تشریف لے گئے.کیلگری میں انصار کا اجلاس عام ہو ا.اس کے علاوہ جماعت اور خدام کے اجلاسات بھی ہوئے.تینوں اجلاسوں میں محترم نائب صدر صاحب نے مناسب حال ضروری امور بیان کئے.4 جولائی کو ایڈ منٹن میں انصار کا اجلاس عام ہوا جس میں چند خدام بھی شامل ہوئے.مکرم نائب صدر صاحب نے ضروری ہدایات کے ساتھ مرکزی لائحہ عمل پر روشنی ڈالی.مکرم نائب صدر صاحب نے جس روز (۷ جولائی ) وینکوور کا دورہ کیا وہ ور کنگ ڈے تھا اس لئے اجلاس کی بجائے آپ نے انصار سے فرداً فرداً ملاقات کی.یہاں پندرہ ہیں خاندانوں پر مشتمل مختصر سی جماعت تھی.یہاں آکر معلوم ہوا کہ ارد گر دمختلف جگہوں پر کافی احمدی موجود ہیں.محترم نائب صدر صاحب نے ان سب افراد کو جماعت اور مجلس کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت کی.پورٹ لینڈ کا دورہ کیا گیا.وہاں صرف دو انصار تھے.محترم نائب صدر صاحب نے ان کے ذمہ لگایا کہ اس علاقے کا سروے کر کے انصار کی فہرستیں تیار کریں اور ان کو تنظیم کے اندر لائیں.

Page 167

بجٹ ۱۴۷ تجنید و بجٹ مجلس انصاراللہ مغربی جرمنی فرینکفرٹ ہمبرگ نیورن برگ ہائیل برون نائے برگ منتشر انصار فرینکفرٹ سوئٹزرلینڈ زون از یورچ زون 11 جینوا ڈنمارک کوپن ہیگن ہالینڈ بیگ سویڈن مالمو گوٹن برگ ناروے اوسلو امریکہ واشنگٹن نیویارک DM3646.34 23 DM1681.00 12 DM663.50 5 DM522.60 3 DM531.40 4 DM1202.76 11 FR834 16 FR1437 6 14 G1016 12 SKR1637 4 1 CROWN2175 8 $2404 28 $959.32 10 10 14 $1182.5 18 $221 8 $366 7 9 1 } 6 فلاڈلفیا ڈیٹن سینٹ لوئیس نارتھ جرسی شکاگو کلیولینڈ پورٹ لینڈ وینکا گن

Page 168

$232 8 $694 6 $110 8 i i i i 30 10 9 3 2 $689 9 $468 3 $792 7 £389.46 i i 24 £203.55 £120.39 8 £337.10 21 £380 18 £318.71 22 11 } 8 £86 4 8 ۱۴۸ لاس اینجلس بالٹی مور بوسٹن ملوانکی سان فرانسسکو ٹورانٹو مونٹریال آٹوا برنٹ فورڈ بر مليا کیلگری ایڈمنٹن وینکوور بانگهم انگلستان عليكم ساؤتھ آل برمنگھم نیمنگٹن سپا ایڈنبرا.گلاسکو بریڈ فورڈ ہڈرزفیلڈ مانچسٹر با نسلو گرین فورڈ ہیز سلو

Page 169

لیوٹن ، واٹ فورڈ، ملٹن کینز آکسفورڈ کرائیڈن ایسٹ لنڈن ۱۴۹ £272.69 (2+4+8)14 £232.65 7 £351.99 16 £115.91 13 128 لنڈن کامیاب مراجعت پر استقبالیہ تقریب بیرونی ممالک کے دورہ سے کامیاب مراجعت پر مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے مکرم نائب صدر صاحب کے اعزاز میں 9 اگست ۱۹۸۱ء کو دفتر انصار اللہ کے ہال میں ایک تقریب استقبالیہ منعقد ہوئی جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے فرمائی.اس تقریب میں قائدین ، نائب قائدین و کارکنان دفتر مرکزیہ کے علاوہ چیدہ چیدہ بزرگان سلسلہ بھی شریک ہوئے.تلاوت اور عہد کے بعد مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب قائد عمومی نے مندرجہ ذیل استقبالیہ ایڈریس پیش کیا.بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب محترم پروفیسر چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمدلله ثم الحمد للہ.آج سے ٹھیک تین ماہ قبل 9 مئی ۱۹۸۱ء کو اسی جگہ اور عین اسی وقت ہم اراکین مجلس عاملہ مرکزیہ نے جن دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ آئمکرم کو یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں مجلس انصار اللہ کی تشکیل و تنظیم کے اہم اور نازک مگر اہمیت کے لحاظ سے نہایت دور رس نتائج کے حامل عالمی دورہ پر روانہ کیا تھا.الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل سے ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا جس کے نتیجہ میں ان پورے دو ماہ بارہ دن کے اس عالمی دورہ میں آپ نے لگا تار انتھک جدو جہد اور لگن اور ممکنہ انسانی حد تک دورہ کے مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل بغیر کہیں آرام کئے یا پڑاؤ ڈالے کام کیا اور شاندار کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد آج پھر ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں.ہم آپ کو اس کامیاب و کامران مراجعت پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں.جناب نائب صدر صاحب! جب ہم آپ کے دورہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے نتائج پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے دل خدا تعالیٰ کے حضور شکر و امتنان کے جذبات سے معمور ہو جاتے ہیں کہ واقعی دریائے

Page 170

۱۵۰ چناب، دریائے رائین، دریائے ٹیمز کے پلوں کے نیچے سے اور نیا گرا جھیل کے اوپر سے بہت زیادہ پانی بہہ چکا ہے اور دورہ سے قبل کے مقابلہ میں آج مجلس انصار اللہ کی عالمی حیثیت پہلے سے کہیں بڑھ کر ٹھوں، پائیدار منتظام اور شر آور ہو چکی ہے اور انشاء اللہ اس کے شیریں پھل سے آنے والی نسلیں مستفیض ہوتی رہیں گی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیمی دورہ کی تاریخی حیثیت ثبت ہوتی رہے گی.جناب نائب صدر صاحب! آپ ایسے ایسے ملکوں میں بھی تشریف لے گئے جہاں مجلس کے وجود کی ضرورت کا احساس بہت کم تھا.آپ نے ان ممالک میں نہ صرف موقع محل کے مطابق ضرورت کا احساس اجاگر کیا بلکہ آپ نے لگا تار سفر کے ان ۲ے دنوں میں پچاس کے قریب ( معین طور پر ۴۸) مجالس کے قیام کے ساتھ وہاں کی تجنید اور دوسرے کوائف اکٹھے کر کے مجالس کو مستحکم بنیا دمہیا کرنے کی خاطر فردا فرداہر رکن انصار اللہ سے چندہ مجلس از خود لکھوانے کی بھر پورسعی کی اور آپ اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہے.آپ کی یہ کامیابی اور بھی درخشاں ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان ممالک ماحول، حالات اور انتہائی مادیت کے شکار معاشرہ میں رہنے والوں کو جب آپ نے دین کی ذمہ داریوں کی طرف بلایا تو بعض کے لئے اس قسم کا مطالبہ کہ مجلس کی تشکیل کرو اور پھر چندہ مجلس تعمیر گیسٹ ہاؤس میں وعدہ دو ماہنامہ انصار اللہ لگواؤ اور سالانہ بجٹ بناؤ اور اس کے مطابق ادا ئیگی کرد وغیرہ وغیرہ.یہ سب ایسی باتیں تھیں جو ان مختلف ملکوں کے ماحول و حالات میں وہاں آج تک نہ اس انداز میں کسی نے کہیں اور نہ کسی نے سنی تھیں لیکن آپ نے نہایت حکمت و دانائی اور صبر وتحمل سے ایسے انصار کو سمجھایا اور کامیابی سے سمجھایا اور انہیں قائل کیا اور یہ دوست قائل بھی ہوئے کہ واقعی انصار اللہ کی تنظیم کی موجودگی ضروری ہے بلکہ سرگرم موجودگی نہایت اہم اور ناگزیر ہے اور یہ کہ اس سلسلہ میں اب تک جو ستی ہغفلت اور کوتا ہی ہو چکی ہے اس کا ازالہ جتنی جلدی ممکن ہو بہتر ہے.آپ نے ہر ممکنہ کوشش سے انصار اللہ اور ان کے خاندان اور بچوں کے کوائف ، ان کی تعلیمی اور تربیتی حالت، دینی معلومات اور سب سے بڑھ کر یہ بھی جائزہ لیا کہ ان ترقی یافتہ مگر انتہائی غلط راه رو و مادیت زدہ ماحول کے حامل معاشروں میں احمدی بچے اپنے اصل سے دُور تو نہیں جار ہے.آپ کے اس جائزہ سے یہ تکلیف دہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً پچاس فیصد نئی احمدی نسل ان ملکوں کی سیدنا حضرت اقدس کی زبان اردو سے بہت دور جا چکی ہے اور آپ نے انصار کو اس پہلو سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور پابند کیا کہ اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ اردو زبان بولنے لکھنے سے غافل نہ رکھا جائے کیونکہ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ہماری زبان

Page 171

۱۵۱ اردو بھی عالمی حیثیت اختیار کر جائے گی انشاء اللہ.جناب نائب صدر محترم ! میں آپ کے اور یہاں موجود احباب کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں رہنا چاہتا ہم سب آپ کے دورہ کی کہانی آپ ہی کی زبانی سننا چاہتے ہیں.واقعی آپ نے دورہ کا حق ادا کر دیا ہے بلکہ ہم سب کی توقع سے بڑھ کر.خدا کے فضل سے سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے نتیجہ میں آپ اپنے مقاصد میں بہت نمایاں طور پر کامیاب و کامران رہے ہیں.۹۰ فیصد مجالس کے عہد یدارن کی تقرری، ۸۵ فیصد مجالس کی کم و بیش سو فیصد تجنید اور ۸۰ فیصد مجالس کے سالانہ بجٹ بنوانا (جن کی تا حال موصول شدہ اطلاعات کے مطابق مجموعی رقم تین لاکھ کے قریب بنتی ہے ) اور بعض بڑی مجالس مثلا لندن اور کینیڈا اور بعض امریکہ کی مجالس کے بجٹ ابھی آنا ہیں جو انشاء اللہ امید ہے کہ سال کے اختتام تک صرف ان نو ممالک کا بجٹ پاکستان کی تمام مجالس کے بجٹ کے لگ بھگ ہو جائے گا.یہ سب صورت حال مجلس مرکز یہ پر ایک نئی ذمہ داری عائد کر رہی ہے اور دورہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نئے حالات میں مجلس مرکزیہ کی عالمی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ مجلس مرکز یہ کو احسن رنگ میں نبھانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک بار پھر ہم مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے پہلے کامیاب عالمی دورہ کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی داستانِ حالات و واقعات اور تجربات کی روشنی میں بتائیں کہ یہ سب کیسے ہوا.گئے آپ مغرب کی طرف تھے اور آئے مشرق کی طرف سے.پوری دنیا کا چکر لگا کر.کامیاب و کامران.الحمد للہ ، 21 ) مکرم نائب صدر صاحب کا خطاب استقبالیہ ایڈریس کے جواب میں مکرم نائب صدر صاحب نے اراکین مجلس عاملہ کے نیک جذبات کا شکریہ ادا کیا اور بیان فرمایا کہ اس دورے میں جن سے ۵ مجالس کا قیام عمل میں آیا اس کی تفصیل یوں ہے: یورپ میں ۱۳ مجالس، انگلستان ۱۷، کینیڈا ۸ اور امریکہ ۱۹ دورے کے اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ ان ممالک میں مجلس انصار اللہ کی تنظیم کے قیام کے سلسلے میں فوری توجہ کے مستحق یہ امور تھے کہ ان ممالک میں انصار کی تجنید کرنی تھی.مقامی ، علاقائی اور ملکی سطح پر عہدیداروں کا تقر رکیا جانا تھا.ہر ملک کے حالات کے پیش نظر نسبتا مختصر لائحہ عمل تجویز کرنا اور اس کے نفاذ کیلئے ضروری رہنمائی کرنا، مجالس کے گذشتہ کاموں کی رپورٹیں حاصل کرنا اور آئندہ سے رپورٹیں باقاعدگی سے بھجوانے کی تلقین کرنا.اس کے علاوہ تربیتی اور تعلیمی مساعی، تربیت اولاد اور اصلاح وارشاد کے سلسلہ میں بیداری

Page 172

۱۵۲ پیدا کرنا.ماہنامہ انصار اللہ اور دیگر مرکزی مطبوعات کو روشناس کروانا اور مرکز سے ان کو حاصل کرنے کی تحریک کرنا ، بجٹوں کی تشخیص اور چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا اور مرکزی گیسٹ ہاؤس اور دفتر کی تعمیر میں بیرونی مجالس کو حصہ لینے کی تحریک کرنا نیز مجالس بیرون کی بیداری کیلئے دوسرے ضروری اقدامات کرنا شامل ہے.محترم چوہدری صاحب نے مزید بتایا کہ دورے میں شامل نو ممالک کے علاوہ روٹی پکانے کی مشین دیکھنے کے سلسلے میں میکسیکو گیا اور واپسی پر جاپان میں مختصر قیام کیا.وہاں مکرم عطاء المجیب صاحب را شد مربی انچارج اور احباب جماعت سے ملاقات کی اس طرح عملاً اس دورہ میں گیارہ ممالک شامل رہے.تجنید کے اعداد و شمار کے حوالہ سے محترم چوہدری صاحب نے بتایا کہ اس دوران جو ابتدائی تجنید کی گئی ہے (اور جو ابھی تشنہ تکمیل ہے ) کی رو سے بھی قبل اور بعد کے اعداد و شمار میں غیر معمولی فرق پڑ گیا ہے.اور اب ریکارڈ کے مطابق کئی گنا زیادہ انصار با قاعدہ تنظیم کے رکن بن چکے ہیں.ان ممالک میں موجود لیکن منتشر انصار کی تجنید کا کام کرنا ابھی باقی ہے.تربیتی مساعی کے ضمن میں محترم نائب صدر صاحب نے آگاہ کیا کہ ان ممالک کے حالات کافی مختلف ہیں.بہت سے انصار منتشر شکل میں مختلف جگہوں پر الگ الگ رہتے ہیں اور مسجد یا مشن ہاؤس سے اتنے دور ہیں کہ نمازوں کیلئے آنا ان کیلئے ممکن نہیں.جو انصار مساجد اور مشن ہاؤسز کے قریب رہتے ہیں ، ان پر زور دیا گیا کہ حتی المقدور نمازیں مساجد یا مقررہ مراکز نماز میں ادا کریں اور اپنے بچوں کو بھی ضرور ساتھ لائیں.جو مسجد سے دور ہیں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ اپنے گھروں میں نماز با جماعت کا اہتمام کریں اور شروع میں کم از کم ایک نماز باجماعت اپنے گھروں میں ادا کریں.مکرم چوہدری صاحب نے بتایا کہ ان ممالک میں تربیت اولاد کا مسئلہ دوسرے بہت سے مسائل سے زیادہ اہم ہے.انصار کو توجہ دلائی گئی کہ بچوں کو نماز یاد کرائی جائے.قرآن مجید ناظرہ پڑھایا جائے اور تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالی جائے.شعبہ تعلیم کی مساعی کے ضمن میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کی طرف خصوصی توجہ دلائی.اصلاح وارشاد اور دعوت الی اللہ کے شعبے میں عملاً اس میدان میں سارا بوجھ مبلغین کرام کے کندھوں پر ہے.چنانچہ انصار کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی کہ ان میں سے ہر ایک اسلام کا پیغام اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچائے.مکرم چوہدری صاحب نے کہا کہ کسی بھی مجلس کی ترقی کے لئے مالی استحکام بڑا ضروری ہے.پس اس دورہ میں مجالس کے بجٹ تشخیص کرانے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دوران کی گئی کوششوں کے نتیجہ میں یورپ کا بجٹ اکثر و بیشتر تشخیص ہو چکا ہے.اس ضمن میں جن ممالک کا کچھ کام باقی ہے، وہ انشاء اللہ جلد مکمل ہو جائے گا.

Page 173

۱۵۳ مکرم نائب صدر صاحب نے مزید بتایا کہ مرکز کی طرف سے جو تحریکات جاری ہیں ان پر عمل درآمد تیز تر کرنے کے لئے بھی تلقین کی گئی.ہر جگہ مبلغین کرام، دیگر دوستوں اور مجالس خدام الاحمدیہ نے بڑا تعاون فرمایا.مجھے دورے کے بارے میں بہت فکر تھا لیکن خدا کے فضل سے کسی جگہ مشکل پیش نہیں آئی اور کوئی پریشانی نہیں ہوئی.انہوں نے صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہر لمحے پر حوصلہ افزائی کی اور مسلسل ہدایات سے نوازتے رہے.صدر محترم کا خطاب اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے صدارتی خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ اس دورہ میں محترم چوہدری صاحب کو جو ٹھوس تنظیمی کام کرنے کی توفیق ملی وہ بہت محنت طلب تھا اور کوئی آسان کام نہیں تھا.لیکن باوجود اس کے کہ کام بہت مشکل اور مقابلۂ وقت بہت مختصر تھا.چوہدری صاحب موصوف نے بڑے تحمل اور حکمت اور صبر سے یہ کام سرانجام دیا.اور جب تک کام پوری طرح مکمل نہیں ہو گیا، آرام نہیں کیا.صدر محترم نے چوہدری صاحب کے کام کی لگن اور محنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے انہیں جن قابل دید میوزیم دیکھنے کی تاکید کی تھی ، جو بے حد قیمتی علمی سرمایہ پرمشتمل ہیں، وہ بھی محض اس وجہ سے نہ دیکھ سکے کہ کام کے مقابل پر وقت بہت کم تھا اور بعض ممالک میں کام کو صفر سے شروع کر کے اس طرح آگے بڑھانا پڑا کہ الف سے ی تک ساری تجنید خود بیٹھ کر کروائی.دورے کی کامیابی پر مزید فرمایا کہ باہر سے جور پورٹیں آ رہی ہیں وہ بڑی حوصلہ افزاء ہیں اور یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ بہت اچھے طریق پر کام شروع ہو چکا ہے اور بھی جگہوں پر جہاں چوہدری صاحب گئے ہیں، احباب پر بہت اچھا اثر پڑ رہا ہے.محترم صدر مجلس نے یہ بھی فرمایا کہ اس دورے سے اب ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بیرون ملک مجالس کا نظام سنبھالنے کے لئے مرکز میں صرف ایک قائد مجلس بیرون کافی نہیں ہے.اس کے لئے اب بڑے پیمانے پر دفتر قائم کرنا پڑے گا اور ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو استعمال میں لا کر انصار کی تعلیم و تربیت کا کام کرنا پڑے گا.آپ نے کہا کہ صرف یہ کام ہی بہت توجہ طلب ہے اور بہت روپیہ چاہتا ہے.لیکن روپیہ اللہ تعالیٰ خود مہیا فرمادے گا.آپ نے فرمایا کہ عملاً ان ممالک میں احمدیوں نے تعلیم و تربیت کا سارا بار مبلغین پر ڈالا ہو ا ہے اور ان ممالک میں خصوصی غور طلب مسئلہ تربیت اولا د ہے.آپ نے فرمایا کہ مکرم چوہدری صاحب کے دورے کے تمام ماحصل کو مجتمع کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو تمام امور پر غور کے بعد اس دورہ سے زیادہ سے زیادہ مستقل نوعیت کے فوائد حاصل کرنے کے سلسلہ میں ایک مفصل رپورٹ پیش کرے گی اور اس بارے میں بھی مشورہ دے گی کہ شعبہ بیرون کی تنظیم نوکس

Page 174

۱۵۴ طرح کی جائے.بعد ازاں صدر محترم نے اراکین مجلس عاملہ کی طرف سے فریم شدہ ایڈریس مکرم چوہدری صاحب کی خدمت میں پیش کیا.اس کے بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے مکرم چوہدری صاحب کی واپسی کے سلسلہ میں اپنی ایک نظم ترنم سے پڑھ کر سنائی.مطلع کا مصرعہ یہ تھا.ع خوش آمدید مجلس انصار اللہ کے سفیر! آخر میں حاضرین کی چائے سے تواضع کی گئی اور صدر مجلس کی درخواست پر حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.(۵۲) نائب صدر مجلس کی طرف سے موصول شدہ مشورے اور تجاویز محترم نائب صدر صاحب مجلس نے جماعتوں اور مجالس میں جاکر تر بیتی تعلیمی اور تبلیغی نقطہ نگاہ سے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لے کر مقامی مجالس انصار اور احباب جماعت کی راہنمائی کی اور ضروری ہدایات دیں اور بعض مفید مشورے بھی مرکز کو ارسال کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سلسلہ میں آپ نے لکھا کہ عام طور پر احباب کے گھروں میں حضور کی کتب تھوڑی یا زیادہ ضرور موجود ہیں لیکن ان کے بچے جو اردو نہیں جانتے ، (اگر چہ بعض اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے ) ان کے لئے انگلش اور دوسری زبانوں میں حضور کی کتب اور لٹریچر کی ضرورت ہے.آپ نے مزید لکھا کہ میں نے ہر جگہ بچوں کو اردو پڑھانے کی طرف توجہ دلائی لیکن دوستوں نے زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا حالانکہ ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے قاعدہ یسرنا القرآن اور قرآن مجید پڑھا ہوا ہے اور انہیں اردو پڑھانا آسان ہے.مرکز اس بات کو بھی اپنے لائحہ عمل میں شامل کرے کہ انصار اپنی اولادوں کو اردو پڑھانا سکھائیں.بیرونی مجالس سے خط و کتابت اور لٹریچر کے ضمن میں آپ نے لکھا کہ مندرجہ ذیل امور سامنے آئے یا احباب نے اس طرف توجہ دلائی ہے:.بیرونی مجالس سے مرکز انگلش میں خط و کتابت کرے تاکہ ان ملکوں کے احمدی جو اردو نہیں جانتے وہ براہ راست مرکزی ہدایات کو پڑھ سکیں.دستور اساسی کا انگریزی ترجمہ (بعد کی ترمیمات کو شامل کر کے چھپوایا جائے.انگریزی میں لائحہ عمل چھپوا کر بھجوایا جائے.کتاب راہ ہدی“ کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر بھجوایا جائے.مجالس کو انگریزی میں تربیتی اور تعلیمی امور سے متعلق پمفلٹس چھپوا کر بھجوائے جائیں.

Page 175

بنیادی معلومات کا انگریزی ترجمہ کروا کے بیرونی مجالس کو بھجوایا جائے.( یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ترجمہ پاکستان میں ہو جائے اور چھپوائی اور تقسیم کا کام کسی دوسرے ملک سے ہو جائے.) ممکن ہو تو رسالہ انصار اللہ کا انگریزی حصہ بھی ہو.مجلس انصار اللہ کی غرض و غایت اور اہمیت کے متعلق مجلس مرکزیہ کے پاس انگریزی میں بھی اور اردو میں بھی یورپ کے انصار کو پیش کرنے کے لئے لٹریچر نہیں ہے.ایسا لٹریچر در کار ہے.تعلیم کے شعبہ نے جو لائحہ عمل انگریزی میں تیار کر کے دیا ہے، اس میں زیادہ تر نئے اسلام قبول کرنے والوں کو مدنظر رکھا گیا ہے.پاکستانیوں کے لئے یہ لائحہ عمل تھوڑا ہے.ماہانہ یا سہ ماہی امتحانات کے لئے کتب مقرر کر دی جائیں یا مرکزی امتحانات کو نرم شکل میں نافذ کیا جائے.یہاں احباب کتب سلسلہ خریدنے کے خواہشمند ہیں.لیکن کتب نہ ربوہ میں ملتی ہیں اور نہ یہاں.اس سلسلہ میں اصلاح وارشاد، تبشیر اور دوسرے اداروں کے شائع کردہ لٹریچر ( جو مہیا ہوسکتا ہو ) کا جائزہ لے کر باہر کی مجالس کو اطلاع دینے کی ضرورت ہے کہ کونسی کتب مل سکتی ہیں.حسابات کے نظام کے متعلق بھی معین ہدایات مرکز سے جاری کرنے کی ضرورت ہے.مقامی اور ملکی سطح پر حسابات رکھنے کے لئے رجسٹروں کے نمونے بنا کر بھجوانے چاہئیں.ان ممالک میں ماہنامہ انصار اللہ کے نہ ملنے کی شکایت ہے جس کی وجہ سے نئی خریداری کے لئے روک پیدا ہو رہی ہے.عام طور پر دوست یہ تجویز دیتے ہیں کہ ایک جگہ کے رسالے اکٹھے بھجوائے جائیں.مشن ہاؤس بھیجوا دئیے جائیں، وہاں کی مجلس انصاراللہ یہ رسائل خریداروں میں ہر جگہ تقسیم کر دے گی.محترم نائب صدر صاحب نے ناروے کے مبلغ انچارج مکرم سید کمال یوسف صاحب کی لٹریچر کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل تجویز بھجوائی: اوسلو اور دیگر مقامات میں پاکستانیوں میں تبلیغ کے لئے اگر پاکستان میں پمفلٹس کا مسودہ تیار کیا جائے اور حضور انور کی منظوری لے لی جائے اور پاکستان سے صرف اس کی کتابت کروا کے بھجوا دیا جائے تو یہاں تھوڑے خرچ میں چھپ کر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور مفید ہو سکتا ہے.ایسا لٹریچر ان کو میسر نہیں.اسی طرح ان کے خیال میں جو ترک یہاں آباد ہیں مجلس انصار اللہ ان کے لئے مناسب لٹریچر بمنظوری حضور اگر تیار کر دے تو انشاء اللہ فائدہ ہوگا.“ کمیٹی برائے مجالس بیرون کا قیام اور سفارشات صدر محترم نے مندرجہ بالا تجاویز پر غور کرنے کے لئے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی سر براہی میں

Page 176

ایک کمیٹی برائے مجالس بیرون مقرر فرمائی.جس کے ممبران مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ( قائد مجالس بیرون ) ، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ( قائد اشاعت) ، مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب ( قائد مال) اور مکرم پر و فیسر منور شمیم خالد صاحب ( قائد عمومی) تھے.اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۲۰ اگست ۱۹۸۱ء کو تیار کی جو صدر محترم کی خدمت میں پیش کی گئی.مرکز اور بیرونی مجالس کے درمیان رابطہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے کمیٹی نے تجویز کیا کہ روٹین کی یاد دہانیاں اور سرکلر براہ راست مجالس کو بھجوائی جایا کریں اور ان کی نقل نائب صدر ملک اور زعیم اعلیٰ ملک کو بھی جائے.عہدیداران تجویز ہو کر آئیں تو منظوری براہ راست مجالس کو بھجوا دی جایا کرے اسی طرح مقامی مجالس ماہانہ رپورٹیں بھی براہ راست مرکز کو بھجوائیں اور نقل نائب صدر ملک کو.صدر محترم نے تجویز منظور کرتے ہوئے مزید فرمایا : اگر عہد یداران تجویز ہو کر آئیں اور نائب صدر ملک کی سفارش ہو تو براہِ راست اُن کو بھجوانے اور نقل نائب صدر کو بھجوانے میں مضائقہ نہیں.اگر نائب صدر صاحب کے علم یا سفارش کے بغیر نام آئیں اور اُن سے رائے لئے بغیر منظوری دی گئی ہو مثلاً کسی علاقائی مربی سلسلہ کی سفارش ہو تو پھر ایسی منظوری نائب صدر کی معرفت ہی جانی چاہیے.اس نوٹ کے ساتھ کہ نا مناسب سمجھیں تو روک دیں.“ دوسری تجویز یہ تھی کہ مرکز کو یہ بات اپنے لائحہ عمل میں شامل کرنا چاہیے کہ انصارا اپنے بچوں کو اردو پڑھنا سکھائیں.اس پر کمیٹی کی رائے یہ تھی کہ مرکز منصوبہ بنانے کی بجائے عمومی تحریک کرتا رہے.لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ کی طرف سے بچوں کے لئے شائع شدہ لٹریچر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے نیز قاعدہ میسر نا القرآن بیرونی مجالس کو بھجوایا جائے.ماہنامہ انصار اللہ کے بارہ میں تجویز پر سفارش کی گئی کہ رسالہ خریداروں کو نام بنام بھجوایا جائے.آئندہ سال چندہ کی تحریک دسمبر کی بجائے نومبر میں کی جائے.ماہنامہ کا چندہ مجالس بیرون میں ہی جمع رہے اور خریداری کی تحریک اعتدال سے کی جائے تا چندوں کے مستقل نظام کو جڑ پکڑنے کا موقع مل سکے.ممالک بیرون میں انگریزی اور اردو زبان میں کتب کی فراہمی سے متعلق تجویز پر طے پایا کہ تنظیم کے اغراض و مقاصد اور اہمیت کے بارہ میں کتب کی تیاری کی جائے نیز ربوہ کے مختلف اداروں سے کتب کی فہرست بیرونی ممالک میں سرکولیٹ (CIRCULATE) کردی جائے.کمیٹی نے فوری تحفیذ کے لئے سفارش کی کہ قائد مجالس بیرون کے ساتھ چار نائب قائدین مقرر کئے جائیں جو یورپ ، امریکہ کینیڈا، افریقہ اور دیگر ایشائی ممالک کے ذمہ دار ہوں.دفتر مرکزیہ میں بیرونی مجالس کے

Page 177

۱۵۷ وسعت پذیر کام کو سنبھالنے کے لئے ایک نئے کارکن کی تجویز بھی دی گئی.مجالس سے تجنید اور تشخیص بجٹ منگوانے پر بھی زور دیا گیا.ناظمین اعلے ملک مجالس کا باری باری دورہ کریں اور تمام مجالس کی فہرست مع تجنید اور فہرست عہدیداران مرکز کو بھجوائیں.کمیٹی کی اس سفارش پر کہ ہر زعیم مجلس اور ناظم اعلیٰ کو ہدایت بھجوائی جائے کہ وہ مہینہ میں ایک خط صدر مجلس کو ضرور ارسال کیا کریں.صدر محترم نے یہ ایزادی فرمائی کہ بحیثیت نمائندہ انصار اللہ حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں بھی دعائیہ خطوط کم از کم ایک مہینہ کے حساب سے لکھیں“ صدر محترم نے سفارشات ملاحظہ کر کے لکھا: ”جزاکم اللہ.ماشاء اللہ.مفید تجاویز ہیں“ فوری تنفیذ کی سفارشات کے علاوہ مستقل نوعیت کے چند اقدامات بھی طے کئے گئے جو یہ تھے.ا.تمام بیرونی مجالس کے لئے مندرجہ ذیل فارم تیار کر کے بھجوائے جائیں.(۱) انگریزی میں مختصر ترین ماہانہ رپورٹ فارم (۲) بجٹ فارم (۳) تجنید فارم (۴) آمد و خرچ کے حسابات کا کھانہ فارم (۵) ناظم اعلیٰ رنائب صدر ملک کے لئے حسابات رکھنے کے لئے رجسٹر (1) شعبہ مال کے قواعد وضوابط بیشی از صدر محترم (۷) تربیت اولاد (۸) اصلاح و ارشاد ۲- دستو را ساسی انگریزی میں تمام مجالس کو بھجوایا جائے.آخری ترامیم کی فہرست ساتھ شامل کر کے.۳.ماہانہ رپورٹ فارم کو مد نظر رکھ کر لائحہ عمل تیار کر کے مجالس کو بھجوایا جائے.۴.چندوں کی تمام رقوم نائب صدر ملک کے پاس انصار اللہ کے حساب میں مد وار جمع ہوں اور ان سے ہر ماہ کے آخر پر آمد وخرچ کی تفصیل مرکزی ریکارڈ کے لئے منگوائی جائے.۵.سالانہ اجتماع کے موقع پر مالک بیرون کو نمائندگی کے لئے تحریک کی جائے.رپورٹ پر صدر محترم نے تحریر فرمایا: منظور ہے.جزاکم اللہ.اب اس پر پوری قوت اور تیزی سے عمل درآمد ہونا چاہئیے.“ دور فقاء کار کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب مورخہ ۳۰ جون ۱۹۸۱ء کو بعد نماز مغرب دفتر انصار اللہ کے ہال میں مجلس عاملہ مرکزیہ نے اپنے دو رفقائے کار مکرم منیر الدین احمد صاحب (سابق مبلغ سویڈن ) اور مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب صادق ( سابق مبلغ

Page 178

۱۵۸ ہالینڈ ) کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس منعقد کی.آغاز تقریب تلاوت کلام پاک سے ہوا جو مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری زعیم اعلیٰ ربوہ نے کی.بعدہ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے قیادت اصلاح وارشاد کی جانب سے اور مکرم منور شمیم خالد صاحب قائد عمومی نے مجلس عاملہ کی طرف سے ہر دور فقاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی قابل قدر خدمات کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ اپنی اپنی نئی جگہوں لاہور اور راولپنڈی میں بطور مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ متعین ہونے پر وہاں بھی مجلس کی سرگرمیوں کو مربوط طور پر آگے بڑھانے کی کوشش فرماتے رہیں گے.انشاء اللہ جواب میں مکرم منیر الدین احمد صاحب نے الوداعیہ دینے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جتنا عرصہ بھی انہیں خدا کے فضل سے مجلس مرکز یہ میں صدر محترم کی راہ نمائی میں کام کرنے کا موقع ملا ہے، اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور نئے نئے مفید تجربات بھی حاصل ہوئے.الحمد للہ.آخر میں صدر محترم نے رخصت ہونے والے دوستوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اجتماعی دعا کروائی.(۵۳) توسیع گیسٹ ہاؤس ۱۹۷۳ء میں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشاد کے ماتحت بیرون ممالک کے وفود کی شکل میں افراد جماعت جلسہ سالانہ میں شرکت کیلئے آنے لگے.نیز صد سالہ جو بلی کے پیش نظر بھی ان مہمانوں کے لئے مناسب رہائش کا سوال پیدا ہوا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایت کی تعمیل میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جس کا ذکر تاریخ انصار اللہ جلد اول میں آچکا ہے.تعمیر کمیٹی کا قیام جماعتی وسعت کے پیش نظر اس گیسٹ ہاؤس میں توسیع کی ضرورت محسوس ہورہی تھی لہذا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی تجویز پر جنوری ۱۹۸۱ء کے اجلاس عاملہ میں فیصلہ ہوا کہ گیسٹ ہاؤس کی توسیع اور دفتر انصار اللہ کی تشکیل نو کے لئے مندرجہ ذیل ارکان کی تعمیر کمیٹی قائم ہو جو دو ہفتوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے.۱.مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب قائد مال صدر کمیٹی مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب قائد اشاعت ۳- مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب قائد عمومی ممبر ممبر اس کمیٹی کا اجلاس ۲ فروری ۱۹۸۱ء کو ہوا جس میں موجودہ گیسٹ ہاؤس کی تزئین نو اور ایک نئے یونٹ

Page 179

۱۵۹ کی تعمیر کی سفارش کی گئی.نیز کمیٹی روم اور قائدین کے لئے مزید دفاتر بنانے ، موجود بلڈنگ کی فوری مرمت اور رنگ وروغن کے ضمن میں تفصیلی مشورے صدر محترم کی خدمت میں پیش کئے گئے.یہ رپورٹ مجلس عاملہ مرکزیہ کے اجلاس منعقد ۲۴۰ فروری ۱۹۸۱ء میں پیش ہوئی اور غور و فکر کے بعد قرار پایا کہ بیرونی ممالک کے مہمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر موجودہ گیسٹ ہاؤس کے مشرقی جانب دو تین بیڈرومز پر مشتمل نیا یونٹ تعمیر کروایا جائے.(۵۴) تعمیر کمیٹی کی رپورٹ پر گیسٹ ہاؤس کی توسیع کے لئے نقشہ بنوایا گیا جس میں ۱۴×۶افٹ کا پورچ ، ۱۶×۹.۱۲افٹ کا لاؤنج ۶x۱۴افٹ کے چار بیڈ رومز، ۶ ۷ ۸ فٹ کے پانچ غسل خانے ، چار وارڈ روبز اور سیڑھیوں کی تعمیر کا فیصلہ ہوا.اس نقشہ کے مطابق تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا جو بفضلہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچ گیا.یہ خوبصورت عمارت جدید طرز کے ڈیزائن کی حامل تھی.چاروں کمروں میں تین تین بیڈا ایسے بنوائے گئے جو حسب ضرورت فولڈ ہوکر دیوار میں پیوست ہو جاتے تھے.ہر کمرہ میں ایک چھوٹا کچن دیوار کے اندر الماری میں بنوایا گیا جس میں گیس ، پانی ، واش بیسن وغیرہ کی سہولت مہیا تھی.فرشوں پر چپس ڈلوایا گیا.گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے صدر محترم نے نہ صرف مجالس کو عطایا بھجوانے کی ہدایت کی بلکہ خود بھی ذی استطاعت احباب سے عطیہ دینے کی درخواست کی چنانچہ اس مقصد کے لئے مطلوبہ رقم کا انتظام بھی ہو گیا.توسیع عمارت دفتر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اپنی صدارت کے پہلے ہی سال دفتر مرکزیہ کی عمارت کا جائزہ لے کر محسوس فرمایا کہ جلسہ سالانہ اور دیگر اجتماعی تقاریب میں شامل ہونے والے حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کے لئے جدید طرز کے بیوت الخلا اور غسل خانوں کی ضرورت ہے چنانچہ صدر محترم نے پہلے ان سہولتوں کی تعمیر کا فیصلہ فرمایا.پچھتر ہزار روپے کے صرف کثیر سے سوا بیالیس فٹ لمبے اور ساڑھے چودہ فٹ چوڑی عمارت دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے غربی گیٹ کے ساتھ تعمیر ہوئی جس میں تین غسل خانے اور پانچ بیوت الخلا بنوائے گئے.نیز ہیں آدمیوں کے بیک وقت وضو کرنے کی سہولت بھی مہیا کی گئی.تین واش بیسن معہ شیشے بھی لگوائے گئے.کیسٹ پروگرام.ابتدائی خیالات اور ترقی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے آغاز کار میں اس طرف توجہ دلانا شروع کردی که موجوده زمانہ کی سائنسی ایجادات سے ہماری جماعت کو بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیئے.آپ نے دوروں کے دوران اس امر کو بھی شدت سے محسوس فرمایا کہ اجلاسات میں جو دوست تلاوت قرآن کریم یا نظم پڑھتے ہیں ، ان کا تلفظ درست نہیں ہوتا اس لئے مرکز کو چاہیے کہ قرآن کریم کا کچھ حصہ اور نظمیں صحیح تلفظ کے ساتھ ریکارڈ کر کے کیسٹ بیرونی

Page 180

17.مجالس کو ارسال کی جائیں اسی طرح دعوت الی اللہ کے لئے مجالس سوال و جواب بھی ٹیپ ریکارڈ کر کے بھجوائی جائیں.کمپیوٹر سے فائدہ اٹھانے کے بارہ میں بھی دفتری ملاقاتوں میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہتے.آپ اس امر کو بھی محسوس فرمارہے تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطبات کی کیسٹیں باہر جماعتوں میں بھجوائی جائیں کیونکہ حضور کے خطبات صرف الفضل میں ہی چھپتے جو کافی دیر سے جماعتوں میں پہنچتے نیز براہ راست خلیفہ کی آواز میں بات کا سننا اپنا ایک الگ اثر رکھتا ہے.یہ خیالات آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے.صدر محترم نے دوسرے سال کے پہلے ہی اجلاس عاملہ میں قیادت تربیت اور تعلیم کی ماہانہ رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: عام طور پر دیہاتی مجالس میں اچھی تلاوت کرنے والے نظم پڑھنے والوں کی کمی پائی جاتی ہے.تلفظ کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا.اس کی اصلاح ہونی بڑی ضروری ہے.اس سائنسی دور میں نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.بہت سے لوگوں کے پاس ٹیپ ریکارڈر ہیں.اگر ان کو مرکز کی طرف سے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کریم اور نظمیں ٹیپ کر کے بھجوائی جائیں تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے.صوتی ایجادوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر محترم نے ارشاد فرمایا کہ DUPLICATING مشین ایجاد ہوئی ہے ان TAPES کو فی الحال ضلعی لیول پر تقسیم کروایا جائے اس کے بعد تحصیل وار ہوسکتا ہے.آہستہ آہستہ انصار کے اپنے دائرہ کار میں اس پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.۱۹۸۰ء کے آخر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطبات جمعہ ٹیپ ریکارڈ ہو کر باہر جماعتوں میں بھجوائے جانے لگے اور اپریل ۱۹۸۴ء تک کے قلیل عرصہ میں یہ نظام ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گیا کہ خلیفہ وقت کے اردو خطبات کا ترجمہ دوسری زبانوں میں بھی ہونے لگا.حضرت خلیفہ لمسیح الثالث کی انصار اللہ کراچی سے خصوصی ملاقات سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے اپنے قیام کراچی کے دوران از راہ شفقت مجلس انصار اللہ ضلع کراچی کو خصوصی ملاقات کا شرف بخشا.حضور ۳۱ اگست ۱۹۸۱ء شام ساڑھے پانچ بجے اپنی قیام گاہ واقع ڈیفنس سوسائٹی کے وسیع لان میں رونق افروز ہوئے.پہلے ناظم ضلع کراچی مکرم نعیم احمد خان صاحب کی سرکردگی میں مجلس عاملہ کے اراکین نے حضور انور سے تعارف و مصافحہ کا شرف حاصل کیا.ازاں بعد جب حضور کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوئے تو تلاوت قرآن کریم سے اجلاس کا آغاز ہوا.حضور نے تمام انصار سے عہد دہر وایا اور پھر

Page 181

۱۶۱ گذشتہ چھ ماہ کی کارگزاری کے بارے میں استفسار فرمایا.مکرم ناظم صاحب ضلع نے مختصر طور پر مجلس کی مساعی بیان کی جس میں نماز فجر میں احباب کی کثرت کے ساتھ شرکت مختلف مساجد میں حاضری کی صورتحال، انصار کی تربیتی سرگرمیوں اور اصلاح و ارشاد کے بعض امور کا ذکر تھا.حضور انور ساتھ ساتھ اپنے قیمتی خیالات اور نصائح پر مشتمل تبصرہ فرماتے رہے.حضور انور نے فرمایا کہ ہر چیز کی اہمیت کا اندازہ معرفت پر منحصر ہوتا ہے.جتنی زیادہ کسی چیز کی معرفت ہوگی اُتنی ہی زیادہ اس کی محبت پیدا ہوگی.اسی لئے اللہ تعالیٰ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معرفت کی ضرورت ہے.قرآن کریم تمام علوم کا سر چشمہ ہے.ہمیں چاہئیے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور جنہیں قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے، وہ قرآن کریم کے مطالب اور تفسیر پر غور کریں.حضور نے اس کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی طرف توجہ دینے پر بھی زور دیا نیز فرمایا کہ ہر چیز بنی نوع انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے اس لئے انصار کو چاہیے کہ اپنے ان تمام خدام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.حضور نے انصار کو ورزش کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی.اس سلسلے میں فرمایا کہ سائیکل چلانا اچھی ورزش ہے.شعبہ تربیت نے ایک مختصر کتابچہ شائع کر کے اس موقع پر تقسیم کیا جو حضور کے گذشتہ سال کے ارشادات کے اقتباسات پر مشتمل تھا ، حضور نے اسے بھی ملاحظہ فرمایا اور بعض اصلاح طلب امور کی نشاندہی کی.حضور پُر نور کے ساتھ یہ ایمان افروز نشست تقریباً سوا گھنٹہ جاری رہی.اس کے بعد حضور نے دعا کرائی اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کے تحفے کے ساتھ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے.اس اجلاس میں انصار بڑی کثرت کے ساتھ شریک ہوئے.ضلع کراچی کی تمام مجالس اپنے زعماء اعلیٰ کی سرکردگی میں لائنوں میں حاضر تھے.انصار احباب نے اپنے پیارے امام ہمام کے ارشادات بڑی توجہ سے سنے.﴿۵۱﴾ قرآنی علم سیکھنے میں مہارت حاصل کرو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو گفتگو فرمائی تھی ، اس کا ملخص حضور ہی کے مبارک الفاظ میں ذیل میں درج ہے: حضور نے فرمایا : ” ناظم صاحب ضلع مجھے یہ بتائیں کہ انصار اللہ کہتے کسے ہیں یعنی آپ کا پروگرام کیا ہے.آپ کیا کرتے ہیں.اپنا تعارف کروائیں.اس پر ناظم صاحب نے اپنی ششماہی رپورٹ پیش کی تو مساجد میں انصار کی حاضری کے ذکر پر حضور انور نے فرمایا.مسجد میں آکر نماز با جماعت ادا کرنے کا مسئلہ یہ جو مسجد میں آ کر نماز با جماعت ادا کرنے کا مسئلہ ہے.یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے کہ اگر قریب

Page 182

۱۶۲ ترین مسجد ۲۰ میل دور ہو تو پانچوں نمازیں وہاں جا کر پڑھا کرو.بالکل یہ مسئلہ نہیں ہے.بہت سی احادیث سے پتہ لگتا ہے اور جو صحابہ کرام کا عمل تھا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مسجد کی وہ دُوری کہ جہاں نماز کے لئے جمع ہونا نماز با جماعت کے لئے ضروری ہے وہ ہے کہ اس مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک پہنچ جائے.جس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں جماعت احمد یہ بکھری ہوئی ہے ۳۳ حلقے تو ہم نے انتظامی ضرورت کے لئے بنائے ہیں.نماز با جماعت کے لئے تو ممکن ہے دوسو جگہوں کی ضرورت ہو.۲۰۰ جگہ میں نے جان بوجھ کے کہا ہے.۲۰۰ مساجد نہیں کہا یعنی جو ایک خاص گھر اللہ تعالیٰ کا بنایا جاتا ہے.اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلہ.اور وہاں نماز کے لئے مسلمان جمع ہوتے ہیں.اس لئے کہ نماز با جماعت کے لئے اُس قسم کی مسجد کی ضرورت نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جُعِلَتْ لِى الْأَرْضُ مَسْجِدًا ساری کی ساری زمین اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ، میری امت کے لئے مسجد بنا دی.تو اتنے فاصلے پر کہ جہاں سے آواز آ جاتی ہے وہاں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہئے.جہاں دوست اکٹھے ہو جائیں ورنہ اگر آپ ایک حلقہ جس میں ایک ایسا احمدی گھرانہ بھی ہے جو اُس حلقہ کی مسجد سے دو تین میل دور ہے اور آپ یہ امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم بجالاتے ہوئے اسے دو تین میل پانچ دفعہ آنا چاہئے.یہ تخیل غلط ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو سہولت اور نرمی امت محمدیہ کے لئے پیدا کی یہ اُس کے خلاف ہے.اس لئے اگر آپ نے نماز با جماعت اس معنی میں کروانی ہے جس معنی میں کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ اکٹھے ہوا کرو.تو نماز پڑھنے کے لئے جگہوں کے فاصلے اتنے ہونے چاہئیں کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان کی آواز پہنچ جائے.ہوسکتا ہے کہ بعض ایسے حالات ہوں کہ آپ وہاں اذان نہ دے سکیں لیکن یہ تو ایک موٹا اندازہ ہے کہ یہاں سے اذان کی آواز پہنچ جائے گی یا نہیں پہنچے گی.مغرب وعشاء اور صبح کی نمازیں ہو جائیں اور ظہر وعصر کے متعلق کوئی خیال ہی نہیں.حالانکہ اگر ایک آبادی ظہر اور عصر کے وقت کسی اور جگہ اکٹھی ہوتی ہے اور صبح و شام کے وقت اُن کے گھروں کے قریب جب وہ فارغ ہوتے ہیں کسی اور جگہ اکٹھی ہوتی ہے تو دونوں جگہوں پر ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرسکیں.“ پھر تعلیم القرآن کے ذکر پر فرمایا.جوشخص صیح معنی میں تفسیر صغیر پڑھ سکتا ہے وہ صحیح معنی میں درس بھی دے سکتا ہے.“ مرکزی امتحانات مرکزی امتحانات کے ذکر پر فرمایا.

Page 183

۱۶۳ جس نوجوان نے مقابلہ کا امتحان دینا ہو وہ مقابلے کی تیاری کیا کرتا ہے.کیوں کرتا ہے؟ اس لئے کرتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے اور کامیابی کے نتیجہ میں اُسے بہت سے انعامات ملیں.تو اس سے زیادہ انعامات جہاں ملنے کا سوال ہو وہاں کیوں نہیں وہ پڑھتا ؟ اصل تو ہمارے پاس ایک ہی کتاب ہے.قرآن عظیم اور وہ گنب جو قرآن کریم کے معانی بیان کرنے کے لئے لکھی جاتی ہیں یا وہ باتیں جو قرآن کریم کی طرف توجہ دلانے کے لئے کہی جاتی ہیں.باقی تو سارے کھلونے ہیں.تو جس کو پیار نہیں ہے اپنے پیشے اور اپنے مضمون کے ساتھ اور اپنی زندگی کے ساتھ، وہ توجہ نہیں کرے گا.لیکن جو شخص ایسا ہو جسے پیار ہو اور ہر احمدی کے دل میں ایسا پیار ہونا چاہئے.پیار ہو اپنی زندگی کے ساتھ.اور یہ جانتا ہو کہ زندگی یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس نے مرنے کے بعد آگے چلنا ہے.اُسے یہ کوشش کرنی پڑے گی کہ وہ نعماء جو مرنے کے بعد اُخروی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں اور موعودہ ہیں یعنی جن کا وعدہ قرآن کریم میں دیا گیا ہے.اُن کے حصول کے لئے جوطریق بتائے گئے ہیں اور جو شرائط رکھی گئی ہیں، میں اُن کی طرف توجہ کروں.جس شخص کو پتہ ہی نہیں ہو گا وہ کام کیسے کرے گا.ہر عمل کی بنیاد معرفت پر ہے.یعنی اُس کو پتہ ہونا چاہئے کہ کیوں کروں.یہ علم ہے کیا؟ ہر عمل کی بنیا د معرفت پر ہے.اگر معرفت عرفان.شناخت کا علم نہ ہو تو عمل ہو ہی نہیں سکتا.جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ موٹر کیسے چلاتے ہیں.وہ موٹر نہیں چلا سکتا.جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ ہوائی جہاز کیسے چلایا جاتا ہے.وہ ہوائی جہاز نہیں چلا سکتا.جس شخص کو یہ علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی کونسی راہیں کھولی ہیں وہ اُن را ہوں پر چل ہی نہیں سکتا.یہ ایک موٹی بات ہے.تو کیوں نہیں توجہ کرتے.تربیت کے کام تو ابھی بہت رہتے ہیں.انصار کا یہ تربیتی کام نہیں کہ وہ جو عمر کے لحاظ سے اُن کے ہیں اُن کی تربیت کا خیال رکھیں ؟ اس رپورٹ میں غالباً یہ فقرہ نہیں آیا کہ کوئی DEPENDENTS احمدی اپنے بچوں سے تربیت کے معاملہ میں غافل نہ رہے.“ پھر حضور کے ارشاد پر ناظم اعلیٰ صاحب نے اصلاح وارشاد کے کام کی رپورٹ پڑھی اور بتایا کہ اس کام کی طرف توجہ ذرا گھٹ گئی ہے.حضور نے دریافت فرمایا کہ یہ احساس انصار کو ہوا یا اُن کے عہدیداروں کو ہوا.عرض کیا گیا کہ یہ عہد یداروں کو ہوا.حضور نے فرمایا.اس کا مطلب ہے جن لوگوں کو ہم دعوت دیتے ہیں ، وہ قبول نہیں کرتے اور کم آتے ہیں.ویسے عزم اور ہمت کی کمی ہے.اصل یہ ہے PERSONAL CONTACT اور واقفیت پیدا کریں.یہ

Page 184

۱۶۴ کوشش کریں تو بڑی واقفیت ہو جاتی ہے.یہ خیال غلط ہے کہ احمدی کے خلاف پاکستان میں تعصب بہت ہے.میں تو جہاں اس قسم کا کوئی اکٹھ ہو تو وہ آنکھیں دیکھا کرتا ہوں جو غضب ناک ہوں اور جن میں خون اُتر ا ہوا ہو، تیوریاں چڑھی ہوئیں ہوں اور غصہ کے آثار ہوں چہرے پر.مگر سارے مجمعے میں مجھے ایک بھی نہیں ملتا.یہ ٹھیک ہے کہ غصہ بہت ہے.ایک خاص طبقہ ہے کوئی ۱/۱۰۰۰ یا شاید اس سے بھی کم ہو گا.ایک چھوٹا سا نقطہ سارے پاکستان کے نقشے کے اوپر ہے وہ بڑا غصہ دکھاتے ہیں.یہ بھی ٹھیک ہے کہ عارضی طور پر پاکستانی شہریوں کا بھی اس میں حصہ شامل ہو جاتا ہے جنہیں غلط باتیں کر کے غصہ دلا دیا جاتا ہے.لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سال میں گیارہ مہینے یہ لوگ جنہیں کبھی کبھی غصہ آتا ہے وہ بغیر غصے کے زندگی کے دن گزار رہے ہوتے ہیں.اور چاہتے ہیں کہ آپ اُن سے بات کریں.اُن کو بتا ئیں.نبی اور امتی نبی میں فرق پس حقیقت کا کسی کو پتہ ہی نہیں مثلاً نبوت کا دعویٰ ہے.مجھ سے سوال ہو گیا ۷۴ء میں.کہ کیا آپ ( اُنہوں نے تو یہی کہا تھا ) مرزا غلام احمد صاحب کو نبی مانتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں.تو وہ بھی پریشان اور ابوالعطاء صاحب کہنے لگے کہ آپ نے تو ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی.پھر میں خاموش ہو گیا کوئی پچیس تیس سیکنڈ کے لئے.پھر میں نے کہا ہم امتی نبی مانتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبی کی تعریف کی ہے اور امتی نبی کی بھی تعریف کی ہے...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نبی اُسے کہتے ہیں جو مقام نبوت کے حصول میں متبوع کا کامل تابع ہے ہی نہیں.ہونا ضروری نہیں اُس ا.امتی نبی اسے کہتے ہیں کہ جو اپنے نبی متبوع کے فیض کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کرتا.یعنی زمین آسمان کا فرق ہے.ان دو تعریفوں میں اس واسطے کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا کھڑا نہیں ہو سکتا جو اپنے اس دعویٰ میں سچا ہو کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع نہیں کی پھر بھی خدا نے مجھے نبی بنا دیا.ہو ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.نبوت تو بہت بڑا مقام ہے اسے علیحدہ چھوڑو.کوئی چھوٹی سی چھوٹی روحانی خوبی کسی میں نہیں پیدا ہو سکتی جب تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل نہ کی گئی ہو.اور یہ زمین آسمان کا فرق ہے یعنی ایک وہ ہے جسے اس مقام تک پہنچنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں.بیچ میں CONSIDERATION ہی نہیں ہے اور دوسرا وہ ہے جو ایک قدم بھی اگر ہٹاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا روحانی درجہ بھی اُسے نہیں مل

Page 185

۱۶۵ سکتا.اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.یعنی کوئی ایسا شخص جو آپ سے علیحدہ ہو کے آپ کے مقابلے میں کھڑا ہو کے کہے.مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت نہیں اور مجھے کوئی روحانی مقام مل گیا.آہی نہیں سکتا.ناممکنات میں سے ہے.لیکن امتی اگر ہو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا ہو تو وہ صالح بھی ہوگا.صرف اس لئے کہ اُس نے اتباع کی.وہ شہید بھی ہوگا.صرف اس لئے کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اپنے دائرہ استعداد کے اندر رہ کر کی.اور وہ صدیق بھی ہو گا صرف اس لئے کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی.اور نبی بھی ہو سکتا ہے اگر وہ فنانی محمد کے بلند تر مقام تک پہنچ جائے.یعنی اُسے سب سے بڑے ارفع مقام کے حصول کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونا پڑے گا.تو یہ میں جب کہتے ہیں کہ یہ کافر ہیں تو اگر ہم نبی کے معنے میں ہی نبوت کو جاری سمجھیں تو ہم واقعی کا فر ہیں یعنی ہم آپ کہتے ہیں کہ پھر ہم کافر ہیں.لیکن ہم وہ نبوت جاری نہیں سمجھتے.ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا.جس شخص نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کو پہچانا.اور آپ کی رفعت کو شناخت کیا.اور اس یقین پر قائم ہوا کہ اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يحبكم الله خدا تعالیٰ کا پیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اور اگر چلے گا تو وہ خدا تعالیٰ سے سب کچھ ہی پالیتا ہے.جتنی اُس کی جھولی ہوگی اتنی وہ بھر دی جائے گی.کیا کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے ایک سوال یہ بھی کیا گیا اور کیا جاسکتا ہے کہ کیا کوئی اور نبی بھی آ سکتا ہے؟ تو امت محمدیہ میں، جب ہم نے یہ تعریف کر دی تو صرف وہ امتی نبی آسکتا ہے جس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو دی ہواُس کے علاوہ نہیں آسکتا.تو جب سوال کیا گیا تو میں نے یہ جواب دیا کہ ہمارے نزدیک امت محمدیہ میں صرف وہ نبی ہو سکتا ہے جو آپ کی کامل اتباع کرنے والا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے آنے کی خبر دی ہو.اور ہمارے علم کے مطابق صرف ایک کی خبر دی ہے.اگر آپ کے علم کے مطابق اور ہوں تو مان لینا اُن کو لیکن بہر حال ہمیں تو ایک ہی کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اہمیت یعنی یہ یقینی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کے چھوٹے سے چھوٹا روحانی درجہ بھی نہیں حاصل کیا جا سکتا.یہ ہمیں تب پتہ لگتا ہے جب ہم قرآن کریم کے مقام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 186

۱۶۶ مقام کو سمجھنے لگ جائیں.ہر چیز ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اب یہ بات چھوڑ کے ایک نئی بات کرتا ہوں.ہر چیز ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثیہ آیت : ۱۴) خدا تعالیٰ نے اس عالمین میں.اس یو نیورس میں جو کچھ بھی پیدا کیا انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے انسان کو اُس میں دلچسپی لینی چاہئے.میں نے اس واسطے بات کی کہ اکثر لوگوں کو اپنے خادموں میں کوئی دلچسپی نہیں.ہر چیز میں دلچسپی لیں فائدہ کے لئے.نہیں دلچسپی لیں گے تو پھر خرابی ہوتی ہے ہلاکت پیدا ہو جاتی ہے اس کے نتیجہ میں یعنی ہوائے نفس آ جاتی ہیں.جب یہ واضح ہے کہ تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے تو سوچنا پڑے گا کہ ہمارا حقیقی فائدہ کس چیز میں ہے.کس استعمال میں ہے.مثلاً پھر یہ نہیں ہوگا کہ بس شراب پی لی اُٹھ کے یاسؤ رکھا لیا.بلکہ یہ سوچنا پڑے گا کہ کہیں شراب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطين تو نہیں.شراب کی جہاں ممانعت ہے وہاں یہ کہا گیا ہے.جس ایک گندی چیز ہے اور اس کا پینا عمل شیطان ہے.تو میں اس واسطے کہہ رہا ہوں آپ کو بتا رہا ہوں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ چونکہ عرب بڑا گرم ملک ہے.اس لئے وہاں شراب حرام ہوگئی ورنہ حرام نہیں ہے.تو خدا تعالیٰ نے غیر مشروط طور پر اعلان کیا.رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ شیطانی کام ہے.جو یہ کرے گا وہ شیطان کا چیلہ ہو جائے گا.“ رپورٹ کے اگلے حصے کے بارہ میں سُن کر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا.صف دوم کی تعریف کیا ہے؟ ناظم صاحب ضلع نے بتایا کہ جو انصار چالیس سے پچپن سال کی عمر کے ہیں وہ انصار کی صف دوم کہلاتے ہیں.سائیکل کا فائدہ پھر فرمایا.سائیکل چلانے سے انسان کو کیا فائدہ ہے.اس پر ناظم صاحب ضلع نے بتایا کہ یہ ایک قسم کی ورزش ہے.اور تمام بیماریوں سے بچاتی ہے مثلاً دل کی بیماری وغیرہ سے.فرمایا.تمام بیماریوں سے نہیں.صحت کو ٹھیک کرتا ہے اور دل کے لئے سائیکل چلانا بہت اہم ہے.بہترین خدمت لیں انسان کو خدا تعالیٰ نے خالی یہ نہیں کہا کہ ساری چیزیں اس عالمین کی میں نے تیری خدمت پر لگا

Page 187

۱۶۷ دیں.یہ بھی ساتھ ہی کہا اور وہ زیادہ بڑا انعام ہے کہ عالمین کی ہر شے سے بہترین خدمت لینے کی عقل تیرے دماغ میں پیدا کر دی اور اُس طرف ہمارے ملکوں کے لوگوں کا دماغ ہی نہیں جاتا.خوبانی اور بادام پر گلاب کا پھول یہ جو عزم ہے کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ خدمت لیتے چلے جانا ہے، ترقی کرنی ہے، یہ تو مسلمان کے لئے تھا.یہاں بھی ہے.جا کے پتہ لگتا ہے.ابھی پین میں کچھ آثار ہیں.غرناطہ کا جو محل ہے.پہلے بھی میں نے بتایا تھا پانی ایسی جگہ سے لے آئے کہ ابھی تک ان کو پتہ ہی نہیں کہ مسلمان انجینئر زنے کیا طریقہ اختیار کیا تھا.پھر وہاں بڑی کثرت سے بادام اور خوبانی کے درخت پر گلاب کے پھول کا پیوند کر دیا.تو بڑے بڑے خوبانی کے اور بادام کا درخت تو بہت بڑا نہیں ہوتا.دس بارہ فٹ تک جاتا ہے.اُن کے اوپر نہایت خوبصورت گلاب کا پھول لگا ہوا.تو اب وہ فن وہاں کا انسان بھول ہی گیا جب مسلمانوں کو عیسائیوں نے مارا.گردنیں اڑائیں تو ساتھ بہت سارے جو فن تھے اُن کی گردنیں بھی اُڑا آپ جوانوں کے جوان ہیں آپ سے میں اس لئے باتیں کر رہا ہوں کہ آپ میرے نزدیک بڈھے نہیں ہوئے.جوانوں کے جوان ہیں.ہر وقت سوچا کریں کہ کیا آپ اپنے رب سے، ان مسلمانوں کی نسبت جو قریباً نویں ہجری میں سپین میں تھے ، ان سے کم پیار کرنے والے ہیں؟ آپ کے دور میں تو مہدی آگئے.آپ اُن پر ایمان لے آئے.تو آپ کے دل میں تو اُن سے زیادہ پیار ہونا چاہئے.بہت ساری اور چیزیں شامل ہو گئیں ان کی زندگی میں.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اس موقع پر فضا میں طوطے اڑتے ہوئے نظر آئے تو حضور انور نے اُن کے متعلق احباب سے استفسار فرمایا.جواب سننے پر فرمایا ) اس واسطے ہر چیز میں دلچسپی لیا کریں.اور یہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ اگر یہ چیز نہ ہوتی کہ پرندے کی پرواز ہر پرندے سے مختلف ہے.ایک میل دور سے جانور اُڑ رہے ہوں.طوطا اور فاختہ تو میری آنکھ تو ایک سیکنڈ کے اندر پہچان جاتی ہے یہ کیا جانور ہے.اور اللہ کی شان نظر آتی ہے.اس طرح نہیں کہ موٹر میں ایک لاکھ نکلیں.ایک قالب میں سے تو ایک ہی شکل اُن کی.پھر رنگ اُن کو مختلف کر کے MONOTONY کو توڑا گیا.ورنہ تو آپ

Page 188

۱۶۸ کے لئے یہ زندگی اجیرن ہو جاتی اگر ہر چیز ایک جیسی ہوتی.ایک ہی پھول ہوتا.اس کا ایک ہی رنگ ہوتا.ایک ہی زمانہ میں پتے گرتے.ویسے ہی پتے نکل آتے.کوئی تنوع نہ ہوتا.اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.کثرت شاں دلیل وحدت او.کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں جو کثرت اور تنوع ہمیں نظر آتا ہے، وہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ایک ہے.یہ بڑا گہرا فلسفہ ہے گھر جا کے سوچنا.ہاں مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا میں بتا چکا ہوں کہ قرآن سے باہر کوئی چیز نہیں.یہ بڑی عظیم کتاب ہے.قرآن عظیم جس کو ہم کہتے ہیں واقعی میں عظیم ہے....قرآن پر غور کریں قرآن کریم ایک تو روز پڑھنا چاہئے تفسیر صغیر سے.سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس کو ویسے ترجمہ نہیں آتا اگر وہ متن پڑھا رہا ہو تو پتہ نہیں لگے گا.اگر وہ ایک رکوع دس منٹ میں پڑھے، تین منٹ میں نہ پڑھے اور ترجمہ پر غور کرے کہ یہ کیا ہے.کیا با تیں اس میں لکھی ہیں.تو نئی سے نئی باتیں آپ کو ملنی شروع ہو جائیں گی.کوئی ایک آیت قرآنی ایسی نہیں جس کے معانی چودہ سو سال میں ختم ہو چکے ہوں قیامت تک نکلتے آئیں گے.چھپے ہوئے بطون اس کے اندر اس طرح رکھے ہیں.لیکن اُس کے لئے دُعا اور پاکیزگی کی ضرورت ہے.ایک آدمی پاکیزہ راہوں کو اپنی طرف سے کوشش کر کے معلوم کرے اور پھر اُن پر چلنے کی کوشش کرے.اور دوسرے دُعا کرے.کیونکہ دُعا کے بغیر تو کچھ ملتا نہیں.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ بڑا عجیب اعلان ہے.یہ نہیں کہ دعا کرو.دعا کرومیں تمہاری دعا قبول کر لوں گا.یہ پورے معنے نہیں دے رہا.کیا ہے؟ مانگو مجھ سے ہمیں تم کو دوں گا.کیوں نہیں مانگتے آپ؟ اپنے لئے مانگیں.بچوں کے لئے مانگیں.اس دنیا کے لئے مانگیں.دُنیا تو ہلاکت کی طرف جا رہی ہے.جانتی ہے.اب جاننے لگ گئی ہے.کہتے ہیں کچھ کریں.متوازن غذا (صحت جسمانی کے ذکر پر فرمایا) اصل میں جو صحت ہے اس کا تعلق کھانے کے ساتھ ہے.اور اچھا کھانا جو ہے اس کا تعلق میزان کے ساتھ ہے.یعنی ایک BALANCE.قرآن کریم نے جو محاورہ چودہ سو سال پہلے بتایا تھا وہ اب انہوں نے عام کر دیا ہے یعنی BALANCED FOOD متوازن غذا.متوازن غذا کا مطلب ہے کہ جن بہت سارے اجزاء سے مل کے کھانا بنتا ہے، ان میں ایک توازن پیدا ہونا چاہئے تا کہ جن بہت سے کیمیاوی اجزاء سے ہمارا جسم بنا ہے، ان سارے اجزاء کی FEEDING

Page 189

۱۶۹ ہوتی چلی جائے..اصول یہ ہے کہ جتنا ہضم ہو جائے اتنا کھاؤ.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب بُھوک ہو اُس وقت کھاؤ.یہاں سے شروع کرتے ہیں.بھوک کب ہوگی جب پہلا کھانا ہضم ہو گیا.تنبھی بھوک لگے گی نا.تو اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ہضم کی طرف بھی توجہ دو.جب بھوک ہو تو کھاؤ.ابھی بھوک ہو تو چھوڑ دو.زیادہ بوجھ نہ ڈالو.خدا نے ایک سبق سکھا دیا ہے کہ میں نے اپنی تعلیم میں تم پر بوجھ نہیں ڈالا.تم کسی پر جو تمہارے ماتحت ہیں اتنا بوجھ نہ ڈالو جوان کی طاقت سے باہر ہو.نہ مزدور پر ڈالو، نہ معدے پر ڈالو.وہ بھی تو آپ کا مزدور ہے.اسلام کی متاع غیروں سے احمدیوں نے چھینی ہے ہر میدان میں ان قوموں نے بڑی ترقی کی مثلاً جہاں مسلمان کو کرنی چاہئے تھی.ایک زمانہ میں کی بھی تھی اب دوسروں نے اُن میدانوں پر قبضہ کر لیا.اب ہم احمدیوں نے اُن سے یہ میدان چھیننے ہیں.پتہ ہے؟ یہ تم انصار کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالو کہ جو ہماری دولت تھی.متاع تھی اسلام کی وہ غیروں کے ہاتھ میں جا پڑی.وہ ہم نے ان سے چھینی ہے.اس لئے میں کہتا ہوں قرآن کریم کے علوم سیکھنے میں مہارت حاصل کرو.“ چوبیسواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۱ء مجلس کا چوبیسواں سالانہ اجتماع پندرھویں صدی کے عین آغاز پر ۳۰ اکتوبر سے یکم نومبر ۱۹۸۱ء تک اپنے روایتی ماحول میں منعقد ہوا.ارشادسید ناحضرت خلیقه اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کی تیاری اور اہمیت پر ۱۸ستمبر ۱۹۸۱ء کومسجد اقصی ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اپنے خطبہ میں حضور انور نے ہر جماعت پر خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ، یہ ذمہ داری ڈالی کہ اُن کے نمائندگان اجتماع میں ضرور شامل ہوں.حضور انور نے دعاؤں کی بھی خاص طور پر تحریک فرمائی اور صدقات دینے کا ارشاد فرمایا نیز انصار الله، لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ کو اپنے اپنے اجتماعات کے موقع پر بنی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اکیس اکیس بکروں کی قربانی دینے کی بھی ہدایت فرمائی.حضور نے تشہد اور تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اکتوبر کے آخر میں خدام الاحمدیہ، اطفال احمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ اور انصار اللہ

Page 190

کے اجتماع ہوں گے.آج میں ان اجتماعات کی تیاری اور اہمیت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاعَدُّوا لَهُ عُدَّةٌ (التوبة آيت: ۴۷) قرآن کریم کی یہ بھی ایک عظمت ہے کہ وہ ایک واقعہ کی اصلاح جب کرتا ہے تو چونکہ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اُس کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور ایک بنیادی اصول اور حقیقت بھی بیان کر دی جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کمزوروں کے متعلق اور منافقوں کے متعلق جو جہاد میں نہیں نکلے اور بعد میں غذر کرنے شروع کئے کہ یہ وجہ تھی اور یہ وجہ تھی، ہمارے گھر ننگے تھے، ڈکیتی کا خطرہ تھا وغیرہ وغیرہ، اس لئے ہم نہیں جاسکے ورنہ دل میں بڑی تڑپ تھی ، بڑی خواہش تھی ، ہمارے سینوں میں بھی مومنوں کے دل دھڑک رہے ہیں وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارا ارادہ تمہاری نیست کبھی بھی جہاد میں شامل ہونے کی نہیں ہوئی.اور دلیل یہاں یہ دی جاتی ہے کہ اگر اُن کا ارادہ ہوتا ، تو اس کے لئے تیاری بھی ہوتی.جس شخص نے اُس زمانہ کے حالات کے مطابق نہ کبھی تلوار رکھی نہ نیزہ، نہ تیر کمان نہ زرہ نہ خود نہ نیزے کا فن سیکھا، نہ تلوار چلانے کی مشق کی ، نہ تیر کمان ہاتھ میں پکڑا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ عارضی ضرورتوں کی وجہ سے میں اس جہاد سے محروم ہو رہا ہوں ورنہ دل میں تڑپ تو بہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں اگر تڑپ ہوتی ، اگر تمہارا ارادہ اور نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی ہوتی تو اُس کے لئے تمہیں تیاری کرنی پڑتی.خدام اور انصار اور اطفال اور ناصرات سے کہتا ہوں کہ آج کی جنگ جن ہتھیاروں سے لڑنی ہے اُن ہتھیاروں کی مشق ، مہارت اور آپ کا ہنر اور پریکٹس کمال کو پہنچی ہوئی ہو.شکل بدلی ہوئی ہوگی.اُس زمانے میں دفاع کے لئے اور دشمن کے منصوبہ کو نا کام بنانے کے لئے مادی اسلحہ کی بھی ضرورت تھی غیر مادی ہتھیاروں (بصائر وغیرہ) کے استعمال میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی.مگر ہمارے ہتھیار صرف وہ بصائر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے بصائر سے مراد دلائل ہیں.بصیرت کی جمع بصائر ایک تو ہے نا آنکھ کی نظر.ایک ہے روحانی نظر جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں رُوحانی طور پر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں دھڑک رہتے ہوتے ہیں.ایک تو ہماری جنگ بصائر کے ساتھ ہے اور بصائر کہتے ہیں وہ دلیل جو فکری اور عقلی طور پر برتری

Page 191

121 رکھنے والی اور مخالفین کو مغلوب کرنے والی ہو.ہمارے ہتھیار ( نمبر دو) نشان ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا اظہار جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لئے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ محد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ لڑ رہے ہوں.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کے ساتھ اسے جذب کیا جا سکتا ہے.اس کے لئے بصائر سیکھنے ، دعائیں کرنے کے جو مواقع ہیں اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے.اس واسطے جو آنے والے ہیں ان کو آج ہی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ، جس مقصد کے لئے بلایا جا رہا ہے، انہیں پورا کرنے کے سامان کرے.ہمیں بلایا جا رہا ہے باتیں دین کی سننے کے لئے ، کچھ باتیں کہلوانے کے لئے ، ہم تقریریں کرتے ہیں یہاں آ کے.خدا کرے اُس میں بصائر ہوں، آیات کا ذکر ہو، نور ہم نے پھیلانا ہے وہ ٹو رہم حاصل کرنے والے ہوں، اپنی زندگیوں میں اسے قائم کرنے والے ہوں، اپنے اعمالِ صالحہ میں اس کو ظاہر کرنے والے ہوں، ظلمات دُنیا کونُور میں بدلنے والے ہوں.جو اجتماع ہورہے ہیں اس میں دو طرح کے نظام ہیں جن کی پوری تیاری ہونی چاہئیے.ایک تو جو شامل ہونے والے ہیں.خدام، اطفال، ناصرات ، لجنہ اماءاللہ اور انصار اللہ.فرداً فرداً ان کو تیار ہونا چاہئیے.ذہنی طور پر چوکس اور بیدار مغز لے کر یہاں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت اور اُس کے ٹور اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور خدا تعالیٰ کے عشق سے اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں.اس کے لئے ابھی سے تیاری کریں.استغفار کریں.لاحول پڑھیں.شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کریں.خدا سے دعائیں مانگیں کہ ہماری زندگی کا جو مقصد ہے حاصل ہو.ایک ہی ہے مقصد ہماری زندگی کا.اُس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اور مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں آج سارے انسانوں پر اسلام اپنے دلائل ، اپنے ٹور، اپنے فضل ، اپنی رحمت ، اپنے احسان کے نتیجہ میں غالب آئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نوع انسانی جمع ہو جائے.دوسری تیاری کرنی ہے منتظمین نے.وہ بھی بغیر تیاری کے کچھ دے نہیں سکتے.ایک تو وہ ہیں جو لینے والے ہیں اور معطی حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں نے کہا اُس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تاکہ تمہاری جھولیاں بھر جائیں.ایک ہیں دینے والے اور جو دینے والے ہیں اُن کو قرآن کریم نے دو تین لفظوں میں بیان کیا کہ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا مومن مومن میں فرق ہے.ایک وہ گروہ ہے جو محض عام مومن نہیں بلکہ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا جن کے متعلق میں نے پچھلے خطبے میں بتایا تھا خدا نے یہ کہا کہ اے محمد ! وَمَنِ اتَّبَعَلكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال آیت (۶۵) کہ تیرے لئے وہ مومن کافی ہیں

Page 192

۱۷۲ جو تیری کامل اتباع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی وحی پر پورا عمل کرنے والے اور توحید خالص پر قائم اور اُن راہوں کی تلاش میں لگے رہنے والے جن راہوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم ہیں اور ان نقوشِ قدم کو دیکھ کر ان راہوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں.کامل متبعین.خدا تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ان اتَّبِعُ إِلَّا مَا یو تی ای خدا تعالیٰ کی وحی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اور اس سے باہر کسی چیز کی احتیاج نہ رکھنے والے.ایسا بنا چاہئیے منتظمین کو بھی.دعاؤں کے ساتھ.آپ اپنا پروگرام بناتے ہیں.اس میں برکتیں بھی پڑسکتی ہیں اور برکتیں نہیں بھی پڑسکتیں.دعائیں کریں گے تو بابرکت ہو جائیں گے.دعائیں کریں گے تو آپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ دُنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کر دے گا.میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں.اللہ تعالیٰ بڑا افضل کرنے والا ہے.پچھلے سال ہی دورے پہ میرے منہ سے یہ فقرہ نکلوایا کہ LOVE FOR ALL AND HATRED FOR NONE ہر ایک سے پیار کرو، کسی سے نفرت نہ کرو.اتنا اثر کیا اس فقرے نے کہ ابھی مہینہ ڈیڑھ ہوا، ہالینڈ میں ہمارا سالانہ جلسہ ہوا.ہیگ میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس ہے.وہاں کے مئیر کو انہوں نے بلایا.وہ آئے.مئیر کی ان ملکوں میں بڑی پوزیشن ہوتی ہے.اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں تم احمدیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمہارے امام نے جو تمہیں یہ سلوگن دیا تھا کہ FOR NONE کہ ہر ایک سے پیار کرو.نفرت کسی سے نہ کرو، میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم ہالینڈ کے گھر گھر میں یہ فقرہ پہنچا دو کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ایک فقرہ انقلاب پیدا کرسکتا ہے.ایک گھنٹے کی تقریر سوکھے گھاس کی طرح ہاتھ سے چھوڑو ، زمین پر گر جائے گی.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو، انسان کامیاب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے منتظمین ان اجتماعات کا انتظام کریں اور خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت مانگتے ہوئے شامل ہونے والے ان میں شامل ہوں تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے مقصد کو پانے والے ہوں.آمین.اس بات کی ذمہ داری کہ ہر جماعت سے چھوٹی ہو یا بڑی نمائندہ ان اجتماعات میں آئے سوائے اس کے کہ بعض اکا دُکا استثنائی طور پر ایسی جماعتیں ہیں جس میں سارے ہی خدام ہیں ، بڑی عمر کا وہاں کوئی نہیں.نئی جماعت بن گئی نوجوان کی.وہاں سے کوئی انصار اللہ کے اجتماع میں ممبر کی حیثیت سے نہیں آئے گا.بعض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو دو چار وہاں بڑی عمر کے ہیں اور ابھی خدام الاحمدیہ کی عمر کا کوئی نہیں.اطفال اور ناصرات کی عمر کے تو یقینا ہوں گے وہ کوشش کریں کہ جن کی نمائندگی ہوسکتی ہے، LOVE FOR ALL AND HATRED

Page 193

وہ ہو جائے.۱۷۳ ہر جماعت کی نمائندگی اپنے اپنے اجتماع میں ہونی چاہئیے.اس کی ذمہ داری ایک تو خودان تنظیموں پر ہے.لیکن اس کے علاوہ تمام اضلاع کے امراء کی میں ذمہ داری لگاتا ہوں اور تمام اضلاع میں کام کرنے والے مربیوں اور معلموں کی یہ ذمہ داری لگاتا ہوں کہ وہ گاؤں گاؤں ، قریہ قریہ جائے، جاتے رہ کر ، ایک دفعہ نہیں ، جاتے رہ کر اُن کو تیار کریں کہ کوئی گاؤں یا قصبہ جو ہے یا شہر جو ہے، وہ محروم ندر ہے.نہ پنجاب میں ، نہ سرحد میں ، نہ بلوچستان میں، نہ سندھ میں اور اس کے متعلق مجھے پہلی رپورٹ امرائے اضلاع اور مربیان کی طرف سے عید سے دو دن پہلے اگر مل جائے تو عید کی خوشیوں میں شامل یہ خوشی بھی میرے لئے اور آپ کے لئے ہو جائے گی.اور دوسری رپورٹ پندرہ تاریخ کو یعنی جو اجتماع ہے خدام الاحمدیہ کا غالبا ۲۳ کو ہے تو اس سے پہلے جمعہ کو ، سات دن پہلے وہ رپورٹ ملے کہ ہم تیار ہیں.ہر ضلع سے، ہر گاؤں، ہر قریہ، ہر قصبہ، ہر شہر اُس ضلع کا جو ہے اس کے نمائندے آئیں گے.یہ انتظام جو ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں اس کے بھی آگے دو حصے ہوں گے.ایک کے متعلق میں نے پہلے بات کی تھی جو یہاں کے رہنے والے ہیں.ایک کے متعلق میں اب بات کر رہا ہوں جن کا تعلق باہر سے ہے.اور دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت نوع انسانی ایک خطرناک ، ایک ہولناک ہلاکت کی طرف حرکت کر رہی ہے.اس قسم کی خطرناک حرکت ہے، جو انسان کو تباہ کرنے والی ہے اور عقل میں نہیں اُن کے آنہیں رہی بات کہ ہم کیا کر رہے ہیں.اس واسطے تمام احمدی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو سمجھ اور فراست عطا کرے کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنی ہلاکت کے سامان نہ کرے.اور خدا تعالیٰ ان کو اس عظیم ہلاکت سے جس کے متعلق پیشگوئیاں بھی ہیں ، بچالے.ہر انذاری پیشگوئی دعا اور صدقہ کے ساتھ مل جاتی ہے.ان کو تو سمجھ نہیں ، انہوں نے اپنے لئے دعا نہیں کرنی.مجھے اور آپ کو تو سمجھ ہے.ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئیے اور صدقہ دینا چاہئیے.اجتماعات پر صدقہ دینا چاہئیے نوع انسانی کو ہلاکت سے بچانے کے لئے.اپنی طاقت کے مطابق ہم صدقہ دیں گے اجتماعات کے موقع پر.لجنہ اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یہ تین انتظامات اکیس اکیس بکروں کی قربانی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ان اجتماعات کے موقع پر دیں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ہمیں ذمہ داریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے.اور اللہ تعالیٰ فضل کرے انسان پر کہ وہ بہکا ہوا انسان اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اُس روشنی میں واپس آ جائے جو

Page 194

۱۷۴ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کی بھلائی اور ترقیات کے لئے آسمانوں سے لے کر آئے ہیں.صدر محترم کی طرف سے خصوصی اپیل صدر محترم نے بھی اجتماع میں شرکت کے لئے ایک اپیل ماہنامہ انصار اللہ اور روز نامہ الفضل میں شائع کرائی نیز جہازی سائز کے پوسٹر بھی شائع کرائے گئے جنہیں مساجد اور دیگر نمایاں جگہوں پر آویزاں کیا گیا.آپ نے لکھا: نئی روح نئی زندگی اور ولولہ تازہ سے ہمکنار کرنے والا چوبیسواں سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ ۳۰ ۳۱ اخاء دیکم نبوت ۱۳۶۰ ہش بمطابق ۳۰ ۳۱ اکتوبر د یکم نومبر ۱۹۸۱ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار انابت الی اللہ ، دُعاؤں اور ذکر الہی کے زندگی بخش ماحول میں اپنی پاکیزہ روایات کے ساتھ مرکز سلسلہ ربوہ میں منعقد ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.پندرھویں صدی ہجری کے اس پہلے اجتماع انصار اللہ کو سید نا حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز از راہ شفقت اپنے انفاس قدسیہ سے برکت دیں گے.سید نا حضور ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ستمبر ۱۹۸۱ء میں اس اجتماع کی اہمیت کے پیش نظر تمام مجالس انصار اللہ کی سوفیصد نمائندگی کو لازمی قراردیا ہے.پس اپنے محبوب آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جوق در جوق تشریف لائیے.تمام مجالس کی نمائندگی سو فیصد ہو اور کوشش کریں کہ ہر مجلس سے زیادہ سے زیادہ اجتماع میں شریک ہوں.اے ابراہیمی طیور ! اپنی روح کو ایک نئی جلا بخشنے اور اجتماع کے روح پرور ماحول میں کچھ زندگی بخش لمحات کے گزارنے کے ان قیمتی مواقع سے خود بھی فائدہ اُٹھا ئیں اور اپنے بچوں..اطفال اور خدام..کو بھی تربیت کے ان انمول مواقع سے مستفیض کرنے کے لئے کثرت سے اجتماع انصار اللہ میں بھجوائیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو.آمین.مجالس نوٹ فرمائیں کہ امسال انصار اللہ کا سالانہ اجتماع مسجد اقصٰی سے ملحق جلسہ سالانہ کے میدان میں منعقد ہوگا.انشاء اللہ تعالٰی.مرزا طاہر احمد صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ.ربوہ

Page 195

۱۷۵ پندرھویں صدی کا پہلا سالانہ اجتماع چوبیسواں سالانہ اجتماع ۳۰ اکتوبر تا یکم نومبر ۱۹۸۱ ء اپنی مخصوص روحانی اور پاکیزہ روایات کے ساتھ تین دن جاری رہ کر اور ترقی کے گراف کو بلند سے بلند تر کرتے ہوئے ، کامیابیوں اور کامرانیوں کے نئے ریکارڈ کے ساتھ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.اس بابرکت اجتماع کے دوران اللہ تعالیٰ کا خاص احسان رہا کہ ہمارے پیارے آقا نے باوجود اس کے کہ حضور کی طبیعت کچھ روز سے ناساز رہی تھی.رُوح پر ور افتتاحی اور اختتامی خطابات سے نواز اور دل ودماغ کو جلا عطا کرنے والے زندگی بخش ارشادات سے اپنے خدام کو سرفراز فرمایا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اجتماعات میں مجالس کی نمائندگی کولازمی قرار دیا تھا.حضور کے اس پیغام کا جماعتوں اور مجالس میں پہنچنا تھا کہ ہر طرف ہل چل، سرگرمی اور زندگی کی ایک نئی لہر نظر آنے لگی اور پورے ملک سے اطلاعات موصول ہونے لگیں کہ مجالس انصار اللہ اپنے اپنے نمائندگان منتخب کر کے بھجوا رہی ہے.سابقہ سالوں میں تو یہی معمول تھا کہ دو اڑھائی صد مجالس کی طرف سے اجتماع سے قبل نمائندگان کی اطلاع موصول ہو جاتی تو اسے بہت ہی بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا لیکن امسال حضور کے ارشاد کے بعد اجتماع سے قبل چھ صد مجالس نے اپنے نمائندگان کے نام صدر محترم کی خدمت میں بھجوا دئیے.ٹیچہ کل ۸۵۲ مجالس سے با قاعدہ نمائندوں کی تعداد ۳۱۶ اتھی جس نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے.تمام مجالس کی نمائندگی کے علاوہ یہ تحریک بھی کی گئی تھی کہ ہر مجلس سے زیادہ سے زیادہ انصار شریک ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سلسلہ میں بھی پیارے آقا کی آواز پر لبیک کہنے والے جوق در جوق مرکز پہنچے اور اس کثرت سے پہنچے کہ منتظمین کے لئے رہائش اور خوراک کے انتظامات میں ہنگامی بنیادوں پر رد و بدل ضروری ہو گیا.امسال کل اراکین مجلس کی تعداد ۴۶۰۰ رہی اس طرح حاضری کا بھی نیا ریکارڈ قائم ہوا.علاوہ ازیں اجتماع کا پروگرام اپنی دلکشی کے باعث زائرین کو بھی اپنی طرف کھینچتا رہا.اور خدام، اطفال اور دوسرے معزز دوست بھی اپنے احمدی دوستوں کے ہمراہ اجتماع میں آتے رہے، ایسے زائرین کی تعداد ۳۱۸۳ رہی.اس لحاظ سے بھی اجتماع نے کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھو دیا.امسال مندرجہ ذیل آٹھ بیرونی ممالک سے بھی گیارہ انصار بطور نمائندہ اس مرکزی اجتماع میں شریک ہوئے.ایران، کینیڈا، جرمنی ،سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، انگلستان.قبل از میں منعقد ہونے والے تمام مرکزی سالانہ اجتماع دفتر انصار اللہ کے احاطہ میں گراسی پلاٹ پر منعقد ہوتے رہے.قریباً آٹھ دس سال قبل سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے ایک خطاب میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اجتماع کو کھلے میدان میں منتقل کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا بہر حال یہ سعادت ۱۹۸۱ء میں

Page 196

صدر محترم اور مرکزی مجلس عاملہ کے حصہ میں آئی کہ مرکزی دفتر کی تمام پُرکشش سہولتوں ، گراسی پلاٹ، سرسبز ماحول، درختوں کے سائے ،شہر اور بازار کے قریب تر ہونا، دار الضیافت اور رہائشی بیریکس کی قربت نیز گرد و غبار نہ ہونے اور سب سے بڑھ کر تمام دفاتر کانئی جگہ شفٹ کرنے کا مسئلہ.یہ سب باتیں اس حق میں تھیں کہ اجتماع اسی روائتی جگہ پر ہی منعقد ہو لیکن یہاں سب سے بڑی روک جگہ کی قلت تھی اور اُس کا حل سوائے کھلے میدان میں منتقل ہونے کے اور کوئی نہیں تھا.ان تمام امور و مسائل اور نئے مقام اجتماع میں در پیش امور کے سلسلہ میں صدر محترم نے اجتماع کی انتظامیہ کمیٹی مقرر فرمائی جس نے مختلف جگہوں کا معائنہ کر کے یہی فیصلہ کیا کہ جلسہ سالانہ کے میدان کے گرد وغبار کو قابو میں لا کر وہاں دفاتر ، طعام گاہ اور کھیل کا میدان تیار کیا جائے اور اجتماع کا پنڈال مسجد اقصی کے وسیع و عریض صحن میں قائم کیا جائے جو کہ سابقہ مقام اجتماع سے دو اڑھائی گنا زیادہ وسیع وعریض ہو.نئی جگہ اجتماع منتقل کرنے سے انتظامیہ کمیٹی کو ایک خدشہ یہ لاحق تھا کہ رہائش گاہ سے اجتماع گاہ کا فاصلہ پہلے سے تین چار گنا بڑھ گیا ہے، اس وجہ سے اجتماع کی حاضری پر کہیں منفی اثر نہ پڑے لیکن ایسے تمام خدشے بے بنیا د ثابت ہوئے اور اجتماع کے علمی پروگرام کے علاوہ نماز تہجد میں بھی یہ دیکھنے میں آیا کہ صبح سوا چار بجے ہی پنڈال کا نصف صحن پُر شوق نمازیوں سے پر ہو چکا تھا.تہجد اور نماز فجر میں حاضری ڈیڑھ دو ہزار کے لگ بھگ ہو جاتی.سابقہ پُرکشش اور قرب کے حامل اجتماع گاہ میں بھی اتنی زیادہ حاضری تہجد کے وقت نہیں ہوتی تھی.اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ بعض دوستوں نے تجویز پیش کی تھی کہ اجتماع پر تہجد اور نماز فجر اجتماع گاہ میں ادا کرنے کی ترغیب دلانے کے لئے ربوہ کے انصار کو بھی باہر کی مجالس کے انصار کی طرح ناشتہ اور کھانا مہیا کیا جائے لیکن یہاں نظارہ یہ تھا کہ رہائشی جگہ اور نئے اجتماع گاہ میں چار گنا فاصلہ بڑھ جانے اور مقام اجتماع شہر سے باہر منتقل ہو جانے کے باوجود نماز تہجد میں حاضری نے پہلے سالوں کے تمام گلے شکوے دھو دیئے.یہ پہلو بھی اپنوں کے لئے تقویت ایمان اور دوسروں کے لئے حیرانی کا باعث بنا.الحمد للہ دوسرے تمام علمی پروگرام بھی ذوق شوق سے سنے گئے.انصار تو حاضر ہوتے ہی تھے، خدام اور اطفال بھی اس کثرت سے اس اجتماع میں شریک ہوئے کہ بہت سے احباب کو پنڈال سے باہر بیٹھ کر نقار مرسننا پڑیں.اس دفعہ پہلی بار انصار کو سائیکلوں پر اجتماع میں آنے کی باضابطہ تحریک کی گئی.چنانچہ امسال چھپیں مجالس کے بانوے انصار اجتماع پر سائیکلوں پر آئے ، ان کو سندِ خوشنودی عطا کی گئی.اس میں گجرات اول، فیصل آباد دوم اور سرگودھا سوم رہا.اس کے علاوہ قصور، بہاولپور، گوجرانوالہ، تھر پارکرسندھ اور شیخو پورہ وغیرہ سے بھی انصار سائیکلوں پر آئے.سب سے طویل فاصلہ تھر پارکر سے آنے والے دو انصار نے طے کیا.انہوں نے قریباً آٹھ سو میل کا سفر چھ روز میں طے کیا.سب سے زیادہ عمر کے ناصر مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب گجرات تھے ، ان

Page 197

122 کی عمر چھیاسٹھ سال تھی.ان بانوے انصار سے میں سے سات کا تعلق صف اوّل سے تھا.(۵۸) یہ اجتماع پندرھویں صدی ہجری کا پہلا اجتماع تھا ، اس لئے داخلہ کے لئے ایک بڑا دروازہ تعمیر کیا گیا تھا جس پر ایک بینر آویزاں کیا گیا.اس پر تحریر تھا، پندرھویں صدی ہجری ، غلبہ اسلام کی صدی، تمام بنی نوع انسان کو مبارک ہو، آمین.اسی طرح پنڈال میں سٹیج کے اوپر اَفْضَلُ الذِكرِ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا بینر اور مختلف اطراف میں دیگر ایمان افروز اقتباسات کے بینرز آویزاں تھے.اجتماع کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کا افتتاح پندرھویں صدی ہجری کے دوسرے سال کے عین پہلے دن یعنی یکم محرم الحرام کو بروز جمعہ المبارک حضور انور نے اپنے پر اثر خطاب سے فرمایا.نئے سال کا آغاز اس سے زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں نہیں سوچا جا سکتا تھا اور اس لحاظ سے بھی یہ اجتماع یادگار رہے گا کہ اس اجتماع میں حضور نے جو ارشادات فرمائے ، وہ جماعت احمدیہ، افراد جماعت احمدیہ اور بنی نوع انسان کے مقدر کو بدلنے اور بہتر سے بہتر بنانے اور ایک فرد و قوم کی سرگرمیوں میں توازن پیدا کرنے کی بنیادی شان کے حامل ہوں گے.انشاء اللہ.چونکہ اس اجتماع کی اختتامی تقریر میں حضور پُر نور نے دوسرے اہم ارشادات کے علاوہ ایک انتہائی دور رس اہمیت کا حامل یہ اعلان فرمایا کہ تمام ذیلی تنظیموں میں توازن قائم رکھنے کے لئے ایک مجلس تو ازن قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں کے کوائف معین شکل میں مرتب کر کے حضور اقدس کی خدمت میں پیش کرے گی.اس طرح ہر شعبہ کے بنیادی اعداد و شمار تمام ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد مہیا کریں گے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اس تحریک پر کہ اجتماعات پر اکیس اکیس بکروں کا صدقہ دیا جائے ، مورخہ ۳۰ اکتوبر بروز جمعتہ المبارک صبح آٹھ بجے مسجد اقصی کے جنوبی جانب صدر محترم نے تیز دھار چھری ہاتھ میں پکڑ کر منتظمین و معاونین اجتماع کے ہمراہ اجتماعی دعا کرائی اور اس کے بعد سات بکرے ذبح کر کے گوشت صدقہ میں تقسیم کیا گیا.اسی طرح ۳۱ اکتو بر اور یکم نومبر کی صبح کو بھی سات سات بکرے یعنی اجتماع کے تینوں دن کل اکیس بکرے صدقہ میں دیئے گئے.(۵۹) اجتماع میں حضور انور کے عہد ساز تاریخی خطابات کے علاوہ کارروائی کے چیدہ چیدہ حصوں کی متحرک رنگین فلم تیار کی گئی.خصوصی انتظامات کے تحت وڈیو کے شعبہ کی نگرانی اور کیمرہ مین کے فرائض مکرم صلاح الدین ایوبی صاحب نے انجام دیئے.افتتاح سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۳۰ خا۱۳۶۰ ہش/ ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۱ء تیسرے پہر مقام اجتماع، مسجد اقصیٰ ربوہ میں تشریف لا کر چوبیسویں سالانہ اجتماع کا افتتاح فرمایا.

Page 198

۱۷۸ حضورانور تین بج کر چالیس منٹ پر مسجد اقصیٰ کی غربی سمت سے تشریف لائے.مسجد کے باہر حضور انور کا استقبال صدر مرکز یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مجلس عاملہ کے ارکان نے کیا.حضور کی آمد کے ساتھ ہی سٹیج سے مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب رکن خصوصی مجلس عاملہ مرکزیہ نے حضور كواهلا و سهلا و مرحبا کہا.ساتھ ساتھ جملہ انصار نے بھی یہی کلمات دوہرائے.حضور کی آمد پر سٹیج سے یہ نعرے لگائے گئے.نعرہ تکبیر اللہ اکبر ختم المرسلین زنده باد، خاتم الانبیاء زندہ باد، انسانیت زندہ باد، اسلام زندہ باد، احمد بیت زندہ باد.ان نعروں کے دوران حضور شیخ پر تشریف لا چکے تھے.جب تک نعرے لگتے رہے حضور انور بھی کھڑے رہے.جملہ حاضرین حضور انور کے استقبال میں کھڑے تھے.حضور انور بھی زیر لب نعروں کا جواب دیتے رہے.بعد ازاں حضور نے احباب کرام کو السّلام عليكم ورحمة الله و برکاتہ کہا اور کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور جملہ انصار کو بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی.حضور انور کے جلوہ افروز ہونے کے بعد افتتاحی اجلاس کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی جو کہ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے کی.بعد ازاں حضور منبر پر تشریف لائے اور فرمایا.”انصار کھڑے ہو کر اپنا عہد دہرائیں.تمام انصار کھڑے ہو گئے اور حضور نے انصار کا عہد دہرایا.بعد ازاں مکرم اعجاز احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کا شیر میں کلام مع محمد وثناء اسی کو جو ذات جاودانی، ترنم سے پڑھ کر سنایا.اس کے بعد چار بجے حضورانورمنبر پر تشریف لائے اور اپنا افتاحی خطاب فرمایا.افتتاحی خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث حضور نے اپنے خطاب میں جماعت احمدیہ کے بعض بنیادی عقائد کے بارہ میں تفصیلی ذکر فرمایا اس سلسلہ میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے کئی حوالے پیش فرمائے.آپ نے اعلان فرمایا کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات اور ہر وصف میں یکتا ہیں اور نسل آدم میں آپ کی کوئی نظیر نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص چھوٹے سے چھوٹا رتبہ اور درجہ بھی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ حضور کی کامل اتباع نہ کر رہا ہو.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ وجود ہیں جو آپ کے عکس کامل اور روحانی فرزند ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام ، تقریر اور تحریر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت ہے جو ہمیں کسی اور کے دل میں نظر نہیں آتی.حضرت مسیح موعود نے اس عظیم الشان ہستی کے عشق میں ہمیں معمور کر دیا ہے.حضور کے اس معرکۃ الآراء خطاب کاملخص حضور ہی کے الفاظ میں ہدیہ قارئین ہے.

Page 199

۱۷۹ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دینِ اسلام تعلیم اور ہدایت اور ایک لائحہ عمل ہے دین اسلام ایک تعلیم بھی ہے اور ایک ہدایت بھی اور ایک لائحہ عمل انسانی زندگی کے لئے بھی ہے.اور ایک عشق کا جذبہ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ہے.ہم جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.ہمارے سامنے جماعت احمدیہ کے عقائد جنہیں ہم اسلام کی تعلیم اور ہدایت سمجھتے ہیں، وہ آتے رہنے چاہئیں.یہ ہدایت قرآن کریم میں ہے.اس قرآن کی تفسیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشکلوں میں کی ہے.ایک اپنے ارشادات میں اور ایک اپنے عمل سے.ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد بہت سی بدعات دینِ اسلام میں داخل ہو گئیں.ایک علاقے کی بدعتیں ہیں اور ایک بین الاقوامی بدعتیں ہیں.علاقے علاقے کی بدعتوں کے دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن پیار کرنے والوں کو بھیجا جن کے متعلق کہا گیا تھا.عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ “ اس ارشاد نبوی کے جو آپ کا ارشاد ہے، بہت سے معانی ہیں اس میں.ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں جس کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل کے انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح امتِ موسویہ کی طرف بحیثیت امت موسویہ نہیں آتے تھے بلکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ بعض دفعہ سینکڑوں ہوتے تھے.وہ سارے کے سارے گل امتِ موسویہ کو تو مخاطب نہیں کرتے تھے.اُن کے دائرے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیے تھے.وہ اپنے اپنے دائرہ میں بنی اسرائیل کی اصلاح میں کوشاں رہتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے حقیقی توحید پر قائم رہنے والے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اپنے اپنے دائرہ استعداد میں، کرنے والے اپنے اپنے خطہ میں اسلام کی خدمت کر رہے تھے مثلاً ہندوستان میں جو ہمارے بزرگ گزرے ہیں (اللہ تعالیٰ اُن پر بڑی رحمتیں نازل کرے.) اُن کا مشن ساری دُنیا کی طرف نہیں تھا.یعنی اُن میں سے کسی نے یہ کوشش نہیں کی ( اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ) افریقہ میں جا کے اسلام میں جو بدعتیں پیدا ہوگئیں ، ان کو دور کریں یا یورپ میں جا کر وہ تبلیغ کریں.دا تا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ، مدفون ہیں لاہور میں ، انہوں نے اپنے اس علاقے کو سنبھالا اور ہزار ہا غیر مسلموں کو ان کی برکات اور فیوض سے جو اُنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں یہ توفیق ملی کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں.تو جو کیفیت انبیائے بنی اسرائیل کی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد وہی کیفیت تھی صلحاء امت کی مگر وہ نبی نہیں تھے لیکن اللہ کا مکالمہ مخاطبہ

Page 200

ہوتا تھا اُن سے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض رُوحانی سے حصہ لینے والے عاشق خدا کے بھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی اور دینِ اسلام کے بھی اور قرآن کریم کے بھی.وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح اپنے اپنے خطہ میں دینِ اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے تھے.آنحضرت ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات جو ہے وہ بڑی عظیم ہے اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس عظیم ہستی سے جو تعارف کرایا ہے، اُس کے نتیجہ میں ہمارے سینے اور ہماری روح محمد کے عشق سے معمور ہوگئی ہے.ہمیں کہا گیا ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِم جہاں تک رسالت اور تبلیغ رسالت کا تعلق ہے سارے رسول برابر تھے یعنی جو خدا نے اُن کو آگے پہنچانے کا کہا، وہ آگے پہنچایا اُنہوں نے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل شریعت لانے والے نبی جن کی طرف شریعت آئی، جو اُن کا فرض تھا.وہ انہوں نے ادا کیا احسن رنگ میں.اپنی اپنی امت تک خدا کی وحی کو پہنچایا.جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلے یعنی کوئی مقابلہ ہی نہیں.کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا چوبیس ہزار انبیاء آئے.ان ایک کے علاوہ جتنے انبیاء تھے رسالت کے لحاظ سے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِم ہم اُن پر درود بھیجتے ہیں.ہمارے دل میں اُن کی قدر ہے.خدا کا پیار حاصل کیا اُنہوں نے ہمارے دل میں بھی خدا تعالیٰ نے اُن کا پیار پیدا کیا.لیکن جتنے بھی ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل میں نبی پیدا ہوئے ، انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں اور اُن کی کامل اتباع کی وجہ سے نبوت حاصل نہیں کی.لیکن یہ ایک شخص ہے.یکتا و یگانہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا کہ نبوت کا مقام تو علیحدہ رہا، کوئی روحانی درجہ خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، کوئی شخص حاصل نہیں کر سکتا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہر روحانی درجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں حاصل کیا جائے گا.یہ میں آپ کو اپنا عقید ہ بتا رہا ہوں.جماعت احمدیہ کا.اچھی طرح یا درکھیں.اس لئے ہم یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ اگر نبی کے یہ معنے ہیں جو ایک لاکھ ہیں یا چوبیس ہزار انبیاء کی زندگی میں ہمیں نظر آئے کہ نبی متبوع سے انہوں نے نبوت حاصل کرنے کے لئے یا روحانی فیوض حاصل کرنے کے لئے کچھ نہیں پایا.یہ معنے ہیں اگر نبی کے اور یہی معنے ہیں نبی کے جیسا کہ ابھی میں بتاؤں گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی معنے کئے ہیں.اور اگر یہ درست ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی شخص

Page 201

۱۸۱ چھوٹے سے چھوٹا روحانی رتبہ اور درجہ بھی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کامل اتباع اپنی استعداد کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ کر رہا ہو.تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.نبی کی مذکورہ تعریف کی رو سے کوئی نبی نہیں.ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور رفعت اور بلندی اور قرب الہی کی پوری اور حقیقی معرفت رکھتا ہے اور اس کے دل میں ایک ایسی محبت پیدا ہوتی ہے آپ کے لئے کہ کسی اور کے دل میں ویسی پیدا نہیں ہو سکتی اور کامل اتباع کرتا ہے اور ہمیں خدا تعالیٰ کے ذکر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود میں محور کھتا ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر وہ رُوحانی فیض حاصل کر سکتا ہے جو پہلے انبیاء نے براہ راست خدا تعالیٰ سے حاصل کیا.یعنی بالفاظ دیگر جو کامل طور پر اور سچے معنے میں امتی بن جاتا ہے اور اپنا وجود محمدؐ کے وجود میں کھو دیتا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم)، اس کے لئے مکالمہ مخاطبہ کے دروازے کھلے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا ہے.پس ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان یہ تقاضا کرتی تھی کہ وہ تمام فیوض رُوحانی اور مدارج روحانی جو پہلے انبیاء کو مختلف امتوں میں ملے ، وہ آپ کی امت کو آپ کی اتباع اور پیروی کے نتیجہ میں ملیں.اس لئے امت محمدیہ میں خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے.آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کھلا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتی نبی مانتے ہیں اور علی وجہ البصیرت یہ یقین رکھتے ہیں اس لئے کہ جب ہم آپ کا کلام دیکھتے ہیں تو آپ کے کلام ، تقریر اور تحریر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی محبت پاتے ہیں کہ امت محمدیہ کے کسی اور دل میں وہ محبت نظر نہیں آ رہی.اور جو خدا تعالیٰ نے محمد کے طفیل آپ کو عطا کیا ( گھر سے تو کچھ نہ لائے ) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جو پایا ، وہ اس سے زیادہ ہے جو ان سارے بزرگ اولیاء امت نے پایا جو تیرہ سو سال کے زمانہ میں گزر چکے ہیں.یہ ایک کیسا روحانی فرزند پیدا ہو گیا امت محمدیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.جس کے دل کی کیفیت اپنے نبی متبوع کے دل کی لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَک کی سی کیفیت تھی.جس کا دل اُس انسان کے لئے بھی دُکھی ہوا جو آسٹریلیا میں رہنے والا ہے.اُس کے لئے بھی دُکھی ہوا جو امریکہ میں اور کینیڈا میں اور ساؤتھ امریکہ میں رہنے

Page 202

۱۸۲ والا ہے اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اُس نے خدا سے مانگا اور خدا نے اُسے دیا.اس لئے نہیں دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا کرنا تھا.اس لئے دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ( جسے دُنیا بھول چکی تھی ) سے دوبارہ دنیا کو روشناس کیا جائے.حضرت مسیح موعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کامل ہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم كافة الناس مبعوث ہوئے.ساری دُنیا کو آپ نے مخاطب کیا.آپ کے یہ روحانی فرزند جو ہیں، انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو کچھ اس طرح پکڑا کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ ایک ایسا غلام آپ کا پیدا ہو جو آپ کی طرح ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنی کمر کے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پچن لیا.یہ ہے ہمارا عقیدہ.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ امتی نبی ہیں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کامل ہیں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پہلے بزرگ گزرے وہ بھی عکس تھے مگر عکس کامل نہیں تھے جیسا کہ اُن کی زندگیوں کی تاریخ ہمیں بتا رہی ہے.جو شخص اپنی کوشش اور سعی اور جد و جہد اور عشق کی مستی میں ایک خطہ ارض میں چکر لگا رہا ہے ، وہ اس کے ساتھ کیسے مل جائے گا جس کی ساری دنیا میں آواز گونج رہی ہے.پس آپ اتنی نبی تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے.آپ کے رُوحانی فرزند تھے.محبوب تھے آپ کے.امت مسلمہ جس میں کروڑوں خدا رسیدہ اولیاء پیدا ہوئے اور بڑے پایہ کے پیدا ہوئے ، اپنے اپنے رنگ میں.اُن سب میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ صرف ایک پر پڑی اور اس کے متعلق فرمایا کہ جب اُسے ملو میرا سلام اسے پہنچا دو.تیسرا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں امتی نبی صرف ایک ہوگا.جو آنا تھا وہ آ گیا.بزرگوں کو دیکھو.امت مسلمہ میں جو مجدد پیدا ہوئے تھے، ان پر بھی جب سو سال گزرگیا اُن کا زمانہ ختم ہو گیا.پھر نئے آنے والوں نے نئے سرے سے شروع کر دیا کام تسلسل ختم ہو گیا.اُن کا کام بھی ختم ہو گیا.اُن کی افادیت بھی ختم ہو گئی.اُن کے اثرات بھی ختم ہو گئے.وہ ایک خاص زمانے کے لئے ایک خاص خطہ ارض کے لئے تھے.جس کے سپر د خدا یہ کام کرے کہ ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرو اور اُسے یہ کہے کہ تیری جماعت کو زندگی صرف سو سال کی دوں گا.کام تیرے سپر د تین سوسال کا ہے اور زندگی ایک سوسال کی.خدا تعالیٰ تو یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ کوئی نقص اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اس لئے حقیقت یہ ہے کہ یہ امتی نبی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں کچھ اس طرح تڑپا کہ خدا نے ایک ہزار سال کے لئے اُسے اُمتی نبی اور مجددالف آخر بنا دیا....

Page 203

۱۸۳ حقیقۃ الوحی“ میں آپ فرماتے ہیں : غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور اُمور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں.اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرتِ امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اس قدر مکالمه ومخاطبہ الہی اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶-۴۰۷) ہی ہوگا.“ ایسا شخص کون؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق جو نبی نہیں ، امتی نبی ہے.یہ یاد رکھیں.آپ نے کہا ہے کہ مجھے کبھی خالی نبی نہ کہا کرو.امتی نبی کہا کرو جیسا کہ میں نے ابھی بتایا نبی کے معنی امتی نبی کے معنی سے بالکل مختلف ہیں.اگر ہم نبی کہیں تو نعوذ باللہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام روحانی مدارج بغیر اتباع وحی قر آنی کے حاصل کئے.یہ بات بالکل غلط ہے.آپ تو بدعات کو مٹا کر خالص اسلام قائم کرنے کے لئے ، ان راہوں کو روشن کرنے کے لئے آئے تھے جن راہوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش ہمیں نظر آتے ہیں.مجدد، امام، مسیح، خلیفہ یہ لفظ ہم استعمال کرتے ہیں.ان کے متعلق ہر ایک کا ذکر کر کے آپ نے فرمایا ہے کہ میں آخری ہوں.چنانچہ لیکچر لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” تب سخت لڑائی کے بعد جو ایک روحانی لڑائی ہے ،خدا کے مسیح کو فتح ہوگی اور شیطانی قوتیں ہلاک ہو جائیں گی اور ایک مدت تک خدا کا جلال اور عظمت اور پاکیزگی اور تو حید زمین پر پھیلتی جائے گی اور وہ مدت پورا ہزار برس ہے جو ساتواں دن کہلاتا ہے.بعد اس کے دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.سو وہ مسیح میں ہوں.(لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۹) 66

Page 204

۱۸۴ د لیکچر لدھیانہ میں آپ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے.اب کوئی شریعت نہیں آسکتی.قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے.ہاں یہ بیج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا.وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے (اس آخری زمانہ میں) کھڑا کیا ہے.“ لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۹) حضرت مسیح موعود غلبہ اسلام کے لئے آئے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات ، ہر وصف میں یکتا ہیں.کوئی نظیر آپ کا نہیں ملتا اس آدم کی نسل میں.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ آپ یکتا ہیں ہر صفت میں.اس صفت میں بھی یکتا ہیں کہ جو روحانی فیوض آپ کی اتباع کے نتیجہ میں نوع انسانی کومل سکتے ہیں اور ملے مل رہے ہیں اور آئندہ ملتے رہیں گے وہ اُن رُوحانی فیوض سے کہیں زیادہ ہیں اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی ، اپنی رفعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی شان کے لحاظ سے بھی جو پہلے شرعی انبیاء کی امتوں کو ملے.ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کے معنی ہیں براہ راست موہت باری تعالیٰ کے نتیجہ میں نبوت مل گئی.ہمارایہ عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص اپنی استعداد کے دائرہ میں جتنا جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا ہے اُتنا اتنا اُسے مل جاتا ہے.اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پہلوں نے اپنی استعداد کے مطابق پایا لیکن اس کثرت سے نہیں پایا مکالمہ مخاطبہ کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ نبی کا مقام پاتے.نہ وہ زمانہ ایسا تھا.زمانہ کی ضرورت بھی یہ مطالبہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مہم جس کے نتیجہ میں اسلام نے ساری دنیا میں پھیلنا تھا، اُس کا اجراء کر دیا جاتا، اعلان کر دیا جاتا کہ شروع ہوگئی ہے.پہلے کسی زمانہ میں ایسے حالات نہیں پیدا ہوئے.لیکن ایک طرف حضرت مسیح موعود ، مہدی معہود علیہ السلام کی پیدائش کے ایا م.دوسری طرف دُنیا نے ترقیات کر کے سارے نوع انسانی کو ایک خاندان بنانے کے لئے سامان پیدا کر دیے.ریڈیو ہے.ٹیلی ویژن ہے.کتب کی اشاعت ہے.ہوائی جہاز ہیں.اس سے بھی زیادہ تیز چیزیں اب بنانی شروع کر دیں.اب خود ہوائی جہاز ہماری آواز کی جو رفتار ہے اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اُڑنے لگ گئے ہیں.چند گھنٹوں میں ہزاروں میل کا سفر کر کے پہنچا دیتے ہیں ہماری کتا بیں دوسرے ملکوں میں.

Page 205

۱۸۵ تو امت واحدہ بننے کے سامان پیدا ہوئے.امت واحدہ بنانے کا سامان پیدا کر دیا.وہ پیارا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب، آپ کا خادم.بقول خود مہدی کے آپ کا نالائق مزدور جو مرضی کہہ لو.لیکن وہ محمد کا ہے.اور محمد سے جدا نہیں ہے.میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس غرض سے غلبہ اسلام کے لئے آئے.آپ نے سوچا کہ ہمارے اس عقیدہ نے ہر احمدی کے کندھوں پر کیا ذمہ داریاں ڈالی ہیں.اپنے قول اور فعل سے دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا کرے.“ اس کے بعد حضور کی اقتداء میں تمام حاضرین نے روح پرور آواز میں آٹھ بار لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد کیا اور پھر حضور السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہ کر تشریف لے گئے.(۶۱) اجلاس دوم حضور انور کے خطاب کے بعد کھیلیں ہوئیں اور پھر مغرب وعشاء کی نمازیں باجماعت ادا کی گئی.طعام کے بعد رات ساڑھے سات بجے اجلاس دوم شروع ہوا اس اجلاس کے صدر مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب رکن خصوصی مجلس مرکز یہ تھے.صاحب صدر اور دیگر حاضرین و مقررین سٹیج کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور مقرر بھی بیٹھ کر تقریر کرتے تھے.تلاوت قرآن کریم سے اس اجلاس کا آغاز ہوا جو کہ مکرم قاری حافظ عاشق حسین صاحب نے کی.بعد ازاں حیدر آباد کے مکرم میر مبارک احمد صاحب تالپور نے نہایت پر اثر انداز میں سیدنا حضرت مسیح موعود کا منظوم کلام مع اسلام سے نہ بھا گوراہ ھد کی یہی ہے ترنم سے سنایا.(۱۲ درس قرآن کریم نظم کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے قرآن مجید کا پُر معارف درس دیا.درس کے آغاز میں آپ نے سورہ مائدہ کی حسب ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی.يا يُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِيْنَ ) اور پھر فرمایا: "حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر! جو کچھ بھی تیری طرف تیرے رب کی طرف سے اُتارا گیا ہے وہ سب لوگوں تک پہنچا دے.اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو اپنی رسالت کے مقصد کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا.اپنی رسالت کے مقصد میں

Page 206

۱۸۶ نا کام ہو جائے گا.اللہ لوگوں سے تجھے بچانے کی ذمہ داری لیتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیا کرتا.اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب کر کے جو انداز اختیار فرمایا گیا ہے.یہ دراصل ساری قوم کو سُنانے والی بات ہے.بعض دفعہ اپنے پیاروں کو مخاطب کر کے بظاہر ایک سخت لہجہ اختیار کیا جاتا ہے.اور مراد یہ ہوتی ہے کہ دوسرے سن لیں اور ان کو کان ہوں کہ اگر ہم اس پیارے کے ساتھ بھی اس معاملے میں یہ سلوک کریں گے یا کرتے ہیں تو پھر تم جوادنی درجہ کے اور دوسرے لوگ ہو کیسے اس فرض کی ادائیگی سے بچ سکتے ہو.مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جب تبلیغ فرض کی گئی اور اس حد تک فرض کی گئی کہ فرمایا کہ اس سے ادنی کوتاہی کے نتیجے میں ہم یہ سمجھیں گے کہ تم رسالت کے مقصد میں ناکام ہو گئے ہو.تو کیا نعوذ باللہ من ذالک.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ایک ڈور کا بھی احتمال ہوسکتا تھا کہ آپ کوتا ہی کرتے.ہرگز نہیں.مراد یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جو چیز فرض کی جا رہی ہے.آپ کے ماننے والوں کو سنایا جارہا ہے کہ اگر اس رسول سے وابستہ ہو تو اس مقصد میں تمہیں اس رسول کی پیروی کرنی پڑے گی اور اس کی پوری پوری مدد کرنی پڑے گی.ورنہ یہ عجیب بات بن جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اکیلے کو ساری دنیا میں تبلیغ کرنے کا حکم ہو اور ماننے والے آزاد ہوں کہ تم بے شک بیٹھے رہو.کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ تو بالکل سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.دُور کا بھی اس بات کا امکان نہیں.چنانچہ دوسری جگہ تمام امت محمدیہ کو بھی اس حکم میں شامل فرما لیا گیا.صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پیش نظر نہیں اور بہت سی آیات ہیں جہاں تبلیغ کا عام حکم ہے.کہیں تحریص کے رنگ میں.کہیں امر کے طور پر.چنانچہ جو آیات آپ کے سامنے تلاوت کی گئیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تبلیغ اسی طرح فرض ہے جس طرح عبادت فرض ہے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( حم السجده آیت:۳۴) دُنیا میں بہت سی پیاری باتیں کرنے والے ہوتے ہیں مگر ان سے زیادہ حسین بات کون کر سکتا ہے جو اپنے رب کی طرف بلاتے ہیں.چنانچہ اور بہت سے مقامات پر بھی مومنوں کو واضح طور پر بھی تبلیغ کا حکم دیا گیا.جیسا کہ فرمایا اُدْعُ إلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ( انحل آیت ۱۲۶) حضرت مصلح موعود نے اس کی تشریح میں اسی امر کے پہلو پر زور دیا اور فرمایا کہ اذع میں ہر مومن مخاطب ہے اور ہر ایک کو حکم ہے.یہ فرض کفایہ نہیں ہے کہ جس سے بیچ کر کچھ لوگ یہ سمجھیں کہ باقی

Page 207

۱۸۷ نیکیوں میں ہم حصہ لے رہے ہیں.نمازیں پڑھ رہے ہیں.چندے دے رہے.تبلیغ نہ بھی کریں تو کیا فرق پڑتا ہے بلکہ ہر مومن اس میں مخاطب ہے اور ہر ایک پر تبلیغ اسی طرح فرض ہے جس طرح عبادت فرض کی گئی ہے.اور اس لئے بھی فرض ہے کہ تبلیغ تو جہاد کا اول حصہ ہے.ظاہری جہاد کی تو کبھی کبھی ضرورت پڑتی ہے لیکن مومن تو کسی وقت بھی جہاد سے فارغ نہیں ہوتا.اور قرآن کریم مسلسل مومن کو جہاد کی تعلیم دے رہا ہے تو وہ وقت جو امن کے وقت میں بظاہر، وہ وقت جب تلوار نہیں اٹھ رہی ہوتی اس وقت مومن کا جہاد ہی تبلیغ ہے.پس تبلیغ کے فریضے سے کسی وقت بھی کسی کا غافل رہنا جائز نہیں ہے.اگر ویسے کوئی انسان فرض چھوڑ دے بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نقصان نہیں پہنچتا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ فرائض کوئی ایسی چیز نہیں جن کے چھوڑنے یا نہ چھوڑنے سے نقصان کوئی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ احمدی جو تبلیغ کرتے ہیں اور وہ احمدی جو تبلیغ نہیں کرتے ان دونوں کے حالات پر اگر آپ غور کریں.ان کی اولادوں کے مستقبل اور ان کے حالات پر غور کریں ، ان کے اقتصادی اور دوسرے حالات پر غور کریں تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ زمین و آسمان کا فرق ہے اس احمدی میں جو تبلیغ کرتا ہے اور اس میں جو تبلیغ نہیں کرتا.بے انتہاء برکتیں وابستہ ہیں اس کے ساتھ.اور فرض چیزی بھی کی جاتی ہے جب اس کے نتیجے میں کوئی ایسی چیزیں حاصل ہوتی ہوں جن کے فقدان سے انسان نا مکمل ہو جائے.پس تبلیغ اسی طرح فرض ہے جس طرح عبادت فرض ہے.جس طرح روزے فرض ہیں.جس طرح حج فرض ہے.اور اس سے کوئی مفر نہیں ہے.اس سے بیچ کے کوئی انسان کامل مومن نہیں بن سکتا.یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی اور آپ کے اعمال سے سو فیصد ثابت ہے.حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور آپ کے رفقاء کی زندگی اور ان کے اسوہ حسنہ سے یہ چیز اس طرح روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اس میں کوئی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی.تبلیغ کے نتیجہ میں ابتلا اب میں اس آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتا ہوں.اور قرآن کریم پر غور کرنے سے یہ عجیب پُر لطف بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاں بھی تبلیغ کا مضمون بیان ہوا ہے وہاں یہ دوسرا پہلو بھی ساتھ ہی بیان فرما دیا.( تبلیغ ) فرض کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ معایہ فرماتا ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) خدا تجھے لوگوں سے بچائے گا.درمیانی حالت کا بظاہر ذکر موجود نہیں.لیکن ”بچانے سے پتہ چلا کہ ایک طوفان برپا ہونے والا ہے.تبلیغ کے نتیجہ میں اور جہاں بھی

Page 208

۱۸۸ آپ تبلیغ کا مضمون پائیں گے اس طوفان کا ذکر بھی آپ پائیں گے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اور یہ حکیم کا کام ہے کہ جب کسی چیز کا حکم دے تو اُس سے پیدا ہونے والے عواقب سے بھی باخبر کر دے.تبلیغ کے نتیجے میں امن پھیلنا چاہئیے.تبلیغ کے نتیجے میں محبت بڑھنی چاہئیے.یہ مقصد ہے لیکن ہوتا کیا ہے؟ خدا متنبہ کر رہا ہے کہ اس میدان میں بھولے پن میں یونہی نہ چھلانگ مار دینا.اس کے نتیجہ میں تم پر سختیاں ہوں گی.بڑی بڑی آزمائشیں پڑیں گی.بہت بڑے بڑے ابتلاؤں میں ڈالے جاؤ گے.چنانچه يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس بتا رہا ہے کہ زندگی کے خطرے در پیش ہیں.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اتنے خوفناک خطرے ہیں کہ انسان کے بس میں نہیں ہے آپ کو بچانا.الله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس سے ایک یہ بھی مفہوم نکلتا ہے کہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ خدا کے سوا کوئی تجھے بچا نہیں سکے گا.اللہ ہی ہے جس کی طرف تجھے جھکنا پڑے گا.شدید خطرات میں خدا کے سوا کوئی بچا نہیں سکتا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مبلغ کی زندگی میں اپنے اپنے چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات ہوتے ہیں اور ساتھ یہ بھی پیغام اس کو ملتا ہے کہ جب خدا کی خاطر تم مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہو.(اس وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس کو مختلف رنگ میں پڑھیں تو یہ یہ چیزیں سامنے آئیں گی.میں وہ بیان کرنا چاہتا ہوں ) اور خدا کی خاطر تم خطرات مول لو گے تو وہ ایسے شدید خطرات ہوں گے کہ خدا کے سوا کوئی تمہیں بچا نہیں سکے گا.چنانچہ جماعت کی زندگی میں جتنے بھی ابتلاء آئے ہیں ( آپ اپنی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھ لیجئے) وہ سارے کے سارے ایسے ابتلاء تھے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ جماعت بیچ کے نکل جاتی.کسی کمپیوٹر میں آپ جماعت کے حالات اور مخالفتوں کے حالات ڈال کر دیکھ لیں.( جو انسان آج کل کمپیوٹر بناتے ہیں ان کو FACTS سے FEED کرتے ہیں.) تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ تم ہلاک ہونے والے ہو.کبھی بچ نہیں سکتے اور ہر دفعہ جب بھی خدا کا کوئی پیغمبر آتا ہے.خدا کی طرف سے آتا ہے.اس کے نتیجے میں جو ابتلاء ہوتے ہیں وہ ایسے ہی شدید ہوا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں جا کر آپ واپس مڑ کر اپنے تصور کو لے جائیے جو حالات نظر آتے ہیں.ان کے غالب آنے کا تو کیا سوال ان کی بقا کی راہ میں ہر روز ہر شب حائل تھے.جتنا وقت گزرتا جاتا تھا اتنا ہی ان کا زندہ رہنا اور بچنا ناممکن ہوتا چلا جاتا تھا.شدید سے شدید تر دشمنیاں اور شدید سے شدید تر مصائب ان کے سامنے آتے تھے.لیکن وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا جواز لی ابدی اصول ہے وہ وہاں بھی پورا ہوتا نظر آیا.پس مبلغ کو خدا تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ تم تو بہر حال

Page 209

۱۸۹ امن اور محبت سے تبلیغ کرو گے لیکن اس کے نتیجے میں مشکلات ضرور پیدا ہوں گی اور شدید پیدا ہوں گی.اور خدا وعدہ کرتا ہے کہ میں بچاؤں گا کیونکہ خدا کے سوا تمہیں کوئی بچانہیں سکے گا.تبلیغ کے ساتھ دعا کا چولی دامن کا ساتھ ہے دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ مومن کے لئے پیغام کہ جب خدا وعدہ کرتا ہے تو اس وقت خدا ہی کی طرف جھکنا.دُنیا کی طرف نہ جانا کیونکہ تمہارے لئے مفر اور کوئی نہیں.بچنے کی اور کوئی جگہ نہیں.کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اللہ کے سوا.پس اس وقت تمہارے بچنے کا طریق دعائیں ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ تبلیغ کے ساتھ دعا کا چولی دامن کا ساتھ ہے.ایک مبلغ مبلغ بن ہی نہیں سکتا جب تک بار بارا اپنے رب کی طرف اس کی توجہ پیدا نہ ہو اور اپنے رب سے مدد نہ چاہے.اور مشکلات اس تعلق میں مدد دیتی ہیں.وہ مبلغ جس کا راستہ آسان ہو، اس کو دعا کی طرف ایسی توجہ پیدا نہیں ہوتی جتنی ایسے مبلغ کو ہوتی ہے جس کو بار بار مصائب تنگ کرتے ہیں.دکھ پہنچتے ہیں.گالیاں دی جاتی ہیں.وہ محبت اور پیار میں ان کو پیغام پہنچاتا ہے.وہ دشمنیاں جھولی میں بھر کر گالیوں اور پتھروں کی صورت میں اس پر برساتے ہیں.اس وقت خدا یاد آتا ہے اور جتنا خدا یاد آتا ہے اتنا ہی تبلیغ میں طاقت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.تبلیغ کے اندر غیر معمولی عظمت آ جاتی ہے.ورنہ خالی انسانی باتوں سے تبلیغ کامیاب نہیں ہوا کرتی.اس میں یعنی مصیبتوں میں جو مومن کو تبلیغ کے نتیجہ میں دیکھنی پڑتی ہیں.حکمت یہ ہے کہ حقیقت میں مومن دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہی نہیں.بالکل ایک کمزور چیز ہے.اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.اور دنیا اتنی سخت اور ظالم ہو چکی ہوتی ہے کہ ان کے دلوں پر بھی اس کا بس نہیں ہوتا نہ ان کے دماغوں پر بس ہوتا ہے.بس کس کا ہوتا ہے؟ خدا تعالیٰ کا.اور مومن کے دل کی آہیں ہیں جو خدا تعالیٰ کے رحم کو بھینچتی ہیں اس وقت اور وہ اس کی خاطر مدد کو آتا ہے اور دنیا کی تقدیر بدلا کرتا ہے.اور یہ آہیں اس دشمنی سے پیدا ہوتی ہیں.اگر یہ دشمنی کا PHENOMENON نہ ہو اور تبلیغ کا رستہ آسان ہو جائے تو انبیاء کی موومنٹس (MOVEMENTS) از خود اپنی موت مر جائیں.یہ دشمنیاں ہی ہیں جو تعلق باللہ کو قائم رکھتی ہیں اور مومن کو ایسی چکی میں سے گزارتی ہیں جس سے ان کی زندگی میں فنا کی بجائے بقا پیدا ہو جاتی ہے.وہ ہمیشگی پا لیتے ہیں.ان موتوں سے جو وہ روز دیکھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.جب بچانا خدا نے ہے اور تمہیں یہ بھی اختیار نہیں کہ تبلیغ چھوڑ کے بچ جاؤ.تو پھر لازمأخدا کی طرف متوجہ رہنا اور وہ تمہیں ضرور بچائے گا.دُعا اور مشکلات کا مفہوم

Page 210

۱۹۰ پس دُعا اور مشکلات کا مفہوم جو اس ( آیت ) میں بتایا گیا اس مفہوم کو اور طریق سے اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں کھول دیا ہے.مثلاً جو آیات ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہیں.ان میں آخر پر نہیں 1 ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ ( حم السجدة آیت ۳۵) تبلیغ کا یہاں بھی حکم دیا.ساتھ ہی عداوت کا بھی ذکر کر دیا کہ جب تبلیغ کرو گے تو تمہارے متعلق شدید دشمنیاں پیدا ہو جائیں گی.لیکن دشمنیاں پیدا کرنا تبلیغ کا مقصود نہیں ہے.اور تمہاری طرف سے پیدا ہو رہی ہیں.اور ان دونوں باتوں کا جواب آگے دے دیا.فرماتا فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ اگر تم ہر برائی کا بدلہ حسن سے دو گے، ہر ظلم کا بدلہ احسان سے دو گے تو تمہارا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں محبت اور دوستیاں اور پیار کا ماحول قائم ہو اور ان کا مقصد دشمنیاں پیدا کرنا ہے.یہ ہم تمہیں بتاتے ہیں، لاز ما تم جیتو گے اور دشمنیاں ہار جائیں گی.نتیجہ یہ نکلے گا فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ اچانک تم کیا دیکھو گے کہ تمہارے اور ایک ایسا شخص جس کے درمیان بظاہر شدید عداوت پائی جاتی ہے.اچانک اس کا دل پھر جائے گا اور وہ بے حد محبت کرنے والے دوست میں تبدیل ہو جائے گا.وَلِی حَمِیعُ کا مطلب فدائی دوست جو اپنی جان چھڑ کنے کے لئے تیار ہو.صبر کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے تو مقصد مبلغ کا دشمنیاں پیدا کرنا نہیں ہوتا.ہاں دشمنیاں راستے کے کانٹے ضرور بنتی ہیں اور آخری مقصد محبت کی جنت تک ساری دنیا کو پہنچانا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس جنت تک ضرور پہنچو گے لیکن ایک شرط ہے.وہ شرط کیا ہے؟ وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيْهِ ( حم السجدۃ آیت : ۳۶) اس راہ میں صبر کرنا پڑتا ہے.اور صبر بھی اسی لئے کہ صبر کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف انسان جھکتا ہے.صبر ایسی کیفیت کا نام ہے.(ایک پہلوصبر کا یہ ہے ) کہ انسان اپنے آپ کو ایسا بے بس دیکھے کہ اپنی طرف سے کچھ نہ کر سکے.وہ بے بسی جو غم پیدا کرتی ہے اس کا نام صبر ہے اور ایسا دکھ جس سے چارہ کوئی نہیں.مومن اس وقت اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور صبر کی طاقت سے اس کی دعاؤں کو رفعت ملتی ہے.اگر صبر نہ ہو تو دُعاؤں میں کوئی طاقت نہیں.جو مثلاً گالیاں دینے لگے، جو دل کی بھڑاس وہاں نکال لے گا وہ کیا چیز ہوگی جو رات کو وہ خدا کے حضور سجدوں میں نکالے گا.دن کے رُکے ہوئے آنسو ہوتے ہیں جو رات کو آنکھوں سے برسا کرتے ہیں.پس صبر کے نتیجے میں ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.تو یہاں بھی دراصل اور رنگ

Page 211

۱۹۱ میں وہی مضمون بیان فرمایا جو وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تجھے بچائے گا.بڑا وسیع مضمون ہے.وقت ختم ہو گیا ہے.میں صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ تمام انصار کو ہم مجلس عاملہ مرکز یہ جو ہر وقت یاد دلاتی رہتی ہے تو یونہی کوئی نئی بات نہیں بنی ہوئی.قرآن کریم کا ارشاد ہے.قرآن کریم نے اس کے خطرات سے بھی آگاہ فرمایا ہے.اس کے عواقب سے بچنے کا بھی وعدہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم ہمارے زیادہ قریب ہو.ہم تمہیں بچائیں گے.ایک نئی زندگی جو ہم سے تم پاؤگے اس کالطف ہی اور ہے.اس لئے انصار پر زور دیا جاتا ہے.میں توقع رکھتا ہوں کہ تمام انصار انشاء اللہ اس سال پہلے سے بھی بڑھ کر تبلیغ میں صرف کریں گے.اور آخری بات میں یہ عرض کرتا ہوں کہ دعا یہ کریں کہ اے خدا ہمیں موت نہ دینا جب تک ہم تیرے حضور کامیاب مبلغ نہ بن چکے ہوں.آمین ، (۶۳ بقیہ کا رروائی حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس درسِ قرآن کے بعد مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے درس حدیث دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش تبلیغ پر روشنی ڈالی.انہوں نے تبلیغ کی فضیلت، ثواب اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے جوش تبلیغ کا ذکر کیا.بعد ازاں مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے ملفوظات حضرت مسیح موعود کا درس دیا.مکرم مولانا محمد اسمعیل صاحب منیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تقریر کی اور انفرادی اور اجتماعی تبلیغ کے واقعات سنائے.مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت نے ”سیرت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ پر تقریر کی اور حضور کے جوش ایمانی اور تبلیغ دین کی دلی تڑپ کے ایمان افروز واقعات سنائے.سلائیڈز اس اجلاس کا آخری پروگرام سلائیڈز دکھانے کا پروگرام تھا جو لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا.قائد اصلاح و ارشاد مکرم مولانا محمد اسمعیل صاحب منیر نے خانہ کعبہ، قادیان ، تبلیغ دین اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر مشتمل نہایت خوبصورت سلائیڈ ز دکھا ئیں اور رواں تبصرہ بھی کیا.سلائیڈ ز میں زیادہ تعداد قادیان دارالامان کی تھیں جن میں قادیان کے تمام اہم اور قابل دید مقامات کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی تھی.یہ طویل پروگرام انصار نے نہایت دلچسپی اور محویت سے دیکھا.رات کے ساڑھے دس بجے مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب نے دعا کروائی اور اس طرح سے یہ اجلاس اختتام کو پہنچا.۴

Page 212

۱۹۲ اجلاس شوری ۳۱.اکتوبر ۱۹۸ ء بروز ہفتہ گیارہ بجے قبل دو پہر صدر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدارت میں شوریٰ انصار اللہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا.وَسِعُ مَكَانَگ کا روح پرور نظاره کارروائی کے آغاز سے قبل تمام نمائندگان کو ضلع وار نظام کے تحت بٹھانے کا انتظام کیا گیا.مقام اجتماع میں رسیوں کے حلقے بنا کر نمائندگان کے لئے جگہ مخصوص کر دی گئی تھی مگر چونکہ نمائندگان گزشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں تشریف لائے تھے، اس لئے انہیں بہت تھوڑی جگہ میں سمٹ کر بیٹھنا پڑا.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جو کہ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے کی.تلاوت کے بعد انصار نے کھڑے ہو کر عہد دہرایا.پھر صدر محترم نے فرمایا کہ نمائندگان کرام کو جگہ کی جو تنگی محسوس ہورہی ہے، وہ شکوہ کی جگہ نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے کہ حضور کی مبارک تحریک پر نمائندگان اتنی بڑی تعداد میں تشریف لائے ہیں کہ وسیع انتظامات کے باوجود جگہ کی تنگی پھر بھی محسوس ہو رہی ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے جس پر ہم اس کا جتنا بھی شکر کریں، کم ہے.اس موقع پر صدر محترم نے منتظم صاحب شوری کو ہدایت فرمائی کہ حلقہ شوری کو وسیع کر دیا جائے تا کہ تمام نمائندگان کو آرام سے بیٹھنے کے لئے جگہ مل سکے.صدر محترم کے ارشاد کی فور التعمیل کی گئی.(۶۵) انتخاب صدر و نا ئب صدر صف دوم ایجنڈا کے مطابق سب سے پہلے مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے صدر اور نائب صدرصف دوم کا انتخاب ہونا تھا.یہ انتخاب حضور انور کے نامزد نمائندہ کی صدارت میں ہونا تھا لہذا صدر محترم نے اعلان فرمایا کہ ایجنڈا کی پہلی شق پر اب قائد صاحب عمومی کارروائی کریں گے.حضرت صاحبزادہ صاحب سٹیج سے اتر کر حلقہ شوری سے بھی باہر تشریف لے گئے تا کہ انتخاب کی کارروائی ان کی عدم موجودگی میں تکمیل پائے.قائد عمومی مکرم پر و فیسر منور شمیم خالد صاحب نے نمائندگان کو آگاہ کیا کہ انتخاب کروانے کے لئے حضور انور نے مکرم محمود احمد صاحب شاہد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو اپنا نمائندہ نامزدفرمایا ہے ، وہ سٹیج پر تشریف لا کر اجلاس کی صدارت کریں گے اور اگلے تین سال کے لئے صدر اور نائب صدر صف دوم کا انتخاب کروائیں گے.مکرم محمود احمد صاحب شاہد کے سٹیج پر آنے کے بعد ان کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی.مکرم قائد صاحب عمومی نے مجلس شوری کو بتایا کہ دستور اساسی کے مطابق مجالس سے صدر اور

Page 213

۱۹۳ نائب صدر صف دوم کے عہدوں کے لئے جو نام تجویز ہو کر آئے وہ مجالس کو بھجوائے گئے تا کہ نمائندگان اپنی اپنی مجالس کی رائے کے مطابق ووٹ دے سکیں.اس کے بعد صدر مجلس کے لئے نام پیش کئے گئے جن پر رائے لی گئی.نمائندگان نے بھاری اکثریت سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے حق میں سفارش کی.نائب صد رصف دوم کے بارہ میں بتایا گیا کہ مجالس کی طرف سے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے کے نام تجویز ہو کر آئے تھے لیکن مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی عمر ۴۷ سال سے تجاوز کر چکی ہے اس لئے قواعد انتخاب کے مطابق ان کا نام تجویز نہیں کیا جاسکتا لہذا اب صرف مکرم صاحبزادہ صاحب موصوف کا نام ہی پیش کیا جاتا ہے.تمام نمائندگان نے متفقہ طور پر مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے حق میں رائے دی.انتخاب کی کارروائی مکمل ہونے پر صدر صاحب خدام الاحمدیہ مرکز یہ شوریٰ کی سفارشات حضور کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کے لئے تشریف لے گئے.بعد میں ابھی شوریٰ کا اجلاس جاری ہی تھا کہ دو بجے بعد دو پہر مکرم محمود احمد صاحب نے سٹیج پر تشریف لا کر اعلان کیا کہ حضور انور نے شوری کی سفارشات کومنظور فرمالیا ہے لہذا آئندہ تین سال کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے نائب صدر صف دوم ہوں گے.دستور اساسی میں تبدیلیاں بعدہ ایجنڈا کی تجویز نمبر ۲ زیر غور آئی جو مجلس انصار اللہ رجوعہ ضلع جھنگ کی طرف سے ان الفاظ میں تھی.”دستور اساسی میں بعض سقم اور تضاد معلوم ہوتے ہیں جن کو دور کرنے کے لئے تجویز ہے کہ مجلس شوری انصار اللہ ماہرین دستور سازی اور اردو دان حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرے جو دستور اساسی کو از سرنو تر تیب دے کر مجلس عاملہ مرکز یہ میں پیش کرے.“ اس تجویز پر بحث شروع کرتے ہوئے مجلس رجوعہ کے زعیم مکرم عبدالسمیع حسنی صاحب نے کہا کہ اس سلسلہ میں پچھلے سال جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کی کارگزاری رپورٹ پہلے پیش ہونی چاہئیے.چنانچہ صدر محترم کے ارشاد پر مذکورہ کمیٹی کے صدر کرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے بتایا کہ اس کمیٹی کا دائرہ کار دستور اساسی کی صرف ایک شق یعنی قاعدہ نمبر ۱۶۵ پر غور کرنے تک محدود تھا نہ کہ پورے دستور اساسی پر.دوران بحث حضرت مرزا عبدالحق صاحب سرگودھا نے یہ رائے دی کہ اس تجویز میں ماہر دستور سازی اور اردو دان“ کے الفاظ موزوں نہیں لہذا انہیں حذف کر دیا جائے.صدر محترم نے بھی اس سے اتفاق کیا اور ترمیم پیش کرنے کا ارشاد فرمایا.ازاں بعد صدر محترم نے اس تجویز اور مجوزہ ترمیم پر نمائندگان کو اظہار خیال کا موقع دیا چنانچہ مکرم 66

Page 214

۱۹۴ شیخ رحمت اللہ صاحب کراچی ، مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ربوہ ، مکرم بشیر الدین کمال صاحب راولپنڈی اور مکرم شیخ عبدالمنان صاحب راولپنڈی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی مجوزہ ترمیم کو منظور کرنے کا مشورہ دیا جس سے نمائندگان نے بھی اتفاق کیا.چنانچہ اس کے بعد تجویز کے الفاظ یوں ہو گئے.”دستور اساسی پر دوبارہ تفصیلی غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے.اگر اس میں کوئی سقم یا اشکال ہوں تو ان کو دور کیا جاسکے.“ صدر محترم نے نمائندگان سے یہ مشورہ لیا کہ آیا کمیٹی کی سفارشات دوبارہ شوری میں پیش ہوں یا مجلس عاملہ مرکزیہ کی وساطت سے ہی آخری منظوری کے لئے حضور کی خدمت اقدس میں پیش کی جائیں.اس سلسلہ میں مکرم راجہ نذیر احمد صاحب ظفر ربوه، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی لاہور، مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب حیدر آباد، مکرم عبدالسمیع حسنی صاحب رجوعہ، مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب گجرات ، مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب فیصل آباد، مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب لاہور اور مکرم خلیق عالم فاروقی صاحب کراچی نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اس پر غور کرنے کے لئے کمیٹی مقرر ہومگر اس تجویز کے آخری حصہ پر رائے لینے کے لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا کمیٹی کی سفارشات مجلس عاملہ مرکزیہ کی وساطت سے حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش ہوں یا مجلس شوری کی وساطت سے.نمائندگان کی بھاری اکثریت نے اس بات کے حق میں رائے دی کہ کمیٹی کی سفارشات پر مجلس عاملہ مرکز یہ غور کر کے اپنی سفارشات آخری منظوری کے لئے حضور کی خدمت میں پیش کرے.ازاں بعد کمیٹی کی تشکیل کا مرحلہ پیش آیا.مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ربوہ کی تجویز پر نمائندگان کی بھاری اکثریت کی رائے کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ صدر محترم خود مناسب اور موزوں افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرما ئیں جو اپنی سفارشات مجلس عاملہ مرکز یہ کو پیش کرے.اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد کے بارہ میں فیصلہ صدر محترم کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا.صدر محترم نے فرمایا کہ ناظمین اضلاع اور انفرادی طور پر نمائندگان شوریٰ بھی اس بارہ میں مجھے بذریعہ خطوط ایک ماہ کے اندر اندر مشورہ دیں کہ اُن کے علاقوں کے ایسے کون کون سے انصار ہیں جنہیں اس کمیٹی کا ممبر بنا چاہیئے.پھر ایک مناسب حال کمیٹی کا اعلان کر دیا جائے گا.زعیم اعلیٰ کا انتخاب: سب کمیٹی نے دستور اساسی کی شق نمبر ۱۶۵ کو اس شکل میں منظور کرنے کی سفارش کی.عیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندہ یا ناظم ضلع یا پریذیڈنٹ یا اُن کے نمائندے کی نگرانی میں ہوگا.اور بقیہ حصہ حسب سابق رہنے دیا جائے.دوران بحث مندرجہ ذیل نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں.مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب لاہور، مکرم بشیر الدین کمال صاحب راولپنڈی ، کرم صوبیدار صوفی رحیم بخش صاحب لاہور، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب

Page 215

۱۹۵ پانی پتی لاہور، مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ربوہ، مکرم میاں محمد افضل صاحب ایران، مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی انگلستان، اور مکرم منور شمیم خالد صاحب قائد عمومی مجلس شوری کی بھاری اکثریت نے اس بات کے خلاف رائے دی کہ قاعدہ نمبر ۱۶۵ میں مجوزہ تبدیلی کا کام بھی نئی کمیٹی کے سپر د کر دیا جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس قاعدہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بدل کر منظور کر لیا جائے.زعیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندے کی نگرانی میں ہو گا.“ سالانہ اجتماع اور ربوہ کے انصار: اس کے بعد ایجنڈا کی تجویز نمبر ۳ زیر غور آئی جس کے الفاظ یہ ہیں ربوہ کے انصار کو اجتماع کے دوران کھانے میں شامل کرنے سے متعلق مجلس شوری نے گذشتہ سال ایک سب کمیٹی کے سپرد یہ معاملہ غور کرنے کے لئے پیش کیا تھا.اس سلسلے میں مکرم صدر صاحب سب کمیٹی اپنی رپورٹ برائے غور پیش کریں گے.“ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب صدر سب کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس سب کمیٹی کے سپر د دو معاملے کئے گئے تھے.ایک دستور اساسی کی شق نمبر ۱۶۵ پر غور اور دوسرے اجتماع کے موقع پر ربوہ کے لئے کھانا فراہم کرنے کا مسئلہ.اجتماع کے موقع پر ربوہ کے انصار کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کے سلسلے میں سب کمیٹی کی سفارش یہ تھی کہ چونکہ ربوہ کے انصار کو اجتماع کے دوران کھانے میں شامل کرنے کے لئے بجٹ میں خاصا اضافہ کرنا ضروری ہے جس کی ابھی گنجائش نہیں ہے اس لئے سر دست ہر سال صدر محترم خود ایسے انصار کا مناسب کوٹہ مقرر کر دیں کہ جن کے لئے گھروں پر جا کر کھانا مشکل ہو.ایسے انصار کے لئے کھانا مہیا کر دیا جایا کرے.اس تجویز پر مندرجہ ذیل نمائندگان نے اپنی آراء پیش کیں.مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب لاہور، مکرم ملک محمد الدین صاحب تر گڑی، مکرم ملک عبد اللطیف صاحب ستکو ہی لاہور، مکرم سید عبدالغفور شاہ صاحب شیخو پورہ، مکرم را نا عطاء اللہ صاحب حیدر آباد، مکرم غلام احمد صاحب چغتائی مظفر گڑھ، مکرم خلیق عالم صاحب فاروقی کراچی، مکرم خواجہ وجاہت احمد صاحب کراچی ، مکرم اعجاز احمد صاحب ایاز کا چیلو سندھ، مکرم منیر احمد صاحب سرگودھا، مکرم محمد برہان شاہد صاحب ، مکرم میاں محمد افضل صاحب ایران اور مکرم محمد سلیم صاحب ربوہ.مکرم خواجہ وجاہت احمد صاحب کراچی اور مکرم غلام احمد صاحب چغتا ئی مظفر گڑھ کی طرف سے چندہ سالانہ اجتماع کی شرح بڑھانے کے بارہ میں مختلف ترامیم بھی پیش ہوئیں.بحث کے دوران صدر محترم نے بعض نہایت اہم امور پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا کہ نمائندگان کو یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئیے کہ جس تجویز کا اثر بجٹ پر پڑتا ہو، اس پر رائے دیتے وقت انہیں یہ بھی بتانا چاہیئے کہ اس طرح بجٹ میں متوقع اخراجات کی رقم کہاں سے مہیا کی جائے گی.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر مجالس اپنا بجٹ تیار کرتے

Page 216

۱۹۶ وقت انصار کی آمد کی صحیح تشخیص کیا کریں تو ہماری بہت سی مشکلات حل ہوسکتی ہیں اور ہماری آمد میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے.ووٹنگ پر نمائندگان کی بھاری اکثریت نے سب کمیٹی کی سفارش کو منظور کرنے کے حق میں رائے دی.موجودہ مہنگائی اور بجٹ کی بعض مدات: ایجنڈا کی چوتھی شق قیادت مال سے متعلق تھی جس کے الفاظ یہ تھے موجودہ مہنگائی کی وجہ سے تجویز ہے کہ (0) چندہ سالانہ اجتماع ڈیڑھ فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا جائے.(ب) چندہ اشاعت لٹریچر ایک روپیہ سے بڑھا کر دوروپے سالانہ کر دیا جائے.(ج) حصہ مجلس مقامی اٹھائیس فیصد سے بڑھا کر تمیں فیصد کر دیا جائے“ مجلس انصاراللہ شاہدرہ ٹاؤن لاہور کی پیش کردہ اس تجویز پر مکرم عبدالرشید غنی صاحب قائد مال مرکزیہ، مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ربوہ مکرم چوہدری محمد الحق صاحب لاہور، مکرم منیر احمد صاحب سرگودھا، مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب سیالکوٹ اور مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی لا ہور نے اپنی اپنی آراء پیش کیں.آخر میں صدر محترم نے فرمایا میرے نزدیک اس تجویز کی متینوں شقیں رد کر دینی چاہئیں کیونکہ اصل خرابی بجٹ کی صحیح تشخیص نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اگر مجالس اپنے بجٹ صحیح تشخیص کریں اور پھر اس کے مطابق وصولی بھی ہو تو کسی بھی چندہ کی شرح کو بڑھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.بعدہ جب نمائندگان سے رائے لی گئی تو بھاری اکثریت نے صدر محترم کی رائے سے اتفاق ظاہر کیا اور اس طرح یہ تجویز مستر د ہو گئی.بجٹ انصار الله مرکز یه ۱۹۸۲ء: ایجنڈا کی آخری شق.بجٹ آمد و خرچ مجلس انصاراللہ مرکز یہ بابت سال ۱۹۸۲ء منظوری کے لئے پیش کیا گیا.مکرم قائد صاحب مال نے بجٹ کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی.مکرم راجہ نذیر احمد صاحب ظفر ربوہ، مکرم محمد الحق صاحب لاہور، مکرم منیر احمد صاحب سرگودھا، مکرم محمد اسلم صاحب سیالکوٹ ،مکرم مبارک محمود صاحب پانی پتی لا ہور اور مکرم ملک احسان اللہ صاحب لاہور نے بحث میں حصہ لیا.بحث کے بعد نمائندگان شوری نے متفقہ طور پر آئندہ سال کے بجٹ آمد وخرچ کو ( جو چھ لاکھ سترہ ہزار روپے پر مشتمل تھا) منظور کرنے کی سفارش کی.پونے تین بجے بعد دو پہر شوریٰ انصار اللہ کا اجلاس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.﴿۱۶﴾ پیغام حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پندرھویں صدی ہجری کے اس پہلے تاریخی اجتماع کے لئے صدر محترم نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے بطور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک پیغام ارسال فرمانے کی درخواست کی تھی چنانچہ آپ نے (۷ ستمبر ۱۹۸۱ء کو ایک مختصر مگر نہایت جامع اور از حد ایمان افروز پیغام ارسال

Page 217

۱۹۷ فرمایا جسے مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب قائد مجالس بیرون نے پڑھ کر سنایا.آپ نے فرمایا: دد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے واجب التعظیم محترم صدر کے ارشاد کی تعمیل میں خاکسار گذارش کرتا ہے کہ مخالفین سلسلہ عالیہ احمدیہ جب دلائل اور حقائق کے میدان میں عاجز آ چکے تو انہوں نے سلسلہ کی روز افزوں ترقی کو روکنے کی نئی نئی تراکیب اختیار کرنا شروع کیں.تاریخ سلسلہ میں یہ بھی ایک انوکھا سبق آموز باب ہے.مخالفین حق اگر مخلصانہ طور پر مثلا شیان حق کی حیثیت سے فکر کریں تو آج جب سلسلہ پر بانوے سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت روز روشن کی طرح سلسلے کی حقانیت کا متواتر اعلان کرتی چلی جارہی ہے.یہی امران کی تشفی کے لئے کافی ہونا چاہیئے لیکن افسوس کہ ضد پر قائم ہیں اور بصیرت کا فقدان ہے.۱۹۷۴ء کے خونفشاں واقعات کا سلسلہ بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے.جب معاندین سلسلہ کا ایک گروہ پیٹ بھر کر خونریزی کر چکا اور خدام سلسلہ کے اموال اور جائیدادوں کا اتلاف کر چکا تو نام نہاد علمائے امت میں سے ایک طبقہ نے حکومت کے ارباب حل وعقد کو اس امر پر آمادہ کیا کہ جماعت احمد یہ پاکستان کو آئین اور قانون کے شکنجے میں کھینچ کر کچلا جائے.چنانچہ پاکستان کی مجلس قوانین ساز نے سے ستمبر ۱۹۷۴ء کے دن اپنے اختیار کردہ ریزولیوشن کی شکل میں وہ شکنجہ تیار کیا.اپنے زعم میں تو انہوں نے جماعت کو کچل دینے اور سلسلے کی پاکستان میں آئندہ ترقی کو مسدود کرنے کا سامان بہم پہنچا لیا.لیکن ہوا کیا؟ ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ قادر و مقتدر کی غیرت حق ہمیشہ سے صادر کرتی چلی آتی ہے.یعنی انصار اللہ کے معاندین ایک چال چلے.وَمَكَرُوا.اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خائب و خاسر کرنے کی اپنی حکیمانہ تدبیر کی.وَمَكَرَ الله.اور اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر غالب ہوا کرتی وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ.یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے اور اُس کی لاتبدیل لاتحویل سنت ہے.كتب الله لأغْلِبَنَّ انَا وَ رُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ہے.چنانچہ واقعات شاہد ہیں کہ پارلیمنٹ پاکستان کی کارروائی اور ریزولیوشن کی اشاعت کا ایک زبر دست رد عمل یہ ہوا کہ متلاشیان حق نے تحقیق حق کی خاطر جوق در جوق مرکز سلسلہ کی طرف رجوع کرنا شروع کیا اور ان میں سے ایک بھاری کثرت کو قبول حق کی توفیق عطا ہوتی چلی جارہی ہے.جب پارلیمنٹ نے اپنی کارروائی کے دوران جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو دعوت دی کہ حضور بنفس نفیس پارلیمنٹ کی کمیٹی کے روبرو اپنے عقائد کی تفصیل پیش کریں اور حضور کو اس ضابطہ سے ، جو اختیار کیا گیا ، یہ اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کمیٹی کے ارکان حضور کی

Page 218

۱۹۸ خفت پر آمادہ ہوں اور حضور حالتِ کرب میں اللہ تعالیٰ کی دہلیز پر دردمندانہ طور پر طالب ہدایت ونصرت ہوئے تو خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور یہ بشارت حضور کو دی گئی وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا.خفت کا ارادہ رکھنے والوں کی فکر نہ کرو.ہم خودان کے مقابل تمہاری حفاظت کریں گے اور جو تد بیر وہ اختیار کرنے والے ہیں.اس کے نتیجے میں سلسلہ کی طرف رجوع خلائق ہوگا.سلسلے میں نئے داخل ہونے والوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی روحانی خوشحالی کے لئے ابھی سے سامان کی فکر کرو.اللہ اللہ ! کس قدرحق تعالیٰ کو اپنے مومن و مخلص بندوں کی دلداری مطلوب ہے اور کس قدر غیرت اپنے قائم کردہ سلسلے کے لئے وہ رکھتا ہے اور ظاہر کرتا ہے.فَسُبحَانَ الله والْحَمْدُ لِلَّهِ - تو ہمیں یہ فکر تو ہرگز ہرگز کبھی لاحق نہیں ہونی چاہئیے کہ معاندین سلسلہ کبھی سلسلے یا جماعت کو من حیث الجماعت کوئی گزند پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں گے.اللہ تعالیٰ کے پختہ وعدے مومنین کی نصرت کے ہیں.اللہ تعالیٰ صادق الوعد اور قومی عزیز ہے.البتہ ہمیں ہر لحظہ یہ فکر رہنی چاہئیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مومن قرار پائیں اور اس کی رحمت اور نصرت کے مستوجب اور مورد رہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے فرمایا: عدد جب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں یہ ایک نہایت لطیف نکتہ ہے.جو اللہ تعالیٰ میں نہاں ہو گیا ،اُسے کیا خطر اور اُسے کیا خوف.جو تیر اس پر چلایا جائے گا وہ گو یا اللہ تعالیٰ پر چلایا گیا اور اس کا حشر معلوم.لیکن اللہ تعالیٰ میں نہاں ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ میں نہاں وہی ہو سکے گا جوگلی طور پر صفات الہیہ کا مظہر اور عکس ہوگا.فتدبروا.پھر اللہ تعالیٰ میں نہاں کیسے ہوں؟ اور نئے آنے والوں کی تربیت کے لئے کیسے سامان ہو؟ اور ہم ان کے لئے کیسے نمونہ ٹھہریں؟ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكُوةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَوْلَكُمْ ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ

Page 219

۱۹۹ وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ذکر حبیب والسلام خاکسار طالب دعا ظفر اللہ خان (۶۷) اس پیغام کے بعد ” ذکر حبیب “ “ کے موضوع پر مکرم آدم خاں صاحب امیر جماعت مردان نے جذب وعشق کے واقعات سنائے.اجتماعی طعام میں حضور کی شرکت افتتاحی اور اختتامی خطابات کے علاوہ حضور انور از راہ شفقت اجتماع کے درمیانی روز یعنی ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو رات کے کھانے پر بھی تشریف لائے اور جملہ انصار کے ہمراہ رات کا کھانا تناول فرمایا اور اجتماعی دعا کروائی.کھانے کا انتظام مسجد اقصیٰ کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے لگا کر کیا گیا تھا.۸۶ صدر مجلس کا خصوصی خطاب اجتماع کے آخری دن حضور انور کے خطاب سے پہلے صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے قریباً ایک گھنٹہ تک انصار سے خطاب فرمایا.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد صدر محترم نے فرمایا: اللہ کے احسانات کا حد و شمار نہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا حق تو زبان بھی ادا نہیں کر سکتی.اعمال کا اس حق کو ادا کرنا تو اور بھی بعید بات نظر آتی ہے.انسان اگر غور کرے تو روز مرہ کی زندگی ہی میں اس کو اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات نظر آئیں گے کہ ممکن ہی نہیں کہ ان کا حق ادا ہو سکے.اور جماعتی زندگی میں جماعت احمدیہ کی زندگی میں جو بحیثیت احمدی ہمیں احسانات کا ایک لامتناہی سلسلہ بارش کی طرح برستا ہوا دکھائی دیتا ہے، ان پر تو اگر ہماری نسلیں قیامت تک شکر ادا کرتی رہیں تو اس ایک نسل کے احسانات کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکیں جس نے اس زمانے میں وہ احسانات اللہ تعالیٰ کے، بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھے ہیں.جہاں تک مجلس انصار اللہ کا تعلق ہے محض اس کے فضل اور رحم اور کرم کے ساتھ یہ سال بہت ہی خوش کن گزرا ہے.ہر میدان میں اس کے فضل کے ساتھ پہلے سے بہت ترقی عطا ہوئی.تمام شعبوں میں ایک نئی بیداری کا احساس نظر آیا اور اس اجتماع کے موقع پر جو حاضری کا معیار تھا.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سیکھنے اور پانے کی تمنا انصار میں پہلے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے.اس کا

Page 220

۲۰۰ معیار یہ ہے کہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقریر کے موقع پر جو زیادہ سے زیادہ حاضری ہوتی ہے، اگر اس کا موازنہ عام تقریروں کی حاضری سے کیا جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کس حد تک ذمہ داری کے احساس کے کچھ نہ کچھ پالینے کی خواہش لوگوں میں پائی جاتی ہے.حضور کی تقریر پر تو کشاں کشاں ہر احمدی چلا ہی آتا ہے.اس کا کوئی بھی معیار ہو، وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور حضور کی تقریر ہو رہی ہو.لیکن وہ کشش، جو بے پناہ کشش اللہ تعالی نے خلافت کو عطا فرمائی ہوئی ہے، وہ وقتی طور پر نہ رہی ہو، عام مقررین غریب میرے جیسے، کوئی خاص کمال کسی قسم کا نصیب نہ ہو ان کو.بظاہر یا حقیقت میں جو بھی شکل ہو.اس پر لوگوں کا تشریف لے آنا ،صبر کے ساتھ بیٹھے رہنا ایک غیر معمولی زندگی کی علامت ہے.خالصہ اللہ وقف کرنے والے لوگ ہی ایسا کر سکتے ہیں.حیرت انگیز وفا کا نمونہ اتنی حیرت انگیز وفا کانمونہ دکھایا ہے انصار نے کہ اس نظارے سے دل عش عشق کر اُٹھتا تھا اور بے اختیار دل سے دعائیں نکلتی تھیں.بعض معمر بزرگ استی، اسی سال کے دس دس گھنٹے مسلسل بیٹھے ہیں.ان میں ایسے بھی تھے جو علم و فضل کے لحاظ سے ایک خاص مقام پر ہیں اور عام روز مرہ کی تقریر میں سننے سے ان کو کوئی خاص علمی فائدہ نہیں پہنچتا تھا.جانتے تھے ان باتوں کو مثلاً حضرت مرزا عبدالحق صاحب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تمام کتب بار بار پڑھ چکے ہیں.تو اس لالچ میں تو نہیں بیٹھتے تھے کہ مجھے کوئی چیزنی ملے ،نئی بھی ملتی ہے ضرور ہر انسان کو کچھ نہ کچھ مگر محض ایک وفا کا تقاضا تھا.ایک اطاعت کا تقاضا تھا کہ خدا کے نام پر جو مجلس اکٹھی ہوئی ہے اس میں بیٹھ کر برکت حاصل کرنی ہے.صبح کی تہجد کی حاضری بھی خدا کے فضل سے بہت ہی خوش کن تھی.نیک عادات کو دوام بخشیں اس اظہار تشکر کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس عادت کو دوام بخشیں اپنی اگلی نسلوں میں.جو قابل فکر بات ہے ، وہ یہ ہے کہ ہماری اگلی نسلیں دینی مجالس کی اہمیت سے اس طرح واقف نہیں ہیں جس طرح یہ نسل جو اس وقت سامنے بیٹھی ہوئی ہے.اس کا نتیجہ ایک بہت ہی تکلیف دہ نظارے کی شکل میں ہمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر نظر آتا ہے کہ سلسلہ کے مقررین بڑی محنت سے تقریریں تیار کرتے ہیں.ان میں اگر بیٹھے ہوئے کوئی انسان ساری تقاریر کوسن لے تو ایک بدلی ہوئی شکل لے کر وہاں سے نکلے گا لیکن بھاری تعداد نو جوانوں کی نئی نسلوں کی باہر پھر رہی ہوتی ہے بازاروں میں میلوں کی طرح.اپنے وقت کو ضائع کر رہی ہوتی ہے اور صرف ایک دو تقریروں پر انہوں نے نشان لگائے ہوتے ہیں جو

Page 221

۲۰۱ ان کی پسند کے مطابق کی تقریریں ہیں.حالانکہ بہت ہی بڑی ایک نہر نہیں بلکہ ایک قلزم جاری ہوتا ہے عرفان کا اور علم کا.اس زمانے میں اور خدا کی برکتیں جو اترتی ہیں وہ اس کے سوا ہیں تو علمی استفادے کے سوا ان لوگوں میں بیٹھ رہنا ہی بابرکت ہے اور برکت کا موجب ہے.حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کہاں ذکر الہی ہو رہا ہے.ایسی مجلس میں کچھ فرشتے پہنچے جہاں ذکر الہی ہو رہا تھا.وہ واپس گئے ( یعنی عروج فرمایا جو بھی اس کے معنی ہیں ) اور خدا کے حضور عرض کیا کہ اے خدا! تیرے کچھ بندے محض تیری خاطر بیٹھے ہوئے تھے اور تیرا ذکر کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان بندوں کو میں نے بخش دیا.ان کے سارے گناہ بخش دیئے.اس پر ایک فرشتے نے عرض کی کہ اے خدا! ان میں ایک وہ بھی تھا جو ذکر الہی کی وجہ سے وہاں اکٹھا نہیں ہوا تھا.وہ راستہ چلتے ہوئے مجلس دیکھ کے کچھ دیر کے لئے رک گیا تھا.تو خدا نے فرمایا جو لوگ میرے ذکر کی خاطر ا کٹھے ہوتے ہیں ، ان میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ ان کے ساتھی بھی بخشے جاتے ہیں.وہ بھی برکت پا جاتے ہیں.پس اتتارحیم وکریم ، بے انتہا رحمتیں فرمانے والا خدا جن کو نصیب ہو جائے ،اس کی رحمتوں سے محروم اس حد تک ہو جائیں کہ ان لوگوں میں بیٹھنا بھی نصیب نہ ہو سکے جو خدا کے ذکر کی خاطر ا کٹھے ہوئے ہیں تو بہت بڑی محرومی ہے.اس لئے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم آیت ۷) صرف اپنے کو نہ بچاؤ بلکہ اپنے بچوں اور اپنی اولادوں کو بھی آگ سے بچاؤ.اور وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر آیت ۱۹) ہر انسان، ہر جان نگران رہے کہ وہ آئندہ عاقبت کے لئے بھی اور اس دنیا میں بھی کیا پیچھے چھوڑ کر جارہا ہے.اگلی نسلوں کے لئے کیا نمونے بھیج رہا ہے؟ نیکیوں کو اگلی نسلوں میں جب تک راسخ نہ کر لیں چین کا سانس نہ لیں اس نقطہ نگاہ سے انصار کی تربیت کے لحاظ سے میں عرض کر رہا ہوں ) پہلی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ انہوں نے پایا ہے اس ماحول میں یا اس سے پہلے ساری عمر میں جو کچھ بھی کمایا نیکیوں کی صورت میں، اس کو اگلی نسلوں میں جب تک رائج اور راسخ نہ کر لیں ، چین کا سانس نہ لیں.اور یہ کام دعاؤں کے بغیر ممکن نہیں ہے.مسلسل ، بار بار کی دُعا اور التجا خدا کے حضور کہ اے خدا زندگی تو تیرے بس میں ہے.میرے بس میں نہیں.میری تمنا یہ ہے کہ میں اچھی ، پاک نسلیں چھوڑ کے جاؤں جو تیرے ذکر کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور تیری محبت ان کے دلوں میں بسی رہے اور کوئی غیر کی محبت تیری محبت کے بدلے داخل نہ ہو سکے بلکہ تیری محبت ہی اور محبتوں کو جنم دینے والی ہو.کسی غیر کی دشمنی ان کے دل پر غالب نہ

Page 222

ہو.جو دشمنی ہو وہ تیری رضا کی خاطر ان سے ہو جو تیرے دشمن ہیں اور ہمیں تو فیق عطا فرما.ہم بے بس ہیں علم کے لحاظ سے، قوت قدسیہ کے لحاظ سے اور بہت سی کمزوریاں ہمارے ساتھ لاحق ہیں جن کی وجہ سے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے.ہمیں توفیق عطا فرما.اپنے فضل سے ہمارے تھوڑے میں بہت برکت ڈال اور اس چین کے ساتھ ہم آنکھیں بند کر رہے ہوں کہ اپنے پیچھے احمدیت کے بہت ہی نیک پاک اور عمدہ رہنے والے البقیت الصلحت کے نمونے چھوڑ رہے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.بیرونی ممالک میں بفضلہ تعالیٰ بیداری کی لہر پیدا ہورہی ہے دوسری بات میں شعبہ بیرون سے متعلق عرض کرنی چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سال شعبہ بیرون میں ہمیں بہت ہی نمایاں کامیابیاں عطا ہوئی ہیں.اس وقت تفصیل سے جائزہ پڑھنے کا تو وقت نہیں ہے.وہ انشاء اللہ شائع کر دیا جائے گا.مقابلہ جو ہے ہمارے اپنے پچھلے سالوں سے ، وہ اتنا ہے کہ انسان کی رُوح بے حد شکر کے ساتھ خدا کے آستانہ پر جھک جاتی ہے.زمین و آسمان کا فرق پڑ چکا ہے، پچھلے ایک سال میں.اس کی ایک وجہ تو مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کا دورہ بھی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.دوسرے عمومی بیداری کی خدا کی طرف سے ایک لہر چل رہی ہے.اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے.مثلاً انڈونیشیا کا تو کسی نے دورہ نہیں کیا تھا، نائیجیریا کا تو کسی نے دورہ نہیں کیا تھا، مگر ان کی کیفیتیں اتنی بدل گئی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.انڈونیشیا سے جو بجٹ موصول ہوا ہے بغیر کسی دورے کے، وہ پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب بنتا ہے اور ان کی ستر کے قریب مجالس میں سے ابھی صرف چودہ کا بجٹ موصول ہوا ہے.باقی سب کا موصول ہونے والا ہے تو اس سے آپ اندازہ کریں کہ کس طرح دنیا میں خدا کے فرشتے احمدیت کے دیوانوں کو جگا رہے ہیں.ہشیار کر رہے ہیں اور لائحہ عمل کے نئے میدانوں میں کودنے کے لئے تیار کر رہے ہیں.اس لحاظ سے ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ تحریک جدید کا شعبہ انصار کے سپر د جس حد تک ہے، اس میں اپنی ذمہ داری کو ادا کریں تا کہ بیرونی دنیا کا حق ادا کر سکیں جس حد تک بھی ہماری توفیق ہو.بہت دعائیں کریں باہر جانے والوں کے لئے دوسرے دعائیں بہت کریں باہر جانے والوں کے لئے ، باہر جانے والوں سے مراد یہ ہے کہ جو احمدی ہمارے رشتہ داروں میں سے ، ہمارے عزیزوں میں سے باہر جاتے ہیں وہ ہمارے ماحول سے نکل کر باہر پہنچتے ہیں اور وہاں احمدیت کے ایمبسیڈر ، سفیر بن جاتے ہیں.جس حد تک وہ عدم

Page 223

تربیت یافتہ ہوں ، اتنے ہی ناقص سفیر بنتے ہیں بلکہ بعض دفعہ منفی سفیر بھی بن جاتے ہیں اور جس حد تک وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں رنگین ہوں اس حد تک وہ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور ماں باپ کے لئے رحمتوں کا موجب بنتے ہیں.جہاں احمدیت پھیلاتے ہیں اس کا ثواب ان کے اس ماحول کو بھی پہنچتا ہے اور اس مجلس کو بھی پہنچتا ہے جہاں انہوں نے تربیت پائی تھی.تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہم کر سکتے ہیں.اپنے تمام عزیزوں کو خط و کتابت کے ذریعے سمجھائیں کہ وہاں نیک نمونہ قائم کرو، شرمندگی کا موجب نہ بنانا پاکستان کو.خدا نے ہمیں پہلے تو فیق عطا فرمائی تھی.ہماری ماؤں بہنوں کو تو فیق عطا فرمائی تھی کہ اپنے کپڑے دے کے، زیور دے کے، آئے بچا کے اور اگر دو، دو آنے بچے تو وہ بھی پیش کر دیئے.اس طرح وہ مشن قائم ہوئے ہیں.اس کی تاریخ کو دیکھو.ان لوگوں کی تاریخ کو دیکھو جنہوں نے اپنی نو بیاہتا بیویوں کو چھوڑ دیا اور آپ بھی بوڑھے ہوئے اور وہ بھی بوڑھی ہو گئیں تب ان ملکوں سے واپس آئے.جن کو بلانے کے لئے کرائے تک ہمارے پاس نہیں ہوا کرتے تھے.اس پس منظر میں تم وہاں پہنچے ہو.تمہاری اپنی کوئی خوبی نہیں ہے.یہ تمہارے بڑوں کی قربانیوں کا ثمرہ ہے جو تم کھا رہے ہو.اس دولت کے نتیجے میں اندھے نہ ہو جانا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا.جس کا جو رشتہ دار (انصار اللہ میرے مخاطب ہیں ) جہاں جہاں بھی بیرون ملک پایا جاتا ہے.اس کو خصوصیت کے ساتھ ، درد کے ساتھ نصیحتوں کے خط لکھنا شروع کرے.یہاں آئیں تو ان کو سمجھائے اور دعائیں کرے ان کے لئے.بیرونی دنیا میں جو کام بڑھ رہا ہے اس کا ہم پر تقاضا ہے کہ جو میں خاص طور پر آپ سے عرض کرنا چاہتا تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ کا دل مهبط انوار ہوتا ہے سائیکل کی جو مہم حضور نے جاری فرمائی ہے.یہ ایک قسم کی پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی تھی.جب حضور نے سائیکل مہم شروع کی کہ سائیکل سوار بنو اور سائیکل کے ذریعہ باہمی رابطہ پیدا کرو تو اس زمانے میں تو پیٹرول کا کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوا تھا.ابھی تک آئل ویپن (OIL WEAPON) کا تصور دنیا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.جو تیل سے براہ راست تعلق رکھتے تھے ، ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلے ایک دوسال میں کیا حالات ظاہر ہونے والے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا.اس کو میں الہام تو نہیں کہ سکتا کیونکہ جب تک خلیفہ وقت نہ کہے کہ یہ الہام ہوا تھا ، اس وقت تک کوئی بھی نہیں کہہ سکتا، نہ حضور نے فرمایا.لیکن جماعت خدا تعالیٰ کی براہِ راست نگرانی میں حرکت کر رہی ہے اور خلیفہ وقت اس نگرانی کا مرکز ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ کا دل مہبطِ انوار ہوتا ہے اور

Page 224

۲۰۴ اس کے ذریعے سے وہ اپنی رہنمائی میں ایسی تحریکات جاری فرما دیتا ہے جو آئندہ دنیا کے نقشے سے تعلق رکھتی ہیں.اس لئے قطع نظر اس کے کہ فی ذاتہ اطاعت میں بہت بڑی برکت ہے.بے انتہاء برکت ہے، حضور کی یہ تحریک فی ذاتہ بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات سے تعلق رکھنے والی ایک عظیم الشان تحریک تھی.اب تو زمانے نے بھی یہ بتا دیا کہ دوسری قو میں بھی آپ کے پیچھے آ کر سائیکل کو پکڑ رہی ہیں.جرمنی میں ، دوسرے یورپین ممالک میں اب تو یہاں تک بھی رواج ہوا کہ وزراء بھی اپنے دفتروں میں سائیکلوں پر جانے لگے ہیں.ابھی حال ہی میں امیریکن سائنٹسٹ (AMERICAN SCIENTIST) میں ایک پیپر آیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب سائنٹسٹس (SCIENTISTS) سائیکل کو بہتر بنانے کی طرف دوبارہ متوجہ ہو گئے ہیں اور نئی نئی قسمیں، ورشنز (VERSIONS) ایجاد کر رہے ہیں.تولیڈ رتو ہم ہیں.ہماری خاطر ہی یہ ایجادیں ہو رہی ہیں.خدا تعالیٰ نے جب پہلے اپنے خلیفہ کو بتایا تو صاف مطلب یہ تھا کہ آئندہ دنیا کے سائیکل سواروں کی لیڈر جماعت احمد یہ ہوگی.پس اس نقطہ نگاہ سے آپ زیادہ سنجیدگی سے اس کی طرف توجہ کریں اور جہاں تک ممکن ہے، لوگ اس میں شامل ہوں.سرگودھا والے ہیں لے کے آئے ہیں.لیکن یہ تو لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے.اٹھائیس میل سے ہیں کا کیا فرق پڑ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں حضرت مرزا عبدالحق صاحب بھی، ابھی بھی خدا کے فضل سے سائیکل پر آ سکتے ہیں.بڑے باہمت جوان ہیں.ایسا جوانوں کا جوان، اٹھاسی سال کا امیر جن کو نصیب ہو، ان کو اور زیادہ جو ہر دکھانے چاہئیں.دور دور سے ضلع کے مختلف کناروں سے لے کے آئیں.( مکرم مرزا صاحب کہتے ہیں ہیں نہیں سنتالیس نے لہو لگا کے شہیدوں میں داخلہ لیا ہے) اصلاح و ارشاد اصلاح وارشاد سے متعلق اس سال کی رپورٹ خدا کے فضل سے بہت ہی حوصلہ افزا اور خوشکن ہے.بعض باتیں تیاری میں کچھ وقت لیا کرتی ہیں اور ان کا پھل کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتا ہے.اگر اصلاح وارشاد کی عادت باقی نہ رہی ہوتی تو میرا اندازہ تھا کہ اس کی تیاری میں چند سال لگیں گے.میں نے شروع میں عرض بھی کیا تھا کہ ہمارے ارادے تو خدا کے فضل سے بڑے ہی رہیں گے.مومن کو خدا نے گھٹیا، چھوٹا ارادہ رکھنے کا حق ہی نہیں دیا.ارادے تو بلند بانگ ہی ہوں گے.تو مومن سے اللہ تعالیٰ جو توقع رکھتا ہے اس کے پیش نظر ہم سکیم بناتے ہیں.لیکن جہاں تک توفیق کا تعلق ہے کائنات کا جو نظام

Page 225

۲۰۵ جاری ہے، اس کے مطابق ہی ملا کرتی ہے.رفتہ رفتہ ہی توفیق ملا کرتی ہے.تو جو اندازہ تھا کہ دو چار سال میں پھل نکلے گا اس سے بہت پہلے خدا کے فضل سے پھل نکلنا شروع ہو گیا.اس پر وہی مثال یاد آگئی کہ ایک بادشاہ نے ایک بوڑھے سے سوال کیا تھا کہ یہ جو تم آج کھجور کے درخت لگارہے ہو اس کا پھل تو تمہارے مرنے کے بعد پیدا ہونا ہے.دیوانے ! تم نے یہ کیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے؟ اس نے کہا بادشاہ سلامت! دیوانہ نہیں ہوں.میں نے ان کا پھل کھایا جو مر چکے.وہ لگا کر ہمارے لئے چھوڑ گئے تھے.اگلے آئیں گے تو میرے ہاتھ کا لگایا ہوا پھل کھائیں گے.اس طرح ایک نسل کے احسان کا بدلہ دوسری نسل کو ادا کیا جاتا ہے.بادشاہ کے منہ سے بے اختیار ز ہ نکل گیا کہ کیا خوب.اور اپنے وزیر کو اس نے حکم دے رکھا تھا کہ جب میں زہ کہہ دوں تو ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی اس کو فوراً پکڑا دیا کرو جس سے خوش ہو کر میں نے زہ کہا ہو.وہ تھیلیاں بادشاہ کے ساتھ رہا کرتی تھیں.اس نے فوراً ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی اس بڑھے کو پکڑا دی.بڈھے نے آگے سے کہا بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے کہ یہ درخت میرے مرنے کے بعد پھل دیں گے.انہوں نے تو میری زندگی میں ابھی پھل دے دیا.بادشاہ نے کہا زہ تو وزیر نے دوبارہ اسے تھیلی پکڑا دی.اس نے کہا بادشاہ سلامت ! میں یہ عجیب واقعہ دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کی کھجوریں تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتی ہیں میری کھجوروں نے تو دو دفعہ پھل دے دیا.بادشاہ نے کہا زہ.جب وزیر تھیلی پکڑا رہا تھا تو اس نے کہا یہاں سے چلو ورنہ یہ بڑھا ہمارے سارے خزانے خالی کر دے گا.پس آپ بھی ان نعمتوں پر اپنے خدا کا اس طرح شکر ادا کریں کہ خدا کے منہ سے ہمارے لئے زہ نکلے اور ہم بے انتہا رحمتوں اور فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.یہ وہ بادشاہ ہے جس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہو سکتے جو اس جگہ کو چھوڑ کر کبھی دوسری جگہ نہیں جایا کرتا ، جہاں اس کے بندے شکر گزار ہوں.وہاں فرشتے ڈیرے ڈال دیا کرتے ہیں.وہاں 'زہ کی بارش ہونے لگتی ہے.شکر ادا کرنے والا دل مانگنا چاہئیے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو تھوڑی تھوڑی تحریکات شروع کیں وہ اتنی پھیلیں اور ان میں اتنی برکت پڑی.وہ کس طرح پڑی؟ اس لئے کہ آپ شکر کرنے والا دل رکھتے ہیں.بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بے حد ذ کر کر کے ساری جماعت کو سناتے تھے اور بار بار خدا کی طرف سے زہ زہ کی آواز میں بلند ہوتی تھیں اور فرشتے تعمیل حکیم ربی میں رحمتوں کے اور خزانے کھولتے جاتے تھے اور کھولتے چلے جارہے ہیں اور ہمیشہ کھولتے چلے جائیں گے.

Page 226

پس مجلس انصار اللہ کی حیثیت سے ہمیں بھی شکر ادا کرنے والا ایسا دل مانگنا چاہیے کہ جو آئندہ خدا کی بے پناہ ، بے انتہا رحمتوں کی ضمانت دینے والا دل ہو.ہمارے اپنے بس میں کچھ بھی نہیں ہے.جو بھی معمولی سی کوشش ہوئی ہے.بالکل ادنیٰ سی کوشش ہے لیکن اس کا پھل جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، اعداد و شمار میں کسی کو معمولی نظر آئے مگر ہر احمدی جس کا دل شکر کی عادت رکھتا ہے.وہ جانتا ہے کہ جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا، محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصیب ہوا ہے.۱۳۲ تمہیں خود مبلغ بننا پڑے گا گزشته سال ۱۹۸۰ء میں وہ مجالس جنہوں نے مذاکروں میں حصہ لیا یا نذا کرے کرائے ان کی تعداد تھی اور تین سال پہلے چند گنتی کی مجالس تھیں.۱۳۲ پر بھی ہمارا دل بے حد شکر سے خدا کے حضور جھکا.لیکن ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد خدا کے فضل سے ۸۲۷ ہو چکی ہے.ہر ضلع میں بے حد ڈیمانڈ (DEMAND) پیدا ہوگئی ہے.اس لئے اب مرکز والے سوچ رہے ہیں کہ جو سکیم شروع کر بیٹھے ہیں، اس کو نباہ بھی سکیں گے یا نہیں اور یہاں سے آدمی نہیں مل سکتے اور واقعہ یہ ہے کہ آدمی مل بھی نہیں سکیں گے.کیونکہ یہ سکیم حضرت مصلح موعود کی جاری کردہ حکیم ہے کہ ہر گھر مبلغ بن جائے.ہر گھر میں مجلسیں لگ جائیں.آخر آپ جانتے تھے.بڑے حساب دان تھے.سیکنڈوں میں لاکھوں کروڑوں کا حساب زبانی کرلیا کرتے تھے جبکہ حساب دان حیران رہتے تھے کہ ہم قلم ، دوات اور کاغذ لے کر اتنا حساب نہیں کر سکتے جتنا حضرت صاحب زبانی کر لیتے ہیں.تو چونکہ حساب دان تھے اس لئے ساتھ ہی آپ نے جماعت کو متنبہ فرما دیا کہ دیکھو! مربی پر انحصار نہیں کرنا، مرکزی علماء پر انحصار نہیں کرنا، جو سکیم میں تمہیں دے رہا ہوں اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ مرکز اتنے آدمی مہیا کر دے کہ جو ہر گھر میں پہنچ کر آپ کی مدد کریں.آپ نے فرمایا تمہیں خود مبلغ بننا پڑے گا.تمہیں خود خدا کا پیغامبر بننا پڑے گا اور اس کے لئے تیاری کے سلسلہ میں آپ نے وہی بات کہی جس قسم کا اقتباس کل آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات میں سے سنا تھا.آپ نے فرمایا کہ تم میں جو بھی طاقت ہے اس کے ساتھ تبلیغ شروع کرو.اسلام تمہیں تکلیف مالا طاق نہیں دیتا.تمہیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ تم پہلے بڑے عالم بنو علم کی تو کوئی حد بھی نہیں ہوتی.بظاہر کوئی کتنا بڑا عالم بن جائے.علم کے ایسے بے شمار سمندر باقی ہیں جہاں سے ایک قطرہ بھی اس نے نہیں چکھا ہوگا.تو فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے، اپنی طاقت کے مطابق وہ لے کر تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہو.ہر گز انحصار نہیں کرنا.خوف نہیں کھانا.فرمایا تو کل یہ ہے اور توکل کا راز اس بات میں ہے کہ خدا نے جو تمہیں دیا ہے وہ اس کی راہ میں دے دو.اس لئے

Page 227

۲۰۷ انتظار بالکل نہیں کرنا.کسی جاہل کے لئے کسی بے علم کے لئے اب کوئی عذر نہیں ہے کہ جب تک مجھے علم نہیں ہوگا، میں تبلیغ نہیں کرسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتنی پیاری بات فرمائی.آپ نے فرمایا کہ دیکھو! حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو صحابہ اور غلام عطا ہوئے تھے ، وہ تو امی تھے اور اُمی بن کے انہوں نے دنیا کو علم دینا شروع کر دیا اور وہ مسیح جس کے نام پر میں آیا ہوں، اس کے ماننے والے بھی ان پڑھ محض تھے اور اس کے باوجود وہ تبلیغ سے باز نہیں آئے.ان کو جو کچھ علم تھا اور معرفت تھی اس کو لے کر وہ نکل کھڑے ہوئے.اصل تبلیغ کی دولت تقویٰ ہے نہ کہ علم فرمایا اصل تبلیغ کی دولت تقویٰ ہے نہ کہ علم یتم تقویٰ کے ساتھ نکل کھڑے ہو تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بہت برکت پڑے گی.اس ضمن میں میں ایک مثال کئی دفعہ مجالس کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں.بہت پیاری مثال ہے.میں ایک دفعہ مانگٹ اونچے گیا.وہاں کے جہاں خاں صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ صحابی جنہوں نے آپ کے وصال سے پہلے آخری بیعت کی ہے.وہ ابھی زندہ تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں احمدیت کس طرح آئی تھی ؟ بہت سادہ پنجابی میں بات کرنے والے تھے ، بڑے پیارے انداز میں.انہوں نے کہا کہ پیغام اس طرح پہنچا تھا کہ ایک دفعہ جب ہماری آنکھ کھلی تو ایک مسافر دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا اور گنڈی کھٹکھٹا کر کہہ رہا تھا کہ امام مہدی آ گیا ہے.جس نے ماننا ہے، مان لے.جس نے نہیں ماننا اس کی مرضی.میں نے حجت پوری کر دی.گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر وہ مسافر چلا گیا.لیکن اس کے دل میں کوئی ایسا جذبہ ایمانی تھا، ایسا تقومی تھا جسے خدا نے قبول فرمایا اور پھر فرشتوں نے وہ کنڈیاں کھٹکھٹانی نہیں چھوڑیں جب تک وہ لوگ احمدی نہیں ہو گئے.کثرت کے ساتھ وہ کنڈی کھلکھتی رہی جو ان کے دلوں کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے قادیان آدمی بھیجے اور وہ جا کر احمدی ہوئے.واپس آ کر انہوں نے پیغام دیئے اور جو سعید روحیں تھیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نجات پا گئیں.پنا تقویٰ اور دعا پر رکھیں تو کنڈی بھی نہیں کھٹکھٹائی جاتی کسی احمدی سے؟ اصل کنڈی تو خدا نے کھٹکھٹانی ہے.دلوں کا اختیار تو نہ میرے بس میں ہے، نہ آپ کے اور نہ دنیا کے کسی عالم کے بس میں.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم

Page 228

میں یہ راز کھول رہا ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب کر کے کہ اے محمد ! دل تیرے قبضہ میں بھی نہیں ہیں ، وہ میرے قبضے میں ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں ( دوانگلیوں کو یوں حرکت دے کے، پھیر کے ) کہ دل تو صرف میرے رب، اللہ کے قبضے میں ہیں.جس طرح دوانگلیوں میں کوئی چیز ہو اس طرح وہ جب چاہے ، ان کو پھیر دے، جب چاہے بدل دے.تو دلوں کو پھیرنا ہے ہی خدا کا کام.کبھی علم سے بھی دل پھرے ہیں؟.ایسے علماء میں نے دیکھے ہیں احمد یوں میں بھی جنہوں نے ساری عمر بعض لوگوں سے بحثوں میں ٹکریں لی ہیں اور اپنی طرف سے بڑی بڑی شکستیں دی ہیں مگر دل تبدیل نہیں ہو سکے.بعض مخالف ایسے ہوتے ہیں.اس لئے آپ بناء تقویٰ پر رکھیں اور دعا پر رکھیں اور کام شروع کر دیں اور بالکل نہ رکیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ اور غیر معمولی برکت بھر دے گا.مرکز آدمی بھیج سکتا ہے نہیں بھی بھیج سکتا.آ جائے تو بہتر ، نہ آئے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کام سے باز نہ آئیں اور یہ کام جاری رکھیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے گا.قیادت عمومی اب میں قیادت عمومی کے سلسلے میں ایک ایسی بات عرض کرنی چاہتا ہوں جس کا سب شعبوں سے تعلق ہے.چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تفصیل سے سمجھانے والی.رات میں نے ناظمین سے عرض کیا تھا کہ جب آپ کو یہ پیغام دیئے جاتے ہیں تو کچھ آپ بھول جاتے ہیں، کچھ آپ کے پیغامبر بھول جاتے ہیں اور ہمارا نظام پیغامبری کا بڑا ہی ناقص ہے.تبھی تو خدا تعالیٰ بڑی تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد چنتا ہے کہ کس کو حق ہے پیغام پہنچانے کا؟ ہر کس و ناکس کو حق ہی نہیں ہوتا.بڑی محنت کرنی پڑتی ہے پیغام رسانی میں.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ ایک دفعہ جماعت کی تربیت کے سلسلے میں بتا رہے تھے کہ پیغام رسانی اتنا مشکل کام ہے کہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے.جب پرنس آف ویلز ہندوستان آیا تو فوج میں پیغام رسانی کا ایک مقابلہ ہوا.ایک طرف صرف یہ پیغام دیا گیا تھا کہ پرنس آف ویلز آ گئے ، دوسری طرف سے وہ پیغام یہ بن کر نکلا کہ دو پیسے مل گئے تو اس سے اندازہ کریں کہ لوگ پیغا موں کو کس طرح بگاڑا کرتے ہیں.صحیح پیغام پہنچانا محنت کا کام ہے تو اس پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے.اس لئے ایک تو میری یہ گزارش ہے کہ ناظمین اضلاع اور تمام عہد یداران اس کو بہت اہمیت دیں.اب حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے

Page 229

۲۰۹ خطاب فرماتا ہے.ہماری طرف سے نوٹ ہو کر چھپے گا، وہ الگ بات ہے.پہلے تو اپنے دل پر نقش کریں.جن کے پاس کاغذ پنسل ہے، وہ اس کا خلاصہ نوٹ کریں اور اپنا امتحان لیں کہ واپس جا کرکس حد تک جماعتوں کو وہ پیغام من وعن پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں.جب وہ چھپی ہوئی رپورٹ ملے گی تو پھر جائزہ لیں کہ کہیں دو پیسے مل گئے“ کا پیغام تو نہیں پہنچایا.صحیح پیغام پہنچانا محنت کا کام ہے اس کے لئے ذہن کو تربیت دینی پڑتی ہے.اس لئے اس کا آغاز اس طرح ہوگا کہ حضرت خلیفہ اسیح کی یہ تقریر جس میں حضور انصار، خدام کو ہدایات جاری فرمائیں گے، تمام عہدیداران ( صرف ناظمین اضلاع پیش نظر نہیں ہیں) ان کو ذہن میں مستحضر کرتے چلے جائیں اور بعد میں ذہنی جگالی کریں کہ کتنی تقریر ہمیں یاد رہی اور اس تقریر میں کتنے پیغام تھے اور پھر ان کو ان سب مجالس تک پہنچائیں جو خواہ حاضر ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں اور ہر ایک یہ کام کرے.یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے.امید ہے اس پر انشاء اللہ تعالیٰ پیغام رسانی کا بہت نیک آغا ز ہمارے ہاں شروع ہو جائے گا.تو دیکھا یہ گیا ہے کہ پیغام رسانی میں ابھی ہم بہت کمزور ہیں.چنانچہ جس طرح ایک زمیندار کرتا ہے کہ ایک طرف سے کھالے (نالی) میں پانی چلاتا ہے، پھر جا کے دیکھتا بھی ہے کہ پانی کھیت میں پہنچا بھی ہے کہ نہیں ، اس طرح مجلس مرکز یہ بھی کرتی رہتی ہے.ہدایتیں جاری کر کے صرف ہدایت دینے پر بناء نہیں کر بیٹھتی.مجالس میں جا کر دیکھتی ہے کہ پانی کا کوئی قطرہ پہنچا بھی ہے کہ نہیں.لیکن میں نے پیچھے جو دورے کئے ہیں، اس لحاظ سے اس کی رپورٹ تو بڑی افسوسناک ہے.کئی ہدا یتیں بڑی اچھی طرح سمجھائی گئیں ،لکھائی گئیں.جب مقامی مجالس سے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کو کوئی اطلاع ہی نہیں پہنچی تھی خبر ہی کوئی نہیں تھی اس لئے میں نے سوچا کہ میں بعض باتیں یہاں آپ کے سامنے کروں تا کہ آپ سب کو معلوم ہو کہ ہم کس نہج پر رپورٹوں کا کام چاہتے ہیں اور کس طرح رپورٹیں بنتی ہیں اور آئندہ کس طرح بنیں گی.جو رپورٹ فارم مجلس نے تیار کروایا ، اس پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہتی ہے.لیکن جب آپ دیکھیں گے تو اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ بہت ہی مشکل ہے.ہر شعبہ سے اتنی توقعات وابستہ کی گئی ہیں کہ اگر فل ٹائم (FULL TIME) زعیم انصار اللہ بھی ہو یعنی اس کام کے لئے اس کی زندگی وقف ہو، تب بھی بمشکل حق ادا کر سکتا ہے.اس کے حل کے طور پر مشورہ ہوا کہ اس کو آسان کر دیا جائے.تھوڑا کر دیا جائے.مگر کس کو کاٹیں، کس کو چھوڑیں؟ جب انسان چھری چلاتا ہے ،اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کتنا مشکل کام ہے.ہر شعبے میں ہر اندراج، اہم اندراج ہے اور اسے چھوڑا بھی نہیں

Page 230

۲۱۰ جاسکتا.تو اس کا ہم نے فی الحال یہ حل تجویز کیا کہ نسبتاً ایسا آسان فہم فارم تجویز کیا جائے جس سے لوگ ڈریں نہیں اور خوفزدہ ہو کر کام سے باز نہ آجائیں اور آسان کر کے ایسا طریق کار تجویز کیا جائے کہ رفتہ رفتہ مجالس ان سارے کاموں کو کر لیں.ان کو پتہ ہی نہ لگے کہ ہم نے کتنا مشکل کام کر لیا ہے.مشکل سمجھ کر اگر آغاز کریں گے تو نہیں ہو سکے گا.انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ HE DID NOT KNOW IT WAS IMPOSSIBLE SO HE WENT FORWARD AND DID IT.کہ ایک آدمی کو پتہ نہیں تھا کہ ناممکن کام ہے.وہ آگے بڑھا اور کر لیا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے کچھ بھی ناممکن نہیں تو چیزیں اپنے علم سے ناممکن بنتی ہیں.اگر یقین کامل ہو تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے تو کچھ بھی ناممکن نہیں.ہماری اصطلاحوں میں بعض چیزیں ناممکن ہوتی ہیں.اس لئے حوصلہ پیدا کرنے کے لئے ہم نے یہ تجویز سوچی ہے.اب میں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں.شعبوں کو کارکنان نے کس طرح پڑھنا ہے اور کس طرح ان پر عمل کرنا ہے اور کس طرح کروانا ہے.اب مثلا تعلیم ہے، تعلیم میں بہت سے اندراجات ہیں.بعض لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں.ہماری مجلس ان پڑھ ہے.ہم دو بابے بوڑھے ) ہیں ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جب میں ان سے سوال کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے اور وہ خودمان لیتے ہیں کہ ہاں کام کی گنجائش تھی.ہمیں خیال ہی نہیں آیا.یہ سمجھانا ناظم ضلع اور ان کے کارکنوں کا کام ہے اور اپنے زعماء کی تربیت کریں اور ان کو بتایا جائے کہ کس طرح کام کرنا ہے.مثلاً ایک صاحب تھے.انہوں نے کہا کہ میں ان پڑھ ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں اس مجلس میں اکیلا ہوں.مجلس موجود ہے.میں نے کہا آپ کا کوئی بچہ پڑھا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا، ہے اللہ کے فضل سے.میں نے کہا پھر آپ پڑھانے کی بجائے پڑھنا شروع کر دیں.یہ بھی تو تعلیم ہے.اپنے بچے سے کہیں کہ دیکھو! میں نے تم پر کتنے احسان کئے ہیں.میں خود ان پڑھ تھا لیکن تمہیں پڑھنے والا بنادیا اور میرے اس احسان کی وجہ سے تمہاری آئندہ نسلوں کی تقدیر بدل جائے گی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم احسان کا بدلہ اتارو.تفسیر صغیر پکڑو اور مجھے اس کے سبق دینے شروع کرو.بچے کی بھی تربیت ہورہی ہوگی، آپ کی بھی ہو رہی ہوگی اور آپ رپورٹ میں یہ کھیں گے کہ سو فیصدی انصار یعنی ایک ، خدا کے فضل سے تفسیر صغیر کا مطالعہ کر رہے ہیں.جن مجالس میں ہزار انصار ہیں ان سے آپ آگے بڑھ جائیں گے فیصدی کے حساب سے تو کتنا آسان کام ہے.وہ کہنے لگے بہت آسان ہے.میں انشاء اللہ کروں گا.

Page 231

۲۱۱ آسان کام کے ذریعے کام کو آگے بڑھائیں تو میری مراد یہ ہے کہ ہر مجلس کی توفیق دیکھ کر اس کے لئے لائحہ عمل میں سے ایسا کام تجویز کرنا جو اس کی طاقت میں ہو اور وہ بشاشت کے ساتھ اس کو قبول کرے اور کہے کہ ہاں میں اس کو کرسکتا ہوں، یہ ہے ایک حکیم، صاحب نظر ناظم ضلع کا کام اور اسے اپنے ساتھیوں کوٹرینگ دینی پڑے گی.ناظم ضلع اکیلا تو ہر جگہ پھر نہیں سکتا.کوئی کہیں کام کر رہا ہے، کوئی کہیں کام کر رہا ہے.ایک ٹیم بنانی پڑے گی.اپنے کام کو آسان کرنا پڑے گا.پھر اس آسان کام کے ذریعے کام کو آگے بڑھانا پڑے گا.پھر یہ بھی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کتنی مجالس میں کتنی دیر میں پہنچیں گے.ضروری نہیں ہے کہ پہلے سال ہی تمام مجالس تک اس ٹیم کی بھی پہنچ ہو سکے.کیونکہ بہت کام ہے.آگے جا کر میں بتاؤں گا.چھوٹا چھوٹا کام بھی بہت بڑھ جائے گا.تو حصہ رسدی تقسیم کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مجلس کے سپر دسارے شعبے پہلی ہی ملاقات (VISIT) میں، پہلی دفعہ ملنے پر نہ کئے جائیں.مثلاً ایک آدمی ہے.اگر آپ نے اس کو تھوڑ اسا تعلیم کا کام دے دیا اور گنڈے کھٹکھٹانے کا کام بھی دے دیا تو اس پر کافی بوجھ ہے.جس کو عادت نہیں، اس کے لئے تھوڑا سا بھی کافی بوجھ ہوا کرتا ہے.پہلے اس میں بشاشت پیدا ہونے دیں.اپنے مرکزی رجسٹر میں یہ کھیں کہ فلاں مجلس ، جس کا یہ نام ہے، اس میں اتنے انصار ہیں.ان کے سپرد ہم نے تربیت تعلیم اور تبلیغ کے یہ یہ کام کئے ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم یہ کام کر سکتے ہیں.اگلا کام یہ ہے کہ یہ کام معین کرنے کے بعد وہ مرکز کو اطلاع کریں کہ فلاں مجلس سے آپ اس رپورٹ کی توقع رکھیں.اگر اس بارے میں وہ رپورٹ نہیں کرتی تو پھر وہ اپنے وعدے سے منحرف ہوگئی ہے پھر ہمیں لکھیں ، ہم جائیں گے.پس آپ ان مجالس کو سمجھا ئیں.ان کو کہیں کہ تمہارے لئے رپورٹ فارم خواہ کتنا چھپا ہوا ہو، اس وقت صرف اتنا ہے کہ تم نے یہ بتانا ہے کہ اپنے بچے سے کتنی دفعہ پڑھا تھا.تربیت کے ضمن میں کتنے گھروں کی کنڈیاں نماز پڑھوانے کے لئے کھٹکھٹائی تھیں اور پیغام مسیح موعود دینے کے لئے تم نے کتنے گھروں کو بیدار کرنے کی کوشش کی تھی.گفتگو کر لی.پیغام پہنچا دیا.جو تو فیق تھی ، کیا.اگر کوئی یہ رپورٹ مہینہ میں ہر روز نہیں کرتا اور پانچ دن ، دس دن بھی کرتا ہے تو ایک بڑی بھاری مضبوط رپورٹ بن جائے گی اور بڑی فائدہ مندر پورٹ ہوگی.جماعت احمدیہ کا ایک ذرہ بھی بیکار نہیں میں نے تربیت کے سلسلے میں ایک مثال پہلے بھی بیان کی تھی ، اب دوبارہ بیان کرتا ہوں.بوڑھے بریکار نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کا ایک ذرہ بھی بیکار نہیں ہے.جو بستر مرگ پر پڑے ہیں وہ بھی بیکار نہیں

Page 232

۲۱۲ ہیں کیونکہ بستر مرگ والوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو جس خدا کا تصور پیش کرتے ہیں، اس پر روح وجد میں آکر مست ہو جاتی ہے.حضور فرماتے ہیں کہ وہ بوڑھا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں اور آخری عمر کو پہنچ چکا ہو، جب وہ دعا کرتا ہے تو خدا شرما جاتا ہے کہ میں کیسے انکار کروں.دیکھیں! حضرت زکریا علیہ السلام نے اس فن کو کیسے استعمال فرمایا: رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَ لَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم:۵) کہ اے میرے آقا! میری تو ہڈیاں گل گئیں بڑھاپے کی وجہ سے اور سر بھڑک اٹھا ہے.لیکن اپنے بندے کا عجز بھی دیکھ اور اپنے بندے کا تو کل بھی تو دیکھ کہ آج تک دعا سے مایوس نہیں ہوا.ایسی عظیم الشان دعا تھی کہ عرش کے پائے ہلا دیئے اس نے.ناممکن کوممکن کر کے دکھا دیا.بوڑھا خاوند، بوڑھی بانجھ عورت اور اسی سے خدا نے کہا کہ ہم تجھے ایک بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں.پھر انہیں ایک عظیم الشان بیٹا عطا ہوتا ہے جو بیٹی بنادیا گیا.ہمیشہ کی زندگی پانے والا.چونکہ آپ کو شہادت نصیب ہوئی تھی اس لئے بیجی نام میں یہ پیشگوئی بھی موجود تھی کہ ہم تمہیں ایک ہمیشہ کی زندگی پانے والا بیٹا دے رہے ہیں.بہر حال جو بھی شکل ہے، میں کہتا ہوں، اگر دعا کا فن سیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا ایک ذرہ بھی بیکار نہیں ہے.ان بڑھوں کے پاس جا کر عاجزی کیا کریں کہ بابا! خدا کے لئے ہمارے واسطے دعا کرو.ہمیں کچھ تو فیق نہیں ہے.کام بہت زیادہ ہے.دعائیں کر کے ہمارے ساتھ شامل ہوں اور پھر رپورٹ میں لکھیں کہ فلاں ناصر بزرگ کے پاس جا کر دعا کروائی، اس کو بھی دعا کی عادت ڈالی اور اللہ کا فضل ہو گیا.اگر وہ پہلے دعا کا عادی نہیں تھا تو اب عادی بن گیا ہے اور ہمیں خدا کے فضل سے اس کی دعاؤں سے فائدے بھی پہنچنے شروع ہوں گے اور پہنچیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.کسی کو بریکار نہیں سمجھنا تو کسی کو بیکار نہیں سمجھنا.یہ ہے بہت ہی اہم بنیادی پیغام اور اس سلسلے میں آگے بڑھ کر آپ ان سے استفادے کی راہیں ڈھونڈیں.جب انسان کسی چیز کو بیکار سمجھ کر رڈی میں پھینک دیتا ہے تو اس کے فائدے کا سوچتا بھی نہیں.اور جو قو میں زندہ ہوتی ہیں وہ اپنی گندی سے گندی چیز کو بھی بیکار نہیں سمجھتیں ، ان سے بھی فائدے اٹھا جاتی ہیں.اب گند سے کھا د لی جارہی ہے.جاپان کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہاں غسل خانوں میں تھیلیاں لٹکی ہوئی ہیں پبلک کی جگہوں میں جہاں لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں اور زمینداروں نے خود بوتھ بنا کے تھیلیاں لٹکائی ہوئی ہیں.کہتے

Page 233

۲۱۳ ہیں ہمیں کھا د ملے گی.ہمیں اور کیا چاہیئے.اس لئے مسافر کو آرام مل جائے اور ہمیں کھا دمل جائے تو دونوں کا فائدہ ہے.اتنی احتیاط کرتی ہیں وہ قومیں جو ویسے اتنی امیر ہیں کہ وہ ہماری نسبت کروڑوں گنا زیادہ کھا د خرید کر استعمال کر سکتی ہیں، اتنی زیادہ امیر قومیں ہیں لیکن خدا کی کائنات کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتیں تبھی تو امیر ہوئی ہیں.ہماری طرح رہتیں تو امیر ہو ہی نہیں سکتی تھیں.جماعت احمدیہ کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراست کا بہت بڑا مقام ملا ہے.اپنا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہونے دینا یعنی اپنی طاقت کا.بہت بڑی طاقت ہے مسیح موعود کی جماعت.اس ساری طاقت کو آپ استعمال کریں تو آنا فانا انقلاب بر پا ہو جائے گا جس کے لئے خوا ہیں دیکھی جاتی ہیں کہ پتہ نہیں کب آئے گا؟ یہ عادت ڈالیں کہ ہم نے اس کو استعمال کرنا ہے.ہر احمدی فعال ہے.آپ تلاش کریں پس جب زعماء واپس جائیں گے تو اپنی اپنی سوچ، اپنی اپنی فکر کے مطابق ہر آدمی کے متعلق سوچیں کہ انصار اللہ کے کام میں اس سے میں کیا فائدہ اٹھا سکتا ہوں اور شعبہ وار فائدے کی کوشش کریں.میں نے عرض کیا تھا کہ سندھ کے ایک گاؤں ناصر آباد میں دو بابے (بڑھے ) تھے ایک ہدایت اللہ صاحب اور ایک عبد الحئی صاحب زعیم کے والد ، ان لوگوں نے اُن کو ایک پرانے کپڑے کی طرح پھینکا ہوا تھا کہ جی ، یہ اس قسم کے تو بابے ہیں.ہم کام کیا کریں.میں نے کہا میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں ، ابھی ان سے سوال کرتا ہوں اور آپ کو پتہ لگ جائے گا.ان سے میں نے پوچھا کہ آپ پانچ وقت نماز پہ آتے ہیں نا.انہوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے فضل سے آتے ہیں.یہی کام ہے اور ہم نے کیا کرنا ہے.بڑھے ہو چکے ہیں.میں نے کہا نماز پہ آتے وقت کچھ لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا سکتے ہیں کہ میاں ! نماز کے لئے آؤ.کیوں نہیں آتے.مسجد قریباً خالی تھی ، جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں بہت تھوڑے لوگ تھے.انہوں نے کہا اور ہمیں کیا چاہئے ، ہماری زندگی کام آ جائے گی.ہم تو بریکار بیٹھے وقت گزار رہے ہیں.ہمیں اور کیا چاہیے.ہمیں کام دیں.ہم کام کرتے ہیں اور اگلی دفعہ میں گیا تو مسجد خدا کے فضل سے صحن تک بھری ہوئی تھی ، ان دو کے دروازے کھٹکھٹانے سے.تو رڈی کا کوئی کپڑا بھی ہمارے پاس نہیں ہے.ہراحمدی فعال ہے.اس میں برکتیں ہیں.آپ تلاش کریں.آپ کو مل جائیں گی.اس لئے تربیت کے شعبے میں بھی آپ استفادہ کریں اور جب ناظمین زعماء کو سمجھانے کے لئے دورہ کریں تو ان کو صرف سمجھانا نہیں ہے، ان کو پریکٹیکل کر کے دکھانا ہے.ہمارے ملک کا معیار بہت چھوٹا ہے.یہاں صرف پیغام رسانی بھی کام نہیں آتی بلکہ پیغام رسانی

Page 234

۲۱۴ کے بعد ہاتھ سے پکڑ کر بتانا پڑتا ہے.اس لئے اس قسم کے دورے کروائیں.پہلے خود تربیت دیں.اس کے بعد ان کا نمائندہ اس گاؤں میں جا کے بیٹھے اور جو کہے، وہ کروا کے دکھائے اور پہلی رپورٹ بنوا کے دکھائے اور پھر مرکز کو مطلع کرے کہ ہم نے یہ کام فلاں گاؤں میں کر لیا ہے.اب ناظمین کہیں گے کہ جی، ہمارے پاس اتنے بڑے کام ہیں.ہم کس طرح کر سکتے ہیں.میں عرض کرتا ہوں کہ جس خدا نے یہ تعلیم دی ہے کہ لا یخلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ:۲۸۷) اس کی جماعت کا کوئی کارندہ بھی اس تعلیم کو بھلا کر آپ پر بوجھ نہیں ڈال سکتا.میں تو صرف اتنی گزارش کر رہا ہوں کہ آپ جو تو فیق پاتے ہیں ، اس کے مطابق اگر ایک سو میں سے پانچ مجالس کی بھی پہلے مہینے میں اس طرح تربیت کر سکتے ہیں تو پانچ کی کریں.پانچ مجالس میں سے دو کی کر سکتے ہیں تو دو کی تربیت کریں لیکن حکیمانہ انداز میں ان باتوں کو رجسٹر میں لکھ رکھیں.“ 66 آپ نے فرمایا "انشاء اللہ تعالی حضرت اقدس خلیفہ امسح سوا گیارہ بجے تک یہاں پہنچ جائیں گے.میں اس سے چند منٹ پہلے یہ خطاب ختم کر دوں گا.میں بھی حضور کے استقبال کے لئے باہر جاؤں گا اور باقی قائدین سب سابق باہر تشریف لا کر استقبال کریں.اس عرصے میں مکرم محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب کے سپرد ہو گا سٹیج.ان کی قیادت میں ہی آپ نعرے بھی لگائیں.اپنی محبت کا اظہار جس طرح بھی خلوص سے کرنا ہے، کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو بے حد پیارا اور محبت اور خلوص کی جزائے خیر عطا فرمائے جو خلیفہ وقت کے لئے ہر دل میں موجزن ہے.عہد کو نباہنا آپ کا کام ہے تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ تربیت کے معاملے میں ہم آپ پر ہرگز زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے.اتنا ڈالیں گے جو آپ کہیں گے کہ ہم یہ بوجھ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.اس کے مطابق جب آپ یہ عہد کر لیں تو اس عہد کو نباہنا تو بہر حال آپ کا کام ہے.تو ناظمین اضلاع مجلس عاملہ میں غور کر کے پہلے یہ جائزہ لیں کہ اگلے دو یا تین مہینے میں ہماری مجالس کی جو کیفیت ہے، اس کو کس حد تک بدلنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے.چھوٹے سے کام سے بھی وہ شرما ئیں نہیں.اگر وہ یہ کھیں کہ ایک مہینے میں ہم نے پانچ مجالس میں ایک ایک با جماعت نمازی کا اضافہ کر لیا ہے تو میرے نزدیک یہ بہت بڑا کام ہے.خدا کی عبادت مقصود زندگی ہے.اگر ایک ضلع یہ کہہ دے کہ ایک مہینے میں خدا کے حضور میں نے تحفہ پیش کیا ہے کہ پانچ احمدی

Page 235

۲۱۵ انصار یا جوان یا بچے جو باجماعت نما ز نہیں پڑھا کرتے تھے اب حاضر ہونے لگ گئے ہیں.یہ کوئی معمولی کام ہے؟ آپ نے تو مقصد پالیا.فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ کہنے کے مستحق ہو گئے.حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مقصد ہی اسی قسم کے چھوٹے موٹے کام ہیں.دنیا کی نظر میں چھوٹے ہوں گے لیکن انقلاب دنیا میں انہی کاموں سے برپا ہونے ہیں اور کسی چیز سے بر پانہیں ہونے.تو ناظمین یہ کام اس طرح شروع کریں.شعبه مال اگلا حصہ مثلاً وقف جدید یا تحریک جدید ہے.اگر پانچ آدمی چندہ دے رہے ہیں اور ایک چھٹے کا اضافہ ہوسکتا ہے تو تلاش کریں اور زعیم سے کہیں کہ کیوں نہیں اضافہ ہوا.وہ کہے گا کہ جی میری بات نہیں مانتے.آپ کہیں کہ اچھا میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.ساتھ چلیں ، منت کریں، پیار کی بات کریں ، لوگ مان جاتے ہیں ، بہت جلدی تیار ہو جاتے ہیں.یونہی وہم ہے.ایک مجلس کی مجھے رپورٹ آئی کہ جی وہ ساری مجلس قریباً نادہندہ ہے اور زعیم صاحب نے کہا کہ ان کا علاج ہی کوئی نہیں.یعنی لفظ خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ تو استعمال نہیں کیا مگر اس مفہوم کی جو سیاہی اُن کے منہ پر پھیری جاسکتی تھی، وہ انہوں نے پھیر دی تھی کہ یہ ایک گئی گزری مجلس ہے، اسے آپ بھول جائیں.آپ ہماری جواب طلبی کرتے رہتے ہیں.ہم آگے سے کیا کریں.میں نے اُن سے کہا آپ آرام سے بیٹھیں.میں نے قائد صاحب مال سے کہا کہ آپ پہلی چٹھی اپنے دستخطوں سے بھیجیں اور پھر مجھے بتائیں اور پندرہ بیس دن یا زیادہ سے زیادہ مہینہ ہی ہوا ہوگا ، ان زعیم صاحب کی طرف سے چٹھی آئی کہ سارے چندہ دینے لگ گئے ہیں.اب کتنی بدظنی تھی مسیح موعود کی جماعت پر.میرا تجربہ ہے کہ اکثر و بیشتر بہت اچھے ہوتے ہیں.الا ماشاء اللہ کچھ بہت سخت دل ہوتے ہیں مگر وہ بھی بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں.آپ منت اور زاری کے ساتھ ، پیار اور محبت کے ساتھ اس طرح کہیں کہ جی آپ وقف جدید کی تحریک میں حصہ لینے سے محروم ہیں.تھوڑا سا دے دیں.توفیق مل جائے گی پھر خدا آپ ہی بڑھا دے گا.وہ شامل ہو جائیں گے.یہی تحریک جدید کا حال ہے.چند پیسے بھی کوئی دے تو قبول کر کے اس دینے والے پر احسان کریں.پہلی اصلاح نیت کی صفائی اور یا کیزگی ہے جہاں تک مال کا تعلق ہے اس ضمن میں میں ایک بات خصوصیت کے ساتھ عرض کرنی چاہتا ہوں کہ اکثر مجالس کا بجٹ درست نہیں.اور یہ بہت تکلیف دہ شکل ہے.بجٹ کی صورت یہ ہے کہ بعض

Page 236

۲۱۶ اضلاع تو اتنے کمزور ہیں خدا تعالیٰ کے سامنے صحیح صورت حال پیش کرنے میں.خدا تعالیٰ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ چندہ تو وہ نہ مجھے دیتے ہیں نہ انصار اللہ کے انسپکٹر کو دیتے ہیں.نہ خلیفہ ایسیج کو دیتے ہیں.احمدی کا چندہ تو سارے کا سارا خالصتہ اللہ ہے.کوئی بھی درمیان میں اور وجود حائل نہیں.یہ حض واسطے ہیں.یہ کارکنان سلسلہ تو آپ کو تحریک کر کے خود بھی ثواب میں شامل ہو جاتے ہیں.اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں.وہ خادم ہیں.جس طرح گورنمنٹ کے محصل ہوتے ہیں ، وہ اپنی جیب میں تو چندہ نہیں ڈال سکتے.ان کے نام پر کب کوئی چندہ دیا کرتا ہے.اگر گورنمنٹ کسی پٹواری سے اپنا سایہ اُٹھالے تو وہ ناجائز تو الگ رہا، جائز بھی آپ سے نہیں لے سکتا.اس لئے کہ اس کا اختیار ختم ہو گیا.تو دیتے آپ کس کو ہیں؟ جب تک آپ اس بات کو مد نظر نہیں رکھیں گے ، اُس وقت تک مالی امور کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی.پس پہلی اصلاح نیت کی صفائی اور پاکیزگی ہے.کثرت کے ساتھ اس پیغام کو بار بار دوہرائیں اور نہ شرمائیں اس بات کی تکرار میں.بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں مالی اور جانی قربانی کی اتنی تکرار پائی جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا غیور انسان کہ کائنات میں اُس جیسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا.آپ کے منہ سے خدا نے اتنا سوال کروایا ہے، اتنا منگوایا ہے کہ دنیا میں کسی مانگنے والے نے کبھی اس طرح مختلف اداؤں کے ساتھ، مختلف طریق سے دنیا سے نہیں مانگا ہوگا کہ خدا کے لئے ، اپنے لئے نہیں.اپنے لئے تو آپ قرمایا کرتے تھے ، میں کوئی اجر تم سے نہیں چاہتا.اللہ کے لئے دو اور اس طرح دو جس طرح ايتاي ذی القربی ہوتی ہے.چندہ کی اصل روح یہ ہے چندہ کی روح.اس روح کو جب تک ہم لوگوں پر پوری طرح کھول نہیں دیتے ، اس وقت تک نہ بجٹ ٹھیک ہو سکتے ہیں، نہ چندوں میں برکت پڑسکتی ہے.نہ اصلاح احوال ہو سکتی ہے، نہ کسی دینے والے کو اس کا ثواب ملے گا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی یہ راز ہمیں سکھا دیا کہ دینا ہے تو کس طرح دینا ہے.حضور نے یہ جو فر مایا کہ مرا تم پر کوئی اجر نہیں ہے تو جب اس کے بعد انتَائِ ذی القربی کہا تو لازماً یہ مطلب نکلے گا کہ حضور اپنی ذات کو جب مستی کر بیٹھے ہیں تو اپنا اجر اپنے بچوں کو کس طرح دلوا سکتے ہیں.اپنے قریبیوں کو کس طرح دلوا سکتے ہیں.یہ تو اس طرح کی بات ہے جیسا کوئی پیسے لینے والا کہتا ہے مجھے نہ دو، میرے کلرک کو دے دو.یہ ممکن ہی نہیں ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے خلاف

Page 237

۲۱۷ ہے یہ ترجمہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ کہتے ہیں میں تو کسی اجر کا متقاضی نہیں.میرا اجر خدا پر ہے.میری اولاد کا اجر بھی خدا پر ہے.ان کو تو آپ نے ہمیشہ کے لئے صدقوں سے باز رہنے کا حکم دے دیا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پھر یہ ترجمہ کیا جائے کہ آپ میری اولاد کو پیسے دے دیا کرو، مجھے نہ دیا کرو.یہ میرا اجر ہے.نعوذ باللہ من ذلک.اصل کیا پیغام ہے.وہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے ہم پر کھولا اور معرفت کا ایک دریا بہا دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہ تشریح فرمائی کہ انتَائِ ذِی القربی سے مراد یہ ہے کہ دو خدا کو لیکن اس طرح نہ دینا گویا کہ نعوذ باللہ کوئی احسان ہو رہا ہے اور تمہارے دل میں اس سے کوئی بڑائی پیدا ہو کہ ہم نے دے دیا ہے.اس طرح دینا جس طرح بہت قریبی اپنے قریبیوں کو دیا کرتے ہیں جیسے مثلاً ماں اپنے بچہ کو دیتی ہے.ماں جب بچہ کو کچھ دیتی ہے اور بچہ آگے سے نخرہ کرتا ہے اور نہیں لیتا تو کیاماں یہ بجھتی ہے کہ شکر ہے پیسے بچ گئے.آرام آ گیا ، چلو اس نے نہیں کھایا، جائے جہنم میں.میری روٹی بچ گئی.ماں کا دل تو کٹ جاتا ہے،اس کی تو اپنی بھوک مرجاتی ہے.وہ کہتی ہے میرے بچہ نے آج نہیں کھایا.میں کیا کروں.کہاں جاؤں.کس حکیم کا دروازہ کھٹکھٹاؤں کہ میرے بچہ کا معدہ ٹھیک ہو جائے اور مجھ پر بوجھ ڈالے.مانگنے والا بچہ اسے زیادہ پیارا لگتا ہے.پس اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبى میں انسان اس طرح دیتا ہے کہ اگر قبول نہ ہو تو روتا ہوا واپس آتا ہے.قبول ہو جائے تو کھلکھلاتا ہوا ، اچھلتا کودتا ہوا واپس آتا ہے کہ الحمدللہ قبول ہو گیا.خدا کے حضور تو صرف پاک وصاف پہنچے گا غرض حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے جو معرفت کا ایک عظیم الشان نکتہ دیا تھا، الحمد للہ کہ آپ کے غلام نے آکر وہ نکتہ کھولا تو اس میں سے معرفت کا ایک سمندر نکل آیا.یہ مراد ہے کہ آپ یہ بھی سکھائیں کہ چونکہ آپ نے خدا کو دینا ہے اس لئے خدا کے حضور تو صرف پاک وصاف پہنچے گا.اور آپ نے اس طرح دینا ہے کہ جب نا مقبول ہو تب آپ روئیں.اس بات پر نہ روئیں کہ زیادہ مانگا جا رہا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اسکی مثال دے کر ایتائِ ذِي الْقُرْبی کے مضمون کو خود کھول دیا.فرماتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ایسے لوگ پہنچے جو غریب اور بے کس تھے اور جن کے پاس مال دینے کے لئے کچھ نہیں تھا.انہوں نے کہا ہماری جانیں پیش ہیں.اے خدا! تو وہ جان قبول کر لے جو تو نے ہمیں عطا کی ہے.جو چیز تو نے عطا کی ہے وہی ہم دے سکتے ہیں.ہمارے پاس مال کوئی نہیں.اور اُن کی جانیں قبول کرنے کے لئے بھی اسلام کو مال کی ضرورت تھی مثلا سواریاں.ہتھیار وغیرہ جن کو آگے بھیجوانا تھا.خدا گواہی دیتا ہے وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ

Page 238

۲۱۸ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَ أَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنَا أَلَا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ.( ترجمہ ) اور نہ ان لوگوں پر ( کوئی الزام ہے ) جو تیرے پاس اس وقت آئے جب جنگ کا اعلان کیا گیا تھا.اس لئے کہ تو اُن کو کوئی سواری مہیا کر دے.تو تو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر تمہیں سوار کراؤں اور (یہ جواب سُن کر ) وہ چلے گئے اور (اس) غم سے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ افسوس اُن کے پاس کچھ نہیں جسے (خدا کی راہ میں ) خرچ کریں.کسی پیار سے خدا نے اُن آنسوؤں کو دیکھا ہو گا.فرماتا ہے وہ میرے بندے روتے ہوئے واپس گئے کہ جانیں لے کر آئے تھے، وہ بھی رد ہو گئیں ، وہ بھی مقبول نہیں ہوئیں.کیا کریں کہاں جائیں؟ اپنے روپوں پر کبھی ناز نہ کرنا یہ ہے انتآئ ذی القربی اس طرح چندہ دیں گے خواہ وہ انصار اللہ کا ہو خواہ وہ تحریک جدید کا ہو.خواہ وہ چندہ عام ہو یا چندہ وصیت ہو.تو یہ چندے ہیں جن پر خدا کی محبت اور پیار کی نظر میں پڑیں گی.وہ روپے نہیں رہیں گے.وہ ساری کائنات کی دولتوں سے بڑھی ہوئی دولتیں بن جائیں گی.اس طرح پیش کرنے کا راز سکھا ئیں.مجھے چندہ کی زیادتی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود کی تعلیم جو میں نے سنی ہے خطبات کے ذریعے اور اب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث اس مسئلے کو جماعت پر اتنا کھول چکے ہیں کہ جماعت کے کام تو خدا نے کروانے ہیں تم اپنے روپوں پر کبھی ناز نہ کرنا.وہم میں بھی نہ مبتلا ہونا کہ ان پیسوں سے خدا نے کام بنانے ہیں.وہ خدا جو ساری جماعت کا خدا ہے یہی انصار کا بھی تو خدا ہے.انصار بھی تو جماعت کا ایک معمولی حصہ ہیں.اس لئے انصار پر بھی خدا اسی طرح فضل کرتا ہے اور پیسوں کی کمی نہیں آنے دیتا.ایمان میں کمی کا خطرہ ہے.جو کچھ دیا جاتا ہے اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ ناظمین اور ان کے کارندے زیادہ توجہ اس بات پر دیں اس سال خصوصیت کے ساتھ کہ وہ دوستوں کو چندہ کا فلسفہ سمجھائیں.ان کو بار بار بتائیں کہ جو کچھ دینا ہے اس کو پاکیزگی کے ساتھ دو اور یہ محسوس کر کے دو کہ جس خدا نے تمہیں دیا ہے، اس خدا کو تم دوبارہ حساب پیش کر رہے ہو.اگر جماعت یہ بات سمجھ جائے اور بہت سے عارف لوگ یہ سمجھتے ہیں.اور بھی آہستہ آہستہ سمجھ جائیں گے تو پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بجٹ غلط بنے.غلط بجٹ بنانے اور غلط آمدنی لکھوانے کی جرات تو کوئی تب کرے اگر نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ بھول جاتا ہو کہ اس نے اپنے بندے کو کیا دیا تھا مثلاً اگر کوئی باپ اپنے بچہ کو پچاس روپے مہینہ جیب خرچ دیتا ہو.وہ ایک دن اس سے کہے کہ مجھے کچھ ضرورت پیش آگئی ہے، تم پچاس روپے کا چوتھا حصہ مجھے واپس کر دو تو وہ بچہ آگے

Page 239

۲۱۹ سے کہے کہ ابا آپ نے تو مجھے صرف چار آنے دیئے تھے.تو چار آنے کے حساب سے ایک آنہ میں واپس کر دیتا ہوں.تو یا تو وہ بچہ پاگل ہو گا یا اپنے باپ کو پاگل سمجھ رہا ہوگا لیکن یا درکھو اپنے رب کو کوئی دھو کہ نہیں دے سکتا.کوئی آدمی خدا کو کس طرح دھوکہ دے سکتا ہے؟.پھر ایسی جرات ہی کیوں کرتا ہے جو خدا کو دھوکا دینے کے مترادف ہو.دراصل اس کا نفس اُسے دھوکا دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں خدا کو تو دھوکا نہیں دے سکتا لیکن یہ نا سمجھ چندہ لینے والے جو خدا کی نمائندگی کر رہے ہیں ، ان کو تو دھوکا دے ہی سکتا ہوں.پس وہ خدا کو براہ راست دھوکہ دینے کی بجائے اس کے مومن بندوں کو دھوکہ دے کر گویا بالواسطہ خدا کو دھوکہ دیتا ہے.ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو دھو کے دینے والوں میں ہی اپنے ماننے والوں کو دھوکا دینے والوں کو بھی شامل کر لیا.قرآن کریم کا یہ بہت ہی عظیم الشان نکتہ ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا کہ اللہ ہی کو نہیں اُن لوگوں کو بھی وہ دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایمان لائے ہیں.مراد یہ ہے کہ اللہ کو تو ویسے کوئی دھوکا دے ہی نہیں سکتا.کوئی اس کا سوچ بھی نہیں سکتا.اصل نفسیاتی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان لانے والوں کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں جو عملاً خدا کو دھوکا دینا ہوتا ہے.تو خدا فرماتا ہے نہ تم اللہ کو دھوکا دے سکتے ہو اور نہ ان لوگوں کو دے سکتے ہو جو ایمان لائے ہیں.خدا تعالیٰ سے جھوٹ نہیں بولنا.آمد صحیح بتا ئیں پس ایسے بجٹ بھی میرے علم میں آئے ہیں کہ احمدیوں کی اوسط آمد بعض ضلعوں کی ایک سو چھ روپے ماہانہ بنتی ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ مسیح موعود کی جماعت تو ایتاء کے لئے بنائی گئی تھی نہ کہ فقیر بنے کے لئے.خدا تعالیٰ تو جماعت پر اتنے فضل فرماتا ہے، اموال میں اتنی برکت دیتا ہے، اتنی رحمتیں کرتا ہے کہ آپ زکو تیں دینے کے بعد ٹیکس دینے کے بعد لازمی اور طوعی چندے دیتے ہیں.لیکن مذکورہ اضلاع کے بجٹ کی رو سے اگر ایک احمدی کی اوسطا ایک سوچھ روپے ماہانہ آمد ہے تو ایسے لوگ تو زکوۃ لینے والے بن گئے.کتنی بڑی ناشکری ہے اور کتنا بڑا بہتان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پر کتنا بڑا الزام ہے اللہ کی رحمتوں پر کہ مسیح موعود کی جماعت ایک ضلع میں ساری کی ساری زکوتی بن گئی ہو یعنی زکوۃ لینے والی بن گئی ہے دینے والی نہیں.حالانکہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم تو وہ بہترین امت تھے جس کو اس دنیا میں دوبارہ زندہ کیا گیا ہے تاکہ ساری دنیا پر احسان کرو اور ہر قسم کا فیض تمہاری طرف سے اُن کی طرف جاری ہو.ہوا بھی یہی ہے کہ خدا نے تو فضل کئے ہیں مگر آمد چھپانے والوں کے دل میں خیال ہی نہیں کبھی آیا کہ ہم

Page 240

۲۲۰ اپنے خدا کو اس کے فضلوں کا کیا جواب دے رہے ہیں.اس انتہائی تکلیف دہ صورت حال کا ایک علاج میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ اگر بعض کمزور دل چندہ کی شرح سے ڈرتے ہیں تو میں نے ناظمین کو بتا دیا ہے اور آپ سب سے بھی میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بے شک شروع میں شرح کے ساتھ چندہ نہ دیں.جو توفیق ہے وہی دیں لیکن خدا تعالیٰ سے جھوٹ نہیں بولنا.آمد صحیح بتا ئیں اور کہیں کہ ہمیں ہزار روپیہ ملتا ہے، ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم ایک روپیہ چندہ دیں گے.تو جب تک آپ کا بنایا ہوا دستور مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ چندہ معاف کر دوں، میں نے کہہ دیا ہے میں معافی کا اعلان پہلے ہی کر رہا ہوں.جو احمدی سچ بولے گا اور کہے گا کہ مثلاً میری ایک لاکھ روپے آمد ہے لیکن میں صرف ایک روپیہ دے سکتا ہوں، میں اسی وقت یہ اعلان کرتا ہوں کہ ایسے شخص سے ہم صرف ایک روپیہ پر ہی راضی ہوں گے لیکن اس کا بجٹ صحیح بنے گا اور بجٹ میں یہ لکھا جائے گا کہ آمد تو زیادہ ہے مگر مجلس فلاں شخص سے وصولی کے لحاظ سے صرف ایک روپے کی پابند ہے.اس گھلی رخصت کے بعد آمد غلط لکھوانے کی کون سی گنجائش باقی رہ جاتی ہے.اس لئے سب سے پہلے دلوں کی اصلاح کریں.سچائی کی عادت ڈالیں.یہ چھوٹا سا کام ایک نکتے میں جمع ہو جاتا ہے.اس میں اتنی برکتیں پڑیں گی کہ سارے شعبے اس سے سنور جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.سچائی کے ساتھ دیں گے تو آپ کے ایک پیسے میں بہت برکت ہوگی.جھوٹ کی ملونی ہوگی تو لاکھوں کروڑوں بھی بے برکت اور بے فائدہ ہوں گے اور اللہ کی سرکار میں قبول کے لائق نہ ہوں گے.(۶۹) ورزشی و علمی مقابلے اجتماع کے موقع پر علمی اور ورزشی مقابلے بھی ہوئے اور حضور انور نے اپنے اختتامی خطاب سے قبل ان مقابلوں میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والے انصار کو اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.تقریری مقابلہ: مکرم با بومحمود احمد صاحب حیدر آبا داول، مکرم بشیر الدین کمال صاحب راولپنڈی دوم، مکرم محمد شفیق صاحب بشیر آباد سوم - والی بال: ربوہ ٹیم اوّل ( کپتان مکرم چوہدری محفوظ الرحمان صاحب ).پنجاب ٹیم دوم ( کپتان میجر سید سعید احمد صاحب لاہور ).رسہ کشی : ربوہ ٹیم اوّل ( کپتان مکرم بشارت احمد صاحب).پنجاب ٹیم دوم ( کپتان مکرم عبدالستار صاحب خادم گوجرنوالہ ).کلائی پکڑنے کا مقابلہ: مکرم محمد اکبر صاحب بھیرہ اور مکرم بشارت احمد صاحب ربوہ اوّل، مکرم نوازش علی صاحب بھلوال دوم - گولہ پھینکنے کا مقابلہ: مکرم لطیف احمد صاحب فیصل آباداول، مکرم سراج الحق صاحب ضلع اٹک دوم - سومیٹر دوڑ : مکرم مہر جمیل احمد صاحب احمد نگر اوّل ، مکرم محمد یوسف صاحب چک ۳۸ جنوبی سرگودها دوم ، مکرم رفیق احمد صاحب کھاریاں سوم.میوزیکل

Page 241

۲۲۱ چیئر ریس: مکرم محمد اعظم صاحب اکسیر مربی سلسلہ گوجرانوالہ اوّل ، مکرم رشید احمد صاحب قریشی رحیم یار خان دوم.اختتام یہ اجتماع یکم نومبر بروز اتوار دن کے ایک بجے اگلے سال پہلے سے زیادہ کامیابی اور خیر وخوبی سے منعقد ہونے کے لئے اختتام پذیر ہو گیا.اختتامی روز حضور انور گیارہ بج کر اٹھارہ منٹ پر مقام اجتماع تشریف لائے.امسال انعام لینے والوں کے لئے ایک جگہ مخصوص کر دی گئی جہاں سے وہ نام پکارنے پر ترتیب کے ساتھ سٹیج پر آتے اور حضور سے انعامات لیتے.کارکردگی کے لحاظ سے اضلاع کے مقابلہ میں امسال بھی ضلع فیصل آباد اول رہا اور مکرم احمد دین صاحب ناظم ضلع نے حضور کے دستِ مبارک سے سند خوشنودی حاصل کی.دوسرے نمبر پر ضلع کراچی رہا.مکرم نعیم احمد صاحب ناظم ضلع کراچی موجود نہ تھے.اس لئے ان کے قائمقام مکرم شریف احمد صاحب وڑائچ نے سند خوشنودی حاصل کی.تیسرے نمبر پر ضلع سرگودھا رہا.ناظم ضلع مکرم چوہدری غلام رسول صاحب نے سند خوشنودی حاصل کی.۷۰ اختتامی تقریب تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا نے کی.بعد ازاں مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے سید نا حضرت مسیح موعود کا شیریں کلام ترنم سے سُنایا.اس کے بعد مکرم ثاقب زیر وی صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ لا ہوڑ نے اپنی تازہ ترین نظم بعنوان ” فریاد.رب عز وجل کی بارگاہ میں اپنی مخصوص لحن میں سنائی.اس کے بعد حضور انور نے انعامات تقسیم فرمائے.اختتامی خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں مجلس انصار اللہ میں زندگی کے آثار بڑھنے کا ذکر فرمایا اور پھر تَخَلَّقُوا بِأَخْلاقِ الله کے مضمون پر عارفانہ روشنی ڈالی اور اس ضمن میں صفات باری تعالیٰ کی روح پرور تشریح فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کرنے کے چار پہلوؤں کا ذکر فرمایا: اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے اور زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اس کی پاکیزگی کے ترانے گا رہی ہے.حضور نے فرمایا کہ صرف مذہب اسلام ذات خداوندی کا یہ اعلیٰ تصور پیش کرتا ہے.دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور تمام رزائل سے بکلی منزہ ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفاتِ حسنہ کے رنگ سے متصف ہو جانے کا حکم دیا ہے اس لئے اللہ نے ایسے سامان پیدا کر

Page 242

۲۲۲ دیئے ہیں اور انسان میں ایسی صلاحیتیں پیدا کر دی ہیں کہ وہ خدا کا رنگ اپنے اوپر چڑھا سکے.سوم یہ کہ اللہ کی ذات وصفات میں کوئی تضاد نہیں.یہ کائنات اللہ کی ذات وصفات کی مظہر ہے.ہر چیز خدا کی پاکیزگی بیان کرتی ہے اور اس لحاظ سے سارے عالمین کی ہر چیز انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے.ساری کائنات میں ایک مکمل توازن اور میزان قائم ہے.صرف اور صرف خدا کی واحد ذات ہے جو ہر چیز پر اثر ڈالتی ہے لیکن اور کوئی چیز اُس کی ذات پر انٹر نہیں ڈال سکتی.چہارم یہ کہ انسان اپنی ہر ضرورت خدا تعالیٰ سے طلب کرتا ہے.فطرتِ انسانی میں یہ ہے کہ خدا سے طلب کرے اور حقیقت کائنات یہ ہے کہ صرف خدا دینے والا ہے اور اس وقت تک لطف نہیں آ سکتا جب تک دینے والا خدا نہ ہو اور لینے والا انسان نہ ہو.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں جو یہ چاروں باتیں ہیں.ہماری جماعت کی ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ اور ساری جماعت کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اسے بھول کر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اے چنانچہ حضور نے فرمایا: ﴿21﴾ اللہ تعالیٰ کی صفت الحی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت الحق ہے.یعنی اپنی ذات میں زندہ اور ہر قسم کی زندگی اور حیات بخشے والا.ایک قسم یہ ہے کہ وہ انصار اللہ میں زندگی کے آثار بڑھاتا چلا جارہا ہے.پچھلے سال انصار اللہ کی جو مجالس اس اجتماع میں شامل ہوئیں، ان کی تعداد سات سو پچپن اور جو نمائندگان آئے ان کی تعداد گیارہ سو بیاسی تھی.سال رواں میں جو مجالس شامل ہوئی ہیں ، ان کی تعداد آٹھ سو بیایسیعنی ستاسی زیادہ اور نمائندگان تیرہ سو پانچ یعنی ایک سو تمھیں زیادہ.یہ آٹھ سو بیالیس مجالس شامل ہوئی ہیں اور کل مجالس نوسو چھتی ہیں.تو جو رہ گئی ہیں، ان کو اپنی فکر کرنی چاہئے اور ہمیں ان کی بہت فکر کرنی چاہئے.کل میں اس آج کی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کسی مضمون پر میں کچھ کہوں تو ایک بہت وسیع مضمون اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا.اتنا وسیع کہ مجھے بڑی کوشش کر کے سمیٹنا پڑا.اور بنیادی چار باتیں میں نے اس مضمون میں سے اٹھائی ہیں اور وہ مضمون تھا تَخَلَّفُوا بِأَخْلاقِ اللَّهِ الله تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی زندگی میں پیدا کرو.یہ بہت بڑا مضمون ہے.بنیادی طور پر خدا تعالیٰ کی صفات دو پہلو رکھتی ہیں.ایک تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا کہ وہ السُّبُوحُ ہے.عربی میں اس کا تلفظ دونوں طرح ہے ”س“ کی زبر کے ساتھ بھی اور پیش کے ساتھ بھی.اور الْقُدُّوسُ ہے.لغت میں ہے کہ اَلسُّبُوحُ اور الْقُدُّوسُ ساری عربی زبان اس

Page 243

۲۲۳ شکل میں صرف دو لفظ اپنے اندر رکھتی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے بار بار توجہ ہمیں دلائی کہ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ (الحشر آیت (۲۵) اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے.پاک اور منزہ ہے ہر عیب سے.اور مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اس کی پاکیزگی کے ترانے گاتے ہیں.دوسری بنیادی بات اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق قرآنی تعلیم میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے.تیسری بنیادی تعلیم خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق قرآن کریم میں یہ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں تضاد نہیں پایا جاتا.اور اس کا ذکر سورۃ الملک میں بھی ہے جہاں کہا گیا ہے کہ تمہیں کوئی تفاوت اور فتور نظر نہیں آئے گا.کوئی ایک چیز ایسی نہیں سارے عالمین میں،اس یونیورس (UNIVERSE) میں، اس کائنات میں کہ جو انسان کی خدمت کرنے سے انکار کرے.ہر لحاظ سے تضاد سے پاک اور اختلال اور وہن، کمزوری سے پاک.یعنی نہ اس میں کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی کمزوری.یہ جو تضاد نہیں بلکہ ہر چیز ایک دوسرے کی پیدائش کی جو حکمت ہے،اس کے ساتھ تعاون کرنے والی ہے.اس سے آگے ایک اور چیز نکلی کہ اس ساری کائنات میں ” میزان“ اور ” توازن پایا جاتا ہے.یہ بڑا عجیب اصول ہے قرآن کریم میں وَضَعَ الْمِيزَانَ ( الرحمن آیت : ۸ ) یعنی ساری کائنات میں تضاد نہیں، میزان ہے اور جوریسرچ اب ہو رہی ہے نئی سے نئی ، وہ اس حقیقت کا ملہ کو جو قرآن کریم نے بیان کی ہے، سچا ثابت کر رہی ہے.توازن کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں ، عالمین میں کامل نسبتیں قائم ہیں.“ ہر چیز خدا سے مدد مانگتی ہے ’ اور چوتھی بنیادی چیز خدا تعالیٰ کی صفات میں یہ ہے کہ ہر چیز اور اسی طرح انسان صرف خدا تعالیٰ سے اپنی ضرورتیں طلب کرتا ہے....یہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان کی بنیادی باتیں جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوئیں، ان میں سے میں نے چار اٹھا ئیں.اب ہماری اپنی زندگی ، جماعت احمدیہ کی زندگی جو بٹی ہوئی ہے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور ذیلی تنظیموں میں.انصار اللہ ہے ، لجنہ ہے ، خدام الاحمدیہ ہے.پھر خدام الاحمدیہ کے ساتھ اطفال لگے ہوئے ہیں.لجنہ کے ساتھ ناصرات لگی ہوئی ہیں.ہماری زندگی پر یہ

Page 244

۲۲۴ چاروں بنیادی حقیقتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور اگر ہم اس حقیقت کو بھول جائیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.“ پاک زندگی گزاریں وو اس کے بعد حضور نے نصیحت فرمائی کہ صفات حسنہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھاؤ.چنانچہ فرمایا: پہلی بات یہ تھی کہ ہر عیب سے پاک ہے خدا تعالیٰ اور اس پاکیزگی کے ترانے ساری کائنات گا رہی ہے.اللہ پاک ہے اور پاکیزگی کو وہ پسند کرتا ہے.ہمیں پاک زندگی گزارنی چاہئے.ہمارےسارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں کہ ہمیں پاک زندگی گزارنے کی تربیت دیں اور اس قابل بنا ئیں کہ ہم پاک زندگی گزارنے لگیں.اس کے لئے قرآن کریم نے جو تعلیم دی وہ نوا ہی میں ہے.نہ کرو.یعنی ہر گند سے بچالیا نا.گندہ کھانا مت کھاؤ وغیرہ وغیرہ.سارے نواہی ہیں.احکام قرآنی آگے دوحصوں میں منقسم ہوتے ہیں.ایک کا تعلق خدا تعالیٰ کی سبوحیت اور قدوسیت سے ہے اور دوسرا جوگر وہ ہے احکام کا، اس کا تعلق صفات حسنہ سے ہے.تو جن احکام کا تعلق خدا تعالیٰ کی سبوحیت اور قدوسیت سے ہے، انہیں ہم نواہی کہتے ہیں.جو گند کو دور کر کے اس قابل بناتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت انسان کی طرف مائل بہ توجہ ہو سکے.مثلاً ایک شخص جو خدا تعالیٰ سے پیار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے عشق میں مست ہے اس کو سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ اس کے محبوب اللہ کو گالی دے.اس سے زیادہ اور کوئی بات تکلیف دہ نہیں اس کے لئے ہو سکتی.گالیوں کا بدلہ لاٹھی سے نہیں پیار سے لینا اب اس وقت جماعت احمدیہ (یہ میں ایک اور بیچ میں بات لے آیا ہوں.پھر اُس طرف جاؤں گا) کے لئے سب سے زیادہ دکھ دہ دو باتیں بن گئیں.نمبر ایک اللہ تعالیٰ کے خلاف باتیں سننا اور گالیاں سننا.۷۴ء میں اور اب بھی مخالفین بہت گالیاں دیتے ہیں تو ہمارے نو جوان بڑے جوش میں آجاتے ہیں.میں ان کو کہا کرتا ہوں ( جو میں تعلیم اب بتا رہا ہوں آپ کو ) کہ جب ہم ان گالیوں کے بدلے لے چکیں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہیں ، پھر ان گالیوں کی طرف آئیں گے جو ہمیں دی گئیں ، پھر ان گالیوں کی طرف آئیں گے جو ہمیں دی جارہی ہیں.اس وقت تو جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا اپنی ذات کے متعلق.اور ان کا بدلہ لاٹھی سے تو ہم نے نہیں لینا.ان کا بدلہ یہ ہے، محمد رسول اللّہ صلی الہ علیہ وسلم کوبرا بھلا کہنے والے کا بدلہ یہ ہے کہ ہم اس شخص کے دل میں محمد کا پیار پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں.تو میں بتارہا تھا کہ سب سے زیادہ دکھ دہ بات ایک مسلم مومن کے لئے یہ ہے کہ اتنی عظیم ہستی جس

Page 245

۲۲۵ کی وہ معرفت رکھتا ہے، جس کی نعماء سے اس کی جھولیاں بھری ہوئی ہیں ، جو ہر دُ کھ کے وقت اس کے دُکھ درد کو دور کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے، جو اتنا پیار کر نیوالا ہے کہ اس کی خطاؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے موسلا دھار بارش کی طرح اپنی نعمتیں اس کے اوپر برسا رہا ہے ،اس کو کوئی گالیاں دینے لگ جاتا ہے.سب سے زیادہ دکھ وہ یہ بات ہے مگر حکم یہ ہے.لا تسبوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (الانعام : ۱۰۹) یہ میں نواہی میں سے، جو روکنے والی چیزیں ہیں ان میں سے سب سے سخت یہ لے رہا ہوں وَلَا تَسُبُوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ تو ساری نواہی جو کہتے ہیں نہ کر، نہ کر ، نہ کر ، یہ نہ کر، یہ نہ کر، یہ نہ کر.وہ ساری نواہی جو ہیں وہ انسانی زندگی سے گند کو اور نا پا کی کو دور کر نیوالی ہیں.اس واسطے ہمارے سارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نا پا کی کو دور کرنے والے ہوں.اللہ کی صفات حسنہ کا رنگ اختیار کرو اب میں اوامر کی طرف آتا ہوں.سب سے مقدم یہ ہے کہ صفات حسنہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھاؤ.خدا تعالیٰ اپنی صفات میں اور محامد میں من کل الوجوہ کامل ہے.اور قرآن کریم کے سارے اوامر ہر حکم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا رنگ ہمارے اوپر چڑھانے والا ہے.اگر ہم قرآن کریم کی تعلیم کو گلی طور پر فالو (FOLLOW) کر نیوالے ہوں إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (یونس آیت : ۱۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر وحی قرآنی کی اتباع کرنے والے ہوں تو ہماری زندگی ساری کی ساری ایسی ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ کے نور اور اس کی چمک دنیا کو نظر آئے.ربوبیت کی صفت پیدا کرو میں ساری صفات کا تو اس وقت ذکر نہیں کر سکتا، ایک کا کروں گا.جس طرح نواہی کے ضمن میں میں نے لیا تھا کہ لا تسبوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ اسی طرح اوامر میں جو وسعت کے لحاظ سے سب سے بڑی بات ہے، وہ امر میں لیتا ہوں.وہ امر ہے، ربوبیت.اللہ رب ہے.ہمیں کہا ہے کہ جہاں تک تمہیں خدا طاقت اور استعداد دے، اندرونی طور پر بھی یعنی اپنی سوسائٹی میں بھی اپنے ماحول میں بھی اور ساری دنیا میں بھی جہاں بھی مدد کی اور ربوبیت کی ضرورت ہو جہاں تک تمہیں خدا تعالی طاقت دے ، وہ تمہیں کرنی چاہیے.ہماری زندگی اپنے وسائل کے لحاظ سے محدود ہے ( میں نے ”ہماری جب کہا ”جماعت احمدیہ کی میری مراد ہے ) جماعت احمدیہ کی زندگی اپنے وسائل کے لحاظ سے محدود ہے لیکن اپنے فرائض کے لحاظ سے غیر محدود ہے.اس واسطے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 246

۲۲۶ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو رنگ ہمیں نظر آتا ہے وہ محض انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ کل کائنات کے متعلق آپ کی رحمت جوش مارتی نظر آتی ہے.ہمارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اس صفت پہ ہو کہ ہم نے پرورش کرنی ہے ( بہتوں کو شائد سمجھ نہ آئے میرے ذہن میں کیا ہے ) ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو ہمارے گھر میں پیدا ہوتا ہے اسلامی رنگ میں.ہم نے اسلامی رنگ میں پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو ہمارے ہمسائے میں پیدا ہوتا ہے.ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو ہمارے محلے میں پیدا ہوتا ہے یا ہمارے شہر میں پیدا ہوتا ہے.ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو اسلامی رنگ میں جو ہمارے ملک میں یا دوسرے ممالک میں پیدا ہوتا ہے.ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتا ہے اور ہم نے پرورش کرنی ہے (ربوبیت کی صفت اپنے میں پیدا کرنے کے لئے ) اس بچے کی جو جماعت احمدیہ میں نہیں بلکہ جماعت احمدیہ سے باہر دنیا کے کسی خطہ کسی جگہ کسی محلے کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے.یہ ہمارا آئیڈیل (IDEAL) ہے.آج ہمارے لئے یہ ممکن نہیں لیکن ہماری جد و جہد اور کوشش یہ ہے جو ہمارے لئے جو آئیڈیل مقرر کیا ہے خدا نے کہ تمہیں ایک دن ایسا کرنا ہوگا ، اس کے لئے تیاری کریں.استعدادوں کی کامل نشو و نما اس کے لئے صفات حسنہ پیدا کریں تو پہلے اپنی ذات آتی ہے.میں بڑی دیر سے کہہ رہا ہوں اب دہراؤں گا لیکن اختصار کے ساتھ کہ جسمانی ، دینی ، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں اور استعدادوں کی کامل نشو ونما کرنا فرض ہے ہر اس شخص کا جو ہم میں پیدا ہو اور ابھی اگر وہ بچہ ہے تو جو اس کے ذمہ دار ہیں اور گارڈین ہیں، ان کا یہ فرض ہے.اس کے بغیر ہم جو ایک وسیع فرض کا میدان ہے اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک ہم اپنے اندر، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کی نشو ونما کو کمال تک نہیں پہنچاتے ، ہم آگے بڑھ کر دوسروں کے گھروں میں نور اور حسن لے کے کیسے پہنچ سکتے ہیں.“ مجلس توازن کا قیام حضور نے ذیلی تنظیموں کے اندر توازن پیدا کرنے کی ہدایت دی.اس ضمن میں آپ نے مجلس توازن کے قیام کا اعلان بھی کیا چنا نچہ فرمایا: ”ہماری جو تنظیمیں ہیں ان کے اندر ایک توازن ہونا چاہئے.اس طرف ابھی تک توجہ شائد اس لئے نہیں تھی کہ ابھی ابتداء تھی ، نشو و نما تھی ، اس لئے میں نے انتظامی ڈھانچے میں بھی کچھ تبدیلیاں

Page 247

سوچی ہیں.۲۲۷ ایک تو مجلس توازن میں قائم کرنا چاہتا ہوں جس میں جماعت احمدیہ، انصار اللہ اور خدام اور لجنہ کے نمائندے (جس شکل میں بھی ہوں ) آئیں اور وہ میزان پیدا کریں.ہماری ایک تو مظہر ایسوسی ایشن ہے ، ایک تو جماعت ہے وہ سب کے اوپر حاوی ہے اور نیچے دوسری ایسوسی ایشنز ہیں.ہم سب ( صدرانجمن احمد یہ اور ذیلی تنظیمیں) ایک جہت کی طرف پورا زور لگا کر ہی کامیاب ہو سکتے ہیں.جس طرح رسہ کشی میں سارے رسہ کھینچنے والے ایک ہی طرف زور لگار ہے ہوتے ہیں.اگر پانچ اینگل (ANGLE) کا بھی فرق پڑ جائے کسی ایک رسہ کھینچنے والے کا تو ٹیم ہار جاتی ہے.ایک سدھائی میں وہ رسہ کھینچا جائے تبھی ٹیم جیتی ہے ورنہ نہیں جیتی.اس واسطے ایک سدھائی کی طرف ایک سیدھا پوائنٹ یعنی مقصد کا درجہ رکھنے والا نقطہ مرکزی ہمارے سامنے ہے.ضروری ہے کہ صراط مستقیم پر چل کے نقطه مرکزی یعنی اصل مقصد کی طرف آگے بڑھ رہے ہوں.ایک نئی بنیادی بات مجلس توازن کا میں اعلان کر رہا ہوں.یہ ایک مہینے کے اندر قائم ہو جائے گی.صدرانجمن احمد یہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ ذمہ دار ہیں اور پھر لجنہ سے بھی مشورہ کریں.“ انصار اللہ کے نظام میں تبدیلی اس کے بعد حضور نے مجلس انصار اللہ کے نظام میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اب مرکز میں مزید چار نائب صدران ہوں گے جن کے ذمہ شعبہ جات کی نگرانی ہوگی اور وہ مہینے میں ایک دفعہ حضور کور پورٹ بھجوانے کے پابند ہوں گے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کا رنگ اپنے اخلاق پر چڑھانا.یہ عمل اعمال صالحہ میں آتا ہے.یہ عقیدہ نہیں ہے، اعمال صالحہ میں ایک تو انفرادی اعمال ہیں ، دوسرے اجتماعی اعمال ہیں.ان سارے اجتماعی اعمال کو اصل مقصد یعنی ٹارگٹ پر پوری طاقت کے ساتھ ہٹ (HIT) کرنا چاہئے.یہ نہیں کہ خدام الاحمدیہ کہیں بٹ کر رہی ہے اور انصار اللہ اور لجنہ کہیں اور ہٹ کر رہے ہیں.اس واسطے مجلس توازن ایک دوسرے کی نگرانی کرے گی.اب جو میں دوسری بات کہنے لگا ہوں ، وہ اور ہے.(حضور انور نے محترم صدر صاحب انصار اللہ سے یہ دریافت کرنے کے بعد کہ صدر کے نیچے کتنے شعبے ہیں، فرمایا ) صدر کے نیچے چودہ شعبے ہیں اور بہت سی نصیحتیں ان کو کی گئی ہیں.میں ان کا ہدایت نامہ کل لے گیا تھا.وہ میں نے کل دیکھا تو پھر میں نے سمجھا کہ اس میں کوئی ترمیم کرنی میرے لئے مشکل ہے.مجھے سارا کچھ بدلنا پڑے گا.میرا خیال ہے کہ ہر شعبے کے قائد کو بھی یاد نہیں

Page 248

۲۲۸ ہوگا.اگر میں انہی کو پوچھوں کہ بتاؤ کتنی ہیں تمہاری لکھی ہوئی ہدایات تو وہ مجھے نہیں بناسکیں گے.یہ طریق یعنی وعظ کر کے خاموش ہو جانا، یہ پرانے زمانے کے واعظوں کا تو کام ہوگا، نہ خلیفہ وقت کا یہ کام ہے، نہ خلیفہ وقت کے جوارح یعنی عہدیداروں کا یہ کام ہے.ان کا کام تو ہے عمل معمل عمل.عمل کے لئے میں نے سوچا کہ جو اس وقت صدر اور نائب صدر ہیں ان کے علاوہ چار چار نائب صدر ہوں گے اور ان کے ذمے ایک سے زائد شعبے ہوں گے تین تین چار چار اور وہ مجھے مہینے میں ایک بار صرف یہ رپورٹ دیں گے کہ ان شعبوں میں کیا کام ہوا.یعنی عمل کے متعلق ہر مہینے رپورٹ دیں گے اور ہر مہینے مرکز میں ایک دفعہ مجلس توازن کی یہاں میٹنگ ہوا کرے گی.جب مجھے توفیق ہوگی میں بھی بیچ میں بیٹھوں گا.ہر مہینے باہر سے بھی لوگ آئیں گے اور ہر مہینے اس میں جو ممبر نہیں ، ان کے ایک حصے کو بلایا جائے گا.مثلاً سارے پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر سہ ماہی میں ایک حصہ آجائے گا.یعنی ہر سال میں ایک دفعہ وہ یہاں آئیں گے.ان کے سامنے باتیں ہوں گی اور جلسہ سالانہ پر غیر ملکیوں کو بھی بیچ میں شامل کیا جائے گا.“ جسمانی صحت کے لئے سکیم حضور نے لجنہ ، خدام اور انصار کی جسمانی صحت کے لئے بھی ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھی چنانچہ فرمایا: لجنہ کے لئے کلب بنا ئیں اور یہ عمل کی اب میں بات کر رہا ہوں.یعنی صفات حسنہ کا رنگ ہو اور اس میں تضاد نہ ہو.میں نے لجنہ سے کہا کہ ہر لجنہ مرات لجنہ کے لئے کھیل کو د اور ورزش کے لئے ، وہاں بیٹھنے کے لئے ، باہم نیکی کی باتیں کرنے کے لئے ) کوئی کلب بناؤ.یہ اب سات، آٹھ سو کلبز چھ مہینے یا سال میں نہیں بن سکتیں.اس واسطے درجہ بدرجہ ہم آگے بڑھیں گے.پہلا درجہ یہ ہے کہ کم از کم پنجاب کی ہر تحصیل میں ایک ایک کلب بن جائے.اور اس کے ذمہ دار لجنہ کے علاوہ انصار اور خدام الاحمدیہ ہوں.تو یہ جواب مجلس توازن بنے گی ، ان کا کام ہے کہ اسے پورا کریں.میں عمل چاہتا ہوں.اس سال ہر تحصیل میں لجنہ کی ایک کلب قائم ہو جائے.خدام کے لئے کھلی زمین مل جائے اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ کو تو کھلی زمین ہی مل جائے ، دیوار کی ضرورت نہیں.ہر ایسی مجلس میں

Page 249

۲۲۹ جہاں بہت تھوڑے خدام نہیں کافی ہیں، وہاں وہ اکٹھے ہوں.وہاں میروڈ بہ کھیلیں، گلی ڈنڈا کھیلیں، ایک بڑی اچھی ورزش ہے بہت ہی اچھی، جو انڈونیشین سٹوڈنٹس (جب میں پڑھا کرتا تھا ) مدرسہ احمدیہ میں لے آئے تھے اور میں بھی وہاں ان کے ساتھ کھیلتا رہا ہوں.وہ کھیل بڑا چوکس دماغ رکھ کے کھیلنی پڑتی ہے، وہ خدام الاحمدیہ کو سکھانے کے لئے یہاں سے گاؤں گاؤں لوگ بھیج دیں گے.یہ بڑی معصوم کھیل ہے، کوئی چیز نہیں چاہیئے.بس زمین چاہیئے اور ایک چھوٹی سی سوٹی چاہیئے لکیریں ڈالنے کے لئے اور اپنے ہاتھ چاہئیں اور دماغ.اور بڑی ورزش ہو جاتی ہے.دوڑیں، چلیں ، ہر روز ورزش کریں.صحت کے لئے متوازن غذا بھی ، بیلنسڈ ڈائٹ (BALANCED DIET) بھی چاہئے اور اس کا ہضم کرنا بھی ضروری ہے.ورنہ بنیوں کی طرح اتنا بڑا پیٹ سارے جسم سے بھی بڑ انکل آتا ہے.وہ ٹھیک نہیں ہے.انصار کے لئے بہترین ورزش سیر کرنا ہے اور انصار جو ہیں جو بڑی عمر کے انصار ہیں.انصار کے دو حصے ہیں عمر کے لحاظ سے بھی اور صحت کے لحاظ سے بھی.جو صحت اور عمر کے لحاظ سے بڑی عمر کے ہیں ،ان کے لئے بہترین ورزش سیر کرنا ہے.ان کو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.وہ چار پانچ میں سیر کیا کریں صبح.نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور گرمیوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے اور سردیوں میں بگل مار کے سیر کو نکل جائیں اور چند میل سیر کریں.روزانہ کریں چھوڑ نا نہیں اس کو.اس ورزش کے متعلق آپ انصار نے توجہ دینی ہے اور خدام الاحمدیہ نے بھی آپ کو پکڑنا ہے.اصل عزت خدا کے لئے ہے میں نے اعلان کیا تھا کہ جسمانی لحاظ سے جماعت احمدیہ کے افراد کو دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند ہونا چاہئے اور اپنی اس صحت کو دنیا کے مفاد میں خرچ کرنے والا ہونا چاہئے.تو ہم خادم ہیں.یہ جو دنیوی عزتیں ہیں جن کے تماشے آپ روز دیکھتے ہیں اس کے بارے میں قرآن کریم نے ہمارے سہارے کے لئے بڑا عجیب اعلان کر دیا تھا.فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا ( النساء آیت: ۱۴۰) صحیح عزت، ہر قسم کی عزت ، ساری کی ساری عزت اللہ تعالیٰ کی ہے.اس سے آپ لیں.بڑی عزت دیتا ہے.ہمارا ایک مبلغ عام سے آدمی کے طور پر یہاں پھر رہا ہوتا ہے.آپ کے سامنے سے گزرتا ہے.آپ اس کی قدر ہی نہیں پہچان رہے ہوتے.جب وہ افریقہ میں جاتا ہے اور وہاں صدر مملکت سے دفتر میں ملنے جاتا ہے تو وہ اس کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.یہ عزت خدا تعالیٰ دیتا ہے.جو آپس میں لوگوں نے عزتیں بانٹیں.اس کے لئے آپس میں سر بھی اڑائے.یہ تو دنیا اپنا کھیل

Page 250

۲۳۰ کھیل رہی ہے.ہم نے تو خدا تعالیٰ کے کام کرنے ہیں اور وہ کھیل نہیں.ہم نے تو سنجیدگی کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کرنی ہے.“ ترقیات کے غیر محدود دروازے کھولنے والی صفت حضور نے خطاب کے آخر میں خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ” خدا تعالیٰ کی صفات کی چوتھی بنیاد ہے: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن آیت: ۳۰) اور اس کو باندھا ہے اس آیت سے يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر شئے اپنی ضرورت اس سے مانگتی اس سے پاتی ہے.عجیب اعلان ہے.یہاں اگر ٹھہر جا تا قرآن کریم تو اس کی عظمت تو ظاہر ہو جاتی لیکن كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کے ساتھ يَسْلُهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کہہ کے انسانوں کو شامل کیا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کہہ کہ یہ اعلان کیا کہ ترقیات کے غیر محدود دروازے تمہارے اوپر ہم نے کھول دیئے ہیں.اس کی صفات کا ہر جلوہ پہلے سے مختلف ہوتا ہے.انسان کا خدا تعالیٰ کے قرب کی طلب میں ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہئے.اس لئے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ سے فائدہ اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق، ہر آن اس کے حضور عاجزانہ متضرعانہ دعا کے ساتھ قائم کرنا ضروری ہے جو ممکن نہیں جب تک ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور نہ جھکیں اور اسی کی مدد سے اس کے ساتھ زندہ تعلق کو قائم کریں.غیر محدودترقیات کے دروازے یہ اعلان کھولتا ہے.اللہ کے فضل سے ہر قدم فلاح اور رفعت کی طرف بڑھتے رہنا چاہئے کیونکہ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فقرہ ہے ) انسان اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا محتاج ہے“.اس واسطے ہر احمدی کو انفرادی طور پر اور جماعت کو جماعتی طور پر اور جماعت احمدیہ کو اجتماعی طور پر اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے حصول کیلئے کوشش کرنی چاہئیے اور خدا کی رضا کو حاصل کر کے اپنی زندگی کے مقصود کو پالینا چاہیے تا کہ دنیا میں ایک ایسی جماعت ہو جو کسی اور کو دکھ دینے کا سوچے بھی نہ.سب کے سکھ کا سامان پیدا کرنے کی نیت سے اپنا قدم آگے بڑھا رہی ہو.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا کرے آمین.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا: اب ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ایسے حالات پیدا کرے کہ آج وہ جو اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والے ہیں ، لا اله الا اللہ کا ورد کرنا شروع کر دیں.اور آج وہ جو انسانیت میں فساد اور

Page 251

۲۳۱ دُکھ پیدا کرنے والے ہیں، وہ امن اور سکھ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگ جائیں.اور آج وہ انسان جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آجائے اور آپ کی بے شمار، بے انتہا بر کتوں اور فیوض سے حصہ لینے لگے اور یہ دُکھیا انسانیت خوش حال، خوش باش انسانیت بن جائے.اور اللہ تعالیٰ ہیں ، جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی توفیق سے اپنی تمام ذمہ داریاں، اپنی پوری توجہ اور پوری محنت اور پوری طاقت سے ادا کریں.اور خدا ہماری کوششوں کو قبول کرے اور اپنی رضا کی جنتیں ہمارے لئے مقدر کر دے.اور اللہ تعالیٰ آپ کا ہر آن ہر جگہ سفر اور حضر میں حافظ و ناصر ہو اور اپنی برکتیں آپ کے اوپر برسائے.آپ کو اہل بنائے اس کا کہ جو کہا وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان آیت : ۲۱) وہ عملاً پوری ہوں اور آپ کو احساس ہو اور آپ شکر گزار بندے بن کے اپنی زندگی گزارنے والے ہوں.آداب دعا کرلیں.“ طویل اور پر سوز اجتماعی دعا کروانے کے بعد حضور انور نے پُر شوکت آواز میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُہ فرمایا اور انصار کو الوداع کہتے ہوئے مقام اجتماع سے ایک بج کر پانچ منٹ پر تشریف لے گئے.اس طرح سے حضورا نور تقریباً پونے دو گھنٹے انصار کے درمیان رونق افروز رہے.(۷۲ شرکاء اجتماع کے بابرکت تاثرات اس بابرکت علمی اور تربیتی اجتماع نے شرکاء کے قلوب واذہان پر کیسے روح پرور اثرات مرتب کئے.اس سلسلہ میں کراچی کے ایک دوست نے صدر محترم کی خدمت میں لکھا کہ میں پہلی دفعہ اجتماع انصار اللہ میں خدا کے فضل سے شامل ہوا ہوں اور رب غفور سے دعا گو ہوں کہ مجھے اب ہمیشہ ہی اس اجتماع میں شامل ہونے کا موقع عطا فرماتا ہے.ایسی ایمان افروز مجالس میں بار بار آنے کا موقع ملے.آمین.آج تک اس اجتماع کے اثرات دل و دماغ پر اسی طرح قائم ہیں جیسے اب بھی اجتماع میں بیٹھا ہوا ہوں.الحمد للہ.نیز مکرر درخواست ہے کہ تقاریر کے ٹیپ مجھے ضرور بھجوا دیں.میں نقل کر کے اپنے حلقہ احباب کو سناؤں گا.انشاء اللہ ﴿۳﴾ سائیکل سفر برائے شمولیت اجتماع سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے دور دور سے انصار سالانہ اجتماع پر سائیکلوں کے ذریعے آئے.اس ضمن میں مکرم شیخ انوار احمد صاحب سامانوی کی دلچسپ روداد قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے: میں نے امسال اجتماع انصار اللہ پر یہ توفیق ایزدی لیہ سے ربوہ تک سائیکل پر سفر کر کے شمولیت کی.کل سفر قریباً ۱۷۰ میل تھا.دوران سفر دورا تیں احمدی بھائیوں کے ہاں قیام کیا.ایک رات ایک شریف النفس مخیر

Page 252

۲۳۲ اور مہمان نواز غیر از جماعت دوست مکرم سید غلام حسین صاحب آف تقی آباد کے ہاں قیام کیا.ان کا ڈیرہ بھوانہ سے دس بارہ میں پہلے آتا ہے.بفضل اللہ تعالیٰ باسٹھ سال سے تجاوز کر چکا ہوں.الحمد للہ صحت اچھی ہے.اللہ تعالیٰ نے چاہا اور توفیق ملی تو انشاء اللہ آئندہ بھی اجتماع کے موقع پر سائیکل پر ربوہ آنے کا بہت شوق ہے.متعدد دوستوں سے ملنے کا موقع ملا.کبھی کسی کے دریافت کرنے پر کہاں سے آ رہے ہو کہاں جاؤ گے، انہیں بتایا گیا کہ لیہ سے ربوہ جا رہا ہوں.میرے بڑھاپے اور طویل سفر کے متعلق حیرت کا اظہار کیا جاتا بلکہ بہت حد تک ہمدردی کا بھی اظہار ہوتا.پورے سفر میں خاکسار نے کسی کی زبان سے ناگوار لفظ نہیں سنا.جھنگ شہر کے باہر برلب سڑک قدیمی مسجد احمد یہ ہے جس کی دیوار پر جلی حروف میں وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نو را سارا.نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے“ لکھا ہوا ہے.یہاں پہنچ کر خاکسار کو شدید پیاس لگی تھی.مسجد سے ملحق ایک مکان جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ کسی احمدی بھائی کا گھر ہوگا ، خاکسار نے پانی طلب کیا.صاحب خانہ نے خاکسار کو بیٹھک میں بٹھایا اور میرے سفر کے بارے میں دریافت کیا.جب خاکسار نے انہیں بتایا کہ بندہ سائیکل پر ربوہ جارہا ہے تو بہت حیران ہوئے اور خوشی کا بھی اظہار فرمایا.یہ دوست غیر از جماعت ایک زرگر ہیں اور ان کا مکان احمد یہ مسجد سے مشرق میں ملحق ہے.پون گھنٹہ تک ان سے نہایت خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا.انہوں نے نہ صرف پانی پلایا بلکہ چائے بھی پلائی اور کھانے کی بھی پُر زور پیشکش فرمائی.اس وقت وہ اس قدر متاثر تھے جو بیان سے باہر ہے.خاکسار نے انہیں جلسہ سالانہ پر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول فرمائی اور مجھ سے بار بار واپسی پر آنے کا وعدہ لیا.مجھے کامل امید ہے کہ یہ دوست انشاء اللہ جلسہ سالانہ پر ضرور تشریف لائیں گے.دوسری جگہ ایک غیر از جماعت معزز رئیس سید غلام حسین صاحب کے ڈیرے پر رات کو قیام کرنے کا اتفاق ہوا.یہ بزرگ عمر رسیدہ ہیں.باوقار شخصیت کے مالک ہیں.عشاء کے وقت ناچیز بلا تکلف ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات بسر کرنے کی درخواست کی.سید صاحب موصوف کے دریافت فرمانے پر جب خاکسار نے بتایا کہ ربوہ جارہا ہوں ، بہت تکریم سے پیش آئے اور نہایت اچھا کھانا کھلایا.شاندار بستر دیا اور صبح کو نہایت عمدہ ناشتہ دیا.ربوہ آ کر خاکسار نے ان کی خدمت میں شکریہ کا خط تحریر کیا.راستے میں سائیکل خراب ہو گیا.کم و بیش خاکسار کو بیس بائیس میل پیدل بھی چلنا پڑا.تقی آباد پہنچنے سے قبل بھی ایک راہ گیر کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی جلسہ سالانہ پر ربوہ آنے کا وعدہ کیا.الحمد للہ سفر کے دوران ذکر الہی اور دعائیں کرنے کا خوب موقع ملا.نا چیز ۲۲ اکتوبر کی شام کو ربوہ پہنچا تھا.بفضل تعالیٰ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی ساری کارروائی سے بھی خاکسار نے استفادہ کیا اور اس کے بعد انصار اللہ کے اجتماع سے بھی خوب فائدہ اٹھایا.اللہ تعالیٰ آئندہ سال بھی خاکسار کو سائیکل پر اجتماع میں شمولیت کی تو فیق عطا فرمائے.﴿۴﴾

Page 253

۲۳۳ ۱۹۸۲ء نئے سال پر صدر محترم کا پیغام عہدیداران کے نام ۱۹۸۲ کے آغاز پر صدر محترم نے عہدیداران کو خدا تعالی سے مدد مانگتے ہوئے نئے سال کے پروگرام پر عمل پیرا ہونے کی مندرجہ ذیل الفاظ میں تلقین فرمائی: برادران کرام! السلام عليكم و رحمة الله و بركاته اپنے رب کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ مدد مانگتے ہوئے ہم اپنے نئے سال ۱۳۶۱ ہش/۱۹۸۲ء کا آغاز کر رہے ہیں.سال رواں کے لئے جو لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے، وہ مجالس کی خدمت میں اس تلقین کے ساتھ پیش ہے کہ پُر خلوص دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہیں اور اسی سے مدد مانگتے رہیں.ہمارے سارے منصوبے اور ساری کوششیں بے کار ہیں اگر اس کا فضل شامل حال نہ ہو.ہماری مساعی میں میٹھے پھل نہیں لگ سکتے اگر آسمان سے اس کی رحمت کا پانی نازل نہ ہو.پر اسی سے مدد مانگتے ہوئے ،اس کے کرم پر نظر لگائے ، نئے سال کے پروگرام پر خلوص اور محنت اور لگن کے ساتھ گامزن ہوں.كَانَ اللہ مَعَكُم 60 تربیتی دوره صوبه سرحد صدر محترم کی ہدایت اور حضرت خلیفہ امسح الثالث کی اجازت سے مکرم مولاناسیداحمد علی شاہ صاحب قائد تربیت نے ۱۴ تا ۲۶ اپریل ۱۹۸۲ء صوبہ سرحد کے بعض مقامات کا تربیتی دورہ کیا.۱۴ اپریل کو مسجد احمد یہ اٹک ( کیمبل پور) میں ملک رشید احمد صاحب ناظم ضلع کے زیر اہتمام بعد نماز عشاء نو تا گیارہ بجے مجلس سوال و جواب کے بعد تربیتی تقریر اور پھر سلائیڈز کے ذریعہ جماعت کی بیرونی ممالک میں مساجد، کالج، ہسپتال اور اشاعت قرآن کا کام دکھایا گیا.اگلے روز بعد نماز فجر درس دیا گیا.۱۵ اپریل کو کامرہ میں ایک دوست کے مکان پر بعض مہمانوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشست ہوئی.رات کو مسجد احمد یہ نوشہرہ چھاؤنی میں تقریباً سوا گھنٹہ سلائیڈ ز دکھا ئیں.نماز فجر کے بعد تربیتی درس دیا.۱۶ اپریل کو مردان میں تربیتی امور پر خطبہ جمعہ دیا اور رات ساڑھے سات تا نو بجے احباب کے سوالوں کے جواب دیئے گئے.بعد نماز فجر تربیتی درس دیا گیا.۱۷ اپریل کو رسالپور میں ایک دوست کے مکان پر ساڑھے سات سے ساڑھے نو بجے تک تقریر کی اور سلائیڈ ز دکھا ئیں.بعض مہمان بھی موجود تھے.بعد نماز فجر درس دیا گیا.

Page 254

۲۳۴ ۱۸ اپریل کو پھی میں ایک دوست کے مکان پر پہلے سوال و جواب کی مجلس ہوئی.پھر دو پہر کو سلائیڈز دکھائی گئیں.اسی روز شام کو پشاور میں ایک بزرگ کے مکان پر ساڑھے پانچ بجے تا پونے نو بجے علمی نشست ہوئی.تقریر کے بعد سوالات کے جواب دیئے گئے.ستر سے زائد حاضرین تھے.19 اپریل کو ناظم صاحب ضلع کے زیر اہتمام پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں ایک صاحب کے مکان پر خطاب کے بعد احباب کے تحریری سوالوں کے جواب دیئے.پونے آٹھ سے نو بجے تک سلائیڈ ز دکھائی گئیں.حاضری اتنی کے قریب تھی.۲۰ اپریل کو پشاور شہر کی ایک عمارت میں بعد نماز عصر، تقریر کے بعد مہمانوں کے سوالات کے جواب دیئے اور سلائیڈز دکھلائیں.یہ پروگرام سوا سات بجے شام تک جاری رہا.جس میں ستر اسی احباب تھے.شام کو بازید خیل میں سینکڑوں مردوزن کو ایک گھنٹہ تک سلائیڈ ز دکھائیں اور وہ جگہ بھی دیکھی جہاں حضرت شہزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید خوست سے آنے پر نماز پڑھا کرتے تھے.اسی مسجد میں نماز مغرب وعشاء ادا کی گئیں.۲۱ اپریل مسجد احمد یہ کوہاٹ سے ۸۰ میل دور بنوں اور پھر ۹۰ میل پر ڈیرہ اسماعیل خاں پہنچے.مقامی کارکنان کے تعاون سے بعد نماز مغرب مسجد احمد یہ میں ۸ تا ۹ بجے سلائیڈ ز دکھائی گئیں.اسی نوے حاضرین تھے.اپریل کو خطبہ جمعہ و نماز صرف تین احمدی اشخاص نے ایسی جگہ پڑھا جہاں ہمیں چھپیں غیر از جماعت احباب نے بھی یہ تربیتی خطبہ سنا.۲۶ اپریل کی رات کو شاہ صاحب بخیر وعافیت ربوہ واپس پہنچ گئے.(۷۵) مجالس مذاکرہ وسلائیڈ پروگرام قیادت اصلاح وارشاد مرکزیہ کے زیر اہتمام مختلف اضلاع میں جو مجالس مذاکرہ اور سلائیڈ ز پروگرام ہوئے ، ان کا خاطر خواہ اثر محسوس کیا گیا.۱۹۸۲ء کی پہلی سہ ماہی میں چھپیں اہم مقامات پر سلائیڈ زلیکچر ہوئے اور ہیں مقامات پر مجالس مذاکرہ منعقد ہوئیں جن سے انداز آ آٹھ ہزار سے زائد دوستوں نے استفادہ کیا.ان پروگراموں میں مرکزی نمائندگان بھی شرکت کرتے رہے.شیخو پورہ شہر.رحیم یار خان شہر سکھر شہر.حیدر آباد کے علاوہ مندرجہ ذیل مجالس میں یہ پروگرام ہوئے.ضلع گجرات کھاریاں.فتح پور.مونگ.منڈی بہاؤالدین.شیخ پور ضلع جہلم : جہلم شہر.منگلا ڈیم.ضلع گوجرانوالہ: امیر پارک گوجرانوالہ.راہوالی.سادھو کے.گوجرانوالہ شہر گرمولہ ورکاں.پیرکوٹ.ضلع لاہور : پرانی انار کلی.حلقہ وحدت کالونی.مغلپورہ ربوه کراچی مسجد مبارک.دار النصر غربی.احمد یہ ہال.گیسٹ ہاؤس.ڈرگ روڈ.مارٹن روڈ.اورنگی ٹاؤن.﴿۷﴾

Page 255

حوالہ جات ۲۳۵ ماہنامہ انصار اللہ ر بوہ جنوری ۱۹۷۹ ء صفحہ ۲ تا صفحه ۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مارچ ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۷ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۹ روزنامه الفضل ربوه ۲ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۶ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۳ روز نامه الفضل ربوہ یکم اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحه یم کے روز نامہ الفضل ربوه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۲-۴ طور که روزنامه الفضل ربوه ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحہ ۱ - ۸ و ۲۹ نومبر ۱۹۷۹ ء صفحه۲-۳ Λ 17 کی روزنامه الفضل ربوه ۳ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۰ روزنامه الفضل ربو ه۱۲۸ کتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۸ ا روزنامه الفضل ربو ۴ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۲ روز نامه الفضل ربوه ۸ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۳ روزنامه الفضل ربوه ۹ دسمبر ۱۹۷۹ صفحه ۶ ۱۴ روزنامه الفضل ربوه ۱۰دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۵ روزنامه الفضل ربوها ادسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۶ روز نامه الفضل ربوه ۱۳ دسمبر ۱۹۷۹ ء صفحه ۶ ۱۷ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۸ روزنامه الفضل ربوه ۱۹ دسمبر ۱۹۷۹ صفحه ۶ ۱۹ روزنامه الفضل ربوه ۲۰ دسمبر ۱۹۷۹ ، صفحه ۶ ۲۰ کی روزنامه الفضل ربوه ۲۰ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۲۱ روزنامه الفضل ربوه ۲۲ دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۴-۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۱۱-۲۴ و ۶۸ ۲۳ روز نامه الفضل ربوه ۱۰ اگست ۱۹۸۱ ، صفحه ۳-۶ ۲۴ روز نامه الفضل ربو ۱۲۹۰ کتوبر ۱۹۷۹ صفحه۱-۸ ۲۵ روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۳۰ کتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۸ 19

Page 256

۲۳۶ ۲۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء ضمیمه صفحه ۵ ۲۳ ۲۷ ہدایات برائے مجالس ۱۹۸۰ صفحہ ۳ تا ۸ و روز نامہ الفضل ربوه ۲۸ فروری ۱۹۸۱ء صفحه ۵ ۲۸ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۲-۳ ۲۹ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ۳۰ روز نامه الفضل ربوه ۱۵مئی ۱۹۸۰ء صفهیم ۳۱ روزنامه الفضل ربوہ یکم جولائی ۱۹۸۰ صفحه ۸ ۳۲ که روزنامه الفضل ربوه ۱۸ستمبر ۱۹۸۰، صفحها ۳۳ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ستمبر ۱۹۸۰ صفحه ا ۳۴ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۸۰ صفحه ۱۲ ۳۵ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۸۰ ، صفحه ۱۶ ۳۶ روز نامه الفضل ربوه ۱۳ دسمبر ۱۹۸۰ صفحه ۵ ۳۷ روزنامه الفضل ربوہ ۱۳ جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۳.۷ ۳۸ کی روزنامه الفضل ربوه ۱۳ دسمبر ۱۹۸۰، صفحه ۵ ۹ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ دسمبر ۱۹۸۰ صفحه ۵ ۴۰ روزنامه الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۰، صفحہ ۷ تا ۱ امک روزنامه الفضل ربوه ۵ نومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۱- ۸ ۴۲ یک روزنامه الفضل ربوه ۵ نومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۸ ۴۳ روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۸ فروری ۱۹۸۱، صفحه ۵ ۴۴ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مئی ۱۹۸۱ء صفحه ۳۴، روزنامه الفضل ربوه ۲۲ اپریل ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۴۵ ماہنامہ انصار الله ر بوه جون ۱۹۸۱ء صفحه ۳۴ و روزنامه الفضل ربوه ۸ جون ۱۹۸۱ء صفحه او۸ ۴۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.جون ۱۹۸۱ء صفحہ ۴۰۳۸ ۴۷ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مئی ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۵ ۴۰ ۴۸ روز نامه الفضل ربوه ۲۸ اکتوبر۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۴۹ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.جنوری ۱۹۸۲ء صفحہ ۱۰ ۵۰ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.جون ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۷۳۵ ۵۱ روزنامه الفضل ربوه ۱۷ اکتوبر ۱۹۸۱، صفحه ۵

Page 257

۲۳۷ ه ۵۲ روز نامه الفضل ربوه ۲۴ ستمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳ ۴ و ۸ ۵۳ روز نامہ الفضل ربوہ ۲۱ جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ ۵۴ رجسٹر روئید ادا جلاسات مجلس عامله مرکز یه ۱۹۸ ء تا ۱۹۸۶ء ۵۵ رجسٹر روئیداد جلاسات مجلس عامله مرکز یه ۱۹۸ء تا ۱۹۸۶ء ۵۶ روز نامہ الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۶ و ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ضمیمہ تمبر اکتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ا ۵۷ روزنامه الفضل ر بوه ۴ اکتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ۳-۶ ۵۸ روزنامه الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۸ ۵۹ روز نامہ الفضل ربوہ ۷ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۴.۵ روزنامه الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۱ ء صفحه ا ۶۰ ۶۱ روز نامه الفضل ربوه۲ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ا ۶۲ روز نامه الفضل ربوه ۲ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۸ ۶۳ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۸-۱۳ ۲۴ روز نامه الفضل ربوه ۲ نومبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۸ روز نامه الفضل ربوہ کے نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۴.۵ ۲۵ ۶۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۸۲ء صفحه ۳۷۳۳ ۶۷ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله و ۶۸ ک روزنامه الفضل ربوده ۴ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ا ۶۹ ماہنامہ انصار الله ر بوه مارچ ۱۹۸۲ ، صفحه ۱۱۹ و اکتوبر ۱۹۸۲ ء صفحه ۹-۱۰ و ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ۷۰ روز نامه الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه او ۱۶ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ا روزنامه الفضل ربوه ۵ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ا ۷۲ روزنامه الفضل ربوه ۵ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۸ ۷۳ روز نامه الفضل ربوه ۸ دسمبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۵ ۷۴ روز نامہ افضل ربوہ مورخه ۸ مارچ ۱۹۸۲ صفحه ۶ و ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل۱۹۸۲ء صفحہ ۳۹.۴۰ ۷۵ روز نامه الفضل ربوه ۱ امئی ۱۹۸۲ ، صفحه ۵ ے ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۸۲ء صفحہ ۴۰

Page 258

۲۳۸

Page 259

۲۳۹ متفرق مگر اہم امور اجلاسات برائے انتخاب صد ر و نا ئب صد رصف دوم دستور اساسی کے مطابق مجالس انصار اللہ صدر مجلس اور نائب صدر صف دوم کے لئے جو نام تجویز کر کے مرکز کو ارسال کرتی ہیں، اُن پر مرکزی مجلس عاملہ غور کر کے اپنی سفارشات خلیفہ وقت کو بھجواتی ہے.حضور کی منظوری کے بعد مجوزہ نام مجلس انتخاب میں پیش کر کے اراکین سے رائے لی جاتی ہے.یہ انتخاب خلیفہ وقت کے مقرر کردہ نمائندہ کی صدارت میں ہوتا ہے جو اراکین کی رائے حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.خلیفہ وقت کی منظوری کے بعد دونوں عہد یدار اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک کے انتخابات کی تفصیل پیش ہے.انتخاب برائے سال ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء برموقع شوری منعقده ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۸ ء زیر صدارت مکرم مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر پنجاب مجوزہ نام برائے صدر مع تعداد ووٹ مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ۵۰ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ۴۴۰ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مجوزہ نام برائے نائب صدر صف دوم مع ووٹ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب منظوری از سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث صدر ۱۴ ۵۴۳ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ۶۳ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صد رصف دوم مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب انتخاب برائے سال ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۴ء بر موقع شوری منعقده ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۱ءزیر صدارت مکرم محمود احمد صاحب شاہد بنگالی صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ منظوری از سید نا حضرت خلیفتہ اسح الثالث صدر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر صف دوم مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب

Page 260

۲۴۰ ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مسند آرائے خلافت ہوئے.۱۱ جون ۱۹۸۲ء کو حضور انور نے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو صدر مجلس نامز دفر مایا.مجلس عاملہ مجلس انصاراللہ مرکزیہ صدر محترم ہر سال دستور اساسی کے مطابق مجلس عاملہ تجویز کر کے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں منظوری کے لئے بھجواتے ہیں.منظوری کے بعد ممبران عاملہ صدر محترم کی خدمت میں اپنے شعبہ کی سکیمیں پیش کر کے رہنمائی لیتے ہیں.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ ء تک جن احباب کو خدمت کی توفیق ملی ، ان کے اسماء ذیل میں درج ہیں.اراکین خصوصی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لندن ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر فیصل آباد ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء.حضرت مرزا عبدالحق صاحب سرگودھا ۱۹۷۹ ء.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ربوہ ( آپ نے معذرت پیش کی جسے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء کو منظور فرمالیا.) ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب ربوہ ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ربوہ ۱۹۸۰ ء تا ۱۹۸۱ء.مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم چوہدری احمد مختار صاحب کراچی ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۲ ء مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ربوہ ۱۹۸۱ء مکرم سید میرمحموداحمد صاحب ناصر ربوہ ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب سوئٹزرلینڈ ۱۹۸۲ء مکرم عبدالوہاب بن آدم صاحب غانا ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب شیخوپورہ ۱۹۸۲ء مکرم مظفراحمد ظفر صاحب امریکہ ۱۹۸۲ء.مکرم یکی پتو صاحب انڈونیشیا ۱۹۸۲ء.مکرم سوینڈ ہینسن صاحب ڈنمارک

Page 261

۲۴۱ نائب صدر ۱۹۷۹ء.مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (اپریل ۱۹۷۹ء سے جماعتی ذمہ داریوں کے تحت لندن چلے گئے ) ۱۹۸۰ء تا ۱۱ جون ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ۱۹۸۲ ء.مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خان صاحب ( سبکدوشی: ۷ امئی ۱۹۸۲ء) ۱۹۸۲ ء.مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ۷ امئی ۱۹۸۲ء تا ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نا ئب صد رصف دوم قائد عمومی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ ء.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ۱۹۸۲ ء.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۷۹ء.مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب ۱۹۸۰ء مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی ۱۹۸۱ء.مکرم منور شمیم خالد صاحب ۱۹۸۲ء مکرم میجر عبدالقادر خان صاحب قائد تربیت ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۰ء.مکرم مولاناسید احمد علی شاہ صاحب ۱۹۸۱ء.مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی ۱۹۸۲ء.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب قائد تعلیم ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خان صاحب ۱۹۸۲ء.مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب قائد مال ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۲ء.مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب

Page 262

۲۴۲ قائد تجنید ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم پر و فیسر محمد اسلم صابر صاحب قائد اصلاح وارشاد ۱۹۷۹ء.مکرم مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر مئی سے مکرم مولانا صوفی محمد الحق صاحب ۱۹۸۰ء.مکرم سید کمال یوسف صاحب ۱۹۸۱ء تا۱۹۸۲ء مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب قائد ذہانت وصحت جسمانی ۱۹۷۹ء.مکرم چوہدری منور احمد صاحب خالد ۱۹۸۰ء مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۸۱ء.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ۱۹۸۲ ء.مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی قائد مجالس بیرون و قلمی دوستی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب قائد اشاعت قائد ایثار ۱۹۷۹ء.مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب ۱۹۸۰ء.مکرم پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد صاحب پرویز پروازی ۱۹۸۱ء.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۸۲ ء.مکرم مولوی محمد بشیر شاد صاحب ۱۹۷۹ء.مکرم غلام احمد صاحب عطاء (معذرت ۶ مئی ۱۹۷۹ء) ۱۶ مئی ۱۹۷۹ ء تا دسمبر ۱۹۸۰ ء.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۲ء.مکرم چوہدری سمیع اللہ سیال صاحب قائد تحریک جدید ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب

Page 263

قائد وقف جدید ۲۴۳ ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء مکرم پر و فیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب (سبکدوشی : ۱۷مئی ۱۹۸۲ء) ۷ امئی ۱۹۸۲ ء تا دسمبر ۱۹۸۲ء مکرم چوہدری اللہ بخش صادق صاحب ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء.حضرت صوفی غلام محمد صاحب آڈیٹر زعیم اعلیٰ انصار اللہ ربوہ ۱۹۸۲ء مکرم فضل الہی انوری صاحب نوٹ: ۱۹۸۲ء سے زعیم اعلیٰ ربوہ کو صدر مجلس کا نامزد کردہ اور مجلس عاملہ مرکز یہ کارکن بنادیا گیا.اجلاسات مرکزی مجلس عامله مرکزی مجلس عاملہ کا باقاعدہ اجلاس ایک مہینہ میں کم از کم ایک دفعہ ہونا ضروری ہے.علاوہ ازیں صدر مجلس حسب ضرورت کسی بھی وقت اجلاس طلب کر سکتے ہیں.ان اجلا سات میں خلیفہ وقت کی ہدایات کے تابع مجلس کی ترقی اور بہبود کے لئے غور و فکر کیا جاتا ہے نیز قائدین اپنی کارگزاری کی رپورٹ صدر مجلس کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.صدر مجلس اس کا جائزہ لے کر رہنمائی کرتے ہیں.مجلس عاملہ کے فیصلوں کی روشنی میں ماتحت مجالس کو ہدایات جاری ہوتی ہیں.صدر مجلس کی دردمندانہ اپیل حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۹ء کو اراکین مجلس عاملہ کے نام ایک دردمندانہ اپیل کی.آپ نے قائد صاحب عمومی کے نام تحریر کیا.میں آج کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شامل نہیں ہوں گا.میری جگہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اجلاس کی صدارت فرمائیں گے.میری طرف سے صرف اتنا پیغام پہنچادیں کہ تمام شعبوں سے متعلق میں یہ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ بفضلہ تعالے مناسب رفتار سے ترقی ہو رہی ہے اور صورت حال اطمینان بخش ہے.جملہ قائدین اس پہلو سے اپنے کام کا اور شعبہ کا جائزہ خود لے لیں کہ کیا جو ذمہ داری ان کے سپرد ہے، وہ کماحقہ سرخروئی کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہور ہے ہیں یا نہیں.نیز یہ سوال بھی میری طرف سے کریں کہ کیا تمام قائدین اپنے شعبہ کے لئے دعاسے اللہ تعالیٰ کی

Page 264

۲۴۴ مدد مانگتے ہیں یا نہیں.اگر بالالتزام توجہ سے ایسا نہیں کرتے تو اب شروع کر دیں کارروائی اجلاسات یہ اجلاسات صدر مجلس یا ان کے قائم مقام کی صدارت میں منعقد ہوتے ہیں.اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوتا ہے اور پھر عہد دہرایا جاتا ہے.یکم جنوری ۱۹۷۹ء سے ۱۰ جون ۱۹۸۲ ء تک مجلس عاملہ کے کل اکیالیس اجلاسات ہوئے.مرکزی عاملہ کے چندا جلاسات کی کارروائی مختصر رپورٹ کی شکل میں بطور نمونہ ہدیہ قارئین کی جاتی ہے.اجلاس مورخه ۲۵ اپریل ۱۹۷۹ء مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کا ماہانہ اجلاس مورخہ ۱۲۵ اپریل ۱۹۷۹ ء بوقت پانچ بجے شام زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں منعقد ہوا.حسب معمول قائدین نے اپنی اپنی ماہوار رپورٹیں پڑھ کر پیش کیں جن پر صدر محترم نے تبصرہ کرتے ہوئے قائدین کو ضروری ہدایات دیں.بعدہ چندہ ماہنامہ انصار اللہ میں اضافہ کی تجویز زیر غور لا کر طے کیا گیا کہ فی الحال سالانہ چندہ دس روپے سے بڑھا کر بارہ روپے سالانہ کر دیا جائے اور مستقل فیصلہ کے لئے یہ معاملہ آئندہ شوریٰ انصار اللہ کے ایجنڈا میں رکھا جائے.یہ اضافہ فوری طور پر قابل نفاذ ہوگا.صدر محترم نے فرمایا ” اگر میں ہی ہر ضلع اور حلقہ کا دورہ کروں اور کام کی رفتار تیز کرنے اور صحیح صورت میں ادا کرنے کے لئے ہدایات دوں تو پھر اتنا وسیع کام تو ایک سال میں بھی ختم نہ ہو گا.لہذا میری تجویز یہ ہے کہ قائدین کرام کو مختلف ٹیموں میں تقسیم کر دوں اور ہر ٹیم اپنے ذمہ بعض علاقے لے لے اور وہاں اجلاس اور اجتماع منعقد کر کے ہر کارکن اور ناصر بھائی کے کام کا جائزہ لیں.اس غرض کے لئے میں مختصر طور پر چند اصولی ہدایت دے دیتا ہوں.موقع کی مناسبت سے مرکزی نمائندگان ان کو مد نظر رکھیں.ا.جو انصار بہت بوڑھے ہیں یا ان پڑھ ہیں اور انہوں نے مجلس کے لئے کہیں کوئی کام نہیں کیا بلکہ ایک طرح عضو معطل ہو کر رہ گئے ہیں، ایسے بزرگوں سے ذاتی طور پر وعدہ لیں کہ وہ مجالس کے لئے کوئی نہ کوئی کام کریں مثلاً وہ ان کو جو نماز با جماعت میں سستی دکھاتے ہیں، اپنے ہمراہ مسجد میں لایا کریں.اگر وہ ہر روز یہ کام نہ کر سکیں تو فی الحال ہر دوسرے دن یا ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی یہ نیک کام انجام دیا کریں.نیز اس مجلس کے عہد یداروں خصوصاً زعیم صاحب یا نائب زعیم صاحب کو اس نیک کام کا ذمہ دار قرار دیں اور وہ اپنی رپورٹوں میں خصوصی طور پر اس کا ذکر کیا کریں.اس ضمن میں تمام انصار بھائی اپنے تمام گھر والوں کا جائزہ لیں.اگر ان کے بچے نماز با جماعت میں غفلت

Page 265

۲۴۵ کرتے ہیں اور قرآن کریم کی روزانہ تلاوت نہیں کرتے ہیں یا قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ نہیں پڑھے ہوئے تو ان کی اس سستی کو دور کرنے کے لئے گھر والوں اور زعماء مجالس کو ذمہ دار قرار دیں اور ان سے ہر ماہ رپورٹ کا مطالبہ کریں.۲.ہر ناصر چند ایک احادیث یاد کرے نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور خلفاء کرام کی سیرت کے چند پہلو یا د کریں اور دوسروں کو ان سے مستفید کریں..ہراحمدی دوست سے وعدہ لیں کہ وہ تین چار دوست اپنے زیر تبلیغ رکھے اور ان میں سے کم از کم ایک بھائی کو سال میں احمدیت میں داخل کرنے کی کوشش کریں.۴.نزد یکی علاقوں مثلاً جھنگ.فیصل آباد.سرگودہا.گجرات.گوجرانوالہ سیالکوٹ.لاہور.شیخو پورہ.ساہیوال.ملتان.جہلم وغیرہ سے غیر از جماعت دوستوں کو کم از کم ایک دفعہ ربوہ ضرور لایا جائے.غیر احمدی احباب کا کرایہ وہاں کی مقامی یا ضلعی جماعت برداشت کرے اور اگر کسی جگہ یہ ناممکن ہو تو مرکز کی طرف رجوع کریں جو ان کی راہنمائی کرے گا..اس امر کا پوری طرح جائزہ لیں کہ کون کون سی مجالس رپورٹ باقاعدگی سے نہیں بھجوار ہیں اور رپورٹس لائحہ عمل کے مطابق معین شکل میں نہیں آ رہی ہیں اور ان کا قدم ترقی کی طرف نہیں اٹھ رہا.انہیں کام کو بہتر بنانے کے لئے ہدایات دیں لیکن ایک احتیاط ضرور کریں کہ چھوٹی دیہاتی مجالس کو ان کی طاقت اور علم سے بڑھ کر ہرگز مکلف نہ کیا جائے بلکہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق جیسی رپورٹ بھی وہ کر سکیں انہیں کرنے کو کہا جائے.اس کے بعد صدر محترم نے قائدین کرام کو بعض نہایت ضروری ہدایات دیں.اجلاس مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۷۹ء مورخ ۲۴ جولائی ۱۹۷۹ء کو ماہانہ اجلاس زیر صدارت صدر محترم منعقد ہوا.قیادت تعلیم ، صف دوم، اشاعت، تحریک جدید ، وقف جدید، مال، تربیت، آڈٹ اور زعامت علیاء ربوہ کی رپورٹس پر حسب ضرورت تبصرہ ہوا.ا.مجالس کی ماہانہ رپورٹ کارگزاری کی تعداد اس ماہ پچھلے ماہ سے کم رہی.صدر محترم نے فرمایا کہ دفتر پیچھا کرے اور مجالس کو یاد دہانی کروائے.اسی طرح ناظمین کو بھی لکھا جائے.جو قائدین باہر دورہ کر کے آتے ہیں اور مجالس ان سے وعدہ کرتی ہیں کہ آئندہ رپورٹیں با قاعدہ بھجوائی جائیں گی، اس کی نگرانی کی جائے.۲.ربوہ کی رپورٹ پر فرمایا کہ آئندہ کے لئے تقابلی جائزہ پیش کیا جایا کرے..رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے.اس ماہ میں نیکی اختیار کرنے کا ایک خاص ماحول پیدا ہو

Page 266

۲۴۶ جاتا ہے.کمزور طبائع میں بھی ابھار پیدا ہوتا ہے اور مساجد نمازیوں سے بھری بھری نظر آتی ہیں.اس ماہ کی برکت سے جو دوست نے نمازی بنیں، ان کی باقاعدہ فہرستیں بنائی جائیں اور ان کو حکمت اور نرمی کے ساتھ یہ امر ذہن نشین کروانے کی کوشش کی جائے کہ نماز سارا سال جاری رکھی جائے.قیادت تربیت اس سلسلہ میں خاص کوشش کرے اور پروگرام بنائے.گھروں میں جا کر دوستوں کو سمجھایا جائے اور یہ ایک مہم کی صورت میں کیا جائے.اجلاس مورخہ ۲۷ اگست ۱۹۷۹ء مورخه ۲۷ اگست ۱۹۷۹ء کو صدر محترم کی صدارت میں اجلاس منعقد ہوا.درج ذیل قیادتوں کی طرف سے ماہانہ رپورٹ کارگزاری بابت ماہ جولائی پیش ہوئی.تعلیم.وقف جدید.اصلاح و ارشاد.تجنید.تحریک جدید.عمومی.ذہانت و صحت جسمانی.آڈیٹر.تربیت.صدر محترم نے رپورٹس سے متعلق بعض اصولی اور مستقل ہدایات ارشاد فرمائیں.ا رپورٹس میں معین اعداد وشمار کا گذشتہ سال اور گذشتہ ماہ سے مقابلہ ہو..ہر قیادت کی رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہونی چاہیئے.و باہر کی مجالس کے کام کا خلاصہ ب قیادت متعلقہ نے دوران ماہ خود کیا کام کیا...ہر قیادت اپنا ٹارگٹ مقرر کر کے رپورٹ میں ذکر کرے کہ اس وقت تک اس ٹارگٹ میں سے اس قدر کامیابی ہوسکی ہے اور باقی کے لئے کوشش ہو رہی ہے.۴.جن مجالس کا دورہ ہو گیا ہے ان مجالس کی کارکردگی کا ایک خاکہ تیار کیا جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ دورہ سے قبل معین اعداد و شمار کیا تھے اور دورہ کے بعد کیا ہیں.ترقی یا کمی کا جائزہ لیا جائے اور اصل کمزوری کا کھوج لگایا جائے اور پھر اس کی اصلاح کی جاوے.قائد عمومی کی رپورٹ میں اس امر کا ذکر بھی آنا چاہیئے تھا کہ ضلع سیالکوٹ میں کام کو بہتر بنانے کے لئے ضلع مختلف سیکٹروں میں تقسیم کر کے وہاں نگران مقرر کیے گئے ہیں.نیز سالانہ اجتماع کی تیاری کے سلسلے میں بھی ذکر آنا چاہیے کہ فلاں فلاں کام ہو گئے ہیں اور کتنی خط و کتابت ہوئی اور آئندہ اجتماع کے لئے فلاں فلاں انتظامات کئے جار ہے ہیں.- زعیم اعلی ربوہ کی مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کی رکنیت کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اس سلسلہ میں دستور اساسی میں اضافہ کرنے کے لئے باقاعدہ شوریٰ کے ایجنڈے میں تجویز پیش کی جائے.اس وقت زعیم اعلیٰ صاحب مبصر کی حیثیت سے مجلس عاملہ مرکزیہ کے اجلاس میں شریک ہوئے ہیں.عاملہ کی رائے میں ان کا اجلاس

Page 267

۲۴۷ میں شریک ہونا مفید اور ضروری ہے.اس لئے ان کی رکنیت کے لئے حسب قواعد کارروائی ہو.اجلاس مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۸۱ء مجلس عاملہ مرکز یہ کا اجلاس بتاریخ ۳۱ مئی ۱۹۸۱ء بعد نماز مغرب پونے آٹھ بجے زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب گیسٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں مندرجہ ذیل ممبران نے شمولیت فرمائی.مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خاں صاحب قائمقام نائب صدر و قائد تعلیم ،مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب قائد وقف جدید ، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید ، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب قائد اشاعت ، مکرم محمد اسمعیل صاحب منیر قائد اصلاح وارشاد، مکرم عبدالرشید صاحب غنی قائد مال، مکرم پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر قائد تجنید ، مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب قائمقام قائد مجلس بیرون، مکرم پروفیسر منور شیم خالد صاحب قائد عمومی، مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب نائب قائد عمومی.اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم محمد اسمعیل صاحب منیر نے کی بعد ازاں صدر محترم نے انصار کا عہد دہرایا اور قائد صاحب عمومی نے گذشتہ دو اجلاسوں کی روئیداد پڑھ کر سنائی.رپورٹ میں ایک قرارداد تعزیت میں وفات کے ساتھ حسرت آیات کے الفاظ کے استعمال پر صدر محترم نے فرمایا کہ یہ الفاظ مناسب نہیں ہیں لہذا ان الفاظ کور پورٹ سے خارج کر دیا گیا.باقی تمام رپورٹ کو عاملہ نے درست قرار دیا اور صدر محترم نے منظوری عطا فرمائی.ایجنڈا کے مطابق قائدین نے اپنی اپنی ماہانہ رپورٹیں بابت ماہ اپریل اجلاس میں پیش کرنا تھیں لیکن صدر محترم نے فرمایا کہ تمام قائدین سے رپورٹیں جمع کر لی جائیں بعد میں مطالعہ کر کے تبصرہ کروں گا.لہذا تمام رپورٹیں اکٹھی کر لی گئیں.اس کے بعد صدر محترم نے قائدین کو مندرجہ ذیل ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ باوجود اس کے میرے پاس وقت کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجالس کی ماہانہ رپورٹوں کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں.اس سلسلہ میں میرا تاثر یہ ہے کہ قائدین یا تو رپورٹیں خود نہیں دیکھتے یا پھر ان کے مطالعہ کا رد عمل اور نتیجہ سامنے نہیں آتا.یہ بات واضح ہے کہ قائدین اپنے اپنے شعبہ کے ذمہ دار ہیں اور اپنا خود ہی محاسبہ کریں.رپورٹوں کے بارہ میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر دیہاتی مجالس کی رپورٹیں خالی ہوتی ہیں اور یہ صورت حال ان کے اپنے مخصوص ماحول اور تعلیم کی کمی اور تجربہ کے نہ ہونے کی وجہ ہے.وہ اتنے لمبے چوڑے فارم کو پر نہیں کر سکتیں.اب یہ قائدین کا کام ہے کہ دیہاتی مجالس کی راہنمائی کریں، ان کو سمجھا ئیں ہر شعبہ کا ٹارگٹ، ایک معین کام کی شکل میں دیں اور اس طرح ان کا کام آسان کریں.نگران حلقہ جات سے کام لیں اور دیہاتی مجالس کو چھوٹے چھوٹے کام مکمل کرنے کو دیں اور اس طرح

Page 268

۲۴۸ اپنے شعبہ کو متحرک کریں.صدر محترم نے فرمایا جہاں تک شہری مجالس کا تعلق ہے.تو میرا تاثر یہ ہے کہ ٹھوس کام کم اور رپورٹ میں لفاظی زیادہ ہوتی ہے.اپنے دورہ سیالکوٹ کے سلسلہ میں صدر محترم نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ مرکزی ہدایات اور لائحہ عمل کو ناظمین اور نگران حلقہ جات آگے مجالس تک پہنچاتے ہی نہیں.یہ دیکھا ہی نہیں جاتا کہ پانی کنویں سے کھیتوں تک پہنچتا بھی ہے یا نہیں.۲۸ مجالس میں سے ۲۱ مجالس اجلاس میں حاضر تھیں لیکن کسی ایک مجلس کو بھی مرکزی پروگرام کا علم نہیں تھا.کام آنکھیں بند کر کے ہو رہا ہے.ذمہ داری قائدین کی ہے کہ مرکزی پروگرام کو ہر مجلس تک پہنچائیں.مثلاً تفسیر صغیر کا ہر احمدی گھرانہ میں موجود ہونا.یہ حضور اقدس کی بابرکت تحریک ہے.اسے نافذ کرنا قائد صاحب تعلیم کا کام ہے.لیکن یہ تحریک ہر مجلس تک پہنچا ئیں گے تو اس پر عمل ممکن ہو گا.اس طرح ہر قیادت اپنے شعبہ کا تھوڑا تھوڑا کام دیہاتی مجالس کو دیں تو سال کے اختتام پر بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بہر حال کام بتدریج اور مسلسل ہونا چاہئیے.اصلاح و ارشاد کے بارہ میں فرمایا کہ اس شعبہ کا تفصیلی پر وگرام چارٹ نقشے تو بہت کچھ ہیں لیکن پھر بھی پتہ چلتا نہیں کہ کیسے کام کرنا ہے.مجالس سوال و جواب بہت مفید لیکن جب تک تبلیغ کے جذ بہ اور اخلاص کو ٹھوس چینل میں نہیں ڈالا جاتا ، اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں.مرکزی نمائندگان کے دورہ جات سے جو بیداری اور جذبہ خدمت دین پیدا ہوتا ہے، اس کی آبیاری ضروری ہے ورنہ یہ جذبہ پھر سرد پڑ جاتا ہے.رپورٹوں میں اصلاح وارشاد کا کالم بھی اکثر خالی ہوتا ہے.آخر بیعتیں جاتی کہاں ہیں؟ لہذا اصلاح وارشاد کا کوئی نقطہ آغاز معین کر کے پھر کام کو آگے بڑھا ئیں اور تدریجی ترقی کا رجسٹر میں ریکارڈ ہو.تبلیغ کرنے کے اہل انصار کی فہرستیں موجود ہوں.مجالس سوال و جواب میں احمدیوں کی شرکت بھی ضروری ہے.اور اردگرد کی مجالس کو بھی بلایا جائے.بڑی مجالس کے اردگر دمختلف اضلاع کے سیکٹر وار نقشے بھی موجود ہوں.مختلف اضلاع کو اپنے نائین کے سپرد کر یں.یہ کام اتنا بڑا ہے کہ آٹھ دس نائبین بھی کم ہیں.مجالس سوال و جواب کی ٹپس (TAPES) تیار کرانا ضروری ہے.مقامی مجالس کو پابند کیا جائے کہ ریکارڈنگ کا انتظام کریں اور ایک نقل مرکز کو قیمت‎ مہیا کریں.یہ ٹپس دوسرے مقامات پر استعمال ہوں گی.مکرم نائب صدر صاحب کے ذریعہ غیر ممالک کو بھی یہ ٹپس بھجوائی ہیں ، بہت خوش کن نتائج سامنے آ رہے ہیں.بہر حال مرکزی عہدیداران مجالس سوال و جواب کے لئے اسی شرط پر جائیں گے کہ ساری کارروائی ٹیپ کرنے کی ذمہ داری مقامی مجالس پر ہوگی.صدر محترم نے قیادت تجنید کے بارہ میں فرمایا کہ صحیح کام نہیں ہو رہا ہے.بہت کام کی گنجائش ہے.قائد صاحب تجنید ، قائد مال کے ساتھ مل کر پروگرام بنائیں.تجنید ٹھیک کرائیں.کراچی کی ایک مجلس پر کام کیا تو

Page 269

۲۴۹ تجنید ۴۰ سے ۱۶۰ تک جا پہنچی.احمد نگر کی تجنید ۴۵ سے ۱۰۵ تک ہوگئی.تو تجنید کے لئے کیٹالا گنگ، کیبنٹ کارڈ سسٹم ، مجالس کی تعداد، نئے شامل ہونے والوں کی تعداد.سب توجہ طلب ہیں.نیز فرمایا قیادت عمومی ماہانہ رپورٹوں کی ضلع وار فائلیں تیار کر کے دفتر میں تبصرہ کے لئے رکھوائے تا کہ تلاش میں آسانی ہو اور ایک وقت میں کئی دوست فائلوں کا مطالعہ کرسکیں.ماہنامہ انصار اللہ کے گذشتہ تین سال کے آمد و خرچ کا گوشوارہ اور ماہنامہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مکرم قائد صاحب اشاعت کی درخواست بابت حصول گرانٹ مبلغ دس ہزار روپے اجلاس میں پیش ہوئی.ماہنامہ کی توسیع اشاعت کے لئے کوشش کا جائزہ لیا گیا.صدر محترم نے فرمایا.بیرون ملک خریداری بڑھانے سے آمد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے.بقایا داران سے چندہ وصول کیا جائے.دس ہزار گرانٹ کی درخواست پر فیصلہ ہوا کہ یہ رقم گرانٹ کے طور پر نہیں بلکہ فی الحال بطور قرض دی جائے.دعا کے بعد رات نو بجے اجلاس برخاست ہوا.تعداد مجالس سال به سال ۱۹۷۹ میں مجالس انصار اللہ کی تعداد ۸۴۳ تھی جو ۱۹۸۲ میں بڑھ کر بفضلہ تعالی ۹۴۰ ہوگئی.الحمدللہ سال ۱۹۷۹ء ۱۹۸۰ء ١٩٨١ء ۱۹۸۲ء تعداد مجالس ۸۴۳ ۸۸۷ ۹۳۷ ۹۴۰ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ میں نمائندگی جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے باہمی رابطہ کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۴۵ء میں فیصلہ فرمایا تھا کہ جماعت احمدیہ کی مرکزی مجلس مشاورت میں ذیلی تنظیموں کے دود و نمائندے شامل ہوں.مجلس انصاراللہ مرکزیہ ربوہ کی طرف سے ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک جن احباب کو نمائندگی کی سعادت ملی.اُن کی فہرست پیش خدمت ہے.۱۹۷۹ء مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب - مکرم چوہدری منور احمد خالد صاحب ۱۹۸۰ء مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۸۱ء مکرم پروفیسر عبدالرشید فنی صاحب مکرم پر و فیسر منور شمیم خالد صاحب ۱۹۸۲ء مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر

Page 270

۲۵۰ ناظمین علاقہ انصار اللہ ۱۹۷۹ء میں ملک کے بعض حصوں کو علاقوں میں تقسیم کر کے وہاں ناظمین علاقہ کا تقرر کیا گیا.مندرجہ ذیل انصار کو اس حیثیت میں خدمت کی توفیق ملی.صوبہ سرحد مکرم چوہدری رکن الدین صاحب، جون ۱۹۷۹ء سے مکرم پر وفیسر ناصر احمد صاحب پیشاور.صوبہ سندھ مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب سکھر.صوبہ بلوچستان: مکرم میاں بشیر احمد صاحب کوئٹہ.آزاد کشمیر: مکرم شریف احمد صاحب چغتائی.ناظمین اضلاع انصار اللہ دستور اساسی مجلس انصار اللہ کے مطابق ضلع کے اعلیٰ عہدیدار کو ناظم ضلع کہتے ہیں.ضلع کی جملہ مجالس کو بیدار رکھنا اور مرکزی ہدایات اور لائحہ عمل پر پوری طرح عمل کروانا ناظم ضلع کے فرائض میں داخل ہے.ناظم ضلع اپنی مجلس عاملہ کو نامزدکر کے صدر مجلس سے منظوری حاصل کرتے ہیں.مجلس عاملہ ضلع کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک بار ضروری ہے نیز ہر سال ضلعی مجالس کا سالانہ اجتماع منعقد کروانا ناظم ضلع کا فرض ہے.ناظم ضلع کو ہر ماہ اپنے کام کی رپورٹ صدر مجلس کی خدمت میں بھجوانا ہوتی ہے.۱۹۸۲ء تک ناظمین اضلاع کا باقاعدہ انتخاب ہوتا تھا جس میں ماتحت مجالس کے زعماء شریک ہوتے تھے اور یہ انتخاب تین سال کے لئے ہوتا تھا.صدر مجلس اس کی منظوری عطا فرماتے تھے.۱۹۸۳ء سے دستور اساسی کا یہ قاعدہ تبدیل ہو گیا اور ناظم ضلع کا تقرر بذریعہ نامزدگی قرار پایا جوصدر مجلس ایک سال کے لئے کرتے ہیں.﴿۳﴾ ذیل میں ناظمین کے اسماء کی فہرست سال تقرری کے ساتھ دی جاتی ہے.ہزارہ ڈویژن :۸۲-۱۹۷۹ء سید منیر احمد ہاشمی صاحب پشاور: ۱۹۷۹ء خان عبد السلام خان صاحب ۸۲-۱۹۸۰ء محمد رشید میر صاحب مردان : ۱۹۷۹ء بادشاہ گل صاحب بہاولپور : ۱۹۷۹ء مرزا ارشد بیگ صاحب ۸۲۰ - ۱۹۸۰ء چوہدری نذیر احمد صاحب بہاولنگر : ۱۹۷۹ء چوہدری غلام نبی صاحب ،۸۲ - ۱۹۸۰ ء مولوی محمد شفیع صاحب جھنگ : ۱۹۷۹ ء میاں ناصر علی صاحب ۸۲ - ۱۹۸۰ ء چوہدری عبد الغنی صاحب جہلم:۸۲-۱۹۷۹ء سید بشیر احمد شاہ صاحب

Page 271

۲۵۱ ڈیرہ غازیخان : ۸۲-۱۹۷۹ء میاں غلام رسول اعوان صاحب رحیم یارخان: ۱۹۷۹ء ملک بشیر احمد صراف صاحب راولپنڈی : ۱۹۷۹ء ڈاکٹر سید ضیاء الحسن صاحب، بعدہ، عبدالعزیز صاحب، جولائی ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۲ء محمد سعید احمد صاحب ۱۹۸۲ء کرنل دلدار احمد صاحب سیالکوٹ :۸۲-۱۹۷۹ء با بو قاسم الدین صاحب ساہیوال: ۱۹۷۹ ء چوہدری نصر اللہ خان باجوہ صاحب ۸۲ - ۱۹۸۰ء ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب سرگودھا: ۱۹۷۹ء چوہدری رشید احمد صاحب ۸۲.۱۹۸۰ء چوہدری غلام رسول وڑائچ صاحب شیخوپورہ:۸۲-۱۹۷۹ء ملک لطیف احمد سرور صاحب فیصل آباد:۸۲-۱۹۷۹ء چوہدری احمد دین صاحب قصور : ۸۲ - ۱۹۷۹ ء چوہدری اللہ دتہ ورک صاحب گوجرانوالہ: ۱۹۷۹ء چوہدری ظفر اللہ صاحب بعدہ ڈاکٹر عبدالقادر صاحب ،۸۲.۱۹۸۰ء ڈاکٹر عبدالقادر صاحب گجرات:۸۲-۱۹۷۹ء سید رفیق احمد شاہ صاحب لاہور : ۸۲ - ۱۹۷۹ء ملک عبداللطیف ستکو ہی صاحب ملتان : ۸۲-۱۹۷۹ء قاضی محمد اسحاق صاحب بسمل وہاڑی (اس سے قبل ضلع ملتان کا حصہ تھا ) ۸۲-۱۹۸۰ء ماسٹر شمس الدین سیال صاحب مظفرگڑھ : ۱۹۷۹ ء رشید احمد صاحب طارق بعده عبدالسمیع صاحب انجینئر ، ۸۲-۱۹۸۰ منشی غلام محمد بھٹی صاحب بدین: ۱۹۷۹ ء چوہدری محمد اقبال صاحب ،۸۲-۱۹۸۰ء مہر منیر احمد صاحب حیدر آباد : ۱۹۷۹ء ۱۹۷ ء چوہدری محمد اسماعیل خالد صاحب بعدۀ چوہدری عبدالغفور صاحب ۸۲-۱۹۸۰ءراناعطاء اللہ صاحب خیر پور:۸۲-۱۹۷۹ء محمد اشرف صاحب سکھر، شکار پور، جیکب آباد، گھونکی:۸۲-۱۹۷۹، قریشی عبدالرحمان صاحب سانگھڑ :۱۹۷۹ء کیپٹن شیر زمان صاحب، جون ۷۹ سے صوبیدار ملک نور محمد صاحب، ۸۲ - ۱۹۸۰ء چوہدری محمد سلیم ناصر صاحب لاڑکانہ: ۱۹۷۹ء ہدایت اللہ صاحب، جولائی ۱۹۸۰ محمد اصغر ابر وصاحب ،۱۹۸۲ء.۱۹۸۱ء ماسٹر عبدالحکیم ابڑ وصاحب نواب شاہ: ۱۹۷۹ ء ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب ۸۲.۱۹۸۰ ء سید میاں محمد سلیم شاہجہانپوری صاحب تھر پارکر : ۱۹۷۹ء صوفی نذیر احمد صاحب، جون سے مولوی محمد عبد اللہ صاحب ۸۲ - ۱۹۸۰ء چوہدری منور احمد خالد صاحب

Page 272

۲۵۲ دادو: ۱۹۷۹ ء ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اعوان ، جون ۷۹ء سے شیخ مختار احمد صاحب کراچی :۸۲-۱۹۷۹، نعیم احمد خان صاحب کوئٹہ : ۸۲-۱۹۷۹ء میاں بشیر احمد صاحب کوٹلی آزاد کشمیر: ۱۹۷۹ء شریف احمد چغتائی صاحب ،۸۲.۱۹۸۰ء ڈاکٹر محمد ظفر کلیم صاحب میر پور آزاد کشمیر: ۸۲-۱۹۸۰ء ماسٹر عبدالحق صاحب زعمائے اعلیٰ انصار الله وہ مقام جہاں مجلس ایک سے زائد حلقوں پر مشتمل ہو وہاں زعیم اعلیٰ کا تقرر ہوتا ہے اور وہ جگہ یا مقام جہاں حلقے نہ ہوں وہاں زعیم مقرر ہوتا ہے.(۴) حلقہ کے تمام زعماء اس کے ماتحت ہوتے ہیں.زعیم اعلیٰ کا تقر ر بذریعہ انتخاب ہوتا ہے جس کی منظوری صدر مجلس دیتے ہیں.زعیم اعلیٰ کا تقرر تین سال کے لئے ہوتا تھا لیکن ۱۹۹۸ء سے یہ مدت دو سال ہے.سوائے زعیم اعلیٰ ربوہ کے جو ایک سال کے لئے مقرر ہوتے ہیں اور صدر مجلس ان کو نا مزد کرتے ہیں.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ ء تک جن انصار کو زعیم اعلیٰ کی حیثیت سے کام کی تو فیق ملی ان کے نام درج کئے جاتے ہیں: ( نوٹ : جس سال میں زعامت علیاء کا قیام ہوا ہے.اُس کے مطابق اندراج کیا گیا ہے.) ربوہ ۱۹۷۹ء چوہدری محمد شریف صاحب ،۱۹۸۰ء تا جولائی ۱۹۸۲ء مولوی فضل الہی صاحب انوری ، جولائی ۱۹۸۲ء سے مولوی محمد بشیر شاد صاحب اسلام آباد : ۱۹۷۹ء شیخ عبدالوہاب صاحب،۱۹۸۰ء حشمت علی صاحب راولپنڈی شہر : ۸۲-۱۹۷۹ء مرز ا مبارک بیگ صاحب راولپنڈی صدر : ۸۲-۱۹۷۹ء ملک محمد شریف صاحب فیصل آباد شهر : ۸۲-۱۹۷۹ء چوہدری عبد الغنی صاحب سرگودها: ۸۲-۱۹۷۹ء قریشی محمود الحسن صاحب سیالکوٹ: ۱۹۷۹ء بابو قاسم الدین صاحب ۸۲ - ۱۹۸۰ء صو بیدار میجر ضیاءالدین صاحب، گوجرانوالہ: ۱۹۸۱ء قریشی عبدالحمید صاحب،۱۹۸۲ء محمد افضل منیر صاحب دار الذکر لاہور : ۸۲-۱۹۷۹ء میجر عبداللطیف صاحب دہلی گیٹ لاہور : ۱۹۷۹۸۲ء محمد صدیق شاکر صاحب اسلامیہ پارک لاہور : ۸۱ - ۱۹۷۹ء چوہدری نصیر احمد صاحب ، ۱۹۸۲ حمید اسلم قریشی صاحب

Page 273

۲۵۳ مغلپورہ لاہور: ۱۹۷۹ ء چوہدری غلام رسول صاحب بعد ۂ عبدالحکیم صاحب ۸۲.۱۹۸۰ء عبدالحکیم صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور : ۱۹۷۹ء میجر غلام احمد صاحب ۸۲ ۱۹۸۰ء چوہدری افتخاراحمد صاحب ملتان شہر : ۱۹۷۹ء میاں عبدالحفیظ صاحب ،۸۲.۱۹۸۰ء ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب ناظم آباد کراچی : ۸۲ - ۱۹۷۹ ء چوہدری شریف احمد وڑائچ صاحب صدر کراچی: ۱۹۷۹ سید سعید خالد صاحب ،۸۲ - ۱۹۸۰ ء رفیع الدین احمد صاحب ڈرگ روڈ کراچی: ۸۲-۱۹۷۹ء چوہدری محمد اقبال منہاس صاحب مارٹن روڈ کراچی: ۸۲-۱۹۷۹، سید احمد ناصر صاحب عزیز آباد کراچی: ۸۲ - ۱۹۸۰ ء چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پشاور شهر: ۸۲-۱۹۷۹ء خان عبد السلام صاحب منڈی بہاؤالدین: ۸۲-۱۹۷۹ء سید محمد احمد صاحب کوئٹہ: ۸۲-۱۹۷۹ء میاں بشیر احمد صاحب مرکز میں اجلاسات ناظمین کا با قاعدہ انعقاد بانی مجلس انصار اللہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا کہ: ”ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ کے آستانہ پر جھکانا ہے.تمام دنیا کو اسلام اور احمد بیت میں داخل کرنا ہے.تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں ، اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے.حضور کے اس ارشاد کی روشنی میں انصار اللہ کے لائحہ عمل پر پوری طرح عمل درآمد کے لئے جہاں خط و کتابت اور دورہ جات سے تنظیم کی مضبوطی کا کام لیا جاتا ہے وہاں ناظمین علاقہ واضلاع اور زعماء اعلیٰ مجالس سے مرکزی عہدیداروں کا رابطہ بہت ہی مفید ثابت ہوا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے دور صدارت میں اس طرف خاص توجہ دی گئی.صدر محترم نے مرکز میں ناظمین اور زعماء اعلیٰ کے اجلاسات کے انعقاد کی طرف توجہ فرمائی اور اس کا باقاعدہ انتظام کیا.قرار پایا کہ ہر سال ناظمین علاقہ وضلع اور زعمائے اعلیٰ کے کم از کم تین اجلاس ربوہ میں منعقد ہوں.چنانچہ عام طور پر ایک اجلاس سال کے شروع میں، دوسرا سال کے وسط میں اور تیسرا مرکزی اجتماع کے موقع پر منعقد ہوتا رہا.اجلا سات میں ناظمین اور زعماء اعلیٰ اپنی مشکلات پیش

Page 274

۲۵۴ کر کے مجلس مرکز یہ سے اس کا حل معلوم کرتے.اس طرح مرکز کو میدانِ عمل میں کام کرنے والے کارکنان کی مشکلات کا علم بھی ہو جاتا.ان اجلاسات کے نتیجہ میں قائدین مرکز یہ اور دیگر عہدیداران کے باہمی افہام و تفہیم سے کام کرنے کے جذبہ کونئی جلالی.ناظمین اور زعماء اعلیٰ صدر محترم اور قائدین کی ہدایات سے ایک نئی امنگ لے کر ربوہ سے واپس جاتے اور مجالس میں بیداری کی نئی لہر پیدا کرنے کا موجب بنتے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور تنظیم میں تر و تازگی ، باہمتی اور عزم پیدا ہوا.صدر محترم کی زیر نگرانی قیادت عمومی اس بات کا اہتمام کرتی کہ تمام ناظمین اور زعماء اعلیٰ ان اجلاسات میں باقاعدگی سے شامل ہوں.جو دوست اپنی مجبوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکتے ،ان کا نمائندہ اجلاس میں بلایا جاتا.اگر پھر بھی کوئی رکن اجلاس سے غیر حاضر رہتا تو اسے اجلاس کی کارروائی لکھ کر بھجوا دی جاتی.ذیل میں بعض اجلاسات کی مختصر رو دا د بطور نمونہ وراہنمائی پیش کی جاتی ہے.اجلاس مؤرخہ 9 فروری ۱۹۷۹ء مؤرخہ 9 فروری ۱۹۷۹ء کو ناظمین اضلاع اور زعماء اعلیٰ کا ایک اجلاس دفتر انصار اللہ مرکز یہ میں ہوا جس میں صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مجالس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے درج ذیل ہدایات دیں.(0) تمام ناظمین ضلع کی تمام مجالس کا کم از کم دو سال میں دورہ کریں اور ان کے اجلاس میں شمولیت کر کے ان کی رہنمائی کریں.اگر کوئی ناظم اس سے زیادہ دفعہ یہ کام کرسکیں تو اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے گا.(ب) ہر ماہ اپنی رپورٹ باقاعدگی سے بھجوائیں اور اس امر کا پوری طرح خیال رکھیں کہ ہر مجلس مرکز میں ہر ماہ رپورٹ بھیجے خواہ کسی ماہ میں مجلس نے کوئی کام نہ بھی کیا ہو.( ج ) تمام اراکین انصار اللہ نو جوانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں.وہ خصوصیت سے نماز با جماعت ادا کریں اور قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ سیکھیں.ہر مجلس کی طرف سے اس کا انتظام ہو نیز ہر رکن چندہ با شرح ادا کرے اور چھپے ہوئے انصار کو ظاہر کیا جائے اور ان کی تربیت کی جاوے.اجلاس مورخه ۱۳ مارچ ۱۹۷۹ء مورخه ۱۳ مارچ ۱۹۷۹ ء بوقت سوا نو بجے دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ناظمین، زعمائے اعلیٰ اور ممبران مجلس عاملہ مرکز یہ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں مجالس کی بہتر کار کردگی کے لئے لائحہ عمل پر غور کیا گیا.اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب نے کی.بعد ازاں عہد دہرایا گیا.

Page 275

صدر محترم نے افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ 9 فروری کے اجلاس کے فیصلہ جات کو کماحقہ عملی جامہ نہیں پہنایا گیا اس لئے اس اجلاس کی کارروائی یا جو فیصلہ جات یہاں ہوں ، ان پر پوری طرح عمل کیا جائے.نیکی کی باتوں کو غیر حاضر دوستوں تک پہنچا ئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اچھی باتیں جاری کی جائیں اور بُری باتیں روکی جائیں.اس لئے اس اجلاس میں شامل ہونے والوں کا فرض ہے کہ یہاں جو باتیں بتائی جائیں ، ان کو آگے پہنچایا جائے.اس طرح سب انصار تک یہ آواز پہنچ جائے.سب سے بڑھ کر یہ امرضروری ہے کہ دعاؤں سے کام لیا جائے.اس کے بعد صدر محترم کی اجازت سے مندرجہ ذیل قائدین مرکزیہ نے اپنے اپنے شعبہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ہدایات دیں.مکرم قائد عمومی صاحب ، مکرم نائب صدر صاحب صف دوم ،مکرم قائد صاحب مال ، مکرم قائد صاحب تعلیم ، مکرم قائد صاحب تربیت.وقت چونکہ تھوڑا تھا اس لئے صدر محترم نے باقی قائدین کا صرف تعارف کروایا اور عمومی رنگ میں ان کے کام کی طرف توجہ دلا دی.نیز فرمایا کہ (1) حسب قواعد ہر ضلع میں آڈیٹر مقرر ہونا چاہیئے تا کہ وہ حسابات آڈٹ کر سکیں اور اپنی ماہانہ رپورٹ مرکز میں بھجوائیں.(۲) مرکز نے سال رواں کے لئے لائحہ عمل منظور کر کے اسے ضروری ہدایات کی شکل میں طبع کروا کر عہد یداروں کو بھجوادیا ہے.جنہوں نے آج تک اسے نہ پڑھا ہو وہ مہربانی کر کے اب اسے پڑھیں اور اسے مسلسل زیر نظر رکھیں اور جائزہ لیتے رہیں کہ اس وقت آپ نے کون سا کام کرنا ہے.لائحہ عمل کا مطالعہ آپ کا محاسبہ کرتا رہے گا.(۳) ٹیم ورک (TEAM WORK) کی طرف توجہ فرمائیں.اس طرف مجالس کی خاطر خواہ توجہ نہیں جس کے نتیجے میں کارکردگی بڑی متاثر ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی فرشتوں کا نظام مقرر کر کے ہمیں نمونہ دیا ہے.کام نہ کرنے کی بنیادی وجہ ٹیم ورک کا نہ ہونا ہے.تمام عہدیدارا اپنی ٹیم بنائیں.اس سے طاقت بڑھے گی تقسیم کا ر سے بوجھ بٹ جائے گا.تھوڑی تگ و دو سے زیادہ نتیجہ نکلے گا.قرآن کریم نے جو پیدائش عالم کا منظر پیش کیا ہے وہ ہے.ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ٹیم میں کئی دماغ مل کر اچھی اچھی باتیں سوچیں گے.شروع شروع میں کافی محنت کرنی پڑے گی.جب ٹیم مہیا ہو جائے گی تو کام آسان ہو جائے گا.ٹیم پہلے دن ہی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوگی.مسلسل جد و جہد اور دعا کی ضرورت ہوگی.یہ امر ہمیشہ مد نظر رکھا جائے کہ ان ٹیموں کو غلط رنگ نہ دیا جائے.جماعت میں کسی تفرقہ کا موجب نہیں ہونا چاہیئے.پارٹی بازی ہرگز نہ ہو.لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ یہ خدمت کرنے والے

Page 276

۲۵۶ لوگ ہیں.(۴) انصار اللہ کے کام کے لئے آپ کو وقت دینا پڑے گا.آپ میں سے اکثر ایسے ہوں گے کہ آپ نے باقاعدگی سے ایک گھنٹہ بھی روزانہ نہیں دیا ہوگا.آپ ہر ہفتہ اپنا جائزہ لینا شروع کر دیں کہ آپ نے پچھلے ہفتے کتنا وقت دیا.پچھلے ہفتہ صرف پانچ منٹ تھے، اب زیادہ کریں اور متواتر وقت دیا جائے.(۵) تجنید کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے تمام ایسے احمدی دوست جو چالیس سال سے اوپر ہیں ، ان کو با قاعدہ انصار کی فہرست میں شامل کیا جائے.تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بعض فعال مجالس سے بھی کوشش کرنے پر نئے انصار کا پتہ چلا ہے.ست مجالس سے تو بہت سے انصار شامل ہونے کی توقع ہے.اس لئے جملہ انصار کو تنظیم میں شامل کیا جائے.(1) تبلیغ: آج کل اصلاح وارشاد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس وقت لوگ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہیں.تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے.اس وقت عملی طور پر زیادہ تر انصار ہی فریضہ تبلیغ سرانجام دے رہے ہیں.لیکن مجلس کی سطح پر اس کا ریکارڈ نہیں.مثلاً چوہدری اقبال احمد صاحب منہاس زعیم اعلیٰ ڈرگ روڈ کراچی ( جو اجلاس میں موجود تھے ) کو تبلیغ کا جنون ہے اور وہ اعلیٰ رنگ میں یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں مگر ر پورٹ میں اس کا ذکر نہیں آتا.اس وقت تبلیغ کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ مجلس کی طرف سے وفود کور بوہ لایا جائے.ان کی حضور سے ملاقات کروائی جائے اور بوہ کی سیر کروائی جائے.اس سے مؤثر ذریعہ اور کوئی نہیں.اس لئے ناظمین و زعمائے اعلیٰ اس سال کم از کم یہ ٹارگٹ رکھیں کہ ہر مجلس کی طرف سے سال میں کم از کم ایک وفدر بوہ لایا جائے.جس وقت آپ کو نتیجہ معلوم ہوگا اور چسکا پڑے گا تو پھر کسی توجہ دلانے کی ضرورت نہ رہے گی.آپ ابتداء کر کے دیکھیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو شمار کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نئے احمدی ہوئے ہیں ، وہ نہ صرف خود مخلص ہیں بلکہ ان کا اخلاص دیکھ کر پرانے احمدیوں میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی ہے.اس سے تبلیغ اور تربیت دونوں ذمہ داریاں پوری ہوتی ہیں.تبلیغ کے بغیر احمدیت کے پیغام کو آپ آگے نہیں پہنچا سکتے.اس لئے اس طرف خاص توجہ فرمائی جائے.(۷) آخری اور ضروری بات دعا کی ہے.سب سے بڑا سبق دعا ہے.حضرت مسیح موعود نے دعا پر بڑا زور دیا ہے.اس کے بغیر برکت نہیں پڑتی اور پھل نہیں لگتا.دعا کروائیں اور دعا کریں.اس طرح آپ کی کوششوں میں پھل لگنا شروع ہو جائے گا.ہر موقع پر دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آمین.کام جو پہلی نظر میں زیادہ نظر آتا ہے وہ صرف آپ کی توجہ کا ہی مستحق ہے.جب

Page 277

آپ توجہ سے کام شروع کر دیں گے تو لا يكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کا نظارہ آپ کے سامنے ہوگا.۲ ) اجلاس مورخه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء مورخه ۲۹ فروری ۱۹۸۰ء بروز جمعہ مجلس مرکزیہ کے ہال میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس سہ ماہی اجلاس ہوا.اجلاس میں بیشتر اضلاع کے ناظمین نے شرکت کی.صدر محترم کے ارشاد پر تمام مرکزی قائدین نے اپنے اپنے شعبہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا.صدر محترم نے ا ہر شعبہ کے متعلق عہد یداروں کو مزید ضروری ہدایات دیں.بعض ناظمین نے کام کے دوران پیش آمدہ مشکلات بیان کر کے ان کا حل دریافت کیا تو ان کی مناسب راہنمائی کی گئی.ضلعی مراکز کو منظم کرنے اور دیگر شعبہ جات کے بارہ میں صدر محترم کی بیان فرمودہ ہدایات کا ملخص درج کیا جاتا ہے.مجلس کے کام کو منظم طریق سے سرانجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ ناظم ضلع کا دفتر ہو.دفتر کھلنے کے اوقات مقرر ہوں.دفتری امور سے دلچسپی لینے والے رکن کو دفتر کا انچارج مقرر کر کے خط و کتابت کا کام سونیا جائے.یہ دفتر خواہ ہفتہ میں چند دن کام کرے.اگر جگہ نہ ملے تو جماعت کی اجازت سے مسجد میں ہی بنالیا جائے مگر ایک دفتر ہونا بہر حال ضروری ہے جس کے بغیر مستقل مزاجی سے ٹھوس بنیادوں پر کام آگے بڑھانا مشکل ہے.دفتر میں ضلع کا نقشہ اور ہر شعبہ کے بارہ میں اعداد و شمار پر مشتمل چارٹ آویزاں کئے جائیں.اعداد و شمار تیار کئے بغیر نتیجہ خیز کام ہونا مشکل امر ہے.اب میں مثال کے طور پر صف دوم کے کام کو سامنے رکھ کر یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ دفتر کے قیام کے بعد ضلعی سطح پر کام کیسے شروع کیا جائے.صف دوم کی مثال سامنے رکھ کر ہر دوسرے شعبہ میں بھی انہی خطوط پر ضلعی پروگرام مرتب کر کے رائج کرنا چاہئیے.ہر شعبہ کا مقصد معتین اعداد وشمار کی صورت میں لکھ کر دفتر میں چارٹ یا تختیوں پر لکھ کر لٹکایا جائے اور ماہانہ نگرانی کی جائے کہ کس حد تک کام آگے بڑھایا جا سکتا ہے.صف دوم کے بارہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ پروگرام بنانے کے لئے ناظم صاحب ضلع کے سامنے ضلع کا نقشہ ہو.ان کے سامنے یہ اعداد و شمار ہوں کہ ضلع کی کتنی مجالس ہیں؟ ان مجالس کے ارد گرد میں کہاں کہاں وفود بھجوانے کی ضرورت ہے؟ کتنے وفود جائیں گے؟ کن مجالس سے رپورٹیں آتی ہیں ؟ ضلع میں سائیکلوں کی تعداد کس قدر ہے وغیرہ وغیرہ.اس کام کو مشورہ کے ساتھ آخری شکل دینی چاہئیے.پس ضروری ہے کہ دفتر قائم کرنے کے بعد ناظمین اضلاع، زعماء کی میٹنگ بلائیں اور اس اجلاس کی خصوصی رپورٹ صدر مجلس کو عمومی رپورٹ کے علاوہ الگ بھجوائیں.ایسی مجالس جن کی طرف سے کام کی رپورٹ نہ

Page 278

۲۵۸ آئے یا جن میں کام تسلی بخش نہ ہورہا ہو، ناظم صاحب ضلع وہاں پر اپنا نمائندہ بھجوائیں جو جا کر موقع پر حالات کا جائزہ لے کر معین رنگ میں مجلس متعلقہ کے ذمہ ایک یا دو کام لگائے اور پھر صرف انہی امور کے بارہ میں ان سے رپورٹ طلب کی جائے اور کار گذاری کا جائزہ لیا جائے اور مسلسل نگرانی کی جائے کہ جو کام سپر دکیا گیا ہے وہ حسب ہدایات سرانجام دیا جا رہا ہے.ناظمین اضلاع ہر شعبہ کا DATA یعنی اعداد و شمار تیار کریں.خصوصاً منفی اعداد و شمار پر زیادہ زور دیا جائے مثلاً ناخواندہ ممبران کی کیا تعداد ہے؟ نماز کا ترجمہ نہ جاننے والوں کی کتنی تعداد ہے؟ نماز باجماعت میں شستی کرنے والوں کی کتنی تعداد ہے؟ وغیرہ وغیرہ.پھر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اعداد و شمار کے چارٹس میں یہ منفی اعداد آہستہ آہستہ کم ہوتے جائیں.ہر مہینے ان کا بغور مطالعہ اور مواز نہ ہونا چاہئیے.ناظم صاحب ضلع یا ان کی مجلس عاملہ کے رکن یعنی مہتم صاحب شعبہ جو بھی خط مجالس کو تیز کرنے کے ضمن میں لکھیں ان کی نقل صدر صاحب مجلس کو بھجوائیں.( نوٹ از مرتب : اُس وقت ضلعی مجلس عاملہ کارکن مہتم کہلاتا تھا.۱۹۸۳ء سے یہ عہدہ نائب ناظم ضلع ہے.) انصار کو دعاؤں پر زور دینا چاہئیے.انسان بعض اوقات روزمرہ کے امور کے بارہ میں دعا کرنا بھول جاتا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے.حالانکہ ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی دُعا کی ضرورت ہے.نیز حضرت خلیفہ اسیح کے ساتھ براہ راست رابطہ اور اپنا پروگرام لکھ کر دعا کی درخواست کرتے رہنا بہت ضروری ہے.مذکورہ بالا عمومی ہدایات کے علاوہ صدر محترم نے دیگر شعبہ جات کے بارہ میں جو ہدایات فرمائیں اُن کا خلاصہ درج ذیل ہے: شعبه مال: قائد صاحب مال نے اوسط فی کس آمدنی کا ضلع وار گوشوارہ پیش کیا جس پر صدر محترم نے فرمایا کہ اس گوشوارہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمد صحیح تشخیص نہیں کی جاتی اس کی وجوہ اگر تو یہ ہیں کہ (۱) علم انعامی حاصل کرنے کے لئے بجٹ کم بنایا جائے تاکہ سوفی صدی پورا کر کے انعام کے مستحق ٹھہر سکیں تو یہ احمدیت کی رُوح کے منافی ہے.اصل انعام تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے.پس اگر نا جائز ذریعہ سے غلط بیانی کر کے کوئی مجلس علم انعامی حاصل بھی کر لیتی ہے تو یہ انعام اسے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق نہیں بنا سکتا.پس مجالس کو چاہئیے کہ بجٹ آمد کے مطابق بنائیں.اگر باوجود کوشش کے سوفی صدی ادا ئیگی نہیں ہوتی تو وہ وجو ہات لکھ دیں.(۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ اعتماد کیا جاتا ہے جو کسی نے لکھایا، وہ لکھ لیا.یہ بھی نامناسب ہے.نظری اور

Page 279

۲۵۹ سرسری جائزہ سے جو بات واضح طور پر غلط معلوم ہوتی ہے، اسے قبول نہیں کرنا چاہیئے.بعض ناظمین نے کہا کہ پیشہ ور احباب کے بجٹ کی تشخیص میں دشواری ہے.اس پر صدر صاحب نے فرمایا کہ آج کل کے لحاظ سے ایک مزدور کی کم از کم آمدنی ۲۵۰ روپے ہے.راج کی ۲۵۰/۵۰۰ تک ہونی چاہئیے.مجلس کا بجٹ چندہ عام کے بجٹ سے کم نہ ہو.اگر کسی کا چندہ عام کا بجٹ کم ہے تو جماعت کو اس سے آگاہ کیا جائے.اگر کوئی چندہ عام با شرح نہیں دے سکتا تو مرکز میں لکھ کر شرح میں کمی کی اجازت حاصل کرے.اصل مقصد پیسہ اکٹھا کرنا نہیں بلکہ صحت مند روحانی جماعت پیدا کرنا ہے.اگر کسی دوست کا جماعت میں بجٹ کم ہے تو مجلس میں اسی قدر رکھ لیں لیکن مرکز کو بھی لکھ دیں کہ اس کی آمد تو زیادہ ہے.لیکن جماعت کے بجٹ میں اس کی یہ آم لکھی ہے لہذا ہم نے مجبوراً اتنی آمد ہی لکھ لی ہے.شعبہ تربیت : نماز با جماعت کا قیام بہت بنیادی حیثیت کا حامل ہے.مجلس انصار اللہ کے اغراض و مقاصد میں سے نماز باجماعت کا قیام ہے.اسی وجہ سے اس معاملہ میں سستی کرنے والی مجلس علم انعامی کی مستحق نہیں قرار پاسکتی.اس ضمن میں اعداد وشمار کا تیار کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے.یہ علم ضروری ہے کہ کہاں باجماعت نماز کے مراکز نہیں.کون احباب نماز باجماعت میں سُست ہیں.جن جگہوں میں نماز باجماعت کے مراکز نہیں.امیر صاحب کو درخواست کر کے وہاں مراکز بنا ئیں.نماز میں ست ممبران کو تیز کرنے کے لئے مستعد ممبران کی ڈیوٹی لگائی جائے.اصلاح وارشاد: قائد صاحب اصلاح وارشاد کی طرف سے پروگرام کی ( جوالگ ہدایات کی صورت میں شائع ہو کر بھجوایا جا چکا تھا ) تفصیل سننے کے بعد صدر صاحب نے فرمایا کہ یہ تفصیل سننے کے دوران بعض چہروں کے اثرات سے لگتا تھا جیسے وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اس تفصیل کے ساتھ اتنا زیادہ کام کیونکر ہوسکتا ہے لیکن درحقیقت جو پروگرام پیش کیا گیا ہے یہ آخری مقصد ہے جس کو ہم نے انشاء اللہ بالآخر حاصل کرنا ہے.اس کے لئے ہمیں رفتہ رفتہ کوشش کرنی پڑے گی.مجلس انصار اللہ کے ہر رکن کی یہ دلی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے پیچھے اپنا ایک روحانی بیٹا چھوڑے.جو شخص کسی کام کو سمجھتا ہی ناممکن ہے وہ اس کے لئے کوشش ہی نہیں کرے گا.لیکن جو کسی کام کو ممن سمجھتا ہے وہ کوشش کرے گا اور کر گزرے گا.اصلاح وارشاد کا بھی بجٹ بنانے کی ضرورت: عہدیدار اس بجٹ کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے.دعاؤں کے ساتھ کام کریں.اس کے لئے سب سے پہلے انصار کی تجنید کرنا بہت ضروری ہے.ہر مجلس کے ساتھ دو یا تین دیہات معین کئے جائیں جہاں پر احمدیت کا بوٹا لگانے کی مجلس متعلقہ ذمہ دار ہو.مجلس کے ذمہ جن دیہات کو سونیا جائے اس کی اطلاع مرکز میں دی جائے.جس مجلس کے ذمہ معتین دیہات میں احمدیت کا بوٹا لگانے کا کام سپرد ہو، مہتم صاحب اصلاح وارشاد وہاں جا کر مشورہ کریں کہ اس جگہ احمدیت کے قیام کے لئے کن ذرائع کی ضرورت

Page 280

ہوگی.مثلاً اوّل: ان جگہوں پر کون سے خاندانوں کا احمدیت سے رابطہ رہا ہے.ان سے روابط قائم کئے جائیں.دوم: دنیا کی نظر میں جو کمیں کہلاتے ہیں ، ان خاندانوں کے نو جوانوں کو بالخصوص منتخب کیا جائے.سوم : زمینداروں کے سعید فطرت نو جوانوں کو بھی منتخب کیا جائے.چہارم : افراد کی فہرست بنائی جائے کہ فلاں فلاں شخص فلاں فلاں کے ذمہ ہے.طریق تبلیغ: اول: بعض افراد کو چائے پر بلا کر مربی صاحب کو مدعو کیا جائے.مقامی سطح پر چھوٹی مجالس یہ کام کریں.مرکز کو اس کی اطلاع کریں.دوم : لٹریچر مہیا کیا جائے اور مرکز سے حسب ضرورت لٹریچر منگوایا جائے.سوم : بعض پتہ جات پر براہ راست لٹریچر بھجوایا جائے.اس کے لئے ایسے اشخاص کا انتخاب کیا جائے جو احمدیوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہوں لٹریچر ملنے پر یہ احمدی دوستوں کو مبلغ بنے پر مجبور کریں گے.چهارم: غیر از جماعت احباب کو مرکز میں لائیں.اس کے لئے اگر اخراجات کی ضرورت ہوتو مرکز سے مطالبہ کریں.اجلاس میں ایک تجویز پیش ہونے پر صدر محترم نے فرمایا کہ پاکستان کے ہر فرد کو احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک ورقہ یا دو ورقہ اشتہار شائع کیا جائے گا.لہذا ناظمین واپس جا کر ان اشتہارات کو گھر گھر میں پہنچانے کی سکیم تیار کر کے مرکز میں بھجواد ہیں.مقصد یہ ہے کہ صدی کے اختتام سے پہلے ہر گاؤں میں یہ پیغام پہنچ جائے کہ چودھویں صدی کا امام آ کر چلا بھی گیا ہے اور صدی بھی ختم ہونے کو آئی لیکن افسوس کہ تم ابھی تک انتظار میں بیٹھے ہو.صدر محترم نے ناظمین کو مجالس کے دورے کر کے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کی تاکید کی اور فرمایا کہ دورہ جات کے اخراجات اگر گرانٹ سے بڑھ جائیں تو بل مرکز میں بھجوائیں ، ادا ئیگی کر دی جائے گی.شعبہ تعلیم : صدر محترم نے فرمایا کہ انصار گھروں میں ترجمہ قرآن کا درس جاری کریں اور ایک ایک دو دولفظوں کا ترجمہ روزانہ یاد کرائیں.بچوں کو در نشین اور کلام محمود کی نظمیں یاد کرائیں اور باجماعت نمازوں میں اپنے ہمراہ لائیں.لیکن تربیت میں شفقت نرمی اور محبت کا پہلو غالب رہے.اجلاس مؤرخہ ۴ اپریل ۱۹۸۱ء ناظمین اضلاع کا اجلاس مؤرخہ ۴ اپریل بروز ہفتہ ( مجلس مشاورت کے درمیانی روز ) بعد نماز عشاء بوقت سوا نو بجے ہال دفتر انصار اللہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی زیر صدارت ہوا جس میں

Page 281

۲۶۱ چودہ قائدین.بائیس ناظمین اضلاع اور پندرہ زعماء اعلیٰ اور دس نائبین سمیت کل اکسٹھ عہدیدار شریک ہوئے.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو مکرم محمد اسلم صاحب نے کی.بعدۂ صدر محترم نے انصار اللہ کا عہدد ہرایا.قائدین نے باری باری اپنے شعبہ کے متعلق ہدایات دیں.صدر محترم نے مجالس کے مسائل و مشکلات کے سلسلہ میں شرکاء سے آراء طلب کیں.مختلف ناظمین نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف مسائل کا ذکر کیا جس پر صدر محترم نے نہایت مؤثر انداز میں عملی اقدامات اٹھانے کے سلسلہ میں راہنمائی فرمائی.قائد عمومی نے شرکاء کو بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہر مجلس کا مرکز سے ماہانہ رپورٹ فارم کے ذریعہ براہ راست رابطہ قائم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ ہر ناظم ضلع کو فروری کے شروع میں ایسی تمام مجالس کی فہرست ارسال کی تھی.اس سلسلہ میں بعض ناظمین نے سرگرمی دکھائی اور ایسی کئی مجالس کی بھی رپورٹس مرکز کو آنی شروع ہو گئیں.لیکن اس سلسلہ میں ابھی بہت محنت اور کوشش اور ذاتی توجہ ورابطہ کی ضرورت ہے.قائد صاحب عمومی نے کہا کہ دوران سال ایسی تمام مجالس کی کم از کم پچاس فیصد تعداد کو اپنا ضلعی ٹارگٹ بنایا جائے کہ سال کے دوران ان سوئی ہوئی مجالس کو جگا کر مرکز سے براہ راست رابطہ کرنے پر مجبور کیا جائے.اس موقع پر سوال اٹھایا گیا کہ دیہاتی مجالس ماہانہ رپورٹ فارم کو طوالت کی وجہ سے پر کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور رپورٹیں ارسال نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے.صدر محترم نے فرمایا کہ اس معاملہ کو جلس عاملہ میں پہلے ہی زیر غور لا کر ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جود یہاتی مجالس کے لئے سادہ ماہانہ رپورٹ فارم تیار کرے گی.صدر محترم نے فرمایا کہ جہاں عہدیداران ان پڑھ ہوں.وہاں بے شک رپورٹ انتہائی مختصر بلکہ ایک کارڈ پر لکھ کر ہی بھجوادی جائے اور پھر آہستہ آہستہ مجلس کے تعلق کو پختہ کر کے بلند معیار پر لایا جائے.شروع میں تھوڑا بوجھ ڈال کر مجالس کے عہدیداران کو ذمہ داری کا احساس دلایا جائے.نیز ناظمین خود اپنے اور اپنی ٹیم کے ذریعہ مجالس کے دورے کریں.ہر ضلع میں ٹیم ورک ہونا چاہیے.زندہ رہنے والی قوموں کی سب سے بڑی نشانی یہی ہوتی ہے کہ خلاء پیدا نہیں ہوتا.ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا جگہ لینے کے لئے تیار اور پُر عزم ہوتا ہے لہذا ٹیم ورک پیدا کریں.اس طرح ایک فرد یا افراد کے بدلنے سے کام نہیں رکنا چاہیے.صدر محترم نے مزید فرمایا کہ ہر ناظم ضلع چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ اپنی مجالس کو دے اور اس کام کو منظم بنیا دوں پر استوار کریں.آپ نے ناظم صاحب ضلع سرگودھا کی کارکردگی کو سراہا اور فرمایا کہ وہاں اس ٹیم ورک کے بہت اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں اور ایک نئی بیداری پورے ضلع میں نظر آ رہی ہے.

Page 282

۲۶۲ قیادت مال: مکرم قائد صاحب مال نے اپنے شعبہ کے متعلق اعداد و شمار پر مشتمل گوشوارے اجلاس میں پیش کئے اور مندرجہ ذیل نکات پر خاص توجہ دلائی.بجٹ کی صحیح تشخیص 0 بجٹ میں سب انصار کو شامل کیا جائے O وصولی ساتھ کے ساتھ ہو اور بقایا نہ ہونے دیا جائے.گیسٹ ہاؤس کے لیئے عطایا جات کی تحریک کو تیز کیا جائے.فی کس چندہ کی شرح میں اضافہ کی ابھی بہت گنجائش ہے.اس لئے مزید محنت اور کام کرنے کی ضرورت ہے.قیادت وقف جدید : مکرم قائد صاحب وقف جدید نے لائحہ عمل کے مطابق شعبہ وقف جدید کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور کہا کہ عام اطفال کو چندہ میں شامل کیا جائے.صف دوم : مکرم نائب صدر صاحب نے سائیکل سکیم کی طرف ناظمین کو توجہ دلائی.بعض ناظمین نے کہا کہ یہ پروگرام مقامی حالات یا موسمی حالات یا بعض دفعہ خدام الاحمدیہ کی طرف سے پورا نہیں ہوتا.نائب صدر صاحب نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں معین اطلاع کسی کی طرف سے مرکز کو کبھی نہیں ملی.اگر واقعی ایسی مشکلات کبھی حائل تھیں یا اب ہوں تو مرکز کو اطلاع کریں تا مرکز اس کے تدارک میں مدد کر سکے.سائیکل سکیم کو ہر صورت میں عملی جامہ پہنائیں تا کہ حضور کے ارشادات کی تعمیل ہو سکے.قیادت تربیت مکرم قائد صاحب تربیت نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ عمدہ انسانی اخلاق سے متعلق ہر ماہ کے لئے قرآن کریم کی دو آیات مقرر کی گئی ہیں، ان پر عمل کرایا جائے.ان آیات کو خوش خط لکھوا کر مساجد میں آویزاں کریں ، درس و تدریس میں یاد دہانی کرا دیں اور انصار کو تحریک کریں کہ وہ اپنے گھروں میں انہیں عملاً رائج کریں.نیز رمضان المبارک کا مہینہ تربیت کے سلسلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتا ہے.رمضان المبارک سے پہلے اور دوران میں نمازیوں کی تعداد کا خاموش جائزہ لیا جائے اور رمضان کے بعد تربیت کے شعبہ کو سر گرم کریں اور نمازیوں کی تعداد کو گرنے نہ دیں.نیکی وہی ہے جو جاری رہے.رمضان کے بعد حاضری کے کوائف رجسٹر میں جمع کریں.اس موقع پر صدر محترم نے فرمایا کہ مرکز کی طرف سے مجالس کے لئے جو پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں وہ مثالی اور IDEAL ہوتے ہیں.ان کی طرف کوئی تیزی سے بڑھے گا اور کوئی ست گامی سے.لیکن مایوس نہیں ہونا چاہئے.نیکی کی طرف ایک قدم اُٹھا ئیں گے تو خدا تعالیٰ دس قدم آگے اُٹھانے کی توفیق دے گا.شروع میں ٹارگٹ بے شک کم رکھیں لیکن کم ٹارگٹ اور مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد پوری کریں.عزائم بلند رکھیں اور مسلسل کوشش کریں.مجلس کا کام خدا کے فضل سے ترقی پذیر ہے لیکن ترقی کے ابھی بہت مراحل طے کرنے ہیں اس لئے ہمت سے کام لیں.

Page 283

۲۶۳ قیادت اشاعت: مکرم قائد صاحب اشاعت نے ماہنامہ انصار اللہ کے بارہ میں توجہ دلائی کہ رسالہ کی مالی حالت کمزور ہے.اس وقت اخراجات کل آمد سے آٹھ ہزار روپے زائد ہیں.خریداروں کی تعداد بڑھائیں.وی پی رسالے وصول کریں.رسالے کے بارہ میں اعداد و شمار ناظمین کو ارسال کئے جا رہے ہیں.ان کی روشنی میں خریداروں میں بھی اضافہ کریں اور مالی اور قلمی معاونت کے لئے بھی بھر پور تعاون کریں.قیادت اصلاح وارشاد: قیادت اصلاح وارشاد کے بارہ میں صدر محترم نے خود ناظمین کی راہنمائی کی اور ہدایات جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ تبلیغ کے سلسلہ میں مرکز کی طرف سے جامع منصوبہ بن چکا ہے جو سال کے شروع میں جملہ مجالس تک پہنچایا جا چکا ہے لیکن سب سے پہلے جس مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ دینی ضروری ہے، وہ ناظمین اضلاع کے اپنے اپنے دفاتر کا قیام ہے.جہاں ابھی دفتر قائم نہیں ہوئے وہاں قائم کئے جائیں اور اگر کہیں مشکل ہو تو مرکز کو اطلاع کریں.پھر ہر ناظم ضلع کے دفتر میں ایک رجسٹر ہو جس میں قیادت وار ہر مجلس کے کوائف درج ہوں مثلاً ایک مجلس کے پانچ سو میں سے پچاس تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہوں تو باقی کو شامل ہونے کی تلقین کی جائے اور اگر اس کوشش سے ایک بھی شامل ہو جائے تو رجسٹر میں درج ہونا چاہیے.یہ رجسٹر ہر وقت مکمل ہونا چاہیے.مرکزی نمائندگان کے دورہ کے وقت ناظمین اضلاع کا فرض ہے کہ وہ رجسٹر چیک کرائیں.اس طرح ہر شعبہ کے کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی.صدر محترم نے تبلیغ کے کام کو موثر بنانے کی خاطر پہلے کوائف اکٹھے کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا کہ آپ کے رجسٹر میں تبلیغ کرنے اور نہ کرنے والے انصار کی فہرستیں موجود ہونی چاہیں.ضلع کا نقشہ بھی ہو اور آپ کے ضلع میں جن دیہاتوں میں جماعتیں قائم نہ ہوں، ان میں سے مناسب دیہات کا انتخاب کر کے وہاں جماعت کا بیج ڈالنے اور بوٹا لگانے کے لئے منظم کوشش کریں.ان دیہات کا بھی رجسٹر میں اندارج ہو اور سال بھر کی کوششوں کا خلاصہ بھی درج ہو.صدر محترم نے فرمایا کہ تبلیغ کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے.انصار کی ذمہ داری ہے کہ اس فرض کی ادا ئیگی کے لئے اپنے آپ کو پابند کر یں.کوئی اور تبلیغ کرے یا نہ کرے، انصار اللہ کا ہر رکن یہی سمجھے کہ تبلیغ کا کام اس پر لازم ہے.تبلیغ کے ضمن میں تساہل نہیں ہونا چاہیئے.تبلیغ کرنے والے انصار کی ہر ممکن مدد کی جائے.صدر محترم نے ضلع سرگودھا کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اس ضلع کے بعض مقامات کا جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ بعض جماعتوں میں گزشتہ تمہیں تمہیں سال سے کوئی نیا احمدی نہیں ہوا.جو دوست بعد میں احمدیت میں داخل ہوئے ان کی تبلیغ کے ذریعہ خاندان کے خاندان احمدیت میں شامل ہوئے.صدر محترم نے اس پہلو کو نمایاں کیا کہ نو جوانوں اور بچوں کی وجہ سے بھی ان کے والدین کے احمدیت میں داخل ہونے کے امکانات

Page 284

۲۶۴ پیدا ہو جاتے ہیں.صدر محترم نے فرمایا کہ تبلیغ کا جو منصوبہ بھی آپ بنا ئیں وہ براہ راست مجھے بھجوائیں، میں اسے خود آگے قیادت اصلاح وارشاد کو بھجواؤں گا.مرکز آپ کو ہر ممکن مدد دینے کو تیار ہے.آپ آگے بڑھیں اور اس اہم کام کی ادائیگی پر کمر بستہ ہو جائیں.انشاء اللہ کا میابی آپ کے قدم چومے گی.آخر میں صدر محترم نے دعا کروائی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مشترکہ کوششوں میں برکت ڈالے اور بیش از پیش نتائج مرتب فرمائے.آمین.رات پونے گیارہ بجے اجلاس بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.(۸) مقابلہ حسن کارکردگی بین المجالس و اضلاع مجالس اور عہدیداران ضلع کے مابین مسابقت نیز حوصلہ افزائی کی خاطر قواعد کی روشنی میں علی الترتیب علیم انعامی اور اسناد خوشنودی دیئے جانے کا سلسلہ جاری رہا.ہر سال صدر محترم قائدین پر مشتمل علم انعامی کمیٹی تشکیل دیتے رہے.یہ کمیٹی مجالس اور اضلاع کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی رپورٹ صدر مجلس کی خدمت میں پیش کرتی رہے.ان رپورٹس کو مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں زیر بحث لا کر اور پھر مجلس عاملہ سے مشورہ کے بعد صدر محترم نتائج کو خلیفہ وقت کے حضور پیش کر کے منظوری حاصل کرتے رہے.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک کے نتائج حسب ذیل ہیں: مقابلہ بین المجالس ۱۹۷۹ء اول اور علیم انعامی کی حقدار: ناظم آباد کراچی دوم: فیصل آبادشہر سوم: ماڈل ٹاؤن لاہور چهارم: پنجم : دارالذکر لاہور ششم: صدر کراچی ہفتم: سیالکوٹ شہر یہ پارک لاہور دهم: شیخوپورہ شہر ہشتم: گجرات شہر نم گھر شہر ۱۹۸۰ء اول اور علیم انعامی کی حقدار: عزیز آباد کراچی دوم : ناظم آباد کراچی سوم : فیصل آباد شهر چهارم: اسلامیہ پارک لاہور پنجم: ربوہ مقامی ششم: ڈرگ روڈ کراچی ہفتم: ماڈل ٹاؤن لاہور ہشتم: دارالذکر لاہور نهم گجرات شہر دہم : شیخوپورہ شہر ۱۹۸۱ء اول اور علیم انعامی کی حقدار: عزیز آباد کراچی دوم فیصل آباد شهر سوم: ربوہ مقامی چہارم: ڈرگ روڈ کراچی پنجم : ناظم آباد کراچی ششم اسلامیہ پارک لاہور ہفتم: سرگودھا شہر هشتم شیخو پوره شهر نهم : دارالذکر لاہور دہم : ماڈل ٹاؤن لاہور ۱۹۸۲ ء اول اور علیم انعامی کی کی حقدار: گجرات شہر

Page 285

۲۶۵ دوم: مارٹن روڈ کراچی سوم : فیصل آباد شهر آبادشہر چهارم: ربوہ مقامی پنجم : ناظم آباد کراچی ششم: ڈرگ روڈ کراچی ہفتم: دارالذکر لاہور ہشتم: راولپنڈی شہر نهم : اوکاڑہ شہر مقابلہ بین الاضلاع (اسناد خوشنودی) ۱۹۷۹ء اوّل: ضلع فیصل آباد ناظم ضلع مکرم چوہدری احمد دین صاح دوم ضلع کراچی ناظم ضلع مکرم نعیم احمد خان صاحب سوم: ضلع سیالکوٹ دهم: عزیز آباد کراچی ناظم ضلع حضرت با بو قاسم دین صاحب ضلع گجرات ناظم ضلع مکرم سید رفیق احمد شاہ صاحب ۱۹۸۰ء اول: ضلع فیصل آباد ناظم ضلع مکرم چوہدری احمد دین خان صاحب دوم ضلع کراچی ناظم ضلع مکرم نعیم احمد خان صاحب سوم: ضلع گجرات ناظم ضلع مکرم سید رفیق احمد شاہ صاحب ۱۹۸۱ء اول: ضلع فیصل آباد ناظم ضلع مکرم چوہدری احمد دین خان صاحب دوم صبح کراچی ناظم ضلع مکرم نعیم احمد خان صاحب سوم: ضلع سرگودها ناظم ضلع مکرم چوہدری غلام رسول صاحب ۱۹۸۲ء اوّل: ضلع کراچی ناظم ضلع مکرم نعیم احمد خان صاحب ناظم ضلع مکرم سید رفیق احمد شاہ صاحب دوم ضلع گجرات ضلع لاہور سوم: مجلس انصاراللہ صف دورم ناظم ضلع مکرم ملک عبداللطیف ستکو ہی صاحب سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکز ی ۱۹۷۳ء کے موقع پر اعلان فرمایا کہ آئندہ انصار اللہ کے اراکین دوحصوں پر مشتمل ہوا کریں گے یعنی: (0) صف اول جس میں ۵۵ سال سے زائد عمر کے انصار شامل ہوں گے.( ب ) صف دوم جو ۴۰ سال سے ۵۵ سال تک کی عمر کے انصار پر مشتمل ہوگی.نیز حضورا نور نے مرکزی مجلس عاملہ میں ایک نیا عہدہ نائب صد رصف دوم“ بھی مقررفرمایا.جس کی عمر چالیس سے سینتالیس سال کے درمیان ہونا ضروری ہے.اسی طرح حضور نے انصار اللہ صف دوم کے لئے سائیکل سفر برائے ملاپ و خدمت خلق کی سکیم کا بھی اعلان فرمایا.

Page 286

۲۶۶ مجلس انصار اللہ صف دوم کا سالانہ لائحہ عمل سید نا حضرت خلیفتہ امسح الثالث کے ارشادات اور ہدایات کی روشنی میں مجلس انصار اللہ صف دوم کا سالانہ لائحہ عمل تیار کر کے ہر سال مجالس کو بھجوا کر مندرجہ ذیل امور پر عملدرآمد کرایا جاتا رہا.(۱) اخلاقی اور روحانی اقدار کی بلندی کیلئے جو پروگرام تجویز کئے گئے ہیں، کوشش کی جائے کہ اراکین انصار اللہ صف دوم ان پر عمل پیرا ہوں اور مجلس کے کاموں میں فعال رکن ثابت ہوں.(۲) اپنی مجلس کے صف دوم کے اراکین کے مندرجہ ذیل کو الف مرکز کو بھجوائیں:.نام.پستہ.پیشہ.سن پیدائش.سائیکل چلانا جانتے ہیں یا نہیں ؟.رکن کے پاس سائیکل ہے یا نہیں؟ روزانہ عموماً کتنا سائیکل چلاتے ہیں.(۳) کوشش کریں کہ ایسے انصار جو سائیکل چلانا نہیں جانتے ، وہ سائیکل چلانا سیکھیں اور ان کو سائیکل چلانا سکھانے کا انتظام کریں.(۴) کوشش کریں کہ جن انصار کے پاس سائیکل نہیں ہیں وہ حسب استطاعت نیا یا پرانا سائیکل خریدیں.سائیکل نہ رکھنے والے انصار کا کم از کم پانچواں حصہ دوران سال سائیکل خریدے.نوٹ :.ایسے انصار جن کے پاس سائیکل کے علاوہ دوسری سواریاں موٹر سائیکل وغیرہ ہیں اور سائیکل نہیں ہیں ان کو بھی سائیکل خرید نے کی تحریک کی جائے.(۱۹۸۰ ء تک مجالس کو یہ ہدایت بھجوائی جاتی رہی کہ حضور کے منشاء مبارک کے تحت ۱۹۸۰ء تک سائیکل والے انصار کی تعداد بیس ہزار ہونی چاہئے.اس غرض کیلئے مرکز اضلاع کیلئے سائیکلوں کا کوٹہ مقرر کرتا رہا.) (۵) ضلعی سطح پر امراء اضلاع کی نگرانی میں مجالس خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام دیہات کے ساتھ ملاپ اور خدمت خلق کیلئے جو سائیکل سوار وفود جاتے ہیں ان میں انصار بھی شامل ہوں.کسی ضلع میں دیہات کے ساتھ ملاپ کرنے والے وفود میں تعداد کے لحاظ سے انصار کی تعداد کم از کم بیس فیصد ضرور ہو.(۶) ہر سہ ماہی میں مجالس مقامی سطح پر ایک سائیکل سفر کا اہتمام کریں جو ضلع کے صدر مقام یا کسی موزوں جگہ کی طرف کیا جائے یا پکنک کا انعقاد ہو.اس میں زیادہ سے زیادہ انصار کو شامل کیا جائے.(۷) مرکز سلسلہ کے قریبی اضلاع کے انصار سائیکل پر سفر کر کے وقتا فوقتا مرکز میں تشریف لایا کریں.(۸) روز مرہ کاموں میں زیادہ سے زیادہ انصار سائیکل استعمال کریں اور ہر مجلس ماہانہ رپورٹس میں ان کوائف کو درج کرے.(۹) سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقع پر زیادہ سے زیادہ انصار سائیکلوں پر سوار ہوکر مرکز میں آئیں.

Page 287

۲۶۷ ( مجالس کو سائیکل سواروں کی تعداد کا ٹارگٹ سالانہ اجتماع سے قبل دیا جاتا رہا.) اراکین مجلس کو پن ہیگن ( ڈنمارک ) کا سائیکل سفر پاکستان کی طرح بیرون پاکستان کی مجالس کو بھی سائیکل سفر کی تحریک کی گئی تھی چنانچہ مجلس کو پن ہیگن کے زعیم اعلی مکرم سوینڈ بنسن صاحب نے ذاتی دلچسپی لے کر سائیکل سفر کا پروگرام بنایا.ماہ رمضان میں ۱۹ جولائی ۱۹۸۱ء اتوار کے روز دو انصار اور چار خدام اس سائیکل سفر میں شریک ہوئے.سائیکل سفر کا کچھ حصہ جنگل کے راستہ سے تھا اور کچھ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ.خدام اور انصار سب نے روزہ رکھا ہوا تھا.سبھی شر کا ء اس سفر سے بہت لطف اندوز ہوئے.(۹) قلمی دوستی اور مجلس انصار الله علم میں اضافہ، آپس میں محبت، پیار اور اخوت کے جذبہ کو جلا دینے کے لئے قلمی دوستی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.الگ قوم، ملک اور رنگ ونسل کے لوگ قلمی دوستی کے ذریعہ ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں.روئے زمین پر پھیلی ہوئی احمدیت کے افراد میں اس جذبہ کو ابھارنے کے لئے مجلس انصار اللہ میں ۱۹۷۴ء میں قلمی دوستی کی الگ قیادت قائم کی گئی اور اس کے فرائض میں یہ شامل کیا گیا کہ وہ مختلف ممالک کے انصار کے پتہ جات دوسرے ممالک کے انصار کو مہیا کرے تا آپس میں خط و کتابت کے ذریعہ دوستی پیدا کریں.قلمی دوستی کی سکیم کا آغاز صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت کیا گیا تھا.مجالس سے قلمی دوستی کے لئے انصار کے مندرجہ ذیل کوائف مرکز منگوائے جاتے تھے.تعلیم.بیہ ۵.پیشہ ا نمبر شمار ۲ مکمل نام - اشغال (HOBBIES) - زبان برائے خط و کتابت ڈاک کا مکمل پتہ ۸ - کیفیت ے.۸.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی طرف سے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اکیس ممالک کو انصار کے نام بھجوائے گئے.گھانا.نائیجیریا.سیرالیون.لائبیریا.زیمبیا.نجی.ہالینڈ.سویڈن.ڈنمارک.گیمبیا.آئیوری کوسٹ.گیا نا.ویسٹ انڈیز.تنزانیہ.انگلینڈ.انڈونیشیا.سوئٹزرلینڈ.امریکہ.ناروے.سپین.مغربی جرمنی.اشاعت لٹریچر اس دور میں بھی مجلس انصار اللہ کی طرف سے لٹریچر کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ ء تک جو لٹریچر مجلس نے شائع کیا، اس کی فہرست ریکارڈ کی غرض سے نیچے دی جا رہی ہے.

Page 288

۲۶۸ نام کتاب، پمفلٹ تعداد صفحات مصنف، مؤلف تاریخ اشاعت تعداد ہمسایہ کے حقوق دو ورقه قیادت اشاعت ١٩٧٩ء بڑوں کا ادب دو ورقه قیادت اشاعت ١٩٧٩ء انفاق سبیل اللہ اور انصار الله حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب یکم اگست ۱۹۷۹ء چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم مکرم حافظ مظفر احمد صاحب جماعت سے خطاب آیت خاتم النبیین اور جماعت حضرت خلیفة المسیح الثالث ے جولائی ۱۹۸۰ ء ایک ہزار ١٩٨٠٨١ء پانچ ہزار تین بار احمدیہ کا مسلک وصال ابن مریم اطاعت اور اس کی اہمیت زندہ رسول دو ورقه زنده کتاب دو ورقه ہمارا مذہب دو ورقه قرار داد ہائے تعزیت ے جولائی ۱۹۸۱ ء دو ہزار حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ے فروری ۱۹۸۱ء دو ہزار ۳۰ دسمبر ۱۹۸۱ء دو ہزار ۱۴ جنوری ۱۹۸۲ء دوہزار ۱۴ جنوری ۱۹۸۲ء دوہزار ۱۴ جنوری ۱۹۸۲ء دو ہزار مرکزی مجلس عاملہ انصار اللہ نے اپنے اجلاسات میں بزرگانِ سلسلہ کے انتقال پر ملال کے مواقع پر مندرجہ ذیل قرار داد ہائے تعزیت منظور کیں اور ان کی نقول ان کے لواحقین کے علاوہ روز نامہ افضل اور ماہنامہ انصار اللہ کو بھجوائی گئیں.اجلاس منعقده قرار داد تعزیت بروفات ۱۶ جون ۱۹۸۰ء حضرت صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اشاعت لٹریچر ۲۸ ستمبر ۱۹۸۰ء ۲۴ اپریل ۱۹۸۱ء مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسله ۶ دسمبر ۱۹۸۱ء حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ علاوہ ازیں مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب قائد عمومی ﴿۱۰﴾ اور مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب انور سابق پرائیویٹ سیکرٹری 19 کی وفات پر بھی قرارداد میں منظور کی گئیں.

Page 289

۲۶۹ چند قرارداد ہائے تعزیت یہاں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں.بر وفات حضرت صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ مکرمہ محترمہ حضرت صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حین حیات میں پیدا ہوئیں اور حضور کی سب سے بڑی پوتی تھیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی صاحبزادی اور جناب مرزا رشید احمد صاحب ( ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کی بیگم تھیں، ان کی ۲ جون ۱۹۸۰ء کو اچانک وفات پر ہم ممبران مجلس انصار الله مرکز یہ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہتے ہیں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ اور تمام خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اظہار تعزیت ،افسوس اور ہمدردی کرتے ہوئے شریک غم ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ مولا کریم مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات عطا فرمادے.ان کی اولا داور تمام عزیزوں کو اس صدمہ میں صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرماوے.(آمین ثم آمین ) (۱۲) بروفات مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ دو مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کا یہ اجلاس محترم مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ مقیم سکھر کی وفات حسرت آیات پر دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.اللہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اس مخلص اور فدائی خادم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین ثم آمین.مرحوم مولا نا فرخ صاحب ایک مثالی ، انتھک، بے نفس اور بے شمار ذاتی خوبیوں کے حامل مبلغ اسلام واحمدیت تھے.۱۹۴۲ء سے لے کر آپ آخری سانس تقریباً چالیس سال تک مصروف خدمت دین متین رہے.آپ اپنے فرائض کے سلسلہ میں سیالکوٹ، کراچی ، کوئٹہ، سکھر اور سندھ کے مختلف حصوں کے علاوہ جزائر فجی میں ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۶ء تک مصروف جہادر ہے اور جہاں بھی رہے اپنے بلند اوصاف اور اعلیٰ کردار کی بدولت اپنوں اور غیروں پر نیکی ، تقویٰ اور پاکیزگی کے مستقل اثرات مرتب کرتے رہے.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ مختلف ذرائع ابلاغ سے رشد و ہدایت کی حامل تقاریر کرتے جنہیں بہت پسند کیا جاتا.اردو کے علاوہ ، سندھی نہ ہونے کے باوجود سندھی زبان میں پُر اثر تقریر کا ملکہ بھی رکھتے تھے.ایسی گونا گوں صلاحیتوں کے حامل مجاہد بھائی کا یوں اچانک وفات پانا ایک جماعتی نقصان ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کی رضا پر سب کو راضی رہنا چاہئیے اور ہم ممبران مجلس عاملہ مرکز یہ اپنے مرحوم مجاہد بھائی کی اہلیہ صاحبہ، بچگان اور سب پسماندگان کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس عظیم صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند سے بلند مقام حاصل ہو.آمین ۱۳

Page 290

۲۷۰ بروفات حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفة أصبح الثالث مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ کا یہ ہنگامی اجلاس پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی المناک رحلت پر گہرے غم وحزن کا اظہار کرتا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسی کی دی ہوئی توفیق سے صبر ورضاء کا دامن پکڑتے ہوئے اس گہرے صدمہ پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہتے ہیں.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ مرحومه مغفوره سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سب سے بڑی نواسی اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی صاحبزادی تھیں.آپ کو سنتالیس سال کے طویل عرصہ تک سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت کا شرف حاصل رہا.اس تمام عرصہ میں اور خصوصاً حضور کے مسندِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے اپنی خرابی صحت اور کمزوری کے باوجود اپنی پوری توجہ اور کوشش حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہر ممکن آرام پہنچانے اور دینی خدمات و مہمات میں حضور کا ہاتھ بٹانے کے لئے وقف رکھی.آپ احمدی خواتین کی تعلیم وتربیت اور اُن کی مشکلات و مسائل کو حل کرنے میں گہری دلچسپی لیتی رہیں.حضور نے بیرونی ممالک کے جو سات اہم اور تاریخی دورے فرمائے اُن میں بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہمرکاب رہیں.ان سفروں کے دوران آپ نے احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں باحسن طریق ادا کیں اور اُن کی علمی اور روحانی پیاس بجھاتی رہیں اور اُن کے لئے قابل تقلید نمونہ پیش کیا.اسی طرح آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہر پہلو سے بہت باریک نظر سے خیال رکھا، جس سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو یکسوئی کے ساتھ اپنے اہم دینی فرائض وذمہ داریاں ادا کرنے میں بہت مدد ملی _ فَجَزَا هَا اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ غیر معمولی اوصاف حمیدہ کی مالک تھیں.اطاعت امام، وفا شعاری، انتظامی قابلیت اور غیر معمولی فراست و نفاست آپ کے نمایاں اوصاف تھے.خلیفہ وقت کی حرم ہونے کی حیثیت سے آپ پر جو گراں بار اور نہایت نازک ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں آپ نے خدا کے فضل سے انہیں بڑے احسن طریق سے نباہنے کی توفیق پائی.ہم جملہ مجلس انصاراللہ عالمگیر کی طرف سے اپنے محبوب آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں نیز حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مدظلہا.حضرت بیگم صاحبہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مکرم نواب زاده مسعود احمد خان صاحب، مکرمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، مکرمہ صاحبزادی آصفہ مسعودہ صاحبہ بیگم بریگیڈیئر ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ہمکرم صاحبزادہ

Page 291

۲۷۱ مرزا انس احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب، مکرمہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ، مکرمہ صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ اور دیگر تمام افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو جنت الفردوس میں خاص مقام قرب عطا فرمائے ، اُن کے درجات کو ہر آن بلند کرتا رہے.ہمارے آقا سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور عمر میں غیر معمولی برکت بخشے اور ہمیشہ بیش از پیش تائید و نصرت سے نوازتا رہے.آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت بیگم صاحبہ مرحومہ مغفورہ کی رحلت پر ہم سب کو بہترین صبر اور راضی برضا ر ہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ہم ہیں شریک غم اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ و جمله کارکنان دفتر مجلس انصار اللہ مرکزیہ.ربوہ ﴿۱۴﴾ عملہ مرکزی دفتر انصار الله تاریخ انصار اللہ جلد اول میں مرکزی دفتر کے قیام سے متعلق تفصیل آ چکی ہے.یہ امر واضح ہے کہ صدر مجلس اور قائدین کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے اور مجالس سے رابطہ رکھنے اور کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے مستقل عملہ کی ضرورت ہوتی ہے.ابتدا دفتر انصار اللہ کا قیام قادیان میں جنوری ۱۹۴۳ء میں ہوا تھا.کام کی وسعت کے پیش نظر دفاتر انصار اللہ کی وسیع عمارت ربوہ میں قائم ہوئی.بدلے ہوئے حالات میں مستعد کارکنوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہی.جوں جوں کام بڑھتا چلا گیا ، دفتر کے کارکنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک جن کارکنان کو خدمت کی توفیق ملی ، ان کے اسماء یہ ہیں.نام کارکن تاریخ ریٹائر منٹ فراغت تاریخ تقرری نائب قائد عمومی مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب ۲۷ فروری ۱۹۵۷ء ۱۹۸۲ء سے مینیجر ماہنامہ انصاراللہ کلرک (۱) مکرم غلام حسین صاحب کیمر اکتوبر ۱۹۶۵ء ۱ استمبر ۲۰۰۴ ء وفات (۲) مکرم صو بیدار میجر محمد حنیف صاحب ۱۲۱ کتوبر ۱۹۷۶ء ۱۹۸۵ء و اگست ۱۹۷۸ء ١٩٨٠ء (۳) مکرم بشارت احمد صاحب (۴) مکرم شیخ بشارت احمد صاحب (۵) مکرم صو بیدار میجر برکت علی صاحب ۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء یکم اکتوبر ۱۹۶۶ء تا حال (بالمقطع تقرر ) ١٩٩٤ء

Page 292

۲۷۲ (۲) مکرم محمد سلیم جاوید صاحب ۲۱ مارچ ۱۹۷۶ء تا حال انسپکٹران (۷) مکرم اعجاز احمد صاحب (۸) مکرم رشید احمد راشد صاحب (۹) مکرم چوہدری محمد ابراہیم رشید صاحب (۱۰) مکرم محمد اقبال ناصر صاحب (۱) مکرم ملک محمد بشیر صاحب ۲۰ نومبر ۱۹۷۹ء تا حال ۱۵ ستمبر ۱۹۷۰ء ۳۱ جولائی ۲۰۰۳ء ١٩٨٠ء ۱۹۸۲ء ۲۲ فروری ۱۹۸۲ء ۱۹۸۴ء ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۳ء ۱۹۸۵ء (۲) مکرم خواجہ محمد ابراہیم صاحب ظفر ۱۹ اگست ۱۹۷۲ء ۱۹۸۵ء (۳) مکرم چوہدری محمد ابراہیم رشید صاحب ۲۷ فروری ۱۹۵۷ء ۱۹۸۰ء ( کلرک ہو گئے ) (۴) مکرم ملک محمد علی صاحب ۲۶ فروری ۱۹۷۹ء ١٩٨٠ء (۵) مکرم خلیل احمد عابد صاحب ۶ فروری ۱۹۸۰ء ١٩٨١ء (1) مکرم عبدالمجید خان صاحب ۴ دسمبر ۱۹۷۹ء ١٩٨٢ء (۷) مکرم سلطان شیر صاحب ۱۹۸۲ء ١٩٨٢ء (۸) مکرم حفیظ احمد صاحب ۲۷ فروری ۱۹۸۲ء ۱۹۸۴ء (۹) مکرم مہر مختار احمد صاحب ۱۹۸۵ء پیشر مکرم محموداحمد صاحب ١٩٧٩ء ڈرائیور مکرم سید افضال احمد شاہ صاحب ۲۸ مارچ ۱۹۷۳ء مددگار کار کن (۱) مکرم جمال دین صاحب یکم مارچ ۱۹۶۰ء ١٩٩٠ء (۲) مکرم حمید شاہ صاحب ۸ جنوری ۱۹۷۳ء ١٩٩١ء چوکیدار مکرم محمد اعظم صاحب ۲۰ اکتوبر۱۹۷۷ء ١٩٨٨ء

Page 293

مالی مکرم مختار احمد صاحب خاکروب (۱) مکرم بها در مسیح صاحب ۵ اپریل ۱۹۷۴ء ١٩٩٢ء یکم دسمبر ۱۹۷۵ء ۱۹۸۰ء (۲) مکرم شریف مسیح صاحب ١٩٨٠ء (۳) مکرم پرویز مسیح صاحب ۱۹۸۲ء ۱۹۸۲ء ١٩٨٣ء

Page 294

حوالہ جات ۲۷۴ رجسٹر روئیدادا جلاسات مجلس عاملہ مرکز یہ ۱۹۶۶ء تا ۱۹۷۹ء رجسٹر روئیدادا جلاسات مجلس عامله مرکز یه ۱۹۸ء تا ۱۹۸۶ء دستور اساسی ایڈیشن پنجم مطبوعه مئی ۱۹۸۳ء قاعدہ نمبر ۵۶-۵۷ دستور اساسی طبع ششم قاعدہ نمبر ۲۲ الف، ب این راه هدی صفحہ نمبر ۳۵ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله رے کا ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.ماہ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۵ 10 ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون.جولائی ۱۹۷۹ ء صفحہ ۳۶ روزنامه الفضل ربوه ۳۰ اگست ۱۹۸۱ء صفحه ۸ ۱۲ روزنامه الفضل ربوه ۱۶ جون ۱۹۸۰ء صفحه م ۱۳ روزنامه الفضل ربوه ۸ امئی ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۱۴ ماہنامہ انصار الله ر بوه جنوری ۱۹۸۲ صفحه۳۲ ۳۳ و روزنامه الفضل ربوه ۱۵ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۲

Page 295

۲۷۵ مجلس شوریٰ انصار اللہ مرکزیہ مجلس شوریٰ انصار اللہ کے بنیادی تصور و تعلیم ، اہمیت، مقام و مرتبہ، فرائض، ایجنڈا کی تیاری نمائندگی اور فیصلہ کے طریق کے بارہ میں تفصیلی نوٹ تاریخ انصار اللہ جلد اول ( صفحہ ۱۵۴ اور صفحہ ۱۵۵) میں آچکا ہے.مجلس شوری کی تمام سفارشات کثرت رائے سے مرتب کی جاتی ہیں لیکن صدر مجلس کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کثرت رائے کو رڈ کر دیں اور اس فیصلہ کی مجلس شوری کے سامنے وضاحت کریں.مجلس شوری کی سفارشات صدر مجلس اپنی رائے کے ساتھ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح کو یہ حق حاصل ہے کہ جس سفارش کو پسند کریں، منظور فرما لیں اور جس کو چاہیں رڈ کر دیں یا اس میں ترمیم فرما دیں.حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری کے بعد ہی شوری کی سفارشات نافذ ہوتی ہیں.ہر سال سالانہ اجتماع کے موقع پر ایک یا دو دن کے لئے مجلس شوری منعقد ہوتی رہی.۱۹۸۳ء کے اجتماع تک اس طریق پر عمل ہوتا رہا.۱۹۸۴ء سے ملکی حالات کی بناء پر مرکزی اجتماع منعقد نہ ہو سکے.لہذا شوریٰ انصار اللہ کا انعقاد بھی ناممکن ہو گیا.اس خلا کو کسی حد تک پورا کرنے کے لئے ۱۹۸۵ء سے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی منظوری سے مرکز میں محمد و دشوری کا سلسلہ جاری کیا گیا.ابتداء میں مرکزی قائدین کے علاوہ ناظمین اضلاع و علاقہ اور چند زعمائے اعلیٰ کو شمولیت کی دعوت دی جاتی تھی تاہم بعد میں میں سے زائد انصار والی مجالس کے زعماء کو بھی شامل کر لیا گیا.ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عہدیداران کا اجلاس بھی منعقد کیا جاتا رہا جس میں صدر مجلس اور مرکزی عاملہ ہدایات دیتے.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۱ء تک جو فیصلہ جات شوریٰ انصار اللہ میں ہوئے ہیں.ان کی تفصیل اگلے صفحات میں سن وار پیش کی جائے گی.سفارشات مجلس شوری ۱۹۷۹ء تجویز نمبرا ( قیادت عمومی: زعیم علی ربوہ کو مجلس عاملہ مرکز یہ کارکن مقرر کیا جائے اور آئندہ سے ان کا عہدہ زعیم اعلیٰ کی بجائے قائد مقامی ہو.اسے دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۲۶ کے بعد اس قاعدہ کا جز (ب) بنا کر یوں درج کیا جائے.ربوہ میں بجائے زعیم اعلیٰ کے قائد مقامی ہوگا.جس کو صدرنا مزد کرے گا.اس کے اختیارات وہی ہوں گے جو دوسری مجالس میں زعیم اعلیٰ کے ہوں گے.“ اسی طرح دستور اساسی کے قواعد نمبر

Page 296

۱۳۵، ۱۳۶ میں قائد تحریک جدید کے بعد قائد مقامی کا اضافہ کر دیا جائے.( مجلس عاملہ مرکزیہ ) سفارش شوری: اصولاً تجویز سے اتفاق ہے.البتہ الفاظ حسب ذیل ہوں جو دستور اساسی انصار اللہ کے قاعدہ نمبر ۱۶۴ کے آگے درج کر دیئے جائیں گے.ربوہ کے زعیم اعلیٰ کوصدر مجلس انصاراللہ نامزد کریں گے اور وہ 66 مجلس عاملہ مرکزیہ کے مہر ہوں گے." فیصلہ حضرت خلیفہ اصبح : ”منظور ہے.“ اسیح: تجویز نمبر ۲: مجلس شوری دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۴۳ میں ہے کہ " مجلس شوری کا فیصلہ صدر کی منظوری کے بعد تمام مجالس کے لئے واجب التعمیل ہوگا.اس میں صدر کے الفاظ کی بجائے خلیفہ وقت“ کے الفاظ ہونے چاہئیں.( مجلس عاملہ مرکزیہ ) تجویز نمبر ۳ ( انتخاب صدر ) : قاعد ۹۲۰ میں حسب ضرورت کے الفاظ مناسب نہیں.اس قاعدہ میں ترمیم کر کے اس کے الفاظ حسب ذیل کر دیے جائیں.انتخاب صدر کے لئے مجلس مقامی سے نام منگوائے جائیں گے.انتخاب سے ایک ماہ قبل جس قدر نام موصول ہوں گے.مجلس عاملہ مرکز یہ ان پر غور کے بعد جن ناموں کا انتخاب کے لئے پیش کرنا مناسب سمجھے، انہیں مجالس ماتحت کو بھجوا دے گی جو صدارت کے لئے ان میں سے ایک نام کا انتخاب کریں گی اور اپنے نمائندگان شوری کو ہدایت کریں گی کہ وہ شوری انصار اللہ میں انتخاب صدر کے موقع پر اس کے حق میں ووٹ دیں.“ ( مجلس عاملہ مرکزیہ ) تجویز نمبر ( انتخاب ناظم ضلع ): ( قاعدہ نمبر ۱۵۲ میں ناظم ضلع کا انتخاب امیر مقامی ، پریذیڈنٹ یا ان کے نمائندہ کی نگرانی میں ہوگا جس میں ماتحت مجالس شریک ہوں گی“ کی بجائے یہ الفاظ ہوں گے.ناظم ضلع کا انتخاب مرکز کی نگرانی میں ہوگا جس میں مجلس عامہ ضلع میں شامل مجالس کے زعماء اعلیٰ.زعماء اور نمائندگان شوریٰ انصار اللہ شریک ہوں گے.“ وضاحت: قاعدہ نمبر ۵۳ اور نمبر ۱۵۲ میں تضاد ہے اس لئے یہ ترمیم ضروری ہے تا کہ دونوں قواعد میں مطابقت ہو جائے.(ب) قاعدہ نمبر ۴۲ میں مجلس عاملہ مرکزیہ کے اراکین کے بعد صحابہ کرام کے الفاظ بڑھائے جائیں.وضاحت: قاعدہ نمبر ۲۱ کے مطابق صحابہ کرام شوری کے رکن ہیں.لیکن قاعدہ نمبر ۴۲ میں صحابہ کرام شامل نہیں.

Page 297

۲۷۷ (ج) مجلس مقام: دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۱۶۹ میں ارکان کو“ کے بعد تین سال کے لئے“ کے الفاظ بڑھائے جائیں.وضاحت: ملک / علاقہ ضلع اور حلقہ جات کی مجالس عاملہ کے اراکین کی میعاد کا تعین کیا گیا ہے.(بالترتیب قاعدہ نمبر ۱۴۲، ۱۸۴۱۵۹) لیکن مقام کے اراکین کی میعاد مقرر نہیں اس لئے اس ترمیم کے ذریعہ میعاد مقرر کی ( مجلس ناظم آباد کراچی ) جائے.سفارش شوری ایجنڈا کی تجاویز نمبر ۲ ۳ ۴ پر تفصیلی غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو اپنی سفارشات مرتب کر کے صدر مجلس کی وساطت سے حضور کی خدمت کے لئے منظوری کے لئے پیش کرے گی.اس کمیٹی میں مرکزی نمائندگان کے علاوہ حسب ذیل مجالس کے نمائندگان ہوں گے.مرکزی نمائندگان - مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ۲.مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب ۳.مکرم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب مجالس کے نمائندگان: ا.گجرات: مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب ۲.گوجرانوالہ: مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب - سرگودھا: مکرم میجر محموداحمد صاحب ۵.لاہور: مکرم ملک منوراحمد جاوید صاحب ۷.سیالکوٹ : مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب.فیصل آباد: چوہدری احمد دین صاحب.جھنگ : مکرم چوہدری عبدالغفور صاحب شیخوپورہ: مکرم لطیف احمد سرور صاحب ۹.ساہیوال: مکرم پر و فیسر محمد طفیل صاحب ۱۰.ربوہ : مکرم فضل الہی صاحب انوری نوٹ: اس کمیٹی میں ربوہ کی طرف سے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا نام شامل تھا مگر وہ بوجہ نا سازی طبع اس میں شمولیت نہیں فرماسکیں گے.محترم میاں صاحب کی جگہ انوری صاحب کا نام رکھا ہے.فیصلہ حضرت خلیفتہ امی (بابت تجاویز ۲ ۳ ۴ ) : ٹھیک ہےلیکن دام الاحم یک قاعد بھی دیکھ لیا جائے.“ تجویز نمبر ۵ ( شعبه اشاعت): کاغذ کی گرانی، کتابت اور طباعت کی اجرتوں میں اضافہ کے پیش نظر ماہنامہ انصار اللہ کا سالانہ چندہ پندرہ روپے کر دیا جائے.سفارش شوری : منظوری کی سفارش کی جاتی ہے.فیصلہ حضرت خلیلہ اسی منظور ہے." تجویز نمبر ۶ (شعبه مال ) : بجٹ آمد وخرج بابت سال ۱۹۸۰ء پیش خدمت ہے.سفارش شوری: شوری مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق بجٹ آمد وخرج منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.

Page 298

PLA ۲۸۰۰۰۰ ۴۵۰۰۰ 11+++ ۲۰۰۰ ۳۱۰۰۰ ۳۰۰۰۰ ۳۹۹۰۰۰ چند مجلس چندہ سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر متفرق ماہنامہ انصار الله محاصل مشروط عطا یا گیسٹ ہاؤس میزان فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: منظور ہے.بقیہ فیصلہ جات شوری ۱۹۷۹ء کے ایجنڈا کی تجاویز نمبر ۲ ۳ ۴ جو دستور اساسی سے متعلق تھیں.مزید تفصیلی غور کے لئے تیرہ رکنی ایک سب کمیٹی کے سپرد کی گئی تھیں.سب کمیٹی کی رپورٹ صدر محترم نے اپنے تبصرہ کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ۵ دسمبر ۱۹۷۹ء کو بھجوائی.ان تجاویز میں سے تجویز نمبر۲ پر حضور کے ارشادات کی روشنی میں اور تجویز نمبر۴ کے بارہ میں کمیٹی کی سفارش پر صدر محترم نے جو فیصلے فرمائے ، درج ذیل ہیں.تجویز نمبر ۲: دستور اساسی انصار اللہ کے قاعدہ نمبر ۴۳ میں ہے کہ "مجلس شوریٰ کا فیصلہ صدر کی منظوری کے بعد تمام مجالس کے لئے واجب التعمیل ہوگا.اس میں 'صدر کے الفاظ کی بجائے خلیفہ وقت کے الفاظ ہونے چاہئیں.سفارش سب کمیٹی : ا.دستور اساسی کا قاعدہ نمبر۴۳ حذف کر دیا جائے.۲.دستور اساسی میں قاعدہ نمبر ۴۲ کے طور پر مندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل قاعدہ بنایا جائے دستور اساسی کے مطابق مجلس عالمگیر کے اختیارات کے استعمال کا حق صرف مجلس شوری کو ہوگا.“ ۳.دستور اساسی کے موجودہ قاعدہ نمبر ۴۲ کا نمبر بدل کر نمبر ۴۳ کر دیا جائے.۴.دستور اساسی کے قاعدہ نمبر اے کے الفاظ بدل کر مندرجہ ذیل قاعدہ بنایا جائے.وو دوران سال شوری کے فیصلہ کو بدلنے کی ضرورت پیش آ جائے تو صدر مجلس کو حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے ایسا کرنے کا اختیار ہوگا.“ فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح " : " موجودہ قاعدہ قائم رہے گا.انشاء اللہ خلیفہ وقت کے پاس اس کے

Page 299

۲۷۹ ہوتے بھی شکایت کی جاسکتی ہے.“ ہدایت صدر مجلس: تجویز نمبر۲ کے سلسلہ میں سب کمیٹی کی جملہ سفارشات نامنظور سمجھی جائیں کیونکہ حضور کے ارشادات کی روشنی میں دستور اساسی کے کسی قاعدہ کو بدلنے کی ضرورت نہیں.سفارش سب کمیٹی : ۴.دستور اساسی کے قاعدہ اے کے الفاظ بدل کر مندرجہ ذیل قاعدہ بنایا جائے.دوران سال شوری کے کسی فیصلہ کو بدلنے کی ضرورت پیش آ جائے تو صدر مجلس کو خلیفہ وقت کی منظوری سے ایسا کرنے کا اختیار ہوگا.“ فیصلہ حضرت خلیفہ امسیح" " موجودہ درست ہے" تجویز نمبر ۳: (بابت انتخاب صدر ) سب کمیٹی ایجنڈا کی تجویز نمبر۳ کو منظور کرنے کی سفارش کرتی ہے.تجویز نمبر ۴: (( قاعده نمبر ۱۵۲ میں ناظم ضلع کا انتخاب امیر مقامی، پریذیڈنٹ یا ان کے نمائندے کی نگرانی میں ہوگا جس میں مجالس ماتحت کے زعماء شریک ہوں گے.“ کی بجائے یہ الفاظ ہوں.وو ناظم ضلع کا انتخاب مرکز کی نگرانی میں ہو گا.جس میں مجلس عامہ ضلع میں شامل مجالس کے زعماء اعلی.زعماء اور نمائندگان شوریٰ انصار اللہ شریک ہوں گے.“ وضاحت: قاعدہ نمبر۵۳ اور ۱۵۲ میں تضاد ہے اس لئے یہ ترمیم ضروری ہے تا کہ دونوں قواعد میں مطابقت ہو جائے.سفارش سب کمیٹی : سب کمیٹی ایجنڈا کی تجاویز نمبر ۴ الف - آب ۴ ج کو منظور کرنے کی سفارش کرتی ہے.فیصلہ صدر مجلس نمبر ۴ (الف) نمائندگان شوریٰ انصار اللہ کی انتخاب میں شمولیت کی ضرورت نہیں.کورم کے لئے وقت ہوگی.اس لئے قاعد ۱۵۲،۵۳۰ کے الفاظ حسب ذیل منظور ہے قاعدہ نمبر ۵۳.مجلس عامہ ضلع میں شامل مجالس کے زعماء اعلی ناظم ضلع کا انتخاب کر کے منظوری کے لئے نام صدر مجلس کے سامنے پیش کریں گے.کو رم ۱/۲ ہوگا.اگر ایک بارا جلاس بلانے پر یہ کورم پورا نہ ہو تو دوسری بار کورم ۱/۳ ہو گا.یہ انتخاب مرکزی نگرانی میں ہوگا.اگر مطلوبہ انتخاب تین ماہ کے اندر باوجود کوشش عمل میں نہ آ سکے تو صدر مجلس کی طرف سے نامزدگی کی جاسکتی ہے.“ قاعدہ نمبر ۱۵۲ ناظم ضلع کا انتخاب مرکز کی نگرانی میں ہو گا.جس میں مجلس عامہ ضلع میں شامل مجالس کے زعماء اعلیٰ / زعماء شریک ہوں گے.کورم.....الخ.سب کمیٹی کی رپورٹ منظور ہے.(ب) قاعدہ نمبر۴۲ میں مجلس عاملہ مرکزیہ کے اراکین کے بعد صحابہ کرام کے الفاظ بڑھائے جائیں.

Page 300

۲۸۰ وضاحت: قاعدہ نمبر ۲۱ کے مطابق صحابہ کرام شوری کے رکن ہیں لیکن قاعد ۴۲۰ میں صحابہ کرام شامل نہیں.صدر مجلس: سب کمیٹی کی رپورٹ منظور ہے.(ج) دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۱۶۹ میں ارکان کو“ کے بعد تین سال کے لئے“ کے الفاظ بڑھائے جائیں.وضاحت: ملک / علاقہ ضلع اور حلقہ جات کی مجالس عاملہ کے اراکین کی میعاد کا تعین کیا گیا ہے.بالترتیب قاعدہ نمبر ۱۴۲، ۱۵۹ ۸۴ الیکن مقام کے اراکین کی میعاد مقر ر ہیں.اس لئے اس ترمیم کے ذریعہ مقرر کی جائے.سفارش صدر مجلس: سب کمیٹی کی رپورٹ منظور ہے سفارشات مجلس شوری ۱۹۸۰ء تجویز نمبرا ( قیادت عمومی): قاعدہ نمبر ۱۶۵ میں امیر مقامی یا پریذیڈنٹ سے پہلے ناظم ضلع کے الفاظ بڑھا دیئے جائیں.اس طرح قاعدہ کی نئی شکل درج ذیل ہوگی.عیم اعلی کا انتخاب ناظم ضلع / امیر مقامی / پریذیڈنٹ یا ان کے نمائندے کی نگرانی میں ہوگا.جس میں مقام کے جملہ اراکین مجلس شامل ہوں گے.کو رم ۱/۲ ہوگا.اگر ایک بار اجلاس بلانے پر کورم پورا نہ ہو تو دوسری بار کورم ۳/ ۱ ہوگا.انتخاب کے لئے اشار تا یا وضا حنا پراپیگنڈا کی اجازت نہ ہوگی.منتخب شدہ نام منظوری کے لئے صدر مجلس کے پاس بھجوایا جائے.“ ( مجلس انصار اللہ ڈرگ روڈ کراچی ) سفارش شوری: یہ معاملہ چونکہ غور طلب ہے.یہاں اتنی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں اس لئے اگر سب کو اتفاق ہو تو ایک کمیٹی بنادی جائے جو اس معاملہ ہر غور کر کے اپنی رپورٹ دے اور آئندہ سال کی مجلس شوری میں اسے پیش کیا جائے.تمام ممبران شوری نے اتفاق کیا.سفارش صدر مجلس ممبران کمیٹی بڑے شہروں سے تو بہر حال لئے جائیں لیکن زیادہ دور والے نہ ہوں تا کہ رابطہ میں آسانی ہو.اس کمیٹی کا ایک اجلاس اس پروگرام کے بعد ابھی ہو جانا چاہیے.اس میں بیرونی ممالک کے نمائندگان کو بھی شامل کر لیا جائے تا کہ وہ بھی اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرسکیں.بنگلہ دیش ،مغربی جرمنی اور دبئی کے نمائندگان کو بھی اس کمیٹی میں شامل کر لیا جائے.کمیٹی کے صدرمکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اور سیکرٹری مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی ہوں گے.تجویز نمبر ۲ ( شعبه مال): زعیم مجلس کے علاوہ انسپکٹر انصار اللہ متعلقہ کو بھی ذمہ دار بنایا جائے کہ وہ ہر تین ماہ کے بعد ہر مجلس میں جائیں اور نادہندگان سے چندہ جات کی وصولی کریں.اگر وصولی نہ ہو تو نادہندگان

Page 301

۲۸۱ کے خلاف مرکز میں مناسب کارروائی کے لئے رپورٹ ارسال کریں تا کہ بقایا جات نا دہندگان سے لازمی وصول کیے جاسکیں.( مجلس انصار اللہ شاہدرہ ٹاؤن لاہور ) سفارش شوری: نمائندگان شوری کی بھاری اکثریت نے رائے شماری پر اس تجویز کور ڈ کرنے کی سفارش کی.سفارش صدر مجلس : نظری فیصلہ کافی ہے.تجویز نمبر ۳ ( شعبه مال): بجٹ آمد و خرچ بابت ۱۹۸۱ء شوری مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق بجٹ آمد و خرچ منظور کیے جانے کی سفارش کرتی ہے.چنده مجلس چنده اجتماع اشاعت لٹریچر ماہنامہ انصار الله متفرق تعمیر دفتر گیسٹ ہاؤس میزان ۳۶۰۰۰۰ ۶۰۰۰۰ ۱۳۰۰۰ ۴۴۳۹۶ ۲۰۰۰ ۵۰۰۰۰ ۵۲۹۳۹۶ سفارش صدر مجلس: منظور ہے.سفارشات مجلس شوری ۱۹۸۱ء تجویز نمبر ( قیادت عمومی ) : انتخاب صدر و نا ئب صد رصف دوم سفارش شوری (1) صدر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (۲) نائب صدر صف دوم: مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب فیصلہ حضرت خلیفہ مسیح: حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۸ء کومنظوری عطا فرمائی.تجویز نمبر ۲ ( قیادت عمومی ) : دستور اساسی میں سقم اور تضاد معلوم ہوتے ہیں.جن کو دور کرنے کے لئے تجویز ہے کہ مجلس شوریٰ انصار اللہ ماہرین دستور سازی اور اردو دان حضرات کی ایک کمیٹی قائم کرے جو دستور اساسی کو از سر نو تر تیب دے کر مجلس عاملہ مرکز یہ میں پیش کرے.“ ( مجلس رجوعہ ضلع جھنگ) سفارش شوری : ”دستور اساسی پر دوبارہ تفصیلی غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے.تا اگر اس میں کوئی سقم یا اشکال ہوں تو ان کو دور کیا جا سکے.کمیٹی یہ رپورٹ مجلس عاملہ مرکز یہ میں چھ ماہ کے اندر پیش کرے اور مجلس عاملہ

Page 302

۲۸۲ مرکز یہ اس پر غور کرنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں بغرض منظوری پیش کرے.صدر محترم خود مناسب اور موزوں افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرما دیں.اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد کے بارہ میں بھی فیصلہ صدر مجلس کے صوابدید پر منحصر ہو گا.“ بارہ فیصلہ حضرت خلیفہ المسح : حضور نے کر کا نشان لگایا.تجویز نمبر ۳ ( قیادت عمومی): رپورٹ سب کمیٹی درباره تجویز نمبرا ایجنڈا شوری ۱۹۸۰ء ”سب کمیٹی شوری ۱۹۸۰ء دستور اساسی کی شق ۱۶۵ کو اس شکل میں منظور کرنے کی سفارش کرتی ہے.“ زعیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندہ یا ناظم ضلع یا پریذیڈنٹ یا ان کے نمائندے کی نگرانی میں ہوگا.“ قاعدہ کا بقیہ حصہ رہنے دیا جائے.سفارش کمیٹی : " قاعدہ نمبر ۱۶۵ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بدل دیا جائے.عیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندہ کی نگرانی میں ہوگا.قاعدہ کا بقیہ حصہ حسب سابق رہنے دیا جائے.“ فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے 7 کا نشان لگایا.تجویز نمبر ۳ ( قیادت عمومی): ایجنڈا شوری ۱۹۸۱ء تجویز نمبر۳ ”ربوہ کے انصار کو اجتماع کے دوران کھانے میں شامل کرنے سے متعلق سفارش سب کمیٹی ۱۹۸۰ء 'ربوہ کے انصار کو اجتماع کے دوران کھانے میں شامل کرنے کے لئے بجٹ میں خاصا اضافہ کرنا ہوگا جس کی ابھی گنجائش نہیں.سب کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ ہر سال صدر مجلس ایسے انصار کا کوٹہ مقرر فرماویں جن کے لئے گھروں میں جا کر کھانا کھانا مشکل ہو، ان کو اجتماع کے کھانے میں شامل کیا جائے.سفارش شوری : هر سال صدر مجلس ربوہ کے ایسے انصار کا کوٹہ مقررفرما دیں جن کے لئے گھروں میں جا کر کھانا کھانا مشکل ہو، ان کو اجتماع کے کھانے میں شامل کیا جائے.“ فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے کا نشان لگایا.تجویز نمبر ۴ ( قیادت مال ): موجودہ مہنگائی کی وجہ سے تجویز ہے.(الف) چندہ سالانہ اجتماع ڈیڑھ فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا جائے.(ب) چندہ اشاعت لٹریچر ایک روپیہ سے بڑھا کر دور و پیہ سالانہ کر دیا جائے.(ج) حصہ مجلس مقامی اٹھائیس فیصد سے بڑھا کر تمیں فیصد کر دیا جائے.( مجلس شاہدرہ ٹاؤن لاہور )

Page 303

۲۸۳ سفارش شوری : تجویز کی متینوں شقوں کورڈ کیا جائے.مجالس بجٹ کی صحیح تشخیص اور اس کے مطابق وصولی کریں تو کسی بھی چندہ کی شرح بڑھانے کی ضرورت نہیں.فیصلہ حضرت خلیفہ مسیح : حضور نے کا نشان لگایا.المسیح، 7 تجویز نمبر ۵ ( قیادت مال ) بجٹ آمد و خرچ بابت سال ۱۹۸۲ء : مبلغ چھ لاکھ سترہ ہزار روپے سفارش شوری : بجٹ آمد وخرج ۱۹۸۲ء مبلغ چھ لاکھ سترہ ہزار روپے کو منظور کرنے کی سفارش کی جاتی ہے.فیصلہ حضرت خلیفہ المسیح ، حضور نے ک کا نشان لگایا مرزا طاہر احمد ۸۲-۲۷۷

Page 304

لد

Page 305

۲۸۵ دستور اساسی مجلس انصار اللہ کا دستور اساسی سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی راہنمائی میں تیار ہوکر حضور انور کی منظوری سے پہلی مرتبہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۷ء سے نافذ ہوا اور اپریل ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا.بعد میں وقتا فوقتا اس میں جو ترامیم ہوتی رہیں، انہیں دستور اساسی کے آئندہ ایڈیشنز میں شامل کیا جاتارہا.دستور اساسی کا دوسرا ایڈیشن جولائی ۱۹۶۴ء میں اور تیسرا ایڈیشن مئی ۱۹۷۱ء میں طبع ہوا.مجالس بیرون کی راہنمائی کے لئے دستور اساسی کا انگریزی ترجمہ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا.دستور اساسی کا چوتھا ایڈیشن اکتوبر ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا اور اس وقت تک کی تمام ترامیم اور اضافہ جات اس میں شامل کر لئے گئے.تاریخ دستور اساسی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء دو حضرت خلیفۃ المسح الثالث نے مئی ۱۹۷۹ء کودستوراسای کانیا قاعدہ نمبر ۲۰ منظورفرمایا جو یہ تھا.پاکستان سے باہر ملک کا مشنری انچارج اُس ملک میں مجلس انصاراللہ کا نا ئب صدر ہوگا.(1) مجلس شوری انصار اللہ مرکز یہ منعقدہ ۱۹۷۹ء میں مجلس عاملہ مرکز ی کی تجویز بر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی منظوری سے دستور اساسی میں یہ اہم تبدیلی کی گئی کہ آئندہ زعیم اعلی ربوہ صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے نامزد کردهہ اور مجلس عاملہ مرکزیہ کے رکن ہوں گے.مجلس شوری ۱۹۷۹ء میں ہی ایجنڈا کی مذکورہ بالا تجویز نمبرا کے علاوہ مجلس شوری، انتخاب صدر اور انتخاب ناظم ضلع کے قواعد میں بھی کچھ تبدیلیاں تجویز کی گئیں.ایجنڈا کی ان تجاویز (نمبر ۲ ،۴۳) پرتفصیلی غور کیلئے مجلس شوری نے مندرجہ ذیل تیرہ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی نیز فیصلہ کیا کہ کمیٹی اپنی سفارشات صدر مجلس کی وساطت سے حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کرے.ا مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ( نائب صدر ) ۲..مکرم پر و فیسر حبیب اللہ خان صاحب ( قائد تعلیم ) مکرم پروفیسر بشارت الرحمان صاحب ( قائد وقف جدید ) مکرم ڈاکٹر احمد حسن چیمہ صاحب (گجرات) - مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب ( گوجرانوالہ) مکرم میجر محمود احمد صاحب (سرگودھا)

Page 306

۲۸۶ مکرم چوہدری احمد دین صاحب ( فیصل آباد) مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب (لاہور) مکرم چوہدری عبدالغفور صاحب (جھنگ) مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب (سیالکوٹ).مکرم ملک لطیف احمد سرور صاحب ( شیخو پوره ) مکرم پروفیسر مجد طفیل صاحب (ساہیوال) ۱۳.مکرم فضل الہی انوری صاحب (ربوہ) ا.۱۲.مقررہ سب کمیٹی کی رپورٹ مختلف مراحل میں سے گزر کر مجلس عاملہ مرکزیہ کے اجلاس منعقدہ ۷ اپریل ۱۹۸۰ء میں پیش ہوئی.کمیٹی کی رپورٹ میں سے تجویز نمبر ۳ یعنی دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۹۲ بسلسلہ انتخاب صدر پر غور ہوا.مختلف تجاویز زیر غور آئیں.آخر فیصلہ ہوا کہ صدر محترم خود حضور انور کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بارہ میں ہدایت لے لیں.﴿۲﴾ ایجنڈا کی بقیہ تجاویز کے سلسلہ میں کمیٹی کی رپورٹ اور فیصلوں کی تفصیل اس طرح ہے: ایجنڈا کی تجویز نمبر۲ قاعدہ نمبر ۴۳.( مجلس شوری کا فیصلہ صدر کی منظوری کے بعد تمام مجالس کے لئے واجب التعمیل ہوگا) کے بارہ میں تھی.اس قاعدہ میں ”صدر“ کی بجائے ” خلیفہ وقت“ کے الفاظ تجویز کئے گئے تھے.سب کمیٹی نے سفارش کی کہ بایں الفاظ ایک نیا قاعدہ تشکیل دیا جائے.”دستور اساسی کے مطابق مجلس عالمگیر کے اختیارات کے استعمال کا حق صرف مجلس شوری کو ہوگا.نیز قاعدہ نمبر اے کو اس طرح تبدیل کر دیا جائے کہ دوران سال شوری کے کسی فیصلہ کو بدلنے کی اگر ضرورت پیش آجائے تو صدر مجلس کو خلیفہ وقت کی منظوری سے ایسا کرنے کا اختیار ہوگا.“ سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے سب کمیٹی کی سفارش پر ارشاد فرمایا کہ موجودہ قاعدہ قائم رہے گا.انشاء اللہ خلیفہ وقت کے پاس اس کے ہوتے بھی شکایت کی جاسکتی ہے.“ چنانچہ قواعد نمبر ۴۳ والے میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا.ایجنڈا کی تجویز نمبر۴ (( ب ، ج ) پر فیصلہ جات اس طرح سے تھے : (۱) قواعد نمبر ۵۳ اور ۱۵۲ ناظم ضلع کے انتخاب سے تعلق رکھتے تھے.ان قواعد میں مطابقت پیدا کرتے ہوئے یہ انتخاب مرکز کی نگرانی میں منعقد کرانے کی تجویز ہوئی.سب کمیٹی کی سفارش پر مذکورہ تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا.نیز قاعدہ نمبر ۵۳ کے مطابق ناظم ضلع کے حلقہ انتخاب میں ضلع بھر کی مجالس کے زعماء اعلیٰ ، زعماء اور نمائندگان شوری

Page 307

۲۸۷ انصار اللہ شامل تھے.صدر محترم نے فیصلہ فرمایا کہ نمائندگان شوری انصار اللہ کی انتخاب میں شمولیت کی ضرورت نہیں.کورم کے لئے وقت ہوگی.“ (ب) قواعد نمبر ۱۲۱ اور ۴۲ میں یکسانیت لاتے ہوئے قاعدہ نمبر ۴۲ میں مذکور فہرست اراکین مجلس شوری میں صحابہ کرام کے الفاظ شامل کر دئیے گئے.(ج) ملک ، علاقہ ، ضلع اور حلقہ جات کی طرح قاعدہ نمبر ۱۶۹ میں ” مقام“ کے اراکین مجلس عاملہ کے لئے بھی تین سال کی میعاد مقرر کی گئی.مجلس شوری ۱۹۸۰ء میں زعیم اعلیٰ مقام کے انتخاب سے متعلق قاعدہ نمبر ۱۶۵ زیر بحث آیا.شوری کے فیصلہ کے مطابق مزید غور کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی.کمیٹی نے سفارش کی کہ زعیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندہ یا ناظم ضلع یا پریذیڈنٹ یا اُن کے نمائندہ کی نگرانی میں کروایا جائے.تاہم اگلے سال ۱۹۸۱ء میں یہ رپورٹ پیش ہونے پر مجلس شوری نے مذکورہ قاعدہ میں بایں الفاظ تبد یلی تجویز کی.عیم اعلیٰ کا انتخاب مرکزی نمائندہ کی نگرانی میں ہوگا.“ حضورا نور سے منظوری کے بعد یہ تبدیلی دستور اساسی کا حصہ بن گئی.اپریل ۱۹۸۱ء میں مجلس عاملہ مرکزیہ کی سفارش پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۲۳ میں یہ تبدیلی منظور فرمائی کہ آئندہ نائب قائدین با جازت صدر، عاملہ کے اجلاس میں شریک ہوسکیں گے مگر ووٹ نہیں دے سکیں گے.(۳) تشکیل دستور کمیٹی پس منظر _ اغراض و مقاصد مجلس شوری ۱۹۸۱ء میں مجلس رجوعہ ضلع جھنگ کی طرف سے حسب ذیل تجویز پیش ہوئی.دستور اساسی میں بعض سقم اور تقضا د معلوم ہوتے ہیں جن کو دور کرنے کے لئے تجویز ہے کہ مجلس شوریٰ انصاراللہ ماہرین دستور سازی اور اردو دان حضرات کی ایک کمیٹی قائم کرے جو دستور اساسی کو از سر نو تر تیب دے کر مجلس عاملہ مرکزیہ میں پیش کرے.“ بحث کے دوران حضرت مرزا عبد الحق صاحب رکن خصوصی عاملہ مرکزیہ نے تجویز کے الفاظ کو زیادہ دو موزوں شکل دینے کی تجویز پیش کی جسے شوری نے منظور کیا اور تجویز کے الفاظ یوں قرار پائے: دستور اساسی پر دوبارہ تفصیلی غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جائے تا اگر اس میں کوئی سقم یا اشکال ہوں تو ان کو ڈور کیا جا سکے.کمیٹی یہ رپورٹ مجلس عاملہ مرکز یہ میں چھ ماہ کے اندر پیش کرے اور مجلس عاملہ

Page 308

۲۸۸ مرکز یہ اس پر غور کرنے کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بغرض منظوری پیش کرے.“ اس موقع پر ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب رکن خصوصی عاملہ مرکزیہ کی پیش کردہ رائے پر مجلس شوری نے مزید فیصلہ کیا کہ صدر محترم خود مناسب اور موزوں افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقررفرما دیں.اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد کے بارہ میں بھی فیصلہ صدر مجلس کی صوابدید پر منحصر ہوگا.‘ مجلس شوری کے اس فیصلہ پر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے اعلان فرمایا کہ ناظمین اضلاع اور انفرادی طور پر نمائندگان شوری بھی کمیٹی کی تشکیل کے بارہ میں مجھے بذریعہ خطوط ایک ماہ کے اندر اندر مشورہ دیں کہ ان کے علاقوں کے ایسے کون سے انصار ہیں جنہیں اس کمیٹی کا ممبر بنانا چاہیے پھر ایک مناسب حال کمیٹی کا اعلان کر دیا جائے گا.انشاء اللہ تمام ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد صدر محترم نے اُنہیں اراکین پر مشتمل دستور کمیٹی قائم فرمائی.اراکین دستور کمیٹی ۱۹۸۱ء صدر سیکرٹری ا.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ( نائب صدر ) ۲.مکرم پروفیسر منور شمیم خالد صاحب ( قائد عمومی).مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی ( قائد تربیت) -۴ مکرم خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب ( زعیم اعلیٰ صدر کراچی ) - مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب (لاہور ).مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ ( زعیم اعلی گجرات ) ے.مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب (سیالکوٹ) مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب ( فیصل آباد).مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب (جھنگ) ۱۰.مکرم محمد رشید میر صاحب ( ناظم ضلع پشاور ).مکرم میجر محمود احمد صاحب (سرگودھا) ۱۲.مکرم لطیف احمد سرور صاحب ( ناظم ضلع شیخو پوره ) ۱۳.مکرم کرنل (ریٹائرڈ) دلدار احمد صاحب (ناظم ضلع راولپنڈی) ۱۴.مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب (حیدر آباد ) ۱۵.مکرم فضل الہی انوری صاحب ( زعیم اعلی مجلس مقامی ربوہ) ۱۶ مکرم عبدالسمیع حسنی صاحب ( زعیم مجلس رجوع ضلع جھنگ)

Page 309

۲۸۹ ۱۷.مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب ( نمائندہ یو.کے) ۱۸ مکرم برادر مظفر احمد صاحب ظفر (امریکہ ) ۱۹.مکرم عبدالرؤف صاحب آف سویڈن (نمائندہ یورپ) صدر محترم کی اصولی ہدایات صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اس کمیٹی کو پہلے اجلاس سے قبل مندرجہ ذیل راہنما اصول تحریر فرمائے : ا.آج کا اجلاس طریق کار اور لائحہ عمل طے کرنے کے علاوہ اُن خصوصی شقوں کو لے جن کا تعلق بیرون سے ہواور بیرون والوں کو زیادہ موقعہ مہیا کیا جائے.۲ حتی المقدور یہ کوشش ہونی چاہئیے کہ مغز میں تبدیلی نہ ہو.لفظی ستم دور ہوں.ہاں تضاد دور کرنے کے لئے مغز میں ضروری تبدیلی ہو سکتی ہے..اگر مغز میں ضروری تبدیلی یا کوئی اہم بات طے ہو تو ایسی چیزیں آئندہ شوری میں پیش کرنے کے لئے الگ کر دی جائیں اور معمولی لفظی یا تضاد کی تبدیلیوں کی رپورٹ الگ ہو.﴿۴﴾ ابتدائی اجلاس و تشکیل سب کمیٹی : دستور کمیٹی کا پہلا اجلاس مورخہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۱ ء رات آٹھ بجے گیسٹ ہاؤس انصار اللہ مرکز یہ میں زیر صدارت مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب منعقد ہوا.اجلاس میں مکرم خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب - مکرم محمد رشید میر صاحب - مکرم کرنل دلدار احمد صاحب اور مکرم عبدالرؤف صاحب کے سوا تمام اراکین کمیٹی نے شرکت کی.دستور کمیٹی نے اپنے ابتدائی اجلاس میں کمیٹی کے اغراض و مقاصد متعین کئے اور طریق کار ولائحہ عمل طے کیا نیز مجالس بیرون کے نمائندگان کی موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دستور کے ان حصوں پر بحث کی جن کا تعلق مجالس بیرون سے تھا.اس بحث کے دوران مجالس بیرون کے حالات و مسائل اور ان کی نوعیت بھی سامنے آئی جن کو دستور کمیٹی نے اپنے بعد کے اجلاسوں میں زیر نظر رکھا.اس موقع پر ایک سب کمیٹی بھی قائم کی گئی جسے دستور اساسی پر تفصیلی غور کرنے کے بعد اپنی سفارشات دوماہ کے اندر پیش کرنے کا فریضہ سونپا گیا.سب کمیٹی کے اراکین حسب ذیل تھے.اراکین سب کمیٹی : مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی ( صدر سب کمیٹی ) ، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی ( سیکرٹری سب کمیٹی )، مکرم فضل الہی صاحب انوری ، مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب، مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب، مکرم میجر محمود احمد صاحب، مکرم عبدالسمیع صاحب حسنی.

Page 310

۲۹۰ سب کمیٹی نے متعدد اجلاسات منعقد کئے اور ۱۰ مارچ ۱۹۸۲ء کو بیالیس صفحات پر مشتمل رپورٹ معہ مجوزہ دستور اساسی صدر دستور کمیٹی کو پیش کی.اس کے بعد دستور کمیٹی نے ماہ اپریل مئی ۱۹۸۲ء کے کئی اجلاسات میں دستور اساسی پر مزید غور کیا.ان اجلا سات میں شریک ہونے والے اراکین کی اجلاس وار فہرست درج ہے: شرکاء اجلاس منعقده ۱۲۹ اپریل ۱۹۸۲ ء رات پونے آٹھ بجے تا ڈیڑھ بجے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب صدر کمیٹی مکرم منور شیم خالد صاحب سیکرٹری ہکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی مکرم میجر محمود احمد صاحب ،ہکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ، مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب ، مکرم ملک لطیف احمد صاحب سرور مکرم دلدار احمد صاحب ، کرم فضل الہی صاحب انوری، مکرم عبدالسمیع صاحب حسنی.مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب، مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب، مکرم غلام دستگیر صاحب نے بوجہ مجبوری اجلاس سے رخصت حاصل کی.) شرکاء اجلاس منعقدہ ۳۰ اپریل ۱۹۸۲ء ساڑھے سات بجے صبح تا ساڑھے بارہ بجے دوپہر.اڑھائی بجے بعد دو پہر تا ساڑھے پانچ بجے شام.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ، مکرم منور شمیم صاحب خالد مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی ،ہمکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ، مکرم میجر محمود احمد صاحب، مکرم لطیف احمد صاحب سرور، مکرم کرنل دلدار احمد صاحب، مکرم فضل الہی صاحب انوری، مکرم عبدالسمیع صاحب حسنی.مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب، مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب ، مکرم چوہدری عبد المجید صاحب اور مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب نے اس اجلاس سے رخصت حاصل کی.) شرکاء اجلاس منعقده ۱۳مئی ۱۹۸۲ ء ساڑھے سات بجے تا سوا دو بجے شب و ۱۴ مئی ۱۹۸۲ء آٹھ بجے صبح تا پونے بارہ بجے دوپہر.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب، مکرم منور شمیم صاحب خالد، مکرم ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی ہمکرم کرنل دلدار احمد صاحب، مکرم میجر محمود احمد صاحب، مکرم لطیف احمد صاحب سرور، مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب، مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب ، مکرم عبدالسمیع صاحب حسنی، مکرم شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی ،مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ، مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب اور مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب بوجوہ اس اجلاس میں شریک نہ ہو سکے اور رخصت حاصل کی جبکہ مکرم فضل الہی صاحب انوری بوجہ بیماری ۳ مئی کے

Page 311

اجلاس میں شریک نہ ہو سکے.) ۲۹۱ دستور کمیٹی کا آخری اجلاس مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۸۲ء ہش رات آٹھ بجے گیسٹ ہاؤس انصار اللہ مرکز یہ میں منعقد کیا گیا جس میں اراکین نے مجوزہ دستور اساسی کو متفقہ طور پر آخری شکل دی اور اپنے اپنے دستخط ثبت کر کے صدر محترم کی خدمت میں پیش کر دیا.دستور کمیٹی کے پہلے اجلاس اور آخری اجلاس کے درمیانی عرصہ یعنی پانچ ماہ کے دوران مجموعی طور پر ستاون گھنٹے تک کمیٹی کے اجلاسات ( در کنگ سیشن منعقد ہوئے.اس سارے عرصہ کے دوران اراکین نے نہایت ذمہ داری اور پورے انہماک ، توجہ اور محنت کے ساتھ اس اہم فریضہ کو سرانجام دیا.﴿۵﴾ رپورٹ دستور کمیٹی کے خصوصی نکات ا.مجوزہ دستور اساسی میں قاعدہ نمبروں کی ترتیب نو قائم کی گئی اور قواعد میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے مختلف عنوانات اور عہدوں سے متعلق تمام قواعد یک جا کر دئیے گئے.۲.جہاں زبان کے لحاظ سے تقم یا ابہام محسوس ہوا، اسے دُور کرنے کی کوشش کی گئی.بعض قواعد میں حک واضافہ کیا گیا.کمیٹی نے کوشش کی کہ ممکن حد تک دستور اساسی میں کم از کم تبدیلی کی جائے البتہ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے کچھ نئے قواعد اور چند ایک بنیادی تبدیلیوں کی سفارش کی گئی.۳.رپورٹ میں دو کالم بنائے گئے.پہلے کالم میں مجوزہ دستور اساسی کے قواعد درج کئے گئے.ان قواعد کے سامنے دوسرے کالم میں موجود دستور اساسی کے متعلقہ قواعد کا حوالہ نمبر درج کیا گیا نیز حسب ضرورت وضاحتی نوٹ بھی درج کر دیا گیا تا موازنہ و مقابلہ میں آسانی رہے.۴.مجوزه دستور اساسی کے آغاز میں عنوانات کی فہرست بھی تیارکی گئی.کمیٹی کی تجویز بھی کہ یہ فہرست بھی دستور کے ساتھ شائع کی جائے تا متعلقہ قواعد کی طرف فوری راہنمائی ممکن ہو.۵.موجودہ دستور اساسی میں بنیادی تبدیلیوں اور نئے قواعد کو ایک چارٹ کی شکل میں درج کیا گیا جس سے ان سفارشات کی نوعیت سمجھنے اور موازنہ کرنے میں سہولت پیدا ہوگئی.مجوزہ دستور کے قابل ذکر قواعد جاتا ہے.مجوزہ دستور اساسی میں بنیادی تبدیلیاں کرتے ہوئے جو نئے قواعد تجویز کئے گئے ، ان کا مختصراً ذکر کیا ۱- مجالس عاملہ مرکز بیہ، ملک، علاقہ ضلع ، مقام وحلقہ میں آڈیٹر کا عہدہ شامل کیا گیا.۲.تمام مجالس عاملہ میں قلمی دوستی کے شعبہ کا اضافہ کیا گیا.

Page 312

۲۹۲ ۳.تمام مجالس عاملہ میں صف دوم کی عمر کی تشریح کر دی گئی.۴.قواعد بابت مجلس عاملہ ملک و علاقہ میں سے علاقہ کا لفظ حذف کر کے انہیں صرف ملکی عہد یداران کے لئے تجویز کیا گیا.-۵- مجالس عاملہ علاقہ اور ضلع کے قواعد کو یکجا کرتے ہوئے تجویز کیا گیا کہ علاقہ کا سر براہ ناظم اعلیٰ کی بجائے ناظم علاقہ اور دوسرے عہدیدار معتمد کی بجائے مہتم، کہلائیں..کوئی نام منظوری کے لئے صدر مجلس کو بھجواتے وقت انتخابی اجلاس کی پوری کارروائی ساتھ بھجوائی جانی ضروری قرار دی گئی.ے.ناظم علاقہ ضلع کا تقرر انتخاب کی بجائے بذریعہ نامزدگی از صدر مجلس تجویز کیا گیا.ناظم علاقہ اضلع اور ان کے مجالس عاملہ کی نامزدگی تین سال کی بجائے ایک سال تجویز کی گئی.۹.قبل ازیں زعیم اعلیٰ / زعیم اپنے عہدہ کے اعتبار سے مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور وہ مجلس متعلقہ کے لئے مقرر کردہ تعداد میں شامل نہ تھے.کمیٹی نے تجویز کیا کہ انہیں مقرر کردہ تعداد میں شامل کیا جائے.۱۰.مجلس شوری کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے اختیارات جزوی یا کلی طور پر سب کمیٹی یا افراد کو عارضی طور پر تفویض کردے.ا.استطاعت نہ رکھنے والے اراکین کا چندہ معاف یا کم کرنے سے متعلق صدر مجلس کا اختیار قواعد میں شامل کیا گیا.۱۲.نائب صدر ان کے فرائض و اختیارات دستور اساسی میں شامل کئے گئے.۱۳.نائب صدر ملک کے فرائض و اختیارات کے متعلق آٹھ قواعد ترتیب دیئے گئے.۱۴.ناظم علاقہ ضلع پر فرض قرار دیا گیا کہ وہ اپنی مجالس میں مرکزی ہدایات کی تعمیل کرائیں.۱۵ مجلس عاملہ علاقہ ضلع / مقام حلقہ کو عہدیداران بالا کے تجویز کردہ ذرائع اصلاح کے نفاذ کاذمہ دار ٹھہرایا گیا.۱۶.دستور اساسی کے قواعد میں ترمیم، تنسیخ یا تبدیلی کرانے کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مجوزہ تجویز میں وضاحت سے دستور اساسی کے قاعدہ کا ذکر ہو.۱۷.تجویز کیا گیا کہ کسی عہدیدار کے پاس ایک سے زائد عہدے ہونے کی صورت میں رائے شماری کے وقت اُس کا ایک ہی ووٹ شمار ہو.۱۸.مجلس کے چندہ جات ( مجلس، سالانہ اجتماع ، اشاعت لٹریچر ) کی شرح کا تعین مجلس شوری کر چکی تھی ، اسے دستور اساسی کا حصہ بنادیا گیا نیز اس میں تغیر و تبدل کا اختیار مجلس شوری کو دیا گیا.۱۹.مجلس انصار اللہ کے وصول شدہ چندوں کی تقسیم کی شرح ( حصہ مرکز ، حصہ مجالس مقامی وغیرہ) دستور میں

Page 313

شامل کرنے کی تجویز دی گئی.۲۹۳ نئے دستور اساسی کی منظوری صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دستور اساسی کے متعلق یہ رپورٹ حضرت خلیفة المسیح الثالث کی خدمت میں آخری منظوری کے لئے بھجوائی.حضرت خلیفہ المسح الثالث مئی ۱۹۸۲ء کے اواخر میں اسلام آباد تشریف لے گئے اور وہاں پر قیام کے دوران ہی چند روز صاحب فراش رہ کر ۸ جون ۱۹۸۲ء کو رحلت فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب منصب خلافت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے.اُس وقت دستور اساسی کے متعلق متذکرہ بالا سفارشات حضرت خلیفہ اسیح الرابع" کی خدمت میں پیش ہوئیں.۱۸ جون ۱۹۸۲ء کو حضور نے یہ سفارشات اس نوٹ کے ساتھ مجلس مرکز یہ کو واپس بھجوائیں.عمومی طور پر تسلی بخش ہے.مجلس عاملہ میں پیش کر کے آخری منظوری کے لئے پیش کریں.لیکن اگر کوئی تبدیلیاں ایسی ہوں کہ مجلس شوریٰ انصار اللہ میں ان کا پیش کرنا 66 مناسب سمجھا جائے تو ان کے بارے میں الگ وضاحت کر دی جائے.“ چنانچہ حضورانور کی ہدایت کے مطابق مجلس عاملہ مرکزیہ نے فوری طور پر اپنے چارا جلاسات ( منعقدہ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ جون ۱۹۸۲ء) میں اس مسودہ پر غور کیا.مجلس عاملہ نے بالعموم کمیٹی کی رپورٹ سے اتفاق کیا لیکن بعض جگہ پر تبدیلی بھی کی اور بالآخر ے جولائی ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ نئے دستور کو مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے.مجلس نے یکم جنوری ۱۹۸۳ء سے اس مجوزہ دستور کے نفاذ کی سفارش کی.1 ) حضرت خلیفۃ أمسیح الرابع نے بعض قواعد پر ریمارکس دیتے ہوئے مجوزہ دستور اساسی واپس بھجوا دیا.مجلس عاملہ نے حضور کے ارشادات کی روشنی میں سفارشات مرتب کر کے دوبارہ حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے بھجوائیں.متعلقہ قواعد پر سفارشات اور حضور کے فیصلہ جات درج کئے جاتے ہیں : مجوزہ قاعدہ نمبر ۲۱: علاقہ اضلع مجلس عاملہ علاقہ اضلع مندرجہ ذیل عہد یداروں پر مشتمل ہوگی.(۱) ناظم (۲) نائب ناظم (۳) نائب ناظم صف دوم (۴) مهتم عمومی (۵) مهتم تعليم..ارشاد حضور انور : «مهتم مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے احترام کے پیش نظر کوئی نئی اصطلاح تجویز کریں.“ سفارش مرکزی عاملہ مہتمم کی بجائے ”نائب ناظم کی اصطلاح استعمال کی جائے.مثلاً نائب ناظم عمومی.

Page 314

۲۹۴ نائب ناظم تعلیم وغیرہ.فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے کا نشان لگا کر مجلس عاملہ کی سفارش منظور فرمائی.مجوزہ قاعدہ نمبر ۳۶ : کوئی نام منظوری کے لئے صدر مجلس کو بھجواتے وقت انتخابی اجلاس کی پوری کا رروائی ساتھ بھیجوانی ضروری ہوگی.ارشاد حضور انور : " تمام پیش کردہ نام ، مجوز ، مؤید اور حاصل کردہ ووٹ“ سفارش مرکزی عاملہ: کوئی نام منظوری کے لئے صدر مجلس کو بھجواتے وقت انتخابی اجلاس کی پوری کارروائی (تمام پیش کردہ نام ، مجوز ، مؤید اور حاصل کردہ ووٹ ) ساتھ بھجوانی ضروری ہوگی.فیصلہ حضرت خلیفة السج: حضور نے ، کا نشان لگا کر منظوری عطا فرمائی.مجوزه قاعدہ نمبر ۸۶ مجلس شوری کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے اختیارات جز وی یا کلی طور پر کسی سب کمیٹی یا افراد کو عارضی طور پر تفویض کر دے.ارشاد حضور انور : ایسی کمیٹیوں کی رپورٹ آخری منظوری کے لئے مجلس شوری یا خلیفہ وقت کے پاس پیش ہوگی.“ سفارش مرکزی عاملہ مجلس شوری کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے اختیارات جزوی یا کلی طور پر کسی سب کمیٹی یا افراد کو عارضی طور پر تفویض کر دے.ایسی کمیٹیوں کی رپورٹ آخری منظوری کے لئے مجلس شوری یا خلیفہ وقت کے پاس پیش ہوگی.فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے ک کا نشان لگا کر منظوری عطا فرمائی.مجوزہ قاعدہ نمبر ۲۲۸: مجلس انصاراللہ کے چندوں کی شرح حسب ذیل ہوگی.(۱) چنده مجلس: کل آمد پر ایک فیصد (۲) چندہ سالانہ اجتماع: ماہوار آمد کا ڈیڑھ فیصد سالانہ (۳) چندہ اشاعت لٹریچر کم از کم ایک روپیہ سالانہ فی رکن ارشاد حضور انور : " (ہنگامی تحریکات کے سوا ) صرف اتنا کیوں نہ رہنے دیا جائے کہ جملہ چندوں کی شرح مقرر کرنے کا اختیار مجلس شوری کو ہوگا.“ سفارش مرکزی عاملہ مجلس انصار اللہ کے مستقل چندوں کی شرح مقرر کرنے کا اختیار مجلس شوریٰ انصار اللہ کو ہو گا.اسی طرح مجلس انصار اللہ کے وصول شدہ چندوں کے حص کی تقسیم کا فیصلہ بھی مجلس شوریٰ انصار اللہ کرے گی.فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے ✓ کا نشان لگا کر منظوری عطا فرمائی.نیز اس قاعدہ کے آخر میں یہ ایز ادی فرمائی کہ جس کی منظوری خلیفہ اسیح دیں گے.“ مجوزہ قاعدہ نمبر۲۲۹: مجلس انصار اللہ کے وصول شدہ چندوں کی تقسیم حسب ذیل طریق پر ہوگی.

Page 315

۲۹۵ پاکستان میں: چنده مجلس: حصہ مرکز ۶۷ فیصد حصہ ناظمین علاقہ واضلاع ۵ فیصد.حصہ مقامی مجلس ۲۸ فیصد چندہ سالانہ اجتماع اور چندہ اشاعت لٹریچر سو فیصد مرکز میں بھجوایا جائے گا.ب.ممالک بیرون میں: چنده مجلس: حصہ مرکز ۲۰ فیصد - حصہ ملک ۵۰ فیصد - حصہ مقامی ۳۰ فیصد چندہ سالانہ اجتماع: حصہ مرکز ۱۰ فیصد.حصہ ملک ۹۰ فیصد چندہ اشاعت لٹریچر : حصہ سو فیصد ارشاد حضور انور : ۲۲۹ سے متعلق فیصلہ ۲۲۸ کے بارہ میں فیصلہ پر منحصر ہوگا.“ سفارش مرکزی عاملہ قاعدہ نمبر ۲۸ پر سفارش کی روشنی میں مجوزہ قاعدہ نمبر ۲ حذف کر دیا جائے.فیصلہ حضرت خلیفہ اسیح: حضور نے ✓ کا نشان لگا کر منظوری عطا فرمائی.سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے ۲۷ جولائی ۱۹۸۲ء کوحضرت خلیفہ المسیح الرابع ” نے دستور اساسی کے قواعد نمبر ۴۲ و ۴۶ کی مجوزہ شکل بصورت قاعدہ نمبر ۷۳ مجلس شوری ۸۲ء میں پیش کرنے کا ارشاد فرمایا.اس قاعدہ کی رو سے تجویز کیا گیا تھا کہ مجلس شوری کے لئے نمائندگان مجالس کی مقرر کردہ تعداد میں زعیم اعلیٰ / زعیم بھی شامل ہوں گے.مذکورہ قاعدہ شوری ۸۲ء میں پیش کیا گیا تو مجلس شوری نے بھاری اکثریت سے سفارش کی کہ زعیم اعلیٰ / زعیم مجلس حسب سابق اپنے عہدہ کے اعتبار سے مجلس شوری کے رکن ہوں اور انہیں مجلس متعلقہ کے لئے مقرر کردہ تعداد میں شامل نہ کیا جائے.یہ سفارش حضور انور کی خدمت میں پیش کر کے منظوری حاصل کی گئی.﴿۷﴾ نظر ثانی شدہ دستور حضور کی منظوری سے یکم جنوری ۱۹۸۳ء سے نافذ ہوا اور مئی ۱۹۸۳ء میں طبع ہوا.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے دستور اساسی کا پانچواں ایڈیشن تھا.

Page 316

۲۹۶ حوالہ جات ا روزنامه الفضل ربوه۲ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۶ رجسٹر روئیدادا جلاسات مجلس عامله مرکز یه ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۶ء روز نامه الفضل ربوه ۲۲ اپریل ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۴ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله رپورٹ دستور کمیٹی.ریکار ڈ شعبہ تاریخ انصار اللہ رپورٹ دستور کمیٹی.ریکارڈ شعبہ تاریخ انصاراللہ کے ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله

Page 317

۲۹۷ تعلیمی پروگرام اور امتحانات شعبہ تعلیم مجلس انصار اللہ کا بنیادی مقصد اراکین مجلس کو علم و معرفت کے حصول کی ترغیب دلانا اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے کوشاں رکھنا ہے.اس ضمن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل پیش خبری کو بالخصوص سامنے رکھتے ہوئے انصار کے علمی معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش میں لگے رہنا اس شعبہ کا تقاضا ہے.حضور نے فرمایا: ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قیادت تعلیم کے تحت مجالس مقامی میں مندرجہ ذیل مضامین کی تدریس تعلیم اور درسوں کا اہتمام کیا جاتارہا: نماز باترجمه، قرآن کریم ناظره، ترجمه و مطالب قرآن، حدیث، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء، دیگر دینی کتب عربی زبان، دیگر ملکی وغیر ملکی زبانیں سیکھنا وغیرہ.درس و تدریس کے اس سلسلہ کے لئے لائبریریوں کا قیام کیا جاتا رہا تعلیمی کلاسز منعقد کی جاتی رہیں.علمی مقابلے کروائے جاتے رہے.ماہانہ اجلاسات اور بعض خصوصی جلسوں واجتماعات میں تعلیمی پروگراموں پر عمل کیا جاتا رہا.نیز انصار کے لئے دینی نصاب مقرر کر کے امتحانات لئے جاتے رہے.مختلف سالوں میں انصار کے دینی مطالعہ کے لئے بطور نصاب قرآن مجید کے معین کردہ حصے، کتب احادیث مبارکہ، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، کتب خلفائے سلسلہ اور دینی معلومات کا بنیادی نصاب ( شائع کرده از مجلس انصار اللہ ) مقرر کئے جاتے رہے.مرکزی امتحانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشاء مبارک یہ تھا کہ جماعت کے دوست دینی علوم میں دسترس حاصل کریں اور پھر ان کے امتحان بھی ہوں تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہ صحیح رنگ میں علم حاصل کر چکے ہیں یا نہیں؟

Page 318

۲۹۸ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: چونکہ یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ہماری اس جماعت میں کم از کم ایک سو آدمی ایسا اہل فضل اور اہلِ کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعوی کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو...پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اور اہل علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۱ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے تیار ہو جائیں.تعطیلوں پر قادیان پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں“.(۲) اس سلسلہ میں بعد کو حضور نے فرمایا: دسمبر کے آخر میں جو احباب کے واسطے امتحان تجویز ہؤا ہے، اس کو لوگ معمولی بات خیال نہ کریں اور کوئی اسے معمولی عذر سے نہ ٹال دے.یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے اور چاہیئے کہ لوگ اس کے واسطے خاص طور پر اس کی تیاری میں لگ جاویں“.(۳) نیز حضور نے فرمایا: ”ہماری جماعت کو علم دین میں تفقہ پیدا کرنا چاہئے ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیات قرآنی و احادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدبر کریں، قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں.اگر کوئی مخالف ان پر اعتراض کرے تو وہ اُسے کافی جواب دے سکیں.ایک دفعہ جو امتحان لینے کی تجویز کی گئی تھی ، بہت ضروری تھی.اس کا ضرور بندوبست ہونا چاہئے“.﴿۴﴾ دینی تعلیم اور زبانیں سیکھنے کے سلسلہ میں خلفاء کے ارشادات (۱) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان تینوں مجالس کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایمان بالغیب ایک میخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گڑ جائے کہ اس کا ہر خیال، ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا.جو لوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں سے متاثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں، وہ ہرگز کوئی کام نہیں کر سکتے.پس مجالس انصاراللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہرممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے رہیں.لیکچروں کے ذریعہ، اسباق کے ذریعہ، اور بار بار امتحان لے کر ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھا جائے“.(۵)

Page 319

۲۹۹ (۲) حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: انصار اللہ کو آج میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں ( مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق راعی بنائے گئے ہیں.آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں.ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ راعی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں، اور قرآن کریم سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہیئیا ور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کہ وہ انصار اللہ مرکزیہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر مہینہ یہ اعلان دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں“.(1) (۳) زبانیں سیکھنے کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی فرماتے ہیں: انصار کو یہ ہم چلانی چاہئے اور کوشش کریں کہ کوئی نہ کوئی زبان آ جائے.اگر باہر کی نہیں سیکھ سکتے تو ملک کی دوسری زبانیں سیکھئے.“ پھر فرماتے ہیں : ”آپ زبانیں سیکھئے.جتنے انصار ہیں.آپ کی عمر ایسی نہیں ہے کہ آپ سیکھ نہ سکیں.پس آپ کو خدا تعالیٰ نے جو بچپن کا ملکہ عطا فرمایا ہے، وہ حاصل کر لیں اور سیکھنے میں بے تکلف ہو جائیں.کوئی شرم محسوس نہ کریں.ٹوٹے پھوٹے جتنے فقرے سیکھے جاتے ہیں، بے شک سیکھیں اور انہیں بولیں“.﴿۷﴾ ان اغراض سے مجلس انصار اللہ میں دینی امتحانات کا سلسلہ اس طرح جاری رہا کہ ۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۰ء میں امتحان کے لئے انصار کے دو معیار رکھے گئے تھے.دیگر کتب کے علاوہ معیار اول میں ترجمہ قرآن کریم کا امتحان شامل تھا اور معیار دوم میں ترجمہ کی بجائے قرآن مجید ناظرہ یا قاعدہ میسر نا القرآن رکھا گیا تھا.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۱ ء تک چار امتحانات سالانہ تھے.۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۹ ء تک تین امتحانات لئے جاتے رہے اور ۱۹۹۰ء سے دوبارہ چار امتحانات سالانہ جاری کر دیئے گئے جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے.تفصیلی کوائف امتحانات انصار الله امتحانات انصار اللہ کے نصاب، شامل اراکین کی تعداد اور امتیاز حاصل کرنے والے انصار کے اسماء پر

Page 320

مشتمل تفصیلی کوائف پیش ہیں: ۳۰۰ ۱۹۷۹ء سہ ماہی اوّل تعداد : ۷۲۹ نصاب (۱) ترجمہ قرآن کریم پارہ نمبر ۱۹ اربع سوم (۲) کتاب تجلیات الہیہ (۳) نصاب بنیادی معلومات صفحه ۱ تا ۳۷ اول: مولانا محمد احمد جلیل صاحب دارالبرکات ربوہ دوم : ملک مظفر احمد صاحب مغلپورہ لاہور سه ماهی دوم تعداد : ۶۸۱ نصاب: (۱) ترجمہ قرآن کریم پار نمبر ۹ اربع چهارم (۲) کتاب کشف الغطاء (۳) نصاب بنیادی معلومات صفحه ۳۸ تا ۸۰ اول: مرزا بشیر احمد صاحب لنگڑیال ضلع راولپنڈی دوم: ولی محمد صاحب زعیم انصار اللہ بصیر پور سه ماهی سوم تعداد : ۷۱۹ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۰ ربع اول (۲) کتاب فتح اسلام (۳) بنیادی نصاب صفحه ۸ تا ۱۱۹ ( دیگر کوائف مہیا نہیں ہو سکے ) سه ماهی چهارم تعداد : ۸۰۳ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۰ ربع دوم (۲) کتاب سبز اشتہار (۳) بنیادی نصاب صفحه ۱۲۰ تا ۱۴۰ ( دیگر کوائف مہیا نہیں ہو سکے ) ۱۹۸۰ء سہ ماہی اوّل تعداد : ۸۰۳ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پاره نمبر ۲۰ ربع سوم (۲) کتاب نشان آسمانی (۳) پیشگوئی مصلح موعود اوّل: محمد احمد قمر صاحب سنوری دار الصدر شمالی ربوہ.دوم : شریف احمد صاحب دا تازید کا ضلع سیالکوٹ سوم چوہدری فضل احمد صاحب L-7/14 ضلع ساہیوال سه ماهی دوم تعداد : ۷۷۹ نصاب : (۱) ترجمہ قرآن کریم پاره نمبر ۲۰ ربع چهارم (۲) کتاب دافع البلاء (۳) خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد اوّل: سعید احمد اظہر صاحب دارالصدر شرقی ربوہ دوم : میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے کوئٹہ سوم: عزیز احمد طاہر صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ سه ماهی سوم تعداد : ۸۴۳ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۱ ربع اول (۲) کتاب آسمانی فیصلہ (۳) آنحضرت بحیثیت رحمۃ للعالمین

Page 321

٣٠١ اول: شیخ منصور احمد صاحب لیاقت آباد کراچی دوم : چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ دارالصدر شمالی ربوہ سوم : مقبول احمد چوہدری صاحب سه ماهی چهارم تعداد: ۸۸۹ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۱ ربع دوم (۲) کتاب لیکچر سیالکوٹ (۳) قرآن کریم کی خصوصیات اوّل: مرزا عبدالحفیظ صاحب نوشہرہ چھاؤنی دوم : غلام بین صاحب دارالصدر شمالی ربوه ۱۹۸۱ء سہ ماہی اول تعداد : ۱۰۴۳ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۱ ربع سوم (۲) کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحه تا صفحه ۹۰ (۳) رساله بنیادی معلومات صفحه ا تا صفحه ۵۷ اوّل: قاضی شریف احمد صاحب ملتان چھاؤنی دوم: محمد ابراہیم شاد صاحب چک ۱۷ اچھور سہ ماہی دوم تعداد: ۱۱۳۹ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۱ ربع چهارم (۲) کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحه ۹۱ تا صفحه ۱۷۶ (۳) رساله بنیادی معلومات صفحه ۵۸ تا صفحه ۱۱۶ اوّل: شیخ عبدالکریم صاحب پشاور دوم : عبدالحق صاحب جنجوعہ کوئٹہ سہ ماہی سوم تعداد : ۱۲۰۹ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲ ربع اول (۲) کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۷۷ تا صفحه ۲۵۶ (۳) بنیادی معلومات صفحه ۱۱۷ تا صفحه ۱۴۰ اوّل: سردار بشیر احمد صاحب دارالصدر شمالی ربوه دوم : چوہدری عبدالغنی صاحب فیصل آباد سہ ماہی چہارم تعداد : ۱۲۹۱ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۲ ربع دوم (۲) کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۵۷ تا آخر (۳) بنیادی معلومات صفحه ۱۴۱ تا آخر اوّل: راجہ بشیر الدین صاحب دار البرکات ربوہ دوم: سیدسعید احمد شاہ صاحب وار برٹن ضلع شیخو پوره ۱۹۸۲ء سہ ماہی اول تعداد : ۱۱۸۵ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پاره نمبر ۲۲ ربع سوم (۲) کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ا تا صفحہ ۶۸

Page 322

(۳) چالیس جواہر پارے حدیث نمبرا تا نمبر ۱۰ اوّل: سلطان احمد صاحب پیر کوئی ربوہ سوم: قریشی عبداللطیف صاحب مصطفی پارک اوکاڑہ دوم: غلام رسول اعوان صاحب ڈیرہ غازی خان سه ماهی دوم تعداد : ۱۲۸۳ نصاب: (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۲ ربع چهارم (۲) کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۶۹ تا صفحہ ۱۵۰ (۳) چالیس جواہر پارے حدیث نمبرا تا نمبر ۲۴ اول محمد خلیل قریشی صاحب سکھیکی ضلع گوجرانوالہ دوم : عبدالسمیع حسنی صاحب دارالرحمت شرقی ربوہ سوم اخوند فیاض احمد صاحب لاہور چھاؤنی سہ ماہی سوم تعداد: ۱۲۳۷ نصاب (۱) ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۲۳ ربع اول و دوم (۲) چالیس جواہر پارے حدیث نمبر ۲۵ تا نمبر ۴۰ (۳) اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه ۱۵۰ تا آخر اول: مرزا نذیر حسین صاحب دارالصدر شمالی ربوہ دوم مرزا غلام احمد صاحب دار الصدر ربوہ سوم: شیخ شریف احمد صاحب ملیر کینٹ کراچی تعلیمی پروگرام برائے مجالس ممالک بیرون مجالس بیرون کے لئے ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۹ء تک تعلیمی پروگرام تیار کیا گیا.(اس کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ نے مجالس بیرون پاکستان میں ذیلی تنظیموں کا نظام پاکستان سے الگ مقر فر ما دیا تھا لہذا مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا دائرہ کار پاکستان تک محدود ہو گیا ) ۱۹۸۹ء تک مجالس بیرون کے لئے جو تعلیمی نصاب مقرر کیا جاتا رہا، درج ذیل ہے: ۱) نماز با ترجمه ۲) ترجمه قرآن کریم کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۴) دینی معلومات کا بنیادی نصاب (۵) قرآن مجید کے بعض حصے حفظ کرنا مجالس بیرون کے لئے امتحانات کا پروگرام بھی تشکیل دیا جاتا رہا.

Page 323

٣٠٣ مقابلہ دینی معلومات برائے اطفال الاحمدیہ احمدی بچوں میں دینی معلومات کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی غرض سے سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ کے موقعہ پر ایک زبانی امتحان لیا جاتا رہا جس میں اوّل اور دوم آنے والے اطفال کو انعامات اور سندات دی جاتی رہیں.اس سلسلہ کا آغاز ۱۹۵۶ء میں ہو ا تھا.اس امتحان کا نصاب درج ذیل ہے: ۱) ترجمہ نماز ۲) قرآن مجید کے بعض حصے حفظ کرنا ۳) اسلام کے بنیادی عقائد (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مختصر حالات خلفائے راشدین کے مختصر حالات زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مختصر تاریخ اور احمدیت کی امتیازی شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی اور ان کی جاری فرمودہ تحریکات ۹ در مشین اور کلام محمود سے بعض اشعار حفظ کرنا.زعماء کو تاکید کی جاتی رہی کہ وہ اس مقابلہ کے لئے اطفال کو تیاری کروائیں.پہلے مقامی اور پھر ضلعی سطح پر مقابلے منعقد کرائیں.ہر ضلع سے اول اور دوم آنے والے اطفال کو مرکزی مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے بھجوایا جائے.اول آنے والے طفل کو ایک سو بیس روپے اور دوم کو ساٹھ روپے بطور انعام دیئے جاتے رہے.۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک کے نتائج مندرجہ ذیل ہیں: ۱۹۷۹ء : اول مکرم زاہد خورشید صاحب دوم مکرم ناصر محمود صاحب ۱۹۸۰ء اول مکرم محمد محمود صاحب دوم مکرم حافظ فرید احمد خالد صاحب ۱۹۸۱ء اول مکرم محمدمحمود صاحب دوم مکرم فاتح الدین صاحب ۱۹۸۲ء اول مکرم اظہر محمود نا صر صاحب دوم مکرم محمود احمد شاہد صاحب دار الرحمت وسطی ربوه سیالکوٹ ساہیوال ربوه ساہیوال کراچی اوکاڑہ کراچی

Page 324

۳۰۴ حوالہ جات تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۴۰۹ فرموده ۹ ستمبر ۱۹۰۱ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۴۲۹-۴۳۰ ذکر حبیب صفحه ۲۸۸ ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۱۱_۲۱۲ تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۴۱ء بحوالہ سبیل الرشاد حصہ اوّل صفحہ ۵۸-۵۹ خطبه جمعه فرموده ۱۴اپریل ۱۹۶۹ء مطبوعه روزنامه الفضل ربوہ ۱۱۰اپریل ۱۹۶۹ء کے ماہنامہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۸۳ء صفحه ۱۶

Page 325

۳۰۵ مجلس انصار اللہ کا مالی نظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں جماعتی مالی نظام جن بنیادوں پر قائم ہے ،مجلس انصار اللہ کا مالی نظام بھی انہی خطوط پر استوار ہے.کسی تنظیم کا بجٹ اس امر کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ اس میں زندگی کی روح اور ترقی کی صلاحیت کس قدر موجود ہے.الحمد للہ کہ انصار اللہ کا ہر نیا سال یہ واضح کرتا ہے کہ یہ تنظیم مالی اعتبار سے وسعت پذیر ہے، سال بہ سال مضبوط سے مضبوط ہو رہی ہے اور اس کے کاموں میں پختگی روز افزوں ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق خلافت کی برکت سے اس تنظیم کو بھی مالی فراخی عطا فرمائی.ایک سرسری سا جائزہ لینے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہر سال بجٹ میں بفضل ایزدی اضافہ ہوتا گیا اور اس طرح اس کا مالی نظام دن بدن مستحکم ہوتا چلا جارہا ہے.اس حقیقت کی تصدیق مجلس کی آمد وخرچ کے گوشوارہ سے ہوتی ہے.مجلس شوریٰ میں پیش کئے جانے والے بجٹ میں جہاں ہر سال تدریجی اضافہ تجویز کیا جا تا رہا.وہاں اراکین نے بھی قربانیوں میں اپنا قدم مسلسل آگے رکھا اور نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مجوزہ بجٹ سے بہت زیادہ رقم خدا کے حضور پیش کرنے کی توفیق پائی.چنانچہ مجلس کا پہلا بجٹ (۴۵ ۱۹۴۴ء) جوصرف ایک ہزار آٹھ سوروپے پر مشتمل تھا، ۱۹۸۲ء میں بڑھ کر چھلا کھ سترہ ہزار روپے ہو گیا جبکہ آمد بفضل تعالیٰ آٹھ لاکھ انچاس ہزار سے تجاوز کر گئی.قبل اس کے کہ مجوزہ بجٹ اور اصل آمد و خرچ کے تفصیلی گوشوارے پیش کئے جائیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ کے بعض اہم نکات کا سال وار جائزہ بھی پیش کر دیا جائے.بجٹ کے خصوصی نکات ۱۹۸۰ء : نمد سائر میں تین نئی مدات اصلاح وارشاد، سفر خرچ ناظمین اضلاع اور مہمان نوازی، قائم کی گئیں اور ان کے لئے علی الترتیب پانچ ہزار ، چار ہزار اور تین ہزار روپے تجویز کئے گئے.۱۹۸۱ء : 'مد سائر میں ایک نئی مد فرسودگی کار قائم کر کے اس کا بجٹ پندرہ ہزار روپے تجویز کیا گیا.مد متفرق غیر معمولی کو دو مدات مد متفرق اور مر غیر معمولی میں تقسیم کیا گیا اور ان کے لئے بالترتیب اڑھائی ہزار اور پانچ ہزار روپے رکھے گئے.۱۹۸۲ء: مد عملہ میں مجالس بیرون کے لئے ایک نئی اسامی کلرک CUM ٹائپسٹ رکھی گئی.عملہ ماہنامہ انصار اللہ کی تنخواہ اور الاؤنس وغیرہ بھی مد عملہ مرکزیہ سے ادا کئے گئے.

Page 326

۷۸۸۴۲ ۹۲۸۰۰ ۵۵۵۴۰ ۴۴۷۶ ۹۷۹۷۳ ۱۰۲۵۶ ۳۳۹۸۸۷ 2927.۱۰۸۶۴۴ ۵۷۳۰۱ ۱۶۹۶۰ ۷۸۴۰۰ ۱۰۱۰۲ ۸۸۵۰ تفصیلی گوشواره آمد وخرچ مجلس انصاراللہ نام مد بجٹ ۲۲۰۰۰۰ ۱۹۷۹ء آمد عملہ دفتر انصار اللہ خرچ سائر اخراجات سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر گرانٹ مجالس مقامی گرانٹ ناظمین اضلاع ریز رو برائے اضافہ جات ۳۷۵۵۰ میزان ۴۸۶۳۳ ۴۰۰۰۰ ۱۲۱۱۸ ۲۰۰۰ ۴۱۰۶۵۷ ۲۷۲۰۰۰ ۲۹۱۶۵ ۲۷۳۸۸ ۲۸۶۵۳ ۴۰۴۸۲۵ ۴۶۸۴۷۵ خرچ عملہ دفتر انصار اللہ سائر اخراجات سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر گرانٹ مجالس مقامی گرانٹ ناظمین اضلاع ریز رو برائے اضافہ جات میزان آمد ۱۹۸۰ء ۳۱۹۰۰۰ محاصل خالص چنده مجلس سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر متفرق میزان محاصل خالص محاصل مشروط گیسٹ ہاؤس محاصل ماہنامہ انصار الله میزان ماہنامہ انصار الله میزان کل نام در بجٹ محاصل خالص چنده مجلس سالانہ اجتماع ۴۰۸۵۷۶ ۲۸۰۰۰۰ ۵۵۵۵۰ ۴۵۰۰۰ ۱۲۴۷۵ 11...۲۰۰۰ ۳۳۸۰۰۰ ۵۰۰۳۳ ۳۸۵۶۱ ۳۰۰۰۰ ۵۰۰۳۳ ۳۸۵۶۱ ۳۰۰۰۰ ۳۴۲۰۷ ۴۴۴۲۵۷ ۲۹۶۰۱ ۳۱۰۰۰ ۵۴۴۷۶۳ ۳۹۹۰۰۰ اشاعت لٹریچر متفرق میزان محاصل خالص محاصل مشروط گیسٹ ہاؤس میزان محاصل مشروط محاصل ماہنامہ انصار الله میزان ماہنامہ انصار الله میزان کل

Page 327

محاصل خالص چنده مجلس سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر متفرق نام در بجٹ میزان محاصل خالص محاصل مشروط گیسٹ ہاؤس میزان محاصل مشروط محاصل ماہنامہ انصار الله میزان ماہنامہ انصار الله میزان کل ۳۰۷ ۱۹۸۱ء آمد ۴۹۹۲۸۰ ۳۶۰۰۰۰ ۷۰۹۳۵ Yo...۱۵۴۵۲ ۱۳۰۰۰ ۲۰۰۰ ۵۸۵۶۶۷ ۴۳۵۰۰۰ خرچ عملہ دفتر انصار الله سائر اخراجات سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر گرانٹ مجالس مقامی گرانٹ ناظمین اضلاع ریز رو برائے اضافہ جات میزان ۴۸۵۱۹ ۲۷۲۳۰ ۵۰۰۰۰ ۴۸۵۱۹ ۲۷۲۳۰ ۵۰۰۰۰ ۴۵۲۳۵ ۳۰۵۶۸ ۴۴۳۹۶ ۵۶۱۷۸۹ ۶۴۳۴۶۵ ۵۲۹۳۹۶ ۱۹۸۲ء نام مد بجٹ آمد محاصل خالص چنده مجلس سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر متفرق میزان محاصل خالص محاصل مشروط گیسٹ ہاؤس میزان محاصل مشروط محاصل ماہنامہ انصار اللہ میزان ماہنامہ انصار الله میزان کل ۶۰۳۴۹۰ ۴۴۰۰۰۰ ۷۵۰۹۰ ۶۵۰۰۰ ۱۵۴۲۱ ۱۴۰۰۰ ۲۰۰۰ ۶۹۴۰۰۱ ۵۲۱۰۰۰ خرچ عملہ دفتر انصار اللہ سائر اخراجات سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر گرانٹ مجالس مقامی گرانٹ ناظمین اضلاع ریز رو برائے اضافہ جات میزان ۱۹۲۲۴۳ ۹۶۰۳۰ ۵۰۰۰۰ ۱۹۲۲۴۳ ۹۶۰۳۰ ۵۰۰۰۰ ۷۲۷۷۱ ۵۹۰۰۷ ۴۶۰۰۰ ۷۸۸۲۵۲ ۸۴۹۰۳۸ ۶۱۷۰۰۰ ۹۴۵۰۵ ۱۵۱۵۱۷ ۷۹۳۸۹ ۱۲۸۸۰ ۱۳۰۰۰ ۱۵۹۴۴ ۴۶۸۰۳۵ ۱۱۳۹۵۲ ۱۳۸۴۸۵ ۱۰۹۷۶۹ ۱۸۶۶۱ ۱۲۳۰۰۰ ۱۶۸۷۱ ۲۵۰۰ ۵۲۳۲۳۸

Page 328

۳۰۸

Page 329

۳۰۹ ماہنامہ انصار الله مجلس کے ترجمان ماہنامہ انصار اللہ کو اس کے اجراء سے ہی خاص اہمیت حاصل رہی ہے.اس کا اجمالی تعارف اور اغراض و مقاصد کا تذکرہ تاریخ انصار اللہ جلد اوّل میں آچکا ہے.مجلس کی تاریخ کے اس عرصہ کے دوران میں یہ ماہنامہ اپنے تمام اغراض و مقاصد پورا کرنے کیلئے کوشاں رہا جس کے لئے اسے جاری کیا گیا تھا.سلسلہ احمدیہ کے علم کلام ، اعتقادات کی تشریح و توضیح اور انصار کی تعلیم و تربیت کی خاطر ماہنامہ انصار اللہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت مؤثر طور پر کام کرتا رہا.مجلس انصار اللہ کی مساعی ماہنامہ کے اوراق کی زینت بنتی رہیں تنظیم کے استحکام اور انصار کی علمی سطح کو بلند کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کے معیار کو آگے بڑھانے کے لئے بھی ماہنامہ انصار اللہ نے حتی المقدور بھر پور کردارادا کیا.تربیت: ماہنامہ انصار اللہ کا بنیادی مقصد نہ صرف انصار بلکہ ہر عمر کے احمدی احباب کی علمی، اخلاقی اور روحانی نشو ونما ہے تا کہ وہ ہر آنے والی نسل کیلئے مشعل راہ ثابت ہوں اور اخلاقی اقدار ہمیشہ زندہ رہیں جن کا احیاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک ہے.چنانچہ ماہنامہ حضرت اقدس مسیح موعود کے ارشادات امام الکلام“ کے عنوان سے اور خلفائے سلسلہ احمدیہ کے اقتباسات ” کلام الامام" کے عنوان سے با قاعدہ شائع کرتا رہا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے عربی اور فارسی منظوم کلام کے علم و عرفان کا مائدہ ہر ماہ پیش کیا جاتا رہا.سیرت صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت مسیح موعود رسالہ کا مستقل عنوان رہی.ماہنامہ کے اداریوں میں بزرگوں کا عمدہ نمونہ اور ان کے حسن کردار اور بعض اہم تربیتی موضوعات پر ایسا مواد پیش کیا جاتا رہا جس سے جماعتی تربیت پہ گہرے مثبت اثرات مترتب ہوئے.محبت الہی ، نماز باجماعت کی اہمیت، مالی قربانیاں اور خدمات ، قرآن کریم کی عظمت ، تلاوت اور قرآن کریم سیکھنے کی اہمیت، مطالعہ کتب حضرت اقدس، تربیت اولا د نیز عمومی تربیتی موضوعات پر بکثرت مضامین لکھے گئے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے مفید ثابت ہوتے رہے.علمی مضامین: ماہنامہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے بلند پایہ علمی و تحقیقی مضامین شائع کرتا رہا.خصوصاً رسالہ کی خاص اشاعتوں میں علماء اور محققین نے نہایت اہم اور قیمتی مضامین تحریر کئے.اسلام واحمدیت کا دیگر مذاہب عالم کے مقابل پر تفوق ثابت کیا گیا.قرآن و حدیث کی عظمت اور دیگر متفرق علمی موضوعات پر مضامین شائع کئے جاتے رہے جو قارئین کے لئے ذہنی اور قلبی تسکین کا موجب بنتے رہے.مثلاً وفات مسیح نئے حقائق کی روشنی میں، از مکرم شیخ عبد القادر صاحب محقق جمع القرآن از مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب او شمارہ اگست ۱۹۷۹ء مارچ ۱۹۸۱ء

Page 330

۳۱۰ سیرت النبی پر مضامین: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہماری اخلاقی اور روحانی نشو ونما کے لئے نہایت ضروری اور تربیت کے نقطہ نگاہ سے بڑی اہمیت کا موجب ہے.اس اہم غرض کیلئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر دوسرے تیسرے شمارے میں مضامین شائع کئے جاتے رہے.سیرت صحابہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ روشنی کے مینار اور ہدایت کا ایک اہم ذریعہ ہیں.چنانچہ اداریوں، مضامین اور آرٹیکلز میں صحابہ کی سیرت ، سوانح اور قربانیوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی جو ماہنامہ کا قیمتی سرمایہ ہیں.حضرت مسیح موعود کی سیرت طیبہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سوانخ وسیرت اور اپنے آقا سے محبت اور عشق کے مختلف پہلوؤں پر مضامین شائع کئے گئے جس سے احمدی احباب کے ایمانوں کو جلا حاصل ہوئی.حضور کے عشق رسول ، عشق قرآن ، خدمتِ دین، انسانیت کے لئے ہمدردی، اخلاق حسنہ اور عادات واطوار کے بارے میں بکثرت مضامین اشاعت پذیر ہوئے جنہیں بہت سراہا گیا.”مبارک وہ جو اب ایمان لایا : نئی نسلوں کی اصلاح اور انہیں اعلیٰ اقدار پر قائم رکھنے کے لئے رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح ، ان کا اخلاص و وفا اور قربانیوں پر سلسلہ مضامین بعنوان ” مبارک وہ جو اب ایمان لایا ماہنامہ کی زینت بنا جسے احباب دلچسپی سے پڑھتے رہے.اس سے ایسے بزرگوں کے حالات تحریر کرنے کا ذوق بھی اجاگر ہؤا.مستقل اور مروجہ کالم: مختلف موضوعات پر تربیتی اور علمی اداریے سپر قلم کئے جاتے رہے.مختلف مواضیع پر حضرت اقدس اور خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ارشادات، نیز عربی، فارسی اور اردو منظوم کلام نیز ” تبرکات با قاعدہ شائع کئے جاتے رہے.اداریوں میں سیرت النبی، رمضان المبارک، یوم مسیح موعود ، یوم خلافت اور جلسہ سالانہ موضوع سخن رہے.خصوصی نمبر: ماہنامہ انصار اللہ کا ۱۹۸۰ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نمبر منظر عام پر آیا.خصوصی مضامین کی اشاعت: تاریخ احمدیت سے تعلق رکھنے والے حالات و واقعات کے حوالہ سے خصوصی مضامین شائع کئے گئے نیز یوم مسیح موعود ، یوم مصلح موعود، یوم خلافت اور جلسہ سالانہ کی مناسبت سے بعض اہم مضامین بھی اشاعت پذیر ہوئے.مجالس کی رپورٹس اور متفرق امور : مجالس انصار اللہ کے اجتماعات علمی و ورزشی مقابلوں ، تفریحی پروگراموں اور مرکزی شعبہ جات کی کارگزاری پر مشتمل رپورٹیں بھی شائع ہوتی رہی.علاوہ ازیں سالانہ مساعی پر علم انعامی اور ضلع و مجالس کی پوزیشن ، سہ ماہی امتحانات کے نتائج اور مجلس عاملہ کے عہد یداران کے تقرر کی فہرستیں بھی شامل

Page 331

اشاعت ہوتی رہیں.۳۱۱ ایڈیٹر ز صاحبان: جن اہل قلم احباب کو ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۲ء تک ماہنامہ کے ایڈیٹرز کے فرائض سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی ذیل میں درج ہیں: مکرم سید عبدالحی شاہ صاحب ا جنوری تا اکتوبر ۱۹۷۹ء مکرم سید عبدالحی شاہ صاحب و مکرم سید کمال یوسف صاحب نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء مکرم پروفیسر ناصر احمد صاحب پروازکی مکرم سید کمال یوسف صاحب مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب جنوری تا اپریل ۱۹۸۰ء مئی ۱۹۸۰ء جون.جولائی ۱۹۸۰ء مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب اگست ۱۹۸۰ء تا دسمبر ۱۹۸۲ء مضامین اور مقالہ لکھنے والے حضرات : ماہنامہ انصار اللہ کے عام نیز خصوصی شماروں کے لئے سلسلہ کے چوٹی کے اہل قلم حضرات نے اپنے تحقیقی مضامین اور مقالہ جات تحریر کئے جن میں سے چند کے نام یہاں درج ہیں : حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت مرزا عبدالحق صاحب، مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر، مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب، مکرم ملک سیف الرحمن صاحب، مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب، مکرم مولا نا غلام باری صاحب ،سیف، مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب، مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب، مکرم شیخ عبدالقادر محقق صاحب، مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر، مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ،مکرم سید عبد احتی شاہ صاحب، مکرم غلام احمد صاحب عطاء، مکرم مولوی روشن دین صاحب، مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ، مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب، مکرم مولانا عبد الکریم صاحب شرما کرم صوفی بشارت الرحمن صاحب، مکرم مولوی محمد صادق صاحب، مکرم قریشی نور الحق صاحب تنویر، مکرم ملک مبارک احمد صاحب ، مکرم شیخ محمد حنیف صاحب، مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب، مکرم مولوی مبشر احمد صاحب را جیکی ، مکرم سعود احمد خان صاحب، مکرم سید سجاد احمد صاحب، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب، مکرم اخوند فیاض احمد صاحب، مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر، مکرم نصر اللہ خان ناصر صاحب، مکرم یوسف سهیل شوق صاحب، مکرم عبد الحمید صاحب آصف، مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب، مکرم غلام رسول صاحب اعوان ، مکرم بشیر احمد صاحب رفیق ، مکرم مبارک مصلح الدین صاحب، مکرم محمد اسماعیل صاحب منیر، مکرم یوسف سلیم صاحب.منظوم کلام : بزرگ شعراء کے علاوہ مندرجہ ذیل احباب کا منظوم کلام بھی ماہنامہ میں شائع ہوتا رہا: مکرم مولانا عزیز الرحمان صاحب منگلا، مکرم ثاقب زیروی صاحب، مکرم عبدالمنان ناہید صاحب،

Page 332

۳۱۲ رم سلیم شاہجہان پوری صاحب، مکرم عبدالرحیم صاحب راٹھور، مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ، مکرم سعید احمد اعجاز صاحب، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب ، مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب ، مکرم چوہدری خورشید احمد صاحب، مکرم عبدالرؤف صاحب لودھی، مکرم محمد ابراہیم صاحب شاد، مکرم مرزا محمد یوسف صاحب، مکرم محمد اسماعیل صاحب نادر مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب، مکرم محمد اسلم صاحب صابر مکرم عبدالسلام اسلام صاحب.ماہنامہ انصار اللہ قارئین کی نظر میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنے خط محرہ یکم اکتو بر۱۹۸۲ء میں تحریر فرماتے ہیں.” مجھے آپ کا رسالہ انصار اللہ با قاعدگی ملتا رہتا ہے اور میں اسے بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں اور اس کے مضامین سے کما حقہ فائدہ اٹھاتا ہوں.ا حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے اپنے مکتوب محرر ۵ ستمبر ۱۹۸۲ء میں لکھا: خاکسار رسالہ انصار اللہ ہمیشہ پڑھتا ہے.ماشاء اللہ بہت دلچسپ اور ایمان افروز مضامین پر مشتمل ہوتا ہے.شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل ہوتا ہے.ماہ ستمبر کے رسالہ میں بھی بڑے اچھے اچھے مضمون ہیں.کسی ایک کو بھی چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا.(۲) مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (امیر ومشنری انچارج ) انگلستان اپنے مکتوب ۲۰ دسمبر ۱۹۸۲ء میں تحریر فرمایا: ما شاء اللہ رسالہ بہت عمدہ مؤثر انداز میں مرتب ہوتا ہے اور ہر ایک مضمون اور شذرہ پڑھ کر روحانی لذت وسرور حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ترتیب دینے والوں ، لکھنے والوں اور شائع کرنے والوں کو جزائے خیر دے.آمین.“ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ (سابق مشنری انچارج سوئٹزر لینڈ ) اپنے خط ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۲ء میں لکھتے ہیں: ”خاکسار کی دانست میں اس کا معیار ماشاء اللہ بلند ہے اور بڑی مفید خدمت بجالا رہا ہے.ہم جو باہر ہیں ہم کو بھی اس خدمت میں حصہ لینا چاہئیے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بخشے.آمین.(۴) مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب اپنے مکتوب محررہ ۱۴ ستمبر ۱۹۸۲ء میں تحریر کرتے ہیں: بفضل خدا ماہنامہ انصار اللہ میں سنجیدگی علم دوستی اور تقویٰ کے پہلو اتنے نمایاں ہیں کہ قاری خود بخود ان سے متاثر ہوتا ہے.یوں تو اس نے مختلف رنگوں میں جماعت کی بھر پور خدمت کی ہے مگر بوڑھوں کو جوان بنانے اور جوانوں کو مزید جوان بنانے میں اور انہیں خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے

Page 333

۳۱۳ میں نمایاں حصہ لیا ہے.اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ تاجرانہ ذہنیت سے بالکل پاک ہے.اللہ تعالیٰ اس کی افادیت کے مطابق اس کی اشاعت میں غیر معمولی برکت نازل فرمائے.(۵) توسیع اشاعت ماہنامہ انصار اللہ کا آغاز حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے زمانہ صدارت میں ۱۹۶۰ء میں ہوا تھا.اس ماہنامہ کے اجراء کے وقت صدر مجلس نے جو پالیسی وضع فرمائی تھی ماہنامہ انہی لائنوں پر عمل پیرا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالہ نے اپنی علمی اور تربیتی ذمہ داری کو احسن رنگ میں پورا کیا اور آئندہ کے لئے اس کوشش میں رواں دواں ہے.اس رسالہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی اشتہار شائع نہیں کیا جاتا.اشتہارات کو عام طور پر رسائل کا ایک بہت بڑا ذریعہ آمدنی سمجھا جاتا ہے.محترم صدر صاحب کے نزدیک خالص دینی مطالعہ کے دوران اچانک کسی دنیاوی اشتہار پر نظر توجہ کو ہٹانے کے مترادف تھی.بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو منصب خلافت پر فائز فرمایا تو حضور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کی خاطر دوسرے جماعتی رسائل کی طرح ماہنامہ انصار اللہ میں بھی اشتہارات شائع کرنے کی اجازت عطا فرمائی جائے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ہرگز نہیں“.۱۹۷۹ء کے شروع میں رسالہ کی سرکولیشن بہت کم تھی.سال نو کے آغاز پر سب سے پہلے ماہنامہ کی اشاعت کو وسیع کرنے کی مہم چلائی گئی تاکہ زیادہ سرکولیشن کے نتیجے میں اخراجات کا بار کم ہو.صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اشاعت بڑھانے کا خاص پروگرام دفتر کو دیا نیز رسالہ کی انتظامیہ (MANAGEMENT) میں بھی تبدیلی فرمائی.منیجر کو اپنی ہدایات سے نوازا اور رسالہ کی خریداری کو معیاری بنانے کی تلقین فرمائی.روز نامہ الفضل“ اور ماہنامہ انصار اللہ میں انصار کو خریداری قبول کرنے کے لئے اعلانات شائع کئے گئے.عہدیداران کو خطوط کے ذریعہ متحرک کیا گیا.پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی خریداری کے لئے خاص توجہ دی گئی.مبلغین سے بھی تعاون کی درخواست کی گئی.بیرونی مشنز سے احباب کی فہرستیں منگوا کر براہ راست خطوط لکھے گئے.ان خصوصی کوششوں کے نتیجہ میں بیرون پاکستان خریداروں کی تعداد اڑھائی صد تک ہوگئی.توسیع اشاعت کے لئے جو مختلف طریق کار اختیار کئے گئے ، ان میں سے ایک طریق مربیان کرام کا تعاون حاصل کرنا بھی تھا.بعض خاص مقامات کے مربیان کی خدمت میں صدر محترم کی طرف سے تحریک کی گئی کہ رسالہ کی خریداری کے لئے اپنے اپنے حلقوں میں کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے اس طریق میں بڑی برکت بخشی.

Page 334

۳۱۴ مربیان نے بھر پور تعاون فرمایا.بعض کی کوششوں کا نتیجہ ذیل میں درج ہے: نمبر شمار اسماء گرامی مربیان مقررہ ٹارگٹ کامیابی مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور کراچی ۱۰۰ نئے خریدار ۰۹ا خریدار مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر حیدر آباد ۱۰۰ نئے خریدار ۱۰۰ خریدار مکرم مولوی روشن دین صاحب کوئٹہ ۱۰۰ نئے خریدار ۳۱ خریدار ۲۵ نئے خریدار ۵۴ خریدار ۲۵ خریدار ۲۰ خریدار ۹ خریدار مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب لودھراں مکرم مولوی کرامت اللہ صاحب گوجرخان ۲۵ نئے خریدار مکرم نذیر احمد صاحب ریحان با ندھی ضلع نواب شاہ ۲۵ نئے خریدار مکرم مولوی ناصر احمد صاحب قمر بہاول نگر ۲۵ نئے خریدار مکرم عبدالسلام صاحب طاہر دہلی گیٹ لاہور ۲۵ نئے خریدار ۱۰ خریدار اس ضمن میں مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب مربی سلسلہ لودھراں کی کوششیں خاص طور پر قابل تھے محسین تھیں.انہوں نے اپنے خط محررہ ۳ دسمبر ۱۹۸۱ ء میں صدر محترم کی خدمت میں لکھا.میری دلی خواہش ہے کہ تحصیل لودھراں کے جملہ انصار اللہ جن کی تعداد ۵۲ ہے، کے نام رسالہ جاری ہو جائے.دُعا کی درخواست ہے.پھر دوسرے خط محرر ۱۹ دسمبر ۱۹۸۱ء میں یہ خوشکن اطلاع دی کہ آپ نے ۲۵ نئے خریدار ماہنامہ انصار اللہ کے خاکسار کے ذمہ لگائے تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آنمکرم اور جماعت احمد یہ لودھراں کی خدمت میں دعا کی خصوصی درخواست کی گئی.تحصیل لودھراں میں کل انصار ۵۲ ہیں.مجالس ے ہیں اور زیادہ تر غریب جماعتیں ہیں.دوستوں کا بھی یہی خیال تھا کہ پچھپیں رسالے نہیں لگیں گے.خاکسار یہی جواب دیتا رہا کہ کوشش کرتے رہیں ، اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.بہر حال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور آپ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور خاکسار اس قابل ہوا کہ ۳ دسمبر ۱۹۸۱ء کو آپ کی خدمت میں ۲۵ خریداروں کی فہرست ارسال کر دی گئی.اس خط میں خاکسار نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تحصیل لودھراں کے جملہ انصار جن کی تعداد ۵۲ ہے، کے نام رسالہ جاری ہو جائے.آپ نے دعا بھی فرمائی.تحصیل لودھراں میں کل انصار تجنید فارمز کے لحاظ سے ۵۲ ہیں لیکن کچھ انصار رہ گئے ہیں جن کی تعداد ۶ ہے.یہ کل تعداد ۵۸ بنتی ہے.قبل از میں ۴ رسالے ساری تحصیل میں ہیں.اب مزید ۵۴ رسالے جاری کروائے جا رہے ہیں.جن میں سے ۲۵ کے نام قبل ازیں بھجوا چکا ہوں.اب اس خط کے ذریعہ ۲۹ خریداروں کے نام مع مکمل

Page 335

۳۱۵ پستہ جات بمعہ کل چندہ ارسال کر رہا ہوں.‘ے کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام کوششوں کا نتیجہ بہت شاندار نکلا اور رسالہ کی اشاعت جو ۱۹۷۸ء میں صرف سولہ سوتھی ،۱۹۸۲ء میں یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدارت کے آخری سال تین ہزار دوصد سے تجاوز کر گئی اور آمد بھی بفضلہ تعالٰی پانچ چھ گنا بڑھتے ہوئے دس ہزار سے بڑھ کر انسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گئی.رسالہ کے اخراجات کا اکثر حصہ پہلے مجلس کی گرانٹ سے پورا ہوتا تھا.اب رسالہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا.تعداد اشاعت: ۱۹۷۹ء کے آغاز پر ماہنامہ انصار اللہ کی تعداد اشاعت ۱۸۰۰ تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دسمبر ۱۹۸۲ء میں ۳۲۰۰ تک ہو گئی.ماہنامہ انصارالله سال به سال گوشواره سال ۱۹۷۹ء ۱۹۸۰ء ١٩٨١ء ١٩٨٢ء تعدادسرکولیشن وصول شده چنده ۲۸۶۵۳ رو.۱۸۰۰ 1900 1900 ۳۲۰۰ روپے ۲۹۶۰۱ روی ۳۰۵۶۸ روپے ۵۹۰۰۷ روپے

Page 336

حوالہ جات هور و ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ۲۵ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله ماہنامہ انصار الله ر بوه فروری ۱۹۸۳ء صفحه ۳۲ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۸۳ء صفحه ۳۲ ۵ ریکارڈ شعبہ تاریخ انصار الله روزنامه الفضل ربوه مورخه ۱۲ جنوری ۱۹۸۲ء صفحه ۷ کے ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جنوری ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۷ - ۳۸

Page 337

۳۱۷ پاکستانی مجالس کی سرگرمیاں تمام مجالس کی سرگرمیوں کا احاطہ کرنا ایک مشکل امر ہے.نمونہ اختصار کے ساتھ چند مجالس کی کارگزاری کا تذکرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے: ضلع لاڑکانہ کا تربیتی اجتماع ١٩٧٩ء مجالس انصار اللہ ضلع لاڑکانہ کا تربیتی اجتماع مورخه ۳٫۲ فروری ۱۹۷۹ء زیر صدارت مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مرکزی نمائندہ تین بجے بعد دو پہر مسجد احمد یہ انور آباد میں منعقد ہوا.تلاوت ، دعا اور عہد کے بعد صاحب صدر نے فرائض انصار اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے خدمت دین کے لئے ہمہ تن مصروف رہنے کی تلقین فرمائی.مکرم مولانا محمد عمر صاحب سندھی مربی سلسلہ نے سیرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ، مکرم مولوی عبد القدیر صاحب فیاض مربی سلسلہ نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مکرم مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے انصار اللہ کی ذمہ داریوں کے موضوعات پر تقاریر کیں.ساڑھے پانچ بجے یہ اجلاس ختم ہوا.دوسرا اجلاس رات ساڑھے سات بجے تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا.نظم کے بعد مکرم مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اور مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب نے " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول “ کے موضوع پر تقریر کی.یہ اجلاس سوا نو بجے تک جاری رہا.تیسرا اجلاس نماز تہجد سے شروع ہوا.نماز فجر کے بعد مکرم مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے درس قرآن کریم وحدیث اور مکرم مولوی عبد القدیر صاحب نے درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا.اس کے بعد مکرم قریشی عبد الرحمان صاحب نے ذکر حبیب“ کے موضوع پر چند واقعات بیان کئے.یہ اجلاس سات بجے ختم ہوا.چوتھا اجلاس مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب ناظم انصار اللہ صوبہ سندھ کی صدارت میں تلاوت اور نظم سے شروع ہوا.مکرم مولوی محمد انور صاحب زعیم انصار اللہ انور آباد نے سندھی زبان میں ”صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تقریر کی.پھر تقریری مقابلہ ہوا جس میں آٹھ مقررین نے حصہ لیا.اوّل ، دوم اور سوم کو نقد انعامات دیئے گئے.اس کے بعد ناظم صاحب ضلع نے برکات خلافت پر تقریر کی.اجلاس کی باقی کارروائی مرکزی نمائندہ کی صدارت میں ہوئی.نظم کے بعد مرکزی نمائندہ نے اختتامی خطاب فرمایا.یہ پر کیف اجتماع بارہ بجے دوپہر

Page 338

۳۱۸ دعا پر ختم ہوا.اس اجتماع میں ضلع لاڑکانہ کی سب مجالس شریک ہوئیں.اس موقع پر ماہنامہ انصار اللہ کے سات خریدار بنائے گئے.گو سخت سردی تھی مگر مقامی مجلس نے ہر طرح تسلی بخش انتظامات کئے تھے.(1) جلسہ ہائے یوم مصلح موعودضلع گجرات ۲۲ فروری سے ۲۴ فروری ۱۹۷۹ تک کوٹلی افغاناں، مونگ اور کھوکھر غربی میں مجلس انصار اللہ کے زیر اہتمام جلسہ ہائے یوم مصلح موعود منعقد کئے گئے.ناظم صاحب کے ساتھ اس دورہ میں نائب ناظم صف دوم چوہدری عنایت اللہ صاحب اور ڈاکٹر صو بیدار بدر عالم صاحب تھے.تینوں اجلاسات میں مستورات، اطفال اور خدام نے شرکت کی.(۲) دوره فیصل آباد فیصل آباد مورخه ۲۳ فروری بروز جمعہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ،ہکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر صف دوم اور مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب قائد عمومی کی معیت میں مسجد فضل فیصل آباد میں تقریباً ساڑھے دس بجے دن پہنچے.اس وقت تک ضلع فیصل آباد کی مجالس کے قریباً پچاس زعماء اور ان کے نمائندے مسجد میں پہنچ چکے تھے.صدر محترم نے عہدیداران سے ان کی مجالس کا باری باری جائزہ لیا اور ہر ایک عہدہ دار سے اس کے گاؤں کی کل آبادی، افراد جماعت کی تعداد تجنید انصار اللہ اور ہر رکن کی طرف سے مالی قربانی تبلیغی اور تربیتی مساعی کے متعلق استفسارات کئے اور اپنے فرائض کی طرف پوری توجہ دینے کی تاکید کی.آپ نے ہدایت فرمائی کہ گاؤں میں دوستانہ تعلق اور ہمدردانہ مراسم رکھیں اور دوست احباب کو مرکز احمدیت میں لانے کی پوری کوشش کریں تا مرکز کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن کر احمدیت کے متعلق جو غلط فہمیاں ان کے دلوں میں پیدا کی گئی ہیں ، کا ازالہ ہو سکے.خطبہ جمعہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے تبلیغی سرگرمیاں تیز کرنے کی طرف توجہ دلائی.جمعہ کے معاً بعد آپ نے اجلاس عام کی صدارت فرمائی.تلاوت اور عہد دہرانے کے بعد زعیم صاحب اعلی مجلس فیصل آباد شہر نے رپورٹ کارگزاری پیش کی.صدر محترم نے رپورٹ کے بعض مندرجات مثلاً ایثار وغیرہ پر خوشنودی کا اظہار کیا لیکن اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دوست حالات حاضرہ کے مطابق تبلیغ اور تربیت کی طرح پوری توجہ نہیں دے رہے.آپ نے فرمایا کہ پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ہر دوست اپنے نئے سال کے پروگرام کا ٹارگٹ مقرر کرے اور آج تک جو اس نے کیا ہے، اسے نقطہ آغاز تصور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اپنے ٹارگٹ کی طرف رواں دواں ہوا اور مرکز سے ہر طرح کا رابطہ قائم رکھے اور اخراجات سے بے فکر ہو کر دوستوں کو مرکز میں لانے اور بزرگانِ سلسلہ سے ملاقات کرانے کی کوشش میں لگا رہے.نیز تمام دوستوں کو آپس میں محبت اور پیار

Page 339

۳۱۹ سے زندگی بسر کرنے اور اپنی اولاد اور جماعت کے تمام نوجوانوں اور اطفال کی تربیت کی طرف توجہ دینے کی تاکید کی.خصوصاًنماز با جماعت ادا کرنے اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا.صدر محترم کے خطاب کے بعد مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر صف دوم نے بتایا کہ چھ سال قبل حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خدام اور انصار صف دوم کے انصار کے لئے رابطہ اور ملاپ کی مہم کے لئے سائیکل سکیم کا اجراء فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو تاکیداً فرمایا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پس اس حکم کے ماتحت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کی وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ دیہات میں ہر جگہ پہنچیں.لوگوں سے رابطہ قائم کریں اور ان کی تکالیف کا علم پا کر انہیں حتی المقدور دُور کرنے کی کوشش کریں.اس غرض کے لئے صف دوم کے انصار بھائی سائیکل مہیا کریں خواہ نیا ہو یا پرانا اور سائیکل چلانا سکھیں اور پھر ایک دن مقرر کر کے اکٹھے اپنے اپنے حلقہ میں پہنچیں.نماز مغرب کے بعد ایک دوست کے مکان پر ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں انٹی کے قریب احباب نے شرکت کی.اس میں بیس بائیس سنجیدہ غیر از جماعت احباب بھی تھے.انہوں نے محترم صاحبزادہ صاحب سے جماعت کے متعلق مختلف سوالات کئے جن کے جوابات آپ نے قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں عام فہم انداز میں دیئے.دس بجے شب یہ مجلس ختم ہوئی.تربیتی اجتماعات ضلع فیصل آباد فیصل آبادشہر کے بعد مختلف اوقات میں بڑی بڑی مجالس میں بنتیں تربیتی اجتماعات منعقد کئے گئے.ان اجلا سات میں جن موضوعات پر تقاریر ہوئیں وہ درج ذیل ہیں.سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.ذکر حبیب.سیرت صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت احمدیہ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت.احمدیت اکناف عالم میں.جماعت احمدیہ اور تبلیغ اسلام.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے.عملی نمونہ کی ضرورت اور اہمیت.ایک احمدی کے اوصاف.ارکانِ اسلام کی پابندی.تربیت اولاد.تربیت نفوس.برکاتِ خلافت.انصار اللہ کی ذمہ داریاں.غلبہ اسلام کے بارے میں ہماری ذمہ داریاں.تحریکات انصار اللہ.ان اجلاسات میں مکرم سید احمد علی شاہ صاحب قائد تربیت (۱۶) اجتماعات)، مکرم صوفی محمد الحق صاحب قائد اصلاح وارشاد (۱۳ اجتماعات ، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید (۳ اجتماعات ) حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ، مکرم مولوی محمد دین صاحب مربی ضلع، مکرم

Page 340

مولوی نظام الدین صاحب مہمان مربی ، مکرم مولوی محمد ادریس صاحب مربی اور مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ممتاز مربی جڑانوالہ نے شرکت فرمائی.تینتیس مقامات جہاں یہ اجتماعات منعقد ہوئے ، یہ تھے.تحصیل فیصل آباد: شہر فیصل آباد، حسن پور، شہباز پور، گنڈا سنگھ والا ، رتن،حسیانہ ، سرشمیر روڈ ، کرتار پور، گھو کھووال اور لیلاں.تحصیل جڑانوالہ: شہر جڑانوالہ، لاٹھیاں والا ، کھرڑیانوالہ ، گھسیٹ پور ، مسعود آباد، ٹھٹھہ کالو، صریح، احمد آباد، گنگا پور، سنتوکھ گڑھ، چک ۶۳ ۵گ ب، ۶۵ ۵گ ب، چک نمبر ۴۰.تحصیل ٹو بہ ٹیک سنگھ : شہر ٹو بہ ٹیک سنگھ، گوجرہ، پیرمحل، دھنی دیو ۳/ ۵۸ ٹکڑا، ۲۹۷ ج ب.تحصیل سمندری: شهر سمندری، مانو پور.۳۶ وره ضلع شیخو پوره ۹ مارچ ۱۹۷۹ء بروز جمعہ مجلس انصار اللہ شیخو پورہ نے تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا.اجتماع کی منظوری ملتے ہی ۴ مارچ کو مجلس عاملہ شہر کا اجلاس ملک لطیف احمد صاحب سرور کی زیر صدارت ہوا جس میں ضلعی مجالس کو اطلاعات پہنچانے ،مہمان نوازی کے اخراجات اور غیر از جماعت احباب کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا.مجالس کو خطوط کے ذریعہ مکرم ناظم صاحب ضلع نے اطلاعات بھجوائیں اور چند مجالس کا خود بھی دورہ کیا.رابطہ واطلاعات کا بقیہ کام مجلس خدام الاحمدیہ کے سپر د کیا گیا.بارشوں اور نامساعد حالات کے باوجود جمعہ کی حاضری چھ صد سے زائد تھی جن میں مستورات بھی شامل تھیں.بیرون از شیخو پورہ شہرتین صد سے زائد افراد تشریف لائے ہوئے تھے.مہمانوں کوکھانا کھلانے کا انتظام مکرم شیخ کرامت اللہ صاحب کے کارخانے میں کیا گیا تھا.ایک غیر از جماعت دوست چوہدری عبدالرشید صاحب نے کراکری کا سامان مفت مہیا کیا.باقی تمام اخراجات میں مقامی انصار نے تعاون کیا.صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دو سے تین بجے تک نماز جمعہ کا روح پرور خطبہ دیا اور نہایت ہی لطیف پیرائے میں سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کی اور اس کی روشنی میں نو مبائعین کی تربیت کے سلسلہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحم کے نتیجہ میں شیخو پورہ میں بکثرت نئے احمدی ہو رہے ہیں.یہ نئے احمدی در حقیقت احمدیت کا پھل ہیں.اس پھل کے کچھ تقاضے ہیں.ہمیں اس کھیتی کی حفاظت کرنی چاہئے.ہمارا فرض ہے کہ نئے آنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق

Page 341

۳۲۱ قائم کرنے کی تلقین کریں.کامل خلوص اور راستی کے ساتھ حق عبادت ادا کریں اور وہ انعامات حاصل کریں جن کا ذکر سورہ فاتحہ میں موجود ہے.یہ فوائد اس طرح حاصل ہو سکتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.عبادت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انعام دیتا ہے.جب تک نئے احمدی سورہ فاتحہ میں مذکور انعامات کا مزا خود نہیں چکھتے ، وہ احمدیت کی اصل قدر نہیں پہچان سکتے.عبادت کے نتیجہ میں ان کی پیشانیوں سے ظاہر ہوگا کہ وہ خدا کے بندے ہیں.آپ ان انعاموں کی طرف توجہ کریں کیونکہ انعاموں کی راہ ہی صراط مستقیم ہے.اس سلسلے میں آپ نے ایک یورپین نو مسلم کا ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا.صدر محترم نے توجہ دلائی کہ پیدائشی احمدیوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے کہ نئے آنے والوں کی تربیت کے لئے نیک نمونہ دکھا ئیں ، ان کی تربیت کا خیال رکھیں اور ان سے ہمدردی کا تعلق پیدا کریں.انہوں نے بہت مصیبتیں جھیلیں ہیں.خاندان چھوڑا ، نوکری سے ہٹائے گئے.اب یہ آپ کا کام ہے کہ ان کو بتائیں کہ جو کچھ چھوڑ کر آپ آئے ہیں، اس سے کروڑ گنا زیادہ اللہ تعالیٰ دے گا.آپ نے فرمایا کہ کثرت کے ساتھ اپنے رب سے تعلق قائم کریں.نماز با جماعت کو اہمیت دیں.کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو.جن کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو، ان کے چہروں اور پیشانیوں سے خدا کا نور ظاہر ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث ہوتے ہیں.جمعہ کے بعد بیت الحمد میں ہی ساڑھے تین سے ساڑھے پانچ بجے تک سوال و جواب کی محفل ہوئی جس میں غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی.محترم صاحبزادہ صاحب نے نہایت مؤثر اور مدلل جوابات دیئے.شام کو پونے چھ بجے سے آٹھ بجے تک صدر محترم نے مکرم امیر صاحب ضلع کی رہائش گاہ پر سوال و جواب کی نشست میں شرکت کی جس میں پندرہ غیر از جماعت وکلاء بھی شامل تھے.آٹھ بجے مکرم چوہدری محمد رمضان صاحب راحت جیولرز کی رہائش گاہ پر چند صحافیوں کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کا تبادلہ خیال ہوا.طعام کے بعد ساڑھے نو بجے رات آپ ربوہ تشریف لے گئے.(۴) دورہ سرگودھا مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۷۹ء گیارہ بجے سے دو بجے بعد دو پہر تک مجالس ضلع سرگودھا کے زعماء کا ایک اجلاس جامع مسجد سرگودھا میں منعقد ہوا جو مرکزی ہدایت پر بلایا گیا تھا.صدر محترم کے ہمراہ نائب صدر صف دوم مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اور مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب قائد عمومی شامل ہوئے.تمام زعماء سے جن کی تعداد تقریباً ساٹھ تھی ، کوائف دریافت فرمائے.ماہانہ اجتماعات اور تبلیغ اور تربیت کے متعلق کوائف تسلی بخش نہ پا کر صدر محترم نے فرمایا کہ جس کام کا جائزہ لیا گیا ہے اس میں آپ کا میاب نہیں ہو سکے.آپ کی مجلس کی مثال ایک

Page 342

۳۲۲ ایسے باغ کی سی ہونی چاہئے جس کا ہر پودا پھل دیتا ہو.جن دوستوں نے اچھی رپورٹ دی ہے.ان کی مثال تو خودرو پھل دار پودوں کی سی ہے جو بغیر کسی محنت کے جنگل میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور تھوڑی سی محنت اور حالات موافق پا کر سرسبز رہتے اور پھل دیتے ہیں.اگر آپ سب نے صحیح طریق پر کام کیا ہوتا تو ایک آراستہ اور پُر سلیقہ باغ کی طرح آپ کی مثال ہوتی جس کا ہر شجر ثمر دار ہوتا.اس صورتحال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قیادت ضلع کے ساتھ کام کرنے والی کوئی مضبوط ٹیم نہیں.میں توقع رکھتا ہوں کہ آئندہ کے لئے کام بہتر طریق سے ہوگا.فی الحال مختصر آچند ہدایات پر اکتفا کی جاتی ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سب زعماء ہر ماہ لازماً اپنی رپورٹ مرکز میں بھجوایا کریں خواہ کوئی کام بھی نہ کیا ہو.اس صورت میں آپ یہی رپورٹ دیں کہ اس ماہ فلاں وجہ سے کام نہیں ہو سکا.آئندہ انشاء اللہ کی پوری کر دی جائے گی.لائحہ عمل آپ میں سے ہر ایک کو بھیجا جا چکا ہے، اسے بار بار پڑھیں اور ہر ایک شعبہ کے متعلق رپورٹ دیں.ناظم صاحب ضلع دورہ کریں اور کام کو منظم کریں.رپورٹ نہ آنے کی صورت میں مرکز یاد دہانی کرائے گا.یا درکھیں کہ رپورٹ کا آنا بہت ہی ضروری ہے.اس سے معلوم ہوگا کہ ہمارے دوست کیا کام کر رہے ہیں نیز یا درکھیں کہ رپورٹ میں بالکل صحیح اندراج ہو.پھر کام پوری کوشش سے کریں.پہلا قدم خود اٹھا ئیں.آگے اللہ تعالی خود مدد فرمائے گا.تبلیغ اور تربیت کی طرف پوری توجہ دیں اور دعا سے بہت کام لیں.بیج آپ لگائیں.پودا اللہ تعالیٰ اُگائے گا جو اُسی کے اذن سے پھل بھی دے گا.صدر محترم نے مزید فرمایا کہ چندہ دینے میں اخلاص سے سے کام لیں اور با شرح دیں.دوستوں کو مرکز میں لادیں اور کرایہ وغیرہ کی فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ سبب بنادے گا.مرکز میں جانے سے ان کے بہت سے غلط خیالات اور کئی قسم کے اعتراضات خود بخود دور ہو جائیں گے میں ایک دفعہ پھر تاکید کرتا ہوں کہ آپ کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھے.گزشتہ سال جتنا کام کسی ماہ میں ہوا تھا.اس سال اس ماہ اس سے زیادہ کام ہو، تب کہا جاسکتا ہے کہ آپ کچھ کر رہے ہیں.سالانہ اجتماع میں سب مجالس کے نمائندے آنے چاہئیں.بڑی مجالس سے کافی تعداد میں انصار سالانہ اجتماع میں شریک ہوں.مرکز میں جانے سے کئی قسم کی کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور کام کا جوش پیدا ہوتا ہے.سائیکل سکیم : صف دوم کے انصار کے پاس سائیکل ہونا چاہئیے.خواہ نیا ہو یا پرانا.اس سے دوسرے فوائد کے علاوہ جن کا ذکر آپ سُن چکے ہیں، محض اس لئے بھی کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے فرمان کی تعمیل کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر کے مستحق ٹھہریں گے.صدر محترم کے ارشادات سے قبل مکرم نائب صدر صاحب صف دوم نے سائیکل سے رابطہ اور ملاپ کی

Page 343

۳۲۳ اہمیت پر زور دیا.آپ نے تاکید کی کہ تمام مجالس کو جلد از جلد سائیکل مہیا کر کے منظم طریق سے رابطہ کی مہم شروع کرنی چاہئیے.اس موقعہ پر سائیکل سکیم کے کوائف ایک پمفلٹ کی صورت میں تمام حاضرین میں تقسیم کئے گئے.نماز ظہر و عصر کے بعد یہ تقریب ختم ہوئی.(۵) پکنک مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور نے ۱۶ مارچ کو باغ جناح میں ایک پکنک منائی.حاضری بیالیس افراد تھی جن میں دو غیر از جماعت احباب بھی شامل تھے.پکنک دس بجے شروع ہوئی.جمعہ المبارک ہونے کی وجہ سے نماز جمعہ کا انتظام بھی باغ میں کیا گیا تھا.قرآن کریم کی تلاوت مکرم مرزا ناصر علی صاحب نے کی اور مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب نے ایک نعت بڑی خوش الحانی سے سنا کر دوستوں کو محظوظ کیا.اس کے بعد مختصرسی افتتاحی تقریب اور پکنک سے متعلق کچھ ہدایات دی گئیں اور سارے احباب کو دوگروپس میں بانٹ کر مختلف راستوں سے گلستان فاطمہ تک سیر کے لئے روانہ کیا گیا.انصار کے باہمی تعارفی پروگرام میں مکرم شیخ عبد القادر صاحب لائلپوری محقق عیسائیت نے بتایا کہ ان کے والد شورام جو ہندو تھے.کیسے احمدی ہوئے اور پھر انہیں خدمت دین کی کیسے توفیق ملی.سردار عبدالحمید صاحب نے بتایا کہ ان کے دادا سکھ تھے جن کے دو بیٹوں نے احمدیت قبول کی.ایک کی اولاد میں سے وہ خود ہیں اور دوسرے کی اولاد میں سے مکرم عطاء الرحمن صاحب غنی ہیں جو اس پکنک میں شامل تھے.سب دوستوں نے اپنے اپنے حالات سنائے اور تعارف کرایا.خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفتہ امیج الثالث کا فرمودہ ایک خطبہ پڑھ کر سنایا گیا.نماز جمعہ کے بعد جسمانی صحت کے متعلق دوستوں کو مفید باتیں بتائی گئیں.بعدہ مکرم سعید احمد صاحب اعجاز اور مکرم خالد ہدایت صاحب بھٹی نے تقریباً پون گھنٹے تک اپنا منظوم کلام سنایا.پھر مکرم شیخ عبدالقادر صاحب نے حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام ، کفن مسیح ، لنڈن کا نفرنس اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق امریکہ میں زیر تکمیل فلم کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کیں.مجالس حلقہ 'ج' کھاریاں ضلع گجرات کا اجتماع ۲ مئی ۱۹۷۹ء کو بیت الحمد کھاریاں میں حلقہ ج کھاریاں کی مجالس انصار اللہ کا اجتماع منعقد ہوا.اجلاس کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی.عہد کے بعد مکرم راجہ منور احمد صاحب مربی سلسلہ کھاریاں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے احباب جماعت کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.بعد ازاں مکرم سید رفیق احمد صاحب ناظم حلقہ ج کھاریاں نے اسلامی معاشرہ کو بہتر بنانے کے لئے اسلامی اخوت

Page 344

۳۲۴ کے موضوع پر تقریر کی.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب شاد مربی سلسلہ نے الہی سلسلے اور ابتلاء“ کے عنوان پر مؤثر انداز میں تقریر کی.اختتامی خطاب محترم صدر صاحب مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے فرمایا.آپ نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کے ذمہ دو کام ہیں.اول عبادت ، دوم تبلیغ.عبادت کے سلسلہ میں مسجدوں کو آباد کریں.خود با جماعت نماز ادا کریں اور دعاؤں کی عادت ڈالیں.اپنی اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں.ان کے لئے دعا ئیں بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک ، لائق اور عبادت گزار بندے بنائے.آپ نے فرمایا کہ جہاں آپ کو اپنے اعمال کا خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا وہاں اولاد کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا.جس طرح بھیڑوں کا مالک گڈریے سے اپنی بھیڑوں کے متعلق دریافت کیا کرتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ مالک ہے.وہ آپ سے قیامت کے دن آپ کی اولاد کے متعلق بھی پوچھے گا.اس لئے آپ اس دن کے لئے مکمل تیاری کریں.آپ نے مزید فرمایا کہ خدا کے بندے بنو کیونکہ جو خدا کا بندہ بن جاتا ہے خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں ہونے دیتا.آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ جنگ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ سے یہی دعا بلند ہوئی تھی اے خدا تو ہی ان بندوں کو بچالے جو تیری عبادت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا مساجد کو آباد کریں.مساجد کی آبادی میں ہی انصار کی زندگی ہے.سخت زمانہ پھر آنے والا ہے اس لئے دعاؤں پر زور دیں.کیونکہ اس سخت زمانے میں وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو دعائیں کر کے خدا تعالیٰ سے محبت کا تعلق پیدا کر لیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدا ئے ذوالعجائب سے پیار نیز فرمایا: آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.صدر محترم نے فرمایا کہ دوسرا کام جو انصار اللہ کے فرائض میں سے ہے، وہ تبلیغ ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ تبلیغ نبی یا خلیفہ کا ہی فرض ہے وہی یہ کام کرتا رہے.یہ خیال احمقانہ ہے.آپ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح نہ بنو کہ جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا تھا کہ جا.تو اور تیرا خدا دونوں لڑتے پھرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.بلکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے غلام بنتے ہوئے قرون اولیٰ کے مومنوں کی طرح کام کریں اور تبلیغ کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے سرانجام دیں.تمام دنیا کے لوگوں تک ہمارا فرض ہے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں اور سب کو اُس کی توحید کے جھنڈے تلے جمع کر دیں.آپ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۱۵ء میں فرمایا تھا کہ ہر احمدی سال میں ایک احمدی بنائے.پس ہر ناصر یہ عہد کرے کہ وہ سال میں ایک احمدی ضرور بنائے گا اور دعا بھی کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اس عہد کو پورا کرنے کے سامان پیدا

Page 345

۳۲۵ فرما دے گا کیونکہ تبلیغ کوشش سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.آخر میں آپ نے فرمایا کہ انصار اپنے اعمال کا جائزہ لیں.اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں.بنی نوع سے ہمدردی سے پیش آئیں.ہمارا کام لوگوں سے پیار کرنا ہے خواہ وہ ہمیں کتنی ہی تکلیف دینے کی کوشش کرتے رہیں.آپ نے نصیحت فرمائی کہ شجرہ طیبہ کی طرح بنو جس کا سایہ ہوتا ہے.اپنی اور اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں.خود بھی اور اولا د کوبھی دل لگا کر عبادت کی عادت ڈالیں.قرآن کریم پڑھیں اور ترجمہ سیکھیں اور سکھائیں.اس اجتماع میں مندرجہ ذیل مجالس کے ساتھ انصار نے شرکت کی.چک سکندر ، اسماعیلیہ ، ڈھو، ڈنگہ، نصیرہ ، تہال ، سرائے عالمگیر، گجرات، کھوکھر غربی ، شیخ پور، شادیوال ﴿۷﴾ ضلع بدین کا تربیتی اجتماع مجالس ضلع بدین کا تربیتی اجتماع مورخہ ۴ مئی ۱۹۷۹ء بعد نماز جمعہ مسجد احمد یہ بدین میں زیر صدارت مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ مرکزی نمائندہ ، تلاوت کلام پاک سے تین بجے شروع ہوا.صاحب صدر نے عہد دہر وایا اور دعا کے بعد افتتاحی خطاب میں انصار اللہ کو ان کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ کیا اور جماعتی فرائض کی طرف توجہ دلائی.آپ کی تقریر کے بعد مکرم مولوی شریف احمد صاحب مربی سلسلہ بدین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان فرمائی.پھر مکرم طاہر اقبال صاحب نے نظم پڑھی.اس کے بعد مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام اور مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر نے انصار اللہ کی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.پھر تقریری مقابلہ ہوا جس میں گیارہ خدام وانصار نے حصہ لیا.مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر، مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب اور مکرم شریف احمد صاحب نے حج کے فرائض انجام دیئے.یہ اجلاس چھ بجے اختتام پذیر ہوا.دوسرا اجلاس پونے نو بجے شب زیر صدارت مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب ناظم اعلیٰ صوبہ سندھ منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد مکرم کرنل محمد حیات صاحب نے تربیت اولا د اور نوجوانوں کی اصلاح کے موضوع پر تقریر کی جو بڑی دلچسپی سے سنی گئی.مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فارسی منظوم کلام سنایا پھر مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے اسلام کا عالمگیر غلبہ کے موضوع پر تقریر فرمائی.ازاں بعد مجالس کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ کے لئے نقطۂ آغاز معین کر کے کام کرنے کی تلقین کی گئی.بہتر کام کرنے والی مجالس کی حوصلہ افزائی کی گئی.اس اجلاس میں جملہ شرکاء تقریری مقابلہ کو انعامات دیئے گئے.اس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تین تقاریر سندھی زبان میں کی گئیں.یہ اجلاس ساڑھے دس بجے شب ختم ہوا.

Page 346

۳۲۶ تیسرا اجلاس نماز تہجد و فجر کے بعد منعقد ہوا جس میں مکرم مولا نا غلام احمد صاحب فرخ نے درس قرآن کریم، مکرم مولوی محمد اشرف صاحب ناصر نے درس حدیث اور مکرم شریف احمد صاحب نے درس ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا.پھر ذکر حبیب“ کے موضوع پر مکرم قریشی عبدالرحمان صاحب نے تقریر فرمائی.بعد ازاں مکرم امیر صاحب ضلع بدین نے خطاب فرمایا.عہد انصار اللہ اور دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا.اجتماع میں ضلع کی سو فیصد مجالس کے انصار نے شمولیت کی.مقامی خدام نے خدمت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا.قیام وطعام کا انتظام تسلی بخش تھا.یہ اس ضلع کا پہلا اجتماع تھا جو بفضلہ تعالیٰ بہت حد تک کامیاب رہا.(۸) دورہ چونڈہ ۲۵ مئی ۱۹۷۹ء کی صبح صدر محترم چونڈہ کے لئے روانہ ہوئے.آپ ربوہ سے سید ھے پسرور تشریف لے گئے.مکرم رانا حبیب اللہ صاحب قائد خدام الاحمدیہ کے مکان پر مختصر قیام کے دوران آپ نے پسرور کے انصار اور دوسرے احباب جماعت سے ملاقات کے علاوہ مجلس کے کام کے متعلق ہدایات دیں نیز بعض غیر از جماعت دوستوں سے بھی گفتگو کی اور انہیں سنجیدگی کے ساتھ احمدیت سے متعلق تحقیق کی دعوت دی.حلقہ چونڈہ کے انصار ۲۵ مئی ۱۹۷۹ء بروز جمعہ بیت الحمد چونڈہ میں جمع ہوئے.صدر محترم نے جمعہ پڑھایا.خطبہ جمعہ میں آپ نے سورہ فتح کی آیت مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةٌ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی عظیم صفات حسنہ بیان کیں.آپ نے فرمایا کہ آشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے مسلمانوں کے بعض علماء نختی یا تلوار کی نوک مراد لیتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کی ناپاک سوسائٹی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں اور رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سے مرادان کا منکسر المزاج ہونا اور نیک سوسائٹی کا اثر قبول کرنا ہے.آپ نے نہایت عمدہ رنگ میں اس کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور اطاعت شعاری کے واقعات بیان فرما کر توجہ دلائی کہ جب تک ہم صحابہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں گے اور آشدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا نمونہ نہ دکھا ئیں گے، اس وقت تک بات نہیں بنے گی.آپ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الاول کی اطاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو کل علی اللہ کی مثالیں بیان فرما ئیں اور دعاؤں پر مداومت اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی.باہمی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے آپ نے صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل اختیار کرو پر عمل پیرا ہوں.اور اطاعت کا وہ نمونہ دکھائیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ کہہ کر دکھایا تھا.

Page 347

۳۲۷ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا مگر نئی نسل نے وہ اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا جس کی ان سے توقع تھی.اب اعمال میں تبدیلی کی ضرورت ہے.معمولی معمولی باہمی جھگڑوں کو دین کا رنگ نہ دیا جائے اور بنیان مرصوص کی طرح متحد ہو کر دین متین کی اشاعت کا فریضہ سرانجام دیا جائے.آپ نے خطبہ کے آخر میں بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ کے حکم کے مطابق تبلیغ کے اہم فریضہ کی طرف توجہ دلائی.آپ نے انصار کو خاص طور پر مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ اپنے عمر کے آخری حصے میں سے گذر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان میں جانے کی فکر میں ہوتا ہے.نماز جمعہ کے بعد بیت الحمد میں ہی صدر محترم نے مجلس انصار اللہ کے اجلاس کی صدارت فرمائی.حلقہ کے ۲۹ میں سے ہیں مجالس کے زعماء موجود تھے.آپ نے فرداً فرد اسب زعماء کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ضروری ہدایات دیں.مکرم بابو قاسم دین صاحب ناظم ضلع سیالکوٹ نے بھی بعض ضروری امور کے علاوہ ماہنامہ انصار اللہ کی خریداری کی طرف توجہ دلائی.پانچ دوست موقع پر خریدار بن گئے.اجلاس عام کے بعد غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ سوال و جواب کی نہایت کامیاب مجلس مکرم زعیم صاحب انصار اللہ چونڈہ کے گھر منعقد ہوئی.خدا تعالیٰ نے اس کوشش کو نوازا اور اگلے ہی دن نو افراد پر مشتمل ایک خاندان نے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.﴿۹﴾ ضلع لاہور میں سلائیڈز کی نمائش ے جون ۱۹۷۹ء کو موضع ہانڈ و گوجر ضلع لاہور میں نائب صدر مرکز یہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اور قائد تحریک جدید مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب تشریف لائے.بعد نماز مغرب اجلاس منعقد کیا گیا اور سلائیڈ ز دکھائی گئیں.احمدی و دیگر احباب کی حاضری سات سو کے لگ بھگ تھی.مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے سلائیڈ ز کے دوران زبانی ان کی وضاحت فرمائی.پروگرام نہایت کامیاب رہا.چھ احباب نے تحریک جدید کے خصوصی معاونین بننے کا وعدہ پیش کیا.اس سے قبل مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے دیہاتی مجالس کے کام کا جائزہ لیا اور پابندی نماز ، تربیت اولا داور خصوصاً تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.اس کے علاوہ قرآن کریم کا باقاعدگی سے درس دینے اور تحریک جدید اور وقف جدید کے مجاہد بننے کی تحریک کی.اس اجتماع میں باٹا پور کے احباب بھی شامل ہوئے.بروز جمعه ۸ جون شام چھ بجے رچنا ٹاؤن میں نماز مغرب کے بعد سلائیڈ ز دکھائی گئیں جن میں اردگرد کے احمدی احباب بھی شامل ہوئے.ساٹھ کے قریب احباب اس پروگرام سے محظوظ ہوئے.چار احباب نے تحریک جدید کے خصوصی معاونین بننے کا اعلان کیا.﴿۱۰﴾

Page 348

۳۲۸ صدر محترم کا دورہ کراچی صدر محترم نے ۲۸ جون تا ۵ جولائی ۱۹۷۹ء مجلس انصار اللہ ضلع کراچی کی دعوت پر کراچی کا دورہ فرمایا.یہ دورہ دو خصوصی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا تھا.) اجتماع انصار اللہ میں صدر محترم کی شمولیت (ب) جماعت کراچی کے ہر طبقہ کے ذریعہ اصلاح وارشاد کے پروگراموں کی ترویج آپ کا یہ آٹھ روزہ دورہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت مفید اور کامیاب رہا.اس دوران آپ نے متعددا جلاسات میں شرکت کی اور خطاب فرمایا.خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، تبلیغی نشستوں میں سوالات کے جوابات دیے، مذاکرہ علمیہ میں لیکچر ز دیئے اور عہدیداران کو ضروری ہدایات سے نوازا.دورے کا تفصیلی پر وگرام یہ تھا: ۲۸ جون مذاکرہ علمیه بر موضوع وفات مسیح ناصری بعد نماز مغرب مسجد احمد یہ عزیز آباد.۲۹ جون : تربیتی اجلاس مجلس انصار اللہ ضلع کراچی بمقام احمد یہ ہال بعد نماز عصر.۳۰ جون: خطاب لجنہ اماءاللہ کراچی بمقام احمد یہ ہال بعد نماز عصر.۳۰ جون: مذاکره علمیه بر موضوع جماعت احمدیہ کے عقائد بمقام احمد یہ ہال بعد نماز مغرب.۴ جولائی: تبلیغی نشستیں ۵ جولائی: مذاکرہ علمیہ بر موضوع اسلام کا مستقبل، بمقام ہوٹل انٹر کانٹی نینٹنل کراچی سالانہ اجتماع ضلع کراچی مجلس انصار اللہ ضلع کراچی کا سالانہ تربیتی اجتماع ۲۹ جون کو بعد نماز جمعہ منعقد ہوا.یہ اجتماع دو اجلاسوں پر مشتمل تھا.صدر محترم نے پہلے اجلاس کی صدارت فرمائی اور اجتماع کا افتتاح فرمایا.صدر محترم نے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ جب ہمارے خدام انصار کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ ایسے طرز عمل کا اظہار کرتے ہیں جیسے کہ وہ اب ریٹائر ہونے کی عمر کو پہنچ چکے ہوں.ان کے عمل سے ذمہ داری کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے جو سراسر غلط ہے.آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی پر غور کریں تو ایسے لگتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، حضور کے کام کی رفتار تیز ہوتی گئی اور آپ کی کیفیت اس مسافر کی طرح تھی جو سفر کر رہا ہو اور کبھی وہ سورج کو دیکھے اور کبھی اپنے فاصلے پر غور کرے جو اس نے ابھی طے کرنا ہے.آپ کی اس حالت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا انتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِى لَا يُضَاعُ وَقْتُه تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں ہوگا.حقیقت یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا وقت دین کے لئے خرچ ہوتا تھا اور پھر بھی دل میں یہ بے چینی کہ شائد میرا وقت ضائع نہ ہورہا ہو.اس پر اللہ تعالیٰ نے محبت کے رنگ میں مذکورہ بالا الفاظ میں

Page 349

۳۲۹ تسلی دی.آپ نے انصار کو توجہ دلائی کہ وہ زندگی کے لمحات کو قیمتی سمجھ کر انہیں نیک کاموں میں خرچ کریں.وقت تھوڑا ہے اس کو ضائع نہ کریں.افتتاحی خطاب کے بعد مکرم نعیم احمد خان صاحب ناظم ضلع نے مجلس کی گذشتہ ششماہی کی رپورٹ کارگزاری پیش کی.مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی نے نَحْنُ أَنْصَارُ الله اور مکرم عبد السلام صاحب طاہر مربی کراچی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق رسول مکرم شریف احمد صاحب بانی نے تحریک جدید اور تبلیغ اسلام مکرم ڈاکٹر محسن احمد صاحب نے انصار اللہ کے لئے حفظان صحت کے زریں اصول“ اور مکرم شمیم احمد صاحب خالد نے ” موجودہ دور میں سائیکل کا استعمال کیوں ضروری ہے“ کے موضوعات پر تقاریر کیں.مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ کراچی نے اپنے خطاب میں قرآن کریم کی روشنی میں قرض کے بارے میں اسلامی احکام کی وضاحت فرمائی.مکرم کیپٹن سید افتخار حسین صاحب نے با اخلاق انسان ہی باخدا انسان بن سکتا ہے“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس اجتماع کا ایک دلچسپ پروگرام ”مجلس سوال و جواب تھا.حاضرین نے کثرت سے سوالات بھجوائے.صدر محترم نے ان کا کافی وشافی جواب دیا.احباب نے بڑے غور سے جوابات سنے.نماز مغرب وعشاء کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اختتامی خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ نئی صدی جماعت احمدیہ پر غیر معمولی ذمہ داریاں لے کر آ رہی ہے.دنیا میں تبدیلیاں احمدیت کے لئے پیغام عمل لا رہی ہیں.ہمیں وہی کرنا چاہئے جو ایک بچہ مشکل کے وقت کرتا ہے یعنی محبت سے اپنی ماں کی گود میں آجاتا ہے.آپ اپنے تعلق کو خدا تعالیٰ سے مضبوط کریں اور خدا تعالیٰ کی رسی سے مضبوط کوئی رسی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اس شعر میں ہے.عدد جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں اللہ تعالیٰ کی ذات وہ قلعہ ہے جو اس میں داخل ہو گیا ، وہ محفوظ ہے.پس انصار خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں.پاکستان میں اوسط عمر میں سال ہے.انصار بننے کے لئے آپ کو دس سال مزید ملے ہیں اس لئے خدا کا شکر کرتے ہوئے اُس سے پیار کریں اور اُس کو ہر وقت یا درکھیں.بعد مکرم نعیم احمد خان صاحب ناظم ضلع نے تمام حاضرین اور منتظمین کا شکر یہ ادا کیا.اس طرح یہ اجتماع نو بجے رات بخیر و بخوبی اختتام پذیر ہوا.اس اجتماع میں ۳۲۵ افراد نے شرکت کی.دوران اجتماع حاضرین کی عصر کے بعد چائے سے تواضع کی گئی.تعلیم القرآن کے سلسلے میں اعلیٰ کارکردگی پر مجلس انصار اللہ ناظم آباد انعامی شیلڈ کی مستحق قرار پائی.صدر محترم نے اپنے دست مبارک سے مکرم چوہدری شریف احمد صاحب وڑائچ زعیم اعلیٰ

Page 350

مجلس انصار اللہ ناظم آباد کو انعامی شیلڈ عطا فرمائی.(11) پروگرام اصلاح وارشاد اصلاح وارشاد کا پروگرام بھی احسن رنگ میں منعقد کیا گیا.اس کے ذریعہ جماعت احمد یہ کراچی کے انصار، خدام بجنات اور بچوں میں ایک نیا ولولہ اور نئی روح تبلیغ کے لئے پیدا ہوئی جس کے ثمرات بھی ملنے لگے اور صرف ماہ جولائی میں آٹھ نئی بیعتیں ہوئیں.اصلاح وارشاد کے پروگراموں کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے.مذکراہ علمیہ.وفات مسیح ناصری ۲۸ جون ۱۹۷۹ء کو نماز مغرب کے بعد مذکراہ شروع ہوا.مکرم امیر صاحب نے حاضرین سے حضرت صاحبزادہ صاحب کا تعارف کروایا.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ صاحب نے وفات مسیح ناصری کے موضوع پر خطاب فرمایا اور پھر دوستوں کے سوالوں کے تفصیلاً جواب دیئے.خطاب لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی ساڑھے چار بجے شام بمقام احمد یہ ہال یہ پروگرام منعقد کیا گیا.آپ کے ساتھ مکرم عبدالسلام صاحب طاہر مربی سلسلہ اور مکرم چوہدری شریف احمد صاحب وڑائچ نمائندہ لجنہ کراچی موجود تھے.صدر محترم نے لجنہ کو ان کی اہم ذمہ داری یعنی تربیت کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ ہم جو اپنے آپ کو مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب کرتے ہیں.ہم پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہمیں دنیا کے سامنے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرنا چاہیئے.اخلاقی حدود کی پابندی میں ہی زندگی کی اصل مسرت ہے.مغربی اقوام جنہوں نے حدود کو توڑ دیا ہے، بڑی ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں.آپ نے خواتین کو توجہ دلائی کہ وہ ان حدود کو قائم رکھیں جو اسلام نے سکھائے ہیں.مذاکرہ علمیہ.جماعت احمدیہ کے عقائد اس مذاکرہ کا انتظام مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی نے کیا.حاضرین کی اکثریت نوجوان طلباء کی تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہایت وضاحت اور عام فہم انداز میں جماعت احمدیہ کے عقائد بیان کئے اور بعد ازاں حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیئے.علمی مجالس مورخہ ۴ جولائی کو نائب ناظم صاحب انصار اللہ صفِ دوم ضلع کراچی اور زعیم صاحب اعلیٰ مجلس

Page 351

۳۳۱ انصار اللہ ڈرگ روڈ کے مکان پر علمی مجالس کا انعقاد کیا گیا جن میں حضرت صاحبزادہ صاحب شریک ہوئے اور حاضرین سے دیر تک علمی تبادلہ خیالات فرمایا.مذاکرہ علمیہ مورخہ ۵ جولائی بوقت ۴ بجے شام ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کے شالا مار روم میں ایک تقریب منعقد ہوئی.جس میں صدر محترم نے تقریباً پینتالیس منٹ تک حاضرین سے اسلام کے مستقل، پر خطاب فرمایا.آپ نے ثابت کیا کہ آج اسلام کا غالب آنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مہدی موعود کے ذریعہ ہی مقدر ہے.اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ دیر تک رہا.یہ پروگرام بے حد دلچسپ اور مؤثر ثابت ہوا.شیخو پورہ شہر میں ایک تربیتی اجتماع ۶ جولائی ۱۹۷۹ء بروز جمعہ مجلس انصاراللہ ضلع شیخو پورہ کا ایک تربیتی اجتماع منعقد ہو اجس میں شدید گرمی کے باوجود ساڑھے سات سو سے زائد حاضری تھی.اس اجتماع میں مقامی و دیگر مجالس کے پانچ سواحمدیوں کے علاوہ اڑھائی سو غیر از جماعت افراد بھی شامل ہوئے.مستورات کی تعداد اس کے علاوہ تھی.صدر محترم نے اس اجتماع میں شرکت فرمائی.آپ اسی روز بذریعہ جہاز کراچی سے لاہور پہنچے اور وہاں سے شیخو پورہ تشریف لائے.نماز جمعہ سے قبل آپ نے عہدیداران سے ملاقات کی ، ان کے کاموں کا جائزہ لیا اور ہدایات دیں.اس سے قبل مکرم ملک حبیب الرحمان صاحب قائد عمومی نے زعمائے مجالس کی کارکردگی کا مختصراً احاطہ کیا.خطبہ جمعہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ احمدیوں کا دوسرے لوگوں سے ایک نمایاں فرق ہے اور یہ فرق ہمیشہ قائم رہنا چاہئے.ہم میں بنی نوع انسان کی ہمدردی بدرجہ اتم موجود ہونی چاہئے کیونکہ ہم اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں.اس لئے ہماری رحمت اسی طرح وسیع ہونی چاہیئے جس طرح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی.حضور کی ہمدردی کسی نسل ، فرقہ ، مذہب اور رنگ کے امتیاز کے بغیر تھی.اس لئے ہمارا مقصود بھی یہی ہونا چاہئیے.خدا تعالیٰ کی رحمت بھی ان پر ہوتی ہے جو بنی نوع انسان سے ہمدردی رکھتے ہیں.ساری دنیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اس لئے اگر ہم اس بات کو مد نظر رکھ کر بات کریں گے تو نتیجہ بھی وسیع ہوگا.آپ نے فرمایا کہ موجودہ دور میں دنیا اور عالم اسلام کے لئے خصوصی دعا کی ضرورت ہے.عالم اسلام سخت خطرات میں ہے.پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے.اس لئے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے.اس

Page 352

۳۳۲ ملک کی مشکلات ہمارے لئے پریشانیاں پیدا کرتی ہیں.سچی فطرت اردگرد کے حالات کو دیکھ کر کبھی خوش نہیں ہوسکتی.جماعت احمد یہ خدا کے نزدیک پکڑی جائے گی اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا.جماعت کی اکثریت اپنے دوستوں کی دوستی کا حق کما حقہ ادا کرنے سے غفلت کر رہی ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ دوسروں سے ہمدردی کرے اور انہیں احمدیت کی دعوت دے.ہر جانور میں کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی ہے مثلاً کتے کی وفاداری مشہور ہے ، ہاتھی کی سوجھ بوجھ اور کوے کی اپنی ہم جنسوں سے ہمدردی، خیر خواہی وغیرہ.پس یہ سب اوصاف تو فردا فردا جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں.لیکن انسان ان سب اخلاق کا جامع ہے اور ہر خلق میں ہر جانور سے بہت بالا مقام حاصل کر سکتا ہے.وہ اشرف المخلوقات صرف انہی معنوں میں کہلا سکتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی کام نہیں کیونکہ آپ کی طرف منسوب ہونے والا دنیا کے سب سے عظیم انسان کی طرف منسوب ہو رہا ہے.آپ کی شان اس امر میں ہے کہ اگر چہ انبیاء خلق عظیم میں اپنے زمانے کے تمام اشرف الخلوقات انسانوں سے آگے نکل گئے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکارم اخلاق اور حسن و احسان میں تمام انبیاء سے فرد فردا بھی اور اجتماعی طور پر بھی سب سے آگے نکل گئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شان جس کی طرف آج خاص طور پر آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، قرآن کریم کی اس آیت میں مذکور ہے کہ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی رسول کریم خدا کے اتنے قریب ہو گئے کہ اس سے زیادہ قرب کا تصور ممکن نہیں.پھر مخلوق خدا کی طرف جھک گئے اور لوگوں کو بتایا کہ جو کچھ میں نے پایا ہے، تمہیں بھی اسی کی دعوت دیتا ہوں.پھل دار شاخیں ہمیشہ جھک جاتی ہیں.فَتَدَلی میں جھکنا مراد ہے.جیسا کہ پھلدار درخت جھکتا ہے.اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ زبانی دعوؤں میں سچی محبت کا رس گھولیں اور اپنے عظیم آقا کا اسوہ اختیار کریں.ان درختوں کی طرح جن کی شاخیں میٹھے پھلوں کے بوجھ سے زمین کی طرف جھک جاتی ہیں اور اپنے فیض بھو کے اور پیاسے مسافروں سے اور بھی قریب کر دیتی ہیں.آپ بھی حسن و احسان کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر بنی نوع انسان کی طرف جھک جائیں.وقت بہت نازک ہے.اس سے فائدہ اٹھا ئیں.ایسا زمانہ بھی قریب ہے کہ شاید خود آپ کو اپنی ہوش بھی نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.نماز جمعہ کے بعد ساڑھے تین بجے سے چھ بجے تک سوال و جواب کی مجلس منعقد ہوئی.صدر محترم نے دوستوں کے سوالات کے جوابات دیئے جس کا سامعین پر نہایت اچھا اثر ہو ا.اس مجلس میں تین افراد نے جماعت میں شمولیت کا شرف حاصل کیا.اس کے بعد مکرم امیر صاحب ضلع کی کوٹھی پر چھ سے ساڑھے سات بجے تک بعض علم دوست وکلاء سے گفتگو فرمائی جس میں صدر محترم نے انہیں جماعت کے عقائد ، موجودہ عالم اسلام کی حالت اور

Page 353

۳۳۳ در پیش خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.وکلاء صاحبان نے حضرت میاں صاحب کی باتوں کو نہایت توجہ سے سنا اور آئندہ خود اپنے طور پر بھی اس قسم کی تقریب منعقد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.۱۳ تربیتی اجتماع ضلع ڈیرہ غازی خان مورخہ ۱۳ جولائی ۱۹۷۹ء بروز جمعہ ضلعی اجتماع میں شمولیت کے لئے صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایک بجے تشریف لائے.کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے جمعہ پڑھایا.خطبہ جمعہ میں صدر محترم نے فرمایا کہ احمدیت اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے.اس لحاظ سے احباب جماعت کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں.مخالفین نے امکان بھر کوشش کر کے احمدیت کے سامنے دیوار کھڑی کر دی ہے کہ یہ پودا آگے نہ بڑھ سکے اور یہیں سوکھ جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کے مامورین کی جماعتیں کبھی بھی ان حد بندیوں کے اندر نہیں رہیں بلکہ پھیلتی رہی ہیں اور خدا کا منشاء پورا ہوتا رہا ہے.اب بھی احمدیت کی ترقی کی رفتار کی نہیں بلکہ اُس نسبت سے زیادہ بڑھی ہے جس نسبت سے اسے دبایا گیا ہے.چنانچہ احمدیت میں ہر روز نئے شامل ہونے والوں کی کثیر تعداد اس امر کی شاہد ہے.مرکز احمدیت میں غیر احمدی احباب ہر ہفتہ اس کثرت سے آتے ہیں کہ بعض اوقات کارکنان کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑتا ہے.چنانچہ مخالفین کی یہ روکیں خدا تعالیٰ کے منصوبہ کو کمزور کرنے کی بجائے اور زیادہ ترقی کا باعث ہوئی ہیں.احمدیت کو ہر آن تازہ بتازہ پھل مل رہے ہیں اور یہ پودا تناور درخت ہو چلا ہے.بیرونی ممالک میں بھی اس کی ترقی کی رفتار تیز ہے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جبکہ اسلام اور احمدیت کا غلبہ ساری دنیا میں ہو جائے گا.نماز جمعہ وعصر پڑھانے کے بعد صدر محترم نے انصار اللہ کے کام کی رفتار کا جائزہ لیا.تمام تیرہ مجالس کے زعماء حاضر تھے.مکرم قائد صاحب عمومی نے مناسب حال تلقین کی اور ماہانہ رپورٹ کارگزاری ہر ماہ با قاعدگی سے ارسال کرنے پر زور دیا.آخر میں صدر محترم نے جملہ حاضرین کو وعظ ونصیحت کی اور اپنی ذمہ داریاں نبھا ہے، مستعدی سے کام کرنے تبلیغ اور مالی قربانی کے معیار کو بلند کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی.اس موقع پر چند غیر احمدی احباب سے بھی تعارف کرایا گیا.صدر محترم نے ان کے سوالوں کے جواب تفصیل سے دیئے.یہ غیر رسمی مجلس پانچ بجے شام تک رہی اور بعد ازاں معزز مہمان واپس تشریف لے گئے.باوجود شدید گرمی کے حاضری توقع سے زیادہ تھی.بیرونی مجالس سے یک صد سے زیادہ احباب تشریف لائے.مقامی احباب معہ مستورات و اطفال سب شریک جلسہ تھے.حاضری پانچ سو سے کم نہ تھی.مسجد کا دالان تک بھرا ہوا تھا.سایہ کے لئے سائبان کا انتظام تھا.بیرونی مہمانوں کی میزبانی مقامی مجلس نے کی.(۱۴)

Page 354

۳۳۴ مجالس ضلع تھر پارکر کا سالانہ اجتماع ضلع تھر پارکر کا اجتماع ۱۳ ۱۴ جولائی ۱۹۷۹ء کو کنری پاک کی احمد یہ جامعہ مسجد میں منعقد ہوا.ناظم اعلیٰ سندھ مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب نے اجتماع کا افتتاح فرمایا.مکرم مولانا غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ سکھر، مکرم کرامت اللہ صاحب خادم مربی سلسلہ محمد آباد اور مکرم چوہدری ہادی علی صاحب مربی سلسلہ کنری نے مختلف تربیتی موضوعات پر تقاریر فرما ئیں اور قرآن پاک تفسیر اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درس دیئے.تقریباً چار سو احباب شامل اجتماع ہوئے.ورزشی مقابلہ جات کا پروگرام بھی ہوا جس میں انصار کے علاوہ خدام اور اطفال نے بھی بھر پور حصہ لیا.تقریری مقابلہ جات میں بارہ مقررین نے حصہ لیا.اوّل ، دوم اور سوم آنے والوں کو انعامات دیئے گئے.دینی معلومات سے متعلق سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ ایک گھنٹہ تک جاری رہا.مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے نہایت اعلیٰ پیرایہ میں جوابات دیئے.﴿۱۵﴾ دورہ ملتان ۱۳ ستمبر ۱۹۷۹ء کو صدر محترم مع مکرم قائد صاحب عمومی ملتان تشریف لے گئے.سب سے پہلے شام ساڑھے چار بجے مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.جس میں ڈاکٹرز، وکلاء اور پروفیسرز پرمشتمل غیر از جماعت افراد شامل ہوئے.مختلف علمی موضوعات ظہور امام مہدی علیہ السلام اور وحی والہام کی حقیقت کے متعلق سوالات کئے گئے جن کے جوابات محترم صاحبزادہ صاحب نے نہایت مؤثر اور مدلل جدید سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں دیئے.جن سے سامعین مستفیض ہوئے.یہ مجلس تین گھنٹے جاری رہی.اس کے بعد مسجد احمد یہ حسین آگاہی میں ضلع بھر کے زعماء جمع تھے.بعد نماز عشاء اجلاس میں تلاوت کے بعد قاضی محمد اسحاق بسمل صاحب ناظم ضلع نے کار کردگی کی رپورٹ پیش کی.صدر محترم نے زعماء سے خطاب فرمایا.آپ نے اپنے دلنشین اور مؤثر انداز میں انصار کی بیداری کے لئے نہایت مفید اور قیمتی ہدایات سے نوازا.اجلاس کے بعد صدر محترم نے اجتماعی کھانے میں شرکت فرمائی.دوسرے روز ملتان سے بہاولپور جانے کا پروگرام تھا.راستہ میں چک نمبر ۳۶۶.ڈبلیوبی میں آپ سے ملاقات کے لئے ڈیڑھ صد کے قریب احمدی قرب و جوار سے اور پچھتر کے قریب غیر از جماعت دوست جمع تھے.صدر محترم نے سب سے مصافحہ کیا اور تقریباً دو گھنٹے تک سوالات کے جوابات دیئے.نیز لودھراں میں بھی قریباً ڈیڑھ گھنٹہ قیام فرمایا اور مجلس سوال و جواب منعقد فرمائی.(۱۶)

Page 355

۳۳۵ تربیتی کلاس ضلع بہاولپور ۴ استمبر کو اجلاس اول زیر صدارت مکرم مرزا ارشد بیگ صاحب ناظم انصار اللہ ضلع بہاولپور شروع ہوا.نماز تہجد اور فجر کے بعد درس قرآن کریم، درس حدیث ، درس ملفوظات مکرم مولوی شریف احمد صاحب، مکرم امدادالرحمن صاحب اور مکرم نسیم احمد صاحب چیمہ مربیان سلسلہ نے دیا.ساڑھے چھ بجے سے آٹھ بجے تک ورزشی مقابلہ جات کروائے گئے.ساڑھے آٹھ بجے دوسرا اجلاس زیر صدارت مکرم چوہدری غلام احمد صاحب امیر ضلع منعقد ہوا.جس میں مکرم امیر صاحب نے انصار اللہ کی غرض و غایت اور ذمہ داریاں ، مکرم مرزا ارشد بیگ صاحب نے تربیت اولا داور مکرم امداد الرحمن صاحب صدیقی مربی سلسلہ نے لین دین کے بارے میں اسلامی تعلیم کے موضوعات پر تقاریر کیں.باقی پروگرام پر و فیسر محبوب الہی صاحب نائب زعیم صف دوم کی زیر صدارت منعقد ہوا.۴ ستمبر ۱۹۷۹ء بروز جمعہ کو ہی صدر محترم ملتان سے بہاولپور تشریف لائے.یہاں آپ نے نماز جمعہ پڑھائی.آپ کا خطبہ جمعہ نہایت بصیرت افروز اور پُر مغز تھا.جس سے حاضرین مستفید ہوئے.حاضری تین چار صد تھی.چودہ میں سے بارہ مجالس کے زعماء اور نمائندگان بھی شامل ہوئے.ان کے علاوہ باقی مجالس کے انصار، خدام، اطفال، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات نے بھی کثرت سے شرکت کی.جمعہ کے بعد اجلاس عام میں صدر محترم نے مجالس انصار اللہ کا جائزہ لیا.جن مجالس کی طرف سے با قاعدہ رپورٹیں مرکز میں نہیں آئیں، ان سے رپورٹیں با قاعدہ بھجوانے کا عہد لیا.حاضر زعماء نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ تبلیغی اور تربیتی مساعی کو تیز سے تیز تر کریں گے اور سالانہ اجتماع میں سو فیصد نمائندگی کا ٹارگٹ پورا کریں گے.اس کے بعد صدر محترم نے نہایت ہی ایمان افروز تر بیتی تقریر فرمائی.جسے سُن کر حاضرین کی روح میں تازگی اور بیداری پیدا ہوگئی.ساڑھے چار بجے شام دعا کے بعد یہ اجلاس ختم ہوا.ساڑھے پانچ بجے شام جماعت بہاولپور کی طرف سے اعلیٰ حکام، پروفیسر صاحبان، ڈاکٹر صاحبان، وکلاء صاحبان اور دیگر معززین شہر کو چائے پر مدعو کیا گیا.مکرم صاحبزادہ صاحب نے نہایت اعلیٰ طریق سے ان کے سوالات کے جوابات دیئے اور کچھ کتابیں تحفہ دیں.حاضرین بہت نیک اثر لے کر گئے.نماز مغرب کے وقت یہ مجلس اختتام کو پہنچی.(۱۷) سالانہ تربیتی اجتماع مجالس بلوچستان اجتماع ۲۰ ستمبر ۱۹۷۹ء بروز جمعرات مسجد احمدیہ کوئٹہ میں مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت بلوچستان جنہیں صدر محترم نے مرکزی نمائندہ مقر فر مایا تھا، کی صدارت میں بوقت پانچ بجے سہ پہر شروع ہوا.تلاوت نظم اور عہد کے بعد صدرا جلاس نے پابندی وقت اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے

Page 356

۳۳۶ کی طرف توجہ دلائی.اسلام اور احمدیت کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے پر مکرم عبدالقیوم صاحب ایم اے نے اور فتوحات کے وقت درود و استغفار کی اہمیت پر مکرم خلیفہ عبدالرحمان صاحب نے تقاریر کیں.دوسرا اجلاس جو رات آٹھ بج کر دس منٹ پر شروع ہوا، صدارت کے فرائض مکرم شیخ محمد اقبال صاحب نے ادا کئے.تلاوت و نظم کے بعد مکرم شیخ محمد اقبال صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان قیامت تک جاری ہے اور مکرم مولانا روشن دین احمد صاحب مربی سلسلہ کوئٹہ نے قرآن کریم زندہ کتاب ہے“ کے موضوعات پر تقاریر کیں.اس کے بعد سوال و جواب کی محفل منعقد ہوئی.مکرم شیخ محمد حنیف صاحب اور مکرم مولانا روشن دین احمد صاحب نے حاضرین کے مختلف علمی سوالات کے جوابات دیئے.۲۱ ستمبر بروز جمعہ نماز تہجد و فجر کے بعد مکرم مولانا روشن دین احمد صاحب نے درس قرآن کریم، مکرم میاں عبدالقیوم صاحب نے درسِ حدیث اور مکرم چوہدری محمد حیات صاحب نے درس ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا.سیر و ناشتہ کے بعد اختتامی اجلاس صبح سوا آٹھ بجے زیر صدارت مکرم میاں بشیر احمد صاحب ناظم اعلیٰ بلوچستان شروع ہوا.تلاوت نظم کے بعد تقریری مقابلہ ہوا.پھر مکرم شیخ فضل حق صاحب نے جوستمی سے اجتماع میں تشریف لائے تھے ، رشتہ ناطہ سے متعلق خطاب کیا.بعد ازاں مکرم میاں بشیر احمد صاحب نے ذکر حبیب“ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود کی بعض اثر انگیز روایات سنائیں اور کوئٹہ میں مقیم مختلف صحابہ کا بھی تذکرہ کیا.آخر پر مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت نے رشتہ ناطہ اور مقام خلافت پر روشنی ڈالی.عہد کے بعد تقسیم انعامات ہوئی اور دعا کے ساتھ یہ مبارک اجتماع ختم ہوا.اجتماع میں کوئٹہ کی چاروں زعامتوں کے علاوہ ستی ، زیارت اور خضدار سے ستر انصار شریک ہوئے.چالیس خدام، پچاس اطفال اور خواتین ان کے علاوہ تھیں.اجتماع لاہور مجالس لاہور کا اجتماع ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء بعد نماز جمعہ دارالذکر لاہور میں زیر صدارت مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر جماعت لاہور منعقد ہوا.تلاوت اور عہد کے بعد امیر صاحب نے افتتاحی تقریر میں انصار کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.اس کے بعد مکرم ناظم صاحب ضلع نے کارکردگی کی مختصر رپورٹ پیش کی اور باقی زعماء نے اپنے چیدہ چیدہ کاموں سے آگاہ کیا.آخر پر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے انعامات تقسیم کئے اور اپنے خطاب میں نَحْنُ انصار اللہ بنے کے عملی ثبوت پر روشنی ڈالی.اجتماع میں آٹھ سو افراد کی حاضری تھی.اجتماع کے لئے ہینڈبل چھپوا کر تقسیم کئے گئے تھے.اجتماع جھنگ شہر جھنگ شہر کا سالانہ اجتماع ۲۱ ستمبر ۱۹۷۹ء کو منعقد ہوا.خطبہ جمعہ مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب

Page 357

۳۳۷ مورخ احمدیت نے دیا.اس کے بعد تین سے ساڑھے چار بجے تک اجتماع منعقد ہوا.جس میں مولانا موصوف نے انصار کی ذمہ داریوں (دعا، تربیت اولا در تبلیغ وغیرہ) کی طرف توجہ دلائی.خطبہ جمعہ میں حاضری چار سوتھی.اجتماع میں ساٹھ کے قریب دوست شامل تھے.پانچ بجے مہر شیر محمد صاحب ایڈووکیٹ نے اپنی کوٹھی پر غیر احمدی شرفاء کو عصرانہ دیا جس میں سوال و جواب کا پروگرام ہوا.مکرم مولانا صاحب نے جوابات دیئے.ایک کیمونسٹ دوست نے کہا کہ میں علماء کے طرز عمل کے باعث مذہب سے دور چلا گیا تھا.اس تقریر نے مجھے اسلام کے بہت قریب کر دیا ہے.نماز عشاء کے بعد انصار و خدام کی ایک پرائیویٹ مجلس میں قومی اسمبلی ۱۹۷۴ء کے حالات مولانا صاحب نے بتائے اور احباب کو نئے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا.مجلس میں سو افراد شامل تھے.سالانہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور مجلس اسلامیہ پارک لاہور کا سالانہ اجتماع مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مسجد احمد یہ میں زیر صدارت مکرم مولوی سید احمد علی شاہ صاحب قائد تربیت منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب منتظم عمومی نے رپورٹ کارگزاری پیش کی.مکرم صو بیدار صلاح الدین صاحب منتظم تعلیم نے نَحْنُ أَنصار اللہ کے موضوع پر تقریر کی اور مکرم شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت نے اپنا مضمون پڑھا.بعد میں سوال و جواب کی مجلس ہوئی.مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب نے تعلق باللہ، ذکر الہی کے فوائد، دعاؤں میں لگن اور احمدیت کی تعلیم کا بار بار مطالعہ کرنے کے بارے میں روشنی ڈالی.اس کے بعد مکرم ناظم صاحب ضلع لاہور نے ” تبلیغ کی اہمیت اور ہماری ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تقریر کی.دعا پر یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا.اوکاڑہ میں مجلس مذاکرہ اوکاڑہ میں ۲۱ ستمبر کو ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی گئی.اس مجلس میں شرکت کے لئے مرکز سے صدر محترم کے ارشاد پر مکرم مولانا عبدالمالک خاں صاحب ناظر اصلاح و ارشاد اور مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف تشریف لائے.اس مجلس میں ڈیڑھ صد ا حباب شریک تھے.ساٹھ احباب غیر از جماعت بھی تھے.جن میں تاجر، علماء، وکلاء، اساتذہ اور پروفیسر صاحبان شامل تھے.علمائے کرام کی تقاریر کے بعد سامعین کی طرف سے مختلف سوالات کئے گئے جن کے مکرم مولانا عبدالمالک خاں صاحب نے تفصیل سے شافی جواب دیئے.﴿۱۸﴾ اجتماع مارٹن روڈ کراچی یه اجتماع ۵ اکتوبر ۱۹۷۹ء بعد از نماز جمعه مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کی صدارت میں شروع

Page 358

۳۳۸ ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مکرم محمود احمد صاحب معاون زعیم اعلیٰ نے حلقہ مارٹن روڈ کی رپورٹ پیش کی.بعد ازاں تربیت اولاد پر مکرم مسعود احمد خورشید صاحب ، تعلیم القرآن اور انصار اللہ کی ذمہ داریاں پر مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر مکرم مرزا محمد حسین صاحب زعیم حلقہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے تقاریر کیں.دوسرا اجلاس بھی مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کی صدارت میں ہوا.تلاوت اور نظم کے بعد برکات خلافت ” جماعت احمدیہ کے عقائد اور سیرت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوعات پر علی الترتیب مکرم مولانا سلطان محمود صاحب انور، مکرم مولوی عبدالمجید صاحب اور مکرم مولانا عبدالسلام طاہر صاحب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب نے انصار کو اپنے عملی نمونہ سے تبلیغ احمدیت کے متعلق اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کی تلقین فرمائی.اس اجتماع میں حاضری پانچ سو سے زیادہ تھی.١٩٨٠ء فیصل آباد میں ایمان افروز مجالس سوال وجواب فیصل آباد میں سوال و جواب کی آٹھ مجالس منعقد ہوئیں.ان میں احمدی اور غیر احمدی احباب کے سوالات کے نہایت مؤثر اور ایمان افروز جواب دیئے گئے.سوالات وفات مسیح ، مسائل ختم نبوت، علامات ظہور مہدی، موجودہ مشکلات کا حل اور موجودہ زمانہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے متعلق تھے.یہ مجالس بعد نماز مغرب ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک منعقد ہوئیں.ان میں چارصد چوہتر غیر از جماعت اور چھ صد احمدی احباب شامل ہوئے.تقاریب کے آخر میں حاضرین کی تواضع کی جاتی رہی.تاریخ منعقده نمائندہ مرکز مقام منعقده ۲۵ جنوری ۱۹۸۰ء مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ۶۰۶/ بی پیپلز کالونی برمکان میاں مبارک احمد صاحب ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء مکرم سید کمال یوسف صاحب بٹالہ کالونی بر مکان مقصود احمد صاحب ۱۹ مارچ ۱۹۸۰ء مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب جناح کالونی بر مکان شیخ عبداللطیف صاحب ۲۲ مارچ ۱۹۸۰ء مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب پیپلز کالونی نمبر ۲ بر مکان غلام باری ساہی صاحب ۱۲۸ اپریل ۱۹۸۰ء مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب باغ والی ملز کوٹھی بیگم شیخ محمد محسن صاحب رامئی ۱۹۸۰ء حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ۱/۵۵ پیپلز کالونی کوٹھی شیخ لئیق احمد صاحب

Page 359

۳۳۹ ۱۸ جون ۱۹۸۰ء مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد ۵۲۹ غلام محمد آباد کوٹھی شیخ عبدالغفور صاحب ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب باغ والی ملز کوٹھی بیگم شیخ حمد محسن صاحب (۱۹) فیصل آباد میں تربیتی اجتماعات دوران سال ۱۹۸۰ء خدا تعالیٰ کے فضل سے اڑ میں تربیتی اجتماعات منعقد ہوئے.جس میں ۱۱۸ مجالس کے ۳۱۰۰ افراد نے شرکت فرمائی.بعض افراد کو ایک سے زائد مرتبہ ان اجتماعات سے مستفید ہوئے.آٹھ مقامات پر تبلیغ اسلام کے مناظر تصویری صورت میں سلائیڈز کے ذریعہ دکھائے گئے جس میں افراد جماعت کے علاوه ۲۶۵ غیر از جماعت احباب کو شامل ہونے کا موقعہ ملا.یہ تمام تربیتی اجتماعات مرکزی نمائندگان / قائدین کی صدارت میں منعقد ہوئے.تلاوت قرآن کریم، عہد اور نظم کے بعد ناظم صاحب ضلع نے مجالس کی ضروری تحریکات پر روشنی ڈالی اور مقررین نے مندرجہ ذیل ترتیب سے معین عناونین کے تحت تقاریر کیں.بعد دعا اجلاس اختتام پذیر ہوئے.تاریخ مقام اجتماع عناوین معه مقرر ۳۱ جنوری حسن پور ۱۲ ج ب سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ۲۲ فروری کھرڑیانوالہ ۲۶۶ رب انصار اللہ کی ذمہ داری مکرم سید کمال یوسف صاحب مربی سلسله ۲۲ فروری گھسیٹ پوره ۲۹ رب تربیت اولاد : مولوی حبیب احمد صاحب مربی سلسله تبلیغ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت : مکرم سید کمال یوسف صاحب ۶ مارچ رتن ۸۹ جب پیشگوئی دربارہ پنڈت لیکھرام : مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ے مارچ حسیانه ۸۸ ج ب تربیت اولاد : مکرم ڈاکٹر جمال الدین صاحب معلم تربیت نفوس : مکرم پر و فیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ے مارچ سرشمیر روڈ ۸۴ ج ب تربیت اولاد مکرم پر و فیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب صحابہ رضوان اللہ کی فدائیت: مکرم میاں سعید اختر صاحب ۱۳ مارچ ٹکڑ۵۸/۳۰ تربیت نفوس: مکرم شیخ خورشید احمد صاحب ۱۴ مارچ ٹوبہ ٹیک سنگھ رحمت مجسم : مکرم میاں سعید اختر صاحب تربیت اولاد : مکرم شیخ خورشید احمد صاحب ۱۴ مارچ پیر محل تربیت نفوس: مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب

Page 360

۳۴۰ ۲۰ مارچ بہلولپور ۱۲۷ ارب تربیت نفوس: مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب انصار اللہ کی ذمہ داریاں مکرم شیخ خورشید احمد صاحب ۲۱ مارچ چک جھمره تربیت نفوس: مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اپریل نرائن گڑھ ۰۹ ا گ ب احمدیت اکناف عالم میں مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید تربیت اولاد: مکرم مولوی محمد اور لیس صاحب مربی ۴ اپریل جڑانوالہ قرآن کریم کی پیشگوئیاں موجودہ زمانہ کے بارے میں مکرم میاں سعید اختر صاحب انصار اللہ کی ذمہ داریاں : مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب ۱۰ اپریل گنڈا سنگھ والا ۲۱۹ رب تربیت اولاد مکرم پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر قائد تجنید تبلیغ اسلام اکناف عالم میں ( معہ سلائیڈ ز ): مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب 11 اپریل اڈہ نڑ والا ۶۱ رب تربیت نفوس: مکرم پر و فیسر محمد اسلم صاحب صابر ۱۷ اپریل دهنی دیو ۳۳۴ ج ب تربیت نفوس: مکرم مولوی نظام الدین مہمان صاحب مربی احمدیت اکناف عالم میں: مکرم قریشی سعید احمد صاحب اظہر ۱۸ اپریل لیلاں ۲۸ ج ب تبلیغ اسلام اکناف عالم میں (معہ سلائیڈ ز ) مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۱۵ مئی رڑ کا ۰۰ارب تربیت اولاد : مکرم مولوی حبیب احمد صاحب مربی تبلیغ اسلام اکناف عالم میں (معہ سلائیڈ ز ) مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۱۶ مئی بیدیا نوالہ الا رب وفات مسیح اور احیائے اسلام : مکرم مولوی حبیب احمد صاحب مربی تربیت نفوس : مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۱۶ مئی کھیم سنگھ والا ۶۰ رب تربیت نفوس : مکرم مولوی حبیب احمد صاحب مربی تبلیغ اسلام اکناف عالم میں : مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ۲۲ مئی کتھو والی ۳۱۲ ج ب سلسلہ احمدیہ اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت : مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نجم تربیت اولاد مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب قائد تربیت ۲۳ مئی گوجره احمد بیت اکناف عالم میں : مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نجم تربیت نفوس: مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب

Page 361

۳۴۱ ۲۳ مئی جلیانوالہ ۳۶۷ ج ب سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : مکرم مولوی جمال دین صاحب مربی جماعت احمدیہ کی خدمت اسلام : مکرم مولوی اقبال احمد صاحب نجم ۲۹ مئی گوکھو وال ۲۷۶ رب قرآن کریم کی تعلیم اور اس کی اہمیت: مکرم مولوی جمال دین صاحب مربی نظام خلافت اور جماعت احمدیہ مکرم حافظ مولوی منور احمد صاحه تربیت نفوس : مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب ۳۰ مئی کرتار پور۲۷۵ رب تربیت نفوس: مکرم مولوی مهر دین صاحب معلم ۱۹ جون ۲۰ جون انصار اللہ کی ذمہ داریاں : مکرم مولوی محمد دین صاحب مربی تربیت اولاد مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب چوبله ۲۴۰ رب تربیت نفوس: مکرم مرزا انصیر احمد صاحب مبلغ مغربی افریقہ سمندری تبلیغ اسلام اکناف عالم میں (معہ سلائیڈ ز ): مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر تربیت اولاد: مولوی نسیم احمد صاحب شمس مربی تبلیغ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت : کرم مرزا نصیر احمد صاحب ۲۰ جون سنتوکھ گڑھ 4 گ ب تربیت نفوس: مکرم مرز انصیر احمد صاحب استمبر تبلیغ اسلام اکناف عالم میں ( سلائیڈز ): مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ٹھٹھہ کال ۶۴۶ گ ب دلی صدق وصفا کی ضرورت : مولوی وسیم احمد صاحب چیمه مربی علمی نمونہ کی ضرورت واہمیت: مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب تربیت اولاد مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب نائب قائد تربیت ۲ ستمبر صریح ۹۶ گ ب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کی غرض : مکرم مولوی وسیم احمد صاحب چیمہ موجودہ دور کے تقاضے: مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب تربیت نفوس : مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب ۱۸ ستمبر گنگا پور ۵۹ گ ب تربیت نفوس: مکرم مولوی وسیم احمد صاحب چیمہ تربیت اولاد مکرم مولوی محمد الدین صاحب مربی ۱۸ ستمبر چک نمبر ۵۶۵ گب ہم احمدی کیوں ہوئے: مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب

Page 362

۳۴۲ احمدی کا مقام وشان : مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب 9 ستمبر احمد آباد ۵۵۹ گ ب تربیت نفوس: مکرم مولوی وسیم احمد صاحب چیمه مربی انصار اللہ کے فرائض : مکرم مولوی محمد دین صاحب مربی واستمبر چک نمبر ۵۶۳ گ ب تربیت نفوس : مکرم خواجہ خورشید احمد صاحب معلم اسلام کا روشن مستقبل: مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب ۱۰ اکتوبر گھسیٹ پور ۲۹ رب انصار اللہ کی ذمہ داریاں : حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ۱۰ اکتوبر فیصل آباد شهر انصار اللہ کی ذمہ داریاں : حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ۲۰ گجرات میں اجتماعات مجلس مونگ ضلع گجرات کا اجتماع 4 مارچ ۱۹۸۰ء کو بعد نماز مغرب ہوا جس میں مکرم ڈاکٹر احمد حسن چیمہ صاحب اور ناظم صاحب ضلع نے تربیتی امور پر تقاریر کیں.حلقہ ب ضلع گجرات کی تیرہ مجالس کا اجلاس مسجد احمد یہ منڈی بہاؤالدین میں سے مارچ ۱۹۸۰ء کو منعقد ہوا.قائد تجنید مرکز یہ مکرم محمد اسلم صابر صاحب نے زعماء کو ہدایات دیں.بعد نماز جمعہ اجلاس عام میں مکرم صو بیدار بدر عالم صاحب نے انفاق فی سبیل اللہ مکرم محمد اسلم صابر صاحب نے فریضہ تبلیغ اور مکرم محمد علی صاحب بھروانہ مربی سلسلہ نے تربیتی موضوع پر خطاب کئے.۲۱ ) تربیتی اجتماع ضلع گوجرانوالہ ے مارچ ۱۹۸۰ء بروز جمعہ مجالس ضلع گوجرانوالہ کا یک روزه تربیتی اجتماع مسجد احمد یہ گوجرانوالہ میں منعقد ہوا جس میں مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے بطور مرکزی نمائندہ اجتماع سے خطاب فرمایا اور نہایت احسن رنگ میں انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ کے علاوہ مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر، مکرم گیانی عباداللہ صاحب اور مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر نے بالترتیب تربیت اولاد، سادہ زندگی، نماز باجماعت کی اہمیت کے مواضیع پر خطاب فرمایا.مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر نے ”حضرت مسیح موعود کا قرآن کریم سے عشق اور جماعت کی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.نائب ناظم صاحب ضلع نے گذشتہ سال کی رپورٹ کا ر کر دگی اور آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل انصار کے سامنے پیش کیا.تقریری مقابلہ اور مقابلہ تلاوت قرآن کریم میں اوّل، دوم اور سوم آنے والے انصار اور خدام کو

Page 363

۳۴۳ انعامات دیئے گئے.طاہر محمود صاحب نے حضرت مسیح موعود کی نظمیں خوش الحانی سے سنائیں.تقریبا ایک گھنٹہ تک انصار نے مختلف سوالات کئے جن کے جوابات مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے نہایت عمدگی سے دیئے.آخر میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت و ناظم ضلع کے اختتامی خطاب کے بعد اجلاس دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.(۲۲) مجالس تحصیل کبیر والا کا اجتماع ۱۴ مارچ ۱۹۸۰ء بروز جمعہ باگڑ کے مقام پر تحصیل کبیر والا ضلع ملتان کی مجالس کا تربیتی اجتماع منعقد ہوا.تلاوت نظم اور عہد کے بعد ناظم صاحب ضلع نے اجتماع کی غرض و غایت بیان کی.مکرم مولوی رشید احمد صاحب بھٹی ، مکرم سید اصغر حسین شاہ صاحب اور مکرم حافظ محمد سلیمان صاحب نے تقاریر کی.خطبہ جمعہ کے علاوہ دوسرے اجلاس میں مکرم مولوی برکت اللہ محمود صاحب نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.مہمان نوازی کے فرائض مقامی انصار مہر مختار احمد صاحب، مہر ناصر احمد صاحب اور مہر ممتاز احمد صاحب نے بخوبی ادا کئے.﴿۲۳﴾ ضلع فیصل آباد میں تربیتی اجتماعات ضلع فیصل آباد میں تربیتی اجتماعات مندرجہ ذیل مقامات پر منعقد ہوئے.چک نمبر ۰۹ اگ ب نرائن گڑھ :۳ اپریل بروز جمعرات بعد نماز عشاء، تعداد حاضرین: ۶۰ جڑانوالہ شہر ۴۰ اپریل بروز جمعہ بعد نماز جمعه، تعداد حاضرین: اے چک ۱۰۹ رب مسعود آباد ۴ اپریل بروز جمعہ بعد نماز عشاء..تعداد حاضرین: ۳۰۰ (بشمول غیر از جماعت) مرکزی نمائندہ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید تھے.آپ نے ان مجالس میں سلائیڈز کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی مساعی نہایت دلچسپ انداز میں پیش کی جسے غیر از جماعت احباب نے پوری توجہ کے ساتھ دیکھا.اس کے علاوہ مکرم چوہدری محمد ادریس صاحب مربی نے تربیت اولاد کے موضوع پر اور مکرم میاں سعید اختر نائب ناظم ضلع نے قرآن کریم کی موجودہ زمانہ سے متعلق پیشگوئیوں پر مشتمل اپنا مضمون بیان کیا.ناظم صاحب ضلع نے انصار اللہ کی تحریکات پیش کیں.﴿۲۴﴾ تربیتی اجتماع ضلع جہلم مورخه ۴ اپریل ۱۹۸۰ء بروز جمعہ مجالس ضلع جہلم کا یک روزہ تربیتی اجتماع مسجد احمد یہ دوالمیال میں زیر صدارت مکرم ملک میجر حبیب اللہ صاحب امیر جماعت دوالمیال منعقد ہوا.اجتماع کی کارروائی صبح نو بجے ہوئی.تلاوت قرآن کریم مکرم ملک نورالحق صاحب نے کی.مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب ناظم ضلع جہلم نے عہد

Page 364

۳۴۴ دہرایا.نظم مکرم حاجی عبد الغنی صاحب نے خوش الحانی سے پڑھی.اس کے بعد مکرم بشیر الدین محمود احمد صاحب مربی سلسلہ جہلم نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.مکرم سید بشیر احمد صاحب ناظم ضلع جہلم نے تربیت اولاد پر تقریر کی.مکرم ملک عبد المالک صاحب زعیم انصار الله دوالمیال نے رپورٹ کارکردگی پیش کی.مکرم عبدالرزاق منگل صاحب مربی سلسلہ دوالمیال نے انصار کو ذکر الہی کی طرف توجہ دلائی.مکرم محمد حسین صاحب مربی سلسلہ چکوال نے نماز با جماعت ، مکرم قاری محمد شریف صاحب نے انفاق سبیل اللہ اور مکرم عبد الحلیم صاحب امیر ضلع جہلم نے تقویٰ کے موضوع پر روشنی ڈالی.مکرم میجر حبیب اللہ صاحب نے اختتامی تقریر کی.خطبہ جمعہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے دیا.نماز جمعہ کے بعد کھانے کا انتظام تھا.ساڑھے تین بجے سہ پہر غیر از جماعت دوستوں کو چائے پر مدعو کیا گیا تھا جہاں حضرت صاحبزادہ صاحب نے سوالات کے جوابات دیئے.یہ تربیتی ضلعی اجتماع نو بجے صبح سے شروع ہو کر پانچ بجے بعد دعا اختتام پذیر ہوا.﴿۲۵﴾ تحصیل وزیر آباد کا تربیتی اجتماع ۴ اپریل ۱۹۸۰ء بروز جمعہ مسجد احمد یہ وزیر آباد میں تحصیل کی مجالس کا یک روزہ تربیتی اجلاس ہوا جس میں مکرم سید احمد علی شاہ صاحب قائد تربیت نے نماز با جماعت کی اہمیت اور تعلیم القرآن کے موضوع پر تقریر فرمائی.دوسری تقریر مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر کی تھی جس میں آپ نے اسلامی معاشرہ، عہد کی پابندی، اطاعت، ہمسایوں سے سلوک اور پردہ وغیرہ کے متعلق احادیث رسول پاک پیش فرمائیں.تیسری تقریر مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نمائندہ مرکز کی تھی جس میں آپ نے قرآن مجید کی شان بیان فرمائی.اس کے مطالعہ اور اس پر غور کرنے اور ہر گھر میں تفسیر صغیر کے درس کی تلقین فرمائی.بعدہ سوالات و جوابات کا پروگرام قریباً آدھا گھنٹہ جاری رہا.جس میں مکرم مولانا سید احمد علی صاحب اور مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے سوالات کے نہایت تسلی بخش جوابات دیئے.دوسرا اجلاس بعد نماز جمعہ شروع ہوا جس میں نائب ناظم صاحب نے انصار اللہ کی ذمہ داریاں کے موضوع پر تقریر کی اور سب انصار کومحترم صدر صاحب مرکزیہ کے ارشادات پر عمل کرنے کی تلقین کی.مکرم مولانا محمد اعظم صاحب اکسیر نے خلافت کی اہمیت اور مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت نے تبلیغ کی اہمیت کے موضوع پر خطاب فرمایا.آخر میں مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب قائد تربیت نے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُخبكُمُ الله کی لطیف تفسیر بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف احباب کی توجہ مبذول کرائی نیز نماز تہجد، درود شریف اور استغفار پر مداومت اختیار کرنے کی تلقین فرمائی.چار بجے کے قریب یہ اجلاس نہایت کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.سو سے زائد حاضری تھی.(۲۶)

Page 365

۳۴۵ ضلع سیالکوٹ میں مجالس مذاکرہ مجلس انصار اللہ ضلع سیالکوٹ کے زیر اہتمام دو مقامات گھٹیالیاں اور کنجر وڑ میں مجالس مذاکرہ منعقد کی گئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے ۱۸ اپریل ۱۹۸۰ء کو گھٹیالیاں میں نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ میں آپ نے نہایت مؤثر انداز میں احباب کو تلقین کی کہ وہ اپنا اخلاقی اور روحانی امتیاز برقرار رکھیں.نماز جمعہ میں ضلع کی چونسٹھ جماعتوں سے دو ہزار افراد نے شرکت کی.نماز کے بعد صدر محترم نے عہد یداران سے خطاب فرمایا.پانچ بجے سہ پہر مجلس مذاکرہ میں دو گھنٹے تک سوال وجواب کا نہایت دلچسپ سلسلہ جاری رہا.۱۲۵ اپریل کو نو بجے صبح مالو کے بھگت میں منعقدہ تقریب میں صدر محترم نے شرکت فرمائی.غیر از جماعت معززین بھی شامل ہوئے اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.ساڑھے دس بجے آپ نے نارووال میں مکرم چوہدری خورشید انور صاحب امیر حلقہ کے ہاں مختصر قیام فرمایا.کنجر وڑ میں تربیتی اجلاس سے مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ، مکرم مولوی محمد حسین صاحب، مکرم سید کمال یوسف صاحب اور مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر مربی گوجرانوالہ نے خطاب کیا.خطبہ جمعہ صدر محترم نے دیا جس میں جماعت احمدیہ کی امتیازی شان بیان فرمائی.ساڑھے چار بجے سہ پہر مجلس مذاکرہ کا انتظام کیا گیا.دو گھنٹے تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے موثر اور دلچسپ انداز میں نہایت مدلل اور پُر حکمت جوابات دیئے.سات بجے شام صدر محترم میادی نانوں تشریف لے گئے.جہاں آپ نے احباب جماعت سے فرداً فرد ملاقات کی اور قیمتی نصائح سے نوازا.(۲۷) اوکاڑہ میں مجلس مذاکرہ ۲۲ اپریل ۱۹۸۰ء کو شام کے وقت جماعت احمدیہ اوکاڑہ کی عید گاہ میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.جس میں غیر از جماعت افراد کے سوالات کے جوابات حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے دیئے.حاضرین میں پروفیسرز ، وکلاء اور دوسرے معززین شہر تقریباً پچاس کی تعداد میں شامل ہوئے.غیر از جماعت دوست نہایت اچھا تاثر لے کر گئے.نماز عشاء کے بعد جلسہ سیرۃ النبی میں مکرم مولا نا غلام باری صاحب سیف نے تقریر کی.﴿۲۸﴾ ضلع ڈیرہ غازی خان کا یک روزہ تربیتی اجتماع مورخه ۲۵ اپریل بروز جمعہ ضلعی اجتماع ڈیرہ غازی خان میں ہوا.اس اجتماع میں ضلع کے ہر حصہ سے

Page 366

۳۴۶ انصار اور خدام شامل ہوئے.چودہ میں سے گیارہ مجالس کے نمائندگان شریک ہوئے.کٹائی کے باوجود بیر ونجات سے آنے والے احباب کی تعداد ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی.مجموعی حاضری پانچ سو کے قریب تھی.پہلا اجلاس زیر صدارت مکرم امیر صاحب ضلع منعقد ہوا.تلاوت اور نظم کے بعد مکرم عبدالوہاب صاحب مربی سلسلہ نے دینی اجتماعات کی اہمیت اور ضرورت پر تقریر کی.بعد ازاں مکرم مولوی برکت اللہ صاحب محمود مربی سلسلہ ملتان نے اسلام کی تعلیم تہذیب الاخلاق پر تقریر کی.ان دو تقاریر کے بعد مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا.نماز جمعہ مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے پڑھائی.آپ نے عبادالرحمان کی علامات اور صفات بیان کیں.بعد نماز جمعہ دوسرا اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب نے کی.پہلے خدام میں کھیلوں کے انعامات تقسیم ہوئے بعد ازاں مکرم مولانا صاحب نے اختتامی خطاب فرمایا.آپ نے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی کی لطیف تغییر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہی وجہ تخلیق کائنات تھی.ساڑھے پانچ بجے شام مجلس مذاکرہ ہوئی جو ایک گھنٹہ جاری رہی.﴿۲۹﴾ مجلس ربوہ مقامی کا پہلا یک روزه اجتماع ۲۶ اپریل ۱۹۸۰ء کو مجلس انصار اللہ ربوہ مقامی نے اپنا پہلا ایک روزہ اجتماع مسجد اقصی ربوہ میں منعقد کیا.قریباً سو فیصد انصار حاضر تھے.اجتماع کی تیاری ایک ماہ قبل شروع کی گئی تھی.اس مقصد کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی جو ناظم اعلی مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب، ناظم پنڈال ولا ؤڈ سپیکر مکرم قریشی محمدعبداللہ صاحب ، ناظم سٹیج پروگرام مکرم میجر عبدالقادر صاحب، ناظم خوراک مکرم مرزا فضل الرحمان صاحب، ناظم اشاعت و ریکارڈ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب، ناظم حاضری و استقبال مکرم رشید الدین صاحب و مکرم محمد اسلم صابر صاحب، ناظم ورزشی مقابلے مکرم ماسٹر احمد علی صاحب اور ناظم علمی مقابلے مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب پر مشتمل تھی.اس کمیٹی نے جہاں دیگر انتظامات کی تیاری شروع کی وہاں پر اجتماع میں ہونے والے جملہ مقابلوں کے لئے ابتدائی مقابلے بھی منعقد کرانے شروع کئے.اس مقصد کے لئے ربوہ کے تمام حلقہ جات کو سات بلاکوں میں تقسیم کیا گیا تھا.اور یوں قریباً ایک ماہ قبل ربوہ کے اٹھائیس محلوں میں سے ہر ایک میں اجتماع کی تیاری شروع ہوگئی.ہر بلاک لیڈر کے ذمے لگایا گیا کہ وہ اپنے اپنے بلاک میں (جو کہ تین چارمحلوں پر مشتمل تھا )، ابتدائی علمی اور ورزشی مقابلہ جات کروائے.علمی مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے یہ ٹارگٹ دیا گیا کہ ہر حلقے سے کم از کم تین

Page 367

۳۴۷ انصار کو منتخب کیا جائے.جہاں سے وہ بلاک میں پہنچے اور پھر اجتماع میں آئے.اس طرح سے ان مقابلوں کی ابتداء محلوں کی سطح پر کی گئی اور پھر محلوں کا آپس میں مقابلہ کروا کے بلاک سے انصار کو اجتماع میں حصہ لینے کے لئے منتخب کیا گیا اور یوں ابتدائی مقابلے جیتنے والے اجتماع میں پہنچے.اس طرح سے اجتماع کے روز ہونے والے مقابلے ربوہ کے چنیدہ انصار کے درمیان ہوئے.ورزشی مقابلوں، والی بال اور رسہ کشی کے فائنل مقابلوں کے لئے شرقی زون اور غربی زون کے نام سے دو ٹیمیں تیار کی گئیں.تواریخ طے ہوتے ہی ناظمین نے محلوں کے دورے شروع کر دیئے اور یوں تمام انصار کو ایک ماہ قبل ہی اجتماع میں شامل ہونے کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا گیا.اجتماع میں شرکت اور پروگراموں میں حصہ لینے سے متعلق ہدایات سائیکلو سٹائل کر کے انصار تک پہنچائی گئیں.مکمل تیاری کے بعد ۲۶ اپریل کو صبح سات بجے تمام انصار پہلے اپنے اپنے محلہ کی مساجد میں جمع ہوئے اور وہاں سے ساڑھے سات بجے ترتیب کے ساتھ مسجد اقصیٰ پہنچے.اجتماع کا آغاز تنظیم اور نظم وضبط کے ساتھ ہوا.مسجد اقصیٰ کے اندر بھی انصار تر تیب وارا اپنے بلاک لیڈر کے ساتھ بیٹھے تھے.آٹھ بجے بلاک وائز حاضری لگائی گئی.ٹھیک سوا آٹھ بجے صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مسکراتے چہرے کے ساتھ تشریف لائے اور کارروائی کا با ضابطہ آغاز ہوا.اجتماع کا آغاز تلاوت سے ہوا جو مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے کی.بعد ازاں صدر محترم نے عہد دہر وایا.مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شیر میں منظوم کلام سے چند منتخب اشعار سنائے.زعیم اعلیٰ ربوہ مکرم مولانا فضل الہی صاحب انوری نے انتظامات کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ میں بتایا کہ ورزشی مقابلوں کے لئے پندرہ اور علمی مقابلوں کے لئے چوہیں انعامات رکھے گئے ہیں اور حاضری میں سبقت لے جانے والے بلاک کے لئے بھی ایک انعام رکھا گیا ہے.انہوں نے صدر محترم سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ تربیتی اجتماع کے اس تجربہ کو مفید و کامیاب کرے.آمین.ازاں بعد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے اپنی ایک نظم سنائی جو کہ خاص اسی اجتماع کے لئے کہی گئی تھی.خطاب صدر محترم : پونے نو بجے صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اپنے خطاب کا آغاز کیا.آپ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے مجلس مقامی کو یہ اجتماع کرنے کی توفیق دی.صدر محترم نے کامیاب حاضری پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ انصار بھائی اتنی بڑی تعداد میں اس اجتماع پر آئیں گے.انہوں نے انتظامیہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہو تو ہماری سب کوششیں بے شمر رہتی ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل دعاؤں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے.معلوم ہوتا

Page 368

۳۴۸ ہے کہ مقامی انتظامیہ نے اپنی کوشش کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی کام لیا ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہوئیں.واضح رہے کہ اس موقع پر صدر محترم کی خدمت میں جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں بتایا گیا کہ ربوہ کے نوسو اُنہیں انصار میں سے آٹھ سو انتالیس اس وقت حاضر ہیں.بعد میں یہ حاضری مزید بڑھ گئی اور اجتماع ختم ہونے سے قبل قریباً سو فیصد انصار حاضر تھے.محترم صاحبزادہ صاحب کی تقریر نہایت مؤثر تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود کا یہ شعر پڑھا اے دوستو پیارو عقبی کو مت بسارو کچھ زاد راہ لے لو کچھ کام میں گذارد اور کہا کہ مومن کی زندگی میں آرام کا تو تصور بھی نہیں ہوتا اس لئے یہ خیال کبھی دل میں نہ آنے دیں کہ اب ہماری آرام کرنے کی عمر ہے.ہمارے پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر اکثر انبیاء کرام کو بھی چالیس سال کی عمر میں ہی منصب نبوت جیسی اہم اور نازک ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے سپرد کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل یہی وہ عمر ہے جب فرہنوں میں پختگی پیدا ہونے کے بعد انسان نسبتا زیادہ ٹھوس اور پائیدار کام کرسکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی اکثر یہ فرمایا کرتے ہیں کہ انصار جوانوں کے جوان ہیں پس انصار بھائیوں کو ہمیشہ اپنے عزائم کو بلند اور ہمتوں کو جواں رکھنا چاہئے.علمی مقابلوں میں انصار کا جوش و خروش: صدر محترم کی تقریر کے بعد اجتماع کے پروگرام کا علمی حصہ شروع ہوا.اس میں درس و تدریس کے علاوہ تلاوت قرآن کریم نظم خوانی اور تقریر کے مقابلے شامل تھے.ان میں انصار نے نہایت ذوق و شوق سے حصہ لیا.ان میں ایک دلچسپ مقابلہ دینی معلومات کا تھا جس کے لئے ” تاریخ احمدیت جلد سوم کا نصاب مقرر تھا.یہ مقابلہ سوال و جواب کے رنگ میں ہوا.انصار کو سٹیج پر بلا کر سوال پوچھے جاتے جو سننے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنے.اسی دوران میں بنیادی معلومات کا ایک تحریری امتحان لیا گیا.مقابلوں کے بعد کھانا کھانے اور نماز کا وقفہ کیا گیا.تقریباً تمام انصار اپنی اپنی پلیٹ اور گلاس ہمراہ لائے تھے.کھانے کے لئے انصار کو بلاک وائز قطاروں میں بٹھایا گیا.یہ کھانا مجلس مقامی کی طرف سے پیش کیا گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے بھی انصار کے ہمراہ کھانا کھایا.انصار حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے ساتھ دیکھ کر بہت خوش تھے.نماز ظہر وعصر کے بعد دو سے چار بجے تک تبلیغی واقعات پر مشتمل ایک پُر لطف مجلس ہوئی جس میں بعض انصار نے میدان تبلیغ میں پیش آنے والے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات سنائے.آنریری مربیان کی کلب: اس مجلس کی اہم بات آنریری مربیان کی ایک کلب کی تشکیل تھی.جس میں ابتدائی طور پر پینتیس احباب نے واقفین کے طور پر اپنے نام پیش کئے اور یہ عہد کیا کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت

Page 369

۳۴۹ دعوت الی اللہ اور تربیت کے مقدس فرائض کی ادائیگی میں صرف کریں گے.ورزشی پروگرام میں والی بال ، سو گز کی دوڑ ، رسہ کشی ، اور کلائی پکڑنے کے مقابلے شامل تھے.یہ مقابلے بڑے دلچسپ اور پُر لطف رہے.ان مقابلوں کے اختتام پر اجتماع کا آخری اجلاس شروع ہوا.جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمائی.تلاوت مکرم پر و فیسر محمد اسلم صابر صاحب نے اور نظم مکرم راجہ نذیراحمد ظفر صاحب نے پڑھی.اس کے بعد صدر محترم کی ہدایت پر زعیم اعلیٰ ربوہ مکرم مولا نا فضل الہی صاحب انوری نے انعامات حاصل کرنے والے انصار میں انعامات تقسیم کئے.صدر محترم کا اختتامی خطاب : آخر میں صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا پُر اثر خطاب شروع ہوا جو اپنی جامعیت کے تاثر اور ہمہ گیری کے لحاظ سے دلوں کو کسی طاقتور مقناطیس کی طرح کھینچنے والا تھا.آپ نے فرمایا کہ جب بارش کے رنگ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ زیادہ دیر تک پانی کو جذب کئے رکھتی ہیں.جس کے نتیجے میں نئے پودے ظاہر ہوتے ہیں، نئی کونپلیں نکلتی ہیں اور پھر نئے نئے پھل لگتے ہیں.مومنوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے.جب کوئی نیک تحریک ان میں ہوتی ہے تو وہ حسب استعداد اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.بعض کم اثر لیتے ہیں اور بعض دیر پا اثر قبول کرتے ہیں.آج کے اس مبارک اجتماع میں جو تقریریں اور نیک باتیں آپ نے سنی ہیں ، میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ ان سے صرف وقتی طور پر متاثر نہیں ہوں گے بلکہ ان کا مستقل اور دیر پا اثر اپنے دل و دماغ میں پیدا کریں گے.آپ نے فریضہ اصلاح وارشاد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خلافت کا بابرکت نظام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے.پھر مرکز سلسلہ میں رہنے کی وجہ سے آپ علمائے سلسلہ سے بھی زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں.آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی زیادہ بارش ہو رہی ہے اس لئے آپ کو چاہیے کہ آپ پورے جوش لگن اور تنظیم کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کریں.آپ نے انصار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے اس اجتماع کو ادا کامیاب بنانے کے لئے اپنے منتظمین کے ساتھ بہت اچھا تعاون کا نمونہ دکھایا ہے.دراصل آپ نے اپنے منتظمین سے نہیں بلکہ خدا کے ساتھ تعاون کیا ہے کیونکہ منتظمین نے خدا تعالیٰ کے نام پر آپ کو بلایا تھا اور آپ نے ان کی آواز پر لبیک کہا ہے.یہ جذ بہ اور روح بہت قیمتی ہے.اگر آئندہ بھی آپ محض خدا کی خاطر اپنے منتظمین اور عہد یداران سے تعاون کریں گے تو یقیناً آپ کا قدم خدا کی طرف آگے ہی آگے بڑھتار ہے گا.اس موقع پر صدر محترم نے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ بعض انصار بھائی اپنی اصل آمدنی کی نسبت کم چندہ انصار اللہ کی مد میں ادا کرتے ہیں.اس معاملہ میں ہم میں سے ہر ایک کو تقویٰ کی راہ اختیار

Page 370

۳۵۰ کرتے ہوئے اپنی پوری آمد کے مطابق با شرح چندہ ادا کرنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے تمام انصار بھائی اس جڑ کی ہمیشہ حفاظت کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین صدر محترم کی تقریر کے بعد مکرم زعیم اعلیٰ صاحب ربوہ نے اجتماعی دعا کروائی اور نماز مغرب وعشاء باجماعت ادا کی گئیں.یوں یہ با برکت اجتماع اختتام پذیر ہوا.انعامات حاصل کرنے والے علمی مقابلہ جات تلاوت قرآن مجید : اوّل.محمد اسلم صابر صاحب، دوم.رانا محمد یوسف صاحب، سوم - احسان الرحمن صاحب نظم خوانی: اول.محمد اسلم صابر صاحب، دوم.احسان الرحمن صاحب، سوم را نا محمد یوسف صاحب تقریری مقابلہ: اوّل.مولوی محمد اشرف صاحب، دوم.راجہ نذیر احمد صاحب ،سوم.بشیر احمد سیال صاحب.پرچہ بنیادی معلومات : اوّل.عبداللطیف صاحب پریمی ، دوم - مولوی محمد ابراہیم صاحب بھا مڑی ، سوم - مولوی بشارت احمد بشیر صاحب.دینی معلومات : اوّل.بشیر احمد قادیانی صاحب ، دوم - صوفی خدا بخش صاحب - ورزشی مقابلہ جات کلائی پکڑنا: اول.ناصر احمد صاحب، دوم احمد خان صاحب.دوڑ سو گز : اول - جمیل احمد صاحب، دوم - ماسٹر محمد صدیق صاحب ، صو بیدار منظور احمد صاحب.رسہ کشی : اول شمالی زون کیپٹن چوہدری محمد طفیل صاحب)، والی بال اوّل شمالی زون - کیپٹن چوہدری محفوظ الرحمان صاحب.﴿۳۰﴾ سالانہ اجتماع ضلع پشاور مجالس انصار اللہ ضلع پشاور کا سالانہ اجتماع ۱۳۰ اپریل و یکم مئی ۱۹۸۰ء کو بمقام مسجد احمد یہ کوہاٹ روڈ پشاور منعقد ہوا.ضلع پشاور کی جملہ مجالس کے علاوہ اضلاع ہزارہ کو ہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان کی مجالس سے نمائندے اجتماع میں شامل ہوئے.تلاوت قرآن کریم، نظم اور عہد دہرانے کے بعد صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے تقریر میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر نہایت دلنشین پیرایہ میں بیان کی.آپ کی یہ تقریر ساڑھے چھ بجے شام تک رہی.آپ کے بعد مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے ” جماعت احمدیہ کے ساتھ تائیدات الہیہ کے موضوع پر پنتالیس منٹ تقریر فرمائی جو نہایت دلچسپ اور پُر از معلومات تھی.دوسرا اجلاس زیر صدارت مکرم مرزا مقصود احمد صاحب امیر جماعت پشاور بعد نماز مغرب وعشاء منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے انصار اللہ کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر تقریر فرمائی.مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید نے بیرون پاکستان تبلیغ سے متعلق سلائیڈز دکھا ئیں.آپ پر اثر انداز میں ساتھ ساتھ تبصرہ بھی فرماتے رہے.اجلاس آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر ختم ہوا جس

Page 371

۳۵۱ کے بعد حاضرین کی خدمت میں ماحضر پیش کیا گیا.دوسرے دن نماز تہجد و فجر کے بعد مکرم مولوی رفیق احمد صاحب سعید مربی کو ہاٹ نے قرآن کریم ، مکرم مولوی ہادی علی صاحب مربی پشاور نے درس حدیث اور مکرم مولانا چراغ دین صاحب مربی سلسلہ پشاور نے درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا جس کے بعد دوستوں کو آٹھ بجے تک سیر و تفریح کے لئے وقفہ دیا گیا.چوتھا اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدارت میں آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر منعقد ہوا.جس میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم مولانا چراغ دین صاحب نے ”ہماری جماعت کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستگی اور اس کی اطاعت کے ساتھ وابستہ ہے“ کے عنوان پر پنتالیس منٹ تک تقریر فرمائی.ساڑھے نو سے ساڑھے گیارہ تک مجلس سوال و جواب ہوئی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم مولانا چراغ دین صاحب اور مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے برمل جوابات دیئے.گیارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک زعماء مجالس انصار اللہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مجالس کی کارگزاری کا جائزہ لے کر صدر محترم نے مناسب ہدایات عطا فرمائیں.آخر میں صدر محترم نے اختتامی تقریر فرمایا اور مکرم عبدالسلام صاحب ناظم ضلع نے مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا.جلسہ اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.نماز ظہر و عصر کے بعد احباب کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.مجموعی تعدا د انصار و شر کا ء تین صد کے قریب تھی.(۳۱) سالانہ تربیتی اجتماع مجلس عزیز آباد کراچی ۲۲ ۲۳ مئی ۱۹۸۰ء کو مجلس انصار اللہ عزیز آباد کراچی نے سالانہ تربیتی اجتماع منعقد کیا.پہلا اجلاس ۲۳ مئی کو بعد نماز عصر زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس منعقد ہوا.تلاوت قرآن، عہد اور نظم کے بعد مکرم ظفر اللہ خان صاحب زعیم اعلیٰ عزیز آباد نے مجلس کی رپورٹ کارگزاری پڑھی اور آئندہ پروگرام کا خاکہ پیش کیا.اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے سورۂ فاتحہ کی نہایت پُر معارف تفسیر بیان فرمائی.آپ نے فرمایا کہ اس سورۃ کا نام ام الکتاب بھی ہے اور یہ سورۃ قرآن کریم کا خلاصہ ہے.اس نے آغاز سے لے کر اختتام تک کسی پہلو کو تشنہ نہیں رکھا.انسان کی جسمانی اور روحانی ترقیات کے تمام مدارج پر روشنی ڈالی ہے.آپ نے فرمایا کہ انصار اللہ کو اسی کے مطابق سال کے آغاز میں ایسے تدریجی پروگرام بنانے چاہئیں جن کا انجام عظیم اور وسیع ہو اور اپنی توفیق کے مطابق قدم بڑھائیں اور جس طرح سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کے مطابق خدا تعالیٰ سے زندگی کا راز سیکھیں اور اس پر پابندی اختیار کر کے تحمل اور صبر کے ساتھ اپنا عمل جاری رکھیں.

Page 372

۳۵۲ صدر محترم کے خطاب کے بعد مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نے ” حالات حاضرہ اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر تقریر فرمائی.پھر مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.سوالات کے جواب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی اور مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ نے دیئے.یہ سلسلہ مغرب کی نماز تک جاری رہا.نماز مغرب کے بعد دوسرا اجلاس عام منعقد ہوا.جس کی صدارت مکرم چوہدری احمد مختار صاحب نے فرمائی.تلاوت قرآن کریم عہد اور نظم خوانی کے بعد مندرجہ ذیل تقاریر ہوئیں.(۱) مکرم قریشی محمد مسعود احمد صاحب بعنوان ” مطالبات تحریک جدید (۲) مکرم مولوی سلطان محمود انور صاحب بعنوان ” انصار اللہ کے فرائض بسلسلہ تربیت اولاد (۳) مکرم مولوی عبد السلام صاحب طاہر بعنوان ”نمازوں کی اقسام اور ان کی حکمتیں“ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد تمام شرکاء کی خدمت میں مجلس کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا.تیسرا اجلاس زیر صدارت مکرم مولوی سلطان محمود انور صاحب منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کے بعد تقریری مقابلہ منعقد ہوا.عناونین یہ تھے: نماز با جماعت.اطاعت نظام.جماعت احمدیہ میں اخوت باہمی.خدمت دین سے پہلو تہی قومی جرم ہے.ازاں بعد خدام کا فی البدیہہ تقریری مقابلہ اور اطفال کا تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کا مقابلہ بلحاظ معیار کبیر وصغیر کرایا گیا.اجلاس پونے گیارہ بجے تک جاری رہا.اجتماعی تہجد میں ۱۵۴۰ انصار و خدام شامل تھے.نماز فجر کے بعد مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ نے درس قرآن دیا.چوتھا اجلاس مکرم زعیم صاحب اعلیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کے بعد مندرجہ ذیل تقاریر ہوئیں.(۱) مکرم ڈاکٹر عبدالشکور صاحب اسلم بعنوان ” حفظانِ صحت (۲) مکرم مولوی عبدالحمید صاحب بعنوان وصیت“ (۳) مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ بعنوان ”وقف عارضی ان تقاریر کے بعد پنتالیس منٹ انصار صاحبان کا مشاہدہ ومعائنہ اور سلو سائیکلنگ کا مقابلہ ہوا.جس کے بعد مجلس کی طرف سے شرکاء اجلاس کو صبح کا ناشتہ پیش کیا گیا.پانچواں اجلاس محترم صدر صاحب انصار اللہ مرکزیہ کے نامزد نمائندہ مکرم نعیم احمد خان صاحب ناظم ضلع کی زیر صدارت منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کے بعد مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت

Page 373

۳۵۳ کراچی نے نظام خلافت پر ایک موثر تقریر فرمائی جس کے بعد صدر اجلاس نے انعامات تقسیم کئے.اختتامی اجلاس میں سب سے زیادہ حاضری حلقہ دستگیر کی رہی.نماز تہجد میں حلقہ عزیز آباد کی حاضری زیادہ تھی.بجٹ کی وصولی میں حلقہ گلشن آباد اول رہا.ان حلقوں کے زعماء کو سندات خوشنودی دی گئیں.اجتماع میں نمایاں دلچسپی اور شوق کا اظہار کرنے والوں کو خصوصی انعامات دیئے گئے.تقسیم انعامات کے بعد صدرا جلاس نے اختتامی خطاب فرمایا اور پھر اجتماعی دعا کرائی.(۳۲) یک روزه تربیتی اجتماع حافظ آباد ۳۰ مئی ۱۹۸۰ء کو حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں مجالس انصار اللہ حلقہ کا ایک روزہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا.تحصیل حافظ آباد کی دس مجالس میں سے نو مجالس کی نمائندگی ہوئی.نوے انصار نے اجتماع میں شرکت کی.پہلے اجلاس کی صدارت مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب نے کی.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم مولوی صاحب نے افتتاحی خطاب میں انصار کو ذکر الہی اور استغفار کی طرف توجہ دلائی.مکرم مولوی طاہر مہدی صاحب مربی سلسلہ حافظ آباد نے ان قرآنی آیات کا درس دیا جن میں نماز کی پابندی کی تلقین کی گئی ہے.مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر مربی سلسلہ ضلع گوجرانوالہ نے درس حدیث دیا.بعد میں مندرجہ ذیل احباب نے تقاریر کیں.مکرم سید سجاد حید ر صاحب زعیم انصار اللہ حافظ آباد مکرم چوہدری شفقت حیات صاحب امیر جماعت حافظ آباد مکرم ملک لطیف احمد صاحب زعیم انصار اللہ پیر کوٹ ثانی حافظ آباد بعنوان اسراء اور معراج " " " تربیت اولاد شرائط بیعت انسانی پیدائش کی غرض مکرم مولوی غلام احمد صاحب حافظ آباد آخر میں مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر نے خلافت کی اہمیت پر تقریر کی.اس کے بعد کھانا اور نماز جمعہ کی تیاری کے لئے وقفہ ہوا.خطبہ جمعہ مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے دیا.نماز جمعہ کے بعد دوسرا اجلاس مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ ضلع گوجرانوالہ و ناظم ضلع منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کے بعد مندرجہ ذیل تقاریر ہوئیں.مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف بعنوان مسیح موعود کی بعثت کی اغراض اور ہماری ذمہ داریاں مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمد بہ حافظ آباد سیرت حضرت مسیح موعود مکرم عبد القادر بھٹی صاحب مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر " " " انصار اللہ کی ذمہ داریاں بد رسوم کے خلاف جہاد مکرم صدر صاحب اجلاس نے اپنے اختتامی خطاب میں احباب کو حضرت خلیفہ لمسیح الثالث کی

Page 374

۳۵۴ تحریکات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی.(۳۳ ) تفریحی پروگرام مجلس ڈرگ روڈ کراچی مجلس انصار اللہ ڈرگ روڈ کراچی نے ۶ جون ۱۹۸۰ء کو میمن گوٹھ ملیر کراچی کے مقام پر پکنک کا اہتمام کیا.اس پکنک میں مکرم امیر صاحب جماعت کراچی، مکرم ناظم صاحب کراچی اور مربیان سلسلہ متعین کراچی نے بھی شرکت کی.مکرم امیر صاحب نے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ ہماری تفریحات دنیا داروں کی طرح نہیں ہوتیں.ہم جو کام بھی کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں.بعدۂ آپ نے اجتماعی دعا کرائی.اس کے بعد انصار نے انفرادی سیر کی.بارہ بجے کلو اجمیعا ہوا جس کے لئے کھانا انصار اپنے گھروں سے لائے تھے.کھانے کے بعد نماز جمعہ مکرم محمد عثمان صاحب چینی مربی سلسلہ نے پڑھائی.نماز جمعہ و عصر کے بعد بعض احباب نے اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ میں آنے والے ایمان افروز واقعات بیان کئے.ازاں بعد مکرم چینی صاحب نے چینی ورزش کا مظاہرہ کیا.چائے کے بعد مختلف ٹیموں کے مابین پیغام رسانی کا مقابلہ کروایا گیا جو حلقہ ڈرگ روڈ نے جیتا.اس کے بعد مضمون نویسی کا مقابلہ بعنوان ”ہماری پکنک ہوا.اس میں اوّل ڈاکٹر مشتاق حسین صاحب، دوم اقبال مصطفیٰ صاحب اور سوم حمید الدین صاحب قرار پائے.۳۴ مذاکره مجلس سرگودها ۱۶ جون ۱۹۸۰ء جون کی شام مکرم عبدالسمیع نون صاحب ایڈووکیٹ کی رہائش گاہ سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا.تمہیں کے قریب غیر از جماعت معززین بھی شریک ہوئے جن میں زمیندار ، وکلاء، ڈاکٹر اور دیگر اہل علم شامل تھے.پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ” دور حاضر میں احمدیت اور خدمت قرآن“ کے موضوع پر مختصر تقریر فرمائی.جس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا جو دو گھنٹے تک جاری رہا.غیر از جماعت احباب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی پُر معارف اور عالمانہ باتیں انہوں نے اس سے پہلے کم سنی تھیں.(۳۵) مجلس ناصر آباداسٹیٹ میں صدر محترم کا پُر ولولہ خطاب مجلس انصار اللہ کے زیر اہتمام یکم جولائی ۱۹۸۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے مسجد ناصر آباد اسٹیٹ میں بعد نماز مغرب حاضرین سے خطاب فرمایا.ناصر آباد کے انصار، خدام اور اطفال شریک مجلس تھے.آپ کا پُر ولولہ خطاب کم و بیش پچاس منٹ تک جاری رہا.آپ نے فرمایا کہ ہمارے پیارے امام نے جماعت کی تنظیموں کے جتنے نام رکھے ہیں وہ سب بابرکت ہیں لیکن انصار اللہ کا نام سب سے زیادہ

Page 375

۳۵۵ بابرکت ہے.کیونکہ یہ نام قرآن مجید سے لیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الصف میں فرماتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ مَنْ أَنْصَارِی اِلَى اللہ جس کے جواب میں حواریوں نے کہا کہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں.لہذا انصار اللہ نام قابل فخر ہے.لیکن اس کے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی ہیں جن کو ادا کر کے حقیقی فخر قائم ہوتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا ذکر قرآن کریم میں ہے.ان کی عظیم جانی و مالی قربانیاں اور قابل فخر کارنامے اور ان کی دینی غیرت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں.ان کی بے مثال قربانیاں انہیں زندہ جاوید بنا گئیں اور ایک دفعہ یا دو دفعہ نہیں بلکہ ہزاروں بار ایسا ہوا کہ ان کو مارا پیٹا گیا قتل کیا گیا، ان کے گھر بار برباد کئے گئے ، ان کو آگ میں زندہ جلایا گیا، وحشی درندوں کے آگے ڈالا گیا اور رومیوں نے اپنے بادشاہوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے ٹکڑے ہوتے دیکھے.یہ واقعہ در حقیقت ایک جماعت سے یا ایک زمانہ میں نہیں گزرا بلکہ کئی جماعتوں سے مختلف زمانوں میں گزرا ہے اور یہ سلسلہ تین سوسال تک چلتا گیا.آخر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان لوگوں کا سطح زمین پر رہنا ناممکن بنادیا گیا اور انہوں نے زمین کے اندر غاروں میں پناہ لی.اور غاریں بھی ایسی کہ جو بھیا تک جگہیں تھیں جن کو دیکھ کر انسان دہشت زدہ رہ جاتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہم ان غاروں کو دیکھنے گئے.ہمارے ایک ساتھی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ان غاروں میں ذرا دُور تک اندر جا سکے.پھر وہ ان غاروں میں بھی محفوظ نہ تھے.غاروں میں بھی ان کا تعاقب کیا جاتا تھا اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا لیکن وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں پیش کرتے رہے.بالآ خر اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کر کے دینی اور دنیوی ترقیات انہیں دیں.دراصل یہ ایک تجارت تھی جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے کی.جیسا کہ سورہ الصف میں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے رستہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو.اُن انصار نے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کیا اور خدا تعالیٰ کی جنتوں کے وارث ہوئے.یہ لوگ حقیقت میں انصار تھے.اگر آج آپ لوگوں کو یہ نام دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے ہی حالات آپ کے ساتھ بھی پیش آنے والے تھے.اصحاب کہف کا سا معاملہ اس مامور کے ماننے والوں پر بھی گزرنا تھا.جیسا کہ روایت میں ہے اَصْحَابُ الْكَهْفِ اَعْوَانُ الْمَهْدِى يعنى اصحاب کہف امام مہدی کے مرید اور اس پر ایمان لانے والے لوگ ہیں.پس آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے کام میں لگے رہیں اور استقلال سے مصائب اور ابتلاؤں کا مقابلہ کریں.انصار اللہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی طرف جماعت کے تمام افراد حرکت کر رہے ہیں اور سب نے ایک دن انصار اللہ بنا ہے.اس لئے ہر فرد کو عموماً اور انصار اللہ کو خصوصاً اپنے اس قابل فخر نام کی لاج رکھتے ہوئے ان عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے جن کا تقاضا انصار اللہ سے کیا جاتا ہے.صرف خالی فخر کھوکھلا ہوگا اور اس کو تکبر یا غالبا نمود

Page 376

۳۵۶ وغیرہ تو کہہ سکتے ہیں حقیقی مخر نہیں کہہ سکتے.مجلس کے لئے جو مقاصد اور لائحہ عمل رکھے جاتے ہیں ان سے واقفیت نہ صرف عہد یداروں کے لئے ضروری ہے بلکہ تمام اراکین کے لئے بھی ضروری ہے.انصار اللہ تک ان تمام ہدایات کا پہنچنا اور پھر یہ پروگرام کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے ہی سے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں.اس ضمن میں فرمایا : (۱) ہر رکن کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ ایک ست اور کمزور رکن کو عبادت گزار بنائے.اس کو بیدار کرنے میں پوری محنت صرف کرے.(۲) چاہئے کہ اپنے پڑوس میں آباد لوگوں ، پنجابیوں اور سندھیوں کو ایک منصوبہ کے مطابق پیغام حق پہنچایا جائے.سندھ میں اس بارے میں سستی اور جمود ہے.یہ آپ لوگوں کے لئے اچھا شگون نہیں ہے.انفرادی اور اجتماعی وجود کی صورت میں اس طرف بھر پور توجہ کریں.(۳) اپنی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس صرف تبلیغی امور کے لئے منعقد کریں اور منصوبہ کے مطابق پروگرام وضع کریں.آپ ایک نازک سرحدی علاقہ میں رہتے ہیں.آپ کو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے.اردگرد کی تمام قسم کی آبادی میں اپنے دینی بھائی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.(۴) مساجد کو آباد کریں اور زندگی کی حرکت ہر رکن میں پیدا کرنے کی سعی کریں.مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ذرا اپنا موازنہ مسیح علیہ السلام کے انصار اللہ سے کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت و رحمت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی تکالیف اور ابتلاؤں سے محفوظ رکھا ہے.اس لئے اپنی قدر پہچانیں اور سلسلہ کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اس کے لئے مالی قربانیاں دیں.ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو اپنی آمد صحیح بتانے سے گریز کرتے ہیں یا چندہ کا مطالبہ کرنے والوں سے ترشی ، گستاخی اور نا گوارالفاظ سے پیش آتے ہیں اور چالاکیوں سے اپنی آمد کم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، فرمایا کہ ایسے لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہئے کہ ان سے جانوں کی قربانی کا مطالبہ نہیں بلکہ العفو دینے کا مطالبہ ہے.کیا ان کو معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا دیا ہوا ہے.ان کی فصلیں خدا اُگاتا ہے.ان کے کاروبار میں برکت خدا دیتا ہے.ان کے اعمال ونفوس میں برکت خدا دیتا ہے.اُس کا فضل نہ ہو ، موسموں کی خرابی ہو،شدید بارشوں کا اثر ہو یا قحط کی وجہ سے وہ زرخیز پیداواری علاقوں کو بالکل بنجر کر دے تو اس کے آگے کس کا زور ہے؟ ایسے علاقے دنیا میں موجود ہیں جہاں سرسبزی و شادابی کی وجہ سے زندگی رواں دواں تھی.نہریں تھیں، لہلہاتی کھیتیاں تھیں، باغات تھے، ہر قسم کی آسائشیں و آرام تھے مگر ایک وقت آیا کہ یہ سب کچھ بیابان و بنجر میں تبدیل ہو گیا.اگر ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ چالا کی کر کے سیکرٹری مال کو دھوکہ دیتے ہیں تو درحقیقت خدا سے دھو کہ کرتے ہیں جو عالم الغیب والشہادۃ ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ وہ آنے والوں کا احترام کرتے ، ان سے اکرام سے پیش آتے جو کچھ موجود ہوتا اُسے عاجزی سے

Page 377

۳۵۷ پیش کر دیتے اور پھر کہتے کہ الحمد للہ خدا نے مجھے کچھ پیش کرنے کی توفیق دی ہے.پھر عہد کرتے کہ دوسری دفعہ وہ خود یہاں آ کر چندہ ادا کریں گے، نہ کہ چالاکی، گستاخی اور بے ادبی سے پیش آتے.جو معمولی قربانی سے بھی گریز کرتا ہے وہ کس قسم کا انصار اللہ ہے.اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئیے.اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مال € مویشی میں برکت کے لئے دعا کی درخواست کی تھی تا وہ خدا کی راہ میں بھی دے سکے، فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی یہاں تک کہ اُس کے مویشی دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں نہ سماتے تھے.پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکوۃ کی وصولی کے لئے کارندے پہنچے تو اُس نے حقارت سے اُن کو کہا کہ محنت تو ہم کرتے ہیں تم زکوۃ لینے دوڑ پڑتے ہو.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ اس کی زکوۃ قبول نہ کی جائے.پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا.اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ صرف زکوۃ کے مال سے وادی بھر گئی مگر ہر دفعہ اس کی زکوۃ رد کی گئی.پس یاد رکھو یہ اموال خدا تعالیٰ کی عطا ہیں.حق یہ ہے کہ چندہ دیتے وقت قربانی کرتے وقت بشاشت قلب ہوا اور تشکر کے جذبات سے قربانی دی جائے تاوہ قبول ہو.یاد رکھو خدا کی ذات غنی ہے اور فقیر تو اصل میں ہم ہیں.يَايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآهُ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِى الْحَمِيدُ قیامت کے دن بخل کرنے والوں کو تمثیلی طور پر سونے چاندی کے سکوں سے داغا جائے گا اور مال مویشی ان کو پاؤں تلے روندیں گے.صحابہ کرام کا ذکر کرتے ہوئے صدر محترم نے فرمایا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں کوئی سواری مہیا کر دیں.ایسی چیز جس کے اوپر کھڑے ہو کر ہم مقام جہاد تک پہنچ سکیں.یعنی سواری ، چپلیں، جو تیاں وغیرہ.وہ ایسا تنگی کا وقت تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب مجاہدین کو جوتیاں یا چھلیاں تک مہیا نہیں کر سکتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر تمہیں سوار کراؤں.یہ جواب سن کر وہ چلے گئے اور اس غم سے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ افسوس ان کے پاس کچھ نہیں جسے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں.ان کے دلوں میں حسرت تھی کہ کاش ہمارے پاس مال ہوتا تو ہم بھی خدا کے رستے میں دیتے.انہوں نے عاجزی و حسرت سے اس بات کی خواہش کی اور خدا تعالیٰ نے ان کا ذکر محبت بھرے الفاظ میں ہمیشہ کے لئے قرآن مجید میں محفوظ کر دیا.آپ میں سے جو مجبور ہے یا کسی وجہ سے تنگ دست ہے، وہ انکساری سے اپنی مجبوری پیش کر سکتا ہے نہ کہ تکبر یا حقارت سے کارندوں کی تذلیل کرے یا جلی کٹی سنائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی باتوں سے بچائے.آپ نے مزید فرمایا کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ

Page 378

۳۵۸ میں قربان کر دیا.اس عظیم درویش کے صدقے اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو عظیم برکات سے نواز رہا ہے.خدا تعالیٰ کسی کی قربانی ضائع نہیں کرتا اور کسی ولی کی سات پشتوں تک نوازتا چلا جاتا ہے.جس طرح آپ چند دانے زمین میں بکھیر کر توقع کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بہت بڑی فصل تیار کر دے گا.تو یادر کھیئے اگر اسی کے دیئے ہوئے میں سے خدا کے حضور کچھ پیش کریں گے تو خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں آپ کو بڑی برکت دے گا.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ وہ خدا یہ چند روپے ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ سارے مال کا مطالبہ تو نہیں کرتا بلکہ اس سے کچھ کم کا مطالبہ کرتا ہے.یادر کھیئے آپ کی اصل بچت وہ ہے جو آپ خدا کے پاس دینی قربانیوں کی صورت میں دیتے ہیں جن کا آپ سے وقتا فوقتا مطالبہ کیا جاتا ہے.آپ خدائی بنک میں بچت کر کے جمع کرائیں تا اخروی زندگی میں آپ کے کام آئے.یاد رکھیں یہی مالی قربانی یہی چندے جو خدائی بنک میں جمع ہورہے ہیں ، یہی آخرت کی پونچھی ہے.پس آپ عمل کی طرف توجہ کریں.عملی طور پر سرگرم ہو جائیں کہ عمل کے بغیر تقریر تماشہ ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ آپ سب کو اپنے عہد سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ﴿۳۶﴾ دوره صدر محترم ادرحمه ضلع سرگودھا مجالس انصار اللہ بھابڑہ ، ادرحمہ تخت ہزارہ اور ہلال پور نے ۲۱ ۲۲ اگست ۱۹۸۰ء کو ادرحمہ کے مقام پر دو روزہ تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا.مربیان سلسلہ نے مختلف علمی اور تربیتی عناونین پر تقاریر کیں.اجتماع کے آخری دن حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے انعامات تقسیم فرمائے اور نماز جمعہ پڑھائی.ازاں بعد ایک محفل سوال و جواب کا انعقاد ہوا جس میں ڈیڑھ سو غیر از جماعت دوستوں نے بھی شرکت کی.محترم صاحبزادہ صاحب نے بڑے مدلل اور تشفی بخش طریق سے تمام سوالات کے جواب دیئے.شام پانچ بجے دعا کے ساتھ یہ با برکت اجتماع ختم ہوا.انصار کے علاوہ سرگودھا اور گجرات کے اضلاع کی متعدد جماعتوں کے تقریباً پانچ صد احمدی احباب ومستورات بھی مستفیض ہوئے.﴿۳۷﴾ ضلع حیدر آباد کا سالانہ تربیتی اجتماع ۴ ۵ ستمبر ۱۹۸۰ء کو مسجد احمد یہ بیت الظفر لطیف آباد میں مجالس ضلع حیدر آباد کا سالانہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا.صدر محترم نے بھی اس اجتماع میں شرکت فرمائی.۵ ستمبر کو آپ نے خطبہ جمعہ میں نہایت احسن رنگ میں فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے متعلق قرآنی آیات کی رو سے روشنی ڈالی.اس خطبہ کو کثیر احباب جماعت مرد وزن اور بعض غیر احمدی افراد نے بھی، جو جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئے ہوئے تھے ، سُنا اور نہایت خوشکن اثر لیا.اختتامی خطاب میں صدر محترم نے انصار اللہ کو نہایت دلنشین انداز میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ

Page 379

۳۵۹ دلائی.اس اجتماع میں ضلعی مجالس کے انداز أدوصد انصار شامل ہوئے.سالانہ اجتماع ضلع کراچی ضلع کراچی کا سالانہ اجتماع ۶ ستمبر ۱۹۸۰ء کو مسجد احمد یہ مارٹن روڈ میں منعقد ہوا.تلاوت ، عہد اور نظم کے بعد مجلس ڈرگ روڈ اور مجلس ناظم آباد کے زعماء اعلیٰ نے اپنی اپنی مجالس کی رپورٹ کارکردگی پیش کی.محترم صد رصا حب مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور کوشش کرو کہ نیکیوں میں ترقی ہوتی رہے.آپ نے اجتماع کی حاضری پر فرمایا کہ مجلس کے مقامی اجتماع میں شامل ہونا قریب ہونے کی وجہ سے نسبتاً آسان ہوتا ہے.لیکن موجودہ حاضری یہ بتاتی ہے کہ فاصلے نیکیوں کو سنوار کر کرنے میں حائل نہیں ہوتے.اس ضمن میں آپ نے مجلس ڈرگ روڈ کی حاضری پر مسرت کا اظہار فرمایا کہ دُور ہونے کے باوجود اُن کی حاضری سب مجالس سے بہتر ہے.صدر محترم نے فرمایا کہ آپ نیکی کو سنوار کر کریں گے تو شکور و دو دخدا اپنی سنت کے مطابق اس کا دس گنا اجر دے گا اور آپ کے نتائج کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا.کارکنان کو مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ہماری مساعی کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا.صبر اور دعا سے کوشش کرتے چلے جائیں اور یہ سمجھیں کہ ہماری سعی میں ابھی کوئی خامی ہے اور اس کے ساتھ ہمیشہ انکساری کا پہلو مدنظر رکھیں.یہ کبھی خیال نہ کریں کہ میں نے بہت کام کیا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو غالب کا یہ شعر بہت پسند تھا.جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا دوسرا اجلاس ناظم ضلع مکرم نعیم احمد خان صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا.اجلاس میں مکرم مولوی عبدالحمید صاحب، مکرم راجہ ناصر احمد صاحب ، مکرم شیخ محمد شریف صاحب، مکرم مسعوداحمد خورشید صاحب، مکرم سعید احمد خالد صاحب، مکرم محمد رفیق صاحب عزیز آباد نے اپنی زندگی کا ایک ایک دلچسپ ایمان افروز واقعہ بیان کیا.اس کے بعد مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب نے حفظان صحت کے اصول پر تقریر فرمائی اور مکرم مظفر احمد صاحب منصور مربی سلسلہ نے آیت أَشِدَّاءُ عَلَى الكُفَّارِ کی تفسیر میں صحابہ کرام کے اوصاف بیان فرمائے.تیسرا اجلاس مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی کی صدارت میں منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور نے احمدیت کے پیغام کے موضوع پر تقریر فرمائی.اس کے بعد سوال و جواب کی مجلس تھی.اس میں غیر از جماعت بھی شامل ہوئے.مکرم امیر صاحب ، مربی سلسلہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے احباب کے سوالات کے جوابات دیئے.ازاں بعد دو صحابہ حضرت مسیح موعود حضرت محمد ظہور خان صاحب اور حضرت آغا محمد عبد اللہ صاحب نے ذکر حبیب کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.

Page 380

۳۶۰ اختتامی اجلاس صدر محترم کی زیر صدارت منعقد ہوا.اس اجلاس میں انصار کی حاضری پچاس فیصد تھی.اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم چوہدری احمد مختار صاحب نے کی.آپ نے پندرھویں صدی اور ہم" کے عنوان پر اچھوتے رنگ میں دلنشیں خطاب فرمایا.اس کے بعد مکرم ناظم صاحب ضلع نے رپورٹ کارکردگی پیش کی جس میں خاص طور پر آپ نے تعلیم القرآن کے بارہ میں مجلس کے کام کا ذکر کیا.اس کے بعد صدر محترم نے تعلیم القرآن کے سلسلہ میں نمایاں کام کرنے والی اور حاضری میں اول رہنے والی مجالس میں انعامات تقسیم فرمائے.صدر محترم نے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ آپ کو دین کے لئے وقت صرف کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.لوگ چھٹی کے دن تفریحات کا پروگرام بناتے ہیں لیکن آپ نے چھٹی کے دن خدا اور اس کے رسول کی باتیں سنا پسند فرمائیں.اس ضمن میں آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان فرمائی جس میں بیان ہے کہ ذکرِ خدا کرنے والوں کے پاس بیٹھنے والے بھی ثواب سے محروم نہیں رہتے.آپ نے فرمایا دنیا میں مہیب خطرہ کے بادل چھا رہے ہیں.اس سے نجات کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ذکر الہی ، استغفار اور تو بہ.اللہ سے پیار کرو کہ تمہارے دل میں سوائے اس کے کسی کا پیار نہ ہو اور تمہاری یہ کیفیت ہو جائے.ہے آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا تقریر کے آخر میں آپ نے دعا کرائی.اور یہ اجتماع سوا چھ بج کر تیرہ منٹ پر اختتام پذیر ہوا.﴿۳۸﴾ ضلع راولپنڈی کا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی کا سالانہ اجتماع ۱۰ ۱۱ ۱۲ ستمبر ۱۹۸۰ء کو مسجد نور راولپنڈی میں منعقد ہوا.یہ ضلع کا پہلا سہ روزہ اجتماع تھا.اجتماع کی تیاری تقریباً ایک ماہ پہلے شروع کی گئی.مکرم محمد سعید احمد صاحب ناظم ضلع کی زیر ہدایت اجتماع سے پہلے مسجد نور میں اجتماع کا ایک عارضی دفتر قائم کر دیا گیا.مرکز سے منظوری حاصل کرنے کے بعد مقررین سے خط و کتابت شروع کر دی گئی.دیدہ زیب پروگرام شائع کیا گیا.انتظامات کے لئے تیرہ سب کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن کے صدر اور معاونین نامزد کئے گئے.ان شعبوں میں استقبال والوداع مهمانان، قیام و طعام ، آب رسانی و صفائی ، لاؤڈ سپیکر و روشنی سٹیج و اوقات، نزیکین ، مقام اجتماع، مال ، ٹیپ ریکارڈنگ، فوٹوگرافنگ ، طبی امداد، رپورٹنگ و اشاعت و امور عامہ شامل تھے.سب کارکنان اجتماع نے اپنے مفوضہ فرائض نہایت خلوص اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے.مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے انتظامی امور میں بھر پور تعاون کیا.اجتماع میں ضلع بھر کی تمام مجالس ( جن کی تعداد بارہ تھی) کے نمائندے شامل ہوئے.راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ واہ ، گوجر خان ، ٹیکسلا، چنگا بنگیال، محمودہ، پنڈ بیگوال، کہوٹہ ، مری ، جہاں مند وال کی مجالس اور

Page 381

۳۶۱ انصار اللہ کے نمائندے تشریف لائے.بعض جماعتوں اور ذیلی تنظیموں کے نمائندوں کو بھی شرکت کے لئے دعوت نامے جاری کئے گئے.چنانچہ مجالس لاہور ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور کراچی کے نمائندگان نے شرکت فرمائی.مہمانوں کے قیام کے لئے کئی احباب نے اپنے مکانات اور آمد و رفت میں سہولت کے لئے اپنی کاریں پیش کیں.اجتماع کے تینوں دن کھانا اور دو دن ناشتہ مجلس کی طرف سے پیش کیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے اجتماع میں حاضری نہایت خوش کن رہی.جس پر صدر محترم نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.مرکز کی طرف سے صدر محترم کے علاوہ مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد اور مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب تشریف لائے علاوہ ازیں سرگودھا سے حضرت مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے صوبہ پنجاب نے شرکت فرمائی.مربیان کرام میں سے مکرم سید عزیز احمد شاہ صاحب (مری)، مکرم مولا نا چراغ دین صاحب ( پشاور ) ، مکرم مولوی دین محمد صاحب شاہد ( واہ ) ، مکرم مولوی انعام الحق صاحب کوثر ( راولپنڈی) اور مکرم مولوی محمد شفیع صاحب اشرف (اسلام آباد ) شامل ہوئے.اجتماع میں کل نو اجلاس ہوئے.دن کا آغاز با جماعت نماز تہجد سے ہوتا رہا.نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مربیان کرام قرآن کریم ، حدیث نبوی اور کتب حضرت مسیح موعود کا درس دیتے رہے.اجلاسوں میں مرکزی نمائندگان اور مربیان کے علاوہ جن احباب نے مختلف علمی وتربیتی مواضیع پر تقاریر کیں.ان کے اسماء گرامی یہ ہیں.مکرم میاں اللہ بخش صاحب صحابی حضرت مسیح موعود مکرم چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت ضلع راولپنڈی ، مکرم عبدالجلیل صاحب عشرت نائب زعیم اعلیٰ راولپنڈی صدر، مکرم محمد اسلم صاحب نائب زعیم اعلیٰ اسلام آباد، مکرم کرنل ڈاکٹر نسیم احمد صاحب ماہر امراض چشم، مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ ، مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت گوجرانوالہ اور مکرم میجر جنرل (ریٹائرڈ) بشیر احمد صاحب.صدر محترم اجتماع کے آخری روز ۱۲ ستمبر بروز جمعه را ولپنڈی تشریف لائے.آپ نے خطبہ جمعہ میں اور پھر بعد میں اختتامی اجلاس میں نہایت روح پرور انداز میں انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ انصار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا چاہئے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور کچی پیروی کی جائے.صدر مجلس کا روح پرور اختتامی خطاب صدر محترم کے اختتامی خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے.اسے کیسٹ سے مکرم محمد سعید احمد صاحب سابق ناظم ضلع راولپنڈی نے مرتب کیا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ بے انتہا فضل اور احسان ہے جس نے ضلع راولپنڈی کو یہ کامیاب اجتماع منعقد

Page 382

۳۶۲ کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہو تو انسانی کوئی کوشش بھی بار آور ثابت نہیں ہوتی.مگر اس میں بھی شک نہیں کہ خدا کا فضل کوششوں سے بڑھ کر دلوں کی مخفی نیتوں پر نازل ہوا کرتا ہے.اگر انسانی کوششوں میں طاقت نہ بھی ہولیکن دل کی گہرائیوں سے وہ درد ناک آواز اُٹھے جو خدا کے فضل کو کھیچنے والی ہوتو یقیناً خدا کا فضل بھر پور صورت میں نازل ہوتا ہے اور کوششوں کو اس سے کوئی بھی نسبت نہیں رہتی.پس یقیناً یہاں کے کارکنوں نے دعا کی طرف توجہ کی ہو گی.اس میں بھی کوئی شک نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ میں تیرا گھر برکتوں سے بھر دوں گا، آپ کے اپنے گھر پر بھی صادق آتا ہے اور اُس گھر پر بھی جو آپ نے تعمیر کیا اپنے ماحول میں یعنی جماعت احمدیہ پر.وہ روحانی گھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنایاوہ سارے کا سارا اس الہام کا مصداق ہے اور خواہ کوئی ظاہری نسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعلق نہ بھی رکھتا ہو، اگر وہ روحانی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جوڑے تو یقیناً وہ گھر کی چاردیواری میں شامل ہے چنانچہ عملاً اس کا ثبوت طاعون کے زمانہ میں ملا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ میں حفاظت کروں گا ہر اس شخص کی جو تیرے گھر میں ہے.اور گھر میں تو صرف چند لوگ بستے تھے یعنی ظاہری لیکن روحانی گھر جو دور دراز تک وسیع تھا.مشرق ، مغرب، شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا تھا، سب طرف پھیلا ہوا تھا.وہاں کے بسنے والے تمام مخلصین جماعت پر یہ الہام پوری طرح صادق آیا اور طاعون جو جھاڑو پھیر رہا تھا ، احمدیوں کے گھر اس طرح بچے ہوئے تھے جیسے سیلاب میں بعض چٹانیں ابھری ہوئی نظر آتی ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ گھر سے مراد تمام اہل جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روحانی تعلق حقیقی اور سچا روحانی تعلق جوڑتے ہیں، وہ لوگ ہیں تو اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں ، رحم اور فضل کا، یقینا یہ اس روحانی تعلق کی بنا پر ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت احمد یہ راولپنڈی جو بڑی دیر سے کمزور جماعتوں میں شمار ہوتی چلی آئی ہے، اچانک اس میں یہ تبدیلی کیسے پیدا ہو گئی.امر واقعہ یہ ہے کہ میرا جائزہ عمومی جماعتوں کے کام پر نظر رکھ کر یہی ہے کہ ہر جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین موجود ہیں.نیک بندے، قربانی کرنے والے سب یکساں پھیلے پڑے ہیں لیکن اگر ان سے کام لینے کے لئے کوشش نہ کی جائے اور پوری استعدادوں سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے تو وہی جماعت نتیجہ خیز نہیں رہتی.اچھی سے اچھی زمین پر اگر ہل چلا کر محنت کر کے، پانی دے کر اس زمین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں اور تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو اچھی فصل کی توقع نہیں رکھی جاسکتی.اس لئے آنکھیں بند کر کے زمین پر لعن طعن

Page 383

۳۶۳ کرنی یا اس کو برا بھلا کہنا، یہ کوئی معقول طریق نہیں ہے.ہم نے ایسی جماعتیں دیکھی ہیں جہاں غفلت اور بے عملی کی بعض اوقات ایسی حالت طاری ہوتی ہے کہ ایک جائزہ میں جو وقف جدید کے ذریعہ لیا گیا، پتہ چلا کہ ساری جماعت میں جو بہت بڑی تعداد میں تھی ، صرف دس با جماعت نماز پڑھنے والے تھے.اب واقعہ یہ ہے کہ وہ روح اور مٹی تو موجود تھی مگر ذرا اس میں نمی کی کمی تھی جس کے نتیجہ میں پھر نمو پیدا ہوتی ہے.تھوڑا سا جھنجوڑ نے تھوڑا سا ہلانے کی ضرورت تھی.ورنہ خدا کے نیک بندے اور مخلص لوگ اور جلدی خدا کی آواز پر لیک کہنے والے وہاں بھی موجود تھے.چنانچہ اس جائزہ کے بعد جب وقف جدید کا ایک مستعد معلم جو خاص طور پر اللہ کام کرنے والا، بے لوث خدمت کرنے والا اور اخلاص سے بھر پور تھا.اب وہ فوت ہو چکا ہے.اُس کو ہم نے وہاں مقرر کیا.چھ مہینے کے بعد جماعت لائکپور اب فیصل آباد) سے درخواست کی گئی کہ اُس جماعت کا جائزہ لے کر رپورٹ کریں کہ اب وہاں کیا کیفیت ہے.تو پتہ چلا کہ صبح کی نماز اور تہجد باجماعت ادا کرنے والوں کی تعداد ایک سو دس ہے.وہ دس جو پانچ با جماعت نمازوں میں حاضر ہوا کرتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ سے برکت پا کر ایک سو دس تہجد پڑھنے والوں میں تبدیل ہو گئے.تو مادہ اور مٹی تو وہی تھی جس سے کام لیا گیا لیکن کام لینے والوں نے جان لڑائی ، کوشش کی ، محنت کی اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اس لئے راولپنڈی کی جماعت بھی کسی اور جماعت سے ہرگز پیچھے نہیں ہے کسی پہلو سے.یہاں بھی خدا کے نیک بندے بستے ہیں، مخلص لوگ رہتے ہیں.نیک تمنائیں رکھنے والے موجود ہیں.چاہتے ہیں کہ وہ جماعت کی خدمات میں پیش پیش ہوں.لیکن بعض اوقات اچھے کارکنان سے ایک جماعت محروم رہ جاتی ہے اور بعض دفعہ اچھے کارکنان اُسکوعطا ہو جاتے ہیں.اچھے کارکنوں کی پہلی تعریف یہ ہوتی ہے کہ بجز وانکساری رکھنے والے ہوں.اپنی کوششوں پر تو کل نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر توکل کرنے والے ہوں.اُسی سے بخشش اور رحمت طلب کریں، اُسی سے عفو مانگیں، اُسی سے فضل مانگیں تو پھر دیکھتے دیکھتے اُن کی کوششوں میں رنگ بھرنے لگتا ہے.پس یہ جو آج کے اجتماع کی کامیابی کا نظارہ آپ دیکھ رہے ہیں ، خدا کے فضل سے یہ غیر معمولی نمایاں فرق ہے جو نظری طور پر بھی نظر آتا ہے.پہلے بھی مختلف موقعوں پر میں راولپنڈی آتا رہا ہوں جماعتی کاموں کے سلسلہ میں، وقف جدید کے سلسلہ میں یا خدام الاحمدیہ کے سلسلہ میں بھی ،لیکن اتنا بھر پور حصہ لیتے ہوئے کسی اجتماع میں پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا.اب تو اللہ کے فضل سے بچوں کو بھی دیکھا جو انصار اللہ کے اجتماع میں شوق سے حصہ لے رہے تھے.ہر ایک نے اپنی جان لڑائی ہوئی ہے.کوشش کی ہے کامیابی عطا کرنے کی اس اجتماع کو اور ایک خاص رونق نظر آئی ہے.یہ

Page 384

۳۶۴ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتی ہے.خالی کوششوں میں کوئی بات نہیں.اس ضمن میں میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ انسانی اعمال میں اگر اللہ تعالیٰ کا تعلق نہ ہو اور روح موجود نہ ہوذ کر کی تو بالکل بے جان جسد کی طرح ہو جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی حیوان میں سے روح پرواز کر جائے اور ایک لاشہ سا پیچھے رہ جائے.اس وقت آپ اس کا وزن کر کے دیکھیں ، اس میں آپ کو کوئی بھی کمی نظر نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ وہ لاش احساس میں زیادہ بوجھل نظر آتی ہے کیونکہ روح کے ساتھ اس میں اپنے وجود کی حرکت موجود ہوتی ہے.اگر آپ ایک زندہ آدمی کو اُٹھائیں اس میں اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا مردہ اُٹھانے کا نظر آتا ہے.مگر یہ بہر حال ایک نفسیاتی کمزوری ہے، جو بھی آپ کہہ لیں ، مگر بہر حال وفات کے بعد اس کا وزن کم نہیں ہوتا.لیکن اس کے باوجود زندہ اور مردہ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.اسی طرح بعض اوقات اعمال کی کیفیت ہوتی ہے.بعض قوموں میں ظاہری اعمال پائے بھی جاتے ہوں تو اُن میں روح نہیں ہوتی.تمام ظواہر کے حقوق وہ ادا کر رہے ہوتے ہیں.عبادتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر وہ بات نظر نہیں آتی اور انکی ہر چیز بے جان اور بے نور ہو جاتی ہے.اسی فرق کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ وہ لوگ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں، عبادت کرنے والے، ان کی عبادتیں ان کے چہروں پر روح کی زندگی کی نشانیاں لے کر آتی ہیں، وہ نور لے آیا کرتی ہیں.وہ بے جان عبادتیں نہیں ہوا کرتیں.جس طرح زندہ اور مردہ کے چہرہ میں فرق ہوا کرتا ہے اس طرح عبادت کرنے والوں میں جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں اور دنیا کی عبادت کرنے والوں میں تم نمایاں فرق دیکھو گے.عبادت کے باوجود بعض لوگوں کے چہروں پر خدا کی طرف سے قوت قدسیہ کا نور نہیں آتا اور بعض چہروں پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے پر قوت قوسیہ کا نور آ جایا کرتا ہے.پس مومنوں کی عبادت میں ایک زندگی پائی جاتی ہے، ان کے اعمال میں ایک زندگی پائی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہوتی ہے.اگر وہ نہ ہو تو ساری کوششیں محض لاشیئی ہو جاتی ہیں اور ان میں کوئی بھی قوت عمل، زندگی کی قوت نظر نہیں آتی.انسان کا شرف صرف عبادت میں نہیں ہے، بلکہ ایسی عبادت میں ہے جس میں ذکر الہی اللہ تعالیٰ کی ذات کا پیار اور اس کی محبت اس طرح گندھی ہوئی ہو کہ ایک زندگی کی روح اس میں نظر آئے.ورنہ خدا تعالیٰ کو اس سے کیا حاصل کہ ہم اس کے حضور میں جھک رہے ہیں، ایک قسم کی اُٹھک بیٹھک کی پریکٹس کر رہے ہیں.اس سے اللہ تعالیٰ کو کچھ بھی حاصل نہیں.ہاں جب روح زندہ ہوتی ہے اللہ کے ذکر سے، جب خدا تعالی کا پیار

Page 385

۳۶۵ ہے.دلوں میں بھرتا ہے، اُس کی رضا اور اس کی خاطر سارے اعمال ہونے لگتے ہیں تب وہ عبادت نہ صرف عبادت بن جاتی ہے بلکہ وہ اعمال بھی جو عبادت نہیں ہوتے ، وہ بھی عبادت بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مومن کے انتہائی مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خدا کی خاطر جب ایک آدمی اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو وہ بھی اللہ کی عبادت بن جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ اس کی زندگی کی ہر چیز پر خدا کی محبت اور پیار کا جلوہ غالب آ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ خدا کا ہو جاتا ہے،اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا.اسی فرق کو ظاہر کرنے کے لئے ابتدائے آفرینش کا جو واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے، آدم کا پیدا کرنا، اس میں اس حکمت کو بڑا کھول کر بیان فرمایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ انسان بحیثیت انسان ، آدم سے پہلے بھی بس رہا تھا مگر اس کے اعمال میں، اس کے اخلاق میں توازن نہیں ہوا تھا.سَوَّيْتُہ کا مطلب ہے کہ جب میں اس تخلیق کو اس طرح متوازن کر لوں کہ اس کے اعمال میں ایک توازن پیدا ہو جائے تو نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحی پھر میں اس کے وجود میں بسنے لگوں.تب تم اس کو سجدہ کرنا، اس سے پہلے نہیں.یعنی کائنات کو جو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ ہر انسان کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے، آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ اس زمین و آسمان میں ہے، ہم نے تمہارے لئے اس کو مسخر کیا ، اس شرط کے ساتھ پیدا کیا.فَإِذَا سَوَّيْتُه کائنات کی کسی چیز کو اس سے پہلے آدم کے لئے سجدہ کا حکم نہیں ہے کہ آدم اپنی روح کو خدا کے آگے پیش کر دے اور خدا اس میں بسنے لگے.نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّ وحی کا یہ مطلب ہے.پس جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بڑا بھاری سبق ہے.آپ بھی سرداری کے لئے پیدا کیے گئے ہیں.آپ بھی آدم ثانی کے ماننے والے ہیں اور اس لئے آپ کو کھڑا کیا گیا ہے کہ ساری دنیا کی طاقتیں آپ کے حضور سجدہ کریں اور آپ کے تابع ہو جائیں.مگر اس شرط کے ساتھ ہوں گی کہ اپنے وجود کو آپ خدا کے تابع کر دیں اور خدا آپ میں نفخ روح فرمائے اور خدا کے نفخ روح کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی روح آپ کی روح میں رہنے لگے.خدا کی ذات آپ پر غالب آ جائے.اس کا آخری مقام وہ ہے کہ انسان کا اپنا پھر کچھ بھی نہیں رہتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتہائی مقام حاصل کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کہ تو لوگوں کو دکھا دے اور بتا دے کہ میری عبادتیں، میری قربانیاں، میرا اُٹھنا اور بیٹھنا، میری زندگی اور میری موت ہر چیز خدا کے لئے ہے.یہ ہو جائے تو بندے اور خدا میں فرق نہیں رہتا.پھر بندے کی ذات پر خدا کی

Page 386

ذات کا ایسا غلبہ آ جاتا ہے، اس قدر وہ حاوی ہو جاتی ہے اللہ کی ذات کہ بعض دفعہ بندے اور خدا میں فرق نہیں رہتا.پھر بندے کے اعمال کو خدا کے اعمال کا نام دیا جاتا ہے.یہ وہ پہلا مقام تھا جس کو حاصل کرنے کے بعد پھر وہ مقام آیا یا اس کے نتیجہ میں ساتھ ہی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ کہ یہ لوگ بظاہر حضرت محمد رسول اللہ کی بیعت کر رہے ہیں، یہ لوگ اللہ کی بیعت کر رہے ہیں.پھر اس کو کھول کر بیان کرتے ہوئے فرمایا.يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یہ محمد مصطفے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تم ہاتھ دیکھ رہے ہو، ان ہاتھوں کے اوپر یہ خدا کا ہاتھ ہے یعنی ایک ذرہ بھی آپ نے اپنا باقی رہنے نہ دیا تھا.وہ ہاتھ جس کا اپنا کچھ نہ رہے، وہ خدا کا ہی ہاتھ بنے گا اور کیا ہوگا ؟.وہ جان جو اپنی نہ رہے، جو وجود اپنا نہ رہے، دماغ اپنا نہ رہے،خون کا ذرہ ذرہ اپنا نہ رہے، ان لوگوں میں پھر خدا دوڑ نے لگ جاتا ہے.یہ وہ مقام ہوتا ہے جس کے بعد کائنات کی ہر چیز مجبور ہو جاتی ہے سجدہ کرنے کے لئے اس وجود کو.چارہ نہیں رہتا اس کے لئے کیونکہ اس کی نافرمانی خدا کی نافرمانی بن جاتی ہے.سجدہ اطاعت کا ملہ کو کہا جاتا ہے.یہی مفہوم ہے اس کا.پس اگر جماعت احمد یہ اس مقام کو حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کو انہی رستوں پر قدم مارنا پڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک قلبی کیفیت کو ایک بڑے ہی پیارے شعر میں بیان کرتے ہوئے فرمایا - جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا انسان کی روح کے رستہ میں جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو متفرق مقامات آتے چلے جاتے ہیں.ایک مقام پر جا کر وہ احساس کرتا ہے کہ یہ تو میں خدا کا اپنی طرف سے سمجھا ہوا تھا ، یہ تو میرا نکلا.جب میں نے تجزیہ کیا نفس کا تو پتہ چلا دھوکا ہی تھا.اصل میں تو میں اسے اپنا سمجھتا ہوں تو پھر وہ کہتا ہے کہ او ہو.یہ چیز جو اب تک میری ہے، یہ بھی اب تک خدا کے رستہ میں پیش نہیں کی ، وہ بھی پیش کرتا ہے.اس طرح لامتناہی منازل بظاہر آتی ہیں اس رستہ میں اور ہر مقام پر انسان کچھ نہ کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں مزید دیتا چلا جاتا ہے.یہ ایک روحانی سفر ہے جو نفس کے تجزیہ کے ساتھ انسان کو حاصل ہوتا ہے.رفتہ رفتہ جوں جوں وہ قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے، اپنا کم اور خدا کا زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے.پھر ایک اور آخری مقام ایسا آتا ہے جب عارف باللہ کمال کے مقام کو پہنچتا ہے.اس وقت وہ جانتا ہے کہ یہ چند چیزیں جو میری جھولی میں باقی رہ گئی ہیں کیوں نہ یہ بھی میں خدا کے سپر د کر دوں، اس وقت دل کی یہ آواز

Page 387

بلند ہوتی ہے کہ جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خدا کی راہ میں سفر کیا ہے، اُس کی یاد نے یہ شعر نکلوایا ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ جس وقت حضور نے یہ شعر کہا تھا، اس دن حضور نے خدا کے حضور سب کچھ پیش کیا تھا.یہ کوئی بہت پہلے کا واقعہ ہے جس کی میٹھی یاد کی کیفیت نے بے اختیار آپ کے دل سے یہ شعر نکلوایا ہے جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا وو تا کہ دنیا کو بتائیں کہ جب تک خدا کے حضور سب کچھ پیش نہ کر دیں تم کو وہ لطف امن کا آہی نہیں سکتا.وہ کامل کیفیت ، وہ کامل اطمینان.وہ اس زندگی میں وہ زندگی حاصل کر لیں جو مرنے کے بعد نصیب ہوگی اکثر لوگوں کو.وہ کیفیت ہوتی ہی جب ہے جب انسان ایک باشعور طریق پر سوچ کر سمجھ کر اپنی پیاری چیزیں خدا کو دینا شروع کرے.یہاں تک کہ جو اپنے دامن میں ہیں ، وہ بھی خدا کے رستہ میں دے دیتا ہے اور جب اپنا دامن خالی پاتا ہے تو اس سے زیادہ بھرا ہوا دامن بھی نہیں پاتا کیونکہ اس وقت آواز آتی ہے کہ ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.اے میرے بندے تو نے اپنی طرف سے سب کچھ میری جھولی میں ڈالا تھا لیکن اپنی جھولی تو دیکھ وہ سب کچھ اس جھولی میں آ گیا ہے.تو دیکھ جس کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا.میں جو تیرا ہو گیا تو باقی کیا رہا.پس یہی وہ مقام امن ہے جس مقام کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ سنو خدا کے اولیاء ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے لئے نہ حزن ہے، نہ کوئی خوف مقدر ہے.نہ ماضی کا غم اُن کو کچھ چھیڑ سکتا ہے، نہ مستقبل کا خوف ان کے دل پر کوئی چھ کے لگا سکتا ہے.آزاد منش لوگ ہیں جو کائنات سے بالا ہو جایا کرتے ہیں.جو وقت اور کون و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں.وہ ایک دائمی خدا کے ساتھ رہنا سیکھ لیتے ہیں اور دائی خدا کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں.خوف اور حزن تو ادنی چیزیں ہیں.اُن تک ان کی پہنچ ہی نہیں ہوسکتی.اب جبکہ خوف اور حزن کے مقامات قریب آ رہے ہیں بظاہر.اب جب کہ زمانہ ایسی کروٹیں بدل رہا ہے کہ خطرناک حالات منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا

Page 388

۳۶۸ چاہیے اور اپنے نفس کا تجزیہ کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ مزید خدا کی راہ میں قربان کرنا چاہیے.اپنی تمناؤں کو، اپنے اوقات کو، اپنے اموال کو ، اپنے بیوی بچوں کو ، اپنے آرام کو.اور رضائے باری تعالیٰ کی خاطر یہ سب کچھ کرنا چاہیے جو کچھ بھی ہم خدا کی خاطر چھوڑیں گے اس سے تکلیف نہیں ہوگی.یہ میں آج آپ کو بتا دیتا ہوں.بوجھ ہلکا ضرور سمجھیں گے.پہلے تکلیف ہوا کرتی ہے.دینے کے بعد انسان تکلیف سے آزاد ہو جاتا ہے.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ میں ایک ضمانت اور ایک مضمون بیان کیا گیا ہے.بظاہر خدا کی راہ میں انسان کچھ دینے سے ڈرتا بھی ہے اور غم بھی محسوس کرتا ہے کہ جو میرا ہے،اس سے میں یہ کام لے سکتا ہوں.اسے میں اپنے جسم سے کاٹ کر خدا کو دے دوں.لیکن جب دے چکتا ہے.اُسوقت اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو غموں اور خوفوں سے آزاد کرنے والا قدم تھا ہموں میں مبتلا کرنے والا نہیں تھا.اس لئے یہ محض ایک دھوکا ہے ویسا ہی دھوکا جیسے آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دینے کی کوشش کی تھی مگر آپ نے ہنستے ہوئے بڑی محبت اور پیار سے خدا کی محبت کی خاطر اس آگ میں قدم رکھ لیا اور بیک وقت یہ دونوں باتیں ہوئیں کہ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ کی طرف قدم بڑھا رہے تھے اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور تقدیر نازل ہو رہی تھی کہ يُنَارُ كُون بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى ابْراهِيمَ کہ اے آگ میرے بندے ابراہیم کے اوپر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا موجب بن جا.اس کو کہتے ہیں سجدہ کائنات کا.مجبور تھی وہ آگ ابراہیم کو سجدہ کرنے پر.کیونکہ ابراہیم اپنے رب کے حضور کامل طور پر سجدہ کرنے والوں میں سے ہو گئے تھے.یہی وہ مقام امن ہے جس کے علاوہ دنیا میں کوئی مقام امن نہیں.اس لئے خطرات جتنے زیادہ ہوں ، اتنی ہی توجہ اور فکر کے ساتھ مومن کو امن کی طرف دوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے.ورنہ حالات بعض دفعہ ایسی غفلت کی حالت میں انسان کو پکڑ لیتے ہیں کہ پھر سب کچھ پچھتانے کے قصے رہ جاتے ہیں.اس وقت ہاتھ میں کچھ نہیں آتا.ذکر الہی پر زور دیں اور سوچ سمجھ کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت اور پیار پیدا کرنے کی کوشش کریں.یہ کام نہ صرف یہ کہ مشکل نہیں ہے بلکہ پُر لطف ہے، آسان ہے، لذتیں دینے والا ہے.کوئی محنت طلب کام نہیں ہے.اس کے نتیجہ میں محنتیں آسان ہوتی ہیں، محنت کی طاقت بڑھتی ہے.یہی وہ راز ہے جس کے نتیجہ میں باہر والے لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ ان اہل اللہ نے اتنی بڑی بڑی قربانیاں خدا کی راہ میں کیسے دیں.وجہ یہ ہے کہ پہلے محبت الہی ان چیزوں کو ان کے لئے آسان کر چکی ہوتی ہے.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یہی وہ مفہوم ہے جوان کے حق میں پیدا ہوتا ہے.محبت الہی پہلے ہوتی ہے اور وہ محبت ان کو خوف اور حزن سے آزاد کر چکی

Page 389

۳۶۹ ہوتی ہے.دیکھنے والوں کو یہ لگتا ہے کہ خوف کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں لیکن اُن کے لئے یہ مقام خوف کا ہوتا ہی نہیں.دیکھنے والے سمجھتے ہیں یہ حزن اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے لئے مقام حزن ہوتا ہی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی جگہ اس مضمون کو کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں کہ خدا کی خاطر دُکھ اُٹھانے میں ایسی لذت ہے کہ اہل دنیا کوعلم نہیں ہے.اگر ان کو علم ہو جائے تو وہ دوڑ کر آراموں کو چھوڑ کر ان لذتوں کو اٹھانے کی کوشش کریں.پس دین آسان کیا گیا ہے.دین مشکل نہیں بنایا گیا مگر اس طریق کو اختیار کریں جس طریق پر دین آسان ہوتا ہے.اور وہ محبت ہی کا رستہ ہے.محبت کو چھوڑ کر دین آسان نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اور زیادہ وضاحت سے کھولتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرمایا کہ اعلان کر دے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اے لوگواے بنی نوع انسان اگر تم اللہ سے محبت کا دعوی کرتے ہو تو مبارک ہو ، خوشی ہو تمہارے لئے کہ میں بھی اسی راہ پر چلنے والا ہوں.فَاتَّبِعُونِي عاشق صادق تمہیں مل گیا ہے.تمہارے سارے راستے آسان کرنے والا محبت کے اسلوب بتانے والا ، میں بھی تو اسی عشق کے رستہ پر قدم مارتا ہوا خدا کی طرف بڑھ رہا ہوں.اس لئے محبت کا دعوی رکھنے والوں کے لئے خوشخبری ہے.آؤ ! میری طرف آؤ اور میری اطاعت کرو اور میری متابعت کرو.نتیجہ یہ نکلے گا کہ میرے پیچھے چل کر محبت کی ہر ادا خدا کو پیاری لگے گی.میرے پیچھے چلتے ہوئے خدا سے جو پیار کا اظہار کرو گے تو تمہیں کہیں ٹھوکر نہیں لگے گی اور کہیں غلطی نہیں ہوگی.ہر اطاعت کے نتیجہ میں يُنبكُمُ الله.اللہ تم سے محبت کرتا چلا جائے گا.بہت عظیم الشان مضمون ہے محبت کرنے والوں کے لئے.اللہ تعالیٰ نے رستہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ اس ایک پیغام کے نتیجے میں اگر عالم اسلام ہمیشہ فخر سے اچھلتا رہے اور کودتا رہے تو وہ حق ادا نہیں کر سکے گا شکر یہ کا.بظاہر کتنی مشکل راہ ہے.کتنے تفصیلی احکامات ہیں.سات سو او امر اور نواہی ہیں یوں لگتا ہے ایک پہاڑ ہے مشکلات کا، اس میں سے کیسے گزریں گے.لیکن کوہ کن نے دنیا کی محبت میں اپنے لئے پہاڑ کا کاٹنا آسان کر لیا تھا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کے ذریعہ ان مشکلات کو آسان کرنے کا کیسا پیارا رستہ بتا دیا کہ محبت کی راہ سے میری طرف آؤ، ہر مشکل تمہارے لئے آسان ہو جائے گی.اور ادائیں کیا ہیں محبت کی حقوق کیا ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں؟ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم محبت کی راہ سے مجھ تک پہنچ چکے ہیں.ان کے پیچھے پیچھے چلے آؤ.تمہارے لئے کوئی مشکل اور کوئی خدشہ نہیں ہے.عملا یہ ہوتا ہے بعض دفعہ محبت کے نتیجہ میں بھی محبت نہیں ملا کرتی.اگر غلطی سے محبت کا اظہار غلط ہو جائے.کئی ایسے محبوب ہیں جو عاشقوں

Page 390

کی بے ہودہ حرکتوں سے جلتے اور نفرت کھاتے ہیں.وہ جتنا زیادہ بھونڈا اظہار کرتے ہیں اپنی محبت کا، وہ اتنا ہی زیادہ اُن سے بھاگتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتے ہیں اور جب وہ شاعر بن جاتے ہیں تو ساری عمر روتے رہتے ہیں کہ ہم تو محبوب کی خاطر مر مٹے اور نفرت بڑھ گئی.اور بھی کھنچتا جاتا ہے بے کہ جتنا کھینچتا ہوں ،اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے غالب یہ شکوہ کرتے ہیں.لیکن حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار رحمتیں ، درود اور برکتیں ہوں کہ ایسا رستہ بتا دیا کہ کھینچنے سے اس کے محبوب کا سوال ان معنوں میں نہیں رہا کہ وہ اور کسی طرف کھنچے جتنا اپنی طرف کھینچو گے ، اتنا تمہاری طرف کھنچتا آئے گا.یہ مفہوم پیدا ہو گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کوئی خدشہ باقی نہیں رہا، کوئی غلطی کا امکان نہیں رہا، ایک بھی ادا نہیں ہو سکتی جو خدا تعالیٰ کو نا پسند ہو حالانکہ دنیا میں بڑے پیار کر نیوالے بھی ایسی باتیں کر جاتے ہیں محبت کے اظہار میں معصومیت میں بھی، نادانی میں یا اپنی تخلیق کی بناوٹ کے لحاظ سے غلطیاں کھانے والے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ بتایا کرتے تھے کہ مجھ سے پیار کے اظہار کے طور پر بعض لوگ میری جائے نماز پر گلاب کا عطر لگا جاتے ہیں اور مجھے اتنی الرجی ہے گلاب کی کہ مدتوں اس کی سزا بھگتا ہوں اور کہتا ہوں اللہ رحم کرے اس شخص پر، اس نے اچھی مصیبت ڈال دی ہے مجھے پر.محبت کا اظہار تو ہوالیکن الٹا محبوب کو تکلیف پہنچائی گئی.یہاں تک ہوتا تھا بعض دفعہ کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سفر کر رہے تھے ایک دفعہ سندھ کا ، تو عورتیں ، مرد وغیرہ مختلف اسٹیشنوں پر سلام کرنے کے لئے آتے تھے اور زیارت کرنے کے لئے.ایک عورت آگے بڑھی مصافحہ کرنے کے لئے.حضور نے فرمایا نہیں بی بی مصافحہ نہیں کرنا.اس کے بعد اس نے ہاتھ لگایا.حضور سمجھے کہ شاید تبر کا مجھے ہاتھ لگا کر بچ کر رہی ہے.کچھ دیر بعد ر ان پر کچھ چھپاتی سی چیز محسوس کی.ہاتھ لگایا تو ہاتھ بھیگ گیا.رومال کے لئے فوراً جیب میں جو ہاتھ ڈالا تو جیب میں جلیبیاں بھری ہوئی تھیں.اب وہ عورت بے چاری اپنی محبت کے اظہار میں جیب میں جلیبیاں ڈال رہی ہے.تو اتنا نادان انسان ہے بے چارہ کہ پیار بھی کرنا نہیں آتا اور جب فرق زیادہ ہو جائے مزاج کا ، تو رستہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور اس عورت کے مزاج کا فرق تھا.تو بندے اور خدا کے مزاج میں تو بہت فرق ہے.کوئی نسبت ہی نہیں.کس طرح محبت کریں کہ خدا کو پسند بھی آجائے.جلیبیاں ڈالنے والے نہ ہو جائیں ہم.اس کا جواب اللہ تعالیٰ دے رہا ہے.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ اللهُ اے بنی نوع انسان اچھلو اور کو دو، میں عاشق صادق تمہارے آگے آگے چلتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ خدا

Page 391

کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ میری پیروی کرو گے اگر محبت میں، يُخبكُمُ الله تو ہر دفعہ ہر قدم پر اللہ کی محبت پاؤ گے.اس کی نفرت اور منافرت کا منہ نہیں دیکھو گے.کتنا عظیم الشان وعدہ ہے کتنی عظیم الشان خوشخبری ہے.پس جو رستے مشکل نظر آ رہے ہیں بظاہر، اُن کو محبت کی راہ سے آسان کریں اور یہ راہ فی ذاتہ بڑی آسان اور پیاری راہ ہے.اس سے زیادہ مزیدار اور چیز ہی کوئی نہیں.کوئی مشکل کام نہیں خدا کو پیار کرنا.اُس کے احسانات کو صبح و شام دن رات یا د کرنا، اس کا تصور باندھنا، ان مشکلات کا جن سے وہ نجات بخشتا ہے، دعا ئیں جو وہ قبول کرتا ہے.آپ کو اندھیروں سے نکالنے والا ہے.ماحول میں آپ گند دیکھتے ہیں.ایک ایسی خلقت کا ہجوم دیکھتے ہیں جن کی کوئی DIRECTION نہیں.جن کا کوئی رخ نہیں.کوئی قبلہ نہیں.جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں.پھر آپ سوچیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ آپ کو اندھیروں سے نکال کر نور میں لے آیا ہے.کس طرح آپ پر فضل فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کو نئی زندگی بخشی ، اسلام کا صحیح تصور آپ کو عطا کیا، رہنے کے آداب آپ کو سکھائے.اس مادہ پرست دنیا میں باہمی پیار محبت کا ایک ایسا نظارہ پیش کر دیا کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اس کو دیکھ کر.ایک احمدی محض اللہ ایک احمدی سے محبت کرنے والا محض اللہ ان چیزوں سے ہٹنے والا جن سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے.بے شمار احسانات ،صحت کے احسانات ،کبھی سر میں درد ہو اور درد سے فائدہ ہو پھر سوچیں کہ خدا تعالیٰ کے کتنے احسانات ہیں.ایک چھوٹی سے چھوٹی ، ادنیٰ سے ادنی چیز اور رحمت اس کی کھینچ لی جائے تو انسانی زندگی کو دکھوں میں مبتلا کر دیتی ہے.اتنے فضل ہیں اس کے جن کو ہم سوچ بھی نہیں سکتے.ابھی میں ذکر کر رہا تھا، دو ڈاکٹر بھائیوں کے سامنے کہ ایک احمدی خاتون ہیں کراچی میں، اُن کی آنکھوں میں سوزش پیدا ہوگئی جو کسی طرح ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی.ہر قسم کے علاج کئے، اینٹی بایوٹک (ANTIBIOTIC) دیں.ایلو پیتھی بھی اور ہومیو پیتھی بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا.آخر پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ نے آنکھ میں ایسے آنسور کھے ہوئے ہیں جو ہلکی ہلکی LUBRICATION کرتے رہتے ہیں.ورنہ جو پلکیں جھپکتی ہیں.جتنی دفعہ جھپک رہی ہیں ، اگر وہ خشک آنکھ پر چھپکی جائیں تو کب کی ہماری آنکھ کھائی جاتی.وہ چند آنسو پھر خدا تعالیٰ نے واپس لے لئے تھے اور مصیبت پڑی ہوئی تھی ، اُس عورت بے چاری کو.سوزش چین نہیں لینے دیتی تھی ، نہ دن کو نہ رات کو.دوا کے ایک دو قطرے ٹپکا لیتی ہیں تو ان کو چین آجاتا ہے.اب ان کو بڑا امن ہے.انسان واقف ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے کتنے عظیم اور وسیع احسانات ہیں.عقل دنگ رہ جاتی ہے.آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر نسیم صاحب کے سامنے جب میں نے ذکر کیا تو کہنے لگے کہ یہ تو ظاہری بات

Page 392

ہے.اس کے پس پردہ جو اور احسانات کا ایک سلسلہ جاری ہے.چونکہ وہ آنکھوں کے ماہر ہیں ان کو اچھی طرح پتہ ہے.اس میں سے چند انہوں نے سنائے تو ہم حیران رہ گئے.پس خدا کی محبت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی چیز بھی حائل نہیں ہو سکتی.اگر انسان غور کرنے کی عادت ڈال لے فکر کی عادت ڈال لے.ادنی علم کا آدمی ادنی علم سے محبت حاصل کرے گا.اعلی علم کا آدمی اعلیٰ علم سے محبت حاصل کرے گا.مقامات میں فرق ہو گا لیکن دونوں کیلئے محبت کی راہیں بہر حال آسان ہیں.اس لئے انصار سے میری گزارش ہے کہ اپنے اندر زندگی کی طاقت پیدا کریں.خالی ظاہری تنظیم سے وابستہ لوگ، ظاہری طور پر اطاعت کرنے والے لوگ یا ظاہری طور پر لبیک کہنے والے کافی نہیں ہیں.اگر انصار میں اللہ سے محبت رکھنے والے، اللہ سے براہ راست زندگی پانے والے اور براہ راست قوت پانے والوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو جائے تو اتنی عظیم الشان طاقت جماعت میں پیدا ہو جائے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں ان کے سامنے بیچ ہوں.ہر فرد بشر کے روحانی خواص کو تربیت دینا اور ان میں زندگی کی روح پھونکنا، ہمارا اولین کام ہے.پس اس طرف توجہ کرنی چاہیے.ہر جگہ ، ہر گاؤں میں سادہ سے سادہ آدمیوں کے سامنے بھی خدا تعالیٰ کی محبت کے تذکرے عام کر دینے چاہئیں تا کہ دلوں میں پیار پیدا ہو.پھر اللہ انہیں خود سنبھال لے گا.اہل اللہ جو ہیں، ان پر محنت نہیں کرنی پڑتی.ساری مشکلات آسان ہو جاتی ہیں تنظیموں کی ، اگر خدا سے پیار کرنے والے لوگوں سے واسطہ ہو.انسان قرآن کریم کے قربان جائے ایسا با ربط مضمون بیان فرماتا ہے اور ہر چیز اس طرح کھولتا ہے کہ دل عش عش کر اُٹھتا ہے.اس مضمون کو کھولتے ہوئے دعا سکھاتا ہے.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اے میرے رب امام تو بنا.قیادت کی کس کو خواہش نہیں ہے.مگر متقیوں کا بنانا.مزہ تو اس امامت میں ہے کہ متقی ہوں.کیونکہ فاسقوں کا امام بنے میں کوئی بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ فاسقوں کے امام فاسقوں سمیت جہنم میں پہنچ جایا کرتے ہیں.اس لئے تقویٰ کی روح محبت الہی ہے.محبت کرنے والے انصار پیدا کریں.ہر جگہ ، ہر سوسائٹی میں، ہر طبقہ میں.پھر دیکھیں کہ انصار کا مقام کتنا بلند ہو جاتا ہے، کتنی قوت آجاتی ہے ان کی پاک صحبت میں.جو خدا کی راہ میں وہ قدم اٹھا رہے ہیں، ان میں ایک شوکت پیدا ہو جائے گی.ان کی آواز میں برکت پیدا ہو جائے گی.ان کے کلام میں برکت پیدا ہو جائے گی.ان کی ہر کوشش با برکت اور بارآور ہوگی.وہ تبلیغ کریں گے، ان کی باتوں میں طاقت پیدا ہو جائیگی.صرف چالا کیوں سے تبلیغ نہیں ہوا کرتی.دلوں کا انقلاب قوت قدسیہ سے ہوتا ہے.یہی کہوٹہ جس کا ذکر پہلے آیا تھا ر پورٹ پڑھنے میں.یہاں کے میجر عبدالحمید صاحب ہمارے کہوٹہ کے رہنے والے ہیں جو آجکل نیو یارک میں

Page 393

امام ہیں.وقف زندگی ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں احمدی ہوا، وہاں کے ایک دوست درزی تھے ، بڑے نیک دل.دراصل میں ان کی نیکی کو دیکھ کر ہی احمدی ہوا تھا.ان کی باتوں میں سچائی تھی.ان میں پاکیزگی نظر آتی تھی.کوئی بناوٹ نہیں تھی، کوئی تصنع نہیں تھا.کپڑے سی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بڑی سادگی سے پیغام پہنچارہے ہیں.دلیلیں کام نہیں کرتی تھیں.اُن کی باتوں میں جو نیکی کا اثر تھا ، وہ دلوں پر اثر کرتا تھا.کہتے ہیں، میں احمدی ہو گیا تو میں نے اپنے والد کے لئے فکر کی ، بڑا زور مارا، بہت کوشش کی ، بڑے بڑے علماء سے ملوایا مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا.ایک دفعہ خوش قسمتی سے حضرت مولوی شیر علی صاحب تشریف لائے ہوئے تھے.میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ میرے والد صاحب کو کوئی نصیحت فرمائیں.یہ احمدی نہیں ہور ہے.مجھے بڑی فکر ہے تو مولوی صاحب نے ان سے پوچھا کہ کبھی قادیان آئے ہیں.انہوں نے کہا نہیں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ پھر قادیان آنا.اور بات ختم.میجر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل پر عجیب اثر ہوا کہ میں تو بڑے شوق سے مولوی صاحب کو لایا تھا.مگر انہوں نے کوئی بات ہی نہیں کی.کبھی قادیان نہیں آئے تو قادیان آنا.اور بات ختم.جلسہ سالانہ کے دن آئے اور میں قادیان جانے کی تیاری کر رہا تھا تو میرے والد نے کہا مجھے بھی ساتھ لے جانا، میرا دل چاہتا ہے میں بھی جاؤں.میں نے حیران ہو کر دیکھا.میں نے کہا، میں نے تو بڑی کوششیں کی تھیں.انہیں خیال کیسے آیا.کہنے لگے، ایک دفعہ جو تم نے ایک آدمی ملایا تھا نا.اس کے ایک فقرے میں اتنی طاقت تھی، اتنی قوت تھی کہ میں برداشت نہیں کرسکا.اس وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں ان کی یہ بات ضرور پوری کروں گا اور قادیان جاؤں گا.جو بلی ۱۹۳۹ء کا جلسہ سالا نہ ہورہا تھا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی تقریر فرما رہے تھے جب یہ پہنچے ہیں.کہتے ہیں کہ آدھی تقریر ہی میں وہ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں.سمجھا بجھا کر ان کو بٹھایا.بالآ خر دوسرے روز کہنے لگے ، اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا.مجھے بیعت کرواؤ.تو ایک چھوٹا سا فقرہ تھا جو ایک نیک دل، پاکباز انسان کے دل سے نکلا تھا.خدا نے اس میں اتنی قوت بھر دی تھی.اس لئے یہ علم کی چالاکیاں ، یہ ہوشیاریاں ، یہ مناظرے کے ایچ بیچ، یہ کوئی کام نہیں آتے.حقیقت میں وہ دل کی صداقت ہے اور دعا ہے اور خدا کا فضل ہے جو کام آیا کرتا ہے.اس لئے آپ دلوں میں خدا کی محبت بھر دیں گے تو پھر بظاہر جو جاہل آدمی ہے، اس کی بات میں بھی قوت پیدا ہو جائے گی.وہ انقلاب جس کے لئے ہم تڑپ رہے ہیں ، وہ آنا شروع ہو جائے گا آپ کی بستیوں میں، آپ کے ماحول میں ، ارد گرد کے دیہات میں.کوئی کام مشکل نہیں رہے گا.یہ وہ چیز ہے جس کو سکھانا چاہیئے اور اس پر انصار کو بہت زیادہ زور

Page 394

۳۷۴ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو اپنے سچے پیار اور محبت سے بھر دے اور یہ غیر اللہ کو مٹاتی چلی جائے اور باہر نکالتی چلی جائے یہاں تک کہ بالآ خرموت سے پہلے ہم یہ کہنے کے قابل ہو جائیں کہ جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا مجلس سوال و جواب اسی روز شام کے وقت سوال و جواب کی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تھا.اس موقع پر ساڑھے تین صد احباب موجود تھے.جن میں ایک سو سے زائد غیر از جماعت دوست تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے سوالات کے نہایت مؤثر اور ایمان افروز جواب دیئے.سوالات مسائل ختم نبوت، وفات مسیح، علامات ظہور مہدی اور جماعت احمدیہ کا الگ نام رکھنے کی وجہ وغیرہ کے متعلق تھے.مجلس ساڑھے سات سے ساڑھے نو بجے شب جاری رہی.اختتام سے قبل حضرت صاحبزادہ صاحب نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ کیا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے یا بند کر دیا جائے.تو کئی غیر از جماعت احباب نے نہایت اشتیاق سے اسے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا.اس پر حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ اس کے بعد آپ کے دلوں میں جو سوال پیدا ہو وہ آپ ہمارے علماء سے پوچھیں.یہاں راولپنڈی میں ہمارے مربی صاحب موجود ہیں.آپ ان سے ملیں.میری ضرورت ہوئی تو میں بھی دوبارہ بلکہ بار بار اس غرض کے لئے راولپنڈی آنے کو تیار ہوں.پریس میں تذکرہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطبہ جمعہ اور تقریر کی رپورٹ روز نامہ تعمیر راولپنڈی کی ۱۳ ستمبر ۱۹۸۰ء کے شمارہ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع ہوئی: اللہ تعالیٰ کو پانے اور اس کی محبت حاصل کرنے کا واحد اور حتمی طریقہ یہ ہے کہ اس کے محبوب اور انسانِ کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور حقیقی پیروی کی جائے اور آنحضور سے محبت کی جائے.ان خیالات کا اظہار جماعت احمدیہ کے موجودہ سربراہ مرزا ناصر احمد کے بھائی مرزا طاہر احمد نے آج یہاں مسجد نور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا.انہوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اور آپ سے محبت کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول اور اس کو پانا بالکل ناممکن ہے.آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو جنتر منتر اور ٹوٹکوں سے نہیں پایا جا سکتا.اس کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے.مجاہدہ

Page 395

۳۷۵ کے لئے ہمیں اسوہ رسول پر عمل کرنا ہوگا.انہوں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ زندگی کے ہر گام پر حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کریں.آپ نے اس سے قبل خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کے ارکان کو غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرنے کی اور اپنی کوششیں تیز رکھنے کی اپیل کی.“ اجتماع کی کارروائی کی رپورٹ روزنامہ تعمیر ۱ و ۲ ستمبر۱۹۸۰ء میں چھپی.﴿۳۹﴾ مجالس مذاکره ملتان صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ملتان، چک ۳۶۶.ڈبلیوبی ، لودھراں اور بہاولپور میں ۱۷ و ۱۸ ستمبر ۱۹۸۰ء کو مجلس انصار اللہ کے زیر اہتمام مختلف تقاریب میں شمولیت فرمائی.تمام مقامات پر منعقدہ مجالس مذاکرہ میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے احباب نے شرکت کی.(۴۰) سالانہ اجتماع ضلع مظفر گڑھ مجالس ضلع مظفر گڑھ کا سالانہ اجتماع مورخه ۳ و ۴ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو مسجد احمد یہ لیہ میں منعقد ہوا.چوبیں میں سے بائیس مجالس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک سو بیس افراد نے شرکت کی.غیر از جماعت دوست بھی خاصی تعداد میں شریک ہوئے.نماز جمعہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے پڑھائی.آپ نے نہایت احسن پیرا یہ میں نماز باجماعت کی اہمیت اور باہمی اتحاد کے متعلق احباب کو تلقین فرمائی.نماز جمعہ کے بعد اجلاس میں صدر محترم نے مجالس کے نمائندگان سے کوائف دریافت فرمائے اور تعلیمی وتربیتی امور کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے نماز با جماعت، قرآنی تعلیم اور جماعت نظام سے وابستگی پر احسن رنگ میں نصائح فرمائیں.آپ کا خطاب نہایت بصیرت افروز تھا.صدر محترم کے ارشاد پر مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی قائد عمومی نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ غیر ممالک خاص طور پر غانا کے دورہ کے متعلق ایمان افروز واقعات سنائے.اس اجتماع کا دلچسپ پروگرام سوال و جواب کا سلسلہ تھا جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے جوابات دیئے.غیر احمدی دوستوں نے مدلل جواب سے مطمئن ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہماری بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی بشاشت نے ان کو بہت متاثر کیا ہے.نماز عشاء کے بعد جماعت احمدیہ کی بیرونی ممالک میں تبلیغی مساعی پر مشتمل سلائیڈز دکھانے کا پروگرام تھا جس کے لئے مکرم عبدالحفیظ کھوکھر صاحب خاص طور پر ربوہ سے آئے تھے.اس پروگرام کو احباب جماعت کے علاوہ غیر از جماعت نے بھی شوق سے ملاحظہ کیا.حاضری اتنی زیادہ تھی کہ پنڈال کے علاوہ باہر کا صحن اور گلی بھی بھری ہوئی تھی.۴۱ )

Page 396

صدر محترم کا دورہ فیصل آباد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء بروز جمعہ فیصل آباد کے دورہ پر تشریف لے گئے.آپ کا یہ دن بہت مصروف گزرا.دس بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک آپ نے مسجد احمد یہ گھسیٹ پورہ ( فیصل آباد سے ۷ امیل کے فاصلے پر) میں تربیتی اجتماع میں شرکت فرمائی.تلاوت ، عہد اور نظم کے بعد مکرم چوہدری احمد دین صاحب نے مقامی مجلس اور ضلع کی مختصر رپورٹ کارگزاری پیش کی.اس کے بعد صدر محترم نے تقریباً ایک گھنٹہ خطاب فرمایا جس میں آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا قدم کس حد تک آگے بڑھا ہے اور اگر ہمارا قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہٹ گیا ہے یا ایک مقام پر جا کر ٹھہر گیا ہے تو ہمیں فکر کرنی چاہئے اور ان وجوہات کی تلاش ہونی چاہئے جو اس کی محرک بنی ہیں اور وہ طریقے اختیار کرنے چاہئیں جو ہمیں آگے بڑھانے کا باعث ہوں.ہمیں مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود نے تو ہمیں یہ فرمایا ہے ؎ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں ہمیں تو اس جذبہ کی وجہ سے خوش ہونا چاہئیے.خدا تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی کامیابی وکامرانی عطا فرمائے.اس اجتماع میں ۳۰۷ افراد نے شرکت کی.صدر محترم گھسیٹ پورہ سے تقریباً بارہ بجے فیصل آباد تشریف لائے.بعد طعام مسجد احمد یہ فیصل آباد میں آپ نے ڈیڑھ بجے سے اڑھائی بجے تک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس میں سورۃ الحشر کی ان آیات کی پُر معارف تفسیر بیان فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللهَ فَأَنْهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے نفسوں کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اپنے نامہ اعمال میں آخرت کے لئے کیا جمع کیا ہے.خدا تعالیٰ ہمارے اعمال بلکہ ہماری نیتوں تک کو جانتا ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم خود کو ان لوگوں کی طرح نہ بنائیں جو نافرمانی کی وجہ سے قعر مذلت میں گر گئے.نماز جمعہ کے بعد انصار اللہ کا تربیتی اجتماع منعقد ہوا.صدر محترم نے اپنے خطاب میں انصار کو ان کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جو عمر کے لحاظ سے اور خاندان کے سر براہ ہونے کے لحاظ سے ان پر عائد ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ انصار اللہ نے نو جوانوں اور بچوں کی اصلاح کرنی ہے اور معاشرہ کو ہر قسم کی برائی سے پاک کرنے کی سعی کرنی ہے.نیز آپس میں اس محبت اور اخوت کے بے مثال رشتے کو قائم کرنا ہے جس کا ذکر قرآن

Page 397

۳۷۷ مجید میں یوں آیا ہے رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ یعنی وہ آپس میں بہت حلیم، ہمدرد اور شفیق ہیں.البتہ وہ أَشِدَّاءُ عَلَى الكُفَّارِ بھی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں جنہیں دنیا کی کوئی طاقت اپنے مقام سے ہٹا نہیں سکتی.اس اجتماع میں ساڑھے چار سو افراد نے شرکت کی.بیرونی مجالس کے تینتیس نمائندگان حاضر تھے.بعد نماز مغرب باغ والی ملز فیکٹری ایریا میں مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.جس میں یکصد سے زائد غیر از جماعت افراد بھی شامل تھے.اس موقعہ پر جو سوالات کئے گئے ان کا تعلق ظہور مہدی کی علامات، ختم نبوت سے متعلق مسائل، موجودہ پریشانی کا حل اور موجودہ دور کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان سوالات کے جوابات نہایت دلکش انداز میں دیئے.یہ مبارک مجلس دس بجے رات تک جاری رہی.۴۲) ضلع کراچی کی خصوصی تقریب مجلس انصار اللہ ضلع کراچی کے زیر انتظام ایک خصوصی تقریب ۱۲ دسمبر ۱۹۸۰ء بروز جمعۃ المبارک ساڑھے سات بجے صبح عزیز بھٹی پارک کے وسیع سبزہ زار پر منعقد کی گئی.اس میں شرکت کے لئے انصار کثیر تعداد میں سائیکلوں پر بھی تشریف لائے کیونکہ اس کا مقصد ان خدام کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی تھا جو گذشتہ مرکزی اجتماع خدام الاحمدیہ میں شرکت کے لئے سائیکلوں پر کراچی سے ربوہ تک کا تقریباً ساڑھے آٹھ سو میل سفر کرنے کی سعادت حاصل کر چکے تھے.تقریب کا آغاز مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی کی صدارت میں ہوا.تلاوت ونظم کے بعد مکرم کیپٹن شمیم احمد خالد صاحب نے سائیکل چلانے کی افادیت کے موضوع پر خطاب کیا.ازاں بعد مکرم نعیم احمد خان صاحب ناظم ضلع نے سپاسنامہ پیش کیا.جس کا جواب سید نعیم احمد صاحب نے دیا.مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی نے قیمتی نصائح سے نوازا.آخر میں امیر صاحب نے دعا کرائی اور اس کے بعد احباب کی ناشتہ سے تواضع کی گئی.﴿۲۳﴾ ١٩٨١ء سلائیڈز لاہور نظامت ضلع لاہور کے تحت مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری نے ۵ فروری ۱۹۸۱ء کو کرشن نگر لاہور میں اور 4 فروری ۱۹۸۱ء کو ہانڈ وگوجر میں سلائیڈ ز دکھائیں.پہلی تقریب میں ساٹھ جبکہ دوسری تقریب میں جملہ احباب جماعت کے علاوہ پندرہ عیسائی اور پچاس غیر از جماعت بھی شامل ہوئے.﴿۲۴﴾

Page 398

صدر محترم کا دور وسانگھڑ صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ۹ فروری ۱۹۸۱ء کو سانگھڑ تشریف لے گئے اور دو پہر کے وقت ایک مختصر اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سورہ حم سجدہ کی آیت إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَكَةُ کی پُر معارف تفسیر بیان فرمائی.آپ نے فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں مختلف قسم کے موسم مقرر فرمائے ہیں اسی طرح مذہبی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے موسم مقرر فرمائے ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انہی موسموں کا ذکر فرمایا ہے کہ جولوگ خدا کو اپنا رب مانتے ہیں پھر اپنے عمل سے اس پر استقامت اختیار کرتے ہیں ، ان کی مخالفت ضرور ہوتی ہے.ان کے خلاف آندھیاں چلتی ہیں.لیکن مخالفت کے اس دور کے بعد دوسرے موسم کی صورت میں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ اب نہ تمہیں خوف ہے اور نہ حزن کی کوئی وجہ باقی ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا یہ دور احمدیت پر بھی آیا اور گزر گیا.ہم نے خدا کے نام پر کام کیا اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے.ہم نے مصائب کے دور کو خندہ پیشانی سے جھیلا اور ایسا استقامت کا نمونہ دکھایا کہ انسان دنگ رہ گیا اور اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے مطابق صبر و استقامت کے بعد دوسرا موسم دکھایا اور اس کے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوئے.اس ضمن میں آپ نے گوجرانوالہ اور شیخو پورہ کی مثالیں پیش کیں.آپ نے فرمایا اب جماعتی ترقیات کا دور شروع ہو چکا ہے.سانگھڑ کی جماعت کو عموماً اور انصار کو خصوصاً تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ سانگھڑ کی جماعتیں بھی اس انقلاب اور ترقی کے دور میں شامل ہوسکیں.شام چار بجے آپ کے اعزاز میں چائے کا انتظام کیا گیا.جس میں بہت سے غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مہمانوں کے سوالات کے جوابات دیئے.اس کے بعد مکرم پیر شریف احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر کچھ غیر از جماعت وکلاء سے بھی صاحبزادہ صاحب نے تبادلہ خیالات کیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے سب نے بہت اچھا تاثر لیا.شام ساڑھے پانچ بجے صدر محترم حیدر آباد تشریف لے گئے.(۴۵) مجلس سوال و جواب فیصل آباد مجلس فیصل آباد کے زیر اہتمام بٹالہ کالونی فیصل آباد میں ۲۵ فروری ۱۹۸۱ء کو شام سات بجے سے نو بجے تک دلچسپ مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.نوے حاضرین میں سے انچاس غیر از جماعت تھے.مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب نے عقائد جماعت احمد یہ بیان کئے اور سوالات کے جواب دیئے.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر قائد اصلاح وارشاد نے آپ کی معاونت کی.﴿۴۶﴾

Page 399

۳۷۹ ملتان میں مجلس مذاکرہ صدر محترم ۲۶ فروری ۱۹۸۱ء کو ملتان کے دورہ پر تشریف لے گئے.اس موقعہ پر بعد نماز عشاء ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا.سوالات ہر مکتبہ فکر کی طرف سے احمد یہ عقائد سے متعلق پوچھے گئے تھے.جس کے بہت دلچسپ جوابات حضرت میاں صاحب نے دلنشین انداز میں مرحمت فرمائے.اس دوران تیز ہوا چلنی شروع ہوگئی اور شامیانوں کے اڑ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا.احمدی احباب نے بانسوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا.بجلی کی رو بند ہو جانے کی وجہ سے گھپ اندھیرا چھا گیا اور یہ حالت دیر تک قائم رہی.ایسی حالت میں بظاہر خیال یہ تھا کہ مجلس میں افرا تفری پیدا ہو جاتی لیکن لوگوں کے انتہاک کا یہ عالم تھا کہ انتہائی خاموشی اور جذب کی کیفیت میں ڈوبے حضرت میاں صاحب کے کلمات سے مستفید ہوتے رہے.پونے دس بجے تمام حاضرین کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.کھانے کے بعد بھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.یہ مجلس سوا سات بجے شام شروع ہو کر پونے بارہ بجے شب ختم ہوئی.اس مجلس میں ڈیڑھ صد کے قریب غیر از جماعت احباب نے شرکت کی.﴿۲۷﴾ وقار عمل گوجرانوالہ ۲۷ فروری ۱۹۸۱ء کو انصار الله وخدام الاحمدیہ شہر و چھاؤنی گوجرانوالہ نے اجتماعی وقار عمل کیا.احمد یہ قبرستان میں گڑھے کھودے گئے اور پانچ سو پودے لگائے گئے.یہ وقار عمل تین گھنٹے جاری رہا.﴿۳۸﴾ نماز با جماعت کے سلسلہ میں نظامت ضلع کراچی کی مساعی ناظم ضلع کراچی مکرم نعیم احمد خان صاحب نے مہتم عمومی مکرم عبدالشکور صاحب اسلم اور مہتم تربیت مکرم شیخ ظفر احمد صاحب کے ہمراہ کراچی کے مختلف حلقوں کی مساجد میں نماز فجر میں حاضری کا جائزہ لیا.خدا کے فضل سے اکثر مساجد میں حاضری تسلی بخش پائی البتہ دو ایک جگہ حاضری میں نسبتا کمی کے آثار نظر آئے.ان مساجد میں مکرم ناظم صاحب نے بار بار جا کر احباب کو توجہ دلائی اور خدا کے فضل سے اس کا بہت عمدہ اور نمایاں نتیجہ نکلا.حلقہ لیاقت آباد کی مسجد میں 4 مارچ بروز ہفتہ نماز مغرب کے بعد ایک نشست میں انصار، خدام اور اطفال شریک ہوئے.سب کو اظہار رائے اور تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ دوستوں کو مسجد میں حاضر ہونے اور نماز با جماعت کی برکات سے مستفیض ہونے کی طرف توجہ دلائی جائے.یہ مفید اور دلچسپ نشست تقریباً دو گھنٹے جاری رہی.احباب نے اس میں بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا.۴۹ ) پکنک حلقہ ماڈل ٹاؤن لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۸۱ء کو مجلس ماڈل ٹاؤن نے لارنس باغ لاہور میں پکنک منائی.حاضری ساٹھ افراد سے زائد

Page 400

تھی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد انصار نے دوگروپوں کی صورت میں باغ کی سیر کی.بعدۂ دلچسپ علمی و معلوماتی پروگرام ہوا.جس میں اوّل : گلزار احمد صاحب.دوم : محمد احمد خان صاحب، چوہدری نورالدین صاحب، خلیل احمد اختر صاحب، ڈاکٹر غلام احمد صاحب.سوم : لطیف احمد طاہر صاحب رہے اس موقع پر بچوں کا ایک خاص پروگرام ہوا.عزیزہ سمن رعنا نے تلاوت کی.مبشر احمد صاحب، طاہر احمد صاحب اور محمد عامر خان صاحب نے تقریریں کیں.ازاں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیہ سیرت پر روز نامہ الفضل سے ایک مضمون سنایا گیا.زعیم اعلیٰ صاحب نے انصار کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.کھانے کے بعد نماز جمعہ ادا کی گئی.تین بجے پکنک کا اختتام ہوا.۵۰) دوره ۳۵ جنوبی ضلع سرگودھا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ۲۰ مارچ ۱۹۸۱ء بروز جمعه چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگودھا کے دورہ پر تشریف لے گئے.مسلسل تیز بارش کے باوجود پروگرام کے مطابق آپ نے یہ دورہ کیا.محترم صاحبزادہ صاحب نے نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ دیا.اس موقع پر سولہ میں سے بارہ مجالس کی نمائندگی ہوئی.آپ نے مجالس کے کام کا جائزہ لیا.اس کے بعد ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی جس میں احمدی احباب کے علاوہ تمہیں کے قریب غیر از جماعت دوستوں نے شرکت کی.یہ مجلس ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب جاری رہی.غیر از جماعت احباب نے بڑے شوق کے ساتھ سوالات کئے جن کے حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہایت مؤثر پیرایہ میں جوابات دیئے.آخر میں حاضرین کو متحرک تبلیغی تصاویر دکھائی گئیں.۲۱ کونماز و موعود علیہ ۲۱ مارچ کو نماز فجر کے بعد درس قرآن و حدیث و ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوا.بعدہ دعا سے یہ تربیتی اجلاس اختتام کو پہنچا.(۵۱) پکنک ضلع کراچی مجلس ضلع کراچی نے اپنی پہلی پنک ۲۷ مارچ ۱۹۸۱ء کو مل پارک کراچی میں منعقد کی.اس پکنک میں ۶۷ انصار ، ۱۱ خدام اور ۱۲ اطفال شریک ہوئے.صبح سوا سات بجے پروگرام شروع ہوا.ناشتہ کے بعد مکرم امیر صاحب جماعت کراچی کی صدارت میں دلچسپ پروگرام ہوا.دوستوں نے لطائف سے مجلس کو محظوظ کیا.ایک شاعر دوست نے اپنا کلام پیش کیا.مکرم ناظم صاحب نے اس پنک کی غرض و غایت روشنی ڈالی.انہیں انصار دوست دور دور سے سائیکلوں پر پکنک منانے کے لئے آئے.مکرم ناظم صاحب ضلع نے اعلان کیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انصار کو بھی اپنے مرکزی اجتماع پر ربوہ سائیکلوں پر آنے کی اجازت دے دی ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ دوست اس کے لئے

Page 401

٣٨١ تیاری کریں.آخر میں مکرم امیر صاحب نے دُعا کروائی اور پکنک اختتام پذیر ہوئی.﴿۵۲﴾ مجلس ربوہ مقامی کا دوسرا یک روزہ سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ ربوہ کا دوسرا یک روزہ سالانہ اجتماع مورخه ۲۸ مارچ ۱۹۸۱ء بروز ہفتہ صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا.اختتامی اجلاس سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے خطاب فرمایا.اپنے بصیرت افروز اور نہایت درجہ موثر خطاب میں آپ نے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ ربوہ کی مجلس انصار اللہ جس کے متعلق سالہا سال سے یہ تاثر تھا کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہی، اب بیدار ہو گئی ہے اور اس کے منتظمین اور عہدیداران نے جب کام کرنے کا تہیہ کر لیا اور حکمت و موعظہ حسنہ اور صبر کی قرآنی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پروگرام کو آگے بڑھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بہتر نتائج پیدا فرمائے ہیں.صدر محترم نے فرمایا اگر چہ مجلس مقامی کے باقاعدہ کام کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے اور یہ کام ابھی ہمارے ٹارگٹ سے بہت پیچھے ہے تاہم جن حالات میں کام کا آغاز ہوا ہے انہیں دیکھتے ہوئے ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ یہ مجلس اتنی جلدی اچھا کام کر سکے گی اس لئے مجھے امید ہے کہ اگر اسی لگن اور شوق اور محنت کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا گیا تو انشاء اللہ العزیزیہ مجلس ہمارے ٹارگٹ تک پہنچنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی.اس یک روزہ اجتماع میں علماء سلسلہ کے ایمان افروز خطابات کے علاوہ تلاوت قرآن پاک نظم خوانی، دینی و عام معلومات، تقاریر اور دلچسپ ورزشی مقابلے ہوئے.باوجود اس کے کہ لاؤڈ سپیکر کی منظوری وقت پر نیل سکی پھر بھی پروگرام کے مطابق اجتماع کی کارروائی مسجد اقصیٰ کے وسیع وعریض صحن میں کامیابی کے ساتھ جاری رہی.حاضرین کے دو پہر کے کھانے کا انتظام بھی مقام اجتماع میں ہی کیا گیا تھا.ربوہ کے تمام محلوں سے انصار بڑے شوق اور نظم وضبط کے ساتھ اجتماع میں شامل ہوئے.اس بار ربوہ کے محلوں کو چار بلاکوں میں تقسیم کیا گیا تھا.ہر بلاک کو ایک مخصوص رنگ دیا گیا اور اس میں شامل حلقوں کو اس مخصوص رنگ کے کپڑے پر اپنی مجلس کا بینر (جھنڈا) تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی.چنانچہ مقام اجتماع میں چار مختلف رنگوں کے انتیس جھنڈے چار بلاکوں کی نشاندہی کر رہے تھے.انصار کو اپنے مخصوص بلاک میں اپنے جھنڈے کے سامنے بٹھایا گیا تھا.ٹھیک سوا نو بجے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی انصار کی تعداد جو اجلاس کے آغاز کے وقت چھ صد سے اوپر تھی ، جلد ہی نو صد تک پہنچ گئی.سب سے پہلے مسجد کے سامنے والے میدان میں والی بال، دوڑ اور لمبی چھلانگ کے ورزشی مقابلے ہوئے.یہ پروگرام حسب معمول بڑے جوش و خروش سے سرانجام پایا اور انصار نے اس میں بڑی دلچسپی اور شوق کا اظہار کیا.ورزشی مقابلوں کے بعد تمام انصار مسجد کے صحن میں اپنی مخصوص جگہوں پر آ کر بیٹھ گئے.تلاوت

Page 402

قرآن کریم نظم اور عہد کے بعد پروگرام کا عملی حصہ گیارہ بجے کے قریب شروع ہوا.جس میں تلاوت قرآن پاک، نظم ، تقاریر اور دینی معلومات کے مقابلے ہوئے.یہ پروگرام بھی بہت ہی دلچسپ اور حاضرین کی دلجمعی اور توجہ کا باعث بنا.اسی دوران تھوڑی دیر کے لئے صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی مقام اجتماع میں تشریف فرمارہ کر مقابلوں کا یہ دلچسپ پروگرام دیکھتے رہے.ان مقابلوں کے بعد ایک بجے کھانے اور نماز کی ادائیگی کے لئے وقفہ رہا.کھانا جو مقام اجتماع میں ہی تیار کیا گیا تھا، بلاک وار تقسیم کیا گیا.جملہ انصار نے بڑے نظم وضبط کے ساتھ کھانا کھایا.کھانے کے بعد نماز ظہر و عصر جمع کر کے ادا کی گئیں.دوسرا اجلاس تین بجے بعد دو پہر تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا.نظم کے بعد مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے بحیثیت والدین انصار کی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.آپ نے قرآن پاک کی روشنی میں شرح وبسط سے انصار کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا.مولانا کے خطاب کے بعد مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت نے اپنے بنگلہ دیش کے حالیہ دورہ کے نہایت دلچسپ اور ایمان افروز حالات بیان کئے.آپ نے حاضرین کو بنگلہ دیش کے احمدیوں کے اخلاص، والہانہ قربانی اور اسلام و احمدیت کے ساتھ گہری عقیدت اور ایمان کے ذاتی مشاہدہ سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کر رہی ہے.ہر دو خطابات حاضرین کے لئے انتہائی دلچسپی اور از دیا دایمان کا باعث بنے.اس پروگرام کے بعد انصار ایک بار پھر میدان عمل میں آئے اور رسہ کشی اور کلائی پکڑنے کے مقابلوں میں حصہ لیا.یہ دو مقابلے روائتی جوش و خروش کے ساتھ دیکھے گئے.اختتامی پروگرام سے پہلے ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.جس میں انصار نے مختلف دینی اور فقہی مسائل کے متعلق سوالات دریافت کئے.مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب اور مکرم مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر نے جوابات دیئے.پونے چھ بجے کے قریب صدر محترم مقام اجتماع میں دوسری مرتبہ تشریف لائے جس کے ساتھ ہی اجتماع کا آخری اجلاس شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم مولوی فضل الہی انوری صاحب زعیم اعلیٰ مجلس انصار اللہ ربوہ نے مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بعض غیر متوقع مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ دوسرا اجتماع بھی بہت کامیاب رہا اور انصار کی دلچسپی اور ان کی قوت عمل کو ابھارنے کا موجب ہوا ہے.رپورٹ کے بعد صدر محترم نے پہلے علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں اول دوم اور سوم آنے والے انصار کو انعامات دیئے.اور پھر اپنے اختتامی خطاب میں مقامی مجلس انصار اللہ کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے

Page 403

یہ توقع ظاہر کی کہ ربوہ کے انصار اور ان کے منتظمین با قاعدہ ایک سکیم بنا کر مجلس مرکز یہ کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور اصلاح وارشاد کے مجوزہ پروگرام پر سرگرمی کے ساتھ عمل کرنے اور احمدیت کی نئی نسل کی تربیت اور ان کے ساتھ پیار و محبت اور حکمت کے ساتھ گہرا رابطہ قائم رکھنے کی ذمہ داری پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کریں گے.خطاب کے آخر میں صدر محترم نے حضور انور کی صحت و تندرستی کے لئے اور خوشیوں اور کامیابیوں سے بھر پور لمبی زندگی پانے کی دعائیں جاری رکھنے کی یاد دہانی کرائی.خطاب کے بعد سب انصار نے صدر محترم کی اقتداء میں کھڑے ہو کر انصار اللہ کا عہد دہرایا اور دعا کے بعد یہ یک روزہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.﴿۵۳) علمی مذاکره کراچی مجلس کراچی کا مذاکرہ علمیہ ۳۱ مارچ ۱۹۸۱ء کو مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کی صدارت میں ہوا.مکرم مولا نا محمد اسماعیل صاحب منیر نے تبلیغ اسلام میں جماعت احمدیہ کی کاوشوں کے بارہ میں اور مکرم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں چودھویں صدی کی اہمیت کی موضوع پر تقریر کی.تقاریر کے بعد ہر دو حضرات نے سوالات کے جواب دیئے.نماز اور چائے کے بعد مکرم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب نے رواں تبصرہ کے ساتھ سلائیڈ ز دکھائیں.رات سوا آٹھ بجے یہ پروگرام ختم ہوا.اس تقریب میں پونے دو سو احمدی اور تمیں غیر از جماعت احباب شامل ہوئے.(۵۴) ضلع ساہیوال میں مجالس مذاکرہ کا انعقاد مکرم صدر مجلس مرکزیہ کی زیر ہدایت مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ناظم ضلع ساہیوال نے مختلف جماعتوں میں مجالس مذاکرہ کے انعقاد کا انتظام کیا.صدر محترم نے اس غرض کے لئے مرکزی وفد بھجوایا جو مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف مدیر ماہنامہ انصار اللہ اور مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب سابق مبلغ سویڈن پر مش تھا.ضلع کی چار جماعتوں میں مجالس مذاکرہ منعقد ہوئیں.مشتمل اوکاڑہ شہر اوکاڑہ شہر میں اپریل پانچ بجے بعد دو پہر عید گاہ میں مجلس مذاکرہ کا انتظام کیا گیا.تلاوت قرآن کریم کے بعد مکرم مولوی محمد جلال صاحب شمس مربی سلسلہ نے جماعت احمدیہ کے عقائد پر روشنی ڈالی.مکرم مولوی منیرالدین احمد صاحب نے غیر ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتائج بیان کئے اور مکرم مولوی

Page 404

۳۸۴ غلام باری صاحب سیف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع مقام پر روشنی ڈالی.اس کے بعد غیر از جماعت احباب نے مختلف سوالات کئے جن کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے.اس موقع پر لڑ پچر بھی تقسیم کیا گیا.بعد نماز عشاء مسجد احمدیہ میں مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے غیر ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے مناظر سلائیڈز کے ذریعہ دکھائے.عارف والا دوسری مجلس مذاکرہ عارف والا شہر میں مکرم میاں محمد طفیل صاحب کے مکان پر ۸ اپریل کو گیارہ بجے قبل دو پہر مکرم چوہدری عزیز اللہ صاحب زعیم مجلس عارف والا کے زیر صدارت منعقد ہوئی.مولوی عبد المنان صاحب شاہد نے قرآن مجید کی سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کا ترجمہ اور مطلب بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت بیان کی اس کے بعد مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے غیر ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نہایت شیریں ثمرات پر روشنی ڈالی.ازاں بعد مکرم مولوی غلام باری سیف صاحب نے عقائد جماعت احمدیہ پر تقریر کی.آخر میں مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.چک نمبر ۱۳۷/ ۹ ایل تیسری مجلس مذاکرہ چک نمبر ۱۳۷/ ۹.ایل میں ۱۹اپریل کی صبح دس بجے مسجد احمدیہ میں منعقد ہوئی.مرکزی وفد نے مجلس سوال و جواب کے علاوہ احمدی دوستوں کو نماز با جماعت کی اہمیت ، چندوں کی ادائیگی مسجد کی صفائی اور ذیلی تنظیموں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی.ساہیوال شہر چوتھی مجلس مذاکرہ ساہیوال شہر میں 9 اپریل کو پانچ بجے شام بر مکان مکرم ملک خدا بخش صاحب زیر صدارت مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب امیر مقامی و ناظم ضلع منعقد ہوئی.تلاوت قرآن کریم کے بعد سورہ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تشریح کرتے ہوئے مکرم مولوی عبدالمنان شاہد صاحب مربی سلسلہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور قیام جماعت احمدیہ کی اغراض بیان کیں.اس کے بعد مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کی مساعی اور اس کے مبارک نتائج کا تذکرہ کیا.مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندشان بیان کی جس کے بعد مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی.بعد نماز مغرب سلائیڈ ز دکھائی گئیں.(۵۵﴾

Page 405

۳۸۵ سالا نہ تربیتی اجتماع ضلع پشاور ۲۱ اپریل ۱۹۸۱ء کو مسجد احمد یہ سول کوارٹرز پشاور میں یک روزہ سالانہ ضلعی تربیتی اجتماع منعقد ہوا.جس میں اضلاع پشاور اور مردان کے دوصد انصار شریک ہوئے.پہلا اجلاس زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ، تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا.نظم کے بعد صدر محترم نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک خطاب فرمایا.آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ سرحد کی مجالس احمدیت کی ترقی کی دوڑ میں سبقت لے جائیں.اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے وجود میں ترقی اور عروج کی خصوصیت محض اپنے فضل سے رکھی ہے جس کی مثال قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کے طور پر بیان فرمائی ہے.احمدیت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.جب بھی دشمن نے اس پودے کو مسلنے کی کوشش کی تو نتیجہ اس کے الٹ نکلا.آپ نے جماعت احمدیہ پشاور کے ہر طبقہ کو اپنی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی اور نہایت درد کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے ہر دُکھ اور مصیبت کو اپنے جسم پر قبول کرنا چاہئے.آپ نے نصیحت فرمائی کہ بہت زیادہ دعاؤں کی عادت ڈالیں اور اپنے اندر حقیقی اطاعت اور نظم و ضبط کی روح پیدا کریں.آخر میں صدر محترم نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے اور اجتماعی دعا کرائی.دوسرا اجلاس مکرم مرزا مقصود احمد صاحب امیر ضلع پشاور کی صدارت میں ساڑھے سات بجے منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم چوہدری ہادی علی صاحب اور مکرم مولانا چراغ دین صاحب مربیان سلسلہ نے علی الترتیب ”ابن مریم “ اور ”جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت“ کے عناوین پر تقاریر کیں.تقاریر کے بعد دونوں مقررین نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.یہ اجلاس نو بجے شب تک جاری رہا.۵۶۶ صدر محترم کا دورہ کر تو ضلع شیخوپورہ ۱۴ ۱۵ مئی ۱۹۸۱ء کو مجلس کر تو ضلع شیخوپورہ کے زیر اہتمام ایک کامیاب دوروزہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا جس میں محترم صدر صاحب مجلس نے بھی شرکت فرمائی.اردگرد کے کثیر دیہات سے احمدی احباب ، مرد وزن اور بچوں کے علاوہ بھاری تعداد میں مہمان دوست بھی شریک ہوئے.مجموعی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی.پہلا اجلاس ۴ امئی کو بعد نماز عشاء رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہا.اس میں مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف اور مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب سابق مبلغ سویڈن نے جماعت احمدیہ کی بیرونی ممالک میں خدمت اسلام کی مساعی پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی.مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈز بھی دکھائیں اور واضح کیا کہ کس طرح جماعت احمد یہ دنیا کے مختلف ممالک میں مساجد ، ہسپتال ، سکول اور کالج قائم کر کے

Page 406

۳۸۶ بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت بجالا رہی ہے.اس پروگرام میں آٹھ سو کے قریب احباب شریک ہوئے.اگلے روز بعد نماز فجر مربی سلسله مکرم مولوی عبدالرشید صاحب قسم نے قرآن پاک کا درس دیا جس کے بعد نو بجے صبح دوسرا اجلاس ہوا.مکرم ماسٹر مقصود احمد صاحب ، مکرم مولوی مبشر احمد صاحب کاہلوں پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب نے تقاریر فرمائیں.مکرم حکیم دین محمد صاحب نے اپنا منظوم پنجابی کلام سنایا.آخر میں صدرا جلاس مکرم مولوی عبدالرشید صاحب تبسم نے مختصر صدارتی تقریر کی.۵ مئی کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے تشریف لا کر نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ میں آپ نے اصلاح وارشاد کے فریضہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہر احمدی کے لئے اپنے عملی نمونہ کو اسلام کے مطابق ڈھالنا از حد ضروری ہے.بعد ازاں اختتامی اجلاس میں صدر محترم نے بڑے ہی مؤثر انداز میں خطاب فرمایا.پھر سوال و جواب کا پروگرام ہو ا.سامعین کے مختلف سوالات کے بڑے مدلل اور مفصل جواب صدر محترم نے دیئے جن کا حاضرین مجلس پر گہرا اثر ہو ا.حاضری چھ سو مرد وزن تھی جن میں سو سے زائد غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.اس اجتماع میں ضلع شیخو پورہ کے علاوہ اضلاع گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے بعض احباب بھی شامل ہوئے.۵۷ حسین آگا ہی ملتان کی ایک دلچسپ مجلس مذاکرہ مورخہ ۱۷ مئی ۱۹۸۱ ء بعد از نماز مغرب مجلس حسین آگاہی ملتان شہر کے زیر اہتمام مکرم قاضی محمد اسحاق صاحب بسمل ناظم ضلع کی صدارت میں ایک اجلاس عام منعقد ہوا.مکرم مولا نا برکت اللہ صاحب محمود مربی سلسلہ نے مختصر تقریر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے.غیر از جماعت تئیس معززین افراد اور چالیس کے قریب جماعت کے افراد نے اجلاس میں شرکت کی.سوال و جواب کی مجلس نماز مغرب کے بعد شروع ہو کر رات دس بجے تک جاری رہی.مکرم مربی صاحب نے برجستہ جوابات احسن طریق پر دیئے.مذاکرہ کے اختتام پر غیر از جماعت معززین نے آئندہ بھی یہ طریق جاری رکھنے پر اصرار کیا تا کہ شبہات کا ازالہ ہوتار ہے.﴿۵۸) محترم صدر صاحب کا دورہ ضلع سیالکوٹ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس مرکزیہ نے ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء کو ضلع سیالکوٹ کی دو درجن سے زائد مجالس کا بمقام سمبڑیال اور ۲۹ مئی کو رائے پور کے مقام پر تمیں کے قریب مجالس کے عہدیداران سے ملاقات کی ، ان کے کام کا جائزہ لیا اور زریں ہدایات سے نوازا.خدا کے فضل سے صدر محترم کے اس دورہ کے نتیجہ میں پورے ضلع میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی.۲۲ مئی کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے مسجد احمد یہ سمبڑیال میں خطبہ دیا اور نماز جمعہ پڑھائی.اس وقت

Page 407

۳۸۷ مسجد مکمل طور پر بھری ہوئی تھی.خطبہ جمعہ میں آپ نے نظام کی اطاعت اور مالی قربانی جیسے اہم امور کی طرف توجہ دلائی.شام کے وقت مکرم چوہدری محمد اعظم صاحب کی کوٹھی پر مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر پانچ صد سے زائد احباب شامل ہوئے جن میں نصف سے زائد علاقہ کے غیر از جماعت معززین، اساتذہ اور دیگر صاحب علم دوست تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہایت پرکشش انداز میں سلسلہ احمدیہ کے بارے میں سوالات و اعتراضات کے جوابات دیئے.مذاکرہ کے بعد متعدد غیر از جماعت احباب نے بھی بڑے احترام کے ساتھ محترم میاں صاحب سے مصافحہ کیا.﴿۵۹) ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء کی صبح کو رائے پور پہنچنے کے بعد صدر محترم نے بھر پور انتہائی مصروف دن گزارا.سب سے پہلے علاقہ کی مجالس کے زعماء اور عہدیداروں کے ساتھ ایک اور کنگ سیشن منعقد کیا.مجالس کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ہدایات دیں.دو بجے سے تین بجے تک خطبہ جمعہ اور نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.سوا تین سے سوا چار بجے تک آپ نے بحیثیت سرپرست احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ضلع سیالکوٹ کے عہدیداروں اور طلباء سے ملاقات کی.ساڑھے چار بجے سے ساڑھے چھ بجے شام تک مجلس سوال و جواب کی ایک دلچسپ نشست منعقد ہوئی.زعماء کے اجلاس میں سب سے پہلے ناظم ضلع سیالکوٹ مکرم با بو قاسم الدین صاحب نے ضلع کی مجالس سے متعلق بنیادی کوائف پیش کئے.صدر محترم نے ان کوائف کا مطالعہ وموازنہ کرنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کوائف پیش کئے گئے ہیں وہ بنیادی طور پر حقائق پر مبنی معلوم نہیں ہوتے.عموماً جماعت اور مقامی مجالس کے اراکین کی تعداد چار اور ایک کی نسبت سے لے کر دس اور ایک کی نسبت تک پہنچتی ہے.لیکن جن مجالس میں یہی نسبت ہیں اور ایک بلکہ پچھپیں اور ایک دکھائی گئی ہو، وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں.لہذا سب سے پہلے زعماء کو اپنی مجالس کی تجنید سے متعلق جملہ کوائف درست اور صحیح درج کرنا ہوں گے.ورنہ مجلس کی تمام رپورٹیں اور ساری کارکردگی مفروضوں پر مبنی ہوگی.صدر محترم نے فرمایا کہ اسی طرح اگر چندہ مجلس کے بارے میں اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو یہ بھی غلط ثابت ہورہے ہیں.فی زمانہ کم از کم آمدنی تین صد روپے ہے.لیکن یہاں پیش کئے گئے اعداد وشمار کا تجزیہ بتاتا ہے کہ کمانے والے انصار کی اوسط آمدنی اسی روپے فی کس بنتی ہے.جو ہرگز درست اور قابل قبول نہیں.لہذا ایسے اعداد وشمار اپنی رپورٹوں میں درج نہ کریں.فی الحال یہ غلطی عمد انہیں کی گئی بلکہ بے احتیاطی سے ایسا ہوا ہے.لہذا آئندہ زیادہ احتیاط کے ساتھ مجالس کو اعداد شمار تیار کرنا ہوں گے.اگر کوئی عمداً ایسا کر رہا ہے تو یا در کھے کہ خدا تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی.خدا تعالیٰ سے کنجوسی اور بخل کسی طرح بھی راس نہیں آتے.ایسے لوگوں کے نہ تو مال میں

Page 408

۳۸۸ برکت رہتی ہے ، نہ جان میں، نہ اولاد میں.پس ایسی بے شمر زندگی بھی کیا زندگی ہے جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت عطا نہ ہو.زعماء سے خطاب جاری رکھتے ہوئے صدر محترم نے نگران حلقہ جات کے فرائض کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا کہ نگران حلقہ اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ مرکز کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور جو امور چھان بین کے لائق ہوں، موقع پر پہنچ کر ان کی تحقیق کریں.لیکن اگر نگران حلقہ فرضی رپورٹوں کو وصول کر کے اسی طرح آگے مرکز کو ارسال کر دیں تو پھر تو وہ محض ڈاکیہ کا کام سرانجام دے رہے ہوں گے.اگر آپ نگران حلقہ ہیں یا زعیم اعلیٰ یا ناظم ضلع ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ مجالس اور زعماء کے کام کی نگرانی کریں.جو کوائف نیچے سے آئیں ان کی پڑتال کریں که آیا بنیادی کوائف مبنی بر حقیقت ہیں یا نہیں.صدر محترم نے فرمایا یہ سارا بنیادی اہمیت کا کام ہے.اس کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ٹیم ورک ہو.اپنے مددگار بنا ئیں.کام ترتیب سے اور بانٹ کر کریں.اسی طریق کار کے فقدان سے ایک بھاری نقص پیدا ہوتا ہے اور یہ نقص آپ کے ضلع میں بہت نمایاں ہے.صدر محترم نے فرمایا یہ امر لازمی ہے کہ مرکز کی ہدایات آگے مجالس اور ممبران مجالس تک بر وقت پہنچائی جائیں اور انہیں امانت سمجھ کر آگے پہنچایا جائے.عہد یدار چھوٹے ہوں یا بڑے، سب امین ہیں.اگر آپ مرکز کی ہدایات آگے نہیں پہنچاتے تو امانت میں خیانت کے مرتکب ہوں گے.لہذا از عماء کی جواب طلبی سے قبل اس بات کی ضمانت حاصل کرنا ضروری ہے کہ مرکزی لائحہ عمل سب ممبران مجالس تک پہنچ چکا ہے یا نہیں؟ صدر محترم نے فرمایا کہ انصار جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں جو اپنی عمر، اثر ورسوخ، ذمہ داری اور تجربہ کی بناء پر خدمت دین کے لحاظ سے جماعت کی صف اول شمار ہونے چاہئیں لیکن افسوس کہ ضلع سیالکوٹ میں صورتِ حال برعکس نظر آتی ہے اور باوجود اس کے کہ بہت ہی مخلص اور وقت کی قربانی دینے والے دعا گو بزرگ آپ کے ضلع کے ناظم انصار اللہ ہیں لیکن بحیثیت مجلس یہ ضلع بہت پیچھے ہے.یہ امر قابل غور ہے.اللہ تعالیٰ بالعموم چالیس سال سے اوپر کی عمر والوں کو نبوت سے سرفراز فرما تا آیا ہے اور ان پر ذمہ داریوں کا سب سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے.وجہ یہی ہے کہ الا ماشاء اللہ پختگی اور سنجیدگی سے ٹھوس کام کی صلاحیت اس عمر میں پیدا ہوتی ہے اس لئے آپ جماعتی نظام میں اپنی اس اہم مرکزی حیثیت کو سمجھیں اور یہ امر ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر آپ سرگرم عمل ہوں گے اور پورے جوش اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے تو انشاء اللہ تعالی آپ کی اگلی نسل بھی سرگرم عمل رہے گی اور ان کے حسنِ عمل کا ثواب آپ کو بھی پہنچتارہے گا.خطاب جاری رکھتے ہوئے صدر محترم نے مزید فرمایا کہ نبی نوع انسان کی خدمت اور نگرانی کا حق شعبہ

Page 409

۳۸۹ دو اصلاح وارشاد کو سر گرم عمل کرنے سے ہی ادا ہو سکتا ہے.اگر کوئی زعیم دو تین سال کے عرصہ میں بھی کوئی نیا احمدی سرگرم ادا.نہیں بناتا ہے تو وہ خدا کی طرف سے عائد ہونے والے فرض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ہوتا ہے.زعماء کو چاہئے کہ دُعا کے ساتھ فکر کے ساتھ ، دُکھ اور غم سے دل کو جلا کر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگیں، خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہوں.مضطر دل کی دعا میں خدا برکت ڈالتا ہے.اور ہر زعیم کی طرح ہر نگران حلقہ کا بھی فرض ہے کہ دیکھے کیوں انصار نے احمدی نہیں بنارہے؟ صدر محترم نے فرمایا کہ زعماء زمیندارہ حکمت کے اصول کے تحت کام کریں اور جو سلوک آپ اپنی زمینوں سے کرتے ہیں وہی سلوک احمدیت کا بیج بونے کے لئے بنی نوع انسان سے کریں، زمین موجود ہو، پیج موجود ہو لیکن کام نہ ہو تو زمین میں جنگل اُگ آئے گا.خاردار جھاڑیاں اُگ آئیں گی.اسی طرح اگر اپنی بستیوں کے ماحول سے آپ نے غفلت برتی تو غلط فہمیاں، تعصب، ایذا رسانی اور گالیوں کی خاردار جھاڑیاں ہر طرف اُگنے لگیں گی.زمیندارہ اصول یہ ہے کہ اگر زمین کسی کی طاقت سے زیادہ ہو تو وہ ابتداء میں اتنی ہی زمین زیر کاشت لاتا ہے جتنی آسانی کے ساتھ سنبھال سکتا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ سب سے پہلے آسان ، ہموار اور اچھی زمین کو اختیار کرتا ہے.اسی اصول پر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں.اپنے گاؤں میں نسبتا شریف لوگ جو مذہبی دلچسپی رکھتے ہوں اُن کو چن لیں اور تبلیغ شروع کریں.تبلیغ سے جماعت کے خلاف غلط فہمیاں، تعصب اور جہالت دور ہوگی اور رفتہ رفتہ سعید روحیں احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائیں گی.انشاءاللہ صدر محترم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تم اپنی کھیتوں کی ہریالی کے لئے آسمان کی طرف بھی دیکھتے ہو کہ بارش بر سے تو ہماری محنت کو پھل لگے.اوپر کی طرف دیکھنا تمہاری فطرت کے اندر داخل ہے.کچھ دنوں کے اندر اس علاقے میں برسات شروع ہونے والی ہے.جس سے تمہاری مونجی کی فصل ہری بھری ہو جائے گی.تو اگر تم اپنی زمین کے لئے آسمان کی طرف بارش کے لئے دیکھتے ہو تو جماعت کی سرسبزی، ہریالی اور ترقی کے لئے بدرجہ اولیٰ آسمان کی طرف نظر کرنی چاہئے.پس خدا سے ہر آن دعا کرو کہ اے خدا ہماری تبلیغ میں آسمان سے برکت ڈال اور جماعت کو ترقی عطا فرما اور اس کی سرسبزی میں اضافہ کر.آمین.یادرکھو اس سارے علاقہ میں ایک عظیم انقلاب آ سکتا ہے.جماعت کے لئے زمین ہموار ہے.ہمت کرو.کوشش کرو.اپنے فرائض پہچانو اور زمیندارہ اصولوں کو جماعت پر لاگو کرو.پھر آسمان کی طرف نظر اٹھاؤ اور رحمتوں اور فضلوں کی بارش کے لئے عاجزانہ دعائیں کرو.صدر محترم نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں یہ رپورٹ کہ آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں کتنی بیداری پیدا ہوئی؟ کیا کچھ کیا؟ اور کیا نتیجہ برآمد ہوا؟ براہ راست مجھے لکھ کر بھیجیں اور جو حل طلب امور ہوں ان کا ذکر کر کے مشورہ

Page 410

۳۹۰ مانگیں.اس بارہ میں انشاءاللہ مرکز بھی بر وقت رہنمائی کرتا رہے گا.یہ امر بھی نہ بھلائیں.جونگران ہیں اُن سے پوچھا جائے گا.میں نہ پوچھوں گا تو خدا پو چھے گا لیکن دینی ذمہ داریوں میں آپ لازماً اسی طرح جواب دہ ہیں جس طرح میں ہوں.اس مؤثر خطاب کے بعد صد محترم نے اجتماعی دعا کرائی.اسی شام ساڑھے چار سے ساڑھے چھ بجے تک کھلی جگہ پر شامیانوں کے نیچے محفل سوال و جواب کا نہایت دلچسپ دور چلا.درمیان میں آدھ گھنٹہ تک زور دار بارش ہوئی.حاضرین کے ساتھ صدر محترم بھی بارش میں شرابور ہو گئے.مگر دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ محفل مسلسل جمی رہی.شام سواسات بجے رائے پور سے روانہ ہوکررات پونے بارہ بجے ربوہ تشریف لے آئے.اس دورہ میں مکرم منور شمیم خالد صاحب قائد عمومی اور مکرم محمد اسلم صابر صاحب قائد تجنید صدر محترم کے ہمراہ تھے.﴿۲۰﴾ یک روزہ اجتماع ضلع ڈیرہ غازی خان یہ اجتماع مورخه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء بروز جمعہ بمقام ڈیرہ غازی خان منعقد ہوا.مرکز سے دو علماء نے شرکت کی.جمعہ کا خطبہ مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے دیا.جس میں انہوں نے علم و عمل کا فلسفہ سمجھایا.اس سلسلہ میں بہت سی احادیث اور مثالیں دے کر واضح کیا کہ اسلام عمل کا نام ہے.لہذا اسلام کے احکام سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.جمعہ کے بعد باقاعدہ اجلاس تلاوت ، عہد اور نظم سے شروع ہوا.مکرم مولانا حیدرعلی صاحب ظفر مربی سلسلہ نے مقامی تربیت اولاد اور مکرم مولانا منیر الدین احمد صاحب مبلغ سویڈن نے انصار اللہ کی ذمہ داریوں پر تقاریر کیں.بعد ازاں زعماء انصار اللہ کا اجلاس ہوا جس میں مکرم نائب قائد اصلاح وارشاد نے مجالس کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور مناسب ہدایات دیں.چھ بجے بعد دو پہر ایک دوست کے مکان پر علمی مذاکرہ کی محفل ہوئی.احمدی احباب کے علاوہ چھ غیر احمدی سنجیدہ اور صاحب علم دوست بھی موجود تھے.مکرم مولانا غلام باری صاحب سیف نے سوالات کے مدلل اور تشفی بخش جواب دیئے.مہمانوں کی چائے سے تواضع کی گئی.ساڑھے آٹھ بجے مکرم مولانا منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈ ز دکھا ئیں اور تفاصیل بھی بتائیں.اجتماع ہر لحاظ سے کامیاب رہا.تمام مقامی احمدی دوست شامل ہوئے.مستورات ، خدام اور اطفال کے علاوہ ضلع کے دیگر انصار اور خدام نے بھی شرکت کی.مہمانوں کو صبح اور شام کا کھانا بھی پیش کیا گیا.11 سرگودھا شہر میں ایک کامیاب تربیتی اجتماع مورخه ۲۹ مئی ۱۹۸۱ء کو مجلس انصار اللہ سرگودھا شہر ضلع کے زیر اہتمام ایک تربیتی و تبلیغی پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں جملہ مجالس کے زعماء ، علاقائی نگران اور نظامت ضلع کے اراکین عاملہ شریک ہوئے.مکرم صوفی

Page 411

۳۹۱ بشارت الرحمن صاحب کی قیادت میں ایک مرکزی وفد کے پہنچنے پر جس میں مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر قائد اصلاح وارشا د مرکزیہ کے علاوہ چار نائب قائدین بھی تھے ، اس دن کا پہلا پروگرام شروع ہوا.پہلے زعماء نے اپنی اپنی مجالس کے کوائف کار کردگی سے مرکزی نمائندگان کو آگاہ کیا.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے تفصیلی ہدایات دیں اور مجالس کو اپنے ماحول اور قرب و جوار میں تبلیغی وفود بھجوانے کی طرف توجہ دلائی.یہ نشست ساڑھے نو بجے سے دوپہر بارہ بجے تک رہی.اس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا.خطبہ جمعہ مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب قائد وقف جدید نے دیا اور قرآن مجید کی فضیلت اور اس کے علاوہ نظام وصیت میں تمام احمدیوں کو شامل ہونے کی طرف نہایت موثر رنگ میں توجہ دلائی.بعد نماز جمعه مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کی صدارت میں ایک تربیتی وتبلیغی اجلاس شروع ہوا.اس میں درس قرآن مکرم مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلہ مربی سلسله، درس حدیث مکرم مولوی لطیف احمد صاحب شاہد سابق مبلغ سیرالیون اور درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکرم محمد صدیق صاحب نائب ناظم ضلع سرگودھا نے دیا.اس کے علاوہ تین مبلغین مکرم مولوی اللہ بخش صاحب صادق نے ہالینڈ میں تبلیغ مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے انڈو نیشیا میں تبلیغ اور مکرم سید منصور احمد صاحب بشیر نے کینیڈا میں اشاعت قرآن مجید پر روشنی ڈالتے ہوئے ایمان افروز واقعات سنائے.یہ اجلاس تقریباً دو گھنٹے جاری رہا.شام چھ بجے سوال و جواب کی ایک دلچسپ مجلس مکرم محمد اسمعیل صاحب منیر کی صدارت میں شروع ہوئی.سب سے پہلے مہمانوں کی خدمت میں چائے پیش کی گئی.جس کے بعد مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب نے احمد یہ جماعت کا مختصر تعارف کراتے ہوئے حاضرین کو سوالات کی دعوت دی.چنانچہ غیر از جماعت دوستوں نے کثرت کے ساتھ سوالات لکھ کر بھجوائے.ان کے جوابات مکرم صوفی صاحب موصوف ،مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب ،منیر، مکرم مولوی عزیز الرحمن صاحب منگلہ اور مکرم مولوی اللہ بخش صاحب صادق نے دیئے.یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.حاضری یک صد تھی جن میں نصف دوست غیر از جماعت تھے.یہ مجلس مغرب کی اذان پر ختم ہوئی.پروگرام کا آخری اور دلچسپ سلائیڈز کا پروگرام تقریباً آٹھ بجے شروع ہوکر ساڑھے نو بجے شب تک جاری رہا.مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے مختلف سلائیڈز پیش کرتے ہوئے ان پر عمدہ رنگ میں رواں تبصرہ پیش کیا.اس اجلاس میں کم و بیش حاضری چار سو رہی.﴿۲۲﴾ سلائیڈ ز دکھانے کے دلچسپ پروگرام مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نائب قائد اصلاح وارشاد نے مورخہ ۲ جون تا ے جون مجالس منڈی

Page 412

۳۹۲ بہاؤالدین ( شوگر مل ) ، چک نمبر ۲۰ ضلع گجرات ، موضع پیرو اور ہجگہ کا دورہ کر کے کام کا جائزہ لیا.اصلاح وارشاد کے کام میں خصوصی دلچسپی لینے کی طرف توجہ دلائی گئی.نیز چاروں جگہوں پر بعد نماز عشاء سلائیڈز کے پروگرام میں یورپ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف مشنوں کی کارگزاری پر روشنی ڈالی گئی.مساجد کی تعمیر اور افتتاح کی تصاویر بھی دکھائی گئیں.بعض غیر از جماعت دوست بھی تشریف لائے.مستورات کے لئے پردہ کی رعایت سے سلائیڈز دیکھنے کا انتظام تھا.بھائیوالی ( ضلع شیخو پورہ ) میں دلچسپ مجلس مذاکرہ ۱۰ جون ۱۹۸۱ ء موضع بھائیوالی (چک ۷۹ نواں کوٹ) ضلع شیخو پورہ میں ایک دلچسپ مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی جس میں صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی بنفس نفیس شمولیت فرمائی.صدر محترم اس روز چار بجے خانقاہ ڈوگراں پہنچے جہاں مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ اور دیگر احباب جماعت نے آپ کا پر تپاک خیر مقدم کیا.صدر محترم نصف گھنٹہ وہاں قیام کرنے کے بعد بھائیوالی روانہ ہو گئے.وقت مقررہ پر تلاوت قرآن مجید کے ساتھ پروگرام کا آغاز ہوا جس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.گرمی کی شدت کے باوجود سامعین نہایت دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ سوالات کے جواب سے محظوظ ہوتے رہے.یہ سلسلہ پانچ سے آٹھ بجے شام تک جاری رہا.مجلس مذاکرہ میں کثرت کے ساتھ معززین علاقہ بھی شامل ہوئے.نیز سٹھیالی چک ۷۸، چک ۲۶ پکا ڈلہ، چک ۳۵ سوڈی والہ، چورکوٹ ،شاہ کوٹ ، چک ۱۳ ، ڈھاباں سنگھ ، کچھی کوٹھی، چک ۷، چک ۱۰، بڑی تھو تھا نوالہ ، گھسیٹ پورہ، چک (۶۱، چک ۱۸ بہوڑ و چک ۲۲، چوڑانوالہ، گرمولہ ۱۶، کیلے، چھیراں اور شیخو پورہ سے بھی بہت سے احباب تشریف لائے ہوئے تھے.مستورات کے لئے بھی انتظام تھا اور بڑی تعداد میں غیر از جماعت مستورات نے بھی استفادہ کیا.مجلس مذاکرہ کے بعد سب کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.(۶۴) دلچسپ مجالس مذاکرہ اور سلائیڈ ز کی نمائش نمائندہ مرکز یہ مکرم مولوی منیر الدین صاحب سلائیڈز کی نمائش اور محفل سوال و جواب کے لئے سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تشریف لائے.جامع احمد یہ کبوتراں والی سیالکوٹ میں ۱۹ جون ۱۹۸۱ء کو مولوی منیر الدین احمد صاحب نے سلائیڈ ز کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی شاندار مساعی کی روداد اپنی بر حل مفصل کمنٹری کے ساتھ پیش کی.اجلاس میں کثیر تعداد میں غیر از جماعت دوستوں نے شرکت کی.(۶۵) ۲۰ جون کو حلقہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں اور ۲۱ جون کو حلقہ امیر پارک گوجرانوالہ میں پروگرام ہوا

Page 413

۳۹۳ جس میں احباب نے بکثرت شرکت فرمائی.حلقہ سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ۲۵ کے قریب مدعوین شامل تھے جبکہ حلقہ سیٹیلائیٹ ٹاؤن کے ۲۵ مرد اور ۳۰ عورتیں اور بہت سے بچے پروگرام کو دیکھنے آئے.حلقہ امیر پارک میں مجلس مذاکرہ بھی منعقد ہوئی.﴿۲۲﴾ ملتان میں مجلس مذاکرہ کا انعقاد منعقد انصار اللہ ملتان کے زیر اہتمام مجلس مذاکرہ بر کوٹھی مکرم فاروق احمد صاحب کھوکھر ملتان چھاؤنی ہوئی.سوال و جواب کے دو دور ہوئے.پہلا ۲۵ جون ۱۹۸۱ ء کو بعد نماز مغرب تا ساڑھے دس بجے شب اور دوسرا دور ۲۶ جون ۱۹۸۱ء کو حضور انور کے دورہ غانا اور سپین میں سات سو سال کے بعد پہلی احمد یہ مسجد کے سنگ بنیا درکھنے کی تفصیلات پر مشتمل سلائیڈز دیکھنے کے بعد آٹھ بج کر بیس منٹ پر شروع ہو کر ساڑھے دس بجے شب تک جاری رہا.مجموعی طور پر چار سو سے زائد افراد اس روح پرور مذاکرہ سے مستفید ہوئے.ایک سو میں غیر از جماعت دوست تھے.مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نے نہایت فصیح و بلیغ مگر دلنشیں انداز میں سوالات کے جوابات دیئے اور منطقی طور پر ساتھ ساتھ حاضرین سے اپنے استدلال کی حقانیت پر تصدیق حاصل کرتے رہے.مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت نے اپنی تقریر کو اسلاف کی سندات اور قیمتی حوالوں سے مزین کیا.(۶۷) اجلاس مالو کے ضلع سیالکوٹ ۲۸ جون ۱۹۸۱ء کو مسجد احمد یہ مالو کے ضلع سیالکوٹ میں ایک اجلاس زیر صدارت مکرم مولوی منیر الدین احمد صاحب نائب قائد اصلاح وارشاد منعقد ہوا.ناصر احمد صاحب معلم وقف جدید نے جماعت احمدیہ کے عقائد پر تقریر کی.مکرم مولوی منیر الدین صاحب نے سوالات کے جواب دیئے.یہ اجلاس دو گھنٹے جاری رہا.بعد نماز عشاء سلائیڈ ز دکھائی گئیں.احمدی احباب کے علاوہ پچاس غیر از جماعت بھی اجلاس میں شریک ہوئے.﴿۲۸﴾ مجلس سدو کی ضلع گجرات میں مجلس مذاکرہ ۹ اگست ۱۹۸۱ ء ء کو سدو کی میں ایک مجلس مذکراہ زیر صدارت مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ منعقد ہوئی.جو تین گھنٹے تک جاری رہی.اس میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.۶۹ کی مجلس مذاکرہ رحمان پورہ لاہور مورخه ۱۳ اگست ۱۹۸۱ء بروز جمعرات مجلس حلقه رحمان پورہ لاہور کے زیر اہتمام ایک دلچسپ مجلس مذاکرہ کا انعقاد ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو خاص طور پر مرکز سے اس موقع پر مدعو کیا گیا تھا.

Page 414

۳۹۴ آپ کے تشریف لانے پر کارروائی کا آغاز مکرم صدر صاحب حلقہ کی صدارت میں تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو مکرم حفیظ اللہ خان صاحب نے کی.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ موصوف سٹیج پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ جو احباب بھی مذہبی اور اختلافی سوالات کرنا چاہیں کریں.چنانچہ بعض غیر از جماعت احباب نے بالمشافہ اور بعض نے لکھ کر سوالات بھجوائے جن کے صدر محترم نے نہایت احسن پیرایہ میں قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں مدلل و مسکت جوابات دیئے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ اتنا دلچسپ تھا کہ سب حاضرین ہمہ تن گوش رہے اور انہیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ رہا.پونے سات بجے شروع ہونے والی مجلس ساڑھے نو بجے رات تک جاری رہی.تین سو حاضرین میں سے تقریباً ڈیڑھ سو احباب غیر از جماعت تھے.دعا کے ساتھ یہ بابرکت مجلس اختتام پذیر ہوئی.بعد ازاں سب حاضرین کی خدمت میں ماحضر پیش کیا گیا.قریب دو سو پمفلٹ غیر از جماعت دوستوں میں تقسیم کئے گئے.(۷۰) ہفتہ اصلاح وارشاد چهور چک ۱۱۷ مجلس انصار اللہ چهور چک نمبر ۱۱۷ ضلع شیخو پورہ نے مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۸۱ء سے مورخہا استمبر ۱۹۸۱ء تک ہفتہ اصلاح وارشاد منایا.مرکز سے مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب زاہد مبلغ سویڈن تشریف لائے.مکرم مولوی صاحب روزانہ بعد نماز فجر مسجد میں درس قرآن مجید اور بعد از نماز عشاء لیکچر دیتے رہے.جن موضوعات پر لیکچر ہوئے ، یہ تھے.حضرت مسیح موعود کے کارنامے ، صداقت مسیح موعود، انصار اللہ کے فرائض ، نماز ، نظام سلسلہ کی پابندی، تربیت اولاد، دعاؤں کی قبولیت وغیرہ مکرم حافظ محمود احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ سانگلہ ہل نے بھی تقاریر میں حصہ لیا اور مفید ہدایات کے ساتھ تربیتی امور کی طرف جماعت کو خاص توجہ دلائی.بعض تقاریر سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ تمام گاؤں مستفیض ہوا.۱۰ستمبر ۱۹۸۱ ء کی شام کو مرکز سے سلائیڈ ز دکھانے کے لئے مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر ، مکرم مولوی عبدالستار صاحب سابق مبلغ سپین اور مکرم مولوی حبیب اللہ صاحب باجوہ مربی سلسلہ تشریف لائے.بعد نما ز عشاء ایک نہایت موزوں جگہ پر سلائیڈ ز کے دکھانے کا انتظام کیا گیا.حاضری خدا کے فضل سے بہت اچھی تھی جن میں گاؤں کے اکثر مرد اور عورتیں اور بچے شامل تھے.یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.مکرم مولوی عبدالستار صاحب نے تصاویر کے ساتھ ساتھ نہایت دلنشین تشریح اور تفصیل بیان کی.﴿21﴾ چک او متصل خانیوال میں ایک تربیتی تقریب مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی طرف سے ایک وفد ۸ ستمبر کی دو پہر کو خانیوال پہنچا.امیر وفد مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید تھے.تربیتی تقاریب کا اہتمام چک نمبر ۹۱/۱۰.اے.آر

Page 415

۳۹۵ میں کیا گیا تھا.جہاں نماز مغرب تک بفضل خدا قریباً سات سو افراد جمع ہو گئے.مستورات کے لئے پردے کا انتظام تھا اور مقامی جماعت کی طرف سے مہمانوں کے کھانے کا انتظام تھا.مرکزی وفد جماعت مذکورہ میں عصر کے وقت پہنچا.جس کے معاً بعد رُشد و ہدایت کی باتیں سننے کے لئے مقامی اور اردگرد کے چکوک کے لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے چنانچہ درختوں کے ٹھنڈے سایہ تلے حاضرین کو سب سے سے پہلے جماعت احمدیہ کے عقائد سے آگاہ کیا گیا اور اُن کے سوالات کے مفصل جواب مکرم مولانا رحمت اللہ شاہد صاحب مربی سلسلہ خانیوال نے دیئے.بعد نماز مغرب با تصویر تعارفی لیکچر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے دیا.اس دوران تبلیغ حق کے مناظر پیش کئے گئے، جن سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.۷۲ تربیتی اجتماع ضلع بدین استمبر ۱۹۸۱ء کو مجالس انصار اللہ ضلع بدین کا ایک کامیاب تربیتی اجتماع منعقد ہوا.صدر محترم نے اس اجتماع میں شمولیت فرمائی.بدین شہر پہنچنے پر ضلعی عہدیداران و زعماء نے صدر محترم کا پر تپاک خیر مقدم کیا.اجتماع سے قبل آپ نے نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ جمعہ میں آپ نے بتایا کہ احمدیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرتی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ آئندہ احمدیت کے ذریعہ ہی دین حق دنیا میں غالب آئے گا.انشاء اللہ.نماز جمعہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے سورۃ حم السجدہ کی آیت إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَة کی پر معارف تفسیر بیان فرمائی.اس موقع پر ایک مجلس مذاکرہ بھی منعقد ہوئی جس میں صدر محترم نے مہمانوں کے سوالات کے مدلل جواب دیئے.حاضری کے لحاظ سے بھی یہ اجتماع خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا.﴿۳﴾ صدر محترم کا دورہ سیالکوٹ ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ء بروز جمعہ صدر محترم مجلس سیالکوٹ کے دورہ پر تشریف لے گئے.آپ نے جامع مسجد کبوتراں والی میں نماز جمعہ پڑھائی.جس میں ملحقہ دیہات کے بہت سے احباب بھی شامل ہوئے.نماز جمعہ کے بعد صدر محترم نے پہلے تحصیل سیالکوٹ کے زعماء انصار اللہ سے خطاب فرمایا.پھر احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سیالکوٹ کے اراکین سے ملاقات کی اور انہیں قیمتی نصائح سے نوازا.چار بجے سہ پہر مکرم میاں محمد شفیع صاحب کی کوٹھی پر ایک کامیاب مجلس مذاکرہ انصار اللہ سیالکوٹ شہر کے زیر اہتمام منعقد ہوئی.اس میں ایک ہزار کے قریب افراد شامل ہوئے.جن میں وکلاء، تجار، صنعت کار، زمیندار، کالجز کے طلباء اور دیگر تعلیم یافتہ دوست شامل تھے.مہمانوں کے تحریری سوالات کے جواب صد محترم نے نہایت مدلل اور مؤثر انداز میں دیئے.آپ ہر سوال خود پڑھ کر سناتے.اگر اس میں کوئی کمی ہوتی تو اسے خود پورا کرتے

Page 416

۳۹۶ اور پھر نہایت دلچسپ رنگ میں اس کا جواب دیتے.حاضرین مجلس جوابات سے بہت متاثر ہوئے.۷۴ ) اجلاس گوجرانوالہ مجالس گرمولا ور کاں اور نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ کا تربیتی اجلاس ۲۰ ستمبر ۱۹۸۱ء کو بعد نماز مغرب گرمولا در کاں میں ہوا.مکرم عبد القادر بھٹی صاحب ناظم ضلع اور مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر مربی ضلع نے تقاریر کیں.اس موقع پر سلائیڈ ز بھی دکھائی گئیں.﴿20﴾ ضلع راولپنڈی کا سالانہ تربیتی اجتماع ۲۴ ۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ء کو مجالس انصار اللہ ضلع راولپنڈی کا سالانہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا.محترم صدر صاحب مجلس نے اس اجتماع میں شمولیت فرمائی.حاضری چار سو رہی.مجالس کی نمائندگی سو فیصد تھی.بڑی تعداد میں خدام بھی شامل ہوئے.اجتماع کے کل پانچ اجلاس ہوئے.۲۴ ستمبر کو پانچ بجے شام پہلا اجلاس زیر صدارت مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد عہد دہرایا گیا.پھر نظم پڑھی گئی جس کے بعد صاحب صدر نے افتتاحی خطاب فرمایا پھر مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت راولپنڈی نے خطاب فرمایا.دوسرا اجلاس ساڑھے سات بجے شام مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب امیر جماعت اسلام آباد کی صدارت میں شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد کرنل دلدار احمد صاحب ناظم ضلع راولپنڈی نے تربیت اولا داور مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر مبسوط تقریر فرمائی.۲۵ ستمبر کی صبح کونماز تہجد باجماعت ادا کی گئی.سوا پانچ بجے تیسرا اجلاس مکرم مرزا مبارک بیگ صاحب زعیم اعلی راولپنڈی شہر کی صدارت میں شروع ہوا.درس قرآن کریم مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب صادق مربی سلسلہ راولپنڈی نے ، درسِ حدیث مکرم مولوی دین محمد صاحب شاہد مربی سلسلہ واہ کینٹ نے اور درس ملفوظات حضرت مسیح موعود مکرم کرامت اللہ صاحب مربی سلسلہ گوجرخان نے دیا.ناشتہ کے بعد ساڑھے آٹھ بجے چو تھا اجلاس مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب قائد تحریک جدید کی صدارت میں شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد مکرم مولوی اللہ بخش صاحب صادق نے ” جماعت احمدیہ کے قیام کے مقاصد پر تقریر فرمائی.پھر مکرم مولوی دین محمد صاحب شاہد نے قدرت ثانیہ کی اہمیت“ کے موضوع پر خطاب کیا.گیارہ بجے یہ اجلاس ختم ہوا.طعام اور نماز جمعہ کے بعد آخری اجلاس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کی زیر صدارت شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم اور عہد کے بعد صدر محترم نے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے انصار

Page 417

۳۹۷ میں انعامات تقسیم فرمائے.ازاں بعد مکرم کرنل دلدار احمد صاحب ناظم ضلع نے سالانہ رپورٹ کارگزاری پیش کی.حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہایت ایمان افروز خطاب میں فرمایا کہ راولپنڈی کا ضلع بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی کی کارکردگی توقع سے بہت کم ہے.آپ نے فرمایا گذشتہ سال کی طرح امسال کے اجتماع میں خدا کے فضل سے انصار و خدام نے جوش اور شوق کے ساتھ حصہ لیا ہے جو بہت خوشکن امر ہے.اب عہدیداران مجالس کا فرض ہے کہ وہ اس بیداری سے فائدہ اٹھائیں.مسلسل کوشش کریں تا کہ خاطر خواہ نتائج پیدا ہوسکیں.آپ نے فرمایا جو لوگ اصلاح وارشاد کے فریضہ سے غافل ہو جاتے ہیں ، وہ اپنے آپ کو اور اپنی اولا د کو نام کے احمدی کہلانے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس طرح مجاہدانہ زندگی گزارنے سے محروم ہو جاتے ہیں.آخر میں آپ نے نصیحت فرمائی کہ ضلع راولپنڈی کے انصار اور اس کے عہدیدار اپنے ارادوں اور حوصلوں میں وسعت پیدا کریں اور مجالس کے پروگرام کو اپنے طور پر نئے سرے سے منظم کریں تا کہ انصار زیادہ عمدگی کے ساتھ کام کر سکیں اور اپنے آپ کو وسعت دے سکیں.آخر میں آپ نے اختتامی دعا کرائی.نماز عشاء کے بعد مسجد نور میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.جس میں صدر صاحب نے مختلف احباب کے تحریری سوالات کے نہایت مؤثر ، مدلل اور ایمان افروز جوابات دیئے.اس مجلس میں تین سواسی احباب شامل ہوئے.جن میں اسی سے زائد غیر از جماعت معززین بھی تھے.انہوں نے بہت توجہ اور انہماک کے ساتھ سوالات کے جوابات سنے.آخر میں بذریعہ سلائیڈ ز بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی مساعی اور اس کے خوشکن ثمرات کی چند جھلکیاں پیش کی گئیں.﴿21﴾ تربیتی اجتماع کوئٹہ مجالس انصار اللہ کوئٹہ کا سالانہ تربیتی اجتماع ۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ء کو بعد نماز جمعہ منعقد ہوا.صدارت کے فرائض مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ( مرکزی نمائندہ ) نے سرانجام دیئے.تلاوت قرآن کریم کے بعد عہد دوہرایا گیا.صاحب صدر نے اپنی افتتاحی تقریر میں تربیت اولاد کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.مکرم مولوی محمد بشیر صاحب شاد مربی سلسلہ نے تبلیغ کے دوران اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید و نصرت کے واقعات بیان کئے.مکرم مولوی روشن دین صاحب مربی سلسلہ نے ذکر الہی اور دعا کی اہمیت کے موضوع پر اور مکرم مولوی سفیر احمد صاحب نے آئندہ نسل کی تربیت کے زیر عنوان خطاب کیا.اجتماع کا آخری نصف گھنٹہ سوال و جواب کے لئے مخصوص تھا.سوالات کے جواب مکرم شیخ محمد حنیف صاحب ، مکرم سیف صاحب اور مکرم مولوی روشن دین صاحب نے دیئے.سوال و جواب کا یہ پروگرام بھی بہت مفید اور دلچسپ رہا.۲۵ ۲۶ ستمبر کو مختلف احمدی دوستوں کے ہاں بھی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں بہت سے معززین مدعو

Page 418

۳۹۸ تھے.ان تقاریب میں سوال و جواب کے علاوہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی سے متعلق سلائید بھی دکھائی گئیں جن کا بہت اچھا اثر لیا گیا.گوٹھ عنایت اللہ ضلع سکھر میں تربیتی اجتماع مجلس گوٹھ عنایت اللہ ضلع سکھر کے زیر اہتمام ایک تربیتی اجتماع مورخه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ بروز جمعہ صبح نو بجے زیر صدارت مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت ضلع سکھر و جیکب آباد منعقد ہوا.تلاوت کلام پاک مکرم چوہدری غلام محمد صاحب صدر جماعت احمد یہ چک ۳۲ نے کی اور نظم مکرم مبارک احمد صاحب بھٹی نے خوش الحانی سے پڑھی.درس قرآن کریم مکرم حمید اللہ صاحب خالد مربی سکھر نے اور درس حدیث مکرم مولوی نذیر احمد صاحب ریحان مربی رحمن آباد ضلع نواب شاہ نے دیا.اس کے بعد مکرم فیروز احمد صاحب طارق قائد ضلع سکھر نے کشتی نوح سے ہماری تعلیم کا حصہ پڑھ کر سنایا.مکرم رشید احمد صاحب قائد مجلس اباڑو نے نظم پڑھی.مکرم مولوی نذیر احمد صاحب ریحان نے سیرت رسول پاک پر سندھی زبان میں تقریر فرمائی.اس کے بعد چند اطفال کی دلجوئی کے لئے انہیں چھوٹے چھوٹے مضامین پڑھنے کی اجازت دی گئی.مکرم بے وس کملا صاحب سرائیکی شاعر ڈیرہ غازی خاں نے سرائیکی زبان میں نعت رسول مقبول پڑھی.مکرم محمد ارشد صاحب قائد مجلس گوٹھ عنایت اللہ نے نماز کا ترجمہ سندھی زبان میں سنایا اور مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض اور ہمارے فرائض پر تقریر کی.پروگرام کے مطابق ایک گھنٹہ سوال و جواب کے لئے مقرر تھا.اس میں حاضرین نے بڑے شوق کے ساتھ حصہ لیا اور متعد د سوالات کئے جن کے جوابات علمائے کرام نے احسن پیرایہ میں دیئے.ساڑھے بارہ بجے سے لے کر ڈیڑھ بجے تک کھانے اور تیاری نماز کا وقفہ تھا.نماز جمعہ کے بعد دوسرا اجلاس بھی مکرم امیر صاحب کی صدارت میں تلاوت کلام پاک سے اڑھائی بجے شروع ہوا جو مکرم رشید احمد صاحب نے کی.اس کے بعد حضرت مصلح موعود کی مشہور نظم ” ہے دست قبلہ نما لا الله إلا الله ، مکرم مبارک احمد صاحب بھٹی اور چند اطفال نے خوش الحانی سے پڑھی.بعدہ دو خدام مکرم عبدالقادر صاحب اور مکرم رشید احمد صاحب نے علی الترتیب صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وفات مسیح ناصری علیہ السلام پر مضمون پڑھے.مکرم کملا صاحب نے متعد د نظمیں سنا کر حاضرین کو محظوظ کیا.مکرم سلیمان احمد صاحب مربی سلسلہ رحیم یار خاں نے مقصد حیات انسانی پر تقریر کی.مکرم امیر صاحب نے حضور انور کے خطبہ جمعہ کی روشنی میں تلقین کی کہ حضور کی دلی خواہش کے مطابق تمام ذیلی تنظیموں کے نمائندے مرکزی اجتماعات میں ضرور شامل ہوں اور کوئی ایسی جماعت نہ رہے جس کی ان اجتماعات میں نمائندگی نہ ہو.اجتماع میں گوٹھ عنایت اللہ کے انصار ، خدام اطفال اور مستورات کے علاوہ اباڑو، ایکسون ڈہر کی، "

Page 419

۳۹۹ میر پور تھیلو، پنو عاقل ،سکھر، گڈو اور چک ۳۲ ضلع رحیم یار خان کے احباب نے بھی شرکت کی.کئی غیر از جماعت سندھی احباب بھی شریک ہوئے اور بڑے ذوق اور شوق سے پروگرام کو سنا اور خوشگوار اثر لیا.یہ اجتماع ساڑھے چار بجے شام دعا پر اختتام پذیر ہوا.کھانے اور نماز عشاء کے بعد گیارہ بجے شب تک سوال و جواب کا دلچسپ پروگرام رہا.صبح چار بجے نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی جو مکرم حمید اللہ صاحب خالد مربی سلسلہ نے پڑھائی.﴿۷۷﴾ حلقہ سمندری کے تربیتی اجلاس ۲۵ ستمبر ۱۹۸۱ء بروز جمعتہ المبارک مسجد احمد یہ سمندری میں ایک تربیتی جلسہ منعقد ہوا.مرکزی نمائندہ مکرم حمید احمد صاحب ظفر مبلغ گھانا نے خطبہ جمعہ میں باہمی اخوت و محبت، محنت اور لگن کی طرف توجہ دلائی.نماز جمعہ وعصر کی ادائیگی کے بعد ا جلاس عام منعقد ہوا.تلاوت قرآن پاک اور عہد کے بعد مکرم چوہدری احمد دین صاحب ناظم ضلع فیصل آباد نے انصار اللہ کے قیام کی غرض و غایت اور ہماری ذمہ داریاں پر روشنی ڈالی.مکرم محمد اکرم عمر صاحب نے قرآن کریم و احادیث کی روشنی میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور علامات قیامت پر تقریر کی.مکرم مولوی حمید احمد صاحب ظفر نے گھانا کی احمدی جماعتوں کے ایمان افروز حالات سنائے.اس اجلاس میں سمندری کے علاوہ چک نمبر ۲۰۳، چک ۵۲، چک ۲۰۹، چک ۱۳۷، چک ۱۳۴، چک ۲۱۰، چک ۵۲۸، مانو پور چک ۴۱ جگد یو، چک ۲۸۹، چک ۲۷۱ ، ماموں کانجن اور تاندلیانوالہ کے انصار ، خدام اور اطفال شامل ہوئے.چک ۴۷۱ گ ب میں سلائیڈز کا پروگرام بعد نماز مغرب وعشاء شروع ہوا.مکرم چوہدری غلام محی الدین صاحب نمبر دارصدر جماعت کے وسیع صحن میں انتظام تھا.گاؤں کے چیئر مین اور ممبران کے علاوہ بہت سے معزز دوست بھی پروگرام دیکھنے کے لئے تشریف لائے اور دو گھنٹے تک دلچسپی اور دلجمعی سے تصاویر دیکھیں.سلائیڈز کے ساتھ ساتھ جماعت کی تبلیغی مساعی سے تعارف کروایا جاتا رہا.۸ ضلع گوجرانوالہ کا سالانہ تربیتی اجتماع ۱۲ کتوبر ۱۹۸۱ ء کو مجالس ضلع گوجرانوالہ کا سالانہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا.پہلا اجلاس مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر ضلع کی زیر صدارت صبح پونے دس بجے شروع ہوا.تلاوت نظم اور عہد کے بعد مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر قائد اصلاح وارشاد نے افتتاحی تقریر میں ایسے اجتماعات کی غرض وغایت بیان کی اور انصار کو نئے عزم کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کی.مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب اکبر نے درسِ قرآن دیا جس میں سورۂ جمعہ کی آیت نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کی تفسیر بیان کی.تیسری تقریر مکرم مولوی مغفور احمد صاحب مربی سلسله حافظ آباد نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ، چوتھی تقریر مکرم مولوی محمد اعظم صاحب

Page 420

۴۰۰ اکسیر مربی ضلع نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے جانشین ، پانچویں تقریر مکرم مولوی نصیر الدین صاحب بھٹی نے تعلیم القرآن اور چھٹی تقریر مکرم سید حسین احمد صاحب مربی وزیر آباد نے نماز با جماعت کے موضوع پر کی.اس کے بعد تلاوت قرآن کریم ، تقاریر اور دینی معلومات کے مقابلے ہوئے.آخر میں مکرم عبدالقادر بھٹی صاحب ناظم ضلع نے انصار اللہ کی ذمہ داریاں" کے موضوع پر تقریر کی.کھانے کے بعد نماز جمعہ وعصر پڑھی گئی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا کے حکم کی تشریح فرمائی اور احباب کو اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی.اجلاس دوم کی کارروائی صدر محترم کی زیر صدارت عمل میں آئی.تلاوت نظم اور عہد کے بعد مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے احباب کو اصلاح وارشاد کے پروگرام پر عمل کرنے کی تلقین کی جبکہ مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر نے ” قدرت ثانیہ کے موضوع پر تقریر کی.آخر میں صدر محترم نے انعامات تقسیم فرمائے اور اپنے خطاب میں انصار کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.آپ نے اس ضمن میں مختلف مثالیں بیان فرمائیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خود لوگوں کی رہنمائی بذریعہ خواب و کشوف فرما رہا ہے.آخر میں صدر محترم کے ارشاد پر مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے دعا کروائی.یہ اجلاس پانچ بجے ختم ہوا.تیسرا اجلاس مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب امیر ضلع کی کوٹھی پر بعد نماز مغرب وعشاء منعقد ہوا.اس میں ڈیڑھ صد کے قریب معززین موجود تھے.رات دیر تک مجلس مذاکرہ جاری رہی.مختلف احباب نے سوالات کئے جن کے جواب حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہایت احسن رنگ میں بیان فرمائے.جس کا سب احباب پر بہت اچھا اثر ہوا.۷۹ صدر محترم کا دورہ گوجرہ ۱۲ اکتوبر بروز جمعتہ المبارک مجلس مرکزیہ کے مجوزہ پروگرام کے مطابق مسجد احمد یہ گوجرہ میں ایک اجتماع منعقد ہوا.جس میں مقامی اور مضافات کے احمدی حضرات و خواتین نے شرکت کی.حاضرین کی تعداد انداز آ پانچ سوتھی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے نماز جمعہ پڑھائی.آپ نے خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے پر ایک پُر معارف وعظ فرمایا اور حاضرین کو کثرت سے ذکر الہی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات سے کو لگانے کی تلقین فرمائی.آپ نے نہ صرف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال و افعال کی روشنی میں بلکہ خود اپنی ذاتی زندگی سے بھی یہ حقیقت ثابت فرمائی کہ جو اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے، ساری دنیا اس کی ہو جاتی ہے.آپ نے فرمایا.کسی کام کے لئے محض دنیاوی اسباب پر سہارا رکھنا ایک احمدی کی شان نہیں ہے.ایک احمدی کی شان اسی میں ہے کہ وہ صرف اپنے خدا سے ہی رجوع کرے اور اس سے سب کچھ مانگے.

Page 421

۴۰۱ اپنی ہر تکلیف یا حاجت اس کے حضور پیش کرے.اس سے حاجت روائی کی توقع رکھے.بے شمار نوافل اور بے شمار ذکر الہی کے ساتھ بے شمار درود و سلام بحضور نخر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے اور دیکھے کہ یہ چیزیں اسباب سے زیادہ اثر کرتی ہیں.نماز جمعہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان غیر از جماعت دوستوں سے ملاقات کی جو مربی ہاؤس میں تشریف فرما تھے اور جن کی تعداد میں تک پہنچ گئی تھی.ان میں ایک مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر، ایک کالج کے لیکچرر اور نیشنل بنک کے مینیجر بھی تھے.آپ نے یہاں سوالات کے مدلل اور مبسوط جواب دیئے.نماز مغرب سے قبل آپ کو الوداع کہا گیا اور آپ کی تشریف آوری پر خیر مقدمی دلچسپ نظم خوب صورت فریم کی صورت میں پیش کی گئی جو مکرم سید احسن اسماعیل صاحب صدیقی نے کہی تھی مگر وقت کی قلت کے باعث سنائی نہ جاسکی.(۸۰) صدر محترم کی تخت ہزارہ میں تشریف آوری مورخها نومبر ۱۹۸۱ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نصیر پور خورد ( حلقہ تخت ہزارہ) میں پہلی مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد شام ساڑھے چار بجے تخت ہزارہ میں رونق افروز ہوئے.مسجد احمدیہ کے سامنے سینکڑوں بچوں اور بڑوں نے پر جوش نعروں کے ساتھ استقبال کیا.حضرت میاں صاحب نے پہلے استقبال کرنے والے احباب کو شرف مصافحہ سے نوازا.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا.نظم کے بعد مکرم مولا نا عزیز الرحمن صاحب منگلا مربی سلسلہ ضلع سرگودھا نے قبول احمدیت کے نہایت دلچسپ واقعات سنائے.اس کے بعد حضرت میاں صاحب نے نصف گھنٹے تک خطاب فرمایا بعدہ آپ نے سوالات کے بڑی تفصیل کے ساتھ تسلی بخش جوابات دیئے.نمازوں کے بعد مکرم بشیر احمد شاد صاحب نے شعائر اسلامی اور جماعتی مساعی سے متعلق سلائیڈ ز دکھا ئیں.یہ پروگرام بڑا ایمان افروز اور دلچسپ رہا.دعا کے معا بعد قریباً آٹھ بجے رات تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.اس تقریب میں نصیر پور ، ہلال پور، اور حمہ، بھا بھڑا، رکھ چراہ گاہ، کوریکوٹ ، چھنی تاجہ ریحان، مڈھ رانجھا، کوٹ مومن اور سرگودھا کے احباب نے بڑی کثرت کے ساتھ شرکت کی.کل حاضری ساڑھے پانچ سو رہی.مخصوص حالات کے باوجود بعض غیر از جماعت دوست بھی شریک ہوئے.۸۱ ) سعد اللہ پورضلع گجرات میں صدر محترم کا ورود گجرات سے قریب بارہ میل کے فاصلہ پر سعد اللہ پور میں جماعت نے اپنی نئی مسجد تعمیر کی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس، مقامی جماعت کی درخواست پر اس کے افتتاح کے لئے۱۳ نومبر ۱۹۸۱ بروز جمعہ تشریف لے گئے.اس گاؤں میں اس سے پہلے مسجد مشترکہ تھی.جب جماعت نے مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا تو

Page 422

۴۰۲ غیر از جماعت کہتے تھے تم آجکل کے حالات کی وجہ سے چبوترہ بھی نہیں بنا سکتے.سب سے پہلے ایک مخلص دوست نے دس ہزار روپے کی خطیر رقم پیش کر دی.پھر کیا تھا ؟ مستورات نے کانوں سے بالیاں اور زیوارت اتار دیے اور دواڑھائی لاکھ روپے کے خرچ سے ایک خوبصورت، وسیع اور عالی شان مسجد تعمیر ہو گئی.صدر محترم کے ورود کی وجہ سے لوگ گھروں سے نکل کر پختہ سڑک پر سرخ گلاب کے پھولوں کے ہار لے کر دو رویہ کھڑے تھے.گاؤں میں مستورات چھتوں پر سے یہ ایمان پر ور نظارہ دیکھ رہی تھیں.اس موقع پر غیر از جماعت بھی کافی تعداد میں مدعو تھے.خطبہ جمعہ میں حضرت میاں صاحب نے جماعت کو توجہ دلائی کہ اس مسجد کی آبادی تقوی، ذکر الہی اور نماز کی پابندی سے کرو.ہمارے لئے تو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زمین کو ہی مسجد قرار دیا ہے.جمعہ کے بعد مجلس مذاکرہ میں صدر محترم نے احباب کے سوالات کے جوابات دیئے.یہ مجلس نماز مغرب تک جمی رہی.عشاء کے بعد دوسرا اجلاس ہوا جس میں مرکزی نمائندہ نے مقام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا درس دیا.﴿۸۲ ملتان میں ایک کامیاب علمی مجلس کا انعقاد مجلس انصار اللہ ضلع ملتان نے صدر محترم کے سفر کراچی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی اجازت سے ۱۵نومبر ۱۹۸۱ء کو ملتان میں ایک علمی وتربیتی نشست کا انعقاد کیا.جس میں صدر محترم نے شرکت فرما کر احباب جماعت کو ایک بصیرت افروز خطاب سے نوازا.آپ نے فرمایا کہ کمز ور ا حباب کو بار بار تلقین کرتے رہنے، رابطہ کی مہم کو استقلال سے جاری رکھنے، مراکز نماز کو آباد کرنے اور محبت و شفقت، حکمت اور ہمدردی سے اصلاح وارشاد کے اہم اور بنیادی کام کرتے رہنے سے ہی مثبت اور بہتر نتائج پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح جماعت میں سستیاں دور ہو کر مجموعی بیداری اور ترقی کی راہیں استوار ہوتی ہیں.اس پر اثر خطاب کے بعد سوال و جواب کا نہایت دلچسپ سلسلہ دو گھنٹے تک جاری رہا جس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے معزز دوست شامل ہوئے.تمام احباب محترم صدر صاحب کے علمی اور تحقیقی جوابات سے مطمئن ہمسرور اور محظوظ ہوئے.﴿۸۳﴾ سالانہ اجتماع ضلع کراچی ضلع کراچی کا تربیتی سالانہ اجتماع ۲۰ نومبر بروز جمعه مسجد احمدیہ مارٹن روڈ میں منعقد ہوا.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس اجتماع میں شرکت کے لئے تشریف لائے.پہلے اجلاس کا آغاز صدر محترم کی صدارت میں تلاوت قرآن مجید سے ہوا.اس کے بعد صدر محترم نے علم انعامی لہرایا جو ضلع کراچی کی مجلس عزیز آباد کو ملا تھا.ازاں بعد انصار نے عہدد ہرایا.چھ میں سے پانچ مجالس کے زعماء اعلیٰ نے اپنی اپنی مجلس کی

Page 423

۴۰۳ گزشتہ دس ماہ کی کارگزاری کی رپورٹیں پیش کیں.صدر محترم نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس امر پر خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ مجلس انصار اللہ کی سرگرمیوں میں خدا کے فضل سے بہت اضافہ ہو چکا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک مثلاً انڈونیشیا، گھانا، نائیجیریا وغیرہ میں بھی انصار کی تنظیمیں فعال ہو چکی ہیں.آپ نے اس قسم کے دینی اجتماعات کی برکات کا خاص طور سے ذکر کیا اور نصیحت کی کہ ان میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرنی چاہئے اور دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.صدر محترم کے افتتاحی خطاب کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اختتامی خطاب بر موقع مرکزی سالانہ اجتماع کی ریکارڈنگ احباب کو سنائی گئی.احباب نے انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے پیارے امام کے ارشادات سنے.ازاں بعد مکرم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر صاحب حیدر آباد نے امراض چشم کے متعلق تقریر کی اور سوالات کے جوابات دئیے.نماز جمعہ کے بعد دوسرا اجلاس مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد صدر محترم، مکرم چوہدری احمد مختار صاحب اور مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ نے سوالوں کے جوابات دیئے.اس کے بعد مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب مربی سلسلہ نے اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام“ کے موضوع پر تقریر کی.چائے کے وقفے کے بعد مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور نے حالات حاضرہ میں اصلاح وارشاد کی ذمہ داریوں پر احباب سے خطاب کیا.اجتماع کے تیسرے اور آخری اجلاس کی صدارت صدر محترم نے فرمائی.تلاوت و نظم کے بعد مکرم چوہدری احمد مختار صاحب نے قبولیت دعا پر اظہار خیال کیا.اس کے بعد صدر صاحب نے انعامات تقسیم کئے اور اپنے اختتامی خطاب میں تربیت، قیام عبادت اور اصلاح و ارشاد کی طرف خاص طور سے توجہ دلائی.آپ نے فرمایا کہ دعا کی عادت ڈالیں کیونکہ ہمارا سارا دارومدار ہی دعا پر ہے.تقویٰ بہت بڑی نعمت ہے.اس کے حصول کے لئے بھی خاص جد و جہد کی ضرورت ہے.فرمایا کہ اصلاح وارشاد کے لئے فضا بڑی سازگار ہے اس لئے اس طرف پوری توجہ دیں اور اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیں.مجالس مذاکرہ منعقد کریں جن میں نو جوانوں کو مدعو کریں کیونکہ نو جوانوں میں قبولیت حق کی زیادہ جرات ہوتی ہے.(۸۴) سالانہ اجتماع و پکنک مجلس اسلامیہ پارک لاہور مجلس اسلامیہ پارک لاہور کا سالانہ اجتماع اور پکنک ۲۰ نومبر ۱۹۸۱ء کوٹیشنل راوی پارک لاہور میں منعقد ہوئے.اجتماع میں ورزشی مقابلے بھی کروائے گئے.مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب نے خطاب فرمایا اور سوالات کے جوابات دیئے.خطبہ جمعہ میں مکرم مولانا صاحب نے ترقی احمدیت کا تابناک پہلو اجاگر کیا.نماز جمعہ

Page 424

۴۰۴ کے بعد مکرم مولانا محمد بشیر شاد صاحب نے سلائیڈ ز دکھا ئیں.ناظم ضلع لاہور مکرم عبد اللطیف ستکوہی.انصار کو چند نصائح کیں.بعد از دعا یہ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا.اجتماع مجالس گوجرانوالہ ۱۹۸۲ء ۲۵ فروری ۱۹۸۲ ء کوگر مولاور کاں ضلع گوجرانوالہ میں مجالس گر مولاور کاں ، نوشہرہ ورکاں اور تتلے عالی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر نے تربیت اولاد کے موضوع پر تقریر فرمائی.مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب نے انصار اللہ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.بعد ازاں مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر قائد اصلاح وارشاد نے بذریعہ سلائیڈ لیکچر دیا جو ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہا.پانچ صد کے قریب انصار، خدام مستورات و دیگر احباب نے سلائیڈ ز دیکھیں.۲۶ فروری نماز مغرب کے بعد مسجد احمد یہ باغبان پورہ گوجرانوالہ میں مکرم مولوی صاحب موصوف نے بذریعہ سلائیڈ لیکچر دیا جس میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی دربارہ مصلح موعود کو تصویری رنگ میں پیش کر کے صداقت حضرت مسیح موعود ثابت کی.دنیا پور ضلع ملتان میں مجلس مذاکرہ مورخه ۱۰ مارچ بروز بدھ دنیا پور ضلع ملتان میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس ساڑھے دس بجے صبح دنیا پور تشریف فرما ہوئے تو کثیر احباب نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا.مکرم صاحبزادہ صاحب نے تمام حاضرین کو مصافحہ اور معانقہ سے سرفراز فرمایا.ساڑھے گیارہ بجے مجلس مذاکرہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.سامعین نہایت دل جمعی ، سکون اور انہماک سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے محققانہ جوابات سے حظ اٹھاتے رہے.یہ پُر لطف اور دلچسپ مجلس اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی.پچاسی غیر از جماعت احباب اس محفل میں شریک ہوئے.بعد میں تمام حاضرین کو پُر تکلف کھانا پیش کیا گیا.(۸۵) تربیتی جلسہ گوٹھ علم دین ۱۹ مارچ ۱۹۸۲ء کو تین بجے بعد دو پہر مجلس انصار اللہ گوٹھ علم الدین ضلع تھر پارکر (سندھ ) کا ایک تربیتی جلسہ ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد ملک سلطان احمد صاحب معلم وقف جدید نے جماعت احمدیہ کے عقائد بیان گئے.مکرم فضل الدین صاحب طارق کنری نے احمدیت کی صداقت پر تقریر فرمائی.مکرم عبدل خان صاحب سندھی

Page 425

۴۰۵ نے سندھی زبان میں تقریر کی.اس کے بعد سوالات کا موقعہ دیا گیا جن کے تسلی بخش جواب دیئے گئے.آخر میں گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک مجلس مذاکرہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کے خطاب پر مشتمل کیسٹ سنائی گئی.یہ اجلاس چھ بجے شام تک جاری رہا.دوسرا اجلاس بعد نماز عشاء منعقد ہوا جس میں مکرم عبدل خان سندھی نے اپنے قبول احمدیت کے دلچسپ واقعات سنائے.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تقریر بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء بھی سنائی گئی.﴿۸۶ سالانہ اجتماع ضلع گجرات مجالس انصاراللہ ضلع گجرات کا دوروزہ سالانہ اجتماع ۸ - ۱۹ اپریل ۱۹۸۲ء کو جماعت احمد یہ کھاریاں کی نئی تعمیر شدہ مسجد میں منعقد ہوا.محترم صدر صاحب انصار اللہ مرکز یہ اجتماع میں شمولیت کے لئے مرکز سے تشریف لے گئے.خدام واطفال کے علاوہ ضلع کی اکسٹھ میں سے تینتالیس مجالس کے تین سو انصار نے شرکت کی.صدر محترم نے اپنے افتتاحی خطاب میں جماعت احمد یہ کھاریاں کی نئی وسیع مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار فرمایا لیکن یہ بھی فرمایا کہ مسجد کو تفاخر کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ یہ تقوی اللہ کے حصول کا ذریعہ ہے اور عبادت الہی کے لئے بنائی جاتی ہے.اس لئے اس کی تعمیر کے بعد اس کو آباد کریں اور اس کو نمازیوں سے بھر دیں.آپ نے اپنے خطاب میں نمازوں کی بالالتزام ادا ئیگی پر بہت زور دیا.آپ نے جماعت کی تمام تنظیموں کو توجہ دلائی کہ وہ باہم مل کر با جماعت نمازوں کا انتظام کریں اور اس کے لئے بھر پور کوشش کریں.تربیت کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کے ہر فرد کو نماز اور اس کا ترجمہ آنا چاہئے.کیونکہ جب تک سوچ سمجھ کر نماز ادا نہ کی جائے اس وقت تک خدا سے انسان کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا.نماز سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے آپ نے مجالس کو اپنے ہاں نماز مع ترجمہ اور اس کے مختصر مسائل پر مشتمل کیسٹ تیار کر کے ان کی اشاعت کی طرف بھی توجہ دلائی.اس ضمن میں آپ نے مرکز میں تیار ہونے والی کیسٹ کے بارے میں بھی حاضرین کو مطلع کیا.عبادت اور نماز کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے صدر محترم نے فرمایا کہ اس کے ذریعہ سے انسان کا خدا سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اور جب اس کا خدا سے تعلق قائم ہو جائے تو پھر اسے مخلوق خدا کی محبت بھی حاصل ہو جاتی ہے.جماعت کو اس وقت دو بنیادی باتوں کی اشد ضرورت ہے یعنی نمازوں اور ذکر الہی کے ذریعہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کیا جائے اور بنی نوع انسان کی خدمت کی جائے.آپ نے تبلیغ کے اہم فریضہ کی طرف احباب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا جب مذکورہ بالا باتیں آپ میں پیدا ہو جائیں گی تو پھر تبلیغ خود بخود ہوتی چلی جائے گی اور جماعت ترقی کرے گی اور دنیا کی کوئی طاقت جماعت کی ترقی کو روک نہیں سکے گی.بعد ازاں مکرم مولانا

Page 426

۴۰۶ دوست محمد صاحب شاہد نے سیرۃ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم پر دلکش انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.ساڑھے چار بجے اجلاس اوّل ختم ہوا.قریباً پانچ بجے سہ پہر ایک احمدی دوست کے احاطہ میں مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی جس میں ساٹھ کے قریب غیر از جماعت دوست بھی شریک ہوئے.حاضرین کی طرف سے متعددسوالات کئے گئے جن کےحضرت صاحبزادہ صاحب نے مدلل اور تشفی بخش جواب دیئے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ نماز مغرب تک جاری رہا.نماز مغرب وعشاء کے بعد حاضرین کو تبلیغی سلائیڈ ز دکھلائی گئیں.ناظرین میں تین سواحمدی احباب کے علاوہ میں غیر از جماعت دوست بھی تھے.مکرم افتخار احمد صاحب کے مکان پر صدر محترم کے ساتھ کھانے پر چھپیس غیر از جماعت دوست بھی مدعو تھے.بعد از طعام سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ساڑھے دس بجے تک جاری رہا.سوال پوچھنے والوں میں دو غیر از جماعت علماء بھی شامل تھے.اس دلچسپ محفل کے ختم ہونے کے بعد صدر محترم جہلم تشریف لے گئے.اگلے دن پونے چار بجے تہجد کی نماز مکرم محمد شفیع صاحب نے پڑھائی.نماز فجر کے بعد اجلاس مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ نائب ناظم ضلع کی صدارت میں شروع ہوا.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے قرآن کریم کی سورۃ العصر اور مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے احادیث نبوی کا اور مکرم مرزا محمد یوسف صاحب شاہد مربی سلسلہ کھاریاں نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا جس کے بعد مکرم حفیظ احمد صاحب شاہد مربی سلسلہ گجرات نے انصار اور تربیت اولاد کے موضوع پر تقریر کی.دوسرا اجلاس 9 اپریل کو پونے نو بجے زیر صدارت مکرم چوہدری منیر احمد خان صاحب امیر ضلع گجرات تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا.نظم مکرم ڈاکٹر احمد حسن صاحب چیمہ نائب ناظم نے وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات“ کے موضوع پر تقریر کی.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے ” پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو“ کے موضوع پر بیرونِ ملک کے تبلیغی واقعات بیان کئے.مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے“ کے عنوان سے سیرت حضرت مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.مکرم میجر عبد القادر خان صاحب قائد عمومی نے مرکزی لائحہ عمل کے مختلف شعبوں مثلاً عمومی، تربیت، ایثار، تجنید اور صف دوم وغیرہ کی وضاحت فرمائی.آخر میں مکرم امیر صاحب ضلع نے صدارتی تقریر میں مختلف تربیتی اور انتظامی امور کی طرف توجہ دلائی.آخر میں مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے دعا کرائی اور اجلاس اختتام پذیر ہوا.جمعہ سے قبل تمام افراد کو کھانا کھلایا گیا.کھانے کے بعد نماز جمعہ ادا کی گئی.خطبہ جمعہ مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے دیا جس میں تربیت

Page 427

۴۰۷ کے معاملات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی.﴿۸﴾ مجلس سوال و جواب لاہور حلقہ لاہور چھاؤنی میں مکرم ڈاکٹر عبدالغفور کڑک صاحب کے گھر (۱۳ خالد کڑک روڈ) پر 9 اپریل ۱۹۸۲ء بروز جمعتہ المبارک دوسو سے زائد ا حباب ایک تقریب میں شامل ہوئے.ان میں سے پچاس کے قریب غیر از جماعت بھی تشریف لائے.جن میں اعلیٰ عہدیدار ، تجارت پیشہ اور طالب علم بھی تھی.حاضرین کی پہلے ٹھنڈے مشروب اور بعد میں چائے سے تواضع کی گئی.تلاوت ونظم کے بعد مکرم اخوند فیاض احمد صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ایک مختصر تقریر فرمائی اور بعد میں حاضرین مجلس کے سوالات کے نہایت مدلل جواب بہت مؤثر اور مشفقانہ انداز میں دیئے.

Page 428

حوالہ جات ۴۰۸ ا روزنامه الفضل ربوه ۱۳ فروری ۱۹۷۹ء صفحه ۵ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مارچ ۱۹۷۹ ء صفحہ ۳۷ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.اپریل ۱۹۷۹ء صفحه ۳۲ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۳۶ و روزنامه الفضل ربوه ۲۹ ستمبر ۱۹۷۹ء صفحه یم ۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۷۹ء صفحه ۳۶ و روزنامه الفضل ربوه ۲۳ اپریل ۱۹۷۹ء صفحه ۵ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.اپریل ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۴-۳۵ ماہنامہ انصار اللہ اپریل ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۹۳۸ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون.جولائی ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۳ ۳۴ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ مئی ۱۹۷۹ء صفحه ۵ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحہ ۳۳۳۱ روزنامه الفضل ربوه ۱۷ جون ۱۹۷۹ ء صفحه ۸ 11 ماہنامہ انصار الله ر بوه اگست ۱۹۷۹ صفحه ۴۱ ۴۳ و روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲ستمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۲ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۷۹ء صفحه ۴۳ ۴۴ روز نامه الفضل ربوہ ۷ اگست ۱۹۷۹ء صفحہ ۶ و ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۷۹ ء صفحه ۴۵ - ۴۶ ۱۴ روزنامه الفضل ربوه ۲۸ جولائی ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ۱۵ روزنامه الفضل ربوه ۶ اگست ۱۹۷۹ء صفحه ۶ ماہنامہ انصار الله ر بوه اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۳۳ ۳۴ و روزنامه الفضل ربوه ۴ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحریم کا ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۳۴-۳۵ ۱۸ روزنامه الفضل ربوه ۱۱۵ کتوبر ۱۹۷۹ء صفحه ۵ ۱۹ روزنامه الفضل ربوه ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء صفحه ۸ ۲۰ روزنامه الفضل ربوه ۸ نومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ۲۱ روز نامہ الفضل ربوہ ۷ اپریل ۱۹۸۰ء صفحہ ۷ ۲۲ روز نامه الفضل ربوه ۱۲ اپریل ۱۹۸۰ صفحه ۶

Page 429

۴۰۹ ۲۳ روز نامه الفضل ربوه ۱۴ اپریل ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ۲۴ روز نامه الفضل ربوه ۲۷ اپریل ۱۹۸۰ء ۲۵ روزنامه الفضل ربوه ۳ رمئی ۱۹۸۰ء ۲۶ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ اپریل ۱۹۸۰ صفحه ۶ ۲۷ روز نامه الفضل ربوه ۱۷ جون ۱۹۸۰ صفحه ۶ ۲۸ ایک روز نامه الفضل ربوه امئی ۱۹۸۰ء صفحه یم ۲۹ روزنامه الفضل ربوه ۲۱ مئی ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ۳۰ روز نامه الفضل ربوہ ۷ جولائی ۱۹۸۰ء صفحہ ۵.۷ ۳۱ روز نامہ الفضل ربوه۵ جون ۱۹۸۰ ، صفحہ ۷ ، ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۸۰ صفحه ۳۶ روز نامه الفضل ربوہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۰ ء صفحہ ۶ ، ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۸۰ء صفحه ۳۶ ۳۲۰ ٣٣ ۳۴ روزنامه الفضل ربوه ۱۱ جون ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ماہنامہ انصار الله ر بوه اگست ۱۹۸۰ء صفحه ۳۸ ۳۵ روز نامه الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۸۰ ء صفحه یم ۳۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۸۰ صفحه ۱۴۹ ۳۷ روز نامه الفضل ربوه ۰ استمبر ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ۳۸ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۸۰ء صفحہ ۷-۹ ۱۳۹ روزنامه الفضل ربوه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۰ء صفحه ۸ ونواکتوبر ۱۹۸۰ء صفحه ۵-۶ ۴۰ روزنامه الفضل ربوه ۱۴ اکتوبر ۱۹۸۰، صفحه ۶ ۱ روزنامه الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۰ء صفحه ۶ ۴۲ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جنوری ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۹۳۸ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۷ ۲۴ روز نامه الفضل ر بوه یکم مارچ ۱۹۸۱ صفحه ۶ ۴۵ دکه روزنامه الفضل ربوه ۱۲ مارچ ۱۹۸۱ صفحه ۶ و ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۸۱ء صفحہ ۱۸ ۴۶ روزنامه الفضل ربوه ۱۹ مئی ۱۹۸۱ ء صفحه ۶ ۴۷ روز نامه الفضل ربوه ۲۶ مارچ ۱۹۸۱ ء صفحه ۶

Page 430

۴۱۰ ۴۸ روز نامہ الفضل ربوہ ۷ اپریل ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۴۹ کی ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۸ ۵۰ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۸۱ ء صفحه ۴۰ ۵۱ روز نامہ الفضل ربوہ ۱۷ اپریل ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ ۵۲ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۹ ۵۳ روزنامه الفضل ربوه ۱۴ اپریل ۱۹۸۱ء صفحه ۸ ۵۴ روزنامه الفضل ربوه ۱۹ مئی ۱۹۸۱ صفحه ۶ ۵۵ روزنامه الفضل ربوه ۶ امئی ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ ۵۶ روزنامه الفضل ربوه ۱۱ جون ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۵۷ ۶۱ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر اکتوبر ۱۹۸۱ ء صفحہ ۷۹ در وز نامه الفضل ربوه ۲۳ جون ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۵۸ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۸ ۵۹ روز نامہ الفضل ربوہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۱ صفحہ ۷ کا ضمیمہ انصار اللہ ستمبر اکتوبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۲-۶ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۳۷ ۲۲ روز نامہ الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۸۱ء صفحہ ۶ ۶۳ روز نامه الفضل ربوه ۲۲ جون ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ور ۲۴ دارای روزنامه الفضل ربوه ۲ستمبر ۱۹۸۱ صفحه ۶ ۶۵ روزنامه الفضل ربوہ ۲ستمبر ۱۹۸۱، صفحہ ۷ ۲۶ روزنامه الفضل ربوہ ۱۴ جولائی ۱۹۸۱ صفحه ۶ ۲۷ روز نامہ الفضل ربوہ ۲۹ جولائی ۱۹۸۱، صفحہ ۷ ۶۸ روز نامہ الفضل ربوہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۱ء صفحه ۶ ۹ روزنامه الفضل ربوه ۶ استمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ روزنامه الفضل ربوه ربوه۱۲۲ اکتوبر ۱۹۸۱ء ا روزنامه الفضل ربوه ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۱ صفحه ۶ ۷۲ روز نامه الفضل ربوه ۲۶ستمبر ۱۹۸۱ صفحه ۷

Page 431

۴۱۱ ۷۳ روز نامه الفضل ربوده یکم نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۷ کے ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۴۰ ۷۵ روزنامه الفضل ربوه ۶ اکتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ۷ ۷۶ روز نامه الفضل ربوه ۱۸ نومبر ۱۹۸۱ صفحه ۶ وماہنامہ انصاراللہ ربوہ جنوری ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۹ ے کے روزنامه الفضل ربوه ۵ نومبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۷ ۷۸ روزنامه الفضل ربوه ۱۳۱ کتوبر ۱۹۸۱ء صفحه ۶ 9 ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ۱۸ و روزنامه الفضل ربوه ۴ نومبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ ۸۰ روز نامه الفضل ربوه ۵ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۷ ۱ روزنامه الفضل ربوه ۱۲ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ ۸۲ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۸۱ صفحه ۱۳ ۸۳ روزنامه الفضل ربوہ ۱۲ دسمبر ۱۹۸۱ء صفحہ ۷ و ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جنوری ۱۹۸۲ء صفحه ۴۰ ۸۴ روزنامه الفضل ربوده۲ جنوری ۱۹۸۲ صفحه ۶ ۸۵ روز نامه الفضل ربوه ۳۰ مارچ ۱۹۸۲ صفحه ۶ روزنامه الفضل ربوه ۱۲مئی ۱۹۸۲ء صفحه ۶ ۸۷ روز نامه الفضل ربوہ ۱۹ اپریل ۱۹۸۲ء صفحہ ۶ و ماہنامہ انصاراللہ ربوہ جون ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۷.۳۹

Page 432

۴۱۲

Page 433

۴۱۳ مجالس بیرون کی مختصر کارگزاری ۱۹۸۹ء سے قبل انصار اللہ عالمگیر کا مرکزی دفتر ربوہ میں تھا اور صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ بیرون پاکستان بھی مجالس کے قیام و بیداری اور تربیت کے ذمہ دار تھے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصار کی تنظیم، مجالس انصار اللہ کا قیام ، عہدیداران کا تقر ر اور تنظیمی امور کی بطریق احسن انجام دہی ان کے دائرہ کار میں آتی تھی.ہر دور کے صدر نے اپنے اپنے حالات کے مطابق مجالس انصار اللہ بیرون کی تنظیم کے لئے انتھک کوشش کیں.ان کوششوں میں ایک قابلِ قدر اور مفید اضافہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے عہد صدارت میں ہوا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے مجالس بیرون کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور اس میں اضافہ کا ٹارگٹ مقرر فرمایا.قیادت مجالس بیرون نے صدر محترم کے ارشادات اور رہنمائی کی روشنی میں مجالس کی تنظیم نو کی.ان سے خط و کتابت کی اور انہیں اس امر کا مکلف ٹھہرا دیا کہ وہ اپنی ماہانہ اور سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں صدر محترم کی خدمت میں با قاعدہ بھجوائیں.اس سے کام میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے.مجالس بیرون کی کار کردگی میں ایک نمایاں اضافہ ۱۹۸۱ء میں اس وقت ہوا جب صدر محترم کی درخواست پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر کو بیرونی ممالک کے دورہ کی اجازت مرحمت فرمائی.مکرم چوہدری صاحب نے دوماہ کے مختصر عرصہ میں نو ممالک کا دورہ کیا اور مجالس کی تنظیم اور کار کردگی کا جائزہ لے کر صورتحال کو خوب تر بنانے کی سعی کی.یہ دورہ مجلس بیرون کی کارگزاری میں ایک اہم اور بنیادی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس دورہ کی تفاصیل پہلے بیان ہو چکی ہیں.مجالس بیرون کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل تین امور پیش نظر رہنے چاہئیں.ا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۷۹ء میں یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ ” پاکستان سے باہر ملک کا مشنری انچارج اس ملک میں مجلس انصاراللہ کا نائب صدر ہوگا (1) ۲.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے ۱۹۸۴ء میں ایک کمیٹی قائم فرمائی جس کے ذمہ یہ کام لگا یا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں ممالک بیرون پاکستان میں مبلغ انچارج ( جو بحیثیت عہدہ انصار الله خدام الاحمدیہ کے لئے نائب صدر ملک بھی ہوتے تھے )، امیر ملک نہیں رہے بلکہ بعض دوسرے احباب کو امیر مقرر کیا گیا ہے اس لئے کمیٹی غور کر کے رپورٹ پیش کرے کہ کسی ملک میں امیر کو ذیلی تنظیم کا نائب صدر مقرر کیا جائے یا مبلغ انچارج کو.یا کوئی اور صورت اختیار کی جائے.کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے پر حضور انور نے نائب صدر کا عہدہ مجالس انصاراللہ بیرون پاکستان سے ختم کرنے کی منظوری عطا فرمائی.اس کے نتیجہ میں متعلقہ قواعد میں تبدیلیاں ہوئیں جو پانچ

Page 434

۴۱۴ دسمبر ۱۹۸۷ء کو دستور اساسی کا حصہ بن کر نافذ ہوئیں.۳.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے نومبر ۱۹۸۹ء کو ہر ملک میں دیگر ذیلی تنظیموں کی طرح مجلس انصار اللہ کے لئے بھی صدارت کا نظام جاری فرمایا اس طرح اب وہ علیحدہ نگرانی میں اپنے فرائض سرانجام دینے کی ذمہ دار ہیں.یہاں بیرونی مجالس کی کارکردگی کا مختصر سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے جو ۱۹۸۲ء تک کا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان مجالس کی کار کردگی کا مکمل احوال پیش کرناممکن نہیں.صرف چندا ہم سرگرمیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے.انگلستان ۱۹۷۹ء میں مجلس انگلستان نائب صدر امام بیت الفضل مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب تھے.جنوری ۱۹۸۰ء سے مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی اور جون ۱۹۸۱ء میں مکرم بنگوی صاحب کی رخصت پر جانے کے بعد مکرم چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں نے نظامت اعلیٰ کے فرائض سرانجام دیئے.یکم اپریل ۱۹۸۱ء کو صدر صاحب مجلس مرکزیہ نے مجالس انگلستان نے مندرجہ ذیل زعماء کا انتخاب منظور فرمایا.لنڈن: مکرم چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں.ایسٹ لنڈن مکرم قریشی عبدالرشید صاحب کرائیڈن: مکرم محمد عارف بھٹی صاحب.آکسفورڈ: مکرم نور دین صاحب ساؤتھ آل : مکرم صلاح الدین فتح صاحب گرین فورڈ: مکرم و دود احمد صاحب ہنسلو : مکرم مرز اعبدالشکور صاحب.برمنگھم: مکرم محمد ادریس چغتائی صاحب بریڈ فورڈ: مکرم اللہ دتہ بٹ صاحب.جلنگهم.مکرم سید بشیر احمد صاحب ہڈرزفیلڈ : مکرم رشید احمد خان صاحب.مانچسٹر : مکرم چوہدری رحمت خان صاحب کوونٹری یمنگٹن سپا: مکرم حمید احمد بھٹی صاحب سلو: مکرم محمداحمد بھٹی صاحب لیوٹن : مکرم محمد اقبال صاحب بٹ.ہیز : مکرم عبد الغنی صاحب گلاسگو.سکاٹ لینڈ : مکرم ملک حفیظ الرحمان صاحب نوٹ : لیڈز کا الحاق بریڈ فورڈ اور واٹفورڈ کا الحاق ساؤتھ آل کی مجلس سے تھا.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے مجالس انگلستان کا دورہ ۲۹ مئی سے ۱۵ جون ۱۹۸۱ء تک کیا.اس دورہ میں آپ نے مندرجہ ذیل مجالس میں تشریف لے جا کر تنظیمی امور سر انجام دیئے.تفصیلی رپورٹ پہلے صفحات میں گزر چکی ہے.) جلنگھم ( ۳۰ مئی ).ساؤتھ آل.ہیز.گرین فورڈ.ہانسلو.سلو (۳۱ مئی ).برمنگھم ( یکم جون ).

Page 435

۴۱۵ لیمنگٹن سپا وکوونٹری (۲ جون ) گلاسگو (۴ جون ) بریڈ فورڈ (۵ جون ) ہڈرز فیلڈ (۶ جون ) ، مانچسٹر ( ۷ جون)، لیوٹن ( ۱۰ جون) آکسفورڈ (اا جون).مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ نے سالانہ اجتماع برطانیہ کے موقعہ پر ۱۴ جون ۱۹۸۱ء کو مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو شمالی علاقوں (سکاٹ لینڈ ، لنکاشائر ، یارک شائر ) کا ناظم اعلیٰ نامزد کیا.مجلس انگلستان کی سرگرمیوں کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں.مجلس بر اعظم کی میٹنگ مورخہ یکم جون ۱۹۸۱ء بروز سوموار شام ساڑھے سات بجے مشن ہاؤس دار البرکات میں مجلس انصار اللہ کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی.جس میں انصار کے علاوہ دیگر احباب جماعت بھی کافی تعداد میں شامل ہوئے.اجلاس زیر صدارت مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو کہ مکرم چوہدری عبدالحفیظ صاحب نے کی.عہد کے بعد مکرم اور لیس چغتائی صاحب نے حضرت اقدس کی ایک نظم خوش الحانی سے سنائی.ڈاکٹر ایم.زیڈ طاہر صاحب نے مختصر الفاظ میں مہمانوں کا خیر مقدم اور شکر یہ ادا کیا.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے اپنے خطاب میں احباب جماعت کی توجہ بعض ضروری باتوں کی طرف دلاتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کریں اور اس کا ترجمہ بھی سیکھیں اور اگر ہو سکے تو قرآن کریم حفظ کرنے کی کوشش کریں.اپنے بیوی بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھائیں اور سکھائیں.حضرت اقدس کی کتب کا بھی مطالعہ کریں.آپ نے کہا ہم سب اپنے نفس کا جائزہ لیں اور محاسبہ کریں اور اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں.مشن ہاؤس میں با قاعدہ نماز کا انتظام ہونا چاہئیے اور اپنے اہل وعیال کو بھی نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئیے.احمدیت کا پیغام اس ملک کے لوگوں تک پہنچانا چاہئیے.اپنے پیارے امام سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں اور حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں خط لکھنے کی عادت ڈالیں.آپ نے انصار کو اپنے چندے با قاعدہ ادا کرنے اور رسالہ انصار اللہ کی خریداری کے لئے تاکید کی.آخر میں آپ نے مجلس عاملہ برمنگھم کے اراکین کو نامزدفر مایا.(۳ کی مجلس لندن کے اجتماعات مجلس لندن کا پہلا سالانہ اجتماع ، ۱ جولائی ۱۹۷۲ء کو جبکہ دوسرا اجتماع ۵.۶ مئی ۱۹۷۹ء کو منعقد ہوا.دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ لندن کا دوسرا اجتماع مورخہ ۵ - ۶ مئی ۱۹۷۹ء بروز اتوار مشن ہاؤس لندن میں منعقد ہوا.مئی بروز ہفتہ کو ساڑھے آٹھ بجے شام مسجد میں نماز مغرب با جماعت ادا کی گئی.بعدۂ نصف گھنٹہ تک مکرم

Page 436

مولانا شیخ مبارک احمد صاحب امام مسجد لندن نے بخاری شریف کی پہلی حدیث إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی تشریح کی.آپ نے تہجد میں خصوصی طور پر دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی.مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب زعیم اعلیٰ انصار اللہ لندن نے پروگرام کا جائزہ لیا.نماز تہجد و فجر کے بعد مکرم شیخ صاحب نے سورۃ المومنون کی پہلی بارہ آیات کا نہایت لطیف پیرایہ میں درس دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مومنین کی کامیابی کے جو گر بیان فرمائے ہیں ، ان کی وضاحت کی.درس کے بعد انصار نے تلاوت قرآن کریم کی.ناشتہ کرنے کے بعد دوستوں نے انفرادی طور پر نماز اشراق مسجد فضل لندن میں ادا کی.اجتماع کا پہلا اجلاس دس بجے صبح زیر صدارت مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب شروع ہوا.آپ نے سب سے پہلے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا بذریعہ تار موصولہ بابرکت پیغام پڑھ کر سنایا جو حضور پرنور نے از راہ شفقت اس اجتماع کے موقع پر ارسال فرمایا تھا.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو با برکت اور کامیاب فرمائے نیز فرمایا کہ آپ لوگ قرآن کریم سیکھیں اور دوسروں کو سکھلائیں اور اپنے عہد کو پورا کریں.اجلاس میں حاضری نوے کے لگ بھگ تھی.تلاوت قرآن کریم ملک عبدالعزیز صاحب نے کی.مکرم شیخ صاحب نے عہد ہر وایا.نظم مکرم خالد احمد صاحب اختر نے کلام محمود سے پڑھ کر سنائی.مکرم شیخ صاحب نے اس موقعہ پر مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دلائی.اول قرآن کریم کو سیکھیں.دوم اپنے بچوں، عزیزوں اور دوسروں کو بھی تعلیم قرآن سے آگاہ کریں.سوم قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق زندگیاں بسر کریں.مکرم داؤ د احمد صاحب گلزار نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنائے.بعدہ مکرم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ نے تقویٰ اللہ پر نہایت مدلل اور مؤثر تقریر کی.نظام خلافت کے موضوع مکرم مولوی عبدالکریم صاحب نے سورۃ النور کی آیت استخلاف سے استدلال کر کے تقریر فرمائی.اجلاس دوم پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد شروع ہوا جس کی صدارت مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب سابق امام مسجد لندن نے کی.مکرم مولوی عبد الکریم صاحب نے سورۃ آل عمران کی تلاوت کی.نظم مکرم محمد شریف صاحب اشرف نے درمشین سے پڑھی.ازاں بعد مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مبلغ ہالینڈ وانڈونیشیا نے حضرت ابو بکر صدیق کے عالی مقام اور مرتبہ کی وضاحت قرآن کریم اور احادیث سے کی.اس کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر فرمائی.آپ نے بتایا کہ میں تقریباً ساڑھے گیارہ سال کا تھا جب میں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا.حضرت

Page 437

۴۱۷ والدہ صاحبہ نے اپنی تین رؤیا کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان کر جبکہ حضور سیا لکوٹ میں تشریف لائے تھے، والد صاحب سے پہلے بیعت کر لی تھی.والد صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے تین چار ملاقاتیں کرنے اور بعض امور کی تسلی کرنے کے بعد بیعت کی.آپ نے بیان فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں سٹیج کے ایک کنارے پر بیٹھا تھا اور جب تک حضور تقریر فرماتے رہے، ٹکٹکی لگا کر حضور کے چہرہ کو دیکھتا رہا.میری نظر ایک سیکنڈ کے لئے آپ کے چہرہ مبارک سے نہیں بھی.اُس وقت سے آج تک میرے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کی صداقت کے بارے میں شبہ نہیں گزرا.۱۹۰۷ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے لکھا کہ اب آپ خود بھی بیعت کر لیں.یہ گویا عملی رنگ میں میرے صحابی بنے کی تحریک تھی ورنہ میں سمجھتا تھا کہ والدین کے احمدی ہو جانے سے میں بھی احمدی ہوں.آپ نے نہایت دلچسپ انداز میں اپنی والدہ صاحبہ کے ایمان افروز واقعات بیان کئے.ٹھیک اڑھائی بجے اجتماع کا تیسرا اجلاس شروع ہوا.اس اجلاس کی صدارت مکرم مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب نے فرمائی.تلاوت قرآن کریم مکرم خواجہ رشید الدین صاحب قمر نے کی اور کلام محمود سے نظم مکرم مولوی رمضان علی صاحب نے سنائی.اس کے بعد مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے اپنے والد حضرت سردار عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کے حالات زندگی سنائے.درس حدیث میں مکرم مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے بیان کیا کہ صحابہ کرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اس قدر والہانہ عشق تھا کہ وہ حضور کی ہر بات اور ہر حرکت و سکون کو نوٹ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس آگاہ کرتے تھے.یہ انہیں کی محبت واخلاص کا نتیجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن سے لے کر آخری عمر تک کے مفصل حالات کا مستند ریکارڈ موجود ہے.اس کے بعد نظام خلافت کی اہمیت کے بارے میں مکرم مولوی مبارک احمد صاحب ساقی نے کہا کہ اگر تمام دنیا اس نظام کو اپنالے تو یہ دنیا امن وسکون اور جنت میں تبدیل ہو سکتی ہے.یہی ایک نظام ہے جس کے ذریعہ دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں.اپنے صدارتی خطاب میں مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے کہا کہ نیکی اور تزکیہ نفس کے ذریعہ روحانیت کی فضا پیدا کریں جو کہ ہمارے اس اجتماع کا مقصد ہے.خلافت کا منصب خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے اور جس منصب کو خدا قائم کرے، اس کا احترام بڑھ جاتا ہے کہ اسے خدا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے.خدا کے بعد سب سے بڑی ہستی دنیا میں رسول کی ہوتی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.خلفائے راشدین کے طریقے کو ماننا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی حکم پر عمل پیرا ہونا ہے.خلافت کی دل و

Page 438

۴۱۸ جان سے قدر کرنی چاہئے تا خدا تعالی کی تائید اور برکتیں ہمیشہ جماعت کے شامل حال ہوں.اس کے بعد مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب زعیم اعلیٰ نے تمام انصار اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا.بالخصوص جنہوں نے مہمانوں کی خدمت اور فراخدلانہ مالی امداد کے ذریعہ اجتماع کے اخراجات پورے کئے.دعا اور عہد دہرانے کے بعد یہ اجتماع بفضل خدا بخیر وخوبی ختم ہوا.﴿۴﴾ مجلس انگلستان کے سالانہ اجتماعات پہلا سالانہ اجتماع مجالس انگلستان کا پہلا سالانہ اجتماع ۲۲ و ۲۳ستمبر ۱۹۷۹ کو محمود ہال لندن میں منعقد ہوا.اس اجتماع کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث اور صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے پیغامات ارسال فرمائے.دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انگلستان کا دوسرا سالانہ اجتماع ۱۹.۲۰ اپریل ۱۹۸۰ء کو منعقد ہوا.یہ اجتماع محمود ہال میں ہوا جس میں ڈیڑھ صد کے قریب افراد شریک ہوئے.پہلا اجلاس ۱۹ اپریل کو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نائب صدر مجلس انصار اللہ کی زیر صدارت شروع ہوا.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو مکرم ملک عبدالعزیز صاحب نے کی عہد دوہرانے کے بعد اپنے افتتاحی خطاب میں مکرم شیخ صاحب نے اجتماع کے انعقاد کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ یہ اجتماع ہماری روحانی اخلاقی اور ذہنی ترقی کا باعث ہو.آپ نے فرمایا نفس کے تزکیہ کے لئے ایسے دینی اجتماعات کا بار بار انعقاد ضروری ہے.دوسری تقریر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمائی.آپ نے سورۃ الصف کی آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَی کی تشریح فرماتے ہوئے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اسلام کے غلبہ کے دن قریب لانے کے لئے ہمیں اپنے قول اور فعل میں دوسروں کے لئے نمونہ پیش کرنا چاہئے.اس کے بعد مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے ” موجودہ زمانہ کے بارہ میں اسلامی پیشگوئیاں“ کے عنوان پر تقریر کی.اگلے دن صبح تین بجے تہجد کی نماز با جماعت ادا کی گئی.نماز فجر کے بعد مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے قرآن مجید کا درس دیا جس میں آپ نے آیت بَلّغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کی لطیف تشریح فرماتے ہوئے احباب کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.مکرم منیر الدین صاحب شمس نے حدیث کا درس دیا.

Page 439

۴۱۹ ۲۰ اپریل کو پہلا اجلاس مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی زیر صدارت ہوا.تلاوت اور نظم کے بعد مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب ناظم اعلیٰ نے کشتی نوح سے ایک اقتباس پیش کیا.مکرم عبد الحفیظ صاحب برمنگھم نے نظام خلافت مکرم صوفی غلام محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود کا عشق رسول “ ، مکرم مولوی نسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ سلسلہ نے ہمارے عقائد، مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سلسلہ نے جذبات اطاعت و عشق نبوی اور مکرم انیس الرحمن صاحب بنگالی مبلغ سلسلہ نے صحابہ حضرت مسیح موعود کے جذ بہ اطاعت و عشق پر پُر جوش تقریر فرمائی.اس کے بعد کشتی نوح اور رسالہ الوصیت کا امتحانی تحریری مقابلہ ہوا.نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد تیسرے اجلاس میں مکرم محمد احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت کرائیڈن نے ۱۹۴۷ء میں خلافت ثانیہ کی بابرکت راہنمائی کے عنوان پر تقریر فرمائی.مکرم عبداللطیف خان صاحب پریذیڈنٹ جماعت ہنسلو نے احمدیت کے مستقبل اور مکرم چوہدری انور احمد صاحب کا اہلوں نے اسلامی معاشرہ کے موضوع پر بصیرت افروز تقریریں کیں.بعدۂ صدر اجلاس مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے علمی مقابلہ میں حصہ لینے والوں میں انعامات تقسیم فرمائے.آپ نے الوداعی خطاب میں جماعت کو تبلیغ و تربیت کی طرف توجہ دلائی.آخر میں عہدد ہرایا گیا اور اجتماعی دعا ہوئی جس پر یہ بابرکت اجتماع اختتام پذیر ہوا.آخری اجلاس کے وقت محمود ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.اجتماع میں ڈاکٹر سید ولی احمد شاہ صاحب کے زیر انتظام کھانا پکانے اور تقسیم میں مستورات نے بھی تندہی سے حصہ لیا.(۵) تیسر اسالانہ اجتماع انصار اللہ کا تیسرا سالانہ اجتماع ۱۳ ۱۴ جون ۱۹۸۱ء بروز ہفتہ اتوار محمود ہال لندن میں منعقد ہوا.جس میں ملک کے طول وعرض سے ایک سو چھپیں نمائندگان نے شرکت کی.اس اجتماع کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل تھی کہ اس میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ بھی شریک تھے.اجتماع کا پروگرام ۱۳ جون کو ٹھیک چھ بجے مکرم محمود احمد صاحب آف کرائیڈن کی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا.مکرم چوہدری محمد یعقوب صاحب نے خوش الحانی سے حضرت اقدس کے چند شعر سنائے.ازاں بعد مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب امیر جماعت و نا ئب صدر مجلس انگلستان نے افتتاحی خطاب فرمایا.آغاز میں آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کا ارسال فرمودہ خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا.پیغام محترم صدر صاحب مجلس انصار اللہ مرکزیہ ”میرے پیارے اور قابل صد احترام انصار اللہ بھائیو! مجلس انصار اللہ برطانیہ کے اس تیسرے اجتماع میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر کی نمائندگی نائب صدر اول مرکز یہ کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس

Page 440

۴۲۰ اجتماع کو ہر پہلو سے بابرکت اور کامیاب بنائے اور اس کے دور رس نیک اثرات مرتب فرمائے اور مجالس برطانیہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے سائے تلے بیش از بیش ترقی کی راہوں پر گامزن رہیں.اس موقع پر مجھے پیغام کے لئے کہا گیا ہے.اس سے بہتر اور کیا پیغام ہوسکتا ہے کہ میں برادرم مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو مجسم پیغام کی صورت میں آپ کے پاس بھجوا رہا ہوں.ان کی نصائح کو غور سے سُنیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور عمل کے سانچوں میں ڈھال کر اپنے خلوص نیت کا نا قابلِ تردید ثبوت پیش فرماویں.امید ہے کہ یہ اجتماع انصار کے خون میں ایک نئی حدت پیدا کرے گا اور خدمت دین کی تمنا ئیں اگر کسی دل میں خوابیدہ بھی تھیں تو اب جاگ اٹھیں گی.نئی زندگی اور نئے ولولے پیدا ہوں گے لیکن مجھے فکر اس بات کی ہے کہ کیا مجلس کی مقامی تنظیمیں اس روحانی توانائی سے کماحقہ استفادہ بھی کرسکیں گی ؟ بسا اوقات میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایسے مبارک اجتماعات سے پھوٹنے والی روحانی توانائی سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاتا.پس اس کا بیشتر حصہ استعمال کے بغیر ضائع ہو جاتا ہے اور جذباتی ہیجان سے ٹھوس بات آگے نہیں بڑھتی لیکن میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ ایسا نہیں ہونے دیں گے.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ایک ٹھوس پروگرام لے کر آپ کے پاس آ رہے ہیں جسے بروئے کارلانے کے لئے آپ اس اجتماع سے پیدا ہونے والی روحانی حدت سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور اسے محض ایک نمائشی عارضی چم کار کا تماشہ نہ بنا دیں بلکہ اسے دائم رہنے والے حسین اعمال کی شکل میں ڈھال دیں جن کو قرآن کریم کی اصطلاح میں باقیات الصالحات کہا جاتا ہے.اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ حسب ذیل چند باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانی چاہتا ہوں.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ انصار اللہ ایسے بوڑھوں کی ایک جماعت ہے جن کا عمل کا زمانہ پیچھے رہ چکا ہے اور اب آرام اور استراحت اور خواب غفلت کے مزے اڑانے کے دن ہیں.اللہ تعالیٰ کی سنت اس غلط مغربی تصور کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ انبیاء کی بھاری اکثریت کا انتخاب اس نے اس عمر سے کیا جو ہماری اصطلاح میں انصار کی عمر کہلاتی ہے.پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کے نزدیک پختگی کے ساتھ کام کرنے کی عمر کا آغا ز لگ بھگ چالیس سال سے شروع ہوتا ہے اور یہ کام کی عمر آخری سانس تک جاری رہتی ہے.عمر عزیز کے اس دور کی قدرو قیمت کا اندازہ کچھ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب امتحان کا وقت قریب آتا ہے تو سال بھر نہ پڑھنے والے بچے بھی پڑھنے لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات راتیں جاگ

Page 441

۴۲۱ جاگ کر کاٹتے ہیں.بحیثیت مجموعی انصار اس اہل ساعت کے قریب تر پہنچ چکے ہوتے ہیں جس کے آنے پر اچانک عمل کی صف پیٹی جاتی ہے اور حساب کتاب کا باب کھلتا ہے.پس اس ساعت کے قرب سے قوت عمل کو انگیخت ملنی چاہیئے نہ کہ خواب غفلت کا پیغام.انصار اللہ کے تین بنیادی کام ہیں جن کی طرف ٹھوس توجہ دینے سے باقی سب شعبوں کو بھی از خود تقویت ملتی رہے گی.تربیت تعلیم اور تبلیغ.تربیت میں سب سے اہم نماز با جماعت کا قیام ہے.اسلامی جہاد کے میدان میں مغربی محاذ پر ہمیں سب سے زیادہ زک اسی شعبہ میں اٹھانی پڑی ہے.مخالفانہ تمدنی اور تہذیبی فضا، مساجد کی کمی، اوقات کار کی ایسی تقسیم جس میں بظاہر عبادات کی طرف سے توجہ کا رخ ہٹانے والے ہیں.علاوہ ازیں نئی نسلوں کے لئے علمی اور عملی تربیت کے مواقع کی کمی.یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو نماز با جماعت کے قیام کی راہ رو کے کھڑی ہیں.پس ضرورت ہے کہ سب سے زیادہ ٹھوس جوابی حملہ اسی محاذ پر کیا جائے اور مجالس انصار اللہ اپنے اجلاسات اور اجتماعات میں اپنے ایجنڈے پر اس موضوع کو لے کر مستقل جگہ دیں.سر جوڑ کر بیٹھیں اور غور کرتے رہیں کہ کس طرح عبادت کے جھنڈے کو اس ملک میں بلند رکھنا ہے؟ مفید تجاویز پر عملدرآمد کا انتظام کریں.مستقل نگرانی رکھیں اور ماہ بماہ جائزہ لیتے رہیں کہ گزشتہ ماہ کے مقابل پر آپ کچھ آگے بڑھ بھی سکے ہیں کہ نہیں.یادرکھیں کہ اس ضمن میں جو رپورٹیں آپ مرکز کو ارسال فرمائیں، ان میں ٹھوس اعداد و شمار دئیے جائیں کہ گزشتہ سال کے مقابل پر کیا ٹھوس ترقی ہوئی.محض مضمون نگاری جو اعداد و شمار سے خالی ہو، نہ تو آپ کے کام آئے گی نہ مرکز کے.تعلیم میں سب سے زیادہ ضروری قرآن کریم کا مطالعہ ہے اور ضروری ہے کہ ہر احمدی قرآن کریم کو تر جمہ کے ساتھ پڑھے اور حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ کی اس بابرکت تحریک پر ہرممکن عمل کیا جائے کہ ہر احمدی گھرانے میں تفسیر صغیر موجود ہو اور گھر کا ہر فرد اس کی مدد سے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھے.رمضان المبارک قریب ہے اس سے پہلے انصار یہ انتظام مکمل کر لیں تا کہ رمضان کے بابرکت ماہ میں تعلیم کے اس بنیادی پروگرام پر بھر پور عمل کہا جاسکے.تبلیغ کے متعلق میرا یہ تکلیف دہ تاثر ہے کہ ہماری اکثریت اس اہم فریضہ جہاد سے غافل ہو چکی ہے جس کا شدید نقصان جماعت کے ہر شعبہ کو پہنچ رہا ہے.ایسا منصوبہ بنائیں اور منصوبہ پر عملدرآمد کے ایسے ٹھوس مستقل تنظیمی ذرائع اختیار فرما ئیں کہ آئندہ چند سالوں کے عرصہ میں ہر ممبر مجلس انصاراللہ ایک کامیاب مبلغ بن چکا ہو اور ہر سال کم از کم ایک غیر مسلم کو مسلم بنانے کی یا نام کے مسلمان کو حقیقی مسلمان بنانے کی توفیق پاسکے.یہ کوئی ناممکن بات نہیں جس نے بھی خلوص نیت کے ساتھ یہ عہد باندھا

Page 442

۴۲۲ اور دیانتداری سے اس پر عملدرآمد کی کوشش کی ، اللہ تعالیٰ اُسے اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور آئندہ بھی فرماتا رہے گا.آخر پر یہ عرض کروں گا کہ ہر نمبر انصاراللہ، اللہ تعالیٰ سے ذاتی پیوند جوڑے.اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کئے بغیر ہر عمل بے نور اور بے جان رہتا ہے جیسے کوئی انسانوں کے بت بنانے والا یہ سمجھنے لگے کہ میں انسان بنارہا ہوں.ہمارے اعمال مٹی کے بہت ہی تو ہیں اگر اللہ کے اذن سے ان میں نفخ روح نہ ہو.پس خدا تعالیٰ کو دوست پکڑیں اور جو کچھ کریں اس کی رضا کی خاطر کریں اور بندے کے تصور کو بیچ سے نکال دیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوا اور ہمیشہ اس کے قرب میں اس کی رحمت کے سائے تلے رہیں.افتتاحی خطاب نائب صدر مجلس انصار الله انگلستان مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے قرآن مجید کی آیت وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ ذکر کے معنی ہیں بار بار یاد دہانی کرانا کیونکہ ایسی یاد دہانی مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے.ہمیں بھی جب بار بار نیکی کی یاد دہانی کرائی جائے گی تو انشاء اللہ ہمارے اندر بھی ایک قوت پیدا ہوگی جس سے ہم اسلام کے سچے نمونے بن سکیں گے.یاددہانی کرانا خدا تعالیٰ کا فرمان ہے اور اسی وجہ سے بار باراجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں.ابھی آپ نے مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس کا قیمتی نصائح سے بھر پور پیغام سنا.اس کے بعد کسی لمبی چوڑی افتتاحی تقریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی.میں صرف یہ گزارش کروں گا کہ آپ اس پیغام پر عمل پیرا ہونے کی کوشش فرمائیں.خطاب نائب صدر صاحب مجلس مرکز یہ مکرم چوہدری حیداللہ صاحب نائب صدر مجلس نے حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا سلام سب احباب تک پہنچایا اور پھر فرمایا کہ ہماری جماعت کے اندر اجتماعات اور جلسوں کا جو سلسلہ جاری ہے، ان کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ بار بار نیک کاموں کی طرف یاددہانی کرائی جائے کیونکہ انسان فطرتا یاد دہانی کا محتاج ہے.آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے اندر ذیلی تنظیمیں یعنی انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ وغیرہ اس لئے بنائی گئی ہیں کہ وہ جو باتیں جماعت ان کے سامنے پیش کرے، ان کو آگے پھیلائے اور ان کے مطابق اپنے پروگرام بنائے نیز اس بات کا ریکارڈ بھی رکھے کہ کون کون افرادان پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ سب سے ضروری امر نماز با جماعت کی ادائیگی ہے اور اس بارہ میں ان ذیلی تنظیموں کو خصوصی اور افراد جماعت کو عموماً کوئی غفلت نہیں کرنی چاہیئے.لہذا میری درخواست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل

Page 443

۴۲۳ سے جو مساجد اور مشن ہاؤس اب ہمیں عطا کئے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ انہیں آباد کرنے کی کوشش کریں.دوسری گزارش یہ ہے جو لوگ فاصلہ پر رہتے ہیں اور مسجد میں نہیں آ سکتے وہ اپنے گھروں میں نماز با جماعت کا اہتمام کریں.کم از کم ایک نماز با جماعت گھر میں ادا کرنے کا انتظام ہونا چاہیئے اور نماز کے بعد درس کا اہتمام بھی کیا جائے.قرآن کریم، احادیث اور پھر حضرت مسیح موعود کی کتب ہیں جن کا درس دیا جانا چاہئیے.اس خطاب کے بعد مکرم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں نے صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ خدمت خلق کے عنوان پر تقریر کی نیز مجلس انصار اللہ کی تنظیم ، عہد یداران کا چناؤ اور ان پر عائد ذمہ داریوں کی تشریح کی.آپ نے کہا کہ جس طرح جماعتوں میں مالی چندے کا بجٹ بنایا جاتا ہے اسی طرح ہر مجلس انصار اللہ بیعتوں کا بجٹ بنائے کہ اس سال ہم نے اتنے احباب کو احمدی بنانا ہے.اس کام کو سرانجام دینے کے لئے آپ غیر احمدی احباب کو گھروں میں چائے کی دعوت پر بلا سکتے ہیں.ان کو لٹریچر تقسیم کر سکتے ہیں.لہذا اپنے حالات کا جائزہ لے کر ایک سکیم بنائی جائے اور پھر ان پر عمل کرنے کی پوری سعی کی جائے.جماعت میں جو امتحانات کتب کا سلسلہ جاری ہے، اسے یہاں بھی جاری کیا جائے.آپ نے دوستوں کو کتب خرید کر پڑھنے کی عادت سے متعلق حضور انور کا ارشاد بر موقع مجلس مشاورت احباب کے سامنے رکھتے ہوئے درخواست کی کہ ہرگھر میں اس پر عمل ہونا چاہیئے.نیز کہا کہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے.دعا کے بعد یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا.قیام کا انتظام مسجد فضل اور محمود ہال میں کیا گیا تھا تا تہجد کی نماز با جماعت اور درس قرآن وحدیث میں سہولت سے شمولیت ہو سکے.اگلے دن تمام انصار کو صبح تہجد کے وقت بیدار کیا گیا.نماز تہجد و فجر با جماعت ادا کرنے کے بعد مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے درس قرآن کریم اور مکرم نسیم احمد باجوہ صاحب نے حدیث کا درس دیا.پھر مکرم مبارک احمد صاحب ساقی نے کتاب ” ضرورۃ الامام کے اقتباسات سنائے جس میں حضور نے بچے الہام کی شناخت کے طریقے بیان فرمائے ہیں.اجلاس اول کی کارروائی زیر صدارت مکرم عبد العزیز دین صاحب نیشنل پریذیڈنٹ ساڑھے نو بجے شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم مکرم نسیم احمد صاحب باجوہ نے کی.مکرم خواجہ منیر الدین قمر صاحب نے کلام محمود سے ایک نظم خوش الحانی سے سنائی.سب سے پہلے مقرر کرم مولوی عبد الکریم صاحب شرما تھے جنہوں نے تعلق باللہ پر ہمیں منٹ تقریر کی اور کہا کہ تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے اور اس میں سب سے بڑی چیز جو خدا تعالیٰ سے مانگنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو ہی خدا سے مانگے.مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سلسلہ سکاٹ لینڈ نے انگریزی زبان میں ایک احمدی کی ذمہ داریاں پر ، مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے

Page 444

۴۲۴ قدرت ثانیہ کی برکات پر اور مکرم ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب نے ”جہاد فی سبیل اللہ پر تقاریر کیں.اجلاس دوم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت شروع ہوا.حضرت چوہدری صاحب نے حاضرین کو عباد الرحمن کی خصوصیات کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے وہ ہوتے ہیں جو ذکر الہی کی طرف خصوصی دھیان دیتے ہیں.اور وَالَّذِيْنَ يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کے مطابق راتوں کو ذکر الہی کرنے کے لئے اٹھتے ہیں.شب بیدار ہوتے ہیں.آپ نے اس سلسلہ میں متعدد آیات قرآنی کی تلاوت فرما کر حاضرین کو نماز تہجد کی ادائیگی کی پر زور تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے کے گر بتائے.سب سے بڑا گر فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا ادا کرنا بتایا.پھر آپ نے دعاؤں پر زور دیا اور احباب کو تلقین کی کہ وہ اپنے فارغ اوقات میں ذکر الہی کرتے رہا کریں اور ایسے کام میں بھی جس میں ہاتھ سے کام کرنا ہو اور ذہنی قسم کا نہ ہو ، ساتھ ساتھ دعاؤں کا ورد کرتے رہنا بہت بڑی نیکی ہے.آپ نے فارسی کی ضرب المثل دست با کار دل با یار سنا کر واضح کیا کہ ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے.بلکہ ذکر الہی تو اتر کے ساتھ کرنا اور دعائیں کرنا اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا خاصہ ہے.نماز ظہر وعصر نیز کھانے کے وقفہ کے بعد اجلاس سوم تقریباً تین بجے زیر صدارت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے کی.اس کے بعد مکرم چوہدری محمد یعقوب صاحب نے حضرت اقدس کی ایک نظم خوش الحانی سے پڑھی.مکرم چوہدری رشید احمد صاحب نے تربیت اولاد کے بارہ میں والدین کی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تقریر کی.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم اور جماعت کی ترقی کے لئے اتحاد فکر ، اتحاد خیال اور اتحاد عمل کا ہونا بہت ضروری ہے.انبیاء بھی دنیا میں یہی یقین اور ایمان پیدا کرنے آتے ہیں.حضرت اقدس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک وقت ساری دنیا ایک خیال اور ایک عمل پر جمع ہو جائے گی.جماعت کے موجودہ امام نے جب ۱۹۷۳ء میں صد سالہ جو بلی کا منصوبہ پیش کیا تو اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ ہم نے ساری دنیا کو ایک وحدت میں پرونے کی کوشش کرنی ہے.مجلس انصاراللہ کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ ان میں اتحاد خیال اور اتحاد عمل پیدا کیا جائے.یہ اجلاس ہمارے اندر یک جہتی ، اخوت اور علمی ترقی کی روح پیدا کرتے ہیں.جتنا یہ اتحاد فکر وخیال گہرا اور مضبوط ہوگا اتنا ہی ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں آسانی ہوگی.آپ نے کہا کہ انبیاء اور ان کے خلفاء ہمیشہ اپنے ماننے والوں سے جانی ، مالی ، اور وقت کی قربانیوں کا تقاضا کرتے ہیں.قرون اولیٰ میں بھی ہمیں یہ قربانیاں نظر آتی ہیں.سلسلہ کے کاموں کے لئے قربانیوں کو

Page 445

۴۲۵ بشاشت سے پیش کرنا چاہئیے.دوستوں کی مالی قربانیوں پر تو رشک آتا ہے مگر وقت کی قربانی پر بھی توجہ ہونی چاہئیے.وقت کی قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے.آپ نے مجلس کے انتظامی امور کے بارہ میں بعض اصولی رہنما باتوں کا ذکر کیا.آپ نے مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب ناظم اعلی مجلس یو.کے کی مساعی کا شکر یہ ادا کیا اور چونکہ وہ کچھ عرصہ کے لئے انگلستان سے لمبی رخصت پر جارہے تھے، ان کی جگہ مکرم چوہدری انوراحمد صاحب کا اہلوں کو اس دسمبر ۱۹۸۲ ء تک ناظم اعلیٰ یو.کے مقرر کرنے کا اعلان کیا.اسی طرح آپ نے مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو شمالی انگلستان کے لئے ناظم اعلیٰ انصار اللہ مقرر کیا.بعد میں آپ نے رسالہ انصار اللہ کے لئے خریداری اور مرکزی گیسٹ ہاؤس کی توسیع کے سلسلہ میں مزید چندہ کی تحریک کی.آپ نے تمام مجالس اور جماعتوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے حالیہ دورہ کے ایام میں ان سے تعاون کیا.مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے احمدیت کا مستقبل اور ہماری ذمہ داریوں پر خطاب کیا اور بچوں کے دینی مقابلوں کے بارہ میں کچھ فیصلوں کا اعلان کیا.آپ نے انگلستان کی جماعت احمدیہ کی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انگلستان میں جمع شدہ جو بلی فنڈ کی رقوم سے پین کی مسجد اور اوسلو مشن خریدا گیا.علاوہ ازیں انگلستان میں بھی پانچ نئے مراکز احمدی بھائیوں اور بہنوں کی مالی قربانی سے خرید لئے گئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ہمارا ایک نظام ہے.ایک مرکز ہے اور ایک امام ہے.ہم نے آگے بڑھنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں روک سکے گی.دوستوں کو چاہیے کہ نمازوں اور روزوں کے ذریعہ دعاؤں میں آج کل بہت زور دیں.ازاں بعد اعزاز پانے والے اطفال و ناصرات میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے انعامات تقسیم فرمائے.تمام بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی.ان مقابلوں میں مکرم مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ سلسله، مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب، مکرم مولوی عبدالکریم شر ما صاحب، مکرم محمد اکرم غوری صاحب ، مکرم داؤد گلزار صاحب نے حج کے فرائض انجام دیئے.جملہ حاضرین کی خدمت میں ہفتہ کی رات کا کھانا اور اتوار مورخہ ۱۴ جون صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا مجلس کی طرف سے پیش کیا گیا.جو احباب لندن سے باہر سے تشریف لائے تھے ان کو اتوار رات کا کھانا بھی پیش کیا گیا.اختتامی دعا سے پیشتر مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی ناظم اعلیٰ نے ان تمام کارکنان کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے بڑی محنت کے ساتھ اس اجتماع کو کامیاب بنایا کی کوشش کی تھی.خاص طور پر مکرم ڈاکٹر ولی شاہ صاحب اور ان کے معاونین مکرم حنیف الرحمن صاحب اور مکرم اعجاز بٹ صاحب جنہوں نے تمام حاضرین کے لئے کھانا تیار کیا.اسی طرح مکرم چوہدری عبدالکریم صاحب کا جنہوں نے لاؤڈ سپیکر کا انتظام کیا اور تقاریر کی ریکارڈنگ کی اور مکرم چوہدری رشید احمد صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت یو کے کا بھی شکر یہ ادا کیا جنہوں نے اس موقع پر

Page 446

۴۲۶ اطفال و ناصرات کے مقابلے کروائے اور ان کے لئے انعامات کا انتظام کیا.اسی طرح مکرم مرزا عبدالمنان صاحب اور مکرم غلام احمد چغتائی صاحب کا جنہوں نے سلسلہ کی کتب کی نمائش اور فروخت کا انتظام کیا.چوتھا اجتماع: ۱۲-۱۳ جون ۱۹۸۲ء کو منعقد ہوا.انڈونیشیا انڈونیشیا انڈو نیشیا میں مجلس کا باقاعدہ قیام ۱۹۵۳ء میں ہوا تھا.۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۲ء تک مکرم مولانا محمود احمد صاحب چیمہ رئیس التبليغ بطور نائب صدر خدمات بجالاتے رہے.مکرم عبدالرحیم غنی صاحب عرصہ ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۱ء کے ناظم اعلیٰ ملک مقرر ہوئے.لیکن اُن کی خرابی صحت کی بناء پر مکرم ای عبدالمنان صاحب نے چارج سنبھالا اور ۱۹۸۲ ء تک وہی ناظم اعلیٰ رہے.مجلس تاسک ملایا کا قیام۱۹۵۳ء میں ہوا تھا.۱۹۶۵ء سے ابراہیم صاحب اس کے زعیم تھے.مجلس میں ہفتہ وار درس کا انتظام رہا.انصار نے مسجد اور احمدیہ ہال کی تعمیر میں نمایاں حصہ لیا.مجلس LEMAH ABANG جو ۱۹۷۰ء میں قائم ہوئی تھی ، مسٹر BAUN ۱۹۷۵ء سے ۱۹۸۱ ء تک اور مکرم ایم ناصر صاحب ۱۹۸۲ء میں زعیم اعلیٰ تھے.مجلس بانڈ ونگ (BANDUNG) ۱۹۶۷ء میں بنی ہوئی تھی.۱۹۷۷ء سے ۱۹۷۹ء تک مکرم R.O.A KOSASIH صاحب اور پھر ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۲ ء تک مکرم H.O.SUWABI صاحب زعیم اعلیٰ رہے.۱۹۸۱ء تک ۴۶ مجالس کی تنظیم ہو چکی تھی اور ان کی تجنید ۲۳۹۹ انصار پر مشتمل تھی جبکہ مزید چونتیس مجالس کے ۵۹۹ انصار کی تنظیم کا کام جاری تھی.پمفلٹ TO FACE THE 14TH CENTURY OF" "HIJRAH اور "IN DEATH OF PROPHET ISA LIES THE LIFE OF ISLAM" ایک ایک ہزار کی تعداد میں طبع کئے گئے.شعبہ تعلیم و تربیت کے زیرانتظام تیسویں سپارے کی دس سورتوں کو حفظ کرنا، کشتی نوح کا مطالعہ اور اسلامی ثقافت کی گھروں میں ترویج انصار کی ذمہ داری قرار دی گئی.علاوہ ازیں تعلیمی پروگرام کے تحت امتحانات لئے جاتے رہے.سالانہ اجتماعات پہلا سالانہ اجتماع اجتماعات کا سلسلہ ۱۹۸۱ء سے شروع ہوا.پہلے اجتماع کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت کی جاتی ہے.مورخہ ۷.نومبر ۱۹۸۱ء کو مانسلور ضلع کونٹینگن (MANISLOR KUNINGAN) مغربی جاوا میں مجلس انصار اللہ انڈونیشیا کا پہلا سالانہ اجتماع نہایت کامیابی سے منعقد ہوا.اس اجتماع میں انڈونیشیا کی چھیالیس

Page 447

۴۲۷ میں سے تینتیس مجالس سے ۱۹۱ انصار بطور نمائندہ تشریف لائے.ے نومبر کو بوقت پانچ بجے شام تمام نمائندگان مقام اجتماع میں جمع ہوئے.مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے بعد رات کا کھانا کھایا.اس کے بعد اجلاس عام ایک گھنٹہ تک جاری رہا جس میں تمام مجالس کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور اجتماع کو زیادہ کامیاب بنانے کے پروگرام پر غور و خوض کیا گیا.نومبر صبح ساڑھے تین بجے تمام انصار نے نماز تہجد ادا کی جو کرم محفوظ صاحب معاون مبلغ نے پڑھائی.نماز فجر کے بعد مکرم عبد الرحمان صاحب احمدی نے درس قرآن کریم دیا.اس کے بعد مکرم بکری صاحب کی نگرانی میں سات بجے تک چار کلو میٹر دوڑ کا مقابلہ ہوا.پہلا اجلاس : ناشتہ کے بعد اجتماع کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم کے بعد مکرم مولا نا محمود احمد صاحب چیمه رئیس التبلیغ و نائب صدر مجلس انڈونیشیا نے دعا کرائی.صدر کمیٹی اجتماع مکرم سو جا فا صاحب نے اجتماع کے بارہ میں اور مکرم ناظم اعلیٰ صاحب نے رپورٹ سالانہ کارکردگی پیش کی.ٹھیک نو بجے تقاریر کا پروگرام شروع ہوا.سب سے پہلے مکرم میاں عبدالحئی صاحب مبلغ سلسلہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے موضوع پر ایک مدلل تقریر کی.دوسری تقریر مکرم عبد الرحمان صاحب نے وصیت کی اہمیت و برکات ، تیسری تقریر مکرم مولوی مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ سلسلہ نے صوفیاء کرام کے اخلاق، نیک نمونہ اور نصائح، اور چوتھی تقریر مکرم شکری بر ماوی صاحب نے انصار اللہ کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں کے موضوعات پر کی.یدا جلاس گیارہ بجے تک جاری رہا.اس کے بعد کھانا اور ظہر وعصر کی نمازیں ادا کی گئیں.دوسرا اجلاس: ایک بجے دو پہر دوسرا اجلاس مکرم ناظم اعلیٰ صاحب مجالس انڈونیشیا کی زیر صدارت ہوا.مکرم محی الدین شاہ صاحب مبلغ سلسلہ نے قرآن کریم کی فضیلت کے موضوع پر مکرم صدر صاحب جماعت احمدیہ گاروت نے صداقت حضرت مسیح موعود کے عنوان پر تقاریر کیں.پھر مکرم محمد یحیی صاحب گاروت اور مکرم محمود احمد چیمہ صاحب نے اپنی تقاریر میں انصار کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر کام کرنے کی طرف توجہ دلائی.تیسرا اجلاس : ساڑھے تین بجے تیسرا اجلاس مکرم نائب صدر صاحب مجلس کی زیر صدارت شروع ہوا.سب سے پہلے ناظم اعلیٰ صاحب نے دوران سال مستعد مجالس کو انعامات دینے کا اعلان کیا ، جو یہ تھیں.اول مجلس تاسک ملایا دوم سوم مجلس کہا ئیوران مجلس سورابایا مجلس میدان مجلس بوگر.مجلس جیسا لاڈا

Page 448

۴۲۸ انتخاب عہد یداران: اس موقعہ پر مجلس انصار اللہ انڈونیشیا کے نئے عہد یداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا.انتخاب کی تفصیل درج ذیل ہے.ا.نائب صدر...کرم رئیس التبلیغ صاحب انڈونیشیا ۲.ناظم اعلی...مكرم عبدالمنان صاحب ۳.نائب ناظم اعلی....مکرم محمد بکری صاحب ۴.معتمد (سیکرٹری ) عمومی...مکرم اینچو کی در سوصاحب ۵- محاسب....مکرم ڈاکٹر زین الدین صاحب معتمد مال مکرم یویو ماسدو کی صاحب ۷.معتمد تعلیم و تربیت اول....مکرم شکری بر ماوی صاحب معتمد تعلیم و تربیت دوم...مکرم محمد بکری صاحب ۹ معتمد اصلاح وارشاداول....مکرم چو چو احمدی صاحب ۱۰ معتمد اصلاح وارشاد دوم....مکرم آڈانگ عباس صاحب ۱۱.معتمد تالیف و تصنیف...مکرم عبدالرحیم صاحب غنی ۱۲.معتمد اجتماع اوّل...مکرم اڈانگ عباس صاحب ۱۳ معتمد اجتماع دوم مکرم بینگ صاحب ۱۴.معتمد ذہانت و صحت جسمانی...مکرم محمود بکری صاحب الوداعی تقریب اس تقریب میں مندرجہ ذیل مقررین نے خطاب کیا.ا.نمائندہ مبلغین...مکرم میاں عبدالحی صاحب ۲.نمائندہ نیشنل صدر جماعت احمدیہ انڈونیشیا مکرم آ ڈانگ حمید صاحب نمائندہ مجلس انصار اللہ انڈونیشیا مکرم محمد یحیی صاحب مکرم میاں عبدالحی صاحب نے اپنی تقریر میں اس خیال کو غلط قرار دیا کہ انصار اللہ کا مطلب کمزور اور بڑھاپے کو پہنچنے والے لوگ ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال کی عمر میں انسان ذہنی طور پر پختہ اور بالغ ہوتا ہے اور یہی سوچ سمجھ کر کام کرنے والی عمر ہے.یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کے عہدہ جلیلہ پر سرفراز فرمایا.انصار کے ذمہ نو جوانوں اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے.ان کے بعد مکرم آ ڈانگ حمید صاحب نے اپنی تقریر میں جماعت کی تنظیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ

Page 449

۴۲۹ انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ جماعت کی ذیلی تنظیمیں ہیں.اگر یہ ذیلی تنظیمیں مضبوط ہوں تو جماعت مضبوط ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے.نیز آپ نے خوشی کا اظہار کیا کہ انصار اللہ کا پہلا اجتماع ہونے کے باوجود بفضلہ تعالیٰ بہت کامیاب رہا ہے.ان کے بعد مکرم محمدی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس قسم کے اجتماع تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے بہت فائدہ مند ہیں اور ان سے آپس میں رابطہ قائم ہوتا ہے اور باہمی تعلقات اور محبت بڑھتی ہے.آپ نے کہا کہ اگلے اجتماع کو زیادہ کامیاب کرنے کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئیے.اٹھارہ بکروں کی قربانی انصار اللہ مرکز یہ کےاجتماع کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث کی اس مبارک تحریک پر کہ ہر جماعت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو جذب کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور صدقہ بکروں کی قربانی دے، مندرجہ ذیل مجالس اور افراد کی طرف سے اٹھارہ بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.مجلس انصار اللہ تانگ انگ ، تاسک ملایا ، گوند رونگ ،سما را نگ لینسٹنگ اگونگ ، جیسا لاڈا، اکاٹن سوڈرا، سورابایا ،سکا بومی ، مانسلور، سنگا پر نا مجلس انصار اللہ انڈونیشیا، مکرم پی پی سومنتری صاحب، مکرم ڈاکٹر الیاس صاحب، مکرم کرنل محمد صاحب.آخر میں یہ تجویز منظور ہوئی کہ آئندہ سال اجتماع انصار اللہ پورے تین دن پر محیط ہو.مکرم نائب صدر صاحب نے دعا کے ساتھ اجتماع کے اختتام کا اعلان فرمایا.اجتماع کے بعد مزید تین بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے تا کہ حضور کے ارشاد مبارک کی پوری تعمیل ہو جائے یعنی کل اکیس بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے اور غرباء میں تقسیم کئے گئے.ے بھارت بھارت میں تمام ذیلی مجالس بشمول مجل انصار اللہ مرکز یہ بھارت براہ راست خلیفہ المسیح کے ماتحت تھیں مجلس انصار اللہ مرکز یہ پاکستان کے ساتھ ان کا تعلق نہ تھا.ملکی تقسیم کے بعد ۱۹۵۰ء میں مجلس انصار اللہ کا قیام عمل میں لایا گیا.ابتداء میں مخدوش ملکی حالات کی وجہ سے مجلس کی سرگرمیاں قادیان تک ہی محدودر ہیں.۱۹۷۳ ء سے مکرم قریشی عطاء الرحمن صاحب انصار اللہ کے صدر منتخب ہوئے.حالات بہتر ہونے کے نتیجہ میں اُن کے دور صدارت میں باسٹھ مجالس کا قیام عمل میں آیا.۱۹۷۷ء میں مکرم قریشی عطاء الرحمن صاحب کی وفات کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

Page 450

۴۳۰ نے مکرم مولوی بشیر احمد صاحب خادم کو صدر مقرر فرمایا.ان کے دور میں انصار اللہ کا کام وسیع ہوا.دفتر مجلس انصار اللہ کی عمارت تعمیر ہوئی تنظیمی کاموں میں با قاعدگی پیدا ہوئی.خادم صاحب ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک صدر انصار اللہ ر ہے.سالانہ اجتماعات سالانہ اجتماع ۱۹۸۱ء مجلس انصار اللہ مرکز یہ قادیان کا دوسرا سالانہ اجتماع ۲۱-۲۲ اکتوبر ۱۹۸۱ءکو منعقد ہوا.اس اجتماع کے موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے از راہ محبت و شفقت انصار کو اپنے دو پیغامات سے نوازا.حضور انور کا ایک پیغام پہلے روز افتتاح کے موقعہ پر تلاوت قرآن کریم ونظم خوانی کے بعد مکرم مولوی حکیم محمد دین صاحب قائد تعلیم مجلس مرکز یہ قادیان نے پڑھ کر سنایا اور دوسرا پیغام بھی انہوں نے ہی ۲۲ اکتوبر کو صبح کے اجلاس میں تلاوت ونظم کے بعد پڑھ کر سنایا.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے پیغامات حضورانور کے یہ پیغامات ہفت روزہ ” البدر قادیان کے ۲۹ اکتو بر ۱۹۸۱ ء کے شمارہ میں شائع ہوئے.حضور نے اپنے پہلے پیغام میں انصار کو حقیقی معنی میں خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اپنا سب کچھ اس کی راہ میں فدا کر دینے کی نصیحت فرمائی.حضور نے فرمایا کہ پہلے اپنی تربیت کریں اور پھر اپنی اولاد کی نگرانی کریں اور اس ضمن میں جد و جہد اور کوشش کے ساتھ ساتھ دعا سے بھی کام لیں.حضور کے دوسرے پیغام کا متن ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے: وو انصار بھائیو! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ هُوَ النَّاصِرُ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انصار اللہ کے اس اجتماع کے لئے مجھ سے پیغام کی خواہش کی گئی ہے.پس میرا پیغام یہ ہے کہ حقیقی معنی میں انصار اللہ بن جائیں.خدا تعالیٰ اس زمانہ میں چاہتا ہے کہ جھوٹے معبود نابود ہو جائیں.دنیا

Page 451

۴۳۱ واحد ویگا نہ بچے خدا کی پرستار بن جائے اور اُسی کے حضور جھکے.کائنات کی تخلیق کا نقطہ مرکزی خدائے واحد و یگانہ کی ہستی ہے اور انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ زندہ خدا کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ عبودیت محویت عشق اور فنائیت کی متقاضی ہے.ایک انسان جو خدا کا عبد بن جاتا ہے اس کی کوئی چیز اس کی نہیں رہتی.وہ خدا کی محبت میں فنا ہو کر اس کا عبد بن کر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیتا ہے.پھر جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اُس کا ہو جاتا ہے.مَنْ كَانَ فِي عَوْنِ اللَّهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ پس اس موقع پر میں انصار دوستوں سے کہوں گا کہ حقیقی معنی میں خدا کے ہو جائیں اور اپنا سب کچھ اس کی راہ میں فدا کر دیں، دعائیں کرتے ہوئے کہ اے اللہ اس حقیر قربانی کو قبول فرما کہ یہ بھی تیرا احسان ہوگا.(۸) نائیجیریا لیگوس میں دسمبر ۱۹۷۳ء کو اور ابادان میں اکتوبر ۱۹۷۴ء کو مجالس کا قیام ہوا.ملکی سطح پر نظامت کے قیام کے بعد الحاج اے بی آئی کوکوئی (A.B.L.KUKOY) ناظم اعلی مقرر ہوئے.نائب صدارت کے فرائض مکرم مولانا محمد اجمل شاہد صاحب امیر و مشنری انچارج نے انجام دیئے.سالانہ اجتماعات چھٹا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ نائیجیریا کا چھٹا سالانہ اجتماع بمقام اونڈو (ONDO) ۲۹و۳۰ ستمبر ۱۹۷۹ء بروز ہفتہ.اتوار منعقد ہوا.جس میں دور ونزدیک سے آنے والے تقریبا پانچ صد نمائندگان نے شرکت کی.مقام اجتماع مسجد احمدیہ کے غربی جانب سوفٹ لمبے اور چالیس فٹ چوڑے حصہ پر شامیانے لگا کر بنایا گیا تھا.سٹیج کے علاوہ احباب کے بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام تھا.مقام اجتماع کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور مختلف بینرز سے مزین کیا گیا تھا.کارروائی کا آغاز : ۲۹ ستمبر بروز جمعہ اجلاس اوّل بوجه بارش بعد نماز ظہر و عصر تین بجے کی بجائے شام چار بجے کے قریب مسجد کے اندر ہی مکرم مولانا محمد اجمل صاحب شاہد امیر ومشنری انچارج و نائب صدر مجلس انصار اللہ نائیجیریا کی زیر صدارت شروع ہوا.کا رروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم الحاج صلاح الدین احمد صاحب نے کی.ابن شبیر صاحب نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قصیدہ بر مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اشعار پڑھ کر سنائے.بعد ازاں عہد انصار اللہ دو بار انگریزی زبان میں اور ایک مرتبہ نائیجیریا کی لوکل زبان

Page 452

۴۳۲ یوروبا میں دہرایا گیا.اس دوران چونکہ بارش تھم چکی تھی اس لئے باقی کا رروائی مقام اجتماع میں آکر شروع کی گئی.پروگرام کے مطابق لوائے احمدیت مکرم نائب صدر صاحب نے اور قومی جھنڈا مکرم الحاج عبدالعزیز صاحب ابیولا صدر جماعت نایجیریا نے لہرایا.اس دوران نعرہ تکبیر، اللہ اکبر اسلام زندہ باد احدیت زندہ باد.جماعت احمدیہ نائیجیریا زندہ باد.خلیفہ اسیح زندہ باد کے بلند اور پر جوش نعروں سے سارا ماحول گونجتا رہا.افتتاحی خطاب : مکرم نائب صدر صاحب نے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ عنقریب نائیجیریا کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیونکہ یکم اکتوبر کونا یجیریا کی آزادی کی انیسویں سالگرہ کے موقع پر تیرہ سال کی طویل ملٹری حکومت کے بعد سول حکومت کا قیام عمل میں آ رہا ہے.اس موقع پر تمام مسلمانوں کا اور بالخصوص جماعت احمدیہ کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس دور کے بابرکت اور کامیاب ہونے کے لئے شب و روز مساعی اور دعائیں کریں.آپ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ نئی حکومت نے ملکی دستور کے مطابق بلا تفریق مذہب وملت تمام کی خیر خواہی اور بہبودی کے لئے کوشاں رہے گی اور سب کو قانون کی حدود کے اندر آزادی حاصل ہوگی.آپ نے تمام جماعت اور خصوصاً انصار کو توجہ دلائی کہ وہ اپنی تبلیغی مساعی کو تیز تر کریں اور تمام دنیا تک امام آخر الزماں کا پیغام پہنچائیں.جماعت کا مزاج چونکہ پُر امن اور مخلوق خدا کی بہتری اور ہمدردی پر مبنی ہے اس لئے جوں جوں جماعت ترقی پذیر ہوگی ملک کو مزید استحکام اور ترقی نصیب ہوگی.آپ نے تبلیغ اسلام کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتے ہوئے پیار اور محبت کے ساتھ صحیح اسلامی تعلیم پیش کرنے کی ہدایت کی تا جلد از جلد لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں.رپورٹ کارگزاری: ازاں بعد مکرم الحاج کو کوئی صاحب ناظم اعلیٰ نے مجلس انصار اللہ نائیجیریا کی سالانہ رپورٹ پیش کی.آپ نے بتایا کہ دورانِ سال وہ مرکز سلسلہ گئے تھے اور انصار کی تنظیم سے مزید واقفیت حاصل کی اور اس کو جماعت میں روشناس کروانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں مزید بیداری پیدا ہوئی.آپ نے آئندہ سال کا لائحہ عمل پیش کیا اور تلقین کی کہ ہر جماعت میں اس تنظیم کے قیام کی کوشش کی جائے.ورزشی پروگرام : رپورٹ کے بعد کھیلوں کا پروگرام تھا جس میں رسہ کشی کے علاوہ دوڑ پانچ سو میٹر اور دوڑ ایک ہزار میٹر کے مقابلے بھی شامل تھے.پانچ سو میٹر کی دوڑ میں اوّل IEBUOE کے مکرم یقینی صاحب، دوم زاریہ کے مکرم آڈے ڈے جی صاحب اور سوم ابیو کوٹا کے اونی پیڑی صاحب تھے.ایک ہزار میٹر کی دوڑ میں اول لیگوس کے MAKAWJO ، دوم زاریہ کے مکرم آڈے ڈے جی صاحب اور سوم ابادان کے OBESEYE تھے.رسہ کشی کے مقابلہ کے لئے دو ٹیمیں بنائی گئی تھیں جس میں ایک طرف مبلغین اور دوسری طرف خدام کے عہدیداران تھے.یہ مقابلہ مبلغین کی ٹیم جیت گئی.کھیلوں کا پروگرام بہت دلچسپی کا باعث ہوا.کھیلوں کے بعد نماز مغرب اور عشاء ادا کی گئیں.بعد ازاں مکرم نائب صدر صاحب مجلس نے ہفتہ وار یہ

Page 453

۴۳۳ اخبار ٹروتھ“ کی افادیت بیان کرتے ہوئے اس کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی.سلائیڈز: رات کے کھانے کے بعد ساڑھے نو بجے مکرم مفتی احمد صادق صاحب نے سلائیڈ ز کا پروگرام پیش کیا جس میں جماعت احمدیہ نائیجیریا کی تعلیمی وطبی خدمات اور سرگرمیوں کے مناظر دکھائے گئے.ان میں سکولوں، ہسپتالوں اور مساجد کے نظارے نمایاں تھے.خاص طور پر مشرقی نائیجیریا میں نمائش تراجم قرآن مجید اور اویری میں نے مشن ہاؤس کے افتتاح کی تقریب کے مناظر دلچسپی کا باعث ہوئے.تقریری مقابلہ: ۳۰ ستمبر بروز اتوار کارروائی کا آغا ز نماز تہجد سے ہوا جو مکرم سلمان صاحب مبلغ سلسلہ نے پڑھائی.بعد نماز فجر تقریری مقابلہ ہوا.جس کے لئے مندرجہ ذیل تین عناوین مقرر تھے.1.TOMB OF JESUS CHRIST 2.EARLY ANSARS OF ISLAM AND THEIR SACRIFICES 3.ISLAM AND JEHAD تقریر کا وقت پانچ منٹ مقررتھا.مقابلہ میں سات انصار نے حصہ لیا.برادر بالوگوں صاحب ابادان اول، برادر عزیز صاحب لیگوس دوم اور برا در یقین صاحب ابادان سوم قرار پائے.NEW CIVIL REGIME AND AHMADIYYA MOVEMENT L اختتامی اجلاس: اس اجتماع کا تیسرا اور آخری اجلاس مکرم نائب صدر صاحب کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا.بعد ازاں مختلف مجالس کے دس زعماء کرام نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں.ان رپورٹوں سے یہ تاثر واضح تھا کہ بفضلہ تعالیٰ کئی مجالس مستعدی سے کام کر رہی ہیں.رپورٹوں کے بعد مکرم الحاج آر.اے بساری صاحب کے موضوع پر تقریر کی.آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن مجید کی رُو سے حکومت خدا تعالیٰ کی طرف سے افراد کو سونپی جاتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کا یہ مسلک ہے کہ حکومت کی اطاعت کی جائے.مکرم نائب صدر صاحب نے اس پر مزید روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ زریں مسلک جماعت کی ترقی کا ضامن ہے.آپ نے براڈ کاسٹنگ میں جماعت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک سٹیٹ کے ریڈیو سٹیشن سے VOICE OF ISLAM کا پروگرام جماعت گذشتہ چھ ماہ سے کامیابی سے پیش کر رہی ہے اور مزید تین اسٹیشنوں سے ایسا ہی پروگرام جلد شروع کرنے کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے.اس اجلاس میں دیگر مقررین کے علاوہ مکرم پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمد یہ نائیجیریا نے بھی حاضرین سے خطاب کیا اور انصار کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور اسلام کے دور اول کے انصار کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کی تلقین کی.اس موقع پر اونڈ مجلس نے مکرم نائب صدر صاحب اور حاضرین کی خدمت میں الوداعی سپاسنامہ پیش کیا جس کے جواب میں مکرم نائب صدر صاحب نے لوکل مجلس کی مہمان نوازی اور دیگر

Page 454

۴۳۴ انتظامات کے سلسلہ میں قابل قدر خدمات کو سراہا اور آئندہ ان کی مزید ترقی اور کامیابی کے لئے دعا کی.تقسیم انعامات اور دُعا : مکرم نائب صدر صاحب نے اعزاز پانے والے انصار میں انعامات تقسیم کئے اور آئندہ سال ساتواں سالانہ اجتماع زاریہ کے مقام پر منعقد کرنے کا اعلان کیا.دعا کے ساتھ یہ اجتماع کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.9 ساتواں سالانہ اجتماع مجلس نائیجیریا کا ساتواں سالانہ اجتماع ۲۷.۲۸ ستمبر ۱۹۸۰ء کو شمالی علاقہ کے ایک اہم شہر زار یہ میں منعقد ہوا.جماعت کی زیادہ تعداد جنوب کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، اس کے باوجود انصار اپنے اجتماع میں شرکت کے لئے دُور دراز کا سفر کر کے زار یہ پہنچے اور اجتماع کو کامیاب بنایا.زیادہ نمائندگی ایلے.ایفے جماعت کی تھی جہاں سے ایک سپیشل بس میں باسٹھ اور بذریعہ ریل گاڑی بارہ افراد تشریف لائے.نیز مبلغین کرام ،مجلس نصرت جہاں کے تحت کام کرنے والے بعض اساتذہ اور دیگر پاکستانی احباب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.اس اجتماع کے موقع پر زاریہ کی نئی سنٹرل مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.نیز حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ نائیجیریا کی فلم دکھائی گئی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ دیگر تنظیموں کی طرح انصار کا اجتماع بھی ہر سال مختلف جماعتوں میں باری باری منعقد ہوتا تھا.استقبال : مورخه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۰ء مکرم امیر صاحب پونے بارہ بجے کے قریب زار یہ پہنچے تو زاریہ کی جماعت نے شہر سے کئی میل باہر آ کر مکرم امیر صاحب کا استقبال کیا.جلسہ گاہ جلسہ گاہ مسجد سے باہر سڑک کے ساتھ شامیانے لگا کر بنائی گئی تھی.دوستوں کے بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا.حاضری قریب پانچ سو تھی.جلسہ گاہ میں مختلف جماعتوں نے اپنے بینرز لگائے ہوئے تھے.افتتاحی اجلاس: نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد مکرم مولانا محمد اجمل صاحب شاہد امیر جماعت نائیجیریا کی زیر صدارت پہلے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم عزیز الرحمن صاحب خالد نے کی.پھر دو چھوٹی بچیوں نے ترانہ پڑھا.جس کے بعد مکرم امیر صاحب نے نائیجیریا کا پرچم اور پریذیڈنٹ جماعت نائیجیر یا مکرم الحاج عبد العزیز ابیولا صاحب نے لوائے احمدیت لہرایا.اس دوران فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونجتی رہی.بعد ازاں مکرم امیر صاحب نے انصاراللہ کا عہد دہرایا.خطاب مکرم امیر صاحب: مکرم امیر صاحب نے اپنی تقریر کے شروع میں اجتماع پر آنے والے احباب کو خوش آمدید کہا اور دُعا کی کہ آنے والوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے.آپ نے واضح کیا کہ جماعت احمدیہ کا تعلق کسی خاص علاقہ یا کسی خاص زبان سے نہیں ہے بلکہ یہ ساری دنیا کے لئے ہے.احمدیت کا تعلق صرف یورو با لوگوں سے

Page 455

۴۳۵ نہیں ہے بلکہ ہاؤ سا بو لنے والے بھی انشاء اللہ احمدیت میں داخل ہوں گے.آپ نے تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ جنہوں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو قبول کیا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دوسرے مسلمانوں تک بھی آپ کا پیغام پہنچائیں.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وسع مگانگ اور آج ہم اس الہام کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.ہمیں اپنے گھروں نیز مساجد اور مشن ہاؤس کو بھی وسیع کرنا چاہئیے اور حضور کے ارشاد کے مطابق وسیع قطعہ حاصل کیا جائے.اسی طرح آپ نے لیگوس، ابادان اور دوسری بڑی جماعتوں کو بھی زمین کے وسیع قطعات حاصل کرنے کی تحریک کی.آخر میں آپ نے حضور کے لئے دُعا کی تحریک کی اور اجتماعی دعا کرائی.آپ کی تقریر کا ہاؤ سا زبان میں ترجمہ پیش کیا گیا.رپورٹ کارگزاری مجالس : امیر صاحب کی تقریر کے بعد مکرم الحاج اے.بی.آئی کو کوئی صاحب زعیم اعلی نائیجیریا نے سالانہ کارگزاری پیش کی اور انصار کو ہدایات دیں.آپ نے انصار کو بچوں کی تربیت کا خیال رکھنے اور ان کی تعلیمی ترقی کی طرف توجہ دلائی.اس کے بعد مختلف مجالس کے زعماء نے اپنی مجالس کی رپورٹ پیش کی.حضور کے دورہ نائیجیریا کی فلم : رپورٹس کے بعد حضور کے دورہ نائیجیریا کے موقع پر بنائی گئی فلم کا ایک حصہ دکھایا گیا.سات بجے شام یہ پروگرام ختم ہوا.نما ز مغرب وعشاء کے بعد مکرم منیر احمد صاحب بسمل نے درس حدیث دیا.آپ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے اور آپ کی سنت پر عمل کرنے کی تلقین کی.اس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا.دوسرا اجلاس : رات ساڑھے نو بجے دوسرا اجلاس شروع ہوا.جس کی صدارت مکرم الحاج اے.اے ہلیر وصاحب چیئر مین ناردرن سرکٹ نے کی.اجلاس میں تقریری مقابلہ ہوا جس میں انصار نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا.ہیں انصار شریک ہوئے.مکرم بالوگن صاحب ابادان اول اور مکرم عزیز احمد صاحب لیگوس دوم قرار پائے.دوسرادن اجتماع کے دوسرے دن کا آغاز نماز تہجد اور نماز فجر سے ہوا جو مکرم الفا اولووا صاحب نے پڑھائی.مکرم مولوی ذکر اللہ ایوب صاحب نے درس قرآن کریم دیا.اختتامی اجلاس: ساڑھے آٹھ بجے مکرم امیر صاحب کی زیر صدارت اختتامی اجلاس منعقد ہوا.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم الفا سلمان صاحب آف الا رونے کی.اس کے بعد مکرم زعیم صاحب مجلس 105 نے مجلس کی رپورٹ کارگزاری پیش کی.مکرم عزیز الرحمن صاحب خالد نے حضرت مسیح موعود کے عربی قصیدہ يَاعَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَ الْعِرْفَانِ کے چند اشعار سنائے.

Page 456

۴۳۶ بعد ازاں مکرم امیر صاحب نے چندہ جلسہ سالانہ کی ادائیگی کی تحریک کی اور اہم اعلان کیا کہ آئندہ مرکز سلسلہ کے طریق کے مطابق جلسہ سالانہ کا چندہ شرح کے مطابق وصول کرنے کا انتظام کیا جائے گا.پہلے یہ طریق چلا آرہا تھا کہ ہر جماعت کے ذمہ ایک رقم لگا دی جاتی اور پھر جماعتیں عام تحریک کے ذریعہ چندہ اکٹھا کرتیں اور دوست اس میں اپنے عطیات پیش کرتے.آپ نے ہر جماعت میں یہ انتظام کرنے کو کہا کہ سب احمدیوں سے دوران سال ان کی ماہانہ آمد کا دسواں حصہ سال میں ایک مرتبہ کے حساب سے وصول کیا جائے.نیز آپ نے بتایا که امسال سالانہ جلسہ او جوکور و میں ہو گا جہاں پر کہ ہمارا نیا مشن ہاؤس اور ہسپتال وغیرہ زیر تعمیر ہیں.بعدۂ زاریہ کے اطفال و ناصرات نے عربی زبان میں ترانہ سنایا اور سٹیج کے سامنے مارچ پاسٹ کی.ان میں سے ایک چھوٹی بچی نے یوروبا میں تقریر کی اور زار یہ آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا.پھر ایک اور بچی نے یہی تقریر انگلش میں کی.اس کے بعد بچے مارچ پاسٹ کرتے اور عربی میں ترانے گاتے ہوئے واپس چلے گئے.سوال و جواب کا پروگرام : اجتماع کا ایک دلچسپ پروگرام سوال و جواب کا تھا.یہ سلسلہ تقریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا.مکرم امیر صاحب نے سوالات کے جوابات دیئے.احمدیہ سنٹرل مسجد زاریہ: احمدیہ سنٹرل مسجد زار یہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب تیر کے زمانہ میں بنائی گئی تھی اور اب جماعتی ضروریات کے لئے ناکافی محسوس ہوتی تھی.اس کی جگہ نئی وسیع مسجد تعمیر کرنے کا پروگرام تھا جس کا سنگ بنیاد مکرم امیر صاحب نے اس اجتماع کے دوران رکھا.نئی مسجد کے لئے عطیات کا روح پرور منظر : نئی مسجد کا سنگ بنیا درکھنے سے قبل مکرم امیر صاحب نے مسجد کی تعمیر کے لئے عطیات پیش کرنے کی تحریک کی اس پر احباب جماعت نے انفرادی طور پر اور اپنے اپنے مشنوں (جماعتوں ) کی طرف سے ایک دوسرے سے بڑھ کر عطیات پیش کئے اور اسی وقت خدا کے فضل سے ۱۳۰۰ نائرے سے زائد رقم نقد ادا کر دی ( جو تقریباً بیس ہزار پاکستانی روپے کے برابر تھی) اس کے علاوہ متعدد جماعتوں نے وعدہ جات کئے.بعد ازاں مکرم امیر صاحب نے پہلی مسجد کے احاطہ میں نئی اور وسیع مسجد کی تعمیر کے لیئے سنگ بنیاد رکھا.سنگ بنیاد کے لئے استعمال کی گئی اس اینٹ پر سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے دُعا کی تھی.اس کے بعد پریذیڈنٹ جماعت نائیجیر یا مکرم الحاج عبدالعزیز صاحب ابیولا صاحب نے ایک اینٹ رکھی.بعدۂ مکرم امیر صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.اختتامی خطاب ودعا سنگِ بنیادرکھنے کے بعد مکرم امیر صاحب نے اختتامی تقریر کی.آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ ہزار نائزے کے عطیہ کا اعلان کیا اور دور دور سے آنے والے احباب کے لئے دعا کی درخواست کی نیز جماعت زاریہ کی خدمات کو سراہا.دعا پر یہ بابرکت اجتماع پونے گیارہ بجے کے قریب ختم ہوا.﴿۱۰﴾

Page 457

۴۳۷ آٹھواں سالانہ اجتماع مجالس نائیجیریا کا آٹھواں سالانہ اجتماع ۴۳ اکتوبر ۱۹۸ء کو منعقد ہوا.مقام اجتماع کا انتخاب : نائیجیریا کی وسعت کی وجہ سے ہر سال دور دراز کے علاقوں سے دوستوں کا ہیڈ کوارٹر پہنچ کر سالانہ اجتماع میں شرکت مشکل تھی لہذا ہر سال، مقام بدل بدل کر مختلف سٹیٹس میں اجتماع منعقد کئے جاتے تھے.۱۴۰۳ کتوبر ۱۹۸ء کو منعقد ہونے والے سالانہ اجتماع کی میزبانی کی سعادت جماعت ابیوکوٹا اوگن سٹیٹ کونصیب ہوئی.جماعت نے اجتماع کے لئے بہترین جگہ کا انتخاب یا او نور الد ین سوسائٹی کے سکول پر نپل صاحب سے دو ایام کے لئے سکول کی بلڈنگ استعمال کرنے کی اجازت حاصل کر لی.شعبوں کی تقسیم : اجتماع کے انتظام کو مندرجہ ذیل گیارہ شعبوں میں تقسیم کیا گیا.شعبہ رجسٹریشن، شعبہ طعام، شعبه قیام، شعبہ فراہمی فرنیچر ، شعبہ پلیٹی، شعبہ بجلی ولا وڈسپیکر ،شعبہ فراہمی برتن ، شعبہ صفائی ، شعبہ صحت وطبی امداد، شعبہ آب رسانی اور شعبہ برائے تعمیر مرکزی مسجد.ان شعبوں کی نگرانی کے لئے ایک سپریم کمیٹی بنائی گئی تھی.مقام اجتماع کی تزئین : مقام اجتماع کو رنگدار جھنڈیوں اور بینرز کے ساتھ خوب سجایا اور سادہ سا محراب بنا کر اس پر جلی حروف میں لکھا ہوا بینر لگایا گیا.اجتماع کی تشہیر: جماعت کے ہفتہ وار آرگن دی ٹروتھ میں اجتماع کے متعدد بار اعلانات شائع ہوئے.اس کے علاوہ اوگن سٹیٹ کے ریڈیو O.G.B.C کے ذریعہ بھی اعلانات ہوئے.ایک مرتبہ سٹیٹ کی خبروں میں اس اجتماع کی تاریخ، وقت اور مقام کا اعلان براڈ کاسٹ ہوا.نیز دوستوں کو دعوت ناموں کے ذریعہ بھی مدعو کیا گیا تھا.وفود کی آمد: اجتماع کے لئے اور ۴ اکتوبر کا دن مقرر تھا.بعض مجالس کے نمائندگان ۲ اکتوبر کی رات کو پہنچ گئے.اکثر مجالس ۳ اکتوبر بروز ہفتہ صبح کو پہنچیں.تمام نمائندگان کو قیام وطعام مہیا کیا گیا.استقبال امیر : مکرم مولانا محمد اجمل صاحب شاہد، امیر ومشنری انچارج نائیجیریا ، نایجیر وگو( جو نائب صدر مجلس انصار اللہ برائے مجالس مندرجہ بالا بھی تھے ) ، کے استقبال کے لئے ابیوکوٹا سے سات کلومیٹر باہر لیگوس ، ابیوکوٹا ایکسپریس روڈ پر انصار و خدام کے موٹر سائیکل سواروں کا ایک چاق و چوبند دستہ پہنچ گیا.مکرم امیر صاحب ساڑھے گیارہ بجے تشریف لائے.آپ نے کار سے اتر کر سب دوستوں سے مصافحہ کیا اور ایک جلوس کی شکل میں مقام اجتماع کی طرف روانہ ہو گئے.مقام اجتماع میں وارد ہونے پر حاضرین نے آپ کا شاندار استقبال کیا.آپ نے سارے انتظام کا وسیع جائزہ لیا اور بعض کمزوریوں کی نشان دہی کی.نماز ظہر و عصر کی ادائیگی: اڑھائی بجے بعد دو پہر سکول کی وسیع مسجد میں نماز ظہر وعصر جمع کر کے ادا کی گئیں اور اجتماع سے متعلق ضروری ہدایات دی گئیں.

Page 458

۴۳۸ پہلا دن اجتماع کا آغاز : سالانہ اجتماع مکرم نائب صدر مجلس صاحب کی زیر صدارت سوا تین بجے شروع ہوا.تلاوت قرآن پاک مکرم ایس ڈی احمد صاحب لوکل مشنری ابادان نے کی.تلاوت کے بعد مکرم نائب صدر صاحب نے پہلے انگلش اور پھر مقامی زبان یوروبا میں عہد دو ہرایا.مکرم مولوی صفی الرحمن صاحب خورشید نے سید نا حضرت مسیح موعود کا عربی قصیده در مدح سید کونین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اشعار ترنم کے ساتھ پڑھے.افتتاحی خطاب: مکرم نائب صدر صاحب نے کہا کہ پندرھویں صدی ہجری کا یہ پہلا سالانہ اجتماع انصار اللہ ہے اور جیسا کہ حضور متعدد بار فرما چکے ہیں ، یہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہے.یہ افسانہ نہیں، حقیقت ہے.وقت بتائے گا کہ سیدنا حضرت اقدس کی دیگر بے شمار پیشگوئیوں کی طرح یہ پیشگوئی بھی پوری شان و شوکت سے پوری ہوگی.انشاء اللہ.لیکن جہاں یہ عظمت والی پیشگوئی ہمارے دلوں کے لئے تسکین بخش ہے وہاں یہ ہمارے کندھوں پر عظیم بوجھ بھی ڈال رہی ہے.یہ ہمیں دعوت دیتی ہے عمل کی، یہ دعوت ہے مالی قربانیوں کے لئے اور یہ دعوت ہے اپنے اوقات اور ساری طاقتوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دینے کی.میں اس اجتماع کا آغا ز آپ کو ان ذمہ داریوں کی یاددہانیوں سے کرتا ہوں.سالانہ رپورٹ: افتتاحی خطاب و دعا کے بعد ناظم اعلیٰ جناب الحاج اے.بی.آئی کوکوئی صاحب نے مجلس کی سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی.آپ نے ان مجالس کے نام پڑھ کر سنائے جن کی طرف سے سارا سال تعاون حاصل رہا اور ان چند مجالس کے نام بھی لئے جن کی طرف سے رپورٹس باقاعدگی سے موصول نہیں ہوئیں.مکرم ناظم صاحب اعلیٰ نے اپنی مختصر مگر جامع رپورٹ میں چندہ کی وصولی، وقار عمل تعلیم قرآن اور بعض دیگر امور کا ذکر فرمایا.ورزشی مقابلے رپورٹ کے بعد کھیل کا پروگرام تھا.ایک سو گز کی دوڑ ، لانگ جمپ اور میوزیکل چیئرز کے مقابلہ جات ہوئے.انصار نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.کھیل کے انتظام میں مکرم مقصود احمد صاحب چٹھہ اور مکرم لطیف احمد صاحب نے مقامی دوستوں کا ہاتھ بٹایا.نتائج حسب ذیل رہے.لانگ جمپ اول: مسٹر جی اور انٹی.ابادان ، دوم : مسٹر ایل.اے.اوکے.اوٹا ، سوم : مسٹر آڈے ڈے جی.زار یہ.ایک سو گز کی دوڑ : اول : الحاج ایف اے پولا.بڑاگری ، دوم : جناب ہارونہ گیوا.اکارے،سوم : الحاج الیں.اے.بیلو.موشین.میوزیکل چیئرز : اول: الحاج صادق - الورین ، دوم: الحاج آدمز.لیگوس ، سوم : مسٹر آڈے ڈے جی.زار یہ.بعض مقابلے ابھی ہونا باقی تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انہیں منسوخ کرنا پڑا.نماز مغرب و عشاء اور درس حدیث سوا سات بجے سکول کی وسیع مسجد میں نماز مغرب اور عشاء باجماعت ادا کی

Page 459

۴۳۹ گئیں.جن کے بعد مکرم ملک محمد اکرم صاحب نے حدیث نبوی کا درس دیا.مجلس سوال و جواب: بعد ازاں احباب جماعت کو سوالات کرنے کی دعوت دی گئی.جوابات مکرم نائب صدر صاحب نے مختصر مگر جامع طور پر دیئے.اس کے بعد وقفہ برائے طعام ہوا.مجلس شوری: انصار اللہ کی مجلس شوری میں مجالس کے نمائندگان نے اپنے مسائل بیان کئے اور باہمی مشورہ کے بعد ان کا حل تجویز کیا گیا.نیز آئندہ سال کا لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا.تقریری مقابلے : مجلس شوری کے بعد تقریری مقابلہ شروع ہوا.ہر مقرر کو پانچ منٹ کا وقت دیا گیا.عناونین یہ تھے.(۱) حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاتم النبین (۲) قرونِ اولیٰ کے مسلمان اور ان کی قربانیاں اس مقابلہ میں بھی انصار نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مقررین کی تعداد پندرہ سے تجاوز کر گئی.ہر مقرر نے خوب جوش اور ولولہ کے ساتھ تقریر کی.الحاجی اونا ہارو، اول.الحاجی اولولیڈے، دوم اور مسٹر بیلوسوم قرار پائے.مقابلہ کے بعد مکرم نائب صدر صاحب نے دوسرے روز کے پروگرام کا اعلان کیا اور احباب کو اس سے بھر پورفائدہ اٹھانے کی تلقین کی.اس طرح یہ اجلاس رات گیارہ بجے کے بعد ختم ہوا.دوسرادن پہلا اجلاس دوسرے روز کا آغاز نماز تہجد کی باجماعت ادائیگی سے ہوا جو الفا اے.آر.اے اولووا صاحب (ALFA A.R.A.OLUWA) نے پڑھائی.نماز فجر الفا بچی صاحب زاریہ نے پڑھائی اور بعدہ درس قرآن دیا.بعد ازاں مسٹر اے.ڈبلیو.آئینہ از لیگوس (Mr.A.W.AINA) کی زیر قیادت انصار نے اجتماعی ورزش کی جس کے بعد ناشتہ کے لئے وقفہ دیا گیا.دوسرا اجلاس: تلاوت قرآن کریم کے بعد ایموسٹیٹ IMO STATE کے دارالحکومت اومیری (OWERD) مشن کے نمائندہ مسٹر الیاس نے اپنی تقریر میں بتایا کہ چند سال قبل تک اس پوری سٹیسٹ میں کوئی ایک فرد بھی دین حق کے نام سے واقف نہ تھا.پھر جماعت احمدیہ نے اپنے نہایت مستعد تبلیغی نظام کے تحت وہاں مبلغ بھجوائے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دین حق کے نور سے روشنی عطا فرمائی اور آج اپنے علاقہ میں فخر سے سر بلند کر سکتے ہیں.جماعت نے کئی پراجیکٹ یہاں شروع کر رکھے ہیں.ایک مشن ہاؤس اور دو مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور ایک زیر تعمیر ہے.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی عنایت سے ایک میڈیکل سنٹر بھی قائم ہو چکا ہے اور لوگوں کو علم ہو گیا ہے کہ جماعت احمد یہ ایک فعال جماعت ہے.الا رو جماعت کے ایک با علم دوست الفا ایم.اے.سلمان صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ برائے معمر حضرات کے موضوع پر نہایت دلچسپ انداز میں تقریر کی چونکہ آپ کی تقریر مقامی زبان

Page 460

۴۴۰ میں اور معلومات سے پر تھی اس لئے دوستوں نے اس کو بہت پسند کیا.اس کے بعد ناظم اعلیٰ صاحب نے آئندہ سال کا پروگرام انصار کو بتایا اور اپیل کی کہ با قاعدگی سے مرکز میں رپورٹیں ارسال کریں تا کہ کام سے اطلاع ہوتی رہے اور مجالس کی راہنمائی ممکن ہو.آخری اجلاس: تلاوت قرآن کریم کے بعد مکرم الفا سلمان صاحب نے معزز مہمانوں سے مہمانِ خصوصی مکرم مولانا محمد اجمل صاحب شاہد کا تعارف کروایا.بعد از تعارف الحاج آر.اے بوساری صاحب نے اس اجلاس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اجلاس ابیو کوٹا میں ایک عظیم مسجد کی تعمیر کے فنڈ ز جمع کرنے کے لئے مخصوص ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت سے وعدہ ہے.مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ اس لئے احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ دل کھول کر خانہ خدا کی تعمیر کے لئے چندہ دیں.ابھی تقریر جاری ہی تھی کہ احباب کرام نے قربانیاں پیش کرنے کے لئے ایک مثال قائم کی.اناؤنسر نے اعلان کیا کہ صدر جلسہ نے اپنے چندہ کا چیک عطا کیا ہے.یہ معمولی رقم نہ تھی.بلکہ یہ دو ہزار پانچ صد نا ئیرا پاکستانی کرنسی کے مطابق چالیس ہزار روپے) کی خطیر رقم تھی.ابو کوٹا کی جماعت جب یہ سوچ رہی تھی کہ اگر دو، اڑھائی ہزار نائیرہ کی رقم آج جمع ہو جائے تو مسجد کا کام شروع کرنے کے قابل ہو جائے گی.جب اس رقم کا اعلان کیا گیا تو فضا یکدم نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی.مجمع پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی.اپیل کرنے والے دوست کی آواز دب کر رہ گئی اور وہ تقریر ختم کرنے پر مجبور ہو گئے.پھر کیا تھا.لوگ سٹیج پر ٹوٹے پڑ رہے تھے اور بارہ ہزار چھ صد اڑسٹھ نائیرا اور ساٹھ کو بو کی قربانی پیش کر دی جو دو لاکھ پاکستانی روپے سے زائد بنتی تھی.صدر جماعت ابیوکوٹا نے اس بے مثال قربانی پر احباب کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ انشاء اللہ دوستوں کی توقعات کے مطابق ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی جائے گی.مکرم نائب صدر صاحب کا الوداعی خطاب : مکرم امیر و نا ئب صدر صاحب مجلس نے الوداعی خطاب فرمایا.آپ نے دوستوں کو اس اجتماع میں شرکت کرنے پر مبارکباد دی اور اعلان کیا کہ آئندہ اجتماع بینڈل سٹیٹ کے دار الحکومت بینن (BENIN) میں منعقد ہوگا.آپ نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ آپ گھروں میں جا کر جہاں اپنے تزکیۂ نفس کی طرف توجہ دیں ، وہاں اپنے اہل وعیال کی تربیت بھی اسلام کے مطابق کریں.آپ نے نئی مطبوعات کا بھی مختصر تعارف کروایا اور دوستوں کو مطالعہ کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ اپنی اولاد کو بھی علم کے زیور سے آراستہ کریں.الوداعی خطاب کے بعد اجتماعی دعا ہوئی.11

Page 461

۴۴۱ تنزانیہ (مشرقی افریقہ) تنزانیہ میں ۱۹۷۳ء میں مجلس انصار اللہ دار السلام میں قائم ہوئی.اس کے بعد ۱۹۸۲ء میں بارہ مجالس انصار اللہ قائم کی گئیں.مجالس کے نام مع زعماء درج ذیل ہیں.مجلس زعیم مجلس SALUM ALI ISMAILI DIHINJI BAKARI SALUM KANYATTA SHABANI KWELEWA MWANZNA DODOMA MOOROGORO TABORA SHABANI MALINDA I.A.AYYAZ MAULIDI P.KAGGUTA BAKARI SAIDI MFAUME ISMAILI HASSAN ISMAILI LISINGE SONGEA MKONGO ARUSHA TANGA NEWALA LULINDI MCHOLI مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب احمدی (امیر مشنری انچارج ) مجلس ملک کے پہلے نائب صدر اور مکرم لقمان صاحب پہلے ناظم اعلیٰ تھے.ماریشس ماریشس میں مجلس انصار اللہ کا با قاعدہ قیام جنوری ۱۹۷۷ء میں ہوا تھا اور ابتد ا ملک میں چھ مجالس روز بل ، مونتا میں بلانش ، TRIOLET ، سینٹ پری فیکس اور پورٹ لوئیس ) قائم کی گئیں.۱۹۷۹ء میں QUATRE BORNES اور مونتائیں لونگ کے مقامات پر مجالس کا قیام ہوا.۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۳ء تک مکرم مولا نا صدیق احمد صاحب منور مشنری انچارج کو بطور نائب صدر مجلس خدمت کی توفیق ملی.ناظمین اعلی ملک کے اسماء درج ذیل ہیں.۱۹۷۷۷۸ء ۸۰-۱۹۷۹ء ۸۲-۱۹۸۱ء مکرم شمس الحق یا د علی صاحب مکرم احمد سلطان غوث صاحب مکرم عزیز تیجو صاحب

Page 462

۴۴۲ زعماء مجالس کے اسماء جور یکارڈ سے مل سکے ہیں.ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.روز مل : مکرم شمس الحق یاد علی صاحب (۷۷ ۷۸ ) - مکرم حنیف جواہر صاحب (۶۸۱۷۹).مکرم مبارک رمضان صاحب (۸۲-۶۸۳).فنکس: مکرم مولا نا ابو بکر خان صاحب (۷۷-۶۸۰) مکرم ابوطالب کالوصاحب (۸۱ ۶۸۲).سینٹ پری: مکرم حمید زیاد علی صاحب (۷۷-۶۸۵).مودتا میں بلانش : مکرم حسن رمضان صاحب (۷۷-۶۸۲).پورٹ لوئیس : کرم نور محمود فریدون صاحب (۷۷-۷۸ء).مکرم وحید رمضان صاحب (۷۹-۸۰).مکرم ابراہیم امام دین صاحب (۸۱-۶۸۲).TRIOLET: مکرم حمید پیر بخش صاحب (۷۷-۶۸۲).مونتا میں لونگ : مکرم نورالدین صاحب (۷۹-۶۸۲).QUATRE BORNES: مکرم طالب رمضان صاحب (۷۹-۶۸۰) بکرم شفیع زبیر صاحب (۶۸۳۸۱) ان ابتدائی عہدیداروں کی نگرانی میں مجالس اپنے مفوضہ فرائض انجام دیتی رہیں.حسب ضرورت مجلس لٹریچر تیار کر کے تقسیم کرتی رہی.چنانچہ علی الترتیب ۱۹۷۷ء ۱۹۷۸ ء اور ۱۹۸۱ء میں انصار اللہ سوونیر (میگزین).`A PROPOS DE LA SECOND VENUE DE HAZRAT ISSA (CONCERNING THE SECOND ADVENT JESUS) اور JESUS FILS DE MARIE EST MORE (JESUS, SON OF MARY IS DEAD میں شائع کئے گئے.عہدیداران ، مجالس کے دورے کر کے انصار کو متحرک کرتے رہے اور ان کی طرف سے مرکز میں با قاعدہ رپورٹ موصول ہوتی رہی.سالانہ اجتماعات ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۲ء تک (سوائے ۱۹۷۹ء) سالانہ اجتماعات منعقد کئے جاتے رہے.۱۹۸۰ء کے اجتماع پر صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی اپنا پیغام ارسال فرمایا.اس اجتماع کی کارروائی ہدیہ ناظرین ہے.دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ نے ۸ جون ۱۹۸۰ء بروز اتوار دار السلام بال روز ہل میں اپنا دوسرا سالانہ اجتماع منعقد کیا.یہ اجتماع اگر چہ یک روزہ تھا.پھر بھی اپنے دلچسپ پروگرام کے باعث بہت مفید ثابت ہوا.اس پروگرام

Page 463

۴۴۳ میں زیادہ سے زیادہ احباب کو شریک کرنے کے لئے قریباً ایک ماہ قبل مساجد میں اعلان کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اجتماع کا تفصیلی پروگرام سائیکلو سٹائل کر کے سب انصار کو بھجوایا گیا.چنانچہ اجتماع میں جملہ مجالس کے نمائندگان شریک ہوئے اور بہت دلچسپی سے پروگرام کو سنا.پہلا اجلاس: اجتماع کا پہلا سیشن ۸ جون بوقت دس بجے صبح زیر صدارت مکرم احمد سلطان غوث صاحب صدر جماعت ماریشس شروع ہوا.تلاوت قرآن مجید مخلص نابینا احمدی مکرم مناف ہولاش صاحب نے کی.بعدہ مکرم آدم علی بخش صاحب نے خوش الحانی سے قادیان سے متعلق نظم سنائی.مکرم حمید زیاد علی صاحب نے عہد د ہروایا.مکرم مولوی صدیق احمد صاحب منور نے اجتماعی دعا کرائی.مکرم صدر صاحب جماعت نے اپنی استقبالیہ تقریر میں حاضرین کو أَهْلاً وَسَهْلاً وَمَرْحَبًا کہا اور تبلیغ و تربیت کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی اور انصار سے پُر زور اپیل کی کہ جماعت کے لئے قابل تقلید نمونہ بنیں.لوکل مبلغ مکرم مولوی ابو بکر خاں صاحب نے قرآن مجید اور حدیث کی روشنی میں انصار اللہ کے فرائض، کے عنوان پر حاضرین سے خطاب کیا اور کہا کہ تبلیغ ہر احمدی کا فرض ہے اور اس روحانی دولت سے زیادہ لوگوں کو متمتع کرے.اگلی تقریر مکرم بشیر تیجو صاحب کی تھی.آپ نے جو ا اور منشیات کے نقصانات کے موضوع پر روشنی ڈالی.بعدہ اجتماعی دعا ہوئی اور پہلا اجلاس اختتام پذیر ہوا.دوسرا اجلاس انصار نے دوپہر کا کھانا دار السلام ہال سے ملحقہ کمروں میں کھایا.اس اجتماعی طعام کی تیاری کے لئے بعض انصار نے نہایت محنت سے کام کیا.ایک بجے نماز ظہر وعصر باجماعت ادا کی گئیں.دوسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض مکرم شمس الحق یاد علی صاحب نے سرانجام دیئے.مکرم علی بھائی رحمن صاحب نے تلاوت قرآن پاک اور مکرم رحمت علی بھنو صا حب نے نظم پڑھی.جماعت احمدیہ کے بعض پرانے احمدیوں نے گذشتہ واقعات کی یاڈ کے موضوع پر خیالات کا اظہار کیا.اس پروگرام کو پیش کرنے والے مکرم محمود تیجو صاحب تھے.آپ نے سب سے اوّل جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ بتاتے ہوئے جملہ مرکزی مبلغین کے نام اور ان کا عرصہ قیام در ماریشس بیان کیا.انہوں نے کہا کہ ان جانثار مبلغین کی کوششوں کے نتیجہ میں آج ہم احمدیت کی دولت سے اپنی جھولیاں بھر رہے ہیں.اس مختصر تعارف کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل دوستوں کو اسٹیج پر بلایا.مکرم امام الدین صاحب، حسن علی صاحب، مکرم حنیف بھٹو صاحب ، مکرم حنیف جواہر صاحب اور مکرم طالب رمضان صاحب.سب سے پہلے جماعت حمدیہ منکس کے قدیمی احمدی مکرم امام الدین حسن علی صاحب اسٹیج پر تشریف لائے.انہوں نے بتایا کہ وہ بالکل ،

Page 464

۴۴۴ ابتدائی زمانہ سے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کے دور کے احمدی ہیں.ان کے والد مکرم بھی قدیمی احمدی تھے.اس زمانہ میں مخالفت نہایت شدید تھی.حضرت صوفی صاحب کو گلی میں جاتے ہوئے گالیاں سننی پڑتی تھیں.موصوف کے والد رحمن حسن علی صاحب کا واقعہ ہے کہ فنکس کے علاقہ کے ایک شدید مخالف نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم احمدی ہونے کی حالت میں مر گئے تو تمہیں غسل دینے والا کوئی نہیں ہو گا.انہوں نے اس مخالف کو یہ جواب دیا کہ مجھے خدا موت نہیں دے گا جب تک مجھے غسل دینے والے اور دفنانے والے پیدا نہ ہو جائیں.چنانچہ ان کی زندگی میں ہی اس علاقہ میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور دشمنوں کے ناپاک ارادے اور خواہشات خاک میں مل گئیں.اس کے بعد جماعت احمد یہ مونتائیں لونگ کے مکرم حنیف صاحب نے حاضرین سے خطاب کیا.انہوں نے کہا کہ احمدیت سے پہلے ماریشس کا جزیرہ روحانی طور پر جنگل تھا.اللہ تعالیٰ نے اس جزیرہ کو منور کرنے کے لئے احمدیت کی روشنی کو یہاں بھیجا.احمدیت کی برکت حضرت صوفی غلام محمد صاحب ماریشس میں لے کر آئے تھے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت صوفی صاحب نے میرے دل و دماغ پر بہت گہرے نقوش ثبت کئے ہیں.ماریشس میں صحابہ حضرت مسیح موعود تشریف لائے ، ان کے ذریعہ ہمیں روحانی اور علمی دولتیں ملیں.انہوں نے کہا کہ ان بزرگ مبلغین کے ساتھ اولین احمدیوں نے بھی شاندار قربانیاں پیش کی تھیں.ہمیں چاہئیے کہ ان کے خلوص، فدائیت اور قربانیوں کے جذبہ کو بار بار جماعت کے نو جوانوں کے سامنے رکھیں تا آئندہ نسل اپنے آباء کے نیک نمونوں پر چل کر زیادہ بہتر رنگ میں احمدیت کی خدمت کا مقدس فریضہ سرانجام دے سکیں.مکرم بھنو صاحب نے تقریر کے آخر میں انصار سے درخواست کی کہ اپنے بچوں کو احمدیت سے آگاہ کریں اور ان کو اس قابل بنا دیں کہ وہ احمدیت کی امانت کی صحیح طور پر حفاظت کر سکیں اور اپنے قول و عمل سے تبلیغ احمد بیت کے کام کو احسن طور پر سرانجام دے سکیں.اس پروگرام کی تیسری تقریر مکرم حنیف جواہر صاحب سابق صدر جماعت ماریشس کی تھی.انہوں نے بتایا کہ جب ان کے والد مکرم احمد جواہر صاحب نے بیعت کی تو سارا خاندان دشمن ہو گیا اور شدید مخالفت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.احمدیت کی ابتدائی تاریخ کے واقعات بیان کرتے وقت موصوف رو پڑے.انہوں نے حضرت حافظ جمال احمد صاحب کے زمانہ کی مشکلات کا ذکر کیا.آخر میں مکرم حنیف صاحب نے تجویز کیا کہ جماعت کے مکتب کے نظام کو مضبوط بنانا چاہئے اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے ذریعہ ایسی کلاسوں کا انعقاد کرنا چاہئیے جن میں نوجوانوں کو اسلام کی تعلیمات سے اچھی طرح آگاہ کیا جائے تا کہ وہ مضبوط احمدی بن جائیں.مکرم جواہر صاحب کے بعد مکرم طالب رمضان صاحب نے مونتا میں بلانش میں احمدیت کے قیام کے

Page 465

۴۴۵ بارہ میں بتایا کہ وہاں مکرم اکبر تیجو صاحب نے سب سے پہلے بیعت کی تھی.انہوں نے مسلسل اپنا تعلق احمد یہ مسجد روزبل کے ساتھ رکھا.ان کو تبلیغ کا جنون تھا.وہ جہاں جاتے تبلیغ شروع کر دیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو نوازا اور اس علاقہ کے اور لوگ بھی احمدی ہو گئے.اس دلچسپ اور ایمان افروز پروگرام کے بعد مکرم الحاج عبید اللہ بھنوصاحب نے ”حضرت احمد علیہ السلام کے موضوع پر تقریر کی اور آپ کی آمد کی ضرورت پر روشنی ڈالی.مکرم مولوی صدیق احمد صاحب منور مبلغ انچارج و نائب صدر نے اختتامی تقریر میں کہا کہ انصار زندگی کے جس دور میں داخل ہو چکے ہیں، اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم کریں.آپ نے تبلیغ کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ہر ناصر آج یہ عزم کرے کہ وہ تبلیغ کو بہت اہمیت دے گا اور اسے ایک فرض خیال کرے گا.آپ نے اس موقع پر نماز با جماعت، لین دین کے معاملات میں نیک نمونہ پیش کرنے اور بالخصوص تربیت اولاد کی طرف توجہ دینے کی تاکید کی.خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق قرآن مجید ناظرہ ، باترجمہ اور تفسیر کاعلم حاصل کرنے کے متعلق بتایا.موصوف نے تقریر کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا مرسلہ پیغام پڑھ کر سنایا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی صحت کے بارہ میں دوستوں کو بتایا اور حضور پُر نور کی کامل شفایابی کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے اجتماعی دعا کرائی اور یوں مجلس انصار اللہ ماریشس کا دوسرا سالانہ اجتماع انجام پذیر ہوا.اجتماع کے اختتام پر احباب مسجد کے عقب میں جمع ہوئے جہاں پر گروپ فوٹو لئے گئے.صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا پیغام اس اجتماع پر صدر محترم نے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ممبران کرام مجلس انصاراللہ ماریشس هُوَ النَّاصِرُ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ آٹھ جون ۱۹۸۰ء کو اپنا دوسرا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق پا رہے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بہت کامیاب فرمائے اور آپ سب کو اس کی برکات سے مالا مال کرے.آمین.مکرم عزیزم مولوی صدیق احمد صاحب منور مبلغ انچارج ماریشس نے مجھے آپ کی یہ خواہش

Page 466

پہنچائی ہے کہ میں اس موقعہ پر آپ کے نام پیغام بھجواؤں.میرا آپ کے نام پیغام یہ ہے کہ بحیثیت رکن مجلس انصار اللہ آپ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں آپ انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھیں.اراکین مجلس انصار اللہ سے جن ذمہ داریوں کی توقع کی جاتی ہے اس کی نشان دہی اس امر سے ہوتی ہے اور یہ وہ عمر ہے جس سے روحانی بلوغت کا آغاز ہوتا ہے پس یہ امراراکین مجلس انصاراللہ کو ان کی اس نہایت اہم اور بنیادی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ دعاؤں اور انابت الی اللہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے کوشاں رہیں.خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ان کے ہمیشہ پیش نظر رہے.محبت الہی اور عشق رسول ان کی روح کی غذا ہو.ایک اور امر جس کی طرف میں ماریشس کے انصار بھائیوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ارشاد خداوندی ہے.بلّغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ اس ارشادربانی کے مخاطب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں بلکہ آپ کی امت کا ہر فرد بھی اس کا مخاطب ہے اور اس پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ کلام الہی کو دوسروں تک پہنچائے.اس زمانہ میں کلام الہی کی اشاعت اور تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ کے سپرد کیا ہے پس جماعت کے ہر فرد اور خصوصاً انصار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فریضہ تبلیغ کو پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کر کے جہاد میں بھر پور حصہ لیں اور ہماری جماعت نے ہر فرد سے یہ توقع کی ہے کہ وہ سال میں کم از کم ایک فرد کو ضرور احمدی بنائے.اگر آپ میں سے ہر ایک اس ہدایت کے مطابق عمل پیرا ہو تو مستقبل قریب میں احمدیت کے حق میں ایک زبر دست روحانی انقلاب رونما ہو سکتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ آپ میں سے ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا ذاتی تعلق پیدا ہو اور آپ اپنے ہم وطنوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملانے کا ذریعہ بنیں.آمین آخر میں ماریشس کے خصوصی حالات کے پیش نظر میں خصوصی طور پر مجلس انصار اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ کتاب کشتی نوح کے ان اقتباسات کا جو ہماری تعلیم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں، خود بھی بار بار مطالعہ فرما ئیں اور اپنے بچوں کو بھی اور مستورات کو مطالعہ کروائیں اور ان نصائح کو حرز جان بنالیں.(۱۲)

Page 467

۴۴۷ جرمنی جرمنی میں مجلس کا قیام سب سے پہلے فرینکفرٹ میں ۱۹۷۷ء میں ہوا.نائب صدارت کے فرائض على الترتيب مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری اور مکرم منصور احمد خان صاحب نے ادا کئے.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے مئی ۱۹۸۱ء میں جرمنی کا تفصیلی دورہ فرمایا.آپ کے دورہ سے مجلس کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا.مجلس فرینکفرٹ مجلس کا قیام جولائی ۱۹۷۷ء کو ہوا.ابتداء انصار کی تعداد گیارہ تھی.۱۹۸۲ء تک مجلس کے زعیم اعلیٰ مکرم محمد شریف خالد صاحب تھے.شعبہ مال مکرم مرزا محمود احمد صاحب کے سپر د تھا.اُن کی بیماری کی وجہ سے زیادہ کام نہ ہو سکا.ویسے بھی انصار کی اکثریت بیکار تھی لہذا کچھ وصولی ہوئی.مکرم مرزا محمود احمد صاحب کی وفات پر مکرم عبد الغفور صاحب بھٹی مہتمم مال مقرر ہوئے.اُنہوں نے بجٹ تیار کر کے باقاعدگی سے وصولی کی طرف توجہ دی.شعبہ عمومی میں مکرم محمد اسماعیل خالد صاحب نے انصار کے کوائف جمع کئے.اجلاسات عام میں پچاس فیصد کے قریب انصار شامل ہوتے رہے.تربیتی امور کے علاوہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلاصہ بھی پیش کیا جاتا رہا.مہتم تعلیم و تربیت مکرم را نا محمد اسلم طاہر صاحب دو سال سے زائد عرصہ تک ہر اتوار کو با قاعدگی.بچوں کی کلاس لگاتے رہے.نیز بچوں کے لئے دینی معلومات کے مقابلے اور پکنک وغیرہ کے کامیاب پروگرام جاری رہے.ایک وقار عمل میں مسجد نور کے شیشے مرمت اور صاف کئے گئے.مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ نے وسط مئی ۱۹۸۱ء میں فرینکفرٹ کا دورہ کیا اور مندرجہ ذیل عہدیداران کی منظوری دی.مکرم محمد شریف خالد صاحب ( زعیم و منتظم اصلاح و ارشاد ) ، مکرم مسعود احمد باجوہ صاحب (نائب زعیم اعلیٰ صف دوم) ، مکرم میاں محمداسماعیل خالد صاحب ( منتظم ایثار، ذہانت و صحت جسمانی ، مکرم عبدالغفور بھٹی صاحب ( منتظم مال) ، مکرم میاں ضیاء الدین صاحب ( منتظم تعلیم ، تربیت واشاعت) اپنے دورہ کے دوران مکرم نائب صدر صاحب مرکز یہ نے مجلس عاملہ و عامہ کے اجلاسات سے خطاب کیا اور ہدایات دیں.۱۹۸۱ء میں مجلس کی تجنید ۲۳ انصار پر مشتمل تھی جبکہ بجٹ ۳۶۴۶ مارک اور ۳۴ فینی تھا.مجلس ہمبرگ مجلس ہمبرگ ماہ اپریل ۱۹۷۷ء میں قائم ہوئی اور مکرم مرزا منصور احمد صاحب زعیم منتخب ہوئے جو

Page 468

۴۴۸ جنوری ۱۹۸۱ء تک اس عہدہ پر فائز رہے.جنوری ۱۹۸۱ء کے آخر یا شروع فروری میں دوبارہ انتخاب ہوا جس میں مکرم ملک شریف احمد صاحب زعیم منتخب ہوئے.مکرم نذیر احمد صاحب منتظم عمومی مکرم چوہدری فیض احمد صاحب منتظم مال اور مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب منتظم تعلیم و تربیت اور اصلاح وارشاد مقرر ہوئے.ماہ فروری اور مارچ ۱۹۸۱ء میں ایک ایک جبکہ ماہ مئی میں دو اجلاس عام ہوئے.ایک شروع میں جس میں چار انصار شریک ہوئے.اور دوسرا ۲۶ مئی کو پانچ بجے شام منعقد ہوا.ماہ جنوری سے مئی ۱۹۸۱ ء تک صف دوم کے دس اور صف اوّل کے دو یعنی کل بارہ انصار تھے.اس عرصہ میں بارہ وقار عمل ہوئے.شعبہ تربیت کے ضمن میں انصار کو نماز با جماعت کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی.جماعتی لٹریچر تقسیم کیا جاتا رہا.تمام مقامی لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے رکھوائے گئے.ایک کے سوا تمام انصار تحریک جدید کے جہاد میں شامل تھے.مجلس کا سالانہ بجٹ چندہ مجلس ۱۹۸۱ء ایک ہزار چارسوستانوے مارک تھا.جس میں سے مئی تک ۵۴۵ مارک وصول ہو چکے تھے.تعمیر گیسٹ ہاؤس کے وعدہ جات ۸۴۰ مارک تھے.جس میں سے ۶۴۰ مارک ادا کر دئیے گئے تھے.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے ۲۵ سے ۲۹ مئی ۱۹۸۱ ء تک مجلس کا دورہ کیا اور اجلاس عام ومجلس عاملہ سے خطاب کیا اور ہدایات دیں.مجلس نیورن برگ مکرم نا ئب صدر صاحب مرکزیہ کے دورہ مغربی جرمنی میں مورخہ ۳ مئی ۱۹۸۱ء کو نیورن برگ کی مجلس کا قیام عمل میں آیا.مکرم کوثر احمد باجوہ صاحب کو نائب صدر ملک کی نگرانی میں منتظم عمومی مقرر کیا گیا.شروع میں انصار کی تعداد پانچ اور پھر چھ تھی.۱۹۸۱ء.۱۹۸۲ء میں بارہ ماہانہ اجلاس عام ہوئے.جن میں اوسط حاضری ۶۰ فیصدی سے ۸۰ فیصدی رہی.ماہانہ اجلاسات کے علاوہ انصار اللہ کے چار ہنگامی اجلاس بھی ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کی تعمیل میں نیورن برگ کے ہر احمدی گھرانے میں تفسیر صغیر رکھوائی گئی اور اس کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی.انصار کو لفظی ترجمہ سکھانے کے لئے مترجم قرآن کریم کا انتظام کیا گیا.احباب جماعت کو تر جمہ سکھانے کے لئے تعلیم القرآن کی سنڈے کلاس جاری کی گئی.کتب حضرت اقدس کے میسر نہ آنے کے باعث یہ طریق اختیار کیا گیا کہ اجلاس عام میں حضور کی کسی ایک کتاب کا خلاصہ بیان کیا جاتا چنانچہ تختہ الندوہ ، دافع البلاء ، سبز اشتہار، ایک غلطی کا ازالہ، ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، کشتی نوح، فتح اسلام، توضیح مرام، پیغام صلح کا خلاصہ سنایا گیا.جنوری ۱۹۸۲ ء سے مجلس کے نام رسائل انصار اللہ تحریک جدید ، مصباح تفخیذ الا ذہان، خالد جاری کروائے گئے.

Page 469

۴۴۹ ۱۹۸۲ء میں سو فیصد انصار نے تحریک جدید کے جہاد میں حصہ لیا.ایک اجلاس عام بلا کر تحریک جدید کی اہمیت دوستوں پر واضح کی گئی جس کے نتیجے میں نئے سال کے وعدے پہلے سے ڈیڑھ گنا ہو گئے.جرمن قومی برتھ ڈے ( یوم ولادت) کے موقع پر سات جرمن افراد کو جرمن زبان میں اسلامی لٹریچر تحفہ پیش کیا گیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا.چودہ مختلف مقامات پر غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ تبلیغی نشستیں ہوئیں.۲۶ عدد کتب غیر از جماعت دوستوں میں تقسیم کی گئیں.دو مواقع پر جماعت احمد یہ نیورن برگ نے بعثت حضرت مسیح موعود کے عنوان سے ۹ زبانوں میں ۱۲۸۸ فولڈر ز تقسیم کئے.مکرم بشیر احمد صاحب پرویز مکرم محمد یوسف صاحب بھٹی اور مکرم کو ثر احمد باجوہ صاحب نے اس تبلیغی مہم میں حصہ لیا.۱۹۸۱ء میں چندہ کا بجٹ ۶۶۳/۵۰ مارک تھا.جس میں سے ۵۶۲ مارک وصولی ہوئی.۱۹۸۲ء میں ۸۴۹ مارک کا بجٹ پیش کیا گیا.جن میں ۵۳۰ مارک وصول ہو چکے تھے.انصارفٹ بال اور والی بال کی کھیلوں میں حصہ لیتے رہے.جب بھی کوئی دوست بیمار ہوا تو انصاران کی عیادت کے لئے جاتے.یوم مصلح موعود، یوم مسیح موعود، یوم خلافت اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے منعقد کئے گئے.تمام احباب جماعت کو عموماً اور انصار کو خصوصاً حضور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھنے کی تحریک کی جاتی رہی.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی خدمت میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے وصال پر مجلس کی طرف سے قرار داد تعزیت بھجوائی گئی.(۱۳) مورخه ۲۹ - ۳۰ مئی ۱۹۸۲ء کو ہمبرگ میں مجالس انصار اللہ مغربی جرمنی کا اجتماع منعقد ہوا.جس میں مجلس نیورن برگ کی نمائندگی ہوئی.اس موقع پر مکرم نائب صدر صاحب ملک کے ہدایت پر مکرم کوثر احمد باجوہ صاحب نے سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پندرہ منٹ کی تقریر کی.مجلس انصاراللہ نیورن برگ کی مئی ۱۹۸۶ء تک کی کار کردگی پیش کی گئی.علمی مقابلہ جات اور تقریر میں کوثر احمد صاحب باجوہ نے پہلا انعام حاصل کیا.مجلس نیورن برگ کے زیر اہتمام مجلس ہائیل براؤن کی مدد سے لائبریری کا قیام عمل میں آیا جس میں چھوٹی بڑی کتب کی تعداد ی تھی ۷۵ کتب اردو چارا جلاسات عام منعقد ہوئے.دو اجتماعات بسلسلہ عیدین ہوئے.یوم خلافت منایا گیا.جن میں انصار کی حاضری اوسطاً ساٹھ سے اسی فیصد رہی.رسالہ انصار اللہ کے پانچ نئے خریدار بنائے گئے.شعبہ تحریک جدید کے ضمن میں ۲۹ رمضان المبارک کی دُعائیہ فہرست میں مجلس مقامی کے تین انصار اور دو خدام کے نام پیش کئے گئے.اٹھانوے افراد کو جر من تعارفی پمفلٹ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود کی شبیہ مبارک تھی ، دکھا کر کتب انگریزی ۶۵ کل کتب : ۴۰ عدد ( یکصد چالیس عدد )

Page 470

۴۵۰ پیغام حق پہنچایا گیا.نیز سوالات کے جوابات دیئے گئے.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے وصال پر ملال پر قرارداد تعزیت اور سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کے انتخاب پر قرار داد تہنیت پاس کر کے بھجوائی گئی.تمام انصار نے اپنا فارم تجدید بیعت پر کر کے بھجوایا.حضور کی فرینکفرٹ آمد پر پانچ انصار نے دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.مجلس ہائیل برون (HEIL BRON): مجلس کا قیام مئی ۱۹۸۱ء میں ہوا.انصار کی تعداد تین تھی.نائب صدر ملک کی نگرانی میں منتظم عمومی مکرم منظور احمد صاحب شاد کو مقرر کیا گیا.۱۹۸۱ء کا سالانہ بجٹ ۵۲۲ مارک اور ۶۰ فینی تھا.مجلس نائے برگ (NEUBURG): اس مجلس کو مئی ۱۹۸۱ء میں قائم کر کے مکرم سید کلیم احمد شاہ صاحب کو نائب صدر ملک کی نگرانی میں منتظم عمومی مقرر کیا گیا.یہاں چار انصار تھے.۱۹۸۱ء کا سالانہ بجٹ ۵۳۷ مارک اور ۴۰ فینی تھا.مجلس DORSTER: دو انصار پر مشتمل تھی اور اس کے زعیم مکرم عطاء المنان صاحب تھے.سالانہ اجتماعات پہلا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مغربی جرمنی کو مورخہ ۲۴ ۲۵ نومبر ۱۹۷۹ء بمقام فرینکفرٹ پہلا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق ملی.انصار کو اجتماع سے قبل بذریعہ ڈاک پروگرام اجتماع ارسال کیا گیا.مغربی جرمنی میں انصار کی تعداد بہت تھوڑی تھی.تا ہم فرینکفرٹ اور ہیمبرگ کے علاوہ دیگر شہروں سے سے ہیں انصار نے اس اجتماع میں شمولیت کی.اس موقعہ پر فرینکفرٹ کے خدام نے مکرم منصور احمد خان صاحب مشنری انچارج مغربی جرمنی کی نگرانی میں مہمان اراکین کے قیام وطعام کا نہایت عمدہ اہتمام کیا.پہلا اجلاس: افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا آغا ز ۲۴ نومبر کو نماز ظہر و عصر کی باجماعت ادا ئیگی کے بعد ساڑھے تین بجے تلاوت کلام پاک سے ہوا.جس کے بعد انصار نے اپنا عہد دوہرایا.نظم کے بعد مکرم منصور احمد خان صاحب نے افتتاحی خطاب فرمایا.آپ نے کہا کہ مغربی جرمنی میں انصار اللہ کی تعداد گو بہت کم ہے لیکن محض اس وجہ سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہو سکتے.ہمیں چاہیئے کہ ہم جماعت احمدیہ کی نئی نسلوں کے لئے بہترین نمونہ پیش

Page 471

۴۵۱ کریں.خصوصاً یورپ کے ماحول میں انصار اللہ کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں.نوجوانوں کو یہاں کے گندے اثرات سے بچانے کے لئے بھی انصار کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی اس لئے انہیں بہترین نمونہ بننا چاہئیے اور محبت اور نرمی سے نو جوانوں کو سمجھائیں تا یورپ کے ہلاکت خیز اثرات سے ہماری نوجوان نسل محفوظ رہ سکے.اس کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی.افتتاحی دعا کے بعد مکرم لئیق احمد صاحب منیر امام مسجد ہیمبرگ نے درس حدیث دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات پیش کئے جس میں صبر و استقامت تحمل اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی تلقین ہے.بعدہ زعماء کرام انصار اللہ مجلس فرینکفرٹ و ہیمبرگ مکرم محمد شریف صاحب خالد و مکرم مرزا منصور احمد صاحب نے تقاریر کیں.اس طرح پہلا اجلاس اختتام پذیر ہوا.ساڑھے سات بجے نماز مغرب باجماعت ادا کی گئی.نماز کے بعد مکرم را نا محمد اسلم طاہر صاحب نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا.شام کے کھانے کے بعد نماز عشاء باجماعت ادا کی گئی.اجلاس دوم: ساڑھے آٹھ بجے شام دوسرے اجلاس کی کارروائی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی.مکرم محمد اسمعیل صاحب خالد نے ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے چیدہ چیدہ واقعات پیش کئے.علمی مذاکرہ : رات قریب نو بجے علمی مذاکرہ کا دلچسپ پروگرام ہوا جس کا موضوع تھا’ تربیت واصلاح کا طریق اس موضوع پر انصار کو اپنے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی.تقریباً تمام نے اس علمی مذاکرہ میں بھر پور حصہ لیا.یہ مذاکرہ تقریبا دو گھنٹے جاری رہا.مذاکرہ میں جس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ ہمیں ایک بہترین احمدی کا نمونہ پیش کرنا چاہئے کیونکہ ہم پر تربیت واصلاح کی ذمہ داری زیادہ شدت کے ساتھ عائد ہوتی ہے.احمدیت کی نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری اگر ہم نے ادا کرنے میں غفلت کی تو اس کے لئے ہم جواب دہ ہوں گے لہذا نئی نسل خصوصاً یورپ میں رہنے والے نوجوانوں کے لئے ایک مثالی مومن کا کردار ادا کرنا چاہیے.خدا کے فضل سے یہ علمی مذاکرہ بہت کامیاب رہا.آخر میں مکرم منصور احمد خان صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ انصار اللہ عمر کے اس حصہ میں ہوتے ہیں کہ ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کا حلقہ احباب پر ایک اثر ہوتا ہے خواہ وہ گھر ہو یا دوستوں کی مجلس ہو.لوگ ان کی بات بے دھیان ہو کر نہیں سنتے.اس لئے ہمارے بزرگ دوستوں کو اپنے حلقہ احباب پر بہترین اثر پیدا کرنا چاہیے.اس لحاظ سے ان کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے.ایک تو اپنی تربیت اور اس کے ساتھ دوسروں کی تربیت.پس انصار اللہ کو واقعتاً اسلام کے انصار بننا چاہیئے.رات گیارہ بجے اس علمی مذاکرہ کے اختتام کے

Page 472

۴۵۲ ساتھ ہی دوسرے اجلاس کا اختتام ہوا.دوسرے دن ۲۵ نومبر کو حسب پروگرام بیداری صبح پانچ بجے ہوئی اور باجماعت نماز تہجد و فجر ادا کی گئی.مکرم منصور احمد خان صاحب نے درس قرآن دیا.اجتماعی سیر صبح سات بجے اجتماعی سیر کا پروگرام تھا.سردی کے باوجود انصار نے اجتماعی سیر میں شرکت کی اور ایک لمبا چکر لگا کر واپس مسجد پہنچے.جہاں ساڑھے آٹھ بجے اکٹھے بیٹھ کر ناشتہ کیا گیا.اجلاس سوم : ساڑھے نو بجے اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا.بعدہ در مشین سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشعار خوش الحانی سے سنائے گئے.دس بجے تقریری مقابلہ زیر عنوان ” خلافت کی برکات منعقد ہوا.یہ مقابلہ تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہا.اول مکرم ملک شریف احمد صاحب، دوم مکرم محمد اسمعیل خالد صاحب اور سوم مکرم عطاء المنان صاحب قرار پائے.منصفین کے فرائض مکرم کیق احمد صاحب منیر امام مسجد ہیمبرگ اور مکرم محمد شریف خالد صاحب نے ادا کئے.امتحان دینی معلومات: گیارہ بجے دینی معلومات کا امتحان ہوا.مکرم نذیر احمد صاحب اوّل اور مکرم سید کلیم احمد شاہ صاحب دوم قرار پائے.سیرت صحابہ : سیرت صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عنوان کے تحت حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل ، حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے مختصر واقعات پر مشتمل تقریر مکرم لئیق احمد صاحب منیر نے کی.ورزشی مقابلہ جات: بارہ بجے کلائی پکڑنے کا مقابلہ ہوا.آٹھ انصار نے شرکت کی.مکرم ملک شریف احمد صاحب ڈل اور مکرم محمد اسمعیل خالد صاحب دوم قرار پائے.اختتامی اجلاس و تقسیم انعامات: کھانے اور نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد دو بجے اختتامی اجلاس تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا.عہد ونظم کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات کے انعامات تقسیم ہوئے جس کے بعد مکرم نائب صدر صاحب نے انصار اللہ کو توجہ دلاتے ہوئے زور دیا کہ ان میں سے ہر ایک کو مثالی مومن کا نمونہ پیش کرنا چاہئیے.تقریر کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور اس طرح یہ پہلا دوروزہ سالانہ اجتماع بخیر وخوبی انجام ہوا.﴿۱۵﴾ کینیڈا کینیڈا کی پہلی مجلس انصاراللہ ٹورنٹو میں ا ر مارچ ۱۹۷۷ء کو قائم ہوئی تھی.۱۹۸۱ء میں ٹورنٹو کے علاوہ مندرجہ ذیل جگہوں پر مجالس قائم ہوئیں.مانٹریال ، آٹوا، سڈ بری ، کیلگری ، وینکوور، ایڈمنٹن ، بر ملیا، برنٹ

Page 473

۴۵۳ فورڈ ، سیسکاٹون.۱۹۸۱ء میں نائب صدر مرکز یہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کے دورہ کے وقت ملکی سطح پر تنظیم بنائی گئی.پہلے ناظم اعلیٰ ملک مکرم میجر شمیم احمد صاحب مقرر ہوئے جنہوں نے ۱۹۸۱ء سے۱۹۸۳ء تک یہ خدمت سرانجام دی.پہلے نائب صدر مکرم مولوی سید منصور احمد بشیر صاحب (۱۹۷۷.۱۹۸۰ء ) اور دوسرے نائب صد ر مکرم مولوی منیر الدین شمس صاحب (۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۵ء) تھے.۱۹۸۱ء کے جن عہدیداران کا علم ہوسکا ہے، ذیل میں درج ہیں: کیلگری : مکرم مرزا رشید احمد صاحب ( زعیم ) ، ایڈمنٹن : مکرم حبیب مقبول صاحب (زعیم)، برنٹ فورڈ : مکرم محمد ابو رشید صاحب ، ٹورانٹو : مکرم سید شریف احمد منصوری صاحب ( زعیم )، مانٹریال: مکرم عبدالروؤف صاحب ( زعیم ) ، اوٹاوہ: مکرم صوفی عزیز احمد صاحب ( زعیم ) آئیوری کوسٹ ۲۸ جنوری ۱۹۷۸ء کو ملک کی پہلی مجلس ابی جان کا قیام عمل میں آیا.پورے ملک میں ایک ہی مجلس تھی.نائب صدر علی الترتیب مکرم مولانا محمد افضل صاحب قریشی (۱۹۷۸ تا وسط ستمبر ۱۹۸۱ء ) اور مکرم مولانا عبدالرشید صاحب رازی ( وسط تمبر ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۶ء) رہے.کم تجنید کی وجہ سے انصار کاسالانہ اجتماع منعقد نہ کر وایا جاسکا.سری نام اکتوبر ۱۹۷۸ء میں پہلی بارسری نام میں مجلس انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.سری نام میں ایک ہی مجلس انصار اللہ تھی جو PARAMARIBO شہر میں تھی اور اس میں اردگرد کے انصار بھی شامل تھے.پہلے نائب صدر مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب ننگلی اور ان کے بعد مکرم مولوی محمد اشرف الحق صاحب مربی سلسلہ تھے.پہلے زعیم اعلی مکرم حسینی بید اللہ صاحب (صدر جماعت) تھے.تعمیر مسجد نصر واحد یہ ہال میں چندہ دینے اور وقار عمل میں انصار نے نمایاں حصہ لیا.تعداد کم ہونے کی وجہ سے اجتماع منعقد نہ ہو سکا.کینیا فروری ۱۹۷۸ء میں نیروبی میں مجلس انصار اللہ کا قیام ہوا.مکرم محمد افضل بٹ صاحب پہلے زعیم مجلس نیروبی مقرر ہوئے.اس وقت نائب صدر ملک مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق مشنری انچارج تھے.۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۹ء تک مکرم AM.GAKURIA صاحب کو ناظم اعلیٰ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.اس عرصہ میں سات مجالس قائم ہوئیں.نیز ایک سالانہ اجتماع بھی منعقد کیا گیا.

Page 474

۴۵۴ سیرالیون مجلس انصار اللہ سیرالیون کا قیام فروری ۱۹۷۸ء میں ہوا.پہلے نائب صدر مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب، دوسرے مکرم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری اور تیسرے مکرم مولا نا خلیل احمد صاحب مبشر تھے.اکتوبر ۱۹۷۹ء مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب کی زیر ہدایت مکرم مولانا خلیل احمد صاحب مبشر نے بو(BO) اور کینیما (KENEMA) میں تجنید کا کام کیا.۱۹۸۱ء میں مگبور کا اور روکو پر ریجن میں مجالس کا قیام عمل میں آیا.آغاز پر مندرجہ ذیل عہدیداران مقرر ہوئے.ناظم اعلی مکرم مولا ناخلیل احمد صاحب مبشر، زعیم اعلیٰ : مکرم الحاجی محمد کمانڈ ابو نگے صاحب، نائب زعیم اعلیٰ : مکرم ایف.ایس بنگو را صاحب.۱۹۸۱ء میں مکرم الحاجی محمد کمانڈ ابو نگے صاحب کو ملک کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا جنہوں نے مختلف صوبوں کے لئے زعماء اعلیٰ مقرر کئے جو یہ تھے.بو ( جنوبی صوبہ ): مکرم ایم بی ابراہیم صاحب.فری ٹاؤن (ویسٹ امریا) مکرم ایف ایس بنگو را صاحب ، ( مشرقی صوبہ ) : مکرم آئی کے محمد صاحب، نارتھ (شمالی صوبہ ) : مکرم ایم بی کمارا صاحب (مگبور کاریجن ) مکرم کو جو بن محمود صاحب ( روکو پر ریجن ).اسی طرح ملک میں پندرہ مجالس قائم کر کے وہاں زعمائے انصار اللہ مقرر کئے.تمام عہدیدار مرکزی لائحہ عمل کے مطابق نائب صدر ان کی سرکردگی میں کام کرتے رہے.۱۹۷۹ء میں مجلس سیرالیون نے انگریزی زبان میں دیتامی اور ہماری ذمہ داری اور ناپ تول کے عناوین سے شائع کئے.مؤخر الذکر پمفلٹ میں لین دین کے بارہ میں اسلامی تعلیمات کو پیش کیا گیا.بنگلہ دیش مکرم مولوی عبید الرحمن بھو یا صاحب ناظم اعلیٰ بنگلہ دیش ۱۹۸۱ء کے مرکزی سالانہ اجتماع ربوہ میں بطورنمائندہ شامل ہوئے.۱۹۸۱ء میں اُنہیں مجالس کے بجٹ تشخیص ہوئے.مجلس عاملہ کا تقرر کیا گیا.کار کردگی کی رپورٹ باقاعدہ مرکز میں بھجوائی جاتی رہی.مجالس کو بیدار کرنے میں نمایاں کام ہوا.سالانہ اجتماعات مجلس انصاراللہ بنگلہ دیش کے پہلے تین اجتماعات کے کوائف دستیاب نہیں ہو سکے.چوتھا اجتماع ۱۲ تا ۱۴ دسمبر ۱۹۸۰ء کو اور پانچواں ۱۸ تا ۲۰ دسمبر ۱۹۸ء کو منعقد ہوا.پانچویں اجتماع کی تفصیل پیش خدمت ہے.پانچواں سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ بنگلہ دیش کا سالانہ اجتماع دار التبلیغ ڈھاکہ میں ۱۸.۱۹.۲۰ دسمبر ۱۹۸۱ء کو منعقد ہوا.

Page 475

۴۵۵ ملک بھر سے اکیس مجالس کے ایک سو پچاس نمائندگان نے شمولیت اختیار کی.بعض نامساعد حالات کی بناء پر اس اجتماع کو دو مرتبہ ملتوی کرنا پڑا تھا.لیکن محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ تیسری دفعہ جب اجتماع کی تاریخیں مقرر کی گئیں تو حالات بھی سازگار ہو گئے اور کسی قسم کی دشواری کا سامنانہ کرنا پڑا.نمائندگان کے علاوہ مقامی مجالس ڈھاکہ کے جملہ اراکین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر طرح تعاون کیا.حاضری خدا تعالیٰ کے فضل سے خاصی اچھی رہی.نماز جمعہ و عصر کے بعد کارروائی کا آغاز مکرم مولانا عبدالعزیز صاحب مربی سلسلہ کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا.معتمد صاحب مجلس نے خوش الحانی سے درمشین سے نظم پڑھی.بعدہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ٹیپ شدہ تقریر فرموده مرکزی سالانہ اجتماع ربوہ سنائی گئی.ازاں بعد انصار نے ناظم صاحب اعلیٰ کی قیادت میں عہد دہرایا.اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی.اس طرح اس مبارک تقریب کا افتتاح ہوا.سب سے پہلی تقریر ذہانت کے موضوع ر حرم شیخ عبدالغنی صاحب معتمد مجلس ڈھاکہ کی تھی.اس کے بعد میوزیکل چیئر ریس ہوئی جس میں انصار نے بڑی د چیپسی سے حصہ لیا.نماز مغرب وعشاء کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوا.تلاوت قرآن مجید مکرم مولانا صلاح الدین خوند کر صاحب نے کی.مکرم مقبول احمد خان صاحب امیر جماعت ڈھا کہ نے تبلیغ حق ، مکرم فاروق احمد صاحب مربی سلسلہ نے شانِ رسول عربی مکرم صادق احمد صاحب نے سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مکرم عبد العزیز صاحب نے سوانح حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے موضوع پر تقاریر کیں.اگلے روز ہفتہ 19 دسمبر کو صبح چار بجے بیداری سے پروگرام کا آغاز ہوا.سیکرٹری صاحب ذہانت وصحت جسمانی نے تہجد کی نماز کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ تمام انصار کو نیند سے بیدار کیا.نماز تہجد مکرم مولانا عبدالعزیز صاحب نے پڑھائی.فجر کی نماز مکرم صادق محمود صاحب نے پڑھائی اور درس قرآن مجید دیا.درس حدیث مکرم فاروق احمد صاحب نے اور درس ملفوظات حضرت مسیح موعود مکرم عبدالعزیز صادق صاحب نے دیا.درس و تدریس کے بعد ورزش اور صحت جسمانی کا پروگرام تھا.انصار نے اجتماعی ورزش کی.دوسرا اجلاس زیر صدارت مکرم مقبول احمد خان صاحب ہوا.تلاوت قرآن مجید مکرم صلاح الدین خوند کر صاحب نے کی اور مکرم عبد القادر بھو یا صاحب نے تنظیم انصار اللہ کے موضوع پر تقریر کی.بعد میں حسب ذیل تقاریر ہوئیں.سیرت حضرت عمر فاروق از مکرم احمد توفیق چوہدری صاحب.سیرت حضرت عثمان غنی از مکرم فاروق احمد صاحب.تعلیم القرآن از مکرم مولوی عبد العزیز صاحب صادق.اسلامی پرده از مکرم عبد القدیر بھویا صاحب.تجنید کی اہمیت، از مکرم اے ٹی ایم حق صاحب سیکر ٹری تجنید.تیسرا اجلاس بعد دو پہر تا پانچ بجے شام زیر صدارت مکرم عبید الرحمن صاحب بھو یا شروع ہوا.تلاوت

Page 476

۴۵۶ قرآن کریم جو مکرم عبد القادر بھو یا صاحب نے کی ، مندرجہ ذیل خطابات ہوئے.برکات خلافت از مکرم عبدالعزیز صاحب.تحریک جدید و وقف جدید از مکرم شمس الرحمن صاحب - صد سالہ احمد یہ جوبلی از مکرم فاروق احمد صاحب.رہبانیت اسلام کی رو سے از مکرم عبد الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ اور قبولیت دعا از مکرم انور علی صاحب نائب ناظم اعلیٰ.اس اجلاس کے بعد والی بال کا دلچسپ میچ انصار اور خدام کی ٹیموں کے درمیان ہوا جو انصار اللہ نے جیت لیا.یہ میچ بہت زیادہ پسند کیا گیا.چوتھا اجلاس بوقت چھ بجے شام تا ساڑھے سات بجے شام ہوا.باجماعت نماز مغرب وعشاء کے بعد کارروائی کا آغاز مکرم مطیع الرحمن صاحب کی تلاوت سے ہوا.مکرم اعجاز احمد صاحب نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.مندرجہ ذیل احباب نے تقاریر فرمائیں.مکرم احمد تو فیق چوہدری صاحب ( اقامت الصلوۃ).مکرم سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ ( مالی قربانی).مکرم اے.ٹی چوہدری صاحب ( اسلامی عبادات کا موازنہ ).مکرم عبدالعزیز صادق صاحب ( احمدیت کا غلبہ، اس کی پیشگوئیاں ).تقاریر کے بعد چوتھے اجلاس کا اختتام ہوا اور تمام انصار شب بخیر کرتے ہوئے اپنی قیام گاہ میں چلے گئے.تیسرے دن کی کارروائی کا آغاز چار بجے صبح بیداری سے ہوا.مکرم مولانا عبدالعزیز صاحب نے نماز تہجد و فجر باجماعت پڑھائی اور درس قرآن مجید دیا.مکرم مشہود الرحمن صاحب نے ملفوظات کا درس دیا.اس کے بعد مکرم شیخ عبدالغنی صاحب کی قیادت میں جسمانی ورزش کا پروگرام عمل میں آیا.ورزش کے بعد ناشتہ کیا گیا.دوسرا اجلاس نو بجے صبح سے بارہ بجے دوپہر زیر صدارت مکرم عبدالرحمن صاحب ناظم اعلیٰ ہوا.تلاوتِ قرآن اور نظم کے بعد مجلس شوری منعقد ہوئی.اس میں بنتیں مجالس کے نمائندگان شامل ہوئے.سب سے پہلے معتمد عمومی صاحب نے سالانہ رپورٹ پیش کی اور مجالس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا.بعدہ معتمد صاحب تجنید ، معتمد صاحب اصلاح وارشاد، معتمد صاحب مال اور معتمد صاحب صحت و جسمانی نے اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹیں پیش کیں.پھر ایجنڈ ا پر بحث ہوئی اور ساڑھے بارہ بجے یہ اجلاس بخیر وخوبی دُعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.آخری اجلاس دو بجے بعد دو پہر تا ساڑھے چار بجے شام زیر صدارت مکرم ڈاکٹر عبدالصمد خان صاحب چوہدری نائب امیر بنگلہ دیش منعقد ہوا.تلاوت قرآن مجید مکرم مولوی انور علی صاحب نے کی اور نظم مکرم مولوی فاروق احمد صاحب نے پڑھی جس کے بعد مکرم بھو یا صاحب ناظم اعلیٰ نے حضرت مصلح موعود کے کارنامے کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے حضور کے پچاس سالہ سنہری دور خلافت پر روشنی ڈالی.صدارتی خطاب میں مکرم نائب امیر صاحب نے تبلیغ اور تعلیم و تربیت پر زور دیتے ہوئے انصار ، خدام، لجنہ اور اطفال کو عملی نمونہ بہتر بنانے کی

Page 477

۴۵۷ طرف توجہ دلائی.نیز نظام کی اطاعت ، اسلامی بھائی چارہ کو رواج دینے اور دعاؤں اور عملی نمونہ کے ساتھ تبلیغ کرنے کی تاکید کی.عہد اور اجتماعی دُعا کے ساتھ یہ سالانہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.(۱۶) گیمبیا مجلس انصار اللہ کا قیام ۱۹۷۹ء میں ہوا.مکرم مولانا داؤ د احمد حنیف صاحب مشنری انچار ج ۱۹۷۹ ء سے ۱۹۸۷ ء تک نائب صدر رہے.لوکل مبلغ مکرم ابراہیم عبد القادر جکنی صاحب پہلے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے جن کے بعد مکرم محمد اسماعیل طورے صاحب ناظم اعلیٰ رہے.سب سے پہلی مجلس عاملہ میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب ، مکرم خلیل فانی صاحب ہمکرم کیا کالے صاحب اور مکرم نموموٹر اولے صاحب بطور معتمد شامل تھے.مجالس: ۱۹۸۲ء میں مندرجہ ذیل مقامات پر مجالس کا قیام ہو چکا تھا.بانجل.فیرافنی.سالکینی.صابا.جارج ٹاؤن.بضے.مصرع.چونین مختصر کارکردگی : مرکزی لائحہ عمل و ہدایات کی روشنی میں مجالس کی بیداری کے پروگرام بنائے جاتے رہے.اس سلسلہ میں مکرم نائب صدر صاحب مجلس کی مرسلہ رپورٹ ۲۲ نومبر ۱۹۸۲ء کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے.شعبه تجنید : مقامی طور پر انصار کی تجنید کا کام شروع تھا.شعبہ مال: شرح کے مطابق چندہ مجلس، اجتماع اور اشاعت کی طرف اراکین مجلس کو توجہ دلائی گئی.ماہ اکتوبر میں چنده مجلس ۸۰ دلاسے سے زائد موصول ہوا.شعبہ تعلیم و تربیت تعلیم القرآن کے مندرجہ ذیل دو مراکز قائم کئے گئے جہاں بچے اور بڑے قاعدہ یسر نا القرآن اور قرآن مجید پڑھتے رہے.ا.مشن ہاؤس جہاں چالیس بچے بچیاں اور تین بڑی عمر کے دوست تعلیم حاصل کرتے رہے.۲.دوسرا مرکز لائرے کنڈا میں قائم کیا گیا.جہاں تمہیں بچے بچیاں استفادہ کرتے رہے.مشن ہاؤس سنٹر میں مقامی مبلغ مکرم ابوبکر ملورے صاحب اور لائرے کنڈا مرکز میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب پڑھاتے رہے.شعبہ تبلیغ مجلس مذاکرہ کا ہفتہ وار پروگرام ترتیب دیا گیا اور ۳۱ دسمبر ۱۹۸۲ء تک مندرجہ ذیل چھ مقامات پر ایسی مجلس کے انعقاد کی تجویز کی گئی.۱۷ تاریخ ۱۴ نومبر برمکان BROOKEAHE KALLEY

Page 478

۴۵۸ BROOKS TIJAN BU SARJO FOBANOC ALIEN M.DAH(FINANCIAL SECRETARY) AL-HUSSAN SINGHATAH LALO DERAMMAH ۲۱ نومبر ۲۸ نومبر ۱۲ نومبر ۱۹ نومبر ۲۶ نومبر سالانہ اجتماعات مجلس انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع ۱۹۸۱ء میں جماعت کے جلسہ سالانہ کے ساتھ منعقد کیا گیا.سوئٹزرلینڈ زیورچ میں پہلی مجلس انصار اللہ جولائی ۱۹۷۹ء میں قائم ہوئی.۳۰ جولائی ۱۹۷۹ء کو مرکز کی طرف سے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے بطور زعیم اعلیٰ انتخاب کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی ناظم اعلیٰ ملک کے طور پر بھی نامزدگی کی گئی.جنیوا میں دوسری مجلس کا انتخاب مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس مرکزیہ نے ۶ امئی ۱۹۸۱ء کو کر وایا اور سعادت احمد خان صاحب جینوا کے پہلے زعیم منتخب ہوئے.نائب صدر کے فرائض علی الترتیب مکرم مولا ناسیم مہدی صاحب ، مکرم منصور احمد خان صاحب اور مکرم مولانا مسعوداحمد جہلمی صاحب نے انجام دیئے.رپورٹ از قیام تامئی ۱۹۸۱ء (۱) احمدیت کے موافق و مخالف اقتباسات کی مختلف مغربی کتب سے فوٹو کا پیاں تیار کی گئیں.(۲) اسلامی پیبلوگرافی کی تیاری کا کام شروع کیا گیا.(۳) نصاب برائے تعلیم تجویز کیا گیا جس کے مطابق انصار نے کتب خریدیں اور مطالعہ کیا.(۴) مرکزی لائحہ عمل کے مطابق قرآن کریم کا ایک حصہ حفظ کرنے کے لئے جرمن زبان میں تیار کی گئی اور اپنے سوس اراکین کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی.TRANSLITERATION (۵) سوس احمدی مکرم احمد دوترش صاحب کے ذمہ شعبہ ایثار ہوا.بہت سے کپڑے جمع کئے گئے.جنہیں ریڈ کر اس کے ذریعہ زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے بھجوایا گیا.مکرم دوترش صاحب نے باوجود فن باغبانی سے نابلد ہونے کے مشن کی باڑ اور درختوں کو کاٹا.(۶) مکرم عبدالعزیز صاحب بھامبڑی اور مکرم مولانا ظہور حسین صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ

Page 479

۴۵۹ تقاریب ترتیب دی گئیں.ان میں انہوں نے اپنے قید و بند کی صعوبتوں اور الہی نصرت کے حالات سنائے.(۷) مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے ۱۴ سے ۷ امئی ۱۹۸۱ء تک دورہ کیا اور زیورچ کے علاوہ جینوا بھی تشریف لے گئے.آپ نے اجلاسات عام و عاملہ سے خطاب کیا اور ہدایات دیں.(۸)۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۰ء میں چندہ مجلس کی وصولی ۴۵۰ فرانک تھی.مکرم چوہدری عبد العزیز بھامبڑی صاحب کے اعزاز میں پارٹی مورخہ ۲۷ ستمبر ۱۹۸۰ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مرکز سے تشریف لانے والے مہمان مکرم چوہدری عبدالعزیز بھامبڑی صاحب کے اعزاز میں ایک پارٹی کا انتظام کیا جائے چنانچہ مورخہ ۵ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو انصار کا ایک قافلہ معزز مہمان کے ساتھ پکنک پارٹی کے لئے روانہ ہوا.اشیاء خور و نوش کا انتظام چند روز قبل ہی مختلف احباب کے تعاون سے ہو چکا تھا.سوئٹزرلینڈ کی مشرقی سرحد کو آسٹریا کا ملک لگتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست DIECHETENSTEIN ہے چونکہ اس علاقے میں بعض احمدی دوست رہتے تھے.اس لئے ان کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس ریاست کے اندر ایک پہاڑی پر پکنک منائی جائے.مقررہ مقام پر پہنچ کر کھانا تیار کیا گیا.کھانے کے بعد ناظم اعلیٰ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے معزز مہمان کو پُر خلوص خوش آمدید کہا اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی آمد کی وجہ سے ہم سب کو مختلف اوقات میں ان کے ساتھ مل کر باتیں کرنے اور پرانے زمانے کی یادیں تازہ کرنے کا موقعہ مل رہا ہے.اس خطاب کا مختصر جواب مکرم بھامبڑی صاحب نے دیا اور منتظمین کا شکر یہ ادا فرمایا.مکرم بھامبڑی صاحب نے خدمت سلسلہ کے ضمن میں ذاتی تجربات پر مشتمل بہت سے ایمان افروز واقعات سنائے.قیام پاکستان کے وقت انہیں اور ان کے معزز ساتھیوں کو جن بے پناہ مشکلات کا سامنا ہوا اور قابل قدر قربانیوں کے مواقع ملے ، ان کی تفصیل بھی سنائی.شام کے قریب قافلہ گردو نواح کی سیر کرنے کے بعد وا پس زیورچ پہنچ گیا.﴿۱۸﴾ مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ کے اعزاز میں عشائیہ مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ ( جو انگریز واقف زندگی تھے ) کی آمد پر ۲۸ نومبر ۱۹۸ء کو ان کے اعزاز میں عشائیہ ترتیب دیا گیا.طعام کے بعد استقبالیہ تقریب تلاوت سے شروع ہوئی جو مکرم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق صاحب نے کی.مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ناظم اعلیٰ نے معززمہمان کا تعارف کروایا جس کے بعد مکرم آرچرڈ صاحب نے اپنے قبول احمدیت کے ایمان افروز حالات سنائے.مشن ہاؤس کی نچلی منزل میں مستورات کے لئے مائیکروفون کے ذریعہ آواز پہنچانے کا انتظام کیا گیا

Page 480

۲۶۰ تھا.کھانے کی تیاری میں مکرم شیخ ناصر احمد صاحب، مکرم میاں عبد الشکور صاحب اور مکرم میر ذکریا صادق صاحب نے بھر پور تعاون کیا.(۱۹) رپورٹ یکم ستمبر ۱۹۸۱ء تا اگست ۱۹۸۲ء سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیورک تشریف آوری کے موقع پر مجلس انصار اللہ سوئٹزر لینڈ نے اپنی مساعی از یکم ستمبر ۱۹۸۱ء تا آخر اگست ۱۹۸۲ء کی مختصر رپورٹ پیش کی.یہ رپورٹ زعیم اعلیٰ سوئٹزر لینڈ مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ صاحب نے تیار کی جو یہ تھی :.مجلس انصار اللہ سوئٹزر لینڈ بعض سوس احمدی غیر پاکستانی احمدی اور پاکستانی انصار پر مشتمل تھی.عرصہ زیر رپورٹ میں دو افراد کا اضافہ ہوا.شعبہ تعلیم کے مرکزی لائحہ عمل کے تحت انصار کو تحریک کی گئی کہ وہ مسئلہ وفات مسیح کی تیاری کریں.انصار نے اس میں بہت دلچسپی لی.آخر میں اس بارے میں ایک مفصل تحقیقی مقالہ پیش کیا گیا..قرآن کریم کی بعض سورتیں انصار کو حفظ کروائی گئیں.نومسلموں کی آسانی کے لئے ان سورتوں کی TRANSLITERATION تیار کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی مطالعہ کے لئے تجویز کی گئی.۵ - انصار کو تحریک کی گئی کہ ہر رکن داعی الی اللہ بنے اور کم از کم ایک شخص سے ضرور رابطہ رکھے..انصار نے فولڈرز کی تقسیم کو خاص طور پر اپنے فرائض میں شامل رکھا.کار کی سہولت رکھنے والے انصار نے مقررہ پروگرام کے تحت حلقہ کی زبان کا خیال رکھتے ہوئے لٹریچر تقسیم کیا.ے.انصار اللہ نے PFANNESTIEL مقام پر ۶ ستمبر ۱۹۸۱ء کو پکنک منائی.خواتین اور بچوں نے بھی شمولیت کی.اس موقعہ پر فولڈرز بھی تقسیم کئے گئے..سکاٹ لینڈ کے مربی مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب سوئٹزرلینڈ تشریف لائے.ان کے اعزاز میں بیت محمود میں ایک تقریب عشائیہ منعقد کی گئی جس میں انہوں نے قبول احمدیت کے ایمان افروز حالات سنائے جو بعد میں طبع بھی کروائے گئے..ایسے حلقے جہاں احمدیت کا پیغام مکمل طور پر نہیں پہنچا.وہاں اشاعت لٹریچر کے لئے پروگرام بنایا گیا.مندرجہ ذیل تین حلقے تجویز کئے گئے (۱) زیورک، برن ، جینوا اور بازی میں مقیم غیر ملکی ڈپلومیٹس جن کی زبانوں میں لٹریچر پیش کرناممکن ہے (۲) پاکستانی مقیم سوئٹزرلینڈ (۳) آسٹریا.اس کام میں بہت کامیابی ہوئی.﴿۲۰﴾

Page 481

۴۶۱ فنجی نجی میں مجلس کا قیام ۱۹۷۹ء میں ہوا.ملکی سطح پر نظامت اعلیٰ ۱۲ فروری ۱۹۸۲ء کو قائم کی گئی اور مکرم عبداللطیف مقبول صاحب ناظم اعلیٰ مقرر کئے گئے.ایک اجلاس عام مجلس انصار اللہ نبی کا تیسرا اجلاس عام مسجد محمود مارو میں 11 فروری ۱۹۷۹ء کو منعقد ہوا.جس میں امیر مکرم مولوی دین محمد صاحب شاہد نے مجلس کے قیام کی غرض اور کام کا طریق کار بتایا.﴿۲۱﴾ صدر محترم کا پیغام مجلس انصار اللہ جزائر نبی کے نام ایک مجوزہ سالانہ اجتماع کے لئے صدر محترم نے ایک پیغام بھی بھجوایا جو یہ تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعَوْدِ برادران کرام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے اور آپ دین و دنیا میں ہر آن نئی نئی ترقیات حاصل کرتے رہیں.آمین مجھے یہ معلوم کر کے از حد خوشی ہوئی کہ جزائر فجی کی مجلس انصار اللہ عنقریب اپنا اجتماع منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ارادوں اور آپ کے عملی پروگراموں میں برکت ڈالے اور آپ کی مجلسی سرگرمیاں ثمر آور نتائج پیدا کریں آمین.میری دعا ہے کہ آپ کی مجلس کے ہر رکن کو اللہ تعالیٰ دوسروں کے لئے قابل تقلید نمونہ بنائے.انصار اللہ کو اپنے مقام اور مرتبہ کا ہمیشہ پاس رہنا چاہیئے.نئی نسل کی تربیت کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں.یاد رکھیں اس سلسلہ میں جہاد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے.زندہ قو میں وہی ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے زندہ کہلاتی ہیں جو اپنی ہر نسل کی اس طرح تربیت کرتی ہیں کہ ہر نئی نسل پہلے سے بڑھ کر اخلاص میں، خدمت میں اور قربانیوں میں آگے بڑھتی نظر آتی رہے.اس سلسلہ میں آنے والے دور میں ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوں گی ، ان کی طرف سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا

Page 482

۴۶۲ ایک حالیہ ارشاد آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: چودھویں صدی بنیادوں کو استوار کرنے کی صدی تھی ایک ایسے قلعہ کی جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں نوع انسانی کی بڑی بھاری اکثریت نے پناہ لینی تھی اور اس صدی نے ان بنیادوں پر اس قلعہ کو تعمیر کرنا ہے.اللہ کے فضل سے انشاء اللہ.ہم بھی اس قلعہ کی تعمیر میں مزدور کا کام کرتے ہیں اور کریں گے.انشاء اللہ.اور خدا آنے والی نسلوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ اس بات پر فخر کریں کہ خدا تعالیٰ کے قلعہ کے مزدور نہیں.دنیا کی بادشاہتیں اُن کی نظر میں حیثیت نہ رکھتی ہوں.“ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض سمجھنے اور اُنہیں یہ احسن سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ سالانہ اجتماعات پہلا سالانہ اجتماع مقام پر مجلس انصاراللہ جزائر فجی نے اپنا پہلا سالانہ اجتماع 9 اور ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء کو LAUTOKA (لٹوکا) کے منعقد کیا.صووا مجلس کے انصار بذریعہ بس ۹ نومبر صبح چار بجے لٹوکا کے لئے روانہ ہوئے.ساڑھے نو بجے لٹو کا پہنچنے پر جماعت کی طرف سے ناشتہ پیش کیا گیا پھر پروگرام کے مطابق دس بجے اجتماع شروع ہوا.مکرم مولانا سجاد احمد صاحب خالد امیر ومشنری انچارج و نائب صدر مجلس انصار اللہ نے صدارت کے فرائض سر انجام دیئے.اجتماع کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو کہ محمد اسماعیل صاحب میٹیور آف صووانے کی نظم مکرم منظور الہی خان صاحب آف لٹو کا نے خوش الحانی کے ساتھ پڑھی.ازاں بعد مکرم نائب صدر صاحب نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث، مکرم وکیل التبشیر صاحب اور مکرم صدر صاحب مجلس مرکز یہ کے پیغامات پڑھ کر سنائے.پیغام سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث حمد اللہ تعالیٰ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں فرمایا: میں یہ سن کر بہت خوش ہوا ہوں کہ جزائر فجی کی مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ اپنے سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ جزائر مبنی کے انصار اور خدام کو طاقت اور جرأت عطا کرے تا وہ اپنے فرائض کو اسلام کی تعلیم کے مطابق سرانجام دے سکیں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہی اپنی برکات

Page 483

سے تمہیں نوازے.“ ۴۶۳ پیغام مکرم وکیل اتبشیر صاحب مكرم وكيل التبشیر صاحب نے اپنے پیغام میں فرمایا: ”خدا تعالیٰ آپ کے اجتماع کو اس طرح اپنے افضال سے نوازے کہ آپ قرآنی تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے بچے احمدی بن جائیں.باہم محبت اور پیار سے رہو کسی سے نفرت نہ کرو.ہمارا سلام سب بھائیوں تک پہنچادیں.“ پیغام محترم صدر صاحب مجلس انصار اللہ مرکزیہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس نے اپنے پیغام میں فرمایا: برادران کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجلس انصار اللہ بھی اپنا پہلا سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو آپ کے از دیا دایمان کا موجب بنائے اور جب آپ اس اجتماع سے واپس جائیں تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے محبت میں زیادہ پختگی اور ترقی کے ساتھ ساتھ ایک فعال اور متحرک قوت عملیہ لے کر لوٹیں.(آمین) میں آپ کی توجہ خاص طور پر اس امر کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ مجلس انصار اللہ کے ممبران پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ اپنے اصلاح نفس کے بھی ذمہ دار ہیں اور اس امر کے بھی ذمہ دار ہیں کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی نئی نسل کی اس طرح سے تربیت کریں کہ نہ صرف وہ اُن کی جگہ لینے کے قابل ہوں بلکہ اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں کہ آئندہ آنے والا ہر زمانہ احمدیت کے لئے ہر جہت ترقیوں والا زمانہ ہو.تربیتی نقطہ نظر سے سب سے زیادہ اہم اور ضروری دو امور ہیں.یہ دونوں امور ہی ایسے ہیں کہ ان کے بغیر ہماری تمام کوششیں عبث اور رائیگاں ہوں گی اور روحانی اور اخلاقی ترقی کی کوئی منزل بھی ان دونوں کے بغیر حاصل نہیں کی جاتی.میری مراد پابندی نماز اور تعلیم القرآن سے ہے.نماز باجماعت اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے.قرآن کریم میں نماز کی فرضیت اور اس کے فوائد اور فضائل کو بڑی شدت اور تکرار سے بیان کیا گیا ہے.اسی طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارکہ میں اپنے عمل سے بھی

Page 484

۴۶۴ اور اپنے قول سے بھی نماز با جماعت کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین اعمال میں سے قرار دیا ہے.اس لئے میری گذارش ہے کہ جہاں جہاں آپ جماعتی سطح پر مرکز نماز قائم کرنے کا انتظام کرسکیں وہاں اپنے مرکز قائم کریں اور خود بھی ان مراکز میں جا کر نماز با جماعت ادا کریں اور ساتھ اپنے بچوں کو بھی نماز کے لئے لے جایا کریں تا کہ انہیں زندگی کے شروع سے نماز باجماعت پڑھنے کی عادت پڑے.اسی طرح جہاں آپ مرکز نماز قائم نہ کر سکتے ہوں وہاں اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نماز با جماعت کا التزام کریں اور اپنے بچوں کو سمجھاتے رہیں کہ اصل حکم مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا ہے لیکن چونکہ یہاں کوئی مسجد یا مرکز نہیں ہے اس لئے ہم گھر میں اکٹھے ہو کر نماز باجماعت پڑھ لیتے ہیں.دوسری بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ تعلیم القرآن ہے.ہمارے مذہب کی بنیا د قرآن مجید پر ہی ہے.قرآن مجید ہی وہ پیغام ہے جو ہمارے اللہ نے تمام دنیا کے انسانوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا.اگر ہم اس پیغام سے ہی جس میں ہمارے لئے ہر بھلائی اور خوبی کو حاصل کرنے کے طریقے بیان ہیں ، غافل رہیں اور اسے نہ پڑھیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی کسی قسم کی بھلائی سے ہمکنار ہوسکیں.قرآن کریم خود پڑھنا سیکھیں، اس کا ترجمہ سیکھیں تا کہ اپنے محبوب کے پیغام کو آپ خود سمجھیں اور اسی طرح کوششیں کریں کہ قرآنی علوم صرف اپنے تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ اپنے بچوں کو اور نو جوانوں کو بھی تعلیم قرآنی کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوششیں کریں.خود بھی روزانہ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور اپنے بچوں میں بھی روزانہ تلاوت قرآن کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں اور ان کو بھی قرآن کریم کا ترجمہ پڑھائیں تا کہ وہ بھی ان روحانی خزائن سے فائدہ اٹھانے والے ہوں جن سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اپنی حفظ وامان میں رکھے.اپنی اور اپنے رسول کی محبت سے نوازے اور قرآنی علوم سے متمتع ہونے اور قرآنی احکام پر چلنے اور کار بند رہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ ان پیغامات کے بعد امیر صاحب نے عہدد ہرایا.مکرم ممتاز علی مقبول صاحب نے سورہ نور کی روشنی میں برکات خلافت بیان کیں.جس کے بعد مکرم محمد یسین خان صاحب آف صووا نے حضرت اقدس مسیح موعود کا منظوم کلام بھے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا سنایا.مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب آف لٹو کا نے مجلس انصار اللہ کی اہمیت تنظیم کی برکات اور اپنی اولاد میں اطاعت نظام پیدا کرنے کی اہمیت کو نصف گھنٹے تک بیان کیا.مکرم نائب صدر صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں مجلس انصاراللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد

Page 485

۴۶۵ حضرت مصلح موعود کے فرمودات کی روشنی میں بیان کئے.بارہ بجے پہلا اجلاس ختم ہو گیا.کھانا اور نمازوں کے بعد ڈیڑھ بجے دوسرا اجلاس شروع ہوا جس میں تلاوت قرآن پاک ، تقریر، اذان اور نظم کے مقابلے ہوئے.مقابلہ تلاوت میں اوّل مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب لٹوکا، دوئم مکرم محمد اسمعیل میٹیوور صاحب آف صودا اور سوئم مکرم یعقوب مقبول صاحب.مقابلہ تقاریر میں اول مکرم محمد اعظم خلیل صاحب آف ما رو، دوئم مکرم حاجی محمد حنیف صاحب لٹو کا، سوئم مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب لٹو کا.مقابلہ اذان میں مکرم اول محمد یسین خان صاحب صوا، دوئم مکرم منظور الہی خان صاحب لوکا، سوئم مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب لٹو کا.مقابلہ نظم میں اول مکرم محمد یسین خان صاحب صوا، دوئم مکرم منظور الہی خان صاحب لٹو کا، سوئم مکرم ماسٹرمحمد حنیف صاحب لمباسہ رہے.شام ساڑھے پانچ بجے یہ اجلاس ختم ہوا.۱۰ نومبر نماز تہجد کے ساتھ دوسرے دن کا آغاز ہوا اور نماز فجر کے بعد مکرم امیر صاحب نے سورہ کہف کے پہلے رکوع کی آیت فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفًا کی تغییر بیان کرتے ہوئے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تبلیغ تاریخ اسلام کے واقعات کی روشنی میں بیان کیا اور مکرم حاجی محمد حنیف صاحب صدر جماعت احمد یہ ٹوکا نے النَّظَافَةُ مِنَ الْإِيمَانِ کی روشنی میں درس حدیث دیا اور مکرم ماسٹر صادق حسین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سنائے.پھر ورزش، غسل اور ناشتہ کے بعد تلاوت نظم اور عہد کے بعد مقابلہ پیغام رسانی ہوا.جس میں صووا کی ٹیم (جو مکرم ممتاز علی منقبول صاحب ، مکرم محمد یسین خان صاحب، مکرم یعقوب مقبول صاحب ، مکرم محمد اسمعیل صاحب فنانس سیکرٹری اور مکرم واجد دین صاحب پر مشتمل تھی ) اول آئی.بہت سی باتیں انصار کے لئے بالکل نئی تھیں خصوصاً حفظ القرآن ، مقابلہ پیغام رسانی تحریری مقابله علمی انصار نے ان تمام مقابلوں میں بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.بعدہ تحریری علمی مقابلہ ہوا جس میں اوّل مکرم ممتاز علی مقبول صاحب مقبول صودا، دوئم مکرم محمد اسماعیل صاحب فنانس سیکرٹری اور سوئم مکرم ماسٹر محمدحسین صاحب رہے.تحریری مقابلہ کے بعد ایک گھنٹہ تک علمی سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہا.مکرم مولانا سجاد احمد خالد صاحب امیر ومشنری انچارج، مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب، مکرم ممتاز علی صاحب مقبول صدر جماعت صوا، مکرم حاجی محمد حنیف صاحب جنرل سیکرٹری انصار، صدر جماعت لٹو کا اور مکرم واجد دین صاحب نے سوالات پوچھے.یہ پروگرام بہت پسند کیا گیا.خدام اور اطفال نے بھی بہت دلچسپی دکھائی.ان مقابلوں کے بعد تقسیم انعامات کی تقریب عمل میں آئی.مکرم امیر صاحب نے انعامات تقسیم کرنے سے پہلے سب دوستوں کو انعام لینے کا طریق سمجھایا.اپنی اختتامی تقریر میں مکرم امیر صاحب نے تمام دوستوں کو اپنے اندر قومی روح پیدا کرنے پر زور دیا.﴿۲۲﴾

Page 486

۴۶۶ چوتھا سالانہ اجتماع جزائر فجی کی ذیلی تنظیموں کا مشترکہ چوتھا سالانہ اجتماع مورخہ ۱۱ ۱۲ اپریل ۱۹۸۲ء کو مسجد ناصر مارو میں منعقد ہوا.صبح دس بجے اجتماع کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی.نظم کے بعد مولانا سجاد احمد صاحب خالد امیر و مشنری انچارج نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث " کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا اور اجتماع کی غرض و غایت بیان کی.افتتاحی اجلاس کے بعد مقابلہ پیغام رسانی ہوا.ایک بجے نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد کھانا پیش کیا گیا.دوسرا اجلاس دو پہر ایک بج کر پینتالیس منٹ پر شروع ہوا.تلاوت و ظم کے بعد مکرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب پرنسپل ناندی کالج نے برکات خلافت پر تقریر کی.ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد اذان ، تلاوت اور تقاریر کے مقابلہ جات میں انصار ، خدام اور اطفال نے حصہ لیا.ساڑھے تین بجے فٹ بال کا پہلا مقابلہ ناندی اور لٹو کا کی ٹیموں کے درمیان ہوا جبکہ دوسرا مقابلہ مارو اور صووا کے درمیان ہوا.رسہ کشی کا مقابلہ ناندی اور لٹو کا کے درمیان ہوا.بعد ازاں مقابلہ معلومات منعقد ہوا.۱۲ اپریل کو نماز تہجد اور فجر ادا کی گئی جس کے بعد درس قرآن اور ملفوظات ہوا.آٹھ بجے اجلاس کا آغاز ہوا جس میں مکرم ممتاز علی مقبول صاحب نے انصار اللہ کی تاریخ بیان کی.اس کے بعد میوزیکل چیئر نظم خوانی اور جنرل نالج کے مقابلہ جات ہوئے.گیارہ بجے ریفریشمنٹ کے بعد فٹ بال اور رسہ کشی کے مقابلے ہوئے.انعامات کی تقسیم مکرم بھائی عبداللطیف مقبول صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کی.امیر صاحب نے اپنی اختتامی تقریر میں بعض قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور ان کی مختصر تفسیر کر کے ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی تلقین کی.دعا پر یہ اجتماع ختم ہوا.اس اجتماع میں مندرجہ ذیل انصار نے انعامات حاصل کئے.اذان اول مکرم منظور الہی خان صاحب (لٹو کا) دوم: مکرم اسماعیل صاحب (صووا) تلاوت قرآن کریم : اول مکرم اسماعیل صاحب (صووا) دوم : مکرم منظور الہی صاحب (لٹوکا) نظم : اول مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب (لٹو کا) دوم : مکرم مولوی محمد شریف صاحب ( ناندی) تقریر : اول مکرم لطیف مقبول صاحب (صووا) دوم : مکرم مولوی محمد شریف صاحب ( ناندی) ﴿۲۳﴾ سویڈن مجلس انصاراللہ سویڈن کا قیام ۲۷ ستمبر ۱۹۷۹ء کو عمل میں آیا.مالمو اور گوٹن برگ میں دو مجالس قائم ہوئیں.پہلے مکرم سید کمال یوسف صاحب، اور پھر علی الترتیب مکرم منیر الدین احمد صاحب اور مکرم سید کمال یوسف

Page 487

۴۶۷ صاحب نائب صدر رہے.پہلے ناظم اعلیٰ ملک مکرم عبدالرؤف خان صاحب مقرر ہوئے.جو اس کے علاوہ زعیم مجلس مالمو کے فرائض بھی ادا کر رہے تھے.جنوری تا مارچ ۱۹۸۰ء میں ناظم اعلیٰ صاحب نے لنڈ یو نیورسٹی کے شعبہ دینیات میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے موضوع پر دو تقاریر کیں.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے ۲۱ مئی ۱۹۸۱ء کو مجلس مالمو اور ۲۲ مئی کو گوٹن برگ کا دورہ کیا.اس وقت مجلس مالمو میں میں چار اور مجلس گوٹن برگ میں ایک ناصر مقیم تھے.سپین ۱۹۷۹ء میں مکرم مولانا کرم الہی صاحب ظفر نے سپین میں مجلس انصار اللہ کو قائم کیا.ابتداء میں صرف تین انصار تھے لہذا سارے ملک پر مشتمل ایک ہی مجلس قائم ہوئی.انصار کی تعداد بہت تھوڑی ہونے کی وجہ سے علیحدہ سالانہ اجتماع منعقد نہ کروایا جاسکا.امریکہ مکرم میرمحمود احمد صاحب ناصر مبلغ سلسلہ کی سفارش پر اپریل ۱۹۸۰ء میں یہاں مجلس کا با قاعدہ قیام ہوا.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکزیہ نے جون جولائی ۱۹۸۱ء میں امریکہ کا دورہ فرمایا.اس دوران آپ بوسٹن ، نارتھ جرسی، ولنگ بورو، فلاڈلفیا، نیویارک ، واشنگٹن ، بالٹی مور، ڈیٹن ، سینٹ لوئیس، نارتھ شکا گو، پورٹ لینڈ کے مقامات پر تشریف لے گئے.مکرم نائب صدر صاحب کے دورہ سے مجلس کی سرگرمیوں کو بہت تقویت ملی اور تجنید ، بجٹ اور تعلیمی پروگرام کی طرف خاص توجہ پیدا ہوئی.مرکزی گیسٹ ہاؤس ربوہ کی تعمیر کے لئے امریکہ کے انصار نے گرانقدر عطیہ دیا.۱۹۸۱ء کے جن ملکی عہدیداران کا علم ریکارڈ سے ہو سکا ہے.اُسے یہاں درج کیا جاتا ہے.مکرم مسعود احمد صاحب ( ناظم اعلی ملک )، مکرم مبشر احمد صاحب ( نائب ناظم اعلی) ، مکرم محمد صادق صاحب (معتمد تربیت)، محمد یکی شریف صاحب (معتمد اصلاح وارشاد ) ، مکرم نصیر احمد خان صاحب ( معتمد مال ) مکرم نورالدین صاحب ( معتمد تعلیم )، مکرم امین اللہ سالک صاحب ناظمین علاقہ : ٹڈویسٹ مکرم برا در مظفر احمد ظفر صاحب، گریٹ لیک: مکرم برادر رشید احمد صاحب، ویسٹ کوسٹ : مکرم برادر رحمت جمال صاحب عہد یداران مجالس واشنگٹن مکرم برادر محمد امین صاحب ( زعیم) بوسٹن: مکرم عابد حنیف صاحب ( زعیم)

Page 488

۴۶۸ نارتھ جرسی: مکرم بشیر افضل صاحب ( زعیم) شکاگو: مکرم سعید احمد ملک صاحب ( زعیم) ڈیٹن مکرم بشیر احمد صاحب ( زعیم ) مکرم رفیق سلام صاحب ( منتظم مال ) مکرم امان اللہ صاحب سینٹ لوئیس : مکرم احمد ولی صاحب ( زعیم)، مکرم حبیب اللہ عزیز صاحب ( نائب زعیم ) مکرم برادر احمد سعید صاحب ( منتظم تعلیم و تربیت) ،مکرم ڈاکٹر عزیز احمد صاحب ( منتظم تبلیغ)، مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ( منتظم مال) کلیولینڈ: مکرم ہیرالڈ سلام رائس صاحب ( زعیم) ملوانکی: مکرم مبارک احمد صاحب ( زعیم ) وینکا گن مکرم صلاح الدین شمس صاحب ( زعیم) ۱۹۸۲ء میں مکرم فضل احمد صاحب آف بوسٹن بطور نمائندہ سالانہ اجتماع مرکز یہ ربوہ میں شامل ہوئے.پہلا سالانہ اجتماع پہلا سالانہ اجتماع ۸-۹ مئی ۱۹۸۲ ء کو منعقد ہوا.ناروے ابتدأنا روے سویڈن مشن کے ماتحت کام کرتا تھا اور مبلغ انچارج کا قیام بھی سویڈن میں تھا.۱۹۷۱ء سے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پاکستان سے نوجوان ہجرت کر کے ناروے میں رہائش پذیر ہوئے.جب اس دہائی کے آخر پر چند نو جوان انصار کی عمر کو پہنچے تو ناروے میں مجلس انصار اللہ کا قیام ضروری ہو گیا.مکرم منیر الدین احمد صاحب مبلغ انچارج نے مرکز کو تجویز دی کہ سویڈن اور ناروے کی مشترکہ تنظیم انصار اللہ بنائی جائے.مرکز نے آپ کی تجویز کو منظور کرلیا تھا لیکن ان کی پاکستان واپسی کی وجہ سے یہ مشترکہ تنظیم قائم نہ ہوسکی.مکرم سید کمال یوسف صاحب جب ناروے کے مشنری انچارج مقرر ہوئے تو انہوں نے مرکز کو تجویز بھجوائی کہ ناروے میں اس وقت چھ انصار ہیں اس لئے دونوں ممالک میں علیحدہ علیحدہ تنظیم قائم کی جائے.مرکز نے اس تجویز کو منظور کر لیا.مورخه ۲۳ اگست ۱۹۸۰ء کو جماعت احمد یہ اوسلو کے ایک خصوصی اجلاس میں مندرجہ ذیل چار انصار نے شرکت کی.مکرم سید کمال یوسف صاحب، مکرم مبارک احمد راجپوت صاحب، مکرم مرزا محمد یعقوب صاحب، مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب جبکہ مکرم عبدالغنی کھوکھر صاحب اور مکرم عبد اللطیف قریشی صاحب بوجوہ حاضر نہ ہو سکے.اس اجلاس میں مرکز سے زعیم انصار اللہ کی نامزدگی یا انتخاب کے لئے درخواست کی گئی جس پر مرکز نے مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۸۱ء کو مجلس انصاراللہ ناروے کے قیام کی منظوری دی.مکرم سید کمال یوسف صاحب نائب صدر ملک کی سفارش پر مکرم سیدمحموداحمد شاہ صاحب کو پہلا ناظم اعلیٰ ناروے نامزد کیا گیا جوا۳ دسمبر ۱۹۸۲ ء تک کام کرتے رہے.

Page 489

۴۶۹ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مرکز یہ ۲۲ مئی ۱۹۸۱ء کو پہلی مرتبہ ناروے تشریف لائے.آپ نے ۲۳ مئی کو انصار کے اجلاس کی صدارت کی اور ضروری تنظیمی و تربیتی امور پر تفصیل سے روشنی ڈالی.نیز مندرجہ ذیل پہلی مجلس عاملہ (برائے سال ۱۹۸۱ء ۱۹۸۲٫ء) کی بھی منظوری دی.مکرم سید محمود احمد صاحب ناظم اعلیٰ ، مکرم عبد اللطیف قریشی صاحب : معتمد عمومی تجنید و مال، مکرم مرزا محمد یعقوب صاحب : معتمد تعلیم و تربیت ، مکرم مبارک احمد راجپوت صاحب: معتمد اصلاح وارشاد واشاعت ﴿۲۴﴾ مختصر کارگزاری ۱۹۸۱ء کے آخر میں تجنید آٹھ انصار پر مشتمل تھی.مجلس نے سب سے پہلے مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ انچارج کی زیر ہدایت اور ان کی معیت میں اوسلو اور گردو نواح میں جہاں جماعت کے دوست رہائش پذیر تھے، رابطہ شروع کیا.مقصد یہ تھا کہ احباب کو جماعت کے ساتھ پختہ تعلق قائم کرنے اور مسجد سے با قاعدہ رابطہ کرنے کی ترغیب دی جائے.مجلس نے یہ کام مختلف ادوار میں مکمل کیا.شعبہ مال: انصار اللہ کے مستقل چندہ جات اور تعمیر گیسٹ ہاؤس کے لئے بجٹ کی تکمیل کی گئی اور باقاعدگی سے ان چندہ جات کی وصولی اور حسابات کا انتظام کیا گیا.۱۹۸۱ء میں مستقل چندوں کی سو فیصد وصولی ہوئی اور کوئی ناصر بقایا دار نہ رہا.وعدہ برائے مرکزی گیسٹ ہاؤس کا حصہ بھی وصول کیا گیا.شعبه تبلیغ و اشاعت : ۱۹۸۱ء میں خدام الاحمدیہ نے یوم تبلیغ منایا جس میں انصار نے بھی بھر پور حصہ لیا.علاوہ ازیں انصار نے خود بھی انگلش، ڈینش، سویڈش سپینش ، نارویجن زبانوں میں پمفلٹ تقسیم کئے.مکرم مبارک احمد صاحب راجپوت مستقلاً مکرم مولانا سید کمال یوسف صاحب کی معیت میں قرآن کریم (معہ انگلش ترجمہ) کی تقسیم کرتے رہے.اکتو بر ۱۹۸۱ء تک قرآن کریم کی باون کا پیاں یو نیورسٹی کے پروفیسرز اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں تقسیم کی جا چکی تھیں.مکرم نور احمد صاحب بولستاد نے اخبارات میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کے جوابات دے کر ان کا ازالہ کیا.سکولوں میں اسلام کے متعلق لیکچرز دینے کا اہم کام بھی انہوں نے سنبھالا ہو ا تھا.شعبہ وقار عمل : انصار نے مسجد کی تعمیر و مرمت میں حسب استطاعت حصہ لیا اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا.مسجد کی مرمت اور نئی تنصیبات کے کام کو مکرم عبد الغنی صاحب نے مستقل طور پر اپنی ذمہ داری سمجھ کر مکمل کیا اور ایک خطیر رقم کی بچت کر دی.مکرم حنیف صاحب نے کمروں میں روغن کا کام خوبصورتی سے مکمل کیا.مکرم سید محمود احمد صاحب زعیم اعلیٰ اور دوسرے احباب نے بھی مختلف اوقات میں حسب توفیق حصہ لیا.علیم : تفسیر سورہ بقرہ از حضرت مسیح موعود کے نصف اول کا مطالعہ بطور کورس مقرر کیا گیا.﴿۲۵﴾ شعب

Page 490

دبئی چوہدری عنایت الرحمن صاحب بطور زعیم نومبر ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۳ء مقرر ہوئے.ہالینڈ ہالینڈ میں مجلس کا با قاعدہ قیام اپریل ۱۹۸۱ء میں ہوا.پہلے ناظم اعلی ملک مکرم عبدالعزیز جمن بخش صاحب تھے.معتمد عمومی مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اور معتمد مال مکرم چوہدری ظفر احمد صاحب تھے.مکرم عبدالعزیز جمن بخش صاحب کے بعد ۱۸ جولائی ۱۹۸۱ء کو مکرم عبدالحمید صاحب فاندر فیلدن کو پہلا ناظم اعلیٰ ملک مقرر کیا گیا.مجلس ہیگ کے پہلے زعیم اعلیٰ مکرم عبد العزیز صاحب جمن بخش (از یکم اپریل ۱۹۸۱ ء) اور دوسرے مکرم چوہدری ظفر احمد صاحب (از ۵ ستمبر ۱۹۸۲ء) تھے.اس دوران نائب صدر ملک مکرم مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل ( مشنری انچارج ) تھے.کارگزاری جنوری تا اپریل ۱۹۸۱ء مرکز سے منظوری کے بعد سرکلر کے ذریعہ سب ممبران کو اطلاع دی گئی اور تنظیم انصار اللہ کی اہمیت کو واضح کیا گیا.انفرادی طور پر انصار سے ملاقات کر کے مجلس کے پروگراموں سے آگاہ کیا گیا.فہرست تجزید مکمل کی گئی.چندہ جات کی وصولی کی گئی.ماہ اپریل میں مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کر کے مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ کے دورے کا پروگرام مرتب کیا گیا.اپریل میں تجنید بارہ انصار تھی.۱۷ سے ۱۹ مئی ۱۹۸۱ ء تک مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر مجلس مرکز یہ نے ہالینڈ کا دورہ کیا اور اجلاسات میں خطاب کے علاوہ انصار سے انفرادی رابطہ بھی فرمایا.اس وقت ہیگ مجلس کا با قاعدہ بجٹ تشخیص ہوا.بجٹ اور اُس وقت تک وصولی کی تفصیل حسب ذیل ہے: چنده مجلس سالانہ اجتماع چندہ اشاعت بجٹ وصولی ۷ امئی تک ۷۵۶ گلڈر ۱۰۵ گلڈر ۱۳۰ گلڈر ۲۵ گلڈر ۱۳۰ گلڈر ۲۵ گلڈر ۵۰ گلڈر عطیہ برائے تعمیر گیسٹ ہاؤس مرکز ۵۳۰ گلڈر ڈنمارک ڈنمارک میں مجلس کا آغاز ۱۹۸۱ ء میں ہوا.اس وقت ایک ہی مجلس کوپن ہیگن میں قائم ہوئی کیونکہ تمام انصار مشن ہاؤس کے قریب ہی رہائش پذیر تھے.تجنید چودہ تھی.پہلے نائب صدر ملک مکرم سید میر مسعود احمد

Page 491

صاحب مبلغ انچارج تھے.مئی ۱۹۸۱ء کو مکرم سید میر مسعود احمد صاحب کی صدارت میں پہلا اجلاس ہوا.مکرم نوح سوینڈ ہنسن صاحب پہلے زعیم چنے گئے.(انہیں بعد میں مرکزی عاملہ مجلس انصاراللہ مرکز یہ کا اعزازی رکن بننے کی بھی سعادت حاصل ہوئی.) مکرم نائب صدر صاحب مرکزیہ نے ۲۰ مئی ۱۹۸۱ء کو اس انتخاب کے ساتھ ساتھ مکرم مبشر احمد صاحب کی بطور معتمد عمومی بھی منظوری دی.پہلی مجلس عاملہ ۱۲ جون ۱۹۸۱ء کو بنائی گئی.دیگر عہدیداران میں مکرم عبد السلام میڈسن صاحب ( نائب زعیم اعلیٰ ) ، مکرم اے جی قمر صاحب ( معتمد تعلیم ) ، مکرم عبد القدیر چوہدری صاحب ( معتمد ایثار )، مکرم عبدالکریم طارق صاحب (معتمد مال)، مکرم شیخ مطیع الرحمن صاحب ( معتمد تر بیت )، مکرم چوہدری محمد انور صاحب (معتمد اصلاح و ارشاد ) اور مکرم چوہدری سلطان احمد صاحب (معتمد ذہانت و صحت جسمانی ) شامل تھے.۲۰ مئی ۱۹۸۱ء کو اجلاس عام میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نائب صدر نے انصار کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.سالانہ اجتماعات پہلا سالانہ اجتماع ۱۵ ۶ امئی ۱۹۸۱ء کو اور دوسرا ۷.مئی ۱۹۸۲ء کو منعقد ہوا.

Page 492

حوالہ جات روزنامه الفضل ربو ه۲ جون ۱۹۷۹ء صفحه ۶ دستور اساسی طبع ششم ۱۹۸۹ء روزنامه الفضل ربوه مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۱ء صفحه ۶ روزنامه الفضل ربوہ ۷ جولائی ۱۹۷۹ ، صفحہ ۳-۴ روز نامه الفضل ربوہ ۱۵.۷ امئی ۱۹۸۰ ء وماہنامہ انصار اللہ ربوہ اگست ۱۹۸۰ء صفحه ۳۷.۳۸ روزنامه الفضل ربوه ۵-۶ اگست ۱۹۸۱ء صفحه ۳ ۳٫۴-۵ روزنامه الفضل ربوه ۱۱مارچ ۱۹۸۲ ، صفحه ۵ روزنامه الفضل ربوه۲۲ نومبر ۱۹۸۱ء صفحه ا ۹ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ نومبر ۱۹۷۹ء ۱۰ روزنامه الفضل ۱۳-۱۴ جنوری ۱۹۸۱ ء و ماہنامہ انصار اللہ جنوری ۱۹۸۱ء صفحه ۴۰ وفروری ۱۹۸۱ء صفحه ۳۷.۴۰ 11 روزنامه الفضل ربوه ۲۱ ۲۳٫ دسمبر ۱۹۸۱ء صفه ۳-۴۰ ۱۲ روزنامه الفضل ربو ۱۴ اگست ۱۹۸۰ء صفحه ۳-۵ ۱۳ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۸-۴۰ ۱۴ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ، فروری ۱۹۸۳ء صفحه ۳۸-۳۹ ۱۵ روزنامه الفضل ربوه ۸ جنوری ۱۹۸۰ صفحه ۴ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۸ ا روزنامه الفضل ربوه یکم جنوری ۱۹۸۳ صفحه ۲ ۱۷ ۱۸ روزنامه الفضل ربوه ۴ دسمبر ۱۹۸۰، صفحه ۵ 19 ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.فروری ۱۹۸۲ء صفحہ ۳۰.۳۱ ۲۰ ماہنامہ انصار الله اپریل ۱۹۸۳ ء صفحہ ۳۶ ۲۱ ماہنامہ انصار اللہ جون.جولائی ۱۹۷۹ ء صفحہ ۳۵ ۲۲ روزنامه الفضل ربوده ۱۱ فروری ۱۹۸۱ صفحه ۵-۶ ۲۳ روز نامہ الفضل ربوہ ۱۷ جون ۱۹۸۲ء صفحہ ۴.۲۰،۵ جون ۱۹۸۲ء صفحه ۳.۴ ۲۴ طاہر سونیئر ۱۹۹۵ ء ناروے صفحہ ۲۷۲۵ ۲۵ ماہنامہ انصار الله ر بوه اکتوبر ۱۹۸۲ء صفحه ۳۴-۳۵

Page 492