Language: UR
مجلس انصار اللہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی وہ ذیلی تنظیم ہے جس کی بنیاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خاص دعاؤں سے 26 جولائی 1940ء کو رکھی تھی۔ قریباً پون صدی کا سفر طے کرتے ہوئے اس ذیلی تنظیم خلفائے احمدیت کی مسلسل رہنمائی اور سرپرستی میسر رہی اور اس کی شاخیں قادیان دارالامان سے نکل کر اب دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہیں ۔ مجلس شوریٰ انصاراللہ 1972ء میں منجملہ اور امور کے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجلس انصار اللہ کی تاریخ لکھی جانی چاہئے تا کہ اس سے متعلق تمام کوائف محفوظ اور یکجا ہوجائیں۔یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا او رمکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب نے اس اہم ذمہ داری کو قبول کیا، اور سن 1978ء میں پہلی جلد سامنے آئی جو اس ابتدائی دور کی تاریخ پر مشتمل تھی، اس کتاب میں نہ صرف انصار اللہ کے مختلف ادوار اور ترقیات کا ذکر تھا بلکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کے وہ ارشادات اور ہدایات جو وقتاً فوقتاً انہوں نے انصاراللہ کو ارشاد فرمائیں اور انصاراللہ کے قیام کی جو اغراض انہوں نے متعین فرمائیں درج کر دی گئیں۔ اس سلسلہ کی اگلی جلدوں میں 2003ء تک کی انصاراللہ کی تاریخ کو احسن طریق پر محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
تاریخ انصار الله | شائع کرد مجلس انصار الله مرکز به ربوہ
نام کتاب تاریخ انصار الله یڈیشن.اوّل مطبع لائن پریس لاہور با تمام چوہدری محمد بر ایم ایس سے
3 بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ و بی قوم زندہ کھلانے کی مستحق ہوتی ہے جو اپنی روایات اور تاریخ کو زندہ رکھتی ہے.انصار اللہ کی تنظیم جماعت احمدیہ کی ایک ذی تنظیم ہے.اس کی بنیا د ستید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے مبارک ہاتھوں سے لکھی گئی خلفائے احمدیت کی راہنمائی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک پروان چڑھتی رہی.تاریخ اسلام میں انصار اللہ کے نام سے بڑی تابندہ اور درخشندہ روایات وابستہ میں ان روایات کی یاد و بانی اور تجدید کی غرض سے شور می انصار اللہ ھے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ انصار اللہ کی تاریخ مدون کی جائے.یہ 1 142 141 کام بہت محنت طلب تھا، کریم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب قائد تعلیم میں انصار اللہ مرکزہ یہ نے اس ذمہ داری کو قبول کیا اور بڑی محنت توجد اور کوشش کے ساتھ تاریخ کا مسودہ تیارہ کیا.فجزاه الله احسن الجزاء الحمد للہ کہ مجلس مرکز یہ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہی ہے اور تاریخ انصار اللہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچ ہی ہے.۱۳۵۱ جش انصاراللہ اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ انصار اللہ کی تاریخ کے مختلف ادوار اور ترقی کا ذکر ہے بلکہ حضرت خليفة السيح الثاني المصلح الموعود رضی اللہ عنہ ، حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کے دو ارشادات اور ہدایات جو وقتا فوقتا انہوں نے انصار اللہ کو ارشاد فرمائیں اور انصارالہ کے قیام کی جو اغراض انہوں نے متعین فرمائیں درج کر دی ہیں.میں ممبران سے اپیل کرونگا کہ وہ اس تاریخ کے مطالعہ کی روشنی میں انصار اللہ کے قیام کی اغراض کو مجھیں اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں اپنی روایات کو زندہ وتابندہ رکھتے ہوئے آگے بڑھیں کہ مومن ہمیشہ جوان ہوتا ہے.بکوشید اسے جوانان تا بدین قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا خاکسار در خا دا اکتوبر هایش مرزا مبارک احمد مصد اعلی انصار الله مرکز یہ 194
مداور بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَةٌ وَتُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم عرض حال مجلس شور می انصار الله منعقد و سران سلامی میں منجملہ اور امور کے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجلس انصارالہ 1967 کی تاریخ لکھی جانی چاہیئے تاکہ اس سے متعلق تمام کوائف محفوظ اور یکجا ہو جائیں، اس فیصلہ کے بموجب اُس وقت یہ کام تین افراد پرمشتمل ایک کمیٹی کے سپرد ہوا.اس کیٹی میں مکرم پر و فیسر غلام باری صاحب سیف قائد اشاعت ، مکرم مولوی دوست محمد صاحب اور خاکسار کا نام رکھا گیا.اسی میں اس کمیٹی کے تین چار ۱۳۵۳ F 196M ۶۱۹۷۳ اجلاس ہوئے جن میں مواد تجمع کرے سے متعلق تجاویز پیش ہوئی اورتقسیم کار ہوئی تھوڑا عرصہ یہ کمیٹی کام کرتی کام ہوئی تھوڑا یہ کام رہی اور کچھ مواد بھی جمع کیا گیا، لیکن بوجوہ رفتار بہت سست رہی، اس لیے کام میں قدرتاً تاخیر ہو گئی.نگ ہیں یہ کام کلیتہ خاکسار کے سپرد ہوا، لیکن یہ سال جماعت کے لیے آزمائش کا سال ثابت ہوا.ہنگامی حالات کے پیش نظر تصنیف کے کام میں بہت سی مشکلات پیش آگئیں.دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے لائبریری میں جانے کا وقت نہیں ملتا تھا اور اخباروں کے فائل دوسری جگہ سے دستیاب نہ ہوتے تھے اس وجہ سے کام میں بہت تاخیر ہوتی چلی گئی تاہم جو وقت بھی میسر آتا اس سے پورا استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و عنایت سے کچھ نہ کچھ لکھنے کی توفیق عطا فرما دی جسقدر معلومات حاصل ہو سکیں ان کو اپنی سمجھ کے مطابق ترتیب دے دیا ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ضرورت پوری ہوئی یا نہیں مجھے اس امر کا شدید احساس ہے کہ مطالعہ کے لیے جو وقت اور سہولت ملنی چاہیے تھی.وہ میسر نہ آسکی ایسے لازما بہت سی خامیاں رہ گئی ہونگی، اس کے لیے قارئین سے معذرت خواہ ہوں.صدر محترم کا یہ ارشاد تھا کہ تاریخ صرف ایک جلد پرشتمل ہوا، اس لیے تمام وہ تقاریر جوستید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ اجتماعات کے موقعوں پر فرمائیں تاریخ میں شامل نہیں کی جاسکتی تھیں اور نہ تمام مرکزی اور ضلعی
اجتماعات کی تفاصیل کو شامل کیا جا سکتا تھا، اس لیے حضرت امیرالمومنین کی تقاریر میں سے صرف انکا انتخاب کر لیا گیا جن میں حضور نے براہ راست انصار اللہ کو مخاطب کیا اور ان کے بارے میں ہدایات ارشاد فرمائیں.اسی طرح مرکزی اجتماعات میں سے بھی صرف پانچ کو منتخب کر لیا گیا ہے تاکہ ان کی کیفیات کا کچھ نہ کچھ نقشہ آنکھوں کے سامنے آجائے ضلعی یا علاقائی اجتماعات پر صدر محترم نے جو پیغامات ارسال کئے ان میں سے صرف ایک دو بطور نمونہ شامل کر لیے گئے ہیں تا کہ کتاب کا حجم زیادہ بڑھنے نہ پائے.مجلس کا دستورا ساسی الگ طور پر شائع ہو چکا ہے اس لیے اس کو شامل تاریخ نہیں کیا گیا، البتہ شوری کے فیصلہ جات کو یکجا کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے اندر بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور اب تک الگ شائع ۱۹۵۴ نہیں کئے جا سکے.اس امر کا افسوس ہے کہ تقسیم ملک کے بعد سے پیش تک کا مجلس کا ریکارڈ محفوظ نہ رہ سکا لہذا اس دور کے بارے میں اس تنظیم کی کارگزاری پیش نہیں کی جاسکی ، الفضل میں کچھ اعلانات اس زمانہ میں ضرور شائع ہوتے رہے ہیں، لیکن ان سے ملبس کے پروگرام کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوئیں اور یہ دور تشنہ ہی رہتا ہے.مین مکرم مولوی عبدالرتمن صاحب انور کا بہت ممنون ہوں کہ انہوں نے انصار اللہ کے دوسرے دور سے متعلق ضروری معلومات فراہم کیں.میں نے ان کی ڈائری سے بہت سا فائدہ اٹھایا ہے.اسی طرح میں مکرم چو ہدری تدا با کیم صاحب ایم اے سیکرٹری صد میں کا ممنون ہوں کہ انھوں نے تاریخ کی تیاری میں بہت تعاون کیا.وہ آپ ونیر سے بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ذاتی دلچسپی شوق اور توجہ سے انصار اللہ کا بہت ساریکارڈ محفوظ رکھا ہے.اس ریکارڈ کے بغیر انصار اللہ کی تاریخ لکھنا بہت مشکل ہوتا.تاریخ انصار اللہ کی تصنیف کا کام تو جنوری شاہ میں ہی مکمل ہو گیا تھا ، لیکن اس کی اشاعت بوجود معرض التوا میں پڑی رہی میشاء میں محسوس کیا گیا کہ کتاب عبد شائع ہو جانی چاہیے چنانچہ مسودہ پر نظرثانی کر کے ضروری ترامیم و اضافہ کے بعد اب اسے شائع کیا جارہا ہے.آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس ناچیز کوشش کو قبول فرمائے اور اس تنظیم کا مطالعہ کر نیوالوں کے لیے اسے باعث برکت و رہنمائی بنا ئے.ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم و آخر د عوينا ان الحمد لله رب العلمين - ۱۳۵۷ حش ۱۲ ظهور اگست میش 1950 خاکسار کی حبیب اللہ خان (قائد تعلیم)
صفحہ = 14 باب نمبر فهرست مضامین تاریخ مجلس انصار الله پیش لفظ عرض حال مضامین پہلا باب انصار اللہ کے دو معزز گروه دوسرا باب انصار اللہ کا پہلا دور.جماعت احمدیہ میں تنظیم انصار اللہ کا قیام تعمیر ا باب انصار اللہ کا دوسرا دور.ایک نئی انجمن انصار اللہ کا قیام چوتھا باب انصار اللہ کا تمیرا دور سلسلہ عالیہ محمدیہ میں ذیلی تنظیموں کا قیام مجلس انصار اللہ کا قیام.قادیان میں انصار اللہ کی تنظیم جماعت کی تین ذیلی تنظیمیں - بیرونی مجالس کا قیام.ابتدائی تنظیم، ابتدائی پروگرام تبلیغی جد وجہد کا آغاز ماہانہ جلسوں کی ابتدا ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کا با ہمی تعاون ہفتہ تعلیم وتلقین کی ابتدا ، پہلا مقامی اجتماع مرکزی دفتر کا نیام قیادتوں کا قیام، دستور اساسی کی تشکیل ، پہلا بجٹ ، انصار الله مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع ، انصار اللہ کا ابتدائی عہد.پانچواں باب تنظیم انصار اللہ کے اغراض و مقاصد تقوی کا قیام ، ایمان بالغیب، اقامت صلواۃ ، انفاق فی سبیل اللہ ایمان بالقرآن، بزرگان دین کا احترام ، یقین بالآخرة ، منتظر تبلیغ ، اشاعت اسلام اور اعمال غیر کی ترویج ، فرض کی ادائیگی میں مجنو نامہ کوشش ، جماعت میں بیداری ۳۵ 49 پیدا کرنا.چھٹا باب مجلس انصاراللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں.
AA ۹۱ ۹۶ ۱۰۹ ۱۲۰ با سب نمبر ساتواں باب اسناد من مضامین خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کی غرض جماعتی استحکام ہے.نیدام وانصار کے زعما لوکل انجین کے پریزیڈنٹ سے تعاون اور اس کے احکام کی پیروی کریں.خدام الاحمدیہ اور ان رام الله منا حتی مواد کو مضبوط بنانے کے لیے ہیں.چار دیتی تھیں عمارت کی چہار دیوار کو کی طرح ہیں.مجلس انصاراللہ کا ایک عبوری دور انھواں باب مجلس انصافہ اللہ کا چوتھا دور سالانہ اجتماعات کا انعقاد، علاقائی اجتماعات کا آغاز.ضلعوار نظام کا قیام - ماہنامہ انصار اللہ کا اجرا.سہ ماہی امتحانات کا باقاعدہ انعقاد - اطفال کے لیے وظیفہ انعامی کا اعبرا علم انعامی روایات صحابہ اور ان کے نوٹو کا ریکارڈ تعمیر دفتر انصار الله نواں باب خدام دانصار اپنا اپنا مرکزہ بنائیں، جماعت کے نئے مرکنہ کو آباد کر نا بھی ضروری ہے.دفتر کا سنگ بنیاد تعمیر دفتر کے لیے ایک اپیل.نقشہ دفتر انصار اللہ مرکزی دفتر کا قیام عمله دفتر انصار الله انصار اللہ کا عالی نظام اور بجٹ دسواں باب چندہ کی ابتدائی شرح نئی شرح تبدیلی شرح مرکز ، مقامی مجالس اور ضلعوار نظام میں چندوں کی تقسیم میس کا مالی سال، ریز روند - کارکنان کے لیے پراویڈنٹ فنڈ مائیکرو لیس کی فراہمی - گوشوارہ بحث آمد و خروج از ۱۳۲۳ میش ، ۱۳۵۷ میش ولبس بهش تا گیارھواں باب تعلیم القرآن اور امتحانات ۱۹۴۵ 146A امتحانات کی ابتدائی تجویز عبوری دور میں تعلیم کا پروگرام سے دور میں امتحانات کا آغاز.تعلیم القرآن کے بارے میں حضرت امیر المومنین کے ارشادات ، بنیادی معلومات کے نصاب کی اشاعت کو الف ششماہی کر سہ ماہی امتحانات لغایت ۱۳۵۷ حیش - اطفال کا وظیفہ انعامی 144A 1404
یاست نمیر پاسه یوان باسی مضامین اشاعت لٹریچر وماہنامہ انصار الله فرست لٹریچر شائع کردہ پیلس - ماہنامہ انصار الله تیرھواں باب انصار اللہ کا جدید عہد جھنڈا.علم انعامی اور اسناد نخوشنودی - ابتدائی عید ۱۴۳ جماعتی عہد، انصار اللہ کا جھنڈا.علم انعامی ، علم انعامی حاصل کر نیوالی مجالس.اسناد خوشنودی استناد خوشنودی حاصل کرنے والے ناظمین اور ناظمین اعلیٰ.چود عنوان باید شوری انصامہ اللہ رم ۱۳۵۷ نمائندگی کا طریق ، فیصد کا طریق تفصیل فیصلہ جات شور می بیش تا شاد میشن کاطریق - پندر حوالی باب مجلس انعام اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماعات.142 اجتماعات کی اہمیت.مرکزی اجتماعات، سالانہ اجتماعات کے موقعہ پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح ثانی نہ کی تقاریر اور پیغامات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی مرکزی اجتمات کے پروگرام میں شمولیت.ذکر جیب ، ذکر حبیب پر تقاریر کرنے والے افراد.سالانہ مرکزی اجتماعات کے بارے میں بعض آراء ، چند اجتماعات کا تفصیل پروگرام اور تنظیم انصار اللہ کے ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلی ، قیام پاکستان کے بعد پہلا سالانہ اجتماع ، دوسرا اجتماع ، چوتھے اجتماع سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضہ کا خطاب ، آٹھواں اجتماع گیارھواں اجتماع ، اٹھارواں اجتماع ، کوائف بابت سالانہ اجتماعات.سولھواں باب مجالس بیرون کے اجتماعات اجتماعات کی افادیت ، پیغامات حضرت امیر المومنین حضرت مرزا بشیر احمد صاب اور صدر مجلس انصار الله سترھواں باب مجلس انصاراللہ کا پانچواں دور صدر کے سیکرٹری کا تقریر.بڑی مجالس کی تنظیم نو سنگ کلاسز کی تحر یک شوری ناظمین اضلاع ،گیسٹ ہاؤس) انصار اللہ قیادت مجالس بیرون و قلم ۲۸۵
صفحہ ۲۹۶ ۱۰ باب نمبر دوستی کا قیام مضامین اٹھارواں باب مرکزی مجلس عاملہ اور اس کے کام انیسواں باب مجلس انصار اللہ کے خصوصی کام جلسہ سالانہ کے والنٹیرز اور انصار اللہ.جلسہ سالانہ کی تقاریر کے بارے میں شوری انصار اللہ کا مشورہ ، تحریک جدید اور انصار الله - شعار اسلامی کا قیام - صحابہ کی روایات اور ان کی تصاویر کا ریکارڈ بیسواں باب متفرق امور مجلس عاملہ مرکزیہ کی قرار دادیں ، دستور اساسی کی تدوین داشباعت ۱۳۱۹ عمده داران مجلس انصار الله مرکز یه باش تا پیش 5146 حرف آخر چند نصائح حضرت مصلح موعود ، کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام
" بسم الله الرحمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم پہلا باب انصار اللہ کے دو معزز گروه سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ کو نوا انصار الله صحابہ کرام کی مقدس جماعت تم انصار اللہ بن جاؤ.اس ارشاد باری کے اولین مخاطب ہمارے آقا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بزرگ ساتھی تھے جنہوں نے آنحضور کے پیغام پر لبیک کہا اور صحابہ کرام کہلاتے انھوں نے میں ذوق و شوق جس والانه حقیدت میں اخلاص و وفاشعاری اور میں شان سے اس حکم کی تعمیل کی وہ تاریخ میں ہمیشہ آپ اپنی مثال رہیگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اولین مخاطب عرب کے وحشی بدو تھے جو تہذیب و تمدن سے نا آشنا، علم و عرفان سے بے بہرہ اور اخلاق و شائستگی سے بھی عاری تھے.دنیا کی کوئی بھی ایسی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو.شراب نوری ، قماره بازی ، زنا، لوٹ مار ، جنگ و جدل، فواحش پر فخرو ناز ان کا محبوب مشغلہ تھا ، شریعیت اور قانون کی پابندیوں سے آزاد وہ اپنے انہیں اشغال میں مصروف تھے کہ اچانک فاران کی چوٹیوں سے خدا کجا نور ان پر ایک اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے بحروبر کی ظلمتوں کو کافور کر دیا.پھر وہ جو ذرۂ خاک تھے شریا بن کر چپکے.وہ جو جاہل معلق تھے دنیا کے استاد معلم بنے وہ جو قانون کی پابندیوں سے کمیسر آزاد تھے انھوں نے قال اللہ اور قال الرسول کو اپنا شعار بنایا اور شریعت کا جوا اپنی گردن پر رکھا.وہ جو اپنے خصائل وعادات میں درندوں اور وحشیوں سے ابتر تھے اخلاق عالیہ اور فضائل حسنہ سے ایسے مزین ہوئے کہ دنیا ان کو دیکھ کر انگشت بدندان رو گئی، وہ جو زمانہ جاہلیت میں لہو و لعب اور نفس پرستی میں محو رہتے تھے اپنے نفس سے ایسے کاٹے گئے کہ ان کی ساری خواہشیں ، ساری تمہیں اور ساری تگ و دو صرف اس مقصد کے لیے مختص ہو گئی کہ ان کا رب ان سے کسی طرح راضی ہوتا ہے.انھوں نے اپنے وطنوں کو خیر باد کیا، اپنے اموال کو بے دریغ خرچ کیا اور اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا تاکہ محبوبہ حقیقی رشتہ استوار ہو.اسلام قبول کر لینے کے بعد ان کو نہ جائیدادوں سے دلچسپی رہی، نہ بیوی بچوں سے شغف |
رہا.نہ اقتدار کی ہوس پیدا ہوئی.میں ایک ہی جذبہ کار فرما تھا کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی انہیں حاصل ہو.میں تبدیلی ان میں اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ اولین و آخرین کے سردار حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان ان میں مبعوث ہوئے اور قرآن کریم جیسی اعلی اور مصفی اور کامل تعلیم انہیں میسر آگئی ، جیسا استاد کامل تھا والیا ہی اس کے خدام و حلقہ بگوش بھی اپنے اپنے دائرہ میں باکمال وبے مثال ثابت ہوئے.ہر خوبی اور ہر وصف میں وہ دنیا سے سبقت لے گئے ، ہر علم و ہنر میں وہ ایسے چکے کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور ان کی فضیلت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا.نمر کی تیرہ سالہ زندگی میں وہ سراپا عجز و انکسار تھے ، کنکروں ، پتھروں پر انھیں گھسیٹا گیا، گرم ریت پر لٹا کر بھاری پتھر ان کے سینو پر رکھے گئے.اوباشوں کے طمانچوں اور آوارہ لڑکوں کی گالی گلوچ الطعن و تشنیع اور مار پیٹ کا وہ نشانہ بنے.بھوک پیاس کی اذیت سے دو چار ہوئے.سوشل بائیکاٹ انہوں نے سما غرض ہر دکھ اور ہر مصیبت ان پر وار د کی گئی لیکن کیا مجال کہ ان کے پائے استقامت میں کسی وقت بھی نغزش یا کمزوری پیدا ہوئی ہو، وہ صبر ورضا کے مجسم پیکر تھے ، ان کی ہمت ، ان کا استقلال اور ان کی استقامت پیانوں کو شرماتی تھی.ان کی زندگیوں میں ایک ساعت بھی ایسی نہیں آئی جب وہ ہراساں و پریشان ہوئے ہوں اور ان کے قدم ڈگنگائے ہوں ، وہ مصائب و مشکلات کے باون میں کوئے گئے، لیکن تمام آزمائشوں میں سے کندن بن کہ نکلے اور حیرت انگیز وفا شعاری کا نمونہ دکھلایا.مکہ میں جب ظلم و تشدہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو پھر انھوں نے وطن کو خیر باد کہا.اپنا مال واسباب اور جائیدادیں چھوڑیں ، عزیز و اقارب سے جدائی قبول کی اور اپنے ہادی و مقتدی کی ہدایت پر مدینہ چلے گئے ہجرت کے بعد دس سال کی قلیل مدت میں باوجود بے سروسامانی کے باوجود وسائل کی کمی کے اور بادوجود دشمنوں سے گھرے ہوئے ہونے کے دو سارے عرب پر چھا گئے اور حکمرانوں کی صف میں جا شامل ہوئے پھر خلافت راشد کے دور میں وہ قیصر و کسری جیسی عظیم طاقتوں سے نبرد آزما ہوئے اور انہیں پارہ پارہ کر دیا ، ہر میدان میں فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے.لیکن جہاں انھوں نے دشمنوں کے سارے غرور کو خاک میں ملادیا اور انہیں عبرتناک شکستی دین وہاں وہ دوسرے فاتحین کے برخلاف ہر قوم اور ہر ملک کے لیے باران رحمت ثابت ہوئے انھوں نے لوگوں کے LA LATA (7 DLS JONGENSON #SON FEMA
مال میں لوٹے ، ان کو جائیدادوں سے بیدخل نہیں کیا ، ان کی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کیا، ان کے مذہبی رہنماؤں اور مقامات مقدسہ کو ہاتھ نہیں لگایا.عورتوں کی عصمتوں کو پامال نہیں کیا ، بارغ نہیں اجاڑے کھیتیاں نہیں جلائیں، سامان معیشت سے کسی کو محروم نہیں کیا ، انھوں نے ہر موقعہ پر انتہائی صبر و تحمل سے کام لیا، عمروں کی پابندی کی.انصاف کو وطیرہ بنایا اور بلا لحاظ منہ مہب وقت اور رنگ ونسل خدمت خلق اور رعایا پروری ان کا مسلک رہا جن لوگوں نے تیرہ سال تک ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی ان کو بھی محبت سے گلے لگایا اور عفو و در گذر کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا جس کی مثال نسل انسانی کی ساری تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی جہاں ان کی اطاعت وه فا صبر و رضا اور ہمت و شجاعت بے مثال ہے ، وہاں اپنوں اور بیگانوں سے ان کا حسن سلوک اور ان کی باہمی الفت و محبت بھی بے مثال ہے.اسی وجہ سے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے معزز خطاب سے سر فرانہ کئے گئے اور یہ سب نتیجہ ہے اس تعلیم و تربیت کا جو انھوں نے سید المرسلین، فخرالاولین والآخرین حضرت محمد مصطفے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رہ کر پائی.اللهم صل على محمد وال محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد - مسیح محمدی کے انصار آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ وہ با برکت زمانہ تھا جس میں نسل انسانی کے لیے فلاح دارین کی راہیں کھولی گئیں، شریعت اور دین اپنے کمال کو پہنچے اور آسمانی بادشاہت اپنی تمام شان اور عظمت کے ساتھ روئے زمین پر محیط ہوگئی.صحابہ کرام نے اپنی بے پناہ قربانیوں ، اشتہار اور خدا کاریوں اور والہانہ عشق و محبت کے ذریعہ فنافی اللہ اور فنافی الرسول کا مقام حاصل کر کے رہتی دنیا کے لیے ایک بے مثال نمونہ قائم کر دیا اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دور دنیا کی تاریخ کا زرین کر را دور تھا اور اسلام کا ظہورہ ساری نسل انسانی بلکہ کل مخلوقات کے لیے باعث رحمت و برکت بنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مطابق رحمت و برکت کا یہ دورہ رحمن میں صحابہ کرام مصروف عمل رہے ، ایک سو سال تک رہا.اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا دورہ مزید دو سو سال تک جاری رہا اور دنیا اسلام کی حسین تعلیم اور اس کے شیریں ثمرات سے متتبع ہوتی رہی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین سو سال بعد ایک تاریکی کا دور شرو ع ہوا جس کی ظلمتیں ایک ہزار سال کے عرصہ میں اپنی انتہا
کو پہنچ گئیں اور آنحضور کے فرمودہ کے بموجب اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا اور ایمان اس دنیا سے مفقود ہو کر ثریا تک جا پہنچا.تب خدا تعالیٰ کی رحمت نے پھر جوش مارا اور انگرين منهم لم ا یلحقوا بهم کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا.اللہ تعالیٰ نے ازل سے یہ مقدر کو چھوڑا تھا کہ مسیح موعود و مہدی معہود کے ذریعہ اسلام کی نشان نمانیہ کا انتظام فرمائے اور دنیا پھر اس حسین تعلیم اور نعمت کا درس سے فیضیاب ہو.مخبر صادق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جو علامات اس با برکت زمانہ کی تلائی تھیں وہ چودھویں صدی میں آگرہ پوری ہوگئیں آسمان نے بھی اس کی گواہی دی اور زمین نے بھی اور خدا کا برگنہ یہ مسیح موعود قادیان کی سرزمین سے ٹھیک نت پر ظاہر ہو گیا.پر جس خریہ اسلام کے ابتدائی ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ نے عرب کے بیابانوں کو منتخب کیا جہاں سے کسی خیر کے ظاہر ہونے کے کوئی امکانات نہ تھے اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے خدا سے حکیم و خبیر نے قادریان جیسی کوردو اور گنام سنتی کو مخاطب کیا اور ایسے وقت میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے اس کے گاؤں کے لوگ بھی پوری طرح آشنا نہ تھے اس کو یہ خوشخبری دی کہ میں تیرے نام کو عزت سے دنیا میں پھیلاؤں گا، میان تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس کام کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بشارت دی کہ LARGE PARTY OF I Shall Give You A ISLAM یعنی میں تجھے جان نثاروں اور وفا شعاروں کا ایک مقدس گروہ بھی عطا کروں گا ، نیز فرمایا : ينصرك رجال نوحى اليهم من السمالله یعنی تیری مددوہ لوگ کرینگے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الهام کرینگے اور فرمایا یا تون من كل فج عميق ، یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گئے کہ جن رہا ہو پر وہ چلیں گے رو عمیق ہو جائیں گی اور یہ لوگ دور دور سے تیرے پاس پہنچیں گے ، غرض اللہ تعالیٰ نے جان قیام شریعیت اور احیاء دین کا فریضہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد فرمایا وہاں اعوان و انصار کی ایک جماعت دیئے جانے کا بھی وعدہ فرمایا ، ایسے انصار جو خدا تعالیٰ کی وحی کے مور د ہوں گے اور اپنے قول و فعل سے حضور کے مشن کو کامیاب کرنے کی کوشش کریں گے ، یہ خدا تعالیٰ کی گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیه السلام پر ایمان لانے والے اپنے کردار کے اعتبار سے پاکبازوں کی ایک جماعت ہوگی جو حقیقی معنوں میں د کرد طبع دوم ص ۱۰۷ ته ايضاً من ٥٠
10 انصار اللہ کہلانے کی مستحق ہو گی قرآن کریم میں بھی وآخرين منهم لما يلحقوا بهم کے الفاظ میں میں پینگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بعثت آخرین کی جماعت میں مقدر ہے اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر ایمان لانے والے صحابہ کے شیل ٹھہرے.جن خوش نصیب لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحا بہ بننے کا شرف حاصل ہوا وہ کس شان اور کسی درجہ کے لوگ تھے اس کا پتہ ان اقوال و تحریرات سے لگتا ہے جن میں حضور نے وقتاً فوقتاً ان کے بارے میں اظہار خیال فرمایا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضور نے بھی اپنے بعض جان شاروں کے نام لیکر فرداً فردا ان کی تعریف کی ہے.بعض جگہ ایک شہر یا علاقے کے مخلصین کا ذکر فرمایا ہے اور ان کی خوبیاں بیان کی ہیں ، پھر بحیثیت جماعت سارے مومنین کے اخلاص اور رونا کا نہایت دلکش پیرائے میں اظہار فرمایا ہے اور ایسے محسین مخلصین کے مل جانے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے.اختصار کے پیش نظر حضور کی تحریرات میں سے صرف دو اقتباسات اس جگہ بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں.حضور فرماتے ہیں :- اس زمانہ میں میں میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نورا اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور مینسی اور لعن طعن اور طرح طرح کو لآزاری اور بد زبانی اور قطع رحم و غیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اُٹھایا ، وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مردوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نمازہ میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں.جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے، بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوا میں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام معنی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے میں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالٰی کی مرضات کے لیے ہمارے حملہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دنوں کے نرم اور سچی تقومی پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی الله تنم کی سیرت تھی، وہ خدا کا گروہ ہے جن کو بخدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو
I پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا ، غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو آخرین منھم کے لفظ سے مفہوم ہورہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالے کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا ؟ ا روحانی نخته اتن جلد نمبر ۱۴ ص ۳۰۷۱۳۰۷ - ايام الصلح ) ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اس نے میری محبت بھردی.بعض نے میرے لیے جان دیدی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لیے منظور کی اور بعض میرے لیے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں......اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل محبت سے پر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بھی دستبردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لیے ندا کر دیں تو وہ میانہ ہیں، جب میں اس درجہ کا صدقی اور الہادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اسے میرے تاور خدا در حقیقت ذرہ ذرہ پر تیرا تصرف ہے.تو نے ان دلوں کو ایسے پر آستری نہ مانیں میری طرف کھینچا اور ان کو استقامت بخشی بر تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ر تحقیقة الوحی - روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ ص ۲۴۳۹۵۲۴۰ )
دوسرا باب انصار اللہ کا پہلاؤ جماعت احمدیہ میں نسیم انصار اللہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دفتری امور کی سرانجام دہی اور اندرونی انتظام کو سہولت سے چلانے کے لیے ایک انجین قائم کی جس کا نام صدر انجمن احمد یہ رکھا گیا.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاول اور حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ امسیح الثانی بھی اس انجمن کے ممبر تھے، حضور کی زندگی میں یہ امین حضور کی ہدایات کے مطابق کام کرتی رہی لیکن حضورہ کے وصال کے بعد حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا انتخاب بطور خلیفہ المسیح عمل میں آیا اور یہ انتخاب ساری جماعت کے متفقہ فیصلہ سے ہوا، کسی ایک فرد نے بھی اس کے خلاف آوازہ نہ اُٹھائی.سب نے اپنی گردنیں حضرت خلیفہ المسیح کے سامنے بفرض اطاعت جھکا دیں اور آپ کے احکام کی پیروی اسی جوش و خروش سے کرنے گئے ، جس جوش و خروش سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی پیروی کیا کرتے تھے، مگر بد قسمتی سے صدر انجمن کے بعض مہران جو اپنے آپ کو بہت معزز اور اہم سمجھتے تھے اپنے مقام کو نمایاں کرنے کے لیے رفتہ رفتہ حضرت خلیفہ المسیح کے احکامات کو پس پشت ڈالنے اور من مانی کارروائیاں کرنے لگے.انھوں نے ایسا طرز عمل اختیار کرنا شروع کیا جس سے واضح ہوتا تھا کہ وہ خلافت کے مقام کو گرانا چاہتے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ دراصل اہمیت انجمن کو حاصل ہے نہ کہ خلیفہ اسیج کو.ان کے طرز عمل سے یہ بھی واضح ہوتا تھا کہ انہیں اپنی عزت و وقار کا تو بہت خیال ہے ، لیکن اس امر کی پروا نہیں کہ جن مقاصد کے لیے خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے وہ پورے ہوتے ہیں یا نہیں.انی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے فرزند دلبند گرامی ارجمند حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک ٹویا دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اور ہزاروں پیچھیرے بلد ۲۳ فروری سالانه نیز الحکم ۰۲۱ ۲۸ فروری سلام
۱۸ S بڑی سرعت سے اینٹیں پاتھتے ہیں.آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور مکان کو کیوں گرا رہے ہیں ؟ تو جواب ملا کہ یہ جماعت احمدیہ ہے اور اس کا ایک حصہ اس لیے گیا رہے ہیں تا پرانی اینٹیں خارج کی جائیں اور بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں.اس وقت آپ کے دل میں خیال گذرا کہ یہ پھیر سے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے بلکہ فرشتے ہیں اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کام کر رہے ہیں.اس رڈیا کے بعد حضرت صاجزادہ صاحب کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ ایک الگ انجمن قائم کی جائے جس کے ممبران خصوصیت سے علم دین حاصل کریں ، اعلاء کلمتہ اللہ کی طرف متوجہ ہوں ، باہمی اخوت پرزور دیں، ہمہ تن اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے وقف کر دیں اور تبلیغ کا جو موقعہ بھی میر آئے اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں.چنانچہ آپ نے حضرت خلیفہ اسیح سے اس انجمن کے قیام کی اجازت حاصل کی اور اس کا نام انجمن انصار اللہ دعاؤں اور استخارہ کے بعد تجویز کیا.من انصاری الی اللہ کی دعوت حضر خلیفہ مسیح سے اجازت مل جانے کے بعد آپ نے اخبار مدہور فروری سلسلہ میں ایک مضمون "من انصاری الی اللہ " کے عنوان سے شائع کیا اور احباب کو اس انجمن میں شمولیت کی دعوت دی لیکن شرط یہ تھی کہ جو صاحب اس کا ممبر بنا چاہیں وہ پہلے سات مرتبہ استخارہ کریں، اگر انشراح صدر ہو تو اس میں شمولیت اختیار کریں.اس مضمون میں آپ نے استخارہ مسنونہ کے علاوہ مندرجہ ذیل قواعد کا بھی اعلان کیا :- - اس مجلس کے ہر ایک نمبر کا فرض ہو گا کہ حتی الوسع تبلیغ کے کام میں لگا رہے اور جب موقعہ ملے اس کام میں اپنا وقت صرف کرے، جو اپنے گاؤں یا شہروں میں کر سکیں وہاں کریں.جنہیں زیادہ موقعہ ملے اور علاقہ میں بھی.ہر ایک نمبر کا فرض ہوگا کہ قرآن شریف اور احادیث کے پڑھنے اور پڑھانے میں کوشاں رہے.- میرا ایک ممبر کا فرض ہو گا کہ سلسلہ عالیہ حمدیہ کے افراد کی آپس میں صلح اور اتحاد پیدا کرنے میں کوشاں رہے اور لڑائی جھگڑوں سے بچے خصوصاً جبکہ آپس میں کوئی جھگڑا ہو تو خود فیصلہ کرلیں ورنہ حضرت خلیفہ المسح سے دریافت کرلیں.ہر ایک قسم کی بدظنیوں سے بچے جو اتفاق واتحاد کو کاٹتی ہیں.پدر ۲۳ فروری شاه نیز الحکم پر جنوری ۱۹۷ء
- ہر ماہ کے آخر میں وہ مجھے یا جس کے یہ کام سپرد ہو اطلاع دیں کہ انھوں نے اس ماہ میں کیا کام کیا.- اس مجلس کے نمبر آپس میں رشتہ اتحاد پیدا کرنے کے لیے کوشاں نہ میں اور تعلق بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے لیے دعا کریں اور حدیث صحیحہ کے مطابق جو قریب کے دوست ہوں ایک دوسرے کی دعوت کریں اور تھا دوا تحابوا پر عمل کریں اور عام طور سے عموماً اور مہران سے خصوصاً تہمدردی ظاہر کریں اور بوقت مشکلات مدد کریں.تقبیح و تحمید میں کوشش کریں اور چونکہ رسول کریم کے لاکھوں کروڑوں احسانات ہیں ان پر کثرت سے درود بھیجیں اور نماز کے علاوہ درود پڑھنے کے وقت خلفاء کا لفظ بڑھا کر خصوصیت سے حضرت مسیح موقو کو مد نظر رکھیں.-A اس مجلس کے ممبر خصوصیت سے حضرت خلیفۃ المسیح کی فرمانبرداری کا خیال رکھیں.نمازیں پابندی اوقات سے ادا کریں اور نوافل صلوۃ و صدقہ اور روزہ کے لیے بھی کوشش کریں کیونکہ ترقیات روحانی نوافل سے ہوتی ہے.مندرجہ بالا مضمون جب اخبار میں شائع ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح نے ابتدائی مران انصار الله باوجود علالت کے اس کو شروع سے آخر تک پڑھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے فرمایا " میں بھی آپ کے انصار میں شامل ہوئی.اس لحاظ سے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ اس المین کے سب سے پہلے نمبر بنے.جن لوگوں نے بالکل ابتدا میں ہی حسب شرائط اس انجمن میں شمولیت اختیار کی ان کے نام یہ ہیں: مولوی سر در شاه صاحب قادیان ، حافظ روشن علی صاحب قادیان ، منشی فرزند علی صاحب فیروز پوره خشی احمد دین صاحب گوجرانوالہ ، سید صادق حسین صاحب انا ده شیخ غلام احمد صاحب قادیان ، شیخ رحمت اللہ صاحب بنگہ ، حکیم محمد دین صاحب گوجرانوالہ ، میاں عبدالعزیز صاحب سہارنپور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری قادیان ، میاں خدا داد صاحب کو انچی، میاں فیرو نہ علی صاحب مستہ کسروال میاں بدر بخش صاحب اخبار بدر قادیان ۹ مارچ شده که پدر قادیان ۲۰ / اپریل ۱ ص ۱۱
T و ہوگڑی، مولوی غلام رسول صاحب را جنگی حال مبارک منزل لاہور ، منشی محمد ظہیر الدین صاحب کلرک سرکل i آفس نہر اپر چناب لاہور ، محمد حسین صاحب ظفروال رسید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں ، پیر برکت علی حب رنمل ، مولوی عبد القادر صاحب کو دھیانہ ، میاں نعمت اللہ صاحب کرام ، میاں عنایت اللہ صاحب چو به سند هوای ، چوہدری غلام احمد صاحب کر یام ، میاں عبدالرحمن صاحب پیر کوٹ، منشی محمد حسین صاحب جہلم ، غلام احمد صاحب اختر اور ریاست بہاولپور ، منشی عبد الخالق صاحب مظفر نگر ، چوہدری فتح محمد صاحب طالبعلم ایم.اسے کلاس علی گڑھ ، امام علی صاحب کشور ریاست پٹیالہ مولوی تعلام رسول صاحب وزیر آباد ، میاں غلام حیدر صاحب کونڈی را جوانی شیخ نیاز احمد صاحب وزیر آباد ، انور حسین خانصاحب مدرس مدرسه بیگم پور ، حافظ ابراہیم صاحب قادیان ، شاہ ولی اللہ صاحب قادیان ہنستی محبوب عالم صاحب نیلہ گنبد لاہور ، میاں رکن الدین صاحب گوجرانوالہ ، میاں عمر الدین صاحب موضع صریح ، میان محبوب عالم صاحب موضع صریح ، میاں فضل دین صاحب مانگٹ اچو ہدری حاکم علی صاحب چک پنیار ، حکیم محمد صالح صاحب سانگلہ پل ، مولوی محمد اسمعیل صاحب قادیان - بعد ازاں ذیل کے افراد بھی اس انجمن کے ممبر بنے ہے.منشی برکت علی صاحب شملہ ، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب قادیان ، میاں وزیر محمد صاحب اور میاں خدا بخش صاحب لاہو..انصار اللہ کا افتتاحی اجلاس انجمن کے قیام کے قریباً دو ماہ بعداس ک ایک افتامی اجلاس ۱۶ - اپریل ۹ہ کو منعقد ہوا جس میں اس کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا اپنی ذاتوں میں اس تعلیم کا ایک نمونہ دکھائیں جو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملی ہے اور ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم کریں پھر اس تعلیم کو پوری توجہ اور لگن کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیں.تبلیغ کا کام ہر روز کرنا چاہیے خواہ پانچ منٹ کے لیے ہی کیوں نہ ہو.دفتر، کچری یا کام کو آتے جاتے کسی نہ کسی کو کلمہ حق سنا دینا چاہیے ، اسی طرح ریل اور گاڑیوں کے سفر میں تبلیغ کے بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہیے، پھر تبلیغ کے لیے لیکر اور تقریریں اہم ذریعہ میں اس لیے ان میں صارت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے کی بھی کسی ایک مقام کے انصار کو دستر له اخبار الفضل ۱۶ - جولائی ۱۹۱۳ء
مقدمات پر جا کر کچھ دینے چاہئیں تاکہ لوگ دینی باتوں کو توجہ اور دلچسپی سے نہیں تبلیغ کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے اس لیے انصار اللہ کو چاہیے کہ حسب موقع اور فرمت قادیان اگر قرآن و حدیث کا علم سیکھیں اور واپس جاکر دوسریاں کو سکھ میں مختلف مذاہب کی تردید یا اسلام کی حمایت میں جو کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفه آین یا علماء سلسلہ نے تصنیف کی ہیں ان کا مطالعہ کریں ، اس سلسلہ میں آپ نے بعض کتب خاص طور پر تجویز کیں ، جن کا مطالعہ انصار کے لیے لازمی قرار دیا، اپھر ایک تجویز ی بھی پیش کی کہ سلسلہ کی کتب کا سال میں ایک دفعہ امتحان ہوا کریگا، تا کہ احباب کو ضروری مسائل سے واقفیت حاصل ہوئے پھر آپ نے ممبران کو اس طرف بھی متوجہ کیا کہ وہ ایک دوسرے سے کثرت سے ملیں اور ایک دوسرے کی د قوتیں کریں تاکہ باہمی اخوت و محبت کا جذ بہ ترقی کرے اور ان کا باہم سلوک ایسا ہو جیسا سگے بھائیوں کا.اگر کسی شہر میں جائیں تو وہاں کے انصار کو تلاش کر کے ان کے پاس قیام کریں، ان ملاقاتوں میں صحابہ کی طرح دینی گفتگو کر کے ایمان تازہ کریں اور علمی افادہ ایکدوسرے سے حاصل کر یں.نجی معاملات میں باہم مشورہ کریں اور دعاؤں کے ذریعہ ایک دوسرے کی مدد کریں.جب انجمن انصار اللہ کے قیام سے جماعت میں بیداری بعض اعتراضات اور انکا جواب بند کرنے اور زندگی کی اک نئی روح پھونکنے کی کوشش پیدا کی گئی تو بد قسمتی سے بعض افراد نے اس پر اعتراض کرنے شروع کر دیئے ، حضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک تفصیلی مضمون الفضل نے میں لکھا اور تمام اعتراضات کے شانی جواب دیئے اور واضح کیا کہ وہ سب بے بنیاد ہیں.صاحبزادہ صاحب نے یہ جواب دیا کہ میں طرح ایک کمانڈر انچیف کے ماتحت کئی کمان افسر ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی اپنی فوج کا ذمہ دار ہوتا ہے اسی طرح انصار اللہ کی جماعت حضرت خلیفہ المسیح کے زیر حکم ایک ایسی فوج ہو گی جو میری ماتحتی میں کام کریگی ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح نے مجمع احباب" نام کی ایک انجمن بنائی تھی اگر اس وقت ایک ذیلی تنظیم کا قیام قابل اعتراض نہ تھا لے اس تجویز کے مطابق پہلا امتحان اکتوبر میں لیے جانے کا اعلان کیا گیا اور اس کے لیے یہ نصاب مقر کیا گیا را ترجمہ و تفسیر سورة بقره (۲) ازالہ اوہام ہر دو حصه (۳) چشمه معرفت (الفضل اار ضروری سواء ) ه اخبار الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۱۳ء
تو اب کیوں قابل اعتراض ہو گیا.دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ انجمن کا نام انصار اللہ کیوں رکھا گیا کیا دوسرے احمدی انصار اللہ نہیں ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ اپنی اولاد کے نام محمد اور احمد اور موسیٰی و سیٹی رکھتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو نعوذ باللہ ابوجبل یا فرعون سمجھتے ہیں ، اگر یہ نہیں تو ہمارے انصار الله نام رکھنے سے سیکسی طرح سمجھ لیا گیا کہ ہم دوسروں کو انصار اللہ نہیں سمجھتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے رہنے والوں کو انصار کا خطاب دیا تو کیا مدینہ سے باہر رہنے والے سب لوگ نعوذ باللہ عدو اللہ تھے.قسیرا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ انجمن خواجہ کمال الدین صاحب کے بالمقابل کھڑی کی گئی ہے اور دلیل یہ دی کہ وہ جب تبلیغ اسلام کر رہے ہیں تو پھر ایک انجین کے بنانے کی کیا ضرورت تھی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معترضین کے نزدیک تبلیغ ایک فرض کفایہ ہے جو ایک شخص کے کرنے سے سب کے سر پر سے اُٹھ جاتا ہے حالا نکہ خواجہ صاحب جماعت میں پہلے شخص تو نہیں تھے جنہوں نے تبلیغ شروع کی ہو ، اگر ان سے پہلے بھی احمدی تبلیغ کرتے تھے تو اس قاعدہ کے مطابق خواجہ صاحب کو بھی نہیں کرنی چاہیے تھی، تبلیغ ہر ایک کا فرض ہے اس لیے جو تنظیم اس غرض کے لیے قائم کی جائے اس پر اعتراض کیسے ہو سکتا ہے.چوتھا اعتراض یہ کیا گیا کہ اس انجمن کے قیام نے جماعت میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے اور ایک نیا نام رکھ کر دو جماعتیں بنادی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اگر نیا نام دینا اور نئی جماعت بنا نا قابل اعتراض ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوگا کہ اس نے انصار اور مہاجرین کی دو الگ الگ جماعتیں بناکر کیوں تفرقہ پیدا کیا، اگر وہاں تفرقہ نہیں تھا تو میاں کیسے ہو گیا ، پھر صاحبزادہ صاحب نے واضح کیا کہ اس وقت بھی جماعت میں بیسیوں انجمنیں ہیں، کوئی انمین احمدیہ فیروز پور ہے کوئی جماعت لاہور یا پشاور ہے پھر ایک صدر انجمن کہلاتی ہے.یہ سب انجمنیں اور جماعتیں تفرقہ نہیں، بلکہ ترقی کا موجب ہیں.ایک اور اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ انہیں ایک خفیہ سوسائٹی ہے جو مرزا محمود احمد صاحب کے حق میں پراپیگنڈا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے.یہ اعتراض معجب مضحکہ خیز ہے آگیا خفیہ سوسائیٹیاں مساجد میں اجلاس یہ ا کرتی ہیں اور اپنی کارروائیوں کو اخبارات میں شائع کرتی ہیں.پراپیگینڈا والی بات کھل کہ اس وقت کی گئی جب خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا.اس بارے میں وہ حلفیہ شہادت کافی ہے جو مولوی فرزند علی صاحب ہیڈ کلرک قلعه میگزین فیروز پور نے دی اور افضل 4 اپریل 19ء میں شائع ہوئی، اس کا ایک اقتباس
درج ذیل ہے :- میں محمد اللہ اول انصار الہ میں سے ہوں.میں خداتعالی کی قسم کھا کہ بیان کرتا ہوں کہ میران انصار اللہ کے درمیان ہرگز کوئی منصوبیہ اور سازش کسی قسم کی نہ تھی کہ حضرت خلیفہ اول مرحوم و مغفور کی وفات پر حضرت صاجزادہ صاحب کو خلیفہ ثانی بنایا جاوے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کے دلوں میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی عزت و عظمت ایسی مضبوطی کے ساتھ جاگتہ یں تھی کہ ان کی نظروں میں حضرت میاں صاحب ہی سب سے زیادہ اہل اور حقدار خلافت کے تھے ، مگیر حاشا و کلا ان کے درمیان کسی قسم کا منصوبہ یا سمجھوتہ ایک بھی اس قسم کا نہ تھا کہ حضرت کو خلیفہ بنانے کے لیے یوں بوں کوشش کی جائے.....غرض اس قسم کے اعتراضات ان ہی لوگوں کی طرف سے کئے جاتے تھے جن کے دلوں میں کبھی تھی اور وہ بعد میں منکر خلافت ہوئے یا اس طبقہ کی طرف سے ہوتے تھے جو ان کے زیر اثر تھا.اس قسم کے معترضین کا حلقہ بڑا ہی محدود تھا ورنہ جماعت کی بھاری اکثریت حضرت صاحبزاد و صاحب کے تقوی وطہارت اور اس تڑپ اورلگن سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں خدمت اسلام کے لیے ودیعت کی تھی بہت متاثر تھی اور ان کے دلوں میں آپ کیلئے عزت و احترام کا ایک زبردست جذبہ پایا جاتا تھا.خود حضرت خلیفہ مسیح اقل عمر کے تفاوت کے باوجود آپکا بہت احترام کرتے تھے اور آپ کے متعلق اپنے تعلق خاطر اور محبت و پیار کا اظہار وقتاً فوقتاً بر طا فرماتے تاکہ مجھنے والے کبھیں اور فائدہ اٹھائیں.انجمن انصار اللہ کے قیام کی چونکہ فرض ہی یہ ھی سر تبلیغ اسلام کو دین سے وسیع تر نصار ال ل ت تبلیغی پر وگرام ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا کر کار کیا جائے اس لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ان مسائل پر اکثر غور و فکر کرتے رہتے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسی تجاویز پیش کرتے تھے جن سے یہ مقصد پورا ہو چنانچہ مین دنوں آپ بھالئے صحت اور عربی زبان کی تحقیق کے لیے مصر تشریف لے جانے والے تھے آپ نے اپنے انصار بھائیوں کے نام ایک خط میں بہ تجویز پیش کی کہ ہر ایک بھائی جس کی آمد پچیس روپیہ ماہوار ہو وہ ایک روپیہ ماہوار دفتر انصار اللہ میں بھیج دیا کرے اور چین کی آمد نیاں اس سے زیادہ ہوں وہ ہر پیش روپے پر ایک روپیہ کے حساب سے چندہ جمع کرا دیا کریں ، سال کے آخر میں ایسے دوستوں کی ایک ایک جماعت مختلف علاقوں میں کم و بیش مدت کے لیے بغرض تبلیغ بھیج دی جایا کرے گی اور ه نے اخبار الم کی سفیر ساده
۲۴ ہر ایک شخص اپنے تجمع کردہ اپنے کو اس سفر میں خرچ کریگا.اسے کوئی بیرونی امداد نہیں دی جائے گی.ہجو لوگ ایک روپیہ سے زائد جمع کرائیں گے ان کا گردہ زیادہ دور کے علاقوں میں بھیج دیا جائیگا.اس طرح ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغ کی ایک تحکیم تیار کی گئی.یہ تحریک لازمی نہ تھی، بلکہ ممبران کے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ جو اس میں حصہ لینا میں ہیں.رحمتہ ہیں.اس تجویز کے مطابق فوری طور پر جن اصحاب نے چندہ دینا منظور کیا ان کے پر نام بید شیخ عبد الرحمن صاحب لاہوری سیکرٹری انصا بالله ، صوفی غلام محمد صاحب شیخ یعقوب علی صاحب، حکیم محمد عمر صاحب ، شیخ غلام احمد صاحب مولوی شیر علی صاحب مندرجہ بالا تجویز کے علاوہ آپ نے انصار اللہ کے ایک جلسہ منعقده ۱۸ جولائی ۱۹۱۳ء میں مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں.1- مختلف شہروں میں لیکچروں کا سلسلہ چھوٹے چھوٹے ٹریکیوں کا سلسلہ جو ہر سہ ماہی شائع کئے جائیں.- مختلف شہروں میں انصار بھیجے جائیں جو کچھ مدت وہاں رہیں.شو انہیں بھی جائیں جو کچھ مت وہاں ہیں.-- چھوٹے ٹریکیوں کو فروخت کیا جائے.- کوئی واعظ مقرر کیا جائے جو مختلف جگہ پھیرے خصوصاً احمدیوں میں.پہلی تجویز کے بارے میں فرمایا کہ جو انصارہ ماہوار چندہ جمع کراتے ہیں انہیں ہی اس کام پر لگا دیا جائیگا.کام دوسری تجویز کے بارے میں فرمایا کہ چھوٹے ٹرکیٹ کم از کم دس ہزار کی تعداد میں شائع کئے جائینگے اور اس غرض کے لیے فنڈ اکٹھا کیا جائے.میری تجویز کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ ملازم پیشہ ہیں وہ ایک ماہ کی رخصت لیکر اور جو دیگر کاروبار کرتے ہیں وہ ایک ماہ کی فرصت نکال کر پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقہ میں جاکر اپنے خرچ پر سکونت اختیار کریں اور حسب موقع کچھ وعظ وغیرہ کرتے رہا کریں، لوگ ان کے نیک نمونہ اور اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر حق کو قبول کرنے کی طرف آمادہ ہو جائیں گے ، صحابہ نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا.چوتھی تجویز کے بارے میں فرمایا کہ بعض لوگوں کو قیمتاً ٹریکٹ دیئے جائیں تاکہ وہ ان کو پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.
۲۵ پانچویں تجویز کے بارے میں فرمایا کہ کچھ واعظ قلیل تنخواہ پر مقرر کئے جائیں گے ، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تنخواہ دار علماء نے کیا کرتا ہے لیکن یہ اعتراض غلط ہے، علما ء رزق حرام کھانے کی وجہ سے بد نام ہوئے.جو لوگ رضاء الہی کے لیے قلیل گزارہ پر قناعت کرینگے وہ ان کی قربانی ہوگی اور یہ گذارہ رزق حلال اور بابرکت ہوگا، البتہ جو واعظ تجارت وغیرہ سے اپنا گزارہ کر سکتے ہوں وہ بلا تنخواہ ہی یہ خدمت سرانجام دیں، لوگوں کی غلط فہمیاں دور کریں.صدر انجمن کے چند سے وصول کریں اور جہاں انجمنیں قائم نہیں ، وہاں انجمنیں قائم کریں.لیکن اپنے خرچے کا بوجھ کسی احمدی پر نہ ڈالیں.ہندوستان میں دیسیع پیمانے پر تبلیغ کا ایک پروگرام نانے کے علاوہ ی تجویز بھی ہوئی کہ بیرونی ممالک مثلاً انگلستان ، امریکہ، آسٹریلیا، چین اور جاپان میں بھی مبلغین بھجوائے جائیں.پروگرام کا عملی پہلواور نتائج کے پروگرام جاری کیاگیا تو اس پر پورے خو اور نبی کے ساتھ عمل ہوتا رہا، چنانچہ اس کے نتیجہ میں ۲۳ ؍ جولائی سایہ تک شده..قریباً دو تین شده افراد انصهم الله کے ذریعہ سلسلہ عالیہ حمدیہ میں داخل ہوئے، سلسلہ کے اکثر واعظین انجمن انصار الله کے ممبر تھے، اس لحاظ سے کیا جا سکتا ہے کہ تبلیغ احمدیت کا ایک بہت بڑا حصہ انصار کی معرفت پورا ہوتا رہا..بیرونی ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ میں چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے کو انصار اللہ کے خرچ پر خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لیے انگستان روانہ کیا گیا اور شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم لاہوری (مولوی فاضل ، اور شاہ ولی اللہ صاحب کو تبلیغ اور تحصیل علوم عربیہ کے لیے منظر روانہ کیا گیا تا کہ وہ واپس اگر مدرسہ احمدیہ کی ترقی کا باعث ہوں.چوہدری فتح محمد صاحب قیام خلافت ثانیہ تک خواجہ کمال الدین کے ساتھ مل کر دو کنگ مسجد میں کام کرتے رہے اور بعد ازاں خواجہ صاحب سے الگ ہو کر انھوں نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا.انجمن انصار اللہ اس شکل میں میں میں کہ اس کا اجرا ہوا تھا زیادہ دیر قائم نہ رہی کیونکہ بقضائے الہی سیدنا حضرت خلیفة المسیح اول م ۱۳ مارچ ۱۹۱۷ء کو اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے اور ہم اس مارچ کو مشیت ایزدی سے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح ثانی منتخب ہوئے.الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۱۳ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۱۳ 141.
I خلافت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد حضور نے ساری جماعت مبالعین کو ہی اس راستہ پر ڈال دیا جس پر پہلے عمران انصار اللہ کو چلا یا جارہا تھا بحضور کے دل میں اسلام کی اشاعت اور سلسلہ کی تبلیغ کے لیے جو بے پناہ جذبہ تھا اور اس سلسلہ میں جو ارادے اور تمنائیں تھیں ان کو بروئے کار لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وافر سامان پیدا کر دیئے اور جماعت کی پوری قوت اور جملہ وسائل کو ان اعراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے آپ کے ہاتھ میں دیدیا اس لیے الگ انجمن کی ضرورت نہ رہی، لیکن جتنا عرصہ بھی یہ انجمن حضرت خلیفہ المسیح اول کسی میں حیات کام کرتی رہی اس نے قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور تبلیغ کا کام جو پیچھے رہا جا رہا تھا اس کو خاطر خواہ طور پر ادا کیا.سب اراکین پورے جوش اور خلوص کے ساتھ تبلیغ کے کام میں مصروف رہے اور اس کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے.
۲۷ تیسرا باب انصار اللہ کا دوسرا دور ایک نئی انجمن انصار الله حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اسلام کے غلبہ و سلسلہ کی ترقی کا انحصار محض ایک نسل کی تعلیم و تربیت، قربانی و ایثار اور وفا شعار می پر مکن نہیں حضور اپنے سن شعور سے ہی اس امر کے خواہاں اور اس کے لیے کوشاں رہے کہ تبلیغ کے نظام کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے ، جماعت کے ہر طبقہ یعنی مرد عوت اور بچوں کے اعتقادات اور ایمان میں پختگی پیدا کی جائے اور آئند و نسلوں کی تربیت کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے تاکہ وہ اپنے وقت پر سلسلہ کی ذمہ داریوں کو اُٹھا سکیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان مال اور وقت کو صرت کر کے خدمت اسلام بجا لا سکیں بجھا نجمین انصار الله سواء میں قائم کی گئی اس کا بنیادی مقصد خلافت سے sigry دانستگی جماعت میں وحدت فکر پیدا کرنا اور تبلیغ کے نظام کو موثر اور وسیع کرنا تھا، شاہ میں قائم ہونے والی دوسری انجمن انصار اللہ کا بنیادی مقصد نئی پود کی اصلاح ، ان میں خدمت دین کا جذبہ ابھارنا اور انہیں اس قابل بنانا تھا کہ وہ آئندہ کی ذمہ داریوں کو کما حقہ، سنبھال سکیں اس المین کے قیام اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اپنی تقریر فرموده ۲۷ دسمبر راء میں ارشاد فرمایا ہے.か یہاں میں نے ایک انجمن بچوں کی بنائی ہے جس کا نام انصاراللہ رکھا ہے اس میں میں خود ان کو ہدایت دیتا ہوں چنانچہ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے لڑکے اب تہجد پڑھنے لگے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ تمام بیرونی جماعتوں میں بھی اس قسم کی انجمنیں بنائی جائیں جن میں بچوں کو اخلاقی تربیت کے سبق لکھائے جائیں تاکہ وہ آئندہ قوم کے بہترین افراد ثابت الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۶
ہوسکیں گر ہر طریق ہیں ہے کہ بچوں کو یہاں بھیجیں کیونکہ یہاں میں خود تربیت کے متعلق سبق دیتا ہوں ان کی تربیت کرتا ہوں تھوڑے دنوں میں ہی تہ بہت اعلی رنگ میں ہوگئی ہے، دوست بچوں کو قادیان میں اگر بعض نہیں بھیج سکتے تو اپنے پاس ہی ان کی تربیت کریں.خلافت کی گوناگوں مصروفیات اور ذمہ داریوں کے باوجود حضور نے نوجوانوں کی اصلاح کے لیے ایک سکیم تیارہ کی اور اس کو پروان چڑھانے کے لیے خود جلسوں میں شرکت فرمائی اور طلبہ کو ہدایات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا بچوں کو نصائح کرنے اور ان کی تربیت کرنے کا کام مدارس کے اساتذہ اور سلسلہ کے بزرگوں کے سپر د بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن حضور کا اس کام کو خود اپنے ہاتھ میں لینا ظاہر کرتا ہے کہ حضور کے نزدیک یہ کام کس قدر اہم اور ضروری اور کسقدر توجہ کا محتاج تھا، مختلف جلسوں کی کارروائی پر نگاہ ڈالنے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عام واخطانہ طریق سے ہٹ کر حضور نے نفسیاتی طریقہ استعمال کیا ، پہلے اپنے آپ کو بچوں کی سطح پر لے آئے، ان سے ذاتی ربط پیدا کیا اور پھر عام قسم انداز میں ہر بات اس رنگ سے ان کے سامنے پیش کی کہ وہ ان کے لیے مقلد قابل قبول ہو حضور کی ہدایات جہاں اخلاقی اور روحانی امور اور تزکیہ نفس کے طریقوں پرمشتمل ہیں وہاں ان میں صحت کے قیام اور اقتصادی خوشحالی کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.چونکہ حضور کا نشان یہ تھا کہ بیرونی مقامات پر بھی نوجوانوں اور بچوں کی ایسی ہی مجالس قائم کی جائیں اور اسی نہج پر تربیت ہو اس لیے مختلف جلسوں کی کارروائی اپنے الفاظ میں اختصار سے پیش کی جاتی ہے تا کہ دو بچوں کی اصلاح کے لیے نمونہ کا کام دے سکے.اس انجمن کی کارروائیوں کا مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور سابق انچار ج تحریک جدید سابق پرائیویٹ سیکرٹری ریجو اس زمانہ میں مولوی فاضل کلاس میں پڑھتے تھے اور اس انجمن کے نمبر تھے اور ڈائریاں لکھنے کا شوق رکھتے تھے) کی ڈائری سے کچھ تفصیلات کا علم ہوتا ہے.اس ڈائری کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس انجمن کے اجلاس بعد نماز عصر مدرسہ احمدیہ قادیان کے صحن میں عموماً ہر ہفتہ یا ہفتہ میں دوبار (یعنی بروز جمعہ اور پیر منعقد ہوا کرتے تھے اور حضرت امیرالمومنین بنفس نفیس تشریف لا کر ہدایات دیتے تھے ان جلسوں میں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول دونوں کے طلبہ بالخصوص وہ جو بورڈنگ میں رہتے تھے شامل ہوتے تھے.شمال ہونے والوں کی تعداد بقول عبد الرحمن صاحب انور بہت زیادہ نہ ہوتی تھی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسبہ بڑی عمر کے طلبہ سے اب یہ ڈائری ماہنامہ خالد بابت مارچ تا ستمبر 11ء میں شائع ہو چکی ہے.
۲۹ شریک ہوتے تھے طلبہ کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہم گروپ کا ایک گروپ لیڈر ہوتا تھا.اجلاس کے وقت طلبہ کے ساتھ ان کے بعض اساتذہ بھی بطور نگراں شریک ہوتے تھے ، حضور نے انجمن کے نمبروں میں شوق پیدا کرنے اور یہ امرق من نشین کرانے کے لیے کہ انھوں نے اپنے لیے ایک ممتاز مقام پیدا کرنا ہے ایک بینچ بھی تجویز کیا تھا جس پر لکھا تھا نحن انصار اللہ اور اس پر منارة المسیح کا ڈیزائن بنا ہوا تھا.مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی ڈائری کے مطابق ان جلسوں کا سلسلہ ہر نومبر ۱۹۳۷ء سے ۲۲ اپریل تک جاری رہا، اس عرصہ میں کم وبیش ۳۲ اجلاس منعقد ہوئے حضرت امیرالمومنین کی مصروفیات کے پیش نظر یا طلبہ کی موسمی تعطیلات کے پیش نظر ان جلسوں میں بعض دفعہ لیے وقتنے بھی پڑ جاتے تھے حضور کی فرمودہ نصائح اور ہدایات کا خلاصہ درج ذیل ہے :- حضور نے فرمایا ہر قبر کو آیتہ الکرسی اور تین آخری سورتیں یاد ہونی چا ہیں ، رات کو سونے وقت اتبدا انا ایک بار اور جب عادت پڑ جائے تو تین بار پڑھنا چاہیے ، اس کے علاوہ اپنی زبان میں بھی چھوٹی چھوٹی دعائیں رنگ لی جائیں تو بہتر ہے.ہر نمبر کے پاس تین چیزیں ہونی چاہئیں بینی قرآن کریم کشتی نوح اور ریاض الصالحین.پندرہ سال سے زائد عمر کے لڑکے ہر روز چار رکوع قرآن کے اور دو صفحے کشتی نوح کے پڑھ لیا کریں اور اس میں کبھی ناغہ نہ ہو.مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے ایک ایک طالبعلم کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا گیا تھا اس کے بارے میں فرمایا کہ اس اخوت کا قیام اس لیے ہے کہ ایک تو یہی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے دوسرے اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کے نگران رہیں اور نیک کاموں میں مدد کریں، اخوت کی سات شرائط یہ مقرر کیں (ا) ہم دونوں اپنی میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے (۲) ہم دونوں ایک دوسرے سے اللہ محبت کرینگے (۳) ہم ایک دوسرے سے مل کر اسلام اور احمدیت کی خدمت کریں گے (۴) ہم ایک دوسرے سے مل کر سلسلہ کے نظام کی مضبوطی میں کوشش کرتے رہیں گے (ہ) ہم ایک دوسرے کو نیکی کی تحریک کرتے رہیں گے (4) ہم ایک دوسرے کو بڑی باتوں سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے (6) ہم ایک دوسرے سے مل کر علم کی ترقی اور امن کی زیادتی میں کوشش کرتے رہیں گے.فرمایا دو کا ملانا تو خصوصیت کے لیے ہے در نہ اخوت تمام ان لوگوں کے ساتھ بھی ہے جو اس ایسوسی ایشن کے نمبر نہیں.یہ سب سے افضل ہے کہ ہر ایک کو احمدیت سے محبت ہوا اور اس سے بھی جس کے نام کے ساتھ احمدی لگا ہو، اس کی غرض یہ بھی ہے کہ تا یہ مشق کرائی جائے کہ تمام لوگوں سے خواہ کسی مذہب کے ہوں ،
کسی ملک میں ہوں ان سے حقیقی بھائی کی طرح محبت کی جائے.صی یہ آنحضرت صلعم کی مجلس میں بالکل خاموش رہتے اور بن بلائے کبھی نہ بولتے تھے، اسی طرح ان مجالس میں خاموش رہا جائے جب بھی نظام میں جو بن بلائے نہ بولو منہ ہاتھ پاؤں سے کھیلو نہ کسی اور کے سہارے کھڑے ہوا نہ کسی اور بات کی طرف توجہ کرو.نما نہ اسلام کے عملی احکام میں سے سب سے اہم ہے، بے نماز آدمی اگر بچہ بظا ہرمسلمان ہے گر عملی طور پر وہ اسلام سے خارج ہے.وہ نماز جو دوسروں کے کسے سے پڑھی جائے وہ اصل نماز نہیں نمانہ کے ذریعہ خدا سے تعلق پیدا ہوتا ہے.نماز میں بندہ خدا سے باتیں کرتا ہے جو سچے دل سے خدا سے باتیں کرنے کی خواہش رکھتا ہو اس سے خدا بھی باتیں کرنے لگتا ہے بڑے لڑکوں میں سے جو وعدہ کرنے کے لیے تیار ہوں یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ معمر اور تجمعہ کی درمیانی شب نماز فجر سے نصف گھنٹہ پہلے اُٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کرینگے اور اس پر دوام اختیار کرینگے سوائے ان کے کہ وہ اتنے بیمار ہوں کہ چار پائی سے اُٹھ بھی نہ سکتے ہوں ابو لڑکے ابھی وعدہ نہیں کر سکتے ، وہ مہینہ ڈیڑھ مدینہ تجربہ اورشق کرنے کے بعد نام لکھائیں لیکن اگر ہمیشہ اس پر عمل نہ ہو سکے تو نام دینے سے نہ دینا بہتر ہے.وعدہ کرنے والوں سے ماہ بماہ دریافت کیا جائے گا.تہجد پڑھنے سے آہستہ آہستہ وہ چیز حاصل ہوتی ہے جسے روحانیت کہتے ہیں.فرمایا سچائی کی قیمت آدمی کی قیمت سے زیادہ ہے.سچا مسلمان جان قربان کردیگا ، لیکن سچائی قربان نہیں کریگا ، احمدیت بھی ایک اعلیٰ درجہ کی سچائی ہے.سب کام سچائی کی خاطر کرنے چاہئیں ، خدا تعالیٰ سب سچائیوں کا منبع ہے.جب کوئی کام خدا کی خاطر کیا جائے تو کسی روک کو سامنے نہیں آنے دینا چاہیئے حتی کہ ماں چاہتے بھی نہ روک بن سکیں.دنیا کے تمام کام خیالات کے نتیجہ میں ہی ہوتے ہیں، پہلے خیال ہوتا ہے پھر عمل.اسی لیے شریعت نے سب سے زیادہ خیالات کی اصلاح پر ہی زور دیا ہے ، یہ سمجھنا غلط ہے کہ خیالات کی اصلاح معلوم نہیں ہو سکتی کیونکہ انسان کے اندر کا تغیر ظاہر میں بھی تغیر پیدا کرتا ہے.اعمال یہ بتلا دیتے ہیں کہ باطن کی اصلاح ہوئی ہے یا نہیں.ایک حد تک انسان خود بھی معلوم کر سکتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوئی ہے یا نہیں ، لیکن اس کی اپنی نسبت اس کے ساتھ رہنے والے دوست زیادہ بہتر طور پر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اصلاح کسی حد تک ہوئی ہے.اگر وہ کوئی کمزوری دیکھیں توان کا فرض ہے کہ علیحدگی میں اپنے بھائی کو محبت اور پیار سے نصیحت کریں.
۳۱ صحت اور تندرستی کے سلسلہ میں فرمایا صحت کا ہونا قومی مفاد کے لیے بھی ضروری ہے.صحت کی خرابی سے غصہ اور چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے صحت کی درستی اوقات کی پابندی پر بھی منحصر ہے.نیند اور کھیل کا خیال نہ رکھنے سے صحت خراب ہو جاتی ہے.طالبعلوں کے لیے کم از کم سات گھنٹے سونا لازمی ہے، پھر ایک وقت میں دو کام نہیں کرنے چاہئیں، مثلا کھانا کھاتے وقت پڑھنا نہیں چاہیئے ، نہ غصہ دکھانا اور فکر کرنا چاہیے ، غذا کے لحاظ سے جسم کو طاقت دینے والی چیز روٹی یا گندم ہے نہ کہ سالن.اگر کسی کو کوئی چیز نا پسند ہو تو صرف سوکھی روٹی کھائے.ناپسند چیز کو کھانے سے یہ بہتر ہے کہ اس کو نہ کھایا جائے کیونکہ اس سے چڑ چڑا پن پیدا ہوتا ہے.جلسہ سالانہ جب قریب آیا تو فرمایا بعض دفعہ طبیعت کے خلاف کام کرنے پڑتے ہیں، بعض کا طاقت سے زیاد ہ ہوتے ہیں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو تم بے فائدہ سمجھتے ہو.بعض دفعہ افسر بڑے لہجہ میں پیش آتے ہیں لیکن چونکہ تمھارا حمد ہے کہ ہم مسلسلہ کے کام پوری فرمانبرداری سے کرینگے اس لیے گذشتہ سالوں کی نسبت بہتر کام کرکے دکھلاؤ انصار اللہ کا نمبر بنے سے تم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے.اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرو، السلام علیکم اونچی آواز سے کہنے کو رائج کرو خواہ راستہ میں ملنے والا نا واقف ہی ہو.یہ خیال نہ کرو کہ وہ جواب دیتا ہے یا نہیں.اپنا رویہ ایسا بناؤ کہ باہر سے آنے والوں کے دل میں بھی یہ خواہش ہو کہ وہ اپنے بچے تعلیم وتربیت کے لیے قادیان صبیحیں.اسراف سے ہمیشہ بچو، اسراف کے معنی میں اپنی مملوکہ چیز کو حد مناسب سے زیادہ خرچ کرنا.یہ حد پر ایک کے لیے الگ الگ ہوتی ہے، ہر ایک کو چاہیے کہ جو شہر چ اسے ملتا ہے اس کے تین حصے کرے (1) جسکو اس نے استعمال کرتا ہے (ہ) میں کو صدقہ دیتا ہے (۲) جس کو جمع کرتا ہے.جس نے یہ اپنے نفس پر ضرور خرچ کرتا ہے وہ بخیل نہیں ہو سکتا.جس نے یہ صدقہ دینا ہے وہ قوم کے نزدیک بخیل نہیں ہو سکتا.میں نے یہ بچانا ہے وہ اسراف سے بچا رہے گا.انسان آرام اچھی عادتوں سے پاتا ہے نہ کہ کھانے سے جس کو اس طرح خرچ کی عادت ہوگی وہ باقی زندگی میں بھی اچھا ہیگا ، اسراف سے بچنے کے لیے نہ صرف والدین کی آمد کا خیال رکھنا ضروری ہے بلکہ اس امر کا بھی کہ ہر چیز پر اس کے لحاظ سے خرچ ہو، قلم نیسل پر اس کے لحاظ سے اور کپڑوں پر ان کے لحاظ سے.یہ نہ ہو کہ کھانے میں تو کفایت کی ، لیکن کپڑوں پر اسراف سے کام لیا، طالب علموں کا ایک بنگ بنایا جائے میں میں جمع ہونے والی قوم کی رسید دی جائے اور باقاعدہ حساب رکھا جائے اس رقم سے تجارت کی جا سکتی ہے مثلا"
سٹیشنری کی دوکان کھول لی جائے یا مدرسہ میں فارم بنایا جا سکتا ہے.بعض طالبعلموں میں یہ عیب ہوتا ہے کہ دوسروں کی اچھی چیز اٹھا لیتے ہیں یا ان سے مانگتے رہتے ہیں اس سے بھی اسراف کی عادت پڑتی ہے، اگر کوئی دوسرے کی چیز اٹھا لے تو وہ ضرور اس سے چھین کر واپس دلائی جائے اگر کوئی تم میں سے کچھ کھا رہا ہو تو کسی دوسرے کو بھی اس میں سے دے، اگر کسی غریب کو دے تو زیادہ بہتر ہے.اس سے غریب بھائیوں کی امداد کی عادت پڑتی ہے.ایک غلطی جس کا تعلق اسراف سے ہے وہ دوسروں کی نقل کرنا ہے.غریب طالب علم امیروں کی نقل کرنے گئے ہیں ، اس سے چوری جھوٹ اور قرضہ لینے کی عادتیں پڑتی ہیں.نقل ضبیعت کی کمزوری کی علامت ہے اس سے بچنا چاہیئے قیمتی کپڑوں کی بجائے ، صاف ستھرے رہنے کا شوق ہونا چاہیے.صاف رہنے سے اخلاق بھی درست ہوتے ہیں ، صحت اور ذہن بھی ٹھیک رہتا ہے.تمہاری یہ عمر سیکھنے کی ہے اس کی قدر کرو.یہ وقت ہے جب تمہارے دل تحصیل علم کے شوق میں تڑپ رہے ہیں.جس وقت سوال کرنے کا ولولہ نہ رہے تو سمجھو کہ بیس بڑھا یا آگیا.یہ امنگ ایسی چیز ہے کہ پھر ڈھونڈے نہ ملے گی جواب گمائے نہیں لگتی.اس اُمنگ اور حافظہ کی قدر کرو.یہ حافظہ اور دماغ اتنی قیمتی چیز ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی.دیکھو افلاطون کتنا مشہور ہے.اس نے اپنی عمر کو ٹھیک استعمال کیا تب اتنی قدر کو پہنچا پس علم سیکھنے میں کوشاں رہو.علم ایمان کی زیادتی کے لیے بھی ضروری ہے.اس عمر اور دماغ سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنا ایک ایک منٹ ضائع ہونے سے بچاؤ.اخلاق فاضلہ بہت قیمتی چیز ہے اس سے دین ودنیا میں عزت حاصل ہوتی ہے لوگ تم کو اخلاق سے پرھیگی اگر تمہارے اخلاق درست نہیں تو وہ یہ نہیں کہیں گے کہ تم مست ہو بلکہ وہ جماعت احمدیہ پر اعتراض کر ینگے کہ تم میں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہوا.اگر فرق کچھ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا کیا فائدہ ہوا.اس لیے جو نصائح کی جاتی ہیں ان پر عمل کر د ا صرف سن لینے سے کچھ فائدہ نہیں.بہادری جوش کو دبانے میں ہوتی ہے.بچہ کسی بڑے آدمی کی بے ادبی کرے اور وہ اسے مارنے لگ جائے تو یہ بزدلی ہوگی نہ کہ بھاری حملہ میں پہل کرنا بھی بزدلی ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پلے مل نہیں گیا.مسلمان کو کبھی حملہ میں میل نہ کر نی چاہیئے نہ زبان سے نہ ہاتھ سے.زبان کے حملے کو بر داشت کیا کرو اور ہتھیار کے حملہ کا بھی آنا ہی جواب دو نینا دفاع کے لیے ضروری ہے.
۳۳ فرمایا استقلال نہایت عمدہ صفت ہے.بارش کا ایک چھینا گیلا نہیں کرتا، لیکن دہی پھینٹا باربار پڑے تو جل تھل کر دیتا ہے، پانی کتنی نرم چیز ہے، لیکن وہ پہاڑ جیسی سخت چیز کو گھسا دیتا ہے اور غاریں بنا دیتا ہے یہی اخلاق کا حال ہوتا ہے اگر ایک پیسہ روزانہ خدا کی راہ میں یا غریبوں کو دو تو دل پر گہرا اثر پاؤ گے، آنحضرت صلعم نے تمام کاموں سے اچھا کام اس کو قرار دیا ہے جو دوام کے ساتھ ہو ہیں جو کام بتا یا جائے اسے روزانہ استقلال سے کروتا اس کا فائدہ ہو.ایک دفعہ کسی نے ڈیڑھ سال کی بچی کو قتل کر کے باہر پھینک دیا.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت اس قدر گر سکتی ہے کہ ایک دن وہ نادان بچے کو بھی مارنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے.جرموں کے اس پہلو پر غور کرو کہ اگر انسانی طبیعت پر قابو نہ رکھا جائے تو وہ کتنی گر جاتی ہے.بے جا جوش انسان کو کس طرح خراب کرتا ہے اس سے عبرت حاصل کرو.اور بدلہ لینے میں کبھی عید بازی سے کام نہ لو.غصہ کی حالت میں دوسرے کی نسبت اپنا نقصان زیادہ ہوتا ہے کسی سے غلطی سرزد ہو تو اس کو نرمی سے سمجھاؤ اور علیحدگی میں سمجھانا اور نصیحت کرنا تو کبھی بھی نفع سے خالی نہیں ہوتا.مدارس میں سالانہ چھٹیوں کے موقعہ پر فرمایا تمہیں چھٹیوں میں بہت کچھ فارغ وقت ملے گا ، روزہ انہ تین گھنٹے کام کرنے سے اچھی طرح سبق یاد کر سکو گے، پھر بھی روزانہ تین گھنٹے فارغ بچیں گے.ان میں یہ کام کرنے پائیں (۱) اپنے ہم مریڑ کوں اور رشتہ داروں مرد عورتوں کو اسلام کی مشکلات سناؤ.عیسائی پادری لوگوں کو عیسائی بنا رہے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلعم کی زندگی کے واقعات سناڈ.اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کرد (۲) جہاں جاؤ وہاں کے طالبعلموں سے واقفیت پیدا کرو اور انہیں ٹریکٹ آپ اسلام کے لیے کیا کر سکتے ہیں " پڑھاؤ (۳) جہاں جاؤ چھوت چھات کے متعلق سمجھاؤ اور دلیلیں دو (۴) با ہر جا کہ سوسائٹیاں قائم کرو تا کہ لوگوں کو کام کرنے کی عادت پیدا ہو اور وہ قومی خدمت کر سکیں رہ سن رائز درسالہ ا ساتھ لے جاؤ اور اس کے خریدار (0) پیدا کرو (۷) انجمن ترقی اسلام سے چندے کی کاپیاں لے لو اور لوگوں سے چندہ جمع کرو اور ان کو بتاؤ کہ یہ چندہ اسلامی خدمت کے لیے ہے، کم از کم پچاس روپے جمع کرو.تم نے ہو وہ ایسے رات کو آیت الکرسی اور آخری سورتیں پڑھنے نمازوں کی پابندی کرنے ، ممبران انصار الله اور بنی نوع انسان کو بھائی بھائی سمجھنے کے بارے میں کٹے میں انہیں باقاعدہ عمل میں لاؤ، سفر میں اس کی آن دانش ہوتی ہے پہلے بوڑھوں کو اتار و پھر خود اتر در دین میں جگہ نہ ہو اور کوئی آجائے تو اس کو نکالنے کی بجائے اپنی جگہ
۳۴ بٹھاؤ خود کھڑے رہو.اس طرح اپنے اخلاق کا اثر ڈالو اور انصار اللہ کی عزت قائم کرو، اپنا ہی کے لگائے رکھو.گھر میں والدین کی فرمانبرداری کرد مدرسہ سے سبق با تا حدگی سے پڑھو اور تبلیغ کو نہ بھولو تم نے ساری دنیا کو مغلو کرنا ہے.انسانی کام کے دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جو اس کے نفس سے تعلق رکھتے ہیں، دوسرے وہ جو قوم سے تعلق رکھتے ہیں، انسان عام طور پراپنے مفاد اور نقصان کو زیادہ اہم سمجھتا ہے حال کار افرادی نقصانات اور فوائد قومی قوائد و نقصانات کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتے مثلاً جنگوں میں ہزاروں انسان قوم، ملک یا مذہب کی خاطر جانیں دے دیتے ہیں.اسی وجہ سے خدا تعالٰی نے بھی فرمایا ہے کہ خدا کے رستہ میں جان دینے والوں کو برا مت کرواپس اپنے ذاتی فائدے ، نقصان اور خوشیوں کو قومی فائدہ نقصان اور خوشیوں پر قربان کرد.ہر نیکی یا بدی کے وقت تمہارے دل میں احساس پیدا ہونا چاہئیے کہ یزیکی یا بدی بوجہ انصار اللہ کی ذمہ داری کے مجھے زیادہ اچھی یا بری لگنی چاہیے، تب تمہارے دل میں یہ ترغیب پیدا ہوگی کہ دوسروں کو اس کے متعلق ہدایت کریں اور تم غور کرو کہ اس کی ترغیب یا ترہیب کس طرح کی جائے کسی میں برائی دیکھو تو علیحدگی میں اسے سمجھاؤ اور اس کے لیے دعا کرو کیونکہ ہدایت کا اصل ذریعہ خدا ہی ہے جو دوسروں میں عیب دیکھ کر ان کے لیے دعا نہیں کرتا اس میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ خود اس عیب میں گرفتارہ ہو جاتا ہے.اگر زمانہ کا وقت آجائے تو نصیحت اس طرح کرے کہ زمانہ کا وقت ہو گیا ہے چلو نماز پڑھیں.پہلو
۳۵ پو تھاباب انصار اللہ کا تعمیرا دور سلسلہ عالیہ احمدیرمیں ذیلی تنظیموں کا قیام جب کوئی الہی سلسلہ دنیا میں قائم ہوتا ہے تو جو لوگ ابتداء میں اس میں شامل ہوتے ہیں ان کے ایسان بڑے پختہ ہوتے ہیں، اور ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی میں سے گذر کر سونے کی طرح کندن ہو جاتے ہیں اور وہ اخلاص اور ایمان کے نہایت اعلیٰ مقام پر قائم ہوتے ہیں الا ماشاء الله لیکن انبیاء کے وصال کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے ایک تو الٹی سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور کثرت سے لوگ اس میں شامل ہونے لگتے ہیں.دوسرے نسلی طور پر جماعتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور تعداد بڑھنے لگتی ہے ، اس دوسرے دور میں شامل ہونیو الے یا پیدا ہو نیوالے افراد کی تعلیم و تربیت کا معیار اس قدر بند نہیں ہوتا جس قدر کہ دورہ اوان کے افراد کا کیونکہ نہ تو انہیں سابقون الاولون کی طرح شدائد و مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ان کی طرح عقائد اور مسائل کی چھان بین کا موقعہ ملنا یا شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے.یہ ایک قدرتی نقص ہے جس کا ازالہ صرف اس طریق پر ہو سکتا ہے کہ نئے شامل ہونے والوں کی منظم طور پر اور پوری توجہ اور محنت سے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے بقدر اس کا مک اخلاص اور تندہی سے کیا جاتا ہے اُسی قدر جماعت میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہوتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالٰی نے بڑا زمین و فهیم بنایا تھا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا تھا، حضور اپنے خداداد علم و فراست سے اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ اللی کام کس طرح مضبوط اور تحکم ہوتے ہیں، نیکیوں کا تسلسل نسلاً بعد نسل کس طرح قائم رکھا جا سکتا ہے اور حالات حاضرہ میں طلبہ اسلام کی مہم کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکتا ہے، آپ نے اپنے ابتدائی دور خلافت میں اول تو ان
مسائل کو حل کیا جو وقتی اور فوری طور پر توجہ طلب تھے اور جو بیرونی ملے مختلف جہات سے جو رہے تھے ان کا سد باب کیا، پھر جماعت کی اندرونی تنظیم اس طرح کی کہ سارا کام نہایت خوش اسلوبی اور عمدگی سے چلنے لگا ان امور سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے جماعت میں نیکی اور تقویٰ اور ایثار و قربانی کی روح کو قائم رکھتے کے لیے ذیلی تنظیموں کے قیام کی طرف توجہ فرمائی، پہلے لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا پھر نوجوانوں اور بچوں کی اصلاح کی غرض سے خدام الاحمدیہ اور الطفال احمدیہ کی تنظیمیں قائم ہیں اور سب کے آخر میں اگست نار میں انصار اللہ کی تنظیم قائم کی.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اور جولائی نام 14 مجلس انصار اللہ کا قیام کو خطبہ جمعہ میں اس مجلس کے قیام کا اعلان فرمایا اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو پریزیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اسے چو ہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے اور خانصاب مولوی فرزند علی صاحب کے سیکرٹری نامزد فرمایا اور انہیں ہدایت کی کہ قادیان میں جو احمدی بھی چالیس سال سے زائد عمر کے ہیں انھیں فوراً اس تنظیم میں شامل کیا جائے ان کے لیے مجلس میں شمولیت لازمی رکھی گئی تاکہ قادیان میں رہنے والے سب افراد پوری طرح منظم ہو جائیں، البتہ بیرونی جماعتوں میں اس عمر کے افراد کی مجلس میں شمولیت کو طوعی رکھا گیا گھر یہ پابندی ضرور لگا دی گئی کہ کوئی شخص امیر یا پریزیڈنٹ یا سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ کسی ذیلی تنظیم یعنی خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا میر نہ ہو.اس ہدایت کا منشار یہ تھا کہ اس تنظیم کی اہمیت بیرونی جماعتوں پر بھی واضح ہو جائے اور وہ بھی جلد سے جلد اس تنظیم کو اپنی اپنی جگہ پر مکمل کر نہیں ، اس بارے میں جو خطبہ حضور نے ۲۶ جولائی لاء کو ارشاد فرمایا اس کے ضروری اقبا سات درج ذیل ہیں.جماعت احمدیہ قادیان کی تنظیم میں سمجھتا ہوں کا ہم کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے...اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے له اخبار الفضل یکم اگست نامه
وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں، ان کے لیے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لیے وقف کریں ، اگر منا سب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن با کم و بیش اکٹھے بھی لیے جاسکتے میں گھر چترال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر استثنا کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے.مجلس انصار اللہ کے عارضی پریزیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لیے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد چوہدری فتح محمد صاحب اور خانصاب مولوی فرزند علی صاحب کو مقر کرتا ہوں ، تین سیکر ٹری میں نے اس لیے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لیے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے، ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بیٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہیئے.یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لیے موزوں ہو اس کے لیے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام کیا جائے یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے زیادہ بھی وقت لیا جا سکتا ہے یا بیہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے سینے میں دو چار دن کے لیے جائیں جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نیا سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں.سردست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لیے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لیے ہے جب تک لوگ منظم نہ ہو جائیں، جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریزیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے میں گھر میری منظور ی اس کے لیے ضروری ہوگی.میرا ان دونوں مجلسوں سے اخدام الاحمدیہ اور انصار اللہ.ناقل) ایسا ہی تعلق ہو گیا جیسے مرتب کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو، میرا اختیار ہو گا کہ جب میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لیے کہوں ، یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لیے ہے اس لیے ان کو میں پھر ایک باز تنبیہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے نہیں چھوڑ کر الگ
WA ہو جانا چاہتا جو شخص کو لگتا اس تقسیم میں شامل ہونا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امرکی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو سوائے ان زمیندارونی کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لیے باہر جانا پڑتا ہے گو ایسے لوگوں کے لیے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نمازہ باجماعت پڑھ سکیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ندام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہیں.اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لیے مجالس انصاراللہ قائم کرنی چاہئیں.ان مجالس کے دہی قواعد ہونگے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے اگر سر دست یامر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہوگا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا لیکن جو پریزیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں ، کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار الله یا خدام الاحمدیہ کا عمیرہ ہوا اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لیے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا، اس طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجاس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائیگا کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے، صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو.مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقعہ دینا تھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنھوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انھوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے البتہ انصار اللہ کی فیس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوتی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے اس میں بھو بھی شامل ہوگا اسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے ایک ایک دفعہ پھر جعبات کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا تا ہوں کہ دیکھو شتر مرغ کی طرح مت بنو جو کچھ ہو اس پر استقلال سے کاربند رہو، اگر تمہارا یہ دعوی ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کے صحابہ
کے مثیل ہو تو تمہیں اپنے اندر صحابہ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے بین کا کام حکماً کیا جاتا تھا اس جب صحابہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چون و چرا کریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے.جماعت کی تین ذیلی تنظیمیں ir میں میں قادیان کی جماعت کو آندو تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں، اول اطفال الاحمدیہ ہ سے ۱۵ سال تک ، دوسم خدام الاحمدیہ ۱۵ سے ۴۰ سال تک، سوم انصار اللہ ۴۰ سے اوپر تک.ہرا احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے.مجالس اطفال احمد یہ بھی قائم ہیں، البتہ انصار الله کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب کو پریزیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے ، خانصاحب مولوی فرزند علی صاب اور چو ہدری فتح محمد صاحب کو سیکرٹری بنایا گیا ہے.یہ اگر کام میں سہولت کے لیے مزید سیکریٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندر اندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی مسجد میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں اور پندرہ دن کے اندر اندر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے اس کے لیے قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلوں میں پھر کہ لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں، بلکہ وہ مسجد میں بیٹھے ہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آجائے اور جس کی مرضی ہو مبر بنے اور جس کی مرضی نہ ہو نہ بنے.جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائیگا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے.پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے.اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کیا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو اس لیے اب تم باہر ہی رہ ہو مگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہوگا اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں آؤ اور تم بھی انکے
" ساتھ بیٹھ جاؤ، اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائیگا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسم کے صحابہ رضی الہ عنہم سے لیا گیا یعنی کچھ تو اس بات پر منظر کئے جائینگے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں.کچھ اس بات پر منفرد کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں کچھ اس بات پر مقر کئے جائیں گے کہ تعلیم و تربیت کا کام کریں اور کچھ يزكيهم کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرہ کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی تعالی کی تدابیر عمل میں لائیں.یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے ، اسی طرح جس طرح تباعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے.جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا ، مثلاً وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا، ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.الا ماشاء اللہ.مثلاً اسے کہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نقل روزانہ پڑھکر جماعت کی ترقی کے لیے دعا کر دیا کرو ہیں ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جا سکتا ہے.در حقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کرسکے قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لیے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنی سے اونی حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سرب سے کم برداشت کرنی پڑتی ہے، دعا ہے.“ اس کے بعد ۲۳- اگست شاہ کے خطبہ جمعہ میں ذیلی تنظیموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منظم کرنے کی ہدایت کی تھی ایک حصہ الطفال الاحمدیہ کا یعنی پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا ایک حصہ خدام الاحمد نیکا مینی سولہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چاہیں سال سے اوپر کے ہیں خواہ کسی عمر کے ہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نو جوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوا اس نے ایک قومی تحریم کا ارتکاب کیا ہے اور الفضل ١٣ ستمبر "
الم اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصار اللہ کی تھیں میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی مجرم کا ارتکاب کیا ہے مگر مجھے امید رکھنی چاہئے کہ ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں ہوں گے یا اپنے قلیل ہوں گے کسان قلیل کو کسی صورت میں بھی جماعت کے لیے کسی دھبہ یا بدنامی کا موجب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قلیل استثنا کسی جماعت کے لیے بدنامی کا موجب نہیں ہوا کرتے.....پس میں امید کرتا ہو کہ ہماری جماعت کا نمونہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ میرے پاس رپورٹین پہنچتی رہی ہیں ان میں سے غالب اکثریت نے اس تنظیم میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے، لیکن میں دوستوں سے یہ کہ دینا چاہتا ہوں کہ محض ظاہری شمولیت کافی نہیں جب تک وہ عملی زنگ میں بھی کوئی کام نہ کریں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے عملی نمونہ ہے یہ ثابت کر دینگے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اور یہ ثبوت اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی کریں، اپنے مالوں کی قربانی کریں، اپنی جانوں کی قربانی کریں اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور احمدیت کی ترویج کے لیے دن رات کوشش کرتے رہیں، اگر ہم یہ نہیں کرتے اور محض اپنا نام لکھا دینا کافی سمجھتے ہیں تو ہم اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیتے پیس صرف ان مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال ان مجالس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے چاہئیں، انعدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو ثابت کر دیں ، انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دین اسلام کی نصرت نمایاں طور پر کریں اور اطفال الاحمدیہ کا فرض ہے کہ ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمام کے تمام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوتے ہوں جس طرح بچہ اپنے باپ کے کمالات کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح وہ احمدیت کے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہوں ، یہی غرض اس نظام کو قائم کرنے کی ہے اور یہی غرض انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی ہوا کرتی ہے.حضرت امیر المومنین کے ارشادات کی روشنی میں متعدد بار اخبار الفضل میں یہ بیرونی مجالس کا قیام اعلان کیاگیا کہ قادیان سے باہر اندرسون بند یا بیرون ہند جہاں جہاں جاتیں ہوں وہ بھی انصاراللہ کی تنظیم قائم کریں اور حضور کے خطبات میں جو ہدایات دی گئی ہیں ان کے مطابق کام
۴۲ شروع کر دیں اچنانچہ اس کے مطابق بیرونی جماعتوں نے اس طرف توجہ کی بیاہ کے آخر تک پچاس کے قریب بیرونی مجالس قائم ہوگئیں.ان تمام مجالس کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی کار گذاری کی رپورٹ ہر ماہ کی سو تاریخ تک مرکز میں بھجوا دیا کریں، تاکہ ان کا خلاصہ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں ملاحظہ کے لیے پیش کیا جا سکے.ماہوار رپورٹوں کے لیے ایک فارم بھی تجویز کر کے اس کا اعلان 19 جولائی 19 ایہ کے الفضل میں کرا دیا گیا.ابتدائی تنظیم حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشادات کے بموجب قادیان میں تمام انصار کو پندرہ دن کے اندر منظم کر لیا گیا ہے اور ایک تخمین قائم کی گئی جس کا نام انمین انصار اللہ تجویز ہوا.شہر کو مندرجہ ذیل تین حلقوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حلقہ کا ایک ایک سیکرٹری مقرر کیا گیا آنا کہ جملہ امور کی نگرانی ہو سکے.ا- چوہدری فتح محمد صاحب سیال : کھایا، بھینی ، دارا برکات ، دارای نوار ، تا در آباد مولوی عبد الرحیم صاحب درد : مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ ، مسجد فضل ، ناصر آباد انگل مولوی فرزند علی صاحب دارالرحمت ، دار العلوم مع احمدآباد، دارالفضل ، دار الفتوح، ہر محلہ میں انصار اللہ کا ایک عظیم مقر کیا گیا، تاکہ وہ جملہ امور کی نگرانی کرے اور اپنی کار گذاری کی رپورٹ متعلقہ سیکرٹری کے سامنے پیش کریے سہولت کے پیش نظر ہر محلہ میں دس دس اراکین جذاب بنا کر ان کا گروپ لیڈر یا سائق مقرر کیا گیا.ہر سیکرٹری نے اپنے اپنے حلقہ میں تقسیم کار کے طور پر چھ چھے ناظمین بطور معادن مقرر کئے، یعنی ناظم مالی، ناظم تعلیم ، ناظم تربیت ، ناظم تبلیغ ناظم امور و نیوی ، جنرل سیکرٹری.تا کہ مرشعبہ کا کام بطریق احسن سرانجام دیا جاسکے ، سیکرٹری صاحبان اپنے اپنے حلقہ میں انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہے اور کبھی کبھی ے ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ
م اجتماعی جلسہ بھی منعقد کیا جاتا نہیں میں تمام انصار شریک ہو کر استفادہ کرتے ، وقتاً فوقتاً مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے مین میں مجلس انصار اللہ کے لا تحر عمل اور دستو را سامی کے بارے میں تجاویز پیش ہوتی رہیں، مرکزی مجلس کے بعض اجلاس کی رو تیدا د حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں بغرض اطلاع پیش کی جاتی رہیں اور حضور کی طرف سے ان کے بارے میں ہدایات بھی ملتی رہیں.حضرت امیرالمومنین کے ارشادات کی روشنی میں انصار اللہ کے لیے جو انصار اللہ کا بتائی پروگرام پروگرام مرتب کیا گیا اس میں مندرجہ ذیل امور شامل تھے.ا- * تمام حلقہ جات میں نماز کی پابندی کی نگرانی کی بجائے بست افراد کو ترغیب کے ذریعہ مشیت کیا جائے اور جو پابند نہ ہوں، ان کی رپورٹ مرکزی دفتر میں کی جائے.خدام الاحمدیہ کے تعاون سے ناخواندہ افراد کی تعلیم کا انتظام کیا جائے.- تبلیغ کے لیے انصار اللہ میں سے والنٹر لیے جائیں اور انہیں مختلف دبیات میں تبلیغ کے لیے بھجوایا جائے.ہر سال ایک ہفتہ منایا جائے جس میں مخالفین سلسلہ کے اعتراضات اور ان کے جوابات سے اراکین کو باغیر کیا جائے اور یہ کام خدام الاحمدیہ کے تعاون سے کیا جائے ، اس بارے میں حضرت امیر المومنین نے یہ ہدایت فرمائی کہ جوابات اسباق کے رنگ میں سکھائے جائیں اور امتحان کے ذریعہ اس امر کی تسلی کرلی جائے کر مضامین پوری طرح ذہن نشین ہو گئے ہیں چنانچہ حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر نشہ کے دوران فرمایا :- انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض " میں اس بارہ میں جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لیے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منا یا کریں میں میں وہ جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کیا کریں بلکہ یہ بھی بیان کیا کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات میں ہر مسجد میں اس 194.لة الفضل ۱۷ اگست ۹۶
قسم کی تقاریز ہونی چاہئیں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہیئے کہ لوگ یہ یہ اعتراض کرتے ہیں اور ان کے اعتراضات کے یہ جوابات ہیں....ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں اور ہر فرد کے یہ ذہن نشین کریں کہ دوسرا کا کہتا ہے اور اس کے اعتراضات کا کیا جواب ہے اور میں اس غرض کے لیے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ سال میں ایک ایسا ہفتہ مقررہ کریں جس میں ان کی طرف سے یہ کوشش ہو کہ وہ جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا کیا جواب ہیں.یہ تعلیم کا سلسلہ زبانی ہونا چاہیئے اور پھر زبانی ہی ان کا امتحان بھی لینا چاہیتے تا جماعت میں بیداری پیدا ہو اور وہ دوسروں کے مرحلہ سے اپنے آپ کو پوری ہوشیاری سے بچا سکے گریہ نہ ہو کہ تم اپنی متن میں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو، ان کو یاد کرو ان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور سبب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو.گھر چوری چھے نہ پڑھو کہ علی الاعلان پڑھو اور سب کے سامنے پڑھو اور پھر مخالف دلائل کا پوری مضبوطی سے تہ کرو اور دوسروں کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ تا تمہارے متعلق کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ دوسرا تمھیں در خلا سکے گا، بلکہ جب وہ نہیں چھیڑے تو ہر شخص کا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہو کہ اب تم ضرور کوئی نہ کوئی شکار پکڑ کرے آؤ گے.پس جماعت میں بیداری پیدا کرد ، انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ انہیں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے دور اور اگر وہ خود نہیں پڑھتے تو خود انھیں پڑھکر سناؤ اور پھر ہر اعتراض کا انھیں جواب بتاؤ." پروگرام کی شق نمبر ہم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صدر اور سیکرٹریان انصار اللہ کے ساتھ ساتھ صدر خدام الاحمدیہ اور جنرل سیکرٹری تخدام الاحمدیہ کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور طے پایا کہ : انصار اللہ غیر احمدیوں کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات جمع کریں اور خدام عیسائیوں کے اعتراضات جمع کریں.
۴۵ " جمع شدہ اعتراضات کے جوابات مشترکہ طور پر شائع کئے جائیں.خدام اور انصار الگ الگ اپنا تعلیمی ہفتہ منائیں لیکن خدام وانصار دونوں پروگراموں میں شریک ہوں.۴.تعلیمی ہفتوں کے تین ہفتہ بعد خدام دانصار کا زبانی امتحان لیا جائے.برترية اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین کے نشاء کے مطابق ایک تعاونی کمیٹی بھی قائم ہوئی جس کے میدان حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر) مولوی عبدالرحیم صاحب در د ر سیکرٹری خلیل احمد صاحب ناصر نائب سیکرٹری اور شیخ محبوب عالم صاحب خالد تھے.اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ پرو گرام کی شق نمبریہ کے ہاسے ، میں سکیم تیارہ کرے اور اس کا نفاذ کرے.یکمیٹی دسمبر تک کے لیے قائم کی گئی.- خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا جو امتحان ہوتا ہے انصار بھی اس میں شریک ہوا کریں.- وقارعمل کے کاموں میں بھی انصارہ شریک ہوا کریں.انصار اللہ کی تبلیغی جد وجد کا نام را ارایان یا ادارات کے تین کام کو باقاعدہ بنانے میں اللہ کے تبلیغی آغاز ریلی کے لیے شہر کو آٹھ حلقوں میں تقسیم کیا گیا ، طریق کار یہ مقرر ہوا کہ باندی باری دو حلقوں کی دوکانیں ہر جمعرات کو سارا دن اور اگلے روز نماز جمعہ تک بند رہیں، اس طرح در سکانداروں کا ایک چوتھائی حلقہ تبلیغ کے لیے باہر جایا کرے اور جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات باہر گذار کر یمانی جمعہ کے لیے واپس آئے لیے اس انتظام کے نگران اعلیٰ چوہدری فتح محمد صاحب سیال مقررہ ہوئے اور انہیں کی ہدایات کے مطابق تبلیغی کام کا آغاز ہوا، قادیان کے گردو نواح میں پیغام حتی پہنچانے کے لیے ممبران انصاراللہ ایک تنظیم کے ماتحت یہ خدمت سرانجام دیتے رہے لیے حضرت امیر المومنین نے شاہ کے ایک خطبہ جمعہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ :." ہم لوگوں کو چاہیتے اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس جاکر ان کو اس رنگ میں تبلیغ کریں کہ یا تو میں مسلم سمجھا دو یا ہم سے سمجھ لو اور یہاں سے انھیں نہیں جب تک سمیت لو اور مقدمت کے قائل نہ کر لیں، اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو بہت مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں: حضور کے اس ارشاد کی روشنی میں قادیان کے بعض انصار اپنے رشتہ داروں کے پاس دوسرے مقامات لہ ریکارڈ مجلس انصار الله مرکز بیہ کہ ان تبلیغی مساعی کی رپورٹیں الفضل.میں ملتی ہیں.
پر گئے اور انھیں پیغام حق پہنچایا ہے تبلیغی پروگرام کے سلسہ میں ہفتہ تعلیم وتفقین منایا جاتا رہا ہیں میں دلائل ذہن نشین کرائے جاتے اور نوٹ لکھوائے جاتے تھے.ماہانہ ملبوں کی ابتدا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا س متعارف کرانے اور اسکی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ محلہ والہ اجلاس منعقد کئے جائیں تاکہ انصار اللہ کا کام پوری تندہی سے چلایا جاسکے ، اس ضرورت کے پیش نظر فید کیا گیا کہ :- ا تمام انصار اللہ قادیان کا محلہ والا اجلاس ہر ماہ باری باری ہوا کرے اور اس کی نگرانی ایک سب کمیٹی کرے جس کے نمبر پر خد سے ایک ایک منتخب ہو کر آئیں.صدر اور سیکرٹریان کے ساتھ زعما کا بھی ہر ماہ الگ اجلاس ہو تا کہ پیش آمدہ مشکلات کا حل سوچا جا سکے.زعما اپنے اپنے محلہ میں حسب ضرورت اجلاس کیا کریں اور اس کا ذکر اپنی ماہانہ رپورٹوں میں مجوزہ فارم کے مطابق کریں.یہ رپورٹیں ہر ماہ کی اور تاریخ تک مرکزی دفتر میں پہنچ جائیں تاکہ اس تاریخ تک ان کا خلاصہ حضرت امیرالمونین کی خدمت میں بغرض اطلاع پیش کیا جائنگے.خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کا باہمی تعاون اشتراک میل حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده یکم نومبر میں یہ ارشاد فرمایا تا کہ تعاونی کمیٹی کا قیام ا انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ ایک ہفتہ مقرر کر کے جما عت کو غیر مذاہب و مخالفین سلسلہ کے اعتراضات اور ان کے جوابات سے واقف کیا کرے ، اس الہ شاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خدام وہ انصارہ کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں مولوی شیر علی صاحب (صدر انصار الله ، مولوی عبدالرحیم صاحب تندر سیکرٹری انصار الله ) احبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدر خدام الاحمدیہ ) اور خلیل احمد صاحب ناصر ( جنرل سیکرٹری خدام الاحمدیہ ) نے ان الفضل ٢٤ نومبر ١٩٢٢ کے ریکارڈ مجلس انصاراللہ مرکزے ہیں
شرکت کی غور و خوض کے بعد یہ قرار پایا کہ ایک مشتر کہ سب کمیٹی قائم کی جائے جو تعاون کے بارے میں تفاصیل طے کرے چنانچہ اس کمیٹی کے مندرجہ ذیل افراد مبر تجویز کئے گئے : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مولوی عبد الرحیم صاحب در در خلیل احمد صاحب اور محبوب عالم صاحب خالد - اس مشترکہ کمیٹی کے صدر حضرت مرزا بشیراحمد صاحب سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور نائب سیکرٹری خلیل احمد صاحب ناصر قرار پائے یہ بھی قرار پایا کہ یہ تعاون کمیٹی کیم سمیرا ستہ تک قائم رہیگی.مورخہ بلی ہے کہ خدام وانصار کے عہدہ داروں کا ایک مشترکہ اجلاش جوانی میں یہ طے پایا کہ میں اور م میں دونوں مجالس کا تعاون ہو گا.ا سلسلہ کے بارے میں اعتراضات کا جمع کرنا، انصار اللہ خیرا محمدیوں کے اعتراضات جمع کریں اور خدام عیسائیوں کے.- جملہ اعتراضات کے جوابات کی اشاعت مشترک ہو.۳- دونوں مجالس باری باری الگ الگ تعلیمی ہفتے مناتیں خدام کے ہفتہ میں خدام لیکچرار ہوں اور انصارال کے ہفتہ میں انصار مگر دونوں ہفتوں میں تمام خدام وانصار شریک ہوں.ہر تعلیمی ہفتہ کے تین ہفتہ بعد انصار اور خدام کا زبانی امتحان لیا جائے.پھی نے پالا کہ ۱۵ فروری سالم فلته تک تمام اعتراضات جمع ہو جائیں اور ان کا جواب تیار کرنے کے لیے سکیم بنائی جائے.مندرجہ بالا کام کے علاوہ حضرت امیر المومنین کے حکم سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے زیر اہتمام جو خدام مرکزیہ.و فار عمل مناتے گئے ان میں مجلس انصاراللہ مرکز یہ بھی تعاون کرتی رہی، اسی طرح خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو امتحانات منعقد ہوئے ان میں انصار بھی شریک ہوتے رہے.ہفتہ تعلیم وتلقین کی ابتدا حضرت امیر المومنین کے ارشادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعاون کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق قادیان میں پہلا ہفتہ تعلیم و تلقین ۲۴ تا ۳۰ ہجرت مه امتی مسئلہ منایا گیا اور اس میں مسئلہ نبوت سے متعلق مندرجہ ذیل شقوں پر روشنی ڈالی گئی.تھے ریکارڈ مجلس انصار الله مرکزیہ
۱ مسئله نبوت از ره وتی قرآن و حدیث " " " اقوال ائمہ سلف تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریرات حضرت خلیفہ المسیح اول تحریرات مولوی محمد علی صاحب و دیگر اکابرین پیغام ولائل عقلیه تمام مجالس خدام وانصار نے اپنے اپنے حلقہ میں روزانہ ایک گھنٹہ وقت مقرر کر کے مندر بالا عنوانات پر ترتیب وار لیکچروں کا انتظام کیا اور سکھر تعلیمی رنگ میں اور اسباق کی شکل میں دیئے گئے اور ضروری حوالہ جات نوٹ کر اتے گئے ، اخبار الفضل میں بھی ان عنوانات پر مضامین شائع کرائے گئے.یہ جیسے خدا کے فضل سے بہت کا میا ب یہ ہے اور خدام انصار اور اطفال سب ہی دلچسپی اور شوق کے ساتھ ان میں حصہ لیتے رہے.ہفتہ تعلیم وتلقین کے سلسلہ میں قادیان کے علاوہ بیرونی مجالس مثلاً شملہ ، لائل پور ، گجرات ، پاکیپٹن ، ڈیرہ غازه میخان ، نصرت آباد ، دنیا پور ضلع ملتان ، پشاور شهر، انبالہ ، میانوالی نمانانوالی ضلع سیالکوٹ ،گھٹیالیاں راولپنڈی، روہڑی زیمنٹ ورکس) سکندر آباد (دکن) حیدر آباد (دکن) نے بھی اپنے اپنے مقام پر نقره عنوان کے مطابق جلسوں کا اہتمام کیا اور اس کی اطلاع مرکز کو بھجوائی.یہ تحریک ساری جماعت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی.دوسرا ہفتہ تعلیم تلقین تلف پہلے ہفتہ تعلیم وتلقین کے کامیاب تجربہ کے بعد مجلس منتظمہ نے فیصلہ کیا کہ بجائے دوسرا ہفتہ ہم دین ایک کے ہر سال دو ہفتے منات بجایا کریں، اس کے مطابق دوسرا ہفتہ منانے کے لیے ۱۳ تا ۲۹ نبوت هن۱۳۲ نومبر اس کی تاریخی مقرب کی گئیں اور مسئلہ خلافت پر مندرجہ ذیل عنوانا کے تحت جیسے کئے گئے.خلافت کی حقیقت یعنی خلافت : ڈکٹیٹر شپ.خلافت اور عوکیت اور خلافت و جمہوریت میں مابه الامتیان ضرورت خلافت انه نما انت از روستے قرآن کریم ، احادیث خلفائے راشدین اور ائمہ سلف -
-۴- حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریرات دربارہ خلافت بالخصوص خلافت احمدیہ خلافت کے متعلق غیر مبائعین کے اعتراضات کے جواب اور امین سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی تشریح.برکات صلافت ساتواں دن مندرجہ بالا اسباق کے دہرانے کے لیے مقری کیاگیا تا کہ مضامین اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں.مجلس انصارالله مرکز یہ کے زیر اہتمام پہلا اجتماعی علیہ روضہ مجلس انصارالله مرکز ی کا پہلا مقامی اجتماع و رفت رہبری میں مسجد العضی میں نواب ۲۵ چوہدری محمد دین صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے تحریک و فرائض انصار اللہ کے موضوع پر ایک مبسوط تقریر کی اور انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور بتلایا کہ ان کا وہی کام ہے جو انبیاء کا ہوتا ہے لینی تبلیغ بکتاب اللہ کا سکھانا ، شرائع کی حکمت بیان کرنا اولاد کی عمدہ تربیت اور شجاعت کی اقتصادی کمزوریوں کو دور کرنا معمولی وقت تبلیغ کے لیے دنیا اور حقیر سی رقم چندہ میں ادا کرنا کوئی بڑی قربانی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایسے ذرائع ہیں جن سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں چو ہدری صاحب کے بعد خانصاب مولوی فرزند علی صاحب نے انصار اللہ کے طریق کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی آخر میں صاحب صدر نے انصار اللہ کی تحریک کی اہمیت پر اظہار خیال کیا.دوسرے اجلاس میسج نواب اکبر باید جنگ آف حیدر آباد دکن کی صدارت میں جوا بعض اصحاب نے موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیوں پر تقاریر کیں.مجلس انصار اللہ کے قیام کے میں مرکزی دفتر کا فی زمانہ میں اجلاس عموما مر بعدا بدون این کانونی دفتر نہ تھا، اس زمانہ میں اجلاس عموماً مسجد مبارک میں ہوا کرتے تھے اور ان کا ریکارڈ مجلس کے ایک آزیری کارکن شیخ عبدالرحیم صاحب فرما (سابق کشن لعل، ایک جیٹ میں کیا کرتے تے لیکن مصلح جنوری ا میش سے مجلس کا دفتر با قاعدہ طور پر گیسٹ ہاوس (دارالا نوار قادیان کے ایک گرہ میں قائم کر دیا گیا اور شیخ عبدالرحیم شر ما صاب کو ہی میں روپیہ مشاہرہ پر بطور کلرک مقر کہ دیا گیا.ان کے علاوہ ایک مددگار کارکن بمشاہرہ بارہ روپے کی منظوری بھی دی گئی.۱۳۲۰ هش ه الفضل ۷۶ر فتح برد سمیر ۲۷ بردسیر بیش " 1901 سے یہ رجسٹر اب بھی دفتر مرکزیہ میں موجود ہے.
فت کےلیے فرنیچر کی بھی ضرور تھی.کچھ عرصہ تک تو میں علیم اور ترجمہ القرآن کے دفاتر کا فرنیچر اعمال تا ہوتا رہا ، پھر ہم ہجرت رمئی امیش کو ساٹھ روپے کی منظوری دی گئی تا کہ اس سے ایک میز چار کرسیاں ۱۹۴۴- اور ایک پنچ خریدا جاسکے.کچھ عرصہ بعد مرکزی دفتر دارالانوار سے شہر میں منتقل کر دیا گیا اور آئندہ سال کے بجٹ میں اس کے کرایہ کے لیے میں روپیہ کی گنجائش رکھی گئی.و فتح دسمبر 1 میٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجلس کا مستقل دفتر تعمیر کیا جائے، تعمیر کا اندازہ ۱۹۴۴ پندرہ ہزار رو پر لگایا گیا.اسی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ میں کے ماتحت ایک شعبہ نشرو اشاعت قائم کیا شعبہ نشر واشاعت جائے کہیں کا کام یہ ہو کہ اعراض تبلیغ کے لیے اشتہارات اور ٹریکٹ تیار کر کے انکی اشاعت کا انتظام کرے.ان ہر دو امور کے لیے رقم کی فراہمی کا کام سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے سپرد کیا گیا اور ان کو اختیار دیا گیا کہ اس غرض کے لیے عطایا جمع کریں.چنانچہ ساس میش کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر شاہ صاحب موصوف نے تعمیر دفتر اور نشر و اشاعت کا فنڈ قائم کرنے کی تحریک کی اور ان ہردو مدات میں.۱۳۲۴ ۳۱۹۴۴ میشی تک صرف ۱۴۷۶ روپے وصول ہوئے.نشرو اشاعت کے کام کے لیے ایک سب کمیٹی بنائی گئی جس کے ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور سستید دل اللہ شاہ صاحب مقرر ہوئے ، تعمیر دفتر کے لیے ایک الگ سب کیٹی بنائی گئی جو مندرجہ ذیل افراد نل تھی.ماسٹر خیرالدین صاحب (نائب ناظر تعلیم و تربیت) منشی محمد الدین صاحب مختار عام صدر سیکرٹری -۳ مولوی عطا محمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر بہشتی مقبره نائب سیکرٹری - بابو فضل دین صاحب ریڈر ہائی کورٹ با بو قاسم دین صاحب گورداسپور نمبر :
۵۱ قیادتوں کا قیام اور دستور اساس کی تشکیل حضرت امیرالمومنین کے خطبہ جمعہ فرموده ۲۲ اخام اکتو بر س عیش کی روشنی میں تنظیم انصاراللہ کے ڈھانچے میں میں بنیادی تبدیاں کرنے اور حضور کے ارشاد کو موٹر رنگ میں ملی جامہ پہنانے کی غرض سے مورخہ ۲۷ انا دار استواری میں کو مرکزی ملبس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تا کہ دستور اساسی کے رنگ میں کچھ قواعد و ضوابط مقر کر لیے جائیں ، اس اجلاس میں صدر مجلس موادی شیر علی صاحب کے علاوہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور خانصاب مولوی فرزند علی صاحب نے شرکت کی اور ابتدائی دستور اساسی کی شکل میں مندر جہ ذیل فیصلے کئے گئے ہیں یہ فیصلے اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین نے ان کی منظوری عطا فرمائی اور یہ آئندہ طریق کار کو متعین کرنے کے لیے بنیا دینے ، اس لیے ان کا مکمل متن اس جگہ درج کیا جار ہا ہے.آئندہ مرکزی مجلس کے علاوہ صدر کے چار صدہ دار ہوں قائد تبلیغ، قائد تعلیم و تربیت قائد ال زن درگیری ر سابق نام جنرل سیکرٹری جملہ عہدہ داران اپنے اپنے کام کے نگران اور ذمہ دار ہونگے اور انصار اللہ کا سارا حلقہ کار خواہ تا دیان میں ہو یا بیرو نجات میں ان کی نگرانی اور قیادت کے ماتحت ہوگا.- مجلس مرکزی میں تین مزید ممبر بغرض مشورہ مقرب ہوا کرینگے.ان کے پاس کوئی صیغہ نہیں ہوگا بلکہ دو صرف مشورہ کی غرض سے مرکزی مجلس میں شریک ہوا کرینگے.صدر مولوی شیر علی صاحب ہوں گے ، قائد تبلیغ چوہدری فتح محمد صاحب ہونگے ، قائد تعلیم و تربیت مولوی فرزند علی خانصاحب، قائکہ مال میر محمد اسحاق صاحی ، قائد عمومی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ہوں گے.زائد عمر فی الحال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب خان بہادر چوہدری ابوالعائنم صاحب ہوں گے.له الفضل ۲ - فتح ۱۳۷۲ ۲ دسمبر ۱۹۲۳ کے ریکارڈ مجلس انصار الله مرکزی نیز افضل اور فتح کو دسمبر مش حضرت میر صاحب مورنہ بچے ، اور حل فرماگئے اوران کی جگہ سید زین العابدین دلانا شاہ صاحب قائد مال مقر ہوتے.
م قائد صاحبان کے ساتھ امداد کے لیے مندرجہ ذیل نائب قائد ہوں گے.مولوی ابو العطار صاحب تعلیم و تربیت مولوی قمر الدین صاحب مال - عمومی مولوی ظهور حسین صاحب بنجارائی مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ تا ادیان کے مہر محمد میں اور بیرو نجات کی مر جماعت میں انصار اللہ کے نظام کے ماتحت سارے کاموں کی عمومی نگرانی کے لیے ایک ایک مقامی عہدہ دار مقرہ ہو گا جس کا نام زعیم ہو گا جسے مقامی نظام میں وہی حیثیت حاصل ہو گی جو مرکزی نظام میں صدر کو ہے.- اسی طرح قادیان کے ہر محلہ اور بیرو نجات کی ہر جماعت میں ہر شعبہ کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کے لیے ایک کارکن ہو گا جو اپنے اپنے شعبہ کے کام کا ذمہ دار ہو گا اور مقامی نظام کے زعیم اور مرکزی نظام کے قائد کی نگرانی کے ماتحت کام کرے گا ایسے عہدہ دار مستم تبلیغ مسلم تعلیم و تربیت منتظم مال اور متم عمومی کہلائیں گے.تمام متمم صاحبان کا فرض ہو گا کہ اپنے اپنے کام کے متعلق پندرہ روزہ رپورٹ اپنے زعیم کی معرفت اپنے اپنے شعبہ کے قائد کو ارسال کریں اور قائدہ صاحبان کا فرض ہو گا کہ اپنے اپنے شعبہ کی پندرہ روزہ رپورٹ صاحب صدر کے پاس ارسال کریں جس کا خلاصہ صدر صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی کی خدمت میں ارسال کیا جائے گا.نوٹ.ایسی جماعتیں جن کی طرف سے پندرہ روزہ رپورٹ کا آنا غیر ضروری یا دقت طلب ہو ان کے متعلق مصدرنا کو بشور و قائد و زعیم صاحبان مناسب ترمیم یا استثنا کرنے کا اختیار ہوگا.قادیان میں مرکزی مجلس انصار اللہ کا ایک باقاعدہ دفتر مقر کیا جائے جس میں جملہ ریکارڈ باقاعدہ طور پر رکھا جائے، ہر قائد کو دفتر کے عمل سے اپنے اپنے شعبہ کے تعلق میں کام لینے کا اختیار ہوگا مگر ایسے انتظامی طور پر عملہ دفتر صدر کی ماتحتی میں سمجھا جائیگا.- قادیان کے ہر محلہ میں مہینے میں کم از کم انصار اللہ کا ایک مقامی اجلاس منعقد ہونا ضروری ہوگا اور سال کے کسی مناسب حلقہ میں سارے انصار اللہ کا ایک مشترکہ جلسہ منعقد کیا جائیگا میں میں بیرونی عہدہ داروں اور نمائندگان کو شرکت کی دعوت دی جائے اور اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھی در خواست
OH کی جایا کریگی کہ حضور اس موقعہ پر انصار اللہ کو اپنے روح پرور نصائح سے مستفیض ہونے کا موقع عطا فرمائیں.جماعت کا ہر فرد جو ہم سال یا اوپر کی عمر کا ہے وہ قادیان میں لازمی طور پر انصار اللہ کا رکن سمجھا جائیگا.بیرو نجات میں مقامی انجمنوں کے عہدہ دار جو اس عمر کے ہوں وہ بھی از نا انصار اللہ کے محمد سمجھے جائیں گے باقیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی انصار اللہ کے ممبر بنیں اور ایسی تحریک ہوتی رہنی چاہیئے.• تمام ممبروں سے کم از کم ایک اور ماہوار کے حساب سے چندہ لیا جائیگا جس کا باقا عدہ حساب لکھا جائیگا.نوٹ.بیرونی انجمنیں اپنے مقامی چندوں کا 20 فیصدی اپنے پاس رکھ کر اپنے طور پر خرچ کر سکتی ہیں باقی مرکز میں آنا چاہیئے لیکن حساب کتاب بہر حال باقاعدہ ہونا چاہیئے.- ۱۳ اپنے نمبروں کی علمی اور ملی ترقی کے لیے مرکزی نظام انصاراللہ کی طرف سے سال میں ایک دفعہ کتب مسلسلہ کا امتحان مقرر کیا جائے گا جو حتی الوسع سب جگہوں پر منعقد ہو، اور نتیجہ اخبار میں شائع کیا جائے.اور اول دوم، سوم نکلنے والوں کو مناسب انعام دیا جا ہے ، امتحان کی شرکت کے لیے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر تحریک کی جائے.جن ممبران انصاراللہ کا کام سال کے دوران میں خصوصیت سے نمایاں ہوا انھیں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت تخلیفہ اسیح سے ہاتھ سے مناسب انعام دلوایا جائے تاکہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو.قائد تبلیغ اور جملہ مہتممان تبلیغ کا فرض ہو گا کہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ کا بہترین انتظام کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہر انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں سال بھر میں کم از کم ایک مخلص احمدی پیدا ہو اور تبلیغ زیادہ تر انفرادی صورت میں کی جائے اور نامناسب بحث مباحثہ کے رنگ سے احتراز کیا جاتے، اسی طرح قائد و مهمان تعلیم و تربیت کا یہ کام ہوگا کہ وہ جماعت میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ وسیع طور پر اور تفصیلی صورت میں جاری کریں اور لوگوں کے اخلاق و عادات کی نگرانی رکھیں.مقامی در سوں اور بڑی عمر کے ناخواندہ لوگوں کی تعلیم کا انتظام بھی منتقم صاحبان کے سپرد ہو گا قائد مہتمم صاحب مال کا کام انصار اللہ کے لیے مختلف قسم کے چندہ جات کی وصولی کا انتظام کرنا اور حساب وکتاب رکھنا ہوگا، دیگر خیبر قسم کا کام جوکسی دوسرے قائد کے حلقہ کار میں نہیں آمادہ قائد اور مستم صاحبان عمومی کے حلقہ میں سمجھا جائے گا، صدر کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قائد عمومی کے یہ کام بھی ہوں گے.
۵۴ 3 ایسی ما تحت امین ہائے انصار اللہ کا قیام جو سارے قائدوں کے حلقہ کار سے یکساں تعلق رکھتی ہوں.قاعدہ نمبرہ کے ماتحت انصار اللہ کے ماہوار اور سالانہ جلسوں کا انتظام ج مرکزی دفتر کا چارچ.نوٹ مگر ہر وہ کام جو دوسرے قاتلوں کے حلقہ کار سے تعلق رکھتا ہو وران قائم دوں کے مشورہ سے سرانجام دیا جائے گا اور بصورت اختلاف صدر کا فیصد سب کے لیے واجب المقبول ہو گیا -۱۵ مرکزی مجلس انتصار اللہ اور اس کے عہدہ داروں اور اسی طرح خدام الاحمدیہ کی مرکزی محلیس اور مقامی بی اس اور عہدہ داروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کا طریق اختیار کریں اور ان کے کام سے آگاہ رہنے اور اپنے کام سے ان کو آگاہ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کریں.-14 مرکزی اور مقامی نظام ہر دو میں ہر بالا افسر کی ماتحت افسر کا کام پڑتال کرنے اور ہدایات جاری کرنے کا اختیار ہوگا.نوٹ.موجودہ دستور اور طریق کار لوگوں کے ذہن نشین کرانے اور ان میں کام کی تو اور زندگی پیدا کرنے کے لیے صدر صاحب ایک ہفتہ کے اندر اندر مسجد اقصیٰ میں قادیان کا ایک مجموعی جلہ منعقد کر کے انصا اللہ کے اغراض و مقاصد اور کام کے متعلق مناسب دوستوں سے تقاریر کروائیں اور بیرونی حجاب کی اطلاع کے لیے اخباری اعلانات کا انتظام کیا جائے اور آئندہ کے لیے کوشش کی جائے کہ کام محض رسمی رنگ میں نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور اپنے اندر زندگی کے پورے پورے آثار رکھے.مندر برد بالا دستور اساسی کی نقل حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بفرض ملاحظہ اور منظوری صدر محبس کے دستخطوں کے ساتھ ارسال کی گئی.حضرت امیر المومنین نے اس پر تحریر فرمایا : منظور ہے عمل کیا جائے لے دستخط حضرت امیر المومنین ۲۳ له الفضل در فتح ر دسمبر ۳۳ معیش ۱۳۱
۵۵ مجلس انصاراللہ کا پہلا بجٹ ۱۹۴۵ مجلس انصار اللہ کا پہلا بجٹ آمد و خریج از یکم مئی سه تا آخر اپریل مورنے اور سیر نشده پیش ہو کر منظور کیا گیا.بجٹ کی مدات اور تفاصیل درج ذیل ہیں.و.بجٹ آمد - آمد چندہ جات مقامی در بیرونی انصار الله عطیات از ذی ثروت احباب ب بجٹ اخراجات ا اخراجات عمله کل آمده ۱۲۰ 1A..۲- سائز محرر پچپڑاسی ( مدد گار کارکن) جنگی الاؤنس میزان ڈاک سیٹشنری کرایه مکان بسمی اخراجات مغرب میزان ۱۴۴۰ ۲۱۶۰ د فوزه بر تھا)
سامان فرنیچر ج اخراجات غیر معمولی طلع فارم ورپورٹیں.طبع لیٹر فارم طبع کا پیاں حاضری نمانہ - برائے قادیان _.-- ر کاغذ ۳۹ ، کتابت ، چھپوائی ۰-۱۳ ) ۱۷۰ (کاغذ ۱۳۰ ، کتابت - - ، چھوائی - ۸-۳) ۱۳۸ دکاند ۸-۶ کتابت ۳۰، چھپائی ۴۰) ا.طبع قواعد و ضوابط النصار الله -۲۰ د کاغذ ۰-۱۳ ، کتابت ۰-۳ ، چھپوائی ہر چھانہ فائد صاحبان کے.دستخطوں کی مہر اندراجات مور حالات متفرق غیر معمولی -- ۱۰۰ • میزان ۰-۴۷۵ میر نا کل اخراجات - -- طباعت رکیک والاحتمال سر و دیگری معمول خواجات ) ۱۵۳۵ انصارالہ کے ابتدائی سالانہ اجتماعات پہلا اجتماع میں حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۲ / اکتوبر سولہ میں علاوہ اور باتوں کے اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ انصار میں اجتماعی روح پیدا کرنے کے لیے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرح انصار الله مرکزیہ.مرکز یہ کو بھی ایک سالانہ اجتماع منعقد کرنا چاہیئے.اس ہدایت کی تعمیل میں مرکزی مجلس عاملہ نے اپنے اجلاس منعقدہ ہوا تو میں یہ فیصلہ کیا کہ پہلا اجتماع مورخ ۲۵ر لفتح رودسمبر میں بوقت ۲ بجے مسجد اقصی میں منعقد ہو ابعد نماز ظہرو میں ٣ ۱۳۲۳ اور حضرت امیر المومنین کے بھی اس میں شرکت کی درخواست کی جائے، چنانچہ اس فیصلہ کے بموجب مجوزہ تاریخ پر سید اصلی ریکارڈ مجلس انصارالله مرکز یہ
AL میں بعد نماز ظہر و عصر بجھے اجلاس منعقد ہوا ، اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نے جو افتتاحی خطاب فسره درج ذیل ہے :- خطاب حضرت امیر المومنین موقعہ سالانہ اجتماع انصار الله له میں صرف مجلس انصار اللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لیے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہ کر دعا سے اس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جاؤں گا، انصار الہ کی بلیس کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن میں رکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوتے.زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اقوال تنظیم کامل ہو جائے، اور سگر متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے اور میرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں، میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصاراللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں، انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری ماموریت میں نہیں ہوتی.حرکت حمل ان میں ابھی پیدا ہوتی نظر نہیں آئی.نتیجہ تو مری کے بد نظر آنے والی چیز ہے گر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے اور کم از کم اس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو جاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثار بھی نظر نہیں آتے غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور قادیان کی مجلس انصاراللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریگی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے انسان کو الیسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے.نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے سے اثر کو قبول کرتی ہیں، بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتا چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں، اچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اس لیے انکا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور شکیلا ہوگیا الفضل بار ظهور ۱۳۲۳ هش / اگست ۱۹۴۵
۵۰ مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لیے ان کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا.ریتلے علاقہ میں رہنے والے جانور مٹیالے رنگ کے ہوتے ہیں.سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کارنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا، غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے تنگ بھی کسی قسم کے ہو جاتے ہیں، پس اگر جانوں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں تو انسان کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کو کیوں نہیں بدل سکتے، خدا تعالیٰ نے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ کو نوامع الصادقین یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے پیدا ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقوی کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو جاتے جو اس میں پایا جاتا ہے.پسی جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں اس کی اپنی اصلاح ہے.ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستعفی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے.بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخر دم تک اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم کی دُعا کرتے رہے.پس اگر خدا کا وہ نبی جو سیلوں اور پچھلوں کا سردار ہے جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور ہوگا اور جس نے خدا تعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو گیا ھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت علیکم کہتا ہے اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اھدنا الصراط المستقيم کتنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے.اگر کوئی شخص
۵۹ الیسا اپنے آپ کو اس سے متلعنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لیے مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خدا تعالیٰ نے کسی انسان کے لیے تجویز نہیں کیا.پس جو شخص اپنے لیے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھو کر کھائیگا کیونکہ اس قسم کا استغنا عزت نہیں بلکہ ذلت ہے ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازہ کی طرف بھاگا جارہا ہے.پسی تنظیم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے.اس سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے.دعائیں بھی وہی قبول ہوتی میں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں، خدا تعالیٰ نے کیلیے دعا مانگنے کے لیے اھدنا الصراط المستقیم میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لیے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردو پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لیے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے چنانچہ اس غرض کے لیے میں نے مجلس انصار الله لجنہ اماءاللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور محلیس اطفال قائم کی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصارالله مرکز یہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصار اللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ ان کی اصلاحی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کر دیں.اب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کر تا ہوں، خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں جن سے آگے خدا تعالے ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لیے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روحانی بادشاہت اسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے.آمین لے الفضل ظهور ۱۳۲۴ مش اگست ۱۹۲۵ء ص ۱و۲
بقیہ کارروائی اجتماع حضرت امیرالمومنین پنے انتقامی خطاب کے بعد تشریف لے گئے تو اجلاس کی بقیه کاروائی اجتماع ) بقیه کار والی ماری شیر علی صاحب صدر مجلس انصار اللہ کی صدارت میں ای دارای مولای شی ای صاحب صدر انصارالد کی صدارتمیں جاری رہی اور مندرجہ ذیل اصحاب نے تفصیل ذیل تقاریر فرمائیں ہیے ۱ آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب.......پابندی نظام حضرت مفتی محمد صادق صاحب.-۳ خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب.انصار اللہ کے فرائض تعلیم و تربیت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت لاہور اطاعت قربانی اور تقومی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی..سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب....تحریک برائے تعمیر دفتر مرکزی و نشرواشات مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا دوسرا سالانہ اجتماع زیر صدارت حضرت صاحبزاده دوسرا سالانہ اجتماع مرزا شریف احمد صاحب ناظر دعوة و تبلیغ مورخه ۲۵، فتخر دسمبر ۱۳۲۳ مهشی مسجد اتصلی میں منعقد ہوا، تفاوت و نظم کے بعد سب سے پہلے مولانا ابو العطاء صاحب نائب قائد تبلیغ نے تبلیغ کی اہمیت پر تقریر کی.ان کے بعد آنریل سر ظفر اللہ خانصاحب نے انصار اللہ کے فرائض پر روشنی ڈالی.اجتماع کے تیسرے مقرر نواب اکبر یار جنگ بہادر آف حیدر آباد دکن نے " انصار اللہ اور توسیع علم کے موضوع پر خطاب کیا اور انصار کو نا خواند و افراد کی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.پھر مولوی قمرالدین صاحب نے انصار اللہ اور قیام اسلام واحمدیت کے موضوع پر اور مولا نا عبہ مریم صاحب نیتر مبلغ مغربی افریقہ نے تبلیغ و تربیت کے موضوع پر تقاریر کی.اس اجتماع میں مولوی عبد الرحیم صاحب درد قائد عمومی نے مجلس انصار اللہ کی کارگزاری کی ایک عمومی رپورٹ پیش کی اور سید ولی اللہ شاہ صاحب قائد مال نے انصار اللہ کے بجٹ پر روشنی ڈالی.اس کے بعد خلیل احمد صاحب ناصر نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صا کا انصار اللہ کے نام ایک پیغام" کے عنوان سے ایک دلچسپ مقالہ پڑھ کر سنایا ، آخر میں حضرت صاجزادہ شریف احمد صاحب صدر جلسہ نے نصائح فرمائیں اور دعا کے بعد یہ جلسہ برخاست ہوا.ن الفضل ٢٧ فتح ۱۳۲۳ عش مطابق دسمبر ۱۹۲۳ء کے اس اجلاس میں تصدر مجلس مولوی شیر علی صاحب بوجہ علالت طبع شریک نہ ہو سکے.
41 اس دور سے تعلق یہ امر قابل ذکر ہے کہ فتح دسمبر میشی تک بیر نجات ۱۹۴۵ تعداد مجالس بیرون میں ہم و مجالس قائم ہوئی جن میں سے ۱۷۵ شہری تھیں اور ۱۳۹۳ دبیاتی تقسیم ملک کے وقت تک اس تعداد میں کس قدر اضافہ ہوا اس بارے میں مرکزی ریکارڈ اور الفضل دونوں سے کوئی راہنمائی نہیں ملتی، در حقیقت اُس زمانہ کے حالات ہی کچھ اس قسم کے تھے کہ ذیلی تنظیموں کے کام ثانوی حیثیت رکھتے تھے اس لیے ریکارڈ کی تکمیل اور تفصیل کا کما حقہ، انصرام نہ ہو سکا.نومبر سے ایک انصار اللہ کے اجلاس میں کوئی عہد نہیں انصار اللہ کا ابتدائی عمد دہرایا جاتا تھا.۳۰ نبوت کر نومبر ۳۲۳ ہش کے ماہانہ اجلاس میں قائد عمومی مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے یہ تجویز پیش کی کہ انصار اللہ کے جلسوں میں عمد وہرانے کا طریق رائج کیا جائے اور اس غرض کے لیے وہ الفاظ مقرر کئے جائیں جو حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے جلسہ جو بلی کے موقعہ پر لوائے احمدیت بھراتے وقت بطور عمد مقرر فرمائے تھے.اس تجویز کو منظور کر لیا گیا اور اسی اجلاس میں پہلی مرتبہ یہ عمد دہرایا گیا.عید کے الفاظ یہ تھے.یلیں اقرارہ کرتا ہوں کہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام ، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لیے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لیے ہر ممکن قربانی پیش کرونگا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور مسلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے.اللهم آمین اللهم آمين - اللهم آمین.ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم - ط الفصل ١٠ جنوری ١٩٢٦ء سر ریکارڈ مجلس مرکزیہ
ابتدائی دور میں مجلس مرکز یہ کے بعض اہم فیصلہ جات قادیان کے مختلف محلہ جات میں جو مجالس قائم ہوئیں ان کی نگرانی کے لیے زعما مقر کئے گئے.زعیم املی کا عمدہ ا پھر اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ تمام مقامی زعما کے کام میں یکسانیت اور تعاون پیدا کرنے نیز ان کی عمومی نگرانی کے لیے ایک نعیم اعلی مقرر کیا جانا مناسب ہوگا ، اس قسم کی ضرورت بیرونجات کی بڑی جماعتوں میں بھی پیش آنا لازمی تھی، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ اگر کسی بڑی جماعت میں محلہ وار یا حلقہ دارکئی زه انصاراللہ موجود ہوں تو وہاں ایک زمیم اعلیٰ کا حمدہ بھی ہونا چاہیئے جس کا کام زمین کے کام کی نگرانی ہو تے آنریری انسپکٹر کا تقریر قادیان میں اور بیر نجات میں بھی میان انصار الہ کے یہ شعبہ جات کی پڑتال کے لیے مرکزی مجلس نے فیصلہ کیا کہ ایک انسپکٹر مقرر کرنا چاہتے چنانچہ شیخ نیاز محمد صاحب بیشتر کو امتحاناً چھ ماہ کے لیے آخرمیری نسپکٹر مقری یا گیا ہے مقامی اور بیرونی مجالس میں مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لیے یہ حسن کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ مناسب سمجھا گیا کہ بہترین کام کرنے والی محلیس کی حوصلہ افزائی کی جائے چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ مقامی اور بیرونی زعماء مجالس میں سے بہترین تمام کرنے والی کو حسن بور کردگی کے سرٹیفیکیٹ صدر اور قائد متعلقہ کے دستخطوں سے ہر سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت امیر المومنین کے ہاتھ سے دلایا جائے.سے مرکزی اجلاس مہینہ میں کم از کم ایک بار ضرور ہوا کرے، اگر کوئی قائد کسی مجبوری مرکزی مجلس کے اجلاس اسی وجہ سے خو نہ آسکے تو استثنائی حالات میں نائب قائد اس کی جگہ بطور قائمقام شامل ہو تا اجلاس ممبران کی معذوری یا عدم موجودگی کی وجہ سے ملتوی نہ ہوتے رہیں.قائدین اور نائین کے دورے قائد صحبان اور ان کے نائب باری باری ہر دو ماہ میں ای دورہ کیا کریں.۲۰۱ ریکارڈ مجلس مرکزیہ دفعہ معائنہ اور تحریک کی غرض سے مختلف محلہ جات کا
زعما اور عہدہ داران مجالس انصار کا انتخاب سالانہ عشده داران کا انتخاب | ہوا کرے.نائب قائدین روزانہ کم ازکم آدھ گھنٹہ اپنے اپنے شعبہ کے متعلق دفتر میں اگر کام کیاکریں نائب قائدین اور قائد صاحبان بھی گاہ بگاہ دفتر میں تشریف لاکر تسلی کرلیں کہ ان کے صیغہ کا کام ان کی ہدایت کے مطابق ہو رہا ہے.اپنے ممبروں کی علمی اور عملی ترقی کے لیے مرکزی نظام انصار اللہ کی طرف مرکزی امتحانوں کا اجرا سے سال میں ایک دنو کتب سلسلہ کا امتحان مقررکیا جاتے ہومشتی الوسع سب جگہوں پر منعقد ہو اور نتیجہ اخبار میں شائع کیا جائے اور اول، دوم، سوم نکلنے والوں کو مناسب انعام دیا جائے امتحان کی شرکت کے لیے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر تحریک کی جائے.
پانچواں باب عظیم انفصال اللہ کے اغراض و مقاصد حضرت امیرالمومنین نے جہاں چالیس سال سے اوپر گر رکھنے والوں کی الگ تنظیم قائم کرنے کا ایش در فرمایا وہاں ان کے لیے لائحہ عمل بھی خود تجویز فرما دیا تا کہ صحیح خطوط پر اور بلا توقف کام شروع کیا جا سکے جو متقاعد اس تنظیم کے قیام سے حضور کے پیش نظر تھے ان کا ذکر بڑی تفصیل سے حضور نے اپنے بعض خطبات اور تقاریر میں فرمایا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ضروری اقتباسات اس جگہ درج کر دیئے جائیں تا کہ حضور کے اپنے الفاظ میں ان کی وضاحت ہو.ذیلی تنظیموں کے قیام کے کچھ اہم اعراض کا ذکر کرتے انصار اللہ کے قیام کی چھ اعراض ہوئے حضورنے فرمایا: اسے " میں نے چالیس سال سے کم عمروالوں کے لیے خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لیے مجلس اقتصاد اللہ قائم کی ہے یا پھر عورتیں ہیں ان کے لیے لجنہ اماءاللہ قائم کی ہے.میری غرض ان تحریکات سے یہ ہے کہ جو قوم بھی اصلاح وارشاد کے کام میں پڑتی ہے اس کے اندر ایک ہوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں اور یہ خواہش کہ اور لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں جہاں جماعت کو عزت بخشتی ہے وہاں بعض اوقات تماعت میں ایسا ختنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہو جایا کر تی ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے، جماعت اگر کروڑ دو کروڑ بھی ہو جائے اور اس میں دس لاکھ منافق ہوں تو بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی جتنی اگر دس ہزار مخلص ہوں تو ہو سکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ چند صحا بنا نے جو کام کئے وہ آج چالیں کروڑ مسلمان بھی نہیں کر سکتے ہیں جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو.صرف تعداد میں اضاف تقریر مورد ، ۲ م فتح دسمبر ۱۳۲ پیش مطبوعه الفضل ۲۶ را خاء مرا کتوبر پیش ۱۳۳۹ ۲۰ *149*
40 کوئی خوشی کی بات نہیں.....جو تو میں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں ان کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے اور ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے.....یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے ایک مصرعہ آپ نے لکھا مراک نیکی کی بڑ یہ اتق ہے اسی وقت آپ کو دوسرا مصرعہ الہام ہوا جو یہ ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے" اس العام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اگر جماعت تقوی پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کریگا.قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسعد ذالت الكتاب لا ريب نيه هدى للمتقين ، یعنی یہ کلام متقی پر اثر کرتا ہے....ہم اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم کی مدد سے ہی اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی غذا متقی کیئے ہی طاقت اور قوت کا موجب ہوسکتی ہے، اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی خرابی ہو تو اسے گھی، دورود در مرغ، با دام وغیرہ کتنی اعلیٰ غذائیں کیوں نہ کھلائی جائیں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ الٹا اسے مہیضہ ہو جائیگا انڈا اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب وہ مضم ہو.قرآن کریم بنانا ہے کہ یہ غذا ایسی ہے جو مومن کے معدے میں ہی ٹھہر سکتی ہے...پسی جماعت کا تقومی پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے.تقوی کی پہلی ضروری چیز ایمان کی درستی ہے قرآن کریم نے ایمان بالغیب مومن کی علامت یہ بتائی ہے کہ یومنون بالغیب.پہلی علامت ایمان بالغیب ہے یعنی اللہ تعالی ملائکہ قیامت اور رسولوں پر ایمان لانا ، پھر اس ایمان کے نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب ہے.......ایک شخص اگر دس سیر آٹا کسی غریب کو دیتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر ملے گا تو وہ گویا غیب پرایمان لاتا ہے.قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے گویا قرآن کریم نے ابتدا میں ہی ایک بڑی بات اپنے ماننے والوں میں پیدا کردی، چنانچہ وہ
۶۶ صحابہ جو بدر اور احمد کی لڑائیوں میں لڑے گیا وہ کسی ایسے نتیجہ کے لیے لڑے تھے جو سامنے نظر آرہا تھا، نہیں بلکہ ان کے دلوں میں ایمان بالغیب تھا......سید ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر وقت قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لیے تیار رہتے تھے اور یہ ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یقین پیدا ہو چکا تھا کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہی ہے اور خواہ کچھ ہو ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر کے رہیں گئے.پس مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ انشاء اللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہی ہے انہیں اللہ تعالیٰ، ملائکہ قیامت ، رسولوں اوران شاندار اور عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں ایمان پیدا کرنا چاہیے.انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو.یؤمنون بالغیب کے ایک معنی امن دینا بھی ہے یعنی جب قوم کا کوئی فرد باہر جانا ہے تو اس کے دل میں یہ اطمینان ہونا ضروری ہے کہ اس کے بھائی اس کی بیوی بچوں کو امن دینگے، کوئی قوم جہاد نہیں کر سکتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ اس کے پیچھے رہنے والے بھائی دیانتدار ہیں.یہیں ان تینوں مجلسوں، کا ایک یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے اندر ایک ایسی امن کی رُوح پیدا کریں.ان تینوں مجالس کو گوشش کرنی چاہیئے کہ ایمان بالغیب ایک میچ کی طرح ہر احمدی کے دل میں گڑ جائے کہ اس کا ہر خیال، ہر قول اور ہر عمل اسکے تابع ہوا اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں جو سکتا میں میاس....انصار الله خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہیئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہر ممکن ذریعہ سے ان کے لیے کوشش کرتے ہیں لیکچروں کے ذریعہ - اسباق کے ذریعہ اور بار بار امتحان ہے کہ ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے بیا نتک کہ ہر مرد وعورت اور ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ایمان بالغیب پیدا ہو جائے.
دوسری ضروری پیز نماز پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے قرآن کریم اقامت صلوة نے يؤدون الصلوة کہیں نہیں فرمایا يا يصلون الصلوة نہیں کہا بلکہ جب بھی زمانہ کا حکم دیا ہے یقیمون الصلوۃ فرمایا ہے اور اقامت کے معنی با جماعت نماز ادا کرنے کے ہیں اور پھر اخلاص کے ساتھ نمانہ ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے.اس میں خود نمانہ پڑھنا ، دوسروں کو پڑھوانا ، افلاس و جوش کے ساتھ پڑھنا، بار نو جوکر ٹھہر ٹھہر کر رہا جماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، اس کی طرف ہمارے دوستوں کو خاص توجہ کر نی چاہیے ، مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ دو خود تو نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی اولاد نہیں پڑھتی.اولاد کو نماز با جماعت کا پابند بنانا بھی اشد ضروری ہے اور نہ پڑھنے پر ان کو سزا دینی چاہیئے.ایسی صورت میں بچوں کا خرچ بند کرنے کا تو حق نہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں خریج تو دیتا رہوں گا مگر تم میرے سامنے نہ آؤ جب تک تم نماز کے پابند نہ ہو....انفاق فی سبیل اللہ تیری چیز وَمِمَّا رَ تُنْهُمْ يُنْفِقُونَ معنى اللّه تعالى نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے خدا تعالیٰ.یعنی کی دی ہوئی پہلی چیز جذبات ہیں.پھر پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں، پھر بڑا ہونے پرعلم متا ہے، طاقت متی ہے ان سب میں سے تھوڑا تھوڑا خدا تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے.....بعض ہے.لوگ چند پیسے کسی غریب کو دیکھ سمجھ لیتے ہیں کہ اس پرعمل ہوگیا حالانکہ یہ در سمت نہیں.ہوشخصی پیسے تو شرح کرتا ہے مگر اصلاح و ارشاد کے کام میں حصہ نہیں لیتا وہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس حکم پر عمل کر لیا ہے یا جو یہ کام بھی کرتا ہے مگر ہاتھ پاؤں اور اپنی طاقت کو خرچ نہیں کرتا ، بیواؤں اور یتیموں کی خدمت نہیں کرتا وہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس پر عمل کر لیا ہے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں ساری قوتوں کو صرف کرنے کا حکم ہے ، جذبات کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنا ضروری ہے، مثلاً غصہ پڑھا تو معاف کر دیا، اسی کے ما تحت ہاتھ سے کام کرنا اور محنت کرنا بھی ہے....
ایمان بالقران اس کے بعد فرمایا الانين و منت سما النيل الالات اس میں ایمان بالقرآن کا حکم ہے مگر اس کو صرف ماننا ہی کافی نہیں بلکہ اسکے ، ہر حکم کو اپنے اوپر حاکم بنانا ضروری ہے.اس سلسلہ میں میں نے احباب کو یہ نصیحت کی نفی کہ قرآن کریم نے عورتوں کو حصہ دینے کا حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور چند سال ہوئے اس سالانہ پر میں نے احباب سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر اس کا اقرار کریں اور اکثر نے کیا بھی تھا مگر میرے پاس لنکا میں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی نہ صرف یہ کہ خود حصہ نہیں دیتے بلکہ دوسروں سے لڑتے ہیں کہ تم بھی کیوں دیتے ہو.مسلمانوں نے جب عورتوں سے یہ سلوک کیا تو خدا تعالٰی نے ان کو عورتیں بنا دیا ، انہیں ماتحت کر دیا اور دوسروں کو ان پر حاکم کر دیا...لیکن اگر تم آج عورتوں کو ان کے حقوق دینے لگ جاؤ اور مظلوموں کے حق قائم کرو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اترینگے اور تمہیں اٹھا کر اہ پر لے جائیں گے.نہیں عورتوں کے حقوق ان کو ادا کرو.بزرگان دین کا احترام اس کے بعد ایان سامانی میں نبی کا کم ہے اس کے بعد من جس کے معنی ہیں کہ دوسروں کے بزرگوں کا جائز ادب اور احترام کرو گویا اس میں صلح کی تعلیم دی گئی ہے پھر اس میں یعنی تعلیم ہے کہ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریقی اختیار کرد.یقین بالآخرة (آخری چیز بینین بالا کرت ہے.اس کے معنی دو میں ایک تو مرنے بالآخرت کے بعد زندگی کا یقین ہے.بعض دفعہ انسان کو قربانی کرنی پڑتی ہے گر ایمان بالغیب کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا.اس وقت اس بات سے ہی ہمت بندھتی ہے کہ میری اس قربانی کا نتیجہ اگلے جہان میں نکلے گا، پھر اس کے معنی بھی ہیں کہ انسان ایران رکھے کہ خدا تعالیٰ مجھ پر بھی اسی طرح کلام نازل کر سکتا ہے جس طرح اس نے پہیلوں پر کیا اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ سے محبت وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میری محبت کا صلہ مجھے دے سکتا ہے جس کے دل میں یہ ایمان نہ ہودہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا.
۶۹ پس یہ چھ کام میں جو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے ذمہ ہیں انکو چاہیے کہ پوری کوشش کرکے جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تاکہ ان کا ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں الہ تعمال کا مقرب بنا دے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لیے میں نے اس تنظیم کی بنیا د رکھی ہے." نماز با جماعت کا قیام اور انصار اللہ نماز باجماعت کے بارے میں انصاراللہ کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی نے نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۵- احسان رجون رامشی میں فرمایا :- ۱۹۴۲ ء آج سے میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض مقرر کرتا ہوں کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی کریں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دکان کھلی نہ رہے، میں اس کے بعد ان لوگوں کو مذہبی مجرم سمجھوں گا جو نماز با جماعت ادا نہیں کرینگے اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قومی مجرم سمجھوں گا کہ انھوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا ہم پر اس شخص کی کوئی ذمہ داری نہیں ہو سکتی جو بے نماز ہے اور ایسے شخص کا یہی علاج ہے کہ ہم اس کے احمدیت سے خارج ہونے کا اعلان کر دینگے مگر تو نظم میں وہ بھی مجرم سمجھے جائینگے اگر انھوں نے لوگوں کو نمازہ یا جماعت کے لیے آمادہ نہ کیا وہ صرف یہ کہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہم نے لوگوں سے کہ دیا تھا.اگر لوگ نماز نہ پڑھیں تو ہم کیا کریں ، خدا نے ان کو طاقت دی ہے اور ان کو ایسے سامان عطا کئے ہیں مین سے کام لے کر وہ اپنی بات لوگوں سے منوا سکتے ہیں.پیس کوئی وجہ نہیں کہ لوگ ان کی بات نہ مانیں.وہ انہیں نماز با جماعت کے لیے مجبور کر سکتے ہیں اور اگر وہ مجبور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اخراج از جماعت کی رپورٹ کر سکتے ہیں اور مجھے ان کے حالات سے اطلاع دے سکتے ہیں.میں آج سے خود اپنے طور پر بھی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اس کام کی نگرانی کروں گا اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انھیں بھی اپنے بچوں اور نو جوانوں اور عورتوں اور مردوں کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہیئے اخبار الفضل بے سر احسان کا جون ۱۳۲۱ حش
اور اگروہ اس بات میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو وہ ہرگزہ اللہ تعالی کے حضور سرخرو نہیں ہو سکتے چاہے وہ کتنے ہی چندے دیں اور چاہے کتنے ریزولیوشن پاس کر کے بھجوا دیں " ساری جماعت میں اور بالخصوص آئندہ نسل میں نیکی اور تقویٰ کے قیام کے متعلق تقویٰ کا قیام اور انصار الله حضرت امیر المومنین نے اپنے تخطبه جمعه فرموده ۵ صلح / جنوری ۱۳۳۳ هش میں فرمایا : - ") ۶۱۹۴۳ ایک طرف ہماری جماعت کو نیکی، تقوی ، عبادت گذاری ، دیانت ، راستی اور عدل وانصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہیئے کہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں.اسی فرض کو پورا کرنے کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی تحریکات جاری کنی میں گر میں نہیں کر سکتا کہ ان میں کہاں تک کامیابی ہوگی، بہر حال یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا جو میں نے اختیار کیا اور ان سب کا یہ کام ہے کہ نہ صرف اپنی ذات زنا نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور جب تک حتمی طور پر جبر و ظلم ، تعدی بد دیانتی، جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹا دیا جائے اور جب تک ہر امیر غریب اور چھوٹا بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام یہی نہیں کہ خود عدل وانصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں سے بھی کرائے خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہوں ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں قائم کر سکتی.نہیں کر سکتی...سی طرح اگر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی ترقی نہ کرے تو دنیا فوائد حاصل ہو منظم تبلیغ کی ضرورت ہمارا سب سے اہم فرض ہے کہ اس پیغام کو چھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں...ہمارے لیے سال میں دو تین بلکہ چار ہزار احمدی بنانا تو افسوس کی بات ہونی چاہیے.جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ الگ نہ ہو کہ اس نے ہر ایک اپنے قریب بلکہ بعید کے شخص کو بھی جماعت میں داخل کرنا ہے اور جب تک لوگ افواج در اخراج اختبار الفضل الار تبلیغ / فروری ۱۳۲۲ میش "
جماعت میں داخل نہ ہوں ہماری حیثیت محفوظ نہیں ہوسکتی اور ذمہ داری ختم نہیں ہوسکتی پس میں ان دونوں امور کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.ہر ضلع میں ہمارے جلسے ہونے چاہئیں کوشش کی جائے کہ کم سے کم ہر سال برتحصیل میں ہمارا جلسہ ضرور ہو، پھر اس کے ساتھ انفرادی تبلیغ کو بھی منظم کیا جائے.خصوصیت سے انصلاع گورداسپور اسیا لکوٹ اور گجرات میں ان تینوں ضلعوں کی طرف خصوصیت سے توحید کی جائے......میں چاہیئے کہ دوست سستی اور غفلت کو دور کریں، تین چار ماہ کے اندر اندر تحصیل یا اپنے علاقے کے مرکز احمدیت میں جلسہ کر کے خور کیا جائے کہ کسی طرح اور کن ذرائع سے اس علاقہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جا سکتا ہے.انصار الله اشاعت اسلام اور اعمال خیر کی ترویج میں مشغول ہوں حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۹ تبوک استمبر بشر میں فرمایا :- ۱۹۴۴ء میں نے جماعت کو کچھ عرصہ سے تین مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ جماعت کا سارا زور اور اس کی طاقت اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں صرف ہو، اسلامی عقائد کے قیام میں وہ مشغول ہو جائے اور اعمال خیر کی ترویج میں اس کی تمام مساعی صرف ہونے لگیں، جماعت کے یہ تین اہم ترین ملتے انصار الله انعدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ ہیں.یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جس قسم کا کوئی آدمی ہوتا ہے اسی قسم کے لوگوں کی وہ نقل کرنے کا عادی ہوتا ہے.بوڑھے عام طور پر بوڑھوں کی نقل کرتے ہیں اور نوجوان عام طور پر نو جوانوں کی نقل کرتے ہیں اور بچے بچوں کی نقل کرتے ہیں.....بھی حکمت ہے جس کے ماتحت میں نے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو.بچے بچوں کی نقل کریں، نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں اخبار الفضل اار اخاء / اکتوبر ۱۳۷۳ اش ۱۹۴۴ء
کی نقل کریں جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ پر دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں.وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں.وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں.وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھکر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں میں نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دوسرے وہ جو نقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں خفتہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہ ہو گا.جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کریگا ، نوجوان نوجوان کو نصیحت کریگا اور بچہ بچے کو نصیحت کریگا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں کجھ سے چھوٹا یا بڑا ہے.وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا، مگر یہ تغیر اس صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہو جائے اور کوئی بچہ کوئی نوجوان اور کوئی بوڑھا ایسا نہ رہے جو اس نظام میں شامل نہ ہو.اگر جماعت کے چند بوڑھے اس مقصد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر جماعت کے چند نوجوان اس نظام کو جاری کرنے کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے پیند بچے اس امر کی اہمیت کو سمجھ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان چند نوجوانوں ، چند بوڑھوں اور چند بچوں کی وجہ سے اس نظام کے وسیع اثرات ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں بیداری پیدا ہوسکتی ہے ، ساری دنیا میں اس تحریک کو قائم کرنے ، ساری دنیا کو بیدار کرنے اور ساری دنیا کو اس نظام کے اندر لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس قدر منظم کریں کہ وہ یقینی اور حتمی طور پر کر سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم کا کام اس کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر لیا ہے......یہی حال انصار اللہ کا ہو کہ وہ اپنے سے آپ کو اس قدر منظم کرلیں، اس طرح ایک نظام میں اپنے آپ کو منسلک کر لیں کہ وہ مسرت کے ساتھ یہ اعلان کر سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم پورے طور پر مکمل کر لی ہے، اب
ہم میں اس تنظیم کے لحاظ سے کسی قسم کی خامی اور نقص باقی نہیں رہا.....تب وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ دوسروں کی اصلاح کریں اور تب دنیا مجبور ہوگی کہ ان کی باتوں کو سنے اور ان پر فرائض کی ادائیگی میں مجنونانہ کوشش ہماری جماعت کے سپرد ی کام کیا گیا ہے.کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے اتمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے، اتمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے، تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اور اس کا تو مکمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لیے تجویز کیا گیا ہے...اس اندرونی اصطلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لیے میں نے قدام الاحمدیہ انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اس وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اس اصل کو مد نظر دیکھیں جو حيث ما كُنْتُمُ نَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ میں بیان کیاگیاہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر ایک بات کیلئے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیا ہے جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن خدام الاحمر اپنے کام میں نہیں لگے رہتے.جب تک رات اور دن اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے تمام اوقات صرف نہیں کر دیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر سکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کر سکتے.
پس وہ وقت آنیوالا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکوئی اور اسلامی اصول کی برتری و نمایاں طور پر پیش کرنا پڑیگا ، اسی طرح انگلستان اور امریکہ اوروس کے سمجھدار طبقہ کو اسلام کی ہر تعلیم کی برتری بنا سکیں گے اگر یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو، جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لیے تیار ہوں ، جب کثرت سے ہمارے پاس مبلغین موجود ہوں اور جب ان مبلغین کیلئے ہر قسم کا سامان ہیں میتر جو اسی طرح یہ کام اس وقت ہو سکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منظم ہوں اور کوئی ایک مرد کبھی ایسانہ ہو جو اس تنظیم میں شامل نہ ہو.وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لیے کہ ہم نے دنیا میں اسلام او را احمدیت کو قائم کرتا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں میں طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے توجہ ہٹا کر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو، وہ بھول جاتا ہے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے اگریم جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر میں اور اگر ہماری جماعت کا ہر فرد دن اور رات اس کی مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً اللہ تعالٰی ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کر دیا..اگر ہماری ساری جماعت اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے کھڑی ہو جائے اور دن رات اس کام میں لگ جائے وہ اپنے آرام کو نظر انداز کر دے، اپنی سہولت کو پس پشت پھینک دے اور دیوانہ وار اس کام میں مشغول ہو جائے تو گو ہماری تعداد تھوڑی ہے ہمارے پاس اور اقوام کے مقابلہ میں سامان بہت کم ہے مگر یقیناً اس مجنونانہ کوشش کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہو جائیگا اور ایک بڑا انقلاب الٹی ہا تھوں سے ظاہر ہو گا.“
تنظیم انصاراللہ کا مقصد جماعت میں بیداری پیدا کرنا ہے حضرت امیر المومنین خلیفہ انسیح الثانی بنانے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲ اخاء در اکتوبر مین میں فرمایا کہ اور ۱۹۴۴ میں جو بیداری ذیلی تنظیموں کے قیام سے پیدا کرنا چاہتا تھا وہ ابھی نہیں ہوئی.رفتار ترقی غیر تسلی بخش ہے ، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان میں بیداری پیدا کر کے کام کرنے کا ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا جائے اور ان میں ایک نئی روح پھونک دی جائے تاکہ وہ افراش جلد تو پوری ہوں جن کے لیے تنظیمیں قائم کی گئیں پینا نچہ حضور نے فرمایا:...میرا مقصد ان جماعتوں کے قیام سے ہر فرد کے اندر ایک بیداری پیدا کرنا تھا مگر متنی بیداری خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہوئی ہے وہ ہرگزہ کافی نہیں بلکہ کافی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں تاکہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہوگی لوگوں کے سامنے آجائے اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے گھر میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لیے صحیح طریق اختیار نہیں کرینگے اس وقت تک انھیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی، مثلاً میں نے انھیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لیے روپیہ جمع کریں اور اسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں مگر میری اس ہدایت کی طرف انھوں نے کوئی توجہ نہیں کی.اب میں دوسری بات انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں گو غالبا میں ایک دفعہ پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ اگر انہیں مالی مشکلات ہوں تو سلسلہ کی طرف سے کسی حد تک انہیں مالی مدد بھی دی جا سکتی ہے گھر بہر حال پہلے انہیں خود عملی قدم اُٹھانا چاہیئے اور روپیہ خوب کر کے اپنے کام کی توسیع کرنی چاہئیے.میں سمجھتا ہوں بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گر کر اب ایک ایسے حص مر ہی ہے له الفضل ، ار نبوت مرنومبر سے
64 گذر رہے ہیں میں میں دماغ تو سوچنے کے لیے موجود ہوتا ہے مگر زیادہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت و مشقت کے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے.اس وجہ سے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام دینے کے لیے کچھ نو جوان سیکرٹری رچالیس سال کے اوپر کے گر زیادہ تر کے نزہوں ، مقرر کریں جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور وہ دوڑنے بھاگنے کا نام آسانی سے کر سکیں تاکہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں، میں سمجھتا ہوں اگر وہ چالیس سال سے بچپن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو انہیں ضرور اس عمر کے لوگوں میں سے ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی پھلتے جیسے ان کے دماغ چلتے ہیں....اگر وہ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سابق سیکرٹریوں کے ساتھ بعض نوجوان منقرر کر دینے چاہئیں ، چاہے نائب سیکر ٹری بنا کر یا جائنٹ سیکریٹری بنا کہ تا کہ انصار اللہ میں بیداری پیدا ہو اور ان پر غفلت اور جمود کی جو حالت طاری ہو چکی ہے وہ دور ہو جائے.ورنہ یاد رکھیں عمر کا تقاضا ایک قدرتی چیز ہے...میں سمجھتا ہوں انصار اللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گذر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہاں جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور تیب کوئی انسان اگلے جہاں جا رہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندہ ہو، اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زاد راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنیوالا ہے جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق درست ہو جائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا جبیں قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہیئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہو سکتا.نوجوان تو خیال بھی کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سے خدمت خلق میں کو تاہی ہوئی تو انصار الله اس کام کو ٹھیک کر لیں گے مگر انصارالہ کس پر انحصار کر سکتے ہیں وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیں گے اور اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے.وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرار ز دیگے اور وہ اگر اس حقیقت سے اغماض کر لیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر
زندہ کرنا ہے تو انصار اللہ کی عمر کے بعد اور کون سی عمر ہے میں میں وہ یہ کام کرینگے، انصار اللہ کی نظر کے بعد تو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے اور ملک الموت اصلاح کے لیے نہیں آتا، بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لیے آتا ہے جب کوئی انسان سزا یا انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.....یا د رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دار و مدار نظار توں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی نبی نہیں ہوسکتی.یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا.ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا.ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہو گا.خدا تعالے نے دنیا کو گول بنا کہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات خاص ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے یمی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے.در حقیقت یہ پر تو میں تقدیر اور نذیر کے کبھی عوامہ سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام ہوتا ہے اور عوام جاگتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاگتا ہے اور عوام بھی جاگتے ہیں اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے ، وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لیے فتح کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لیے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لیے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ شہر کی طرح گر جیتی اور سیلاب کی طرح پڑھتی چلی جاتی ہے.ہر روگ جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے.ہر جماعت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرا دیتی ہے.ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف.اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں یا عوام سو جاتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظافتہ سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں.تب آسمان سے خدا تعالی کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کرلیتا ہے.یہ قانون ہمارے لیے بھی جاری ہے.جاری رہے گا اور کیمیا بدل نہیں سکے گا.پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمارا نظام بھی بیدار ہو اور ہمارہ عوام بھی بیدار رہیں اور در حقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے.خدا کا مطیع ہم میں
S قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے.اس لیے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہیے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں.پس میں اس نصیحت کے ساتھ انصارالله کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں اور خدام کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں...اگر یہ دونوں یعنی خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ مل کر جماعت میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی وقت ہمارا نظام سو جائے تو یہ لوگ اس کی بیداری کا باعث بن جائیں گے اور اگر یہ خود سو جائیں گے تو نظام ان کو بیدار کرتا رہے گا.حضرت امیر المومنین کے مندرجہ بالا خطبات و تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ انصار اللہ کی تنظیم اس غرض خلاصہ کے لیے قائم کی گئی ہے کہ وہ جماعت میں نیکی و تقویٰ پیدا کرے، اسلامی عقائد کو ذہن نشین کرائے ، اعمال خیر کی ترویج میں کوشاں ہو اور اچھی تربیت کے سامان پیدا کرے.نماندوں کے قیام کی طرف خصوصی تو جہ کرے.قرآن کریم کے سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کرے اور احکام شریعت کی حکمتیں لوگوں پر واضح کرے.- اجتماعی اور انفرادی تبلیغ بالخصوص رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کی طرف متوجہ ہو.خدمت خلق کے کاموں میں حصہ ہے.قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے اسے ترقی کے میدان میں آگے بڑھائے.- جماعت میں بیداری پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کی کوشش کرے اور اس غرض کے لیے دوسری تنظیموں سے تعاون کرے تا کہ جماعتی اتحاد میں کوئی کہ ختنہ واقع نہ ہو.Stake
69 چھٹا باب مجلس انصاراللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں جماعت میں ذیلی تنظیموں کے قیام سے قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا مرکزی جماعت میں کیا مقام ہے اور ان کا باہمی کیا تھلتی ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعود نے اپنے خطیہ تبعد فرمودہ الہ گرونا جولائی ۱۳۲۳ پیش میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس تعلق کو باحسن الوجوہ ظاہر کرتا ہے حضور فرماتے ہیں:.١٩٤٥ خدام الاحمدی اور انصار الہ کے قیام کی غرض جماعتی استحکام ہے کچھ دن ہوئے میرے پاس شکا میت پہنچی...کہ خدام الاحمدیہ کے چندہ کے لیے جب نوجوان انصار اللہ کے پاس گئے تو انھوں نے نہ صرف چندہ دینے سے انکار کیا بلکہ قسم قسم کے طعنے بھی دیئے، تمہارا ہمارے ساتھ کیا واسطہ ہے تم خدام ہو ہم انصار میں تم مدام ہمارا کیا کام کرتے ہو کہ جس کے بدلے میں ہم تمہیں چندہ دیں.اگر یہ رپورٹ درست ہے تو جان تک چندہ کا سوال ہے میں خدام سے یہ کہوں گا کہ اس میں برا منانے کی وجہ ہی کیا تھی...جبکہ خدام الاحمدیہ کے ممبروں میں سے اسی فیصد نوجوان ایسے ہیں جو ملاز میں رکھتے ہیں یا تجارتی کاروبار میں مصروف میں تو ان کو اپنے کاموں کے لیے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی....میرے نزدیک نوجوانوں کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے.آخر وجہ کیا ہے کہ انصار کے پاس جائیں اور ان سے اپنے لیے چندہ مانگیں.....میرے نزدیک انصار اللہ سے چندہ مانگا کہ له الفضل ۳۰ر و نام جولائی ۳۲۳ میش (مشعل راه ) VAY
خدام الاحمدیہ نے غلطی کی.لیکن اگر وہ گئے ہی تھے تو انصار کا جواب بھی مجھے اس کشمیری کا واقعہ یاد دلاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے.اعدام الاحمدیہ کو د خان سے آنیوائی پر یوں کا نام نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کیا اور خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں اور ان میں قومی روح پیدا کریں، ان کے سپرد یہ کام نہیں گو اخلاقا یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ بحیثیت خدام کے بھی لوکل تخمین کے ساتھ مل کر کام کریں.ہرا محمدی جو چالیس سال سے اوپر یا چالیس سے نیچے ہے وہ مقامی انجمن کا بھی مہبر ہے.اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں.پس خدام الاحمدیہ کے یعنی نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے عمیر نہیں ہیں بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعہ کا نام مقامی انجین ہے...اس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اس میں اختلاف کی کونسی بات ہے یا کس بنا پر خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے....پس وہ جنھوں نے کیا کہ ہم انصار کو تم خدام سے کیا فرض ہے، انھیں سوچنا چاہیئے تھا کہ خدام الاحمدیہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ ان کے اپنے بیٹوں کا نام ہے میں جب انھوں نے کہا کہ ہمیں خدام الاتی ہے.سے کیا غرض تو دوسرے الفاظ میں انھوں نے یہ کہا کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہمارے بیٹے جیتے ہیں یا مرتے ہیں گھر کیا کوئی بھی معقول انسان ایسی بات کرتا ہے.خدام الاحمدیہ کی جماعت تو صرف نوجوانوں کی اصلاح کے لیے قائم کی گئی ہے.ایسی صورت میں وہ کون سے ماں باپ ہیں جو یہ کہ سیکھیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے.مجھے انصار اللہ کے جوابی پر کشمیری کی مثال یاد آگئی تھیں سے کسی نے کہا میاں کشمیری تم یہاں (دھوپ میں ) کیوں بیٹھے ہو فلاں جگہ سایہ ہے اس کے نیچے بیٹھ جاؤ تو کشمیری صاحب نے سنتے ہی ہاتھ پھیلا دیا اور کہا اگر میں وہاں بیٹھ جاؤں تو تم مجھے کیا دو گے یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ کیا کام کرتے ہیں میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ جہانتک میرا تجربہ ہے اس وقت تک انصار نے بہت کام کیا ہے، لیکن خدام نے ان سے زیادہ کام کیا ہے.گو وہ اپنے کام کے لحاظ سے اس حد تک نہیں پہنچے میں مزنگ میں انہیں پہنچانا چاہتا ہوں مگر بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انصار اللہ نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور ان کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدا
کام بھی پیش نہیں کیا.گو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انصار کی تنظیم خدام کے کئی سال بعد شروع ہوئی ہے.میں نے ان کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے مگر افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی تک اپنے فرائض کو نہیں سمجھا.میں نے کہا تھا کہ چونکہ بوڑھے آدمی زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لیے بڑی عمر والوں کے ساتھ ایسے سیکرٹری مقریہ کہ دیئے جائیں جو اکتائیں یا بیالیس سال کے ہوں تاکہ ان میں بھی تیزی پیدا ہو....بہر حال انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے.خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصار اللہ نمائندے میں تجربہ اور حکمت کے اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی ہیں مجھے تعجب ہے انصا اللہ کے اس جواب پر اور تعجب ہے خدام الاحمدیہ کی اس کم ہمتی پر..میں خدام کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف خدام الاحمدیہ کے عمبر نہیں بلکہ مقامی جماعت کے بھی ممبر ہیں.خدام الاحمدیہ کا کام لوکل انجین کے کام کے علاوہ زائد طور پر ان کے سپرد کیا گیا ہے.خدام انصار کے زعما لوکل نہین کے پریذیڈنٹ سے تعاون کریں پس قومی المین کے عہدہ داروں خواہ وہ سیکرٹری ہوں یا پریذیڈنٹ انکے احکام کی پیروی مہر خادم کے لیے ضروری ہے البتہ کوئی سیکرٹری یا پریذیڈنٹ جماعتی طور پر خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم دینے کا مجاز نہیں.وہ فرداً فرداً انہیں کر سکتا ہے کہ اڈ اور فلاں کام کر دونگر لوکل انجمن کا پریزیڈنٹ یہ نہیں کر سکتا کہ وہ غلام کو بحیثیت خدام یہ کیسے کہ آو اور فلاں کام کرو.اسی طرح انصارہ اللہ کو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر ہر حال وہ لو کل انجمن کا ایک حصہ ہیں ، ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا ، ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر گن کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتا ہے.انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجین کے پریذیڈنٹ کیساتھ پورے طور پر تعاون کریں.بہر حال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار الله یا خدام الاحمد کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا کہ آؤ انصار.یہ کام کر دیا او نظام کام کرد.رکن نے وہ یہ تو کہ سکتاہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لیے آؤ اور فلاں کام کر دیگر دہ یہ نہیں کہ سکتا
ئی نہیں کی پریڈ یونٹ کے احکام کی پیروی نعدام انصار کے لیے کے احکام مقامی المین ضروری ہے تخدام کو خدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے مگر چونکہ لوکل انہیں ان دونوں پر مشتمل ہوتی ہے انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لیے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصارکو کوئی حکم نہ دے سکے گردہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہر عمر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں...خدام الاحمدیہ اور انصار ات کو دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بنایا گیا بلکہ ایک کام اور ایک مقصد کے لیے ان کے سپرد دو علیحدہ علیحدہ فرائض کئے گئے ہیں اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھر میں سے کسی کے سپرد خدمت کا کوئی کام کر دیا جاتا ہے اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کا کوئی مستقل وجود گھر میں پیدا ہوگیا ہے، بلکہ وہ بھی جانتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ گھر کا ایک حصہ ہے.کام کو عمدگی سے چلانے کے لیے اس کے سپر د کوئی ڈیوٹی کی گئی ہے.اسی طرح خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں مقامی انجمن کے بازو ہیں اور مشخص کو خواه و ه خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کا ایک فرد سمجھنا چاہیئے ، میں نے بتایا ہے کہ جب اختلاف ہو اس وقت پریذیڈنٹ پر اختلاف کو دور کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر ضلع میں جھگڑا ہو توضلع کے پریزیڈینٹ کا اشہری جھگڑا ہو تو شہر کے پریذیڈنٹ کا کا فرض ہے کہ وہ دونوں فریق کو جمع کریں اور ان کے شکوے شنکر پا رہی اصلاح کی کوشش کریں اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو سکے تو رہ لوکل انجین کے سامنے معاملہ رکھیں پھر لوکل انجین کا فرض ہے کہ وہ لوکل مجلس انصار اللہ اور وکل میں خدام الاحمدیہ کا ایک ایک نمائندہ بلوائے اور اس طرح ملا کر جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرے اور در حقیقت ہماری فرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو یہ فرض نہیں کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو.
چار دینی تنظیمیں عمارت کی چار دیواروں کی طرح میں میری عرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو مکمل کر دوں، ایک دیوار انصار اللہ ہیں.دوسری دیوار خدام الاحمدیہ اور تعمیری اطفال الاحمدیہ اور پو تھی لبنات اما ء اللہ ہیں.اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسرے سے علی علیہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی.عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چاروں دیوار میں آئیں میں جڑی ہوئی ہوں اگر وہ مسیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی بھی قیمت نہیں رکھتیں......پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہیے.اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہو تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی.میرے سامنے بھی وہ جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑیگا کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لیے مہیا کئے ہیں، اس لیے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کر دیا جائے : اے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا باہمی تعلق حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیم القرآن کے منصوبے کے سلسلہ میں قناعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے باہمی تعلقی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ در شهادت / اپریل ۳۳۵ ایمش ۱۹۶۶ء میں ارشاد فرمایا : - ه اس سلسلہ میں میں یہ کہانی ضرور میں سمجھتا ہوں کہ بعض جگہ سے یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ گو ہماری بیبا عت خدام الاحمدیہ کے سپرد نہ کی گئی تھی لیکن انھوں نے جماعتی نظام سے علیحدہ له الفضل ٣٠ - جولائی ۱۹۹ 1444 له الفضل ۱۳- شہادت کہ اپریل ۱۳۲۵ ش ۱۹
قرآن کریم سکھانے کا اپنے طور پر انتظام کر دیا ہے اور وہ جماعت سے تعاون نہیں کر رہے...خدام کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو طریق انھوں نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں ہے.جس جگہ یا علاقہ میں قرآن کریم پڑھانے کا کام ٹیکس انصار اللہ کے سپرد کیا گیا ہے.اس علاقہ کی جماعتوں سے میں امید رکھتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجلس انصار اللہ سے پورا پورا تعاون کریں گی اور وہ مقامات جماعتیں یا اضلاع جہاں قرآن کریم کی تعلیم کا کام جماعتی نظام کے سپرد کیا گیا ہے وہاں جھانک قرآن کریم پڑھانے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے.کیونکہ یہ کام ان کے سپرد نہیں کیاگیا، تمام دوستوں کو انصار میں سے ہوں یا خدام میں سے جوان ہوں یا بڑی عمر کے یہ بنیادی بات یاد رکھنی چاہیئے کہ احمدی ہونے اور انصارہ یا خدام کے رکن ہونے میں بڑا فرق ہے.ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور بڑی وسیع ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حضور کے نشا، اور ارشاد کے تحت اور پھر بعد میں حضور کے خلفاء کے نشا اور ارشاد کے ماتحت تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لیے ہو سکیمیں تیار کی جائیں ہر احمدی اپنا سب کچھ قربان کر کے ان سکیموں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا اس فیصلہ کا نفوذ اس دنیا میں ہمیں جلد تر نظر آجائے.....یہ المی فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے زمین پر نافذ ہو کر رہے گا....لیکن اس راہ میں انتہائی قربانی پیش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.یہ کام جو ایک احمدی کے سپرد ہے.احمدی نوجوان کے بھی ، احمدی بوڑھے کے بھی ، احمدی مرد کے بھی، احمدی عورت کے بھی ، احمدی بیچے کے بھی.اس وسیع کام کا ایک حصہ جو شاید اس کام کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو، مجالس خدام الاحمدیہ انصار الله، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا تاکہ ان مختلف گروہوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی جاسکے کہ وہ اس ذمہ داری کو کیا حفظہ ادا کر سکیں جو ایک احمدی کی حیثیت سے ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.میں تمھیں خدام الاحمدیہ یا ابلیس انصار الله کارکن ہونے کی حیثیت سے تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے اس محدود
۸۵ ذمہ داری کو ٹھیک طرح نباہ لینے کے بعد اگر کوئی رکن خوش ہو جاتا ہے کہ تینی ذمہ دار کی حیثیت احمدی ہونے کے اس پر ڈالی گئی تھی وہ اس نے پوری کر دی تو وہ غلطی خوردہ ہے...اسی طرح اگر جوانی کے جوش میں یا اپنے تجربہ کے زعم میں وہ اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اچھا کام نہیں کرتا.....حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصار الله کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے ایک محدود کام محدود دائرہ عمل میں ان تنظیموں کے سپرد کیا ہے، جماعتی نظام کو میں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے کاموں میں دخل دے، کوئی عہدیدار پریذیڈنٹ ہو یا امیر امیر ضلع ہو یا امیر علاقائی.اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدام المیریہ کے کام میں دخل دے یا انہیں حکم دے لیکن میں اجازت دیتا ہوں کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو وہ ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ تم یہ کام کرو.درخواست کرنے کی اجازت دینا تو دراصل امراء کو غیرت دلانے کے لیے تھا تا وہ اپنی تنظیم کو اس حدنگ بہتر بنائیں کہ ان کو کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنی پڑے، لیکن انھوں نے اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور جیب بھی کوئی جماعتی کام ان کے سامنے آیا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ جماعتی نظام سے کام لیتے آرام سے مجلس خدام الاحمدیہ کے مقامی قائد کو بلایا اور ان سے درخواست کی کہ مہربانی کرکے یہ کام آپ کر دیں اور اس طرح وہ جماعتی نظام کو کمزور کرنے کا موجب ہوئے.اس لیے آج سے ان کا یہ حق ہی واپس لیتا ہوں.جماعت کا کوئی عہد یدار اب اس بات کا مجازہ نہیں ہوگا کہ وہ مجالس خدام الاحمدیہ یا مجلس انصاراللہ سے کسی قسم کی کوئی درخواست کرے.حکم وہ دے نہیں سکتا وہ پہلے ہی منع ہے.درخواست کی اجازت اب واپس کی جاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ جماعتی کام انھوں نے جماعتی نظام کے ذریعہ سے ہی کروانے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ سے کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنا ہوگی، فی الحال میں اس اجازت کو صرف ایک سال کے لیے واپس لیتا ہوں پھر حالات دیکھ کر فیصلہ کر سکوں گا.
جماعتی عہد یداروں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف احمدی ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص و محمد و و ذمہ داریاں بطور رکن مجلس خدام الا تمدید یا بطور رکن مجلس انصار اللہ ان پر عائد ہوتی ہیں میں بڑی وضاحت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعتی کام ہر حال اہم ہیں.اگر امیر جماعت یا پریذیڈنٹ بحیثیت احمدی کے انہیں کوئی حکم دے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اس حکم کو بجالائیں خواہ اس حکم کی بجا آوری کے نتیجہ میں انہیں مجلس خدام الاحمدیہ کے کسی افسر کی حکم عدولی ہی کیوں نہ کرنی پڑے.سرکشی توکسی صورت میں بھی جائز نہیں، لیکن انہیں چاہیئے کہ اپنی تنظیم کو اطلاع دے دیں کہ پریذیڈنٹ یا امیر نے میرے ذمہ فلاں کام لگایا ہے اس وقت مجھے وہ کام کرنا ہے اور اس وقت آپ نے ایک دوسرا کام میرے ذمہ لگایا تھا ، میں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا وہ کام اس وقت نہیں کر سکتا........بهر حال جماعتی کام کو ذیلی تنظیموں کے کام پر متقدم رکھنا ہوگا." انصار اور بچوں کی تربیت بچوں کی تربیت کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ موده ۱۹ ہجرت سرمئی ا پیشی میں فرمایا :- " اسی طرح میں انصار کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کی تربیت نہایت ضروری چیز ہے اور ان کی نگرانی نہ کرنا ایک خطرناک غلطی ہے.آخر خدام کوئی غیر تو نہیں ہیں.انصار کی اپنی ہی اولاد میں گھر بجائے اس کے کہ وہ ان کو بچوں کی طرح سمجھائیں الٹا اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ، گویا انہیں اپنا بیٹا یا اپنا بھائی بھول جاتا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیتے له الفضل ، ار تبوک ۱۳۳۰ بهش رستمبر ۱۹۷۷ء
AL ہیں کہ خدام میں یہ نقص ہے اور خدام میں وہ نقص ہے ، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدام ہمارے ہی بیٹے ہیں.خدام کوئی آسمان سے تو گرے نہیں.وہ ان کی اپنی اولادیں ہیں.وہ احمدی محلوں میں رہنے والے نیچے ہیں اور خدام کے باپ یا چچا انصارہ ہیں پیپس خدام الاحمدیہ کو بھی اپنے کاموں کا جائزہ لینا چاہیے اور ان نقائص کو دور کرنا چاہیئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوتا ہے اور انصار کو بھی خدام کے ساتھ تعاوات کرنا چاہیے
ساتواں باب مجلس انصاراللہ کا ایک مجبوری دور ۱۹۴۵ء مجلس انصاراللہ مرکز یہ قادیان کے ریکارڈ کے مطابق امیش تک مجلس انصار اللہ کے تمام کام حضر مولوی شیر علی صاحب کی صدارت میں بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام پاتے رہے ، اس کے بعد ملکی حالات بڑی سرعت سے بدلنے لگے اور سارے ملک ہند میں سیاسی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت طاری ہوگئی.اس ملک کی دو بڑی قوموں مسلمانوں اور مہندوؤں میں سیاسی کشمکش جاری تھی اور نظر آرہا تھا کہ انگریز اس ملک پر زیادہ دیر تک حکمران نرہ سکیں گے اس متوقع خلا کو پر کرنے کے لیے ہندو اس امر کی کوشش میں تھے کہ نہام حکومت ان کے ہاتھ میں آجائے اور وہ ملک کے سیاہ و سفید کے واحد مالک ہوں ، اس کے برعکس مسلمان بحیثیت قوم یہ محسوس کرتے تھے کہ اگر اقتدار ہندؤوں کے ہاتھ میں منتقل ہو گیا تو ان کے مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا اس لیے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے ایک الگ خطہ زمین مختص کر دیا جائے ، جہاں وہ اپنے مذہبی اور و نیوی معاملات اپنی منشا کے مطابق آزادانہ طے کر سکیں اور بحیثیت آزاد مسلمان قوم زندگی بسر کر سکیں.اس سیاسی کشمکش کا اثر لاز ما جماعت احمدیہ پر بھی پڑا اور سلمان قوم کا فرد ہونے کی حیثیت سے جماعت احمدیہ نے بھی مسلم مفادات کی حفاظت کے لیے جس قدر ممکن تھا سعی کی اور اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائی اس کام کے لیے وقف کر دی.اس سیاسی بے چینی کے باعث جماعت کی توجہ ایک لحاظ سے بٹی رہی اور انصار اللہ کا مخصوص تعلیمی اور تربیتی پروگرام پوری طرح جاری نہ رہ سکا اور اس میں گونہ تعطل واقع ہوگیا یا تک که اگست ۱۹۴۷ء میں ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور پاکستان بحیثیت ایک آزاد مسلم مملکت کے دنیا کے نقشہ پر ابھرا، تقسیم ملک کے بعد میں انصار اللہ کے پہلے صدر حضرت مولوی شیر علی صا حبیب ۱۳در نبوت رونومیر میں کہ اس جہان فانی سے کوچ فرما گئے.علاوہ ازیں اس ہنگامہ خیز دور میں تنظیم انصار اللہ کے دو قائدین یعنی پچو ہدری فتح محمد سیال اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو حکومت ہند نے گرفتار کر لیا
اور وہ کئی ماہ قید میں رہے.جب چوہدری فتح محمد صاحبت رہا ہوکر لاہور پہنچے تو حضرت الصلح الموعود نے ان کو مجلس انصار اللہ کا دوسرا صدر مقرر فرمایا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امیر المومنین اس افراتفری اور بیکسی کے زمانہ میں بھی ذیلی تنظیموں کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز نہیں ہونے دینا چاہتے تھے انگر حالات اس وقت ایسے نامساعد تھے اور جماعتوں کے شیراز سے کچھ اس طرح بکھر گئے تھے کہ فوری طور پر کوئی نظیم اپنا کام نہیں چلا سکتی تھی.اس کے لیے کافی وقت کی ضرورت تھی.جب حالات کسی قدر بہتر ہو گئے تو حضرت امیر المومنین نے نے انصار اللہ کی مرکزی تنظیم میں کچھ تبدیلیاں کرنا ضروری تھا، چنانچہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بجائے حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبیثہ ناظر اعلی کو ماہ نبوت / نومبر 1 میٹ میں صدر تفلیس تجویز فرمایا اور مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ $1900.کی بجائے جو تقسیم ملک کے وقت قادیان میں ہی مقیم رہے اور تباعت قادیان کے مقامی امیر اور مرکزی امین احمدیہ قادیان کے ناظر اعلی مقرر ہوئے ، چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر کو نائب قائد عمومی بنایا.اسی طرح مولانا ابو العطاء صاحب جانند مری کو قائد تبلیغ اور مولوی احمد خان صاحب سیم کو نائب قائد تبلیغ مقرر فرمایا.اس دور میں مجلس کے مستقل دفتر کی تعمیر کی طرف کچھ توجہ ہوئی.حضرت امیرالمونین نے اس فرض کے لیے پہلے ہی سے جگہ مختص کر دی تھی، کچھ رقم بھی تعمیر کے لیے مد امانت میں جمع تھی اس لیے قائد صاحب عمومی کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ دفتر کی تعمیر کے لیے جگہ کی تعیین کرا کر اور نقشہ بنوا کر مجلس میں پیش کریں.اغلباً عالی مشکلات کے پیش نظر یہ کام تجاویز تک ہی رہا اور کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جا سکا.افسوس کہ اس دور سے متعلق مجلس مرکزیہ کی کارروائیوں کا ریکارڈ محفوظ نہیں رہا، اخبار الفضل میں وقتاً فوقتاً جو اعلانات ہوتے رہے ان سے پتہ لگتا ہے کہ ناخواندہ اور کم تعلیم یافتہ انصار کے لیے میں نے مندر جہ ذیل نصاب مقرر کیا اور اس کی تکمیل کے لیے کم اضاور اکتوبر نامیش سے آخر توی رستمی را میش ۱۳۳۰ ۱۳۳۷ لیے ا.1901 ینک کا وقت مقریہ کیا اور اس دوران مجالس اور ان کے عہدہ داروں کو یاد دہانیاں کرائی جاتی رہیں.جو اراکین بالکل ناخواندہ ہیں اور قرآن کریم ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے قاعدہ میسر نا القرآن مقر رکیا جاتا ہے، میعاد کورس و ماہ ہوگی، اس کے علاوہ زمانہ کا ترجمہ سیکھنے کے لیے دو ماہ کا وقت مقر کیا جاتا ہے.جو معمولی نوشت و خواند نہیں رکھتے، لیکن ناظرہ قرآن جانتے ہیں ان کے لیے نصاب میں ہوگا اردو کا قاعدہ اردو کی پہلی کتاب اور لکھائی اُردو کاپی نمبر ۱ ۲ یا اُردو حروف ابجد میعا د کورس ۶ ماه انماز کا رتبه
سیکھنے کے لیے میعاد ۲ ماه - مندرجہ بالا تعلیمی پروگرام کی ذمہ داری منتظم صاحبان تعلیم و تربیت اور زین پرڈالی گئی اوران کو با این ا گئی کو روزانہ نصف گھنٹہ اس کام کے لیے مقرر کیا جائے.حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ صلح رمجبوری اش میں تحریک ١٩٥٢ء جدید کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا.اگر تمہیں احمدیت اور اسلام سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حلقہ لینا تمہارے لیے ضروری ہے.اس ارشاد کے پیش نظر صدر میں انصار اللہ نے تمام انصار تو تنظیم کے عہدہ داروں کو متعدد بار توجہ دلائی کہ بحیثیت تنظیم انھیں اس کام کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہئیے کہ کوئی رکن انصار الله اس چندہ میں حصہ لینے سے رہ نہ جائے ، نہ صرف خود اس تحریک میں حصہ لیا جائے بلکہ دوسروں کو ترغیب و تحریص دلائی جائے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے.انفرادی بنگ میں اور اجتماعی زنگ میں بصورت دند اس کام کو کمیل تک پہنچا یا جائے اور اس بارے میں اپنی مسائل کی تفصیل اور اس کے نتائج سے مرکز کو مطلع کیا جائے.انفرادی تبلیغ کے پروگرام کو بھی منظم کرنے کی اس دور میں کوشش کی گئی.تمین تبلیغ اور زعماء انصارالله کو توجہ دلائی گئی کہ مین راکین نے سال میں پندرہ دن اپنے رشتہ داروں وغیرہ میں تبلیغ کے لیے وقف کئے ہیں.ان سے تبلیغ کا کام لیا جائے اور جن کے غیر احمدی رشتہ دار نہ ہوں ان کے لیے تبلیغ کا پروگرام بنایا جائے.تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اراکین کو توجہ دلائی گئی کہ وہ موسمی تعطیلات میں سے کچھ وقت اس کام کیلئے وقف کریں.
91 آٹھواں باب مجلدانصار اللہ کا چوتھا دور ماه افتاد راکتور سایش تک حضرت صاحبزادہ مرزا عزیزا محمد صاحب مجلس انصاراللہ کے صدر رہے.۱۹۵۴ ما دور نبوت کو تومیر کے پہلے ہفتہ میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس تنظیم کی قیادت ۱۳۳۳ بیش ۱۹۵۴ء میں تبدیلی کرنا مناسب سمجھا، چنانچہ مورخہ کے رنبوت کا تو میں اس کو خدام الاحمدیہ کے جو جو میں سالانہ اجتماع " کے موقعہ پر حضور نے فرمایا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد آب انصار اللہ میں پہلے گئے ہیں، ان کے متعلق میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ انصار اللہ کے مت ہوں گے.اگر چہ میرا حکم ڈکٹیٹر شپ کی طرز کا ہے، لیکن اس ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا ہے ورنہ تمہارا حال بھی صدر انجمین احمدیہ کی طرح ہی ہوتا.میں مجلس خدام الاحمدیہ کے باب میں ڈکٹیٹر شپ استعمال بارہ نہ کر تا تو تمہارا بھی یہی حال ہوتا.نوجوانوں کوئیں نے پکڑ لیا اور انصار اللہ کو یہ مجھے کر کر دہ بزرگ میں ان میں سے بعض میرے اساتذہ بھی ہیں چھوڑ دیا ، لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ خوردبین سے بھی کوئی انصار اللہ کا ممبر نظر نہیں آتا.نہیں ناصر احمد کوئیں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.لة الفضل اور تبلیغ و فروری امین سے اس سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مجلس تعدام الاحمدیہ کے نائب صدر تھے.11.سے حضور نے صدر" کا لفظ استعمال فرمایا.حضور کا اصل منشا نائب صدر یا فعال قائد کہنے کا تھا کیونکہ میں انصار اللہ کے صدر اس زمازمیں حضور خود تھے.
۹۲ ، وه فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہد یداروں کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں.اتین ماہ کے عرصہ میں خدام سے انصار اللہ میں جاکر ناصر احمد نے بھی کوئی کام نہیں کیا معلوم ہوتا ہے وہاں کی ہوا لگ گئی ہے ، اور پھر میرا مشورو ٹ کر انھیں از سر نو تنظم کریں پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ اجتماع کریں، لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہوگا.اس اجتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے.کبڈی اور دوسری کھیل میں ہوتی ہیں.انصار اللہ کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے یہ مندرجہ بالا اعلان کے بموجب تنظیم انصار اللہ کی قیادت کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے کے سپرد ہوا.اس سے قبل حضرت صاجزادہ صاحب موصوف ایک لیے عرصہ تک مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر اور نائب صدر رہے تھے اور انہیں مجالس چلانے کا وسیع تجربہ تھا.خدا تعالیٰ نے انھیں قیادت اور تقسیم کی غیر معمولی صلاحیتیں بخشی تھیں.انصار اللہ کی قیادت آپ کے سپرد کرنے سے حضرت امیر المومنین کا یہی منشاء مبارک تھا کہ اس تنظیم کو بھی خدام الاحمدیہ کی طرح فعال بنایا جائے اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونکی جائے.یہ انتخاب اس تنظیم کے حق میں غایت درجہ مفید اور بابرکت ثابت ہوا اور بہت جلد ایسا معلوم ہونے لگا کہ انصار اللہ بوڑھوں کی نہیں بلکہ نوجوانوں کی تنظیم ہے.آپ کے نائب صدر مقرر ہونے پر آپ کے ایک پڑانے رفیق کار محمد احمد حیدر آبادی نے ازراہ تفنن آپ کو مخاطب کر کے کہا.میاں صاحب اب آپ بھی بوڑھے ہو گئے ہیں.آپ نے برجستہ جواب دیا " میں بوڑھا نہیں ہوا بلکہ انصار اللہ جوان ہو گئی ہے.یہ جواب جہاں موقعہ کے لحاظ سے نہایت لطیف تھا وہاں حقیقت سے بھی بہت قریب تھا، ایک دنیا نے دیکھا کہ جو تنظیم اس سے قبل محض برائے نام تھی اور واقعی بوڑھوں کی چال چل رہی تھی اس میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی گئی اور اسے ایک نئی منزل نظر آنے لگی، کاموں میں تیزی ولولہ اور جوش پیدا ہوگیا اور ہرشعبہ میں نمایاں حرکت اور ترقی محسوس ہونے لگی.سالانہ اجتماعات کا انعقاد تقریر کے بعد سب سے پہلے آپ کی توجہ مبس کے سالانہ اجتماعات منعقد کرنے اور ان کو مفید اور موثر بنانے کی طرف مبذول ہوئی چنانچہ ماہ ظہور / اگست پیش میں ہی یہ طے کر لیا گیا کہ پہلا سالانہ اجتماع دوروز یعنی ۲۹۷۸ راخاء +1900
۹۳ اکتوبر کو ہو.اس کے لیے پر گرم بھی تجویز کرلیا گیا اور الفضل میں بار بار یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہم جس کی طرف سے کم از کم ایک نمائندہ ضرور آنا چاہئیے ، اسی طرح مجالس کو ہدایت کی گئی کہ وہ شور علی انصار اللہ کے لیے تجاویز بھجوائیں.سور اتفاق سے مجوزہ تاریخوں سے قبل ملک میں سیلاب آ گیا اس لیے اجتماع مقررہ تاریخوں کی بجائے ۱۸ - ۱۹ نبوت / نومبر کو منعقد ہوا.مجلس کا پہلا اجتماع اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل تھا کہ اراکین مبس نے اجتماع کے ایام غیر معمولی طور پر دعاؤں اور عبادت میں گزارے چنانچہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی نے بھی.اور نبوت کو خدام کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے ان دعاؤں اور ان کی غیر معمولی تاثیرات کا ذکر فرمایا.نماز نتیجه باینجاست ادا کی گئی.دوسری نمازیں پڑھانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے قدیم ترین صحابہ کو منتخب کیا جاتا رہا.مرا عبلاس تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا اور مختلف اوقات میں قرآن کریم، احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درس ہوئے ، تقاریر کے موضوع ایسے تھے جن سے نفس کی اصلاح اور تلوب کا تنہ کیہ ہو، اجتماع کے پہلے اجلاس میں حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے بموجب تہجد پڑھنے اور دعائیں کرنے والے انصار کے اعداد و شمار جمع کئے گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اجتماع میں شامل ہونے والوں کی اکثریت ان امور کی پابند پائی گئی.اجلاس کے پروگرام اور دوسرے اوقات کی دعاؤں سے ایک خاص روحانی ماحول قائم رہا.بعد ازاں اس قسم کے اجتماعات سال کی آخری سہ ماہی میں ہر سال منعقد ہونے لگے جن کی تفصیل سالانہ اجتماعات" کے عنوان کے تحت الگ پیش کی گئی ہے.اللہ تعالی کے فضل سے انصار اللہ کے سالانہ اجتماعات بڑے مفید اور بابرکت ثابت ہوئے اور جو ہے ہیں.ان میں حضرت امیرالمومنین کے ارشادات اور زرین ہدایات سننے کا موقعہ ملتا ہے، پھر ان میں ذکر جیب" کے موضوع پرسشی بہ کرام اپنے چشم دید حالات اور اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں جو سامعین کے لیے ازدیاد ایمان کا موجب ہوتے ہیں.اس کے علاوہ درس قرآن کریم - درس حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا پاکیزہ کلام سننے کا موقعہ متا ہے.اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں.صحبت صالحین میسر آتی ہے.دو تین دن انسان دنیا اور اس کی مصروفیات سے منقطع ہو کر ذکر الہی اور خدا و رسول کی باتیں سننے میں مصروف رہتا ہے یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے باعث قلوب میں پاکیزگی اور خیالات میں چلا پیدا ہوتی ہے اور ہر شخص جو سنجیدگی اور صحت نیت کے ساتھ ان اجتماعات میں شریک ہوتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے بہت کچھ پایا.
۹۴ علاقائی اجتماعات کا آغا اور ضلعوار نام کا قیام مرکزی اجتماعات کے علاوہ بعد میں ضلعوار اور علاقائی اجتماعات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تاکہ جولوگ مرکزی اجتماعات میں شریک نہ ہو سکتے ہوں وہ اپنے مقامی اجتماع میں شریک ہو کر اجتماع کی برکات سے مستفیض ہوسکیں.اس کے علاوہ یہ اجتماعات مقامی طور پر مجالس میں بیداری پیدا کرنے اور ان میں اطاعت اور قیادت کی روح پیدا کرنے میں بڑے مفید ثابت ہو رہے ہیں.شما جس ایک اور اہم کام اس دور میں یہ ہوا کہ تنظیم کو مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ضلعوار نظام قائم کیاگیا مین کی وجہ سے کام میں بڑی عمدگی اور باقاعدگی پیدا ہو گئی ہے پھر مرکزی دفتر کی تنظیم اور اس کے لیے مستقل عمارت کی تعمیر بھی اسی دور میں ہوئی.اس کے علاوہ دستور اساسی کی از سرنو تدوین ہوئی.ماہنامہ انصار الله اور سہ ماہی امتحانات او ر اطفال کیلئے وظیفہ انعامی کا اجرا لٹریچر کی اشاعت کے لیے شعبہ نشرو اشاعت کا قیام عمل میں آیا نیز ایک ماہنامہ انصار اللہ کے نام سے تجاری کیاگیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے کلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو، اراکین مجلس کی تعلیم وتربیت کے لیے سہ ماہی امتحانوں کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع کیا گیا جن میں قرآن کریم کے ایک پارہ کا ترجمہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک یا دو کتب بطور نصاب مقرر کی جاتی ہیں.نئی پور میں دینی امور سے شغف پیدا کرنے کے لیے ایک وظیفہ انعامی کا اجرا ہوا.ہر سال اطفال کے لیے ایک دینی نصاب مقرر کیا جاتا ہے اور اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر امتحان لیا جاتا ہے.اول اور دوم آنے والے اطفال کو تعلیمی وظائف دیئے جاتے ہیں.مجالس میں مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لیے علم انعامی کا طریق را نجے میں گیا.جو مجلس علم انعامی | انعامی اینی اپنی کار کردگی کے لحاظ سے اول رہتی ہے اس کو حضرت امیرالمومنین اپنے دست مبارک سے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کم انعامی عطافرماتے ہیں کسی مجلس کے لیے اس فلم کا حصول بہت بڑا اعزاز ہے یہ حکم پورے ایک سال تک اس مجلس کی تحویل میں رہتا ہے.علم انعامی کے علاوہ جو مجالس اپنی کار کردگی کے لحاظ سے پہلی دس پوزیشن حاصل کرتی ہیں ان کے ناموں کا جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اعلان کرایا جاتا ہے.
۹۵ روایات صحابہ اور ان کے فوٹو کا ریکارڈ ایک اور چیز جس کی طرف توج دی گئی ہے کہ جو صحا اوران کو یار یار صحابہ کرام اس دور میں مین حیات تھے ان کے نوٹو حاصل کئے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت سے تعلق ایک ایک روایت ان کی اپنی آواز اور سے میں ریکارڈ کی گئی.تا کہ آنیوالی نسلیں ان کے بیان سے استفادہ کر سکیں اور ان سے متعارف ہوں.مندرجہ بالا تمام اموری تفصیل الگ الگ اپنے موقعہ پر آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمایئے.غرض یہ دور اراکین کے لیے کیا بلحاظ تنظیم اور کیا بلحاظ تعلیم وتربیت ہر سیلو سے خدا کے فضل سے بہت بابرکت اور مثمر ثرات حسنه ريا - اللهم زد و بارك فيه -
نواں باب تعمیر فقر انصار الله مجلس انصار اللہ کے لیے ستقل عمارت کی ضرورت تو قیام مجلس کے آغاز سے ہی محسوس ہونے لگی تھی لیکن تقسیم ملک سے قبل کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاسکی کیونکہ اول تو تنظیم اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی تھی.اس کا لا کر عمل اور طریقی کار پوری طرح متعین نہیں ہوا تھا.دوسرے ذرائع آمد بڑے محدو دیکھے.چندہ کی ہو شرح اس وقت مقرر تھی اس سے تو روزمرہ کے کام ہی مشکل مل سکتے تھے.کسی بڑی تعمیر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لیے خیال میں تھا کہ دفتر کی تعمیر ملایا کے ذریعہ ہی ہو سکے گی ، اس کے لیے اصولی طور پر اجازت ۱۳۳۰ یش بھی حاصل کرلی گئی، لیکن وصولی کے لیے کوئی معین طرق طے نہیں ہوا تھا.ماہ فتح رو سمیر میں میں عاملہ مرکزہ یہ کے ایک اجلاس میں قائد مال کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ تعمیر دفتر کے لیے بیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.اگر اس کے لیے ایک ماہ کی آمد پر پانچ فیصد شرح سے چندہ مقرر کر دیا جائے تو یہ تم مجمع ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت یہ معاملہ تجاویز تک ہی رہا اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا.خدام وانصار کو اپنا اپنا مرکز بنانے کی ہدایت : حضرت امیرالمومنین خلیفتہ اسیح الثانی ہند نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مجلس انصار اللہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھارہی مورخه در شہادت.اپریل میشی کو خدام الاحمدیہ کے متعلق دفاتر کی عمارت کے افتتاح کے موقعہ پر / ۱۳۳۱ ارشاد فرمایا : که Figor " جس وقت یہ زمین (یعنی ربوہ کی زمین ، ناقل) خرید کی گئی تھی اس وقت میں نے تحریک جدید له الفضل، فضل عمر نمبر مارچ 1944
96 اور صدر انجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لیے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں، چنانچہ بارہ بارہ اکتال دونوں کے لیے وقت کی گئی.بارہ کنال زمین کے یہ معنی ہیں کہ ۶۵ ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آ سکتا ہے ، مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے گر کسی اور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے.4 ہزار مربع فٹ میں سے اگر عمارتوں اور سٹرکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لیے ۲۵ ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو انہیں ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لیے رکھ دی جائے ، بلکہ پندرہ پندرہ نٹ زمین بھی ایک آدمی کے لیے رکھ دی جائے تو چالیس ہزارنٹ کی زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں ، پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لیے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے.پھر پاس ہی انصارالله کا دفتر ہوگا.اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو ۲۴ کنال زمین استعمال میں لائی جا سکتی ہے.انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت تم دو اور ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں.اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئیے کہ کسی نہ کسی قسم کی چاند دیواری اس زمین کے اردگرد ہو جائے خواہ وہ چار دیواری کٹڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو.بارہ کناں کی چار دیوار کی پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا، بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری جائے گی.......اس کے بعد میں آپ لوگوں کے لیے دکھا کروں گا خدا تعالی تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے.مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی.بہنا دنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں، لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ پڑھے بیکار ہوتے ہیں اور بے کار کا کوئی کام نہیں.اس لیے انصار الله یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں.قادیان میں بھی انصار اللہ ہے 1
زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصار اللہ کام نہیں کرتے، شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجین احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجین احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں.بہر حال انصار اللہ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے، لیکن انھوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی.نے مرکز کوآباد کرنا بھی ضروری ہے ایالا یال ہے کہ کہنا بیان واپس یہ غلط ہے ہے ملنا ہے اسلئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.ایک صاحب یہاں میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں.ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لیے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے.انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لیے جو پیشگوئیاں ہیں وہ کمرہ کے متعلق جو پیشنگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اللہ علہ و سلم مکہ واپس گئے.ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم واپس قادیان جائینگے اور وہی ہمارا مرکزہ ہوگا، لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ چلے گئے تو مکہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکر فتح ہو گیا تھا.آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں.پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام اردگرد پھیلنے لگا کہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے مکہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ ہی بیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم مدینہ میں ہی رہے اور وہیں آپ نے وفات پائی.خدا تعالیٰ کیا کرینگیا، آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے، ہمیں اس کا علم نہیں پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں.....ہم یہ خیال کریں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں.اگر تمہیں اپناگھر نہیں ملتا تو میں گھر میں تمہیں خدا تعالیٰ نے رکھا ہے تمہیں اس میں فوراً کام شروع کر دنیا چاہیئے اگر خداتعال تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکہ کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو دیکھے نڈالوں مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے نیا نتک کہ اسے موت آجاتی ہے اگر یا مومن کے لیے کام ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے.
آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کرلیا اور خدا کرے کہ انصار اللہ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشینگوئیاں ہیں اس لیے قادیان نہیں ضرور واپس لے گا.اور چونکہ قادیان نہیں واپس ملے گا اس لیے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قادیان کے متعلق جو پیشنگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشیکو میاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں، اس لیے تمہیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا....اگر چہ ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس لے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھتی چاہیئے کہ قادیان میں واپس ملے گا اور و ہی ہمارا مرکزہ ہوگا، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ عملاً ہمارا مرکزہ وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے.پس ہمیں اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہیے اور اس بات کو نظر اندازہ کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے پہلے جانا چاہیے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر نہیں تاری بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں نہیں جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے پہلے جانا چاہیئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے فرض ہے نہیں قادیات سے مرض نہیں ہمیں ریوہ سے کوئی غرض نہیں.اگر ہمیں خدا تعالیٰ نے جائے تو ہم وہاں پہلے جائیں گے ورنہ نہیں.ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نہیں.اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے.پس مومن کو اپنے کاموں میں گست نہیں ہونا چاہیے." حضور کے اس ارشاد کے تھوڑا ہی عرصہ بعد جماعت ایک اور آزمائش کے دور سے گزری.شی میں جماعت کے خلاف فسادات شروع ہو گئے اور ملک میں مارشل لا کا نفاذ ہو گیا.اس غیر معمول صورت تعمال کے باعث تعمیر دفتر کا کام پھر عرض التواء میں پڑ گیا بیان تک کہ تنظیم س میں سے آخر میں ایک جدید اور (۳۳) • سنہرے دور میں داخل ہو گئی.١٩٥٤ء تعمر دفتر انصار الله عام طور پر عایا کی راہ یا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن جب کسی بڑے منصوبے کیئے حاصل کرنا ہوں تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ مشکل اور صبر آزما ہو جاتا ہے اور اس امر کا
E متقاضی ہوتا ہے کہ کوئی موثر شخصیت سامنے آکر اس تحریک کو چلائے.یہ اس تنظیم کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ ایسے ایک ایسا قائد مل گیا جس میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو بڑے کاموں کی سرانجام دہی کے لیے ضروری ہوتی ہیں چنانچہ مجلس کے نائب صدر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے سب سے پہلے مرکزی دفتر کی ضروریات اور اس کے لوازمات کو مد نظر رکھ کہ عمارت کا نقشہ بنوایا اور اخراجات کا اندازہ لگوایا، اس کے بعد رقم کی فراہمی کی طرف توجہ مبذول کی.اس مرض کے لیے تعمیر کا معاملہ عیش کی شورٹی انصار اللہ میں پیش ۳۴ را مش انصاراللہ ۱۳۳۴ F - 1900 کیا گیا.نمائندگان نے غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ تین سال کے عرصہ میں ہمیں ہزار روپیہ جمع کیا جائے.ہر مجلس پر کم از کم ایک روپیہ فی کس کے حساب سے رقم ڈال دی جائے جسے وہ پورا کرنے کی ذمہ دار ہوگی انس کے علاوہ نائب صدر نے بعض تغیر احباب کو انفرادی رنگ میں بھی " من انصاری الی اللہ کے عنوان سے خطوط روانہ کئے اور تحریک کی کہ وہ اس کار خیر میں سو سو روپیہ ادا کر کے حصہ ہیں، چنانچہ بہت سے احباب نے اس اپیل پر رقوم بھجوائیں اور مومنانہ دست تعاون بڑھایا..الله حضرت امیر المومنين خليفة السبیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اور تبلیغ ۱۳ ۲۰ فروری کا یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب کے - هر موقعہ پر بعد نماز عصر فضل عمر ہسپتال ربوہ کا سنگ بنیا د رکھنے کے بعد دفتر مجلس انصار اللہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے اس جگہ تشریف لائے جو انصار اللہ مرکزیہ کے صد دفتر کی تعمیر کے لیے مخصوص کی گئی تھی تصویر نے سنگ بنیاد کے طور پر اپنے دست مبارک سے پانچ اینٹیں رکھیں اور اجتماعی دعا کرائی ، اس موقعہ پر بطور شکرانہ اور اظہار خوشی حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور تین بکرے بطور صدقہ فریج کئے گئے.امیش کی شوریٰ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جن دوستوں نے سوسور وپے کی رقوم تعمیر دفتر کے فنڈ میں ادا کی ہیں ان کے نام ایک بورڈ پر لکھوا کر دفتر کے ہال میں کسی موزوں جگہ پر آویزاں کر دیئے جائیں تاکہ ان کے لیے دعا کی تحریک ہوتی رہے.فیصلہ شوری کے مطابق مامش تک مطلوبہ رقم جمع ہو جانی چاہیے تھی، لیکن اس دوران گرانی بڑھ گئی اوراخراجات میں اضافہ ہوگیا پھر کچھ جدید اخراجات سامنے آگئے اور عمارت مکمل نہ ہو سکی اس لیے مزید عطایا کے حصول کے لیے یہ معاملہ امیش کو شوری میں پھر پیش کیا گیا.اس وقت صورت یہ تھی کہ له الفضل ۲۳ور تبلیغ سر فروری ۱۳۳۵ F1904 1900
١٠ مجلس پر سات ہزار کا قرض ہو گیا تھا اور تکمیل عمارت کے لیے مزید دس ہزار دو پیر کی ضرورت تھی، شورکی میں فیصلہ ہوا کہ اگر سترہ ہزار کی رقم عطیہ جات کے ذریعہ وصول ہو جائے تو کام مکمل ہو سکتا ہے اور قرضہ بھی ادا ہو سکتا ہے ، عطیہ جات کے حصول کی ذمہ داری ضلعوار مجالس کے سپرد ہو جو اپنے ذمہ کی رقوم ایک سال کے اندر وصول کریں.اس تجویز پر ایک سب کمیٹی مقرر ہوئی اور اس نے یونٹ وار اس رقم کو مختلف اضلاع تقسیم کر دیا.شوری کے مندرجہ بالا فیصلہ کے باوجود نائب صدر مجلس نے محسوس کیا کہ احباب کو ان عطایا کی ادائیگی کی طرف پھر متوجہ کرنا ضروری ہے اور اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ جو کام ان عطا یا سے لیا جانا ہے اسکی تفصیل بھی پیش کی جائے تا کہ دوست انشراح صدر سے ہاتھ بنا سکیں، چنانچہ آپ نے من انصاری الی اللہ کے عنوان سے دوبارہ اپیل جاری کی.اس اپیل میں چونکہ ایک تاریخی امر کا ذکر ہے اس لیے اسے من وعن اس جگہ درج کیا جاتا ہے.
ایک اپیل من انصاری الی الله حسب فیصلہ شور میں تعمیر نٹ کے لیے ، اہزار کی رقم جلد فراہم کی جائے از حبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نائب صدر انصا الله مرکز یر شوری نے ایک سب کمیٹی اس غرض سے مقرر کی تھی کہ وہ مختلف حلقوں کے لیے رقوم کی تعین کر دے سے پورا کرنا ان کا فرض ہو.اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ شوری میں پیش کر دی جس پر شوری نے مرحلہ کےلیے رقوم مقرر کر دیں ہیں جو اس نوٹ کے آخر میں درج کی جارہی ہیں ، یہ رقم 14 ہزار سے کچھ زائد رکھی گئی ہے تا کہ وصولی کے اخراجات کے بعد مرکز کو ، ہزار کی رقم مغرور وصول ہو جائے ، جس سے تعمیر کا کام مکمل کیا جاسکے.مجلس انصار اللہ کے دور جدید میں سید نا حضرت امیرالمومنین نے میری درخواست پر یوم مصلح الموعود کی مبارک تقریب پر دفاتر انصار اللہ کا سنگ بنیا د رکھا، اس وقت ہمارے پاس فنڈہ موجود نہ تھے اور میں نے محض اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسہ رکھتے ہوئے حضور کی خدمت میں سنگِ بنیاد رکھنے کی درخواست کی تھی جس کے بعد میں نے انصار اللہ کو پکارا ، میری آواز من انصاری الی اللہ کے جواب میں سچاروں طرف سے نحن انصار اللہ کا جواب آیا اور مخلصین نے سو سو روپے کے عطیہ جات بھیجوا کر مرکزہ سلسلہ میں اپنے الفضل ما فتح / دسمبر ۱۳۳۷ هش
i نشین کی تعمیر کے لیے سامان مہیا کر دیا اور چند مہینوں کے اندر اندر انصار اللہ کی شایان شان عمارت کھڑی ہوگئی، انصار اللہ نے بہت اخلاص کا مظاہرہ کیا ، اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں جزائے خیر دے.اب دفاتر اور ہال کی تکمیل باقی ہے، کارکنان کے کوارٹرز بننے میں پانی کی فراہمی کے لیے چھوٹا ٹیوب ویل نصب کرنا ہے.ان تمام کاموں پر 6 ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے اور جب شوری میں یہ ۱۷ معاملہ پیش ہوا تو مجالس نے اس کام کو ایک سال کے اندر مکمل کرنے کا عہد کیا.یکی مخلصین کو ایک دفعہ پھر پکارتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور اس رقم کو جلد پورا کر دیں تاکہ مرکزہ آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق اس کام کو مکمل کر کے دوسرے مفید کاموں کی طرف جو اس وقت مجلس انصارالله سرانجام دے رہی ہے زیادہ توجہ مبذول کر سکے.جزاكم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخرة - ذیل کے نام یل میں حلقوں کے نام ، رقم اور فراہی سے منتظمین کے نام دیئے جاتے میں جملہ مجالس سے توقع ہے کردہ اپنے اپنے حلقہ کے منتظمین سے پورا تعاون کریں گی.تاکہ یہ کام جلد مکمل ہو جائے.نام حلقہ کراچی سابق صوبہ سندھ سابق بلوچستان لا ہور شہر و ضلع رقم../ { ۳۰۰۰/ منتظم اعلیٰ زعیم علی کراچی چو ہدری عبداللہ خان صاحب زعیم علی لامود چوہدری اسداللہ خان صاحب سیالکوٹ شہر و ضلع گوجرانواله شهر وضلع ضلع شیخو پوره " سیر گودها " " گجرات راولپنڈی 10-01- ۵۰۰/۰ 10**/ ۱۰۰۰/ foo/- Oor/o 1000/ عیم اعلیٰ سیالکوٹ ودیا بو قاسم الدین صاحب زعیم علی گوجرانواده میرمحمد بخش صاحب چوهدری انور سین صاحب سید لال شاہ صاحب شیخ محمد محمد صاحب اشیخ محمد یوسف صاحب مرزا عبدالحق صاحب راجہ علی محمد صاحب میاں عطاء اللہ صاحب
نام حلقه رقم ۱۰۴ ضلع جهنگ سابق صوبه سرحد ضلع مفنان سابق سبہا ولپور ڈی.گیانمان منظفر گڑھ.../- ضلع منٹگمری کیمپور و میانوالی مشرقی پاکستان ۵۰۰/- 11--/- { 0-/- ٢٠٠- 1000/- 3+/- خاکسار منتظم اعلیٰ میاں محمد بشیر احمد صاحب بابو شمس الدین صاحب وخان خواص خانصاحب ملک ثمر علی صاحب و رحیم اعلی همان.چوہدری محمد شریف صاحب کرنل سلطان محمد خانصاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب مولوی عبدالمغنی صاحب 51904 مرزا ناصر احمد نائب صدر انصار الله مرکزه صدر محترم اور قائد مال کی پر زور تحریکوں اور اراکین مجلس کے مخلصانہ تعاون سے بفضل ایزدی ۳۳۵ میش کے سالانہ اجتماع تیک دو کرے تعمیر ہو گئے پھر اگلے سال ہال بن گیا اور تعمیر کا کام خواجہ عبید اللہ صاحب اور سیر کی نگرانی میں بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچ گیا.بعد ازاں ایک ٹیوب ویل لگایا گیا اور کارکنوں کے لیے دو کوارٹر تعمیر ہوئے.یہ خوبصورت عمارت قبلہ رخ ہے اور پانچ کروں اور ایک ہال پر مشتمل ہے (ملاحظہ ہو نقشہ دفتر انصار الله ) دفتر کا صدر دروازہ مغربی جانب ہے جہاں ہال سے باہر چھوٹا سا برآمدہ ہے.اس برآمدہ میں دروازہ کے دونوں جانب ان اراکین اور مجالس کے اسماء گرامی کنندہ ہیں جنھوں نے اس تعمیر کے لیے سو سو روپے یا زائد رقم بطور عطیہ پیش کی.
سیڑھیاں 11-6 × 17-11 x کره قیادت عمومی درماہنامہ کمرہ سیکرٹری قیادت مال کرہ صدر صاحب 11-6 × 18 x 11-6 × 18 11-6 x 11-9 x 8x24 برآمده دروازه ہال 24x50 کمیٹی روم شمال فته دفتر مجلس اتصالات مرکز به راده 11-6 × 17 - 11/1
1.4 کشتی السی کو باقاعدگی اور عمدگی سے چلانے کے لیے سب سے پہلے اس امر کی ضرورت ہوتی دفتر کا قیام ہے کہ اس کا ایک قانون کی رواں مقام پر قائم کی جائے اس کے بغیر کام می با قا عدگی پیدا ہوتی ہے اور نہ دلجمعی سے کام ہوتا ہے.انصار اللہ کی تنظیم قائم ہونے کے بعد قیام دفتر کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی جاسکی.غالباً اس کی وجہ یہ تھی تنظیم اپنے ابتدائی دور سے گذر رہی تھی اور ذرائع آمد بھی بہت محدود تھے.اس لیے قریباً دو سال تک منشی عبدالرحیم شرما صاحب تو مسلم سے جو صد را تمین کے ملازم تھے آنریری طور پر کام لیا جاتا رہا، حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی سنہ نے اس خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جلسہ سالانہ انیش کے موقعہ پر فرمایا باید له مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصار الد کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی ، اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کا ابھی کوئی دختر وغیرہ بھی نہیں انگر دفتر قائم کرنا کس کا کام تھا ؟ بیشک اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انھیں کسی نے روکا تھا.شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا ، ان کو بھی چاہیے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے ، اب بھی انھیں چاہیئے که دفتر بنائیں، کرک وغیرہ رکھیں.خط و کتابت کریں ، ساری جماعتوں میں تحریک کر کے انصار الله کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں.حضور کے اس ارشاد کی روشنی میں مرکزی دفتر کا قیام عمل میں آیا اور منشی عبدالرحیم شرما صاحب کو ہی نہیں روپے ماہوار مشاہرہ پر بطور کلرک مقرر کر دیا گیا اور ایک مدد گار کارکن بارہ روپے ماہوار پر رکھ لیا گیا، ابتداء یہ دفتر جنوری ساء میں محمد دارالانوار قادیان میں گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرہ میں قائم ہوا لیکن یہ جگہ شہر سے باہم تھی ر کو جو انجمن پر اور قائدین کو جو صد را تمین کے اہم عہدوں پر فائز تھے وہاں جانے میں دقت محسوس ہوتی تھی اس لیے یش کے وسط میں دفتر شہر میں منتقل کر دیا گیا.کچھ عرصہ تک انصار اللہ کا کلرک چوہدری فتح محمد صاحب کے دفتر میں بیٹھ کر کام کرتا رہا پھر نظارت علیا کے دفتر میں اس کے لیے جگہ بنادی گئی اور اسی طرح کام چلتا رہا ، کوئی مستقل جگہ دفتر کے لیے نہ بنائی جاسکی.۱۳۲۳ رفتہ رفتہ یہ محسوس ہوا کہ قائدین کی ہدایات کو علی جامہ پہنانے اور کام کو عدگی سے چلانے کے لیے مزید عمل کی ا الفضل حکیم امان کر تاریخ ۱۳۲۴ پیش ۱۹۴۵ء
ضرورت ہے چنانچہ ۲۳ ماہ امان مارح پیش کے اجلاس میں مندرجہ ذیل آسامیوں کے لیے سال رواں کے بوٹ میں اضافہ برائے منظوری پیش ہوا.ایک انسکیٹر - ۲۰۰۷ کے گریڈ میں تنخواہ ۵۴۶ - قحط الانی ۱۲ سفر حریج انسکپر ۳۰ کل ۱۰۰۰ یک انسپیر سقه خاکروب و غیره -/۱۲۰ کرایه دفتر - / ۱۲۰ کل ۲۳۰/۰ مزید ایک کلرک ۵۰-۲-۳۰ کے گریڈ می تنخواہ ۳۶۰ قحط الائونس ۱۰۸ - کل مدد گار کارکن بالمقطع ۲۰ روپے ماہوار کل ۲۲۰ " - مستقل مبلغ برائے انفرادی تبلیغ و تربیت - ۲۵ روپے ماہوار تنخواه ۳۰ در سفر خرچ ۱۰۰ کل ۷۲۰ اس خرچ کے بالمقابل آم کا ذید یہ تجویز کی گی کہ جو انصار کی مجبوری یا مغدوری کی وجہ سے پندرہ روزہ تبلیغ کے لیے نہ جاسکیں ان سے اسکے عوض پندرہ روپے لیے جائیں تا کہ ایک مبلغ انکی طرف سے تبلیغ کا فرض ادا کر سکے قادیان میں ابتدائی دنوں میں چند افراد نے یہ رقوم ادا بھی کی تھیں.تجویزیں یہ کہاگیا کہ اگر اس تحریک کو عام کر دیا جائے تو اس کے ذریعہ سے اسقدر آمد ہو جائے گی کہ مجوزہ اخراجات پورے ہو جائیں.یہ تجویز کیم شادت سے بہش سے ایک سال کے لیے منظور کی گئی.یہ تقسیم ملک کے بعد مجلس انصاراللہ کا دفتر جود حامل بلڈنگ لاہورمیں قائم ہوا اور یہ اعلان کیاگیا کہ تا اطلاع ثانی ای یند پر خط وکتابت ہوا اور انصار اللہ کا چندہ بنام می سب صاحب صدر امین احمدیہ اعدامات انجمن انصاراللہ چنیوٹ ارسال کیا جائے جب جماعت کے دفاتر دارالہجرت ربوہ میں منتقل ہوئے تو منشی عبدالرحیم شرما صاحب بدستور اکیلے ہی دفتری کام کرتے تھے اور بار خود ضعیف العمری نبھاتے چلے جاتے تھے لیکن اس وقت کام آتنا زیادہ نہ تھا.جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اس تنظیم کے نائب صدر مقرر ہوئے اور انھوں نے اس تنظیم میں جان ڈالدی تو دفتری کاموں کا بھی ایک نیا دور شروع ۱۳۳۶ هش ہوا اور کام میں بہت پھیلاؤ پیدا ہوگیا.بدلے ہوئے حالات میں مستعد کارکنوں کی ضرورت تھی، چنانچه ۲۷ تبلیغ فروری ما ایرانی کو چوہدری محمد ابراہیم صاحب ایم اے دفتر کے انچارج مقرر ہوئے.انھوں نے بڑی دلچسپی اور توجہ سے انصار اللہ کے دفتری کاموں کو سنبھالا ان میں باقامہ کی پیدا کی اور ہر چیز کا ریکارڈ بڑے احسن طور پر رکھنا شروع کیا اور جنگ اس ذمہ داری کو بڑی عمدگی اور خوش اسلوبی سے نبھاتے چلے جا رہے ہیں، جوں جوں کام بڑھتا چلا گیا دفتر کے کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا انسپکٹر کے عہدہ پر ایک تجربہ کار عالم دین قریشی محمد نذیر صاحب کچھ وہ کام کرتے رہے ، اس وقت جو کارکنان دفتر انصار اللہ سے متعلق ہیں ان کے کوائف درج ذیل ہیں.یہ جگہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے تقریب واقع ہے.
; IA ۱۳۵۷ بهش موجودہ عمله دفتر انصار الله مرکز بر روه سال پیش) نمبر شمار ابنامی A نام کار کن سیکرٹری چو ہدری محمد ابراہیم صاحب ایم اے کلرک " " غلام حسین صوبیدار میجر محمد حنیف بشارت احمد شیخ بشارت احمد صوبیدار میجر برکت علی سلم جاوید انسپکٹر ملک محمد بشیر خواجہ محمد ابراهیم ظفر چوہدری محمد ابراهیم رشید پینشنر کلرک چوہدری محمود احمد ڈرائیور سید افضال احمد شاہ باورچی محمد یعقوب 1940 تاریخ تقرری q ۲۳ ۲۱ ۲۲ 19 1 مدد گار کارکن جمال دین H چوکیدار خاکروب بها در مسیح عالی محمد اعظم حمید شاہ مختار احمد ۱۴ 10 14 16
دسواں باب انصار اللہ کا مالی نظام اور بجٹ ابتدائی مالی نظام اور چندہ کی ابتدائی شرح جب انصار اللہ کی تنظیم قائم ہوئی تو مجلس کے اخراجات کے لیے سلام میں میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ : ا بردن انصار الل کم از کم ایک آنہ ماہوار چندہ ادا کرے جو لوگ اس سے زائد ادا کہ میں اسے -1 سکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے.- ایک ایک آنہ کی رسید دینے کی بجائے چندہ دہندگان کے ناموں کی فہرست مساجد میں آویزاں کی جائے.-ختر از صدر انجین میں انجمن انصار اللہ کی مد قائم کی جائے جس میں لین دین صدر کے دستخطوں سے ہو..بیرونی مجالس کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ جو چندہ و تابع کریں اس کا ۲۵ فیصد مرکز میں بھیجیں اور باقی مقامی ضروریات پر صرف کریں.قادیان میں جو مجالس ہیں وہ اپنا سارا چندہ مرکزی فنڈ میں جمع کرائیں اور مقامی ضروریات کے لیے درخواست دیگر رقوم حاصل کریں.مجلس کا پہلا باقاعدہ بجٹ برائے ۱۳۲۳۲۳ عش جیسا کہ پہلے ذکر ہوا اور فتح دسمبر امیش دارد ۱۹۴۴-۴۵ در ۱۹۴۵ء کو منظور کیا گیا اس وقت سالانہ اخراجات کا اندازہ ۱۵۳۵ روپے تھا، لیکن ۲۳ رامان ایش مارچ کو تفصیل ذیل اضافہ منظور کیا گیا.انسیکٹر گریڈ ۷۵-۳- لم تنخواہ ۵۴۰۰ - قحط اللونس /۱۴۴- سفر خرچ ۲۱۷۷۰ کل ۱۰۰۰ کرایه مکان - ۱۲۰ متفرق اخراجات سته خاکروب فرنیچر وغیره ۱۲۰۰ عمله : مزید کلرک ایک گریڈ ۵۰-۲-۳۰ تنخواه ۳۶۰ الاؤنس / ۱۰۸ - میزان /۴۶۸ / مددگارہ ایک تنخواہ ۲۰ ماہوار بالمقطع /۲۴۰ مستقل مبلغ - - ۴۵ ماہوار ۵۴۰ برائے انفرادی تبلیغ و تربیت ، سفر خرچ / ۱۸۰ میزان /۷۲۰ 1 IN
ماہانہ تبلیغی ٹریکیٹ ۳ ہزار - تربیتی سرکار ۱۲ عدد فی ۵۰۰ کل 4 ہزار 1 کل اضافه خرچ / ۳۳۶۸ اس خرچ کا ذریعہ آمد یہ تجویز ہوا کہ جو انصا کسی مجبوری یا معذوری کے باعث پندرہ روزہ تبلیغ پربن جائیں وہ ایک آدمی مبلغ کا خرچ پندرہ روپیہ ادا کریں جو ان کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرے، اندازہ کیا گیا کہ اس ا طرح کافی آمد ہوسکتی ہے.قادیان میں چند افراد نے اس کے مطابق رقوم بھی ادا کیں، پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس تحریک کو عام کر دیا جائے چنانچہ یکم شہادت را پریل میں سے ایک سال کے لیے یہ تجویز منظور کی گئی.، یاسمین ۱۳۲۵ اس وقت کے مرکزی ریکارڈ میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ بعد کے سالوں میں صورت حال کیا رہی.غالباً ملکی حالات خراب ہو جانے کے باعث بجٹ وغیرہ بنانے کی طرف توجہ نہ دی جاسکی مرکزی قائدین اہم ملکی اور جماعتی کاموں میں مصروف رہے اور انو راللہ کی ذیلی تنظیم کا کام خاطر خواہ طریق پر نہ چلایا جا سکا انتقسیم ملک کے بعد ما و فتح ا اء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ایک آنہ ما ہموار کی بجائے چندہ مجلس کی شرح نصف من او سمر پائی فی روپیہ ہوگی اور بیرونی مجالس اپنے چندہ کا یہ حصہ مقامی ضروریات کیلئے رکھ سکتی ہیں.دور جدید میں مرکزی محلیس کے سالانہ اجتماعات بڑے اہتمام سے ہونے لگے اس چندہ کی نئی شرح سے ا لیے عام ضروریات کے علاوہ اجتماع کے اخراجات کا سوال بھی پیدا ہوا، شورٹی انصاراللہ منعقدہ مشی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سالانہ اجلاس کے اخراجات کے لیے ہر رکن اپنے ماہوار چندہ نصف پائی فی ١٩٥٠ء روپیہ البشر طیکہ دور آنے ماہوار سے کم ہوا کے علاوہ ایک آزماہوار چندہ دے گویا اجتماع کے لیے ۱۲ آنے فی کین سالانہ شرح مقررکی گئی چند سال تک تو اسی شرح سے کام چلتا رہا لیکن جب گرانی بڑھ گئی اور اجتماع کے اخراجات میں سال بہ سال اضافہ ہوتا رہا تو اس شرح میں اضافہ کی ضرورت محسوس ہوئی امیش میں اس 31941 شرح کو بڑھا کر ایک روپیہ فی رکن سالانہ کر دیا گیا.اسی سال شوری کے بموجب چندہ مجلس بھی نصف پائی نی روپیہ سے بڑھا کر نصف نیا چیر کر دیا گیا.قریباً دس سال تک مجلس کے چندہ کی شرح نصف نیا پیر نی روپیہ ۱۳۴۵ هشی ۱۳۴۳ هش چندہ کی شرح میں تبدیلی مقدار ہی.اس دوران دو مر تر بینی یا اور پھر میں برقرار مرتد ۱۳۶۷ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ شرح چندہ مجلس ایک پیسہ نی روپیہ کر دی جائے، لیکن کثرت رائے سے رہ ہوتی رہی ، کین میں کے بعد کمی گرانی غیر مول طور پر بڑھ گی اور تقسیم کے اخراجات میں بہت افسانہ ہو گیا اس لیے ·146°
کام میں وقت پیش آنے لگی، حضرت امیرالمومنین خود بھی محسوس کرتے تھے کہ مجلس انصاراللہ کے چندہ کی شرح ۱۳۵ میریش میں اضافہ ہونا چاہیے چنانچہ حضور نے انصار اللہ کے اجتماع منعقدہ دیش کے موقعہ پر اپنے افتتاحی نخطاب میں فرمایا :- 1961 اس سال خدام الاحمدیہ نے اجتماع میں جو بجٹ پاس کیا ہے وہ ڈھائی لاکھ روپے کا ہے اور جو آپ کے سامنے بجٹ رکھا جائے گا وہ صرف بہتر ہزار روپے کا ہے : بڑا فرق ہوگیا ہے.بہر حال آپ جب بجٹ پر غور کریں تو ایسی صورت نکالیں کہ ان سے.یہ پیچھے نہ رہیں.اسی سال شوری میں مجلس لامپور کی اس تجویز پر جب غور ہوا کہ چندہ مجلس کی شرح نصف پیسہ سے بڑھا کر ایک پیسہ فی روپیہ کر دی جائے تو کثرت رائے اس کے حق میں نہ تھی اس لیے دو پاس نہ ہوسکی، صدر تھیں پیش آمده مشکلات کے باعث شرح کے اضافہ کو ناگزیر سمجھتے تھے.جب یہ معاملہ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نے مجوزہ انصافہ کی منظوری صادر فرما دی اور اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ نبوت / نومبر 1961 گوار عیش میں ارشاد فرمایا : زب سے تعلق کی پختگی صرف جوانی کی عمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے...خلیفہ وقت کا کام سمارا دنیا بھی ہے اس لیے میں نے سمارا دیدیا اور میں نے انصار اللہ کے چندہ کی شرح نصف پیہ سے بڑھا کہ چیہ کر دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے سب کو توفیق دے.اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ انصار اللہ والے کیوں مایوس ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہیں کریگا، دھیلہ سے پیسہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کے مال میں بھی برکت دیگا..." حضور کے اس ارشاد کے مطابق عملدرآمد شروع ہو گیا اور اب تک اسی شرح سے وصولی ہورہی ہے..مرکز مقامی مجالس اور ضلعوار نظام میں چندوں کی تقسیم او پر یہ ذکر آچکا ہے کہ انصاراللہ کی تنظیم کے قیام کے بعد میں میں یہ قاعدہ مقر کیا گیا تھا کہ ۱۳۲۷ هش ل ما منامہ انصار الله بابت فتح لا مش سر دسمبر 1941
7901 قادیان سے باہر کی جملہ مجالس جو چندہ جمع کریں اس کا ۲۵ فیصد مرکز میں ارسال کریں اور بقیہ رقم مقامی ضروریا پر صرت کریں.11 میں میں یہ قاعدہ بدل دیا گیا اور مجلس عاملہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ آئند و چند محلہ نصف دیا پائی ٹی روپیہ ہو.اس شریح پوشہ حصہ مقامی مجلس انصارہ کو رسوائے ربوہ کے مقامی ضروریات کے لیے رکھتے کی اجازت ہوگی.چنانچہ اس کے مطابق عمل ہوتا رہا، مرکز کو 46 فیصد اور مقامی مجلس کو ۳۳ فیصد حصہ ملتا رہا.جیب منلعوار نظام قائم ہو گیا تو ۱۳۳۶ عیش میں مجلس منٹگمری رساہیوال نے یہ تجویز کیا کہ نظامت ضلع کے کاموں کو احسن طور پر چلانے اور مجالس کی مکمل نگرانی کے لیے ناظم ضلع کو کچھ رقم تفولین کی جانی چاہیئے اس لیے ضلع کی ہر ملکی سالانہ بجٹ کے اپنے حصہ میں سے یا منہ ناظم ضلع کو ادا کرے.شوری نے اس وقت بالاتفاق اس تجویز کو رد کر دیا.لیکن بہت جلد یہ محسوس ہونے لگا کہ بغیر فنڈ کے ضلعوار نظام خوش اسلوبی سے کام نہیں کرسکتا.اس لیے میں سال بعد یعنی ہی ہیں کی شورٹی میں مجلس لائل پور نے یہ تجویز پیش کی چندہ تین مجلس کی تقسیم مندرجہ ذیل طریق پر ہو.حصنه مرکز ۶۵ فیصد مجلس مقامی ۳۰ فیصد- ضلحوار نظام 6 فیصد - اس طرح ضلع ، علاقہ کے اخراجات کے لیے مناسب فنڈ فراہم ہو جائے گا اور وہ اپنے کام بخیر و خوبی چلا سیکس گئے.شور مٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس تجویز کی اس ترمیم کے ساتھ سفارش کی جاتی ہے کہ مجلس مقامی کے ۳۳ شوری فیصد میں دو فیصد نظامت ضلع / علاقہ کو دیا جائے اس طرح مجلس مقامی کا حصہ ۲۸ فیصد ہو جائے گا امر کز کا حصہ بدستور 4 فیصد رہے گا حضرت امیر المومنین نے شوری کی ترمیم کو منظور فرمالیا اور اب اسی کے مطابق سندھ 46 مجلس کی تقسیم عمل میں آتی ہے.1948 مس بعض مجالس اپنا چندہ وقت پر ادا نہیں کرتیں اور بقایا دار ہو جاتی ہیں جب بقایا بڑھ بقالوں کی ادائیگی جاتا ہے تو وہ بقایا کی معافی کی درخواست کرتی ہیں ، اس سلسلہ میں حاملہ مرکز یہ نے اپنے + اجلاس مورته ۱۵ صلح جنوری ۳۳ پیش میں یہ فیصلہ کیا کہ بقایا دار مجالس اپنا بقایا باقساط دس سال میں ادا کردیں ، اگر کوئی مجلس سال رواں کا بجٹ سو فیصدی ادا کر دے تو اس سال کی قسط بقایا معینی یار کی معافی پر غور ہو سکے گا.
١١٣ ۱۳۳۶ پیش کے 1906 مجلس کا مالی سال | پست یک شماره و بالی بھی کا مالی سال کی صبح جنوری سے اور فتح ہے.بعض اوقات کچھ ہنگامی ضروریات پیش آجاتی ہیں اور فوری طور پر اخراجات کرنے پڑتے ریزر و فنڈ ہیں، اس ضرورت کے پیش نظر می نام ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تجویز ہوئی میں اور آئندہ سال کے بجٹ میں مشروط بر آمد تین ہزار روپیہ کی رقم رکھی گئی یہ فنڈ میری بیٹی تک قائم رہا + 1949 اس کے بعد اس کو بند کر دیا گیا ، جو قوم اس فنڈ میں جمع ہوئیں وہ مجلس کے گوشوارہ بجٹ آمد و خرچ میں دکھائی گئی ہیں کارکنان دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے لیے پراویڈنٹ فنڈ مجلس عاملہ مرکز یہ نے اپنے اجلاس مورخہ اور ظهور امیش اگست شام میں یہ فیصلہ کیا کہ میم صلح ۱۳۳۶ میں سے دفتر کے کارکنوں کی تنخواہ سے ایک آنہ فی رو پیر پراویڈنٹ فنڈ وضع کیا جائے اور اتنی رقم دفتر کی طرف سے دی جائے ، اس کا حساب دفتر مرکزیہ میں رکھا جائے.سلسلہ مائیکروبس کی فراہمی اختلف مجالس اپنے اجتماعات اور پروگراموں کے عمل میںاس امرکی خواہشمند ہوتی ہیں کہ مرکزی مجلس کے قائدین بھی ان میں شریک ہوں، اس کے علاوہ مرکز بھی یہ چاہتا ہے کہ بیرونی مجالس سے زیادہ سے زیادہ رابطہ رکھا جائے ، ان ہر دو اغراض کے لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ محبس کی اپنی ایک جیپ ہونی چاہیئے تاکہ مختلف مقامات کا دورہ حسب ضرورت کیا جا سکے ، اس سلسلہ میں سب سے پہلے نظامت علیا سندھ بلوچستان کی طرف سے بارش میں تجویز پیش ہوئی کہ مرکزی قیادتوں کے کام کو چلانے کے لیے اور مجالس کے دوروں کے لیے مرکز میں ایک جیپ خریدی جائے اور مخیر ا حباب کو اس کار خیر میں حصہ لینے کی تحریک کی جائے لیکن شوری نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا، ۱۳۴۷ امیش میں دوبارہ یہ معاملہ شوری میں پیش ہوا اور بارہ ہزار رو پر خطا یا برائے خرید جیپ کی گنجائش بجٹ میں دیکھی گئی ، لیکن شوری نے اس کی سفارش نہ کی.تیسری مرتبہ یہی تجویز ناظم صاحب انصارالله ضلع جہلم کی طرحنا ہے یا سیشن میں پیش ہوئی اور اس مرتبہ بھی شوری نے اسے نامنظور کر دیا چوتھی مرتبہ ہے.مجلس لانپور نے ۱۳۵۰ میش میں اس مسئلہ کو شوری میں پھر اُٹھایا اور تجویز کیا کہ اس کے اخراجات نیز دیگر مالی ضروریات کے پیش نظر چندہ مجلس کی موجودہ شرح نصف پیسہ سے بڑھا کو آئندہ سال سے ایک پیر 1961 ۱۳۴۵
فی رو پیر کر دی جائے، شوری نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر سفارش کی کہ ایک گاڑی فوری طور پر خرید لینی چاہیئے، قیمت کی فراہمی کے لیے حسب معمول رقوم ضلعوار بجٹ کے لحاظ سے مقر کر دی گئیں اور ناظمین اضلاع اس امر کے ذمہ دار قرار دیئے گئے کہ وہ اپنے حصہ کی رقوم جمع کرا دینگے ، اس طرح گاڑی نوید نے کے لیے روپیہ جمع ہو گیا، وصولی میں جو کی رہ گئی وہ صدر محترم کی تحریک پر مخیر حجاب کے عطیہ جات سے پوری کرلی گئی، اس فنڈ سے ۳۵ ہزار روپیہ میں ایک عمدہ مائیکر ولیس رفاکس ویگین ، خرید کی گئی اور اس کے لیے....اخراجات سفر تنخواہ ڈرائیور وغیرہ کو باقاعدہ بجٹ میں شامل کر لیا گیا.مجلس انصاراللہ کا جو بحث تنظیم کے قیام سے لیکر اس وقت تک بنا گوشوارہ بحث آمد و خرج رہا ہے اس کا گوشوارہ درج ذیل ہے.اس گوشوارہ پر نظر ڈالنے سے ن معلوم ہوتا ہے کہ دور جدید میں خدا کے فضل سے بجٹ سال بہ سال بڑھتا چلا گیا ہے اس امیش میں اس 31404 کی مقدار صرف ۲۳ مزار تھی ، لیکن میں میں یہ دوگنا ہو گیا اس کے بعد جب حضرت امیرالمومنین نے ۱۳۴۴ 1440 چندہ مجلس کی شرح میں اضافہ فرہ یا تو مجلس کے کاموں میں بہت وسعت پیدا ہوگئی اور بجٹ بڑھکر ایک لاکھ چوہتر ہزار ہوگیا تو یہ ہیں کے مقابلہ میں سات گنا سے بھی زیادہ افسانہ ہو گیا.کسی تنظیم یا ادارہ کا بجٹ اس امر کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ اس میں ترقی کی صلاحیت اور زندگی کی روخ کس قدر پائی جاتی ہے.سو الحمد للہ کہ انصاراللہ کا ہر نیا سال یہ واضح کرتا ہے کہ قدم آگے ہی آگے پڑ رہا ہے.اور جوانوں کی سی ستی پائی ہےاور این مالی سال مضبوط سے میواتر جاری اور اس کے میں چستی پائی جاتی ہے اور بعض ایزدی تنظیم سال بہ سال مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے اور اس کے کاموں میں پختگی روز افزوں ہے.یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ کئی مجالس ایسی میں جو سرکہ کی ضروریات کے پیش نظر اس امر کا انتظار نہیں کرتیں کہ اراکین سے مختلف مدات میں وصول ہو جائے تو رقوم مرکز کو ارسال کریں.اکثر اوقات وہ سال کے ابتدائی حصہ میں ہی اپنے جملہ واجبات ادا کر دیتی ہیں اور اراکین سے وصولی کا کام حسب معمول اپنے وقت پر ہوتا رہتا ہے.
110 گوشوارے بجٹ آمد و شریح مجلس انصارالله مرکز یہ و آینایه
ریز دو متصل کیفیت میزان ۱۵۳۵ یکم مئی اید تا آخر اپریل ۱۹۴۵ - آمد گوشواره بحث آمد فریج مجلس انصار الله مرکز یہ سال چنده مجلس چنده تعمیر دفتر چنده چنده سالانہ اشاعت میزان اختباع عمله سائر عطیات ۱۲۰۰ ۶۰۰ ۱۸۰۰ خرج سالانہ امداد دیترو اشاعت ٹریچر تعمیر دفتر مقامی برائے طباعت ۳۷۵ اجتماع فرنیچر : مجالس ۲۳۰۰۰ r ۲۰۰۰ | ۱۵۰۰۰ ۱۷۹۷۵۰ ۲۰۰۰۰ - ۲۱۰۰۰ - ٣١٢٠ T - ۲۰۰۰۰ 40- ۴۱۲۰ 7448- VAA.۷۵۰ ۲۰۰۰ ۲۰۰۰ ۱۷۰۰۰ ۲۰۲۰۰۰ ۵۰۰ ۲۰۰۰ ۲۰۰۰ ۱۳۴۱ میش تیک اشاعت لٹریچر کا بیٹ سائر کے پیٹ کے ساتھ رہا 10" 1804 ۲۰۰۰۰ 1900 ۵۵۷۲ ۳۹۲ ۲۰۵۰۰ ۱۵۰۰ ۲۰۰۰ K....A...1909 4-00 ۳۱۴۵ ۱۳۳۹ 14.4.20 ۲۱۰۰۰ ٢٥٠٠ ۴۰۰۰ ۲۰۰۰ J---- ١٩٩١
114 ۳۰۰۰ 1 - ۶۶۶۷ ۴۰۰۰ ۵۰ ايضاً ۶۲۵۲ ۳۳۰۰۰ ۴۰۰۰ ۴۰۰۰ ۲۰۰۰۰ ۱۳۴۱ سریش - ۷۳۳۳ ۴۰۰۰ ۴۰۰۰ ۴۰۰۰ siam ۳۴۰۰۰ ۴۰۰۰ ۰۰۰ ۲۲۰۰۰ ۱۹۶۳ ٢٠٠٠ ١٣٩٥٠٠ ۳۰۰۰ ۴۰۰۰م جنگ کی وجہ سے شہ الیش کا بجٹ پیش نہیں ہوا ہنگامی حالات کے باعث ۳۰۰۰ ۴۷۵۰۰ سالانہ اجتماع میں منظور نہیں ہوا I ۹۰۰۰ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ༩་-་ ۵۹۴۶ | ۱۰۰۵۴ ۳۹۵۰۰ ۳۰۰۰ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ - ۱۰۶۶۷ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۴۰۰۰ ۶۸۲۸۱۱۵۰۵ ۴۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۴۵۰۰ ۱۱۹۶۷ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۴۰۰۰ ۱۹۶۴ ۳۲۰۰۰ ۱۹۶۵ ۱۳۴۵ ۳۵۰۰۰ ۱۹۶۶ ۵۰۵۰۰ ۴۰۰۰ - ۱۲۶۶۷ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۹۰۷۷ ۱۲۲۵۷ ۵۰۵۰۰ ۴۰۰۰ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۳۸۰۰۰ - ۱۳۵۰۰ ۵۵۰۰ ۴۰۰۰ ۵۰۰۰ ۱۳۴۷ 1-61-1969 ۵۳۰۰۰ ۴۰۰۰ ۴۵۰۰ ۴۰۰۰ ۴۰۵۰۰ ۵۳۰۰ ۱۳۰۰ ۴۱۷۰ ۱۴۸۳۳ ۴۵۰۰ - ۱۰۳۱۷ ۱۳۸۸۰ ۵۳۰۰۰ ۴۰۰۰ ۴۵۰۰ - ۴۴۵۰۰ 1949
آمد گوشوار و بحث آمد و خروج مجلس انصارالله مرکزیہ اشاعت سالانہ امداد مقامی سال چنده مجلس سالانہ اشاعت ما نامه سائر ناظمین اتھانہ جات میزان اجتماع لٹریچر انصار الله گرانٹ دیر زوبرائے مشتعل ) اجتماع مجالس اضلاع دوران سال رو برا ماہنامہ واپسی انصار الله میزان ریزرو ۵۴۹۳۹ 1 - ۱۵۳۳۳ ۵۰۰۰ ۱۵۵۱۰ ۹۰۰۰ - ۴۰۰۰ ۱۹۶۳۴ ۱۴۹۰۰ ۱۵۴۵۰۰ علوم ۲۰۸۲ ۱۳۸۴/۵ - ۴۰۰۰ ۳۰۸۰۰ ۱۲۰۰۰ ۲۰۲۹۰ 1 ۴۰۰۰ ۴۵۰۰ ۴۶۰۰۰ ۱۳۴۹ مش 5194 ۱۳۵۰ ۶۱۷۲۲ ۴۰۰۰ ۳۰۰۰ ۵۳۷۲۲ 1941 - ۱۳۵۱ ۴۰۰۰ ۶۰۰۰ ( 1 - - - - 194M...۵۵۰۰ ۳۰۸۰۰ ۱۵۰۰۰ - ۱۰۰۰۰ ۳۲۸۰۰ ۲۴۷ ۱۲۶۰۰۰....Your 11....1960
۱۱۹ ۱۷۴۸۰۰ ۱۸۸۸ ۱۰۰۰۰ | ۹۵۸ ۴۲۰۰۰ ۲۰۰۰۰ ۱۳۲۳۸ ۲۰۰۰ 3 1 ៨ ۳۶۱۰۰ ۳۱۳۵۴ {CNA AA*] [****] 4*** 12 10....۱۳۵۳ پیش 904.*** ۴۲۰۰۰ ۲۰۰۰۰ ۳۶۱۰۰ ۳۱۳۵۴ AALL **** ۱۳۵۴ ۱۵۰۰۰۰ 1900 ۲۰۷۸۴ ۳۰۰۰ 1 1 ۴۲۰۰۰ ۳۵۰۰۰ ۴۲۰۰۰ ۴۴۲۶۳ ۲,۰۱,۰۰۰ ۱۰,۰۰۰ ۱۰۰۰ ۱۳۵۵ **** خساره 1964 متفرق ۲۵۰۰۰ ۲۰۰۰ ۳۸۷۲۸۲۵۰ ۳۶۲۰۰ ۳۵۰۰۰ ۳۵۲۰۰ ۶۰۶۹ 16*** ٢,٢٣,٠٠٠ امد متفرق 16-04 ۲۰۳۹,۰۰۰ 14.۹۰۰۰ ۵۰,۴۰۰ ۳۰,۰۰۰ ۴۸۶۰۰ ۷۵۹۲۰ ۲۳۹ ۰۰۰ ۱۰۰۰۰ ۳۰,۰۰۰ ۶۵,۰۰۰ را ۸۰,۰۰۰ و ۱ ۱۳۵ 1944 ۱۳۵۷ 192^
گیارہواں باب علم القرآن امتحانات امتحانات کی ابتدائی تجو انصارال کی تنظیم قائم ہونے کے ساتھ ہی یتیمی کار کے طور پر تی شے بھی قائم ہوئے جن میںسے ایک ہی تعلیم و تربیت تھا گویا تعلیم تربیت کے کام کی ضرورت شروع سے ہی محسوس کی گئی اور اس کے لیے الگ ایک قائد مقرر کیا گیا، اراکین کی بھی اور عملی ترقی کے لیے مناسب سمجھا گیا کہ قادیان میں بھی اور بیرونی مجالس میں بھی کتب حضرت مسیح موعود علی السلام کا ایک امتحان ہر سال ہوا کرے نتیجہ کا اعلان اخبار میں ہو تا کہ دوسروں کوبھی شریک ہونے کی ترغیب ہو اور اول، دوم، سوم آنے والوں کو یہ سالانہ کے موقع پر انعام دیا جائے.اس تجویز پر کہاں تک اس دور میں عمل ہوا اس کا علم مرکزی ریکارڈ سے نہیں ہوتاہے قرین قیاس یہ ہے کہ اس کام کا آغاز کر دیا گیا ہو گا.پیش عبوری دور میں تلی کا پروگرام تقسیم کے بعد یا تعلیم کی ان سے ہی ہیں کے آخرمی ناخواندہ اور کم تعلیم والے انصار کے لیے ایک پروگرام تجویز کیاگی جس کی تفصیل یہ ہے :- - جو بالکل ناخواندہ تھے یا قرآن کریم ناظرہ نہیں جانتے تھے ان کے لیے قاعدہ لیتری القرآن بطور نصاب مقرر کیا گیا اور اس نصاب کی تکمیل کے لیے 4 ماہ کی مدت رکھی گئی اس کے علاوہ نمازہ کا ترجمہ بھی شامل نصابی کیا گیا اور اس کے لیے دوماہ کی مدت مقرر ہوئی.ابتدائی دور سے متعلق مرکزی ریکارڈ صرف مجلس عاملہ مرکز یہ کے اجلاس اور فیصلہ جات تک محدود ہے، فیصلہ جات کی تعمیل اور علی کارروائیوں کی تفاصیل ریکارڈ کرنے کی شاید اس وقت ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا وہ محفوظ نہ رہی.
جوافراد معمولی نوشت و خواند نہیں رکھتے تھے لیکن ناظرہ قرآن کریم پڑھ سکتے تھے ان کے لیے یہ نصاب مقر ہوا.اردو کا قاعدہ اردو کی پہلی کتاب لکھائی کے لیے اُردو کاپی نمبر ۲ یا اردو حروف ابجد اس کے لیے چھ ماہ کی مدت پوری ہوئی اس کیساتھ نماز کا ترجم سکنے کے لیے دو ماہ کے گئے ستم صاحبان تعلیم و تربیت کو اس نظام کی اموات ہونی کی اور ان کو ہدایت کی گئی کہ روزانہ اس کام کے لیے اور آدھ گھنٹے کا وقت لیا جائے.اس نصاب کے لیے یکم تبوک است بر اساس اس میں سے تو یہ ستمبر یا سیاسی کا وقت مقرر کیا گیا بلے ۱۳۳۱ برش تبوک ۱۳۳۲ جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی قیادت میں اس دور جدید میں متحانات کا غازی کا دور دیدار اور تعلیم کے اس میں بھی بات اسدی نظیم دور رو ہو کام میں $1900 51400 پیدا ہوگئی، اراکین کے لیے باقاعدہ امتحانات کا سلسلہ از سر نو شروع کیا گیا ، شوری پیشی میں یہ فیصلہ ہوا کہ اراکین انصاراللہ کو تعیمی معیار کے لحاظ سے تین گروپ میں تقسیم کر دیا جائے اور ان کے لیے الگ الگ نصاب تجویز ہوا نیز کتب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا امتحان پیششماہی پر ہوا کرے چنانچہ اس کے مطابق اگلے سال سے عمل شروع ہو گیا پھر یہ محسوس کرکے کہ تعلیم القرآن کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے پیش کی شوری میں یہ فیصلہ ہوا کہ ششماہی کی بجائے ہر سہ ماہی پر امتحان ہوا کرے.دو امتحانات کے لیے قرآن کریم کے ایک پارہ کا ترجمہ بطور نصاب مقرر ہو اور دور میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتحان کے لیے دیکھی جائیں ، چنانچہ باری باری ایک سہ ماہی میں نصف پارہ کا ترجمہ اور ایک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب امتحان کے لیے مقرب کی جانے لگی اور یہ سلسلہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی طرح اب تک برابر جاری ہے ، امتحان میں اقول و دوم آنے والوں کو بالترتیب دس روپے اور پانچ روپے کی کتب بطور انعام دی جاتی ہیں ، کچھ عرصہ تک استحان کے نتائج کا اعلان حاصل کردہ نمبروں کی شکل میں کیا جاتا رہا ، پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف ڈویژن یا درجہ کی شکل میں اعلان کافی ہے.اب اس کے مطابق ہی عمل ہوتا ہے اور نتیجہ متعلقہ مجالس کو ارسال کر دیا جاتا ہے میں سے کامیاب اراکین کو استاد بھی دی جاتی ہیں.اول و دوم آنے والوں کے نام اخبار الفضل اور ماہنامہ انصار اللہ میں شائع کر دیئے جاتے ہیں.·14° له الفضل ۱۵ - الماء اکتوبر ۱۳۳۶ بیش ١٩٥١ء
تعلیم القرآن کے بارے میں حضرت امیرالمومنین کے ارشادات جب حضرت امیرالمومنین خلیفة انتج الثالث الا الله منصرہ العزیز کے علم کی بات آئی کہ بعض احمدی الشيح بچے بھی ایسے میں جنہیں ناظرہ قرآن کریم پڑھنا نہیں کیا محضر کو اس بارے میں معیات عمر کا اظہار فرمایا اور ساری جماعت آتا کیوں کے سامنے تعلیم قرآن کا ایک جامع پروگرام پیش کیا ، اس ضمن میں حضور نے ابتدائی منصوبہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ہم تبلیغ ضروری میشی میں فرمایا : ۱۳۸۵ ".کراچی کی جماعت کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصارالله کے سپرد کرتا ہوں.ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قران کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصار اللہ کے سپرد کیا جاتا ہے.اس منصوبے کی تفاصیل متعلقہ محکمے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچائیں یعنی جو ملقتے مجلس خدام الاحمدیہ کو دیئے گئے ہیں اور جو جماعتیں مجلس انصاراللہ کے سپرد کی گئی ہیں ان میں انھوں نے کس کس رنگ میں کام کرنا ہے اس کے متعلق وہ اپنا اپنا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبہ کی تفاصیل ایک ہفتہ کے اندر اندر -1 مجھے پہنچائیں " لے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں قیادت تعلیم نے جو منصوبہ حضور کی خدمت میں ارسال کیا اس کے اہم نکات جملہ اس کام کی تکمیل کے لیے تیلہ مقامی تنظیموں (خدام الاحمدیہ ، اطفال الاحمدی، لجنہ اماء الله) نیز مربیاں اور مقامی امراء کا تعاون حاصل کیا جائیگا.تمام انصار ، خدام اطفال ناصرات وغیرہ کی مکمل فہرستیں متعلقہ کارکنوں کی وساطت سے بنوائی جائیں گی اور ان کے ذریعہ مندرجہ ذیل کوائف حاصل کئے جائیں گے.نام - ولدیت عمر کا ناظرہ قرآن پڑھ سکتے ہیں کیا ترجمہ جانتے ہیں.کیا تغیر جانتے ہیں، گھر تعلیم قرآن کا کوئی انتظام ہے یا نہیں.جو افراد نا خواندہ نہیں یا جنھوں نے ناظرہ قرآن کریم نہیں پڑھا ان کے ۵ - ۵ افراد کے لڑکے لحاظ سے له الفضل ۱۹ تبلیغ ر فروری ۱۳۳۵ پیش
۱۲۳ گروپ بنائے جائینگے اور ان کو سیر القرآن پڑھایا جائے گا.- تمام انصار بو خواندہ میں انہیں ہدایت کی جائیگی اور تحریک کی جاتی رہے گی کہ وہ روزانہ نصف گھنٹ اس کام کے لیے وقت کریں اور ایک ایک گروپ کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کریں.جو دوست ترجمہ جانتے ہیں وہ دوسروں کو لفظاً لفظ ترجمہ پڑھائیں.تعلیمی لحاظ سے تین کلاسیں ہوں گی اقاعدہ کلاس ، ناظره کلاس ، ترجمہ کلاس - تعلیم کا یہ پروگرام حتی الوسع مساجد میں در نہ کی اور موزوں جگہ پر کیا جائے گا جہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں کو سہولت ہو.- انصار کو تحریک کی جائے گی کہ وہ اپنے اپنے گھرں میں بھی قرآن کریم ناظر در بات جمہ پڑھنے پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور اگر ممکن ہو تو تفسیر کبیر کا درس گھر میں جاری کریں.- A ان کلاسوں کی ماہانہ رپورٹیں اعداد و شمار کے ساتھ حاصل کی جائیں گی.اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقتاً فوقتاً بذریعہ خطوط اور سر کلمہ توجہ دلائی جاتی رہی اور خدا کے فضل سے کئی مقامات پر اور بعض بڑے شہروں میں کئی کئی مراکز پر یہ کام برابر جاری ہے اور رپورٹیں موصول ہوتی ہیں.ربوہ کی مساجد میں بھی ایک یا دو آیات کا ترجمہ مساجد میں پڑھایا جاتا ہے.حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ہم د شهادت را اریل میں امیرالمونین اپنے خط انصار کی ذمہ داریاں ! میں ارشاد فرمایا ہے انصار اللہ کو آج میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضا کارانہ چندوں میں مست ہو چکے ہیں اللہ تعالٰی آپ کو نیست ہو جانے کی توفیق عطا کرے ، لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خو د قران کریم سیکھنے کیا ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں (مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر مائل ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالٰی کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق را می بنائے گئے میں آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تو ان کی طرف متوجہ ہوں امریکن انصار الله له الفضل ١٠ ر شهادت / اپریل ۱۰ ۱۳۴۵ 19:44 1949
کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اُٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور نیچے یا اور ایسے احمد می کو تین کا خدا کی نگاہ میں وہ رائی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہیے اور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کر وہ انصار اللہ مرکز یہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر جینے اطلاع دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کسی حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا تاریخ نکلے ہیں.....۱۳۵۰ پیش کی شوری میں ملبس حسن پور (ضلع لائلپور نے تجویز پیش کی نصاب بنیادی معلومات لی تر امتحان دو معیار کے ہونے چاہیں، اس تجویز پر غور کے دوران تھی کہ یہ محسوس کیا گیا کہ اراکین انصاراللہ کے لیے ایک اقل تعلیمی معیار مقرر کرنا چاہیئے تاکہ سب اراکین بنیادی دینی معلومات اور عقائد سے باخبر ہوں، اس غرض کے لیے ایک سرکتی سب کمیٹی بنائی گئی جس کے صدر صاجزادہ مرزا طاہر احمد صاحب مقرر ہوئے، اس کمیٹی نے نصاب کا ایک خاکہ تیارہ کیا اور اس کے مطابق رسالہ تیار کرنے کا کام پر وفیسر حبیب اللہ خان صاحب قائد تعلیم کے سپرد کیا گیا.وہ رسالہ مجلس کی جانب سے نصاب بنیادی معلومات " کے نام سے شائع کر دیا گیا.اس رسالہ میں اسلام اور احمدیت کے بنیادی عقائد کے علاوہ بعض اور ضروری دینی معلومات شامل کی گئیں.یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اس نصاب کی تیاری اور مقامی طور پر امتحان لینے کی ذمہ داری زعماء مجالس پر ہوگی.زعما زبانی امتحان کے ذریعہ اس امر کا اطمینان کرینگے کہ نصاب پر پوری طرح عبور حاصل کر لیا گیا ہے اور ایسے اراکین کے ناموں سے مرکزی دفتر کو اطلاع دیتے رہیں گے اراکین مجلس کو بنیادی معلومات کے نصاب کی تیاری کے لیے مناسب وقت دینے کی غرض سے مرکزہ ہی ہستی انگا کی تعداد جاسکی بجائے تین کر دی گئی اس طرح سواء سے کام یک سال از تمن امتحان منعقد ہوتے رہے لیکن حضرت امیرالمومنین کے ارشاد کی روشنی میں شاہ سے امتحانوں کی تعداد پھر مار کر دی گئی قرآن کریم کے پاروں کے ترجمہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو کتب بطور نصاب ان امتحانات میں منظور کی گئیں ان کی تفصیل درج ذیل " 145 ہے اس کے ساتھ ہی ہر سہ ماہی میں امتحان میں شریک ہونے والوں کی تعداد اول و دوم آنے والے اراکین کے اسماء گرامی می نام مجلس درج کئے گئے ہیں:.
۱۲۵ کوائف ششماہی رسہ ماہی امتحانات نیر شمار امتحان کا نصاب تاریخ امتحان تعدد امتحان و مهندگان اول دوم شماہی سال کا سہ ماہی میں اوسط فتح اسلام توضیح مرام تر محمد قرآن کریم پاره اقول ضرورة الامام ترجمه قرآن کریم پاره نبرد نصف اول...نصف آخر " پاره نیز ۳ نصف آخر پارہ نمبر ۳ ربع آخر آسمانی فیصله وخشه مه سیحی چوہدری فضل احمد اب ربوده صوفی رمضان على حمات ربوه ٢/١٢/٥٠ ٨/١٢/٥٤ ۲۵٫۹۹۰ خواجہ عبیداللہ صاحب ریوہ محمد عبد اللہ صاحب ڈار کوئٹہ ۱۵۵ ۱۵۵ غلام حیدر خانصاحب محمد آباد سید احمد علی شاه بابا لائلپور اسٹیٹ سندھ 149 194.144 1^1 3 قاضی محمد رشید صاحب داوه چوہدری محمد شریف صاحب ربوده خواجہ عبیداللہ صاحب بریرہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کوئٹ شاه محمد صاحب درآمد لامبور با بو فقیر علی صاحب احمد نگر خواید محمد شفیع صاحب چکوال صورتی عطا محمد صاحب لاہور ۱۲۱ ریکارڈ نہیں ہوئے IAN 19/6/91 104 IWA ١٢٣ 14/19741 ۲۱۰ 101 4/4/49 H ۱۴۴ میر اللہ بخش صاحب تسنیم نخوابد عبید اللہ صاحب ربوہ حاجی عبدالکریم صاحب کراچی پروفیسر عطاء الرحمن عصاب ربوه مولوی محمد احمد صالب تجلیل ربوده چوہدری فضل احمد صا حب میوه آفتاب احمد صاب بسمل کراچی صلاح الدین صاحب راولپنڈی پروفیسر محمد ابراہیم شاب تامر بود محمد احمد صاحب فاضل کوئٹہ حافظ عبد الکریم عصاب خوشاب ور بدری رحمت علی شاه مسلم سرود ها پروفیسر محمد ابراہیم صاحب نامرد بود محمدا برایم ما با اختر ربود مرزا برکت علی صاحب ریاوه را نا محمد یوسف صاحب الآن ترجمه قرآن کریم پاره نمره نصف اول ۲/۴/۶۱ پیغام صلح ترجمه قرآن که نیم پارسه نمبر یه ربع سوم.کشتی نوح بچشمه و میسی ۱۵ ترجمه قران کریم پارسه نمبرم نصف آخر 14 لیکچر لا ہونہ تر تمیه آخری پاره دوسرا ربع تذكرة الشهادتين
14 ۲۴ ۲۹ پسند ماری اوسط تعداد استان و شهرستان امتحان کا نصاب تاریخ استمان پیششماہی سال کا اول دوم ترجمه پاره تیم نصف اول لیکچر سیالکوٹ 14/9/97 10° 14/9/4 ترجمه آخری پاره ربیع اول ، ضرورة الامام ، ترجمه نمازه، دس ۹۴ ۳۱ور ۱۵ د اللہ بیت ترجمه بار تمبرها نصف آخر انها ته جنها ه دلائل وفات مسیح از قرآن مجید برکات الدعار آیات قرآنی متعلقہ نکاح ۱۳/۹۲۶۲ ۱۵۹ ه دلائل صداقت مسیح موعود IAN محمد احمد صاحب فاضل کوئٹہ صوتی عطامحمد صاحب ربوہ محب الرحمن صاحب کراچی نصیر احمد خانصاب کراچی پروفیسر محمد ابراہیم صاحب تامر یوه پیر زاده محمد اکبر سقراط صاحب گولیکی گجرات "" ما مرزا محمد یعقوب حساب فیکٹری ایریا بود " ملک نصیر احمد صاحب کراچی ضیح مرام ، آیات خطبہ نکاح عبداللہ خانصاحب راولپنڈی محمد ابراہیم صاحب شاد چک نمبر ۱۱ چھور ترجمہ پارہ نمبر 4 ، نصف اول سوره ۱۳/۶/۲۵ میاں عبدالقیوم صاب کو مٹر محمد احمد صاحب فاضل کوئٹہ من حفظ اسلام اور جہاد نماز جنازہ کا طریق ۱۲/۹/۶۵ مک تصیر احمد کراچی صدیق احمد صاحب رائپور اور دعائیں ترتبه پارہ نمبر نصف آخر سورة مر حفظ ۵/۱۰/۲۵ קי محمد ابراہیم صا حب شما د صوفی عطا محمد صاحب ربوہ چک نمبر ۱۷ چپور سفر انتصار ، نماز کے بعد کی دعائیں نصف اول در سه پاره نمیبره ۲۲۲ 19/9/94 محمدابراہیم صاحب شاد محمد شفیع خان صاحب کراچی چک نمبر ۱۱۷ چور مریم ملک نصیر احمد صاحب کراچی
اقل دوم نمبر شمار نصاب امتحان ۳۲ تعداد امتحان بندگانت تاریخ امتحان امتحان کشتی نوح ، آذان کے بعد کی دعا مسجد میں ۱۱۹۶۶ داخل ہونے اور نکلنے کی دعائیں تر ممه پاره نمیر، نصف آخر چشمہ سیمی ، رات کو سونے اور جاگنے کے ۳/۶۷ ۲۶ وقت کی دعائیں سہ ماہی سالانه اوسط 胪 14- سلام ترجمه پاره نمیره ، نصف اول، دعا استخاره ۱۸/۷/۲۷ کھانے کے بعد کی دعا ۱۹۲۲۹۹ محمد ابرا عظیم صاحب شاد حکیم عطاء اللہ صاحب کراچی یکسا نمبر ۱۱۷ چهور میاں عبد القیوم صاحب کو شیر محمد شفیع خانصاحب کراچی * " یس کچھ لاہور، نماز جنازہ اور اسکاطریق ۲۴/۹/۶۷ ۳۶ ترجمه پاره نمیره نصف آخر نکاح کی ۳/۱۲/۲۰ ممنون آیات " ".لوگو N * " ملک نصیر احمد خاں صحابہ کرا چی محمد شفیع خان صاحب کراچی ترجمه پاره نمیره ، نصف اقول انمانه استفا (۳۳۴۷۴/۳/۲۸ تاب اقدامات مل کر میاں عبدالقیوم صاحب کویر کا طریق اور نہ جائیں ضرورة الامام ، بازار جانے کی دعاء شهری م /۲۳/۹ ۲۶۷ عزیز محمد صاحب اسلامیه پارک محمد شفیع خان صاحب کراچی داخل ہونے کی دعا ۳۹ ترتیبه پاره نمیره ، نصف آخر، نماز جنازه اور متعلقہ دعائیں 312 برکات الدعا ، چاند دیکھنے ، روزه /۱۱/ ۱۷ ۱۸۲ افطار کرنے اور محبت الہی کے حصول کی دعائیں 16/10/2 ترجمه پاره نمیز) نصف اول ترجمه نماز ۲۳/۳/۱ ۲۳۸ اول نانو سونے سے قبل کی دعا لاہور مولوی محمد احمد صاحب ملک دوست محمد صاحب بہاولنگر دارا الصدر غربي ريوه عزیز محمد صاحب لاہور محمد ابراہیم صاحب شما د ما ر ضیاء الدین صاحب علیکم مرغوب الله صاحب شیخو پوره محمودہ آباد اسٹیٹ ، سندھ
۱۲۸ تعداد امتحان بندگانت نمبر شمار نصاب امتحان تاریخ امتحان اول دوم استخوان سالانه سہ ماہی اوسط الوصية ، والدین اور اولاد کے حق میں قرآنی ۱۲/۶/۸ ۲۰۲ عزیز محمد صاحب لاہور چوہدری فضل احمد صاحب ڈھائیں ، وضو اور آذان کے بعدک دعائیں ۲۳ تر جمجمه پاره نمیزا نصف آخر، ارکان سلوی ۲۱/۹/۱۹ ۳۸۵ ترجمه ، ۳۴ ۴۶ کی صحت ، قضائے حاجت کیلئے جانے اور فراغت کی دعائیں دارا رحمت شرق ربوه محمد ابرا ہیم صاحب شاد چوہدری احمد دین ما طلب ابراہیم لائل پور سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں /۱۲/۱۰ ۲۶۶ پیر محمد یوسف صاحب الامپور ملک نصیر احمد صاحب کراچی کا جواب گھر سے نکلتے اور داخل ہونے کی دعا ر جه واده نمیرا نصف اول، بقره کی به ۱۵/۳۱ ۷۳۲ پر ہی اسداللہ خان صاحب چوہدری رحمت علی مسلم اس گروه ها ابتدائی 10 آیات زبانی ، وفات مسیح ابرا منیم شاهد صاحب که و دلائل انه قرآن کریم سید بداول شاہ صاحب لاہور یا ان کا مال اور مسعود احمد رشید کرانی فتح اسلام - آیت استخلاف کی تشریح /۱۲/۹ ۵۴۸ 30230 11/9/ 40- را کی روٹی جه بار ایران آخر صداقت می روم کے درانی /١/٩ ٢٥٠ ٥٠٠ عزیز محمد خان صاحب لاہور شیخ مبارک احمد صا حب لا ہور توضیح مرام ، حضرت مسیح موعود کی تین بیچ /۱۳/۱۲ ۱۳۸۸ ۴۸ السلامی دعائیں محمد ابراہیم شاد صاحب آفتاب احمد صاحب ایمیل کرا چی ۴۹ ترجمه پاره نمبر ۱۶ نصف اول ۳۰ دلائل ٨٥٠١٧/٣/١ مولوی عبدالمجید صاحب کراچی علی محمد صاحب اسم ساہیوال هستی باری تعالی ، علامات ظهور مهدی شہدائے احمدیت کے نام نشان آسمانی ، تین معیار صداقت انبیاء ، حضرت میں موجود کی ۳ الهامی دعائیں ۵ مشهور صحابیا یر ستاد ام محمد بخار کی کراچی غلام مصطفی صاحب کا بلون دا را مصدر شمانی ربود ہوں
۱۲۹ تعداد امتحان بندگی نمبر شمار امتحان کا نصاب تاریخ امتحان اول دوم امتحان اوسط سالان سیاہی ۸۹۸۱۲/۹/ میری نیند محمود احمد بخاری کراچی سید عادل شاہ صاحب لاہور ترجمہ پارہ نمبر 1 نصف آخرز الصمامات می موقود اے بزبان اردو عربی، فارسی، برکات خلافت مسیح موعود کی وہ تصانیف کے نام ضرورت الامام و قرآنی دعائیں مع ترجمه ۱۲/۱۲/۱ ۳۸۷ چور بدری احمد دین نصاب کا مشہور محمد اکبر سقراط صاحب آنحضرت کی زندگی قبیل نبوت کے مختصر حالات گو لیکنی گجرات ترجمہ پارہ نمبر ۳ور ربع اول ، ایک غلطی کا /۳۰/۴ ۶۴۷ حمد ابراہیم صاحب شاد حاجی محمد افضل صاحب دیوده ازاله ، تین الهامات حضرت مسیح موعود بزبان عربی، اردو ۵۴ ترجمه پارہ نمبر ۱۳ ، رایج دوم سوم، بقره سے /۷۰/۸ ۳۶۰ ۲۷۱ عبدالسمیع صاحب حسنی پیر محمد صاحب نور نگر کی ابتدائی ۱۷ آیات ، در ثمین کے 5 اشعار چک نمبر اور حسنی پور در مدرج قران که بیم ۱۳ تر جمہ پارہ نمبر ۱ رایج چهارم، الومیت ۲ / ۱۲ /۱۰ ۲۹۸ ڈا کر دایم.اے عامر صاحب نواب الدین صاحب با استنگ لامپور سوسائٹی کو اپنی ترجمه قرآن مجید پارہ نمبر ۱۴ ربیع اول ۱۲/۷۳ صوفی بشارت الرحمن ربوہ غلام حسین صاحب کو بیان ضریح هزاره رسالہ تجلیات اللہ علیہ سلام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بین الصمامات ترجمه قرآن مجید پاره تمبر ) رابع مردم اروم ٤/٩/٧٣ ۱۲۹ تعلیم القرآن کے متعلق احادیث الرسول مصر ۱۳) ۳۲۰) صوفی غلام محمد صاحب نامی صوفی غلام محمد صاحب عاصی عبد الرحمن صاحب بیشتر دایره غاری خان چک نمبر ۲۰ A کا چیلو مسیح موعود کی تین الهامی دعائیں ترجمه پارہ نمبر ۱۳ دریا چهارم، رساله لیکچر ۲۱۶۳/۹/۷۳ قریشی عبدالرحمن صاحب سکھر صوبیدار نواب الدین صاحب کا ہونا قرآن کریم کی تین دعائیں.کوئٹ
تعداد امتحان بندان نمبر شمار امتحان کا نصاب تاریخ امتحان اول دوم سالانه برسیاہی اوسط ترجمه ترجم قرآن کریم پاره نمره ، نصف اول آیت ۳/۷۴/ ۱۹۲ ۱۹۲ محمد ابراہیم صاحب چک نمبر چوہدری خالد سیف اللہ صحاب و آخرین منهم لما یلحقوا بم کا ترجمہا دور اس سے ۱۱۷ چهور سر گود عام صداقت حضرت مسیح موعود کا استدلال 4.۲۲ توحید باری تعالیٰ کے تین دلائل - ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۱ نصف آخر ، آیت ۳۳/۳/۷۵ ۱۳۹۰ ماسٹر اسد اللہ خان صاحب محمد ابراہیم صاحب شاد خاتم النبیین کی تشریح قرآن کریم اور احادیتا سے ، حدیث لا نبی بعد می" کا مفہوم فیکٹری ایریا ریوں چک نمبر 1 چھور ر سالہ سیر اشتہارہ خلافت کا مفہوم اور ان کی ترجمه قرآن کریم پارہ نمبر ۱ ربیع اول ۲/۶/۷۵ ۵۷۳ ۵۱۸ مهتاب الدین صاحب ماسٹر چراغ دین صاحب البركات شیخو پوره شهر وار البر کاشت به ابوه ضرورت انتقام حضرت مسیح موجود حضور کے الہامات کی روشنی میں.ترجمه قرآن مجید پارہ نمبر ۱ ربع دوم ، رساله ۲۲/۹/۷۵ ۲۱۱ پراچھے محمد اقبال صاحب پر انچه مخدوم محمد جمیل صاحب روئیداد جلسہ دیا ، صداقت انبیاء انه سرگودها شهر میانی ضلع سرگودها قرآن کریم ترجمہ پارہ نمبر ۱۶ ربع سوم ، دافع السلام ۱۹/۳/۷۶ مام میجر عبدالمجید صاحب مباشر محمد ابراہیم صاحب شمار ٹرمحمدابراہیم ہ دعائیں سرگودها چک نمبر ۱۱ چنور ار ار محمد ابراہیم صاحب شاد مولوی سلطان صاحب پیر کوئی ۱۴ ترجمه پارہ نمبر ۱۶ ربیع چهارم، توضیح مرام ۲۵/۷/۷۶ ۱۷۳۷ ه احادیث 14 ۵۱۱ چک نمبر 16 ریوں ۶۵ ترجمہ پارہ نمبری انصف اول ۱/۱/۷۷ ۴۱۴ عبد السميع حسنی صاحب خلیل الرحمن صاحب بریوه | خلافت حقہ اسلامیہ ، ۵ الهامات حضرت چک نمبر بوا حسن پور
تعداد امتحان مهند همان نمبر شماره نصاب امتحان تاریخ امتحان برسہ ماہی اوسط اول دوم ما داره ។ ។ KA ས་ ترجمہ پارہ نمبر ۱۷ ربع سوم ، نماز جنازه ۲۵/۳/۷۷ مع ترجمه، حفظ قرآن ، کم از کم ایک رکوع ) عبد الستار صاحب بھٹی مسلمہ مولوی بیشتر احمد قادیانی ریون ترجمہ پارہ نمبر ۱ ربیع چهارم لیکچر ۲۲/۷/۷۷ ۶۱۶ ۵۰۰ عبدالسمیع صاحب حسنی ماسٹر محمدابرا ہیم شاد سیا لکوٹ ، دس منتخب احادیث چک نمبر ۱۲۱ حسن پور چک نمبر ۱۱۷ چهور ترجمہ پارہ نمبر ۱۸ نصف اول ، آسمانی فیلم ۲۸/۹/۷۷ / ۵۵۱ چوہدری عبد الغنی صاحب عطاء الرحمن صاحب چغتائی تین دعائیں.فصیل آباد لا ہوں ترجمه پاره نمیره روی سوم لیکچر له میانه ۲۳/۳/۷۸ ۶۲۹ ملک محمدسلیم صاحب دارالعلوم شیخ منصور احمد صاحب کراچی حفظ قرآن کم از کم ایک رکوع ، دسی منتخب المسامات احضرت مسیح موعود غربی ربود ترجمه پاره نمبر ۱۸ ربیع چهارم پیغام صلح ٣٠/٧/٧٨ ٥٧١ دس منتخب احادیث ڈاکٹر احمد من صاحب شیخ محمود الحسن صاحب لاہور گجرات ترجمه پاره نمیر ۱۹ ربیع اول، دافع البلاء ۱۵/۹/۷۸ ۶۳۵ علام رسول صاحب المون ایم عبدالحمید صاحب چک نمبر 4 خلافت کی برکات ترجمہ پارہ نمبر ۱۹ ربیع دوم، ضرورة الامام ۸/۱۲/۷۸ علامات ظهور مهدی ڈیرہ غازیخان گھسیٹ پر ضلع فیصل آباد
۱۳ اطفال کے لیے وظائف انعامی کا اجرا اطفال میں یہ شوق پیدا کرنے کے لیے کہ وہ دینی معلومات حاصل کریں اور کچھ نہ کچھ دینی کتب کا مطاحہ کریں نیز انصار اللہ کو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نائب صدر محترم نے 1 میں سے د و انعامی وظائف جاری کرنے کا اعلان فرمایا ، اس فرض کے لیے قیادت تعلیم ہر سال کے آغاز پر ایک دینی نصاب تجویز کر کے اس کا اعلان کرتی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ جو اطفال ان وظائف کے حصول کے خواہشمند ہوں وہ مقررہ نصاب کی تیاری کر کے مقابلہ کے امتحان میں شریک ہوں ابتدا چند سال یہ طریق رہا کہ امید واروں کو انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر ایک بورڈ کے سامنے پیش ہو کر زبانی امتحان دینا پڑتا تھا لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ انصاراللہ کے اجتماع کے موقعہ پر بیرونی مجالس کے بہت کہ اطفال اس مقابلہ میں شریک ہوتے تھے اس لیے بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ امتحان اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر لیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اطفال اس میں حصہ لے سکیں ، امتحان زبانی ہی ہوتا ہے، امتحان لینے والے بورڈ میں موماً ایک نمائندہ انصار اللہ کا ہوتا ہے اور ایک خدام الاحمدیہ کا اول و دوم آنے والے اطفال کو على الترتیب مدرسہ کی ایک سال کی پوری اور نصف میں بطور انعام انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر پیش کی جاتی ہے.ان میں سے اول بنائے مل کر مین کی میں اپنے اسلام کو ساٹھ روپے بطور انعام دیئے جاتے ہیں.کو مبلغ قوم 1464
۱۳۳ بارہواں باب اشارة انا خیر ما نا انصا الشد حضرت امیر المومنین خلیفہ لمبی الثانی رضی اللہ علی انصاراللہ کی تنظیم قائم کرتے وقت جن اغراض و مقاصد کا ذکر فرمایا اور جو پروگرام اس کے لیے تجویز کیا اس میں اولیت تبلیغ کے کام کو حاصل ہے، حضور نے ارشاد فرمایا و مرکن کو سوز از نصف گھنٹڈ یا پر یاد کم از کم تین دن اس کام کے لیے وقف کرنے چاہئیں چنانچہ قادیان میں ہی اسس پروگرام پر عمل شروع ہو گیا اور گرد و نواح کے دبیات میں وفود بھیجے جانے لگے، اس مہم کے دوران اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ سلسلہ کے عقائد اور مذہبی معاملات میں جماعت کے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ ٹریکٹ اور اشتہار تیار کر کے شائع کرنے چاہئیں.اس ضرورت کے پیش نظر مرکزی مجلس عاملہ نے اپنے اجلاس مورخه بار فتح کر د سمبر پیش میں یہ فیصلہ کیا کہ ایک شعبہ نشرو اشاعت قائم کیا جائے جو اشتہارات وغیرہ ۹۴۴ کی تیاری اور اشاعت کا انتظام کرے اس سلسلہ میں ایک سب کمیٹی جو چو ہدری فتح محمد صاحب سیال اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب پر مشتمل تھی مقدر کی گئی.اشاعت کے کام کو چلانے کے لیے ، مہیش کے بجٹ میں کچھ صد روپے کی منظوری دیدی گئی ، لیکن جب ملکی حالات دگرگوں ہونے لگے تو یہ پروگرام جاری نہ 1400 رکھا گیا سکا.تقسیم ملک کے بعد ہی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سہ ماہی میں چار صفحات کا ایک خوبصورت ٹرکیٹ آٹھ ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے.ٹریکٹوں کی تیاری کے لیے یہ بھی تجویز ہوئی کہ ایک بورڈ بنایا جائے جس میں مرکزی حاطہ کے ممبران کے علاوہ تین علماء باہر سے ہوں.اگلے محال اشاعت کے لیے پانچ ہزار کی رقم مشروط یہ آمد رکھی گئی ہیں میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علی اسلام کا رسالہ ایک غلطی کا ازالہ انصار ان کی 41402
۱۳۴ طرف سے طبع کرا کر اس نوٹ کے ساتھ غیر مبائعین میں تقسیم کیا جائے کہ مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو اس رسالہ میں حضور نے بیان فرمایا ہے اور حضور کی نبوت کی اس تشریح سے سرمو انحراف کو ہم نا جائز اور باطل سمجھتے ہیں، کیا غیر مائعین کو اس سے اتفاق ہے ؟ یہ رسالہ چار ہزار کی تعداد میں مجالس انصاراللہ کی طرف سے مفت تقسیم کیا جائے اور غیر بائعین تک پہنچایا جائے اور بھی فیصلہ کیا گیا کہ درین فارسی سے ایک انتخاب جو 14 صفحات پرمشتمل ہو عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیا جائے اور اس کے اخراجات مجالس برداشت کریں یعنی مجالس کو مطلوبہ تعداد میں قیمتاً مہیا کیا جائے.اشاعت لٹریچر کا کام بغیر پیسے کے نہیں کیا جا سکتا ، اس کے لیے ایک مستقل فنڈ سے تمام کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس لیے یہ معاملہ شوری انصار اللہ میں پیش کیا گیا و پیش میں یہ فیصد ہوا کہ اشاعت 1909 لڑیچر کے لیے ہر رکن سے ایک روپیہ سالانہ کی شرح سے چندہ وصول کیا جائے اسی پر عملدرآمد جاری ہے.جو ٹرپھر مجلس کی جانب سے شائع کیا گیا اس کی تفصیل اگلے صفحات پر درج ہے.
۱۳۵ فرست لٹریر شائع کردہ ملبس انصارالله مرکز یہ غیر شمار نام کتب کر رسالہ / پمفلٹ وغیرہ صفحات مصنف / مولف / مرتب تعداد تاریخ اشاعت اشاعت پاکیزہ تعلیم اقتباسی از کشتی نوزه ۱۳۳۵ پیش ۱۰ هزار " ہ ہزارہ جماعتی تربیت اور اس کے اصول حضرت مرزا بشیر احمد صاحن ایک غلطی کا ازالہ ۱۸ تصنیف حضرت مسیح موعود انتخاب از در ثمین فارسی منظوم کلام راہ ہدی ۳۵ ہدایات حضرت امیر المومنین نومبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۳۲ مرتبہ چو ہدری مشتاق احمد صاحب با جوه دسمبر الماعی دعائیں خلافت تربیت ۲۴ پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر اکتوبر مولینا جلال الدین صاحب شمس بھارت اور چین کا سرحدی تنازعہ پیشگوئی حضرت مصلح موعود عند فرموده ۱۳۳۵ ریش 1904 " 1990 1441 * It " ختم نبوت کی حقیقت کا مہتمم ۸۸ مسعود احمد خاں صاحب قائد اشاعت ۲۸/۱۰/۱۳ " با نشان اظهار تعلیہ اسلام کی آسمانی سکیم ۱۲ با ہمی محبت و اخوت ۱۴ اطاعت اور اس کی اہمیت ۱۵ 14 میری بعثت کا مقصد میری تعلیم " ارشادات حضرت مسیح موعود قیادت اشاعت قیادت تربیت ۱۳۴۵ 1444 1444 چون ۱۹۹۸ 4 •.ہزار طبع ثانی
نمبر شمار نام کتاب در رسالہ سر پمفلٹ وغیرہ صفات مصنف مؤلف به مرتب تاریخ اشاعت 1 خلیہ السلام کی پیشگوئی قیادت تربیت تعداد اشاعت ۱۳۲۷ بیش ۳ ہزار کشت.اتباع قرآن کی برکات 19 سورۃ بقرہ کی ابتدائی مسترہ آیات ۴ VI ۲۳ مع ترجمہ تزکیہ نفوس اور ہماری ذمہ داری تربیت اولاد کا طریق میری بعثت کا مقصد مقام خلاقت اور اس کی عظمت و 14 اہمیت ۲۴ رساله بنیادی معلومات ۲۵ 14 THE Promised VICTORYAND OUR DUTY می شود A 1444 قیادت اشاعت مارچ به 144+ " N حبیب اللہ خان تا ئد تعلیم اپریل حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ضای مئی نوع انسان کی ہمدردی و خیر خواہی کے قیادت اشاعت متعلق اسلامی تعلیم تربیت اولاد ۳۲ مارچ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارکی احمد صابه بخون " ۱۳۵۰ 1961 ۱۳۵۱ 1967 1961 " ۱۳۵۲ 1467 " حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی تقریر سالانہ اجتماع انصار الله ترجمیه کا انگریزی تقریر حضرت صاحبزاده مرزا مبارک احمد صاحب موقعہ اجتماع انصار الله کراچی ١٣٤٣
نمبر شمار نام کتاب / رسانہ پمفلٹ وغیرہ صفحات مصنف ر مؤلف / مرتب YA تاریخ اشاعت نماز با جماعت کے بارے میں اسلامی م قیادت اشاعت منی How مش تعداد کیفیت اشاعت ه مزار طبع ثانی " بند ہزار حد خوشی " " ۱۳۵۳ 1960 - 1940 1944 اپریل ماری " 1965 "" 1920 ۲۹ دیھا سے متعلق اسلامی تعلیم ۳۱ نماز با جماعت کے بارہ میں اسلامی تعلیم انصار اللہ کی ذمہ داری ہفتہ تربیت کے مضامین صلح و با ہمی محبت آداب گفتگو " ۴ ۳۵ اخلاق فاضلہ کے متعلق قرآنی تعلیم ۴ YA صحبت صالحین بھیج درود اس محسن پر دن میں سو سوبار تقیم کی خبر گیری قیادت اشاعت غلام باری سیف صاحب قیادت اشاعت میر کانت خلافت ۳۹ سم پاکیزہ تعلیم لین دین سے متعلق اسلامی تعلیم یتیم کی خبرگیری
ماہنامہ انصار الله اس دور میں نشر واشاعت کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے.یہ تنظیم کے لیے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا کوئی آرگن یا رسالہ ہو جس کے ذریعہ وہ اپنے خیالات اور معتقدات کی تشہیر اور توضیح کر سکے مجلس انصارالہ کو بھی یہ ضرورت محسوس ہورہی تھی تر تنظیم سے متعلق مختلف امور اور ہدایات کو مجالس تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ € 1904 ہونا چاہیے.راکین کی تعلیم و تربیت اور آئندہ نسلوں کی اصلاح کے پیش نظربھی اس امرکی ضرورت تھی کو تنظیم کی جانب سے کوئی کہ سالہ شائع کیا جائے.اس ضرورت کے پیش نظر میں کی شورٹی میں یہ فیصلہ ہوا کہ میمن مرکز یہ ایک ماہوار رسالہ شائع کرے جس میں مجالس انصاراللہ سے متعلق پروگرام، کار کردگی کی رپورٹیں اور ضروری ہدایات شامل ہوں.اس رسالہ میں انتظامی اور تربیتی امور کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفونات نیز حضور کی عربی تحریروں کے تراجم بھی شائع کئے جائیں اور ہر مجلس کے لیے اس کی خریداری لازمی قرار دی جائے چنانچہ اس فیصلہ کے بموجب ماہ نبوت (۱۳۳۹ میں سے ایک ماہانہ رسالہ کی اشاعت شروع کی گئی اور حضرت 197” صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تجویز کے مطابق اس کا نام انصار اللہ رکھا گیا.اس کی ادارت کے فرائض مسعود احمد صاحب دہلوی ایڈیٹر روز نامہ الفضل کے سپرد کئے گئے اور طابع وناشر چوہدری محمد ابراہیم صاحب ایم اے انچارج دفتر انصار اللہ مقرر ہوئے.یہ رسالہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنا شرٹ ہوا اور اس کی سالانہ قسمیت پانچ روپے مقر ہوئی.اس ماہنامہ کے اغراض و مقاصد کا ذکر کسی قدر تفصیل سے پہلے شمارہ کے ایڈٹیوریل میں کیا گیا ہے اس لیے اس کا ایک اقتباس اس جگہ درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :- "حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسی اور جذب کشش کے طفیل آپ کے صحابہ نے اسلامی تعلیم پر کما حقہ عمل کرتے ہوئے نصرت دین اور راہ خدا میں فدائیت کا جو نمونہ دکھایا تھا اس روح اور جذ بہ کو نئی نسلوں میں منتقل کرنے اور اسلام کو ان کی زندگیوں میں نافذ کرتے ہوئے ان میں بھی حتی پر شار ہونے کا ولولہ پیدا کرنے کے لیے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت میں اطفال الاحمدیہ ، ناصرات الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیمیں قائم فرمائی ہیں چنانچہ اسی فرض کے ماتحت اب
۱۳۹ i ماہنامہ انصار اللہ نبی کا پہلا شمارہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے جاری کیا گیا ہے ،یہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا ترجمان ہو گا ، اس میں انشاء اللہ ہم التزام کے ساتھ امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ایسے روح پرور ملفوظات اور پر معارف تحریرات اور نظم و نثر عربی ، فارسی و اردو شائع کرنے کا اہتمام کرینگے کہ جو جذب و تاثیر کے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کے بار بار کے مطالعہ سے دلوں کے زنگ دھل کر سب کثافتیں دور ہو جاتی ہیں اور قلوب و اذہان کی ایسی تعبیر ہوتی ہے کہ انسانوں کے سینے اور دماغ آسمانی نورست منور ہو جاتے ہیں اور وہ دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے عالم بالا کی مخلوق نظر آنے لگتے ہیں.اس کے ساتھ ساتھ آپ کے صحابہ کے حالات ، ان کے قبول حق کے واقعات، قربانی و اثتیار اور فدائیت کے نمونے اور ان کی ایمان افروز روایات بھی التزام کے ساتھ ہدیہ ناظرین کی جائیگی تا ہمیں احساس ہو کہ ہم کیسے عظیم الشان اسلاف کی اولاد ہیں، ہمارا اصل ورثہ کیا ہے اور سے بحفاظت تمام نسلوں کے اندر منتقل کرنے کے ضمن میں ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.پھر تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت کے چیدہ چیدہ واقعات بھی قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائینگے تا ایمان ویقین اور خدمت اسلام کے عزم صمیم کو ایک نئی پختگی اور نیا استحکام حاصل ہو ، اسی طرح اہل علم اور اہل قلم اصحاب کے بلند پایہ علمی و تربیتی مضامین سے ہر شمارہ کو مزین کرنے کی کوشش کی جائے گی.الغرض ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ماہنامہ انصار الله کام شماره روحانی نعمتوں کا ایک خوان یغما : ثابت ہو........اس رسالہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صا حب رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا: اس رسالہ کے ایڈیٹروں کو چاہیے کہ خود بھی انصار الله یعنی خدا کے مدد گار نہیں اور رسالہ کے نامہ نگاروں کو بھی تلقین کریں کہ وہ اپنے تمام مضامین کو اس مرکزی محور کے اردگرد چکر دیں.اس وقت دنیا نے موجودہ زمانہ کی مادی تہذیب و تمدن کے اثر کے ماتحت خدا کو گویا اکیلا چھوڑا ہوا ہے.انصار اللہ کو چاہیے کہ سب سے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کر کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر کو گہری نظر سے دیکھ کہ خدا کا منشا معلوم کریں کہ وہ اس
۱۴۰ مانہ میں کیا چاہتا ہے یعنی وہ کن خرابیوں کو مٹانا چاہتا ہے اور کن خوبیوں کو قائم کرنا چاہتا ہے اور پھر اس مطالعہ کے بعد اپنی تمام قوتوں اور تمام ذرائع کے ساتھ خدا کی خدمت میں لگ جائیں، اس کے بغیر نہ تو مجلس انصار اللہ حقیقی معنوں میں انصار اللہ کھلا سکتی ہے اور نہ یہ رسالہ صحیح طور پر خدا تعالیٰ کا ناصر و مدد گار سمجھا جا سکتا ہے.رسالہ انصاراللہ کے مضامین اعلی درجہ کے علی اور حقیقی ہونے چاہیں اور اس رسال کو اپنے بلند معیار سے ثابت کر دینا چاہیئے کہ حقیقہ مذہب و سائنس میں کوئی مسکراؤ اور تضاد نہیں کیونکہ وہ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں.سچا مذہب خدا کا قول ہے ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کے ذریعہ دنیا پر نازل ہوا اور پھر آپ کے خادم اور فعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس نے اس زمانہ میں نئی روشنی پائی اور سچی سائنس خدا کافعل ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی نیچر کے پردوں میں مستور رہ کر زمانہ کی ضرورت کے مطابق ظاہر ہوتی رہتی ہے....حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء اور آپ سے تربیت یافتہ اصحاب کے لٹریچر نے اس نام نہاد تضاد کو بیشتر صورتوں میں صاف کر دیا ہے اور اگر کوئی ظاہل تضاد باتی ہے تو وہ بھی انشاء اللہ جلد صاف ہو جائے گا.رسالہ انصار الله کو اس کام میں خاص حصہ لینا چاہیئے." ر مرقوم ۲۰ اکتوبر ۱۹۶ حال لاہور ) اس رسالہ کو بڑی محنت، توجہ اور قابلیت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے.اس کا سب سے زیادہ جاذب نظر حصہ وہ ہوتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیدہ چیدہ ملفوظات اور روح پر در تحریرات نظم و نثر کے منتخب حصے درج کئے جاتے ہیں یوں تو حضور کی ساری تحریریں اور ملفوظات ہی وحی خفی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور دائمی انوار و برکات کی حامل ہیں اور ان میں اس قدر جذب کوشش ہے کہ کوئی قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، لیکن ان میں سے بھی بعض حصے ایسے ہیں جو اپنے حسن و خوبی اور تاثیرات میں بے مثال ہیں.اس ماہنامہ میں جب ان نوادرات پر نگاہ پڑتی ہے تو نظرو میں اٹک کر رہ جاتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ بار بار ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی ظاہری و باطنی لذتوں سے لطف اندوز ہوا جائے اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی علمی اور تربیتی لحاظ سے نہایت عمدہ اور مفید ہوتے ہیں ، پہلے سال کے شماروں پر نظر ڈالی جائے تو
۱۴۱ معلوم ہوتا ہے کو بڑے ذی علم اور قابل افراد نے اپنے رشحات قلم سے اس رسالہ کو مزین کیا ہے ، ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( موجوده امام جماعت احمدین) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ، چوہدری ظفر اللہ خانصاحب مولانا جلال الدین صاحب شمسی سابق مبلغ بلاد عربیہ ، مولانا ابو العطاء صاحب ایڈیٹر الفرقان رشیخ محمد آمیل صاحب پانی پتی مرحوم اور شیخ عبد القادر صاحب محقق خاص طور پر قابل ذکر ہیں.رسالہ کی انہی خوبیوں کو تا نظر رکھتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ریعنی اللہ عنہ نے مجلس کے سالانہ اجتماع منعقدہ ش کے موقعہ پر اپنے افتتاحیہ خطاب میں فرمایا : سے 1449 11 میں اس جگہ رسالہ انصار اللہ کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ رسالہ خدا کے فضل سے بڑی قابلیت کے ساتھ لکھا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کے اکثر مضامین بہت دلچسپ اور دماغ میں جلا پیدا کرنے اور سورج کو روشنی عطا کرنے میں بڑا اثر رکھتے ہیں.یہیں انصارالله کو چاہیے کہ اس رسالہ کو ہر جہت سے تمائی دینے کی کوشش کریں.اس کی اشاعت کا حلقہ وسیع کریں اور انکے لیے مختلف علمی موضوع پر اچھے اچھے مضامین لکھ کر بھجوائیں تاکہ اس کی افادیت میں ترقی ہو اور جماعت میں اس کے متعلق دلچسپی بڑھتی چلی جائے.علمی اور تربیتی مضامین کے علاوہ مرکزی مجلس کے اعلانات اور قائدین شعبہ جات کی ہدایات بھی وقتاً فوقتاً اس رسالہ میں شائع ہوتی رہتی ہیں اور ماہنامہ کا ایک صفحہ بچوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے.اس کے علاوہ سے جسب فیصلہ شورٹی قائدین مرکز یہ کی ان سالانہ رپورٹوں کا خاصہ بھی درج کیا جاتا ہے جو وہ اپنی کار گذاری کے بارے میں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر پیش کرتے ہیں.پھر علاقائی اجتماعات کی مختصر روئیداد اور ان سے متعلق کوائف بھی ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں تاکہ بیرونی مجالس کی کارگذاری سے سب انصار متعارف ہوں اور دوسری مجالس میں بھی بیداری اور مسابقت کی روح پیدا ہو.کسی رسالہ کو کامیابی سے چلانے کے لیے یہ امر نہایت ضرورہ میں ہے کہ وہ مالی لحاظ سے خود کفیل ہو سالانہ اجتماع انصار الله (۱۳۳ پیش کے موقعہ پر نمائندگان مجالس نے ایک قرار دادہ میں اس امر کا ذکر کیا تھا کہ وہ اس رسالہ کی اشاعت بہت جلد دو ہزار تک پہنچا دینگے، لیکن یہ توقع پوری نہ ہوسکی.ماہنامہ انصار اللہ کی قیمت دوسرے رسالہ جات کے مقابلہ میں اس لیے کم رکھی گئی تھی کہ اشاعت زیادہ ہو اور زیادہ سے زیادہ مجالس 1449 ماہنامہ انصارالله نومبر تشاء
۱۴۲ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ، منافع تو اس کی اشاعت سے مطلوب ہی نہ تھا اسکی گرانی کے باوجود اس کی قیمت صرف پانچ روپے سالانہ مقرر کی گئی تھی لیکن جب با وجود کوشش کے اس شرح چندہ سے اس کے اخراجات پورے نہ ہوئے تو بامر مجبوری نومبر 19ء میں اس کی قیمت میں ایک روپیہ کا اضافہ کر کے سالانہ قیمت چھ روپے مقرر کر دی گئی.اگست شاء میں اس میں تبدیلی کی گئی اور آٹھ رہا ہے قیمت رکھی گئی.جون شاہ سے اس کی اس روپے قیمت دس روپے کر دی گئی.رسالہ کی ادارت کے فرائض ایک لیے عرصہ تک مسعود احمد صاحب دہلوی نہایت قابلیت محنت اور توجہ سے ادا کرتے رہے ، جب روز نامہ الفضل کی ادارت بھی ان کے سپرد ہو گئی تو جنوری شہ سے قلام یاری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے.اپریل شاہ کو اس رسالہ کی ادارت سید عبدالحی شاہ صاحب کے سپرد ہوئی اور اس وقت رہی اس کے مدیر ہیں.
۱۴۳ تیرھواں باب انتصارات کا جد محمد جھنڈا علم انعامی اور استار خوشنوی ابتدائی عمد ۳۰ در نبوت نومبر ۱۳۲۳ پیش کو یہ فیصلہ کیا کہ انصاراشد کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانے کے لیے رنویر ۱۹۳۴۴ ایک عہد مقرر ہونا چاہیے اور اس کے الفاظ وہی تجویز کئے جائیں بہو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ش کے جوابی کے جلسہ میں سوائے احمدیت بلند کرتے وقت فرمائے تھے چنانچہ یہ تجویز منظور کرلی گئی اور انصار الہ کے ابتدائی تنظیمی دور میں اس امر کا ذ کہ آچکا ہے کہ جیس انصار اللہ مرکزی نے 1/19 اس کے مطابق عمل ہونے لگا.حضرت مولوی شیر علی صاحب صدر مجلس کی طرف سے یہ ہدایت جاری کی گئی کہ جملہ مجالس انصاراللہ اپنے جلسوں اور اجتماعات میں کھڑے ہو کر محمد کو دہرایا کریں.شروع میں پہلے ایک دفعہ اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوا و رسولہ کیا جائے، پھر عہد کے الفاظ تین مرتبہ دہرائے جائیں.عہد کے الفاظ مجلس کا وہ عہد یدار کہلوائے گا میں نے انصار کا اجلاس طلب کیا ہو مثلاً زمیم انائب زعیم یا مسلم اور مرکز میں قائد صاحبان میں سے کوئی یا صدر مجلس.ابتدائی دور میں صدر مجلس کی مندرجہ بالا ہدایت پر عمل ہوتا رہا ہے لیکن مجلس انصاراللہ مرکز یہ ۱۳۳۵ جدید محمد کے سالانہ اجیت کے منعقدہ ۲۷ اضاء/ اکتوبر ۳۵ بارش کے موقع پر حضرت امیرالمونین اجتماع - 1904 خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک اور عہد تجویز فرمایا اور اسے اپنی افتتاحی تقریر سے قبل کہلوایا ، له الفضل اور فتح کر دسمبر مش ۱۳۲۳ پیش
۱۴۴ اور وہ یہ ہے شهد ان لا اله إلا الله وحده لا شريك المواشهد ان محمداً عبده ورسوله.میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لیے انشاء اللہ آخر دم تک جد وجہد کرتا نہ ہوں گا اور اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہوں گا، نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرنانہ ہوں گا یہ اب انصار اللہ کے اجتماعات میں میں صدر ایک مرتبہ کھڑے ہو کر وہ ہرایا جاتا ہے.21909 جماعتی عهد حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے خدام الاحمدیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع منعقدہ ریش کے موقعہ پر ایک جماعتی عہد تجویز فرمایا جسے خدام نے حضور کی اتباع میں اس وقت دہرایا.اس محمد کے بارے میں حضور نے ہدایت فرمائی کہ مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عدد ہرایا کریں.جو عہد حضور نے اس وقت پیش فرمایا وہ یہ ہے :- اشهد ان لا اله إلا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله - ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں ہم اسلام او را احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائینگے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لیے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے اتنی کام کیلئے
۱۴۵ آخر دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اسکی بیسان سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہینگے تا کہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت ایک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے ، اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما آمین - اللهم امین - افهم آمین اس عہد کے بارے میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ عہد جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نو جوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے کہیں کردہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی میلی بجائے اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپرد کردے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو ملے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دہرایا کریں یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام آنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے.لے ۱۳۳۵ 51904 انصاراللہ کا جھنڈا علم انعامی اوراسا خوشنوی اش کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر شورٹی انصاراللہ میں یہ فیصد ہوا کر -۱ انصار کا اپنا جھنڈا ہو اور انعامی و اعزازی جھنڈا بھی دیا جایا کرے.- جو مقامی زعیم العلی باز میم ضلع اپنی تنظیم اور انصار اللہ کے فرائض کی ادائیگی میں مرکز کے قیصر کے مطابق سب سے اول رہیں انہیں سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقع پر انصار اللہ کا اعزازی جھنڈا دیئے جانے کی مفاشر حضرت امیر المومنین کی خدمت میں مجلس انصار الله مرکزہ یہ کرے.اس فیصلہ کو ملی جامہ پہنانے اور تفاصیل طے کرنے کے لیے ایک سب کیٹی مقر کی گئی جس کے مبر مندرجہ ذیل اراکین تجویز ہوئے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ، مولانا جلال الدین صاحب انصاراللہ کا جھنڈا میر شمس محمد شفیع صاحب گوجرانوالہ چوہدری شریف احمد صاحب با جوه لائلپور، مرزا داود احمد صاحب، مولانا ابوالعالی صاحب جو ٹھنڈا تجویز ہوا اس کا ڈیزائن اور سائز درج ذیل نقشہ سے ظاہر ہے.الفضل ۲۸ را خاء / اکتوبر ۳۳ میش ۱۲۸
2-912 ۱۴۶ انصار اللہ کا جھنڈا i 1-5 5-2 مولی 2-8 کپڑے کا طول پانچ فٹ دو انچ اور عرض دو فٹ ساڑھے نو اپنے سفید زمین کے دائیں جانب اوپر والے کونے میں دونٹ آٹھ انچ لمبا اور ایک فٹ پانچ انچ چوڑا سیاہ حصہ ہے جس کے وسط میں ساڑھے چھ اپنے قطر کا سفید بدر کامل ہے.
علم انعامی | اعزاز کی جھنڈے یعنی علم انعامی کا بھی وہی ڈیزائن ہے جو انصار اللہ کے جھنڈے کا لے جا یا سکے.۱۳۴۵ 1944 ہے، لیکن ڈنڈے (پول) کے دوستہ ہیں تاکہ اسے آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پیش کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مجلس راولپنڈی نے یہ تجویز پیش کی کہ مروجہ دستور کے مطابق علم انعامی مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر دیا جاتا ہے.ہمارا سال کم مصلح جنوری سے شروع ہوتا ہے.سال بھر کی کارکردگی کا جائز ہے کہ خلیفہ وقت کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ وہ علم انعامی جلسیاں نہ کے موقعہ پر اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا کریں اس طرح مسابقت کی روح ترقی کرے گی.به تجویز کثرت رائے سے منظور کر لی گئی اور حضرت امیرالمومنین نے بھی اس کی منظوری عطا فرمائی ہیں شوری یہ کو کی شور علی میں یہ سفارش کی گئی کہ مجالس کی تربیت کے کام کا جائزہ لیتے وقت قیادت تربیت اس امر کو ملحوظ رکھے گی کہ جبس مبس کا کام قیادت کے نزدیک سب سے اچھا ہو اس کے اسی فیصد ارکان نماز یا ترجمہ بھی جانتے ہوں.اسی صورت میں قیادت تربیت حکم انعامی کی سفارش کرے گی.حضرت امیرالمومنین نے اس تجویز کو 51446.منظور فرما لیا.علم انعامی اور استاد خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حضرت امیر المومنین نے جو ذیلی قواد منظور فرمائے وہ یہ ہیں :- الف - علم انعامی اور سندات صرف انہی مجالس کو دی جائیں گی جنہوں نے دوران سال حملہ قیادتوں کے ساتھ عملی تعاون کیا ہو.ب تعاون کرنے والی اور اس اعزاز کی حقدار صرف وہی مجلس سبھی جائے گئی جس نے تمام قیادتوں سے کرنے اس اعزاز گی تمام قیادتوں پچھتر فیصد نمبر حاصل کئے ہوں.مختلف سالوں میں حکم انعامی حاصل کرنے والی مجالس کی فہرست درج ذیل ہے :.ه ماهنامه انصار الله انماء لاكتوبر ۱۳۴۶ بیش
علم انعامی حاصل کرنیوالی مجانس نمبر شمار ن مجری شمسی حکم حاصل کرنے والی نمائندو مجلس جس نے علم سن عیسوی بجلی حاصل کیا دوم سوم - رہنے والی مجالس ترتیب دار) ۳۳۶ میش ملمان شهر میاں محمد سعید صاحب دارالرحمت غربی دیوه 1400 ١٣٣٩ 144° 1441 ۱۹۹۲ 1940 کراچی " " چویدری عبدالحق صاحب اک سمنان شهر چوہدری عبدالحق صاحب ورک چوہدری احمد مختار صاحب زعیمها علی محمد شفیع خان صاحب ملتان شهر میاں محمد سعید صاحب گولیکی (ضلع گجرات) کراچی و بویر احمد مختار اب زعیم اعلی تومیکی (ضلع گجرات) - دار الصدر غربی دیود " لائل پور ، پشاور 1944 پشاور چوہدری رکن الدین خانه زعیم علی کراچی کوئٹہ 1944 پشاور ، پہلے ہو ماہ چوہدری رکن الدین محمد شفیع کراچی ، آخری به ماه خانصاحب نجیب آبادی " ۱۳۴۷ کراچی ، پہلے ۶ ماه محمد شفیع خان زعیم اعلیٰ کراچی کوئٹ 11 IONA 1949 پشاور، آخری ۶ ماه لائل پور قریشی افتخار علی صاحب کراچی ، پشاور ، ربوہ کوئٹہ ، شیخو پورہ ، سرگودها ، سیالکوٹ زعیم اعلیٰ جهنگ صدر، سکھر
۱۴۹ زشمار ۱۳ مجری سن عیسوی ۱۳۲۹ مش 1960 ع ۱۴ 1944 10 1947 184 16 1960 علم حاصل کرنیوالی میں نمائندہ جس جس نے علم حال کی دوم، سوم، رہنے والی مجالس (ترتیب وار) عبد الطیف سنگو ہی صاحب رامپور، کراچی ، پشاور، ربوہ ، کوئٹہ ، سکھر، جھنگ صہ زنیم اعلیٰ لا ہو کوٹ مومن ، دوالمیال مارٹن روڈ کراچی مولوی عبدالمجید صاحب لاہور.لائلپور، ناظم آباد کراچی ، حسن پور (لامپور ) دار برون شیخو پوره) زعيم اعلیٰ کمی گرو کراچی صدر ، پشا در شهر جهنگ صدر ، سکھر لائلپور جسن پور (لالمپور) دار الذكر (لاہور) پشاور، دار برن ناظم آباد کراچی، سرگودھا ، ماڈل ٹاؤن لاہور کوٹ مومن (سرگودھا) لائلپور، حسن پور، ربوہ ، جھنگ صدر ناظم آباد کراچی ، کوٹڈ دار برٹن ، کراچی صدر ، پشاور اسلامیہ پارک لاہور چوہدری نصیر احمد صاحب مارٹن روڈ کراچی لائل پور ناظم آباد کرا چی کراچی صدر، دار برشن زعیم اعلمی سکھر، پیشاور ، جھنگ صدر ، گوشه لائلپور، مارٹن روڈ کراچی، داران کریلا بور ، ناظم آباد کراچی سکھر شر کراچی صدر ، ربوہ ، کوئٹہ شہر، مغلپورہ لاہور فیصل آباد ، مارٹن روڈ کراچی ، رابوه، سکھر، پشاور، دارالذکر لاہور بهاولپور، راولپنڈی ، ناظم آباد کراچی " ورم N 4 ہو گیا اسلامیہ پارک لاہور چوباری نصیر احمد صاب زعیم اعلی چک نمبر او احسن پور، ناظم آباد ، مارٹن روڈ ، بہاولپور، دیوہ سیالکوٹ ، دارالذکر لا ہور ، بہاول نگر ، سکھر چوہدری عبد الغنی صاحب فیصل آباد زعیم ا علیٰ ناظم آباد کراچی چوبداری شریف صاحب اور ایسی فصیل آباد ماڈل ٹاون لاہور، اسلامیہ پارک لاہور، بہاول پور گجرات سیالکوٹ دا راندکرنا بود ، سکھر شیخو پوره، صدر کراچی 14 1960 ۱۳۵۵ 14 1924 - ☑
10- سناد خوشنوی 1444 شور کی انصار الله منعقدہ ۱۳۲۵ پیش میں مجلس راولپنڈی نے یہ تجویز پیش کی کہ " علاقائی مجالس " کو اعلیٰ کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹ دیئے جایا کریں تاکہ سبقت لے جانے کا جذبہ ترقی کرے ، شوری نے بالا تفاق اس تجویز کی سفارش کی اور حضرت امیرالمومنین نے اس کو منظور فرما لیات 16 اگلے سال یعنی پیش کی شوری میں اس سلسلہ میں قیادت عمومی کی جانب سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ شوری 19ء کے فیصلہ کے مطابق علاقائی مجالس کو اعلیٰ کار کردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹ دیئے جایا کریں مگر علاقائی مجالس اتنی کہ میں کہ مقابلہ کی اصل روح قائم نہیں رہ سکتی امناسب ہوگا کہ علاقائی کے ساتھ مضامی" کے لفظ کا اضافہ کر دیا جائے.اس طرح ایک تو ضلعی مجالس کی حوصلہ افزائی ہوگی دوسرے مقابلہ کا معیار بلند ہوگا " غور کے بعد شوری نے سفارش کی کہ حسب سابق علاقائی مجالس میں اعلیٰ کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹ دیئے جایا کریں اور ضلعی مجالس کا آپس میں مقابلہ کر کے اعلیٰ کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹ بھی دیے جایا کریں" تھے حضرت امیرالمونین نے شوری کے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے اس کی منظوری صادر فرمائی، چنانچہ ؟ سے اس کے مطابق عمل شروع ہو گیا.علم انعامی اور اسناد خوشنودی کے حصول کے سلسلہ میں جو ذیلی قواعد حضرت امیرالمومنین نے منظور ش ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ له ايضاً
اها فرمائے تھے ان کے مطابق دہی مجالس اس اعزاز کی مقدار بھی جاتی ہیں جو تمام قیادتوں کے ساتھ عمل تعاون کریں اور کم از کم 10 فیصد نمبر ہر قیادت سے حاصل کریں.اعزازات یعنی علم انعامی اور اسناد خوشنودی کا فیصلہ کرنے کے لیے ہر سال صدر محترم دو یا تین قائدین پرمشتمل ایک کمیٹی نامزد فرماتے ہیں جو نائب صدر کی صدارت میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون کون سے ناظمین علاقائی / ضلع اس قابل ہیں کہ انہیں اسناد خوشنودی دیئے جانے کی سفارش کی جائے میں طرح زعما ر زعماء اعلیٰ اپنی کارکردگی کی ماہوار رپورٹ مرکز میں ارسال کرتے ہیں، اسی طرح ناظمین علاقائی / اضلاع بھی اپنی رپورٹ ارسال کرتے ہیں اور ان رپورٹوں سے ان کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے.مختلف سنین میں استاد خوشنودی حاصل کرنے والی مجالس کی فہرست درج ذیل ہے :.لے ماہنامہ انصار الله اکتوبر ۱۹۹۶
۱۵۲ اسناد خوشنودی حاصل کرنیوالے ناظمین اعلیٰ علاقائی مجالس اول دوم سوم پیش علاقہ نام ناظم اعلیٰ علاقہ نام ناظم اعلیٰ علاقہ نام ناظم اعلیٰ کوئی علاقائی ناظم مستحق قرار نہیں دیا گیا " چوہدری رکن الدین صاب سود قریشی عبد الرحمن نصاب صوره سندره قریشی عبدالرحمن صاحب صوبہ سرحد جو بادی رکن الدین صاحب بلوچستان میاں بشیر احمد صاحب # " ގ بلوچستان میاں بشیر احمد صاحب صود به سرعد چوہدری رکن الدین صاحب ہے کیا اسناد تقسیم نہیں ہوئیں صوبہ سندھ قریشی عبد الرحمن صاحب بلوچستان میاں بشیر احمد صاحب صو به سرمد چوہدری رکن الدین صاحب اجتماع نہیں ہوا صوبہ سندھ قریشی عبید الرحمن صاحب " " " 1944 19< ١٣٥٠ 1941 1925 ۱۳۵۲ 1940 1960 ۱۳۵۵ 1469 1944 ۱۳۵ 1940
اسناد خوشنودی حاصل کرنیوالے ناظمین اضلاع ضلعی مجالس سوم اول درم ضلع ناظم ضلع ضد ناظم شریع ضلع ناظم ضلع عیدی لائلپور پیر عبدالرحمن صاحب محمد شفیع خان صاحب پشاور چوہدری رکن الدین صاحب " تم کو کھو گیا عمومی كرامي لاہور ملک عبداللطیف ستکو بی صاحب لائلپور پیر عبدالر حمن صاحب کراچی محمد شفیع خان صاحب ر عبدالرحمن لائلپور چوہدری احمد دین خانصاحب لاہور ملک عبداللطیف ست کو ہی صاحب ملک عبداللطیف ست کو ہی صاحب کراچی مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب کراچی ملک عبد الطیت، ستکور بی نهایت کیپٹن سید افتنی حسین صاحب لاہور ہو گی کی " کھوسہ محمود کی اور ۱۳۴۷ 1444 1950 1921 ۱۳۵۱ " N 1947 " ۰ ۱۳۵۲ اسناد تقسیم نہیں ہوئیں لائلپور چوہدری احمد الدین خانصاحب کراچی کیپٹن سید انتخار حسین صاحب لاہور مالک عبد اللطیف شکوہی سالب اجتماع نہیں ہوا فیصل آباد چوہدری احمد دین صاحب سیالکوٹ بابو قاسم دین صاحب فیصل آباد چوہدری احمد دین صاحب کریم تصمیم ، حمد خانصاحب لاہور ملک عبدالطیف سکوی ب گجرات سید رفیق احمد صاحب کراچی 1957 ۱۳۵۳ ۱۹۷۴ ۱۳۵۴ 1920 1969 184.1944 1960
۱۵۴ چودھواں باب شور کی انصارالله قرآن کریم میں اللہ تعالی آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو اور آپ کی وساطت سے آپ کے تمام نمائندوں کو حکم دیتا ہے کہ شاوِرُ هُمْ فِي الأمر بینی معاملات باہمی مشاورت سے فیصلہ کئے جائیں.یہی طریق با برکت اور مسنون ہے.مندرجہ بالا ارشاد باری کی تعمیل میں ۱۳۳۵ پیش میں ہی جب انصار اللہ کا ایک نیا دور شروع ہوا اور $1404 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صا حب نائب صدر مقرر ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ مجلس کے سالانہ اجتماعات باقاعدگی سے ہونے ضروری ہیں اور ساتھ ہی یہ محسوس کیا کہ ان اجتماعات سے مشاورت کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اس لیے تقسیم ملک کے بعد جب پہلا سالانہ اجتماع مست میشی میں منعقد ہونے لگا تو یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اسی تصور شورٹی انصار اللہ کا بھی انعقاد ہو گا.چنانچہ اس تاریخ سے باقاعدگی کے ساتھ ہر سالانہ اجتماع پر حسب ضرورت ایک دن یا دو دن شوریٰ کا اجلاس بھی ضرور منعقد ہوتا ہے اور پیش آمدہ مسائل کو منتخب نمائندگان $1900 کے مشورہ سے تصفیہ کیا جاتا ہے.شوری میں نمائندگی کس طریق پر جو اس بارے میں مجلس عاملہ انصار اللہ مرکز یہ کا ایک نمائندگی کاطریق شوری مین اور اسان ان یا ۱۳۳۵ پیش کو منعقد ہوا اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ جلاش ۳۰ور احسان / جون ۱۹۵۶ مدام اجتماع میں بھی نظر تعداد اراکین انصار اللہ نمائندگان کی شرکت مندرجہ ذیل نسبت سے ہوگی :- 1 ایسی مجلس جس کے اراکین ۲۰ سے کم ہوں ایک نمائندہ منتخب شدہ.ب جس مجلس کے اراکین ۲۰ ہوں ایک نمائندہ منتخب شده نیز محلیس کا زعیم بلحاظ عمدہ بغیر انتخاب نمائندہ ہوگا ے ریکارڈ مجلس انصار الله
مجلس عاملہ انصار الله مرکز یہ ربوہ تاء سید نا حضرت خلیفہ اسمع الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرسیوں پر دائیں سے بائیں : صاجزادہ مرزا منصور احمد صاحب - صاجزادہ مرزا نور احمد صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس - سید نا حضرت مرزا نا صراحمد صاحب خليفة المسح الثالث ایدہ اللہ تعالے نبصرہ العزیز قائد ذہانت و صحت جسمانی قائد ایثار قائد تعلیم صدر مجلس مولانا ابوالعطاء صاحب (قائد تربیت) شیخ محبوب عالم صاحب خالد قائد عمومی چو ہدری ظہور احمد صاحب (قائد مال) کھڑے دائیں سے بائیں: مولانا سیم سیفی صاحب نائب قائد عمومی مسعود احمد خان صاحب دہلوی (قائد اشاعت) چوہدری شبیر احمد صاحب (نائب قائد اصلاح ایشاد)، چوہدری فضل احمد صاحب (نائب قائد تعلیم صوفی غلام محمد صاحب (آڈیٹر ملک محمد رفیق صاحب رنائب قائد اشار) ملک محمد عبد اللہ صاحب (نائب قائد تربیت) چوہدری محمد فضل داد صاحب (نائب قائد صحت جسمانی) چوہدری محمد ابراہیم صاحب بی.اے (ہیڈ کلرک، غلام حسین صاحب (کلرک، خلیل احمد صاحب (کلرک)
۱۵۵ ہو.جس مجلس کی تعداد سے زائد ہو تو ہر ۲۰ یا اس کے جزو پر ایک ایک نمائندہ منتخب شدہ زائد ہوتا -> جھائے گا.بڑی مجالس میں جہاں زعیم اعلیٰ مقرر ہو تو وہ بھی بغیر انتخاب مجلس کا نمائندہ ہو گا.لا ضلعوار نظام کے ماتحت ناظم ضلع کو بھی بلحاظ عمدہ نمائندگی کا استحقاق حاصل ہوگا.اس کے علاوہ مجلس چک نمبر ۸۹ شمالی ضلع سرگودھا کی تجویز پر که صحابه حضرت مسیح موعود علیه السلام اب چونکہ بہت قلیل تعداد میں رہ گئے ہیں اس لیے ان کو اجتماع انصار اللہ میں تعداد پر نمائندگی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے.وہ زعیم وغیرہ عہدہ داروں کی طرح بحیثیت صحابی اجتماع میں شامل ہوسکیں؛ صحابہ کرام کی شمولیت کو بحیثیت صحابی منظور کر لیا گیا.شوری میں جو تجاویز زیر غور آتی ہیں اس کا طریق کار یہ ہے کہ جو رکن کوئی تجویز پیش کرنا ایجنڈا کی تیاری انے میں کسی سے مروی ہے وہ جو بر کرانا اور میں الفاظ میں رب کر کے مقامی مجلس میں پیش کرے اگر مقامی مجلس میں زیر غور آکر مجلس شوری میں پیش کرنے کے قابل سمجھی جائے تو پھر مقامی مجلس کی طرف سے ایجنڈا میں شامل کئے جانے کے لیے مرکزی مجلس کے پاس بھیج دی جاتی ہے مرکزی مجلس عاملہ تمام موصول شدہ تجاویز پر غور کرتی ہے اور جو اس قابل ہوتیں ہیں کہ ان پر رائے لی جائے انھیں با قاعدہ ایجنڈا میں شامل کر لیا جاتا ہے.بعض تجاویز ایسی ہوتی ہیں جو غیر معین اور مسلم سی ہوتی ہیں یا انکے بارے میں سابق میں فیصلے ہو چکے ہوتے ہیں یا وہ کسی پہلو سے مفاد سلسلہ کے منافی ہوتی ہیں انہیں پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی.اگر کوئی مرکزی قائد اپنی قیادت سے متعلق کوئی معاملہ زیر غور لانا چاہے تو اس کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ تجویز کو معین شکل دیگر پہلے مجلس عاملہ میں پیش کرے اگر مجلس عاملہ مرکز یہ اسے قابل غور سمجھے تو اسے ایجنڈا میں شریک کر لیا جاتا ہے ورنہ نہیں.شورئی میں تمام فیصلہ جات عموماً کثرت رائے سے کئے جاتے ہیں، لیکن فیصلہ کا طریق صدر مجلس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کثرت رائے کو رد کر دے اور اپنے فیصلہ کی اراکین شور مٹی کے سامنے وضاحت کر ہے.شوری کے تمام فیصلہ جات بلا استثنیٰ خلیفہ وقت کے سامنے بطور مشورہ کے پیش کئے
104 جاتے ہیں اور ان کو اختیار حاصل ہے کہ جس تجویز کو چاہیں منظور کریں اور جس کو چاہیں رد کر دیں یا نا میں ترمیم کر دیں.خلیفہ وقت کی منظوری حاصل ہونے کے بعد ہی تجاویز قابل عمل اور نسما جات قابل نفاذ ہوتے ہیں.۳۳۵.ان سے اس وقت تک جو فیصلہ جات شوری انصار اللہ ہوئے ہیں ، ان کی تفصیل 1404 سن دار اگلے صفحات میں پیش کی گئی ہے.
زشمار 106 فیصلہ جات شوری انصار الله ۱۹۵۵ فیصلہ شوری ایجنڈا منظور ہے قیادت عمومی : اس سال چونکہ مجلس مرکزیہ کا پہلا اجتماع ہو رہا تھا اس لیے اخبارمیں اعلان انصار الہ کا سالن اجتماع اکتو بریک کی کے ذریعہ مجالس سے تجاویز حاصل کر کے مجلس عاملہ میں پیش کی گئیں اور فیصلہ ہوا کہ اس سال یہ اجتماع جمعہ اور ہفتہ کے دن ہوا کرے لیکن انہیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ساتھ دورن کے لیے رکھا جائے اور اس اجتماع کے موقعہ پر آئندہ دوہ نہ ہوں جو خدام الا تقدیر اپنے اجتماع کے لیے معاملہ شوری میں پیش کر کے فیصلہ حاصل کر لیا جائے.قیادت تبسی : مرکز کی طرف سے ایک سہ ماہی ٹریکٹ جو 4 صفحات پرمشتمل ہو مدد کا غذ پر برس ماہی ایک نهایت تا بتور ها صفحه کا اچھی کھائی چھپوائی کے ساتھ شائع ہو کرے اس ٹرکی کانی های این بار ٹریکٹ شوری کے مقرر کردہ بورڈ کی نگرانی میں ایڈٹ ہوا کرے.قیادت ماں : مجلس لائل پور کی تجویز ہے کہ مقامی مجالس کو اپنے جمع شدہ چندہ میں سے پا حصہ خود مقامی کے لیے مقرر کریں.ضروریات پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے اس وقت یہ حصہ مقامی فرد یا پر میچ ہوتا ہے اور یم مرکز میں بھجوایا جاتا ہے.کرے یہ ٹریکٹ مجلس عاملہ انصار اللہ کا بورود جین میں ممبران مجلس عاملہ کے علاوہ تین علماء باہر سے ہونگے ایڈٹ کر یگا.نا منظور منظور ہے حملہ مجالس اپنے اپنے اراکین کے چندے کا بجٹ باقاعد تشخیص کر کے آخر تیر یک تا یا اس کے چند کا یہ بات نہیں مرکزہ میں بھجوادیا کریں.کرکے ستمبر تک کرتی بھجوا دیا کریں مالی سال یکم نومبر سے شرد یا جوا کر ہے.دفتر مرکز یر کی تعمیر کے لیے آئندہ سال میں ہزار روپیہ جمع کیا جائے اور اگلے سال کے اجتماع سے اہل اور تعمیر نتر انصار اللہ کیلئے میں ان مطلوب ہے منظور ہے
نمبر شمار ایجنڈا قبل دفتر کا ضروری حصہ تعمیر کہ لیا جائے.فیسه شوری میں میں ہزار روپیہ چندہ جمع کیا جائے منظوری حضر الله امیرالمومنین ایده ر این کم از کم ایک دو پیر سالانه ی کس منظور ہے کے حساب سے رقم ڈال دی جائے جسے دہ پورا کو نیکی ذمہ دار ہوگی.قیادت تعلیم وتربیت : مجالس کے کام کی نگرانی در پرتال اور تربیت کا جائزہ لینے کے لیے ایک نا منظور انسپکٹر مقصریہ کیا جائے.سہ ماہی کے آخر میں ہر ضلع کے صدر مقام پر اس ضلع کی مجالس کے عم دار جمع ہواگرین مرکز الالہ کا اور نظام قائم کیا ہے سے بھی کوئی نمائندہ اس اجلاس میں شریک ہوا کرے جس میں کام کا جائزہ لیا جایا کرے.زعیم ضلع کیا تھ نائب ترمیم لازمی طور انصار اللہ کو تعلیمی لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کے لیے تعلیمی نصاب پر چالیں اور پچاس سال کی عمر کے درمیان کا ہوا کرے.انصار اللہ کو تعلیمی لحاظ سے تین مقرر کیا جانتے ہیں کا سالانہ امتحان ہوا کرے اور اول، دوم، سوم رہنے والوں حت کرکے انکی تعداد کمی این تعاب کے لیے انعامات مقریہ ہوں.تجویز کیا جائے اور پھراستای کمی تعلق سکیم پیش ہو، حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتب کا ششماہی امتحان ہوا کر انصار اللہ کا سالانہ اجتماع زیادہ تر تربیتی منظور ہے جلسوں میں نمائندوں کے علاوہ ، دیود ، المرنگ چنیوٹ کے تمام اراکین انتصار رسوائے معذروں کے ) بہلور زائر لازمی طور پر شریک ہوا کریں.انصار اللہ کے قواعد اور لائح عمل نظر آنی
نمبر شمار ١٩٥٧ء ایجنڈا ۱۵۹ فیصله شوری کیلئے ایک بور و نظر کی بات جو لارو محترم نائب صدر صاحب کے مندرجہ ذیل اراکین پشتمل ہوگا - - مولوی عبدالرحیم درد مولوی ابو العطاء، ما شیخ مجو به عالم خالد ، م، مرزا عبد الحق ، ۵، نمائنده لائلپور ، نمائندہ سیالکوٹ ، نمانده گجرات ، نمائند گا ہو.اس سب کمیٹی یا بور ڈ کو اختیار ہو گا کہ ڈاکٹروں کو ہوگا اور ورزش کے ماہروں کو اپنے ساتھ شریک کریں سالانہ اجلاس انصاراللہ کے اخراجات کے لیے ہر رکن اپنے ماہوار چنده نصف پائی کی رو پیر دبشر طیکہ ۱۲ را ہوا.سے کم نہ ہو ا کے علاوہ ارما ہوا.چندہ دے منظوری حضر الله امیر المومنین ایده قیادت عمومی : آیت قرآنی کنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تجویز منظور ہے آخری منظوری حضرت حضور نے فرمایا تنهون عن المنكر واولئك هم المفلحون میں ارشاد تعدادند تا هرون بالمعونت امیرالوسین ایده ال تعال عبد العزيز "منظور ہے" وتنهون عن المنكر" ہمارا مائو ہونا چاہیئے.انصار اللہ کا اپنا جھنڈا ہو اور انعامی و اعزازی جھنڈ بھی دیا جایا کرے.اصولی طور پر منظور ہے تفصیلات کی سے حاصل کی جائے.طے کریگی اراکین سب کمیٹی ، صا خراوم مرزا ناصر اعتداتا، مولانا شمس ، ۳۴.مینی گوجرانواله م چه های شریف احمد با جون لامپور و مرزها واور احمد ، مولانا ابوالعطاء صاحب منظور ہے
14- خبر شمار 15 ایجنڈا کے موتصویر منظوری حضرت الله فیصلہ شوری جو مقامی زعیم اعلیٰ یا زعیم ضلع اپنی تنظیم اور انصار اللہ کے فرائض کی ادائیگی میں ایک عام مجاس کا مقابلہ ہوا کرے مرکز کے فیصلہ کے مطابق سب سے اول رہیں انہیں سالانہ اجتماع انصار اللہ کا اعزازی اور ایک مقابلہ صرف دیہاتی مجالس طے کرے.امیرالمونین ایده منظور ہے جھنڈا دیئے جانے کی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت کا جوا کرے تفصیلات مجلس عام میں مجلس انصار اللہ مرکز یہ سفارش کیا کرے.قیادت تربیت تربیتی اجتماع د پندرہ روزہ یا ایک ہفتہ کے لیے سال میں تربیتی اجتماع سال میں ایک کتبہ منظور ہے ایک ہفتہ کے لیے ہوا کرے.ایک مرتبہ ہوا کرے.جسمانی و مجدی صفائی کے رواج کی عادت ڈالی جائے مثلا گھر کے ماحول کو صاف اور تجور تیر نمرہ نمبر اصولی طور منظور ستھرا رکھا جائے پر مجبر کے کپڑے صاف ہوں ریجیکسن میں تھر کا ر جائے، غیرہ میں مجلس حاطه مرکز یہ عملی جامہ پہنائے قیادت تعلیم : شعار میں ہر رکن انصا اللہ کے لیے کم ازکم کار طیبہ صحیح اعراب کے منظور ہے ساتھ نیز نماز مکمل معہ ترجمه نیز عقائد اسلام یاد کرنے ضروری قرار دیئے جائیں.قیادت مال : بحث آمد و خرچ برائے سال ہیں 10...×1406 نعمه په عمله پیش ہے.چند تغیر د و کلرک سالانہ احتماری ایک مدد گار کار کن : ۱۲۷۵۰ : رهینده مجلس ایک چوکیدار میزان ۲۳۰۰۰ سائر : سٹیشنری ڈاک 4.۶۰۰ ٢٥٠ 60.بجٹ منظور ہے ، علاوہ ازیں با پانچ ہزار دو په بصورت آمد زائد بجٹ خرچ برائے اشاعت منظور کیا جاتا ہے.منظور ہے منظور ہے منظور ہے مامان سفر خرا اشاعت لٹریچر متفرق غیر معمولی اجتماع سالانه میزان ٥٠٠ ١٥٠٠٠ ۲۰۰۰
141 نمبر شماره 1.ایجنڈا منظوری حضرت فیصلہ شوری امیرالمومنین ایده الله چند ماہوار انتصار اللہ کی شرح ہو پائی نی رو پر مقرر ہے چونکہ مجلس نے اپنا کام پوری شرح چندہ بدستور ر ہے مجالس سرگرمی سے شروع کر دیا ہے جس کے لیے لازمی طور پر روپیہ کی بھی ضرورت ہوگی اس لیے چندہ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ۱۲ کی شرح بڑھا دی جائے.وصولی با قاعدہ ہونی چاہیئے.جن اراکین انصار اللہ نے نائب صدر محترم کی تحریک پر تعمیر دفتر انصار اللہ میں ایک ایک سو منظور سے روپیہ پانی اند چندہ دیا ہے انکے نام ایک بورڈ پر کھ کر ہال میں موزوں جگہ پر لگا دیئے جائیں تاکہ ان کے لیے دعا کی تحریک ہوتی رہے.تجویز مجلس انصاراللہ چک نمبر ۸۹ ش ضلع سرگودھا :- صی به حضرت مسیح موعود اب چونکہ بہت قلیل تعداد میں رہ گئے ہیں اس لیے ان کو اجتماع انصار اللہ میں تعداد پر نمائندگی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے وہ زرعیم وغیرہ عہدیداران کی طرح بحیثیت صحابی اجتماع میں شامل ہو سکیں.تجویز مجلس انصارالد لائل پور : منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے سال میں کم از کم ایک بار قرآن مجید کا امتحان ہونا چاہیئے.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی مجلس لاہور کی تجویز کو عملی نمائید رائے قرآن مجید کے کسی حصہ کے ترجمے کا امتحان سال میں ایک دفعہ ضرور ہوا کرے.مرکزی کی رائے کے مطابق منظور کیا گیا مسودہ قواعد و ضوابط مجلس انصاراللہ پیش ہے سابقہ کیٹی مزید غور کر کے اسے نان کردے منظور ہے تجار نیز مجلس مرکزیہ : حضرت مسیح موعود کا رسالہ ایک غلطی کا ازالہ انصار اللہ کی طرف سے طبع کروا کر اس نوٹ کے ساتھ غیر مبالعین میں تقسیم کیا جائے کہ مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود کے بارہ میں ہمارا رہی عقیدہ ہے جو اس رسالہ میں حضور تبیان فرمایا ہے اور حضور کی نبوت کی اس تشریح سے سرمو انحراف کو ہم ناجائز اور باطل سمجھتے ہیں.کیا غیر مبائین کو اس سے اتفاق ہے ؟ یہ رسالہ چلہ ہزار کی تعداد میں مجالس انصار اللہ کی طرف سے مفت شائع کیا جائے اور غیر مبالعین تک پہنچایا جائے.خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں دس یا کم و بیش نمائندے انصار اللہ کے شامل ہوا منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے
۱۹۲ ایجنڈا کریں جنھیں مجلس عاملہ مرکز یہ منتخب کریگی اور ایسے ہی خدام الاحمدیہ کے دس یا کم و بیش نمائند سے مجلس انصاراللہ کے سالانہ اجتماع میں شریک ہوں، جنھیں مجلس خدام الاحمدیہ کی مجلس عالمه مرکز یہ منتخب کریگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فارسی در شمین کا انتخاب سولہ صفات پرشتمل عمدہ طباعت کے ساتھ جس کے اخراجات مجالس برداشت کرینگی ، اس سال شالہ کیا جائے.فیصلہ شوری منظور ہے بر ایشین ایده الله Sokii مالی اور دیگر ضرورتوں کی وجہ سے یہ تجویز پیش ہے کہ انصار اللہ کا سال یکم جنوری سے منظور ہے.موجودہ سال ۳۱ دسمبرنگ منظور ہے تک د شمیر ہوا کرے.تجاویز مجلس انصاراللہ ربوہ حلقہ ج بھاری رہے اور اسکے اخراجات گذشت سال کے بجٹ سے ہی ادا ہوں ہر رکن انصار اللہ اس بات کا اہتمام کریگا کہ اس کے گھر کے سب افراد بیوی اور نیچے قرآن کریم درست ہے پڑھتے ، سمجھنے اور عمل کرنے والے ہوں اور قرآن مجید کی با قاعدہ سونا نہ تلاوت کرنے والے ہوں.ہر رکن انصار اللہ سے وعدہ لیا جائے کہ وہ سال میں کم از کم ایک شخص کی صحیح تربیت کر کے اسے سچا مسلمان بنائے گا.بیٹ آمد و خرپا برائے سال شششت چنده تعمیر دفتر " سالانہ اجتماع مجلس A منظور ہے چنده تعمیر دفتر سالانہ اجتماع مجلس اشاعت میزان اند خرج *...منظور ہے 60° ۲۹۷۵۰ منظور ہے منظور ہے عمله میزان : خرچ دو کلرک : ۲۲۱۲۲۷۰ = ایک عدد گار : ب چوکیدار ۱۲۷۵۰ : میزان : 4.4 +.سار ۲۸۸۰ ۴۱۲۰ سالانہ اجتماع اشاعت میران کل خرج ٢٩٧٥٠
سائی: سیتری ڈاک سامان سفر خوری اشاعت لٹریچر متفرق ان غیر معمولی میزان سائر عمله ایجنڈا فیصله شوری منظوری حضرت امیرالمونین امید داشد ٣٠٠ 1...سائر م منیران تعمیر Y....اخراجات سالانہ اجتماع میزان کل عقربه ١٩٥٠ء آمد خرچ = انتخاب نائب صدر مجلس انصاره الله مرکزه یه ۲۹ ۲۹ ۲۹۰۰۰ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صاحب منظور ہے ایم اے (آکن).تجاویز قیادت مال: 1 - دفاتر انصار الل کی تعمیر کا کام ابھی تکمیل طلب ہے اس کے محترم با بو قاسم الدین صاحب علا وہ ، ہم نے سات ہزار روپیہ تعمیر کا قرضہ ادا کرنا ہے اگر ۱۲۰۰۰ ہزار روپے کی رقم چوہدری عبدالحق صاحب ورگ ، عطیہ جات کے ذریعہ وصول ہو جائے تو سب قرضے ادا کرنے کے بعد عمارت بھی مکمل میاں سراجدین صاحب اور منظور ہے
۱۶۴ ایجنڈا فیصلہ شوری ہو سکتی ہے.عطیہ جات کے حصول کی ذمہ داری ضلعوار مجالس کے پیر چوہدری ظہور احمد صاحب قائد مال پر شتمل ایک سی کیٹی ہو جو اپنے ذمہ کی رقوم ایک سال کے اندر وصول کر کے پوری کردیں.مقرر کی گئی جس نے یونٹ دار قوم کو یوں تقسیم کیا.شوری نے دوسرے اجلاس میں اس پر غور کر کے منظور کر لیا.منظوری حضرت امیرالمومنین امید کا اشد ۵۰۰۰ ۲۰۰۰ ١٣٠٠٠ ۱۵۰۰ کرا چی در سابق صوبه سنده کوئٹہ و قلات ڈویٹر نر لا ہو ره شهر و ضلع سیالکوٹ شہر و ضلع ضلع گوجرانوالہ ضلع شیخو پوره ضلع لائلپور ضلع سرگودها ضلع گجرات ضلع جام ضلع راولپنڈی ضلع جھنگ سابق صوبہ سرحد ضلع ملتان، سابق ریاست →..به دلپور، ڈیرہ غازیخان اور مظفر گڑا ] مشرقی پاکستان منگری کمیل پور و میانوالی میران | · · · ۵۰۰ ۱۰۰ --11 ۲۰۰
نمبر شمار ۱۷۵ ایجنڈا ب - بحث آمد و خرچ برائے سال شاء بغرض منظوری پیش ہے آید عمله دفتر چنده مجلس نام آسامی اشاعت لٹریچر An ۱۵۰۰ کلرک و انسیکٹر کرک و انسپکٹر خرچ تعداد تنخواه الاونس P-F کل مجوزہ بجائے 11 ٤٢٠ سالانہ اجتماع ۲۰۰۰ تعمیر دفتر 16 * * * A₁-Y-A* گنی کش برائے ترقی ۳۶۱ کونی مله دستگاه کار کن.۲۳ ۲۴۰ ۳۶۰ چوکیدار کاکلی بالمقطم گنجائش براے ترقی سرا مددگار ) میزان عمله - ۳۹۲۷ سائر : سیشنری ۲۵۰ ڈاک اشاعت لٹریچر سفر خوری سامان متفرق ا غیر معمولی 1...٥٠٠ ۲۳ میزان تعمیر دفتر اخراجات سالانه اجتماع میزان کل آمد ۲۸۵۰۰ میزان کل خرچ : ۵۵۷۳ 14 - ۲۰۰ فیصلہ شوری منظور ہے منظوری حضرت امیر المومنین ایده ال منظور ہے
ایجنڈا 144 فیصلہ شوری منظوری حضرت با امیر المومنین اید واسود تجاویز قیادت عمومی : دستور اساس میں مندرجہ ذیل دفعات کا اضافہ کیا جائے.الف : ناظم ضلع زعیم اعلیٰ اور زعیم حلقہ کے ساتھ علی الترتیب نائب ناظم ضلع نائب زعیم اعلی منظور ہے اور نائی مقیم فقہ کا عمدہ بھی ہوگا جس پر کام کر نیوالے اراکین کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ۴۰ اور ۵۰ سال کی عمر کے درمیان کے ہوں.ب صدر مجلس کو اختیار ہو گا کہ کسی صدیدار کو معطل را معزول کر دے نیز صدر ملین کواسیات ہوگا کہ اس کی جگہ کسی عہد یدار کو نامزد کر دے.حسب تجویز مجلس انصار اللہ کے پیندی بحواله دستور اساسی انصعد الل من اشتق ۳۰ اجلاس بجائے ہر ہفتہ کے پندرہ روزہ ہونا چاہیئے قیادت اصلاح دارشاد : تجویز مجلس انصاراللہ کراچی) مجلس انصارالله مرکز یہ حضرت مسیح موعود کی کسی ایک کتاب کا ہر سال ترجمہ کسی زبان میں کردائے.١٩٥٩ء ۱۹۵۹ بجٹ آمد و خویچ برائے سال ۹۶ منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے بجٹ آمد چنده مجلس : " " تعمیر: اجتماع اشاعت لٹریچر میزان کل آمار : بجٹ سائر اخراجات و عملہ ۱۰۰۰۰ سیزی ۲۵۰ ۲۰۰۰ ۲۰۰۰۰ ڈاک وتار سارا الزام متفرق طباعت سفر خرچ اشاعت لٹریچر متفرق غیر معمولی سالانہ اجتماع تعمیر ابداد متظامی مجالس عمله میزان کل خرچ ۵۰۰ ۵۰ 1.** 1.00 ۲۰۰۰ * - -
تمبر شماره 146 فیصلہ شوری امیرالمومنین ایده الله ایجنڈا آئندہ اشاعت لٹریچر کے لیے انصار سے ایک رو پیرنی کس کی سالانہ شربت سے چند منظور ہے وصول کیا جائے.مجلس مرکز یہ کی طرف سے ہر سال قرآن مجید کے دو اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے دوسہ ماہی امتحانوں کا اہتمام کیا جائے کتب کے امتحان کے لیے نصاب منفرد کرنے کے ساتھ ہی پر ہر امتحان انصار میں تقسیم کردیا جائے، اڑھائی ماہ کے بعد امتحان سے لیا جائے تعلیم یافتہ اورغیر تعلیم یافتہ انصار کے لیے دو معیار مقرر ہوں امتیار اول اور معیار دوم کے علیحدہ علیحدہ نتائج کا اعلان کیا جائے.منظور ہے مجلس انصار الله مرکز یہ ایک ماہوار رسالہ شائع کرے جس میں مجالس انصار اللہ سے متعلق پروگرام، کار کردگی کی رپورٹیں اور ضروری ہدایات شامل ہیں.اس رسالہ میں انتقالی اور تربیتی امور کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ملفوظات نیز حضور کی عربی تحریروں کا اردو ترجمہ بھی شائع کیا جائے ، ہر مجلس کے لیے اس کی خریداری لازمی قرار دی جائے.صدر مجلس انصار اللہ ایک کمیٹی مقرر فرما دیں جو معینہ مدت میں دستور اساسی پر نظرثانی کر کے اپنی رپورٹ صدر انصاراللہ کی خدمت میں پیش کرے 144 قیادت عمومی : دستور اساسی سب کمیٹی کی رپورٹ پیش خدمت ہے.از راہ کرم دستور اساسی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں دستور اساسی انصد باشد ور منطوری منظور ہے منظور ہے میں زیر قاعدہ نمیرا مندرجہ ذیل قاعدہ کا اضافہ منظور فرمایا جائے.صدر مجلس کو اختیار ہو گا کہ ہنگامی ضرورتوں میں مجالس ما تحت کو معین رقوم بطور ہنگامی چندہ جمع کرنے کی اجازت دے.دستور اساسی کے قواعد ۳۶ اور ۳۷ یں ترمیم فرما کر مجلس عاملہ ملک علاقہ اور ضلع کے لیے ہر ماہ کی بجائے ہر تین ماہ میں ایک بارہ اجلاس ضروری قرار دیا جائے س دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ٣٨ میں ترمیم فرما کہ مجلس عاملہ مقامی کا اجلاس ہر ہفتہ منظورہ ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے
14^ فیصله شوری منظوری حضرت امد امیر المو منین ایدها ایجنڈا کی بجائے کم از کم پندرہ روز و ضروری قرار دیا جائے اور ۴ - دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۳۹ سے ہر ہفتہ کی بجائے " کے الفاظ جو زاہد میں حذف فرما دیے جائیں ، اس ترمیم کے بعد قاعدہ کے الفاظ یہ ہونگے.مجلس عاملہ حلقہ کا اجلاس پندرہ روزہ ہوگا کورم یہ ہو گا ؟ قیادت مال : بتفصیل ذیل ۲۱۰۰۰ روپے کی آمد و خرچ کا مجوزہ میزانیہ منظور فرمایا جائے.بابت ۱۹۶۷ء مجونده میزا نیه آمد چنده مجلس : تعمیر: اجتماع : " ۵۰۰۰ ۲۰۰۰ عمله تعمیر سائر اخراجات مجوزه میزانیہ اخراجات اشاعت لٹریچر ۴۰۰۰ سالانہ اجتماع میزان : امداد مجالس مقامی میزان :..۴۵۰ ۲۰۰۰ ٢١٠ قیادت اصلاح وارشاد: اہم مجاس انصاراللہ میں جہاں علم دوست اصحاب کا نی تعداد میں ہوں علمی حلقہ جات قائم کئے جاویں جن کے اجلاس ہر تین ماہ میں کم از کم ایک بار منعقد ہوں اور جن میں اہم مذہبی، سماجی اور اقتصادی موضوعات پر تحقیقی مقالے پڑھے جائیں.ہر مجلس آئندہ سال کوشش کرے کہ اپنے اپنے حلقہ کے جملہ صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دو فوٹو حاصل کرے جن میں سے ایک مرکزہ کو بھیجوا دیا جائے اور دوسرا مقامی طور پر محفوظ رکھا جائے.انصار زیادہ سے زیادہ تعد او می سال میں کم از کم ایک ہفتہ تربیت واصلات کے لیے وقف کریں اور ہر مجلس اپنے پروگرام کے مطابق ان سے کام ہے.منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے
199 ایجنڈا قیادت خدمت خلق : آئندہ سال ایک ہزار انصار فرسٹ ایڈ اور بیچاس انصار کمپاؤنڈری کا امتحان پاس کریں تا خدمت خلق کا یہ سپلو بیماروں کی خدمت نستہ نہ رہے.ریوہ کراچی، لاہور، سیالکوٹ کوٹر اور راولپنڈی میں سال میں دو مرتبہ فرسٹ ایڈ ٹرینینگ کلاس کھولی جائے جن میں انصار کو فرسٹ ایڈ سکھا کر محکمانہ سندات دلائی جائیں ان مقامات کے علاوہ کسی اور مقام پر مبنی اگر ایسی تربیت کا انتظام ہو سکے تو اس کا اہتمام کیا جائے.قیادت تعلیم ، جہاں حکومت کی طرف سے تعلیم بالغاں کے سلسلہ میں کوشش ہو سے رہی ہو وہاں انصار حکومت سے اس کام میں ہر طرح تعاون کریں اور جہاں ایسا انتظام ابھی تک نہ ہو وہاں انصار اپنے طور پرتعلیم بالغان کے مراکز کو میں ا حکومت کے متعلقہ محکموں کا تعاون حاصل کریں.نظامت علیا و سندھ، بلوچستان خدمت خلق ، اصلاح دار شاد اور دیگر مرکزی قیادتوں کے کاموں کو باحسن طریق پر سرانجام دینے نیز مجالس کے دوروں کے لیے مرکز میں ایک جیپ خریدی جائے اور مخیر احباب کو اس کا یہ خیر میں حصہ لینے کی تحریک کی جائے.£1941.قیادت عمومی : انتخاب کرائے ۱۹۶۲ء تا ۱۹۹۳ ماہنامہ انصار اللہ کی اشاعت کم از کم دو ہزار تک پہنچائی جائے.فیصلہ شوری - لمومنین اسیدها منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے نا منظور ہے منظور ہے منظور ہے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر حمد صا منظور ہے ایم اے (اکسن) منظور ہے منظور ہے چونکہ ماہنامہ انصار اللہ اپنے موجودہ سالانہ چندہ کے ساتھ خود کفیل نہیں اس لیے ماہنامہ کی اشاعت بڑھانے کی منظو رہے اس کی قیمیت چھ روپے سالانہ کردی جائے.کوشش کی جائے قیمت نی املال نہ بڑھائی جائے.قیادت مال چندہ سالانہ اجتماع و 4 پیسے فی رکن مقرر ہے مگر اس طرح جو آمد ہوتا منظور ہے مال بندہ الا انتا اور اسے نین اس جو منظور ہے
។ 160 ایجنڈا وہ اجتماع کے اخراجات کے لیے کافی نہیں ہوتی اس لیے یہ شرح د، پیسے سے بڑھا کہ ایک رو پیر نی رکن کردی جائے.مشخصه بجٹ برائے سال ۱۹۶۲ء فیصلہ شوری منظوری حضرت منظور ہے امیر المومنین ایده ای منظور ہے آمد چنده مجلس - تعمیر در سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر میران ۱۴۷۰۰ ۲۶۶۰۰ خرچ عمله سائر تعمیر اجتماع امداد مقامی مجالس میزان ۶۲۵۲ ༑༑ས مشخصه کیت آمدمیں آئندہ سال ۲۰۰ ام روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، اسے پورا کرنے کے لیے خاص جد و جہد کی ضرورت ہوگی اس کام کے لیے ایک زائد کلرکی منظور فرمایا جائے نہیں کے لیے ۱۱۲۴ ر وپے کی ضرورت ہوگی.منظور ہے منظور ہے قیادت خدمت خلق گذشتہ سال شوری نے فیصلہ فرمایا تھا کہ آئندہ سال سے شروع کر دیا جائے کیونکہ موجودہ ایک ہزار انصار فرسٹ ایڈ اور پچاس انصار کیونڈری کا امتحان پاس کریں یا قواعد کے کی خا سے قابل عمل ثابت نہیں با وجود کوشش کے اس تجویز پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو سکا، اس لیے از راہ کرم ہوا اسکی بجائے قیادت خدمت خلق کی اس تجویز پر دوبارہ غور فرنا چادے.طرف سے طب کے متعلق ایک عام قم تا بچه شائع کر دیا جائے جس سے معمولی بیماریوں میں فائدہ اٹھا جاسکے قیادت اسکے امتحان کا بھی اہتمام کرے اس میں مت ان کی دیگر راویوں پر بھی شیتی منظور ہے ڈالی جائے.
نمبر شمار 141 ایجنڈا مجلس انصاراللہ ملتان چھاؤنی آدھ پائی ٹی روپیہ شرح چندہ مجلس کم ہے ، اسے بڑھا کہ آدھا نیا پیہ فی رو پہ شرح منظریہ کی جائے.مجلس انصار اللہ راولپنڈی تفصله شوری منظوری حضر امیر المونین ایلد منظور ہے منظور ہے انصار اللہ کا سال جنوری سے دسمبر تک شمارہ ہوتا ہے مگر علم انعامی ماہ اکتوبر میں اس کی ضرورت نہیں پہلا طریقہ اجتماع کے موقعہ پر صرف دس ماہ کی کار کردگی پر دیدیا جاتا ہے ، اس میں سارے ہی درست ہے سال کی کارکردگی کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اس مجلس کی تجویزہ ہے کہ علم انعامی کے فیصلے کا اعلان دسمبر میں جلسہ سالانہ پر کیا جائے.دستور اساسی سب کمیٹی کی رپورٹ پیش خدمت ہے ار تقاعد و نیرے میں سے یا اس کے نائب کے الفاظ ان کے لیے جائیں - قاعدہ نمبر لے کے نیچے یہ نوٹ دیدیا جائے کہ بصورت اختلاف تعمیل حکم کے بعد عہدیدار متعلقہ کی وساطت سے صدر سے وضاحت کروانے کا حق ہر رکن کو حاصل ہوگا " ۳- قاعدہ نمبر 1 میں مجلس عاملہ مرکز یہ کے اراکین کے بعد ناظمین اعلی ناظمین زعما واعلی، زعماء اصحا بہ کرام کے الفاظ بڑھا دیئے جائیں.نیز اس قاعدہ میں سے نائب صدر کا لفظ حذف کر دیا جائے.قاعدہ نمبر ۲ میں نائب صدر کے بعد قائد عمومی قائد تعلیم، قائد تربیت آقائد خدمت خلق، قائد مال قائد اصلاح و ارشاد اور قائد زبانت و صحت جسمانی کے الفاظ می گم " حذف کر کے قائدین مرکزیہ کے الفاظ لکھ دیئے جائیں نیز نائب صدر" اور تین " کے الفاظ حذف کر دیے جائیں.۵ - قاعدہ نمبر اس میں شریک ہونگے کی بجائے یہ الفاظ رکھ دیئے جائیں " کا شریک ہونا ضروری ہو گا کہ قاعدہ نمی ۲۱ میں بھی شریک ہونگے، کی بجائے کا شریک ہونا ضروری ہوگا کے سب کمیٹی کی رپورٹ منظور ہے منظور ہے
نمبر شمار ۱۷۲ الفاظ رکھدیے جائیں.ایجنڈا م قاعدہ نمبر ۳۶ اور نمبر 1 میں یہ ترمیم کردی جائے کہ مجلس عاملہ ملک / علاقہ اور محلی حاملہ ضلع کا اجلاس ہر ماہ کی بجائے تین ماہ میں ایک بار ہوگا.قاعدہ نمبر س میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ مجلس عاملہ مقامی کا اجلاس برما کم از کم دوبارہ ہوگا.۹- قاعدہ تمیر ۴۳ میں کوٹہ کے لفظ کی بجائے تعداد کا لفظ لکھ دیا جائے نیز نائب صدر کے الفاظ حذف کر دیئے جائیں.١٠ قاعدہ نمبر ہم میں صرف ایسے ارکان بن سکیں گے “ کے بعد کے الفاظ حذف کر دیئے جائیں اور ان کی بجائے یہ الفاظ لکھ دیئے جائیں جو جماعت یا مجلس کے بقایا دار نہ ہوں " 1- قاعدہ نمبر 19 میں انتخاب سے ایک ماہ قبل تک جس قدر نام موصول ہونگے“ کے الفاظ کے بعد مندرجہ ذیل الفاظ بڑھا دیئے جائیں.حسب ضرورت ان میں سے بعض نام حذف کر کے مجلس عاملہ مرکز یہ بقیہ نام مجالس ما تحت کو بھیجوا دے گئی ہے ۱۲- قاعدہ نمبر ۱۴۱ میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ ناظم اعلیٰ کا انتخاب صرف ناظمین اضلاع کریں گئے.۱۳- قاعدہ نمبر 10 سے پہلے عنوان " ناظم ضلع کے نیچے یہ نوٹ دیدیا جائے صدر مجلس حسب ضرورت ایک سے زائد ضلعوں کے لیے ایک ناظم مقرر کر سکتا ہے کا ۱۴- قاعدہ نمبر ۱۵ میں یہ ترمیم کر دیجائے کہ ناظم ضلع کا انتخاب صرف مجالس ما تحت کے زعماء اعلیٰ اور زعما کریں گے.ھا.قاعدہ نمبر ۱۹۸ میں بالا عہدیدار کے پاس کے الفاظ کے بعد بوساطت عہد یدار متعلقہ کے الفاظ بڑھا دیئے جائیں.قیادت عمومی : ماہنامہ انصار الله" کا سالانہ چندہ آئندہ چھ روپے سالانہ مقصر کر دیا جائے کی پاس کردہ ترمیم نمبر ۱۳ متعلق قاعده نیز نیگا میں مجالس ما تحت کو شوری بر ۱۹۹۶ فیصلہ شوری منظور ہے منظور ہے منظوری حضر امیر المومنین امیدوار منظور ہے منظور ہے
ایجنڈا کے الفاظ کے بعد اراکین سے " کے الفاظ کا اضافہ کیا جائے.مجلس انصاراللہ مرکز یہ اس قسم کا لٹریچر خاص طور پر لاکھوں کی تعداد میں شائع کرے میں میں احمدیت سے متعلق پیدا شدہ غلط فہمیوں کا موتر رنگ میں ازالہ کیا جائے.قیادت مال مشخص بحث آمد و خرچ برائے ء پیش ہے.نہیں.عمله خرچ منظوری حضرت فیصلہ شوری امیر المومنین امید خالد منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے چنده مجلس : تعمیر دفتر سالانہ اجتماع ۴۰۰۰ سائد 1114^ ۴۰۰۰ تعمیر: اشاعت لریکیر ۴۰۰۰ اجتماع : میزان ۳۴۰۰۰ امداد متظامی مجالس : میزان : = مذکورہ بالا تجاویز کے علاوہ مندرجہ ذیل امور شوری نے مجالس میں تحریک پیدا کرنے کی ناظر منظور کئے.انصار اللہ میں یہ روح قائم کی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں بھی اپنے آپ کو بیکا ر اور معطل نہ سمجھیں انہیں طبابت یا ہومیو پیتھی وغیرہ سیکھنی چاہیئے تا کہ ریٹائرڈ ہو کر بھی وہ اپنے اوقات کو مصروف رکھ سکیں.۲.جماعت میں رشتہ ناطہ کی مشکلات حل کرنے کے لیے مجالس انصارالہ خاص اہتمام کریں -- ہر رکن مجلس انصاراللہ کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے خاندان کی تربیت کی طرف خاص توجہ دے..انصار اللہ باہمی ربط پیدا کرنے اور تعلقات اخوت بڑھانے کی طرف خاص طور پر توجہ دیں ہ اقتصادی ترقی کے لیے جماعت میں باہمی تعاون کی بیحد ضرورت ہے ، انصار اللہ کو یہ خدمت اپنے ذمہ لینی چاہیئے.
فیصله شوری امیر کروشین ایده اند ایجنڈا مجالس انصار اللہ کے تربیتی اجتماع بہت مفید ہیں.یہ تربیتی اجتماع ہر ضلع میں ضرور منعقد کئے جائیں.- شماره تمجید انصاراللہ کا مہر رکن حتی الوسع ضرور ادا کرے کیونکہ یہ اصلاح نفس کا زیروت ذریعہ ہے.ہ گذشتہ کئی سال سے انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کیا جاتا ہے اس لیے اسے کا میاب بنانے کی ذمہ داری بہت حد تک انصار اللہ پر عائد ہوتی ہے.لہذا آئندہ سال ہر رکن انصار اللہ دفتر دوم کے لیے مجاہد بنانے کی پوری کوشش کرے.- انصارالله عیسائیت کے متعلق ضروری مسائل سے واقفیت حاصل کریں.اور پھر کا سر صلیب" ہونے کا عملی نمونہ دکھائیں.1941 قیادت عمومی: رپورٹ دستور اساسی کمیٹی و قاعدہ نمبر ے ، کے الفاظ یہ ہیں." مجلس عامه مرکز یہ دستور اساسی کی روشنی میں حسب ضرورت قواعد ذیلی بنا سکتی ہے.دستور کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ اس قاعدہ کے آخر میں مندر جہ ذیل الفاظ کا اضافہ کیا جائے." جن کا نفاذ صدرہ کی منظوری کے بعد ہو سکے گا." مندرجہ ذیل دو نئے قواعد منظور فرمائے جائیں.(ب) مجلس عاملہ ملک / علاقہ کی کارکردگی کی رپورٹ مجلس عاملہ ملک کے علاقہ کے سالانہ اجلاس میں پیش کی جائینگی.(ج) عجلس عاملہ ملک کے علاقہ مجلس عاملہ مرکزیت کے تجویز کردہ ذرائع اصلاح کے نفاذ کی ذمہ دار ہو گی.سب کمیٹی کی رپورٹ منظور ہے منظور ہے
140 ایجنڈا 1945 قیادت مال : مشخصه بجٹ آمد و خرج بابت سال ساده آمد چنده مجلسی تعمیر " " ۰۰۰۰۰ ۴۰۰۰ عمله سائر اجتماع ۲۵۰۰ اشاعت ٹریچر ۲۰۰۰ تعمیر دفتر اشاعت الریمیر عطا یا برائے جیپ ۱۲۰۰۰ سالانہ اجتماع میزان ۵۴۵ امداد مقامی مجالس خرچ AADM ۹۶۴۶ ٥٥٠٠ فیصله شوری منظوری حضرت امیر المومنین ایده اند بجٹ سے جیپ کے بارہ ہزار روپے منظور ہے منا کر دیئے جادیں اور باقی بجٹ ۴۲۵۰۰ رو پلے معہ...م تین ہزار رو پر مستقل ریز رونڈ مشروط بانگر منظور ہے.۴۵۰۰ جیب میزان ۵ ۴۵۰۰ مجلس انصاراللہ مرکز یہ کے پاس ایک جیپ ہونی چاہیئے تاکہ دنیا تی مجالس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطہ پیدا کیا جاسکے اس غرض کے لیے بارہ ہزار روپے تک عطایا جمع کئے جائیں.نا منظور منظور ہے منظور ہے انصاراللہ کے کام کی وسعت کے پیش نظر انسیکٹر کی موجودہ ایک آسامی کافی نہیں اس طرح سالہا سال تک بعض مجالس میں انسپکٹر نہیں جائیگا حالانکہ ہر مجلس میں کہ انکہ ایک ہیں انسپکٹر کو ضرور جانا چاہیئے نیز تجنید کا کام بھی بہت باتی ہے.لہذا انسپکٹر کی مزید ایک آسامی منظور کی جائے.تجریہ سے معلوم ہوا ہے کہ مجلس انصاراللہ کی مقرر کردہ شرح چندہ پا نیا پیر نی روی نا منظور کا نیا پایه نی روسیه زیادہ ہے اور انصار اس شرح سے چندہ نہیں دے سکتے اس لیے پا نیا پیر کی شرح ہی درست کی بجائے پلا نیا پیہ فی روپیہ مقرر کیا جائے.(مجلس انصار الله یوه ) ر مجلس عاملہ مرکز یہ اس سے اتفاق نہیں کرتی ) قیادت اصلاح دارشاد : انصاراللہ مرکز یہ کا ایک وفد مشرقی پاکستان کے دورہ منظور ہے ہے.منظور ہے
نمبر شمار 144 فیصلہ شوری منظوری حضرت امیر المومنین ایده ایجنڈا کے لیے بھیجوایا جائے میں کے تین عمیر ہوں ان میں سے کم از کم ایک مانی ہوں.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے تازہ پیغام مورخہ ہ ستمبر درست ہے عمل کیا جاوے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر ایک احمدی کو سال میں کم از کم ایک ہفتہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لیے وقف کرنا چاہیئے " حضور کے ارشاد کی تعمیل میں جملہ مجالس انصار اللہ اس سال منظم طور پر تمام اراکین انصار اللہ سے غیر مسلموں میں تبلیغ کے لیے ایک ہفتہ وقت کرائیں اور جماعتی نظام کے ماتحت کام کر کے حضور کے ارشاد کو پار تکمیل تک پہنچائیں.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کی تعمیل میں گہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منا یا کریں جس میں جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کریں بلکہ یہ بھی بیان کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات میں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات میں " قیادت ہذا تجویز کرتی ہے کہ ء میں تمام مجالس مناسب اوقات میں یہ ہفتہ منائیں اور اس سال عیسائیت کے عقائد اور ان کے اسلام پر اعتراضات اور ان کے جوابات سے دوستوں کو آگاہ کیا جائے.اور ہفتہ ختم ہونے پر لوگوں کا زبانی امتحان لیا جاوے ؛ بر کن انصار اللہ کو تحریک کی جانے کہ سال میں کم ازکم ایک شخص کی اصلاح کر کے اسے فراقه ٹھیک ہے منظور ہے منظور ہے منظوری منظور ہے اسلامی انوار کا گردیدہ بنا دے.۱۹۶۴ قیادت عمومی : انتخاب صدر : آئندہ تین سال کے لیے صدارت کے لیے مجالس آئندہ تین سال کے لیے حضرت منظور ہے ماتحت کی طرف سے مندرجہ ذیل تین نام موصول ہوئے.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ا حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب - محرم صاحبزاده مرزا مبارک احمد صاحب کا اسم گرامی تجویز کیا جاتا ہے -۳- محترم صاحبزادہ مرزا منورا محمد صاحب - زعما صاحبان یہ نام مجالس میں پیش کر کے ان کی رائے معلوم کریں گئے اور شوری میں مین کے مطابق رائے دینگے.مجلس انصاراللہ پشاور : دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۱۲ الف میں مندرجہ ذیل الفاظ دستور اساسی میں اسے درج منظور ہے
نمبر شمار 166 ایجنڈا فیصلہ شوری دستور اساسی میں اسے بڑھا دیئے جائیں ، البتہ وہ خدام جو سال کے دوران کسی تاریخ کو چالیس سال کی کر دیا جائے.مر کو پہنچ جائیں وہ اگلے سال اکٹھے یکم جنوری کو لیس انصار الد کی تنظیم میں شامل ہونگے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد پر عمل ہو رہا ہے اگر دستور اساسی میں درج نہیں.منظوری حضرت امیر المومنین ایده الله مجلس ڈیرہ دخانه یخاں: مجلس انصار مرکزیہ کے اجتماع کے موقعہ پر باہر سے آنیوالے مجلس مرکز یہ میں طرح مناسب نمائندگان کی رہائش کے لیے خاطر خواہ انتظام ہونا چاہیئے اور اگر مناسب ہو تو ٹیریل سمجھے رہائش کا اچھا انتظام گر دلوں میں ٹھہرانے کا اہتمام کیا جائے.کرے.قیادت تربیت : اصلاح معاشرہ کے لیے ہفتہ منانے کی تجویز کومستقل قرار دیا یات اور جملہ مجالس مرکز کے پروگرام کے مطابق اسے با قا عدہ عملی صورت دیا کریں.تربیت اولاد کی اہمیت کے پیش نظر اراکین مجالس کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کسی ملک اپنے بچوں کی تربیت کا فرض ادا کرتے ہیں.قیادت سال با مشخصہ بجٹ آمد و خرچ برائے سال ۱۹۶۵ محمد آمد منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے منظور ہے خروج چنده مجلس عمله ۱۱۵۰۵ تعمیر ۳۴۰۰ سائر اجتماع ۴۵۰۰ اشاعت لٹریچر لم اشاعت لٹریچر.م تعمیر دفتر میزان ۴۴۵۰۰ سالانہ اجتماع امداد مقامی مجالسی مستقل ریز ری فنڈ میزان ۴۵۰ 1+994 ۴۴۵۰۰ اس وقت انصار اللہ کے چندہ کی چار مدات میں یعنی چندہ مجلس شرح نصف پیر نا منظور
16A ایجنڈا نی روپیہ چند ر سالانہ اجتماع ایک روپیونی رکن ، اشاعت لٹریچر ایک رو پیرنی کی اور چنده تعمیر دفتر حسب استطاعت.بعض مجالس کی تجویز ہے کہ چونکہ مختلف مدات کی ونیر سے ہمیں وصولی میں دقت ہوتی ہے اس لیے چندہ انصار اللہ کی صرف ایک ہی مر کر دی جان اور شرح ایک پیسہ کی روپیہ ہو.51940 ملک میں ہنگامی حالات کی وجہ سے سالانہ اجتماع منعقد نہیں ہو سکا اور شور مٹی بھی انعقاد پذیر نہیں ہوسکی.١٩٩ء فیصلہ شوری منظوری حضرت امیر المومنین ایده الله قیادت عمومی ، علاقائی مجالس کو اعلی کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹس دیئے شوری نے بالاتفاق منظوری منظور ہے بجایا کریں تا کہ سبقت لے جانے کا جذبہ ترقی کرے.(مجلس انصارالله را ولپنڈی کی سفارش کی ہے مروجہ دستور کے مطابق حکم انعامی محلی انصار اللہ کے سالان اجتماع کے موقد یہ تقسیم کیا سرت رائے اسکی حق میں ہے کہ منظور ہے جاتا ہے ہمارا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے سال بھر کی کا ر کر دگی کا جائزہ لیکر علم جلسہ سالانہ کے موقع پر علم اتمامی انعامی کی مستحق مجلس کا فیصلہ کرنا زیادہ مستحسن ہو گا جلسہ سالانہ کے موقع پر کارکردگی کا دیا جایا کرے جائزہ لے کہ خلیفہ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے درخواست کی جایا کرے کہ توہ علم انعامی جلسہ سالانہ کے موقع پر مستی مجلس کو اپنے درست مبارک سے عطا فرما یا گریں اس طرح مسابقت کی روح ترقی کریگی.( مجلس انصار الله را ولپنڈی) حمد قائدین شعبه جان کی سلان رپورٹس جو وہ سالانہ اجتماع کے موقعہ پرپیش کیا شوری نے کثرت رائے سے بھی منظور ہے کریں شائع کر کے مجالس میں بھجوائی جایا کریں تاکہ مجاس مقامی آئندہ پروگرام مرتب عامه مرکز یہ کی رائے منظور کئے جانے کرتے وقت پچھلے سال کی کارکردگی کو سامنے رکھسکیں.(مجلس راولپنڈی کی سفارش کی ہے مجلسی خاله مرکز یہ کے نزدیک ماہنامہ انصاراللہ میں ، پورٹوں کا خلاصہ ضائع ہو جانا چاہیے، کل تعداد اتنے صفحات کی (حین میں رپورٹس کا خلاصہ جو علیحدہ بھی شارہ کر کے مجالس میں بھیجوا دی جایا کرے اس ترمیم کے ساتھ شورٹی میں پیش ہے.
نمبر شمار 169 ایجنڈا منظوری حضرت فیصلہ شوری امیرالمونین ایند کاند اراکین مجالس انصار اللہ سے تعلق تمام تحریکات کو ماہنامہ انصار اللہ میں شائع ہونا شوری کی اکثریت اس حق میں ہے ٹھیک ہے چاہئیے موجودہ صورت میں جب کہ برا ایک تحریک روز نامہ الفضل میں شائع ہوتی ہے کہ اس تجویز کو منظور کئے جانئے کی ضرورت نہیں بدستور سابق مندرجہ ذیل دقتیں ہیں.الف بعض مجالس میں بوسه مالی کمزور یا ناخواندگی الفضل جاری ہی نہیں ہے اس الفضل اور ماہنامہ انصارالله لیے ایسی تحریکات کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا.دونوں میں تحریکات شائع ب " الفضل" روزانہ ہے اگر پڑھ بھی لیا جائے تو وقتی طور پر تحریکات کا علم ہو کہ ہوتی رہیں.پھر بات ذہن سے نکل بھاتی ہے اور بعد میں تلاش کرنی مشکل ہے کیونکہ سر حاجت ما میں الفضل کا باقاعدہ فائل نہیں رکھتی اور اگر فائل ہو بھی تو کافی پرچوں کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے.مجلس چک نمبرز ۲۷ الف کا چیلو) ہر ماہ میں قابل عمل تحریکات کو پہلے ماہ کے ماہنامہ میں شائع ہونا چاہیئے تاکہ قریب شوری نے کثرت رائے سے اس کرد ہونے کی وجیہ گیا د بھی تازہ رہے اور تیاری کے لیے وقت مل سکے.الف : انصار اللہ جو کہ عمر رسیدہ میں حافظہ کمزور ہے ان کے لیے ماہنامہ انصار الله کا ٹھوس صورت میں زیر نظر رکھنا اور تلاش کرنا آسان ہے.ب : افراد کی کمزوریوں اور شکلات کاحل کرنا مرکزہ کا فرض بھی ہے.( مجلس چک نمیر ٢۷۰ الف کا چیلو ) < تجویز کو رد کئے جانے کی سفارش کی ہے.الف : مجالس میں مسابقت کی روح پیدا کرنے کی غرض سے ماہوار کارگزاری کی رپورٹ شوری کی اکثریت نے سفارش وضاحت دینے والی مجالس کے نام شائع ہوں.یہ طریق سست مجالس کے لیے بیداری کا موجب بھی کی ہے کہ سال میں ایک دفعہ نہیں ہے ہو سکتا ہے.مجالس کا سالانہ بجٹ ، وصولیات ب: مجالس کا سالاز بھیٹ اور وصولیات دلبقایا جات گوشوارہ دیا جائے جیساکہ دیگر اور بقایا جات کاگوشواره نیز ریقی مسلیمیں اپنے رسائل میں شائع کرتی رہتی ہیں.ما ہوار رپورٹوں کا سالانہ گوشوارہ ج : اس غرض کے لیے یا تو کچھ صفحاتہ بڑھا دیئے جائیں اوراگر یہ ہ ہو سکے توموجودہ مضامین شائع کر دیا جائے.
A سم کر کے گنجا کنشی نکالی جائے.ایجنڈا منظوری حضرت فیصلہ شوری امیر المومنین ایده الله د: اگر مناسب ہو تو ماہنامہ ہر مجلس کے لیے لازمی قرار دیا جائے اور قیمت میں مناسب اضافہ کر دیا جائے تاکہ صفحات بڑھانے سے ماہنامہ پر بھی لو مجھ نہ پڑے.مجلس پیک نمبر ۲۷۰ الف کا چیلو ) مشرقی پاکستان میں بزرگوں کاکم از کم ایک دن بھیجا جائے جو ایک بار یک بی اس انصاران دو آدمیوں مشتمل ایک واند دریا ایک مشرقی پاکستان کا دورہ کرے.بھیجوایا جائے.منظور ہے ایک سال کیلئے ہر سال انصار اللہ کے اجتماعات باقاعدگی سے ہر ضلع میں منعقد کئے جاتے ہیں محسوس شوری نے اکثریتی رائے سے اس ٹھیک ہے کیا گیا ہے کہ جو و خود مرکز کی طرف سے ان اجتماعات میں شمولیت کے لیے بھجوائے جاتے ہیں تجویز کو منظور نہ کئے جانے کی ان کو سفر کی بعض ایسی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں کہ وہ پوری بشاشت سے سفارش کی ہے.ان اجتماعات میں حصہ نہیں لے سکتے اس ہے انصار اللہ مرکز یہ ی اپنی جیب ہونی چاہیئے کی ( ناظم صاحب انصار الله ضلع جملم) قیادت تربیت : انصار اللہ کے نمانہ یا جماعت کے اہتمام کے سلسلہ میں علما اس ترمیم کیسا تھ شوری نے منظور کے منظور ہے صاحبان کو پوری طرح ذمہ دار قرار دیا جائے.(قائد تربیت ) جانے کی سفارش کی ہے کہ....اجتماع زیما صاحبان کو اسکی تلقین کا پوری طرح ذمہ دار قرار دیا جائے.مجالس نامی برال ایک ایک ترینیان را اصلاح و ارشادگی کا ستر منعقد کی کہیں ن اجتماعات شوری نے منظورنہ کئے جانے تے ہر اور تربیتی کلا سنز کے اخراجات عطا یا وصول کر کے برداشت کرنے کی اجازت ہو اس مد میں کی سفارش کی ہے آمد و خرچ کا حساب باقاعدہ رکھا جایا کرے.(مجلس راولپنڈی) قیادت مال : مجلس کا مالی سال یکم جنوری سے ۲۱ دسمبر تک مقر ر ہے اور بجٹ شورٹی کی اکثریت مجلس عاملہ کی تیاری ماہ جنوری میں کی جاتی ہے مجلس کا بجٹ جنرل بجٹ کی اساس پر ہوتا ہے جو کہ انصار اللہ مرکزیہ کی رائے گذشتہ سال کا ہوتا ہے جبکہ جنوری میں عام طور پر آمد میں فرق ہو چکا ہوتا ہے لہذا کے ساتھ متفق ہے.اگر ممکن ہو تو مجلس کا مالی سال بھی صدر انجمن احمدیہ کے مالی سال کے مطابق مقرر کیا جائے.مجلس انصار اللہ ڈیرہ غازیخان ) منظور ہے
اما ایجنڈا مجلس عاملہ مرکزہ یہ کی رائے ہے کہ سابقہ طریق ہی درست اور قابل عمل ہے موجودہ تجویز میں بعض ایسی دقتیں ہیں جو بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہوسکتی ہیں.فیصلہ شوری منظوری حضرت امیر المومنین اماره انار مجلس انصاراللہ جوں جوں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہورہی ہے ویسے ہی اخراجات بڑے شوری نے کثرت رائے سے اس حضور نے اس تجویز رہے ہیں آدھا سیر نی روپیہ کے صاب نے کیس کی ضروریات کا معمل نہیں ہوسکتا ہمیں کے تجویز کو رد کرنے کی سفارش پر کچھ ارشاد چند دن کی مندرجہ ذیل ملاتے ہیں.و چنده مجلس : آدھا پیسه نی روپیہ ماہوار ب چندہ سالانہ اجتماع : ایک روپیہ سالانہ فی رکن ج - چندہ اشاعت لٹریچر ایک روپیہ سالانہ فی رکن در چنده تعمیر دفتره حسب استطاعت مجلس کی تجویز ہے کہ ان تمام مدات کو اڑا کر چندہ مجلس بحساب ایک پلید نی روپیہ کی ہے.نہیں فرمایا مقرر کر دیا جائے اور اسی چندہ سے حملہ اخراجات پورے کر لیے جایا کریں.(راولپنڈی) نظامت ضلع کے کاموں کو احسن طور پر چلانے اور مجالس کی مکمل نگرانی کے لیے ناظم ضلع شوری نے بالا تفاق اسے رد ٹھیک ہے کو کچھ رقم تفویض کی جانی چاہیے اس لیے ضلع کی سر مجلس سالانہ بجٹ کے اپنے حصہ کرنے کی سفارش کی ہے میں سے یہ حصہ ناظم ضلع کو ادا کرے.مجلس منتگمری ) مشخصہ بجٹ برائے ۱۹۶۶مہ پیش ہے.چنده مجلس ٣٨٠ نظور ہے " اجتماع : در اشاعت لٹریچر تعمیر ونتر میزان ۴۵۰۰ ۵۰۵۰۰ شوری نے پچاس ہزار پانچسو روپے کا بھٹہ آمد اور سجا قدر خرچ کے منظور کئے بیانے کی سفارش کی ہے.
نمبر شمار ایجنڈا 1945 فیصله شوری امیرالمومنین امید راننده قیادت عمومی : شوری ۱۹ء میں فیصلہ ہوا تھا کہ علاقائی مجالس کو اعلی کارکردگی کے حسب سابق علاقائی مماسی میں اعلیٰ صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹس دیئے جایا کریں مگر علاقائی مجالس اتنی کم تعداد میں میں کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے کہ مقابلہ کی اصل روح قائم نہیں رہ سکتی مناسب ہوگا کہ علاقائی کے ساتھ ضلعی کے الفاظ سرٹیفکیٹ دیئے جایا کریں اور ضلعی کا اضافہ کر دیا جائے اس طرح ایک تو ضلعی مجالس کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی اور دوسرے مجالس کا آپس میں مقابلہ کر کے مقابلہ کا معیار بھی اونچا ہوجائے گا.اعلی کارکردگی کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفکیٹ بھی دیئے جایا کریں منظور ہے منظور ہے دستور اساسی انصار اللہ کے قاعدہ نمبر 1 میں صدر مجلس مرکزی عہدیداران کو نامزد منظوری کی سفارش کی کریگا" کے الفاظ حذف کر دیئے جائیں کیونکہ وہ ایک مستقل قاعدہ کی شکل میں قاعدہ جاتی ہے نمبر ۱۰۱ میں بیان کر دیئے گئے ہیں.انسپکٹر صاحبان مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے حلقہ جات کو بدلنا بھی چاہیئے تا کہ مغربی منظور نہ کئے جانے کی سفارش ٹھیک ہے پاکستان ہو یا مشرقی پاکستان دونوں جانب کی ٹر تینگ لحاظ کار کردگی ہو سکے تعلیمی کی جاتی ہے.مجلس عاملہ مرکز یہ اس تجویز سے متفق نہیں.سالانہ اجتماع میں جو تقریری مقابلہ جات ہوتے ہیں فی البدیہ ہونے چاہئیں، مقابلہ تقریری مقابلہ کا موجودہ طریق نا منظور شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے عنوان بتائے جائیں یہ طریقہ زیادہ دلچسپ اور جاری رہے اس کے علاوہ نی مہدی مفید ہو گا.(مجلس انصار اللہ کراچی ) تقاریر کے مقادیر کا بھی اہتمام کیا جائے قیادت تربیت ، آئندہ حکم انعامی صرف اس مجلس کو مل سکے گا جس کے قبلہ مجالس کے تربیت سے کام کا جائزہ ارکان نماز با ترجمہ جانتے ہوں گے.لیتے وقت قیادت تربیت اس امر کو بالخصوص ملحوظ رکھے گی کہ میں مجلس کا کام قیادت کے نزدیک سب سے اچھا ہو اسکے اسی فیصدی ارکان نماز باترتیں بھی جانتے ہوں اسی صورت میں قیادت تربیت اسکی سفارش کرے گی منظور ہے
نمبر شمار મ ۲ ایجنڈا فیصلہ شوری منظوری حضرت امیرالمومنین ایده ال قیادت تعلیم : امتحان انصاراللہ میں کامیاب انصار کو استناد دی جائیں تاکہ دوسرے منظور کئے جانے کی سفارش منظور ہے احباب کو بھی ترغیب ہو اور امتحان دینے والوں کی تعداد میں انسان ہو جائے ر مجلس انصار اللہ کراچی کی جاتی ہے قیادت مال : جہاں چندہ مجلس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال وصولی تسلی بخش ہوتی اس پر بعض تجاویز پیش کی جاتی ہے، سالانہ اجتماع اور اشاعت لٹریچر کے چندوں کی وصول بجٹ کے مطابق گئیں مگر رائے شمار نہیں ہوئی نہیں ہوتی اس نقص کو دو در کرنے کے لیے کیا تجاویز اختیار کی جائیں.میرا نیہ مجلس انصارالله مرکز یہ بابت سال ۱۹۶۰ چنده فلس : * تعمیر ر سالانہ اجتماع : چنده اشاعت ٹریکر میران ۴۵۰۰ or شوری نے ترین ہزار کا بجٹ آمد اور اسی قدر خرچ کے منظور کئے جانے کی سفارش کی ہے.منظور ہے قیادت اصلاح و ارشاد : آئندہ سال ہر سہ ماہی چار صفحہ کا ایک ٹریکٹ عمدہ طباعت کے منظوری کی سفارش کی منظور ہے ساتھ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا جائے ان ٹریکٹوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود کے ارشادات جاتی ہے کے اقتباسات مناسب عنوانات کے ساتھ شائع کئے جایا کریں اور ایک مرکزی کمیٹی جو قائد تربیت ، قائد اصلاح و ارشاد اور قائد اشاعت پر مشتمل ہو ضرور ہے وقت کے مطابق اقتباسات اور عنوانات کا فیصلہ کیا کرے.1940 قیادت عمومی : ہوشیار اور باقاعدہ کام کر نیوالی مجاس کا خلاصہ ماہنامہ انصار اللہ میں منظورنہ کئے جانے کی سفارش شائع ہو.چک نمبر یہ ان کا چیلو) کی جاتی ہے.قیادت مال : چندہ برائے اشاعت لٹریچر کم از کم ایک روپیہ سالانہ کی بجائے سب نمائندگان نے اس تجویز
تمی شمار ་ ایجنڈا IAN منظوری حضرت الله فیصله شوری مشکور ہے کم از کم ایک پیسہ یومیہ ہونا چاہیے اس طرح تنیس پیسے ماہوار ہوتا ہے ، اشاعت کے خلاف رائے دی ہے.لڑیچر بہت ہی اہم اور ضروری ہے اور اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے، اس لیے کم از کم ایک روپیہ کی بجائے ۳۶۵ پیسے ہونا چاہیئے.(ماڈل ٹاؤن لاہور ) چندہ سالانہ اجتماع ایک روپیہ کی بجائے موجودہ مہنگائی کے پیش نظر دور د لیے ہونا سب نمائندوں نے اس کے چاہیے نیز اجتماع کے آخری دن دوپہر کے کھانے کا انتظام مجلس انصار اللہ ہی کرے خلاف رائے دی ہے.ماڈل ٹاؤن لاہور) میزانیہ آمدو خرچ برائے سال ۱۹۶۹ء 1944 شوری منظوری کے لیے سفارش کرتی ہے قیادت تربیت آئندہ پانچ سال میں ہر مجلس کے پاس حضرت مسیح موعود کے شور می اس تجویز کو منظور نہ ملفوظات کا سیٹ پہنچ جانا چاہیئے اس کےلیے بر ناظم ضلع ہرسال اپنی مجالس میں کئے جانے کی سفارش کرتی ہے ملفوظات کے سیٹ کے پانچویں حصہ کی رپورٹ مرکز میں کرنے کا مکلف البتہ سب نمائندگان اس بات کے حق میں میں کہ ملفوظات کو خریدنے اور ہو گا.پڑھنے اور ان سے استفادہ کرتے کی تحریک کی جاتی ہے.قیادت تعلیم : انصار اللہ کے سہ ماہی امتحانات میں نصاب امتحان قرآن کریم کے شوری اس تجویز کو منظورنہ کئے ترجمہ میں صرف نصف پارہ ہوتا ہے اس طرح سال بھر میں صرف ایک پارہ کا ترجمہ جانے کی سفارش کرتی ہے سیکھا جاتا ہے جو بہت کم ہے تجویز یہ ہے کہ سہ ماہی امتحان میں نصف پارہ کی بجائے سالم پارہ کا ترجمہ رکھا جائے تاکہ سال بھر میں کم از کم دو پاروں کا ترجمہ تو آ جائے.) چھک چھور ) قیادت انتشار : ہر مجلس میں مرکزی جگہ پر اختیار یعنی خدمت خلقی کے بارہ میں ایک قیادت آیار نے تجویز کو واپسی سنٹر ہو جہاں ہر نوع کی پیش کی جانے وال مدد یا شخص کا ریکارڈ رکھا جائے کافر در تند لے لیا.احباب اس سنٹر کی طرف رجوع کر سکیںاور ایسے افراد کو آسانی سے حسب ضرورت ایسی مد میر ا سکے
۱۸۵ ایجنڈا منتظوری حضرت فیصله شوری امیرالمومنین ایده اند مینگانی قیادت تربیت : نمازوں میں بے دستی آگئی ہے انصار اللہ کا یہ فریضہ قرار دیا جائے کہ اس تجویز کے الفاظ نا مناسب ہیں وہ اپنی جماعت کے قبلہ ہے غاز مردوں، بچوں اور عورتوں کی فہرست تیار کریں اور مرکز کو اور واقعہ بھی درست نہیں گر کسی جگہ کوئی دوست نمازوں میں بتائیں کہ بے نمازوں میں سے اتنوں کو ہم نے نمازی بنا لیا ہے.) چک نمبر ۱۰۰ مراد ضلع بہا ولپور ) سست ہو تو سیکی اصلاح کی کوشش ہونی چاہیے یہ تجویز رد کی بہاتی ہے.بڑی بڑی جماعتیں شہری ہوں یا قصباتی اور دیہاتی یعنی جہاں اکرافت مردوں کی سمجھی جائے نہ صرف بڑی مجاسی بلکہ ہر ایک ہر جماعت کے انصار مدینہ میں ایک یاد د اجلاس کریں جن میں کچھ تقادیر مقرر کی جائیں، ان مجلس میں ماہانہ ایک یا دو اجلاس تقاریر میں صداقت اسلام، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، ضرورت خلافت اور خلیفہ ہوا کریں.وقت کے ارف دات اور احکام کی تعمیل پر بحث ہو نیز انفصلا الہ سے وعدہ لیا جائے کہ دہ اپنی اولادوں کی احسن تربیت کے لیے اور قرآن خوانی کے لیے انہیں مساجد میں بھجوائیں ) پیک نمبر ضلع ساہیوال) ۵۰ گئے.قیادت اصلاح وارشانی : اصلاح و ارشاد کی طرف بہت کم د دست توجہ دے مجلس شوری تہ کرنے کی رہے ہیں.اس لیے مجلس انصاراللہ مرکز یہ سال میں دو تین دفعہ مفتہ اصلاح و ارشاد سفارش کرتی ہے منایا کرے.اور اس کی رپورٹ وصول کی گئے.(چیک نمبر 4 مراد ضلع بہاولپور ) قیادت تعلیم بامتحان میں قرآن کریم معمر انصار کو یاد کر نا شکل ہے اس لیے لفظی ترجمہ - مجلس شوری رو کرنے کی سفارش کی بجائے صرف مفہوم اور استدلال اپنے الفاظ میں ہونا چاہیئے جس طرح کتب سلسلہ کرتی ہے کے امتحان میں اپنے الفاظ میں مفہوم بیان کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ترجمہ قرآن کریم یاد کرنے کی شکل کے پیش نظر بہت سے خواندہ بلکہ اچھی تعلیم والے دوست بھی معیار اول سے پہلو نتھی کر کے معیار دوم میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب دوسرا امتحان کتب سلسلہ عالیہ کا ہوتا ہے تو وہی دوست معیارہ اول میں شامل ہوتے ہیں.چک نمبر ۲۰۰ الف کا چیلو ) منظور ہے
نمبر شمار 1 JAY ایجنڈا منظوری حضرت فیصلہ شوری امیرالومتین ایدها تیادت مال : اس وقت یہ دستور ہے کہ چندہ مجلس کا ہے حصہ مرکز میں جمع ہوتا ہے باقی اس ترمیم کے ساتھ سفارش کی جاتی ا حصہ مقامی مجلس اپنے اخراجات کے لیے رکھتی ہے مجلس لائلپور اس میں یہ ترمیم پیش ہے کہ مجلس مقامی کے ۳۳ فیصد کرتی ہے: حصہ مرکز ۶۵ فیصد حصته مجلس مقامی ۳۰ فیصد حصہ نظامت ضلع میں سے ، فیصد نظامت ضلع کر علاقہ دو فیصد علاقہ کو دیا جائے اس طرح مجلس مرکز کا حصہ پر شور ۷۷ فیصد رہیگا اس طرح ضلع اور علاقہ کے اخراجات کے لیے مناسب فنڈ فراہم ہو سکے گا اور وہ مقامی کا حصہ ہ، فیصد ہو جایا اپنے کام بخیر و خوبی چلا سکیں گے.(لائلپور ) مجلس کی مالی ضروریات اور کام کی وسعت کے پیش نظر چندہ لمبس کی شرح وہی مجلس شوری رد کرنے کی سفارش کر دی جائے جو مجلس تخدام الاحمدیہ کے چندہ مجلس کی ہے یعنی ایک پیسہ نی روپیہ کرتی ہے.اس کے بغیر ترقی مشکل ہے.نوسٹ : یہ معاملہ پہلے مجلس شوبہ کی تہ میں پیش ہو کر اس لیے ترک کیا گیا تھا.کہ مجلس نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس شرح کے ہوتے ہوئے چندہ کو دوگنا کرتے کی کوشش کریں گی اور چندہ اشاعت لٹریچر اور چندہ سالانہ اجتماع بھی سو فیصد پورا کریں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا.۵۴۵۰۰ روپے کا بجٹ آمد و خرچ برائے سال منتشله مندرجہ ذیل تفصیل کے ساتھ پیش ہے.منظور ہے منظور ہے چنده مجلس سالانہ اجتماع : اشاعت لٹریچر: ۴۰۰۰ 194 زعی برند عماء اعلی کی حسن کارکردگی پر بھی استناد خوشنودی دی جائیں منظور کیے جانے کی سفارش کی نا منظور جاتی ہے سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثالث اید والله تمال نبصرہ العزیز نے اس ارشاد پر کھل کر بھی منظور ہے
تمبر شمار ایجنڈا فیصلہ شوری طوری حضرت الله امیرالمومنین ایده مجلس مشاورت تکرار میں فرمایا تھا کہ شوری انصار اللہ میں اس بات پر غور ہوئی انمیں دوستوں نے انتہایہ کیا جائے کہ جلسہ سالانہ کی تقاریر لکھی ہوئی ہونی چاہئیں یا زبانی.بجٹ آمد و خرچ سال ۱۹۷ء چنده مجلس: " سالانہ اجتماع : اشاعت لٹریچر مستقل ریزرو فنڈ 19.۵۰۰۰۰ خیال فرمایا بالآخر کثرت رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ جلسہ سالاز کی تقاریہ لکھی ہوئی ہونی چاہئیں.بجٹ میں ۷۲ خسارہ دکھایا گیا ہے منظور ہے ۷۷ شوری کے نزدیک چندہ مجلس کی مد میں اس خسارہ کا اضافہ کر دیا جائے ، عملہ میں ا را در این اولین کی وصولی کا تقات پیکر میں کی جاسکتی ہے کہ وصولی پوری ہو جائیگی شور می است این تفصیل کے مطابق بحث آمد و خروج منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے چند مجلس : ۵۳۷۲۳ سالانہ اجتماع : ۴۰۰۰ اشاعت الٹر چیر صدر محترم نے مستقل ریزر دفنڈ کی مد بجٹ میں سے اڑا دی ہے اور فرمایا ہے کہ صدر اپنے ذرائع سے اس رقم کی وصولی کی کوشش فرمائینگے.قیادت عمومی: نظامت تسلع لامپور اس امر کو شدت سے محسوس کرتی ہے کہ اکثر دیہاتی مجاس اپنی مجلس شوری اسکی ضرورت نہیں منظور ہے ماہانہ سلور میں باقاعدگی سے نہیں بھو میں علاوہ دیگر وجود کے ایک ہوگیا ہے کہ رپورٹ فارم سمجھتی پینا طریق کار ہی درست ہے
نمبر شماره ایجنڈا مشکل اور لیا ہے لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ رپورٹ فارم دنیا تی مجالس کے لیے عام فہم رسادہ ) اور مختصر بنایا جائے.نظامت مسلع لاملیون ) فیصلہ شوری منظوری حضرت او امیرالمومنین ایده دستور اساسی کے قاعدہ نمبر ۳۲، ۳۳ کی رو سے ہر مجلس انصار اللہ مقامی اور ہر مجلس مجلس شوری کے نزدیک ترسیم منظور ہے انصار اللہ حق کا اجلاس ہر مہینہ میں کم از کم ایک بارمنعقد ہونا چاہیئے جس میں مقام یا کی ضرورت نہیں.حلقہ کے تمام اراکین کی شمولیت ضروری ہے تجویز ہے کہ قاعدہ نمبر 1 میں ترسیم کر کے مجلس انصار اللہ مقامی کا اجلاس ہر ماہ کی بجائے ہر سہ ماہی میں ایک بار مقررہ کر دیا جائے کراچی جیسے بڑے شہروں میں ہر ماہ مجلس مقامی کے تمام اراکین کا اکٹھے ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے.مجلس انصاراللہ کراچی صدر ) شهری مجالس کو جو ماحول و وسائل علمی، مالی و اشاعت وغیرہ حاصل ہوتے ہیں مجلس شوری اس تجویز کو رو دنیاتی مجالس کو وہ ماحول وسائل میسر نہیں آسکتے اس لیے دیہاتی مجالس با وجود رد کرنے کی سفارش کرتی ہے اعلی کارکردگی و انتہائی کوشش کے شہری بڑی بڑی مہاس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور حکم انعامی حاصل کرنے سے محروم رہتی ہیں جس کی وجہ سے دنیا تی مجالس میں القات کی روح پیدا نہیں ہوئی.لہذا ہماری مجلس یہ تجویز پیش کر تی ہے کہ الف : شهری مجالس سے علیحدہ دنیاتی مجالس کے لیے ماحول جو سائل کے مطابقی معیار مقرر کئے جائیں اور اُن معیاروں کے مطابق کار کردگی کا جائزہ لے کو نمبر لگائے جائیں تاکہ وہ بھی سبقت لے جا کہ علم انعامی حاصل کر سکیں.ب : دیہاتی مجالس کے لیے علیحدہ لائحہ عمل تجویز کیا جائے جو ان کے لیے قابل عمل ہو اور حسین پر عمل کر کے وہ اپنی کارکردگی کے معیار کو بلند کرتی چلی جائیں.ن مذکورہ بالا اور جی کی منظوری کی صورت میں ماہانہ رپورٹ فارم بھی تجویز کرده لائحہ عمل کے مطابق دیہاتی مجالس کے لیے علیحدہ چھپوائے جائیں پرانے فارموں میں بہت زیادہ تبدیلی کی ضرورت ہے.قیادت تعلیم : اگر چہ سہ ماہی امتحانات کے لیے دو معیار مقرر ہیں لیکن اتحات صاحبزادہ مرزا طاہر احمد ه ای و تخا حضور
نمبر شمار ١٠٩ ایجنڈا منظوری حضرت شاد فیصله شوری امیرالمومنین ایده ر صرف معیار اول کے مطابق ہی لیے جاتے ہیں سو فیصدی اراکین کو امتحان میں شامل کرنے پر و فیسر حبیب اللہ خاں صاحب کے لیے انصار کے مختلف معیار و مدارج مقربہ کئے جائیں تاکہ ہر رکن اپنی علمی استطاعت قائد تعلیم اور شیخ مبارک احمد صاحب اور قابلیت کے مطابق درجہ بدرجہ امتحان پاس کر کے مرکز سے سند حاصل کرتا جائے پر مشتمل کمیٹی مقرر کی گئی ہے کہ وہ ) مجلس چک نمبر اور حسن پور ضلع لائل پور) اقل ترین معیار مقر کر کے رپورٹ نوٹ : صدر محترم نے کمیٹی کی رپورٹ منظور فرمائی ہے کہ بنیادی معلومات پر مشتمل ایک کرے.کتاب مجلس مرکز یہ کی طرف سے شائع کی جائے اور یہ لازمی قرار دیا جائے کہ انصار اللہ کا ہر رکن اس کتاب کا امتحان پاس کرے اس امتحان کی نگرانی ناظمین اضلاع کرینگے.وہ یس مرکز یہ سہ ماہی امتحانات کا نصاب ترجمہ قرآن کریم کے علاوہ اچھپوا کر مجلس مرکزی شوری اسے رد کرنے کی سفارش کی طرف سے مقامی مجالس کو مطلوبہ تعداد میں تاریخ امتحان سے دو ماہ قبل بھیج دیا رے کرتی ہے البتہ قیا دت تعلیم پر ھے اس کی قیمت بھی مجالس مقامی سے وصولی کی جا سکتی ہے اس طرح زیادہ انصار امتحان سائیکو سٹائل کر دانے کی بجائے کی تیاری کر سکیں گے اور امتحان میں شامل ہونا اُن کے لیے آسان ہو جائیگا امتحانات طبع کروا کے بھجوایا کرے.کے پرچہ حیات بھی بجائے سائیکو سٹائل کروانے کے چھپوائے جایا کریں کیونکہ سائیکلوں سٹائل پر اچھے اچھی طرح پڑھے نہیں بھاتے.مجلس انصار اللہ کراچی ) قیادت مال: مجلس انصاراللہ کے کام کو وسعت دینے کے لیے دورہ جات کی اشد اس تجویز کے دو حصتے ہیں.ضرورت ہے.نیز مجالس کی بیداری کے لیے بھی یہ امر نہایت ضروری ہے کہ مجلس کردی - خرید جیپ (۲) ایرادی هیچ منظور ہے کے پاس اپنی جیب گاڑ نئی جو بوقت ضرورت قائدین کے دورہ کے لیے کام آسکے مجلس شوری نے فوری طور پر انزادی منشور ہے شرح نصف جیس طرح مجلس نعدام الاحمدیہ نے اسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر گاڑی خرید کی جیب خریدنے کی سفارش کی جبکو پسینہ سے بڑھا کر ہے اس کے اخراجات نیز دیگر مالی ضروریات کے پیش نظر مجلس انصاراللہ لائلپور حضور منظور فرما چکے ہیں.ایک پیسہ کی یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ چندہ مجلس کی موجودہ شرح نصف پیسہ سے بڑھا کر آئندہ اینواری شرح کی تجویز یہ کے مقابلہ جاتی ہے دیگر 114 ووٹوں سے نہ دکر دی گئی خطہ جمعہ نومبر سال سے ایک پیسہ نی روپیہ کر دی جائے.) تجویز مجلس انصار الله لائل پور ) اء میں بھی حضور نے اس کا ذکر فرمایا
نمبر شمار ایجنڈا 19.منظور یا حضرت فیصلہ شوری امیر المومنین ایده الله سالانہ اجتماع کے اخراجات آمد کے مقابلہ میں قریباً دو اڑھائی گنازیادہ ہور ہے اگر موجودہ ان دونوں تجاویز پر غور کرنے کیلئے صورت جاری رہی تو تفاوت بڑھتا چلا جائیگا لہذا یہ معاملہ لفرض غور پیش ہے.مندرجہ ذیل کمیٹی مقرب ہوئی.ا صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر رپورٹ کمیٹی : حضور را تقدس نے شرح چندہ نصف پیسہ سے بڑھا کہ ایک پیسہ مقر فرما دی ہے لہذا ملک محمدرفیق حساب تان دا سیکریٹری بجٹ کمیٹی محسوس کرتی ہے کہ اب اس سلسلہ میں مزید غور کی ضرورت نہیں رہی مذکورہ ۳ کرم سیم سینی صاحب قائد عمومی اضافہ شرح کے نتیجہ میں خسرہ بھی پورا ہوگا بلکہ کافی اضافہ ہوگا.انشاء اللہ مکرم چوہدری شبیر احمد صا حب ی کمیٹی اپنی منارائنات صدر تقسیم کی.بجٹ آمد وخرچ برائے سال ساہ پیش ہے.تخدمت میں پیش کریگی.منظور ہے منظور ہے انتخاب صدر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا طاهر همدان محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمدیان فرمایا ومولانا ابو العطاء صاحب قیادت عمومی : دستور اساسی میں ترامیم ته تا شد منظور ہے الف : شق نمبر ۲۲ مجلس انصاراللہ مالی بجائے ہر ماہ کم ازکم ایک بار کے کم از کثرت رائے سے شوری اسے منظور ہے کم تین ماہ میں ایک بار منعقد ہوگا " ب شق نمیره مو مجلس عاملہ مقامی بجائے مہرماہ کم از کم دویار کے ہر ماہ کم از کم ایک بار منعقد ہو گا.ج شق نمبر ۳۸ مجلس عاملہ حلقہ بجائے پندرہ روز کے ماہانہ ہوگا.وضاحت : ان شقوں میں ترامیم کی تجو میں اس لیے پیش کی گئی ہے تا مجلس متعالی اور مجلس حلقہ آسانی سے اپنے اپنے فرائض ادا کر سکیں موجودہ صورت یہ ہے کہ مجالس کے لیے رخاص طور پر شہری مجاسی لیے صرف اتوار کا دن ایسا ہوتا ہے جب دوست آسانی سے اکٹھے ہو سکتے ہیں.اس دن انہوں نے نہ صرف یہ کہ انصار اللہ اور جماعت کے مد کرنے کی سفارش کرتی ہے
نمیر شماره 191 ایجنڈا جملہ فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اپنے دنیاوی کام بھی سرانجام دیتے ہوتے ہیں ، صورت حال یہ ہے کہ دونوں مجاس کے ہم اجلاس بنتے ہیں جبکہ مہینہ میں اتوار نهم صرف ہم بار آتا ہے.ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مجلس مچھر زور سفارش کرتی ہے کہ مندرجہ بالا نتجاویز منظور فرمائی جائیں.(مجلس دارا الذکر لاہور ) فیصله شوری منظوری حضرت الله امیر المومنین اید وانت قیادت عمومی : مجلس مرکز یہ انصار اللہ خط و کتابت پر اپنا لیے تما شا اور لیے فائدہ شوری اسے رد کرنے کی سفارش منظور ہے خری بند کر دے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرکز سے آمدہ خطوط کی طرف کوئی بھی توجہ کرتی ہے.نہیں کرتا مگر مرکز اس طرح کی فضول خط و کتابت پر ہزاروں روپیہ سالانہ خرچ کر مجلس شور می کارد عمل شدید دیتا ہے.نیز اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف تو اخبارات اور رسائل میں اطلاعات طور پر اس تجویز کے خلاف تھا اور ہدایات شائع کروائی جاتی ہیں تو دوسری طرف وہی ہدایات ہے تما شا چھٹیوں کے نہایت نا مناسب اور نا معقول ذریعہ باربار بذریعہ ڈاک بھیجوائی جاتی ہیں اور پھر نطف یہ ہے کہ ادھر مقامی زعیم تجویز ہے.الفاظ سے منافقت کی بلکہ امیر جماعت تک کو خطوط آتے ہیں اور ادھر ضلعی امیر اور زعیم و ناظم اعلیٰ کود ہی بو آتی ہے.صدر صاحب مجلس خطوط بھیجوائے جاتے ہیں اور اس طرح ہزاروں روپیہ سالانہ ضائع چلا جاتا ہے خود انصاراللہ نے حسب قواعد شوری دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں آنکھوں سے دیکھا گیا ہے کہ یے تماشا خطوط کو لفافہ میں کے اجلاس میں میں اس مجلس کی نید کر کے دس پیسہ کا ٹکٹ لگایا جا رہا ہے اور اس طرح ایک بار قریباً ۱۵۰ روی نمائندگی کو منسوخ فرمانے اور روپیں مجلس کا ضائع کر دیا جاتا ہے.مگر اس کا فائدہ ذرہ بھر بھی نہیں ہوتا ہیں اس مجلس کے عہدیداران کو معطل طرف احتیاط کی خاص ضرورت ہے، اخبارات و رسائل میں اعلانات کے علاوہ کرنیکا اعلان فرما دیا تھا.اس میں انسپکٹر کو دورہ پر روانہ کر کے توجہ دلانا سود مند ہوگا.میں آئندہ کے لیے نعیم کو صدر مجلس انصار الله سانگلہ ہل ضلع شیخو پوره ) محترم خوردن مرد فرا نگے.قیادت عمومی : ڈویژن لیول پر مجالسی انصار اللہ کا اجتماع اگر ہو سکے تو ہر مشہور ٹی کثرت رائے سے اس تجویز ڈویژن کے صدر مقام پر منقد کیا جائے اور اس طرح ہر ویری عہدیداران کا اس کو منظور فرمانے کی سفارش کرتی انصار اللہ کا ہرسہ ماہی میں ایک دقعہ اجلاس ہونا چاہیے.(مجلس انصاراللہ جہلم شہر ہے.منظور ہے نارم ماہانہ رپورٹ کا رگزاری دمیاتی مہاس کے لیے علیحدہ چھپوائے جائیں کیا کر شورانی کا نہ ایک فارم مالی تبدیلی منظور ہے چنانچه وه ریعہ ڈاک بھیجوا دیتے ہیں
نمبر شمار ایجنڈا ١٩٢ فیصلہ شوری منظوری حضرت امیرالمومنین ایده اس کے کام کی نوعیت اور تفصیل شہری مجالس سے مختلف ہے.یہ فارم مختصر اور ہے مصدر مقرم ایک کمیٹی مقر فرمایا مادہ ہونے چاہیں.مجلس چک نمبر 10 تا ب حسن پور ضلع را کپور بر تخت پیلون کا باز ایران مالی ۱۲ ج - لائلپور ) نوٹ : صدر مقرم نے شیخ با نامه ای نمی مینی ساب سود الدخان اب اشتمال یک کیر مغرور فرمائی جس نے نیا رپورٹ فارم مرتب کیا ہے.صدر صحابہ کی خدمت میں کرے.قیادت تعلیم : ناظمین اعلی وزعماء انصار اللہ کے لیے امتحان انصار الله زمی قرار شوری کثرت رائے سے منظور کرتے منظور ہے دیا جائے.ناخواندہ زعماء انصار اللہ کے لیے معیار دوئم کا امتحان لازمی قرار دیا جائے (مجلس داریوشن ضلع شیخو پوره ) کی سفارش کرتی ہے منظور ہے "I موجودہ طریق امتی کی جو سکولوں اور کالجوں کے متبع ہے یکسر بدل کر انصاری شوری سفارش کرتی ہے کہ صدر محرم کے لیے ایک ایسا طریقی امتحان تجویز کرتی ہے جو VIE SYSTEMے یعنی سوال و جواب مجلس انصاراشد ایک کمیٹی مقر فرما دیں QUI اپنی رپورٹ مرتب کرے.کی طرز پر ہو.سوال جواب سب انصار اللہ کے نصاب میں سے ہوں اور ہر سوال کا جواب جو اس تجویز پر اچھی طرح غور کر کے پرچہ کے آگے خالی جگہ پر درج کیا جا دے.وضاحت : موجودہ طریقہ بہت فرسودہ ہے اور اس کے پرچہ جات دیکھکر انسان اب محسوس کرتا ہے جیسا کہ وہ میٹرک یا بی.اے کے امتحان میں شریک ہو رہا ہے، آجکل ترتی یافتہ ممالک اس کو خیر باد کہہ رہے میں خود ہمارے ملک میں فوج میں بھی QUIZ TEM کہا کہ 2012 رائج ہے مجلس تہا اس SYSTEM کی سفارش کرتی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ منظوری کر لی جائے تو اس کے بہت خوش کن تاریخ نکلیں گے اور بہت زیادہ انصار اس میں شامل ہونگے ( مجلس دار الذکرہ لا ہور ) نوٹ : کمیٹی کی رپورٹ پر صدر محترم نے فیصلہ فرمایا ہے فی الحال.فیفا اعلام موجود استان کا طریق موجودہ کا نہ بدلا جائے کیونکہ مجوزہ طریق عام انصار اللہ کے لیے مشکل ہوگا.۷.سوالات کے پرچہ میں سو فیصدی انتخاب کی گنجائش رکھی جائے.۳.پرچم میں ایک سوال ضرور لازمی ہونا چاہیئے منظور ہے
ایجنڈا ۱۹۳ فیصلہ شوری منظوری حضرت الله امیر المومنین ایده - سوالات کا پرچہ قائد تعلیم اور نائب قائد تعلیم کے مشورہ سے بنایا جائے.قیادت اشاعت: مرکز مجلس انصار اللہ کی تاریخ مرتب کرے.شور نی کثرت رائے سے منظور کرتے منظور ہے و مجلس چک نمبر ۱۳ ج سب حسن پور ضلع لامپور ) کی سفارش کرتی ہے.کمیٹی : مولوی نظام باری ها سیف قائد اشاعت: پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب، مولوی دوست محمد صاحب شاید قیادت مال : اس وقت چندہ مجلس جو کہ ایک پیسہ نی روپیہ ہے آمد کے حساب سے وصول کیا شور می کثرت رائے سے نا منظور جاتا ہے.اس کی تقسیم حسب ذیل ہے.ا حصہ مرکز.= فیصد کرنے کی سفارش کرتی ہے امنظور ہے ۲ - حصہ مقامی مجلس : ۳- حقه ناظمین اضلاع و علاقه و " ۲۸ چونکہ نظامت ضلع / علاقہ کے سپرد مجلس کے دورہ جات کرنے تربیتی اجتماعات منعقد کرتے اور مجالس اور مرکز سے کافی خط و کتابت کرنی ہوتی ہے جس کے لیے یہ حصہ رقم بالکل مکان ہے.اس ضرورت کو پورا کرنے اور کام کو وسعت دینے اور آگے بڑھانے کے لیے نظامت ضلع یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ چندہ لیکس کی شرح تقسیم میں تمیم کی جاوے اور صوبہ ذیل مقدر کی جائے.ا حصته مرکه به ۲- حصہ مقامی مجلس : ۶۵ فیصد " ro ۳- ناظمین ضلع لم علاقه " نظامت شلع لائل پور) قیادت عالی : بجٹ آمد و خرچ برائے ۱۹۷۳ ئہ پیش ہے.شوری ۱۲۶۰۰۰ روپے کے بجٹ منظور ہے اور خرچ کو منظور کرنے کی سفارش کرتی ہے.
نمبر شمار ایجنڈا ١٩٣ء ۱۹۴ فیصله شوری منظوری حضرت امیر المومنین ایده ر ضلع کی مجلس انصاراللہ میں آڈیٹر کے عہدہ کا اضافہ کیا جائے اور دستور اساسی میں ترمیم تجویز سے اتفاقی ہے ترمیم نہیں بلہ فرمائی جائے.نظامت انصار اللہ کراچی ) دستور اساسی میں اس شق کا افسانہ کیا جائے.منظور ہے موجودہ دستور اساسی کے مطابق شہری مجالس میں سے حسن کارکردگی کے لحاظ سے اول آنے یہ تجویز شہداء میں پیش ہوئی تھی منظور ہے میں حسن لحاظ والی ٹیکسن کو علم انعامی دیا جاتا ہے مجلس لائلپور یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ دوئم اور سوم شوری کی سفارش پر حضور نے اسے نامنظور فرمایا تھا اس لیے شوری آنے والی شہری مجالس کو بھی آئندہ استناد خوشنودی دی جایا کریں.) مجلس انصار الله لائل پور شہر ) اسکی دوبارہ سفارش نہیں کہ تی قاعده نیره ۸ میں ترمیم کرکے متواتر تین بار کی جائے تواتر دو بارکر دیا جائے.پورا شوری اس تجویز کے حق میں نہیں ٹھیک ہے قاعدہ یوں بنے گا : کوئی عہدیدار ایک ہی عہدہ کے لیے متواتر دربار سے زیادہ کیونکہ اس سے دیگر عہدیداران کی منتخب یا نامزد نہ ہو سکے گا ، سوائے اس کے کہ صدر مجلس کسی کو اس قاعدے سے مستثنی قرار معیاد بھی متاثمہ ہوگی.ر مجلس انصاراللہ چک نمبر ۱۲۱ ج.ب حسن پور ضلع لامپور ) ے.و میں مجلس کی تجویز شوری کے ایجنڈا میں شامل ہو اگر اس کا نمائندہ شورٹی میں مجلس شوری اس تجویز کورد دستخط حضور حاضر نہ ہو تو وہ تجویز پیش نہیں ہو سکے گی سوائے اس کے کہ صدر محترم کسی تجویز کو اس قاعدہ کرنے کی سفارش کرتی ہے سے مستنی قرار دیدیں.ب.مجلس شوری میں بحث کے دوران اگر کسی وقت مجلس مجوزہ اپنی تجویز کی مزید شوری منظوری کی سفارش کرتی دستخط حضور وضاحت کرنا چاہے تو اس کے نمائندہ کو اجازت ملنی چاہیئے خواہ اس نے پہلے بحث ہے.اندس میں حصہ لینے کے لیے نام نہ بھی لکھوایا ہو.بس انار ایک نیا را با سن و یا ایشور ایجنڈا پر غور کرنے کے علاوہ مجلس شورٹی میں عام بحث کیلئے کچھ وقت مخصوص کیا جائے.قائدین کی رپورٹیں پیش ہونے پر دستخط حضور جس میں نمائندگان کسی بھی قیادت (شعبہ ) کے متعلق اپنی وقتی پیش کرسکیں اور تیات نمائندگان اس کی وضاحت ملیم متعلقہ اُن کے ذرائع تجویز فرمائے اور مطلوبہ وضاحت فرمائی جاوے اس طرح تھوڑے کر سکتے ہیں.
نمبر شمار 190 A ایجنڈا وقت میں زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے گا.مجالس ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھا اسکتی ہیں.مجلس انصاراللہ چک نمبر ۱۲ ج - ب حسن پور ضلع لائل پور ) منظوری حضرت فیصلہ شوری امیرالمونین ایده خدا تعالیٰ کے فضل سے مرکزی سالانہ اجتماع کا پروگرام نہایت دلچسپ اور ایمان افروز یہ تجویز مفید ہے اس سال کے دستخط حضور ہوتا ہے اس لیے ایک بھی تقریر چھوڑنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی دوسری طرف بعض پروگرام میں اس کا خیال بھی اجلاس کئی گھنٹے بلا و قہ جاری رہتے ہیں ، دیکھا گیا ہے کہ اتنی دیر تک بیٹھے رہنا اور رکھ لیا گیا تھا، منظوری کی تمام تقاریر کو توجہ سے سننا بہت مشکل اور تکلیف دہ بن جاتا ہے اس لیے تجویز ہے سفارش کی جاتی ہے کہ اجلاسوں میں مناسب موقعہ پر وقفے ہونے چاہیں تاکہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہو سکیں اور تازہ دم ہو جائیں.ر مجلس انصاراللہ کو مٹہ زیادہ مجلس کے خیال میں رسالہ انصار اللہ کی خریداری کو بیت و وسعت دینے کی ضرورت ہے اور پرچے کا معیارم صورت میں برقرار ٹھیک ہے اس کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ اس کا سالانہ چندہ کم کر کے دور و پلے کر دیا جائے جیسا کہ رسالہ رکھنا چاہئیے اس لیے مجلس شوری تحریک جدید کا ہے اور اسکا کاغذ اعلی ہونے کی بجائے نیوز پرنٹ ونیز جس طرح تحریک بہت اس تجویز کو رد کرنے کی سفارش میں بعض پرانے مجاہدین تحریک جدید کو مفت جاری کیا جاتا ہے اسی طرح انصار اللہ کا رسالہ کرتی ہے.بھی بعض اراکین اور مجالس کو مفت جاری کیا جادے.مجلس انصاراللہ ماڈل ٹاؤن لاہور ) اگر فنڈز اجازت دیں تو مجلس مشاورت کی طرح انتصار اللہ کی مفصل رپورٹ مجلس شوری اسے رد کرنے کی دوستنا حضور شائع کی جائے.سفارش کرتی ہے.اقدس ی.اسی طرح لجنہ اماء اللہ کی طرح سالانہ اجتماع انصار اللہ کی پوری روئیداد مجلس شوری سفارش کرتی ہے کہ دستخط ما بنا ما انصار اللہ کا ایک ایسا ایشو حضور اقدس شائع کی جائے.ر مجلس انصارالله چک نمبر ۱۲ ج ب حسن پر ضلع لو شیپور ) شائع کر دیا جایا کرے جس میں اجتماعات کی مفصل رپورٹ ہو.19- ملک میں جب بھی کسی قسم کی ہنگامی صورت پیدا ہو جائے ، مثلاً مسیلاب و رہائی.اس تجویز کو پیش کرنے کی جوہم ٹھیک ہے امراض و دیگر ایسی صورت ہو کہ خدمت خلق کی اشد ضرورت پیدا ہو جائے تو مرکز کی بیان کی گئی ہے وہ خدمت خلق کے
نمبر شمار ایجنڈ 194 فیصد شوری منظوری حضرته امیر المومنین امید و النقد طرف سے ایک جامع حکیم موجود ہونی چاہیئے جس کے پیش نظری اسی ہنگامی ضرورت کوپورا کرنے کے کام کے نشانی ہے مرکز ضرورت کے مطابق لیے خدمت خلق کے کام کو فوری آگے چلا سکیں اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ حالیہ سیلاب ہدایات دیتا ہے مگر خدمت خلق کے کام کے دنوں میں بعض احباب نے یہ کہ ہر رکن کی طرفسے کوئی ہدایت نیں آئی.اس طرح کام کو کال لیا اور وبائی امرا می با نوع نسان کی اس لیے ادا کی کیا کہ مرکز کی پیچھے ڈال دیا.طرف سے ملایا نہیں آئیں مناسب نہیں کیونکہ بعض اوقات مجالس کو ہدایات میں آمد و رفت کے ذرائع ہی ختم ہو چکے تھے اس لیے مجلس اس تجویز کے حق میں نہیں انصارالہ کے زیر انتظام بعض علاقوں میں ہومیوپیتھی اور بلی کیک کی ایسی نہیں کھولتے.بعض اس اس تجویز پرپہلے ہی کا انتظام کیا جانا چاہیئے جن میں امید ہے کہ بہت فائدہ ہوگا.عمل کر رہی ہیں، باقیوں کے لیے بھی کوئی (مجلس القضاء الله چک چٹھ ضلع گوری نوالہ ) مکن نہیں انفرادی طور پر ڈاکٹر مانیا کو اس کام میں مدد دینے کی تلقین کی جانی چاہیئے.1960 بیٹ آمد خرچ برائے ۱۹ مر پیش ہے.چنده مجلس سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر ما مینا مو انصار انتشار به مجلس شوری دستخط چنده مجلس: ۱۵۰۰۰۰ حضور اقدس سالانہ اجتماع.اشاعت ٹریپر ماہنامہ انصار الله AA+ میزان : ۱۷۴۸۰۰ میزان ۱۷۴۸ • اء اور ۱۹۷۵ دی حالات ناساگار ہونے کی وجہ سے اجتماعات منعقد نہ ہو سکے.کا بجٹ آمد و خو منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.
نیر شمار ایجنڈا 196 منطوری فیصله شوری امیرالمومنین ایده انتخاب صدر مجلیس : 1960 1444 ۱۹۷۵ عمه (منعتقده ۷۱- اپریل مساء) - محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وق منورہ احمد صاحب طاہر احمد صاحب مولانا ابو العطاء صاحب ۲ نائب صدر صف دوم نرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.چوہدری حمید اللہ صاحب مولانا غلام باری صاحب سیت محترم سا چزادہ مرزا مبارک احمد ابن منظور ہے از شده تا ششده چوہدری حمید اللہ صاحب رمیاں طاہر احمد صاحب کا نام لوج عمر زیادہ ہونے کے واپس لے لیا گیام شکور ہے سید میر محمود احمد صا حب ناصر صاحبزاده مرندا خورشید احمد صاحب قیادت عمومی : 1 انصار اللہ ایک ذیلی تنظیم ہے اس کی طرف کم توجہ دی جارہی ہے اسکے قلت وقت کی نئے غور نہ ہو سکا احاطہ الہ کو زیادہ مفید بنانے کے لیے اراکین مجالس کو بیدار کرنے کی ضرورت بڑی شدت سے فیصلہ ہوا کہ آئندہ شوری میں پیش محسوس کی جارہی ہے.بعض جگہ پر تو خاصا محمود ہے لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ انکے حالات کر دیا جائے.کے مد نظر ہر سہ ماہی میں ایک مرکزی تربیتی وفد جو دو تجربہ کار اور ذی اثر احباب پر مشتمل ہو ضلع کی پر تحصیل میں کم از کم پانچ دن نظم انصار اللہ ضلع کی تجویز کردہ مجالس میں دورہ کرے.محترم مربی صاحب ضلع بھی اس وفد کے عمر شمار ہوں ، اس وفد کا عرصہ قیام ہر ضلع میں دس دن کا ہو.تاوہ ضلع کی دو تحصیلوں میں آسانی سے دورہ کر سکے پر سکیم ایک مستقل لائحہ عمل کی صورت میں ہو عارضی نہ ہو (نظامت ضلع سیالکوٹ) - انسپکڑران مجلس انصاراللہ کی کی کو پورا کرنے کیلئے وقف ماضی کی بنیاد پر تیری اکران فیصلہ ہوا کہ اندر شوری میں مقررہ گئے جائیں " انتظامت اعلیا اسلامیہ پارک لاہور ) پیش ہو.
نمبر شمار ایجنڈا 140 فیصله شوری لوری حضرت امیرالمومنین ایده اند.ضلعی اجتماعوں کے موجودہ نظام سے وہ تعلیمی اور تربیتی غرض پوری نہیں ہو رہی اس فیصلہ ہوا کہ آئندہ شوری میں لیے شور می اس کو موثر بنانے کے لیے اپنے لائحہ عمل میں تبدیلیاں کرے تا کہ دیہاتی اور شہری پیش ہو.پر رکن فائدہ اٹھا سکے.( مجلس لومیری والا ضلع گوجرانوالہ ) قیادت عمومی : الف : حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت امیرالمومنین خلیفہ آئندہ شوری پر المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات اور خطیات پیشتمل ایسا کتا بچہ شائع کرے جو انصار اللہ کی راہنمائی کرتی ہو.نظامت علیا راولپنڈی صدر) ب : صفحه نمیره پر قاعدہ نمبر ۱۳) (ب) میں نائب صدر کے آگے نائب صدر صف دوم بھی بڑھایا جائے : (نظامت علیا راولپنڈی صدر) -۵- مجلس مرکزیہ نے ایک سال رنا لباس میں اس اس کی کوشش کی تھی کہ صی به حضرت مسیح موعود کی روایات و حالات ان کی آواز میں ریکارڈ کئے جائیں اور ان کے فوٹو بھی حاصل کئے جائیں ، چنا نچہ اس سلسلہ میں ۲۶ صحابہ کی آوانہ کا ریکارڈ تیار کیا گیا اور اب نماہ کے فوٹو حاصل کئے گئے جو دفترمیں محفوظ میں اب خاکسار یہ تجویز کرتا ہے کہ میاس میں ہر تحریک کی جائے کہ جہاں یہاں کوئی مالی بقید حیات ہوں ان کے فورا از عادات روایات جلد از جلد قلمبند کر کے دفتر میں ان کا ریکا رڈ محفوظ کیا جائے اور جو صحی به فوت ہو گئے ہیں اُن کے عزیزوں سے درخواست کی جائے کہ ان کے فوٹو معہ کوائف (تاریخ بیعت وغیرہ) حاصل کر کے دفتر انصار اللہ کو بھیجوائیں تا کہ یہ تاریخی ذخیرہ محفوظ ہو جائے قیادت مال مجلس انصار اللہ کے ساون اجتماع کا چندہ صرف ایک روپیہ سالانہ فی کین مجلس شوری نے صدر محترم کو یہ ہے موجودہ وقت میں جبکہ گرانی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے سالانہ اجتماع کے لیے ایک روپیہ اختیار دیا کہ مال کے متعلق دونوں چنده با لکل نا کافی ہے، اڑھائی یوم کے کھانے اور ناشتے کے اخراجات بہت بڑھ تجاویز پر غور کرنےکے لیے ایک کیٹی گئے ہیں تین سال کی آمد اور اخراجات کا گوشوارہ حسب ذیل ہے.مقرر فرما دیں جو اپنی سفارش صدر محترم کی خدمت میں پیش کر کے صدر محترم نے مندرجہ
منظوری حضرت فیصلہ شوره ی امیرالمومنین ایده اند یل اصحاب پر مشتمل مقدر صحاب پر تیل کی مقر فرمانا منظور ہے روپے کا صوفی غلام محمد صابت آڈیٹر مرکزیہ چوہدری احمد الدین خانه ناظم ضلع لائلپور.۳.چوہدری غلام احمد ریان " ١٩٩ ایجنڈا سال آمد خرچ ۱۳۱۸۸۰ ۳۷۵۰ 1941 196 ۵۴۷۶ - 1967 1967 کے بعد اب تک گرانی میں اور اضافہ ہو چکا ہے اس لیے تجویز کیا جاتا سرگودھا.یہ ملک عبدالطیف صاحب ہے کہ سالانہ اجتماع کے اخراجات کے لیے ہر انصار اپنی ماہوار آمد کا پارہ فیصد مسکوی ناظم ضلع لاہور دو نظر اند سالہ ادا کرے اس مد کا ہر رکن کا کم از کم چندو تین روپے سالانہ ہو احیای زاینده کراچی و قاره مان کمیٹی تجویز کوسن وعن منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے صدر محترم نے حضور کی خدمت میں بھجوانے کا ارشاد فرمایا.قیادت مال : بجٹ آمد و خرچ برائے شواء پیش ہے.اجتماعی شرح بڑھ جانے کی وجہ منظور ہے شوری انصار اللہ کے لیے اگر مندر جہ ذیل دو تجاویز پر غور کرنے کے لیے ورنہ میں کے اجلاس میں قائد عمومی ، قائد تحریک جدید ، قائد مال اور سیکرٹری برائے صدر پر مشتمل کمیٹی مقرر کی گئی تھی.کل مور و پیے 19 کمیٹی کا اجلا س مواد متفقہ طور پر کمیٹی کی سفارش حسب ذیل ہے.سے کیسٹی نے اجتماع کے بیٹ ۳۱۰۰۰ روپے کے ساتھ بیٹ آمد و خرج منظور کئے بجانے کی سفارش کی.
نمبر شمار ایجنڈا نمبر شمار فیصلہ شوری منظوری حضرت امیر المومنین ایده الله سفارش کمیٹی فیصد صدر محترم تجاویز صدر انجمن احمدیہ اور ملی خدام الاحمدیہ کی طرح مجلسی کمیٹی کے نزدیک تجویز مقید ہے مگر خرچ کی منظور ہے انصار اللہ کا بھی رجسٹر روز نامچہ کھاتہ طبع کروا کر مجاس کو رعایت سے فی الحال روز نامچہ یا کھاتہ میں سے بھجوایا جانا چاہیے تاکہ مجالس کے لیے چندہ کے حسابات حسب ضرورت واہمیت حریم قائد حال ایک رکھنے آسان ہووے اور اس سے چندہ کی وصولی پر بھی قسم کے فارم طبع کروائیں.مفید اثرہ پیدا ہو.مجلس انتصار اللہ کے چندہ کی تشخیص اُس آمد پر ہوا کیٹی کے نز دیک اس تجویز کو سال رواں کی شورای شور می شه کرے جو اصل آمد سے بعد فعلی سالانہ چندہ جات انصاراللہ میں شامل کر لیا جائے تاکہ دوستوں کا میں تجویز کو کھا مرکزی مثلاً دسیت (حصته آمد ( جلسہ سالانہ ، جو بلی فنڈ رجحان دیکھ کر مناسب فیصلہ ہو.کمیٹی کا خیال جائے.ہے کہ آمد میں سے صرف چندہ عام یا چندہ وصیت بغیر ریما رکس تحریک جدید ، وقف جدید و غیره اور چندہ جلسہ سالانہ نکال کہ مجلس کا چندہ لیا جائے دستخط قائد عمومی : قائد تحریک جدید قائد حالی سیکرٹری 1/4/44 +1966 انصار اللہ ایک ذیلی تنظیم ہے.اسکی طرف کم توجہ دی جا یہ تجویز نا قابل عمل ہے.مشہور کی حسب ذیل رہی ہے اس کے احاطہ اثر کو زیادہ سے زیادہ منظم بنانے ترمیم منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.ٹھیک ہے کے لیے اراکین مجالس کو بیدار کرنے کی ضرورت بڑی شدت ہر نا ظم اعلیٰ رضلع اپنے علاقہ ر ضلع کا جائزہ لیکر سے محسوس کی جارہی ہے بعض جگہوں پر تو خاصا جمہور ہے لنڈا رپورٹ کرے کہ کون کون سی مجالس زیاد و شست تجویز کیا جاتا ہے کہ ان کے حالات کے مد نظر ہر سہ ماہی میں اور قابل تربیت ہیں تا مرکزہ اس پر مناسب
نمبر شمار ایجنڈا فیصلہ شوری ایک مرکزی تربیتی وفد جوکم از کم دو تجربه کار اور ذی اثر حجاب پر شتمل وضلع کی تحصیل کار روائی کر کے تربیتی و نور میں کم از کم پانچ دن ناظم انصار اللہ ضلع کی تجویز کردہ مجالس میں دورہ کرے.محترم بھیجوانے کا انتظام کر سکے اور مربی صاحب ضلع بھی اس وفد کے نمبر شمار ہوں.اس وفد کا عرصہ قیام دس دن کا ان مجالس کی بیداری ہو سکے.ہو.تاکہ وہ ضلع کی دو تحصیلوں میں آسانی سے دورہ کر سکے.یہ حکم ایک مستقل لائحہ عمل کی صورت میں ہو عارضی نہ ہو.نظامت ضلع سیالکوٹ ) منظوری حضرت امیر المومنین ایده اند مجلس مرکزیہ نے ایک سال (غالباً 194 ء میں اس امر کی کوشش کی تھی کہ صحابہ حضرت شوری اس تبدیلی کے ساتھ منطور دستخط مسیح موعود کی روایات و حالات ان کی آواز میں ریکارڈ کئے جائیں اور انکے فوٹو بھی حاصل کرنے کی سفارش کرتی ہے کہ جو کئے جائیں چنانچہ اس سلسلہ میں کمی نہیں کی آواز کا ریکارڈ تیار کیا گیا اور اب بھیانہ کے فوٹو صحابہ بقید حیات میں انکے فوٹوز حاصل کئے گئے جو دفتر میں محفوظ ہیں.اور خاکسار یہ تجویز کرتا ہے کہ مجالس میں یہ تحریکیں اور کوائف معلوم کرنے کیلئے مرکت کی جائے کہ جہاں جہاں کوئی مسمانی بقید حیات ہوں انکے فوٹو اور کچھ حالات و روایات ناظمین اعلی راضلاع کو لکھے.بلدانہ جلد قلمبند کر کے دفتر میں ان کا ریکارڈ کیا جائے اور جو صحابہ فوت ہو گئے ہیں ان کے عزیزوں سے درخواست کی جائے کہ ان کے فوٹو معہ کوائف ( تاریخ بیعت وغیرہ ) حاصل کر کے دفتر انصار اللہ کو بھجوائیں تاکہ یہ تاریخی ذخیرہ محفوظ ہو جائے.قیادت تعلیم مرکزید ) موجودہ دستور کے مطابق اس وقت ناظمین اعلی (علاقہ) اور ناظمین اضلاع کا انتخاب اگر مطلوبہ انتخابات تین ماہ کے دستخط ہر تین سال بعد عمل میں آتا ہے چونکہ انتخاب کے متعقد ہوتے میں غیر معمولی تاخیر ہو جاتی اندر کوشش کے با وجود عمل میں ہے بلکہ بعض حالات میں کورم پورا نہ ہو سکنے کی وجہ سے ایک سال سے زائد عرصہ انتخاب نہ آسکیں تو شوری سفارش کے منعقد ہونے میں لگ جاتا ہے اور اس سے کام بھی متاثر ہوتا ہے، لہذا تجویز کیا کرتی ہے کہ صدر مجلسی کی طرف جاتا ہے کہ آئندہ سے ان ہر دو عہدہ جات کے لیے صدر محترم کی طرف سے نامزدگی کا سے نامزدگی کردی جائے.طریق جاری کیا جائے جو شروع عرصہ میعاد میں ہی عمل میں آجائے اور قاعدہ دستور اساسی و نم ۱۳ - ۱۳۸ - ۱۴۰ اور ۵۳ - ۱۵۱ - ۱۵۲ ۱۵۴ میں ترمیم کی جائے.نظامت ضلع لائلپور)
۲۰۲ ایجنڈا فیصله شوری قیادت تعلیم : ۱۹۷۳ء میں مجلس شوری میں یہ تجویز پاس ہوئی تھی کہ نامین عالمی شوری منظور کئے جانے کی اور زعماء انصار اللہ کے لیے امتحان انصار اللہ لازمی قرار دیا جائے اس پاس سفارش کرتی ہے.شدہ تجویز میں اضافہ کیا جائے ناظمین اضلاع اور شاعر علی کے لیے ہی امتحان الا لا لا لازمی قراردیا سین اس اضافہ سے مکمل تجویز یہ ہوگی.ناظمین اعلی ناظمین اضلاع زعماء اعلیٰ اور زعما کے لیے امتحان انصار الله لازمی قرار دیا جائے.ر نظامت لائل پور ضلع ) منظوری حضرت الله امیر المضلین ایده دستخط قیادت مال بمجلس انصار اللہ کے چندہ کی تشخیص اسی آمد پر ہوا کرے جو اصل آمد سے بونگی یہ تجویز قربانی کی روح کے خلاف ہے برا تو سالانه چنده جات مرکزی مثلا وصیت ، حصہ آمد اجلسہ سالانہ ، حویلی فنڈ ، تحریک جدید ، وقف شوری کار جمیل اسکے شدید خلاف ہے رد جدید و غیره د مجلس بشیر آبا د ضلع حیدر آباد ) بیٹ آمد و خرچ برائے سال میش پیش خدمت ہے.۱۳۹۶ 1446 کو نیگی کی سفارش کی جاتی ہے.شوری مندرجہ ذیل تفصیل کے مطابق انند سال کیلئے آمد و خرچ کا بجٹ منظور دستخط حضور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.چنده مجلس و سالانہ انتجات اشاعت لٹریچر | beet 1<...۲۲۹۰۰۰ ما تنها مر نصار الله متفرق احمد میزان 1960 قیادت تعلیم : قیاد تعلیم کے زیر اہتمام پرس های من ایک امتحان منعقد کیاجاتا ہے اور توقع جودہ دوستوں نے اس تجویز پر اعمار کی جاتی ہے کہ تمام اراکین انصار اللہ اس میں شریک ہوں، لیکن عملاً صرف چھ صد کے قریب خیال فرمایا، امتحانات میں شامل اراکین اوسطاً شریک ہوتے ہیں.قیادت تعلیم باوجود کوشش کے اس تعداد کے بڑھانے ہو نیوالی تعداد کو بڑھانے کیلئے مختلف میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوئی اس لیے یہ امر برائے خور شورتی میں پیش ہے.تجویزیں اور تحریکیں زیر غور آئیں جس سے جملہ انتصار کو اچھی خاصی تحریک ہوگئی شوری اس تجویز کو منظور ہے نمبر شمار
نمبر شمار ایجنڈا منظوری حضرت فیصلہ شوری مندرجہ ذیل قاعده کی شکل میں منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.انصار اللہ کے تمام عہدیداران کا انصار اللہ کے امتحانات میں سوائے کسی خاص مجبوری کے شامل ہونا ضروری ہو گا اگر کوئی عہدیدار متواتر تین امتحانوں میں شامل نہ ہو تو وہ اس عہدہ پر فائز نہ رہ سکے گا.امیرالمومنین ایده الله قیادت ایشیار : انصار ڈاکٹر کر ڈسپنسر اور حکماء سال میں کم از کم پندرہ دن وقف کریں تجویز معقول ہے شوری منظور کئے منظور ہے وہ اپنی خدمات کو مرکز کے پر کریں مرکتہ انکی خدمات موقع کی مناسبت سے لے.شیخو پورہ شہر جانے کی سفارش کرتی ہے.قیادت مال : سارے پاکستان میں دنیا و سو کے قریب مجالس میں انکے کام کی پڑتال اور بجٹ شوری بالاتفاق منظور کئے جانے منظور ہے تشخیص کرنے اور وصول چند کی رفتار کو تیز کرنے کےلیے موجودہ نہیں انسپکڑ کر میں اسلیئے کی سفارش کرتی ہے.ایک مزید انسپکٹر کی اسامی بڑھائی جائے.(سیالکوٹ شہر ) قیادت مال: بجٹ آمد و خو په بابت سال شد پیش خدمت ہے.شوری مندر جہ ذیل تفصیل کے مطابق بجٹ آمد وخرج منظور کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.چنده مجلس = ر سالانہ اجتماع اشاعت لٹریچر ما انا ما انصار الله متفرق : میزان - محاصل مشروط :- عطا یا گیسٹ ہاؤس - ۲۲۵۰۰ 16...☑...۲۹۴۰۰۰ ۳۰۰۰۰ منظور ہے کل میزان -
پندرھواں باب ۲۰۴ اجتماعا ومی زندگی اور ترقی میں اجتماعات کو اہم مقام حاصل ہے.ان کے ذریعہ اجتماعات کی اہمیت میل جول اور باہمی تعارف میں اضافہ ہوتا ہے اور اخوت و محبت میں ترقی ہوتی ہے.نیز پیش آمدہ مسائل پر مشورہ اور غوروفکر ہو سکتا ہے اور لائحہ عمل طے کئے جا سکتے ہیں اور یہ بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کر طے شدہ پروگراموں پر کس حد تک عملدرآمد ہوا.اسلام اپنے متبعین میں وحدت فکری پیدا کرنا اور ان کی قوت عملیہ کو بیدار رکھنا چاہتا ہے اسی لیے اسلامی عبادات میں ایک قسم کا اجتماعی رنگ رکھا گیا ہے پنجوقتہ نمازوں میں ایک محمد کے افراد ایک جگہ تبع ہوتے ہیں، پھر جمعہ اور عیدین کے موقع پر ایک قصبہ یا شہر اور اس کے قرب و جوار کے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور بیچ میں تو بین الاقوامی اجتماع کا ایک اہم موقعہ ہوتا ہے فرض اجتماعات تعلیم وتربیت اور اصلاح معاشرہ کا ایک اہم ذریعہ میں اور ان کے نتیجہ میں قومی اور تلی روح نہ صرف پیدا ہوتی بلکہ خوب نشو نما پاتی ہے.پھر جو اجتماعات مرکز میں ہوں جہاں امام وقت کے کلمات طیبات اور ارشادات براہ راست اور بالمشافہ سننے کا موقعہ ملتا ہے ان کی اہمیت تو ظاہر وباہر ہے.انہی اغراض کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ابتدائی دور میں ہی انصار اللہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ مجلس خدام الاحمدیہ کی طرح اپنے سالانہ اجتماعات منعقد کیا کریں چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں تقسیم ملک سے قبل دو سالانہ اجتماعات میشی اور سٹی میں منعقد ہوئے جن کا ذکر ابتدائی دور کے حالات میں آچکا ہے.اس کے بعد ہیں ۱۹۴۵
۲۰۵ ١٩٥٥٠ء ملک کے سیاسی حالات بگڑ گئے اور اجتماعات کا سلسلہ جاری نہ رکھا جا سکا اقیام پاکستان کے بعد اما ماشین میں یہ سلسلہ از سر نو شروع ہوگیا اور اس وقت سے برابر جاری ہے.ان اجتماعات کی افادیت کے پیش نظر حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے خطبہ تبعد فرمودہ وہ اور اخاء ہی میں اس طرف توجہ دلائی کہ سلسلہ کے تمام مربیوں میعلموں اور انسپکٹروں کا کام ہے گر وہ میں نہیں جگہ ہوں وہاں کی جماعتوں کو ذیلی تنظیموں کی اہمیت سمجھائیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ دہ ان کے اجتماعات میں اپنے نمائندے بھجوائیں اور جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہونے کی کوشش کریں ، چنانچہ حضور نے فرمایا : سارے مربیوں، معلموں، انسپکٹران بیت المال تحریک جدید و صدر انجمن پردو رکے جو ہیں ان کی یہ ذمہ داری ہو کہ ان علاقوں سے ان جماعتوں کی نمائندگی ضرور بھجوائیں گے : نیز فرمایا : " تمام جماعتوں کے نمائندے ، لجنہ اور ناصرات اور خدام الاحمدیہ اور اطفال اور انصار اللہ کے اجتماعات میں شامل ہوں، لیکن اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.....میں انشاء اللہ نگرانی کرونگا کہ ہر جماعت کی نمائندگی ضرور ہو.....خواہ ایک ہی آسکے اگر چھوٹی جماعت ہے، لیکن شامل ضرور ہونا چاہیئے.پھر آپ نے ان اجتماعات میں شامل ہونے والوں کو یہ بشارت دی کہ ایک نئی روح اور نئی زندگی وہ لے کر واپس جائینگے.مجلس انصاراللہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماعات خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے اندر ایک مرکزی اجتماعات ناس رنگ رکھے ہیں، درس قرآن اشارات الالالالالالالا لیلی وسلم اور ملفوظات امام الزمان کے بیان سے ایسا روحانی ماحول پیدا ہوتا ہے جو قلوب میں پاکیزگی اور ایمان میں جلا پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.جو دوست اس میں شامل ہوتے ہیں وہ نمایاں طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ مرکز میں آنے اور اس اجتماع میں شریک ہونے سے ان کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر پیدا ہو جاتی ہے اور انھیں مسکینت ، اطمینان قلب اور ایک ایسی روحانی لذت حاصل ہوتی ہے جو محسوس تو ہوتی ہے لیکن اسے الفاظ میں ادا کرنا بہت مشکل ہے.جب وہ گھروں کو واپس لوٹتے میں تو جانتے ہیں کہ انھوں نے مرکز میں گر بہت کچھ
پایا ہے اور انکی جھولیاں لعل و جواہر سے بھر پوپر ہیں.انتصار اللہ کے اجتماعات کا افتتاح عام طور پر جمعہ کے دن بعد نماز ظہر وعصر ہوتا ہے حضرت امیر مین بشر و صحت و فرصت بنفس نفیس مقام اجتماع میں تشریف لا کر اجتماعی دعا اور اپنے خطاب سے افتتاح فرماتے ہیں اور حسب ضرورت ہدایات دیتے ہیں، اسی طرح حضور آخری اجلاس میں تشریف لاتے اور اختتامی خطاب فرماتے ہیں اور اجتماعی دعا کے بعد باہر سے آنے والوں کو خدا حافظ کہتے اور واپس جانے کی اجازت مرحمت فرماتے ہیں.21400 1409.شی سے پیش تک سالانہ اجتماع درون ہوتا رہا، لیکن اجتماع کی افادیت کے پیش نظر اس میش سے اجتماع کا وقت بڑھا کر تین دن کر دیا گیا.اب اجتماع میں بحیثیت مجموعی آٹھ اجلاس ہوتے ہیں ، دو پہلے دن ، چار دوسرے دن اور دو تیسرے دن.پہلے دن افتتاحی اجلاس کے بعد تفریحی کھیلوں اور نمانہ اور کھانے کے لیے وقفہ ہوتا ہے اس کے بعد شبیہ اجلاس ۱۰ بجے تک جاری رہتا ہے.دوسرے اور تیسرے دن کے جلسوں کی کارروائی کا آغازہ نماز تہجد سے ہوتا ہے جو مقام اجتماع میں ہی عمو نا کسی صحابی کی اقتدا میں باجماعت ادا کی جاتی ہے.حاضری خدا کے فضل سے بہت اچھی ہوتی ہے سوائے ان انصار کے ہر دور کے محلوں میں تقسیم ہوں باقی قریباً سب انصار تہجد کی نماز میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے رب کے حضور نذراد عقیدت پیش کرتے اور اسلام کی ترقی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں.رات کی خاموشیوں میں یہ عجز و نیاز بھی اپنے اندر ایک خاص لذت اور تکلف رکھتا ہے جس کو شریک ہونے والے یا ان کا رب کریم ہی جانتا ہے.دنیا کی اور بستیوں میں یہ چیز کہاں میسر آ سکتی ہے.نماز فجر کے معا بعد دن کا پہلا اجلاس شروع ہو جاتا ہے سو ساڑھے سات تک جاری رہتا ہے.پھر ناشتہ کے لیے ایک گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے اس کے بعد دوسرا اجلاس شروع ہوتا ہے جو ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہتا ہے.کھانے اور نمازوں کے لیے ڈھائی گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے اور اس کے بعد سہ پہر کا اجلاس شروع ہوتا ہے جو عموماً ساڑھے چار بجے تک جاری رہتا ہے.پھر تفریحی کھیلوں ، نمازوں اور کھانے کے لیے وقفہ ہوتا ہے، اس کے بعد قریباً ساڑھے سات بجے شبینہ اجلاس شروع ہوتا ہے جو حسب ضرورت نو دس بجے تک جاری رہتا ہے.اس طرح عملاً سارا وقت ہی عبادت اور خدا کے ذکر میں گذرتا ہے.انصار اللہ کے اس اجتماع کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعلیمی اور تربیتی رنگ شروع سے آخر تنگ
۲۰۷ قائم رہتا ہے.حضرت امیرالمومنین کے افتضائی اور اختتامی خطابات کے علاوہ صدر محترم وقتاً فوقتاً دوران کارروائی اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہتے ہیں اور بطور خاص آخری اجلاس میں کسی علمی یا ز بیتی موضوع پر خطاب فرماتے ہیں.اس کے علاوہ قرآن کریم ، احادیث اور ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درس ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، صحابہ کرام کی سوانح نیز علمی اور تربیتی موضوعات پر علماء سد کی تقاریر ہوتی ہیں ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضور کی سیرت اور زندگی کے چیدہ چیدہ چشم دید حالات بیان کرتے ہیں جو نہایت درجہ ایمان افروز ہوتے ہیں اور بڑی توجہ اور ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں، علماء سلسلہ کے علاوہ بیرونی مجالس کے بعض نمائندگان کو بھی وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ ملتا رہتا ہے پھر مجلس مرکز یہ کے تمام قائدین باری باری اپنی کارگزاری کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہیں اور بیرونی مجالس کے سہ کاموں پر تبصرہ کرتے ہیں اس طرح یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ مجلس اپنے مقررہ پروگرام کو کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے.اجتماع کی کارروائی کا ایک اہم حصہ مجلس شوری کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ایجنڈا میں شامل تجاویز پر صرف نمائندگان کو اظہار رائے کا موقعہ دیا جاتا ہے، لیکن زائرین بھی اس کارروائی میں سامع کی حیثیت سے شریک رہتے ہیں.ہر مسئلہ پر نمائندگان کھل کر اور تفصیل سے اظہار رائے کرتے ہیں.اس کے بعد کثرت رائے سے فیصلے ہوتے ہیں.یہ فیصلے بطور مشورہ کے ہوتے ہیں اور حضرت امیر المومنین کی خدمت میں توثیق کے لیے پیش کئے جاتے ہیں ، حضور کی منظوری کے بعد ان پر عمل شروع ہو جاتا ہے.اجتماع کی کارروائی کا ایک اور دلچسپ پہلو سوال و جواب کا سلسلہ ہوتا ہے.حاضرین کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ جو چاہیں سوال کریں.یہ سوالات تحریری طور پر پیش کئے جاتے ہیں اور صدر مجلس کے پاس بھیجوا دیئے جاتے ہیں صدر محترم عموماً تین علماء کونا مزد کر دیتے میں جو تمام سوالات کا حسب موقعہ جواب دیتے ہیں.آغا نہ کا ر میں ہی یہ وضاحت کر دی جاتی ہے کہ سوالات صرف علمی اور دینی مسائل سے متعلق ہوں.سیاسی اور ملکی مسائل پر سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.سوال و جواب کا یہ طریق تربیت اور تعلیم کا نہایت عمدہ ذریعہ ثابت ہوا ہے.علمی وتربیتی موضوعات پر تقاریر کے علاوہ بعض دفعہ مبلغین کو موقعہ دیا جاتا ہے کہ وہ قبولیت دعا کی ذاتی مثالیں پیش کریں ، یہ چیز بھی از دیارو ایمان کا موجب ہوتی ہے اور جہاں ان مثالوں سے مبلغین کرام کی
بعد ابدا اور پیش آمدہ مشکلات کا کچھ نقشہ سامنے آتا ہے وہاں یہ یقین بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کا خدا واقعی ایک زندہ قادر قیوم اور سمیع البصیر خدا ہے جو اپنے بندوں کی التجاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے اس کے ساتھ ہی اس امر پر یقین پیدا ہوتا ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ خدا کا قائم کردہ ہے اور جو لوگ اخلاص وفا شعاری کے ساتھ اس میں منسلک ہوتے ہیں خدا ان کے لیے ایک نئی تجلی کے ساتھ ظاہر ہونا اوران کی معجزانہ رنگ میں مدد فرماتا ہے.اس موقعہ پر کچھ وقت تقریری مقابلوں کے لیے بھی رکھا جاتا ہے جو موضوعات تقاریر کے لیے مقرر کئے جاتے میں ان کا اعلان قبل از وقت کر دیا جاتا ہے تا کہ مقررین کو تیاری کے لیے وقت مل جائے تاہم بعض انصار فوری جذبہ کے تحت میں وقت پر اپنا نام لکھا دیتے ہیں جتنے مقررین ہوتے ہیں ان کی تعداد کے لحاظ سے مقررہ وقت ان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.یہ سلسلہ اس لحاظ سے دلچسپ ہوتا ہے کہ سامعین کو تھوڑے سے وقت میں بہت سے مقررین کی باتیں سننے کا موقعہ مل جاتا ہے ان مقررین میں دیہات میں رہنے والے افراد بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کے خیالات اور تاثرات واضح اور ان کی باتیں بعض دفعہ بڑی عام فہم اور دلنشین ہوتی ہیں.مختلف اجلاسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اردو اور فارسی منظوم کلام بھی خوش الحانی سے پڑھا جاتا پنے سامعین کے لیے ریسپی کے علاوہ روحانی غذا کا کام دیتا ہے اور وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.اجتماع میں جو اجلاس ہوتے ہیں وہ پورا وقت ایک ہی صدر کی صدارت میں نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی اجلاس باری باری ایک سے زائد افراد کی صدارت میں جاری رہتا ہے.صدارت کے فرائض صدر و نائب صدر کے علاوہ عام طور پر امراء ضلع اور ناظمین اعلیٰ مجاس انصار الله سرانجام دیتے ہیں یا جن کو صدر محترم حسب موقعہ صدارت کے لیے ارشاد فرما دیں.البتہ مشور سی کا اجلاس صدر مجلس انصار اللہ کی صدارت میں ہی ہوتا ہے اور انتخاب صدر کی کارروائی اس شخص کی صدارت میں ہوتی ہے جس کو حضرت امیرالمومنین نامزد فرما دیں.اجتماع کے پہلے اور دوسرے دن سہ پہر کے اجلاس کے بعد تھوڑا سا وقت تفریحی اور ورزشی مقابلوں کے لیے رکھا جاتا ہے.اس غرض کے لیے اضلاع یا ڈو یونوں کے لحا سے دو یا چار میں فوری طور پر بالی جاتی ہیں ور والی بال، رسہ کشی اور بعض دفعہ کھلائی پکڑنے اور دوڑوں کے مقابلے ہوتے ہیں.عمر رسیدہ لوگوں کا شوق رسہ کشی قابل دید ہوتا ہے اور حاضرین کے لیے بڑی دلچسپی کا موجب ہوتا ہے.مہمانوں کی رہائش کا انتظام دفتر انصار الله، دار الضیافت اور گیسٹ ہاؤس میں کیا جاتا ہے بہت سے مہمان اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس مختلف محلہ جات میں قیام کرتے ہیں.کھانے اور ناشتہ کا انتظام
اجتماعی طور پر خدام الاحمدیہ کے ہال میں کیا جاتا ہے.کھانا صدر مجلس کی نامزد کر دیکھی کی نگرانی میں بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا ہے اور ہر لحاظ سے نفیس اور عمدہ ہوتا ہے اور بڑے سلیقے سے ایک یا دو نشست میں کھلایا جاتا ہے پاکستان بننے کے بعد پہلا سالانہ اجتماع تو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے فضل عمر ہوسٹل میں پیش ۱۳۳۴ ہے.میں ہوا تھا ، اس کے بعد سے تمام اجتماعات دفتر انصار اللہ کے احاطہ میں ہی ہوتے رہے ہیں.دفتر کی عمارت کے شمالی جانب ہو کھلی جگہ ہے اس میں شامیانے اور قناتیں لگا کر جلسہ گاہ تعمیر کی جاتی ہے.اس جلسہ گاہ میں مغربی جانب سٹیج ہوتا ہے انتقام اجتماع میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوتا ہے نمائندگان کے ٹکٹ الگ ہوتے ہیں اور ان کے لیے سامنے کے حصہ میں جگہ مخصوص ہوتی ہے ، زائرین کے لیے بھی ٹکٹ ہوتے ہیں اور ان کے لیے جلسہ گاہ کے عقبی حصہ میں جگہ ہوتی ہے.یہ اجتماع عام طور پر مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماعات کے قریباً ایک ہفتہ بعد ہوتا ہے تاکہ اگر خدام بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اور بفضل تعالیٰ تخدام اور اطفال کی کثیر تعداد اس پروگرام میں نہایت ذوق و شوق سے حصہ لیتی ہے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے بعض منتخب اراکین بحیثیت نمائندہ خدام ال محمد یہ اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں.آخری اجلاس میں امتحانات میں اول و دوم آنے والے اراکین نیز تقریری مقالہ جات اور نظر کی کلیوں کے مقابلوں میں اول و دوم آنے والوں کو حضرت امیر المومنین اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرماتے ہیں، وظیفہ انعامی کے مقابلہ میں اول و دوم آنے والے اطفال کو بھی اسی موقعہ پر انعامات دیئے جاتے ہیں.مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کو ایک نمایاں خصوصیت مرکز کی اجتماع کی ایک خصوصیت یا یہ حاصل ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اجتماع کے دوسرے اور تیرے دن کی درمیانی شب تمام نمائندگان انصار الله اور قائدین مرکزیہ کی معیت میں کھانا تناول فرماتے ہیں.کھانے کا انتظام ایوان محمود میں ہوتا ہے.حضور کے لیے قائدین مرکز یه ناظمین اضلاع اور بعض دیگر افراد کے ساتھ سٹیج پر کھانے کا انتظام ہوتا ہے تاکہ سب دوست حضور کو دیکھ سکیں.یہ تقریب نہایت سادہ ہونے کے با وجود بڑی پُر وقار ہوتی ہے اور اپنے اندر بڑی جاز بیت رکھتی ہے تمام حاضرین اپنے امام ہمام کے ساتھ کھانے میں شریک ہو کر مسرت اور روحانی تسکین محسوس کرتے ہیں اور اس کی نہایت خوشگوار یادیں ساتھ لے کر جاتے ہیں.
مجلس انصاراللہ کے سالانہ اتہامات کے موقعہ پر ر المومنین خیلی ترا انا من اشد من کی تقاریرا حضرت نظيفة.پیغامات ۱۹۵۵ ء حضرت امیرالمومنین علینہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ نے رو پیش میں جبکہ علی انصاراللہ مرکزیہ کا پہلا اجتماع ہو رہا تھا خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مشترکہ اجتماع کا افتتاح فرمایا.یہ اختتامی تقریر خدام الاحمدیہ کے پنڈال میں ہوئی.پیشی میں بھی حضور نے انصار اللہ کے اجتماع کا افتتاح فرمایا اور دوسرے روز اعتصامی $1904 ۱۳۳۷ بهش تقریر بھی فرمائی پیش میں حضور علالت طبع کے باعث اجتماع میں تشریف نہ لا سکے.اس میں ×1936 -140A +1404 بوجہ علالت افتتاح کے لیے تو تشریف نہ لا سکے البتہ اجتماع کے اختتام پر حضور نے خطاب فرمایا.حال ہی میں بھی حضور افتتاح تو نہ فرما سکے ، لیکن نصف گھنڈ کے لیے دوپہر کے اجلاس میں شریک ہوئے اور ایک تحریری پیغام پڑھا جس کے دوران آپ نے انصار اللہ سے تبلیغ اسلام کا فریضہ نسلاً بعد نسل کمال درجہ مستعدی کے ساتھ ادا کرتے پہلے جانے کے بارے میں ایک تاریخی عہد لیا جس کا متن انصار اللہ کا جدیدیت کے عنوان کے تحت الگ درج ہے تمام انصار اور حاضرین نے کھڑے ہو کر پورے جوش خروش سے اس عہد کو دہرایا.پیغام کا بقیہ حصہ پڑھنے کے بعد حضور نے بیٹھے بیٹھے انصار سے خطاب کیا اور انھیں اس وقت تک تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی جب تک کہ اسلام ساری دنیا میں غالب نہ آجائے اور محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پورے کرہ ارض پر زہرا نے لگے.یہ حضور کا انصار اللہ سے آخری خطاب ثابت ہوا.لم بوجہ طویل علالت اجتماعات میں شریک نہ ہو سکے البتہ ۱۳ سریش تا ۳۳۳ شید ای کیش با حضور بوجد طویل علالت اجتماعات میں شمر اجتماعات کے لیے پیغامات بھجواتے رہے.*⑈1840” 5184⑈
مرکز کی اجتماعات کے لیے حضرت امیرالمومنین کے پیغامات حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ عموماً مرکزی اجتماع کا نفس نفیس افتتاح فرمایا کرتے تھے لیکن آخری ایام میں جب حضور علیل ہو گئے اور اجتماع میں تشریف نہ لا سکے تو انصار اللہ کے نام پیغام بھجواتے رہے بحضور کے پیغامات کا تمن درج ذیل ہے:.آٹھویں سالانہ اجتماع منعقدہ ان کے لیے (۱۳۳۱ پیش حضرت امیر المومنین کا پیغام اعوذ بالله من الشيطن الرحيم بسم الله الرحمن الرحيم انصار الله ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے آپ کے جلسہ میں شرکت نہیں کرسکتا، لیکن آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کریں تبلیغ کریں تبلیغ کریں بیانک کہ حق آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ کی حکومت ہو.اسی کام کی طرف میں آپ کو جلاتا ہوں.اب دیکھنا ہے کہ من انصاری الی الله.تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں.اللہ آپ سب کو قربانیوں کی توفیق دے آمین اللهم آمین.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی لے ماہنامہ انصاراللہ ماہ نبوت بر نومبرا میشود الفضل ۳۰ - اخبار اکتوبر را پیش ارایش
انصاراللہ کے نویں سالانہ اجتماع کے نام سید ناصر خلیفه ای اشانی بده الشد تعالی کا روح پرور اور بصیرت افروز پیغام اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر برادران جماعت احمدیه با السلام علیکم ورحمه الله و بركاته " آپ لوگ جو اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں میں آپ سب کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے ایمان اور اخلاص میں برکت دے اور آپ کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو بھی خدمت دین کی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا فرماتا رہے.انصار الشر کی تنظیم درحقیقت اس غرض کے لیے کی گئی ہے کہ آپ لوگ خدمت دین کا پاک اور بے لوث جذبہ اپنے اندر زندہ رکھیں اور وہ امانت جسے آپ نے اپنے بچین اور جوانی میں سنبھالا اور اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا اس کی اب پہلے سے بھی زیادہ نگہداشت کریں اور اپنے بچوں اور نوجوانوں کو بھی اپنے قدم بقدم چلانے کی کوشش کریں بیشک ان کی تنظیمیں الگ الگ ہیں اسکین اطفال احمدیہ آخر آپ کے نہی بچے ہیں اور خدام بھی کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ہی بیٹے اور بھائی ہیں.پس جس طرح ہر باپ کا له الفضل ۳/ نبوت در نومبر ۱۳۹۳
فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے اسی طرح انصار اللہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے بچوں اور نوجوانوں کے حالات اور ان کے اخلاق کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر خدانخواستہ ان میں کوئی کمزوری دیکھیں تو نرمی اور محبت کے ساتھ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنی ظاہری جدوجہد کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کو جذب کریں اور سب سے بڑھ کر اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں تا کہ ان کی فطرت کا مخفی نور چمک اُٹھے اور دین کے لیے قربانی اور فدائیت کا جذبہ ان میں ترقی کرے.اگر جماعت کے یہ تینوں طبقات اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگ جائیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری قومی زندگی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے ، افراد بے شک زندہ نہیں رہ سکتے لیکن قوم اگر اپنے آپ کو روحانی موت سے محفوظ رکھنا چاہے تو وہ محفوظ ر کھتی ہے بس کوشش کرو کہ خدا میں دائمی روحانی حیات بخشے کوشش کرو کہ تم اپنے پیچھے نیک اور پاک نہیں چھوڑ کر جاؤ تا کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہی ہو.تمہیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر زمانہ میں حالات کے بدلنے کے ساتھ خدمت دین کے تقاضے بھی بدل جایا کرتے ہیں.اس زمانہ میں عیسائیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ہے جس کے استیصال کے لیے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علی اسلام کو بھیجی اور کسر صلیب کا کام آپ کے سپرد فرمایا.میں اس زمانہ میں سب سے بڑی نیکی خدائے واحد کے نام کی بلندی اور کفر و شرک کی بیٹیکسٹی کرتا ہے جس کے لیے جماعت کو مال اور جانی ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے.میں نے اس امر کو دیکھتے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے دوستوں سے کہا تھا کہ پاکستان میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہرشخص کو سال میں کم از کم ایک ہفتہ وقف کرنا چاہیئے.مجھے معلوم نہیں کہ تباعت نے عملی رنگ میں اس کا کیک جواب دیا اور صدرا تجمین احمدیہ نے اس کی نگرانی کے لیے کیا کوشش کی ، لیکن اگر ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہ کی ہو تو میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں کو اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.عیسائیت کا فتنہ کوئی معمول نفقہ نہیں.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر اب تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا میں نے اپنی امت کو دجال کے
فتنہ سے ڈرایا ہو.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے بوٹے فتنہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کسی طرح آرام کی نیند سوسکتی ہے اور کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر سکتی ہے.جب کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو لوگ بیٹھ کر گئیں ہانکنے نہیں لگ جاتے بلکہ پا گلا نہ طور پر ادھرادھر دوڑنے اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہمیں احساس ہماری جماعت کے اندر بھی موجود ہو تو کفرو شرک کی آگ جو اس وقت دنیا کو جل کر خاکستر کر رہی ہے اسکو کھانے کے لیے آپ لوگوں کے اندر کیوں بیتابی پیدا نہ ہو ہیں میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو سمجھو اور اس جہاد کی طرف آؤ جس سے بڑا جہاد اس زمانہ میں اور کوئی نہیں، آج ایک بہت بڑی روحانی جنگ دنیا میں لڑی جارہی ہے اور اسلام کے مقابلہ میں ایک بڑا بھاری فتنہ سر اٹھائے ہوتے ہے، ہماری راتوں کی نیند بھی اس فکر میں اُڑ جانی چاہیئے اور ہمیں اپنے تمام پروگرام اس نقطہ کے ارد گرد مرکوز کرنے چاہئیں.بیشک تنہ کیۂ نفس بھی ایک بڑی ضروری چیز ہے اور دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لینا بھی ہر مومن کا فرض ہے مگر تبلیغ اسلام ایک نہایت وسیع اور عالمگیر نیکی ہے جس میں حصہ لینے والا تزکیہ نفس اور دعاؤں اور ذکر الہی کی دولت سے بھی محروم نہیں رہے گا.پس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لیے اجتماعی کوشش کرو.اپنے اعمال کی ہمیشہ قربانی کرتے رہو اور اپنے اوقات کو اس مرض کے لیے وقف کرو تا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں قائم ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیرو برکت کا موجب بنائے اور آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور وقت کے تقاضوں کو صحیح رنگ میں شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں میں ایسا جذب روحانی اور اخلاص پیدا کرے کہ آپ لاکھوں لاکھ لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کا موجب بن جائیں تاکہ قیامت کے دن ہم شرمندہ نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں ہمیں چھپائے اور اپنے دین کے پیچھے اور جان نثار خادموں میں شامل کرے.اسے خدا تو ایسا ہی کریہ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
۲۱۵ ۱۳۴۳ دسویں سالانہ اجتماع منعقده به اللہ کے لیے حضرت امیر المومنین کا پیغام " تمہارا نام انصار اللہ ہے.تم نے اپنے اس نام کی عزت کا خیال ہمیشہ رکھتا ہے.خدا تعالیٰ تمہیں حقیقی معنوں میں انصار اللہ بنائے.آمین " حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی مرکزی جنات کے پروگرام میں شمولیت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ سالانہ اجتماع کے پروگرام میں ہی میں میں اس 1404 طرح حصہ لیا کہ آپ نے ایک نوٹ لکھکر بھجوایا میں کو مولانا ابو العطاء صاحب نے اجتماع کے آخری اجلاس میں پڑھ کر سنایا.پھر ۱۳۳۹ پیش ۱۳۲۰ میں اور ۱۳۲۷ میش میں حضرت امیر المومنین بوجہ علالت اجتماع میں تشریف ہے ۱۳۳۹ *1941.نہ لاسکے.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اجتماع کا افتتاح فرماتے ہے.ش میں اپنے افتتاحی خطاب میں آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن بهاری قوموں.سارے ملکوں اور سارے زمانوں تک وسیع ہے اس لیے انصار کو اس کام کی سرانجام دہی میں ہمہ تن مصروف ہونا چاہیئے اور لوگوں کو اس پیغام کی طرف محبت ، حکمت اور نصیحت کے رنگ میں دعوت دینی چاہیے پھر آپ نے انصار کو اس طرف توجہ دلائی کہ اپنے اہل و عیال اور آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ ه اخبار الفضل ۱۵ نبوت (۱۳۳۳ پیش که اخبار الفضل صور ثبوت کے نومبر میش 194-
کرنے کی ضرورت ہے.ہر گھر میں علم اور دین اور تقویٰ کی شمع روشن رہنی چاہیئے.ایک نصیحت آپ نے یہ فرمائی کہ ہم نے بیعت کے وقت یہ اقرار کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یہ ایک بنیادی بات ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا نقطہ مرکزی ہے ہیں جب کبھی اور جہاں کہیں دین اور دنیا کے معاملات میں ٹکراؤ پیدا ہو جائے اس وقت اس عہد کو نہیں بھولنا چاہیئے.اسلام دنیا کمانے سے نہیں روکتا، لیکن اس بات کی ضرور ہدایت دیتا ہے کہ دین کا پہلو ہمیشہ غالب رہے.پھر آپ نے پردہ کی پا بندی کی طرف توجہ دلائی اور فرما یا کہ آجکل بے پردگی فیشن بن گئی ہے اور یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے.اس کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور اسلامی پردہ کی سختی سے پابندی کرنی چاہیئے.پوش کے اختتامی خطاب میں آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں.جو کام خدا تعالیٰ دنیا میں اپنے رسولوں سے لینا چاہتا ہے وہ سب انصار اللہ کے دائرہ عمل میں آتے ہیں اس لیے ہیں خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا منظور بننا چاہئیے مخصوص طور پر انصار کا کام یعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم میں بیان کر دیا گیا ہے یعنی کتاب اللہ کی تعلیم اور شریعیت کا قیام ، دوسرے احکام الہی کی حکمت و فلسفہ بیان کرنا اور دین کو زندہ کرنا میرے نفوس کی پاکیزگی و طہارت اور چہارم قومی ترقی کے سامانوں کو مہیا کرنا ان چاروں باتوں پر خود عمل کرنا اور دوسروں سے عمل کرانا.1941 پھر احیاء دین اور اقامت شریعت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے آپ نے انصار الله کو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دلائی اس کے بعد آپ نے تین امور کا ذکر کیا جو لانہ ما ہر احمدی میں ضرور پائے جانے چاہئیں.اول نمازوں میں پابندی اور ان میں خشوع و خضوع ، روم خلافت اور مرکز سے دلی وابستگی سوم جانتی کاموں میں دلچسپی اور ان کو چلانے کے لیے ضروری چندوں میں حصہ لینا، اس کے علاوہ آپ نے مختلف علاقوں میں اجتماعات منعقد کرنے، دوستوں کو علمی مذاق پیدا کرنے اور علمی وتحقیقی مضامین لکھنے اور جہاں ممکن ہو قرآن کریم، حدیث ،فقه ، تاریخ اسلام وغیرہ موضوعات پر سیمینار کا اہتمام کرنے کی طرف توجہ ولائی.نیز فرمایا کہ انصار اللہ کے اراکین کا کردار بہت بلند ہونا چاہئیے.دیانتداری در است گفتاری اور خوش خلقی ان کا طرہ امتیازہ ہونا چاہیے اور نہ صرف ان کے اعمال سے اسلام کا نور نظر آئے بلکہ ان کے ماتھوں پر بھی گویا اسلام کا لفظ لکھا ہوا دکھائی دینا چاہئیے.1941 لے ماہنامہ انصار الله نومبر ا ء
94 ۱۳۳۱ ایش کے اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ انصاراللہ کا کام خدا کے کام میں معدود دیتا ہے.چونکہ اس کام کی اہمیت و وسعت بے حد و بے حساب اور خدا کی نصرت کے بغیر اس کی تکمیل تک نہیں اس لیے بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ ہم حقیقی معنوں میں انصار اللہ نہیں، ساتھ ہی ہمیں اس کام کی تکمیل کے لیے دان اور رات کام کرنا پڑ گیا اور اپنا آرام نہ کرنا ہو گا، انصار اللہ پختگی کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں اور یہی عمر رسالت و نبوت کے لیے مقرر ہے.آپ نے فرمایا کہ انبیاء کے دو ہی بڑے کام ہوتے ہیں، ایک تبلیغ دوسرے تربیت پس انصار کے بھی ہیں دو بڑے کام میں پیغام حق پہنچانا اور اپنی اور اپنے اہل وعیال کی تربیت.پھر آپ نے بتلایا کہ اس دور میں جماعت پر کئی قسم کے بے بنیاد الزام لگا کر فتنے پیدا کئے جارہے ہیں اپرا امن تبلیغ ، حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ ہم نے تمام غلط فہمیوں اور غلط پروپیگنڈا کا ازالہ کرنا ہے علمی رنگ میں تھی اور عملی رنگ میں بھی.پھر آپ نے فرمایا کہ باتی دور تنظیمیں یعنی اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ در حقیقت انصار اللہ کی زیری ہیں.ان پر نگاہ رکھنی چاہیے تاکہ وہ جب انصار نہیں تو سلسلہ کا بوجھ اٹھا سکیں، انصار اللہ جماعت کی دیرہ کی بڑی ہیں ، مرکزی عہدہ دار اور امراء زیادہ تر انصار میں اور ان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ چوکس اور بیدار ہواں آپ نے اپنے خطاب میں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ انصار اللہ نے صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کے حالات و فوٹو وغیرہ جمع کرنے شروع کئے ہیں.یہ کام جلداز جلد کمل کر لینا چاہئے.پھر آپ پردہ کے قیام، بیاہ شادیوں میں اسراف بھوک ہڑتال کی وہا سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ، نیز اس امر کی تلقین کی کہ انصار اللہ کو تحریر کا مکہ پیدا کرنا چاہیئے.زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجتماعات منعقد کرنے چاہئیں اور کتب سلسلہ کے امتحانات میں کثرت سے شرکت کرنی چاہیئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ زبانی تقریر نہیں فرماتے تھے، بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ مضمون لکھ کر لاتے اور اپنے مخصوص انداز میں نہایت باوقار اور موثر رنگ میں اور آہستہ آہستہ اس مضمون کو پڑھکر سناتے تاکہ بات دلوں میں اُتر جائے.آپ کی آوازہ میں انتہائی در جی کی کشش اور جذب ہوتا تھا اور سننے والا اور محسوس کرتا تھا کہ آپ کا خطاب دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا اور روحانیت سے بھر اوپر ہے." تربیتی نقطہ نگاہ سے اجتماع کے پروگرام کا ایک اہم حصہ ذکر جیب ہوتا ہے جس میں حضرت ذکر حبیب است سیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اپنے چشم دید واقعات اور حالات بیان کرتے ہیں جو نہایت لے ماہنامہ انصار اللہ نومبر ۱۹۶۶ء
۲۱۸ در جبہ ایمان افروز ہوتے ہیں.اس غرض کے لیے صحابہ کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ تشریف لاکر اس موضوع پر اپنے ذاتی مشاہدات و تاثرات بیان کریں.اگر چہ جن خوش قسمت لوگوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ مختلف عمر اور مختلف درجہ کے لوگ تھے اور ان کا مبلغ علم بھی الگ الگ تھا، نہ ان کی نظر یکساں تھی اور نہ انھیں حضور کی صحبت میں کیساں مدت تک فیضیاب ہونے کا موقعہ ملاتا ہم ایک چیز جو ان سب میں مشترک نظر آتی ہے اور جب کا ہر اس شخص کو جو ذکر حبیب کی مجلس میں کبھی شریک ہوا ہے احساس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سب کا اندازہ بیان نہایت دلکش اور موثر ہوتا ہے جو ان کی صفائی باطنی کا آئینہ دار ہے اور اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ کسی طرح انبیاء کے ذریعہ قلوب کی تطہیر ہوتی ہے.بعض دفعہ ان کی ایک نظر سے ہی انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے.اکثر صحابہ تو اپنے مشاہدات اور تاثرات تقریر کی صورت میں بیان کرتے رہے ہیں ، لیکن بعض نے اپنی روایات لکھ کر بھجوائیں جو اجتماع میں پڑھ کر سنادی گئیں بعض صحابہ کی روایات ان کی اپنی آوانہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں کبھی کبھی ایسی ریکارڈ شدہ روایات میں سے کچھ حصہ بعض اجتماعات میں سنایا جاتا رہا، مختلف اجتماعات کے موقعہ پر مین صحابہ نے ذکر جیب کے موضوع پر زبانی یا تحریری کچھ بیان کیا یا جن کا بیان پڑھکر سنایا گیا ان کی تفصیل سن وار درج ذیل ہے :- ☑
bla ذکر حبیب کے موضوع پر تقاریرہ کر نیو الے افراد صحابہ اور صحابیات جنکا تحریری بیان پڑھکر سنایا گیا - نام صحابہ جن کی روایات کا ریکارڈ ان کی اپنی پڑھنے والے کا نام آوازہ میں سنایا گیا ہش تقاریر کرنے والے صحابہ کے نام نام صحابی یا صحابیات ۱۳ - 1 1400 ۱۳۳۵ 1904 شیخ محمد نصیب شیخ محمد احمد میر تماعت لی پلیور، محب الرحمن لاہور ، چوہدری فیض احمد مولانا غلام رسول را جنیکی مولانا ابو العطاء جالندھری قاضی محمد عبداللہ، چوہدری فتح محمد سیال، سید زین العابدین ولی اللہ شاہ مولانا محمد ابراهیم بقاپوری مولانا الجو العطاء چاند میری ڈاکٹر حشمت اللہ خان حکیم سید پر احمد ہوشیار پوری، مولوی قدرت الله نوری قاضی ظہور الدین اکمل میاں علی محمد لکھا نوالی ، ضلع سیالکوٹ ، مرزا برکت علی ربوہ مولانا غلام رسول را جنگی قاضی محمد ظهور الدین اکمل مولوی قدرت اللہ مسنوری صاحب مولانا ابو العطاء جالندھری حضرت مرزا بشیر احمد صا حب " " حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری خدا بخش مومن 1904 ۱۳۳۷ 1404 ١٩٥٩ ۱۳۳۹ 1940
مش تقاریر کرنے والے صحابہ کے نام ۱۳۳۰ 6 A 1941 را ۱۳۴ ۱۹۶۲ ۱۳۳۳ ۱۳۴۳ ۱۹۹۴ صحابہ اور صحابیات جن کا تحریری بیان پڑھنکہ سنا یا گیا نام صحابہ جن کی روایات کا ریکارڈ ان کی اپنی نام صحابی یا صحابیات آوانہ میں سنایا گیا.پڑھنے والے کا نام سید پیراحمد شاه سیالکوی حافظ عبد این امر ریوی ایان علی می یگانهای شیخ عبدالقادر مربی اسلم چوہدری شبیر احمد موله ی قدرت اللہ سنوری قاضی محمد عبدالله ر بوه ، صوفی محمد رفیع سکھر ، حافظ عبد السميع امروہوی حاجی محمد فاضل ربوہ، حکیم عبید الله را نبهار بوه، حکیم سید پیراحمد علی محمد لکھا نوالی، مولوی قدرت اللہ سنوری ڈاکٹر حشمت اللہ خان، حافظ عبدالسميع امروہوی، محمد اسمعیل معتبر حکیم عبد العزیز، ڈپٹی میاں محمد شریف ای اے سی.چوہدری محمد شریف ایڈو کیٹ منٹگمری میاں روشن دین زرگری بوه ، حاجی محمد فاضل ریوه ، حافظ عبد السميع امرہوی مولوی قدرت اللہ مسنوری ، حکیم دین محمد ربوہ ، صوفی علی محمد اجتماع بوجہ جنگ ہند و پاکستان منعقد نہیں ہوا شیخ نظم الرحمن ملک محمد عبدالله حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، قاضی محمد عبد الله سید سردار حسین شاه آن شاه مسکین ، علی احمد ٹھیکیدار مولوی محمد دین ناظر تصمیم 19 40
ہش تقاریر کرنے والے صحابہ کے نام ۱۳۴۵ 11 ۱۲ 1444 ۱۳۴۷ ۱۳ I 19 4A ۱۴ ང د ۱۹۶۹ 19<- شیخ محمد احمد امیر جماعت لائلپور ، حافظ عبدالسمیع ، مولوی قدرت اللہ سفوری صوفی غلام محمد (ناظر بیت المال) مرزا احمد بیگ ، مولوی قدرت اللہ سنوری حاجی فیض الحق کوئٹہ ، حافظ عبد السميع المرجوی صحابہ اور صحابیات جن کا تحریری بیان پڑھ کر سنا یا گیا نام صحابہ جن کی روایات کا ریکارڈ ان کی اپنی نام صحابه یا صحابیه آواز میں سنایا گیا پڑھنے والے کا نام صوفی غلام محمد ناظر بیت المال ، چو ہدری علی محمد بی اے بی ٹی حافظ عبدالسميع از حضرت سیدہ نواب مبارکہ پروفیسر حبیب اللہ خان بیگم صاحب قائد تعلیم ۲ مولوی غلام احمد بد و ملهوی رشید احمد این مولوی غلام حمد ید - حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمیل قوم بد و ملهوی حافظ سید مختار احمد شاهجها نپوری مرزا برکت علی ربوده ، مولوی غلام احمد ید و مهدی ، عطا محمد ربوہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مولانا عبد المالک نهان مرحوم حکیم دین محمد حضرت سیدہ خواب مبارکه بیگم صاحبه مولانا ابو العطاء 144 54
MAA نمبر شمار تاریخ تقاریر کرنے والے صحابہ کے نام نام صحابی یا صحابیه صحابہ اور صحابیات جن کا تحریری بیان پڑھ کر سنایا گیا نام صحابہ جن کی روایات کا ریکارڈ ان کی اپنی پڑھنے والے کا نام آوازہ میں سنایا گیا.ن احمدی 1941 - مولوی محمد دین در صد را می دیدی صوفی غلام محمد ناظر بیت المال خرچ ۲- چوہدری عبدالش آف فلومو با نگاه ۱۳۵۰ پرش مولوی محمد حسین مربی ، میاں روشن دین زرگر ۱۳۵۱ 14 A ۱۳۵۳ 1440 1444 19 1966 نام ریکارڈ نہیں گئے گئے ايضا بوجہ فسادات اجتماع منعقد نہ سکا اجتماع منعقد نہیں ہوا اجتماع منعقد نہیں ہوا.مولوی محمدحسین صاحب دارا النصر ربوہ تعلیم دین محمد صاحب دارالرحمت وسطی رابوه 4 العنا 196A
سالانہ مرکز کیاجتماعات کے بارے میں بعض آراء مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماعات کے بارے میں سامعین اور شرکاء کے کیا تا اثرات ہوتے ہیں اس سے متعلق صرف ایک اجتماع منعقدہ اس مہینے کے تاثرات بطور نمونہ درج ذیل ہیں ؟ ۱۳۳۴ بیش ایسے ہی خاص مواقع میں سے 1947 مسعود احمد لوی ایڈیٹر افضل وانا مانا اور سالانہ اجتماع بھی تھا جو بوہ کی مقدس سرزمین میں پوری آب و تاب اور اپنی روایتی شان کے ساتھ منعقد ہوا، یہ انصار اللہ کا ہی اجتماع نہیں تھا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ذکر الہی تلاوت آیات، توکل علی الله اقامت صلواۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کا بھی اجتماع متھا ملک کے کونے کونے سے آنے والے انصار اللہ کے ایک جگہ جمع ہونے سے ان کے یہ سب اوصاف ایک ہی نقطہ پر مجتمع اور مرکوز ہو گئے تھے اور اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ بیک وقت ہزاروں قلوب گداز ہو کر خشیت الہی سے بریز ہو گئے اور ہر دل ازدیاد ایمان سے بہرہ ور ہوکر سنگینیت و اطمینان کی دولت سے مالا مال نظر آنے لگا، قلوب کو ایک نئی پاکیزگی اور روحوں کو ایک نئی ملا اور روشنی میسر آئی اور یوں معلوم ہونے لگا کہ ہم ایک نئے آسمان کے نیچے ایک نئی زمین پر زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں آسمانی فیوض و برکات کا پیم نزول آسمان و زمین کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والے رشتہ، اتصال کا کام دے رہا ہے اور اس نئی زمین پر لینے والے مسیح محمدی کے یہ پیرو نہیں آخرین منهم کے مقدس زمرہ میں شمولیت کی سعادت حاصل ہے علی طور پر اپنے رنگ میں تو ھم رکھا سُجِدُ أَيَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا - سِيمَا هُمُ فِي وُجُوهِهِم من اثر السجودِ (الفتح ۳۰) کے مصداق بنے ہوئے ہیں.اس سال انصار اللہ کا جلسہ شیخ محمداحمد مطر ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے ضلع لائلپور بفضل خدا پہلے جلسوں سے بھی زیادہ کامیاب تھا، ایسی تقریریں ہوئیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اور ماہنامہ انصار اللہ نومبر +1945
آپ کے صحابہ کی والدیت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا.آخری اجلاس کی تقریریں خاص طور پر بڑی بندپایہ اور سبق آموز تھیں خصوصاً یہ تین تقریریں (۱) قرآن شریف کی رو سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ (۲) احادیث کی رو سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ (۱۳) الهامات حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی رو سے اسلام کی نشانہ ثانیہ بہت ہی برجستہ تھیں اور یہ مضمون تھے میں ایک دوسرے کے موید انصار اللہ کا یہ جلسہ روحانیت آموز اور نہایت مفید اور بابرکت تھا یا انصار اللہ کے آٹھویں سالا اجتماع مولانا شیخ مبارک حد سابق میں میلی متر یا ریلی میں شوری کا اپنےلیے سارت اور زندگی کے بہترین لمحات یقین کرتا ہے.الحمد للہ کہ اجتماع اپنے مقاصد کے لحاظ سے با برکت نت طور پر ختم ہوا اعلمی اور اجتماعی فوائد و برکات تو ہر حال شامل ہونے والوں کے حصہ میں آئے اردو ایت اور تزکیۂ نفس کے نقطہ نگاہ سے بھی میں بجھتا ہوں کہ یہ اجتماع جماعت کے لیے امیر کا حکم رکھتا ہے اور اللہ تعالی کے اس منشاء کی تکمیل کرتا ہے جس میں امت کی تربیت اور تعلیم کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ہر علاقہ و قوم کے لوگ چند دن مرکز میں اگر رہیں اور پھر روحانیت و اخلاق کی عملی تربیت حاصل کر کے اور واپس اپنے علاقوں میں جاکر اس کے مطابق تعلیم و تلقین کا فریضہ ادا کریں ، خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اجتماع اس منشاء خداوندی کو احسن رنگ میں پورا کرنے والا تھا.خاکسار نے اس پاک نضا اور بابرکت جلسہ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی فضا اور با لت برکتوں سے نوازتا رہے ؟ مقدس چوہدری انور سی ایڈووکیٹ ایر ماتمان ملی شیو پر ایسے تو پاکیزہ اور کو پوره روحانیت سے لبریز اجتماع کہاں میسر آتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس روحانی سلسلہ کو قائم کر کے ایسے پاکباز ، صالحین اور اللہ تعالے سے ہمکلام ہونے والے بزرگوں کی مجلسوں سے استفادہ کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی.مجھے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اجتماع مجمع الانوار والبرکات ہے اور ان انوار و برکات کے زیر اثر نہیں ایک روحانی زندگی مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ صرف پہلے ہی علماء کرام اور بزرگان دین حضرت
۲۲۵ مسیح موعود علیہ اسلام کی قوت قدسی کے طفیل صاحب محال ہونے کی حیثیت میں اپنے مشاہدات اور تجربات سے سامعین کو مشرف فرماتے ہیں ؟ قریشی عبدالرحمن ناظم اعلیٰ مجلس انصاراللہ سابق سندھ و بلوچستان خاکسار کا تاثر یہ ہے کہ انصار اللہ کا سالانہ اجتماع ایک روحانی تربیت گاہ ہے جہاں روحانی بیماروں کو شفا نصیب ہوتی ہے اور سال بھر کے لیے روح کی تازگی کا سامان میسر آتا ہے پروگرام مرتب کر نیوالوں نے بڑی عمدگی اور فراست سے پروگرام مرتب کیا تھا، اللہ تعالٰی انہیں اجر عظیم عطا فرمائے....خاکسار تو انصار اللہ کے اجتماع میں شمولیت سے محرومی کو بہت ٹری کو تا ہی خیال کرتا ہے.خاکسار کے نزدیک اجتماع میں شامل ہونا ایک ایسی نیکی ہے جو اور نیکیوں کے لیے راہ کھول دیتی ہے.میرا دل تو چاہتا ہے کہ کاش ایسے شب وروزہ دائمی ہو جائیں جو کیف و سرور اس عاجز کی روح محسوس کرتی رہی ہے عاجزا سے الفاظ میں ادا کرنے سے قاصر ہے.اس خاکسار کو تین مرتبہ اجتماع چوہدری محمد شرف امیر جماعت ضلع ساموال انانان می خواست کی سلات حاصل ہوئی ہے ، ہریانہ وہاں ایک خاص روحانی کیفیت نظر آئی جس کا اثر میں اپنی ذات پر بابرکت پاتا رہا ہوں مجھے افسوس کے ساتھ بار بار احساس ہوتا ہے کہ میں نے کئی سال اجتماع سے.غیر حاضر رہ کر نقصان اُٹھایا ہے.حاجی غلام احمدایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاکپٹن سالان اجتماع میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلم اللہ تعالیٰ کی نصیحت آمیز و کش افتتاحی تقریر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی کی سال از جلون میں افتتاحیہ تقاریر کا رنگ نمایاں تھا ، یہ تقریر روحانیت سے بسر نے موقع کے عین مطابق اور نهایت مناسب تھی اللہ تعالٰی حضرت میاں صاحب مدظلہ العال کو صحت عطا فرمائے اور لمبی عمر عطا کرے ، آمین.مختلف اجلاسوں میں مناسب حال مضامین کو رکھ کہ خوش الحانی سے
صحیح تلاوت قرآن مجید، نماز تہجد میں خشوع وخضوع کے ساتھ پر سوز دعائیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پر معارف نوں کا خوش الحانی سے پڑھا جانا اجتماع کی روحانی فضا کو چار چاند لگانے کا موجب تھا، قرآن مجید، احادیث نبوی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے دلوں کو لبھانے والے درس اور نہایت اہم تربیتی تقاریر اس پر مستزاد تھیں.چند اجتماعات کا تفصیلی پروگرام اورتنظیم انصارالہ کے ڈھانچے ہیں بنیاد کی تبدیلی اس غرض سے کہ مرکزی اجتماعات کا کچھ نقشہ سامنے آجائے چند اجتماعات کا تفصیلی پروگرام پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے.تقسیم ملک کے بعد جو پہلا اور دوسرا اجتماع منعقد ہوا اس کی تفصیل اس لیے بھی ضروری ہے کہنا یہ معلوم ہو کہ پروگرام کی ابتدائی صورت کیا تھی اور کسی طرح طریق کار معین ہوا.اسلامی کا پروگرام دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اجتماعات کی کارروائی میں تدریج ترقی ہوئی سی کا اجتماع اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ خلافت ثالثہ میں منعقد ہونے والا پہلا اجتماع تھا، اس کے کوائف دیکھنے سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ تصرفات الھی کے نتیجہ میں اور اس کے خاص فضل و کرم کے باعث خلافت کی تبدیلی کے وقت کسی اضمحلال یا کمزوری کے آثار ظاہر ہونے کی بجائے جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور اس کی فدائیت اور قربانی اور امام وقت سے تعلق میں انصافہ ہوتا چلا گیا.پیش کا اجتماع اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ اس میں حضرت امیر المومنین نے مجلس انصار اللہ کے ڈھانچے میں ایک بنیا دی تبدیل کا اعلان فرمایا اور انصار اللہ کو عمر کے لحاظ سے دو حصوں لینی صف اول اور صف دوم میں منقسم کر دیا اور دونوں حصوں کے کے دائرہ عمل اور کام کی تفصیل بھی بیان فرما دی.- 1947
قیام پاکستان کے بعد میں انصارت مرکز کا میل سالانہ اجتماع قیام پاکستان کے بعد مجلس انصاراللہ مرکز یہ کا پہلا سالانہ اجتماع مورد ۱۸ر نبوت / نومبر اهش بروز 1900 جمد منعقد ہوا.اسی دن مجلس خدام الاحمدیہ کا پندرھواں سالانہ اجتماع ہو رہا تھا، اس لیے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خدام الاحمدیہ کے مقام اجتماع پر انصار اور خدام دونوں کے اجتماعات کا ایک سہی وقت میں افتتاح فرمایا.اس موقعہ پر انصار ٹیج کے سامنے دریوں پر بیٹھے تھے اور خدام اپنے اپنے خیموں کے سامنے قطار وار کھڑے تھے.له حضور نے تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ہے آج انصار اللہ کی پلی میٹنگ ہے انصار کسی جذ بہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں یہ تو آئندہ سال ہی بتائیں گے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں، جب کسی قوم کے دماغ ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.بس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں.اس لیے جماعت میں نمازوں دعاؤں اور تعلق باشد کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تہجد، ذکر الٹی اور مساجد کی آبادی میں اور نا حصہ لینا چاہیئے کہ نوجوان ان کو دیکھے خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں، اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تمجید دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر نو جوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے پس ایک طرف میں انصار اللہ کو تو یہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں ، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ ہے الفضل 10 فتح / دسمبر ۱۳۳۴ بیش
اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے، لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شربت کے لیے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس میں حسن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور انکے ذریعہ سے دوسروں تک پہنچایا جائے گا.....یاد رکھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں ، یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زماز میں ۲۳ سال میں ہو گئی اور پھر مزید اشاعت کوئی پچاس سال میں ہوگی مگر کبھی کبھی سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے.جیسے حضرت مسیح کے زمانہ میں اس نے ایک سوسال کا عرصہ لیا اور کبھی یہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی لے لیتی ہے چنا نچہ دیکھ لو یہودیوں کا دنیوی نفوذ توبہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا، لیکن دوسری قوموں کی ہمدردی انہیں دو ہزار سال بعد جا کر حاصل ہوئی.جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جا تا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لیے ہر وقت تیار ہے اور آئندہ بھی تیا یہ رہے گی تو اس قوم کے دشمن اسکے ہمدرد ہو جاتے ہیں، کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نگاہ تھا اور اب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں، دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے.آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ میں ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھے ہیں فلسطین سے یہودیوں کو نکالا بھی عیسائیوں نے ہی تھا مگر وہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں.گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پسیج گئے، پیس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو.اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یاد رکھو کہ قومیں نوجوانوں کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں ، اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ گر جاتی ہے اگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے.انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ ۶۰-۸۰۰۷۰ سال تک چلی جائے گی ، مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے دیکھو سیح علی السلام کی قوم بھی دو ہزار سال سے زندہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم تیرہ سو سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائیگی تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لیے کھڑے ہوئے ہو.پس اس روح کو قائم رکھنا ، اسے زندہ
۲۲۹ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جوشیلے ہوں پیدا کرنا تمہارا کام ہے ، ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد ہے عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے بقتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمدرد بنا نا کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمدرد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا اور یہ کام بہت زیادہ شکل ہے.دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تاقیامت زندہ رکھو.محاورہ کے مطابق میرے منہ سے تا قیامت" کے الفاظ نکلتے ہیں، لیکن میں کہتا ہوں تا قیامت " بھی درست نہیں ، قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں، اپس میں تو کہوں گا کہ تم سے ابد می زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم ازلی ابدی خدا کے بندے ہو.اس لیے ابد تک اس نور کو ہو تمہارے سپرد کیا گیا ہے قائم رکھو اور محمدی نور کو دنیا میں بھی بات پہلے جیا ڈ ا یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگا جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت تو آسمان پر ہے زمین پر بھی آجائے.میں بہیمانہ ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اس لیے میں مختصر سی دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا.میں نے اپنی مختصر تقریر میں اعدام کو بھی نصیحت کر دی ہے اور انصار اللہ کو بھی مجھے امید ہے کہ دونوں میری ان مختصر باتوں کو یاد رکھیں گے، اپنے اپنے فرائض کو ادا کرینگے اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کرینگے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کر ہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.مجھے تو یہ دیکھ کہ گھبراہٹ ہوتی ہے کہ تحریک جدید کا چند دو تین لاکھ روپے سالانہ ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا زور لگا لگا کر حالانکہ کام کے لحاظ سے دو تین کروٹ بھی تھوڑا ہے پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑا ڈ اور اتنی کوششیں کرد که اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لیے اتر آئیں.انسانی زندگیاں محدود ہیں گھر ہما را خدا ازلی ابدی خدا ہے اس لیے اگر وہ یہ بوجھ جو ہم نہیں اُٹھا سکتے آپ اُٹھائے تزنگر کی کوئی بات نہیں جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک نظر رہے گا.کیونکہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائیگا گر خدا تعالی خود اس بوجھ کو اٹھائے تو فکر کی کوئی بات نہیں.یہ اسی کا کام ہے اور کو سجتا ہے اور جب خدا تعالی خود اس بوجھ کو اٹھا لیگا تو پھر اس کے لیے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا.
کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں ، ان کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے اور نہ خدا تعالیٰ دا اعلان کے ساتھ ان تو ہمارے ساتھ ہے اور تو ازلی ابدی خدا ہے.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالٰی یہ بوجھ خود اٹھائے تا کہ آئندہ ہمارے لیے کوئی فکر کی بات نہ رہے.اس افتاحی خطاب کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی جس میں انصار اور خدام سب شریک ہوئے.حضور کی انتظامی تقریر کے بعد مجلس انصار اللہ کے پہلے سالانہ اجتماع کی کارروائی فضل عمر بوشل کے صحن میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، نائب صدر مجلس انصاراللہ شروع ہوئی ہیں میں صاحب صدر کے ابتدائی ریمارکس کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب در و قائد عمومی اور حضرت مولانا نظام ہونا صاحب فاضل را جیکی نے انصار سے خطاب فرمایا، پھر مولوی ظہور حسین صاحب نے درس حدیث د یا نماز مغرب وعشا کے بعد شوری کا اجلاس منعقد ہوا اور ایجنڈا پر غور کیا گیا.دوسرے دن مورخہ 19 نبوت ناشتہ کے بعد اجتماع کی کارروائی نائب صدر مجلس کی زیر صدارت شروع ہوئی، درس قرآن کریم و کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد مجلس مرکزیہ کے چار قائدین مولانا عبدالرحیم مشاب وترو، مولانا ابو العطاء صاحب ، مولوی قمر الدین صاحب (نائب قائد ) اور ستید ولی اللہ شاہ صاحب نے دس دس نٹ تک اپنے اپنے شعبوں سے متعلق ضروری امور پیش کئے.قائدین کے بعد سید محمد علی صاحب زعیم مجلس سیالکوٹ ، مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی، قریشی محمد حنیف صاحب نمائندہ لائلپور ، قریشی محمد افضال صاحب نمائندہ راوہ اور مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے حاضرین سے خطاب کیا اتقاریر کے بعد شور مٹی کی بقیہ کارروائی عمل میں آئی ، آخر میں چوہدری فتح محمد صاحب نے تبلیغ کی اہمیت پر تقریر فرمائی.کھانے اور نمازوں کے وقفہ کے بعد آخری اجلاس زیر صدارت حضرت مرزا عز بنيد احمد صاحب ناظرا على م ہوا، تلاوت کے بعد تقریری مقابلہ ہوائیں میں چار اراکین نے حصہ لیا اور دس دس منٹ تقاریر کیں ، مولوی عبد الغفور صاحب کی سلسله اقول، حاجی محمد فاضل صاحب دیوه دوم اور قریشی محمد حنیف صاحب الامپور سوم قرار پائے اور انہیں پچاس روپے کی کتب بطور انعام دی گئیں.اس مقابلہ کے بعد سوالات اور جوابات کا سلسلہ جاری تھا کہ حضرت امیرالمومنین با وجود علالت طبع ساڑھے تین بجے مقام اجتماع میں تشریف لے آئے
۲۳۱ تمام عہد یداران اور اراکین نے باری باری حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.اسکے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.حضور کی مراجعت کے بعد نائب صدر محترم نے بعض علمی اور انتظامی امور سے متعلق سوالات کے جواب دیئے اور اختتامی تقریر فرمائی جس میں فرمایا کہ دوستوں نے اس اجتماع سے بہت سے سبق حاصل کئے ہونگے سب سے اہم اور بنیادی سبق تو وہی ہے جس کے لیے تمام انبیاء اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعیت کے ساتھ مبعوث ہوئے یعنی محبت الہی کا سبق.باقی چیزیں اسی کے گرد گھومتی ہیں.نیز فرمایا جب مغربی سائنسدان ا اور بادی علوم کے ماہرین بھی روح کی عظمت اور اس کی بقا کے اعتراف پر مجبور ہورہے ہیں تو ہمارا تو یہ زیادہ فرض ہے کہ ہم اپنے جسموں کی نسبت روح کی صفائی اور ترقی کی طرف زیادہ توجہ دیں.یہی وہ مقصد ہے جیس کے لیے اسلام آیا.اگر ہم اس مقصد کو حاصل کر لیں تو اسلام کا روشن چہرہ خود بخود نمایاں ہو جائیگا.اس کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح یہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.مجلس انصاراللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل تھا کہ انصامہ نے اجتماع کے ایام غیر معمولی طور پر دعاؤں اور عبادات میں گزارے اور اس کے نتیجہ میں سارا وقت ایک روحانی ماحول قائم رہا اور قلوب میں پاک تبدیلی پیدا ہوئی.حضرت امیر المومنین نے بھی ۲۰ نبوت کر نومبر کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اس روحانی کیفیت اور انصار کی دعاؤں کا ذکر فرمایا.با وجود سیلاب کی مشکلات اور تنگ وقت میں اجتماع کی اطلاعات بھیجوانے کے وہ بیرونی مجالس کے ۹۲ نمائندگان نے شرکت کی، زائرین کی تعداد ۳۲۳ رہی.رہائش اور طعام کا انتظام فضل عمر ہوسٹل میں ہی کیا گیا تھا جو مہمانوں کے لیے بہت سہولت کا باعث ہوا.لے ۱۳۴۴ له الفضل ۲۲ر نبوت رنو مبر مش ١٩٥ء
۲۳۲ مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ۱۳۳۵ مجلس انصار الله مرکزہ یہ کا دوسرا سالانہ اجتماع مورنہ -۲۶ - ۲۷ اخاء ه / اکتوبر ۱۹۵۷ بروز هت جمعہ مفت مجلس انصار اللہ کے زیر تعمیر دفتر کے احامہ میں منعقد ہوا.احاطہ میں سرخ بجری سے روشیں تیار کی گئی تھیں اور اراکین کو خوش آمدید کہنے کے لئے خراب دار دروازے بنائے گئے تھے.جلسہ گاہ خوبصورت شامیانوں اور قناتوں سے تیار کی گئی تھی.سٹیج پر نشست کا انتظام مشرقی طرز پر تھا صدر مجلس اور مقررین نے بیٹھ کر ہی حاضرین سے خطاب کیا.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بروز جمعہ تین بجے مقام اجتماع پر تشریف لائے اجتماعی دعا کے بعد حضور نے درج ذیل خطاب سے اجتماع کا افتتاح فرمایا.تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ فریل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی يايها الذين آمنوا کونوا انصار الله كما قال عيسى ابن مريم للحوار بين من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله والصفي ع ۲) اس کے بعد فرمایا :.آپ لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دردفعہ آیا ہے، اور " احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے.قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں.چنانچہ جب آپ نے فرمایا من انصاری الی الله یو آپ کے حواریوں نے کہا محسن انصار الله کہ ہم اللہ تعالے کے انصار ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کا تھا.گویا یہ نام قرآنی تا ریخ میں دو دفعہ آیا ہے.ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ایک حصہ له الفضل ۲۱ / امان/ مارچ ۱۳۳۶ پیش
کہ انصار کہا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصاراللہ کا دو جگہ فرکمر آتا ہے.ایک دفعہ جب تر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اگر پر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار اللہ رکھا گیا.گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار الله رکھا گیا ہے.اسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ان میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تھے کیو نکہ یہ جماعت ۱۱ء میں بنائی گئی تھی اور اس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہ ہی شامل تھے.اسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شامل تھے.دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصاراللہ رکھا گیا ہے.جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونی بنی حضرت مسیح ناصری کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے.اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہو گئی.یعنی میں طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں جس کے سیلا کو انصاراللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیل میسج موجود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زبانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کبھی دو گروہوں کا نام انصاراللہ رکھا گیا.خدا تعالے کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اب بھی زندہ ہیں مگر اب ان کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے.صحابی اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کے زمانہ میں اس کے سامنے آگیا ہو.گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں.حضرت مسیح موجود علیہ السلام شالہ میں فوت ہوئے ہیں اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہو اور اس کا باپ اسے اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے لے گیا ہو.لیکن یہ ادنی درجہ کا صحابی ہوگا.اعلیٰ درجہ کا صحابی رہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں ان کی تعداد اب
- بہت کم رہ گئی ہے.اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں مین کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد میں چالیس تک پہنچ جائے.اب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تیس چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے.اس جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی ہو حضرت مسیج موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ کا انصاراللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوکان عیسی و موسى حبين لما وسعهما الا اتباعی کہ اگر موسیٰ اور جیسے علیہما السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے.غرض اس وقت جماعت کے انصاراللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت پیچ موجود علیہ السلام کے ایک متبع اور شیل کے ذریعہ اسلام کی خدمت کا موقعہ ملا اور وہ آپ لوگ ہیں.گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے.جس طرح ان کے حواریوں کوہ انصاراللہ کہا گیا تھا.اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے پھر آپ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصار کی بات بھی پائی جاتی ہے.یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے مجہ آپ کے صحابہ تھے اسی طرح آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں.گویا آپ لوگوں میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں.آپ میں حضرت مسیح موعود علی الصلوة و السلام کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کچھ انصار کہا گیا.پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.اللہ تعالے نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالے کو بہت پسند تھیں چنا نچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں " "
۲۳۵ تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر مہر نہ سکے..."....را ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں.یہاں ان میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر حضرت میں علیہ اسلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گذر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس چیز کا وعدہ حواریوں نے کیا تھا چنا نچہ حضرت میتے نے جب کہا من انصاری الی اللہ کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں کون میری مدد کرے گا تو حواریوں نے کہا نحن انصار اللہ ہم خدا تعالیٰ کے راستہ میں آپ کی مدد کریں گے.انھوں نے اپنے آپ کوہ اللہ تعالے کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالے ہمیشہ رہنے والا ہے پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصار میں جن کو خدا تعالے کی طرف نسبت دی گئی ہے اس لئے جب تک خدا تعالے زندہ ہے اس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح کی وفات پر قریباً دو ہزار سال کا عرصہ گذر چکا ہے.لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے پہلے بیا رہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم مچھلی آتی یاد رکھو تمہارا نام انصاراللہ ہے.یعنی اللہ کے مددگار.گور با تمیں اللہ تعالے کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالے ازلی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئیے کہ امریت کے مظہر ہو جائے.تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے رکھتے پہلے جاؤ اور کوشش کر دو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا پہلا جاوے اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں.ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی سمجھے تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے.اس لئے میں نے اطفال الا محمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا.یہ افعال اور خدام آپ لوگوں ہی کے بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصار الله کی اصل ہو گی.اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں..
".." "..170 کرو اور خدا تعالے سے تعلق پیدا کر ہو تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے..پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالے سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالے سے تعلق قائم ہو جائے گا اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤر اور خدا تعالے سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی.عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دو گنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالے تمہاری تعداد دوسرے تمام مذاہب...کے پیروں کی تعداد تمہارے کی کو اتنا بڑھائے گا کہ.......دوسرے تمام مذاہب " مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہو گی جسے آج کل ادنی اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں، وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا یقیناً آئے گا لیکن جب آئے گا تو اس ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے، تحریک تجدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعت اسلام کے لئے جماعت میں شعف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونے کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے.اگر تم متحد ر ہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکے گی اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا توتمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور دشمن تمہیں کا جائیگا لیکن اگر تم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکے گی.تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کر سکے میری دعا ہے کہ اللہ تعالے آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے.چونکہ تمہاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگوں کی تنظیم کو بھی تا قیامت زندہ رکھے گا اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سیاہ بھی قائم رہے لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں.ان انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جا سکتا.لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اور زیادہ پھیلے گی.....پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ......
کرو تا کہ اگلے سال ہماری جماعت موریجہ دہ تعداد سے دوگنی ہو جائے اور تحریک تبدید میں حصہ لینے نالے دو گنا چندہ دیں اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقوی کے ساتھ نو جوانوں پر اثر ڈالو تا کہ وہ میجی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحب کشوف در ڈیا ہو جائیں.جس جماعت میں صاحب کشوف در ویا زیادہ ہو جاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہو جاتی ہے کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تستی نہیں ہوتی متبنی تسلی کشف اور رویا سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو لیے آخرمیں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نائب صدر مجلس نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بکثرت مطالعہ کردینے اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور ر فرما یا کہ انصار کو چاہیے کہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس ولی لگاڈ اور شغف کو اپنی اولادوں اور نسلوں میں روحانی ورثہ کے طور پر منتقل کرتے پہلے جائیں آپ نے لاحول ولا قوة الا باللہ کی لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انسان برائیوں سے بچتے ہوئے نیکیوں میں سبقت لے بہانے کی توفیق پا سکتا ہے.آمنہ میں آپ نے بنی نویے انسان کے ساتھ سچی ہمدردی اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت بجا لانے کی طرف توجہ دلائی.صدر مجلس کے اس خطاب کے بعد قریباً پانچ بجے شام پہلا اجلاس ختم ہوا.اجلاس کے ورزشی اور تفریحی مقابلوں کا پروگرام شروع ہوا اور ٹیموں کے درمیان والی بال کا نیچے کھیلا گیا.نماز مغرب و عشا اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مشاہدہ معائنہ کا مقابلہ ہوا ، جس میں بارہ انصار نے حصہ لیا.محمد شفیع خان کراچی اوں اور شیخ عبدالعد احمد ربوہ دوم رہے.نمازوں کے بعد ساڑھے سات بجے دوسرے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.درسی قرآن کریم کے بعد شورٹی کے ایجنڈے پر غور ہوا.آخر میں درس حدیث کے ساتھ ساڑھے نو بجے یہ اجلاس ختم ہوا.دوسرے دن نماز تہجد اجتماعی طور پر پڑھی گئی.پھر نماز فجر کے بعد مولانا ابوالعطاء صاحب نے ۱۹۵۷ء اخبار الفضل ۲۴ مارچ لالالالالالالالالالالالي ۱۳۳۵
۲۳۸ قرآن کریم کا درس دیا اور ذکر حبیب کا پروگرام ہوا.چوتھا اجلاس ناشتہ کے بعد شروع ہوا.حدیث کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درس کے بعد حضرت صاحبزادی مرزا بشیر احمد صاحب نے جماعتی تربیت کے اصول کے موضوع پر ایک قیمتی مقابلہ پڑھا اور انصار اللہ کو زرین ہدایات سے نوازا.اس کے بعد تقریری مقابلہ ہوا اور پھر سوال و جواب کا دلچسپ اور نہایت مفید پروگرام شروع ہوا.نائب صدر محرم کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے سوالات کے جواب دیئے.اجتماع کا پنجم اور آخری اجلاس دوپہر کے کھانے اور نماز ظہر و عصر کے بعد دو بجے شروع ہوا اور شور علی کی بقیہ کا روائی عمل میں آئی.اس کے بعد قائدین نے اپنے اپنے شعبوں سے متعلق مختصر رپورٹ پیش کی، بعض عماد جاس بیرون نے بھی مختصر طور پر خطاب کیا.سوا تین بجے حضرت امیرالمومنین اجتماع میں تشریف لائے حضور نے مجلس کے لیے ایک نیا عہد نامہ تجویز کیا تھا وہ کہلوایا اور اختتامی تقریر شروع فرمائی، حضور کی تقریر کے بعض اقتباسات درج ذیل ہیں.حضور نے فرمایا :- " میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی صرف آپ انصار میں بلکہ آپ انصارالہ ہیں، یعنی اللہ تعالٰی کے مدد گا ر اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ، لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی.اس لیے آپ کے محمد پر بھی کبھی موت نہیں آنی چاہیئے.چونکہ موت سے کوئی انسان نیکے نہیں سکتا اس لیے انصار اللہ کے معنی یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں کے اور اگر آپ مر گئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گائے اور اگر اللہ تعالٰی ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دیدے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں ، خلافت کو قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغ احمدیت اور تبلیغ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہو سکتی...یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب ایک تنظیم ہو اور کوئی ایسا شخص جو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ ان آن ، در دو آنے ،
چار چار آنے اردو پہیہ دو روپے جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے اور اس دو دو آنے چار چار آنے سے اتنی رقم تجمع ہو جائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہو سکے ، دیکھیو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے وہ اس وقت ساٹھ کروڑ کے قریب ہیں، پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اس نے اس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ (POP E'S PENNY) کہتے ہیں اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کر لیتے ہیں، لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار آمدنی کا چھ فیصد چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصد چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواز دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ میں لاکھ بنتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت کم ہے.اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہو جائے تو شاید ہم دو سال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں اس تھوڑے سے چندے سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے چنا نچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ جہاں بھی ہم جانتے ہی احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہو رہے ہیں....تو یہ جو کچھ ہورہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے، خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں تمہارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.اب دیکھو ! قدرت ثانیہ کسی المین کا نام نہیں.قدرت ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں گر به قدرت ثمانید وائی ہوگی اور اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور قیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ خلیفہ، ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے.نظام قیامت تک رہ سکتا ہے.....اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے تو ایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی کیونکہ ہمارے پاس دلائل و براہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں..اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر ناب
۲۴۰ کردیں.اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہوگا کسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لیے ایک لیسے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جد وجہد کی ضرورت ہے.لیپس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں.......پھر حضور نے قرآن کریم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا : اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی تو تمام آفات اور مصائب تمہیں اپنی نظروں میں بینچ نظر آئیں گے گذشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالی کی مدد ہمیشہ اس کے شامل حال رہی ہے اور مصائب ومشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات مشاہدہ کرتا رہا ہے...." اس کے بعد حضور نے ١٩٥٣ء کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : 炸 تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا اس وقت احمدیوں کو ناریوں " اور گاڑیوں سے کھینچ کمپنی کاتارا جاتا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا اس وقت میں نے اعلان کیا کر گھبراؤ نہیں میرا خدا میری مدد کے لیے کوڑا چلا آ رہا ہے ہے چنا نچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا.لوگ اس وقت کہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانا نہیں.یہ طرف ان میں جوش بھرا ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کرد - اسن وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری کے لیے دوڑا آرہا ہے وہ مجھ میں ہے.وہ میرے پاس ہے پھر دیکھو میرا خدا میری مدد کے لیے دو ڈکر آیا یا نہیں......پھر حضور نے حضرت خلیفہ المسیح اول نہ کی اولاد کے تازہ تفتنہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : "جب کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لیے آگے آئے گا میں انعدا دوڑتا ہوا آ جائے گا اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لیے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا میرا خدا اپنی چھاتی اس کے سامنے اخبار فاروق - مارچ ۱۹۱۳ء ۴
۲۴۱ یہ کر دیگا اور تم یہ جانتے ہو کہ میرے خدا کو نیزہ میں لگتا.جو شخص میرے خدا کے سینے میں نیزہ مارنے کی کوشش کریگا وہ نیزہ الٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں مانگے گا اور تباعت خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہتی چلی جائے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں....آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خدا تعالٰی کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد واتے رہا کریں تا کہ خدا تعالٰی ہمیشہ ہمیش ہمارے دلوں میں رہے اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہو جائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو.....اس کے بعد حضور نے لمبی دعافرمائی اور پھر انصار اللہ کا عہدہ دہرایا.اس اجتماع میں 94 مجالس کے دوصد نمائندگان اور پار صد اراکین نے شرکت کی.زائرین کی تعداد چھ صدر ہی.
۲۴۲ مجلس انصاراللہ کے پوتھے سالانہ اجتماع سے حضرت میر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کا خطاب ۱۳۳۷ بروز یکم نبوت النومبر بش تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: + 190 آج انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کی تقریب ہے میں اس موقعہ پر آپ سے دو باتیں کہنی چاہتا ہوں، ایک تو میں اس بارہ میں آپ سے خطاب کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے فرائض کی طرف توجہ کریں.آپ کا نام انصار اللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے.پندرہ سے چالیس سال کی عمر کا زمانہ جوانی اور امنگ کا زمانہ ہوتا ہے اس لیے اس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمدیہ رکھا گیا ہے تاکہ وہ خدمت خلق کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور پالیسی سال سے او پر یم والوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ کہیں ملازم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے.پس آپ کا نام انصار اللہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ جہانتک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ تو جہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چر چا زیادہ سے زیادہ کریں تا کہ آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے.آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الٹی کی تلقین کرتے رہنا چاہیے اور اگر کوئی بشارت آپ پر نازل ہو تو ڈرنا نہیں بچا بیٹے اسے اخبار میں اشاعت کے لیے بھیج دینا چاہیئے.اصل میں تو یہ انبیاء کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی رؤیا و کشوف کو شائع کریں، لیکن انبیاء اور غیر انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انبیاء میں تحدی پائی جاتی ہے له الفضل مورخہ کار نبوت نومبر میں سو سال م دواء
۲۴۳ یر انبیاء کے لیے ہی حکم ہے کہ وہ انکسار کے مقام کو قائم رکھیں اور بیشک خداتعال کی تازہ ہی کی جو بارش ان پر نازل ہو اس کا لوگوں کے سامنے ذکر کریں، لیکن لوگوں کویہ نہ کہیں کرتم ہماری بات ضرور مانو، ہاں نبی کا کام یہ ہوتا کہ وہ لوگوں سے کسے کہ تم میری باتیں مانو نہیں تو تمہیں سزا ملے گی، لیکن غیر نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایمان کی زیادتی کے لیے خواب بیان کردیتا ہے ، لیکن وہ کسی سے یہ نہیں کہا کہ تم میری بات ضرور مانو ، وہ سمجھتا ہے کہ جب میں غیر نبی ہوں تو اگر خدا تعالیٰ نے میری بات کسی سے منوانی ہے تو وہ خود اس کے لیے کوئی صورت پیدا کر دیگا، مجھے اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں ، سکین کیا اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ وہی پر زور دے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسس سے ایسے زنگ میں کلام کرتا ہے میں رنگ میں وہ اور کسی سے کلام نہیں کرتا اس لیے اگر کوئی شخص میری بات نہیں مانے گا تو اس کو سرا ہے گی اور اسی وجہ سے رو تحدی کرتا ہے ، لیکن وہ سرا شخص ایسا نہیں کر سکتا.پس جس شخص کو کوئی رویا یا کشف ہو اسے وہ رویا با کشف اخبار میں چھپوانے کے لیے بھیج دینا چاہیے ، آگے الفضل والوں کا کام ہے کہ وہ اسے شائع کریں یا نہ کریں.یہ بھی غلط طریق ہے کہ بعض لوگ مجھے کہ دیتے ہیں کہ افضل ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا.وہ بیشک نہ چھاپہلے تم چپ کر رہو کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کا نشا نہیں کہ وہ چھپے ، لیکن اس میں خود الفضل والوں کا اپنا فائدہ بھی ہے کیونکہ اس سے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا ہوتی ہے.اگر کسی شخص کو کوئی رویا با کشف یا الہام ہوتا ہے اور وہ شائع ہو جائے تو دوسروں کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم تو جہ کریں تو خدا تعالی کی طرف سے ہمیں بھی کوئی رویا یا کشف یا الہام ہو جائے گا اس طرح الفضل سلسلہ کی ایک خدمت کریگا.وہ جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوگا ، لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالی خود گرفت کریگا.آپ لوگوں کا صرف اتنا کام ہے کہ آپ اسے اس طرف توجہ دلائیں لیکن اگر الفضل نہ چھاپے تو پھر اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور اصرار نہ کریں کہ افضل ہماری خواب شائع کرے.ایڈیٹر آزاد ہوتا ہے اس کی مرضی ہے کہ کوئی چیز شائع کرے یا نہ کرے، اگر وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتا تو خدا تعال خود اس سے سمجھ لے گا.آپ اس پر داروغہ نہیں ہیں.اللہ تعالی تو قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں پر داروغہ نہیں ہو، پھر تم دارونہ کہلانے والے کہاں سے آگئے.بہر حال آپ انصار اللہ کے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کریں اور انصار اللہ کے معنی بھی ہیں کہ وہ رہا ہے سے بھی دین کی خدمت کریں اور روحانی طور پر بھی دین کی خدمت کریں ، میں نے بتایا ہے کہ روحانی طور پر دین کی خدمت یسی ہے کہ آپ لوگ اللہ تعالی کی طرف توجہ کریں اھا اگر اس کی طرف سے بارش کا کوئی چھینٹا آپ پر بھی پڑ جائے تو ان
۲۴۴ چھینٹوں کو لوگوں تک بھی پہنچائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی تو الگ ہی خدا تعالٰی کی طرف سے نازل ہونے والی ہر چیز کی قدر کرتے تھے، ایک دفعہ بارش ہوئی تو آپ باہرنکل آئے او راپنی زبان با ہر نکال لی اس پر بارش کا ایک قطرہ پڑا تو آپ نے فرمایا یہ خدا کی رحمت کا تازہ نشان ہے، تو قرآن کریم تو الگ رہا آپ نے بارش کے ایک قطرہ کو بھی خدا تعالیٰ کا تازہ نشان قرار دیا.اب اگر کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اتنا فضل ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی کشف ہو جاتا ہے یا کوئی الہام ہو جاتا ہے تو وہ تو یقینی طور پر خدا تعالیٰ کا تازہ نشان ہے پھر وہ تحدیث نعمت کیوں نہ کرے - تحدیث نعمت بھی خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنے کا ایک طریق ہے دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا وقت آگیا ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور ہم نے تمام غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں اس وقت ہمارے ملک کے ایکسچینچ کی حالت پور می طرح مضبوط نہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل کرتا رہا ہے اور ہمارے کام چلتے رہے ہیں کیونکہ ہماری باہر کی بعض جماعتیں اب مضبوط ہوگئی ہیں مثلاً افریقہ کی جماعتیں وغیرہ اور پاکستان کے قوانین کے ماتحت نہیں، اس لیے ان لوگوں نے مساجد کی خاطر جو جماعت کو پونڈ اور ڈالر دیئے ہیں ان سے کسی حد تک کام چلتا رہا ہے مگر وہ جماعتیں ابھی کم ہیں وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں، ان کا بوجھ بٹانے کا طریق یہی ہے کہ یہاں کا بوجھ یہاں کی جماعتیں اٹھا لیں اور ان کو اس بوجھ سے فارغ کر دیا جائے تا کہ وہ غیر ملکوں میں مسجدیں بنائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ (فلپائن ) میں بھی ترقی ہوئی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو امریکہ اور فلپائن وغیرہ علاقوں میں جماعت کو اور بھی ترقی ہو جائے گی اور اس طرح ڈالر کی آسانی ہو جائینگی امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے کہ ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی متاثر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ہیں جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ یدعون لك ابدال الشام ابدال شام تیرے لیے دعائیں کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی.پس دوستوں کو دعا کرنی چاہیئے کہ للہ تعالی جماعت کے لیے سہولت پیدا کرے اور وہاں جماعت کو کثرت سے پھیلائے تاکہ ابدال شام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام تو میں نہیں نہیں بیدعون لک کے بھی معنی ہیں کہ وہ جماعت کے لیے دعائیں
۲۴۵ کرینگے اور ابدال کا نام بتاتا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی ، ابدال کے معنی ہیں کہ ان کے اند ر بری علیم استان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدائے تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے.پس اس کے لیے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہیئے کہ شام میں جو مشکلات میں اللہ تعالیٰ انہیں دور کر دے ، وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو اور ایسے ابدال پیدا بر جو رات دن اسلام اور احمدیت کے لیے دعائیں کرتے رہیں..پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعتیں قائم کرے اور ان میں ایسا اخلاس پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالٰی کے گھر سارے ممالک میں بنائیں، یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے کی وجہ سے بد نام تھا وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ میں تو کچھ بھی نہیں تھا اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے اگر ایسا ہو جائے تو یہ دین اسلام کی بڑی بھاری فتح ہے اور ہمارے لیے بھی یہ اللہ تعالٰی کے فضلوں کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ہم میں سے ہر شخص تو وہاں تبلیغ کے لیے جا نہیں سکتا، چند مبلغ گئے ہوئے ہیں ، ہاتی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپے سے مدد کر دیں اور دعاؤں کے درید تعدا تعالیٰ کا فضل چاہیں تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے ہمارا ایک طالبعلم جرمن گیا ہوا تھا، اس کا کل ہی ایک خط آیا ہے کہ ایک پادری کی بیٹی میرے زیر تبلیغ تھی جو بہت حد تک احمدیت کی طرف مائل ہو گئی ہے، لیکن اسے باپ سے ڈر ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہ کرے کیونکہ وہ پاور ہی ہے میں نے لکھا ہے کہ پادری تو بہت مسلمان ہو چکے ہیں، اس لڑکی کو سمجھاؤ کہ وہ ہماری کتابیں پڑھے اور اپنے باپ کوبھی سمجھائے ، وہ بھی انشاء اللہ مسلمان ہو جائے گا.اس وقت تک یورپ میں دو پادری مسلمان ہو چکے ہیں.اب اگر یہ احمد می ہو گیا تو تین ہو جائینگے.ایک شخص جو باقاعدہ پادری تو نہیں، لیکن اس نے پادری کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے وہ انگلینڈ میں احمدیت میں داخل ہوا ہے.اس کا باپ سیو دی مذہب کا عالم تھا جب اس نے اپنے باپنے ذکر کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے تو اسلام سچا نظر نہیں آتا، لیکن اگر تمہیں سچا نظر آئے تومیں تمہیں دوکتا نہیں تم بے شک اسلام قبول کر لو.جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے اگر وہ خود اسلام قبول نہ کریں تو اپنی اولادوں کو اس کے قبول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ دستہ کھول دیتا ہے.یہیں آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یورپ و امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے راستہ کھولے اور ہماری جو سکیم ہے کہ یورپ میں ہماری کئی مساجد جو امریکہ کی ہر دریاست میں کئی مساجد ہوں اس کو خدائے تعالیٰ جلد سے جلد پورا کرے ، اسی طرح سپین کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ اسلام کی
ابتدائی فتوحات میں شامل تھا مگر اب وہاں جبری طور پر عیسائیت کو پھیلا دیا گیا ہے.اللہ تعالٰی اس علاقہ میں اسلام کی نصرت کے سامان پیدا کرے تا بنی امیہ کے زمانہ میں اسلام وہاں داخل ہوا تھا اور پھر وہاں سے نکال دیا گیا تھا خدا تعالیٰ اسے احمدیت کے ذریعہ پھر وہاں دوبارہ قائم کر دے (اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی ) دعا کے بعد فرمایا :- ا دعائیں تو میں نے آپ لوگوں کے لیے بھی کردی ہیں اور سلسلہ کے لیے بھی کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے اور آپ لوگ خیر و عافیت سے گھر جائیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لیے دلیرانہ کوشش کریں تاکہ خدا تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے اور سلسلہ کی مالی حالت اور تحریک جدید جو غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے ہے اس کی مالی حالتوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہو، پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے اور کھلے سال ہمارے ملک میں فضل ربیع کی جو تبا ہی آئی تھی آئندہ اس سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے.پھر نئی فصلوں میں بھی برکت دے تاکہ زمینداروں کے پچھلے نقصان و دور ہو جائیں اور آئندہ کے لیے وہ اور قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ، ہماری جماعت میں زمیندار ہی زیادہ ہیں اور ان کی مالی کمزوری کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان پر اپنے فصلوں کی بارش نازل کرے اور اپنی تازہ ابشار توں لینی الماموں اور کشوف اور خوابوں کے ذریعہ سے ان کے ایمانوں کو تقویت دے تاکہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کو زیادہ مضبوط بنا سکیں، میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کو سچی خوا نہیں آتی ہیں ان کی اولادیں کہتی ہیں کہ ہمارے دادا کو ایسی خواب آئی تھی پھرا کی اور کہتی ہے کہ ہمارےپردادا کو ایسی خواب کی تیاری میں میں شیت کا ا ا ا ریا اے اگر یہائے دوست اس طرف توجہ کریں اور پھر اپنی اولاد کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں ، تو ان ک کم سے کم تین چار پشتیں محفوظ ہو جاتی ہیں اور پھر اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو چھو پشتیں محفوظ ہو گئیں، پھر ایک اور اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو تو پشت میں محفوظ ہو گئیں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ان کی امت ۱۳۰۰ سال تک محفوظ رہی اور تیرہ سو سال میں بڑے بھاری تغیر آجاتے ہیں.ہم تو چاہتے ہیں کہ قیامت تک ہی ہماری نسل محفوظ ہو جائے کیونکہ احمدیت خدا تعالیٰ کا آخری جلال ہے.اس آخری جلال کو کم سے کم قیامت تک قائم رہنا چاہیئے تاکہ پیشہ لوگوں میں روحانیت اور ہدایت کی طرف توجہ کے سامان پیدا ہوتے رہیں اگر یہ سامان مٹ گئے تو اور کوئی ذریعہ ہدایت کا دنیا میں نہیں رہیگا فرض میں نے یہ دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر بشارتیں نازل کرتا رہے تا اس پہیئے سے نئے فضل ہوتے.میں اور ان کا ایمان روز بروز تازہ ہوتا چلا جائے ہے.له الفضل ۶ نومبر شواء
۲۴۷ مجلس اتصالات مرکز بی کا آٹھواں سالانہ اتباع مجلس انصارالله مرکز یہ کا آٹھواں سالانہ اجتماع مورخہ ۲۶-۲۷ - ۲۸ را خانی اکتو برایش احاطه انصارا اللہ میں منعقد ہوا.اس اجلاس میں ۱۸۸ مجالس کے ۶۲م نمائندگان ۹۸۰۰ اراکین اور ۱۸۱۵ زائرین نے شرکت فرمائی حضرت امیرالمونین کی علالت طبع کے باعث حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انتاج فرمایا آپ نے اپنے خطاب میں انصار اللہ کو تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے اور فتنہ پردازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ ازالہ کرنے نیز تربیت اولاد کی اہم ذمہ داری پوری چوکسی سے ادا کرنے کی طرف خصوصی توجیہ ولائی اور بعض غلط طریقوں مثلاً بھوک ہڑتال اور بیاہ شادیوں میں اسراف اور نا جائز مطالبات سے پر ہیز کرنے کی تلقین فرمائی.اجتماعی دعا کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے، اس کے بعد اجلاس کی بقیہ کار وائی با وقائم الدین صاحب امیر جماعت سیالکوٹ کی زیر صدارت شروع ہوئی صدر محترم نے قرآن کریم کا درس دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ فاتحہ کے اقتباسات سنائے، احدیث کا درس مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دیا، مولانا ابو العطار صاحب نے درس کتب حضرت مسیح موعود دیا ، پھر شیخ مبارک احمد صاحب نے سالانہ اجتماعات کی افادیت و اہمیت پر تقریر کی.اس تقریر کے بعد تفریحی پروگرام کے لیے وقفہ ہوا اس وقفہ میں رستہ کشی، والی بال اور دوڑوں کے مقابلے ہوئے، نیز صدر محترم کی ہدایت کے مطابق انصار نے بہشتی مقبرہ جا کر ا جتماعی دعا کی ہے اجتماع کا دوسرا اجلاش ، بجے شب صدر محترم کی صدارت میں شروع ہوا، قائدین نے اپنے اپنے شعبہ کی سالانہ رپورٹ پیش کی پھر دعا کے بعد شور مٹی کا اجلاس ہوا، آخر میں مولانا شمس صاحب نے قرآن کریم کا درس دیا اور اسبلاس ساڑھے تو بچے ختم ہوا.ه الفصل مورخہ یکم نبوت لومبر ا ے ایضاً ۱۳ نومبر
تغیر ا اجلاس نماز تہجد رجو اجتماعی طور پر پڑھی گئی، اور نماز فجر کے بعد شروع ہوا، مولانا ابو امطار صاحب نے قرآن کریم کا درس دیا.پھر ذکر جیب میرا اسلام پر حافظ عبدا سمیع صاحب امرد بوی حاجی محمد فاضل صاحب اور حکیم عبید اللہ رانجھا صاحب نے تقاریر فرمائیں.، بجے ناشتہ کے لیے وقفہ ہوا.چوتھا اجلاس ہم بچے بصدارت مرزا عبدالحق صاحب شروع ہوا ،شیخ مبارک احمد صاحب پر و فیسر بنات الرحمن صاحب اور مولوی محمد یار صاحب عارف نے علی الترتیب قرآن کریم احدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیا بعد از ان دو بزرگ صحابی سینی حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی سیرت پر شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ کا لکھا ہوا ایک مضمون شبیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا، پھر تی به کرام در حضرت قاضی عبداللہ صاحب اور صوفی محمد رفیع صاحب سکھر نے ذکر حبیب پر تقاریر فرمائیں.بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے حضرت امیرالمومنین کی علالت اور علاج کے بارے میں تفصیل پیش کی اور حضور کی صورت کے لیے دعا کی تحریک فرمائی.صدر محترم کی اقتدا میں تمام حاضرین نے اسی وقت حضور کی صحت کا ملہ کے لیے اجتماعی دعا کی.اس کے بعد بابو قاسم الدین صاحب کی زیر صدارت انعامی تقریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں ، مقررین نے حصہ لیا.تقریری مقابلوں کے بعد سوال و جواب کا نہایت دلچسپ پروگرام شروع ہوا.صدر محترم کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا ابو العطاء صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب نے جوابات دیئے.اس اجلاس کے دوران ۲۳ منتخب افراد پرمشتمل ایک نمائندہ وفد نے شیخ محبوب عالم صاحب مخالد قائد عمومی کی سرکردگی میں حضرت امیر المومنین کے پاس حاضر ہو کہ شرف ملاقات حاصل کیا.پانچواں اجلاس شو ۲ بجے زیر صدارت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعتہائے لائلپور منعقد ہوا، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا درس ملک سیف الرحمن صاحب اور مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے دیا.اس کے بعد صدر محترم نے قبولیت دعا پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے ایام میں جبکہ مسلمانوں میں مایوسی کا عالم طاری تھا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے غلبہ سلام کے لیے جو دعائیں کیں اس کے نتیجہ میں ایک خادم اسلام جماعت حضور کو ملی نیز فرمایا کہ دعا کے ذریعہ ہی انسان کا خدائے تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہوتا ہے، تقریر کے دوران آپ نے قبولیت دنیا کا ایک ذاتی واقعہ بھی بیان کیا.بقیہ اجلاس زیر صدارت قریشی عبدا او من صاحب ناظم اعلی میا اس سندھ بلوچستان الفضل مورخه هم نبوت نومبر ۱۳۳۷ میش 1948
۲۴۹ جاری رہا ، شیخ محمد احمد صاحب نظر نے اسی بہ حضرت مسیح موعود عید السلام کے دل میں خدمت دین کی ترب کے موضوع پر بصیرت افروز تقریر کی اور فرمایا کہ حضور کے صحابہ ہر آن آپ کے ساتھ اس طرح بیٹے رہتے تھے جیسے مشک کے ساتھ خوشبو اور خدمت دین کے لیے ہر لحظہ کر بستہ رہتے تھے.شیخ صاحب کے بعد چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری نے " بنیان مرصوص" کے موضوع پر ایک مبسوط مقالہ پڑھا، بعد از ان حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے صحت برقرار رکھنے کے اصولوں کی تشریح کی.اس تقریر کے بعد تفریحی کھیلوں کے لیے وقفہ ہوا جس میں رستہ کشتی، والی بال اور روک دوڑ کے مقابلے ہوئے.اجلاس ششم ، بجے شب شروع ہوا.صدر محترم نے انعامات تقسیم فرمائے.اس کے بعد مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا نے احمدیت کے تقاضے کے موضوع پر تقریر کی.بعد ازاں دعا کیسا تھے شور علی کی کارروائی ہوئی، آخر میںمحمد یا ر صاحب عارف نے قرآن کریم کا درس دیا.پونے دس بجے اجلاس ختم ہوا.اپلاس هفتم بروز اتوار نماز تہجد اور نج کے معا بعد زیر صدارت مولانا شمس صاحب شروین چرا امرون الوسطاء صاحب نے قرآن کریم کا درس دیا.پھر حکیم پیر احمد صاحب علی محمد صاحب تھانوالی اور مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے ذکر حبیب علیہ السلام پر تقاریر کیں ، اس اجلاس میں مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم کی روایات کا ریکارڈ بنایا گیا ے بجے ناشتہ کے لیے وقفہ ہوا.آخری اجلاس وہ نیچے سے ۱۰ بجے تک چوہدری عبدالحق صاحب ورک کی زیر صدارت بھاری رہا.درس قرآن کریم ، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام علی الترتیب مولانا البوالعطاء صاحب ، ملک سیف الرحمن صاب مفتی سلسلہ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس نے کیا.ازاں بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے محاسبہ نفس پر تقریر کی.بقیہ کارروائی چوہدری انورحسین صاحب ایڈووکیٹ شیخو پورہ کی زیر صدارت جاری رہی ، مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر تقریر کی.پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ" پر قرآن کریم، احادیث اورا العامات حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی روشنی میں بالترتیب مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا ابو العطاء صاب اور پروفیسر بشارت الرحمن صاحب نے تقاریر کیں ان کے بعد اسی موضوع پر شیخ مبارک احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں قرآن کریم اور احادیث کی پیشگوئیوں کے عملی طور پر
۲۵۰ " پورا ہونے کی تفصیل پیش کی اور بتلایا کہ اکناف عالم میں ان پیشگوئیوں کا عملی ظہور کس طرح ہو رہا ہے.آخر میں صدر محترم نے خطاب فرمایا.آپ نے اولاً در امور پر زور دیا ایک تو یہ کہ جماعت کے خلاف پھیلائی جانیوالی غلط نہیں کا ہمیں ازالہ کرنا چاہیئے.دوسری بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ دنیا شرک میں مبتلا ہو جانے کے باعث تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے اور اس تباہی سے وہ اسلام کی تعلیم کو اپنائے بغیر بچ نہیں سکتی.دنیا کو خدا کی امان کے نیچے لانے کا کام جماعت احمدیہ کو سونپا گیا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بعثت کی غرض ہی ہیں کہ لوگوں کو خدا کی امان کے نیچے جمع کریں.اب دنیا کا حقیقی امن جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے.افریقہ امریکہ اور یورپ کے براعظم پکار رہے ہیں کہ ہمارے پاس آؤ اور توحید کا پیغام پہنچاؤ.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کام کو سرانجام دیں.اس کے بعد صدر محترم نے حضرت امیرالمونین کا پیغام جو علیحدہ درج ہے پڑھ کر سنایا اور اس کا ٹیپ ریکارڈ بھی سنایا گیا، حضور نے انصار اللہ کے نام ایک خصوصی پیغام میں تحریک جدید دفتر اول کے ۲۹ ویں اور دفتر دوم کے 19 ویں مالی سال کا اعلان فرمایا حضور نے یہ پیغام املا کرانے کے بعد اس پر اپنی قلم سے دستخط فرما کر ارسال فرمایا اور ساتھ ہی اپنی آواز میں اسے ٹیپ کرا دیا تا کہ اجتماع میں شریک حملہ احباب حضور کے پیغام کو خود حضور کی آواز میں سننے کی سعادت حاصل کر سکیں.حضور کا پیغام سنائے جانے کے بعد صدر محترم نے اجتماعی دعا کرائی اور اس کے ساتھ اجلاس کی کارروائی ختم ہوئی.
۲۵۱ مجلس انصار الله مرکز یہ کیاگیارھواں سالانہ اجتماع مجلس انصارالله مرکز یه کا گیارھواں سالانہ اجتماع مورخه ۲۸ - ۲۹ - ۳۰ اخمادها اکتوبر ۱۳۳۵ پیش یہ - ۲۹-۳۰ $1494 بروز جمعہ ہفتہ اتوار احاطہ انصار اللہ میں منعقد ہوا جس میں ۲۰۰ مجالس کے ۵۶۷ نمائندگان ۱۳۴۰ اراکین اور دو ہزار سے زائد زائرین نے شرکت کی.خلافت ثالثہ میں منعقد ہونے والا یہ پہلا اجتماع تھا.سال ہائے گذشتہ کے مقابلہ میں مجالس ، نمائندگان اور اراکین کی تعداد میں اضافہ اس مقبولیت اور حقانیت کا مظہر تھا جو خلفاء راشدین کو حاصل ہوتی ہے ، حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے تین بجے بعد نمازہ جمعہ اجتماع کا افتتاح فرمایا، پہلے حاضرین نے حضور کی اقتدا میں اپنا عہد دہرایا ، پھر حضور نے فرمایا اور ہم مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالی اس اجتماع کو ہمارے لیے با برکت کرے ، ہم ذکر الہی میں وقت گزار نے کی توفیق پائیں اور جب آپ یہاں سے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹیں تو اطمینان قلب کے ساتھ واپس ہوں پھر حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس کے بعد حضور نے انصار اللہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.پہلے تحریک جدید اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے روحانی انقلاب کا ذکر کیا اور پھر انفرادی اور اجتماعی وعدے پیش کرنے کا موقعہ دیا.مجموعی طور پر اس وقت پانچ لاکھ دس ہزار روپے کے وعدے حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے جبکہ گذشتہ سال لمبی جدوجہد کے بعد کل وعدے چار لاکھ 4 ہزار تھے.وعدوں کی وصولی کا کام تھوڑی دیر جاری رہا.اس کے بعد حضور نے قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کی طرف اور وقف عارضی کی طرف حاضرین کو متوجہ کیا.آخر میں حضور نے مجلس پشاور کے نمائندے اور نعیم اعلیٰ چوہدری رکن الدین صاحب کو حکم انعامی عطافرمایا، کارکردگی کے لحاظ سے مجلس پشاور اول مجلس کراچی درم اور مجلس کوئٹہ سوم رہیں، ساڑھے چاہ کے حضور واپس تشریف لے گئے.له الفضل ۳۰ اخضاع اکتو بر و یکم ثبوت النومبر ش ۱۳۴۵ مش التوه به و
۲۵۲ حضور کی واپسی کے بعد اجلاس کی کارروائی زیر صدارت مولوی محمد دین صاحب صدر صدر انجمن احمدید جاری رہی اجلاس کے دوسرے حصہ میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر علی نے بھی صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.سب سے پہلے مولانا ابو العطاء صاحب نے میران مانگیر بکس انصار اللہ کی طرف سے مولانا جلال الدین صاحب شمس کی وفات پر قرار داد تعزیت پیش کی اور عمران نے اس کی منظوری دی.اس کے بعد مولانا الجوالعطاء صاحب نے محاسبہ نفس کے موضوع پر قرآن کریم کا درس دیا.اسی موضوع پر درس حدیث اور درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالترتیب شیخ عبد القادر صاحب مربی اور مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے دیا.درسوں کے بعد تقریبی میلوں کیلئے وقعہ ہوا جس میں رستہ کشتی، والی بال وغیرہ کے مقابلے ہوئے.دوسرا اجلاش ساڑھے سات بجے نائب صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب شروع ہوا.پہلے آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ مجلس راولپنڈی کی تجویز کے سلسلہ میں مجلس عاملہ مرکزیہ نے غور کیا اور حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں یہ تجویز بھجوائی کہ " مجلس مرکز یہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں درخواست کرتی ہے اور اس میں اپنی سعادت سمجھتی ہے کہ حضور ہی مجلس انصار اللہ کی صدارت فرمائیں اور نائب صدر بھی حضور کی طرف سے نامزد ہوئے اس درخواست کو حضرت امیرالمومنین نے منظور فرما لیا اور ارشاد فرمایا کہ >) ایک سال کے لیے منظور ہے ؟ اس اعلان کے بعد قائدین نے اپنے اپنے شعیہ کی کارگذاری کی سالانہ رپورٹیں پیش کیں بعد ازاں شوری کا اجلاس ہوا.جس میں صرف نمائندگان نے کارروائی میں حصہ لیا.دس بجے تک شوری کا اجلاس جاری رہا اس کے بعد آخر میں مولوی محمد صادق صاحب مبلغ انڈونیشیا نے قبولیت دعا کی دو ذات مثالیں پیش کیں.تعمیرا جلاش اگلے روز ۲۹- اضاء بعد نماز تمجد و نمبر شیخ مبارک احمد صاحب کی صدارت میں ہوا.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے قرآن کریم کا درس دیا اس کے بعد حافظ عبدالسمیع صاحب اور مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے ذکر حبیب" کے سلسلہ میں اپنی روایات سنائیں.کے بہکے ناشتہ کے لیے وقفہ ہوا.ك الفضل ۳ نبوت نومبر ۱۳۳۵ مش الفضل ۴ نبوت النومبر ۳۳۵ میش
۲۵۳ i چوتھا اجلاس نو بجے شروع ہوا ، اس اجلاس میں شیخ محمد حنیف صاحب ، مولوی محمد صاحب (مشرقی پاکستان) اور مولانا ابو العطاء صاحب نے صدارت کے فرائض ادا کئے، مروان نا الوالد و صاحب نے قرآن کریم کا لنک سیف الرحمن صاحب نے حدیث کا اور مولانا عبدالمالک خان صاحب نے کتاب حضرت مسیح موعود کا درس دیا.تینوں درسوں کا موضوع تقوی شعاری تھا، پھر مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے صحابہ حضرت مسیح موعود کی تقوی شعاری پر روشنی ڈالی، اس کے بعد انعامی تقریری مقابلہ ہوا جس میں پندرہ احباب نے حصہ لیا.اس مقابلہ میں اللہ بخش صاحب تسقیم را ہوالی اقول الطاف خان صاحب پیشاور دوم اور شاہ محمد صاحب سوم رہے، بعد ازاں سوال و جواب کا پروگرام شروع ہوا، مولانا ابوالعطاء صاحب، قاضی محمد نذیر صاحب اور مالک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ نے سوالات کے جواب دیئے.یہ اجلاس ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا...پانچواں اجلاس ڈھائی بجے شروع ہوا.اس اجلاس میں شمس الدین خان صاحب پیشتا در، چو ہدری احمد مختار صاحب کراچی اور شیخ مبارک احمد صاحب نے باری باری صدارت کی.قاضی محمد نذیر صاحب نے اطاعت کے موضوع پر قرآن کریم کا درس دیا.اس کے بعد پروفیسر بشارت الرحمن صاحب نے صحابہ کی امامت شعاری پر.مولا نا عبد المالک خان صاحب نے خلافت سے دلی وابستگی پر اشیخ محمد حنیف صاحب نے خلیفہ اسنج الثالث کی جاری فرمودہ تحریکات اور ہماری زمہ داریاں" کے موضوع پر تقاریر کیں ، بعد ازاں چوہدری شبیر احمد صاحب نے یہ بتایا کہ تحر یک جدید ہم سے کیا چاہتی ہے اور مولوی البوالمنیر نورالحق صاحب نے وقت جدید کے تقاضے پر اظہار خیال کیا ، آخر میں شیخ محمد احمد صا حب منظر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا جذبہ فدائیت واقعات کی روشنی میں بیان کیا.پونے پانچ بجے تقریبی کھیلوں کے لیے وقفہ ہوا.چھٹا اجلاس ساڑھے سات بجے شب نائب صدر محترم کی صدارت میں شروع ہوا.پہلے تقسیم انعامات کی کارروائی ہوئی اور نائب صدر محترم نے انعامات دیئے اس کے بعد مولوی محمد صاحب نے مشرقی پاکستان میں صداقت احمدیت کے دو نشانات بیان کئے ، پھر شیخ مبارک احمد صاحب نے تقریر کی.موضوع تھا ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی ہو.اس اجلاس کے دوران حضرت امیر المومنین مقام اجتماع پر تشریف لے آئے حضور له الفضل ۵ نبوت / نومبر "
۲۵۴ نے اسکاٹ لینڈ کے رہنے والے ایک تو سلم انگریز عبدالجبار سیل کی بیعت قبول فرمائی.یہ صاحب میں سال قبل اس بر صغیر میں آئے تھے میں مسلمان ہوئے اور میں شادی کی وہ کچھ عرصہ سے احباب کراچی کے زیر تبلیغ تھے حضور پون گھنٹہ تشریف فرما رہے.بیعت کے بعد حضور نے دعا فرمائی ، حضور کی واپسی کے بعد شوری کا اجلاس ہوا جو ساڑھے دس بجے تک جاری رہا.ساتواں اجلاس بروز اتوار بعد نماز تهجد و فجر مواد شیخ مبارک احمد صاحب نے قرآن کریم کا درس دیا اس کے بعد مرزا برکت علی صاحب اور حکیم سید پیر احمد صاحب آف سیالکوٹ اور مولوی قدرت اللہ صاحب سفوری نئے ذکر جیب کے سلسلہ میں اپنی روایات بیان کیں.اس اجتماع کا آٹھواں اور آخری اجلاس نو بجے شروع جوا قاضی محمد نذیر صاحب نے قرآن کریم کا درس دیا پھر شیخ عبد القادر صاحب مربی نے موعود کل ادیان کے موضوع پر تقریر کی اس کے بعد پروفیسر حبیب اللہ خان نے حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے حضور کی بعثت کی غرض بیان کی.بعد ازاں مرزا عبدالحق صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فتح و نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی روشنی میں بیان کئے، پھر مولانا غلام احمد صاحب فرخ نے حضور کے ملفوظات میں ان وعدوں کا جو ذکر ہے وہ بیان کیا.بعد ازاں مولانا ابو العطاء صاب نے یہ واضح کیا کہ ان وعدوں کی روشنی میں انصار اللہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں پھر شیخ مبارک احمد صاحب نے ان وعدوں کے پیش نظر تربیت اولاد کے فریضیہ پر اور مولانا عبدالمالک خانصاحب نے ان وعدوں کو قریب تر لانے کیلئے دعاؤں کی ضرورت پر روشنی ڈالی، ابھی یہ تقریر جاری تھی کہ حضرت امیرالمومنین اختتامی خطاب کے لیے تشریف لے آئے حضور کے خطاب کو سننے کیلئے استقدر لوگ تشریف لائے کہ طلبہ گا ہائیر ہوجانے کے بعد یا مہر میدان میں میں بیٹھے گئے حضور نے سورہ حم سجدہ کی آیات اس تا ۲۴ سے آغاز کیا اور ان الذین قالوا ربنا الله شهر استقاموا تتنزل عليهم الملكة - من المسلمین کی تفسیر بیان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیم کی قوت دیتیہ کے طفیل انعامات الہیہ کے..جاری ہونے اور پھر اس آخری زمانہ میں حضور ہی کے طفیل اپنی انعامات کے از سر نو عام ہونے پرتفصیل سے روشنی ڈال اور ان انعامات کے حصول کی راہ میں پیش آنیوالے خطرات یعنی عجب خود پسندی، کبر و غرور اتعلی و تفاخر وغیرہ اور ان کی مغفرتوں کو تفصیل سے بیان کیا اور ان خطرات سے بچنے کے قرآنی طریق کی وضاحت فرمائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کے ارشادات بھی پڑ سنگر سنائے.اس سلسلہ میں حضور نے خلافت راشدہ کی اہمیت پر روشنی ڈال اور موعود کے ارشادات پڑھ سلسہ میں حضورنے راشدہ کی پر حدیث نبوی الا ماه جنة کی تشریح فرمائی.آخر میں حاضرین نے حضور کی اقتدا میں عہد دہرایا پھر تمامی دا کیساتھ ایک بجے اجلاس برخاست ہوا.له الفضل ۵ نبوت نومبر ۱۳۳۵ پیش له
۲۵۵ مجلس انصاراللہ مرکز یہ کا اٹھارہواں سالانہ اجتماع ۱۳۵۲ مجلس انصارالله مرکز یہ کا ۱۸ واں سالانہ اجتماع مورخه ۹ ۱۰ ۱ نبوت / نومبر احاطر انصاراله - - سال است میں منعقد ہوا.اجتماع کا افتتاح حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجتماعی دعا اور اپنے خطاب سے فرمایا.حضور تین بیک به منظیر مقام اجتماع میں تشریف لائے.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس کے بعد فرمایا.حضرت امیر المومنین کا افتتاحی خطاب میں نے اس دفعہ نظام، افعال اور جنات کے سالانہ اجتماعوں کے مواقع پر جہ تقاریر کیں ان میں ایک ہی مضمون مختلف پیرایوں میں بیان کیا تھا اور وہ یہ کہ ابتدائے آفرینش سے شیطان اور انسان کے درمیان جو جنگ شرون ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی.یعنی آپ نے اس جنگ کا انتاج فرمایا.جس کی آخری لڑائی آپ کے ارتی جرنیل مہدی معہود کے زمانہ میں مقدر تھی اور جس کے نتیجہ میں شیطان نے ہمیشہ کے لئے مغلوب ہونا تھا اور ساری دنیا نے اسلام کے جھنڈے تلے اُمت واحدہ بن کر جمع ہو جانا تھا.اگر یہ حقیقت ہے کہ مہدی معہود کی بعثت ہو چکی ہے اور خیر و شر کے درمیان آخری لڑائی شروین ہو چکا ہے تو پھر سوچو اور غور کرو کہ مہدی معہود کی طرف منسوب ہونے والی جماعت پر اور اس کے ہر حصہ ار بر طبقہ پر کتنی عظیم اور اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں گور نبی اکرم صلی الہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں باطل کا حملہ پسپا ہو چکا ہے لیکن روحانی اسلحہ کے ساتھ باطل پر جارحانہ یلغار بھی جاری ہے اور ہو.سه الفضل ار نبوت / نومبر ۱۳۵۷ میش / 1464
۲۵۶ یہ اس وقت ختم ہو گی جب کہ نور محمدی تمام بنی نوع انسان کو اس طرح اپنی پیٹ میں لے لے گا کہ ظلمت کہیں سے بھی نہ داخل ہو سکے گی.یہ عظیم جمہ کا میا بی کے ساتھ سرانجام دینے کے لئے ضرور کیا ہے کہ ماری جماعت کے مرد اور میں بچے، بوڑھے اور جوان سب ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کریں.جماعت کے کسی حصہ میں بھی کمزوری کو برداشت نہیں کیا جا سکتا.مردوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو سنبھا لیں اور ان کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں ان میں کوئی کمزوری نہ آنے دیں.باپ بیٹا مرد عورت سب کو پہلو بہ پہلو اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں.حضور نے فرما یا یہ مضمون میں نے اس وقت بعض اور انتظامی تبدیلیوں کے سلسلہ میں بطوری منظر بیان کیا ہے.اس کے بعد حضور نے جماعت کی اندرونی تنظیموں کو مضبوط کرنے اور ان کی کار کردگی کور بہتر بنانے کے لئے بعض اہم انتظامی تبد ینیوں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ جاعت میں سائیکل چلانے اور سائیکلوں پر مشتمل وفود کے ذریعہ اضلاع کے تمام دسیات سے رابطہ قائم کرنے اور اس طرح لوگوں کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے کی جو تحریک کی گئی تھی اس کے سلسلہ میں مجھے انصاراللہ کی مساعی میں کمزوری نظر آتی ہے.جبکہ خدام الاحمدیہ نے بہت ہی خوش کن کام کیا ہے.لہذا میں اعلان کرتا ہوں ابر آئندہ انصار اللہ کے اراکین دو حصوں پر مشتمل ہوا کریں گے یعنی : (1) صف اقول جس میں ۵۵ سال سے زائد عمر کے انصار شامل ہوں گے.(ب) صف روم جو ۲۰ سال سے ۵۵ سال تک کی عمر کے انصار پر مشتمل ہوگی.- صدر مجلس انصاراللہ مرکزہ یہ کے ساتھ ہی ایک مہرہ نائب صدر کا مقرر کرتا ہوں جن کی عمر م اور ۲۷ برس کے درمیان ہونا ضروری ہے.نائب صدر کا انتخاب اسی اجتماع کے موقعہ پر کر لیا جائے انصاراللہ کی صف دوم کے لئے نائب صدر کے تقریر کے سلسلہ میں شور تا نے تین نام تجویز کئے تھے حضور نے بعد میں ارشاد فرمایا کہ میں ان تینوں میں سے کسی کو بھی مسلسلہ کی دوسری خدمات کی وجہ سے اس کام کے لئے فارغ نہیں کر سکتا.حضور نے ایک سال کے لئے چودھری شبیر احمد صاحب کو نائب صدر صف دوم ناتر در فر ما یاریست سے بض ماہنامہ انصار الله فتح / دسمبر ۱۳۵۲ 1967.
۲۵۷ - اطفال الاحمدیہ کا نظام میں آئندہ دو صفوں پرمشتمل ہوگا.صف اول میں موا سے 10 سال تک کی ۱۵ عمر کے بچے ہوں گے اور صف دوم میں ۷ سے ۱۲ سال کی عمر کے بچتے.حضور نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ آئندہ سات برس کے اندر ہیں ہزار سائیکل سوار انصار الله ہیں سے.دس ہزار اطفال الاحمدیہ میں سے اور نشتر ہزار خدام الاحمدیہ میں سے تیار ہوتے چاہئیں تا کہ یہ وسیع پیمانے پر رفاہی کاموں میں حصہ لے سکیں.دیہات سے رابطہ قائم کریں اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کر سکیں.یہ ہم محنتوں کو برقرار رکھنے کے لئے بھی مفید ثابت ہو گی اور دیگر بہت سے فوائد بھی اس انشاء اللہ حاصل ہوں گے.حضور نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ سائیکلوں کے وفود کے ذریعہ دیہات سے رابطہ قائم کرنے کی تحریک کے سلسلہ میں میں نے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا جو اعلان کر رکھا ہے اس کے تعلق میں ہر سال ۱۵ ستمبر تک کی موصولہ رپورٹوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جایا کرے گا.حضور نے انصار اللہ کو یہ تحریک بھی فرمائی کہ تعلیم القرآن کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور جو لوگ قرآن کریم ناظرہ یا با ترتبہ پڑھنا چاہیں انھیں ضرور پڑھائیں.یہ بہت ضروری اور اہم تقریب ہے چار بھی کر و پچاس منٹ پر حضور نے اپنا خطاب مستر فرمایا جس کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.اس سال کے اجتماع میں رمضان المبارک اور جلسہ سالانہ کی قربت نیز گندم کی بجائی کا وقت آجانے کے باوجود ۵۳۵ مجالس کے ۹۵۲ نمائندگان ۱۹۵۷ تعداد نمائندگان اراکین اور ۱۵۰۰ زائرین نے شرکت کی.اجتماع کے کل آٹھ اجلاس ہوئے جن میں مندرجہ ذیل اصحاب نے مختلف اوقات رو داد اجتماع میں صدارت کے فرائض سرانجام دیئے..میاں بشیر احمد صاحب ناظم اعلیٰ بلوچستان مولوی عبد المجید صاحب نعیم اصلی کراچی تقریشی عبداشتن صاحب ناظم اعلی سندھ رکن الدین صاحب ناظم اعلی سرحد - مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ صوبائی امیر پنجاب چوہدری احمد الدین صاحب ناظم ضلع لائیکیوں عبداللطیف صاحب ستکو ہی ناظم ضلع لاہور.۱۳۵۲ هش الفضل ۱۴ نبوت / نومسیر رش
YOA مولانا نذہ سید احمد صاحب مبشر - مولانا ابوالعطاء صاحب نائب صدر - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اختتامی خطاب کے علاوہ پروگرام کی تضامین درج ذیل ہیں.خطاب صدر محترم ۲۰ سیرت صحابہ حضرت مسیح موعود -۲ درین قرآن کریم - ۵ علمی موضوعات پر تقاریہ - و انعامی تقریری مقابلہ کی تقاریر - ۱۳ سوال وجواب کا پروگرام.دو مرتبہ سیرت النبی پر تقاریر - ۴ درس حدیث - -p- دریس ملفوظات حضرت سیے موٹور سیرت صحابہ کرام - ۳ اجلاس شوری.ایک اجلاس شوری میں تجاویز وہ بجٹ پر غور کے علاوہ نائب صدر کے تقریر پر بھی غور کیا گیا اور تین نام تجویز کئے گئے یہ اجلاس پونے آٹھ سے رات کے بارہ بجے تک جاری رہا.انعامی تقریری مقابلے اور ورزشی مقابلہ بات حسب معمول ہوئے.سوال و جواب کا پروگرام دو مرتبہ ہوا.۱۰ نبوت کو اجلاس سوم میں مولانا ابوالعطاء صاحب، شیخ مبارک احمد صاحب اور قاضی محمد نذیر صاحب نے جوابات دیئے.دوسری مرتبہ آخری اجلاس میں مولوی محمد منور صاحب.ملک سیف الرحمن صاحب اور مولانا عبد المالک خان صاحب نے جوابات دیئے.ار نبوت کو بعد نماز فجر ذکر حبیب کے موضوع پر صحابہ نے اپنی روایات سنائیں.اس مجلس کا انتظام پروفیسر صیب اللہ خان کے سپرد تھا.قائدین مرکز یہ نے حسب معمول اپنی سالانہ رپورٹ میں پڑھ کر سنائیں.سیم انعامات استاد کار روائی آخری اجلاس میں ہوئی.حضرت امیرالمومنین نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.اجلاس کے دوران صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے دو مرتبہ انصار سے خواب کیا.۱۰ نبوت کی شب کو آپ نے اپنے سفر چین کے نہایت مفید، دلچسپ اور معلومات افزا حالات سنائے.آپ کی یہ تقریر تین گھنٹہ سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی.آپ نے بتایا کہ گو آج چین میں اشتراکی نظام قائم ہے لیکن ان کا طریق کار اور اطوار دیگر اشتراک مالک سے مختلف ہیں.اہل پین اسلام کی تمدنی تعلیم کے بہت سے اہم حصوں پر (یہ نہ جانے کے بادہ بود کہ یہ اسلامی احکام ہیں ، بڑی مترک
۲۵۹ عمل کر کے ان کے ظاہری فوائد سے متمتع ہو رہے ہیں.ہمیں یقین ہے کہ جب اللہ تعالئے اہل چین کی روحانی آنکھ کھول دے گا اور وہ اسلام سے مشرف ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے تو چونکہ وہ اسلامی تعلیم کے بعض پہلوؤں پر پہلے ہی سے گامزن ہوں گے اس لئے وہ بڑی آسانی کے ساتھ روحانی منازل کو طے کر کے اللہ تعالے کی دینی اور دنیوی برکات سے متمتع ہو جائیں گے.اس کے بعد آپ نے اسلام کی تمدنی تعلیم کے بہت سے اہم پہلوؤں مثلاً اطاعت نظام، خوش خلقی، بدکاری اور بے حیائی سے اجتناب مہمان نوازی، تعاون یا ہمی، رضا کارانہ خدمت ، نظم وضبط اور صفائی وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد نہایت دلچسپ مثالوں سے بہلایا کہ کس طرح ان امور پر بڑی حد تک اہل چنین عمل رہے.آپ اسلام کر یہ ہے ہیں ، آپ نے انصار کو توجہ دلائی کہ چونکہ اللہ تعالے نے ہمیں اسلام کا عملی نمونہ ظاہر کرنے کی ذمرواری سونچا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے معاشرہ میں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں ان سے بڑھ کر اسلام کے تمدنی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کر یں.دوسری مرتبہ اور نبوت کو آخری اجلاس میں حضرت امیر المومنین کی تشریف آوری سے قبل " باہمی اخوت ومحبت کے بارہ میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر خطاب کیا اور قرآن کریم، احادیث اور حضرت میں موجود علیہ السلام کے ارشادات اور نمونہ کی روشنی میں احباب کو توجہ دلائی کہ وہ اپنی عملی زندگیوں میں اس کا نمونہ پیش کریں.حضرت امیر المومنین کا اختتامی خطاب حضور سوا گیارہ بجے اختتامی خطاب کے لئے مقام اجتماع پر تشریف لائے.نظم کے بعد پہلے حضور نے انعامات تقسیم فرمائے اس کے بعد فرمایا کہ مری ہدایت پرانصار اللہ کی مجلس شوری نے نائب صدر منتخب کرنے کے لئے تین ناموں کی سفارش کی ہے.لیکن بعض وجوہ کی بنا پر میں ان سے کسی کو بھی اس عہدہ کے لئے فارغ نہیں کر سکتا.کیونکہ پہلے ہی ان کے سپرد سلسلہ کے اہم کام ہیں.حضور نے فرمایا آئندہ سال کے اجتماع میں جب حسب قواعد انصار اللہ کے صدر کا انتخاب ہو گا اس موقعہ پر نائب صدر کے لئے بھی سفارش پیش کر دی جائے.سر دست میں ایک سال کے لئے نائب صدر مقرر کر دوں گا اور اس ه الفضل مار نبوت / نومبر ان باش ۱۳/ 81964
کا اعلان بعد میں کر دیا جائے گا و حضور نے بعد میں ہچو ہدری شبیر احمد صاحب کو نامزد فرمایا ) ویسے انصار الله کی تنظیم میں نائب صدر کا عمومی عہدہ پہلے بھی موجود ہے.مگر وہ صدر نامزد کرتا ہے.یہ عہدہ بھی سردست اسی طرح قائم رہے گا.آج میں دو بڑی اہم اور ضروری دعاؤں کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں.ان میں سے ایک یہ ہے - کہ اللہ تعالے نے قرآن کریم میں فرمایا قال الرسول نيرب ان قومي اتخذوا هذا القرآن موجو مل - (الفرقان) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ امت مسلمہ پر ایسا آنے والا تھا جب کہ اس کے بعض لوگ قرآن کو مہجوسہ کی طرح چھوڑ دیں گے.ہمیں بڑی کثرت سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالے جماعت احمدیہ پر جو اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے قائم کی گئی ہے.کبھی ایسا وقت نہ لائے جب کہ اس کا کوئی گئی حصہ یا گروہ بھی قرآن کو مہجور کی طرح پھوڑ دے.قرآن ہمیں دل و جان سے عزیز ہے.یہ ہماری سب سے عظیم متاخ ہے.یہ ہمارا روح رواں ہے جس کے بغیر ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے.ہم تو اس کی خدمت کے لئے اور اس کی عظمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں لہذا ہم تو قرآن سے دوری اور بعد کا تصور بھی نہیں کر سکتے.قرآن سے دوری بڑا ہی بھیانک نتیجہ پیدا کرتا ہے.یہ اسی دوری اور بعد کی ایک بھیانک شکل ہے کہ آج ہماری جماعت پر نعود باشد تعریف قرآن کا نا پاک الزام لگا کر ملک میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے....ہمیں خداتعالے نے اپنے فضل وکرم سے رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے ماتحت مبعوث ہونے والے مہدی معہود کو شناخت کرنے کی توفیق دی ہے.ہمارا یقین و ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی حقیقی شان کو دنیا پر ظاہر کیا ہے اور اس کی ایسی تفسیر کی ہے.جو موجہ دہ زمانہ کی ضروریات اور اس کے مسائل کو حل کرتی ہے.حضور نے صرف سورۃ فاتحہ کی ہی ایسی حسین تفسیر کی ہے کہ باوجود چلینچ دینے کے آج تک عیسائی دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکی.کیا اس حسین تفسیر کو چھوڑ کر ہم ان تفاسیر پر انحصار کر لیں.جن میں انبیاء پر تھوٹ بولنے کے الزام لگائے گئے ہیں.ہم پرانی تفاسیر کی افادیت سے انکار نہیں کرتے.ان میں بڑی اچھی باتیں اور قیمتی نکات موجود ہیں جنہیں پڑھنے اور انہیں یاد رکھنے کی آج بھی ضرورت ہے لیکن کتاب مکنون ہونے کے اعتبار سے خدا تعالے کے مظہر بندوں پر
نئے نئے قرآنی معارف و حقائق کے اظہار کی ضرورت بھی مسلم ہے تاکہ زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات اور نئے پیچیدہ مسائل کو قرآن کی روشنی میں حل کیا جائے اور یہی دو چیز ہے جو ہمیں مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئی.آپ نے مبعوث ہو کر ہمیں یہی نصیحت فرمائی ہے کہ دیکھو قرآن کو بھی مہجور کی طرح نہ چھوڑتا.اسے چھوڑ کر تو زندگی کا کوئی مزاہی نہیں ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ جبہ دانستہ طور پر قرآن کے کسی ایک محکم کو بھی چھوڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.لہذا ہمیں اور خصوصیت کے ساتھ انصار کو ہمیشہ ہی نہیں دوگا کرنی چاہیے کہ خدام پر یا ہاری اور ر پر بھی ایسا وقت نہ لائے جب کہ ہم بھی قرآن سے لیکر اور ڈوری اختیار کرلیں.حضور نے دوسری تحریک دعا کرتے ہوئے بنی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ حضور کا دائرہ استعداد اور حضور کی صلاحیتیں تمام دیگر بنی نوع کی صلاحیتوں سے زیادہ ہیں لہذا ان تک پہنچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن اسوہ نبی پر چلتے ہوئے ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ہم بھی اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما کو ان کے کمال تک پہنچانے کی کوشش کریں اور یہ خدا کے فضل اور دعاؤں کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس لئے جماعت کو بالعموم اور انصار کو بالخصوص یہ دعا کرنی چاہیے اور اس کے مطابق یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیے ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ استعداد میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں نشوونا کے کمال تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس طرح ہم رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کر کے حضور سے ایک گھونا ٹائلٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں.خواہ یہ تماثلت بڑا مقام رکھنے والے کے ساتھ ایک اور فنی مقام رکھنے حوالے کی ہی کیوں نہ ہو.آخر میں حضور نے انصار سے ان کا عہد وسر درایا اور لمبی دعا فرمائی.پھر جملہ انصار کو دعا دیتے ہوئے انہیں واپس جانے کی اجازت فرمائی.
Aha کوائف بابت سالانہ اجتماعات مجلس انصاراللہ مرکزیہ نوٹ : - تعداد مجالس سے مراد وہ مجالس ہیں جن کے نمائندے اجتماع میں شریک ہوئے.درس تقاریر سیرت درس كتب تقارير تقاد نیز سیرت صحابه علمی در تربینی تعداد درس تعداد تعداد تعداد مجالس نمائندگان اراکین زائرین قرآن کریم دست مسیح موعود سيرة النبي صحابه کرام رضد مسیح موعود تقاریر 1 ۳۲۳ م اس ۹۲ ۵۶ 1900 4.۴۰۰ ۱۳۳۵ 1904 1 1-1- ۵۰۲ ۲۶۰ ۱۰۴ ۱۹۵۷ 1 ۶۰۰ ۲۳۳ 94 2 ۹۸۱ ۷۳۵ ۱۵۷۵ ۸۵۳ نم ۳۱ 14..۸۳۵ ۴۳۰ 141 ١٩٥٩ 1940 s رشمار
Aha تعداد تعداد تعداد تعداد درس درس درس تقارير تقاریر سیرت نمائندگان اراکین مجالس كتب مسیح موعود سيرة النبي م زائرین قرآن کریم حدیث صحابه کرام صی به مسیح موعود تقاریر سیرت علمی و تربیتی تقارير ۱۵ ۱۵ 16 1 سلام 2 n ۲ ۱۸۱۵ ۹۸۰ ۴۶۲ ۱۳۴۱ A 1947 ۱۹۵۲ ۱۱۹۴ ۱۳۴۲ ۵۵۵ ۲۲۸ 4 ۱۹۶۳ ۱۹۳۱ ۱۰۲۵ ۲۵۴ ۱۳۴۳ |- ۱۹۶۵ عمر میں بوجہ جنگ اجتماع نہیں ہوا ۱۳۴۳ 1940 ٢٠٠١ ۱۳۴۰ छपक ۱۳۴۵ ۲۶۰ 11 1949 1900 ۱۵۶۲ ۱۳۴۶ ۶۵۲ ۳۲۲ ۱۲ 1442 T ۲۰۵۷ ۱۳۴۷ 4F- ۳۵۵ ۱۳ 1940 ۲۰۶۰ 10A0 ۷۴۰ ۱۳۴۵ ۱۴ 1949 1440 ۹۲۵ ۴۶۵ ۱۳۴۹ 10 144.2
۲۶۴ 1.تعداد تعداد یش مجانس تعداد نمائندگان اراکین تعداد درس درس درس کتب تقارير تقاریر سیرت تقاریر سیرت علمی و تربیتی زائرین قرآن کریم حدیث مسیح موعود سيرة النبي " صحابہ کرام نہ صحابہ سے موعود تقاریر 1 - تهم سم Y سم لم I ۱۳۵۰ ۱۸۳۳ JA J+44 04.1941 140- ۱۵۹۸ ۹۷۳ ۱۳۵۱ ۵۳۵ ۱۹۷۲ 10.۱۳۵۲ ۱۹۵۷ ۹۵۳ ۵۳۵ (A 194H بوجہ فسادات اجتماع نہیں ہوا دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کے باعث اجتماع نہیں ہوا اجتماع نہیں ہوا ۱۳۵۴ X ۱۹۷۴ ۱۳۵۴ ۱۹۷۵ ۱۳۵۵ 19 1944 ۱۳۵۶ ۲۱۱۵ ۷۳۴ ۵۸۴ 1924 ٢١١٠ ۲۴۳۷ ۱۰۵۰ ۶۲۷ ۲۱ 196^
سولھواں باب مجالس بیرون کے سالانہ اجتماعات اجتماعات کی افادیت مرکزی مجلس انصارالہ کے سالانہ اجتماع پر جو روحانی اول پیدا ہوتا ہے اور جس قدر محمدگی کے ساتھ تعلیم و تربیت کا کام سرانجام پاتا ہے.نیسہ باہمی اخوت و محبت کی جو پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے اس سے متاثر ہو کر قدرتاً بیرونی مجالس میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انھیں بھی علاقائی اور ضلعی سالانہ اجتماعات منعقد کرنے چاہئیں.چنانچہ اس کی شوری میں یہ فیصلہ ہوا کہ مرکزی مجلس کے سالانہ اجتماع کی طرز پر تربیتی اجتماع ہر ضلع میں منعقد ہونا چاہیے.مرکز بھی اس امر کا خواہشمند تھا کہ دوسری مجالس میں حرکت پیدا ہو اور وہ اپنی اپنی جگہ اجتماعات کا انتظام کریں.اس غرض کے لئے مرکز مناسب رنگ میں تعاون کے لئے تیار تھا.چنانچہ بیرونی مجالس میں بھی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا.جس میں مرکزی نمائندے بھی شریک ہوتے رہے.صدر مجلس نے بھی بعض مواقع پر شرکت کی اور کبھی صرف پیغام بھجوا کر تقلبی اور روحانی شرکت کا اظہار کیا.ہے انصار اللہ کی اپنی گاڑی ہونے کی وجہ سے مرکزی نمائندوں کے لئے بیرونی اجتماعات میں شرکت کرنے کیلئے بڑی سہولت پیدا ہو گئی اور اس سے خاطر خواہ رنگ میں فائدہ اٹھایا گیا بعض مواقع پر حضرت امیر المومنین کے ارشادات ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ احباب کو سنائے گئے اور جماعت کے پھوٹوں اور بڑوں اور مردوں اور عورتوں کو حضور کے مواعظ حسنہ حضور کی اپنی آواز میں کتنے کا موقعہ نصیب ہوا.بعض جگہ شبیر احمد صاحب کے تعاون سے میجک لیٹرن کے ذریعہ تبلیغی اور تربیتی سلائڈز دکھانے کا بھی انتظام کیا گیا جو بالخصوص چھوٹے.
قصبات اور دیہات میں بے حد مفید ثابت ہوا.تجربہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایسے مقامی اجتماعات مجالس میں بیداری پیدا کرنے ، ان کا حوصلہ بڑھانے، ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے ، قیادت و تنظیم کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور باہمی میل بول ، محبت و اخترت اور تعاون کی روح کو فروغ دینے میں بے حد مفید ثابت ہوئے.ان کی وجہ سے نہ صرف اجتماعی کارکردگی کا معیار بلند ہوا بلکہ انفرادی کارکردگی بھی بہتر ہو گئی.انصار کو اپنے کاموں میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی.پھر مرکز سے وابستگی اور تعلق میں بھی نمایاں ترقی ہوئی.اکثر مقامات پر اجتماعات بڑے کامیاب اور پر رونق رہے اور قرب و جوار کی مجالس نے ان سے خاطر خواہ طریق پر فائدہ اٹھایا.جہاں یہ اجتماعات اراکین کے ازدیاد ایمان اور پختگی اعتقاد و عمل کا موجب ہوئے وہاں غیر انہ جماعت افراد تک پیغام حق پہنچاتے میں بھی مفید اور محمد ثابت ہوئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے، صدر مجلس اور حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہا نے مختلف مواقع پر جو پیغامات وقتاً فوقتاً بھجوائے ان میں سے بعض کا متن درج ذیل ہے.پیغامات انصار اللہ خیر پور ڈویژن کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر جو ۱۱ - ۱۲ تبلیغ / فروری امان کو باندھی ضلع نواب شاہ میں منعقد ہوا.حضرت امیر المومنین نے مندرجہ ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال کیا."My message is that God may enable you to become Ansarullah in true sense of the term.* Khalifatul-Masih Rabwah ماہنامہ انصار الله امان / مارچ ۱۳۴۰ ریش 1941
سابق سندھ بلوچستان کے علاقائی اجتماع منعقدہ اس پر صدر محترم کا پیغام ۱۳۴۰ مورخہ ۲۳ - ۲۴ تبوک /ستمبر ۱۳۴ پاش کو مجالس انصاراللہ سابق صوبہ سندھ ، بلوچستان اور ساس - داری کراچی کا جو سالانہ اجتماع احمدیہ ہال کراچی میں منعقد ہوا، اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس نے جو پیغام ارسال فرمایا وہ درج ذیل ہے.پیغام صدر مجلس ، دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئیے کہ مامورین کی بعثت کی اصل عرض تزکیہ نفس ہوتی ہے یعنی دلوں کی صفائی کا ان میں خدائی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی مقصد کے لئے تشریف لائے تھے.حضور علیہ السّلام نے فرمایا :- د میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے بہائیں.اس سے کچھ لئے فائدہ نہیں.تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.ہماری یہ غرض ہرگفتہ نہیں کہ میسیج کی وفات حیات پر تھگڑے اور مباحثات کرتے پھرو.یہ ایک ادنی سی بات ہے..ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دور ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں ! الملفوظات جلد دوم ص ۷۲-۷۳) خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور انصاراللہ کے قیام کی اصل عرض بھی یہی ہے کہ تا ہر مجلس مخصوص طور پر اپنے اراکین میں یہی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے.انصار اللہ کی طرح خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی اپنی جگہ اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، اور خدا تعالے کے فضل سے اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں مگر جماعت احمدیہ میں انصار الله کو جو مقام حاصل ہے اس کی وجہ سے انصار پر انج سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ه: ماہنامہ انصار الله اخار/ اکتوبر ۱۳۴۰ بیش
+ کیونکہ سب کی نظریں ان پر ہیں.انصار کا طریق عمل اعدام و اطفال کے لئے نمونہ کا کام دیتا ہے.اسلئے میں اپنے انصار بھائیوں سے عرض کروں گا کہ وہ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور خانہ یا جماعت ادا کرنے، قرآن مجید کے معارف سیکھنے ، تقویمی ، راست بازی اور دیگر اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے اور سلسلہ کی مالی تحریکات اور دوسرے نیک کاموں میں حصہ لینے کی ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کریں اور اس طرح اپنے اندر ایسی نیک تبدیلی کرلین که خدام و اطفال تو الگ رہے دنیا کی دوسری قومیں بھی ان سے نیک اثر قبول کریں.مگر اس کے لئے بہت زیادہ توجہ ، بہت زیادہ احتیاط اور بہت زیادہ محاسبہ نفس کی ضرورت ہے.جب ہم اپنے اندر یہ رنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائینگے کو دنیا خود اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائے گی کہ ایک زندہ اور فعال جماعت یہ ہے.اللہ تعالیٰے ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمارے دلوں کو دھو دے تا وہ خفیہ دان میں جلوہ گر ہو جائے.آمین.فقط آپ کا بھائی مرزا ناصر احمد صدر انصار الله مرکز یه ۲۰ ستمبر الشد ضلع نواب شاہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر ۱۹۷۲ء حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس کا پیغام مجالس انصاراللہ ضلع نواب شاہ کا پہلا سالانہ اجتماع مور تخر ۱۷ - ۱۸/ امان / ماراج می اش مروارید میں منعقد ہوا.اس موقعہ پر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے قریشی عبد الرحمن شاید ے: ماہنامہ انصار الله اپریل اید
صاحب ناظم اعلی مجلس انصاراللہ سابق صوبہ سندھ و بلوچستان کی درخواست پر انصار اللہ کے نام جو پیغام ارسال فرمایا اور بعد اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں پڑھا گیا وہ درج ذیل ہے :- برادران ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ گذشتہ سے پیوستہ سال بھی نہیں باندھی کے اجتماع میں شریک ہونے سے قاصر یہ ہا اور ناظم اعلیٰ مجالس انصار الله سابق شدھ و بلوچستان کے پینم اصرار کے باوجود اس سال بھی میں مجلس مشاورت کے قرب اور دیگر مرکزی مصروفیات کی وجہ سے آپ کے اس اجتماع میں شریک نہیں ہو رہا جس کا مجھے افسوس ہے.مکرم مولوی ابو العطاء صاحب قائد اصلاح و ارشاد مجلس انصاراللہ مرکزیہ کو اس اجتماع میں شرکت کے لئے بطور نمائندہ بھجوا رہا ہوں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب بنائے اور اس میں شریک ہونے والے قبلہ احباب اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کریں.آمین.ہم ناچیز بندوں پر اللہ تعالے کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانہ کے مامور کو پہچاننے کی سعادت بخشی ہو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لو كان الايمان معلقاً بالثريا لثالة من جيل من ابناء فارس کے مطابق دنیا میں اس وقت آیا جبکہ دنیا سے اسلام اٹھ چکا تھا.فرمان نبوی کے مطابق وہ موجود مرسل دنیا میں دوبارہ اسلام لایا اور اس نے ہمیں اپنی بیش بہا تصانیف کے ذریعہ اسلام سے از سر نو روشناس کرایا.علوم سماوی کے ان بیش بہا خزائن کے متعلق حضور فرماتے ہیں:.مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میری کلام کو معرفت کے اسرار سے بھر دیا کہ جب تک انسان خدا تعالے کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہو اس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی ہے انجام آنهم ما طبع دوم) نیز فرماتے ہیں :.نجھے جو دیا گیا وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اور معارف الہی کے خزانے ہیں، جن کو افضلہ تعالئے اس قدر دوں گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے یہ (ازالہ اوہام ص ۸۵ علیہ ص ۸۵۶ طبع اول)
٢٤٠ پس آئیں قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ان بیش بہا خزائن سے معلم ہم سمجھے رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں جو دراصل انہیں کی تفسیر ہیں.ہم حضور کی تصانیف کو پوری تو قبہ اور ناک کے ساتھ بارہ بارا اور کثرت سے پڑھیں اور ان معارف و حقائق کی دولت سے مالا مال ہوں جو حضور نے ن میں بیان فرماتے ہیں تاہم ان کی روشنی میں سامی تعلیم پریل پیرا ہو ایک نئی زندگی حاصل کریں القلم امین کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- " ایسا ہی یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آب حیات خدا تعالے نے اس عاجز کو بھی دیا ہے.بے شک جو شخص اس میں سے بیٹے گا زندہ ہو جائے گا.بلا شہر میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مخدوم صاف نہ ہوں تو میں خدا تعالے کی طرف سے نہیں آیا.(ازالہ اوہام ص ۱۸ طبع سوم ) اللہ تعالے آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور خدمت دین کی توفیق عطا کر کے اپنا رضا کے عطر سے محسوج کرے آمین.والسلام مرزا ناصر احمد صدر مجلس انصار الله مرکز یہ ۲ الی ۱۴ ضلع خیر اور کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ایا میں اللہ کا پیغام مجالس انصار اللہ ضلع خیر پور کا دوسرا سالانہ اجتماع ۱-۲ احسان / جون ساله دیش کو گوٹھ نام مھر کے ماہنامہ انصار الله احسان جون ۱۳۳۱۷ ریش
٢٤١ مقام پر منعقد ہوا.قریشی عبدالرحمن صاحب ناظم اعلی انصار اللہ کی درخواست پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد متساب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے اس اجتماع کے موقعہ پر تو پیغام ارسال کیا اس کا متن درج ذیل ہے:.برادران کرام! نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود السلام عليكم ورحمتہ اللہ و برکاته یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مجالس انصاراللہ ضل خیر لوپ اپنا درسراسالات اتمام یکم درد ترین سایہ کوٹھ فلام محمد کے مقام پر منتقد کر رہی ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالے اس اجتماع کو گوناگوں برکات کا حامل بنائے اور یہ جماعت کی ترقی کا موجب ہوتے.اس اجتماع کے موقعہ پر مسکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ناظم اعلیٰ انصار اللہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ انصار اللہ کے نام ایک پیغامہ بھجواؤں.چنانچہ ان کی خواہش کے احترام میں چند سطور درج ذیل ہیں.اس موقعہ پر میں اپنے انصار بھائیوں سے یہ بھی عرض کروں گا کہ کسی نصیحت کوشن لینے سے ہی کام نہیں بنتا بلکہ اصل چیز عمل ہے لہذا اس طرف خاص توجہ دی جائے.اللہ تعالے نے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون.یعنی جن و انس کی آفرینش کا مقصد وحده لا شریک کی پرستش ہے.خدا تعالئے ہر قسم کی طاقت کا مالک ہے.وہ قادر مطلق ہے.اگر چاہتا تو ہر انسان کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا جو ہمیشہ انسان کو اسی کی یاد میں گھر کئے رکھتا جیسا کہ اس نے فرشتوں کے ساتھ کیا مگر اس نے انسان کے ساتھ ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے انسان کے اندر مختلف قسم کی طاقتیں پیدا کر کے اسے اختیار دے دیا کہ خواہ وہ برائی کی طرف ا جائے اور وہ ان اصلاح کرکے نیکی کا راستہ اختیار کرے گویا وہ انسان کو دونوں قسم کی قوتین وطا کر کے پھریہ کہا چاہتا ہے کہ کون ہے جو مقصد حیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی کی طرف مائل ہوتا ہے.اللہ تعالے اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ صرف اصول مقرر کر کے اور ہمارے لئے راہ مگر ملی ہی متعین کر کے خاموش نہیں ہو رہا بلکہ اس نے انبیاء کی رسالت سے ہر زمانہ میں اصول ہدایت کی تجدید
کا بندوبست کر دیا ہے.نبی یا مصلح دنیا میں آکر لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے.چنا نچہ اس کی آواز پر صرف وہی رو میں لبیک کہتی ہیں جو مادہ ہر کو مغلوب کر کے مادہ غیر کے تابع ہو جاتی ہیں.اس زمانہ میں جبکہ دنیا اپنی گمراہی اور ضلالت کی انتہا تک پہنچ چکی ہے اس الرحم الراحمین خدا نے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو اس دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور ہم کو اس خدائی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دی.لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو گئی اور وہ ہے اس خدائی آوازہ کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا کہ نبی نوع انسان کو حلقہ بگوش اسلام بنانے کی ذمہ داری.اس ذمہ داری کی ادائیگی اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ ہم ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عزم کر لیں مال و دولت کی محبت، اولاد سے پیار، دنیا کی بے جام آرام طلبی، جھگڑے اور فساد اس راہ میں مسائل ہوں گے اور چاہیں گے کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا دیں مگر آپ ان چیزوں کو ہر گنہ خاطر میں نہ لائیں اور اپنے اس عہد کو پورا کریں جو بیعت کے وقت آپ نے کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ بو اسلام قبول کر کے دنیا کے کار دبانہ اور تر تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.شیطان ان کے سر پہ سوار ہو جاتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے.نہیں.صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے.انھوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو پریہ کہ دور سے انھوں نے حاصل کیا یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگن گائے.کوئی امران کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا.میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا قلبہ اور قابو پالیتا ہے دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں.یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے.اور جو شیطان اور اس کے شکر پر فتح پاتا ہے.مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالے نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے، حل اد لكم على تجارة تنجيكم من عذاب اليمر.سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے، مسجد دردناک مذاب سے نجات دیتی ہے.پس میں بھی خدا تعالے کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ بھلی اور کمر عسلی تجارة تنجيكم من عذاب اليمن الحکم 16 جولائی سہ)
ایک دوسری جگہ حضور فرماتے ہیں :- میں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو.اللہ تعالے حصولی دنیا سے منع نہیں کرتا بلکہ حسنتہ الدنیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے.اللہ تعالے نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہو کہ میٹھے رہے بلکہ اس نے صاف فرمایا ہے کیس للانسان الا ما سعی.اس لئے مومن کو چاہیے کہ وہ جد و جہد سے کام کرے.لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنا لو.دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دنیا اس کے لئے بطور خادم اور مرکب کے ہو یا اختلا ملفوظات جلد ۲ ص ۹۲ ) الہ تعالے نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم یہ کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے آمین.مرزا ناصر احمد صدر مجلس انصارالله مرکز یہ ریجده 1941 ۲۲ مئی ۹۶ اید ال کرایا حضرت مرزان را صدای لالا لاله مرزی کا خطاب صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزہ یہ نے مورختہ اشیاء کو احمدیہ ہال میہ کراچی میں انصار اللہ کے ایک اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی متھی.اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل ہے.آپ نے فرمایا :-
اللہ تعالے کے انبیاء اور مامورین جب دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ایک آسمانی مشن لے کر دنیا میں آتے ہیں.ایک خاص مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے، جس کی تکمیل کے لئے وہ ایک عظیم الشان جد و جہد کا آغاز کرتے ہیں اور اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک کہ مقصد یہ تمام و کمال پورا نہ ہو جائے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت سید دار آدم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء ماسبق کی پیشنگوئیوں کیمطابق سیداله ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے تو آپ نے اینجا بعثت کا مقصد بیان کہتے ہوئے اعلان فرمایا مجھے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں انسانیت کے اس دور جدید میں سن بلوغ کو پہنچے ہوئے انسانی ذہن کے سامنے ایک ایسا لائحہ عمل رکھوں کہ جو اسے دینی اور دنیوی لحاظ سے ترقی کے معراج تک پہنچانے کا ضامن ہو اور انہیں ان کے مقصد حیات میں کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہو.آپ نے فرمایا.اسی لئے مجھے وہ شریعیت دی گئی ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے اور جس میں کسی ترمیم یا تنسیخ کی گنجائش نہیں اور اسی لئے یہ قیامت تک جاری رہے گی.خدا تعالے کا یہ بے مثل کلام جو مجھ پر نازل ہوا ہے اور جو قرآن شریف کی شکل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے حقائق ورقائق اور علوم و معارفت پڑ ہے.اس سے نہ صرف روحانی بیماریاں دور ہو کر روحانی لحاظ سے انسان کو صحت و تندرستی اور قوت و توانائی ملتی ہے بلکہ دنیوی مشکلات اور معاشرہ کی الجھنوں کا علاج میں اسی میں مضمر ہے.آئندہ روحانی بیماریوں اور معاشرہ کی الجھنوں کو دور کرنے کے سلسلے میں ذہنی و فکری اور علمی و عملی لحاظ سے جو اشکال بھی پیش آئیں گی انہیں قرآن حل کرتا چلا جائے گا.آپ کے دعوئے رسالت اور اس آخری اور کامل شریعت پر جو لوگ ایمان لائے انھوں نے آپ کے دعوئی کی ہمہ گیر نوعیت اور زمانی و مکانی اعتبار سے اس کی بے انداز وسعت کے عین مطابق اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ ہمارا محض ایمان لے آنا ہی کافی نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کی روحانی و ماری فلاح کے لئے اپنی حیات گانہ کر دکھائی ہے اسی طرح ہم بھی اس راہ میں اپنی نہ ند گیاں وقف کر دکھائیں اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال ، اپنی عزتیں اور اپنی جانیں قربان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ذاتی فلاح کو بھی کافی سمجھتے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال کر آئندہ زندگی کے متعلق مطمئن ہو جاتے لیکن انہوں نے اسے کافی نہیں
سمجھا.وہ جانتے تھے کہ آنحضر صلی الہ علیہ وسلم تمام جہان اور تمام زمانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم صرف اپنی فلاح پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فلاح کو اپنا یہ نظر بنائیں.یہی وجہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو کامیاب بنانے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو گئے.انھوں نے جس والہانہ جذبہ کے ساتھ قربانیاں پیش کیں تاریخ اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.یہ میں ان کا یہ والہانہ جذبہ ہی تھا جس کے زیر اثر وہ تھوڑے ہوتے ہوئے میں عظیم تشکروں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اور بالآخر فتح یاب ہو کر ہی واپس لوٹتے تھے.پھر انہی صحابہ میں سے وہ جانباز پیدا ہوئے جودہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے.جغرافیائی حدود پھاند کر اور سمت در صور کر کے وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں پہنچے اور وہاں اسلام کا پیغام پہنچا کر اور مختلف اقوام کو اسلام کے آغوش میں لاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کیا.ہمیں بھی خدا تعالے نے ایک مامور کو جیسے اس نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مبعوث کیا ہے ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.وہ مامور اسلام کو دوبارہ زندہ کرتے اور تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ اسے ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے آیا ہے.ہم بھی کسی صورت اس بات پر اکتفا نہیں کر سکتے کہ ہم.نے خدا کے مامور کو مان لیا ہے اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اعمال درست کر لئے ہیں.بے شک یہ بھی ایک اہم فرض ہے اور اس کو ادا کرنا بھی ضروری ہے لیکن جسں مامور کو ہم نے مانا ہے، اس کی بعثت کی صرف اتنی ہی غرض نہیں ہے.اس کی بہشت کی غرض ساری دنیا کو حلقہ بگوش اسلام بنا کر تمام بنی نوع انسان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے.انہیں محمد مصطفے صلی الہ عار و مستم کی غلامی میں لاکر خدائے واحد کا پرستار بناتا ہے.پس ہمارا کام یہیں ختم نہیں ہو جاتا کہ ہم مامور سیرابیات لاکر اپنی زندگیوں کو اسلامی احکام کے مطابق بنائیں.ہمیں اس سے آگے قدم بڑھا کہ ایک بہت بڑی منزل سرکرنی تھے.ہمیں اس اہور کی لائی ہوئی روشنی لینی حقیقی اسلام کو دنیا کے ایک سرے سے سے کہ دوسرے سرے تک پھیلانا ہے اور دنیا کے چپہ چپہ پر خدا کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے.یہ کام اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت عظیم جدوجہد اور عظیم قربانیوں کا متقاضی ہے.ہم اس وقت تک چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتے جب تک کہ یہ عظیم مقصد پورا نہ ہو جائے.
۲۷۶ ہمیں جماعت کے کاموں میں ہمیشہ خدا تعالے کی شان اور اس کی قدرت نظر آتی ہے اور دل عجیب کیف و سرور سے بھر جاتا ہے.اللہ تعالے نے قدم قدم پر جماعت کو اپنی خاص تائید و نصرت اور فضل و رحمت سے نوازا ہے.ہم عملاً مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ خدا اتنا نے اس جماعت کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور پیروی کی برکت سے خدائی نصرت کو جذب کیا ہے اور جماعت کو اس سے مالا مال فرمایا ہے.جب خدا نے ہمیں اپنی خاص تائید و نصرت کا حامل بنا یا ہے تو پھر ہمیں ڈرکس بات کا ہے.قدرت کے عناصر بھی خدا تعالے نے ہمارے لئے مسخر کر دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اسی طرح دوسرے خناصر کا حال ہے.شہ الٹ کے فسادات جب عروج پر تھے تو اس وقت بھی خدا تعالے کی اسی موجودہ تائید و نسرت کی وجہ سے ہمارے دل مطمئن تھے کہ وہ ضرور اس جماعت کی حفاظت کرے گا.پس جیسا کہ خدا تعالے اپنے وعدہ کے موافق ہمیشہ ہماری حفاظت کرتا رہا ہے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کے دین کی خدمت کرنے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کر یں.اس کے دین کو دنیا میں پھیلائیں اورر پھیلاتے پہلے جائیں یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو، اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ تمام و کمال پوری ہو جائے.انصاراللہ کے اس بنیادی فرض کے ضمن میں میں انکو اُن کی ایک اہم ذمہ داری کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں اور انہیں دین کا خادم بنائیں.انصار اللہ میں سے اکثر صاحب اولاد ہیں.وہ اپنے بچوں سے بے غرض محبت کرتے ہیں اور اپنے بچوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی ان سے محبت کریں اور ان کے اطاعت گزارہ نہیں.اگر کسی کا بچہ آوارہ ہو جاتا ہے تو اس کے والدین کو بہت دکھ پہنچتا ہے لیکن ایک باپ اپنے بچے سے جتنی محبت کرتا ہے خدا اپنے بندہ سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے.اگر اس کا کوئی بندہ اس سے فائل ہو جائے تو اُسے یہ بات بہت شاق گزرتی ہے.میں تمہیں چاہیے کہ ہم اپنے بالوں سے بڑھ کر پس خدا تعالیٰ سے محبت کریں اور اپنے بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بھی خدا تعالے کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیں اور اس کے حقیقی عہدہ بن کر اس کے دین کی خدمت کو لازم پکڑیں.اسی طرح انصار اللہ کو چاہیے کہ وہ اپنی دوسری ذمہ داریوں کو میعی پوری مستعدی وجین کارکردگی ا
کے ساتھ ادا کریں.انھیں اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا چاہیئے اور اسی طرح مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش بجھتے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.نیز حضرت میسج موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی طرفف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سب کتب اللہ تعالے کی خاص تائید و نصرت کے ماتحت لکھی ہیں اور یہ حقائق و معارف سے اس طرح پر ہیں جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے.آپ نے قرآن کریم کے دریا کے زور دار بہاؤ کو اس خوبصورتی سے مختلف چینلز (CHANNELS) میں منتقل کیا ہے کہ ہر قوم اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور اپنی روحانی پیاس بجھا کہ اعلیٰ ترقیات حاصل کر سکتی ہے.مسیح موعود کے متعلق یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ خزانے تقسیم کرے گا لیکن لوگ ان خزانوں کو قبول نہیں کریں گے.ان خزانوں سے مراد روحانی خزائن ہیں نہ کہ دنیوی اموال.ہمیں ان روحانی خزائن سے خود بھی اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں اور دوسروں کو بھی یہ خزانے دینے چاہئیں تا کہ وہ بھی محروم نہ رہیں.ان سے نہ صرف ہم مالا مال ہوں بلکہ وہ بھی مالا مال ہوں اور ان کے بھی دامن استعداد پر ہو جائیں.اللہ تعالے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد ایسے حالات گردو نا فرمائے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بعثت کی غرض کو یہ تمام و کمال پورا کرنے والے ہوں اے ۱۳۴۰ بش نصاراللہ خیرپور ڈویژن کےسالانہ اجتماع منعقده با تبلیغ فروری سے کے موقعہ پر حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحبکا پیغام خیر یو پر ڈوشین کے انصار اللہ کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ آپ لوگ اس علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس میں عرب سے با ہر یا بالفاظ دیگر ہندوستان کے ساحل میں سب سے پہلے اسلام کی روشنی پہنچی اور ے ماہنامہ انصار اللہ جولائی تاء کے ماہنامہ انصار الله بابت امان / مارت ۱۳۴۰ ریش 41941
آپ کے علاقہ کے نام میں ہی غیر کا لفظ آتا ہے اور اسلام کا دوسرانام بھی خیر ہے.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے علاقہ کے احمدیوں کو پوری طرح منظم کریں اور اپنے علاقہ میں اس طرح تبلیغ و تربیت کا انتظام کریں کہ جلد سے میلہ اصلاح اور رشد کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں.اسلام وہ پیارا مذہب ہے کہ اگر اسے صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور پیش کرنے والے کا اپنا نمونہ بھی اچھا ہو تو وہ ایک عظیم الشان مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتا ہے.پس میری نصیحت یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے آپ کو علم و عمل کے لحاظ سے مقناطیس بنائیں اور ایسے مشک کا رنگ اختیار کریں جو خود بولے اور عطار کو بولنے کی چنداں ضرورت نہ رہے.اس وقت دنیا میں اسلام کا صرف نام رہ گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ اس نام کو پھر حقیقت کی روح سے مشرف کر دے گا لیں آپ خدا کا نام لے کر اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کریں اور دنیا میں صداقت کو پھیلائیں اور غلط فہمیوں کو دور کریں اور اپنے نمونہ سے ثابت کر دیں کہ آپ ایک خدائی جماعت میں جمعہ اپنے اندر ایک آسمانی نور رکھتی ہے.آپس میں پورا پورا اتحا د رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں بھیا سلوک کریں اور دعاؤں پر زور دیں.قرآن کی بتائی ہوئی نیکیوں کو اختیار کریں اور بدلوں سے دور رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے اجتماع کو مبارک کرے اور آپ کو دین و دنیا میں ترقی دے.آمین.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد الله ۲۸
۲۷۹ ۱۳۴۲ مجالس ضلع حیدر آباد کے سالانہ اجتماع منعقده ۲۸۲۷ و فار جولائی ۳ انش حضرت صاحبزاد هرانا صراحمد صا مصدر مجلس کی شرکت اور خطاب حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے قولش عبد الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ مجالس حیدر آباد و خیر پور ڈویژن کی درخواست پر ان کے سالانہ اجتماع میں سجدہ حیدر آباد میں منعقد ہوا شرکت فرمائی.اس موقعہ پر چھ مصر کے قریب انصار اور کثیر تعداد میں خدام سندھ کے دور دراز علاقوں سے جمیع ہوئے شاندار این سمیت حیدر آباد و خیر پور ڈویشن کی کوئی ایک مجلس بھی ایسی نہ تھی جس کے نمائندے اس اجتماع میں شریک نہ ہوئے ہوں.اس لحاظ سے یہ سابق سندھ کا سب سے زیادہ با رونق اور کامیاب ترین اجتمانا تھا.پھر کراچی، حیدر آباد اور خیر پور کے مقامی مرجہاں کے علاوہ مرکز کی طرف سے مولانا جلالا آیدین صاحب شمس اور قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے بھی اس اجتماع میں شرکت کی.ان چھ صد انصار اور کثیر التعداد خدام و اطفال نے ۲۷-۲۸ وفا کے دودن قرآن مجید حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کے درس اور اہم علمی کی اور اور تربیتی موضوعات پر علماء سلسلہ کی ایمان افروز تقاریر سننے اور ذکر الہی کرنے میں گزار ہے.دوسرے دن کے آخری اجلاس میں صدر محترم نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے طلاقہ سندھ میں آباد سمیوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا ایک جامع منصوبہ پیش کیا اور ان کو توجہ دلائی کہ وہ وہ خود سے سوال کریں کہ وہ کیا ہیں یا پھر آپ نے خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم احمدی ہونے کی حیثیت میں حتی وقیوم ، قادر مطلق اور ناطق خدا پر یقین و ایمان رکھتے ہیں، جمہ ہماری دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے اور نہیں اپنی تائید و نصرت سے تو نہ کہ فائز المرام کرتا ہے.پھر ہم وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کو قیامت تک جاری مانتے سے ماہنامہ انصار الله ماه ظهور اگست ۱۳۴ پیش ۱۹۶۳ء
13 ہیں اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حسب استطاعت و استعدادہ آپ کی پیروی سے روحانی علو وارتفاع حاصل کر سکتے اور کرتے پہلے جا رہے ہیں اور ہم نے ایک خدائی جماعت کی حیثیت سے ساری دنیا کو آنحضور کی غلامی میں داخل کرتا ہے اور اپنی ہی طرح کل دنیا کو روحانی افضال و انعامات اور نیوشا برکات سے متمتع کرنا اور اسے بھی قرب الہی کی راہ پر گامزن کر کے عرش الہی تک پہنچاتا ہے.مجلس اصاله لا ئیو کی سالانہ تقریب پر صد محترم حضرت مابندار مرزا مبارک احمد جب کا انصار سے خطاب یہ تقریب ۱۲ر امان مانجا میں مقامی اراکین کے علاوہ خدام و اطفال نے بھی شرکت کی.اس تقریب میں تمام مرکزی قائدین بھی شریک ہوئے.اس موقعہ پر صدر محترم نے ارشاد فرمایا.اس کو چار بجے شام مسجد فضل لالمپور میں منعقد ہوئی جس موجودہ دور کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ہم محمدرسول اللہصلی الہ علیہ وسلم کے نمونہ پر پل کر جیب استطاعت و توفیق قربانی اور ایثار کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کریں.حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالث ہمیں بارہ بار خبر دار فرما چکے ہیں کہ وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے.جب زبانی جمع خریت سے کام نہیں چلے گا بلکہ خود اپنی زندگیوں میں انقلاب لاکر اور دین کی راہ میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کر کے اپنے عملی نمونہ سے دنیا کو اسلام کی طرف لانا ہو گا.خدا تعالے اپنے وعدہ کے بموجب دنیا کی دوسری قوموں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا کہ دین کی خاطر قربانیاں کرنے کی توفیق دے رہا ہے.اگر ہم اپنی نسلوں کی خاطر خواہ تربیت نہ کریں اور انہیں دین کی خاطر قربانیاں کرنے کے قابل نہ بنائیں تو ہم محض اس بنا ا ماہنامہ انصار الله ماه احسان جون ۱۵ پیش 1921
PAI پر اجر و ثواب کے مستحق نہیں بن سکتے کہ ہم نے قبول حق میں پہل کی تھی.ہم صرف اس صورت میں نسلاً بعد نسل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں فضلوں اور برکتوں کے وارث بننے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ پر چل کر اور قربانی کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کر کے نسلاً بعد نسل اپنے اس امتیاز کو قائم بھی رکھتے چلے جائیں.ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پہلی امتوں کی طرح محدود احکام پر عمل پیرا ہونے سے کام نہیں چلے گا.کامل شریعت کے نزول کے بعد تو ساری شریعت پر عمل کرنا اور اس کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے اور یہ نمونہ پیش کرتے چلے جانا ہماری ذمہ داری ہے.اگر ہم اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے یا اس کی ادائیگی میں غفلت برتے ہیں تو پھر ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدمت اسلام کے نتیجہ میں ملنے والی برکات کسی دوسری قوم کے حصہ میں آئیں اور ہم ان سے محروم قرار پائیں.حالات اس امر یہ گواہ ہیں کہ اللہ تعالیے اطراف و جوانب عالم میں ایسی قومیں تیانہ کر رہا ہے جو بہت جلد اس سلسلہ میں شامل ہوں گی.ان کی شمولیت کے آثار دن بدن نمایاں سے نمایاں تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اگر ہم اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے میں سستی دکھائیں گے تو پھر لانه می بات ہے کہ دوسری قومیں جنہیں خدا تعالے تیار کر رہا ہے ہم پر سبقت لے جائیں گی اور ہم محروم رہ جائیں گے.اس لئے میں نے آپ سے گذشتہ سال بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ یہ تھ زمانہ اسلام کا عملی نمونہ پیش کرنے کا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دنیا میں قائم دنیا کرنے کے لئے غیرت کے جذبہ کو فروغ دینا ضروری ہے کیونکہ بے دینی اور بے عملی کی ایک بہتر غیرت کا فقدان بھی ہے.ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر غیرت کا جذبہ پیدا کریں اور اسے اس متک فروغ دیتے چلے جائیں کہ اسلام کا عملی نمونہ اور قربانیاں پیش کرنے میں ہم پر کوئی سبقت نہ لے جا سکے مری اقوام کے ایثار پیشہ اور خدائی احمدی اس میدان میں جتنی ترقی کر میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ ہمارا قدم اس سے آگے ہی پڑے.پس یہ وقت ستانے اور شستی دکھانے کا نہیں بلکہ پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر مستعدی دکھانے کا ہے.
PAY بعض ضلعی اجتماعات میں صدر محترم حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی شرکت انواع راولپنڈی جیلم و کیپٹو کے زعماء انصارالہ کا اجلاس 196 اضلاع راولپنڈی جہلم اور کیپور کے زعماء انصار اللہ کا ایک اجلاس بتاریخ بر شہادت سن۳۵ لایش ، اپریل مسئله بروز جمعہ پانچ بجے شام شیخ عبد الوہاب صاحب نعیم اعلیٰ انصاراللہ راولپنڈی کے مکان پر منعقد ہوا.بعض قائدین مجلس مرکزہ یہ بھی صدر محترم کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوئے.عہدیداران سے مجلس کے کاموں کو بہتر رنگ میں سرانجام دینے سے متعلق مسلاح و مشورہ کے بعد صدر محترم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ پھیلاؤ میں جو بعض امور نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں وہ ذیلی تنظیموں کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں اس لئے مرکز سے تعاون کرتے ہوئے اپنی ورم را ریوں کو ادا کرنا چاہیے.پھر آپ نے امتحانات کی اہمیت اور ان میں شرکت کی طرف توجہ دلائی کا نماند با جماعت کی طرف توجہ دلائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ اس سلسلہ میں بیان کیا کہ گھر میں ایک جگہ مسجد البیت ، بنا رکھی تھی اور نمازیں باجماعت پڑھتے تھے.پھر بچوں کی تربیت اور اس سلسلہ میں سنڈے کا سفر جاری کرنے کی طرف توجہ دلائی.مجالس انصاراللہ صوبہ سرحد کا سالانہ اجتماع مالی انصار اشد و به سرد کا اللہ صوبہ ۱۳۵۰ بیش ماہنامہ انصاراللہ ماہ احسان / جون 81961 سالانہ اجتماع یکم در دو ہجرت
51941 مئی کو مسجد احمدیہ سول لائنز پشاور میں منعقد ہوا.حضرت مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس انتصار اللہ مرکزیہ نے افتتاحی اجلاس میں فرمایا کہ ہمارا مقصد بہت بلند اور تنظیم ہے.اس کے مطابق ذمہ داریاں بھی بری ہیں.مقصد ہے غلبہ اسلام.ہماری خواہش ہونی چاہیے کہ وہ ہماری زندگی میں ہمارے ذریعہ پورا ہو.اس کے لئے تدبیر اور دُعا اتنی ہونی چاہیے جو اس کا حق ہے.تدبیر کے سلسلہ میں فرمایا کہ عظیم مقاصد کے پروگرام ایک تو وسیع تر یا EXTEN Sive ہوتے ہیں اور دوسرے محدود تو تمریا نوعیت کے جس میں خاص حصہ پر زور دینا مطلوب ہوتا ہے یعنی INTENSIVE ذیلی تنظیموں کے پروگرام INTENSIVE پروگرام کا حصہ ہیں تاکہ کڑیاں مربوط ہو کہ مضبوط ہوں اور سب افراد اور مل کر وسیع تر پروگرام چلانے کے قابل ہوں.پھر حضرت امیر المومنین کے ارشادات کی روشنی میں خود بیدار ہونے ، رفاہی کاموں میں حصہ لینے ، اپنے نفسوں کا محاسبہ کرنے اور تلافی مافات کرنے نیز اولاد کی تربیت کی طرف توجہ دلائی اور مدبرو دُعا کے تعلق کو واضح کیا.اختنامی تقریر میں صوبہ سرحد میں جماعتوں کے قیام کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کا جبکہ ۳۸ مقامات پر جماعتیں تھیں اور اب صرف ۲۷ جگہ میں ذکر کیا اور کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ قدم پیچھے کی طرف جارہا ہے.پھر اس علاقہ کے رسم و رواج کے زیر اثر جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں مثلا لڑکیوں کو ورثہ نہ دینا ، اولاد کی تربیت نہ کرنا وغیرہ ان کی طرف توجہ دلائی.پھر تبلیغ میں دردمند دل کے ساتھ کوشش کی طرف متوجہ کیا.بعد ازاں مایوسی دور کرنے کی طرف متوجہ کیا اور کہا مایوسی عدم علم یا کمزور مٹی ایمان سے پیدا ہوتی ہے ، دونوں کا علاج کرنا چاہیئے.پھر فرمایا اگر چہ سلسلہ کے قیام پر سیاسی سال گزر چکے ہیں لیکن عالمگیر غلبہ منور نظر نہیں آتا اس سے مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہیے.کیونکہ جمالی سلسلے بہت آہستگی سے ترقی کرتے ہیں لیکن اس کے لئے مہربانی نسلاً بعد نسل ضروری ہے.درمیان میں اتبلا آتے ہیں اور بھائی ، مالی اور وقت کی قربانی دینی پڑتی ہے اور اولادوں کی بھی، تب جا کر مقصود حاصل ہوتا ہے.اس لئے ہم سیکواپنے قدم تیز سے تیز تر کرنے چاہئیں تاکہ غلبہ کا وقت قریب تر ہو جائے.
مجالس انصار اللہ ضلع و مجالس النصار الله ضلع شیخو پورہ کا ایک اجتماع ۱۳۵۰ مورخه ۱۹ حجرت ارمنی این مسجد احمدیه بخیر بوده 71921 میں منعقد ہوا.صدر محترم اور بعض قائدین مرکز یہ نے اس میں شرکت کی.صدر محترم نے سورۃ الفرقان کی آیات ۶۴ تا ۸ے (جن میں عباد الرحمن کی علامات بیان ہوئی ہیں) تلاوت کرکے انصار کو اپنے مقام اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا.ذیلی تنظیمیں تدریجی ترقی کے پیش نظر قائم کی گئی ہیں.تدریجی ارتقا کا عمل مادی دنیا اور روحانی دنیا دونوں میں چلتا ہے.حضرت آدم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بند ر پیج شریعت مکمل ہوئی.انصار اللہ کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا چاہیئے.پھر تلاوت کر وہ آیات قرآنی سے واضح کیا کہ ان میں کہیں ان دو حصوں کا ذکر ہے حقوق اللہ میں حقیقتی تو حید کے قیام پر اور اس کے عملی تقاضوں پر اور حقوق العباد کے سلسلہ میں تواضع ، انکساری صلح و آشتی سے رہنا ، جھوٹ سے اجتناب ، تربیت اولاد اور دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اس ضمن میں پیش کئے.(ماہنامہ انصار الله حون للمر
جلس عاملہ انصار الله مراز یہ بابت سال ۱۳۵۷ هـ صدر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد دین کے ساتھ A thwil کرسیوں پہ : چوہدری شبیر احد صاحب (قائد تحریک جدید) پروفیسر حبیب اللہ خانصاحب (قائد تعلیم، چو ہدری حمید اللہ صاحب د نائب صدر صف دوم، شیخ مبارک احمد صاحب (نائب صدر و قائد صلاح دارشاد) حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (صدر مجلس، صوفی غلام محمد صاحب (اڈیر) مولانا بشارت احمد صاحب بشیر ( قائد تربیت) پروفیسر بشارت الرحمن صاحب (قائد وقف جدید) چوہدری محمد ابراہیم صاحب (سیکرٹری) استاده: سید احمدعلی شاہ صاحب رائد تجنید) مولوی بشارت احمد صاحب نسیم مربی قائد اشیار سید عبدالحی شاہ صاحب (قائد اشاعت و ایڈیٹر ماہنامہ انصار الله سید قربان حسین شاه صاحب امنیت اند اصلاح ارشاد صوتی خدا بخش مجید زیر دی (نائب قائد وقف جدید، سمیع اللہ صاحب سیال (قائد مال) چوہدری محمد شریف صاحب از عظیم اعلی اربوه) شیخ راشد احمد صاحب (نائب قائد تحریک جدید شیخ عبد الخالق (نائب قائد مال، صوفی محمد اسحاق صاحب (نائب قائد تربیت)
۲۸۵ سترھواں باب مجلس انصاراللہ کا پانچواں نور نومبر ۱۹۶۵ء میں جب اللہ تعالٰی نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالت ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز کو خلافت کے منصب جلیلہ پر سرفراز فرمایا تو اس کے بعد حضور ایک سال تک بدستور مجلس انصار اللہ کے صدر رہے اور دو اجلاس بھی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں حضور کی زیر صدارت منعقد ہوئے لیکن خلافت کی وسیع اور گوناگوں مصروفیات اور ذمہ داریوں کے پیش نظر بعد ازان انصار اللہ کے کام کی براہ راست نگرانی حضور خود نہیں کر سکتے تھے اس لئے حضور نے یہ کام حضرت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے سپرد فرما دیا اور ان کو مجلس کا نائب صدر نامزد فرمایا.یہاں سے گویا مجلس انصار اللہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے.مجلس انصار اللہ کے کام کی رہنمائی جب حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے سپرد ہوئی تو آپ کی زیر نگرانی مجلس کے تمام کام حسب سابق پوری توبہ اور انہماک سے جاری رہ ہے اور جس نہج پر پہلے پروگرام جاری تھے.بدستور اپنی لائنوں پر کام ہوتا رہا البتہ بعض امور میں اپنے تبدیلی کی ضرورت محسوس کی اور بعض نئی چیزوں کو شروع کیا جن کی تفصیل درج ذیل ہے :- -۱- صدر کے سیکرٹری کا تقرر چوہدری محمد ابراہیم ایم اے جو کئی سال سے انچارج دفتر کی حیثیت سے نہایت خوش اسلوبی اور سلیقے سے کام کر رہے تھے ان کیش سر کردگی کے پیش نظر او اس وجہ سے بھی کہ وہ تنظیم انصار اللہ کی تفاصیل پر پوری طرح حاوی ہونے کی وجہ سے بڑے معقول اور مفید مشورے پیش کرتے تھے.صدر محترم نے پسند فرمایا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے.اس لئے آپ نے مجلس عاملہ مرکزیہ کے مشورہ سے انہیں سیکرٹری برائے صد ر نا مزور فرمایا.
۲۶ - بڑی مجالس کی تیلی کو کراچی اور لاہور کی مجالس بہت بڑی تھیں اور بڑے وسیع علاقے میں کھیلی ہوتی تھیں.ان میں ایک نعیم اعلیٰ کے لئے کام سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا اس لئے صدر محترم نے ان شہروں کوکئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصہ کے لئے الگ الگ زعماء اعلیٰ مقرر فرمائے تاکہ کام سہولت سے اور بہتر رنگ میں سرانجام دیا جا سکے.یہ بھی مد نظر تھا کہ ایک ہی شہرمیں کئی حلقے ہوں گے تو ان میں مسابقت کی روح پیدا ہو گی اور ایک حلقہ دوسرے حلقے کے لئے بیداری کا موجب ہوگا.اس انتظام کے ماتحت اس وقت لاہور میں پانچ اور کراچی میں چار زعماء اعلے کام کر رہے ہیں.ان زعماء اصلا کے کام میں باہمی ربط و تعاون ناظم ضلع کے توسط سے قائم رہتا ہے.مندرجہ بالا شہروں کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات پر بھی اراکین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ایک زعیم پوری طرح کام نہیں چلا سکتا اس لئے ہرشہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے.ہر حلقہ حسب قواعد ایک زعیم کی نگرانی میں ہوتا ہے اور تمام زعما کے اوپر ایک زعیم اصلا مقرر ہے ہو قواعد زرعیم کی بحیثیت مجموعی تمام حلقوں کی کارکردگی کا ذمہ دار ہوتا ہے.ریوه ، لائل پور ، سرگودہا ، راولپنڈی ، اسلام آباد، سیالکوٹ ، پشاور ، کوئٹہ ، حیدر آباد منان ، منڈی بہاؤ الدین.نئی نسل کی تربیت اور اصلاح کے لئے آپ نے سنڈے کلاسمر ۳.سنڈے کلاسٹر کی تحریک کے اجرا کی تحریک فرمائی.بڑی بڑی مجالس میں جہاں جماعت کے افراد کی تعداد کافی ہے اس امر کی کمی محسوس ہو رہی تھی کہ بچوں کی دینی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے آپ نے یہ تحریک فرمائی کہ بڑی مجالس ہفتہ میں کوئی ایک دن ایسا مقررکر لیں جیں ہی بچے ایک جگہ جمع ہوسکیں اور ان کو مناسب رنگ ہیں تعلیم و تربیت دی جا سکے.مجلس شوری کے موقعہ پر جو عموماً اپریل کے مہینہ میں منعقد ہوتی - شوری ناظمین اضلاع ہے نام جماعتوں کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں سے جمع ہوتے ہیں اور تین چار دن ربوہ میں قیام کرتے ہیں.اس اجتماع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے صدر
محترم کی زیر ہدایت شوری کے پہلے دن شام کے اجلاس کے بعد تمام ناظمین اسلئے ، ناظمین اضلاع اور مرکزی قائدین انصار اللہ کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تا تنظیم سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جاسکے اور مشورہ ہو.اس طرح ناظمین اور زعما سے مرکزی قائدین کا تعارف بھی بڑھتا ہے اور کام میں مشہولت بھی پیدا ہوتی ہے.- تحریک خاص انصار اللہ انہی سلسلوں کی ترقی کے لئے جہاں دعاؤں اور اثابت الی اللہ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں افرادی قوت اور ذرائع کی فراہمی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا.یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دور سائل جتنے زیادہ اور مضبوط ہوں گے +1949- ترقی کی طرف قدم اسی قدر تیزی سے اُٹھے گا.مجلس انصار اللہ اپنی بساط کے مطابق کام تو کر رہی تھی نیکن سرعت سے بڑھتی ہوئی گرانی کے پیش نظر ۱۳۲۰ میں صدر مجلس نے جب مجلس کی مالی حالت کا جائزہ لیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ وہ اس قابل نہیں کہ نسلی بخش طور پر کام کیا جاسکے.اس کو مضبوط کئے بغیر اس امر کا اندیشہ رہے گا کہ کہیں کام کی رفتارش مست نہ پڑ جائے اور جاری شدہ پروگرام پاتی کمیل کو نہ پہنچ سکیں.اس صورت حال کی اصلاح کے لئے جہاں آپ نے انصار اللہ کے جملہ اراکین کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی پوری آمد و شرح کے مطابق مجلس کا چندہ ادا کریں وبال بعض مخیر اوردی ثروت انصار کوکم از کم یکصد و پد بطوری پیش کرنے کی اپیل کی اور انہیں لکھا:." آپ کو معلوم ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جاری فرمودہ جماعتی ذیلی تنظیموں میں سے مجلس انصار اللہ کو اس وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے کہ اس کے اراکین اپنی عمر کے لحاظ سے اور اپنے نمونہ کی وجہ سے دوسری ذیلی تنظیموں پر اثر انداز ہوتے ہیں.چنانچہ مجلس مرکز یہ ہر وقت اس امر کے لئے کوشاں رہتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کو - کما حقہ ادا کرتی رہے.تربیت و اصلاح کی غرض سے مجلس کی طرف سے اس وقت تک کافی ٹریچر شائع ہوچکا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے اقتباسات ہو اصلاح نفس اور تربیت اولاد کے متعلق ہیں نہایت اعلیٰ درجہ کے کاغذ یہ دیدہ زیب لکھائی ٹھپائی کے ساتھ وقتاً فوقتاً ٹریکیوں کی صورت میں شائع ہوتے رہتے ہیں.نور
اس کے علاوہ مجلس کا ایک ناہنا مہ ہے جو اعلیٰ پایہ کے مضامین پر مشتمل ہے اور نہایت با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے.اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مجلس کو گرانقدر مالی امداد دینا پڑتی ہے.سہ ماہی امتحانات کا سلسلہ جاری ہے.مختلف اضلاع میں تربیتی اجتماعات ہوتے ہیں اور پھر مرکز میں جو سالانہ اجتماع ہوتا ہے اس میں شامل ہونے والا ہر فرد اپنے آپ کو ایک روحانی ماحول میں پانا ہے اور علماء سلسلہ کی بلند پایہ تقاریر کے علاوہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر کے روح پرور مواعظ سے مستفیض ہو کر لوٹتا ہے.یہ تمام جد و جہد اسی صورت میں جاری رہ سکتی اور ترقی کرسکتی ہے کہ ملبس کی مالی حالت بہتر ہو.میں نے محسوس کیا ہے کہ اس وقت مجلس کی مالی حالت اس قدر کمزور ہے کہ اسے بہتر بنانے کی ابھی سے کوشش نہ کی گئی تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو شاید کما حقہ ادا نہ کرسکیں گے نیز اس تحریک کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مجلس کے پاس کچھ رقم بطور ریز رو فنڈ کے ہونی چاہئیے.تاکہ بعض نامساعد حالات میں بھی محلیس کے کاموں پر برا اثر نہ پڑے.چنانچہ اس چیز کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے مخلص اور مختبر انصار بھائیوں میں سے چند ایک کو یہ تحریک کردوں کہ وہ تحریک خاص انصار اللہ ہی کم ازکم یکصد روپے جلد ادا کریں.یہ دوسرے چندوں کے علاوہ رقم ہو گی.آپ کو بھی اسی مرض اور الفین کے ساتھ یہ تحریک بھجوا رہا ہوں کہ آپ اس میں ضرور شرکت فرمائیں گے اور مجھے جواب سے ممنون فرمائیں گئے.اللہ تعالے نے اس تحریک میں بے حد برکت بخشی.دوستوں نے دل کھول کر عطایا بجھوائے اور تھوڑی سی مدت میں ایک معقول رقم اس مد میں جمع ہو گئی.انصار کے اس فراخدلانہ تعاون کے باعث مالی پوزیشن خد العالے کے فضل سے کافی حد تک مضبوط ہو گئی.یہ اسی کی برکت ہے کہ الفہ بہرواٹر میں جب مجلس شوری کی سفارش پرسید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ ارشاد امیرال فرمایا کہ انصار اللہ فورا گاڑی خرید سے تو اس کلہ سے استفادہ کیا گیا اور فوری طور پر نور کے ارشاد کی تعمیل ہو گئی.۱۳۵۲ -4 گیسٹ ہاؤس انصار الله: ۳۵ مین میں حضرت امیرالمومنین خلیفة المسح الشالات
۲۸۹ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ محسوس کیا کہ جلسہ سالانہ کے موقعہ بچہ بیرون پاکستان سے بعض افراد انفرادی حیثیت میں آتے ہیں اور شریک جلسہ ہوتے ہیں.اس کی نسبت یہ بہت بہتر ہے کہ دوسرے ممالک سے افراد جماعت وفود کی شکل میں مرکز سلسلہ میں آیا کو ہیں.اس طرح زیادہ افراد کو شامل ہونے کی تحریک ہوگی اور جماعتوں کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا.اس سلسلہ میں باہر سے آنے والوں کے لئے مناسب رہائش کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے.حضرت امیر المومنین نے ہدایت فرمائی کہ صدر انجمن احمدیہ ، تحریک جدید مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الامر یہ اپنے اپنے طور پر باہر سے آنے والوں کیلئے گیسٹ ہاؤس تعمیر کریں.جس وقت حضور نے یہ تحریک فرمائی اس وقت بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دوسری تنظیموں کے لئے تو اپنا گیسٹ ہاؤس تعمیر کرتے ہیں اتنی دقت نہ ہو گی.کیونکہ ان کی مالی پوزیشن مضبوہ ط ہے لیکن مجلس انصار اللہ شاید اس بوجھ کو نہ اُٹھا سکے.کیونکہ ان کے مالی وسائل نسبتاً محدودہ ہیں.جب لوگوں کے اس مشیہ کا علم صدر مجلس کو ہٹا تو انہوں نے اپنے قادر و توانا خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ انصار اللہ کا گیسٹ ہاؤس سب سے پہلے تعمیر ہو گا.الحمد للہ کہ اللہ تعالٰی نے صدر محرام کی اس خواہش اور اس عزم کو پورا کرنے کے سامان اپنے خاص فضل و کرم سے مہیا فرما دیئے اور تین انصار کو انہوں نے دست تعاون بڑھانے کے لئے پکارا ، اُنہوں نے بشاشت قلب اور فراخدل کے ساتھ اس کار خیر مں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کی.صدر مجلس نے اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے پوری قسم کے جمع ہونے کا انتظا کئے بغیر تعمیر کا کام شروع کر وا دیا.پھر روپیہ آتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت وا او عمارت ہو تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے معرض وجود میں آگئی اور اس طرح مجلس انصار اللہ کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی سب سے پہلے میں نزیکی سعادت حاصل ہو گئی.فالحمد لله على ذالك اس گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد حضرت امیر المؤمنین نے خود رکھنا تھا لیکن بوجوہ اس میں التوا ہوتا رہا.اس لئے حضور کی اجازت سے اس کا سنگ بنیاد حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ نے مورخہ ۲- اضاء/ اکتوبر ۱۳۵۳ م کو اس اینٹ کے ساتھ رکھا جس پر حضرت ۶۱۹۷۴ امیرالمؤمنین نے دعا فرمائی تھی.اس کے بعد مندرجہ ذیل افراد نے جو اس وقت موجود تھے باری باری
ایک ایک اینٹ بنیاد میں رکھی.مولوی نور محمد نیم سینی (قائد عمومی ملک محمد عبدالله الدبال، مولوی عبدالقادر ضیغم (قائد مجالس بیرون ) - چوہدری محمد ابراہیم (سیکرٹری مصدوم - یہ عمارت ۱۲ x 11 سائز کے تین یہ ہائشی کمروں ( بیڈ رومز) ، ایک بیٹھنے کا کرہ ڈرائنگ روم ) (14) ، ایک کھانے کا کرہ (ڈائننگ روم) ۱۲ × ۱۲ ، اور ایک باورچی خانہ 4اد پر مشتمل ہے.ہر رہائشی کرہ کے ساتھ ایک ایک عسل خانہ کے کوئی سائنہ کا بنایا گیا ہے.کمروں میں مہمانوں کے لئے نہایت نفیس سامان مہیا کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ جس طرز رہائش کے بیرونی ممالک سے آنے والے معزز مہمان اپنے ملک میں عادی ہیں اسی کے مطابق سب سہولتیں یہاں بھی ان کو میسر ہوں اور انہیں کوئی تکلیف مالا طاق نہ ہو اس عمارت کا نقشہ محمد حسین صاحب لاہور بھا ٹونی نے تجویز کیا اور تعمیر کی نگرانی چجوری عبد الطیف اوور سیر نے کی.یہ عمارت انصار اللہ کے احاطہ میں مرکزی دفتر کے ساتھ ہی اس کے مشرقی جانب تعمیر ہوئی ہے.تعمیر کے سلسلے میں رقم کی فراہمی کے لئے جب تجویز شوری ضلع وار نظام کو مکلف کیا گیا اور ان کے سالانہ بجٹ کے تناسب سے رقوم پر ضلع کے لئے متعین کر دی گئیں اور مختر احباب کو تحریک کی گئی کروہ کم از کم تین صد رو پیر ادا کر کے معاونین خصوصی میں شامل ہو جائیں.اب جبکہ بیرونی ممالک میں جماعتیں تیزی سے قائم ہو رہی ہیں قیادت مجالس بیرون اور پرانی جماعتیں کافی حد تک منظم ہو چکی ہیں، اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہاں پر بھی ذیلی تنظیموں کا نظام قائم کر دیا جائے.اس ضرورت کے پیش نظر صد محترم نے ایک نئی قیادت قائم فرمائی جو قیادت مجالس بیرون کے نام سے موسوم ہے.اس قیادت کے تحت بیرونی مشتر سے رابطہ قائم کر کے مجلس کا لائحہ عمل اور دستور اساسی ان کو بھجوایا جاتا ہے اور ہدایت دی جاتی ہے کہ مقامی طور پر جہاں جہاں ممکن ہو انصار الہ کی تنظیمیں قائم کی جائیں.ہر تک میں مبلغ انچارج بلا لحاظ عمر اس تنظیم میں نائب صدر کے عہدہ پر فائزہ ہوتا ہے اور قیادت مجالس بیرون کے توسط سے مرکز سے رابطہ قائم کر کھتا ہے اس وقت مست در جہ ذیل ممالک میں مجالس النصارہ اللہ بات عد گی سے قائم ہیں اور حسب ضرورت اپنا پروگرام بناتی ہیں :.انگلستان: انگلستان میں اس وقت تک چودہ مقامات مثلاً لندن ، ساؤتھ آل ، کرائیدن ، برینگم ،جلنگھم ، یارک شائر ، بریڈ فورڈ وفی میں باقاعدہ مجالس ہیں.ہر مقام پر ایک عظیم محلیس کے کام
۲۹۱ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور زعیم اعلئے انگلستان ساری مجالس کے کاموں کی نگرانی کرتا ہے.۱۳۵۷ پیش ہیں جبکہ 7192A جماعت ہائے احمدیہ انگلستان کے زیر اہتمام حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے بچ نکلنے کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نائب صدر مجلس انصار اللہ اپنے خریج پر کا نفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر مجلس نے انہیں ہدایت کی کہ انگلستان کی مجالس کا بھی دورہ کریں اور ان کی کار کردگی کا جائزہ لیں.شیخ صاحب موصوف کے دورے اور مساعی کے نتیجہ میں وہاں کی مجالس کا سالانہ بجٹ ۶۷۵ پونڈ تک پہنچ گیا ہے.اس کے علاوہ مجالس انگلستان کا اپنا ایک ریزرو فنڈ بھی قائم ہو چکا ہے.اسی فنڈ سے آئندہ ہر سال ایک سو پونڈ مالیت کے پانچ انعامات جماعت ہائے احمدیہ انگلستان کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر درج ذیل تفصیل کے مطابق دیئے جایا کریں گے :- انگلستان کی تمام مجالس میں مسابقت کی روح پیدا کرنے کیلئے ایک زنگ ٹرافی بطور انعام اس مجلس کو دی جایا کرینگی حسین نے مندرجہ ذیل امور کی طرف خصوصی توجہ کی ہوگی.ماہوار اور تربیتی اجلاس میں با قاعدگی.بجٹ کے مطابق پچندوں کی وصولی.ماہانہ رپورٹوں کی بالالتزام ترسیل ، مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تقسیم لٹریچر دوسرا انعام قرآن کریم کا ایک پارہ حفظ کرنے والے کو میں نے قرآت اور تلفظ کے لحاظ سے بہتر حفظ کیا ہوگا.تیرا انعام سے جس نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات نیز قرآن کریم کے تیسویں پارہ کا آخری ربع سب سے بہتر طور پر یادہ کیا ہو گا.دیا جائیگا.- چوتھا انعام مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے کو بشر طیکہ کم از کم آٹھ چھوٹی بڑی کتب بشمول کشتی نوح اور رسالہ الوقعیت کا مطالعہ کیا گیا ہو.-۵ پانچواں انعام اطفال و ناصرات میں سے دینی معلومات کے مقابلہ میں اول آنے والے کو دیا جائے گا مقابلہ کے نصاب میں پوری نمازہ ، قرآن کریم کی تین دعائیں ، آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی تعلیم کرد این قاین اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو الہامی دعائیں شامل ہوں گی.امریکہ: امریکہ میں واشنگٹن ، نیو پارک ، شکاگو ، پٹس برگ ، دین اور کلیولینڈ میں مجالس
۲۹۲ قائم ہیں اور ان کے ماہوارہ اجلاس ہوتے ہیں.قرآن کریم کا درس ہوتا ہے.حسب موقعہ وقار عمل نایا جاتاہے اور یوم التبلیغ کا انتظام کیا جاتاہے.دینی معلومات فراہم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بھی رکھی جاتی ہیں تا کہ دوست مطالعہ کر سکیں.جزائر فجی میں صوا ، لٹو کار ناندی اور باد در کے مقامات پر مجالس سرگرم عمل جزائر فجی ہیں.صوا میں مشن اڈس کے اندر ہی تعلیمی و تربیتی کلاسیں لگتی ہیں.لیکن بوجہ مصروفیت جو افراد ان کلاسوں میں شریک نہیں ہو سکتے.ان کو گھروں پر جا کر حسب ضرورت اسباق دیئے جاتے ہیں.مبلغین کی نگرانی میں یوم التبلیغ منا یا جاتا اور مریم تقسیم کیا جا تا ہے.رشتہ داروں میں تبلیغ کی طرف خاص توجہ دی جاتی ہے.پاکستان میں سیلاب کے موقع پر ریلیف فنڈ جمع کرنے میں انصار نے نمایاں کام سرانجام دیا.سری لنکا سری لنکا میں پرانی جماعت ہے اور وہاں قیس بھی عرصہ سے قائم ہے، لیکن مرکز سے رابطہ نہ تھا.۱۹۷۳ء میں جب صدر محترم نے وہاں کا دورہ برما کیا تو مجلس کے نئے انتخابات کرا کر اس میں نئی روح بچون کی اور ان کا مرکز سے رابطہ قائم کرایا.رنگون میں بھی مجلس قائم ہے.وہاں ہفتہ وار تر بیتی اجلاس ہوتے ہیں کہ بھی کبھی خدام و اطفال کے ساتھ مل کر مشترکہ پکنک اور وقار عمل منا یا جاتا ہے اور یوم التبلیغ کے موقعوں پر لڑ پر تقسیم ہوتا ہے.اس کے علاوہ کینیڈا، جرمنی ، نائیجیر ، خانا ، سیرالیوں آٹوری کوسٹ کینیا ، ماریشش اور انڈونیشیا میں بھی مجالس قائم کی جا چکی ہیں.قیادت مسلم دوستی بیرونی ممالک کے افراد سے تعلق اور رابطہ بڑھانے کے سے قلم دوستی کی قیادت قائم کی گئی ہے.اس قیادت کا کام یہ ہے کہ بیرونی ممالک کے موزوں افراد سے پاکستانی انصار کا تعارف کرایا جائے اور ان کے درمیان قلم دوستی کا سلسلہ قائم کیا جائے.اس کام کا ابھی حال میں ہی آغاز ہوا ہے.اس لئے اس بارے میں زیادہ تفصیل پیش نہیں کی جا سکتی.یتائی کی خبر گیری کی تحریک تہائی کی خبر گری کے بارے میں قرآن کریم احمد احادیث میں بڑے احسن پیرایہ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور نہایت موثر
۲۹۳ اندانہ میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ تیا ئی معاشرہ کا ایک ایسا حصہ ہے جن کی مناسب نگہداشت الله تعالے کی رضا حاصل کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے.عموماً یتیم بچے بے سہارا رہ جانے کی وجہ سے مناسب تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں اور بڑے ماحول میں پڑ کر نہ صرف اپنی زندگیاں برباد کرتے ہیں بلکہ معاشرہ میں خرابی اور الحسن پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.جماعت احمدیہ کے افراد ارشادات خداوندی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقفیت کے باعث اکثر و بیشتر اپنے ماحول میں یتامی کی پرورش کا خیال رکھتے ہیں تاہم صدر مجلس کے دل میں زور سے یہ تحریک ہوئی کہ اراکین انصار الله اگر منظم طریق پر اپنی کوششوں کو بروئے کار لائیں تو انسانیت کی بڑی خدمت ہوگی اور ہم بہتر رنگ میں اس فرض کو ادا کر سکیں گے.چنانچہ آپ نے قائد ایثار کو اپنے منشا سے آگاہ کر کے یہ ہدایت دی کہ وہ مجالس سے رابطہ قائم کر کے بینائی کے بارے میں ضروری کوائف جمع کریں.اس غرض کے لئے ایک پروفاریا تیارہ کر کے مجالس کو ارسال کیا گیا اور انھیں ہدایت کی گئی کہ تیاطی سے متعلق ضروری کو الف مرکز کو بھجوائے جائیں.م بعد انہاں آپ نے مرکزی مجلس عالمہ میں اس مسئلہ کو پیش کیا.تبادلہ خیال کے بعد فیصلہ ہوا کہ متعلقہ امور کو طے کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنادی جائے جو اس اہم مسئلہ کے سب پہلوؤں کا جائزہ لے کر طریق کار تجویز کرے.چنانچہ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نائب صدر قائمقام کر اور یہ قائد اشیار، قائد تعلیم اور سیکرٹری صدر پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے غور کے بعد یہ تجویز کیا کہ : انہ ہر جگہ تائی کی اخلاقی، دینی اور تعلیمی امور کی نگرانی کے لئے مناسب افراد بطور گارڈین مقرر کئے جائیں.واہت میں الفضل داہنامہ انصار اللہ میں اس تحریک کی اہمیت کے بارے میں مضامین شائع کرائے جائیں.- قائدین اور انسپکڑان اپنے دوروں میں بالخصوص اجتماعات کے موقعوں پر اس کی اہمیت واضح کریں اور جائزہ لیں کہ کیا کام کیا جا رہا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ یتیم بچے اپنی عمر کے لحاظ سے متعلقہ تنظیموں کے پروگراموں میں حصہ لے رہے ہیں یا نہیں.
۲۹۴ یتیم بچوں کی دینی تعلیم کے لئے نصاب مقرر کرنے پر بھی ضرور ہوا اور طے پایا کہ مجلس مرکز یہ نے بنیادی معلومات کا جو کتا بچہ قیادت تعلیم کے تحت شائع کیا ہے وہ اس ضرورت کو پورا کرتا ہے.جہاں ضرورت ہو یہ کیا بچہ متعلقہ مجلس کو ارسال کر دیا جائے.مالی امداد سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا اور مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ تیائی اور بیوگان کی مناسب امداد کا انتظام مرکزہ سلسلہ میں پہلے سے ہی موجود ہے اس لئے کسی نئی تحریک کی ضرورت نہیں البتہ مقامی صدقات وغیرہ کی درسے کی امداد فراہم کی جا سکتی ہے.یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تیاطی سے متعلق مطلوبہ کوائف جمع کرنے کے لئے جو پیر و فار ما بنایا گیا ہے وہ ناظمین اضلاع کو بھی ارسال کیا جائے اور انھیں توجہ دلائی جائے کہ وہ اپنی نظامت کے تحت مجالس کا جائزہ لے کر کو الف کی فراہمی میں مرکنہ کا ہاتھ بٹائیں.اس وقت تک ۱۳۴ ایسی مجالس کی طرف سے کو الف موصول ہو چکے ہیں جہاں تمامی موجود ہیں؟ لیکن یہ کام مسلسل بعد و جہد اور بڑی توجہ چاہتا ہے.مجلس کی جانب سے پہلے قدم کے طور پر ضروری کو اٹف جمع کرنے کی مہم جاری ہے.جو کوائف موصول ہوئے ہیں انہیں ایک رجسٹر میں محفوظ رکھا جا رہا ہے.امید ہے کہ اس سمت میں مزید پیشرفت جاری رہے گی.اس وقت مجلس کے سامنے بینائی کے تربیتی و تعلیمی امور نیز ان کی اخلاقی نگرانی کا کام خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس جانب پوری توجہ مبذول ہے.اسلامی معاشرہ کا قیام اس دور میں یہ بات ہر طرف سے سننے میں آرہی ہے کہ نظام مصطفے قائم ہونا چاہیے اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل عمل میں آنی چاہیے.لیکن اسلامی معاشرہ کا واضح تصویر اور اس کے قیام کی معین اور صحیح صورت کم ہی سامنے آتی ہے.زیادہ تر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جرائم کے انسداد کے سلسلہ میں جو تعزیری قوانین اسلام نے مقرر کئے ہیں ان کے نفاد سے اسلامی معاشرہ معرض وجود میں آ جائے گا.اس بارے میں بطور رہنمائی صدر مجلس نے مرکزی سالانہ اجتماعات کے موقعہ پر تقاریہ کا یہ سلسلہ شروع کیا تا کہ اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا سکے.
۲۹۵ نچہ ۶۱۹۷۲ چنا پند آپ نے بہرام کے اجتماع میں اس سلسلہ کا آغازہ کرتے ہوئے معاشرہ کے مختلف طبقات میں دینی و روحانی امور عدالتی امور اور اجتماعی زندگی سے متعلق امورہ میں سادات کے قیام پر اظہار خیال فرمایا اور اس بارے میں اسلامی تعلیم تفصیل سے پیش کی.پھر اٹھارویں اجتماع منعقدہ ریش میں اسلامی اخوت کے قیام وبقا اور استحکام کے قرآنی ذرائع پر روشنی ڈالی بعد کے چند سالوں میں ملکی حالات اور خود صدر مجلس کی جماعتی مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ التوا میں پڑ گیا.میر کے اجتماع پر آپ نے پھر اس سلسلہ کو شروع کرتے ہوئے بائیس امور میں سے جو آپ کے پیش نظر تھے.چند امور پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی.امید ہے کہ یہ علمی تقاریر کتابی صورت میں شائع ہو کر اور زیادہ مفید ثابت ہوں گی.19 31924
۲۹۶ اٹھارواں باب مرکزی مجلس عاملہ اور اس کے کام مجلس عاملہ مرکز یہ صدمہ اور نائب صدر کے علاوہ مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ہوتی ہے :- نائب صدر صف دوم - قائد عمومی - قائد تربیت.قائد اصلاح و ارشاد - قائد تعلیم - قائدر مال قائد اشاعت ، قائد نه یانت در صحت جسمانی - قائد وقف جدید - قائد تحریک جدید - قائد ایثار - قائد تجنید.قائد مجالس بیرون اور قائد قلم دوستی.جملہ قائدین کے لائحہ عمل اور کام کی تفصیل کا ایک مختصر جائزہ درج ذیل ہے :- نائب صدر صف دوم حضرت امیر المومنین ایده ال تعالے منصرہ العزیز نے سماء اللہ کے سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقعہ پر اراکین انصارالله 1441 کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا.ایک حصہ وہ بیوہ ام سال سے ۵۵ سال کی عمر کا ہے.اس کو صنف دوم کا نام دیا گیا اور ان کے لئے ایک نائب صدر صف دوسم کا عہدہ تجویز فرمایا.دوسرا حصّہ وہ جو ۵۵ سال سے زائد عمر کے ہیں.یہ صف اول کے اراکین شمارم تے ہیں.اراکین صف روم کے پروگرام پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وہ سائیکل چلانا سیکھیں اور اس سواری کو زیادہ سے زیادہ رواج دیں تا کہ حسب ضرورت دیہات میں پہنچ کر خدمت خلق کا کام سرانجام دے سکیں.ایسے سائیکل سوارہ انصار کی تعداد کا ابتدائی ٹارگٹ حضور نے بیش ہزار ۱۹۷۳ الفضل 11 نومبر ١٩٣ء
+94 مقر فرمایا اور ہدایت دی کہ نائب صدر صف دوم اپنے اراکین کو منظم کریں اور مجوزہ پروگرام کے مطابق ان سے کام لیں.قیادت عمومی قائد عمومی کا کام بڑا مختلف النوع ہوتا ہے.وہ ایک لحاظ سے ساری تنظیم کو چلانے اور مختلف قیادتوں کی کارروائیوں میں ربط ضبط قائم کرے رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے.سال بھر کے لئے مجلس کا لائحہ عمل تیار کروانا اور اس کی نگرانی کرنا، مرکز می مجلس کا سالانہ اجتماع اور مجلس شوری کا انعقاد، بیرونی مجالس کے کام اور ان کے تربیتی اجتماعات کی رہنمائی مجالس بیرون کے زعماء کا انتخاب کرانا اور تمام دفتری امور کی نگرانی کرنا قائد عمومی کے فرائض میں شامل ہے.علاقائی ناظمین اعلی اور جملہ ناظمین اضلاع سے ربط قائم رکھا جاتا ہے اور انہیں ضروری ہدایات د مشورے دیئے جاتے ہیں.بعض دفعہ مجالس بیرون سے مضبوط تعلق قائم رکھنے اور ان کی بہتر رنگ میں رہنمائی کی غرض سے بعض اضلاع کی مجالس کے جملہ عہدہ داروں کا اجلاس ضلع کے کسی موزوں مقام پر طلب کیا جاتا ہے.جس میں سب ضرورت صدر مجلس یا نا ئب صدر بھی حصہ لیتے ہیں.مجالس بیرون سے نیز ناظمین اضلاع اور ناظمین اعلیٰ سے کار گزاری کی مالانہ ریویر میں حاصل کی جاتی ہیں اور ان پر قائدین کا تبصرہ سمھجوایا جاتا ہے.مجالس میں بیداری پیدا کرنے کے لئے اسپکٹروں کے دورے کا انتظام کیا جاتا ہے.قیادت تربیت اس قیادت کے تحت املاکین مجلس کی تربیت کی غرض سے مناسب اور منتجه موضوعات ومسائل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کے اقتباسات الفضل میں شائع کرائے جاتے ہیں.اس کے علاوہ قیادت اصلاح و ارشاد کے تعاون سے ہفتہ تربیت منایا جاتا ہے جس میں مفید موضوعات پر تقاریر کی جاتی ہیں.نماز کی پابندی، قرآن کریم نیز کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری رکھنے ، وصایا کرنے ، وقف عارضی میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بارے میں الفضل میں مضامین یا منتصر نوٹ شائع کرائے جاتے ہیں تا کہ اراکین ان کی طرف متوجہ رہیں.اصلاح وارشاد کے کام کی طرف توجہ دلانے کے لئے قیادت اصلاح و ارشاد قیادت کی طرف سے مناسب ٹریٹ تیار کر کے شائع
۲۹۰ کئے جاتے ہیں جن میں عقائد اور دینی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے.ہفتہ اصلاح وارشاد منایا جاتا ہے اور ضروری مسائل پر تقاریر کروائی جاتی ہیں تاکہ دلائل پوری طرح ذہن نشین ہو جائیں.رشتہ داروں میں تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی جاتی ہے.اسی طرح وقف عارضی کی تحریک کی جاتی ہے.بعض احباب نجی زنگ میں غیر از جماعت افراد کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں اور مناسب رنگ میں انہیں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں، قیادت ایسے افراد یا مجالس سے پورا تعاون کرتی ہے.ایسی دعوتوں میں دوستانہ رنگ میں سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو بہت مفید ہوتا ہے.بعض مجالس اپنے طور پر بھی مفید لٹریچر شائع کرتی ہیں.قیادت تعلیم التیاری کا کام کا کرایا ان ناظرہ اس ا کام یہ ہے کہ اراکین کو قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اور اس کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلائے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتب کا مطالعہ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے اور ضروری مسائل کو اب تعلیم میں شامل کر کے ان سے واقف کرانے کی کوشش کی جاتی ہے.ان افران کو پورا کرنے کے لیے سہ ماہی امتحانوں کا انتظام کیا جاتا ہے.ہر سال قرآن کریم کے ایک پارہ کا ترجمہ ، چار کتب حضرت مسیح موعود علی اسلام اور بعض اہم مسائل یا دعائیں وغیرہ شامل نصاب کی جاتی ہیں ان مسائل سے متعلق مضامین یا مختصر نوٹ حسب ضرورت اخبار الفضل اور ماہنامہ میں شائع کر دیئے جاتے میں کامیاب اراکین کو سال کے آخر میں استناد دی جاتی ہیں اور اول و دوم رہنے والوں کو انعامات دیئے جاتے ہیں.اراکین مجلس کو دینی معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ اطفال میں دینی ذوق پیدا کرنے لیے قیادت تعلیم کے زیر انتظام ہر سال ایک انعامی مقابلہ اطفال کے سالانہ اجتماع کے موقع پرمنعقد ہوتا ہے اور اس میں اول و دوم رہنے والوں کو تعلیمی وظائف دیئے جاتے ہیں.بڑی مجالس میں نئی پود کو دینی مسائل سے گاہ کرانے کے لیے سنڈے کلاستر جاری کرنے کی تحریک کی جاتی ہے.ان پڑھ لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے.اس قیادت کے تحت مجلس کا سالانہ بجٹ آمد و خرچ تیار کیا جاتا ہے اور مجاس کو انکے قیادت مال بٹ اور وصولی کے بارے میں با قاعدہ اطلاعات بھجوائی جاتی ہیں مجالس کے کاموں نیز سالانہ اجتماع اور اشاعت لٹریچر کے لیے رقوم کی وصول کا انتظام کیا جاتا اور ان کے حسابات رکھے جاتے ہیں.اخبار الفضل اور ماہنامہ انصارالله نیز سرکلر لیرز کے ذریعہ تمام مجالس کو ان کے واجبات اور وصولیوں
۲۹۹ کے بارے میں اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں.اس قیادت کا یہ کام ہے کہ اخبار الفضل یا ماہنامہ کی مضامین قیادت ذہانت و صحت جسمانی اور نوٹ لکھ کر اراکین کواپنا گھر اورماحول صاف ستھرا رکھنے اور ہلکی ورزشوں کا اہتمام کرنے کی طرف راغب کرے.اسی طرح تفریکی اجتماعات منعقد کرنے کی طرف بھی توجیہ ولائی جاتی ہے چنانچہ بعض بڑی مجالس مثلاً لا ہور، کراچی الامپور وغیرہ اپنے سالانہ اجتماعات کے موقعہ پر کھیلوں کا پروگرام بھی رکھتی ہیں اور مختلف ورزشی مقابلے ہوتے ہیں جن میں انعامات بھی دیئے جاتے ہیں.قیادت اشاعت قیادت اشاعت کے سپرد دو کام میں اول ماہنامہ انصار اللہ مرتب کر کے اسے باقاعدگی سے شائع کرنا اور اس کی توسیع اشاعت کے لیے مناسب اقدامات کرنا.دوم حسب ضرورت مناسب لڑ پھر تیار کر کے اس کی اشاعت کا اہتمام کرنا.ماہنامہ اللہ تعالے کے فضل سے نومبر تاء سے برابر جاری ہے اور بہت مفید کام کر رہا ہے، دوسرا لٹریچر جو اس وقت تک شائع کیا جا چکا ہے اس کی تفصیل اشاعت لٹریچر کے عنوان کے تحت درج کر دی گئی ہے.قیادت ایثار اس قیادت کے تحت اراکین کو خدمت خلق کے کاموں مثلاً بیماروں کی عیادت انار :.اور بے روز گاروں نیز تیامی مساکین اور بیوگان کی اعانت مسافروں کی امداد اور ہنگامی کاموں مثلاً سیلاب وغیرہ کے موقعہ پر دوسرے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اسی طرح شجر کاری کے ہفتے منائے جاتے ہیں.طلبہ کے لیے کتب کی فراہمی ضرور تمندوں کے لیے قرضہ حسنہ اور نقدی یا جنس کی صورت میں امداد کا انتظام کیا جاتا ہے وقار عمل کے ذریعہ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی دعوت دی جاتی ہے ادویہ فراہم کرتے اور ڈسپنسریاں کھولنے یا مفت اور سستا علاج کرنے کی طرف بھی مختلف رنگ میں ترغیب دلائی جاتی ہے.خدمت اسلام اور انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ کو فروغ قیادت کریک جدید وقف جدید خدمت اسلام اورا مار کے مطالبات مثلاً ساده زندگی دینے کے لیے وغیرہ کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے اور اس بارے میں انفضل نیز ماہنامہ انصار اللہ میں مضامین شائع کرائے جاتے ہیں.وقتاً فوقتاً حضرت امیر المومنین کے متعلقہ خطبات یا ان کے اقتباسات شائع کر کے مجالس کو مفت مہیا کئے جاتے ہیں.بعض دفعہ رسالہ تحریک جدید ناظمین اضلاع کو ارسال کیا جاتا ہے تاکہ
i ضروریات سلسلہ عمدہ داروں کے ذہنوں میں مستحضر ر ہیں اور وہ اس بارے میں اپنی مساعی پروئے کار لائیں سرکار لیٹرز اور الفضل میں نوٹ شائع کرا کر مجالس کو چندوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.اس قیادت کا کام یہ ہے کہ جہاں مجالس قائم نہیں.وہاں نئی مجالس قائم کرانے کی قیادت تجنید ارتش اور سال عمر ہوجاتیں کوشش کرے اور جو افراد جماعت چالیس سال سے زائد عمر کے ہو جا ئیں انہیں انصارالله کی تنظیم میں شامل کرے ، بیرون پاکستان بھی مشتر کے ذریعہ مجالس قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اندرون پاکستان اس وقت کم و بیش 240 مجالس قائم ہیں.ہے برونی مشنر سے رابطہ قائم کر کے میں انصار اللہ کا لائحہ عمل اور دستور قیادت مجالس بیرون انناسی انکو بھجوا دیا جاتا ہے اور درخواست کی جاتی ہے کہ مقامی طور پر جہاں جہاں ممکن ہو انصاراللہ کی تنظیمیں قائم کی جائیں.اس وقت انگلستان میں پودہ مقامات پر مجالس قائم ہیں.امریکہ میں اچھے شہروں میں.برما میں ایک جگہ ، سری لنکا میں ایک جگہ اور سبزائر نجی میں چار مقامات پیر با تابد و مجالس قائم ہیں اور حسب ضرورت اپنے ماہوار اور سالانہ اجتماعات منعقد کرتی اور یوم التبلیغ نیز وقار عمل مناتی ہیں.
اتیسواں باب مجلس انصار اللہ کے خصوصی کام جلسہ سالانہ کے والینٹرز اور انصار الله حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثاني رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ ستمبر ۱۳۳۷ ١٩٥ ۳۳ رش میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کام کرنیوالے والینٹروں کے سلسلہ مں فرمایا.ابھی ربوہ کی آبادی اتنی نہیں کہ تمام والٹیٹر ز صرف ربوہ سے ہی میسر آسکیں اس لئے تمام جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ۲۵ فیصد افراد کو دانیٹرز کے طور پیش کریں اور جلسہ سالانہ سے پہلے ہی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے دفاتر میں ان کے نام بھیجوا دیں.اور جب جلسہ سالانہ پر وہ لوگ پہنچیں تو آتے ہی ان لوگوں کو انصار اور خدام کے منتظمین کے سپرد کر دیں تاکہ وہ ربوہ والوں کے ساتھ مل کر آنے والے مہمانوں کی خدمت کر سکیں محصور کے اس ارشاد کی تعمیل کی گئی.جلسہ سالانہ کی تقاریر کے بارے میں شور می انصار اللہ کا مشورہ : جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جو تقاریہ ہوتی ہیں ان کے بارے میں مجلس مشاورت منعقدہ ۱۳۲ مترش +1440 میں یہ سوال زیر بحث آیا کہ آیا تقاریہ زبانی ہونی چاہئیں یا یہ کہ پہلے ضبط تحریر میں لائی جائیں اور جلسہ میں انہیں پڑھ کر سنایا جائے.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ اس معامد پر شوری انصاراللہ میں غور کیا جائے.چنانچہ اسی سال شور می انصار اللہ میں اس معاملہ پر غور کیا گیا.19 نمائندگان نے اس بارے میں اظہار رائے کیا اور دونوں پہلوؤں کے حُسن و قبح تفصیل
٣٠٢ سے روشنی ڈوانی کثرت رائے اس اس کے تین میں کی کہ اتار رکھی ہوئی ہوں تو بہتر ہے حضرت امیر المومنین نے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اس کی منظوری دی.نبوت / نومبر مین کو حضرت امیر المومنین خلیفة المسح ۲۶ ب ۱۳ تحریک بعد بدا اور انصار الله الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے دسویں سال کے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے ایک پر معارف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالے کی طرف سے آپ کو پانچ ہزار سپا ہی دیئے جانے کی خبر دی گئی تھی.اس ضمن میں حضور نے فرمایا.ور میں امید کرتا ہوں کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ یہ دونوں اپنے وقت کی قربانی کر کے زیادہ سے زیادہ کانوں تک میری آواز کو پہنچانے کی کوشش کریں گے اور اس غرض کے لئے خاص طور پر جلسے منعقد کر کے لوگوں کو تحریک کریں گے کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں.اسی طرح وہ ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیں جو ہر احمدی تک یہ آواز پہنچا دیں اور اسے دین کی اس خدمت میں حصہ لینے کی تحریک کریں ب: اسی طرح ۲۱-۲۸- اساور اکتوبر میں اہلیہ کے خطبات جمعہ میں حضرت امیر المومنین نے تحریک جدید کے نے سال کا اعلان کرتے ہوئے یہ تحریک فرمائی کہ دوست اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے پہلے سال کی نسبت کم از کم ڈیوڑھا ، دو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کے وعدے کریں.∙1900.حضور کا یہ ارشاد اگر چہ ساری جماعت کے لئے تھا اور اس میں انصار اللہ کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی تھی تاہم حضور کے سابقہ ارشاد کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی قیادت کی طرف سے اراکین انصار اللہ کو بطور خاص ی توجہ دلائی گئی کہدہ بحیثیت تنظیم حضور کے اس ارشاد گرامی کو عملی جامہ پہنانے میں سائی ہوں.اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل طریق کار تتجو نہ کیا گیا : تمام انصار اپنے چندوں پر نظرثانی کریں اور اپنے اپنے وعدے اضافہ کے ساتھ پیش کر یں.ے ریکارہ و مجلس انصار الله مرکز بیہ سے الفصل ۱۲ نبوت / نومبر میش ۱۹۵۵ الفصل یکم و بر این دسمبر
- حضرت امیر المومنین کے متعلقہ خطبات تمام اراکین کو ہر جگہ پڑھ کر سنائے جائیں بالخصوص دیہاتی مجالس ہیں.۳.جو دوست اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے انہیں شمولیت کی ترغیب دی جائے.(ج) دفتر دوم اور انصار اللہ حضرت امیر المومنين خليفة المسيح الثالث ايده التدليعالى بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۵ اخاء اکتو بر شہر میں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.اكتوبي سال روان کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ دفتر اول (جس کی ابتدا پر ۳ سال گزر چکے ہیں) کا وعدہ سال رواں کا ایک لاکھ پچپن ہزار روپیہ ہے اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے وعدے تین لاکھ چون ہزارہ ہیں....اگر شامل ہونے والوں کی اوسط فی کسی آمد نکالی جائے تو دفتر اول کے مجاہدین کی اوسط ۶۴ روپے بنتی ہے.اس کے مقابلہ میں دفتر دوم کے مجاہدین کے چندے کی اوسط ۱۹ روپے بنتی ہے اور ۶۴ روپے کے مقابلہ میں یہ بہت کم ہے...لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ انہیں روپے اوسط بہت کم ہے.اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہو رہا ہے جماعت کے انصار کو دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں ) جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے آزادانہ طور پر نہیں یہ کوشش کہ نی چاہیئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر میں روپے فی کس پر لے آئیں...........آئندہ سال کے لئے ہیں یا میلہ رکھتا ہوں کہ جماعتیں یہ امید اس طرف متوجہ ہوں گی اور میں حکم دیتا ہوں کہ انصارہ اپنی تنظیم کے لحاظ سے جماعتوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور کوشش کریں کہ آئندہ سال دختر دوم کے وعدوں اور ادائیگیوں کا معیار انیس روپے فی کس سے بڑھ کو تمہیں رو پیر فی کس اوسط تک پہنچ جائے " حضور کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل میں صدر تفلیس کی جانب سے حضور کا وہ خطہر جمعہ جس میں حضور له الفضل ٢ / نبوت / نومبر ۱۳۴۷ مش
۳۰۴ نے دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر ڈالی تھی الگ طبع کہا کہ مجالس کہ اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ اس کی تعمیل میں مسابقت کی روح کے ساتھ کام کریں اور سب دوستوں تک حضور کا ارشاد پہنچا دیں.اس کے علاوہ تمام مقامی مجالس میں ایک منتظم تحریک جدید متقریر کیاگیا اور اس کو ہدایت دی گئی کہ اس ا.اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ انصار میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہو جین کا وعدہ غیر معیاری ہو.نیز تمام انصار کو مناسب رنگ میں بطور خاص تحریک کی جائے کہ وہ اپنے وعدوں میں اضافہ کریں.بلا امتیاز انصار و حندام دفتر دوم کے وعدہ کنندگان کے وعدوں کا حضور کے مقرر کردہ ٹارگٹ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور کوشش کی جائے کہ دفتر دوم کی اوسط تملین روپے فی کس تک پہنچ جائے..اس امر کی کوشش کی جائے کہ حضرت امیر المومنین کے فرمودہ معیار (ماہوار آمد کا ہے) کے مطابق احباب چندہ ادا کریں.- مخیر و خلص احباب کو یہ تحریک کی جائے کہ وہ ایک ہزار روپیر دینے والوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کریں.مرکز میں اس کام کی نگرانی کے لئے قیادت تحریک جدید نومبر 94 امر سے قائم کی گئی اور چوہدری شبیر محمد صاحب کو پہلا قائد تحریک جدید مقرر کیا گیا.اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اراکین انصار اللہ کو اس بارے میں یاد دہانیاں کرائی جاتی رہیں.چین پنچر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلصین جماعت نے دفتر دوم کی اوسط کو اگلے سال انہیں روپے سے نہیں رہے ، فی کسی اوسط تک پہنچا دیا.اس کے بعد نسال بہ سال دختر دوم کے وعدوں کی مقدار بڑھتی چلی گئی اور اسی طرح چندہ دہندگان کی تعداد میں بھی اضا فہ ہوتا چلا گیا.اگر ہم حضور کا مقررکردہ ٹارگٹ یعنی تمہیں روپے فی کس تو پورا نہ ہوں سکا تاہم ۱۳۵۲ بیش یک دفتر دوم کی اوسط 19 روپے سے بڑھ کر ۲۴ روپے تک ضرور پہنچ گئی.الحمد للہ علی ذالک.۳۴۷ بیش على الفضل ۲۸ نومبر ۶۱۹۷۸ ل الفضل ۱۷ دسمبر ۱۳۴۷ بیش ریکارڈ دفتر تحریک جدید
۳۰۵ شعار اسلامی کا قیام حضرت میر المومنین خلف المیع الثانی رضی الا علم اس امر کے خليفة: اللہ عنہ اس خواہشمند تھے اور اس بارے میں وقتا فوقتا تو تبہ وہ لاتے رہتے تھے کہ جماعت شعار اسلامی کو قائم کرنے میں کوشاں ہو اور عملی نمونہ پیش کرے.چنانچہ ڈاڑھی رکھنے کے ۱۳۲۳ پیش بیط بارے میں حضور نے تو بہ دلاتے ہوئے اپنے خطبہ جمعو فه رموده ۱۴ تبلیغ فروری یا نه...۶۱۹۴۵ میں ارشاد فرمایا: میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں ڈاڑھی کے متعلق خوب پروپیگنڈہ کریں.جن رام نوجوانوں کو سمجھائیں اور انصار الله بڑوں کو سمجھائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ڈاڑھی منڈوانا ہو وہ خشخشی ڈاڑھی رکھے اور خوشخطی رکھتا ہے وہ ایک سچی یا آدھ انچ بڑھائے پھر ترقی کرتے کرتے سب کی ڈاڑ ھی حقیقی ڈاڑھی ہو جائے..اسی طرح ہماری جماعت میں بھی اسلامی شعار کو قائم رکھنے کا احساس ہو جائے اور وہ سختی سے اس پہ پابند ہو جائے تو یقینا اس کا بھی لوگوں کے دلوں میں رعب قائم ہو جائے گا اور لوگ یہ مجھنے لگ جائیں گے کہ یہ لوگ اپنی بات کے بچے ہیں اور کسی کی رائے کی پروا نہیں کرتے جب یہ لوگ ڈاڑھی کے معاملہ میں اس قدر سختی سے پابند ہیں تو باقی اسلام کے وہ کیوں پابند نہ ہوں گے.اگر ہم نے ان کی کسی دینی بات میں دخل اندازی کی تو یہ لوگ مر جائیں گے مگر اپنی بات کو پورا کر کے چھوڑیں گے.تمہارا ڈاڑھیوں کے معاملہ میں کمزوری دکھانا جماعت کے رعب اور اثر کو بڑھانے کا موجب نہیں بلکہ رعب اور اللہ کو گھٹانے کا موجب ہے.ہ میں قائد اصلاح و ارشاد صحابہ کی روایات کا ریکارڈ اور ان کے فوٹو | مہ ہدری مشتاق احمد باجوہ کے دل دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور ان کی روایات ان کی اپنی ۱۳۳۴ بیش على الفضل الا تبلیغ فروری ۱۹۴۵
آواز میں ریکارڈ کی جائیں مجلس عاملہ مرکزیہ نے اس تجویز سے اتفاق کیا.صدر محترم کی اجازت سے یہ کام شروع کیا گیا.اس وقت تک ۲۶ صحابہ کی روایات کا ریکارڈ تیار کیا جا چکا ہے.اس کے علاوہ صحابہ کرام کے فوٹو جمع کرنے کی طرف بھی توجہ کی گئی.تاحال دوصد سے زائد صحابہ کے فوٹو حاصل کرکے ان کا ایک ایلیم تیار کیا گیا ہے.ان صحابہ میں سے جن کی تاریخ بیعت وغیرہ معلوم ہو سکی اس کو بھی ریکارڈ کیا گیا.
بیسواں باب متفرق امور مجلس مجلس عالم اتصاله مرکز یہ کی قراردادیں کم و بیش تنظیم کو پیش آمدہ حالات کی روشنی ہی کچھ قرار دادیں بھی منظور کرنا پڑتی ہیں جن سے اس کے افکار اور جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے.مجلس انصارالہ مرکز ہو نے وقتاً فوقتاً ہو قرار دادیں منظور کیں ان میں سے اکثر بعض اہم شخصیتوں اور قابل قدر وجودوں کی جدائی کے سلسلہ میں تعزیت پر شمل مں لیکن کچھ ایسی ہی جن کا تعلق امام وقت سے وفاداری یا سلسلہ کے مفادات کی حفاظت سے ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے ا تعزیتی قرار دادیں بر وفات حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ها - حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ۳- حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبه منه نم حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۷ - قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب میشدم 4 - حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضہ ے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس من w - سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ہے ۹ - حضرت صاحبزادہ مرزا عز نیز احمد صاحب نے ۱۰- سید میر داؤد احمد صا و د الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۹۵ ) 41906 الفضل ، فروری شام ) در یکار در مجلس عاملہ انصار الله مرکز ہیں ) ایضا) ) ايضا ) (ایضا ) ايضا نیز الفضل ٢٣ اكتوبر (ماہنامہ انصار الله - جون ۱۹۶۶) ") کو گر فروری (۱۹۷۳)
(ب) متفرق قرار دادیں.ا.خلافت احمدیہ سے وابستگی کی قرار داد - ۲۶ الفضل ٢٨ اكلته بر ۱۳۹۵ احتجاجی قرار داد پر موقو معطلی کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب - ۱۳ ریکارڈ ملی مرکزی ۳- اقرار اطاعت خلافت ثالثه - ریکارڈ مجلس مرکزه بید) مجلس مشاورت میں افسانہ کی نمائندگی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہا نے جماعت میں ذیلی تنظیمیں اس لئے قائم کی تھیں کہ وہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں نمایاں کام کر کے اپنا الگ ایک مقام پیدا کریں اور ان اعراض و مقاصد کے حصول میں محمد ہوں جن کے لئے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.حضور ان ذیلی تنظیموں کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور کس طرح ان کو پھولتا پھلتا دیکھنا چاہتے تھے.اس کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضور نے مجلس مشاورت جیسی اہم جماعتی مجلس میں ذیلی تنظیموں کے لئے الگ نشستیں مخصوص کر دیں تا کہ وہ اپنا نقطۂ نظر پیش کر سکیں اور ایک الگ تنظیم کی حیثیت سے جماعتی معاملات میں اپنا رول ادا کریں.چنانچہ شروع سے ہی لجنہ اماء الله کی رائے کے اظہار کے لئے ایک نمائید و شورٹی میں مقرر کیا جانے لگا اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی نمائندگی کے لئے دو دو افراد متخب کرنے کی ہدایت فرما دی.اس ہدایت کے مطابق شاہ سے دو نمائندگان جو صدر مجلس کے نامزد ہوتے ہیں مجلس مشاورت میں شریک ہوتے ہیں.دستور اساسی کی تدوین و اشاعت تنظیم یا ادارہ کو اپنے معلمہ یا مفوضہ اغراض و مقاصد کو حمدگی سے پورا کرنے کے لئے ایک دستورالعمل کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے بغیر کام ہے ربط اور بے نتیجہ رہتا ہے.اس ضرورت کے
پیش نظر جب انصار اللہ کی تنظیم حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر ک ملٹری قائم کی گئی تو اس وقت کے صدر (حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ اور قائدین نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے تعاون سے کچھ اصول اور قواعد دستور کے رنگ میں مرتب کئے اور حضرت امیر المومنین سے ان کی منظوری حاصل کی سان قواعد و ضوابط کا ذکر ابتدائی دور کے حالات میں آچکا ہے تقسیم ملک کے بعد کچھ عرصہ تک انہیں قواعد و ضوابط ۱۳۳۴ همش کی روشنی میں کام ہوتا رہا.پیش کی شوری انصار اللہ میں ان پر نظر ثانی کے لئے ایک بورڈ مقرر کیا گیا.جس کے ممبر نائب صدر ( حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) کے علاوہ مولوی عبد الرحیم صاحب درد ، مولوی ابوالعطاء صاحب ، شیخ محبوب عالم من الد صاحب ، مرزا عبد الحق صاحب اور ایک ایک نمائندہ لائل پور ، سیالکوٹ ، گجرات اور لاہور تھے.یہ بورڈ دوران سال اپنا کام مکمل نہ کر سکا.اس لئے ۱۳۳۵ بنگلہ کی شوری میں یہ فیصلہ ہوا کہ بورڈ ا پنا کام جاری رکھے.لیکن بوجوہ ۶۱۹۵۵ +1909 یہ کام مناطر خواہ رنگ میں سرانجام نہ دیا جا سکا.اس لئے ان کی شوری میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صدر مجلس ایک کمیٹی بنادیں جو معینہ مدت میں دستورالعمل پر نظر ثانی کرے.چنانچہ صدر محترم نے تین افراد پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنادی جو وقتا فوقتا اپنے اجلاس کر کے ترامیم تجویز کرتی رہی اور ان تجاویز و ترامیم پر شوری میں خور ہوتا رہا.یہ سلسلہ دو تین سال چلتا رہا اور بالآخر ۱۳۳۲ پیک میں سب کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا.شور ہی میں غور نور کے بعد حضرت امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضور نے اس کی منظوری صادر فرمائی.یہ دستور العمل، دستور ساہی کے نام سے پہلی مرتبہ ان میں شائع ہوا.بعدمیں وقتا فوقتا جوترامیم ہوتی رہیں نہیں دی تو را اساسی کے آئندہ ایڈریشنوں میں شامل کیا جاتا رہا.اس وقت تک دستور را اساسی کے مندرجہ ذیل ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں :- کو ۱۳۳ همیش طبع اول شہادت امپریالی +1909 طبع دوم: وفا جولائی سمر طبع سوم : ہجرت / مئی 1940 1941 باش جب بیرونی ممالک میں مجالس قائم ہونے لگیں تو ان کو بھی دستورالعمل کی ضرورت پیش آئی.اس نے فیصلہ کیا گیا کہ پہلے سکا نگریزی میں ترجمہ شائع کیا جائے.ترجمہ کا کام مولوی احمد حسن صاحب شبرا ر پشاور یونیورسٹی اور پروفیسر بی اے خان ایم ایس سی نے کیا.نظرثانی کے بعد اسے شام میں شائع کر دیا گیا.دوسرا انگریزی ایڈیشن میں نے ان میں شائع کیا گیا.
٣١٠ Al 11 عدیداران مجلس انصار الله مرکزیہ مائد نائب قائد نائب قائد نائب قائد نائب قائد نائب صدر اعزاز می اراکین سیکر تری و قائد عمومی باند تبلیغ تعلیم و تربیت قائد مال به عمومی تبلیغ تعلیم و تربیت مال ۱۳۱۹ بیش مولوی شیر علی مولوی عبد الرحيم درد مولوی قرنه ند علی خان X کا X چو یکی فتح محمد سیال ايضا ايضاً ✓ x x x X X × 1951 ۱۳۲۱ ۱۹۴۲ ۱۳۲۲ ۱۹۴۳ ايضا الها x x X ايضا مرزا البشير احمد چوہدری ابوالهاشم ايضاً به تو بدری مولوی سیدمیر جو بدی ظفر الله ان تا ستمبر مر تبوک مولوی عبد الرحیم درو R العنا ايضا ۱۹۴۴ ۱۳۲۴ " ۱۹۴۵ ايضاً x ايضاً X ۱۳۲۵ ايضا ايضا ايضا ایسا ايضا الضا ايضاً البيضا ايضا الها ايضا البيضا A مولوی فتح محمد سیال فرزند علی محمد اسحاق مولوی عبد الرحمن بن ابو العطاء ايضاً ولى الله شاه ايضاً مولوی مولوی ظهور حسین 0 قمر الدین ايضاً ايضا الفا ايضاً ايضاً ايضاً الفا کرینگے ايضاً الي جو کہ الها ايضا
نمبر شمار عمرة ✓ + 1 لم د صدر نائب صدر اعزازی راکین سیکرٹیری قائد عمومی ۱۲ 11 1.9 قائد نائب قائد نائب قائد نائب قائد قائد تعلیم و تربیت قائد مال نائب قائد عمومی تبلیغ تعلیم و تربیت مال مرزا بشیر احمد مولوی ۳۲۶ میش مولوی ۱۹۴۷ء شیر علی به خوبندی مولوی مولوی وه درسی ایوانها شم چویدری ظفر اللہ خان عبدالرحیم درد فتح محمد سیال فرزند علی ولی الله شاه عبید الرحمن جٹ مولوی مولوی مولوی ابوالعظام قمر الدین ظهور حسین ۱۳۲۷ ۱۹۴۸ به تو بدری ايضا اینا ا البنا ایشا ايضاً ايضاً ايضاً اعضا فتح محمد سیال ۱۹۴۹ ۱۳۲۹ 190.ايضا ايضا " الفا ايضاً ايضا ايضا ايضا الصنا مرزا عزیز احمد حمید که الضا الضا از نبوت / نومبر " مولوی چوہدری مولوی : لو العطا ايضاً احمد خان نسیم ظهورا محمد ايضا القرار 3° ايضا
قام خدمت خلق داشیانه Abd K 4 تمر شمار صدر نائب صدر اعزازی اراکین قائد عمومی قائد اصلاح و ارشاد قائد تربیت قائد تعلیم قائد مال ۱۳۳۰ ش مرزا عزیز احمد X ۱۳۳۱ 190K ۱۳۳۳۳ ١٩٥٣ ۱۳۳۳ ايضا x پیچوہدری فتح محمد سیال ظفر اللہ خان ورد ايضا مرزا بشیر احمد مولوی عبدالرحیم مولانا ابوالعطاء مولوی فرزند علی خان مولوی فرزند علی ولی اللہ شاہ " ايضاً ايضاً.ايضا ايضا ايضا " " ايضاً K ايضا ايضا ايضا ايضا ايضا ايضا حضرت امیرالمومنین حضرت مرزا ناصر احمد ايضا اليمنا الضلال ايضا الوان ايضاً ايضا صاحب از تو میر مرزا بشیر احمد حضرت امیر المومنين ۱۳۳۴ 1900 ايضا خلیفہ المسیح الثانی چوبی سی فتح مین سال ايضاً چو ہد ری نظر اسد خان الصنا ايضا البيضا الفا مرزا عزیز احمد ايضا ۱۳۳۵ T904 الصاف ايضا سید ولی اللہ شاہ مولانا ابو العطاء قریشی محمد ند بر ملتانی مرزا منصور احمد مولوی قمر الدین چوہدری ظہوراحمد رمز ايضا الفا ايضا" ايضا مرزا مبارک احمد الصنا شیخ محبوب عالم خالد القضاه ☑ X لا 1904
نمبر شمار ريده ۱۳۳۷ بهش ١٣٥٨ء 1904 ١٩٦٠ صدر نائب صدر اعزازی اراکین قائد عمومی قائد اصلاح و ارشاد قائد تربیت قائد تعلیم قائد مال قائد خدمت خلق ایثار ۱۳۴۰ 1941 حضرت مرزا ناصر احمد ايضا ايضا سیدولی الله شاه مرزا بشیر احمد وہدری فتح محمد سیال حضرت مرزا نا صر احمد ر ظفر اللہ خان مرزا امیر تر احمد مولانا ابو العطاء مرزا مبارک احمد مولوی قمر الدین مولوی قمرالدین چوہدری ظهور احمد 又 ايضا شیخ موجود عالم خالد مولانا ابوالعطاء پپرونیر عطاء الله ايضا الضا مرزا مبارک احمد اليف مرزا مبارک احمد چوہدری فتح کا بیان وفات پا گئے مولانا چوبداری ايضا مولانا العطاعة مشاق احمد یا دود جلال شمس لا ابا الا انا دارای بار میراگر این امر مهدی طهوراند چوہدری القران البيضا ايضاً مولانا الجو العطا مولا نا جلال الدین پروفیسر چوہدری چوہدری ظہور احمد احمد خناق باجوه مواسم
لله الله IɅ 14 10 ۱۴ قائد ذہانت و نائب قائد عمومی نائب قائد مال نائب قائد تعلیم نائب قائد نائب قائد صحت جسمانی اصلاح دارشاد خدمت خلق و ایثار تربیت نائب قائد نائب قائد ذہانت و صحت جسمانی اڈیٹر ماہنامہ انصار الله x x ✗ x چوہدری محمد فضل دار ☑ چوہدری غلام یسین ايضا X x ✓ 蚁 x x x بچوہدری ظهور احمد ايضاً مر شمار عمده 1401 ام ۱۳ Taar ✓ May ☑ Tien ☑ 1900 مرزا مبارک احمد چوہدری مشتاق احمد سواری ظهور حسین با جوه کوریل مرزا داؤد شیخ محبوب عالم ايضا احمد خالد مرزا منصور احمد ملک محمد عبید اللہ ايضا اليف ايضا ✓ K ر قیر جیب الله خان صوفی غلام محمد پر میری مد ابراہیم ناصر ڈاکٹر خلیل احمد چوہدری مشتاق احمد یاد جوه القران ايضا چوہدری شبیر احمد البيضا چوہدری فضل احمد مولوی محمد سعید انصاری چوہدری محمد شریف ايضا مسعود احمد خان دہلوی حسن محمد خان البيضاً بيضا حبیب اللہ خان ملک محمد عید اشته ملک محمد رفیق چو بادسری فصلی احمد شبیر احمد " ايضاً ايضا 1904 1904 1904 1944 1990 1441
نمبر شمار عهدة فيدر نائب صدر ۳۲۲ امیش حضرت مرزا گر را مبارکه احمد ناصر احمد مرزا بشیر احمد هر تا عزیز المان q اعزازی اراکین قائد عمومی قائد اصلاح و ارشاد قائد تربیت قائد تعلیم قائد حال فق شد خدمت معلق وانیار شیخ محبوب عالم مولانا ابو العطاء مولانا جلال الدین پروفیسر چوہدری ظهور احمد مرزا منور احمد A خالد شمس حبیب اللہ خان چوہدری نلف اللہ خان البيضا البيضا " ايضا البيضا پروفیسر محمد ابراهیم مولانا ابوالعطاء مولانا جلال الدین شمس ايضاً ايضاً مرزا عزیز احمد ۱۳۴۳ ايضا الضا ی چوہدری ظفر اللہ خان الصبا شیخ مبارک احمد ایضا ايضاً ايضا ايضا سید ولی اللہ شاہ ۳۱۵ ۱۳۴۴ 1990 حضرت امیرالمونین ۱۳۴۵ خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰی اس سال با قاعدہ طور پر مجلس عاملہ کی تشکیل عمل میں نہیں آئی ، بلکہ ۳۴۳ میشی کے عہدہ داران کام کرتے رہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ سابق عهده داران کام کرتے رہیں.۱۳۴۷ 1944 مرزا عزیز احمد الها ايضاً ايضاً البيتا ایضاً چوہدری فضل احمد ايضا البيضا چوہدری ظفر اللہ خاں
L ۴ نمبر شمار قائد صدر نائب صدر اعزازه ی اراکین قائد عمومی اصلاح دارشاد مرزا عزیز احمد شیخ محبوب عالم 1940 ۱۳۴۷ پیش حضرت خلیفة السبع مرزا مبارک احمد الثالث ایده الله قائد تربیت قائد تعلیم قائد مال مولانا ابو العطاء شیخ مبارک احمد پروفیسر حبیب اللہ چوہدری ظہور احمد مرزا منور احمد قائد خدمت خلق ایثار چوہدری ظفر اللہ خان خالد خان ۱۳۴۸ +1994 مرزا مبارک احمد مولانا ابوالعطاء ايضا ايضاً ايضا اليمنا ايضاً البيضا الفضا رنا منور احمد مولوی نور محمد نسیم سیتی ۱۳۴۹ 1940 ايضا الله ايضا ايضاً الضنا ايضاً ايضا ١٣٥٠ 1941 ايضا ايفا الضا موردی مولوی نور محد نسیم سیفی از جون العنا ايضاً ملک محمد رفیق مولانا عبد المالك 11 ١٣٥١ ۱۹۷۲ البيضا اليف ايضاً الفا ايضا البيضا رم العنا البيضا فراد
19 14 14 ia ۱۴ ۱۳ ۱۲ 11 " نمبر شمار 51944 ۱۳۴۲ 194⑈ نائب قائد نائب قائد نائب قائد تربیت نائب قائد ایڈیٹر ماہنا قائد ذہانت و صحت نائب قائد عمومی نائب قائد مال نائب قائد تعلیم اصلاح و ارشاد قدمت خلق و ایثار جسمانی ذہانت و صحت سیمانی ۱۳۲۱ میش مرزا منصور احمد چوہدری شبیر احمد ملک محمد رفیق ملک محمد رفیق مولانا ارجمند خان ملک محمد عبد الله ملک محمد رفیق چوہدری فضل احمد چونکه ی محمد فضد او مسعود احمد خان مسعود احمد خان پر ولی محمدار دہلوی انصار الله قائد اشاعت قائد تجنید شیر ابراهیم دہلوی ناصر ايضا کپٹن ملک عبدالله ايضا چوہدری فضل احمد البيضا مولوی محمد صادق مبلغ انٹرنیشیا ايضا ايضا پروفیسر ايضا الله نان ام ۱۳ ايضا البيضا 14% ۱۳۴۴ 1940 ۱۳۴۵ 1944 الفضا چوہدری شبیر احمد ایضاً "...ملک محمد عبد الله ايضا ايضا العنا ايضا اليضا مولوی نور محمد سیم سیفی ايضا ايضا اليفا ايضا ايضا " " البيضا ايضا رم اليفا المها ايضا اليضاً ايضا البيضا اليضا اليف الرضا ايضاً ايضاً ايضاً ايضا 1944 ۱۳۴۷ 194A ايضا ايضا العنا ايضا اليف اين القا ايضا الضال چوہدری فضل احمد ۱۳ ايضاً ايضا 1444 ۱۳۴۹ 144- ١٣٥٠ 1981 المضنا ايضا الفة مرزا مفور احمد ايضا ४ " اليفا ايضاً ايضا مولوی غلام باری سیعت مولوی محمد معین میر شیخ خورشید احمد کیٹن عبد الله ايضا العنا العا مولوی عبدالقادر ايضا ضيغم از جون الضا ايضا 192 ايف مولوی عبد الکریم شرم العنا الها الها الا
نمبر شمار ۲۱ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ آڈیٹر قائد نائب قائد اشاعت وقف جدید مانده قائد تحریک جدید منیجر ماہنامہ انصار اللہ سیکرٹری نائب قائد وقت جدید نایت تحریک جدید برائے صدر ۱۳۴۱ پیش صوفی غلام محمد شیخ خورشید احمد العنا ايضاً x 1444 ۱۳۴۳ 1440 ۱۳۴۴ -* 1940 گروی ايضا ايضا ملک محمد عبد الله ناصر اعضا ايضاً ايضا * " الضا ايضاً الهنا ملک نور محو تقسیم سیفی العام + + 1944 ۱۳۴۶ 1994 ۱۳۴۷ 1944 1944 144+ ۱۳۵۰ الفبا البیضا کپیٹن ملک عبد اللہ خال ايضا يام ایضا ايضاً پر و قصير الشارت الرحمن قائد عمومی ☑ اليها ايضا بيقنا تائب ملک محمد رفیق چوہدری شبیر احمد قائد عمومی X ايضا ايضا الصبا العنا چوہدری بشیر احمد سیال ايضا چوہدری شبیر احمد سیال الینا ايضا مسعود احمد خان دہلوی چوہدری محمد ابراهیم چوہدری عطاه الله ايضا ۱۳۵۱ نائی - مرزا فتح وبین مولوی دوست محمد شاہد البيضا ايضا قائد عمومی الفا شیخ نصیر الدین سید جواد علی شاہ Vid
هر شمار عهده نائب صدر اراکین خصوصی نائی صدر قائد عمومی قائد اصلاح وارشاد قائد تربیت صف دوم قائد دیانت و صحت جسمانی قائد حال مرنا عزیز احمد ۱۳۵۳ بهش مرزا مبارک احمد مولانا ابوالعطاء مولوی نوره می رسیم چوہدری ظفر اللہ خان مولانا ابو العلاء شیخ مبارک مرنا منور احمد ملک محمد رفیق ۱۹۷۳ ء سیقی ينا فاسور البيضاً ايضا چوہدری ظفر اللہ خان چوہدری شبیر احمد ايضا البيضا الضاً.ايضا ملک محمد عبد الله ۱۹۷۴ ايضا 1940 مولا نا عبدالمالک خان ايضا N ايضا ايضا ايضا ايضا البيضا الضا ۱۳۵۰ 1449 to اعضا شیخ مبارک احمد چو برای محمد ظفر الدخان نیے محمد احمد منظور - سرزا عبد الحق مولانا عبد المالک خان مولانا محارم پارسی سيف البيضا شیخ مبارک احمد مولانا ابو العطاء ايضا چوہدری سمیع الله سیال القا ايضا 1.964 ايضا چوہدری حمید اللہ مولوی بشارت احمد ايف مولانا بشارت احمد المضا البيضا بشیر بشیر ايضا البيضا 194A ايضا البيعتا " ايضا ايضاً ايضاً جه bint
192 خان دہلوی بشارت الرحمن نمبر شمار = 14 ۱۵ ۱۴ ۱۳ IM لا 19 عهده قائد قائد قائد ایتار قائد تعلیم قائد تجنید اویر اڈیٹر ماہنامہ قائد قائد قلم دوستی مینجیر ماہنامه وقت جدید تحریک جدید ۱۳۵۲ مشق پروفیسر صیب الله مسعود احمدفان پروفسیر چویدری شیر احمد مولانا عبدالا لک نشان صوفی غلام محمد انصار الله مجالسی بیرون سیکرٹری انصار اللہ برائے صدر مولوی محمد صدیق چوہدری گورداسپور محمد ابراہیم دہلوی مسعود احمد خان مولوی عبد القادر فیقم Irør 144 ايضاً القا ايضا پروفسیر ملک محمد رفیق * مولانا غلام باری مولوی عبد القادر البيضا ملک محمد عبد الله بیضا بشدت الرحمن سين ۱۳۵۰ 1940 ايضا اين ايضاً ايضا ايضا الضم ايضا الينا ايضا ايضاً الطا ۱۳۵۵ 1429 1104 1944 1104 142A.النضال ايضا ایضا چوب کی شبیر احمد مولانا عطا الله ايضا ايضا اليفا الیشا چوہدری ايضا کلیم محمد ابراہیم ر ايضا سید احمد علی شاه ايضا القا مولوی عبد الکریم ايضا سید عبد الحی شاه حسن محمد عارف حسن محمد ايضا ايضا شرما عارف العنا الالوان الينا ايضا ايضا العنا البيضا ايضا البيضا البضا
نمبر شمار عہدہ نائب قائد عمومی ۲۵ ۲۴ ۲۳ ۲۲ نائب قائد نائب قائد ۲۶ र् PA نائب قائد قائد اشاعت نائب قائد ا شاعت نائب قائد اصلاح و ارشاد نائب قائد تربیت زبانت و صحت جسمانی تحریک جدید و وقف جدید ایشار ۱۳۵۳ مش شیخ خورشید احمد مولوی محمد اسمعیل غلام احمد نسیم بشیر احمد سیال مولانا نظام باری سیف مولوی دوست محمد شاہد حافظ بشیر الدین میدانند منیر مولوی محمد صدیق اليضاً الضا ايضا مولوی عبد الرحمان ايضاً مولوی محمد صدیق انور ايضاً الفا شیخ نور احمد منیر ايضاً صوفی خدا بخش ايضا شیخ خورشید احمد الضمان سید قربان حسین شاه ايضا.النا ايضا موی فضل الهی بیشتر ايضا سید قربان حسین شاه عبد الرزاق شیخ راشد احمد مولوی بشارت المدنسیم سید عبدالحی شاه ايضا صوفی محمد اسحق ارتر تهران ايضا ايضا ايضاً 144P ۱۳۵۴ 1440 1464 1966 ۱۳۵۷ 192A
۳۲۲ حرف آخر گذشتہ ابواب میں یہ ذکر آچکا ہے کہ مجلس انصار اللہ کی بنیاد حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے رکھی تھا وہ بڑی توجہ سے اسے پروان چڑھایا تھا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی انصاراللہ کے آخر میں چند ایسی نصائح درج کر دی جائیں ہو حضور نے انصار اللہ کو مخاطب کر کے فرمائیں یہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں دعوت عمل دے رہی ہیں.اس کتاب کو امام آخر از زمان حضرت مسح موعود علیہ اسلام کے چند اشعار پر ختم کیا جارہا ہے جن میں حضور نے اسلام کی موجودہ کمز در حالت کے پس منظر میں انصار دین کی قدرت کا اظہار کیا ہے اور فرمند دل رکھنے والوں کو ابھارا ہے کہ وہ اپنی جان ومال سے دین حق کی اعانت کے لیے کوشان ہوں اور رب العرش سے صد آفرین کی خلعت حاصل کر لیں.یہی انصار اللہ کے قیام کا مقصد ہے." میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ نہیں جو صحابی ا.میں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں.اس لیے جماعت میں نمازوں ، دعاؤں اور تعلیق باشد کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تجد ، ذکر الٹی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں : الفضل ۱۵؍ دسمبر شاه ) یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالٰی کے مددگار.گویا تمہیں اللہ تعالٰی کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالٰی از لی اور ابدی ہے اس لیے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ.تم اپنے انصارہ ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قائم رکھتے پہلے جاؤ اور کوشش کر کہ یہ کام نسلاً بعد نسیں
الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۹۶ ) " چلتا چلا جائے " آپ کا نام انصار اللہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ جہانتک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے.دینی لحاظ سے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چرچا زیادہ سے زیادہ کریں تا کہ آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے.......آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الٹی کی تلقین کرتے رہنا چاہیئے " الفضل سے نومبر تاء) کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام 4 ہر طرف کفر ست ہوشاں پہچو افواج یزید دین حقی بیمار و بنگی کچھ زین العابدین عالمان را روز و شب با هم فساد از جوش نفس را بدان فاضل سراسر از مرد یہ تھامے دین ہر کسے از بهر نفس درون خود طرفے گرفت طرف دیں خالی شد و بر دشمنی جنت از کمیس اسے برادر دل منہ در دولت دنیائے دوں زہر خونریز ست در هر قطره این انگلیس تا توانی جهد کن از بهر دین با جان و مال تازه رب العرش یا بی خلعت صد آفریں یا اللی باز کے آید ز تو وقت مدد باز کے بینیم آن فرخنده ایام دستین این دو فکر دین احمد مغز جان ما گذاشت کثرت اعدائے ملت قلت انصار دین