Tareekh Lajna Vol 2

Tareekh Lajna Vol 2

تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم

1947ء سے 1958ءتک
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

قیام پاکستان اور ہجرت کے موقع پر احمدی خواتین کی جرأت و دلیری کے زریں نمونے لئے اس جلد میں پاکستان میں قائم ہونے والے نئے مرکز میں احمدی خواتین و بچیوں کی تعلیم و تربیت اورانکی  سماجی وروحانی و علمی و ادبی  بہتری کے منصوبوں پر از سر نوکام کے آغاز کی تاریخ کو سموئے ہوئے اس جلد دوم کونہایت محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام پرقریبا ً25 برس مکمل ہوچکے تھے ، لیکن تقسیم ملک اور ہجرت کے سانحوں اور برصغیر میں چلنے والی انقلاب کی آندھی و طوفان نے دیگر سب شعبوں اور گروہوں کی طرح لجنہ کے منصوبوں کو بھی شدید متاثر کیا لیکن اپنے اولوالعزم قائد حضرت مصلح موعود ؓ کی قیادت اور رہنمائی نے اپنا سفر پھر سے شروع کیا اور بہت جلد دوبارہ مستحکم بنیادوں پر ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہونے لگے۔ تاریخ لجنہ اماء اللہ کی یہ جلد ایمان افروز بھی ہے اور ازدیاد علم کا موجب بھی۔


Book Content

Page 1

تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک زیر نگرانی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی

Page 2

نام کتاب: پہلا ایڈیشن: تعداد اشاعت تاریخ لجنہ جلد دوم $ 1972 ایک ہزار دوسرا ایڈیشن تعداد اشاعت قیمت $2014 2 ہزار

Page 3

404 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، نَحْمُدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُود تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ءتک قیام پاکستان اور ہجرت کے موقع پر احمدی خواتین کی جرات و دلیری کے زرریں نمونے نئے مرکز میں کام کا از سر نو آغاز اور خدمت دین کے عظیم الشان کام کرنے کی توفیق قیام پاکستان کے بعد لجنہ اماءاللہ کا شجر پچھین ۲۵ سال میں ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا تھا اور ہندوستان سے باہر بھی اس کی شاخوں کا پھیلاؤ شروع ہو چکا تھا کہ اچانک ایک زبر دست آندھی آئی ایک ایسا طوفان اٹھا جس نے اس درخت کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیں.یہ طوفان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ظہور پذیر ہوا.اس کے نتیجہ میں جماعت کے بیشتر حصہ کو اپنے مرکز سے

Page 4

ہجرت کر کے ایک نیا مرکز بسانا پڑا.لازمی طور پر لجنہ اماءاللہ کے کاموں پر بھی یہ انقلاب گہرے طور پر اثر انداز ہوا.حالات نے اس شجر کی بہت سی ٹہنیوں کو کاٹ دیا جنہیں دوسری جگہ پر پیوند کر دیا گیا اس حادثہ سے عارضی طور پر لجنہ اماءاللہ کی سرگرمیاں مدھم تو ضرور پڑیں لیکن حضرت مصلح موعود کی قیادت میں جلد ہی اس نے پھر پوری سرگرمی اور جوش سے اپنے فرائض کو ادا کرنا شروع کر دیا ہجرت کرنے والی بہنیں جہاں جہاں جا کر آباد ہوئیں انہوں نے ایک نئے عزم اور نئی روح سے اس شہر، قصبہ یا گاؤں میں کام شروع کر دیا اور اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہوئے بہت جلد ترقی کی راہ پر رواں دواں ہو گئیں.احمدی مستورات کی ان قربانیوں کی داستان جو نہ صرف تاریخ لجنہ اماء اللہ کا ایک سنہری باب ہے بلکہ تاریخ احمدیت کا بھی ، آپ آئندہ صفحات میں پڑھیں گی.

Page 5

فہرست مضامین تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم عنوان صفحہ باب اول ۱۹۴۷ء کے آخری چار ماہ 3 قیام پاکستان کے بعد نئے مرکز میں کام کا 3 لجنہ اماءاللہ کراچی لجنہ اماءاللہ راولپنڈی لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ 40 45 49 ۱۹۴۷ء میں وفات پانے والی لجنہ اماءاللہ کی 61 از سر نو آغاز جماعت کا نیا مرکز حضرت مصلح موعود کی ایک اہم نصیحت 3 5 6 کارکنات ۱۹۴۸ء ۱۹۴۸ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی عہدہ داران 64 65 66 لاہور میں مہاجرات قادیان کی عارضی تنظیم قادیان سے احمدی بچوں اور مستوارت کے انخلاء کی جد و جہد احمدی خواتین کی حفاظت کا شاندار کارنامہ چند احمدی خواتین کے پر از ایمان خطوط 9 18 لجنات اما ء اللہ کے پندرہ روزہ جلسے مستورات لاہور کی دینی تعلیم کیلئے کلاس 68 کا اجراء احمدی عورتوں کی بہادری اور جرات کے عملی 24 مهاجرات قادیان مقیم لاہور کیلئے دینی نصاب 69 نمونے لاہور میں احمدی خواتین کے قیام اور رہائش 27 کا کٹھن مرحلہ پردہ کے متعلق حضرت مصلح موعود کے ارشادات 70 خواتین خاندان حضرت مسیح موعود پر چند 71 مختلف مقامات پر مہاجرین کی امداد کیلئے 31 تحریک وصیت لجنات کی قابل قدر مساعی لاہور میں دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا قیام 34 اعتراضات اور ان کے جواب مختصر حالات لجنہ اماءاللہ چنیوٹ واحمد نگر ایک ڈچ خاتون کا قبول اسلام 73 74 77 81 مختلف مقامات پر ہجرت کے بعد لجنات کی 36 از سر نو تنظیم لجنہ اماءاللہ لاہور 36 پہلی تعلیم القرآن کلاس مستورات کراچی سے حضرت مصلح موعود کا خطاب 83 83

Page 6

جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۹ء میں حضرت موعود کا عورتوں سے خطاب مصد جلسہ سالانہ کے اختتام پر کارکنات سے حضرت مصلح موعود کا خطاب 137 140 تقریب شادی سیده بشری بیگم صاحبہ بنت 144 حضرت میر محمد اسحق صاحب 99 101 =: 90 88 مجاہدین کشمیر کیلئے لجنہ اماءاللہ کی خدمات لجنات اما ء اللہ بیرون کی سرگرمیاں دوسرا باب ١٩٤٩ء عہدہ داران لجنہ اماءاللہ ۱۹۴۹ء مهاجرات قادیان کی ربوہ کور وانگی ربوہ میں مستورات کی رہائش اور ان کا 103 تربیتی نظام دار الخواتین کا انتظام ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ 103 106 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مستورات سے 107 خطاب ربوہ میں نصرت گرلز ہائی سکول کا قیام الجنہ اماءاللہ ربوہ دوسری تعلیم القرآن کلاس حضرت مصلح موعود کا لجنہ کوئٹہ سے خطاب 116 120 125 127 ۱۹۵۰ء عہدہ داران لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ۱۹۵۰ء مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد ربوہ سے ماہنامہ مصباح کا اجراء تیسری تعلیم القرآن کلاس امتہائی لائبریری کا احیاء 149 149 173 183 184 187 الجنہ اماء اللہ لاہور سے حضرت خلیفۃ اح 189 الثانی کا خطاب لجنہ اماءاللہ کوئٹہ سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی 191 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ربوہ میں 129 کا خطاب مستقل رہائش دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ مسجد ربوہ کا سنگ بنیاد لجنات بیرون کی مساعی عورتوں میں وقف زندگی کی تحریک پاکستان میں پہلی بار دستکاری کی نمائش 132 132 1333 135 136 عورتوں کی دینی تعلیم کے متعلق حضرت مصلح 196 موعود کی جماعت کو نصائح لڑکیوں کے ناموں کے متعلق ایک غلطی کی 197 اصلاح بیرونی ممالک میں بجنات کی مساعی 202 جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ ء میں حضرت مصلح موعود کا 205 مستورات سے خطاب

Page 7

عہدہ داران لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۸ء را باب ۱۹۵۱ء 218 iii = سلسلہ کے لئے آپ کی مالی قربانیاں الفضل کے اجراء کیلئے قربانی 304 306 حضرت ام المومنین بحیثیت ممبر لجنہ اماءاللہ - 309 عہدہ داران لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ۱۹۵۱ء جامعہ نصرت کا قیام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اہم خطاب 225 226 255 حضرت مسیح موعود کے متعلق آپ کی روایات | 311 آپ کی امتیازی شان حضرت ام المومنین کا سانحہ رحلت حضرت مصلح موعودؓ کا درس القرآن بیرونی ممالک کی بجنات کی مساعی 312 314 315 317 319 جامعہ نصرت میں عہد یداران لجنہ اماء اللہ 266 تعزیتی قرار دادیں سے حضرت مصلح موعود کا ایک اہم خطاب لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے اہم فیصلے بیرونی بجنات کی سرگرمیاں 267 275 مبلغین کی بیگمات کیلئے دینی تعلیم کا انتظام 278 یوم مصلح موعود.سیرت النبی کے جلسے 279 جماعت احمدیہ یاد گیر (حیدر آباد دکن) کا جلسہ 280 جلسه سالانه مستورات ۱۹۵۱ء نمائش دستکاری رپورٹ مجلس شوری لجنہ ۲۷ دسمبر ۱۹۵۷ء سال رواں کا آمد وخرچ کارکنات جلسہ سالانہ کا ایک اہم اجلاس وفات پانے والی کارکنات ۱۹۵۲ء 280 281 281 282 283 284 بعض مخلص امریکن احمدی بہنوں کا تذکرہ 322 متفرقات 325 328 329 جلسہ سالانه ۱۹۵۲ء مجلس شوری.شادی کی تقارب چوتھا باب ۱۹۵۳ء جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا شدید 331 طوفان حضرت سیدہ اُم داؤد کی فات) عہد یداران لجنه مرکز یہ الجنہ اماءاللہ ربوہ کی تشکیل 332 333 حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات 288 حضرت سیدہ اُم داؤد صاحبہ کی وفات.339 اور آپ کے حالات وصفات حضرت ام المومنین اور تربیت اولاد جماعت سے محبت و شفقت 300 302 آپ کی نمایاں خصوصیات لجنہ اماءاللہ کراچی سے حضرت مصلح موعود کا 346 اہم خطاب

Page 8

iv بیرونی ممالک کی لجنات کی مساعی جلسه سالانه مستورات جرمن زبان میں ترجمہ قرآن کریم لجنہ کی مجلس شوری دو مخلص خاتونوں کی وفات ۱۹۵۴ء 347 351 354 355 357 حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ.لجنات کی 358 قرار داد مذمت.سیلاب زندگان کی مدد عہد یداران لجنہ مرکزیہ.حضرت مصلح موعودؓ 358 پر قاتلانہ حملہ قرارداد مذمت لوائے احمدیت کی تیاری میں صحابیات کا حصہ 361 سیلاب زدگان کی مدد 365 قائمقام جنرل سیکرٹری حضور کی مراجعت 377 379 سفر یورپ ایڈریس حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اسی 381 الاول کی وفات لجنہ کو انعامات دینے کے متعلق قوانین 387 لجنہ اماءاللہ کراچی کے دفتر کا افتتاح احمد یہ | 390 گرلز سکول سیالکوٹ کا جلسہ تقسیم انعامات لجنہ اماءاللہ کا عہد نامہ بیرونی بجنات جلسہ سالانه ۱۹۵۵ء پانچواں باب ۱۹۵۶ء مبلغین کی بیگمات کے اعزاز میں تقاریب | 366 لجنہ اماءاللہ کا مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع بیرونی بجنات کی رپورٹیں 392 393 398 405 405 406 406 415 416 421 نصرت انڈسٹریل سکول.فتنہ منافقین مرکزی عہدیداران نصرت انڈسٹریل سکول کا قیام انسپکٹرس لجنہ مرکز یہ کا تقرر فتنہ منافقین اور لجنات کی قراردادیں نتیجہ تعلیم القرآن کلاس ۱۹۵۶ء 369 371 372 372 373 لجنات کی مجلس شوری سال رواں کا آمد وخرچ جلسہ سالانه ۱۹۵۴ء حضور کی تقریر ۱۹۵۵ء حضرت مصلح موعود کی علالت اور سفر یورپ 375 لجنہ اماءاللہ کراچی کا پہلا سالانہ جلسہ اور پیغام 422 424 425 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع سالانہ اجتماع کی روداد 376 حضرت اماں جی کی وفات حضور کی تشویشناک علالت

Page 9

V لجنات کی گیارھویں مجلس شوری کی روداد حضرت مصلح موعود کا خطاب جلسہ سالانه ۱۹۵۶ء کارکنات جلسہ سالانہ کا اجلاس 425 435 438 442 لجنہ اماءاللہ کراچی کا دوسرا سالانہ اجتماع جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء احمدی عورتوں کی جرات و دلیری کا ذکر رپورٹ بھیجوانے والی بجنات اسماء عہدیداران قیام گاه مستورات جلسہ سالانہ 443 نئی لجنات جلسه سالانه قادیان بیرونی لجنات لجنہ اماءاللہ قادیان نصرت جنرل سٹور کا افتتاح بند مخلص خواتین کی وفات ۱۹۵۷ء 447 454 455 455 456 تعزیتی قرار دادیں 487 490 492 494 495 497 ۱۹۵۸ء حضرت ام ناصر کی وفات.صدارت کیلئے 500 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کا انتخاب پہلی سالانہ رپورٹ کی اشاعت حضرت سیدہ ام ناصر کی وفات فضل عمر جونیئر ماڈل سکول.انڈسٹریل سکول 459 ایک اہم خطبہ جمعہ کی گیلری کی تعمیر.مسجد جرمنی کیلئے مالی قربانی پردہ کی اہمیت پر ایک اہم خطبہ جمعہ فضل عمر جونیئر ماڈل سکول انڈسٹریل سکول کی گیلری کی تعمیر مسجد ہمبرگ (جرمنی) کیلئے مالی قربانی امتحان رسائل خلافت لندن میں لجنہ اماءاللہ کا احیاء 460 464 464 470 472 جلسہ سالانه ۱۹۵۸ء انتخاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کا تقرر شوری میں پیش کردہ دیگر فیصلے 500 501 510 512 518 519 519 524 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی بطور صدر 530 سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مختصر قرار داد 477 پہلی تقریر مجلس شوری 479 لجنہ اماءاللہ کی پہلی مطبوعہ سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ امریکہ کا سالانہ اجلاس حضرت مصلح موعود کی تقریر بر موقعہ سالانہ 485 تعلیم القرآن کلاس اجتماع لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۷ء احمدی عورتوں کے معیار وصیت کے متعلق تجاویز 485 انتظامات جلسہ سالانه ۱۹۵۸ء 530 530 532 549

Page 10

vi 541 541 543 543 546 551 جلسہ سالانہ کیلئے سٹور جمع کرنے کی تحریک شعبه مال ۵۸ - ۱۹۵۷ء سیدہ طینت صاحبہ کی امریکہ میں وفات ناصرات الاحمدیہ ناصرات کا پہلا سالانہ اجتماع ضمیمہ تاریخ لجنہ جلد دوم - تاریخ لجنہ جلد اول قارئین کی نظر میں

Page 11

3 باب اوّل ۱۹۴۷ء کے آخری چار ماہ جماعت احمدیہ کے نئے دور کا آغاز احمدی خواتین کی شجاعت و جرات اور دلیری کے زریں کارنامے جماعت کا نیا مرکز : ۳۱ ظہور / اگست ۱۳۳۶ھ جماعت احمد جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ اہم دن ہے کہ جب خرائی تقدیر اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام دارغ ہجرت کے مطابق حضرت اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی کو جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان دار الامان سے مجبوراً ہجرت کرنا پڑی.حضور اپنی حرم حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی اور اپنی بہو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی حرم حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہمراہ ہندوستان سے پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت میں تشریف لے آئے کہ حضور اسی تاریخ کو سوا بجے دو پہر حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دار السلام سے بذریعہ کا روانہ ہوئے اور ساڑھے چار بجے شام بخریت محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ لاہور کی کوٹھی واقع ۳ ٹمپل روڈ لاہور پہنچے اور اس طرح جماعت احمدیہ کے اُس دور کا آغاز ہوا جس کے متعلق خود حضور نے فرمایا تھا کہ:.لے حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر تمام خواتین ۲۵.اگست کو قادیان سے لا ہور تشریف لے آئی تھیں.

Page 12

4 آج ہر احمدی سمجھ لے کہ اب احمدیت پر ایک نیا دور آیا ہے ہجرت کے موقعہ پر جماعت کو انتہائی کٹھن ، صبر آزما اور مصائب و آلام سے پڑ تاریک گھڑیوں میں سے گزرنا پڑا اور اسی وجہ سے حضور نے یہ محسوس کیا کہ:.لگانا ہے.”میرے سامنے ایک درخت کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اُکھیڑ کر دوسری جگہ لمصلہ مصائب و مشکلات کے یہ انتہائی تاریک ایام جماعت احمدیہ نے حضرت سید نا اصلح الموعود کی عدیم المثال قیادت میں جس جرات، دلیری اور فدائیت ، صبر وتحل اور نظم وضبط کے ساتھ گزارے اس پر احمدی خواتین کا بھی خاص حصہ تھا انہوں نے بھی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس موقعہ پر مومنانہ کردار کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.الحمد للہ علی ذالک.قادیان کے خونچکاں واقعات اور وہاں سے ہجرت کے حالات ایسے المناک تھے کہ غم واندوہ کے باعث جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا اور صبر وتحمل کا دامن چھوٹ چھوٹ جاتا تھا مگر ایسے حالات میں حضرت مصلح موعودؓ نے احمدی خواتین کے سامنے اپنی اولوالعزمی کا شاندار عملی نمونہ پیش کر کے انہیں صبر و تحمل اور عزم واستقلال کا جو سبق دیا وہ اس قابل ہے کہ احمدی خواتین ہمیشہ اسے اپنے سامنے رکھیں.یہ نمونہ حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل ہے.حضور فرماتے ہیں.قادیان کے چھوٹ جانے کا صدمہ لازماً طبیعیتوں پر ہوا ہے.میری طبیعت پر بھی اس صدمہ کا اثر ہے لیکن میں نے جب قادیان چھوڑا تو یہ عہد کر لیا تھا کہ میں اس کا غم نہیں کرونگا...میری ایک لڑکی سے کے ابھی بچہ پیدا ہوا تھا.وہ میرے پاس رخصت ہونے کے لئے آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا خاموش رہو یہ وقت رونے کا نہیں بلکہ یہ وقت کام کا ہے.چنانچہ میں نے اس عہد کو ختی سے نبھایا ہے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گامگر میں سمجھتا ہوں کہ جب میں ایک عزم کر چکا ہوں تو میں اس عزم کو آنسوؤں کے ساتھ کیوں مشتبہ کر دوں.ہم اپنے الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ۲ کالم ۲، ۳ و تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحیم مؤلفہ مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۶ کالم ۲۱ و تاریخ احمدیت جلد نمبر۱۱ صفحه ی۲ سے صاحبزادی امتہ الحکیم بیگم صاحبہ بیگم سید داؤ د مظفر احمد شاہ صاحب جو حضرت سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہیں.

Page 13

5 آنسوؤں کو روکیں گے یہاں تک کہ ہم قادیان کو واپس لے لیں.لمصل اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں حضرت سید نا اصلح الموعود کی روح پر جنہوں نے ہر نازک سے نازک موقع پر شجاعت و دلیری اور اولوالعزمی کا بے نظیر عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا.خدا کرے کہ ہم سب اس نمونہ کو اپنانے کی توفیق پائیں.آمین حضور کی ایک اہم نصیحت : قادیان سے ہجرت کے بعد الفضل کا سب سے پہلا پرچہ ۱۵.ستمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے شائع ہوا.اس کے صفحہ اول پر حضور کا اہم نوٹ جلی الفاظ میں زیر عنوان ” کیا آپ بچے احمدی ہیں؟ شائع ہوا اس نوٹ کا ایک حصہ درج ذیل ہے.حضور نے تحریر فرمایا:.اگر آپ سچے احمدی ہیں تو آج ہی سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کر یں.دُعاؤں پر زور دیں نمازوں پر زور دیں.اگر آپ کی بیوی نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں.باز نہ آئے طلاق دے دیں.اگر آپ کا خاوند نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں.اگر اصلاح نہ کرے تو اس سے خلع کرا لیں.اگر آپ کے بچے نماز میں کمزور ہیں تو ان کا اس وقت تک کے لئے مقاطعہ کر دیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں.حضور کے ان الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر آشوب ایام میں نمازوں اور دعاؤں پر زور دینے کے متعلق حضور کے جذبات کیا تھے اور اس سلسلے میں حضور جماعت کے مردوں ،عورتوں اور بچوں سے کیا توقع رکھتے تھے! لاہور پہنچ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خاص نگرانی اور ہدایات کے ماتحت دن رات کی لگاتار محنت سے اور تمام ممکن ذرائع کو بروئے کار لا کر یہ کوشش کی گئی کہ قادیان میں مقیم احمدی عورتوں اور بچوں کو جلد سے جلد حفاظت کے ساتھ پاکستان میں منتقل کیا جائے.ابتداء میں حضور کی خواہش اور کوشش یہی رہی کہ کوئی احمدی اپنی جگہ نہ چھوڑے.مگر آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والوں نے جب حالات کو زیادہ الفضل ۵ جون ۱۹۴۹، صفی۴ - ۵ کالم ۱-۴ ۲ الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء صفحه ۵

Page 14

6 خراب کر دیا تو حضور نے اولاً یہ ہدایت فرمائی کہ صرف عورتوں اور بچوں کو نکال لیا جائے مگر بعد میں جب مردوں کا وہاں رہنا بھی ممکن نہ رہا تو پھر حضور نے چند سو اشخاص کے سوا جنہیں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے بہر حال وہاں ٹھہر نا تھا باقی سب کو بحفاظت پاکستان میں منتقل کرنے کا انتظام فرمایا چنانچہ الفضل میں یہ اطلاع شائع ہوئی کہ:.نہ صرف احمدیوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو ہر طرح کی امداد دی جارہی ہے.قادیان سے عورتوں بچوں اور کمزور نا تواں مردوں کو پاکستانی علاقہ میں منتقل کرنے کے لئے پوری جد و جہد ہورہی ہے.اس مضمون میں یہ بھی بتایا گیا کہ:.یہ کام حضرت امیر المومنین امید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص نگرانی میں دن رات کی لگاتار محنت سے کیا جا رہا ہے.حضور کو جس قدر اس کام کی فکر ہے.اور جس قدر توجہ حضور اس طرف دے رہے ہیں شاید دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا لیڈر بھی خطرات میں اپنی قوم کے لئے ایسا نہیں کرتا ہے قادیان سے احمدی بچوں اور مستورات کے انخلاء کی جدوجہد ے ستمبر ۱۹۴۷ء کو منعقدہ مجلس مشاورت میں یہ طے پایا کہ قادیان سے احمدی بچوں اور عورتوں کو پاکستان پہنچانے کا فوری بندو بست کیا جائے.۱۲.ستمبر ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود نے بھی اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ تحریک فرمائی کہ ہمیں کم از کم دوسوٹرکوں کی اس سلسلے میں فوری ضرورت ہے حضور نے اس خطبہ میں قادیان کے حالات کا ذکر بھی فرمایا جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اس وقت قادیان میں عورتوں اور بچوں کی کیا حالت تھی.حضور نے فرمایا:.,, وہاں آٹھ نو ہزار عورتیں اور بچے ہیں جو نکالنے کے قابل ہیں ورنہ غذا کی حالت ، اور حفاظت کے انتظامات میں سخت دقتیں پیدا ہو جائیں گی.وہاں کی غذائی حالت خراب ہے.نمک مرچ سب ختم ہو چکا ہے.گو میں نے یہاں سے انتظام کر کے یہ چیزیں وہاں کچھ بھجوائی ہیں مگر پھر بھی وہاں کی غذائی حالت تشویشناک ہے.آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا.گھی ختم ہے.لکڑی ختم ہے اس لئے عورتوں اور بچوں کو قادیان سے نکالنا قادیان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.پس جس جس دوست کی طاقت میں ہو اور وہ ٹرک کا انتظام کر سکتے ہیں.انہیں چاہیے کہ وہ ٹرکوں کا نتظام کر کے میاں بشیر احمد صاحب کو ملیں ا روزنامه الفضل ۱۹.ستمبر ۱۹۴۷.صفحہ کالم ۳-۴ الفضل ۹ ستمبر ۱۹۴۷ء ا کالم ۲ تا ۴

Page 15

7 تا کہ ایک نظام کے ماتحت عورتوں اور بچوں کو وہاں سے نکالا جا سکے.اسی خطبہ جمعہ میں حضور نے قادیان سے مقیم بعض ایسی مخلص احمدی عورتوں کا بھی ذکر کیا جو کہ حد درجہ خطرناک حالات کے باوجود وو ایسی دلیر ہیں کہ وہ نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں.“ ٹرکوں کی جو تحریک حضور نے فرمائی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت ڈالی.چنانچہ لاہور سے ٹرک مسلسل قادیان جانے لگے.سب سے بڑا کنوائے ۱۱.۱۲.اکتو بر ۱۹۴۷ء کا تھا جس میں پہلے روز ۱۸ اور دوسرے روز ۷۲ ٹرک تھے.آخری کنوائے ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور پہنچا.ان کے ذریعے قادیان کے تمام احمدی بچے اور مستورات حفاظت کے ساتھ لاہور پہنچ گئے.مستورات اور بچوں کے انخلاء کا یہ عظیم معرکہ کتنی سخت محنت اور جد و جہد سے سر کیا گیا.اس کا اندازہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک اہم مضمون کے مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گاؤں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے اردگر د خطرہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کر ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ مفسد پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو برباد کرنا بھی شامل ہے چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی اغوا شدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک پہنچ چکی تھی اور بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے ) اس لئے ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوا دیا جائے اور اس کے لئے ہم قریباً مجنونانہ جد و جہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے.حتی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے ارد گر خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جارہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے (اور حکومت الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۸ کالم ۳-۴

Page 16

8 کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی باہر.گوحق یہ ہے کہ اس وقت سکھ جتھے اور حکومت گویا ایک معجون مرکب بنے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے ) اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچاؤ کیونکہ ضائع شدہ جائیداد میں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے مگر مومنوں کی ضائع شدہ جانیں جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے تو اب مجھے بتائیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں، کروں تو کیا کروں.مال کے مقابل پر بیشک قیمتی جان بچائی جاسکتی ہے اور مومن کی جان واقعی بہت بڑی چیز ہے مگر کیا میں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ و ناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اٹھاؤں.حضرت صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھا اور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ میں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹرک بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ( گویا پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو نکالنا ہے ) اور ادھر تم جس طرح بھی ہو ہر ٹرک میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچے لدوا کر انہیں جلد سے جلد باہر بھجوا دو.اور جب عورتیں محفوظ ہو جائیں تو پھر باقی معاملہ جو ہماری طاقت سے باہر ہے خدا پر چھوڑ دو.”وللبیت رب يمنعها قادیان سے عورتوں اور بچوں کے انخلاء کے جو انتظامات کئے گئے اور جیسے خونچکاں حالات میں وہ قادیان سے روانہ ہوئے تھے اور لاہور پہنچے تھے اور بہت سی احمدی عورتوں نے اس موقع پر جس بہادری اور جرات و دلیری کا مظاہرہ کیا اس کی کسی قدر تفصیل محترم جناب خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم سابق ایڈیٹر الفضل اور مکرم رحمت اللہ خاں صاحب شاکر نے اپنے اہم اور جامع مضامین.میں بیان فرمائی.مکرم جناب رحمت اللہ خان صاحب شاکر نے تحریر فرمایا:.جن لوگوں نے کھلی سڑکوں اور میدانوں میں ان مظلوموں کو ڈیرے ڈالے دھوپ اور شدید بارش میں پڑے دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی آفت تھی مگر اس کے مقابلہ میں آپ دیکھئے احمدی احباب اور ان کے بیوی بچے کس آرام اور سہولت کے ساتھ ٹرکوں میں محفوظ پاکستان پہنچے ہیں.صبح کو قادیان سے روانہ ہو کر شام کو پہنچ جانا اور یہاں پہنچ کر ان کی خدمت کے لئے سلسلہ کے ے تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۶۳ تا ۲۵

Page 17

9 کارکنوں کا موجود ہونا، ان کے پہنچنے سے قبل ان کے لئے رہائش ،کھانے پینے کا انتظام طبی امداد کا انتظام یہ سب سہولتیں ان کی صرف تنظیم جماعت کی وجہ سے حاصل ہوئیں.پھر ان سب باتوں سے بڑھ کر ایک ایسے وجود کا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے سر پر ہونا جو دن رات ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے بے چین رہتا اور اپنی انتہائی کوشش اور بہترین استعداد میں ان کی بھلائی اور ان کی مشکلات کو کم کرنے میں صرف کر رہا ہے.دنیوی اسباب کے علاوہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کے لئے بارگاہ ایزدی میں سر بسجو د ہوتا اور دعائیں کرتا ہے.یہ سب ایسی نعمتیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے سوا تمام ہندوستان میں کسی مسلمان کو حاصل نہیں.اور یہ سب کچھ ہماری تنظیم کا نتیجہ ہے.احمدی خواتین کی حفاظت کا شاندار کارنامہ: محترم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم کے نے اپنی ذاتی واقفیت اور چشم دید حالات کی بناء پر اس کارنامے پر بڑی عمدگی کے ساتھ تفصیلی روشنی ڈالی ہے.آپ کا جامع اور قابل قدر مضمون درج ذیل کیا جاتا ہے.قادیان کے ارد گرد کے مسلمان دیہات میں سکھوں کے مظالم جب روز بروز بڑھنے لگے.لوٹ مار قتل وغارت اور آتشزنی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا.ملٹری اور پولیس ، لٹیروں اور غنڈوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے اور مسلمانوں کی تباہی کو انتہاء تک پہنچانے میں منہمک ہو گئی اور خطرات کا سیلاب زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ قادیان کے قریب سے قریب تر پہنچنے لگا تو حفاظتی اور دفاعی انتظامات کے سلسلہ میں خواتین اور بچوں کی حفاظت کی طرف حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاص توجہ مبذول فرمائی اور حضور کے ارشاد کے ماتحت لجنہ اماءاللہ کی کارکن خواتین نے ایسی مستورات کی فہرست تیار کی جنہیں ضعف قلب کی تکلیف یا کوئی اور عارضہ لاحق تھا تا کہ سب سے پہلے ان کو قادیان سے باہر محفوظ مقام پر پہنچانے کی کوشش کی جائے.مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ پہلے پہل اس قسم کی فہرست میں نام درج کرانے سے بہت سی ایسی خواتین نے انکار کر دیا جنہیں کوئی نہ کوئی عارضہ تو لاحق تھا لیکن دل مضبوط تھے.ان کی خواہش تھی الفضل ۱۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحه ۴ کالم ۲ کے سابق ایڈ میٹر روز نامہ الفضل قادیان

Page 18

10 10 جس کا انہوں نے باصرار اظہار بھی کیا کہ موت کے خطرہ سے انہیں قادیان سے باہر نہ بھیجا جائے.اگر اب موت ہی مقدر ہے تو قادیان سے بہتر جگہ اور کونسی ہو سکتی ہے؟ پھر ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ خطرہ کے وقت ممکن خدمات سرانجام دینے کے موقع سے انہیں کیوں محروم کیا جاتا ہے.لیکن جب بتایا گیا کہ ان کی موجودگی مردوں کی سرگرمیوں میں مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور دشمن کا مقابلہ اس اطمینان اور انہماک سے نہ ہو سکے گا جو ان کے چلے جانے کے بعد کیا جا سکتا ہے تو وہ بادل نانخواستہ قادیان سے باہر جانے پر آمادہ ہوسکیں.چونکہ خواتین اور بچوں کو محفوظ طریق سے باہر بھیجنے میں سخت مشکلات درپیش تھیں.ذرائع آمد ورفت بالکل مفقود تھے اور راستہ کے خطرات بے شمار.سرکاری حفاظت میں لاریوں اور ٹرکوں کا ملنا نہایت دشوار تھا.ان حالات میں تجویز یہ کی گئی کہ جوں جوں ٹرک میسر آتے جائیں پہلے بیمار، کمزور اور گود میں بچہ رکھنے والی عورتوں کو لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو بھیجا جائے.اس کے لئے محلوں کے پریذیڈنٹوں سے فہرستیں طلب کی جائیں اور آمدہ لڑکوں میں گنجائش کے مطابق نہایت چھان بین اور غور و خوض کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے دستخطوں سے ٹکٹ جاری فرماتے اور ساری ساری رات اپنے عملہ سمیت اس کام میں مصروف رہتے.اس کا اندازہ مجھے اس سے ہوا کہ پہلی دفعہ میرے گھر کی مستورات کا ٹکٹ رات کے قریباً دو بجے پہنچا مگر بارش کی وجہ سے سوار نہ کرایا جا سکا.دوسری دفعہ بھی ٹکٹ رات کے بارہ بجے کے بعد پہنچا.جب چند ٹرک پہنچتے تو ان کی واپسی کے انتظامات شروع کر دیئے جاتے اور روز بروز نازک سے نازک تر ہوتے جانے والے حالات کے پیش نظر اس بات کی انتہائی کوشش کی جاتی کہ زیادہ سے زیادہ عورتوں اور بچوں کو بھیجا جا سکے.اس وجہ سے کم از کم اور نہایت ضروری سامان عام طور پر پہننے کے کچھ کپڑے اور ایک آدھ بستر لے جانے کی تاکید کی جاتی.چونکہ اردگرد کے دیہات کے بے شمار پناہ گزین بھی جمع تھے اور وہ ٹرکوں میں سوار ہونے کے لئے بے تحاشہ یورش کر دیتے تھے اس لئے جن کو ٹکٹ دیئے جاتے ان کا سوار ہونا بہت مشکل ہو جاتا اور انتظامات میں بہت گڑ بڑ پیدا ہو جاتی.اس کے علاوہ مسلح ملٹری کی دخل اندازی مشکلات کو انتہا تک پہنچا دیتی مگر باوجود اس کے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے صاحبزادگان ہر قسم کی مشکلات پر غالب آنے اور خواتین کو سوار کرانے کے لئے بذات خود نہایت تندہی سے مصروف ہوتے

Page 19

11 اس طرح یہ نہایت مشکل کام سرانجام پاسکتا تھا لیکن جہاں دوسرے پہلوؤں سے ملٹری اور پولیس کا ظلم و تشد دبڑھتا گیا وہاں خواتین کی روانگی میں بھی ملٹری نے انتہائی مشکلات پیدا کرنی شروع کر دیں اور بات بات پر مداخلت کرنے اور جبر و ستم کا مظاہرہ کرنے پر تل گئی.ایک دن جبکہ انتظام کے ماتحت ہمارے اپنے دس بارہ ٹرک احمدی عورتوں کو لے جانے کے لئے آئے ہوئے تھے ، عورتیں اور بچے ان میں سوار ہو چکے تھے کہ ملٹری نے حکم دے دیا کہ آدھے ٹرک فورا خالی کر دیئے جائیں ان پر ہم اپنی مرضی سے لوگوں کو سوار کرائیں گے.اس پر جب صدائے احتجاج بلند کی گئی تو ہندو ملٹری نے سب لڑکوں پر قبضہ کر کے نہایت بیدردی اور سفاکی سے پردہ دار عورتوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر پھینک دیا اور اس طرح ٹرک خالی کر کے لے گئی.ملٹری کے اس طریق عمل سے نہ صرف سلسلہ کے انتظام کے ماتحت احمدی ملٹری افسروں کی حفاظت میں آئے ہوئے ٹرکوں میں سوار ہونے سے احمدی خواتین اور احمدی بچے رہ گئے بلکہ کئی ایک کو چوٹیں بھی آئیں اور تھوڑا بہت سامان جو ان کے ساتھ تھا وہ برباد ہو گیا.پھر حکومت کی طرف سے تو اس قسم کے اعلانات کئے جارہے تھے کہ پناہ گزینوں کی تلاشی نہیں لی جاتی ہے.سوائے اسلحہ کی تلاشی کے اور نہ ان سے کوئی اسباب چھینا جاتا ہے لیکن قادیان میں اس تنشد داور سختی سے ایک ایک بستر اور ایک ایک ٹرنک کھول کر دیکھا جاتا اور چھان بین کی جاتی کہ کوئی کام کی چیز باقی نہ رہ جاتی اور اس میں اتنی سرگرمی اور انہماک کا اظہار کیا جاتا کہ کئی بار تھوڑے تھوڑے ٹرکوں کو محض اس لئے رات بھر وہیں رکنا پڑا کہ ان کی تلاشی ختم نہ ہوسکی.اس طرح عورتوں اور بچوں کو نہ صرف ساری رات کھلے میدان میں خوف وخطر کے اندر پڑے رہنا پڑا بلکہ کھانے پینے اور حوائج ضرور یہ پورا کرنے میں بھی انتہائی تکلیف اٹھانی پڑتی.عورتیں اور بچے صبح کے ۴، ۵ بجے لڑکوں پر سوار ہونے کے لئے گھروں سے نکل کر مقررہ جگہوں پر جمع ہونے شروع ہو جاتے اور پناہ گزینوں کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے بڑی مشکلوں سے منتظمین جن میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے صاحبزادگان ہوتے سوار کراسکتے.ابتدائی ایام میں دھوپ میں کافی حدت تھی.جب عورتیں، بچے ٹرکوں میں کھچا کھچ بھر جاتے تو پھر ٹرک ملٹری کے احکام کی انتظار میں دھوپ میں کھڑے رہتے.آخر خدا خدا کر کے چلتے تو تلاشی کی خاطر ریلوے لائن کے قریب کھلے میدان میں ان کو روک دیا جاتا.پھر اس بری طرح ایک ایک چیز کو کھولا اور بکھیرا

Page 20

12 جاتا کہ باقی بچی کھچی اشیاء کا سمیٹنا بھی سخت مشکل ہو جاتا.خاص کر اس لئے کہ عام طور پر صرف مستورات اور بچے جارہے ہوتے مردان کے ساتھ نہ ہوتے اس طرح اس قدر دیر ہو جاتی کہ قافلہ روانہ نہ ہو سکتا اور اسی جگہ عورتوں اور بچیوں کو ایسی حالت میں رات گزارنی پڑتی جبکہ ایک طرف غنڈے سکھوں اور ملٹری و پولیس سے شدید خطرہ میں گھرے ہوتے اور دوسری طرف بھوک پیاس اور دن بھر کی کوفت سے نڈھال ہورہے ہوتے.اس قسم کے دو قافلے مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا.ہمارے نوجوانوں نے ان گرفتاران مصیبت کو کھانا اور پانی پہنچانے کی پوری کوشش کی اور خدا تعالیٰ نے خاص فضل یہ کیا کہ ان دونوں قافلوں کے ساتھ مسلمان ملٹری جن میں ہمارے احمدی نوجوان بھی شامل تھے کافی تعداد میں کافی اسلحہ کے ساتھ موجود تھی اور اس نے حفاظت کا پورا پورا حق ادا کیا.آخری قافلہ جس میں ہزاروں عورتیں اور بچے شامل تھے بہت بڑا قافلہ تھا اور انچارج ایک نہایت فرض شناس انگریز افسر تھا.اس کے قافلہ کے دس ٹرک غیر مسلم پناہ گزینوں کو گورداسپور لے کر گئے تھے.اور ان کو حکم تھا کہ گورداسپور سے خالی ٹرک لے کر بڑے کنوائے کے ساتھ قادیان آملیں تا کہ ان پر بھی قادیان سے عورتوں اور بچوں کو سوار کرایا جائے.لیکن جب ٹرک وقت مقررہ کے بعد بھی قادیان نہ پہنچے تو مذکورہ بالا فرض شناس انگریز خود جیپ کار پر سوار ہو کر گورداسپور گیا اور وہاں سے خالی ٹرک ساتھ لےکر قادیان پہنچا.معلوم ہوا کہ گورداسپور کے افسر خالی ٹرک واپس نہیں آنے دیتے تھے بلکہ وہاں سے ہی لوگوں کو سوار کر کے بھیجنا چاہتے تھے.مگر اس انگریز افسر کی کوشش کامیاب ہوئی اور وہ اپنے ساتھ خالی ٹرک لے کر قادیان پہنچا اور ان عورتوں اور بچوں کو دوسرے دن سوار کرایا.قادیان کے حالات چونکہ اسے بھی بے حد خطر ناک نظر آرہے تھے.ہر طرف تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی.سکھوں کے مسلح جتھے ادھر اُدھر منڈلا رہے تھے.ملٹری اور پولیس بھی قابل اعتماد نظر نہ آتی تھی اس لئے اس نے ضروری سمجھا کہ ہزاروں عورتیں اور بچے جن کی حفاظت کا فرض اس پر عائد ہو چکا ہے ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ہرممکن کوشش اور انتظام کرے.اور کہنا پڑتا ہے کہ جہاں تک ظاہری کوشش اور سامان کا تعلق ہے اس نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے یہ فرض ادا کیا.سو کے قریب ملٹری ٹرک تھے جن کو دائرہ کی شکل میں کھڑا کر دیا اور اندر کی طرف ہر ایک کی سواریوں کو اتار کر آرام کرنے کے لئے کہہ دیا.باہر کی طرف کڑا پہرہ قائم کر دیا.اس کے علاوہ قریب قریب کے ا

Page 21

13 مکانوں پر مضبوط پکھیں قائم کر دیں.افسروں کو نگرانی پر کھڑا کر دیا.خود بھی مسلح کار پر چکر لگاتا رہا.ملٹری جو قریباً ساری کی ساری احمدی نو جوانوں پر مشتمل تھی بڑے سے بڑے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری رات بالکل تیار رہی.اس طرح رات امن اور خیریت سے گزرگئی اور صبح کو قافلہ روانہ ہو گیا.یہ اس قافلہ کا ذکر ہے جس میں قادیان کی تمام عورتیں اور بچے آخری بار روانہ ہو گئے.اس سے قبل پرائیویٹ لاریوں کا ایک اور کنوائے ملٹری کی حفاظت میں اس وقت پہنچا تھا جبکہ ابھی قادیان میں رہنے والوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالا گیا تھا.اس پر سوار ہونے والوں پر بھی انتہائی تشد دکیا گیا.ابھی وہ کنوائے رکا ہی ہوا تھا کہ اگلے دن صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب میجر ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی سرکردگی میں چند ملٹری ٹڑکوں پر مشتمل ایک اور کنوائے پہنچ گیا.جب یہ کنوائے تیار ہو کر اس جگہ پہنچا جہاں ہندوستانی ملٹری تلاشی لیتی تھی تو پہلا کنوائے وہیں رکا پڑا تھا اور ملٹری کی مار دھاڑ کا شکار ہورہا تھا اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب نے عورتوں اور بچوں کو سہولت کی خاطر اپنے رتبہ اور درجہ کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ایسا طریق اختیار کیا جو نہایت کامیاب ثابت ہوا اور ان کے زیر حفاظت کنوائے تھوڑی دیر کے بعد ہی روانہ ہو گیا.اس وقت موقعہ پر تلاشی لینے والا بڑا افسر موجود نہ تھاوہ گورداسپور گیا ہوا تھا اور انچارج صاحبزادہ صاحب کے مقابلہ میں کوئی بہت چھوٹے درجہ کا افسر تھا.میں نے دیکھا صاحبزادہ صاحب نے بے تکلفانہ گفتگو کرتے ہوئے اپنا بازواس کی کمر میں ڈال دیا.اسے ساتھ لئے ہوئے ادھر اُدھر ٹہلنے لگے اور وہ آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا.آپکی یہ ادا دیکھ اداد کر میرا دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہمارے لئے کیا کیا کوشش کر رہی ہے چند ہی منٹ بعد آپ کے کنوائے کو بغیر تلاشی لئے روانگی کی اجازت مل گئی اور اس طرح آپ نے حسن تدبر سے خواتین اور بچوں کو بڑی تکلیف سے بچالیا بحالیکہ آپ سے پہلے آنے والا قافلہ اس دن بھی نہ جا سکا جو اگلے دن روانہ ہوا.ٹرکوں میں سوار ہونے کے سلسلہ میں عورتوں کو ایک بڑی تکلیف یہ بھی درپیش تھی کہ ہندو ملٹری کا قریباً ہر سپاہی اور افسر چند ایک بیرونی پناہ گزین مردوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لگائے پھرتا اور ہر ایک ٹرک میں جو پہلے ہی عورتوں اور بچوں سے لبالب بھرا ہوتا نہ صرف عورتوں کو بلکہ مردوں کو بھی زبردستی ٹھونسنا چاہتا اور باوجود بار بار صدائے احتجاج بلند کرنے کے ٹھونس کر ہی رہتا.یہ کون لوگ تھے؟ وہی خانماں برباد جو اپنی رہی سہی پونچی ان بھیڑیوں کی نذر کر دیتے تا کہ جان بچا کر ان کے نرغہ سے نکل سکیں.

Page 22

14 ان ہولناک اور تباہ کن ایام میں جبکہ مشرقی پنجاب کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک لاکھوں مسلمان انتہائی مظالم کا شکار ہورہے تھے اور سفاکوں کے ظلم و ستم سے بچنے اور اپنے ننگ و ناموس کو بچانے کی کوئی صورت نہ پاتے تھے.چنانچہ اب تک لاکھوں ہی موت کے گھاٹ اتر چکے اور لاکھوں ابھی تک مخلصی پانے کا کوئی ذریعہ میسر نہ آنے کی وجہ سے موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں یہ انتظامات.قادیان سے ہزاروں عورتوں اور بچوں کو صحیح سلامت نکال لانے کے انتظامات.خواتین کے ننگ و ناموس اور عزت و حرمت کو محفوظ رکھنے کے یہ انتظامات.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دن رات کی ان کوششوں اور مساعی کا ہی نتیجہ ہے جنہیں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے شرف قبولیت بخشا اور جن کی کامیابی کی مثال جان و مال ، عزت و آبرو کی تباہی کے اس غیر معمولی سیلاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اور جب یہ دیکھا جائے کہ ہمارے راستہ میں جس قدر مشکلات حائل تھیں ، ہمارے مقابلہ میں رکاوٹوں کے جس قدر پہاڑ کھڑے تھے اور ہم بے سروسامانی کی جس حد کو پہنچے ہوئے تھے.اس کی مثال بھی کسی اور جگہ نہیں مل سکتی تو اس کامیابی اور کامرانی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے بے حد وحساب مشکلات اور رکاوٹوں کے دوران میں قادیان کے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مردوں کو قادیان سے نکالنے کا جو انتظام فرمایا وہ اتنا شاندار اور اس قدر کامیاب تھا کہ اس کی مثال سارے مشرقی پنجاب میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس انتظام کی کامیابی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی پابندی کرنے والے اور اس کے ماتحت قادیان سے آنے والے ہزار ہا نفوس میں سے خطرات اور خدشات سے پڑ طویل راستہ میں نہ تو کوئی ایک بھی متنفس ضائع ہوا اور نہ ظالم اور جفا کا رسکھوں کے ہاتھ پڑا.حالانکہ راستہ تو الگ رہا خود قادیان میں ہندو فوج، ہند و پولیس اور سکھ لٹیروں اور قاتلوں کے جتھوں کی یہ حالت تھی کہ جس کو چاہتے بے دریغ اور بلاوجہ گولیوں کا نشانہ بنا دیتے.جسے چاہتے بلا خوف وخطر کوٹ لیتے اور دن دہاڑے دیہاتی پناہ گزینوں کے مجمع میں گھس کر عورتوں کو اُٹھا لے جاتے.اور مزاحمت کرنے والوں کو گولیوں یا کر پانوں سے موت کے گھاٹ اُتار دیتے.ان حالات میں کئی دنوں تک گھری ہوئی جماعت احمدیہ کی ہزاروں عورتوں اور بچوں اور مردوں کو ایک بھی جان کے ضائع یا گم ہونے کے بغیر درندہ صفت دشمنوں کے پنجہ ستم سے نکال کر صحیح سلامت منزل مقصود تک لے جانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں

Page 23

15 ہے.میں تو قادیان میں بیٹھا ہوا.جوں جوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس انتظام کو اور اس کامیابی کو دیکھتا اس کی مثال ڈھونڈنے سے قاصر ہوتا جاتا.میرے دماغ میں موت اور تباہی کے نہایت وسیع طوفان سے انسانوں کو بچا کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی بڑی سے بڑی مثال ڈنکرک کے واقعہ کی آئی جبکہ گزشتہ جنگ عظیم کے دوران میں انگریزی اور ہندوستانی بہت بڑی سپاہ اس مقام پر جرمنی کی قہرمانی فوجوں کے گھیرے میں گھر گئی تھی اور انگریزوں نے اپنی تمام مساعی اس کو نکال کر لے جانے میں صرف کر دی تھی.آخر بہت بڑا جانی و مالی نقصان برداشت کر کے جس قدر جانوں کو بھی انگریز بچا کر لے جانے میں کامیاب ہوئے اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھا گیا اور فی الواقعہ یہ بڑا شاندار کارنامہ ہی تھا.لیکن میری نگاہ میں قادیان سے بچوں ، عورتوں اور آخر میں مردوں کو موت کے منہ سے نکال کر لے جانے کا واقعہ اس سے بھی بڑھ کر شاندار اور اہم ہے.کسی خوش فہمی کی بناء پر نہیں بلکہ دلائل کی بناء پر سنئیے :.(۱) ڈنکرک میں وقتی طور پر بے شک دشمن کو غلبہ حاصل ہو گیا تھا اور اسکی طاقت زیادہ تھی مگر باوجوداس کے مقابلہ میں انگریز بھی بالکل بے دست و پا نہ تھے.ان کے پاس بھی جنگ کا ہر قسم کا سامان موجود تھا جسے حتی الامکان انہوں نے استعمال کیا اور اس سے انہیں بیچ کر نکلنے میں بڑی مدد لی لیکن یہاں یہ حالت تھی کہ ادھر تو ہندو اور سکھ ملٹری کے پاس بندوقیں.مشین گنیں.برین گنیں اور بم تک تھے لیکن ادھر احمدیوں کے پاس لاٹھیاں بھی نہ تھیں اور الفاظ کے اصل مفہوم کے مطابق وہ بالکل خالی ہاتھ تھے.پھر وہاں تو نرفعے سے نکالنے کے بیسیوں ذرائع ان کے پاس تھے.ہر قسم کے جہاز کشتیاں وغیرہ لیکن یہاں اس لحاظ سے بھی کچھ نہ تھا.ہماری ذاتی اور سلسلہ کی کاریں اور ٹرک چھین لئے گئے.گھوڑے، خچریں.گدھے تک سکھ ڈا کو دن دہاڑے جبر لے گئے.باہر سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کے گڈوں کے بیل ملٹری اور پولیس بندوقوں کے ذریعہ ہتھیا کر لے گئی غرض قادیان میں رہنے والوں کی نقل و حرکت کے نہایت معمولی سے معمولی ذرائع کا بھی خاتمہ کر کے انہیں مکمل طور پر نرغہ میں لے لیا گیا.ڈنکرک سے انگریزی اور ہندوستانی فوجوں کو نکالنے کا بیڑا ایک عظیم الشان حکومت نے اٹھایا تھا اور یہ انتظام ایک وسیع سلطنت کے ہاتھ میں تھا لیکن قادیان کی جماعت احمدیہ کے بچوں ،عورتوں اور مردوں کو سیلاب بلا سے بچانے کا کام انگلیوں پر گنے جاسکنے والے چند افراد کے کمزور اور نحیف ہاتھوں میں تھا.

Page 24

16 وہاں نرغے سے نکلنے والے جانبار جنگ جو اور بہادر سپاہی تھے جو جنگ کی صعوبتیں جھیلنے کے عادی اور خطرات میں سے گزرنے کے عادی تھے لیکن یہاں زیادہ تر کم سن حتی کہ دودھ پیتے بچے پردہ میں رہنے والی خواتین، بیمار اور کمزور عورتیں اور مرد تھے جن کا اس قسم کے مصائب اور مشکلات میں سے گزرنا تو الگ رہا کبھی ان کے خیال میں بھی نہ آیا تھا.ڈنکرک سے بچ کر جانے والوں کے لئے ان کا اپنا وطن اور اپنا ملک الفت اور محبت کی گود پھیلائے اور اپنے ہم وطن اور عزیز اپنے سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے موجود تھے لیکن قادیان سے سب کچھ لٹکا کر آنے والوں کے لئے ایک محدودسی جگہ مہیا ہو سکی تھی.وہاں سے نکل کر آنے والوں کے لئے ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان با فراط مہیا تھے لیکن یہاں بیٹھنے تک کے لئے جگہ کا میسر آنا بھی مشکل تھا اور کھانے پینے کے انتظامات میں شدید مشکلات حائل تھیں.با وجود ان تمام مشکلات کے حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح اثنی ایدہ اللہ تعالی نے ایسا انتظام فرمایا کہ تمام کے تمام بچے ، خواتین اور تمام کے تمام مرد بغیر کسی استثناء کے بخیر و عافیت اس سیل بلا سے نکل آئے.راستہ کے تمام خطرات کو کامیابی سے عبور کر کے نکل آئے اور کسی ایک جان کے نقصان کے بغیر ہزاروں انسان نکل آئے.حالانکہ وہ مسلسل ایک لمبا عرصہ تک گھروں پر رہتے ہوئے خوف وخطر میں گھرے رہے.پھر گھروں سے باہر نکالے جانے کے بعد کئی دنوں تک جان اور آبرو کے خطرہ میں مبتلا رہے.دشمنوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ خطرات اور مصائب سے بچ کر نکلنے کے تمام راستے مسدود کر دے.پھر ہزاروں بچوں اور عورتوں کو قادیان کی آخری رات کھلے میدان میں ہند وسکھ ملٹری اور پولیس اور گردونواح کے ڈاکو اور لٹیرے سکھوں کے شدید نرغہ میں گزارنی پڑی.پھر رستہ کا چپہ چپہ خطرات سے پر تھا اور جا بجا ظالم اور کمینہ صفت دشمنوں کے مظالم کے نشانات قبروں کی شکل میں موجود تھے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ذریعہ جماعت پر اتنا عظیم الشان فضل کیا کہ اس نے ان تمام خوفناک مراحل کو بخریت عبور کر لیا ہے تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۶۸ تا ۷۶

Page 25

17 مندرجہ بالا قیمتی مضمون سے واضح ہو جاتا ہے کہ قادیان سے ہجرت اور بالخصوص عورتوں اور بچوں کا بحفاظت انخلاء اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا جو حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ ظاہر ہوا.چنانچہ حضور خود اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.”ہمارا قادیان سے آنا ہی لے لو.میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ اسی وجہ سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں.حالانکہ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے ایمان تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں.اول تو جس رنگ میں ہماری قادیان کی جماعت کے افراد دشمن کے حملوں سے محفوظ رہ کر پاکستان پہنچے ہیں اس کی نظیر مشرقی پنجاب کی کسی اور جماعت میں نہیں ملتی.جس طرح ہماری عور تیں محفوظ پہنچی ہیں.جس طرح ہمارے مرد محفوظ پہنچے ہیں اور جس طرح بیسیوں لوگوں کے سامان بھی ان کے ساتھ آئے ہیں اسکی کوئی ایک مثال بھی مشرقی پنجاب میں نظر نہیں آسکتی.نہ لدھیانہ کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے نہ جالندھر کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے.نہ فیروز پور کے قافلوں میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے.لدھیانہ اور جالندھر کے قافلوں کے ساتھ فوجیں تھیں.حفاظت کا سامان تھا مگر پھر بھی ان میں سے ہزاروں لوگ مارے گئے لیکن قادیان کے لوگوں کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی پھر بھی وہ سب کے سب سلامتی کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے.محترم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم کے مضمون کے جو اقتباس او پر درج ہو چکے ہیں ان میں انہوں نے بتایا ہے کہ کئی مخلص احمدی عورتوں نے با اصرار اس امر کا اظہار کیا کہ موت کے خطرہ سے انہیں قادیان سے باہر نہ بھیجا جائے.اگر اب موت ہی مقلد رہے تو قادیان سے بہتر جگہ اور کونسی ہوسکتی ہے.“ ان ایام میں کئی احمدی عورتوں نے مومنانہ مجرأت و دلیری کا نمونہ دکھایا بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی یہ نصیحت کی کہ دیکھنا اس نازک موقع پر قربانی اور فدائیت کا نمونہ پیش کرنا اور کوئی کمزوری نہ دکھانا.چنانچہ ایک مخلص احمدی خاتون کی اہلیہ صاحبہ مستری نور محمد صاحب گنج مغلپورہ لا ہور نے جن کے ایک بیٹے محمد لطیف صاحب امرتسری حفاظت مرکز کے سلسلے میں قادیان میں مقیم تھے اپنے اس بیٹے کو ایک خط میں لکھا کہ:.تاریخ احمدیت جلد نمبرا اصفحہ ۷۷۷۶ کے مکرم مولانامحمد صدیق صاحب امرتسری سابق مبلغ افریقہ کی والدہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ.

Page 26

18 آج قادیان میں رہنا بہت بڑا مجاہدہ ہے..تم نہایت استقلال اور جوانمردی سے حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دیتے رہو.اور اگر اس راہ میں جان بھی دینی پڑی تو دریغ نہ کرو یا در کھوتم پر ہم تبھی خوش ہوں گے جب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مقدس بستی قادیان کی حفاظت میں قربانی کا وہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاؤ جو ایک احمدی نوجوان کے شایانِ شان ہے.گھبراؤ نہیں خدا تمہاری مدد کرے گا.ہم تمہارے ماں باپ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.آمین اللهم آمين اس خط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر آشوب ایام میں احمدی خواتین کے کیا جذبات تھے.قادیان میں رہنا ان دنوں گویا خودموت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن ایک احمدی ماں رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خوش تھی کہ اس کا بیٹا قادیان میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کا فریضہ ادا کر رہا ہے بلکہ وہ اسے نصیحت کرتی ہے کہ دیکھنا اگر اس راہ میں جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرو.“ چند احمدی خواتین کے پڑ از ایمان خطوط قادیان میں مقیم بہادر نو جوانوں کے نام: جو احمدی قادیان میں رہ کر اور اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر حفاظت مرکز کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے تھے اُن کی ماؤں، بہنوں، بیویوں نے بھی اخلاص ، قربانی اور ایمان باللہ کا جو قابل رشک نمونہ دکھا یاوہ یقیناً آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.انہوں نے گھبراہٹ یا بے چینی اور تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے ان کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے خطوط میں انہیں لکھا کہ قادیان کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے استقلال اور ہمت اور جوانمردی کے ساتھ ڈٹے رہو.“ اس قسم کے ایمان افروز خطوط کے چند اقتباس بطور نمونہ درج ذیل کیے جاتے ہیں.(۱) اہلیہ صاحبہ مکرم حسن محمد خان صاحب عارف وکیل التجارت کے نے اپنے شوہر کولکھا:.خدا کرے آپ لوگ جلد قادیان کو فتح کرلیں.خدا آپ کا اور سب کا حامی و مددگار ہو.اس کا الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحیہ کالم ۱-۲ تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۱۳۹ حال نائب وکیل التبشیر تحریک جدید :-

Page 27

19 ۱۳۲۶ فضل آپ سب کے شامل حال رہے اور آپ ایسی خدمت دین بجالائیں کہ خدا آپ سے خوش ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ اپنی رحمتیں اور برکتیں آپ پر نازل فرمائے.“ ( ۱۹ خاء / اکتوبر (۲) محتر مہ امتہ الطیف بیگم صاحبہ (لاہور) نے اپنے خاوند مکرم ڈاکٹر محمد احمد صاحب کو ایک خط میں لکھا:.١٩٤٧ء اب میری بھی یہی نصیحت ہے اور اماں جی کی بھی یہی نصیحت ہے کہ وہاں پر خدا کے بھروسہ پر بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ وہاں پر ہی حفاظت کرے گا اور ایمان رکھنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا.آپ اجازت لینے کی بھی کوشش نہ کریں.ہم سب کو خدا (تعالی) کے حوالے کر دیں.وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے.جب اس نے پیدا کیا ہے تو وہی حفاظت بھی کرے گا اور کھانے کو بھی دے گا.اگر اس نے زندہ رکھنا ہے تو ہر طرح رکھے گا اور مدد کرے گا.اور اگر موت مقدر ہے تو اس سے کہیں بھی مفر نہیں چاہے سات پردوں میں چُھپ جائیں.میری طرف سے آپ اطمینان رکھیں میں اتنی بزدل نہیں ہوں.میرا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے.اگر اس کی طرف سے ابتلاء آنا ہے تو ہر طرح آنا ہے بس یہی دعا ہے کہ وہ ہر طرح ثابت قدم رکھے اور ہمارا ایمان کسی طرح متزلزل نہ ہو جائے.“ (۱۰.اکتوبر ۱۹۴۷ء) ہے (۳) محترمه آمنہ بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور نے اپنے خاوند محترم عبدالرحیم صاحب دیانت کو لکھا:.استقلال اور ہمت سے اور جوانمردی کے ساتھ ڈٹے رہیں اور اس کو فتح کرنا آپکا فرض 66 ہے.بہر حال جب تک حضور کا حکم نہ ہو آپ قادیان کو چھوڑ کر یہاں بالکل نہ آئیں.“ (۴) محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ موضع مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ سے اپنے شو ہر مکرم محمد شریف صاحب مولوی فاضل واقف زندگی کو لکھا:.یہ پڑھ کر کہ آپ نے اپنا نام ہمیشہ رہنے کے لئے دے دیا ہے بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کا حافظ و ناصر ہو“ سے لے ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ:.تاریخ احمدیت جلدا اصفحہ ۱۳۵ ۳ تاریخ احمدیت جلد ۱۱ صفحه ۱۳۸ تا ۱۴۱:-

Page 28

20 20 (۵) محترمہ امتہ الطیف صاحبہ ا رتن باغ لاہور کا خط اپنے والد محترم عبدالرحیم صاحب مالک دیانت سوڈا واٹر فیکٹری قادیان کے نام :.” جب کنوائے قادیان سے آئے تو نہایت مضطر با نہ حالت ہو جاتی ہے.جب تک ہم کو قادیان نہ ملے ہمارے لئے دنیا اندھیر ہے باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہے.جلد اللہ تعالیٰ کسی قربانی کو نوازے اور ہماری مشکلات حل ہوں.امتہ الشکورے کو اپنا گھر معلوم نہیں ہوتا.ہر وقت روتی رہتی ہے.آپ کو اتنا یاد نہیں کرتی جتنا قادیان کو.(۲.نبوت رنومبر 2017 (۲) محترمہ مسعودہ بر لاس صاحبہ نے اپنے بھائی مرزا الطاف الرحمن صاحب آف برلاس ہاؤس دار الرحمت قادیان کے نام لکھا:.تم ہمارا فکر نہ کرنا.مستقل مزاجی سے قادیان میں رہ کر تکالیف کو برداشت کر کے خداوند کے فضلوں کے وارث بننا.احمدیت کا کارآمدستون بننا.ہمیں خوشی اور فخر ہے کہ ہمارا ایک ہی بھائی ہے جسے احمدیت کی خدمت کے لئے خداوند کریم نے خاص موقعہ دیا اور اس میں استقامت عطا فرمائی.ہم اس پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے.امی بھی تمہیں ) دعا دیتی ہیں.(۹) نبوت رنومبر ۱۹۴۷ء (۷) محترمہ سیدہ رشید بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے سید سعید احمد صاحب قادیانی متعلم جامعہ احمدیہ قادیان کے نام لکھا:.عزیزم! قادیان میں رہو.آج آپ لوگوں کے امتحان کا وقت ہے.دعا ہے کہ خدا تم کو امتحان میں کا میاب کرے.آپ قادیان میں ہی رہیں یہاں تک کہ حضرت امیر المومنین کی طرف سے آپ کو قادیان سے جانے کی اجازت مل جاوے.دوبارہ تاکید ہے کہ بلا اجازت حضرت امیر المومنین کے کسی صورت میں بھی قادیان سے نہ آئیں.کیونکہ اب ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.خد اسے دعا ہے ) کہ تم اپنے ایمان کا بہتر نمونہ دکھاؤ اور دین کے ستارے بن کر چمکو اور دنیا کے لوگوں وو.) کے لئے رہنما بنو “ (۲۳ نومبر ۱۹۴۷ء اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل ربوہ :.محترم عبدالرحیم صاحب دیانت کی سب سے چھوٹی صاحبزادی سے تاریخ احمدیت جلدا اصفحہ ۱۴۲

Page 29

21 (۸) خط صالحہ بیگم صاحبہ عفیفہ لاہور بنام جناب مقصود احمد صاحب واقف زندگی:.آپ سوچتے ہوں گے کہ میری بیوی بھی کیسی دنیا دار ہے کہ ایک دفعہ بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانی کی گئی ہے جس کا دل پر ہر گز ملال نہیں ہونا چاہیئے.مگر سچ پوچھئے اور یقین جانئے میں یہ باتیں پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی.میں سوچتی تھی اپنے جذبات ظاہر کر کے خواہ مخواہ ریا کار بنوں.مگر پھر دل نے کہا کہ خاوند سے بھی کوئی بات پوشیدہ رکھی جاسکتی ہے اس لئے اب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بالکل مطمئن ہوں اور اپنے آپ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس شاندار قربانی کا موقع عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.لوگ دُنیاوی جنگوں میں سمندر پار چلے جاتے تھے اور جدائی کی گھڑیاں کئی ماہ گزارتے تھے تو کیا آپ جو کہ ایک دینی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں.اس کی خاطر اگر ہم تھوڑی سی جدائی برداشت کریں تو نامعلوم 66 اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ہم پر کیا افضال نازل فرمائے اے خدا تو ایسا ہی کر یو.آمین ثم آمین.“ (۹) محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی نعیم احمد صاحب اور ان کے بہنوئی محمد رفیق صاحب اور ان کے بھتیجے عبد الرشید کے نام حسب ذیل نصیحت نامہ بھیجوایا.جو آزمائش کا وقت تم سب پر آیا ہے اس کو دلیری اور جوانمردی سے گزارو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تم سب کو ثابت قدم رکھے اور دین کی خدمت کا زیادہ سے زیادہ موقع عطا فرمائے.“ (۱۰) محترمہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ نے اپنے بھائی محترم مولوی نورالدین صاحب منیر انچارج بیعت کو ذیل کا خط لکھا:.آپ کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں رہ کر جہاد کرنے کا موقع دیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزاء دے اور استقامت عطا فرمائے.والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اپنے آپ آنے کی درخواست نہ دیں جب حضور خود بلائیں گے تو آئیں.(۱۱) محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ لاہور نے اپنے خاوند اللہ دتہ صاحب بٹ محلہ دارالرحمت قادیان کے نام یہ مکتوب لکھا:.آپ نے بڑا اچھا کیا ہے جو قادیان میں رہنے کے لئے نام دے دیا ہے اور اب آپ کو چاہیئے کہ بغیر اجازت امیر صاحب کے ہر گز قادیان سے باہر نہ جائیں“.

Page 30

22 22 (۱۲) محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ رنمل ضلع گجرات سے اپنے شوہر مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب واقف زندگی کے نام رقمطراز ہیں:.خوش رہیں.کامیابی و کامرانی کی مرادیں دیکھیں.قادیان کے جھنڈے کو بلند کرنے والوں میں سے ہوں اور دعا بھی کریں کہ خدا کے نام کو پھیلانے والوں میں ہمارا بھی نام ہو.آپ کی خیریت کی مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی ملتی بھی کیسے ؟ میں ایسی جگہ ہوں جہاں قادیان کی مقدس بستی کے حالات و واقعات جو بعد میں رونما ہوئے نہیں پہنچتے.میں یہاں (نمل ضلع گجرات) کیوں آئی؟ کس طرح آئی ؟ بس سمجھ لیجئے خدا کی کسی حکمت کے ماتحت میرا یہاں آنا ہوا.میرے جیسی گنہ گار پر خدا کے اتنے بڑے احسانات!! اف اگر میرے جسم کا ذرہ ذرہ بھی اس کے شکریہ میں دن رات سر بسجو در ہے تو اس کا عشر عشیر بھی ادا نہیں ہوسکتا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں جب سے یہاں آئی ہوں کس طرح دن گزرتے ہیں اور کس طرح ستارے گنتے گنتے راتیں کٹتی ہوں گی لیکن زبان سے اگر کوئی لفظ نکلتا ہے تو یہی کے اسے قادیان کی بستی تجھ پر لاکھوں سلام اور اے قادیان میں رہنے والے جانباز و اتم پر لاکھوں درود سمع حضرت اصلح الموعود " کا ایک ولولہ انگیز مضمون : ماہ اکتو بر ۱۹۴۷ کے ابتدائی ایام میں جبکہ قادیان پر ہندؤں اور سکھوں کے آخری حملہ کا آغاز ہو چکا تھا مگر ابھی پاکستان میں اس کی خبر نہیں پہنچی تھی حضرت الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے ایک ولولہ انگیز مضمون زیر عنوان ”جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت“ تحریر فرمایا.اس مضمون میں حضور نے لکھا کہ:.میں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ جب وہ بیعت میں داخل ہوئے تھے تو انہوں نے اقرار کیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور اس دنیا کے لفظوں میں ان کی جانیں بھی شامل تھیں.ان کے بچوں کی جانیں بھی شامل تھیں.ان کی بیویوں اور گھر کی دوسری مستورات کا مستقبل بھی شامل تھا.پس آج جبکہ باوجود ہمارے اس اعلان کے کہ ہم جس حکومت کے ماتحت رہیں گے اس کے وفادار رہیں لے ابن حضرت مولوی عبید اللہ صاحب مبلغ شہید ماریشس :- ه تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۱۴۵-۱۴۶

Page 31

23 23 گے.ظالم دشمنوں کو ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے حکومت ان کو سزا دینے کی بجائے ہمارے آدمیوں کو سزا دے رہی ہے.ہماری جماعت کے نو جوانوں کا فرض ہے کہ وہ قطعی طور پر بھول جائیں کہ ان کے کوئی عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں.وہ بھول جائیں اس بات کو کہ ان کے سامنے کیا مصائب اور مشکلات ہیں.انہیں صرف ایک ہی بات یا درکھنی چاہیئے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک عہد کیا ہے اور اس عہد کو پورا کرنا ان کا فرض ہے.آج خدا ہی ان کا باپ ہونا چاہیئے.خدا ہی ان کی ماں ہونی چاہیئے اور خدا ہی ان کا عزیز اور رشتہ دار ہونا چاہیئے.میرے بیٹوں میں سے آٹھ بالغ بیٹے ہیں اور ان آٹھوں کو میں نے اس وقت قادیان میں رکھا ہوا ہے.میں سب سے پہلے انہی کو خطاب کر کے کہتا ہوں اور پھر ہر احمدی نوجوان سے خطاب کر کے کہتا ہوں کہ آج تمہارے ایمان کا امتحان ہے.آج ثابت قدمی کے ساتھ قید و بند اور قتل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان میں ٹھہر نا اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا تمہارے فرض میں شامل ہے.حضور کے اس مضمون کا یہ اثر ہوا کہ احمدی نوجوان دیوانہ وار اسلام اور سلسلہ کی حفاظت کے لئے میدانِ عمل میں آنے لگے اور پہلے سے بڑھ کر اپنی دینی غیرت اور شجات کے جو ہر دکھانے لگے.اس ولولہ انگیز مضمون کا اثر جو احمدی خواتین پر ہوا اس کی صرف ایک مثال درج ذیل کی جاتی ہے.محتر مہ جبیبہ بیگم ک نے اپنے خاوند محترم محمد اسمعیل صاحب آف بمبئی کو جو کہ قادیان میں مقیم تھے یہ لکھا کہ:.کل حضرت امیر المومنین کا ایک مضمون (جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت.الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء) شائع ہوا ہے وہ آپ کو بھیج رہی ہوں.گو پہلے میں نے آپ کو قادیان میں رہنے سے روکا نہیں تھا لیکن کل حضور کا مضمون پڑھنے کے بعد میں نے سجدہ میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ میں اپنا سرمایہ شرح صدر سے تیرے رسول کے تخت گاہ کی حفاظت کے لئے پیش کرتی ہوں.اور اے میرے خدا تو قادر ہے تو انکو دین کی خدمت کا موقع دیتے ہوئے بھی اپنی حفاظت میں رکھ.آمین.اس وقت میں زیادہ نہیں لکھ سکتی.اللہ تعالیٰ قادیان کو سلامت رکھے اور سلامتی کے ساتھ ہمیں ملائے.آمین اللھم آمین.‘۳۰ ل الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحه ۳ تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۱۴۹.۱۵۰ آپ لجنہ کراچی کی آفس سیکرٹری ہیں

Page 32

24 لله یہ تھے وہ جذبات جو انتہائی مصائب و آلام کے ان ایام میں احمد کی خواتین نے اپنے ان عزیزوں کے متعلق ظاہر کئے جو قادیان کے پُر خطر ماحول میں اپنی جان کی بازی لگا کر مقامات مقدسہ کی حفاظت کر رہے تھے.ان خطوط سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مستورات نے اس موقع پر نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار نہ کیا بلکہ انہوں نے خطرات کی انتہائی سنگینی محسوس کرنے کے باوجود اپنے خاوندوں ، بھائیوں اور بیٹوں کا حوصلہ بڑھایا اور اس طرح انہیں جرات ودلیری کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرنے کے قابل بنایا.احمد می عورتوں کی بہادری اور جرات کے عملی نمونے: احمدی مستورات نے اپنی حجرات و دلیری اور عزم و استقلال کا اظہار صرف الفاظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ جب بھی اور جہاں بھی انہیں موقع ملا انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کر دیا کہ وہ قرونِ اولی کی صحابیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر ممکن قربانی پیش کر سکتی ہیں.اس سلسلے میں انہوں نے قربانی ، بہادری ، جرات اور دلیری کے جو قابل قدر نمونے دکھائے افسوس ہے کہ ان کا مکمل ریکارڈ محفوظ نہیں ہے اور نہ ہی ان حالات میں محفوظ رہ سکتا تھا تا ہم سلسلہ کے اخبارات و جرائد میں اس کی جو مثالیں مل سکتی ہیں وہ درج ذیل کی جاتی ہیں.(۱) ایک احمدی عورت مشرق پنجاب سے ہجرت کر کے بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان پہنچی.وہ اپنی جائیداد میں سے صرف کچھ زیور بیچا کر لاسکی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے زیور کا کچھ حصہ کسی غریب کو دے دیا اور باقی حضور کی خدمت میں حفاظت قادیان کے اخرجات کے لئے پیش کر دیا.اے زیور عورت کی ایک محبوب چیز ہوتی ہے مگر اس مخلص احمدی عورت نے وہ زیور جو نہ جانے کس مصیبت سے بچا کر مشرقی پاکستان سے لائی تھی ازخود قادیان کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا.(۲) سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی ایک اور احمدی خاتون کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں.الفضل ۱۶.اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہیہ کالم نمبر ۲

Page 33

25 25 ” جب قادیان میں ہندؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.یہ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ یا ہند وحملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکتھوں اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی.“ ہے (۳) سٹروع ضلع ہوشیار پور تحصیل گڑھ شنکر کا ایک بڑا گاؤں تھا جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی تھی.۱۹۴۷ میں یہاں پر ایک ہزار کے قریب ( مردوں اور بچوں سمیت ) احمدی آباد تھے.۳۰.اظہور ۱۳۲۶ھ مطابق ۳۰.اگست ۱۹۴۷ء کو ۲۱ ہزار مسلح سکھوں نے اس گاؤں پر حملہ کر دیا.اس وقت سٹروعہ میں صرف پانچ بند و قیں تھیں اور اس میں داخل ہونے کے لئے سات دڑے تھے جہاں سے سکھ با آسانی گاؤں میں داخل ہو سکتے تھے.مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم مر جائیں گے مگر سکتھوں کو گاؤں میں داخل نہ ہونے دیں گے.چنانچہ مسلمانوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور ساتوں دڑوں پر حفاظتی چوکیاں قائم کر لیں.جب سکھوں نے حملہ کیا تو دست بدست خونریز جنگ شروع ہو گئی.مسلمانوں نے ناموافق حالات اور ہتھیاروں کی غیر معمولی کمی کے باوجود جان تو ڑ کر مقابلہ کیا جس کی وجہ سے مسلمان مستورات کی عزت و عصمت محفوظ رہی.عین اس وقت جبکہ جنگ زوروں پر تھی اللہ تعالیٰ نے یوں ان کی مددفرمائی کہ اتفاق سے تین فوجی اپنا ٹرک لے کر ادھر آ نکلے اور انہوں نے بھی سکھوں پر گولیاں چلانا شروع کر دیں.نتیجہ یہ ہوا کہ سکھوں میں سخت بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھاگ نکلے.اس جنگ میں بعض احمدی خواتین نے بھی جرات و دلیری سے حصہ لیا اورلٹر نے والے مردوں کو پانی پلانے کا کام کیا.سترہ سے مسلمان جن میں متعد د مخلص احمدی شامل تھے شہید ہوئے جبکہ دوسری طرف.۶۱۰ سکھ ہلاک ہوئے سے (۴) بہادری ، شجاعت اور شہادت کا ایک اور شاندار واقعہ بھی قابل ذکر ہے جو قرونِ اولیٰ کی محترمه خدیجه بیگم صاحبہ اہلیہ خان بہادر غلام محمد صاحب آف گلگت.تاریخ وفات ( جولا ئی اے ا ء آپ صحابہ تھیں.رساله مصباح ما صلح / جنوری ۱۹۵۷ء تاریخ احمدیت جلدا اصفحه ۸۰-۸۱

Page 34

26 20 قربانیوں کی یاد دلاتا ہے سیالکوٹ کے ایک احمدی نوجوان غلام محمد صاحب ابن مستری غلام قا در صاحب کو ان کی والدہ نے یہ نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر اسلام اور احمدیت کی حفاظت کے لئے تمہیں لڑنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا.اس سعادت مند اور خوش قسمت نوجوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کی اس نصیحت پر اس طرح عمل کیا کہ قادیان میں احمدی عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دیدی مگر دشمن کے مقابلہ میں پیٹھ نہ دکھائی.مرنے سے پہلے اس نوجوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پاس بلایا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر اس نے یہ لکھوایا کہ:.مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے.میں اپنے ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا ! دیکھنا پیٹھ مت دکھانا.میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا.اس نو جو ان کے ساتھ اس کے ایک اور ساتھی عبد الحق صاحب نے بھی جام شہادت نوش کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں خوش قسمت نو جوانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہ دونوں بہادر...اس وقت منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوم کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.مرنے والے مر گئے.انہوں نے بہر حال مرنا ہی تھا.اگر اور کسی صورت میں مرتے تو ان کے نام کو یا درکھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کا جھنڈا اونچار کھنے کے لئے مرے ہیں اس لئے حقیقت وہ زندہ ہیں.اور آپ ہی زندہ نہیں بلکہ اپنے بہادرانہ کارناموں کی وجہ سے آئندہ اپنی قوم کو زندہ رکھتے چلے جائیں گے.ہر نوجوان کہے گا کہ جو قربانی ان نوجوانوں نے کی وہ ہمارے لئے کیوں ناممکن ہے.جو نمونہ انہوں نے دکھایا وہ ہم کیوں نہیں دکھا سکتے.خدا کی رحمتیں ان لوگوں پر نازل ہوں اور ان کا نیک نمونہ مسلمانوں کے خون کو گرما تارہے اور اسلام کا جھنڈ اہندوستان میں سرنگوں نہ ہو.اسلام زندہ باد.محمد صلے اللہ علیہ وسلم زندہ باد “ الفضل ۱۱.اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۳ الفضل ۱۱.اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۳-۴

Page 35

27 لاہور میں احمدی خواتین کے قیام اور رہائش کا کٹھن مرحلہ: - قادیان سے جو عورتیں اور بچے سکھوں کی برستی گولیوں کے درمیان سے گزر کر گویا یقینی موت کے منہ سے بیچ کر ٹرکوں کے ذریعے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں لاہور پہنچے تھے ان کی رہائش اور قیام و خوراک کا انتظام بجائے خود ایک بہت کٹھن اور پیچیدہ مسلہ تھا کیونکہ سلسلہ کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا تھا.کارکنوں کی شدید قلت تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضور کے اہلِ بیت خود مہاجر ہوکر پناہ گزینی کی حالت میں رتن باغ لاہور کی ایک ایسی کوٹھی میں مقیم تھے جو تعداد افراد کے مقابلہ میں بہت ہی چھوٹی اور نا کافی تھی.سامان کی اور جگہ کی سخت قلت تھی.اور ادھر ہزاروں کی تعداد میں جو مہاجرین مسلسل پہنچ رہے تھے ان کی غالب اکثریت عورتوں، بچوں اور ضعیف العمر اصحاب پر مشتمل تھی.ان میں سے بہت سے کمزور اور بیمار بھی تھے جوفوری توجہ اور علاج کے مستحق تھے.ان کے پاس نہ کافی کپڑے تھے اور نہ بستر اور نہ دیگر سامان مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی الصلح الموعودؓ کی ہدایت کے مطابق حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا کے زیر انتظام آنے والے مہاجروں...کے اہل وعیال کو ہر ممکن آرام اور سہولت دینے کی کوشش کی گئی.پیشتر اس کے کہ یہ بتایا جائے کہ حضور اور حضور کے اہل بیت نے آنے والی عورتوں اور بچوں کی رہائش اور انکی سہولت کے لئے کیا انتظامات کئے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت خود حضور کے خاندان کی کیا حالت تھی اور حضور نے اپنے خاندان کے افراد کے لئے خوردونوش کا کیا انتظام فرمایا.اس کی تفصیل بتاتے ہوئے خود حضور نے فرمایا کہ:.ہم جب قادیان سے آئے اس وقت ہمارے خاندان کی تمام جائیدادیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.بعض دوستوں کی امانتوں کا صرف نو سو روپیہ میرے پاس تھا.ادھر ہمارے سارے خاندان کے دوسو کے قریب افراد تھے اور ان میں سے کسی کے پاس روپیہ نہیں تھا اس حالت میں میں نے یہ نہیں کیا کہ لنگر سے کھانا منگوا نا شروع کر دوں بلکہ میں نے سمجھا کہ وہ خدا جو پہلے دیتارہا ہے اب بھی دے گا.چنانچہ میں نے اپنے خاندان کے سب افراد سے کہا کہ تم فکر مت کر وسب کا کھانا اکٹھا تیار ہو ا کرے گا اور ایسا ہی ہوا.اپنے تمام افراد کے کھانے کا انتظام میں نے کیا اور برابر کئی ماہ تک اس بوجھ کو اٹھایا.آخر کسی نے چھ ماہ کے بعد اور کسی نے نو ماہ کے بعد اپنے اپنے کھانے کا الگ انتظام کیا.اس عرصہ میں وہ لوگ جن کا روپیہ میرے پاس امانتا پڑا ہوا تھا وہ بھی اپنا روپیہ لے

Page 36

28 گئے اور ہمیں بھی خدا نے اس طرح دیا کہ ہمیں کبھی بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کوئی اور تد بیرایسی اختیار کریں جس سے ہماری روٹی کا انتظام ہو.میں جب تک لا ہور نہیں پہنچا ہمارے خاندان کے لئے لنگر سے کھانا آتا رہا تھا مگر جہاں تک مجھے علم ہے اس کی بھی لنگر کو قیمت ادا کر دی گئی تھی اور اس کے بعد اپنے خاندان کے دوسو افراد کا بوجھ اُٹھایا.حالانکہ اس وقت ماہوار خرچ کھانے کا کئی ہزار روپیہ تھا.غرض خدا دیتا چلا گیا اور میں خرچ کرتا چلا گیا.ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں حضرت مصلح موعود کی رُوح پر جنہوں نے ان نازک ایام میں نہ صرف اپنے خاندان کے سب افراد کی رہائش اور خوردونوش کا انتظام فرمایا بلکہ اللہ تعالے کی دی ہوئی توفیق سے تنگی اور بے سروسامانی کی حالت کے باوجود آنے والی مہاجر عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی رہائش اور قیام و طعام کے انتظام میں کوئی بھی کسر اٹھانہ رکھی.اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا نے اس کام میں دن رات حضور کا ہاتھ بٹایا اور اس طرح ہمارے لئے ایک قابل تقلید نمونہ قائم کیا.حضور نے یکم ستمبر ۱۹۴۷ء کو یعنی ہجرت کے دوسرے ہی روز جودھامل بلڈنگ کے صحن میں ایک فوری میٹنگ بلائی جس میں صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی بنیا د رکھی.اس میں دیگر امور کے علاوہ حضور نے یہ ہدایات بھی دیں کہ آنے والے مہاجر خاندانوں کی رہائش کے لئے رتن باغ کے گردو نواح میں عمارتیں الاٹ کرانے کی کوشش کی جائے.چنانچہ حضور کی زیر ہدایت رتن باغ کے علاوہ اس سے ملحقہ تین عمارتیں (۱) جو دھامل بلڈنگ (۲) جسونت بلڈنگ (۳) سیمنٹ بلڈنگ جماعت کے نام الاٹ کرالی گئیں اور ان میں قادیان سے آنے والے مہاجر خاندانوں کو رکھا گیا جن کا معتد بہ حصہ عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھا.ان عما رات میں بسنے والے خاندانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا کہ:.جو چار عمارتیں بشمول رتن باغ ہمارے قبضہ میں ہیں ان میں ۱۵۲ (ایک سو باون ) خاندان آباد ہیں اور کل تعداد ۱ ۸۰ ( آٹھ سو ایک ) ہے.اور یہ خاندان فرضی نہیں بلکہ ایسے خاندان ہیں جو قادیان میں اپنے علیحدہ علیحدہ مکانات اور مستقل انتظام رہائش رکھتے تھے اور ابھی ان اعداد وشمار میں ا الفضل ۶.اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحریم

Page 37

29 29 وہ احمدی مہمان شامل نہیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے مرکز میں کثرت سے آتے رہتے ہیں اور موجودہ حالات میں ان میں سے اکثر کوٹھہرانے اور جگہ دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور وہ ادھر اُدھر پرائیوٹ گھروں میں ٹھہر کر نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں.یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جو خاندان ان عمارتوں میں آباد ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قادیان میں پانچ پانچ یا دس دس یا بعض صورتوں میں پندرہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ کمروں کے مکانوں میں رہائش رکھتے تھے مگر اب انہیں رتن باغ یا اس کی ملحقہ عمارتوں میں ایک یا دو کمروں میں بڑی تنگی کے ساتھ گذارا کرنا پڑتا ہے.عورتوں اور بچوں کے قیام وطعام کے انتظامات: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ ہدایت تھی کہ مردشتی الامکان قادیان میں ٹھہر کر مقامات مقدسہ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں البتہ عورتوں اور بچوں کو جلد سے جلد سے قادیان سے نکالنے کی کوشش کی جائے.اسی ہدایت کے نتیجہ میں قادیان سے یکے بعد دیگرے جو بھی کنوائے آتے تھے ان میں زیادہ تر آنے والے بچے اور عورتیں ہی ہوتی تھیں.کثرت سے ایسے خاندان ہوتے تھے کہ جن کے مرد قادیان میں ہی ہوتے تھے اور عورتیں اور بچے لاہور آ جاتے تھے.نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ان عورتوں اور بچوں کو ٹھہرانے اور ان کے قیام و طعام کا تمام انتظام سلسلہ کے سپر د تھا.سلسلہ کی طرف سے اس بہت بڑے کام کو بخیر و خوبی سر انجام دینے کا سہرا حضرت سیدہ اُمم متین مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا العالی کے سر رہا جو اس کٹھن کام کو دیگر کارکنات کی مدد سے حضرت مصلح موعود کی زیر ہدایت دن رات سرانجام دیتی تھیں.اور حضور کا اور آپ کا مشفقانہ سلوک ہر آنے والی کے لئے ایسا ہوتا تھا کہ وہ شدید صدمہ اور ہر طرح کی تنگی کے باوجود حضور کے زیر سایہ آکر آرام اور تسکین محسوس کرتی تھی.حضرت سید ہ ممدوحہ بذات خود ہر ایک کے لئے مہمان خانہ سے کھانا منگوا کر تقسیم فرماتیں.ان کے لئے کپڑے اور بستر فراہم کرتیں.ان کی رہائش کے لئے جگہ کا انتظام کرواتیں اور بیمار کے علاج کا انتظام فرماتیں.اس بارہ میں میں اپنا ذاتی مشاہدہ پیش کرتی ہوں.عاجز ہ۲۹ستمبر کو قادیان سے اپنی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ہمراہ لاہور پہنچی.اس ا الفضل ۲۱.اگست ۸ صفحه ۲ کالم نمبر ۱.۲

Page 38

30 30 حالت میں کہ اچانک قادیان چھوڑنے کا سخت غم تھا.کبھی گھر سے اس طرح نکلنے اور اتنے ظلم وستم کا خیال تک نہ آیا تھا.جب رتن باغ لاہور کی ڈیوڑھی میں پہنچی تو اندھیرے میں ایک سایہ بڑھتا ہوا نظر آیا اُس نے بیٹری کی روشنی میں مجھے دیکھا اور گلے لگا لیا اور خیریت دریافت کی.وہ رکس کا سایہ تھا.حضرت آپا جان مریم صدیقہ صاحبہ تھیں جو اس وقت ہر آنے والی عورت کا استقبال کر رہی تھیں.انہیں دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی ساری پریشانی دور ہوگئی اور بے اختیار زبان سے الحمداللہ نکلا.آپ نے ایک برآمدہ میں ٹھہرانے کے انتظام کے بعد فرمایا کہ کمرہ سے بہتر برآمدہ ہے کیونکہ ہو ا کثیف اور ہیضہ وغیرہ پھیلا ہوا ہے.(۲۹ ستمبر ) رات گیارہ بجے عاجزہ کو حضرت آپا جان کا ایک رقعہ ملا جو حسن اتفاق سے میرے پاس اب تک محفوظ ہے.یہ رقعہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.مکرمہ امتہ الطیف صاحبه جس عمارت میں عورتیں ٹھہری ہیں اب تک مجھے ہر کام خود آ کر کروانا پڑتا تھا.اب میں تمھیں اس کی منتظم مقرر کرتی ہوں.تم خود کام کا ایک پروگرام اور نقشہ بنالو.کھاناسارا ایک جگہ تقسیم ہوتا ہے اور بڑی گڑ بڑ رہتی ہے.اگر ہر کام کی الگ الگ منتظم بنا دو تو وہ اپنے اپنے کام کی ذمہ دار ہونگی.اور اپنے اپنے کمرہ کی عورتوں کو گن کر کھانا لے لیا کریں اس طرح عورتوں کو ہر وقت صفائی کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے اس کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ عورتوں میں پھر کر اعلان کر دیا جائے کہ مغرب عشاء کی نماز با جماعت ہوا کر یگی.عصر اور ظہر کی بھی اور اگر ہو سکے تو فجر کی بھی.اور نمازوں کے بعد چند منٹ عورتوں کو دعاؤں کی تحریک.صفائی وغیرہ کی اور اس قسم کی تمام نصائح ہوا کریں.ان تمام باتوں پر غور کر کے جتنی کام کرنے والیوں کی ضرورت ہو.مجھ سے لے لو اور بات بھی زبانی کرلو.والسلام مریم صدیقہ میں نے آپا جان کا یہ خط پڑھ کر دل میں دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کی توقع کے مطابق یہ حقیر خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.صبح اٹھ کر تفصیلی ہدایات لینے کی غرض سے حضرت آپا جان کی خدمت میں حاضر ہو گئی.آپ

Page 39

31 نے حضرت اقدس.حضرت اماں جان اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی سے ملاقات کروائی اور یہ بھی بتایا کہ میں کام لطیف کے سپر د کر رہی ہوں.کھانے کے متعلق ہدایات دیں.ایک ایک روٹی صبح شام لنگر خانہ سے دی جانے لگی.صفائی کا بہت خیال رکھا جاتا کیونکہ وبائی بیماریاں زور پکڑ رہی تھیں.نماز با جماعت اور دعاؤں پر زور دیا جانے لگا.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی زیر نگرانی قادیان سے آئی ہوئی بہت سی خواتین اور بچوں اور ان کے ساتھ لجنہ اماءاللہ لاہور کی خواتین نے بھی مہاجر خواتین اور بچوں کی خدمات سرانجام دیں.قادیان میں بڑا حملہ ہونے پر ہزاروں کی تعداد میں عورتیں لاہور پہنچنے لگیں.رتن باغ میں کیمپ لگائے گئے نیز جو دھامل بلڈنگ.جسونت بلڈنگ اور سیمنٹ بلڈنگ میں بھی مہاجر خواتین کے ٹھہر نے کا انتظام کیا گیا.لئے ہوئے قافلے نہایت کسمپرسی اور پریشانی کی حالت میں پہنچتے ان کی حالت نا قابل بیان تھی.اکثر کے پاس جوتے ، کپڑے، برتن ، اور بُر فقے تک نہ ہوتے تھے.ان سب کو کیمپوں میں ٹھہرایا گیا.کھانا بہت سی کا رکنات اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات کھلاتی تھیں اور رات بسر کرنے کے لئے صفوں کا انتظام کیا جا تا تھا.بیماروں کو دوائیں دی جاتیں سینکڑوں رشتہ دار اپنے رشتہ داروں کا پتہ کرنے ، ان کو لینے اور ان کو ملنے آئے ہوئے تھے ان کو تلاش کر کے ملانے اور کئی ایک کے جانے کے لئے کرایہ کا انتظام کیا جاتا بہت سے لوگ چلے گئے اور ایک کثیر تعداد بیمار بوڑھی عورتوں کی نا مساعد حالات کی وجہ سے یہیں رہ گئی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی سرکردگی میں شب و روز انتہائی مصروفیت میں گزرتے.بوڑھی عورتوں کو سنبھالنے کے علاوہ ایک بڑے کمرہ کو زچہ خانہ بنانا پڑا.محترمہ امتہ الحمید صاحبہ مفتی لیڈی ڈاکٹر طقتي فرائض سرانجام دیتیں.ایک ایک دن میں کئی کئی بچے پیدا ہوتے ان کو سنبھالنا، پر ہیزی دینا ، اکثر موقعوں پر دوائیں وغیرہ حضور اقدس سے لانی پڑتیں بچوں کے لئے کپڑوں وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا.ضروریات کی چیزیں.برتن ، کپڑے ، جوتے ، بُر تھے ، بستر تقسیم کئے گئے.لجنات نے کثیر تعداد میں چیزیں اکٹھی کر کے دیں.دو ہزار کے قریب لحاف کمبل کھیں وغیر تقسیم کئے گئے.مختلف مقامات پر مہاجرین کی امداد کیلئے بجنات کی قابل قدر مساعی ۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانہ میں جبکہ لاکھوں مہاجرین اپنے بچوں اور عورتوں سمیت کٹ لگا کر

Page 40

32 پاکستان میں داخل ہو رہے تھے اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی تھی کہ پاکستان میں رہنے والے ان کی ہر ممکن مدداور دلجوئی کریں.اس ضرورت کے احساس کے تحت قریبا تمام لجنات نے اپنے اپنے مقام پر انفرادی اور اجتماعی طور پر مہاجرین کی مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کے کھانے پینے پہننے اور رہائش کے انتظامات میں حصہ لیا.چند لجنات کی رپورٹوں کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.لاہور : لا ہور میں فسادات کی وجہ سے لجنہ کے اجلاس بند تھے.چنانچہ جب قادیان اور دیگر مقامات سے مہاجرین پہنچے تو جنرل سیکرٹری صاحبہ لاہور محترمہ زینب حسن صاحبہ اور جنرل صدر محترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ نے بڑی کوشش سے مہاجرین کے لئے سامان اکٹھا کیا.سینکڑوں کی تعداد میں برتن، کپڑے، بستر اور نقدی اکٹھی کر کے دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں تقسیم کرنے کے لئے دیئے.راولپنڈی: جب مشرقی بنجاب کے مہاجرین کا پہلا قافلہ پہنچا اور اسے اسلامیہ ہائی سکول کی عمارت میں ٹھہرایا گیا تو بجنہ کی سرگرم ممبر محترمہ امتہ العزیز صاحبہ مرحومہ اہلیہ راجہ عبدالرؤف صاحب مرحوم لجنات کی دیگر ممبرات کو لیکر وہاں پہنچیں اور امدادی کام کو وسیع پیمانے پر شروع کیا.مسلم لیگ سے بھی رابطہ قائم کیا.حتی کہ آپ کو مقامی مسلم لیگ ( شعبہ خواتین) کی مجلس عاملہ کا ممبر بنالیا گیا.مرحومہ نے لجنہ اماءاللہ اور مسلم لیگ کے تعاون سے اتنا عمدہ اور مؤثر کام کیا کہ راولپنڈی کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور صدر مسلم لیگ نے اس کام کو از حد سراہا.جب عارضی الاٹ منٹ کے دفاتر کھولے گئے تو حکومت نے آبادکاری کے کام کے لئے چار افراد پر مشتمل ایک بورڈ قائم کیا جس میں دو مقامی مجسٹریٹ تھے اور دوعورتیں.ان چاروں کو الاٹ منٹ کمشنر کا عہدہ دیا گیا امتہ العزیز صاحبہ مرحومہ بھی ان میں سے ایک تھیں چنانچہ ان کو بھی الاٹ منٹ کمشنر بنا دیا اور مہاجرین کومختلف مقامات پر آباد کرنے کا اختیار دے دیا گیا.آپ نے اس کام کو شب و روز کی محنت سے سرانجام دیا اور مسلم لیگ کے حلقوں میں ہمیشہ اپنے آپ کو لجنہ اما اللہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا.صبح سویرے آپ ممبرات کو ساتھ لے کر گھر سے نکلتیں اور رات گئے تک مہاجرین کی مدد کرنے میں مصروف رہتی تھیں.مقامی زنانہ مسلم لیگ کو جتنی بھی دیانت دار کا رکن

Page 41

33 خواتین کی ضرورت ہوتی وہ آپ کو مطلع کرتی اور آپ ممبرات لجنہ اماءاللہ کو وہاں لیکر پہنچ جاتی تھیں اور بڑی خوش اسلوبی سے اس کام کو سرانجام دیتی تھیں.کھاریاں ضلع گجرات : محتر مہ ہاجرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ کھاریاں (اہلیہ چوہدری فضل الہی صاحب مرحوم) نے مہاجرین کی مدد کی اور آبادکاری کے سلسلے میں نہایت قابل قدر کام کیا.آنے والے مہاجرین کو اپنے گھر میں ٹھہرایا.ان کے کھانے پینے پہنے اور رہائش کا انتظام کیا اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا.حتی کہ اپنے گھر کی سوائے اشد ضروری چیزوں کے باقی تمام کا تمام سامان مہاجرین کو دے دیا.تین غیر مسلموں کے مکان حاصل کر کے ان میں مہاجرین کو آباد کیا.کثیر تعداد میں کپڑے اور بستر جمع کر کے دوٹرکوں پر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ لاہور کو بھجوائے.گھسیٹ پورہ ضلع لاسکیور محتر مہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری محمد طفیل صاحب سابق صدر لجنہ گھسیٹ پور ضلع لائل پورتحریر فرماتی ہیں:.قیام پاکستان کے بعد ہم ہجرت کر کے ضلع لائل پور کے ایک گاؤں چک نمبر 8 گھسیٹ 19 R.B پورہ میں پہلے احمدی خاندان کی حیثیت سے آباد ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اس تحریک کے ماتحت که احمدی مهاجرین اکٹھے مختلف مقامات پر آباد ہونے کی کوشش کریں.میں نے اپنے خاوند کو تحریک کی کہ اس گاؤں میں زیادہ سے زیادہ احمدی آبا د کر نے کی کوشش کی جائے.چنانچہ ان کی کوششوں سے پہلے اپنے تمام رشتہ داروں کو یہاں بلا کر آباد کیا.پھر ہم رتن باغ لاہور پہنچے اور زمیندار احمدی مہاجرین سے رابطہ پیدا کر کے انہیں گھسیٹ پورہ پہنچنے کی تحریک کی اور جب وہ تیار ہو گئے تو افسر ان سے مل کر ۸۰ - ۹۰ احمدی گھرانوں کو زمین الاٹ کرا کر یہاں آباد کرنے کا انتظام کیا.اس طرح یہاں احمدی آبادی کی اکثریت ہو گئی.چنانچہ اب یہاں احمدی آبادی خدا کے فضل سے ایک ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے.الحمداللہ“

Page 42

34 == سیالکوٹ : محترمہ سیدہ فضلیت صاحبہ سابق صدر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ تحریر فرماتی ہیں:.۱۹۴۷ء میں جب پارٹیشن ہوئی تو یہاں پر لجنہ کی میرات اور احمد یہ گرلز ہائی سکول کی طالبات نے بہت کام کیا.سب سے زیادہ احمدی لڑکیاں ہی تھیں جو کیمپوں میں کام کرتی تھیں.“ ان کے علاوہ مندرجہ ذیل بہنوں نے بھی مہاجرین کی امداد اور آبادکاری کے کاموں میں نمایاں حصہ لیا:.ا.فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری محمد ابراہیم صاحب سماعیلہ ضلع گجرات 66 ۲.بیگم شفیع صاحبہ مرحومہ ایڈیٹر رسالہ دستکاری لاہور.آپ نے آبادکاری کے علاوہ مشرقی پنجاب سے اغواہ شدہ لڑکیاں نکالنے کے سلسلہ میں بھی مسلم لیگ کی خواتین کے ساتھ مل کر کام کیا.نجم النساء صاحبہ کوٹ فرزند علی چک ۲۵ اضلع رحیم یار خان.-۴- حمیده خانم صاحبہ بیگم شیخ مسعود احمد صاحب رشید مرحوم لا ہور.۵.صغری فاطمہ صاحبہ بہاولنگر.لا ہور میں دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا قیام: حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (جنرل سیکرٹری لجنہ مرکز یہ ) نے لاہور پہنچ کر اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اب لاہور رہ کر موجودہ نازک اور مشکل دور میں لجنہ کا کام شروع کیا جائے.چنانچہ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے درخواست کی کہ محترمه سراج بی صاحبہ کلرک دفتر لجنہ کو قادیان سے بھجوا دیا جائے.چنانچہ سراج بی صاحبہ اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ استمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور آگئیں.وہ اپنے ہمراہ صرف دو تین رجسٹر ہی لا سکیں.آتے ہی پر چی خوراک اور تقسیم لحاف و برتن وغیرہ کا کام شروع کر دیا.اس کام کا بوجھ کچھ ہلکا ہونے پر لجنہ کے چندہ اور رپورٹوں کا کام شروع کر دیا گیا.الفضل کے ذریعہ بھی لاہور میں لجنہ کے مرکزی دفتر کے قیام کا اعلان کیا گیا.یہ اور اس طرح لاہور میں لجنہ مرکزیہ کے کام کا آغاز ہوا.ا الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء صفحه ۶

Page 43

35 رتن باغ لاہور میں نماز جمعہ کا انتظام: لا ہور میں احمدی مہاجرین کی کثیر تعداد آجانے کی وجہ سے مسجد احمد یہ دہلی دروازہ لاہور میں نماز جمعہ کے لئے جگہ کی بہت زیادہ قلت محسوس ہونے لگی.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسح الثانی نے اس کے متعلق اپنے خطبہ جمعہ ۱۷.اکتوبر میں فرمایا :.چونکہ مسجد میں جگہ تنگ ہے اور لوگ زیادہ تعداد میں آئے ہیں اس لئے منتظمین کو چاہیئے کہ وہ آئندہ خطبہ کا کسی اور جگہ انتظام کریں جو موجودہ جگہ سے زیادہ فراخ اور وسیع ہو.مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی شکایت ہے کہ وہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے خطبہ سننے کے لئے نہیں آسکتیں.یہ یقینی بات ہے کہ جب تک عورتوں کی اصلاح نہ ہو آئندہ نسل کی اصلاح نہیں ہوسکتی.اس لئے کسی وسیع جگہ کا جمعہ کے لئے انتظام کرنا چاہیئے تا کہ تمام عورتیں بھی شامل ہو سکیں اور مرد بھی.اس مسجد میں عورتوں کے لئے جو جگہ ہے اس سے پندرہ میں گناہ زیادہ جگہ صرف عورتوں کے لئے چاہیئے اور مردوں کے لئے بھی موجودہ جگہ سے کم از کم دگنی جگہ ہونی چاہیئے.پس آئندہ خطبہ جمعہ کا کسی کھلی جگہ انتظام کیا جائے کیونکہ بہت سے لوگ خطبہ سننے سے محروم رہتے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے.چنانچہ حضور کے ارشاد کے نتیجہ میں نماز جمعہ رتن باغ کے وسیع میدان میں ہونے لگی جہاں پر عورتوں کے لئے بھی پردہ کے ساتھ وسیع جگہ ہوتی تھی.لجنہ اماءاللہ کے جلسے: لا ہور آتے ہی حضور نے لجنہ اما اللہ کی تعلیم و تربیت کے لئے پندرہ روزہ جلسے منعقد کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچه ۲۳ اکتوبر اور ۹ نومبر کو رتن باغ میں عورتوں کے جلسے ہوئے جن میں حضور نے بنفسِ نفیس تشریف لا کر مستورات سے خطاب فرمایا اور الہی نشانات کے ماتحت ہجرت پر روشنی ڈالی اور پھر لاہور کی مستورات کو یہ نصیحت فرمائی کہ ہم لوگ آپ کے پاس آئے ہیں تو فائدہ اٹھاؤ اور دینی تعلیم سکھو سے اس کے علاوہ ۲۳ نومبر اور ۲۱ دسمبر کو بھی لجنہ اماءاللہ کے جلسے منعقد ہوئے جن میں حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ مرکزیہ نے لجنہ لاہور کو بیدار کرنے کے لئے تقاریر فرمائیں.الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲ ۲ افسوس یہ تقاریر محفوظ نہیں رہیں.

Page 44

36 مختلف مقامات پر ہجرت کے بعد لجنات کی از سر نو تنظیم : لجنہ اماءاللہ لاہور : لا ہور شہر میں احمدی مستورات کی سرگرمیاں تو مرکزی لجنہ اماءاللہ کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں.محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم بخش صاحب پہلوان ( جو عرف عام میں اماں پہلوانی کے نام سے مشہور تھیں ) اور محترمہ اہلیہ صاحبہ محمد الحق صاحب نے ۱۹۲۳ء میں ہی اس تحریک کو چلانے کی کوشش شروع کر دی تھی لیکن لجنہ اماءاللہ کا با قاعدہ قیام لاہور میں ۱۹۲۵ء میں ہوا لے اور گیارہ سال کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خواتین جماعت احمد یہ اتنی ترقی کر چکی تھیں کہ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی خاطر لا ہور شہر کو پانچ حلقوں میں تقسیم کر کے ہر حلقہ کی علیحدہ عہدیدار مقررکی گئیں حتی کہ قیام پاکستان کے وقت لاہور میں دس حلقہ جات قائم ہو چکے تھے اور ہر حلقہ میں صدر وسیکرٹری کا تقرر با قاعدہ انتخاب سے ہوتا تھا اور ہر پانچ حلقوں پر ایک نگران تھی.۱۹۴۷ء میں حلقہ جات اور کارکنات کے نام درج ذیل ہیں:.ا.حلقہ دہلی دروازہ صدر محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ میاں عبدالعزیز صاحب مغل سیکرٹری محترمہ رشیدہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر شریف احمد صاحب ۲.حلقہ چابکسواراں صدر محترمه سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرز اعطاء اللہ صاحب ومحترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ اہلیہ احمد الدین صاحب سیکرٹری محترمہ زینب حسن صاحبه و محتر مہ صالحه نسرین صاحبہ بنت مرزا عطا اللہ صاحب.حلقہ بھائی دروازہ صدر محترمہ بیگم النساء صاحبہ اہلیہ مرزامحمد اسمعیل صاحب سیکرٹری محترمہ بختاور صاحبہ وسلیمہ بیگم صاحبہ بنت میاں معراج الدین صاحب مرحوم ۴.حلقہ اسلامیہ پارک صدر محترمه سردار بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری عبدالرحیم صاحب سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ مرزا محمد صفدر صاحب تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحہ ۱۷۲

Page 45

37 ۵.حلقہ مسلم ٹاؤن صدر محترمہ زینت النساء صاحبہ اہلیہ میاں فیروز الدین صاحب سیکرٹری محترمه سراج بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عزیز حسین صاحب ۶.حلقہ سول لائنز صدر محتر مہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام حیدر صاحب سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ شیخ محمد سعید صاحب ے.حلقہ فیض باغ صدر محتر مہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالقادر صاحب - حلقه مغلپورہ گنج صدر محتر مہ اہلیہ صاحبه با بوعبدالکریم صاحب صدر اہلیہ صاحبہ قاضی عطاء اللہ صاحب ۹.حلقہ محمد نگر ۱۰.حلقہ باغبانپورہ صدر محترمه طالعه بی بی صاحبہ اہلیہ محمد حسین صاحب پہلے پانچ حلقوں کی نگران زینب حسن صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر حسن صاحب تھیں اور پچھلے پانچ حلقوں کی نگران محترمه سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد سعید صاحب.لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی مخلص اور ان تھک کارکنات مندرجہ ذیل رہی ہیں:.محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم بخش صاحب پہلوان محتر مہ زبیدہ خاتون صاحبہ الیه با بومی محترمہ بشارت خاتون صاحبه (ب- خ -ن) محترمه خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد الحق صاحب.محترمه سعیده بیگم صاحبہ اہلیہ میاں وزیر محمد صاحب.محترمہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالحمید صاحب محتر مہ اہلیہ صاحبه مرز امحمد صادق صاحب.محترمہ اہلیہ صاحبہ ملک کرم الہی صاحب.محترمہ نیاز بی بی صاحبہ اہلیہ صوفی علی محمد صاحب.محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحیم صاحب والدہ اعجاز الحق صاحب رہی ہیں.ابتداء میں لجنہ اماءاللہ کی سرگرمیوں کا مرکز دہلی دروازہ اور مزنگ رہا ہے.زیادہ کام چندہ جمع کرنا.قرآن مجید سادہ و با ترجمہ پڑھانا اور اُردولکھنا پڑھنا سکھانا تھا.اس سلسلہ میں محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ وزیر محمد صاحب نے بہت کام کیا.ہجرت سے قبل چابک سواراں کا کام سب سے نمایاں اور اچھا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ان کے کام پر اظہار خوشنودی فرمایا تھا.۱۹۴۷ء کا سال سیاسی ہنگاموں سے شروع ہوا.ہجرت کے بعد لجنہ اماءاللہ کا زیادہ کام مہاجرین کی امداد اور فرقان فورس کے سامان کے سلسلہ میں رہا.مہاجرین کی امداد کا ذکر کیا جا چکا ہے.فرقان فورس کے سلسلہ میں خدمات کا ذکر آئندہ صفحات میں آئے گا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ مرکزیہ نے لجنہ لاہور کی تنظیم کی طرف خاص

Page 46

38 ۱۴ توجہ فرمائی اور محترمہ زینب حسن صاحبہ کے ساتھ سارے لاہور کا دورہ کیا.حلقہ جات دس سے چودہ " کئے گئے.حلقہ جات دھرم پورہ.پرانی انار کلی.ہال روڈ اور سنت نگر قائم کئے گئے.۲ مئی ۱۹۴۸ء میں بذریعہ انتخاب امتہ اللہ مغل صاحبہ صد ر اور زینب حسن صاحبہ سیکرٹری مقرر ہوئیں.۱۳ مئی ۱۹۵۲ء کو جنہ اماءاللہ لا ہور کی مبرات نے حضرت سید ہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ ) کو اپنا صدر منتخب کیا.آپ کے ربوہ آجانے کے بعد ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک لاہور کی صدر محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ بیگم صاحبز ادہ مرزا مظفر احمد صاحب رہی ہیں.آپ کے زمانہ میں لاہور کو نہیں " حلقہ جات میں تقسیم کر دیا گیا.۹۵۹ء میں لجنہ اماءاللہ لاہور کی صدر حضرت سیّدہ نواب مبارکه بیگم صاحبہ مدظلہ العالی منتخب ہوئیں اور انسپکٹرس محترمہ صاحبزادی سیدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ بیگم مرزا رشید احمد صاحب اور محترمہ احمدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب مقرر ہوئیں.آپ کے ربوہ آجانے کے بعد محترمہ صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ بیگم مرزا حمید احمد صاحب جو نا ئب صدر تھیں صدر کے فرائض سر انجام دینے لگیں اور ۱۹۶۷ء میں باقاعدہ صدر منتخب ہوئیں اور تاحال آپ ہی صدر ہیں.محترمہ زینب حسن صاحبہ نے جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری مال ہر دو اہم عہدوں پر کام کیا ہے.آپ کا حساب رکھنے کا طریق بہت اچھا ہے.کئی سال سے صرف سیکرٹری مال لاہور کا اہم عہدہ ان کے سپرد ہے.ہجرت کے بعد مندرجہ ذیل عہدہ داروں نے لجنہ اماءاللہ لاہور کی اہم خدمات سرانجام دی ہیں.محترمہ شاہدہ ریاض صاحبہ محترمہ ممتاز فقر اللہ صاحب محترمہ اقبال بیگم صاحبہ سیکرٹری خدمت خلق.محترمه سیده بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب جنرل سیکرٹری محترمہ بیگم شفیع صاحبہ مرحومہ.محتر مہ نیم سیعد صاحبہ بنت بیگم شفیع صاحبہ محترمہ صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ ( کچھ عرصہ سیکرٹری مال رہیں ) محترمہ والدہ صاحبه اختر محمود صاحب محترمہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام حید ر صاحب.محتر مہ اہلیہ صاحبہ شیخ محمد سعید صاحب محترمہ احمدی بیگم زہرہ صاحبہ محترمہ شاکرہ بیگم صاحبہ (ناصرات).محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری غلام احمد صاحب ( نمائش) محترمہ بیگم صاحبہ میر مشتاق احمد صاحب (چار حلقہ جات کی نگران ).محترمہ عائشہ صاحبہ اہلیہ مولوی رحمت علی صاحب.محترمہ والدہ صاحبہ رشید احمد صاحب (المعروف آپوجی).

Page 47

39 حلقہ جات میں سے مندرجہ ذیل کا رکنات نے بہت اچھا کام کیا ہے:.ا.حلقہ دھرم پورہ صدر محترمہ اہلیہ صاحب محمد طفیل صاحب ۲.حلقہ چابکسواراں صدر محترمه سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرزاعطاء اللہ صاحب ۳.دہلی دروازہ ۴.حلقہ محمد نگر سیکرٹری محترمہ نواب بیگم صاحبہ اہلیہ فضل الہی صاحب سیکرٹری مال محترمہ اہلیہ صاحبہ سید دلاور شاہ صاحب صدر محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ میاں عبد العزیز صاحب مغل سیکرٹری محترمہ رشیدہ صاحبہ اہلیہ شریف احمد صاحب صدر محترمہ والدہ صاحبہ قاضی محمد عبداللہ صاحب محتر مہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبد العزیز احمد صاحب اور محترمہ والدہ صاحبہ رشید صاحب سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم قاضی عطاء اللہ صاحب -۵- حلقه پرانی انار کلی (نیله گنبد ) صدر محترمہ امینہ صاحبہ اہلیہ محمدحسین صاحب سیکرٹری محترمہ معراج بیگم صاحبه ۶.حلقہ مسلم ٹاؤن صدر محترمہ زینت النساء صاحبه سیکرٹری محترمه سراج بیگم صاحبہ اہلیہ عزیز حسین صاحب ے.حلقہ ہال روڈ صدر محترمہ والدہ صاحبہ اختر محمود صاحب سیکرٹری محترمہ رشیدہ بیگم صاحبه اہلیہ ڈاکٹر شریف احمد صاحب.حلقه باغبانپورہ صدر محترمہ طالعہ بی بی صاحبہ اہلیہ محمد حسین صاحب ۹.حلقہ سنت نگر سیکرٹری محترمہ آمنہ بی بی صاحبہ صدر محترمه حفیظہ بیگم صاحبہ ۱۰.حلقہ بھاٹی گیٹ صدر محترمہ بیگم النساء صاحبه سیکرٹری محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ اور محترمہ مبارکہ انجم صاحبہ ۱۱.حلقہ فیض باغ صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالقادر صاحب سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ محمد حسین صاحب

Page 48

40 40 ۱۲.حلقہ اسلامیہ پارک صدر محترمه سردار بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحیم صاح سیکرٹری محترمہ عائشہ سعیدہ صاحبہ اہلیہ مرز امحمد صفدر صاحب ۱۳ حلقه سول لائنز صدر محتر مہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام حیدر صاحب سیکرٹری محترمہ سعیدہ صاحبہ اہلیہ شیخ محمد سعید صاحب ۱۴.حلقه مغلپورہ گنج صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالکریم صاحب ۱۵.حلقه راوی پارک صدر محترمہ حفیظہ حمیدہ صاحبہ ومحتر مہ اہلیہ صاحبہ مرزا رحمت اللہ صاحب ۱۶.حلقہ ماڈل ٹاؤن محتر مہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کوتقسیم ملک کے بعد ماڈل ٹاؤن (لاہور) میں رہائش اختیار کرنی پڑی.آپ نے وہاں لجنہ کے اجلاسوں کے علاوہ جو کام خاص طور پر شروع کیا وہ رمضان المبارک میں قرآن مجید کا درس تھا.آپ کے بعد محترمہ حیات بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد ابرہیم صاحب بقا پوری محترمہ عزیزہ رضیہ صا حبہ مرحومہ اور پھر محترمہ عابدہ صاحبہ مرحومہ درس دیتی رہیں.ان کے علاوہ محترمہ نور جہاں صاحبہ اہلیہ بشارت احمد صاحب بشیر مرحوم (ابن حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر جماعت احمدیہ قادیان) محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں محمد یوسف صاحب محترمہ خدیجہ زینب صاحبہ محترمہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر فیض علی صاحب محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد عبد اللہ صاحب نے بھی لجنہ کے کاموں میں حصہ لیا.لجنہ اماءاللہ لا ہور نے ہجرت کے بعد سے نمایاں ترقی کی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک منظم اور فعال لجنہ ہے جو اپنے نصب العین کے حصول کے لئے کوشاں ہے.ناصرات کی تنظیم کو بہتر بنانے اور بچیوں کی تربیت میں محترمہ شاکرہ بیگم صاحبہ سیکرٹری ناصرات نے اہم کردارادا کیا ہے اور خدمت خلق کے سلسلہ میں محترمہ اقبال بیگم صاحبہ نے.اسی طرح محترمہ شاہدہ ریاض صاحب اور محترمہ ممتاز فقر اللہ صاحبہ ہر دو نے چندوں کی وصولی اور تنظیم نیز دورے کرنے میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.محترمہ شاہدہ ریاض صاحبہ بیرون پاکستان جا چکی ہیں اور محترمہ ممتاز فقر اللہ صاحبہ حالات کی مجبوری سے کام چھوڑ چکی ہیں لیکن لجنہ اماءاللہ ان کی خدمات کو بھلا نہیں سکتی.لجنہ اماءاللہ کراچی: کراچی میں لجنہ اماءاللہ کی شارخ تقسیم ملک سے قبل ۱۹۳۸ء میں قائم ہوئی تھی یا محترمہ امتہ اللہ ا تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحه ۳ ۴

Page 49

41 بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر محمد حسین صاحب نے یہاں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم کی.لجنہ کے اجلاس پندرہ روزہ ہوتے تھے.ممبرات کی تعداد پچیس اور تمیں کے درمیان تھی.محترمہ بیگم صاحبہ محترم ڈاکٹر محمدحسین صاحب کے ساتھ محترمہ امتہ النصیر صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری احمد جان صاحب ، محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عیسی خان صاحب اور محترمہ بلقیس خانم صاحبہ بنت محترم حاجی عبدالکریم صاحب عُہدہ داران شامل تھیں.قیام پاکستان کے وقت محتر مہ امتہ النصیر صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری احمد جان صاحب لجنہ اماءاللہ کراچی کی صدر تھیں.۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوا تو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے احمدی بھی ہجرت کر کے کراچی پہنچے.ان میں دہلی کے تمام سرکاری ملازمین بھی تھے اور لجنہ اماءاللہ دہلی کی عہدہ داران بھی تھیں.تمام لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے لیکن احمدیت کی برکت سے نظم وضبط کی جو عادت احمدیوں میں راسخ ہو چکی تھی اسی کے تحت لجنہ اماءاللہ دہلی کی صدر محتر مہ احمدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب نے کراچی پہنچ کر فور الجنہ کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیں.صدر لجنہ اماءاللہ کراچی سے ملیں اور اجلاسوں میں شرکت کی اور محترمہ امتہ النصیر صاحبہ بیگم چوہدری احمد جان صاحب صدر لجنہ اماءاللہ کراچی نے خواہش ظاہر کی کہ اب کراچی میں احمدی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے اس لئے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم نئے سرے سے کی جائے.چنانچہ ۷ استمبر ۱۹۴۷ء کو ایک جلسہ مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی زیر صدارت محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر ہوا اس میں نئے انتخابات ہوئے.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کو صدر منتخب کیا گیا.محترمہ بیگم صاحبہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب نائب صدر مقرر ہوئیں.محترمہ صغریٰ بیگم قدسیہ صاحبہ سیکرٹری اور سیکرٹری مال مقرر ہوئیں.محتر مداستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ چونکہ عارضی طور پر کراچی میں مقیم تھیں اس لئے ان کی نگرانی میں عملاً کام محترمہ بیگم صاحبہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب نے ہی کیا.اس طرح چند ماہ لجنہ کراچی نے استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی نگرانی میں کام کیا اور محترمہ استانی جی نے نہایت تندہی اور شفقت سے لجنہ کراچی کی تربیت اور راہنمائی فرمائی.جب لجنہ اماءاللہ کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا تو اس میں حاضری پچھتر ۷۵ ممبرات پر مشتمل تھی.یہ حلقہ سولجر بازار کا حلقہ کہلاتا تھا اور یہی لجنہ کراچی کا مرکزی حلقہ تھا بعد میں اس حلقہ کا نام حلقہ جیکب لائنز ہو گیا لجنہ کراچی کا دوسرا لے وفات ۴/اکتوبر ۱۹۷۱ء

Page 50

42 حلقہ حلقہ سعید منزل کے نام سے قائم کیا گیا اس میں رام سوامی کا علاقہ بھی شامل تھا اس کی صدر محترمہ خضر سلطانہ صاحبہ منتخب ہوئیں اور سیکرٹری محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ مقرر ہوئیں.۱۴.جنوری ۱۹۴۸ ء تک آپ نے خدمات انجام دیں.آپ کے بعد اس حلقہ کی صدر محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری احمد جان صاحب مقرر ہوئیں نائب صدر محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ اور سیکرٹری محترمہ صفیہ اللہ داد صاحبہ اور محترمہ کلثوم رحمانی صاحبہ اور سیکرٹری مال محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ مقرر ہوئیں.ان کے علاوہ محترمہ فضیلت بیگم صاحبہ، محترمه معصومه بیگم صاحبہ محترمہ سیدہ صالحہ بانو صاحبہ اور محتر مہ ممتاز بیگم صاحبہ کے سپر دعلی الترتیب تبلیغ تربیت واصلاح تعلیم اور ناصرات کے شعبے کئے گئے.چند ماہ کے بعد محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کراچی سے تشریف لے گئیں تو محترمہ بیگم صاحبہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب کے ساتھ محترمہ صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ نا ئب صدر مقرر ہوئیں.بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کی صدارت میں لجنہ اماءاللہ کراچی نے تیزی سے ترقی کے مراحل طے کئے.۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۰ء تک لیاقت آباد، گولیمار ، فیڈرل امیر یا لارنس روڈ اور ناظم آباد کے حلقے قائم ہو چکے تھے ان حلقوں میں جن احمدی خواتین نے کام کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:.محترمه سیده خضر سلطانہ صاحبہ مرحومہ محترم محمد یونس صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں جو محترم با بونذ یر احمد صاحب مرحوم امیر جماعت احمد یہ دہلی کے برادر نسبتی تھے اور ۱۹۴۷ء کے فسادات میں شہید ہو گئے تھے.مرحومہ اپنے خاندان میں اکیلی احمدی تھیں.لجنہ دہلی اور کراچی کی پُر جوش ممبر رہی ہیں.دسمبر ۱۹۲۸ء میں احمدی ہو ئیں تبلیغ کا بہت شوق تھا.کوئی اولاد نہ تھی.جب ربوہ میں مکانات کے لئے زمین الاٹ شروع ہوئی تو مرحومہ کی درخواست پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے محلہ دار الرحمت وسطی میں برلب سڑک ایک کنال کا قطعہ عطا فرمایا جس کے ایک حصہ میں انہوں نے مکان بنوالیا.۲۲.جولائی ۱۹۲۴ء کو مرحومہ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی.وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنا مکان وقف کرنے اور اس کے ایک حصہ میں مسجد بنوانے کی خواہش ظاہر کی.صدرانجمن احمدیہ نے اسے منظور کر لیا.اس مسجد کا نام مسجد خضر سلطانہ تجویز ہوا.پہلے ایک کچا کمرہ بطور مسجد تعمیر کیا گیا جو محترم مولوی عبدالرحمن صاحب انور کے زیر اہتمام بنا.جب اسے پختہ کرنے کا موقعہ آیا تو مرحومہ کی خواہش کا علم ہونے پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے ۱۹۲۹ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر اس کی بنیاد رکھی.یہ چھوٹی سی شاندار مسجد آب ریلوے سٹیشن کے سامنے موجود ہے.

Page 51

43 محترمہ قدیر بیگم صاحبہ محترمہ حبیبہ ہاشمی صاحبہ محترمہ عائشہ خادم حسین صاحبہ محترمه مسعوده بٹ صاحبہ.محترمہ ذکیہ بٹ صاحبہ محترمہ سرور جان صاحبہ محترمہ بلقیس صادقہ صاحبہ محترمہ خیر النساء خالدہ صاحبہ محترمہ ہمشیرہ خالد لطیف صاحب محترمہ رؤوفه بیگم صاحبہ محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ محترمه کفیلہ کوثر بیگم صاحبہ محترمہ اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالمجید صاحب محترمہ بیگم بین صاحب - محترمہ ثریا را نجها صاحبہ اور محترمہ فاطمہ احسان الی صاحبہ.لجنہ اماءاللہ کراچی کی جنرل سیکرٹری محترمہ صغری بیگم قدسیہ صاحبہ سے کچھ عرصہ بعد ہی خرابی صحت کی بناء پر مستعفی ہو گئیں اور ان کی جگہ محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری شاہنواز صاحب جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئیں اور محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ نائبہ جنرل سیکرٹری.محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چیف میڈیکل آفیسر ریلوے لجنہ کراچی کی سرگرم اور مخلص کارکن تھیں.پہلے چار حلقہ جات کے علاوہ پانچواں حلقہ جیکب لائن قائم کیا گیا.حلقہ جیکب لائن میں صدر محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ عبدالحق صاحب مقرر ہوئیں.کچھ عرصہ کے بعد جیکب لائن کی صدر کے کراچی سے جانے کے بعد محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب کا مٹی صدر حلقہ منتخب ہوئیں.۱۹۵۰ء میں ملیر کینٹ میں حضرت سیّدہ ام ناصر احمد صاحب اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے (جو ان دنوں حضور کے ساتھ کراچی میں تشریف فرما تھیں ) لجنہ کا قیام فرمایا.محترمہ اہلیہ صاحبہ محمد حنیف صاحب صدر اور محترمہ فہمیدہ لطیف صاحبہ کو سیکرٹری مقرر فرمایا.محترمہ صغری بیگم قدسیہ صاحبہ اہلیہ محترم شیخ غلام حسین صاحب لدھانوی نے مخلص خادمہ دین تھیں.دہلی میں لجنہ اماءاللہ کے قیام کے ساتھ ہی آپ نے اپنے تئیں اس سے وابستہ کر لیا اور ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے قیام پاکستان تک لجنہ کا کام نہایت ہی اخلاص و محبت اور جانفشانی سے کیا.آپ ۱۹۴۳ء میں لجنہ اماءاللہ دہلی کی سیکرٹری مال مقرر ہوئیں اور اس کام کو حسن و خوبی سے قیام پاکستان بلکہ کراچی میں غالباً ۱۹۵۰ء تک سرانجام دیا.آپ کے پاس سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے متعدد خطوط خوشنودی موجود ہیں.غالبا ۱۹۳۴ء میں نئی دہلی میں لجنہ اماءاللہ کا قیام ہوا اور آپ اس کی صدر مقرر ہوئیں.آپ کی صدارت میں اس نے بہت ترقی کی.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۵۲۵

Page 52

44 ابتداء میں حلقہ مارٹن روڈ اور جہانگیر روڈ ایک ہی حلقہ تھا مگر بعد میں جہانگیر روڈ کا الگ حلقہ بنایا گیا.حلقہ جہانگیر روڈ میں محترمہ امتہ الہادی صاحبہ اہلیہ محترم رشید الدین صاحب محترمہ نسیم خدیجہ صاحبہ محترمه گلزار آفتاب صاحبہ محترمه سلمی آفتاب صاحبہ محترمہ حمیدہ سلیم صاحبہ اور محترمہ محمودہ احمد صاحبہ نے قابل قدر کام کیا.۱۹۵۲ء میں حلقہ ایسے سینیا لائنز کا قیام عمل میں آیا.اس حلقہ میں محترمہ بیگم صاحبہ محترم حسیب بخش صاحب محتر مہ بیگم صاحبہ محترم صدیق شاہ صاحب محترم بیگم صاحبہ محترم ڈاکٹر محمد حسین صاحب محتر مہ امته الرشید صاحبہ بیگم صوفی مبارک احمد صاحب اور محترمہ بیگم صاحبہ محترم محمد اسمعیل صاحب بقا پوری نے اچھا کام کیا.لجنہ اماءاللہ کراچی کے زیر انتظام درس القرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا.سب سے پہلا درس رمضان المبارک میں محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے دیا جو ان دنوں کراچی میں مقیم تھیں.ان کے علاوہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری عبد اللہ خاں صاحب اور محترمہ خضر سلطانہ صاحبہ بھی درس دیتی رہیں.۱۹۵۲ء میں حلقہ ناظم آباد کی صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم محمد عیسی صاحب بھاگل پوری کی علالت کی وجہ سے محترمہ بیگم صاحبہ محترم انتظار حسین صاحب صدر، محترمہ بیگم صاحبہ محترم مسعود احمد صاحب خورشید نائب صدر اور محترمہ بیگم شریف صاحبہ سیکرٹری مقرر ہوئیں.۱۹۵۵ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی میں چند اور حلقہ جات قائم ہوئے جن کے نام یہ ہیں.پیرالہی بخش کالونی، مالیر کینٹ ، ڈرگ روڈ اور ماڑی پور.ان حلقہ جات میں محترمہ آمنہ بائی صاحبہ محترمہ سیدہ جمیلہ خاتون صاحبہ محترمہ انور بیگم صاحبہ اہلیہ محترم فضل حق صاحب، محترمہ عائشہ بٹ صاحبہ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبه محترمه فهمیده بخاری صاحبہ محترمہ بیگم صاحبہ محترم محمد حسین صاحب محتر مہ امتہ الحی طلعت صاحبه، محترمه ساره نیم صاحبہ محترمہ طاہرہ نصیر شاہ صاحبه محترمه فهمیده لطیف صاحبه، محترمہ بیگم اشرف صاحبه، محترمہ بیگم نسیم صاحبہ محترمہ ممتاز اسلم صاحبہ محترمہ سعیدہ خالدہ صاحبہ محترمہ امتہ الطیف اہلیہ بشیر احمد صاحب اور محترمہ امتہ السلام صاحبہ نے خدمات سرانجام دیں.ل دختر مولوی عبدالغفور صاحب فاضل مرحوم مربی سلسہ احمدیہ

Page 53

45 ۱۹۵۷ء میں محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کراچی تشریف لائیں تو اس موقع پر حلقہ سعید منزل اور رام سوامی کو علیحدہ علیحدہ حلقہ بنا دیا گیا.حلقہ سعید منزل کی صدر آپا سلیمہ بیگم صاحبہ مقرر ہوئیں اور حلقہ رام سوامی کی محترمہ بیگم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب.۱۹۵۸ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی کی عہدہ دارمندرجہ ذیل تھیں:.صدر جنرل سیکرٹری محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب شاہ نواز صاحب نائبہ جنرل سیکرٹری محترمه جمیلہ عرفانی صاحبہ سیکرٹری مال محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب سیکرٹری اصلاح و ارشاد محترمه سیده محموده خاتون صاحبه سیکرٹری خدمت خلق محترمہ آپا سلیمہ بیگم صاحبہ سیکرٹری نمائش محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری کرامت اللہ صاحب نگران ناصرات محترمہ بیگم صاحبہ مولانا عبدالمالک خاں صاحب آپ حلقہ سعید منزل اور رام سوامی کی صدر بھی رہیں ) منتظم انڈسٹریل ہوم محترمہ آپا سلیمہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ سٹور محترمہ بیگم صاحبہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب راولپنڈی: لجنہ اماءاللہ راولپنڈی ۱۹۳۲ء میں قائم ہوئی.۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد سینکڑوں احمدی مہاجر خاندان راولپنڈی میں سکونت پذیر ہوئے.ان دنوں محترمہ امتہ العزیز صاحبہ مرحومہ ہمشیرہ ، اہلیہ مولوی احمد خاں صاحب نسیم جو ایک نہایت نیک اور مخلص خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور خود بھی ایک پر جوش اور مخلص خادمہ دین تھیں، نے ہر احمدی کے گھر پہنچ کر لجنہ کی از سرنو تنظیم کی اور مستورات کو اجلاس میں شامل ہونے کی ترغیب دی چنانچہ وہ اس میں بہت کامیاب ہوئیں.لجنہ کے پہلے انتخاب میں مندرجہ ذیل عہدہ دار منتخب ہوئیں:.صدر محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم قاضی محمد رشید صاحب مرحوم

Page 54

40 46 نائب صدر محترمه امتہ العزیز بیگم صاحبه مرحومه محترمہ حمیده خانم صاحبه سیکرٹری سیکرٹری مال محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر صلاح الدین صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت محترمہ امتہ العزیز بیگم صاحبه مرحومه کچھ عرصہ بعد محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ محترم میاں قاضی محمد رشید صاحب کی تبدیلی پر محترمہ ترمها امتہ العزیز بیگم صاحبہ مرحومہ صدر لجنہ کی حیثیت سے کام کرنے لگیں.۱۹۵۰ء میں محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈ ووکیٹ مرحوم کو تین حلقوں کا سیکرٹری مال اور سیکرٹری تربیت واصلاح مقر ر کیا گیا.۱۹۵۱ء میں محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر صلاح الدین صاحب تبدیل ہو کر چلی گئیں اس سال دوبارہ انتخاب ہوا جس میں صدر لجنه محترمہ امتہ العزیز بیگم صاحبه سیکرٹری محترمہ حمیده خانم صاحبه اور سیکرٹری مال اور سیکرٹری تربیت و اصلاح محترمہ بیگم صاحبہ میاں عطاءاللہ صاحب منتخب ہوئیں.کچھ عرصہ بعد محترمہ امتہ العزیز صاحبہ بیمار ہو کر صاحب فراش ہوگئیں لیکن اس بیماری اور تکلیف کے باوجود بستر پر لیٹے ہوئے لجنہ کا کام بڑی خوش اسلوبی سے چلاتی رہیں.آپ نہایت جوش اور غیرت رکھنے والی تھیں.دیگر ممبرات اور عہدہ داران سے ان کا بہت ہی اچھا سلوک اور تعلق تھا.چنانچہ اب اجلاس بڑی باقاعدگی سے منعقد ہو نے لگے اور رپورٹیں با قا عد گی سے بھیجی جانے لگیں.مستورات نے دفتر لجنہ مسجد مبارک اور مسجد ہالینڈ کے چندے فراخ دلی سے دیئے.محترمہ مریم بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ بابواللہ بخش صاحب ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ را ولپنڈی نے بھی بہت تعاون کیا اور چندہ کی وصولی میں مدد کرتی رہیں.مرحومہ بہت نیک مخلص ، باہمت اور پُر جوش خاتون تھیں.۱۹۵۲ء میں محترمہ امتہ العزیز بیگم صاحبہ مرحومہ صدر لجنہ بڑھتی ہوئی بیماری کی وجہ سے ربوہ لے آپ نے ہجرت سے قبل محلہ وار الفضل قادیان میں بھی لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دی ہیں.

Page 55

47 آگئیں.۳۱.جولائی ۱۹۵۳ء کو ان کی وفات ہوئی.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے بعد نئے انتخابات تک محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری احمد جان صاحب صدر کے عہدہ پر کام کرتی رہیں اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ سیکر ٹری بڑی تندہی سے کام کرتی رہیں.مرکز نے مقرر کردہ کتب کے امتحانات کے لئے زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو تیار کیا جاتا اور ناصرات کے اجلاس میں شمولیت کی خاطر دلچسپی کے سامان مہیا کئے جاتے.۱۹۵۴ء میں انتخاب ہوا تو محترمہ بیگم صاحبہ میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم کو صدر لجنہ مقرر کیا گیا.سیکرٹری محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ اور آخر میں محتر مہ امتہ المالک صاحبہ رہیں.سیکرٹری مال محترمه زکیه شوکت صاحبه (۳ ماه) محترمه مریم صدیقہ صاحبہ (۹ ماه) محترمہ ذکیہ عارف صاحبہ (۲ سال) محترمہ زبیدہ مقبول صاحبہ (ایک سال) اور محتر م سلمیٰ بیگم صاحبہ اہلیہ میجر انور صاحب ۱۹۵۲ء تک کام کرتی رہیں.سیکرٹری تربیت واصلاح کا کام محتر مہ رقیہ بیگم صاحبہ کے سپرد ہوا.جو انہوں نے نہایت عمدہ طریق سے سرانجام دیا.سیکرٹری نشر واشاعت.محترمہ سعادت بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالحمید صاحب رہیں.اس انتخاب کے معاً بعد شہر کے دس ' حلقے بنائے گئے اور ہر حلقہ میں صدر، سیکرٹری اور سیکرٹری مال مقرر کی گئیں.حلقہ جات مندرجہ ذیل تھے:.ا.حلقہ سیٹیلائٹ ٹاؤن صدر محترمہ رقیه بیگم صاحبه سیکرٹری محترمه منور اختر صاحبہ اہلیہ میجر عبدالرحمن صاحب مغل ۲.حلقہ ا کال گڑھ صدر محترمه مبارکه بیگم صاحبه سیکرٹری محتر م سلمیٰ بیگم صاحبہ اہلیہ میجر انور صاحب ۳.حلقہ کرتار پوره صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ عبدالغفور صاحب سیکرٹری محتر مہ ذاکرہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں محمود احمد صاحب و محترمه رشیدہ بیگم صاحبه ۴.حلقہ گوالمنڈی صدر و سیکرٹری محترمہ امتہ العزیز بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب ۵.حلقہ صدر سیکرٹری محترمہ بیگم صاحبہ انور قریشی صاحب صدر محترمه زبیده مقبول صاحبه

Page 56

48 ۲ حلقه سید پوری گیٹ ے.سیکرٹری محترمه سعادت بیگم صاحبه صدر محترمہ صفیہ رمضان صاحبه سیکرٹری محترمہ رشیدہ فاروق صاحبه صدر محترمہ حلیمہ سیٹھی صاحبہ.حلقہ کالج روڈ صدر محتر مہ صالحہ مختار احمد صاحبه سیکرٹری محترمہ والدہ داؤ د صاحبہ ۹.حلقہ پاورلائنز صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ عبد الخالق صاحب ۱۰.حلقہ رنہ روڈ سیکرٹری محترمہ طاہرہ بیگم صاحبہ صدر و سیکرٹری محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ مذکورہ بالا بہنیں ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۶۲ء تک بڑے اخلاص اور محبت سے کام کرتی رہیں.لجنہ کے کاموں میں ربوہ اور کراچی کے بعد راولپنڈی کا نمبر تھا اور ناصرات کا پہلا درجہ تھا.سیکرٹری ناصرات محترمہ رقیه سنوری صاحبہ بڑی محنت ، تندہی اور محبت سے کام کرتی رہیں.۵۸ - ۱۹۵۷ء دو سال مولوی محمد صدیق صاحب شاہد اور ان کی اہلیہ محترمہ انور بیگم صاحبہ نے ناصرات کی ترقی کے لئے بے حد محنت اور دلچسپی سے کام کیا.ان کے بعد محترمہ رقیہ سنوری صاحبہ بھی بڑی ہمت اور شوق سے کام کرتی رہیں.مرکزی تحریکات تعلیم القرآن کلاس، امتحانات ،نمائش ، ناصرات اور اجتماعات میں لجنہ راولپنڈی کا نمایاں حصہ ہوتا تھا.ناصرات الاحمد یہ راولپنڈی نے ربوہ اور لاہور کے بعد سب سے پہلے اجتماع منعقد کیا جو بہت کامیاب رہا.۱۹۵۶ء میں محترمہ بیگم صاحبہ محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم ضلع راولپنڈی کی صدر مقرر ہوئیں.آپ نے واہ فیکٹری ، کوہ مری اور چنگا بنگیال میں لجنہ قائم کی.مسجد نور راولپنڈی کے لئے چندہ میں مستورات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے زیور بھی دیئے.مسجد تیار ہونے پر لجنہ اماءاللہ راولپنڈی نے اس میں 4 پنکھے لگوائے جن میں دو پنکھے محترمہ سیدہ زبیدہ مقبول صاحبہ اور محترمہ بیگم صاحبہ ظہور الحق صاحب نے دیئے.محترمہ بیگم صاحبہ میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم نے لجنہ اماءاللہ کا کام ۱۹۴۹ء سے لے کر ۱۹۶۲ء تک کیا.۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۲ء تک بہ حیثیت صدر خدمت کی ( اس کے بعد آپ بیرون پاکستان تشریف

Page 57

49 49 لے گئیں ) اس عرصہ میں لجنہ راولپنڈی نے ہر جہت سے ترقی کی.آپ مخلص اور دین کے لئے بہت جوش رکھنے والی خاتون ہیں.دن رات ایک کر کے محنت کرتیں اور کرواتیں.محترمہ عائشہ صاحبہ اہلیہ محترم قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی مصباح کی اشاعت کے لئے بہت محنت اور لگن سے کام کرتی رہی ہیں سیالکوٹ : ۱۹۲۳ء میں یہاں لجنہ قائم ہوگئی تھی (اگر چہ اس سے قبل بھی یہاں کی احمدی خواتین مختلف تنظیمیں بنا کر تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا شوق سے کام کر رہی تھیں) لجنہ قائم ہونے پر محترمہ سیدہ فضلیت صاحبہ صدر منتخب ہو ئیں.آپ کو ۱۹۵۰ء تک متواتر ۲۷ سال تک قابل قدر خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا.ان کے بعد محترمہ سیدہ رفعت صاحبہ صدر ہوئیں ان کی وفات پر محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ کریم بخش صاحب صدر مقرر ہوئیں.( محترمہ زنیب بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ شیخ محمد عبداللہ صاحب.۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۶ء تک بطور سیکرٹری کام کرتی رہیں ) محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ سیالکوٹ کی ابتدائی کارکنات میں سے تھیں.۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۷ء تک سیکرٹری مال ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء تک جنرل سیکرٹری اور پھر صدارت کے عہدہ پر فائز رہیں اور بڑی کامیابی کے ساتھ صدارت کی ذمہ داریوں کو نبھایا.ان کے سیالکوٹ سے باہر جانے پر ۱۹۵۷ء میں محترمہ نصرت را شدی صاحبہ صدر منتخب ہوئیں.اور آپ تا حال صدر ہیں.محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ کے ساتھ سیکرٹری کے فرائض محترمہ سیدہ عزیزہ فیضی صاحبہ ادا کرتی رہیں.محترمہ سیدہ رفعت صاحبہ مرحومہ محترمہ سیدہ شوکت صاحبہ مرحومہ اور محترمہ سیدہ عصمت صاحبہ احمدیہ گرلز ہائی سکول کے انتظامات کی نگرانی فرماتی رہیں.محترمه ز بیده بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم محمد نواز صاحب اور محترمہ زنیب بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم روشن دین صاحب کو نمایاں خدمات کا موقع ملا.ان کے علاوہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم محمد حسین صاحب، محترمہ احمدہ بی بی صاحبہ، اہلیہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب، محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ل ۲۵.جون ۱۹۶۸ء کو ۷۵ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی.مرحومہ اسلام اور احمدیت کی شیدائی تھیں اور دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کی روشن مثال.انتہائی سادہ زندگی گزاری.باوجود بیوہ ہونے کے سلسلہ کی مالی تحریکات میں ہمت سے بڑھ کر حصہ لیتیں.آٹھ ہزار روپیہ حق مہر کے چوتھے حصہ کی وصیت کر کے دو ہزار روپیہ ۱۹۳۰ ء ہی میں ادا کر دیا.احمد یہ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ کی بوقت ضرورت خاص مالی امداد فرماتیں تبلیغ احمدیت کا بہت شوق تھا.

Page 58

50 50 چوہدری شاہ نواز صاحب، محترمہ فہمیدہ کھوکھر صاحبہ محترمہ امته الرشید صاحبہ بنت محترم محمد امین صاحب کو بھی خدا تعالیٰ نے مختلف شعبوں کا کام کرنے کی توفیق بخشی.جزاکم اللہ تعالیٰ.شیخو پوره: زم حکیم مرغوب اللہ صاحب کی اہلیہ صاحبہ، ان کی ہمشیرہ محترمہ زینب نسرین صاحبہ اور دختر محترمہ امتہ الحی صاحبہ اور محترمہ مبارکہ قیصرہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری علی اکبر صاحب کو خدمت کے مواقع ملتے رہے.محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری انور حسین صاحب نے صدارت کے اور محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ نے سیکرٹری مال کے فرائض لمبا عرصہ ادا کئے.حیدر آبا دسندھ: محترمه عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد سعید صاحب ہجرت کے بعد سے تا حال (۱۹۷۱ء) بفضلہ تعالیٰ صدر ہیں.آپ کے ساتھ نائب صدر محترمہ بیگم صاحبہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سیکرٹری کے فرائض محترمہ زہرہ بیگم صاحبہ محترمہ امتہ الرشید صاحبہ اہلیہ محترم نور احمد صاحب تالپور، محترمه بشری بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مرزا مبارک احمد صاحب ، محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مبشر احمد صاحب اور محترمہ امتہ الرؤف نعیمہ صاحبہ ادا کرتی رہیں.کھاریاں: محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چو ہدری فضل الہی صاحب صدر لجنہ اماءاللہ اور محترمہ نظر بیگم صاحبہ سیکرٹری نے اس دور میں نمایاں کام کیا.یہ لجنہ سرگرم لجنات میں شمار ہوتی تھی.باوجود یکہ یہ ضلع نہ تھا مگر ضلع سے زیادہ کام ہوتا رہا.اردگرد کے دیہات کو بھی بیدار کرنے کا ان کو موقع ملا.ساہیوال ( سابق منٹگمری): محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۰ء تک صدر رہیں.آپ کے ساتھ محترمہ امتہ الحکیم صاحبہ محترمہ مبارکہ صاحبہ محترمہ خالدہ صاحبہ اور محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالسلام صاحب ظافر نے کام کیا.

Page 59

جھنگ: 51 جھنگ کے دو حصے تھے.جھنگ شہر اور جھنگ مگھیا نہ جواب جھنگ صدر کہلاتا ہے.جھنگ شہر میں محترمہ بھاگ بھری صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد اسلم صاحب پھر محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد حسین صاحب صدارت کے اور محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت محترم چوہدری غلام حسین صاحب اور محترمہ امتہ الحفیظ یحیی صاحبہ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی رہیں.جھنگ صدر میں محترمہ امتہ العزیز صاحبہ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۶۰ء صدارت کے محترمہ قدسیہ صاحبہ اہلیہ محترم سید بشیر احمد صاحب محترمہ طاہرہ صاحبہ بنت محترم سید منظور حسین صاحب، محترمہ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عبد العلیم صاحب سیکرٹری کے اور محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سید محمد حسین شاہ صاحب سیکرٹری مال کے فرائض (۱۹۵۳ء تا ۱۹۷۱ء) سرانجام دیتی رہیں.پشاور: محترمه عزیز فاطمہ صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی صدر ہیں.( آپ قادیان میں بھی لجنہ کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں) محترمہ سعیدہ صاحبہ اہلیہ محترم ابوالخیر صاحب اور محترمه شهزاده گلشن صاحبه دختر محترم خواجہ محمد شریف صاحب محترمہ امتہ الحی نزہت صاحبہ ( آپ نے بنوں میں بھی کام کیا ) سیکرٹری رہیں.نیز محترمہ قانتہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ محترم جزل احیاء الدین صاحب بھی لجنہ پشاور کی سرگرم ممبر رہی ہیں.۱۹۵۸ء میں محترمہ صدر صاحبہ ربوہ آگئیں تو محترمہ سیدہ بشری صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب صدر اور محترمہ نسیم بیگم سعید صاحبہ سیکرٹری مقرر ہوئیں.سرگودھا: محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم عبدالجبار خاں صاحب ۱۹۴۷ء تا وسط ۱۹۷۰ء تک صدر رہیں.آپ کے ساتھ سیکرٹری علی الترتیب محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مبلغ ہالینڈ محترمہ نصرت بیگم کے صاحبہ اہلیہ محترم مولوی امام الدین صاحب سابق مبلغ لے آپ بعد میں اپنے خاوند کے ساتھ انڈو نیشیا چلی گئیں اور آج کل ربوہ میں اپنے حلقہ کی سیکرٹری ہیں.

Page 60

52 42 انڈونیشیا، زیب النساء صاحبہ بنت محترم حافظ عبدالعلی صاحب ، محترمہ صفیہ صاحبہ بنت محترم بھائی محمود احمد صاحب، محترمہ امته المنان صاحبہ بنت محترم منشی محمد الدین صاحب رہیں.سیکرٹری مال محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر عبد الحق صاحب وکیل اور محصلہ محترمہ اللہ رکھی صاحبہ ہیں.اس لجنہ نے بھی ہمیشہ مرکز سے تعاون کیا اور اس کا شمار با قاعدگی سے کام کرنے والی لجنات میں ہے.گوجرانوالہ: ۱۹۲۹ء سے لجنہ قائم تھی مگر پارٹیشن کے بعد مہاجرات قادیان کے ذریعہ اسے نئی زندگی ملی.محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ محترم با بو کبر علی صاحب مرحوم صدر اور محتر مہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم انعام اللہ صاحب جنرل سیکرٹری نیز محترمہ عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ محترم با بومحمد بشیر صاحب چغتائی سیکرٹری مال منتخب ہوئیں.بعد ازاں محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مختار نبی صاحب صدر اور ان کی بیٹی محترمہ امته الرفیق صاحبہ جنرل سیکرٹری کے فرائض ادا کرتی رہیں.اور محترمہ عنایت بیگم صاحبہ بدستور سیکرٹری مال رہیں نیز آپ کو جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کرنے کا موقع ملا.ان کے زمانہ میں محترمه استانی میمونه صوفیہ صاحبہ نے تمام ضلع کا دورہ کیا.راہوالی.گکھڑ منڈی.ترگڑی گجو چک تلونڈی کھجور والی میں نئی لجنات قائم ہوئیں.محترمہ جمیلہ صاحبہ بنت محترم مولوی محمد حسین صاحب محله دارالرحمت قادیان میں آپ نے سیکرٹری مال کی حیثیت سے کام کیا ) اور محترمہ عنایت بیگم صاحبہ نے فیروز والا اور حافظ آباد میں لبنات قائم کیں.سیٹیلائیٹ ٹاؤن میں بھی لجنہ قائم ہوئی.یہ لجنہ بھی خاص لجنات میں سے ہے جو مرکز کے ساتھ پورا تعاون کرتی ہے.محترمہ سردار بیگم صاحبہ اور محترمہ عنایت بیگم صاحبہ کو بیس سال کے طویل عرصہ تک مسلسل قابل قدر کام کرنے کا موقع ملا.کوئٹہ: تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول ( صف ۳۳۷) میں یہ درج ہے کہ کوئٹہ میں لجنہ اماء اللہ کا قیام ۱۹۳۴ء میں عمل میں آیا مگر مزید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے اس سے بہت عرصہ قبل ۱۹۲۷ء میں وہاں لجنہ قائم ہو چکی تھی.جبکہ محترمہ جنت خاتون صاحبہ اہلیہ محترم بابو محمد امیر صاحب فیروز پور سے (جہاں لجنہ ۱۹۲۳ء میں قائم ہو چکی تھی ) وہاں پہنچی تھیں اور وہی صدر منتخب ہوئی تھیں اور ان کی دختر محترمہ

Page 61

53 65 استانی امتہ العزیز عائشہ صاحبہ سیکرٹری مقرر ہوئیں.۱۹۳۵ء کے زلزلہ عظیمہ کی وجہ سے وہاں پر کام بند ہو گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کا احیاء ہوا.۱۹۴۷ء میں بہت سے مہاجرین وہاں پہنچ گئے اور ممبرات کی تعداد یک صد کے قریب ہو گئی.آبادی کے لحاظ سے دو حلقے کرنے پڑے.۱۹۵۴ء میں تعداد ممبرات ۲۵۰ ہوگئی.مندرجہ ذیل عہدیداران کو خدمت کا موقع ملا.ا.حلقہ اسلام آباد (کوئٹہ): محتر مہ اماں ملتان جیواں بی بی صاحبہ اہلیہ محترم شیخ عبدالعزیز صاحب ملتانی تقسیم ملک سے پہلے بھی وہیں مقیم تھیں اور بڑے شوق اور محنت کے ساتھ لجنہ کی ہر تحریک کے مطابق تعلیم وتربیت اور تبلیغ کا کام کرتی رہیں.باوجود نا خواندہ ہونے کے بہت سرگرم عہد یدار تھیں.۱۹۴۸ء کے لئے انتخاب میں بھی آپ صدر بنیں اور محترمہ ذکیہ خانم صاحبہ سیکرٹری مقرر ہوئیں.۱۹۵۶ء میں صدر محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم خلیفہ عبدالرحمن صاحب منتخب ہوئیں مگر سیکرٹری محترمہ ذکیہ خانم صاحبہ ہی رہیں.حلقہ مسجد احمدیہ ( کوئٹہ ): ۲۷.جون ۱۹۴۸ء کو یہ نیا حلقہ قائم ہوا اور اس کا پہلا اجلاس ہوا.صدر محترمہ مبشرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عبدالسلام صاحب عمر ، نائب صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب اور سیکرٹری محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب مقرر ہوئیں.سیکرٹری تعلیم و تربیت محتر مہ افتخار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ ضیاء الحق صاحب تھیں.۱۹۴۹ء میں محترمہ حمیدہ عارفہ صاحبہ اہلیہ محترم مرزا معظم بیگ صاحب صدر مقرر ہوئیں.آپ ۱۹۶۶ء تک یہ فرائض سرانجام دیتی رہیں.آپ کے ساتھ سیکرٹری صاحبہ کے فرائض محترمہ نصرت صاحبہ بنت محترم میاں بشیر احمد صاحب ، محترمہ ممتاز عصمت صاحبہ اہلیہ محترم عبدالخالق صاحب، محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب، محترمہ محمودہ لطیف صاحبہ اور محترمہ امتہ الحفیظ خانم صاحبہ ادا کرتی رہیں.۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۰ء تک محترمہ امتہ الرشید فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم بشیر احمد صاحب سکھری سیکرٹری

Page 62

54....4 مال رہیں.۱۹۶۶ ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالیٰ کو ئٹہ تشریف لے گئیں.آپ نے وہاں چار حلقے بنا کر ان پر جنرل صدر محترمہ استانی امتہ العزیز عائشہ صاحبہ اور محترمہ پروین طاہرہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر غفور الحق صاحب کو سیکرٹری مقرر کیا.۱۹۷۰ء کے انتخاب میں محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ صدر منتخب ہوئیں.لائل پور: ۱۹۲۶ء میں لجنہ قائم ہوئی.پہلی صدر محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل اور سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری تھیں.ہجرت سے قبل یہ شہر مخالفین احمدیت کا مرکز تھا.۱۹۳۴ء میں جب مسجد فضل تعمیر ہوئی تو مخالفت زوروں پر تھی.اس کی وجہ سے احمدی مستورات میں بھی بہت بیداری اور جوش تھا اور متعدد لڑکیوں کو اس زمانہ میں نمایاں کام اور خدمت کا موقع ملا.احمدی لڑکیاں عیسائیوں میں تبلیغ کرنے کے لئے گرجوں میں بھی جاتی رہیں.تبلیغی جلسے منعقد کرتی رہیں.محترم قاضی محمد نذیر صاحب محترم مولوی عبدالغفور صاحب مربی مرحوم اور محترم بشیر احمد صاحب حقانی مرحوم ان کی مدد کرتے تھے.ایک موقع پر سیالکوٹ کی لجنہ کی صدر محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ کو بھی بلوا کر ان سے تبلیغی لیکچر کروائے گئے تھے.دستکاری سے بھی آمد پیدا کی جاتی تھی.مندرجہ ذیل عہدیداران کو خدمت کا موقع ملا.محترمہ بیگم صاحبہ محترم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب، محترمہ ام مامون بشیر اختر صاحبه محترمه آمنه بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی نذیر احمد صاحب علی محترمہ بیگم صاحبہ محترم شیخ محمد محسن صاحب، محترمه سکینه شرما صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عبدالکریم صاحب شر ما محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اور ان کی ہمشیرہ محترمہ نیاز بیگم صاحبه، بنتان محترم چوہدری اللہ دتہ صاحب.ہجرت کے بعد مندرجہ ذیل عہدیداران کام کرتی رہیں.محترمہ طیبہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ محترم نواب مسعود احمد خان صاحب، محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد محسن صاحب، محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم آغا عبد اللطیف صاحب.محترمہ نصرت بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد شریف صاحب، محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم شیخ عبدالرشید صاحب لے آپ کو شیخو پورہ، قادیان محلہ دار البرکات میں اور پھر ربوہ میں کام کرنے کی توفیق ملی.

Page 63

55 555 مراد کلاتھ ہاؤس، محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم قریشی افتخار احمد صاحب محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم رفیق احمد صاحب ساہی صدارت کے اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت محترم سید احمد علی صاحب ، محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم مولوی محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی محترمہ نصرت صاحبہ بنت محترم خواجہ عبدالرحمن صاحب سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی رہیں.ملتان: ۱۹۲۸ء میں یہاں لجنہ قائم ہوئی.ہجرت سے قبل محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم : صلاح الدین صاحب (صدر) اور محترمہ حمیدہ خانم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مسعود احمد صاحب رشید گلگلتی (سیکرٹری) کو کام کا موقع ملا.۱۹۴۷ء میں محترمہ زنیب حسن صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر محمود الحسن صاحب صدر تھیں پھر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری رشید احمد خان صاحب بھی کچھ عرصہ کے لئے صدر مقرر ہوئیں.۱۹۵۰ء میں ملتان شہر اور ملتان چھاؤنی الگ الگ حلقے بنا دیئے گئے.ملتان شہر کی صدر محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ اخوند محمد اکبر خان صاحب اور آپ کے ساتھ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد حسین صاحب اور محتر مہامتہ النصیر صاحبہ نے کام کیا.ملتان چھاؤنی میں محترمہ امتہ الحفظ اختر صاحبہ پہلے صدر تھیں.۱۹۵۵ء میں محترمہ امتہ الوہاب صاحبہ صدر مقرر ہوئیں اس سے پہلے آپ نائب صدر اور سیکرٹری مال بھی رہیں.۱۹۵۱ء سے محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم انعام اللہ صاحب سیکرٹری مقرر ہوئیں.جو تا حال ۱۹۷۱ء تک سیکرٹری ہیں.اس سے پہلے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۵ء تک آپ نے گوجرانوالہ میں بحیثیت سیکرٹری کام کیا.یہ لجنہ بھی باقاعدہ ہر تحریک میں حصہ لینے کی کوشش کرتی ہے.چٹا گانگ: صدر: محترمہ بیگم صاحبہ این ایم خان، محترمه زنیب حسن صاحبه محترمه خیر النساء صاحبه محترمه بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب.محترمه محموده سعدی صاحبہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۶۶ء تک سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتی رہیں اور پھر

Page 64

56 56 ایک سال صدر رہنے کے بعد خاوند کی وفات کی وجہ سے مغربی پاکستان واپس آگئیں.مونگ ضلع گجرات صدر محترمہ بیگم بی بی صاحبہ چنیوٹ ضلع جھنگ صدر محترمہ عقیلہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم فضل کریم صاحب محتر مہ رقیه بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد حسین صاحب ۱۲۷ R.B محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حافظ عزیز احمد صاحب بہلولپور چک ضلع انکیپور صدر محترمہ رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری عبدالمالک صاحب سیکرٹری محترمه مسعوده بی بی صاحبہ گولیکی ضلع گجرات سیکرٹری محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر شیر عالم صاحب اور جماں ضلع سرگودھا صدر محترمہ عصمت بی بی صاحبہ چک ۳۰.۱۱.ایل ضلع گجرات صدر محترمہ نزیرہ بیگم عابدہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری نذیر احمد صاحب لالہ موسیٰ ضلع گجرات صدر محترمه فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حکیم محمد قاسم صاحب قریشی نارووال ضلع سیالکوٹ سیکرٹری محترمہ صغری بیگم صاحبہ سیکرٹری محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالحمید صاحب میانوالی ضلع سیالکوٹ سیکرٹری محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت محترم چوہدری خدا بخش صاحب پا کیپٹن ضلع منٹگمری سیکرٹری محترمہ اقبال فاطمہ صاحبہ تلونڈی را ہوالی ضلع گوجرانوالہ صدر محترمه چراغ بی بی صاحبہ حیدر آباد دکن صدر محتر مہ امت اللہ بشرہ بیگم صاحب اہلیہ محترم سید بشارت احمد صاحب وکیل علی پورضلع مظفر گڑھ سیکرٹری محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت محترم مولوی نور محمد صاحب او در سیئر سمبرہ یال ضلع سیالکوٹ صدر محتر مہ نور بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ملک امام دین صاحب سیکرٹری محترمہ مسعوده صاحبہ بنت محترم سراج الدین صاحب مرحوم سیکرٹری محترمہ نذیره با نو صاحبہ اہلیہ محترم خواجہ محمد امین صاحب مانگٹ اُونچے سیکرٹری محترمه کریم بی بی صاحبہ گوجرہ ضلع لائل پور سیکرٹری محتر مدامتہ الرشید اقبال صاحبه سیکرٹری محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ اہلیہ محترم محمد شریف صاحب

Page 65

57 گھوگھیاٹ میانی ضلع سرگودھا صدر محتر مہ اللہ رکھی صاحبہ صدر محترمہ امتہ الحی صاحبہ بنت محترم با بومحمد صدیق صاحب سکندر آباد دکن صدر محترمہ بیگم صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب بہلولپور ضلع سیالکوٹ سیکرٹری محترمہ امتہ السلام صاحبه سیکرٹری محترمہ امتہ الحبیب مسرت صاحبہ بنت محترم صوبیدار میجر چوہدری بشارت علی صاحب چک ۶۴۴ گ ب ضلع لانکور صدر محتر مد رحیم بی بی صاحب الی محترم محمد ابراہیم صاحب صدر محترمه سید بیگم صاحبه چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگودها صدر محترمه سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ہدایت اللہ صاحب احمد آباد سٹیٹ (سندھ) صدر محترمه سکینه بیگم صاحبه صدر محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد اسمعیل صاحب سیکرٹری محترمه خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالواحد صاحب چکوال ضلع جہلم صدر محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری گلستان خاں صاحب پسرور ضلع سیالکوٹ صدر محترمه جمیلہ بیگم صاحبہ بنت محترم میر محمد ابراہیم صاحب کری ضلع تھر پارکر سندھ صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر احمد دین صاحب صدر محترمہ امۃ اللہ صالحہ صاحبہ اہلیہ محترم مرزا صالح علی صاحب صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم مولوی عبدالباقی صاحب ایم اے سیکرٹری محتر مه سابحہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مقصود احمد خاں صاحب دہلوی گجو چک ضلع گوجرنوالہ صدر محترمه خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد شریف صاحب جڑانوالہ ضلع لائلپور صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری دوست محمد خاں صاحب شادیوال خورد ضلع گجرات صدر محترمہ محمد بی بی صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عمر الدین صاحب صدر محترمه بی بی صاحبہ اہلیہ محترم حاکم علی صاحب سیکرٹری محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ ٹو بہ ٹیک سنگھ ضلع لائل پور صدر محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سید محمد اقبال صاحب ہیڈ ماسٹر

Page 66

58 58 بھاگلپور صو بہ بہار ہندوستان سیکرٹری محترمه جمیله خاتون صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر فیاض الدین خاں صاحب پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ صدر محترمہ صالحہ فاطمہ بیگم صاحبہ والدہ محترم فاروق احمد صاحب حافظ آباد (گوجرانوالہ) صدر محترمه سکینه سیفی صاحبہ سیکرٹری محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم شیخ حبیب اللہ صاحب سیکرٹری محترمہ سعیدہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سید اعجاز احمد شاہ صاحب سیکرٹری محترمه مسعوده قریشی صاحبہ سیکرٹری مال محتر مہ ظہورہ اقبال بیگم صاحبہ بنت محترم قاضی ضیاء اللہ صاحب موضع اتی و منڈی وگنیا نوالہ صدر محترمہ چراغ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری عبدالمجید صاحب ضلع شیخو پوره بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ صدر محترمہ مہر بی بی صاحبہ مردان سیکرٹری محترمہ راج بی بی صاحبہ سیکرٹری مال محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ سیکرٹری محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ سیکرٹری محترمہ زنیب بیگم صاحبہ صدر محترمہ شہزادی بلقیس صاحبه صدر محترمه بی بی مریم صاحبہ محمد آباد سٹیٹ صدر محترمه کریم بی بی صاحبہ صدر محترمہ ناصرہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ محترم غلام احمد صاحب عطا سیکرٹری محترمہ رسول بیگم صاحبہ تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ صدر محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ سیکرٹری محترمه استانی آمنہ بیگم صاحبه قصور صدر محترمه سلیمه خورشید صاحبه سیکرٹری محتر مہ امۃ الحفیظ صاحبہ بنت مرزا محمد صدیق صاحب سیکرٹری محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد اسلم صاحب

Page 67

59 59 سیکرٹری محترمہ صالح نسیم صاحبہ ڈھا کہ مشرقی بنگال صدر محترمه مسعوده بیگم صاحبه محمود آباد سٹیٹ سندھ صدر محتر مہ صاحبزادی امته احکیم بیگم صاحبہ سیکرٹری محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ صدر محترمه زنیب بی بی صاحبہ اہلیہ محترم حاجی محمد فاضل صاحب سیکرٹری محترمہ صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم محمد منیر صاحب دهنی دیو چک نمبر ۳۳۲ صدر محترمہ نصیرہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم مولوی ظہور حسین صاحب صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری اعظم علی صاحب لالیاں ضلع جھنگ صدر محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر فضل حق صاحب صدر محترمہ صادقہ قدسیہ صاحبہ اہلیہ محترم راجہ غلام حسین صاحب سیکرٹری محترمہ نفیسه بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سعید احمد صاحب سیکرٹری محترمه حامدہ عفت صاحبہ بنت محترم غلام احمد صاحب سیکرٹری محترمہ مشیت خاتون صاحبہ اہلیہ مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی سیکرٹری محترمہ نظام بی بی صاحبہ لاٹھیا نوالہ ضلع لائلپور صدر محتر مہ نواب بی بی صاحبہ اہلیہ محترم حکیم رحیم بخش صاحب نوشہرہ کے زیاں ضلع سیالکوٹ صدر محترمہ ام الفضل صاحبه اليه محترم ملک عبد العظيم صاء شیخ پور ضلع گجرات صدر محترمه نعیمه بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میرحمید اللہ صاحب یہ لجنہ ۱۹۳۶ء سے قائم ہے) صدر محترمہ آمنہ ممتاز صاحبہ سیکرٹری محترمه استانی آمنه بیگم صاحبه چک ۶۵ ۵ ضلع لائلپور سیکرٹری محترمہ رحمت بی بی صاحبہ چک و ضلع سرگودها صدر محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری حاکم علی صاحب سیکرٹری محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم غلام مصطفیٰ صاحب چک نمبر ۸۸ ضلع لائلپور صدر محتر مہ خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عبد العزیز صاحب مولوی فاضل سیکرٹری محترمہ حاکم بی بی صاحبہ

Page 68

60 60 مانگا چانگریاں ضلع سیالکوٹ سیکرٹری محترمہ طالعہ بی بی صاحبہ اہلیہ محتر م مستری نظام الدین صاحب چک ۳۰.۱۱.ایل ضلع منٹگمری صدر محترمہ عابدہ مسز نذیر احمد صاحب قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ سیکرٹری محترمہ فاطمہ صاحبہ بنت محترم چوہدری عبداللہ خاں صاحب سیکرٹری محترمہ ثریا بیگم صاحبہ بنت محترم سمیع اللہ شاہ صاحب دوالمیال ضلع جہلم صدر محترمه استانی سردار بیگم صاحبه سیکرٹری محترمہ ارشاد بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میجر محمد خاں صاحب شورکوٹ ضلع جھنگ صدر محتر مہ امۃ القیوم صاحبہ معلمہ زنانہ پرائمری مدرسه ننکانہ صاحب ضلع شیخو پوره صدر صدر محترمہ سائرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ماسٹر غلام محمد صاحب سیکرٹری محترمہ امۃ الوحید صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر محمد جی صاحب ان کے علاوہ محترمہ فضل خیر صاحبہ اہلیہ محترم مولوی محمد شفیع صاحب محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ بیوه محترم مولوی غلام رسول صاحب، محتر مہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ملک مہر دین صاحب محترمہ فاطمہ بیگم صاحبه ہمشیرہ محترم محمد حسین صاحب، محترمہ حسین بی بی صاحبہ اہلیہ محترم اللہ دستہ صاحب محترمه زنیب بی بی صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے مختلف عہدوں پر کام کیا.چک نمبر ۹۶ - گ.ب ضلع لائلپور صدر محتر مہ اللہ رکھی صاحبہ اہلیہ محترم عطاء محمد صاحب دنیا پور ضلع ملتان صدر محترمه سیده مبارکه بیگم صاحبه بخاری اہلیہ محترم سید ریاض احمد شاہ صاحب صدر محترمہ صالحہ نسیم صاحبہ سیکرٹری مال محتر مہ سلیمہ صاحبہ بنت محترم مولوی عبدالکریم صاحب صدر محترمه کنیز بی بی صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد اسلم صاحب پنڈی چری ضلع شیخو پورہ صدر محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ والدہ محترم صلاح الدین صاحب بدوملہی ضلع سیالکوٹ حلقہ نمبر ا صدر محترمہ امتہ الرشید صاحبہ اہلیہ محترم غازی حبیب اللہ صاحب سیکرٹری محترمہ منورہ سلطانہ صاحبہ حلقہ نمبر ۲ صدر محتر مہ ناظرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی حمد عبد الله صاحب اعجاز

Page 69

61 تبال ضلع گجرات صدر محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم مولوی محمد الدین صاحب در ولیش ڈیرہ اسمعیل خاں صوبہ سرحد سیکرٹری محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری عبدالمنان صاحب گھسیٹ پورہ کلاں ضلع لائلپور صدر محترمه نظیر بیگم صاحبہ ۱۹۴۷ء میں وفات پانیوالی کارکنات : ۱۹۴۷ء میں لجنہ اماءاللہ کو اپنی دومخلص اور انتھک کام کرنے والی کارکنات کی وفات کا صدمہ دیکھنا پڑا ان کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے:.(۱) محترمہ امۃ الرحمن صاحبہ نرس :.قادیان میں محلہ دار الفتوح کی ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۲ء تک صدر رہیں.آپ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب صحابی ۳۱۳ کی ہمشیرہ اور بہت بزرگ صحابیہ تھیں.دین کی محبت جنون کی حد تک تھی.عاجزه (امتہ اللطیف) کی عمر تقریباً دس سال کی تھی کہ مرحومہ نے مجھ سے رپورٹیں لکھوانی شروع کیں.میں بے ربط اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں رپورٹ مرتب کرتی تھی وہی رپورٹ لجنہ مرکزیہ میں پہنچتی اور مجلس عاملہ میں بھی سنائی جاتی.لجنہ کے قواعد وضوابط کی رو سے سولہ سال سے کم عمر کی لڑکی لجنہ کی ممبر نہیں ہوسکتی اس لئے وہ مجلس عاملہ میں شامل نہیں ہو سکتی تھی مگر آپ نے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ مصدر لجنہ مرکزیہ اور حضرت سیدہ اُم طاہر احمد صاحب سیکرٹری لجنہ مرکزیہ سے میرے لئے مجلس عاملہ میں بیٹھنے کی خاص اجازت حاصل کی اور اپنے ساتھ بطور سیکرٹری لگائے رکھا.ہر کام مجھے سکھایا اور آپ ہی کی وجہ سے دین کی خدمت کا شوق اور جذ بہ مجھ میں پیدا ہوا.آپ خدمت خلق کا بھی خاص جذبہ رکھتی تھیں.تبلیغ کا بے حد شوق تھا.اجلاسوں میں بڑے بڑے اچھے اچھے مضامین تلاش کر کے سُنا تیں.اجلاسوں کے لئے باوجود ضعیف اور کمزور ہونے کے اپنے گھر کو صاف کرتیں اور جگہ بناتیں.ہجرت سے قبل تین چار سال بہت زیادہ کمزوری کے باعث کام نہ کر سکیں.ہجرت کا صدمہ آپ کے لئے ناقابل برداشت تھا.آپ نے ۱۳.اکتوبر ۱۹۴۷ء کو رتن باغ لاہور میں وفات پائی.مرحومہ کے داماد محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی نے اپنے مضمون اے میں مرحومہ کے خصائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ:.ا الفضل ۱ فروری ۱۹۴۸ء

Page 70

29 62 ”ہماری پھوپھی امته الرحمن صاحبہ مرحومہ اُن خوش بخت صحابیات میں سے تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے میچ پاک علیہ السلام کی ایک لمبے عرصے کے لئے خدمت کا شرف بخشا تھا.ہماری پھوپھی امۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ کو دار مسیح میں رہائش اور خدمت کا شرف ملا.قریباً ۸ سال تک حضور علیہ السلام کے اندرون خانہ سب کام کاج ان کے سپر در ہے.ہمارے دادا صاحب مرحوم جب ۱۹۰۴ء میں فوت ہو گئے تو کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المؤمنین متعنا اللہ بطول حیا تہا نے خود ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ کی شادی منشی مہتاب علی صاحب مرحوم سے کر دی اور اپنے عزیزوں کی طرح رخصت فرمایا یہ منشی صاحب مرحوم وہی ہیں جنہوں نے فیض اللہ خان پسر قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر عربی سے مباہلہ کیا تھا اور فیض اللہ خان کی طاعون سے موت صداقت کا نشان بنی تھی...اور یہ نشان حقیقتہ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج فرمایا ہے )...۱۹۱۷ء میں ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے ارشا د فر مایا کہ میوہسپتال لاہور میں داخل ہو کر مڈ وائف کا کام سیکھ لیں چنانچہ انہوں نے یہ کام سیکھا اور سرکاری ملازمت اختیار کی جس میں سے قریباً ۸ سال کا عرصہ بھیرہ میں گزارا.ان کے دل میں ہمدردی خلق کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں بہ طفیل خدمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام شفاء بھی رکھی ہوئی تھی.بڑے بڑے خطر ناک کیس جو بالکل موت کے منہ میں جاچکے ہوتے تھے ان کے ہاتھوں میں شفایاب ہو جاتے.مرحومہ کو تبلیغ کا جنون تھا.پنجابی کے اشعار عورتوں کو سناتی رہتیں.بہت سے لوگوں نے ان کے ذریعہ ہدایت پائی.چنانچہ مشرقی افریقہ میں بھی میری اہلیہ سے جو اُن کی اکلوتی بیٹی ہیں تین بار ملنے آئیں اور کئی غیر احمدی عورتوں نے ان کے ذریعے ہدایت پائی.عبادت گزار ، درودواستغفار کی پابند ،ماہمہ ، اہل بیت سے محبت کرنے والی اور سلسلہ کی ہر تحریک میں نمایاں حصہ لیتی تھیں.قرآن مجید باترجمہ تلاوت کرتیں اور الفضل باقاعدہ پڑھا کرتیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب کے پہلو میں امانتاً دفن کی گئیں.(۲) زینب بی بی صاحبہ مکرمہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ مرحومہ (اہلیہ محترم شیخ محمدعبداللہ صاحب اوور سیر آف بر ما) نیک سیرت، خوش خصال اور احمدیت کی شیدائی خاتون تھیں.لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ کی لے بعد میں آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.

Page 71

63 69 ایک سرگرم رکن تھیں.نہایت خوشی سے سلسلہ کی خدمت مسلسل انجام دیتی رہیں.اپنے حلقہ کی سیکرٹری مال رہیں.علاوہ ازیں ۱۹۴۷ء کے اوائل تک ایک لمبا عرصہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ کے فرائض باحسن انجام دیتی رہیں.بیوگی کا طویل عرصہ ہمت اور صبر سے گزارا.چندہ ممبری کے علاوہ ہنگامی تحریک میں بھی شرح صدر سے حصہ لیتیں.سلسلہ کو اپنی ذاتی ضروریات پر ہر صورت میں مقدم رکھا.وصیت کی سعادت بھی حاصل کی تحریک جدید کے دفتر اول میں بڑی باقاعدگی سے اپنی زندگی تک چندہ ادا کرتی رہیں.آپ نے اا.دسمبر ۱۹۴۷ء کو وفات پائی.آپ کی لڑکی بشری بشیر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی آجکل جنرل سیکرٹری ہیں اور جامعہ نصرت ربوہ میں اسلامیات کی لیکچرار.جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء: جلسہ سالانہ ۱۹۴۷ء حضرت خلیفہ ار حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق صرف جماعت احمد یہ لاہور کی طرف سے منعقد ہوا کیونکہ قیام و طعام کا انتظام ابھی مشکل تھا.مردوں کی تعدا د بھی ضلع دار متعین کر دی گئی اور عورتوں کو آنے سے روک دیا گیا سوائے ان کے جو اپنے رشتہ داروں وغیرہ کے ہاں ٹھہر سکیں.جلسہ گاہ رتن باغ کے سامنے گراؤنڈ میں تھی.عورتوں کے لئے رتن باغ کے اندر بیٹھے کا انتظام تھا.انتظامات لجنہ اماءاللہ لاہور کے ذمہ تھے جن کی نگرانی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا العالی کے ارشاد پر خاکسار نے سرانجام دی.

Page 72

19 64 ۱۹۴۷ء کا آزمائشی دور ختم ہوا ۱۹۴۸ء شروع ہوا.اُکھڑے ہوئے قدم جسے اور لجنہ اماءاللہ کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.یہ سال اس لحاظ سے جماعت کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ ۱۹۴۷ء میں قادیان سے ہجرت کے المناک حادثہ کے بعد منتشر اور بکھری ہوئی جماعت کو یکجا کرنے اور جماعت کا نیا مرکز قائم کرنے کی جو ہم مہم حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے شروع فرمائی تھی وہ اس سال زیادہ سرگرمی کے ساتھ جاری رہی.اس مہم میں احمدی خواتین نے بھی خاص اور اہم حصہ لیا.جو کام بھی ان کے سپرد کئے گئے انہیں اپنی استطاعت کے مطابق سرانجام دینے کی کوشش کی گئی.پاکستان میں نئے مرکز کے قیام کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے زمین خریدی تو لجنہ اماءاللہ نے بھی اپنا وہاں مرکزی دفتر بنانے کے لئے زمین حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تالجنہ اماءاللہ کے کام منتظم طور پر کئے جاسکیں.چنانچہ ۲۴ کنال زمین ۲۱ ستمبر ۱۹۴۸ء کو حاصل کی گئی لے جس پر بہت جلد اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ نے اپنا دفتر بنانے کی توفیق پائی.سال رواں میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی عہد یداران: سال رواں میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مندرجہ ذیل عہدیداران رہیں :.حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ صدر جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی سیکرٹری مال محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب ! کے حضور نے دفاتر اور تعلیمی اداروں کے لئے زمین ہدیہ عنایت فرمائی:.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ ایک لمبے عرصہ تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی سیکرٹری مال رہی ہیں.ہجرت کے بعد کچھ عرصہ کے لئے آپ کراچی چلی گئی تھیں اس وجہ سے عارضی طور پر یہ عہدہ ان کو دینا پڑا.۱۹۴۹ء میں آپ کے واپس آنے پر پھر یہ عہدہ آپ کو ہی دیا گیا اور ۱۹۶۲ء تک آپ ہی سیکرٹری مال رہیں :.

Page 73

65 55 نائبہ سیکرٹری مال محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سیکرٹری تبلیغ ترمہ بیگم صاحبه محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سیکرٹری خدمت خلق محترمہ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ محترمہ بیگم صاحبہ محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب سیکرٹری تعلیم نائب سیکرٹری تعلیم محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ بنت محترم مولانا ابوالعطاء صاحب سیکرٹری ناصرات محتر مہ سیده بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب محتر مدامة المجید صاحبہ بنت محترم چوہدری وزیر محمد صاحب سیکرٹری وصیت لاہور میں مہاجرات قادیان کی عارضی تنظیم : قادیان سے جومستورات ہجرت کر کے آئیں وہ پہلے لاہور ٹھہرتی تھیں کچھ عرصہ کے بعد جہاں مستقل رہائش اختیار کرنی ہوتی تھی وہاں چلی جاتی تھیں.ایک خاصی تعداد نے لاہور میں عارضی یا مستقل رہائش اختیار کی.ان کی اکثریت رتن باغ ، جودھامل بلڈنگ، سیمنٹ بلڈنگ، جسونت بلڈنگ اور میکلوڈ روڈ پر تھی.اس غرض سے کہ ان کی تربیت ہوتی رہے ان کے حلقہ جات میں ان کی علیحدہ ہی تنظیم کر دی گئی جن کی مندرجہ ذیل عہد یدار تھیں :.حلقه رتن باغ:- صدر محترمه استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب سیکرٹری عاجزه امتہ الطیف بنت محترم عبدالرحیم صاحب دیانت در ویش قادیان سیکرٹری محترمہ صاحبزادی امته النصیر بیگم صاحبہ جودھامل بلڈنگ، 3 اہلیہ صاحبہ محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور انچارج دفتر تحریک جدید سیمنٹ بلڈنگ.جسونت بلڈنگ: صدر محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم با بوفضل احمد صاحب بٹالوی محترمه استانی مریم بیگم صاحبه لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ہیں.قادیان میں آپ نے ہزاروں بچوں کو قرآن مجید پڑھایا اب بھی با وجود ضیعف ہو جانے کے پڑھا رہی ہیں.ابتداء میں لجنہ اماءاللہ کی نائب صدر اور امین بھی رہی ہیں :.محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم مولوی عبد الرحمن صاحب انور ہجرت سے قبل دار البرکات قادیان کی صدر تھیں :.

Page 74

99 66 سیکرٹری میکلوڈ روڈ :- صدر محترمہ مریم در د صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد محتر مہ رضیه در مصاحبه بنت حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد محترمہ مبارکہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ محترم نور الدین صاحب منیر سیکرٹری حلقہ متفرق: سیکرٹری محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کرشن نگر :- صدر محترمه سعیده شمس صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس لجنات اماءاللہ کے پندرہ روزہ جلسے: جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۷ء میں بجنات اماء اللہ قادیان ، لاہور کے پندرہ روزہ تربیتی جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا.یہ جلسے ۱۹۴۸ء میں بھی جاری رہے.کئی جلسے تو قادیان کی خواتین اور لجنہ لاہور کے مشترکہ ہوتے تھے اور کئی الگ الگ.حلقہ جات مہا جرات قادیان مقیم لاہور کی صدر حضرت سیّدہ ام داؤ د صاحبہ اور سیکرٹری محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب تھیں.سیکرٹری مال محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب، لجنہ اماءاللہ لاہور کی صدر محتر مہ امۃ اللہ مغل صاحبہ اور جنرل سیکرٹری زنیب حسن صاحبہ تھیں جن کا انتخاب ۹.مئی ۱۹۴۸ء کو زیر نگرانی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کیا گیا تھا.ان کے علاوہ لجنہ لاہور کی مندرجہ ذیل عہدیدار منتخب ہوئیں:.سیکرٹری مال لاہور محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری عبدالرحیم صاحب نائبہ سیکرٹری مال لاہور محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ بنت محترم شیخ سعید احمد صاحب سیکرٹری تعلیم لاہور محترمه زنیب بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر غلام حید ر صاحب سیکرٹری خدمت خلق لاہور محترمہ امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم محمد حسین صاحب ان پندرہ روزہ جلسوں میں دیگر تربیتی امور پر تقاریر کرنے کے علاوہ قادیان کی یاد میں خاص طور پر مضامین پڑھے جاتے تھے اور قادیان کی واپسی کے لئے دعائیں کی جاتی تھیں.ان دنوں فرقان فورس کے مجاہد کشمیر میں داد شجاعت دے رہے تھے اس لئے ان کے لئے وردیوں ، جرابوں کی مرمت اور دیگر سامان کی تیاری کروائی جاتی تھی.لاہور میں لجنہ اماءاللہ مہاجرات قادیان کی تنظیم کی موجودگی لاہور کی لجنہ کی بیداری کا بھی موجب بنی.چنانچہ ان ایام میں لجنہ لا ہور کو بھی متعدد ایسے اجتماعی کام

Page 75

20 67 کرنے کی توفیق ملی جن پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے یہ سارا کام جو رضا کارانہ طور پر احمدی خواتین نے مجاہدین فرقان فورس کے لئے کیا حضرت سیدہ اُمّم داؤ د صاحبہ کی نگرانی میں کیا گیا.وردیوں کی وصولی ، ان کی مرمت ، صفائی غرض سارا سارا دن ان کے پاس عورتیں بیٹھ کر کام کیا کرتی تھیں.لجنہ قادیان اور لجنہ لاہور کے جلسوں کا یہ سلسلہ کم و بیش دو سال تک جاری رہا.اس کے بعد چونکہ قادیان سے آنے والی بیشتر خواتین لاہور سے ربوہ منتقل ہو گئیں اس لئے بعد میں صورت حال بدل گئی.مہاجرات قادیان کے مندرجہ ذیل جلسے ہوئے:.۱۵- فروری - ۲۹ فروری ۳ - ۱۸.اپریل سے.مئی سے محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبہ سیکر ٹری لجنہ قادیان ، حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ مرکزیہ اور محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے تقاریر کیں ) ۲۳ مئی شویم.جولائی - ۱۸ جولائی کے ۲۹ اگست ( قادیان کی یاد میں جلسے ) مستورات لا ہور کے جلسے: ۲.2 مئی.یہ جلسہ زیر صدارت حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ منعقد ہوا جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب مرحوم دہلوی.اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تقریریں کی تھیں.ا.شاہ مئی کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے لاہور کی عورتوں سے خطاب کر کے جلسہ کی حاضری پر اظہار خوشنودی فرمایا نیز نئے عہدہ داران کی نامزدگی کا اعلان اور ان سے تعاون کرنے پر زور دیا.۳۰ مئی کولا ہور کی خواتین کے نماز کے امتحان کا نتیجہ سنایا گیا.له الفضل ۱۲.فروری ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۴۸ء صفحه ۳ س الفضل ۱۱.اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ الفضل ۲۰ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ ه الفضل ۲.جون ۱۹۴۸ء صفحه ۴ الفضل ۱۵.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ کالم۲ الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ کالم ۴ ۵ الفضل ۲۷.اگست ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۳ 2 الفضل ۷ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۴ لله الفضل ۴ ، جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ ۱۰ الفضل ۹ مئی ۱۹۴۸ء صفحه ۶ کالم ۴

Page 76

68 ۲۷ لیجون.۱۱.جولائی کے اور ۲۵.جولائی سے کو بھی جلسے منعقد ہوئے مشتر کہ جلسے: ۲۲.اگست ۲ ستمبر ۳۰۵ اکتوبر ۳۱ اکتوبر کریم انومبر ۲۸ نومبر ۱۹.دسمبر ملکو لجنه مرکز یہ اور لجنہ لاہور کے مشترکہ جلسے منعقد ہوئے.جلد جلد مستورات کے جلسے منعقد کروانے کی غرض ان میں بیداری پیدا کرنا.ان کو منظم کرنا اور قوم کی ترقی میں اہم حصہ لینے کے لئے ان میں قربانی کا جذبہ پیدا کرنا تھا.سوالحمد اللہ اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور جو جمود طاری تھا وہ دُور ہو گیا.لجنہ لا ہور کو منظم کرنے کے بعد ان کا سالانہ چندہ کا میزانیہ زیر نگرانی لجنہ اماءاللہ مرکز یہ تیار کیا گیا جو ۸۴۸ روپے پر مشتمل تھا نیز قادیان کی مہاجرات جو لاہور میں مقیم تھیں ان کے چندہ کی علیحدہ وصولی کا انتظام کیا گیا.ان کا سالانہ بجٹ ۲۸۵ روپے منظور کیا گیا.مستورات لاہور کی دینی تعلیم کیلئے کلاس کا اجراء: لا ہور کی احمدی مستورات میں دینی تعلیم کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ان کے لئے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام ماہ اپریل مئی جون میں ایک خاص کلاس جاری کی گئی اس میں قرآن مجید، احادیث نبوی ، عربی کتب ، سلسلہ احمدیہ، تاریخ اسلام، اختلافی مسائل اور فرسٹ ایڈ کی تعلیم دی گئی.تقاریر کی مشق بھی کروائی جاتی تھی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی محترمہ امته الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب، محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ مرحومہ بنت محترم مولانا ابوالعطاء صاحب، ا الفضل ۲۵.جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ الفضل ۴.اگست ۱۹۴۸ء صفحه ۶ ۵ الفضل ۹ ستمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۶ کے الفضل ۳۰.اکتوبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۵ و الفضل ۲۶.نومبر ۱۹۴۸ء صفحه ا الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ م الفضل ۲۰.اگست ۱۹۴۸ ء صفحه ۶ الفضل یکم اکتو بر ۱۹۴۸ء صفحه م الفضل ۱۱.نومبر ۱۹۴۸ء صفحه ۵ ا الفضل ۱۹.دسمبر ۱۹۴۸ء صفہیم

Page 77

69 عابدہ خانم صاحبہ مرحومہ بنت محترم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم، محترمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب اور خاکسا رامۃ اللطیف نے اس کلاس کو پڑھانے میں حصہ لیا مندرجہ ذیل لڑکیوں نے اس کلاس میں تعلیم حاصل کی :.ا.صفیہ ملک بنت ملک خدا بخش صاحب حلقہ چابک سواراں لا ہور بلقیس بنت میاں احمد دین صاحب حلقہ چابک سواراں لاہور ثریا بنت میاں احمد دین صاحب حلقہ چابک سواراں لا ہور ۴.مریم صدیقہ بنت میاں عبد العزیز صاحب حلقہ چابک سواراں لاہور ۵ محموده نسرین بنت میاں احمد دین صاحب حلقہ چابک سواراں لاہور ۶- حلیمہ بیگم بنت مولوی عبد الرحمن صاحب انور جو دھامل بلڈ نگ لاہور ے.مبارکہ بیگم بنت دین محمد صاحب حلقہ رتن باغ لاہور امینہ بیگم بنت مرزا محمد کریم بیگ صاحب حلقہ رتن باغ لاہور 9 - امتہ احکیم بنت چوہدری محمد شریف صاحب آف ساہیوال ۱۰.سلیمہ بیگم بنت میاں معراج الدین صاحب حلقہ بھائی گیٹ لاہور ۱۱.حمیدہ سلطانہ بنت مرزا محمد اسمعیل صاحب حلقہ بھائی گیٹ لاہور ۱۲.رضیہ بیگم بنت مستری نذرمحمد صاحب حلقہ بھائی گیٹ لاہور ۱۳.سیدہ آنسہ صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب حلقہ رتن باغ لاہور مهاجرات قادیان مقیم لاہور کیلئے نصاب: ماہ مئی ۱۹۴۸ء میں قادیان کی مستورات کے لئے جو ہجرت کے بعد لاہور میں مقیم تھیں.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مندرجہ ذیل نصاب مقرر کیا.ا ناخوانده مستورات کے لئے:.سادہ نماز و با تر جمہ.چہل احادیث میں سے دس حدیثیں ۲- خواندہ مستورات کے لئے:.قرآن کریم سادہ، اُردولکھنا پڑھنا.اس نصاب کو ختم کرنے الفضل ۱۵.اپریل ۱۹۴۸ صفحه در جسر تعلیم القرآن کلاس

Page 78

70 70 کے بعد قرآن کریم کے پہلے تین پارے با ترجمہ، چہل احادیث باترجمہ، فقہ وفتاوی احمدیہ کا تیسرا حصہ کتاب دعوۃ الا میر اوّل نصف.علاوہ ازیں چکی پینے اور چرخہ کاتنے کا کام کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تا ان کا وقت ضائع نہ ہو.فیصلہ ہوا کہ ہر تین ماہ کے بعد ان کا امتحان ہوا کرے.پہلے امتحان کے لئے ماہ اگست کے آخری اتوار کی تاریخ مقرر کی گئی اے حضرت اقدس کی طرف سے چرخہ کاتنے اور چکی پینے کی تحریک پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پچاس من روئی ہمیں چرنے ، دو بلینے اور ایٹرن وغیرہ مہیا کئے گئے اور قادیان کی مہاجرات میں چرنے اور روئی تقسیم کی گئی.عورتیں اس میں بڑے شوق سے حصہ لیتیں.یہ سلسلہ ۱۹۴۹ء،۱۹۵۰ء تک ربوہ منتقل ہو جانے کے بعد بھی جاری رہا.بعض غریب عورتیں اس کے علاوہ مزدوری پر بھی روئی کات کر فائدہ اُٹھانے لگیں.اس کام کی منتظمہ حضرت بھا بھی زنیب صاحبہ تھیں.پردہ ترقی کی راہ میں روک نہیں ہے: ۴.اپریل ۱۹۴۸ء کو حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ کی مجلس علم وعرفان میں ایک صاحب نے عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ظاہری پر وہ کی ضرورت نہیں ہے دل کا پردہ ہی کافی ہے.اس کے متعلق حضور کچھ بیان فرمائیں.حضور نے فرمایا:.اگر عمل دل کے خیالات کا ہی کافی ہوتا تو سارے کام دل میں ہی کر لئے جاتے.خالی جذبات کوئی چیز نہیں ہیں.جب تک کہ ان جذبات کے مطابق عمل نہ کیا جائے...اصل بات یہ ہے کی آجکل جو پردہ کے متعلق بات چیت ہو رہی ہے اس کا اصل مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں تعمیر پاکستان میں حصہ لیں بلکہ صرف یہ مغربی تہذیب کا اثر ہے.جب پردہ کے باوجود قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے جنگوں میں حصہ لیا.قرآن کریم کے درس دیئے.مثلاً رابعہ بصریؒ قرآن کریم کی تعلیم کا درس دیتی تھیں تو پھر اب موجودہ زمانہ میں اس سوال کو اُٹھا نا کہ پردہ ان کاموں کے کرنے میں روک ہے غلط ہے.آجکل کی کلمبیں لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ بھی اپنی بیویوں کو الفضل ۱۸ مئی ۱۹۴۸، صفحه ۵ کالم نمبر ۴

Page 79

71 بے پردہ کلبوں میں لائیں.“ حضور نے فرمایا: ” یہ عجیب بات ہے کہ جب مرد زندہ موجود ہیں تو سیاسی امور کے متعلق جلوس عورتوں سے کیوں نکلواتے ہیں.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا: ” عورتوں کو فنونِ حرب سے ضرور واقف کرانا چاہیئے تا وہ وقت آنے پر اپنی عصمت کی حفاظت کر سکیں.اور جب جنگ میں عورت کی ضرورت پڑے تو وہ لڑے.لیکن یہ امر یا درکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے مرد کولڑنے کے لئے بنایا ہے عورت کو نہیں.عورت اس وقت ہی میدان جنگ میں حصہ لے سکتی ہے جب مرد نہیں رہے گا...چنانچہ ہم نے قادیان میں عورتوں کو بندوق چلانا سکھایا اور موجودہ فتنہ میں جب کئی گھروں میں سکھ داخل ہو گئے اور عورتیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئیں تو وہ بھاگ گئے.حق میں ایک طاقت ہوتی ہے اسی وجہ سے ایک عورت نے دس دس پندرہ پندرہ سکھوں کو بھگا دیا اور ہماری قادیان کی عورتیں سو فیصدی محفوظ رہی ہیں سوائے ان کے جو میری ہدایت کے باوجود کہ کسی صورت میں بھی قافلہ میں سفر نہیں کرنا قافلہ میں چل پڑیں.اور رستہ میں ان پر حملہ ہو گیا انہوں نے خلاف ہدایت اپنے گھروں کو چھوڑا.‘لے چند اعتراضات اور اُن کے جواب: ۱۴ مئی ۱۹۴۸، حضرت مصلح موعود خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بمقام رتن باغ لا ہور نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ایک احمدی عورت کے چند اعتراضات کا ذکر کرنے کے بعد ان کا جواب دیا.اعترضات اور ان کے جواب کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.اعتراض: خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین سادہ زندگی بسر نہیں کرتیں.گھروں میں نوکر رکھے ہوئے ہیں.سواری وغیرہ استعمال کرتی ہیں.دوسروں کو گوٹہ کناری کو استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے مگر خود استعمال کرتی ہیں.الفضل ۲۳.اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۳.۶ کالم نمبر ۹۴

Page 80

72 جواب از حضور رضی اللہ تعالی عنہ : سادہ زندگی ایک نسبتی لفظ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سادہ زندگی کی کوئی ایک تعریف نہیں کر سکتے.جنہیں اللہ تعالی نے مال و دولت کی فراخی عطا کی ہے ان کے لئے سادہ زندگی کا معیار اور ہوگا اور دوسروں کے لئے اور جہاں تک ایک کھانا کھانے کا تعلق ہے ہمارے گھرانوں میں اس کی پابندی کی جاتی ہے سوائے بیماروں کے کہ ان کے لئے مجبوراً الگ کھانا تیار کرانا پڑتا ہے.چونکہ سب کھانے ایک ہی جگہ تیار ہوتے ہیں اس لئے دیکھنے والے کو غلط فہمی ہو سکتی ہے.حالانکہ وہ الگ الگ گھرانوں کے ہوتے ہیں.پھر لباس کا سوال ہے.میں اپنی بیویوں کو جو ماہوار خرچ دیتا ہوں وہ اتنا کم ہے کہ چندے وغیرہ دے کر بمشکل اس میں ماہوار خرج پورے ہو سکتے ہیں اس لئے وہ لباس میں اسراف کر ہی نہیں سکتیں.دراصل بات یہ ہے کہ بعض عورتیں اچھا انتظام کرنا جانتی ہیں وہ سلیقہ شعاری کے ساتھ تھوڑی رقم میں عمدگی سے گزارا کر لیتی ہیں.جو عورتیں اچھا انتظام کرنا نہیں جانتیں وہ زیادہ رقم لے کر بھی اچھا انتظام نہیں کر سکتیں.جہاں تک گوٹہ کناری کے استعمال کا سوال ہے ہماری والدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا دہلی کی ہیں اور دہلی کی عورتیں گوٹہ کناری کے کپڑوں کو نسل در نسل سنبھال کر رکھتی ہیں اگر ہمارے خاندان کی بعض عورتیں گوٹہ کناری استعمال کرتی ہیں تو یہ وہی ہے جو اُن کی شادیوں پر اُنہیں ملا اور جسے اُنہوں نے سنبھال کر رکھا.تحریک جدید کے مطالبہ سادہ زندگی کے بعد انہوں نے وہ نہیں خریدا.اور اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھنا قابلِ تعریف ہے نہ کہ قابلِ اعتراض.دراصل مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ تمام دنیا ایک سطح پر آ جائے.کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے.مساوات کا مطلب یہ ہے کہ نسبتی طور پر ہر شخص قربانی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے.اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی شخص با وجود اشد ضرورت کے نوکر نہ رکھے یا سواری استعمال نہ کرے.عقل اور سلیقہ قابل تعریف چیز ہے اور پھوہڑ پن قابلِ مذمت.اسراف قابل اعتراض ہے اور عقل اور سمجھ سے کام لیکر چیزوں کو استعمال کرنا قابلِ تعریف ہے.سادہ زندگی ایک نسبتی امر ہے.سب کو ایک ہی سطح پر رکھنا ناممکن ہے.یہ جو کہا گیا ہے کہ لجنہ کی کلرک کیوں ہے اس کے متعلق یادر ہے کہ لجنہ کی ایک کلرک نہیں بلکہ دوکلرک ہیں.لیکن مجھے دو پر بھی اعتراض ہے.میں قریبا سال بھر سے اپنی بیوی سے جھگڑا کر رہا ہوں کہ دو کلرک کافی نہیں ایک

Page 81

الله 73 تنخواہ دار سیکرٹری کا بھی اضافہ کیا جائے مگر اس خاتون کو اعتراض ہے کہ ایک کلرک بھی کیوں ہے.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہندوستان اور امریکہ میں چار سولجنات پائی جاتی ہیں ان سب کا کام ایک کلرک کیسے کر سکتی ہے.اس خاتون نے تو غالباً تعلیم نہیں پائی اس لئے شاید وہ اس کی اہمیت نہ سمجھ سکیں لیکن اس بارہ میں وہ اپنے خاوند سے ہی دریافت کر لیں.میری بیوی ایم.اے کا امتحان دے رہی ہے اور دو سال کی پڑھائی آٹھ مہینہ میں کر رہی ہے.اس خاتون نے خود تو کوئی امتحان نہیں دیا ہو گا اس کے خاوند اور بھائیوں نے تو ایم.اے کی تیاری کی ہوگی وہ ان سے ہی پوچھ سکتی ہیں کہ اس پر کتنا وقت صرف ہوتا ہے.چار گھنٹے ان کو صرف پروفیسر پڑھاتے ہیں اور پڑھائی کو یاد کرنے کے لئے بھی وقت کی ضرورت ہوتی ہے.کچھ میں بھی ان سے دفتر کا کام لیتا ہوں اس لئے ان پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ وہ کام نہیں کرتیں.تحریک وصیت : جماعت احمدیہ کی اکثریت سے عارضی طور پر ان کا مرکز قادیان چھٹ چکا تھا مگر جماعت کو یقین تھا کہ اللہ تعالی ضرور اپنے وعدے کے مطابق اسے قادیان واپس دلائے گا.اللہ تعالی کے اس وعدہ پر یقین کے اظہار کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۸.مئی کو لا ہور میں خطبہ جمعہ میں وصیت کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا:.اس وقت میرے نزدیک کم سے کم تحریک یہ ہونی چاہیئے کہ جماعت کا ہر فرد وصیت کر دے.دُنیا میں ہر چیز کے مظاہرے کا ایک وقت ہوتا ہے.ہمارے ہاتھ سے قادیان نکل جانے کی وجہ سے دشمن کی نظریں اس وقت خاص طور پر اس امر کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ بہشتی مقبرہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے جس کے لئے یہ لوگ وصیت کیا کرتے تھے.اب ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ کیسے وصیت کرتے ہیں.اس اعتراض کو ر ڈ کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہر احمدی وصیت کر دے اور دُنیا کو بتا دے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر جو ایمان اور یقین حاصل ہے وہ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکلنے یا نہ نکلنے سے وابستہ نہیں.‘۲ له الفضل ۲۶ مئی ۱۹۴۸ء الفضل ۵ - جون ۱۹۴۸ء صفحه ۵ کالم نمبر ۲

Page 82

74 حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد کی تعمیل میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا ۳۰ مئی ۱۹۴۸ء کو ایک اجلاس بلا یا گیا اور عورتوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی آواز پہنچانے اور حضور کے ارشاد پر عمل کروانے کے لئے ایک سیکرٹری کا عہدہ لجنہ مرکز یہ میں بڑھایا گیا اور اس عہدہ پر محترمہ امتہ المجید صاحبہ ایم.اے بنت محترم چوہدری وزیر محمد صاحب کا ۴۸.۵.۳۰ کے اجلاس میں تقر ر کیا گیا.چنانچہ انہوں نے الفضل میں بار بار اس سلسلہ میں اعلانات کئے اور بہنوں کے سامنے وصیت کرنے کی شرائط اور وصیت کرنے کے طریق کی وضاحت کی ۴۲ لجنات کو خاص طور پر مخاطب کر کے تحریک کی اور تمام لجنات کو ہدایت کی کہ وہ جائزہ لے کر اطلاع دیں کہ ان کی لجنہ میں کتنی مستورات موصیہ ہیں اور کتنی نے ابھی تک وصیت نہیں کی.اس سلسلہ میں یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس وقت تک صرف سکندرآباد (دکن) کی لجنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی تمام ممبرات خدا تعالی کے فضل سے موصیہ ہیں لے چنانچہ اس کے نتیجہ میں کثرت سے خواتین نے وصیتیں کیں.۴.جون ۱۹۴۸ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.میں پچھلا خطبہ دے کر گھر گیا تو کئی رقعے مجھے اسی وقت پہنچ گئے.مردوں کے بھی اور عورتوں کے بھی.جن میں یا تو نئی وصیتیں کرنے کی اطلاع تھی یا زائد چندہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ رو متواتر بڑھتی چلی جارہی ہے.میں سمجھتا ہوں کام کرنے والے اگر اچھی طرح کام کریں تو چھ ماہ یا سال کے اندراندر ساری جماعت اس معیار پر آجائے گی.لجنہ اماءاللہ چنیوٹ - احمد نگر اب چونکہ مرکز سلسلہ کے قیام کے لئے ربوہ کی زمین حاصل کی جا چکی تھی اس لئے حضور رضی اللہ عنہ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں منتقل کر دیا اور جامعہ احمد یہ پہلے چنیوٹ میں اور پھر فروری ۱۹۴۸ء میں ربوہ کے قریبی مقام احمد نگر میں منتقل کر دیا گیا.ان اداروں کے منتقل ہونے کی وجہ سے قادیان کے بہت سے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر چنیوٹ اور احمدنگر میں آباد ہو گئے اور اس آبادی ل الفضل ۱۵.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ الفضل ۳۰.جون ۱۹۴۸ صفحیہ کالم نمبر ۲

Page 83

15 75 کے نتیجہ میں ان دونوں مقامات پر لجنہ بھی قائم ہو گئی.چنانچہ اس کے با قاعدہ اجلاس ہونے لگے.چندہ بھی جمع ہونے لگا.اور تعلیم القرآن کلاس میں بھی ممبرات شامل ہوئیں.ان دنوں لجنہ چنیوٹ کی صدر محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور سیکرٹری محترمہ عابدہ خانم صاحبہ مرحومہ بنت محترم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم تھیں.لجنہ اماءاللہ چنیوٹ کی ے.جون ۱۹۴۸ء کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی لجنہ نے وصیت کے سلسلہ میں اور ممبرات لجنہ کے تعلیمی نصاب اور چرخہ کاتنے چکی چلانے کے سلسلے میں خاصی سعی کی لے احمد نگر: اس جگہ غوث گڑھ ضلع لدھیانہ وغیرہ کی دیہاتی جماعتیں آخر ۱۹۴۷ء میں ہی آبا د ہو گئی تھیں.فروری ۱۹۴۸ء میں محترم مولانہ ابوالعطاء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کے احمد نگر آ جانے پر ان کی اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ لجنہ کی باقاعدہ صدر مقرر ہوئیں.اس سے پہلے لجنہ کا انتظام پوری طرح قائم نہ تھا تا ہم دیہاتی مستورات کو قدرے شوق تھا.اب اساتذہ جامعہ احمدیہ کی بیویوں اور قادیان سے آنے والی دوسری مستورات کی وجہ سے با قاعدہ لجنہ بن گئی جس نے بچیوں کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ بھی جاری کیا جو اللہ تعالی کے فضل سے اب تک جاری ہے.اب وہ سرکاری سکول ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شروع میں اس مدرسہ کا افتتاح لجنہ کی درخواست پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے چنیوٹ سے تشریف لا کر فرمایا تھا.ربوہ بننے سے پہلے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی جامعہ احمدیہ کو دیکھنے کے لئے احمد نگر تشریف لائے.آپ کے ہمراہ حضرت سیدہ اُمم ناصر رضی اللہ تعالی عنہا بھی تھیں جنہوں نے محترمہ صدر صاحبہ سے مقامی لجنہ کے حالات دریافت فرمائے اور چندہ کی وصولی کی بھی تاکید فرمائی.محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ شروع سے لے کر ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے تک ( قریباً ۱۹۶۰ء تک) لجنہ اماءاللہ احمد نگر کی صدر ہیں.متعد د تعلیم یافتہ خواتین لجنہ کی عہدیدار تھیں.محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد ظہور خاں صاحب پٹیا لوی بھی شروع سے شوق سے لجنہ کا کام کرتی رہی ہیں.احمد نگر کی دیہاتی عورتوں کی تعلیم میں لجنہ کی سب عہدیداران حصہ لیتی رہی ہیں.احمد نگر کی خواتین مرکز سلسلہ کے بننے پر رمضان المبارک کے درس القرآن میں شمولیت کے لئے خاصی تعداد میں آتی رہیں.الفضل ۱۶.جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲

Page 84

76 16 محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کے مستقل طور پر ربوہ آجانے پر محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ احمد نگر مقرر ہوئیں اور تاحال (۱۹۷۱ء تک ) آپ ہی صدر ہیں.آپ مستورات ، بچوں اور بچیوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتی ہیں.خدمت خلق کا جذبہ بہت ہے.آپ کے ساتھ خاص طور پر محترمہ شریفہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم جان محمد صاحب نائب صدر محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عزیز الدین صاحب مرحوم سیکرٹری تعلیم محترمہ نفیسه بیگم صاحبہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ بنتان محترم محمد ظہور خان صاحب پٹیالوی، محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم مولانا ظہور حسین صاحب اور محترمہ امتہ العزیز صاحبہ مرد حافظ شفیق احمد صاحب مرحوم نے بطور سیکرٹری کام کیا ہے.جزاهن اللہ خیراً.نیکی کا عہد کرنے والی خواتین: ۲۰.جولائی ۱۹۴۸ء کے الفضل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک نوٹ رمضان میں دائمی نیکی کرنے والی خواتین کے زیر عنوان رقم فرمایا جس میں آپ نے بتایا کہ:.میں نے کسی گذشتہ رمضان میں جماعت کے سامنے حضرت مسیح موعود کی یہ تحریک پیش کی تھی کہ رمضان کا مہینہ چونکہ خصوصیت کے ساتھ نیکیوں اور ثواب کے حصول کا مہینہ ہے اس لئے اگر کسی کو توفیق ملے تو اسے چاہئے کہ اس مبارک مہینہ میں اپنی کسی ایک کمزوری کے دُور کرنے کا خدا سے عہد کرے یا اس کے مقابل پر کسی ایسی نیکی کے التزام کا عہد کرے جس کی طرف سے وہ آج تک غفلت برتا رہا ہے اور پھر اپنے اس قلبی عہد کو (جس کی تفصیل کا اظہار نہیں ہونا چاہیئے ) زندگی بھر نبھانے کی کوشش کرے.“ حضرت میاں صاحب نے اپنے اس نوٹ میں مزید تحریرفرمایا کہ.”میری اس سابقہ تحریک پر اس سال بعض مستورات نے حضرت مسیح موعود کی تحریک کے ماتحت اس قسم کا عہد کیا ہے ان خواتین کے اسماء گرامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.“ چنانچہ ۲۰۵ خواتین کے نام الفضل میں شائع ہوئے لیے االفضل ۲۰.جولائی ۱۹۴۸ ء صفحہ ۲.۳۱،۷.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۴

Page 85

77 ایک تعلیم یافتہ ڈچ خاتون کا قبول اسلام: انہی دنوں ایک ڈچ خاتون مترجم قرآن ناصرہ زمرمان بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں.ڈچ قرآن کے ترجمہ کا کام حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمش کے ذریعہ دوسال کے عرصہ میں لنڈن میں تکمیل پایا.پہلے ڈچ ترجمہ کا کام ایک اور شخص کے سپر د ہوا تھا جس نے نصف کے قریب ترجمہ کیا مگر کام تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے اُس سے لے لیا گیا اور پھر از سر نو یہ کام شروع کیا گیا جسے مسز زمرمان نے نہایت محنت سے اوّل سے آخر تک انجام دیا.مسٹر موصوفہ خود ڈچ ہیں اور ان کے خاوند انگریز ہیں.دیر سے ان کی رہائش لندن میں رہی تھی مگر پھر حالات نے انہیں ہالینڈ آنے پر مجبور کر دیا.ترجمہ کرنے کے دوران قرآن کریم کے مضامین پر غور کرنے کا انہیں زیادہ موقع نہ ملا تھا مگر طبیعت ان سے متاثر ضرور ہو گئی تھی، آخر دوبارہ غور کرنے کی تحریک پیدا ہوگئی.سلسلہ کا لٹریچر بھی ساتھ ساتھ مطالعہ کرنے کا موقع ملا.حتی که رفته رفتہ ان کی طبعیت اس طرف مائل ہوگئی.مسز موصوفہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جمعہ کے روز داخلِ اسلام ہوئیں لے مسز ناصرہ زمرمان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ خود اُن کے اپنے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے ویکھتی ہیں:.۱۹۴۵ء کا سال میرے لئے تاریخی حیثیت رکھتا ہے.اس سال کے شروع میں میں بمباری سے مسمار شدہ لنڈن میں پہنچی ہی تھی کہ مجھے ایک TRANSLATION BUREAU کی طرف سے ملاقات کے لئے پیغام ملا مجھے بتایا گیا کہ یہ ملاقات قرآن کریم کے ڈچ زبان میں ترجمہ کے سلسلہ میں ہے.مجھے آخری تین صد صفحات کا ترجمہ کرنے کے لئے کہا گیا.اس پر مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں کہ پہلے حصہ کا ترجمہ کیسا ہوا ہے.میں پہلے حصہ کے چند صفحات کو لے کر گھر واپس کوئی اور ان کا بنظر غائر مطالعہ کیا.اس ترجمہ کا میری طبیعت پر بہت برا اثر ہوا.مترجم نے پرانی ڈچ زبان میں جس کو آجکل سمجھنا بھی مشکل ہے ترجمہ کیا ہوا تھا.اور پھر تر جمہ کا سٹائل STYLE بھی اتنا اچھا نہ تھا اس لئے میں نے ترجمہ کرنے سے انکار کر دیا.میرے لئے اس کام کو کرنا اِس لئے بھی دوبھر تھا کہ میری پیدائش اور تربیت عیسائی ماحول میں ہوئی تھی جس میں گناہ کا تصور بالکل ہی اور ہے.اس امر کو مانتے ل الفضل ۱۱.اگست ۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۱ -۲

Page 86

78 ہوئے کہ حضرت مسیح ہمارے گناہوں کی خاطر مصلوب ہو گئے قرآن کریم کی تعلیمات میرے لئے صدمہ کا موجب ہوئیں.کیونکہ قرآن کریم میں اعمال پر بہت زور دیا گیا ہے.اور گناہوں کی پاداش میں سزا کا بھی ذکر ہے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کا ترجمہ کرنا میر لئے محال تھا.آخر لمبی سوچ اور گہرے غور کے بعد میں نے اس مبارک کام کو سر انجام دینے کا فیصلہ کیا اور میں نے دفتر کے ڈائریکٹر سے تمام قرآن کا ترجمہ اپنے STYLE اور موجودہ ڈچ زبان میں کرنے کی اجازت لے لی.میں نے دن اور رات اس کام کو سر انجام دینے کے لئے صرف کیا اور ابتدائی ۳۰ ، ۴۰ صفحات کا ترجمہ کر کے میں ڈائریکٹر کے پاس لے کر گئی.اس موقع پر اس امر کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ جب میں ڈائر یکٹر کو ملنے گئی تو ہماری قرآن کریم کے متعلق لمبی گفتگو ہوئی.ڈائر یکٹر نے اس مقدس کتاب کے متعلق نہایت ہی توہین آمیز کلمات استعمال کئے.بعد میں بھی اس کا رویہ یہی رہا اور اس نے کئی بار متواتر وہاں قرآن کریم کی تو ہین کو جاری رکھا جس کا میری طبیعت پر بہت برا اثر ہوا.لیکن جلد ہی جب میں اسے دوبارہ ملنے گئی تو میں نے اسے نہایت ہی تکلیف دہ حالت میں پایا.اسے LAMBAGO کا شدید حملہ ہوا.میں نے اسے فوری طور پر گھر پہنچانے کا انتظام کیا جہاں اگلے روز ہی وہ اِس جہاں سے رخصت ہو گیا.کچھ روز بعد دوسری ڈائریکٹر جس نے اس گفتگو میں حصہ لیا تھا بیمار ہوئی اور اس مقد س کتاب کی تو ہین کی وجہ سے اللہ تعالی کی گرفت سے نہ بچ سکی اور ہسپتال میں اس جہان سے چل بسی.ان واقعات نے میری طبیعت پر گہر اثر کیا.لیکن ابھی خدا تعالی نے اس مقدس کتاب کی صدا قت کو میرے قلب پر اور منقوش کرنا تھا.خدا تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ ان واقعات کے بعد اس دفتر کا TYPIST جس نے اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا تھا جنوبی امریکہ گیا اس کے جانے کے تین ہفتہ کے اندر اندر ہی مجھے علم ہوا کہ وہ بھی الہی گرفت کا شکار ہو چکا ہے اور اس دُنیا سے کوچ کر گیا ہے.ایک اور سیکرٹری جس نے اس تو ہین میں کبھی بھی حصہ نہ لیا تھا صحیح و سلامت رہی.ان واقعات نے میری دُنیا ہی بدل ڈالی.میری طبیعت پر قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سکہ بیٹھنا شروع ہوا اور اس کتاب کی عظمت کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا.ان ہی واقعات نے میری توجہ اسلام کی طرف مبذول کی.میں نے ان واقعات کا اِس لئے بھی ذکر کر دیا ہے تا کہ یہ مخالفین کے لئے محبت کا باعث ہوسکیں.میں اپنے مولا کریم کا شکر یہ ادا کرتی ہوں کہ اُس نے مجھے اس کام کے کرنے کی

Page 87

79 سعادت عطا فرمائی.میں نے ترجمہ کے دوران میں اس مقدس کتاب سے جو روحانی شیرینی اور پڑ کیف روحانی اثرات حاصل کئے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا.جو روشنی میں نے قرآن کریم سے حاصل کی وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت کا نتیجہ ہے.خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ بالخصوص اپنی رحمت کا سلوک کیا.ترجمہ کے دوران میں میں قرآن کریم کی صداقت کی دل سے قائل ہو چکی تھی.میں نے قرآن شریف سے لگا ؤ اور تعلق بڑھانے کے لئے لنڈن مسجد میں گاہے بگا ہے جانا شروع کیا اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا.میرے ساتھ ہر دفعه برادرانه اخوت اور محبت کا سلوک کیا گیا اور میری روحانی تشنگی دور کرنے کے سامان مہیا کیے جاتے رہے.اس محبت اور اخوت بھرے سلوک نے مجھے احمدیت کے بہت ہی قریب کر دیا.ہالینڈ آنے پر تھوڑے عرصہ میں ہی یہاں مشن قائم ہو گیا.یہاں تینوں مبلغین نے میری تربیت کے لئے اخلاص اور محنت سے کام کیا.مجھے کتب مطالعہ کے لئے انہوں نے دیں.زبانی لمبے لمبے وقت تک اپنا قیمتی وقت مجھ پر صرف کرتے رہے.ان کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے مجھے احمدیت جیسی نعمت دستیاب ہوئی.میں ہمیشہ اپنے تینوں بھائیوں کی ممنون رہوں گی جن کے ہاتھوں میری نجات کے سامان مہیا ہوئے.آخر میں میں نہایت ہی ادب سے درخواست کروں گی کہ ہم سب کے لئے دعائیں کرتے رہیں.اس امر کے لئے خاص طور پر دُعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ میرے خاوند اور میرے گھر کے دیگر افراد کے قلوب کو بھی اس روشنی سے منور کرے اور ان کی نجات کے لئے بھی سامان مہیا فرمائے.میں خاص طور پر اپنے تینوں بھائیوں کے لئے بھی دعا کی درخواست کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ راضی ہو اور ہمیں اپنے فرائض کو مجھنے اور انہیں پوری طرح سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.اللھم آمین.محترم مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشير تحریک جدید نے بھی ۱۹۶۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اپنی تقریر بعنوان ” جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج میں مسز ناصرہ زمرمان (ہالینڈ) کے قبول اسلام کے واقعات بیان کیے.مجلس شور می ۱۹۴۸ء اس سال مجلس شوری کے موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک دن کے لئے جانے کا پروگرام ا الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۴۸ صفحه ۵ کالم نمبرا تا ۴ کے جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج صفحہ ۱۵ تا صفحہ ۲۱

Page 88

80 60 بھی تجویز فرمایا چنانچہ ۲۶.۲۷.مارچ کو مجلس شوری کے اجلاس منعقد ہوئے اور ۲۸.مارچ کو ایک دن جلسہ منعقد ہوا.کوٹھی رتن باغ کے لان میں مستورات کے لئے بھی باپردہ جلسہ گاہ بنائی گئی اور مردانہ جلسہ گاہ سے بذریعہ لاؤڈ سپیکر تقاریر سنی جاتی رہیں.غیر احمدی معز زخواتین کے لئے یکصد کرسیوں کا علیحدہ انتظام کیا گیا تھا.مستورات کثرت کے ساتھ اس میں شامل ہوئیں.لجنات کی آرا پر اظہار خوشنودی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ی فیصلہ فرمایا تھا کہ مشاورت کے ایجنڈے کے متعلق لجنات اماءاللہ بھی اپنی آرا لکھ کر بھیجا کریں جن کے سُنانے کے لئے ہر سال ایک نمائندہ شوری کے لئے لجنہ کی طرف سے نامزد کیا جائے چنانچہ اس کے مطابق ہر سال بلجنات کی آرا بھی شوریٰ میں پیش ہوتی رہیں اگست ۱۹۴۸ء میں محترم با بوعبدلحمید صاحب ریلوے آڈیٹر نے جنہیں حضور نے لجنات سے آراء حاصل کرنے پر مقرر فرمایا تھا اپنے ایک نوٹ میں فرمایا کہ:.گذشته مجلس مشاورت منعقده ۲۶-۲۷ مارچ ۱۹۴۸ مقام رتن باغ لاہور میں لجنہ کی بعض آرا پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.مثلاً تعلیم وتربیت کی طرف سے ایک تجویز یہ تھی کہ ہر جماعت جس کا اوسط چندہ ماہوار کم سے کم پانچ سو روپیہ ہے لازمی طور پر مدرسہ احمدیہ کے لئے ایک طالب علم پڑھنے کے لئے بھیجے یا ایک طالبعلم کا ماہوار چندہ جو اوسط ۲۰ روپے ماہوار ہے ادا کرے.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ ترمیم پیش کی کہ ہر جماعت جس کا چندہ ساڑھے تین سور و پیہ ماہوار ہو وہ ایک طالب علم بھجوائے یا بیس روپے ماہوار چندہ ادا کرے.اور ہر ساڑے تین سو روپیہ ماہوار چندہ پر ایک طالبعلم تعلیم کے لئے بھجوایا جائے.یعنی کسی جماعت کا چندہ سات سو روپیہ ماہوار ہوتو وہ دوطالبعلم بھجوائے یا چالیس روپیہ ماہوار خرچ ادا کرے.اسی طرح ایک تجویز یہ تھی کہ ہر جماعت جس کے بالغ افراد کی تعداد ایک سو یا اس سے زیادہ ہے تعلیم القرآن کلاس کے لئے کم از کم تین نمائندے بھجوائے.اس سے ناظر صاحب کی مُراد صرف مردنمائندوں سے تھی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ ترمیم پیش کی کہ نہ صرف ل الفضل ۳۰.مارچ ۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۳

Page 89

81 تین نمائندے مردوں کے آئیں بلکہ عورتیں بھی اس موقع پر تعلیم القرآن کلاس کے لئے مرکز میں آئیں.ان دونوں تجاویز کو جو لجنہ کی طرف سے آئی تھیں حضور نے بہت پسند فرمایا.اسی نوٹ میں محترم با بوعبدالحمید صاحب مرحوم نے یہ بھی بتایا کہ:.حضور نے تو عورتوں کو یہ بھی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ ایسے معاملات کے متعلق بھی اپنی آراء بھیج سکتی ہیں جن کا ایجنڈے میں ذکر نہیں.اس لئے ان حقوق سے جو اُن کو بلا مانگے ملے ہیں پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہیئے.مجلس مشاورت میں عورتوں کیلئے تعلیم القرآن کلاس شروع کرنے کی تجویز: اس سال مجلس مشاورت کے موقع پر جنہ اماءاللہ مرکز ہو نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ جس طرح ہر سال مردوں کے لئے تعلیم القرآن کلاس کا انتظام ہوتا ہے.اس طرح آئندہ عورتوں کے لئے بھی اس کا انتظام کیا جائے.حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے اس تجویز پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے.کیا قرآن مجید صرف مردوں کے لئے نازل ہوا ہے.عورتوں کے لئے نہیں.چنانچہ اس دفعہ رمضان المبارک میں رتن باغ میں عورتوں کے لئے بھی تعلیم القرآن کلاس کا انتظام کیا گیا جس میں بیرونی بجنات سے دس طالبات، قادیان کی مستورات جولاہور میں مقیم ہیں اُن میں سے چودہ اور لاہور سے دس طالبات شامل ہوئیں.۱۲.جولائی ۱۹۴۸ء بروز پیر صبح سات بجے کلاس کی پڑھائی شروع ہوئی.کلاس کا روزانہ وقت تین گھنٹے مقرر ہوا.روزانہ نصاب مندرجہ ذیل تھا:.ا.قرآن مجید کے ابتدائی تین پارے بمعہ ترجمہ و تفسیر ۲.مجموعہ احادیث عمدۃ الاحکام ۳.سیرت و تاریخ ۴.سلسلہ کے مخصوص عقائد اور اختلافی مسائل پر نوٹ ۵ عربی بول چال ابتدائی گرامر ۶.فقہ کے عام ضروری مسائل ے.ابتدائی طبی امداد سے یہ کلاس جو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلی تعلیم القرآن کلاس تھی رمضان المبارک میں ل الفضل ۲ ستمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۵ الفضل ۱۴.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۷

Page 90

88 82 جاری رہی.چونتیس طالبات میں سے چوبیس امتحان میں شریک ہوئیں.سب طالبات کا میاب ہو ئیں تفصیلی نتیجہ درج ذیل ہے:.ا.قانتہ بیگم صاحبہ بنت محترم خواجہ عبدالرحمن صاحب آف گوجرانوالہ ۲.امتہ المجید صاحبہ بنت محترم عبد الرحمن صاحب چنیوٹ ساره بیگم صاحبہ بنت محترم شیخ دوست محمد صاحب شمس چنیوٹ ۴.صفیہ بیگم صاحبہ بنت محترم شیخ دوست محمد صاحب شمس چنیوٹ ۵ - زرینہ بیگم صاحبہ بنت محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب شمس چنیوٹ - امتہ الحی صابرہ صاحبہ بنت محترم عبدالقدوس صاحب ے.امتہ الحی صاحبہ بنت محترم حکیم مرغوب اللہ صاحب شیخو پوره سیده سعیده بیگم صاحبہ بنت محترم سید عبداللطیف صاحب ۹.سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بنت محترم حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ۱۰.سیدہ آنسہ صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب ا.بشارت النساء صاحبہ بنت غلام جیلانی صاحب ۱۲.رضیہ درد صاحبہ بنت محترم مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۱۳.صالحه در دصاحبه بنت محترم مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۱۴.سیدہ امتہ الہادی صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ۱۵.حلیمہ بیگم صاحبہ بنت محترم مولوی عبدالرحمن صاحب انور ۱۶.امتہ اللطیف بنت محترم عبدالرحیم صاحب در ولیش قادیان ۱۷.امتہ الرشید صاحبہ بنت محترم عبدالرحیم صاحب درویش قادیان ۱۸ ممتاز اختر صاحبہ بنت محترم محمد اقبال صاحب بھائی دروازہ لاہور ۱۹.امتہ القیوم صاحبہ بنت عبد العزیز صاحب ۲۰.امتہ المنان صاحبہ بنت محترم مولوی چراغ الدین صاحب ۲۱.ناصرہ بیگم صاحبہ بنت محترم مرز اعطاء اللہ صاحب لاہور ۲۲ نصیرہ مفتی صاحبہ بنت محترم مفتی فضل الرحمن صاحب

Page 91

83 ۲۳- امته النصیر صاحبہ بنت محترم قاری محمد امین صاحب ۲۴ علیمہ طاہرہ صاحبہ بنت محترم محمد عامل صاحب یہ نتیجہ جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے تحریر فرمایا:.مجھے تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ دکھایا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت خوشکن اور امید افزاء ہے.یہ کلاس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے انتظام میں جاری کی گئی تھی اور با وجود پہلا سال ہونے کے اس نے خدا کے فضل سے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے چنانچہ قادیان سے آئی ہوئی طالبات اور لاہور کی مقامی طالبات کے علاوہ اس کلاس میں شمولیت کے لئے چنیوٹ، لائکپور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، گجرات اور راولپنڈی وغیرہ سے طالبات آئیں جن کی مجموعی تعداد ۳۴ تھی گو امتحان میں صرف ۲۴ طالبات شریک ہوئیں نصاب میں قرآن شریف ، حدیث، فقہ، علم کلام ، تاریخ ، عربی ادب اور فرسٹ ایڈ کے مضامین شامل تھے تعلیم کا انتظام بعض مخلص اور دیندار اساتذہ کے سپر دتھا اور پر دہ کا خاطر خواہ انتظام تھا.اور یہ ایک نہایت درجہ خوشی کی بات ہے کہ....سب کی سب طالبات امتحان میں کامیاب ہو گئیں (سوائے ایک کے جو کمپارٹمنٹ میں آئی ہے ) اور حق یہ ہے کہ جیسا کہ سُنا گیا ہے ان طالبات نے محنت میں بھی حد کر دی تھی.ساری کلاس میں سیدہ امتہ القدوس صاحب سلمہا جو ہمارے بڑے ماموں صاحب کی صاحبزادی ہیں 411/450 نمبر لے کر اول آئی ہیں دوم نمبر پر قائنہ بیگم سلمها بنت خواجہ عبد الرحمن صاحب آف گوجرانوالہ نے 410/450 نمبر حاصل کئے اور تیسرے نمبر پر مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی لڑکی صالحہ بیگم سلمہا نے 401/450 نمبر لیئے ہیں.باوجود اس کے کہ یہ پہلی تعلیم القرآن کلاس تھی انتظامات میں پہلی مرتبہ ہونے کی وجہ سے کئی خامیاں بھی رہ سکتی تھیں.بے سروسامانی تھی اور موسم بھی گرم تھا.نہ صرف یہ کہ بہت کامیاب رہی بلکہ دلچسپ بھی رہی اور لڑکیاں بہت خوش رہیں.اس کا سہرا حضرت سیدہ شوکت سلطان صاحبہ و حضرت سیدہ امتہ اللطیف صاحبہ بیگمات حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب اور حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد الحق صاحب کے سر ہے جولڑکیوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتیں.گو کھانا مہمان خانہ سے آتا تھا مگر آپ خود بھی سالن، چاول، اچار، چٹنی کا اہتمام فرما تھیں.کلاس ہو تو الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۸ء صفحریم

Page 92

84 پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہے اور پھر دینی تعلیم جس سے کہ لڑکیاں نا واقف ہوتی ہیں مگر لڑکیوں نے کسی قسم کا بوجھ محسوس نہ کیا اور ہر وقت محبت و پیار کرنے والی ہستیوں میں رہ کر بہت خوش ہوئیں.اسی کا نتیجہ تھا کہ آئندہ کے لئے باوجو د ربوہ کی شدید گرمی کے لڑکیاں شوق سے کلاسوں میں شامل ہونے لگیں اور اب تک ہماری پیاری صد رسیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کی دلچسپی کی وجہ سے اپنے گھروں کے آرام چھوڑ کر تعلیم القرآن کلاس کی مشکل پڑھائی اور گرمی کے موسم کی شدت کے باوجو دلڑکیاں پہلے سے بہت زیادہ تعداد میں بلکہ لڑکوں سے بھی زیادہ شریک ہو رہی ہیں.اس امتحان میں اوّل ، دوم اور سوم آنے والی طالبات کو تفسیر کبیر” الا زھا رلذوات الخمار (ایڈیشن اول ) اور ” تبلیغ ہدایت دی گئیں.ستورات کراچی سے حضرت مصلح موعود کا خطاب : حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ۱۴.فروری ۱۹۴۸ء کو لاہور سے سندھ تشریف لے گئے تھے وہاں سے ۱۲.مارچ کو آپ کراچی پہنچے.کراچی میں ۱۸.مارچ کو لا بجے تھیوسافیکل ہال بندر روڈ میں حضور نے مستورات کراچی سے خطاب فرمایا.ہاں عورتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.تقریب ساڑھے چھ سوخواتین شریک ہوئیں جن میں کراچی کی معزز خواتین مثلاً لیڈی ہارون مع اپنی بہو بیٹیوں کے محترمہ بیگم شعبان صاحبہ محترمہ بیگم آفریدی صاحبہ، مسزاے.جی خان صاحبہ، مسز ہلالی وغیرہ نے شرکت کی اور ہمہ تن گو ش ہو کر تقریر سنتی رہیں اور بے حد پسندیدگی کا اظہار کیا لے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا یہ اہم خطاب الازھار لذوات الخمار‘ (حصہ دوم ) طبع دوم میں شائع ہو چکا ہے.اس تقریر میں حضور نے سورت الکوثر کی نہایت لطیف تفسیر فرماتے ہوئے آخر میں فرمایا:.میہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے مگر قومی فرائض اور ذمہ داریوں کی وہ تفصیل جو اس سورۃ میں بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالی سے امداد حاصل کرنے کے وہ ذرائع جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ آج ہر پاکستانی کے سامنے رہنی چاہیئے خصوصاً ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس سورۃ کے مضامین پر غور کرے اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی بنائے کیونکہ جماعت احمدیہ نے ایک نیا ل الفضل یکم اپریل ۱۹۴۸ صفحہیہ کالم نمبر۴

Page 93

85 عہد خداتعالی سے باندھا ہے اور نئے عہد پرانے عہدوں سے زیادہ راسخ ہوتے ہیں.انہوں نے دُنیا کے سامنے اعلان کیا ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں گے اور ہم اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کر کے اسلام کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ دیں گے.جب تک اپنے عمل سے وہ یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ اُن میں سے ہر مرد اور ہر عورت اس عہد کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں.جب تک وہ یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ اسلام کے لئے فدائیت اور جانثاری کا جذبہ ان کا ایک امتیازی نشان ہے اور وہ اپنی ایک ایک حرکت اسی جذبہ کے ماتحت رکھیں گے اس وقت تک ان کا یہ دعوی کہ ہم اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ایک باطل دعویٰ ہوگا اور ہر دوست اور ہر دشمن کی نگاہ میں انہیں ذلیل کرنے والا ہوگا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہر احمدی مرد اور عورت کو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بچے طور پر اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی قربانی کرنے کی طاقت بخشے تا کہ وہ اپنے منہ سے ہی یہ کہنے والے نہ ہوں کہ ہم قربانی کر رہے ہیں بلکہ خدا تعالی کے فرشتے بھی آسمان پر ان کی قربانیوں کو دیکھ کر تعریف کریں اور ان کی ترقی اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالی موجودہ مصائب سے بچا کر مسلمانوں کو عزت، آزادی اور ترقی کی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.کراچی میں جلسہ یوم مصلح موعود: کیا.۲۰.فروری کو لجنہ کراچی نے زیر صدارت محترمہ استانی میمونہ صوفیه صاحبه جلسه مصلح موعود منعقد حضرت خلیفہ اسی الثانی کا کوئٹہ میں درود مسعود: اسی سال گرمیوں میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو یہ تشریف لے گئے.حضور کے ساتھ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی بھی گئیں.ان کی غیر حاضری میں جنرل سیکرٹری کا عہدہ مرکز میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ مدظلہا کے پاس رہا.حضور کی کوئٹہ میں تشریف آوری پر لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی ممبرات نے بھی نہایت سرگرمی اور اخلاص ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم طبع دوم صفحه ۳۱ ( فرموده ۱۸.مارچ ۱۹۴۸ء بمقام کراچی)

Page 94

86 کے ساتھ خاندان حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حصہ لیا.تین دن جماعت کی طرف سے مہمان نوازی کی گئی.اندرونِ خانہ کے تمام انتظامات لجنہ اماءاللہ کے سپرد تھے.مختلف انتظامات کے لئے خواتین کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں.لجنہ اماءاللہ کی مبرات بڑی سرگرمی سے اپنے فرائض کو ادا کرتی رہیں.لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی سرگرمیاں : حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ماہ رمضان المبارک میں درس قرآن کریم کا مبارک سلسلہ شروع فرمایا لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی اکثر ممبرات باقاعدگی کے ساتھ حضور کے درس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتی رہیں.رات کو نماز تراویح میں بھی شامل ہوتیں.چار ممبرات رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسجد احمدیہ میں معتکف ہوئیں اور اس طرح رمضان کی برکات اور حضور اقدس کے درس سے مستفید ہوتی رہیں.رمضان کے آخری عشرہ میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب روزانہ حلقہ مسجد احمد یہ میں تشریف لاکر درس دیتے رہے.ا لجنہ اماءاللہ کوئٹہ نے ۲.فروری کو جلسہ یوم مصلح موعود منعقد کیا نیزے.مارچ کو ایک تبلیغی جلسہ بھی منعقد کیا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی بھی اس سفر میں حضور کے ہمراہ کوئٹہ تشریف لے گئی تھیں.۱۰.اگست کو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا کی صدارت میں لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کا ایک جلسہ مسجد احمدیہ میں منعقد ہوا.لجنہ کوئٹہ کی طرف سے محترم خواتین کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا اور آپ کی کوئٹہ میں آمد پر اظہار مسرت کرنے کے بعد لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کے کام کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا گیا.اس موقعہ پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل سیکرٹری لجنہ مرکزیہ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.”جو کام لجنہ اماءاللہ کو ئٹہ کر رہی ہے بہت اچھا ہے.جس کام کی ابتداء اچھی ہو اس کے اچھا ہونے کی بہت زیادہ اُمید ہوتی ہے.آپ نے قرونِ اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ”آپ تمام کا بھی یہی فرض ہے کہ آپ بھی وہی نمونہ دکھا ئیں جو کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم له الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۴۸ء الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۸ء صفحہ ۶

Page 95

87 اور آپ کے خلفاء کے زمانے کی عورتوں نے دکھایا.اگر آپ نے قرونِ اولیٰ کی خواتین جیسا کام کیا اور ویسی قربانیاں پیش کیں تو یقینا اللہ تعالے بھی آپ سے اپنا وعدہ اُسی طرح پو را کرے گا جیسا کہ اُس نے اُس زمانہ کی صحابیات کے ساتھ کیا آپ نے فرمایا ” ایک بہت بڑا کام آپ کے سامنے ہے.دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسکے مقابلے میں آپ نے بھی ترقی کرنا ہوگی.اُن لوگوں کی ترقی تو دنیاوی ترقی ہے مگر آپ نے روحانی ترقی کرنا ہوگی.انہیں آپ نے یہ ثابت کر کے دکھانا ہوگا کہ کس طرح سے احمدی خواتین شریعت کے تمام احکامات کی تکمیل کرتے ہوئے پر دے کے اندر رہ کر مذہب کی خدمت اور روحانی ترقی کر سکتی ہیں.آپ نے تمام عہد یداروں کو باہمی تعاون کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ” تمام عہدیدار آپس کے تعاون سے کام کریں اور ممبرات ہر عہدہ دار سے تعاون کریں.“ آخر میں آپ نے تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ”ہر احمدی عورت کا بھی فرض ہے کہ وہ تبلیغ کرے اور دلائل کی تلوار سے کام لے کیونکہ یہی ایک بڑا حربہ ہے جس سے دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے.“ لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی طرف سے ایک کلاک بطور تحفہ دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے لئے پیش کیا گیا.بعض معزز غیر احمدی خواتین بھی شاملِ جلسہ ہوئیں.اس سال لجنہ کوئٹہ کی سیکرٹری محترمہ مبارکہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر عبداللہ خاں صاحب تھیں جو قبل از ہجرت دار البرکات قادیان کے ایک حلقہ کی سیکرٹری تھیں.امتحان کتاب "أسوة حسنة“: سالِ رواں میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام صرف ایک ہی امتحان لیا گیا.۳.نومبر ۱۹۴۸ء کو کتاب اسوۂ حسنہ کا امتحان ہوا.محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ محترم محمود الحسن صاحب ( بنت حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب (36/50 نمبر لیکر اول آئیں.جلسہ سالانہ کا التواء: نیا مرکز.ربوہ کے قیام کے ابتدائی مراحل سرعت کے ساتھ طے کئے جارہے تھے لیکن ہنوز یہ مرکز اس قابل نہیں تھا کہ یہاں پر جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ منعقد کیا جائے.اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا الفضل ۲۶.اگست ۱۹۴۸ء صفحہ ۷

Page 96

88 کہ امسال دسمبر کے آخری ایام میں پاکستان کی احمدی جماعتوں کا جلسہ سالانہ منعقد نہ کیا جائے اِس کی بجائے اپریل ۱۹۴۹ء میں نئے مرکز ربوہ میں یہ جلسہ انعقاد پذیر ہو.اس فیصلہ کے مطابق امسال احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ بھی منعقد نہ ہوا لیکن انہی دنوں میں جماعتِ لاہور نے اپنا جلسہ منعقد کیا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تقریر فرمائی.جماعت احمد یہ لا ہور کا یہ جلسہ ۲۵ اور ۲۶.دسمبر ۱۹۴۸ء کو ہوا.اس کے آخری اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ نے تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ جماعت کا سالانہ جلسہ انشاء اللہ اپریل میں ربوہ میں ہوگا.آپ نے فرمایا:.گزشتہ دوسال سے عورتیں جلسہ میں شامل نہیں ہوسکیں حالانکہ قادیان کے جلسہ کے موقع پر اگر مرد میں ہزار ہوتے تھے تو عورتیں بھی پندرہ ہزار کے قریب ہوتی تھیں.ربوہ کے اس پہلے جلسہ میں عورتوں اور بچوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت ہوگی.اگر تعمیر کا سلسلہ نہ بھی شروع ہوا تو عورتوں کے لئے قناتوں کا انتظام کر دیا جائے گا اور مرد کھلے میدان میں رہ سکیں گے.یہ ایک نہایت ہی خوش کن نظارہ ہوگا.حضرت سیدہ ام داؤد کی نگرانی میں مجاہدین کشمیر کیلئے مستورات کی خدمات: ۱۹۴۸ء میں فرقان فورس کے احمدی مجاہد آزادی کشمیر کی جنگ میں بہادرانہ کارنامے سرانجام دے رہے تھے.یہ امر احمدی مستورات کے لئے اور بالخصوص لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے لئے باعث فخر ہے کہ احمدی خواتین نے ان مجاہدین کے لئے اور بالخصوص لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے لئے باعث فخر ہے کہ احمدی خواتین نے ان مجاہدین کے لئے وردیوں اور کپڑوں کی تیاری میں شبانہ روز محنت اور بڑے ذوق وشوق سے حصہ لیا اور اس طرح اُن صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مختلف غزوات میں اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے اہم جنگی خدمات ادا کرتی رہیں.ان دنوں لجنہ اماءاللہ قادیان کا مرکز رتن باغ لا ہو ر تھا.رتن باغ میں قادیان کی احمدی خواتین کم و بیش تین ماہ تک مسلسل حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ کی زیر نگرانی مجاہدین فرقان فورس کی وردیوں (جو الفضل ۲۸.دسمبر ۱۹۴۸ صفحه ۳ کالم نمبر ۳

Page 97

89 خدام الاحمدیہ مرکز یہ مہیا کرتی تھی) کی درستی کا کام سرانجام دیتی رہیں.یہ کام روزانہ صبح آٹھ نو بجے شروع کر کے شام کے چھ بجے تک کیا جاتا تھا.پہلے تو ہر روز مستورات کو ان کے گھروں سے بلوایا جاتا رہا لیکن پھر عورتوں میں اس کارِ ثواب میں حصہ لینے کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ وہ روزانہ خود نہایت خوشی کے ساتھ آجاتیں اور دن بھر بشاشت قلب سے یہ کام کرتیں حتی کہ اگر کسی دن بارش بھی ہوتی تو بھی وہ موسم کی پرواہ نہ کرتیں اور بلا ناغہ وہاں آکر اس قومی خدمت میں حصہ لیتی رہیں.وردیوں کے بٹن لگا ئے جاتے ، کاج درست کئے جاتے ، حسب ضرورت پیوند لگائے جاتے اور ہر قمیض پر دو پیج بھی لگائے جاتے تھے.اِس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ کے رجسٹر میں ۵.نومبر ۱۹۴۸ء کو جور پورٹ محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ جنرل سیکرٹری حلقہ جات مہا جرات قادیان اور بھابی زینب صاحبہ صد ر حلقہ جات مہا جراتِ قادیان کے دستخطوں سے محترمہ صالحہ در و صاحبہ نائب جنرل سیکرٹری نے لکھی ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تاریخ تک مستورات قادیان ڈیڑھ ہزار کے قریب کپڑوں کی درستی کر چکی تھیں اور قریباً اتنے ہی پیج تیار کر چکی تھیں.فرقان فورس کے مجاہدین کے لئے ممبرات لجنہ اماءاللہ لا ہور نے خا کی زمین کے بٹوے بھی تیار کئے تھے جن میں قینچی ، چا تو، پنسل، سوئی دھاگہ، کنگھی اور پاکٹ بک رکھی گئی تھی تاہر مجاہد اپنی جیب میں رکھے اور بوقت ضرورت اس کے کام آسکے.محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ بھاٹی گیٹ نے اس سلسلہ میں سب سے زیادہ محنت سے کام کیا تھا اور قریباً پانچ صد بٹوے تیار کر کے دیئے تھے.اس کام میں تعلیم القرآن کلاس کی طالبات نے بھی حصہ لیا.وہ کئی دن روزانہ ایک گھنٹہ اس کام کے لئے وقف کرتی رہیں.کپڑوں کی مرمت کے لئے سوئیوں اور دھاگے کی ضرورت تھی چنانچہ اس کے لئے تحریک کی گئی اور لاہور کی مستورات نے بڑی خوشی کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہوئے حسب ضرورت سوئیاں اور دھاگے فراہم کئے.سامان جمع کرنے میں محترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ اہلیہ محترم احمد دین صاحب ، اور زینب حسن صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر حسن صاحب نے بہت محنت کی.عورتوں کی اوسط حاضری روانہ کم و بیش چالیس رہی.اس کے علاوہ پانچ صدر و پیہ نقد بھی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مجاہدین کے لئے پیش کیا جس میں سے

Page 98

90 90 ایک سو روپے کے تو لئے اور چار صد روپے کی جرابیں خریدی گئیں.بیرونی لجنات نے بھی چندہ بھیجا.لجنات اماءاللہ بیرون کی سرگرمیاں: ا.لجنہ نیروبی نیروبی (مشرقی افریقہ ) میں لجنہ اماءاللہ کا با قاعدہ قیام ۱۹۳۱ء میں ہو چکا تھالے محترم چوہدری عنایت اللہ صاحب خلیل نیروبی میں مبلغ اسلام تھے.باقاعدگی سے خواتین اور بچوں کو دینی تعلیم دیتے تھے.قرآن مجید ناظرہ اور قاعدہ یسر نا القرآن روزانہ بچوں کو پڑھاتے رہے اور چند احمدی خواتین آپ سے باترجمہ قرآن مجید پڑھتی تھیں.آپ نے لجنہ اماءاللہ کے جلسوں میں تقریریں بھی کیں.لجنہ کے جلسوں میں غیر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں ہے محترم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے بھی ایک تقریر لجنہ کے جلسہ میں کی اور انہیں اس طرف متوجہ کیا کہ مغربی تہذیب اور فیشن پرستی نے بے پردگی کی لعنت کو مسلمان عورتوں میں لا داخل کیا ہے...اس لعنت کو جس قدر جلد دُور کیا جائے گا اتنا ہی خاندانوں اور گھر یلو زندگی کے لئے بہتر ہوگا.سے ۲.لجنات امریکہ : امریکہ میں لجنہ اماءاللہ کا قیام ۱۹۳۵ء میں ہو چکا تھا.کے امریکہ میں جماعت احمدیہ کی پہلی سالانہ کانفرنس ڈٹین شہر میں ۵ ستمبر کو منعقد ہوئی.کانفرنس کے لئے شامیانہ احمدی بہنوں نے خود تیار کیا.اس کانفرنس کے موقع پر خطبہ استقبالیہ نہایت مخلص بہن محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ سوشل سیکرٹری جماعت احمدیہ امریکہ وسیکرٹری سن رائز نے پڑھا جس میں مہمانوں کی آمد پر بہت خوشی کا اظہار کیا.۵ اس کانفرنس میں بڑھتے ہوئے کام کے پیش نظر چار مرکزی سیکرٹریوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا لے تاریخ بجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۲۷۹ سے معلوم ہوا ہے نیروبی میں ۱۹۳۱ء میں لجنہ قائم تھی اور اس نے چندہ مرمت مسجد لندن میں حصہ لیا تھا.الفضل ۷.جولائی ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ( رپورٹ احمد یہ دارا التبلیغ مشرقی افریقہ ماہ مئی ۱۹۴۸ء) الفضل ۹.جولائی ۱۹۴۸ ، صفحہ ۲ کالم نمبرا تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحہ ۳۵۹ ه الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۲ کالم نمبر ۲۱ د الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۴۸ء صفحه ۵

Page 99

91 جس میں ایک خاتون محترمہ علیہ علی صاحبہ (انڈیانا پولیس) تھیں جن کو فنانشل سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا.1 لجنہ اماءاللہ کی جلد دوم کی ترتیب کے وقت حضرت سیدہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے محترمہ سعیدہ لطیف صاحبہ جو لجنہ اماءاللہ امریکہ کی سرگرم ممبر ہیں کو لکھا کہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک کے حالات ریکارڈ سے مرتب کر کے بھجوائیں.انہوں نے ذیل کا نوٹ لکھ کر بھجوایا ہے جس سے وہاں کی ابتدائی ممبرات کی بے مثال قربانیوں پر روشنی پڑتی ہے:.تاریخ لجنہ اماءاللہ ریاستہائے متحدہ امریکہ:.اس زمانے میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں احمدی عورتوں کی تنظیم کو ابھی باقاعدہ طور پر لجنہ اماءاللہ کے نام سے موسوم نہیں کیا جاتا تھا.احمدی بہنیں اکثر اکھٹی ہو کر احمدیت جسے انہوں نے دل سے قبول کیا تھا کے متعلق گفتگو کرتیں اور اسلام کی خدمت کرنے کے مختلف ذرائع اور منصوبوں کے متعلق سوچتیں.اس طرح ایک جگہ جمع ہو کر وہ زیادہ وقت سینے پرونے ، کشیدہ کاری اور کروشیا سے مختلف چیزیں بنانے میں گزارتیں نیز جو کچھ وہ ان کاموں کے متعلق جانتی تھیں سیکھنے کی شائق بہنوں کو سکھا یا کرتیں.ان اجتماعات کا بنیادی سبب اور وجہ اسلامی تعلیم میں دلچسپی تھی.اس کے علاوہ بہنیں مقامی مشن ہاؤس کی صفائی اور سجاوٹ بھی بہت خوشی سے کرتی تھیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا تعارف اس ملک میں DEPRESSION YEARS جو کہ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ء تک کا عرصہ ہے کے دوران ہو ا.ان دنوں بے روزگاری عام تھی اور پیسے کی بہت قلت تھی تاہم انہیں سالوں میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.کلیولینڈ (اوہائیو ) کی بہن منیرہ افضل بتاتی ہیں ”ہم اتنے غریب تھے اور میرا خاندان اس قدر شکستہ حال تھا کہ جمعہ کے روز میں علی الصبح مشن ہاؤس جاتی اور اپنے ساتھ پانی کی بالٹی ، گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا اور کپڑا لے جاتی اور ان چیزوں کی مدد سے مسجد جو کہ ایک بہت بڑے ہال پر ستمل تھی کہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں سے رگڑ رگڑ کر صاف کرتی ، کام کے دوران میں بشاشت قلبی سے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتی رہتی اور خدا تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرتی کہ اُس نے مجھے احمدیت کی خاطر کچھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس کے بعد میں نماز ادا کرتی اور جمعہ کی تقریبات شروع ہونے سے پہلے مسجد سے واپس چلی جاتی تاکہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے.“

Page 100

92 92 اس واقعہ سے نہ صرف اُس وقت کے احمدیوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کی دینی محبت اور لگاؤ کا اظہار بھی بخوبی ہو جاتا ہے.جمعہ تو ایک شاندار اور پُر وقار تقریب ہے مگر غریب لوگ باوجود اس میں شرکت کی شدید خواہش کے اپنی غربت کی وجہ سے نہ آسکتے تھے کیونکہ انہیں اپنی حالت پر شرم محسوس ہوتی تھی.تاہم انہیں سالوں کے دوران بعض بہت ہی مخلص ، بہت ہی مستقل مزاج اور بے حد وفا دار بہنوں کو اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے اور حاصل کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.نیز انہوں نے بہت سی خوبصورت چیزیں اپنے ہاتھوں سے بنائیں.غالبا ۳۶ - ۱۹۳۵ء میں محترم صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مبلغ امریکہ نے علیہ محمد صاحبہ پٹس برگ (پا) کو لجنہ اماءاللہ امریکہ کی پہلی مقامی صدر مقرر کیا اور اسی وقت اس تنظیم کو لجنہ اماءاللہ کے نام سے موسوم کیا گیا.محترم بنگالی صاحب نے امریکہ کے وسطی مغربی حصہ میں لجنہ کی شاخیں قائم کیں.علیہ علی صاحبہ جنہوں نے امریکہ میں پہلے مبلغ اسلام حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعے اسلام قبول کیا بتاتی ہیں کہ اُس وقت لجنہ کا اصل اور سب سے ضروری مقصد احمدی عورتوں کو پردہ کروانا تھا.بہنوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں بیچی جاتی تھیں تا کہ مشن کو مالی طور پر کام کے قابل رکھا جائے.مالی تنگی کے باوجود احمدیوں کو قرآن کریم سیکھنے کے لئے فیس ادا کرنا پڑتی تھی اور ایک سبق کے لئے ۲۵ سینٹ جو ان دنوں ایک کھانے کے خرچ کے برابر تھا دینے پڑتے تھے اور بہنیں فیس ادا کرنے لئے کوششیں جاری رکھتیں.مقامی لجنات اُن بہنوں کی مالی مدد کرتیں جو قرآن کریم سیکھنا چاہتی تھیں مگر فیس ادا کرنے کی استقامت نہ رکھتیں تھیں.۱۹۴۶ء میں محترم مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ کو مرکز سے یہ ہدایت موصول ہوئی کہ تمام مقامی مشن ہاؤسز میں لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے.امریکہ کی لجنات میں سے پٹس برگ کی لجنہ پہلی بجنہ تھی جسے ربوہ میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے براہ راست ہدایات موصول ہوئیں.خواتین کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ مبلغوں کی اطاعت کریں اور اسلامی تعلیم سیکھیں نیز یہ کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اور جگہ پر اسلام کی تبلیغ کریں اور چندہ جات با قاعدہ ادا کریں اور اپنی سرگرمیوں کی باقاعدہ رپورٹیں لجنہ مرکز یہ کو بھجوائیں.۱۹۴۹ء میں لجنہ مرکزیہ کی جنرل سیکرٹری کی طرف سے رسالہ الوصیّت موصول ہو ا تا کہ اسے

Page 101

986 93 پڑھ کر امریکی بہنوں کو سنایا اور سمجھایا جائے.سب بہنوں نے اس کو بے حد پسند کیا.اس کو پڑھنے کے بعد یہ کوشش کی گئی کہ امریکہ میں احمدیوں کے لئے الگ قبرستان بنایا جائے.پٹس برگ کلیولینڈ.ڈیٹن اور اوہائیو کی لجنات کی ممبرات کی مدد اور ان تھک سعی سے یہ کام بھی ہو گیا.اس سال کے دوران لجنہ ڈیٹن نے ایک مسجد کی تعمیر کے لئے اخراجات کے لئے رقم جمع کرنے میں بھی مدد کی.ان بہنوں نے اس مسجد کی سکیم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا.بہن کریمہ شفیق صاحبہ (صدر) کی زیر نگرانی اور زیر ہدایت اور بہن لطیفہ کریم صاحبہ اور بہن امتہ لائٹی کی کبھی نہ بھلائی جانے والی اور انمٹ قربانیوں کے طفیل جو کہ رقم وقت اور زمین کی ضرورت میں تھیں امریکہ میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی.تمام مقامی لجنات نے چندہ جمع کر کے اور اس کے لئے خصوصی دعائیں کر کے اس منصوبہ میں حصہ لیا.مشنری انچارج محترم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر نے مقامی لجنات کو ایک مرکزی صدر منتخب کرنے کی ہدایت کی جس کا کام تمام لجنات کی نگرانی تھا.ان کی اہلیہ محترمہ بہن امتہ الحفیظ ناصر صاحبہ پہلی صدر بنیں انہوں نے بہنوں کو لباس میں سادگی اختیار کرنے پر زور دیا نیز یہ بھی نصیحت کی کہ وہ ایسی تقریبات منعقد کریں جن میں غیر احمدی مستورات کو مدعو کر کے اسلام سے روشناس کرایا جائے.انہوں نے بہنوں کو دستکاری کی ایسی اشیاء تیار کرنے کو بھی کہا جن کو ربوہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر منعقدہ نمائش کے موقع پر فروخت کیا جائے.امریکہ کی سالانہ کنوینشن کے موقع پر مقامی لجنات کی سرگرمیوں کی رپورٹیں سنانے اور آئندہ سال کے لئے عہد یداران کے انتخاب کے لئے الگ وقت مخصوص کیا گیا.مسجد ہالینڈ کے لئے عطیات دینے کی تحریک کی گئی اور لجنہ نے اس کے لئے چندہ جمع کیا.۱۹۵۰ء سے لے کر ۱۹۵۶ء تک کی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ محفوظ نہیں ہے تاہم بہنوں نے مقامی اور قومی سطح پر اپنے کام کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھا.بیشتر مقامی لجنات اپنے مشنوں سے متعلق ذمہ داریوں کو برداشت کرتی ہیں اور اکثر علاقوں میں مشنوں کو فعال رکھنے میں ممد ثابت ہوتی ہیں.سالانہ کنونشن میں بہنوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی بہت سی خوبصورت چیزیں دیکھنے میں آئیں ان سے آمد و رقم کا نصف مرکز میں بھیج دیا گیا اور باقی نصف صدر عمومی کے پاس رہا.اس دوران بہن علیا علی(INDIANRPOLIS) صدر عمومی منتخب ہوئیں.ان کے دور صدارت میں مقامی لجنات میں

Page 102

94 تنظیم کی رُوح پیدا ہوئی.اپنے جاننے پہچانے والوں میں بہن علیا علی بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں.آپ کے بعد ST.LOUIS کی بہن منیرہ احمد صدر بنیں مگر وہ خلاف امید اچھی طرح کام نہ کر سکیں جس کی وجہ ان کی علالت تھی.وہ ۵۷.۱۹۵۶ء میں صدرر ہیں.۱۹۵۷ء کی سالانہ کنونشن کے موقع پر لجنہ کے جلسہ میں مندرجہ ذیل امور کا فیصلہ کیا گیا :.ا.لجنہ اماء اللہ کی کوئی رقم کسی ذاتی امانت میں جمع نہیں کروائی جائے گی.رقم یا تو کسی بینک میں لجنہ کے نام پر جمع کروائی جائے یا مشن میں رکھوائی جائے گی اور اس کا الگ حساب ہو.۲.آئندہ کنونشن کے موقع پر ہونے والے نفع بالجنہ کی چیزیں بیچنے سے آمدہ رقم کا 1/4 حصہ اشاعت اسلام کے لئے وقف کیا جائے گا..تمام جمع شدہ چندہ جات کا نصف سیکرٹری مال کو بھجوایا جائے گا.اُس وقت ۲۵ سینٹ ماہوار چندہ تھا.۴.پندرہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی الگ تنظیم بنائی جائے اور ان کو کسی بڑی خاتون کی نگرانی میں اپنے عہدیداران منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے.اس اجلاس کی صدارت ڈیٹن کی بہن امتہ الالہی صاحبہ نے کی.صدر اور سیکر ٹری تعلیم کے عُہدوں کو اکھٹا کر دیا گیا.اس طرح سیکرٹری مال اور سوشل سیکرٹری کے عہدوں کو بھی.بوسٹن کی بہن ذکیہ اشرف صاحبہ کو صدر اور سیکرٹری تعلیم اور امتہ الالہی کوسیکرٹری مال اور سوشل سیکرٹری منتخب کیا گیا.بہن ذکیہ اشرف صاحبہ نے بہنوں کو نصیحت کی کہ ہر جگہ جہاں مشن ہے مقامی لجنہ قائم کی جائے.انہوں نے تنظیم قائم کرنے کے لئے مشنوں سے بذریعہ ڈاک اور دوسرے طریقوں سے رابطہ قائم رکھا انہوں نے بچوں کے لئے مذہبی پروگرام کی شدید ضرورت پر بھی زور دیا اور احمدی نو جوانوں کی بہتری کی خاطر کوششوں کی بھی اپیل کی اور اس کے لئے تمام مشنوں کے صدروں کی مدد مانگی.اپنی صدارت کے دوران وہ مقامی لجنات سے رپورٹیں منگواتی رہیں اور سینٹ لوئی ، پٹس برگ، ڈیٹن ، ملوا کی اور ڈیٹرائٹ کی لجنات نے رپوٹیں بھجوائیں.۱۹۵۹ء کی سالانہ کنونشن کے موقع پر محترمہ بہن سعیدہ لطیف صاحبہ کو صدر اور سیکرٹری تعلیم چنا گیا اور محترمہ بہن ذکیہ اشرف صاحبہ کو سیکرٹری مال اور سوشل سیکرٹری بنایا گیا.

Page 103

95 ۳.لجنہ کماسی (مغربی افریقہ ): لجنہ نے خدمتِ خلق کے پروگرام پر عمل کرنا شروع کیا اور ہر ایک نے ہفتہ وار رپورٹ دینی شروع کی.چار عورتوں نے تقریر کی مشق کرنے کے لئے نام لکھوائے اے سال رواں میں وفات پانے والی مخلص کارکنات : (۱) ۲۹.ستمبر ۱۹۴۸ء کو محترمہ امتہ العزیز صاحبہ بنت محترم قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی جو ایک ہونہار تعلیم یا فتہ نو جوان خاتون اور لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں وفات پاگئیں..مرحومہ حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی کی پوتی تھیں ان کی پھوپھی کا نام بھی امتہ العزیز صاحبہ تھا جن کا ذکر تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول میں آچکا ہے.(وہ مدرستہ الخواتین کی ہونہار طالبہ تھیں اور دوران تعلیم ہی وفات پا گئیں ) محترم قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی کی بیٹی کا اصل نام پہلے سعیدہ تھا مگر چونکہ اپنی مرحومہ پھوپھی سے بہت مشابہت رکھتی تھیں اس کی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بارانہیں سعیدہ کی بجائے امتہ العزیز نام سے ہی پکارا جس پر سب ہی اسے امتہ العزیز کہنے لگے.اس نے بھی اپنا نام اپنی پھوپھی کے نام پر امتہ العزیز رکھ لیا دین سیکھنے کا بہت شوق تھا.دینیات کلاسز سے علیمہ کا امتحان پاس کیا.ہجرت کے بعد لاہور میں ان کی شادی ہوئی.شادی کے معابعد بیمار ہو گئیں اور ۲۹.ستمبر کو وفات پاگئیں.لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں قادیان میں حصہ لیتی رہیں اور جب بھی کسی کام کے لئے جنرل سیکرٹری ( حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی ) کو ضرورت ہوتی تو انہیں بلو ابھیجتیں.اسی وقت آتیں اور ذمہ داری سے جو کام سپر د کیا جاتا اسے سرانجام دیتیں.(۲) ۱۸-۱۷ نومبر ۱۹۴۸ء کی درمیانی شب سترہ روز کی علالت کے بعد ایک بہت بزرگ اور مخلص خاتون محتر مہ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی فضل دین صاحب وفات پاگئیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی صحابیات میں سے تھیں.موصیبہ.عاشق قرآن کریم.تہجد گزار اور احمدیت سے گہرا اخلاص رکھنے والی تھیں.سینکڑوں عورتوں اور بچوں کو با تر جمہ قرآن کریم الفضل ۲۴.جنوری ۱۹۴۸، صفحه ۵ کالم نمبر ۲ الفضل ۱۰.نومبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ ۳ الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۶

Page 104

96 96 پڑھایا کھاریاں میں لجنہ اماء اللہ کا قیام ۱۹۲۷ء میں ہوا تو آپ ہی پہلی صدر مقرر ہوئیں اور تا وفات (۱۹۴۸ء تک ) آپ ہی صدر ر ہیں.تقریب شادی صاحبزادی امته الباسط بیگم صاحبہ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو محترمہ صاحبزادی امته الباسط بیگم صاحبہ اور محترم میر داؤد صاحب ابن حضرت میر محمد الحق صاحب کی تقریب شادی عمل میں آئی.موصوفہ ۱۹۵۸ء سے جنرل سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ ربوہ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور خدا کے فضل سے ناصرات الاحمد یہ ربوہ ہمیشہ اعلی پوزیشن حاصل کرتی ہے.اس مستقل کام کے علاوہ اور بھی کئی رنگ میں آپ نے لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دی ہیں.صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کی شادی: حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے چوتھے صاحبزادے محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کی شادی ۱۸ جنوری ۱۹۴۸ء کو محترمه سیده تنویر الاسلام صاحبہ بنت محترم میر عبدالسلام صاحب آف سیالکوٹ کے ساتھ ہوئی ہے ( آپ حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں).۱۹۵۵ء سے سیکرٹری نمائش لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا عہدہ خوش اسلوبی سے نبھارہی ہیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی ایم.اے عربی میں کامیابی : امسال حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے شدید عدیم الفرصتی اور حضور اقدس کے ساتھ اہم دینی مہمات میں حصہ لینے کے باوجود ایم.اے عربی کا امتحان دیا جس میں آپ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کامیاب ہوئیں سے لجنہ لاہور کا مطالبہ: تجویز:.لاہور کی لجنہ کا مطالبہ تھا کہ لجنہ کے چندہ میں سے نصف ان کو رکھنے کی اجازت دی جائے کیونکہ مقامی اخرجات زیادہ ہیں.الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۸ء صفحه ۳ سے الفضل ۱۹.اکتوبر ۱۹۴۸ء صفحیم الفضل ۲۱.جنوری ۱۹۴۸ء صفحه ۳ رجسٹر لجنہ مرکزیہ

Page 105

97 10 فیصلہ: تجویز منظور کی گئی.ایک دو اور لجنات نے بھی اپنے لئے سوال اُٹھایا لیکن ان کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اپنا مطالبہ بعد میں بود مرکز ی کو نجوا میں ملا کلرک برائے دفتر لجنہ اماءاللہ لاہور : مورخہ ۲۱.جولائی ۱۹۴۸ء لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ جنرل سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ نے تجویز پیش کی کہ لجنہ لا ہور اپنی ایک لائبریری اور لجنہ کا دفتر بنائے اور کلرک رکھے مگر اس پر عمل ۱۹۶۲ء میں ہوا جبکہ سیدہ موصوفہ کی رہائش لاہور میں ہوئی اور آپ وہاں کی لجنہ کی سیکرٹری مقرر ہوئیں سے قادیان حاصل کرنے کا عہد : حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی زیر ہدایت صدرانجمن احمدیہ نے قادیان حاصل کرنے کا ایک عہد ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا اور اس پر دستخط حاصل کئے.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مجلس عاملہ نے ۱۴.جون ۱۹۴۸ء کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ ”ہمارا عہد کی ایک ہزار کا پیاں صدرانجمن.منگوائی جائیں اور لاہور اور قادیان کی تمام حلقہ جات کی صدر کے ذریعے تقسیم کی جائیں اور ان سے با قاعدہ ایک علیحدہ رجسٹر پر عبد لکھ کر دستخط لئے جائیں تا کہ یہ ہر احمدی کے گھر میں آویزاں رہے اور ہر وقت نظروں کے سامنے رہے.اور باہر کی لجنات کو ایک ایک کاپی بطور نمونہ بھیج دی جائے تا کہ وہ اپنے اپنے تمام حلقہ جات میں تحریک کر کے تعداد بھجوائیں اور پھر ان کو ضرورت کے مطابق کا پیاں بھیج دی جائیں.ہزاروں کی تعداد میں یہ عہد نامے مستورات کی طرف سے پُر ہو کر آئے.ان کی ایک فہرست دفتر لجنہ اماءاللہ میں رہی اور ایک فہرست حضرت اقدس کی خدمت میں بھجوادی گئی.سے مجلس مشاورت کا ایک فیصلہ : مجلس مشاورت منعقد ۲۶.۲۷.مارچ ۱۹۴۸ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ مقامی انصار اللہ اور خدام رجسٹر لجنہ مرکزیہ سے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۸.فروری ۱۹۵۰ء

Page 106

98 98 الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ مقامی امیر کی عمومی نگرانی کے ماتحت ہوں گے.ہم نشانہ بازی کی ٹرنینگ: ۱۹۴۸ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے خاص مہربانی فرماتے ہوئے لڑکیوں کو نشانہ بازی کی ٹرنینگ دی جو کوٹھی رتن باغ کی چھت پر کچھ عرصہ جاری رہی.جن خوش قسمت بہنوں کو آپ سے ٹرنینگ لینے کا شرف حاصل ہوا ان کے نام درج ذیل ہیں:.۱- محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ย ۲- محترمه سیده بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب ۳.محترمہ صاحبزادی امتہ اللطیف صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۴- محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمدالحق صاحب ۵ محترمه سیده آنسه صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب محترمہ امتہ الہادی بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ۷.محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ بنت حضرت خلیفہ اسیح الثانی محترمہ صاحبزادی امتہ المجید صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۹ محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ بنت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۱۰.محترمہ امته اللطیف بنت محترم میاں عبدالرحیم صاحب در ولیش ۱۱.محترمہ امته الرشید صاحبہ بنت محترم میاں عبدالرحیم صاحب درویش ۱۲ محترمہ امتہ المجید صاحبہ بنت محترم چوہدری وزیر محمد صاحب ۱۳.محترمہ امته الرشید صاحبہ بنت محترم چوہدری وزیر محمد صاحب ۱۴.محترمہ امته الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف ا؛ رحمن صاحب ۱۵- محتر مہ امتہ السلام صاحبہ بنت محترم قاضی محمد منیر احمد صاحب ۱۶ محترمہ شمیم صاحبہ بنت محترم قاضی عبدالحمید صاحب ۱۷ محترمه نسیم صاحبہ بنت محترم قاضی عبدالحمید صاحب ۱۸- محترمہ رضیه در دصاحبه بنت مولانہ عبدالرحیم صاحب درد ۱۹- محتر مہ صالحه در دصاحبہ بنت محترم مولانا عبدالرحیم صاحب درد رض

Page 107

99 دوسرا باب ۱۹۴۹ء تا ۱۹۵۰ء ١٩٤٩ء سال رواں کے اہم واقعات میں حضرت اصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ کی معہ اہل بیت ربوہ اہم میں الصلح عنہ کی معہ اہل میں مستقل سکونت.اپریل اور دسمبر میں دو دفعہ جلسہ سالانہ کا انعقاد اور دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کاربوہ میں قیام ہے جس کے بعد گویا لجنہ اماءاللہ کا ایک نیا دور شروع ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے بہت سے اہم اور نمایاں کام کرنے کی توفیق ملی.عہد یداران لجنہ اماءاللہ ۱۹۴۹ء : سال رواں میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے عہد یدار مندرجہ ذیل رہے :.صدر حضرت سیدہ اُمم ناصر صاحبہ نائب صدر حضرت سیّدہ ام داؤ د صاحبہ سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی سیکرٹری مال محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه

Page 108

100 نائب سیکرٹری مال محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب سیکرٹری تعلیم محترمہ بیگم صاحبہ محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب سیکرٹری تعلیم محترمہ صفیہ ثاقب صاحبہ اہلیہ محترم مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوه سیکرٹری تبلیغ محترمہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب سیکرٹری تربیت واصلاح محترمه سید نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم محترم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نائب سیکرٹری تربیت و اصلاح محترمہ صاحبزادی امته النصیر بیگم صاحبہ بنت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی جلسہ ہائے یوم مصلح موعود: ۲۰ فروری ۱۹۴۹ء کو زیر انتظام لجنہ اماءاللہ مرکز یہ احمدی خواتین لاہور اور مہاجرات قادیان کا مشتر که جلسه به سلسله یو م مصلح موعود رتن باغ لاہور میں منعقد ہوا.کراچی، گوجرانوالہ، بہلو پورضلع سیالکوٹ، ہر پ ضلع منٹگمری (ساہیوال) میں بھی بجنات کے جلسے منعقد ہوئے.لاہور کے جلسے کی مختصر روداد یہ ہے:..مصلح لاہور میں جلسہ مسیح موعود : لجنہ اماءاللہ لا ہور کا جلسہ یوم مصلح موعود زیر صدارت حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ مدظلہا العالی منعقد ہوا.بکثرت مستورات شریک ہوئیں.محترمہ اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے قرآن مجید کی تلاوت کی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے یوم مصلح موعود کی عظمت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی امتداد زمانہ اور وسعت مکانی کے لحاظ سے عدیم النظیر اور بے مثل پیشگوئی ہے.خاکسار امته اللطیف محترمہ محمودہ نزہت صاحبه، محترمہ امتہ اللہ صادق صاحبہ محترمہ امتہ المجید صاحبہ بنت چوہدری وزیر محمد صاحب، محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری فقیر محمد صاحب اور محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ نے بھی مضامین پڑھے.اس تقریب پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام لجنہ اماءاللہ لاہور کی ممبرات نے ٹی سٹال اور مختلف چیزوں کی دکانیں بھی لگا ئیں اور اس کی آمد مجاہدین کشمیر کے لئے خرچ کی گئی.ل الفضل ۲ ۱۲.مارچ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶ الفضل ۳.مارچ ۱۹۴۹ء

Page 109

101 ناظمہ جلسہ سالانہ کی طرف سے اعلان : اس سال چونکہ اپریل میں جلسہ سالانہ منعقد ہونا تھا.اس لئے حضرت اُم داؤد نے بحیثیت ناظمہ جلسہ سالانہ خواتین یہ اعلان کیا کہ چونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ میں قادیان کی طرح حفاظت کا انتظام مشکل ہوگا اس لئے بہنیں حتی الوسع قیمتی چیز میں مثلاً زیور، زیادہ نقدی وغیرہ اپنے ہمراہ نہ لاویں ورنہ گم ہو جانے کا اندیشہ ہوگا.نیز اپنے لئے ایک گلاس اور ایک ایک رکا بی بھی ہمراہ لاویں.جن بہنوں کی نظر سے یہ اعلان گزرے وہ دوسروں تک بھی اسے پہنچا دیں.اے واضع رہے کہ قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر مٹی کے برتن ہر عورت کے لئے مہیا کئے جاتے تھے.مہاجرات قادیان کی ربوہ کو روانگی: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ کے زیر سایہ کم و بیش دوصد مستورات اور بچے رتن باغ لا ہور کی مختلف عمارتوں میں اکتوبر ۱۹۴۷ء سے اپریل ۱۹۴۹ء تک مقیم رہے ان میں زیادہ تر درویشانِ قادیان اور مبلغین کے اہل وعیال تھے اور کچھ بے سہارا اور معذور مستورات تھیں.حضور نے اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ان سب کور بوہ منتقل کرنے کا فیصلہ فرمایا چنانچہ اس سلسلے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا نے مندرجہ ذیل خط عاجزہ کو ارسال فرمایا:.مکرمه منظمه صاحبه السلام علیکم حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا ہے کہ جلسہ کہ بعد لنگر ربوہ میں منتقل کر دیا جائے گا اور لاہور میں لنگر خانہ بالکل بند کر دیا جائے گا.اس لئے تمام ایسی مستورات جو نگر سے کھانا لیتی ہیں ان کو کہیں کہ حضور نے فرمایا ہے کہ ربوہ میں جا کر مستقل رہائش اختیار کریں اگر کوئی عورت نہ گئیں تو اسے کھانا نہیں مل سکے گا کیونکہ لنگر خانہ یہاں لاہور میں بند کر دیا جائیگا.وضاحت سے ایک ایک عورت کو بتا دیا جائے.الفضل ۳.اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۵ ۹۹.اپریل ۱۹۴۹ ء صفحہ ۶

Page 110

102 اگر کوئی عورت کرایہ کا اعتراض کرے تو ہم اس کو کرایہ دے دیں گے.خاکسار مریم صدیقہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ روانگی سے ایک ہفتہ پہلے سب کو اس فیصلہ سے مطلع کر دیا گیا.لسٹیں تیار کی گئیں اور تیار رہنے کی ہدایت کی گئی.صدرانجمن احمدیہ کے بعض کارکنوں اور منتظمین کے اہل وعیال اس سے پہلے ہی ربوہ پہنچ چکے تھے.۱۲.اپریل ۱۹۴۹ء کو روانگی تھی اس دن دو پہر کے وقت سب مستورات اپنے بچوں اور سامان سمیت رتن باغ کے بڑے گیٹ کی طرف باغ میں جمع ہو گئیں.عاجزہ فہرست کے مطابق نام پڑھتی جاتی تھی اور مکرم میر داؤد احمد صاحب جو کہ امیر قافلہ تھے کی نگرانی میں خدام انہیں تانگوں میں سوار کرا کے سٹیشن کو روانہ کر دیتے تھے جبکہ حضور او پر برآمدہ میں کھڑے ہو کر عمومی نگرانی فرما رہے تھے.سٹیشن پر بھی خدام انہیں سوار کرانے اور ان کی ہر ممکن مدد کے لئے موجود تھے.گاڑی کی تین بوگیوں میں جو ریز و تھیں انہیں سوار کرایا گیا.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ باوجود کمزور صحت کے ریل کے ذریعہ مستورات کے ہمراہ ہی تشریف لائیں.جب گاڑی ربوہ پہنچی تو رات کی تاریکی چھا چکی تھی.حضرت مصلح موعود جنہوں نے رتن باغ لاہور میں ہمیں الوداع کیا تھا بنفس نفیس سٹیشن پر موجود تھے.حضور لاہور سے بذریعہ کار ہماری آمد سے پہلے ربوہ پہنچ چکے تھے.حضرت سیّدہ ام داؤد صاحبہ بھی موجود تھیں.ایک لائن میں خدام کھڑے تھے جنہوں نے سب مستورات کا سامان اُتارا.مستورات کی فہرست ( جو میرے پاس تھی) کے مطابق حضور ایک ایک عورت کا نام خود دریافت فرماتے.دو خدام سامان اُٹھانے کے لئے اُس کے ہمراہ کرتے.اس عورت کو خدام کا نام اور خدام کو عورت کا نام بتاتے تھے اور پھر انہیں ان بیر کوں میں ٹھہرانے کے لئے بھجوا دیتے تھے جو جلسہ سالانہ کے لئے تیار کی گئی تھیں.خدام کو یہ ہدایت تھی کہ وہ عورتوں کو ان کے جائے قیام تک پہنچا کر واپس آئیں اور حضور کو یہ اطلاع دیں کہ عورتیں مع سامان جائے قیام پر پہنچا دی گئی ہیں.اس طرح حضور نے اپنی ذاتی نگرانی میں احتیاط کے ساتھ سب مستورات اور بچوں کو ان کے سامان کے ساتھ لاہور سے ربوہ منتقل فرمایا.حضور قریباً ایک ہفتہ ربوہ میں تشریف فرما ر ہے.اس دوران خود عورتوں کی قیام گاہ میں تشریف

Page 111

103 لا کر جملہ انتظامات کو ملاحظہ فرماتے رہے.اس کے علاوہ بھی بار بار کھانے اور پانی وغیرہ کے متعلق دریافت فرماتے رہے تا کہ مستورات کو کسی قسم کی کوئی دقت نہ ہو.کچھ دنوں کے بعد حضور وا پس لا ہور تشریف لے گئے.ربوہ میں مستورات کی رہائش اور ان کا تربیتی نظام: اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی ہدایت پر دار الخواتین قائم کیا گیا جو کچے ۲۴ کمروں اور وسیع صحن پر مشتمل تھا اس میں درویشان قادیان کے اہل و عیال کو منتقل کر دیا گیا.یہ انتظام ۱۹۵۴ء تک قائم رہا جب تک کہ پختہ مکان تعمیر ہو کر ان کو ان میں منتقل نہ کر دیا گیا.اور کچھ نے اپنے مکان بنوالئے اور وہ ان میں چلی گئیں.اس میں رہنے والی خواتین کے لئے کام بھی مہیا کیا گیا تھا تا وہ بیکا رنہ رہیں.چنانچہ چرنے اور روئی منگوا کر دی گئی.اور اس کا منافع شعبۂ حفاظت مرکز میں دیا جاتا تھا.دار الخواتین کا انتظام : رتن باغ لاہور میں مستورات کے کھانے اور ان کی رہائش کا انتظام حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کی زیر نگرانی کم و بیش ایک سال سات ماہ تک عاجزہ کے سپر در ہا.عورتوں میں کھانے کی تقسیم اور ان کی رہائش خاصا مشکل اور کٹھن کام تھا اس لئے ربوہ آکر میں اس کام سے فرصت چاہتی تھی.لیکن جلسہ کے دو دن کے بعد جبکہ حضور واپس تشریف لے جارہے تھے مجھے پیغام ملا کہ حضور مجھے یاد فرماتے ہیں.میں حاضرِ خدمت ہوئی.حضور اپنے کمرہ میں تشریف فرما تھے اور باہر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس گکھڑے تھے.میرے پہنچنے پر حضور نے مکرم شمس صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا:.”یہاں (ربوہ میں ) امتہ اللطیف دارالخواتین کی منتظم ہوگی.یہ اب میرے ساتھ لاہور جارہی ہے وہاں پر مستورات کی رہائش گاہ کا نقشہ تیار کرے گی اور چرنے لائے گی تاکہ عورتیں فارغ وقت میں چرنے کا تیں.اس کی عدم موجودگی میں اس کی والدہ (اہلیہ میاں عبد الرحیم صاحب درویش قادیان ) نگران ہوں گی.“

Page 112

104 حضور نے اس موقع پر دیگر نصائح کے علاوہ یہ بھی ہدایات دیں کہ:.عورتیں پہاڑوں پر نہ چڑھیں.دارالخواتین میں کسی مرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی.اگر کسی عورت نے کہیں جانا ہو تو دفتر سے اجازت لے کر جائے.“ عاجزہ نے حضور کا ارشاد کر سر تسلیم خم کیا اور فور الا ہور جانے کے لئے تیار ہو گئی دو چار روز کے بعد واپس آگئی.اسی دوران نصرت گرلز سکول بھی ربوہ میں گھل گیا اس کے لئے بھی ضروری سامان مہیا کیا گیا اور حضور کی عمومی ہدایات کو سامنے رکھ کر اور اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے کام شروع کر دیا.کئی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا جگہ کی تنگی وغیرہ تھی مگر اللہ تعالے غیر معمولی رنگ میں مدد کرتا رہا.اسی دوران محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس پہلے امیر تھے پھر محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقرر ہوئے.محترم شاہ صاحب مجھے کام کرتا دیکھ کر بہت خوش ہوئے.ہمت اور استقلال سے کام کرنے اور مشکلات کی پرواہ نہ کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا میں ساری عمر مشکلات کے باوجود کام کرتا رہا ہوں جو لوگ خدا کی راہ میں کام کریں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتے.حضرت شاہ صاحب کا یہ مشفقانہ سلوک اور قیمتی نصائح میرے بہت کام آئیں.پھر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک اور بزرگ خواتین کی تشریف آوری پر مجھے ان کی راہنمائی بھی حاصل ہوگئی.خاندان حضرت مسیح موعود میں سے سب سے پہلے محترمہ سیدہ بیگم صاحبہ محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ربوہ تشریف لائیں پھر حضرت ممانی جان ( حضرت سیدہ اُمم داؤ د صاحبہ ) نائب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اور محترمہ آپا نصیرہ صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بھی تشریف لے آئیں.ان کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الثانی مع اہل و عیال مستقل رہائش کے لئے تشریف لائے.عاجزہ تین سال تک اپنی والدہ محترمہ ( آمنہ بیگم صاحبہ ) کے خاص تعاون سے حضرت سیدہ اُمم داؤ د صاحبہ اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا کی نگرانی میں یہ خدمت انجام دیتی رہی اس کے بعد مندرجہ ذیل محترمات کو بطور نگران کام کرنے کا موقع ملا:.ا.محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ ۲.محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب محترمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ -۴- حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ مدظلها - ۵ محترمہ سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ بیگم محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب - محترمہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حکیم فضل الرحمن صاحب محترمه خدیجه بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی فضل دین صاحب وکیل -۸- محترمہ صفیہ ثاقب اہلیہ محترم

Page 113

105 مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری - ۱۰- محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم قر افضل صاحب.در ویشان قادیان کے اہل و عیال سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پُر شفقت سلوک: دارالخواتین کے قیام اور اس میں درویشان قادیان کے اہل وعیال کی رہائش کے ضمن میں حضرت سیدی صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کے غیر معمولی پر شفقت اور ہمدردانہ سلوک کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو آپ درویشوں کے اہل وعیال سے فرماتے تھے.مردوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے درویشوں کی بیوی بچوں کے لئے ابتدائی ایام میں بالخصوص بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوتے تھے جنہیں حل کرنے کے لئے غیر معمولی فراست کے علاوہ جذبات و احساسات کا خاص طور پر خیال اور لحاظ رکھنے کی بھی بہت ضرورت تھی.اس ضرورت کو حضور کی عمومی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت حضرت سیدی مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بڑی ہی عمدگی اور احسن طریق سے پورا فرمایا.یوں تو سب کے ساتھ ہی آپ شفقت کا سلوک فرماتے تھے لیکن درویشانِ قادیان کے متعلقین کے لئے تو آپ کے سینہ میں اس قدر شفقت و ہمدردی کے جذبات موجزن تھے کہ اپنی سخت بیماری اور شدید پریشانی یا مصروفیت کی حالت میں بھی اگر ان میں سے کوئی آجا تا تو آپ فوراً اس کو بلا لیتے ، اس کی باتوں کو غور سے سُنتے اور اس کی شکایت وضرورت کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے.آپ درویشوں کے اہل وعیال کے جملہ حالات سے پوری طرح باخبر ہوتے تھے.ان کے شادی بیاہ اور تعلیم کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے تھے.ان کے بچوں سے بہت پیار فرماتے.بلکہ اگر کسی درویش کے اہل و عیال کچھ عرصہ آپ سے نہ ملتے یا ان کا کوئی خط قادیان سے آتا تو بعض اوقات بذات خود ان کے گھر تشریف لے جا کر انہیں خط دیتے اور ان کی خیریت دریافت فرمایا کرتے تھے.آپ سمجھتے تھے کہ میں ان کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوں.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے ایک خط میں خود بھی یہ لکھا کہ قادیان کی انجمن اور میں جو اُن کا ناظر ہوں درویشوں کے لئے گویا باپ کی حیثیت رکھتے ہیں.ا الفضل ۱۳.ستمبر ۱۹۶۳ء

Page 114

106 اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنی خاص جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے اس حُسنِ سلوک کا اجر ان کے درجات میں غیر معمولی بلندی کے ذریعے عطا فرماۓ.آمین اللهم آمین.ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ منعقدہ اپریل ۱۹۴۹ء تقسیم ملک اور قادیان سے ہجرت کی وجہ سے جماعت کے لئے جو ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی تھی اس کی وجہ سے دسمبر ۱۹۴۸ء میں جماعت احمدیہ کا مرکزی جلسہ سالانہ منعقد نہ ہو سکا تھا اس کی بجائے ۱۵-۱۶.۱۷.اپریل ۱۹۴۹ء کو جماعت کے نئے مرکز ربوہ میں جلسہ منعقد ہوا.اس موقعہ پر احمدی مستورات کا جلسہ سالا نہ بھی ہوا.ربوہ کی واد کی بے آب و گیاہ میں مستورات کا بھی یہ پہلا جلسہ سالا نہ تھا.تمام کی تمام عورتیں مہمان بھی تھیں اور میزبان بھی.اس لئے الفضل میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ جن بہنوں نے کبھی قادیان میں جلسہ سالانہ پر کام کیا ہو وہ ربوہ پہنچتے ہی ناظمہ جلسہ سالانہ کے دفتر میں اپنے نام لکھوا دیں لیے ان کے علاوہ لاہور کی بہت سی لڑکیوں اور عورتوں نے بھی اپنے نام پیش کئے اور ربوہ میں جلسہ سے دودن پہلے پہنچ کر نقشہ اور پروگرام کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا.خدا کے فضل سے باوجود نئی جگہ ہونے کے بہت اچھا انتظام رہا.لجنہ لاہور کی طرف سے بڑی تعداد میں بالٹیاں ، چمچے، اور لالٹینیں مہیا کی گئیں جن کی وجہ سے بہت سہولت رہی.احمد نگر اور چنیوٹ کی مستورات نے بھی خدمت میں خاص حصہ لیا.حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہر احمدی تین تین سیر آٹا یا گندم جلسہ پر اپنے ہمراہ لائے.یہ مقدار اس کے اپنے لئے اور ایک مہمان کے لئے کافی ہوگی.چنانچہ جہاں کثرت سے مرداناج لائے وہاں بہت سی عورتیں بھی اناج لے کر آئیں بلکہ بعد میں بھی کئی سال تک جلسہ سالانہ پر لاتی رہیں.۱۹۶۶ء میں جب اناج کی قلت تھی تو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بھی عورتیں غلہ ہمراہ لے کر آئیں ہے ل الفضل ۱۲.اپریل ۱۹۴۹ء صفہ ی۲ الفضل ۶.اپریل ۱۹۴۹ صفحہ ۵

Page 115

107 اپریل ۱۹۴۹ ء کے جلسہ سالانہ کیلئے سٹور: لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تمام لجنات کو لکھا کہ جلسہ سالانہ کے سٹور کے لئے سامان بھجوائیں تا مستقل طور پر لجنہ اماءاللہ کا ایک سٹور جلسہ سالانہ کے لئے بن جائے اور دفتر جلسہ سالانہ سے سامان نہ منگوانا پڑے.چنانچہ مندرجہ ذیل لجنات نے دستر خوان ، بالٹیاں لالٹینیں، پلیٹیں ،بڑے پراتیں، کٹورے، گلاس وغیرہ سامان برائے سٹور لجنہ بھجوایا تا کہ جلسہ سالانہ پر یہ چیزیں کام آسکیں اور یہ سلسلہ بعد میں بھی کئی سال جاری رہا.ننکانہ، چکوال، چک نمبر ۱۲۷، بھیرہ ، حیدر آباد سندھ ، لاٹھیاں والا ضلع لائکپور، جڑانوالہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، ادرحمہ ضلع سرگودھا، چک نمبر ۶۴۴ ، کھاریاں، کراچی ہنٹنگمری ،لودھراں، سرگا رہا، چک نمبر ۵۶۵ لائکپور، لاہور، جھنگ، حافظ آباد، چک نمبر ۹ ضلع سرگودھا، گولیکی، شیخ پور، شورکوٹ، چک نمبر ۹۶ گ.ب، دوالمیال، لاسکپور، چنیوٹ، راولپنڈی، قصور، بہلو لپور،سیالکوٹ، ربوہ، لالیاں،احمد نگر.چک ۶۴۴ کھاریاں، کراچی منٹگمری سب سے زیادہ سامان لجنہ لاہور نے دیا.چنیوٹ سے بھی کافی مددملی لے جلسہ کی روداد: ۱۵.اپریل ۱۹۴۹ء سوا نو بجے مردانہ جلسہ گاہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افتتاحی تقریر سنی گئی.اس موقعہ پر حضور نے نہایت تضرع اور ابتہال کے ساتھ سوز وگداز سے پڑ جو قر آنی دعائیں ربوہ کی بستی کو آباد کرنے کے لئے فرمائی تھیں اور سجدہ کیا تھا اس میں بھی مستورات شامل ہوئیں.۱۶.اپریل کو ساڑھے آٹھ بجے حضور نے مستورات کے جلسہ میں تشریف لا کر جو تقریر فرمائی اس کے چند اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں.اقتباسات تقریر حضرت اقدس خلیفة المسیح الثانی حضرت مصلح موعود نے قرونِ اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں کی مثالیں پیش کیں اور پھر احمدی عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:.لے رجسٹر رپورٹ قیام گاہ جلسہ سالانہ

Page 116

108 اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو عزت دینے کے لئے ایک اسلامی علاقہ (پاکستان) قائم کر دیا...لیکن ہر نعمت کے لئے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے...جب ملک ہمارے پاس آچکا ہے تو اس کو بچانا ہمارا کام ہے.اب انگریزوں کے خون سے اس ملک کو بچایا نہیں جاسکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اس ملک کو بچایا جائیگا..میں نے بار بار جماعت احمدیہ کے افراد کو توجہ دلائی کہ وہ اُٹھیں اور ملک کی خدمت کریں.یہ پہلا قدم ہے جو ایک اسلامی علاقہ کی حفاظت کے لئے اُٹھایا گیا ہے.اس کے علاوہ وہ وقت بھی آئے گا جب خالص اسلام کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنی پڑیں گی.لیکن جو شخص پہلا قدم اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہو اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسرا قدم اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائیگا...لیکن میں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا ہے.اگر وہ آن پڑھ، جاہل اور غریب عورتیں ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں.ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے لئے ہمارے آدی گئے انہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں...جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اس کے افراد ایسے موقع پر عموماً اپنے نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں.چنانچہ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اُٹھا تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر وہ ہچکچانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کر کہا:.او فلا نے تو بولتا کیوں نہیں تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے 66 بلا یا جا رہا ہے.اس پر وہ فوراً اُٹھا اور اس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا تب اس کو دیکھ کر اور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دئے.وہ عورت زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی تھی جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اسے غیر زمیندار ہوکر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا جبکہ وہ بیوہ تھی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اسے کوئی

Page 117

109 بیٹا ہونے کی امید نہیں تھی اس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اٹھائی جارہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا ہے یا نہ رہے مجھے اس آواز کا جواب دینا چاہیئے.شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کر دیا کرتے ہیں.جب اُس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچارہے تھے انہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا.اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں میں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو بند کرتا میں نے خدا تعالی سے دُعا کرتے ہوئے کہا:.قربانی کر نیوالی احمدی عورت کے لئے دُعا: ”اے میرے رب ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے.اے میرے رب ! اِس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دیکر تجھ سے یہ دُعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے رب! اس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے.“ اسی طرح ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ایک اور عورت کہ وہ زمیندار طبقے میں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جنہیں زمیندار حقارت کے ساتھ کہیں “ کہا کرتے ہیں.اس نے بھی اپنی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ دکھایا.اس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے.جب ہمارے آدمی گئے اور انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہونا چاہیئے تم بھی اپنی اولاد میں سے کسی کو پیش کرو تا کہ اسے فوج میں بھجوایا جائے تو اس وقت باہر کھڑی کام کر رہی تھی اس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے چاروں لڑکوں اور پوتوں کو آواز دی اور ہمارے متبلغ سے کہا یہ میرے دولڑ کے اور دو پوتے ہیں ان چاروں کو اپنے ساتھ لے جاؤ.پھر اس نے اپنے لڑکوں اور پوتوں سے کہا:.دیکھو میں گھر میں نہیں گھوں گی جب تک تم یہاں سے چلے نہ جاؤ.“ جب ہمارے آدمی نے کہا کہ اس وقت چاروں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک نو جوان چاہیئے تو اُس نے کہا میں تو چاروں بھجوانے کے لئے تیار ہوں.آخر اصرار کر کے اُسنے کہا دو تو لے جاؤ.چنانچہ ایک کی بجائے اس نے دونو جوان پیش کئے اور وہ خوشی خوشی چلے گئے.یہ وہ روح تھی جو حقیقی روح ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے دُنیا میں تو میں بڑھا کرتی ہیں.میں نے تم کو وقت پر ہوشیار کر دیا ہے خواہ اس وقت تم میری بات کو سمجھو یا نہ سمجھو.جس وقت

Page 118

110 انسان کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے دماغ میں غرور ہوتا ہے اور وہ دوسرے کی بات کو حقارت کے ساتھ رڈ کر دیتا ہے.مکہ والوں کے دماغ میں بھی یہی غرور تھا جس کی وجہ سے انہوں نے نقصان اُٹھایا.تم بھی کہو گے کہ ہماری حکومت دائمی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں اور خدائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے وہ جن کی اصلاح نہیں ہوگی وہ ذلیل کئے جائیں گے، وہ تباہ اور برباد کئے جائیں گے.پس جاؤ اور اپنے مردوں اور بچوں کی اصلاح کرو.جاؤ اور ان میں قربانی کا مادہ پیدا کرو.اگر نہیں کرو گی تو تم اس کا عبرت ناک انجام دیکھو گی.اولا دیں اس لئے ہوا کرتی ہیں کہ سکھ کا موجب بنیں.مگر ایسی اولادیں سکھ کا موجب نہیں بلکہ ذلت کا موجب ہوں گی خاندان کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ تنزلی کا موجب ہوں گی.صحابیات کا نمونہ سامنے رکھو: پس اپنی اصلاح کرو اور صحابیات کا نمونہ اپنے سامنے رکھو.اگر تمہارے خاوند اور بیٹے اور بھائی اور دوسرے رشتہ دار خدا تعالی کی راہ میں مارے گئے تو وہ ابدی زندگی پائیں گے.اور اگر جی چُرائیں گے تو جیسا کہ میں نے بتایا ذلّت تمہارے ساتھ کھڑی ہے اور وہ بہر حال تمہیں قبول کرنی پڑے گی.لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہاری ذلت کو دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا ہے.دوسروں نے وہ روحانی لذت حاصل نہیں کی جو تم نے حاصل کی ہے.تم نے خدا تعالی کے تازہ بتازہ معجزات دیکھے ہیں تم نے خدا تعالی کے کئی نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.تم نے خدا تعالی کی آیات بینات کا مشاہدہ کیا ہے.اگر اس کے بعد بھی تم نے اپنی اصلاح نہ کی اور تم نے اولادوں کو گرتے دیکھا تو یہ تمہاری قسمت.لیکن اگر تم اپنے خاوندوں ، اپنے باپوں ، اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کی اصلاح کر لو تو یقینا تم بھی وہی ثواب پاؤ گی جو وہ پائیں گے.تم حفاظت ملک کی لڑائی میں خود نہیں جاؤ گی جائے گا تمہارا باپ یا تمہارا خاوند جائے گایا تمہارا بھائی جائے گا.لیکن تمہاری تعلیم کے ماتحت جو تمہارے بیٹے بہادری دکھلائیں گے، جو تمہارے بھائی بہادری دکھلائیں گے، جو تمہارے باپ بہادری دکھلائیں گے، جو تمہارے خاوند بہادری دکھلائیں گے ان کو جو کچھ ثواب ملے گا اتنا ہی ثواب خدا تعالیٰ کی درگاہ میں تمہاری نسبت بھی لکھا جائے گا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلدَّالُ عَلَى الخَیرِ كَفَا عِلِہ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرتا ہے اسے اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا خود نیکی کرنے والے کوملتا ہے جو شخص جہاد کے لئے جاتا یا ملک کی

Page 119

111 عزت کے لئے لڑتا ہے جو کچھ تو اب اس کو ملتا ہے وہی اس کو بھی ملتا ہے جو اس کے دل میں نیک تحریک پیدا کرتا ہے.پس موجودہ تکلیفیں جو قادیان کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں ان کو بُھول جاؤ.اپنے عزائم کو بلند کرو.اپنی اولادوں میں حجرات اور بہادری پیدا کرو اگر ان میں جرات اور بہادری پیدا کروگی تو وہی عزت پاؤ گی جو صحابیات نے پائی.اور تمہارے نام بھی قیامت تک عزت کے ساتھ یادر کھے جائیں گے.لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو تم اور تمہارے خاندان ذلیل کئے جائیں گے اور دُنیا کی کوئی طاقت اس کو بدل نہیں سکتی.خدا تعالی تم کو اور ہم کو اس عذاب سے بچائے.جلسہ سالانہ کی دیگر تقاریر: اس جلسہ میں محتر مہ امتہ السلام بیگم صاحبہ اہلیہ محترم محمد یوسف صاحب بٹ نے مسلمان عورتوں کا لائحہ عمل خاکسار امتہ اللطیف نے ” ہماری ہجرت اور موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ نے جماعت احمدیہ کا مستقبل، محترمہ امتہ المجید صاحبہ سیکرٹری وصیت نے وصیت محتر مہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ نے نیا آسمان اور نئی زمین اور محتر مہ امتہ الرشید صاحبہ نے ” قربانی“ کے موضوعات پر تقاریر کیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی آپ کی ہدایت پر محترمہ سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ نے لجنہ اماءاللہ کے دفاتر اور تعمیر ربوہ کے لئے ہیں ہزار روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی ہے.اس جلسہ کی رپورٹ محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ نے لکھی.سے ل الازهار لذوات الخمار صة دوم صفحه ا۷ تا ۸۰ د مصباح مئی ۱۹۵۰ صفحه ۵ تا ۲۴ الفضل ۲۷.اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۴۱۳ ے محترم امتہ السلام صاحبہ (اہلیہ محمد یوسف بٹ صاحب) میاں احمد دین صاحب مرحوم ساکن قادیان کی دختر ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے جب دینیات کلاسز جاری فرما ئیں تو ۱۹۳۹ء میں پہلی باران کلاسز سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات میں آپ کا نام ہے تعلیم سے فارغ ہو کر آپ نے تین سال تک حضرت سیدہ ام طاہرصاحبہ کے لجنہ اماءاللہ کا کام آپ کی ہدایت کی روشنی میں سرانجام دیا.رپورٹیں لکھنی ، آپ کے ساتھ حلقہ جات کے دورے کرنے وغیرہ سے لے تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۴۵۹

Page 120

112 ۱۹۳۵ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رائے دہندگان کی فہرستیں بنائے جانے کا سرکاری طور پر اعلان ہوا.مستورات کے ووٹر بنے کی ایک شرط خواندگی بھی تھی.اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ قادیان اور اردگرد کے دیہات کو خواندہ بنانے کی جد وجہد شروع کی.حضرت سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کے ساتھ محترمہ امتہ السلام صاحبہ نے اس کام میں حصہ لیا.منگل کا حلقہ آپ کے سپر د تھا.حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ آپ کے کام سے بہت خوش تھیں.رجسٹروں میں رپورٹیں درج کروانے کا کام آپ سے کرواتیں تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی کئی تقاریر کے نوٹس آپ نے لئے.اسی طرح کئی جلسہ سالانہ کی رپورٹیں مرتب کر کے شائع کروائیں.شادی کے بعد آپ قادیان سے باہر چلی گئیں اور کام کا موقع نہ ملا.پھر ۱۹۵۳ء میں جیکب لائنز کراچی میں کام کیا اور ۱۹۶۸ء میں ربوہ میں آکر ڈیڑھ دو سال محلہ دار الرحمت غربی الف میں بطور سیکرٹری تعلیم کا م کیا.باوجود یکہ نئی جگہ اور بے سروسامانی تھی.خدا تعالی کے فضل سے ہر انتظام تسلّی بخش رہا.چنانچہ جلسہ سالانہ کی رپورٹ میں شائع ہوا کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات کے سلسلہ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات سرگرم عمل تھیں.بہت سی دیگر مہمان خواتین بھی ان کی نگرانی میں شب و روز منہمک رہیں.خواتین کا انتظام انتہائی اچھا تھا.حضرت امیر المومنین نے بھی اس کی تعریف فرمائی سے لجنہ اماءاللہ لاہور پر اظہار خوشنودی: حضور نے لجنہ اماءاللہ لاہور کے کام پر اظہار خوشنودی فرماتے ہوئے فرمایا:.۱۹۴۷ء میں جب ہم لاہور آئے اس وقت یہاں عورتوں میں انتہائی بے حسی پائی جاتی تھی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے مستورات کو بار بار توجہ دلائی گئی لیکن ایسی عورتیں بہت کم تھیں جو لجنہ کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں.آہستہ آہستہ عورتوں کے اندر بیداری پیدا ہونی شروع ہوئی.اور اس جلسہ پر گولا ہور سے جانے والی عورتوں میں ایک حصہ قادیان سے آئی ہوئی عورتوں کا بھی تھا لیکن ان میں سے اکثر عورتیں لاہور کی تھیں جو نہ صرف کثیر تعداد میں جلسہ پر گئیں بلکہ چندہ کر کے بہت سا سامان ا الفضل ۲۳.اپریل ۱۹۴۹ صفحہ ۲ کالم نمبرا

Page 121

113 بھی خرید کر اپنے ساتھ ربوہ لے گئیں جس کی وجہ سے عورتوں کی مہمان نوازی میں ایک حد تک سہولت پیدا ہوگئی.درجنوں عورتیں لاہور سے مہمانوں کی خدمت کے لئے ربوہ گئیں.قادیان میں وہ مہمان بن کر جایا کرتی تھیں لیکن اس جلسہ پر وہ میزبان بن کر گئیں اور ان میں سے بعض نے نہایت اخلاص کے ساتھ مہمانوں کی خدمت میں حصہ لیا اور نیک نمونہ دکھایا.یہ بات بتاتی ہے کہ لاہور کی جماعت کی عورتوں میں ایک حد تک بیداری پیدا ہو چکی ہے اور اگر یہ حالت قائم رہے تو اس کا اثر یقیناً آئندہ نسلوں پر بھی پڑے گا.چونکہ اب کے خواتین کو بھی آنے کی اجازت تھی اس لئے خواتین بھی بڑی کثرت کے ساتھ تشریف لائیں حتی کہ ان کی رہائش کے انتظامات ناکافی ثابت ہوئے اور مردوں کے لئے جو ئیر کیں بنائی گئی تھیں ان کا ایک حصہ بھی خواتین کے لئے مخصوص کرنا پڑا.جلسہ کے انتظامات: ۲۵.مارچ سے حضرت سیدہ اُمم داؤد صاحبہ نے جلسہ کے انتظامات کرنے شروع کر دیئے تھے.حسب سابق ناظمہ حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ مقرر ہوئیں.آپ کی معاونات محترمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ محترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ لا ہور اور محترمہ زینب بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ لاہور تھیں.ربوہ کے اس پہلے جلسہ سالانہ مستورات کے انتظامات کا ایک مختصر ڈھانچہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.منتظمہ اجرائے پرچی محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبه ↓ نگران معاونات محترمہ عابدہ خاتون صاحبه انچارج دفتر عاجزه امتہ اللطیف انسپکریس استقبال محترمہ سیده مهر آیا صاحبہ محترمہ استانی امت الرحمن عمر صاحبہ محترمه استانی محمدی بیگم صاحبہ محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ ایم.اے محترمہ اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیر محمد صاحب ، محترمه مسعوده بیگم صاحبه اہلیہ محترم با بوعبد العزیز صاحب حفاظت و انکوائری محترمه استانی باجرہ صاحبہ اہلیہ محترم صوفی غلام محمد صاحب.الفضل ۲۱ اگست ۱۹۴۹ء صفحه ۳ کالم نمبر ۱-۲۲ الفضل ۲۳.اپریل ۱۹۴۹ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲

Page 122

114 سٹور تقسیم کھانا محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ محترم حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب محترمہ رشیدہ بھٹی صاحبہ اور محترمہ امتہ الرحمن مومن صاحبہ محترمه مریم در دصاحبہ اہلیہ مولوی عبد الرحیم صاحب درد.محترمه خدیجه زینب صاحبه بنرت حضرت مولوی شیر علی صاحب محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب اور محتر مہ امتہ الحفیظ صاحبہ آب رسانی محترمه امینہ بیگم صاحبہ محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم یحیی خان صاحب محترمہ سردار بیگم صاحبہ اسلامیہ پارک لاہور روشنی صفائی صفائی برتن محترمہ بیگم النساء صاحبہ محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ بھاٹی گیٹ لاہور محرمه صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ محتر مہ سراج بیگم صاحبہ مسلم ٹاؤن - محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ احمد نگر طبی امداد محترمہ لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ محترمہ زینب خاتون صاحبہ.ان کے علاوہ محترمہ بیگم صاحبہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب بیرکوں کی منتظمات محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ محترمہ امتہ الرحیم صاحبہ محترمہ جلسہ گاہ کا انتظام: امتہ القیوم صاحبہ محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ محترمہ امته الرشید صاحبہ محترمہ نور جہاں صاحبہ محترمہ امتہ اللہ صادق صاحبہ محترمہ والدہ صاحبہ عزیز احمد صاحب محترمه عزیزه حکیم صاحبہ محترمہ امتہ المجید صاحبہ محترمہ استانی سلیمه صاحبہ محترمہ نصیره مفتی صاحبہ محترمہ امته الرحمن صاحبہ چنیوٹ محترمہ مسعوده بیگم صاحبہ محترمہ زبیدہ شفقت صاحبہ محترمہ امتہ اللطیف عمر صاحبہ محترمہ آمنه ولی محمد صاحبه محترمه سعیده بیگم صاحبه محترمه صالحه در د صاحبه محترمه منظور فاطمہ صاحبہ محترمہ ممتاز طلعت صاحبه محترمه استانی آمنہ بیگم صاحبہ جلسہ گاہ خواتین کی منتظم اعلیٰ خود حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل سیکرٹری لجنہ مرکزیہ

Page 123

115 تھیں جن کی زیر نگرانی بہت سی خواتین اور بچیوں نے جلسہ گاہ کے انتظام میں حصہ لیا.۱۹۵۱ء تک آپ ہی جلسہ گاہ کا انتظام کرتی رہیں.۱۹۵۲ء کے جلسہ خواتین کا انتظام محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے سپر د کر دیا گیا.شور می لجنہ اماءاللہ نمبر ۳ ۱۹۴۹ء بمقام ربوہ: لجنہ اماء اللہ کی تیسری شوری ربوہ میں ۱۶ اور ۱۷.اپریل ۱۹۴۹ء کی درمیانی شب ۹ بجے منعقد ہوئی اس میں علاوہ مرکزی ممبرات لجنہ اماء اللہ کے مندرجہ ذیل پچاس لجنات کی نمائندگان شامل ہوئیں:.ا.راولپنڈی ۲.سرگودھا -۳ قصور -۴ احمد نگر -۵ چنیوٹ ۶.لالیاں ۷.مونگ ضلع گجرات ۸ علی پور ۹ تلونڈی راہ والی ۱۰ گولیکی - چک نمبر ۸۸ ضلع لائلپور ۱۲.شادیوال ۱۳ - کوئٹہ ۱۴ چک ۱۲۷ آر بی ۱۵ کھاریاں ۱۶ تر گڑی ۱۷.جڑانوالہ ۱۸.ٹوبہ ٹیک سنگھ ۱۹..چک ۹ پنیار ضلع سرگودھا ۲۰ کراچی ۲۱.حافظ آباد ۲۲- گوجرہ ۲۳ نوشہرہ ۲۴.چونڈہ ۲۵ - چک ۲۹ آر بی گھسیٹ پورہ ۲۶ تلونڈی کھجوروالی ۲۷.لائل پور ۲۸ میانی ضلع سرگودھا ۲۹- چک نمبر ۳۳ ۳۰ شیخوپورہ ۳۱.بہلولپور ضلع سیالکوٹ ۳۲.جھنگ ۳۳.حیدر آباد دکن ۳۴- چکوال ۳۵- اسماعیله ۳۶.پاکپتن ۳۷- چهور چک ۳۸- گوجرانواله ۳۹ منٹگمری ۴۰.شیخ پور ۴۱.کراچی ۴۲ - دوالمیال ۴۳.مانگا چانگریاں ۴۴.چک ۷۳ ۴۵.سیالکوٹ ۴۶.لاہور ۴۷ - سمبڑیال ۴۸ اوکاڑہ ۴۹.تہال ۵۰.پشاور.فیصلہ جات: اس مجلس شوریٰ میں مندرجہ ذیل فیصلہ جات کئے گئے :.تجویز نمبر : دفتر لجنہ اماءاللہ کے لئے ہیں ہزار روپے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری بہر حال لجنات اما ء اللہ نے ہی اُٹھانی ہوگی تاکہ ایک سال میں لجنہ اماءاللہ اپنا دفتر بنالے.اس تجویز پر دوترمیمیں پیش کی گئیں.

Page 124

116 ا.جو روپیہ قادیان میں دفتر لجنہ اماءاللہ کے لئے جمع کیا گیا تھا وہ اس میں سے منہا کیا جائے.۲.ربوہ کی زمین کے لئے./ ۲۴۰۰ جمع کیا گیا تھا وہ اصل رقم سے منہا کیا جائے.تجویز نمبر ۲: لجنہ اماء اللہ کی عہدہ داروں کے لئے مرکز میں ایک ٹر میٹنگ کلاس کھولی جائے.یہ کلاس ہر چھ ماہ کے بعد ایک ماہ کے لئے ہو جس میں عہدہ داروں کو علاوہ دینی تعلیم اور تربیت کے لجنہ اماءاللہ کے تمام شعبوں کا کام کرنا بھی سکھایا جائے.فیصلہ:.کثرت رائے سے یہ تجویز منظور کی گئی.تجویز نمبر ۳:.مرکز کو چاہیئے کہ ایک صنعتی ادارہ قائم کرے جس میں مختلف استعداد کی عورتیں مختلف کام سیکھیں تا غریب عورتوں کے لئے محنت مزدوری کے مواقع پیدا ہوں.فیصلہ:.اس اضافہ کے ساتھ یہ تجویز منظور ہوئی کہ اس صنعتی ادارے کی شاخیں ہر مقامی لجنہ میں بھی ہونی چائیں.تجویز نمبر ۴:.سال گزشتہ کی طرح امسال بھی تعلیم القرآن کلاس رمضان کے موقع پر کھولی جائے.فیصلہ:.یہ تجویز اس ترمیم کے ساتھ منظور کی گئی کہ جو لجنہ کسی ممبر کونہ بھجوا سکے وہ ایک ممبر کا خرچ بھیجوائے.تجویز نمبر ۵:.ہر ضلع کی تمام لجنات کا ایک جلسہ سال میں ایک بار ضرور ہونا چاہیئے جس میں مرکز کی ممبرات بھی شامل ہوں تا ضلع وار تنظیم مکمل ہو سکے.فیصلہ:.اتفاق رائے سے منظور کی گئی لے ربوہ میں نصرت گرلز ہائی سکول کا قیام اور مختصر تاریخ قادیان سے ہجرت کے بعد فوری طور پر رتن باغ لاہور میں نصرت گرلز سکول قائم ہوا.۲۵.اپریل ۱۹۴۹ء کو یہ سکول ربوہ میں منتقل کر دیا گیا.ربوہ میں کھلنے والا یہ پہلا سکول تھا جو بیرکوں میں شروع ہوا.طالبات کی تعدادہ تھی جن میں سے اکثر چنیوٹ سے آتی تھیں.آہستہ آہستہ لڑکیوں کی تعلیم کی خاطر لوگ کوشش کر کے ربوہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے سے ابتداء میں ہیڈ مسٹریس کے علاوہ مندرجہ ذیل خواتین نے سکول میں تعلیم دی.لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۱۰ مئی ۱۹۴۹ صفحه ۲ کالم نمبر

Page 125

117 مکرمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ مکرمہ منظور فاطمہ صاحبہ دختر چوہدری غلام محمد صاحب.مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ دختر ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مکرمہ استانی حور بانو صاحبہ پانی پتی.مکرمہ رقیہ صاحبہ بنت ولی محمد صاحب مکرمہ استانی محمدی بیگم صاحبہ مکرمہ امتہ الرشید صاحبہ بنت چوہدری وزیر محمد صاحب مکرمہ سیدہ صاحبہ بنت میر مہدی حسن صاحب.مکرمہ استانی سلیمہ صاحبہ بنت جیون صاحب.اس کے بعد یہ سکول (جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں رکھی گئی تھی) آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا.ہجرت کے وقت قادیان میں طالبات کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی تھی کہ ایک اور مدرسہ طالبات کے لئے مڈل تک جاری کیا گیا.ہجرت کے بعد ابتداء میں کوشش کی گئی کہ لاہور میں کوئی عمارت الاٹ کروا کے نصرت گرلز ہائی سکول جاری کر دیا جائے.جو لوگ رتن باغ اور اس کے گردو نواح میں مقیم تھے ان کی بچیوں کی تعلیم رتن باغ کے ہی ایک کمرہ میں جاری رکھنے کی کوشش کی گئی.نصرت گرلز سکول کی اکثر استانیاں جہاں جہاں ان کے گھر والے جا کر آباد ہوئے وہاں چلی گئیں.بہت سی بچیوں نے خاطر خواہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کے دوسرے سکولوں میں داخلہ لے لیا.آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ کی سرزمین خریدی گئی اور اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کے لئے جو کچھ بیر کیں تیار کی گئیں تھیں انہیں کمروں میں تقسیم کر کے چاردیواری بنا کر ایک سکول کی شکل دے دی گئی اور نصرت گرلز سکول کا با قاعدہ اجراء کر دیا گیا.جوں جوں ربوہ میں آبادی بڑھتی گئی طالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا.حتی کہ سکول کی اپنی شاندار عمارت تیار ہوگئی اور ۱۹۵۵ء میں سکول اپنی مستقل عمارت میں منتقل ہوا.ان دنوں نصرت گرلز ہائی سکول کی ہیڈ مسٹریس امتہ الرحمن صاحبہ عمر تھیں جو ۱۹۵۶ء میں منافقین کے فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے یہاں سے چلی گئیں.ان کے بعد محترمہ امتہ العزیز عائشہ صاحبہ نے چارج لیا.کئی سال تک بے لوث خدمت کرنے کے بعد آپ کیکم ستمبر ۱۹۶۳ء کو ریٹائر ہوئیں.آپ کے بعد محترمہ مسعودہ بشیر صاحبہ ایم.اے ہیڈ مسٹریس مقرر ہوئیں.آپ کے زمانہ میں اس مدرسہ نے نمایاں ترقی کی ہے.۱۹۵۱ء میں پہلی بار میٹرک کے امتحان میں ہجرت کے بعد ۸ طالبات کامیاب ہوئیں لے اور اس له الفضل ۲۶ مئی ۱۹۵۱ء صفحه ۳

Page 126

118 وقت سے اب تک مندرجہ ذیل تعداد میں طالبات نے اس سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا.یہ رفتار بتاتی ہے کہ سُرعت کے ساتھ اس سکول نے ترقی کی منازل طے کیں :.۱۹۵۲ء ۹ طالبات ۱ - ۱۹۵۳ء ۱۹۵۴ء ۹ طالبات ۲- ۱۹۵۵ء ۲۸ طالبات ۳ ۱۹۵۶ء ۲۸ طالبات ۲ ۱۹۵۷ء ۳۵ طالبات - ۵۰۶۱۹۵۸ طالبات ۵ ۱۹۵۹ء ۴۷ طالبات.۱۹۶۰ء ۶۵ طالبات کے ۱۹۶۱ء ۳۷ طالبات ۶۲۶۱۹۶۲۸ طالبات ۹.۱۹۶۳ء ۵۷ طالبات ۱۰ ۱۹۶۴ء ۵۰ طالبات ۱۱ ۶۶۶۱۹۶۵ طالبات ۱۲ - ۶۴۶۱۹۶۶ طالبات ۱۳.۱۹۶۷ء ۸۰ طالبات ۱۴ ١٩٦٨ء ۱۰۲ ء طالبات ۱۵ ۱۹۶۹ء ۱۳۳ طالبات ۱۶ ۱۹۷۰ ء ۴۰ اطالبات کا.۴۲۶۱۹۷۱ اطالبات ۱۸ ذیل میں نصرت گرلز ہائی سکول کی ان استانیوں کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں جنہوں نے لمبا عرصہ سکول ہذا میں پڑھانے کی خدمت سرانجام دی:.۱.محترمہ سکینہ صاحبہ مرحومہ اہلیہ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل له الفضل ۱۷ مئی ۱۹۵۲ء صفحه ۸ س الفضل ۴.جون ۱۹۵۵ء صفحها ه الفضل ۱۰.اگست ۱۹۵۸ء صفحه ا الفضل ۸.جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ا الفضل ۱۴.جولائی ۱۹۶۲ء صفحہ ۸ الفضل ۳.جون ۱۹۶۴ء صفحہ ۸ ۲ الفضل ۱۵.جون ۱۹۵۴ء صفحه الفضل ۵.جون ۱۹۵۶ء صفحه ا د الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۹ء صفحه ا الفضل ۸.جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ 1 الفضل ۵.جون ۱۹۶۳ء صفحہ ۶ ۱۲ الفضل ۱۸.جون ۱۹۶۵ ء صفحہ ۸ الفضل ۱۷.اگست ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ ۱۴ الفضل ۲۶.جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۸ ها الفضل ۷.اگست ۱۹۶۸ ء صفحہ ۵ كل الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۵ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۶۹ ء صفحہ ۵

Page 127

119 ۲ محترمه باجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ صوفی غلام محمد صاحب مرحوم ۳- محترمه میمونه صوفیه صاحبه ۴- محترمہ امتہ العزیز عائشہ صاحبہ بی.اے، بی ٹی (سابق ہیڈ مسٹریس) بنت محترم بابو محمد امیر صاحب مرحوم ۵ محترمه کنیر فاطمه صاحبه ۶ محترمہ سیدہ صاحبہ بنت حضرت میر مہدی حسن صاحب ۷.محترمہ رحمت النساء صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم ۸ - محتر مہ رحمت النساء صاحبہ بنت محترم مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا ۹- محترمہ حمیده صابرہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ۱۰ محتر مہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ ۱۱ محترمہ عائشہ ایوب صاحبہ ۱۲- محترمه استانی سردار بیگم صاحبه ۱۳ محترمه استانی زینب بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبد اللطیف صاحب ۱۴.محترمہ استانی صفیہ بیگم صاحبہ ب ٹھیکیدار ۱۵- محترمه استانی عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی محمد یار صاحب عارف ۱۶- محترمه استانی منظور فاطمہ صاحبہ بنت محترم چوہدری غلام محمد صاحب مینیجر نصرت گرلز سکول ۱۷.محترمہ استانی حور با نو صاحبہ پانی پتی اس وقت طالبات کی تعداد ڈیڑھ ہزار اور اساتذہ کی بیالیس " ہے.جامعہ نصرت کی ابتدائی شکل ابتداء قادیان میں جامعہ نصرت صرف دینیات کی کلاسز درجہ مہدہ، درجہ علیمہ اور درجہ عالمہ وغیرہ چھ کلاسز پر مشتمل تھا.قادیان سے ہجرت کے بعد دوبارہ اس کی پڑھائی نصرت گرلز سکول کے له الفضل ۲۹ مئی ۱۹۴۹ ء صفحه ۲

Page 128

120 ساتھ ہی شروع ہوگئی.استانی محمد بی صاحبہ مولوی فاضل مدرس کے فرائض سر انجام دیتی تھیں.ان کلاسز میں مڈل یا میٹرک پاس لڑکیاں لی جاتی تھیں.بعد میں جامعہ نصرت کو کالج کی شکل میں تبدیل کر دیا گیا جس میں با قاعدہ دینیات کا کورس بھی رکھا گیا.ربوہ میں صفائی کا انتظام : ربوہ کی آبادی کے ابتدائی دنوں میں خاکروبوں کا انتظام نہیں تھا انتظام ہوا بھی تو بہت تھوڑا.لہذ ا صفائی کا خیال خود لوگوں کو رکھنا پڑا.اس کے بہتر انتظام کے لئے لجنہ نے اپنے طور پر صفائی کی مہم کا آغاز کیا.محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ منظمہ مقرر ہوئیں اور آپ کے ساتھ محترمہ صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری صلاح الدین ایوبی صاحب محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم محمد اسمعیل صاحب معتبر مرحوم اور محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم منشی محمد الدین صاحب معاون تھیں.صفائی کے لئے آپ ہدایات دیتیں اور نگرانی فرماتیں.اس کے نتیجہ میں گھروں میں اور اپنے گھروں کے باہر عورتیں صفائی کا خاص خیال رکھتیں.لجنہ اماءاللہ ربوہ: اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے بعد جب یکصد کے قریب مستورات مستقل رہائش کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق یہاں آباد ہو گئیں تو لجنہ کے ہفتہ وار اجلاس بھی شروع ہو گئے.اکتوبر تک ایک ہی جگہ اجلاس ہوتے رہے.اس دوران ریلوے لائن کے دونوں طرف کچے کوارٹر عمیر ہوکر آبادی ہوگئی اور لجنہ مرکزیہ کے عہدیداران کے تشریف لے آنے پر ۱۰.اکتوبر ۱۹۴۹ء کو لجنہ مرکزیہ کا سب سے پہلا اجلاس منعقد ہوا اس میں ربوہ کو دو حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا.ایک ریلوے لائن کے جنوبی جانب اور دوسرا شمالی جانب.ان اجلاسوں میں تعلیم و تربیت.صفائی اور دستکاری کی طرف خاص توجہ دی گئی جن کی اس وقت بہت ضرورت تھی.جب صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے کوارٹر تعمیر ہوئے اور ان میں آبادی ہوگئی تو مزید حلقے بنتے چلے گئے.حتی کہ مئی ۱۹۵۳ ء میں آٹھ حلقے قائم ہو چکے تھے اور نمبرات لجنہ ربوہ کی تعداد پانچ صد تک پہنچ چکی تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی

Page 129

121 ہدایات کے مطابق لجنہ ربوہ کا انتظام ۱۹۵۳ء میں لجنہ مرکزیہ سے الگ کر دیا گیا اور محترمہ صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ لجنہ ربوہ کی صدر منتخب ہوئیں جو اب تک (دسمبر ۱۹۷۱ء) اِس عہدہ پر فائز چلی آرہی ہیں.لجنہ ربوہ کو منظم فعال اور کارکردگی کے لحاظ سے ممتاز مقام تک پہنچانے میں آپ کا خاص حصہ ہے.اپریل ۱۹۴۹ء تا اپریل ۱۹۵۳ء تک جن ممبرات کو مختلف عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی ان کے اسماء درج ذیل ہیں:.۱- محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بیگم محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ۲ محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ محترمہ صاحبزادی امته الرشید بیگم صاحبه ۴ محتر مد رقیه بیگم صاحبہ بنت حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۵ محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ مرحومہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب محترمه عزیزه رضیہ صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم مرزا گل محمد صاحب ۹ محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ عبدالواحد صاحب ۱۰- محتر مدخدیجه بیگم صاحب الیه محترم مولوی فضل دین صاحب وکیل ۱۱ محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ۱۲ محتر مہ عابدہ صاحبہ مرحومہ بنت ۱۳- محترمہ فاطمہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ محترم شیخ کرم الدین صاحب آف کینیڈا ۱۴- محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولوی صالح محمد صاحب ۱۵- محترمہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حکیم فضل الرحمن صاحب ۱۶.محترمہ سازه بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم مولوی چراغ الدین صاحب ۱۷- محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب ۱۸- محترمہ عطیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی

Page 130

122 ۱۹.محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم قریشی محمد افضل صاحب ۲۰.محترمہ آمنہ صاحبہ بنت محترم ولی محمد صاحب مرحوم ۲۱ - محترمہ امته الرشید صاحبہ بنت محترم چوہدری وزیر محمد صاحب ۲۲ محترمہ سیکینه سیفی صاحبہ اہلیہ محترم مولوی نور محمد صاحب نیم سیفی ۲۳ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد ۲۴ - محترمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ محترم ابوالمنیر مولوی نور الحق صاحب ۲۵ - محترمہ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ملک محمد شفیع صاحب نوشہروی سیکرٹری ۲۶.محترمہ ریحانه باسمہ صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ۲۷.محترمہ جمیلہ شمس صاحبہ بنت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم ناصرات الاحمدیہ ۲۸.محترمہ صادقہ طاہرہ صاحبہ بنت محترم قاضی عبدالرحمن صاحب ۲۹ - محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم ۳۰ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ بنت محترم میاں سراج الدین صاحب مؤذن ۳۱ - محترمه مسعوده بیگم صاحبہ اہلیہ محترم با بو عبدالعزیز صاحب ۳۲- محترمہ رابعہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حکیم عبید اللہ صاحب را نجها ۳۳- محترمه امته المنان قمر صاحبہ بنت محترم منشی چراغ الدین صاحب ۳۴ - محترمہ بدرالنساء صاحبہ بنت محترم میاں محمد یعقوب صاحب ۳۵- محتر مهر خدیجہ بیگم صاحبہ بیوه محترم قریشی محمد احسن صاحب مرحوم ۳۶- محترمه امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ نذیر احمد صاحب ۳۷.محترمہ امتہ الحکیم صاحبہ بنت محترم عبد الحکیم صاحب مرحوم ۳۸ محترمه رشیدہ صاحبہ بنت محترم محمد الدین صاحب نانبائی ۳۹- محترمه استانی کنیز فاطمه صاحبه ۴۰ محترمه استانی سلیمہ بیگم صاحبه ۴۱ - محترمه نیاز بیگم صاحبه

Page 131

123 ۴۲ محتر مہ امته الحکیم صاحبہ ۴۳ محترمہ امتہ القیوم معتبر صاحبه ۴۴- محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت محترم مولوی عطاء محمد صاحب ۴۵- محترمه بشری بیگم صاحبه ۴۶ محترمہ امته النصیر صاحبه قاری ۴۷.محترمہ رحمت بیگم صاحبہ بنت محترم میاں محمد یعقوب صاحب رمضان المبارک میں درس القرآن: سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ ابتدائی ایام میں ربوہ میں ایک کچی مسجد بنائی گئی تھی جو ایک بیرک اور صحن پر مشتمل تھی.جب ماہ رمضان المبارک آیا تو اس میں قرآن مجید کا درس شروع ہو گیا جس سے مستورات نے بھی فائدہ اُٹھایا.رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مردوں کے علاوہ چند عورتیں بھی اس مسجد میں اعتکاف بیٹھیں.لجنہ اماءاللہ کے زیر انتظام ماڈل ٹاؤن اور لاہور کے کئی حلقوں کے علاوہ بہت سے دیگر مقامات پر بھی قرآن مجید کا درس ہوائے ان دنوں لجنہ ماڈل ٹاؤن کی صدر محترمہ عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم مرزا گل محمد صاحب تھیں جو لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں.ہجرت کے بعد آپ کا قیام ایک عرصہ تک ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہا.بعد ازاں آپ ربوہ آگئیں اور یہیں وفات پائی.یوم آزادی کی تقریبات: ۱۴.اگست ۱۹۴۹ء کو یوم آزادی کی تقریب پر ربوہ میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں پاکستان کے استحکام کے لئے اجتماعی دعا کی گئی اور تقریریں ہوئیں.بچیوں کی کھیلیں ہوئیں اور مٹھائی بھی تقسیم کی گئی.اس تقریب کو بارونق اور کامیاب بنانے میں حضرت سیدہ اُمم داؤد صاحبہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.سے له الفضل ۲۸.جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۵ الفضل ۱۷.اگست ۱۹۴۹ء صفحه ۲ الفضل ۲۷.جولائی ۱۹۴۹ ، صفحہ ۵ کالم نمبر۴

Page 132

124 لاہور میں زنانہ سکول قائم کرنے کی تحریک : حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ۶.مئی ۱۹۴۹ء کومسجد احمد یہ لا ہور میں خطبہ دیتے ہوئے وہاں کی جماعت کو لاہور میں مردانہ اور زنانہ ہائی سکول قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا، لاہور کی جماعت کی مستورات کی طرف سے عرصہ سے مجھے یہ شکایت آرہی ہے اور میرے خیال میں وہ نہایت ہی معقول ہے کہ یہاں لاہور میں جماعت کی لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ صحیح تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے جاہل اور ان پڑھ رہتی ہیں یا دوسرے سکولوں میں جا کر دوسرے لوگوں کے خیالات سے متاثر ہو جاتی ہیں.اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دین کی حفاظت کریں اور اس کے اندر رخنہ پیدا کرنے والے سامان کو دور کریں وہ اس میں اور بھی محمد ہو جاتی ہیں اور انہیں صحیح راستہ سے ہٹا دیتی ہیں.میں جماعت کو کئی سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.میرے نزدیک لاہور کی جماعت کی حیثیت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ اس کے زنانہ اور مردانہ دونوں ہائی سکول اپنے ہوں...اور ابھی تو ہائی سکول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا صرف ایک زنانہ مڈل سکول ہی کا سوال ہے تا جماعت کی لڑکیاں قرآن کریم ختم کرسکیں اور ان کی ایک حد تک دینی تربیت ہو سکے...جماعت کی عورتوں کا یہ مطالبہ ہے.اگر جماعت کا ایک اپناز نا نہ سکول نہ ہو تو وہ اپنی لڑکیوں کی صحیح پرورش نہیں کر سکتیں ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ بچیاں ہم سے زیادہ پڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور ہم طاقت نہیں رکھتیں کہ انہیں دین کی طرف مائل کر سکیں.اگر ہمارا اپنا سکول ہو تو نہ صرف وہ خود دین پر قائم رہیں گی بلکہ ہمیں بھی دین سکھائیں گی.جس گھر میں عورتوں میں دین چلا جاتا ہے اس کے مردوں کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ دین سے غفلت برتیں.عورت وہ جنس ہے جسے بظاہر محکوم اور غلام کہا جاتا ہے لیکن دراصل وہ حاکم اور مالک ہوتی ہے...اگر عورتوں میں دینی تعلیم آ جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مردوں کو بھی دین کی طرف کھینچ کر لے آئیں گی لے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل عرصہ تک نہ ہو سکی.بالآخر ۱۹۶۵ء میں لجنہ اماءاللہ لا ہور ایک مقامی مخیر احمدی مکرم سمیع اللہ صاحب مالک شفاء میڈیکو کے تعاون سے دارالذکر لاہور میں ایک زنانہ ٹڈل سکول کھولنے میں کامیاب ہو گئی.۲۳.اپریل ۱۹۶۵ء کو محترم چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب امیر ا الفضل ۲۱ اگست ۱۹۴۹ء صفحریه

Page 133

125 جماعت احمد یہ لاہور نے اس کا افتتاح فرمایا.کئی ایک مقامی احباب اور احمدی بہنوں نے اس کی مالی امداد اور اس کے قیام کی جد و جہد میں حصہ لیا مگر افسوس ہے کہ بعد میں بعض نامساعد حالات کی وجہ سے یہ سکول جلد ہی بند کرنا پڑا.لجنہ اماءاللہ لاہور اس کے دوبارہ اجراء کے لئے کوشاں ہے.دوسری تعلیم القرآن کلاس بابت ۱۹۴۹ء رمضان المبارک ربوه: اس سال تعلیم القرآن کلاس ربوہ میں لگائی گئی اور کلاس کی پڑھائی ۲.رمضان المبارک کو شروع ہو کر ۲۷.رمضان المبارک کو ختم ہو گئی.نصاب مندرجہ ذیل تھا:.قرآن مجید عربی دو پارے مع تفسیر درجات الادب.ابتدائی گرائمر.معمولی بول چال سیرت و تاریخ سیرت حضرت مسیح موعود.ابتدائی حصہ سلسلہ احمدیہ مندرجہ ذیل مسائل پر نوٹ اجراء نبوت ختم نبوت، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیشگوئیوں کے متعلق کچھ بنیادی اصول.حدیث عمدۃ الاحکام.نبراس المومنین.مسائلِ حدیث پر نوٹ فقہ احمد یہ.فتادی احمدیہ کے مختصر نوٹ عید کے ایک دن بعد امتحان شروع ہوا اور پانچ دن میں ختم ہو گیا.۴.اگست ۱۹۴۹ء کو چھٹے روز نتیجہ نکال دیا گیا ۵- اگست ۱۹۴۹ء کو طالبات واپس چلی گئیں.اسا تذات تعلیم القرآن کلاس اساتذار محترمہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نصرت گرلز سکول محترمہ امته الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب محترمه محمدی بیگم صاحبہ مولوی فاضل محترمہ امتہ المجید صاحبہ بنت چوہدری وزیر محمد صاحب عاجزه امته اللطیف رہائش کی نگرانی و انتظام محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ اور محترمہ بیگم صاحبہ مرزا منور احمد صاحب کے

Page 134

126 سپر د تھا.گیارہ طالبات ربوہ کی تھیں اور چودہ طالبات باہر کی کلاس میں شامل ہوئیں.ربوہ کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات سے طالبات نے شرکت کی.ا.کھاریاں ۲.سماعیلہ.چونڈہ منٹگمری ۵- سرگودھا ۶.راولپنڈی ے.چنیوٹ لالیاں ۹.حافظ آباد امتحان میں گل ۲۲ طالبات شامل ہوئیں ۹ ربوہ کی تھیں اور ۱۳ طالبات باہر کی تھیں.19 طالبات فرسٹ ڈویثرن اور ۲ سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہوئیں.ایک لڑکی کمپارٹمنٹ میں آئی.اول ، دوم اور سوم آنے والی طالبات کو تفسیر کبیر پارہ السم.دیباچہ قرآن مجید اور سیرت خاتم النبیین علی الترتیب انعام دی گئیں اور ہر مضمون میں اول آنے والی طالبہ کو دعوۃ الایمان کتاب انعام دی گئی.تفصیلی نتیجہ درج ذیل ہے :.۱.محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت ماسٹر نورالہی صاحب چنیوٹ ۲- محتر مہ رابعہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد ابراہیم صاحب سماعیلہ محترمہ امتہ القیوم صاحبہ بنت عبد العزیز صاحب ربوہ ۴.محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ ہمشیرہ قاضی عبدالحمید صاحب در ولیش ربوه ۵ محتر مه حامده عفت صاحبہ بنت مولوی غلام احمد صاحب لالیاں ۶ محترمہ امتہ الرشید قمر صاحبہ بنت میاں عبدالرحیم صاحب در ولیش ربوہ ۷ محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شریف احمد صاحب احمدی چنیوٹ محترمہ نفیسه اختر صاحبہ اہلیہ بابوسعید احمد صاحب لالیاں اول دوم سوم ۹ محترمہ سلیمہ قدسیہ صاحبہ بنت ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل سابق مبلغ افریقہ ربوہ ۱۰ محترمہ صادقه قدسیه صاحبه ۱۱.محترمہ رضیہ فرحت صاحبہ بنت محمد خاں صاحب مرحوم ربوہ ۱۲- محتر مہ طاہرہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری فضل الہی صاحب کھاریاں ۱۳ محترمہ سارہ قدسیہ صاحبہ بنت ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل سابق مبلغ افریقہ ربوہ ۱۴- محترمہ امتہ الرشید صاحبہ بنت عبدالکریم صاحب مرحوم چنیوٹ ۱۵- محتر مہ لئیقہ نزہت صاحبہ بنت مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی مقیم لالیاں

Page 135

127 ۱۶.محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ اہلیہ منصور احمد صاحب ربوہ ۱۷.محترمہ ظہور ا قبال صاحبہ بنت قاضی ضیاء اللہ صاحب حافظ آباد ۱۸- محتر مہ رحمت فرحت صاحبہ بنت مولوی شمس الدین صاحب مرحوم چونڈہ ۱۹.محترمہ امتہ الباری صاحبہ بنت مولوی علی احمد صاحب منٹگمری ۲۰ محتر مه حمیده خانم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ راولپنڈی ۲۱ محترمہ نعمت بی بی صاحبہ بنت چوہدری محمد ابراہیم صاحب سماعیلہ ۲۲.محتر م طالعت صاحبہ بنت نبی احمد صاحب ربوه حضرت خلیفہ اسیح الثانی کالجنہ کوئٹہ سے خطاب: اس سال موسم گرما میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پہلے سندھ اور پھر وہاں سے کوئٹہ تشریف لے گئے.لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کا ایک اہم اجلاس ۱۸ اگست کو پارک ہاؤس میں (جہاں حضور کا قیام تھا) منعقد ہوا جس میں احمدی خواتین کے علاوہ کئی غیر احمدی معزز خواتین نے بھی شرکت کی.اس میں حضور نے بھی تقریر فرمائی جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی.اس میں حضور نے عورتوں کو وقت کی پابندی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.وقت بھی خدا تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.ہمارے ملک کا پرانا خیال یہی تھا کہ وقت کی پابندی نہ کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے.چنانچہ جتنے بڑے لوگ ہوتے تھے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو وقت کی پابندی سے معذور سمجھتے تھے لیکن آب دُنیا کا نظریہ بدل چکا ہے.دُنیا نے تجربہ سے معلوم کر لیا ہے کہ کسی کا بڑا ہونا اسے وقت کی پابندی سے آزاد نہیں کر دیتا بلکہ کسی شخص کے بڑا ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وقت کی زیادہ پابندی کرے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اوقات کی پابندی کیا کرتے تھے.آج مجھے یہ بات معلوم کر کے تعجب ہوا کہ اجلاس کا وقت پانچ بجے مقرر تھا حالانکہ کوئٹہ کے حالات کے مطابق عصر کی نما ز سوا پانچ بجے ہوتی ہے اس لئے اجلاس کا وقت کسی صورت میں چھ بجے سے پہلے مقرر نہیں ہونا چاہیئے تھا.آنے والی عورتوں نے بھی اپنی عادت کے مطابق اجلاس میں آنے کے لئے کچھ وقت لیا ہے.میں نے پانچ بجے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی بہت کم عورتیں آئی ہیں.یہ طریق غلط ہے.اس سے کام کرنے والوں کا بہت نقصان ہوتا

Page 136

128 ہے.کام کرنے والے لوگ تو وقت پر آجاتے ہیں مگر گھنٹہ بھر انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے.اس طرح ان کا دوسروں سے زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے.‘“ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک غذائی پہلو اور دوسرا فعّالی پہلو ہے.غذائی پہلو میں انسان غذا سے طاقت حاصل کرتا ہے اور فعالی پہلو سے حاصل کی ہوئی طاقت کو استعمال کرتا ہے.یہی حالت دین کی ہے.اس میں بھی ایک حصہ غذائی ہے جس میں نماز ، روزہ اور زکوۃ وغیرہ شامل ہے اور دوسرا فعّالی.اس کے متعلق حضور نے ارشاد فرمایا: ” پس ایک نصیحت میں تمہیں یہ کروں گا کہ تم رُوح کی غذائی حالت کو بہتر بناؤ.جس طرح تم چاہتی ہو کہ تمہارا جسم زندہ رہے.تم بیمار اور کمزور ہو جاتی ہو تو دوائیں کھاتی ہو.یخنی پیتی ہو، مقویات استعمال کرتی ہو.یا اگر کسی کا جگر خراب ہو تو وہ سبزیوں کا استعمال زیادہ کرتی ہے.اسی طرح اگر تمہاری روح کمزور ہے تو اس کی تقویت کا انتظام کرو.اگر صرف نماز سے سرور نہیں ہوتا تو ذکر الہی کرو.اگر صرف زکوۃ سے سرور پیدا نہیں ہوتا تو صدقہ خیرات کرو.پیٹ بھرنے کا آخر یہی قاعدہ ہے اگر دس لقموں سے پیٹ نہیں بھرتا تو پانچ لکھے اور کھاؤ.یہی روح کا حال ہے.اگر صدقہ سے رُوح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو اور صدقہ دو.اگر پانچ نمازوں سے روح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو چھ نمازیں پڑھو.اور اگر پھر بھی تازگی پیدا نہیں ہوتی تو سات نمازیں پڑھو نماز چھوڑ دینے سے روح تازہ نہیں ہوتی بلکہ نمازیں زیادہ پڑھنے سے رُوح میں تازگی پیدا ہوتی ہے.یہ روح کا ایک غذائی پہلو ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں.انسانی زندگی کا دوسرا پہلو فعالی ہے.انسان جو غذا کھاتا ہے اس سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور وہ کام کرتا ہے.اگر کوئی شخص کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹ رہے اور کوئی کام نہ کرے تو دیکھنے والے یہی کہیں گے کہ اس میں اپنے جسم سے صحیح کام لینے کا مادہ نہیں.اسی طرح یہ روحانی غذائیں ہیں.ان سے طاقت حاصل کر لینے کے بعد انسان کو اور کام بھی کرنا پڑتا ہے.جو شخص نماز پڑھکر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا.یا روزے رکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا ہے.یا صدقہ خیرات دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا وہ ایسا ہی بیوقوف ہے جس طرح وہ شخص ہے جو کہے کی میں نے روٹی کھالی.پانی پی لیا تو زندگی کا کام پورا کر لیا.کھانا پینا زندگی کے کام نہیں بلکہ اسے کام کے قابل بنانے کے لئے غذائیں ہیں.اسی طرح یہ روحانی کام بھی انسانی زندگی کا مقصود نہیں ، نہ جسمانی زندگی کا مقصود کھانا پینا ہے اور نہ روحانی زندگی کا مقصود نماز ، روزہ وغیرہ ہے.یہ دونوں سہارے ہیں ایک جسم کے

Page 137

129 لئے اور ایک روح کے لئے.ایک سے جسم کام کے قابل بنتا ہے اور دوسرے سے روح کام کے قابل بنتی ہے.جسم میں جب طاقت پیدا ہوتی ہے تو انسان نوکری کرتا ہے تجارت کرتا ہے اور دنیا کے دوسرے کام کرتا ہے.اسی طرح جب انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ مختلف کام کرتا ہے.وہ کام کیا ہیں ؟ وہ کام دو قسم کے ہیں.ایک تو اس کا کام مخفی ہوتا ہے اور وہ خدا تعالی کی محبت میں ترقی کرنا ہوتا ہے دوسرا کام انسانی دماغ کی اصلاح اور اس کے نتیجہ میں انسان ہل چلاتا ہے، تجارت کرتا ہے ،صنعت و حرفت کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے.انسان کے جسم میں طاقت ہو تبھی وہ اچھا سپاہی ، اچھا وکیل اور اچھا مدرس بن سکتا ہے.اسی طرح روحانی غذاؤں نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، اور ذکر الہی وغیرہ کے نتیجہ میں انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے اور اس طاقت کے نتیجہ میں اس کے اخلاق درست ہو جاتے ہیں.اس میں خدمت خلق کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور دوسروں سے بھی کرواتا ہے.مثلا جھوٹ نہیں بولتا اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی جُھوٹ نہ بولیں.وہ دوسروں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ دوسروں کو بھی تلقین کرتا ہے کہ وہ بھی دوسروں پر ظلم نہ کریں اس کے خیالات پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور وہ دوسروں کے خیالات کو بھی پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتا ہے.غرض اس کی روح رات دن حقوق کی اصلاح میں لگی رہتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ربوہ میں مستقل رہائش: اپریل ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ عارضی طور پر ربوہ تشریف لائے اور جلسہ کے بعد واپس لاہور تشریف لے گئے.اس کے بعد ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے لئے حضور ۱۹.ستمبر ۱۹۴۹ء کو ڈیڑھ بجے بعد دو پہر تشریف لائے اور ان عارضی کچے مکانوں میں سکونت اختیار فرمائی جو اس غرض کے لئے تعمیر کئے گئے تھے.حضور کے اس تاریخی سفر کی اہمیت کے پیش نظر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ لاہور سے ربوہ تشریف لائے اور آپ نے مکمل حالات قلمبند فرما کر الفضل میں شائع فرمائے ہے جب حضور کی کار دریائے چناب پر سے گزری اور پھر ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوئی تو حضور نے قرآن مجید کی یہ دعائیں پڑھنی شروع کیں جو ہجرت کے وقت آنحضرت علہ کوسکھائی گئی تھیں.ل الازهار لذوات الخمار صفحه ۴۴ - ۵۵ و صفحه ۵۴-۵۵، مصباح دسمبر ۱۹۵۰ء الفضل ۲۳ - ستمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۳

Page 138

130 رَبِّ ادْ خِلْنِي مُدْ خَلَ صِدْقٍ وَ اَخْرِ جُنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلُ لِي مِن لَّدُ نُكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.حضور کی کار ربوہ پہنچی تو مرد مکان کے باہر سائبان کے نیچے جمع تھے اور عورتیں مکان کے اندر تھیں.محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقامی بھی موجود تھے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے سابق ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، محترم مولانا ابو العطاء صاحب کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کے وکلا ء صاحبان بھی موجود تھے.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ کی زیر نگرانی عاجزہ کو بھی استقبال کے انتظامات میں حصہ لینے کا موقع ملا.اتفاقا وہ کاغذ میرے پاس محفوظ ہے جس پر ڈیوٹی کے لئے عورتوں کے نام لکھے تھے.ان ناموں کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے:.ا.محترمہ بیگم صاحبہ محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ۲- محترمه سیده بشری صاحبہ ۳ محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه ۴ محترمہ امته الرحمن صاحبہ عمر ۵ محترمه استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ۶- محترمہ امتہ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالرحیم صاحب در ولیش ۸- محترمه استانی سلیمہ صاحبہ ۹ محترمه استانی کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم نور احمد صاحب ۱۰.محترمہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالواحد صاحب محترمہ والدہ صاحبہ مولوی محمد صدیق صاحب ۱۲.محترمہ مائی نعمت بی بی صاحبہ ۱۳ محترمه استانی برکت بی بی صاحبہ اہلیہ محترم ٹھیکیدار اللہ یار صاحب

Page 139

131 ۱۴- محترمه استانی حمیده صابرہ صاحب بنت محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر ۱۵- محترمه مسعود و صاحبه بنت محترم چوہدری ابوالباشم خاں صاحب ۱۶ محترمہ حمیدہ صاحبہ والدہ برکت اللہ صاحب ۱۷.محترمہ سکینہ صاحبہ اہلیہ محترم قاضی دین محمد صاحب ۱۸ محترمه عزیزه صاحبه ۱۹ محترمه غفورن صاحبہ اہلیہ محترم سید احمد علی صاحب ۲۰ محترمہ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترم خدا بخش صاحب عرف مؤمن جی مرحوم ۲۱ محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ عرف لعل پری اہلیہ محترم خان میر خاں صاحب ۲۲.محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ والدہ محترم قاضی عبدالحمید صاحب در ولیش ۲۳.محترمہ امتہ السلام صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری صلاح الدین احمد صاحب ۲۴ محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم با بوفضل احمد صاحب ۲۵ محترمه بشری صاحبہ ۲۶.محترمہ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر مظہر الحق صاحب ۲۷.محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب حضور کی تشریف آوری کے موقع پر عورتوں نے وہ اشعار خوش الحانی سے پڑھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں ہجرت کے موقع پر مدینہ کی مسلمان لڑکیوں نے پڑھے تھے.اُن میں یہ اشعار بھی تھے.طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا ترجمہ:- مِنْ ثِنِيَّاتِ الْوِدَاع مَا دَعَالِلَّهِ دَاع یعنی چودھویں کا چاند ہم پر دواع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خدا کی طرف بلانے والا دُنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے.( ترجمعہ از حضرت مصلح موعودؓ ) وہ بڑا ہی عجیب نظارہ تھا خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ دل سے بے اختیار دعا ئیں جاری تھیں اس ل دیباچه قرآن مجید ار دو صفحه ۱۳۸

Page 140

132 موقع پر ربوہ کے مردوں اور عورتوں کی طرف سے صدقات بھی دیئے گئے.حضور کے دفتر کے علاوہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضور کی چاروں حرم کے لئے کچے مکان تعمیر کئے گئے تھے جن میں آپ قیام فرما ہوئے.دوپہر کا کھانا دارالضیافت کی طرف سے پیش کیا گیا اور شام کا اہلِ ربوہ کی طرف سے.کچھ دنوں کے بعد حضور پھر لاہور تشریف لے گئے کیونکہ حضور کی حرم اور جنرل سیکرٹری لجنہ مرکز یہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی بیمار تھیں اور ہسپتال میں داخل تھیں ان کے روبصحت ہونے پر حضور ان کے ہمراہ ے.نومبر ۱۹۴۹ء کور بوہ تشریف لائے.اس موقعہ پر الفضل نے لکھا کہ یہ گویار بوہ کی مستقل رہائش کی تکمیل کا دن تھا.“ 1 دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ میں : ستمبر ۱۹۴۷ء سے ستمبر ۱۹۴۹ء تک لجنہ کا دفتر (حضرت جنرل سیکرٹری صاحبہ کے عارضی قیام تک ) رتن باغ لاہورہی میں رہا اس کے بعد ربوہ میں حضور کے کچے مکانوں کے ساتھ دو کچے کمروں ایک چھوٹے برآمدہ اور صحن میں یہ دفتر قائم ہو گیا اور باقاعدہ کام شروع ہو گیا.محترمہ سراج بی صاحبہ کلرک تھیں جو ۲.فروری ۱۹۴۵ء کو دفتر لجنہ میں ملازم ہوئی تھیں.اس جلد کا بہت سا قیمتی ریکارڈ انہی کے لکھے ہوئے ریکارڈ سے حاصل ہوا ہے.یہ کچا دفتر لجنہ اماءاللہ نے اپنے خرچ سے تعمیر کروایا تھا.مسجد مبارک ربوہ کاسنگ بنیاد: ۳.اکتوبر ۱۹۴۹ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیا درکھا.ضلع امراء جماعت کے علاوہ نزدیکی مقامات کے بہت سے احمدی اس تقریب میں شامل ہوئے.عورتوں کے لئے پردہ کا انتظام تھا اور اس طرح ان کو بھی اس تاریخی اہمیت کی حامل بابرکت تقریب میں شامل ہونے کا موقع حضور نے عطا فرمایا.حضور کے ارشاد پر عورتوں کی پہلی دو صفوں میں علی الترتیب خواتین مبارکہ خاندان حضرت مسیح موعود اور صحابیات اور پھر مہاجرات قادیان کو کھڑا کیا گیا.سے الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ الفضل ۲۰.اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۳ کالم نمبر۴ الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۳

Page 141

133 تین اینٹیں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیگمات اور تین اینٹیں صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہاجرات نے پیش کیں.اس طرح ہر دفعہ سیمنٹ کی تغاری بھی دست بدست پہنچائی جاتی رہی.خاندان حضرت مسیح موعود کی بیگمات اور صحابیات سے حضور خود بہ نفس نفیس آگے بڑھ کر تغاری لیتے اور بنیا دوں تک لا کر استعمال فرماتے رہے لا لجنہ اماءاللہ امریکہ: بیرونی ممالک میں لجنات کی مساعی : ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو امریکہ کی احمدی جماعتوں کی دوسری سالا نہ کنوینشن منعقد ہوئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے خاص پیغام بھجوایا.اس پیغام میں حضور نے فرمایا تھا:.آپ اس عظیم الشان موقع کو جو کہ آپ کو خدا تعالی کا پیغام شروع میں ماننے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے آپ کو خدا تعالی کی خدمت میں لگا دیں.اگر کسی میں کوئی کمزوریاں ہوں تو ان کی نقل نہ کریں بلکہ آپ خدا تعالی کے کلام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں.“‘اس پیغام کے زیر اثر ایک امریکن نومسلم احمدی خاتون محترمہ علیہ علی صاحبہ سیکرٹری مال لجنہ اماءالل در یاست ہائے متحدہ امریکہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کا یہ نہایت ہی پیارا پیغام سننے کے بعد ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مزید قربانی کریں تا کہ یہ ظاہر ہو سکے کہ امریکہ کی احمدی نو مسلم عورتیں حضور کے ارشاد پر قربانی کے لئے تیار ہیں.اسی غرض سے ہم لجناتِ امریکہ مشن فوری طور پر ۵۲۵ ڈالر نقد حضور کی خدمت میں پیش کرتی ہیں.اخلاص کا یہ منظر نہایت روح پرور اور ایمان افروز تھا کہ ان نو مسلم مستورات نے جو بظاہر اسلام میں ابھی تک حدیث العبد تھیں قربانی کا شاندار نمونہ دکھایا ہے.امریکہ میں مرکزی لجنہ کا قیام: گوامریکہ کے بہت سے شہروں میں بجنات کا قیام ہو چکا تھا لیکن مرکزی صدر یا سیکرٹری کوئی نہ الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۴ الفضل ۶.اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۶ کالم نمبر۴

Page 142

134 تھی.ہر لجنہ کی عہدیدار اپنی رپورٹ بھجوا دیتی تھی.اس کنوینشن میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ امریکہ میں مرکزی لجنہ کا قیام کیا جائے چنانچہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ علیہ علی صاحبہ (انڈیانا پولیس ) منتخب ہوئیں لے لجنہ اماءاللہ نیروبی (مشرقی افریقہ ) لجنہ اماءاللہ نیروبی کا انتخاب مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مبلغ کی زیر نگرانی عمل میں آیا.آپ ہر اتوار کو احمدی عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیتے اور دس بچوں اور دس عورتوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ اور قاعدہ میسر نا القرآن پڑھاتے رہے.قیام لجنہ اماءاللہ لنڈن: جماعت احمد یہ لنڈن کے ۱۹۴۹ء کے سالانہ اجتماع میں لجنہ اماءاللہ کے قیام کا ریزولیشن پاس کیا گیا تھا چنانچہ اس کے مطابق ۱۱.دسمبر ۱۹۴۹ء کو مستورات کا اجلاس ہوا جس میں عہد یداران کا انتخاب عمل میں آیا اور اس طرح وہاں پر باقاعدہ لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی گئی.سے لجنہ لنڈن کے ابتدائی حالات: محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اس زمانہ میں امام مسجد لنڈن تھے.آپ کی اہلیہ محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ جو آپ کے ہمراہ تشریف لے گئی تھیں صدر لجنہ منتخب ہوئیں.نائب صدر محتر مہ اہلیہ صاحبہ محترم ڈاکٹر محمد رمضان صاحب، سیکرٹری ایک انگریز خاتون محترمه بنت ویلز صاحبه ، سوشل ورکر محترمہ حمیدہ سٹیڈ فورڈ اور سیکرٹری مال محترمہ مسز لسٹن تھیں.ماہانہ اجلاس ہوتے تھے.ایک دو دفعہ چھوٹا سا مینا بازار بھی لگایا گیا جس میں بہنیں اپنے سامان سے چیزیں بنا کر لاتیں اور اس کی آمد سے اخراجات پورے کئے جاتے.ایک دفعہ وسیع پیمانہ پر پارٹی دی گئی.بہت سی غیر مسلم خواتین کو بلایا گیا.شہزادی الزبتھ ( موجودہ ملکہ انگلستان ) کی شادی کی تقریب پر قرآن کریم انگریزی کی پہلی جلد محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بھجوائی.شہزادی موصوفہ نے اپنے دستی شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ وہ خواتین جماعت احمدیہ کے اس تحفہ کے انتخاب کو سراہتی ہیں.الفضل ۲.اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۴ الفضل ۱۹.نومبر ۱۹۴۹ء صفحه ۴ الفضل ۱۵.مارچ ۱۹۵۰ء صفحہ ۶

Page 143

135 عورتوں میں وقف زندگی کی تحریک : ۱۴.نومبر ۱۹۴۹ء کو خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا کہ عورتیں بھی اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں اور تبلیغ میں حصہ لیں کیونکہ مردوں کی نسبت عورتیں احمدیت کی تبلیغ میں زیادہ روک بن رہی ہیں.حضور نے فرمایا:.اگر عورت تبلیغ کرے گی تو دلائل پر بات آجائے گی اور ہمیں یقین ہے کہ اسلام دلائل میں غالب رہتا ہے مرد تبلیغ کرے گا تو جذباتی باتیں تبلیغ میں روک بن جائیں گی دلائل پر بات نہیں آئے گی...عورت مرد کے مقابلہ میں دلیل کو سوچتی نہیں اس لئے ہماری ہر دلیل بے کار جائے گی.لیکن یہی باتیں جب ایک عورت کے منہ سے نکلیں گی تو بات جذباتی رنگ میں ہی نہیں رہے گی بلکہ خالص عقلی رنگ اختیار کر جائیگی اور خالص عقلی رنگ میں یقیناً ہمارا پہلو غالب رہے گا.دوسرے عورتیں عورتوں میں تبلیغ کر کے انہیں اسلام کی طرف لے آئیں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ مرد گھروں میں بجائے مخالفت کے احمدیت کی تعریف سنیں گے اور اس طرح وہ احمدیت کے زیادہ قریب آجائیں گے.“ پھر حضور نے فرمایا کہ: جو عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں.جب وہ واقف زندگی مردوں سے شادی کریں گی تو عورت کو مقدم رکھتے ہوئے ہم اس کے خاوند کو بھی اُسی علاقہ میں لگادیں گے جہاں عورت کے کام کی زیادہ اہمیت ہوگی.يوم التبليغ : حضرت خلیقہ اسیح الثانی نے جماعت کو ہر سال یوم التملی منانے کی ہدایت فرمائی تھی.جہاں مرداس میں حصہ لیتے تھے وہاں عورتیں بھی لجنہ کے زیر انتظام یہ دن اہتمام کے ساتھ تبلیغ میں گزار تھیں.وفود کی صورت میں غیر از جماعت مستورات کے گھروں میں جاتیں زبانی تبلیغ کے علاوہ ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحه ۴۰ و الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۹ صفحه ۲

Page 144

136 لٹریچر کو تقسیم کرتیں اور جلسے کر کے کثیر تعداد میں غیر مذاہب کی عورتوں کو بلا یا جا تا اور تبلیغی مسائل پر تقریریں ہوتیں.کھانے پینے کی چیزوں سے تواضع کی جاتی.اس سال مندرجہ ذیل لجنات نے یوم التبلیغ اہتمام کے ساتھ منایا؟ جہلم.جڑانوالہ سیالکوٹ ۲.راولپنڈی.کوئٹہ سیرت النبی کے جلسے: اس سال مندرجہ ذیل لجنات نے ۲۶.نومبر ۱۹۴۹ء کو سیرت النبی کے جلسے منعقد کئے :.لجنہ ربوہ زیر صدارت حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ ھے لجنہ راولپنڈی زیر صدارت محتر مہ والدہ صاحبہ پیر صلاح الدین صاحب 1 لجنہ لاہور زیر صدارت محترمہ بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحب کے لجنہ سیالکوٹ زیر صدارت محترمہ بیگم صاحبہ صد صاحب ڈی سی سیالکوٹ A لجنہ بہلولپورضلع سیالکوٹ لجنہ کراچی ۱۰ پاکستان میں پہلی بار دستکاری کی نمائش : پاکستان بننے کے بعد ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلی بار لجنہ اماءاللہ کی صنعتی نمائش (جو قادیان میں لگائی جاتی تھی) لگائی گئی اور اس کی منتظمہ محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر مقرر کی گئیں.11 الفضل ۹ - اکتوبر ۱۹۴۹ ء صفحه ۳ و صفحه ۵ الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ ۵ الفضل ۱۷.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۷ کے الفضل ۱۸.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ الفضل ۱۸.اکتوبر ۱۹۴۹ء صفحه ۳ ۴_ الفضل ۲.نومبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ الفضل ۸.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۶ الفضل ۱۸.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۷ ا الفضل ۷.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ ال الفضل ۱۵.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲ و الفضل ۳.دسمبر ۱۹۴۹ء صفحه ۲

Page 145

137 دسمبر ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کی مختصر روداد: یہ جلسہ مورخہ ۲۶-۲۷ - ۲۸.دسمبر ۱۹۴۹ء کور بوہ میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر خطاب فرمایا.جلسہ میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے تحریک وقف زندگی“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.ان کے علاوہ عاجزہ امتہ اللطیف نے حصول قادیان کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیئے محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ نے "پردہ".حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے أَيْنَمَا تَكُونُوا يَا تِي بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ نے مصلح موعود کی پیشگوئی اور جماعت احمدیہ کی ترقی، محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ نے بعثت محمدیہ کا دوسرا دور اور محترمہ امتہ السلام صاحبہ نے اسلامی تمدن کے موضوع پر تقاریر کیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے آخری دن ” تنظیم لجنہ اماءاللہ کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر: ۲۷.دسمبر کے پہلے اجلاس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشریف لا کر مستورات سے خطاب فرمایا.حضور نے اپنی تقریر میں فرمایا:.آجکل ہمارے ملک میں پردے کے متعلق بحثیں ہورہی ہیں.قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے اور پردہ میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام نے کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کے لئے یہ رائے دی کہ آنکھیں اور ناک کا حصہ کھلا رکھ کر باقی سر چہرہ اور ٹھوڑی وغیرہ کا پردہ کریں.اسی طرح پنڈلیوں تک اپنا کپڑا اونچا کر کے کام کر سکتی ہیں کیونکہ وہ عورتیں اس کے بغیر کام نہیں کرسکتی تھیں.قرآن کریم کی آیت الا ما ظَهَرَ مِنْهَا سے بھی یہی پتہ چلتا ہے تو مغرب زدہ لوگوں میں آکر یہ کہنا کہ چہرہ کا پردہ نہیں غلط ہے.پردے کے متعلق موجودہ زمانے کی نسبت رسول کریم ﷺ اور صحابہ کے زمانہ میں زیادہ آزادی نظر آتی ہے.اُس زمانہ میں عورتوں سے لوگ علم سیکھتے تھے.مسائل کے متعلق جا کر دریافت کرتے تھے.پھر اُس زمانہ میں موجودہ بُرقعہ نہ تھا بلکہ چادر میں ہوتی تھیں.بُرقعہ تو

Page 146

138 اس وقت شروع ہو ا جب گاڑیاں ایجاد ہوئیں اس سے پہلے عورتیں چادریں اوڑھ کر آرام و تسلی کے ساتھ آہستہ آہستہ چل سکتی تھیں.مگر آب گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے عورت چادر اوڑھ کر تیزی سے نہیں چل سکتی اور نہ ہی وہ جلدی جلدی حرکت کر سکتی ہے اس لئے یہ بُرقعہ رائج ہوا.یورپ کے سفر سے واپس آکر میں نے پردے کے متعلق سوچا اور ایک تجویز بنا کر لجنہ اماءاللہ کو اس پر عمل کروانے کی تلقین کی مگر اس پر توجہ نہیں کی گئی.چنانچہ اب میں نے لاہور میں ایک درزی کو بلا کر بُرقعہ کا نقشہ پیش کیا اور ایسا بُرقعہ تیار کروایا ہے جو پردے کی اصل ضرورت کو پورا کر سکے.پہلے اسے چند عورتوں میں استعمال کروا کر دیکھا جائے گا اور پھر تمام جماعت میں رائج کیا جائے گا.اس کے بعد حضور نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ زمانہ نہایت جلد بدل رہا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے.ہم لوگ باتیں سُن تو لیتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے.مثلاً صفائی ہے.اس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے.ہم میں سادگی بھی ضروری ہے لیکن ایک حد تک صفائی کی بھی ضرورت ہے.مگر اب باتوں کا وقت نہیں عمل اور کام کا وقت ہے.یہ معمولی سی بات ہے جس پر سہولت سے عمل ہو سکتا ہے.یعنی صفائی کے متعلق اسلام نے بے حد تاکید کی ہے.میں بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں مگر ابھی تک اس حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا.بے شک سادگی ہمارے لئے ضروری ہے لیکن صفائی کی بھی ایک حد تک ضرورت ہے.گھروں کے اندر اور باہر ارد گرد کی جگہ ہر عورت ذمہ داری اُٹھا سکتی ہے.یہ کام مرد نہیں کر سکتے عورتوں کی توجہ سے یہ کام ہو سکتا ہے.راستوں پر گند کوڑا کرکٹ پھینکنا یا بچوں کو راستے پر پاخانے کروا دینا نہایت بُری بات ہے.اب غیر ممالک سے لوگ آرہے ہیں اور کثرت سے آئیں گے ان لوگوں نے تمہارا نمونہ دیکھنا ہے.ان میں دو قسم کے لوگ ہوں گے:.(۱) منافق طبع کے جو تمہارا گندہ نمونہ دیکھیں گے تو احمدیت کے لئے بدنامی کا باعث ہوں گے اور ٹھوکر کھا جائیں گے.(۲) مخلص مومن جو تمہارے ہر عمل کا نمونہ لیں گے اور اس پر عمل کریں گے.پس ایک کو تم مرتد کرو گے اور دوسرے کو گندہ کرو گے.میں لجنہ اماءاللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقار عمل کے ذریعہ یہ بات عورتوں کو سکھائے تا کہ وہ غیر قوموں میں سے آنے والوں کے لئے نیک نمونہ پیش کر سکیں.ساتھ ہی میں عورتوں کو تعلیم کی طرف

Page 147

139 توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر اسلامی اخلاق اور اطوار پیدا کرو.دینی تعلیم سیکھنے سے یہ اخلاق و اطوار پیدا ہو سکتے ہیں.تم اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی اور تغیر پیدا کرو اور باہر سے ہزاروں آنے والوں کو سکھانے کے لئے خود سیکھ کر اپنے آپ کو تیار کرو.لجنہ کو اب ہوشیار ہو جانا چاہیئے.اسلام اور گھر کی لڑائی ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ تم تمہاری مائیں، بہنیں ،لڑکیاں ، مرد اور بچے پوری طرح اس میں شامل نہ ہوں.دشمن سمجھتا ہے کہ میرے حملے کے لئے ایک عظیم الشان دروازہ کھلا ہے وہ دروازہ عورت ہے جسے گھر کی دہلیز کہا جاتا ہے.لجنہ کو چاہیئے کہ وہ عورتوں میں بیداری پیدا کرے قربانی کی رُوح جماعت میں موجود ہے صرف عورتوں کوان کی ذمہ داری سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.جلسہ کے انتظامات : جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۹ء کے موقع پر پہلی مرتبہ مستورات کے لئے لنگر خانہ کا علیحدہ انتظام کیا گیا جس میں نمایاں کامیابی ہوئی.مجموعی طور پر کام میں بہت سہولت رہی.مستورات نے اپنی لیاقت حسنِ کارکردگی اور تنظیمی صلاحیت کا نہایت خوشکن مظاہرہ کر کے ثابت کر دکھایا کہ لجنہ اماءاللہ کی زیر نگرانی تربیت حاصل کرنے والی مستورات نظم و ضبط میں اعلیٰ معیار پر پہنچ چکی ہیں.عورتوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی.اگر چہ لنگر خانہ کا انتظام مردوں کے ہاتھ میں تھا لیکن مستورات منتظمین کی زیر ہدایت ہی اس کے جملہ انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچے تھے.وہ اپنی ضرورت کے مطابق کھانا تیار کرواتیں اور پھر اسے مہمان مستورات میں ایک خاص انتظام کے ماتحت تقسیم کراتی تھیں.مستورات کے لئے ایک علیحدہ لنگر خانہ کا انتظام ایک نیا تجربہ تھا جو بفضلہ تعالی خاطر خواہ طور پر کامیاب ثابت ہوا ہے اِس سال بھی سٹور جلسہ سالانہ خواتین کے لئے سامان جمع کرنے کی تحریک کی گئی چنانچہ دو تھان کھڈ ردستر خوانوں کے لئے لجنہ کوئٹہ نے.کراچی نے ۲۴ بالٹیاں ، لالٹینیں اور دستر خوان.لجنہ لاہور نے ۶۴ بالٹیاں اور ۵۲ چمچے کھانا نکالنے کے بھجوائے.ان کے علاوہ چک نمبر ۱۲۷ ساہیوال.لالیاں.سیالکوٹ.بہلولپورضلع سیالکوٹ قصور.راولپنڈی.چنیوٹ.لائل پور.دوالمیال.چک ۹۶ گ.ب شورکوٹ.شیخ پور ضلع گجرات.چک نمبر ہ ضلع سرگودہا.حافظ آباد.جھنگ.چک نمبر ۶۵ ۵ ضلع لائلپور لے رجسٹر کا روائی لجنہ اماءاللہ ۱۹۴۹ء ے رجسٹر قیامگاہ جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء

Page 148

140 چک نمبر ۳۷ ضلع سرگودھا.ملتان چھاؤنی.اور حمہ.کھاریاں.ننکانہ صاحب.جڑانوالہ.لودھراں.چک ۶۴۴ چکوال.بھیرہ.حیدرآباد سندھ.لاٹھیا نوالہ گولیکی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی لجنات نے فراہمی سٹور میں حصہ لیا.حضور کا ارشاد جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء کے موقع پر حضور نے عورتوں کو چند قابلِ توجہ امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سادگی اور خصوصاً صفائی کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ میں لجنہ اماءاللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقار عمل کے ذریعہ یہ بات عورتوں کو سکھائے تا کہ وہ غیر قوموں میں سے آنے والوں کے لئے نیک نمونہ پیش کر سکیں اے رہائش کا انتظام: عورتوں کی رہائش کا انتظام علیحدہ کیا گیا تھا چنانچہ چار ہزار عورتوں کو ایک صد خیموں میں نصرت گرلز ہائی سکول اور اس کے توسیع شدہ احاطے میں ٹہرایا گیا.خیموں کے گرد بیر کیں تعمیر کر کے پردے کا انتظام کر دیا گیا تھا.یہاں قادیان کی طرح نرم و گرم کسیر تو دستیاب نہ ہو سکی لیکن بچھانے کے لئے دب کافی تعداد میں مہیا کر دی گئی جس سے مہمانوں نے کافی آرام اُٹھایا ہے جلسہ سالانہ کے اختتام پر کارکنات سے حضور کا خطاب اور الوداعی دُعا: جلسہ کے اختتام پر ۲۸.دسمبر کی رات کو بوقت عشاء دعا ہوئی.دعا کروانے کی درخواست حضرت امیر المومنین کی خدمت میں کی گئی جو حضور نے از راہ نوازش منظور فرمائی اور دعا سے قبل حضور نے کارکنات کو مخاطب کر کے قیمتی نصیحت فرمائی.آپ نے فرمایا:.مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے مہمانوں نے بھی اس دفعہ کام میں حصہ لیا ہے.باہر سے آنے والی مہمانوں کو چاہیئے کہ وہ ضرور کام میں حصہ لیں.ایمان کا تقاضا ہے کہ جب ثواب کا موقع ملے تو ضائع نہ کیا جائے.صحابہ ہمیشہ ثواب کے موقع کے شائق رہتے تھے.جنازہ ہو چکنے کے بعد عموماً دوست رہ جاتے ہیں باقی سب لوگ چلے جاتے ہیں.ایک دفعہ جنازہ کے موقع پر ایک صحابی نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی کہ جنازہ پڑھنے والے کو ا الفضل ۲۰.جنوری ۱۹۵۰ ء صفحه ۵ الفضل ۱۳.جنوری ۱۹۵۰ء صفهیم

Page 149

141 ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے اور قبرستان تک ساتھ جانے والے کو دو قیراط کے برابر.اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر.تو لوگوں نے کہا کہ آپ نے یہ حدیث پہلے کیوں نہ سُنائی ہم نے نامعلوم کتنے اُحد پہاڑ تو اب ضائع کیا.اور پھر رسول صلے اللہ علیہ وسلم کی بیویاں میدانِ جنگ میں پانی پلاتی تھیں.ہم نے دُنیا فتح کرنی ہے تم میں بیداری پیدا ہونی چاہئے تا کہ تم پر دوسری بہنیں رشک کریں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے زمین فروخت کی.جس کے پاس فروخت کی اس زمین میں سے ایک گھڑا ملا جو سونے سے بھرا ہوا تھا.وہ اُس شخص کے پاس لے گیا جس سے زمین خریدی تھی کہ یہ تمہارا سونا ہے تم لے لو.اُس نے کہا کہ میں نے زمین تمہارے پاس بیچ دی تھی اب یہ بھی تمہارا ہے.یہاں تک کہ اب دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی اور لڑائی تک نوبت پہنچی اور معاملہ قضا میں گیا.قاضی نے کہا کہ تم میں سے ایک کا بیٹا اور دوسرے کی بیٹی ہو تو آپس میں شادی کر دو اور یہ سونا اس میں خرچ کر دو (اس وقت کی کوئی عورت ہوتی تو کہتی دستی ناں ) ممکن ہے آئندہ تم میں بھی آپس میں کام کرنے میں ایک دوسری پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو اور میرے پاس رپورٹ آئے کہ سب میزبان ہیں مہمان کوئی نہیں.اس کے بعد حضور نے لمبی دُعا فرمائی.کارروائی شوری نمبر ۴ زیر انتظام لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ۲۷.دسمبر ۱۹۴۹ء: ۲۷.دسمبر ۱۹۴۹ء بوقت ساڑھے آٹھ بجے شب زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر لجنہ اماءاللہ کی شوریٰ منعقد ہوئی جس میں علاوہ ممبرات مجلس عاملہ کے مختلف شہروں کی مندرجہ ذیل ۵۷ لجنات کی نمائندگان نے شرکت کی:.ا.ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع لائل پور۲.ماڈل ٹاؤن لاہور ۳.لوہان ضلع سیالکوٹ ۴.سیالکوٹ ۵.چک ۵۶۵ ضلع لائل پور ۶.لاٹھیا نوالہ ضلع لائل پورے.راولپنڈی ۸.لاہور ۹.گولیکی ضلع گجرات ۱۰.کراچی ۱۱ منٹگمری ۱۲- چک نمبر ۹ ضلع سرگودھا ۱۳.شیخ پور ضلع گجرات ۱۴- چک ۳۶۷ ضلع لائکپور ۱۵.حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ۱۶ مردان ۱۷.حیدر آباد سندھ ۱۸- چک ۳۷ جنوبی ضلع سرگودہا ۱۹.گھسیٹ رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ ۱۹۴۹ء

Page 150

142 پورہ ضلع لائل پور ۲۰ - چک ۱۲۷.آر بی ضلع لائل پور ۲۱.ملتان چھاؤنی ۲۲.پشاور ۲۳.شاہدرہ ۲۴ قصور ۲۵.لالیاں ضلع جھنگ ۲۶.چنیوٹ ۲۷.کوئٹہ ۲۸.چونڈہ ضع سیالکوٹ ۲۹ - چک ۶۴۴ ضلع لائل پور ۳۰.دنیا پور ضلع ملتان ۳۱ شیخو پوره ۳۲- گوجر ہ۳۳.پسر ور۳۴.کھاریاں ۳۵.لائل پور ۳۶.عارف والا ضلع منٹگمری ۳۷.بھیرہ ۳۸ جہلم ۳۹.سرگودہا ۴۰.جھنگ ۴۱.چک ۳۳ ضلع سرگود ہ ۴۲.ادرحمہ ضلع سرگودہا ۴۳.دوالمیال ضلع جہلم ۴۴- چک ۸۸ ضلع لائکپور ۴۵.ننکانه ۴۶.ملتان شہر ۴۷.پنڈی چری ضلع شیخو پوره ۴۸.شادیوال ضلع گجرات ۴۹ - گوجرانواله ۵۰ - بدوملہی ۵۱.چہور مغلاں ضلع شیخو پوره ۵۲ - احمد نگر جھنگ ۵۳ - تهال ضلع گجرات ۵۴.شورکوٹ ضلع جھنگ ۵۵.چک ۹۶گ.بضلع لائل پور ۵۶ گھٹیالیاں ۵۷.سماعیلہ فیصلہ جات کی تفصیل یہ ہے:.تجویز ایجنڈا نمبر :.پارٹیشن کے بعد مشرقی پنجاب کی تمام اور ہندوستان کی بہت سی لجنات ختم ہوگئی ہیں.ان لجنات کی ممبرات پاکستان میں آکر آباد ہوگئی ہیں لیکن آباد ہونے کے بعد انہوں نے انی لجنہ کو منظم نہیں کیا اور نہ ہی نی جگہ پر کوئی لجنہ قائم کی.اس لئے ضروری ہے کہ ضلع وار لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی جائے.اگر یہ قدم اٹھایا تو بہت جلد تمام مغربی پنجاب اور پاکستان کے اضلاع میں لجنات قائم ہو جائیں گی.اس کے لئے تین ماہ کا وقت مقرر کیا جائے اور ہر ضلع کی لجنہ کوشش کرے کہ ضلع کی ہر تحصیل وقصبہ اور گاؤں میں لجنہ قائم ہو جائے اس کے لئے ان کو سارے ضلع کا دورہ کرنا پڑے گا.فیصلہ:.سوائے ضلع جھنگ کے باقی تمام اضلاع نے وعدہ کیا.جھنگ کے ضلع کی تنظیم کا فیصلہ مرکزی لجنہ کے سپر د ہوا.نیز خرچ کا سوال پیش ہوا کہ کیا اس کا خرچ مرکز پر پڑے گا.بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ یہ خرچ مرکز پر نہیں بلکہ مقامی لجنات پر ہی پڑے گا خواہ اس کے لئے ہنگامی چندہ کریں خواہ ماہوار چندہ کے نصف حصہ میں سے جو ہر لجنہ رکھتی ہے اس خرچ کو پورا کریں.تجویز نمبر ۲:.پچھلی شوری پر دفتر لجنہ اماءاللہ کے لئے ہیں ہزار روپیہ تحریک ہوئی تھی لیکن افسوس ہے کہ اس تحریک پر لجنات نے اس جوش سے لبیک نہیں کہا جس طرح وہ دوسری تحریکوں میں حصہ لیتی رہی ہیں.اس وقت تک صرف مندرجہ ذیل لجنات نے اس چندہ میں حصہ لیا.اس تحریک کو کامیاب بنایا جائے:.

Page 151

143 یمنٹگمری -۲- کراچی - شیخو پوره -۴ راولپنڈی ۵.گوجرانوالہ ۶.بہلولپور چک نمبر ۱۲۷ ۷.پسرور ۸ میانی -۹ - حافظ آباد ۱۰ چک نمبر ۳۰ ۱۱- دوالمیال ۱۲.لائل پور ۱۳.بہلول پور ضلع سیالکوٹ ۱۴.حیدر آباد سندھ ۱۵ احمد نگر ۱۶.سماعیلہ ۱۷.ماڈل ٹاؤن لاہور ۱۸ محمود آباد سندھ ۱۹.قصور ۲۰ کوئٹہ ۲۱ - چونڈہ ۲۲- چک نمبر ۳۰ منٹگمری ۲۳- چک نمبر ۱۹۵ لائل پور ۲۴.لاہور ۲۵ - چک نمبر ۵۶۵ ۲۶.جھنگ ۲۷.گھسیٹ پوره ۲۸.کھاریاں ۲۹.ملتان ۳۰ گولیکی ۳۱.چنیوٹ ۳۲- چک نمبر ۸۸ ۳۳.سیالکوٹ ۳۴.مردان ۳۵.ٹو بہ ٹیک سنگھ ۳۶.چانگریاں مانگا ۳۷- چک نمبر ۳۳ جنوبی ۳۸ تلونڈی کھجور والی ۳۹.چک ۳۷ ج.ب ضلع سرگودہا ۴۰ چک نمبر ۹ سرگودہا ۴۱ محمود آباد سٹیٹ -۴۲.راولپنڈی فیصلہ: تمام ان لجنات نے جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا وعدہ کیا کہ جلد از جلد اس چندہ کو ادا کریں گی نیز جونئی لبنات قائم ہوئی ہیں ان کے ذمہ رقم ڈالی جائے.تجویز نمبر ۳:.امتہ الحی لائبریری کے دوبارہ قیام کے لئے تین ہزار روپے کی تحریک پیش کی گئی جس پر ۵۲ لجنات نے./۲۱۷۱ روپے کے وعدے لکھوائے.تجویز نمبر ۴:.خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی طرح لجنہ اماء اللہ کا بھی ایک سالانہ اجتماع ہوا کرے.اس میں تقاریر کے مقابلے تبلیغی مباحثے اور مکالمے وغیرہ رکھنے چاہئیں تا کہ ہم لوگوں کو ٹرینینگ ملے.بعینہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی طرح نہیں بلکہ مستورات کے لئے جو مناسب اور موزوں ہو وہ طریق اختیار کیا جائے.فیصلہ:.دو تجاویز پیش ہوئیں.ایک تو یہ کہ جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل یا ایک روز بعد اجتماع رکھا جائے دوسری یہ کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے دنوں میں ہی.کیونکہ عورتیں اکیلی سفر نہیں کر سکتیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے لئے مرد آئیں گے ان کے ساتھ عورتیں بھی آسکتی ہیں.آخری تجویز متفقہ طور پر منظور قرار پائی.لیکن اس فیصلہ پر عمل کئی سال بعد ۱۹۵۶ء میں کیا جاسکاج بلجنہ اماءاللہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوالا لے رجسٹر رپورٹ لجنہ اماءاللہ

Page 152

144 تقریب شادی سیده بشری صاحبہ محترمہ سیدہ بشری صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب اپنی قابلِ رشک والدہ محترمہ حضرت سیده ام داؤد صاحبہ کی نگرانی میں لجنہ کے کاموں میں بڑے شوق اور محنت و جانفشانی سے حصہ لیتی تھیں.قادیان پھر رتن باغ لاہور اور پھر ربوہ میں آکر آپ لجنہ مرکزیہ کے اہم شعبوں کا کام کرتی رہیں.آپ کی شادی ۳۰.دسمبر ۱۹۴۹ء کو محترم میجر سید سعید احمد صاحب سے ہوئی.نکاح حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ کے تیسرے دن ۲۸.دسمبر کو دوسرے اجلاس میں پڑھا.آپ ان دنوں لجنہ اماءاللہ لاہور کی جنرل سیکرٹری ہیں.آپ کی شادی پر ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے جو ایڈریس پیش کیا گیا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بَاركَ اللهُ لَكَ بَارِكَ اللهُ لَكَ وَ بَارِكْ عَلَيْكُمَا وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرِهِ خطاب بتقریب شادی خانہ آبادی محترمه سیده بشری بیگم صاحبه بتاریخ ۳۰.دسمبر ۱۹۴۹ء بمقام ربوہ ہماری واجب الاحترام بہن! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته سب سے پہلے ہم اپنے اس محسن حقیقی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے آج ہمیں آپکی خوشی کا یہ دن دکھایا جسے ہمیشہ سے شادی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.فالحمد لله ثم الحمد لله.آج اس خوشی کے دن ہمارے دل خوشی اور رنج کے دوہرے جذبات سے پر ہیں.خوشی اس بات کی ہے کہ آپ آج ایک نئے گھر کو آباد کرنے جارہی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آپ اس وقت ہم سے جد اہورہی ہیں.پس جذبات کی فراوانی کی وجہ سے اس وقت ہم اپنی زبان کے ساتھ اپنے قلم کو بھی گنگ پاتے ہیں.خدا تعالی کی باریک حکمتوں کے ماتحت ابتدائے آفرنیش سے دُنیا میں

Page 153

145 شادی کا یہ مبارک سلسلہ چلتا چلا آیا ہے اور خدا نے چاہا تو آئندہ بھی اور ابد الآباد تک جاری رہے گا.آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ کی وادی غیر ذی زرع میں جب ایک شخص عبد اللہ نامی نے ایک عورت آمنہ سے شادی کی تو کون کہ سکتا تھا کہ اس شادی کے نتیجہ میں ایک ایسا موتی نکلے گا جو دنیا کی کایا پلٹ دے گا.اور اس تعلق کے نتیجہ میں ایک ایسا جو ہر دستیاب ہوگا جو کہ پیدائش انسانی کا واحد مقصود تھا.خدا کرے آج مکہ مکرمہ کی مانند اس وادی غیر ذی زرع میں ہونے والی یہ شادی بھی ویسی ہی برکات کی حامل ہو اور اس مبارک تعلق سے ویسے ہی نیک نتائج پھر ایک دفعہ اہلِ دُنیا کے لئے ظاہر ہوں.آمین.ہماری محترم بہن! ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ شروع سے لجنہ اماءاللہ کی سرگرم کارکن رہی ہیں اور اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کو جس قدر خدمات بجالانے کی سعادت عطا فرمائی ہے وہ واقعی قابل صدر شک ہے.سچ ہے...اس سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده آپ کی مساعی اور تعاون ہمیشہ ہمارے لئے مفید اور کارآمد نتائج پیدا کرتی رہی ہیں.جماعت کی مستورات کی تنظیم اور تعلیم و تربیت میں ہماری راہ میں جو بھی مشکل آئی اس میں آپ کے مشورہ اور راہ نمائی نے بہت ہی فائدہ دیا.ہم آپ کی ان شبانہ روز خدمات کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتے اور دلی خلوص کے ساتھ یہی دعا کرتے ہیں.جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنُ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - ہماری دلی خواہش ہے کہ جس طرح شادی سے پہلے آپ لڑکیوں کے لئے قابل تقلید نمونہ پیش کرتی رہی ہیں اسی طرح شادی کے بعد سہاگنوں کے لئے بھی اُسوہ حسنہ ثابت ہوں.اس وقت زندگی کے جس نے عملی میدان میں آپ قدم رکھ رہی ہیں اس میں ہماری دلی دعا ئیں اور خدائی فرشتے آپ کے مددگار ہوں.اس مبارک تقریب پر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ میں در ددل کے ساتھ یہ دعا کرتے ہیں کہ ے با برگ و بار ہوویں، اک سے ہزار ہوویں روز کر مبارک ، سبحان من میرانی

Page 154

146 آج کی اس مبارک ساعت پر ہم دلی خلوص کے ساتھ آپ اور آپ کے تمام متعلقین کی مبارک ہو یہ شادی ، خانہ آبادی مبارک ہو خدمت میں یہ دُعا کرتے ہوئے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ والسلام ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ربوه ۳۰.فتح ۱۳۲۸ھ ربوہ میں شادی کی پہلی تقریب: مورخہ ۱۲،مارچ ۱۹۴۹ء کو محترم مرزا عبدالحمید صاحب ہیڈ کلرک نظارت بیت المال ربوہ کی صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.اُن کی شادی محترم مرزا سلطان بیگ صاحب ابن محترم مرزا عمر بیگ صاحب آف قادیان سے ہوئی.یہ ربوہ کی سرزمین میں شادی کی پہلی تقریب تھی.کارکنات قیام گاہ جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۹ء دسمبر ۱۹۴۹ء کے جلسہ سالانہ کے انتظامات میں مندرجہ ذیل خواتین نے حصہ لیا:.ناظمہ نائبه حضرت سیّدہ اُمم دا و دصاحبہ محترمه سیده بشری صاحبہ قیام گاہ کے دوھتے تھے.سکول اور بیرکس سکول کی نگران محتر مہ رقیہ بیگم صاحبہ بی.اے، بی.ٹی معاونه محترمہ صاحبزادی امته الجمیل صاحبه ( وارڈز ) بیر کس کی نگران محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبه شعبہ جات کی نگران حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہ العالی انسپکٹرس محترمه استانی حمیده صابرہ صاحبہ محترمه محمدی بیگم صاحبہ مولوی فاضل منتظمہ اجرائے پرچی محترمہ صاحبزادی امته النصیر بیگم صاحبه انچارج دفتر ناظمه عاجزہ امتہ اللطیف محترمہ سعیدہ احسن صاحبہ الفضل ۲۷.مارچ ۱۹۴۹ء صفحہ ۶

Page 155

147 معاونات محترمہ اللہ رکھی صاحبہ محترمہ حشمت صاحبہ بیر کس کے پانچ حصے کئے گئے اور ہر ایک کی الگ الگ منتظمہ مقرر کی گئی.وارڈ نمبرا منتظمہ محترمہ امتہ اللہ صادق صاحبہ وارڈ نمبر ۲ منظمه محترمه امتہ المجید صاحبه وارڈ نمبر ۳ منتظمه محترمه سیده بیگم صاحبه معلمه وارڈ نمبر ۴ منتظمه محترمه استانی منظور فاطمه صاحبه وارڈ نمبر ۵ منتظمه محترمه استانی امته الرشید صاحبه طبعی امداد محترمہ طاہرہ عمر صاحبہ محترمہ ہاجرہ صاحبہ نرس حفاظت و انکوائری حضرت سیدہ ام وسیم صاحب سٹور روشنی محترمہ اہلیہ صاحبہ حکیم فضل الرحمن صاحب - محتر مہ والدہ شوکت صاحبہ محترمہ صاحبزادی امتہ المجید صاحبه منظمه کارکنات محترمه استانی آمنہ بیگم صاحبہ بنت محترم ولی محمد صاحب منتظمه مهمان خاص محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ منظمه استقبال محترمہ فاطمہ صالح محمد صاحبه محترمه مسعوده بیگم صاحبه منتظمہ ملاقات محترمه مبارکه شوکت صاحبہ محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ تقسیم روٹی محترمہ امتہ الفيوم معتبر صاحبہ محترمہ والدہ بلقیس صاحبہ تقسیم سالن محترمه استانی برکت صاحبہ محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ محترمہ رضیه در دصاحبه آب رسانی محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ محتر م امینہ بیگم صاحبہ واعظه مہمان خانہ محترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ واعظہ سکول محترمہ امته الرشید شوکت صاحبه

Page 156

148 ۱۹۵۰ء لجنہ اماءاللہ کا اٹھائیسواں سال تعمیر مسجد مُبارک ہالینڈ کے لئے چندہ کی تحریک.دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد ● ربوہ سے ماہنامہ مصباح کا اجراء امتہ الحی لائبریری کا احیاء کاروان لجنہ اماءاللہ اپنی ستائیس منزلیں پوری کر کے ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں ہے.یہ سال لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں کئی لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے.اس سال حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار پھر احمدی مستورات کو یورپ میں ایک مسجد اپنے چندوں سے بنانے کی تحریک فرما کر عظیم الشان احسان فرمایا.الحمد للہ یہ مسجد مکمل ہو چکی ہے جو ہیگ (ہالینڈ) میں احمدی مستورات کی قربانیوں کی زندہ مثال ہے.اس سال کا دوسرا اہم واقعہ ربوہ میں دفتر لجنہ اماءاللہ کی بنیاد کا رکھا جانا ہے جس سے لجنہ کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے.تقسیم ملک کے وقت سخت نا مساعد حالات میں سے احمد یہ جماعت کو گزرنا پڑا مگر اس کے باوجود ہجرت کے قریباً تین سال بعد ہی احمدی مستورات کو ربوہ میں اپنا دفتر بنانے کی توفیق مل گئی.اس فضل الہی کو دیکھ کر ایک طرف تو ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف حضرت فضل عمر کے احسانات کو یا دکر کے آپ کی بلندی درجات کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جن کی قدم قدم پر راہنمائی اور ہدایت کے ماتحت لجنہ اماءاللہ کو اپنا دفتر بنانے کی توفیق ملی.

Page 157

149 اس سال کا تیسرا اہم واقعہ ہجرت کے بعد ربوہ سے مستورات کے ماہنامہ رسالہ مصباح کا احیاء ہے جو خدا کے فضل سے اب تک کامیابی کے ساتھ جاری ہے.یہ پہلا رسالہ ہے جور بوہ سے شائع ہونے لگا.باقی تمام اخبارات و رسائل بعد میں یہاں سے شائع ہونے لگے ہیں.عہد یداران ۱۹۵۰ حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ اُم داؤ د صاحبہ نائبه صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیّدہ ام وسیم صاحبہ ماہانہ جلسوں کی نگران حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ مدظلہا سیکرٹری خدمت خلق محترمه سیده امته الباسط بیگم صاحبه سیکرٹری تربیت واصلاح محترمه سیده محمودہ بیگم صاحبه سیکرٹری تعلیم محترمہ صفیہ ثاقب صاحبه نائبہ سیکرٹری تعلیم محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری شعبه مال محترمه استانی حمیده صابرہ صاحبہ نائبہ سیکرٹری شعبه مال محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ مدیرہ رسالہ مصباح محترمہ امته الرشید شوکت صاحبه سیکرٹری تبلیغ محتر مہ امته الرحمن مومن جی صاحبہ نائبہ سیکرٹری تبلیغ محترمہ امته اللطیف صاحبه سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مسجد مبارک بیگ (ہالینڈ): اسلام کا عالمگیر غلبہ آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مقد رتھا اور اس غلبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارتیں دی گئی تھیں.سب سے بڑا مقابلہ اسلام کا آپ

Page 158

150 کے اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں عیسائیت سے ہوا اور ہر میدان میں عیسائیت کو پسپا ہونا پڑا یہ مقابلہ تلواروں یا ظاہری آلات حرب سے نہیں ہوا بلکہ دلائل و براہین کے رُوحانی ہتھیاروں سے ہوا جن سے اسلام کو زندہ مذہب، آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندہ نبی اور قرآن مجید کو زندہ کتاب ثابت کیا گیا.اللہ تعالی کا وعدہ تھا کہ آپ کو خود ایسے سامان عطا کرتا چلا جائے گا جو اس غلبہ کے دن کو قریب لانے کا موجب ہوں گے.اللہ تعالی نے آپ کو دیگر نشانات کے ساتھ ساتھ ایک فعال اور قربانی دینے والی جماعت بھی عطا کی جس میں مرد بھی ہیں عورتیں بھی اور بچے بھی انہوں نے ہر قربانی کے موقع پر اپنی جان مال سب کچھ اسلام کی خاطر قربان کر دیا.انہی قربانی دینے والی خواتین میں ان مستورات کا نام بھی سر فہرست آتا ہے جنہوں نے اپنے آقا کے ارشاد پر جو کچھ ان کے پاس تھا پھر ایک بار رضائے الہی کی خاطر پیش کر دیا جنہیں اللہ تعالی نے حضرت مصلح موعود کی قیادت میں ایک بار پھر انہیں یہ تو فیق عطا فرمائی کہ وہ کفرستان میں نعرۂ توحید بلند کرنے کے لئے خانہ خدا کی تعمیر کر سکیں.اس مسجد ( جس کا نام بعد میں مسجد مبارک تجویز کیا گیا) کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ۱۹۵۰ء میں ہوئی.سب سے پہلے وکیل المال ثانی کی طرف سے اس کا اعلان مندرجہ ذیل الفاظ میں الفضل میں کیا گیا:.مَنْ بَنِى لِلَّهِ مَسْجِدًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ خدا کا گھر بنانے والے کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر بنائے گا.احمدی بہنوں کی خدمت میں احباب کے لئے یہ اطلاع مسرت کا باعث ہوگی کہ واشنگٹن (امریکہ ) اور ہیگ (ہالینڈ ) میں مساجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے زمین خرید لی گئی ہے.ہر دو جگہوں پر خانہ خدا کی تعمیر انشاء اللہ جلد شروع ہو جائے گی.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کا منشاء ہے کہ جس طرح لندن مسجد کی تعمیر میں احمدی مستورات نے حصہ لیا تھا اسی طرح یہ مساجد بھی صرف احمدی بہنوں کی قربانی سے تعمیر کی جائیں.اس لئے حضور کے ارشاد کے ماتحت اعلان کیا جاتا ہے کہ احمدی بہنیں ان ممالک میں مسجد

Page 159

151 کی تعمیر کے لئے دل کھول کر حصہ لیں.لجنات اماءاللہ ہر جگہ منظم کوشش کریں اور جلد سے جلد اپنے اپنے شہر اور گاؤں کے وعدوں کی مکمل فہرستیں حضور کی خدمت میں بھجوا دیں.چونکہ روپیہ کی فوری ضرورت ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ وعدوں کی رقوم جلد از جلد ادا کر دی جائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی بہن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مصلح موعود کا ارشاد سُنتے ہی مستورات نے اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے لبیک کہا.یہ وہ زمانہ تھا کہ جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی.جماعت کی اکثریت ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی ان نا مساعد حالات میں عورتوں کا ایک مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینا ایک ایسی قربانی ہے جو زندہ جاوید رہے گی اور اس نے آئندہ قربانیاں دینے کے لئے بھی ان میں ایک نئی روح اور عزم پیدا کر دیا.سب سے پہلا جلسہ اس غرض کے لئے ۲۰.مارچ کو چار بجے منعقد کیا گیا.اس جلسہ میں مستورات ربوہ نے ۲۵۰۰ روپے کے قریب وعدہ جات لکھوائے ہے اس سے پہلے جلسہ کے وعدہ جات کی تفصیل وکیل التمال صاحب تحریک جدید کی طرف سے الفضل میں شائع کی گئی ہے جن خواتین کے وعدہ جات تھے انہوں نے بھی بعد میں جب مسجد کے چندہ کے مطالبہ میں اضافہ کیا گیا اپنے چندہ کو بڑھا دیا تھا.دوسری فہرست وکیل المال صاحب کی طرف سے الفضل ۲۱ مئی ۱۹۵۰ء صفحہ نمبر ۶ پر شائع کی گئی.مسجد ہیگ کے لئے چندہ کی تحریک کرنے اور وعدہ جات حاصل کرنے کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی کی منظوری سے وکیل المال صاحب تحریک جدید نے ۲۱ مئی ۱۹۵۰ کا دن مقرر کیا اور لجنات کو تحریک کی اور اعلان کیا کہ ہالینڈ میں مسجد کے لئے زمین کا انتظام کیا جا رہا ہے اس کے لئے ایک لاکھ روپے کی فوری ضرورت ہے.ہے ۱۲ مئی ۱۹۵۰ء کوحضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے ربوہ میں خطبہ جمعہ میں مسجد ہالینڈ کی تحریک خود فرمائی.آپ نے پہلے مسجد واشنگٹن (امریکہ ) کے چندہ کا ذکر فرمایا پھر مسجد ہالینڈ کے چندہ کا ذکر کرتے ہوئے عورتوں کے چندہ کی رفتار پر اظہار اطمینان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:.ل الفضل ۵،۳- مارچ ۱۹۵۰ء صفحه ۶ الفضل ۳ مئی ۱۹۵۰ء صفحه ۶ ۲ مصباح اپریل ۱۹۵۰ء صفحه ۲۱ الفضل ۱۳ مئی ۱۹۵۰ء صفحه ۶

Page 160

152 و, دوسری تحریک مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی ہے.کہتے ہیں عورتوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا لیکن شاید ان کا دل بڑا ہوتا ہے.مردوں نے ڈیڑھ لاکھ روپیدا کٹھا کرنا ہے اس وقت تک صرف پونے بارہ ہزار کے وعدے ہوئے ہیں.اور عورتوں نے ساٹھ ہزار روپیہ جمع کرنا ہے مگر اس وقت تک ان کے پونے سترہ ہزار کے وعدے ہیں.گویا عورتوں کے وعدے مردوں سے ڈیڑھ گنا ہیں.میرے پاس جو چندہ کی رپورٹیں آتی ہیں اُن میں دس میں سے نو جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں عورتوں کا چندہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے.بہر حال ہالینڈ کو بھی یہ فوقیت حاصل ہے کہ انڈونیشیا آزاد ہو گیا ہے.پس اب ان دونوں ملکوں کی آپس میں دوستی کے تعلقات بڑھتے جائینگے اور ڈچ کامن ویلتھ میں انڈونیشیا کے شامل ہونے کی وجہ سے چونکہ مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوگی اس لئے ڈچ مسلمانوں کی طرف مائل ہوں گے اور ممکن ہے کہ ہالینڈ اسلام کا مرکز بن جائے اِس لئے وہاں کی مسجد بھی ایک اہم مسجد ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس چیز کا خیال جانے دیں کہ ان پر کتنے بوجھ ہیں وہ ہمیشہ بوجھ کے نیچے رہیں گے.دُنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں رہا جس پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا.جس انسان پر کرئی بوجھ نہیں ہوتا وہ خود بوجھ بنالیا کرتا ہے.مثلاً امیر لوگ ہیں وہ یہی بوجھ بنا لیتے ہیں کہ کہیں ڈا کہ نہ پڑ جائے اور وہ لٹ نہ جائیں.پس بوجھ سے مت ڈرو بلکہ یہ دیکھو کہ تمہاری زندگیوں میں کتنے بڑے کام سرانجام پا جاتے ہیں.تم اپنی اس مختصر زندگی میں اور پھر اس سے بھی زیادہ مختصر دولت اور اقتصاد میں اگر کوئی عظیم الشان کام کر جاتے ہو تو تمہاری زندگی نا کام زندگی نہیں ہوتی بلکہ تمہاری زندگی کامیاب زندگی ہوتی ہے جس پر بڑے بڑے لوگ جن کو بظاہر دولت اور اقتصاد حاصل ہوتا ہے حسد کرتے ہیں یا رشک کرتے ہیں اور یا نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.حضور کے اس خطاب سے ظاہر ہے کہ مسجد کی تحریک پر ابھی صرف دو ماہ گزرے تھے کہ پونے سترہ ہزار روپے کے وعدے آچکے تھے.لاہور کی لجنہ اماءاللہ نے ۲۱ مئی کو مسجد احمد یہ بیرون دہلی دروازہ میں مسجد ہالینڈ کے چندہ کی تحریک کی غرض سے ایک خاص اجتماع منعقد کیا ہے.ا الفضل ۱۸ مئی ۱۹۵۰ء صفحه م الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۰ء صفحه ۷

Page 161

153 مسجد ہالینڈ کی تحریک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے طبع کرا کے تمام لجنات کو بھجوائی گئی اور ماہ اپریل کے آخر تک مندرجہ ذیل لجنات اس چندہ میں اپنے وعدہ جات پیش کر چکیں تھیں:.ربوہ لالیاں.مگھیانہ.چنیوٹ ضلع جھنگ ضلع لائلپور جڑانوالہ چک نمبر ۶۴۴ گ ب کتھو والی چک نمبر ۳۱۲.چک نمبر ۶۹.گھسیٹ پورہ.لاٹھیا نوالہ.چک نمبر ۱۹۴.جھنڈا نوالہ نمبر ۱۹۵ رکھ.منڈی تاندلیانوالہ ضلع سرگودہا سرگودہا.چک نمبر ۳۵ ج - چک نمبر ۴۶.بھیرہ ضلع سیالکوٹ سمبڑیال.لوہان.بدوملہی.بہلول پور.چونڈہ ضلع گوجرانوالہ گوجرانوالہ گجو چک.تلونڈی کھجورہ والی.مدرسہ چٹھہ ضلع شیخو پوره ننکانہ صاحب.بہوڑ و چک نمبر ۱۸ ضلع گجرات گولیکی.شادیوال خورد.نورنگ.گھیڑ.درحمہ ضلع لاہور حلقہ سول لائن ضلع مانتان ملتان شہر.خانیوال ضلع منٹگمری منٹگمری.اوکاڑہ سندھ مسن باڑہ پشاور شہر راولپنڈی سرحد ہندوستان حیدرآباددکن.بھاگلپور.مظفر نگر.یو پی.مشرقی پاکستان چٹا گانگا چندہ کی وصولی کیلئے عورتوں کی جد و جہد جاری تھی کہ حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن ہیگ نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ مسجد ہیگ (ہالینڈ) کے لئے زمین خرید لی گئی ہے.مسجد ہیگ کے لئے جو قطعہ خریدا گیا ہے وہ تبلیغی لحاظ سے نہایت ہی عمدہ اور با موقع جگہ پر واقعہ ہے.اس علاقہ میں نہ میں گھلے گھلے مکان اور کشادہ سڑکیں ہیں اور ہیگ میں سب سے اچھا علاقہ شمار ہوتا ہے...الفضل ۲۰.جولائی ۱۹۵۰ صفه ۲ لے مصباح مئی ۱۹۵۰ صفحه ۳۲

Page 162

154 اس زمین کے خریدے جانے پر حافظ قدرت اللہ صاحب نے مندرجہ ذیل خط ہالینڈ کے اخبارات سوسائٹیوں اور اداروں کو ارسال کیا.ہم اس خط کے ذریعہ آپ کو یہ خبر دیتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ہالینڈ کی مسجد کے لئے زیر تجویز قطعہ زمین کا سودا مکمل ہو چکا ہے.اللہ تعالی کے فضل سے یہ مسجد ہالینڈ میں پہلی مسجد ہوگی جو کہ ہیگ میں تعمیر کی جائے گی.اس مسجد کی تعمیر جماعت احمدیہ ( جو اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے ) کے نام حضرت مرزا بشیر (جو الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کی زیر ہدایات ہوگی.اس وقت جماعت احمدیہ کے مشن قریباً دنیا کے تمام ممالک میں قائم ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں.اس وقت جماعت احمد یہ بیرونی ممالک میں جو مساجد تعمیر کروا چکی ہے ان میں سے لنڈن اور واشنگٹن کی مساجد قابلِ ذکر ہیں.احباب کی دلچسپی کے لئے یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ امریکہ کی مسجد کے لئے مرد چندہ دیں گے اور ہالینڈ کی مسجد کے لئے عورتیں.جماعت احمدیہ (جس کا موجودہ مرکز ربوہ پاکستان ہے ) کی بنیاد حضرت احمد علیہ السلام کے ذریعہ رکھی گئی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ میں دنیا کی راہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا تھا.ہماری خواہش صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد، محبت اور دوستی پیدا کرنا ہے.لہذا ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مسجد ہالینڈ یہاں کے رہنے والوں اور تمام دُنیائے اسلام کے رہنے والوں کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کا موجب ہو.اللہ تعالیٰ ہماری حقیر کوششوں کو نوازے اور اس کی رضا کا موجب ہوں.احباب کرام دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیل کی توفیق بخشے اور اسے بہتوں کی ہدایت کا موجب بنائے.آمین.مسجد ہالینڈ کی تحریک کے دس ماہ گزرنے پر ماہ دسمبر میں محترمہ جنرل سیکرٹری صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اس وقت تک ۳۰ ہزار روپے چندہ جمع ہوا ہے ہے جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے مردانہ جلسہ گاہ میں تقریر ا الفضل ۳ اگست ۱۹۵۰ء صفحه ۲ ۲ مصباح ماہ دسمبر ۱۹۵۰ء صفحه ۴۱

Page 163

155 فرماتے ہوئے جہاں مردوں کو مسجد واشنگٹن کے چندہ کی طرف توجہ دلائی وہاں مستورات کو مسجد ہالینڈ کے چندہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.”میں نے چند ماہ ہوئے مسجد واشنگٹن اور مسجد بیگ کی تحریک کی تھی.جب میں نے مسجد لنڈن کی تحریک کی تھی اس وقت جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے دس گنا کم تھی اور میں نے چندہ کی عورتوں میں تحریک کی تھی جن کی آمد بالعموم مردوں سے نصف ہوتی ہے پھر بھی انہوں نے ساٹھ ستر ہزار روپیہ چندہ دے دیا تھا.اب جبکہ ہماری تعداد دس گنا زیادہ ہوگئی ہے ہم ان نیک کاموں میں سستی کیوں دکھائیں.ہمیں ہرا ہم جگہ پر ہی نہیں ہر جگہ پر مسجدیں بنانا ہوں گی تاہم ان لوگوں کو جو ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے یہ بتاسکیں کہ کیا یہ کام غیر مسلمانوں کے ہیں.اس چندہ میں صرف پاکستان کی خواتین نے ہی حصہ نہ لیا بلکہ ہر ملک کی احمدی خواتین نے اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لیا.مثلاً محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء کے موقع پر ۲۶.دسمبر کو اپنی تقریر میں انگلستان کے مشن کے حالات سُناتے ہوئے فرمایا کہ ہیگ اور واشنگٹن کی مساجد کے لئے تو ایک انگریز احمدی خاتون نے ہی ایک سو پاؤنڈ چندہ دے دیا ہے احمدی خواتین بیرون پاکستان میں سے انگلستان کے علاوہ بور نیو.طہورا.نیروبی کولمبو.شام.کستموں.امریکہ.ہالینڈ.ماریشس.تہران.کماسی.ممباسہ.ٹانگا نیکا.غانا.دارالسلام.کویت.سعودی عرب.بحرین.نائیجیریا.عدن.مسقط.دمشق اور ہندوستان کی رہنے والی خواتین نے اس مسجد کے چندہ میں حصہ لیا.جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء کے بعد اس چندہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی.چنانچہ ایک ماہ میں ہی دو ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا اور فروری ۱۹۵۱ ء تک مسجد کا کل چندہ بتیس ہزار روپیہ جمع ہو چکا تھا.سے اس زمانہ میں ممبرات لجنہ اماءاللہ پر ربوہ میں اپنے دفتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی کافی مالی بوجھ تھا اس کے باوجود لجنہ اماءاللہ نے مسجد ہالینڈ کے چندہ کو جلد از جلد جمع کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اظہار خود حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۴.دسمبر ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا:.ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی.انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ ۱۰۰ والفضل ۲.جنوری ۱۹۵۱ صفحه ۳ ۲ الفضل ۲.جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۲ الفضل ۳.فروری ۱۹۵۱ء

Page 164

156 ثبوت دیا ہے.گو ان کی تحریک بھی چھوٹی تھی.عورت کی آمدن ہمارے ملک میں کوئی ہوتی ہی نہیں.اگر اسلامی قانون کو دیکھا جائے تو عورت کی آمد مرد سے آدھی ہونی چاہیئے کیونکہ شریعت نے عورت کے لئے آدھا حصہ مقرر کیا ہے اور مرد کے لئے پورا حصہ.پس اگر مردوں نے چالیس ہزار روپیہ دیا تھا تو چاہیئے تھا کہ عورتیں ہیں ہزار روپیہ دیتیں.مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر مردوں نے ایک روپیہ چندہ دیا ہے تو عورتوں نے سواروپیہ کے قریب دیا ہے.انہوں نے زمین کی قیمت ادا کر دی ہے اور ابھی چھ سات ہزار روپیہ ان کا جمع ہے جس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی.پھر یہ چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ لجنہ کا دفتر بنانے کے لئے بھی انہوں نے چودہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا.اس سے یہ نتیجہ نکتا ہے کہ جتنا جتنا کسی کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے اتنا ہی اس کا حوصلہ زیادہ ہوتا ہے.مردوں کے پاس چونکہ روپیہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان کا حوصلہ کم ہوتا ہے.لیکن عورتوں کے پاس چونکہ روپیہ کم ہوتا ہے اس لئے وہ کہتی ہیں کہ روپیہ تو یوں بھی ہمارے پاس ہے نہیں چلو جو کچھ ملتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں ہی قربان کر کے اس کی رضا حاصل کریں.مگر جس کے پاس روپیہ ہوتا ہے وہ کہتا ہے میرا افلاں کام بھی پڑا ہے اس کے لئے مجھے دس روپے چاہئیں.فلاں کام پڑا ہے اس کے لئے ہیں روپے چاہئیں.غرض ہمارا تجربہ ہمیشہ یہی بتاتا ہے کہ عورت اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرتی ہے اور مرد اپنی توفیق اور ہمت سے کم قربانی کرتا ہے.بے شک ایسے مرد بھی موجود ہیں جو اپنی توفیق اور ہمت سے بہت زیادہ قربانی کرنے والے ہیں.لیکن اگر اکثریت کو دیکھا جائے تو عورت کا پلہ بھاری نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جب خاص قربانی کی ضرورت ہوا کرتی تھی تو آپ عورتوں سے ہی اپیل کیا کرتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ عورت جذباتی ہوتی ہے جب قربانی کرنے پر آجائے تو وہ غیر معمولی طور پر قربانی کر جاتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کو کچھ ضرورت پیش آئی تو آپ نے عید کی نماز کے بعد عورتوں میں تحریک کی اور انہوں نے اپنے زیوراتار کر چندہ میں دینے شروع کر دیئے.یوں تو عورت کو سب سے زیادہ زیور ہی پسند ہوتے ہیں کیونکہ وہی اس کی جائیداد ہوتے ہیں.لیکن جب اسے جوش آجائے تو پھر وہ اسی زیور کو جو اُ سے محبوب ہوتا ہے اُتار کر پھینک دیتی ہے.عورتوں نے اس طرح کیا اور زیور اتار اُتار کر دینے شروع کر دیئے.مگر چونکہ اکثر غریب عورتیں تھیں اس لئے ان کے پاس کم قیمت زیور تھے.کسی نے چھلہ دے دیا کسی نے مُر کی دیدی اور کسی نے اسی قسم کی کوئی اور چیز دے دی.

Page 165

157 ایک صحابی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیورا کھٹے کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ جھولی پھیلائے ادھر ادھر پھر رہے تھے اور عورتیں گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھیں.اتنے میں ایک امیر گھرانے کی لڑکی نے سونے کا کڑا اپنے ہاتھ سے اُتارا اور اس کی جھولی میں ڈال دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ اس نے بڑی بھاری رقم خدا تعالی کی راہ میں دے دی ہے تو آپ نے فرمایا تیرا دوسرا ہاتھ بھی درخواست کرتا ہے کہ تو اسے دوزخ سے بچا.اس پر اُس نے اپنا دوسرا کڑا بھی اُتار کر دے دیا.تو عورتوں میں میں نے دیکھا ہے کہ ان میں قربانی کا مادہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے.کچھ جذباتی ہونے کی وجہ سے اور کچھ یہ خدائی قانون ہے کہ روپیہ جتنا کم ہو اتنی ہی ہمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور جتنا زیادہ روپیہ ہو اتنے ہی تشکرات زیادہ ہو جاتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہو جائے فلاں کام بھی ہو جائے.چونکہ عورت کے پاس روپیہ کم ہوتا ہے اس لئے وہ قربانی میں مردوں سے آگے نکل جاتی ہے لیکن اس واقعہ کو بدلنا بھی ہمارے اختیار میں ہے بے شک واقعہ یہی ہے کہ عورتیں زیادہ قربانی کرتی ہیں.جلسه سالا نہ ۱۹۵۱ء کے موقعہ پر بعض وجوہات کی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کے جلسہ میں تقریر نہ فرمائی بلکہ مردانہ جلسہ گاہ سے ہی بذریعہ آلہ نشر الصوت عورتوں سے خطاب فرمایا.۲۷.دسمبر کو تقریر فرماتے ہوئے حضور نے عورتوں کو مسجد ہالینڈ کے چندہ کی رفتار کو تیز کرنے کی طرف توجہ دلائی.یہ اقتباس بتاتا ہے کہ جلسہ سالانہ تک مستورات چھیالیس ہزار روپیہ چندہ جمع کر چکی تھیں:.حضور نے فرمایا: ”مجھے زیادہ فکر عورتوں کے ذمہ جو مسجد ہالینڈ لگائی گئی ہے اس کا ہے.اس میں ابھی بہت سی کمی باقی ہے.میں نے جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے.مردوں کے ذمہ واشنگٹن کی مسجد لگائی گئی ہے اور اس کا خرچ مسجد بنا کر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمہ کام لگایا تھا مسجد ہالینڈ کا اس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملا کر کوئی اتنی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے انہوں نے اپنے اسی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے یعنی پچاس فیصدی دیا ہے.اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مکان کو اس وقت تک ایک احمدی کے پاس گروی سمجھیں یوں تو انہوں نے قرض دیا ہوا ہے لیکن یہ بہر حال اس مکان کے لئے دیا ہوا ہے اس الفضل ۲۰.دسمبر ۱۹۵۱ء صفحه ۵ کالم نمبر ۱-۲

Page 166

158 لئے اسے گروی سمجھو.اس کے ساتھ وہاں کے مبلغ کی طرف سے اصرار ہورہا ہے کہ پچھلا قرضہ ادا کرو اور آگے کے لئے مسجد کی تیاری کرو.پس ممکن ہے یہ مکان گرد ہی رکھنا پڑے.لیکن مسجد ہالینڈ کی طرف سے میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کی توجہ دلانے کی اتنی ضرورت نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس مختصر تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اس نیک کام کو تکمیل تک پہنچادیں گی.میں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے اپنی اس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھولنا.اس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے.ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا تیں ہزار کے قریب تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اس سے کم نہیں دیتے.پس زمین کی قیمت مل کر نوے ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہوگا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اس وقت تک ادا کر چکی ہیں.اس زمانہ میں مسجد ہالینڈ کی وصولی کی فہرستیں بہت ہی شاذ شائع ہوئی ہیں.جماعت کی مالی حالت بھی کمزور تھی.عورتوں پر مسجد کے علاوہ اپنے دفتر کی تعمیر کی بھی ذمہ داری تھی اس لئے چندہ کی وصولی خاطر خواہ نہ تھی.صرف لجنہ اماءاللہ کی ایک رپورٹ جو الفضل (۱۸.جولائی صف۷ ) پر شائع ہوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک لجنہ لا ہور - /۱۶۸۰ روپے مسجد ہالینڈ کے لئے ادا کر چکی تھی.جلسه سالانہ ۱۹۵۲ء کے موقعہ پر ۲۷.دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے مردانہ جلسہ گاہ سے ہی مستورات کو خطاب فرمایا ( بعض حالات کی وجہ سے مناسب نہ سمجھا گیا کہ حضور زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لاکر خطاب فرمائیں) اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کی وصولی کی طرف لجنہ اماءاللہ کو توجہ دلائی.آپ نے فرمایا:.عام تقریر شروع کرنے سے قبل میں مستورات کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارے ذمہ مسجد ہالینڈ کی تعمیر کا چندہ ہے.اسی طرح لجنہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی قرضہ ابھی باقی ہے تمہیں اس بوجھ کو اُتارنے کی کوشش کرنی چاہیئے.تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی کی ہی جنس بنایا ہے.ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں محنت اور قربانی کے جو نظارے ل الازها رلذوات الخمار حصہ دوم صفحه ۱۳۳

Page 167

159 عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ تو انسانی دل کو کپکپا دیتے ہیں.مرد بھی بیشک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح خدائیت کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہئیے اور اپنے ذمے جو چندہ اور فرائض ہیں انہیں پورا کرنا چاہیئے.جلسه سالانہ ۱۹۵۳ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھر مسجد ہالینڈ کے چندہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.ایک اور تحریک میں نے عورتوں میں مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی کی تھی.اس چندہ میں پہلے سال تو عورتیں مردوں سے بڑھ گئیں.بعد میں چونکہ مردوں والی تحریک کو ایک وسیع رنگ دے دیا گیا اس وجہ سے عورتوں نے اس اثناء میں اپنا ہال بھی بنایا جس کی مردوں کو اب تک توفیق نہیں ملی.میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں عورتوں کو ہالینڈ کی مسجد کے لئے چندہ کی پھر تحریک کروں.اس چندہ میں اس وقت تک ۵۲ ہزار کے قریب روپیہ آچکا ہے اور اندازہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کا ہے گویا تریسٹھ ہزار روپیدا بھی باقی ہے.میں عورتوں میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے اسے بھی پورا کر لیں.اور مجھے امید ہے کہ وہ پورا کریں گی.عورت جب ارادہ کر لیتی ہے تو بسا اوقات اس کا عزم مردوں سے بڑھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ ایسا ہی بنایا ہے کہ باوجود بعض لحاظ سے کمزور ہونے کے متواتر اور مسلسل قربانی کے میدان میں مردوں سے آگے ہوتی ہے.پس مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اس چندہ کو بھی پورا کریں گی.لجنہ اماءاللہ کا ہال بھی اس طرح تعمیر ہو ا تھا کہ اس کے چندہ میں جو کمی تھی اُسے ہم نے قرض لے کر پورا کیا اور بعد میں عورتوں نے اپنا چندہ پورا ادا کر کے اس قرضہ کو اُتار دیا.در حقیقت قرض کو اتارنے کی یہ مثال بھی عورتوں نے ہی قائم کی ہے.لجنہ اماءاللہ کی آٹھویں شوری ۲۷.دسمبر ۱۹۵۳ء کی رات کو منعقد کی گئی.اس شوری میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کی روشنی میں جو حضور نے مستورات کو دی تھیں مسجد ہالینڈ کے لئے مزید چندہ جمع کرنے کے سوال پر غور کیا گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ مسجد پر خرچ کا اندازہ ہے جس میں سے دسمبر ۱۹۵۳ء تک باون ہزار روپیہ چندہ آچکا تھا مزید تریسٹھ ہزار روپیہ کے ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحه ۱۳۴۰، الفضل ۳۱.دسمبر ۱۹۵۲ء صفحه ۳ ل الازهار لذوات الخمار صفحه ۱۴۸،۱۴۷، مصلح ۵.جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۲-۳

Page 168

160 متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ عورتیں ہمت کر کے اسے پورا کرلیں.جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو بتایا تھا کہ کل چندہ مسجد ہالینڈ کو چھیالیس ہزار روپیہ ہوا ہے.گویا ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں صرف چھ ہزار روپیہ مستورات نے جمع کیا تھا.اس کی وجہ عورتوں کی سستی نہ تھی بلکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ مسجد کے لئے پہلے مطالبہ ہی ساٹھ ہزار روپے کا کیا گیا تھا اور دوسری وجہ دفتر لجنہ اماءاللہ کی تعمیر تھی جس پر اسی ہزار کے قریب خرچ آیا.بیک وقت دو چیزوں کی طرف عورتوں کو توجہ کرنی پڑی.چنانچہ اس شوری پر کثرت رائے سے یہ قرار پایا کہ جس طرح دفتر لجنہ کے چندہ کو تین سال کے عرصہ میں پھیلا دیا گیا تھا اسی طرح اس چندہ کو بھی تین سال کے عرصہ پر پھیلا دیا جائے اور ہر سال ۲۱ ہزار کی رقم جمع کی جائے چنانچہ ۳۰ لجنات کی نمائندگان نے جو شوری میں موجود تھیں آئندہ سال کے لئے اسی وقت اپنے وعدے لکھوائے جن کی میزان -/ ۷۷۳۵ روپے بنتی تھی لے تمام سال لجنہ اماءاللہ مرکز یہ بار بار اعلانات اور عہد یداروں کو خطوط اور سرکلرز کے ذریعہ توجہ دلاتی رہی.جلسہ سالانہ پر 9 ماہ گزرنے کے بعد جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ اس عرصہ میں مسجد ہالینڈ کا چندہ مزید سات ہزار چھ سو روپے جمع ہوا ہے اور صرف ۱۹ الجنات نے اس وقت تک اس چندہ میں شمولیت کی ہے.جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے مستورات کو پھر اس چندہ کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.عورتوں کے لئے جو ان کا خصوصی فرض مقرر کیا گیا ہے میں اس کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں اور وہ مسجد ہالینڈ ہے.ہالینڈ کی مسجد کا بناناعورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس فرض کو عورتوں نے اس تندہی سے ادا نہیں کیا جس طرح کہ وہ پہلے ادا کیا کرتی تھیں.مسجد ہالینڈ کا سا را چندہ اس وقت تک غالباً ساٹھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہوا ہے لیکن اس کے اوپر جو خرچ کا اندازہ ہے وہ جیسا کہ میں نے پچھلے سال بیان کیا تھا قریباً ایک لاکھ دس ہزار روپے کا ہے بلکہ اب تو کچھ اور وتیں پیدا ہوگئی ہیں یعنی جو آرچی ٹیکٹ (ARCHITECT) تھا اس نے اپنا نقشہ دیتے ہوئے ے رپورٹ مجلس شوری لجنہ اماءاللہ ، مصباح فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۵ مصباح اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ۲۴

Page 169

161 لکھ دیا کہ ساٹھ ہزار میں مسجد بنے گی.جب دوسرے ماہرین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نوے ہزار لگے گا.اب اگر ان کا اندازہ صحیح ہو تو تو ے ہزار یہ اور تمیں ہزار کی زمین ہے ایک لاکھ بیس ہزار ہوا.پھر جو گرانی وغیرہ پر خرچ ہوگا پانچ چھ ہزار اس کا بھی اندازہ لگا لو.پانچ چھ ہزار فرنیچر کالگا لوتو ایک لاکھ میں ہزار بن گیا.اس لحاظ سے بھی قریب ستر ہزار کی رقم کی ضرورت ہے.مجھے ابھی چلتے وقت دفتر نے رپورٹ بھجوائی ہے کہ سارے سال میں عورتوں سے اکیس ہزار روپیہ مانگا گیا تھا اور انہوں نے نو ہزار جمع کر کے دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے منتظمین میں بھی کسی قدر سستی پائی جاتی ہے یا یہ کہو کہ ان کو کام کرنے کا طریقہ نہیں آتا.جو ان سے پہلے لوگ گزرے ہیں وہ کام کروالیتے تھے لیکن موجودہ عہدہ دار جو پچھلے سال سے بدلے ہیں کام کروا نہیں سکتے لیکن ہانپتے ضرور ہیں کہ ہم نے اتنا کام کیا اور یوں لوگوں میں شور مچایا لیکن بہر حال شور مچانا وہی کارآمد ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ بھی نکلے.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ کام کرنے والے کے طریق کار میں کوئی نقص ہے.مثلاً لجنہ ہے لجنہ نے اپنا ہال وغیرہ بنا لیا ہے اور اس پر انہوں نے پچاس ہزار کے قریب روپیہ لگایا ہے وہ آخر جمع ہو گیا کہ نہیں.اور وہ روپیہ انہوں نے اس صورت میں اکٹھا کیا ہے جبکہ ابھی مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتیں دے رہی تھیں.جب وہ ان سے ایک مقامی ہال کیلئے ایک دو سال میں اتنی رقم جمع کر سکتی تھیں تو وہ مسجد جو کہ نسلوں تک عورتوں کا نام بلند کرنے اور ان کے ثواب کو زیادہ کرنے کا موجب ہو سکتی تھی اس کے چندہ کے جمع کرنے میں وہ کیوں کامیاب نہیں ہوسکتیں.یقینا کام کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے اور کم سے کم مجھ پر یہی اثر ہے.بڑا ذریعہ ہمارے ہاں اشتہارات کا اور لوگوں کو توجہ دلانے کا اخبار ” الفضل“ ہوتا ہو مگر میں نے تو ” الفضل میں کبھی ایسی شکل میں یا اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں پڑھا کہ جس سے مجھ پر یہ اثر ہوا ہو کہ صحیح کوشش کی جارہی ہے.پس میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ان کے ذمہ اسی ہزار روپیہ پورا کرنا ہے.اور اب تو مسجد کے نقشے وغیرہ بن گئے ہیں اور کچھ مقدمہ بازی بھی شروع ہو گئی ہے کیونکہ آرچی ٹیکٹ (ARCHITECT) نے کہا ہے کہ تم نے کئی نقشے بنوائے ہیں سب کی قیمت دو اور ہمارے آدمی کہہ رہے ہیں کہ جو نقشے کام نہیں آئے ان کی قیمت کیوں دیں.اب اس نے نالش کر دی ہے اور اس نے وہاں کی عدالت کے سمن ربوہ میں بھجوائے ہیں حالانکہ اس سے معاہدہ تو مقامی امیر یا امام نے کیا تھا.اس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ نہ تحریک وہاں پہنچے گی اور نہ عدالت میں اپنا جواب دے گی اور یک طرفہ ڈگری ہو جائے گی.اگر وہ مسجد

Page 170

162 جلدی سے بننا شروع ہو جائے تو پھر سوال حل ہو جاتا ہے.دراصل وہاں قاعدہ یہ ہے کہ آرچی ٹیکٹ کا نقشہ اگر رڈ کر دیا جائے تو اس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس زمین کو جس پر مکان بنوایا جاتا ہے نیلام کروا کے اپنی قیمت وصول کرلے اور یہی اس کی غرض ہے.اگر اس پر مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تو پھر کسی کو جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کے نیلام کا سوال اُٹھائے کیونکہ وہ تو خدا کا گھر ہو گیا.اور وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ساری دُنیائے اسلام میں شور مچ جائے گا.پس اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کا جلد ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ وہ جگہ محفوظ ہو جائے اور آئندہ کسی کو شرارت کرنے کا موقعہ نہ ملے.گویا اختتام سال ۱۹۵۴ ء تک مسجد ہالینڈ کی مد میں ۰۰۰، ۶۱ چندہ آچکا تھا.گوابتداء میں جتنا مطالبہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو چکا تھا لیکن چونکہ اس وقت عمارت پر خرچ اور زمین کی قیمت کا صحیح اندازہ تھا بعد میں خرچ بڑھ جانے کی وجہ سے مطالبہ بھی بڑھ گیا.چنانچہ ۲۷ اور ۲۸.دسمبر ۱۹۵۴ء کی درمیانی شب زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر لجنہ اماءاللہ کی نویں شوری منعقد ہوئی اس میں بھی اس چندہ کو پورا کرنے پر غور کیا گیا اور محترمہ جنرل سیکرٹری صاحبہ لجنہ اماءاللہ نے نمائندگان کو تاکید کی کہ جلسہ سے واپس جا کر اپنی اپنی لجنہ اماءاللہ کا جائزہ لے کر چندہ مسجد ہالینڈ کی وصولی کا انتظام کریں اور فرمایا کہ:.گزشتہ سال بہنوں نے اکیس ہزار روپیہ چندہ جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ یہ چندہ تین سال میں پھیلا کر ختم کیا جائے لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اکیس ہزار کا وعدہ کر کے دورانِ سال میں چندہ صرف 9 ہزار دیا ہے.گویا بہنوں نے گزشتہ سال کے بقایا جات بھی ادا کرنے ہیں اور اس سال کا چندہ بھی دینا ہے.تمام لجنات کی عہدہ دار اطلاع دیں کہ گزشتہ سال ان کا کتنا وعدہ تھا اور کس قدر اُنہوں نے ادا کیا.اور سال رواں کے لئے وہ کتنا وعدہ کرتی ہیں.جلد سے جلد اپنا وعدہ بھجوائیں اور اس کی وصولی کا بھی انتظام کریں نیز اگر بقایا ہو تو اس کی ادائیگی کا بھی انتظام کریں.جلسہ سالانہ کے بعد سال ۱۹۵۵ء کا لائحہ عمل سرکلر کے ذریعہ تمام لجنات کو بھجوایا گیا.رسالہ مصباح ماہ فروری میں بھی شائع کیا گیا.اس لائحہ عمل کی سب سے پہلی شق چندہ مسجد ہالینڈ تھی کہ ہر لجنہ اس سال کے لئے اپنا وعدہ چندہ کا بھیجوائے اور ہر ماہ اطلاع دیا کرے کہ کتنی ادا ئیگی ہو گئی ہے.سے له الفضل ۱۵ فروری ۱۹۵۵ء صفحه ۳ مصباح فروری ۱۹۵۵ء صفحه ۳۳ مصباح فروری ۱۹۵۵ء صفحه ۳۸

Page 171

163 اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمین اور نقشہ کے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو گئے اور ۱۲.فروری ۱۹۵۵ء کو محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت ہیگ نے جو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے ہیں نے دعا کے ساتھ مسجد کی بنیادیں اٹھانے کے لئے کھدائی کا کام شروع کرایا.اس موقع پر مقامی جماعت کے اکثر احباب کے علاوہ مختلف اخباروں کے نمائندگان اور پریس فوٹوگرافر بھی تشریف لائے ہوئے تھے.سب سے پہلے محترم چوہدری صاحب موصوف نے تمام احباب سمیت اجتمائی دعا کرائی اور پھر آپ نے پہلی کدال زمین پر ماری.آپ کے بعد مبلغ ہالینڈ محترم مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے کچھ زمین کھودی.پھر بعض دوسرے احمدی احباب نے بھی اس میں حصہ لیا.۲۰ مئی ۱۹۵۵ء کو تین بجے سہ پہر محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے سرزمین ہالینڈ کی پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد ہیگ میں رکھا.اس موقع پر بہت سے مسلم ممالک کے نمائندے اور ممتاز صحافی بھی تشریف لائے ہوئے تھے.سنگِ بنیادرکھنے کی یہ بابرکت تقریب بفضلہ تعالیٰ نہایت کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی ہے حاضری تقریب دو صد تھی.ایران - مصر.پاکستان اور انڈونیشیا کے سفراء کے نمائندگان نے بھی شرکت فرمائی.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کا پیغام پڑھ کر سُنایا سے انچارج احمد یہ مسلم مشن ہالینڈ نے تقریب کی تفصیلی اطلاع حضرت مصلح موعودؓ کو دی جس کا مندرجہ ذیل جواب حضرت مصلح موعودؓ نے لکھوایا:.وو جزاك الله.مبارک ہو آپ کو بھی اور سب احمدی نومسلموں کو بھی.اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے لئے یہ خدمت عظیم بہت بہت مبارک کرے اور ثواب کا موجب بنائے.بیچ وہی ہے جو سر عبد القادر نے مسجد لنڈن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا ایں تانه سعادت بزور بازو نیست بخشد خدائے بخشنده اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی اور اس کے له الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۵ء صفحه ا الفضل ۲۳.جون ۱۹۵۵ء صفحه ۳ الفضل ۲۴ مئی ۱۹۵۵ء صفحه ۲ ان دنوں حضور بغرض علاج یورپ ( سوئٹزر لینڈ ) میں تشریف فرما تھے.

Page 172

164 بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کی عزت بخشی.یہ وہ عزت ہے جو بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی.ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں.آج دنیا اس کی قدر کو نہیں جانتی ایک وقت آئے گا جب ساری دُنیا کے بادشاہ رشک کی نگاہ سے ان خدمات کو دیکھیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۸.جون ۱۹۵۵ء کو ہیگ پہنچے تھے وہاں ۱۹.جون تا ۲۳.جون آپ کا قیام رہا.پھر آپ جرمنی چند روز کے لئے تشریف لے گئے.۲۹.جون کو واپس آئے اور ۳.جولائی تک آپ کا اس ملک میں قیام رہا.اس عرصہ میں حضور زیرتعمیر مسجد ( ہیگ ) دیکھنے کے لئے بھی تشریف لے گئے.جب حضور زیر تعمیر مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا اور باقی اہلِ قافلہ بھی حضور کے ساتھ تھے.حضور نے مسجد کا معائنہ فرمایا اور ہال میں کھڑے ہو کر دعا فرمائی.۲۹.جون ۱۹۵۵ء ۸ بجے شب ہالینڈ کی جماعت احمدیہ نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اعزاز میں دعوتِ استقبالیہ دی.حضور اس روز ہمبرگ سے واپس تشریف لائے تھے.باوجود سفر کی کوفت کے حضور دعوت پر تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور نے ایک پُر معارف تقریر فرمائی جس میں حضور نے ہالینڈ میں تعمیر مسجد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو یہ مسجد پاکستان کی احمدی مستورات کے چندہ سے بنائی گئی ہے.شاید یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد خواتین کو بھی قبول اسلام کی توفیق عطا فرمائی ہے اور وہ سب بہت مخلص ہیں“ سے یکم جولائی ۱۹۵۵ء کو ہیگ (ہالینڈ) میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا:.میں یہاں تھوڑے عرصہ کے لئے آیا تھا اور جلد ہی آپ لوگوں سے رخصت ہورہا ہوں اور موجودہ حالات میں میں یہ خیال نہیں کر سکتا کہ دوبارہ جلد آپ کے پاس آسکوں گا.اگر چہ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ انشاء اللہ سفر سے واپسی پر ایک دن کے لئے یہاں مسجد کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے آؤں گا.“ ہے افسوس ہے کہ باوجود آپ کی خواہش کے بیماری کے باعث حضور کے مبارک ہاتھوں مسجد کا له الفضل ۲۳.جون ۱۹۵۵ء صفحه ۳ الفضل یکم ستمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳ الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۱ الفضل ۱۹.اگست ۱۹۵۵ء صفحه ۳

Page 173

165 افتتاح نہ ہو سکا.افتتاح کرنے کی سعادت بھی محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو حاصل ہوئی.اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تعمیر مکمل ہو جانے پر ۹.دسمبر ۱۹۵۵ء بروز جمعتہ المبارک سرزمین ہالینڈ میں پہلی مسجد کا افتتاح ہوا.افتتاح کی رسم محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ادا کی.افتتاح کی تقریب میں متعدد ممالک کے جو سر بر آوردہ حضرات شریک ہوئے ان میں پاکستان ،مصر، شام اور انڈونیشیا کے سفارتی نمائندے، یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان، مشہور فرموں کے ڈائریکٹرز، میونسپل افسران اور جرمنی ، سوئٹزر لینڈ اور انگلستان کے مبلغین اسلام بھی شامل تھے.تقریب میں مقامی اور بعض دوسری جگہ کے احمدی احباب کے علاوہ پریس اور ریڈیو کے نمائندگان بھی موجود تھے.اس موقع پر انچارج مبلغ ہالینڈ مشن کی طرف سے صدر لجنہ اماءاللہ (حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کے نام مندرجہ ذیل مبارک باد کا تار موصول ہوا:.مسجد ہالینڈ کی تکمیل پر انچارج مبلغ ہالینڈ مشن کی طرف سے صدر لجنہ اماءاللہ کے نام مبارکبادی کا تار SINCEREST CONGRATULATIONS ON OPENING OF HOLLAND MOSQUE CONSTRUCTED THROUGH DEVOTED EFFORTS AND SACRIFICES OF WOMEN OF JAMAT.PLEASE ACCEPT AND CONVEY TO SUBSCRIBERS SINCERE GRATITUDE AND APPRECIATION OF THEIR ZEAL.( ترجمعہ اُردو) از هیگ تاریخ ۹.دسمبر ۱۹۵۵ء ۸ بج کر ۵۰ منٹ بخدمت صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ جماعت احمدیہ کی خواتین کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہالینڈ کی مسجد کی تکمیل کی مبارک تقریب پر له الفضل ۱۳.دسمبر ۱۹۵۵ء صفحها ۲ مصباح جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۱۸

Page 174

166 دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.میری مبارکباد قبول فرمائیے اور اسے جماعت احمدیہ کی اُن خواتین تک پہنچا دیجئے جن کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں یہ مسجد معرض وجود میں آئی.والسلام ( انچارج مبلغ ہالینڈ مشن ) 1 محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں خوشی ہے کہ ہماری کوشش جوا.فروری ۱۹۵۵ء کو شروع کی گئی تھی وہ اب انجام کو پہنچ چکی ہے اور ہم آج یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اس مسجد کو جو کہ ہالینڈ میں پہلی مسجد ہے عملی طور پر اپنے مصرف میں لانے کی ابتداء کریں.ممکن ہے اس حقیقت سے ہر شخص آگاہ نہ ہو کہ اس مسجد کی تعمیر اس فنڈ سے ہوئی ہے جو ہماری احمدی بہنوں نے جمع کیا ہے.اور اس فنڈ میں جن مستورات نے حصہ لیا ہے ان کا بیشتر حصہ غریب ہی نہیں بلکہ بہت ہی غریب ہے ایسے حالات میں ان کا یہ کارنامہ انکی بہت بڑی قربانی کا آئینہ دار ہے.یہ خبر یقیناً ان کے لئے بڑی مسرت کا باعث ہوگی کہ ان کی یہ خواہش کہ ایک دور دراز ملک میں مسجد کی تعمیر کی جائے اب پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے.اور جس غرض کے پیشِ نظر اس خانہ خدا کو بنایا گیا تھا اسے بروئے کارلانے کا وقت آگیا ہے.اس موقع پر بہت ہی مناسب ہوگا کہ ہم اپنی بہنوں کو انکی قربانی ، ان کے اخلاص اور ان کی شبانہ روز محنت کی قدر دانی کرتے ہوئے جو کہ انہوں نے اسلامی مقاصد کی تکمیل کے لئے انجام دی، انہیں دلی شکریہ اور مبارکباد کا پیغام بھیجیں.بعد ازں محترم جناب چوہدری صاحب نے مسجد کے قیام کی اغراض اور مقاصد بیان فرمائے اپنے خطاب کو ختم کرتے ہوئے فرمایا:.” ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ نہایت سادہ عمارت جو کہ ان دعاؤں اور التجاؤں کی آئینہ دار ہے جو بے شمار مخلص اور پاکیزہ دلوں سے نکلیں.خدا کرے یہ اپنے اغراض کو پورا کر نیوالی ہو یعنی خدائے واحد کی عبادت اور اس کی تقدیس کے لئے مرکزی نقطہ ثابت ہو اور ایسا معبد بنے جو خدا کے ساتھ اتحاد پیدا کرنے کا موجب ہو.درس و تدریس کا مرکز ہونو رو ہدایت کا منبع ہو.اس جگہ ایسے مشورے عمل میں آئیں جو تمام بنی نوح انسان کے لئے مفید ہوں اور جو تمام مردوں اور عورتوں کو خدا کی طرف راہنمائی کا پیغام دینے والے ہوں اور اس کی طرف کھینچ کر لائیں.خدا کرے یہ مسجدرُوحانی شفایابی کے لئے آپ ا مصباح جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۱۸ الفضل ۳.اپریل ۱۹۵۶ء صفحه ۳

Page 175

167 بقا کا کام دے.اور پھر خدا کرے یہ عمارت اِس مُلک میں اور بہت سے ایسے روحانی مقامات اور مراکز کا پیش خیمہ ثابت ہو.آمین.تقریر کے بعد محترم جناب چوہدری صاحب نے دعا فرمائی اور پھر مسجد کا دروازہ کھولا.ہجوم کافی تھا.تمام احباب مسجد کو دیکھنے کے لئے اندر تشریف لے گئے اور دیکھ کر خوشی کے جذبات کا اظہار کیا.ہمارے احمدی بھائی اور بہنیں اس موقع پر خاص طور پر خوش نظر آتے تھے.اس کارروائی کے بعد جملہ حاظرین کی چائے وغیرہ سے تواضع کی گئی.اس اثناء میں جب کہ احباب پورے طور پر اس تقریب کی مصروفیات سے فارغ نہیں ہوئے تھے نماز مغرب کا وقت آن پہنچا.چنانچہ محترم مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے پہلی دفعہ اس مسجد میں مغرب کی اذان دی اور پھر انہی کی امامت میں پہلی دفعہ اس مسجد میں باجماعت نماز ادا کی گئی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اذان اور نماز کی تمام تر کارروائی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے نشر کی گئی.اس طریق سے آنِ واحد میں یہ خبر نہ صرف اس ملک میں بلکہ قریباً ساری دُنیا میں پھیل گئی.اس کے علاوہ ہالینڈ کے پریس نے بھی اس موقع پر خاص دلچسپی کا اظہار کیا.۱۵.۱۶ اخبارات نے تفصیل کے ساتھ مسجد کے افتتاح کی خبر دی اور اجتماع کی مختلف تصاویر کونمایاں جگہ دے کر شائع کیا اور اس طرح یہ مبارک تقریب کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.الْحَمْدُ اللهِ عَلَى ذَالِكَ - ۲ جلسه سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو تقریر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد ( ہیگ) کے متعلق فرمایا:.ہالینڈ کی مسجد تو عورتوں کی ہمت سے بن گئی مگر ابھی ان کی ہمت نامکمل ہے کیونکہ ابھی بہت سی رقم اس کی دینی ہے اس لئے میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنا باقی چندہ دیں.کوئی تھیں چونتیس ہزار روپے وہ اور دے دیں تو انشاء اللہ ہالینڈ کی مسجد مکمل ہو جائے گی.۲۰ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو لجنہ اماء اللہ کی گیارھویں شوریٰ میں مسجد ہالینڈ کے چندہ کا مسئلہ پھر زیر بحث لایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ ا مستورات میں یہ تحریک کی جائے کہ جو بہنیں اپنا نام مسجد پر کندہ کروانا چاہتی ہیں وہ کم از کم ا الفضل ۳.اپریل ۱۹۵۶ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۲ الفضل ۱۴.فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۵ الفضل ۳.اپریل ۱۹۵۶ ، صفح ۴۳

Page 176

168 ڈیرہ صد کی رقم ادا کریں..ہر احمدی بہن اپنی خوشی کے موقع پر حسب حیثیت کچھ رقم چندہ مسجد ہالینڈ میں ادا کرے.۳.جب تک چندہ مسجد ہالینڈ کی گل رقم ادا نہ ہو جائے اُس وقت تک یہ چندہ لازمی چندوں کی طرح ہر ممبر سے وصول کیا جائے اے ۲۱.اکتوبر ۱۹۵۶ء لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے تاریخ عالم میں عورتوں کی قربانیاں بیان فرماتے ہوئے پھر ایک باراحمدی مستورات کو مسجد ہالینڈ کے چندہ کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا:.ہر مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے بڑا کام کیا ہے.میں نے بتایا ہے کہ برلن کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اس وقت کی احمدی عورتوں نے ایک ماہ کے اندراندر ایک لاکھ روپیہ جمع کر دیا.اب تم ہیگ کی مسجد کے لئے کوشش کر رہی ہو مگر افسوس کہ تم اتنی کوشش نہیں کر رہی جتنی ۱۹۲۳ء میں برلن کی مسجد کے لئے عورتوں نے کی تھی حالانکہ اس وقت تم اُن سے پندرہ بیس گنا زیادہ ہو.انہوں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ دے دیا تھا مگر تم نے ابھی ۷۰ ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور پھر اُن کے جمع کر دہ چندہ سے برلن میں جو زمین خریدی گئی تھی وہ جب بیچی گئی تو پچاس ہزار روپیہ اصل قیمت سے زیادہ ملا اور اس روپیہ سے لنڈن کی مسجد بن گئی.گویا لنڈن کی مسجد بھی انہی عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے.برلن میں مسجد کی تعمیر نہیں کی جاسکی تھی.کیونکہ جرمن حکومت نے بعض ایسی شرائط لگا دی تھیں جن کی وجہ سے مسجد کی تعمیر پر بہت زیادہ روپیہ خرچ آتا تھا.اس لئے ہم نے وہاں مسجد کے لئے جو جگہ خرید کی تھی اُسے بیچ دیا اور جو روپیہ ملا اس سے لنڈن کی مسجد بنائی گئی.گویا برلن کی مسجد کے لئے بھی عورتوں نے چندہ دیا.لنڈن کی مسجد بھی انہی کے روپیہ سے بنی اور ہیگ کی مسجد کے لئے بھی عورتیں ہی روپیہ جمع کر رہی ہیں.مرد ابھی تک ہمبرگ کی مسجد کے لئے بھی روپیہ جمع نہیں کر سکے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت گو بظاہر کمزور نظر آتی ہے مگر جب وہ قربانی پر آجائے تو مرد سے زیادہ قربانی کرتی ہے.دیکھ لو ماں جتنی قربانی اپنے بچے کے لئے کرتی ہے اس قدرقربانی مرد نہیں کر سکتا ہے جلسہ سالانہ۱۹۵۶ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اپنی تقریر میں بتایا کہ له مصباح دسمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۲۵ الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ ۱۷۶ ، مصباح جنوری ۱۹۵۷ء

Page 177

169 ابھی تک عورتوں کی طرف سے صرف ۷۸ ہزار روپیہ چندہ جمع ہوا ہے.مسجد کا ماڈل بھی ہالینڈ مشن کے انچارج مبلغ صاحب نے بنوا کر لجنہ اماءاللہ کو بھجوایا تھا جس کی نمائش جلسہ سالانہ پر کی گئی.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.اس سال ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف احمدی مستورات کے چندہ سے ایک نہایت عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی ہے لیکن اس پر جو خرچ ہوا ہے وہ ابتدائی اندازے سے بڑھ گیا ہے.“ عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہو ا ۷۸ ہزار ان کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی ۹۶ ہزار باقی ہے.پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ ۹۶ ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہو جائے.مسجد ہالینڈ کا نقشہ بن کر آ گیا جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد خوب نظر آجاتی ہے.لجنہ اماءاللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں.زیادہ کی توفیق ہوتو زیادہ کا ٹکٹ لے کر مسجد دیکھ لیں جس کا نقشہ بن کر آیا ہے اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے.بجلی سے اندر روشنی ہو جاتی ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار مسجد ہے.۱۹۵۷ء کے اجتماع پر ۱۲.اکتوبر کو لجنہ اماءاللہ کی شوریٰ میں بتایا گیا کہ اب لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ۷۷۰۰۰ مسجد کا رہتا ہے.گویا اس وقت تک احمدی مستورات - ۹۷۰۰۰ مسجد کے لئے جمع کر چکی تھیں.بقیہ رقم کی ادئیگی کے لئے نمائندگان نے غور کر کے فیصلہ کیا کہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ سال گزشتہ کے چندہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر لجنہ کے ذمہ رقم مقر ر کرے جس کو وہ ادا کرے سے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے موقع پر ۲۷.دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ لجنہ اماءاللہ صرف - / ۳۶۰۰۰ اس سلسلہ میں مزید ادا کرے گی.آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.ایک ضروری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے مسجد ہالینڈ کی تعمیر کیلئے عورتوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی جس میں سے ۹۹ ہزار روپیہ عورتیں اس وقت تک دے چکی ہیں.لیکن جو اندازہ وہاں سے آیا تھاوہ ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تھا اور عملاً اب تک ایک لاکھ پچھتر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.تحریک جدید کا ریکارڈ کہتا ہے عورتیں نانوے ہزار روپیہ دے چکی ل الفضل ۹.مارچ ۱۹۵۷ء صفحه م ۲ مصباح نومبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۷

Page 178

170 ہیں اور پھر مسجد لنڈن جو بنی تھی وہ بھی عورتوں کے چندہ سے ہی بنی تھی.دراصل عورتوں نے برلن میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے چندہ جمع کیا تھا.میں نے اس چندہ کی تحریک کی تو عورتوں نے اپنے زیوراً تار اُتار کر یہ چندہ جمع کر دیا چنانچہ اس روپیہ سے مسجد برلن کے لئے زمین خریدی لی گئی لیکن حکومت کی طرف سے بعض کڑی شرائط لگا دی گئی تھیں جن کی وجہ سے ہم نے وہ زمین بیچ دی اور جو روپیہ ملا اس سے لنڈن میں مسجد تعمیر کر دی.اس مسجد پر قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ آیا تھا...میں نے وکالت مال کے شعبہ بیرون کے انچارج چوہدری شبیر احمد صاحب کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ جب ہیگ سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تخمینہ آیا تھا تو میں نے عورتوں سے اس قدر چندہ کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ عورتوں کا حق تھا کہ چندہ لینے سے پہلے اُن سے پوچھ لیا جاتا کہ کیا وہ یہ چندہ دے سکتی ہیں یا نہیں.انہوں نے کہا افسوس ہے کہ اُس وقت ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے حضور سے دریافت نہ کیا کہ آیا مزید رقم بھی عورتوں سے جمع کی جائے یا نہ کی جائے.ہمارے پاس کوئی ایسا ریکارڈ نہیں جس کی رُو سے زیادہ رقم اکٹھا کرنے کی منظوری لی گئی ہو.میں نے کہا میں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ جمع کرنے کی منظوری مجھ سے نہ لی لیکن جب وہ رقم ایک لاکھ پچھتر ہزار بن گئی تو پھر آپ نے مجھ سے منظوری لینی تھی کیا آپ نے مجھ سے منظوری لی.اُنہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہم نے اس کے متعلق بھی حضور سے کوئی منظوری نہیں لی اور ہمارے پاس کوئی ایسا کاغذ نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ عورتوں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار یا ایک لاکھ پچھتر ہزار روپیہ جمع کرنا منظور ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ اس سال صرف چھتیس ہزار روپیہ چندہ جمع کر کے تحریک جدید کو دے دے اور باقی روپیہ تحریک جدید خود ادا کرے.لجنہ اماءاللہ چھتیس ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں دے گی اور مسجد ہالینڈ ہمیشہ کے لئے عورتوں کے نام پر ہی رہے گی.حضرت مصلح موعودؓ کے اس فیصلہ کے بعد کہ اب لجنہ اماءاللہ نے صرف - ۳۶۰۰۰ مسجد کے لئے ادا کرنا ہے.لجنہ اماء اللہ کی کوشش اس سلسلہ میں جاری رہی اور ایک سال گزرنے کے بعد ۲۷.دسمبر ۱۹۵۸ء کو لجنہ اماء اللہ کی بارھویں شوریٰ میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل الفضل ۲۳ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۳-۴

Page 179

171 سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے نمائندگان کو بتایا کہ مسجد ہالینڈ کا ابھی بارہ ہزار روپیہ قرضہ ان کے ذمہ باقی ہے لے اور دسمبر ۱۹۵۸ء تک ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے مستورات ادا کر چکی تھیں.اس بارہ ہزار روپے کے لئے لجنہ اماءاللہ کی کوشش جاری رہی اور جلد ہی یہ چندہ بفضل اللہ تعالیٰ ختم ہو گیا.بہت سی بہنوں نے.۱۵۰ روپے دے کر نام کندہ کرانے والی فہرست میں شمولیت کی جن میں سر فہرست محترمہ ز بیده بیگم صاحبہ اہلیہ محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی کلکتہ کا نام ہے جنہوں نے ایک ہزار روپیہ مسجد ہیگ کے لئے دیا.لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی سالانہ رپورٹ ۵۹ - ۱۹۵۸ء سے معلوم ہوتا ہے کہ ۵۹.۱۹۵۸ء میں مستوات نے -/ ۶۱۳۲ روپے چندہ دیا تھا.گویا ستمبر ۱۹۵۹ء کے آخر تک مستورات کی طرف سے ۱۳۰، ۳۷، اروپے چندہ دیا تھا.چھ ہزار روپیدان کے ذمہ بقایا تھا جو جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء تک پورا ہو گیا.سے مستورات نے حضرت مصلح موعودؓ کے مطالبہ سے زائد یعنی ۱،۴۳،۶۶۴ روپے ادا کئے.اور وہ مبارک تحریک جس کی بناء حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۰ء میں ڈالی تھی ۱۹۵۹ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی.محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الا علیٰ والتبشیر تحریک جدید نے جلسہ سالانہ 19ء کے موقع پر ” جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے مسجد ہالینڈ کا بھی ذکر کیا.آپ نے فرمایا :.پندرہ سال قبل ہالینڈ میں احمدیہ مسلم مشن کے ذریعہ اشاعت اسلام کی بنیا درکھی گئی.اور یہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہالینڈ میں ڈچ نومسلموں کی ایک جماعت قائم ہو چکی ہے.اسی طرح ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ کی ایک وسیع شاہراہ پر ہلالِ اسلامی کا نشان لئے احمدیہ مسجد قائم ہے جو احمدی مستورات کے عزم اور قربانی کی گواہ ہے.محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اپنی اس تقریر میں بعض اخباروں کے اقتباسات بھی پیش فرمائے جنہوں نے اس مسجد کا ذکر اور اس کے ذریعہ سے کی جانے والی خدمات کو سراہا.ایک اخبار MAA,SNER BOER BUDE نے لکھا:.کے مصباح فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۳۷ ے رپورٹ سالانہ لجنہ اماءاللہ مرکز یه ۵۸-۱۹۵۷ء صفحه ۹ رپورٹ سالانہ لجنہ مرکز یہ ۶۰ - ۱۹۵۹ء صفحہ ۹ جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام صفحه ۴۱ ۴۲

Page 180

172 وو صدیوں سے یہ طریق چلا آ رہا ہے کہ یورپ سے عیسائی مبلغ دنیا کے ملکوں میں جاتے اور عیسائیت پھیلاتے تھے مگر اب دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مشرق سے اسلام پھیلانے کے لئے مبلغ یورپ آنا شروع ہو گئے ہیں اور انہوں نے یہاں متعدد مساجد بنادی ہیں.چنانچہ ہیگ میں بھی ایک مسجد ہے.تبلیغ کا یہ تمام کام احمد یہ جماعت کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.ہالینڈ کے ایک اور اخبار vic NOOR DISTRET نے لکھا کہ:.یہ پاکستانی مشنری یعنی امام مسجد ہالینڈ بہت سے پاکستانی مشنریوں میں سے ایک ہیں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے متعلق صحیح نظر یہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھیجے جاتے ہیں.مسلمانوں میں یہی ایک منظم جماعت ہے جس نے ایک نظام کے ماتحت تبلیغ اسلام کا بیڑا اٹھایا ہے.مسجد کے ہال میں جو دنیا کا نقشہ لٹکا ہوا ہے.اس پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح دنیا کے تمام اطراف میں جماعت احمدیہ کے مبلغ سرگرم عمل ہیں.“ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے اپنی ایک تقریر اسلام کا عالمگیر غلبہ جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء ( جو بعد میں کتابی صورت میں نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے شائع کر دی گئی) میں مسجد ہیگ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اسی طرح ہیگ (ہالینڈ) کی مسجد کا ذکر جب وہاں کے اخباروں میں شائع ہوا تو ایک کثیر الاشاعت اخبار نے مسجد کا فوٹو دے کر لکھا کہ یہ مسجد قاہرہ یا کراچی کی نہیں بلکہ ہیگ کی ہے.اور لکھا:.اسلام نے یورپ پر دو دفعہ حملہ کیا ایک دفعہ نویں صدی عیسوی میں جبکہ وہ سپین کے حاکم ہو گئے تھے اور دوسری دفعہ ترکوں نے سولہویں صدی عیسوی میں حملہ کیا اور وارسا تک پہنچ گئے لیکن دونوں دفعہ ہم نے اپنی قوت بازو سے مسلمانوں کا مقابلہ کر کے یورپ سے انہیں نکال دیا.لیکن آب کے جو حملہ یورپ پر کیا گیا ہے وہ روحانی ہے اور دلوں پر حملہ ہے ظاہری حملہ نہیں ہے.کیا عیسائیت میں روحانی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کا مقابلہ کر سکے؟“ جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام صفحه ۴۳ جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام صف ۴۳ ۴۴ صفحہ ۱۳ اسلام کا عالمگیر غلبہ ( با رسوم ) صفحه ۴۹

Page 181

173 دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد: ۳۱.ہجرت مطابق ۳۱ مئی ۱۹۵۰ء صبح ساڑھے چھ بجے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دست مبارک سے دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کی عمارت کاسنگ بنیا درکھا.ستمبر ۱۹۴۸ء میں ربوہ کی بنیا درکھی گئی تو لجنہ مرکزیہ نے چوبیں سو روپیہ ۲۱ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ( بحساب ایک سو روپیہ فی کنال ) ادا کر کے ۲۴ کنال زمین دفاتر لجنہ مرکزیہ کے لئے حاصل کر لی تھی لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے از راہ شفقت دفتر لجنہ کی زمین کی قیمت واپس عطا فرما دی.حضور نے تین اینٹیں اپنے دست مبارک سے نصب فرما ئیں جس کے بعد حضور کے ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب محترم مولانا جلال الدین ستمس ، عبدالشکور صاحب (جرمن نومسلم ) رشید احمد صاحب (امریکن نومسلم)، سید عبدالحمید صاحب آفندی مصری، سید ابراہیم عباس صاحب سوڈانی، فضل خاں صاحب ترکستانی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر ، صدر انجمن احمد یہ نے علی الترتیب ایک ایک اینٹ رکھی.پھر محمد حسین صاحب برمی نے بھی ایک اینٹ رکھی.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی لے دوسرے دن یعنی یکم جون ۱۹۵۰ء صبح 4 بجے لجنہ اماءاللہ کی نمبرات کا اجتماع ہوا.سب سے پہلے سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین تو راللہ مرقدہانے اپنے دست مبارک سے اینٹ نصب فرمائی پھر صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے باری باری اینٹیں رکھوائی گئیں.سب سے پہلے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صدر لجنہ اماء اللہ نے اس کے بعد حضرت سیّدہ ام داؤد صاحبہ نائب صدر لجنہ اماءاللہ نے اینٹیں رکھیں.چونکہ صحابیات کی تعداد زیادہ تھی اور اینٹیں تھوڑی تھیں اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک اینٹ دو دو عورتیں مل کر رکھیں.چنانچہ مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ اینٹیں رکھی گئیں:.ا.حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۲.حضرت سیدہ اُمم ناصر صاحبہ رضی اللہ تعالی عنہا.حضرت سیدہ اُمم داؤ د صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ل الفضل ۶.جون ۱۹۵۰ء صفویم

Page 182

174 و -۴- محترمہ چراغ بی بی صاحبہ مرحومہ والدہ محترم مولوی محمد صدیق صاحب محترمه حسین بی بی صاحبہ مرحومہ والدہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس 1 ۵ محترمہ مائی امام بی بی صاحبہ مرحومه ومحترمہ امیر بی بی صاحبہ مرحومہ والدہ محترم مولوی قمر الدین صاحب کے محترمه چراغ بی بی صاحبہ بنت حضرت منشی وزیر الدین صاحب ( جو۳۱۳ اصحاب حضرت مسیح موعود میں سے تھے ) والدہ محترم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلا و عر بیہ گیمبیا محترم چوہدری محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوہ.۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئیں.انداز ۹۱ - ۱۹۹۰ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا تبلیغ کا غیر معمولی شوق تھا.سلسلہ کی مالی تحریکات میں باقاعدگی سے حصہ لیتی تھیں.۱۹۳۰ء میں ہجرت کر کے قادیان چلی گئیں.لوائے احمدیت کے لئے سوت کاتنے میں حصہ لیا.لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.تاریخ وفات ۵۹-۱-۳ مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.محترم حسین بی بی صاحبہ زوجہ حضرت میاں امام دین صاحب مرحوم سیکھوانی: ولادت ۱۸۷۰ء بیعت ۱۸۹۱ء.وفات ۹۶۰ - ۱۹.عمر ۹۰ سال.وصیت نمبر ۴۳۴.حصہ وصیت ۱/۶ آپ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی والدہ تھیں.آپ کے خاوند حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ اصحاب میں سے تھے.آپ نے ان کے ساتھ ہی احمد بیت قبول کی.صوم وصلوٰۃ کی پابند اور خاموش طبع خاتون تھیں.دین کی خاطر بڑی قربانی کرتی تھیں محترم شمس صاحب لمبے عرصہ تک تبلیغ اسلام کے لئے فلسطین میں اور پھر انگلستان میں مقیم رہے ان کی عدم موجودگی میں ان کے بڑے بھائی بشیر احمد صاحب اور ان کے والد اور مرحومہ کے شوہر حضرت میاں امام الدین صاحب نے وفات پائی تو مرحومہ نے بڑے صبر کا نمونہ دکھایا.مکرم بشیر احمد صاحب نے اپنی آخری علالت میں یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اپنے بھائی سے ملنا چاہتا ہوں.مرحومہ نے یہ خواہش محض اس لئے شمس صاحب تک نہ پہنچائی کہ اس سے وہاں ان کی خدمت دین میں کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو.جب حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی نے تحریک جدید کے چندہ کا اعلان فرمایا تو آپ نے اپنی س سونے کی بالیاں پیش کر دیں.دعاؤں میں گہرا شغف تھا.رسوم و بدعات سے ہمیشہ پر ہیز رہا.اللہ تعالیٰ بلند درجات عطا فرمائے! آمین محترمهائی امام بی بی صاحبہ اہلیہ ٹھیکیدار محمد اکبر صاحب: ولادت ۱۸۶۲ء.بیعت ۱۹۰۰ ء سے پہلے وفات ۵۷.۳.۲۹ عمر ۹۵ سال حضرت ام المومنین کی خصوصی خدمت کا شرف حاصل تھا.کئی سفروں میں آپ کے ساتھ رہیں آپ نے دو حج کئے ایک اپنا اور دوسرا حضرت اُم المومنین کی طرف سے.آپ کی لڑکی محترمہ اللہ رکھی صاحبہ کو (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 183

175 صاحب.محترمہ مائی کا کو صاحبہ مرحومہ و محترمہ استانی برکت بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم ٹھیکیدار اللہ یار (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ ) سرگودہا کی لجنہ میں محصلہ کا کام کرنے کی توفیق ملی.محترمہ امیر بی بی صاحبہ ( والدہ مولوی قمر الدین صاحب): آپ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کی اہلیہ اور خواجہ محمد شریف صاحب آف قادیان کی پھوپھی تھیں.آپ کے خاوند ۳۱۳ اصحاب میں شامل تھے.۱۸۸۹ء میں ان کے ساتھ ہی بیعت سے مشرف ہوئیں.نہایت متقی اور پرہیز گار تھیں.قرآن مجید پڑھانا ان کو بہت محبوب تھا.جماعت سیکھواں کی بہت سی لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھایا.حضرت اُم المومنین آپ سے بہت محبت فرماتی تھیں.کئی بار سیکھواں میں جا کر ان کے ہاں قیام فرمایا.ان کی صفائی کی عادت کو خاص طور پر بہت پسند فرماتی تھیں.ے محترمہ مائی کا کو صاحبہ: اصلی نام امیر بی بی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب سیکھوانی برادران ( حضرت میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب اور میاں خیر الدین صاحب کی ہمشیرہ اور محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی پھوپھی تھیں.عدلیوالہ ضلع امرتسر میں شادی ہوئی مگر خاوند فوت ہو گئے.ایک لڑکا ہو مگر وہ بھی عالم جوانی میں وفات پا گیا.ابتدائی زمانہ میں ہی اپنے بھائیوں کے ساتھ بیعت میں شامل ہوگئیں.بیوہ ہونے بعد پہلے اپنے بھائیوں کے پاس چلی گئیں.اور پھر حضرت اُم المومنین کی خدمت میں اپنی زندگی گزاری.ہر وقت آپکی اور دیگر خواتین مبار که خاندان حضرت مسیح موعود کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتی تھیں.صوم وصلواۃ کی پابند، تہجد گزار اور خدمت خلق میں پیش پیش رہتی تھیں.جماعت کی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.دو دفعہ حج کرنے کی توفیق ملی.خاندان حضرت مسیح موعود اور بالخصوص حضرت ام المومنین سے قرب اور خدمت کی وجہ سے جماعت میں انہیں بہت عزت واحترام حاصل تھا.آخر دم تک خدمت میں مصروف رہیں.۸۵ سال کی عمر میں ۵۳-۵-۱۱ کو وفات پائی اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں مدفون ہیں.محترمه برکت بی بی صاحبہ بنت حضرت منشی وزیر الدین صاحب زوجہ اللہ یا ر صاحب صحابی : تاریخ پیدائش انداز ۱۸۷۸ ء تاریخ وفات ۶۵-۱۰-۵ بعمر ۸۵ سال.صحابیہ تھیں.مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.آپ ۱۹۰۰ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئیں تقسیم ملک تک وہیں رہیں بعد ازاں ربوہ آگئیں.عمر بھر قرآن کریم پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا.آپ سے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لوائے احمدیت کے لئے روئی بیلینے اور سوت کاتنے کا شرف حاصل کیا.۳/ احصہ کی وصیت کی تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں بھی ان کا نام شامل ہے.قادیان میں لجنہ کا کام کرتی رہیں.ربوہ آکر مسجد میں نماز جمعہ کے انتظام میں حصہ لیتی رہیں.

Page 184

176 ۷.محترمہ سیدہ روشن بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ سید محمد اسمعیل صاحب محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ مرحومه ! محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب و محترمہ استانی رحمت النساء صاحبہ مرحومہ اہلیہ محترم ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم سے ے محترمہ سیده روشن بی بی صاحبہ بنت سید کرم بخش صاحب اہلیہ سیدمحمد اسمعیل صاحب مرحوم سابق آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ قادیان.تاریخ پیدائش ۱۸۸۸ء بیعت ۱۹۰۴ء عمر ۶۵ سال- تاریخ وفات ۹ جنوری ۱۹۵۳ء مقبرہ بہشتی ربوہ میں فن ہوئیں.مسجد فضل لندن کے لئے لے تولہ سونے کے کنگن پیش کئے.اوائے احمدیت کے لئے سوت کا تا تحریک جدید کے دور اول میں شامل رہیں.ایک ہزار روپیہ بطور صدقہ جاریہ تحریک جدید کو دیا.محترمہ بھا بھی زینب بیگم صاحبہ.آپ کے والد صاحب کا نام غلام احمد مرحوم اور خاوند کا نام پیر مظہر قیوم مرحوم تھا.پیدائش ۱۸۸۸ء بیعت ۱۹۰۶ء عمر ۷۲ سال وفات ۱۳.مارچ ۱۹۶۰ء کو ہوئی.نابینا ہونے کے باوجود عالم تھیں.دینی و شرعی مسائل از بر تھے.تقریر بھی کر لیتی تھیں.خانہ داری اور دستکاری کی ماہر تھیں.ہاتھ سے کام کر کے چندہ دیتیں.آپ نے صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فہرست مرتب کروائی.تمام عمر خدمت خلق کرتی رہیں.ہر سال قصر خلافت کے اندرونی حصہ میں جلسہ سالانہ پر حفاظت کی منتظمہ مقرر کی جاتی تھیں باوجود نا بینا ہونے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایسی بصیرت عطا فرمائی تھی کہ پاؤں کی چاپ سے پہچان جاتی تھیں کہ کون آیا ہے؟ قادیان کے محلوں سے پھر کر چندہ اکھٹا کرنا.اردگرد کے دیہات سے چندہ فراہم کرنا.تعلیم بالغاں کا انتظام.اجلاس وغیرہ شروع کروانے کے لئے آپ کو بھجوایا جاتا تھا.کسی عورت کا ہاتھ تھا مے شب وروز بینا ؤں سے زیادہ سرگرم عمل رہیں.دستکاری ،سوت کاتنے.ازار بند بنوانے وغیرہ کا کام بھی آپ کے سپرد ہوتا.عورتوں میں تنازعات کا فیصلہ کروانے کے لئے آپ کو مقرر کیا جاتا تھا اور آپ نہایت عمدگی سے اس فریضہ کوسرانجام دیتی تھیں.ے محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ:- تاریخ پیدائش ۱۸۹۹ء پیدائشی احمدی.آپ مشہور صحابی حضرت شادی خاں صاحب کی صاحبزادی ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مشہور بزرگ اور عالم دین حضرت حافظ روشن علی صاحب کی زوجیت کا شرف حاصل ہونے کے علاوہ آپ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ہیں.بفضل اللہ تعالیٰ بقید حیات ہیں.آپ نے مصباح کے لئے علمی مضامین لکھے.لجنہ مرکزیہ کی جنرل سیکرٹری ، نائب صد راور قائمقام صدر کے علاوہ خزانچی لائبریرین اور منتظمہ دستکاری کے فرائض بھی سرانجام دیتی رہیں.جلسہ سالانہ کے انتظامات میں بھی حصہ لیتیں.ہزاروں بچیوں اور عورتوں کو قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ پڑھنا سکھایا اور سکھا رہی ہیں.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )

Page 185

177 ۹- محترمہ صوباں بی بی صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب ومحتر مہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب مرحوم کے ۱۰.صاحب بیوی صاحبہ والدہ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم و حضرت سیدہ امتہ الطیف صاحبہ مرحومہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہے (بقیه حاشیہ صفحہ گزشتہ) حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے درس قرآن مجید کیلئے جگہ کا انتظام بھی آپ فرمایا کرتی تھیں.محترمہ استانی رحمت النساء صاحبہ اہلیہ محترم ماسٹر مولا بخش صاحب والدہ نصیرہ نزہت صاحبہ.تاریخ پیدائش جولائی ۱۸۸۹.۶۵ سال کی عمر میں ۵۴-۶-۲۶ کو وفات پائی اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.اپنے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی تینوں بچوں نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی.لجنہ کے کاموں میں شوق سے حصہ لیتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دو دفعہ قادیان حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا.محترمہ صوباں بی بی صاحبہ.زوجہ مستری قطب الدین صاحب ولادت ۱۸۸۲ء.بیعت ۱۹۰۵ء ۸۰ سال کی عمر میں ۶۲-۲-۲۰ کو وفات پائی.آپ نے کثیر تعداد میں بچوں کو قرآن مجید پڑھایا.محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر فقیراللہ صاحب بنت ملک کمال الدین صاحب ستمبر ۱۹۰۱ء میں شادی ہوئی.مرحومہ کے خاوند عرصہ تک غیر مبائعین میں شامل رہے مگر مرحومہ جماعت مبائعین میں شامل رہیں اور قادیان میں آمد ورفت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا.بالآخر ان کے شوہر کو بھی بیعت خلافت کی توفیق مل گئی.تاریخ وفات ۱۰.اکتو بر ۱۹۶۰ء مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.ے محترمہ صاحب بیوی صاحبہ - حضرت مولوی فخر الدین صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی تھیں.خود بھی صحابیہ ہونے کا شرف حاصل ہوا.۱۸۸۵ء میں مڈھ رانجھا ضلع سرگودہا میں پیدا ہوئیں.۱۹۰۵ء میں آپ نے اما مزمان کی دستی بیعت کی.مرحومہ کے بیٹوں میں سے مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم ( انچارج صیغہ زود نویسی ) اور محترم محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم (لیکچر ارتعلیم الاسلام ربوہ ) کوخدمات دینیہ بجالانے کی خصوصی سعادت حاصل ہوئی.حضرت سیدہ امتہ الطیف صاحبہ بیگم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بنت حضرت مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ ( والدہ ماجدہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی ) پیدائش ۱۹۰۲ء.آپ ۱۹۱۷ء میں حضرت میر صاحب کے عقد میں آئیں.آپ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خوش دامن ہونے کا شرف حاصل ہوا.سات بیٹیاں اور تین بیٹے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جن کی بہترین پرورش اور اعلیٰ تربیت فرمائی.غریبوں کی ہمدردو غم خوار، بیواؤں اور یتامیٰ کا درد رکھتی تھیں.نہایت منکسر المزاج ،صابر وشاکر خاتون تھیں.عمر ۶۲ سال.وفات ۱۶، ۱۷.دسمبر ۱۹۶۴ ء کی درمیانی شب بمقام لاہور ہوئی.مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.

Page 186

178 ۱۱ محترمه نعمت بی بی صاحبہ ومحتر مہ عمل پری صاحبہ اہلیہ خان میر صاحب کے حضرت سیدہ امتہ الطیف صاحبہ بیگم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بنت حضرت مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ ( والدہ ماجدہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی) پیدائش ۱۹۰۲ ء.آپ ۱۹۱۷ء میں حضرت میر صاحب کے عقد میں آئیں.آپ کو حضرت خلیفتہ المسح الثانی کی خوش دامن ہونے کا شرف حاصل ہوا.سات بیٹیاں اور تین بیٹے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جن کی بہترین پرورش اور اعلیٰ تربیت فرمائی.غریبوں کی ہمدرد و غم خوار، بیواؤں اور یتامی کا درد رکھتی تھیں.نہایت منکسر المزاج ، صابر وشاکر خاتون تھیں.عمر۶۲ سال.وفات ۱۶، ۱۷.دسمبر ۱۹۶۴ء کی درمیانی شب بمقام لاہور ہوئی.مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.محترمہ نعمت بی بی صاحبہ اہلیہ مستری جان محمد صاحب: مرحومہ مکرم فضل الرحمن صاحب صدر جماعت احمدیہ حلقہ لالوکھیت کراچی کی والدہ تھیں.۱۹۵۲ء میں کوئٹہ میں وفات پائی.بہت مہمان نواز تھیں.محترمہ امتہ اللہ بیگم عرف لعل پری صاحبہ بنت سید صاحب نور خاں صاحب اہلیہ محترم خان میر صاحب افغان اس وقت آپ کی عمر ۷۵ سال ہے.جب حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کو افغانستان کی حکومت نے گرفتار کر لیا تو آپ کے والد اپنے بھائی احمد نور صاحب کابل کے ہمراہ ہجرت کر کے قادیان آگئے.آپ کو اپنی والدہ صاحبہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا.حضرت اُم المومنین اور حضرت بیگم صاحبه حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت کا بھی موقع ملا.۱۹۵۷ء میں آپ کے ایک بیٹے محمد احمد صاحب کو قبائلی علاقہ میں شہید کر دیا گیا آپ نے اس موقع پر صبر کا نمونہ دکھایا.آپ کے ایک بیٹے شیر احمد صاحب اس وقت قادیان میں درویش ہیں.محترمہ لعل پری صاحبہ کے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی ایک تقریر بر موقع جلسہ سالانہ میں فرمایا:.اب کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت کا بھی ذکر سُن لو جس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود کے دم عیسوی سے شفاء پائی.مسماۃ امتہ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست مملکت کا بل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چا سید صاحب نور اور سید احمد نور کے ساتھ قادیان آئی تو اُس وقت اس کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اس کے والدین اور چا چی حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے.مسماۃ امتہ اللہ کو بچپن میں آشوب چشم کی سخت شکایت ہو جاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی در داور سُرخی کی شدت وجہ سے وہ آنکھ کھولنے تک کہ طاقت نہیں رکھتی تھی.اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی گئی.ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی.(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)

Page 187

179 ۱۲ محترمه استانی محمد بی بی صاحبہ مرحومه مولوی فاضل بنت حضرت مولوی شادی خاں صاحب و محترمه استانی کنیز فاطمہ صاحبہ اے بقیه حاشیه صفحه گذشته) چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جا کر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور درد اور سُرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک کھول نہیں سکتی آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑ اسا لعاب دہن لگایا اور ایک لمحہ کے لئے رُک کر ( جس میں شاید حضور دل میں دعا فرمارہے ہوں گے ) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میر ے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :.بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی.“ روایات مسماه امتہ اللہ بی بی مہاجرہ علاقہ خوست ) مسماة امتہ اللہ بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں ستر سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دُکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ بالکل محفوظ رہی ہوں.وہ بیان کرتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا لعاب دہن لگا کر میری آنکھوں پر دم کرتے ہوئے اپنی انگلی پھیری تو اُس وقت میری عمر صرف دس سال کی تھی گویا ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں حضرت مسیح موعود کے اس رُوحانی تعویذ نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کوئی دوائی نہیں کر سکی تھی.“ آئینہ جمال (چار تقریریں) صفحه ۳۶۵- تقریر ذکر حبیب حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب بر موقع جلسه سالانه ۱۹۶۲ء) محترمه استانی محمد بی بی صاحبہ مرحومه مولوی فاضل بنت حضرت مولوی شادی خاں صاحب مرحوم.ولادت ۱۹۰۶ء پچاس سال کی عمر میں ۵۷-۳-۲ کو وفات پائی.آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ احمدی خواتین میں سے آپ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد آپ جامعہ نصرت میں ( دینیات کلاسز ) عربی کی تعلیم دیتی رہیں.تعلیم القرآن کلاس کی طالبات کی رہائش کا انتظام پانچ چھ سال آپ کی نگرانی میں رہا.آپ بہت نیک، خاموش طبع ، نماز روزہ کی پابند اور غریب پر در خاتون تھیں.محترمه استانی کنیز فاطمه صاحبہ بنت مرزا محمد اسمعیل صاحب مرحوم آف کپورتھلہ زوجہ مرزا نور احمد صاحب عرصہ تک نصرت گرلز سکول کی ٹیچر رہیں.تاریخ پیدائش ۱۰.جون ۱۹۰۶ ء.آ پکی دختر محترمه مسعوده بشیر صاحبہ نصرت گرلز سکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں.

Page 188

180 ۱۳ محترمه استانی عائشہ ایوب صاحبه مرحومه دمحترمه سازه بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ مولوی چراغ دین صاحب.۱۴- محترمہ مائی را جوصاحبه مرحومہ محترمہ مائی رحیم بی بی صاحبہ مرحومہ کے ۱۵- محترمہ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ پیر مظہر الحق صاحب و محترمہ عائشہ صاحبہ اہلیہ اسمعیل سمعیل صاحب سابق نان پر لنگر خانہ لے ۲ لے محترمہ استانی عائشہ ایوب صاحبہ اہلیہ محمد ایوب صاحب: تاریخ بیعت ۱۹۰۵ء.تاریخ وفات ۲۰ اگست ۱۹۵۶ء بروز جمعہ.قادیان میں محلہ دارالرحمت کی سیکرٹری رہی ہیں.لجنہ کے اجلاس ان کے گھر بھی ہوتے رہے.نصرت گرلز سکول قادیان اور ربوہ میں پڑھاتی رہیں.نمائش اور دستکاری کے شعبہ جات میں بھی کام کیا.جلسہ سالانہ پر تقسیم کھانا کی ڈیوٹی بھی ادا کرتی رہیں.دینی خدمات میں شوق سے حصہ لیتی تھیں.ناصرات الاحمدیہ کی جنرل سیکرٹری کے فرائض بھی دو تین سال ادا کئے.محترمہ ساز و بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی چراغ دین صاحب ( والدہ ماجده محترمہ امته الرشید شوکت صاحبه مدیره مصباح) ۱۸۹۸ء میں بمقام سیکھواں ضلع گورداسپور پیدا ہوئیں.آپ کے والد حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے.آپ کے دادا میاں محمد صدیق صاحب وا ئیں کو بھی حضرت مسیح موعود کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.لجنہ کے کاموں میں شوق سے حصہ لیتی تھیں.محلہ دارالرحمت قادیان میں لجنہ اماءاللہ کی سیکرٹری مال رہیں.کچھ عرصہ جلسہ سالانہ پر تقسیم کھانا کی ڈیوٹی بھی ادا کرتی رہیں.لوائے احمدیت کے لئے سوت کاتنے میں بھی حصہ لیا.۵۷ سال کی عمر میں ۲۵.دسمبر ۱۹۵۵ء کور بوہ میں فوت ہوئیں اور مقبرہ بہشتی ربوہ میں دفن ہوئیں.محترمہ مائی راجو صاحبه زوجه محبوب علی صاحب - عمر ۸۵ سال - تاریخ وفات ۱۴ ستمبر ۱۹۵۶ء مدفن بهشتی مقبره ربوہ قطعہ نمبر ۳.وصیت نمبر ۱۵۷۱.لمبا عرصہ نصرت گرلز ہائی سکول میں مددگار کارکن کے طور پر محنت اور اخلاص سے کام کیا.محترمہ رحیم بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری نور محمد صاحب دھرم کوٹ بگہ.۸۰ سال کی عمر میں ۱۱.اکتوبر ۱۹۵۲ء کو وفات پائی.لے محترمہ مریم بیگم صاحبہ:.زوجہ پیر مظہر الحق صاحب.پیدائش ۱۸۹۴ء پیدائشی احمدی.حضرت اُم المومنین نے اپنی نگرانی اور انتظام میں ان کی شادی کی.حضرت خلیفہ اول نے نکاح پڑھا حضرت خلیفہ اول اور پھر حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت کرنے کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحه ۴۵۱

Page 189

181 اس کے بعد مجلس عاملہ مرکزیہ (جس میں اس وقت ربوہ کے حلقہ جات کی صدر بھی شامل تھیں) کی عہدہ داروں نے اینٹیں رکھیں جن کے نام اور ترتیب مندرجہ ذیل ہے :.۱۶.حضرت سیدہ مہر آپا صاحب مدظلہا ومحترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب رض ۱۷.حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ محترمہ امته الرشید شوکت صاحبہ سیکرٹری تبلیغ ۱۸.محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود سیکرٹری تربیت و اصلاح و صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ٹسیکرٹری ناصرات ۱۹ محتر مہ خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی فضل الدین صاحب وکیل و محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ عبدالواحد صاحب ۲۰ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب و محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ نائبہ سیکرٹری مال اس کے بعد چند بیرونی ممالک کی نمائندگان نے بھی اینٹیں رکھیں جن میں یہ بہنیں شامل تھیں:.۲۱.محترمہ والدہ صاحبہ مرحومه حاجی جنود اللہ صاحب ( چینی ترکستان ) و محترمه سیاره حکمت صاحبه اہلیہ محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (شام) ۲۲.محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب سماٹری (انڈونیشیا) و محترمہ بشری بیگم (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ ) کا اندرونِ خانہ میں تمہیں پینتیس سال تک پہرہ دینے کی ( موسم گرما میں صبح ۶ سے ۱۰ بجے تک اور موسم سرما میں ۸ بجے سے ابجے تک توفیق ملی.جلسہ سالانہ کے ایام میں تو نماز فجر سے لے کر رات ابجے تک آپ پہرہ کی خدمت سرانجام دیتی تھیں.محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ محمد اسمعیل صاحب نان پر لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام - عمر ۷۵ سال.بچپن سے دار حضرت مسیح موعود میں پرورش پائی.آپ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خادمہ تھیں.حضرت اُم المومنین کی آخری بیماری میں آپ نے بہت خدمت کی ہے.ہ ان صحابیات میں سے اس وقت استانی مریم صاحبہ اچھل پری صاحبہ، استانی کنیز فاطمہ صاحبہ،مریم بیگم صاحبہ اہلیہ پیر مظہر الحق صاحب اور عائشہ صاحبہ اہلیہ محد اسمعیل صاحب زندہ ہیں اللہ تعالئے ان کی عمر میں برکت دے.آمین.ا محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ کو پاکستانی ہیں لیکن ان کے شو ہر مبلغ انڈونیشیا ہیں.

Page 190

182 صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (مغربی افریقہ ) ۲۳ محترمه لطیفن صاحبہ اہلیہ ایس.احمد اسمعیل صاحب ( سیلون ) و محترمہ رقیہ صادق صاحبہ اہلیہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب (مالا بار) ۲۴.چوبیسیوں اینٹ حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ، حضرت سیدہ ساڑہ بیگم صاحبہ مرحومہ و حضرت سیدہ اُئِم طاہر صاحبہ مرحومہ کی یادگار کے طور پر صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ حضرت اُمم ناصر صاحبہ نے رکھی.آخری اینٹ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل سیکرٹری لجنہ اماء الله مرکز یہ ومحترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ و محترمہ سراج بی صاحبہ نے رکھی.اس کے بعد دعا ہوئی اور دعا کے بعد شیرینی تقسیم کی گئی.محترمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ چونکہ لائکپور گئی ہو ئیں تھیں اس لئے انہوں نے واپس آکر صحابیہ اور سیکرٹری مال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی حیثیت سے اینٹ رکھی لے حضور کی طرف سے اظہار خوشنودی اور چندہ کی تحریک: قریباً اسی ہزار روپیہ کی لاگت سے یہ دفتر ۱۹۵۲ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا.حضور نے ۲۷.دسمبر ۱۹۵۱ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں (جو حضور نے مردانہ جلسہ گاہ میں فرمائی ) فرمایا کہ:.جس بات کی انہوں نے نے مجھ سے خواہش کی ہے وہ یہ ہے کہ میں عورتوں میں تحریک کروں کہ لجنہ اماءاللہ کا دفتر بن گیا ہے وہ اس کے چندہ کی طرف زیادہ توجہ کریں.اس میں تو میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں نے پھر ہم پر بازی لے لی ہے.مردوں کے دفتر بھی بنیادوں سے ہی نیچے پڑے ہوئے ہیں اور سال سال دو دو سال سے رقمیں بھی منظور ہو چکی ہیں.سامان بھی آچکے ہیں اور افسر بھی مقرر ہو چکے ہیں اور انجینئر بھی ہیں.لیکن وہ ابھی تک ابتدائی مراحل سے بھی نہیں گزرے مگر عورتوں کا دفتر خدا تعالی کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے صرف پر دہ بنانے میں افسر نے کسی قدر سستی کی ہے.اگر وہ الفضل ۷.جون ۱۹۵۰ ء ورجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ مراد ہیں

Page 191

183 پردہ بنا ہوا ہوتا تو اُن کا سارا کام اس جگہ پر بڑی اچھی طرح چل سکتا تھا.میں نے لجنہ سے کہا تھا کہ میری کسی تحریک کی ضرورت ہی نہیں جس وقت مستورات اپنا دفتر بنا ہوا دیکھیں گی بس کہیں گی سبحان اللہ! فورالو چندہ اور اس کو مکمل کرو.پس میرے زیادہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے خیال میں جو سامنے دفتر لجنہ اماء اللہ کا بنا ہوا ہے وہ اپنی شان سے اور اپنی عظمت سے اور اپنے اس نظارہ سے کہ مرد چپ کر کے بیٹھے ہیں اور ہم نے اپنا دفتر بنا لیا ہے عورتوں کو سب وعظوں سے زیادہ کام پر تیار کر دے گا.مجھے یقین ہے کہ وہ بڑے شوق سے جاتے ہی روپے جمع کرنا شروع کر دیں گی اور جو باقی رقم ہے اس کو غالبیا چند دنوں کے اندر ہی پورا کر دیں گی.چونکہ دفتر لجنہ اماءاللہ کی چار دیواری ابھی نہیں بنی تھی اس لئے جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے موقع پر صرف ہال اور کمروں کو استعمال میں لایا گیا.جلسہ سالانہ کے موقع پر ہال میں نمائش لگائی گئی جس کی منتظم محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ تھیں.اور شکرانہ کے طور پر ہال میں سجدہ شکر ادا کیا گیا.جولائی ۱۹۵۲ء میں مکمل طور پر (کچے دفتر کو خالی کر کے) سب کام دفتر سے ہونے لگا اور لجنہ کا کچا دفتر فضل عمر ہسپتال کو دے دیا گیا تا وہ زنانہ حصہ کے طور پر استعمال کر سکیں.ربوہ سے ماہنامہ مصباح کا اجراء: اپریل ۱۹۵۰ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام احمدی خواتین کا ماہنامہ مصباح ربوہ سے شائع ہونا شروع ہوا.یہ پہلا رسالہ تھا جور بوہ سے شائع ہونا شروع ہوا.سلسلہ کے باقی تمام اخبارات و رسائل بعد میں ربوہ میں منتقل ہوئے.ماہنامہ مصباح کی ادارت دسمبر ۱۹۲۶ء سے لے کر مارچ ۱۹۴۷ء تک مردوں کے سپر در ہی.اپریل ۱۹۴۷ء میں اس کا انتظام لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا.ماہ جولائی ۱۹۴۷ء کا پرچہ چھپ چکا تھا کہ تقسیم ملک کے ہولناک فسادات شروع ہو گئے جس کے نتیجہ میں قادیان سے مجبوراً ہجرت کرنا پڑی.اس کے بعد لاہور میں جتنا عرصہ عارضی قیام رہا مصباح شائع نہ ہو سکا.جب لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دفتر ربوہ منتقل ہوا تو اس کے اجراء کے انتظامات شروع کئے گئے بالآخر اپریل ۱۹۵۰ء میں پہلا پر چہ شائع ہوا جو ۳۴ صفحات پر مشتمل تھا اس کی مدیرہ لى الازهار لذوات الحمار حصہ دوم صفحه ۱۳۲، ص ۱۳۳

Page 192

184 محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ مرحومہ بنت محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مقرر ہوئیں اُنہوں نے پہلے پر چہ میں لکھا:.المی نوشتوں کے مطابق ہمارے لئے عزیز از جان بستی قادیان سے ہجرت مقد رتھی ہجرت کے بعد لاہور قیام ہوا.یہاں آکر بتقاضائے حالات اس کے دوبارہ اجراء میں کچھ دیر ہوگئی.ادھر ہمارا لا ہور قیام عارضی تھا.ربوہ ہمارا نیا مرکز زیر تعمیر تھا اس لئے یہی صلاح ٹھہری کہ مصباح کی اشاعت کی طرف توجہ دی جا سکے.یہاں آکر اس کی منظوری کے لئے درخواست دی گئی سوالحمد للہ کہ رسالہ با قاعدہ رجسٹر ڈ ہو کر ایک دفعہ پھر اپنی پہلی شان سے آپ کے ہاتھوں میں ہے ہم اپنے قادر خدا کا بہت بہت شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں نہایت ہی نامساعد حالات میں اس کے پھر سے شائع کرنے کی توفیق بخشی.چونکہ ابھی ربوہ میں کوئی پریس قائم نہیں ہوا تھا اس لئے مصباح کا یہ پر چہ لائکپور سے چھپوانا پڑا.چنانچہ یہ پہلا پرچہ پنجاب الیکٹرک پریس لائل پور سے چھپوا کر ربوہ سے شائع کیا گیا.اور پھر اگست ۱۹۵۴ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے شائع ہونا شروع ہو گیا.دفتری کام کے لئے کلرک محترمہ امتہ الحکیم صاحبہ کو رکھا گیا جو اب تک ذمہ داری سے اس کام کو نبھا رہی ہیں.تیسری تعلیم القرآن کلاس : لجنہ اماءاللہ مرکزی نے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک میں تعلیم القرآن کلاس کھولنے کی تجویز کی اور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں اجازت حاصل کرنے کی درخواست کی حضور نے تحریر فرمایا:.اجازت ہے مرزا محمود احمد نصاب، قیام گاہ ،نگران اور استاتذہ کے متعلق فیصلے کئے.اخبار الفضل اور مصباح میں نصاب کا اعلان کیا گیا اور لجنات کو طالبات بھجوانے کے لئے چٹھیاں ارسال کی گئیں.کے مصباح اپریل ۱۹۵۰ء صفحها

Page 193

185 ۱۴.جون ۱۹۵۰ء سے طالبات آنی شروع ہوئیں اور ۱۹.جون تک آتی رہیں.ان کے لئے رہائش اور کھانے کا انتظام دارالضیافت کی طرف سے تھا.اس کلاس میں شاہدرہ، ماڈل ٹاؤن لاہور ، کھاریاں،سماعیلہ، چنیوٹ ہنٹگمری، چک نمبر ۳۵، چک نمبر ۱۱۷، چک نمبر ۱۲۷ اور ربوہ سے طالبات شامل ہوئیں.۱۸.جون یعنی یکم رمضان المبارک کو پڑھائی شروع ہوئی اور مقررہ پروگرام کے مطابق ۲۴.رمضان المبارک کو نصاب ختم کر دیا گیا.تعلیم کے دوران میں طالبات کے امتحانات ہوتے رہے.دُہرائی بھی ایسے طریق سے کرائی گئی کہ اسباق ان کو اچھی طرح سے ذہن نشین ہو جا ئیں.۲۵.رمضان المبارک کو امتحان کی تیاری کے لئے چھٹی دے دی گئی.۲۶.۲۷.۲۸.رمضان المبارک کو امتحان لیا گیا اور ۲۹.رمضان المبارک کو نتیجہ نکالا گیا.بورڈ کی طرف سے طالبات کے لئے ایک خاص پروگرام تھا تا کہ ان میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ وقت کی پابندی کرتے ہوئے اپنے فرائض کو احسن طریق پر ادا کر سکیں.تمام طالبات خدا کے فضل سے کامیاب ہوئیں اور نتیجہ نہایت خوشکن رہا.۲۹.رمضان المبارک کو نتیجہ سُنانے کے بعد اول ، دوم، سوم اور ہر مضمون میں اول آنے والی طالبات کو انعامات دیئے گئے لے محترمہ رابعہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد ابراہیم صاحب آف سماعیله ۴۵۰/۵۰۰ نمبر حاصل کر کے اول اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حکیم نظام الدین صاحب ۴۲۵/۵۰۰ نمبر حاصل کر کے دوم رہیں.کامیاب ہونے والی طالبات کے نام یہ ہیں :.محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حکیم نظام الدین صاحب بیگم کوٹ لا ہور محترمہ نذیر بیگم صاحبہ بنت فضل الدین صاحب سماعیلہ ضلع گجرات.محترمہ سلیمہ قدسیہ صاحبہ بنت ماسٹر ابراہیم خلیل صاحب ربوہ محترمہ شریفہ بیگم صاحبہ ربوہ محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ بنت میاں نورالدین صاحب کھاریاں ضلع گجرات محترمہ امته اللطیف صاحبہ بنت ماسٹر نذیر احمد خاں صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور محترمہ طاہرہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری فضل الہی صاحب کھاریاں ضلع گجرات.محترمہ امتہ الرشید صاحبہ بنت عبدالکریم صاحب لے مصباح اگست ۱۹۵۰ء صفحه ۱۸

Page 194

186 چنیوٹ ضلع جھنگ محترمہ رابعہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد ابراہیم صاحب سماعیلہ ضلع گجرات.محترمہ امتہ القیوم صاحبہ بنت چوہدری ہدایت اللہ صاحب چک نمبر ۳۵ جنوبی سرگودہا.محترمہ امینہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری رحیم بخش صاحب چک چهور محترمہ امته الرشید صاحبہ بنت میاں عبدالرحیم صاحب در ولیش ربوہ ضلع جھنگ.محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ربوہ محترمہ مسعودہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری غلام صفدر صاحب بہلولپور.امتحانات ۱۹۵۰ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام مندرجہ ذیل امتحانات ہوئے :.(۱) ۳۰.اپریل کو کتاب مقامات النساء (مولفہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب) کا امتحان ہو ا.۱۳۵ خواتین اس میں شامل ہوئیں ۱۳۴ کامیاب رہیں.اول : محموده صاحبه دختر شیخ محمد لطیف صاحب ملتان دوم :.امتہ اللہ صاحبہ بیگم پیر صلاح الدین صاحب ملتان سوم :.زینب حسن صاحبہ ملتان چھاؤنی و سعیدہ بیگم صاحبہ بنت بابو اکبر علی صاحب مرحوم گوجرانوالہ.(۲) دوسرا امتحان -۶ جون کو قرآن کریم کے پہلے پارہ کے نصف آخر کے ترجمہ کا ہوا.۴۶ خواتین نے تحریری امتحان دیا اور اس نے زبانی امتحان دیا.اول :.عائشہ بیگم صاحبہ بلاک ب ربوہ کے اور استانی برکت صاحبه ربوہ دوم :.امتہ الحفیظ بر لاس صاحبہ ربوہ اور خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی فضل دین صاحب ربوه سوم :.مریم صدیقہ صاحبہ حلقہ نمبر ۳ ربوہ، امتہ السلام صاحبہ حلقہ نمبر ۳ ربوہ اور امتہ الہادی صاحبہ حلقہ نمبرار بوہ.لے مصباح ستمبر ۱۹۵۰ صفحه ۳۵ کے ۱۹۵۰ء تک ابھی محلہ جات اس شکل میں آباد نہیں ہوئے تھے جس شکل میں آب موجود ہیں.کچے گھر تھے اور ان کے بلاک ا.ب.جد وغیرہ سے پکارے جاتے تھے.

Page 195

187 (۳) تیسرا امتحان کتاب احمدی اور غیر احمدی میں فرق ، دلائل ہستی باری تعالیٰ اور قرآن مجید کا ہوا.یہ امتحان ۲۳.جولائی کو ہوا اس میں ۱۳۸ ممبرات شامل ہوئیں جن میں سے ۱۱۸ کامیاب ہوئیں.اوّل: حمیدہ صاحبہ چک نمبر ۹۶ گ.بضلع لائل پور دوم :.امتہ الرحمن صاحبہ چنیوٹ سوم :.نعیمہ مبارکہ صاحبہ سرگودہا (۴) ۳.نومبر کو کتاب اسوۂ حسنہ کا امتحان ہو ا جس میں صرف ۱۳ لڑکیاں شامل ہوئیں اس میں مسز زینب حسن صاحبہ اہلیہ محمودالحسن صاحب لاہور اول رہیں امتہ التی لائبریری کا احیاء لجنہ اماءاللہ کی شوری بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء کے فیصلہ کے مطابق لائبریری کے لئے چندہ لیا جانا شروع ہو چکا تھا.چنانچہ یکم نومبر ۱۹۵۰ء کو دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں امتہ الحی لائبریری کا احیاء کیا گیا.تلاوت قرآن محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے کی بعد ازاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا کہ:.یہ لائبریری جس کا آج احیاء کیا جارہا ہے کہ حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ کی یادگار کے طور پر قائم کی گئی تھی اور اس لئے اس کا نام امتہ الحی لائبریری رکھا گیا.قادیان میں میری انتہائی خواہش تھی کہ میں اس لائبریری کو ترقی دوں لیکن لائبریری کے لئے کوئی الگ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی.لائبریری بہت چھوٹے پیمانہ پر تھی.اس کو ترقی دینے کی سکیمیں بنائی جارہی تھیں کہ وہ سیلاب عظیم آیا کہ جس نے ہمیں اپنے مرکز سے اتنی دور لا پھینکا.خدا تعالیٰ کی مشیت یہی تھی جماعت منتشر ہوئی لیکن اولو العزم محمود کے ذریعہ بکھری ہوئی جماعت کے دانے پھر ایک لڑی میں پرو دیئے گئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مرکز ثانی عطا فرمایا اور توفیق دی کہ ہم اپنے تمام کام اسی لے لائبریری کا اجراء ۱۶.ستمبر ۱۹۲۷ء کو قادیان میں ہو ا تھا.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۲۶۴

Page 196

188 طرح کر سکیں جس طرح قادیان میں کیا کرتے تھے.قادیان میں تو شاید ہی کوئی گھر ہوگا جس میں حضرت مسیح موعود بزرگان سلسلہ اور دیگر مذہبی اور علمی کتب کا ذخیرہ موجود نہ ہو.لیکن اس قیامت صغریٰ کی بدولت جو ۱۹۴۷ء میں آئی لوگوں نے جہاں اپنا سب کچھ اپنے گھروں میں چھوڑا وہاں وہ اپنی کتب بھی وہیں چھوڑ آئے اس لئے بہت ہی ضروری تھا کہ ربوہ میں ایک زنانہ لائبریری قائم کی جائے جس سے عورتوں میں علمی ذوق پیدا ہو اور وہ کتب کو پڑھ کر اپنے علم کو بڑھائیں.پس اس غرض کے لئے لجنہ اماءاللہ کی شوریٰ جو جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۴۹ء میں منعقد ہوئی.میں نے یہ تجویز پیش کی کہ امتہ الحی لائبریری کو دوبارہ قائم کیا جائے اور اس کے لئے تین ہزار روپیہ کی تحریک کی.شوری کے موقع پر ۵۸ بیرونی بجنات کی نمائندہ موجود تھیں جنہوں نے نہایت گرم جوشی سے اس تحریک پر لبیک کہا.جو چندہ اس وقت وصول ہو چکا ہے اس سے لائبریری قائم کر دی گئی ہے اور اس وقت لائبریری میں ۴۰۲ کتب موجود ہیں اور مزید کتب منگوائی جارہی ہیں امید ہے کہ بہنیں اس لائبریری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں گی تا یہ تھا سا پودا جلد از جلد پروان چڑھ کر ایک تناور درخت بنے جس کے سایہ سے آنے والی قو میں فائدہ اُٹھا ئیں.تقریر کے بعد دعا کے ساتھ لائبریری کا افتتاح کیا گیا.بہت سی عورتوں نے ممبری کے لئے نام لکھوائے اور کتب حاصل کیں اے یہ لائبریری خدا کے فضل سے موجودہ دفتر لجنہ اماءاللہ میں با قاعدہ جاری ہے.اس وقت کتب کی تعداد ۱۱۵۳ ہے.اخبارات کے فائل اس کے علاوہ ہیں.ابتداء میں لائبریری کی نگران امتہ احکیم صاحبہ کو مقرر کیا گیا پھر نصیرہ نزہت صاحبہ نے ایک لمبا عرصہ تک اس کا انتظام کیا.یکم جون ۱۹۷۰ء سے لائبریری کا کام عزیزہ خورشید صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب لودھی کے سپر د ہے.لے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزی ۱۹۵۰ء

Page 197

189 لجنہ لاہور سے حضرت خلیفہ لمبی الثانی کا خطاب : السیح ۵.جون کو سات بجے شام احاطہ رتن باغ لاہور میں لجنہ اماءاللہ لا ہور کے ایک اجتماع سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے خطاب فرمایا.حضور نے اپنی تقریر کے آغاز میں بتایا کہ:.میری طبیعت آج کل ایسی تو نہ تھی کہ میں کوئی تقریر کر سکتا لیکن ایک دن جبکہ مجھے شدید ہیٹ سٹروک کی تکلیف تھی اور میں سخت سردرد کی وجہ سے اپنے بستر پر پڑا ہوا تھالا ہور کی لجنہ اماءاللہ کی چند عہد یدار میرے پاس ربوہ پہنچیں اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا ہے کہ آپ بلوچستان جا رہے ہیں ہم چاہتی ہیں کہ آپ ہمارے اجتماع میں بھی ایک تقریر فرمائیں.فوری طور پر اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے میرا خیال اس طرف گیا کہ میں انکار کر دوں لیکن جب میں نے یہ دیکھا کہ میں تو اپنے کمرہ میں بھی گرمی اور لو لگنے کی وجہ سے بیمار ہوں اور یہ اس شدید گرمی میں لا ہور سے چل کر آئی ہیں تو میں نے کہا کہ شاید میرا انکار اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہو چنانچہ میں نے تقریر کرنا منظور کر لیا.“ اس کے بعد حضور نے سورہ فلق کی لطیف تفسیر بیان فرماتے ہوئے اپنا ایک رؤیا سُنایا اور عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:.”اے عورتو! تمہارے لئے آزادی کا وقت آگیا ہے.خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے ذریعہ تمہارے لئے ترقی کے بے انتہاء راستے کھول دیئے ہیں.اگر اس وقت بھی تم نہیں اُٹھو گی تو کب اُٹھو گی ؟ اور اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جد و جہد نہیں کروگی تو کب کروگی ؟...اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں ہوتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتا دو کہ تمہارا تعلق اُن سے اُس وقت تک ہے جب تک وہ دین کی خدمت کرتے ہیں.بے شک قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ اگر مرد جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا اور عورت نچلے مقام پر ہوگی تو عورت بھی اس کے پاس رکھی جائے گی.اسی طرح اگر عورت اعلیٰ مقام پر ہوگی تو مرد بھی اس کے پاس رکھا جائے گا.“ سے ا محترمہ امتہ اللہ مغل صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ لا ہور اور محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ بنت میاں معراج الدین صاحب پہلوان مرحوم سیکرٹری لجنہ اماءاللہ بھاٹی گیٹ لاہور ، ربوہ تشریف لائی تھیں اور لاہور میں محترمہ امتہ اللہ صادق صاحبہ نے جلسہ کے انتظامات کئے تھے.ل الازهار لذوات الخمار حصّہ دوم ص ۸۳، ص۸۴

Page 198

190 حضور نے جس رؤیا کا ذکر فرمایا وہ مندرجہ ذیل ہے:.چند دن ہوئے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرد ہے جو اپنے پاؤں سے کسی چیز کو مسل رہا ہے مگر خواب میں میں اس کو ایک مرد نہیں سمجھتا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تمام مر دوں کا نمائندہ یا ان کا قائمقام ہے.اس مرد پر ایک چادر پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے پیروں کو زمین پر اس طرح مار رہا ہے جیسے کسی چیز کو مسلنے کے لئے بار بار پیر مارے جاتے ہیں.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ جہاں اس کے پیر ہیں وہاں کیچڑ میں دُنیا بھر کی عورتیں مچھلیوں کی صورت میں پڑی ہوئی ہیں اور وہ ان کو اپنے پیروں سے مسلنا چاہتا ہے.یہ دیکھ کر میرے دل میں عورتوں کی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا اور میں اس کے سینہ پر چڑھ گیا اور پھر میں نے اپنی لاتیں لمبی کیں اور جہاں اس کے پاؤں ہیں وہاں میں نے بھی اپنے پاؤں پہنچا دیئے.مگر وہ تو ان عورتوں کو مسلنے کے لئے پیر مار رہا ہے اور میں اس کے پاؤں کی حرکت کو روکنے اور ان عورتوں کو ابھارنے کے لئے اپنے پاؤں لمبے کر رہا ہوں.اسی دوران میں ان عورتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں.”اے عور تو تمہارے لئے آزادی کا وقت آگیا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کے ذریعہ تمہاری ترقی کے راستے کھول دیئے ہیں اگر اس وقت بھی تم نہیں اُٹھو گی تو کب اُٹھو گی.اور اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جد و جہد نہیں کرو گی تو کب کرو گی.“ میں نے دیکھا کہ جوں جوں میں نے ان کو ابھارنے کے لئے اپنے پیر ہلانے شروع کئے نیچے سے وہ مچھلیاں جن کو میں عورتیں سمجھتا ہوں ابھرنی شروع ہوئیں اور وہ اتنی نمایاں ہو گئیں کہ میرے پیروں میں ان کی وجہ سے بھیجی شروع ہوگئی اور اس آدمی کے پیر آپ ہی آپ کھلنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ بالکل کھل گئے.پھر میں نے اپنے مضمون کو بدل دیا اور عورتوں کے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا.یہ وقت اسلام اور احمدیت کی خدمت کرنے کا وقت ہے اگر اس وقت مرد اور عورت مل کر کام نہیں کریں گے اور اسلام کے غلبہ کی کوشش نہیں کریں گے تو اسلام دُنیا میں غالب نہیں آسکے گا.تم کو چاہیئے کہ تم اپنے مقام کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے دین کی جتنی خدمت بھی کر سکو اتنی خدمت کرو پھر میں اور زیادہ زور سے ان سے کہتا ہوں.

Page 199

191 اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے اور تمہیں بھی دین کا کام نہیں کرنے دیتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتا دو کہ تمہارا ان سے اسی وقت تعلق رہ سکتا ہے جب تک وہ دین کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں.اور یہ الفاظ کہتے کہتے میری آنکھ کھل گئی.لجنہ اماءاللہ کو سٹہ سے حضرت مصلح موعود کا خطاب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس سال بھی کو ئٹہ تشریف لے گئے وہاں حضور نے مورخہ ۳۱.جولائی ۱۹۵۰ء کو لجنہ اماءاللہ کوئٹہ سے ایک اہم خطاب فرمایا جس میں حضور نے فرمایا:......ابتدائے آفرنیش سے عورت اور مرد کی آپس میں مشارکت پائی جاتی ہے اور ان دونوں پر بعض ذمہ داریاں عائد ہیں جن پر مذہبی کتب ہمیشہ سے بحث کرتی چلی آئی ہیں.احکام اور انعامات میں بھی دونوں کا ذکر اکٹھا کیا گیا ہے.ابتدائی زمانہ میں عورتیں خدمت دین کرتی تھیں اور ان میں خدمت کا احساس پایا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ جہاد میں بھی شریک ہوا کرتی تھیں.وہ جنگی فنون سے واقف تھیں.وہ رسول کریم صلی علیہ وسلم کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ سے فائدہ اُٹھانا چاہتی تھیں.وہ اپنے قومی کاموں میں اپنے جذبات کی کوئی پروا نہیں کرتی تھیں.وہ قومی ذمہ داریوں کے سامنے اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کر دیتی تھیں.لیکن اس زمانہ میں یہ چیز نا پید ہے.“ حضور نے مزید فرمایا کہ:.مسلمانوں پر جو تباہی آئی ہے اس کا بڑا سبب یہ ہے انہوں نے قرآن کریم سے اپنی توجہ ہٹالی اور دُنیا میں منہمک ہو گئے.اس کے ازالہ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم آتا ہو.اگر قرآن کریم کے ہمیں معنی نہیں آتے یا معنی تو آتے ہیں مگر ہم اسے پڑھتے نہیں تو اس کا فائدہ کیا.ان پڑھ ہونے کا عذر کوئی چیز نہیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی عزیز کی کوئی چٹھی آتی ہے تو ان پڑھ عورتیں جب تک اُسے آٹھ دس افراد سے پڑھا کر سُن نہیں لیتیں آرام نہیں کرتیں.اسی طرح قرآن کریم ہمارے خدا کا ایک خط ہے جو ہمارے نام آیا.تو ان پڑھ ہونا کوئی عذر نہیں رکھتا.ہمیں اس خط کو بار بار پڑھوا کر سُننا له الفضل ۲۰.جون ۱۹۵۰ء ص ۲

Page 200

192 66 چاہیئے.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سُنانے والا کوئی چیز چھوڑ گیا ہو...“ آخر میں حضور نے اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ دردناک حالت کا نقشہ کھینچا اور فرمایا:.ایک بچہ کے رونے کی آواز سنکر ماں اپنا کام چھوڑ دیتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی آواز آئے اور عورتیں اپنا کام چھوڑ نہ دیں.ایک عزیز کی تکلیف کو دیکھ کر انسان کے اندر جوش پیدا ہو جاتا ہے پھر کتنے تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کے دُکھ اور تکلیف کو دیکھ کر ہمارے اندر کوئی جوش پیدا نہ ہو.خدا تعالیٰ اور اس کا رسول اس وقت مدد کے لئے پکار رہے ہیں اور ہر عورت اور ہر مرد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھے اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے.“ اے لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی تنظیم : اگست ۱۹۵۰ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا بھی حضور کے ہمراہ کوئٹہ میں تشریف رکھتی تھیں وہاں پر آپ نے لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی از سرنو تنظیم فرمائی اور کام کو بہتر بنانے کے لئے چھاؤنی کا الگ حلقہ مقرر کیا.آپ کی موجودگی میں لجنہ اماءاللہ کا ایک جلسہ مسجد احمدیہ میں منعقد ہو ا جس میں آپ نے بھی تقریر فرمائی اور عورتوں کو ضروری ہدایات دیں.آپ کی سعی کی وجہ سے لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کی تنظیم مضبوط ہوگئی اور اس میں بیداری پیدا ہوئی.ہے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کالجنہ اماءاللہ کراچی سے خطاب : ماہ تمبر ۱۹۵۰ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کراچی تشریف لے گئے.وہاں پر ۱۷.ستمبر کو حضور نے احمد یہ ہال کراچی میں لجنہ اماءاللہ کراچی سے ایک اہم خطاب فرمایا.انسانی پیدائش کی غرض بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا:." يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ - اے مردو اور عور تو تم پناہ اور ڈھال کے طور پر بنالو اپنے رب کو الَّذِی خَلَقَكُمُ وہ جس نے تم کو پیدا کیا مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ایک ہی قسم کی طاقتوں کے ساتھ ایک له الفضل ۹.اگست ۱۹۵۰ ء ص ۶ ، الازهار لذوات الخمارص۸۱ الفضل ۲۷.اگست ۱۹۵۰ء ص ۴۲ کالم نمبرم

Page 201

193 ہی قسم کے جذبات کے ساتھ ، ایک ہی قسم کے ارادوں کے ساتھ ، ایک ہی قسم کی فکروں کے ساتھ ، ایک ہی قسم کی اُمنگوں کے ساتھ.گویا اس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مردو عورت جہاں تک نفس کا تعلق ہے برابر ہیں اور ایک ہی اصل پر چل رہے ہیں.جس قسم کی باتیں مرد کو غصہ دلا سکتی ہیں ویسی ہی باتیں ایک عورت کو بھی غصہ دلا سکتی ہیں.جس قسم کے سلوک کو ایک مرد نا پسند کرتا ہے ویسے ہی سلوک کو ایک عورت بھی نا پسند کرتی ہے.اور جس قسم کے جذبات ایک مرد میں پائے جاتے ہیں ویسے ہی جذبات ایک عورت میں پائے جاتے ہیں.پس جہاں تک نفس انسانی کا تعلق ہے وہی نفس مرد میں پایا جاتا ہے وہی نفس عورت میں پایا جاتا ہے.مردوں اور عورتوں کے یکساں جذبات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے پھر فرمایا:.یہ ایک اصولی بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے جس میں اسلام کو باقی تمام مذاہب پر فوقیت حاصل ہے.دُنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے یہ بیان نہ کیا کہ عورت ومرد کے جذبات اور احساسات اور اُمنگیں ایک ہی قسم کی ہیں.یہ خیال کر لینا کہ مرد اور قسم کے ہیں اور عورتیں اور قسم کی ہیں غلط ہے.جیسے ایک عمارت میں اگر کچھ لوگ رہتے ہیں اور ان کے ہمسایہ میں بعض اور لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اور قسم کے مرد ہیں اور وہ اور قسم کے مرد ہیں.بلکہ باوجود الگ الگ محلوں الگ الگ مکانوں اور الگ الگ شہروں میں رہنے کے ہر شخص سمجھتا ہے کہ تمام لوگ ایک جیسی طاقتیں رکھتے ہیں.اسی طرح بے شک عورت و مرد کے جسم الگ الگ ہیں.مگر طاقتیں ایک جیسی ہیں اور ان کے جسموں کا الگ الگ ہونا ایسا ہی ہے جیسے الگ الگ مکان میں مختلف لوگ رہ رہے ہیں.اگر عورت کے جسم میں رُوح آجائے تو وہ کوئی الگ چیز نہیں بن جاتی بلکہ اس کے اندر بھی وہی روح ہے جو مرد کے اندر ہے صرف اس کے جسم کی بناوٹ مرد سے علیحدہ ہے ورنہ اس کے اندر وہی روح پائی جاتی ہے جو مردوں کے اندر پائی جاتی ہے...یہ مضمون جو قرآن کریم بیان فرماتا ہے جو دُنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں دیا گیا اس سے اللہ تعالیٰ یہ سبق دیتا ہے کہ واتقوا الله الذي تساءلون به والارحام ان الله کان علیکم رقیبا.فرماتا ہے اے مردو اور اے عور تو اس خدا کو اپنی ڈھال بنالو

Page 202

194 جس کا نام لے کر تم دُنیا میں اپنی اغراض پوری کرتے ہو اور جس کے نام کے ساتھ تم لوگوں سے رحم اور انصاف کی اپیل کرتے ہو اور کہتے ہو خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو.فرماتا ہے جب تم لوگ یہ کہتے ہو کہ خدا کے واسطے ہمارے ساتھ یوں معاملہ کرو تو تم ہماری طاقت اور قوت کا اقرار کرتے ہو.لیکن ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ تم جب انسانوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہو تو تم کیوں اسی خدا کے پاس نہیں جاتے اور اس سے براہِ راست اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمام تکلیفوں کو دور کرنے والا ہے.“ پھر عورت و مرد کی ذمہ داریوں میں فرق بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.اس آیت میں جہاں تک قوتوں کا سوال ہے جہاں تک جذبات کا سوال ہے جہاں تک افکار کا سوال ہے مردوں اور عورتوں کو برابر قرار دیا گیا ہے.اور جب وہ برابر ہیں اور جب ان کی طاقتیں بھی برابر ہیں تو ان کو کام بھی ایک جیسا ہی کرنا چاہیئے مگر یہ غلط ہے.دُنیا میں ایک کالج سے ہی تین نوجوان بی اے کی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد ایک انجنئیر نگ کی طرف چلا جاتا ہے ایک وکیل بن جاتا ہے اور ایک اچھا ایڈ منسٹریٹر بن جاتا ہے.اب جہاں تک تعلیم کا سوال ہے تینوں کو تعلیمیافتہ قرار دیا جائے گا لیکن ان کی ذمہ داریوں میں فرق ہے.اسی طرح عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دے اور انہیں اچھا شہری بنائے.اسی طرح جو فوجی کام ایسے ہیں جن میں عورت زیادہ بہتر طور پر اپنے فرائض ادا کر سکتی ہے ان میں حصہ لے مثلاً نرسنگ ہے یہ کام عورت زیادہ بہتر کر سکتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم جنگ پر تشریف لے جانے لگے تو ایک صحابیہ آئیں اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں بھی جنگ پر جانا چاہتی ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہاں عورت کیا کرے گی؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں نرسنگ نہیں کر سکتی میں زخمیوں اور بیماروں کی تیمار داری اور ان کی مرہم پٹی کروں گی.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا چلو...سواصل کاموں کو قائم رکھتے ہوئے جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگرانی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو زائد کام عورت کر سکتی ہو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے..لیکن سب سے بڑا کام جو عورت کے ذمہ لگایا گیا ہے وہ تربیت صحیحہ ہے یعنی اولادکو مسیح اور سچا مسلمان بنانا.بہت سی عورتیں یہ

Page 203

195 سمجھتی ہیں کہ یہ کوئی کام نہیں حالانکہ اگر ہم غور کریں تو دُنیا میں جتنی تباہی آئی ہے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہ کرنے کی وجہ سے آئی ہے.اور جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے آئندہ نسل نے ترقی کی ہے، آئندہ نسل کے اچھا ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس کا اگلا قدم تباہی کی طرف اس وقت اُٹھتا ہے جب اس کی آئندہ نسل خراب ہو گئی ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو ہی دیکھ لو میں سال تک اسلام نے کیسی شاندار ترقی کی ہے مگر پھر جیسا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا میرے منبر پر سور اور گنتے ناچ رہے ہیں.تمیں چالیس برس کے بعد ایسے نو جوان پیدا ہو گئے جن کی ماؤں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی تھی اور وہ ایسے خراب ثابت ہوئے کہ بادشاہ بھی بنے ، وزراء بھی بنے ، گورنر بھی بنے ، علاقوں کے حکمران بھی بنے مگر اسلام سے ان کو اتنی دوری تھی کہ خدا نے ان کو سو روں اور کتوں سے مشابہت دی.وہ اس ممبر پر بیٹھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا تھا مگر انہوں نے باتیں وہ کیں جو گتوں اور ٹوروں والی تھیں اور جو اتنی بھیانک اور خوفناک تھیں کہ خود ان کی اولادوں نے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار کیا.“ اس ضمن میں آپ نے فرمایا: ” تو ماں کی تربیت ایک نہایت اہم چیز ہے.مرد کا کام موجودہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے عورت کا کام آئندہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے.یہ صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی.بے شک موجودہ کام مرد کرتے ہیں لیکن آئندہ دور کی تعمیر عورتیں کرتی ہیں اگر عورتوں نے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں کی ہوگی اور ایسے قائمقام پیدا نہیں کئے ہوں گے جو دین اور تقویٰ سے متاثر ہوں تو مردوں کی تمام کوششیں اکارت چلی جائیں گی.پس عورت کی ذمہ داری مرد سے کم نہیں..پس پہلا ابوبکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا ابوبکر ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہلا عمر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا عمر ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہلا عثمان محمد رسول اللہ نے پیدا کیا لیکن دوسرا عثمان ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہلا علی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا علی ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.اور جب انہوں نے پیدا نہ کیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ تباہی آگئی، عدل جاتا رہا، انصاف قائم نہ رہا اور چاروں طرف ظلم ہی ظلم ہونے لگا.آخر مسلمانوں کی اگلی نسل کیوں بگڑی؟ کیا ان کے بگاڑنے کیلئے جہنم سے شیطان آئے تھے.

Page 204

196 وہ اس لئے بگڑے کہ عورتوں نے اپنی ذمہ داری نہ مجھی اور انہوں نے اپنی اولا د کو ایسی تعلیم نہ دی جس کے ماتحت وہ اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے والے ہوتے.پس عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر دین بخش سکتی ہیں.عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر ایمان بخش سکتی ہیں.“ لے عورتوں کی دینی تعلیم کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی جماعت کو نصائح :.حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۹ ستمبر ۱۹۵۰ء کو لاہور میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ عورتوں کے لئے دین سیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں.حضور نے فرمایا:.عورتوں کی اصل ذمہ داری اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہے تو ان کی تعلیم صرف اس رنگ میں ہونی چاہئے کہ کچھ دینی تعلیم ہو اور کچھ دنیوی تعلیم تا کہ اپنی اولاد کو اسلام کی خدمت کے لئے تیار کر سکیں..پس عورتوں کا دین کی تعلیم سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے اور کم سے کم تعلیم جو کسی عورت کو حاصل ہوسکتی ہے وہ جمعہ اور عیدین کے خطبات میں شامل ہو کر ہی حاصل ہوسکتی ہے مثلاً یہی جو میرا خطبہ ہے اس میں سے اگر خالص امور عورتوں کے متعلق نکالے جائیں تو کئی نکالے جاسکتے ہیں...پس اگر ہماری عورتوں کو اس طرح تعلیم نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے فرائض کو صحیح طریق پر سرانجام دے سکیں تو ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ انہیں چاردیواری میں قید کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کی تعلیم کے لئے کوئی موقع ہی پیدا نہیں کیا جاتا.یہی چھوٹی سی بات دیکھ لو کہ آپ کی مسجد میں پانچویں یا چھٹے حصہ کے برابر عورتوں کی گنجائش ہے حالانکہ عورتیں مردوں سے نصف ہیں....پھر تعلیم وہ کہاں حاصل کر سکتی ہیں اور دین کی واقفیت انہیں کس طرح ہو سکتی ہے ابھی ہمیں ایسی سہولتیں میسر نہیں کہ ہم ہر جگہ قرآن کریم کا درس جاری کر سکیں جیسا کہ قادیان میں ہوا کرتا تھا اور جیسا کہ ربوہ میں انشاء اللہ ہو جائے گا.لیکن اگر ہم اس بات پر قادر نہیں کہ ہر جگہ ایسا انتظام کر سکیں تو کم سے کم جمعہ کو ایک خطبہ تو عورت کو سنے کا موقع دینا چاہئیے میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر عورتوں کے اندر بیداری پیدا کر دی جائے اور انہیں دین سے واقف کیا جائے تو وہ اپنے مردوں کو نہایت آسانی کے ساتھ راہ راست پر لاسکتی ہیں.ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم ص ۸۹ تا ص ۹۹

Page 205

197 عورتوں کی عام حالت یہ ہے کہ چونکہ ان میں دینی تعلیم کم ہے اگر ان کے خاوند کسی وقت مرند ہوتے ہیں تو ساتھ ہی وہ بھی مرتد ہو جاتی ہیں چنانچہ آج تک جتنے لوگ مرتد ہوئے ہیں ان کے ساتھ ہی ان کی بیویاں بھی مرتد ہوتی رہی ہیں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کا ایمان محض رسمی تھا.اس کے مقابلہ میں جہاں صحیح ایمان تھا وہاں بعض عورتوں نے اپنے خاوندوں کا اتنا سخت مقابلہ کیا کہ آخر انہیں دین کی طرف واپس لے آئیں.لیکن جہاں بھی عورت کی دینی تعلیم کم تھی وہاں خاوند کو ٹھوکر لگی تو ساتھ ہی عورت بھی ٹھو کر کھا گئی.پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس اس مسجد سے بڑی مسجد ہو اور ضروری ہے کہ یہاں کے مقامی مبلغ لجنہ اماءاللہ کو توجہ دلا کر ایسا انتظام کریں کہ عورتوں کو دینی تعلیم دی جاسکے وہ ان کے سامنے نبوت.وفات مسیح.صداقت مسیح موعود اور موجودہ زمانہ کے اہم مسائل پر تقریریں کریں اور پھر سادہ اور آسان الفاظ میں ان کو نوٹ لکھوائیں تاکہ وہ ان کو یاد رکھیں اور ضرورت کے وقت ان سے فائدہ اٹھا سکیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس رنگ میں عورتوں کو تعلیم دی جائے ، ان کے سامنے تقریریں کی جائیں اور انہیں مختلف مسائل پر نوٹ لکھوائیں جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں عورتوں کی تبلیغ مردوں سے آگے نکل جائے گی اور اگر عورتوں میں ہمارا تبلیغی اثر پہنچ جائے تو مرد خود بخو د سلسلہ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور ہوں گے...جہاں تک تعلیم کا سوال ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اتنی تعلیم نہ تھی جتنی آج کل عورتوں میں پائی جاتی ہے مگر اس کے باوجودان میں کتنی بلند خیالی پائی جاتی تھی.کتنی بلند حوصلگی پائی جاتی تھی.کتنی قربانی پائی جاتی تھی.کتنی علم دین حاصل کرنے کی تڑپ پائی جاتی تھی.کتنا عمل پایا جا تا تھا.اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا اور ان کے جذبات کود بایا نہیں جاتا تھا.بہر حال صحیح تربیت کے لئے ضروری ہے کہ عورتیں دین سیکھیں اور عورتوں کے لئے دین سیکھنے کا کم سے کم موقع یہ ہے کہ وہ جمعہ میں آئیں اور خطبہ سنیں.“ اے لڑکیوں کے ناموں کے متعلق ایک غلطی کی اصلاح:.۲۹ دسمبر کو بمقام، یوہ خطبہ جمعہ سے قبل حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی نے متعدد نکاحوں کا اعلان فرمایا.اس کے دوران حضور نے جماعت کو اس کی ایک غلطی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.ا الفضل لا ہورا ا را کتوبر ۱۹۵۰ء ص ۳ تاص۸

Page 206

198 ”ہماری جماعت میں لڑکیوں کے ناموں کے متعلق ایک غلطی ہورہی ہے جو مشرکانہ ہے اور جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ غلطی کیوں ہو رہی ہے.اگر دوسروں میں یہ غلطی ہو تو اس قد رافسوس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے ہی اسلام سے دور ہیں لیکن ہم لوگ تو وہ ہیں جو اسلام کو خوب سمجھتے ہیں پھر ہمارے اندر وہ نقص کیوں پیدا ہو.ہماری ایک بہن کا نام مبارکہ بیگم ہے اور ایک کا نام امتہ الحفیظ.ایک بہن جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئی تھی اس کا نام عصمت تھا.اسی طرح ایک دوسری بہن کہ وہ بھی چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئی تھی اس کا نام شوکت تھا.گویا سوائے ایک بہن کے کسی کے نام میں خدا تعالیٰ کا نام نہیں آتا.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے وابستگی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لڑکوں کے ناموں میں احمد کا نام آتا ہے خدا تعالیٰ کا نہیں آتا.پس مجھے بُرا لگا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے خاندان کے ناموں میں سے جاتا رہے چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ لڑکیوں کے نام میں امتہ کے نام پر رکھا کروں گا تا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے گھروں میں قائم رہے.چنانچہ ہمارے خاندانوں میں سے جو لوگ مجھ سے اپنی لڑکیوں کا نام رکھواتے ہیں میں ہمیشہ امتہ کے ساتھ ان کے نام رکھتا ہوں اور جنہوں نے یہ نام نہیں رکھوانا ہوتا وہ مجھ سے پوچھتے ہی نہیں.بہر حال جب وہ پوچھتے ہیں میں ہمیشہ اصرار سے امتہ کے لفظ کے ساتھ ان کی لڑکیوں کا نام رکھتا ہوں.یہ قدرتی بات ہے کہ جس خاندان کا تعلق سلسلہ کے بانی کے ساتھ ہو اس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی ہیں اور وہ بھی انہی کے طریق پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ ہماری جماعت میں عام طور پر لڑ کیوں کے نام امہ کے لفظ کے ساتھ رکھے جاتے ہیں بلکہ یہ ایک فیشن ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے نام امتہ اللہ يا امة العزيز يا امتة الحفظ وغیرہ رکھا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی مبارک بات ہے اور جتنی بڑھے اتنی ہی اچھی بات ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ بعض دفعہ حقیقت کو نظر انداز کر کے بغیر سوچے سمجھے نام رکھ دیئے جاتے ہیں حالانکہ وہ مشر کا نہ ہوتے ہیں.چنانچہ اس جلسہ میں تین لڑکیاں ایسی معلوم ہوئیں جن کے نام مشرکانہ تھے.ان میں سے ایک تو را ولپنڈی کی تھی اور دو بعض اور مقامات کی.ان میں سے کسی کا نام امۃ الشہیر تھا اور کسی کا نام امتہ الشریف.حالانکہ شبیر اور شریف خدا تعالیٰ کا نام نہیں.انہوں نے غالباً یہ سمجھا کہ امہ کے لفظ سے برکت حاصل ہوتی ہے حالانکہ امتہ کے لفظ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ

Page 207

199 کی صفت سے برکت حاصل ہوتی ہے جو اس کے ساتھ لگائی جائے.مثلاً امتہ الھی نام ہو سکتا ہے.امتہ الباری نام ہوسکتا ہے.امتہ المصور نام ہو سکتا ہے.امتہ اللہ نام ہو سکتا ہے.امۃ الرب نام ہوسکتا ہے امتہ الرحمن نام ہو سکتا ہے.امتہ الرحیم نام ہوسکتا ہے مگر امتہ العالمگیر یا امتہ الجہانگیر یا امۃ الشاہجہاں نام نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ انسانوں کے نام ہیں خدا کے نام نہیں.اور لونڈی مسلمان عورت خدا کی ہوتی ہے انسان کی نہیں.بہر حال اس دفعہ تین نام ایسے پکڑے گئے جو مشر کا نہ تھے اور جن سے ہماری جماعت کے دوستوں کو بچنا چاہیے کیونکہ ان ناموں سے وہ خدا تعالیٰ کی لونڈیاں نہ رہیں آدمی کی لونڈیاں بن گئیں اور یہ جائز نہیں اگر امتہ اللہ نام رکھا جائے تو یہ جائز ہوگا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کسی اور صفت کے ساتھ امہ کا لفظ لگا کر نام رکھا جائے تو یہ جائز ہوگا.لیکن یہ جائز نہیں ہوگا کہ کسی آدمی کے نام کے ساتھ خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوامہ کا لفظ لگا کر اپنی کسی لڑکی کا نام رکھ دیا جائے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجھ سے جب کوئی ہمارے خاندان کا آدمی لڑکی کا نام پوچھتا ہے تو میں اصرار کر کے امتہ کے ساتھ اس کا نام رکھتا ہوں.بلکہ اب چونکہ ہمارے خاندان میں بہت سے بچے ہو گئے ہیں اور بعض دفعہ پہلے نام ہی دوبارہ رکھنے پڑتے ہیں ایسے موقع پر ماں باپ اصرار کر کے نئے نام کی فرمائش بھی کریں تو میں رڈ کر دیتا ہوں کہ اگر مجھ سے نام رکھوانا ہے تو میں اللہ کا نام ضرور بیچ میں لاؤں گا.یہ نئے نام کی خواہش بھی ایک بدعت ہے.عربوں میں تو یہ رواج تھا کہ باپ کا نام بھی عبداللہ ہے بیٹے کا نام بھی عبداللہ ہے اور پوتے کا نام بھی عبداللہ ہے.اگر اسی طرح ایک خاندان میں ایک ایک نام کے کئی بچے ہوں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں.اور اسی طرح ہم خدا تعالیٰ کے نام کے استعمال کو بڑھا سکتے ہیں.نئی لجنات :.چونکہ ابھی تک بہت سے مقامات پر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم نہیں ہوئی تھی اس لئے ماہ جنوری میں دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے دفتر بیت المال اور وکالت مال تحریک جدید سے مختلف جماعتوں کے پتے حاصل کر کے امرائے جماعت کو خطوط لکھے اور انہیں تحریک کی کہ آپ اپنے ہاں احمدی خواتین کو اکٹھا له الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۵۱ ص ۳-۴

Page 208

200 کر کے ان پر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کی ضرورت و اہمیت واضح کریں اور پھر لجنہ قائم کریں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں مندرجہ ذیل مقامات پر لجنہ قائم ہوئی:.ضلع لائکپور چک نمبر ۶۹ - گنگا پور، تاندلیا والہ.کلیان پور چک نمبر ۲۴۳ گ.ب.چک نمبر ۳/ ۵۸.ٹھیکر یوالہ.کتھووالی.چک۶۹ آر بی حلقہ شکار پور.ضلع منٹگمری اوکاڑہ.چک نمبر۱۱/ ۱۶ ایل.چک نمبر ۳۳/۲ محمود پور.ضلع شیخو پوره شاه مسکین.سانگلہ ہل ضلع گجرات نورنگ کھیسر.آڑہ.سعد اللہ پور.ضلع ملتان وہاڑی منڈی.تلمبہ ضلع لاہور لا ہور چھاؤنی ضلع سیالکوٹ کوٹ منڈ یا نوالہ.کوٹ کرم بخش.نارووال گھر وہ.مالو کے بھگت ضلع جھنگ منگھیا نہ ضلع شاہ پور خوشاب ضلع گوجرانوالہ وزیر آباد.رسول نگر.مانگٹ اونچے.اکال گڑھ ضلع سرگودھا چک نمبر اے جنوبی.چک نمبر ج / ۴۳ صوبہ سرحد ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ سندھ سکھر.ڈگری.باڈہ مسن.چٹا گانگ.اوٹا وہ.یوپی اس سال مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے رپورٹس موصول ہوئیں :.ربوہ حلقہ نمبرا.ربوہ حلقہ نمبر ۲.سرگودھا.ادرحمہ.چک نمبر ۹ پنیار.میانی.جڑانوالہ.چک نمبر ۹۶ گ.ب.گنگا پور گھسیٹ پورہ حلقہ شکار پور - چک نمبر ۱۲۷ آر.بی.چکوال.گوجرانوالہ شادیوال.کھاریاں.بہلولپور.لوہان.قلعہ صوبہ سنگھ.ٹھروہ.محمد آباد اسٹیٹ.کنری.ڈگری.لودھراں تلمبہ علی پور.اوکاڑہ.لاہور.بھاگل پور.مردان.راولپنڈی.چنیوٹ.احمد نگر.کراچی.تاندلیانوالہ.حیدرآباد تخت ہزارہ.چونڈہ.چٹا گانگ.کھیسٹ.حافظ آباد.مونگ.مالو کے.خانیوال.حیدر آباد دکن.ننکانہ صاحب.مانگا چانگریاں.اے ا مصباح جون ۱۹۵۰ء صفحه ۳۰

Page 209

201 مختلف مقامات پر لجنات اماءاللہ کے جلسے:.(۱) ۴ مارچ کو چٹا گانگ ( مشرقی پاکستان ) کی لجنہ اماءاللہ کا ایک غیر معمولی اجلاس محترم مصلح الدین صاحب سعدی کے مکان پر زیر صدارت محترمہ بیگم این.ایم.خان صاحب منعقد ہوا.اس میں احمدی خواتین کے علاوہ بعض معزا اور مقتدر غیر از جماعت خواتین نے بھی شرکت کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو ۱۹۴۸ء میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق ایک منذر رویا ہوئی تھی.( یہ رویا ۱۹۵۰ء میں پوری ہوئی جبکہ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ چوہدری صاحب موصوف کو تہدیدی خطوط موصول ہوئے اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے ) اس کے پیش نظر چٹا گانگ کی لجنہ کے اجلاس میں محترم چوہدری صاحب کے لئے دعا کی تحریک کی گئی اور صدقہ دیا گیا.اسی اجلاس میں ایک قرارداد بھی پاس کی گئی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت محترم چوہدری صاحب کی حفاظت کے لئے مناسب انتظام کرے.(۲) احمدیہ گرلز سکول سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ ۱/۲۹ کتو بر ۱۹۵۰ء کو احمد یہ گرلز سکول کے صحن میں منعقد ہوا.جلسہ کی صدارت محترمہ بیگم صاحبہ انوارالحق صاحب پی.اے.ایس ڈپٹی کمشنر ضلع سیالکوٹ نے کی لے (۳) ۲۹ اپریل ۱۹۵۰ء کو بیت العطاء میں لجنہ اماءاللہ احمدنگر کا ماہانہ جلسہ زیر صدارت محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ منعقد ہوا.جس میں مرکز کی طرف سے یہ تین ممبرات شامل ہوئیں.(۱) محترمہ نصیرہ نزہت صاحبه (۲) محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ (۳) محتر مہ امۃ اللہ خورشید صاحبه تلاوت قرآن کریم کے بعد محترمہ نفیسہ اختر صاحبہ نے وفات مسیح پر مضمون پڑھا پھر محترمہ امتہ المجید صاحبہ (ایک غیر احمدی خاتون) نے کفایت شعاری پر مضمون سنایا اور دوران جلسہ رسالہ مصباح سے بھی مضامین پڑھ کر سنائے گئے.پھر محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے دعا کی حقیقت محترمہ امہ اللہ خورشید صاحبہ نے پیدائش انسانی کا حقیقی مقصد اور محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ نے اسلام کی ابتدائی ترقی واشاعت کے عنوانات پر تقاریر فرمائیں.آخر میں صدر لجنہ اماءاللہ احمد نگر محترمہ ام العطاء صاحبہ (اہلیہ صاحبہ محترم ابوالعطاء صاحب) نے تمام آنے والی خواتین کا شکر یہ ادا کیا ہے.ا الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۰ء ص ۶ ۲ مصباح مئی ۱۹۵۰ء ص ۲۴

Page 210

202 (۴) لجنہ اماء اللہ حیدرآباد سندھ کا ایک جلسہ ۱۵ جنوری ۱۹۵۰ء بروز اتوار بوقت چار بجے شام زیر صدارت محترمہ فضل عزیز صاحبہ منعقد ہوا.اس جلسہ میں محترمہ پریذیڈنٹ صاحبہ نے جلسہ سالانہ ربوہ کے چشم دید حالات بیان کئے اور جو ضروری باتیں لجنہ کے قیام ونظام کے متعلق تھیں وہ نوٹ کروائیں.اے امریکہ:.بیرونی ممالک میں لجنات کی مساعی ۱۹۵۰ء میں امریکہ مشن کے انچارج محترم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر تھے ان کی اہلیہ محترمہ امة الحفیظ صاحبہ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہے (۱) اس وسیع ملک میں جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں وہاں بیشتر جگہوں پر لجنات قائم ہیں اور وہ نہایت تندہی اور دلچسپی کے ساتھ کام کو چلا رہی ہیں.مختلف مقامات پر کھانے کی دعوتوں کا انتظام کرتی ہیں جن میں بہنیں اپنے ساتھ ملنے والی دوسری عورتوں کو بھی لاتی ہیں.کچھ چندہ بھی جمع ہو جاتا ہے...حضرت امیر المومنین سے والہانہ محبت ہے اور آپ کی زیارت کا انتہائی شوق ہے.مجھ سے بعض بہنیں اردو اور بعض سیسرنا القرآن پڑھتی ہیں.نماز اور اسے صحیح طور پر ادا کرنے کا طریق سیکھتی ہیں اور دعائیں کرتی ہیں.۳ (۲) قریباً تمام مشغوں میں بجنات قائم ہیں.ان کی میٹنگیں ہوتی ہیں جن میں مبلغین تقریریں کر کے انکی تعلیم وتربیت کرتے ہیں.لجنات کے قابل رشک جذ بہ اخلاص کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے از خود تحریک شروع کر کے کنونشن ( جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کی سالانہ کانفرنس ) کے موقع پر ۲۲۵ ڈالر کاہد یہ حضور کی خدمت میں پیش کیا کہ حضور جس مبارک مقصد کے لئے مناسب سمجھیں اس کو صرف فرماویں ہے ا الفضل ۹ رفروری ۱۹۵۰ء ص ۷ امریکہ میں لجنہ کا قیام ۱۹۳۵ء میں ہو چکا تھا تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۳۵۹ - الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۶ء ص ۵ سے افضل یکم اپریل ۱۹۵۰ء ص ۵ ۴ الفضل ۳ مارچ ۱۹۵۰ء صف ۵ کالم نمبر۴

Page 211

203 لجنہ اماء اللہ کے ہر پندرھویں دن اجلاس ہوئے جن میں خدمت خلق اور آپس میں تعلقات مضبوط کرنے کی اہمیت کو واضح اور زیر عمل لایا گیا ہے انگلستان :- (۱) ۱۷ار فروری کو لجنہ اماءاللہ لنڈن کا ماہانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے تقریر فرمائی.تقریر کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کی حیثیت از روئے قرآن مجید کے موضوع پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا ہے (۲) ۱۹ مارچ کو لجنہ کی ماہانہ میٹنگ ہوئی.ایک احمدی نومسلمہ محترمہ جنت ویلز صاحبہ نے اسلام کی تعلیم کے موضوع پر تقریر کی.مسز رمضان صاحبہ (سیکرٹری تعلیم) نے انگریزی تفسیر القرآن میں سے درس دیا.مسز عارف نعیم صاحبہ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا.(۳) ار جون کو مسجد احمد یہ لندن میں محترمہ کلثوم با جوه صاحبہ بیگم چو ہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو الوداعی دعوت دی گئی جو ماہ جولائی میں پاکستان واپس آ رہی تھیں.ان کی سرگرمیوں کو سراہا گیا.جو موصوفہ نے مسلمان خواتین کے لئے انجام دیں سے محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ ۱۶ار اگست کور بوہ پاکستان پہنچیں.لجنہ اماءاللہ نے آپ کا استقبال کیا ہے.۹ نومبر کے ایک جلسہ میں آپ نے اپنے تاثرات بیان کئے.قادیان کا جلسہ سالانہ :.ماہ دسمبر کی ۲۶.۲۷-۲۸ تاریخوں کو قادیان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس جلسہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ پارٹیشن کے بعد پہلی مرتبہ ہندوستان اور پاکستان کی متعد د احمدی خواتین کو بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.مردانہ جلسہ گاہ کے ملحق حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان میں عورتوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا.جہاں لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ سے جملہ تقاریر سنی گئیں اس کے علاوہ مستورات کو اس موقع پر قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے اور خصوصی دعائیں کرنے کا بھی موقع ملا.۵ الفضل ۱۷ار دسمبر ۱۹۵۰ ء ص ۳ کالم ۴ الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۵۰، ص ۴ الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۰ء ص ۲ ۴ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۵۰ء ص ۶ ۵ الفضل ۲ ، ۷ جنوری ۱۹۵۱ء ص ۲۰۶

Page 212

204 یوم مصلح موعود کے جلسے:.۲۰ فروری کو یوم مصلح موعود کے موقع پر مختلف مقامات پر بجنات نے بھی جلسے منعقد کئے اور اس پیشگوئی کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کیں.الفضل میں مندرجہ ذیل مقامات کے جلسوں کی رپورٹیں شائع ہوئیں:.ربوها کراچی ۲ لاہور.سیالکوٹ.بہلولپورس سیرۃ النبی اللہ کے جلسے:.۲۶ نومبر کولاہور میں برکت علی اسلامیہ ہال میں زیر صدارت محترمہ بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحب جلسہ منعقد ہوا.اس کے علاوہ لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ لجنہ اماء اللہ راولپنڈی، لجنہ اماء اللہ گوجرانوالہ ، لجنہ اماءاللہ کراچی لجنہ اماء اللہ چنیوٹ، لجنہ اماءاللہ ربوہ ( زیر صدارت حضرت سیدہ اُم داؤ د صاحبہ اور لجنہ اماءاللہ ملتان چھاؤنی نے جلسے منعقد کئے.ربوہ میں مستورات کا جلسہ سالانہ :.جب جلسہ سالانہ کے ایام قریب آئے تو اس کی تیاریاں شروع کر دی گئیں.اس سلسلے میں جلسہ سالانہ خواتین کی ناظمہ حضرت سیدہ اُم داؤ د صاحبہ نے الفضل میں یہ اعلان کیا کہ احمدی بھائی جب جلسہ پر تشریف لائیں تو اپنا سامان الگ باندھیں اور اپنی بیویوں اور بہنوں وغیرہ کا سامان الگ باندھیں اور جتنے دن وہ یہاں مقیم رہیں حتی الوسع اپنی مستورات کو ملنے کی کوشش نہ کریں سوائے کسی اشد ضروری کام کے.۲۸-۲۷-۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ کو جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حسب سابق حضرت اقدس خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ عنہ کی پہلے دن مردانہ جلسہ گاہ سے افتتاحی تقریرسنی ، دوسرے دن مستورات میں تشریف لا کر لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ الفضل یکم مارچ ۱۹۵۰ص۳۴ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۰ء ص ۲

Page 213

205 حضور نے تقریر فرمائی ہر دو دنوں کی مردانہ جلسہ گاہ کی تقریریں بھی مستورات نے زنانہ جلسہ گاہ میں سنیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا نے پردہ کے موضوع پر تقریر فرمائی.حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہا محترمہ بیگم صاحبہ محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم، محترمہ سلمی صاحبہ محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ محترمہ حمیده صابرہ صاحبہ محترمہ حفیظ الرحمن صاحبه، محترمہ نصیرہ نزہت صاحبه، محترمه امتہ المجید صاحبہ ایم.اے محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ نے تقریریں کیں.مردانہ جلسہ گاہ سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تقریر ” ذکر حبیب محترم مولانا عبدالغفور صاحب مرحوم مربی سلسله محترم قاضی محمد اسلم صاحب، محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ، محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس اور محترم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا کی تقریریں بھی سنی گئیں لے زنانہ جلسہ گاہ میں حاضری پانچ ہزار سے سواچھ ہزار تک تھی.اس موقع پر مصباح کا خاص نمبر شائع ہوا جس میں حضور کی تقریر جو لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کے جلسہ میں فرمائی تھی شائع ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ کا جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے خطاب :.۲۷ دسمبر ۱۹۵۰ء کو حضور نے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر مستورات سے خطاب فرمایا تقریر کی ابتدا میں حضور نے فرمایا:.میری عورتوں میں تقریر اس زمانے کی یاد گار ہے جبکہ لاؤڈ سپیکر عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچا سکتا تھا.اس وقت ضرورت تھی کہ میں عورتوں میں الگ تقریر کروں.اب مائیکروفون اور لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے ضرورت نہیں رہی کہ الگ تقریر کی جائے لیکن میں نے اس طریق کو جاری رکھا کیونکہ بعض باتیں اور بعض مسائل عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں.اب لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے ( یہاں ) میری تقریر کی اتنی اہمیت نہیں رہی.کیونکہ جب مردانہ جلسہ گاہ میں تقریر ہوگی تو آپ کے لاؤڈ سپیکر کا تعلق بھی مردانہ جلسہ گاہ کے لاؤڈ سپیکر سے کر دیا جائے گا اور جیسے مرد تقریر سنیں گے ویسے ہی عورتیں بھی سنیں گی.دوسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ جلسہ سے لے کر میں متواتر گلے کی تکلیف اور شدید کھانسی سے بیمار رہا ہوں اور اب دو تین یوم سے پھر نزلہ میرے گلے، کانوں اور ناک میں گر رہا ہے اس لئے اگر میں مصباح جنوری ۱۹۵۱ء ص ۳۵

Page 214

206 اس بات کا خیال نہ رکھوں تو باقی تقریریں نہیں کر سکتا.پس میں اس نیت سے آیا ہوں کہ چند باتیں آپ سے کروں.اور اسی وجہ سے میں دیر سے آیا ہوں اگر وقت پر آتا تو مجھے زیادہ تقریر کرنی پڑتی اسلئے میں نے مناسب سمجھا کہ چند منٹ آپ کے سامنے بولوں.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا:.آج میں احمدی عورتوں کی توجہ اس امر کی طرف پھرانا چاہتا ہوں کہ ہر وقتے وہر سے.ایک زمانہ تھا کہ احمدیت بہت ہی کمزور تھی صرف چند افراد احمدیت میں شامل تھے اور مسلمان خیال کرتے تھے کہ یہ ایک کھیل ہے اور ایک جُوں، مچھر اور پتو کی طرح ہے اس لئے وہ احمدیت کو اتنا حقیر سمجھتے تھے کہ اگر ایک مولوی اتنا لکھ دے کہ احمدی کا فر ہیں تو وہ فور مان لیں گے.مگر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا یہ خیال کس طرح غلط ثابت ہوا اور وہ جماعت جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں تھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تبدیل ہو گئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو اس وقت کی جماعت کی تعداد آج کے مقابلہ میں بہت کم تھی لیکن اس وقت آپ نے خوش ہوکر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے اوراب ہماری وفات کا وقت آگیا ہے مگر اس وقت ہر ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں جماعتیں پائی جاتی ہیں.قادیان کے آخری جلسہ سالانہ پر چالیس ہزار کی تعداد میں جماعت شامل تھی اور اب انڈونیشیا میں ، ایران میں، شام میں ، لبنان میں، مصر میں، سوڈان میں، ایسے سینیا میں، سیرالیون میں، نائیجریا میں ، انگلینڈ میں، جرمنی میں ، ہالینڈ میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، ماریشش، ملایا، بور نیو سیلون، بر ما اور اسی طرح کئی اور ممالک میں جو مجھے اس وقت یاد نہ ہوں بڑی تعداد میں احمدی ہوچکے ہیں اور اب مخالفوں نے یہ سمجھا ہے کہ پوری طاقت سے ان کو دبایا جائے.چنانچہ رعایا اور حکومت مخالفت میں سرگرم ہے.پس جس طرح مخالف پوری طاقت سے مخالفت کر رہے ہیں ان حالات میں ہمارا فرض ہے کہ پوری سرگرمی سے تبلیغ میں لگ جائیں.لیکن اس امر میں سب سے بڑی روک عورتیں ہیں.کوئٹہ میں تقریر کے وقت بعض افسر بھی شامل تھے جب وہ گھروں میں واپس گئے تو ان کی بیویوں کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر احمدیوں سے ملنا ہے تو ہمیں میکے بھیج دیا جائے چونکہ ان کا 66 ایمان پختہ نہ تھا اس لئے وہ ڈر گئے.“ پھر حضور نے فرمایا کہ

Page 215

207 عورت سمجھتی ہے کہ اس کا دماغ ادنی ہے مگر میں اس کا قائل نہیں.میں یہ مانتا ہوں کہ عورت کو ترقی کا موقع کم ملتا ہے مگر عورت کا دماغ مرد سے کم نہیں.چنانچہ اس بات کا ثبوت کہ عورت کا دماغ ادنی نہیں ہر زمانہ میں ملتا رہا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کا واقعہ اور حضرت مریم کی زیرتر بیت ایک بچہ کا نبی ہونا بتا تا ہے عورت مرد سے دماغی لحاظ سے کم نہیں.پھر حضرت خدیجہ کی قربانیوں اور آپ کا دنیا کے سب سے زیادہ ذہین اور عقلمند انسان کے متعلق رائے قائم کرنا اور اس کے بعد جو قربانیاں آپ نے کیں وہ تاریخ کا ایک بے بہا جو ہر ہے.پس عورت کی ذہنیت اور عادت کا فرق ہے، دماغ کا فرق نہیں.پس اب یہ وقت ہے کہ تم اپنی عادت کو بدلو اور عورتوں میں تبلیغ کر کے وو خدمت اسلام میں حصہ لو اور جو مخالفت عورتوں کی وجہ سے مردوں میں پائی جاتی ہے وہ کم ہو.“ پھر آپ نے فرمایا :.مرد اگر جاہل بھی ہو تو وہ بے دریغ مسائل بیان کرنے لگے گا مگر عورت اگر پڑھی ہوئی بھی ہوگی تو وہ مسائل بیان کرنے میں جھجھک ظاہر کرے گی.ہماری جماعت کی عورتوں میں دینی تعلیم بہ نسبت غیر احمدی عورتوں کے زیادہ ہے.چنانچہ ہماری جماعت میں اس وقت دوعورتیں عربی کی ایم.اے ہیں اور ایک لڑکی اس وقت پی.ایچ.ڈی کر رہی ہے.دینی لحاظ سے وہ صفر ہیں لیکن ہماری عورتوں کی اکثریت قرآن کریم کا ترجمہ ، حدیث کا ترجمہ اور دیگر مسائل جانتی ہیں مگر غیر احمدیوں میں کوئی ایسی عورت نہیں جو دینی مسائل سے پوری طرح واقف ہو.“ حضور نے فرمایا کہ:.اس قدر تعلیم کے باوجود تم نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا.چنانچہ میں لجنہ اماءاللہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایسا نصاب مقرر کرے جو پندرہ دنوں میں عورتوں کو سکھایا جائے اور پھر ان سے تقریریں کروائی جائیں اور اس طرح وہ تبلیغ کریں لیکن یہ بھی کم ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ۱۹۵۱ء میں زنانہ کالج قائم کریں.جگہ میں نے مقرر کر دی ہے.اور ام متین ان کی نگران ہوں گی اور فرخندہ بیگم جو کہ بی.اے.بیٹی ہیں اور عنقریب وہ ایم.اے کرلیں گی پر و فیسر ہوسکتی ہیں اور کچھ مرد پردہ میں پڑھائیں گے اور دینیات کی تعلیم کا بھی مکمل انتظام ہوگا تا کہ وہ و نیوی تعلیم کے ساتھ وہ دینی تعلیم سے بھی پوری طرح واقف ہو کر نکلیں.کالج کے ساتھ بورڈنگ بھی ہوگا.اس صورت میں

Page 216

208 اعلیٰ تعلیم بھی ہماری جماعت کی عورتوں میں پھیل جائے گی اور وہ اپنا وقت ضائع کئے بغیر بہت جلد اعلیٰ کامیابی حاصل کرلیں گی.“ اس کے بعد حضور نے مسجد ہالینڈ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں نے عورتوں کے چندے سے مسجد ہالینڈ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور مردوں کے چندہ سے امریکہ کی مسجد تیار ہوگی.عورتوں کے لئے یہ امر موجب خوشی ہے کہ ان کا چندہ مردوں کے چندہ سے بڑھ گیا ہے.پس تمہیں چاہئے کہ اپنے اس اعزاز کو قائم رکھتے ہوئے بہت جلد اپنا چندہ اکٹھا کرو.“ نیز حضور نے فرمایا کہ دفتر لجنہ کی بنیادیں رکھی جاچکی ہیں اس میں بارہ کمرے ہوں گے ایک ہال کمرہ، لائبریری اور مطالعہ کرنے کے کمرے ہوں گے.عام مطالعہ کرنے والی اور نوٹس لینے والی مستورات کے لئے الگ کمرے ہوں گے جہاں بیٹھ کر وہ مطالعہ کریں گی اور اس طرح جلسہ کے دنوں میں بھی وہاں ٹھہر سکیں گی.عمارت کے اوپر خرچ کا اندازہ پچاس ہزار کا ہے جس میں سے ۲۸ ہزار جمع ہے.اگر جلد بقیہ چندہ فراہم ہو جائے تو اگلے سال تمام عمارت بن جائے گی.“ اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.ان حالات میں آپ کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے اور وہ اخلاص پیدا کرنا چاہیئے جو صحابیات میں پایا جا تا تھا.اور آپ کو تبلیغ میں مردوں سے کسی صورت میں پیچھے نہ رہنا چاہئے تا کہ آپ کا حصہ مردوں سے کم ثابت نہ ہو.پانچویں مجلس شوری لجنہ اماءاللہ کے فیصلے :.لجنہ اماء اللہ کی پانچویں شوری ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۰ء کو زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر آٹھ بجے شب زیر صدارت حضرت سیّدہ اُم داؤد صاحبہ نائب صدر لجنہ اماء اللہ مرکز یہ منعقد ہوئی.علاوہ مرکزی عہدیداران کے ۶۱ لجنات کی نمائندگان نے شرکت کی.اس میں مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے:.تجویز.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دفتر بننا شروع ہو چکا ہے.اس کی مکمل تکمیل کا تخمینہ پچاس ہزار لگایا گیا ہے اس وقت لجنہ اماءاللہ کے فنڈ میں ۲۸ ہزار روپیہ موجود ہے باقی ۲۲ ہزار روپیہ بہر حال ہم غیر مطبوعہ منقول از رجسٹر کا رروائی جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء

Page 217

209 نے جمع کرنا ہے اس کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.فیصلہ :.اس تجویز کوسن کر نمائندگان نے اپنے اپنے وعدہ جات لکھوانے شروع کئے لیکن جو وعدہ جات لکھوائے گئے تھے ان کی میزان چار ہزار بنتی تھی جو بہت تھوڑی رقم تھی اس لئے سب بہنوں کی متفقہ رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ غور کر کے یہ رقم تمام لجنات پر پھیلا دے جس کو پورا کرنے کی وہ ذمہ دار ہوں گی.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہر لجنہ کی تعداد کو مدنظر رکھ کر ان کے ذمہ رقم لگادی گئی.ابتداء میں اندازہ پچاس ہزار کا تھا لیکن ۶۳۰۰۰ میں دفتر کی عمارت ،سات ہزار میں کوارٹر اور سات آٹھ ہزار میں ہی چار دیواری مکمل ہوئی جس کے لئے کئی سال تک بہنوں سے چندہ لیا جاتا رہا جو بہنوں نے باوجود یکہ ان دنوں مسجد ہالینڈ کا چندہ بھی لیا جارہا تھا جلد پورا کر دیا.تجویز: لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ہر ماہ کی رپورٹ ایک میگزین کی صورت میں شائع کیا کرے جس میں ہر لجنہ کی ماہانہ رپورٹ ہو.بیدار اور ست لجنات کا تذکرہ ہو.ہر ماہ جو لجنہ کا چندہ ہو اس کا حساب درج ہو.لجنات کے نام درج ہوں تا مسابقت کی روح پیدا ہو.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے کام کی ہدایات ہوں.اگر یہ رسالہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتو اس پر ۵۰ روپے اوسطاً خرچ آئے گا.فیصلہ:.اکثر نمائندگان کی یہی رائے تھی کہ یہ آٹھ صفحے مصباح کے ساتھ لگائے جائیں لیکن جب حساب ان کے آگے پیش کیا گیا کہ اس طرح خرچ زیادہ آئے گا تو پھر سب نمائندگان نے یہ رائے پیش کی کہ فروری میں جنوری کی رپورٹ شائع کی جائے اس کے بعد وہ اپنی آراء بھجوائیں گی.چنانچہ اس فیصلہ کے بعد سے لجنہ کی رپورٹیں مصباح میں ہی شائع ہوتی ہیں لے تجویز:.ہر لجنہ کی طرف سے سال میں کچھ تبلیغی جلسے منعقد کئے جائیں تا جو غلط فہمیاں اور نا واقفیت لوگوں میں پائی جاتی ہے اس کو رفع کیا جاسکے.ایسے موقعوں پر کچھ تقریب چائے وغیرہ کر لی جائے جس میں غیر احمدی مستورات کو بھی مدعو کیا جائے.(مالیر کینٹ کراچی) فیصلہ:.مناسب ہے.لیکن جوخرچ برداشت کر سکیں وہی کریں لازمی نہ ہو ئے لے اب کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت کی طرف سے ڈیکلریشن ملنے پر ”اخبار لجنہ اماءاللہ کے نام سے ایک رسالہ نکالا جائے.ے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 218

210 ایجنڈا مجلس مشاورت جماعت احمدیہ پر غور :.مارچ کو مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت کے ایجنڈا پر غور کیا اور اپنی آراء اور مشورہ سے اپنے نمائندہ ) مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر ) کو اطلاع دی تا کہ مجلس مشاورت پر وہ لجنہ کا مشورہ پیش کر سکیں.اے ی مجلس مشاورت نصرت گرلز ہائی سکول میں منعقد ہوئی تھی.تقاریر کی مشق کے لئے ایک کمیٹی :- لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ محسوس کیا کہ لجنہ کی مہرات کو اور بالخصوص مرکزی عہدیداران کو تقاریر کرانے کی زیادہ سے زیادہ مشق ہونی چاہیئے تا کہ وہ لجنہ کی تنظیم کو مضبوط کر سکیں اور احمدی خواتین کی تعلیم وتربیت کی جو اہم ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے اسے پوری طرح نبھا سکیں.اس غرض سے ۳ فروری ۱۹۵۰ء کو ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ممبر یہ تھے:.(۱) حضرت سیّدہ اُم داؤد صاحبہ مرحومه (۲) حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی (۳) محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ (۴) محترمہ حمیده صابرہ صاحبہ (۵) محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه (۶) محترمه سیده نصیر بیگم صاحبہ (۷) محترمه سعیده صاحبہ سیکرٹری حلقہ نمبر (۸) محترمہ صفیہ ثاقب صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری (۹) محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبه (۱۰) محتر مہ امتۃ الرشید شوکت صاحبه (۱۱) محترمہ مبارکہ صاحبہ اہلیہ قریشی محمد افضل صاحب سیکرٹری حلقہ نمبر ۲ (۱۲) محترمہ رشیدہ بیگم صاحبه حلقه ب (۱۳) محترمه امۃ الرحمن طیبہ صاحبہ ٹیچر نصرت گرلز ہائی سکول (۱۴) عاجزہ امتہ اللطیف ۲ لجنہ اماءاللہ لاہور کی مساعی:.لاہور کے تمام حلقوں میں رمضان المبارک میں با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کا درس ہوتا رہا.بعض حلقوں میں نماز عصر با جماعت ہوتی رہی.سے ا رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ہے رجسٹر کار روائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے الفضل ۱۶ اگست ۱۹۵۰ء صفحه ۶

Page 219

211 لجنہ اماءاللہ شاد باغ لاہور نے یوم التبلیغ منایا اور غیر احمدی مستورات کو تبلیغ کی.لے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک تبلیغی جلسہ ۷ اگست بروز پیر منعقد ہوا اس میں احمدی مستورات کے علاوہ غیر احمدی مستورات بھی شامل ہوئیں ہے مورخہ ۵۰-۹ - ۲۸ کو لجنہ اماء اللہ ماڈل ٹاؤن کا ایک اور غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ تصدر لجنہ اماء الله مرکز یہ اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالیٰ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے شرکت فرمائی.پانچ بجے شام حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا.تلاوت قرآن پاک اور نظم از در مشین کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالیٰ نے تقریر فرمائی.آپ کی تقریر کے بعد حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے لمبی دعا کرائی اور جلسہ ختم ہوا سے ۲ اکتوبر کو مسجد دہلی دروازہ لاہور میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالیٰ نے لجنہ اماءاللہ لاہور کے ایک اہم اجتماع سے خطاب فرمایا اور لجنہ کو زیادہ سے زیادہ منظم ہو کر کام کرنے اور مسجد ہالینڈ کے وعدوں کی طرف توجہ دلائی.لجنہ اماءاللہ کی ایک مخلص کارکن کی وفات :.مورخه ۲۲ جون ۱۹۵۰ء کو محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ (والدہ نصرت راشدی صاحبہ ) سیکرٹری لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ صرف ۴۵ سال کی عمر میں وفات پاگئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.مرحومہ بہت مخلص اور فدائی احمدی اور لجنہ اماء اللہ کی سرگرم اور انتھک ممبر تھیں.عمر بھر سلسلہ کی خدمت کرتی رہیں.آپ نے تیرہ برس کی عمر میں سلسلہ کی خدمات شروع کیں.۱۹۲۲ء میں آپ نے نوشہرہ میں جہاں آپ اپنے ماموں شیخ احمد اللہ صاحب کے گھر میں مقیم تھیں لجنہ اماءاللہ قائم کی.۱۹۲۴ء میں شادی ہوگئی اور آپ لاہور آئیں.یہاں لجنہ قائم کی.لاہور کی پرانی ممبرات میں سے دو ممبرات بفضل خدا ابھی زندہ ہیں جو آپ کی رفقائے کار تھیں.ایک ب.خ.ن صاحبہ اور دوسری رقیہ خاتون صاحبہ.آپ نے لاہور میں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء تک کام کیا.جہلم میں بھی کچھ ا الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۵۰ ء ص ۲ ۲ الفضل ۱۶ اگست ۱۹۵۰ ء ص ۷ ۳ الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۵۰ء ص ۳

Page 220

212 عرصہ کام کیا.پھر آپ کے خاوند محترم کی تبدیلی پشاور ہوگئی تو وہاں لجنہ قائم کی.وہاں قانتہ بیگم ہمشیرہ جنرل حیاء الدین خان صاحب مرحوم نے آپ کے ساتھ مکمل تعاون کیا.آپ احمدیت کا وسیع مطالعہ رکھتی تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود سے نہایت عقیدت تھی.بچوں کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتیں.لاہور میں حضرت اُم المومنین اکثر آپ کے گھر تشریف لاتیں.حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی روایت ہے کہ حضرت اماں جان جب کبھی ذکر کرتیں تو میری زبیدہ کہہ کر انہیں یاد فرماتیں.آپ نے مسجد لندن کے چندہ کی فراہمی میں نمایاں حصہ لیا.رسالہ مصباح کے اجراء پر مضامین لکھ کر تعاون کیا.جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور کی دو تقاریر نوٹ کیں اور مصباح کو بھجوائیں.دین کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہانت اور فراست کی نعمت بھی عطا کی تھی.سلسلہ کی بے لوث خدمت کرنے میں اپنی مثال آپ تھیں.جب سیالکوٹ میں قیام پذیر ہوئیں تو وہاں بھی آخر وقت تک خدمت میں مصروف رہیں.احمد یہ گرلز سکول سیالکوٹ کے لئے بھی خدمات انجام دیں.قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کی جد و جہد میں بھی حصہ لیا اور تقریریں کیں.سلسلہ کی کتب کا با قاعدہ مطالعہ کرتی تھیں.آپ نے لجنہ کے کام کا ریکار ڈ اور خط و کتابت کو نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا.جلسہ سالانہ قادیان کے پروگرام میں با قاعدہ حصہ لیتی رہیں اور تقاریر کرتی رہیں.غرض مرحومہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں ساری عمر دین کی خدمت میں گزاری.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو بلند درجات عنایت فرمائے اور مرحومہ کی اولا د کو ان کی خوبیوں کا وارث بنائے.آمین الیکشن کا کام:.قادیان میں ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں نہایت تگ و دو اور کامیابی کے بعد ۴۹ء اور ۱۹۵۰ء میں پاکستان میں پھر حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ کی نگرانی میں عورتوں نے الیکشن کا کام کیا.لسٹیں تیار کر کے نام معہ مکمل پتہ جات کے رجسٹر تیار کئے گئے.پولنگ کی تیاری کے بعد ربوہ کے علاوہ چنیوٹ ، احمد نگر، کھڑکن ،کوٹ امیر شاہ وغیرہ میں جا کر

Page 221

213 عورتوں کو ان کے ووٹ کے متعلق بتایا اور سمجھایا جاتا رہا کہ ووٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے.فہرستیں وغیرہ چیک کی گئیں.پولنگ کے دنوں میں روزانہ صبح بسوں میں کم و بیش تمیں عورتیں ربوہ سے ڈیوٹی پر جاتیں اور ووٹر عورتوں کے ووٹ دلوا کر واپس آتیں.صدرانجمن احمد یہ قادیان کے امتحانات:.(۱) اس سال صدر انجمن احمدیہ قادیان کی نظارت تعلیم و تربیت نے کتاب ”ہمارا خدا کا امتحان لیا.اس میں محترمہ زکیہ صاحبہ بنت ملک محمد اسماعیل صاحب پٹنہ اول اور ان کی ہمشیرہ محترمہ صالحہ صاحبہ دوم رہیں.(۲) نظارت تعلیم و تربیت قادیان کی تحریک پر قادیان میں مقامی لجنہ اماءاللہ قائم ہوئی اور محترمہ عابدہ سلطانہ صاحبہ (اہلیہ مکرم مولوی محمد صادق صاحب ناقد متعلم جامعة المبشرین قادیان ) کا تقرر بطور صدر ہوا.ماہ جولائی ۱۹۵۱ء میں پھر انتخاب کروایا گیا اور اس میں محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب لجنہ اماء اللہ مرکز یہ ہند کی صدر منتخب ہوئیں.مقامی لجنہ کی صدر بھی ان کو ہی بنایا گیا.بعد میں جب محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بیگم محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب شادی کے بعد قادیان تشریف لے گئیں تو مئی ۱۹۵۵ء سے آپ صدر لجنات اماءاللہ ہندوستان منتخب ہوئیں.لجنہ اماءاللہ لائل پور کا معائنہ اور نقار میں:.۲۵ مئی ۱۹۵۰ء بروز جمعرات لجنہ اماء الله مرکزیہ کی طرف سے لجنہ اماءاللہ لائل پور کا معائنہ کیا گیا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماء الله مرکز یہ محترمہ استانی میمونه صوفیہ صاحبہ سیکرٹری مال محتر مہ امتۃ الرشید شوکت صاحبہ سیکرٹری تبلیغ اور محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ کے ہمراہ لائل پور تشریف لے گئیں.نماز ظہر کے بعد مسجد احمد یہ لائل پور میں زیر صدارت حضرت سیدہ ممدوحہ یہ جلسہ منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ نے اپنی تقریر میں صحابیات آنحضرت ﷺ کی قربانیاں بیان کر کے مستورات کو توجہ دلائی کہ جب تک وہ بھی اس قسم کی قربانیاں نہیں کریں گی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتیں.اس کے بعد محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے اپنی ا الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۵۱ ء ص ۲ کالم نمبر ۲

Page 222

214 تقریر میں تبلیغ پر بہت زور دیا اور کہا کہ احمدیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ مستورات تبلیغ کریں.عورتوں تک احمدیت کا پیغام عورتوں ہی کے ذریعہ سے پہنچ سکتا ہے.محترمہ استانی صوفیہ صاحبہ نے اپنی تقریر میں مستورات کو مسجد ہالینڈ اور امتہ الحئی لائبریری کے چندہ کی طرف توجہ دلائی.پھر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے لجنہ اماء اللہ کی اہمیت پر تقریر فرمائی اور عورتوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آنحتر مہ نے لجنہ لائل پور کی صدر کا انتخاب بھی کروایا.محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبداللطیف صاحب متفقہ طور پر صدر قرار پائیں سے بھارت میں احمدی خواتین کی خدمات دینیہ کا مختصر تذکرہ:.تقسیم ملک کے چار سال بعد جب مستورات کو قادیان آنے اور رہنے کی اجازت ملی اور قادیان میں کچھ عورتوں نے مستقل رہائش اختیار کر لی تو اس وقت یعنی ۱۹۵۱ء میں محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج احمد یہ ہسپتال قادیان نے لجنہ اماءاللہ کے کام کی طرف توجہ دی اور نہ صرف قادیان میں بلکہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی مختلف مقامات پر جہاں بھی احمدی مستورات تھیں لجنہ کے کام کو عملی طور پر باقاعدگی سے شروع کروایا.چنانچہ ان کی کوشش کے نتیجہ میں ۱۹۵۳ء تک حیدر آباد، سکندر آبا (دکن) ، بنگلور، مدراس، بھاگلپور، بھرت پور اور چنتہ کنٹہ میں لجنات کا کام شروع ہو گیا اور ان کی طرف سے مرکز میں چند سال کے تعطل کے بعد ر پورٹیں بھی آنی شروع ہو گئیں.محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بیگم محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ۱۹۵۳ء کے شروع میں قادیان تشریف لے گئیں تو آپ کو جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ بھارت منتخب کیا گیا.آپ نے صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ بھارت کے ساتھ مل کر جون ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۵ء تک حسب توفیق لجنہ اماءاللہ کا کام کیا چنانچہ ۱۹۵۵ء کے آخر تک سولہ مقامات پر لجنہ اماءاللہ کے کام اجراء ہو گیا.اوائل ۱۹۵۵ء میں محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ ہند مستقل طور پر پاکستان چلی گئیں اور مئی ۱۹۵۵ء میں محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ کا انتخاب بطور صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ومقامی عمل میں آیا.آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل عہد یداران کا انتخاب بھی ہوا:.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی صاحبزادی ہیں.سے رجسٹر رپورٹ کارگزاری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 223

215 نائب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ: محترمہ صادقہ خاتون صاحبہ اہلیہ محترم مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ: محترمہ معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ بدرالدین صاحب عامل سیکرٹری مال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ : محترمه خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ ٹھیکیدار بشیر احمد صاحب خدا تعالیٰ کے فضل سے ان عہدیداران نے آپ کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا.سب سے پہلے مرکزی کام کے پیش نظر احاطہ مرزا گل محمد صاحب میں جہاں بچیوں کا مڈل سکول ہے ) ایک کمرہ لے کر لجنہ اماءاللہ کا دفتر کھولا گیا.جہاں ہفتہ میں تین دن باقاعدگی سے کام ہوتا ہے اور مرکزی عہدیدارل کر کام کرتی ہیں.جہاں تک قادیان کی مقامی لجنہ کا تعلق ہے اس کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی باقاعدگی سے ہورہا ہے.لجنہ کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں.سیرۃ النبی، جلسہ یوم مصلح موعود اور یوم خلافت با قاعدہ کئے جاتے رہے ہیں.جلسہ سالانہ میں غیر مسلم خواتین مدعو کی جاتی ہیں.خدمت خلق کا کام اور ناصرات الاحمدیہ کا کام بھی باقاعدہ ہوتا رہا ہے.اسلام کی کتابوں کے امتحان لئے گئے جن میں قادیان کے علاوہ بھارت کی تمام ناصرات نے حصہ لیا.ناصرات کے تقریری مقابلے ہوتے رہے.چونکہ مقامی لجنہ کا کام تسلی بخش طور پر ہورہا تھا نیز مرکزی کام کے لئے زیادہ توجہ اور وقت درکار تھا اس لئے مقامی لجنہ کا علیحدہ انتخاب کروا کر محترمہ صادقہ خاتون صاحبہ کے سپرد کر دیا گیا.وہ ۱۹۶۰ ء سے با قاعدہ صدر لجنہ اماءاللہ قادیان کے طور پر کام کر رہی ہیں.۱۹۵۶ء کے آخر تک لجنات بھارت کی تعدا د سولہ سے بڑھ کر ۲۳ تک اور ۱۹۶۲ء میں ۲۶ تک ہوگئی ہے.اس وقت مندرجہ ذیل مقامات پر لجنات قائم ہیں.قادیان ، سکندر آباد دکن، حیدر آباد، بنگلور، مدراس، شموگہ، یاد گیر، چنتہ کنٹہ ، کوکبی (اڑیسہ)، گو ہالپور ( اڑیسہ ) محی الدین پور اڑیسہ ، جمشید پور حلقہ نمبرا، جمشید پور حلقہ نمبر۲، کنانور ( کیرالہ)، ( گوڈالی کیرالہ ) بھدرک (اڑیسہ)، کندرا پارا، کیرنگ، کرڈا چلی (اڑیسہ)، چک ایمر چھ (کشمیر) ٹائیں منکوٹ (پونچھ) چار کوٹ (پونچھ) شاہ جہانپور (یوپی)، ابراہیم پور (بنگال)، دھوان ساہی (اڑیسہ) ، پینکال (اڑیسہ)

Page 224

216 بھارت کی تمام لجنات مقامی طو پر جلسہ ہائے سیرۃ النبی ، سیرت حضرت مسیح موعود ، یوم پیشوایان مذاہب، یوم مصلح موعود، یوم خلافت و غیرہ منعقد کرتی ہیں اور اپنی رپورٹیں مرکز کو بھجواتی ہیں جن کا خلاصہ اخبار بدر میں شائع کروایا جاتا ہے.تمام لجنات کی طرف سے چندہ ممبری با قاعدہ طور پر موصول ہوتا رہا.علاوہ ازیں سلسلہ کی تمام تحریکوں میں لجنات نے نہایت مخلصانہ طور پر حصہ لیا.چنانچہ مسجد ہالینڈ کے چندہ میں دل کھول کر حصہ لیا.اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مد میں ایک بہن نے ایک ہزار روپیہ دیا اور تیرہ بہنوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ کا عطیہ دیا.اس کے علاوہ سیکنڈے نیویا مشن سویڈن، ناروے کے لئے چندہ جمع ہوا.نیز چندہ جات تحریک جدید، وقف جدید، حصه ،آمد، چندہ مستورات، زکوۃ، درویش فنڈ اور صدقات وغیرہ بھی مختلف اوقات میں موصول ہوتے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے بجنات تمام مرکزی تحریکوں میں حصہ لیتی ہیں.مندرجہ بالا چندہ جات کے علاوہ مرکزی ضرورت کے پیش نظر عام جلسوں اور جلسہ سالانہ کے لئے ایک لاؤڈ سپیکر کی ضرورت محسوس کی گئی جس کے لئے بجنات کو تحریک کی گئی الحمد اللہ کہ اس غرض کے لئے مبلغ ایک ہزار ایک سوسولہ روپے جمع ہوئے اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے لئے نیا لاؤڈ سپیکر خرید لیا گیا.جوجلسوں اور جلسہ سالانہ کے موقع پر کام دیتا ہے.لا ناصرات الاحمدیہ :.۲۰ را گست ۱۹۵۰ء کو عاجزہ کوسیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مقرر کیا گیا.سوا سال تک مجھے کام کرنے کی توفیق ملی.ربوہ میں اس وقت چار حلقے تھے از سرنوان میں نگران مقرر کی گئیں اور اجلاس میں رپورٹوں کا خلاصہ با قاعدہ پیش کیا جاتا.حلقہ جات ربوہ کی عہدیداران کا تعاون حاصل رہا ان سے درخواست کی گئی تھی کہ ناصرات کی ہفتہ وار پورٹ لجنہ کے اجلاسوں میں سنائی جایا کرے تاکہ مستورات کو نصاب وغیرہ کاعلم ہوتار ہے اور وہ اپنی لڑکیوں کو یاد کر وانے میں ہماری مدد کر سکیں.پروگرام میں تلاوت قرآن ماہنامہ الفرقان ر بوه در ویشان قادیان نمبر ۱۴۲ تاص ۱۴۴

Page 225

217 مجید ہرلڑ کی سے کروانی لازمی ہوتا کہ یہ علم ہو کہ بچی کو صحیح قرآن مجید آتا ہے یا نہیں.در مشین کی نظمیں علی الترتیب چھ چھ شعر کر کے پڑھی جائیں اور کوشش کی جائے کہ اس کا آسان لفظوں میں مطلب سمجھایا جائے.ایک حدیث اور اس کی تشریح.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا کوئی واقعہ ( کہانی کے رنگ میں ) آسان عنوانات مقرر کر کے ان پر زبانی تقاریر شامل تھیں.ماہوار چندہ کم از کم ایک آنہ وصول کیا جاتا.جملہ پروگراموں کی نگرانی کی جاتی اور ساتھ ہی حلقہ جات کے دورے کئے جاتے تھے.اس لئے کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے با قاعدگی کے ساتھ شروع ہو گیا اور ناصرات شوق کے ساتھ پروگراموں میں شامل ہونے لگیں.پہلا امتحان :.امتحانات مورخہ ۲۳ / جولائی کو ناصرات الاحمدیہ کے ہر دو گروپوں کا امتحان ہوا.بڑے گروپ کا تمیں سیپاروں کے ناموں کا اور چھوٹے گروپ کا نظم ”ہمارا خدا کا ہوا.۳۷ لڑکیاں شامل ہوئیں ۳۵ کامیاب ہوئیں.چھوٹے گروپ میں امتہ ائی اور صادقہ ۳۰/۳۰ نمبر لے کر اول آئیں اور بڑے گروپ میں سے صادقہ طاہرہ صاحبہ، مبارکہ صاحبہ، رضیہ صاحبہ، سعیدہ صاحبہ بنت نورالدین صاحب، سعیدہ صاحبہ بنت مولوی محمد اسماعیل صاحب ، صادقہ صاحبہ بنت شیخ عبدالقادر صاحب ۳۰/۳۰ نمبر لے کراول آئیں اے ناصرات الاحمدیہ کا دوسرا امتحان :.ناصرات الاحمدیہ کے چھوٹے گروپ کا نظم ” جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلمان ہے“ کا اور بڑے گروپ کا قرآن مجید کی پہلی تھیں سورتوں کے ناموں کا زبانی امتحان ۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کو لیا گیا.کل ۶۹ لڑکیاں شامل ہوئیں.چھوٹے گروپ میں سے امتہ اکئی صاحبہ.صادقہ محمودہ صاحبہ اور صادقہ صاحبہ له مصباح اگست ۱۹۵۱ء ص ۳۲

Page 226

218 ۳۰/۳۰ نمبر لے کر اول آئیں.بڑے گروپ میں سے امتہ الحمید صاحبہ، امتہ الباری صاحبہ،حمیدہ صاحبہ، امیہ صاحبہ ۳۰/۳۰ نمبر لے اول آئیں.جلسہ ناصرات الاحمد یہ ربوہ :.ناصرات کا تقریری مقابله ۵/اکتوبر ۱۹۵۱ء کو دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں زیر صدارت حضرت سیده ام داؤ د صاحبہ ، نائب صدر لجنہ اماء اللہ مرکز یہ منعقد ہوا.منصفین محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہا اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں.تقریر کا عنوان ”تحریک جدید کی غرض “ تھا حلقہ نمبر کی طاہرہ بیگم اول، حلقہ نمبر کی امتہ الرشید دوم آئیں.ہے ربوہ کے علاوہ سیالکوٹ ، سیلون اور چند ایک اور ناصرات سرگرم عمل تھیں.خطوط کے ذریعہ بڑی لجنات کو توجہ دلائی گئی.عہدیداران لجنات اما ء الله ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۸ء:- قیام پاکستان کے بعد سے ۱۹۴۹ء تک کی بجنات کے نام پہلے باب میں درج کئے جاچکے ہیں اب ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۸ء کی لجنات اور ان کی عہدیداران کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں:.گنگا پور ضلع لائل پور صدر جنت بی بی صاحبہ، سیکرٹری صدیقن خانم صاحبہ اوکاڑہ ضلع منٹگمری صدر زاہدہ خاتون صاحبہ بنت ماسٹر حاکم علی صاحب، سیکرٹری امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ بابوعبد الطیف صاحب چهور چک نمبر ۱۷ اضلع شیخو پورہ صدر رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام محمد صاحب نو رنگ ضلع گجرات صدر سلطانه عزیز بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم عبد العزیز صاحب سیکرٹری نعیمہ صاحبہ اہلیہ میر حمید اللہ صاحب سکھرسندھ تاندلیانوالہ ضلع لائل پور صد راہلیہ صاحبہ شیخ عبدالرحمن صاحب امیر جماعت، سیکرٹری مطلو به خاتون صاحبه ا مصباح نومبر ۱۹۵۱ء ص ۲۸ ۲۹ ايضاً

Page 227

219 گھیر، ضلع گجرات صدرا شرف بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد یوسف صاحه سیکرٹری سیدہ آمنہ بی بی صاحبہ آڑ ضلع گجرات صدر غلام عائشہ صاحبہ اہلیہ غلام رسول صاحب چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودھا صدر شریفہ صاحبہ اہلیہ چوہدری غلام احمد صاحب نمبر دار مالو کے ضلع سیالکوٹ صدر استانی محمودہ بیگم صاحبہ، سیکرٹری نذیرہ بیگم صاحبہ شاہدرہ ضلع لاہور صد رسارہ بیگم صاحبہ ہیڈ مسٹریس بھیره صد رخدیجه بی بی صاحبہ اہلیہ محمد اسماعیل صاحب چک سکند رضلع گجرات سیکرٹری نیم نگہت صاحبہ اہلیہ لیفٹیننٹ عبدالمجید صاحب صد رامة الحفیظ عفت صاحبہ تامیه ضلع ملتان سعد اللہ پورضلع گجرات صدر رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی غلام علی صاحب مرحوم ڈگری ضلع میر پور خاص (سندھ) سیکرٹری بیگم صاحبہ مرزا مبارک احمد صاحب شاہ مسکین ضلع شیخو پوره صد رسیده ز بیده بیگم صاحبہ، سیکرٹری سیدہ حفیظ بیگم صاحبہ مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ صدر بیگم بی بی صاحبہ چک نمبر ۱۱/ ۶ ضلع منٹگمری صدر اہلیہ صاحبہ چوہدری نورالدین صاحب مرحوم جیکب آباد (سندھ) صدر امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ سید عبدالعزیز صاحب اوورسیئر وزیر آباد ضلع گوجرانولہ صدر نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ میاں غلام احمد صاحب سانگلہ ہل ضلع گوجرانولہ صدر و سیکرٹری کرامتہ اللہ، سردار بیگم صاحبہ، امتہ اللہ صاحبہ، عنایت بیگم صاحبہ خوشاب ضلع سرگودھا صدر اہلیہ صاحبہ مولوی عبد الکریم صاحب سیکرٹری امتہ الوہاب صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام محمد صاحب منڈی بہاؤالدین ضلع گجرات صدر عزیزہ خورشید صاحبہ اہلیہ محمود احمد خان صاحب شمس سیکرٹری طاہرہ نسرین صاحبہ فتح پور گجرات صدر کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالعزیز صاحب سیکرٹری حلیمہ ناصرہ صاحبہ بنت راجے خان صاحب

Page 228

220 گجرات صدر برکت بی بی صاحبہ حیا سیکرٹری نیم قیصرہ صاحبہ بنت محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال بشری ڈار صاحبہ بشیر آبا دسٹیٹ (سندھ) صد رامۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب سیکرٹری رسول بیگم صاحبہ ظفر آباد اسٹیٹ (سندھ) صدر ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد صادق صاحب سیکرٹری امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب بی.اے در گانوالی ضلع سیالکوٹ صد رنذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالستار صاحب سیکرٹری رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی نصیر احمد صاحب ظفر آباد چک نمبر۹۷ ضلع جھنگ سیکرٹری تاج بی بی طاہرہ صاحبہ، جنت بی بی صاحبہ سمندری ضلع لائل پور مالیر کینٹ کراچی صدر آمنہ بیگم صاحبہ نائب معلمہ ایم.بی گرلز سکول صدر ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد حنیف صاحب گوجر خان ضلع راولپنڈی صدر حسن آراء بٹ صاحبہ چک نمبر الف ضلع تھر پار کرسندھ صدر اہلیہ صاحبہ صوفی غلام محمد صاحب موضع لکی نوضلع جھنگ صد ر استانی رحمت بی بی صاحبہ چک ۲۹۶ ج - ب ضلع لائل پور صدر راہلیہ صاحبہ چوہدری عبدالمجید صاحب چک شیر کا نمبر ۲۷۸ ضلع لائل پور صد ر ز یادت بی بی صاحبہ چک نمبر ۸۴ ضلع لائل پور صدر زینب بی بی صاحبہ زوجہ عبد الرحمن صاحب گوکھو وال چک ۱۳۱ ج ب ضلع لائل پور صدرامتہ الحمید صاحبہ.اللہ رکھی صاحبہ کھو والی چک نمبر ۳۱۲ ضلع لائل پور صدرامتہ العزیز صاحبہ چک نمبر ۳۳۲ جھنگ برانچ ضلع لائل پور سیکرٹری ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری سید محمد صاحب چک نمبر ۶۸ لٹیراں ڈاک خانہ ٹھیکر یوال ضلع لائل پور.صدر سردار بیگم صاحبہ چک ۲۰۰ گ.او بھی منگل ضلع ایل پور سیکرٹری بشری بیگم صاحبہ بنت غلام رسول صاحب چک نمبر ۶۱ بید یا نوالہ ضلع لائل پور صدر بی بی صاحبہ اہلیہ غلام احمد صاحب

Page 229

221 چوکنا والی ضلع گجرات صدر رابعہ بی بی صاحبہ اہلیہ احمد الدین صاحب چک سکندر ضلع گجرات صدر جنت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فضل الد ین صاحب کنجاہ ضلع گجرات صدر سردار بیگم صاحبہ بیوہ محمد اسمعیل صاحب سدو کے ضلع گجرات صدر بہشت بی بی صاحبہ اہلیہ مہر اللہ دتہ صاحب سماعیلہ ضلع گجرات سیکرٹری رابعہ بی بی صاحبہ بنت چوہدری ابراہیم صاحب سوک کلاں ضلع گجرات صدر فهمیده با نو صاحبه چک نمبر ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا صدر سردار بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد الدین صاحب مجو که ضلع سرگودھا صدر بخت بھری صاحبہ والدہ عاشق محمد صاحب کبیر والا ضلع ملتان سیکرٹری امتہ الحفیظ عفت صاحبہ لویر یوالہ ضلع گوجرانوالہ سیکرٹری رفیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالباسط صاحب پنڈی بھا گ ضلع سیالکوٹ صدر صغری بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالحق صاحب لوہان ضلع سیالکوٹ سیکرٹری سکینہ بی بی صاحبہ گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ صدر طالعہ بیگم صاحبہ، سیکرٹری سیده سعیدہ بیگم صاحبہ کلاسوالہ ضلع سیالکوٹ صدر نورنگر (سندھ) سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد الحق صاحب صدر نصرت آبا داسٹیٹ (سندھ) صدر صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ سیکرٹری امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ عباس علی شاہ صاحب لاڑکانہ (سندھ) سیکرٹری سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا فتح محمد صاحب نبی سر روڈ (سندھ) سیکرٹری سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالعزیز صاحب ناصر آبا داسٹیٹ (سندھ) صدر صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ، صاحبزادی امتہ احکیم بیگم صاحبہ باندھی بہاولنگر سیکرٹری مبارکه صاحبہ صدر مریم بی بی صاحبہ صدر شمس النساء صاحبہ اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب سیکرٹری صغری فاطمہ صاحبہ

Page 230

222 نوشہرہ چھاؤنی صدر مریم بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمد شفیع صاحب نوشہروی، سیکرٹری اہلیہ صاحبہ غلام حیدر صاحب ڈیرہ غازی خان صدر امتہ الحئی صاحبہ اہلیہ حافظ محمد عمر صاحب صدر صدر امۃ اللہ بیگم صاحبہ عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب چغتائی سیکرٹری مبارکہ بیگم شاہدہ صاحبہ، امتۃ الرشید صاحبہ اہلیہ صادق محمد صاحب مظفر گڑھ واہ کینٹ کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ صدر رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ بابومحمد ابراہیم صاحب رائے پور ضلع سیالکوٹ صدر غلام فاطمہ صاحبہ صدر سیکرٹری مریم صدیقہ صاحبہ منڈی مڑھ بلوچاں ضلع شیخو پورہ صدر رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب سیکرٹری شریفہ بی بی صاحبہ منگلا ڈیم ضلع جہلم مدر صالحه نسیم صاحبہ کنری (سندھ) صدر بیگم ریحانه صاحبه کریم نگر فارم (سندھ) صدر حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد الحق صاحب کوٹ احمدیاں (سندھ) سیکرٹری رضیہ سلطانہ صاحبہ گوٹھ چوہدری شاہ دین صدر کریم بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری شاہ دین صاحب سلیمہ بیگم صاحبہ میر پور خاص (سندھ صدر گوٹھ چوہدری نتھے خان صدر فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری تھے خاں صاحب ریاست بہاولپور صدر، امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت حکیم چوہدری فتح محمد صاحب مرحوم موضع جھول ضلع رحیم یارخان صدر عالم بی بی صاحبہ کماس ضلع لاہور صدر غلام فاطمہ صاحبہ ڈھا کہ نرائن گنج ( مشرقی پاکستان) صدر سیده نصیره صاحبه

Page 231

223 پنڈ بھیگوال ضلع راولپنڈی صدر ریشم بیگم صاحبہ اہلیہ منظور احمد صاحب گوجرخان ضلع راولپنڈی صدر مریم با نو صاحبه ڈیرہ اسماعیل خان سیکرٹری بشری بیگم صاحبہ اہلیہ بشارت احمد صاحب ڈیرہ غازی خان صدر بیگم ہاشمی صاحبہ سیکرٹری جمیلہ شمس صاحبہ

Page 232

Page 233

225 تیسرا باب ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۲ء تک ۱۹۵۱ء ی جامعہ نصرت کا قیام ہی تبلیغی وفود کے دورے ہی تربیتی مساعی لجنہ اماءاللہ کا کارواں اپنی زندگی کی اٹھائیس منزلیں پوری کر کے ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں ہے.لجنہ اماء اللہ کی دینی تبلیغی ، تربیتی اور تعلیمی سرگرمیاں اس سال بھی حسب معمول جاری رہیں.سال رواں کا سب سے اہم واقعہ جو احمدی مستورات کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جامعہ نصرت برائے خواتین کا قیام ہے جس کی وجہ سے بچیوں کے لئے مرکز میں رہ کر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ دنیوی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ نکل آیا.اس ادارہ سے اب تک کثیر تعداد میں احمدی اور غیر احمدی بچیاں فیضیاب ہو چکی ہیں.اس سال سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زیر ہدایت بود اماءاللہ مرکز ی کو تلافی نقود کی صورت میں مختلف مقامات پر جانے اور غیر از جماعت بہنوں سے تبادلہ خیال کرنے اور احمدیت کے متعلق ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.عہدہ داران لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ۱۹۵۱ء:.صدر نائب صدر حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ حضرت سیدہ ام داؤ دصاحبه

Page 234

226 جنرل سیکرٹری نائبہ جنرل سیکرٹری سیکرٹری شعبہ خدمت خلق نائبه شعبه خدمت خلق سیکرٹری تعلیم نائبہ سیکرٹری تعلیم سیکرٹری تربیت واصلاح شعبه مال حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ محترمه سیده ناصرہ بیگم صاحبہ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ محترمہ کلثوم با جوه صاحبه محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبه بیگم محترمہ صاحبزادہ مرزامنوراحمد صاحب صفیہ ثاقب صاحبہ اہلیہ مولوی صدیق صاحب صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری تبلیغ امته الرشید شوکت صاحبه نائبه تبلیغ امة الرحمن طیبه صاحبه سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ عاجزه امتة اللطيف مدیره مصباح محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ انسپکٹرس مقامی محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ سیکرٹری لجنات بیرون محترمہ امۃ الرحیم عطیہ صاحبہ سیکرٹری نمائش محترمہ حمیده صابرہ صاحبہ جامعہ نصرت :.سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابتداہی سے خواتین کی تعلیم سے گہری دلچسپی تھی اور آپ اس یقین پر قائم تھے کہ قومی ترقی کے لئے خواتین کا زیور تعلیم سے آراستہ ہونا ضروری ہے.قادیان میں آپ نے بچیوں اور خواتین کی اعلیٰ دینی ود نیوی تعلیم کا انتظام فرمایا.نصرت گرلز سکول کے ساتھ ساتھ جامعہ نصرت قائم فرمایا جس میں اردو، انگریزی کے علاوہ قرآن کریم ، احادیث، فقہ، اسلامی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھانے کا انتظام تھا.چنانچہ ہر سال لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد جامعہ نصرت سے

Page 235

227 فارغ التحصیل ہونے لگی.۱۹۴۷ء کے انقلاب عظیم کی وجہ سے جماعت کو اپنا مرکز عارضی طور پر چھوڑنا پڑا.۱۹۴۹ء میں ربوہ آباد ہونا شروع ہوا اور دو سال بعد ہی حضرت مصلح موعود نے بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ نصرت کا قیام ایک نئی صورت میں فرمایا.قادیان میں جامعہ نصرت کی جماعتوں کا امتحان مجلس تعلیم لیا کرتی تھی لیکن یہاں جامعہ نصرت کا با قاعدہ الحاق بورڈ ثانوی تعلیم اور یونیورسٹی سے کروایا گیا.اس زنانہ کالج کے افتتاح کے وقت حضرت مصلح موعود نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ پاکستان بننے کے بعد کالجوں میں اسلامیات اور اسلامی تاریخ کا مضمون پڑھایا جانے لگا ہے.دین اور دنیا کی تعلیم مشترک ہو سکتی ہے اس لئے آپ نے فیصلہ فرمایا کہ سابقہ د مینیات کلاسز کی بجائے ایک زنانہ کالج جاری کر دیا جائے جس میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ زائد دینی تعلیم دی جائے اور اپنی جماعت کا لٹریچر بھی پڑھایا جائے.حضرت مصلح موعودؓ نے جامعہ نصرت کے قیام کے فیصلہ کا اعلان۱۹۵۰ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا:.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ۱۹۵۱ء میں زنانہ کا لج قائم کریں.جگہ میں نے مقرر کر دی ہے اور ام متین ان کی نگران ہوں گی.“ افتتاح:.۱۴ جون ۱۹۵۱ء بروز جمعرات حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے جامعہ نصرت کا افتاح فرمایا اور طالبات کو ایک بصیرت افروز خطاب سے بھی نوازا.حضور نے فرمایا:.ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں.ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں.پس میں اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارازور مذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں.اور شائد میں تھاور نہ کے افسر کی ان جماعت میں میں اکیلا ہی تھا جو اس بات پر زور دیتا تھا ورنہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا ان سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی ا رجسٹر لجنہ ربوہ رپورٹ جلسہ سالانہ مستورات ۱۹۵۰ء

Page 236

228 جائے تا کہ بیرونجات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریزی تعلیم حاصل کریں.اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے کی اجازت دی جائے مگر میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن آج میں ہی زنانہ کالج کا افتتاح کر رہا ہوں.یہ تیسری قسم کی چیز ہے نہ میں زمانہ کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خدا تعالیٰ نے زمانہ میں ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کر سکتے ہیں.یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اس کو جانے دو.لیکن یہ کتنا خوشگوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون ”اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا جائے گا.پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بدلے زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا.کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہیئے وہ ابھی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ کوسمو دیا ہے اور اسے کچھ ہمارے مطابق کر دیا ہے اور کچھ ابھی ہمارے مطابق نہیں.پس ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج میں بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں.میں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کلاسز کواڑ دیا جائے اور اس کالج میں لڑکیوں کو زائد دینی تعلیم دی جائے تاکہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معلومات حاصل کر لیں اور اسلام پر ان کی نظر وسیع ہو جائے.عیسائی حکومت جو تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی.پس میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کر دینا چاہیئے تا کہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں جو اعلی تعلیم یافتہ عورتیں ہیں اُن کی برابری کرسکیں.“ زنانہ کالج کے قیام کی اغراض :- حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جامعہ نصرت کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہوسکتی ہے اس لئے مشترک کر دیا جائے.اس کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہو سکتی ہیں کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد د نیوی کام کریں او کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں.میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت

Page 237

229 بھی دنیا سے سے الگ نہیں ہو سکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا.اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے.پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے.دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جولڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.اور جولڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ کہ وہ دین کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا عہ ہے.پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا.جو دینی خدمت کی طرف جانے والی ہیں انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.دین کے معنے صرف سبحان اللہ سبحان اللہ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ درد کو دور کرنے میں حصہ لینے کے بھی ہیں.اور جولڑ کیاں دنیا کا کام کرنا چاہتی ہیں انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے.پس انہیں دنیوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے چلے جانا چاہیئے.اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں در حقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اس لئے جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہو گیا.پس یہ مقصد جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کا لج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو.دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی کو بھلا کر دنیوی کاموں میں ہی منہمک ہو جائیں.مگر چونکہ یہ کالج احمد یہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہوگا کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوا گر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھٹ جاتا ہے تو تم اس مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے پس ان ہدایات کے ساتھ میں احمدیہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو مدنظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ

Page 238

230 طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے.جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا.بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے.اسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہیے جو اس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہیئے کہ وہ صیح طور پر تعلیم دیں، اخلاق فاضلہ سکھا ئیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں.“ اپنے خطاب کے آخر میں حضور نے فرمایا:.ان ریمارکس اور نصیحتوں کے ساتھ میں اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوا اس کا لج کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کالج کی اس چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نوازے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے.ابتدائی طالبات جامعہ نصرت :.پہلے سال سولہ طالبات نے جامعہ نصرت میں داخلہ لیا جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں :.۱.حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ (مہر آپا) حرم حضرت خلیفہ المسح الثانی ۲.سیدہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب.امتہ المجید صاحبہ بنت مکرم عبدالرحمن صاحب (حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے بھتیجے ) ۴.امۃ الرشید قمر صاحبہ بنت مکرم عبدالرحیم صاحب در ویش قادیان ۵ منظور النساء بنت مكرم محمد اسمعیل صاحب معتبر ۶.مریم صدیقہ بنت مکرم چوہدری محمد نور الہی صاحب ے.قدسیہ بیگم صاحبہ بنت مکرم عبدالحمید صاحب ۸.رقیہ شمیم صاحبہ بنت مکرم محمد الحق صاحب ۹ - صدیقہ خانم صاحبہ بنت مکرم ابوالہاشم خان صاحب ۱۰.سعیدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم حبیب اللہ صاحب لى الازهار لذوات الحمار حصہ دوم ص ۱۱۵ تا ص ۱۲۴ و مصباح جولائی ۱۹۵۱ء ص ۵ تا ص ۲۳

Page 239

231 ۱۱.امتہ الحی عمر صاحبہ بنت مکرم صاحبزادہ عبدالسلام عمر صاحب مرحوم ۱۲.نعیمہ صاحبہ بنت مکرم حضرت حافظ غلام محمد صاحب مرحوم ۱۳.مبارکہ خاتون صاحبہ بنت مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان ۱۴.حمیدہ بانو صاحبہ بنت مکرم عبدالکریم صاحب مرحوم ۱۵.امتہ المجید صاحبہ بنت مکرم عبد الرحمن صاحب ۱۶.امۃ الشافی صاحبہ بنت مکرم چوہدری نذیر حسین صاحب ان ابتدائی طالبات میں سے چار طالبات کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ نصرت کی خدمات سرانجام دینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد سال بسال بڑھتی چلی گئی حتی کہ ۱۹۵۱ء میں جس کالج کی ابتدا سولہ طالبات سے ہوئی تھی آج اس میں طالبات کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے چارسو ہے.الحمد اللہ علی ذالک.ابتدائی اسٹاف: کالج چلانے کے لئے سب سے اہم اور ضروری مسئلہ اساتذہ کا تھا.احمدی مستورات میں اول تو بہت کم ایم.اے پاس تھیں دوسرے جو چند ایک تھیں وہ مختلف کالجوں میں کام کر رہی تھیں اس لئے مجبور امر دلیکچرار رکھے گئے بعض پورے وقت کے لئے اور بعض جز وقتی.پرنسپل جامعہ نصرت : محترمہ فرخندہ بیگم صاحبہ اہلیہ سیدمحمود اللہ شاہ صاحب مرحوم نے کالج کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.اگر چہ اس وقت آپ صرف بی.اے.بیٹی تھیں تاہم حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو جامعہ نصرت کالج کی پرنسپل مقر فرمایا اور اس کے بعد آپ کو ایم.اے کرنے کے لئے لاہور بھجوایا.اس عرصہ میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی ( ڈائرکٹرس) پرنسپل اور لیکچرار کے فرائض سرانجام دیتی رہیں.پہلے سال کی تعلیم مندرجہ ذیل اساتذہ کے سپرد ہوئی:.

Page 240

232 عربی د مینیات انگریزی اقتصادیات اردو.فارسی تاریخ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ایم.اے محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری محترمه فرخنده بیگم صاحبہ بیگم حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب مرحوم محترمه فرخنده بیگم صاحبہ بیگم حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب مرحوم محترم پروفیسر علی احمد صاحب ایم.اے مرحوم کے محترم چوہدری علی محمد صاحب بی.اے بی ٹی عربی (اختیاری) محترمه استانی سردار صاحبہ جو ہوسٹل کی سپرنٹنڈنٹ بھی تھیں.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے بھی باوجود اپنی مصروفیات اور علالت کے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر چند ماہ آنریری طور پر طالبات کو انگریزی پڑھائی.آپ کے علاوہ چند اور اصحاب نے بھی ابتداء میں جامعہ نصرت کی خدمات سرانجام دی ہیں.جن کے نام درج ذیل ہیں.ا محترم عبدالسلام صاحب اختر ایم.اے سے ۲- محترم رشید احمد صاحب چغتائی ۳.محترم عبدالواحمد صاحب ۴- محترم میجر اسمعیل صاحب محترم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ۶ - محترم مولوی محمد عثمان صاحب ے.محترم قریشی محمد نذ یر صاحب مرحوم ملتانی محترم مولوی خورشید احمد صاحب شاد محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے والد انگریزی اور فلسفہ عربی فارسی فارسی انگریزی ،اکنامکس اسلامیات دینیات دینیات حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو نظارت تعی ت تعلیم سے تبدیل کر کے جامعہ نصرت میں مقررفرمایا کیونکہ محترمہ فرخندہ بیگم صاحبہ ایم.اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور تشریف لے جاچکی تھیں.آپ کے بعد انگریزی پڑھانے والا کوئی نہ تھا چنا نچہ محترم عبدالسلام اختر صاحب ایک ہی وقت میں انگریزی اور سائیکالوجی پڑھاتے تھے.ابتداء میں پارٹ ٹائم اور بعد میں پورے وقت کے لئے.آپ میں بے لوث خدمت کا جذبہ کارفرما تھا.بھی نہ دیکھا کہ کتنے پیرید ہیں اور کتنے مضامین.کئی کئی پیریڈ پڑھاتے چلے جاتے.جزاکم اللہ احسن الجزاء

Page 241

233 محترم مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب مرحوم 1 دبینیات ،اردو، فارسی ۱۰- محترم محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم سے پارٹ ٹائم لیکچرار ریاضی جامعہ نصرت سے جہاں طالبات کی بھاری تعداد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہاں اس کالج کی فارغ التحصیل طالبات کے ذریعہ کالج کو اساتذہ بھی میسر آئے.مختلف مضامین میں طالبات نے ایم.اے کر کے جامعہ نصرت میں تعلیم دی.بہت سی ان میں سے کئی کئی سال خدمت کر کے چھوڑ چکی ہیں اور بہت سی تا حال پڑھا رہی ہیں.اس وقت ۲۸ خواتین جامعہ نصرت کی خدمت مختلف وقتوں میں سرانجام دے کر جامعہ سے فارغ ہو چکی ہیں اور ۲۲ خواتین تعلیم دے رہی ہیں.عمارت :.چونکہ کالج کے لئے انجمن کے پاس کوئی عمارت نہ تھی اور اس وقت ربوہ میں نئی عمارت کا بنا آسان کام نہ تھا اس لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے از راہ شفقت اپنی ایک کوٹھی میں کالج جاری کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی جو چار کمروں پر مشتمل تھی.چونکہ پہلے سال صرف ایک ہی جماعت تھی اس لئے ایک سال تک اس میں اچھی طرح کام چلتا رہا لیکن اگلے سال مئی میں نیادا خلہ شروع ہونے پر چونکہ دو جماعتیں ہو گئیں اس لئے وہ عمارت ناکافی ثابت ہوئی اور ۱۹۵۲ء میں کالج کو دفتر لجنہ اماءاللہ کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا.ے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم کے صاحبزادے تھے.عربی زبان میں پوری دسترس رکھتے تھے.عربی گرائمر پر آپ کو خاص عبور حاصل تھا.دینیات اور عربی کی تدریس کا فریضہ آپ کے ذمہ رہا.آپ نہایت قابل محنتی اور با اصول استاد تھے.خودداری آپ کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھا ہراس بات سے پر ہیز کرتے جس سے آپ کی خود داری پر ضرب آتی ہو.آپ نے اردو اور فارسی کے مضامین بھی پڑھائے.اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں آپ کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین ۲ ۱۹۵۴ء سے محترم محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم نے جامعہ نصرت میں حساب اے.بی کورس پڑھانا شروع کیا.آپ تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرار تھے اس لئے جامعہ نصرت میں پارٹ ٹائم پڑھاتے.آپ کی ذات کا نمایاں کردار ہمدردی، شفقت اور تعاون تھا.محترمہ پرنسپل صاحبہ کو ہمیشہ ہر کام میں آپ کی راہنمائی حاصل رہی.محنتی اور قابل استاد تھے.آپ نے اپنی تمام خدمات ادارہ کے لئے وقف کر دیں.صرف تدریس ہی میں نہیں بلکہ باقی تمام کاموں میں بھی پورا پورا تعاون کرتے.دفتری کاموں میں بھی محترمہ پرنسپل صاحبہ کو کافی مدد بہم پہنچاتے آپ کا نتیجہ ہمیشہ سو فیصد رہا.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا رہے.آمین

Page 242

234 ۱۹۵۳ء میں کالج کی عمارت جو صرف چار کمروں پر مشتمل تھی تیار ہوئی اور کالج اس میں منتقل ہو گیا.آہستہ آہستہ کمروں میں اضافہ ہوتا رہا.گو اب بھی طالبات کی تعداد کے مطابق عمارت نہیں ہے تا ہم ایک خاصی وسیع عمارت بن چکی ہے.جس میں ہوٹل، دفتر ، دارالمطالعہ اور طالبات کے لئے کمرے وغیرہ شامل ہیں.۱۹۶۱ء میں محترمہ پرنسپل صاحبہ کی تحریک پر طالبات نے چندہ جمع کیا جس سے بارہ دری تعمیر کی گئی اور طالبات جامعہ نصرت کو فارغ وقت میں بیٹھنے کی کافی سہولت ہوگئی.۱۹۶۲ء میں ایف.اے کلاسز کو ڈگری کلاسز سے علیحدہ کر دیا گیا.اس سلسلہ میں پچاس ہزار کی رقم گورنمنٹ مغربی پاکستان سے موصول ہوئی چنانچہ یہ رقم نصرت گرلز ہائر سیکنڈری سکول کی عمارت پر خرچ کر دی گئی.۱۹۶۳ء میں ہائر سیکنڈری سکول بند کر دیا گیا اور ایف.اے کلاسز کو دوبارہ جامعہ نصرت سے ملحق کر دیا گیا چنانچہ یہ تبدیلی اس عمارت پر اثر انداز ہوئی جو کہ پہلے ہی ڈگری کلاسز کے لئے ناکافی تھی اس لئے ثانوی جماعتوں کا بھی اس مختصری عمارت میں سما جانا ناممکن تھا چنا نچہ ان کو وقتی طور پر نصرت گرلز ہائی سکول کی عمارت میں ہی رکھا گیا اس کے بعد چھ ماہ تک جامعہ نصرت میں خیموں میں وہ کلاسز جاری رہیں.۱۹۶۵ء میں کیفے ٹیریا کی عمارت مکمل ہوئی اور ایک وسیع کھانے کا کمرہ ہوٹل میں تعمیر کیا گیا.اسی سال تین کمرے مزید تعمیر کئے گئے.دار الاقامة :- جامعہ نصرت کالج کے ساتھ دارالاقامہ کا بھی انتظام کیا گیا.ابتداء میں صرف ایک طالبہ نے ہوٹل میں قیام کیا.یہ طالبہ محترمہ قدسیہ صاحبہ بنت محترم چوہدری عبدالحمید صاحب تھیں.انہوں نے یقینا قربانی کر کے اپنی لڑکی کو اس وقت ہوٹل میں داخل کیا جبکہ ابھی اور کوئی لڑکی نہیں آئی تھی اور ان کو کچھ عرصہ تک تنہائی کی تکلیف اٹھانی پڑی.بعد ازاں دو طالبات اور بھی آگئیں.جامعہ نصرت اور ہوٹل جامعہ دینی و دنیوی تعلیم کے مخصوص امتزاج کا حامل ادارہ ہے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ طالبات کی تربیت اور کردار کی تشکیل پر پوری توجہ دی جاتی ہے اس لئے نہ صرف مرکز کی بلکہ غیر ممالک کی طالبات علم کے لئے بھی کشش رکھتا ہے.طالبات کو ایسا پرسکون ماحول مہیا کرتا ہے جس میں وہ مخصوص اسلامی تعلیمی وتربیتی اور روحانی فضا میں حصول علم میں منہمک رہ سکیں.اگر چہ ابتداء

Page 243

235 ایک طالبہ سے ہوئیں لیکن اس کے بعد یہ تعداد بڑھتی چلی گئی.موجودہ تعداد تقریبا نوے ہے.۱۹۵۹ء میں محترمہ پرنسپل صاحبہ اور طالبات کی سعی سے ٹیوب ویل لگوایا گیا جس سے طالبات کو ہر وقت پانی بہم پہنچانے کی سہولت مہیا کی گئی.زیادہ طالبات داخل ہونے کی وجہ سے غسل خانہ کی قلت محسوس ہونے لگی تو اپنی مدد آپ کے اصول کے ماتحت چار نسل خانے تعمیر کئے گئے.اسی طرح ایک باورچی خانہ چھپر ڈال کر بنوایا گی.۱۹۶۵ء میں یوگنڈا، کینیا اور نجی سے تین طالبات نے ہوسٹل میں داخلہ لیا.۱۹۶۸ء میں بارہ غیر ملکی طالبات داخل ہوئیں جن میں سے دو انڈونیشیا اور باقی مشرقی افریقہ سے تعلق رکھتی تھیں.اسی سال ایم.اے عربی کی ایک طالبہ بھی ہوٹل میں قیام پذیر ہوئی.اب ایم.اے کی طالبات کے لئے دو کمرے تیار ہو چکے ہیں.سپرنٹنڈنٹ :.ہوسٹل جامعہ نصرت کی سب سے پہلی سپر نٹنڈنٹ محترمہ استانی سردار بیگم صاحبہ تھیں جو مختلف عادات واطوار اور طبائع کی حامل طالبات کی انفرادی نگرانی ، اخلاقی اور دینی تعلیمی وتربیتی اور خاص طور پر نماز با جماعت کی ادائیگی اور نظم وضبط کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے میں پوری سرگرمی اور جد و جہد سے مصروف عمل رہیں.نماز جمعہ اور رمضان المبارک میں نماز تراویح کے لئے ہوٹل کی تمام طالبات کو مسجد لے کر جاتیں.ہوٹل میں لجنہ اماءاللہ کا قیام:.۱۹۵۵ء میں لجنہ اماءاللہ ہوٹل جامعہ نصرت کا قیام عمل میں لایا گیا.صدر محترمہ پرنسپل صاحبہ (مسز شاہ صاحبہ ) اور سیکرٹری محترمہ استانی سردار بیگم صاحبہ (سپرنٹنڈنٹ ) مقرر ہوئیں.ان کے ہفتہ وارا جلاس ہوٹل میں منعقد ہوتے جن میں طالبات ادبی اور مذہبی مضامین پڑھ کر سنا تھیں.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی تنظیم کے تحت جو ہدایات موصول ہوتیں ان پر عمل کروایا جا تا.طالبات ہر سال تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ با قاعدگی سے ادا کرتیں.۱۹۶۸ء میں محترمہ استانی سردار بیگم صاحبہ کے ریٹائر ہونے پر محتر مہ محمودہ قریشی صاحبہ لیکچرار جامعہ نصرت نے نہایت خوش اسلوبی سے اس فریضہ کو سرانجام دیا.آپ کے بعد ۱۹۶۹ء سے محترمہ نعیمہ بیگم صاحبہ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئیں.

Page 244

236 لائبریری:.طالبات کے علم میں اضافہ کرنے اور کتب پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے ایک لائبریری بنائی گئی.جس میں چارسو کے قریب کتب تھیں.ان میں سلسلہ کی کتب کے علاوہ ہر مضامین کی کتب موجود تھیں.ملک شام سے عربی کی کتب منگوائی گئیں تا عربی کی لیاقت میں اضافہ ہو سکے.انکے علاوہ روزانہ اخبارات بھی جاری ہیں.ایف.اے اور بی.اے کی طالبات کے مشترکہ فنڈ اور مینا بازار کی رقم سے انسائیکلو پیڈیا بریٹین کا کا مکمل سیٹ بھی خریدا گیا.تعداد کتب:.ابتداء میں لائبریری چارسو کتب پر مشتمل تھی لیکن کتب کی موجودہ تعداد آٹھ ہزار ہے.چار روزنامے، دو درجن سے زائد ماہوار اور ہفت روزہ انگریزی اردو رسائل طالبات کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں.ضرورت مند طالبات کو سال بھر کے لئے نصابی کتب بھی مفت مہیا کی جاتی ہیں.کھیلیں:.جس طرح روح کی غذاء کے لئے علم نہایت ضروری چیز ہے اس طرح جسم کی طاقت اور نشو و نما کے لئے کھیل اور ورزش بھی نہایت ضروری ہیں.ابتداء میں میدان نہ ہونے کی وجہ سے طالبات میں زیادہ کھیلیں رائج نہ کی جاسکیں تاہم پی ٹی روزانہ کروائی جاتی تھی.اسی طرح طالبات بیڈ منٹن بھی کھیلتی رہیں.جامعہ نصرت کا پہلا ٹورنا منٹ :.فروری ۱۹۵۲ء میں جامعہ نصرت کا پہلا ٹورنامنٹ لجنہ ہال کی چار دیواری میں منعقد کیا گیا جس میں طالبات نے مختلف دوڑوں، گولہ پھینکنا، ہائی جمپ، لانگ جمپ اور نشانہ بازی کے مقابلہ میں حصہ لیا.۱۹۵۹ء میں محترمہ رشیدہ چوہدری صاحبہ فزیکل ڈائریکٹرس کا تقر عمل میں لایا گیا.آپ کی وجہ سے طالبات نے کھیلوں میں بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا.پہلی بار طالبات نے لاہور بورڈ آف انٹر کالجیٹ میچز میں حصہ لیا.فٹ بال میں جامعہ نصرت ٹیم نے کوئٹہ ٹیم کو ہرادیا.لاہور بورڈ کی

Page 245

237 سالانہ کھیلوں میں طالبات کو بھجوایا گیا.اکثر نے دوم اور سوم انعامات حاصل کئے.بورڈ کی ڈائریکٹرس ایجوکیشن مسز نبتیا روڈ ر کو جامعہ نصرت کی طالبات کی شرکت کی وجہ سے ربوہ دیکھنے کی تحریک ہوئی چنانچہ آپ ربوہ تشریف لائیں اور کالج اور طالبات کی کھیلیں دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا.ٹرافی:.۱۹۶۱ء میں محترمہ حمیدہ بانو خلجی D.P.I محترمہ رشیدہ چوہدری کی جگہ فزیکل ڈائریکٹرس مقرر ہوئیں.آپ طالب علمی کے زمانہ سے ہی بہترین کھلاڑی اور کھیل کی شوقین بھی تھیں لہذا آپ کے آنے پر طالبات جامعہ نصرت نے کھیلوں میں زیادہ دلچسپی لینی شروع کر دی چنانچہ مندرجہ ذیل انعامات حاصل کئے.۱۹۶۱ء میں والی بال ٹیم جامعہ نصرت نے ٹرافی حاصل کی (لا ہور بورڈ ) ۱۹۶۵ء میں بین الجامعی ٹورنامنٹ میں ٹرافی حاصل کی (لا ہور بورڈ ) ۱۹۶۶ ء میں ڈگری کلاسز اور انٹر نے بورڈ اور یونیورسٹی میں والی بال ٹیم نے ٹرافی حاصل کی.۱۹۷۱ء میں انٹر کلاسز کی طالبات نے ٹرافی حاصل کی.انعامات:.۱۹۶۳ء میں آنسہ سعیدہ صاحبہ بنت چوہدری فضل داد صاحب نے ڈسکس تھرو میں اول انعام حاصل کر کے نیار یکارڈ قائم کیا اور۱۹۶۴ء میں اسی مقابلہ میں دوم انعام کی حق دار قرار پائیں.۱۹۶۴ء میں بین الجامعی ٹورنامنٹ میں والی بال ٹیم نے زونل میچ جیت لیا.یو نیورسٹی کے والی بال میچ میں رنر اپ قرار دی گئی.لاہور اور کینر ڈ کالج کی ٹیموں کو ہرا دیا.۱۹۶۵ء میں بورڈ آف ایجو کیشن لاہور کی سالانہ کھیلوں میں آنسہ حنیف صاحبہ بنت چوہدری عبدالواحد صاحب نے اونچی چھلانگ اور لمبی چھلانگ میں اول انعام حاصل کیا اور ۱۹۶۶ء میں لمبی چھلانگ اور تھلیٹکس میں اول انعام حاصل کئے.۱۹۶۶ ء میں شمامۃ البشرکی صاحبہ نے اونچی چھلانگ میں اول انعام حاصل کیا.۱۹۶۸ء میں فاخرہ سال سوم نے اونچی چھلانگ میں دوم انعام حاصل کیا.

Page 246

238 جامعہ نصرت کی سالانہ کھیلوں کا افتتاح:.اگر چه ابتداء ہی سے کالج میں سالانہ کھیلیں منعقد ہوتی رہیں لیکن ان کا ریکارڈ نہ رکھا جاسکا.۲۶ فروری ۱۹۶۰ء میں پہلی مرتبہ اہتمام کے ساتھ سالانہ سپورٹس ڈے منایا گیا جس کا افتتاح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ڈائریکٹرس جامعہ نصرت نے فرمایا.اختتام پر آپ ہی نے انعامات بھی تقسیم فرمائے.۱۹۶۱ء میں حضرت سیدہ ممدوحہ ہی نے رسم افتتاح سرانجام دی.۱۹۶۲ء میں بیگم آغا صاحب کمشنر سرگودھا نے افتتاح فرمایا.۱۹۶۳ء میں بیگم انو راطیف صاحب ڈ پٹی کمشنر سرگودھانے افتتاح فرمایا.۱۹۶۴ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا ( ڈائریکٹرس جامعہ نصرت ) نے افتتاح فرمایا اس میں بیگم صابرہ اعظم صاحبہ انسپکٹرس نے فزیکل انسپکشن کے لئے از راہ نوازش شرکت کی اور انعامات تقسیم کئے.۱۹۶۵ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا نے رسم افتتاح سرانجام دی.اختتام پر محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے انعامات تقسیم فرمائے.۱۹۶۶ء میں مسٹر رضیہ اعظم علی بیگ صاحب نے رسم افتتاح سرانجام دی اور محترمہ صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ نے انعامات تقسیم فرمائے.۱۹۶۷ء،۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے رسم افتتاح سرانجام دی اور انعامات تقسیم فرمائے.۱۹۷۰ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے افتتاح فرمایا اور حضرت سید ہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اصبح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے انعامات تقسیم فرمائے.۱۹۷۱ء میں مسز رضیہ اعظم علی بیگ ڈائریکٹرس فزیکل ایجوکیشن نے رسم افتتاح سرانجام دی اور انعامات تقسیم فرمائے.

Page 247

239 رسالہ ”النصرت :.طلباء کی دبی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے جنوری ۱۹۶۳ء میں ایک رسالہ ”النصرت جاری کیا گیا تا کہ طالبات میں قلمی ذوق پیدا ہو.یہ رسالہ دوحصوں انگریزی اور اردو پرمشتمل ہے.”النصرت“ کے پہلے شمارے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ذیل کا پیغام بھجوایا.محترمہ صدر صاحبہ بزم ادب جامعہ نصرت ربوہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط موصول ہوا.افسوس ہے کہ میں اس وقت بوجہ بیماری و کمزوری زیادہ نہیں لکھ سکتا دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جامعہ نصرت کے میگزین ”النصرت کو کامیاب اور بابرکت کرے اور طالبات اور جماعت کی خواتین کے لئے مفید اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.النصرت نام بڑا مبارک ہے اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی بشارتیں وابستہ ہیں.جامعہ نصرت کی طالبات کو چاہیئے کہ اس میگزین کی ترقی میں خوب ذوق و شوق سے دلچسپی لیں اور اسے نہ صرف اپنے علم کی ترقی کا ذریعہ بنائیں بلکہ لوگوں کے لئے بھی دلچسپ اور مفید اور کار آمد مواد مہیا کریں.خواتین کے لئے کام کا میدان بڑا وسیع ہے.گذشتہ زمانہ میں بعض مسلمان خواتین نے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے ہیں.پس جامعہ نصرت کی طالبات اور اساتذہ کو بھی اس رسالے میں خاص دلچسپی لے کر اور اسے ترقی دے کر اسلام اور احمدیت اور اپنے ادارے کی بہترین خدمت بجالانے کی کوشش کرنی چاہیئے.صحابہ کی بعض عورتوں کی وہ شان تھی کہ وہ اپنی خدمات اور علمی کارناموں کی وجہ سے کئی مردوں کو مات کرتی الله تھیں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بہت چھوٹی تھی مگر پھر بھی ان کے علمی کمال کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ان کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نصف دین عائشہ صدیقہ سے سیکھو اس بات میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ قومی اور جماعت کی ترقی میں مستورات بڑا حصہ لے سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی اس کوشش کو کامیاب کرے اور پروان چڑھائے.آمین فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۲۲/۱/۶۳ لے رسالہ النصرت جلد نمبر ا شماره ۱ جنوری ۱۹۶۳ء ص ۲۰

Page 248

240 جامعہ نصرت کا الحاق بورڈو یونیورسٹی سے:.۲۴ جنوری ۱۹۵۸ میں جامعہ نصرت کا ثانوی بورڈ تعلیم لاہور سے الحاق ہوا اور ۱۹۶۱ء میں بی.اے کلاسز کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہوا.معائنہ کا تاثر: وو معائنہ کے بعد محترم ڈاکٹر علی محمد صاحب پرنسپل لا ہور کالج نے جس تأثر کا اظہار فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے.عجب سماں ہے پڑھنے والیاں اور پڑھانے والے ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں.اس بے لوث جذبہ کو دیکھ کر بے اختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضا ربوہ میں ہی پائی جاتی ہے.آنرز کلاسز کا اجراء:.جب ہائر سیکنڈری سکول کی بنیا د رکھی گئی تو ڈگری کالج میں آنرز کلاسز کا اجراء کیا گیا تا کہ طالبات مرکز میں ایک سال مزید رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں.تین مضامین میں آنرز کلاسز جاری کی گئیں.اس کے بعد چونکہ ہائر سیکنڈری کلاسز دوبارہ ڈگری کالج میں آگئیں اس وجہ سے آنرز کلاسز کو بند کرنا پڑا.لائبریری اور کالج کی عمارت نا کافی تھی اس لئے مجبور آیہ قدم روکنا پڑا.متائج: خدا تعالیٰ کے فضل سے جامعہ نصرت ابتدائی مراحل سے ہی شاندار نتائج کا حامل ہے.ارتقائی منازل طے کرتا ہوا بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے.کالج کی ایف.اے اور بی.اے کی شرح کامیابی یونیورسٹی اور بورڈ کی کامیابی کی شرح سے ہمیشہ ہی زیادہ رہی.تفصیل درج ذیل ہے.

Page 249

241 سن نتیجه ایف.اے بی.اے سن نتیجہ ایف.اے ۱۹۵۳ء ۸۲۶۶ % ١٩٦٠ء ۱۹۵۴ء ۱۰۰ % ١٩٦٣ء ۱۹۵۵ء ۴۸ % ۱۹۵۶ء ۳۷ % ۱۹۵۷ء ۵۲۶۶ % ۱۹۵۸ء ۵۲۶ % % ۷۵ % ۵۵ % 4• % 4• ١٩٦٤ء ۱۹۶۵ء ١٩٦٦ء ۱۹۶۷ء ۱۹۵۹ء ۸۸۶۴ % ۸۲۶۲ % ۱۹۶۸ء ١٩٦٠ء ۹۲ % ١٩٦١ء %95 % ۹۴ % ۹۴ ١٩٦٩ء ۱۹۷۰ء ۱۹۷۱ء بی.اے % 1++ % 1++ % 1++ % M % 29 ۹۶ ۹۴ %۶۴ % MC ۹۳ % AC % ۹۳ % ۹۸ % ۸۷۶۲ % ۹۲ %92 % ۹۴٫۵ حضرت مصلح موعود کا جامعہ نصرت کے نتیجہ پر اظہار خوشنودی:.یکم جولائی ۱۹۵۵ء کو ہیگ (ہالینڈ) میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.اس وقت تم دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ میں بھی یہ نہیں پاؤ گے کہ وہاں غرباء کو مفت تعلیم دی جاتی ہو جیسا کہ ہمارے ہاں دی جاتی ہے.ابھی مجھے ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ امسال یو نیورسٹی کے امتحانات کے نتائج صرف بائیس فیصد نکلے لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج (جامعہ نصرت) کا نتیجہ تریسٹھ فی صدی رہا اور ان پاس ہونے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیس ہر ماہ میں خود ادا کرتا تھا وہ کالج کی فیس مہیا نہیں کر سکتی تھیں لیکن ہم نے ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور اس طرح عورتوں کی تعلیم کو ترقی دی.اس سے پہلے قادیان ایک وقت میں عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا وہاں پر کل تعلیم کا تناسب باسٹھ فیصدی تھا.لڑکوں کی تعلیم کا تناسب نوے فیصدی تھا اور عورتوں کی تعلیم کا تناسب سو فیصدی تھا.لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردہ میں ترقی نہیں کر سکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عورتیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کی پابند ہیں.خود میری اپنی بیوی کالج کی

Page 250

242 پرنسپل ہے.وہ عربی میں ایم.اے ہے اور وہ اس کام کا کچھ معاوضہ نہیں لیتی لیکن وہ خود بھی پردہ کرتی ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں رہتی ہیں.اگر ضرورت کے موقع پر کالج میں بعض مرد تعلیم کے لئے لگائے جاتے تو وہ بھی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور لڑکیاں بھی پردہ میں ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی کے بائیس فیصدی نتائج کے مقابل میں ان کا نتیجہ تریسٹھ فیصدی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی عورتیں پختہ ارادہ اور عزم کر لیں گی تو وہ علم حاصل کرلیں گی اور دنیا کو دکھا دیں گی کہ پردہ میں رہ کر بھی ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے.“ عربی میں طلائی تمغہ جات تمغہ جات:.۱۹۵۵ء میں سعیدہ حبیب بنت حبیب اللہ صاحب ۱۹۵۷ء میں سیدہ امتہ الرفیق بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رض ۱۹۵۹ء میں امتۃ الرشید غنی بنت عبد الغنی صاحب قریشی ۱۹۵۹ء میں امتہ الحمید بنت عبدالرحیم صاحب در ولیش ۱۹۶۰ء میں امۃ الرشید لطیف بنت عبداللطیف صاحب ٹھیکیدار ۱۹۶۱ء میں ثریا سلطانہ بنت دلاور علی صاحب ۱۹۶۴ء میں قانتہ شاہدہ ( تین طلائی تمغہ جات ) بنت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم ۱۹۶۵ء میں فیروزہ فائزہ صاحبہ (تین طلائی تمغہ جات ) بنت قاضی عبد الرحمن صاحب جنید ہاشمی ۱۹۶۷ ء میں امتۃ الرفیق قریشی بنت فضل حق صاحب قریشی اس کے علاوہ 1943ء میں فیروزہ فائزہ بنت قاضی عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی نے ایف.اے میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا الفضل ۱۹ راگست ۱۹۵۵ء ص ۴ کالم ۲-۳

Page 251

243 ۱۹۶۴ء میں امتہ الواحد بنت مرزا واحد حسین گیانی مرحوم نے جغرافیہ میں نقرئی تمغہ حاصل کیا.۱۹۶۵ء میں فیروزہ فائزہ بنت قاضی عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی نے انگریزی میں دو طلائی تمغہ جات حاصل کئے ۱۹۷ء کے بعد یونیورسٹی کی کانووکیشن نہ ہونے کہ وجہ سے علم نہیں ہوسکا کہ کسی طالبہ نے کوئی تمغہ حاصل کیا یا نہیں.یونیورسٹی اور بورڈ میں اول آنے والی طالبات:.جامعہ نصرت کی طالبات صرف ان مخصوص مضامین میں ہی اچھی پوزیشن حاصل نہیں کرتی رہیں بلکہ بورڈ اور یو نیورسٹی کے امتحانات میں بھی اول آتی رہیں.تفصیل درج ذیل ہے.۱۹۵۸ء میں صالحہ یعقوب بنت مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم ( زود نویس ) لا ہور بورڈ میں اول 1943ء میں فیروزہ فائزہ بنت قاضی عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی ایف.اے میں بورڈ میں اول ۱۹۶۴ء میں قانتہ شاہدہ بنت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم بی.اے میں یونیورسٹی میں اول ۱۹۶۵ء میں فیروزہ فائزہ بنت قاضی عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی بی.اے میں یو نیورسٹی میں اول کالج یونین :- طالبات کو اپنے متعلقہ مضامین سے پوری واقفیت و دلچسپی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس کے نفاذ کا علم مجوزہ کتابوں سے ہی نہیں بلکہ ان مجالس کی مساعی سے بھی ہوتا ہے جو ہر مضمون سے متعلق قائم کی جاتی ہیں.ان مجالس میں سے اہم ترین مجلس کالج یونین ہے.اس میں طالبات علمی وادبی، مزاحیہ اور تنقیدی مضامین اردو اور انگریزی میں پڑھتی ہیں.تقریری مقابلہ جات بھی وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں.اس کے علاوہ ہر سال بین الجامعی مباحثے بھی منعقد کروائے جاتے ہیں.ٹرافی:.۱۹۶۱ء میں گورنمنٹ کالج لائل پور سے انگریزی تقریری مقابلہ میں ٹرافی حاصل کی.۱۹۷۰ء میں گورنمنٹ کالج ملتان سے انگریزی کی ٹرافی اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور سے اردو

Page 252

کی ٹرافی حاصل کی.244 م کالج میں علاوہ مجلس یونین کے مندرجہ ذیل مختلف مجالس قائم ہیں مجلس اردو، مجلس تاریخ مجلس عربی مجلس اسلامیات مجلس دینیات مجلس پولیٹیکل سائنس.مجلس دینیات:.جامعہ نصرت میں دینیات کا مضمون لازمی ہے.نصاب قرآن مجید ( تفسیر صغیر ) حدیث و کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مختلف مسائل پر مشتمل ہے.جامعہ نصرت میں ابتداء سے ہی نظارت تعلیم کی طرف سے امتحانات کا انتظام ہوتا رہا اور سندات بھی نظارت ہی بجھواتی ہے.دینیات کا نصاب حضرت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا العالی مقررفرماتی ہیں.۱۹۶۷ء میں محترمہ رضیہ در دصاحبہ ایم.اے عربی (مسز عاطف) کا تقررد بینیات کی تدریس کے لئے عمل میں لایا گیا.آپ نے کالج میں باقی مضامین کی مجالس کی طرح مجلس دینیات قائم کی.اس مجلس کے ذمہ سالانہ مقابلہ حسن قرآت، علماء سلسلہ کے لیکچرز کا انتظام اور طالبات کے کردار کو قرآن مجید کے عین مطابق ڈھالنا ہے.مجلس دینیات کا خاص اعزاز :.۱۹۶۸ء میں حضرت خلیفتہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے از راہ شفقت جلسہ تقسیم اسناد کی صدارت فرمائی تو آپ نے فرمایا:.مجلس دینیات کا بھی اس رپورٹ میں ذکر تھا.اس سلسلہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج بنی نوع انسان کے دین کا جہاں تک تعلق ہے اس کا واسطہ قرآن کریم سے ہے اور قرآن کریم کے سوا اور کسی چیز سے نہیں.اس وقت ہمارے ہاتھ میں قرآن کریم کی جو بہترین تفسیر ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب ہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آپ کی کوششوں میں میں بھی کچھ حصہ دار

Page 253

245 بنوں پس میں اس وقت اپنی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ آپ ہر سال علوم قرآن اور علوم کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی مقابلہ کریں.جو بچی کم سے کم معیار سے اوپر ہوا ور وہ مقابلہ کرنے والیوں میں سے اول آئے اور میں یہ امید رکھتا ہوں کہ سب لڑکیاں اس میں شریک ہوں گی تو ایسی لڑکی کو ایک سال کی فیس بطور انعام میں دیا کروں گا.خدا تعالیٰ آپ کو یہ توفیق دے کہ آپ قرآن کریم سے وہ محبت کرنے لگ جائیں جس کا قرآن کریم آپ سے نقاضہ کر رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا آپ کے دل میں عظیم شوق پیدا ہو جائے.“ اس ارشاد کی تعمیل کے لئے حضور سے درخواست کی گئی کہ حضور اس سکیم کے متعلق مفصل ہدایات مرحمت فرمائیں.حضور نے فرمایا:.آئندہ سال سے جوطالبہ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے امتحان میں جس کا کورس میں مقرر کروں گا ۶۶ فیصدی نمبر کر اول آئے گی اس کو سال بھر کی ٹیوشن فیس میری طرف سے بطور انعام دی جائے گی.لیکن اس کے لئے یہ شرط بھی ہوگی کہ کم از کم اس کی کلاس کی پچاس فیصد طالبات نے اس امتحان میں شرکت کی ہوتا کہ طالبات میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کا شوق بڑھے.چنانچہ ہر سال حضرت خلیفتہ امیج الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کی طرف سے مقرر کردہ نصاب کا امتحان ہوتا ہے.اس وقت تک مندرجہ ذیل طالبات ایک سال کی فیس بطور انعام حاصل کر چکی ہیں.ناصرہ لطیف صاحبہ امتہ احکیم لئیقہ صاحبہ، بنت مولا نا ابوالعطا صاحب و امته المصور صاحبہ بنت سید داؤداحمد صاحبہ ناصرہ صاحبہ بنت فضل قادر صاحب بشری شاہدہ صاحبہ بنت حکیم محمد اسمعیل صاحب ١٩٧٩ ء ۱۹۷۰ء امتة المصور صاحبہ بنت سید داؤداحمد صاحب سال سوم میں کسی نے انعام حاصل نہیں کیا.ے مصباح جون ۱۹۶۸ ء ص ۵ ايضاً سال چهارم سال سوم سال دوم سال اول سال چهارم

Page 254

246 شاہین اکبر صاحبہ فریدہ بشیر صاحبہ بنت بشیر احمد صاحب ۱۹۷۰ء.۱۹۷۱ء ناصرہ صاحبہ بنت فضل قادر صاحب بشریٰ شاہدہ صاحبہ بنت حکیم محمد اسمعیل صاحب امته السمیع را شده صاحبہ بنت مولانا ابوالعطاء صاحب سال دوم سال اول سال چهارم سال سوم سال دوم امۃ الرفیق طاہرہ صاحبہ بنت مولا نا ابوالعطاء صاحب سال اول نصرت جہاں میڈل کا اجراء:.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے از راہ نوازش نظارت تعلیم کی طرف سے لئے جانے والے امتحان میں اول آنے والی طالبات کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے ۱۹۶۶ء میں نصرت جہاں طلائی تمغہ دینے کا اعلان فرمایا چنانچہ مندرجہ ذیل طالبات اس تمغہ کو حاصل کر چکی ہیں.۱۹۶۸ء.۱۹۶۹ء ربقہ زاہدہ صاحبہ بنت عبدالرحمن صاحب شاکر ناصرہ صاحبہ بنت فضل قادر صاحب ۱۹۶۹ ء.۱۹۷۰ء امتہ الحکیم لدیقہ صاحبہ بنت مولانا ابوالعطاء صاحب بشرکی شاہدہ صاحبہ بنت حکیم محمد اسمعیل صاحب ۱۹۷۰ء.۱۹۷۱ء ناصرہ صاحبہ بنت فضل قادر صاحب یوم والدین :- فریدہ بشیر صاحبہ بنت مولوی بشیر احمد صاحب سال چهارم سال دوم سال چهارم سال دوم سال چهارم سال دوم ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے خطبہ جلسہ تقسیم اسناد میں ارشاد فرمایا تھا:.میں سمجھتا ہوں کہ سال میں (یوم والدین) دو بار یہ دن منانا چاہیئے.عام طور پر ماں باپ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری ان پر ہے.پس سال میں دوبار یوم والدین منایا جائے اور علاوہ ان باتوں کے جو اس موقع پر ہوتی ہیں والدین کو یہ احساس بھی دلایا

Page 255

247 جاتا رہے کہ تربیت کی اصل ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے.یہ ذمہ داری ہماری نہیں ہمیں آپ اپنا معاون سمجھ لیں یا خادم سمجھ لیں یا جو مرضی ہے سمجھ لیں لیکن تربیت کی اصل ذمہ داری آپ کی ہے آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں تا آپ کی بچیوں کی صحیح تربیت ہو اور آپ بھی خوش رہیں اور ہمارے لئے بھی خوشی کا موقع پیدا ہو.حضور ایدہ اللہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں طالبات کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر سال یوم والدین یعنی یوم امہات منایا جاتا ہے.۱۹۶۷ء میں پہلی مرتبہ یہ تقریب منعقد کی گئی جس میں یک صد امہات کو مدعو کیا گیا.صدارت کے فرائض حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا العالی نے سرانجام دیئے اور ماؤں کو بیش بہا خطاب سے نوازا.۱۹۷۰ء میں امہات کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی صدر محترمہ بیگم صاحبہ مرزا مجید احمد صاحب منتخب ہوئیں.یوم اطفال :- سوشل ورک کے ماتحت جامعہ نصرت میں دومرتبہ یوم اطفال کی تقریب منعقد کی گئی.جس میں تقریباً ۲۰۰ بچوں نے شرکت کی.ان کے تحریری و تقریری مقابلہ جات کروائے گئے.نیز نمایاں پوزیشن لینے والے بچوں کو انعامات بھی دیئے گئے.تعلیم بالغاں:.اس مجلس کے تحت یہ مہم شروع کی گئی جس میں طالبات جامعہ نصرت نے بہت سی ناخواندہ خواتین کو ابتدائی پڑھنا لکھنا سکھایا.مہم صفائی:.سوشل ورک یونٹ کے تحت صفائی کی مہم شروع کی گئی.اس سلسلہ میں کالج و ہوٹل اور کیفے ٹیریا کی صفائی کے علاوہ ربوہ شہر کی صفائی کیلئے مہم شروع کی گئی.محترمہ نجف صادق صاحبہ (مسز مشہود احمد صاحب) له مصباح جون ۱۹۶۸ء ص ۵.۷

Page 256

248 نے اس سلسلہ میں محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ کا تعاون حاصل کیا.سیدہ موصوفہ کے ارشاد کے تحت محلہ جات ربوہ کی صدر وسیکرٹری صاحبان نے طالبات کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا.ہر گھر میں طالبات کا تنہا جانا معیوب بھی تھا اور ناممکن بھی اس لئے وہ دو ممبرات محلہ کے ساتھ مل کر گھروں کا چکر لگاتیں.خواتین کو بچوں اور گھروں کی صفائی کی طرف توجہ دلاتیں.اسی طرح ہسپتال میں بیماروں کی تیمارداری بھی کی گئی نیز گھر یلوخواتین کو دلچسپ رسالہ جات مطالعہ کیلئے مہیا کر کے دیئے گئے تاوہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھروں میں گزار سکیں.مجلس طالبات قدیم جامعہ نصرت :.جامعہ نصرت میں ۱۹۶۵ء میں پہلی مجلس طالبات قدیم منعقد ہوئی.ہر سال جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر اسی روز شام کو طالبات قدیم اور طالبات جدید کے درمیان میچ منعقد کیا جاتا ہے.اس کے بعد طالبات اپنا اجلاس کرتیں اور باہمی مشورہ سے آئندہ سال کے پروگرام تجویز کرتی ہیں.چنانچہ ۱۹۶۸ء میں طالبات قدیم نے مسجد جامعہ نصرت کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا اور محترمہ مسز شاہ صاحبہ کے توجہ دلانے پر چھ ہزار کی رقم چندہ کے طور پر جمع کی لیکن اگلے سال محترمہ پرنسپل صاحبہ نے فرمایا کہ اول تو یہ رقم ہی ناکافی ہے اور دوسرے محترم چوہدری محمد تقی صاحب اپنی بیگم محترمہ لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ کے نام پر یہ مسجد بنوانا چاہتے ہیں چنانچہ اس کی اجازت کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست کی گئی اور حضور نے محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ کے نام پر مسجد بنانے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مسجد کا سنگ بنیا د سائنس بلاک کے ساتھ ہی رکھا.مسجد ابھی زیر تعمیر ہے.محترمہ پرنسپل صاحبہ نے طالبات قدیم کی جمع شدہ رقم کسی اور رفاہ عامہ کے کام میں صرف کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ پرنسپل صاحبہ کی تحریک پر طالبات نے جمع شدہ رقم کالج کی لائبریری کو دینے کا فیصلہ کر دیا اور درخواست کی کہ وہ لائبریری کا ایک مخصوص حصہ طالبات قدیم کے نام پر تعمیر کر دیں.لجنہ جامعہ نصرت کا قیام :.ہوٹل جامعہ نصرت میں تو ابتداء سے ہی لجنہ قائم تھی.۱۹۶۳ء میں لجنہ جامعہ نصرت کا قیام عمل میں لایا گیا.

Page 257

249 صدر محترمه مسز شاه صاحبه نائب صدر محترمه استانی سردار بیگم صاحبه محترمه مسز بشیر صاحبه سیکرٹری ۱۹۶۸ء میں عہد یداران میں کسی قدر تبدیلی ہوگئی.صدر سیکرٹری محترمه مسز شاه صاحبه محترمہ رضیه در دصاحبه ہر ماہ لجنہ اماءاللہ جامعہ نصرت کے باقاعدہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں جن میں سٹاف اور طالبات علمی و مذہبی مضامین پڑھتی ہیں.مرکز سے آمدہ تمام ہدایات پر عمل کروایا جاتا ہے.ہر مالی تحریک میں پیش پیش حصہ لیتی ہیں.نیز اجتماع ، جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی خدمات پیش کرتی ہیں.سالانہ اجتماع کے تمام پروگراموں کے لئے طالبات کو تیاری کروائی جاتی ہے.ہر مقابلہ میں اکثر اول اور دوم انعامات حاصل کرتی ہیں.لجنہ جامعہ نصرت کی نمایاں سرگرمیاں :.۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں مندرجہ ذیل اشیاء فوج کو بھجوائیں.قرآن مجید دو درجن ، پتلونیں دو درجن ، تیل ایک ٹین ، صابن ایک من، رضائیاں ایک درجن، فوجی وردیاں ایک درجن اور ایک درجن اونی سویٹر بن کر بھجوائے گئے.جلسہ تقسیم انعامات:- جلسہ تقسیم اسناد سے قبل ہر سال اول و دوم آنے والی طالبات کو انعامات دیئے جاتے تھے تا دوسری طالبات کے دلوں میں بھی ترقی کرنے کا جذبہ پیدا ہو.چنانچہ مندرجہ ذیل بزرگ ہستیوں نے اس تقریب کی صدارت فرمائی اور اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.۱۹۵۲ء ۱۹۵۳ء ۱۹۵۵ء حضرت بیگم صاحبہ حضرت میرمحمد الحق صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسز لال پرنسپل لا ہور کالج برائے خواتین

Page 258

250 ۱۹۵۶ء مس منگت رائے کنیرڈ کالج لاہور ۱۹۵۷ء مسز بشیر پرنسپل ہوم اکنامکس کالج لاہور ۱۹۵۸ء مسز ڈکسن اہلیہ ریجنل آفیسر یو.ایس.ٹی.ایس ۱۹۵۹ء مس قریشی ڈپٹی ڈائریکٹرس تعلیمی بورڈلا ہور ١٩٦٠ء ڈاکٹر علی محمد پرنسپل لا ہور کالج ١٩٦١ء ١٩٦٢ء ١٩٦٣ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلها العالی میں جلسہ تقسیم اسناد و تقسیم انعامات اکٹھا ہو گیا تھا جس کا ذکر اس سے قبل آچکا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایک اہم خطاب تمبر ۱۹۵۳ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جلسہ تقسیم انعامات میں ایک اہم خطاب فرمایا جو درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا ! وو اسلام کی تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس امر پر خصوصیت سے زور دیا ہے کہ جو اچھی بات ہے وہ لے لو اور جو بُری ہے اسے چھوڑ دو.یعنی ہر ایسی چیز جو تمہارے سامنے آئے اسے تم محض اس تعصب کی وجہ سے کہ وہ چیز تمہاری نہیں کسی اور کی ہے اسے بالکل نہ چھوڑ دیا کرو بلکہ تم یہ دیکھا کرو کہ اس کا کونسا حصہ اچھا ہے اور کونسا حصہ برا ہے.پھر اچھے حصے کو لے لیا کرو اور برے حصے کو چھوڑ دیا کرو.اس قسم کی تقریبات بھی یا تو مسلمانوں نے جاری ہی نہیں کیں اور یا اگر جاری کی ہیں تو محض دوسرے لوگوں کی نقل کرتے ہوئے جاری کی ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے (اور وہ زمانہ چھوٹا نہیں بلکہ صدیوں کا ہے ) کہ انہوں نے اپنے ماضی کے واقعات کو یاد نہ رکھا.انہوں نے یہ یاد نہ رکھا کہ وہ کن باپ دادا کی اولاد ہیں اور پھر ان باپ دادوں کے کیا اطوار تھے.وہ بالکل وحشیوں اور جانوروں کی طرح ہو گئے جو اپنے

Page 259

251 آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے.چنانچہ دیکھ لو جانوروں کا کوئی ماضی نہیں ہوتا انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ ان کا باپ کون تھا ان کا دادا کون تھا ، ان کا پڑ دادا کون تھا لیکن انسان اپنے باپ دادوں کا نام یاد رکھتا ہے.مگر مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیا جب وہ اپنے ماضی کو بھول چکے تھے اور وہ ان جانوروں کی طرح ہو گئے تھے جو اپنے آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یا پھر وہ غیر لوگوں کے نقال ہو گئے اور انہوں نے اسے بھی نظر انداز کر دیا اور سمجھ لیا کہ ہمیں اپنی سابقہ روایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں انتشار پیدا ہو گیا.جیسے دریا میں بہت سی کشتیوں کو آپس میں رسوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تو ان پر بچے بھی چلتے ہیں، جوان بھی چلتے ہیں، مرد بھی چلتے ہیں اور عورتیں بھی چلتی ہیں.گائے ، بیل، اونٹ، گھوڑے اور بکریاں بھی چلتی ہیں.لیکن جب کسی جگہ کشتیوں کے رسے ٹوٹ جاتے ہیں ، ان کے بندھن کھل جاتے ہیں تو پھر کوئی کشتی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.ایسی کشتیوں سے کوئی ملک یا کوئی قوم فائدہ نہیں اٹھا سکتی کیونکہ بندھن ٹوٹ جانے کے بعد کشتیوں میں فاصلہ ہو جاتا ہے اور ہر ایک کی جہت بدل جاتی ہے.یہی حال قوموں کا ہے جو قو میں اپنی روایات کو قائم رکھتی ہیں اور اپنے ماضی کو بھلا نہیں دیتیں ان کی مثال ان کشتیوں کی سی ہوتی ہے جنہیں درمیان سے باندھ دیا جاتا ہے اور وہ دریا پر ایک پل بنادیتی ہیں.اسی طرح لوگ ان سے بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتے ہیں.اور جو قو میں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں اور اپنی سابقہ روایات کو ترک کر دیتی ہیں ان کی مثال ان کشتیوں کی سی ہوتی ہے جن کے درمیان کوئی بندھن نہیں ہوتا اور نہ ان پر ملاح سوار ہوتے ہیں بلکہ وہ پانی کی رو کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہیں ایسی کشتیوں سے کوئی انسان، کوئی قوم اور کوئی ملک فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پس سابقہ روایات یا باپ دادوں کی حکایات اور ان کا طور و طریق راہنمائی کے لئے نہایت ضروری ہیں لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے اسے نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے اگر آج ہم اپنے باپ دادوں کا طور وطریق اور ان کی عادات و روایات معلوم کرنا چاہیں تو ہمارے لئے مشکل پیش آجاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ صحابہ سے نیچے اتر کر ہم اپنے باپ دادا کے حالات کو نہیں جانتے حالانکہ ملک کے مختلف حالات جو کسی متمدن قوم پر گزرتے ہیں وہ مسلمانوں کے درمیانی عرصہ میں گزرے صحابہ پر نہیں گزرے.صحابہ چند غریب اور سادہ طبع لوگ تھے رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے تو وہ آپ پر

Page 260

252 ایمان لے آئے اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کو پھیلاتے رہے.صحابہ کے وقت نہ تو متمدن حکومتیں تھیں نہ ان کے وقت میں وہ دفاتر تھے جن کی متمدن حکومتوں کو ضرورت ہوتی ہے، نہ ان کے زمانہ میں کوئی تمدنی ترقی ہوئی یعنی نہ ان کے زمانہ میں سڑکیں بنائی گئیں، نہ نہریں کھودی گئیں، نہ پل بنائے گئے.اس کے لئے انہیں فرصت ہی نہیں تھی.بنو امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کو اس قسم کے کاموں کے لئے فرصت ملی اور انہوں نے بہت سا کام بھی کیا لیکن افسوس کہ اس زمانہ کے تمدنی حالات محفوظ نہیں جس کے وجہ سے ہم اپنے شاندار ماضی سے کٹ گئے ہیں لیکن پھر بھی جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قائم رکھیں اور اس کے ساتھ رشتہ اور تعلق قائم کریں تا کہ ہماری مثال ایک پل کی سی ہو جائے نہ کہ ان کشتیوں کی سی جو کسی رسہ سے بندھی ہوئی نہ ہوں اور پانی کی رو کے ساتھ ساتھ بہتی چلی جارہی ہوں کیونکہ ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا.“ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تقریب پر لڑکیوں کی ماؤں کو بلانے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:.وو پس ایک تو تقریب کو اس بات کا ذریعہ بناؤ کہ لڑکیوں کی ماؤں اور ان کی دوسری بزرگ عورتوں کو ان تقریبات میں بلاؤ تا کہ وہ اپنی لڑکیوں کی سکول لائف سے واقف ہوں اور تا وہ تمہارے ادارہ سے تعاون کرتے ہوئے اپنی لڑکیوں کی مناسب اصلاح کر سکیں.مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس وقت غالباً کالج کی لڑکیوں کے علاوہ سکول کی لڑکیوں کو بلالیا گیا ہے یا ان کے علاوہ بعض ان لحاظ والی عورتوں کو بلالیا گیا ہے جن کا بلانا مناسب سمجھا گیا ہے.حالانکہ چاہیئے تھا کہ لڑکیوں کی ماؤں یا بڑی عورتوں کو اس موقع پر خصوصیت سے دعوت دی جاتی کہ وہ یہاں آئیں اور اس تقریب میں شامل ہو کر پنی لڑکیوں کی تعلیم وتربیت، ان کے کام اور طورطریق کو خود دیکھیں اور علوم کریں کہ کی ان کی لڑکیاں تعلیمی لحاظ سے ترقی کر رہی ہیں.دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح لڑکیوں کے رشتہ داروں کو سکول یا کالج سے محبت ہو جاتی ہے.تیسرے جب انہیں اپنی لڑکیوں کی تعلیمی زندگی سے واقفیت ہو جاتی ہے تو ان میں غیریت اور اجنبیت کا احساس باقی نہیں رہتا اور باوجود اس کے کہ ان کی لڑکیاں سکول کی دیواروں کے پیچھے ہوتی ہیں وہ انہیں ان دیواروں کے پیچھے سے بھی نظر آتی رہتی ہیں.“

Page 261

253 حضرت مصلح موعودؓ نے طالبات جامعہ نصرت کو اپنا اٹو بنانے کا ارشاد فرماتے ہوئے کہا:.غرض روایات ایک جتھا بنادیتی ہیں اس لئے روایتوں کا محفوظ رکھنا قوم کی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہے.اسی لئے یورپ میں سکولوں اور کالجوں نے اپنے اپنے ماٹو مقرر کئے ہوئے ہیں اور طلباء اور پروفیسروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے اخلاق کو اپنے اندر پیدا کریں اور پھر انہیں دوسروں کے اندر بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں.ہندوستان میں صرف علی گڑھ کالج تھا جس نے اپنی روایات کو قائم رکھنے کی بنیاد ڈالی.علی گڑھ یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء ہمیشہ دوسروں سے ممتاز رہے ہیں اور انہوں نے بڑی وسع الحوصلگی دکھاتی ہے اور اچھے کام کئے ہیں.اسی طرح آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل طالب علم بھی اپنی ٹریڈیشنز اور روایات کو قائم رکھتے ہیں.یورپ میں ہر کالج نے اپنا اپنا مائو بنایا ہوا ہے.یہاں بھی کالج کو اپنا کوئی نہ کوئی ماٹو مطمع نظر اور مقصد قرار دینا چاہیئے اور اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہیئے.مثلاً سچائی اور قربانی ہے اگر یہ ماٹو بنا دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کالج کی سٹوڈنٹس کے اندر یہ اخلاق نمایاں طور پر پیدا ہوں تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جہاں بھی لڑکی جائے گی یہ ماٹو اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اس کو پھیلانے کی پوری کوشش کرے گی.پھر مائو مقرر کرنے کے بعد کالجوں کے منتظمین کتابوں اور کا پہیوں پر اس کی مہریں لگا دیتے ہیں قمیضوں پر گلے کے قریب ویسے نشان لگا دیتے ہیں.اس طرح آہستہ آہستہ کالج سے نکل کر ایک نسل تیار ہوتی چلی جاتی ہے.پہلے سٹو ڈنٹس ہوتے ہیں پھر ان کی اولاد ہوتی ہے پھر ان کے پوتے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے چلتا جاتا ہے اور انہیں یگانگت اور وحدانیت کا احساس ہوتا جاتا ہے جس طرح خاندان چلتا ہے اسی طرح خاندان میں ایک ریت چلی جاتی ہے.مثلاً آکسفورڈ کا ایک فارغ التحصیل طالب علم جب دوسرے شخص کے کپڑے پر آکسفورڈ کا نشان دیکھے گا تو وہ اس کی طرف دوڑ پڑے گا اور خوشی سے کہے گا اچھا تم آکسفورڈ میں پڑھتے رہے ہو.چاہے وہ فرانس کا ہو، جرمنی کا ہو یاکسی اور ملک کا.جب بھی وہ آکسفورڈ کے طالب علم کو دیکھے گا وہ اس کی طرف بڑھے گا اور اسے تپاک سے ملے گا اسی طرح کیمبرج یو نیورسٹی کے طلباء کا حال ہے.“ نیز حضرت مصلح موعودؓ نے طالبات کو محنت کی عادت ڈالنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا :.

Page 262

254 پس محنت ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر زور دینا اور اس کی عادت ڈالنا کیریکٹر میں ایک خصوصیت پیدا کر دیتا ہے.اس کے علاوہ شریعت کے احکام پر غور کر کے بعض اور اخلاق بھی نکالے جاسکتے ہیں ان میں سے دو تین اخلاق کو لے لو اور انہیں اپنا ماٹو قرار دے لو.پھر ہال میں ، کمروں میں، لائبریری کی کتب سکول کے رجسٹروں پر سب پر ان کی مہریں لگا لو.لباس پر بھی اسے بطور پیج لگالو.گلے کے بٹن والے حصہ پر یا بازو پر کوئی جگہ متعین کرلی جائے اور وہاں اسے لگا لیا جائے تاکہ آہستہ آہستہ یہ کالج کا ایک مخصوص کیریکٹر بن جائے.اگر تم اس طرح کام کرو تو تم عملی طور پر بہت کچھ کرلوگی.میں نے جو کچھ بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنی پچھلی ٹریڈیشنز کو قائم کرو اور دوسری قوموں کی نقل کم کرو.دوسرے اس قسم کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے طالبات کی ماؤں کو شامل کرو تا انہیں پتہ لگے کہ ان کی لڑکیاں کالج میں کس قسم کی زندگی بسر کر رہی ہیں.تیسرے بعض اخلاق کو اپنا مائو قرار دے لو تا وہ تمہارے کالج کی مخصوص روایت بن جائے.پھر ہر طالب علم اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تا کہ دیکھنے والے اسے ایک نمایاں حیثیت دیں.جلسہ ہائے تقسیم اسناد :.۱۹۶۲ء.۱۹۶۳ء کو جامعہ نصرت کالج کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تقسیم اسناد تقسیم انعامات کی سادہ اور مؤثر تقریب منعقد ہوئی جو خالص اسلامی ماحول میں پائیہ تکمیل کو پہنچی.اس میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.تقسیم اسناد وانعامات کی اس پہلی تقریب کے بعد ۱۹۶۳ء سے لے کر ۱۹۷۱ء تک حسب ذیل شخصیتوں نے مہمان خصوصی کے فرائض سرانجام دیئے اور اپنے قیمتی خطابات سے نوازا.مہمان خصوصی سن ١٩٦٣ء ١٩٦٤ء بیگم محمودہ سلیم خان صاحب صوبائی وزیرتعلیم ڈاکٹر رفعت رشید ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ورک ے مصباح ماہ نومبر ۱۹۵۵ء والاذهار لذوات الخمار ص ۱۳۴ تا ص ۱۴۶

Page 263

255 ۱۹۶۵ء بیگم فیروز خان نون ١٩٦٦ء ۱۹۶۷ء ١٩٦٨ء ١٩٦٩ء ۱۹۷۰ء ۱۹۷۱ء بیگم صدیقی ڈپٹی ڈائر یکٹرس ایجوکیشن بورڈلا ہور ڈاکٹر مسن صدیقی پرنسپل کالج آف ہوم اکنامکس حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت بیگم صاحبہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز حضرت خلیفہ ایسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کا اہم خطاب :.العزیز ۱۹۶۸ء میں تقسیم اسناد کی تقریب سر حضرت خلیفہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر اعتز بز نے پر طالبات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: پہلی بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ نتائج کے خوشکن ہونے کے متعلق ہے.نتائج خدا کے فضل سے بہت اچھے ہیں.لیکن نتائج اس سے بھی اچھے ہو سکتے ہیں.عمل کے مختلف میدان ہیں، بعض میدان عورتوں کے ہیں اور بعض میدان مردوں کے ہیں، اور بعض میدان عورتوں اور مردوں کے سانجھے ہوتے ہیں.سانجھے میدان میں مسلمان عورت نے کبھی مرد کے مقابلہ میں شکست کا اعتراف نہیں کیا.شکست کھانا یا نہ کھانا اور بات ہے لیکن مسلمان عورت نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور ہمیشہ عورتیں ایسے میدانوں میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں...پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ آپ مردوں سے بھی اور دوسری مد مقابل لڑکیوں سے بھی آگے بڑھیں.اسی جدو جہد کو قائم رکھنا اور اس احساس کو بیدا ر رکھنا بڑا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اچھے نتائج آپ کے لئے اور اس ادارہ کے لئے مبارک کرے اور آپ کے بعد آنے والیوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھے نمبر لیں اور اس ادارہ کو توفیق دے کہ اس سے بھی زیادہ اچھے نتائج نکالے....اس موقع پر میں آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے بھی ایک کانووکیشن کا ذکر کیا ہے ایک یوم موعود کا اس نے ذکر کیا ہے.“

Page 264

256 حضور نے فرمایا کہ اس کا نووکیشن کی ڈگری کے حصول کے لئے جو امتحان پاس کرنا پڑتا ہے اس کے دس پرچے ہیں جو یہ ہیں :.پہلا پرچہ ہے نفس کی قربانی کا.یعنی اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر اپنی گردن رکھ دینا اور اس کی رضا اور قضاء و قدر کو دلی بشاشت کے ساتھ قبول کرنا.یہ ایک خالص روحانی ذہنیت پیدا کرنے کا پرچہ ہے.جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں لڑکی ہر وقت مطالعہ میں مصروف رہتی ہے اس کا دھیان ادھر ادھر نہیں جاتا.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرا امتحان ہے اس کا ایک پرچہ یہ ہے کہ تمہاری ذہنیت روحانی طور پر کیسی ہو اور میں تم سے یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرو کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہو اورس کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے فیصلوں کو قبول کرتے وقت دلی بشاشت کا اظہار کرو.یہ ہے پرچہ نمبر.اگر اسے ایک لفظ میں ظاہر کرنا ہو تو اس کا نام ہے ”اسلام“.اسلام کا لفظ مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے.قرآن کریم میں بھی اور دوسری کتب میں بھی.لیکن اسلام کے ایک ایسے معنے ہیں جو ایمان سے بھی ارفع اور اعلیٰ ہیں اور یہی معنے یہاں مراد ہیں.دوسرا پر چہ ہے زبان کا اقرار، دل کا اعتقاد اور عملی زندگی میں صدق وصفا اور وفا کا ثبوت دینا.یہ دوسرا پر چہ ہے.اس کا نام ہے ایمان.پہلا پرچہ ذہنیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ پرچہ اقرار اور اس اقرار کو عملی زندگی میں ثابت کرنے سے تعلق رکھتا ہے.تیسرا پر چہ ہے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت ایسے رنگ میں کہ اس کی عظمت اور ہیبت دل پر طاری ہو اور اپنی پستی اور تواضع کا احساس زندہ رہے.اللہ تعالیٰ کی عظمت جس دل پر جلوہ گر ہوتی ہے وہ اس کا اپنا کچھ باقی نہیں چھوڑتی اور یہ احساس پوری طرح زندہ اور بیدار کر دیتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں لاشئی محض ہے.نیستی کا لبادہ وہ پہنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کے گن گاتے ہوئے زندگی کے دن گزارتا ہے.اس پر چہ کے آگے کئی چیپٹر (CHAPTER) ہیں.اس پر چہ میں یہ بھی آتا ہے کہ یہ رنگ کامل اطاعت کا پیدا نہیں ہوسکتا جب تک آخرت کا خوف نہ ہو.یعنی جب تک اس یقین پر انسان قائم نہ ہو کہ کوئی امتحان ہونا ہے.جب اس دنیا میں یورنیورسٹی یہ اعلان کرے کہ بعض ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ بی.اے کا امتحان کن تاریخوں میں ہوگا تو بہت سے ست طالب

Page 265

257 علم سست ہو جائیں گے.اسی طرح جس کو یہ یقین کامل نہ ہو ( یقین ناقص ہو یا بالکل یقین نہ ہو ) کہ آخرت حق ہے اور ہمیں ایک دن اپنے رب کے حضور جوابدہ ہونا ہے.ایک یوم موعود ہے جس کی حاضری لازمی ہے اور اس دن دو قسم کی کتابیں دی جائیں گی ایک داہنے ہاتھ میں ایک بائیں ہاتھ میں اور پھر جس کو یہ یقین نہ ہو کہ اس دن ملائکہ بشارت دیں گے یا اللہ تعالیٰ کے قہر کے جہنم میں لے جائیں گے تو وہ تیاری نہیں کرے گا.پس اس پر چہ یعنی کامل اطاعت کے لئے ضروری ہے کہ آخرت پر ایمان کامل ہو اور اس دن کا خوف اس کے دل میں رہے.لیکن محض خوف بعض دفعہ ناامیدی پیدا کر کے انسان کو مایوسی کا منہ دکھاتا اور اس کو بالکل نکما کر دیتا ہے اور وہ کوشش نہیں کرتا اس لئے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی بڑی امید دلائی ہے.اگر چہ دو چیزیں سامنے ہوں خوف اور رب کریم کی رحمت کی امید تو کامل اطاعت کی طرف انسان متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کے لئے بڑی دعائیں کرنی پڑتی ہیں.چوتھا پر چہ تین حصوں پر مشتمل ہے..زبان حق گو ۲.دل حق پرست اور ۳.جوارح عمل سے حق پر صداقت کی مہر لگانے والے.حق سے دور ہونا اللہ (جو رب العلمین ہے ) سے دور ہونے کے مترادف ہے اور یہ جو ہر تکونا ہے اس ہیرے کے تین اینگل (ANGLE) ہیں تین زاویے ہیں.ایک کا زبان سے تعلق ہے دوسرے کا دل سے اور تیسرے کا جوارح یعنی اعضاء ( عمل کرنے کی جو طاقتیں اور قو تیں دی گئی ہیں) سے.پانچواں پرچہ ہے صبر سے کام لینا.یعنی جن چیزوں سے روکا جائے ان چیزوں سے رک جانا اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا.نیز رازوں کو افشاء نہ کرنا.راز افشاء کرنے سے اس دنیا کے معاشرہ میں بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے.مثلاً آپ کو آپ کی کوئی سہیلی اپنے اعتماد میں لے کر اپنی راز کی کوئی بات بتاتی ہے اور آپ اسے عام کر دیتی ہیں.مثلاً وہ آپ کو یہی بات بتادیتی ہے کہ میری والدہ یا میرے والد کا خط آیا ہے کہ تم بی.اے پاس کر کے جب گھر آؤ گی تو ہم تمہاری شادی کا انتظام کر دیں گے اور یہ کوئی بری بات نہیں لیکن عورت میں اللہ تعالیٰ نے حیا کا مادہ رکھا ہے اگر وہ کسی سہیلی کو یہ راز بتادیتی ہے اور وہ اسے عام کر دیتی ہے تو تمام لڑکیاں اسے چھیڑنا شروع کر دیتی ہیں.اگر آپ ایسا کریں گی تو نمبر کٹ گئے آپ کے.

Page 266

258 پھر صبر سے کام لینے میں ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شیطانی حملوں کا شجاعت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا جائے.اور اس میں یہ بات بھی آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آزمائش کی خاطر اور امتحان کے لئے مصائب نازل کرے تو اس وقت جزع فزع نہ کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا.چھٹا پرچہ ہے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا.یہ بھی بڑا اہم پرچہ ہے دیکھیں تو سارے ہی پرچے بڑے اہم ہیں) یعنی رفت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کے انکسار اور ایک قسم کی خوف کی حالت اپنے پر وارد کر کے خدائے عز وجل کی طرف دل کو لگانا.یعنی عاجزی خالی نہیں بلکہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا.ایک شخص جو صرف عاجزی اختیار کرتا ہے وہ عاجز آجاتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے لیکن کوشش اور تدبیر پوری کرنا اور پھر یہ سمجھنا کہ میرے اندر کوئی طاقت نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہواس میں کامیاب نہیں ہوسکتا.یونیورسٹی کا کوئی امتحان ہو یا دنیا کی کوئی اور کوشش ہو.ساتواں پرچہ ہے حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا اور رب کی خاطر صدقہ وخیرات کی طرف توجہ دینا.آٹھواں پرچہ ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جائز چیزوں سے بھی رکے رہنا.یعنی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے استعمال کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے وہ مباح ہیں حلال ہیں.لیکن بعض مواقع پر بعض کے لئے ( گو وہ طیب چیزیں ہیں اور عام حالات میں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ میں نے آپ کے لئے حلال قرار دی ہیں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم انہیں استعمال نہ کرو یہ بتانے کے لئے اور یہ احساس پیدا کرنے کے لئے کہ تم نے حلال چیزوں کو بھی استعمال کرنا ہے تو کسی حق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں.مثلاً میں تمہیں کہتا ہوں کہ یہ بہترین گندم کا پکا ہوا نان ہے لیکن تم یہ نہ کھاؤ.حالانکہ بہترین گندم کا پکا ہوا نان ہر وقت کھانا جائز ہے.لیکن ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ گو یہ نان جس گندم سے پکا ہے وہ گندم کی قسموں میں سے بہترین قسم ہے پھر یہ مشین میں پسے ہوئے آٹا کا بنا ہے اور وہ آٹا آٹے کے لحاظ سے بہترین ہے.پھر جن ہاتھوں نے اس آٹا کو گوندھا ہے وہ بہترین ہاتھ ہیں اور ان ہاتھوں نے دعائیں کرتے ہوئے آٹا گوندھا ہے.پھر یہ نان اس لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے کہ جن ہاتھوں نے اسے پکایا ہے انہوں نے خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اس کو پکایا ہے.غرض اس میں ساری خوبیاں ہیں لیکن میرا حکم ہے کہ اسے

Page 267

259 نہ کھاؤ میں نے عارضی طور پر اسے تم سے چھین لیا ہے.تو باوجود اس کے کہ بہترین نان ہے وہ.خدا کے ایک بندے اور ایک بندی کا یہ فرض ہے کہ جب اس جائز چیز سے بھی خدا اسے روکے تو وہ رک جائے.پھر مثلاً پینے کا پانی ہے گو وہ بڑا اچھا پانی ہے.گلے سے بآسانی اتر جاتا ہے اور میٹھا ہے.صحت کے لحاظ سے بھی اچھا ہے.پھر وہ بہترین چشمہ یا بہترین نہر کا پانی لیکن ایک وقت خدا تعالیٰ کہتا ہے میں ساری عمر تمہیں پانی پینے کی اجازت دیتا ہوں لیکن اس وقت میں کہتا ہوں کہ تم یہ پانی نہ پیو تا تمہارے دل میں یہ احساس قائم رہے کہ جب ہم پانی پی رہے تھے اس وقت بھی ہم اپنے کسی حق کی وجہ سے نہیں پی رہے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے پی رہے تھے.ایک وقت میں خدا کے ایک بزرگ نے ایک فوج کو ایک خاص نہر سے پانی پینے سے منع کر دیا تھا.اب پانی حرام تو نہیں تھا.نہ وہ دن ان کے لئے روزوں کے دن تھے لیکن ان سے ایک امتحان لیا گیا تھا جس میں بعض کامیاب ہوئے اور بعض نا کام ہوئے.پس اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تمہارے دلوں میں احساس زندہ ہو اور قائم رہے کہ جو جائز کام بھی تم کرتے ہو وہ میری اجازت سے اور میرے منشاء کے ماتحت کرتے ہو اور اسی لئے جب تمہیں بعض چیزوں سے روکا جائے تو تم رک جاتے ہو.اگر یہ بات پیدا ہو جائے تو پھر تم اس خوشخبری کو بھی سن لو کہ تمہارا انعام میں ہوں اور میں تمہیں مل جاؤں گا.میرے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو جائے گا اور دیدار الہی کی نعمت سے تم حصہ پاؤ گے.نواں پر چہ اس نصاب کا اپنی عصمت اور عفت کی حفاظت کرنا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ جتنے بھی حواس اور طاقتیں ہیں ان کو غلط استعمال سے بچائے رکھنا تا انسان اپنے رب کریم کی نگاہ میں ذلیل نہ ٹھہرے.دسواں پر چہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ہرلمحہ کو یاد الہی میں گزارنا ( یہ ذکر کا پرچہ ہے ) اور ذکر عرفان اور بصیرت سے کرنا علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کو ہر عیب سے پاک سمجھتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے اس کی تسبیح کرنا اور اسے تمام صفات حسنہ سے متصف یقین کرتے ہوئے اپنے عمل اور قومی سے اس کے احکام کی تعمیل کرنا.یہ پرچہ مشکل بھی ہے اور آسان بھی.آسان اس لئے ہے کہ اس کی وجہ سے انسان دنیوی کاروبار سے رکتا نہیں.انسان اس دنیوی عارضی زندگی میں بھی بہت سے کام کرتا ہے اور اسے کرنے

Page 268

260 پڑتے ہیں.ان کاموں کے کرنے کے نتیجہ میں وہ اس زندگی کی ذلت پر مہر لگا تا ہے یا اس ذلت کو دور کر کے وہ اپنی عزت کی زندگی بنالیتا ہے.بہر حال کئی قسم کے کام ہیں جو اسے کرنے پڑتے ہیں.یہ کام کرتے ہوئے (الا ماشاء اللہ بعض استثنا بھی ہیں ان استثنائی باتوں کو چھوڑ کر ) آپ ذکر خدا میں مشغول رہ سکتے ہیں.سوتے وقت بھی اگر بیداری کی انتہاء خدا کی تحمید اور تسبیح پر ہو تو خدا کہتا ہے کہ تمہارا سونا بھی اس رنگ میں شمار ہو جائے گا کہ گویا تم اسی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سونے کے لمحات کو گزارتے ہو.غرض چونکہ ذکر الہی اس دنیوی زندگی کے کاموں میں روک نہیں اس لئے یہ بہت زیادہ آسان ہے لیکن یہ دنیا انسان کے دل میں بعض نا معقول ، بعض بے ہودہ ، بعض غلط ، بعض لا یعنی خواہشات اور جذبات پیدا کر دیتی ہے اور انسان ان کے متعلق سوچنے لگ جاتا ہے یا با تیں کرنے لگ جاتا ہے اور بعض باتوں پر بشاشت کا اظہار کرتا ہے اور ذکر الہی سے محروم ہو جاتا ہے.مثلاً والی بال ہے یہ ایک کھیل ہے جو تم کھیلتی ہو.اب والی والی بال کھیلنا صحت کے لئے ضروری ہے اور ورزش ضرور کرنی چاہیئے اور باقاعدگی کے ساتھ روزانہ کرنی چاہیئے.لیکن والی بال کے میدان میں اگر آپ کوشش کریں تو یہ بھی کر سکتی ہیں کہ بال کو ہاتھ لگاتے وقت بھی آپ سبحان اللہ کہیں.اگر آپ اس طرح کریں تو بال اسی طرف جائے گا جس طرف آپ پھینکنا چاہتی ہیں.آپ سروس کرتے وقت سبحان اللہ کہہ کر بال پھینکیں تو بال کی اڑان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن آپ کے ثواب میں بڑا فرق پڑ جائے گا.پھر بال کو رسیو(RECEIVE) کرتے ہوئے بھی آپ ذکر الہی میں مشغول رہ سکتی ہیں نیز کھیل کے بعد اگر آپ ( جیسا کہ بعض کو یہ عادت ہوتی ہے اور میرا خود مشاہدہ ہے ) عصر اور مغرب کے درمیان جو کھیل کھیلی گئی تھی اس کے متعلق باتیں کرتی رہیں تو آپ اپنے ثواب کو ضائع کر لیں گی.اس قسم کے جذبات اور شوق اور خیالات ذکر الہی میں مخل ہو جاتے ہیں اس لحاظ سے پرچہ بڑا مشکل ہے لیکن جو شخص اس دنیا میں اپنے توازن کو قائم رکھتا ہے اس کے لئے یہ مشکل نہیں بڑا آسان ہے اور مفت کے ثواب کے حصول کا طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا تم بے شک کام کرتے رہو گر مجھے نہ بھولنا اس کا میں تمہیں ثواب بھی دوں گا.پس یہ دس پرچے ہیں جن میں پاس ہونے کے لئے انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی یا دوسری یو نیورسٹیوں کی طرح نتیجہ کمزور جوابات

Page 269

261 کے معیار پر نہیں ہوگا.یعنی جو سوالات تم کمزور کرو گے وہ تمہاری ڈویژن کو کمز ور نہیں کریں گے بلکہ جو سوال تم اچھے کرو گے وہ تمہاری ڈویژن کو اونچا کر دیں گے پس یہ بڑی نعمت ہے ، بڑی عطا ہے خدا تعالی کی.غرض یہ دس پرچے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ سلیبس ہے اور اس کے لئے کتاب کونسی پڑھنی ہے؟ قرآن کریم.یعنی ان دس پر چوں کا نصاب ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق ہمیں بتایا ہے کہ ذالك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين یہ ایک کامل نصاب ہے جو تمہارے ہاتھ میں دیا گیا ہے.ایک اکمل ہدایت نامہ ہے جو قیامت تک تمہارے کام آنے والا ہے.اس میں تمام وہ باتیں نصاب کے متعلق پائی جاتی ہیں جن کا ذکر ان دس پر چوں میں کیا گیا ہے اور متقی کے یہ معنے ہیں جو گناہ اور معصیت سے اس لئے بچتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے اس لئے اگر تم یہ چاہتی ہو کہ جب اس کانووکیشن (CONVOCATION) کا وقت آئے اور خدا کے فرشتے یہ اعلان کریں کہ هذا يومكم یہ تمہارا دن ہے.تو اے عزیز بچیو! خدا کرے کہ اس وقت تمہیں اپنے اقوال یا افعال کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کا نووکیشن (CONVOCATION) کے دن، اس موعود دن جو شخص کامیاب ہونا چاہے اس کو ہم بتاتے ہیں کہ قرآن تمہارا نصاب ہے اور یہ دس پرچے ہیں جو تم نے پاس کرنے ہیں اس کے مطابق تمہارا نتیجہ نکلے گا، اس کے مطابق تمہیں جزاء ملے گی.اس جزاء کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک پختہ اور زندہ تعلق قائم ہو جائے گا جو تمام مسرتوں، خوشیوں اور خوشحالیوں کا سرچشمہ ہے، اور ایسی جنت تمہیں دی جائے گی جس سے پھر تم نکلو گے نہیں.اور اس رنگ میں تمہیں دی جائے گی کہ جو خواہش بھی تمہارے دلوں میں پیدا ہوگی وہ فورا پوری کر دی جائے گی.یعنی اس جزاء کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ کسی نے سند لے لی پھر کانووکیشن (CONVOCATION) منعقد ہوا.ایک دن خوشی کا بھی منایا.لیکن وہ چاہتا ہے کہ کہ فلاں نیا کارخانہ جو ہے اس میں فلاں نوکری مجھے مل جائے لیکن وہ نوکری نہیں ملتی.گویا کچھ اسے مل جاتا ہے اور کچھ نہیں ملتا.لیکن وہاں کچھ ملے اور کچھ نہ ملے کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ لَهُمُ مَا يَشَاءُ وُنَ.یعنی

Page 270

262 جو خواہش بھی پیدا ہو گی وہ پوری ہو جائے گی اور اس خواہش سے مراد نیک خواہش ہے کیونکہ وہاں بری خواہش پیدا ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی کی جا کر چوری کرو.کیونکہ جس چیز کی چوری کی جاتی ہے وہ تو ایسی ہوتی ہے جسے کوئی شخص کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہ کر سکتا ہو.کوئی شخص جس کے گھر میں بہترین بیری کا درخت ہے وہ دوسرے گھر سے بیر چرانے نہیں جایا کرتا یہ چیز تو اسے پہلے ہی ملی ہوئی ہوتی ہے.غرض بد خواہش وہاں پیدا ہی نہیں ہو سکتی.ہر گندی خواہش کسی مجبوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور وہاں نیکیوں کے حصول کے لئے ،خوشیوں کو پانے کے لئے اور مسرتوں سے حصہ لینے کے راستہ میں کوئی مجبوری نہیں لَهُمُ مَا يَشَاءُ وُنَ.پس اے میری عزیز بچیو جو آج میری مخاطب ہو تمہیں اور ہر اس احمدی کو بھی جس کے کان تک میری یہ آواز پہنچے میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کا دن تمہارے لئے خوشی کا دن ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ ہی صحیح اور حقیقی معنی میں خوش رکھے لیکن یہ نہ بھولو کہ ایک اور دن بھی ہے جو کانووکیشن (CONVOCATION) سے بہت ملتا جلتا ہے گواصولی طور پر بہت مختلف بھی ہے اس سے اچھا کوئی اور دن نہیں جس دن فرشتوں کی ملاقات ہوتی ہے جس دن اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوتا ہے اس دن امتحان میں پاس ہونے کی ہمیشہ جدو جہد کرتی رہو.یہ دس پرچے جو میں نے بتائے ہیں ان کو سامنے رکھو، ان کے متعلق قرآن کریم نے جو نصاب ہمارے ہاتھ میں دیا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہو کہ ہم اپنی تمام تدبیروں، کوششوں استعدادوں اور طاقتوں کے باوجود کچھ بھی نہیں جب تک تیرا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو.پس اے ہمارے رب تو خود ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیرے منشاء کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں اور وہ دن جس کے متعلق تو نے کہا کہ اس دن فرشتے ملیں گے اور اعلان کریں گے کہ هذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اس دن دائیں ہاتھ میں ہماری سند ملے ایک غیر متناہی ترقیات اور غیر متناہی لذت وسرور کا سلسلہ ہمیں حاصل ہو اور اس زندگی کا جو مقصد ہے کہ ایک ابدی تعلق تیرے ساتھ پیدا ہو جائے.اس مقصد کے حصول میں ہم اس وقت کامیاب ہوں.اللہ کرے کہ ہم سب سے ایسا ہی سلوک ہو.له مصباح جون ۱۹۶۸ء ص ۱۲ تا ۱۸

Page 271

263 استقبالیہ :.حضرت خلیفہ مسیح الثالث ایدہ اللہ تعلی بنصر العزیز کی مغربی ممالک سے کامیاب مراجعت پر ایک تقریب منعقد کی جس میں حضور اقدس نے از راہ نوازش پہلی مرتبہ جامعہ نصرت میں قدم رنجہ فرمایا.سیکرٹری لجنہ جامعہ نصرت اور صدر کالج یونین نے حضور کی خدمت میں سپاسنامے پیش کئے.حضور نے ممبرات لجنہ کو اپنے قیمتی خطاب سے نوازا.آپ نے نہایت دلکش انداز میں اپنے سفر کے حالات سنائے.طالبات کو صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور سٹاف جامعہ نصرت کو اپنے اہم فریضہ کو سرانجام دینے کی طرف خصوصی توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ کس طرح اسلام آج کے زمانہ میں گنبد تثلیث پر کاری ضربیں لگا رہا ہے.پس اس دور میں ہر شخص کو اپنے فرائض کو احسن طور پر سرانجام دینا چاہیئے.صحت جسمانی:.قومی اور ملی فرائض کی بجا آوری بلکہ پوری زندگی کو صحیح طریق پر گزارنے کے لئے صحت جسمانی کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے.جامعہ نصرت کی طالبات کی تربیت کے دوران اس سنہری اصول کو نہ صرف مدنظر رکھا جاتا ہے بلکہ اسے ہمیشہ ہی خاص الخاص اہمیت دی جاتی ہے.محترمہ لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ آنریری طور پر طالبات جامعہ نصرت کا طبی معائنہ کرتی رہیں.آپ کے معائنہ کے مطابق کمزور طالبات کی طبی رپورٹ والدین کو بھجوائی جاتی رہی اور کالج میں بھی کمزور اور کھلاڑی طالبات کو دودھ اور وٹامن دیئے جاتے ہیں.ہر سال ماہ اکتوبر میں یہ طبی معائنہ ہر طالبہ کا کروایا جاتا ہے.اس کے علاوہ ماہ اپریل میں ٹائیفائیڈ اور ہیضہ کے ٹیکے ہر طالبہ وسٹاف اور کارکن کو مفت لگوائے جاتے ہیں.دوسری ادویات کو نین ہمیشیم وغیرہ بھی گاہے بگا ہے طالبات کو تقسیم کی جاتی ہیں.کالج میں ڈسپنسری کا قیام :.ابتداء میں بغیر نرس کے بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا خصوصاً ہوسٹل میں فوری طبی امداد بہم

Page 272

264 پہنچانا ایک نرس کے بغیر بے حد مشکل تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے ۱۹۶۸ء میں ڈسپنسری کی منظوری مرحمت فرمائی اور کالج کی طالبات کے لئے ایک با قاعدہ نرس کا تقرر ہوا.سائنس بلاک :.مجلس مشاورت ۱۹۶۷ء کے موقع پر جامعہ نصرت میں سائنس کلاسز کھولنے کی اجازت حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے مرحمت فرما دی اور فیصلہ فرمایا کہ پچھتر ہزار رو پید لجنہ اماءاللہ جمع کرے گی اور اتنا ہی خرچ صدر انجمن احمد یہ کرے گی چنانچہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے چندہ سائنس بلاک لجنہ کی ممبرات کے سامنے پیش کیا اور بار باراخبارت کے ذریعہ احمدی خواتین کو اس طرف توجہ دلائی.۸ مارچ ۱۹۷۰ء کو بعد نماز عصر حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے وکلاء اور ناظر صاحبان کے ہمراہ جامعہ نصرت میں تشریف لا کر سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا.سائنس کلاسز کا اجراء:.۱۹۷۰ء کا سال جامعہ نصرت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال ایف.الیس سی میڈیکل اور نان میڈیکل کلاسز کا اجراء ہوا.۱۹۷۱ء میں پہلی بار طالبات ایف.ایس سی کے امتحان میں شامل ہوئیں اور نتیجہ میڈیکل گروپ کا۶ ء۹۶ فیصد رہا اور نان میڈیکل گروپ کا سو فیصدی رہا.کالج کے قیام کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے.اس عرصہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ لگایا ہوا پودا بڑی سرعت سے پھلا پھولا.اس مختصر سی زندگی میں ہر برس اس کا قدم شاہراہ ترقی کی طرف گامزن رہا.وہ کالج جس میں پہلے برس صرف سولہ طالبات نے داخلہ لیا تھا آج اس میں چارصد طالبات زیر تعلیم ہیں.کالج کے سٹاف میں جہاں پہلے سال حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی واحد خاتون تھیں وہاں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے کالج کا سٹاف ۳۲ سند یافتہ خواتین پر مشتمل

Page 273

265 جامعہ نصرت چند ایک خصوصیات کی وجہ سے باقی کالجوں میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے.یہاں دینیات کی تعلیم لازمی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کی سر پرستی اور قیادت اس کو حاصل ہے.تمام طالبات کے لئے برقع پہنا ضروری ہے.اس کالج میں صرف عام دنیوی رائج الوقت تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ طالبات کو اسلامی ثقافت کی صحیح روح سے آشنا کرنا ، اخلاق کی اعلیٰ اقدار سے روشناس کرانا اور اس انداز سے ان کی تربیت کرنا کہ وہ عملی زندگی میں ملک کی بہترین شہری اور ملت کی مفید رکن ثابت ہوں، اس عظیم ادارہ کا طرہ امتیاز ہے.مندرجہ ذیل خواتین ایک لمبا عرصہ تک جامعہ نصرت میں پڑھانے کے بعد کالج چھوڑ چکی ہیں:.مکرمہ نصیرہ شاہ نواز صاحبہ ایم.اے فلسفہ ۲.مکرمہ امۃ الحفیظ قاضی صاحبہ ایم.اے جغرافیہ مکرمہ سعیدہ حبیب صاحبہ ایم.اے انگریزی ۴.مکرمہ منظور النساء صاحبہ ایم.اے عربی مکر مہ امتہ المجید صاحبہ ایم.اے اقتصادیات ۶ مکرمہ رضیہ ناصر صاحبہ ایم.اے حساب مکرمہ حنیف صاحبہ ایم.اے حساب ۸ مکرمہ محمود قریشی صاحبہ ایم.اے اقتصادیات ۹ مکرمہ صفیہ چوہدری صاحبہ ایم.اے اردو ۱۰ مکر مہ امۃ الرشید لطیف صاحبہ ایم.اے اسلامیات مکرمہ نعیمہ بیگم صاحبہ ایم.اے تاریخ ۱۲.مکرمہ طاہرہ کلثوم صاحبہ ایم.اے تاریخ ۱۳ مکرمه امینہ مرزا صاحبہ ایم اے انگریزی ۱۴ مکرمہ رشیدہ حسین صاحبہ مرحومہ ایم.اے حساب ۱۵ مکر مہ امۃ الباری صاحبہ ایم.اے اردو ۱۶ مکر مہ رشیدہ شریف صاحبہ ایم.اے حساب ۱۷.مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ ایم.اے اردو ۱۸ مکرمہ قامتہ فردوس صاحبہ ایم.اے انگریزی ان کے علاوہ مندرجہ ذیل خواتین لمبے عرصہ سے جامعہ نصرت کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں :.ا مکرمه فرخنده شاه صاحبه پرنسپل جامعہ نصرت ۲ مکرمہ بشری بشیر صاحبه لیکچرار اسلامیات ۳- مکرمه امۃ المجید پروازی صاحبہ لیکچر رفلسفہ ۴.مکرمدار بیبه خانم صاحبہ لیکچرار انگریزی ۵ مکرمہ حمامۃ البشری صاحبہ لیکچرار عربی

Page 274

266 مکرمہ صادقہ رمضان صاحبه لیکچرار انگریزی مکرمہ سعیدہ احسن صاحبہ لیکچرار عربی مگر مد رشیده تسنیم صاحبه لیکچرار فارسی ۹ مکرمہ رضیه در دصاحبه لیکچرار د مینیات ۱۰.مکرمہ مبارکہ انجم صاحبہ لیکچرار اردو ۱۱.مکرمہ حمیده خلجی صاحبہ نگران سپورٹس ۱۲ مکرمہ صادقہ قمر صاحبہ لیکچرار سیاسیات عہد یداران لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے حضرت مصلح موعودؓ کا اہم خطاب :.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۰ فروری کو شام چار بجے عارضی دفتر لجنہ اماءاللہ میں عہدیداران لجنہ مرکزیہ سے اہم خطاب فرمایا جس میں حضور نے فرمایا :.ہر آدمی کچھ نہ کچھ سوچتا ہے تم بھی بعض باتوں کے متعلق سوچتی ہوگی.سوال یہ ہے کہ تم نے کیا سوچا؟ لجنہ اماء اللہ کو قائم ہوئے اٹھائیس سال ہو گئے ہیں یا شائد اس سے زیادہ ایک سال اور ہو گیا ہو گا.اٹھائیس سال کے عرصہ میں تم نے کیا کوشش کی اور اس بارے میں کیا سوچا.سوائے اس کے کہ ایک بنی بنائی چیز تمہارے سامنے آگئی.چندہ تو ایسی چیز ہے جس کا ہر ایک کو شوق ہے کہ لوگ دے رہے ہیں میں بھی دوں اور چندہ لینے کا شوق بھی ہوتا ہے.چندہ جمع کرنا کوئی فن نہیں اصل چیز یہ ہے کہ تم کس قوم کی فرد ہو؟ اور تم نے کیا کام کرنا ہے؟ تم ایک مامور کی جماعت کی فرد ہو اور تم نے اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے.غالب کرنے کا سوال صدیوں میں نہیں ہوا کرتا.اٹھائیس سال میں تم نے کیا کیا؟ امریکہ، افریقہ، انگلستان وغیرہ میں ہماری جماعتیں قائم ہیں تم نے کتنی جگہ پر لجنہ قائم کی اور پھر کیا سکیم بنائی کہ اتنے سال میں دنیا (روحانی طور پر فتح کرنی ہے.تمہاری مثال تو ایسی ہے کہ آئے بیٹے اور باتیں کیں اور چلے گئے کسی قسم کا کام بھی بند نہیں کر رہی جو عقل کا کام ہو یا جنگ کا کام ہو." حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کام کو بہتر بنانے کے لئے ارشاد فرمایا:.سیکرٹری رکھو جو تعلیم یافتہ ہو، انگریزی جانتی ہو، انگریزی میں خط و کتابت کر سکے.عربی جانتی ہو، عربی میں خط وکتابت کر سکے

Page 275

267 کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک کے متعلق بتاؤ کہ تم نے کیا سکیم بنائی ہے.تبلیغ کے لئے لٹریچر کی ضرورت ہوتی ہے.چھوٹے چھوٹے پمفلٹ شائع کئے جائیں.یورپ کی عورتیں کام کرنا جانتی ہیں اگر امریکہ کے اندر ایسی انجمن ہوتی تو دنیا میں اس کا نام پھیلا ہوا ہوتا.اگر امریکہ والوں سے تمہاری خط و کتابت ہوتی اور تم ان سے پوچھتی کہ تمہیں کس قسم کا لٹریچر چاہیئے اور ان کو ایسا لٹریچر بجھوایا جا تا جن میں عورتوں کے متعلق خاص خاص احکام ہوتے.وہ آپس میں ایک دوسرے کو سکھاتیں اور مردوں سے کہتیں کہ تم نے ہمیں یہ احکام نہیں بتائے تھے لیکن لجنہ نے ہمیں ٹریکٹ بھجوائے ہیں.اس طرح ان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوتی ہے...تمام دنیا مخالفت کر رہی ہے.ہندوستان میں عورتوں ہی کی وجہ سے مخالفت ہوئی ہے.کبھی تم نے یہ نہیں کیا کہ ایک وفد مل کر لائل پور وسرگودھا وغیرہ جاتا وہاں کی عورتوں کو اطلاع دیتیں اور مردوں کو بھی اطلاع دیتیں.وہ شہر کی معزز اور تعلیم یافتہ عورتوں کو بلاتیں اور اس طرح ان سے واقفیت ہوتی.پھر ایک کھڑی ہو کر لٹریچر تقسیم کر دیتی.ایک سال کے اندر تمام پنجاب میں تغیر آجاتا.اس طرح کچھ عورتیں مخالفت چھوڑ دیتیں اور کچھ دب جاتیں اور باقی مان لیتیں..سوچوسکیمیں بناؤ، زیادہ سے زیادہ سیکرٹری مقرر کرو.پاکستان کے لئے پانچ سات سیکرٹری بناؤ جن کے سپر د پانچ پانچ سات سات ضلع ہوں باہر کی لجنات کو پارٹی کے لئے تحریک کرو پہلے تو آپس میں واقفیت پیدا کرو اور ان کو بتاؤ کہ ہم آپ کے ہمسائے ہیں اور آخر میں ایک اٹھ کر لٹریچر تقسیم کر دے اور پھر آہستہ آہستہ مصباح بھجوا ؤ حضور کی تقریر کی روشنی میں لجنہ مرکزیہ کے فیصلے :.حضور کی اس تقریر کی روشنی میں تجاویز مرتب کرنے کے لئے ۴ فروری ۱۹۵۱ء کو مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں کچھ تجاویز مرتب کی گئیں اور انہیں حضور کی خدمت میں برائے ہدایات بھیجوایا گیا.اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ:.ا.امریکہ اور یورپ کی لجنات کی نگرانی کے لئے محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ اہلیہ چوہدری مشتاق احم ل الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحه ۱۰۴،۱۰۳،۱۰۲،۱۰۱

Page 276

268 صاحب باجوہ کو مقرر کیا جائے.۲.افریقہ کی لجنات کے لئے محترمہ فرخندہ شاہ صاحبہ اہلیہ محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب کو مقرر کیا جائے کیونکہ وہ افریقہ رہ چکی ہیں.۳.عرب ممالک کے لئے چونکہ کوئی عربی دان عورت نظر نہیں آتی.اس لئے سر دست یہ کام حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ کے سپرد کیا جائے وہ اپنی نگرانی میں یہ کام کروائیں.۴.مشرقی پاکستان کے لئے محترمہ مسعودہ صاحبہ بنت محترم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور محترمہ آمنہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری بہاؤ الحق صاحب کو مقرر کیا گیا.1 حضور کے منشاء کے مطابق مختلف مقامات پر تبلیغی وفود بھجوانے کا انتظام کیا گیا چنانچہ یکے بعد دیگرے کئی وفود مختلف مقامات پر گئے لیکن یہ طریق چل نہ سکا اور بعد میں ممالک بیرون کا کام سیکرٹری لجنات بیرون کے سپرد کیا گیا.۵.ایک فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ مرکز میں آٹھ دس مستورات کا گروپ لے کر اس کو تمام اختلافی مسائل یاد کر وائے جائیں اور پھر اسے مختلف مقامات پر بھجوایا جائے.پہلے گروپ کے لئے مندرجہ ذیل بہنوں نے نام پیش کئے :.۱- محترمہ سید نصیره بیگم صاحبه -۲- محترمه سیده بشری بیگم صاحبہ ۳ محتر مہ صفیہ بیگم صاحبہ گجرات ۴.حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہا ۵ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ قریشی محمد افضل صاحب ۶ محترمه صفیہ ثاقب صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ۷.محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب - محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ ملک سیف الرحمن صاحب ۹ - محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالواحد صاحب ۱۰ محترمہ مبارکہ قمر صاحبہ سیالکوٹ ۱۱.محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ اہلیہ نورمحمد صاحب نیم سیفی ۱۲.محترمہ مسعوده صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ۱۳ محتر مہ اہلیہ صاحبہ مولوی فضل دین صاحب وکیل ۱۴- محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ ۱۵.محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ ۱۶ محترمہ بشیرہ صاحبہ اہلیہ مولوی تاج دین صاحب ۱۷.محتر مہ امۃ الرحمن طیبه صاحبه ۱۸ محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ ۱۹.محترمہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد احمد صاحب جلیل ۲۰.محترمہ ناصرہ آمنہ صاحبہ اہلیہ صوفی محمد رمضان علی صاحب ۲۱ محترمہ قدسیہ کنزے صاحبہ لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 277

269 ۲۲ محتر مہ اہلیہ صاحبہ میرحمیداللہ صاحب سکھر ! جو تبلیغی وفود بھجوائے گئے ان کی تفصیلی رپورٹیں درج ذیل ہیں:.(1) تبلیغی وفد چنیوٹ :.پہلا وفد ۱۸ فروری ۱۹۵۱ء کو تین بجے شام پانچ ممبرات پر مشتمل ربوہ سے چنیوٹ گیا.محترمہ بیگم صاحبہ محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم کے ہاں غیر احمدی معزز مستورات کے لئے ایک ٹی پارٹی کا انتظام تھا.بعض احمدی خواتین بھی علاوہ صدر لجنہ اور سیکرٹری لجنہ مدعو تھیں.زنانہ سول ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر ، لیڈی ہیلتھ وزیٹر، بعض افسران شہر کی بیگمات، اسلامیہ سکول اور گورنمنٹ سکول کی استانیاں اور ضلع جھنگ کی اے.ڈی.آئی (ایڈیشنل انسپکٹرس ) مدعو تھیں.محترمہ بیگم صاحبہ مرزا عزیز احمد صاحب نے قادیان کے کچھ حالات سنائے اور یہ بھی بتایا کہ ہمارے ربوہ میں قریباً دنیا کے ہر حصے کے آدمی موجود ہیں.حال ہی میں ایک جرمن نومسلم اور ایک امریکن نو مسلم کی شادیاں دو احمدی پنجابی لڑکیوں سے ہوئی ہیں اور یہ شادیاں اسی غرض کے ماتحت کرائی گئی ہیں تا کہ قوموں کا باہمی تعصب دور ہو.ان باتوں نے ان پر اچھا اثر کیا.اس وفد نے یوم مصلح موعود پر انہیں آنے کی دعوت دی.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے ہر ایک کو دو دوٹریکٹ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟“ اور ” احمدیت کا پیغام دیئے جن کو انہوں نے بخوشی قبول کیا.امیر قافلہ محترمہ استانی میمونہ صوفیہ تھیں.رات 9 بجے کی ٹرین سے یہ وفد واپس آیا.اس وفد میں مندرجہ ذیل ممبرات شامل تھیں :.۱- محترمہ بیگم صاحبہ محترم مرزا عزیز احمد صاحب ۲ محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه ۴.محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ ۳ محترمه استانی حمیده صابره صاحبه ۵ محترمه مسعوده صمد صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم صاحب بنگالی سے (۲) تبلیغی وفد سرگودھا: ۲۵ ماه تبلیغ بروز اتوار زیر انتظام لجنه مرکز یہ پانچ ممبرات پر مشتمل ایک گروپ جس میں محترمہ بیگم صاحبہ مرزا عزیز احمد صاحب، محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ، محترمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ، محترمہ اہلیہ صاحب محترم عبد الشکور صاحب کنزے اور محتر مہامتہ اللہ خورشید لے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ه مصباح ماه اپریل ۱۹۵۱ء ص ۳۵

Page 278

270 صاحبہ مرحومہ شامل تھیں محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی امارت میں سرگودھا روانہ ہوا.یہ وفد محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر مقامی کی قیام گاہ پر پہنچا جہاں پر ساڑھے چار بجے غیر احمدی مستورات کو چائے پر بلایا گیا تھا.اسی روز سرگودھا کی لجنہ کا اجلاس مسجد احمد یہ میں ہوا جس میں محترمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ اور محتر مہ اہلیہ صاحبہ عبد الشکور صاحب کنزے شریک ہوئیں.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے مستورات سے خطاب فرمایا.دعوت میں کل ۲۳ خواتین آئیں جن میں ۱۵ غیر از جماعت تھیں.ان سے گفتگو کے دوران ان کو احمدی اور غیر احمدی کا فرق وضاحت سے بتایا گیا اور ان کے تمام سوالات اور اعتراضات کا کماحقہ جواب دیا گیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے اعتراف کیا کہ مسلمانوں کو اتحاد کی ضرورت ہے اور جماعت احمد یہ اس ضرورت کو پورا کر رہی ہے.سب بہنوں نے ربوہ آنے کا وعدہ کیا.(۳) تبلیغی وفد مگھیانہ: لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا چوتھا تبلیغی وفد ۱۹ مئی ۱۹۵۱ء کو صبح آٹھ بجے ربوہ سے محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی زیر قیادت مگھیا نہ روانہ ہوا.شریک وفد مندرجہ ذیل خواتین تھیں:.ا.حضرت سیدہ ام داؤ د صاحب ۳ محترمہ نصیرہ نزہت صاحبه ۵ محترمه سراج بی بی صاحبہ ۲- محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه ۴ محترمہ حمیده صابرہ صاحبہ مگھیانہ کی لجنہ اماءاللہ کی طرف سے محترمہ بیگم صاحبہ محترم میاں بشیر احمد صاحب کے ہاں بہت سی خواتین کو عصرانہ پر مدعو کیا گیا تھا.محترمہ صدر صاحبہ وسیکرٹری صاحبہ کے علاوہ کچھ احمدی خواتین بھی موجود تھیں.محترمہ صدر صاحبہ نے معزز مہمانوں سے تعارف کروایا.اس کے بعد ایک گھنٹہ تک تبادلہ خیالات ہوتا رہا.ان کو بتایا گیا کہ اس وفد کے آنے اور آپ سے ملنے کا یہ مقصد ہے کہ آپ سے دوستانہ تعلق قائم کر کے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو عام طور پر جماعت احمدیہ کے متعلق پیدا کردی گئیں ہیں.لے مصباح اپریل ۱۹۵۱ء صفحہ ۳۶

Page 279

271 عصرانہ کے بعد محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے تلاوت قرآن کریم کی اور حضرت مصلح موعود کے کلام میں سے ایک نظم پڑھ کر سنائی اور پھر ایک مختصری تقریر کی جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد پیش کئے اور خاتم النبین کی تشریح کی اور بتایا کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت ﷺ کی شریعت کو ہی زندہ کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں.تقریر کے بعد حاضرات کو سوالات کا موقع دیا گیا.ان کے سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے گئے.ٹریکٹ بھی تقسیم کئے گئے اور ربوہ آنے کی دعوت دی گئی.دوسرے دن جلسہ کا انتظام تھا جس میں غیر احمدی مستورات اور سکول کی طالبات شامل ہوئیں.طالبات نے وفات مسیح صداقت حضرت مسیح موعود خاتم النبین اور معجزات حضرت مسیح موعود پر سوالات کئے جن کے تسلی بخش جواب دیئے گئے.لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا گیا.اس کے بعد لجنہ کا اجلاس ہوا جس میں حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ نے قیمتی نصائح فرما ئیں اور تبلیغی جد و جہد کو تیز کرنے کی تلقین کی اور حاضرات کو محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ سے متعارف کروایا گیا اور بتایا کہ آپ اپنے خاوند کے ہمراہ جو مبلغ اسلام ہیں ماریشش جانے والی ہیں.آخر میں محترمہ امتہ العزیز صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مگھیانہ نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اڑھائی بجے بعد دو پہر یہ کارروائی دعا پر ختم ہوئی ہے ملحقہ دیہات کا دورہ :.حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ کی قیادت میں ربوہ سے ملحقہ دیہات کا بھی دورہ کیا گیا.چنانچہ ایک وفد کھچیاں، چھنیاں (چمن عباس ) بھی گیا تا کہ ان لوگوں سے جو ہمارے ہمسائے ہیں تعلقات قائم ہوں.ایک مخالف اخبار کا اعتراف:.لجنہ اماء اللہ کی تبلیغی سرگرمیوں سے جہاں بہت سی غیر از جماعت خواتین کی غلط فہمیاں دور ہوئیں وہاں اس سے مخالف احمدیت حلقوں میں کھلبلی مچ گئی.احراری اخبار آزاد (لاہور) نے اپنی ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں لکھا:.مرزائی عورتوں نے لجنہ اماءاللہ کے نام سے علیحدہ تنظیم قائم کر رکھی ہے اور وہ عورتوں میں امصباح جون ۱۹۵۱ء صفحه ۳۶

Page 280

272 مرزائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں.میں اپنی بہنوں سے عرض کروں گا کہ وہ اپنی نوع کی انسانیت کو اس فتنہ مرتد سے بچانے کے لئے منظم ہو کر کام کریں.اظہار خوشنودی:.امسال جماعت احمدیہ کی بنتیسویں مجلس مشاورت کے موقع پر آخری اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.اس سال کی مجلس کے انعقاد میں کسی قدر دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے اگلے سال انشاء اللہ یہ دقت دور ہو جائے گی کیونکہ اس وقت تک لجنہ کا ہال تیار ہو جائے گا.لجنہ اماءاللہ نے اس غرض سے ۲۷ ہزار و پیہ جمع کر لیا ہے.مستورات میں خدا کے فضل سے بہت بیداری پائی جاتی ہے.مسجد ہالینڈ کے سلسلے میں بھی انہوں نے جتنا چندہ فراہم کیا ہے وہ اس رقم سے بہت زیادہ ہے جو امریکہ کی مسجد کے لئے اب تک مردوں نے جمع کی ہے.“ ہے چنانچه ۱۹۵۲ء میں مجلس مشاورت لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس کے بعد بھی کئی سالوں تک وہیں ہوتی رہی تعلیم الاسلام کالج کا ہال تعمیر ہونے کے بعد وہاں پر منعقد ہونے لگی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا ایک اہم خطبہ جمعہ حضرت خلیفتہ اسی الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۲ نومبرا۱۹۵۱ء کو بمقام ربوہ جوخطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں حضور نے مستورات اور بچوں کی تربیت کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اہم نصائح فرمائیں.حضور نے فرمایا:.بچوں کی تربیت میں بعض نقائص ہیں.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی تربیت اچھی نہیں.زمانہ جوں جوں بدلتا ہے طریقہ کا ر بھی ساتھ بدلنا پڑتا ہے پس جب تک قرآن کریم اور حدیث کی حکمتیں بیان نہ کی جائیں جب تک وہ اصول بیان نہ کئے جائیں جن سے معلوم ہو کہ کوئی بات کیوں بیان کی گئی ہے اس وقت تک نہ تو ان کی تسلی ہوتی ہے اور نہ ان سے متاثر ہونے والی عورتوں کی تسلی ہوتی روز نامه آزاد بحوالہ ماہنامہ مصباح ماہ فروری ۱۹۵۱ صفحه ۲ ۲ الفضل ۲۹مارچ ۱۹۵۱ء صفهیم

Page 281

273 ہے...یہ مشکل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتی جب تک عورتوں کی صحیح طور پر تربیت نہ ہو.جب تک انہیں یہ نہ بتایا جائے کہ تمہاری صرف یہی زندگی نہیں بلکہ اگلی زندگی بھی ہے...ہمارا مقصد ساری دنیا میں اسلام پھیلانا ہے اور یہ بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتا.جب تک ہم اپنے اوقات کی قربانی نہ کریں، جب تک ہم اپنے اموال قربان نہ کریں.ہمیں یہ امید ہی کس طرح ہوسکتی ہے کہ ہم اپنا مقصد پالیں گے.ہمیں عورتوں کے دلوں میں یہ مضمون ڈالنا پڑے گا اور اس کے لئے نئی جد و جہد کی ضرورت ہے.لجنہ اماءاللہ کوبھی کوشش کی ضرورت ہے.وہ چندہ پر خوش ہو رہی ہیں جب تک وہ اپنی نسلوں کو اسلام کا فدائی نہیں بنالیتیں.جب تک وہ اپنے اندر ایسی قوت نہیں پیدا کرلیتیں کہ ان کے ذریعہ ہندو، سکھ اور عیسائی مستورات میں ہل چل پیدا ہو جائے.ہمیں محض ان کے چندہ دے دینے سے خوشی حاصل نہیں ہوسکتی بدلے ہوئے حالات کے مقابلہ کے لئے کروٹ بدلنے کی ضرورت ہے.تمام محکموں کو کروٹ بدلنے کی ضرورت ہے.محکمہ تعلیم کو بھی اور لجنہ اماءاللہ کوبھی.لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہم جب کسی کام کے لئے باگ اٹھاتے ہیں تو کچھ دور جا کر جب سڑک مڑ بھی جاتی ہے ہم سیدھے چلے جاتے ہیں.ہم جانتے ہی نہیں ہیں کہ ہمارے پھرنے کا موڑ آ گیا ہے اور یہ بے وقوفی کی علامت ہے عقلمندی کی علامت نہیں، اور قومیں بے وقوفی سے نہیں جیتا کرتیں عقل مندی سے جیتا کرتی ہیں.“ پندرہ روزہ تربیتی کلاس:.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام مجلس مشاورت کے بعد پندرہ روزہ ٹرینگ کلاس لجنہ کا کام سکھانے کے لئے لگائی گئی جس میں چھ مقامی ممبرات اور دس بیرونی لجنات کی ممبرات شامل ہوئیں.اس میں محترمہ صدیقہ صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم، محترم امتہ الحی صاحبہ بنت مولوی عبد السلام صاحب اور محترمہ رابعہ صاحبہ بنت چوہدری محمد ابراہیم صاحب سماعیلہ ضلع گجرات على الترتيب ۲۱۶/۲۲۰ ۲۲۰/ ۲۱۵ اور ۲۱۰/۲۲۰ نمبر حاصل کر کے اول، دوم اور سوم رہیں.نتیجہ سو فیصد رہا.اس کلاس کا نصاب مندرجہ ذیل تھا:.ا.لجنہ اماءاللہ کے قیام کی اہمیت ، اس کی غرض اور طریق کار ۲.نما ز با ترجمه سوره فاتحہ کا ترجمہ، دعائیں، آخری چندسورتیں ل الازهالذوات الخمار حصہ دوم ص ۱۲۵ تا ۱۲۹ والفضل ۸/نومبر ۱۹۵۱ صفحه ۴۰۳

Page 282

274 ۳ کشتی نوح اور چالیس جواہر پارے ۴.فقہ کے ضروری مسائل بالخصوص زنانہ مسائل ۵- اختلافی مسائل اور تبلیغ کا طریق ( تقریری مشق) تاریخ احمدیت کے چیدہ چیدہ واقعات ے.اہم تربیتی امور کے امتحانات:.۱ فروری کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام قرآن مجید کے تیسرے پارے نصف اول اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے لیکچر ذکر الہی کا امتحان ہوا.ربوہ کی صرف ۲۵ اور بیرونی ۳۸ ممبرات شامل ہوئیں.سب کامیاب رہیں.محترمہ محمودہ صاحبہ بنت محترم شیخ محمد لطیف صاحب ملتان چھاؤنی اول، محترمہ بشری بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا مبارک احمد صاحب ڈگری سندھ دوم اور محترمہ امتہ العزیز صاحبہ سیکرٹری لجنہ لائل پور و سعیدہ بیگم اہلیہ مولوی غلام باری سیف ربوہ سوم رہیں گے ۶ رمئی کو قرآن مجید پارہ نمبر ۳ نصف آخر اور کتاب " تجلیات الہیہ کا امتحان ہوا.۱۹ مقامی اور ۷۴ بیرونی ممبرات شامل ہوئیں.۸۱ کامیاب ہوئیں.محترمہ بشریٰ خاتون صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر بھائی محمود احمد سرگودھا اول، محترمه منظور النساء صاحبه ربوہ محترمہ بشری صاحبہ اہلیہ مرزا مبارک احمد صاحب ڈگری سندھ دوم اور فہمیدہ بیگم صاحبہ ملیر کینٹ کراچی سوم رہیں.سے ایک تبلیغی خط وقرآن مجید (پارہ چہارم ) کا امتحان ہوا جس میں ۵۳ ممبرات شامل ہوئیں اور ۴۶ کامیاب ہوئیں.اول محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ سید عبدالعزیز صاحب، دوم محترمہ صدیقہ خانم صاحبہ اور سوم محتر مہ منظور النساء صاحبہ سوم رہیں گے چوتھی تعلیم القرآن کلاس اس سال بھی حسب سابق تعلیم القرآن کلاس رمضان المبارک میں لگائی گئی مگر اس دفعہ بہت کم ڑکیاں شریک ہوئیں.لے ماہنامہ مصباح مئی ۱۹۵۱ء ص ۳۱ ۲ الفضل ۲۷ / مارچ ۱۹۵۱ ء ص ۶ سے ماہنامہ مصباح جولائی ۱۹۵۱ء ص ۴۲ ماہنامہ مصباح دسمبر ۱۹۵۱ء ص ۳۶

Page 283

275 بیرونی لجنات کی سرگرمیاں اس سال بیرونی ممالک کی متعدد بجنات کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام کرنے کا موقع ملا.بور نیو: محترمہ امۃ العزیز صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب مرحوم ( موجودہ آفس سیکرٹری دفتر لجنہ اماء الله مرکز یہ اپنی والدہ محترمہ سراج بی صاحبہ مرحومہ اور چھوٹی ہمشیرہ محترمہ امتہ الکریم صاحبہ کے ہمراہ شمالی بورنیو کے شہر جیلٹن سے ۱۴ میل دور KINARUT نامی گاؤں میں گئیں.اس گاؤں کی احمدی عورتوں اور بچوں کو نماز سکھائی اور اہم عقائد و مسائل سکھائے.قرآن کریم کا درس بھی دیا جاتا رہا.اسی گاؤں کی جماعت کی عورتیں DUSUN قوم سے اسلام میں داخل ہوئی ہیں.یہ قوم بالکل بے دین ہے مذہب سے انہیں کوئی لگاؤ ہی نہیں ہے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے انہیں قبول حق کی توفیق بخشی ہے لنڈن: لجنہ اماءاللہ لنڈن میں ایک بلیٹن لجنہ ریویو کے نام سے شائع کرنا شروع کیا جسے ممبرات نے بڑے شوق سے پڑھا ہے.ہالینڈ : ۹ فروری کو اوترخت کے مقام پر جلسہ ہوا جس میں نومسلمہ بہن محترمہ ناصرہ زمرمن صاحبہ نے رسول کریم عملے کے متعلق بائیبل کی پیشگوئیاں“ کے موضوع پر تقریر کی اور بعد میں سوالات کے جوابات بھی دیئے.اپریل میں جلسہ سیرت پیشوایان مذاہب منعقد ہوا.اس میں محترمہ ناصرہ زمر من صاحبہ نے سیرت حضرت مسیح موعود “ کے موضوع پر تقریر کی ہے مغربی جرمنی: ۲۶ / فروری کو نو مسلم احمدی ڈچ بہن محتر مہ رقیہ صاحبہ نے ہیمبرگ میں اپنے سفر پاکستان اور تاثرات حج پر تقریر کی.ایک خاتون نے بیعت کی ہے امریکہ:.فروری تا اپریل کے عرصہ میں لجنہ کے تین اجلاس ہوئے.ہر جمعہ کو سلائی کی کلاس لگتی رہی جس میں سلائی کی مشین پر کام سکھایا جاتا رہا.نے مصباح مارچ ۱۹۵۱ء ص ۳۵ الفضل ۲۵ / فروری ۱۹۵۱ء ۳ الفضل ۶ را پریل ۱۹۵۱ء ص ۵ م الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۱ء ص ۴

Page 284

276 امریکن احمدی جماعتوں کی چوتھی سالانہ کنوینشن کے موقع پر لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع بھی ہوا.جس میں ایک صد سے زیادہ بہنیں شریک ہوئیں.اس موقع پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے اس امر پر خوشنودی کا اظہار فرمایا تھا کہ امریکہ کی احمدی بہنوں نے مسجد ہالینڈ کے لئے قابل تعریف مالی قربانی پیش کی ہے.شام کو منتظمین نے تمام بہنوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا.لے نیگومبو ( سیلون ) : ستمبر ۱۹۵۱ء میں بیگومبوشہر میں لجنہ اماءاللہ قائم ہوئیں.سے انتخابات محتر مہ مبارکہ نسرین صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کی زیر نگرانی ہوئے.محترمہ چراغ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم ایم.جمال الدین صاحب صدر اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم بشیر احمد صاحب سیکرٹری منتخب ہوئیں.ہفتہ میں دوبار لجنہ کے اجلاس ہوتے ہیں جن میں تقاریر کے علاوہ دینی اسباق بھی پڑھائے جاتے.ماہانہ اجلاسوں میں مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر لجنہ کی ممبرات سے جماعتی ضروریات کے مطابق خطاب کرتے.نماز، قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ کے علاوہ بچیوں کو اردو کا قاعدہ بھی پڑھایا جاتا اور ہفتہ وار امتحان لیا جاتا.اردو اور تامل زبان میں دینی نظمیں ناصرات کو یاد کرائی جاتیں.لجنہ اماءاللہ بیگومبو نے لجنہ کا چندہ جمع کر کے مختلف رفاہی کام سرانجام دینے شروع کر دیئے ممبرات کی شادیوں پر لجنہ کی طرف سے تحائف پیش کئے جاتے اور مہمان نوازی کا فرض بھی ادا کیا جا تا.محترم محمد اسمعیل صاحب منیر کی تحریک پر اشاعت اسلام کے لئے فنڈ جمع کیا جاتا.مبلغین کی بیگمات کی اعزازی دعوت :.مورخہ یکم مئی ۱۹۵۱ء کو بعد نماز عصر نصرت گرلز ہائی سکول کے احاطہ میں بیرونی ممالک سے واپس آنے والی بہنوں محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لنڈن محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا نذیر احد علی صاحب مبلغ افریقہ، محترمہ امۃ الرحیم صاحبہ اہلیہ صوفی مطیع الرحمن صاحب مبلغ امریکہ اور ماریشش جانے والی بہن محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ محترم ل الفضل ۳۱ مئی ۱۹۵۱ء ص ۴ و ۱۳ نومبر ۱۹۵۱ء ص ۱۰ ۲ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۵۱ ص ۵

Page 285

277 حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب مبلغ ما ریشش کے اعزاز میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے ایک ریب منعقد ہوئی.اس موقع پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے آنے والی بہنوں کو اهلاً وسهلاً وَمَرْحَبًا کہا اور فرمایا آپ باہر سے ہو کر آئی ہیں آپ کو مفید تجربات حاصل ہو چکے ہیں.ہمیں امید ہے کہ آپ لجنہ مرکزیہ کے لئے مفید ثابت ہوں گی اور آپ لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں پوری دلچسپی لیں گی.اس کے بعد آپ نے جانے والی بہن محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ایک بہت بڑے مقصد یعنی تبلیغ اسلام میں اپنے خاوند کی مدد کرنے کے لئے باہر جارہی ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد میں کامیاب کرے لے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یکم جون بعد نماز عصر مبلغ ماریشش محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کی اہلیہ محترمہ کے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.در مبلغ کی بعض دفعہ بہت سی طاقت اس لئے بھی ضائع چلی جاتی ہے کہ عورتوں کی تبلیغ اور ان کی تعلیم کے سلسلہ میں اس کا کوئی ہاتھ بٹانے والا نہیں ہوتا مگر خوش قسمتی سے ان کی بیوی جو ان کے ساتھ جارہی ہیں وہ ایک مخلص اور علم والی عورت ہیں.پس اب کم سے کم ایک ایسا ہتھیار ان کے پاس موجود ہے جو ہمارے مبلغوں کے پاس نہیں تھا.ہے محترمہ نصیرہ نزہت صاحبه ۴ جون ۱۹۵۱ء کو ماریشس روانہ ہوئیں.لجنہ مرکزیہ کی دعوت کے علاوہ اپریل کو نصرت گرلز ہائی سکول کی طرف سے بھی ان کے اعزاز میں الوداعی پارٹی دی گئی.مورخه ۲۵ جولائی بروز اتوار نصرت گرلز ہائی سکول میں محترمہ مبارکہ نسرین صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسماعیل صاحب ہنیر کے اعزاز میں جو اپنے خاوند کے ساتھ سیلون جارہی تھیں ایک جلسہ منعقد ہوا.۵ اگست ۱۹۵۱ء کو محتر مہ امتہ القیوم صاحبہ اہلیہ مولوی غلام احمد صاحب بشیر اور محترمہ امتہ الحکیم صاحب الیه یخ نوراحمد صاحب منیر اور محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی حمد الحق صاحب ساقی کے اعزاز میں دعوت دی گئی.یہ بہنیں علی الترتیب حلب، لبنان اور ٹرینیڈاڈ گئی تھیں.۳۰ / نومبر کو دفتر لجنہ مرکزیہ میں محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب شرما ( جو مشرقی افریقہ جارہی تھیں) کو دعا کے ساتھ رخصت کیا گیا.محترمہ امتۃ الرشید شوکت صاحبہ نے اس موقع پر ایڈریس پیش کیا.لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۹ ارجون ۱۹۵۱ء ص ۶ کالم نمبر ۱-۲

Page 286

278 مبلغین کی بیگمات کے لئے دینی تعلیم کا انتظام :- وکالت تبشیر کی طرف سے لجنہ مرکز یہ کوتحریک کی گئی کہ بیرونی ممالک میں جانے والے مبلغین کی بیویوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے چنانچہ لجنہ نے غور کرنے کے بعد اس کا پروگرام مرتب کیا اور مندرجہ ذیل نصاب تجویز کیا گیا.ا.قرآن مجید کا ترجمہ معہ نماز با ترجمه ۲.انگریزی کی ایک کتاب (انگریزی بولنے پر خاص زور دیا جائے ) ۳.اہم مسائل مندرجہ ذیل معلمات مقرر کی گئیں :.۱- محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبه -۲- محتر مہ امت الرشید شوکت صاحبہ ۳.محترمہ امۃ الرحیم صاحبہ اہلیہ صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی ۴ محترمه سراج بی صاحبہ ۵ محترمہ کلثوم با جوه صاحبه اس کلاس میں مندرجہ ذیل بہنیں شامل ہوئیں :.ا.محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی محمد اسحق صاحب ساقی ۲ محترمه امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالکریم صاحب ۳.محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالکریم صاحب شر ما۴.محترمہ محمودہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل ۵ محتر مہ امتہ الحکیم صاحبہ اہلیہ شیخ نور احمد صاحب منیر ۶ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب سماٹری..محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ اہلیہ مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی محترمہ قمر النساء صاحبہ اہلیہ عبد القادر صاحب ضیغم و محترمہ امۃ القیوم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۰ محترمہ عطیہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی عبدالوحید صاحب.محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ فقیر محمد صاحب ۱۲.محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ عطاء اللہ صاحب ۱۳.محترمہ امتہ السلام صاحبہ اہلیہ مولوی محمد احمد صاحب نعیم ۱۴- محترمہ مبارکہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مولوی نورالدین صاحب منیر ۱۵- محترمه زینب بیگم صاحبه اہلیہ مولوی عبدالواحد صاحب ۱۶- محتر مہ امۃ الرشید صاحبہ بنت غلام غوث صاحب ۱۷.محتر مہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ظفر السلام صاحب ۱۸- محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت الطاف حسین صاحب ۱۹.محترمہ رشیده صاحبه ۲۰- محتر مہ اہلیہ صاحبہ مولوی نورالحق صاحب انور ۲۱ محترمہ شریفہ بیگم صاحبہ اہلیہ

Page 287

279 عبداللطیف صاحب ۲۲.محترمہ امتہ القیوم صاحبہ اہلیہ مولوی غلام احمد بشیر ۲۳.محترمہ مبارکه نسرین صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کے یوم صلح موعود : - - ۲۰ فروری ۱۹۵۱ء کو اہتمام کے ساتھ یوم مصلح موعود منایا گیا اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کی گئیں.مندرجہ ذیل مقامات سے لجنہ کے جلسوں کی رپورٹیں شائع ہوئیں:.ربوه ۲ ننکانہ ، لاہور چنیوٹ ، احمد نگر ، لالیاں، گولیکی سے گوجرانوالہ، جڑانوالہ لاہور میں زیر صدارت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی یوم مصلح موعود منایا گیا.سیرت النبی کے جلسے:.۱۸ نومبر کو مختلف مقامات پر لجنہ نے سیرت النبی کے جلسے منعقد کئے جن میں سے مندرجہ ذیل کی رپورٹیں شائع ہوئیں :.لاہور، ربوہ ناصر آباد حیدر آبادسندھ، محمود آباد جہلم، کراچی کے جڑانوالہ 2 راولپنڈی نا ان جلسوں کے علاوہ ربوہ میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام ہر ماہ تربیتی جلسے منعقد کروائے جاتے رہے.ے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے مصباح مارچ ۱۹۵۱ء ص ۱ والفضل ۳ / مارچ ۶۵۱ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۱ء الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۱ء ۵ الفضل ۳ / مارچ ۱۹۵۱ء ص ۶ 1 رجسٹر کارروائی لجنہ مرکز یہ ومصباح دسمبر ۱۹۵۱ء ص ۱۴ کی الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۵۱ء ص ۲ الفضل ۲۴ / نومبر ۱۹۵۱ء ص ۲ ۹ الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۵۱ء مل الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۵۱ء

Page 288

280 جماعت احمد یہ یاد گیر (حیدرآباد دکن ) کا جلسہ:.احمدیہ جماعت احمد یہ یاد گیر کا باون واں سالانہ جلسہ بتاریخ ۱۸-۱۹ مارچ ۱۹۵۱ء بروز اتوار وسوموار بوقت تین بجے دن تالے بجے شام مسجد احمد یہ یاد گیر میں منعقد ہوا.اس میں لجنہ اماءاللہ کی طرف سے دعوت نامہ چھپوا کر مستورات میں تقسیم کیا گیا.اس مرتبہ مستورات پانچ صد کے قریب جلسہ میں آئیں.محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محبوب علی صاحب حیدر آباد درس دیتی رہیں.وقت کا اکثر حصہ مستورات میں تبلیغ میں صرف ہوا.صبح اور شام قرآن کریم وحدیث کا درس ہوتا رہا.ہر ہفتہ کو عورتیں گھر گھر یوم التبلیغ مناتی ہیں.جلسه سالانه مستورات ۱۹۵۱ء:- احمدی مستورات کا جلسہ سالانہ حسب معمول ۲۶-۲۷-۲۸ دسمبر ۱۹۵۱ء کو منعقد ہوا.حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.حضور نے چندہ مسجد ہالینڈ کی طرف عورتوں کو توجہ دلائی.حضور کی تقاریر کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ) محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم اور محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ کی تقاریر بھی مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.اس جلسہ پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے اسلام میں عورت و مرد کا مقام“ کے موضوع پر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے لیس للانسان الا ما سعی پر محترمہ امتہ المجید صاحبہ نے اسلامی حکومت میں عورت کے فرائض پر محترمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ نے دعا‘ پر محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ نے صحابیات کے کارناموں پر ، عاجزہ نے اسلام میں خلافت کا مقام پر محتر مہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے آنحضرت ﷺ کا سلوک اپنے خدام اور ماتحتوں سے اور محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ نے وصف صالحات“ کے موضوعات پر تقاریر فرمائیں اے 66 قادیان میں بھی اس سال ان تاریخوں میں جلسہ ہوا.عورتوں نے مردانہ پروگرام سننے کے ے مصباح ماہ جنوری ۱۹۵۲ء ص ۳۰ تا ۳۲

Page 289

281 علاوه ۲۹ / تاریخ کو الگ اجلاس منعقد کیا جس میں محترمہ امۃ السلام صاحبہ اہلیہ محمد یونس صاحب استلم اور محترمہ مبارکہ قمر صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب صدر لجنہ اماءاللہ قادیان نے تقاریر کیں.انتظامات جلسہ سالانہ :.حضرت سیدہ ام داؤ دصاحبہ ناظمہ جلسہ سالانہ کی نگرانی میں مندرجہ ذیل شعبوں میں کام ہوئے :.ا.نظامت ۲.انسپکشن ۳ نگران شعبہ جات ۳ نگران وارڈ ۵.نگران دفتر لجنہ مرکز یہ ۶.انتظام سٹور انتظام روشنی ۸ - انتظام حفاظت و انکوائری ۹ طبی امدادها.انتظام کارکنات اا.انتظام مہمانان خاص ۱۲.انتظام وعظ ۱۳.انتظام احاطه مستورات ۱۴.منتظمہ مکانات ۱۵- انتظام استقبال ۱۲- انتظام ملاقات ۱۷.انتظام روٹی ۱۸.انتظام سالن ۱۹.انتظام آب رسانی ۲۰.انتظام روشنی ۲۱.انتظام صفائی.مستورات کا کھانا اکٹھا مطلوبہ مقدار میں آتا تھا پھر منظمات کی نگرانی میں تقسیم ہوتا تھا.اے نمائش دستکاری:.اس سال بھی صنعتی نمائش کا انتظام کیا گیا.مرکزی طور پر تیار شدہ سامان کے علاوہ ماڈل ٹاؤن لاہور، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان شہر، ملتان چھاؤنی ، کراچی، کنری، کوئٹہ اور لاہور کی لجنات نے اس میں حصہ لیا.رپورٹ مجلس شوری لجنہ اماءاللہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۱ء:.لجنہ اماءاللہ کی چھٹی مجلس شوری ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۱ء نئے پختہ دفتر لجنہ اماءاللہ کے ہال میں منعقد ہوئی سب سے پہلے دفتر لجنہ میں ہال کے اندر پہلی دفعہ شوری منعقد کرنے کی خوشی میں شکرانہ کا ایک سجدہ بجالایا گیا.اس شوری کی صدارت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ رضی اللہ عنہا صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے کی اور مندرجہ ذیل ۴۳ لجنات کی نمائندگان کے علاوہ مرکزی عہدیداران بھی شامل ہوئیں :.له الفضل ۴ رجنوری ۱۹۵۲ء ص ۵

Page 290

282 ا.ملتان شہر -۲- چک نمبر ۵۶۵ ۳ گولیکی -۴.ماڈل ٹاؤن ۵.راولپنڈی ۶.لائلپور تلونڈی کھجوروالی - جڑانوالہ ۹.کراچی ۱۰.چک نمبر ۸۸ ۱۱.سیالکوٹ ۱۲.چک نمبر ۶۸ ۱۳.گوکھو وال ۱۴.دوالمیال ۱۵.منڈی بہاؤالدین ۱۶.دنیا پور ۱۷.کوئٹہ حلقہ اسلام آباد -۱۸ مسجد احمدیہ کوئٹہ ۱۹.واہ ۲۰.حیدر آبادسندھ ۲۱.چک نمبر RP / ۱۲۷ ۲۲.بھیرہ ۲۳ گھسیٹ پوره ۲۴.لوہان ۲۵.اوکاڑہ ۲۶.شیخو پوره ۲۷.گوجره ۲۸.ننکانہ صاحب ۲۹.چک نمبر ۱۹۴ ۳۰.بھا کا بھٹیاں ۳۱- بدوملہی ۳۲ سکھر ۳۳.گوجر خان ۳۴.تلونڈی را ہوالی ۳۵ منٹگمری ۳۶- چک نمبر ۳۷ ۳۷.ٹوبہ ٹیک سنگھ ۳۸.گوجرانوالہ ۳۹.لاہور ۴۰.مونگ رسول ۴۱.شادیوال ۴۲ - تہال ۴۳ مگھیانہ تجویز : دفتر لجنہ اماءاللہ کی عمارت قریباً مکمل ہو چکی ہے.صرف چار دیواری اور صفائی باقی ہے لیکن قرض پر عمارت بنی ہے جو کہ قریباً ۲۳۰۰۰ روپے ہے.اگر یہ رقم ہو تو پھر قرض اُترے.سب ممبرات سے رائے لی گئی کہ یہ رقم کس طرح اور کتنے عرصہ کے اندراندرا کٹھی کی جاسکے.فیصلہ:.کافی بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پہلے کی طرح یہ رقم تمام لجنات پر پھیلا دی جائے اور ایک سال کے اندراندر جمع کی جائے.سال رواں کا آمد و خرچ :.اس سال کی کل آمد ۶۲۵۳ روپے تھے اور کل خرچ ۱۱۶۴ روپے.تعمیر دفتر کا چندہ اس رقم کے علاوہ تھا.سال رواں میں ۷۷ لجنات کی طرف سے ممبری لجنہ اماءاللہ کا چندہ وصول ہوا.دوران سال میں جن لجنات کی طرف سے چندہ آتا رہا تھا ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں.تلونڈی کھجور والی ، کوئٹہ، کنری سندھ، بھڈال ضلع سیالکوٹ ، گنگا پور ضلع لائکپور سمندری ، فیروز والہ، کراچی، نسووالی سویل، حیدر آباد سندھ، نصرت آباد اسٹیٹ سندھ، شیخو پورہ، منٹگمری، چنیوٹ، پسرور، لاہور، سکھر، ملتان چھاؤنی، راولپنڈی، ظفر آباد اسٹیٹ، گولیکی، چک نمبر ۳۶۳، ناصر آبا دا سٹیٹ، قصور، منڈی بہاؤالدین، ملتان ،شہر، مردان، لوہان ، کوٹ احمد یہ سندھ، چک نمبر ۸۸، چک نمبر ۱۸، قلعہ صوبہ سنگھ ، ، لاٹھیا نوالہ ، جیکب آباد سندھ ، تاندلیانوالہ، لا بینی سندھ، ماڈل ٹاؤن، دنیا پور ، پشاور، عارف

Page 291

283 والہ،کوٹ منڈیانوالہ، گوجرہ، چک نمبر ج / ۳۷، تخت ہزارہ، چک نمبر ۴۹۴، کیمبل پور، قادر آباد، گھوگھیاٹ ، ڈیرہ اسمعیل خان، گوکھو وال ، اور حمہ، کالا کمپ ، سرگودھا، نواب شاہ سندھ ،مگھیانہ، حافظ آباد، جنڈا نوالہ، بدوملہی ، گوجرانوالہ، گوجر خان، چک ۵۵/۱۱، وزیر آباد، لالیاں، ایبٹ آباد، سمبڑیال، محمود آباد اسٹیٹ، بھیرہ، چک نمبر ۱۲۷، چک نمبر ۴۶ شمالی، چک نمبر ۵۶۵، خانیوال، چک نمبر ۳۰/۱۱، چونڈہ ، مالیر کینٹ ، سانگھڑ سندھ، کلر کہار، چک-۱۶/۱۱ کارکنات جلسہ سالانہ کا ایک اہم اجلاس:.رض جلسہ سالانہ کے بعد کارکنات جلسہ سالانہ کا شکریہ ادا کرنے اور آئندہ سال کے انتظامات بہتر بنانے کے متعلق ایک اجلاس منعقد کیا گیا اس میں حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ نے جو ہدایات کارکنات کو دیں وہ آپ کے قلم سے لکھی ہوئی درج ذیل کی جاتی ہیں.یہ آخری جلسہ تھا جس کا انتظام آپ نے کیا.۱۹۵۲ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ بیمار تھیں اس لئے انتظام نہ کر سکی تھیں.مندرجہ ذیل مختصر نوٹ آپ کے اس بے لوث جذ بہ خدمت پر گہری روشنی ڈالتا ہے جو ان کے دل میں موجزن تھا:.بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے اس جلسہ کو خیر و خوبی سے اختتام تک پہنچایا اور ہمیں مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا کی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک لمبے عرصہ سے ہم جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں.مجھے وہ دن بھی یاد ہے جبکہ قادیان میں حضرت اُم المومنین کے مکان کے نچلے حصہ میں صرف چند ایک مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھا کر اور قطاریں بنوا کر کھانا کھلوایا کرتے تھے.لیکن اب وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہزارہا کی گفتی میں ہمارے سامنے موجود ہیں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنے اس کام کے لئے ہمیں نوازاور نہ دنیا میں کروڑوں کروڑ مخلوق بھری پڑی ہے ہم نہ ہوتے تو کوئی اور لوگ اس کام کو سرانجام دینے والے ہوتے اس شکریہ میں کہ اپنے اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منتخب فرمایا ہمارے لئے ایرجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 292

284 بے حد ضروری ہے کہ کام کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کریں اور آئندہ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن اگر ہماری نیتوں میں اخلاص نہ ہوگا اور ہم اس کام کو آئندہ بہتر بنانے کی کوشش نہ کریں گے تو ہم ثواب سے محروم ہو جائیں گے گوا کثر حصہ مہمانوں کا رخصت ہو چکا ہے لیکن جتنے بھی یہاں موجود ہیں ہم اپنے سارے عملہ سمیت ان سے معافی چاہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ناتجربہ کار اور چھوٹی عمر کی بچیوں سے مہمانوں کی خدمت میں کو تا ہی ہوگئی ہو میں بھی اپنے ساتھ کام کرنے والیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں اور معافی کی بھی خواستگار ہوں کام کے دوران میں سختی اور نرمی سبھی سے کام لینا پڑتا ہے.امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرما ئیں گی آپ کی ایک خادمہ جوگزشتہ سالوں میں آپ کی خدمت کرتی رہی ہے اور آپ کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے وہ آج کل ڈھاکہ (بنگال) میں ہے وہ میری بیٹی بشری بیگم ہیں کل ان کا خط آیا ہے کہ میری طرف سے ہر ایک مہمان اور ہر کارکن کو سلام کہہ دیں اور دعا کی درخواست کر دیں.( آؤ ) اب ہم سب مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ ہمیں اس سے بڑھ کر اور زیادہ سے زیادہ اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی تو فیق عطا فرمائے.نیز آپس میں پیارا اور محبت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے.آمین سال رواں میں وفات پانے والی لجنہ اماءاللہ کی کارکنات محتر مہ اہلیہ صاحب مرحومہ مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی مرحوم :.محترم مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی مرحوم کی اہلیہ محترمه خورشید بیگم صاحبه ۹ ۱۷اپریل ۱۹۵۱ء کو وفات پاگئیں انا للہ وانا الیہ راجعون.مرحومہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی خوش دامن اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظہا العالی کی نانی تھیں.بہت دیندار، خدا ترس، سادہ اور نیک خاتون تھیں.قادیان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ میں عورتوں کو بٹھانے اور خاموش رکھنے کی ذمہ داری اکثر ان کے سپرد ہوتی تھی.کچھ عرصہ چندہ جمع کرنے کا کام بھی کیا.مرحومہ کے ایک فرزند محترم مرزا منور احمد صاحب مبلغ اسلام نے امریکہ میں وفات پائی اور دوسرے فرزند محترم مرز احمد شفیع صاحب ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران قادیان میں شہید ہو گئے تھے.الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۱ ص ۲ کالم نمبر ۲

Page 293

285 محتر مہ عابدہ خانم صاحبہ مرحومہ:.محترمہ عابدہ خانم صاحبہ مرحومہ خان بہا در چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم کی صاحبزادی تھیں.باوجود بنگالی ہونے کے اردو اور عربی زبانیں شوق سے سیکھیں ۱۹۳۸ء میں منعقدہ دینیات کلاسز قادیان میں داخل ہوئیں اور قرآن مجید، احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خاصا عبور حاصل کیا.دین کی خدمت اور تبلیغ کا خاص شوق تھا.قادیان، چنیوٹ، ربوہ اور پھر ماڈل ٹاؤن لاہور میں قرآن مجید کا درس دیتی رہیں.لجنہ کے جلسوں میں تقاریر کرتیں اور بڑے شوق سے لجنہ کے کاموں میں حصہ لیتی رہیں.چنیوٹ میں کئی عورتوں نے مرحومہ کی تبلیغ سے احمدیت قبول کرنے کا شرف حاصل کیا.۱۹۴۸ء میں جب پہلی تعلیم القرآن کلاس کا اجرا ءلاہور میں ہوا تو محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کے ہمراہ اس کلاس کے پروگرام میں حصہ لیا.بڑی خوش گفتار، خوش اخلاق ، نیک ،خدا ترس اور ذکر الہی میں خاص شغف رکھنے والی تھیں.يوم التبليغ : : مندرجہ ذیل لجنات نے جلسے منعقد کئے اور لٹریچر تقسیم کیا.انفرادی طور پر بھی پیغام حق پہنچایا گیا.اوکاڑہ اے ملتان چھاؤنی ہلیر کینٹ (کراچی) ہے لاہور ۳ راولپنڈی کے سیالکوٹ ۵ یوم تحریک جدید :- مورخہ ۲ستمبر ۱۹۵۱ء کو یومتریک جدید منایا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے ا الفضل ۱٫۵ اپریل ۱۹۵۱ء ص ۲ سے ماہنامہ مصباح جون ۱۹۵۱ء ص ۳۵ ۳ الفضل ۲۷ را پریل ۱۹۵۱ء ص ۲ الفضل ۱۴ / اپریل ۱۹۵۱ ء ص ۵ ۵ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۱ء ص ۲

Page 294

286 پیغام میں یہ نصیحت فرمائی کہ احمدی افراد کو سادہ زندگی گزارنی چاہیے اور رو پیں بچانے کی عادت ڈانی چاہیئے اور تمام مردوں اور عورتوں کو تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینا چاہیئے حلا مصباح کی قیمت میں اضافہ:.ماہ اپریل ۱۹۵۱ء سے کاغذ کی گرانی کی وجہ سے ماہنامہ مصباح کا سالانہ چندہ پانچ روپے کی بجائے چھ روپے سالا نہ کر دیا گیا اور فی پر چہ آٹھ آنے کر دیا گیا.ہے لائبریریوں کے لئے لٹریچر :.مرکز سلسلہ کی طرف سے تحریک کی گئی کہ کم از کم ایک ہزار لائبریریوں میں دینی لٹریچر پہنچانے میں جماعتیں حصہ لیں.لجنات نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا اور لجنہ اماء اللہ لا ہور اور راولپنڈی نے دیباچہ انگریزی تفسیر القرآن کی ۲۳ جلدمیں دیں.سے احمد یہ گرلز سکول سیالکوٹ کا جلسہ:.احمد یہ گرلز سکول سیالکوٹ کا ستائیسواں سالانہ جلسہ سکول کے صحن میں زیر صدارت بیگم عنایت اللہ صاحب منعقد ہوا.حاضری آٹھ سو کے قریب تھی.متعدد غیر از جماعت مستورات اس میں شریک ہوئیں ہے.ریزولیشن:.سمندری ضلع لائل پور میں جماعت احمدیہ کی مسجد کو مخالفین نے آگ لگا کر جلا ڈالا اور نمازیوں پر وحشیانہ حملہ کیا.اس پر لجنہ اماءاللہ سیا لکوٹ نے قرار داد پاس کی اور حکام سے درخواست کی کہ وہ ان مفسد پردازوں کے متعلق کارروائی کریں جو اپنے عمل سے اسلام کے احکام کی ہتک کر رہے ہیں.۵ تعزیتی تاریں:.۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کو راولپنڈی کے ایک جلسہ ا الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۷ء ص ۲ ۲ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۵۱ء ص ۷ ۳ الفضل ۵ مئی ۱۹۵۱ ص ۱۸ار اپریل ۱۹۵۱ء ص ۵ م الفضل ۲۶ مئی ۱۹۵۱ ء ص ۶ ۱۵ الفضل ۱۷ جون ۱۹۵۱ء ص ۵

Page 295

287 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا.اس موقع پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بیگم لیاقت علی خان صاحب کے نام ہمدردی اور تعزیت کا تار ارسال کیا.اس سے چند روز قبل مولوی محمد علی صاحب امیر احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لا ہور وفات پاگئے تھے ان کی وفات پر بھی محترمہ جنرل سیکرٹری صاحبہ بلجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بیگم مولوی محمد علی صاحب مرحوم کے نام تعزیتی تار ارسال کیا لے ابتدائی طبی امداد کی تربیت کے لئے ممبرات لجنہ اماءاللہ کی ایک کلاس :- نومبر ۱۹۵۱ء میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے ممبرات لجنہ اماء اللہ کو ابتدائی طبی امداد کی تعلیم دی اور نصاب ختم ہونے پر امتحان لیا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی اول اور حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہ العالی دوم آئیں اور محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ محترمہ امتہ القدوس صاحبہ محترمہ نعیمہ صاحبہ محترمہ نسیمه صاحبه، محترمہ استانی امته الرشید صاحبه، محترمہ سعیدہ احسن صاحبہ محترمہ سعیدہ صاحبہ محترمہ مبارکہ صاحبہ محترمہ منظور النساء صاحبه محترمه بلقیس صاحبہ محترمہ امۃ المجید صاحبہ محترم امۃ الرشید صاحبہ محترمہ عطیہ صاحبہ محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ کامیاب ہوئیں.اس کے بعد دو کلاسیں لگائی گئیں.ایک کلاس حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے لی اور دوسری لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ نے لی.اسی طرح خاصی تعداد میں ربوہ میں مقیم خواتین اور بچیوں نے ابتدائی طبی امداد سے واقفیت حاصل کی ہے کتاب کلاس حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی نے ارشادفرمایا کہ عورتوں کو کتابت سیکھنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت وہ گھروں میں بیٹھ کر باعزت طریق پر اپنی ضروریات پوری کر سکیں.چنانچہ حضرت سیدہ اُمّ داؤ د صاحبہ نے روزانہ ایک گھنٹہ کلاس لگانی شروع کی.ے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے ایضاً

Page 296

288 کوارٹرز دفتر لجنہ اماءاللہ اگست ۱۹۵۱ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے تین کوارٹرز تیار ہو گئے اور محترمہ سراج بی صاحبہ کلرک دفتر لجنہ اماء اللہ محترمہ امہ الحکیم صاحبہ کلرک مصباح کے علاوہ محترمہ ہاجرہ بی بی صاحبہ مددگار کارکن کو رہائش کے لئے دیدیئے گئے.اے سال رواں میں ربوہ کی مستورات کے لئے اے.آر.پی کی تربیت کا انتظام کیا گیا.اس میں مندرجہ ذیل مستورات نے حصہ لیا:.ا.محمدہ ناہید صاحبہ ۲.سعیدہ بیگم صاحبہ ۳.بلقیس بیگم صاحبہ ۴.امتہ القیوم صاحبہ ۵ - امة الحفیظ صاحبہ ۶ - امۃ الرشید صاحبہ ۷.امۃ الرزاق صاحبہ - ساجده منیر صاحبہ -۹ - حدیقہ بیگم صاحبہ ۱۰.رحمت بی بی صاحبہ ۱۱.امۃ الحفیظ صاحبہ ۱۲.امتہ المنان صاحبہ ۱۳ عطیہ بیگم صاحبہ -۱۴- بشیرہ بیگم صاحبہ ۱۵- امة الحفیظ صاحبه ۱۶.سعودہ بیگم صاحبہ ۱۷.حلیمہ کشور صاحبہ ۱۸.مریم بیگم صاحبہ ۱۹.ساره بیگم صاحبہ لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 297

289 ۱۹۵۲ء حمدا حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات کا سانحہ جلد آپ کی صفات اور مختصر حالات زندگی :.لجنہ اماءاللہ کو اپنی زندگی کے تیسویں سال میں ایک عظیم صدمہ برداشت کرنا پڑا یعنی لجنہ اماءاللہ کی محسن اور مربی ، احمدی خواتین میں سے بزرگ ترین مقدس وجود یعنی سیدۃ النساء حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجیت کے لئے چنانچه ۲۰/ اپریل ۱۹۵۲ء کو اس دار فانی سے رحلت فرما گئیں اور اس طرح احمدی خواتین اور مبرات لجنہ اماءاللہ ایک شفیق و محبت کرنے والی ماں سے محروم ہو گئیں جو ہر کٹھن مرحلہ پر ہمیشہ ان کے لئے مرحم ثابت ہوئی تھیں.انا للہ وانا الیہ راجعون لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے عہدیداران :.صدر رض حضرت سیدہ ام ناصر صاحبه نائب صدر حضرت سیدہ ام دا و دصاحبه جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نائبه جنرل سیکرٹری محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ( بنت حضرت خلیفہ مسیح الثانی) سیکرٹری تبلیغ محترمه سیده نصیره بیگم صاحبه سیکرٹری مال محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری خدمت خلق محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت واصلاح محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبه

Page 298

290 سیکرٹری نمائش محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه سیکرٹری بیرون محتر مہ امۃ الرحیم صاحبہ اہلیہ صوفی مطیع الرحمان صاحب مرحوم سیکرٹری ناصرات محترمہ صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو چودہ سو سال قبل مسیح موعود کی بشارت دی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولدلَۀ کہ وہ آنے والا سی شادی بھی کرے گا اور اس کی اولا د بھی ہوگی.شادی لوگ کرتے ہی ہیں اور اولاد بھی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کسی انسان کے متعلق شادی کی خبر چودہ سوسال قبل دینا اور اس کی اولاد کی بشارت دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ شادی عام شادی نہ تھی بلکہ ایک نئے زمین و آسمان کی بنیاد اس شادی کے ساتھ رکھی جانے والی تھی.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:.”جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ آیت يَتَزَوَّجُ وَيُولدله یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا.اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے.اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے.گویا اس جگہ رسول اللہ ﷺ ان سیہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کا وجود آیت اللہ میں سے تھا.اس پاک وجود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا.آپ کے دعوئی سے بھی قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم سے شادی کی بشارت دی اور فرمایا:.اشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِ يُجَتِي ! ضمیمہ رسالہ انجام آتھم ص ۳۳۷ ۲ براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیہ نمبر ص ۵۵۸

Page 299

291 اس بشارت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہ تعالیٰ چارلڑ کے پیدا ہوئے.اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی.‘1 اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کی بشارت دینے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بھی خوشخبری دی کہ اس کا سب سامان خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے.ہر چہ باید نو عروسے راہماں ساماں کنم وانچه مطلوب شما باشند عطائے آں کنم اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا.سو قبل از ظهور یہ تمام الہام لالہ شرمیت کو سنا دیا گیا پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب...بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اسی اپنے وعدہ کو پورا کئے چلا جاتا ہے.“ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المومنین کے وجود کی بشارت کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ایک شریف خاندان میں آپ کا رشتہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.! نزول المسیح ص ۱۴۶ ص ۱۴۷ ۲ شحنه حق ص ۵۸۵۷

Page 300

292 قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصّهُرَ وَالنَّسب.ترجمہ :.وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہاری دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرتب ہے.پھر آپ فرماتے ہیں :.چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولا د پیدا کرے جوان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا وے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.چونکہ حضرت ام المومنین کی بشارت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی الہاماً فرمایا تھا کہ ایک شریف خاندان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رشتہ ہو گا اس لئے ضروری ہے کہ آپ کے خاندانی حالات کا بھی تذکرہ کیا جائے.آپ کا نام سیدہ نصرت جہاں بیگم تھا.آپ دہلی میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلی کے مشہور سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے.ننھیال کی طرف سے آپ کے جد امجد حضرت خواجہ میر ناصر صاحب رحمہ اللہ اور حضرت خواجہ میر در دصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام قابل ذکر ہیں.حضرت خواجہ میر ناصر صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بارھویں صدی میں اپنے زمانہ کے بہت بڑے ولی مانے گئے.آپ کے ذریعہ سے طریقہ محمدیہ کی بنیاد رکھی گئی اور آپ پر پیشگوئی کی گئی کہ یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ۲۱ تریاق القلوب ص ۱۴۶ - ۱۴۹

Page 301

293 ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا لے چنانچہ حضرت سیدہ نصرت جہاں کے ذریعہ یہ نعمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچی جن کی خاطر اس امانت کی حفاظت آپ کے بزرگ کرتے چلے آتے تھے.آپ کا اصل نام نصرت جہاں بیگم تھا.آپ کے والد بزرگوار نے آپ کا نام عائشہ بھی رکھا.خدا تعالیٰ کی وحی میں آپ کا نام خدیجہ رکھا گیا.آپ کے والد محترم حضرت میر ناصر نواب صاحب محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بسلسلہ ملازمت پنجاب میں بھی رہے.ضلع گورداسپور میں کئی مقامات پر متعین رہے.کئی بار قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیکی اور تقویٰ کا آپ پر خاص اثر تھا.اسی کے زیر اثر آپ نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ:.دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی شادی کی تحریکیں ہو رہی تھیں اور خدا تعالیٰ خود عرش سے فرمارہا تھا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسبَ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنی طرف سے رشتہ کی تحریک کر دی.آپس میں خط و کتابت شروع ہوئی اور رشتہ منظور کر لیا گیا.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے لئے نیک اور متقی خاوند کی خواہش کی حضرت میر ناصر نواب صاحب کو کتنی تڑپ تھی اس کا ثبوت مندرجہ ذیل واقعہ سے ملتا ہے.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ایک دفعہ حضرت میر صاحب سے سوال کیا حضرت! یہ مقام جو آپ کو حاصل ہوا اس میں کیا راز ہے.وہ کونسی بات تھی جو آپ کو اس جگہ پر لے آئی ؟“ حضرت میر صاحب کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا :.”میرے ہاں جب یہ بلند اقبال لڑکی پیدا ہوئی اس وقت میرا دل مرغ مذبوح کی طرح تڑپا اور میں پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الہی پر گر گیا.میں نے اس وقت بہت درد اور سوز سے دعائیں کیں لے میخانه در رص ۱۲۶ مولفه خواجه سید ناصر نذیرصاحبه فراق دہلوی مطبوعہ حیدر برنی پریس و یکی طبع اول مارچ ۱۹۱۰ء)

Page 302

294 کہ اے خدا! تو ہی اس کے لئے سب کام بنائیو.معلوم نہیں اس وقت کیسا قبولیت کا وقت تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے صدقہ میں مجھے یہاں لے آیا.۷ ارنومبر ۱۸۸۴ء کو خواجہ میر در درحمہ اللہ علیہ کی مسجد واقع دہلی میں نماز عصر و مغرب کے درمیان گیارہ سو روپیہ حق مہر پر اس مبارک نکاح کا اعلان شمس العلماء مولوی سید نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دو خدام پر مشتمل مختصر برات لے کر دہلی تشریف لے گئے تھے.نکاح کے بعد رخصتانہ کی نہایت سادہ تقریب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہ لے گئے تھے صرف ڈھائی سو روپیہ نقد تھا اس پر رشتہ داروں نے بہت طعن کئے کہ اچھا نکاح کیا ہے کہ نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا.اگلے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کو ساتھ لے کر دہلی سے قادیان روانہ ہو گئے.حضرت ام المومنین دتی سے رخصت ہو کر قادیان آئیں.سسرال میں عموما نئی دلہنوں کی بہت آؤ بھگت ہوتی ہے لیکن حضرت ام المومنین ایسے گھر میں آئیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب رشتہ دار آپ کے مخالف تھے اس لئے حضرت ام المومنین کو ابتداء میں تنہائی کی تکلیف اٹھانی پڑی.آپ کے ساتھ دلی سے ایک خادمہ فاطمہ بیگم آئی تھیں وہ پنجابی بالکل نہیں سمجھتی تھیں اور نہ ان کی زبان کوئی سمجھتا تھا.حضرت ام المومنین کی شادی کے ابتدائی دنوں کے حالات حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کے الفاظ میں پڑھئے.آپ تحریر فرماتی ہیں:.اماں جان نے ایک دفعہ ذکر فرمایا جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں سب کنبہ سخت مخالف تھا (اس وقت تک شادی کی ہی وجہ سے غالباً) دو چار خادم مرد تھے اور پیچھے سے ان بے چاروں کی بھی گھر والوں نے روٹی بند کر رکھی تھی گھر میں عورت کوئی نہ تھی صرف میرے ساتھ فاطمہ بیگم تھیں وہ کسی کی زبان نہ بجھتی تھیں نہ ان کی کوئی سمجھے.شام کا وقت بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے تنہائی کا عالم، بیگانہ وطن میرے دل کی عجیب کیفیت تھی اور روتے روتے میرا برا حال ہوگیا تھا.نہ کوئی تسلی دینے والا ، نہ منہ دھلانے والا، نہ کھانے پلانے والا، کنبہ نہ ناطہ، اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کر اُتری.ا سیرت ام المومنین حصہ اول مصنفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ص ۲۳۲

Page 303

295 کمرے میں ایک کھری چار پائی پڑی تھی جس کی پائنتی پر ایک کپڑا پڑا تھا اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہوگئی.یہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہاں کا بستر عروسی تھا اور سسرال کے گھر میں پہلی رات تھی.مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اے کھری چار پائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن ! دیکھ تو سہی دو جہاں کی نعمتیں ہوں گی اور تو ہوگی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے خادموں سے لگے ہوں گے.انشاءاللہ اگلی صبح حضرت مسیح موعود نے ایک خادمہ کو بلوا دیا اور گھر میں آرام کا سب بندو بست کر دیا.یوں وہ شادی عمل میں آئی جس کے ذریعہ ایک مبارک نسل کا آغاز ہوا اور اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت پوری ہوئی کہ میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے بطن سے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں عطا کیں لیکن خدائی نوشتوں کے مطابق دولر کے تین لڑکیاں بچپن میں ہی وفات پاگئے اور پانچ نے لمبی عمر پائی.ان پانچوں جن کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ ے مری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت ނ ہوا ہے پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہیں یہی ہیں پنج تن جن پر بناء تیرا فضل ہے ہے اے میرے ہادی فسبحــــان الــــدى خـــــ الاعــــــادي اخز حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ( الصلح موعود ).( قمرالانبیاء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مرزا شریف احمد.حضرت نواب مبار که بیگم صاحبه دام ظلہ العالی.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبه دام مدظلہ العالی ے سیرت اُم المومنین جلد نمبر ا ص ۲۹۸ تا ص ۳۰۰ اشتہار ۲۰.فروری ۱۸۸۶ء

Page 304

296 حضرت ام المومنین کا بلند مقام :.اللہ تعالیٰ کی نظر میں حضرت ام المومنین کا کتنا بلند مقام تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام سے ظاہر ہوتا ہے جو بار بار آپ کو ہوا یعنی إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ ( تذكره ص ۷۳۱) اس الہام کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا:.میں نے خود حضرت صاحب سے سنا ہے فرماتے تھے کہ إِنِّي مَعَ الرَّسُولَ أَقُومُ اور إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ یہ دونوں الہامات ایک ایک رات میں ہزار ہا دفعہ ہوئے ہیں اور فرمایا اکثر ہوتا ہے کہ تکیہ پر سر رکھا اور ان الہامات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صبح فجر کو نماز کے لئے اٹھے تو سلسلہ جاری تھا.اے آپ کے اخلاق:.جس ہستی کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بطور جوڑا پیدا کیا اس میں اخلاق بھی اعلیٰ درجہ کے پیدا کئے.دوستوں سے تو ہر شخص ہی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن بہت کم خواتین ہوں گی جو اپنی سوت سے محبت سے پیش آئیں.آپ سے شادی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پہلی بیوی بھی تھیں جن سے ایک عرصہ سے عملی رنگ میں آپ علیحدگی اختیار کر چکے تھے.حضرت اُم المومنین ان سے کسی قسم کا رنج و بغض نہ رکھتی تھیں بلکہ ان سے ہمیشہ محبت اور شفقت کا سلوک رکھتی تھیں.حضرت ام المومنین سے روایت ہے کہ:.ایک دفعہ مرزا سلطان احمد (صاحب) کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں ان کو دیکھنے کے لئے گئی.واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ بھیجے کی ماں بیمار ہے اور یہ یہ تکلیف ہے.آپ خاموش رہے میں نے دوسری دفعہ کہا تو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام درمیان میں نہ آئے.“ الفضل ۳۱.اکتوبر ۱۹۲۱ء ص ۵

Page 305

297 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ:.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارہ کنایتاً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام نہ آئے اپنی طرف سے کچھ مددکروں سو میں کر دیا کرتی تھی.‘1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آپ کا زبر دست ایمان آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اور آپ کے دعوئی پر کامل ایمان تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی فرمائی تو حضرت ام المومنین نے بار ہا اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کی کہ یہ پیشگوئی پوری ہو.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس واقعہ کو اپنی کتاب سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ سوم میں درج کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.آپ نے بار ہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہو اور جھوٹ کا زوال وابطال ہو.“ بچوں کی وفات پر انتہائی صبر اور اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل :.۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو حضرت مسیح موعود نے وہ عظیم الشان پیشگوئی شائع فرمائی جو جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے اس اشتہار کے تیسرے مہینے آپ کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو مخالفین نے شور مچادیا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور ایک طوفان مخالفت کا آپ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور بقول حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمنوں میں ہنسی اور استہزاء کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا.“ صاحبزادی عصمت جن کے متعلق حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا كرم الجنّة دوحة الجنّة ٣ یعنی انگور کی جنتی بیل.جنت کا بڑا درخت سیرت المہدی حصہ اول ص ۷ ۲ روایت نمبر ۴۰ ۲ سیرت مسیح موعود حصہ سوم ص ۳۷۴ مؤلفہ حضرت عرفانی کبیر صاحب تذکره طبع سوم ۱۷۳

Page 306

298 پانچ سال زندہ رہ کر جولائی ۱۸۹ء میں وفات پاگئیں.ان کی وفات پر دوبارہ شور و غوغا کا ایک سیلاب آیا.حضرت ام المومنین نے اس بچی کی پیدائش پر سارے اعتراضات کو سنا لیکن آپ کے ایمان میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور جب اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے پاس واپس بلا لیا تب بھی آپ نے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا اور نہ جزع فزع کیا.حضرت ام المومنین کے بطن سے دوسرا بچہ بشیر اول پیدا ہوا اس کی پیدائش ۷ اگست ۱۸۸۷ء کو ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بچہ کو موعود لڑ کا خیال کیا.بشیر اول ۲۳ دن بیمار رہ کر ۴ / نومبر ۱۸۸۸ء کو وفات پا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:.قدرت خدا کی کہ ایک سال بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہو گیا بس پھر کیا تھا ملک میں طوفان عظیم بر پا ہوا اور سخت زلزلہ آیا حتی کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا خیال تھا کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا.اس موقع پر بھی حضرت ام المومنین نے اللہ تعالیٰ کی قضاء پر کامل رضا کا نمونہ دکھایا جب آپ نے دیکھا کہ بچہ کے اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں پھر اپنی نماز کیوں قضا کروں چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر کے دریافت فرمایا کہ بچہ کا کیا حال ہے.جب آپ کو بتلایا گیا کہ بچہ فوت ہوگیا تو آپ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہوگئیں موعود بیٹے کی پیدائش کے متعلق آپ کے دل میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا.صاحبزادہ مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین کے آٹھویں بچے تھے.آپ ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۷ء میں وفات پاگئے.آپ کی وفات سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا:.ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان قبول کر“ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو یہ عظیم الشان مقام تھا کہ مبارک احمد فوت ہوتے ہیں لوگ رور ہے ہیں آپ فرماتے ہیں:.میں اس سے بڑا خوش ہوں کہ خدا کی بات پوری ہوئی“ سیرت المہدی حصہ اول صف ۸۸ تذکرہ طبع سوم ص ۷۰۰

Page 307

299 مگر حضرت ام المومنین ایک ماں کا دل رکھتیں تھیں.ایک عورت تھیں لیکن اس زمانہ کی عظیم ترین عورت.اللہ تعالیٰ پر جو کامل ایمان آپ کو حاصل تھا اس کے نتیجہ میں آپ نے فرمایا ” میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں“ جب آپ نے خدائی مگر بھاری امتحان کو بشاشت قلب سے قبول کر لیا تو آسمان پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق الہی ارشاد ہوا.خدا خوش ہو گیا." ! حضرت ام المومنین کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الہام سنایا تو آپ نے فرمایا:.مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور کامل تو کل کا جو نمونہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے موقع پر دکھایا اس کی بھی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں مل سکتی.حضرت مرزا بشیر احمد فرماتے ہیں:.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی (اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے ) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نور الله مرقدها ورفعها في اعلى عليين آپ کی چار پائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا:.خدایا ! یہ تو ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا.اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا.اللہ! اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گو یا ظاہری لحاظ سے ان کی ساری حشمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا تو کل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.“ سے پھر وفات کے بعد حضرت ام المومنین نے اس وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں ان نہ بھولنے والے الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ :.بچو ! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے ا تذکرہ ، طبع دوم سوم ص ۷۳۱ سیرت حضرت ام المومنین حصہ اول ص ۲۸۸ سے حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تقریر ص ۱۰۷

Page 308

300 آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.روایات حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ) حضرت ام المومنین کے بلند مقام اور آپ کی عظمت کے متعلق خود آپ کے لخت جگر حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ پڑھئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خطبہ جمعہ میں اپنے خاندان کے افراد کو زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا.والدہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت ام المومنین کی عظمت تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دہری عزت میرے قلب میں موجود ہے.اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا.آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کر دو بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرض کو ادا کر دیا.میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لئے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ تھا مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا.حضرت اُم المومنین اور تربیت اولاد :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اولاد حضرت ام المومنین کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی سب ہی کے متعلق الہی بشارات تھیں لیکن ان کی تربیت میں بھی حضرت ام المومنین نے ایک اہم کردار ادا کیا.اس سلسلہ میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی کی ایک تحریر جو حضرت اُم المومنین کی تربیت کے زریں اصولوں پر روشنی ڈالتی ہے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتی ہیں:.اصولی تربیت میں میں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے حضرت والدہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی چار تقریریں سیرت طیبہ ص ۱۰۷ الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء وسیرت ام المومنین حصہ دوم ص ۲۹۶، ۲۹۷

Page 309

301 صاحبہ سے بہتر کسی کو نہ پایا.آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی ( بجر معمولی اردو خواندگی کے ) مگر جو آپ کے اصول اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کے فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟ (۱) بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے.(۲) جھوٹ سے نفرت اور غیرت وغنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی کرے تو کوئی ڈر نہیں جس وقت بھی روکا جائے گا باز آجائے گا اور اصلاح ہو جائے گی.فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے.یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں.حضرت ام المومنین ہمیشہ فرماتی تھیں ” میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے“ اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا.مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت وقد ر کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی.بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ:.پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب اولا ددین کے لئے وقف تھی.عموماً ایسا ہوتا ہے کہ باپ اگر اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف کرتے ہیں تو مائیں روک بن جاتی ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود (خلیفہ اسیح الثانی) جب سیاحت مصر اور حج بیت اللہ سیرت حضرت ام المومنین مصنفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی حصہ اولس ۳۹۳ تا۳۹۵

Page 310

302 شریف کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں سے آپ نے حضرت ام المومنین کی خدمت میں بطور مشورہ ایک خط لکھا.حضرت ام المومنین نے اس خط کا جو جواب دیا وہ سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے اور احمد بیت ، اسلام اور سلسلہ کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کر دینے کے لئے آپ کے دل میں جو جذبات تھے ان پر گہری روشنی ڈالتا ہے.آپ نے تحریر فرمایا :.السلام علیکم ورحمۃ اللہ خط تمہارا پہنچا.سب حال معلوم ہوا.مولوی صاحب ( مراد حضرت خلیفہ اوّل) کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ.اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں اب میرا کوئی دعوی نہیں.وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا اور تم کو کوئی خطرہ نہیں.خدا وند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کرے گا.میں نے خدا کے سپرد کر دیا تم کو خدا کے سپرد کر دیا خدا کے سپر د کر دیا اور سب یہاں خیریت ہے.والد محمود احمد آپ کی جماعت سے محبت اور شفقت:.۴ اکتوبر ۱۹۱۲ ءا حضرت ام المومنین کو جماعت سے جو محبت اور شفقت تھی اس کے واقعات تو اتنے زیادہ ہیں کہ اس مختصر سے نوٹ میں ان کا ذکر کیا ہی نہیں جاسکتا.جماعت کے مرد، عورتوں اور بچوں پر آپ نے ان گنت احسانات کئے.کئی غریبوں کی مستقل طور پر امداد کی کئی شادیاں کیں، غریبوں کے لئے اپنے ہاتھ سے کپڑے سیئے، رضائیاں سی کر تقسیم کیں، کئی یتیم بچوں کی پرورش کی ،شادیاں کیں، ان کو گھر بنوا کر دیئے ، اپنے ہاتھ سے ان کی خدمت کی.ہر ایک کی بات کو توجہ سے سننا، ان کے درد کے مداوی کرنا ، ان سے ہمدردی غم خواری اور دعائیں کرنا آپ کا خاص شعار تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کسی عورت کے متعلق یہ منتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب وامیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق تسلی له الفضل ۲۰ / نومبر ۱۹۱۷ ص۱۰ و تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۴۲

Page 311

303 دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بڑھ کر محبت کرتی تھیں اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینا ر تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں.یتامی پر شفقت :.حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:.حضرت اماں جان نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهَا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا.میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو چلتے دیکھا اور وہ یتیموں کو نوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجبی اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں.اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے.بسا اوقات اپنے ہاتھ سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں.مثلاً یتیم بچوں کو نہلانا ، ان کے بالوں میں لکھی کرنا، کپڑے بدلوانا وغیرہ.مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جان الله رسول پاک ﷺ کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ آنَا وَكَافِلُ الْيَتِيم کھاتین یعنی قیامت کے دن میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکھٹے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں.“ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت:.جن بہنوں نے حضرت ام المومنین کو دیکھا ہے وہ سب جانتی ہیں کہ عورت کے اپنے گھر ے سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۱۰۵ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۱۰۱

Page 312

304 میں جو فرائض ہوتے ہیں ان میں آپ کو کمال حاصل تھا اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرنا مہمانوں کی خدمت ، گھر کے سب ضروری کام باوجود خدمت گاروں کے خودسرانجام دیتی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تقریر ”سیرت طیبہ میں فرماتے ہیں.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بارہا کھانا پکاتے ، چرخہ کاتے ، نواڑ بنتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے.بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتیں تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلو کی بیل لگانے کا بھی شوق تھا اور عموما انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں.سلسلہ کے لئے حضرت ام المومنین کی مالی قربانیاں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں بھی حضرت ام المومنین کا نام سر فہرست ہے.سلسلہ کے لئے کوئی ایسی تحریک نہیں ہوئی جس میں آپ نے فراخ دلی سے حصہ نہ لیا ہو.مساجد تبلیغی مشن لنگرخانہ، لجنہ اماءاللہ کی تحریکات ،لندن مسجد ، بران مسجد، اخبار الفضل کا اجراء، منارة امسیح تحریک جدید غرض ہر تحریک کی ابتداء آپ کے چندہ سے ہی ہوئی.یہاں صرف چند قربانیوں کا ذکر کرنا کافی ہوگا.ذیل میں حضرت عرفانی صاحب کا ایک مضمون جو منارة امسیح اور حضرت ام المومنین کے عنوان سے الحکم میں آپ نے تحریر فرمایا درج کیا جاتا ہے یہ مضمون اس جذبہ قربانی کی ایک روشن دلیل ہے جو حضرت ام المومنین کے دل میں موجزن تھا.منارة اسبح اور حضرت ام المومنین : انہیں ایام میں آپ کے دل میں ڈالا گیا کہ منارہ مسیح تعمیر کیا جاوے اس کے لئے پہلے لے سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ص ۱۰۴

Page 313

305 مختلف جگہیں پیش ہوتی رہیں.حضرت مولانا حکیم الامت خلیفتہ امسیح الاول نے اپنا مکان پیش کیا تھا کہ اس میں بنایا جاوے لیکن حضرت کی خواہش تھی کہ مسجد میں بنایا جاوے.مگر مسجد کا احاطہ اس وقت بہت ہی چھوٹا تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کے مزار کے بالکل قریب اس احاطہ کی دیوار تھی.باقی حصہ اگر چہ مسجد ہی کا تھا مگر غیر آباد پڑے رہنے کے باعث وہ عام لوگوں کی گزرگاہ بناہوا تھا.جب حضرت نے ارادہ فرمایا تو اس حصہ کو مسجد میں شامل کرنے کا ارادہ فرمایا.بعض ہندؤوں نے جو ہمیشہ سے مخالفت کے عادی تے مخالفت کی لیکن تائید الہی نے انہیں بخل اور شرمندہ کیا.وہ زمین مسجد کے ساتھ ملحق ہوگئی اور حضرت نے فرمایا کہ وہاں منارۃ اسیح تعمیر ہو.اسکے بعد اعلان کیا گیا.احباب نے اس میں حصہ لیا اور حضرت نے ایک سو خلص دوستوں کے گروہ کو خاص گروہ کے نام سے ممتاز کر کے اعلان کیا کہ وہ ایک ایک سور و پیہ دے دیں.یہ باتیں اپنے اپنے مقام پر سیرت میں آئیں گی یہاں صرف ایک واقعہ کی تشریح کے لئے اس قدر میں نے لکھا ہے.حضرت ام المومنین علیہ السلام نے ایک ہزار چندہ اس غرض کے لئے لکھوایا اور اپنے مکان کی فروخت سے اسے پورا کرنے کا عزم فرمایا.یہ واقعہ سلسلہ عالیہ کی مستورات کے لئے خدمت دین کے لئے ایک اُسوہ حسنہ ہے اور نیز یہ ثبوت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا.آپ کی ہر ایک تحریک اور کاموں کو حضرت اُم المومنین کس طرح پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرتیں اور اس کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں فرماتی ہیں.ان واقعات اور حالات کے متعلق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ۲۰ جون ۱۹۰۰ء کو حضرت میر حامد شاہ صاحب کو ایک خط میں جو اطلاع دیتے ہیں وہ ذیل میں درج ہے.یہ مختصر سا نوٹ کلید ہو گی ان واقعات کو جاننے کیلئے جو اس میں آئیں گے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا خط حضرت میر حامد شاہ صاحب کے نام منارہ کے لئے زمین بفضل خدا ان کو مل گئی.حضرت اقدس کی توجہ از بس اس طرف مبذول ہے.قوم کی طرف سے چندہ آ رہا ہے مگر از بس قلیل ہے.حضرت نے کل ایک تجویز کی کہ ایک سو آدمی جماعت میں سے ایسے منتخب کئے جاویں کہ ان کے نام حکماً اشتہار دیا جاوے کہ سوسور و پیدا ارسال کریں خواہ عورتوں کا زیور بیچ کر.در حقیقت یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور ایسی دینی

Page 314

306 ضرورتوں میں قوم کا روپیہ کام نہ آئے تو پھر کب؟ بیوی صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ چندہ منارہ میں لکھایا.دہلی میں ان کا ایک مکان ہے اس کی فروخت کا حکم دیا ہے وہ اس چندہ میں دیا جائے گا.ایک اور واقعہ آپ کی سلسلہ کے لئے محبت اور قربانی پر روشنی ڈالتا ہے کہ سلسلہ کے اخراجات کی خاطر آپ کو اپنے مال کی پرواہ نہ تھی نہ زیورات کی جو فطرتا ہر عورت کو عزیز ہوتے ہیں.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا.حضور علیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سالن نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ ( یعنی حضرت اُم المومنین سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچایا.“ الفضل کے اجراء کے لئے آپ کی قربانی:.الفضل کا اجراء ۱۹۱۳ء میں نہایت نا مساعد حالات میں ہوا تھا اس کے لئے آپ نے جو قربانی پیش کی وہ حضرت فضل عمر خلیفہ اسیح الثانی کے الفاظ میں پڑھئے:.دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المومنین کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی.مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کی ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہے اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے.دوسری ماؤں کے بچے بڑے ہو کر ان کی خدمت کرتے ہیں مگر ہمیں یا تو اس کی توفیق ہی نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکیں یا شکر گزار دل ہی نہیں ملے جوان کا شکریہ ادا کرسکیں.بہر حال جو کچھ بھی ہو اب تک احسان کرنا انہیں کے حصے میں ہے اور حسرت وندامت ہمارے حصے میں.وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم اب بھی کئی طرح ان پر بار ہیں.دنیا میں لوگ یا مال سے اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں یا پھر جسم سے خدمت کرتے ہیں.کم سے کم میرے پاس دونوں نہیں.مال نہیں کہ خدمت کرسکوں یا شاید احساس نہیں کہ بچی قربانی ل الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۳۴ء ص ۲۱۰ اصحاب احمد جلد ۴ ص ۱۰۸

Page 315

307 کرسکوں.جسم ہے مگر کیا جسم؟ صبح سے شام تک جس کو ایک نہ ختم ہونے والے کام میں مشغول رہنا پڑتا ہے.بلکہ راتوں کو بھی.پس بارمنت کے اُٹھانے کے سوا اور کوئی صورت نہیں.میں جب سوچتا ہوں حسرت و ندامت کے آنسو بہاتا ہوں کہ خدایا میرے جیسا نگما وجود بھی دنیا میں کوئی ہوگا جس نے خود تو کبھی کسی پر احسان نہیں کیا مگر چاروں طرف سے لوگوں کے احسانات کے نیچے دبا ہوا ہے.کیا میں صرف احسانوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ہی دنیا میں پیدا ہوا تھا.“ تحریک جدید میں آپ کا چندہ نہایت نمایاں ہوتا تھا.آپ کا انیس سالہ چند ہ۶۳۷۳ روپے تھا.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں محترم چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال تحریک جدید نے حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چندہ کے متعلق تحریر فرمایا:.آپ کا انیس سالہ حساب تحریر کرتے ہوئے ہی نوٹ دینا ضروری ہے کہ آپ نے کسی سال بھی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ ہر سال جو نہی سید نا حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز تحریک جدید کے چندہ کا اعلان فرماتے اس کے معا بعد آپ اپنا چندہ گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ نقد عطا فرماتیں.اس طرح آپ سترھویں سال تک اپنی جیب خاص سے ادا فرماتی رہیں.آپ کی وفات کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے سال ۱۹،۱۸ کا چندہ ادا فرمایا.جزاها الله خيراً واكرم مثواها في اعلى علين.آمين حضرت اُم المومنین کا ہر سال کا اضافہ جماعت احمدیہ کی ہر خاتون کے لئے اسوہ حسنہ ہے نہ صرف عورتوں کے لئے بلکہ ان مردوں کے لئے بھی نمونہ ہے جو کم سے کم شرح سے تحریک جدید کا چندہ دیتے ہیں اور پھر کم سے کم اضافے کرتے ہیں وہ اس شاندار نمونہ سے سبق حاصل کر کے اپنے معیار قربانی کو بلند اور اپنی حیثیت کے مطابق وعدے کریں او حتی المقدور جلدی ادا کرنے کی کوشش کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سریر آرائے خلافت ہوتے ہی سب سے پہلی مالی تحریک بارہ ہزار روپے کی فرمائی حضرت ام المومنین نے اس میں ایک سوروپے چندہ دیا.ابتداء میں چونکہ عورتوں میں باقاعدہ تنظیم نہیں تھی عورتیں جو چندہ جمع کرتی تھیں وہ حضرت ے تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۱۷ - ۱۸ و الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۴ء ص ۵۴ ۲ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ص ۵۲ ۳ الفضل ۱/۲۷ پریل ۹۱۴، ص۱

Page 316

308 ام المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس رکھواتی تھیں لا ۱۹۲۲ء کا سال مالی لحاظ سے ایک مشکل سال تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے انجمن کا مالی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے چندہ خاص کی تحریک فرمائی اس میں حضرت ام المومنین نے ایک سوروپیہ چندہ دیا ہے قیام لجنہ اماءاللہ کے بعد مستورات کے لئے سب سے پہلی جو مالی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی وہ مسجد بران کی تحریک تھی اس میں حضرت ام المومنین نے پانچ صد روپے ادا کئے.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت ام المومنین کے چندہ مسجد برلن کے متعلق فرمایا:.بڑی رقموں میں سے ایک رقم حضرت ام المومنین کی طرف سے پانسو روپے کی تھی ہماری جائیداد کا ایک حصہ فروخت ہوا تھا اس میں سے ان کا حصہ پانسو روپیہ بنتا تھا انہوں نے وہ سب کا سب اس چندہ میں دے دیا.میں جانتا ہوں کہ ان کے پاس یہی نقد مال تھا.۳۱ رمئی ۱۹۳۵ء کوکوئٹہ میں ایک لرزہ خیز زلزلہ آیا جس سے بے حد جانی اور مالی نقصان ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جماعت احمدیہ کو توجہ دلائی کہ وہ ہر رنگ میں مصیبت زدگان کی مدد کریں.لجنہ اماءاللہ کے ذریعہ چندہ جمع کرنے کا انتظام کیا گیا.حضرت ام المومنین نے اس مد میں دوسوروپے چندہ دیا.خلافت جو بلی فنڈ میں آپ کا چندہ پانچ صد روپے تھا.۱۹۳۶ء میں ناظر صاحب بیت المال قادیان نے ایک اپیل شائع کی کہ توسیع مہمان خانہ، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور جلسہ سالانہ کے لئے جماعت کے افراد اپنی اپنی ماہوار آمد کا تہائی حصہ دیں.یہ مبارک کام جو در پیش ہیں ان کا بیشتر فائدہ مستورات کو پہنچے گا اس لئے خواتین جماعت کو اس چندہ میں خصوصیت سے حصہ لینا چائیے.حضرت ام المومنین نے تعمیر مہمان خانہ اور توسیع مسجد کے لئے دوسو روپے عطا فرمائے.کے له الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۱۴ء ص ۱ کے تاریخی لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۵۸ ۱۳ حکم ۲۱ فروری ۱۹۲۳ء ص ۷ الحکم ۲۱ فروری ۱۹۲۳ء ص ۷ ۱۵ الفضل ۱۸ جون ۱۹۳۵ء ص ۲ الفضل ۱۵ جون ۱۹۳۸ ص ۶ کے الفضل ۵ استمبر ۱۹۳۶ء ص ۱۰

Page 317

309 ۱۹۴۴ء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نے تعلیم الاسلام کالج کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی.حضرت اُم المومنین نے پانچ سو روپیہ اس مد میں چندہ دیا لے نظارت ضیافت قادیان نے جلسہ سالانہ کے لئے دیگوں کی تحریک کی.حضرت اُم المومنین نے ایک دیگ اپنی طرف سے اور ایک دیگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جلسہ سالانہ کے لئے نظارت ضیافت کو دی ہے حضرت ام المومنین بحیثیت ممبر لجنہ اماءاللہ :- حضرت اُم المومنین الجنہ اماء اللہ کی مربی تھیں اور ابتدائی چودہ ممبرات میں سے سب سے پہلا نمبر آپ کا تھا.لجنہ اماءاللہ کے بنیادی مقاصد ابتدائی تحریک پر سب سے پہلے آپ کے دستخط ہیں.رساله احمدی خاتون سلسله الجدید جلد نمبر اص ۶ پر آپ کا نام یوں شائع ہوا.(۱) ( حضرت اُم المومنین ) ام محمود نصرت جہاں بیگم.سب سے پہلا اجلاس آپ ہی کی زیر صدارت ہوا.جس میں صدر اور سیکرٹری کا انتخاب عمل میں لایا گیا.وقتاً فوقتاً آپ لجنہ اماءاللہ کے اجلاسوں میں شرکت فرما تیں اور مناسب ہدایات سے نواز تیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب جب سات سال یورپ و امریکہ میں خدمت اسلام کے بعد قادیان پہنچے تو لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے آپ کی خدمت میں ایک تہنیت نامہ پیش کیا گیا اس کے آخر میں سب سے پہلے حضرت اُم المومنین کے یوں دستخط ثبت ہیں:.پریذیڈنٹ لجنہ اماءاللہ ( ام المومنین ) نصرت جہاں بیگم سے قادیان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مدرسۃ البنات جاری ہوا تو حضرت ام المومنین نے کمال مہربانی سے اپنے دونوں جانب کے نچلے دالان گرلز سکول کو مرحمت فرمائے ہے.۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو جب پہلا قافلہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کی قیادت میں ملکانہ کے علاقہ کے لئے روانہ ہوا تو حضرت ام المومنین بھی از راہ شفقت مع چند اور مستورات کے ا الفضل ۱۲ مئی ۱۹۴۴ ء ص ۵ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۳۱۵ و ۳۱۶ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۱۳۵ م الفضل ۱/۸ اپریل ۱۹۱۴ ص ۱

Page 318

310 مقام روانگی تک تشریف لے گئیں دعا فرمائی اور اپنے فرزندوں کو اپنی آنکھوں سے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے روانہ ہوتے دیکھا.اے یہ واقعہ آپ کے دل میں جماعت کے مبلغین کے احترام پر روشنی ڈالتا ہے.نور ہسپتال قادیان میں خواتین کے لئے وارڈ کا سنگ بنیاد یکم اگست ۱۹۲۳ء کو حضرت اُم المومنین کے دست مبارک سے رکھا گیا.۲ بچیوں کی تعلیم میں آپ نے ہمیشہ دلچسپی لی.آپ کا یہ طریق تھا کہ اپنے خاندان کی بچیوں سے وقتا فوقتا کوئی نہ کوئی کتاب پڑھوا کر سنا کرتیں.اردو زبان پر آپ کو عبور حاصل تھا خصوصاً روز مرہ اردو محاورہ پر.تلفظ یا لہجہ کی کوئی غلطی ہوتی تو اسی وقت درست کرواتیں.کبھی کبھی نصرت گرلز سکول جایا کرتیں اور بچیوں سے سوالات کرتیں.قادیان میں ۱۹۲۵ء میں مدرستہ الخواتین کا اجراء ہوا اور ۱۹۲۷ء میں جو امتحان ہوا اس میں حضرت ام المومنین نے محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود اور محترمہ صاحبزادی امۃ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنی طرف سے انعامات عطا فرمائے.سے خلافت جو بلی کے موقع پر صحابیات نے سوت کا تا اس میں حضرت ام المومنین نے بھی حصہ لیا اور بڑے شوق سے روٹی بیلینے اور سوت کاتنے میں حصہ لیا.جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی خدمت:.جلسہ سالانہ کے موقع پر بہت بڑی تعداد مہمان خواتین کے آتی.ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ حضرت اُم المومنین کی خدمت میں حاضر ہوں.بچوں کو ملوائیں.دعا کی درخواست کریں اپنی معروضات پیش کریں.حضرت ام المومنین اپنا سارا وقت مہمانوں کو دیتیں.ایک ایک کی بات توجہ سے سنتیں.ان کے آرام کا خیال رکھنے کی کارکنات کو تاکید فرماتیں.اس سلسلہ میں حضرت عرفانی صاحب کا ایک نوٹ پڑھنے کے قابل ہے.وہ لکھتے ہیں:.ا الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ء ص ۲ ۲ الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۳ء ص ۱ ۳ الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء ص ۱۰

Page 319

311 وو ” میری آنکھ نے پھر ایک حیرت افزاء چیز دیکھی جو کانوں کی ذریعہ پیش ہوئی تھی حضرت ام المومنين (متعنا الله بطول حیا تھا) بہ نفس نفیس لنگر خانہ میں تشریف لے جاتی ہیں اور وہاں کے انتظامات کو دیکھتی ہیں اور اپنی تسلی کرتی ہیں.پھر اپنے ذاتی اخراجات سے ایک پلاؤ کی دیگ مہمان خواتین کے لئے تیار کراتی ہیں.سوال پلاؤ کی ایک دیگ کا نہیں بلکہ اکرام ضیف کے اس وصف کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت کے ساتھ آپ کو ملا.مہمانوں کی خاطر تواضع کے متعلق حضرت اُم المومنین کی سیرت کا باب بہت وسیع اور اس کی شاندار مثالیں بے شمار ہیں اس عمر میں اور اس کثرت و ہجوم میں آپ کی توجہ ایک خاص سبق دیتی ہے.پھر یہی نہیں آپ سٹیشن پر تشریف لے جاتی ہیں اور اپنی موٹر کو اس وقت مہمان عورتوں کو شہر سے جانے کے لئے پیش کر دیتی ہیں اور خود سٹیشن پر کھڑی رہتی ہیں.“ لے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق آپ کی روایات جس طرح آنحضرت ﷺ کی زندگی کے اکثر حالات آنے والے لوگوں تک اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ پہنچے.آپ نے آنحضرت ﷺ کی روز مرہ زندگی ، آپ کے اخلاق فاضلہ ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، عبادات ، گھریلو زندگی غرض ہر قسم کے واقعہ کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل کو بھی بیان فرمایا ہے اسی طرح حضرت اُم المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے سینکڑوں واقعات بیان فرمائے اور ان روایات کی بناء پر آنے والے لوگوں نے سیرت احمد علیہ السلام اور تاریخ احمدیت کو مرتب کیا.یہ پہلا ایک بہت بڑا احسان ہے جو جماعت احمدیہ پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا.بیوی مرد کی سب سے بڑی راز دار ہوتی ہے.جس طرح اس کی گہری نظر اپنے خاوند کے افعال پر پڑتی ہے کسی اور کی نہیں پڑ سکتی.حضرت ام المومنین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر کامل ایمان تھا اتناز بر دست ایمان کہ آپ نے اپنے پر سوکن آنا پسند کر لیا لیکن یہ گوارا نہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ کی نکلی ہوئی بات پوری نہ ہو.آپ کی بیان کردہ روایات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی میں بیان فرمائی ہیں.الحکم ۱۴ جنوری ۱۹۳۴ء ص ۱۲

Page 320

312 خلافت کا احترام :.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑا درجہ عطا کیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب حضرت خلیفۃ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے اسی طرح ان کا احترام اور اطاعت کی جو کرنے کا حق تھا.ایک مرتبہ حضرت ام المومنین نے حضرت خلیفہ اول کو کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے میں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لئے بھجوا دی.حضرت ام المومنین نے بشاشت قلب سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کر کے واپس بھجوا دیا.مرمت شدہ رضائی طالب علم کو واپس دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ رضائی میں چلیٹ بہت تھیں اپنے کپڑوں کوصاف رکھا کرو.حضرت اُم المومنین نے اس گندی رضائی کی مرمت صرف اور صرف رضائے الہی کی خاطر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے جانشین کے حکم کی تعمیل میں کی.یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں مقام خلافت کی کتنی عظمت تھی.حضرت سیدہ ام المومنین کی امتیازی شان حضرت اُم المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑا انعام جو عطا ہوا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت میں آنا تھا.اس کا اظہار خود آپ کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں کیا.چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی بہت ہی قدر فرماتے تھے اور متعددمرتبہ اس کا ذکر فرمایا کہ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب رڈیا یا وحی کے ذریعہ کسی امر کا مجھ پر انکشاف ہوا تو بسا اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ہمارے گھر والوں کو بھی اس امر کے متعلق کوئی خواب یار و یا دکھایا جاتا ہے یہ امر

Page 321

313 آپ کی روحانی صفائی کا بین ثبوت ہے کہ جس امر کا انکشاف اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرماتا ہے اسی کا انعکاس آپ کے قلب مطہر پر بھی ڈالا جاتا ہے.حضرت ام المومنین کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ کا دوسرا عظیم الشان انعام آپ پر حضرت مصلح موعودؓ کے وجود کے ذریعہ سے ہوا.حضرت مصلح موعودؓ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر یہ اعلان فرمایا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی تھی تو حضرت اُم المومنین نے اظہار تشکر کرتے ہوئے ساری جماعت کو مندرجہ ذیل نصیحت فرمائی:.میں اپنے خدا کا کس طرح شکر یہ ادا کروں کہ اس نے مجھ ناچیز کو اپنے پاک و بزرگ مسیح کی زوجیت کے لئے چنا اور میرے سر کو اپنے انتہائی انعام کے تاج سے مزین فرمایا اور پھر میں اپنے خدا کا کس طرح شکر یہ ادا کروں کہ اس نے میرے بیٹے محمود کو مصلح موعود کے مقام پر فائز کر کے میری عمر کے آخری حصہ میں مجھے ایک دوسرا تاج عطا کیا.پس مجھے میرے اوپر کی طرف سے بھی تاج ملا اور میرے نیچے کی طرف سے بھی اور یہ میرے خدا کا سراسر فضل واحسان ہے جس میں میری کسی خواہش اور کسی عمل اور کسی استحقاق کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں اور یہ دوتاج صرف میرا ہی حصہ نہیں ہیں.بلکہ میری پیاری جماعت بھی ان میں میرے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے مگر خدا کا ہر خاص انعام اپنے ساتھ خاص ذمہ داریوں کو بھی لاتا ہے اور میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اور جماعت کو بھی ان اہم ذمہ داریوں کے پورا کرنے کی توفیق دے جو اس کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہیں.اے ہمارے خدا تو ایسا ہی کر.آمین.والسلام ام محمود ! حضرت اُم المومنین کی سیرت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آنے والے مورخ اس عظیم اور مقدس خاتون کی سیرت و سوانح پر لکھنا بہت بڑی سعادت تصور کریں گے لیکن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے جو حضرت ام المومنین کے برادر اصغر تھے چند فقرات میں جو آپ کی سیرت بیان فرمائی ہے وہ حقیقہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے اور ہر احمدی خاتون کیلئے مشہ سیرت ام المومنین مؤلفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ص ۴۴۰۴۳ رساله فرقان ( قادیان) ۵/اپریل ۱۹۴۴ء

Page 322

314 آپ نے حضرت ام المومنین کے متعلق لکھا:- ا.بہت صدقہ خیرات کرنے والی.۲.ہر چندہ میں شریک ہونے والی.۳.اول وقت اور پوری توجہ اور انہماک سے پنجوقتہ نماز ادا کرنے والی.۴.صحت اور قوت کے زمانہ میں تہجد کا التزام رکھتی تھیں.۵.خدا کے خوف سے معمور ۶.صفائی پسند ے.شاعر با مذاق ۸ مخصوص زنانہ جہالت کی باتوں سے ۹.گھر کی عمدہ منتظم سے دور ۱۰.اولاد پر از حد سقیق ۱۱.خاوند کی فرمانبردار ۱۲.کینہ نہ رکھنے والی ۱۳.عورتوں کا مشہور وصف ان کی تر یا ہٹ ہے مگر میں نے حضرت ممدوحہ کو اس عیب سے ہمیشہ پاک اور بری دیکھا.حضرت ام المومنین کا سانحہ رحلت:.سیدہ النساء حضرت ام المومنین ۲۰ / اپریل ۱۹۵۲ء کو (اتوار اور سوموار کی درمیانی شب) ساڑھے گیارہ بجے دارالہجرت ربوہ میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرما کر خالق حقیقی سے جاملیں.نا للہ وانا الیہ راجعون.اگلے روز یعنی ۱/۲۲ پریل بروز منگل صبح آٹھ بجکر ۲۲ منٹ پر کم و بیش چھ سات ہزار مومنین نے جو ملک کے طول و عرض سے آئے تھے اشک بار آنکھوں ،مخزون قلوب اور انتہائی رقت اور سوز و گداز سے معمور دعاؤں کے درمیان ان کے جسد اطہر کو مقبرہ بہشتی ربوہ میں امانتاً سپردخاک سیرت حضرت ام المومنین جلد نمبر ۲ ص ۳۸

Page 323

315 کر دیا اور اس طرح اس مقدس وجود کا اس دنیائے فانی سے آخری تعلق بھی بظاہر منقطع ہو گیا جس کی خود اللہ تعالیٰ نے عرش پر تعریف فرمائی اور جو اس زمانہ کے مامور ومرسل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت کا شرف حاص کر کے گویا حضور اقدس کی ذات بابرکت کا ہی ایک حصہ بن گیا تھا لیکن آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جود نیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.آخری علالت ، دعا ئیں اور صدقات :- حضرت ام المومنین کی طبیعت اس سال کے آغاز سے ہی بڑی ناساز چلی آتی تھی.چلنا پھرنا عملاً متروک ہو چکا تھا.وسط فروری سے کمزوری بڑھنے لگی.شروع مارچ سے بخار رہنے لگا اور خوراک کم ہوگئی.یہ کمزوری بڑھتی چلی گئی جس کا کسی قدر اثر دل پر ظاہر ہونے لگا.بعض اوقات غنودگی کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی تھی.جوں جوں آپ کی بیماری میں شدت پیدا ہوتی گئی.جماعت میں کثرت سے صدقات دیئے گئے اور اجتماعی دعائیں کی گئیں.چنانچہ لجنہ ربوہ اور بیرونی بجنات نے بھی کثرت سے صدقات دینے اور دعائیں کرنے کا اہتمام کیا لیکن آخر اللہ تعالیٰ کی مشیت غالب آئی.اپریل کے دوسرے ہفتے میں بیماری نے تشویشناک صورت اختیار کر لی.۱۵ را پریل کی شب کو آپ کی پاک روح قفس عنصری سے پرواز کر کے جنت النعیم میں مولائے حقیقی سے جاملی.۲۱ اپریل کی شام کو مستورات کو آپ کی آخری زیارت کا موقع دیا گیا.چنانچہ قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے آپ کی آخری زیارت کا شرف حاصل کیا ہے تعزیتی قرار دادیں:.آپ کی وفات پر جہاں جماعتوں اور تنظیموں نے تعزیت کے پیغام بھیجے اور قراردادیں منظور کیں وہاں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور بیرونی لجنات نے بھی کثرت سے قرار دادیں پاس کیس اور جلسے منعقد کئے جن میں آپ کی سیرت بیان کی گی اور آپ کے شمائل کا تذکرہ کیا گیا.ا اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۵۲ ص ۴۱ و الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۵۲، ص ۱-۲

Page 324

316 مورخه ۲ رمئی ۱۹۵۲ء کو دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ میں ایک خاص تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں مندرجہ ذیل قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی:.در مجلس عاملہ کا یہ غیر معمولی اجلاس احمدی قوم کی مشفق و مہربان ماں کی اندوہناک وفات پر گہرے رنج و تأسف کا اظہار کرتا ہے.یقیناً حضرت اماں جان کی وفات ہمارے لئے بہت بڑا صدمہ ہے.آپ کا وجود جماعت کے لئے خدائی برکات کے نزول کا بہت بڑا ذریعہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض و برکات کو سب سے بڑا قریبی مشاہدہ کرنے کا عینی شاہد.افسوس آج ہم ان تمام برکات سے محروم ہیں نہ صرف یہ بلکہ حضرت اماں جان بیوگان کے لئے ملجاو ماوی، بیتامی کیلئے محبت بھری گود اور مساکین کے لئے حاجت روا تھیں.اب یہ تمام لوگ آپ کی وفات پر حسرت و یاس کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں.ہمیں یہ دیکھ کر بہت رنج اور قلق ہوتا ہے کہ حضرت اماں جان کو اپنی آرام گاہ اپنے پیارے سرتاج کے قرب میں میسر نہیں آسکی.اے خدا! اس مقدس وجود کی شربت پر جو تیرے نشانات میں سے ایک بہت بڑا نشان تھا اور جس کی تیرے پیارے رسول محمد مصطفی ﷺ نے سینکڑوں سال قبل پیشگوئی فرمائی تھی اور جس کے لئے يتزوج ويولد له کی پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی.ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرما اور اسے جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات میں جگہ عطا فرما اور آپ کی اولاد کو ہر قسم کی دینی و دنیوی نعماء سے متمتع فرما.آمین اللهم آمین لے لجنہ اماءاللہ ربوہ کا تعزیتی جلسہ:.۸ مئی ۱۹۵۲ء کو لجنہ اماءاللہ ربوہ کا تعزیتی جلسہ نصرت گرلز ہائی سکول میں منعقد ہوا.سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اُم المومنین کے اخلاق فاضلہ پر روشنی ڈالی.پھر محترمہ استانی میمونہ صوفیه صاحبه محترمه حمیده صابره صاحبہ اور محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے حضرت اماں جان کے اعلیٰ اخلاق وسیرت کے متعلق تقاریر کیں.متعد نظمیں بھی پڑھی گئیں.دعا کے ساتھ یہ جلسہ برخاست ہوا ہے ایرجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۱۴مئی ۱۹۵۲ء ص ۲

Page 325

317 ماہ مئی میں ماہنامہ مصباح نے خاص اہتمام سے حضرت ام المومنین نمبر شائع کیا.مند درجہ ذیل مقامات کی لجنات نے بھی تعزیتی خطوط لکھے اور قراردادیں پاس کیس جو بعد میں سلسلہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں:.حیدر آباد دکن، بھاگل پور، ملتان ،قصور سمبڑیال، احمدنگر، سیالکوٹ اے تعزیتی جلسوں کے علاوہ مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے حضرت امیر المومنین کے نام پیغامات موصول ہوئے.کوئٹہ، گوجرانولہ، قادیان ، ملتان سے کنری ۳ لمصل حضرت مصلح موعودؓ کا درس قرآن :- قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہفتہ میں ایک بار (بروز ہفتہ ) صبح کوخواتین میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے جس میں مستورات بہت شوق سے شامل ہوتی تھیں.ربوہ آکر جب حضور ہنگامی کاموں سے ذرا فارغ ہوئے تو پھر آپ نے یہ درس دینا شروع فرمایا.چنانچہ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۲ء کو حضور نے مستورات میں پہلا درس دیا جس کے نوٹ مصباح میں شائع ہوئے.یہ سلسلہ ۱۹۵۵ء میں بیماری کے حملہ تک جاری رہا.ربوہ کی مستورات بڑی کثرت سے اس میں شامل ہوتی رہیں.۴ حضرت مصلح موعودؓ پر بیماری کا حملہ ۲۶ فروری ۱۹۵۵ء بروز ہفتہ شام کو ہوا تھا.اس دن بھی صبح آپ نے خواتین میں درس قرآن مجید دیا تھا.نظارت تعلیم و تربیت کا تربیتی نصاب نظارت تعلیم و تربیت نے دسمبر ۱۹۵۱ء میں بجنات اما ء اللہ کے لئے یہ تربیتی نصاب مقرر کیا تھا.ا کلمہ طیبہ مع ترجمہ اور عقائد اسلام ۲.نما ز سادہ اور نماز با ترجمہ ماه فروری ۱۹۵۲ء کا پہلا ہفتہ اس نصاب کے امتحان کے لئے مقرر کیا گیا.۵ ا الفضل ۱۵ مئی ۱۹۵۲ ء ص ۷ و مصباح ماہ مئی جون ۱۹۵۲ء ص ۱۷، ص ۳۸ ص ۴۲، ۲ الفضل ۲۶ را پریل ۱۹۵۲ء ص ۲ الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۵۲ء ص ۲ کالم ۳ ۴ مصباح ستمبر ۱۹۵۲ ء ص ۶، ۵ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۵۲ ص ۶ کالم نمبر ۲۱

Page 326

318 تقریباً سب احمدی خواتین اس میں شامل ہوئیں (سوائے معذور خواتین کے ) یہ کوشش کی گئی کہ حتی الامکان تمام احمدی خواتین تحریری یا زبانی طور پر اس میں شامل ہوں.امتحان کا نتیجہ نظارت تعلیم لے وتربیت کو بھجوایا گیا.پندرہ روزہ تربیتی کلاس امسال مجلس مشاورت کے بعد ۱۵.اپریل کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام پندرہ روزہ تربیتی کلاس کا اہتمام کیا گیا.یہ کلاس دفتر لجنہ مرکزیہ میں منعقد ہوئی.ربوہ کی صرف چار اور باہر کی نو طالبات اس میں شامل ہوئیں.محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ مگھیا نہ لے دمحتر مہ سعیدہ بیگم صاحبہ ربوہ اول اور محترمہ حبیبہ بیگم صاحبہ شادیوال دوم رہیں.ہے رمضان میں تعلیم القرآن کلاس :.اس سال رمضان المبارک میں تعلیم القرآن کلاس لگائی گئی.امتحان میں چھ طالبات شامل ہوئیں اور سب کامیاب رہیں.محترمہ مقبول خانم صاحبہ مولوی راولپنڈی اور محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ ہمشیرہ محترم قاضی عبدالحمید صاحب مرحوم دوم رہیں.سے سیرت النبی علیہ کے جلسے:.لجنہ اماءاللہ گوجرانوالہ اور جنہ اماءاللہ کرا چین کی فتح و یکم دسمبر کو اپنے اپنے ہاں سیرت النبی لایا ہے کے جلسے منعقد کئے جن میں رسول خدا کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کی گئیں ، "یوم مصلح موعود کے جلسے :- جلسے:.۲۰ فروری کو حسب سابق اہتمام کے ساتھ یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب منائی گئی.مردوں کی طرح خواتین نے بھی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے تحت جلسے منعقد کئے اور پیشگوئی مصلح موعود کے مختلف اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبد السلام سائنسی مشیر صدر پاکستان کے الفضل ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء ص ۶ کالم ۱-۲ الفضل ۹ دسمبر ۱۹۱۵۲ء ص ۸ کالم ۴ الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۵۲، ص ۴، ۷

Page 327

319 پہلوؤں پر تقاریر کیں.مندرجہ ذیل مقامات کے جلسوں کی رپورٹیں شائع ہوسکیں :.ربوه، حیدرآباد، سندھ، گولیکی لے منٹگمری محمد آباد ہے لاہور بیرونی ممالک کی لجنات کی مساعی فری ٹاؤن ( سیرالیون ) ۲ مارچ کو مسجد احمدیہ ( فری ٹاؤن ) میں مقامی لجنہ کا جلسہ منعقد ہوا.تلاوت قرآن مجید کے بعد احمد یہ نائٹ سکول کے بچوں نے ارکان اسلام اور ارکان ایمان پڑھ کر ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا.دعائیں کہلائیں.محمودہ خلیل صاحبہ اہلیہ مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل مبلغ سیرالیون نے لجنہ کے قیام کی غرض وغایت بیان کی اور پہلے سبق کے طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور کلمہ طیبہ کو بار بار دہرایا.اس کے بعد ثمنی زبان میں بری عادات سے بچنے پر ایک تقریر ہوئی.ایک آدھ درجن قریب غیر از جماعت خواتین بھی اس جلسہ میں شامل ہوئیں.سے لجنہ اماءاللہ فری ٹاؤن کا دوسرا ماہوار جلسہ ۱۵ راگست کو ہوا جس میں مولوی ابراہیم صاحب خلیل نے اخلاق حسنہ پر تقریر کی.ہے ماریشش میں لجنہ اماءاللہ کا قیام:.ماریشش میں احمدیت کا آفتاب ۱۹۱۴ء میں طلوع ہوا.ابتداء میں چند لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی.محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ( جو کہ اس جزیرہ کے چوتھے مبلغ ہیں) کے قیام کے دوران تنظیم لجنہ اماءاللہ کا تصور پیدا ہوا.محترمہ نصیرہ نز بہت صاحبہ اہلیہ محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب عورتوں میں قرآن مجید اور حدیث کا درس دیتی رہیں.حافظ صاحب کی روانگی کے بعد لجنہ کی تنظیم صحیح طور پر کام نہ کرسکی کیونکہ ان ایام میں جماعت ا الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء ص ۲ کالم ۲۱ ۲ الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۲ء ص ۲ مصباح اپریل ۱۹۵۲ء ص ۲۲ ۴ مصباح ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۲۵

Page 328

320 احمد یہ ماریشش چند نازک مسائل سے دو چار تھی اس لئے لجنہ کے کاموں کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی جاسکی.۱۹۵۴ء میں مولوی فضل الہی صاحب بشیر کی آمد سے لجنہ کی تاریخ نے ایک نیا ورق الٹا خصوصاً ان کے ماریشش میں شادی کرنے کی وجہ سے.۱۹۵۸ء میں روز ہل میں جو کہ احمد یہ مشن کا ہیڈ کوارٹر ہے بندہ کی تنظیم از سرنو قائم ہوئی.مرزا مینہ تا جو صاحبہ لجنہ کی صدر منتخب ہوئیں.عورتیں جمعہ کی نماز کے بعد اکٹھی ہوتیں.اس وقت کا اہم کام دینی تعلیم کی طرف توجہ دلا نا تھا.۱۹۶۱ء میں مولوی فضل الہی صاحب بشیر کے ماریشش سے چلے جانے کے بعد مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر وہاں آئے اور مس ہدایت سوقیہ صاحبہ نئی صدر منتخب ہوئیں.انہوں نے لجنہ کے پروگرام میں ٹیبل ٹینس کھیل کا اضافہ کیا جو دار السلام ہال میں کھیلی جاتی تھی مشنری انچارج نے اس کھیل کی منظوری دے دی.۱۹۶۳ء میں مولوی فضل الہی صاحب بشیر کی دوبارہ آمد پر لجنہ کے کاموں میں ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی.اب لجنہ مندرجہ ذیل چھ شاخوں میں منقسم ہوگئی :.فونکس، روز ہل ، پیلیس ، ٹرائلٹ،مونجھے بلانچ ، سینٹ پیٹر ہر شاخ کو اپنا صدر منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا.اس کے ساتھ ساتھ ایک مرکزی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی جس میں ہر شخص کو نمائندگی دی گئی.مرکزی کمیٹی کی بھی ایک صدر مقرر کی گئی جو کہ مشنری انچارج کے ماتحت کام کرتی تھی.لجنہ کی اس نئی تنظیم کے تحت بہت سے کام ہوئے.عورتوں کی لائبریری کے لئے چندہ اکٹھا کیا گیا.۱۹۶۴ء میں دار السلام کی نئی مسجد کی تکمیل کے لئے چندہ جمع کیا گیا.ماریشش کی بہت سی عورتوں نے اس مقصد کے لئے اپنے زیورات پیش کئے.اسی طرح بعض چھوٹے چھوٹے فنڈ قائم کئے گئے تا کہ غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام کیا جا سکے.۱۹۶۴ء میں دارالسلام میں مینا بازار منعقد کیا گیا جس کا افتتاح ایک ملک کے ہائی کمشنر کی بیوی نے کیا.اس مینا بازار کے منافع کی رقم مسجد دار السلام کے رنگ و روغن میں صرف کی گئی.اسی طرح متعد د تبلیغی کتب کو شائع کرانے کے لئے رقم اکٹھی کی گئی.مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کی دوبارہ آمد تک کام اسی پروگرام کے مطابق ہوتا رہا.مس ہدایت سوقیہ مرکزی کمیٹی کی صدر منتخب ہوئیں.لجنہ کے پروگراموں میں بعض نئی چیزوں کا اضافہ ہوا.وقتاً فوقتاً تعلیم القرآن کلاسز منعقد

Page 329

321 ہوتی رہیں.جمعہ کے روز لجنہ کی کچھ نمبرات ہسپتال میں جا کر مریض بچوں میں مٹھائی تقسیم کرتیں.سنگا پور :.احمدی خواتین نے ہسپتال جا کر بچوں کو تعلیم دی.اس وقت تک قریبا چھ سوا سباق دیئے جاچکے ہیں لے ہالینڈ :.گڈ فرائی ڈے کے موقع پر ڈچ نومسلمہ بہن ناصرہ زمرمن نے اشتہارات تقسیم کرنے کے سلسلہ میں بہت اچھا کام کیا.ایک پادری سے مختصر مباحثہ بھی کیا.ایک صوفی خاتون ان سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھتی رہیں.سورۃ بقرہ کے پہلے دور کوع مع ترجمہ زبانی یاد کئے.ہے محترمہ ناصرہ زمر من صاحبہ نے قبر سیح کا اشتہار تین ہزار کی تعداد میں لوگوں کے گھروں پر جا کر ان کے لیٹر بکس میں ڈالا.اس کے نتیجہ میں کئی لوگ تحقیق حق کے لئے مشن ہاؤس میں آئے.سے سیرت پیشوایان مذاہب کا جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں ہماری اس نو مسلمہ بہن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح حیات پر بڑی مؤثر اور ایمان افروز تقریر کی.آخر میں انہوں نے یورپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی بھی پڑھ کر سنائی.ہے ہالینڈ کے دارالحکومت میں منعقدہ ایک جلسہ سیرت النبی میں بھی انہوں نے آنحضرت کے احسانات عورتوں پر “ کے موضوع پر تقریر کی.۵ گولڈ کوسٹ (غانا):.کماسی کے مقام پر لجنہ کا جلسہ ہوا.جس میں محترمہ اہلیہ صاحبہ سعود احمد صاحب نے اور محترمہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر سید سفیر الدین بشیر احمد صاحب مرحوم نے لجنہ کے مقاصد پر تقاریر کیں.پھر لجنہ اماء اللہ کے قواعد وضوابط پڑھ کر سنائے گئے.حاضرات نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست بھجوائی.1 الفضل ۲۰ مئی ۱۹۱۵۲ء ص ۵ کالم ۱ ۲ الفضل ۱۸ جون ۱۹۵۲ء ص ۶ کالم ۲ - ۱۳۴ الفضل ۲۶ جون ۱۹۵۲ء ص ۵ کالم ۴ ۱۴ الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۵۲ ء ص ۴ کالم ۳ ۱۵ الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۲ ء ص ۲ کالم ۲ ۶ مصباح اپریل ۱۹۵۲ ء ص ۳۵

Page 330

322 امریکہ:.لجنہ اماءاللہ امریکہ کی صدر محترمہ امتہ الحفیظ خلیل صاحبہ :- نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ڈیٹن میں لجنہ کے اجلاس باقاعدہ ہوتے رہے.بہنیں تبلیغ کرتی اور چندہ دیتی رہیں اور لٹریچر کا مطالعہ بھی کرتی رہیں.شگاگو : ہر ماہ با قاعدہ لجنہ کے دو اجلاس ہوتے رہے.بچوں کا بھی ایک تربیتی اجلاس ہوا.پٹس برگ:.ہر ماہ دو اجلاس ہوتے ہیں.سلائی کا کام بھی ہوتا رہا.ڈیٹن کی مسجد کیلئے چندہ کے وعدے کئے گئے.سینٹ لوئیس اور نیکس ٹاؤن میں لجنات کے اجلاس مہینے میں دوبار ہوتے رہے.لے امریکہ میں احمدی بہنیں عدیم الفرصت ہونے کے باوجود اجلاسوں میں آتی رہیں.عیدین، شادی بیاہ اور غیر ملکی معزز مہمانوں کی آمد پر پارٹیوں کا انتظام کرتی رہیں.تبلیغ کرتی ہیں.لٹریچر تقسیم کرتی ہیں چندوں میں بھی حصہ لیتی ہیں بچوں کے لئے علیحدہ کلاسز لگا کر انہیں چھوٹی چھوٹی احادیث یاد کراتی ہیں.احمد یہ جماعتوں کی سالانہ کنونشن کے موقع پر ہر سال احمدی بہنوں کو خاص طور پر کھانا پکانے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے.بسا اوقات رات کھانے پکانے میں گزر جاتی ہے.گزشتہ تین سال سے کنونشن کے موقع پر اڑھائی گھنٹہ کا علیحدہ لجنہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں تقاریر کے علاوہ آئندہ سال کے لائحہ عمل پر بھی غور کیا گیا.بعض مخلص امریکن احمدی بہنوں کا تذکرہ:.محتر مدامة الحفیظ خلیل صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:.پٹس برگ کی سٹر علیہ شہید جماعت کی کواپریشن سیکرٹری ہیں.اپنے گھر میں چھوٹی چھوٹی الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۵۲ء ص ۶ کالم ۱

Page 331

323 چیزیں مثلاً بچوں کے لئے مٹھائیاں وغیرہ بغرض فروخت رکھتی ہیں.کبھی دور دیہات میں جا کر بکر اخرید لاتی ہیں اور اس کا گوشت فروخت کر دیتی ہیں یا مرغیاں اور انڈے وغیرہ بیچ لیتی ہیں مگر اس طرح محنت کر کے جو کچھ کماتی ہیں اس کی قریباً تمام آمدنی مشن کی مدد کے لئے دے دیتی ہیں.ڈیٹن کی ایک بہن لطیفہ کریم صاحبہ نے اپنی تمام جائیداد مع مکان اور زمین سلسلہ کے لئے وقف کر دی ہے (ان کی وقف کردہ زمین پر مسجد تعمیر کی گئی ہے) آپ تحریک جدید کی سیکرٹری ہیں.بہن امتہ اللطیف صاحبہ اپنے حلقہ کی لجنہ کی صدر ہیں.ہمارے رسالہ سن رائز کی لئے بڑی محنت سے چندہ جمع کرتی ہیں.انہی کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ہمارا رسالہ با قاعدگی سے شائع ہورہا ہے ورنہ سلسلہ کی طرف سے جور قم ملتی ہے اس سے اس کا جاری رہنا ممکن ہی نہیں.ان کی لجنہ کا کام سب سے اچھا ہے.سینٹ لوئیس کی بہن بشری سعیدہ صاحبہ (اہلیہ چوہدری شکر الہی صاحب مبلغ ) ۳/ احصہ کی موصیہ ہیں.لٹریچر کی اشاعت میں بہت کام کرتی ہیں.انڈیانا پولیس کی محترمہ علیہ صاحبہ لجنہ اماءاللہ امریکہ کی جنرل سیکرٹری ہیں.انڈیانا پولیس کا مشن انہی کی محنت اور خدمت سے چل رہا ہے.نیو یارک کی بہن محترمہ سکینہ نصرت صاحبہ کو کئی بار اس لئے ملازمت سے برخاست کیا گیا کہ یہاں کے دستور کے مطابق عریاں لباس نہیں پہنتی اور سر پر کپڑا رکھتی ہیں.1 سیلون:.پندرہ روزہ لجنہ کے اجلاس ہوئے.ممبرات چندہ بھی دیتی ہیں.دفتر لجنہ مرکزیہ کے لئے بھی رقم جمع کی گئی.لجنہ کی عہدیداروں کا باقاعدہ انتخاب عمل میں لایا گیا.۲ انڈونیشیا:.اس سال جماعت ہائے انڈونیشیاء کی سالانہ کانفرنس پاڈانگ شہر میں منعقد ہوئی.اس کانفرنس میں جماعت نے لجنات اماءاللہ کے ایک مرکزی بورڈ کے قیام کی تجویز منظور کی سے انڈونیشیا میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی تشکیل نے وہاں تنظیم اور تربیت پر گہرا اثر ڈالا.اس کا نفرنس میں جماعت کے خوردونوش کا سارا انتظام لجنہ اماءاللہ کے سپر د تھا.۴ مصباح جولائی ۱۹۵۲ء ص ۳۴۰۳۳ الفضل ۱۸ ۱۷اکتوبر ۱۹۵۲ ص ۵ کالم ۴ ۴۳ الفصل ۲۰.اپریل ۱۹۵۲ء ص ۴

Page 332

324 نیروبی ( مشرقی افریقہ) ہر پندرہ دن کے بعد لجنہ کا اجلاس ہوتا ہے.اس میں تلاوت قرآن مجید کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے خطبات جمعہ کے علاوہ پردہ، پابندی نماز تربیت اولا د اور اصلاح نفس وغیرہ پر مضامین پڑھے جاتے ہیں.ہفتہ وار درس القرآن میں بہنیں شوق سے شامل ہوتی ہیں.اس سال رمضان المبارک میں محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ سابق صدر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ جوان دنوں نیروبی میں مقیم تھیں.روزانہ عورتوں میں درس القرآن دیتی رہیں.چھوٹی بچیوں کا تقریری مقابلہ کروایا گیا اور ان میں انعامات تقسیم کئے گئے.مبلغ افریقہ محترم حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب کی اہلیہ محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ کا خیر مقدم کیا گیا.ایڈریس پیش کیا گیا اور ایک انگوٹھی بطور تحفہ دی گئی.محترمہ سیدہ نصیرہ نزہت صاحبہ کی آمد پر انہیں پارٹی دی گئی اور ایڈریس پیش کیا گیا.محترمہ سیدہ فضیلت صاحبہ کی زیر صدارت سیرۃ النبی کا جلسہ منعقد کیا گیا.اس میں بہت سی غیر احمدی عورتیں بھی شامل ہوئیں.مجلس عاملہ میں قرآن کریم با ترجمہ، احادیث، تاریخ اسلام اور کتب حضرت مسیح موعود " پڑھانے کا انتظام کیا گیا.محترمہ اہلیہ صاحبہ محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی کی تحریک پر بارہ عورتوں نے مصباح جاری کرایا.مسجد ہالینڈ اور تحریک جدید کے لئے چندہ دیا گیا.سواحیلی زبان میں تبلیغی رسالہ کے لئے ہر عورت ماہوار چندہ دیتی ہے.مستورات نے ”پیغام احمدیت“ اور ” الوصیت کے امتحان میں حصہ لیا.یہ امتحان مردوں نے بھی دیا لیکن اول آنے والی ایک احمدی بہن تھیں.یوم التبلیغ پر زبانی تبلیغ کی اور لٹریچر تقسیم کیا گیا.لجنہ اماءاللہ نے اپنے چندہ سے مسجد کے لئے چٹائیاں خریدیں.1 شمالی بور نیو:.محترمہ امتہ العزیز صاحبہ بنت محترم ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب مرحوم ( موجودہ آفس سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ) نے یہ رپورٹ بھیجوائی:.ا مصباح اگست ۱۹۵۲ء ص ۳۱

Page 333

325 جماعت بہت قلیل ہے اور احمدی بہنیں دور دور رہتی ہیں اس لئے ان سے رابطہ قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے تاہم ان کی تعلیم وتربیت کے لئے کوشش کی جاتی ہے.ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو قرآن کریم پڑھایا اور مسنونہ دعائیں سکھائیں.ایک اور لڑکی جو دور رہتی ہے اس کو ہفتہ میں دو تین بار نماز کا ترجمہ ملائی زبان میں لکھ کر ارسال کیا جاتا ہے وہ پھر دیگر احمدی عورتوں کو جمعہ کے روز اس کی مدد سے پڑھاتی ہے.دولڑ کیاں قاعدہ میسر نا القرآن پڑھنے کے بعد اب قرآن مجید پڑھ رہی ہیں.دو بھائی بہن قرآن مجید کاملا ئی ترجمہ پڑھتے ہیں ! متفرقات ۱۹۵۲ء مسٹر روز ویلٹ سے ملاقات اور قرآن مجید کا تحفہ مورخه ۲۵ فروری کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ایک وفد نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی کی سرکردگی میں ربوہ سے لاہور جا کر مسز روز ویلٹ (سابق صدر امریکہ کی اہلیہ محترمہ ) سے ملاقات کی اور انہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے متعلق معلومات بہم پہنچا ئیں.وفد نے انہیں ربوہ آنے کی دعوت بھی دی اور ترجمہ قرآن مجید انگریزی کی ایک جلد بھی تحفہ کے طور پر پیش کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.ہے محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات ۹ / مارچ بروز اتوار لجنہ اماءاللہ کے ایک وفد نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کی سرکردگی میں لائل پور کے مقام پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے ملاقات کی اور ان کو تحفہ انگریزی ترجمۃ القرآن کی ایک جلد پیش کی جسے انہوں نے مسرت اور احترام کے ساتھ قبول کیا.وفد نے لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اور اس کی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کے متعلق بھی انہیں واقفیت بہم پہنچائی.اس وفد میں حضرت سیدہ مہر آپا مدظلہ العالی اور حضرت سیدہ ام داؤد مصباح نومبر، دسمبر ۱۹۵۲، ص ۶۳ ۶۴۷ مصباح مارچ ۱۹۵۲ء ص ۴

Page 334

326 صاحبہ بھی شامل تھیں.1 اس ملاقات سے قبل ۲۵.فروری کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کو ایک تار دیا اس میں انہیں دورہ لائل پور کے دوران ربوہ آنے اور احمدی خواتین سے خطاب کرنے کی دعوت دی مگر وہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے ربوہ آنے کے لئے وقت نہ نکال سکیں.صاحبزادی سیدہ امتہ النصیر صاحبہ کی شادی:.محترم سیده است انصیر بیگم صاحب بن خلیفہ مسیح الثانی رضیاللہ تعالی عنہ ) کی شادی خانہ آبادی ۲۷ / جنوری ۱۹۵۲ء کومحترم پیر معین الدین صاحب کے ساتھ ہوئی.سے محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ بھی چھوٹی عمر سے ہی لجنہ اماءاللہ کے مختلف عہدوں پر کام کرتی چلی آرہی ہیں.رمضان المبارک :.رمضان المبارک کے شروع ہونے پر حسب معمول اس دفعہ بھی نہ صرف ربوہ اور اس کے تمام محلہ جات میں بلکہ بیرونی لجنات میں بھی قرآن کریم کا درس اور اس کا ترجمہ سنانے کا انتظام کیا گیا.مسجد مبارک ربوہ کے مرکزی درس القرآن میں بھی خواتین کثیر تعداد میں شامل ہوتی رہیں سے جامعتہ المبشرین کی عمارت کے لئے چندہ جامعتہ المبشرین کی عمارت کے لئے چندہ کی تحریک میں بجنات اماء اللہ نے بھی حصہ لیا چنانچہ لجنہ اماءاللہ کوئٹہ کے حلقہ مسجد احمد یہ اور حلقہ اسلام آباد نے چندہ جمع کیا ہے لجنہ اماءاللہ لا ہور کا انتخاب:.۱۳ مئی ۱۹۵۲ء کو جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کی زیر صدارت لجنہ لا ہور کی عہدیداران کا انتخاب ہوا اور مندرجہ ذیل عہدیدار منتخب ہوئیں.مصباح اپریل ۱۹۵۲ء ص ۴۲ ۲ رجسٹر کار روائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ۳ الفضل ۱۸ جون ۱۹۵۲ء ص ۵ کالم ۴ ۴ الفضل ۲۷ را گست ۱۹۵۲ء ص ۶

Page 335

327 جنرل صدر :.نائب صدر :.جنرل سیکرٹری:.حضرت بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( ایدہ اللہ تعالیٰ) محتر مہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹرمحمد منیر صاحب محترمه زینب حسن صاحبه نائب سیکرٹری:.عاجزه امۃ اللطیف 1 خدمت خلق :.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے شعبہ خدمت خلق کی سیکرٹری محترمہ آمنہ طیبہ صاحبہ بیگم محترم صاحبزاده مرز ا مبارک احمد صاحب نے یہ اعلان کیا کہ لجنہ خدمت خلق کے ان کاموں کی رپورٹ بھجوایا کریں جو اجتماعی رنگ رکھتے ہوں انفرادی کاموں کی تفصیل نہ دی جایا کرے.نیز انہوں نے یہ تحریک بھی کی کہ غریب طالبات کے لئے نصابی کتب اور موسم سرما میں ان کو کپڑے دے کر ان کی مدد کی جائے.نیز لجنات اپنے ہاں کسی احمدی ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کی مدد سے ممبرات کو فرسٹ ایڈ سکھانے کا بھی انتظام کریں.چنانچہ اس تحریک پر بجنات نے نصابی کتب اور کپڑوں کی تقسیم کا انتظام کیا.غرباء کی مدد کے ضمن میں کبھی نبجنات نے احمدی اور غیر احمدی میں کوئی امتیاز نہیں برتا بلکہ ہر مذہب وملت کے غریب طلباء کی حتی المقدور مددکرنے کی کوشش کی ہے.۲ مبلغ انڈونیشیا کی اہلیہ کے اعزاز میں تقریب :.مورخہ ۴ / مارچ کو محترم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انڈونیشیا کی اہلیہ محترمہ مبارکہ شوکت صاحبہ کے اعزاز میں لجنہ مرکز یہ اور نصرت گرلز ہائی سکول کے سٹاف کی طرف سے الوداعی پارٹی دی گئی جس میں ایڈریس پیش کرنے کے علاوہ تحفہ کے طور پر تفسیر کبیر کی ایک جلد بھی پیش کی گئی.مبلغین کے لئے تحفہ:.چار مبلغین جو بیرون ممالک جارہے تھے حلقہ جات لجنہ اماءاللہ ربوہ نے بطور تحفہ ان کو چار سویٹر بن کر دیئے.۳ ے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ۲ مصباح مارچ ۱۹۱۵۲ء ص ۱۵ والفضل ۱۷ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۲ کالم ۲ سے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 336

328 جلسه سالانه ۱۹۵۲ء:- جلسہ سالانہ خواتین حسب معمول ۲۶-۲۷-۲۸ دسمبر کو منعقد ہوا.تینوں دن کے پہلے اجلاس میں مستورات کا علیحدہ پروگرام تھا جن کی صدارت حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے فرمائی اور شام کے پروگرام مردانہ جلسہ گاہ سے سنے گئے.اس سال ناظمہ جلسہ گاہ خواتین محترمہ صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے ”عقیدہ ختم نبوت اور جماعت احمدیہ کا ایمان“ کے موضوع پر محترمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ نے صداقت حضرت مسیح موعود “ کے موضوع پر محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے شرائط بیعت کے موضوع پر محترمہ امۃ المجید صاحبہ ایم.اے نے اندرونی یعنی ملکی تبلیغ کے میدان میں ہماری مشکلات اور ان کا علاج“ کے موضوع پر ، محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے ” دعا اور اس کی برکات“ کے موضوع پر محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ نے ” خلافت کی اہمیت“ کے موضوع پر محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ نے حضرت ام المومنین کی سیرت طیبہ کے موضوع پر محترمہ امتہ المجید صاحبہ نے اسلامی پردہ کے موضوع پر اور محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعوڈ کے کارنامے“ کے موضوع پر تقاریر کیں.پہلے دن کے دوسرے اجلاس میں حاضری ۲۳۸ ۵ تھی اور دوسرے دن حاضری ۲۲۰۰ تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.حضرت مصلح موعودؓ کا عورتوں سے خطاب :.حضور نے اپنی تقریر میں احمدی مستورات کو توجہ دلائی کہ تعمیر دفتر لجنہ اماءاللہ کا قرض اور تعمیر مسجد ہالینڈ کا چندہ ان کے ذمہ ہے انہیں یہ بوجھ اُتارنے کی کوشش کرنی چاہیئے.حضور نے عورتوں کے جذبہ قربانی کی تعریف فرماتے ہوئے انتظامی قابلیت اپنے میں پیدا کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا:.تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی کی ہی جنس بنایا ہے.ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت سے محنت اور قربانی کے جو نظارے عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ انسانی دل کو کپکپا دیتے ہیں.مرد بھی بے شک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح فدائیت

Page 337

329 کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہیئے.اس کے علاوہ تمہیں اپنے اندرا نتظام کی عادت ڈالنی چاہیئے.لجنہ کا فائدہ کیا ہوا اگر ہماری مستورات میں بدنظمی جاری رہے.اصل میں تو انتظام کا شعبہ خدا نے تمہارے ہی سپرد کیا ہوا ہے.اگر تم اس کو نہ کرو تو اور کس نے کرنا ہے؟ شادی کی تقاریب :.(۱) محترم صاحبزادہ مرزا اور احمد صاحب ابن سید نا حضرت امیر المونین خلیفہ امبیع الثانی کی شادی ۱۳ جنوری بروز اتوار بوقت ساڑھے تین بجے شام کو ربوہ میں عمل میں آئی.آپ کے نکاح کا اعلان گزشتہ سال حضور نے محترمہ صبیحہ بیگم صاحبہ بنت محترم مرزا رشید احمد صاحب کے ساتھ فرمایا تھا.(۲) محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ابن سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریب شادی ۱۶ را کتوبر بروز پنجشنبہ ربوہ میں عمل میں آئی.آپ کے نکاح کا اعلان گزشتہ سال حضور نے محترمہ سیدہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ فرمایا تھا.سے مجلس شوری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ:.۱۲۷ دسمبر ۱۹۵۲ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی ساتویں مجلس شوری لجنہ ہال میں منعقد ہوئی اس میں مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے :.تجویز :.دشمن ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہا ہے لجنہ کو تبلیغ کی ایک مکمل سکیم بنانی چاہیئے.فیصلہ:.(۱) بیرونی لجنات اہم اعتراضات لکھ کر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو بھجوائیں (۲) ٹریکٹ چھپوانے کے لئے تبلیغ فنڈ جمع کیا جائے (۳) لجنہ کراچی ٹریکٹ ”ہمارے عقائد چھپوائے گی.جولجنات چاہیں منگوا سکتی ہیں (۴) سلیمہ بیگم صاحبہ سیکرٹری تبلیغ کراچی نے وعدہ کیا کہ وہ ہر ماہ تبلیغی الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء ص ۳ والازهار لذوات الخمار حصّہ دوم ص ۱۳۴ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۵۲ء الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۲ء ص ۳

Page 338

330 ٹریکٹ ایک ہزار سے دو ہزار تک چھپوایا کریں گی.ہر لجنہ یہ ٹریکٹ مفت طلب کر سکتی ہے.تجویز : دفتر لجنہ اماءاللہ پر بھی دس ہزار روپیہ قرض ہے تیرہ ہزار کی رقم ادا ہوئی ہے بقیہ رقم بھی پوری کرنی ہے.فیصلہ:.لجنات نے اپنی اپنی لجنہ کی طرف سے مزید وعدے لکھوائے.جویز:.نمائندگی کا قانون بنایا جائے کہ کتنی تعداد مہرات پر نمائندگی کا ٹکٹ مانا چاہیئے.فیصلہ: ۲۵ ممبرات پر ایک نمائندہ ہو.تمام لجنات اپنی ممبرات کی صحیح تعداد لکھیں تا کہ انہیں نمائندگی کا حق مل سکے.تجویز:.ربوہ میں لڑکیوں کا کالج کھل چکا ہے.عمارت زیر تعمیر ہے اس کے لئے چندہ میں لجنات حصہ لیں.فیصلہ:.وفد کی صورت میں دورہ کر کے یہ چندہ جمع کیا جائے.اے لے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 339

331 چوتھا باب ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۵ء ۱۹۵۳ء جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا شدید طوفان حضرت سیّدہ اُتم داؤد نا ئب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی وفات کا سانحہ یہ سال اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے کہ امسال ملک میں جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت اور فسادات کی آگ اس شدت سے بھڑ کی کہ بالآخر حکومت کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.یوں تو روز اول ہی سے الہی سلسلہ مخالفت کی آگ میں پروان چڑھتے ہیں چنانچہ جماعت احمدیہ کو بھی اپنے یوم تاسیس سے ہی مخالفت کے مختلف طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا.اور یہ طوفان مختلف حیثیتوں کے ساتھ کم و بیش جاری رہے لیکن ۱۹۵۳ء میں جس وسعت اور شدت سے ساتھ یہ آگ بھڑ کی اس کی مثال سلسلہ کی تاریخ میں نہیں ملتی.اس وقت پنجاب میں جو حکومت برسراقتد ادتھی اُس کی پشت پناہی کی وجہ سے اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوا.لیکن الہی وعدوں کے مطابق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیشگوئیوں کے مطابق دشمن اپنے ناپاک اور خوفناک منصوبوں میں ناکام رہا.وہ اپنی جلائی ہوئی آگ کی لپیٹ میں خود ہی آ گیا اور الہی جماعت کا قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا.اور اس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ حیرت انگیز طور پر پورے ہوئے جو حضور نے عین مخالفت کی شدت کے ایام میں جماعت کے نام ایک

Page 340

332 اہم پیغام میں فرمائے تھے کہ " آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں.انشاء اللہ فتح ہماری ہے.کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا! ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے.وہ میرے پاس ہے.وہ مجھ میں ہے.خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے.تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو.سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا.ان فسادات میں احمدی مستورات نے بھی مختلف علاقوں اور مقامات پر بہادری ، جانثاری اور تو کل علی اللہ کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اوروہ ہر قسم کے جانی اور مالی نقصانان کے خطرات کے باوجود ایمان اور یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں.اگر کہیں کسی قسم کا نقصان بھی اٹھانا پڑا تو اس پر انہوں نے مومنانہ صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.عہدیداران لجنہ اماءاللہ مرکز یه ۱۹۵۳ء صدر حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مد ظلہ العالیٰ سیکرٹری مال محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری تبلیغ محترمه امۃ الرشید شوکت صاحبه سیکرٹری تعلیم محترمہ بیگم صاحبہ مرز امنوراحمد صاحب سیکڑی خدمت خلق محترمہ بیگم صاحبہ مرزا مبارک احمد صاحب سیکرٹری نمائش محترمه استانی امۃ العزیز عائشه صاحبه سیکرٹری بیرون محتر مدامتہ الرحیم عطیہ صاحبہ اہلیہ صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم لجنہ اماءاللہ ربوہ کی تشکیل: اس سال کا پہلا اہم واقعہ لجنہ اماءاللہ ربوہ کی تشکیل ہے.اس وقت تک لجنہ مرکز یہ ہی ربوہ کی ا ہفت روزہ فاروق ۴ / مارچ ۱۹۵۳ء ص ۱

Page 341

333 خواتین کی تنظیم کی ذمہ دارتھی.مورخ ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء بروز جمعہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا اجلاس محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی صدارت میں منعقد ہوا.اس میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ لجنہ اماءاللہ ربوہ کو مرکزی لجنہ کی نگرانی سے علیحدہ کر دیا جائے اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی نگرانی ربوہ کی لجنہ پر بھی اسی طرح ہو جس طرح باقی بیرونی لجنات پر ہوتی ہے.“ اس پر متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ دو ایسا ہی ہونا چاہیے.اس کے لئے تمام محلہ جات کو کہا جائے کہ ربوہ کی لجنہ کے لئے صدر اور سیکرٹری کے نام تجویز کر کے بھجوائیں تا کہ مقرر کی جائیں.“ ۲۰ مارچ کے اجلاس میں محلہ جات کی آراء کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو مقامی لجنہ کی پریذیڈنٹ مقرر کیا جائے.“ صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ گذشتہ اٹھارہ سال سے لجنہ ربوہ کی صدر ہیں.آپ کی نگرانی اور توجہ کی وجہ سے ربوہ کے مختلف حلقہ جات میں لجنہ نے نمایاں ترقی کی ہے اور مختلف شعبوں میں اسے قابل قدر کام کرنے کی توفیق ملی ہے.لجنہ اماءاللہ ربوہ آپ کی قیادت میں آج پاکستان کی سب سے اعلیٰ اور معیاری کام کرنے والی لجنات میں سے ہے.لجنہ اماءاللہ ربوہ کی ۱۹۵۳ء تا۱۹۵۸ء تک کی سرگرمیوں کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے.لجنہ اماءاللہ ربوہ کی سرگرمیاں ۱۹۵۳ء تا ۱۹۵۸ء:- ۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ نے کام کا چارج لیا اور دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں ہی ایک کمرہ میں اپنا دفتر قائم کیا.ایک کلرک دفتر کے لئے رکھی گئی.سب سے پہلی کلرک مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم کرم دین صاحب تھیں.۱۹۵۷ء میں ان کے کام چھوڑ دینے پر چار ماہ مکرمہ سارہ قدسیہ صاحبہ بنت مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل نے کام کیا.اپریل ۱۹۵۸ء سے مکر مہ ممتاز بیگم صاحبہ بطور کلرک کام کر رہی ہیں.سب سے پہلا کام جو آپ کی نگرانی میں کیا گیا وہ ربوہ کی ممبرات کی فہرست کو مکمل کرنا تھا.پھر لے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 342

334 چندہ دہندگان کی فہرست اور بجٹ بنایا گیا.حلقہ جات میں بھی اضافہ ہوا.۱۹۵۳ء میں ربوہ میں سات حلقہ جات تھے.آپ نے کام کی آسانی کی خاطر ربوہ کو بارہ حلقہ جات میں تقسیم کیا.۱۹۵۸ ء تک چودہ حلقے ہو گئے.ہر حلقہ میں حزب بنا کر ان کی نگران مقرر کیں.۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۸ء تک مختلف حلقہ جات میں مندرجہ ذیل عہدہ داروں نے کام کیا:.حلقہ صدر سیکرٹری ا.دار الصدرغربی محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب مکرمه ممتاز بیگم صاحبہ کلرک دفتر لجنہ اماءالل در بوه وسطی نمبر ۲ اور استانی سردار بیگم صاحبہ ۲.دارالرحمت والده صاحبه محترمه امته الرشید شوکت صاحبه مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عطاء اللہ صاحب د محتر مہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد رشید صاحب مرحوم ۳.دارالصدر شرقی محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد عبداللہ صاحب ۴.دارالیمن عزیزه رضیه بیگم صاحبه مرحومه اہلیہ مرزاگل محترمہ نور بیگم صاحبہ ہمشیر و ماسٹرمیاں محمد ابراہیم صاحب محمد صاحب مرحوم ۵- دار الصدر محتر مہ رحیم بی بی صاحبہ اہلیہ ماسٹرمحم عبداللہ صاحب مکرمہ عطیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی غربی نمبرا محتر مہ امۃ الشافی درانی صاحبہ اہلیہ مکرم باشم مکرمہ بشری شائستہ صاحبہ درانی صاحب مرحوم محترمہ رقیہ صادق صاحبہ اہلیہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب باب الابواب محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری علی اکبر صاحب عبدالرحمن صاحب دار الصدر جنوبی محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر الدین صاحب دار الرحمت غربی محترمه امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ نجم النساء بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فرزند علی صاحب مولوی عبد الکریم صاحب محترمہ امة الحفیظ صاحبہ اہلیہ ملک خادم حسین صاحب دار الصدر شرقی نمبرا محترمه نظیر بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالرحمن صاحب انور دار البرکات محترمہ امتہ ائی صاحبہ اہلیہ ماسٹرمحمد ابراہیم صاحب محترمه امینہ فرحت صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی

Page 343

335 محترمہ زکیہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک مبارک احمد صاحب دار الرحمت شرقی محترم محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالرحیم صاحب محترمہ امۃ الرشید فرحت صاحبه اور محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ظفر الاسلام صاحب مرحوم ۱۹۵۳ء سے اب تک جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ کا انتظام صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ ربوہ کے ہی سپر درہا ہے جو بڑی خوش اسلوبی سے یہ فریضہ سرانجام دیتی رہی ہیں.شعبہ تعلیم :.ہرسال ہر حلقہ میں درس قرآن مجید کا انتظام کیا گیا.قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی.قادیان میں خواندہ اور قرآن کریم ناظرہ جانے والی خواتین قریباً سو فیصدی تھیں.مگر ہجرت کے بعد قادیان کے بہت سے خاندان دوسرے شہروں میں آباد ہو گئے اور ربوہ میں کئی نئے خاندان دیہات کے بھی آباد ہو گئے جن کی وجہ سے خواندگی اور قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ جاننے کا معیار کم ہو گیا.اس لئے اس طرف خصوصی توجہ دی گئی ۵۵-۱۹۵۴ء میں ۳۷ عورتیں قرآن مجید ناظرہ ، ۲۶ با ترجمہ اور ۰ اعور تیں لکھنا پڑھنا سیکھتی رہیں.۳۲ مستورات نے چہل احادیث یاد کی.۱۹۵۵۵۶ء میں ۱۶۵ عورتیں اور بچے قرآن کریم ناظرہ ، باترجمہ اور یسرنا القرآن پڑھتے رہے.۵۸.۱۹۵۷ء میں ۱۳ بچوں نے ناظرہ ختم کیا.ے بچوں نے میسرنا القرآن اورا المبرات نے ترجمہ سے قرآن کریم پڑھا.۵۵-۱۹۵۴ء میں فقہ احمدیہ کے امتحان میں گیارہ ممبرات نے شمولیت کی.۵۸.۱۹۵۷ء میں ضرورۃ الامام کے امتحان میں ۲۶ ممبرات نے ،کشتی نوح کے امتحان میں ۱۵۹ نمبرات نے حصہ لیا.۱۹۵۸ء میں لجنہ مرکزیہ نے ایک تعلیمی نصاب مقرر کیا تھا.ربوہ کی ۴۸ خواتین نے اس میں شمولیت کی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے مقرر کردہ امتحانات میں کثرت سے خواتین اور بچیاں شامل ہوتی رہیں.شعبہ خدمت خلق :- چونکہ ربوہ میں کثرت سے ایسی خواتین آباد ہیں جن کی مالی حالت صفر کے برابر ہے اس لئے

Page 344

336 ابتداء ہی سے لجنہ اماءاللہ ربوہ کے شعبہ خدمت خلق نے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.ہر عید کے موقع پر بیوگان، بیتامی اور مستحقین کو نئے کپڑے بنوا کر دیئے جاتے رہے.غریب بچوں کی تعلیمی امداد دی جاتی رہی.گندم، چاول ، آنا اور نقدی سے مستحقین کی مد کی گئی.غریب لڑکیوں کی شادیوں پر زیور اور کپڑے بنوا دیئے گئے.مستحق خواتین کی فہرستیں بنا کر حضرت خلیفہ اسی کے سامنے پیش کی جاتی رہیں اور آپ کی طرف سے جو لحاف موصول ہوتے تھے وہ خواتین میں تقسیم کئے جاتے رہے.اسی سلسلے میں دفتر خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی تقسیم کرنے کے لئے کپڑے وصول کئے جاتے رہے.شعبہ مال:.سیکرٹری مال مکرمہ مسعودہ بیگم صاحبہ رہیں.اس زمانہ میں نمایاں تحریکات مسجد ہالینڈ سکنڈے نیوین مشن اور دفتر لجنہ اماء اللہ کے چندوں کی ہوئیں جن میں خواتین نے نمایاں حصہ لیا.مسجد ہالینڈ میں خواتین ربوہ کا چندہ قریباً چودہ ہزار روپے تھا.مسجد ہالینڈ کی تحریک اس وقت ہوئی تھی جبکہ ربوہ میں ادھر اُدھر سے لٹے ہوئے مہاجرین اپنا سب مال کھو کر از سر نو آباد ہونا شروع ہوئے تھے بے حد کمزور مالی حالت کے باوجود خواتین ربوہ کسی قسم کی مالی قربانی دینے میں دوسری لجنات سے کم نہ رہیں.۱۹۵۳ء میں تحریک جدید کا سال شروع ہونے پر ہر گھر میں جا کر تحریک جدید کے وعدہ جات کی فہرست تیار کی گئی.اس سال کے کل وعدے ۴۴۹ خواتین کے تھے.جن میں نئی شامل ہونے والی بہنیں ڈیڑھ صد تھیں.۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۸ء تک لجنہ اماءاللہ ربوہ کا ۲۹۹۶ روپے چندہ ممبری، ۷۵۶۹ روپے چندہ تحریک جدید (اس میں ان خواتین کا چندہ شامل نہیں جو براہ راست ادا کرتی رہیں ) ، ۱۳۴۱ روپے چندہ وقف جدید، ۳۵۵ روپے چندہ عام ۲۴۹ روپے تصنیف تاریخ احمدیت، ۸۴۸ روپے چنده جلسه سالانہ ،۲۰۴ روپے عید فنڈ ، ۱۵۹۶ روپے چندہ سفر یورپ ، ۲۱۰ روپے چندہ سیلاب زدگان اور ۱۹۷ روپے چندہ گیلری دفتر لجنہ تھا.جلسے:.ہر سال جلسہ سیرت نبی ع ، جلسہ پیشگوئی مصلح موعودؓ، جلسہ برکات خلافت، جلسہ یوم جمہوریہ

Page 345

337 پاکستان منعقد کئے جاتے رہے.ان مواقع پر سٹال لگائے جاتے رہے اور بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی.سٹال کی آمد اشاعت اسلام کے لئے جمع کروا دی جاتی ہے.۱۹۵۳ء میں حضرت سیّدہ ام داؤد صاحبہ نا ئب صدر لجنہ مرکزیہ کی وفات پر ان کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا.۱۹۵۸ء میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی وفات پر ان کی یاد میں جلسہ منعقد کیا گیا.ناصرات الاحمدیہ:.ناصرات کو منظم کیا گیا.سات حلقے ناصرات کے بنائے گئے.۱۹۵۸ء میں صاحبزادی امتة الباسط صاحبہ بیگم سید داؤ داحمد صاحب کو سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مقرر کیا گیا.اور اب تک وہی کام کر رہی ہیں.ناصرات الاحمدیہ نے بھی دوسرے شعبہ جات کی طرح نمایاں ترقی کی.۱۹۵۸ء سے ناصرات الاحمدیہ کا کام نصرت گرلز سکول کے سپرد کیا گیا جنہوں نے صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ کی نگرانی میں نمایاں کام کیا.۱۹۵۶ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.جس میں لجنہ ربوہ کی خواتین اور بچیوں نے نمایاں حصہ لیا.۱۹۵۸ء میں سالانہ اجتماع کے موقع پر باہر سے آنے والی نمائندگان کی ایک وقت کی دعوت لجنہ اماءاللہ ربوہ نے کی.متفرق امور :.۱۹۵۳ء میں وصیت کروانے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی.اس سال چودہ بہنوں نے وصیت کی.ممبرات لجنہ اماءاللہ کی ایک نمایاں خدمت جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی خدت سرانجام دینا ہے.کئی سو کی تعداد میں مستورات اور بچیاں مہمانوں کے قیام، طعام، جلسہ گاہ، نمائش، بیعت کروانے وغیرہ کا اہم فریضہ ادا کرتی رہیں اور زیادہ سے زیادہ وقت مہمانوں کو آرام پہنچانے میں صرف کرتی رہیں.شعبه تربیت:.یہ بڑا اہم شعبہ ہے.ربوہ کی خواتین کو باہر کی خواتین کے لئے نمونہ ہونا چاہئے.ے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکز یه ۵۸ - ۵۷ ص ۲۶

Page 346

338 اس لئے ہر ممکن کوشش صحیح طور پر پردہ کرنے ، اسلامی اخلاق کا مجسم نمونہ نظر آنے ، رسومات ترک کرنے ،سادہ زندگی گزارنے کی تلقین اور نصیحت کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ کوئی غیر اسلامی رسم مستورات ربوہ میں رائج نہیں.۱۹۵۸ء میں ربوہ کے مندرجہ ذیل حلقہ جات اور عہدہ دار تھیں :.حلقہ صدر سیکرٹری ا.دارالصدر شرقی کوارٹرز محترمہ نصیرہ نزہت صاحبه محترمہ فاطمہ بیگم صاحبه تحریک جدید ۲.دارالصدر شرقی محتر مہ نظیر بیگم صاحبہ محترمه حمیده اختر صاحبه وامۃ الرشید صاحبه عطیہ بیگم صاحبہ کوارٹر صدرانجمن احمدیہ ۳.دار الصدر غربی نمبر ا محتر مہ امۃ العلیم صاحبہ ۴.دارالصدر غربی نمبر ۲ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ محتر مدامۃ الرشید تقی صاحبہ ۵.نصرت گرلز ہائی سکول محترمه استانی امتہ العزیز عائشہ صاحبه استانی احمد بی صاحبہ ہیڈ مسٹریس ۶.جامعہ نصرت محترمہ استانی سردار صاحبہ سپرنٹنڈنٹ محترمہ راشدہ مبارکہ صاحبہ ہوٹل جامعہ نصرت ے.دار الرحمت غربی محترمه امینہ بیگم صاحبه محترمہ نجم النساء صاحبه.دار الرحمت وسطی نمبرا محتر مدامة الحمید بیگم صاحبہ محترمہ قمر النساء صاحبه ۹ - دار الرحمت وسطی نمبر ۲ محترمہ رضیہ خانم صاحبہ محترمہ ناصرہ رحمن صاحبہ ۱۰.باب الابواب محتر مہ سکینہ بیگم صاحبه محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ ۱۱.دار النصر محتر مدامة الرؤف صاحبہ محتر مہ نور بیگم صاحبہ ۱۲.دارالیمن محترمہ سیدہ بیگم صاحبه محترمہ رضیہ نوید صاحبها

Page 347

339 حضرت سیّدہ ام داؤ دصاحبہ کی وفات:.۱۹۵۳ء میں لجنہ اماء اللہ کو ایک نہایت بابرکت وجود کی جو لجنہ کی روح رواں اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیت کی مالک تھیں جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑا.یہ بزرگ اور جلیل القدر خاتون لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی نائب صدر حضرت ام داؤ دسیدہ صالحہ بیگم صاحبہ تھیں جو لمبی علالت کے بعد ۸ ستمبر کو لا ہور میں رحلت فرما گئیں.آپ سلسلہ احمدیہ کے ایک جید عالم اور محدث اور حضرت ام المومنین کے بھائی حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی اہلیہ اور ایک بہت بڑے بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کی پوتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعدہ میسر نا القرآن کی صاحبزادی اور جامعہ احمدیہ کے موجودہ پر نسپل محترم سید داؤد صاحب کی والدہ ماجدہ تھیں.صحابیہ اور موصیہ ہونے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشوف اور رڈیا صالحہ کی نعمتوں سے بھی نوازا تھا.آپ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں.آپ کا نام ساتویں نمبر پر تھا.۲ لجنہ اماءاللہ کی نائب صدر کی حیثیت سے احمدی مستورات کی دینی علمی اور اخلاقی ترقی اور تربیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں.غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں.یہی وجہ ہے کہ جس کام کو سنبھالتی تھیں اسے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتی تھیں.جلسہ سالانہ خواتین کے موقعہ پر مہمان نوازی کے انتظامات آپ کی نگرانی میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام پاتے تھے.لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے ابتدائی ایام میں آپ کی تعمیری تجاویز علمی مضامین اور عملی میدان میں آپ کا نمونہ ایسے اہم کام ہیں جو لجنہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے.آپ کو ابتداء ہی سے متواتر لجنہ کی اہم خدمات بجالانے کی توفیق ملی.آپ کی سیرت میں چار باتیں خصوصا نمایاں نظر آتی ہیں:.ا.قرآن کریم سے محبت اور علم حاصل کرنے کا شوق ایر پورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزی ص ۵۹ - ۱۹۵۸ء احمدی خاتون سلسلہ الجدید جلد نمبر انمبر اصفحہ ۶ و تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ص ۷۰

Page 348

340 ۲.دینی خدمت کا جذبہ ۳.خدمت خلق کا شوق ۴.انتظامی قابلیت آپ کو قرآن کریم سے بے حد محبت تھی.قرآن کریم پر غور کرنے اور اس کے مطالب کوحل کرنے کا ذوق تھا.اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنے یا کسی سے پوچھنے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے سے بالکل نہ جھجکتی تھیں.چھوٹی عمر میں ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی شادی ہوگئی.قریباً ساری تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیر تربیت، پھر حضرت خلیفتہ امیج الاول رضی اللہ عنہ سے، اور بعد ازاں خود حضرت میر محمد الحق صاحب سے حاصل کی.خاصی بڑی عمر میں مولوی کا امتحان پاس کیا.قرآن کریم کے درسوں میں ہمیشہ قرآن مجید کا وہ نسخہ جس کے درمیان سادے کا غذ لگوائے تھے آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا.کوئی نئی بات یا نیا نکتہ سنتیں اسی وقت نوٹ فرما لیتیں.علم حدیث پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا.کئی افراد کو آپ سے اس سلسلہ میں شرف تلمذ حاصل ہوا.اسی طرح علم الفرائض اور علم عروض پر بھی اچھا عبور حاصل تھا.عربی بہت اچھی جانتی تھی.جو بات خود معلوم نہ ہوتی اس کو سمجھنے یا سیکھنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی اور جو خود آتا تھا اسے دوسروں کو سکھانے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا.خدمت خلق کا بے لوث جذبہ دل میں رکھتی تھیں.لجنہ اماءاللہ کے اجلاسوں میں کارکنات اور عہدہ داروں کو ہمیشہ خدمت خلق کی طرف توجہ دلاتیں اور ہر رنگ میں مستحقین کی خدمت کرنے کی ہدایت فرمائیں.آپ کی ہدایت ہوتی تھی کہ ہر کارکن کو مستحقین کے صحیح حالات اور پتوں کا علم ہونا چاہیے اور مد دبغیر کسی تشہیر کے اور بغیر اس کے سوال کئے کی جانی چاہیے.دینی خدمت کا شوق بے حد تھا.شادی کے بعد ابتدائی زمانہ علم سکھنے میں گذرا اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم ہوتے ہی آپ نے لجنہ اماء اللہ کے ہر کام میں حصہ لیا.نائب صدر کا عہدہ تو کئی سال بعد آپ کو ملا.بغیر کسی عہدہ اور نام کے ہر خدمت کے وقت آپ سب سے پہلے ہوتیں.عموماً پس منظر میں رہ کر کام کیا کرتیں.کوئی کام کسی کارکن کے سپرد ہوتا تو وہ کارکن عموماً آپ ہی کے پاس جا کر سمجھتا اور کرتا تھا.آپ کا دینی خدمات کا جذ بہ آپ کے مندرجہ ذیل خط سے روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے.آپ نے بھوانی سے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو لکھا:.

Page 349

341 ور افسوس تو یہ ہے کہ جو پڑھا تھا وہ بھی ضائع کر دیا.نہ دینی نہ دنیوی کوئی فائدہ اٹھایا.خدا نے خدمت دین کی توفیق دی تھی.اپنی بدقسمتی سے یونہی وقت ضائع کر دیا اور یہ بھی نفس کا دھوکا ہے.اگر اب بھی صحت کا خیال رکھوں تو کچھ نہ کچھ کیا بلکہ بہت کچھ کرسکتی ہوں.آئندہ کے لئے میری اولا دکو نصیحت ہے کہ نہ تو صحت کو ضائع کریں اور نہ وقت کو ضائع کریں.اگر صحت ہوگی تو خدمت دین بھی کر سکیں گے ورنہ سر پر ہاتھ رکھ کر پچھتائیں گے مجھ سے عبرت حاصل کریں.میرا ارادہ اور میری نیت تو یہ ہے کہ میری اولاد کا ہر لمحہ اور ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہو اور میں نے اپنی طرف سے کر دیا.اب انجام تک پہنچانا ان کا کام ہے.اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا فرمائے.آپ کے حسن انتظام کا مظاہرہ ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر ہوتا تھا.۱۹۲۲ء سے آپ نے جلسہ سالانہ کے شعبہ مہمان نوازی کا کام سنبھالا اور ۱۹۵۲ء تک بغیر ناغہ کے یہ شعبہ آپ کے پاس رہا.کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آپ بیمار پڑیں اور بظاہر کام کے قابل نہ رہیں.لیکن آپ نے بستر پر لیٹے لیٹے کارکنات کو ہدایات دے کر ان سے کام کروایا.جب تک ایک ایک مہمان کی ہر ضرورت نہ پوری ہو جاتی آپ گھر تشریف نہ لے جاتیں.پھر صبح نماز سے بھی قبیل کام کیلئے موجود ہوا کرتیں.۱۹۵۲ء کے آخر میں آپ بیمار ہوئیں اور جلسہ سالانہ کے دنوں میں بیماری شدت اختیار کر چکی تھی.ان سے کام کے سلسلہ میں استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے میری جان بھی حاضر ہے لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ اپنی اس بیماری میں میں مہمانوں کی کوئی خدمت سرانجام دے سکوں گی.جلسہ سالانہ کے انتظامات کے علاوہ کئی ہنگامی موقعوں پر آپ نے اہم خدمات سرانجام دیں.مثلاً الیکشنوں کے موقع پر.۱۹۴۸ء میں فرقان فورس کے مجاہدین کی خدمات کے سلسلہ میں وغیرہ.حضرت میر محمد الحق صاحب مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور دارالشیوخ کے نگران اعلیٰ تھے.الصلح کراچی سے اکتو برس 12 سم مع الصلح کراچی ار تیر ۱۹۵۳ پستی ۳ ۷۷ اکتوبر ۱۹۵۳، ص۴ سل صفحه

Page 350

342 یتیم غریب بچوں کے کپڑے سلوانے ، رضائیاں تیار کروانے اور ان کی تعلیم اور تربیت اور خبر گیری میں آپ کا نمایاں حصہ رہا.علمی قابلیت :.جس زمانہ میں آپ نے اعلیٰ عربی کی تعلیم حاصل کی یہ وہ زمانہ تھا جبہ اعلی تعلیم یافتہ خواتین خال خال پائی جاتی تھیں.عربی ، فارسی اور علم حدیث میں خاصی دسترس رکھتی تھیں.شعر بھی کہ لیتی تھیں.تقریر کرنے کے علاوہ تحریر بھی بہت اچھی تھی.آپ میں یہ خصوصیت تھی کہ مختصر الفاظ میں خاصا مضمون بیان کر دیتی تھیں.بڑی کثرت سے خواتین اور بچیوں کو آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھایا.آخری علالت اور وفات :.حضرت سیدہ ام داؤ د مرحومہ ایک لمبے عرصہ سے بیمار چلی آتی تھیں بالآخر آپ کے گلے کی نالی بند ہوگئی اور معدہ میں خوراک جانی رک گئی.پھر معدہ میں نلکی کے ذریعہ خوراک پہنچائی جاتی رہی مگر آپ کی طبیعت دن بدن گرتی ہی چلی گئی اور یہی تکلیف بالآخر جان لیوا ثابت ہوئی.ستمبر کو لاہور میں آپ نے وفات پائی.اسی روز آپ کی نعش ربوہ لائی گئی.اگلے روز ۹ ستمبر کو آٹھ بجے صبح حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثرت سے احباب شامل ہوئے.ساڑھے نو بجے رات آپ کا تابوت بہشتی مقبرہ ربوہ کے احاطہ خاص میں سپردخاک کیا گیا.قبر تیار ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لمبی اجتماعی دعا کروائی لے تعزیتی قرار داد لجنہ اماءاللہ مرکزیہ: لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا ایک غیر معمولی اجلاس ۱۴ ر ستمبر بروز سوموار صبح آٹھ بجے دفتر لجنہ اماءاللہ ربوہ میں منعقد ہوا.جس میں مندرجہ ذیل قرار داد پاس کی گئی:.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مبرات حضرت سیدہ ام داؤ درضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر اپنے انتہائی رنج اور غم کا اظہار کرتی ہیں.سیدہ ام داؤ د بلجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی نائب صدر تھیں اور لجنہ اماءاللہ کی روح المصلح ۱۳۱۰ ستمبر ۱۹۵۳ء ومصباح اکتوبر۱۹۵۳ء صفحه۲

Page 351

343 رواں.مستورات کے لئے آپ کا وجود بہت ہی بابرکت تھا.آپ ہر وقت عورتوں کی ترقی کے لئے کوشاں رہتی تھیں.خاص طور پر جلسہ سالانہ کا انتظام جس عمدگی اور خوبی سے آپ کرتی تھیں اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنی جوار رحمت میں لے اور اعلیٰ درجات عطا فرمائے اور آپ کی اولا دکو اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرحومه احمدی مستورات کے لئے مشعل راہ تھیں.افسوس مستورات ان کی ہدایات اور نصائح سے محروم ہو گئی ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لجنہ اماءاللہ کی مبرات کو توفیق دے کہ وہ قوم کی اسی طرح خدمت کریں جس طرح آپ کیا کرتی تھیں.تعزیتی جلسہ:.مورخه ۲۹ / اکتوبر ۱۹۵۳ء کو صبح سات بجے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا.جس میں حضرت سیّدہ ام داؤد صاحبہ کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی گئی.سب سے پہلے حضرت سیدہ صدر صاحبہ جلسہ نے تقریر فرمائی.آپ کے علاوہ چند اور مستورات نے بھی تقاریر فرمائیں اور آپ کی خدمات اور آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا.۲ حضرت ام داؤ د صاحبہ کی رحلت پر بجنات اماء اللہ نے کثرت سے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں اور متعدد مقامات کی قراردادیں سلسلہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں.سے حضرت ام داؤد کے نمایاں اوصاف :.حضرت ام داؤ د رضی اللہ عنہا کی متعدد صفات کا ذکر گذشتہ صفحات میں ہو چکا ہے.آپ کی وفات پر عاجزہ امتہ اللطیف کا ایک مضمون المصلح کراچی میں شائع ہوا تھا.اس کے چند اقتباس آپ کے ذکر خیر کے طور پر درج ذیل کئے جاتے ہیں.جن سے آپ کی نمایاں خصوصیات اور اہم اوصاف پر کسی قدر مزید روشنی پڑتی ہے.مصباح اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحه ۳۹ لمصل ۳ ا ح ۱۵ ستمبر ۱۹۵۳ء مصباح اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحه ۱۹ مصباح نومبر ۱۹۵۳ء صفحه ۳۹

Page 352

344 وو " آپ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ جو کام بھی آپ کے سپرد ہوتا اُسے حد درجہ محنت اور انہماک کے ساتھ کرتیں اور کرواتیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتیں جب تک وہ کام تکمیل کو نہ پہنچ جائے.کام ادھورا چھوڑنے کو سخت نا پسند فرماتیں.۱۹۴۵ء میں الیکشن کے ہنگامی کام کے موقع پر باوجود ناسازی، طبع کے آپ بیس بیس گھنٹے متواتر کام کرتی رہیں.ہر کارکن آپ کے رعب اور وقار کی وجہ سے پہلے پہل آپ کے ساتھ کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی.لیکن ان میں سے جو بھی تندہی ، جانفشانی اور محنت سے کام کرتی.وہ آپ کی محبت ، شفقت، بے تکلفی ، ہمدردی اور دعاؤں کا مورد ہوتی.یہ آپ ہی کی شبانہ روز محنت اور حسن انتظام کا نتیجہ تھا کہ الیکشن کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین نے مستورات کے کام پر خاص طور پر اظہار خوشنودی فرمایا.الحمد للہ محنت ، استقلال اور حسن انتظام:.تقسیم ہند کے بعد رتن باغ لاہور میں پہلے سے بھی زیادہ آپ کے پاس رہنے کا موقع ملا.عورتوں سے تعلق رکھنے والے اکثر ہنگامی اور اہم کام آپ کے سپرد ہی ہوتے تھے.آپ ان کاموں کو بڑی محنت، جانفشانی اور احسن طریق سے سرانجام دیتیں.کارکنوں سے بہتر سے بہتر رنگ میں اور زیادہ سے زیادہ کام لینے پر قادر تھیں.باوجود کمزوری ، صحت کے کام کے وقت محنت ، انہماک ، استقلال اور حسن انتظام کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتیں.ہر کام میں سبقت فرماتیں.پھٹے پرانے میلے کمبلوں اور کپڑوں کو قومی ضرورت کی خاطر اپنے ہاتھ سے پیوند لگا تیں اور جب تک ہر کام مکمل نہ ہو جاتا آرام کی نیند نہ سوتیں.آپ مستورات میں قرونِ اولیٰ کی صحابیات کا سارنگ پیدا کر دینے کی خواہاں ہوتیں.غرباء، بیوگان اور یتامی کی دلجوئی اور حاجت روائی کرنا اپنے مرحوم جلیل القدر شوہر کی طرح آپ کو بھی بہت محبوب تھا.لجنہ اماءاللہ کے اجلاسوں میں تاکیداً فرما تیں کہ ہر وقت غرباء کی فہرست اپنے پاس رکھا کرو.تا کہ اگر کسی وقت غرباء کو کچھ دینے کا موقع ہو تو فور دے دیا جائے.اپریل ۱۹۴۹ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ ربوہ میں منعقد ہوا اور عورتوں کے لئے رہائش کا انتظام کرنا ایک بہت بڑا کٹھن ، وسیع اور نازک کام تھا.ناظمہ جلسہ سالانہ آپ کو بنایا گیا تھا.

Page 353

345 میرے اور محترمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ کے ذمہ نائب ناظمہ کا کام تھا.اس کام کے علاوہ جلسہ سالانہ سے صرف دو دن قبل حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا کہ رتن باغ میں رہنے والی تمام مستورات (جن میں درویشوں اور بعض کارکنوں کی بیویوں کے علاوہ بیوگان بھی شامل تھیں ) ربوہ مستقل رہائش کے لئے چلی جائیں.فوری طور پر ان مستورات کو انتظام کے ماتحت لے جانا اور ان کے قیام کا انتظام کرنا بھی ایک بھاری کام تھا.مستورات کا قافلہ چالیس کے قریب خاندانوں پر مشتمل تھا جس کی مجموعی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب تھی.حضرت ممانی جان اس قافلہ کو لے کر لاہور سے ربوہ تشریف لائیں.رات کو جب گاڑی ربوہ پہنچی تو حضرت امیر المومنین اسٹیشن پر تشریف فرما تھے.حضور نے ہر عورت کا سامان جائے قیام تک خدام کے ذریعہ بھجوانے کا انتظام فرمایا.میرے پاس مستورات کی فہرست اور ان کے سامان کی لسٹ تھی.میں نے دیکھا کہ حضرت ممانی جان اس وقت تک سٹیشن پر تشریف فرمار ہیں جب تک کہ تمام عورتوں کو ان کے سامنے بھجوا نہیں دیا گیا اور پھر آپ نے باوجود سفر کی کوفت کے آرام نہیں فرمایا.مستورات کو کھانا کھلایا اور ہر قسم کی ضرورت کی چیزوں کا آپ انتظام فرماتی رہیں.جلسہ سالانہ کی قیام گاہ میں باوجود شدت گرمی کے سارا دن اور رات کام کرتیں.ہم ان کی نسبت چوتھائی کام کر کے تھک جائیں.لیکن باوجود کمزوری، صحت وہ کبھی کسی وقت بھی ست نظر نہ آتیں.ہر مہمان عورت تک خود پہنچ کر دریافت فرمانے کی کوشش کرتیں کہ کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے؟ مردوں کو ساتھ لے کر انتظام کیا.ہر نقص کو دور کرواتیں.کہیں روشنی کے گیس لگوا رہی ہیں تو کہیں پانی کا انتظام کروا رہی ہیں.اور کہیں روٹیوں اور دیگوں کا جائزہ لے رہی ہیں.رات کے چاہے دوبج جائیں جب تک صحیح طریق سے ہر کام ختم نہ ہو جائے اور ہر کارکن اپنی رپورٹ سنا کر اگلے دن کے لئے ہدایات نہ لے لے آپ آرام نہ فرماتیں.علم وفضل:.آپ کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ قرآن مجید، احادیث اور دینیات کے علم کے لحاظ سے بھی نہایت بلند پایہ رکھتی تھیں.مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ جماعت احمدیہ کے کئی علماء نازک دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور آپ سے استفادہ کیا کرتے تھے.جس

Page 354

346 طرح مردوں میں حضرت میر محمد الحق رضی اللہ عنہ کو اپنے علم و فضل کے لحاظ سے ایک ممتاز اور مخصوص مقام حاصل تھا بالکل اسی طرح آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت ممانی جان مرحومہ کو بھی احمدی مستورات میں دینی مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے اور اپنے تجر علمی کے لحاظ سے ایک یگانہ حیثیت حاصل تھی.با قاعدگی اور سلیقہ:.حضرت ممدوحہ کے ہر کام میں ایک با قاعدگی او سلیقہ بھی نمایاں نظر آتا تھا.آمد وخرچ کا با قاعدہ ریکارڈ رکھتیں خواہ گھر کا خرچ ہو یا چندہ کا حساب.آئندہ کرنے والے کام ایک نوٹ بک میں درج فرماتیں اور اسے حفاظت سے رکھتیں.غرض ہر کام میں باقاعدگی اور سلیقے کو پسند فرماتیں.تین سال مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا.آپ کے ساتھ کام کرنے سے میں نے بہت کچھ سیکھا.آپ نے میرے کام پر متعد دمرت خوشی کا اظہا فرمایا اوردعا میں میں لے لجنہ اماءاللہ کراچی سے حضرت اسح موعود کا اہم خطاب :.۲۲ ظہور (اگست) کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعود نے جو ان دنوں کراچی تشریف فرما تھے احمد یہ ہال میں لجنہ اماءاللہ کراچی سے ایک اہم خطاب فرمایا جس میں حضور نے احمدیت کے خلاف مخالفت کے طوفان کا ذکر کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ احمدی مردوں کے دوش بدوش احمدی خواتین کو بھی احمدیت کے متعلق پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے.حضور نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ آج کل ظاہری طور پر سوسائٹی میں عورتوں کا اثر بہت بڑھ گیا ہے.احمدی مستورات کو چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں.اپنے اپنے حلقہ میں دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات بڑھا کر اُن غلط فہمیوں کو دور کرنے کی پوری کوشش کریں جو احمدیت کے خلاف بکثرت پھیلائی گئی ہیں.اگر احمدی خواتین اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کریں تو اُس کا بہت خوشگوار اثر ظاہر ہو سکتا ہے.ملنے جلنے سے اور میل جول بڑھانے سے غیر احمدی عورتوں کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی امت میں سے ہی ہیں.ان کا کلمہ ،نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وہی ا بروز نامه اصلح کراچی ۱۳ ستمبر ۱۹۵۳ء

Page 355

347 ہے جو دوسرے مسلمانوں کا ہے.اگر یہ غلط فہمیاں دور نہ ہوئیں تو ہماری مشکلات میں بہت اضافہ ہو جائے گا.اس لئے اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے.۱۹۵۳ء میں لجنہ کراچی کی طرف سے بیگم لیاقت علی صاحبہ کو ہالینڈ میں سفیر مقرر ہونے پر عصرانہ دیا گیا اور ایڈریس پیش کرتے ہوئے لجنہ اماءاللہ کے مقاصد اور کام سے آگاہ کیا گیا.محترمہ بیگم صاحبہ نے جوابی تقریر میں لجنہ اماءاللہ سے تعارف حاصل کرنے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا.امریکہ بیرونی ممالک کی لجنات کی مساعی ڈیٹن ، شگاگو، پٹس برگ اور سینٹ لوئیس میں ہر ماہ لجنات کی دودھ میٹنگیں ہوتی رہیں.جن کی رپورٹیں با قاعدہ مرکز میں آتی رہیں.۱۵۵ افراد کو احمدی بہنوں نے زبانی اور بذریعہ لٹریچر تبلیغ اسلام کی جلسہ سالانہ کی نمائش کے لئے سامان تیار کر کے لجنہ نے بھجوایا ہے امریکہ کی لجنات کا ایک اہم اجتماع احمدی جماعتوں کی چھٹی سالانہ کنونشن کے موقع پر وائی ایم سی اے ہال میں زیر صدارت مسٹر زینب عثمان آف سینٹ لوئیس منعقد ہوا.اس موقع پر لجنہ کی عہدیداروں کا انتخاب ہوا.محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر صدر منتخب ہوئیں.محترمہ کاملہ حکیم صاحبہ سیکرٹری اور محترمہ علیہ علی صاحبہ سیکرٹری مال منتخب ہوئیں.اس کنونشن کے موقع پر پہلی مرتبہ لجنہ امریکہ نے اپنی دستکاری کی اشیاء نمائش کے لئے پیش کیں.اس کی آمد سے امریکہ کی لائبریری میں مزید اسلامی لٹریچر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا.کماسی ( گھانا مغربی افریقہ ) کماسی کے مقام پر گذشتہ سال فروری ۱۹۵۲ء میں با قاعدہ انتخاب کے ذریعہ لجنہ کا قیام عمل میں آیا تھا.اسے لجنہ مرکزیہ سے منسلک کر دیا گیا تھا.امسال ہر ماہ ایک یا دومرتبہ لجنہ کے عام اجلاس کا روزنامه المصلح کراچی ۲۷ اگست ۱۹۵۳ء الفضل ۱۳ فروری ۱۹۵۳ء ص ۵ کالم ۲

Page 356

348 ہوتے رہے جن میں مختلف تربیتی اور اصلاحی مضامین سنائے جاتے رہے.ایک ہفتہ وار د مینیات کلاس کھولی گئی جو بعد نماز جمعہ اڑھائی گھنٹے تک جاری رہتی.اس کلاس کا نتیجہ بہت خوشکن رہا.سکرٹری تبلیغ محترمہ عائشہ صاحبہ ہر اتوار کو تبلیغی وفد بنا کر باہر جاتی رہیں.یہ وفد زبانی اور تقسیم لٹریچر کے ذیعہ تبلیغ کرتا رہا.چندہ ممبری با قاعدگی سے وصول کر کے مرکز بھجوایا جا تا رہا.حضرت اقدس کے صدقہ کے لئے اور دفتر مرکزیہ کی کرسیوں کے لئے بھی رقوم بھجوائی گئیں.خدمت خلق کے لئے بھی کئی کام کئے گئے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی وفات پر تعزیتی قرار داد پاس کر کے بھجوائی گئی.ایک چیف کو کھانے کی دعوت دی گئی اور ایک مبلغ کی روانگی پر الوداعی پارٹی کا تمام انتظام کیا گیا.بورا ( مشرقی افریقہ) محترمه سکینه شر ما صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ بٹورا نے اپنی رپورٹ میں تحریر فرمایا کہ بٹورا میں لجنہ اماء اللہ کی از سر نو تنظیم کی.پندرہ روزہ تربیتی اجلاس کروائے جاتے رہے اور چندوں میں شامل ہونے کی تحریک کی جاتی رہی.اجلاسوں میں غیر احمدی خواتین کو بھی بلایا جاتا رہا.تقاریر کی مشق بھی کروائی جاتی رہی.روزانہ عصر کے بعد بچوں کی دینی کلاس لگائی جاتی رہی.ہفتہ میں ایک روز قران مجید اور احادیث کا درس دیا جاتارہا.یوم التبلیغ کے موقعہ پر لجنہ کا ایک وفد پاکستانی مسلمانوں کے گھروں میں گیا اور رسالہ احمدیت کا پیغام کافی تعداد میں تقسیم کیا گیا.ہے نیروبی :.نیروبی ( مشرقی افریقہ ) میں پندرہ روزہ اجلاس با قاعدہ ہوتے رہے.۲۲ نومبر کوسیرت النبی کا ایک جلسہ زیر صدارت بیگم نواب صدیق علی خان صاحب ہائی کمشنر آف پاکستان منعقد ہوا جس میں غیر احمدی اور غیر مسلم خواتین بھی شامل ہوئیں.باوجود مخالفت کے یہ جلسہ بہت کامیاب رہا.عیدالاضحیہ کے موقع پر کھیلوں کے علاوہ ایک دستکاری کی نمائش بھی لگائی گئی جس کا افتتاح بیگم صاحبہ نواب صدیق علی خان صاحب ہائی کمشنر آف پاکستان نے کیا.اس میں دیگر غیر از جماعت خواتین کے ا مصباح اگست ۱۹۵۳ء صفحه ۳۶ تا ۳۸ ۲ مصباح نومبر ۱۹۵۳ء صفحه ۴۰

Page 357

349 علاوہ مقامی مسلم گرلز سکول کی پرنسپل صاحبہ اور دیگر استانیاں بھی شامل ہوئیں اور انہوں نے بڑی خوشی اور تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح احمدی مستورات کی تنظیم، اتحاد و محبت کے ساتھ مفید کام کر رہی ہے.لا یوم مصلح موعود :.حسب معمول اس سال بھی ۲۰ فروری کو اہتمام کے ساتھ لجنات نے یوم مصلح موعود منایا.مختلف مقامات پر جلسے منعقد ہوئے جن میں پیشگوئی مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر ہوئیں اور حضرت مصلح موعودؓ کے وجود باجود میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی گئی.ربوہ میں جلسہ مصلح موعود حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی صدارت میں منعقد ہوا.جلسہ کے بعد کھیل بھی ہوئے جن میں مستورات نے حصہ لیا ہے جلسہ سیرت النبی:.۳۰/ جون کو لجنہ مرکزیہ کے زیر اہتمام زیر صدارت حضرت بڑی بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جلسہ سیرت النبی منعقد ہوا.اس میں محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ،صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، محترمہ سعیدہ صاحبہ بنت قاضی محمد نذیر صاحب اور محترمہ سعیدہ احسن صاحبہ نے تقاریر کیں.۳ جلسہ سیرت النبی کراچی.۲۹ نومبر کو لجنہ اماء اللہ کراچی کے زیر اہتمام احمد یہ ہال میں جلسہ سیرت النھی منعقد ہوا.صدارت کے فرائض محترمہ بیگم صاحبہ خاں عبد القیوم خاں صاحب سابق وزیر اعلیٰ سرحد نے سرانجام دیئے.جلسہ میں بہت سی غیر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں ہے.ا مصباح جولائی ۱۹۵۴ صفحه ۲۹ ۲ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۳ صفحه ۶ کالم۴ المصيل روزنامه ا صلح کراچی ۲۹ نومبر ۱۹۵۳ء روزنامه ا سح کراچی ۲۹ نومبر ۱۹۵۲ء

Page 358

350 متفرق مساعی روز نامہ الفضل“ پر پابندی:.66 ۲۷ فروری کو احمدیوں کے خلاف فسادات کے نتیجہ میں بعض دیگر اخبارات کے ساتھ ہی الفضل“ کو بھی حکومت نے ایک سال کے لئے بند کر دیا.چنانچہ اس کے بعد روز نامہ اصلح کراچی کو ایک سال تک جماعت احمدیہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع ملا.اس عرصہ میں بجنات کی رپورٹیں بھی امصلح کراچی میں شائع ہوتی رہیں.سالانہ بجٹ :.ماہ مئی میں مجلس عاملہ لجنہ مرکزیہ کے اجلاس میں لجنہ مرکزیہ کو سالانہ بجٹ آمد وخرج منظور کیا گیا.جو ۲۶۲۴ روپے پر مشتمل تھا.مصباح کا سالانہ بجٹ ۳۷۲۰ روپے تھا جبکہ آمدنی متوقع ۲۷۴۴ روپے تھی.ا لجنات کی رپورٹیں:.اس سال مندرجہ ذیل مقامات کی لجنات کی رپورٹیں شائع ہوئیں:.ربوہ، رحیم یارخان، حیدر آباد سندھ، چکوال، ملتان چھاؤنی، قلعہ صوبا سنگھ، چانگریاں مانگا، پشاور، ملتان شہر، چٹاگانگ، راولپنڈی، چک نمبر ۳۱۲ کتھووالی، گوجرہ، شیخو پورہ، منٹگمری (ساہیوال) مونگ، رسالپور.۲ تعلیم القرآن کلاس کا التواء:- اس سال بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر ماہ رمضان المبارک میں تعلیم القرآن کلاس منعقد نہیں کی جاسکی.ے رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ مصباح ستمبر ۱۹۵۳ء صفحه ۴۰۳۹

Page 359

351 سویڈش لیڈی ربوہ میں :.۳۱ اکتوبر کو Miss Eliviping ایک سویڈش خاتون جو وائی.ڈبلیو سی.اے کی فیلڈ سیکرٹری تھیں ربوہ دیکھنے کے لئے آئیں لجنہ نے ان کے اعزاز میں کھانے کی دعوت دی اور کارکنات سے ملوایا.گرلز سکول، کالج ، دفتر لجنہ اماء اللہ دکھائے گئے.مستورات کی دستکاری دکھائی گئی جسے انہوں نے بہت پسند کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرائی گئی.ان کا قیام حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی کے مکان پر رہا.ایک غیر مسلم خاتون کی آمد: ۲۵ جون کو سر لا دیوی صاحبہ سکرٹری بھگوت گیتا بنگال سے پاکستان کا دورہ کرتی ہوئی ربوہ آئیں.لجنہ مرکزیہ نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی جس میں ربوہ کی متعددخواتین شامل ہوئیں.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نے ان کا تعارف کروایا.بعد ازاں مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی رہی.سرلا دیوی صاحبہ نے اپنے دورہ کا مقصد ہندؤوں اور مسلمانوں میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنا بتایا.۲.الوداعی پارٹی:.۳۰/ جون کو نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ میں محترمہ سکینہ سیفی اہلیہ صاحبہ مولوی نور محمد صاحب سیفی صاحب مبلغ نائیجیریا کے اعزاز میں پارٹی دی.وہ اپنے خاوند کے پاس نائیجیر یا جارہی تھیں.محترمہ استانی سیدہ صاحبہ نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں محترمہ اہلیہ صاحبہ سیفی صاحب نے شکریہ ادا کیا.سے برقعہ کے متعلق ریزولیوشن :.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی طرف سے چٹھی موصول ہوئی کہ موجودہ برقعہ قابل اعتراض ہے.مستورات کو برقعہ کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے.چنانچہ ۲۳ /ستمبر لے رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ ۲ مصباح جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۱ سے مصباح جولائی ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۲

Page 360

352 ۱۹۵۳ء کو مجلس عاملہ لجنہ مرکزیہ نے ریزولیوشن پاس کیا کہ ا.خوشنما بر فقھے نہ پہنے جائیں.۲.آستینیں ضرور لگائی جائیں ۳.اونچی تکون کا نقاب نہ ہو.اسی طرح بے حد تنگ برقعہ پہننے سے منع کیا جائے.۵.تیرہ چودہ سال کی بعض لڑکیاں بغیر پردے کے نظر آتی ہیں.لڑکیوں کے والدین کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو چادر یا برقعہ پہنا کر باہر بھیجا کریں..یہ اصلاحی سرکلر (۱) نصرت گرلز سکول (۲) جامعہ نصرت (۳) تمام حلقہ جات ربوہ کے علاوہ لجنات کو بھجوایا گیا.امتحان کتاب فتح اسلام :- ۲۸ نومبر کو امتحان کتاب فتح اسلام ہوا جس میں باون ممبرات شامل ہوئیں.محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ بنت با بوا کبر علی صاحب مرحوم اول، محترمہ ناصرہ سلطانہ صاحبہ محمود آباد اسٹیٹ دوم اور محترمہ رفیقہ بیگم صاحبہ بنت شیخ مختار نبی صاحب گوجرانوالہ سوم رہیں.سے (نوٹ : ملکی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اس سال صرف ایک ہی امتحان ہوسکا) جلسہ سالانہ مستورات :.حسب معمول اس دفعہ بھی احمدی مستورات کا جلسہ سالانہ ۲۶.۲۷.۲۸ /دسمبر۱۹۵۳ء کور بوہ میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس دفعہ مستورات میں تقریر نہ فرما سکے.اس لئے حضور کی تقاریر تینوں روز مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.بعض دیگر تقاریر بھی مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.اس دفعہ جلسہ کے مختلف اجلاسوں کی صدارت کے فرائض حضرت سیدہ ام ناصره محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے ادا کئے.مقررات اور ان کے موضوع یہ تھے:.جلسہ سالانہ اور اس کی غرض و غایت محترمه استانی میمونه صاحبه موجودہ زمانہ میں احمدی مستورات کی ذمہ داریاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مد ظلہ العالی ا رجسٹر کا رروائی لجنہ مرکزیہ الفضل ۱۲ فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۵

Page 361

353 اخلاق فاضلہ اور اسلام خلافت کی اہمیت محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبه حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہا غیر اسلامی مکروہات اور بدعات جن کی احمدیت خاکسارامتہ اللطیف اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب نے اصلاح کی احمدی مستورات کے فرائض احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے محترمہ صادقہ ملک صاحبہ محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری دوست محمد صاحب مرحوم کا ئنات عالم کی پیدائش اور حضرت آدم کی خلافت محترمہ امتہ المجید صاحبہ ایم.اے قرآن کریم کی روشنی میں کیا اسلام بزور شمشیر پھیلا محتر مہ امة المجيد صاحبه اپنے پیارے بندوں سے خدا کے سلوک کی چند مثالیں محترمه استانی امته الرشید شوکت صاحبه طرح نو محترمه سعیده ملک صاحبه پہلے روز حاضری ۶۳۳۹ تھی.دوسرے روز ۷۷۷۴ اور تیسرے روز کے آخری اجلاس میں ۰۳۴۴ا رہی ا حضرت مصلح موعودؓ کی تقریہ:.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے اس جلسہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ مستورات کے جلسہ میں تشریف لا کر تقریر نہ فرما سکے بلکہ مردانہ جلسہ گاہ میں ہی اپنی تقریر کے دوران مستورات سے بھی خطاب فرمایا جسے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ مستورات نے سنا حضور نے فرمایا:.چونکہ اس سال بھی عورتوں میں میری الگ تقریر نہیں ہوسکتی اس لئے میں چند باتیں ابتداء میں عورتوں کی خواہش اور ان کی ضروریات کوملحوظ رکھ کر کہنی چاہتا ہوں“ فرمایا! ” جو باتیں میں مردوں کو مخاطب کر کے کہوں گا گوان میں سے بیشتر کا تعلق عورتوں سے بھی ہوگا تاہم چند ایک باتیں مخصوص طور پر ان کے لئے کہنا چاہتا ہوں.مصباح جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۳ تا ۳۵ نیز مصباح فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۳ ۳۴

Page 362

354 جرمن زبان میں ترجمہ قرآن کریم :.پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں نے احمدی خواتین کو تحریک کی تھی کہ وہ جرمن زبان میں ترجمہ شائع کرنے کے لئے اخراجات اپنے ذمہ لیں تا کہ ان کے چندے سے یہ ترجمہ شائع ہو.اس سے پہلے عورتوں کے چندہ سے لندن میں ہم نے مسجد تعمیر کی تھی.اب یہ دوسرا کام ان کے ذمہ لگایا گیا.سو میں ان کی اطلاع کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو چکا ہے.اس پر نظر ثانی بھی ہو چکی ہے اور اب وہ پریس میں جاچکا ہے.امید ہے کہ شائد تین چار ماہ تک یہ شائع ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.! تعلیم کی اہمیت:.دوسری بات جو میں عورتوں کو کہنا چاہتا ہوں وہ تعلیم کے متعلق ہے.قادیان میں بھی اور اب یہاں ربوہ میں بھی احمدی عورتوں کی تعلیم مردوں سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے بلکہ قادیان میں تو کئی دفعہ ہم نے اردو کی ابتدائی تعلیم کے لحاظ سے عورتوں کو سو فیصدی پڑھا دیا تھا جبکہ مردوں کی تعلیم کبھی ۸۰ فیصدی سے زیادہ نہیں ہوئی.گویا احمدی عورتیں احمدی مردوں سے تعلیم میں بیس فیصدی زیادہ رہی ہیں.بلکہ پاکستان میں مردوں کی تعلیم پندرہ فیصدی اور عورتوں کی تعلیم ساڑھے سات فیصدی ہے.یہاں ربوہ میں بھی عورتیں اس میدان میں مردوں سے بہت آگے ہیں.لیکن ہماری باہر کی جماعتوں میں یہ حالت نہیں.بلکہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں بعض ایسے احمدی گھرانوں کو بھی جانتا ہوں جو تین پشتوں سے احمدی ہیں مگر ان کی بعض عورتوں کو سورۃ فاتحہ تک نہیں آتی.پس محض ربوہ کی تعلیمی ترقی سے کچھ نہیں بنتا.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ساری کی ساری عورتیں دین سے واقف ہوں اور یہ کام ایسا ہے کہ جو بغیر ایک سکیم کے کبھی نہیں ہوسکتا.“ ا چنانچہ ۱۹۵۴ء میں جرمن زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور ۱۹۵۹ء میں دوسرا

Page 363

355 حضور نے فرمایا:.دو تعلیم سے میری مراد مروجہ درسی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ قرآن مجید ار معمولی لکھنا پڑھنا اسے آتا ہو.چونکہ دین کا تمام ضروری علم اردو میں موجود ہے اس لئے اگر ہم اردو لکھنی پڑھنی سکھا دیں تو مزید دینی تعلیم بڑی آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے.عورتوں کواتنی تعلیم دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ پڑھی لکھی عورتیں تمام کی تمام یہ عہد کر لیں کہ ہم نے اپنے وطن واپس جا کر کم از کم ایک یا دو نا خواندہ عورتوں کو ضرور تعلیم دینی ہے.....زائد آمد پیدا کرنے کی تحریک :.تیسری تحریک میں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی یہ کرنی چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے کاروبار، ملازمت اور روزگار کے کام کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کچھ زائد آمد پیدا کرنے کی کوشش کرے یہ زائد آمدنی اگر غریب ہو تو اس کا ایک حصہ اور امیر ہونے کی صورت میں ساری کی ساری سلسلہ کو بطور چندہ پیش کر دے.عورتیں سوت کات کر یا پراندے اور آزار بند تیار کر کے میری اس تحریک پر عمل کر سکتی ہیں.غرض میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک چاہے وہ مرد ہو یا عورت اس تحریک پر عمل کرے اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ آمد پیدا کرنے اور پھر اسے چندہ میں دینے کی کوشش کرے.لجنہ اماءاللہ کی مجلس شوری:.۱۲۷ دسمبر ۱۹۵۳ء کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی آٹھویں مجلس شوری زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر منعقد ہوئی.صدارت کے فرائض سیدہ رفعت جہاں صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ نے سرانجام دیئے.مندرجہ ذیل ۳۴ لجنات کی نمائندوں نے اس میں شرکت کی.ا.ربوہ ۲.سیالکوٹ ۳.کراچی ۴.کوئٹہ ۵.راولپنڈی ۶.تہال ۷.ملتان چھاؤنی لمصل ل الازهار لذوات الخمار صفحه ۱۴۷ و ۴۹ اوا سح ۵/ جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۳٫۲

Page 364

356 چک ۶۵ ۵ لائل پور ۹ منٹگمری ۱۰- چک ۸۸ لائل پورا.چک ۳۵ جنوبی ضلع سرگودھا ۱۲.گوکھووال ۱۲۱ جنوبی ضلع لائل پور ۱۳.حیدر آباد سندھ ۱۴.سکھر ۱۵.مجوکہ ۱۶.لاہور ۱۷.گوجرانوالہ ۱۸.چٹا گانگ ۱۹.جوڑا اضلع لائل پور ۲۰.شیخو پوره ۲۱.گنگا پور۲۲.ڈیرہ غازی خان ۲۳.جڑانوالہ ۲۴.پہلو پور ۲۵.کھاریاں ۲۶.چک نمبر ۷۶ے ضلع رحیم یارخان ۲۷.شیخ پور ضلع گجرات ۲۸.اور حمہ ۲۹ - چک نمبر ۳۷ جنوبی ضلع سرگودھا ۳۰- چک ۹ پنیار ۳۱.شادیوال ۳۲- گوجره ۳۳ کتھو والی ضلع لائل پور -۳۴.جھنگ مگھیا نہ حسب ذیل فیصلے ہوئے:.تجویز :.چندہ مسجد ہالینڈ کے لئے حضرت اقدس نے تحریک فرمائی ہے اسے جمع کرنے کے لئے سکیم بنائی جائے.فیصلہ:.یہ چندہ تین سال میں پھیلا دیا جائے.ہر لجنہ کو اس کی طرف توجہ دلائی جائے.۳۰ لجنات نے ۷۷۳۵ روپے کے وعدے اسی وقت لکھوائے.تجویز : - حضرت اقدس نے عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کی سکیم پیش فرمائی ہے جس میں حضور نے فرمایا کہ ہر عورت اور لڑکی کو کم از کم اردو لکھنا پڑھنا اور قرآن مجید ناظرہ پڑھا دیا جائے.فیصلہ:.تمام موجود نمائندگان نے وعدہ کیا کہ واپسی پر کام شروع کریں گی.اور رپورٹ دیا کریں گی ( جن لجنات کی نمائندگی موجود نہیں تھی.انہیں بعد میں خطوط کے ذریعے تحریک کی گئی) تجویز:.ہاتھ سے کام کر کے تحریک جدید میں چندہ دیا جائے.فیصلہ:.سب نمائندوں نے وعدہ کیا.باقی لجنات کو خطوط کے ذریعے تحریک کی گئی.تجویز :.لجنہ مرکزیہ کے صدر کے انتخاب کے لئے نئے قوانین بنائے جائیں.فیصلہ:.( چونکہ پہلے اس کا علم نہ تھا ) اس لئے ایک سال تک یہی صدر اور سکرٹری رہیں.اگلے سال انتخاب ہو.لجنات کی طرف سے نام آجائیں.جلسہ سالانہ پر انتخاب کرلیا جائے لے (صدر لجنہ اماء اللہ کے انتخاب کے مستقل قوانین ۱۹۶۴ء میں تشکیل دیئے گئے ) اس سال دستکاری کی نمائش جامعہ نصرت کے ایک کمرہ میں لگائی گئی.نمائش کی منتظمہ استانی امتہ العزیز عائشہ صاحبہ تھیں.ا مصباح فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۵-۳۶

Page 365

357 مخلص احمدی خاتون کی وفات :.۳۱ جولائی ۱۹۵۳ء کو لجنہ کی ایک مخلص اور انتھک کارکن محترمہ امۃ العزیز صاحبہ اہلیہ راجه عبدالرؤف صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ راولپنڈی فوت ہو گئیں.مرحومہ ایک باعمل اور صالحہ خاتون تھیں.غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں کی بہت ہمدرد تھیں.طبیعت میں بے حد جرات اور دلیری تھی.تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں.۱۹۴۷ء جب مہاجرین بے سروسامانی کی حالت میں آنے شروع ہوئے تو اپنی خدمات مسلم لیگ کو پیش کر دیں اور پھر صحت کی پروانہ کرتے ہوئے بے حد کام کیا.لجنہ کی تنظیم میں بھی بہت محنت سے کام کیا لے ہجرت سے پہلے محلہ دارالفضل قادیان میں بھی لجنہ کا کام کرتی رہی تھیں.آپ کی وفات پر لجنہ اما ء اللہ راولپنڈی نے تعزیتی جلسہ منعقد کیا.اہلیہ صاحبہ مولوی محمد عبد اللہ صاحب ہوتا لوی کی وفات:.مورخه ۲۹ / دسمبر ۱۹۵۳ء کو ایک اور نہایت مخلص اور بزرگ خاتون محتر مہ امۃ العزیز صاحبہ اہلیہ حضرت مولوی محمدعبداللہ صاحب بوتا لوی ربوہ میں ے ستر سال کی عمر میں وفات پا گئیں.نالہ وانا الیہ راجعون.حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی.موصیبہ ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحومہ محترم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اور حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ کی والدہ اور محترم قاضی محمد رشید صاحب مرحوم و سابق وکیل المال تحریک جدید اور محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی خوشدامن تھیں.سلسلہ کا خاص در درکھتی تھیں اور لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.عرصہ تک مستورات سے چندہ کی فراہمی کا کام بڑی تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیتی رہیں.خدمت خلق اور مہمان نوازی کے وصف خاص طور پر نمایاں تھے.دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کا غم کم کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں.۱۹۰۳ء میں بیعت سے مشرف ہوئیں اور اس طرح صحابیہ ہونے کا بھی شرف حاصل کیا ہے له مصباح ستمبر ۱۹۵۳ء صفحه ۳۲ و جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۲۸ ع المصلح کراچی ۷ جنوری ۱۹۵۴ صفحہ ۲۸

Page 366

358 ۱۹۵۴ء حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قاتلانہ حملہ اور لجنات کی طرف سے مذمت کی قراردادیں سیلاب زدگان کی امداد لجنہ اماء اللہ کا قافلہ ۱۹۵۴ء میں اپنی زندگی کے بتیسویں سال میں داخل ہوتا ہے.قوموں اور مختلف تنظیموں کی زندگی قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.اس کے بغیر قومی زندگی ختم ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال بھی مختلف میدانوں میں لجنہ اماءاللہ کوخدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی خدمت کے لئے قربانی کرنے کے مواقع میسر آئے.اس سال کا انتہائی المناک واقعہ سیدنا مصلح الموعود حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ پر ایک بد بخت شقی القلب کی طرف سے قاتلانہ حملہ کا دلخراش حادثہ ہے جس نے مومنین کے قلوب کو ہلا کر رکھ دیا.اس موقع پر لجنات اماءاللہ نے بھی اپنے دلی رنج و اندوہ کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.صدقات دیئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حملہ آور کو قرار واقعی سزا دے کر عدل وانصاف کے تقاضا کو پورا کرے.عہدیداران ۱۹۵۴ء اس سال کے لئے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کے حسب ذیل عہدیداران کا تقرر عمل میں آیا :.ا.صدر ۲.نائب صدر حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب)

Page 367

359 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ۳.جنرل سیکرٹری ۴.نائب جنرل سیکرٹری سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ ( بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) سیکرٹری تعلیم وتربیت صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب) ۶.نائب سیکرٹری تعلیم و تربیت محترمہ صفیہ ثاقب صاحبہ (اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ ے.سیکرٹری خدمت خلق صاحبزادی آمنہ طیبہ بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) سیکرٹری مال استانی میمونه صوفیه صاحبه ۹.نائب سیکرٹری مال محترمہ حمیدہ صابر ہ صاحبہ بنت ڈاکٹر فیض علی صاحب ۱۰ سکرٹری ناصرات محترمه استانی عا ئشه صاحبه ۱۱.بیرونی مشنز محتر مہ امۃ الرحیم عطیہ صاحبہ اہلیہ صوفی مطیع الرحمن صاحب سابق مبلغ امریکہ ۱۲.سیکرٹری اصلاح وارشاد محترمه امۃ الرشید شوکت صاحبہ اہلیہ ملک سیف الرحمن صاحب ۱۳.سیکرٹری نمائش محترمه استانی امتہ العزیز صاحبہ عائشہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر قاتلانہ حملہ:.ار مارچ بروز بدھ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مسجد مبارک ربوہ میں نماز عصر پڑھانے کے بعد جب وا پس مسجد سے باہر تشریف لا رہے تھے تو ایک بد بخت نے حضور پر چاقو سے حملہ کر دیا.گواللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور حضور بال بال بچ گئے.لیکن حضور کی گردن پر تین انچ لمبا اور دو انچ سے زیادہ گہر از خم ہو گیا.حملہ آور کو اسی وقت گرفتار کر کے پولیس کے سپر د کر دیا گیا.لمصل حضور نے اس قاتلانہ حملہ کے بعد جماعت کے نام ایک اہم پیغام دیا.جس میں حضور نے فرمایا:.برادران اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اگر میرا وقت آن پہنچا ہے تو وہ وو میری روح کو تسکین عطا کرے اور اپنی رحمتیں نازل فرمائے نیز یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ لوگوں کو ایسا لیڈر عطا فرمائے جو اس کام کے لئے مجھ سے ا اصلح کراچی ۱۲ ۱۳/ مارچ ۱۹۵۴ء صفحه ۲

Page 368

360 زیادہ موزوں ہو.میں ہمیشہ آپ سے اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ محبت کرتا رہا ہوں اور اسلام اور احمدیت کی خاطر اپنے ہر قریبی اور عزیز کو قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہا ہوں.میں آپ سے اور آپ کی آنے والی نسلوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ آپ بھی ہمیشہ اسی طرح عمل کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.حضور پر اس قاتلانہ حملہ کی خبر سنتے ہی تمام جماعت میں بلکہ غیر از جماعت شرفاء میں بھی رنج وغم اور غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی.جماعت کے ہر حصہ اور ہر طبقہ نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کی قیمتی جان بچالی وہاں قرار دادوں کے ذریعہ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ حملہ آور اور اگر اس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما ہے تو اس کی پوری پوری تحقیقات کرے اور حملہ آور کو قرار واقعی سزادے کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے.اس موقعہ پر بجنات نے بھی کثرت کے ساتھ حضور کے لئے صدقات دیئے.اجتماعی دعائیں کیں اور حملہ آور کی مذمت میں قراردادیں پاس کیں.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور لجنہ ربوہ نے مندرجہ ذیل قرار داد پاس کی.قرار داد مذمت:.مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۵۴ء کو زیر صدارت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ لجنہ اماء الله مرکز یہ ولجنہ ربوہ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں مندرجہ ذیل قرارداد مذمت پاس کی گئی:.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ولجنہ ربوہ کا یہ غیر معمولی اجلاس اس حملہ پر انتہائی رنج و غم اور غصے کا اظہار کرتا ہے جو ایک نادان دشمن نے ہمارے پیارے آقا اور محبوب مطاع سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز پر کیا ہے.یہ اجلاس اس گندی اور سفاک ذہنیت کی پر زور مذمت کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ خطرناک اقدام کیا گیا.نیز یہ اجلاس حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعہ کی پوری پوری تحقیق کی جائے اور جو خفیہ ہاتھ اس حملہ کے پیچھے کام کر رہا ہے اس کا پوری طرح انکشاف کیا جائے اور جولوگ اس جرم کے المصلح ۱۲ مارچ ۱۹۵۴ صفحریر

Page 369

361 مرتکب ثابت ہوں انہیں قرار واقعی سزادی جائے.یہ اجلاس حکومت سے یہ بھی استدعا کرتا ہے کہ اس قسم کی ذہنیت کو بڑھنے دینا جس کی وجہ سے پاکستان کے پر امن شہریوں کی عزت و آبرو اور ان کا جان و مال محفوظ ندر ہے پاکستان کے مفاد کے سخت خلاف ہے.نیز اسلام کے صریح احکام کی خلاف ورزی ہے.اس لئے پاکستان میں برسراقتدار حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کی ذہنیت کی پرزور مذمت کرے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے پوری جد و جہد کرے.یہ اجلاس پوری پوری توقع رکھتا ہے کہ حکومت ہمارے اس احتجاج پر پوری توجہ دے گی اور مجرم کو عبرتناک سزادے کر انصاف قائم کرے گی.یہ اجلاس اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر یہ ادا کرتا ہے کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے نادان دشمن کو اپنے ناپاک ارادے میں نا کام اور ہمارے محبوب آقا کو محفوظ رکھا.الحمد للہ علی ذالک.صدقہ :.اللہ تعالیٰ ہمارے پاک امام کو جلد از جلد کامل صحت عطا فرمائے اور ہمارے سروں پر تادیر آپ کے سایہ عاطفت کو قائم رکھے.آمین ثم آمین حضور کی علالت کے پیش نظر لجنہ مرکزیہ کے علاوہ تقریبا ہر لجنہ نے صدقہ کئے.لجنہ مرکزیہ اور لجنہ ربوہ نے بکروں کے صدقہ کے علاوہ یک صد روپے کی کتب، چاولوں کی دیگیں پکا کر اور کپڑے کے دو تھان تقسیم کئے.مندرجہ ذیل مقامات کی لجنات کی قراردادیں بھی شائع ہوئیں.راولپنڈی، گوجر خان، حیدر آباد سندھ ، ملتان چھاؤنی، بشیر آباد اسٹیٹ ، ملتان شہر، کوئٹہ، کھاریاں ضلع گجرات، بھاگلپور، نیروبی ( کینیا ) افریقہ، کراچی، احمد نگر ، لیبان ( بور نیو ) گجرات سے سکھر ۴ لے مصباح مئی واپر یل صفحہ اے حافظ آباد مصباح ماہ اپریل مئی ۱۹۵۴ء صفحه ۷۴ لمصل المصل ۳ اصلح ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ء صفحه ۸ ۱۴ صلح ۲۳ مارچ ۱۹۵۴ء صفحه ۵

Page 370

362 لوائے احمدیت کی تیاری میں صحابیات کا حصہ :.اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ ۱۲ار جولائی ۱۹۵۴ء کو جلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے کپاس کی تین بوریاں لجنہ مرکز یہ کو موصول ہوئیں تاکہ لوائے احمد بیت کی تیاری کے لئے صحابیات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں سے بنولے الگ کریں اور روئی الگ.یہ کپاس ڈیڑھ من تھی.اس کے متعلق یہ ہدایت تھی کہ روئی میں دوسری روئی ذرہ بھر بھی شامل نہ ہو اور نہ ہی اسے کسی اور جگہ استعمال کیا جائے.یہ کپاس اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی بوئی تھی اور انہوں نے ہی اسے چنا تھا.۲۶ جولائی بروز سوموار صبح آٹھ بجے اسے صحابیات نے محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ مرحومہ کی نگرانی میں بیلنا شروع کیا.جن صحابیات کو اسے بلینے کا فخر حاصل ہوا، اُن کے نام تاریخ وار یہ ہیں :.۲۶ جولائی ۱۹۵۴ء (۱) محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ مرحومہ (۲) محترمہ سکینہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد ظہور صاحب احمد نگر (۳) محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ اہلیہ چراغ دین صاحب (۴) محترمہ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ چراغ دین صاحب آف قادر آباد حال احمد نگر (۵) محتر مہ اہلیہ صاحبہ شیخ فضل کریم صاحب مرحوم (۲) محترمه محموده بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ چودھری عبد الحکیم صاحب چیمہ مرحوم.۲۷ ؍ جولائی ۱۹۵۴ء (۷) محترمہ استانی برکت بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ ٹھیکیدار اللہ یار صاحب (۸) محترمہ ساره بیگم مرحومہ اہلیہ مولوی چراغ دین صاحب (۹) محترمہ رحیم بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ عبدل صاحب کشمیری (۱۰) محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب (۱۱) محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه (۱۲) محترمہ عائشہ صاحبہ خادمہ حضرت اماں جان (۱۳) محترمہ استانی عائشہ صاحبہ ۲۸ جولائی ۱۹۵۴ء (۱۴) محترمہ عزیز بی بی صاحبہ اہلیہ ٹھیکیدار غلام رسول صاحب (۱۵) محترمہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ عرف لعل پری صاحبہ اہلیہ خان میر خاں صاحب (۱۶) محترمه کریم بی بی صاحبہ والدہ قاضی عبدالوحید

Page 371

363 صاحب (۱۷) محترمہ عصمت بی بی صاحبہ والدہ مختار ہاشمی صاحب (۱۸) محترمہ صوباں صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب (۱۹) محترمہ بیگم بی بی صاحبہ مرحومہ والدہ عزیز احمد صاحب قلعی گر (۲۰) محترمہ سکینہ صاحبہ اہلیہ حکیم احمد دین صاحب مرحوم شاہدرہ والے.لے یہ کپاس بڑی احتیاط کے ساتھ بیل کر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو واپس کر دی گئی.تعلیم بالغان کی تحریک :.دو یکم جنوری ۱۹۵۴ء کو حضور نے اپنے خطبہ جمعہ میں پھر تحریک فرمائی کہ ہر تعلیم یافتہ احمدی مرد اور عورت کسی ایک ناخواندہ مرد یا عورت کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی کوشش کرے.حضور نے فرمایا:.جو باتیں میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے مردوں اور عورتوں کے سامنے رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مرد اور ہر تعلیم یافتہ عورت جماعت کے کسی ایک مرد یا عورت کو جولکھنا پڑھنا نہیں جانتے معمولی پڑھنا لکھنا سکھا دے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ ہے.اگر ہم عزم کر لیں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں تو اگلے سال ہماری پچاس فیصدی تعداد تعلیم یافتہ ہو جائے گی.پھر اگر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ گور بوہ میں عورتیں تعلیم کے لحاظ سے مردوں سے بہت زیادہ آگے ہیں لیکن باہر کی جماعتوں میں عورتوں کی تعلیم کا معیار یہ نہیں.اگر ہم عورتوں کے لحاظ سے وہی معیار لے لیں جو دوسرے مسلمانوں میں مردوں کا ہے تب بھی جماعت کی ساڑھے تیرہ فیصدی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں.اگر جماعت کی ہر لکھی پڑھی عورت کم سے کم ایک اور عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے تو اگلے سال تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد ۲۵ فیصدی ہو جائے گی.اس طرح اگلے دو سال کی جد و جہد میں ہم سب کو تعلیم یافتہ بنادیں گے...پس یہ کوئی مشکل امر نہیں.اگر کوئی دقت ہے تو محض یہ کہ ہم اس کے لئے ارادہ اور عزم نہیں کرتے.پس ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مرد اور ہر تعلیم یافتہ عورت کم سے کم کسی ایک مرد یا عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھادے اور زیادہ ہو جائے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے.لے رجسٹر کا روائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ المصلح ۲ فروری ۱۹۵۴ صفحهیه

Page 372

364 لجنہ اماءاللہ کو بعض خصوصی ہدایات:.۲۲ جنوری ۱۹۵۴ء کو حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.آج مجھے ایک نواحمدی خاتون کا ایک رقعہ ملا ہے جس میں اس نے عورتوں کے متعلق بعض شکایات لکھی ہیں.یہ شکایت کی ہے کہ مسجد میں عورتوں کے لئے جو حصہ ہے اس میں بچے بھی آجاتے ہیں اور وہ خطبہ اور نماز کے وقت شور مچاتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں پیشاب کر دیتے ہیں.اس کے متعلق میں لجنہ اماءاللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ در حقیقت یہ اس کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف اور اسی طرح صفائی کی طرف توجہ دلائے اور انہیں ایسی باتیں سمجھائے لجنہ کا یہ فرض ہے کہ وہ عورتوں کی تربیت کرے اور سمجھائے اور پھر ایسے طریق ایجاد کرے کہ جن کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کی جائے کیونکہ اگر بچے شور مچائیں گے تو خطبہ کے فرائض سے محروم ہونا پڑے گا.“ نواحمدی عورت کی ایک اور شکایت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ وو طبعی نقص پر ہنسنا اور مذاق اڑانا سخت کمینہ اور گندہ فعل ہے....خطیب اول تو ادب اور احترام کے مقام پر ہوتا ہے اس لئے اس کی باتیں عزت واحترام کے ساتھ سنی چاہیں....عورتوں کی منتظمات کو چاہیئے کہ ان کی اصلاح کریں.ہفتہ تحریک جدید : یکم سے ۷ار فروری تک حضرت اقدس کے ارشاد کے مطابق ہفتہ تحریک جدید منایا گیا.اس موقع پر بلجنات نے بھی خاص کوشش کی اور خواتین کو تحریک جدید میں شامل ہونے کی تحریک کی.امتحان کتاب فقہ احمدیہ :.فقہ احمدیہ کا امتحان لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام ماہ اگست کے پہلے ہفتہ میں منعقد ہوا.کل ۷۲ ممبرات شامل ہوئیں.لى الاذهار لذوات الحمار حصہ دوم صفحه ۱۵۲،۱۴۹ ۲ مصباح اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ۳۴

Page 373

365 سیلاب زدگان کی مدد:..امسال پہلے مشرقی پاکستان میں اور پھر مغربی پاکستان میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بجنات اماء اللہ کو بھی اس موقع پر سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی تحریک فرمائی تو محترمہ جنرل سکرٹری صاحبہ لجنہ مرکزیہ نے تمام لجنات کو اعلان کے ذریعہ آگاہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے مقام پر مستورات سے چندہ جمع کر کے بھجوائیں.یہ چندہ فوری طور پر ایک ہفتہ کے اندراندر جمع ہو جانا چاہیے.کوشش کریں کہ ہر عورت اس چندہ میں شامل ہو.وعدے کا وقت نہیں ہے جو پاس ہے وہ دے دیں تاکہ مستحقین کی بروقت امداد کی جاسکے.لجنات نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے ۶۳۶ روپے جمع کر کے فوری طور پر بھجوادیے.سے لجنہ ڈھاکہ کی خدمات:.اس موقعہ پر لجنہ اماءاللہ ڈھا کہ نے خاص طور پر امدادی خدمات میں حصہ لیا.بیگم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب سکرٹری لجنہ ڈھا کہ بیگم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں اور بیگم ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب نے اپنی رضا کارانہ خدمات حکومت کو پیش کیں.چنانچہ انہیں نارائن گنج اور ڈھا کہ میں متعین کر دیا گیا.انہوں نے شروع کے چھ دن لوگوں کو ٹیکے لگائے.چاول اور کپڑے تقسیم کئے.بعد میں ایسی جگہوں پر جہاں پانی میں مکان ڈوب چکے تھے اور لوگ مچان بنا کر اوپر بیٹھے ہوئے تھے ان کی خدمت کا بھی موقع ملا.لوگوں کیلئے کھانے کا کوئی سامان نہ تھا.کشتیوں کے ذریعہ سے ان کو کھانا پہنچا دیا جاتا رہا.بارہ تیرہ دن پہلے یہاں کام جاری رہا.پھر دوسری جگہوں میں جا کر خدمات سرانجام دیں.لوگوں پر اس کا بہت اثر ہوا.عملی خدمات کے علاوہ چندہ جمع کر کے سیلاب زدگان کو دیا گیا.سے فضل ۷۸ ستمبر ۱۹۵۴ء صفحریم سے مصباح نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۳۷ ۲ الفضل ۱۳ را کتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ۶

Page 374

366 لاہور میں سیلاب زدگان کی مدد:.اکتوبر میں لا ہور بھی سیلاب کی لپیٹ میں آگیا.کئی نشیبی علاقے پانی میں ڈوب گئے.متعدد مکانات گر گئے اور لوگ بے گھر ہو گئے.اس موقع پر لاہور کی لجنہ کوبھی کام کرنے کا موقع ملا.چنانچہ جب محترم امیر صاحب جماعت لاہور نے خدام کے امدادی کاموں میں مدد کے طور پر عطایا کی تحریک کی تو لجنہ لا ہور نے فوری طور پر ۱۵ اروپے اسی وقت پیش کر دیئے.حلقہ دھرم پورہ کی ممبرات نے دو سو افراد کا کھانا پکا کر تقسیم کروایا.لجنہ لاہور کی جنرل سیکرٹری محترمہ زینب حسن صاحبه، اقبال بیگم صاحبہ سیکرٹری خدمت خلق اور والدہ اختر محمود صاحبہ نے مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور کے عہدیداروں کے ہمراہ وارث روڈ، کشمیر روڈ ، کمہار پورہ کے علاقوں میں جا کر خدام کے امدادی کاموں کا جائزہ لیا اور ایک سوستر نا دار عورتوں میں کپڑے تقسیم کئے.اے مبلغین کی بیگمات کے اعزاز میں تقاریب :.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے مبلغین کرام کی بیگمات کے اعزاز میں مندرجہ ذیل تقاریب منعقد کی گئیں:.۱ ۱۰ر اپریل ۱۹۵۴ء کو لجنہ مرکزیہ نے لجنہ ہال میں اہلیہ صاحبہ سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا ( جوانڈونیشین ہیں) اور محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید ولی اللہ شاہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ کے اعزاز میں دعوت عصرانہ اور ایڈریس پیش کیا.ایڈریس محتر مہامۃ الرشید شوکت صاحبہ نے پڑھا.۲- ۱۹ دسمبر ۱۹۵۴ء کو لجنہ مرکز یہ اور لجنہ ربوہ نے جرمن نومسلم مسٹر عبدالشکور صاحب کنزے کی اہلیہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ اور مسٹر رشید احمد امریکن نو مسلم کی اہلیہ محترمہ سارہ بیگم صاحبہ کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی.اور ایڈریس پیش کیا.محترمہ بیگم صاحبہ مرزار فیع احمد صاحب مبلغ انڈونیشیا کو لجنہ مرکز یہ ربوہ نے تحفہ پیش کیا.ان کی اچانک روانگی کی وجہ سے دعوت اور ایڈریس پیش نہ کیا جاسکا.الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۴ء صفحه ا مصباح اپریل، مئی ۱۹۵۴ء صفحه ۶۸

Page 375

367 متفرق واقعات :.حضور اقدس کی حفاظت خصوصی کے انتظامات کے پیش نظر اس دفعہ جماعت کی مجلس مشاورت کے موقعہ پر جو لجنہ اماءاللہ کے ہال میں منعقد ہوئی دفتر پرائیویٹ سکرٹری کی طرف سے صرف چالیس ٹکٹ داخلہ موصول ہوئے.بمطابق فیصلہ یہ ٹکٹ باہر کی لجنات کی نمائندگان اور مقامی لجنات کی صدر وسکر ٹریان میں تقسیم کئے گئے.امبرات کی ڈیوٹی پہرہ پر لگائی گئی تھی.انہوں نے یہ فریضہ بہت اچھی طرح ادا کیا.مجلس مشاورت میں لجنہ کی نمائندگی کا فریضہ میاں غلام محمد صاحب اختر نے سرانجام دیا.مجلس مشاورت میں چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر کراچی کی یہ تجویز پیش ہوئی کہ حضور کی طبیعت عرصہ دراز سے ناساز چلی آتی ہے.لہذا حضور کی خدمت میں امریکہ تشریف لے جانے اور وہاں جا کر اپنا علاج کروانے کی درخواست پیش کی جائے اور اس غرض سے ۷۵۰۰۰ روپیہ جمع کیا جائے.اس رقم میں سے پانچ ہزار لجنہ اماءاللہ نے دینے کا وعدہ کیا.شعبه خدمت خلق کے تحت دستکاری کا کام کرنے کے لئے ایک استانی محترمہ امہ الوکیل صاحبہ رکھی گئی.اڑھائی ماہ کام ہوا جو ایک حد تک منافع پر چلا.پھر گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے یہ شعبہ بند کر دیا گیا.ان ایام میں بعض عورتوں نے روئی کات کر مزدوری حاصل کی.جس کے کھیس بنوا کر فروخت کئے گئے.بعض نے آزار بند بنے اور بعض نے سلائی کی مشین پر کام کیا.بعد ازاں یہ شعبہ ایک مستقل مدرسہ کی صورت اختیار کر گیا جس کا مفصل ذکر گلے صفحات میں آئے گا.حضرت مرز بشیر احمد صاحب کی علالت پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے ایک بکرالبطور صدقہ ذبح کروایا اور گوشت غرباء میں تقسیم کیا گیا.بھجوائی گئیں.ہالینڈ سے ایک نو مسلمہ بہن نے جائے نماز اور دوپٹہ کی فرمائش کی.یہ دونوں چیزیں

Page 376

368 امریکہ:.بیرونی لجنات کی رپورٹیں ڈیٹن ، پٹس برگ ٹیکس ٹاؤن، کلیولینڈ ، شکاگو میں لجنات قائم ہیں.ان کے با قاعدہ اجلاس ہوتے ہیں.قاعدہ یسر نا القرآن نماز اور دیگر ضروری مسائل کے سبق دیئے جاتے ہیں مختلف موضوعات پر تقاریر کی جاتی ہیں اور مضامین پڑھے جاتے ہیں.بعض غیر مسلم خواتین بھی ان میں شامل ہوتی ہیں.انہیں لٹریچر بھی دیا جاتا ہے.پٹس برگ میں چھ ممبرات قرآن کریم کی تفسیر اور چار یسر نا القرآن پڑھتی ہیں.ایک (مینا) بازار لگانے کا انتظام کیا گیا جس سے ۲۸ ڈالر کی آمد ہوئی.ایک پکنک منائی گئی.کلیولینڈ میں بھی ایک بازار کا انتظام کیا گیا.چندہ با قاعدہ وصول کر کے مرکز کو بھجوایا جاتا ہے.بعض مقامات پر سلائی کا کام کیا گیا اور اس کی آمد مشن کو دی گئی.احمدی جماعتوں کی سالانہ کنونشن کے موقع پر وائی.ایم سی.اے ہال میں زیر صدارت محترمہ مریم بشیر صاحبہ لجنہ کا اجلاس ہوا.جنرل سیکرٹری بہن کا ملہ حفیظہ کی طرف سے سالانہ رپورٹ پیش کی گئی.سالانہ کنونشن کے انتظامات میں بہنوں نے سرگرمی سے حصہ لیا.اس موقعہ پر نئے سال کے لئے مندرجہ ذیل عہدیداروں کا انتخاب ہوا:.محتر مہامة الحفیظ ناصر صاحبہ نگران اور مربی صدر ریکارڈنگ سکرٹری سکرٹری مال محترمہ علیہ علی صاحبہ محتر مہ امة اللطیف صاحبه محتر مہ رشیدہ کلام صاحبه چندہ کے سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر بہن کم از کم پچیس سینٹ ماہانہ ادا کرے.۲ / احصہ لوکل.۲/ لجنات رکھیں.۱/۴ حصہ مرکز کو بھیجا جائے اور ۴ / احصہ لجنہ امریکہ کے لئے رکھا جائے.بور نیو:.محترمہ امۃ العزیز ادر میں صاحبہ نے بور نیو سے ذیل کی رپورٹ بھیجی :.

Page 377

369 لیبان کے مقام پر متعد دعورتوں کو قاعدہ نماز کا ترجمہ اور ملائی زبان میں قرآن کریم سکھایا گیا.حضور کی تحریک پر عمل کرتے ہوئے ایک لڑکی نے ہاتھ سے کام کر کے ماڈالر کمائے.ان میں سے ۵ ڈالر اس نے چندہ دیا.حضور کی علالت کی اطلاع پا کر دو بکرے صدقے کئے گئے.کماسی افریقہ:.رمضان میں روزانہ درس القرآن کا اہتمام کیا گیا.ہرا تو ار تبلیغی وفود کی صورت میں تبلیغ کی جاتی ہے.بعض عورتوں کو سلائی کا کام سکھایا گیا.احمدیہ کالج کی زیر تعمیر عمارت میں صبح سے شام تک لگا تار وقار عمل منایا گیا.اس میں مستورات کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی جنہوں نے ریت، کنگر، اینٹ اور پانی وغیرہ لانے میں بڑی مدد کی.جب حضور اقدس پر کسی بد بخت کی طرف سے قاتلانہ حملہ کی خبر موصول ہوئی تو احمدی مردوں ، عورتوں اور بچوں نے مسجد میں جمع ہو کر حضور کی صحت وسلامتی کے لئے اجتماعی دعا کی اے لجنہ نے اس موقعہ پر ۲۰ پونڈ کی رقم بطور صدقہ دی اور روزے بھی رکھے.شمالی علاقہ سے دور دراز کی مسافت طے کر کے ایک جمیلہ نامی لڑکی یہاں علم دین سیکھنے کے لئے آتی ہے.اسے پہلے قاعدہ پھر نماز مع ترجمہ سکھائے گئے.اب اس نے قرآن کریم کا پہلا سی پارہ بھی ختم کر لیا ہے.رمضان کے مہینے میں دینیات کلاس لگائی گئی.ان دنوں محترمہ شمسہ سفیر صاحبہ اہلیہ سید سفیر الدین بشیر احمد مرحوم لجنہ کماسی کی صدراور امتہ الرشید صاحبہ اہلیہ سعود احمد صاحب سیکر ٹری تھیں.انڈونیشیا:.ان دنوں مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انڈونیشیا اپنے شوہر کے ساتھ انڈونیشیا میں تھیں اور لجنہ اماءاللہ کی نگران تھیں.ان کی طرف سے ذیل کی رپورٹ ملی:.نماز کی کئی صد کا پیاں سائیکلوسٹائل کروا کر جا کرتا کی تمام احمدی بہنوں کو دی گئیں تا کہ وہ اس کے مطابق نماز ادا کریں.اس کے علاوہ دیگر دینی مسائل بھی سکھائے گئے.اس سلسلے میں تین حلقوں کا دورہ بھی کیا.سو کا بومی کی لجنہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی.ہفتہ وار اجلاس کروائے گئے اور سبقاً سبقاً مصباح جنوری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۰ تا ۳۲

Page 378

370 دینی اسباق دیئے گئے.سب سے پہلے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد پاڈ انگ یعنی مغربی سماٹرا میں رکھی گئی.لجنہ اماءاللہ کا مرکزی بورڈ ۱۹۵۳ء میں معرض وجود میں آیا.دوران سال کی عہدہ داران کے نام ذیل میں درج ہیں:.صدر نائب صدر سیکرٹری سیکرٹری مال - محاسب سیکرٹری تبلیغ و تربیت سیکرٹری امور عامه سیکرٹری عمومی مسر یوسف احمدی صاحبہ مسزائیں ہدایہ مسز مریم سونیائی ہادی مریکی پونتو مسرمتی احمد مسر حسنه رسلی مسر ملک عزیز احمد اس وقت ہماری ۳۵ شاخیں ہیں.ہماری لجنہ اماءاللہ کے نمایاں کاموں کی رپورٹ یہ ہے.لجنات کی تعلیم اور تربیت کا پروگرام اور قرآن کریم کی تعلیم، بچوں کونماز اور قرآن کی تعلیم ، بیماروں کی تیمار داری اور امداد، احمدیوں کو غیر احمدیوں کے ساتھ شادی سے اجتناب کی تلقین ، لجنات اور ناصرات کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا کہ وہ اپنی زینت کو غیر محرموں کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھالیں.۲۰ فروری یوم مصلح موعود:.یوم مصلح موعود پر ہر جگہ لجنات نے جلسے کئے.ربوہ میں صبح کھیلوں کا اہتمام کیا گیا.تین بجے سے پانچ بجے تک حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی صدارت میں جلسہ ہوا.جس میں حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ محترمہ امتہ المنان صاحبہ اور محتر مہ امتہ الحفیظ صاحبہ نے تقاریر کیں.جلسہ کے بعد کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی بچیوں میں انعامات دیئے گئے.مصباح مارچ ۱۹۵۴ء صفحه ۳۰

Page 379

371 سیرۃ النبی کے جلسے سیرۃ النبی کے مندرجہ ذیل جلسوں کی رپورٹیں شائع ہوئیں:.ربوہ 1 کھاریاں، حیدر آباد دکن ڈیرہ غازی خان، گولیکی ہنٹگمری (ساہیوال) ۳ جڑانوالہ،سیالکوٹ لجنات کی مجلس شوری :.۲۷ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۴ء کی درمیانی شب ساڑھے سات بجے شام زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی نویں مجلس شوری منعقد ہوئی.صدارت کے فرائض حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے سرانجام دیئے.مرکزی عہدیداران کے علاوہ ۳۳ بیرونی لجنات کی نمائندگان نے اس میں شرکت کی.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ لجنات نے اپنی مجلس شوری کے لئے کوئی خاص تجاویز نہیں بھجوائیں جن سے ایجنڈا مرتب کیا جا سکتا.آپ نے فرمایا کہ آج یعنی ۲۷ دسمبر کی تقریر میں حضور نے مستورات کو جو ہدایات دی ہیں.ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے سکیم بنائی جانی چاہیئے.تجویز:.بعض بہنوں نے یہ تجویز پیش کی کہ مجلس شوری کے لئے جلسہ کے ایام موزوں نہیں ہیں کیونکہ مرکزی کارکنات پر کام کا بہت بوجھ ہوتا ہے اور بیرونی نمائندگان نے بھی دن بھر جلسہ سننے کے بعد ملنا جلنا ہوتا ہے.اور کام بھی ہوتے ہیں.لہذا شوری دوران سال کسی اور وقت منعقد کی جائے.فیصلہ:.کثرت رائے سے فیصلہ ہوا کہ امسال مجلس شوری خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ایام میں منعقد کی جائے تا مستورات کو آنے جانے میں بھی سہولت رہے.۱ افضل ۲۰ نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۲ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۶ ۳ مصباح دسمبر ۱۹۵۴ء صفحه ۴۱

Page 380

372 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضور نے مندرجہ ذیل امور کی طرف توجہ دلائی ہے:.ا.مسجد ہالینڈ کے لئے مستورات کا اس سال کا وعدہ اکیس ہزار کا تھا.لیکن افسوس ہے کہ اس مد میں اس سال آمد بہت کم ہے.عہدیداران اس طرف توجہ دیں اور وصولی کا انتظام کریں.۲.لجنات خاص خیال رکھیں کہ تمام احمدی مستورات پردہ کی پوری پابندی کریں.اگر کسی جگہ اس کی خلاف ورزی ہو تو اصلاح کی پوری کوشش کی جائے.اجلاس میں سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی گئی.اس کے بعد دعا ہوئی اے سال رواں کا آمد و خرچ :.سال رواں ۵۴-۱۹۵۳ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کل آمد چھ ہزار آٹھ سو پچاسی روپے اور کل خرچ چھ ہزار آٹھ سو تہتر روپے تھا.جلسہ سالانه ۱۹۵۴ء:- جلسہ سالانہ خواتین حسب معمول ۲۶-۲۷ - ۲۸ دسمبر کو منعقد ہوا.پہلے اجلاس میں زیر صدارت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ ، حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے ” جماعتی تربیت کے لئے ہماری ذمہ رض داریاں کے موضوع پر خطاب فرمایا.دوسرے اجلاس کا پروگرام مردانہ جلسہ گاہ سے سنا گیا.۲۷ دسمبر کو صدارت کے فرائض حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا نے ادا کئے.محترمہ امت اللہ صادق صاحبہ ایم.اے نے ”ہمارا ماحول اور ذکر الہی کے موضوع پر ، حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے عورتوں پر آنحضرت ﷺ کے احسانات کے موضوع پر محترمہ امۃ الرحمن صاحبہ نے مسلمانوں کی علمی خدمات کے موضوع پر تقاریر کیں.دوسرے اجلاس میں حضور کی تقریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئی.۲۸ دسمبر کو پہلا اجلاس زیر صدارت حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ شروع ہوا.محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ کی تقریر ” برکات الدعاء محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ کی تقریر آنحضرت ﷺ کے حالات قرآن کریم کی روشنی میں" کے موضوع پر اور محترمہ امتہ المجید صاحبہ ایم.اے نے ” جنت اخروی ے رجسٹر کا رروائی لجنه مرکز یہ مصباح فروری ۱۹۵۴ء صفحه ۳۵

Page 381

373 کی حقیقت پر تقاریر کیں.دوسرے اجلاس میں حضرت مصلح موعود کی تقریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئی.حضور کی تقریر کے علاوہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم اور محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری کی تقریریں بھی مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.حضور کی تقریر :.حضور نے مردانہ جلسہ گاہ سے ہی اپنی تقریر فرموده ۲۷ / دسمبر میں مختصر طور پر مستورات سے خطاب فرمایا.حضور نے پہلے تو چندہ مسجد ہالینڈ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ اس وقت تک ان کا چندہ ساٹھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہوا ہے حالانکہ خرچ کا اندازہ ایک لاکھ دس ہزار سے بھی زیادہ ہے.اس سال عورتوں نے اکیس ہزار روپیہ جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے صرف نو ہزار جمع ہوا ہے.اس میں ایک حد تک عہد یداروں کی سستی کا دخل معلوم ہوتا ہے.ورنہ جو مستورات ربوہ میں اپنی تعمیر کے لئے غیر معمولی چندہ دے سکتی ہیں کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسجد ہالینڈ کے لئے مطلوبہ رقم جلد پوری نہ کر لیں:.اس کے بعد حضور نے پردہ کی پابندی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ.....”پرانے زمانے میں پردے کو اتنی بھیا نک شکل دے دی گئی تھی کہ وہ اچھا خاصا قید خانہ معلوم ہوتا تھا.ایسے پردے کا سلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا.لیکن اس زمانہ میں پردے کی بھیانک صورت کا رد عمل اس رنگ میں ظاہر ہورہا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ پردہ آخر کس چیز کا نام ہے.عورتیں مردوں سے مصافحے کرتی ہیں.ان میں آزادانہ پھرتی ہیں اور پھر بھی وہ اسلامی پردہ کی قائل کہلاتی ہیں.اگر اسلامی پردہ اسی کو کہتے ہیں تو پھر پتہ نہیں بے پردگی کس کا نام ہے.بے پردگی اختیار کرنے کا رواج بالعموم اعلیٰ طبقہ اور بڑے افسران میں ہوتا ہے.یہ لوگ پہلے ہی اپنے آپ کو ایک بڑے مقام پر سمجھ رہے ہوتے ہیں.اس لئے اگر انہیں ذراسی ٹھیس لگے تو ان کے گر جانے کا احتمال ہوتا ہے.پس پیار اور محبت سے اس عیب کا ازالہ کر و سختی نہ کرو.اگر کرو گے تو جو تھوڑی بہت وابستگی ان لوگوں کی اسلام کے ساتھ باقی ہے وہ بھی نہ رہے گی.اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھو کہ دین کی اصل جڑ محبت الہی اور محبت رسول کریم عملہ ہے اگر یہ قائم ہے تو باقی عیوب آہستہ آہستہ دور ہو سکتے ہیں.“ اس کے بعد حضور نے مردوں کو عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.

Page 382

374 افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصے کی نصیحت کے باوجود ابھی تک ہماری جماعت عورتوں کے حقوق پر پوری طرح کار بند نہیں ہوئی.کثرت سے اس قسم کی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ خاوند اگر دوسری شادی کرتے ہیں تو پہلی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتے.اس کی معیشت کے سامان مہیا نہیں کرتے.اخراجات نہیں دیتے اور اس طرح نہ صرف اسے تکلیف ہوتی ہے بلکہ اس کی اولا د بھی آوارہ ہو جاتی ہے.مرد یا درکھیں کہ عورت ایک مظلوم ہستی ہے.اس کے ساتھ محبت اور شفقت کے سلوک سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.خصوصاً طلاق اور خلع کے موقعہ پر مردوں کی طرف سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں ہوتا...مردوں کو اپنے رویہ میں اصلاح کرنی چاہئے ورنہ مرد اور عورتیں دونوں اس بشاشت سے محروم ہو جائیں گے جوان میں اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.ا الفضل یکم جنوری ۱۹۵۴ء و الاذهار لذوات الخمار صفر ۴ ۱۵ تا۱۵۶

Page 383

375 ۱۹۵۵ء حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی علالت اور سفر یورپ حضرت اماں جی صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ ای الاول کی وفات رت خلیفہ مسیح الاول کی وفات اب ۱۹۵۵ء شروع ہوتا ہے.اس سال کا اہم ترین واقعہ سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی تشویشناک علالت اور حضور کا سفر یورپ ہے بغرض علاج اختیار فرمایا.اس سفر میں جو کئی لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صد ر حضرت سیدہ ام ناصراور جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو بھی حضور کے ہمراہ جانے کا شرف حاصل ہوا.ان کے بعد جنرل سیکرٹری کی اہم ذمہ داری محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دی.امسال سلسلہ کے متعدد بزرگ رحلت فرما گئے جن میں حضرت اماں جی صغری بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.عہدہ داران لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ صدر نائب صدر محترمہ بیگم صاحبزادہ مرزا منوراحمد صاحب جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نائب سیکرٹری سیده نصیرہ بیگم صاحبه سیکرٹری مال مکرمه استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری نمائش سیکرٹری تبلیغ مکرمہ استانی امۃ العزیز عائشہ صاحبہ مکرمہ امۃ الرشید شوکت صاحبه

Page 384

376 مدیرہ مصباح مکرمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ سیکرٹری نصرت انڈسٹریل سکول مکرمہ کلثوم باجوہ صاحبہ سیکرٹری شعبہ خدمت خلق مکرمہ بیگم صاحبہ مرزا مبارک احمد صاحب سیکرٹری تعلیم وتربیت مکرمہ بیگم صاحبہ مرزا منور احمد صاحب نائب سیکرٹری تعلیم وتربیت مکرمہ صفیہ ثاقب صاحبہ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ خاکسارامة اللطيف سیکرٹری بیرونی ممالک مکرمہ امۃ الرحیم عطیہ صاحبہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی تشویشناک علالت: ۲۶ فروری ۱۹۵۵ء کو ہفتہ کے دن بعد نماز مغرب پونے سات بجے کے قریب حضور کے بائیں جانب اعصابی بیماری کا شدید حملہ ہوا.اسی وقت ربوہ کے تمام محلہ جات میں صدقات دیئے گئے اور رات بھر درد دل سے اجتماعی دعائیں کی گئیں.بیرونی جماعتوں کو ٹیلیفون اور تاروں کے ذریعے حضور کی بیماری کی اطلاع دی گئی.چنانچہ پوری جماعت میں اجتماعی دعاؤں اور صدقات کا سلسلہ شروع ہو گیا.لجنہ مرکز یہ اور بیرونی لجنات نے بھی اس میں حصہ لیا.اور اپنی جان سے زیادہ عزیز اور محبوب امام کے لئے بڑے سوز اور رقت کے ساتھ دعائیں کیں اور صدقات دیئے سلا اس بیماری کی وجہ سے لجنہ مرکزیہ کی جنرل سکرٹری حضرت مریم صدیقہ مدظلہ العالی بھی حضور کی خدمت اور تیمارداری میں مصروف ہو گئیں.اور یہ شب و روز خدمت اور مصروفیت حضور کے وصال تک یعنی دس سال تک جاری رہی.حق یہ ہے کہ آپ نے حضور اقدس کی خدمت اور تیمارداری کا پورا حق ادا کیا.علالت کے دوران حضور جو پیغامات یا مضامین اور اعلانات اور خطوط کے جواب وغیرہ دیتے انہیں عموماً حضرت سیدہ محترمہ ہی سے لکھواتے.گویا ایک گونہ پرائیویٹ سکرٹری کے فرائض بھی آپ ہی ادا کرتی تھیں اور پھر ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ کی جنرل سکرٹری کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق سے ادا کرتی رہیں.فجز اھا اللہ احسن الجزاء.ا الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۵ء صفحها

Page 385

377 حضور کی بیماری کے پیش نظر پہلے لاہور میں علاج کروایا گیا اور پھر ڈاکٹروں کے اور جماعت کے مشورے سے یہ طے پایا کہ حضور یورپ تشریف لے جا کر وہاں کے ڈاکٹروں کو دکھائیں اور وہاں رہ کر علاج کروائیں.حضور نے یورپ جانے کے ارادہ کا اعلان ۳/ مارچ ۱۹۵۵ء کو الفضل میں فرمایا.۲۳ مارچ کو ربوہ سے مع اہل وعیال وضروری عملہ سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے.۲۶/ مارچ کولا ہور سے کراچی بذریعہ ٹرین تشریف لے گئے اور وہاں سے ۱۲۹ در ۳۰ را پریل کی درمیانی شب کو بذریعہ ہوائی جہاز تشریف لے گئے.حضور اس سفر سے ۲۵ ستمبر کو بخیریت ربوہ واپس تشریف لائے سے چندہ سفر یورپ :.گذشتہ سال کی رپورٹ میں یہ ذکر آچکا ہے کہ مجلس مشاورت کے فیصلے کے مطابق حضور کے سفر یورپ کے لئے چندہ فراہم کرنے کی تحریک کی گئی تھی.اس میں لجنہ نے بھی سرگرمی سے حصہ لیا.چنانچہ ۱۹۵۵ء میں بھی بجنات یہ چندہ اکٹھا کرتی رہیں.قائمقام جنرل سکرٹری:.چونکہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بھی اس اہم سفر میں حضور اقدس کے ہمراہ تشریف لے جا رہی تھیں اس لئے سفر پر روانگی سے پہلے آپ نے مندرجہ ذیل اعلان فرمایا:.حضرت اقدس ڈاکٹری ہدایات کے مطابق علاج کے لئے یورپ تشریف لے جا رہے ہیں.میں بھی انشاء اللہ آپ کے ہمراہ جاؤں گی.میری غیر حاضری میں محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) جنرل سکرٹری لجنہ اماء اللہ ہوں گی.میں امید کرتی ہوں کہ تمام لجنات ان کے ساتھ تعاون فرمائیں گی اور اپنے کام کی تمام رپورٹیں ان کو با قاعدہ بھجواتی رہیں گی.تمام بہنیں دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور کا یہ سفر بے حد مبارک کرے اور حضور مکمل صحت کے ساتھ کامیاب و کامران واپس آئیں.چنانچہ محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ نے جنرل سکرٹری کے عہدہ کا چارج لیا اور اس عرصہ میں بڑی عمدگی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا فر مایا.ا الفضل ۲۶ ستمبر خیر مقدم نمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۸ الفضل یکم اپریل ۱۹۵۵ء صفحه ۶

Page 386

378 سفر یورپ سے حضور کی مراجعت :.حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ مہ اہلبیت ۱۲۵ تمبر بروز دوشنبه بخیریت واپس مرکز سلسله ربوہ میں تشریف لائے.جماعت کے ہر حصہ اور ہر طبقہ نے حضور کے خیر مقدم میں بہت پر جوش اور پر خلوص طریق سے حصہ لیا اور یوں اپنی خوشی اور مسرت اور اللہ تعالیٰ کے حضور تشکر کے جذبات کا اظہار کیا.لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے بھی دیگر مرکزی اداروں کے ساتھ مل کر حضور کے خیر مقدم میں حصہ لیا اس غرض سے دفتر لجنہ اماءاللہ کی چاردیواری کی جو عرصہ سے خستہ حالت میں تھی مرمت کرائی گئی.جھنڈیوں اور قطعات کا انتظام کیا گیا.جس دن حضور تشریف لائے اس رات وسیع پیمانے پر چراغاں کا اہتمام کیا گیا.ناصرات الاحمدیہ نے تحریک جدید کی چاردیواری کے اندر سڑک کی جانب کھڑے ہوکر اپنے خوبصورت جھنڈوں اور نظموں سے اپنے جذبات کا اظہا کیا.حضور اقدس ۲۵ ستمبر کی شب کو جبکہ اگلے روز یعنی دوشنبہ کی رات شروع ہو چکی تھی چناب ایکسپریس کے ذریعہ چھ ماہ کی طویل جدائی کے بعد ربوہ واپس تشریف لائے.حضور ۵/ستمبر کو کراچی میں ورود فرما ہوئے تھے.۲۵ ستمبر کی رات کو ربوہ کے دیگر دفاتر ، دوکانوں اور مکانات اور مدارس کی طرح لجنہ اماء اللہ کے دفاتر ، ہال اور ملحقہ ادارے جامعہ نصرت کی عمارات بھی رنگ برنگ قمقموں اور خوش آمدید کے روشن حروف سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں.مورخه ۱۶ را کتوبر بروز اتوار لجنہ مرکزیہ اور لجنہ ربوہ نے مشترکہ طور پر دفتر لجنہ اماء الله مرکز یہ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان خواتین مبارکہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ عصرانہ دیا جو اس سفر میں حضور کے ہمراہ تھیں.اس سفر میں حضور کے ہمراہ حضور کے چاروں حرم حضرت سیدہ ام ناصر صاحبه حضرت ام وسیم ، حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ تھیں.نیز بیگم مرز امبارک احمد صاحب اور صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بھی تھیں.سید داؤ د احمد صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ کا قیام قریباً ڈیڑھ سال لندن میں رہا.تقریب عصرانہ میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی تمام ممبرات ،حلقہ جات کی عہدیداران ضلعی

Page 387

379 عہد یداران اور لجنہ کی پرانی کارکنات قریباً ایک صد کی تعداد میں شامل ہوئیں.اس تقریب کا انتظام صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور مکرمہ طیبہ صدیقہ صاحبہ بیگم نواب مسعود احمد خان صاحب کی نگرانی میں ہوا.اس موقعہ پر محتر مہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور لجنہ اماءاللہ ربوہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل ایڈریس پیش کیا:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح موعود ایڈریس بر موقع ورود مسعود از سفر یورپ سيّدنا المُصْلِحِ المَوْعُود أيده الله الودود اَطَالَ اللهُ عمره واطلع شمُوسَ طَالِعِه پیارے آقا ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ایڈریس رسمی بھی ہوتے ہیں اور پر خلوص بھی.اور خلوص قلب کو سب سے بہتر ہمارا پروردگار جانتا ہے.اس لئے ہم سب سے پہلے اس ذات اقدس کا شکریہ ادا کرتی ہیں جس نے ہم کو حضور جیسا کامل رہنما عطا فرمایا.جس کی مسیحانہ رہنمائی نے ہمیں سرچشمۂ زندگی کا راستہ دکھایا جس کے آنے سے ہمارے اجڑے دیار آباد ہو گئے اور ہم نے خوشیوں کے ترانے گائے اور بے اختیار دلوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے یوں خوش آمدید کہا اے آمدنت باعث آبادی ما سیدنا ! جب ہم نے یہ خبر سنی کہ آپ سفر یورپ سے کامیاب و کامران تشریف لا رہے ہیں تو ہم نے یوں محسوس کیا جیسے اللہ تعالیٰ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ نور آتا ہے نور اور جب آپ نے ربوہ میں نزول اجلال فرمایا تو ہماری آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کو ایک واقعہ کی شکل میں دیکھا.وہ مسحور تھیں کہ ربوہ کا چپہ چپہ بقعہ نور بنا ہوا ہے.ہمارے دل اس باطنی کیفیت سے سرشار ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھوم جھوم کر گا رہے تھے کہ

Page 388

380 وو ” جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا پیارے امام ! ہم سب حضور کی روحانی بیٹیاں ہیں اور ہمارا ذرہ ذرہ آپ کے ان احسانات کا ممنون ومشکور ہے جو آپ نے طبقہ اناث پر فرمائے.ہم میں کوئی تنظیم نہ تھی.آپ نے ہمیں لجنہ اماءاللہ جیسی ظیم تنظیم عطا فرمائی.ہم زیور تعلیم سے محروم تھیں آپ نے اس زیور سے آراستہ ہونے کے سامان ہمارے لئے مہیا فرمائے.دینی علوم بھی ہم نے سیکھے اور دنیوی علوم سے بھی بہرہ ور ہونے کا ہمیں موقع ملا.اور حضور کی توجہ خاص نے ہمارے روحانی مقام کو اتنا بلند کر دیا کہ یہ نوشتہ تقدیر بن گیا کہ عورتوں کی اصلاح کے بغیر قوموں کی اصلاح ممکن نہیں.ہمارے پیارے ہادی! ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے اس سفر کو کا میاب بنایا اور عیسائیت کے مرکز میں اسلام کی فتح کی بنیادیں حضور کے ہاتھوں استوار ہوئیں.ہم اس کے عظیم فضل کا دوبارہ شکر یہ ادا کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں پر خلوص جذبات کے ساتھ مبارکباد عرض کرتی ہیں.درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی خوشنودی کی راہوں پر چلائے اور حضور کی راہنمائی میں دن دگنی اور رات چوگنی جدو جہد کی توفیق دے کیونکہ جد و جہد ہی زندگی کا نشان راہ ہے.“ بِسْمِ اللهِ الرَّحمن الرحيم ) نحمده ونصلى على رسوله الكريم ایڈریس بخدمت خواتین مبارکہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل واحسان ہے کہ اس نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت میں سے ہونے کا شرف عطا فرمایا.پھر ہمارے امام سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز سے آپ کا قریبی تعلق ہے.یعنی سیدہ ام ناصر احمد صاحبه، سیده ام وسیم احمد صاحبه، سیده ام امتہ المتین صاحبہ اور سیدہ مہر آپا صاحبہ حضور کی حرم محترمات ہیں.سیدہ آپا طیبہ بیگم آپ کی بہو اور مکرم جناب صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی بیگم ہیں.قرابت داری کا یہ شرف خداوند تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے.اور اس پر اس کا جتنا بھی شکر یہ ادا کیا جائے کم ہے.پھر اس قرب تعلق کی بناء پر آپ کو ہمارے پیارے امام کی خدمت کا ہم سے زیادہ موقع میسر آتا ہے.اور اب سفر یورپ کے دوران

Page 389

381 میں آپ کو خدمت کی جو توفیق ملی وہ اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے اور بھی قابل صد فخر ہے.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ہم سب کے روحانی رہنما ہیں اور حضور کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا ہم سب کا مشتر کہ فرض ہے.لیکن دوسری تمام مشتر کہ ذمہ داریوں کی طرح یہ ذمہ داری بھی نمائندگی کے ذریعہ پوری ہوتی ہے.اس لحاظ سے آپ گو یا ہماری نمائندہ تھیں اور اس کامیاب نمائندگی پر ہم آپ کی تہ دل سے مشکور ہیں.اور آج آپ کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرنے کے لئے یہاں حاضر ہوئی ہیں.ہم دعا کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خدمت امام کا زیادہ سے زیادہ موقع عطا کرے اور اس ذریعہ سے خدمت دین کی مختلف راہیں آپ کے لئے آسان ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے ساتھ ہو اور اس کی رحمتیں آپ کا دامن تھا میں.ہم سب بھی ایسی ہی دعا کی محتاج ہیں اور آپ سے اس کے لئے درخواست کرتی ہیں.اپنے ایڈریس کو ختم کرنے سے پہلے سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اور سیدہ ام متین صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا خاص طور پر شکر یہ ادا کرتی ہیں کیونکہ آپ دونوں کی سرکردگی میں یہ انجمن ایک مضبوط تنظیم کے ساتھ ترقی کے راستے پر گامزن ہے.اور اب یورپ کے ممالک میں آپ کی مساعی نے عورتوں کی اس انجمن کو اور زیادہ تقویت بہم پہنچائی ہے.فجزاكم الله احسن الجزاء وايد كما بنور من عنده.اللهم آمين ایڈریس پیش ہونے کے بعد سیدہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ نے صدر صاحبہ اور اپنی طرف سے شکریہ ادا کیا اور سفر یورپ کے مختصر حالات بتاتے ہوئے بیرونی ممالک کو جانے والی خواتین کو قیمتی نصائح فرمائیں.دعا کے بعد یہ تقریب سعید ختم ہوئی.سعید ہوئی.حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفتہ اسی الاول کی وفات: ت:.۱۹۵۵ء میں جماعت کے کئی بزرگ داغ مفارقت دے گئے.ان میں سر فہرست حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اسح الاول رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے.جو ر اور ۷/ اگست ۱۹۵۵ء کی درمیانی شب کو قریباً ساڑھے بارہ بجے ۸۳ سال کی عمر میں رحلت فرما گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون ہے الفضل ۹ راگست ۱۹۵۵ء صفحه ا مصباح نومبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳۵

Page 390

382 آپ کا نام صغری بیگم تھا اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حرم ہونے کی حیثیت سے جماعت میں آپ ”اماں جی کے لقب سے معروف تھیں.آپ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کی صاحبزادی تھیں.یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی فراست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعوئی سے قبل ہی شناخت کر لیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا تھا.ہم مریضوں کی ہے تمہی یہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے آپ کو خود سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولانا نورالدین خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے لئے منتخب فرمایا تھا.حضرت خلیفہ اول کی دوسری شادی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اواخر ۱۸۸۷ء سے کوشش فرمارہے تھے مگرموزوں رشتہ کا فیصلہ اوائل ۱۸۸۸ء میں جا کر ہوا.اور شادی مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی دیگر احباب کے ہمراہ بارات میں شامل ہوکر لدھیانہ تشریف لے گئے اے شادی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول کے نام ایک خط میں لدھیانہ سے تحریر فرمایا:.نی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے.مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اول درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں.اور اللہ جل شانہ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعشق پیدا کر دے کہ سب امور اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں.اب اس نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے.اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے.میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ، عفیفہ وجامع فضائل محمودہ ہے.اس کی تربیت و تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں کہ اس کی استعداد میں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں.اور اللہ جل شانہ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑا بہم پہنچایا ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے.له تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۱۲۴ و حیات نور از مولانا شیخ عبدالقادر صاحب صفحه ۱۵۱ حیات نور مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب صفحه ۱۵۳

Page 391

383 حضرت اماں جی کو یہ شرف حاصل تھا کہ تمام عورتوں میں حضرت ام المومنین کو چھوڑ کر آپ ابتداء ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یقین اور ایمان رکھتی تھیں ، سب سے پہلے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اور شرف یہ عطا فر مایا کہ آپ کی بیٹی حضرت سیدہ امتہ الحئی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد زوجیت میں آئیں.آپ کے اخلاق کا نمایاں جو ہر مہمان نوازی تھا.قادیان میں جلسہ سالانہ کے دنوں میں مستورات کی رہائش کا انتظام آپ کے مکان پر بھی ہوتا تھا.آپ وہاں مقیم خواتین کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھتیں.ربوہ آنے کے بعد بھی اپنے گھر مہمان ٹھہرا تیں اور خاطر و مدارات میں خوشی محسوس کرتیں.آپ کی مادری زبان فارسی تھی.گو آپ کسی سکول کی تعلیم یافتہ نہ تھیں.لیکن وقتا فوقتا سلسلہ کے ابتدائی اخباروں میں آپ کے مضامین نظر آتے ہیں.الحکم میں حضرت عرفانی صاحب نے ایک صفحہ خواتین کے لئے مخصوص فرمایا تو حضرت اماں جی اس میں ص.ب“ کے قلمی نام سے تربیت اولاد پر مضامین لکھتی رہیں.اسی طرح ” احمدی خاتون میں بھی لے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ دام ظاہتا کا ایک خط جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل میں شائع فرمایا درج ذیل کیا جاتا ہے جو حضرت اماں جی کے حضرت ام المومنین سے تعلق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت خلیفہ اسیح الاول سے محبت پر روشنی ڈالتا ہے.السلام علیکم.آپ کا خط ملا.میاں عزیز احمد صاحب کی تار سے اماں جی کی وفات کی اطلاع مل گئی تھی.ہم سب نے یہاں سے ہمدردی کے تار بھی دے دیئے اور سب صاحبزادوں کے نام ہمدردی کا اکٹھا خط بھی لکھ دیا تھا.دل پر اس صدمہ کا گہرا اثر ہوا ہے.کل سے طبیعت بار بار خراب ہو رہی ہے.بچپن کے سارے زمانے اور ان بزرگوں کے قدیم حالات کے نقشے آنکھوں میں پھر رہے ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ہر روز صبح حضرت خلیفہ اول کا حال اور خیریت بتانے کا خاص حکم تھا.اور حضرت مسیح موعود ہر روز پوچھتے تھے کہ مولوی صاحب کو ناشتہ احمدی خاتون جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۳۹ ۴۰

Page 392

384 ٹھیک ملا تھا یا نہیں.صغری ( یعنی اماں جی ) نے کسی بات میں ستایا تو نہیں.گھر میں کوئی شکایت تو پیدا نہیں ہوئی.اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود کو حضرت خلیفہ اول سے بہت محبت تھی اور ان کے آرام کا خاص خیال رہتا تھا اور اس بات کا حضرت خلیفہ اول اور اماں جی دونوں کو علم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں بتاتی ہوں.اسی بناء پر حضرت خلیفہ اول و یا با قاعدہ رپورٹ دیا کرتے تھے.اور کبھی کبھی محبت اور بے تکلفی کے رنگ میں کچھ شکایت بھی کر دیتے تھے مگر یہ خدا کی بندی (حضرت اماں جی ) ذرہ بھر برانہیں مانتی بلکہ بعض اوقات خود ہی کہہ دیا کرتیں کہ آج مجھ سے فلاں غلطی ہوگئی ہے.کبھی ایک دفعہ بھی میری طرف سے اس ڈیوٹی کے ادا کرنے پر بری آنکھ یا حصہ کی نظر سے نہیں دیکھا.اسی طرح آگے پیچھے بھی بے حد محبت سے پیش آتی تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.حضرت اماں جان (ام المومنین ) کا اماں جی سے ہنسنا، بولنا، چھیڑنا بہت یاد آتا ہے اور میری آنکھوں کے سامنے گویا ایک تصور بن جاتا رہا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت اماں جان ام المومنین نے اپنی قلبی کیفیت کا ان مختصر الفاظ میں ذکر کیا کہ دل کو چین نہیں آتا.زندگی کا مزہ نہیں رہا اور اس وقت حضرت اماں جان نے یہ ایک شعر بھی پڑھا جس سے مراد یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ پہلا صدمہ ہے اور معلوم نہیں آگے چل کر کیا کیا حالات اور کیا کیا صدمات پیش آتے ہیں.الغرض تسبیح کا ایک ایک دانہ گر رہا ہے اور سب پرانی یادگار میں رخصت ہورہی ہیں.انسان ایک عمر تک ہی نیا ماحول پیدا کر سکتا ہے.اس کی اصل دلچسپیاں اوائل عمر کے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہیں.اخلاقا ملنے کو ہم سب سے ملتے ہیں مگر اپنا خاص حلقہ جوں جوں کم ہوتا جاتا ہے زندگی کے لطف میں کمی آتی جاتی ہے.نئی نسلوں کا اپنا ماحول اور اپنی دلچسپیاں ہیں مگر ہم جب دیکھتے ہیں کہ پرانی زنجیر کی کڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی جارہی ہیں تو دل بہت اداس ہونے لگتا ہے.آپ کی صحت کے لئے برابر دعا کرتی ہوں.خدا حافظ و ناصر ہو.له الفضل ۱۸ را گست ۱۹۵۵ء صفحه ۳ والسلام مبارکہ کے

Page 393

385 نماز جنازہ و تدفین :.راگست کی شام کو بعد نماز عصرنماز جنازہ ادا کی گئی.چونکہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی بغرض علاج یورپ تشریف رکھتے تھے اس لئے نماز جنازہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھائی.بعد ازاں آپ کا تابوت مقبرہ بہشتی ربوہ کے اس خاص حصہ میں سپردخاک کیا گیا جس میں حضرت ام المومنین کا مزار ہے.آپ کی وفات پر سلسلہ کے اخبارات و جرائد نے تعزیتی نوٹ لکھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی دو مضمون تحریر فرمائے.مرکزی اداروں نے تعزیتی قرار داد ایں پاس کیں.لجنہ مرکزیہ اور بیرونی لجنات نے بھی تعزیتی ریزولیوشن پاس کئے.مصباح میں آپ کی سیرت اور حالات زندگی پر مشتمل متعدد مضامین بھی شائع ہوئے.لجنہ اماءاللہ مرکزی و جن و بو کی قرارداد درج ذیل کی جاتی ہے.ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ولجنہ اماءاللہ ربوہ حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اسیح الاول کی وفات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتی ہیں.حضرت اماں جی کا وجود سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفہ اسیح الاول کی زوجیت کے لئے آپ کو منتخب فرمایا.عورتوں میں سے سب سے پہلے آپ کو بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.آپ کی جدائی تمام جماعت کے لئے نہایت شاق ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہیں کہ وہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اپنے قرب میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے ( آمین ) نیز آپ کی اولادکو اپنے خاص فضل و کرم سے دونوں جہان کی نیکیوں سے نوازے.آمین“ اے کراچی:.سیرت النبی کے جلسے ۲۵ ا کتوبر کو احمد یہ ہال میں مستورات کا جلسہ سیرت النبی منعقد ہوا جس میں بہت سی غیر احمدی معزز خواتین بھی شامل ہوئیں.صدارت کے فرائض مشہور مسلم لیگی لیڈر نواب صدیق علی خاں صاحب کی بیگم صاحبہ نے سرانجام دیئے...ا الفضل ۸ نومبر ۱۹۵۵ء صفحه ۶ ۲ افضل ۸ نومبر ۱۹۵۵ء صفحیم

Page 394

386 منٹگمری (ساہیوال):.۲۹ جولائی کو مسجد احمدیہ میں لجنہ کے زیر اہتمام جلسہ سیرت النبی تہوا.بہت سی غیر احمدی خواتین شامل ہوئیں.مراڑہ ضلع سیالکوٹ :.احمدی مستورات سو فیصدی حاضر تھیں.۷۰ کے قریب غیر احمدی خواتین بھی شامل تھیں.سیالکوٹ:.زیر صدارت صدر صاحبه لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ مسجد احمد یہ میں جلسہ منعقد ہوا.وارنگل دگن ( ہندوستان ) :.۱۴ جون کو زیر صدارت بیگم صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ دین صاحب جلسہ سیرت النبی منعقد ہوا.ڈھاکہ:.ڈھا کہ میں لجنہ اماءاللہ کے زیر اہتمام ایک جلسہ زیر صدارت بیگم صاحبہ خلیفہ محمد اسد اللہ صاحب منعقد ہوا.اس میں ۷۰ کے قریب غیر احمدی خواتین شامل ہوئیں.احمدی مستورات کی تعداد تھیں تھی.لاؤڈ سپیکر اور چائے کا انتظام تھا ہے ان کے علاوہ بجنہ اماءاللہ ڈیرہ غازی خان سے لجنہ اماءاللہ حیدرآباد کے کوئٹہ اور پشاور ۵ نے بھی سیرت النبی کے جلسے منعقد کئے.یوم مصلح موعود: ۲۰ فروری کو حسب معمول بجنات نے بھی پیشگوئی مصلح موعود کے جلسے منعقد کئے چنانچہ ربوہ له مصباح اگست ۱۹۵۵ء صفحه ۱۶ ۲ مصباح نومبر ۱۹۵۵ء صفحه ۴۰ الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۵۵ء صفحیم ۴ مصباح اگست ۱۹۵۵ء صفحه ۱۶ ۵ مصباح جولائی ۱۹۵۵ء صفحه ۳۸

Page 395

387 کے علاوہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، کراچی، ملتان، شیخ پور ضلع گجرات ، شاہ گردیز ملتان، ڈگری، چک نمبر ۸۸ ضلع لائل پور کے جلسوں کی رپورٹیں ماہ مارچ کے مصباح میں شائع ہوئیں.مجلس مشاورت :.اس دفعہ بھی جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی.مستورات کے لئے پردے کا انتظام تھا.امسال شوری میں لجنات کی نمائندگی مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل نے کی.وہ حسب موقعہ مختلف تجاویز کے متعلق لجنہ کی آراء پیش کرتے رہے.لجنات کو انعامات دینے کے متعلق قوانین :.امسال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ سال بھر کی کارگذاری کے لحاظ سے اول اور دوم آنے والی لجنات کا فیصلہ کرنے کے لئے قوانین مرتب کئے جائیں تا کہ ان کے مطابق جائزہ لے کر انعامات دیئے جایا کریں.چنانچہ اس سلسلے میں متفقہ طور پر مندرجہ ذیل قوانین منظور کئے گئے :.ا.لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ماہانہ رپورٹ دفتر مرکزیہ میں با قاعدہ ہر اگلے ماہ کی دس تاریخ سے پہلے موصول ہوئی ہو.۲.تمام ممبرات نے تحریک جدید کی مالی امداد میں حصہ لیا ہو..لجنہ اماءاللہ کے کسی چندہ کا بقایا نہ ہو.یہ حساب یکم نومبر سے ۳۱ / اکتوبر تک شمار کیا جائے گا.مسجد ہالینڈ کے لئے کیا ہوا وعدہ پورا کیا ہو.ہاتھ سے زائد آمدنی پیدا کر کے اشاعت اسلام کے لئے دی ہو ) ۴.لجنہ اماءاللہ میں مستورات کی تعلیم کا انتظام ہو.تعلیم سے مراد نا خواندہ کو اردو لکھنا پڑھنا سکھانا.سادہ قرآن مجید اور باترجمہ قرآن مجید سکھانا.نیز لجنہ اماءاللہ کے مقرر کردہ امتحانات میں ممبرات شامل ہوئی ہوں.تبلیغ کا کام شعبہ تبلیغ مرکزیہ کے پروگرام کے مطابق کیا ہو.

Page 396

388 ۶.تربیت واصلاح کا کام شعبہ تربیت و اصلاح مرکزیہ کے پروگرام کے مطابق کیا ہو.بے پردگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہو.اور حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے مطابق ایک بُرائی چھوڑنے اور ایک نیکی کے اختیار کرنے کے پروگرام پر عمل کیا ہو.ے.خدمت خلق کا کام لجنہ مرکزیہ کے پروگرام کے مطابق ہو.۸.ناصرات الاحمد یہ قائم ہو.اور اس کی بھی با قاعدہ رپورٹ مرکزی دفتر میں آتی ہو.۹.( نمائش میں حصہ لیا ہو.ب.شوریٰ میں نمائندہ بھیجوایا ہو.۱۰.مصباح کی ترقی اور اشاعت میں حصہ لیا ہو.دیگر کوئی نمایاں کام کیا ہو.نوٹ :.ہر معیار کے دس نمبر ہوں گے.کل نمبر ۱۰۰ 1 لجنات کی رپورٹیں:.امسال مندجہ ذیل لجنات کی ماہوار رپورٹیں مصباح میں شائع ہوتی رہیں:.ربوہ ،سرگودھا، چٹاگانگ، پشاور، گوجر خان، راولپنڈی، جھنگ، سانگلہ ہل مونگ، گوجرانوالہ، جڑانوالہ، چکوال، رلیو کے، حیدرآباد سندھ ، منٹگمری ( موجودہ ساہیوال)، ڈگری سندھ، احمد نگر ، قصور، محمودہ آباد سندھ، مجوکہ، کتھووالی، مانگا چانگریاں، مگھیا نہ صدر، بدوملہی ، ملتان، کوئٹہ، روہڑی، نکانہ صاحب، کراچی ، سیالکوٹ، محمد آبا دا سٹیٹ، لاہور چھاؤنی، ادرحمہ، ڈیرہ غازی خان، کھیوہ باجوہ، لاہور ، چک نمبر ۷۴، چک نمبر ۸۸، چک نمبر ۷۲.ان رپورٹوں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لجنات میں تعلیم کے سلسلے میں امتحانات ، قاعدہ بیسر نا القرآن، قرآن مجید ناظرہ و باترجمہ پڑھانے ، نماز اور اس کے مسائل اور دیگر ضروری امورسکھانے کا کم و بیش انتظام رہا.اصلاح وارشاد کے سلسلے میں لٹریچر کی تقسیم کے علاوہ جلسے کئے گئے جن میں غیر احمدی عورتوں کو بلایا گیا.انفرادی طور پر اور وفود کی صورت میں تبلیغ کی گئی.شعبہ مال کے ا الفضل ۲۰ را پریل ۱۹۵۵ء صفحه ۶

Page 397

389 تحت مختلف چندے جمع کئے گئے جن میں حضور کے سفر یورپ کا چندہ ، چندہ مسجد ہالینڈ تعمیر ہال کا چندہ اور چندہ ممبری شامل ہیں.خدمت خلق کے شعبہ کے تحت بلا امتیاز مذہب وملت غرباء کوکھانا کھلا دیا گیا.ان کے لئے کپڑوں، بیماروں کے لئے علاج اور طلبہ کے لئے کتب کا انتظام کیا گیا.وفات کے مواقع پر تعزیت کے علاوہ کھانا دینے کا اہتمام کیا گیا.تربیت کے لئے باقاعدہ اجلاس ہوتے رہے جن میں مختلف موضوعات پر تربیتی مضامین پڑھے گئے.اور ضروری امور کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی لے تقاریب :.ا.ارجون کو دمشق سے آئی ہوئی احمدی بہن محترمہ عاصمہ صاحبہ ( مکرم سلیم جابی صاحب کی چھوٹی بہن ) اور ماریشس سے آئی ہوئی محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ مبلغ ماریشس مکرم حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی گئی.یہ پارٹی محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے ہاں دی گئی.-۲- یکم دسمبر ۱۹۵۵ء کوامتہ المجید صاحب اہلیہ شیخ نصیر الدین احمد صاحب مبلغ افریقہ اپنے شوہر کے ساتھ افریقہ جارہی تھیں.چونکہ ان کی روانگی کا پروگرام اچانک بن گیا.اس لئے الوداعی پارٹی تو نہ دی گئی البتہ انہیں بطور تحفہ دیا چہ تفسیر دیا گیا.۳- ۱۲ اکتو بر کومحترمہ بیگم صاحبہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ کو الوداعی پارٹی دی گئی.ایڈریس پیش کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے مختصر تقریر کرتے ہوئے درخواست دعا کی.۴- محترم سید داؤ د احمد صاحب معہ بیگم صاحبہ کے لنڈن جانے پر ان کی بیگم صاحبہ صاحبزادی سیدہ امتہ الباسط صاحبہ کو الوداعی پارٹی دی گئی.بیرونی لجنات کی ممبرات جو شوری پر آئی ہوئی تھیں وہ بھی اس میں شامل ہوئیں.امتحان:- اس دفعہ لجنہ کے زیر اہتمام امتحانوں کے لئے کتاب ”نبیوں کا سردار مقرر کی گئی.اول اور دوم آنے والیوں کے لئے الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ نے خاص انعام ( کتابوں کی صورت میں ) کے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ا مصباح جنوری تا دسمبر ۱۹۵۵ء

Page 398

390 مقرر کیا.یہ امتحان ۲۵ نومبر کو منعقد ہوا.کل ۸۴ ممبرات شامل ہوئیں اور سب کامیاب قرار پائیں.اول مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عبدالقیوم صاحب کوئٹہ محترمہ ناصرہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم غلام احمد صاحب عطاء محمد آباد داسٹیٹ سوم محترمہ عائشہ صادقہ بنت شیخ عبدالقادر صاحب لاہوررہیں.رمضان میں تعلیم القرآن کلاس:.سال گذشتہ کی طرح امسال بھی رمضان المبارک کے مہینہ میں لجنہ مرکزیہ کے زیر اہتمام تعلیم القرآن کلاس منعقد کی گئی.پڑھائی ۲۴ را پریل کو شروع ہوئی.۲۹؍ رمضان کو طالبات کو فارغ کر دیا گیا.کلاس کی عمومی نگران استانی محمد بی صاحبہ مرحومہ تھیں.مولوی رشید احمد صاحب چغتائی ،مولوی غلام باری صاحب سیف ، عاجزه امته اللطیف امتۃ الرشید صاحبہ بی اے بی ٹی منظور النساء صاحبہ ایم.اے اور امتہ المجید صاحبہ ایم.اے نے کلاس کو مختلف مضامین پڑھائے اور لیکچر دیئے.امتہ الحمید بنت عبدالرحیم صاحب درویش اول اور امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ کیپٹن خادم حسین صاحب دوم اور جمیلہ ثروت صاحبہ سوم رہیں.باقی کامیاب طالبات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:.ا.بشری بنت میاں عطاء اللہ صاحب ۲.امتہ الودود بنت بشیر احمد صاحب بھٹی کلثوم اختر بنت عبدالعزیز صاحب.نذیر فاطمہ بنت چوہدری فقیر محمد صاحب ۵- اقبال بیگم بنت چوہدری عزیز الدین صاحب ۶.خدیجہ بیگم بنت حاجی نواب خانصاحب ے.امتہ السمع بنت استانی امتہ العزیز عائشه صاحبه - صالحہ بیگم بنت چوہدری فضل احمد صاحب لجنہ اماءاللہ کراچی کے دفتر کا افتتاح:.۱۹۵۵ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی کے دفتر کا باقاعدہ افتتاح ۱۹ ستمبر کو حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کے بابرکت ہاتھوں سے ہوا.اس موقع پر لجنہ اماءاللہ کراچی کی وزیٹرز بک (Visitors Book) کا آغاز بھی کیا گیا.چنانچہ سب سے پہلی عبارت جو حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کے حکم پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے تحریر فرمائی اس کا عکس نیچے دیا جاتا ہے.

Page 399

391 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر الحمد للہ آج ۱۹ ستمبر ۱۹۵۵ء کو لجنہ اماء اللہ کراچی کے مرکزی دفتر کا افتتاح ہوا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ لجنہ اماءاللہ کراچی کی عہدہ داروں اور تمام ممبرات کو صحیح رنگ میں کام کرنے کی توفیق ملے اور دفتر کا قیام ان کے لئے مزید ترقیات کا موجب ہو.دن دونی رات چوگنی ترقی کریں اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کا جو صحیح مقصد ہے کہ نظام احمدیت کی عمارت کی ہر عورت ایک مضبوط اینٹ بنے وہ مقصد ان کے ذریعہ پورا ہو.آمین اللھم آمین مریم صدیقہ ام مرزا ناصر احمد - آمنہ طیبہ امته الجمیل جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ ۱۹-۹-۵۵ امته المتین احمد یہ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ کا جلسہ تقسیم انعامات:- محمودہ بیگم احمد یہ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ شہر کا جلسہ تقسیم انعامات زیر صدارت محترمہ بیگم تقی صاحبہ منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے سالانہ رپورٹ پڑھی.اور مکالمے پیش کئے گئے.سکرٹری صاحبہ لجنہ مقامی نے اس سکول کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی.آخر میں صدر صاحبہ نے انعامات تقسیم کئے.سیلاب زدگان کی امداد:.۱۹۵۵ء میں مغربی پاکستان کے بعض حصے سیلاب کی زد میں آگئے تھے.سیلاب زدگان کی مدد کے لئے بہت سی لجنات نے بھی چندہ دیا.اور کپڑے فراہم کئے.چنانچہ لجنہ اماءاللہ کراچی نے له مصباح دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳۸

Page 400

392 سینکڑوں کی تعداد میں کپڑے بھجوائے.ان کے علاوہ لجنہ لائل پور، سیالکوٹ ، سرگودھا، محمد آباد اسٹیٹ وغیرہ نے بھی نقدی اور کپڑوں کی صورت میں سیلاب زدگان کی مدد میں حصہ لیا.لے لجنہ اماءاللہ کا عہد نامہ:.امسال ۱۴؍ فروری کو مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سال رواں کا دوسرا اجلاس زیر صدارت حضرت سیّدہ ام ناصر ضمنعقد ہوا.متفقہ طور پر لجنہ اماءاللہ کا یہ عہد نامہ منظور ہوا..پر اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان و مال ، وقت اور اولا د کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی.نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی.۱۹۵۶ء میں جب فتنہ منافقین ظاہر ہوا اور انہوں نے خلافت کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کیں تو اس عہد نامہ میں مندرجہ ذیل فقرہ کا اضافہ کر دیا گیا.اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی.“ بے پردگی کے خلاف جدو جہد :..جلسه سالانه ۱۹۵۴ء پر حضور نے بے پردگی دور کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.حضور کے اس ارشاد کی تعمیل خاص جد و جہد سے کی گئی.تمام بیرونی لجنات کو خطوط اور اعلانات کے ذریعہ سے توجہ دلائی گئی.لجنہ اماءاللہ ربوہ ، پرنسپل صاحبہ جامعہ نصرت ، ہیڈ مسٹر لیں صاحبہ نصرت گرلز ہائی سکول کو بھی اس سلسلے میں بار بار توجہ دلائی گئی.سے غرباء کے لئے کتب :- لجنہ کے شعبہ خدمت خلق نے غریب بچوں کے لئے کورس کی کتابیں جمع کرنے کا اہتمام کیا اور نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر وہ مستحق بچوں میں تقسیم کر دیں.شعبہ ہذا نے بیرونی لجنات کو تحریک کی ل الفضل ۳ نومبر ۱۹۵۵ء صفحه ا سے مصباح جولائی ۱۹۵۸ء صفحہ ۳۷ مصباح ماه فروری ۱۹۵۵ء صفحه ۲

Page 401

393 وہ بھی ایسی کتب جمع کریں اور بلا امتیاز احمدی و غیر احمدی جو بچے بھی کتب خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں انہیں یہ کتب مفت دینے کا اہتمام کریں.اس تحریک کی تعمیل میں متعدد لجنات نے اس کا اہتمام کیا لجنہ نیروبی بیرونی لجنات لجنہ نیروبی بہت پرانی لجنات میں سے ہے.اس کے قیام کی صحیح تاریخ یا سال کا علم نہیں ہو سکا.تاہم یہ امر ثابت ہے کہ ۱۹۲۹ء میں یہ لجنہ قائم تھی.اس کی ابتدائی صدر سردار بیگم صاحبہ اہلیہ محمد حسین صاحب بٹ مرحوم اور سکرٹری زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالغنی صاحب اور سکرٹری مال محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبد الرحمن صاحب قریشی تھیں.۳۰ - ۱۹۲۹ء میں سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم نے وہاں مستورات میں قرآن مجید کا درس (ہفتہ میں ایک بار ) دینا شروع کیا اور آپ کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے یہ سلسلہ جاری رکھا.یہ درس لجنہ میں بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا.سیدمحمود اللہ شاہ صاحب مرحوم نے وہاں ایک لائبریری حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کے نام سے قائم کی جس میں انہوں نے بہت سی اپنی کتب بھی دیں.بعد میں لجنہ نے چندہ اور کوشش کر کے اسے بہت ترقی اور وسعت دی.۳۶ - ۱۹۳۵ء میں مقامی جماعت نے سواحیلی زبان میں ایک رسالہ نکالنے کی ضرورت محسوس کی.اس کے اخراجات مقامی لجنہ نے اپنے ذمہ لئے.چنانچہ عرصہ تک یہ اخراجات لجنہ ادا کرتی رہی.اس کے علاوہ ایک مبلغ کی اہلیہ کے سفر جہاز کا سارا خرچ لجنہ نے ادا کیا.ایک افریقن طالب علم کو لجنہ نے اپنے خرچ پر دینی تعلم کے حصول کے لئے ربوہ بھجوایا.لجنہ کی ایک مخلص ممبر مرجان اہلیہ سید معراج الدین صاحب نے ممباسہ کی احمدیہ مسجد کے لئے ساٹھ ہزار شلنگ دیئے.۱۹۴۷ء کے پر آشوب ایام میں مرکز سلسلہ کی حفاظت کی خاطر لجنہ نیروبی کی اکثر مخلص ممبرات نے چندہ کے علاوہ زیور بھی پیش کر دیا.سواحیلی زبان میں قرآن مجید کی اشاعت کے لئے بھی مستورات نے بڑھ چڑھ کر مصباح دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۷

Page 402

394 حصہ لیا.بچوں کی تعلیم و تربیت اور قرآن مجید کے درس و تدریس کا بھی انتظام کیا گیا جس میں مقامی مبلغین کا تعاون حاصل کیا.عیدین کے مواقع پر صنعتی نمائش لگائی جاتی تھی اور اجلاسوں میں اشیائے خوردنی کے اسٹال لگا کر منافع اشاعت اسلام میں دیا جاتا تھا.جن بہنوں کو لجنہ اماءاللہ نیروبی میں عہد یدار ہونے کی حیثیت میں خدمت کا موقع ملا ان کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں :.ا.محترمہ مرجان صاحبہ اہلیہ سید معراج الدین صاحب ۲.محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالمجید صاحب چوہدری ۳- محترمہ راج بیگم صاحبہ اہلیہ دوست محمد صاحب قریشی ۴.محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیر محمد صاحب بٹ ۵- محترمہ امین بیگم صاحبہ اہلیہ محمد امین صاحب ۶.محترمہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالحی صاحب ۷ محترمہ فرخندہ صاحبہ اہلیہ سید محمود اللہ شاہ صاحب ۸ محتر مہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد شریف صاحب ۹ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبد السلام صاحب بھٹی لے ۱۰ محترمہ ارشاد بیگم صاحبہ اہلیہ محمد اقبال شاہ صاحب ۱۱.محترمہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ملک نصر اللہ صاحب ۱۲.محترمہ ناصرہ ندیم صاحبہ ۱۳ محتر مہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ شکور شاہ صاحب ۱۴.محترمه صفیہ بشیر حیات صاحبه ۱۵- محترمہ خیر النساء صاحبه ۱۲- محترمہ ذکیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد یوسف صاحب ۱۷.محترمہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ۱۸ محترمہ سارہ رحمن صاحبه ۱۹ محترمه سکینه شر ما صاحبه ۲۰ - محترمہ امة الحفیظ صاحبه لجنات ہائے امریکہ:.۲۱ خطوط لکھے گئے.امریکہ کے شہر شکاگو، پٹس برگ، انڈیانیپولس اور ڈیٹن سے ماہانہ لجنہ کی کارروائیوں کی انگریزی میں لکھی ہوئی رپورٹیں ملیں.ان کا اردو میں ترجمہ کر کے مصباح میں شائع کرایا گیا.ے آپ محتر مدامۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ (نرس) صحابیہ اور خادمہ دار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکلوتی بیٹی تھیں.۱۲؎ فروری ۱۹۷۰ء کور بوہ میں وفات پائی.انا للہ وانا الیہ راجعون اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئیں.متواتر تمین ۳ سال تک قیام نیروبی کے دوران لجنہ کی اہم خدمات سرانجام دیں.ایک لمبا عرصہ صدر بھی رہیں.نیکی اخلاص ، تقومی حسن اخلاق ، نظام سلسلہ کی اطاعت اور خلیفہ وقت سے گہری عقیدت کا اعلیٰ نمونہ تھیں.۱۹۶۶ء میں جب نیروبی سے ربوہ روانہ ہوئیں تو مقامی لجنہ نے ایڈریس پیش کر کے آپ کی خدمات کو سراہا.

Page 403

395 حضرت امیر المومنین کی ایک تقریر کے ان حصوں کا جن کا تعلق مستورات سے تھا انگریزی میں ترجمہ کر کے پمفلٹ تیار کئے گئے اور انہیں بیرونی ممالک میں بھجوایا گیا.امریکہ، انڈو نیشیا اور ہالینڈ کی لجنات کو تقسیم کئے گئے.رپورٹ لجنہ اماءاللہ نائیجیریا:.محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ اہلیہ مکرمہ نیم سیفی صاحب انچارج نائیجر یا مشن نے تحریر فرمایا :.نائیجیریا میں سب سے اول محترم مولوی فضل الرحمن صاحب حکیم کے زمانہ میں (۱۹۳۴ء تا ۱۹۴۷ء) لجنہ اماءاللہ قائم ہوئی.اور احمدی عورتوں کے ہفتہ وار اجلاس بھی ہونے لگے تعلیم بالغاں کے حکومتی پروگرام کے تحت ایک کلاس بھی جاری تھی لیکن ان پروگراموں میں شامل ہونے والی عورتوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی.میں ۱۹۵۳ء میں اپنے خاوند مولوی نور محمد صاحب سیفی کے پاس نایجیر یا پہنچی اور دس سال وہاں رہ کر ۱۹۶۴ ء میں واپس آئی.اس سے قبل بھی مجھے قادیان میں اور پھر ہجرت کے بعد حافظ آباد اور پھر دار الرحمت ربوہ میں لجنہ اماء اللہ کا کام کرنے کی توفیق ملتی رہی تھی.اس لئے میں نے وہاں پہنچتے ہی احمدی عورتوں کو بیدار کرنے اور لجنہ کے کام میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی جس کے نتیجہ میں ہفتہ وار اجلاس زیادہ با قاعدگی سے ہونے لگے اور ان میں تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دی گئی.عزیزہ بشری سیفی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کسی روح پرور نظم کا انگریزی میں ترجمہ کر کے سناتی رہیں اور دوسرے اسلامی مسائل کے بارے میں بھی بتایا جاتا رہا.چندوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا.لیگوس کے علاوہ جو کہ ہمارا مرکز ہے ملک کے دیگر مقامات کی احمدی جماعتوں میں بھی جا کر بہنوں کو لجنہ کے پروگرام سے واقف کیا جاتا رہا.چنانچہ نومبر ۱۹۵۵ء میں اجیبو اوڈے کا دورہ کیا.۱۹۵۵ء کے جلسہ سالانہ کے ساتھ پہلی بار لجنہ اماءاللہ نائیجریا نے اپنا سالانہ جلسہ منعقد کیا.اس جلسے میں لیگوس سے باہر کی لجنات نے بھی بہت دلچسپی کا اظہار کیا.خاکسار نے لجنہ کی اہمیت پر تقریر کی

Page 404

396 چندہ مسجد ہالینڈ کے وعدے لئے اور وصولی کی.لیگوس کی لجنہ کے ذمہ تمام مردوں اور عورتوں کے کھانے کا انتظام تھا.لجنہ اماءاللہ کماسی (غانا) مغربی افریقہ:.جنوری ۱۹۵۴ء میں ایک مخلص احمدی اپنی منگیتر کو جو کہ مشرکہ تھی اور بچپن سے اس کی منگنی اس سے ہو چکی تھی بغرض دینی تعلیم نماز، قرآن مجید و غیر ہ سکھانے کے لئے محترمہ شمسہ سفیر صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ کماسی کے پاس لایا.اس کو بڑی محنت اور محبت سے مذکورہ تعلیم سکھائی.اس کو یسر نا القرآن ختم کروایا.قرآن مجید کی تلاوت اور چند ایک خاص رکوعات کا ترجمہ سکھایا.نماز کے آداب، نماز باترجمہ، فقہ ،سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ، عربی لکھنا، لائف آف محمد اور مختلف انبیاء کی لائف ہسٹری ،سلسلہ احمدیہ کی بنیاد اور اس کا مقصد، بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت ، خانہ داری کے متعلق ، بچوں کی پرورش کے متعلق، فرسٹ ایڈ مشین کی سلائی ، کشیدہ کاری وغیرہ سکھائے.اے یورپ میں ایک نیا مشن اور عورتوں کا حصہ :.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مورخہ ۲۱ / اکتوبر ۱۹۵۵ء کو یورپ میں ایک نیا مشن کھولنے کا فیصلہ فرمایا اور عورتوں کو ایک بار پھر اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے اور اپنا مال راہ خدا میں قربان کرنے کا موقع عطا فر مایا.یہ مشن سکنڈے نیویا میں کھولا گیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے تین ہزار کی رقم لجنہ اماءاللہ کے ذمہ لگائی جو بہت جلد مستورات نے پوری کر دی.حضور نے اس مشن کا خطبہ جمعہ میں اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.ایک بات میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم یورپ میں ایک نیا مشن کھولنا چاہتے ہیں ہمیں ایک نئے علاقہ کا پتہ لگا ہے جس کی وجہ سے تین چار اور ملکوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے اور وہ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ ہیں.آگے ان کا اثر ڈنمارک اور جرمنی پر پڑتا ہے اور پھر آگے ہالینڈ پر اثر پڑتا ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ وہاں مشن کھولا جائے.اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مشن ان جماعتوں کے نام مصباح دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳۷

Page 405

397 پر کھولا جائے.جو اس کو چلانے کے اخراجات ادا کریں.اس مشن پر انیس ہیں ہزار روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ ہے.میں نے یہ تجویز کی ہے کہ چندہ تحریک جدید کے علاوہ جماعت ہائے امریکہ کوشش کریں کہ اس مشن کے لئے تین ہزار روپے دیں.تین ہزار روپے جماعتہائے افریقہ ، شام اور عدن دیں.تین ہزار روپیہ لجنہ اماءاللہ دے.سات ہزار روپیہ پنجاب کی جماعتیں دیں.اس میں سے ضلع راولپنڈی کو میں نکال لیتا ہوں.تین ہزار روپیہ کی رقم بلوچستان سرحد اور ضلع راولپنڈی کی جماعتیں دیں.تین ہزار روپیہ کی رقم متفرق احباب دیں جو مرکز میں براہ راست چندہ بھجواتے ہیں.اس طرح امید ہے کہ میں اکیس ہزار روپیہ کی رقم اکٹھی ہو جائے گی.اس مشن کے ہیڈ کوارٹر پر جو بورڈ لگایا جائے گا اس پر یہ لکھ دیا جائے کہ اس مشن کو جماعت ہائے احمدیہ امریکہ، افریقہ، شام، عدن، لجنہ اماء الله، پنجاب، سرحد، بلوچستان، ضلع راولپنڈی اور متفرق احباب چلا رہے ہیں.یہ رقم جو میں نے مقرر کی ہے ابھی تھوڑی ہے.لیکن مجھے یقین ہے کہ جب دوست اس نیک کام میں حصہ لیں گے تو خدا تعالیٰ ان کوششوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بڑھانا شروع کر دے گا اور اس کے نتیجہ میں چندہ بھی بڑھ جائے گا.لجنہ اماءاللہ کنری:.۱۹۴۲ء میں ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر احمد دین صاحب نے یہاں لجنہ اماءاللہ قائم کی.آپ نے عرصہ دراز تک صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.محترمہ بیگم صاحبہ مولوی عبدالباقی صاحب امیر جماعت کنری نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۶ء تک خدمات سرانجام دیں.ان کے کام کے متعلق مکرم شجاعت علی صاحب انسپکٹر بیت المال نے مندرجہ ذیل ریمارک مورخہ ۳۰ رمئی ۱۹۵۵ء کوتحریر کیا :- میں نہایت مسرت سے اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں کی لجنہ شاندار کام کررہی ہے.ممبرات کی کل تعداد ۶۵ ہے اور اوسط حاضری ۳۳ ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پچاس فیصدی سے زیادہ مستورات دینی اور جماعتی کاموں میں حصہ لیتی ہیں.“ ل الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۵ نیز الازهار صفحه ۱۵۷

Page 406

398 جلسه سالانه ۱۹۵۵ء:- حسب معمول جلسه سالا نہ خواتین ۲۶ - ۲۷ - ۲۸ دسمبر کور بوہ میں منعقد ہوا.پہلے اجلاس کی تمام کارروائی مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلے ، دوسرے اور تیسرے دن کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.حضور کی تقاریر کے علاوہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی تقریر ذکر حبیب ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی تقریر اسلام اور کمیونزم ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے حالات ، مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کی ” مسلمانوں کے لئے احمدیت کی ضرورت“ اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ” مغرب اور اسلام“ کے موضوعات پر تقاریر سنی گئیں.زنانہ جلسہ گاہ میں جو اجلاس منعقد ہوئے ان کی صدارت کے فرائض بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حضرت خلیفتہ امسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ) اور محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب آف کراچی نے سرانجام دیئے.مندرجہ ذیل تقریریں ہوئیں:.حضرت رسول کریم ﷺ نے تبلیغ اسلام کے لئے کون کونسے محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ ذرائع اختیار کئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ محتر مدامة المجید صاحبہ ایم.اے اخلاق فاضلہ کی حقیقت لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة محتر مدامۃ الرحمن صاحبہ عمرایم.اے احمدی مستورات کی ذمہ داریاں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مساعی محتر مداستانی میمونه صوفیه صاحبه محتر مہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ کے چونکہ اس دفعہ حضور نے زنانہ جلسہ گاہ میں الگ تقریر نہیں فرمائی تھی اس لئے مردوں ہی میں تقریر کرتے ہوئے حضور نے احمدی مستورات سے بھی مختصر خطاب فرمایا اور انہیں توجہ دلائی کہ ہالینڈ میں ہماری جماعت کی مستورات کی ہمت سے مسجد بن گئی ہے.لیکن ابھی اس کا کچھ حصہ باقی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہے اور ہماری عورتیں

Page 407

399 کچھ اور ہمت کر کے مزید تینتیں ، چونتیس ہزار روپیہ کا انتظام کر دیں تو انشاء اللہ یہ مسجد مکمل ہو جائے گی.“ حضور نے مزید فرمایا:.پھر عورتوں کا رسالہ مصباح ہے.ہماری عورتوں کو کثرت کے ساتھ اس کا خریدار بنا چاہیے.میں سمجھتا ہوں اگر عورتیں بیدار ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو اس کی اشاعت ہیں پچیس ہزار ضرور ہونی چاہیئے.جلسه گاه مستورات کی منتظمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں.اور آپ کی نائبات صاحبزادی امة السلام بیگم اور سیدہ طیبہ صدیقہ بیگم خان مسعود احمد خاں صاحب تھیں.نیز آپ کی نگرانی میں امته الرشید شوکت صاحبه، بیگم چوہدری محمد سعید صاحب حیدر آباد، محمد بی بی صاحبہ اہلیہ نذیر حسین صاحب مرحوم، زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام علی صاحب اور سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ظفر حسن صاحب نے بطور معاونات کام کیا.سٹیج کی منتظمہ صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ اور آپ کی نائبہ صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ رہیں.حلقہ خاص کی منظمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب تھیں.آب رسانی کا انتظام حسب سابق محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا رحمت علی صاحب کے ذمہ تھا.جلسه سالانه قادیان اس دفعہ جلسہ سالانہ قادیان ۲۶.۲۷.۲۸ دسمبر کو ہوا.۲۷ / دسمبر کو مستورات کا الگ پروگرام تھا.جلسہ گاہ حضرت مولوی عبد المغنی صاحب مرحوم کے مکان سے ملحقہ چاردیواری میں تھی.لاوڈ سپیکر کا انتظام تھا.دو اجلاس زیر صدارت اہلیہ صاحبہ مولوی عبد السلام صاحب منعقد ہوئے.تین سو سے زیادہ غیر مسلم خواتین شامل ہوئیں جو اچھا اثر لے کر واپس گئیں.انہیں ہندی، گورمکھی اور اردو لٹریچر دیا گیا جو انہوں نے بخوشی لیا.لجنہ مرکزیہ کی مجلس شوری: جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۷ دسمبر کی درمیانی شب کو ساڑے سات بچے زنانہ جلسہ گاہ کی سیج پر الفضل یکم جنوری ۱۹۵۶ء صفحه کالم ۱ الفضل ۵/جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۳ کالم ۱

Page 408

400 لجنہ اماءاللہ کی دسویں شوری محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی صدارت میں منعقد ہوئی.علاوہ مرکزی عہدہ داران کے ۲۵ لجنات نے شمولیت کی.تجاویز اور فیصلہ جات حسب ذیل ہیں:.تجویز چندہ مسجد ہالینڈ : ۲۷ دسمبر کی تقریر میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہالینڈ میں ہماری جماعت کی مستورات کی ہمت سے مسجد تو بن گئی ہے لیکن ابھی اس کا کچھ حصہ باقی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہے اور ہماری عورتیں کچھ اور ہمت کر کے مزید ۳۳ ۳۴ ہزار روپیہ کا انتظام کر دیں تو انشاء اللہ مسجد مکمل اور - ہزار کا کردیں تو ہو جائے گی“ حضرت اقدس کے مختصر الفاظ کو سامنے رکھ کر اس رقم کی وصولی کے متعلق نمائندگان سے تجاویز پوچھی گئیں.فیصلہ:.سب نے یہی فیصلہ کیا کہ یہ رقم تمام لجنات پر حصہ وار پھیلا دی جائے اور نگرانی کے ساتھ اس کی وصولی کا انتظام کیا جائے.اجلاس میں حاضر تمام نمائندگان نے یہ عہد کیا کہ مسجد ہالینڈ کے لئے مزید رقم خواہ وہ کتنی ہو اور کتنے سال تک لگا تارکیوں نہ دینی پڑے، بہر حال ہم نے ادا کر کے دم لینا ہے.جب لجنہ اماءاللہ نے ایک کام کا بیڑا اٹھایا ہے تو اس کا انجام تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ یورپ میں سب سے پہلی مسجد لجنہ اماءاللہ کی بنوائی ہوئی ہے.تجویز:.چندہ سکنڈے نیوین مشن:.ا اس چندہ کے لئے حضور نے ماہ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں جہاں باقی جماعت کو اس چندہ میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی وہاں لجنہ اماءاللہ کوبھی تین ہزار روپے کی رقم ادا کرنے کو کہا.” اس تحریک پر پورے تین ماه گذر چکے ہیں لیکن یہ حقیر رقم ادا نہیں ہوئی.“

Page 409

فیصلہ: 401 جو بجنات یہاں موجود ہیں وہ اپنی اپنی لجنہ کی طرف سے وعدہ لکھوا دیں اور جو لجنات غیر حاضر ہیں ان کو اس چندہ کی تحریک کر کے جلد از جلد وصولی کی تحریک کر دی جائے اس وقت ۳ الجنات نے کل ۲۰۴۵ کے وعدے لکھوائے.تجویز از طرف لجنہ اماءاللہ کراچی نمبرا :.چونکہ لجنہ اماءاللہ کراچی کو زیادہ اخراجات در پیش ہیں اس لئے چندہ ممبری لجنہ میں سے ۲/۳ حصہ رکھنے کی اجازت دی جائے.فیصلہ: اخراجات کی تفصیل معلوم ہونے پر فیصلہ ہوا کہ واقعی ان کی لجنہ کے اخراجات زیادہ ہیں اس لئے ان کو چندہ ممبری میں سے ۴/ احصہ کی بجائے ۲/۳ حصہ رکھنے کی اجازت ہے.تجویز از طرف لجنہ اماءاللہ کراچی:.مرکز میں واقفین کے چھوٹے بچوں کے لئے ایک سکول کھولا جائے جس میں خاص طور پر تھی کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت کا بھی لحاظ رکھا جائے.اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ کراچی نے وعدہ کیا تھا کہ ایک استانی کی تنخواہ جو ڈیڑھ صد روپیہ ماہوار ہوگی وہ با قاعدہ دے گی.نیز سکول کے فرنیچر کے لئے الجنات نے کل ۸۳۰ روپے کے وعدہ جات لکھوائے.دعا پر یہ اجلاس برخاست ہوا سال رواں کا آمد وخرچ :.۵۵ - ۱۹۵۴ء میں کل آمد ۵۵ - ۱۹۵۴ء میں کل خرچ لے رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ ۶۹۰۱ روپے ۷۱۵۳ روپے تھا

Page 410

402 دوران سال بعض بزرگان سلسلہ کی وفات محترم حکیم فضل الرحمان صاحب سابق مبلغ نائیجیریا کی وفات :.مترم حکیم فضل الرحمان صاحب ۲۸ / اگست کی دوپہر کولا ہور میں لمبی علالت کے بعد وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ تبلیغ کے میدان میں ایک نہایت بہادر اور کامیاب مجاہد اور سلسلہ احمدیہ کے مخلص اور نڈر مبلغین میں سے تھے.۲۳ برس کے طویل عرصہ تک آپ کو مغربی افریقہ میں کامیابی کے ساتھ اعلائے کلمہ اسلام بجالانے کی توفیق ملی.اے آپ کی وفات کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی یورپ کے سفر پر تھے.واپسی پر حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں بعض وفات یافتہ سلسلہ کے خادموں کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے متعلق فرمایا:.حکیم فضل الرحمان صاحب جو حال ہی میں میرے پیچھے فوت ہوئے ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ کے بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے.حضرت مولوی عبد المغنی خاں صاحب کی وفات:.مورخه ۳ ستمبر ۱۹۵۵ء کو سلسلہ احمدیہ کے ایک اور ممتاز بزرگ جنہوں نے ربع صدی سے زائد عرصہ تک سلسلہ احمدیہ کی انتھک خدمت کی یعنی حضرت مولوی عبد المغنی صاحب سابق ناظر بیت المال وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون ہے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ان ہر دو بزرگوں کی وفات پر ایک تعزیتی قرارداد پاس کی جو مصباح بابت ماہ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی.محترم مولوی نذیر احمد علی صاحب کی وفات محترم نذیر احمد علی صاحب مبلغ اسلام سیرالیون نے مورخہ ۱۹ رمئی ۱۹۵۵ء کو سیرالیون کے مقام بو ا الفضل ۳۰ را گست ۱۹۵۵ء صفحه ا ے ڈھائی سال بعد الفضل ۱/۲۲ اکتوبر ۱۹۵۵ء، ماہنامہ خالد دوره مغربی افریقہ نمبر ۴ الفضل ۶ ستمبر ۱۹۵۵ء صفحه

Page 411

403 میں عین میدان تبلیغ میں جہاد کرتے ہوئے وفات پائی اور اس طرح شہادت کا رتبہ حاصل کیا.اناللہ وَإِنَّا أَلِيْهِ رَاجِعُون - ا حضرت مولوی صاحب مرحوم ۱۹۲۹ء میں سب سے پہلے مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے گئے تھے.اس کے بعد دو تین مرتبہ عارضی طور پر واپس تشریف لائے.لیکن در حقیقت پھر ساری عمر میدان تبلیغ میں ہی بسر کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشان کامیابی عطافرمائی.ہزاروں افریقن آپ کے ذریعے احمدی ہوئے اور سینکڑوں مقامات پر آپ نے جماعتیں قائم کیں.حضرت مولوی صاحب کی وفات پر ارجون ۱۹۵۵ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تعزیتی قرار داد پاس کی.محترم صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی کی وفات ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو محترم صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم.اے بنگالی سابق مبلغ اسلام امریکہ و حال ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنزر بوہ رحلت فرما گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.صوفی صاحب مرحوم کو سالہا سال تک امریکہ میں نہایت کامیابی کے ساتھ تبلیغ اسلام کی توفیق ملی.پھر مرکز میں آکر رساله ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اہم کام کرنے کا موقعہ ملا.امریکہ میں آپ نے بہت قابل قدر تصانیف بھی فرما ئیں جو اسلامی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے.رسالہ ” سن رائز امریکہ کی ادارت بھی آپ کے سپرد تھی اور آپ اسے بہت کامیابی سے چلاتے رہے.مورخہ ۱۸ نومبر کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے آپ کی وفات پر قرار داد منظور کی.۲ محترم مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی وفات دسمبر کو محترم مولانا عبد الرحیم صاحب در دایم.اے سابق امام مسجد لنڈن وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.محترم در دصاحب نے قریباً ربع صدی تک مختلف حیثیتوں سے اخلاص کے ساتھ سلسلہ کی خدمت سرانجام دی.امام مسجد لنڈن کے طور پر انگلستان میں تبلیغ اسلام کرنے کے بعد ایک لمبے عرصہ تک صدرانجمن احمدیہ کے مختلف عہدوں پر فائز رہے.بطور ناظر مختلف شعبوں کے انچارج رہنے کے علاوہ آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے اور قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے اہم اور نازک کام میں بھی حصہ لیا.آپ کی وفات پر بھی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے قرارداد پاس کی.ا الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۵ء صفحه ا مصباح ماه دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۱۴

Page 412

Page 413

405 پانچواں باب ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع نصرت انڈسٹریل سکول کا قیام فتنہ منافقین کے متعلق قراردادیں ۱۹۵۶ء اب لجنہ اماءاللہ کا کاروان اپنی عمر کے چونتیسویں سال میں داخل ہوتا ہے.وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرگرمیوں اور دینی خدمات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی چلی گئی.امسال بھی اسے متعدد مالی تنظیمی کام کرنے کی توفیق ملی.جماعتی نقطہ نگاہ سے اس سال کا اہم ترین واقعہ فتنہ منافقین ہے جو اس سال ظاہر ہوا.اور جس کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی رہنمائی میں جماعت نے کامیابی کے ساتھ قلع قمع کیا.اور اس طرح دنیا پر پھر یہ ظاہر کر دیا کہ جماعت میں کوئی ایسا فتنہ ہرگز پنپ نہیں سکتا جو اسے خلافت سے برگشتہ کرنے کے لئے برپا کیا جائے.سال رواں کی سرگرمیوں میں سے ایک اہم کام لجنہ اماءاللہ کے زیرانتظام ایک زنانہ دستکاری سکول کا اجراء ہے تا ضرورت مند خواتین کے لئے معاشی سہولتیں میسر آئیں اور وہ کوئی ہنر سیکھ کر اپنی روزی کما سکیں.اس سال کا ایک اور اہم واقعہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہے جو ماہ اکتوبر میں منعقد ہوا.

Page 414

406 مرکزی عہدیداران :.۱۹۵۶ء کے لئے مندرجہ ذیل مرکزی عہدیداران کا تقرر عمل میں آیا.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیه حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نائب صدر محتر مد استانی میمونه صوفیه صاحبه جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی نائب سیکرٹری محترمه سیده نصیرہ بیگم صاحبہ ( بیگم مرزا عزیز احمد صاحب) سیکرٹری مال محترمه استانی میمونه صوفیه صوفیه صاحبه سیکرٹری شعبہ خدمت خلق محترمہ بیگم صاحبه مرز ا مبارک احمد صاحب سیکرٹری شعبہ تعلیم محتر مہ بیگم صاحبہ مرزا منور احمد صاحب نائبہ سیکرٹری شعبہ تعلیم محترمہ صفیہ ثاقب صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب ایم.ا.سیکرٹری نمائش محترمہ بیگم صاحبہ مرزا حفیظ احمد صاحب سیکرٹری اصلاح وارشاد محتر مهامه الرشید صاحبه شوکت سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ عاجزہ امته اللطیف (اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب) اے سیکرٹری بیرونی مشن محترم امۃ الرحیم صاحبہ (اہلیہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مبلغ امریکہ) مدیره و مینجر رساله مصباح محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ:.نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ میں مئی ۱۹۵۶ء میں قائم ہوا.اور اب تک ایک بھاری تعداد خواتین اور بچیوں کی دستکاری کا ڈپلومہ اس سکول سے حاصل کر چکی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماءاللہ کو ۱۹۳۶ء میں دستکاری کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس کام کی ابتداء کے لئے آپ نے اپنی طرف سے پانچ سوروپے کا عطیہ لجنہ اماءاللہ کو عطا فرمایا تھا.چنانچہ ۱۹۳۶ء میں قادیان میں دستکاری کا کام شروع کیا گیا.اس کی سب سے اہم غرض یہ تھی ه تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۳۶۰

Page 415

407 کہ وہ عورتیں جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں وہ محنت کر کے روزی کماسکیں.یہ کام ۱۹۴۰ ء تک جاری رہا.اور اس میں اہم اور نمایاں کام محترمہ عارفہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ سردار کرم داد خان صاحب اور محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ نابینا نے ادا کیا.ہجرت کے بعد ربوہ میں مرکزی لجنہ اماءاللہ نے پھر دستکاری کے کام کو رواج دینے کے سوال پر غور کیا.اس میں نمایاں حصہ محترمہ کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مبلغ سوئٹزر لینڈ کا ہے.وہ ان دنوں سکرٹری خدمت خلق کے عہدہ پر فائز تھیں.انہوں نے شعبہ خدمت خلق کے زیر انتظام جلسہ سالانہ پر پہلی بار ۱۹۵۰ء میں خدمت خلق کا سٹال لگایا.اور اس کے بعد بھی لگاتی رہیں.اس سے جو فنڈ جمع ہوا، اس کا منافع دستکاری کے لئے پیش کیا.لے جب کچھ رقم جمع ہوگئی تو بیگم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے مخیر احباب و خواتین سے بھی سکول کے اجراء کے لئے اعانت کی اپیل کی.جس پر چوہدری شاہ نواز صاحب نے ۲۵ روپے ماہوار دینے کا وعدہ کیا اور ایک اور صاحب نے بھی ، اروپے ماہوار دینے کا وعدہ کیا.سے بیگم چوہدری غلام احمد صاحب مینیجنگ ڈائریکٹر شاہنواز لمیٹڈ نے اروپے ماہوار دینے کا وعدہ کیا.۳ یہ اصحاب کچھ عرصہ تک با قاعدہ سکول کی مدد کرتے رہے.جزا ہم اللہ احسن الجزاء.مارچ ۱۹۵۴ء کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ ایک سال تک دستکاری کا شعبہ شعبہ خدمت خلق کی زیر نگرانی رہے.اس کے لئے ایک باقاعدہ تنخواہ دار کارکن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جو بچیوں کو سلائی سکھائے اور آرڈر پر کام کروائے.امتہ الوکیل صاحبہ ہمشیرہ عبدالودودخاں صاحب نے ابتداء میں ڈھائی ماہ کام کیا ہے.پھر وقفہ وقفہ کے بعد کچھ اور عرصہ بھی کام کرتی رہیں.لیکن دستکاری سکول کا با قاعدہ افتتاح مئی ۱۹۵۶ء میں ہوا.جس کے لئے سب سے پہلی استانی محترمہ صابرہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری عبدالرحمن صاحب راولپنڈی کا تقرر کیا گیا.آپ نے ڈبل ڈپلومہ کیا ہوا ہے اور ٹرینگ بھی حاصل کی ہوئی ہے.مئی ۱۹۵۶ء سے آپ نصرت انڈسٹریل سکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں.بعد میں جلد ہی محترمہ امۃ النصیر صاحبہ بنت چوہدری رحمت اللہ صاحب کا تقرر کیا ایر پورٹ لجنہ مرکز یہ ۵۷ - ۱۹۵۸ء ۲ مصباح جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ۳ الفضل ۱۵ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۷ مصباح اکتوبر ۱۹۵۴ء، رپورٹ لجنہ مرکز یه ماه جنوری تا جون ۱۹۵۴ء صفحه ۳۹

Page 416

408 گیا.آپ بھی ٹرینڈ ہیں اور ڈبل ڈپلومہ کیا ہوا ہے.۱۹۶۳ء سے تیسری ٹیچر کا اضافہ کیا گیا جو رشیدہ بنت احمد دین صاحب زرگر تھیں.جنہوں نے چند سال بعد شادی ہونے کی وجہ سے کام چھوڑ دیا.اور ان کی جگہ اہلیہ صاحبہ محمد ظریف صاحب کو رکھا گیا.سکول میں ابتداء ہی سے دینیات پڑھانے کا بھی انتظام ہے.قرآن مجید اور ابتدائی دینی تعلیم محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر الدین صاحب مارچ ۱۹۵۷ء سے دے رہی ہیں.مئی ۱۹۵۶ء ہ میں پہلی بار ۲۴ طالبات نے داخلہ لیا.سکول جاری ہونے پر ایک مشین خریدنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساڑھے چارصد روپے کا عطیہ سکول کو دیا ہے اس سکول کی نگران محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ کو ہی مقرر کیا گیا.جو ۱۹۶۳ء تک اس عہدہ پر رہیں.چنانچہ ان کی طرف سے ماہانہ رپورٹ سکول کی ترقی کی الفضل میں شائع ہوتی رہی.پہلی دفعہ لجنہ مرکزیہ کی طرف سے ۲۶ / جون ۱۹۵۶ء کو سکول کا معائنہ کیا گیا.یہ معائنہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماء اللہ نے محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور مسز شاہ صاحبہ پرنسپل جامعہ نصرت کی معیت میں کیا.سکول کی ترقی دیکھ کر اظہار خوشنودی فرمایا اور اپنے قیمتی مشوروں سے نواز ا سے سکول کے علاوہ طالبات کو کام سکھانے کے آرڈر پر کام لینا بھی شروع کیا گیا تا کہ سکول کی آمد بڑھے.۱۹۵۷ء کے اجتماع پر پہلی بار نصرت انڈسٹریل سکول کی طرف سے صنعتی نمائش لگائی گئی ہے.جو باقاعدگی سے ہر سال لگائی جاتی ہے.سکول کی بلڈنگ کے لئے محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ نے دو ہزار روپے جمع کر کے دیئے جو سکول کی عمارت پر خرچ کئے گئے.محترمہ موصوفہ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۲ ء تک دست کاری کی سکرٹری رہیں.اجتماع ۱۹۵۶ء کے موقع پر لجنہ مرکزیہ کی طرف سے تحریک کی گئی کہ ہر ضلع کی بجنات مل کر کم از کم ایک مشین کی قیمت دیں یا خود مشین خرید کر سکول کے لئے وقف کریں.۵ ا الفضل ۱۵ احسان / جون ۱۹۵۶ء ۱۳۲۵ بش صفریم ۲ الفضل ۶ روفا/ جولائی ۱۹۵۶ء ۱۳۲۵۷ ہش صفحه ۶ / الفضل ۱۵ ظهور/ اگست ۱۹۵۶ء ، ۱۳۲۵ ہش صفحه ۷ ۴ الفضل ۱۶ را خاء / اکتوبر ۱۹۵۷ء، ۱۳۳۶ ہش صفحه ۶ ه الفضل ۴ رنبوت / نومبر ۱۹۵۶ء ، ۱۳۳۵ ہش صفحه ۴

Page 417

409 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے سات مشینیں خرید کر سکول کو دیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی عطا فرمودہ مشین کے علاوہ مندرجہ ذیل نے مشینیں خرید کر دیں:.لجنه کراچی لجنات ضلع لاہور لجنات ضلع گجرات ب مشین ایک ایک مشین ایک مشین اہلیہ صاحبہ شیخ محمد محسن صاحب لائل پور ایک مشین لجنہ راولپنڈی ایک مشین کے طالبات کے چندہ سے خریدی گئی دو مشینیں (رپورٹ کا رگذاری لجنہ مرکز یه ۵۸ ۵۹ صفحه ۹) لجنات ضلع سیالکوٹ لجنہ اماءاللہ نیروبی ایک مشین (رپورٹ کارگذاری لجنہ مرکز یه۵۹ ۶۰ صفحه ۱) ایک مشین (رپورٹ کارگذاری ۶۰۵۹ ، صفحہ ۱۱) جلسہ پر نمائش اور دکان کی آمد سے خریدی گئیں دو مشینیں (رپورٹ کارگذاری ۶۱ ۶۲ ، صفحہ ۱) لجنہ اماءاللہ حیدر آباد لجنہ اماءاللہ اوکاڑہ ایک مشین ( رپورٹ کار گزاری لجنہ مرکز یه ۶۳ ۶۴ صفحه ۱) ایک مشین محتر مہ امۃ اللہ صاحبہ اہلیہ مظفر حسن صاحب ایک ہینڈ مشین اس وقت سکول میں مشینوں کی تعداد ۲۹ ہے.جن میں سے سات مشینیں سرکاری ایڈ میں ملی ہیں.۱۳ بطور عطیہ کے ۲ طالبات کے چندہ سے خریدی گئیں ہیں.پوری مشین کی قیمت کے علاوہ متعدد لجنات نے چندہ بھی مشین خریدنے کے لئے دیا.ان کے علاوہ کلثوم باجوہ صاحبہ نے سکول کو ایک پنکھا بطور عطیہ دیا.قانتہ اعظم صاحبہ بنت چوہدری اعظم علی صاحب سب جج نے سکول کو ایک شوکیس بنوا کر دیا.اس کے علاوہ بھی مختلف خواتین اور بچیوں نے سکول کی ہر لحاظ سے مالی مدد کی.سرکاری طور پر سکول ۱۹۵۸ء میں منظور ہوا.اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۰ء سے طالبات نے ڈیپلوما کا امتحان دینا شروع کیا.پہلی دفعہ ۱۹۶۰ء میں 9 طالبات نے امتحان دیا.جوسب کی سب کامیاب رہیں.۱۹۶۰ء سے اب تک کا نتیجہ حسب ذیل رہا:.کے سالانہ رپورٹ کارگذاری لجنہ مرکز یہ ۵۶۵۷ صفحه ۱۱

Page 418

410 سال امتحان میں شمولیت کی کامیاب رہیں ١٩٦٠ء ۹ ١٩٦١ء ١٩٦٢ء ١٩٦٣ء ١٩٦٤ء ۱۹۶۵ء rr ا.١٩٦٦ء ۱۹۶۷ء = ١٩٦٨ء ١٩٦٩ء ۱۹۷۰ء ۱۹۷۱ء %1** %1++ %۷۵ ۹ ۱۲ %1++ ۱۴ ۱۴ %1++ ۱۴ ۱۴ %1++ ۱۳ ۱۳ %1++ %۲ ۹ %91 %1++ 17 17 %1++ ۱۴ ۱۴ %1++ ۱۴ ۱۴ سکول میں طالبات کی تعداد بالعموم ساٹھ بستر کے درمیان رہی.کل ۵۷۲ طالبات اس ادارہ سے فارغ ہو چکی ہیں.۱۹۲۱ء سے سکول میں نٹنگ سکھانے کا بھی انتظام ہے.ایک نٹنگ مشین ( KNITTING MACHINE) خریدی گئی.دوسری ننگ مشین لجنہ اماءاللہ لندن نے بطور عطیہ بھجوائی لے جز احن اللہ احسن الجزاء.اکتوبر ۱۹۵۷ء کی شوری میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سکول کے لئے ایک گیلری ہال کے ایک طرف بنائی جائے جس کا خرچ کا اندازہ آٹھ ہزار روپے تھا.اس چندہ کی لجنات کو تحریک کی گئی.بہت جلد بہنوں نے یہ رقم پوری کر دی اور گیلری اور سکول کا دفتر بنوادیا گیا.۱۹۶۳ء میں تیسری ٹیچر رشیدہ احمد دین صاحب کا اضافہ کیا گیا جنہوں نے طالبات کو پینٹنگ اور لید رورک بھی سکھانا شروع کیا ۱۳ء میں تعطیلات میں بھی سکول کھلا رہا تا کہ کالج اور سکول میں ا رپورٹ کارگزاری ۶۲ ۶۳ صفحه ۱۵ نے مصباح ۱۵ جون ۱۹۳۶ء صفحه ۶ ، تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۳۶۱

Page 419

411 پڑھنے والی طالبات تعطیلات میں دستکاری سیکھیں اور سکول کی بھی آمد ہو.۱۹۶۳ء سے اس سکول کو سرکاری طور پر ایڈ ملنا شروع ہوئی جو کم و بیش ایک ہزار روپیہ سالانہ اب تک مل رہی ہے.۱۹۶۷ء میں ۵۵۰۰ روپے کی خصوصی گرانٹ سکول کو ملی جس سے سکول کے لئے مشینری اور فرنیچر خریدا گیا.محکمہ کی ہدایت کے مطابق ۶۸، ۶۶۹، ۷۰ء میں بھی سکول کو ترقیاتی ایڈ دی گئی.آئندہ سال سکول میں کھانے پکانے اور خانہ داری کی ٹریننگ کا نصاب بھی شامل کیا جائے گا.اس سکول نے جماعت کی اہم ضرورت اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم خواہش کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے.ایک خاصی تعداد مستورات اور لڑکیوں کی اس ادارہ سے فارغ ہو کر اپنے گھروں میں سلائی اور دستکاری کا کام کر کے آمد پیدا کر رہی ہے.ابھی اس معیار کوتو لجنہ نہیں حاصل کر سکی جو سیدنا لمصل حضرت اصلح الموعودؓ نے ۱۹۳۶ء میں مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا تھا:.وو " لجنہ اماء اللہ کا فرض ہے کہ تمام غرباء اور مساکین کی فہرست تیار کرے اور ان کے لئے کام مہیا کرے تا کہ ہر شخص اپنی روزی خود کما سکے اور یہ بد عادت (سوال کرنے کی ) جو کہ موت کے برابر ہے دور ہو.نیز ۳ رفروری ۱۹۳۹ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے سامنے لجنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ:.عورتوں کی تربیت کے لحاظ سے میں نے اس کی دوسری شاخ لجنہ اماءاللہ کے نام سے قائم کی ہوئی ہے.یہ لجنہ صرف دو جگہ اچھا کام کر رہی ہے.ایک قادیان میں اور دوسرے سیالکوٹ میں.قادیان میں لجنہ کا زیادہ تر کام جلسے کروانا.سلسلہ کے کاموں سے عورتوں کو واقف رکھنا ، صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا ہے.یہ کام کو آہستہ آہستہ ہورہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اس کام کو جاری رکھا گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتامیٰ کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گے.ا مصباح ۱۵ جون ۱۹۳۶ء صفحه ۶ و تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۳۶۱ الفضل ۱۷ فروری ۱۹۳۹ء صفحه ۵ و تاریخ بجنه جلد اول صفحه ۴۳۸

Page 420

412 نیز حضور نے فرمایا:.میر اپروگرام یہ ہے کہ لجنہ کا کام جب یہاں کامیاب ہو جائے تو باہر بھی اسے جاری کیا جائے.یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ رہے جو خود کام کر کے اپنی روزی نہ کماتی ہو.پس حضرت مصلح موعودؓ کی اس خواہش کو پورا کر نالجنہ اماءاللہ کے لائحہ عمل کا ایک نہایت ضروری حصہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.آمین نصرت انڈسٹریل سکول کی پندرہ سال کی آمد و خرچ کا جائزہ سال سالانہ آمد سالانہ خرچ ۳۲۵۱ ۳۳۶۴ ۵۷۵۶ ۴۸۰۲ ۴۳۷۳ ۵۸_۵۷ ۴۳۳۵ ۴۳۶۲ ۵۹۵۸ ۴۳۲۲ ۴۶۳۵ ۶۰_۵۹ ۲۸۳۲ ۶۱۶۰ ۵۱۱۰ ۴۸۴۲ ۵۹۱۱ ۶۹۲۲ ۵۲۵۸ ۷۹۶۹ ۵۰۸۳ ۷۳۵۹ ۴۰۴۷ ۱۳۶۰۰ ۱۰۳۴۲ ۵۰۰۱ (اس میں گورنمنٹ گرانٹ برائے مشینری و فرنیچر شامل ہے) له الفضل ۱۷فروری ۱۹۳۹ء صفحہ ۶ و تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۴۳۹ ۸۲۵۳ ۸۷۲۳

Page 421

۸۴۹۳ ۸۸۷۴ 413 ۴۰۵۵ ۴۰۶۰ 21-2• یہ جائزہ بتاتا ہے کہ آمد کے مقابلہ میں خرچ خاصا زیادہ رہا ہے اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو ہر سال خاصی رقم اس پر خرچ کرنی پڑتی ہے.اس سکول کی طالبات نے لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع پر آٹھ سال تک اپنے ہاتھوں سے ناشتہ پکانے اور کھانا تقسیم کرنے کے فرائض ادا کئے ہیں.جب اجتماع پر آنے والی مستورات کی تعداد زیادہ ہوگئی تو تندور لگوا کر ان پر روٹی پکوائی جانے لگی.خدمت دین اور احمدی لڑکیاں:.ور مارچ ۱۹۵۶ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احمدی خواتین کو ایک اور اہم امر کی طرف توجہ دلائی.حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.والدین کو چاہیے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے...اس کام میں عورتیں بہت مدد دے سکتی ہیں.اس وقت مسجد میں عورتیں بھی بیٹھی ہیں.میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں اور بچپن سے ہی بچوں کے کانوں میں یہ ڈالنا شروع کردیں کہ بڑے ہو کر انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑے ہو کر انہیں دین کی خدمت کا احساس رہے گا.کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ ہمارے گھر آئی اور اس نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ میں دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتی ہوں.میں نے کہا بی بی لڑکیاں زندگی وقف نہیں کر سکتیں کیونکہ واقف زندگی کو تبلیغ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے بلکہ بعض دفعہ اسے ملک سے بھی باہر جانا پڑتا ہے اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں.ہاں اگر تم زندگی وقف کرنا چاہتی ہو تو کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کرلو.وہ خاموش ہوکر چلی گئی.میری بیوی کی ایک ہم جماعت کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگی.میں نے اس سے پہلے نیت کی ہوئی تھی کہ

Page 422

414 میں اپنی زندگی دین کے لئے وقف کروں گی.لیکن اس نے پہل کرلی.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اس کی شادی ایک غیر ملکی واقف زندگی نوجوان سے ہوگئی.اب دیکھو، نیک نیتی کیسے اچھے پھل لاتی ہے.اور پھر ایک دن ایک اور لڑکی روتی ہوئی میرے پاس آئی اور اس نے کہا میں کسی واقف زندگی نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد اس میں روک بنتے ہیں اور وہ میری شادی واقفِ زندگی سے نہیں کرنا چاہتے.میں حیران ہوا کہ اس کے اندر کس قسم کا اخلاص پایا جاتا ہے.میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب سے کہا کہ وہ اس کے والد کو سمجھا ئیں.آخر چند دنوں کے بعد وہ پھر آئی اور اس نے کہا میرا والد ایک واقف زندگی سے میری شادی کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے.چنانچہ اس کی شادی ہوگئی.شادی کے بعد وہ پھر ایک دن روتی ہوئی میری پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا باپ کہتا ہے کہ اگر تو اپنے خاوند کے ساتھ ملک سے باہر گئی تو میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گا.میں نے کہا.میں بیمار ہوں تمہارے رونے کی وجہ سے میرادل گھبراتا ہے.اس لئے تم خود ہی کچھ کرو اور اپنے والد کو کسی نہ کسی طرح راضی کرلو.بعد میں ، میں نے پھر ابوالعطاء صاحب سے کہا اور انہوں نے کوشش کر کے سمجھوتہ کرا دیا.اب دیکھو! وقف زندگی ایک جہاد ہے اور جہاد کا عورتوں کو براہ راست حکم نہیں.واقف زندگی نوجوانوں کو غیر ممالک میں جانا پڑتا ہے.اور لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاسکتیں اس لئے اس قسم کی قربانی کا انہیں براہ راست حکم نہیں لیکن جب لڑکیوں میں دین کی خدمت کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ انکے لئے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے.کوہ مری میں لجنہ کے عہد یداران کا انتخاب :.ماہ مئی میں حضرت سیدہ ائیم ناصر احمد صاحب حرم اول حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضور کے ہمراہ کوہ مری میں تشریف فرما تھیں.ہم رمئی کو خیبر لاج مری میں ان کی زیر صدارت مری کی ا الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۵۶، صفحه ۳ ۴۰ کالم ۳-۴

Page 423

415 احمدی مستورات کا جلسہ منعقد ہوا.جس میں مقامی لجنہ اماءاللہ از سرنو قائم کی گئی اور حسب ذیل عہد یدار مقرر ہوئیں.صدر سیکرٹری چنیوٹ :.بیگم ساره سعید صاحبه حسن آفتاب بیگم اسلم صاحبه کچھ عرصہ سے چنیوٹ میں لجنہ کا کام تعطل کا شکار تھا.۲۰/ جون کو محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ نے چنیوٹ جا کر از سرنولجنہ قائم کی.ہے محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد حسین صاحب صدر مقرر ہوئیں.کافی لمبا عرصہ آپ یہ فریضہ سرانجام دیتی رہیں اور محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحیم صاحب زرگر سیکرٹری مال رہیں.سپکٹر لیس لجنہ مرکزیہ کا تقرر :- ۲۳ رمئی ۱۹۵۶ء کو مرکزی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ محترمہ میمونہ صوفیہ صاحبہ سے سکول سے ریٹائر ہوگئی ہیں اس لئے انہیں لجنہ مرکزیہ کی انسپکٹریس کے عہدہ پر باقاعدہ تنخواہ دار کارکن کی حیثیت سے مقرر کیا جائے.چنانچہ اس عہدہ پر ان کا تقرر عمل میں لایا گیا اور محترمہ استانی ے مصباح جون ۱۹۵۶ء صفحه ۳۲ ۲ رجسٹر کا رروائی اجلاس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بنت حبیب احمد صاحب زوجہ غلام محمد صاحب پیدائشی احمدی ہیں.۳ /جنوری ۱۹۰۱ء کو پیدا ہوئیں.لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ہیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے بہت کام کرنے کی توفیق بخشی.اہم سے اہم کام آپ کے سپر در ہے اور آپ شوق اور محنت سے انہیں سرانجام دیتی رہیں.اچھی مقررہ ہیں.مجلس شورای میں بھی لجنہ کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا.طویل مدت تک سکرٹری مال رہیں.قائمقام صدر لجنہ مرکزیہ کے فرائض بھی ادا کرتی رہیں.عالمہ باعمل ہیں.شروع سے ہی بیرونی بجنات میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے بطور نمائندہ ان کو بھجوایا جاتا رہا.بہت سی جگہ نئی لجنات قائم کیں اور سینکڑوں لجنہ کی کارکنوں نے آپ سے کام کی تربیت حاصل کی.آج کل نصرت زنانہ سٹور آپ کی تحویل میں ہے اور اسے کامیابی سے چلا ر ہیں ہیں.نصرت گرلز سکول میں دینیات اور عربی کی معلم رہیں.سکول کی طالبات کے علاوہ سینکڑوں بچیوں اور عورتوں کوناظرہ اور باتر جمہ قرآن کریم پڑھایا.

Page 424

416 صاحبہ موصوفہ انسپکٹریس کی حیثیت سے مختلف مقامات کی لجنات کے معائنہ اور دورہ کے لئے تشریف لے جانے لگیں.اپنے دورہ میں وہ نئی بجنات قائم کرتی تھیں.لے ضلع گجرات میں نئی لجنات کا قیام:.۳۰ ستمبر کو محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے بحیثیت انسپکٹریس لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ضلع گجرات کا دورہ کیا.آپ بارہ مقامات پر گئیں اور مندرجہ ذیل سات بجنات قائم کیں.کنجاہ ، چوکنانوالی، گولیکی ، کالراں کلاں ، سدو کی ، جس کی ہوک کلاں سے محترمه استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ ۲۲ نومبر ۱۹۵۶ء کو کراچی کی لجنہ کا دورہ کرنے اور ان کے پہلے سالانہ اجتماع میں شمولیت کی غرض سے بطور مرکزی نمائندہ تشریف لے گئیں.اس کے علاوہ سرگودھا کے بعض دیہات کا بھی آپ نے دورہ کیا.سے فتنه منافقین اور لبنات اماءاللہ کی قراردادیں:.ماہ جولائی کے آخری ایام میں جماعت احمدیہ میں منافقین کا ایک فتنہ ظاہر ہوا جس کے سرغنہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر اور مولوی عبد المنان صاحب عمر (پسران حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ) تھے اور انہوں نے بطور آلہ کار ایک شخص اللہ رکھا کو آگے کیا ہوا تھا جو پہلے قادیان میں رہتا تھا اور وہاں درویشوں کے خلاف فتنہ پیدا کرتارہتا تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲۳ / جولائی ۱۹۵۶ء کو اس سلسلے میں جماعت کے نام ایک اہم پیغام تحریر فرمایا.جس میں حضور نے اس فتنہ کا انکشاف فرمایا اور جماعت کو ان لوگوں بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنے کا ارشاد فرمایا.اس اعلان کے شائع ہونے پر تمام جماعتوں نے اور ذیلی تنظیموں نے خلافت کے ساتھ اور بالخصوص حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گہری محبت اور والہانہ عقیدت کا اور منافقین سے انتہائی بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا.اس موقعہ پر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور لجنہ اماءاللہ ربوہ نے فوری طور پر مندرجہ ذیل قرار دادیں بذریعہ تار حضور کو کوہ مری میں بھجوائیں جہاں حضور اُن دنوں تشریف رکھتے تھے.ل ۲۴ ۳۰ رجسٹر کا رروائی لجنہ مرکز یہ

Page 425

417 قرار داد لجنه مرکزیہ :- ہم منافقین کے خلاف نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتی ہیں اور حضور کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنی وفاداری کا یقین دلاتی ہیں قرار داد لجنه ریوه: ”ہم منافقین سے انتہائی بیزاری کا اظہار کرتی ہیں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے حضور کو اپنا آقا و مطاع تسلیم کرتی ہیں.لجنه مرکزیہ اور لجنہ ربوہ کے علاوہ متعدد بیرونی لجنات نے بھی قرار داد میں منظور کر کے حضور کی خدمت میں بھجوا ئیں.مثلاً ربوہ کے سنج پورہ لاہور لائکپور احمد نگر گوجرانوالہ ا کراچی ۱۴ حلقه گولیمار کراچی، حلقہ دھرمپورہ لاہور، راولپنڈی کے چک ۴۹۷/ ج - ب شور کوٹ ۵ سیالکوٹ ۱۳ چٹا گانگ سے بیدیا نوال حلقہ دارالرحمت ربوہ لاہورنا دار الصدر شرقی ۱۰ ملتان چھاؤنی مردان 1 دار الصدر غربی ربوه شورکوٹ ، پورن نگر، واٹر ورکس کا سیالکوٹ سے سرگودھا ۲ لاہور، کنری ۳ اس سلسلہ میں مورخہ ۲۷ ستمبر کو لجنہ ہال میں زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ایک جلسہ بھی منعقد ہوا.ا مصباح اگست ۱۹۵۶ء ۵ الفضل ۹ / اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۶ الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ الفضل ۱۶ را گست ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ع الفضل ۷ راگست ۱۹۵۶ء صفحه ۵ الفضل ۱۸ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۷ کے الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۵ - ۵۸ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۲ و الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۲ ما الفضل ۲ را گست ۱۹۵۶ء صفحه ۶ لله الفضل ۳ / اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۱۲ الفضل ۷ اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۱۳ الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۱۴/ الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۷

Page 426

418 سالانہ اجتماع میں قرار داد :.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع کے موقع پر مورخہ ۱۹ اکتوبر کو لجنات کی تمام نمائندوں نے متفقہ طور پر مندرجہ ذیل قرار داد پاس کی:.ہم نمائندگان لبنات اماءاللہ منافقین سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتی ہیں اور سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق پسر موعود مصلح موعود اور خلیفہ برحق تسلیم کرتی ہیں اور حضور کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہنے کا عہد کرتی ہیں.ہم بحیثیت نمائندگان یہ عہد کرتی ہیں کہ ہم ہمیشہ خلافت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گی.ہم خلافت کی حفاظت اور اس کے دائمی قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گی.اور اس بارہ میں اگر اپنے عزیز ترین وجود کو بھی قربان کرنا پڑا تو اس سے دریغ نہ کریں گی.ہماری پوری کوشش ہوگی کہ اپنے بچوں کو اور چھوٹے بہن بھائیوں کو منافقوں سے دور رکھیں تا کہ نفاق کے کوئی جراثیم ان تک نہ پہنچ سکیں اور آنے والی نسل جنگلی ان سے محفوظ رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اپنے عہد پر قائم رہیں اور ہمیشہ دامن خلافت سے وابستہ رہیں.سٹاف و طالبات نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کی قرار داد: چونکہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ کی ہیڈ مسٹریس (اہلیہ مولوی عبدالمنان صاحب عمر ) بھی اس فتنہ میں ملوث تھیں اس لئے طالبات اور سٹاف نصرت گرلز ہائی سکول نے ایک ہنگامی اجلاس خاص طور پر منعقد کیا جس میں مندرجہ ذیل قرارداد پاس ہوئی:.ہم جملہ سٹاف نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ اپنے آپ کو لجنہ اماءاللہ ربوہ میں شامل سمجھتے ہوئے ریزولیوشن برائے صدر انجمن احمد یه ر بوه (۵۶-۱۰-۱۵) بوساطت ناظر صاحب تعلیم و تربیت ربوہ سے پوری طرح متفق ہیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ا الفضل ۳ نومبر ۱۹۵۶ء.رجسٹر سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 427

419 ہوئے پبلک کو یقین دلاتے ہیں کہ موسم گرما کی تعطیلات کے بعد جس دن سے سکول دوبارہ کھلا ہے، اسی روز سے سٹاف کی جملہ ممبرات اپنی ذمہ داری کو کما حقہ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں چنانچہ اس ضمن میں ا.روزانہ اسمبلی کے وقت موجودہ فتنہ سے بچنے کیلئے با قاعدہ نصائح کی جاتی ہیں جس میں سٹاف ممبرز اور طالبات برابر حصہ لیتی ہیں.۲.سکول کھلتے ہی منافقین سے بیزاری کا ریز ولیوشن پاس کیا گیا.۳.سکول میں برکات خلافت کا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں معلمات اور متعلمات نے نہایت جوش اور دلچسپی سے حصہ لیا.۴.اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والی مجالس میں بھی اس موضوع کو نمایاں اہمیت دی جاتی ہے.ہم والدین کو مطمئن کراتی ہیں کہ انشاء اللہ ان کی بچیوں کی صحیح رنگ میں دینی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی امید کرتی ہیں کہ والدین پورے تعاون کے ساتھ ہماری کوششوں میں ہمارا ساتھ دیں گے.لجنہ اماءاللہ ربوہ:.یوم مصلح موعود ۲۰ فروری کو حسب سابق یوم مصلح موعود کے جلسے منعقد ہوئے جن میں بجنات اماءاللہ نے بھی نمایاں حصہ لیا.مردوں کے جلسوں میں شریک ہونے کے علاوہ متعدد مقامات پر لجنات کے علیحدہ جلسے منعقد ہوئے.ربوہ میں صبح 9 بجے جامعہ نصرت کی گراؤنڈ میں یہ جلسہ منعقد ہوا جس میں نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبات کی تقاریر کے علاوہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ، اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے تقاریر کیں.ہے مصباح جنوری ۱۹۵۷ء صفحه ۴۴ ۲ الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۶

Page 428

420 اس کے علاوہ ملتان چھاؤنی کے سیالکوٹ سے کراچی سے محمد آبا دا سٹیٹ ہے چک ۱۰۹ نرائن گڑھ ۵ جڑانوالہ حیدر آباد سندھ 2 کی لجنات نے بھی مصلح موعود کے جلسے منعقد کئے.سیالکوٹ :.گوجرانولہ کے گھٹیالیاں لجنات کے جلسے ۳ جون کو لجنہ سیالکوٹ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں احمد یہ گرلز سکول کی غیر از جماعت استانیاں اور طالبات بھی شریک ہوئیں.11 لجنہ سیالکوٹ کا جلسہ تحریک جدید ۷۷ اکتوبر بروز اتوار احمدیہ گرلز سکول کے صحن میں منعقد ہوا.اس میں مطالبات تحریک جدید کی اہمیت اور ضرورت پر تقاریر کی گئیں اور تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک کی گئی.ڈھاکہ:.۱۹ ؍ مارچ کو تبلیغی جلسہ منعقد ہوا.پچاس کے قریب غیر احمدی مستورات کو مدعو کیا گیا جن میں سے ۳۵ مستورات شامل ہوئیں.آنحضرت ﷺ کی سیرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر تقاریر کی گئیں.۱۲ لجنه حیدر آباد، کراچی اور گولیکی نے مختلف تاریخوں میں سیرت النبی کے جلسے منعقد کئے.۱۳ لجنہ کراچی نے برکات خلافت اور تحریک جدید کے جلسے منعقد کئے.۱۴ ل الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۵۶ ء صفحه ۵ - ۶ ۱۲الفضل ۲۴ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۳ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۵ الفضل ۲۸ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۵-۶ ۵ الفضل ۲۹ فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۴ ۵ ۶ الفضل ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۲ کی الفضل ار ا گست ۱۹۵۶ء صفحریم ۸ مصباح جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۴۲ و الفضل ۶ ستمبر و ۹ ستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۷ و ۸ ا الفضل ۳۰ ستمبر و۷/اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۲۰۷

Page 429

421 رپورٹ و نتیجہ تعلیم القرآن کلاس ۱۹۵۶ء :- اس سال تعلیم القرآن کلاس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام دفتر لجنہ اماءاللہ میں کھولی گئی.ربوہ، راولپنڈی اور فتح پور ضلع گجرات کی طالبات پڑھائی کے لئے تشریف لائیں.اس کلاس کی کل تعداد دس طالبات پر مشتمل تھی جوسب کی سب کامیاب ہوئیں.اول ، دوم اور سوم آنے والی حسب ذیل طالبات تھیں :.اول دوم سوم امہ الباری صاحبہ امیۃ الرشید صاحبہ امته الجمیل صاحبہ مندرجہ ذیل اساتذہ پڑھانے کے لئے مقرر تھے:.ا مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف علمی مسائل.مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی قرآن کریم با ترجمہ اور حدیث مکرم مولوی امین اللہ خاں صاحب سالک اختلافی مسائل ۴.محتر مہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ ۵.محترمه سعیده احسن صاحبه ۶.محترمہ امة الحمید صاحبه باقی کامیاب لڑکیوں کے نام یہ ہیں:.سيرة وتاريخ فقہ احمدیہ عربی محترمہ بشری شائستہ صاحبه، محترمہ بشری شمیم صاحبہ محترمہ ثریا شاہین صاحبه محترمه نسیم اختر صاحبه، محترمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ، محترمہ عطیہ صاحبہ محترمہ حمیدہ صدیقی صاحبہ - 1 لجنہ اماءاللہ کراچی:.۲ دسمبر کو لجنہ اماءاللہ کراچی کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس موقع پر پہلی بار لجنہ کراچی کی رپورٹ کتا بچہ کی صورت میں شائع ہوئی.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بطور مرکزی نمائندہ اس جلسہ ا رجسٹر رپورٹ تعلیم القرآن کلاس ۱۹۵۶ء و الفضل ۲۵ مئی ۱۹۵۶ء صفحه ۳

Page 430

422 میں شامل ہوئیں.آپ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا مندرجہ ذیل پیغام بھی پڑھ کر سنایا جو خاص اس موقعہ کے لئے آپ نے تحریر فرمایا تھا.لے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمُوعُودِ محترم اور عزیز بہنو ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی سعادت عطا فرمائی اور پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے اسلام کی صداقت کے عظیم الشان نشان کو حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے وجود میں پورا ہوتے دیکھا.آپ نہ صرف جماعت کے خلیفہ ہیں بلکہ وہ موعود خلیفہ ہیں جس کی پیدائش سے بھی قبل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تاوہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنچہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں.باہر آویں.اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو ہم نے یہ پیشگوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھی اور سینکڑوں نشانات آپ کے ذریعہ سے پورے ہوتے دیکھے ہیں.ہمارا خلافت پر ایمان ایسا متزلزل ہونا چاہیئے کہ مخالفوں کا سخت سے سخت وار اس کو ہلکا سا جھٹکا بھی نہ دے سکے اولاد کی تربیت میں سب سے بڑا حصہ عورت کا ہوتا ہے کیونکہ مرد کا بیشتر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے.جیسا ایمان عورت کا ہو گا لا ز ما اولا د کا بھی وہی ہوگا.پس اپنی آئندہ نسلوں کے ایمانوں کو اعلیٰ اور مضبوط بنانے کے لئے لازم ہے کہ آپ کے ایمان بھی نہایت مضبوط ہوں.آپ کو خلافت کے ساتھ اس قدروا بستگی ہو کہ ان تعلقات کے سامنے آپ باقی سب تعلقات کو بیج سمجھیں.پھر آپ پر سب سے بڑی قومی ذمہ داری اپنی اولادوں کی نیک تربیت کرنا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں "كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ.تم میں سے ہر ایک ا الفضل ۹ر دسمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶

Page 431

423 چرواہا ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا“ ہر عورت قیامت کے دن اپنی اولاد کے اعمال کے لئے جواب دہ ہوگی کیونکہ ان کی نیک تربیت کرنا اس کا کام تھا.موجودہ زمانہ میں جبکہ اسلام پر ایک طرف سے دہریت حملہ آور ہے اور دوسری طرف عیسائیت ، بچوں کو سچے مسلمان بنانا آپ ہی کا کام ہے.جوصرف نام کے مسلمان نہ ہوں بلکہ ان کا عمل حقیقی مسلمانوں والا ہو اور وہ اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے ہر قربانی دے سکیں.یہ کام آپ جبھی کر سکتی ہیں جب خود آپ کا ایمان بھی پختہ ہو اور آپ کا عمل بھی ایسا ہو جو آپ کی اولا دوں کے لئے نمونہ ہو.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو توفیق دے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی سچی نام لیوا بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے.آمین ثم آمین خاکسار مریم صدیقہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ اس وقت تک لجنہ اماءاللہ کراچی کے پندرہ حلقہ جات قائم ہو چکے تھے.انڈونیشیا کی خواتین کے ایک وفد سے لجنہ اماءاللہ کراچی کی چند بہنوں نے ملاقات کی.لجنہ کا تعارف کروایا اور قرآن کریم کا ڈچ زبان کا ترجمہ اور دیباچہ قرآن کریم بزبان انگریزی پیش کیا.۳۷۵ روپے کے بستر تیار کر کے مرکزی لجنہ کو مستحقین میں تقسیم کے لئے بھجوائے.چونکہ بیرونی ممالک میں مبلغین کے اخراجات کے فنڈ میں کمی ہو گئی تھی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے جماعت کو توجہ دلانے پر ایک ہنگامی فنڈ مبلغ ڈیڑھ ہزار روپے کا جمع کر کے پیش کیا گیا.۱۹۵۶ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی نے ایک انڈسٹریل ہوم (صنعتی ادارہ) قائم کیا.بیگم چوہدری شاہنواز صاحب نے اس کے لئے ایک سنگر مشین ہدیہ دی.یکم اگست ۱۹۵۶ء سے تجربہ کار استانی رکھی گئی جو مستورات اور بچیوں کو سلائی سکھاتی تھی.غریب خواتین کو اُجرت پر کام دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بفضلہ تعالیٰ اب تک جاری ہے.اس ادارہ کی کامیابی کا سہرا محترمہ آپا سلیمہ بیگم صاحبہ کے سر پر ہے ا سالانہ رپورٹ ۵۷ - ۱۹۵۶ء کراچی شائع شدہ لجنہ اماءاللہ کراچی صفحہ ۱۸-۱۹

Page 432

424 جنہوں نے اس سلسلہ میں رات اور دن جانفشانی سے کام کیا.۱۹۵۶ء میں لجنہ اماء اللہ کراچی نے کالج میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی ایک انجمن تشکیل کی.جس کی غرض طالبات میں صحیح اسلام کو پیش کرنا تھا.۱۹۵۶ء میں اس کا افتتاح صاحبزادی امتة السلام بیگم صاحبہ نے کیا تھا.اور مارچ ۱۹۵۷ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ کراچی تشریف لائے تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے اس کا نام ”ینگ و من احمدیہ ایسوسی ایشن تجویز فرمایا جسے مختصر طور پر Y.W.A.A کہا جاتا تھا.کچھ عرصہ لڑکیوں کی اس انجمن نے بہت اچھا کام کیا.لیکن پھر یہ جاری نہ رہ سکی.مجلس شوری کے موقع پر بجنات کا اجلاس:.مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو مجلس مشاورت کے موقع پر آنے والی ممبرات کا ایک اجلاس ربوہ میں منعقد ہوا جس میں ان مقامات کی ممبرات نے شرکت کی:.چنیوٹ، کنری، لالہ موسیٰ ، سانگلہ ہل، چک نمبر ۸۸، اوکاڑہ ان ممبرات کو چندہ مسجد ہالینڈ، چندہ سکنڈے نیوین مشن کے علاوہ دیگر ضروری امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع :- لجنہ کی تاریخ میں یہ سال اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس دفعہ پہلی مرتبہ ماہ اکتوبر میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس موقعہ پر پہلی بار مجلس شوری لجنہ اماءاللہ بھی اجتماع ہی کے ایام میں منعقد ہوئی.جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر لجنات کی شوریٰ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں شوری کے لئے وقت بہت کم ہوتا ہے اس لئے شوریٰ بھی لجنہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر منعقد ہوا کرے اور لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع ہر سال خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے دنوں میں ہی منعقد کیا جائے تاکہ بہنوں کو آنے میں سہولت رہے.اس فیصلہ کی تعمیل میں پہلی مرتبہ مورخہ رجسٹر رپورٹ کارگذاری لجنہ مرکزیہ

Page 433

425 ۱۹ ۲۰ ۲۱ / اکتو بر ۱۹۵۶ء کو لجنات کا سالانہ اجتماع مرکز سلسلہ ربوہ میں منعقد ہوا.اس میں خود حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے از راہ کرم مستورات سے خطاب فرمایا.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع اور گیارھویں مجلس شوری کی مختصر رو داد پہلے دن کی کارروائی:.مورخه ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء اجتماع کی کارروائی زیر صدارت حضرت سیّدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا ساڑھے تین بجے دفتر لجنہ اماءاللہ کے ہال میں شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد عہد نامہ دہرایا گیا.اس کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے نمائندگان کو خوش آمدید کہا اور اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ قلیل وقت میں اطلاع ملنے کے باوجود انہوں نے اس میں شمولیت اختیار کی.اس کے بعد آپ نے حاضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.آپ ان دنوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور یہ ثابت کر دیں کہ آپ اپنی لجنات کی صحیح نمائندگی کرسکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ مسلمان عورتیں یہ بار اٹھا سکتی ہیں.اسلام نے انہیں ان تمام کاموں کا اہل قرار دیا ہے اور ان کوایسی آزادی دی ہے کہ جو دنیا کی کسی قوم اور ملک نے نہیں دی.رسول کریم علی ہے نے مسلمان عورتوں کو ہر کام کرنے کا موقع دیا ہے.اسلام سے پہلے عورت کو برا سمجھا جاتا تھا اس پر مختلف قسم کی سختیاں کی جاتی تھیں.لیکن اسلام نے نہ صرف یہ سختیاں دور کیں، بلکہ عورت کو بہت بلند اور باعزت مقام عطا کیا.اب عورت کا بھی فرض ہے صلى الله کہ وہ آنحضور ﷺ کے ارشاد پر دل و جان سے عمل پیرا ہو.رسول کریم ﷺ وفات پاگئے.آپ کے بعد آپ کے ارشاد کے مطابق خلافت قائم ہوئی.اب مسلمانوں پر جس طرح آنحضرت ﷺ کے ارشادات کی تعمیل ضروری تھی اسی طرح خلیفہ وقت کی ہدایات کی تعمیل بھی واجب تھی.آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.“ سو حضور کی اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث

Page 434

426 لمصل اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت نے بالا تفاق خلافت منہاج نبوت قائم کرنے کے لئے حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ وقت منتخب کیا.آپ نے خلافت کی برکات اور اس کی وابستگی پر زور دیتے ہوئے فرمایا.جب تک قوم میں خلافت کا احترام اور اس سے محبت موجود رہتی ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اس قوم پر اپنی نعمت اور فضل کی بارش برساتا رہتا ہے اور جب کوئی قوم اس نعمت کی ناقدری کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس قوم سے منہ موڑ لیتا ہے.مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک مسلمان اس کی پاداش میں مختلف آلام کا شکار ہیں.حضرت مولانا نورالدین خلیفتہ امسح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات پر جماعت کی اکثریت نے حضرت سیدنا اصلح الموعودؓ کو اپنا دوسرا خلیفہ منتخب کر لیا.اس موقع پر کئی متکبر اور سرکش لوگوں نے خلافت کا انکار کیا.لیکن واقعات نے بعد میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ غلطی خوردہ تھے.حضرت المصلح الموعود کی قیادت میں جماعت نے بے نظیر ترقی کی ، خصوصاً حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو عورتوں کے حقوق محفوظ کرنے کے لئے جدو جہد کی وہ آپ کے سامنے ہے.آپ نے عورتوں کی باقاعدہ تنظیم کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم کی.سکول جاری کئے.لڑکیوں کا کالج جاری کیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کئی سال متواتر جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں بنفس نفیس تقریر فرماتے رہے جس کی وجہ سے احمدی عورتوں میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی حتی کہ حضور نے لجنہ اماءاللہ کو مجلس مشاورت میں بھی حق نمائندگی عطا فر مایا.اس اجتماع میں لجنہ اماءاللہ بھی اپنی شوری منعقد کرتی ہے.چنانچہ اس سال اجتماع کے موقع پر لجنہ اماءاللہ کی گیارھویں شوری منعقد ہو گی.ہم جتنا بھی اپنے خلیفہ کا شکر یہ ادا کریں اتنا ہی کم ہے.لیکن افسوس ہے کہ ان دنوں بعض فتنہ پرداز عناصر اور منافقین جن کا رواں رواں حضور کے احسانات سے بندھا ہوا ہے، نے خلافت کے خلاف شرارت کھڑی کر رکھی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ مختلف قسم کے الزامات لگا کر خلافت کو مٹا دیا جائے.حالانکہ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں اور آج سے بیشتر یہ اس امر کے اقراری رہے ہیں کہ حضور نہ صرف خلیفہ وقت ہیں بلکہ پسر موعود

Page 435

427 اور اصلح الموعود بھی ہیں.اس لئے دنیا کی کوئی طاقت حضور کو حضور کے منصب سے معزول نہیں کر سکتی.حضور کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کو معزول کرے.ہم نے حضور کے ذریعہ زندہ نشانات دیکھے ہیں.ان زندہ نشانوں کو دیکھنے کے بعد انکار یا مخالفت یقیناً عذاب الہی مول لینا ہے.پس آپ بہنیں، آپ کے خاوند، آپ کی اولاد میں، آپ کے خاندان اس قسم کے فتنہ پرداز عناصر سے بیزار رہیں اور اُن سے لا تعلقی کا اظہار کریں.چونکہ اپنی اولادوں کو صحیح راہنمائی کرنے میں عورتوں کا زیادہ دخل ہوتا ہے اس لئے آپ کو اس سلسلہ میں مضبوط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے.اس کے بعد تمام ممبرات لجنہ اماء اللہ نے حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ سے محبت و وفاداری اور منافقین سے بیزاری کا ایک ریزولیوشن بالا تفاق منظور کیا ہے اس کے بعد سب کمیٹی شوری کی نمبرات کے نام تجویز کئے گئے اور سوا چار بجے شام پہلا تقریری مقابلہ شروع ہوا.جس میں مختلف گروپ بنادیئے گئے.چنانچہ طالبات کالج میں سے:.اول حلیمہ بیگم صاحبہ سیکنڈ ائیر دوم زرینہ صاحبہ تھر ڈائیر سکول کی طالبات میں سے:.اول صاحبزادی امتہ القدوس بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب دوم سوم عام مستورات میں سے:.اول دوم ثریا صاحبہ (نهم) رشیده ثریا صاحبه امینہ فرحت صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی تقریروں کے عنوانات حسب ذیل تھے:.ارجمند با نو صاحبه لے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے رجسٹر کارروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 436

428 ۱.برکات خلافت ۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے ۳.حضور اکرم ﷺ کے طبقہ نسواں پر احسانات ۴.الوالعزم محمود ۵.احمدی مستورات کی ذمہ داریاں شام کے سات بجے سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایجنڈا پر غور کیا گیا.دوسرا دن ۲۰ را کتوبر ۱۹۵۶ء بروز ہفتہ:- پہلا اجلاس :- مورخہ ۲۰/اکتوبر کو ٹھیک ساڑھے سات بجے پہلا اجلاس زیر صدارت حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم کے بعد نظم پڑھی گئی.جس کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کی سالانہ رپورٹ پیش کی.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.چونکہ گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر نمائندگان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر وقت بہت تھوڑا ہوتا ہے اور رات کا وقت ہوتا ہے اس لئے لجنہ کی شورٹی دوران سال میں کسی اور موقع پر منعقد کی جایا کرے.چنانچہ کثرت رائے سے یہی قرار پایا تھا کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقعہ پر ہی لجنہ اماءاللہ کا بھی ایک اجتماع ہو جایا کرے جس میں نمائندگان لجنہ اماءاللہ کی شوری منعقد ہو.اس دفعہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقعہ پر ہی لجنہ اماءاللہ کا اجتماع قرار پایا.آپ نے فرمایا:.تمام لجنات کو چاہیئے کہ وہ اپنے کاموں کے لئے اپنے ہاں دفتر قائم کریں جیسا کہ لجنہ ربوہ اور لجنہ کراچی نے دفتر قائم کئے ہیں تا کہ کام بروقت اور صحیح معنوں میں ہو سکیں.پھر آپ نے بتایا کہ:.ا.اس سال کا نمایاں کام دستکاری کے سکول کا اجراء ہے.۲.دوسرا نمایاں کام زنانہ نصرت جنرل سٹور کا اجراء ہے جس کا افتتاح ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء بروز جمعہ ہو چکا ہے.

Page 437

429 ۳.تیسری سکیم بچوں کا ایک سکول جاری کرنے کی تھی جو کہ میرے مرکز میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اور استانی نہ ملنے کی وجہ سے جاری نہ ہو سکا.اب انشاء اللہ تعالیٰ جلد جاری ہو جائے گا.۴.چونکہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو دیر سے ایک انسپکٹرس کی ضرورت تھی.سواس سال استانی میمونی صوفیہ صاحبہ سکول سے ریٹائر ہونے پر لجنہ کی انسپکٹرس مقرر کی گئی ہیں جو وقتا فوقتا بیرونی لبنات میں دورے کر کے ان کی تنظیم کریں گی اور نئی لجنات قائم کریں گی.آخر میں آپ نے فرمایا کہ تمام لجنات کو چاہیئے کہ وہ ہر وقت اور مکمل رپورٹ بھجوایا کریں اور کوشش کریں کہ تمام لجنات ایک دوسری سے سبقت لے جائیں.چندہ مسجد ہالینڈ اور چندہ سکنڈے نیوین مشن کو جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کریں.آپ کے بعد علی الترتیب محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد سیکرٹری نمائش، محترمه امۃ الرشید شوکت صاحبہ سیکرٹری اصلاح وارشاد، محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ نگران صنعتی سکول ربوه، مکرمہ امۃ الرحیم صاحبہ عطیہ سیکرٹری لجنات بیرون پاکستان ، عاجزہ امتہ اللطیف سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مکرمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ مدیرہ مصباح اور محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ انسپکٹرس نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں.حفظ قرآن کے مقابلہ کے بعد حدیث وفقہ کے موٹے موٹے مسائل کا مقابلہ ہوا.حدیث وفقہ میں اول امتہ الحمید بنت محترم عبدالرحیم صاحب در ویش قادیان اور دوم طلعت صاحبہ رہیں.کتب حضرت مسیح موعود میں اول اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالواحد صاحب اور دوم رضیہ سلطانہ رہیں.دوسرا اجلاس لجنہ اماءاللہ کی گیارھویں مجلس شوری:.دو بجے مجلس شوری کی کارروائی زیر صدارت سیدہ ام ناصر صاحبہ رضی اللہ عنہا شروع ہوئی.مندرجہ ذیل لجنات کی نمائندگان شامل ہوئیں:.

Page 438

430 ا.گوجرانوالہ ۲.لائل پور - ملتان چھاؤنی ۴.کراچی ۵.ملتان شہر ۶.مونگ ضلع گجرات سرگودھا - احمد نگر ۹- چک منگلا ضلع سرگودھا ۱۰.لا ہورا.گولیکی ضلع گجرات ۱۲.گھسیٹ پورہ ضلع لائل پور ۱۳- چک نمبر ۸۸ ضلع لائل پور ۱۴ محمد آباد سٹیٹ ۱۵.سیالکوٹ ۱۶.چک نمبر ۸۲ ضلع لائل پور تلاوت قرآن کریم نظم کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے نمائندگان کو ضروری نصائح فرمائیں.آپ کی تقریر کے بعد ایجنڈا کے مطابق تمام تجاویز پر جو فیصلہ جات ہوئے وہ درج ذیل ہیں.تجویز شعبہ مال:.فیصلہ : مسجد ہالینڈ کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے اب تک کی جمع شدہ رقم بہت تھوڑی ثابت ہوئی ہے.مزید ننانوے ہزار روپے کی رقم اور در کار ہے.اس کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائے کہ رقم جلد از جلد ادا ہو سکے.“ یہ رقم حصہ رسدی تمام لجنات پر ڈال دی جائے.آئندہ تمام احمدی مستورات کو یہ تحریک کی جائے کہ جو بہنیں اپنا نام مسجد میں کنندہ کروانا چاہتی ہیں وہ کم از کم ڈیڑھ صد کی رقم ادا کریں.ہر بہن اپنی خوشی کے موقعہ پر حسب حیثیت کچھ رقم چندہ مسجد ہالینڈ میں ادا کرے.جب تک چندہ مسجد ہالینڈ کی کل رقم ادا نہ ہو جائے اس وقت تک یہ چندہ لازمی چندوں کی طرح ہر ماہ ہر ممبر سے وصول کیا جائے.تجویز شعبہ اشاعت:.مصباح کے اخراجات بہت مشکل سے پورے ہوتے ہیں.اس وقت کل ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہو رہا ہے.اس کی مجموعی ذمہ داری لجنہ اماءاللہ پر ہے اس لئے یہ معاملہ شوریٰ میں پیش کیا جاتا ہے.“

Page 439

فیصلہ:.431 تمام لجنات اس کی خریداری اپنے اوپر فرض کر لیں یکم از کم ایک پر چہ اپنی لجنہ کے فنڈ سے خریدیں اور عہد کر لیں کہ اس کی اشاعت میں پوری پوری کوشش کریں گی اور ماہانہ رپورٹ میں مصباح کی اشاعت کے لئے جد و جہد کرنا ضروری قرار دیا جائے.اس موقع پر لجنات نے زیادہ سے زیادہ خریدار مہیا کرنے کا وعدہ کیا.تجویز شعبہ تربیت:.فیصلہ:.لجنہ اماءاللہ کی تربیتی کلاس صرف ایک دفعہ ۱۹۵۲ء میں پندرہ روزہ منعقد ہوئی تھی.اس بارہ میں فیصلہ کرنا ہے کہ دوران سال میں کس مہینہ میں لگائی جائے تا کہ عورتیں اس پندرہ روزہ تربیتی کلاس میں شامل ہو سکیں.“ متفقہ فیصلہ ہوا کہ لجنہ اماءاللہ کی یہ پندرہ روزہ تربیتی کلاس جولائی یا اگست میں کھولنے کا انتظام کرنا چاہیئے.انشاء اللہ تعالیٰ ماہ جولائی میں یہ پندرہ روزہ کلاس کھلے گی.لجنات ابھی سے اس میں نمائندہ بھجوانے کے لئے تیار رکھیں.تجویز شعبه دستکاری:.فیصلہ:.انڈسٹریل سکول کے لئے مشینوں کی امداد کی اپیل“ بیرونی لجنات اس میں حصہ لیں.لجنات نے وعدہ جات پیش کئے اور بہت جلد سکول کے لئے مشین یا نقدی کی صورت میں اپنے وعدے پورے کر دیئے.ان کی تفصیل نصرت انڈسٹریل سکول کے ضمن میں آچکی ہے.

Page 440

تجویز:.432 فیصلہ :.ہے.تجویز: لجنہ اماء اللہ کے کاموں کے لئے جو مہمان مستورات آتی ہیں ان کے ٹھہرانے کے لئے بڑی دقت پیش آتی ہے.فی الحال اگر دفتر لجنہ اماء اللہ میں چار کمروں اور دو غسل خانوں کے دوسیٹ بنوا لئے جائیں تو یہ وقت دور ہو جائے.اس کا دس ہزار کا اندازہ شوریٰ میں پیش ہے.“ چونکہ ابھی لجنہ اماءاللہ پر مسجد ہالینڈ کا قرضہ باقی ہے اس لئے فی الحال یہ تجویز ملتوی کی جاتی سالانہ بجٹ اکتوبر ۱۹۵۶ء تا ستمبر ۱۹۵۷ء فیصلہ:.منظور کیا گیا.جو سولہ ہزار چار سو اٹھارہ روپے تھا.اس سے قبل لجنہ اماء اللہ کا بجٹ مئی تا اپریل بنا کرتا تھا.لیکن اس سال سے چونکہ سالانہ اجتماع اور شوری اکتوبر میں ہونی شروع ہوئی اس لئے ۱۹۵۶ء سے مالی سال یکم اکتوبر تا ۳۰ ستمبر قرار دیا گیا.۵۶ ۱۹۵۵ء میں لجنہ اماءاللہ کی کل آمد ۶۲۹۱ روپے تھی جس میں ممبری لجنہ اماءاللہ کا چندہ ۴۶۳۳ روپے تھا اور کل خرج ۵۴۱۸ روپے تھا.رسالہ مصباح کی کل آمد ۷۲ ۴۷ اور خرچ ۴۷۲۱ روپے تھا.اس وقت تک رسالہ مصباح کا بجٹ علیحدہ بنتا تھا.اجتماع ۱۹۵۶ء سے مصباح کے بجٹ کو بھی لجنہ اماء اللہ کے بجٹ میں شامل کرلیا گیا.۵۶ - ۱۹۵۵ء رسالہ مصباح کے اصل اخراجات ۴۷۲۱ روپے تھے.۵۶ - ۱۹۵۵ء میں چندہ دینے والی لجنات کی تعداد بیاسی تھی.

Page 441

433 (نوٹ.۵۶-۱۹۵۵ء کے بجٹ کی تفصیل اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو ) شوری کی کارروائی چار بجے ختم ہوئی.اس کے بعد کھیلیں ہوئیں.۱۹۵۵ء.۱۹۵۶ء کی تفصیل آمد و خرچ ۴۶۳۳ ۳۳ ۱۱۴ ۱۲۶ ۲۴ ۲۴۰ ۳۲۵ ۴۵ ۵۴۱ ۶۱۵۱ ۱۰۶۲ ۴۰۰ ۶۰۰ ۲۰۰ ۳۳۰ ۶۰ ممبری آمد رسید بک چندہ ناصرات الاحمدیہ کرایہ کوارٹر لجنہ اماءاللہ کرایہ ہال لجنہ اماءاللہ کرایه سامان نفع نمائش آمد شعبه خدمت خلق آمد دوکانات بر موقع جلسه سالانه ریز رو برائے جونئیر ماڈل سکول میزان تفصیل خرچ ۶۵۵۵۶ تنخواه عمله دفتر لجنه مرکزیہ سائر اخراجات شعبه مال شعبہ خدمت خلق پارٹیاں جب تعلیم

Page 442

۱۵ ۵۰۰ A++ ۵۷ ۱۷۵ ۱۳ ۲۴ ۴۲۴۶ 434 شعبه اصلاح وارشاد شعبہ بیرونی لجنات شعبہ نمائش مرمت دفتر سامان اشاعت رپورٹ فرنیچر روشنی اخبار الفضل میزان اس کے علاوہ انڈسٹریل سکول کے اخراجات یکم مئی تا ۳۰ ستمبر ۱۹۵۶ء ایک ہزار ایک سوستاون روپے ہوئے.تیسرے دن کی کارروائی:.مورخه ۲۱ اکتوبر کو ساڑھے سات بجے اجلاس کی کارروائی زیر صدارت حضرت ام ناصر صاحبہ رضی اللہ عنہا شروع ہوئی..تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد فی البدیہ تقاریر کا مقابلہ شروع ہوا جس میں :.اول نسیم صاحبہ فورتھ ایئر اور دوم ریحانه صاحبہ فورتھ ایئر ( بنت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) رہیں اس کے بعد لجنہ ربوہ اور دیگر لجنات نے اپنی سالانہ رپورٹس پیش کیں.ٹھیک ساڑھے نو بجے سید نا حضرت امیرالمومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے تشریف لاکر مستورات سے خطاب فرمایا.

Page 443

535 خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرموده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۵۶ء بر موقعہ سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله تشهد وتعو ذاورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے فرمایا:.اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت کے درجہ کو بہت بلند کیا گیا ہے.گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے.اور بعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے.مثلاً کہا جاتا ہے کہ پردہ میں عورت کو صحیح تعلیم نہیں دی جاسکتی.حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردے کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ” تم آدھا دین عائشہ سے سیکھو قرون اولیٰ اور دور حاضر ہر دو میں مسلمان خواتین کا تذکرہ فرماتے ہوئے حضور نے فرمایا:.غرض اسلام میں عورتوں نے ہمیشہ سے قربانیاں کی ہیں اور اب بھی کرتی چلی جاتی ہیں اور اگلے جہان میں بھی اسلام نے عورتوں کے درجہ کو بلند کیا ہے.چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت مومن ہو، نماز کی پابند ہو، زکوۃ دیتی ہو ہم اسے جنت میں اونچے مقام پر رکھیں گے.عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی روح کو تسلیم نہیں کیا گیا.میں جب یورپ گیا تو مجھ پر بھی ایک عیسائی نے یہی اعتراض کیا.میں نے جواب دیا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے.اسلام عورت کے حقوق کو کلی طور پر تسلیم کرتا ہے بلکہ اس نے روحانی اور اخروی انعامات میں بھی عورت کو برابر کا شریک قرار دیا ہے.اس پر اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت میں روح کا قائل نہیں غلط ہے.پس اسلام کی تاریخ ہی نہیں دوسرے مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں نے مذہب کی بہت بڑی خدمت ہے اور عورتیں وہ تمام کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں.وہ تبلیغ بھی کر سکتی ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب لڑائی کا موقع آیا وہ لڑائی بھی کرتی رہیں.

Page 444

436 جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ اور ہند وحملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی.اب بھی یہ عورت زندہ ہے لیکن اب وہ بڑھیا اور ضعیف ہو چکی ہے.وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اس اس طرح لڑنا چاہیئے اور لڑائی میں ان کی کمان بھی کرتی تھی.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے عورتوں کو مردوں کو قربانی پر آمادہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے.وہ انہیں تحریک کر کے قربانی کے لئے آمادہ کر سکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں.آخر دیکھ لو.ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں.لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معا بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات سن کر بھی انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن ان کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا.اماں! ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ابا کہتے ہیں.ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے ۱۸،۱۸،۱۷،۱۷ سال کے ہو چکے تھے.ا یہ خاتون جولائی ۱۷۱ء کو وفات پاچکی ہیں.ان کا نام خدیجہ بیگم اہلیہ خان بہادر غلا محمد صاحب گلکتی ہے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.

Page 445

437 اب دیکھ لو.یہ ان کی بیوی کی ہمت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلالیا جائے.“ حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کو اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا:.غرض اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہر قسم کی قربانی کی توفیق دی ہوئی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرو.اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے.تو یا تمہاری مثال دیا سلائی کی سی ہوگی.اور مرد کی مثال تیل کے پیسے کی سی.جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کی وجہ سے کو نہ میں کھڑا ہوگا جوش میں آجائے گا اور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گا اور پھر کسی روک اور مصیبت کی پروا نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا.حضور کی تقریر کے بعد بقیہ رپورٹیں لجنات نے سنائیں.چونکہ حضور نے بہت عرصہ کے بعد احمدی عورتوں سے خطاب فرمایا تھا اس لئے شکرانہ کے طور پر جلسہ کے بعد لجنہ اماءاللہ ربوہ نے شیرینی تقسیم کی.دوسرا اجلاس.دو بجے بعد دو پہر اجلاس شروع ہوا.جس کی کارروائی زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ شروع ہوئی.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد تاریخ سلسلہ اور معلومات عامہ کا مقابلہ ہوا.جس میں اول دوم صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب محترمہ امتہ الحمید صاحبہ بنت عبدالرحیم صاحب درویش رہیں ل الازهار صفحه ۱۵۸ تا ۱۸۰، مصباح ماه جنوری ۱۹۵۷ء

Page 446

438 پھر تینوں دنوں کے مقابلہ جات میں اول اور دوم آنے والی بہنوں اور بچیوں میں انعامات تقسیم کئے گئے اور آخر میں محترمہ جنرل سکرٹری صاحبہ نے الوداعی تقریر فرمائی جس میں آپ نے حاضرات کو نصائح فرماتے ہوئے اسلامی اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے اور ایمان و عمل میں مطابقت پیدا کرنے پر زور دیا.اور تمام ممبرات کا شکریہ ادا کیا.دعا کے بعد یہ اجتماع بخیر و خوبی اور کامیابی سے برخاست ہوا.فالحمد للہ علی ذالک عصر کے بعد بیرونی لجنات کی نمائندگان کو جامعہ نصرت ربوہ کی طرف سے دعوت عصرانہ دی گئی اور کالج اور ہوسٹل دکھایا گیا.جلسہ سالانہ خواتین :- احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ حسب معمول ۲۶ - ۲۷-۲۸ / دسمبر کو بمقام ربوہ منعقد ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی افتتاحی تقریر مردانہ جلسہ گاہ سے بذریعہ آلہ نشر الصوت سنی گئی.بعد ازاں زیر صدارت بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کراچی کا رروائی شروع ہوئی.اس اجلاس میں دیگر تقاریر کے علاوہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری نے بھی تقریر فرمائی.ہے آپ نے اپنی طرف سے اور کارکنان کی طرف سے جگہ کی تنگی اور نظام میں نقص کی معذرت کرتے ہوئے بیرونی بجنات کی ممبرات کو بھی اجتماعی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کی پھر آپ نے فرمایا کہ:.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا.بشرطیکہ ہماری کوتاہیاں اس میں روک نہ ہوں.قرآن وحدیث میں جو چیزیں اس ترقی کی ممد بیان ہوئی ہیں ان میں سے سب سے بڑی یہ ہے کہ ہم کوشش و مجاہدہ کریں.لیکن وہ کوشش و مجاہدہ جس کا نتیجہ مفقود ہو وہ یقینا بے سود ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ انسان کی ہر قسم کی کوشش کا بدلہ ضرور دیتا ہے.پہلا طریق یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے دوش بدوش احمدیت کو ترقی دینے میں کوشاں رہیں.رسول کریم عملے کے زمانہ میں نہ صرف مردوں میں ہی بلکہ عورتوں میں بھی آپس میں نیکی کرنے میں رشک کا جذ بہ پایا جاتا ے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ مصباح فروری ۱۹۵۷ء صفحه ۳۳ کالم ۲ و صفحه ۳۴

Page 447

439 تھا.وہ ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں لگے رہتے تھے جو ان کو خدا تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول کا مقرب بنا سکے.مسیح موعوڈ سے بھی ایسی قوم کا وعدہ ہے کیونکہ وہ ان کے ظل ہیں.اور یہ وعدہ تبھی پورا ہوسکتا ہے جبکہ عورتوں میں اپنے فرائض کو سمجھنے کا مردوں جیسا ہی احساس ہو اور ویسا ہی قربانی کا جذ بہ اور ویساہی دین کی خدمت کا جذبہ ہو.اسلام کے آغاز میں صحابہ وصحابیات پر کوئی ظلم نہ تھا جو روانہ رکھا جاتا ہو.لیکن تمام مصائب کے باوجود چند سال کے اندراندر وہ تمام عرب پر ہی نہیں بلکہ تمام یورپ پر بھی چھا گئے.غیر مہذب عرب قوم کی ایسی ترقی ایک مہذب انگریز مورخ کو دنگ کر دیتی ہے.وجہ یہ تھی کہ مردوں اور عورتوں میں مساوی جوش تھا.جذ بہ قربانی و خدمت دین تھا.جب مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کے ظل ہیں تو ان کی قوم کو بھی رسول کریم ﷺ کی قوم کا رنگ اپنانا ہو گا.آج بھی اسلام ہم سے قربانی چاہتا ہے اور قربانی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں پاسکتی.جیسی عورتوں نے جنگ یرموک میں دلیری دکھائی اور جیسی ہندہ نے دلیری دکھائی ویسی ہی دلیری اور زندہ دلی کی اب ضرورت ہے.اگر وہی روح آج ہم میں پیدا ہو جائے تو عظیم الشان ترقی کا وعدہ ہم اپنی زندگی میں پورا ہوتے دیکھ سکتے ہیں.دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لقاء کے لئے فنا ہونا ضروری ہے.یعنی یہ کہ قومی لحاظ سے خدا تعالیٰ کا جلوہ اس وقت تک نظر نہیں آسکتا.جب تک کہ وہ اپنے او پر موت کی حالت نہ وارد کرے.فتح اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی خیال کا اظہار کیا ہے لیکن موت سے مراد جسمانی موت نہیں بلکہ جذبات و دنیاوی خواہشات کی موت ہے.عورت اپنی تربیت سے اپنی اولادکو چاہے تو طارق و خالد بنا سکتی ہے اور چاہے تو ابو جہل بنا سکتی ہے.اگر ہم نے اسلام کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ہمیں اپنے اوپر موت وارد کرنی ہوگی.احمدیت کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا ہوگا.تیسری چیز جو ترقی کے لئے واجب ہے وہ جماعت کا ایک مرکز میں جمع رہنا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں یہ موقع حاصل ہے.دشمن نے اس نظام کے شیرازہ کو بکھیر نے کا ہزار زور لگایا ہے لیکن خدا کا گایا ہوا پودا بڑھتا چلا گیا ہے.جماعت پر تین نازک وقت آئے.(۱) جبکہ مخالفین جماعت کی باگ دوڑ کو ایک بچہ کے ہاتھ میں دیکھ کر جدا ہو گئے (۲) ہجرت (۳) موجودہ فتنہ منافقین.لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے کی پیشگوئی

Page 448

440 دی وہ حرف بحرف پوری ہوئی اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی.سو ہمارے ایمان ہر روز تازہ ہونے چاہئیں.یہ کوئی بعید امر نہیں ہے کہ ہم دنیا کے کونہ کونہ میں احمدیت کا جھنڈا اپنے ہاتھوں سے لہرائیں.اور یہ بھی ہوسکتا ہے اگر تربیت اولاد صیح رنگ میں ہو اور طارق اور خالد جیسے نوجوان اس کا نتیجہ ہوں.حضرت خلیق امیر رضی اللہ عنہ کی تقریر کے علاوہ مردانہ جلسگاہ سے مندرجہ ذیل تقریریں سنی گئیں.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی تقریر ذکر حبیب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی تقریر ہستی باری تعالی ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر.زنانہ جلسہ گاہ میں مندرجہ ذیل خواتین نے تقاریر کیں.محترمه امینه فرحت، صاحبه، محترمہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب،حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ.ناصرات کی لڑکیوں سے بھی تقریریں کروائی گئیں تا کہ باہر سے آنے والی بہنوں کو معلوم ہو سکے کہ تقریروں کی مشق کروانے سے چھوٹی چھوٹی بچیاں کتنی اچھی تقریر کر سکتی ہیں.چنانچہ مندرجہ ذیل بچیوں نے تقاریر کیں.محترمه حلیمہ صاحبہ محترمه ارجمند با نو صاحبہ، صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ محترمہ حمامۃ البشریٰ صاحبہ محترمہ امۃ الرشید صاحبه، محترمہ نسیم صاحبہ.تینوں دن حضور کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.دوسرے دن صدارت کے فرائض حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی نے سرانجام دیئے.زنانہ جلسہ گاہ میں خواتین کی تعداد ۸۰۰۰ سے ۴۰۰۰ اتک شمار کی گئی.۲۶ / دسمبر کی افتتاحی تقریر میں مردانہ جلسہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احمدی مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.وو میں اپنی اس مختصر سی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رات کو مصباح فروری ۱۹۵۷ء صفحه ۳۳ تا ۳۵

Page 449

441 ان کو تکلیف پہنچی ہے اور بعض ان میں سے شکوہ بھی کرنے لگیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ انکو شکوہ کا حق نہیں تھا.شکوہ کا حق ہمارا تھا.ہمارا حق یہ تھا کہ ہم خدا سے کہتے کہ الہبی ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ہم کو معاف کر.ان کو شکایت کا حق نہیں تھا.ان کو تو خوش ہونا چاہیئے تھا کہ اللہ میاں تیرے کتنے احسان ہیں.پھر تو ہمیں اتنالایا کہ جماعت کا مرکز ہمارے ٹھہرانے کا انتظام نہیں کرسکا.یہ تو جماعت کی ترقی کی علامت ہے.ان کو اس پر خوش ہونا چاہیئے تھا.ہمیں رونا چاہیئے تھا کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ نہیں لگا سکے.اور ہم نے جو اندازہ لگایا تھا وہ غلط ہو گیا.ان کو ہنسنا چاہیئے تھا کہ دیکھو خدا تعالیٰ ہمیں اتنی تعداد میں لایا ہے کہ یہ مرکز والے باوجود ساری کوششوں کے ہمارا انتظام کرنے سے محروم رہ گئے.اور ہمارے افسروں کو چاہیئے تھا کہ وہ روتے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بار بار دیکھنے کے پھر بھی ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے اور پھر بھی خدا کے مہمانوں کو ہم آرام نہیں پہنچا سکے.میں سات آٹھ دن سے برابر کہ رہا تھا کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بھڑ کی ہوئی ہے.باغیوں کی بغاوت کی وجہ سے خدا تعالیٰ عرش پر غصہ سے بھرا ہوا بیٹھا ہے اور وہ ضرور ان کو نمونہ دکھائے گا اور نشان دکھائے گا.اس لئے تیار ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب برکت کے دروازے کھولنے والا ہے اور ہزاروں ہزار آدمی پچھلے سال سے زائد آئے گا.چنانچہ اس وقت تک بھی قریباً نو ہزار آدمی زیادہ آچکا ہے.اب اگلے دنوں میں اور بھی امید ہے.ابھی تو ستائیس کی تاریخ کو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں.پس ستائیس بھی ہے، اٹھائیس بھی ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے اور ہر دفعہ دشمن روسیہ ہوگا.اور ہر دشمن شرمندہ ہوگا کہ جس جماعت کو ہم مارنا چاہتے تھے وہ پھر زندہ ہو کرنکل رہی ہے.پس ایک طرف تو میں منتظمین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے زور سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو اندازہ کر کے ایسا انتظام کریں کہ آئندہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو.اور مہمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایک دن تکلیف بھی ہو تو وہ اس بات پر خوش ہوا کریں کہ دیکھو ہمارا خدا کتنا شاندار ہے کہ دشمن کی مخالفت کے باوجود ہم کو بڑھا رہا ہے.پس اگر تکلیف ہو تو تمہیں حمد کرنی چاہیئے اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں بڑھنا چاہیئے اور جو منتظم ہیں ان کو شرمندہ ہونا چاہیئے اور ان کو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ معافی مانگی چاہیئے کیونکہ ان کا قصور ہے اور تمہارے لئے برکتوں اور رحمتوں کی علامت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کل سات سو آدمی آئے تھے.اب ایک

Page 450

442 ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے.اُس وقت آپ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپ کو الہام ہوا کہ یا ایها النبي اطعمو الجائع وَالْمُعْتَر اے نبی ! بھوکے اور پر یشان حال کو کھانا کھلاؤ چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگر خانے کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا.پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیکیں چڑھاؤ اور ان کوکھانا کھلاؤ.تو دیکھوسات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا." ! حضور نے ۲۷ دسمبر کو پھر مردانہ جلسہ گاہ سے مسجد ہالینڈ کی تفصیل بیان فرمائی جو مسجد ہالینڈ کے ذکر میں درج ہو چکی ہے.کارکنات جلسہ سالانہ کا اجلاس.مورخه ۲۶ / جنوری ۱۹۵۷ء کو لجنہ اماءاللہ کے ہال میں جلسہ سالانہ پر کام کرنے والی کارکنات کا اجلاس زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی منعقد ہوا تا اچھا کام کرنے والیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے.اور اس سال انتظامات جلسہ سالانہ میں جو نقائص رہ گئے ان کو دور کرنے کاحل سوچا جائے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی تقریر کے بعد جس میں آپ نے اس اجلاس کے انعقاد کی وضاحت کی.سیدہ بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت سید میر محمد اسحق صاحب نے کام کی مجموعی رپورٹ سنائی.جن کا رکنات نے اچھا کام کیا ان کے نام سنائے اور جنہوں نے پہلے اپنے آپ کو کام کے لئے پیش کیا مگر پھر بغیر اطلاع کے غیر حاضر رہیں ، ان کے نام بھی پڑھ کر سنائے.آخر میں محترمہ صدر صاحبہ نے کارکنات کو نصائح فرمائیں.(رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ ) اسماء عہدیداران مرکزی شعبہ جات برائے قیام گاہ مستورات ۱۹۵۶ء جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقعہ پر مندرجہ ذیل نے جلسہ سالانہ خواتین کے شعبہ مہمان نوازی میں حصہ لا الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۳ ۴ و الازهار حصہ دوم صفحه ۱۸۳ - ۱۸۴

Page 451

443 نظامت نائبه سید نصیرہ بیگم صاحبہ حمیدہ صابر صاحبہ دختر ڈاکٹر فیض علی صاحب بابر انچارج دفتر ناظمه سراج بی بی صاحبہ، رضیہ غزنوی صاحبہ محموده صاحبه فورتھ ائیر ، سعیدہ احسن صاحبہ منتظمہ اجرائے پرچی منظور النساءصاحبہ مسز فرخنده شاه صاحبه پرنسپل جامعہ نصرت نائبہ صفیہ چوہدری صاحبہ انسپکشن منتظمہ سٹور استانی صالحه خاتون صاحبه منتظمه روشنی ناصرہ رحمن صاحبہ طبی امداد لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ ، زینب نرس صاحبہ واعظه استانی کنیز فاطمه صاحبه انتظام کارکنات استانی سلیمہ صاحبہ حلیمہ رحیم صاحبہ انتظام صفائی و آب رسانی امۃ القیوم صاحبہ طلعت صاحبه تقسیم سالن تقسیم روٹی امینہ بیگم صاحبه استانی صابرہ رحمن صاحبہ والدہ صالحہ خاتون صاحبه امۃ الرحیم یا مین صاحبه استانی امته الحفیظ ثریا صاحبه استقبال و ملاقات استانی امتة المنان قمر صاحبہ،امتۃالرشید عطا محمد صاحب منتظمہ نصرت گرلز ہائی سکول سیدہ بشری بیگم صاحبہ، استانی عائشہ بلقیس صاحبہ منظمه جامعہ نصرت امۃ الرشید صاحبہ بی اے بی ٹی، زرینہ اختر صاحبہ تھر ڈائیر جلسہ گاہ کی ناظمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں.جلسہ سالانہ قادیان کی مختصر رو داد :- امسال یہ جلسہ سالانہ ۱۲ ۱۳ ۱۴ / اکتوبر کو قادیان میں منعقد ہوا.پہلے دن بارش کے باعث اجلاس مسجد مبارک میں ہوا.اور آخری دو دن حضرت مولوی عبد المغنی صاحب مرحوم کے مکان سے ملحقہ چاردیواری میں ہوا.۱۲ اور ۱۴ اکتوبر کولاؤڈ سپیکر کے ذریعہ مردان جلسہ گاہ سے پروگرام سنا گیا.۱۳ تاریخ کومستورات کا علیحدہ پروگرام تھا.

Page 452

444 اس دن صبح ساڑھے دس بجے زیر صدارت محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی.اس دن محترم ابوالعطاء صاحب فاضل نے مستورات سے خطاب فرمایا.دوسرا اجلاس بعد نماز ظہر وعصر پونے تین بجے زیر صدارت محترمہ بشری بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد الحق صاحب ضمنعقد ہوا.اس میں محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیر وی نے مسلمان عورتوں کے کارنامے“ کے موضوع پر تقریر کی.اس میں ضمناً حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کی سوانح پر روشنی ڈالی.دعا کے بعد پانچ بجے جلسہ ختم ہوا.بہت سی غیر مسلم خواتین بھی جلسہ میں شامل ہوئیں.ان کو ہندی و گورمکھی میں لٹریچر دیا گیا.اے استقبالیہ اور الوداعی تقریب :.۱۴-۱ فروری کو اہلیہ صاحبہ چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین کے تشریف لانے پر اور زکیہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک مبارک احمد صاحب کے متوقع سفرنا میجر یا پرٹی پارٹی دی گئی.سکرٹری تبلیغ محترمہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ نے عربی اور اردو میں ایڈریس پیش کئے.اہلیہ صاحبہ مولوی محمد شریف صاحب نے عربی میں اور اہلیہ ملک مبارک احمد صاحب نے اردو میں جوابات دیئے.۵۰ ممبرات نے شرکت کی سے ۲ ۲۲ فروری کو اہلیہ صاحبہ مولوی روشن دین صاحب کی روانگی مسقط کے موقعہ پر چند کتب بطور تحفہ پیش کی گئیں اور تنگ وقت پر اطلاع ملنے کی وجہ سے پارٹی نہ کر سکنے پر اظہار معذرت کیا گیا.لجنہ مرکزیہ کی دونمائندوں نے سٹیشن پر جا کر انہیں الوداع کہا.۲ اگست کو امتۃ الرفیق بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز مبلغ انڈونیشیا کی خدمت میں عاجزہ امتہ اللطیف نے ایڈریس پیش کیا.دیباچہ قرآن کریم بطور تحفہ دیا گیا.لجنہ کے قواعد کی کا پیاں بھی دونوں کو دی گئیں تا کہ اپنے اپنے ہاں جا کر لجنات قائم کر سکیں ہے مصباح دسمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۳۱-۳۲ آپ نائیجیریا تشریف نہ لے جاسکیں تھیں ۳ مصباح مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۳۷ مصباح جنوری ۱۹۵۷ء صفحه ۴۱

Page 453

445 یوم جمہوریہ:.۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہور یہ قرار پایا.اس موقع پر ملک بھر میں خوشیاں منائی گئیں.چراغاں ہوا.اور جلسے منعقد کئے گئے.اس موقع پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام ایک جلسہ منعقد ہوا.جس میں صدارت کے فرائض محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب نے سرانجام دیئے.اس جلسہ میں عاجزہ امتة اللطیف محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اور مبارکہ قمر صاحبہ نے تقریریں کیں اے اس کے علاوہ بھی بعض لجنات نے جلسے کئے جن میں کنری سے اور کھاریاں سے کی رپورٹیں شائع ہوئیں.ناصرات الاحمدیہ کی کھیلیں بھی ہوئیں جن میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی بچیوں کو انعامات دیئے گئے.مٹھائی تقسیم کی گئی.رات کو دفتر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ پر چراغاں کیا گیا.ہے لجنہ اماءاللہ ایبٹ آباد: لجنہ اماء اللہ ابیٹ آباد کے عہدہ داران کا انتخاب ہوا.شروع میں اجلاسوں میں آنے والی مستورات کی تعداد صرف چھ سات تھی.لیکن پھر حاضری چھپیں تھیں کے قریب ہو جاتی رہی.بیگم عبداللہ جان صاحبہ نے خاص دلچسپی لی اور مدد کی.اجلاس بھی انہی کی کوٹھی پر ہوتے رہے.مندرجہ ذیل عہدہ داران کا انتخاب ہوا:.محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر غلام اللہ صاحب صدر محترمہ ممتاز عصمت بیگم عبدالخالق صاحب جنرل سیکرٹری محترمه رشیدہ بیگم صاحبه نائب سیکرٹری لے رجسٹر رپورٹ کا رروائی لجنہ مرکز یہ ۲ الفضل ۲۱.مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ الفضل ۶.اپریل ۱۹۵۶ء صفحہ ۶ مصباح اپریل ۱۹۵۶ء

Page 454

446 محترمہ بیگم صاحبہ ملک محمد حنیف صاحب محترمہ بیگم صاحبہ عبداللہ جان صاحب سیکرٹری تعلیم سیکرٹری مال محتر مہ اہلیہ صاحبہ محمد منیر صاحب پوسٹ ماسٹر سیکرٹری خدمت خلق ا مالا بار کی لجنہ اماءاللہ کا جلسہ:.۷، ۱۸ اپریل ۱۹۵۶ء کو پینگا ڈی میں آل کیرالہ احمدیہ کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف بیرونی جماعتوں سے احمدی خواتین بھی تشریف لائیں.جماعت احمد یہ پین گاڈی کے سابق پریذیڈنٹ مرحوم کے مکان پر لجنہ اماء اللہ کا الگ جلسہ منعقد ہوا.جس میں احمدی مستورات کی بڑی تعداد کے علاوہ غیر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں.لجنہ اماءاللہ کوڈالی کی پریذیڈنٹ امتہ ائی صاحبہ نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.پینگاڈی، کنانور، کالی کٹ اور کو ڈالی کی ممبرات نے اسلام اور احمدیت کے بارہ میں تقاریر کیں.مبلغ سلسلہ نے بھی تقریر کی.اور احمدی خواتین کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.غیر از جماعت بہت متاثر ہوئیں.ہے رپورٹیں:.دوران سال مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے رپورٹیں موصول ہوئیں.ربوہ، سیالکوٹ ، ملتان ،شہر کراچی ، راولپنڈی، ملتان چھاؤنی، چک نمبر ۸۸، منٹگمری ، محمد آباد سٹیٹ ، ننکانہ صاحب، لائل پور، ڈھاکہ، گوجرانوالہ، گوجر خان، چکوال، کنری سندھ، ایبٹ آباد، مانگا چانگریاں، کوئٹہ، موہلن کے، چٹھہ ضلع گوجرانوالہ ضلع گوجرانوالہ، کھیوہ کلاسوالہ، ڈگری سندھ ، مونگ ،سرگودھا، احمد نگر، چک منگلا، گولیکی، گھسیٹ پورہ، چک نمبر ۸۲، مجوکہ، نوشہرہ چھاؤنی، شعبہ ناصرات کے تحت مندرجہ ذیل رپورٹیں موصول ہوئیں.کراچی، ملتان چھاؤنی ہنٹگمری محمد آباد سٹیٹ، سیالکوٹ، سے مصباح ستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ام الفضل ۲۴ - جون ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۳ مصباح ۱۹۵۶ء

Page 455

447 امریکہ:.بیرونی لجنات کی سرگرمیاں امریکہ کے شہر (DETON) ڈیٹین سے محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ نیشنل ریکارڈنگ سیکرٹری نے پانچ شہروں یعنی پٹس برگ (PITTSBURG) ، ڈیٹن (DETON)، انڈیانیپولس (INDIANAPOLIS)، شکاگو (CHICAGO) اور سینٹ لوئیس (ST,LOUIS) کی مندرجہ ذیل رپورٹ بھیجی :.گذشتہ سال کی سالانہ کنونشن میں جو ستمبر ۱۹۵۴ء میں منعقد ہوئی تھی اس میں سٹر علیہ علی انڈیا نیپولس کو نیشنل پریذیڈنٹ کا عہدہ ملا اور سٹر امتہ الحفیظ ناصر کو سپر وائزنگ پریذیڈنٹ اور بہن امتة اللطیف کو نیشنل ریکارڈنگ سیکرٹری اور رشیدہ کلام پٹس برگ والی کو فنانشل سکرٹری کا عہدہ دیا گیا.ستمبر سے دسمبر تک پٹس برگ کی لجنہ کے اجلاس منعقد ہوتے رہے.اکتوبر میں کچھ اشیاء فروخت کی گئیں.تا کہ آمدنی میں اضافہ ہو.نومبر میں تبلیغی کام میں خاص کوشش کی گئی اور اسی ماہ میں صاحبزادی امہ لقیوم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب تشریف لائے.انہوں نے وہاں ایک رات قیام کیا.ان کے ہمراہ مولوی خلیل احمد ناصر صاحب معہ فیملی تھے.آمدنی میں اضافہ کے لئے دسمبر میں کھانا پکا کر فروخت کیا گیا.۲۶ دسمبر کو بچوں کا پروگرام منعقد کیا گیا.جن میں بچوں نے قرآن مجید سے دعائیں تلاوت کیں نظمیں سن رائز سے پڑھیں اور بڑے بچوں نے اپنے لکھے ہوئے مضامین پڑھ کرسنائے.ہر ماہ تعلیمی اور تبلیغی کام باقاعدہ ہوتا ہے.جولائی اگست ستمبر کے چندہ کا نصف مرکز میں بھیجا گیا.ہاتھ کی بنی ہوئی اشیاء مرکز میں بھیجی گئیں.ڈیٹن (DETON) میں ستمبر سے دسمبر تک لجنہ کے ماہانہ اجلاس با قاعدہ منعقد ہوتے رہے.حاضری گیارہ پر مشتمل تھی.ماہ ستمبر میں اسلامی لٹریچر پڑھا گیا اور اس کے متعلق مشورے وغیرہ کئے گئے.اکتوبر میں با قاعدہ ماہانہ اجلاس ہوتے رہے اور دس اکتوبر کو سالانہ ٹی پارٹی دی گئی جس میں

Page 456

448 نومسلم بہنوں کی تعداد کافی تھی.ٹی پارٹی میں جو منافع ہوا وہ خزانہ میں جمع کیا گیا.نومبر میں لجنہ کی ممبرات نے کھانے کی پارٹی دی اور مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ دیا.انڈیا نپولس کی پریذیڈنٹ سٹر علیہ علی بھی جمعہ کی شام تک یہاں رہیں.دسمبر تک با قاعدہ اجلاس ہوئے.صدر نے قرآن شریف کی تلاوت کی.کاموں کی رپورٹیں سنائی گئیں.باقاعدہ تعلیمی کام ہوتے رہے.چندہ کا نصف حصہ ہیڈ کوارٹر میں بھیجا گیا.نمائش کی اشیاء مرکز میں فروخت کرنے کے لئے بھیجی گئیں.انڈ یا پولیس:.ستمبر میں لجنہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا.ایک بہن کے گھر میں ٹی پارٹی دی گئی.ماہانہ چندہ ادا کیا گیا.سالانہ جلسہ کے لئے مرکز میں نمائش کے لئے اشیاء بھیجی گئیں.اکتوبر میں اجلاس منعقد ہوئے.اور ایک بہن کے گھر میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی گئی.ماہانہ چندہ ادا کیا گیا جس کا نصف حصہ مرکز میں بھیج دیا گیا.سینٹ لوئیس:.ستمبر میں ایک اجلاس منعقد ہوا.اور چندہ وصول کیا گیا.اکتوبر میں لجنہ کا اجلاس منعقد کیا گیا.چندہ وصول ہوا.چندہ کا نصف حصہ مرکز میں بھیج دیا گیا اے کماسی خانا:.محترمه شمسه سفیر صاحبہ اہلیہ سفیر الدین صاحب نے اپنی رپورٹ میں تحریر فرمایا:.اکثر جمعہ کے دن مسجد میں عورتوں کو نصیحتیں کی گئیں.چند ایک افراد کو با قاعدہ یسر نا القرآن پڑھایا گیا.ایک احمدی عورت کی والدہ کی وفات پر تعزیت کی گئی.جونیئر احمد یہ سکول کماسی کی کی لڑکیوں کو سلائی سکھائی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیماری اور حضور کے سفر یورپ کے موقع پر دعا، روزوں اور صدقات کی طرف توجہ دلائی گئی.مصباح مارچ ۱۹۵۶ء صفحه ۴۸ - ۴۹

Page 457

449 وزیر تعلیم ، ایک بیرسٹر اور دو جیل کے عہدیداروں کی آمد پر انتظامات میں حصہ لیا.صدر صاحبہ اپنی بیماری کی وجہ سے AGAGA جو یہاں سے ۴۰ میل کے فاصلہ پر ہے.تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے ایک ہفتے کے لئے گئیں.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے عورتیں گھر پر آجاتی تھیں.ان کو نصائح کرتی رہیں اور نما ز بھی پڑھائی.جمعہ کے دن ایک میٹنگ ہوئی جس میں لجنہ کی اہمیت واضح کی گئی اور لجنہ قائم کی جس کا تعلق لجنہ ماسی سے ہو گا.اسی طرح وہاں ایک مشترکہ عورت کو بھی تبلیغ کی گئی ہے اہلیہ صاحبہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی آمد کماسی پر لجنہ اماءاللہ کماسی نے خوش آمدید کہا.اس مقصد کے لئے مختصر سی میٹنگ ہوئی.تمام لجنات سے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی اہلیہ صاحبہ کا تعارف کروایا گیا.اسکول کی لڑکیوں کو سلائی کا کام سکھایا گیا.ان کے کام کو دیکھ کر عیسائی لڑکیوں میں بھی رغبت پیدا ہورہی ہے اور اب وہ بھی روزانہ کام سیکھنے آتی ہیں.محترمہ امتۃ الرشید صاحبہ نا ئب صدر بھی کام میں دلچسپی لیتی ہیں.عورتوں اور بچوں کو قرآن مجید اور قاعدہ نماز وغیرہ کا سبق بھی ہم دونوں دیتی ہیں.ایک تبلیغی پروگرام پر جو کہ ایسٹر کے موقعہ پر ہوا تھا یہاں سے دولا ریاں احمدیوں کی ایک گاؤں میں تین دن کے لئے گئیں.خاکسار نے بھی حصہ لیا اور مختلف جگہوں پر تبلیغ کی.اور لوگوں پر کافی اثر ہوا.ایک پاکستانی مجسٹریٹ کی آمد پر جو یو.این.او کی طرف سے یہاں دورہ پر آ رہے تھے خاکسار نے چائے کی دعوت کا انتظام کیا.مسجد میں عورتوں کو دعائیں سکھائیں.نیز مسجد کے آداب وغیرہ بھی بتائے.لجنہ کی میٹنگ میں رمضان المبارک کے ایام کی قدرومنزلت پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے خانا کے جلسہ سالانہ پر احمدی مستورات کی خدمات :- جماعت ہائے احمد یہ غانا کا سالانہ جلسہ ۱۲ ۱۳ ۱۴/جنوری کو منعقد ہوا.تینوں دن روزانہ تین اجلاس ہوتے تھے.ا مصباح مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ ۴۷ کے مصباح جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۴۴

Page 458

450 دار التبلیغ میں عورتیں سارا دن وقار عمل کر کے صفائی کرتی رہیں.ان میں دو عورتیں یہاں کے امیر اور معزز احمدی کی بیوی اور بیٹی تھیں.ان بہنوں کا یہ جوش خدمت قابل تقلید ہے.۱۲ تاریخ کی صبح تک باہر سے مہمان آتے رہے اور اپنی زبان میں نعرے لگاتے رہے اور نظمیں پڑھتے رہے.احمدی عورتوں اور مردوں نے کلمہ طیبہ، درود شریف، نماز باترجمہ اور بعض دعاؤں کے نیز اسلام زندہ باد اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی زنده باد پر مشتمل اپنی زبان میں گیت اور نعرے بنائے ہوئے ہیں.عورتیں اپنا سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتی رہیں.جماعتوں کے سکرٹری یا منتظم اپنی جماعت کے مردوں اور عورتوں کو جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ کی طرف لے جاتے رہے.جلسہ گاہ دارالتبلیغ سے کچھ دور احمد یہ سینئر سکول کے پاس سمندر کے قریب ناریل کے درختوں کے نیچے بنائی گئی تھی.باوجود اس کے کہ اس ملک کی عورتیں پردہ کے نام سے بھی ناواقف ہیں.ہماری احمدی بہنوں نے سروں کے اوپر موٹے کپڑے دوپٹہ کی صورت میں اوڑھے ہوئے تھے.اسی وجہ سے ۱۹۵۴ء میں مسجد احمدیہ کے افتتاح کے موقعہ پر گولڈ کوسٹ کے وزیر اعظم نے دیکھ کر تعجب اور پسندیدگی کا اظہار کیا تھا.اس دن بارہ بجے کے قریب یہ جلسہ دعا کے بعد اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعروں کے درمیان ختم ہوا.رپورٹ لجنہ اماءاللہ نا یجیر یا ۱۹۵۶ ء :- محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ نے تحریر فرمایا:.ہر جمعہ کو ہمارے اجلاس ہوتے تھے.ان اجلاسوں میں مختلف اسلامی مسائل ، قرآن کریم اوراحادیث سکھانے کا انتظام کیا گیا..ہفتہ کی شام کو ہمارے مبلغ لیکچر دیتے تھے جس میں بہنیں بھی شامل ہوتی رہیں.تعلیم بالغان کے لئے ہماری مسجد میں ایک کلاس حکومت کی طرف سے جاری ہے.اس سال پہلی مرتبہ اس کلاس کا امتحان ہوا.جس میں دواحمدی بہنوں کو انعام بھی ملا.جلسه مصلح موعود میں ہماری بہنوں نے خوب دلچسپی سے حصہ لیا اور سب نے سبز کپڑے پہنے.مکرمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے یہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد نمائش

Page 459

451 کا کام بھی شروع کیا.چنانچہ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں چند چیزیں مرکز کو ارسال کیں.ہر اجلاس میں عورتوں کو ایک حدیث یاد کرانے کے لئے نوٹ بک میں مع انگریزی ترجمہ لکھ کر دی جاتی رہی.چالیس احادیث اخبار رتھ میں شائع کرائی گئیں.دوران سال مذہبی سوالات پر مشتمل چھ سر کلر لکھے گئے.لجنہ کا کام لیگوس کے علاوہ دیگر مقامات میں بھی شروع ہو گیا.وہاں خطوط لکھے جاتے اور اخبار ٹرتھ اور کتابیں ارسال کی جاتی تھیں.مختلف تقریبات کا انتظام لجنہ کے سپرد ہوتا رہا اور وہ بخوبی سرانجام دیتی رہیں.دسمبر میں جماعت نائیجیریا کا سالانہ جلسہ ہوا.۲۰ کے قریب احمدی عورتوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور شوق سے کام کیا.۲۵ / دسمبر کو مستورات کا جلسہ ہوا.تلاوت کے بعد خلافت سے وفاداری کا ریزولیوشن پاس ہوا.پھر اہلیہ شیخ نصیر الدین احمد صاحب اور اس کے بعد خا کسار نے تقاریر کیں.بشری سیفی نے مضمون پڑھا.لجنات نے اپنی اپنی سالانہ رپورٹیں سنائیں.اول.دوم.سوم آنے والی لجنات کو انعام دیئے گئے.سیلون (نیگمبو ):.محتر مہ مبارکه نسرین صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے تحریر فرمایا :.لجنہ کا اجلاس ہر ہفتہ با قاعدگی سے ہوتا ہے جو عام طور پر دو گھنٹے جاری رہتا ہے.ہر ماہ کی ایک میٹنگ میں مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ سلسلہ بھی شمولیت کرتے رہے اور مرکز کی خبروں اور اہم مضامین سے لجنہ کو آگاہ کرتے رہے اور اکثر مجھے بھی تقریر کرنے کا موقع ملتا رہا.یوم مصلح موعود کا جلسہ کرانے کی توفیق ملی.بعض حالات کی بناء پر جلسہ ۲۰ فروری کی بجائے مارچ کو کیا گیا.اس میں تقریباً سب احمدی مستورات حاضر تھیں.علاوہ نیگومبو کی عورتوں کے کولمبو سے آئی ہوئی ایک احمدی فیملی بھی شامل ہوئی.دو ممبرات نے مضمون پڑھے اور پھر مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے پیشگوئی مصلح موعود کی تفصیل اور ضرورت پر تقریر کی اور اس کے نتیجہ میں ہماری ذمہ داریاں بتائیں.اس کے بعد سیلون کے سکرٹری صاحب تبلیغ نے بھی تقریر کی اور مصلح موعود کے وجود کی اہمیت اور برکات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ہر آدم کو عزم کرنا چاہیے کہ وہ حضور کی زندگی میں مرکز

Page 460

452 میں جا کر حضور کو ملے.اس موقع پر خاکسار نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر ہوشیار پور کے بعض اہم حصے حاضرات کو سنائے.اس طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت و عافیت اور درازی عمر کے لئے دعاؤں کے ساتھ یہ جلسہ ختم ہوا.تبلیغی اور تربیتی پروگرام کو وسیع کرنے کے لئے ہماری لجنہ نے ایک اہم کام کیا.انہوں نے چندہ جمع کر کے تامل زبان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی تصنیف ”اچھی مائیں“ شائع کی.یہ کتاب لجنہ کے اجلاس میں تامل زبان میں سنائی جاتی رہی اور اتنی پسند کی گئی کہ ترجمہ کرنے کا فیصلہ ہوا.چنانچہ گرانی کے باوجود لجنہ نے اپنافنڈ مضبوط کیا اور مکرم عبدالمجید صاحب پریذیڈنٹ نیگومبو جماعت وایڈیٹر اسلامی سمورین نے ترجمہ کر کے اپنے پریس میں اسے شائع کیا.اس کتاب میں لجنہ اماءاللہ کی اہمیت اور ضرورت کے متعلق بھی ایک صفحہ لکھا گیا.لجنہ کو مالی لحاظ سے بہت قربانیاں کرنے کی توفیق ملتی رہی گو کہ یہاں کی نوے فیصد احمدی بہنیں از حد غریب ہیں اور بعض کو تو ہاتھ سے کام کر کے خود ہی کمانا پڑتا ہے.تاہم ان میں سے اکثر چندہ ممبری با قاعدہ ادا کرتی ہیں اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی اس سال بہت سی خواتین نے حصہ لیا.اور بچوں کو بھی تیار کیا.دفتر لجنہ کے لئے بہنوں نے چندہ دیا.حضور کی تحریک سکنڈے نیوین مشن میں حصہ لینے کی تحریک کی گئی.فورا ہی ۳۳ روپے کی رقم جمع ہوگئی.لجنہ کے زیرا ہتمام ناصرات الاحمدیہ کی تربیت کا کام بھی با قاعدہ ہورہا ہے.جماعت نے بچوں کی تربیت اور قرآن مجید کی تعلیم کے لئے ایک تنخواہ دار استاد رکھا ہوا ہے.جو ہر روز لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھاتا ہے.طلباء وطالبات کی تعداد پچاس ہے.قرآن مجید ناظرہ، نماز ناظرہ و ترجمہ، احکام اسلام معہ قرآنی سورتیں ، معلومات عامہ یاد کرائی جاتی ہیں.لجنہ نے ناصرات کے لئے ہفتہ وار کلاس شروع کی ہے جس میں تربیت اور تعلیم کا انتظام تندہی سے کیا جاتا ہے.اس علاقہ میں دینی تعلیم کے لحاظ سے احمدی بچے باقی بچوں سے بدر جہا بہتر ہیں اور تعلیم میں بھی ان کا معیار خوش کن ہے.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سارے سیلون میں جہاں پانچ لاکھ مسلمان ہیں صرف نیگومبو میں

Page 461

453 احمدی عورتیں نماز جمعہ کے لئے مسجد میں جاتی ہیں.اس طرح عورتوں میں دینی روح اور تنظیمی اہمیت تازہ رہتی ہے اور تربیت میں کافی مدد ملتی ہے.اس کے علاوہ خاکساران بہنوں کے پاس جاتی رہی جو ہمارے اجلاسوں میں شامل نہیں ہوتیں.اب ہمارے اجلاسوں کی حاضری بڑھ رہی ہے.مشرقی افریقہ: دار السلام میں احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام لجنہ اماء اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے.بچوں کے تربیتی اجلاس با قاعدگی سے ہوتے ہیں.بعض بہنوں نے اپنے اپنے حلقہ کے احمدی بچوں کو د مینیات پڑھانے کا کام سرانجام دیا.بچوں کے دینیات کے امتحان بھی ہوئے.اول اور دوم آنے والے بچوں کو انعام دیئے گئے.لجنہ کے اپنے پندرہ روزہ اجلاس بھی با قاعدگی سے ہوتے ہیں.لجنہ نے اس سال سیرۃ النبی کا جلسہ کیا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.مسجد دار السلام کے لئے چندہ کی فراہمی کے لئے بھی لجنہ نے کوشش کی.گذشتہ سال بہنوں نے سلائی کر کے چندہ وقار عمل ۲۷۰ شلنگ جمع کر کے مرکز میں بھجوائے.اس سال ۲۰۵ شلنگ بھجوائے گئے.سیلاب زدگان کے لئے نقدی اور کپڑے بھی جمع کر کے بھجوائے گئے.سالٹ پانڈ :.عورتیں با قاعدگی سے جمعہ کی نماز میں شامل ہوتی رہیں اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد محترمہ آمنہ خاتون صاحبه بعض ضروری باتوں اور دینی امور کی طرف توجہ دلاتی رہیں.عیسائی عورتوں کو تبلیغ کی جاتی رہی اور کئی مرتبہ ان میں ٹریکٹ تقسیم کئے گئے.سکول کی لڑکیاں بھی پڑھنے کے لئے آتی رہیں.انڈونیشیا:.انڈونیشیا میں احمدی جماعتوں کی سالانہ کانفرنس کے موقعہ پر ۲۰ فروری ۱۹۵۶ء بروز سوموار لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے اجلاس منعقد ہوئے.رات گیارہ بجے تک ان کا پروگرام جاری رہا.ے مصباح جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۴۵ ۲ الفضل ۴.جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۳ الفضل ۶ مئی ۱۹۵۶ء صفحه ۳

Page 462

رپورٹ لجنہ اماءاللہ بھارت:.454 بھارت میں مندرجہ ذیل جگہوں پر لجنات قائم ہیں :.قادیان، بنگلور، بھاگلپور ، سکندر آباد دکن ، حیدر آباد دکن، یاد گیر دکن ، چنتا کنٹہ دکن ، بنارس، کو مبی سونگڑہ ، گو ہائی بو سونگڑہ ، نیکا لو اڑیسہ، کیرا نگ اڑیسہ، گردابلی اڑیسہ، بھرت پور، کالی کٹ ، راٹھ یو.پی ، آنسور کشمیر، چک ارچھ کشمیر ، باڑی پور کشمیر، مدراس، کو ڈالی مالا بار، شاہجہاں پور، سائیں منکوٹ کشمیر.لجنہ اماءاللہ قادیان:.لجنہ اماءاللہ قادیان کے مئی سے نومبر تک کل ۱۲۰ جلاس ہوئے ہیں.جن میں تلاوت قرآن کریم با ترجمه، حدیث چالیس جواہر پارے، رسالہ الوصیت ، کتاب الازھار میں سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقاریر سنائی گئیں.اس کے علاوہ تعلیم وتربیت اور بعض دیگر موضوعات پر عورتوں نے تقاریر کیں.جلسہ سیرۃ النبی اور جلسہ تحریک جدید بھی منعقد کیا گیا.شعر تعلیم : ہر اجلاس میں چالیس جواہر پارے کی ایک حدیث بہنوں کو سنا کر یاد کروائی گئی.اب تک بین حدیثیں یاد کروائی گئی ہیں.ہرا جلاس میں تعلیم کی طرف بہنوں کو توجہ دلائی جاتی رہی ہے.شعبہ خدمت خلق :- کچھ لحاف سردی کے موسم کے شروع میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے مستحقین میں تقسیم کروائے گئے.اس کے علاوہ سکرٹری خدمت خلق ضرورت مند اور بیمارعورتوں کی خبر گیری کرتی رہتی ہیں.: شعبه تبلیغ جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر مسلم خواتین کو مدعو کیا گیا.اکثر مواقع پر غیر مسلم خواتین کو تبلیغ کی جاتی رہی اور لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.

Page 463

455 شعبہ تربیت واصلاح:.تربیتی اور اصلاحی مضامین اجلاسوں میں پڑھے جاتے رہے.بہنوں کو نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی اور استغفار اور درود شریف پڑھنے کی بھی تاکید کی گئی.ناصرات الاحمدیہ :.ناصرات الاحمدیہ کی بچیوں کے اجلاس ہر ہفتہ منعقد ہوتے ہیں.ہر اجلاس میں چہل احادیث کی ایک حدیث یاد کرائی جاتی رہی.اب تک بائیس حدیثیں یاد ہو چکی ہیں.اس کے علاوہ اربعین اطفال کی بھی چار حدیثیں یاد کر چکی ہیں.اسلام کی دوسری کتاب پڑھائی جارہی ہے.چھوٹے چھوٹے سوال و جواب یاد کرائے جاتے اور سنے جاتے ہیں.چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے کی مشق کروائی گئی.شعبہ مال:.لجنہ اماءاللہ کا چندہ ۳۰ روپے ایک آنہ چھ پائی موصول ہوا ہے.امتحان کتاب ”اسلام میں اختلافات کا آغاز:.کتاب ”اسلام میں اختلافات کا آغاز کا امتحان زیرا نتظام لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نومبر۱۹۵۶ء میں لیا گیا تھا.کل ۲۶ ممبرات شامل ہوئیں اور ۱۲۲ کامیاب ہوئیں.اول دوم سوم نصرت جنرل سٹور کا افتتاح: محتر مہ امۃ الحمید صاحبہ بنت میاں عبدالرحیم صاحب در ولیش محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ نلوہ بلڈنگ گوجرانوالہ محترمہ شاہدہ یسین صاحبہ کراچی سے ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء بروز جمعہ صبح نو بجے حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ نے نصرت جنرل سٹور کا مصباح اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۷ الفضل ۲۰.فروری ۱۹۵۷ء

Page 464

456 افتتاح فرمایا.استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے تلاوت قرآن کریم کے بعد اس سٹور کے کھولنے کی غرض وغایت بیان کی اور بتایا کہ ہم اس کی آمد اشاعت اسلام کے لئے پیش کریں گے.حضرت اُمّم ناصر صاحبہ نے دعا کرائی اور تبرکا کچھ اشیاء خریدیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر مستورات اور دیگر حاضر خواتین نے بھی اس موقعہ پر اشیاء خریدیں.اے یہ سٹور تا حال استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کی نگرانی میں کامیابی سے چل رہا ہے.ہر سال معقول منافع حصہ داران کو تقسیم کیا جاتا ہے.مصباح کا خاص نمبر :.چونکہ ملک میں عیسائیت کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی تھیں اس لئے اس سال مصباح کا ایک عیسائیت نمبر شائع کیا گیا جو کہ ماہ اکتو برونومبر کے پر چوں پر مشتمل تھا.تقریب رخصتانہ :.۴ ر جنوری ۱۹۵۶ء کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی صحبزادی محتر مدامت الجمیل صاحبہ کی تقریب رخصتا نہ عمل میں آئی.ان کا نکاح چوہدری ناصر احمد صاحب سیال ابن حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال سے ہوا تھا.صاحبزادی امتہ الجمیل حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں.کے چند مخلص خواتین کی وفات ا محترمہ نیک بی بی صاحبہ مرحومہ:- محترمہ نیک بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میاں محمد الدین صاحب واصل باقی نویس صحابی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ارنومبر ۱۹۵۶ء کو۸۲ سال کی عمر میں وفات پا گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.ے رجسٹر لجنہ مرکزیہ ۲ مصباح فروری ۱۹۵۶ء صفحه ۵

Page 465

457 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں سے تھیں.۱۸۹۵ء میں احمدی ہوئیں.بیشمار بچیوں کو قرآن مجید پڑھایا.مصائب میں صبر، مہمان نوازی اور غرباء کی حاجت برآری آپ کا شیوہ تھا.مسجد برلن کے لئے جب چندہ کی تحریک ہوئی تو آپ نے اس تحریک کو عورتوں میں مقبول بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور آپ کے اس کام سے خوش ہو کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تعریفی کلمات سے انہیں نوازا.سلسلہ کی دوسری تحریکات اور کاموں میں بھی آپ پیش پیش رہتیں.لوائے احمدیت کے کپڑے کے لئے صحابیات نے مل کر سوت کا تا تو آپ اس میں بھی نہایت ذوق و شوق سے شامل ہوئیں.آپ کے چاروں فرزند چوہدری غلام مرتضی صاحب، چوہدری غلام بین صاحب محترم صوفی غلام محمد صاحب اور ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب واقف زندگی ہیں.آپ کی بیٹی زینب بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ مولوی ابراہیم صاحب خلیل واقف زندگی کی بیوی تھیں.لے ۲.محترمہ استانی عائشہ صاحبہ اور سارہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی چراغ دین صاحب کی وفات پر بھی لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے قرار داد تعزیت پاس کی (ان ہر دو کا مفصل ذکر دفتر لجنہ اماءاللہ کی بنیا در کھنے والی صحابیات میں آچکا ہے) ۳.محترمہ علیہ علی صاحبہ :.محترمہ علیہ علی صاحبہ جولجنہ اماء اللہ امریکہ کی سرگرم مبر تھیں اور جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اس سال وفات پاگئیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.آپ امریکہ کی احمدی جماعتوں کی سیکرٹری مال بھی رہیں اور لجنہ امریکہ کی سکرٹری بھی تھیں.نہایت جوش ، ذمہ داری اور عمدگی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتی رہیں.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے آپ کی وفات پر قرارداد تعزیت منظور کر کے لجنہ امریکہ کو بھجوائی.۲.- سیدہ رفعت جہاں صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ :.سیدہ رفعت جہاں صاحب صدر جنہ اماءاللہ سیالکوٹ بھی اس سال وفات پا گئیں.اناللہ وانا الیہ راجعون الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۵۶ء ے رجسٹر کار گزاری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 466

458 سیده مرحومہ نہایت مخلص اور سلسلہ کی خدمات میں بہت دلچسپی رکھنے والی تھیں.سیالکوٹ کی لجنہ کی روح رواں تھیں.گرلز ہائی سکول سیالکوٹ جو جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام جاری ہے.اس کی نگرانی کے فرائض بھی آپ کے سپرد تھے اور آپ نے نہایت قابلیت کے ساتھ سکول کے انتظامات کی نگرانی کی.ایک شادی کی تقریب میں آپ شامل تھیں.بہت سی دوسری مستورات بھی آئی ہوئی تھیں کہ اچانک مکان کی چھت گر گئی.اور اس تقریب میں شامل ہونے والے چھت کے نیچے دب گئے.شادی ماتم کی صورت اختیار کر گئی.بہت سے زخمی ہوئے اور چار جانوں کا اس دردناک حادثہ میں نقصان ہوا.جن میں سیدہ مرحومہ بھی تھیں.آپ کی وفات پر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور لجنہ سیالکوٹ نے تعزیتی قراردادیں پاس کیں.اے محترمہ بیگم میر حمید اللہ صاحب کوئٹہ:.نعیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر حمید اللہ صاحب مرحوم کوئٹہ میں رمضان کے مہینہ میں اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ نماز اشراق ادا کر کے مرزا محمد صادق صاحب کے گھر درس قرآن مجید کے لئے گئیں.تمام عورتیں جمع تھیں.درس ساڑھے دس بجے شروع کیا اور صرف اللہ کا لفظ منہ سے نکلا.قرآن مجید ہاتھ میں رہ گیا اور شہادت کی انگلی قرآن مجید پر اور خود وفات پا گئیں.مرحومہ بہت نیک اور صالحہ خاتون تھیں.ہے ل الفضل ۲۲.دسمبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۶ ۲ مصباح جون ۱۹۵۶ء صفحه ۲۴

Page 467

459 ۱۹۵ء فضل عمر جونیئر ماڈل سکول کا اجراء انڈسٹریل سکول کے لئے گیلری کی تعمیر مسجد جرمنی کے لئے مالی قربانی:.اب لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۷ء میں داخل ہوتی ہے.اس سال اسے جو تعمیری کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ان میں سے ایک اہم کام فضل عمر جونیئر ماڈل سکول کا اجراء ہے جہاں پر صحت مندانہ ماحول میں ننھے منے بچوں کو تعلیم دینے اور ان کی تربیت اور صحت وصفائی کا خاص اہتمام کیا گیا.اسی سال انڈسٹریل سکول کے لئے گیلری بھی تعمیر کی گئی اور مسجد ہیمبرگ جرمنی کی تعمیر میں بھی احمدی خواتین کو مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق حاصل ہوئی.ہدیداران ۱۹۵۷ء صدر جنرل سیکرٹری نائب جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سیده نصیرہ بیگم صاحبہ سیکرٹری مال و انسپکٹرس استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری تعلیم و تربیت بیگم مرز امنوراحمد صاحب نائب سیکرٹری تعلیم وتربیت صفیہ ثاقب صاحبہ سیکرٹری اصلاح وارشاد امۃ الرشید شوکت صاحبه

Page 468

460 نائب سیکرٹری اصلاح وارشاد امتۃ الرشید صاحبہ بی اے بی ٹی سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ خاکسارامة اللطیف نائب سکرٹری ناصرات الاحمدیہ امة الحمید صاحبہ سیکرٹری نمائش سیکرٹری بیرون نائب سکرٹری بیرون سکرٹری خدمت خلق سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ بیگم مرزا حفیظ احمد صاحب امۃ الرحیم عطیہ صاحبہ نعیمہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بیگم مرزا مبارک احمد صاحب نائب سکرٹری خدمت خلق بیگم خاں مسعوداحمد خان صاحب مدیره مصباح امۃ اللہ خورشید صاحبہ سکرٹری انڈسٹریل سکول فضل عمر جو نیئر ماڈل سکول :.کلثوم باجوہ صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے تعمیری کاموں میں سے ایک اہم کام اس سال ۹؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو دفضل عمر جونئیر ماڈل سکول کا اجراء ہے.ربوہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول موجود تھے.تاہم کوئی مدرسہ ایسا نہ تھا جہاں صحت مندانہ ماحول میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا تعلیم کے ساتھ ساتھ صفائی اور تربیت کا خاص خیال رکھا جا سکے.اس کے علاوہ ایک غرض سکول کے قیام کی یہ بھی تھی کہ مبلغین سلسلہ کے بچوں کو خاص مراعات دی جائیں.اسی غرض کے لئے ۹؍ دسمبر ۱۹۵۷ء کو یہ سکول جاری کیا گیا.سکول کی کوئی عمارت نہ ہونے کے باعث ایک کوٹھی کرایہ پر حاصل کی گئی.ابتداء میں صرف تین جماعتیں تھیں.پہلی ہیڈ مسٹریس محترمہ نصیرہ جالی صاحبہ تھیں.جنہوں نے تین ماہ تک نہایت محنت سے کام کیا.پھر مجبوری کے باعث استعفیٰ دے دیا.آپ کے بعد ریحانہ ستار صاحبہ نے اپنی خدمات سکول کے لئے پیش کیں.آپ ڈھاکہ سے تشریف لائیں اور دو سال تک ادارہ کی ان تھک خدمت سرانجام دی.ستمبر ۱۹۲۰ء سے محترمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبہ بنت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی اس ادارہ کی ہیڈ مسٹریس ہیں.

Page 469

461 لجنہ کراچی نے ڈیڑھ صد روپے ماہوار اس سکول کے لئے دینا شروع کئے اور دوسال تک با قاعدہ ادا کرتی رہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.سکول کی آمد و خرچ ۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۱ء تک مندرجہ ذیل رہا.اس سے ظاہر ہے کہ ابھی تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو آمد کی نسبت قریباً پانچ چھ ہزار روپے سالانہ تک زائد خرچ کرنا پڑتا ہے.آمد سالانه خرچ سالانه ۶۴۱۵ ۶۱۷۷ ۶۵۸-۶۵۷ ۱۱۲۸۵ ۱۰۰۷۵ ۵۹-۵۸ 17210 ۱۰۹۵۴ ۶۰-۵۹ ۱۸۰۳۷ ۱۱۳۷۴ 71-70 ۱۹۸۰۲ ۱۳۱۱۲ ۶۲-۶۱ ۱۹۳۶۱ ۱۳۵۴۵ ۶۳-۶۲ ۲۰۷۲۵ ۱۴۷۳۰ ۶۴-۶۳ ۲۰۹۰۵ ۱۶۷۲۴ ۶۵-۶۴ ۲۱۰۷۶ ۱۶۰۸۴ ۶۶-۶۵ ۲۳۰۷۷ ۱۴۹۶۸ 72-77 ۲۳۳۵۵ ۱۶۳۲۷ ۶۸-۶۷ ۲۲۲۲۰ ۱۷۶۱۰ ۶۹-۶۸ ۲۳۰۵۴ ۱۸۷۰۰ 20-79 ۲۷۹۴۰ ۲۰۰۲۲ 21-2• ۱۹۵۹ء میں سکول کی عمارت سات کنال زمین چار ہزار تین سوا کہتر روپے میں خریدی گئی جس کی قیمت ادا کر دی گئی ہے.عمارت کا نقشہ بھی تیار ہو چکا ہے.انشاء اللہ جلد از جلد عمارت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.۱۹۵۷ء میں قریباً ایک سو بچوں نے داخلہ لیا.اس وقت ۱۹۷۱ء میں بچوں کی تعداد پونے تین سو ہے.

Page 470

462 ۱۹۷۰ ء تک یہ سکول پرائمری رہا.جماعت پنجم تک لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں.جماعت پنجم کے لڑکے امتحان دے کر ہائی سکول میں داخلہ لے لیتے ہیں.چھٹی جماعت پہلی مرتبہ ۱۹۶۱ء میں کھولی گئی.۱۹۶۴ء میں پہلی دفعہ پانچ طالبات مڈل کے امتحان میں شامل ہوئیں.سوائے ۱۹۶۵ء کے جب مڈل کا نتیجہ ۵۶٪ تھا ہر سال نتیجہ ۱۰۰ ب رہا ہے اور ہر سال ایک یا دو طالبات وظیفہ حاصل کرتی رہی ہیں.۱۹۶۹ء میں ایک طالبہ ضلع جھنگ میں اول رہی.۱۹۷۰ء سے ہائی کلاسز جاری کر دی گئی ہیں اور ۱۹۷۲ء میں پہلی دفعہ اس سکول کی طالبات میٹرک کے امتحان میں شامل ہوں گی.انشاء اللہ العزیز سکول میں جسمانی تربیت کا بھی انتظام ہے.ایک لمبے عرصہ تک صفیہ رانجھا صاحبہ اس کی ذمہ دار رہیں اب اس سال ۱۹۷۱ء میں صادقہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری ہدایت اللہ صاحب کو فزیکل انسٹرکٹر کے طور پر رکھا گیا ہے.سکول میں ۱۲ استانیاں کام کر رہی ہیں.ناصرات الاحمدیہ قائم ہے.سکول کے لئے آمد پیدا کرنے کی غرض سے ہر سال ایک صنعتی نمائش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے.تقسیم انعامات کا جلسہ منعقد ہوتا ہے.سالانہ کھیلوں کا مقابلہ کروایا جاتا ہے.یوم امہات منایا جاتا ہے.۱۹۶۵ء میں اس سکول کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کی تشریف آوری کی سعادت حاصل ہوئی.دورویہ کھڑے ہوئے طلباء نے حضور پر نور کی خدمت میں اھلا و سھلا و مرحبا کہا.آپ نے تجھے منے بچوں کو شرف مصافحہ بخشا اور قیمتی نصائح فرمائیں.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کی سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر اس مدرسہ کے بچوں نے بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعوت دی جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت منظور فرمائی.حضور کی خدمت میں بچوں کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا گیا.حضور نے بچوں کو نصائح فرمائیں اور ان کے درمیان ایک خوشگوار ماحول میں چائے نوش فرمائی.ہر کلاس کے نمائندہ بچے حضور کے ساتھ بیٹھے.مندرجہ ذیل خواتین نے ایک لمبے عرصہ تک سکول کی خدمات سرانجام دیں اور اب اپنے حالات کی وجہ سے سکول سے فارغ ہو چکی ہیں.فجز اصن اللہ احسن الجزاء ا.صالحہ طلعت صاحبہ بنت مرزا برکت علی صاحب

Page 471

463 ۲.امۃ الرشید صاحبہ بنت مولوی عطا محمد صاحب.امۃ السلام صاحبہ بنت مولوی عطا محمد صاحب ۴.بشری پروین صاحبہ بنت سیدا قبال حسین شاہ صاحب ۵- بشری شاہدہ مرحومہ اہلیہ منور شمیم صاحب خالد لیکچرارٹی.آئی کالج ربوہ لے ۶.سعیدہ جواد صاحبہ اہلیہ سید جواد علی صاحب مبلغ امریکہ ۷.شریفہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید مسعود مبارک شاہ صاحب.بشری ناہید ملک صاحبہ اس وقت یہ ۱۳ خواتین سکول میں تعلیم دے رہی ہیں :.ا.امتہ الحفیظ مرزا صاحبہ بنت حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدیدر بوه ۲.زاہدہ ہاشمی صاحبہ اہلیہ محمد اکرم خان صاحب ( کلرک ) نظارت علیا صدرانجمن احمد به ربوہ - امتۃ الرشید شوکت صاحبه مدیره مصباح بیگم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله ۴.عطیہ بیگم صاحبہ بنت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ۵- صفری مرزا صاحبہ بنت مرزا عبدالعزیز صاحب ۶- حبیبہ مجید صاحبہ بنت چوہدری مجید احمد صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری مال لاہور ے.زکیہ نیر صاحبہ بنت غلام رسول صاحب مرحوم فریده حمید صاحبہ بنت میاں عبدالحمید صاحب جنجوعہ ۹.امتہ القدوس صاحبہ بنت سید بدرالحسن صاحب مرحوم ۱۰.صادقہ نسرین صاحبہ بنت چوہدری ہدایت اللہ خاں صاحب مرحوم ۱۱.بشری پروین صاحبہ بنت خان عبدالغفار خان صاحب سرگودھا ۱۲.طاہرہ خاتون صاحبہ بنت عنایت حسن خاں مرحوم پیلی بھیت ( بھارت) ۱۳.ہیڈ مسٹر لیں امتہ القدیر صاحبہ بنت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ے بشریٰ شاہدہ مرحومہ مولوی فضل دین صاحب وکیل کی صاحبزادی تھیں.ان کی والدہ صاحبہ لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی ممبرات میں سے ہیں.1919ء میں وفات پائی.

Page 472

464 انڈسٹریل سکول کے لئے ہال لجنہ اماءاللہ میں گیلری کی تعمیر:- لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام صنعتی سکول کی باضابطہ منظوری حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اس کے لئے کوئی عمارت موجود ہو.اسی ضرورت کے پیش نظر لجنہ اماءاللہ ہال کے ایک طرف گیلری تعمیر کی گئی.اس کی تعمیر ۱۹۵۷ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۵۸ء میں مکمل ہوئی.اس پر آٹھ ہزار روپیہ لاگت آئی.۷ جون ۱۹۵۸ء کو اس گیلری کا افتتاح عمل میں آیا.لاؤڈ سپیکر :- لجنہ کو اپنے لاؤڈ سپیکر کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی تھی.عام جلسوں اور تقریبات کے علاوہ سالانہ اجتماع اور جلسہ سالانہ پر بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا.لہذا ۱۹۵۷ء میں ایک ہزار نو سو چھپیس روپے میں لاؤڈ سپیکر خرید لیا گیا جواب تک (۱۹۷۱ء) استعمال ہوتا ہے.مسجد ہیمبرگ (جرمنی) کی تعمیر میں مستورات کا حصہ :.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جرمنی میں ایک مسجد بنانے کی تحریک فرمائی جس کے خرچ کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھا.یہ تحریک گو تمام جماعت کے لئے تھی لیکن جماعت کی مخلص اور قربانی کرنے والی خواتین نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لئے کم از کم ڈیڑھ صد روپے دینے کی شرط تھی.ذیل کی فہرست بتاتی ہے کہ احمدی مستورات نے کس طرح اس مسجد کیلئے مالی قربانی پیش کی.اس مسجد کی بنیاد ۲۲ فروری ۱۹۵۷ء کو رکھی گئی اور ۲۲ جون ۱۹۵۷ء کو اس کا افتتاح ہوا.جس کے لئے مرکز سے حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کو ہیمبرگ بھجوایا.مسجد جرمنی میں حصہ لینے والی خواتین :.- حضرت علیہ اسیح الثانی رضی الله عند از طرف حضرت سیدہ ام نا صر صاحبہ خدا ا رجسٹر کا روائی لجنہ مرکزیہ سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۸ء صفحہ۹ رقم

Page 473

465 حضرت خلیفتر آسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ حضرت خلیفتر اسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ حضرت خلیفتر امسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ ساره بیگم صاحبہ حضرت خلیفتر اسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ حضرت خلیفتر اسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ از طرف حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبہ ۲.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور بیگم صاحبہ میاں عبدالحق صاحب پنڈی بھاگو ۴.فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کراچی ۵.ڈاکٹر امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کراچی نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالمجید صاحب لاہور ۷.سردار بیگم صاحبہ ہیڈ مسٹریس سکول دوالمیال ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۲۰۰ ۱۵۰ کے ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۳۱۵۰ مجیدہ بیگم صاحبہ بیگم شاہنواز صاحب از طرف والده مرحومہ اہلیہ نواب محمد دین صاحب مرحوم ۱۵۰ ۹ - امتۃ الرفیق بیگم صاحبہ بنت با بوعبدالواحد صاحب مرحوم ٹھیکیدار ۱۰.مبار کہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرنل عبد العلی صاحب چھاؤنی سیالکوٹ ۱۱.حمیدہ صابرہ صاحبہ.برائے والد صاحب مرحوم ۱۲.مائی را جوصاحبه ربوہ ۱۳ زیب النساء بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ بشارت احمد صاحب منڈی بہاؤالدین ۱۴.آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد دین صاحب رض ۱۵.حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ منجانب والد صاحب مرحوم سید عزیز اللہ شاہ صاحب الفضل ۱۴.اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۵ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ا الفضل ۱۵.اگست ۱۹۵۶ء صفحه ۴ سے نمبر ۴ تا ۷ الفضل ۳۱.اگست ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ نمبر ۸ تا ۱۳.الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ۵ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء صفحه ۶ ۱۵۰

Page 474

466 رض ۱۲.اہلیہ صاحبہ سیدہ غلام مرتضی صاحب چیف انجینئر کراچی ۱۷ خر یا طاہرہ صاحبہ کراچی منجانب حضرت مولانا شیر علی صاحب ۱۸.اہلیہ صاحبہ کیپٹن ڈاکٹر محمد دین صاحب بٹالوی وہاڑی منڈی ۱۹.رحمت بیگم صاحبہ کراچی ۲۰.اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی میر پور سندھ ۲۱.زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب من جانب والدہ صاحبہ ۲۲.اہلیہ صاحبه با بوا کبر علی صاحب مرحوم گوجرانوالہ ۲۳.اہلیہ صاحبہ چوہدری فیض محمد صاحب چک نمبر R.B/۲۲ منٹگمری ۲۴.شگفتہ اختر اہلیہ ڈاکٹر عبداللطیف صاحب ۲۵.ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد رفیق صاحب مدراس ۲۶.والدہ صاحبہ بشیر احمد صاحب فورٹ عباس بہاولپور ۲.مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک مبارک احمد صاحب آف گجرانه ۲۸.برکت بی بی صاحبہ ڈگری سندھ ۲۹.آمنہ بیگم صاحبہ وہاڑی ضلع ملتان ۳۰ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی عبدالرحیم صاحب ربوہ ۳۱.سیّدہ خاتون بانو صاحبه ربوہ ۳۲.رشیدہ بیگم صاحبہ بنت بابوا کبر علی صاحب مرحوم گوجرانوالہ ۳۳.قانتہ صاحبہ محمد صالح صاحب ڈھا کہ ۳۴ امت الرشید بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری علی احمد صاحب لاہور ۳۵ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک اللہ رکھا صاحب نوشہرہ ککے زئیاں ۳۶.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ منجانب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ا نمبر ۱۵ تا ۲۶ الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ ۳ ۳۵ تا ۴۸ الفضل ۳ مئی ۱۹۵۷ء صفحه ۷ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ 10.•ܙ ۱۵۰ ۱۱۴۸ ۲۱۵۰ 1..۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۰ ۳۱۵۰ ۱۵۰ نمبر ۲۷ تا ۳۴ الفضل یکم فروری ۱۹۵۷ء صفحه ۶

Page 475

۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ܬܙ ۱۵۰ ۱۵۰ ܬܙ 3 ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۲۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۱۵۰ ۲ ۱۵۰ 467 ۳۷.اللہ جوائی صاحبہ والدہ بشیر احمد صاحب رکا کا نڈیوال ضلع جھنگ ۳۸.والدہ صاحبہ عبدالباسط خان صاحب گوجرانوالہ ۳۹.آمنہ قمر آراء صاحبه ۴۰.بیگم صاحبہ مرحومہ ملک غلام محمد صاحب قصور ۴۱.حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ منجانب ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب (والد) ۴۲.برکت بی بی سندھ ۴۳ - حسن آفتاب بیگم صاحبہ چار باغ ضلع مردان ۴۴.حمیدہ بیگم صاحبہ کراچی ۴۵.مسرت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری ظفر احمد صاحب بہلول پورضلع سیالکوٹ ۴۶ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی صدرالدین صاحب کراچی ۴۷.بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۴۸.حیدر بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری فضل احمد صاحب سمہ سٹہ ۴۹.نعیمہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ میر حمید اللہ صاحب ۵۰.بیگم صاحبہ مرزا عبدالرحیم صاحب بنوں ۵۱ نسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحمن صاحب دہلوی راولپنڈی ۵۲ - آمنہ بیگم صاحبہ بنت حاجی سراج الدین صاحب لاہور منجانب والدہ صاحبہ ۵۳.رقیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی نظام الدین صاحب شاہدرہ ۵۴ - اہلیہ صاحبہ محمود احمد خانصاحب ۵۵ بیگم صاحبہ چوہدری فیض محمد صاحب چک ۲۲.آر بی منٹگمری ۵۶- حسینہ بیگم صاحبہ ناصرہ بیگم صاحبہ نمبر ۴۹ تا ۵۵ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۵۷ء صفحه ۶ ۲ نمبر ۵۶ الفضل ۲۹.جون ۱۹۵۷ء صفحه ۵

Page 476

۱۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ 3 0 ۱۵۰ ۱۵۰ ܬܙ ۲۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۰ ۱۵۵ ۳۱۵۰ ۱۵۰ 468 ۵۷.عائشہ بیگم صاحبہ اسلامیہ پارک لاہور ۵۸.بیگم صاحبہ خاں بہادر دلاور خاں صاحب چار باغ ۵۹.ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر احمد صاحب ۶۰.زینب بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری حاکم الدین صاحب سیالکوٹی ۶۱.والدہ صاحبہ نذیر احمد صاحب لاہور چھاؤنی ۶۲ - حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ منجانب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ۶۳.اہلیہ صاحبہ چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعت منٹگمری ۶۴.عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ خواجہ اللہ دیتا صاحب ۶۵.سیدہ رسول بیگم صاحبہ والدہ سید بشیر احمد صاحب خانپور ۶۶.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب منٹگمری ۶۷ - معراج بیگم صاحبہ مسلم ٹاؤن لاہور.لجنہ اماءاللہ باندھی نواب شاہ ۶۹.حاکم بی بی صاحبہ بیوہ چوہدری قادر بخش صاحب سا ہو والہ ضلع سیالکوٹ ۷۰.ناصرات الاحمدیہ سیالکوٹ اے.بیگم صاحبہ چوہدری شاہنواز صاحب منجانب والدہ صاحبہ کراچی ۷۲.غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ چوہدری غلام سرور صاحب چک ۵۵گ - بضلع منٹگمری ۷۳.ناصرہ بیگم صاحبہ پاک پتن ۷۴.بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب منجانب والد صاحب مرحوم ۷۵.والدہ صاحبہ ناصر احمد شمس کویت ۷۶.عمر بی بی صاحبہ والدہ مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب چیف انجینئر روہڑی ۷۷.زیب النساء بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ بشارت احمد صاحب نمبر۷ ۵ تا ۶۴ الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۶ ۲ نمبر ۶۵ تا ۶۹ الفضل ۱۹.نومبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ سے نمبر ۷ تا ۷۶ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۸

Page 477

469 ۷۸ - شاہدہ بیگم صاحبہ بنت نواب عبد اللہ خانصاحب C-۱۰۸.ماڈل ٹاؤن لاہور ۷۹.سعیدہ صاحبہ بنت حبیب اللہ صاحب جامعہ نصرت ربوہ ۸۰.والدہ صاحبہ عنایت الرحمن صاحب ٹنڈ و والہ یا ر سندھ ۸۱.رحم نور صاحبہ اہلیہ ملک عبدالغنی صاحب ۸۲.ولایت بی بی صاحبہ اہلیہ عبد الرسول صاحب مگھیانہ نتیجہ تعلیم القرآن کلاس:.اس سال تعلیم القرآن کلاس میں مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے طالبات شامل ہوئیں.ربوہ، کراچی ، مگھیانہ، گوجرانوالہ، کبیر والہ، اگر سرگانہ ضلع ملتان اس کلاس میں طالبات کی کل تعدا د نو تھی جو سب کامیاب ہوئیں.مندرجہ ذیل اساتذہ نے بڑی محنت سے پڑھایا:.۱۵۰ ۱۵۰ ۱۱۵۰ ۲۱۵۰ مولوی رشید احمد صاحب چغتائی، امتہ الرشید صاحبہ بی اے بی ٹی، امتہ اللہ خورشید صاحبہ مرحومہ، عاجزہ امیۃ اللطیف اور محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ.تفصیلی نتیجہ درج ذیل ہے:.خیر النساء خالدہ صاحبہ احمدی بیگم زہرہ صاحبہ اول دوم قمر النساء بشری صاحبہ ارجمند سلطانہ صاحبہ سوم فضیلت ملک صاحبہ رضیہ صادق صاحبہ سیدہ طاہرہ صاحبہ امة الحفیظ عفت صاحبہ بشری پروین صاحبہ سے نمبر۷ ۷ تا ۱۸۱ الفضل ۲۰.جون ۱۹۵۸ء صفحہ ۶ نمبر ۸۲ الفضل ۱۹.فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۶ مصباح جون ۱۹۵۷ء صفحه ۲۴ و الفضل ۲۳ مئی ۱۹۵۷ء صفحه ۶

Page 478

470 امتحان رسائل خلافت :.۱۹۵۶ء میں منافقین کا جو فتنہ ظاہر ہواتھا اس کے پیش نظر جماعت پر خلافت کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ۹ ۱ اپریل ۱۹۵۷ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان فرمایا کہ ” جیسا کہ میں نے اس سال جلسہ پر اعلان کیا تھا.جلسہ سالانہ کی دو تقریروں یعنی ”نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر“ اور ” خلافت حقہ اسلامیہ" کا امتحان لیا جائے گا.یہ دونوں الگ الگ چھپ گئے ہیں.پس ہر جماعت احمد یہ اپنی اپنی جماعت کے تمام افراد کا جائزہ لے کر حسب ضرورت کتابیں شرکت اسلامیہ سے منگوا لے اور جہاں تک ہو سکے زیادہ سے زیادہ افراد کو امتحان میں شریک کرنے کی کوشش کرے.پرائیویٹ سکرٹری کو جب مختلف جماعتوں کی طرف سے اطلاع مل جائے گی کہ کتنے آدمی اس جماعت میں امتحان دینا چاہتے ہیں تو اسی تعداد کے پرچے رجسٹری کر کے بھجوادیے جائیں گے.محترمہ جنرل سکرٹری صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے لجنات کو توجہ دلائی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقاریر جلسہ سالانہ کا امتحان ہر خواندہ احمدی عورت کو دینا چاہیئے.سے لجنات نے اس بارہ میں خاص توجہ اور جد وجہد سے کام لیا اور کوشش کی زیادہ سے زیادہ مستورات اس امتحان میں شامل ہوں.یہ امتحان ۲۱ جولائی کو منعقد ہوا.جس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد ۶ ۲۷۴ اور کامیاب ہونے والوں کی تعداد ۲۰۶۲ تھی.جن میں سے ممبرات لجنہ و ناصرات ۳۴۵ تھیں.کثیر تعداد لجنہ ربوہ کی تھی.نمایاں کامیابی حاصل کرنے وال بہنوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:.محترمه محمودہ احمد صاحبہ کراچی محترمہ عائشہ محمودہ صاحبہ کیمبل پور محترمہ مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب ناصرات الاحمدیہ میں سے ل الفضل 9 اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۲ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۲ اول دوم سوم

Page 479

471 مکرمہ قدسیہ صاحبہ بنت چوہدری عبدالحمید صاحب روہڑی مکرمہ امتہ الحمید صاحبہ بنت چوہدری احمد جان صاحب راولپنڈی دوم اول سوم رہیں اے اور مکرمہ طاہر نسرین صاحبہ فاروقی پشاور ۲۷ دسمبر ۱۹۵۷ء کو جلسہ سالانہ کے دوسرے دن حضرت اصلح موعودؓ نے اپنی تقریر سے قبل المصلح نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان فرمایا.انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو اپنے دست مبارک سے انعامات مرحمت فرمائے.مستورات کے انعامات زنانہ جلسہ گاہ میں بھجوادیے.اور فرمایا کہ جب میں ان کے ناموں کا اعلان کروں تو سیدہ مریم صدیقہ انہیں اپنے ہاتھ سے انعامات دے دیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہے امتحان کتاب ” منصب خلافت کتاب " منصب خلافت کا امتحان زیر انتظام لجنہ اماءاللہ مرکز یہ مئی ۱۹۵۷ء میں لیا گیا.کل ۹۴ ممبرات شامل ہوئیں اور ۶ ۷ کامیاب ہوئیں.اول دوم محمودہ بیگم صاحبہ کراچی ۹۰/۱۰۰ امته الجمیل صاحبه ربوه ۱۳۸۷/۱۰۰ سفیر انڈونیشیا کی بیگم کے اعزاز میں استقبالیہ :.مورخہ ۲۱ ستمبر کی شام کو سفیر انڈونیشیا الحاج ڈاکٹر محمد رشیدی صاحب مع اہل و عیال لاہور سے ربوہ تشریف لائے.۲۳ ستمبر کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے ان کی بیگم کے اعزاز میں دعوت عصرانہ دی گئی.تلاوت و نظم کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ نے ان کا تعارف کرایا اور تشریف آوری کا شکر یہ ادا کیا.بعد ازاں محترمہ مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب نے انڈوینشین زبان میں ایڈریس الفضل ۲۶.ستمبر ۱۹۵۷ صفحه ۲ الفضل ۳.جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۵ اگست ۱۹۵۷ء صفحه ۶

Page 480

472 پیش کیا جس کا محترمہ بیگم ڈاکٹر محمد رشیدی صاحب انڈونیشن زبان میں جواب دیا.آخر میں ان کو انگریزی ترجمہ قرآن مجید اور رسالہ مصباح کی ایک کاپی پیش کی گئی.لندن میں لجنہ اماءاللہ کا احیاء: محترمہ کلثوم باجوہ صاحبہ کے لنڈن سے پاکستان آجانے کے بعد لجنہ اماءاللہ لندن کا کام بند ہو گیا تھا.مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے اس سال کے دورہ انگلستان کے موقع پر لجنہ اماءاللہ کا از سرنو قیام عمل میں لایا گیا.اور احمدی خواتین مقیم لندن کی پہلی میٹنگ ۳۱ را گست ۱۹۵۷ ء کو منعقد ہوئی.لجنہ اور ناصرات کا دوسرا اجلاس ۱۵ ستمبر کو ہوا جس کی صدارت صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب نے کی جو ان دنوں لندن میں تھیں.آپ نے عہدیداران کو قیمتی نصائح فرمائیں.اس اجلاس میں بیرون لندن سے بھی بعض بہنیں تشریف لائیں.اجلاس نے متفقہ طور پر مکرمه سارہ خانم صاحبہ (اہلیہ ڈاکٹرمحمد نسیم صاحب ) لندن کوصدر اور رشیدہ بیگم صاحبہ بنت حامد خاں صاحب کو سکرٹری منتخب کیا.۲ ۱۵ دسمبر ۱۹۵۷ء کولجنہ اماءاللہ کی میٹنگ میں صدر صاحبہ لجنہ بیگم ڈاکٹر نسیم احمد صاحب نے سال نو کا پروگرام مرتب کیا.سے مسر نسیم کے ساتھ مسز اشرف صاحبہ نے تین سال لجنہ اماءاللہ کا کام بڑے شوق اور محنت سے کیا.صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کی شادی:.مورخہ ۲۱ نومبر کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ مد ظلہا العالی کی صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کی شادی خانہ آبادی ہمراہ جناب میر محمود احمد صاحب ناصر بڑی سادگی سے عمل میں آئی ہے مصباح اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳۴ الفضل ۱۶.جولائی ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ کالم نمبر الفضل ۳.اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳ مصباح دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۶

Page 481

473 رپورٹ لجنہ نائیجیر یا ۱۹۵۷ء :.محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ نے تحریر فرمایا کہ ہر جمعہ کی نماز کے بعد اجلاس منعقد کیا جاتا رہا.جس میں قرآن کریم کے علاوہ اسلام کے مختلف مسائل پر روشنی ڈالی جاتی رہی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، اربعین، ریویو آف ریلیجنز میں سے حضرت اقدس کے ملفوظات اور مختلف دعا ئیں سکھائی جاتی رہیں.چندوں کی اور بالخصوص تحریک جدید اور مسجد ہالینڈ کے چندوں کی وصولی کا خاص انتظام کیا گیا.ہر ماہ چار عورتیں پمفلٹ لے کر قریبی علاقوں میں جا کر تبلیغ کرتیں اور اس عرصہ میں انہوں نے قریباً ۳۰ روپے کے پمفلٹ فروخت کئے.عورتیں لیگوس کے دُور کے علاقوں میں دوروں پر بھی گئیں.تقریباً ہر ماہ مذہبی معلومات پر مشتمل ایک سرکر لیٹر بھجوایا جا تار ہا.گذشتہ جلسہ سالانہ پر جو خاکسار نے تقریر کی تھی ایک سرکلر میں وہ بھیجی گئی ، اور ایک میں مرکز اور مشنوں کی خبریں، چندوں کی تحریک اور مذہبی سوال وجواب شامل کئے گئے.اخبار ٹرتھ خریدنے کی تلقین کی گئی.اگست میں مرکز میں نمائش کی اشیاء ارسال کی گئیں.دسمبر میں جلسہ کی تیاری زور وشور سے شروع ہوئی.سرکلر کے ذریعے دوسرے مشنوں کو شامل ہونے کی دعوت دی.ڈیوٹیاں لگادی گئیں.ایک پمفلٹ جس میں حضور کی تقریر کا ترجمہ تھا چھپوایا گیا.۲۵ / دسمبر ۱۹۵۷ء کو لجنہ کا تیسرا سالانہ جلسہ شروع ہوا.نو مقامات کی مستورات آئی ہوئی تھیں.قرآن کریم کی تلاوت کے بعد سٹر عائشہ اجید دے ، خاکسار، بیگم شیخ نصیرالدین احمد صاحب اور عزیزی بشری سیفی نے تقاریر کیں.مذہبی معلومات کا امتحان لیا گیا اور انعامات تقسیم کئے گئے.دو عورتیں احمدی ہوئیں.لیگوس کی مستورات نے بڑے خلوص کے ساتھ مہمان داری میں حصہ لیا.عورتوں نے کھانا پکوا کر بھجوایا.ایک غیر احمدی خاتون نے بھی ساتھ کام کیا.لجنہ اماءاللہ سیرالیون کا سالانہ اجلاس:.لجنہ اماءاللہ سیرالیون کے زیر اہتمام احمدی مستورات کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.جس میں باہر سے آمدہ اور بو میں مقیم تمام بہنوں کے علاوہ بعض غیر احمدی عورتوں نے بھی حصہ لیا.جلسہ اہلیہ صاحبہ

Page 482

474 مولوی صدیق صاحب امرتسری کی زیر صدارت دن بھر جاری رہا.صدر صاحبہ، امیر صاحب محترم ، پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ بو اور مسٹر علی صاحب کے خطاب کے بعد چندہ تحریک جدید اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کی اپیل کی جس پر بہت سی بہنوں نے لبیک کہا.اس جلسہ میں ناصرات الاحمدیہ نے بھی نمایاں حصہ لیا.ڈچ گی آنا میں لجنہ کا قیام:.۱۹۵۷ء میں ڈچ گی آنا میں لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا.جس کے ہفتہ وار اجلاس با قاعدہ ہونے لگے.لجنہ اماءاللہ کی صدر نصیران حسینی صاحبہ جماعت کے سکول چلانے میں بہت کوشش کرتی رہیں ہے سیرالیون میں لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کا احیاء:.اہلیہ صاحبہ مولوی محمد صدیق کی آمد پر ان کے خیر مقدم کے لئے جلسہ کیا گیا.ایڈریس کے جواب میں انہوں نے لجنہ اماءاللہ کی تاریخ اور اس کی غرض وغایت سے آگاہ کر کے لجنہ کے قیام کی تحریک کی اور اس طرح بو میں لجنہ کا احیاء ہوا.اور موضع لیو دوما میں بھی لجنہ کی ایک برانچ قائم ہوئی.مئی ۱۹۵۷ء میں ان کی زیر نگرانی لجنہ کے باقاعدہ اجلاس شروع شروع ہوئے جن میں لجنہ کی لوکل عہدہ داران کے علاوہ محترمہ امتہ القیوم صاحبہ خود بھی با قاعدہ حسب موقع تربیتی اور تنظیمی لیکچر دیتی رہیں.نیز ہر ہفتہ جماعت کے مرد عہدہ داروں میں سے کوئی نہ کوئی عورتوں سے خطاب کرتے رہے.محترمہ موصوفہ نے یہ بھی تحریک کی کہ احمدی بہنیں بو میں آکر دینی ٹریننگ حاصل کریں.چنانچہ ایک احمدی بہن میڈم یا نا بو سے ۳۶ میل کے فاصلہ سے یہاں آکر دو ہفتہ کی ٹریننگ لیتی رہیں.لجنہ کے علاوہ پانچ سے پندرہ سال کی عمر کی احمدی بچیوں کی تربیت کے لئے ناصرات الاحمدیہ کا قیام بھی عمل میں آیا اور ان کے بھی ہفتہ وار اجلاس ہوتے رہے.سے الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۴ مصباح اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳۲-۳۷ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۵۷ء صفحه ۵

Page 483

475 گولڈ کوسٹ ( گھانا) کی احمدی مستورات کا سالانہ جلسہ:.۱۲-۱۱-۱۰ جنوری کو سالٹ پانڈ کے مقام پر گولڈ کوسٹ کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.دور دراز کے علاقوں سے آنے والے احمدیوں میں عورتوں کی بھی خاصی تعداد تھی.پہلے دودن عورتوں نے مردانہ جلسہ میں تقاریر سنیں.تیسرے دن بارہ جنوری کو مسجد احمد یہ میں عورتوں کا الگ سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں کئی سو عورتوں نے شرکت کی.مسجد بھری ہوئی تھی.تلاوت قرآن مجید کے بعد محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام نے دیگر مذاہب کے مقابلہ میں عورتوں کو کیا کیا حقوق دیئے ہیں.اس کے بعد محترمہ امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ سعود احمد صاحب نے تقریر کرتے ہوئے جلسہ سالانہ کے مقاصد کو واضح کیا.آخر میں محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ نے مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی تحریک کی.اس پر کافی چندہ جمع ہوا.دعا کے ساتھ یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا یوم مصلح موعود کے جلسے:.۲۰ فروری کو مندرجہ ذیل لجنات نے مصلح موعود کے جلسے کئے :.ملتان چھاؤنی ہے.ایبٹ آباد شیخو پوره ربوه ۳ برہمن بڑی کتھو والی چک ۳۱۲ ج.بضلع لائل پورم مانگا چانگریاں ضلع سیالکوٹ ہے.ے مصباح اپریل ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۵ ۳۶ ، الفضل ۱۷.فروری ۱۹۵۷ء الفضل ۷.مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ مصباح مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۱۳ الفضل ۳.مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۷

Page 484

476 سانگلہ ہل ! ڈیرہ غازی خان ! سیرۃ النبی کے جلسے مندرجہ ذیل لجنات نے سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کئے :.ابیٹ آباد ۲ مردان ۳ حیدر آباد 2 کنری ۵ مالتان ۵ کراچی 1 یوم خلافت کے جلسے:.مورخہ ۲۷ مئی کو۴ بجے بعد دو پہر لجنہ اماءاللہ کے ہال میں جلسہ یوم خلافت زیر صدارت محترمہ سیدہ نصیرہ صاحبہ قائم مقام جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ منعقد ہوا.کے لجنه بدوملہی اور لجنہ ملتان چھاؤنی 1 نے بھی خلافت کے جلسے منعقد کئے.ا الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحه ۷ الفضل ۶ ستمبر ۱۹۵۷ ء صفحه ۴ الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵ ع الفضل ار ستمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵ ۵، الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۵۷ ء صفحه ۵ الفضل ۳۱ رمئی ۱۹۵۷ء و الفضل ۵/ جون ۱۹۵۷ء صفحه ۶ الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۵۷ ء صفحه ۶ الفضل ۷ جون ۱۹۵۷ء صفحہ ۶ کالم ۳

Page 485

477 حیدرآباد (سندھ) میں تبلیغی جلسہ :.محترمه سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ جو لجنہ سیالکوٹ کی پرانی اور سرگرم عہد یدار تھیں، چند دن کے لئے حیدر آباد تشریف لے گئیں.ان کی صدارت میں ایک تبلیغی جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں غیر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں.اے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۷ء کی مختصر روئداد :- مورخها را کتوبر ۱۹۵۷ء کو ساڑھے تین بجے لجنہ اماءاللہ کے ہال میں سالانہ اجتماع کی کارروائی زیر صدارت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ رضی اللہ عنہا شروع ہوئی.تلاوت کے بعد لجنہ اماء اللہ کا عہد نامہ دہرایا گیا.بعد ازاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے خطاب فرمایا.آپ نے آنے والی تمام ممبرات کو اھلا و سھلا کہا اور ان کے مرکز میں آنے کی غرض و غایت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ یہاں سے ایک نئی روح ایک نیا جذ بہ لے کر جائیں.اور نئی روح اور نیا جذ بہ نہ صرف خود لے کر جائیں بلکہ اپنی اپنی جگہ کی لجنات کی تمام ممبرات میں بھی یہ روح اور یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں.گذشتہ سال کا اجتماع ہمارا پہلا تجربہ تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.اور یہ اجتماع اس سے بھی زیادہ کامیاب نظر آتا ہے کیونکہ اس دفعہ باہر کی بجنات کی نمائندگان پہلے سے زیادہ تشریف لائی ہیں.چنانچہ مختلف لجنات کی نمائندگان کی تعداد یہ ہے:.لاہور ۱۸ کراچی سرگودھا چنیوٹ کھاریاں لائل پور ملتان چھاؤنی ہندوستان احمد نگر کبیر والا ممباسه بصیر پور جہلم ا چک منگلا کوٹ سلطان ا مگھیانہ دوالمیال ا بدوملی ڈھاکہ جنڈ اٹھوال چک ۸۸ ۲ گوجره ل الفضل ۱۷.فروری ۱۹۵۷ء صفحہ ۷ جڑانوالہ گوجرانوالہ

Page 486

گوجرخان راولپنڈی ا مونگ 478 سیالکوٹ تهال صل الله آپ نے فرمایا کہ نمائندگان مرکز میں بھجوانے کا دستور کوئی نیا دستور نہیں.یہ دستور آنحضرت کے وقت میں بھی جاری تھا.اس وقت بھی جماعتیں اپنے نمائندے بھجوا تیں جو مرکز اسلام میں آکر اسلامی فیوض سے خود بھی مستفیض ہوتے اور واپس جا کر اپنی جماعتوں کو بھی اس فیض سے بہرہ ور کرتے.ہماری جماعت کی عورتیں جب علم کے میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دین کے میدان میں مردوں سے پیچھے رہ جائیں جبکہ خدا تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں نبی پر ایمان لانے اور اس کی کامل اطاعت اختیار کرنے کے لحاظ سے مرد اور عورت کو یکساں ذمہ دار قرار دیا ہے.جب ہم تاریخ اسلام پر غور کرتے ہیں تو ہمیں آنحضرت معﷺ پر ایمان لانے والی سب سے پہلے ایک عورت ہی نظر آتی ہے یعنی حضرت خدیجہ الکبری جو سب سے پہلے آنحضرت علی ایمان لائیں اور نہ صرف ایمان ہی لائیں بلکہ اشاعت اسلام میں بھی پورا پورا تعاون فرمایا.پھر ہندہ جیسی دشمن اسلام عورت جب اسلام لے آئی تو مختلف اوقات میں اس نے ایسی ایسی قربانیاں کیں کہ آج بھی ان کو پڑھ کر وجد طاری ہو جاتا ہے.ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی قرون اولیٰ کی صحابیات کی طرح اپنے اندر دین کی خدمت کی نئی روح اور جوش پیدا کریں اور خلافتِ احمدیہ سے وابستگی کا پورا پورا ثبوت دیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی اس وابستگی کو زیادہ پختگی سے جاری کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے روحانی اور علمی خزانوں کو لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں.لفظ اسلام کے معنی کامل فرمانبرداری کے ہیں.اس کی عملی تصدیق کے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اشاعت اسلام کیلئے ہرممکن کوشش کریں اور اہم اپنے آپ کو اپنے عمل سے احمدیت کا ستون ثابت کریں.اسلام کے صرف پانچ ارکان پر عمل کر لینا انسان کو کامل مومن نہیں بنا سکتا جب تک ہم خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کو پورا پورا ادا نہ کریں اور سچائی ، صفائی، ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہ کریں.آخر میں آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ آپ ان باتوں پر خود بھی عمل پیرا ہوں گی اور اپنی دوسری بہنوں کو بھی عمل پیرا کرنے کی کوشش کریں گی.

Page 487

479 آپ کی تقریر کے بعد تقریری مقابلہ کا پروگرام تھا.اس مقابلہ میں دو معیار مقرر کئے گئے تھے.معیار اول.دسویں جماعت اور کالج کی طالبات کے لئے معیار دوم.میٹرک سے نیچے تک کے لئے عنوانات مندرجہ ذیل تھے.ا.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ ۲.دعا ۳.رحمۃ للعالمین ۴.خلافت حقہ اسلامیہ ۵- تربیت اولاد اس اجلاس میں مقابلہ صرف معیار اول کا ہوا.اس میں صاحبزادی امتہ القدوس بنت صاحبزادہ مرز امنصور احمد صاحب اول، انیسہ فضل احمد صاحب لائل پور دوم اور زرینہ صاحبہ جامعہ نصرت سوم رہیں.مجلس شوری کی کارروائی:.شوری کی سب کمیٹی کا اجلاس رات کو نو بجے منعقد ہوا جس پر ایجنڈا پر غور کیا گیا.مجلس شوریٰ کا اجلاس زیر صدارت حضرت ام ناصر رضی اللہ عنہا شروع ہوا.تلاوت ، عہد نامہ اور نظم کے بعد ایجنڈا کے مطابق تمام تجاویز پر غور کیا گیا اور مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے:.تجویز:.تمام لجنات اپنے بجٹ کا چوتھا حصہ خود رکھتی ہیں اور تین حصہ مرکز کو بھجواتی ہیں.چونکہ لجنہ مرکزیہ کے اخراجات زیادہ ہیں اسلئے انہیں پورا کرنے کے لئے کوئی مناسب فیصلہ کیا جائے.فیصلہ:.چندہ کی شرح بڑھا کر بجٹ بڑھایا جائے.سب کمیٹی نے بھی شرح چندہ بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا.اس لئے چندہ کی شرح دوآنہ سے چار آنہ کر دی گئی ہے.

Page 488

تجویز:.480 لجنہ مرکز یہ جو بیرونی لجنات کو گرانٹ دیتی ہے اس میں اضافہ کیا جائے.فیصلہ:.بڑی بجنات اپنے بجٹ کا نصف رکھیں اور چھوٹی لجنات ۱/۴ تجویز: لجنات کے انتظام کوضلع وار مضبوط کیا جائے.فیصلہ:.سب کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ضلعوار لجنات کو مضبوط کئے جانے کی سفارش کی تھی.مجلس شوریٰ نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ تمام لجنات کو ضلع وار مضبوط کیا جائے.تجویز:.چندہ اجتماع لجنہ اماء اللہ کی شرح کی تعین کی جائے تا کہ اس شرح کے مطابق چندہ وصول کیا جائے.فیصلہ:.چندہ سالانہ اجتماع آٹھ آنہ فی کس مقرر کیا جائے.یہ چندہ سال میں صرف ایک بارلیا جائے.تجویز:.لجنہ کے ہال میں دستکاری سکول کے لئے بمصرف چھ ہزار روپے ایک گیلری تعمیر کی جائے تاکہ دستکاری سکول کو وہاں چلایا جائے (بعد میں گیلری پر چھ ہزار کی بجائے آٹھ ہزار روپیہ خرچ آیا )

Page 489

فیصلہ:.481 گیلری ضرور بنائی جائے اور اس کا چندہ چھ ہزار روپیہ دو مہینے میں وصول کیا جائے.تا کہ جلسہ سالانہ کے مہمان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں.تجویز:.موجودہ بے پردگی کے انسداد پر غور کیا جائے.فیصلہ :.ایسی خواتین جو پردہ نہیں کرتیں بجنات ان سے اظہار بیزاری کریں اور مرکز کو بھی ان کی اطلاع کردیں اور موقع کے مناسب ان کی اصلاح کریں نیز بے پردہ احمدی عورت کو لجنہ کا کوئی عہدہ نہ دیا جائے.آخر میں لجنہ اماءاللہ کا سالانہ بجٹ منظور ہوا جو ۲۳۷۰۸ روپے پر دعا کے بعد مجلس شوری کی کارروائی ۴ بجے ختم ہوئی.دوسرے دن کی کارروائی:.مشتمل تھا.اگلے روز ۱۲ اکتو بر آٹھ بجے زیر صدارت محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا روائی شروع ہوئی.تلاوت قرآن پاک و نظم کے بعد حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے بحیثیت جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ رپورٹ پڑھ کر سنائی.اور سال گذشتہ کی مساعی پر تبصرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے دستکاری کے سکول کے متعلق فرمایا کہ یہ سکول خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی پر ہے.انتظام تسلی بخش ہے.پھر آپ نے چندہ مسجد ہالینڈ کی طرف توجہ دلائی.آپ کی تقریر کے بعد لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی تمام شعبہ جات کی سیکرٹریوں نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں.بعد ازاں مسعودہ بیگم صاحبہ نمائندہ ربوہ نے تقریر کی.دس بجے حضرت خلیفہ اسی انانی اصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خطاب فرمایا.

Page 490

482 تھے.بعد نماز مغرب میعار دوم کے گروپ کا تقریری مقابلہ ہوا.عنوانات وہی تھے جو معیار اول کے نتیجہ حسب ذیل ہے:.اول دوم سوم خاص انعام رضیہ سلطانہ صاحبہ جماعت ہشتم ربوہ حمیده با نو بنت سید احمد علی صاحب لائل پور قمر النساء صاحبہ بنت ضیاء الحق صاحب دہم ربوہ امۃ الرشید صاحبه نهم ربوه اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے پیشتر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے دینی معلومات کا تحریری مقابلہ ہوا.معیار اول اور معیار دوم کے گروپ بنائے گئے تھے اور ان دونوں گروپوں کے پرچے بھی الگ الگ بنائے گئے تھے.معیار اول کا نتیجہ حسب ذیل ہے:.محترمہ صالحہ در دصاحبه لجنہ اماءاللہ لاہور امتہ الباسط رعنا جماعت دہم نصرت گرلز سکول ربوه اول دوم سوم امة الحمید صاحبہ تھر ڈامیر جامعہ نصرت ربوہ معیار دوم کا نتیجہ حسب ذیل ہے:.اول امتہ اللہ عائشہ صاحبہ دہم امتہ الحفیظ شاکر نهم ربوہ دوم سوم امۃ الرشید انور صاحبه ربوہ تیسرے دن کی کارروائی:.مورخه ۱۳ اکتوبر کو ۸ بجے زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اجلاس منعقد ہوا.تلاوت و نظم کے بعد فی البدیہ تقریروں کا مقابلہ ہوا جس میں مندرجہ ذیل عنوانات تھے :.پردہ تنظیم کی ضرورت، تعلیم نسواں، سچائی، امانت و دیانت، لجنہ اماءاللہ کی غرض.

Page 491

نتیجہ حسب ذیل ہے:.اول سوم خاص انعام 483 امتہ المتین صاحبہ تھر ڈائیر صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ فرسٹ امیر بشری سلطانہ صاحبہ فورتھ امیر صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ جماعت دہم اس کے بعد تلاوت قرآن مجید کا مقابلہ ہوا.جس کا نتیجہ حسب ذیل ہے:.اول دوم سوم امینہ بیگم صاحبه ر بوه سیدہ امتۃ الرفیق صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ربوہ شاہدہ صاحبہ نشتم اس کے بعد لجنات بیرون اور لجنہ ربوہ نے اپنی اپنی سالانہ رپورٹیں پیش کیں.بعد ازاں صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے انعامات تقسیم فرمائے اور لجنہ اماءاللہ کی تعلیم کے شعبہ کی طرف سے مختلف امتحانات میں کامیاب طالبات کو سندات بھی تقسیم کیں.صدر صاحبہ لجنہ ربوہ کی طرف سے لجنہ ربوہ کے بہترین کام کرنے والے حلقہ جات کو خاص انعامات دیئے گئے اور لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے صنعتی سکول کی ممبرات کو اجتماع میں شامل ہونے والی ممبرات کی خدمت کے سلسلہ میں خاص انعام دیا.آخر میں سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے درد اور محبت بھرے الفاظ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری زندگیوں کا مقصد اسلام کی خدمت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خلافت احمدیہ پر ہمیشہ قائم رہیں.اور اپنی نسلوں کو بھی یہی سبق دیتی رہیں.اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ احمدیت کے جانثار ثابت ہوں تا ہم آنحضرت ﷺ کے حضور یہ عرض کر سکیں.تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے آخر میں عہد نامہ دہرایا گیا اور صدر صاحبہ نے دعا فرمائی.مصباح نومبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳۳ تا ۳۹

Page 492

484 حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر بر موقعہ سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ۱۹۵۷ء حضور رضی اللہ عنہ نے احمدی مستورات سے خطاب کرتے ہوئے جو نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی.اس کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.الله......انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر ان شائنک هوا لابتر میں ایک نہایت زبر دست پیشگوئی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ علی کے دشمن کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں نرینہ اولا د کوئی نہیں اس لئے آپ کا نام دنیا سے مٹ جائے گا.مگر یہ جھوٹے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد نرینہ کو محمد رسول اللہ ہے کے قدموں میں ڈال دے گا اور وہ ہمیشہ آپ کے نام بلند کرنے کا موجب رہے گی.گویا اس سورۃ میں اس بات کی پیشگوئی کی گئی تھی کہ آئندہ محمد رسول ﷺ کو روحانی اولا د دی جائے گی.تم بھی انا اعطینک الکوثر کا نظارہ دیکھ رہی ہو.چنانچہ اس وقت جو تم یہاں بیٹھی ہو تم بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہو اور تم انا اعطینک الکوثر کا نظارہ دیکھ رہی ہو.اس ضلع کو دیکھ لو.جب ہم یہاں آئے تو وہاں صرف چار پانچ آدمی تھے.لیکن اب چنڈ بھروانہ اور منگلہ وغیرہ میں دو ہزار کے قریب احمدی ہو گئے ہیں.اٹھارہ انیس ہزار احمدی لائل پور کے ضلع میں ہیں اور ساٹھ ہزار کے قریب احمدی سیالکوٹ میں ہیں.جب ۱۸۹۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں را جلسہ کیا.اس وقت صرف ۷۵ آدمی شامل ہوئے تھے اور اس پر آپ بڑے خوش تھے.لیکن جب ۱۸۹۲ء میں سالانہ جلسہ ہوا تو اس پر ۳۲۷ را فراد آئے.گویا ایک سال کے عرصہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد ۷۵ سے بڑھ کر تین سوستائیس ہوگئی.اسی طرح ہر سال ہماری جماعت بڑھتی چلی گئی.اب دیکھ لو جھنگ اور سرگودھا کے اضلاع میں ہی پانچ ، چھ ہزار احمدی بستا ہے اور یہ تعداد پہلی پہلاج تعداد سے بہت زیادہ ہے گویا اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہمیں کثرت عطا فرمارہا ہے جس کی طرف انا اعطینک الکوثر میں اشارہ کیا گیا ہے.بیشک کوثر کے ایک معنی ایسے بیٹے کے بھی ہیں جو اپنے اندر خیر کثیر رکھتا ہو.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.لیکن کوثر سے مراد جماعت کی کثرت بھی ہے اور انا اعطینک الکوثر کے معنی یہ ہے کہ تیری جماعت میں مخلص اور تبلیغ کا شوق رکھنے والے لوگ کثرت سے پیدا کئے جائیں گے.چنانچہ دیکھ لو! احمدیت نے کیسے نامساعد حالات میں سے گذر کر ترقی کی

Page 493

485 ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد ۷۵۰ تھی.لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر ہی آنے والوں کی تعداد ۷۵۰ سے زیادہ ہوتی ہے تم نے ہالینڈ میں ایک شاندار مسجد بنائی ہے.اس مسجد کی تصویر میں تم اپنے پاس رکھو.بلکہ مرکز کو چاہیئے کہ وہ ان تصاویر کوعورتوں میں پھیلائے اور پھر یہ تصویریں تم دوسرے مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے کہو تم ۱۹۵۳ء میں ہمیں مارنے کے لئے آئے تھے لیکن تمہیں کسی غیر ملک میں مسجد بنانے کی توفیق نہیں ملی.اگر ملی ہے تو اسی جماعت کی عورتوں کو ملی جسے تم کافر اور گمراہ کہتے ہو.حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے دنیا میں گھر بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بناتا ہے.ہم نے ہیگ میں مسجد بنالی ہے اور رسول اللہ کی اس حدیث کے مطابق ہمارے متعلق آپ کی شہادت موجود ہے کہ جنت میں اپنا گھر ہوگا.احمدی عورتوں کے معیار وصیت کے متعلق تجاویز :.۱۹۵۷ء میں جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت میں جوا۲.۲۲ ۲۳ مارچ کو منعقد ہوئی.عورتوں کے معیار وصیت کے متعلق بھی ایک اہم تجویز پیش ہوئی.تجویز بیتھی :.مجلس مشاورت ۱۹۳۹ء میں مردوں اور عورتوں کے معیار وصیت مقرر کرنے کا معاملہ نظارت بہشتی مقبرہ کی طرف سے فیصلہ کے لئے پیش کیا گیا تھا.جہاں تک مردوں کے معیار وصیت کا تعلق تھا یہ معاملہ اس مجلس میں حضرت امیر المومنین کے ارشادات و ہدایات سے صاف ہو گیا تھا لیکن عورتوں کے معیار وصیت کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا.اس تجویز کے متعلق حضور نے فرمایا تھا کہ:.” اب صرف عورتوں کا سوال رہ جاتا ہے.اس کے متعلق فیصلہ باقی ہے کہ ان کی جائیداد بالعموم گذارہ والی نہیں ہوتی.ان کے متعلق آیا کوئی تعین ہو یا نہ ہو.مجھے اس بارہ میں دونوں صورتوں میں نقص نظر آتا ہے.لیکن ابھی تک میرا نفس اس بارہ میں ایسا قانون نہیں بنا سکا جس پر میں مطمئن ہو سکوں.اس لئے اس پر غور کر لیا جائے.ہاں میں اس قدر سمجھتا ہوں کہ ان کے بارہ میں کوئی قید لگانا ے مصباح فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۱۳۷۶ الا زہار حصہ دوم صفحہ ۱۹۵-۲۰۵

Page 494

486 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے بالکل خلاف نہیں ہے.“ دوبارہ اس معاملہ کو ۱۹۵۷ء میں مجلس مشاورت کے فیصلہ کے لئے پیش کیا گیا.مجلس کار پرداز کی رائے یہ تھی کہ جائیداد پر وصیت کرنے والی عورت کے لئے معیار وصیت یہ ہو کہ وصیت اس کی جائیداد اور اس کی بود و باش اور حیثیت کے مطابق ہو.سب کمیٹی نے یہ سفارش کی کہ ضروری ہے کہ وصیت کرنے والی عورتوں کے لئے جائداد کا تعین کیا جائے.وہ عورتیں جن کی کوئی ماہوار آمد ہو وہ اپنی اس ماہوار آمد کی وصیت کریں گی خواہ وہ آمد تنخواہ کی صورت میں ہو یا الاؤنس کی صورت میں یا گزارہ کے لئے وظیفہ یا جیب خرچ ملتا ہو.لیکن وہ عورتیں جو اس قسم کی آمد نہیں رکھتیں ان کے لئے کم از کم جائیداد جس پر وصیت ہو سکے وہ ہمارے نزدیک پانچ سوروپے کی مالیت ہونی چاہیئے.اس میں ان کا زیور اور ان کا مہر اور نقد روپیہ بھی شامل ہوگا.اس قسم کی جائیدا در رکھنے والی موصیبہ پر لازم ہوگا کہ وہ اس جائیداد کا حصہ وصیت یکمشت یا بالاقساط جلد تر ادا کر دے.ان کے علاوہ جو عورتیں اس سے کم مالیت رکھتی ہوں وہ ایسی صاحب جائیداد نہیں سمجھی جائیں گی جو قابل وصیت ہو ان کے لئے بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے کی صورت وہی ہوگی جو رسالہ الوصیت کی شرط نمبر ۴ میں درج ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک صالح جس کی جائداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کرسکتا، اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھاوہ اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.“ لجنہ اماءاللہ نے اپنے نمائندہ کے ذریعہ یہ رائے پیش کی کہ عورتوں کے لئے جائداد کی تعین نہیں ہونی چاہیئے.جب مردوں کی وصیت کے لئے کوئی معیار نہیں تو عورتوں کے لئے بھی کوئی معیار نہیں ہونا چاہیئے.اگر عورتوں کے لئے جائداد کا کوئی معیار مقرر کر دیا گیا تو چونکہ بہت کم عورتوں کی اپنی جائیداد ہوتی ہے اس لئے موصیہ عورتوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی.فرمایا: حضور رضی اللہ عنہ کا ارشاد:.نمائندگان شوریٰ کی تقاریر سنے اور ان کی رائے معلوم کرنے کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے

Page 495

487 جہاں تک عورتوں کے لئے معیار وصیت کا سوال ہے میرے نزدیک یہ مسئلہ اس طرح حل ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے مہر کو معیار قرار دے لیا جائے.جس عورت کی کوئی آمد یا جائداد نہ ہو وہ اپنے مہر پر وصیت کرے.ساتھ وصیت پر اس کے خاوند کے بھی دستخط کرائے جائیں تا کہ جب وہ مہر ادا کرے تو وصیت کا حصہ وضع کر کے انجمن کو دے.اور اگر وہ بیوی سے مہر معاف کرائے گا تو وصیت کا حصہ وہ معاف نہیں کرائے گا اسے بہر حال انجمن کو ادا کرنا ہوگا.اسی ضمن میں حضور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دوستوں کو شریعت کے مطابق ورثہ میں عورتوں کا حصہ لازمی طور پر ادا کرنا چاہیئے.اسی طرح بیوہ عورتوں کے لئے بھی وصیت کرنا آسان ہو جائے گا.رہا غیر شادی شدہ عورتوں کی وصیت کا سوال تو جب تک ان کی شادی نہ ہو ان کے لئے یہی شرط ہے کہ ان کے پاس جو کچھ ہو خواہ اس کی مالیت کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو وہ اس کی ہی وصیت کریں لے لجنہ اماءاللہ کراچی کے دوسرے سالانہ اجلاس کی مختصر روئداد :.لجنہ اماء اللہ کراچی کا دوسرا سالانہ جلسہ ۱۷/ نومبر ۱۹۵۷ء کو احمدیہ ہال میں منعقد ہوا.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ لجنہ مرکز یہ ربوہ کی طرف سے بطور نمائندہ شریک ہوئیں.پہلا اجلاس ۱۰ بجے صبح زیر صدارت محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم نظم اور عہد نامہ کے بعد محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صدر لجنہ کراچی نے افتتاحی تقریر فرمائی.ان کے بعد استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ مرکز یہ ربوہ کا پیغام پڑھ کر سنایا.پھر بیگم شاہنواز صاحبہ نے لجنہ کراچی کی سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی.فرحت جبین اور امہ الوحید کے مضامین کے بعد محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ نے تقریر فرمائی اور لجنہ کی ترقی کے لئے مفید اور قابل قدر تجاویز پیش کیں.اسی اجلاس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور پیش گوئیوں کو مذاکرہ علمیہ کے رنگ میں پیش کیا گیا جس میں جمیلہ عرفانی صاحبہ اور شمس النساء خالد عرفانی صاحبہ نے حصہ لیا.پہلے اجلاس کے بعد دو گھنے کا وقفہ دیا گیا.لجنہ اماءاللہ کراچی کی طرف سے اس موقع پر مختلف چیزوں کے اسٹال لگائے گئے تھے.ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد دوسرا اجلاس دو بجے دو پہر ا الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۵

Page 496

488 کے بعد زیر صدارت محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد ثریا عبدالرحمن، امۃ القیوم بشیر احمد، ذکیہ عرفانی، فرخندہ بیگم صاحبہ اور نصرت عبدالمالک صاحبہ نے تقاریر کیں.اس اجلاس میں اشعار کا ایک پروگرام بھی پیش کیا گیا جس کے لئے شرط یہ تھی کہ صرف در نشین اور کلام محمود کے اشعار پیش کئے جائیں.بہنوں نے اس پروگرام کو دلچسپی سے سنا.اس میں دونوں گروپ برابر رہے.گروپ لیڈر فرحت بیگم اور حبیبہ بیگم تھیں.اس کے بعد محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے خطاب کیا.محترمہ صدر صاحبہ لجنہ کراچی نے استانی صاحبہ اور حاضر خواتین کا شکریہ ادا کیا.چندہ تحریک جدید اور دوسری تحریکات کی طرف توجہ دلائی.آخر میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے لجنہ کراچی کی ان کامیاب ممبرات کو انعامات اور سندات دیں جو لجنہ مرکزیہ کی طرف سے لئے گئے امتحانات میں کامیاب ہوئی تھیں.پانچ بجے دعا کے بعد جلسہ اختتام پذیر ہوا.لجنہ اماءاللہ کراچی کی تربیتی کلاس:.۱۹۵۷ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی نے پہلی بار ایک تربیتی کلاس کا انتظام کیا.یہ کلاس بارہ روزہ تھی.اس میں روز جناب مولا نا عبدالمالک صاحب اور مرزاعبداللطیف صاحب نے بیلچر دیئے.الوداعی پارٹی ۱۹۵۷ء میں صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ نائبہ صدر لجنہ اماءاللہ کراچی لا ہور تشریف لے گئیں.لجنہ اماءاللہ کراچی کی طرف سے انہیں الوداعی پارٹی دی گئی اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور ان کی جگہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کا مٹی کو نائب صدر لجنہ کراچی مقرر کیا گیا.ایک خصوصی تقریب :.مارچ ۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کراچی تشریف رکھتے تھے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بھی حضور کے ساتھ تشریف لے گئی تھیں.لجنہ اماءاللہ کراچی نے آپ کی آمد پر ایک ا الفضل ۲۴.نومبر ۱۹۵۷ء صفحه ۵

Page 497

489 خصوصی تقریب منعقد کی.محترمہ جنرل سکرٹری صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کے حسابات اور ریکارڈ کا معائنہ کر کے مندرجہ ذیل نوٹ لجنہ اماءاللہ کراچی کے رجسٹر پر تحریر کیا:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح موعود ھوالناصر قریباً ڈیڑھ سال کے بعد کراچی کی لجنہ اماءاللہ کے معائنہ کا موقعہ ملا ہے.گومیرے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کی رپورٹوں کے ریکارڈ اور رجسٹر وغیرہ دیکھتی لیکن ان کے جلسہ میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا اور مجھے اس امر سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ کراچی کی لجنہ اماءاللہ کا کام یقیناً پہلے سے زیادہ اچھا ہے اور لجنہ اماءاللہ کی مبرات کے دلوں میں اپنی لجنہ کو ترقی دینے کا جذبہ موجزن ہے.اگر سب بہنوں میں ایسی ہی امنگ رہی اور عزم صمیم کے ساتھ انہوں نے کام کیا تو یقیناً یہاں کی لجنہ اماء اللہ بہترین کام کرنے والی لجنہ قرار دی جاسکے گی مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوئی ہے کہ کراچی کی قریباً سب تعلیم یافتہ نمبرات لجنہ اماءاللہ کراچی کی روح رواں ہیں جبکہ دوسری لجنات میں یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ تعلیم یافتہ بہنیں کاموں میں کم حصہ لیتی ہیں.کالج سٹوڈنٹس کو کارآمد بنانے کے لئے انہوں نے بینگ وومن احمد یہ ایسوسی ایشن کا قیام کیا ہے.مجھے امید ہے کہ یہ ایسوسی ایشن اپنی ممبرات کو نہایت کارآمد وجود بنا کر لجنہ اماءاللہ کے کارکنوں میں اضافہ کرے گی.اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے.کراچی کی لجنہ اماءاللہ کو نصیحت کرتی ہوں کہ خدمت خلق کے کاموں میں بہت حصہ لیں.اس سال اجتماع کے موقعہ پر لجنہ اماءاللہ کراچی نے ربوہ کی غریب عورتوں کے لئے بارہ رضائیاں بھجوائی تھیں.فجزاکم اللہ احسن الجزاء خدمت خلق کا کام بلا امتیاز مذہب و ملت کرنا چاہیئے.کراچی میں رہتے ہوئے آپ کے لئے خدمت خلق کا بہت موقع ہے.اس طرح خدمت خلق کریں کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ خدمت خلق کا بے غرض جذ بہ جواحد یہ جماعت میں پایا جاتا ہے وہ اور کسی میں نہیں پایا جاتا.جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا.یہاں میں یہ نصیحت کرتی ہوں کہ اپنے میں اعلیٰ اخلاق پیدا کریں اور آپ کا مجسم وجود اسلام کا نمونہ ہو.

Page 498

490 اللہ تعالیٰ کراچی کی لجنہ اماء اللہ کی سب کارکنات کو احسن طریق پر کام کرنے کا موقع دے.آمین ثم آمین.والسلام خاکسار مریم صدیقہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ ۵۷ - ۳ - ۳ کراچی معتکف خواتین:.اس سال مسجد مبارک میں تمہیں خواتین معتکف ہوئیں لے چونکہ ان کا انتظام حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماء اللہ کے سپر دفرمایا تھا اس لئے لجنہ یہ خدمت سرانجام دیتی رہی.محترمہ بھا بھی زینب مرحومہ، محتر مہ رقیہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، محترمہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اور امۃ الوہاب صاحبہ اہلیہ عبداللطیف صاحب کو سالہا سال تک لجنہ مرکزیہ کی زیر ہدایت انتظام میں حصہ لینے کی توفیق ملی..مصباح کا کشیدہ کاری نمبر:- اس سال مصباح کا کشیدہ کاری نمبر شائع ہوا جونو مبر و دسمبر کے پر چوں پر مشتمل تھا.یہ نمبر کلیۂ ایم صادقہ میر صاحبہ آف گوجرانوالہ نے ترتیب دیا اور بہت پسند کیا گیا ہے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء:- احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ حسب معمول اس دفعہ بھی ۲۶.۲۷.۲۸ رفت / دسمبر کومنعقد ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر بزرگان سلسلہ کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.زنانہ جلسہ گاہ کے مختلف اجلاسوں میں مندرجہ ذیل بہنوں نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے:.ا الفضل ۲۵.اپریل ۱۹۵۷ء مصباح کشیدہ کاری نمبر نومبر.دسمبر ۱۹۵۷ء صفحه ا

Page 499

491 ا.حضرت سید نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی ۲.محترمہ بیگم صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کراچی محترمہ بیگم صاحبہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم پروگرام حسب ذیل تقاریر پر مشتمل رہا:.بعثت حضرت مسیح موعود کی غرض مکرمہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب بچے اور نظم وضبط چندہ کی اہمیت عورت کی ذمہ داریاں فرخندہ شاہ صاحبہ پرنسپل جامعہ نصرت سیده نسیم شفیع صاحبہ دہلوی مکرمہ امۃ المجید صاحبہ ایم اے اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹرمحمد عبد اللہ صاحب کوئٹہ محمدعبداللہ تقریر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی عورتوں کا نصب العین اسلامی تعلیم کی روشنی میں مکرمہ نصیرہ نزہت صاحبہ برکات احمدیت مکرمہ سعیده قاری صاحبہ احمدی عورتوں کی تعلیم کا مقصد حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ مدظلہ العالی محترمه حکمت صاحبہ آف سیالکوٹ اے تقریر قیام گاہ:.۱۹۵۷ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر قیام گاہ مستورات کا انتظام مندرجہ ذیل کارکنات کے ذمہ رہا:.نائبات شعب سیده نصیرہ بیگم صاحبه مکرمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ دختر ڈاکٹر فیض نظام علی صابر صاحب منتظمہ اجرائے پرچی مکرمہ منظور النساء معتبر صاحبہ مکرمہ سعیده احسن صاحبه سٹور و روشنی استانی ناصره رحمن صاحبه مکرمہ عابدہ شفیقہ صاحبہ له الفضل ۱۰-۱۴ جنوری ۱۹۵۸ء

Page 500

492 طبی امداد لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ مکرمہ زینب نرس صاحبہ، ہاجرہ نرس صاحبہ انتظام کارکنات مکرمه استانی سلیمہ بیگم صاحبه مکرمہ حلیمہ رحیم سیکنڈ امیر مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب مکر مہ امتہ اللہ عائشہ دہم مکرمہ واعظه صفائی و آب رسانی مکرمه استانی صابرہ رحمن صاحبه مکرمہ والدہ صاحبہ چوہدری محمد عبداللہ صاحب ( نیلا گنبد ) تقسیم سالن تقسیم روٹی مکرمه امة الحفیظ ثریا صاحبه مگر مهامه الحفیظ تاجدین صاحبه استقبال و ملاقات مکرمه صاحبزادی امته الجمیل صاحبہ مکرمہ امتۃ الرشید عطا محمد صاحبہ مکرمہ ہاجرہ محمد یوسف صاحبہ مکرمه امینہ بیگم صاحبہ عبدالکریم صاحب مکرمہ والدہ صاحبہ استانی صالحہ خاتون صاحبه نگران دوکانات صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ مکرمہ امة الحفیظ صاحبہ اہلیہ ریزرو خلیفہ اصلاح الدین صاحب استانی سلیمہ بیگم صاحبه مکر مد استانی امته الرحمن طیبه صاحبه منظمه قیامگاہ نصرت استانی سیدہ بیگم صاحبه مکرمہ استانی عائشہ بلقیس صاحبہ گرلز ہائی سکول بی اے.بی ٹی امۃ الرشید بی اے.بی ٹی منتظمہ قیامگاه جامعه مکرمه استانی سردار بیگم صاحبه نصرت احمدی عورتوں کی جرات اور دلیری کا ذکر :.فرمودہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ.۲۶ دسمبر کو حضور نے جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہوئے مردانہ جلسہ گاہ میں جو تقریر فرمائی اس میں حضور نے احمدی عورتوں کی جرات و دلیری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.ضلع جھنگ میں چنڈ بھروانہ

Page 501

493 اور منگلہ کے لوگ نئے احمدی ہوئے ہیں.وہاں کی ایک عورت یہاں آیا کرتی ہے.وہ جب بیعت کرنے کے لئے ربوہ آئی تو مہمان خانہ میں ٹھہری.رات کو اس کی بیٹی بھی آگئی.اس نے کہا.اماں تو نے مجھے کس قبیلہ میں بیاہ دیا ہے وہ تو احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کر رہے ہیں.میں بہتیری تبلیغ کرتی ہوں وہ سنتے ہی نہیں.اس کی ماں کہنے لگی.بیٹی تو میری جگہ آجا اور اپنے باپ اور بھائیوں کا کھانا پکا.میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کی تبلیغ نہیں سنتے.تو اب ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں کہ جو کہتی ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہماری تبلیغ کیسے نہیں سنتے.اس عورت کو پچھلے سال لجنہ اماءاللہ نے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کیا.نئی احمدی ہے اور جوش زیادہ ہے جوش میں آکر اس نے اردو میں تقریر شروع کر دی.تقریر اپنے لحاظ سے سے تو بہت عمدہ تھی لیکن چونکہ اردو نہیں جانتی تھی اس لئے لجنہ اماء اللہ کو اس سے التجا کرنی پڑی کہ بی بی تو پنجابی میں ہی تقریر کر ہم پنجابی سمجھ لیں گے.اس سال وہ چند ماہ قبل ربوہ آئی تو کالج چلی گئی.وہاں کوئی جلسہ ہور ہا تھا اور ایک بی.اے کی سٹوڈنٹ لڑکی تقریر کر رہی تھی.وہ لڑکی کچھ ہچکچا رہی تھی.یہ عورت اسے کہنے لگی.بیٹی تو ڈرتی کیوں ہے دلیری سے تقریر کر تو جس قوم کو خدا تعالیٰ نے ایسی بہادر عورتیں دی ہوئی ہیں اس کے مردوں کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے.مجھے یاد ہے ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران میں ضلع سیالکوٹ کی ایک عورت پیدل ربوہ پہنچی اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقہ سے کٹ چکا ہے اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے.اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں.اس وقت ایک فوجی افسر یہاں رخصت پر آیا ہوا تھا.اس کو میں نے ایک مقامی دوست کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر احمدیوں کی امداد کرے.اب دیکھو یہ کتنی بڑی ہمت ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اس وقت مرد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے.مگر وہ عورت پیدل سمبڑیال کی طرف گئی.وہاں سے گوجرانوالہ کی طرف آگئی اور پھر گوجرانوالہ سے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچی اور ہمیں جماعت کے حالات سے آگاہ کیا اور ہم نے یہاں سے ان کو امداد کے لئے آدمی بھجوائے.تو خدا تعالیٰ

Page 502

494 کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی علماء نے جلسہ کیا.پولیس اور گورنمنٹ ان کی تائید میں تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیوں کو بُرا بھلا کہا.اور پولیس نے بھی عوام کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف نعرے لگائے جس کی وجہ سے مولوی ثناء اللہ صاحب اور بھی دلیر ہوگئے.قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں بھینی بانگر ہے اس جگہ کی ایک عورت وہاں سے گذری.اس نے گالیاں سنیں تو کھڑی ہو گئی اور پنجابی میں بلند آواز سے کہنے لگی ” تیرے دادے داڑھی ہکیا تو مرزا صاحب نوں گالیاں کیوں دینا ایں کیونکہ اس وقت جماعت کو صبر وتحمل کی بار بار تلقین کی گئی تھی اس لئے جماعت کے جو دوست وہاں کھڑے تھے وہ اس عورت کے پیچھے پڑ گئے اور اسے کہنے لگے بی بی تو نہ بول.بعد میں پولیس نے اس عورت کو دھکے دے کر باہر نکال دیا.مجھے پتہ لگا تو میں نے جماعت پر بڑی خفگی کا اظہار کیا اور میں نے کہا.تم نے بڑی کمینگی کی کہ تم مرد ہو کر چپ ہو گئے.تمہیں تو اس موقعہ پر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا اور اس عورت پر کسی شخص کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پرانے زمانہ سے ہی جماعت میں ایسی دلیر اور مخلص عورتیں موجود رہی ہیں.کسی زمانہ میں یہ نمونہ ابتدائی مسلمانوں میں پایا جاتا تھا.لیکن اب اس کا نمونہ احمدیت جو حقیقی اسلام ہے پیش کر رہی ہے.اس نمونہ کو یا در کھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارے اندر ایسے لاکھوں نمونے پیدا کرے.“ اے ۱۹۵۷ء میں رپورٹ بھیجوانے والی لجنات :.۱۹۵۷ء میں مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے رپورٹ بھجوانے میں کوئی ناغہ نہیں ہوا.ا.ربوہ ۲.ملتان چھاؤنی ۳.کراچی ۴.گوجرانوالہ ۵- گوجر خان.لاہور شہر دوسرے نمبر پر وہ بجنات ہیں جن کی طرف سے ایک یا دونانے ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:.ا.احمد نگر ۲.جڑانوالہ ۳.مونگ ضلع گجرات ۴.محمد آباد اسٹیٹ ا الفضل ۸.جنوری ۱۹۵۸ء صفحه ۴

Page 503

495 ۵.حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ۶- کبیر والا ضلع ملتان ان کے علاوہ مندرجہ ذیل بجنات کی طرف سے بہت کم رپورٹیں موصول ہوئیں:.ا.چنیوٹ ۲.جھنگ ۳.لائل پور شہر ۴.گھسیٹ پورہ ۵.گھیر ۶.کھاریاں.لالہ موسیٰ - چک ۹ شمالی شرگودها۹ - بیر ۱۰۰ - چک ۹ پنیا را چک ۱۵۲ شمالی ۱۲.گھوگھیاٹ ۱۳.ملتان شہر ۱۴.اوکاڑہ ۱۵.سیالکوٹ شہر ۱۶.مانگا چانگریاں ۱۷.کلاسوالہ ۱۸.سمبڑیال ۱۹.شیخوپورہ -۲۰ - چکوال ۲۱.جہلم ۲۲.حیدرآباد سندھ ۲۳ کنری ۲۴ - گوٹھ غلام محمد ۲۵.قصور ۲۶.نوشہرہ چھاؤنی ۲۷.ایبٹ آباد ۲۸.پشاور ۲۹.کوہاٹ ۳۰.واہ چھاؤنی ۳۱.راولپنڈی ۳۲.وزیر آباد۳۳.چک نمبر ۸۸ منٹگمری ۳۴ منٹگمری اے استقبال :.۱۲ جون ۱۹۵۷ء کو چناب ایکسپریس کے ذریعہ جرمن نومسلم مسٹر مین معہ اہلیہ ربوہ آئے جس پر چند مبرات لجنہ مرکز یہ ہار لے کر اسٹیشن پر گئیں اور لجنہ مرکزیہ کی طرف سے ان کی اہلیہ کا استقبال کیا گیا.ہے نئی لجنات کا قیام:.۱۹۵۷ء کے دوران مندرجہ ذیل نئی لجنات قائم ہوئیں:.ا.چنڈ بھروانہ ضلع جھنگ ۲.ٹھٹھہ شیرے دا ضلع جھنگ ۳.ٹھٹھہ سندرانہ ضلع جھنگ ۴.چک نمبر ۶ ۶۴ ضلع لائل پور ۵ - عالم گڑھ ضلع گجرات ۶.سرو کے ضلع گجرات..کارہ دیوان سنگھ ضلع گجرات ۸ ٹھٹھہ جوئیہ ضلع سرگودھا -۹- چک نمبر ۱۵۲ شمالی ضلع سرگودھا ۱۰.جو ہر آباد ضلع سرگودھا ۱۱.رتیاں ضلع شیخو پور ۱۲۰.گھیر ضلع گجرات ۱۳.اڑ ضلع گجرات سالانہ رپوٹیں:.لے ولے رجسٹر لجنہ مرکزیہ

Page 504

496 مندرجہ ذیل لجنات کی طرف سے سالانہ رپورٹیں موصول ہوئیں:.ا.ربوہ ضلع جھنگ ۲.ظفر آباد اسٹیٹ سندھ ۳.چٹا گانگ ۴.کراچی ۵- چک نمبر ۲ ٹی.ڈی.اے ضلع سرگودھا ۶ - قادیان ۷.حیدر آباد سندھ ۸.گولیکی ضلع گجرات ۹.سیالکوٹ شہر ۱۰.حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ۱۱ گجرات ۱۲.کوئٹہ ۱۳.حلقہ پورن نگر ضلع سیالکوٹ ۱۴.ظفر آباد فارم سندھ ۱۵.ابیٹ آباد ۱۶.پشاور ۱۷.کھاریاں ۱۸.راولپنڈی ۱۹.شیخ پور ۲۰.گھوگھیاٹ ۲۱.حلقہ محمد نگر لا ہور ۲۲.کبیر والہ ضلع ملتان ۲۳.ملتان چھاؤنی ۲۴.جہلم ۲۵- گوجرخان ۲۶.تہال ۲۷.گوجرانوالہ ۲۸.گوجرہ ۲۹.مونگ ضلع گجرات ۳۰.دوالمیال ۳۱.کوہاٹ ۳۲.لائل پور۳۳.احمد نگر ۳۴.جڑانوالہ ۳۵.لاہور ۳۶.سرگودھا دورہ جات :.۱۹۵۷ء میں مندرجہ ذیل لجنات کا دورہ کروایا گیا:.ا.چک منگلا نمبر ۱۶۸ اضلع سرگودھا ۲.چنڈ بھروانہ ضلع جھنگ ۳.ٹھٹھہ شیرے دا ضلع جھنگ ٹھٹھہ سندرانہ ضلع جھنگ ۵- ٹھٹھہ جوئیه ۶ - چک نمبر ۱۵۲ فتح پور ضلع گجرات ۷.کھاریاں ۸.گھیر، ضلع گجرات -۹ - عالم گڑھ ضلع گجرات ۱۰.اڑہ ضلع گجرات ۱.نورنگ ۱۲.نصیر ۱۳۰.جہلم شہر ۱۴.تہال ۱۵ - چک ۶۸ ضلع لائل پور ۱۶ - چک خانکے ۱۷.شیخو پوره ۱۸.جڑانوالہ ۱۹.گھسیٹ پوره ۲۰.چک نمبر ۸۸ شمالی سرگودھا ۲۱- چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودها ۲۲- چک نمبر ۹۹ شمالی سرگودھا۲۳- چک نمبر ۱۷۸ شعبہ مال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ:.سال رواں یعنی ۵۷ - ۱۹۵۶ء میں ۲۲ الجنات کی طرف سے چندہ وصول ہوا.گویا گذشتہ سال سے چندہ دہند لجنات کی تعداد میں چالیس کا اضافہ ہوا.سال رواں کی کل آمد ۱۶۸۹۴ روپے اور کل خرچ ۱۵۸۵۵ روپے ہوا.گویا ۱۰۳۹ روپے کی بچت ہوئی.ے رجسٹر کارگذاری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ

Page 505

۲۱۹۴ ۳۸۳۷ 497 اس آمد و خرچ کی تفصیل مندرجہ ذیل تھی :.اصل آمد۵۷-۱۹۵۶ء اصل خرچ ۵۷-۱۹۵۶ء.عمله دفتر سائر اخراجات ۵۴۱۹۵۳ ۲۷۰ چندہ ممبری چندہ ناصرات متفرق آمد ۲۴۴۱ اخراجات شعبہ جات آمد نصرت انڈسٹریل سکول ۹ ۱۱ ۳۳۶۴ نصرت انڈسٹریل سکول رساله مصباح آمد نصرت جنرل سٹور کل آمد تعزیتی قرار دادیں:.۵۴۰۷ ۲۶۴ رساله مصباح اخراجات سالانہ ۳۹ ۷۲۶۷ میزان کل اخراجات..•...۱۴۶۸ ۳۲۵۱ ۵۵۸۵ ۳۴۴ ۱۶۶۰۹ اس سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بعض ممتاز بزرگ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی رحلت فرما کر مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون.ان کی وفات پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں.جن میں ان کی نمایاں خدمات اور صفات کا اعتراف کیا گیا اور ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کی گئی چنانچہ ۱.۱۳ جنوری ۱۹۵۷ء کو صبح ساڑھے چھ بجے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے انتقال فرمایا.حضور علیہ السلام کو آپ بہت عزیز تھے.اکثر انہیں ہمارے مفتی صاحب یا محب صادق کہہ کر یا د فرماتے تھے.اخبار بدر کے ایڈیٹر تھے.بہت سی اہم دینی خدمات کا موقع ملا.خلافت ثانیہ میں آپ کو امریکہ اور انگلستان جا کر تبلیغ کرنے کی بھی توفیق حاصل ہوئی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اس موقعہ پر تعزیتی قرارداد پاس کی جس میں ان کے مندرجہ بالا اوصاف اور دینی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا.اے ۲- ۵/ دسمبر ۱۹۵۷ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی ، جماعت کے اولین صحافی

Page 506

498 اور نامور مورخ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان نے حیدرآباد دکن ( انڈیا ) میں انتقال فرمایا.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ۷ ارجنوری ۱۹۵۸ء کو حضرت سیّدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا کی زیر صدارت حضرت عرفانی صاحب کی وفات پر تعزیتی قرار داد پاس کی لا ۳ ۳۱ دسمبر ۱۹۵۷ء کو خالد احمدیت محترم ملک عبدالرحمن صاحب ایڈوکیٹ امیر جماعت احمد یہ گجرات انتقال فرما گئے.انا للہ وانا اليه راجعون محترم خادم صاحب مرحوم سلسلہ احمدیہ کے پر جوش ، کامیاب مناظر اور ممتاز عالم تھے.خدا تعالیٰ نے تحریر و تقریر کا خاص اور منفر د ملکہ عطا فرمایا تھا.اس ملکہ کو آپ نے عمر بھر سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کیا.لجنہ مرکزیہ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۷ جنوری ۱۹۵۸ء میں آپ کی وفات پر بھی تعزیتی قرار داد پاس کی اور آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی وفات کو ایک قومی صدمہ قرار دیا ہے ان کے علاوہ مندرجہ ذیل بزرگوں اور خواتین کی وفات پر بھی لجنہ مرکزیہ نے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں:.ا.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۲.حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے.حضرت پروفیسر علی احمد صاحب ایم.اے بھا گلوری (صحابی ) آپ محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے والد ماجد تھے.۴ ۴.مولوی محمد احمد خاں صاحب ابن محترم خاں میر افغان ( آپ کو قبائلی علاقہ میں شہید کر دیا گیا تھا.۵.۵- استانی محمد بی صاحبہ مولوی فاضل - تاریخ وفات ۳ / مارچ ۱۹۵۷ء (ان کا تفصیلی ذکر دفتر لجنه کی بنیا درکھنے والی صحابیات میں آچکا ہے ) له مصباح فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۲ مصباح فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۲۵ سے تاریخ وفات ۹.فروری ۱۹۵۷ء ۴.تاریخ وفات ۲۲.جون ۱۹۵۷ء 1 رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ ۵ تاریخ وفات ۲۹.جون ۱۹۵۷ء

Page 507

499 محترمه بخشی صاحبہ - تاریخ وفات ۱۴ جنوری ۱۹۵۷ء.بہت خوبیاں رکھتی تھیں.دارالخواتین میں لاوارث اور ضعیف عورتوں کی خدمت کرتی تھیں.باوجود غریب اور عیالدار ہونے کے محنت کر کے گذارہ کیا اور کبھی سوال نہ کیا.جلسہ سالانہ پر بھی رات دن حاضر رہ کر خدمت کرتیں لے لے رجسٹر کارروائی لجنہ مرکزیہ

Page 508

500 ۱۹۵۸ء حضرت سیدہ ام ناصر کی وفات لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدارت کے لئے حضرت مریم صدیقہ صاحبہ کا انتخاب پہلی سالانہ رپورٹ کی اشاعت اب ہم لجنہ اماء اللہ کے چھتیسویں سال میں داخل ہو جاتے ہیں.اس سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک واقعہ تمام جماعت احمدیہ کے لئے اور بالخصوص لجنہ کے لئے المیہ کی حیثیت رکھتا ہے.یعنی لجنہ اماء اللہ کی بزرگ صدر حضرت سیدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا ( جو متواتر ۳۶ سال تک لجنہ کی صدرر ہیں) کی المناک وفات جس نے احمدی مستورات کو گہرے غم واندوہ میں مبتلا کر دیا.اس سال کا دوسرا نہایت اہم واقعہ لجنہ مرکزیہ کے صدر کا انتخاب ہے جس کے نتیجہ میں لجنات کی متفقہ رائے سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر کے عہدہ پر فائز ہوئیں اور اس طرح لجنہ اماءاللہ کی زندگی میں ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوا جو نہایت مبارک ثابت ہوا.اور جس میں اس کا ہر قدم ترقی کی طرف تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا.عہد یداران مرکز یه ۱۹۵۸ء: ۱۹۵۸ء کے لئے مندرجہ ذیل مرکزی عہدیداران کا تقرر عمل میں آیا :.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا جنرل سیکرٹری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نائب جنرل سیکرٹری سیده نصیرہ بیگم صاحبہ

Page 509

501 سیکرٹری تعلیم وتربیت نائب سیکرٹری تعلیم نائب سیکرٹری تربیت سیکرٹری خدمت خلق محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب مکرمہ صفیہ ثاقب صاحبہ مکرمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ خادم حضرت جنرل سکرٹری صاحبہ لجنہ اماءاللہ سیکرٹری مال استانی میمونه صوفیه صاحبه سیکرٹری نمائش بیگم مرزا حفیظ احمد صاحب نائب سیکرٹری امتة المنان قمر صاحبه سیکرٹری دستکاری کلثوم با جوه صاحبه سیکرٹری مشن برائے بیرون پاکستان محترمہ بیگم صاحبه مرز امبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ نائب سیکرٹری مشن برائے بیرون پاکستان مکرمہ اہلیہ صاحبہ صوفی مطیع الرحمن صاحب محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبه انسپکٹس سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ خاکسارامة اللطیف مدیره رسالہ مصباح مکرمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ سیکرٹری اصلاح وارشاد مکرمہ امۃ الرشید شوکت صاحبه حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کا انتقال پر ملال:.اس سال کا انتہائی المناک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہو حضرت مصلح موعود خلیفة لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حرم اول اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ ماجدہ اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدر حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ کا انتقال پر ملال ہے.آپ نے ۱۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء بروز جمعرات صبح چھ بجے مری میں وفات پائی.انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت سیدہ مرحومہ کا نام محمودہ بیگم تھا.آپ کا وجود خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان تھا.آپ کے ذریعے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی تری نسلاً بعيدًا اور إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٍ لَّكَ ( یعنی ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو نافلہ ہوگا یعنی

Page 510

502 لڑکے کا لڑکا ) پوری ہوئی.آپ کا رشتہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تجویز فرمایا تھا.چنانچہ حضور نے ۱۸۹۵ء میں (جب حضرت مصلح موعود صرف سات برس کے تھے ) آپ کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے نام مکتوب میں اس رشتہ کے ابتدائی خیال کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.ایک مرتبہ میرے دل میں خیال آیا تھا کہ اب میرے یہ چھوٹے تین لڑکے ہیں.محمود (ہفت ساله) بشیر ( تین سالہ) شریف ( پانچ ماہ ).بہتر ہو کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے قریب بلوغ ہوکر بشرطیکہ جانبین کی اولاد میں اللہ تعالیٰ کا فضل خیر و عافیت رکھے آپ کی کسی لڑکی سے کوئی لڑکا منسوب ہو.یہ خیال صرف میرے اس نیک ظن سے پیدا ہوا تھا جو مجھے آپ کے باطنی اخلاص اور محبت پر ہے...اس خیال کو ابھی قابل ذکر نہ سمجھا جائے کہ خود بچے بہت کم سن ہیں.ابھی بلوغ تک زمانہ پڑا ہے.وہی ہوگا جو خدا کی طرف سے مقدّ راور اس کی نظر میں پسندیدہ ہے ! حضور کی اس مبارک تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ کے رشتے کا ابتدائی خیال خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں پیدا ہوا.یہ خیال چونکہ خدا تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ قرار پایا.لہذا اکتوبر ۱۹۰۳ء میں اس نے عملی صورت اختیار کی.یعنی آپ کی شادی حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ہوگئی اور اس طرح قریباً ۶ ۵ سال تک آپ کو حضور کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں.جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت وجود بھی شامل ہے جو آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں.محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ بھی آپ کی صاحبزادی ہیں.جو ایک لمبے عرصہ سے بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ اہم دینی خدمات بجالا رہی ہیں.حضرت سیّدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ آپ لجنہ اماءاللہ کے یوم تاسیس سے لے کر تا وفات اس کی صدر رہیں اور متواتر ۳۶ سال اتک اس عہدہ پر فائز رہ کر اہم دینی اور جماعتی خدمات بجالاتی رہیں.آپ بڑی سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھیں.تقوی شعار، باوقار، مخلص اور سلسلہ الحکم ۱۴ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۷

Page 511

503 احمدیہ کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے والی تھیں.چنانچہ ۱۹۱۳ء میں جبکہ اس وقت کے نازک حالات کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک اخبار (الفضل) کے اجراء کی ضرورت به مدت محسوس فرمائی تو آپ نے اس اہم دینی اور جماعتی ضرورت کے لئے اپنا زیور پیش کر دیا.حضرت مصلح موعود آپ کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح ( حضرت ) خدیجہ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنوئیں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں.اس میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اسی وقت لا ہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے.یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا اور میرے لئے تو اس کا ہر ایک پرچہ گونا گوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے.بارہا وہ مجھے جماعت کی وہ حالت یاد دلاتا ہے جس کا مستحق نہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب تھا نہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا ہے.وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اس وقت تک میں نے صرف ایک انگوٹھی بنوا کر دی ہے، اُن کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے.اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کر دوں تو اُن کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے.اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا.اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا.کیا ہی کچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے.اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے.لوگ اس دوکان کو تو یا د رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا جس نے مرکر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا.میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر

Page 512

504 اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کونسا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جا سکتا.قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نوراللہ مرقدہ نے حضرت سیدہ ام ناصر کی وفات پر جومضمون رقم فرمایا اس میں آپ نے مرحومہ مغفورہ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ نہایت ملنسار ، سب کے ساتھ بڑی محبت اور کشادہ پیشانی سے ملنے والی در حقیقتاً حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے گھر کی رونق تھیں اور حضرت اُم المومنین کی وفات کے بعد جماعت کی مستورات کا گویا وہی مرکز تھیں.بہت بے شر طبیعت پائی تھی.ان کے وجود سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی.اور ان کا وجود ساری عمر اسی نوع کی معصومیت کا مرکز بنا رہا.نیکی اور تقویٰ میں بھی مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا.غالبا یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ سیدہ ام ناصر کو جو جیب خرچ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا تھا اسے وہ سب کا سب چندہ میں دے دیتی تھیں اور اولین موصوں میں سے بھی تھیں..یہ ان ہی کی نیک تربیت کا اثر تھا کہ ان کی اولا دخدا کے فضل سے نمازوں اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتی ہے...حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی نے آپ کے متعلق تحریر فرمایا :.”انہوں نے شادی کے بعد اس گھر کو اپنا گھر اور ہم لوگوں کو اپنے بہن بھائی سمجھا.ایک گھڑی کو بھی محبت کے بغیر ان کا سلوک یاد نہیں.ان کی سعید فطرت اور اس پر حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب ( حضرت خلیفہ امسیح الثانی) کی تربیت، گھر کا مبارک ماحول، نیک نمونہ تھا.جوسونے پر سہا گہ ہو گیا تھا.لوگ کہتے ہیں کہ دو برتن بھی ایک جگہ ہوتے ہیں تو کھٹک جاتے ہیں مگر ہم تو ایک بار نہ کھٹکے تھے.مجھ سے جو محبت تھی وہ آخر دم تک نبھائی حضرت مسیح موعود سے محبت اور حضرت اماں جان سے بھی خاص تعلق تھا.لحاظ ، شرم و حیا اور صبر ورضا ان کی خصوصیات میں سے تھیں.حضرت مسیح موعود کی خدمت کی بہت خواہش رہتی تھی.مجھے یاد ہے زیادہ بے تکلف نہ تھیں.مگر وضو فرمانے لگتے تو لوٹا اٹھا کر پانی ڈالنے لگتیں.غرض اس طرح چاہتی تھیں کہ کوئی کام (حضور کا) الفضل ۴.جولائی ۱۹۲۴ء صفحه م الفضل ۷.اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۵۸

Page 513

505 کروں.....دعاؤں میں بے حد شغف تھا.بہت دعائیں کرنے والی تھیں.خدا کے فضل سے اوپر تلے اللہ تعالیٰ نے بیٹے بھی دیئے اور بیٹیاں بھی.مبارک زندگی تھی.مبارک انجام ہوا.! حضرت سیدہ ام ناصر الجنہ اماءاللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں.ابتدائی چودہ ممبرات میں آپ کا نام یوں درج ہے (۳) حضرت سید محمودہ بیگم حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہے لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد سب ممبرات نے مل کر مشورہ کیا اور حضرت سیدہ محمودہ بیگم (حضرت سیدہ ام ناصر) کو امیر لجنہ اماءاللہ منتخب کیا ہے لجنہ اماءاللہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ سوائے دو سال کے جبکہ آپ بیماری کی وجہ سے رخصت پر تھیں آپ ہی لجنہ اماءاللہ کی صدرر ہیں.گود نیاوی لحاظ سے آپ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن قرآن کریم اور دینی تعلیم پر عبور حاصل تھا.چنانچہ سینکڑوں لڑکیوں کو آپ نے قرآن مجید پڑھایا.جیسا کہ لجنہ اماءاللہ کی سب سے پہلی رپورٹ کے مندرجہ ذیل الفاظ سے ظاہر ہے :.وو دو درس گا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے اندر ہیں.اول والدہ ناصر احمد صاحب اہلیہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی.ان کے پاس چھ سات لڑکیاں با قاعدہ قرآن شریف ،عربی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھتی ہیں.“ آپ مضمون بھی بھتی رہی ہیں.چنانچہ عورتوں کے سب سے پہلا رسالہ احمدی خاتون میں جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے جاری فرمایا تھا کے اکثر پرچوں میں آپ کے مضامین نظر آتے ہیں.سلسلہ کے لئے ہر مالی قربانی میں آپ کا نام صف اول میں ہوتا تھا.مسجد برلن کے لئے آپ کا چندہ دوسو روپے تھا.ا الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحہ ۷۳ احمدی خاتون سلسله الجدید جلد نمبر ا صفحه 4 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۱۲۸ ۵ الحکم ۲۱.فروری ۱۹۲۳ء صفحه ۷ ۲.

Page 514

506 تحریک جدید میں شامل تھیں اور پہلے انیس سالہ دور میں آپ کا چند ۲۷۳۲۰ روپے تھا.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ مستورات کے انتظام کی نگرانی فرماتیں اور مہمانوں کے آرام کا خیال رکھتیں.لجنہ اماء اللہ کے اکثر اجلاس آپ کی صدارت میں ہی منعقد ہوتے.آپ مفید مشورے دیتیں.اسی طرح جلسے بھی اکثر آپ ہی کی صدارت میں منعقد ہوا کرتے تھے.خلافت جو بلی کے موقعہ پر جب صحابیات نے لوائے احمدیت کے لئے سوت کا تا تو آپ نے بھی اس میں حصہ لیا ہے المصلح الموعود حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ۱۹۵۳ء میں عورتوں کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے زائد آمدنی پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک دوائی بنا کر فروخت کی اور اس کی آمد اشاعت اسلام کی خاطر دی.حضرت سیدہ ام ناصر کوسب سے بڑا اعزاز یہ حاصل ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں شادی ہو کر دار مسیح موعود میں آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا شرف حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت قریب سے دیکھا.آپ کی با تیں سنیں اور یاد رکھیں اور آپ سے تربیت حاصل کی.پھر حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حرم اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ ہونے کا فخر بھی آپ کو حاصل ہے.آپ کی اولاد میں سے محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے قادیان میں بھی اور پھر ربوہ میں بھی لجنہ اماءاللہ کی اہم خدمات سرانجام دی ہیں.آپ کی دوسری صاحبزادی محترمہ سیدہ امتہ العزیز صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ لاہور کی حیثیت سے دینی خدمات بجالا رہی ہیں.آپ کے صاحبزدگان میں سے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الا علی تحریک جدید، محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب سلسلہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.وفات کے وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ محلہ (جابہ) میں تھے.مرحومہ کی تشویشناک علالت کی اطلاع پاکر حضور مری تشریف لے گئے.لیکن حضور کی تشریف آوری سے قبل مرحومہ وفات پاچکی تھیں.ساڑھے تین بجے دوپہر مری میں حضور نے نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین صفحہ ۶ -۲۱ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحه ۴۵۱

Page 515

507 جنازہ ربوہ روانہ ہوا.اگلے روز صبح سوا سات بجے حضور نے مقبرہ بہشتی کے میدان میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ کم وبیش چار پانچ ہزار احباب جو ملک کے طول وعرض سے تشریف لائے تھے شامل ہوئے.جس کے بعد حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے مزار کے قرب میں جانب غروب آپ کا تابوت سپر د خاک کر دیا گیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں آپ کو بلند درجات عطا فرمائے اور آپ کی اولاد کا خود حافظ و ناصر ہو.آمین تعزیتی قرار داد: حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی وفات کے المناک حادثہ پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مندرجہ ذیل تعزیتی قرارداد پاس کی:.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا یہ غیر معمولی اجلاس حضرت سیدہ ام مرزا ناصر احمد صاحب حرم اول حضرت خلیفتہ اسیح الثانی وصدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی وفات حسرت آیات پر گہرے رنج و غم اور دلی حزن و ملال کا اظہار کرتا ہے.حضرت سیدہ مرحومہ کا وجود خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان تھا اور آپ کو کئی امتیازی شرف حاصل تھے.آپ حضرت ام المومنین کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بہو اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی حرم اول تھیں.حضرت سیدہ مرحومہ بڑی سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک ،تقویٰ شعار، باوقار، مخلص اور سلسلہ احمدیہ کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے والی اور اسی طرح لجنہ اماء اللہ کے کاموں اور اجلاسوں میں باوجود آخری عمر میں ناسازی، طبع اور کمزور ہونے کے با قاعدگی کے ساتھ شامل ہوتی تھیں.تمام روحانی اور جسمانی عزیزوں کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک روا رکھتی تھیں.نہایت درجہ رنج اس بات کا ہے کہ لجنہ مرکز یہ آپ کے مبارک وجود سے محروم ہوگئی ہے.حضرت سیدہ مرحومہ کا انتقال ایک جماعتی صدمہ اور قومی نقصان ہے.ہم ممبرات لجنہ اماءاللہ مرکز یہ تمام خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صاحبزدگان وصاحبزادیوں سے گہری ہمدردی اور دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتی ہیں کہ وہ حضرت سیدہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے غمگین اورسوگوار قلوب کو آپ

Page 516

508 سہارا بخشے اور حضرت سیدہ مرحومہ کی وفات سے جو خلاء لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں واقع ہوا ہے اسے آپ ۰۰ اپنے فضل وکرم سے پر فرمائے.آمین ثم آمین.“ تعزیتی قرار دادیں:.حضرت سیّدہ ام ناصر رضی اللہ عنہ کی وفات پر جماعت کی قریباً تمام تنظیموں اور اداروں نے تعزیتی قرار دادیں پاس کیں.مندرجہ ذیل مقامات کی بجنات اماءاللہ کی قرارداد میں بھی شائع ہوئیں:.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ لے کراچی 1 کنری 1 جہلم سے ننکانہ کے ملتان چھاؤنی سے راولپنڈی کے گجرات 2 ناظم آباد کراچی سے دار الرحمت وسطی حلقہ نمبرا ۴ احمد نگر ۵ پشاور ۵ گوجرانواله ۵ سیالکوٹ ۵ ا رجسٹر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۶.اگست ۱۹۵۸ء ا الفضل ۵ اگست ۱۹۵۸ء الفضل ۷.اگست ۱۹۵۸ء الفضل ۸ - اگست ۱۹۵۸ء ۵ الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۸ء

Page 517

دار الرحمت وسطی حلقہ نمبر ۲ ۱ جڑانوالہ ! جھنگ 1 عارف والہ 1 کوئٹہ ! 509 نبی سر روڈ اے قادیان 1 واہ کینٹ کے لائکپور سے لاہور کے محمد آباد داسٹیٹ سے حلقہ اسلام آباد کوئٹہ ۳ چک نمبر ۴۹۲ ضلع جھنگ سے تخت ہزارہ سے فتح پور سے ڈھاکہ سے گھوگھیاٹ ڈرگ روڈ کراچی ہے ممبران سٹاف و طالبات جامعہ نصرت ربوه ۵ نصرت گرلز ہائی سکول ربوه ۵ ام الفضل ۱۳ اگست ۱۹۵۸ء الفضل ۱۶.اگست ۱۹۵۸ء الفضل ۲۱ اگست ۱۹۵۸ء مصباح ستمبر ۱۹۵۸ء ۵ مصباح اکتوبر ۱۹۵۸ء

Page 518

510 ایک اہم خطبہ جمعہ:.۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۸ء کو حضرت خلیفہ اسی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ مردوں کی طرح خلیفة المسیح عورتوں کے لئے دین سیکھنے کے مواقع ہمیں مہیا کرنے چاہئیں کیونکہ ان میں بھی اخلاص کے بڑے بڑے قابل قدر نمونے موجود ہیں.حضور نے فرمایا:.”جمعہ اسلام کے نہایت اہم ارکان میں سے ہے.قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے.اذا نودى الصلواة من يوم الجمعة فاسعو الى ذكر الله.یعنی جب جمعہ کی اذان ہو تو تم جلدی جلدی باقی کام چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لئے چلے جایا کرو.حقیقت یہ ہے کہ نماز جمعہ مسلمانوں کے لئے مدرسہ کے طور پر ہے.اس میں لوگ امام سے مختلف باتیں سنتے ہیں جن میں انہیں دین کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.رسول کریم علیہ کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ مدینہ میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ قادیان میں رہتا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی عورتوں میں بھی تقریر فرمایا کرتے تھے جس طرح حضرت رسول کریم ﷺ بھی بھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ مسیح الا ول بھی عورتوں میں ہر تیسرے دن درس دیا کرتے تھے.اب ہماری باہر کی جماعتیں درس القرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو زیادہ عالم ہیں اور نہ مبلغ ہیں.اس لئے عورتوں کو اسلام نے ہدایت دی ہے کہ وہ نماز جمعہ میں شامل ہوا کریں.مجھے یہ بات سن کر نہایت افسوس ہوا کہ ہزارہ کے مبلغ نے مجھ سے ذکر کیا کہ صوبہ سرحد میں عورتیں جمعہ میں نہیں جاتیں کیونکہ ان کے مرد کہتے ہیں کہ ہم خان ہیں ہماری اس میں بہتک ہوتی ہے.لیکن اسلام کا رتبہ خانوں اور پٹھانوں سے بھی بڑا ہے لیکن اگر وہ بار بار دین کی باتیں سنتی رہیں تو جب ایک جانور بھی بار بار سن کر ایک بات سمجھ لیتا ہے تو عورت تو آخر انسان ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے بڑا روشن دماغ دیا ہوا ہے.اگر وہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں بار بار سنے گی تو وہ باتیں اسے یاد ہو جائیں گی اور وہ پکی مسلمان ہو جائے گی.لیکن اگر وہ دین کی باتیں بار بار نہیں سنے گی تو اس کا سلام پختہ نہیں ہوگا وہ کچا رہے گا اور وہ موقعہ پر پوری طاقت نہیں دکھا سکے گی.لیکن جو عورتیں اسلام کو سمجھ جاتی ہیں وہ بعض دفعہ اپنے ایمان میں اتنی پختہ ثابت ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی

Page 519

511 ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تو اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.مگر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایک ان پڑھ عورت آئی اور کہنے لگی کہ حضور میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے آپ دعا کریں کہ وہ پھر مسلمان ہو جائے آپ نے فرمایا تم اسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا کی باتیں سنا کرے.اس لڑکے کوسل کی بیماری تھی اور اس کی والدہ اسے قادیان میں حضرت خلیفہ اسیح اول کے پاس علاج کروانے لائی ہوئی تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے.لیکن عیسائیت اس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اس کے دل پر اثر ہونے لگا تو اس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ جاؤں ایک رات وہ ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا جہاں عیسائیوں کا مشن تھا.جب اس کی ماں کو پتہ لگا تو وہ راتوں رات پیدل بٹالہ گئی اور اسے پکڑ کر قادیان واپس لائی.مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ عورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں، مجھے اسلام پیارا ہے.میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ ایک دفعہ مسلمان ہو جائے پھر بے شک مرجائے.مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس کی یہ التجا قبول کی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد مر گیا.تو بعض عورتیں بعض مردوں سے بھی زیادہ اسلام میں پکی ہوتی ہیں.مرد بعض اوقات کمزوری دکھا جاتے ہیں مگر عورتوں میں بڑی ہمت ہوتی ہے.افریقہ سے ایک عورت آئی.وہ ۳۵ سال کے بعد وطن واپس آئی تھی.وہیں اس کا خاوند فوت ہو گیا تھا.واپس آئی تو اس نے مجھے بتایا کہ میری یہاں ایک بہن ہے.اس نے کہا کہ میری لڑکیاں ہیں ان سے اپنے بیٹوں کی شادی کر دو.میں نے کہا.ان کولٹر پچر دو تا کہ وہ اس کا مطالعہ کریں اور انہیں احمدیت سے واقفیت ہو جائے تو پھر بے شک شادی کر دینا.اس پر اس نے کہا.اگر غیر احمدی لڑکی سے شادی کرنا درست نہیں تو میں انہیں چھوڑ دیتی ہوں.مجھے ان کو چھوڑ دینا منظور ہے.حالانکہ وہ ۳۵ سال کے بعد واپس آئی تھی اور اپنی بہن سے ملی تھی.میں نے کہا تم جواب نہ دو انہیں لٹریچر دو اور کہو وہ اس کا مطالعہ کریں.اگر تمہاری اور تمہاری بیٹیوں کی سمجھ میں آجائے اور وہ احمدی ہو جائیں تو میں اپنے لڑکوں کی شادی تمہاری بیٹیوں سے کر دوں گی.ور نہ نہیں کروں گی.اس پر اس نے کہا میں اسی طرح کر لیتی ہوں.لیکن کئی مرد بڑی ضد کرتے ہیں اور

Page 520

512 کہتے ہیں کہ و ہیں شادی کرلیں تو یہ فائدہ ہوگا کہ ایک اور خاندان احمدیت داخل ہو جائے گا اور وہ اتنا مغز کھاتے ہیں کہ انسان کے سر میں درد شروع ہو جاتی ہے.لیکن وہ عورت سنتے ہی کہنے لگی.بس میں اپنی بہن سے کہہ دیتی ہوں کہ میں اس کی لڑکیاں نہیں لے سکتی.تو عورتیں بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مردوں سے بھی اخلاص میں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.کئی مرد کمزوری دکھا جاتے ہیں اور عورتیں اپنے اخلاص کی وجہ سے ان سے آگے بڑھ جاتی ہیں.اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بعض مرد اپنی عورتوں کو دین کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کی ہی دین ہے.اور چونکہ کئی عورتوں نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دوسری عورتوں کو دین کی باتیں سیکھنے سے محروم رکھا جائے یہاں ربوہ میں عورتوں نے اپنا ایک ہال بنایا ہوا ہے.پھر انہوں نے ایک کے جی سکول اور ایک سلائی کا سکول کھولا ہوا.کے.جی سکول میں لڑکے بھی پڑھتے ہیں.لیکن لڑکے اکثر فیل ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں پاس ہو جاتی ہیں.تو جس طرح عورتیں دنیا کے علوم حاصل کر سکتی ہیں اسی طرح وہ دین کے علوم بھی حاصل کر سکتی ہیں.ہمیں چاہیئے کہ انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم پہنچا ئیں اگر ہم انہیں دین سیکھنے کے مواقع ہم نہیں پہنچائیں گے تو ہم مجرم ہوں گے وہ مجرم نہیں ہوں گی.خدا ہمیں کہے گا تم گنہگار ہو.ان عورتوں میں دین سیکھنے کی طاقت موجود تھی لیکن تم نے انہیں دین سیکھنے کے مواقع ہم نہیں پہنچائے.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ عورتوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ کریں.پردہ کی اہمیت پر ایک اہم خطبہ جمعہ:.۶ جون کو مری میں حضور نے پردہ کی اہمیت پر ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جوحضور کے ارشاد پر کئی بار الفضل میں بطور یاد دہانی شائع ہوا.اسی سے اس خطبہ کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے.اس میں حضور نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اکثر احمدی چندہ تو دینے لگ جاتے ہیں اور ان کا ایک معتد بہ حصہ نمازیں بھی با قاعدہ پڑھتا ہے.لیکن جب سے پاکستان بنا ہے.بعض احمد یوں میں سے پردہ اٹھ گیا ہے اور زیادہ تر ا الفضل ۱۰.فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۲-۳

Page 521

513 صلى الله یہ نقص مالداروں میں پایا جاتا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ بے غیرت اور بزدل لوگ جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی بات نہیں مانی انہوں نے اپنی قوم کی کیا خدمت کرنی ہے.قوم کی خدمت کرنے والے تو وہ لوگ تھے.جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا کہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں ان کے واقعات پڑھ کر انسان کا دل محبت کے جذبات کے ساتھ لبریز ہو جاتا ہے.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ ان لوگوں کو جو اپنی بیویوں کو بے پردہ رکھتے ہیں تنبیہ کرتا ہوں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باقی احمدی بھی مجرم ہیں.کیونکہ محض اس لئے کہ فلاں صاحب بڑے مالدار ہیں تم ان کے ہاں جاتے ہو.ان سے مل کر کھانا کھاتے ہو اور ان سے دوستی اور محبت کے تعلقات رکھتے ہو.تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے آدمی کو سلام بھی نہ کرو.تب بے شک سمجھا جائے گا کہ تم میں غیرت پائی جاتی ہے اور تم محمد رسول اللہ کے احکام کی اطاعت کروانا چاہتے ہو.لیکن اگر تم ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہو، اس کو سلام کرتے ہواور اس سے تعلقات رکھتے ہو تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ ہیں.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جولوگ اپنی بیویوں کو بے پر دباہر لے جاتے اور مکسڈ پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اگر وہ احمدی ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.نہان سے مصافحہ کرو نہ انہیں سلام کرو، نہ ان کی دعوتوں میں جاؤ اور نہ ان کو کبھی دعوت میں بلاؤ.تا کہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی قوم اس فعل کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.لیکن غیر احمدی کے متعلق ہمارا یہ قانون نہیں کیونکہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں اور نہ ہمارے فتویٰ کے پابند ہیں.وہ چونکہ جماعت میں شامل نہیں ان پر ان کے مولویوں کا فتویٰ چلے گا اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم ان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ وہ یا ان کے مولوی ہوں گے.لیکن اگر تم ایسے لوگوں سے تعلقات رکھتے ہو جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور پھر رسول کریم ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں.تو صرف وہی نہیں بلکہ تم بھی پکڑے جاؤ گے.خدا کہے گا کہ ان لوگوں کو تم نے اس گناہ پر دلیری اور جرأت دلائی اور انہوں سمجھا کہ ساری قوم ہمارے اس فعل کو پسند کرتی ہے.پس آئندہ ایسے احمدیوں سے نہ تم نے مصافحہ کرنا ہے اور نہ انہیں سلام کرنا ہے، نہ ان کی دعوتوں میں جانا ہے اور نہ ان کو کبھی دعوت میں بلانا ہے، نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ہے اور نہ ان کو جماعت میں کوئی عہدہ دینا ہے.بلکہ اگر ہو سکے تو ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا.اسی

Page 522

514 - طرح ہماری جماعت کی عورتوں کو چاہیئے کہ ان کی عورتوں سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں.تمہیں اس سے کیا کہ کوئی کتنا مالدار ہے.تمہیں کسی مالدار کی ضرورت نہیں تمہیں خدا کی ضرورت ہے.اگر تم اللہ تعالیٰ کے لئے ان مالداروں سے قطع تعلق کر لو گے تو بے شک تمہارے گھر میں وہ مالدار نہیں آئے گا.لیکن تمہارے گھر میں خدا آئے گا.اب بتاؤ کہ تمہارے گھر میں کسی مالدار کا آنا عزت کا موجب ہے یا خدا تعالیٰ کا آنا عزت کا موجب ہے بڑے سے بڑا مالدار بھی ہو تو خدا تعالیٰ کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے.تم اس بات سے مت ڈرو کہ اگر یہ لوگ علیحدہ ہو گئے تو چندے کم ہو جائیں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تھا تو اس وقت کتنے لوگ چندہ دینے والے تھے.مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی جماعت پیدا کر دی کہ اب صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ ستر لاکھ روپیہ کا ہوتا ہے.اور ہم امید کرتے ہیں کہ دو چار سال میں ہمارا بجٹ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے گا.پس اگر ایک شخص سے چل کر ہماری جماعت کو اتنی ترقی حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں تک ہمارا بجٹ جا پہنچا ہے تو اگر یہ دس پندرہ آدمی نکل جائیں گے تو کیا ہو جائے گا.ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک آدمی نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ہمیں ہزار دے دے گا.پس ہمیں ان کے علیحدہ ہونے کا کوئی فکر نہیں.ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ صرف نام کے احمدی نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بھی محمد ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہوں....غرض عورتوں کا مکسڈ پارٹیوں میں جانا، مردوں کے سامنے اپنا منہ نگا کر دینا اور ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا یہ سب ناجائز امور ہیں.لیکن ضرورت کے موقعہ پر شریعت نے بعض امور میں انہیں آزادی بھی دی ہے بلکہ قرآن کریم نے الا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے الفاظ استعمال فرما کر بتادیا ہے کہ جو حصہ مجبوراً ظاہر کرنا پڑے اس میں عورت کے لئے کوئی گناہ نہیں اس اجازت میں وہ تمام مزدور عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں کھیتوں اور میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے.اور چونکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے لئے آنکھوں اور ان کے اردگرد کا حصہ کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کے کام میں دقت پیدا ہوتی ہے اس لئے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ماتحت ان کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا اور چونکہ انہیں بعض دفعہ پانی میں بھی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کے لئے یہ بھی جائز ہوگا کہ وہ پاجامہ اڑس لیں اور ان کی پنڈلی نگی ہو جائے.بلکہ ہمارے علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو

Page 523

515 اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ آسکے اور ڈاکٹر کہے کہ اگر یہ کسی مرد ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائے گی تو اس کی زندگی خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ نہیں جنوائے گی تو یہ گناہ ہوگا اور پردے کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی.حالانکہ عام حالات میں منہ کے پردے سے ستر کا پردہ زیادہ ہے لیکن اس کے لئے اعضاء نہانی کو بھی مرد کے سامنے کر دینا ضروری ہوگا.بلکہ اگو کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی سمجھی جائے گی جیسے اس نے خود کشی کی ہے.غرض کوئی دقت ایسی نہیں جس کا ہماری شریعت نے اعلان نہیں رکھا.مگر باوجود اتنے بڑے انعام کے کہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لئے ہر قسم کے احکام دیئے ہیں اگر کوئی شخص پردہ کو چھوڑتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کی ہتک کرتا ہے.ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق ہوسکتا ہے.وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن ہیں.اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمدی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں.یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں عورت بڑے مالدار کی بیوی ہے.تمہارا فخر اس میں ہے کہ تمہارے فرشتوں سے تعلقات ہوں اور فرشتوں سے وہی لوگ ملتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے کامل فرماں بردار ہوں.پس ان لوگوں کی مت پروا کرو اور اس بات سے نہ ڈرو کہ اگر یہ لوگ الگ ہو گئے تو کیا ہو جائے گا.اگر ان میں سے ایک شخص علیحدہ ہوگا تو اس کی جگہ ہزار آدمی تم میں شامل ہوگا بلکہ آئندہ ان کی جگہ ہزاروں بڑے بڑے مالدار تم میں شامل ہو نگے اور پھر ان کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جائے گی.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم میں حیا پیدا ہوگئی تو تمہارے عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کا شریف طبقہ بھی تمہاری اقتداء کرنے پر مجبور ہوگا بلکہ بعض باتوں میں تو اب بھی ہماری جماعت کے نمونہ کا لوگوں پر بھاری اثر ہے.سیرت النبی اللہ کے جلسے:.ے مندرجہ ذیل مقامات پر سیرت النبی کے جلسے منعقد ہوئے:.سانگلہ ہل ۲ الازبار لذوات الخمار حصہ دوم طبع دوم صفحہ ۲۰۷ تا ۲۱۷ و الفضل ۲۷.جون ۱۹۵۸ء صفه ۲-۶ الفضل ۹.جولائی ۱۹۵۸ء صفحہ ۶

Page 524

516 ملتان چھاؤنی ! لائل پور سے کوئٹہ سے کنری کے حیدر آباد ۵ میر پور آزاد کشمیر 1 لاہور کے سیالکوٹ A لجنہ اماءاللہ گنگا پور کا جلسہ:.۲۴ جولائی کو لجنہ اماءاللہ نگا پور کا جلسہ حاجی محمد اسحاق صاحب پریذیڈنٹ کی کوٹھی پر منعقد ہوا.جس میں غیر احمدی مستورات نے بھی شمولیت کی.سید احمد علی صاحب سیالکوٹی مربی لائکپور نے مسلمان عورتوں کے فرائض اور نشانات حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی.2 یوم مصلح موعود کے جلسے:.۲۰ فروری کو یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب پر لجنہ اماءاللہ ربوہ کا عظیم الشان جلسہ ہوا.10 پشاور حیدر آبا دسندھ لے ل الفضل ۱۴.ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ س الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۵۸ء ۵ الفضل ۲.نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۶ کے الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ا کالم ۲ و الفضل ۳.اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۵ کالم ۳ لله الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ۲ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۶ الفضل ۱۷.ستمبر ۱۹۵۸ ء صفحہ الفضل ۱۳.ستمبر ۱۹۵۸ء صفحیم الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۵ ا الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۸ء صفحیم

Page 525

517 ملتان چھاؤنی اے ڈھاکہ، شیخوپورہ ۲ کراچی سے کری سندھ سے اور بہاولپور میں بھی یہ جلسے منعقد ہوئے.کراچی کے جلسہ میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی اور صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ بھی شامل ہوئیں.پیشگوئی مصلح موعود پر انعامی مقابلہ: ۲۰ فروری کو شعبہ تعلیم لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے تحت پیشگوئی مصلح موعود پر ایک انعامی تحریری مقابلہ ہوا جس میں :.اول دوم سوم ز ودنو لیس مرحوم رہیں گے.لجنہ اماءاللہ کراچی کی سرگرمیاں:.سعیدہ حبیب صاحبہ پروفیسر جامعه نصرت ربوہ قمرالنساء صاحبہ بنت محترم شیخ ضیاء الحق صاحب صالحہ صاحبہ بنت محترم مولوی محمد یعقوب صاحب کراچی میں یوم مسیح موعود علیہ السلام کا جلسہ:.۳۰ مارچ کو لجنہ اماءاللہ کراچی کے زیر اہتمام یوم سیح موعود کے موقع پر جلسہ منعقد ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت، حضور کے الہامات، پیشگوئیوں ، نشانات اور حضور کی آخری وصیت کے متعلق مضامین اور نظمیں پڑھی گئیں.۵ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۵ س الفضل ۲.مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۶ ۵ الفضل ۸.اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۶ الفضل یکم مارچ ۱۹۵۸ء صفحه ۵ الفضل ۱۳.اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۶

Page 526

518 ماہ نومبر ۱۹۵۸ء میں لجنہ اماءاللہ کراچی کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.مرکز سے محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبه بطورنمائندہ تشریف لے گئیں.محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کا قیام کراچی میں کئی دن رہا.اس لئے آپ نے لجنہ کراچی کے حلقہ جات کی چیکنگ کی اور ان کی تنظیم کے سلسلہ میں بڑی محنت سے کام کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کراچی میں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حضرت مریم صدیقہ صاحبہ مد ظلہ العالی کی صدارت میں ۲ مارچ ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی کوٹھی میں تمام عہدہ داران لجنہ اماءاللہ کراچی کا ایک اجلاس منعقد ہوا.جس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے دلچسپی اور توجہ سے لجنہ اماءاللہ کراچی کی مشکلات کو سنا اور ان کے حل کرنے میں عہدہ داران لجنہ کراچی کی راہنمائی کی اور دواڑھائی گھنٹہ کی یہ مجلس ایک یادگار تقریب بن گئی.نیز انہی دنوں لجنہ اماءاللہ کراچی نے آپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ جلسہ بھی منعقد کیا جس میں محترمہ جنرل سکرٹری صاحبہ کو ایڈریس پیش کیا گیا.۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک لجنہ اماءاللہ کراچی کی صدر بیگم صاحبہ محترم چوہدری بشیر احمد صاحب رہیں.ان کی انتھک محنت اور توجہ کے نتیجے میں لجنہ اماء اللہ کراچی کا یہ دور ایک کامیاب دور کہلائے جانے کا مستحق ہے.جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۵۸ء:- یہ جلسہ بھی حسب معمول ۲۶.۲۷.۲۸ / دسمبر کو منعقد ہوا.مردانہ جلسہ گاہ سے حضور کی تقاریر کے علاوہ یہ تقاریر سنی گئیں :.ا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب ذکر حبیب.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مذہبی رواداری ایم.اے ایدہ اللہ تعالیٰ ۳.میاں عطاء اللہ صاحب ( مرحوم ) ایڈوکیٹ معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴.مولانا جلال الدین صاحب شمس.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رپورٹ کارگذاری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ۱۹۵۷ - ۱۹۵۸ء نبیوں کا سردار احمدیت کا اثر عالم اسلام پر

Page 527

519 مستورات کے پروگرام میں مندرجہ ذیل تقاریر ہوئیں.ا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ -۲- محتر مہ امۃ الرشید شوکت صاحبه اسلامی اخلاق ۳- محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نظام خلافت ۴.امۃ المجید صاحبہ ایم.اے ۵.سعیدہ حبیب صاحبه ۶.عزیزه را شده آف خوشاب ۷.محترمہ امۃ المالک صاحبہ فرخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد آنحضرت عیہ کی خصوصیات رسول پاک کی قوت قدسیہ کا اثر صحابہ پر لے ہماری ذمہ داریاں انتخاب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی کا تقرر :- اس سال حضرت سیدہ ام ناصر کی وفات کی وجہ سے صدر لجنہ اماء اللہ مرکز یہ کا عہدہ خالی ہو گیا تھا اس لئے نئے انتخاب صدر کا مرحلہ در پیش تھا.یہ معاملہ سالانہ اجتماع ۱۹۵۸ء کے موقعہ پر لجنہ اماءاللہ کی مجلس شوریٰ میں پیش ہونا تھا.مگر اس سال بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے سالانہ اجتماع منعقد نہ ہو سکا.اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ لجنات کی مجلس شوریٰ جلسہ سالانہ کے موقع پر منعقد ہو.جس میں دیگر امور کے علاوہ صدر کا انتخاب بھی کیا جائے.اس سلسلہ میں ایک سرکلر تمام لجنات کو بھجوایا گیا جس میں ہدایت کی گئی کہ شوریٰ کے اس اجلاس میں تمام بجنات کو اپنے نمائندے بھیجنے چاہئیں اور جو لجنات کسی اشد مجبوری کی بناء پر نمائندگان نہ بھجواسکیں وہ انتخاب صدر کے سلسلہ میں اپنی آراء سے ضرور مطلع کریں.مصباح فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۳۳ ۳۴

Page 528

520 انتخاب صدر تیرھویں مجلس شوری فیصلہ کے مطابق جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء کے موقع پر ۲۷.۲۸؍ دسمبر کی درمیانی شب کو زنانہ جلسہ گاہ کی سٹیج پر جنہ اماءاللہ کی تیرھویں مجلس شوری منعقد ہوئی.مرکزی عہدہ داروں کے علاوہ ۴۳ مقامات کی نمائندگان نے اس میں شرکت کی.سب سے پہلے جو تجویز پیش کی گئی وہ انتخاب صدر ہی کے متعلق تھی.اس تجویز کے الفاظ یہ تھے:.حضرت سیدہ ام ناصر کی وفات سے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدر کا عہدہ خالی ہو چکا ہے اس لئے صدارت کا انتخاب کروایا جائے.جب یہ تجویز پیش ہوئی تو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا جو اجلاس کی صدر تھیں.سٹیج پر سے تشریف لے گئیں اور کرسی صدارت کے فرائض محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کے سپر د کریئے.نمائندگان نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ جنرل سکرٹری کو اپنا صدر منتخب کیا.جن لجنات کے نمائندے اجلاس میں موجود نہیں تھے.انہوں نے بھی بذریعہ خطوط حضرت سیدہ مروجہ کے حق میں ہی رائے دی تھی.اس طرح آپ صدر لجنہ اماءاللہ کے عہدہ جلیلہ پر (حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد ) فائز ہوگئیں.لجنہ اماء اللہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اب تک اسی قابل فخر وجود کی قیادت اسے حاصل ہے اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر جہت سے لجنہ کو ترقی دینے ، ان میں قربانی، ایثار اور اخلاص فدائیت کی مومنانہ روح کو فروغ دینے اور دیگر اہم دینی تعلیمی اور تربیتی خدمات میں نمایاں اور ممتاز طور پر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ذالك فضل الله يوتيه من يشاء صدر منتخب ہو جانے کے بعد آپ نے تشریف لا کر کرسی صدارت کو رونق بخشی.ہر طرف سے مبارکباد اور الحمد اللہ کی آواز میں آرہی تھیں.حضرت سیدہ ممدوحہ پر اس وقت نئے عہدہ کی گراں بہا اور نازک ذمہ داریوں کے احساس کی وجہ سے بے حد رقت طاری تھی اور آپ نے بھرائی ہوئی آواز

Page 529

521 میں تشہد اور تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد قرآن مجید کی یہ دعائیہ آیات تلاوت فرمائیں:.ربنا لاتواخذنا ان نسينا اواخطانا ربنا ولا تحمل علينا اصراً كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنا به واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولنا فانصرنا على القوم الكافرين اس کے بعد آپ نے رقت بھرے لہجہ میں نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.آپ بہنوں نے مجھ پر بہت بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے.میں آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس گراں بوجھ کو اٹھانے کی توفیق دے اور مجھے بہنوں، لجنہ اماءاللہ سلسلہ احمدیہ اور اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں یہ بھی درخواست کرتی ہوں کہ بہنیں میرے ساتھ لجنہ اماءاللہ کے کاموں اور تنظیم میں کامل تعاون فرما ئیں تا کہ ہم سب مل کر اپنے نصب العین کو حاصل کر سکیں.اور متحد ہوکر وہ قربانیاں پیش کرسکیں جو غلبۂ اسلام کے لئے ضروری ہیں.قرآن کریم نے کامل اور بہترین نظام کے لئے اطاعت اور فرماں برداری کی روح کو ضروری قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا.اطیعوالــلــه واطیعوالرسول واولی الامر منکم یعنی اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور آپ کے خلفاء اور جو بھی ان کے مقرر کردہ تم پر افسر یا عہدہ دار ہوں ان کی پوری پوری اطاعت کا نمونہ دکھاؤ تبھی دنیا میں ایک کامل اور حقیقی نظام قائم ہوسکتا ہے.“ حضرت سیدہ مریم صدیقہ ۱۹۴۲ء میں لجنہ اماء اللہ کی جنرل سکرٹری مقرر ہوئیں.سترہ سال تک اس عہدہ کے فرائض کو انتہائی انہماک لگن اور عمدگی کے ساتھ ادا فرمایا.اس کے بعد آپ صدر منتخب ہو گئیں اور اس حیثیت میں بھی گذشتہ تیرہ سال آپ نے دن رات کام کیا.جس طرح ایک فرض شناس ماں اپنے بچے کی پرورش تربیت اور ترقی کے لئے دن رات کوشاں رہتی ہے بعینہ اس طرح آپ نے بھی خلیفہ وقت کی منشاء کے مطابق لجنہ اماءاللہ کے پودے کی آبیاری کی ہے اور اسے ایک ایسا درخت بنا دیا ہے جس کی جڑیں اب نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور جس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور جس کے ثمرات سے احمدیت سے وابستہ عالم نسواں کا ہر طبقہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق فیضیاب ہو رہا ہے.

Page 530

522 آپ کا قیمتی وجود حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس دیرینہ خواہش ، تڑپ اور تمنا کو ملی رنگ میں پورا کرنے والا ہے کہ حضور کے حرم میں ایک ایسا وجود بھی موجود ہو جو اعلیٰ دینی ودنیوی تعلیم سے مزین ہونے کے بعد حضور کی زیر ہدایت احمدی خواتین کی قیادت کے فرائض سرانجام دے سکے.حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار کئی دفعہ فرمایا.مثلاً ا.جب حضور کی حرم حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ نے وفات پائی تو حضور نے فرمایا؟ ”میرے نزدیک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی عورتوں میں تعلیم نہ ہو.....میں نے ان سے جو شادی کی اس وقت میری یہ نیت تھی کہ ان کے ذریعہ بآسانی عورتوں میں تعلیم دے سکوں گا.“ اے مرحومہ جب فوت ہو گئیں.میرے دل کا ایک کو نہ خالی ہو گیا.میری وہ سکیم جومستورات کے متعلق تھی یوں معلوم ہوا کہ ہمیشہ کے لئے تہ کر کے رکھ دی گئی.امتہ الھی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی.“ ۳.حضرت سیدہ ساره بیگم صاحبہ سے نکاح کے موقع پر حضور نے فرمایا:.” میری توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ عورتوں میں اعلیٰ تعلیم کو رواج دینے اور ان میں سلسلہ کی روح پیدا کرنے کے لئے کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں جو تعلیم یافتہ ہو اور جسے میں صرف تربیت دے کر تعلیمی کام کرنے کے قابل بنا سکوں.“ اس موقعہ پر آپ نے عورتوں کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:.”خدا تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لئے بھی مبارک کرے اور...پھر اس کمزور اور متروک صنف کے لئے بھی جو عورتوں کی صنف ہے مبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سالوں سے تلف کئے جار ہے ہیں جو خدا تعالیٰ سے رحم کے لئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر پکار رہی ہے کہ اے خدا! کیا تیرا رحم مردوں کے لئے مخصوص ہے یا عورتوں کے لئے بھی ہے.خدا تعالیٰ ان پر اپنا فضل اور رحم نازل کرے.‘ے الفضل ۳.جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷ الفضل ۱۸.اپریل ۱۹۲۵ء الفضل ۱۸.اپریل ۱۹۲۵ء

Page 531

523.۱۹۳۳ء میں جب حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ نے وفات پائی تو حضور نے اپنے ایک لمصل مضمون میں تحریر فرمایا:.مرحومہ نے جب ایف.اے کا امتحان دیا تو میں نے ان سے کہا کہ اب تم سرے کے قریب پہنچ چکی ہو.اللہ تعالیٰ پاس کر دے تو بی.اے کی تیاری کرو.شاید اس طرح تم کو زنانہ سکول میں کام کرنے کا موقع ملے اور سلسلہ کو بغیر مالی بوجھ برداشت کرنے کے ایک ہیڈ مسٹریس مل جائے“ مندرجہ بالا سطور میں حضرت اصلح الموعود نے جس خواہش کا اظہار فرمایا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو اسے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.آپ نے حضور کے عقد نکاح میں آنے کے بعد اہم دینی مصروفیات اور عدیم الفرصتی کے باوجود حضور کی زیر ہدایت اعلیٰ تعلیم (ایم.اے تک ) حاصل کی اور حضور کی تربیت اور دعاؤں سے فیضیاب ہوکر اپنے آپ کو اسلام ،سلسلہ احمد یہ اور اپنے مقدس اور عظیم شوہر کی خدمت اور اس کے بلند دینی عزائم کو پورا کرنے کے لئے وقف کر دیا.ان دینی عزائم کا ایک اہم حصہ احمدی خواتین کی دینی تربیتی علمی اور تعلیمی ترقی کی خواہش پر مشتمل تھا.یہ خواہش جامعہ نصرت جیسے عظیم الشان تعلیمی ادارے کے قیام کی صورت میں پوری ہوئی.حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ کو خود مصلح موعودؓ نے اس ادارے کی آنریری ڈائر یکٹرس مقرر فرمایا.اور اس طرح حضور کا وہ ارادہ پورا ہو گیا جس کا اظہار حضور نے سیدہ سارہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی تعلیمی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا تھا کہ ”سلسلہ کو بغیر مالی بوجھ برداشت کرنے کے ایک ہیڈ مسٹرس مل جائے.“ اس ادارہ نے حضرت سیدہ ممدوحہ کی راہنمائی میں سرعت کے ساتھ نمایاں ترقی کی.اب تک سینکڑوں احمدی بچیاں اس ادارے کے ذریعے زیور علم سے آراستہ ہو کر اعلیٰ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کر چکی ہیں اور آپ کی تربیتی تنظیمی صلاحیتوں کے جو ہر لجنہ اماءاللہ کی عظیم تنظیم کے ذریعے اجاگر ہوئے جو حضور کی عمومی ہدایات کے ماتحت آپ کی نگرانی اور توجہ کی بدولت سرعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتی رہی.یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے سکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا تو اس کے بعد قلیل عرصہ میں لجنات کی تعداد پچاس سے ترقی کر کے دوصد تک جا پہنچی.اندرون ملک میں اور پھر بیرون ممالک میں سینکڑوں فعال اور سرگرم لجنات قائم ہوئیں.ربوہ میں دفتر اور لجنہ

Page 532

524 ہال کی تعمیر ہوئی.ماہنامہ مصباح کا انتظام لجنہ نے کامیابی کے ساتھ سنبھالا.کئی تعلیمی ادارے کھولے گئے.بہت سی دیگر مالی تحریکات کے علاوہ مستورات کو پہلے مسجد ہالینڈ کے لئے قریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار روپے اور پھر مسجد ڈنمارک کے لئے سوا پانچ لاکھ روپے جمع کرنے کی توفیق ملی.اور لجنہ مرکز یہ کا بجٹ ترقی کرتے کرتے ۱۶۸۰۲ اروپے تک پہنچ گیا.ان تمام کامیابیوں اور اہم اجتماعی دینی خدمات کی سرانجام دہی میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ مدظلہ العالی کی کوششوں ، انہماک اور دلچسپی کا خاص دخل ہے.فجز اھا اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری محبوب صدر اور لجنہ اماءاللہ کی روح رواں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ دام ظلہا کو اپنی خاص حفظ وامان میں رکھے.آپ کی صحت میں ، عمر میں غیر معمولی برکت دے اور ہمیں ان کی زیر قیادت ایک لمبے عرصہ تک زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق حاصل ہوتا کہ غلبہ اسلام کا وہ دن قریب سے قریب تر آجائے جو ہر احمدی مرد اور عورت کا نصب العین ہے.اللھم آمین ثم آمین شوری میں پیشکر دہ دیگر تجاویز اور فیصلے :.انتخاب صدر کے بعد شوری میں جو مزید فیصلے ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے:.تجویز:.گیلری بن چکی ہے.تقریباً ڈھائی ہزار روپے انجمن کے ہم پر قرض ہیں.اس لئے ادا ئیگی کی سکیم بنائی جائے.فیصلہ:.تمام لجنات کی نمائندگان نے وعدہ کیا کہ وہ لجنہ اماءاللہ کے چندہ کے ساتھ گیلری کا چندہ بھی بھجوائیں گی.چنانچہ کراچی کی لجنہ اماءاللہ کی طرف سے گیلری کے لئے دوسور و پیہ آچکا ہے تمام لجنات اس چندہ کو بھی یاد رکھیں تاکہ یہ قرضہ بھی جلد سے جلد ختم ہو( یہ قرض بہت جلد ادا کر دیا گیا) تجویز:.فضل عمر جونیئر ماڈل سکول ربوہ کی عمارت کے لئے چندہ کی ضرورت ہے.گوا بھی تک زمین نہیں خریدی گئی.مگر کوشش جاری ہے کہ جلد از جلد مناسب قطعہ ملے تو زمین خرید کر عمارت شروع کر دی جائے.اس کے لئے ضروری ہے کہ ابھی سے یہ چندہ جمع کیا جائے تا کہ جب زمین

Page 533

525 خریدی جائے تو کام جلد از جلد شروع کر دیا جائے.فیصلہ:.نمائندگان نے متفقہ طور پر اس تجویز کو منظور کر لیا اور وعدہ کیا کہ سکول کے لئے چندہ جمع کریں گی.(چنانچہ جلد ہی چندہ جمع کر کے سات کنال زمین خرید لی گئی ) تجویز:.لجنہ اماءاللہ کی ترقی کیلئے ہر ضلع کے لئے ایک انسپکٹرس ہونی چاہئے تا کہ وہ سارے سال میں کم از کم ایک دفعہ ضلع کا دورہ کر سکے.صرف ایک انسپکٹرس سارے پاکستان کی لجنات کا دورہ نہیں کر سکتیں.اس پر مختلف لجنات کی رائے سے مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے:.فیصلہ:.ہر ضلع میں تمام مقامی لجنات کا ایک سالانہ جلسہ ہوا کرے جس میں اس ضلع کے تمام قصبوں اور گاؤں کی عہدہ داران شامل ہوں اور مل کر اپنے ضلع کے کام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.اس طرح ضلع کی لجنہ کی عہدہ دار اپنے ضلع کی مقامی لجنات کا دورہ کر کے ان کے کاموں کی رپورٹ مرکز کو دیں.اس طریق پر مرکز کو زیادہ انسپکٹرس رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور اصل مقصد حل ہو جائے گا.(۲) مستقل انسپکٹرس تو ایک ہو لیکن تعطیلات میں مجلس عاملہ کی کارکنات یا دیگر ذمہ دار مستورات کو مختلف لجنات کے دوروں پر بھجوایا جائے.اس طرح باقاعدہ تنخواہ کے خرچ کی بجائے لجنہ مرکز یہ کوصرف سفر خرچ ادا کرنا پڑے گا.تجویز :.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے خطبہ جمعہ کی روشنی میں جس میں آپ نے پردہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.جماعت کی مستورات کی تربیت کی نگرانی اور بے پردگی کو دور کرنے کی سکیم بنائی جائے.فیصلہ: کسی بے پردہ خاتون کو لجنہ اماءاللہ کا کوئی عہدہ نہ دیا جائے.نیز اجلاسوں میں بار بار پردہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جائے.ہر لجنہ اپنی رپورٹوں میں تربیت واصلاح کے ماتحت بے پردگی کے دور کرنے کے لئے جو اس نے کوشش کی ہے اس کا ذکر کرے.اس سلسلہ میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے پہلا عملی قدم یہ اٹھایا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر بے پردہ خواتین کو سٹیج کا ٹکٹ نہیں دیا تا کہ ان کے دلوں میں ندامت پیدا ہو.اے ے مصباح فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۳۷-۳۸

Page 534

526 بحیثیت صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی پہلی تقریر ( بر موقع جلسه سالانه ۱۹۵۸ء):- جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ۲۷.۲۸ دسمبر کی درمیانی رات کو مجلس شوری میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ متفقہ طور پر لجنہ اماءاللہ کی صدر منتخب ہوئیں جسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی منظور فرمالیا.صدر بننے کے بعد سب سے پہلی تقریر جو آپ نے ۲۸ / دسمبر کو جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے:.اس سال جیسا کہ پروگرام سے واضح ہے میں نے اپنی تقریر کا کوئی موضوع مقرر نہیں کیا.کیونکہ بعض وجوہ کی بناء پر اجتماع نہ ہو سکا.اور میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کے سامنے لجنہ کے سارے سال کا پروگرام بیان کروں.تا کہ آپ پر واضح ہو جائے کہ دوران سال لجنہ مرکزیہ نے کیا کام سرانجام دیئے اور کس قسم کے کام کرنے کی ہم آپ سے توقع رکھتے دوران سال کا سب سے بڑا المناک حادثہ جو لجنہ اماءاللہ کو پیش آیا وہ حضرت ام ناصر ہیں.کی وفات ہے.آپ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی حرم اول اور لجنہ مرکزیہ کی صدر ہونے کے ایک اور اہمیت بھی رکھتا تھا.وہ یہ کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اور موجودہ نسل کے درمیان ایک کڑی تھیں.حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد دو ہستیاں ہمارے لئے خاص حیثیت رکھتی تھیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کی اور اپنے کانوں سے ان کی باتوں کو سنا.ایک ام ناصر اور دوسری ام داؤد تھیں.ہم سب جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو نہیں دیکھا اس بات کی سخت تڑپ اپنے اندر رکھتی ہیں کہ کاش ہم اس زمانے میں ہوتیں اور اس مقدس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر برکت حاصل کرتیں.آپ میں سے بہت سی ایسی ہوں گی جنہوں نے حضرت ام المومنین کو نہیں دیکھا اور ہر ایک آپ میں سے یقینا یہ خواہش اپنے اندر رکھتی ہے کہ کاش ہم وہ زمانہ پالیتیں.لیکن اب بھی آپ کے لئے اس سعادت کو حاصل کرنے اور اپنی روحانیت کو بڑھانے کا موقع ہے.صحابیات بہت تھوڑی

Page 535

527 تعداد میں رہ گئی ہیں ان سے استفادہ کر لیں اور ان کو اپنے اجلاسوں میں بلائیں اور ذکر حبیب کے عنوان پر چشم دید واقعات سنیں کیونکہ روحانیت پیدا کرنے اور دلوں کا غبار اور زنگ دور کرنے کے لئے صحبت صالحین ضروری چیز ہے.پس صحابیات کو اپنی مجالس میں بلائیے.اپنے ہر اجلاس میں یا ہر مہینے صحابیہ کی تقریر رکھیں اور ان کے چشم دید واقعات قلم بند کر لیں اور ان کو یادر کھنے کی کوشش کریں.اگر اس وقت آپ نے سستی کی اور اس سنہری موقعہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں آپ سے مطالبہ کریں گی کہ آپ نے نیک اور بزرگ لوگوں سے ہمارے لئے کیا حاصل کیا.تو یہ طریق اختیار کرنے سے نہ صرف آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات کا علم ہوگا بلکہ آپ اپنی اولادوں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گی.اس سلسلہ میں خاص طور پر سکول اور کالج کی ہیڈ بھی مخاطب ہیں کیونکہ کتابوں سے علم سیکھنا اتنا مفید نہیں ہوتا جتنا چشم دید واقعات اور کانوں سنے حالات سے ہوتا ہے.ماؤں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ ان کے بچے اس لئے احمدی نہ ہوں کہ ان کے ماں باپ احمدی تھے بلکہ وہ دلائل احمدیت کے خود قائل ہو کر مانیں.ہماری صحابیات گاہے بگا ہے بازخواں ایں قصہ پارینہ کے مطابق قصہ پارینہ ہی شمار ہونے لگی ہیں.اس لئے ان کی قدر کریں اور ان سے استفادہ کریں.اب میں آپ کے سامنے بیان کروں گی کہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کن شعبہ جات کے ساتھ کام کر رہی ہے.ہمارا پہلا شعبہ خدمت خلق کا ہے.خدمت خلق ہر انسان پر واجب ہے.اس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ اگر آپ سے کہا جائے کہ خدمت خلق کرو تو آپ کر لیں اور اگر نہ کہا جائے تو نہ کریں.خدمت خلق کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے.توفیق خود بخود انسان کو مل جاتی ہے.راستہ سے کانٹا اٹھا دینے کو بھی اسلام خدمت خلق قرار دیتا ہے لیکن سب سے زیادہ جامع تعلیم جو خدمت خلق کی اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں.پس کوشش کرنی چاہیئے کہ آپ کے ہاتھوں اور زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے.عورتوں میں غیبت کا مرض اس شدت سے پیدا ہو گیا ہے کہ اگر وہ اس کو برائی جانتیں تو وہ کبھی اس بُری عادت کو اختیار نہ کرتیں.قرآن کریم نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف

Page 536

528 قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ.جس طرح تمہیں اس سے کراہت آتی ہے اسی طرح غیبت کرنے سے تمہارے دل میں نفرت پیدا ہونی چاہیئے.مرداس بد عادت سے بڑی حد تک بچے رہتے ہیں خواہ وجہ کچھ بھی ہو.لیکن عورتیں اکثر جہاں بھی جمع ہوں اس لعنت کو اپنے اوپر وارد کر لیتی ہیں.حالانکہ اگر وہ اپنے فارغ اوقات میں اور اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر یہ سوچتیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے اسلام کی اشاعت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جاسکتی ہے.اور لجنہ کی ترقی کی تدابیر سوچتیں تو ان کے لئے سعادت دارین حاصل کرنے میں کوئی شبہ باقی نہ رہ جاتا.پس شعبہ تربیت کے ماتحت آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی اصلاح کریں اور اپنی دوسری بہنوں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں.شعبہ خدمت خلق کے سلسلہ میں آپ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ چونکہ اکثریت اس جلسہ میں باہر کی عورتوں کی ہے اس لئے نہ صرف آپ اپنے رشتہ داروں اور احمدی بہنوں کی خدمت کریں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی مخلوق کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں.آپ خدمت کے وقت مسلمانوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہ رکھیں بلکہ اسلام کے حکم کے مطابق سب بنی نوع انسان کی خدمت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے.ربوہ میں اکثریت غرباء کی ہے اور بہت سی خواتین صرف اپنے بچوں کی دینی تعلیم کے لئے ربوہ میں مقیم ہیں.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ پوری کوشش کرتی ہے کہ جو غرباء باہر سے بچوں کی دینی تعلیم اور دینی ماحول کے لئے ربوہ میں آباد ہوئے ہیں.جہانتک ہو سکے ان کی مدد کی جائے.خواہ پیسوں کے ذریعہ یا کتب اور فیس کے معاف کرانے کے ذریعہ ہو.باہر کی لجنہ سے اس شعبہ کے ماتحت جور پورٹ مرکز میں آتی ہے اس میں انفرادی مساعی کا ذکر ہوتا ہے حالانکہ اجتماعی کوششوں کا ذکر ہونا چاہیئے کہ ہماری لجنہ مل کر اتنی رقم اکٹھی کرتی ہے کہ اس سے کئی خاندانوں کا گزارہ ہوتا ہے.ہر قوم کے افراد جو مدد کے محتاج ہوں ان کی مدد کی جائے تا سب کو معلوم ہو جائے کہ احمدیت میں تعصب نہیں.۲.شعبہ تعلیم کا کام یہ ہے کہ مختلف لجنات میں تعلیم کا انتظام کرے.اس سے ظاہری تعلیم مراد نہیں کیونکہ اس کے لئے سکول اور کالج ہیں.بلکہ اس شعبہ کے ماتحت مرکز سے ایسے کورس امتحان کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب رکھی جاتی ہیں.لیکن مجھے

Page 537

529 نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امتحان میں سارے پاکستان میں سے صرف ایک سوامتحان دینے والی شامل ہوتی ہیں.سال میں تین دفعہ امتحان ہوتے ہیں.اگر آپ کوشش کریں اور ہر بہن جواردو پڑھنا لکھنا جانتی ہے امتحانوں میں شامل ہو تو سال بھر میں دینیات کے حصول کا بہت بڑا فائدہ سب کو پہنچ سکتا ہے.تعلیم کے ساتھ دوسرا شعبہ تربیت کا ہے.اس کا ذکر خدمت خلق کے شعبہ کے ساتھ ہو چکا ہے.اس شعبہ کے ماتحت جہاں آپ دیگر برائیوں غیبت، جھوٹ اور عیب جوئی وغیرہ کو دور کریں وہاں بے پردگی کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں.حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بے پردگی کو دور کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے.آپ بے پردہ عورتوں سے کہیں کہ اگر آپ نے اسلام اور احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے تو آپ کو پردہ بھی کرنا پڑے گا.بیعت کے وقت آپ یہ عہد کرتی ہیں کہ جو نیک کام آپ بتائیں گے اس پر ہم عمل کریں گی.تو اگر آپ اسلام کو مان کر پھر پردہ ترک کرتی ہیں تو یقیناً آپ بیعت کے عہد کو تو ڑ رہی ہوتی ہیں.آپ کو علم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات پردہ کرتی تھیں جو کہتی ہیں کہ پردہ اسلامی رکن نہیں ہے کیا وہ ایک بے بنیاد بات نہیں کہتیں.پس جو پردہ کو چھوڑتی ہیں وہ آنحضرت علی ہے کا انکار کرتی ہیں کیونکہ پر وہ اسلام کا اور خاتم النبین کا حکم ہے اس لئے وہ رسول کریم ﷺ اور اس کے مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے خلیفہ کی مجرم ہیں.مسجد ہالینڈ مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے.آپ کی کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں اس دور دراز ملک میں پانچوں وقت اللہ کا نام بلند ہوتا ہے اور پانچوں نمازیں پڑھی جاتی ہیں.اس مسجد کے اخراجات میں سے اب صرف بارہ ہزار روپیہ قرض ہم پر رہ گیا ہے.آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی کوششوں کو جاری رکھیں اور بقیہ رقم ادا کرنے میں پوری مستعدی دکھا ئیں.وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے باقی شعبہ جات کا ذکر کئے بغیر صرف دو باتیں کہہ کر تقریر ختم کرتی ہوں.آپ دوسری چیزوں پر پیسے صرف کرتی ہیں لیکن نمائش کے لئے نہیں جاتیں نمائش میں صرف مرکز کی چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ باہر کی جماعتوں کی بھی ہوتی ہیں.اگر آپ نمائش کو دیکھیں گی تو جو نقائص آپ کو نظر آئیں گے ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آپ کا رآمد چیزیں بھجواسکیں گی.

Page 538

530 مصباح کے لئے آپ کثرت سے مضامین بھجوائیں تا کہ یہ رسالہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے.مصباح لجنہ اماء اللہ کا قومی اخبار ہے اس لئے تمام ممبرات کا فرض ہے کہ اس کی قلمی و مالی مدد فرمائیں.یہ خوشی کی بات ہے کہ رسالہ ترقی پذیر ہے.لیکن اکیلی مدیرہ اس کی کماحقہ ترقی کے لئے کافی نہیں.اس لئے سب کا تعاون ضروری ہے.موجودہ گرانی کے مدنظر مصباح کے اخراجات کو دیکھتے ہوئے اس کا سالانہ چندہ پانچ روپے کی بجائے چھ روپے کیا جاتا ہے.لجنہ اماءاللہ کی پہلی مطبوعہ سالانہ رپورٹ :.لجنات اماء اللہ کے بڑھتے ہوئے کام کا ریکار ڈمکمل اور محفوظ کرنے نیز لجنات کو ایک دوسرے کے کام سے باخبر رکھنے کے لئے اس سال حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ہر سال لجنات کی سالانہ رپورٹ کتابی صورت میں شائع ہوا کرے.چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق اس سال پہلی سالانہ رپورٹ شائع ہوئی جوا کتوبر ۱۹۵۷ء تا ستمبر ۱۹۵۸ء کی کارگذاری پر مشتمل تھی اور جلسہ سالانہ ۱۹۵۸ء کے موقع پر تقسیم کی گئی.اس رپورٹ میں لجنہ مرکزیہ کے شعبہ جات کی کارگذاری کے علاوہ مندرجہ ذیل انیس مقامات کی رپورٹیں شامل تھیں :.ربوہ، لاہور، کراچی، راولپنڈی، سرگودھا، گوجرانوالہ، احمد نگر، ملتان شہر، تلونڈی کھجوروالی، گولیکی، حیدر آباد سندھ، کنری سندھ، بشیر آباد سندھ، ملتان چھاؤنی، حافظ آباد، محمد آباد اسٹیٹ، کوٹ سلطان، چٹا گانگ مشرقی پاکستان.اس کے بعد سے لجنہ اماءاللہ کی سالانہ رپورٹ با قاعدگی کے ساتھ ہر سال کتابی صورت میں شائع ہوتی ہے اور میزانیہ کے علاوہ سارے سال کے چندہ جات کی تفصیل بھی شائع کی جاتی ہے.تعلیم القرآن کلاس: - حسب سابق اس سال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے شعبہ تعلیم کے ماتحت تعلیم القرآن کلاس لگائی گئی.کل ۲۷ طالبات شامل ہوئیں.قیام و ر ہائش کی نگران محترمہ استانی صابرہ صاحبہ ہیڈ مسٹرس انڈسٹریل مصباح فروری ۱۹۵۹ء صفحه ۱ تا۴

Page 539

531 سکول تھیں.مولوی رشید احمد صاحب چغتائی، محترمہ مبارکہ شوکت صاحبه، محترمه استانی میمونه صوفیه صاحبہ، عاجزہ امتہ الطیف اور محتر مہامہ اللہ خورشید صاحب مرحومہ طالبات کو پڑھاتی رہیں.نتیجہ مندرجہ ذیل رہا:.اول دوم قانتہ شاہدہ صاحبہ بنت قاضی محمد رشید صاحب محموده اختر صاحبه صفیہ صاحبہ بنت غلام حید ر صاحب باقی کامیاب طالبات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:.امته الرحمن ، صفیہ صاحبہ، سعیده شمیم صاحبہ، امۃ الرشید صاحبہ، سلیمہ فرزانہ صاحبہ، شاہدہ معین صاحبہ امتہ الکریم صاحبہ، حامدہ اختر صاحبه نسیم فردوس صاحبه ، عطیه جبین صاحبہ، مسعوده خانم صاحبه دوالمیال، ثریا جبین صاحبہ دوالمیال، صاحب نور صاحبه دوالمیال محمودہ شوکت صاحبہ کھاریاں، سیدہ امتہ الحمید صاحبہ کھاریاں، امتہ السلام صاحبہ کھاریاں، امتہ العزیز صاحبہ احمد نگر ا نتیجہ امتحان ضرورۃ الامام :.۱۴ را گست ۱۹۵۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ ”ضرورۃ الامام کا امتحان لیا گیا.بیرونی بجنات میں سے پشاور کی منظور ناہید اول آئیں اور لجنہ اماءاللہ ربوہ کے حلقہ جات میں سے امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ کیپٹن ملک خادم حسین صاحب اول آئیں ہے امتحان کشتی نوح: ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو کشتی نوح کا امتحان لیا گیا.کل ۲۵۱ ممبرات شامل ہوئی جن میں.۱۶۸ کامیاب ہوئیں.ناصرہ بیگم صاحبہ محمد آباد اسٹیٹ اول، لجنہ کراچی کی ایک ممبر دوم اور پروین اختر سوم رہیں.اجتماع کے موقع پر انعامات دیئے گئے سے ا الفضل ۲۲ مئی ۱۹۵۸ء صفحه ۶ ۲ الفضل ۱۴.اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۶ رپورٹ کارگذاری ۵۹ - ۱۹۵۸ء صفحریم

Page 540

532 امریکہ میں لجنہ اماءاللہ کا سالانہ اجلاس:.امریکہ کے سالانہ کنونشن کے موقعہ پر لجنہ اماءاللہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا.اس میں عورتوں کے فرائض ، بچوں کی تربیت کی اہمیت اور مالی امور کی طرف مؤثر طریق سے توجہ دلائی گئی.ہر جگہ لجنہ قائم کرنے ، لجنہ کے چندہ جات میں باقاعدگی اور مرکزی لجنہ کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرنے کی تجاویز پاس کی گئیں.مندرجہ ذیل ممبرات نے تقاریر کیں :.ا.محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ آف ڈیٹن محترمه نسیمه امین صاحبہ آف واشنگٹن محترمه جمیله افضل صاحبه آف نیویارک محتر مدامة الحفیظ ناصر صاحبہ آف واشنگٹن آئندہ سال کے لئے مندرجہ ذیل مرکزی عہدہ داران کا انتخاب ہوا:.۱.صدر اور سیکرٹری تعلیم ۲.سیکرٹری مال و تبلیغ محترمہ ذکیہ اشرف صاحبہ محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ آف ڈیٹن 1 لوکل لجنہ اور پٹس برگ کی لجنات نے با قاعدہ تربیتی اجلاس منعقد کئے اور تبلیغی کام بھی متواتر جاری رہا.لجنہ ڈیٹین نے چائے اور ڈنر کی فروخت کا سالانہ منافع ڈیٹن کی مسجد کی تعمیر میں دیا.دسمبر میں مینا بازارلگایا گیا جس میں کئی قسم کی اشیاء ( ہاتھ کی بنی ہوئی ) فروخت کی گئیں.مندرجہ ذیل نئے عہدہ داران کا انتخاب ہوا:.ا.صدر مسز منیرہ احمد آف سٹیٹ لارنس ۲.ریکارڈ نگ سکرٹری صالحہ رحمن صاحبہ ۳.سیکرٹری مال علیہ شہید صاحبہ ۴.سیکرٹری تعلیم ذکیہ اشرف صاحبہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا امتحان ہوا ہے.له الفضل ۱۱.نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۲ مصباح نومبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳۲

Page 541

533 غانا کے جلسہ سالانہ میں خواتین کا پروگرام :.غانا کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ ۱۶.۱۷.۱۸؍ جنوری کو منعقد ہوا.اس دفعہ بعض وجوہات کی بناء پر خواتین کا علیحدہ جلسہ تو نہ ہو سکا.تاہم مردوں کے سالانہ جلسہ میں خواتین کے دو مضمون پڑھ کر سنائے گئے.پہلا مضمون اہلیہ صاحبہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کا تربیت اولا د کے بارے میں تھا.دوسرا مضمون اہلیہ صاحبہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب پر نسپل احمد یہ سکول کماسی کا تھا.انہوں نے مسلمان عورت کی ذمہ داریوں کی طرف احمدی خواتین کو توجہ دلائی.ہر دو مضامین کو بہت پسند کیا گیا لجنہ اماءاللہ سیرالیون کی تبلیغی مساعی :.لجنہ کے ہفتہ واری اجلاس با قاعدہ ہوتے رہے.ان اجلاسوں میں پردہ کے فوائد اور تربیت اولاد پر زور دیا گیا.بہنیں صبح و شام درس قرآن کریم اور حدیث سے فائدہ اٹھاتی رہیں.بہنیں وفد بنا کر اردگرد کے شہروں میں جا کر تبلیغ کرتی رہیں جس کا خوشکن اثر ہوا.بو سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں مترو میں لجنہ کا تبلیغی وفد گیا.وہاں پر عورتوں اور مردوں نے بہت دلچسپی کا اظہار کیا.رئيس التبلیغ مغربی افریقہ مکرم سیفی صاحب کی بو میں آمد پر لجنہ اور ناصرات کی طرف سے انہیں ایڈریس پیش کیا گیا.جس کے جواب میں مکرم سیفی صاحب نے لجنہ اماءاللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.ہے بوشہر کی لجنہ مستعدی اور اخلاص کے ساتھ باقاعدہ کام کرتی رہی.الحاج علی روجز صاحب کی اہلیہ کی کوشش سے ایک عیسائی عورت نے اسلام قبول کیا.الحاج چیف قاسم کا مانڈہ صاحب کی لڑکی کی وفات پر لجنہ کی صدر و سکرٹری اور ایک بزرگ عورت پر مشتمل ایک وفد گیا.انہوں نے وہاں تین دن قیام میں تبلیغ کی اور چیف صاحب کے گھر پر ایک جلسہ کا بھی اہتمام کیا گیا.سیرالیون میں مکر مہ امتہ القیوم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی کوششوں سے له الفضل ۲۷ فروری ۱۹۵۸ء صفحه ۴ ۲ الفضل ۱۶.دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۲۴.اگست ۱۹۵۸ء صفحه ۳

Page 542

534 دو عورتوں نے اسلام قبول کیا.سیرالیون کے سالانہ جلسہ کے موقع پر لجنہ اماء اللہ نے ایک نمائش کا اہتمام کیا.اس میں بہنوں کی بنائی ہوئی اشیاء رکھی گئیں.مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی تحریک (جو انہوں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر کی ) پر احباب جماعت نے یہ نمائش دیکھی اور اس سے لجنہ کو کافی منافع ہوا ہے.سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ نائیجیر یا ۱۹۵۸ء:- محترمہ سیکینه سیفی صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ نے رپورٹ بھجوائی کہ ہفتہ واری اجلاس: سال بھر ہفتہ واری اجلاس ہوتے رہے جن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ارشادات کے ترجمہ کے علاوہ اسباق نماز اور دعائیں سکھائی جاتی رہیں اور مختلف چندوں کی تحریک کی گئی.دوران سال میں دو بچوں کو قرآن کریم ختم کروایا گیا.تبلیغ :.شروع سال میں یہ پروگرام بنایا گیا کہ عورتیں گروپ کی صورت میں جا کر تبلیغ کریں اور لٹریچر فروخت کریں یا مفت تقسیم کریں.یہ پروگرام پہلے ماہوار پھر پندرہ روزہ کر دیا گیا اور خدا کے فضل سے اس میں کافی کامیابی ہوئی.لٹریچر فروخت کرنے کے علاوہ زبانی تبلیغ بھی کی گئی.ہر ہفتہ قریباً پانچ درجن اخبار ٹر تھ مفت تقسیم ہوتے رہے.جل مصلح موعود :- :.ماہ فروری میں جلسہ مصلح موعود اہتمام کے ساتھ منعقد کیا گیا.اس میں لجنہ کی ممبرات نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا.ممبرات کافی تعداد میں شامل ہوئیں.قریباً سب نے سبز کپڑے پہنے ہوئے تھے.اس دن سلسلہ کا لٹریچر فروخت کرنے کا بھی انتظام کیا.اکثر بہنوں نے کافی کتابیں خریدیں.الفضل ۲۷.دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۵۸ء صفحہ ۵

Page 543

535 اسی طرح دوران سال یوم مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) منایا گیا.اس میں بھی کافی تعداد میں بہنوں نے حصہ لیا.رمضان میں درس قرآن کریم :.رمضان کے مہینہ میں درس قرآن کریم کا انتظام کیا گیا جو یہاں کے ایک احمدی مشن ہاؤس میں آکر یورو با زبان میں دیتے تھے.درس کے بعد دعائیں یاد کرائی جاتی رہیں.خاص طور پر حضور پرنور کی صحت کے لئے اور غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کی گئیں.مشن کے دیگر کام :.جلسہ سالانہ پر مہمانوں کے کھانے کا انتظام لجنہ کے سپرد ہوتا ہے جسے بڑی خوشی سے ممبرات سرانجام دیتی ہیں.اس کے علاوہ جب بھی مشن کی طرف سے کسی دعوت یا پارٹی کا انتظام کیا گیا.ممبرات نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا اور کھانا وغیرہ لگانے میں کافی مدد دیتی رہیں.اسی طرح شادی یا غنی کے مواقع پر بھی بہنوں نے حصہ لیا.سرکلر لیٹر :.لیگوس سے باہر کی لجنات کی تربیت اور ان کی مذہبی تعلیم کے متعلق اسباق لکھے گئے اور ٹسٹ کے لئے مذہبی سوال وجواب لکھے گئے.یہ ٹسٹ جلسہ کے ایام میں ہوا.اور اس موقعہ پر بہنوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام کے طور پر کتب دی گئیں.چندے:.ماہوار چندہ ، چندہ مسجد ہالینڈ ، سکول فنڈ، مشنری فنڈ اور چندہ تحریک جدید جمع کئے گئے.مشنری فنڈ سے مراد پاکستانی مبلغین کا پاکستان سے نائیجیر یا تک کا سفرخرچ ہے.لجنہ اماءاللہ نائیجیریا کی چوتھی کا نفرنس :- ۲۵ دسمبر ۱۹۵۸ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لجنہ اماءاللہ کی چوتھی سالانہ کانفرنس منعقد

Page 544

536 ہوئی.جس میں نومشنوں کی لجنات کی نمائندگان نے حصہ لیا.یہ کانفرنس سنٹرل مسجد لیگوس میں منعقد ہوئی.تلاوت کے بعد خاکسار نے بہنوں کو اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی بعد ازاں امۃ المجید صاحبہ اہلیہ شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے تقریر کی.پھر عزیزہ بشریٰ نے مضمون پڑھا.تقاریر کے بعد باہر سے آنے والی لجنات نے اپنی رپورٹس سنائیں اور بعد میں دینی مسائل کا امتحان ہوا.اور انعامات تقسیم کئے گئے.لیگوس کی لجنہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرتی ہے.چنانچہ اس دفعہ بھی یہ انتظام کیا گیا.انڈونیشیا میں لجنہ کی میٹنگ:.انڈونیشیا میں احمدی جماعتوں کی نویں سالانہ کا نفرنس منعقدہ ۱۸ ۱۹ ۲۰/ جولائی ۱۹۵۸ء) کے موقع پر مورخہ ۱۸؍ جولائی کو لجنہ اماءاللہ نے اپنا اجلاس کیا جوا گلے روز ہفتہ کے دن بھی جاری رہا.مختلف لجنات کی رپورٹیں سنیں.آئندہ کے طریق کار پر بحث کی گئی اور ترقی کی تجاویز پر غور کیا گیا.جن جن جماعتوں میں ابھی لجنہ قائم نہیں ان میں لجنہ کے قیام کی تحریک کی گئی.ناصرات الاحمدیہ نے بھی اپنی اپنی مجالس کی رپورٹ پیش کی اور ترقی کی تجاویز پر غور کیا گیا.ہے سالانہ اجتماع کا التواء:.متفرقات اس سال بعض انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے لجنہ اماءاللہ کا سالانہ اجتماع ملتوی کر دیا گیا ہے اعتکاف:.مسجد مبارک ربوہ میں اس سال رمضان المبارک کے موقع پر ۲۹ عورتیں معتکف ہوئیں ہے.لے رجسٹر کا رروائی لجنہ اماءاللہ نائجیریا ۳ الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۶ ۲ الفضل ۲۳ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۳.اپریل ۱۹۵۸ء

Page 545

537 درس القرآن :- رمضان المبارک میں لجنہ اماءاللہ ربوہ کی طرف سے مندرجہ ذیل پانچ حلقوں میں درس القرآن کا انتظام کیا گیا.ا.دارالرحمت شرقی محترمه محمودہ خاتون صاحبه ۲.دار الرحمت وسطی محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ قاضی محمد رشید صاحب ۳.دار الرحمت غربی محترمه مسعوده بیگم صاحبه ۴.دار الصدر شرقی محترمہ نصیرہ نزہت صاحبہ ۵ - دار الیمن محترمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ خلیفہ صلاح الدین صاحب! مصباح کا خاص نمبر :.دسمبر میں ” مصباح کا کشیدہ کاری اور خانہ داری نمبر شائع ہوا.جو بہت پسند کیا گیا.تعلیمی وظائف:.لجنه مرکزیہ کے شعبہ تعلیم کی طرف سے چار تعلیمی وظائف ایک دس روپے ماہوار کا اور دو پانچ پانچ روپے ماہوار کے نصرت گرلز ہائی سکول کی شوقین اور مستحق طالبات کے لئے جاری کئے اور ایک وظیفہ دس روپے ماہوار کا جامعہ نصرت کی طالبہ کو دیا جاتا رہا.ہے شعبہ تربیت کا قیام:.شعبه تربیت کو شعبہ تعلیم سے الگ کر دیا گیا.اس شعبہ کے ذمہ یہ کام لگائے گئے.جماعت کی مستورات میں اسلامی اخلاق پیدا کرنا.اسلامی طرز تمدن کا قیام اور پردہ کا قائم رکھنا وغیرہ بعض احمدی مستورات بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی بے پردگی کا شکار ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی دور بین نگاہوں نے آنے والے خطرات کو دیکھا اور اپنی جماعت کے مردوں اور عورتوں کو اس خرابی سے خبر دار کرتے له الفضل ۱۰ مئی ۱۹۵۸ء صفحه ۵ سالانہ رپورٹ کا رگذاری لجنہ اماءاللہ مرکز یہ صفحہ ۵

Page 546

538 ہوئے اس شعبہ کے سپر دیدہ کام کیا وہ ایسی سکیمیں تیار کرے جس سے بے پردگی کی جڑ کٹ جائے.شعبہ خدمت خلق :.موسم سرما میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے شعبہ خدمت خلق کی طرف سے رضائیاں تیار کروا کے مستحقین میں تقسیم کی گئیں.لجنہ اماءاللہ کراچی نے دوصد روپے کپڑے کے لئے بھجوائے جو مستحق خواتین میں تقسیم کئے گئے.سال رواں میں شعبہ خدمت خلق کی کل آمد پانچ صد روپے ہوئی.لجنہ ربوہ نے لجنہ مرکزیہ کے علاوہ عیدالفطر کے موقع پر ۲۶۰ روپے کا کپڑا تقسیم کیا اور اس کے علاوہ متفرق موقعوں پر کپڑے، بستر ، نصاب کی کتب اور نقدی سے مستورات کی مدد کی.لجنہ اماءاللہ لا ہور نے رمضان کے مہینہ میں غرباء میں گھی تقسیم کیا اور عید کے موقعہ پر دو تھان کپڑے کے تقسیم کئے ہے کارکن دفتر لجنہ مرکزیہ :.حمیدہ بیگم والدہ برکت اللہ صاحب دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی مخلص اور پرانی انتھک کارکنوں میں سے ہیں.ان کے سپر د جو کام بھی کیا جائے اسے شوق اور مستعدی سے کرتی ہیں.۲۵ / جنوری ۱۹۵۸ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا.دورہ جات :.دوران سال مندرجہ ذیل لجنات کے دورے کروائے گئے:.ضلع سرگودھا:.ا.چک ۴۳ جنوبی -۲- چک ۳۷ جنوبی ۳- چک ۳۳ ملکے والا ۴- چک ۳۵ ۵- چک ۳۷ احمد نگر ۷.سرشمیر روڈ چک ۴ ۸.ڈھیٹی ضلع لائلپور:.ا.چک ۸۸، ۲.دھول ماجرہ چک ۸۶/ ج - ۳- چک ۸۹/ ج ب رتن ا الفضل ۴.جون ۱۹۵۸ء صفر یم رپورٹ کارگذاری ۵۸ - ۱۹۵۷ء صفحہ ۸

Page 547

539 ضلع گوجرانولہ:.ا.شہر گوجرانوالہ ۲.راہوالی - گھڑ ۴ تلونڈی کھجوروالی ۵.گجو چک ۶ - ترگڑی ضلع جہلم :.ا.دوالمیال ۲.چکوال سندھ:.-۱- ناصر آباد ۲ محمود آباد - کنری ۴ نبی سر روڈ ۵- احمد آباد ۶.ڈگری ے.میر پور خاص - حیدرآباد ۹ - محمد آباد ۱۰ کریم نگر ۱۱ نور نگر ضلع جھنگ :.ا.چنیوٹ شہر ضلع سیالکوٹ :.ا.سیالکوٹ شہر ۲.ڈسکہ ۳.سمبڑیال ۴ رلیو کے ۵- بدوملہی ۶.قلعہ صو با سنگھ ے.مالو کے بھگت ۸.دانہ زید کا ضلع منٹگمری :.ا منٹگمری، ۲- چک نمبر ۲ - ۶/۱۱ ۳- چک نمبر ۲ - ۳۰/۱۱ ۴.بوریوالا ، ۵.عارف والا اے نئی لجنات کا قیام:.ا گجو چک ضلع گوجرانوالہ ۲.سرشمیر روڈ چک نمبر ۸۴ ۳.ڈھیٹی ضلع لائکپور ۴.چک ۳۸ لجنہ تر گڑی ضلع گوجرانوالہ کا کام بند ہو چکا تھا.اس سال اس کا احیاء ہوا.انتظامات جلسه سالانه مستورات ۱۹۵۸ء:- جلسہ سالانہ مستورات ۱۹۵۸ء کے موقع پر انتظامات کا نقشہ مندرجہ ذیل تھا.مرکزی شعبہ جات ناظمه قیام گاہ مستورات ے رپورٹ رجسٹر دورہ جات ۱۹۵۸ء حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ

Page 548

540 نائب ناظمات قیام گاہ مستورات سیده بشری بیگم صاحبہ اجرائے پرچی انسپکٹرس حمیدہ صابرہ صاحبہ دختر ڈاکٹر فیض علی صاحب صابر سعیدہ احسن صاحبہ، امینہ بیگم صاحبہ ایم.اے،رضیہ دردصاحبہ سراج بی بی صاحبہ، امتہ الحکیم صاحبہ ریحانه ستار صاحبہ فرخندہ شاہ صاحبہ پرنسپل جامعہ نصرت استانی ناصره رحمن صاحبه لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ محترمہ زینب خاتون صاحبه استانی سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب، نصیرہ نزہت صاحبہ استانی امۃ النصیر صاحبه سٹور و روشنی طبی امداد انتظام کارکنات واعظه منتظمہ صفائی و آب رسانی تقسم کھانا استانی صابره رحمن صاحبه، سردار بیگم صاحبه تقسیم سالن محترمه امینہ بیگم عبدالکریم صاحبہ تقسیم روٹی امتہ السلام عطا محمد صاحبہ منتظمه استقبال امته الجميل لطیف صاحبه منتظمہ ملاقات استانی رضیہ سلطانہ صاحبہ منتظمہ دوکانات صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ منتظمہ قیام گاہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوه استانی سیده مهدی حسین صاحبه نائبہ قیام گاہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ منظور النساء صاحبہ لیکچرار جامعہ نصرت استقبال و ملاقات وسٹور استانی صالحه خاتون صاحبه اس سال ۵ء میں پہلی بار ا نتظامات بہتر بنانے کیلئے لاؤڈ سپیکر استعمال میں لایا گیا.۲ الفضل ۲۳ ر ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۵۸ الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحه ۶

Page 549

541 جلسہ سالانہ کے لئے سٹور جمع کرنے کی تحریک :.۱۹۵۸ء میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے پھر تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ بہنوں کو علم ہوگا کہ جس سال ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا تھا لجنہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ جلسہ سالانہ کا سٹور ہم خود جمع کریں گی تاکہ ہمیں مردانہ دفتر سے چیزیں نہ مانگنا پڑیں، چنانچہ سب لجنات نے حصہ لیا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر کئی سو بالٹی، ٹوکریاں، تھالیاں ، گلاس، لالٹینیں اور دستر خوان جمع ہو گئے اور کئی سال مہمان خواتین نے اس سامان سے فائدہ اٹھایا.لیکن اب وہ سب سامان قریباً خراب ہو چکا ہے.لالٹینیں ٹوٹ چکی ہیں.اسی طرح دوسرا سامان بھی.میں لجنات سے پھر خواہش کرتی ہوں کہ شہری لجنات دوران سال میں بالٹیاں ، لالٹینیں ، گلاس، تھالیاں، کھانا نکالنے کے چمچے اور دستر خوان جمع کر کے یا خرید کر ہمیں بھجوائیں.اور دیہاتی لجنات ٹوکریاں، چٹائیاں اور دستر خوان.اس طرح ایک بار پھر سامان جمع ہو جائے گا اور کئی سال کے لئے کافی ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر ایک مرتبہ بہت سارا سامان جمع ہو گیا.شعبه مال ۵۸-۱۹۵۷ء:- امسال لجنہ اماء اللہ کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا.۵۸ - ۱۹۵۷ء کا تخمینہ آمد ۱۹۴۱۹ روپے رکھا گیا تھا لیکن آمد ۲۹۸۹۶ روپے ہوئی.اور لازمی اخراجات کے علاوہ انڈسٹریل سکول کی عمارت اور خرید لاؤڈ سپیکر کے لئے صدر انجمن احمدیہ سے جو قرضہ لیا گیا تھا اس کا قریباً نصف اس سال ادا کر دیا گیا.کے سالانہ رپورٹ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ۱۹۵۸ء

Page 550

542 چندہ ممبری لجنہ اماءاللہ اصل آمد ۷۷۰۵ | عمله دفتر اصل اخراجات چندہ ناصرات الاحمدیہ ۲۱۱ | سائر اخراجات متفرق آمد ۳۸۳۰ اخراجات شعبہ جات نصرت انڈسٹریل سکول ۴۳۷۳ نصرت انڈسٹریل سکول مصباح ۵۷۰۱ | مصباح ۲۵۰ سالانہ اجتماع نفع نصرت زنانہ سٹور چنده سالانه آمد برائے گیلری فضل عمر جونئیر سکول میزان ۲۵۱۴ ۴۶۲۶ ۱۲۲۵ ۴۸۰۲ ۵۷۲۵ 2 +1 ۳۸۲ واپسی قرضه صدرانجمن احمدیه ۷۵۲۲ ۱۳۹۷ سیکھے ہال لجنه ۶۱۷۷ فضل عمر جونئیر سکول ۲۹۸۹۶ ۶۴۱۵ قرضه از صدرانجمن احمدیہ ۷۹۲۳ | میزان میزان ۳۷۸۱۹ اس سال بھی ۲۲ الجنات نے چندہ دیا.مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا کی وفات: ۳۴۱۸۰ ۳۴۱۸۰ مولا نا رحمت علی صاحب مبلغ انڈو نیشیا مورخه ۳۱ اگست صبح ساڑھے پانچ بجے ربوہ میں انتقال فرما گئے.انا للہ واناالیه راجعون مولانا کی عمر وفات کے وقت ۶۵ سال تھی.آپ ان بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے خدمت سلسلہ میں اول تا آخر اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور قربانی کی روح میں باوجود بے شمار رکاوٹوں کے کبھی کمی نہ آنے دی.آپ کے ذریعہ انڈونیشیا میں بیسیوں مخلص جماعتیں قائم ہوئیں جہاں آپ نے لجنات کا قیام بھی فرمایا.لے مصباح اکتوبر ۱۹۵۸ ء صفحه ۱

Page 551

543 آپ کی اہلیہ محترمہ عائشہ صاحبہ کو بھی لجنہ اماءاللہ کی گرانقدر خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا.سیدہ طینت صاحبہ کی امریکہ میں وفات :.مکرم سید جواد علی صاحب مبلغ امریکہ کی اہلیہ محترمہ سیدہ طینت صاحبه ۶ ار مارچ ۱۹۵۸ء کو ٹیس برگ میں وفات پا گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.ان کی وفات پر لجنہ مرکزیہ نے ۲۷ مارچ کے اجلاس میں یہ تعزیتی قرارداد پاس کی کہ لجنہ مرکز یہ اس صدمہ عظیمہ پر مرحومہ کے تمام لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور سید جواد علی صاحب اور مرحومہ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور تین سالہ بچی کا بھی خود حافظ و ناصر ہو.! مرحومہ کی وفات پر لجنہ اماءاللہ سیالکوٹ شہر نے بھی تعزیتی قرارداد پاس کی کہ:.لجنہ اماءاللہ شہر سیالکوٹ کی تمام ممبرات سیدہ طینت جواد صاحبہ کی بے وقت موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہیں اور ان کے لواحقین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کی معصوم بچی کا خود حافظ و ناصر ہو.اور سید جواد علی صاحب کو جو اس وقت وطن سے باہر ہیں اس صدمہ عظیم کو برداشت کرنے کی توفیق دے.آمین ناصرات الاحمدیہ :.۱۹۵۵ء کے آغاز میں جب عاجزہ مستقل رہائش کے لئے ربوہ آگئی تو گیارہ مارچ ۱۹۵۵ء کو ناصرات الاحمد یہ مرکزیہ کا شعبہ پھر میرے سپرد ہوا.مقررہ نصاب کے مطابق سال بھر کا پروگرام وضع کیا گیا اور پھر بیرونی مقامات پر بالعموم اور ربوہ میں بالخصوص اس پر عمل کرنے کے لئے بذریعہ دورہ جات، خطوط، اعلانات مصباح والفضل وسرکر توجہ دلائی جاتی رہی جس سے کام میں نمایاں اور غیر معمولی ترقی ہوئی.متعدد مقامات پر ناصرات الاحمدیہ کا قیام ہوا.اور کئی جگہ احیاء کیا گیا.ے رجسٹر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ الفضل ۱۲۰ پریل ۱۹۵۸ء صفحه ۴

Page 552

544 ربوہ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، کراچی، راولپنڈی، سرگودھا، لاہور، لائل پور ، کھاریاں اور محمد آبا دسندھ کی ناصرات کا کام با قاعدہ اور قابل تعریف رہا.ربوہ میں ۱۹۵۵ء میں سات حلقے تھے.۱۹۵۸ء تک دس حلقے ہو گئے تھے.اجلاسوں کے لئے تفصیلی پروگرام مقرر کیا گیا.جس کی اہم شقیں یہ تھیں :.ا.تلاوت قرآن کریم تلاوت قرآن کریم ہر بچی کے لئے لازمی قرار دی گئی اور قرآن مجید کے پہلے رکوع سے شروع کیا جائے تا کہ آہستہ آہستہ قرآن مجید کا دور مکمل ہو سکے اور ان کی غلطیاں درست ہوسکیں.نظم:.درثمین اور کلام محمود میں سے نظمیں پڑھی جائیں اور ان کے معنے بتائے جائیں.اور حفظ کرنے کا بھی انتظام کیا گیا.چنانچہ بہت سی لڑکیوں نے بڑے شوق سے لمبی نظمیں بھی حفظ کیں.۳.حدیث :.چہل احادیث زبانی یاد کرائی جائے.۴.کہانی :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات کہانی کے رنگ میں.۵.تقاریر:.سادہ اور عام فہم عنوانات پر زبانی ہی تقریریں کروائی جائیں تا کہ لڑکیوں کو زبانی تقریروں کی مشق اچھی طرح ہو جائے.اس کے نتیجہ میں لڑکیاں بہت شاندار تقریریں کرنے لگ گئیں.۶.سوال و جواب:.آسان اور دلچسپ رنگ میں سوالات اور ان کے جوابات بتائے جائیں.لجنہ کے اجلاسوں میں ناصرات کی رپورٹ سنائی جانے کا انتظام کیا جائے.امتحانات:.مقررہ نصاب میں سے کچھ حصہ مقرر کر کے اعلان کروایا جا تا اور پھر اس کا امتحان لیا جاتا.مثلاً نما ز ساده و با ترجمه ، چہل احادیث، ادعیۃ الرسول کی مسنون دعائیں ، در مشین کی نظمیں اور سیرۃ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، پیشگوئی مصلح موعود وغیرہ وغیرہ لا توجہ دینے سے اتنی کثرت سے بچیاں امتحان دینے لگیں کہ ان کی تعداد ہزار سے بھی تجاوز کر گئی.۲۱؍ جولائی ۱۹۵۷ء کو ( فتنہ منافقین کے پیش نظر ) رسائل خلافت کا جو امتحان ہوا تھا.اس میں بھی لڑکیوں نے شرکت کی.جلسے:.یوم مصلح موعود ، یوم خلافت، یوم سیرۃ النبی اور دیگر جماعتی تقریبات پر بھی جلسے منعقد ل الفضل ۱۱.اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۶

Page 553

545 کئے گئے جن میں بچیوں کے انعامی تقریری مقابلے کروائے جاتے.فتنہ منافقین کے ایام میں برکات خلافت پر ایک خاص جلسہ منعقد ہوا جس میں خلافت کے ساتھ عقیدت و وابستگی پر ایک قرارداد پاس کر کے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی خدمت میں بھجوائی گئی.ان جلسوں کے موقع پر سٹال بھی لگائے گئے تھے جن کی آمد سالانہ اجتماع ناصرات کے لئے خرچ کی جاتی تھی.جلسوں میں بزرگان سلسلہ کی تقاریر کا انتظام بھی کیا جاتا.مثلاً ابوالبشارت مولانا عبدالغفور صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ اور چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ وافریقہ اور حافظ محمد رمضان صاحب مرحوم نے نقار بر فرمائیں.میجک لینٹرن: فروری ۱۹۵۷ء میں مکرم ماسٹر محمد شفیع صاحب استکم کا لیکچر بذریعہ میجک لینٹرن کروایا سلائیڈ علمی تبلیغی، تاریخی اہمیت کی حامل تھیں.یہ لیکچر بڑی دلچسپی سے سنا گیا.ایک لیکچر قاضی محمد رشید صاحب مرحوم کے مکان پر اور دوسرا لجنہ کے ہال میں ہوا.داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا جو دو آنے تھا.قریباً ایک صد روپے اکٹھا ہوا.یہ بھی اجتماع کے اخراجات کے کام آیا.استقبال حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی: مورخه ۱۵ ستمبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی سفر یورپ سے (حضور بغرض علاج تشریف لے گئے تھے ) بخیریت واپس ربوہ تشریف لائے.اس موقع پر ناصرات نے بھی حضور کا پر تپاک خیر مقدم کرنے میں نمایاں حصہ لیا.ناصرات سے محلہ وار سبز جھنڈے اور قطعات تیار کروائے گئے تھے.جن پر سنہری حروف میں اھلاً و سھلاً و مرحباً ، خوش آمدید اور دیگر عبارتیں اور اشعار لکھوائے گئے تھے.استقبال کرنے کے لئے ناصرات الاحمدیہ کو دفاتر تحریک جدید سے ملحق پلاٹ میں مکرم امیر صاحب مقامی کی اجازت سے کھڑا کیا گیا تھا.حضور کی تشریف آوری پر چھوٹی بچیوں نے جو اشعار مل کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھے ان میں سے چند یہ ہیں:.

Page 554

546 چمن والو مبارک ہو چمن کا باغباں آیا ہمارا دلستاں آیا ہمارا مہرباں آیا اٹھو خوشیاں مناؤ مصلح موعود آتا ہے زندگی لے کر میرا محمود آتا ہے پیام اہل مشرق کی دعاؤں کا جواب آ ہی گیا دوره مغرب سے مرد کامیاب آ ہی گیا جانے کتنے دل تھے مصروف دعا رونق ربوه ذرا ربوه میں آ T گئی اهلا وسهلا کی پکار آنے والے مرحبا صد مرحبا صد مبارک آرہے آرہے ہیں آج وہ روز و شب بے چین تھے جن کے لئے آ گیا آخر خدا کے فضل ނ دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے ناصرات الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع :- ۱۹۵۵ء میں جب ناصرات کا کام باقاعدگی سے شروع ہو گیا تو جلسوں اور عام دینی معلومات کے مقابلوں میں بچیوں کی غیر معمولی حاضری اور دلچسپی اور شوق کو دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ ان کا سالانہ

Page 555

547 اجتماع منعقد کیا جایا کرے.فیصلہ کیا گیا کہ ۱۹۵۶ء میں سالانہ امتحانوں کے بعد اجتماع ہو لیکن امتحانات کے طویل سلسلے کی وجہ سے یہ اجتماع ۲۵ / اکتوبر کو منعقد ہوسکا.اجتماع کی تیاری اور انتظامی امور کی سرانجام دہی میں محترمہ سیدہ نصیرہ صاحبہ بیگم مرزا عزیز احمد صاحب محترمہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، محترمہ بیگم صاحبہ مرزا حفیظ احمد صاحب، محتر مہ امۃ الرشید شوکت صاحبه، محترمه استانی حمیدہ صابرہ صاحبہ نے تعاون کیا اور مفید مشورے دیئے.۲۳ اکتوبر کو اجتماع کا باقاعدہ ریہرسل ہوا.ناصرات کے لئے محلہ وار بیٹھنے کی جگہ مقرر کی گئی.سب بچیوں کے لئے سفید یونیفارم اور دوپٹوں کے مختلف رنگ مقرر کئے گئے اور ہر حلقے کا الگ الگ جھنڈا بنوایا گیا.۲۵ اکتو بر کو صبح آٹھ بجے اجتماع شروع ہوا جو شام کے پانچ بجے تک جاری رہا.تقریباً تین صد لڑکیاں شامل ہوئیں جو یو نیفارم اور دو بیٹوں میں ملبوس اپنے اپنے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور جاذب نظر جھنڈوں کے ساتھ محلہ وار مقام اجتماع میں پہنچیں.تلاوت قرآن کریم ونظم کے بعد پہلے تلاوت اور پھر تقاریر کے مقابلے کرائے گئے جن میں بچیوں نے بڑے شوق سے حصہ لیا.پھر محلہ جات کے عہدیداروں نے اپنے اپنے محلوں کی رپورٹیں پڑھ کر سنائیں.دو پہر کا کھانا و ہیں پیش کیا گیا.اس کے لئے تین دیگیں پلاؤ کی پکوائی گئی تھیں.کھانے کی تقسیم کا انتظام بہت اچھا رہا.نماز ظہر وعصر کے بعد کھیلوں کے مقابلے ہوئے جس کے بعد اختتامی اجلاس منعقد ہوا.اس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے ناصرات سے مؤثر پیرا یہ میں خطاب کرتے ہوئے ان کے اجتماع اور اس کے انتظامات پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.آپ نے اپنے خطاب میں سادہ اور دلکش اور عام فہم انداز میں بچیوں پر اطاعت اور فرماں برداری کی اہمیت واضح فرمائی اور بتایا کہ بچیوں کی آئندہ ترقی اور بہتری کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ ماں باپ، استادوں، عہد یداروں اور سب بڑوں اور بزرگوں کا کہا مانیں اور اطاعت کی روح پیدا کریں.اس کے بعد آپ نے اجتماع کے موقع پر ہونے والے مختلف مقابلوں اور کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی لڑکیوں کو اپنے دست شفقت سے انعامات عطا فرمائے اور پھر اختتامی دعا ہوئی.اس طرح ناصرات الاحمدیہ کا یہ پہلا اجتماع بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.

Page 556

548 انعامات حاصل کرنے والی لڑکیوں کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں :.گروپ نمبرا.تلاوت میں اول دوم گروپ نمبر ۲.تلاوت میں اول دوم شاہدہ صاحبہ دارالصدرشرقی امة المتین دارالصدر غربی فاطمه بشری صاحبہ دارالصدر شرقی زاہدہ منصورہ صاحبہ دارالصدر غربی گروپ نمبرا.تقریری مقابلہ میں اول دوم رفیقہ صاحبہ دار النصر زاہدہ منصورہ صاحبہ دارالصدرغربی (الف) نیم غزنوی صاحبہ دارالصدر شرقی (ج) گروپ نمبر ۲.تقریری مقابلہ میں اول دوم طاہرہ صدیقہ صاحبہ دارالرحمت وسطی حسن کارکردگی گذشته سال ۱۹۵۵ء اول دوم امة الحمید صاحبه ( نگران ناصرات الاحمدیہ ) دارالرحمت وسطی امتہ القیوم صاحبه ( نگران ناصرات الاحمدیہ ) دار الصدر غربی (الف) حسن کارکردگی دوران سال ۱۹۵۶ء اول ہمشیرہ صاحبہ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب دارالیمن

Page 557

549 دوم پیغام رسانی میں امتہ القیوم صاحبه ( نگران ناصرات الاحمدیہ ) دارالصدر غربی (الف) اول دار الرحمت شرقی دوم دار الصدر (ج) دوڑ میں اول دار الرحمت وسطی دوم دار الرحمت شرقی پہلا سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ لاہور ۱۹۵۵ء خاکسار کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ لاہور نے ۲۵ مئی کو اپنا اجتماع مسجد احمد یہ دہلی دروازہ منعقد کیا.اس کا اعلان الفضل میں بھی کیا گیا.چونکہ لاہور میں یہ اجتماع کا پہلا موقع تھا اس لئے دو دن قبل لاہور پہنچ کر ساری تیاری کروائی گئی.اور پروگرام مرتب کیا گیا.صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کارروائی جاری رہی.اسی دوران تلاوت، نظم اور تقریری مقابلوں کے علاوہ عام دینی معلومات کا بھی امتحان لیا گیا اور اول و دوم آنے والی بچیوں کو انعامات دیئے گئے.محترمہ زینب حسن صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ لاہور ،محترمہ شاہدہ ریاض صاحبہ اور محترمہ ممتاز فقر اللہ صاحبہ نے شوق اور محنت سے اجتماع کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا.انڈونیشیا میں ناصرات الاحمدیہ بیرونی ممالک کی بعض لجنات میں بھی خدا کے فضل سے ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آچکا له الفضل ۲۲٬۲۱ مئی ۱۹۵۸ء

Page 558

550 تھا.سیرالیون ، انڈونیشیا وغیرہ میں.۱۹۵۶ء اور ۱۹۵۸ء میں انڈو نیشیا کی احمدی جماعتوں کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر ناصرات الاحمدیہ کے جلسے بھی منعقد ہوئے.ان میں ناصرات کی عہدیداروں نے بھی اپنی رپورٹیں پیش کیں.1 ۱۹۵۷ء میں رمضان المبارک کے مہینہ میں مغربی جاوا کے شہر گا روت میں ناصرات کا پندرہ روزہ تربیتی کیمپ لگایا گیا.روزانہ چار گھنٹے مختلف موضوعات پر مثلاً عبادت، اخلاق، تاریخ اسلام، سلسلہ احمدیہ کے عقائد اور ابتدائی فقہی مسائل پر لیکچر ہوتے رہے.تقاریر کی مشق کروائی گئی اور آخر میں امتحان لیا گیا.۲ ا الفضل ۶ مئی ۱۹۵۶ء صفحه ۳ و الفضل ۲۳.ستمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۳ الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۵۷ء صفحه ۳

Page 559

551 ضمیمہ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول قارئین کی نظر میں:.-۱- محترمہ امة الحفيظ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ انگلستان :- یہ ایک ایسی خدمت اور ایسا کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے کہ احمدی نسلیں رہتی دنیا تک آپ کی ممنون احسان اور دعا گور ہیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ -۲ محترمہ سلیمہ نذیر صاحبہ جنرل سکرٹری لجنہ اماءاللہ لنڈن :- " آپ کی طرف سے ارسال کردہ چالیس جلد تاریخ لجنہ اماءاللہ بذریعہ محتر مہا کبری صاحبہ مل گئی ہیں.جزاک اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ ہر رنگ میں بہتر سے بہتر اجر سے نوازے کہ آپ نے یہ کتاب لکھ کر ایک بڑا احسان کیا ہے.اس کے پڑھنے سے بہت سی بہنوں میں جذبہ عمل اور جن میں سستی ہے ان میں چستی اور قربانی کا شوق پیدا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ پہلوں کے نقش قدم پر چلیں اور دینداری وقربانی میں کسی طرح ان سے پیچھے نہ رہیں.آمین آپ کو اس خاکسار کی طرف سے اس بے بہا تالیف پر مبارکباد عرض ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت اور صحت دے.آمین - محترمہ ناصرہ ندیم خان صاحبہ کنگسٹن انگلستان : 66 تاریخ لجنہ پڑھنے کا موقع ملا.آئمکر مہ نے یہ کام کر کے لجنہ پر احسان کیا ہے.ہر قسم کے حالات کو محفوظ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے.اس کے پڑھنے سے ابتدائی لجنات اور کارکنات کا حسین تصور ذہن پر نقش ہوتا ہے اور ان کی قربانیوں سے روح لطف اندوز ہوتی ہے اور ایک نئے جوش

Page 560

552 اور امنگ سے ابھرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بہترین رنگ میں خدمت اور قربانیوں کی توفیق بخشے اور ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلا کر ہم سے ہمارا پیارا اللہ راضی ہو جائے.آمین اپنی طرف سے صرف یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ابتدائی کارکنات کے بعض دفعہ صرف نام لکھے ہیں.میرے جیسی بعد میں احمدیت میں داخل ہونے والی بہنیں اگر ان کے تفصیلی حالات جان سکیں تو ان کے اصلی مرتبہ اور مقام کو سمجھنے میں آسانی ہو یعنی وہ کن کی بیٹی یا جماعت کے کس بزرگ سے ان کا تعلق کس طرح کا تھا.اگر صاحبزادی بھی لکھا جائے تو بھی مجھے ان کے متعلق صحیح علم نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کونسی ہوتی یا نواسی ہیں.امید ہے کہ آپ از راہ شفقت میری اس حقیر رائے سے بُرا نہیں مانیں گی.جزاکم اللہ -۴ محترمه استانی میمونہ صوفیه صاحبه ربوہ:- آپ نے تاریخ لجنہ اماء اللہ لکھ کر جماعت احمدیہ کی مستورات کو زندۂ جاوید بنا دیا ہے.لہذا الله بفرمان آقائے دو جہاں سرور کونین حضرت خاتم المرسلین علی من لا يشكر الناس لا يشكر الله جنتا بھی ہم آپ کا شکریہ ادا کریں کم ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں میں جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کتاب تاریخ کو آئندہ لکھی جانے والی کتب تواریخ کا پیش خیمہ بنائے اور آپ کو ہمیشہ ہی ایسے کارناموں سے نوازتار ہے.آمین اھم آمین سے -۵- محتر مہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ ربوہ:.الله 66 تاریخ عالم گواہ ہے کہ قبل از اسلام عورت کی مظلومیت ایک ضرب المثل بن چکی تھی.سب سے پہلے اسلام نے عورت کے حقوق قائم کئے اور بحیثیت انسان اسے مرد کے برابر درجہ دیا.آنحضرت ﷺ اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کا نمونہ اس بارہ میں مثالی تھا.لیکن کچھ عرصہ بعد پھر عجمیت کا رنگ غالب آ گیا اور عورت کو اس کے اہم فرائض اور حقوق سے ایک گونہ محروم کر دیا گیا.اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں جو آغاز اسلام کی اقدار ثمینہ کو پھر سے تازہ کرنے کا دور ہے عورت کو دوبارہ اپنے جوہر دکھانے اور میدان عمل میں کا رہائے نمایاں سرانجام دینے کے مواقع مہیا کئے گئے.له مصباح اکتو برای ۱۹ ء صفحه ۲۲ کے مصباح جون ۱۹۷۱ء صفحه ۱۰

Page 561

553 " تاریخ لجنہ اماءاللہ اس سعی پیہم کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے.عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کے فرائض کیا.وہ قوم وملت کے لئے کس حد تک ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرسکتی ہے اور اس کے صدق و وفا کے افسانے کیا ہیں، اس کی تنظیمی صلاحیتیں کتنی اعلیٰ ہیں اور سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بارہ میں صنف نازک پر کیا احسانات ہیں.ان سب حقائق کی ایک اچھوتی خوبصورت اور دلچسپ تصویر آپ کو تاریخ جنہ اماءاللہ میں ملے گی.حضرت چھوٹی آپا ہمارے لئے بے انتہا شکریہ کی مستحق ہیں کہ ان کی سعی پیہم اور شبانہ روز کی محنت نے یہ گراں قدر تحفہ عطا کیا.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ حضرت سیدہ چھوٹی آپا کو اُن کے اس احسان عظیم پر خاص الخاص اجر عطا فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے صحت و سلامتی کے ساتھ تا دیر آپ کا سایہ عاطفت ہم سب کے لئے باعث راحت و تسکین بنائے اور ہمیں اپنے بزرگ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین وو ۶ محترمہ امتہ الباری صاحبہ ایم.اے بیگم ناصر احمد صاحب قریشی کراچی:.ساری تاریخ اپنی کمیاب فرصتوں میں پڑھ لی.بے حد لطف آیا.سارے گذرے زمانہ کی باتیں متشکل ہو کر نگاہوں میں گھوم گئیں جو ہمارے ہوش سے پہلے کی ہیں.بے حد جذ بہ پیدا ہوا کہ کاش ہم بھی کسی قابل ہوتے.یہ سب قربانیاں خدا تعالیٰ کی توفیق سے حاصل ہوتی ہیں.میرا خیال ہے کہ سب خواتین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیئے.کتاب اپنی دلچسپی اور افادیت کے لحاظ سے بے نظیر ہے.ے.محترمہ مبارکہ قیوم صاحبہ کوئٹہ:.میں نے تاریخ لجنہ یہاں آکر پڑھی.جس بہترین طریقے پر آپ نے اسے ترتیب دیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے.لجنہ کے ابتدائی حالات اور حضرت مصلح موعودؓ کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے دن رات کی لگن کو پڑھ کر دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے.اس زمانے میں جبکہ عورت کی تعلیم و تربیت پاک و ہند میں بالکل نظر انداز تھی عورتوں کی زندگی کی ڈگر کو ہی بدل کر رکھ دینا واقعی ایک ایسے اولوالعزم انسان کا کام تھا جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ ہو اور جس کے سر پر خدا کا سایہ ہو.خدا تعالیٰ مصباح مارچ ۱۹۷۱ ء صفحه ۸

Page 562

554 حضرت مصلح موعود پر ابد الآباد تک اپنی رحمتیں نازل فرمائے.آمین.خدا تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی سے رکھے اور لجنہ کی تاریخ کے بقیہ حصے بھی مکمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین محترمہ امۃ الرشید صاحبه فرحت زوجہ خان حبیب اللہ خان صاحب ربوہ: آپ کی تیار کردہ تاریخ لجنہ جلد اول ملی.شروع سے لے کر آخر تک دیکھی اور پڑھی.بڑی ہی دلچسپ کتاب تیار ہوئی ہے.آپ کی اس محنت اور جدوجہد کی وجہ سے دل سے ہزار ہا دعائیں نکلتی ہیں.خدا تعالیٰ آپ کی زندگی میں برکت ڈالے اور مزید دینی کاموں کے کرنے کی توفیق دے.خدا تعالیٰ نے آپ ہی کی دعاؤں کے طفیل آپ کی دلی آرزو کو پورا کیا.آپ نے ہم عورتوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے.جزاک اللہ احسن الجزاء.محترمه سلیمه خورشید صاحبه ملتان :- تاریخ لجنہ کے لکھنے کے لئے آپ نے کتنی محنت کی.یہ تو اس کے پڑھنے سے ہی پتہ چل سکتا ہے.آپ کی انتھک کوشش کا یہ ثمر ہے.میرے پاس الفاظ نہیں کہ اپنے جذبات کی صحیح عکاسی کرسکوں.بہت دنوں سے چاہ رہی تھی کہ آپ کی خدمت میں بذریعہ خط ہی حاضر ہوں اور اپنے چند ٹوٹے پھوٹے جذبات کا اظہار کروں لیکن آپ کی بلند ہستی اور اپنی کم مائیگی کا احساس نہایت شدت کے ساتھ تھا.سوچتی تھی کہ خط شروع کیسے کروں اور کیا لکھوں.حاضر تو بہر حال ہونا ہی تھا.سواپنے دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہوئی محبت اور عزت کے جذبات کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ پر بے پایاں فضل و رحمت کے دروازے کھولے.ہر آن آپ کا حافظ ہو.آپ کو صحت کے ساتھ لمبی اور کام کرنے والی فضلوں اور رحمتوں سے بھری ہوئی زندگی بخشے.۱۰ محترمه سیده نسیم سعید صاحبہ ایم.اے گوجرانوالہ:.اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مد ظلہ العالی کو حضرت مصلح موعودؓ کی عین خواہش اور اپنے قابل احترام والد حضرت میر محمد اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کا و ۲ مصباح مئی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۹

Page 563

555 مصداق بنا کر خواتین احمدیت پر ایک بڑا انعام فرمایا ہے.آپ جہاں لجنہ اماءاللہ کی بہتری کے لئے رات دن عملی لحاظ سے کوشاں رہتی ہیں وہاں قلم کے میدان میں بھی بہت عظیم خدمات سرانجام دے رہی ہیں.آپ کی ایک بہترین عملی سعی " الازهار لذوات الخمار “ کی صورت میں ۱۹۴۶ء میں ظہور پذیر ہوئی جو مزید اضافوں کے بعد دوبارہ چند سال ہوئے شائع ہوئی.اس کتاب میں آپ نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیمتی تقاریر اور ارشادات جو عورتوں سے یا عورتوں کے بارے میں تھے جمع کر کے ایک گرانقدر کارنامہ سرانجام دیا.پھر ۱۹۷۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ کی گذشتہ دو سال سے ہمہ وقت محنت اور جانفشانی کا نچوڑ تاریخ لجنہ اماءاللہ کی شکل میں منظر عام پر آیا تاریخ لجنہ اماءاللہ یہ تاریخ اس احسان مندی کا ایک اظہار ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرف سے خواتین احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے کی گئی مساعی کے سلسلہ میں بصورت شکر واجب تھا.تاریخ لجنہ کی پہلی جلد در اصل ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۷ ای تک کے واقعات پر مشتمل ہے.لیکن اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کے ارشادات برائے طبقہ نسواں اور ان کی بہتری اور تربیت کے لئے کی گئی مساعی جمیلہ کے ذکر کو بھی شامل کیا گیا ہے جو لجنہ اماء اللہ کا ایک طرح سے پیش خیمہ تھیں.پھر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بے مثال نمونے اور الفضل کے اجراء کے لئے آپ دونوں کی قربانیاں خاص اہمیت رکھتی ہیں.علاوہ ازیں اس دور کی دیگر مخلص احمدی خواتین کے ذکر خیر کو بھی شامل کیا گیا ہے.تیسرا دور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت سے شروع ہوتا ہے اور ہمیں اس تاریخ کے پڑھنے سے علم ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو احمدی عورتوں کی ترقی و بہبود کا خیال کس قدر بے چین وبے قرار رکھتا تھا.اور آپ ان کی تربیت ، کردار، بیداری شعور اور دینی و دنیاوی علوم کے حصول کے لئے کیا کیا تدابیر فرماتے رہے.پھر عورتوں میں کیا بے مثال جذبہ تھا.وہ ہر تدبیر اور تحریک پر

Page 564

556 آمنا و صدقنا کہتے ہوئے لبیک کہتیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے کوشاں رہتیں اور کس طرح خواتین مبارکہ کی مساعی اور نیک نمو نے ان کے سامنے ہوتے.اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ تاریخ اور سن وار واقعات کو اس خوبی سے قلمبند کیا گیا ہے کہ واقعات کے تسلسل کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے.ہر واقعہ جامعیت اور اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے.غرض کہ تاریخ لجنہ کی اور زبان حضرت چھوٹی آپا کی ،شیر میں سادہ لیکن پراثر جو قاری کے دل میں اترتی چلی جائے.یہ کتاب تاریخ احمدیت اور تاریخ لجنہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت ہی نہیں رکھتی بلکہ ہم موجودہ خواتین کے لئے ایک تحریک کا کام بھی دیتی ہے اور ہم کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین جن کے مال محدود جن کے وسائل محدود، جن کے ماحول تنگ اور متعصب ، جن کی تعلیم مختصر اور جن کے شعور موجودہ ترقی کی جلا سے دور ، اس ایمانی، مالی علمی عملی اور عقلی خدمات ایثار و قربانیاں کر سکتی تھیں تو کیا یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم ہر قسم کی سہولتیں میسر ہونے کے باوجود ان سے اس قدر کیوں پیچھے ہوں.اس تاریخ کا ہر گھر میں ہونا اشد ضروری ہے اور نہ صرف موجودگی سے کام بنتا ہے بلکہ ہم کو اس کا 66 بار بار مطالعہ کرنا اور اپنے جلسوں میں اسے سنانا چاہیئے تا کہ ہم بھی ان خواتین اولیٰ کے نمونے سے کچھ سیکھ سکیں.اللہ تعالیٰ ہم کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے اور حضرت چھوٹی آپا کو اس حسین و جمیل پیشکش پر بہت بہت جزا دے.آمین اھم آمین.“ ۱۱.مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ مجھے پرسوں (ترسوں) آپ کی معرکہ آراء تصنیف ” تاریخ لجنہ اماءاللہ (جلد اول)‘ دیکھنے کا موقعہ ملا.تاریخ احمدیت کی طرز، اسی تقطیع و تکتیب پر ، اسی طرح مانوس و مقبول ، پھر طرز تحریر اس قدر دلکش که ساری جلد تعارف اور عرض حال سمیت عملاً ایک ہی SITTING (نشست) میں پڑھ گیا.معلومات افزا واقعات اور دلچسپ مواد نے طبیعت میں کسی قسم کی اکتاہٹ پیدا کرنے کی بجائے میری دلچسپی برابر قائم رکھی اور مجھے وقت کا احساس تک نہ ہوا.سیدہ محترمہ ! اگر چہ آپ نے نہایت فراخدلی اور ذرہ نوازی سےاس MONUMENTAL

Page 565

557 تصنیف میں ہاتھ بٹانے والے اور بٹانے والیوں کا شکر یہ ادا کیا ہے لیکن آپ کے ان نوٹس کو پڑھ کر جو آپ نے ہر موقعہ پر دیئے ہیں اور اپنے ذاتی تاثرات اور رائے کا اظہار کیا ہے ان سے یہ حقیقت صاف طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب کی اصل تصنیف کا کام آپ نے خود ہی کیا ہے.سلسلہ کے اس دور کی تاریخ میں سے جس کے نقوش ابتداء میں بالخصوص لجنہ کی تخلیق سے پہلے خاصے دھند لے تھے سلسلہ کی عورتوں اور پھر لجنہ کی تاریخ نکال لینا جس قدر ذہانت اور محنت شاقہ چاہتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں.سلسلہ کے اخبارات اور رسائل کے انبار سے مفید مطلب اور لجنہ کی تاریخ سے متعلق مواد نکالنا آپ ہی کا حصہ تھا اور ہے.سلسلہ کی اس ضرورت کے لئے اس قدر لمبا وقت دے کر آپ نے احمدیت کی تاریخ میں ایک خاص اضافہ کیا ہے اور لجنہ پر بہت بڑا احسان اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے.اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور لجنہ کی اس تاریخ کو جس کی آپ نے پہلی جلد شائع کی ہے مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جہاں آپ نے ایک بہن کے خط کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ عورتوں کی تعلیم کے بارہ میں بالخصوص الیکشن کے سلسلہ میں حضور کی تحریک پر معمر اور ان پڑھ عورتوں نے کس طرح محنت اور انہماک سے کام کر کے پڑھنا اور لکھنا سیکھا وہاں چند ایک معتین مثالیں بھی دے دی جاتیں تو حضور کی آواز پر والہانہ لبیک کہنے والیوں کے جذبۂ عقیدت کا اندازہ کرنا زیادہ آسان ہو جاتا.لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسی مثالیں تاریخ میں محفوظ نہیں.اور آپ تو اسی میں سے اخذ کرسکتی تھیں جو کچھ ضبط تحریر میں آچکا ہے.مجھے اپنی مرحومہ والدہ محترمہ کا نقشہ ابھی تک یاد ہے.وہ معروف معنوں میں ان پڑھ تھیں.اپنا نام تک نہ لکھ سکتی تھیں.اسی وقت عمر بھی ساٹھ ستر کی ہوگی.حضور کی تحریک پر انہوں نے رات دن ایک کر کے اپنا نام لکھنا سیکھا.ہمارے مکان کے وہ در و دیوار جن کو والدہ مرحومہ نے اس کی مشق کرنے کے لئے چنا تھا اس کے گواہ ہیں.کسی ایک ذاتی واقعہ کی تفصیل کے ذکر سے آپ کی بے مثال تصنیف اور آپ کی محنت اور قابل قدر مساعی کی عظمت کم نہیں ہوتی بلکہ واقعات اور مضامین کے اس انبوہ کی نشان دہی کرتی ہے جس میں سے آپ نے لجنہ کی تاریخ کو مثالی انہماک اور محنت اور لگن سے اخذ کیا.جزاكم الله تعالیٰ المختصر میں سمجھتا ہوں کہ جہاں لجنہ کو DEVELOP کرنے اور بام عروج تک پہنچانے میں

Page 566

558 آپ کا نام سلسلہ کی تاریخ میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے وہاں لجنہ کی تاریخ محفوظ کرنے کا عظیم الشان کارنامہ میں بھی آپ نے یکتا مقام حاصل کیا ہے.وَذَالِكَ فَضْلِ الله ! -۱۲- محترم ملک صلاح الدین صاحب قادیان :.تاریخ لجنہ اماءاللہ تالیف کر کے آپ نے سلسلہ کی ایک نہایت اہم ضرورت کو پورا کیا ہے.تاریخ کی حفاظت کے علاوہ خدمت سلسلہ کرنے والی خواتین سے نئی نسل متعارف ہوگی.ان کے لئے دعائیں کرے گی.نئی نسلیں اور خصوصاً مرحومات کی اولاد میں ان کے نقش قدم پر چل کر خدمت دین کرنے کا والہانہ جذبہ پیدا ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس زریں کام کی تکمیل کی توفیق عطا کرے.جزاكم الله احسن الجزاء ۱۳ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج نجی :.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول اس ہفتہ یہاں مل گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت عظیم کو قبول فرمائے اور تمام جماعت کو اور خصوصا لجنہ اماءاللہ کی ممبرات کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.اور اسے لجنہ میں خاص بیداری پیدا کرنے کا موجب بنائے.کسی قوم کی آئندہ نسل کی بیداری اور ترقی اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی قربانیوں اور کارناموں سے پورے طور پر آگاہ ہوں اور انہیں احساس ہو کہ پہلی بزرگ ہستیوں کو کن مشکلات سے گذرنا اور اس کا سامنا کرنا پڑا جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے موجودہ ترقیات اور کا میابیاں عطا فرمائیں.الحمد اللہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق عطا فرمائی کہ آپ اس اہم جماعتی اور تاریخی ضرورت کو پورا فرما سکیں.اور اس طرح سلسلہ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ تفصیلی طور پر محفوظ ہو گیا.خدا کرے کہ جماعت اور خصوصا لجنہ اماءاللہ اس کا رنمایاں سے پورا پورا فائدہ اٹھائے.اتنے لمبے عرصہ تک پھیلے ہوئے حالات کو سلسلہ کے ان اخبارات سے جن میں وہ چھپتے رہے علیحدہ کر کے انہیں کتابی صورت میں پیش کرنے کے قابل بنادینا ایک محنت شاقہ اور کٹھن کام تھا.لیکن مصباح اپریل ۱۹۷۱ ء صفحہ ۲۷ کے مصباح اگست ۱۹۷۱ء صفحه ۱۴

Page 567

559 ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے آپ کے دل میں پہلے اس اہم تاریخی کام کی تکمیل کا خاص احساس اور جذ بہ پیدا فرمایا.پھر اپنی جناب سے ہمت بھی عطا فرمائی اور ساتھ ہی کچھ ایسی مددگار بھی عطا فرمائیں جن کے ذریعہ یہ ذخیرہ اخبارات و رسائل کے انبار سے نکالا تا کہ علیحدہ اکٹھا ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کا یہ فعل اس کا ثبوت ہے کہ یہ اس کا اپنا منشاء تھا جو اس نے اپنے فضل سے آپ کے ذریعہ پورا فرمایا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی احسن جزاء عطا فرمائے اور صحت و سلامتی سے رکھے اور لجنہ کی تاریخ کا بقیہ حصہ بھی با احسن مکمل کرنے کا سامان پیدا فرما کر پھر اس کی تعمیل کی آپ کو تو فیق عطا فرمائے“ -۱۴ محترم نیم احمد صاحب باجوہ جامعہ احمدیہ:.” خاکسار کو تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول پڑھنے کا موقع ملا.احمدی بہنوں کے بے نظیر واقعات اور ان کی قربانیوں کی حسین داستان کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی دفعہ طبیعت بھر آئی.دل کی گہرائیوں سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقع ملا.کیونکہ خدا کی دی ہوئی توفیق سے آپ نے یہ عظیم کام سرانجام دے کر ایک طرف تو موجودہ اور آئندہ نسل کے لئے اپنے اسلاف کے روشن اور درخشاں کارناموں کو اجا گر کیا ہے اور دوسری طرف ان پاک نفس فدائیت کے پیکروں کے لئے دردمندانہ دعاؤں کا سامان پیدا کیا ہے جنہوں نے احمدیت کے حسین اور بے نظیر تصور کو اپنے وجودوں سے ظاہر کیا ہے اور دنیا کو دکھایا کہ واقعی حضرت مسیح پاک علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے کیونکہ اس قسم کی پاک تبدیلی آسمانی وجود ہی پیدا کیا کرتے ہیں.مصباح ستمبر ۱۹۷۱ء صفحہ 11

Page 567